Khutbat-eMasroor Vol 3

Khutbat-eMasroor Vol 3

خطبات مسرور (جلد 3۔ 2005ء)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ایدہ الله تعالى بنصره العزيز $ 2005 جلد سوم

Page 2

پیش لفظ الحمد للہ ! خطبات مسرور کی تیسری جلد پیش کی جا رہی ہے جو حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے فرمودہ 2005 ء کے خطبات جمعتہ المبارک پر حضور نے یہ خطبات بیت الفتوح لندن کے علاوہ مشرقی افریقہ کے ممالک تنزانیہ اور یوگنڈا.کینیڈا میں وینکوور کیلگری، ٹورنٹو.سپین.جرمنی.ڈنمارک.مشتمل ہے.سویڈن.ناروے.ہالینڈ.ماریشس اور قادیان دارالامان میں ارشاد فرمائے.ان خطبات میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی پاکیزہ سیرت و شائل کے مختلف پہلو خلافت کی برکات امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، مسابقت فی الخیرات مالی قربانی کی اہمیت، مساجد کی تعمیر اور نمازوں کی حفاظت و برکات، جماعت احمدیہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور قرآن کریم، احادیث رسول ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیش کردہ حسین تعلیمات پر مشتمل تربیتی موضوعات کو نہایت دلنشین پیرا یہ میں پیش فرمایا.ان میں وہ تاریخی خطبہ جمعہ بھی شامل ہے جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قادیان دار الامان سے 16 / دسمبر 2005ء کو ارشادفرمایا اور براہ راست ساری دنیا میں نشر ہوا.اس جلد کی تیاری اور اشاعت میں نظارت اشاعت کے جن کا رکنوں نے کام کیا ہے ان کے لئے دعا کی درخواست ہے.گزشتہ سال جناب مبشر احمد صاحب ایاز نے

Page 3

خطبات مسرور کی پہلی دو جلدیں بہت محنت اور عرقریزی سے بہت مختصر وقت میں مرتب کر کے شائع کی تھیں.اپنی خاکساری کی وجہ سے انہوں نے ان دونوں جلدوں میں اپنا کوئی ذکر نہیں کیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے اور نظارت کو توفیق دے کہ وہ ہر سال حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات کو پوری صحت کے ساتھ شائع کرتی رہے.

Page 4

خطبہ نمبر فہرست خطبات مسرور 2005 ء عنوان تاریخ مقام صفحہ 1 مالی قربانی کی اہمیت و برکات.وقف جدید کے نئے مالی 7 جنوری پید رو آباد سپین سال کا اعلان 2 عبادت کی اہمیت و برکات اور بلنسیہ (Valencia) میں 14 جنوری پید رو آبا د سپین 1 21 مسجد بنانے کی تحریک 3 فرانس اور سپین کے دورہ کے دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و 28 جنوری بیت الفتوح لندن 39 نصرت کے ایمان افروز واقعات 4 آنحضرت صلی الشماییم کی اللہ تعالیٰ سے محبت ، عبادت گزاری اور 4 فروری بیت الفتوح - لندن 57 توحید خالص کے قیام کے لئے تڑپ آنحضرت صلی اللہ وسلم کا خلق عظیم.صدق وسچائی 11 فروری بیت الفتوح لندن 73 آنحضرت صلی اللہ علیم کی عبادات کا اعلیٰ معیار 18 فروری بیت الفتوح لندن 89 نبی اکرم صلی للہ ولیم کی پاکیزہ سیرت اور آپ کے حسین شمائل 25 فروری بیت الفتوح - لندن 107 قرآن کریم کی عظمت اور فضائل و برکات و آنحضرت صلی اللہ علیم کا خلق عظیم.عجز و انکسار 10 آنحضرت صلی اللہ علیم کا خلق عظیم.جود و سخا 11 نظام شوری اور اسوہ رسول صلى الله العليم 12 آنحضرت صلی اللہ علیم کا خلق عظیم.شکر گزاری 13 آنحضرت صلی اللہ علیم کا خلق عظیم.تو کل علی اللہ 4 مارچ بیت الفتوح - لندن 127 11 / مارچ بیت الفتوح - لندن 143 18 مارچ بیت الفتوح - لندن 159 25 / مارچ بیت الفتوح - لندن 177 یکیم را پریل بیت الفتوح لندن 195 8 اپریل بیت الفتوح لندن 211 14 آنحضرت صلی اللہ علیم کا خلق عظیم.عیادت و تیمار داری 15 اپریل بیت الفتوح - لندن 231 15 آنحضرت صلی اللہا علم کا خلق عظیم.شجاعت و بہادری 22 اپریل بیت الفتوح لندن 249 16 مسابقت في الخیرات اور احمدی کی ذمہ داریاں 29 اپریل نیروبی، کینیا 17 امر بالمعروف و نهى عن المنکر اور جماعت کی ذمہ داری 6 مئی ممباسه، کینیا 267 279

Page 5

خطبه نمبر عنوان 18 ہماری کامیابی کی ضمانت.تقویٰ کا اعلیٰ معیار 19 توبه و استغفار، شرائط اور برکات 20 خلافت کی اہمیت اور برکات تاریخ مقام 13 رمئی دار السلام، تنزانیہ 291 20 رمتی جنجا.یوگنڈا 301 27 رمئی بیت الفتوح لندن 307 21 مالی قربانی کی برکات مریم شادی فنڈ ، بلنسیہ (سپین) کی 3 رجون مسجد اور طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی تحریک 22 جماعت احمدیہ کی مساجد کی حقیقی زینت وینکوور.کینیڈا کی مسجد کا سنگ بنیاد 23 مساجد کی تعمیر اور ہماری ذمہ داریاں کیلگری (کینیڈا) میں جماعت احمدیہ کی مسجد کی تعمیر 24 نمازوں کی حفاظت اور اس کی برکات عبادات کے ساتھ آپس میں محبت واخوت کی تلقین جماعت احمدیہ کینیڈا کے 29 ویں جلسہ سالانہ سے افتتاحی خطاب 25 جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں نظام جماعت اور نظام خلافت کے تقاضے 325 10 رجون وینکوور کینیڈا 341 17 /جون کیلگری، کینیڈا 355 24 /جون انٹرنیشنل سینٹر ٹورانٹو ( کینیڈا) یکم جولائی انٹر نیشنل سنٹر ٹورانٹو ( کینیڈا) 369 387 26 مشرقی افریقہ اور کینیڈا کے دوروں کا ایمان افروز تذکرہ 8 جولائی بیت الفتوح ، لندن 401 لندن بم دھما کے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیم کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے 27 امانت ، دیانت اور عہد کی پابندی سے متعلق آنحضرت صلی اللہ ایم کے ارشادات اور آپ کی پاکیزہ سیرت اور 15 جولائی بیت الفتوح لندن 415 28 آنحضرت صلی اللہ علیم کی پاکیزہ سیرت کا ایک خُلق.مہمان نوازی 22 جولائی بیت الفتوح لندن 429 29 مہمانوں کے حقوق وفرائض 29 / جولائی رشمور امر بینا.جلسہ سالانہ برطانیہ کے مہمانوں کے لئے نہایت اہم ہدایات برطانیہ 445

Page 6

خطبه نمبر عنوان تاریخ مقام 30 جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش 5 اگست بیت الفتوح لندن 465 جماعت کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اس کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے کی تلقین 31 آنحضرت صلی اللہ علیم کی سیرت طیبہ.سادگی مسکینی اور قناعت پسندی 12 اگست بیت الفتوح - لندن 477 32 آنحضرت صلی اللہ علیم ایک عظیم معلم اخلاق 19 اگست بیت الفتوح لندن 493 33 حبل اللہ کے معانی اور خلافت علی منہاج نبوت کے تحت 26 اگست مئی مارکیٹ ایک جنت نظیر معاشرے کا قیام منہائیم.جرمنی 34 جماعت احمدیہ کے جلسوں کے انعقاد کا مقصد افراد جماعت 2 رستمبر بیت الرشيد میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنا ہے جلسہ سالانہ جرمنی کے کامیاب انعقاد کے بعد احباب جماعت کو زریں نصائح 35 نفس کے جہاد کے تقاضے ہمبرگ.جرمنی 511 529 9 ستمبر مسجد نصرت جہاں 543 کوپن ہیگن.ڈنمارک اعمال صالحہ کی بجا آوری اور لغویات سے اجتناب 36 خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کے حصول کے طریق 16 ستمبر گوتھن برگ سکنڈے نیوین ممالک کے پہلے جلسہ کے موقع پر بصیرت افروز خطاب سویڈن 555 37 آنحضرت صلی اللہ علیم اور حضرت مسیح موعود الﷺ کے صحابہ کی 23 ستمبر اوسلو.ناروے 571 مالی قربانی کی شاندار مثالیں جماعت احمد یہ ناروے کو مسجد کی تعمیر کے لئے تحریک 38 دعوت الی اللہ اور ہماری ذمہ داریاں 39 رمضان المبارک کی فرضیت ،فضائل اور برکات مونگ ضلع منڈی بہاءالدین ( پاکستان ) کا المناک واقعہ اور جماعت کو صبر کی تلقین 30 ستمبر ننسپیٹ (ہالینڈ) 587 7 اکتوبر بیت الفتوح، لندن 593 40 دوالمناک واقعات.سانحۂ مونگ اور شمالی پاکستان اور 14 اکتوبر بیت الفتوح - لندن 607 آزاد کشمیر میں خوفناک زلزلہ

Page 7

خطبہ نمبر عنوان تاریخ مقام 41 تلاوت قرآن کریم کی اہمیت، آداب اور برکات 21 اکتوبر بیت الفتوح - لندن 623 42 رمضان کے آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کے فضائل 28 اکتوبر بیت الفتوح - لندن 639 اور دعا کی اہمیت و برکات 43 دنیا میں امن اور صلح اور آشتی قائم ہو عید الفطر کے روز مختصر بصیرت افروز خطبہ 44 تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان ہارٹلے پول (برطانیہ) میں مسجد ناصر کا افتتاح 45 4 / نومبر بیت الفتوح - لندن 653 11 نومبر مسجد ناصر ہارٹلے پول.برطانیہ 655 امانت اور باہمی لین دین کے معاملات میں اسلامی تعلیم 18 نومبر بیت الفتوح لندن 671 56 شادی بیاہ کے مواقع پر لغویات اور اسراف سے بچنے کی تاکید 25 نومبر بیت الفتوح - لندن 685 47 جماعتی جلسوں کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ اختیار کرنا اور 2 /دسمبر اللہ کی محبت دلوں میں پیدا کرنا ہے ماریشس کے سالانہ جلسہ کے موقع پر احباب جماعت کو نہایت اہم نصائح ماریشس 701 48 ماریشس کے ابتدائی مبلغین کی بے مثال قربانیاں قابل تقلید ہیں 19 دسمبر مسجد دار السلام 709 روز ہل.ماریشس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو سیکھیں، اس پر عمل کریں اور پھر اسے آگے پھیلائیں 49 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بستی میں رہنے والوں کا 16 دسمبر مسجد اقصیٰ.قادیان 719 فرض ہے کہ دین کو دنیا پر ہمیشہ مقدم رکھیں قادیان دارالامان سے حضور انور کا پہلا تاریخی خطبہ جمعہ جو براہ راست تمام دنیا میں نشر ہوا دارالامان (بھارت)

Page 8

خطبات مسرور جلد سوم 1 خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء مالی قربانی کی اہمیت و برکات وقف جدید کے نئے مالی سال کا اعلان خطبہ جمعہ فرموده 7 جنوری 2005ء بمقام مسجد بشارت.پید رو آباد (سپین) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةِ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَاتَتْ أكُلَهَا ضِعْفَيْنِ ۚ فَإِنْ لَمْ يُصِهَا وَابِلٌ فَطَةٌ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقرة: 266) ط پھر فرمایا:.یکم جنوری سے وقف جدید کا نیا سال شروع ہوتا ہے اس لئے عموماً جنوری کا پہلا جمعہ اس اعلان کے لئے رکھا جاتا ہے.اس لئے اس طریق پر عمل کرتے ہوئے آج میں وقف جدید کی گزشتہ سال کی مالی قربانی کا جائزہ اور نئے سال کا اعلان کروں گا.اور اس کے ساتھ مالی قربانی کا مضمون بیان کروں گا.مالی قربانی کا مضمون بھی ایک ایسا مضمون ہے جس کے بارے میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد بار حکم فرمایا ہے، نصیحت فرمائی ہے.اور اس اہمیت کے پیش نظر تحریک جدید اور وقف جدید کے اعلان کے علاوہ بھی جماعت کو سال میں ایک دو مرتبہ اس

Page 9

خطبات مسرور جلد سوم 2 خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء طرف توجہ دلائی جاتی ہے.اس مضمون کو اگر کوئی سمجھ لے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو ایک عجیب روحانی تبدیلی بھی انسان کے اندر پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.آج سپین کی جماعت کا جلسہ سالانہ بھی اس خطبے سے شروع ہو رہا ہے اور جلسوں کا مقصد بھی افراد جماعت کے اندر روحانی تبدیلی کے معیار اونچے کرنا ہے.اس لئے کوئی یہاں بیٹھا ہوا یہ نہ سمجھے کہ وقف جدید کے اعلان کی وجہ سے ہمارا جلسے کا مضمون متاثر ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے مضمون کو اللہ تعالیٰ نے عبادت کے ساتھ ، نمازوں کے ساتھ رکھا ہے.اور یہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد جگہ اللہ کی راہ میں مال اور نعمتوں کو خرچ کرنے کا ذکر سورۃ بقرہ میں ملتا ہے.تو یقیناً یہ ایک اہم عصر ہے دین کا ، جو تقوی و روحانیت میں ترقی کا باعث بنتا ہے.اس آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کو ثبات دینے کے لئے خرچ کرتے ہیں ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہو، اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے.یعنی جو لوگ چندہ دینے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں ان کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنا ہے.اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے اور اس کی مخلوق کی خاطر جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا باعث بنے گا.اس سے دین کو بھی مضبوطی حاصل ہو گی اور تمہارے دینی بھائیوں کو بھی مضبوطی حاصل ہوگی.پھر ایسے لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس سرسبز باغ کی طرح ہیں جو اونچی جگہ پر واقع ہو جہاں انہیں تیز بارش یا پانی کی زیادتی بھی فائدہ دیتی ہے.نچلی زمینوں کی طرح اس طرح نہیں ہوتا کہ بارشوں میں فصلیں ڈوب جائیں یا باغ ڈوب جائیں.یہ خراب نہیں ہو جاتے بلکہ وہ ایسے سیلابوں سے محفوظ

Page 10

خطبات مسرور جلد سوم 3 خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء رہتے ہیں اور زائد پانی نیچے بہہ جاتا ہے اور باغ پھلوں سے لدار ہتا ہے، اس کو نقصان نہیں پہنچتا.جولوگ زمیندار ہیں زمیندارہ جانتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ اگر پانی میں درخت زیادہ دیر کھڑا رہے تو جڑیں گلنی شروع ہو جاتی ہیں، تنے گل جاتے ہیں اور پودے مرجاتے ہیں.اور اسی طرح جو زمینیں پانی روکنے والی ہیں ان میں بھی یہی حال ہوتا ہے.تو بہر حال اس جذ بہ قربانی کی وجہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے.یہ بڑھ چڑھ کر قربانی کرنے کا جذبہ پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے اور زیادہ پھل لانے کا تمہارے اموال ونفوس میں برکت کا باعث بنتا ہے.اگر کبھی حالات موافق نہ بھی ہوں، بارشیں نہ بھی ہوں، تو بھی.اگر زیادہ بارشیں ہوں تو بھی نقصان دہ ہوتی ہیں اور کم بارشیں ہوں تو بھی نقصان دہ ہوتی ہیں.لیکن ایک اچھی زرخیر زمین پر جو محفوظ زمین ہو، زیادہ بارشیں نہ بھی ہوں تو تب بھی ان کو ہلکی نمی جو رات کے وقت پہنچتی رہتی ہے یہ بھی فائدہ دیتی ہے.تو فرمایا کہ اگر ایسے حالات بہتر نہیں بھی تو تب بھی اللہ تعالیٰ تمہاری اس قربانی کی وجہ سے جو تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہو تمہاری تھوڑی کوششوں میں بھی اتنی برکت ڈال دیتا ہے کہ پھلوں کی کوئی کمی نہیں رہتی.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی کوئی کمی نہیں رہتی.تمہارا کسی کام کو تھوڑا سا بھی ہاتھ لگانا اس میں برکت ڈال دیتا ہے کیونکہ تمہاری نیست یہ ہوتی ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اس کی خاطر خرچ کرنا ہے.جماعتی طور پر بھی اگر دیکھیں تو بڑی بڑی رقمیں چندوں میں دینے والے تو چند ایک ہی ہوتے ہیں.اول تو اگر دنیا کی امارت کا آج کا معیار لیا جائے تو جماعت میں اتنے امیر ہیں ہی نہیں.لیکن پھر بھی جو زیادہ بہتر حالت میں ہیں وہ چند ایک ہی ہوتے ہیں.اور اکثر جماعت کے افراد کی تعداد درمیانے یا اوسط درجے بلکہ اس سے بھی کم سے تعلق رکھتی ہے.تو ایسے لوگوں کی جو معمولی سی قربانی کی کوشش ہوتی ہے وہ جماعتی اموال کو اتنا پانی لگا دیتی ہے کہ اس سے نمی پہنچ جائے جتنا شبنم کے قطرے سے پودے کو پانی ملتا ہے.لیکن کیونکہ یہ رقم نیک نیتی سے دی گئی ہوتی ہے اس لئے اس میں اتنی برکت پڑتی ہے جو دنیا دار تصور بھی نہیں کر سکتا.جماعت کی معمولی سی کوشش و کاوش ایسے حیرت انگیز نتیجے ظاہر کرتی ہے جو ایک بے دین اور دنیا دار کی سینکڑوں.ނ

Page 11

خطبات مسرور جلد سوم 4 خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء زیادہ کوشش سے بھی ظاہر نہیں ہوتی.صرف اس لئے کہ غیر مومنوں کے اعمال کی زمین پتھریلی ہے.اور ایک مومن کے دل کی زمین زرخیز اور تقویٰ کے اونچے معیاروں پر قائم ہے.اور اس تقویٰ کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کو انفرادی طور پر بھی نوازتا ہے اور جماعتی طور پر بھی ان کی جیب سے نکلے ہوئے تھوڑی سی رقم کے چندے میں بھی بے انتہا برکت ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تو تمہارے دل پر بھی نظر ہے اور تمہاری گنجائش پر بھی نظر ہے.وہ جب تمہاری قربانی کے معیار دیکھتا ہے تو اپنے وعدوں کے مطابق اس سے حاصل ہونے والے فوائد اور ان کے پھل کئی گنا بڑھا دیتا ہے.اور یہی جماعت کے پیسے میں برکت کا راز ہے جس کی مخالفین کو کبھی سمجھ نہیں آسکتی.کیونکہ ان کے دل چٹیل چٹانوں کی طرح ہیں ، پتھروں کی طرح ہیں جن میں نہ زیادہ بارش نہ کم بارش برکت ڈالتی ہے.برکت ان میں پڑ ہی نہیں سکتی.پس یہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں کا ہی خاصہ ہے اور آج دنیا میں اس سوچ کے ساتھ قربانی کرنے والی سوائے جماعت احمدیہ کے اور کوئی نہیں اور یقیناً یہی لوگ قابل رشک ہیں.اور اللہ کے رسول نے ایسے ہی لوگوں پر رشک کیا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے.ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا، دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ ، دانائی اور علم وحکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے.(بخارى كتاب الزكوة – باب انفاق المال في حقه) تو یہ علم و حکمت بھی ایک نعمت ہے.ہمارے مخالفین جو ہر وقت اس بات پر پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں کہ جماعت کے افراد چندہ کیوں دیتے ہیں.چندہ ہم اپنی جماعت کو دیتے ہیں تمہیں اس سے کیا ؟ کبھی یہ شور ہوتا ہے کہ فلاں دکانداروں کا بائیکاٹ ہو جاتا ہے کہ ان سے چیز نہیں خریدنی کہ وہ جو منافع ہے اس پہ چند دے دیں گے.تمہارے پیسے سے چندہ جائے گا.ہمارے شیزان جوس کے خلاف اکثر بڑا محاذ اٹھتا رہتا ہے کہ یہ چندہ دیتے ہیں.اور حکومت کو بھی

Page 12

خطبات مسرور جلد سوم 5 خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء یہ مشورہ ہوتا ہے اور مخالفین کا یہ مطالبہ ہے کہ جماعت کے تمام فنڈ حکومت اپنے قبضے میں لے لے.تو یہ بیچارے حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں.کیونکہ ان کی چھٹیل زمین میں یہ برکت پڑہی نہیں سکتی.اور پھر سوائے حسد کے ان کے پاس اور کچھ رہ نہیں جاتا.ہم تو اس بات پر خوش ہیں کہ اللہ کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں اور اس بات سے اللہ کے رسول نے ہم پر رشک کیا ہے.صحابہ تو ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی تحریک ہو اور ہم عمل کریں.امراء تو اپنی کشائش کی وجہ سے خرچ کر دیتے تھے لیکن غرباء بھی پیچھے نہیں رہتے تھے.وہ بھی اپنا حصہ ڈالتے رہتے تھے.چاہے وہ شبنم کے قطرے کے برابر ہی ہو.حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا اور وہاں محنت مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طور پر ایک مد اناج وغیرہ یا جو بھی چیز ملتی وہ اسے صدقہ کرتا ، یہ کوشش ہوتی کہ ہم نے اس میں حصہ لینا ہے.اور کما کے حصہ لینا ہے.اور راوی بیان کرتے ہیں کہ ان میں سے بعضوں کا یہ حال ہے کہ ایک ایک لاکھ درہم ان کے پاس موجود ہیں.جو مزدوری کر کے چندے دیا کرتے تھے.(بخاری- كتاب الاجارة -باب من آجر نفسه ليحمل على ظهره ثم تصدق به......تو یہ ہے برکت قربانی کی.اس لئے جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بہت غریب ہیں.بعض کہہ دیتے ہیں حالات اجازت نہیں دیتے کہ چندہ دے سکیں اس لئے معذرت.ایسے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ چندہ نہ دے کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور وعدوں سے محروم ہو رہے ہیں.پاکستان میں بھی غربت بہت زیادہ ہے لیکن وہاں اللہ کے فضل سے بڑھ چڑھ کر ہر تحریک میں حصہ لیتے ہیں چندہ دیتے ہیں.اور عموماً جو انہوں نے مختلف تحریکات اور چندوں میں پہلی دوسری پوزیشن لینے کا اپنا ایک معیار قائم کیا ہوا ہے.اس کو قائم رکھتے ہیں اس کی تفصیل تو آگے آخر میں بتاؤں گا.

Page 13

خطبات مسرور جلد سوم خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء تو مغربی ممالک میں رہنے والے سوائے ان کے جن کو صرف کھانے کے لئے ملتا ہے کئی ایسے ہیں جو اچھی قربانی کر سکتے ہیں.صرف دل میں حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اگر علم ہو جائے کہ کتنا ثواب ہے، کتنی برکات ہیں، کتنے فضل ہیں تو حوصلہ پیدا ہوتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں.ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلا کت دے اور اس کا مال و متاع بر باد کر دے.(بخارى- كتاب الزكوة - باب قول الله تعالى : فاما من اعطى واتفى.......پس فرشتوں کی دعائیں لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے کے لئے ، ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ کی راہ میں جس قدر بھی خرچ کر سکیں کیا جائے.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابو بکر کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا.اپنی روپوں کی تفصیلی کا منہ بند کر کے کنجوسی سے نہ بیٹھ جاؤ ور نہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا.فرمایا کہ جتنی طاقت ہے کھول کر خرچ کرو، اللہ پر توکل کرو، اللہ دیتا چلا جائے گا.(بخارى كتاب الزكوة باب الصدقة فيما استطاع) تو جن احمدیوں کو اس راز کا علم ہے.وہ اتنا بڑھ بڑھ کر چندہ دے رہے ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انہیں روکنا پڑتا ہے.لیکن ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ آپ لوگ ہماری تھیلیوں کا منہ بند کرنا چاہتے ہیں؟ ہم نے اپنے خدا سے ایک سودا کیا ہوا ہے آپ اس کے بیچ میں حائل نہ ہوں.یہ اظہار دنیا میں ہر جگہ ہر قوم میں نظر آتا ہے.اور احمدی معاشرے میں ہر قوم میں نظر آنا چاہئے.جن میں کمی ہے ان کو بھی اس کی طرف توجہ دینی چاہئے.اور اللہ کے فضل سے بڑی تعداد ایسی ہے جو اس رویے کا اظہار کرتی ہے چاہے وہ افریقہ کے غریب ممالک ہوں یا امیر ممالک.یہ نہ کوئی سمجھے کہ افریقہ کے غریب لوگ صرف اپنے پر خرچ ہی کرواتے ہیں ان میں بھی بڑے بڑے اعلیٰ

Page 14

خطبات مسرور جلد سوم 7 خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء قربانی کرنے کے معیار قائم کرنے والے ہیں اور حسب توفیق دوسرا چندہ دینے والے بھی ہیں.اب گھانا کی مثال میں دیتا ہوں.ہمارے بڑے اعلیٰ قربانی کرنے والے بھی ہیں، ایک ہمارے یوسف آڈوسٹی صاحب ہیں وہ لوکل مشنری بھی تھے، بلکہ اب بھی ہیں لیکن آنریری.وہ کچھ دوائیاں وغیرہ بھی بنایا کرتے تھے.چھوٹا سا شاید کاروبار تھا.اور وہ بیمار بھی تھے ان کی ٹانگ میں ایک گہرا زخم تھا جو ہڈی تک چلا گیا تھا.بڑی تکلیف میں رہتے تھے.تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے علاج اور دعا سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، زخم ٹھیک ہو گیا.اور اس کے بعد انہوں نے پہلے سے بڑھ کر جماعت کی خدمت کرنا شروع کر دی.اور کاروبار میں بھی کیونکہ ان کو کچھ جڑی بوٹیاں بنانے کا شوق تھا تو ایسی دوائیاں بنیں جن سے کاروبار خوب چمکا اور پیسے کی ایسی فراوانی ہوئی کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.لیکن یہ اس پیسے پر بیٹھ نہیں گئے ، بلکہ اپنے مدے کے مطابق جماعت کے لئے بے انتہا خرچ کیا، اور کر رہے ہیں.مختلف عمارات اور مساجد بنوائیں.اور بڑی بڑی شاندار مسجدیں بنوائیں، چھوٹی چھوٹی مسجدیں نہیں اور اب بھی ہمہ وقت قربانی کے لئے تیار ہیں.گزشتہ سال جب میں دورے پر گیا تھا تو کسی خرچ کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا یہ میں نے کرنا ہے.کیونکہ آجکل دنیا میں کا روباری حالات کچھ خراب ہیں مجھے اپنے طور پر پتہ لگا تھا کہ ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، کاروبار اب اتنا زیادہ نہیں ہے.ان پر بھی حالات کا اثر ہے.تو میں نے ان کو کہا کہ کسی اور کو بھی ثواب لینے کا موقع دیں.سارے کام خود ہی کرواتے جارہے ہیں.لیکن دینی علم تھا.قرآن حدیث کا علم بھی ہے.تو پتہ ہے کہ میں نے تفصیلی کا منہ بند کیا تو کہیں مستقل بند ہی نہ ہو جائے اس لئے فوراً کہا کہ یہ تو میں نے کرنا ہے.اور بہت سے دوسرے وعد اخراجات بھی ہیں کسی کو میں نے روکا نہیں ہے.آگے آئیں اور کریں.پھر ایک ابراہیم بونسو صاحب ہیں.یہ بھی بڑی قربانی کرنے والے ہیں.اکرا کے قریب انہوں نے ایک بہت مہنگی جگہ پہ جماعت کے لئے قبرستان اور بہشتی مقبرے کے لئے جگہ لے کر دی ہے اور بھی بہت سارے ہیں جو اپنی اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرنے والے ہیں.پھر دوسرے ملکوں میں بھی ہیں.انڈونیشیا میں بھی ہیں.یورپ اور امریکہ میں بھی ہیں.اب زلزلہ

Page 15

خطبات مسرور جلد سوم 8 خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء زدگان کے لئے جب میں نے جماعت کو کہا تھا کہ مدد کریں جو آجکل انڈونیشیا، سری لنکا میں زلزلہ کے اثرات ہیں بڑا جانی نقصان ہوا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے ہر جگہ بڑے پر زور طریقے سے اس میں حصہ لیا ہے.لبیک کہا اور آگے آئے.امریکہ میں ایک جماعت نے 35-36 ہزار ڈالرز ا کٹھے کئے تھے تا کہ وہاں بھجوائے جا سکیں.تو وہیں کے ایک صاحب حیثیت شخص نے کہا کہ اتنی ہی رقم میں دیتا ہوں.چنانچہ انہوں نے اتنی ہی رقم ڈال کر اس کو دو گنا کر دیا.35-36 ہزار ڈالرز فوراً ادا کر دیئے.تو یہ صرف اس لئے کہ جماعت کو قربانی کی عادت ہے.اور پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قربانیوں کے پھل دیتا ہے اور اس نے اپنے وعدوں کے مطابق یقیناً پھل دینے ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز عید پڑھائی آپ کھڑے ہوئے نماز سے آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا، جب آپ فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی.آپ اس وقت حضرت بلال کے ہاتھ کا سہارا لئے ہوئے تھے.اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جارہی تھیں.(بخارى كتاب العيدين - باب موعظة الامام النساء يوم العيد) تو اسلام میں مالی قربانی کی مثالیں صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہیں.بلکہ اس پیاری تعلیم اور جذبہ ایمان کی وجہ سے عورتیں بھی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں اور لیتی ہیں اور اپنا زیور اتارا تار کر چھینکتی رہی ہیں اور آج پہلوں سے ملنی والی جماعت میں یہی نمونے ہمیں نظر آتے ہیں.اور عورتیں اپنے زیور آ آ کر پیش کرتی ہیں.عموماً عورت جو شوق سے زیور بنواتی ہے اس کو چھوڑ نا مشکل ہوتا ہے لیکن احمدی عورت کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز پیش کی جائے.گزشتہ دنوں میں جب انگلستان کی مساجد اور پھر تحریک جدید کے بزرگوں کے پرانے کھاتے کھولنے کی میں نے تحریک کی تھی تو احمدی خواتین نے بھی اپنے زیور پیش کئے.اور بعض

Page 16

خطبات مسرور جلد سوم 9 خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء بڑے بڑے قیمتی سیٹ پیش کئے کہ یہ ہمارے زیوروں میں سے بہترین ہیں.تو یہ ہے احمدی کا اخلاص.اس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّونَ ﴾ (آل عمران: 93) جو سب سے پسندیدہ چیزیں ہیں وہ ہی پیش کی جارہی ہیں.تو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی یہی ایمان ہے.ان باتوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ جماعت میں اخلاص کی کمی ہے.ہاں یاددہانی کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ کرواتے رہنا چاہئے.اس کا حکم بھی ہے.تو وقف جدید کے ضمن میں احمدی ماؤں سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے.اور سوائے استثناء کے الا ماشاء اللہ ، جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہوان کے بچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں.اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں.حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا.اور اُس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں.اگر باقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہوگا.اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذبہ دل میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہوگا.انشاء اللہ.اگر مائیں اور ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پر کوشش ہو تو اس تعداد میں آسانی سے ( جو موجودہ تعداد ہے ) دنیا میں 6لاکھ کا اضافہ ہو سکتا ہے، بغیر کسی دقت کے.اور یہ تعداد آسانی سے 10 لاکھ تک پہنچائی جاسکتی ہے.کیونکہ موجودہ تعداد 4لاکھ کے قریب ہے جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا.عورتیں یا درکھیں کہ جس طرح مرد کی کمائی سے عورت جو صدقہ دیتی ہے اس میں مرد کو بھی ثواب میں حصہ مل جاتا ہے تو آپ کے بچوں کی اس قربانی میں شمولیت کا آپ کو بھی ثواب ہو گا.اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا ہے اور ان کا اجر دیتا ہے.اور جب بچوں کو عادت پڑ جائے گی تو پھر یہ مستقل چندہ دینے والے بچے ہوں گے.اور زندگی کے بعد بھی یہ چندہ دینے کی عادت قائم

Page 17

خطبات مسرور جلد سوم 10 خطبہ جمعہ 7 / جنوری 2005ء رہے گی تو یہ ماں باپ کے لئے ایک صدقہ جاریہ ہو گا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصائح پر عمل کرنے کے نمونے ، قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے نمونے ہمیں آخرین کی اس جماعت میں بھی ملتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم کئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے جو قربانیوں کے نمونے قائم کئے ہیں ان کے نظارے بھی عجیب ہیں.آج بھی ہمیں جو قربانیوں کے نظارے نظر آتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ بڑوں کی تربیت کا اثر ہوتا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی اپنی اولاد کی تربیت اور ان کے لئے دعاؤں کا نتیجہ ہے اور سب سے بڑھ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے لئے دعاؤں کی وجہ سے ہے.جس درد سے آپ نے اپنی جماعت کی تربیت کرنے کی کوشش کی ہے جن کا ذکر حضور علیہ السلام کی تحریرات میں مختلف جگہ پر ملتا ہے اور جس تڑپ کے ساتھ آپ نے اپنی جماعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے دعائیں کی ہیں، تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے دعائیں کی ہیں.یہ وہی پھل ہیں جو ہم کھا رہے ہیں.مردہ درخت انہیں دعاؤں کے طفیل ہرے ہورہے ہیں جن میں بزرگوں کی اولا دیں بھی شامل ہیں اور نئے آنے والے بھی شامل ہیں.ایک دور دراز علاقے کا آدمی جو عیسائیت سے اسلام قبول کرتا ہے اور پھر قربانیوں میں اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ میں ہر وقت قربانی کرتا رہوں اور اگر بس چلے تو کسی کو آگے آنے ہی نہ دوں.تو یہ سب کچھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قوت قدسی اور دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے.آپ کے زمانے میں یہ قربانیوں کے معیار قائم ہوئے جن کی آگے جاگ لگتی چلی جارہی ہے.اس لئے اگر یہ معیار قائم کرنے ہیں تو اس زمانے کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والوں ، اپنے اندر اس قوت قدسی سے پاک تبدیلی پیدا کرنے والوں کے بھی جو ذکر ہیں ان کا ذکر چلتا رہنا چاہئے تاکہ ان بزرگوں کے لئے بھی دعا کی تحریک ہو اور ہمیں بھی یہ احساس رہے کہ یہ پاک نمونے نہ صرف اپنے اندر قائم رکھنے ہیں، بلکہ اپنی نسلوں کے اندر بھی پیدا کرنے ہیں.

Page 18

خطبات مسرور جلد سوم 11 خطبہ جمعہ 17 جنوری 2005ء اب ان پاک نمونوں میں سے چند ایک کا میں ذکر کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ایسا ہی مباہلہ کے بعد جبی فی اللہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے مالی اعانت سے بہت سا بوجھ ہمارے درویش خانہ کا اٹھایا ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ سیٹھ صاحب ( حاجی سیٹھ عبد الرحمن، اللہ رکھا صاحب مدراس کے تاجر تھے ) موصوف سے بعد نمبر دوم پر شیخ صاحب ہیں.جو محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے ہیں.شیخ صاحب موصوف اس راہ میں دو ہزار سے زیادہ روپیہ دے چکے ہوں گے.اور ہر ایک طور سے وہ خدمت میں حاضر ہیں.(اس زمانے میں دو ہزار کی بڑی ویلیو (Value) تھی) اور اپنی طاقت اور وسعت سے زیادہ خدمت میں سرگرم ہیں.ایسا ہی بعض میرے مخلص دوستوں نے مباہلہ کے بعد اس درویش خانہ کے کثرت مصارف کو دیکھ کر اپنی تھوڑی تھوڑی تنخواہوں میں سے اس کے لئے حصہ مقرر کر دیا ہے.چنانچہ میرے مخلص دوست منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر گورداسپور تنخواہ میں سے تیسرا حصہ یعنی 20 روپیہ ماہوار دیتے ہیں.(ضمیمه انجام آتهم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحه 312-313حاشیه) اس زمانے میں وہ بڑی چیز تھی.تو دیکھیں اپنے پر تنگی کر کے قربانیاں کرنے کا جو طریق ہے وہ جاری کیا.وہ نمونے قائم کئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں تھے.پھر ایک اور ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنه یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں.آج ان کی اولاد میں لاکھوں میں کھیل رہی ہیں.) سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں.ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا.( یعنی اتنی طاقت نہیں تھی ایسا کاروبار نہیں تھا اس کے باوجود کہتے ہیں ایک دن مجھے ایک سوروپیہ دے گیا.میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے.( تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ) وہ

Page 19

خطبات مسرور جلد سوم 12 خطبہ جمعہ 17 جنوری 2005ء سورو پیه شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا.مگر یہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا.(ضمیمه انجام آتهم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحه 313-314 حاشیه) جب مینارۃ المسیح کی تعمیر ہونے لگی تھی اس وقت کا ذکر ہے.فرمایا: ” ان دنوں میں میری جماعت میں سے دو ایسے مخلص آدمیوں نے اس کام کے لئے چندہ دیا ہے.جو باقی دوستوں کے لئے در حقیقت جائے رشک ہیں.ایک ان میں سے منشی عبد العزیز نام ضلع گورداسپور میں پٹواری ہیں ، جنہوں نے باوجود اپنی کم سرمائیگی کے ایک سو روپیہ اس کام کے لئے چندہ دیا ہے.(جن کا پہلے ذکر آیا ہے ) اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ سوروپیہ کئی سال کا ان کا اندوختہ ہوگا.اور فرمایا کہ یہ اس لئے زیادہ قابل تعریف ہیں کہ ابھی وہ ایک اور کام میں بھی ایک سور و پیہ چندہ دے چکے ہیں.اور اپنے عیال کی بھی چنداں پرواہ نہیں کی بالکل پرواہ نہیں رکھی ) اور یہ چندہ پیش کر دیا.دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے، میاں شادی خاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں.ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں.اور اب اس کام کے لئے دوسوروپیہ (چندہ) بھیج دیا ہے.اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائیداد 50 روپے سے زیادہ نہ ہو ( لیکن دوسو روپے چندہ دے دیا.انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ کیونکہ ایام قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تبا ہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں.اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیا.( حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : ) اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا." (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه 314-315) پھر فرمایا: ” جبی فی اللہ میاں عبدالحق خلف عبدالسمیع یہ ایک اول درجہ کا مخلص اور سچا ہمدرد اور محض اللہ محبت رکھنے والا دوست اور غریب مزاج ہے.دین کو ابتداء سے غریبوں سے مناسبت ہے کیونکہ غریب لوگ تکبر نہیں کرتے اور پوری تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دولت مندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ اس سعادت کا عشر بھی حاصل کر سکیں جس کو غریب لوگ کامل طور پر حاصل کر لیتے ہیں.( دسواں حصہ بھی ان کے پاس نہیں ہوتا.)

Page 20

خطبات مسرور جلد سوم 13 خطبہ جمعہ 17 جنوری 2005ء فطوبى للغرباء.میاں عبدالحق با وجود اپنے افلاس اور کمی مقدرت کے ایک عاشق صادق کی طرح محض اللہ خدمت کرتا رہتا ہے اور اس کی یہ خدمات اس آیت کا مصداق اس کو ٹھہرا رہی ہیں که يُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ حَصَاصَةٌ ( الحشر: 10) یعنی با وجود تنگی در پیش ہونے کے بھی اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 537) تو یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے ہیں جن کی ان چھوٹی چھوٹی قربانیوں سے، ان شبنم کے قطروں سے، درخت پھلوں سے لدے رہتے تھے.ان کے اعمال کے درخت بھی پھلدار رہتے تھے.اور جماعت بھی ان قربانیوں کی وجہ سے پھلوں سے لدی رہتی تھی.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری لکھتے ہیں کہ : جن مخلص احباب نے لنگر خانے کے واسطے فوراً امداد بھیجی ان میں ایک شخص چوہدری عبد العزیز صاحب احمدی او جلوی پٹواری بھی تھے.(ان کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے ).جو خود آپ گورداسپور آئے اور آریہ کے مکان میں جبکہ حضرت احمد اوپر سے نیچے اتر رہے تھے ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ہے ) زینہ میں نصف راہ میں ملے اور ہاتھ سے اپنی کمر سے ایک سو روپیہ چاندی کے کھول کر پیش کئے.( یہ وہی واقعہ ہے، اس کی ذرا تفصیل ہے یا پہلے واقعہ کا جہاں حضرت مسیح موعود نے ذکر فرمایا ہے وہ ہو گا) کہ حضور کا خط آیا اور خاکسار کے پاس یہی رقم موجود تھی جو بطور امدادلنگر پیش کر رہا ہوں.قاضی محمد یوسف صاحب لکھتے ہیں کہ ”مجھے ایک پٹواری کے جو ان دنوں صرف چھ روپے ماہوار تنخواہ لیتا تھا.(ان کی صرف چھ روپے ماہوار تنخواہ تھی.اور سوروپیہ چندہ دے رہے ہیں ) اس ایثار پر رشک آیا.خدا تعالیٰ نے اس کے اخلاص کے عوض اس پر بڑے فضل کئے.“ (رساله ظہور احمد موعود صفحه 72 مطبوعه 30/ جنوری 1955) تو یہ تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے نمونے جو پہلوں سے ملنے کے لئے اپنے پرتگی وارد کیا کرتے تھے اور تنگی واردکر کے قربانیاں دیا کرتے تھے.پھر حضرت قاضی یوسف صاحب ایک اور ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : میرے پہلے

Page 21

خطبات مسرور جلد سوم 14 خطبہ جمعہ 17 جنوری 2005ء قیام گورداسپور میں ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک دفعہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے حضرت احمد سے ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ) عرض کی کہ حضور لنگری کہتا ہے کہ لنگر کا خرچ ختم ہو گیا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ بعض مخلص احباب کو متوجہ کیا جاوے چند مخلص افراد کو امداد لنگر کے واسطے خطوط لکھے گئے اور کئی مخلصوں کے جواب اور رقوم آئیں.کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک واقعہ خاکسار کو یاد ہے کہ وزیر آباد کے شیخ خاندان نے جو مخلص احمدی تھے ان کا ایک پسر نو جوان خط ملتے وقت طاعون سے فوت ہوا تھا.اس خاندان کا نوجوان لڑکا اس طاعون سے فوت ہوا تھا اور اس کے کفن دفن کے واسطے مبلغ دو سو روپے بغرض اخراجات اس کے پاس موجود تھے.اس نے اسی وقت ( اس لڑکے کے باپ نے ) ایک خط حضرت مسیح موعود کولکھا اور یہ خط ایک سبز کاغذ پر تحریر تھا اور اس کے عنوان میں یہ لکھا کہ اے خوشا مال کہ قربان مسیحا گردد کہ مبارک ہے وہ مال جو خدا کے مسیح کے لئے قربان کر دیا جائے.نیچے خط میں لکھا میرا نو جوان لڑکا طاعون سے فوت ہوا ہے.میں نے اس کی تجہیز و تکفین کے واسطے مبلغ دوسو روپے تجویز کئے تھے جو ارسال خدمت کرتا ہوں وہ دو سوروپے تھے جو اس کے لئے رکھے ہوئے تھے اور لڑکے کو اس کے لباس میں دفن کر دیتا ہوں.یہ ہے وہ اخلاص جو حضرت مسیح موعود نے مریدں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے تھا جماعت کے لئے تھا، اللہ تعالیٰ کی مرضی چاہنے کے لئے تھا.قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ یہی لوگ تھے جن کو آیت وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعة : 4) کے ماتحت صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا کا مصداق قرار دیا گیا ہے.(رساله ظہور احمد موعود مؤلفه قاضی محمد یوسف فاروقی احمدی.قاضی خيل صفحه 700-71 مطبوعه 30 جنوری 1955) اتنی زیادہ قربانی کی کہیں اور مثال آپ کو نظر نہیں آئے گی.اگر آئے گی تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہی نظر آئے گی.اسی کا یہ خاصہ ہے.حافظ معین الدین صاحب کی قربانی کا ذکر آتا ہے کہ ان کی طبیعت میں اس امر کا بڑا جوش تھا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے قربانی کریں.خود اپنی حالت ان کی یہ تھی کہ نہایت عسر کے

Page 22

خطبات مسرور جلد سوم 15 خطبہ جمعہ 17 جنوری 2005ء ساتھ گزارہ کرتے تھے ( نہایت تنگی کے ساتھ گزارا کرتے تھے.اور ) بوجہ معذور ہونے کے کوئی کام بھی نہ کر سکتے تھے.حضرت اقدس کا ایک خادم قدیم سمجھ کر بعض لوگ محبت و اخلاص کے ساتھ کچھ سلوک ان سے کرتے تھے (ان کو کچھ رقم پیش کر دیا کرتے تھے ) لیکن حافظ صاحب کا ہمیشہ یہ اصول تھا کہ وہ اس روپیہ کو جو اس طرح ملتا تھا کبھی اپنی ذاتی ضرورت پر خرچ نہیں کرتے بلکہ اس کو سلسلہ کی خدمت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کر دیتے.اور کبھی کوئی تحریک سلسلے کی ایسی نہ ہوتی جس میں وہ شریک نہ ہوتے ، خواہ ایک پیسہ ہی دیں.حافظ صاحب کی ذاتی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ان کی یہ قربانی معمولی نہ ہوتی تھی.“ (اصحاب احمد جلد 13 صفحه 293 مطبوعه 1967ء) تو یہ ان لوگوں کے چند نمونے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو سنا، سمجھا اور عمل کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مالی قربانی کے سلسلہ میں ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ: ” میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے.اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سوئیں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقتدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے.اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعے سے ان علوم و برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحه 516) پس آپ کا یہ سچا جوش اور کچی تڑپ ہے اور اس کے لئے آپ کی دعائیں ہیں جو آج سو

Page 23

خطبات مسرور جلد سوم 16 خطبہ جمعہ 17 جنوری 2005ء سال گزرنے کے بعد بھی اخلاص و وفا کے نمونے دکھا رہی ہیں.کیونکہ اس کے بغیر تزکیہ نفس نہیں ہوسکتا.اور دلوں کی پاکیزگی قربانیوں سے ہی پیدا ہوتی ہے.ورنہ اخراجات کی تو آپ کو فکر نہ تھی.آپ فرماتے ہیں کہ : آخر خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے اس نے اس سلسلے کو قائم کیا ہے.وہ خود ہی اس کا حامی و ناصر ہے.لیکن وہ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کو ثواب کا مستحق بنادے.پس اس ثواب کو حاصل کرنے کے لئے یاددہانی کروائی جاتی ہے.قربانیوں کے یہ معیار قائم کریں.مختلف تحریکات ہیں جماعت میں.اللہ تعالیٰ سب کو معیار بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے.اب میں وقف جدید کا 47 واں سال 31 دسمبر کو جو ختم ہوا ہے اور 48 واں سال شروع ہوا ہے.کے کچھ کو الف پیش کروں گا.اور یہ جیسا کہ میں نے کہا 48 واں سال شروع ہوا ہے اس سال کا اعلان کروں گا.رپورٹس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کی کل وصولی 19 لاکھ 76 ہزار پاؤنڈ ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر ملکوں کا حساب کریں تو ان میں زیادہ قربانیاں ہوئی ہیں.کیونکہ امریکہ میں بھی اور پاکستان میں بھی اور ملکوں میں بھی پاؤنڈ کے مقابلہ میں شرح میں غیر معمولی کمی ہوئی ہے اور اس کے باوجود خدا کے فضل سے گزشتہ سال سے وصولی ایک لاکھ پاؤنڈ زیادہ رہی ہے.اور مخلصین کی تعداد 4لاکھ 15 ہزار تک پہنچ چکی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس میں اگر کوشش کی جائے تو بچوں کے ذریعے سے ہی میرے خیال میں معمولی کوشش سے پوری دنیا میں 6لاکھ کی تعداد کا اضافہ کیا جاسکتا ہے تا کہ کم از کم وقف جدید میں 10 لاکھ افراد تو شامل ہوں.تحریک جدید کی طرح نئے آنے والوں کو بھی اس میں شامل کریں.بچوں کو شامل کریں، خاص طور پر بھارت اور افریقہ کے ممالک میں کافی گنجائش ہے.اللہ تعالیٰ توفیق دے.ویسے تو میں سمجھتا ہوں اگر کوشش کی جائے تو ایک کروڑ کی تعداد ہوسکتی ہے.لیکن بہر حال پہلے قدم پر آپ اتنی کوشش بھی کر لیں تو بہت ہے.کیونکہ 1957ء میں جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تحریک شروع کی تھی تو جماعت کی اس تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ

Page 24

خطبات مسرور جلد سوم 17 خطبہ جمعہ 17 جنوری 2005ء خواہش فرمائی تھی کہ ایک لاکھ چندہ دہند ہوں.تو اس وقت کوائف تو میرے پاس نہیں ہیں کہ پاکستان میں کتنے شامل ہوئے لیکن یہ صرف تحریک پاکستان کے لئے تھی اور وہاں سے آپ ایک لاکھ مانگ رہے تھے تو اب تو پوری دنیا میں حاوی ہے.دنیا بھر میں جو مجموعی وصولی کے لحاظ سے بالترتیب پہلی دس جماعتوں کا بھی ذکر کیا جاتا ہے وہ میں بتا دیتا ہوں پہلے نمبر پہ امریکہ ہے، دوسرے پر پاکستان، تیسرے پرہ، برطانیہ چوتھے پر جرمنی پانچویں پر، کینیڈا ( میرا خیال ہے جو منی نیچے جارہا ہے ) چھٹے نمبر پہ ہندوستان ، ساتویں نمبر پہ انڈونیشیا ، آٹھویں پیجم ، نویں پر سوئٹزر لینڈ اور دسویں پر آسٹریلیا.اس کے علاوہ فرانس ، ناروے، ہالینڈ، سویڈن، جاپان ، سعودی عرب اور ابوظہبی وغیرہ کی جماعتیں جو ہیں انہوں نے بھی کافی کوشش کی ہے.اور پاکستان کی جماعتوں کا علیحدہ ذکر ہوتا ہے.اس میں اول کراچی ہے، دوئم لا ہور ہے، سوئم ربوہ ہے.کراچی اور لاہور کا تو مقابلہ رہتا ہے.کاروباری لوگ بھی ہیں اور ملازم پیشہ بھی ہیں.ہوسکتا ہے کہ ان کے کاروباروں میں فرق پڑا ہو لیکن پھر بھی کافی اضافہ ہے.لیکن ربوہ میں اکثریت انتہائی کم آمدنی والوں کی ہے.لیکن انہوں نے اپنی پوزیشن جو وہ اول دوئم لیتے ہیں، وہ برقرار رکھی ہوئی ہے.پھر پاکستان میں بڑوں اور چھوٹوں کا ، بچوں کا علیحدہ حساب رکھا جاتا ہے جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا.خلافت ثالثہ میں بچوں کے لئے علیحدہ انتظام شروع کیا گیا تھا.تو اس لحاظ سے جو بڑوں کا چندہ وقف جدید ہے، بالغان کا اس میں راولپنڈی کا ضلع اول ہے.سیالکوٹ ہے، پھر اسلام آباد ہے پھر فیصل آباد ہے، پھر گوجرانوالہ ہے، پھر میر پور خاص ہے، شیخو پورہ ہے، سرگودھا ہے، گجرات ہے، کوئٹہ ہے.اور بچوں یعنی دفتر اطفال کا ہے.اس میں جو ضلعے ہیں اسلام آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، راولپنڈی،شیخوپورہ، میر پورخاص، گجرات، فیصل آباد، نارووال اور بہاولنگر.اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو جنہوں نے بڑھ چڑھ کر مالی قربانیوں میں حصہ لیا انہیں اپنی جناب سے بے انتہا اجر عطا فرمائے.ان کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے ان کے اعمال کے باغ اور ان کے بیوی بچوں کے اعمال کے باغ ہرے بھرے اور پھلوں سے لدے رہیں اور وہ

Page 25

خطبات مسرور جلد سوم 18 خطبہ جمعہ 17 جنوری 2005ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنے رہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : ” اور جو شخص ایسی ضروری مہمات میں مال خرچ کرے گا میں امید نہیں رکھتا کہ اس مال کے خرچ سے اس کے مال میں کچھ کمی آجائے گی بلکہ اس کے مال میں برکت ہوگی.پس چاہئے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور جوش اور ہمت سے کام لیں کہ یہی وقت خدمت گزاری کا ہے.پھر بعد اس کے وہ وقت آتا ہے کہ ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے پیسے کے برابر نہیں ہوگا“.( یہ آپ نے اپنے وقت کی بات کی ہے ) یہ ایک ایسا مبارک وقت ہے کہ تم میں خدا کا فرستادہ موجود ہے.اور خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا ہے کہ واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا.(مجموعه اشتہارات جلد سوم صفحه 497) تو بڑی قربانیاں کرنے والے جو ہیں ان کو بھی یہی سمجھنا چاہئے کہ یہ ایک فضل الہی ہے جو اُن پر ہوا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جو صحابہ کی بظاہر معمولی قربانیاں تھیں وہ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ معمولی قربانیاں بھی بہت بڑا درجہ رکھتی ہیں.لیکن اس زمانے میں بھی اپنی قربانیاں کرنے کے بعد جیسا کہ ہم اب بھی نمونے دیکھتے ہیں اگر عاجزی سے قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں گے تو ان دعاؤں کے حصہ دار بنیں گے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں.آخر پر میں آپ لوگوں سے جو یہاں پر جلسہ سننے کے لئے آئے ہیں، آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس جلسے میں شمولیت آپ لوگوں کے لئے پاک تبدیلی کا باعث ہونی چاہئے.ایک دوسرے کو سلام کرنے کا رواج دیں، اس ماحول میں پیارا اور محبت سے ملیں.یہاں جماعت اتنی چھوٹی ہے کہ ذراسی بھی کمزوری یا اچھائی فوراً پورے ماحول میں پھیل جاتی ہے.اس لئے کوشش کریں کہ اگر کسی چیز کو پھیلانا ہے تو وہ نیکیوں کی ، خیر کی ، اچھی بات کی ، پیار کی ، محبت کی خوشبو پھیلانی ہے.ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا ہے، دعاؤں پر زور دینا ہے.یہ دو دن آپ کا جلسہ ہے اس میں دنیا داری کی بجائے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے ماحول کو

Page 26

خطبات مسرور جلد سوم 19 خطبہ جمعہ 17 جنوری 2005ء معطر رکھنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آج جنوری کی 7 / تاریخ ہے سال نو کے حوالے سے بے انتہا خطوط اور فیکسز مبارکباد کی مجھے مل رہی ہیں.گزشتہ جمعہ 31 دسمبر کا ہی تھا اس میں بھی مبارکباد کہی جاسکتی تھی لیکن مجھے یاد نہیں رہی.اللہ تعالیٰ تمام جماعت کو یہ سال ہر لحاظ سے مبارک کرے اور اس ملک کے لئے بھی اور دنیا کے ہر ملک کے لئے یہ سال ہر لحاظ سے مبارک ہو.اللہ تعالیٰ تمام دنیا کے ممالک اور لوگوں کو پیار اور محبت سے رہنا سکھائے.دل کی نفرتیں اور کدورتیں دور ہوں.اللہ تعالیٰ ملکوں کے خلاف جنگوں اور ظلموں کو روکنے کے سامان پیدا فرمائے.لوگوں کو لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہر آفت سے تمام انسانیت کو بچائے.کیونکہ جس طرح آجکل کے حالات ہیں بڑی تیزی سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو آواز دے رہے ہیں.اللہ رحم کرے اور سال برکتوں کا سال ہو نہ کہ عذاب کا سال.ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اخلاص اور وفا اور قربانی کے نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.عبادتوں کے معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور آنحضرت علی کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے.خاص طور پر جب آپ اس ملک میں رہ رہے ہیں سپین میں اپنی تعداد بڑھانے کی خاص کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ توفیق دے.谢谢邀

Page 27

20 20 خطبات مسرور جلد سوم

Page 28

خطبات مسرور جلد سوم 2 21 21 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء عبادت کی اہمیت و برکات اور بلنسیہ (Valencia) میں مسجد بنانے کی تحریک خطبه جمعه فرموده 14 / جنوری 2005ء بمقام مسجد بشارت.پید رو آباد (سپین) تلاوت کی :.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی يايُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) پھر فرمایا:.(البقره: 22) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنی عبادت کی طرف توجہ دلا کر شیطان کے پنجے سے بچنے اور رہائی دلانے کے سامان مہیا فرما دیئے اور قرآن کریم میں ہمیں مختلف طریقوں سے اس طرف توجہ دلائی ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو ! تم عبادت کرو اپنے رب کی ، جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.یعنی تمہیں پیدا کرنے والی وہ ہستی ہے جوتمہارا رب ہے.تمہیں پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ تمہاری پیدائش کے ساتھ تمہاری پرورش کے بھی سامان پیدا فرمائے.تمہاری خوراک کے لئے تمہارے دودھ کا انتظام کیا.موسم کی سختیوں سے بچانے کے لئے

Page 29

خطبات مسرور جلد سوم 22 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء تمہارے لئے لباس کا انتظام کیا.تمہاری نگہداشت کے لئے تمہاری ماں کے دل میں تمہارے لئے وہ محبت پیدا کی جس کی مثال نہیں.وہ کسی اجر کے بغیر تمہاری اس وقت خدمت کرتی ہے جب تم کسی قابل نہیں تھے.تو یہ سب انتظامات اس خدا کی مرضی سے ہی ہو رہے ہیں جو تمہارا رب ہے.اور جب تم ایسے حالات میں پہنچ گئے تمہارے اعضاء مضبوط ہو گئے تو اب بھی وہی ہے جو تمہاری ضروریات پوری کر رہا ہے تو یہ تمہارا پیدا کرنے والا تمہارا پالنے والا تمہارا مالک اس بات کا حق دار ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، شکر گزار بندے بنو.اس نے جو نعمتیں تم پر اتاری ہیں ان کو یادکر کے اس کے آگے جھکو اور یہی ایک انسان کی بندگی کی معراج ہے.پس یا درکھو کہ تمام مخلوق اس کی پیدا کردہ ہے.تمام انسان اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اس لئے ہر انسان جو نا شکرا کہلانا پسند نہیں کرتا، جو شیطان کا چیلا کہلانا پسند نہیں کرتا ، اس کا کام ہے کہ تقویٰ سے کام لے.اس کی خشیت، اس کی محبت، اس کے پیار کو دل میں جگہ دے اور اس کی عبادت کرے.اس کے بتائے ہوئے حکموں پر عمل کرے.تو تبھی ایک خدا کا بندہ کہلانے والا ، اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کرنے والا کہلا سکتا ہے.پس ایک احمدی جس کا یہ دعوی ہے کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو سچا ثابت ہوتے دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی خبروں کو پورا ہوتے دیکھ کر مسیح موعود کو مانا ہے.اُس احمدی کا دوسروں کی نسبت زیادہ فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی بھی قدر کرتے ہوئے ، اپنے رب کے آگے دوسروں سے زیادہ جھکے اور اپنی عبادتوں کے معیار اونچے سے اونچا کرتا چلا جائے.اگر کاموں کی زیادتی یا دوسری مصروفیات نے اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننے میں روک ڈال دی تو پھر احمدی کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگا کہ اس نے اللہ کو، اللہ کے وعدوں کو پورا ہونے سے پہچانا.سچی پہچان کو تو اس کے اندر ایک انقلاب پیدا کر دینا چاہئے تھا.اس کو نمازوں میں یہ دعا مانگنی چاہئے تھی جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے معاذ! اللہ کی قسم یقیناً میں تجھ سے محبت

Page 30

خطبات مسر در جلد سوم 23 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء رکھتا ہوں.پھر آپ نے فرمایا، اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تو ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا کہ اَللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ.اے اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیرا ذکر ، تیرا شکر اور اچھے انداز میں تیری عبادت کر سکوں.آپ نے یہ فرمایا کہ جو مجھے محبت تم سے ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ میں تجھے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار اور عبادت گزار بندہ دیکھوں.(سنن ابی داؤد كتاب الصلوة باب في الاستغفار) پس ہر احمدی کو بھی جس کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ ہے اس کو بھی یہ ذکر ، شکر اور عبادتوں کے طریق اپنانے ہوں گے.اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے نمازوں کی طرف توجہ دینی ہوگی ، نمازیں پڑھنی ہوں گی.اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے تبھی وہ شکر گزار بندہ بن سکتا ہے.عبادت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مخالفت نفس بھی ایک عبادت ہے.انسان سویا ہوا ہوتا ہے جی چاہتا ہے کہ اور سو لے مگر وہ مخالفت نفس کر کے مسجد چلا جاتا ہے تو اس مخالفت کا بھی ایک ثواب ہے.اور ثواب نفس کی مخالفت تک ہی محدود ہوتا ہے، ورنہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو پھر ثواب نہیں.عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف ہو جاتا ہے تو اس کی عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے.کیونکہ جب نفس مطمئنہ ہو گیا تو ثواب کیسے رہا.نفس کی مخالفت کرنے سے ثواب تھا ، وہ اب رہی نہیں“.( ملفوظات جلد دوم صفحه 552-553 جدید ایڈیشن) ( البدر ، مورخه 12 دسمبر 1902ء صفحه 5150) تو یہ جبر کر کے بستر سے اٹھنا اور مسجد باجماعت نماز کے لئے جانا، اپنے کام کا حرج کر کے نمازوں کی طرف توجہ کرنا.یہی چیز ہے جو ثواب کمانے کا ذریعہ بنتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب انسان کو خدا کے ساتھ اس حد تک تعلق ہو جائے کہ دنیا کی اس کے نزدیک کوئی حیثیت نہ رہے تو پھر ثواب نہیں رہتا پھر تو یہ ایک معمول بن جاتا ہے،ایک غذا ہے.

Page 31

خطبات مسرور جلد سوم 24 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء پھر جوانی کی عمر کی عبادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : اگر اُس نے یہ زمانہ خدا کی بندگی ، اپنے نفس کی آراستگی اور خدا کی اطاعت میں گزارا ہوگا تو اس کا اسے یہ پھل ملے گا کہ پیرانہ سالی میں جبکہ وہ کسی قسم کی عبادت وغیرہ کے قابل نہ رہے گا اور اور کسل اور کا ہلی اسے لاحق حال ہو جاوے گی تو فرشتے اس کے نامہ اعمال میں وہی نماز روزہ تہجد وغیرہ لکھتے رہیں گے جو کہ وہ جوانی کے ایام میں بجالاتا تھا.اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ اس کی ذات پاک اپنے بندہ کو معذور جان کر باوجود اس کے کہ وہ عمل بجا نہیں لاتا پھر بھی وہی اعمال اس کے نام درج ہوتے رہتے ہیں.( ملفوظات جلد 4 صفحه 199حاشیه.جدید ایڈیشن) (البدر مورخه یکم جنوری 1905ء صفحه 10) پس ہر احمدی کو صحت کی حالت میں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرے اور نہ صرف با قاعدگی اختیار کرے بلکہ باجماعت نمازوں کی طرف بھی توجہ دے.اسے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بڑھاپے میں جب انسان کمزور ہو جاتا ہے، اس طرح محنت نہیں کر سکتا جس طرح جوانی میں کر سکتا ہے کیونکہ نمازیں بھی ایک طرح کی محنت چاہتی ہیں.ان کی ادائیگی بھی جو نمازیں ادا کرنے کا حق ہے اس محنت سے مشکل ہو جاتی ہے جس طرح جوانی میں ادا کی جاسکتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کیونکہ اپنے بندوں پر بخشش اور رحم کی نظر رکھنے والا ہے اس لئے وہ بڑھاپے اور کمزوری کے وقت کی جو کم عبادتیں ہیں ان کو بھی جوانی میں کی گئی عبادتوں کے ذریعے پورا کر دیتا ہے.تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کو نوازنے کے طریقے.پس ہر وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننا چاہتا ہے، اس کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے، اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو پاک رکھنا چاہتا ہے، شیطان کے حملوں سے بچانا چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے کہ اللہ کی عبادت کی طرف توجہ دے.اور اس کے لئے سب سے ضروری چیز نماز با جماعت کی ادائیگی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَأَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ.وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ.وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا

Page 32

خطبات مسرور جلد سوم 25 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء تَصْنَعُونَ (العنکبوت: 46) کہ تو کتاب میں سے جو تیری طرف وحی کیا جاتا ہے پڑھ کر سنا اور نماز کو قائم کر یقیناً نماز بے حیائی اور ہر نا پسندیدہ بات سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر یقیناً سب ذکروں سے بڑا ہے.اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو تو نماز قائم کرنے سے مراد ایک تو با جماعت نمازوں کی ادائیگی ہے اور خاص طور پر ان نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ بھی دلائی ہے.ایک اور جگہ ایک اور آیت میں بھی توجہ دلائی گئی ہے یہاں بھی اس سے مراد یہی ہے کہ تمہاری سنتی یا کاروباری مصروفیات کی وجہ سے وقت پر اور باجماعت نمازیں ادا نہیں کی جار ہیں، ان کو ادا کرو، نماز قائم کرو، باجماعت ادا کرو.تو یا د رکھو کہ اگر تم نمازوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہو گئے تو دنیا کی بے حیائی اور لغو باتوں سے جن میں آج کل کی دنیا پڑی ہوئی ہے.خاص طور پر اس معاشرے میں یورپ کے معاشرے میں، تو ان چیزوں سے تم بچ کے رہو گے.اس لئے ان کی طرف خود بھی توجہ دو اور اپنے بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتے رہو.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہے اس کی عبادت ہی ہے جو ہر دنیوی چیز سے بالا ہے.اس لئے تمہیں اگر کسی چیز کی فکر کرنی چاہئے تو اس کی عبادت کی طرف توجہ اور وقت پر نمازوں کی طرف توجہ کی فکر کرنی چاہئے.یاد رکھو اللہ سب جانتا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو.اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے.اس لئے دو عملی نہیں چلے گی.قول اور فعل میں تضاد مشکل ہے.اگر تم اس فکر سے نمازوں کی طرف توجہ دو گے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور دنیاوی معاملات ایک طرف رکھ کر اس کے حضور حاضر ہو جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے تمہارے دنیوی معاملات میں بھی برکت ڈالے گا.ورنہ عبادت کی طرف توجہ نہ دینے سے تمہارے کا روبار میں بے برکتی رہے گی.تمہاری اولادوں کے بھی صحیح راستے پر چلنے کی کوئی ضمانت نہیں رہے گی اور پھر مرنے کے بعد تمہارا محاسبہ بھی ہوگا تمہاری نمازوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ صحیح طور پر ادا کی گئی تھیں یا نہیں کی گئی تھیں.ایک روایت میں آتا ہے.یونس کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کے اعمال میں سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس بات کا محاسبہ کیا جائے گاوہ نماز ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارا رب عز و جل فرشتوں

Page 33

خطبات مسرور جلد سوم 26 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء سے فرمائے گا.حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے کہ میرے بندے کی نماز کو دیکھو کیا اس نے اسے مکمل طور پر ادا کیا تھا یا نامکمل چھوڑ دیا.پس اگر اس کی نماز مکمل ہوگئی تو اس کے نامہ اعمال میں مکمل نماز لکھی جائے گی.اور اگر اس نماز میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی تو فرمایا کہ دیکھیں کیا میرے بندے نے کوئی نفلی عبادت کی ہوئی ہے پس اگر اس نے کوئی نفلی عبادت کی ہوگی تو فرمائے گا کہ میرے بندے کی فرض نماز میں جو کمی رہ گئی تھی وہ اس کے نفل سے پوری کر دو.پھر تمام اعمال کا اسی طرح مواخذہ کیا جائے گا.( ابوداؤد كتاب الصلوة باب قول النبي كل صلاة لا يتمها صاحبها تتم من تطوعه) پس ایک احمدی کے معیار یہ ہونے چاہئیں نہ کہ یہ کہ اپنی دنیاوی ضروریات کے لئے نمازوں کو ٹال دیا جائے.اپنے نامہ اعمال کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیا ہے اور کیا نہیں.اس لئے ایک فرض جو اللہ نے بندے کے ذمے لگایا ہے.اسے پورا کرنے کی کوشش ہونی چاہئے تا کہ کسی بھی قسم کے محاسبہ سے بچ کے رہے.اللہ سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.پھر نمازوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.ذرا غور کریں کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزرتی ہو.وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی رہ جائے گی.صحابہ نے عرض کی اس کی میل میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے.اللہ ان کے ذریعے خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے ( بخاری کتاب مواقيت الصلوة باب الصلوات الخمس كفارة) پس یہ اللہ تعالیٰ کے معاف کرنے طریقے ہیں اپنے بندوں پر شفقت اور ان کے لئے بخشش کے سامان مہیا کرنے کے طریقے ہیں جس سے جتنا بھی کوئی فائدہ اٹھا لے گا اتنی ہی اپنی دنیا و آخرت سنوار نے والا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” نماز اصل میں دعا ہے.نماز کا ایک

Page 34

خطبات مسرور جلد سوم 27 خطبہ جمعہ 14 / جنوری 2005ء ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے.اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لئے تیار رہے.کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے.ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اٹھاتا ہوں مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں.میں بہت رحم کرتا ہوں.بیکسوں کی امداد کرتا ہوں.لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے اس کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی ندا کی پرواہ نہیں کرتا.نہ اپنی مشکل کا بیان کر کے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہو گا.یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے.قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے.کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے“.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 54 جدید ایڈیشن - البدر ، مورخه یکم جولائی 1904ء صفحه (6) تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مشکلیں دور کرنے کے لئے تمہیں پکار رہا ہے.اس کی آواز کو سنو ،اس کی طرف جاؤ اور اپنی درخواستیں پیش کرو، اپنی ضروریات پوری کرو.لیکن یاد رکھو کہ درخواست بھی اس کی قبول ہو گی ، دعا بھی اس کی قبول ہو گی، جو نافرمان نہ ہو.اس کے حکموں پر عمل کرنے والا ہو، ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو.پھر نماز باجماعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں که : " با جماعت نماز پڑھنا کسی شخص کے اکیلے نماز پڑھنے سے 25 گنا زیادہ ثواب کا موجب ہے.مزید فرمایا اور رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے نماز فجر پر جمع ہوتے ہیں.(مسلم كتاب المساجد ومواضع الصلوة باب فضل صلاة الجماعة......پس جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے نماز با جماعت کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.یہاں اس ملک میں جماعت کے افراد مختلف جگہوں پہ پھیلے ہوئے ہیں اور اس جگہ پر صرف مسجد ہے اور یہاں بھی جماعت کی تعداد تھوڑی سی ہے.باقی جگہ مسجد نہیں ہے لیکن نماز سینٹرز ہیں ،مشن ہاؤس ہیں، وہاں اکٹھے ہونا چاہئے.لیکن میری اطلاع کے مطابق اس طرف توجہ

Page 35

خطبات مسرور جلد سوم 28 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء کم ہے با قاعدہ نمازوں پر لوگ نہیں آتے.مومن کو تو ہر وقت اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں میں زیادہ ہونے کا سوچنا چاہئے.اس لئے کوشش کر کے نماز باجماعت کی طرف ہر احمدی توجہ دے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ ثواب کما سکے کمالے اور صحیح مومن کہلا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفس واحدہ کی طرح بناوے اس کا نام وحدت جمہوری ہے.جس سے بہت سے انسان بحالت مجموعی ایک انسان کے حکم میں سمجھا جاتا ہے.مذہب سے بھی یہی منشاء ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدت جمہوری کے ایک دھاگے میں سب پروئے جائیں یہ نمازیں با جماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وحدت کے لئے ہیں تاکہ کل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے.اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لئے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اسے قوت دیوے.حتی کہ حج بھی اسی لئے ہے.اس وحدت جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتداء اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اول یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں.تا کہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو.اور انوار مل ملا کر کمزوری کو دور کر دیں اور آپس میں تعارف ہو کر انس پیدا ہو جاوے.تعارف بہت عمدہ شے ہے کیونکہ اس سے انس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے.حتی کہ تعارف والا دشمن ایک نا آشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُنس پیدا ہو جاتا ہے.وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شے ہوتا ہے وہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا.پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے.اس لئے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں.آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جائیں گے“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 100 101 جدید ایڈیشن ) تو جمعہ کی طرف بھی توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.جو معلومات میں نے لی ہیں

Page 36

خطبات مسرور جلد سوم 29 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء ان سے مجھے پتہ لگا ہے کہ اکثر لوگ دوسرے تیسرے ہفتے جمعے کو جمعہ پڑھنے کے لئے آتے ہیں اس طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.اس بارے میں تو بڑا واضح حکم ہے کہ جمعہ کے لئے آؤ اور کاروبار کو چھوڑ دو.احمدیوں کو تو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ یہ اسی سورۃ میں ہی حکم ہے جس میں آخرین کو پہلوں کے ساتھ ملانے کا حکم ہے.تو جمعے کے بعد پھر اجازت ہے کہ آپ کا روبار کر لیں.اور جو اس طرح کریں گے جمعے کی نماز کے لئے کاروبار بند کریں اور پھر جمعے کے بعد شروع کریں تو ان کے کاروبار میں اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل ہوگا.ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہروں کی پسندیدہ جگہیں ان کی مساجد اور شہروں کی نا پسندیدہ جگہیں ان کی مارکیٹیں ہیں.(مسلم کتاب المساجد باب فضل الجلوس في مصلاه بعد الصبح وفضل المساجد) پس کون ہے جو پسندیدہ اور اچھی چیز کو چھوڑ کر نا پسندیدہ چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.بعض لوگ کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہم جس چیز کو بھی ہاتھ ڈالتے ہیں جس کا روبار میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں اس میں بر بادی ہو جاتی ہے، کوئی برکت نہیں پڑتی.اور پھر اس وجہ سے ان لوگوں کے خیالات اور ان کے ذہن بڑے بیہودہ ہو جاتے ہیں.تو اگر عبادتوں کا حق ادا کرتے ہوئے پھر کاروبار بھی کریں گے تو اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالے گا.جمعے کی نماز کے وقت بجائے جمعے پہ آنے کے اگر کاروبار کی طرف ہی دھیان رہے گا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اگر ٹالیں گے تو بے برکتی ہی رہے گی.پس نمازوں اور جمعہ کے اوقات میں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا کریں.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کام کی جگہ دور ہے اور دو تین احمدی کسی نہ کسی جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.سینٹر میں نہیں آ سکتے تو جو تین چار افراد ہیں وہ اپنی جگہ پر ہی کسی کو اپنے میں سے امام مقرر کر کے جمعہ پڑھ لیا کریں.لیکن جمعہ ضرور پڑھنا چاہئے.تو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں (یہ جمعہ کی مثال دینے کے بعد ) کہ : ” پھر سال کے بعد عیدین میں یہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں

Page 37

خطبات مسرور جلد سوم 30 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء تا کہ تعارف اور انس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو.پھر اسی طرح تمام دنیا کے اجتماع کے لئے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں.غرضیکہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ آپس میں الفت اور انس ترقی پکڑے.افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا پکا ہے.دنیوی حکام کی طرف سے جو احکام پیش ہوتے ہیں ان میں تو انسان ہمیشہ کے لئے ڈھیلا ہوسکتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلی روگردانی کبھی ممکن ہی نہیں.کون سا ایسا مسلمان ہے جو کم از کم عیدین کی بھی نماز نہ ادا کرتا ہو.پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کر کے اسے قوت بخشیں“.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 101 جدید ایڈیشن - اخبار البدر 8 ستمبر 1904ء صفحه 3-8) تو آپ نے نمازوں کی ادائیگی سے لے کر جمعہ، جمعے کے بعد عیدین، پھر حج یہ ایک وحدت کا نشان بتایا ہے.اور سب سے زیادہ وحدت کا نمونہ اگر آج دکھانا ہے تو احمدی نے دکھانا ہے.جو غیروں کے اعتراض ہیں ان کے منہ بند کرنے کے لئے خود اپنی عبادتوں کو زندہ کرنا ہے، نمازوں کے لئے اکٹھے ہونا ہے.جمعوں کے لئے اکٹھے ہونا ہے، عید پر ا کٹھے ہونا ہے.پس اس طرف ہر احمدی خاص طور پر توجہ دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو کر اپنے اندر تبدیلی کا جو عہد کیا ہے اس کو پورا کرنے والا بنتا ہے، حقیقی معنوں میں مومن کہلانے والا بننا ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ مومن ہیں نہ ہدایت پانے والے ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ تو مسجد کو آباد کرنے والوں کو ایمان لانے والوں میں شمار کرتا ہے.فرماتا ہے: ﴿إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَاتَى الزَّكوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أَوْلَئِكَ أَنْ يَكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ﴾ (التوبة: 18) کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے.پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مسجد میں آباد کرنے کی توفیق

Page 38

خطبات مسرور جلد سوم عطا فرمائے.31 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تم کسی شخص کو مسجد میں عبادت کے لئے آتے جاتے دیکھو تو تم اس کے مومن ہونے کی گواہی دو.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں.( ترمذی ابواب التفسير سورة التوبة حديث نمبر 3093) پھر ایک روایت ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرا کرو تو وہاں کچھ کھا پی لیا کرو.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! یہ جنت کے باغات کیا ہیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مساجد جنت کے باغات ہیں.میں نے عرض کی یا رسول اللہ ان سے کھانے پینے سے کیا مراد ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.سُبْحَانَ اللهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرِ پڑھنا.(ترمذى كتاب الدعوات باب ماجاء في عقد التسبيح باليد باب نمبر 85حديث نمبر 3509) اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنا، اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا ، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا.تو ایک مومن اپنے ایمان میں مضبوطی کے لئے ہدایت کے راستے پر چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دنیا اور آخرت کی جنت کے پھل کھانے کے لئے مسجد میں جاتا ہے.پس یہی مسجدوں کا مقصد ہے.اور اسی مقصد کے لئے مسجدیں بنائی جاتی ہیں دنیا داری تو مسجدوں کے پاس سے بھی نہیں گزرنی چاہئے.بلکہ ایک روایت میں تو آتا ہے کہ کسی گمشدہ چیز کا مسجد میں اعلان کرنا بھی منع ہے، اس میں بھی بددعا دی گئی ہے.تو جب یہاں تک حکم ہو تو پھر مسجد میں تو دنیا داری کی باتوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مسجدوں میں تو اس لئے اکٹھا ہوا جاتا ہے کہ ایک دوسرے سے محبت اور پیار اور الفت پیدا ہو.ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کا احساس پیدا ہو.

Page 39

خطبات مسرور جلد سوم 32 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا تو یہی ہے کہ جو بھی اس نے حکم دیئے ہیں چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں یا بندوں کے حقوق ہیں، سب کو ادا کرنے کی طرف توجہ ہو.مسجدیں تو اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ ان میں خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے.پس مسجد میں عبادت کی غرض سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ مسجدوں سے وہ لوگ بھی فیض پاتے ہیں وہ بھی ثواب کے مستحق ٹھہرتے ہیں جو اس کے بنانے میں حصہ لیتے ہیں.وہ لوگ بھی اپنے لئے جنت میں باغ لگاتے ہیں جو خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے اس کے گھر کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں، نہ کہ نام و نمود کے لئے.پس اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مسجد میں بنانا بھی یقیناً ایک نیک کام ہے اور اللہ کے فضلوں کو سمیٹنے والا ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی کی تعمیر نو اور توسیع کا ارادہ فرمایا تو کچھ لوگوں نے اسے ناپسند کیا.وہ یہ چاہتے تھے کہ اس مسجد کو اس کی اصل حالت میں ہی رہنے دیا جائے.یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا.( مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاة باب فضل بناء المساجد والحث عليها) لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مسجد میں بنائی جائیں.اور احمدی جب مسجدیں بناتے ہیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بناتے ہیں.اس لئے بناتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ عبادت گزار اُن سے فائدہ اٹھا سکیں.اس لئے بناتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں آکر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کر سکیں.ہماری کوششیں تو عاجزانہ اور دعاؤں کے ساتھ ہوتی ہیں کوئی دکھاوا ان میں نہیں ہوتا.ہم تو اس مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہیں جس کے سپر د اللہ تعالیٰ نے مساجد کی آبادی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا کام کیا ہوا ہے.ہم تو مساجد اس لئے بناتے ہیں کہ اُن کو

Page 40

خطبات مسرور جلد سوم 33 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء دیکھ کر زیادہ سے زیادہ لوگ اس پاکیزہ جماعت میں شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جائیں.اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہئے.پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو.محض اللہ اسے کیا جاوے نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہر گز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا“.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 93 جدید ایڈیشن - البدر 24 اگست 1904ء) پس اس ارشاد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے ہر جگہ مساجد بنانی ہیں اور جماعت احمدیہ اسی لئے مساجد بناتی ہے.میرے دل میں بڑی شدت سے یہ خیال پیدا ہوا کہ پانچ سو سال بعد اس ملک میں مذہبی آزادی ملتے ہی جماعت احمدیہ نے مسجد بنائی.اور اب اس کو بنے بھی تقریباً 25 سال ہونے لگے ہیں اب وقت ہے کہ سپین میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کی مساجد کے روشن مینار اور جگہوں پر بھی نظر آئیں.جماعت اب مختلف شہروں میں قائم ہے.جب یہ مسجد بنائی گئی تو اس وقت یہاں شاید چند لوگ تھے.اب کم از کم سینکڑوں میں تو ہیں.پاکستانیوں کے علاوہ بھی ہیں.جماعت کے وسائل کے مطابق عبادت کرنے والوں کے لئے نہ کہ نام ونمود کے لئے اللہ کے اور گھر بھی بنائے جائیں.تو اس کے لئے میرا انتخاب جو میں نے سوچا اور جائزہ لیا تو بلنسیہ (Valencia) کے شہر کی طرف توجہ ہوئی.یہاں بھی ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور یہ شہر ملک کے مشرق میں واقع ہے.آپ کو تو پتہ ہے دوسروں کو بتانے کے لئے بتا رہا ہوں.اور آبادی کے لحاظ سے بھی تیسرا بڑا شہر ہے اور یہاں بھی ابتدا میں ہی 711ء میں مسلمان آ گئے تھے مسلمانوں کی تاریخ بھی اس علاقے میں ملتی ہے، ابھی تک ملتی ہے.زرعی لحاظ سے بھی اس جگہ کو

Page 41

خطبات مسرور جلد سوم 34 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء مسلمانوں نے ڈیویلپ (Develop) کیا ہے.بہت سے احمدی جو وہاں کام کرتے ہیں.مالٹوں کے باغات میں بہت سے لوگ کام کرتے ہیں.یہ مالٹوں کے باغات کو رواج دینا بھی مسلمانوں کے زمانے سے ہی چلا آ رہا ہے.تو بہر حال ہم نے اب یہاں مسجد بنانی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ.اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے جلد بنانی ہے.سپین میں جماعت کی تعداد تو چند سو ہے اور یہ بھی مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگوں کے وسائل اتنے زیادہ نہیں ہیں.زمینیں بھی کافی مہنگی ہیں.امیر صاحب کو جب میں نے کہا وہ ایک دم بڑے پریشان ہو گئے تھے کہ کس طرح بنائیں گے.تو میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ چھوٹا سا ، دوتین ہزار مربع میٹر کا پلاٹ تلاش کریں اور اپنی کوشش کریں.اور جماعت سپین زیادہ سے زیادہ کتنا حصہ ڈال سکتی ہے یہ بتائیں.کون احمدی ہے جو نہیں چاہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرنے والا نہ بنے ؟.کون ہے جو نہیں چاہے گا کہ جنت میں اپنا گھر بنائے.پس آپ لوگ اپنی کوشش کریں باقی اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے انتظام کر دے گا.یہی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا جماعت سے سلوک رہا ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی رہے گا اور وہ خود انتظام فرما دے گا.بہر حال بعد میں امیر صاحب نے لکھا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی یا غلط نہی ہو گئی تھی کہ میں نے مایوسی کا اظہار کر دیا، بات سمجھا نہیں شاید.تو ہم انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بنائیں گے اور دوسرے شہروں میں بھی بنائیں گے.تو بہر حال عزم، ہمت اور حوصلہ ہونا چاہئے اور پھر ساتھ ہی سب سے ضروری چیز اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے دعائیں مانگتے ہوئے ، اس سے مدد چاہتے ہوئے کام شروع کیا جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ برکت پڑتی ہے اور پڑے گی.تو بہر حال مجھے پتہ ہے کہ فوری طور پر شاید پین کی جماعت کی حالت ایسی نہیں کہ انتظام کر سکے کہ سال دو سال کے اندر مسجد مکمل ہو.لیکن ہم نے انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ کا نام لے کر فوری طور پر اس کام کو شروع کرنا ہے اس لئے زمین کی تلاش فوری شروع ہو جانی چاہئے چاہے پین جماعت کو کچھ گرانٹ اور قرض دے کر ہی کچھ کام شروع کروایا جائے اور بعد میں ادا ئیگی ہو جائے.تو یہ کام بہر حال انشاء اللہ شروع ہو گا.اور جماعت کے جو مرکزی ادارے ہیں یا دوسرے صاحب حیثیت افراد ہیں اگر خوشی سے کوئی

Page 42

خطبات مسرور جلد سوم 35 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء اس مسجد کے لئے دینا چاہے گا تو دے دیں اس میں روک کوئی نہیں ہے.لیکن تمام دنیا کی جماعت کو یا احمدیوں کو میں عمومی تحریک نہیں کر رہا کہ اس کے لئے ضرور دیں.انشاء اللہ تعالیٰ یہ مسجد بن جائے گی چاہے مرکزی طور پر فنڈ مہیا کر کے بنائی جائے یا جس طرح بھی بنائی جائے اور بعد میں پھر سپین والے اس قرض کو واپس بھی کر دیں گے جس حد تک قرض ہے.تو بہر حال یہ کام جلد شروع ہو جانا چاہئے اور اس میں اب مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے.کیونکہ اب تک جو سرسری اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق دو تین سونمازیوں کی گنجائش کی مسجد انشاء اللہ خیال ہے کہ 5-6لاکھ یورو (Euro) میں بن جائے گی.یہاں بھی اور جگہوں پر بھی مسجد بنانے کا عزم کیا ہے تو پھر بنائیں انشاء اللہ شروع کریں یہ کام.ارادہ جب کر لیا ہے تو وعدے کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس میں برکت ڈالے گا.جلسے کے دنوں میں جو وزارت انصاف کے شاید ڈائریکٹر جو آئے ہوئے تھے بڑے پڑھے لکھے اور کھلے دل کے آدمی ہیں.مجھے کہنے لگے کہ جماعت کے وسائل کم ہیں.وہ تو دنیا داری کی نظر سے دیکھتے ہیں.کہنے لگے کہ حکومت مسلمان تنظیموں کو بعض سہولتیں دیتی ہے.اب قرطبہ میں بھی انہوں نے مسجد بنائی ہے.تو اس طرح اور سہولتیں ہیں لیکن آپ کو (جماعت احمدیہ کو ) وہ مسلمان اپنے میں شامل نہیں کرنا چاہتے.اس لئے جو حکومت کا مدد دینے کا طریق کار ہے اس سے آپ کو حصہ نہیں ملتا.کیا ایسا نہیں ہو سکتا آپ ان مسلمانوں کی کچھ باتیں مان جائیں اور حکومت سے مالی فائدہ اٹھا لیا کریں.باقی ان کی باتوں میں شامل نہ ہوں.تو میں نے ان کو جواب دیا تھا کہ اگر باقی مسلمان تنظیمیں راضی بھی ہو جائیں تو پھر بھی ہم یہ نہیں کر سکتے.کیونکہ کل کو پھر آپ نے ہی یہ کہنا ہے کہ تمہارا امن پسندی کا دعوئی یونہی ہے، اندر سے تم بھی ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو جو شدت پسند ہیں.اور دوسرے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کر دیئے ہیں کہ ہم باقی مسلمانوں سے الگ ہو کر جو ان کے عمل ہیں ، جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں، اس سے بیچ کر صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی پہچان کر سکیں.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان مہیا فرما دیئے ہیں.پیشگوئی پوری ہو چکی ہے کہ ہماری علیحدہ ایک پہچان ہے تو چند پیسوں

Page 43

خطبات مسرور جلد سوم 36 خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء کے لئے یا تھوڑے سے مفاد کے لئے ہم اللہ کے رسول کی سچی پیشگوئی اور اللہ کے فضلوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں.یہ نہیں ہوسکتا.احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ اور اس کے رسول کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے.ہر احمدی کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کے نام کی بڑی غیرت ہے.اگر حکومت احمدیوں کا حق سمجھ کر ہمیں فائدہ دے سکتی ہے تو ہمیں قبول ہے، ورنہ جماعت احمدیہ میں ہر شخص قربانی کرنا جانتا ہے.وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی مساجد کی تعمیر کے لئے پلاٹ خرید سکتا ہے، رقم مہیا کر سکتا ہے، یا جماعت کے دوسرے اخراجات برداشت کر سکتا ہے.بہر حال ان کا جماعت سے بڑا تعلق ہے.بعض لوگوں سے بڑی ذاتی واقفیت ہے.کہنے لگے کہ میں تو اس بات کو سمجھتا ہوں.لیکن قانون ایسا ہے کہ تمہارا حق بھی دوسری مسلمان تنظیمیں لے رہی ہیں.آپس میں چاہے یہ تنظیمیں لڑتی رہیں لیکن جب فائدہ اٹھانا ہو، مفاد لینا ہو، کچھ مالی فائدہ نظر آتا ہو، یا حکومت سے کسی قسم کی مدد لینی ہو تو یہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.ان کو تو میں نے یہی جواب دیا تھا پھر لینے دیں ہمیں تو اس وجہ سے کچھ فرق نہیں پڑتا.ہم اس سہولت کے لئے اپنا ضمیر اور اپنا ایمان نہیں بیچ سکتے.ان کا بڑا گہرا مطالعہ تھا اور ان باتوں کا وہ پہلے بھی علم رکھتے تھے شاید براہ راست میرا موقف سننا چاہتے تھے اس کے لئے شاید انہوں نے یہ بات چھیڑی ہو گی.تو بہر حال اس چیز نے بھی میرے دل میں اور بھی زیادہ شدت سے یہ احساس پیدا کیا کہ اب ہمیں کسی بڑے شہر میں جلد ہی ایک اور مسجد بنانی چاہئے.مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ ہماری تو فیقوں کو بھی بڑھائے گا.اور جلد ہی ہمیں سپین میں ایک اور مسجد عطا فرمائے گا.پس آپ دعاؤں سے کام لیتے ہوئے اس بات کا عزم کر لیں کہ آپ نے یہ کام کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریں.انشاء اللہ ضرور مدد کرے گا.اللہ کرے،اللہ سب کو توفیق دے.谢谢谢

Page 44

خطبات مسرور جلد سوم 37 مورخہ 21 جنوری 2005ء بروز عیدالاضحی حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اعلان فرمایا: " آج جمعہ بھی ہے.جمعہ کے لئے اعلان ہے آج جمعہ نہیں ہوگا.صرف نماز ظہر ادا کی جائے گی.انشاء الله

Page 45

38 خطبات مسرور جلد سوم

Page 46

خطبات مسرور جلد سوم 39 3 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء فرانس اور سپین کے دورہ کے دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ایمان افروز واقعات اور هیومینیٹی فرسٹ کے تحت کی جانے والی خدمات کا تذکرہ خطبه جمعه فرموده 28 /جنوری 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن.لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 178 ممالک میں جماعت قائم ہے اور احباب جماعت ہر جگہ ، ہر ملک میں اخلاص و وفا میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.ہر ملک کی جماعت کی یہ خواہش ہے کہ خلیفہ وقت کا دورہ ان کے ملک میں ہو.کیونکہ خلیفہ وقت کے دورے سے جماعت میں کام کرنے کی رفتار میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے.ابھی گزشتہ دنوں امیر صاحب نائیجیریا اور ایک اور نائیجیرین دوست آئے ہوئے تھے، انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ خلفاء کے دورے کے بعد ہمیشہ جماعت میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے اور کہنے لگے کہ گزشتہ سال آپ کے دورے کے بعد بھی جماعت میں خاص جوش پایا جاتا ہے.الحمد للہ کہ جماعت اپنے اخلاص و وفا کی وجہ سے جوا سے خلافت سے ہے ان دوروں کی وجہ سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے.لیکن فائدہ تبھی ہے جب ان تبدیلیوں کو مستقل اپنے اندر جاری کر دیا جائے، تبدیلیوں کا اثر مستقل رہے، یہ نہیں کہ کچھ عرصہ بعد آگے

Page 47

خطبات مسرور جلد سوم 40 خطبہ جمعہ 28 /جنوری 2005ء قدم پڑنے کی بجائے وہیں پر کھڑے ہو جائیں، تبدیلیوں کا اثر زائل ہونا شروع ہو جائے.کیونکہ اگر کھڑے ہو گئے تو پھر پیچھے جانے کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے.اس لئے اگر قدم آگے بڑھنے شروع ہوئے ہیں تو یہ اب زندگی کا معمول بن جانا چاہئے ، روز مرہ کا حصہ بن جانا چاہئے.رفتار میں کمی بیشی تو ہو سکتی ہے لیکن قدم رکنے کبھی نہیں چاہئیں.ہر سال تو ہر ملک کے دورے ہو بھی نہیں سکتے کہ آ کر پھر دھکا لگایا جائے اور پھر آپ چلیں.پھر بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں حالات یا مجبوریوں کی وجہ سے دورے نہیں ہو سکتے.اگر سب ممالک دوروں کی انتظار میں رہیں گے تو پھر جس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے اس مقصد کا حصول تو بڑا مشکل ہو جائے گا.مقصد یہی ہے کہ اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اور اس پیغام کو بھی آگے پہنچانا ہے.اب جو اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کی نعمت ہمیں عطا فرمائی ہے اس سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی جو حقیقی تعلیم ہمیں دی ہے وہ خلیفہ وقت کی آواز میں سب تک پہنچ رہی ہے.اس آواز کے پہنچنے میں تو کوئی روک نہیں ہے ، اس کو تو کسی ملک کا ویزا در کار نہیں ہے، اس کو تو کسی ملک کے مُلاں کی مرضی کے مطابق خطبات دینے کی ضرورت نہیں ہے.یہ تو ہوائی لہروں پر ہر گھر میں، ہر شہر میں، اپنی اصلی حالت میں اسی طرح اتر رہی ہے جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتایا.پس جو تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان کو عارضی تبدیلیاں نہ بنائیں بلکہ یہ تبدیلیاں اب زندگی کا حصہ بن جانی چاہئیں.احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو اپنی زندگیوں کا حصہ بھی بنائیں اور اپنے ماحول کو بھی بتا ئیں.ان کو بھی اس نعمت سے فیض اٹھانے کی طرف توجہ دلائیں.یہ نہ ہو کہ احمدیت کا پیغام کسی جگہ نہ پہنچا ہو اور اس جگہ کے رہنے والے یہ شکوہ کریں کہ کیوں یہ پیغام ہمیں نہیں پہنچایا گیا.اللہ تعالیٰ کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ آپ کے پیغام نے دنیا میں پھیلنا ہے اور ضرور پھیلنا ہے انشاء اللہ اور کوئی طاقت اس کو پھیلنے سے نہیں روک سکتی.

Page 48

خطبات مسرور جلد سوم 41 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء آپ فرماتے ہیں: ”میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے.اور جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں، تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں.اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے.اور آسمان پر ایک جوش اور ابال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پتیلی کی طرح اس مشتِ خاک کو کھڑا کر دیا ہے.ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں.کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں؟ کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں ؟“ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحه 403) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فتح تو مقدر ہے.آپ کی تعلیم نے تو دنیا میں پھیلنا ہے.لیکن ہر احمدی کا بھی یہ فرض ہے کہ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے کوشش میں لگ جائے.افریقن ممالک میں خاص طور پر جس طرح پہلے کوشش ہوتی رہی ہے اب پھر وہی کوشش کریں.جیسے پہلے منظم ہو کر احمدیت کا پیغام پہنچایا تھا، اب پھر اس طرف توجہ دیں.پہلے تربیت میں جو کمی رہ گئی تھی ان کمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں اور جلد سے جلد اپنے ملک کے تمام نیک فطرت شہر یوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا غلام بنادیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ آسمان پر ایک جوش اور ابال پیدا ہوا ہے.آسمانی تائیدات لوگوں کے دلوں پر بھی اتر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ مختلف ذریعے سے تنبیہ بھی کر رہا ہے، اس کے نظارے بھی ہم ہر جگہ دیکھ رہے ہیں.اس کے نظارے طوفانوں اور زلزلوں کی صورت میں نظر آ رہے ہیں.ایک خدا کو بھلانے کی وجہ سے انسان انسان کے خلاف جو ظالمانہ حربے استعمال کر رہا ہے وہ اس لئے نظر آ رہے ہیں.ایک ہی ملک کے شہری ظالمانہ طریق پر ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے ہیں، وہ اسی وجہ سے ہے.حیرت کی بات ہے کہ مسلمان کہلانے والے بھی یہی کچھ کر رہے ہیں.

Page 49

خطبات مسرور جلد سوم 42 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء پھر مغرب کے نام نہاد امن کے علمبردار، امن کے نام پر ملکوں کی شہری آبادیوں کو تہس نہیں کر رہے ہیں ، تباہ و برباد کر رہے ہیں.بجائے اس کے کہ اپنے پیسے سے غریب لوگوں کی مدد کریں، ان کی بھوک مٹائیں، اس کی بجائے اس پیسے سے تباہی پھیلا رہے ہیں.تو یہ سب کچھ چاہے وہ قدرتی آفات ہوں یا اللہ تعالیٰ نے دلوں میں سختی پیدا کر دی ہو جس سے انسان اپنی اقدار ہی بھول گیا ہے اور ایک دوسرے کو جانوروں کی طرح نوچنے اور بھنبھوڑنے لگ گیا ہے.یہ سب اس لئے ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو بھول گیا ہے اور زمانے کے امام کو پہچاننے سے انکاری ہے یا خدا کے خوف کی جگہ بندوں کے خوف نے لے لی ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ مجھ سے اور صرف مجھ سے ڈرو.انسان کو اپنا بندہ بنانے کے لئے ، اس کی اصلاح کے لئے ، خدا تعالیٰ ہر زمانے میں اپنے کسی خاص بندے کو مبعوث فرماتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لئے مبعوث فرمایا ہے.یہ دنیا جو خدا کو بھلا بیٹھی ہے اس کو خدا کی طرف لائیں.اور آج یہی پیغام لے کر ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک واحد خدا کی پہچان کروائے.پس اس لحاظ سے ہر احمدی کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے.اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کریں، اپنے آپ کو بھی تقویٰ کے اعلیٰ معیار تک پہنچائیں اور دنیا کو بھی اس حسین تعلیم سے آگاہ کریں.اس انتظار میں نہ رہیں، جہاں جہاں اور جن جن ملکوں میں بھی احمدی ہیں ، کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہوگا تو اس کے بعد ہی ہم نے اپنے اندر تیزی پیدا کرنی ہے.یہ وقت ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آسمان پر بھی جوش ہے.پس آگے بڑھیں اور دنیا میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لئے اللہ کے مددگار بنیں.اور ان برکتوں اور فضلوں سے حصہ لیں جو خدا نے اپنا پیغام پہنچانے والوں کے لئے رکھی ہیں.یہ کام تو ہونا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کا وارث بنانے کے لئے یہ موقع دیا ہے.جیسا کہ میں نے کہا دنیا کی تقریباً سب جماعتوں کی خواہش ہے کہ میرے دورے ہوں تا کہ ان میں تیزی پیدا ہو.وہ تو ہوں گے انشاء اللہ اور ہو بھی رہے ہیں لیکن اپنے اس کام کو بھی ہر جماعت کو جاری رکھنا چاہئے.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان دوروں کی وجہ سے جماعت کو جو خلافت سے

Page 50

خطبات مسرور جلد سوم 43 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء تعلق ہے اس میں تیزی پیدا ہو بھی جاتی ہے.لیکن ہم اس انتظار میں بیٹھ بھی نہیں سکتے کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہوگا تو کام ہوگا.وہ براہ راست ہم سے مخاطب ہوگا تو کام ہو گا.کام بہر حال ہوتے رہنے چاہئیں.جہاں تک میرے دوروں کا تعلق ہے، گزشتہ سال میں بھی جس حد تک ممکن تھا دورے کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور جماعت کے مخلصین کی دعاؤں کی قبولیت کے نظارے بھی دیکھے، جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ آپ کی جماعت نے غالب آنا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ ہمیں موقع دے کر ان فضلوں کا وارث بنا رہا ہے.اب گزشتہ دنوں جو میں نے دورہ کیا ہے اس کا بھی تھوڑا سا حال بیان کر دیتا ہوں.فرانس اور سپین کے دوروں اور جلسوں میں شمولیت کی توفیق ملی ، وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی تائید و نصرت کے بے شمار نظارے دیکھے.اگر کوئی یہ کہے کہ اس میں ہماری کسی کوشش یا ہوشیاری یا چالا کی کا دخل ہے تو وہ غلط بیانی سے کام لینے والا ہے، وہ جھوٹ بولنے والا ہے.فرانس کے جلسے میں ، فرانس کی جماعت کو بھی امید نہیں تھی جس طرح وہاں کے سر برا ہوں ، صدر اور وزیر اعظم نے اور دوسرے وزیروں نے پیغام بھجوائے ، اس میں کسی انسانی کوشش کا دخل نہیں تھا.خاص طور پر ان حالات میں جب ہر جگہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف ایک فضا قائم ہوئی ہوئی ہے.اور پھر وہاں چند دن پہلے ہی وزارت داخلہ نے امیر صاحب فرانس کو بلا کر سوال جواب کئے.وہ کہتے ہیں کئی آدمیوں کا پینل تھا اور اس طرح وہ جماعت اور اسلام کے بارے میں تابڑ تو ڑ اور سخت لہجے میں بات کر رہے تھے اور امیر صاحب سے سوال کر رہے تھے کہ کہتے ہیں کہ مجھے خیال ہوا کہ یہ ہمارے جلسے میں بھی روک ڈالیں گے.پھر جس علاقے میں ہمارا مشن ہاؤس ہے اور جہاں جلسہ ہوا ، وہ بھی ایسے لوگوں کا علاقہ ہے جن کو مذہب سے کم ہی تعلق ہے اور مسلمانوں کے خلاف تو خاص طور پر ان جگہوں پر فضا قائم ہوئی ہوئی ہے.اور اس جگہ بھی انتظامیہ کو یہ خطرہ تھا کہ جلسے میں کہیں روک ڈالنے کی کوشش نہ ہو، علاقے کے لوگ کوئی اعتراض نہ اٹھانے شروع کر دیں.

Page 51

خطبات مسرور جلد سوم 44 خطبہ جمعہ 28 /جنوری 2005ء پھر اس علاقے کے میئر بھی لمبا عرصہ ہمارے خلاف رہے ہیں اور چند سال پہلے مشن ہاؤس اور مسجد کو بھی میئر نے خود آ کے رسیل (Seal) کر دیا تھا.اور نہ صرف مسجد کو سیل (Seal) کر دیا تھا بلکہ جوتوں سمیت مسجد کے اندر چلے گئے تھے.اور پھر ہمارے وہاں کے لوگوں کو بھی سخت برا بھلا کہا، جماعت کو بھی سخت برا بھلا کہا.اس کی طرف سے بھی فکر تھی تو جماعت نے اس کو بھی جلسے پر آنے کی دعوت دی تھی اور ان کا خیال ہے کہ وزارت داخلہ نے بھی ان کو کہا تھا کہ نمائندگی کریں اور جلسہ اٹینڈ کریں.تو بہر حال میئر نے آنے کی حامی تو بھر لی تھی کہ آؤں گا لیکن صرف چند منٹ کے لئے.لیکن پھر چند منٹ کی بجائے پورا وقت جو میری تقریر کا آخری سیشن تھا اس کے خاتمے تک بیٹھے رہے.اور پھر یہ کہ کجاوہ وقت تھا کہ مسجد میں میئر صاحب جوتوں سمیت آئے تھے اور کجا یہ کہ سٹیج پر آنے سے پہلے جوتے اتار رہے تھے.اور پھر اپنا پیغام بھی دیا.میری جلسے کی تقریر کا فریج میں ترجمہ ہو رہا تھا وہ بھی سنا اور جاتے ہوئے امیر صاحب کو کہہ گئے کہ اس تقریر کو کھوا کر مجھے دو میں وزیر داخلہ کو دوں گا.اسلام کا یہ پہلو تو پہلی دفعہ سننے اور دیکھنے میں آیا ہے.بلکہ یہاں تک کہا کہ اب میں تمہارے ہر کام میں تمہاری مدد کے لئے تمہارے ساتھ چلوں گا.تو یہ تبدیلیاں، یہ دلوں کو پھیرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے.پھر اس بات سے بھی بڑے متاثر تھے کہ ایم ٹی اے کے ذریعے سے قادیان والے یہاں کے نظارے دیکھ رہے ہیں اور ہم لوگ وہاں بیٹھے قادیان کے نظارے دیکھ رہے تھے.تو یہ بھی جماعت کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ہزاروں میل کی دوری کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے جلسوں سے فیض اٹھا رہے تھے.تو یہ ہے وحدانیت جس کو قائم کرنے کے لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا کہ ہر جگہ سے ایک طرح ، ایک خدا کا نام بلند ہو.تو جہاں دینی فوائد اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے اور ان دوروں سے ہوتے ہیں.جماعت کی تربیت کے سامان پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ خود بخود ایسے بھی سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ غیروں پر بھی اسلام کی خوبیوں کا اثر قائم ہو جاتا ہے.یہ سب اثر اور رعب اللہ تعالیٰ کی نصرت سے قائم ہوتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وعدہ فرمایا تھا.نُصِرْتُ بِالرُّغب

Page 52

خطبات مسرور جلد سوم 45 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء کا آپ کا الہام بھی ہے.فرانس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرا کو، الجزائر اور بعض دوسرے چھوٹے ملکوں کے لوگ بھی احمدی ہو رہے ہیں.اس معاملے میں بھی فرانس کی جماعت ما شاء اللہ کافی فعال ہے، اچھا کام کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو سنبھالنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.ایک لمبے عرصے کے بعد اب وہاں مشنری کی بھی تعیناتی ہوگئی ہے، ان کو مبلغ بھی مل گئے ہیں.امید ہے کہ اب مزید اس سے بہتر نتائج پیدا ہوں گے.اور پچھلے سال بھی جب میں گیا تھا، وہاں دستی بیعتیں ہوئی تھیں.اس سال بھی ہوئیں.اور اس دفعہ تو سوئٹزر لینڈ سے بھی تین چار احباب جنہوں نے گزشتہ سال سوئٹزر لینڈ کا جلسہ سنا تھا، ان میں سے کچھ لوگ آئے تھے پھر بیعت کرنے کے لئے آ گئے.تو اس طرح فرانس میں دودن بیعت ہوئی.مرا کو اور الجزائر کی جو عورتیں ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کرنے کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے اور پڑھی لکھی لڑکیوں میں مذہبی رجحان ہے اور بڑے اخلاص و وفا کے ساتھ عہد بیعت کو نبھا رہی ہیں.بلکہ سختیاں برداشت کرنے کے باوجود اپنے خاندان والوں کو بھی تبلیغ کر رہی ہیں، اپنے گھر والوں کو بھی تبلیغ کر رہی ہیں.اور بڑے درد کے ساتھ اس بات کا احساس رکھتی ہیں اور دعا کے لئے کہتی ہیں کہ ہمارے گھر والے بھی احمدیت قبول کر کے اپنی عاقبت سنوارنے والے بن جائیں.کئی عورتوں اور لڑکیوں نے جو پڑھی لکھی ہیں، یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں، ہچکیوں سے روتے ہوئے مجھے کہا کہ دعا کریں ہماری مائیں، ہمارے باپ، ہمارے بھائی ، احمدی ہو جائیں.تو ایک دو کو تو میں نے کہا کہ اپنی ماؤں کو جو ذرا سا نرم گوشہ رکھتی تھیں، کسی نہ کسی طرح جلسے پر لے آؤ، چنانچہ اگلے دن وہ لے بھی آئیں.تو ان ماؤں سے اس کے بعد ملاقات بھی تھی.تین چارلڑکیوں کی وہ مائیں تھیں.جب ان کی غیر احمدی مائیں آئیں، مسلمان تھیں، تو میں نے ان سے پوچھا کہ تمہاری بیٹیاں احمدی ہیں اور تم لوگ صرف اس وجہ سے ان پر سختیاں کر رہے ہو کہ وہ احمدی کیوں ہیں.آج تم نے ہمارا یہ جلسہ سنا ہے، مجھے بتاؤ کہ تمہیں یہاں کیا چیز ایسی گی ہے جو اسلامی تعلیم کے خلاف ہو.کہنے لگیں کچھ نہیں بلکہ یہاں ہر چیز

Page 53

خطبات مسرور جلد سوم 46 خطبہ جمعہ 28 /جنوری 2005ء عین اسلام کے مطابق ہے.تو میں نے ان کو بتایا کہ یہ تو ہماری تعلیم کا حصہ ہے یہ تم نے دیکھ لیا سن لیا، تم اب اپنی بیٹی کو بھی جانتی ہو ، یقینا اس کی دینی حالت کا احمدیت قبول کرنے سے پہلے کا بھی تمہیں علم ہوگا اور اب کا بھی ہے.پھر تمہارے دوسرے بچے بھی ہیں جو مسلمان ہیں ، تم بتاؤ کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد تمہاری بیٹی کی دینی حالت اچھی ہوئی ہے یا اور خراب ہوئی ہے.کہنے لگیں ( وہ تین عورتیں تھیں) کہ ہمارے بچے جو احمدی ہوئے ہیں باقی بچوں کی نسبت گھر میں اسلام کی عملی تصویر کا یہی نمونہ ہیں.میں نے ان کو کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر تم ان پر سختیاں کیوں کر رہی ہو.ان اچھوں میں تو تم لوگوں کو بھی شامل ہونا چاہیئے اور اپنے خاندان کو بھی شامل کرنا چاہئے.تو بہر حال ان کے دل کافی نرم ہو گئے.کچھ نے کہا ہم سوچیں گے احمدی ہونے کے بارے میں.ایک عورت نے تو وہیں کہا کہ میں بیعت کروں گی.تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چھوٹی سی باتوں سے بعض دفعہ دلوں کو بدل دیتا ہے.ان لوگوں میں شرافت ہے، ہمارے بعض لوگوں اور مولویوں کی طرح بزدل اور ڈھیٹ نہیں ہیں کہ مولوی کا خوف زیادہ ہو اور اللہ کا خوف کم ہو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ جانے سے پہلے اکثر کے رویے بالکل نرم ہو چکے تھے.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ احمدی ہوتی ہیں، لیکن بہر حال یہ وعدہ کر کے گئیں کہ اب ہم اپنے احمدی بچوں سے نرم سلوک کریں گے نرمی کا سلوک کریں گے.اللہ تعالیٰ ان سب بیعت کرنے والوں کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے.پھر پین کا دورہ تھا.پین بھی گو یورپ کا حصہ ہے لیکن مجھے تو یورپ سے بالکل مختلف لگا.جو لوگ بھی سپین جاچکے ہیں.اکثر کی یہ رائے ہے ، وہاں جا کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ یہ ملک جہاں چھ سات سو سال پہلے تک مسلمانوں کی حکومت تھی ، جہاں خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے ایک شہر میں کئی سو مساجد تھیں، جہاں سے پانچ وقت أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ کی آواز میں گونجتی تھیں اور اب یہ مساجد یا تو گرا دی گئی ہیں اور جو زیادہ بڑی تھیں، اچھی تھیں، ان کو چرچ میں تبدیل کر دیا گیا ہے.تو بہر حال یہاں بھی جا کے عجیب کیفیت ہوتی ہے.جلسہ سے پہلے ایک دن ہم قرطبہ کی مسجد دیکھنے کے لئے گئے یہاں مسجد کے

Page 54

خطبات مسرور جلد سوم 47 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء عین درمیان میں اب عیسائیوں نے ایک چرچ بنا دیا ہے، پرانا بنایا ہوا ہے.لیکن باقی مسجد کا حصہ محفوظ ہے، محراب وغیرہ.اس طرف کسی کو جانے تو نہیں دیتے لیکن بہر حال انہوں نے دکھایا.یہاں جو چرچ ہے اس کی وجہ سے وہاں بشپ کے نمائندے نے استقبال کیا، ہمیں ریسیو (Receive) کیا.اور ان کا نیچے بیسمنٹ (Basement) میں ایک کانفرنس روم، کافی بڑا تھا اس میں وہ لے گیا.میں نے کہا ہم نے تو مسجد دیکھنی ہے وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے.لیکن شاید اس کو یہی ہدایت تھی.بہر حال وہاں لے جا کر انہوں نے ہمیں با قاعدہ بٹھایا جس طرح کوئی کانفرنس ہوتی ہے.اور وہاں فارمل و یکم (Formal Welcome) کیا ، خوش آمدید کہا اور جماعت کا بھی جتنا اس پادری کو تعارف تھا اس نے اچھے الفاظ میں اس کا ذکر کیا.پھر اس کے بعد میں نے بھی چند الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ آپس میں مل جل کر رہنے اور امن قائم کرنے کے لئے ہمیں اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کرنی ہو گی ، ایک خدا کی طرف آنا ہو گا.بہر حال اس نے سب باتیں سنیں بلکہ وہ تو یہاں تک تیار تھا کہ اگر وقت ہو تو میں سارے شہر کے پادریوں کو اکٹھا کرلوں اور انہیں بھی آپ ایڈریس کریں.کیونکہ پہلے پروگرام نہیں تھا اس لئے یہ تو نہ ہو سکا.اب وہاں کے جو مبلغین ہیں انہیں چاہئے کہ ان لوگوں سے رابطہ رکھیں.پھر اشبیلیہ جسے اب سپینش میں سویہ (Sevilla) کہتے ہیں.وہاں گئے.یہاں بھی جو پہلے ایک مسجد تھی اس کو بھی اب چرچ میں بدل دیا گیا ہے اور ساتھ محل ہے.عبدالرحمان اول کے زمانے کا بنا ہوا محل ہے یہاں بھی استقبال ہوا.مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ یہاں استقبال ہوگا.لیکن بہر حال پادری صاحب نے استقبال کیا اور اپنا تحفہ بھی دیا.میں نے بھی ان کو لٹریچر دیا، اسلامی اصول کی فلاسفی اور دوسری چیزیں.ایک قرآن کریم بھی دیا تھا.تو بہر حال استقبال کے بعد ہم نے مسجد بھی دیکھی، جیسا کہ میں نے کہا اسے اب چرچ میں بدل دیا گیا ہے.یہ پتہ نہیں کہ ان پادریوں کا، اللہ بہتر جانتا ہے کہ جماعت کو احترام دینے کی کیا وجہ ہے؟ کیوں توجہ پیدا ہوئی ہے.چند دن ہوئے یہاں بیت الفتوح میں امن کا نفرنس ہوئی تھی ، یہاں بہت سارے لوگ آئے ہوئے تھے.مختلف مذاہب کے لوگ ہمبر ز آف پارلیمنٹ اور بعض پادری بھی تھے.تو مجھے

Page 55

خطبات مسرور جلد سوم 48 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء کسی نے بتایا کہ یہاں ایک پادری بھی آیا ہوا تھا اس نے کہا کہ ہم تمہارے یہاں صرف اس لئے آ جاتے ہیں کہ تم جو کہتے ہوا سے کر کے دکھانے کی تمہارے پاس 100 سال سے زائد کی تاریخ ہے.تمہاری تعلیم اور عمل ایک ہے.شاید اس بات نے دنیا کو متوجہ کرنا شروع کیا ہے.یا بہر حال جو بھی وجہ ہو، جہاں تک جماعت کی حفاظت کا سوال ہے وہ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا ہوا ہے، وہ تو انشاء اللہ ہوتی رہے گی.تو اس لحاظ سے تو کوئی فکر نہیں کہ کیوں توجہ پیدا ہو رہی ہے.نیک نیتی سے اگر توجہ ہوگی تو اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا اور اگر کوئی بدنیتی ہوگی تو اللہ تعالیٰ خود حفاظت کا انتظام فرمائے گا.بہر حال یہاں جو میں نے مسجد کا ذکر کیا.مسجد کا مینار بھی ہے جو کئی 100 فٹ اونچا ہے.سارے شہر میں یہ سب سے اونچی عمارت ہے.یہ کافی چوڑا ہے.اس مینار کی چوٹی پہ جا کے چرچ میں جس طرح گھنٹیاں لگانے کا رواج ہے وہ لگی ہوئی ہیں.اور سیڑھیوں کی بجائے اوپر جانے کے لئے کھلی جگہ ہے اور ریمپ (Ramp) بنائے ہوئے ہیں.اس میں چل کے جانا آسان رہتا ہے اور کافی چوڑا رستہ ہے.گائیڈ کے بقول کہ بادشاہ گھوڑوں پہ جایا کرتا تھا اس لئے اس نے سیٹرھیاں نہیں بنائیں.پھر اس مینار کے اوپر سے اذان دی جاتی تھی.اور اس کی آواز بھی یقیناً سارے شہر میں گونجتی ہوگی.اور آج چرچ کی گھنٹیاں بجتی ہیں.اس کو دیکھ کر بھی دل کہتا ہے کہ مسلمانوں نے کس طرح اپنی عظمت کو برباد کیا.اللہ واحد کے نام پر بنائی گئی عمارتوں کو شرک کی جھولی میں کس طرح ڈال دیا.آج احمدیوں کا کام ہے کہ اس عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کریں.لیکن پیار اور محبت اور دعاؤں سے.اس مسجد کے ساتھ بادشاہ کا محل بھی ہے اور یہ حل جو ہے اب تک جو میں نے پسین میں عمارتیں دیکھی ہیں، غرناطہ میں بھی الحمراء کا محل بھی دیکھا تھا، اس کی نسبت گو یہ چھوٹا ہے لیکن تقریباً تمام سنبھالا ہوا ہے.بلکہ اس کا ایک حصہ ابھی بھی سپین کے بادشاہ کی رہائش کے لئے استعمال ہوتا ہے، جب وہ اس شہر میں (اشبیلیہ میں ) آئے.تو اس محل میں بھی جگہ جگہ جس طرح اس زمانے میں کیلیگرافی کا رواج تھا قرآنی آیات اور کلمہ، الْقُدْرَةُ لِلهِ، الْعِزَّةُ لِله وغیرہ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں.یہاں کلمہ دیکھ کر یہ بھی احساس پیدا ہوتا ہے کہ ان عیسائیوں نے تو اپنی تمام تر

Page 56

خطبات مسرور جلد سوم 49 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء دشمنی اور طاقت کے باوجود گزشتہ چھ سو ، سات سو سال سے یہ عمل ان کے قبضے میں ہے اور اس پر لکھے ہوئے کلمہ کو انہوں نے محفوظ رکھا ہے.لیکن ہمارے ملک کے بدنصیب ملاں احمدیت کی دشمنی میں کلمہ گوئی کا دعوی کرنے کے باوجود، کلمہ مثانے کی کوشش میں ہے.میں ان کو کہتا ہوں اے پاکستانی مولویو! کچھ تو ہوش کرو، کچھ تو خدا کا خوف کرو، اللہ سے ڈرو اور ان حرکتوں سے باز آؤ کہیں یہ کلمہ تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے تمہیں ہی نہ مٹا دے.اللہ بھی اپنی سنت کے مطابق ایک حد تک ڈھیل دیتا ہے.کہیں یہ نہ ہو کہ وہ وقت اب قریب ہو، اگر اب بھی تم نے اپنے آپ کو نہ بدلا تو یقیناً مٹ جاؤ گے.پس اللہ سے رحم مانگو، اللہ سے رحم مانگو اور اپنی اصلاح کرلو.جلسہ سپین بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا کامیاب رہا.پہلی دفعہ اس طرح سر براہ حکومت کے پیغام وغیرہ ملے ، حکومت کے نمائندے آئے ، وزارت انصاف کے ڈائر یکٹر وغیرہ ، ان کے بڑے اچھے تاثرات تھے.ایک عیسائی سپینش مجھے ملے ، وہ کتابیں لکھتے ہیں انہوں نے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے بڑے اچھے الفاظ میں احمدیت کا ذکر کیا ہوا ہے.کہنے لگے میں بھی آدھا احمدی ہوں، تو میں نے کہا پھر پورے کیوں نہیں ہو جاتے ، کہ ابھی وقت نہیں ہے ان رو کو بھی کچھ خوف تھا.پھر اس طرح اور بعض عیسائی خاندان آئے ہوئے تھے ملے ، ایکواڈور کی و تین فیملیاں تھیں، وہ قرطبہ سے جلسے پر آئے ہوئے تھے کسی احمدی کے واقف تھے، ان میں سے ایک بڑی پڑھی لکھی خاتون کہنے لگیں کہ آپ نے اس چھوٹی سی جگہ پر مسجد بنائی ہے یہاں کون آتا ہو گا اور پھر آپ سارے پین میں کس طرح پھیلیں گے.بڑے شہروں میں بنائیں تا کہ تعارف زیادہ ہو.میری آخری تقریر سننے کے بعد مجھے ملی تھیں.میں نے انہیں یہی کہا کہ آج کی تقریر میں میں ذکر کر چکا ہوں کہ یہ ایک مسجد کی عاجزانہ ابتدا تھی اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم اور بھی بنا ئیں گے اور انشاء اللہ اسلام کو سب سپین میں دوبارہ جائیں گے.پھر مقامی سپینش بھی بہت سارے جلسے میں شامل ہوئے اور کافی متاثر تھے.بہر حال ان باتوں کو دیکھتے ہوئے مجھے تحریک ہوئی کہ اب پین میں مسجدوں کی تعمیر ہونی چاہئے جس کی میں نے وہاں ایک خطبے میں تحریک بھی کی تھی.اور امیر

Page 57

خطبات مسرور جلد سوم 50 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء صاحب کا بھی ذکر کیا تھا کہ بڑے پریشان تھے.تو یا تو انہوں نے بڑے ڈرتے ڈرتے جس رقم کا مجھے بتایا تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ اتنی رقم اکٹھی کر سکتے ہیں یا پھر یہ حالت تھی خطبے کے بعد، جمعہ کو میں نے خطبہ دیا اور ہفتے کو میری واپسی تھی تو اس ایک رات کے دوران میں ہی ان کے اس خوفزدہ وعدے کی نسبت سے ڈیوڑھے سے زیادہ وعدہ اکٹھا ہو چکا تھا اور ادائیگیاں بھی ہو رہی تھیں.اور مجھے امید ہے اب تک دو گنے سے زیادہ رقم انہوں نے اکٹھی کر لی ہوگی، جو ان کا اپنا اندازہ تھا.اسی طرح دنیا بھر کے احمدیوں نے بھی بڑے فراخدلانہ وعدے پیش کئے ہیں اور ادائیگیاں کی ہیں.اور اب میرا خیال ہے.میں نے وہاں ذکر کیا تھا کہ ایک چھوٹا پلاٹ خریدا جائے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے کچھ بڑا پلاٹ خریدنے کی کوشش کی جائے.اللہ تعالیٰ مدد فرمائے.سپین کے ضمن میں ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یورپ کے بہت سے احمدی سیر کرنے بھی پین جاتے ہیں.یا مختلف جگہوں پر جاتے ہیں.اگر ادھر ادھر جانے کی بجائے چین کی طرف رخ کریں تو زیادہ بہتر ہوگا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ تحریک فرمائی تھی کہ سپین میں وقف عارضی کے لئے جائیں.سیر بھی ہو جائے گی اور اللہ کا پیغام پہنچانے کا ثواب بھی مل جائے گا.تو اس طرف میں احمدیوں کو دوبارہ متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے ملکوں کے امراء کے ذریعے سے جو اس طرح وقف عارضی کر کے سپین جانا چاہتے ہوں ،امراء کی وساطت سے وکالت تبشیر میں اپنے نام بھجوائیں.اسی طرح حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے سپین کے جو ٹورسٹ (Tourist) باہر جاتے ہیں مختلف ممالک میں اور ایشیا، پاکستان وغیرہ میں بھی جاتے ہیں.ان سے رابطے کے لئے بھی ایک منصو بہ بنایا تھا کہ اگر ان کو اپنے گھروں میں مہمان ٹھہرایا جائے ، جن جن شہروں میں وہ جاتے ہیں یا ملکوں میں تو اس سے بھی ایک تعارف حاصل ہوگا.لیکن یہ منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوا اس کا ابھی مجھے جائزہ لینا ہے، تفصیلات دیکھنی ہیں.ضرورت ہوئی تو جائزہ لینے کے بعد پھر جماعت کو بتاؤں گا ، توجہ دلاؤں گا.اس میں یہ بھی تھا کہ اچھے ٹورسٹ کی معلومات لی جائیں اور یہ معلومات

Page 58

خطبات مسرور جلد سوم 51 خطبہ جمعہ 28 /جنوری 2005ء لینے کے لئے سپین کی جماعت نے بھی کافی کردار ادا کرنا تھا.اس لئے بہر حال اس کی عملی صورت کا جائزہ لینا ہوگا.سپین کے دورے کے دوران ایک یہ بھی فائدہ ہوا کہ پرتگال سے، جو ساتھ ہی وہاں ملک ہے، جماعت کے احباب جلسے پر آئے ہوئے تھے.ان کی عاملہ بھی تھی ان سے میٹنگ ہو گئی.ابھی تک وہاں بھی مسجد نہیں ہے.اور مسجد نہ ہونے کی وجہ سے نو مبائعین کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ اکثر افریقن اور عرب ملکوں کے مسلمانوں میں سے احمدیت میں داخل ہورہے ہیں.وہ مسجد نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہو جاتے ہیں.تو وہاں بھی میں نے ان کو کہا ہے کہ جلد از جلد مسجد بنائیں اور وہاں اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت پیدا کر دی ہے، مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس میں کامیابی ہوگی کہ وہیں سے مسجد کے اخراجات کے سامان بھی مہیا ہو جائیں گے.ایک پرانا گھر ہے جس کو بیچ کے نئی جگہ خریدی جاسکتی ہے اور تعمیر بھی ہوسکتی ہے.اور اگر تھوڑا بہت کچھ ضرورت ہوئی تو انشاء اللہ مرکز سے پوری ہو جائے گی.دعا کریں اللہ تعالیٰ ان تمام منصوبوں میں برکت ڈالے.اب یورپ کے ہر ملک میں اور ہر شہر میں ہمیں مسجد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.انشاء اللہ تعالیٰ یہ کام تو ہونے ہیں.دعا یہ کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے اور ہم ان ترقیات کو پورا ہوتا ہوا دیکھیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: ” دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہو گا.یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں، یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں“.(تحفہ گولڑویه ـ روحانی خزائن جلد 17صفحه 182) اب میں مختصراً جماعتی خدمات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو گزشتہ ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ملکوں میں زلزلہ آیا تھا ان کے بارے میں.یہ جو آفت زدہ لوگوں کی خدمت ہے اور جو مخلوق سے

Page 59

خطبات مسرور جلد سوم 52 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء ہمدردی ہے، یہ سنت نبوی ہے اور اس کا ہمیں حکم ہے کہ کمزوروں کی مدد کی جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پہلی وحی ہوئی تھی اور آپ پر بڑے خوف کی حالت طاری تھی ، اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے جو باتیں کہی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ لوگوں پر آنے والی اچانک آفات میں ان کی مدد کرتے ہیں.اس لئے کس طرح ہو سکتا ہے خدا آپ کو رسوا کرے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ سخت دلوں میں اگر نرمی پیدا کرنی ہے تو اس کا نسخہ یہ ہے مساکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ : "حقیقی نیکی کرنے والوں کی یہ خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لئے وہ کھانے جو آپ پسند کرتے ہیں مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور اس کے منہ کے لئے یہ خدمت ہے.ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا شکر کرتے پھرو.یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ایصال خیر کی تیسری قسم جو محض ہمدردی کے جوش سے ہے وہ طریق بجا لاتے ہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 357) پس اس ہمدردی کے جوش کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے افراد نے مختلف ممالک میں ، ان ملکوں میں جہاں یہ طوفان اور زلزلہ آیا تھا، مختلف طریقوں سے آفت زدہ لوگوں کی مدد کی ہے اور کر بھی رہی ہے.اس کی مختصر تفصیل یہ ہے.بعض لوگوں کی خواہش ہے کہ ہمیں بھی بتایا جائے اور علم ہونا بھی چاہئے.جیسا کہ ساروں کو علم ہے کہ تقریباً اڑھائی لاکھ افراد اب تک کہتے ہیں جاں بحق ہوئے ہیں ، شاید اس سے زیادہ بھی ہو جائیں.تو ہیومینٹی فرسٹ جو جماعتی ادارہ ہے خدمت خلق کا اس کے تحت مختلف ملکوں میں ذمہ واری سونپی گئی تھی.اس کے تحت جماعت جرمنی نے اور بھارت نے ملک کر ہندوستان میں یہ خدمت خلق کی کارروائی کی اور علاج معالجے کی وہاں سہولتیں بہم پہنچا

Page 60

خطبات مسرور جلد سوم 53 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء رہے ہیں.ساڑھے چار ہزار کے قریب مریضوں کا علاج ہو چکا ہے اور تقریباً ساڑھے تین ہزار ایسے لوگ جن کو کھانے پینے کی ضرورت تھی ان کو خوراک مہیا ہوتی ہے اور ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First) کے ذریعے سے تقریباً سات لاکھ اور کچھ یو.کے کی جماعت نے دیا.تو آٹھ لاکھ ڈالر سے اوپر.ان کا خیال ہے کہ ہم کم از کم ایک ملین ڈالر پیش کریں ، اس خدمت خلق کے لئے خرچ کریں.اس کے علاوہ دنیا کی جماعتوں میں بھی ہر ملک میں اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے وہاں کے ان ملکوں کے سفارت خانوں میں مدد کے چیک جماعت کی طرف سے دیئے ہیں.گو نقصان کی نسبت ہماری جو رقم ہے وہ بہت تھوڑی ہے اور اس طرح با وجود خواہش ہونے کے ہم ہر ایک کی خدمت کر بھی نہیں سکتے.لیکن مستقل مزاجی سے کر رہے ہیں اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے.یہاں سے سری لنکا بھی ڈاکٹروں کا وفد بھجوایا گیا تھا.اس کی بھی آپ نے رپورٹ سن لی ہوگی اور یہ بھی روزانہ خدمت کرتے رہے.پھر کچھ مچھیرے تھے جن کی کشتیاں تباہ ہو گئی تھیں.ان کشتیوں کی مرمت کی.پھر انڈونیشیا میں امریکہ اور یو کے، دونوں اس خدمت کا فرض سرانجام دے رہے ہیں.اور یہاں ایک جگہ Lamno سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے.اور یہاں اتنی اونچی لہریں آئی ہیں کہ تین تین منزلہ مکانوں کی چھتوں پر کشتیاں اور جہاز جا کے کھڑے ہو گئے.اور میل ہا میل تک سمندری لہروں نے انسانی آبادی کا نام و نشان مٹا دیا.صرف جماعت احمدیہ ہے جس نے یہاں متاثرین کے لئے خوراک کی صورت مہیا کی ہے.اور کوئی بھی تنظیم یہاں تک ابھی خدمت کے لئے نہیں پہنچی.پھر Lambaro میں یہاں بھی آٹھ سو سے ہزار افراد تک بچے ہوئے لوگوں کی روزانہ خدمت چالیس خدام کر رہے ہیں.تین وقت کا کھانا ان کو مہیا ہوتا ہے.اب انڈو نیشیا کی جماعت کا پلان یہ بھی ہے، ان کو اس بات کی اجازت بھی دے دی ہے کہ آئندہ دو ماہ تک جب تک وہ سیٹل نہیں ہو جاتے وہاں ان لوگوں کے لئے جو بچے ہیں خوراک کا انتظام ہوتا رہے.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس آبادی میں دوسرے تمام ادارے ہیومینٹی فرسٹ کے تحت کام کر رہے ہیں.امریکہ نے وہاں پچاس واٹر پمپ لگانے کا وعدہ کیا ہے کیونکہ وہاں

Page 61

خطبات مسرور جلد سوم 54 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء پینے کے پانی کی قلت ہے.انڈونیشیا، یو کے اور امریکہ سے 24 ڈاکٹر ، 6 ہو میو پیتھی ڈاکٹر ، اور 6دوسرے افراد پرمشتمل عملہ اور 74 خدام یہاں کام کر رہے ہیں اور پہلے تو کافی تعداد میں مریض دیکھے تھے.اب روزانہ 100 ، 150 مریض یہ لوگ دیکھ رہے ہیں.انڈونیشیا نے ہندوستان اور پاکستان سے جو مدد آئی تھی، یہاں تقریباً اڑھائی اڑھائی سو فوجی تھے یہاں.وہاں انڈونیشیا کی حکومت ہیومینٹی فرسٹ کے کام سے اس طرح متاثر ہوئی ہے، بلکہ یہ لوگ خود بھی کہ وہ ان کے ساتھ مل کے کام کر رہے ہیں بلکہ پاکستانیوں نے یہ بھی درخواست کی ہے کہ جب ہم فروری میں چلے جائیں گے تو صرف آپ ہی ہمارے ملٹری ہسپتال کو سنبھالیں.لیکن یہ بات اگر ملاں کو پہنچ گئی تو بڑا سخت اعتراض ہوگا.پھر یتامی کی پرورش کا بہت سارے لوگوں نے مجھے لکھا تھا کہ وہاں بڑے بچے یتیم ہوئے ہوں گے اور ہورہے ہیں اور سنا ہے کہ عیسائی چر چوں نے وہاں جا کے بچے لینے شروع کر دیئے ہیں یہ تو عیسائی بن جائیں گے.مسلمان بچوں کو مسلمان رہنا چاہئے.اس لئے ہم اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ، ہم اتنے بچے سنبھالیں گے ، اتنے بچے سنبھالیں گے.تو اس کے لئے میں نے پتہ کروایا تھا.اب تک کی جور پورٹ ہے اس کے مطابق پہلی بات تو یہ ہے کہ وہاں کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یتامیٰ کی نگہداشت کے لئے ان کو دوسروں کے سپر دنہیں کرنا.کیونکہ بوسنیا اور البانیہ وغیرہ کا ان کو تجربہ ہے اسی حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ مسلمان بچے کہیں عیسائی نہ ہو جائیں اس لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے.لیکن بہر حال یہ فیصلہ اب تک ہے کہ وہاں جو 200 یتیم بچے ہیں ان کو جماعت سنبھالے گی اپنے وسائل کے لحاظ سے.ابھی میں ویسے پتہ کروارہا ہوں.مزید ان کو کہا ہے کریں کہ اگر یہ ان کو یقین ہو جائے کہ مسلمان گھروں میں ہی بچے جائیں گے تو پھر وہ دینے کے لئے تیار ہیں کہ نہیں.اسی طرح انڈونیشیا کے سفارتخانے نے ہیومینٹی فرسٹ سے درخواست کی کہ ہمیں بہت سی امدادل رہی ہے لیکن ہماری خواہش یہ ہے کہ آپ جس طرح افریقہ میں غریبوں کی امداد کرتے ہیں اسی طرح ہماری بھی مدد کریں.تو اس پروگرام کے تحت انڈو نیشین سفارتخانے نے یہاں مقیم

Page 62

خطبات مسرور جلد سوم 55 خطبہ جمعہ 28 /جنوری 2005ء انڈونیشین باشندوں اور دوسرے مسلمانوں، سب کو یہی ہدایت کی ہے کہ وہ جماعت یو کے سے رابطہ کریں.اس پر بعض لوگوں نے اعتراض بھی کیا ہے؟ یہاں اعتراض تو فوراً آ جاتا ہے نا کہ آپ احمدیوں سے مدد لے رہے ہیں یہ تو غیر مسلم ہیں.جس پر سفارتخانے نے بڑے تعجب کا اظہار کیا ہے کہ وہاں لوگوں کو جان کی پڑی ہوئی ہے، بھو کے مر رہے ہیں اور یہاں اس حالت میں بھی مسلم اور غیر مسلم کا جھگڑا شروع کیا ہوا ہے.یہ ملاں جو ہے یہ کبھی ہمدردی خلق نہیں چاہتا، یہ صرف فتنہ اور فتنہ اور فتنہ اور فساد، اس کے علاوہ ان کا اور کچھ نقطہ نظر نہیں ہے.اور اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے چالیس فٹ لمبائی کے 13 کنٹینر کی اس جماعت کے ذریعہ سے امداد جا چکی ہے تقریباً 2 لاکھ 45 ہزار کلو وزن کی یہ امداد تھی.جس میں 78 ہزار کھانے پینے کی ضروریات کی چیزیں تھیں.اور ایک سو تیس ہزار (130,000) کپڑے اور دوسری چیزیں تھیں.اللہ تعالیٰ ہماری یہ حقیر کوشش قبول فرمائے.اور بغیر کسی خوف اور بغیر کسی نام کی خواہش کے یہ تمام خدمت کرنے والے ، خدمت میں مصروف رہیں.اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے ان سب کو جزا دے جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اس میں حصہ لیا.اللہ تعالیٰ دنیا کی بھی آنکھیں کھولے کہ وہ خدائے واحد کی پہچان کرنے والے ہوں اور امام الزمان کو پہچاننے والے ہوں اللہ کرے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا ) ایک بات کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں ، گزشتہ جمعہ پہ عید تھی.تو صرف عید پڑھی گئی تھی جمعہ نہیں پڑھا گیا تھا.اس پر بعض لوگوں نے سوال اٹھائے کہ ہمارے ہاں عید بھی پڑھی گئی اور جمعہ بھی پڑھا گیا.اگر یہ ضروری تھا تو ہمیں جمعہ نہیں پڑھنا چاہئے تھا، آپ نے نہیں پڑھا.تو اس بارے میں واضح کر دوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹ دی ہے.اگر جمعہ پڑھا بھی گیا ہے تو وہ عین سنت کے مطابق ہے، کوئی حرج نہیں.اور اگر بعض مخصوص حالات میں چھوٹ سے یا رخصت سے بھی فائدہ اٹھا لیا جائے ، اس پر بھی عمل کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں.یہاں سر دملکوں میں لوگوں کا اکٹھا ہونا اور پھر وقت بھی تھوڑا ہوتا ہے بعض دفعہ مشکل ہو جاتا ہے تو اس لئے اس سے فائدہ اٹھایا گیا تھا.اسلام

Page 63

خطبات مسرور جلد سوم 56 خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء سہولت کا مذہب ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دونوں طرح سے کھول کر بیان فرما دیا ہے.اب اسی دن کینیڈا سے نسیم مہدی صاحب کی مجھے مبارکباد کی فیکس آئی اور ساتھ یہ بھی تھا کہ آپ نے جمعہ نہیں ہو گا کہا تو ہم نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا، کیونکہ وہاں منفی 35 ڈگری ٹمپریچر تھا اور شدید ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی اور مسجد بھی اتنی نہیں جتنی تعداد تھی وہاں پتہ نہیں انہوں نے عید کس طرح پڑھی.کہتے ہیں ساڑھے سات ہزار آدمی تھے جو عید پڑھنے آئے ہوئے تھے.اس کی وجہ سے ہم نے بھی جمعہ نہیں پڑھا.تو بعض مخصوص حالات میں اگر اس رخصت سے فائدہ اٹھا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا.اور اگر پڑھ بھی لی ہے تب بھی کوئی بات نہیں.حدیث بھی میں آپ کو سنا دیتا ہوں، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دو عیدیں یعنی جمعہ اور عید اکٹھی آگئیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید پڑھائی پھر فرمایا جو نماز جمعہ کے لئے آنا چاہے وہ بے شک جمعہ کے لئے آ جائے اور جو نماز جمعہ کے لئے نہیں آنا چاہتا وہ نہ آئے.(ابن ماجه كتاب اقامة الصلوة والسنة فيها ـ باب ماجاء فيما اذا اجتمع العيدان فى يوم حدیث نمبر (1312) تو رخصت ہے اور مسجد میں بھی فیصلہ ہو سکتا ہے کہ پڑھنی ہے کہ نہیں.یہ حالات کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے.یہ کوئی اصول نہیں ہے کہ ضرور ہم ہر دفعہ جمعہ نہیں پڑھیں گے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ضرور پڑھا جائے.تو حالات کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے.谢谢谢

Page 64

خطبات مسرور جلد سوم 57 4 خطبہ جمعہ 14 فروری 2005ء آنحضرت صلی الہما علیم کی اللہ تعالی سے محبت، عبادت گزاری اور توحید خالص کے قیام کے لئے تڑپ خطبه جمعه فرموده 4 فروری 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن ،لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خالص توحید کے قیام کے لئے دنیا میں مبعوث فرمایا تھا.اور بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے ایسے انتظامات فرما دیئے کہ آپ کے دل کو صاف، پاک اور مصفی بنا دیا.بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کے اندر اپنی محبت اور شرک سے نفرت کا بیج بو دیا.بلکہ پیدائش سے پہلے ہی آپ کی والدہ کو اُس نور کی خبر دے دی جس نے تمام دنیا میں پھیلنا تھا.پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ رویا جو حضرت آمنہ نے دیکھا تھا، کس طرح سچ ثابت ہوا.اللہ تعالیٰ کی مکمل شریعت آپ پر اپنے وقت پر نازل ہوئی.اور وہ نور دنیا میں ہر طرف پھیلا.خدائے واحد کی محبت کا ایک جوش تھا جس نے آپ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین وسکون چھین لیا تھا.اگر کوئی تڑپ تھی تو صرف ایک کہ کس طرح دنیا ایک خدا کی عبادت کرنے لگ جائے ، اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے لگ جائے.اس پیغام کو پہنچانے کے لئے آپ کو تکلیفیں بھی برداشت کرنا پڑیں، سختیاں بھی جھیلنی پڑیں.لیکن یہ تختیاں ، یہ تکلیفیں آپ کو ایک خدا کی عبادت اور خدائے واحد کا پیغام پہنچانے سے نہ روک سکیں.یہ خدائے واحد کے عبادت گزار بنانے کا کام جو آپ کے سپر د خدا تعالیٰ نے کیا تھا وہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے احکامات اترنے کے بعد تو آپ نے انجام دینا ہی تھا لیکن جیسا کہ میں نے کہا آپ کا دل بچپن سے ہی

Page 65

خطبات مسرور جلد سوم 58 خطبہ جمعہ 4 فروری 2005ء شرک سے پاک اور ایک خدا کے آگے جھکنے والا بن چکا تھا.خدا نے خود بچپن سے ہی اس دل کو اپنے لئے خالص کر لیا تھا.اگر کبھی بچپن میں اپنے بڑوں کے کسی دباؤ کے تحت، اس زمانہ کے کسی مشر کا نہ تہوار میں جانا پڑا تو خدا تعالیٰ نے خود ہی اس سے روکنے کے سامان پیدا فرما دیئے ، خود ہی آپ کی حفاظت کے سامان پیدا فرما دیئے.اس بارہ میں ایک سیرت کی کتاب میں ایک واقعہ بھی درج ہے.حضرت اُمِّ أَيْمَنُ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ” بوانہ، وہ بت خانہ ہے جہاں قریش حاضری دیتے تھے اور اس کی بہت تعظیم کرتے تھے اس پر قربانیاں چڑھاتے تھے ، وہاں سرمنڈواتے تھے اور ہر سال ایک دن کا رات تک اعتکاف کرتے تھے.حضرت ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ وہاں حاضری دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاضری کے لئے ساتھ جانے کو کہتے (جب آپ بچے تھے ) مگر آپ انکار کر دیتے.حضرت اُم ایمن کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا ابوطالب اور آپ کی پھوپھیاں ایک دفعہ آپ پر سخت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں آپ ہمارے معبودوں سے اجتناب کرتے ہیں اس کی وجہ سے آپ کے بارے میں ہمیں ڈر رہتا ہے.اور کہنے لگیں اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو کیا چاہتا ہے؟ تو کیوں اپنی قوم کے ساتھ حاضری کے لئے نہیں جاتا، اور ان کے لئے کیوں اکٹھا نہیں ہوتا.ان کے بار بار کہنے کے نتیجہ میں آپ ایک بار چلے گئے لیکن جیسا کہ اللہ نے چاہا آپ وہاں سے سخت گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں لوٹ آئے.تو ان عزیزوں رشتہ داروں نے پوچھا کہ کیا ہوا.آپ نے فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ شیطان مجھے چھوئے.اس پر انہوں نے کہا کہ اللہ عزوجل تجھے ہرگز شیطانی خیالات میں مبتلا نہیں کرے گا اس حال میں کہ تجھ میں نیک عادات پائی جاتی ہیں.تو نے کیا دیکھا ہے، خوف کی کیا وجہ ہوئی ہے؟ آپ نے فرمایا جو نہی میں کسی بہت کے قریب جانے لگتا تو ایک سفید رنگ کا طویل القامت شخص میرے لئے متماثل ہوتا اور کہتا کہ اے محمد! پیچھے رہ ، اس کو مت چھو.ام ایمن کہتی ہیں پھر انہوں نے بھی کبھی حاضری کے لئے نہیں کہا.یہاں تک کہ آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا.(السيرة الحلبية باب ما حفظه الله تعالى به في صغره من امر الجاهلية) تو یہ تھے وہ انتظامات جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس پاک اور خالص دل کی حفاظت کرتا تھا.

Page 66

خطبات مسرور جلد سوم 59 خطبہ جمعہ 14 فروری 2005ء پھر آپ کی جوانی کا زمانہ دیکھیں کس طرح ایک غار میں جا کر ایک خدا کی عبادت کیا کرتے تھے.آپ غار حرا میں کئی دن گزارتے.علیحدگی میں اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ، اس کی عبادت کرتے.یہ دیکھ کر آپ کے ہم قوم بھی کہنے لگ گئے کہ محمد ( ﷺ ) تو اپنے رب کا عاشق ہو گیا ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذات کے عاشق زار اور دیوانہ ہوئے اور پھر وہ پایا جود نیا میں کبھی کسی کونہیں ملا.آپ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلَى رَبِّهِ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب پر عاشق ہو گیا.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 524 جدید ایڈیشن) پھر جوانی میں ہی بتوں سے نفرت کی ایک اور مثال دیکھیں.جب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو طالب کے ساتھ سفر شام کے دوران بحیرہ راہب سے ملے تو اس نے کہا کہ اے صاحبزادے! میں تم سے لات و عُزّی کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم مجھے اس بات کا جواب دو.بحیرہ نے ان بتوں کا واسطہ دے کر اس وجہ سے پوچھا کیونکہ قریش سے بات پوچھنے کا یہی طریق تھا.لات و عزمی ان کے بڑے بت تھے ) اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے ان بتوں کا واسطہ دے کر سوال نہ کرو کیونکہ مجھے ان دونوں سے شدید نفرت ہے.اس کے بعد بحیرہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید گفتگو خدا کا واسطہ دے کر کی.پھر ایک اور روایت جس سے آپ کی بتوں سے نفرت اور صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا بندہ رہنے کا اظہار ہوتا ہے یوں ہے.حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول سے قبل آپ کی زید بن عمرو سے ملاقات ہوئی ، نبی کریم کے سامنے کھانا پیش کیا گیا ، آپ نے اس میں سے کھانے سے انکار کر دیا.پھر زید نے کہا کہ میں اس میں سے کھانے والا نہیں جو تم بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو اور میں نہیں کھا تا سوائے اس کے جس (السيرة النبوية لابن هشام قصة بحيرى ) پر اللہ تعالیٰ کا نام پڑھا گیا ہو.(بخاری کتاب المناقب باب حديث زيد بن عمرو بن نفيل)

Page 67

خطبات مسرور جلد سوم 60 خطبہ جمعہ 4 فروری 2005ء آپ نے کھانے سے انکار کر دیا تھا اور یہ فرمایا کہ میں اس میں سے کھانے والا نہیں جو تم بتوں کے نام پر کرتے ہو.تو یہ تھا وہ دل جس میں سوائے اللہ تعالیٰ کی محبت کے اور کوئی دوسری محبت نہیں تھی.پھر زمانہ نبوت شروع ہوا تو ایک دنیا نے دَنی فَتَدَلَّی کا نظارہ دیکھا، بشرطیکہ آنکھ دیکھنے کی ہو.ہر دن جوطلوع ہوتا تھا، چڑھتا تھا وہ دو محبت کرنے والوں یعنی خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہونے کے نشان دکھاتا تھا.چنانچہ آپ کے چچانے جب کفار کے خوف سے آپ کو اللہ تعالیٰ کے پیغام کے اظہار سے روکنے کی کوشش کی تو اس عاشق صادق نے کیا خوبصورت جواب دیا، اس کا ذکر یوں ملتا ہے.ابن اسحاق کہتے ہیں : ” اور ان کے علاوہ اور بھی بہت لوگ وہاں تھے، یہ سب لوگ ابوطالب کے پاس آئے اور کہا کہ اے ابو طالب ! یا تو تم اپنے بھتیجے ( یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ) کو منع کرو کہ وہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہے اور ہمارے باپ دادا کو جاہل اور گمراہ نہ بتائے.ورنہ ہمیں اجازت دو کہ ہم خود اسے سمجھ لیں کیونکہ اس کی مخالفت میں تم بھی ہمارے شریک ہو یعنی تم بھی ہماری طرح ابھی مسلمان نہیں ہوئے.پس تم ہمارے اور اس کے درمیان میں دخل نہ دینا.ابوطالب نے لوگوں کو نہایت شائستگی کے ساتھ جواب دے کر اور خوش کر کے رخصت کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح اپنے دین کا اعلان کرتے رہے، باوجود کہنے کے بھی.قریش کی حضور سے آتش عداوت (جو عداوت اور دشمنی کی آگ تھی) وہ ہر وقت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی گئی.یہاں تک کہ دوبارہ وہ ابو طالب کے پاس آئے اور کہنے لگے اے ابو طالب ! تم ایک شریف اور عمر رسیدہ شخص ہو اور ہم تم کو ذی عزت خیال کرتے ہیں.ہم نے تم سے درخواست کی کہ تم اپنے بھتیجے کو منع کرو تم نے منع نہ کیا.قسم ہے خدا کی ، ہم ان باتوں پر صبر نہیں کر سکتے کہ ہمارے بتوں اور بزرگوں کو سخت باتیں کہی جائیں.یا تو تم اس بات کو دور کرو ورنہ ہم تم سے کہے دیتے ہیں کہ دونوں فریقوں میں سے ایک فریق ضرور ہلاک ہو گا.یہ کہہ کر وہ چلے آئے.ابو طالب کو اپنی قوم کی عداوت اور علیحدگی نہایت شاق گزری اور انہیں وجوہات سے مجبور اوہ نہ آپ پر ایمان لا سکے اور نہ

Page 68

خطبات مسرور جلد سوم 61 خطبہ جمعہ 14 فروری 2005ء آپ کی مدد سے ہاتھ اٹھا سکے.نہ ادھر رہے نہ اُدھر رہے.تو ابن اسحاق کہتے ہیں: ” جب قریش نے ابو طالب سے یہ شکایت کی ، ابوطالب نے حضور کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اے میرے بھتیجے! تمہاری قوم نے میرے پاس آ کر تمہاری شکایتوں کا دفتر کھولا ، پس میں سمجھتا ہوں تم اپنی اور میری جان ہلاک کرنے کی بات نہ کرو اور ایسے کام کی مجھ کو تکلیف نہ دو جس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے.راوی کہتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ خیال کیا کہ اب میرا چھا میری مدد نہیں کر سکتا اور ان کو جواب دیا کہ اے میرے چا! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں طرف چاند بھی لا کر رکھ دیں تب بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا.یہاں تک کہ خدا اس کو پورا کر دے یا خود میں اس میں ہلاک ہو جاؤں.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو نکل آئے ، ابو طالب نے آپ کو آواز دی اور کہا کہ اے بھتیجے ادھر آؤ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے کہا، دیکھو جو تمہارا جی چاہے کرو، میں ہرگز تم کو نہیں چھوڑوں گا اور سب سے سمجھ لوں گا.(السيرة النبوية لابن هشام، مباداة رسول الله ﷺ قومه وما كان منهم ) اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود کو الہام بھی اس طرح بتایا.آپ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں ، پلید ہیں ، شَرُّ الْبَرِيَّہ ہیں ، سُفَهَاء ہیں اور ذریت شیطان ہیں.اور ان کے معبود وَقُودُ النَّارِ اور حَصَبُ جَهَنَّم ہیں تو ابو طالب نے آنحضرت ﷺ کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی.تو نے ان کے عقلمندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شر البر یہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام هَيْزَم جَهَنَّم اور وَقُوْدُ النَّار رکھا.( یعنی آگ کا ایندھن اور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذریت شیطان اور پلید ٹھہرایا.میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجاور نہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ اے چچا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ ہے اور نفس الا مر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.اگر اس سے

Page 69

خطبات مسرور جلد سوم 62 خطبہ جمعہ 4 فروری 2005ء مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں.میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے.میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا.اور اسے چا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تو مجھے پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جا.بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں، ہمیں احکام الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا.مجھے اپنے مولا کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں.بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بارزندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں.یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہو رہی تھی.اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابوطالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا.تو اور ہی رنگ میں اور اور ہی شان میں ہے.جا اپنے کام میں لگارہ ، جب تک میں زندہ ہوں، جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا.(ازالہ اوهام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 110-111) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ : ” یہ سب مضمون ابوطالب کے قصہ کا اگر چہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے جو خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے دل پر نازل کی.صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اس عاجز کی طرف سے (ازاله اوهام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 111-112) تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہونے کا مقام.آج دنیا دار اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نعوذ باللہ دنیاوی حشمت چاہتے تھے جس کے لئے یہ سب کچھ آپ نے کیا.بلکہ اس وقت سے ہی یہ اعتراض چلا آ رہا ہے، آپ کی بعثت کے وقت سے ہی.پھر صرف یہی نہیں کہ سخت اور ست کہا اور دھمکیاں دیں کہ آپ اس کام سے باز آ جائیں بلکہ عملاً بھی آپ کو تکلیفیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کے بے شمار واقعات ہیں لیکن اس کے با وجود خدا تعالیٰ کی محبت کو کفار آپ کے دل سے کم نہ کر سکے.اسی طرح ایک واقعہ روایات میں یوں آتا ہے.عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ

Page 70

خطبات مسرور جلد سوم 63 خطبہ جمعہ 4 فروری 2005ء ایک روز میں موجود تھا کہ قریش کے سب بڑے بڑے لوگ حجر اسود کے پاس خانہ کعبہ میں اکٹھے ہوئے.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے لگے اور کہتے تھے کہ جیسا ہم نے اس شخص پر صبر کیا ہے ایسا کسی پر نہیں کیا.یہ ہمارے دین اور بزرگوں کو بُرا کہتا ہے.ہم نے اس پر بڑا صبر کیا ہے.یہ لوگ ایسی ہی باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آ.طواف میں مشغول ہوئے اور جب آپ طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرتے تو کفار آپ پر آوازیں کستے.چنانچہ تین بار ایسا ہوا اور اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے دکھ اور ملال ظاہر ہو رہا تھا.تیسری مرتبہ آوازہ کہنے پر آپ کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے : اے گروہ قریش ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں تم جیسوں کی ہلاکت کی خبر لے کر آیا ہوں.حضرت عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام کا ایسا اثر ہوا کہ قریش سکتہ کی حالت میں ہو گئے اور جو شخص ان میں زیادہ بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہا تھا.وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نرمی سے باتیں کرنے لگا اور کہنے لگا کہ آپ تشریف لے جائیں.چنانچہ آپ تشریف لے گئے.پھر دوسرے روز یہ لوگ اکٹھے ہوئے اور ہر طرف سے آپ پر یہ کہتے ہوئے حملہ کر دیا کہ تم ہی ہمارے بتوں میں عیب نکالتے ہو اور ہمارے دین کو برا کہتے ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں یہی کہتا ہوں.عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے حضور کی چادر مبارک پکڑ لی.ابو بکر یہ دیکھ کر روتے ہوئے کھڑے ہوئے اور قریش سے کہنے لگے کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے.تب قریش آپ کو چھوڑ کر چلے گئے.راوی بیان کرتے ہیں آپ کے ساتھ قریش کی بدسلوکی کا یہ وہ واقعہ ہے جومیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.(السيرة النبوية لابن هشام ذكر ما لقى رسول الله من قومه | اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں.جیسا کہ میں نے کہا بڑے بڑے خطرناک واقعات ہیں.بڑے بڑے خوفناک منصوبے آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو ختم کرنے کے لیکن اللہ تعالیٰ نے جس نے آدم کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی پیدائش کا فیصلہ کر لیا تھا، جس نے اپنے اس پیارے محبوب کے ذریعے اپنا پیغام دنیا تک پہنچانا تھا، جس نے اپنے

Page 71

خطبات مسرور جلد سوم 64 خطبہ جمعہ 4 فروری 2005ء وعدوں کے مطابق آپ کی حفاظت کرنی تھی وہ ہمیشہ مشکل وقت میں آپ کی مدد کے لئے فرشتے نازل کرتا رہا جو آپ کی حفاظت کا انتظام کرتے تھے.چنانچہ ایک واقعہ روایات میں یوں آتا ہے کہ : ” سرداران قریش کے ساتھ گفتگو کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو ابو جہل نے کہا اے قریش ! تم نے دیکھا کہ محمد نے ہماری کوئی بات نہیں مانی اور تمہارے بزرگوں اور مذہب کو برا کہنے سے باز نہ آیا.پس میں خدا سے عہد کرتا ہوں کہ میں کل ایک بہت بھاری پتھر لے کر بیٹھوں گا اور جس وقت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ کریں گے میں اس کے سر پر ماردوں گا.تم مجھ کو اپنی پناہ میں لے لینا.پھر بنی عبد مناف یعنی حضور کے رشتہ داروں سے جو ہو سکتا ہے وہ کریں.قریش نے کہا خدا کی قسم ! ہم تمہیں پناہ میں لے لیں گے جو کچھ تم سے ہو سکے وہ کر گزرو.پھر جب صبح ہوئی تو ابو جہل ایک پتھر لا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے انتظار میں بیٹھا.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صبح کو اپنے دستور کے موافق مسجد حرام میں داخل ہوئے.چونکہ ان دنوں میں قبلہ بیت مقدس تھا اس لحاظ سے آپ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان میں نماز میں مشغول ہوئے.قریش اپنی اپنی جگہ لیٹے ہوئے ابو جہل کے کارنامے کے منتظر تھے.چنانچہ جس وقت آپ نے سجدہ کیا، ابو جہل وہ پتھر لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مارنے کے لئے چلا.یہاں تک کہ جب آپ کے نزدیک پہنچا تو پھر وہاں سے پیچھے کو ہٹا.یہاں تک کہ پتھر اس کے ہاتھ سے گر گیا اور وہ نہایت بد حواس اور خوف کی حالت میں اپنی قوم کے پاس آیا.لوگ بھی اس کی طرف دوڑے اور کہا اے ابو الحکم کیا ہوا؟ کہنے لگا کہ جب میں پتھر لے کر ان کی طرف گیا تا کہ اس کام کو پورا کروں جو رات کو تم سے کہا.تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت قوی ہیکل اور خوفناک اونٹ منہ پھاڑ کر میری طرف حملہ آور ہے اور چاہتا ہے کہ مجھے کھا جائے.میں فوراہی پیچھے ہٹ گیا ورنہ جان بچانا ہی مشکل تھا.صلى الله (السيرة النبوية لابن هشام ما حدث لابى جهل حين هم بالقاء الحجر على الرسول ﷺ تو دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی حفاظت کا انتظام فرمایا.لیکن جس کا دل پتھر ہو جائے وہ عارضی طور پر تو نشان دیکھ کر خوفزدہ ہوتا ہے لیکن ایمان کے نور کا چھینٹا اس پر

Page 72

خطبات مسرور جلد سوم 65 خطبہ جمعہ 4 فروری 2005ء نہیں پڑتا.یہی حال ابو جہل کا ہوا.پھر جب عاشق کو معشوق سے علیحدہ کرنے کیلئے تمام تر سختیوں کے حربے بھی کارگر نہ ہوئے تو پھر ان لوگوں کو خیال آیا کہ دنیاوی لالچ ہی دے کر دیکھیں.براہ راست بھی اس بارے میں گفتگو کر کے دیکھیں.لیکن ان عقل کے اندھوں کو کیا پتہ تھا کہ جو خدا تعالیٰ کے عشق میں گرفتار ہو اور پھر مقام بھی وہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے اُس کو ان دنیاوی لالچوں سے کیا غرض.چنانچہ یہ لالچ دینے کا واقعہ تاریخ میں یوں درج ہے.ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب اسلام قریش میں روز بروز ترقی کرنے لگا، حالانکہ قریش سے جہاں تک ممکن تھا وہ لوگوں کو اسلام لانے سے باز رکھتے تھے اور طرح طرح سے ان کو ایذاء اور تکلیفیں پہنچاتے تھے.بعض کو گھروں میں قید کر دیتے تھے.ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہر قبیلہ کے سرداران قریش حضور سے گفتگو کرنے کے واسطے جمع ہوئے جن کے نام یہ ہیں.عتبہ، شیبہ، ابوسفیان ، نضر بن حارث، ابوالبختری ابوجہل بن ہشام ، عبداللہ بن ابی امیہ، عاص بن وائل ، امیہ بن خلف وغیرہ یہ سب لوگ غروب آفتاب کے بعد کعبہ کے پیچھے اکٹھے ہوئے اور ایک نے دوسرے کو کہا کہ کسی کو بھیج کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گفتگو کے لئے بلواؤ اور اس قدر بحث کرو کہ وہ عاجز آ جائیں.پھر انہوں نے ایک شخص کو حضور کے پاس بھیجا.آپ نے یہ پیغام سن کر سمجھا کہ شاید ان کا سیدھے رستے پر آنے کا ارادہ ہے.کیونکہ آپ کو ان کے اسلام قبول کرنے کی شدید تمنا تھی.چنانچہ آپ جلدی سے اس مجلس میں تشریف لائے.سب نے متفقہ طور پر آپ سے کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ کو گفتگو کرنے کے لئے بلایا ہے کیونکہ قسم ہے خدا کی ہم عرب میں سے کسی شخص کو ایسا نہیں جانتے کہ جس نے اپنی قوم کو ایسی مشکل میں مبتلا کیا ہو جیسا کہ آپ نے مبتلا کیا ہے.آپ ہمارے باپ دادا کو برا کہتے ہیں، آپ ہمارے معبودوں کو گالیاں دیتے ہیں ، ہماری جماعت کے ٹکڑے کر دیئے ہیں، کوئی خرابی ایسی نہیں ہے جو آپ نے ہم میں اٹھانہ رکھی ہو.اگر تمہارا مقصد مال کو جمع کرنا ہے تو ہم اپنے مال اس قدر آپ کی نذر کرتے ہیں کہ آپ ساری قوم میں امیر کبیر ہو جائیں گے.اور اگر آپ سردار بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو سردار بنادیتے ہیں.اگر

Page 73

خطبات مسرور جلد سوم 66 خطبہ جمعہ 14 فروری 2005ء بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بادشاہ بنادیں گے اور یہ جو آپ کے پاس کوئی جن یا آسیب آتا ہے تو ہم اس کے علاج میں اپنے تمام مال آپ پر خرچ کرنے کو تیار ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس قدر باتیں تم نے کی ہیں ان میں سے ایک بھی مجھ میں نہیں ہے.نہ میں مال چاہتا ہوں، نہ شرف چاہتا ہوں ، نہ سلطنت چاہتا ہوں.مجھ کو تو خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اپنی کتاب مجھ پر نازل فرمائی ہے اور حکم فرمایا ہے کہ میں تمہارے لئے بشیر و نذیر ہو جاؤں.خوشخبریاں بھی دوں اور ڈراؤں بھی.پس میں نے تم کو اپنے خدا کے پیغام پہنچا دیئے.اگر تم اس کو قبول کرو تو اس میں تمہارا اپنا فائدہ ہے.اور اگر تم قبول نہ کرو تو تم اس وقت تک صبر کرو، میں بھی صبر کئے ہوئے ہوں، جب تک کہ خدا مجھ میں اور تم میں فیصلہ نہ فرمائے.(السيرة النبوية لابن هشام حديث عبدالله بن ابى امية مع رسول الله ﷺ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا اور کامل یقین تھا کہ آپ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں.اور خدا تعالیٰ کا آخری فیصلہ یقینا آپ کو پتہ تھا کہ میرے حق میں ہونا ہے.تو فرمایا کہ اے کا فرو! تم اپنی ڈھٹائی کی وجہ سے اپنے جھوٹے دین سے ہٹ نہیں سکتے یا يُّهَا الْكَافِرُونَ ﴾ کی سورة میں ساری بات آگئی تو میں جو خدا کا نبی ہوں، اس خدا کا پیغام پہنچانے سے کیسے باز آ جاؤں جس کا خدا نے مجھے حکم دیا ہے.میں اس خدا کی عبادت سے کیسے باز آ جاؤں جو ہر روز ایک نیا نشان اپنی قدرت کا مجھے دکھاتا ہے.جو تمہارے مقابلے میں خود میری حفاظت کے لئے کھڑا ہے.تم بے شک میری مخالفت کرتے رہو، مجھے تکلیفیں دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو، لیکن یاد رکھو کہ غالب میں نے ہی آنا ہے.تمہیں یہی جواب ہے جو فی الحال خدا نے مجھے سکھایا ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو، میں اپنے دین پر قائم رہوں گا.لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِی دِین ، لیکن یا درکھو یہ مقدر ہے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کر لیا ہے، میرے خدا نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جو حاضر کا بھی علم رکھتا ہے، جو غائب کا بھی علم رکھتا ہے، آئندہ کا بھی علم رکھتا ہے، جو اپنے پیار کا مجھ پر اظہار کرتا رہتا ہے اُس خدا کی تقدیر اب یہ ہے کہ خدائے واحد کے دین نے ہی غالب آنا ہے اور تم نے ختم ہونا ہے.تو یہ جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کرنے والے اور اپنے پیارے کے منہ سے کہلوایا.

Page 74

خطبات مسرور جلد سوم 67 خطبہ جمعہ 4 فروری 2005ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی ذات سے جو عشق تھا اور اس کی وحدانیت دنیا میں قائم کرنے کی جو تڑپ تھی اور جو آپ نے اس کے لئے کوشش کی اس کا تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.لیکن اگر کبھی کسی سے بھی اس ذات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اعلیٰ اور اچھے کلمات آپ نے سنے تو ہمیشہ اس کی تعریف کی.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کی ہے وہ لبید کا یہ مصرعہ ہے کہ سنو اللہ کے سوایقین ہر چیز باطل اور مٹ جانے والی ہے.(بخارى كتاب مناقب الانصار باب ايام الجاهلية.حديث نمبر 3841) پھر اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے نام کی غیرت آپ میں کس قدر تھی کہ نقصان برداشت کر لینا گوارا تھا لیکن یہ گوارا نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے لئے تشریف لے جارہے تھے ، جب انتہائی کمزور حالت تھی.اور بدر سے پہلے ایک مقام پر ایک شخص حاضر ہوا اور شجاعت اور بہادری میں اس کی بہت شہرت تھی.صحابہ اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے.اس نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کی کہ میں اس شرط پر آپ کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے آیا ہوں کہ مال غنیمت سے مجھے بھی حصہ دیا جائے.آپ نے فرمایا : کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو.اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا پھر تم جا سکتے ہو.میں کسی مشرک سے مدد نہیں لینا چاہتا.کچھ دیر بعد اس نے حاضر ہو کر پھر یہی درخواست کی.تو آپ نے وہی جواب دیا، وہ تیسری دفعہ آیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی لشکر میں شریک کر لیں.آپ نے پھر پوچھا کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہو.اس دفعہ اس نے ہاں میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، ہمارے ساتھ چلو.(مسلم کتاب الجہاد باب كراهة الاستعانة فى الغزو بكافر.....حديث نمبر 4700) اگر کوئی دنیا دار ہوتا تو کہتا کہ مد دل رہی ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ.لیکن آپ کی غیرت نے

Page 75

خطبات مسرور جلد سوم 68 خطبہ جمعہ 14 فروری 2005ء گوارا نہ کیا کہ کسی مشرک سے اللہ تعالیٰ کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں مدد لی جائے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے والد کی قسم کھا رہے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پکار کر فرمایا کہ سنو اللہ تمہیں اپنے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے.جسے قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے.(بخاری کتاب الادب باب من لم ير اكفار من قال ذالك متأولا او جاهلا) اوّل تو بعض لوگوں کو ذرا ذراسی بات پر اللہ کی قسم کھانے کی عادت ہوتی ہے.عام رواج پڑ گیا ہے.یہ اس طرح قسمیں کھانی بھی نہیں چاہئیں.بعض حالات میں بعض مجبوریوں کے تحت قسم کھانی پڑتی ہے تو اس وقت کھائی جائے اور یہ ذہن میں ہو کہ اللہ تعالیٰ کو میں اس میں گواہ بنا رہا ہوں.آپ کو یہ کسی بھی صورت میں برداشت نہیں تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس کے قریب کوئی انجانے میں بھی آسکے.پھر اگر کہیں سے ہلکا سا شائبہ بھی ہوتا کہ بعض عمل شرک کی طرف لے جانے والے ہیں آپ اس کو سختی سے رد فرمایا کرتے تھے.قبروں پر دعا کے لئے جانے کی تو آپ نے اجازت دی لیکن یہ برداشت نہیں تھا کہ وہاں دیئے وغیرہ جلائے جائیں.بعض لوگ دیئے جلاتے ہیں موم بتیاں جلاتے ہیں.تو ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے قبروں کی زیارت کرنے والوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے ان قبور کو غیر اللہ کی عبادت اور دیئے جلانے کی جگہ بنایا ہوا ہے.( ترمذى كتاب الصلوة باب ما جاء في كراهية ان يتخذ على القبر مسجدا | آج دیکھیں ہمارے ملکوں میں مسلمان کہلانے والے بھی یہ حرکتیں کر رہے ہیں.وہ بزرگ جوخود تو تو حید کے قیام میں کوشش کرتے رہے لیکن ان کے نام پر شرک ہوتا ہے.ان سے منتیں مانگی جاتی ہیں، ان سے خواہشات پوری کرنے کی فریاد کی جاتی ہے، چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں اور یہ واقعات ہیں اور ہوتے ہیں.ایک عورت نے بتایا کہ اس کی کوئی عورت واقف تھی.اس کے پاس ایک بیٹا تھا.وہ کہتی یہ بیٹا مجھے داتا صاحب نے دیا ہے.میں نے کہا خدا کا خوف کرو ( کہنے لگی کہ نہیں پہلے میں اللہ تعالیٰ سے مانگتی رہی نمازوں میں دعائیں کرتی رہی مجھے

Page 76

خطبات مسرور جلد سوم 69 خطبہ جمعہ 4 فروری 2005ء بیٹا نہیں پیدا ہوا.جب میں نے داتا دربار میں حاضری دی تو مجھے بیٹا مل گیا.تو اللہ تعالیٰ کی بجائے دا تا صاحب ان کے سب کچھ تھے.کوئی خدا کا خوف نہیں ہے اور برصغیر میں جیسا کہ میں نے کہا کہ مسلمان کہلا کر اس شرک میں بہت سارے لوگ مبتلا ہورہے ہیں.اللہ کے رسول نے ایسے لوگوں پر لعنت ڈالی ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت اتم سلمیٰ نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ کے نام سے موسوم تھا اور اس میں انہوں نے تصاویر رکھی ہوئی تھیں.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ قوم ہے کہ جب ان میں کوئی نیک بنده یا آدمی فوت ہو جاتا ہے تو یہ لوگ اس کی قبر پر مساجد بنا لیتے ہیں اور ان میں بت بنا لیتے ہیں.یہ لوگ خدا کے ہاں بدترین مخلوق ہیں.(بخاری کتاب الصلاة باب الصلوة في البيعة) ایک جگہ یوں بھی ذکر آیا ہے کہ آپ کی بیماری کی حالت میں یہ بات کہی گئی تھی.تو یہ سن کر آپ جوش سے اٹھ بیٹھے اور آپ نے فرمایا برا ہو ایسے لوگوں کا جو یہ کرتے ہیں.آپ کا اپنا تو یہ حال تھا کہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ "اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِى وَثْنا کہ اے اللہ ! میری قبر کو بت پرستی کی جگہ نہ بنانا.جو شخص ساری عمر میں ہر وقت، ہرلمحہ خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار رہا، توحید کے قیام کی کوشش کرتا رہا، جس کے پاؤں ساری ساری رات عبادت کرتے ہوئے متورم ہو جایا کرتے تھے، سوج جایا کرتے تھے.جس کی خواہش تھی تو صرف ایک کہ دنیا کا ہر شخص خدائے واحد کی عبادت کرنے والا بن جائے وہ بھلا کس طرح برداشت کر سکتا تھا کہ اس کی قبر شرک کی جگہ بنے.اور آج تک اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اس بابرکت قبر کو شرک سے محفوظ رکھا ہوا ہے.لیکن مسلمانوں پر حیرت ہوتی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ دوسرے پیروں فقیروں کی قبروں پر جا کر شرک کرتے ہیں اور شرک کے اڈے بنے ہوئے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”پس میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے.( ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر ) یہ کس عالی مرتبہ

Page 77

خطبات مسرور جلد سوم 70 خطبہ جمعہ 14 فروری 2005ء کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر نے محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضلیت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.(حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحه 118-119) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : " قرآن کریم کو پڑھ کر دیکھ لو.اور تو اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہو سکتا ہے.پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضور کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی.اور بار بار إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ﴾ (الكهف : 111) ہی فرماتے رہے یہاں تک کہ کلمہ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا.جس کے بدوں ( یعنی جس کے بغیر ) مسلمان مسلمان ہی نہیں ہو سکتا.سوچو اور پھر سوچو.پس جس حال میں بادی اکمل کی طرز زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقام قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 74 - جدید ایڈیشن رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 صفحہ 140 ) پس یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقام جس کو قائم کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے آپ پیدا ہوئے تھے.ایک اعلیٰ انسان اور عبد رحمن کا مقام جو کسی کو ملاوہ سب سے اعلیٰ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا.اور بندے کی پہچان اپنی ذات کی پہچان اور خدا تعالیٰ کی ذات کی پہچان کرانے کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے.تو حید کے قیام کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے.اور ساری زندگی اسی میں آپ نے گزاری.اور یہی آپ کی خواہش تھی کہ دنیا کا ہر فرد ہر شخص اس توحید پر قائم ہو جائے.اور اس زمانے میں بھی آپ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی پہچان اس تعلیم کی رو سے ہمیں کروائی.پس

Page 78

خطبات مسرور جلد سوم 71 خطبہ جمعہ 14 فروری 2005ء ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خدائے واحد کی عبادت اور اس کے نام کی غیرت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تبھی ہم حقیقت میں لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کا کلمہ پڑھنے والے کہلا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ میں بورکینا فاسو کے مربی سلسلہ مکرم شکیل احمد صدیقی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ) یہ دو افسوسناک اعلان ہیں.ایک تو یہ ہے کہ ہمارے ایک مبلغ جو بورکینا فاسو مغربی افریقہ میں مبلغ تھے.مختصر سی بیماری کے بعد پرسوں بالکل نو جوانی کی حالت میں ان کی وفات ہو یہ جو ہمارے یہاں مبارک صدیقی صاحب ہیں ان کے چھوٹے بھائی تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے.وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.ان میں بڑی ہی اطاعت کا جذبہ تھا.بورکینا فاسو کے مربیان کی طرف سے جو افسوس کا ، تعزیت کا خط آیا ہے.اس میں جو انہوں نے خوبیاں لکھی ہیں وہ حقیقت میں وہ تمام باتیں ہیں جن میں میں کہہ سکتا ہوں کوئی مبالغہ نہیں تھا.بہت محنتی تھے ، بڑی غیرت رکھنے والے تھے، اللہ کے نام کی غیرت رکھنے والے تھے، بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والے تھے اور بے نفس آدمی تھے.ہر وقت مسکراتے رہتے تھے.یہ لکھتے ہیں کہ جب بھی اجتماع وغیرہ یا جلسہ ہوتا تو شکیل صاحب اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہوتے کہ نہانے دھونے کھانے وغیرہ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی.اور جب میں دورے پر گیا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ یہ مستقل خدمت پہ تھے، باقی بھی تھے لیکن ان کی اہلیہ ان دنوں میں بہت بیمار ہو گئیں اور ہسپتال میں داخل تھیں، اس کے باوجود جوان کے ذمے کام تھے وہ پوری طرح کرتے رہے.ہسپتال بھی دوڑ کے جاتے تھے پھر آ کے کام کرتے تھے.اور پھر دوسرے کو یہ احساس نہیں دلواتے تھے کہ مجھے مجبوریاں ہیں اور پھر بھی میرے سے کام کروایا جا رہا ہے بلکہ خوشی سے یہ کام کر رہے تھے باوجود یہ کہنے کے کہ آپ زیادہ اہلیہ کی فکر کریں.کھانے پینے کی ان کو کوئی فکر نہیں ہوتی تھی اور ہر وقت ہنستے مسکراتے رہتے.لیکن امیر صاحب نے ایک بات لکھی ہے اور یقینا صحیح ہوگی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ہر وقت ہنسنے والا شخص

Page 79

خطبات مسرور جلد سوم 72 خطبہ جمعہ 14 فروری 2005ء تھا لیکن کہتے ہیں میں نے ان کو روتے بھی دیکھا کہ جب یہ ذکر ہوتا تھا کہ بیعتوں کا ٹارگٹ پورا کرنا ہے، بیعتیں نہیں ہوئیں.یا وہ ٹارگٹ حاصل نہیں ہوا جتنا ان کا خیال تھا کہ ہونا چاہئے اور مجھے رپورٹ بھجوانی ہے.اس وقت وہ رویا کرتے تھے کہ کس طرح اپنی ایسی رپورٹ بھجواؤں.اور دعا کے لئے درخواست کیا کرتے تھے.اور حقیقتاً انہوں نے حق ادا کیا ہے.وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو امانتوں کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور اپنے عہدوں کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور اس لحاظ سے میدان عمل میں ان کی وفات ایک شہید کی موت ہی ہے، جو کبھی مرا نہیں کرتے.اس وقت بھی بیماری سے چند گھنٹے پہلے، آخری رات ، وہ کہتے ہیں کہ سارے مربیان ،مبلغین بیٹھے ہوئے تھے، تبلیغ کرنے کا کوئی پروگرام بن رہا تھا تو اس میں بھی پوری طرح بڑھ بڑھ کے حصہ لے رہے تھے، تجاویز پیش کر رہے تھے.تو دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت کی چادر میں لیٹے.ان کو اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے اور ان کی ایک چھوٹی بچی اور اہلیہ کو صبر دے.ان کے والدین زندہ ہیں ان کو صبر کی توفیق دے.اسی طرح ہمارے ایک بڑے پرانے ، لندن میں جب سے خلیفہ وقت آئے ہیں اس وقت سے یہاں کی تاریخ میں پیر محمد عالم صاحب کا بھی نام کافی جانا جاتا ہے.ان کی بھی کل وفات ہوگی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کی پیدائش 1919 ء کی تھی اور 1979ء میں انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو پیش کیا تھا.پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں رہے.پھر یہاں آگئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوب خدمت کی توفیق پائی.کیونکہ قریب رہتے تھے، صبح سب سے پہلے آنے والوں میں سے تھے اور جس طرح ان کی عادت تھی، اگر دور بھی ہوتے تو یقیناً وہ سب سے پہلے دفتر آنے والوں میں شمار ہوتے.اور بڑی محنت سے کام کرتے رہے اور پھر جب تک ان کی صحت اجازت دیتی رہی پورا وقت لگاتے تھے اور اس کے بعد بھی اب تک، چند دن پہلے تک انہوں نے دفتر میں اپنے پورے کام کو نبھایا ہے.اور انگریزی سیکشن کی ڈاک کا کام کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے ، مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی اہلیہ اور بچوں کو صبر کی توفیق دے.

Page 80

خطبات مسرور جلد سوم 73 5 خطبہ جمعہ 11 / فروری 2005ء آنحضرت صلی اللہ علیم کا خلق عظیم صدق وسچائی خطبہ جمعہ فرموده 11 فروری 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن، لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.قُل لَّوْ شَاءَ اللهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرِيكُم بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (يونس :17) پھر فرمایا:.انبیاء دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو لوگوں کو اپنی گزشتہ زندگی کا حوالہ دے کر یہ کہتے ہیں، قوم کے لوگوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ یہ جو ہماری زندگی تمہارے سامنے گزری اس میں ہمارا جو کردار بھی تمہیں نظر آئے گا یا نظر آیا وہ یہی نظر آئے گا کہ سچ بات پر قائم رہے اور بیچ کہا اور بیچ پھیلانے کی کوشش کی.اور اس وصف کے اعلیٰ ترین معیار ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں.آپ کی زندگی کا ہر لحہ اس اعلیٰ خلق کے نور سے منور تھا.آپ کا ہر عمل، ہر فعل، دعوئی نبوت سے پہلے بھی سچائی اور حق گوئی سے سجا ہوا تھا.تبھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس اعلیٰ خلق کی مثال دیتے ہوئے کفار کو مخاطب کر کے اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے فرمایا ہے کہ تو کہہ

Page 81

خطبات مسرور جلد سوم 74 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں تم پر اس کی تلاوت نہ کرتا اور نہ وہ اللہ تمہیں اس بات پر مطلع کرتا.پس میں اس رسالت سے پہلے بھی تمہارے درمیان لمبی عمر گزار چکا ہوں، کیا تم عقل نہیں کرتے ؟ تم جو مجھ پر یہ الزام دے رہے ہو کہ یہ جو میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے یہ غلط ہے، جھوٹ ہے اور قطعاً میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث نہیں کیا گیا، میں دنیا داروں کی طرح اپنی لیڈری کی دکان چپکانے کے لئے (نعوذ باللہ ) یہ دعویٰ کر رہا ہوں تا کہ تم لوگ کسی طرح مجھے اپنا سردار تسلیم کر لو یا تنگ آ کر میرے سے شرائط طے کرنے لگ جاؤ.تو سن لو کہ ان بکھیڑوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے ، ان دنیا داری کی باتوں سے مجھ کوئی دلچسپی نہیں ہے.اگر یہ باتیں، یہ چیزیں مجھے چاہئے ہوتیں تو میں تمہاری مرضی کی باتیں تمہیں بتاتا جو تمہیں خوش کر دیتیں.مجھ پر تم اعتراض کرنے والے نہ ہوتے بلکہ فوراً مجھے وہ مقام دینے والے بن جاتے.لیکن میں تو تمہیں حق کا وہ پیغام پہنچا رہا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر اتارا ہے.اس لئے مجھ سے اس بارہ میں نہ لڑو.اگر اللہ یہ پیغام تم تک پہنچانا نہ چاہتا تو میں قطعاً تمہیں وہ باتیں نہ کہتا جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھائیں اور میں نے تمہیں بتائیں.تم مجھے شک کی نظر سے دیکھ رہے ہو کہ شاید یہ ساری باتیں میں نے اپنے پاس سے گھڑ لی ہیں.کچھ تو ہوش کرو.میں تمہارے درمیان ایک عرصے سے رہ رہا ہوں.دو چار سال کا عرصہ نہیں ہے ، دس بیس سال کا عرصہ نہیں ہے گو کہ یہ عرصہ بھی کسی کے کردار کو جانچنے کے لئے بہت ہوتا ہے.لیکن اس میں کہا جا سکتا ہے کہ جوانی کی عمر ہے کئی اتار چڑھاؤ آتے ہیں.فرمایا کہ میری تو یہ عمربھی گزرگئی ہے جو جوانی کی عمر ہوتی ہے اور چالیس سال کی پختہ عمر ہوگئی ہے.اور یہ تمام عرصہ میں نے تمہارے درمیان گزارا ہے.یہ تو وہ عمر ہے جس میں اب عمر ڈھلنے کا دور شروع ہو جاتا ہے.میری گزشتہ چالیس سالہ زندگی تمہارے سامنے ہے.میں نے کبھی بھی کسی بھی معاملے میں جھوٹ تو درکنار، حق سے اور بیچ سے رتی بھر بھی انحراف نہیں کیا، ذرا سا بھی حق سے پیچھے نہیں ہٹا.اب اس عمر میں کیا میں تمہاری سرداری لینے کے لئے خدا پر جھوٹ بولوں گا؟.تو یہ ہے وہ شاندار گواہی جو خدا تعالیٰ نے وحی کر کے آپ کے ذریعے کفار تک پہنچائی، دنیا تک پہنچائی کہ کچھ تو ہوش کے ناخن لو، کیوں تمہاری مت ماری گئی ہے، تمہاری عقل کو کیا ہو گیا

Page 82

خطبات مسرور جلد سوم 75 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء ہے.آج بھی جو لوگ قرآن کو نہیں مانتے ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کا کام اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کے سوا کچھ نہیں ہے.وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قرآن میں سے تم دکھا رہے ہو اور ہم لوگ تو اس کو مانتے نہیں کہ یہ الہامی کتاب ہے.تم نے کہانی بنا کر خود ہی اس کے بارے میں گواہی دے دی.تو ایسے لوگوں کو کم از کم حقائق اور واقعات سے ہی سچائی کو پرکھ لینا چاہئے.یہ جو آپ نے اتنا لمبا عرصہ کفار میں گزارا اور یہ جو اتنا بڑا دعویٰ کفار کے سامنے رکھا کہ تمہارے سامنے میری زندگی ہے اس پر غور کرو.اس پر کبھی کفار مکہ نے انگلی نہیں اٹھائی کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، فلاں فلاں موقع پر جھوٹ نہیں بولا تھا؟ یاد کرایا جائے.ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس استدلال پر اس دلیل کو رڈ کیا ہو، کوئی اس پر اعتراض کیا ہو.اس کے برعکس آپ کو صدوق کہا جاتا تھا.اس کی مثالیں ہیں.یعنی جھوٹ بولنا تو ایک طرف رہا، صداقت کا ایسا اعلیٰ نمونہ تھے جس کی مثال نہیں ملتی.ایسے واقعات کی بعض مثالیں میں پیش کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: ”انبیاء وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی کامل راستبازی کی قوی حجت پیش کر کے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا جیسا کہ یہ الزام قرآن شریف میں ہے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے جہاں فرمایا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ - أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ (سورة يونس الجزو 11 آيت نمبر (17) یعنی میں ایسا نہیں کہ جھوٹ بولوں اور افتراء کروں.دیکھو میں چالیس برس اس سے پہلے تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا کبھی تم نے میرا کوئی جھوٹ یا افتراء ثابت کیا؟ پھر کیا تم کو اتی سمجھ نہیں یعنی یہ سمجھ کہ جس نے کبھی آج تک کسی قسم کا جھوٹ نہیں بولا وہ اب خدا پر کیوں جھوٹ بولنے لگا.غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے ( یعنی واضح اور ثابت شدہ ہے کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہو رہی ہے.مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاء صلی

Page 83

خطبات مسرور جلد سوم 76 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء اللہ علیہ وسلم سے جو اس کتاب میں لکھی جائیں گی، قطع نظر کر کے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلا شبہ انھیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کرے گا اور کیوں کر یقین نہ کرے وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلا اختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں“.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اول صفحه 107-108) یہ آپ نے براہین احمدیہ میں فرمایا تھا.تو بہر حال آگے میں باقی باتیں تو نہیں بیان کر رہا.اب احادیث سے کچھ واقعات بیان کروں گا جن سے آپ کی سچائی پر معاشرے کے ہر طبقے نے مہر ثبت کی ہے، گواہی دی ہے.جس میں گھر والے بھی ہیں، کاروباری شریک بھی ہیں، دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ہیں کہ یہ وہ سچا انسان تھا جسے ہم بلا مبالغہ صدوق کہتے تھے اور کہتے ہیں.ابتدائے جوانی میں ہی قریش مکہ کی ایک گواہی ہے جو انہوں نے آپ کے صادق اور امین ہونے پر دی.ایک واقعہ ہے کہ جب تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کی تنصیب کے لئے قبائل کا با هم اختلاف ہوا اور نوبت جنگ و جدال تک پہنچے لگی تو چار پانچ دن تک کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا.پھر ان میں سے ایک عقلمند شخص نے مشورہ دیا، جن کا نام ابو امیہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم تھا.یہ سب سے بوڑھے شخص اور تجربہ کار تھے.عموماً بوڑھے ذرا ہوش سے کام لیتے ہیں.انہوں نے مشورہ دیا کہ اختلاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ فیصلہ کر لو کہ جوشخص کل سب سے پہلے بیت اللہ میں آئے گا وہ فیصلہ کر دے.اس بات پر سارے راضی ہو جاؤ.چنانچہ سب نے یہ تجویز مان لی اور اگلے روز انہوں نے دیکھا کہ سب سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہونے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.چنانچہ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا هذ الامين سي تو امین ہے.ہم خوش ہو گئے یہ محمد ہیں.چنانچہ جب وہ ان کے پاس پہنچے اور قریش نے حجر اسود کے وضع کرنے کا جھگڑا بتایا.جب حجر اسود لگانا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس ایک کپڑا لاؤ.چنانچہ آپ کو کپڑا پیش کیا گیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا

Page 84

خطبات مسرور جلد سوم 77 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء بچھایا اور حجر اسود کو اس چادر پہ رکھ دیا.پھر آپ نے فرمایا ہر قبیلہ اس چادر کا ایک کو نہ پکڑ لے.پھر سب مل کر حجر اسود کو اٹھاؤ.چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا.یہاں تک کہ جب وہ حجر اسود جہاں رکھنا تھا اپنی اس جگہ پر پہنچ گیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے اس کی جگہ پر نصب فرما دیا.(السيرة النبوية لابن هشام حديث بنيان الكعبة...اشارة ابى امية بتحكيم اول داخل فكان رسول الله ) تو جیسا کہ اس وقت کفار نے ، قریش کے سرداروں نے آپ کو امین کہا تھا.یہ دعویٰ سے بہت پہلے کا قصہ ہے، جوانی کا قصہ ہے.اور امین بھی وہی ہوتا ہے جو بیچ پر قائم رہنے والا ہو.کبھی کوئی جھوٹا شخص امانت دار نہیں ہوسکتا.تو دیکھیں اس بات سے سرداران قریش میں آپ کا ایک مقام تھا.اگر آپ دنیا داروں کی طرح سرداری یا لیڈری چاہتے تو اس مقام کی وجہ سے وہ حاصل کر سکتے تھے.لیکن آپ کو تو اس چیز سے کوئی غرض نہیں تھی.پھر دیکھیں انہیں جوانی کے ایام کی بات ہے.جب حضرت خدیجہ نے آنحضور علی کی صدق بیانی اور امانتداری اور اعلیٰ اخلاق کا حال سن کر اپنا مال آپ کو دے کر تجارت کے لئے آپ کو روانہ کیا.اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھے.واپسی پر میسرہ نے سفر کے حالات بیان کئے تو حضرت خدیجہ نے ان سے متاثر ہو کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا.کہ آپ قرابت داری کا خیال رکھتے ہیں، قوم میں معزز ہیں، امانتدار ہیں اور احسن اخلاق کے مالک ہیں اور بات کہنے میں بچے ہیں.(السيرة النبوية لابن هشام حديث تزویج رسول الله ﷺ خديجة رضى الله عنها) تو سچائی اور امانتداری کے اعلیٰ معیار جو آپ نے اس وقت جوانی کے وقت میں قائم کئے تھے.تجارتی سفر میں اپنے ساتھیوں کو دکھائے تھے.اور وہ غلام جو آپ کے ساتھ تھا وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور آپ کا گرویدہ ہو گیا.واپس آ کے اپنی مالکن کو بتایا کہ کیسا ایمانداراورسچا شخص ہے.پھر بیوی کی گواہی ہے.بیویاں جو اپنے خاوند کے اچھے برے کی راز دار ہوتی ہیں، وہی

Page 85

خطبات مسرور جلد سوم 78 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء ان کے گھر یلو حالات و معاملات میں گواہی دے سکتی ہیں، انہیں کی گواہی وزن رکھنے والی گواہی ہے جو مل سکتی ہے.تو اس بارے میں بھی ایک روایت میں بیان ہے.ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی کے نزول کا ذکر کرتے ہوئے (تفصیلی روایت ہے ) بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وحی کے وقت اپنی پریشانی کا ذکر کیا.تو انہوں نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: كَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيْكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَصْدُقُ الْحَدِيثَ، یعنی ویسے نہیں جیسے آپ سوچ رہے ہیں، آپ کو مبارک ہو.اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا.آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور راست گوئی اور سچائی سے کام لیتے ہیں.(بخاری-کتاب التعبير - باب اول ما بدئ به رسول الله من الوحى الرؤيا الصالحة) پھر دیکھیں دوست کی گواہی.وہ دوست جو بچپن سے ساتھ کھیلا ، پلا ، بڑھا ، یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ.اس دوست نے ہمیشہ ہر حالت میں آپ کو سچ کہتے اور سچ کی تلقین کرتے ہی دیکھا اور سنا تھا.اس لئے ان کے ذہن میں کبھی یہ تصور آ ہی نہیں سکتا تھا کہ کبھی یہ شخص جھوٹ بھی بول سکتا ہے.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے جب آپ کے دعویٰ کے بارے میں سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی.کیونکہ ان کا زندگی بھر کا یہی مشاہدہ تھا کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں.آپ نے آنحضرت ﷺ سے صرف یہی پوچھا کہ کیا آپ نے دعوی کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کرنی چاہی تو ہر بار یہی عرض کی کہ مجھے صرف ہاں یا نہ میں بتا دیں.اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کہنے پر عرض کیا کہ میرے سامنے تو آپ کی ساری سابقہ زندگی پڑی ہوئی ہے.میں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ بندوں سے تو سچ بولنے والا ہو اور اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہو اور خدا پر جھوٹ بولے.(دلائل النبوة للبيهقى جماع ابواب المبعث باب من تقدم اسلامه.الصحابة......من اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ گھر والوں کی یا ملازمین کی یا دوستوں کی گواہی تو ایسی ہے کہ اگر

Page 86

خطبات مسرور جلد سوم 79 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء کسی میں تھوڑی بہت غلطی بھی ہو، کمی بھی ہو تو پردہ پوشی کر سکتے ہیں ، درگزر کر دیتے ہیں.لیکن اس کے علاوہ کون سی گواہیاں ہیں.اس کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن بھی جو گواہی آپ کے بارے میں دیتا ہے وہ تو ایسی گواہی ہے جس کو کسی طرح رو نہیں کیا جاسکتا.چنانچہ اس کی ایک مثال آپ کے اشد ترین دشمن نضر بن حارث کی گواہی ہے.ایک مرتبه سرداران قریش جمع ہوئے جن میں ابو جہل اور اشد ترین دشمن نضر بن حارث بھی شامل تھے.تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جب کسی نے یہ کہا کہ انہیں جادو گر مشہور کر دیا جائے یا جھوٹا قرار دے دیا جائے تو نضر بن حارث کھڑا ہوا اور کہنے لگا.اے گروہ قریش! ایک ایسا معاملہ تمہارے پلے پڑا ہے جس کے مقابلے کے لئے تم کوئی تدبیر بھی نہیں لا سکے.محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں ایک نوجوان لڑکے تھے اور تمہیں سب سے زیادہ محبوب تھے.سب سے زیادہ سیچ بولنے والے تھے.تم میں سب سے زیادہ امانتدار تھے.اب تم نے ان کی کنپٹیوں میں عمر کے آثار دیکھے اور جو پیغام وہ لے کر آئے تم نے کہا وہ جادوگر ہے.ان میں جادو کی کوئی بات نہیں.ہم نے بھی جادو گر دیکھے ہوئے ہیں.تم نے کہا وہ کا ہن ہے.ہم نے بھی کا ہن دیکھے ہوئے ہیں.وہ ہر گز کا ہن نہیں ہیں.تم نے کہا وہ شاعر ہیں، ہم شعر کی سب اقسام جانتے ہیں وہ شاعر نہیں ہے.تم نے کہا وہ مجنون ہے، ان میں مجنون کی کوئی بھی علامت نہیں ہے.اے گروہ قریش ! مزید غور کر لو کہ تمہار واسطہ ایک بہت بڑے معاملے سے ہے.(السيرة النبوية لابن هشام مادار بین رسول الله ﷺ وبين رؤساء قريش.نصيحة النصر لقريش بالتدبر.......) پھر دیکھیں ایک اور گواہی جو دشمنوں کے سردار ابو جہل کی ہے.حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابو جہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے.البتہ ہم اس تعلیم کو جھوٹا سمجھتے ہیں جو تم پیش کرتے ہو.جب عقل پر پردے پڑ جائیں کسی کی مت ماری جائے تو تبھی تو وہ ایسی باتیں کرتا ہے.اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کچھ تو عقل کرو.کیا ایک سچا آدمی جھوٹی تعلیم دے سکتا ہے.سچا آدمی تو سب سے پہلے اس جھوٹی

Page 87

خطبات مسرور جلد سوم 80 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء تعلیم کے خلاف کھڑا ہوگا.پھر ایک اور موقع پر آپ کے صادق ہونے پر دشمن کی گواہی ہے.حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابوسفیان بن حرب نے بتایا کہ جب وہ شام کی طرف ایک تجارتی قافلے کے ساتھ گیا ہوا تھا تو ایک دن شاہ روم ، ہر قل نے ہمارے قافلے کے افراد کو بلا بھیجا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت وہ کچھ سوالات پوچھ سکے.شہنشاہ روم کے دربار میں ہر قل سے اپنی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بیان کیا کہ اس نے مجھ سے کچھ سوال کئے.ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ کیا دعوئی سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھے؟ میں نے جوابا کہا کہ نہیں.اس پر ہر قل نے ابوسفیان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تو نے میرے اس سوال کا جواب نفی میں دیا تو میں نے سمجھ لیا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ باندھنے سے باز ہے مگر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باند ھے.ہر قل نے کہا مَاذَا يَأْمُرُكُمْ کہ محمد آپ کو کس چیز کا حکم دیتے ہیں.ابوسفیان نے کہا وہ کہتا ہے، اللہ کی عبادت کرو جو اکیلا ہی معبود ہے اور اس کا کسی چیز میں شریک نہ قرار دو اور ان باتوں کو جو تمہارے آباؤ اجداد کہتے تھے چھوڑ دو.اور وہ ہمیں نماز قائم کرنے ، سچ بولنے، پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتا ہے.تب ہر قل نے کہا کہ جو تو کہتا ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر عنقریب میرے قدموں کی اس جگہ کا بھی وہی مالک ہو جائے گا.پھر باوجود نہ ماننے کے آپ کی سچائی کا رعب تھا، اُس نے بھی اندر سے مخالفین کے دل دہلائے ہوئے تھے.اور وہ اس فکر میں رہتے تھے کہ اس بچے آدمی کی اگر یہ باتیں اور یہ تعلیم بھی کچی ہوئی تو ہمارا کیا ہوگا.اس خوف کا ایک واقعہ میں اس طرح ذکر ہے کہ قریش نے ایک دفعہ سردار عتبہ کو قریش کا نمائندہ بنا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا.اس نے کہا آپ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے ہیں اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں.آپ کی جو بھی خواہش ہے ہم پوری کر دیتے ہیں، آپ ان باتوں سے باز آئیں.حضور تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے.جب وہ سب کہہ چکا تو آپ نے سورۃ ختم فُصِّلَتُ کی چند (بخاری-کتاب بدء الوحى ،حدیث نمبر7)

Page 88

خطبات مسرور جلد سوم 81 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء آیات تلاوت کیں.جب آپ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد و ثمود جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں تو اس پر عتبہ نے آپ کو روک دیا کہ اب بس کریں اور خوف کے مارے اٹھ کر چل دیا.اس نے قریش کو جا کر کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا.مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آ جائے جس سے وہ ڈراتا ہے.تمام سردار یہ سن کر خاموش ہو گئے.(السيرة الحلبية از علامه برهان الدین باب عرض قريش عليه ﷺ اشياء من خوارق العادات وغير العادات.......پھر آپ کی سچائی کی گواہی صرف اتنی نہیں کہ ایک آدھ مثالیں مختلف طبقات میں سے مل جاتی ہیں بلکہ پوری قوم نے جمع ہو کر آپ کے صادق القول ہونے پر گواہی دی ہے.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وَ انْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ﴾ (الشعراء: 215) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار اور بیدار کر کے احکام اترے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے پکار کر اور ہر قبیلہ کا نام لے لے کر قریش کو بلایا.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا اے قریش! اگر میں تم کو یہ خبر دوں ، یہ بتاؤں ) کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے.تو کیا تم میری بات کو مانو گے.اور پہاڑی اتنی اونچی نہیں تھی اور ) بظاہر یہ ایک بالکل نا قابل قبول بات تھی ( لیکن کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ بشخص جھوٹ نہیں بولتا، کبھی کوئی غلط بات نہیں کہہ سکتا) مگر سب نے ( یک زبان ہو کر ) کہا کہ ہاں ہم ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ صادق القول پایا ہے.( ہمیشہ سچی بات کہنے والا پایا ہے آپ نے فرمایا تو پھر سنو، میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کا لشکر تمہارے قریب پہنچ چکا ہے.خدا پر ایمان لاؤ تا اس عذاب سے بچ جاؤ.“ (سیرت خاتم النبین مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے صفحہ 128) بہر حال یہ باتیں سن کے قریش وہاں سے چلے گئے اور ہنسی مذاق اور ٹھٹھا کرنے لگے، تعلیم کا مذاق اڑایا.لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہہ سکے کہ آپ جھوٹے ہیں.آپ کو بہت

Page 89

خطبات مسرور جلد سوم 82 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء بُرا بھلا کہا اور بھی سخت الفاظ استعمال کئے تھے لیکن یہ نہ کہہ سکے کہ آپ ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول رہے ہیں.اگر منہ سے الفاظ نکلے تو یہی کہ ہمیشہ آپ نے سچ بولا ہے اور یقیناً آپ سچ بول رہے ہیں.آپ کی سچائی کا معیار اتنا بلند، واضح اور روشن تھا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ پر کوئی جھوٹ بولنے کا الزام لگا سکے ، اشارہ بھی کر سکے.پھر آپ کے چچا کی ایک گواہی ہے.جب محصوری کے زمانے میں، جب شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے تھے.تیسر اسال جب ہونے کو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لڑکا یا ہوا تھا.ساروں نے بائیکاٹ کیا تھا اس کا معاہدہ تھا، خانہ کعبہ میں لڑکا یا گیا تھا.اس میں سوائے اللہ کے لفظ کے باقی سارا جو معاہدہ ہے اس کو دیمک کھا گئی ہے.اور ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر اتنا یقین تھا کہ انہوں نے جاکے پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آج تک کبھی کوئی غلط بات نہیں کی.اور یہ اس نے مجھے بتایا ہے اور لا ز ما یہ بھی سچی بات ہے.پھر وہ دوسرے قریش کے سرداروں کے پاس گئے ان کو بھی وہی بات بتائی کہ تمہارے معاہدے کو دیمک کھا گئی ہے.اور تم بھی جانتے ہو اور میں بھی جانتا ہوں کہ اس نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا.تو جا کر دیکھ لیتے ہیں.اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلا تو تمہیں بائیکاٹ کا فیصلہ بدلنا ہو گا اور اگر وہ جھوٹا ہوا تو میں اسے تمہارے حوالے کر دوں گا.جو مرضی سلوک کرنا قتل کر دیا جو چاہے کرو.اور پھر جب وہ وہاں گئے تو دیکھا تو سب کفار نے اس پر رضا مندی کا اظہار کیا کہ واقعی وہاں سوائے اللہ کے لفظ کے باقی سارے معاہدے کو دیمک کھا گئی تھی.چنانچہ وہ ختم سمجھا گیا.(الطبقات الكبرى لابن سعد ذكر حصر قريش رسول الله ﷺ وبني هاشم في الشعب) اب بظاہر تو آپ کے سچا ہونے کی بات ابو طالب نے کی ہے.لیکن تمام سرداران قریش کا خاموش ہو جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کو بھی یقین تھا کہ آپ سچ کہنے والے ہیں، بلکہ یہ بھی یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا بھی سچا ہے جس نے یہ خبر دی ہے.لیکن خدا کو نہ ماننا، اس کے لئے تو تکبر اور ڈھٹائی تھی جو آڑے آتی تھی.کیونکہ اگر یہ یقین نہ ہوتا کہ واقعی کا غذ کود یک کھا گئی

Page 90

خطبات مسرور جلد سوم 83 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء ہے یا ایسی کوئی بات ہے، خدا نے خبر دی ہے تو ہنسی مذاق میں ٹال سکتے تھے.لیکن بڑے سنجیدہ ہوکر سارے وہاں گئے.پھر ایک اور مخالف اور اس کی بیوی کی گواہی ہے.حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کے لئے گئے تو امیہ بن خلف ابو صفوان کے پاس ٹھہرے اور امیہ بن خلف شام جاتے ہوئے سعد کے ہاں مدینہ میں ٹھہرا کرتا تھا.بہر حال کہتے ہیں امیہ نے سعد کو کہا آپ انتظار کریں اور جب دو پہر ہو اور لوگ غافل ہو جائیں تو اس وقت عمرہ کر لینا.اس وقت کفار کے سامنے کھلے بندوں کر نہیں سکتے تھے.چنانچہ اس دوران کہ جب سعد طواف کر رہے تھے ابو جہل آ گیا اور اس نے کہا کعبہ کا طواف کرنے والا کون شخص ہے.انہوں نے کہا میں سعد ہوں.اس پر ابو جہل نے کہا تم کعبہ کا امن کے ساتھ طواف کر رہے ہو حالانکہ تم نے محمد اور ان کے ساتھیوں کو پناہ دے رکھی ہے.سعد نے کہا ہاں ہم نے ایسا کیا ہوا ہے.چنانچہ وہ ایک دوسرے سے اونچی آواز میں باتیں کرنے لگے.اس پر امیہ نے سعد سے کہا ابوالحکم پر آواز ے بلند نہ کرو یہ اس وادی کا سردار ہے.سعد نے کہا اللہ کی قسم اگر تم نے مجھے طواف کرنے سے روکا تو میں تیری شام کے ساتھ جو تجارت ہے اس میں روک بن جاؤں گا.شام کے ساتھ تجارت اس کے رستے سے ہوتی تھی.اس پر امیہ ، سعد سے کہنے لگا اپنی آواز بلند نہ کرو اور وہ ان کو پکڑ کر روک رہا تھا.اس پر سعد ناراض ہو گئے اور کہا مجھے چھوڑ دو.میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے انہوں نے کہا ہے کہ تم ان کے ہاتھوں قتل ہونے والے ہو.اس پر امیہ نے کہا: کیا میں ؟ سعد نے کہا ہاں ! اس پر امیہ نے کہا اللہ کی قسم محمد جب بات کرتا ہے تو جھوٹ نہیں بولتا.پھر وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میرے میتر بی بھائی نے مجھے کیا کہا ہے.اس نے کہا.کیا کہا ہے.امیہ نے کہا اس نے کہا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خیال ہے کہ وہ مجھے قتل کرنے والے ہیں.اس پر امیہ کی بیوی نے کہا.اللہ کی قسم ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹ نہیں بولتے.پھر جب کفار مکہ کی فوج بدر کی طرف جانے لگی تو امیہ کی بیوی نے اس سے کہا کہ تجھے یاد نہیں ، تیرے میٹر بی بھائی نے کیا کہا تھا.امیہ نے کہا میں آگے نہیں جاؤں گا.لیکن ابو جہل نے امیہ سے کہا کہ تم

Page 91

خطبات مسرور جلد سوم 84 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء وادی کے معزز سرداروں میں سے ہو، زبر دستی اس کو آگے لے گیا ، اور ایک دو دن تک تو ساتھ رہو پھر واپس آجانا.چنانچہ وہ ساتھ ہولیا اور آخر و ہیں بدر میں مارا گیا.(بخاری، کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام) تو یہ دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر وہ دونوں میاں بیوی نہ صرف خوفزدہ ہو گئے تھے بلکہ یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا.اور لاکھ بیچنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بدر کے میدان میں لے گئی.پھر دیکھیں آپ کی سچائی کے رعب کی ایک اور مثال.جنگ اُحد میں رسول اللہ علی زخمی ہونے کے بعد جب صحابہ کے ساتھ ایک گھاٹی میں ٹیک لگائے ہوئے تھے تو ابی بن خلف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر للکارتے ہوئے پکارا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر آج تم بچ گئے تو میں کامیاب نہ ہوا.صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا ہم میں سے کوئی اس کی طرف بڑھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے چھوڑ دو.جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیزہ لیا اور آگے بڑھے اور اس کی گردن پر ایک ہی وار کیا.جس سے وہ اپنے گھوڑے سے زمین پر لوٹنیاں کھاتے ہوئے گرا.ابن اسحاق جن کی روایت سیرت ابن ہشام میں درج ہے بیان کرتے ہیں کہ مجھے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف نے بتایا کہ ابی بن خلف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ میں ملتا تو کہتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک گھوڑا ہے جس کو میں خاص مقدار میں دانہ کھلا کر موٹا تازہ کر رہا ہوں.اس پر سوار ہو کر میں آپ کو قتل کروں گا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے کہ جس طرح تم کہتے ہو ویسا نہیں ہوگا بلکہ انشاء اللہ میں ہی تمہیں قتل کروں گا.پس جب زخمی ہو کر قریش کے پاس واپس پلٹا تو اس کی گردن پر ایک معمولی زخم تھا جو اتنا بڑا نہیں تھا جس سے خون بہہ نکلا.تھوڑا سا خون بہا تھا.وہ کہتا جا رہا تھا کہ بخدا محمد نے مجھے مارڈالا.اس کے ساتھیوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تم خوامخواہ دل چھوٹا کر رہے ہو، مایوس ہو رہے ہو.معمولی سا زخم ہے.اس نے کہا تم نہیں جانتے.اس نے ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ) مکہ میں مجھے کہا تھا کہ میں تجھے قتل کروں

Page 92

خطبات مسرور جلد سوم 85 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء گا.خدا کی قسم اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتا تو میں مارا جاتا.چنانچہ یہ قافلہ ابھی مکہ نہیں پہنچا تھا کہ اسی زخم سے سرف مقام پر وہ ہلاک ہو گیا.(سیرت ابن هشام ـ غزوة احد.مقتل ابی بن خلف) پھر ایک یہودی عالم کی آپ کی سچائی پر گواہی ہے، جو قیافہ شناس بھی تھا ، چہرہ شناس بھی تھا.حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کا استقبال کرنے کے لئے گھروں سے باہر نکل آئے.اور یہ صدائیں بلند ہونے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں.رسول اللہ علی صلى الله صلى الله تشریف لے آئے ہیں.عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ رسول اللہ علی کو دیکھنے کے لئے آیا.یہی وہ یہودی عالم تھے.جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو بغور دیکھا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا.(ترمذى كتاب صفة القيامة والرقائق والورع باب نمبر 42) ان تمام گواہیوں کو سامنے رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ آپ سچ بولنے والے اور خدا کے سچے نبی نہیں تھے.سوائے اس کے کہ جن کے دل، جن کے کان، جن کی آنکھوں پر مہر لگ چکی ہو، پردے پڑ چکے ہوں، اور کوئی نہیں جو یہ باتیں کر سکے.اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی سچ کو اور حق کو ظاہر کیا اور پھیلایا ہی نہیں بلکہ اپنے ماننے والوں کے دلوں میں بھی پیدا کیا.ان کے اندر بھی اس سچائی کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا.اور اسی حق بات کہنے اور حق کہنے کی وجہ سے اور حق ماننے کی وجہ سے بہتوں کو شروع زمانے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ بھی دھونے پڑے.لیکن یہی ہے کہ ہمیشہ سچ کو سچ کہا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کسی اعلی تعلیم اور اس کے لانے والے کے اعلیٰ کردار کو جانچنے کے لئے اس شخص کی زندگی میں سچائی کے معیار بھی دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے.اور یہ معیار ہمیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سب سے بڑھ کر نظر آتے ہیں.آپ کی سچائی کا معیار بچپن اور جوانی میں بھی انتہائی بلند تھا.جس کی ہم نے مختلف واقعات میں گواہی دیکھی ہے.دشمن بھی باوجود آپ کی تعلیم اور خدا پر یقین نہ ہونے کے آپ کی طرف سے کوئی انذار کی بات سن کر کوئی ڈرانے والی بات سن کر خوفزدہ ہو جایا کرتے تھے.

Page 93

خطبات مسرور جلد سوم 86 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء تو آج بھی آپ کی ذات پاک پر گھٹیا الزام لگائے جاتے ہیں.ہنسی ٹھٹھے اور استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا ہے.اور ایسے لوگ جو آج بھی یہ کام کر رہے ہیں.ان کو یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آج بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھتا ہے.بعض لوگ جو اپنے میڈیا کے ذریعے سے تاریخ کو یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، حق کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں.ان کو ان کفار مکہ کی مثالیں سامنے رکھنی چاہئیں جن میں سے چند ایک میں نے پیش کیں، مثالیں بے شمار ہیں.ہمارے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچ اور سچ کا نور نہ کبھی پہلے ماند پڑا تھایا چھپ سکا تھا نہ آج تم لوگوں کے ان حربوں سے یہ ماند پڑے گا یا چھپے گا.یہ نورانشاء اللہ تعالیٰ تمام دنیا پر غالب آتا ہے اور اس سچائی کے نور نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر ڈالنا ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آج کل بھی بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں بعض کرتا ہیں لکھی ہیں اور وقتا فوقتا آتی رہتی ہیں.اسلام کے بارے میں ، اسلام کی تعلیم کے بارے میں یا آپ کی ذات کے بارے میں بعض مضامین انٹرنیٹ یا اخبارات میں بھی آتے ہیں، کتب بھی لکھی گئی ہیں.ایک خاتون مسلمان بن کے ان سائیڈ سٹوری (Inside Story) بتانے والی بھی آجکل کینیڈا میں ہیں.جب احمدی اس کو چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ بات کرو تو بات نہیں کرتی اور دوسروں سے ویسے اپنے طور پر جو مرضی گند پھیلا رہی ہے.تو بہر حال آج کل پھر یہ مہم ہے.ہر احمدی کو اس بات پر نظر رکھنی چاہئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کی سیرت کے ہر پہلو کو دیکھا جائے اور بیان کیا جائے ،اظہار کیا جائے.یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی خلاف بات سنی ، جلوس نکالا ، ایک دفعہ جلسہ کیا ، ایک دفعہ غصے کا اظہار کیا اور بیٹھ گئے.بلکہ مستقل ایسے الزامات جو آپ کی پاک ذات پر لگائے جاتے ہیں ان کا رڈ کرنے کے لئے ، آپ کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کئے جائیں.ان اعتراضات کو سامنے رکھ کر آپ کی سیرت کے روشن پہلو دکھائے جاسکتے ہیں.کوئی بھی اعتراض ایسا نہیں جس کا جواب موجود نہ ہو.جن جن ملکوں میں ایسا بیہودہ لٹریچر شائع ہوا ہے یا اخباروں میں ہے یا ویسے آتے ہیں وہاں کی جماعت کا کام ہے کہ اس کو دیکھیں اور براہ راست اگر کسی بات کے جواب

Page 94

خطبات مسرور جلد سوم 87 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء دینے کی ضرورت ہے یعنی اس اعتراض کے جواب میں تو پھر وہ جواب اگر لکھنا ہے تو پہلے مرکز کو دکھا ئیں نہیں تو جیسا کہ میں نے کہا سیرت کا بیان تو ہر وقت جاری رہنا چاہئے.یہاں بھجوائیں تا کہ یہاں بھی اس کا جائزہ لیا جا سکے اور اگر اس کے جواب دینے کی ضرورت ہو تو دیا جائے.جماعت کے افراد میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں جس طرح میں نے کہا مضامین اور تقاریر کے پروگرام بنائے جائیں.ہر ایک کے بھی علم میں آئے.نئے شامل ہونے والوں کو بھی اور نئے بچوں کو بھی.تاکہ خاص طور پر نو جوانوں میں، کیونکہ جب کالج کی عمر میں جاتے ہیں تو زیادہ اثر پڑتے ہیں.تو جب یہ باتیں سنیں تو نو جوان بھی جواب دے سکیں.پھر یہ ہے کہ ہر احمدی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے.تا کہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ یہ پاک تبدیلیاں آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی وجہ سے ہیں جو چودہ صدیوں سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی اسی طرح تازہ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مسجد داعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے.اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی.جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر تو حید کا جامہ نہ پہن لیا.اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے.اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصے میں پائی نہیں جاتی.یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی.یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جب کہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعا ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا اور پھر آپ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جب کہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو چھوڑ کر تو حید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے اور در حقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے

Page 95

خطبات مسرور جلد سوم 88 خطبہ جمعہ 11 فروری 2005ء مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت ( یعنی وحشی طبیعت رکھنے والے اور جانوروں والی خصلتیں رکھنے والوں) کو انسانی عادات سکھلائے.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور بچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر (لیکچرسیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20صفحه 206-207 ) اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر اور آپ کے نقش قدم پر اور آپ کی سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: آج بنگلہ دیش کا 81 واں جلسہ سالانہ بھی ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ خیریت سے ہو جائے.وہاں کے حالات بھی ایسے ہیں جب احمدی اکٹھے ہوتے ہیں تو ہر وقت خطرہ رہتا ہے.تو ان کے لئے دعا کریں.اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لئے بھی یہی پیغام ہے کہ اپنی زندگیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں.اور ہمیشہ سچائی اور حق پر قائم رہیں.谢谢谢

Page 96

خطبات مسرور جلد سوم 89 6 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء آنحضرت صلی اللا علیم کی عبادات کا اعلیٰ معیار خطبہ جمعہ فرمودہ 18 فروری 2005ء بمقام بیت الفتوح.مورڈن ،لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.إِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيْلاة پھر فرمایا:.( المزمل : 7 ) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ رات کا اٹھنا یقینا نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے لئے زیادہ شدید اور قول کے لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے.یہ وہ قرآنی حکم ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور آپ نے اس کا حق ادا کر دیا بلکہ دعوی سے پہلے بھی، نبوت سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی تلاش میں اسی طرح اعتکاف کیا کرتے تھے.اپنی راتوں کو آرام میں یا کسی شوق میں گزارنے کی بجائے عبادتوں میں گزارتے تھے.راتوں کی عبادت جب رات گہری ہو، ہر طرف خاموشی ہو ، بندے اور خدا کے درمیان کسی قسم کی روک ڈالنے والی چیز نہ ہو، بندے اور اللہ کے درمیان راز و نیاز میں کوئی چیز روک نہ بنے ، اس وقت جو اللہ کی عبادت کرنے والے ہوتے ہیں وہ یقیناً اللہ کا قرب پانے والے اور اس کا پیار حاصل کرنے والے ہوتے ہیں.کیونکہ وہ خالصتا اللہ کے قرب کے لئے یہ عبادت بجالا رہے ہوتے ہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس طرح رات کو اٹھنا اپنے نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے

Page 97

خطبات مسرور جلد سوم 90 خطبہ جمعہ 18 / فروری 2005ء برابر ہے.بلکہ یہ شیطان کو ختم کرنے اور اپنے نفس پر قابو پانے کا ایسا زبردست حربہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیا ہی نہیں جا سکتا.اس وقت کے عہد و پیمان اتنے پکے اور مضبوط ہوتے ہیں کہ ان کو توڑنا ممکن نہیں ہوتا.شیطان کی ملونی اس میں ہو ہی نہیں سکتی.گویا اللہ تعالیٰ کا خالص بندہ بنے اور اپنے نفس کو ہلاک کرنے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں کہ رات کو اٹھ کر عبادت کی جائے.اور یہ عبادت کے اعلیٰ معیار ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑھ کر حاصل کئے.بلکہ آپ کی قوت قدسی نے صحابہ میں اور امت میں بھی راتوں کو عبادت کے لئے اٹھنے والے پیدا کئے.جس سورۃ کی آیت میں نے پڑھی ہے اس سورۃ کے آخر میں ہی اللہ تعالیٰ تصدیق فرماتا ہے کہ یقین اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ رات کے دو تہائی حصے میں یا آدھے حصے میں یا وقت کے لحاظ سے تیسرے حصے میں تو نے عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کر دیئے ، حق ادا کر دیئے.ان کی اللہ گواہی دیتا ہے.بلکہ ان لوگوں کی بھی گواہی دیتا ہے جو آپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں.ان حکموں پر عمل کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں.تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی گواہی اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہ جو ہدایت کی گئی تھی کہ عبادت کے لئے اُٹھ اور ان اندھیری راتوں کی دعاؤں میں اپنے آپ کو بھی مضبوط کر اور اپنی امت کے لئے بھی حصار بن جا.اس پر نہ صرف پورا اترا بلکہ اعلیٰ ترین معیار قائم کئے ، حق ادا کر دیا.دوسری جگہ اس کی ایک اس طرح بھی گواہی ملتی ہے.فرماتا ہے کہ الَّذِي يَريكَ حِيْنَ تَقُوْمُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السُّجِدِينَ (الشعراء: 219-220) یعنی جو دیکھ رہا ہوتا ہے.جب تو کھڑا ہوتا ہے.اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بے قراری کو بھی.پس جس کو خدا تعالیٰ یہ سند دے دے کہ تمام سجدہ کرنے والوں میں تیرے جیسا بے قرار سجدہ کرنے والا کوئی نہیں.جب تو کھڑا ہوتا ہے تو تیرا کھڑا ہونا عبادت کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی خاطر ہے، عبادت کے لئے ہے.اور جب تیرا سجدہ ہوتا ہے تو وہ بھی خدا اور صرف خدا کے لئے ہے.اس کے آگے جھکنے کے لئے ہے.اس کا رحم حاصل کرنے کے لئے ہے.اپنے لئے بھی اور اپنی امت کے لئے بھی.تو ایسے شخص کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ دنیاوی لذات کے پیچھے چلنے

Page 98

خطبات مسرور جلد سوم والا تھا یا ہوسکتا ہے.91 خطبہ جمعہ 18 / فروری 2005ء لیکن دنیا میں ایسے لوگ پیدا ہوتے آئے ہیں اور آج کل بھی ایسے پیدا ہورہے ہیں جو اسلام دشمنی میں خود یا نام نہاد مسلمانوں کو خرید کر ، لالچ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرگھٹیا اور بیہودہ الزام لگاتے ہیں.ایسے لوگوں کو وہ جاہل، اُجڈ اور مشرک لوگ ، اس عظیم نبی کی قوت قدسی اور دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بنتے نظر نہیں آتے.لیکن جو لوگ بغض اور کینے اور دشمنی میں اس حد تک چلے جائیں جن کی انصاف اور دین کی آنکھ کام نہ کرتی ہو، اس لحاظ سے بالکل اندھے ہوں، جن کے دل سیاہ ہوں جو خود غلاظت میں پڑے ہوئے ہوں.وہ جب بھی دیکھیں گے، اپنی اسی نظر سے دیکھیں گے.وہ جب بھی دیکھیں گے ان کو اپنا اندرونہ ہی نظر آ رہا ہوگا.اور صاف اور شفاف شیشہ وہی کچھ دکھاتا ہے جیسی کسی کی شکل ہو، جیسا کسی کا رنگ ہو.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شفاف آئینے میں یہ لوگ جب دیکھیں گے تو ان کو اصل میں تو اپنا آپ نظر آ رہا ہو گا.نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر، آپ کا حسین چہرہ.آپ کا حسین چہرہ دیکھنے کے لئے تو پاک دل ہونا ضروری ہے.انصاف کے تقاضے پورے کرنے ضروری ہیں.خدا کا خوف ضروری ہے ، دلوں کے زنگ دور ہونے ضروری ہیں، پھر اس حسین چہرے کی پہچان ہو سکتی ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ایسے لوگ جو اسلام کو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ اپنے زعم میں بدنام کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں.اور ایسی ایسی بیہودہ گوئیاں کر رہے ہوتے ہیں جنہیں کوئی بھی شریف آدمی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا.اور یہ لوگ اپنے زعم میں بڑے پڑھے لکھے ہونے اور آزاد خیال ہونے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں.دنیا کے سامنے اپنے خیال میں اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حقائق بیان کر رہے ہوتے ہیں.اصل میں یہ ایسے لوگ ہیں جن کا اپنا چہرہ ان بیہودہ گوئیوں سے ظاہر ہو رہا ہوتا ہے.بہر حال ایسے لوگوں میں سے یہاں آج کل ایک صاحب نے پچھلے دنوں مضمون لکھا تھا، جرنلسٹ ہیں چارلس مور ( Charles Moore ).استہزاء کے رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عائشہ سے شادی کے بارے میں لکھا.لیکن بے چارہ اپنے کینے کی وجہ سے،

Page 99

خطبات مسرور جلد سوم 92 خطبہ جمعہ 18/ فروری 2005ء دل میں جو بغض بھرا ہوا تھا اس کی وجہ سے بالکل ہی اندھا ہو گیا ہے.یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوٹی عمر کی بچیوں سے کوئی دلچسپی تھی.حالانکہ جس کتاب کا حوالہ دے کر اس نے اپنی بات کی ہے، راجر سن (Barnaby Rogerson) کی کتاب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر.اس نے واضح طور پر لکھا ہے کہ رخصتا نہ حضرت عائشہ کا بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہوا تھا.پھر اس اندھے کو یہ بھی نظر نہیں آیا کہ آپ کی پہلی شادی کس عمر میں ہوئی جو جوانی کی عمر تھی.پھر یہ نظر نہیں آیا کہ آپ کی تمام دوسری بیویاں بڑی عمر کی تھیں.جب انسان اندھا ہو جائے تو تاریخ کو بھی تو ڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے.جب بغض اور کینے بڑھ جائیں تو حق بات کہنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی.بہر حال اس بحث کو میں اس وقت نہیں لے رہا.اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس کام کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا تھا کہ میری عبادت کرو اور میرے عبادت گزار پیدا کرو.صرف اسی کام سے آپ کو دلچسپی تھی اور اسی کے اعلیٰ معیار قائم کر کے دکھانے پر اللہ تعالیٰ نے گواہی بھی دی ہے.تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا مور ( Moore) کی ان بیہودہ گوئیوں کا اس وقت جواب نہیں دے رہا.لیکن حقائق اور واقعات اور تاریخ کو سامنے رکھ کر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی دلچسپی تھی تو اپنے پیدا کرنے والے خدا سے تھی اور نہ صرف دلچسپی تھی بلکہ عشق تھا.اور ایسا عشق تھا جو کسی عشق کی داستان میں نہیں مل سکتا.اگر کوئی خواہش تھی تو صرف یہ کہ میرا جسم ، میری جان ، میری روح اللہ تعالیٰ کے در پر پڑی رہے.اور اس کی راہ میں قربان ہوتی رہے.جوانی کے دنوں میں بھی آپ کو عورتوں یا لہوو لعب یا کھیل کو د سے کوئی دلچسپی نہیں تھی.اس وقت بھی ایک خدا کی تلاش میں ، اس کی محبت میں ، گھر بار چھوڑ کر بیوی بچے چھوڑ کر میلوں دور ایک غار میں جا کر عبادت کیا کرتے تھے تا کہ کوئی بھی وہاں آ کے ڈسٹرب (Disturb) کرنے والا نہ ہو.کیا دنیا سے دلچسپی رکھنے والا یا دنیا کی چیزوں سے دلچسپی رکھنے والا، دنیا کی چیزوں پر منہ مارنے والا اس طرح کے عمل دکھایا کرتا ہے؟ اور یہ ایسی چیز ہے جس سے مخالفین بھی اپنی کتابوں میں انکار نہیں کر سکے، چاہے نتیجے اپنی مرضی کے جو بھی نکالیں.لیکن حقائق سے انکار نہیں ہوسکتا.

Page 100

خطبات مسرور جلد سوم 93 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے.آپ عبادت کرنے کے لئے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غار حرا تھی چلے جاتے تھے.یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان اس میں جانے کی جرات نہ کر سکتا تھا.لیکن آپ نے اس کو اس لئے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا.آپ بالکل تنہائی چاہتے تھے.شہرت کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے.مگر خدا تعالیٰ کا حکم ہوا تأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِرْ﴾ (المدثر : 2-3) اس حکم میں ایک جبر معلوم ہوتا ہے اور اسی لئے جبر سے حکم دیا گیا کہ آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑ دیں“.(ملفوظات جلد 4 صفحه -34 جدید ایڈیشن - البدر مورخه 24 اگست 1904ء صفحه 43) تو اس تنہائی کو چھوڑنا اور اس کو چھوڑ کر دنیا کے سامنے آنا اور اپنے محبوب کا پیغام دنیا کو پہنچانا یہ بھی اس لئے تھا کہ حکم ہوا تھا کہ یہ کرو.نہ کہ اپنی کوئی خواہش کو پورا کرنے کے لئے.ایک روایت میں آتا ہے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں.کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل تن تنہا کچھ زادراہ ساتھ لے کرا کیلے چلے جاتے تھے.کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر ، حرا نامی غار میں جا کر معتکف ہو کر عبادت کیا کرتے تھے.وہاں آپ کئی کئی راتیں عبادت میں گزارتے اور پھر جب زادہ راہ ختم ہو جاتا تو آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آتے اور مزید زاد راہ ساتھ لے لیتے اور پھر تنہائی میں جا کر اللہ کو یاد کر نے لگتے“.مسلسل کئی کئی دن یہ عمل جاری رہتا تھا.ہر وقت یہ فکر ہوتی تھی اور اس کوشش میں ہوتے تھے کہ میں اپنے محبوب اللہ سے راز و نیاز کی باتیں کروں.جیسا کہ ذکر آ چکا ہے.اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے جب تبلیغ شروع کی تو خانہ کعبہ میں کی.عبادت کے لئے بعض دفعہ تشریف لایا کرتے تھے اور کفار مکہ کو بڑا سخت ناگوار گزرتا تھا کہ یہاں آ کر اس طرح اپنے طریقے سے عبادت کریں.اور وہ آپ کو اس عبادت کرنے سے روکنے کے لئے مختلف حیلے اور کوششیں بھی کیا کرتے تھے.لیکن آپ کو جو خدائے واحد سے عشق تھا وہ ان روکوں اور مخالفتوں سے ختم نہیں ہوسکتا تھا.اس (بخاری کتاب بدء الوحى حديث نمبر 3)

Page 101

خطبات مسرور جلد سوم 94 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء مخالفت کے ایک واقعہ کا یوں ذکر بھی ملتا ہے.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اس وقت ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے.اس دوران اُن میں سے کسی نے کہا تم میں سے کون فلاں لوگوں کی اونٹنی کی بچہ دانی لائے گا تا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر جبکہ وہ سجدے میں ہوں رکھے.چنانچہ ان لوگوں میں سے بد بخت ترین شخص اٹھا اور اونٹنی کی بچہ دانی اٹھالایا اور وہ اس وقت کا انتظار کرتا رہا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہوں.پھر جونہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اس نے وہ بچہ دانی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دی.راوی کہتے ہیں کہ میں ان کو یہ سب کچھ کرتے دیکھتا رہا مگر میں کچھ کر نہیں سکتا تھا.کاش مجھ میں ان کو روکنے کی طاقت ہوتی.پھر وہ لوگ ایسا کرنے کے بعد ہنستے ہوئے ایک دوسرے پر گرنے لگے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل سجدے میں رہے.آپ اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے.یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فاطمہ آئیں اور انہوں نے اس بچہ دانی کو آپ کی کمر سے ا تارا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا.پھر آپ نے تین مرتبہ کہا اے اللہ ! ان قریش کو تو ہی سنبھال اور یہ بددعا بھی ان پر بڑی گراں گزری.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور کی دعا قبول ہوتی ہے.پھر آپ نے نام لے لے کر دعا کی کہ اے اللہ ! میں تجھ سے ابو جہل، عقبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط پر گرفت کرنے کی درخواست کرتا ہوں.تو راوی کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتویں آدمی کا بھی نام لیا تھا.مجھے یاد نہیں رہا.لیکن بہر حال راوی کی روایت یہ ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے.میں نے ان لوگوں کو جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں گنا تھا بدر کے گڑھے میں قتل ہونے کے بعد گرے ہوئے دیکھا“.(بخاری کتاب الوضوء ـ باب اذا القى على ظهر المصلّى قذراو جيفة حديث نمبر 240) تو یہ قبولیت دعا کے نظارے اللہ کا پیارا ہی دکھا سکتا ہے.کیا کوئی دنیاوی دلچسپیوں میں

Page 102

خطبات مسرور جلد سوم 95 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء ڈوبا ہوا یہ نظارے دکھا سکتا ہے؟ تھوڑے ہی عرصہ میں سب کچھ پورا ہوتا ہوا نظر آیا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی دلی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے.(المعجم الكبير للطبرانى باب سعيد بن جبير عن ابن عباس) پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس رات کی عبادت میں بھی وہ اعلیٰ معیار قائم کئے جن کی مثال نہیں مل سکتی.اس بارے حضرت عائشہ کی گواہی ہے.رسول اللہ ﷺ کی نماز یعنی تہجد کی نماز کی کیفیت جب آپ سے پوچھی گئی تو فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے مگر وہ اتنی لمبی اور پیاری اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو.“ (بخاری کتاب التهجد باب قيام النبي ﷺ بالليل في رمضان وغيره – حديث نمبر 1147) سکوں.یعنی میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں آپ کی اس خوبصورت عبادت کا نقشہ کھینچ ایک روایت میں آتا ہے مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس وقت شدت گریہ وزاری کے باعث آپ کے سینے سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے.(سنن ابی داؤد كتاب الصلوة باب البكاء في الصلوة) ایک دوسری روایت میں یہ آتا ہے کہ : آپ کے سینے سے ایسی آواز اٹھ رہی تھی جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز ہوتی ہے.(سنن نسائى - كتاب السهو ـ باب البكاء في الصلوة حديث نمبر (1213) حضرت عوف بن مالك اشجعی کہتے ہیں کہ : ایک رات مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کو عبادت کی توفیق ملی.آپ نے پہلے سورۃ بقرہ پڑھی.آپ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور آپ کسی عذاب کی آیت

Page 103

خطبات مسرور جلد سوم 96 خطبہ جمعہ 18/ فروری 2005ء سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی.پھر قیام کے برابر آپ نے رکوع فرمایا.یعنی جتنی دیر کھڑے تھے، تلاوت کی اتنی ہی دیر رکوع کیا ، جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے.پھر قیام کے برابر سجدہ کیا.سجدے میں بھی یہی تسبیح دعا پڑھتے رہے.پھر کھڑے ہو کر آل عمران پڑھی.پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے.(ابو داؤد - كتاب الصلوة ـ باب ما يقول الرجل في ركوعه و سجوده حدیث نمبر 868) تو یہ رک رک کر سمجھ کر ، رحمت اور عذاب کے موقعوں پر دعا کر کے، پناہ مانگ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح غور کرنا اور پناہ مانگنا، یہ رکنا یہ غور بھی کوئی معمولی نہیں ہوتا تھا.یہ دعائیں بھی اور یہ غور بھی بہت اعلیٰ معیار کا تھا جس تک انسان کی شاید سوچ بھی پہنچنی بہت مشکل ہو.تبھی تو حضرت عائشہ نے فرمایا ہے کہ ان کی نمازوں کے حسن کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھو وہ بیان ہی نہیں کی جاسکتیں.پھر حضرت حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں.ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دان صحابی تھے.ایک رات رسول اللہ کے ساتھ نماز ادا کی جب نماز شروع کی تو آپ نے کہا اللهُ أَكْبَرُ ذُو الْمَلَكُوتِ وَالْحَبْرُوْتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظْمَةِ.يعنى الله بڑا ہے جو اقتدار اور سطوت کبریائی اور عظمت والا ہے.پھر آپ نے سورۃ بقرہ مکمل پڑھی.پھر رکوع فرمایا جو قیام کے برابر تھا.پھر رکوع کے برابر کھڑے ہوئے.پھر سجدہ کیا جو کہ قیام کے برابر تھا.پھر دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْلِی، رَبِّ اغْفِرْ لِی اے میرے رب مجھے بخش دے، اے میرے رب مجھے بخش دے کہتے ہوئے اتنی دیر بیٹھے جتنی دیر سجدہ کیا تھا.پھر دوسری رکعتوں میں آپ نے آل عمران، نساء، مائدہ، انعام وغیرہ طویل سورتیں پڑھیں.(ابو داؤد.كتاب الصلوة باب ما يقول الرجل فى ركوعه و سجوده حدیث نمبر (869) تو دیکھیں یہ تھے آپ کی عبادتوں کے معیار.اس لئے روایتوں میں آتا ہے کہ بعض دفعہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنی لمبی نماز ادا فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو کر پھٹ جاتے

Page 104

خطبات مسرور جلد سوم 97 خطبہ جمعہ 18 / فروری 2005ء تھے.ایک دفعہ میں نے آپ سے عرض کی اے اللہ کے رسول ! آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام قصور معاف فرما دیئے ہیں.تو آپ نے فرمایا افلا أحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا.کیا میں یہ نہ چاہوں کہ میں اللہ کا شکر گزار بندہ بنوں.(بخارى كتاب التفسير - سورة الفتح - باب قوله ليغفر لك الله ماتقدم من ذنبك........پھر ام المومنین حضرت سودہ کی ایک روایت ہے.نہایت سادہ مزاج اور نیک خاتون تھیں.ایک رات انہوں نے بھی اپنی باری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کا ارادہ کیا.اور حضور کے ساتھ جا کر نماز میں شامل ہوئیں.پتہ نہیں کتنی دیر نماز ساتھ وہ پڑھ سکیں لیکن بہر حال اپنی سادگی میں دن کے وقت انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس لمبی نماز پہ جو تبصرہ کیا اس سے حضور بہت محظوظ ہوئے.کہنے لگیں یا رسول اللہ ! رات آپ نے اتنا لمبا رکوع کروایا کہ مجھے تو لگتا تھا جیسے جھکے جھکے کہیں میری نکسیر نہ پھوٹ پڑے.(الاصابة في تمييز الصحابة حرف السين - القسم الاول – سودہ بنت زمعة) پھر ایک روایت میں آتا ہے عطاء روایت کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میں ابن عمرؓ اور عبید اللہ بن عمرؓ کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کی کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب ترین بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھی ہو.اس پر حضرت عائشہ ” آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یاد سے بیتاب ہو کر رو پڑیں اور کہنے لگیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا ہی نرالی ہوتی تھی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تشریف لائے.میرے ساتھ میرے بستر میں لیٹے پھر آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت کرلوں.میں نے کہا خدا کی قسم ! مجھے تو آپ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے.میری طرف سے آپ کو اجازت ہے.تب آپ اٹھے اور مشکیزہ سے وضو کیا.نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور نماز میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو آپ کے سینہ پر گرنے لگے.نماز کے بعد آپ دائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ

Page 105

خطبات مسرور جلد سوم 98 خطبہ جمعہ 18 / فروری 2005ء آپ کا دایاں ہاتھ آپ کے دائیں رخسار پر تھا.آپ نے پھر رونا شروع کر دیا.یہاں تک کہ آپ کے آنسوز مین پر ٹپکنے لگے.آپ اسی حالت میں تھے کہ فجر کی اذان دینے کے بعد بلال آئے جب انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ وزاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.(تفسير روح البيان زیر تفسیر سوره آل عمران آیت (191-192) اب مور صاحب (Moore) کیا کہتے ہیں؟ جس بیوی سے شادی کے بارے میں مور (Moore) نے ذہن کا گند نکالا ہے اس کی گواہی یہ ہے کہ مجھے چھوڑ کر اللہ کے حضور گریہ وزاری کرنے کے لئے حاضر ہو گئے.اور یہ کوئی ایک دو دفعہ کی بات نہیں ہے.اکثر ایسے واقعات ہوا کرتے تھے.بلکہ ہر روز ہر بیوی کے ہاں یہ نظارے نظر آئیں گے.اب دیکھیں حضرت عائشہ کی باری بھی آتی ہے.جب نو بیویاں تھیں تو نو دن کے بعد آتی ہو گی.آپ کی لاڈلی بیوی بھی ہیں.اس میں بھی کوئی شک نہیں.لیکن لاڈلی بھی اس لئے ہیں کہ اس بیوی کے گھر سب سے زیادہ وحی آپ پر نازل ہوئی اللہ تعالیٰ کا کلام اترا ہے.تو یہاں بھی لاڈ اور پیار کا معیار اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے.تو نو دن کے بعد جب اس بیوی کے پاس آتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ دل بے چین ہے، مجھے خدا کی عبادت کرنے دو.اور پھر ساری رات گڑ گڑا کر زمین کوتر کرتے رہتے ہیں.روتے ہوئے دعائیں کرتے ہوئے گزری.اس رب کی شکر گزاری کرتے ہیں جس نے اتنے احسانات کئے ہیں.کیا کوئی دنیا دار آدمی ایسے عمل کر سکتا ہے؟ لیکن دنیا داروں کے، اندھوں کے یہ معیار ہی نہیں.ان کے تو معیار ہی اور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے يَتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا ﴾ (الفرقان : 65) کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں.اب دیکھورات

Page 106

خطبات مسرور جلد سوم 99 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے.وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے آپ ساری ساری رات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے تھے.ایک رات آپ کی باری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی، کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو حضرت عائشہ کی آنکھ کھلی.دیکھا کہ آپ موجود نہیں.اسے شبہ ہوا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں.اس نے اٹھ کر ہر ایک گھر میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے.آخر دیکھا کہ آپ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رور ہے ہیں.اب دیکھو کہ آپ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے.تو کیا آپ کی بیویاں حظ نفس یا اتباع شہوت کی بنا پر ہوسکتی ہیں.( ملفوظات جلد 4 صفحه 50-51 جدید ایڈیشن - البدر 8جولائی 1904 صفحه 3°2) لیکن اعتراض کرنے والوں کو یہ چیز کبھی نظر نہیں آئے گی.سیہ واقعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں بیان ہوا ہے اس کی تفصیل حضرت عائشہ یوں بیان فرماتی ہیں: ایک رات حضور میرے پاس تشریف لائے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے لئے لیٹے مگر سوئے نہیں.اٹھ بیٹھے اور کپڑا اوڑھ لیا.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میرے دل میں سخت غیرت پیدا ہوئی.میں نے خیال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاید میری کسی سوکن کے ہاں تشریف لے جارہے ہیں.تو کہتی ہیں کہ میں آپ کے تعاقب میں گئی تو میں نے آپ کو بقیع قبرستان میں دیکھا.آپ مومن مردوں ، عورتوں اور شہداء کے لئے مغفرت طلب کر رہے تھے.حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے اپنے دل میں کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان.آپ اپنے رب کی طلب میں لگے ہوئے ہیں.اور میں دنیا کے خیالات میں ہوں.کہتی ہیں میں جلدی جلدی وہاں سے واپس آگئی.کچھ دیر کے بعد حضور بھی میرے پاس تشریف لے آئے جبکہ ابھی تیز چلنے کی وجہ سے میرا سانس پھولا ہوا تھا.تو حضور نے دریافت کیا کہ اے عائشہ ! تیرا سانس کیوں پھولا ہوا ہے؟ تو میں نے حضور کو ساری بات بتائی.اس پر آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا تجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیری حق تلفی کریں گے.اصل بات یہ ہے کہ

Page 107

خطبات مسرور جلد سوم 100 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء جبریل میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اس رات میں اللہ تعالیٰ ایک بھیٹر کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگوں کو آگ سے نجات بخشتا ہے.یعنی کثرت سے نجات بخشتا ہے.اس رات میں اللہ تعالیٰ نہ کسی مشرک پر نظر کرتا ہے اور نہ کسی کینہ پرور پر.ند قطع رحمی کرنے والے پر اور نہ تکبر سے کپڑے لٹکانے والے پر.اور نہ والدین کی نافرمانی کرنے والے پر اور نہ کسی شراب خور پر تو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ حضور نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی وہ اتاری اور مجھے فرمایا کہ اے عائشہ! کیا تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں آج کی باقی رات بھی عبادت میں گزاروں.میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان.ضرور.تب حضور نے نماز شروع کی اور اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے وہم ہوا کہ شاید آپ کا دم نکل گیا ہے.کہتی ہیں: میں نے ٹول کر آپ کے پاؤں کو چھوا تو آپ کے پاؤں میں حرکت پیدا ہوئی.میں نے آپ کو سجدے میں دعائیں کرتے سنا.صبح حضور نے فرمایا کہ جو دعائیں میں رات سجدے میں کر رہا تھاوہ جبریل نے مجھے سکھائی تھیں اور مجھے حکم دیا تھا کہ میں سجدوں میں ان کو بار بار دہراؤں.(تفسير الدر المنثور - تفسير سورة دخان.آیت نمبر 4) اب بتائیے کوئی کہ کیا اس محسن انسانیت جیسا کوئی اور ہے جو ساری ساری رات اپنے رب کے حضور لوگوں کے لئے مغفرت مانگتے ہی گزار دیتا ہے بخشش مانگتے ہی گزار دیتا ہے.اپنے رب کے عشق میں سرشار ہے اور اس کی مخلوق کی ہمدردی نے بھی بے چین کر دیا ہے.اپنی رات کی نیند کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے اپنی سب سے چہیتی بیوی کے قرب کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے.خواہش ہے تو صرف یہ کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو جائے اور اس کی مخلوق عذاب سے بچ جائے.کیا ایسے شخص کے بارے میں کوئی کہہ سکتا ہے.کہ وہ نعوذ باللہ دنیا کی رنگینیوں میں ملوث تھا.آپ کی راتیں کس طرح گزرتی تھیں اس کی ایک اور گواہی دیکھیں.حضرت ام سلمیٰ فرماتی ہیں کہ آپ کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے.پھر سو جاتے ، پھر اٹھ بیٹھتے اور نماز ادا کرتے.غرض صبح تک یہی حالت جاری رہتی.(ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ماجاء كيف كان قراءة النبي (ﷺ)

Page 108

خطبات مسرور جلد سوم 101 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء حضرت عائشہؓ کی ایک اور روایت ہے کہ ایک رات میری باری میں باہر تشریف لے گئے.کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کپڑے کی طرح زمین پر پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں سَجَدَ لَكَ سَوَادِي وَ خَيَالِي وَامَنَ لَكَ فُؤَادِى رَبِّ هَذِهِ يَدَاىَ وَ مَا جَنَيْتُ بِهَا عَلَى نَفْسِيْ - يَا عَظِيمًا يُرْجى لِكُلّ عَظِيمٍ اِغْفِرِ الذَنْبَ العَظِیم کہ اے اللہ ! تیرے لئے میرے جسم و جان سجدے میں ہیں میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے.اے میرے رب ! یہ میرے دونوں ہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے.اے عظیم ! جس سے ہر عظیم بات کی امید کی جاتی ہے، عظیم گناہوں کو تو بخش دے.پھر فرمایا کہ اے عائشہ ! جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کے لئے کہا ہے.تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو.جو شخص یہ کلمات پڑھے سجدے سے سراٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے.(مجمع الزوائد للهيثمي كتاب الصلوة باب ما يقول في ركوعه وسجوده) | آ ویہ کسی طرح گوارا نہیں تھا کہ آرام دہ بستر پر سوئیں اور گہری نیند ہو جو اللہ کی یاد سے غافل کر دے.حضرت حفصہ روایت کرتی ہیں کہ : ایک رات انہوں نے بستر کی چادر کی چار جہیں کر دیں ، ذرا نرم ہو گیا.تو صبح آپ نے فرمایا رات تم نے کیا بچھایا تھا.اسے اکبر اکر دو یعنی ایک رہنے دو.اس نے مجھے نماز سے روک دیا.(الشمائل النبوية للترمذى باب ما جاء فى فراش رسول الله صلى الله عليه وسلم ) شاید کچھ دیر کے لئے گہری نیند آ گئی ہوگی.اور آپ کو یہ گوارا نہ تھا کہ ذرا دیر کے لئے بھی اللہ سے غافل ہوں.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ : جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری یا کسی اور وجہ سے تہجد رہ جاتی تھی تو آنحضور ﷺ دنکو بارہ رکعتیں نوافل ادا کیا کرتے تھے.(صحیح مسلم ، کتاب صلاة المسافرين باب جامع صلاة الليل ومن نام عنه او مرض) خدا کی عبادت کے سامنے آپ نے اپنی صحت کی بھی کبھی پرواہ نہیں کی.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ : ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ

Page 109

خطبات مسرور جلد سوم 102 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء بیمار تھے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آج بیماری کا اثر آپ پر نمایاں ہے.فرمانے لگے اس کمزوری کے باوجود آج رات میں نے نماز تہجد میں طویل سورتیں پڑھی ہیں.(الوفاء باحوال المصطفى للجوزى باب التهجد اپنی امت کو بھی ، اپنے صحابہ کو بھی آپ نے اپنے نمونے سے یہی نصیحت فرمائی کہ خدا کی عبادت سے کبھی غافل نہ ہونا اور خاص طور پر تہجد کی نماز پر توجہ فرماتے تھے.حضرت عبداللہ ابن ابی قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا که : قیام اللیل مت چھوڑنا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑتے تھے.اور جب آپ بیمار ہو جاتے ، جسم میں سستی محسوس کرتے تو بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے.(سنن ابی داؤد كتاب التطوع باب قيام الليل حديث نمبر 1303 ) تو اس میں اتنی با قاعدگی تھی اور یہ نصیحت بھی تھی.تبھی تو حضرت عائشہ نے یہ نصیحت آگے چلائی ہے.آپ کی خواہش کی تھی کہ میرے ماننے والے بھی اسی طرح نمازوں اور تہجد میں با قاعدگی اختیار کریں.حضرت کعب بن مالک روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دن کے وقت سفر سے واپس تشریف لاتے اور سب سے پہلے مسجد تشریف لے جاتے.وہاں دو رکعت نفل ادا کرتے پھر کچھ دیر وہاں بیٹھتے.( مسلم - كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب استحباب ركعتين في المسجد لمن قدم من سفر أول قدومه- حديث نمبر 1659 ) اب عام آدمی ہو تو سفر سے واپس آ کر یہ ہوتا ہے کہ سیدھے گھر پہنچیں، بیوی بچوں سے ملنے کی خواہش ہوتی ہے.اپنے سفر کی تکان اتارنے کی خواہش ہوتی ہے.لیکن ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کیا ہے کہ آپ واپسی پر پہلے اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں.اس کا شکر بجالاتے ہیں.اس کا رحم اور فضل ما نگتے ہیں.اور پھر دوسرے کام کرتے ہیں یا گھر جاتے ہیں.جنگ احد میں بھی مسلمانوں کو کیسی خطرناک اور خوفناک صورتحال کا سامنا

Page 110

خطبات مسرور جلد سوم 103 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء کرنا پڑا تھا.خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوئے تھے لیکن یہ چیز آپ کی عبادت کے رستے میں روک نہیں بن سکی.آپ کی عبادت کے رستے میں حائل نہیں ہوسکی.ایک روایت میں آتا ہے : غزوہ اُحد کی شام جب لوہے کے خود کی کڑیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے رخسار میں ٹوٹ جانے کی وجہ سے آپ کا بہت سا خون بہہ چکا تھا.کلے پر لگنے کی وجہ سے خون بہہ چکا تھا.آپ زخموں سے نڈھال تھے.علاوہ ازیں 70 صحابہ کی شہادت کا زخم اس سے کہیں بڑھ کر اعصاب شکن تھا.اس روز بھی آپ بلال کی ندا پر ( یعنی بلال کی اذان کی آواز پر ) نماز کے لئے اسی طرح تشریف لائے جس طرح عام دنوں میں تشریف لاتے تھے.غرضیکہ واقعات تو بہت ہیں.آپ کی زندگی کا تو ہر ہرلحہ عبادتوں سے سجا ہوا تھا.نہ صرف یہ بلکہ اپنی امت کے افراد میں بھی ، صحابہ میں بھی عبادتوں کے معیار قائم کروا کر دکھائے.نصیحت بھی تبھی اثر کرتی ہے جب نصیحت کرنے والا خود اپنے عمل سے بھی انتہائی معیار دکھا رہا ہو.اور اس بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے جو کہا وہ کیا نہیں.بلکہ صحابہ کی یہ حسرت ہوتی تھی کہ ہم بھی اتنا کر سکیں جتنا آپ کرتے ہیں.غرضیکہ آپ نے ان لوگوں میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ خواہ کیسا ہی پکا دشمن ہو اور خواہ وہ عیسائی ہو یا آریہ جب وہ ان حالات کو دیکھے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کے تھے اور پھر اس تبدیلی پر نظر کرے گا جو آپ کی تعلیم اور تا شیر سے پیدا ہوئی تو اسے بے اختیار آپ کی حقانیت کی شہادت دینی پڑے گی“.لیکن بعض ایسے اندھے ہوتے ہیں جو اس طرح جائزہ نہیں لیتے یا دیکھتے ہیں تو آنکھیں بند کر لیتے ہیں.فرمایا : کہ موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجید نے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے ﴿ يَا كُلُوْنَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ (محمد : 13) یہ تو ان کی کفر کی حالت تھی.یعنی وہ اس طرح کھاتے ہیں جس طرح جانور کھا رہے ہوتے ہیں.لیکن پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی یہ حالت ہوگئی کہ تُون لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا ﴾ (الفرقان : 65)

Page 111

خطبات مسر در جلد سوم 104 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء یعنی وہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں.جو تبدیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے سے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا اس ساری حالت کے نقشہ کو دیکھنے سے بے اختیار ہو کر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کیا.دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.یہ نری کہانی نہیں.یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے.( ملفوظات جلد 5 صفحه 117 جدید ایڈیشن - البدر 17 جنوری 1907ء صفحه (11) پھر آخری بیماری میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدید بخار میں مبتلا تھے اس وقت بھی اگر آپ کو فکر تھی تو صرف نماز کی تھی.گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ بتایا گیا کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں.بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایا میرے اوپر پانی کے مشکیزے ڈالو.پانی ڈالو تعمیل ارشاد ہوئی.حکم پورا کیا گیا.پھر غشی طاری ہوگئی.پھر ہوش آیا ، پھر پوچھا کہ نماز ہو گئی.جب پتہ چلا کہ صحابہ ابھی انتظار میں ہیں تو پھر فرمایا مجھے پر پانی ڈالو.پھر پانی ڈالا گیا.پھر اس طرح پانی ڈالنے سے جب بخار کچھ کم ہوا تو نماز پر جانے لگے.مگر پھر کمزوی کی وجہ سے بیہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی.(بخاری ، کتاب المغازی ، باب مرض النبي ﷺ و وفاته) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: جب آپ "مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے.اس لئے آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا.جب حضرت ابو بکڑ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لئے نکلے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کونماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی آپ اس طرح مسجد کی طرف نکلے کہ دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جارہے تھے.کہتی ہیں کہ میری آنکھوں کے سامنے یہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے اس وقت آپ کے قدم زمین سے گھسٹتے جاتے تھے.آپ کو دیکھ کر

Page 112

خطبات مسرور جلد سوم 105 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء حضرت ابو بکر نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ جائیں.اس ارادے کو معلوم کر کے رسول کریم صلی اللہ یہ وسلم نے ابوبکر کی طرف اشارہ فرما کر کہا اپنی جگہ پہ کھڑے رہو.پھر آپ کو وہاں لایا گیا.پھر آپ ابو بکر کے ساتھ بیٹھ گئے اور اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنی شروع کی اور آپ کی جو حرکت ہوتی تھی اس پر حضرت ابو بکر تکبیر کہتے تھے.الله اكبر بولتے تھے.اور باقی لوگ حضرت ابو بکر کی نماز کی اتباع میں آپ کے پیچھے نماز پڑھتے رہے.66 (بخاری ، کتاب الاذان ، باب حد المريض ان يشهد الجماعة) حضرت علی اور حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت اور آخری پیغام جبکہ آپ جان کنی کے عالم میں تھے اور سانس اکھڑ رہا تھا.یہ تھا کہ الصَّلواةُ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ “ نماز اور غلام کے حقوق کا خیال رکھنا.(سنن ابن ماجه ، كتاب الوصايا ، باب هل أوصى رسول الله صلى الله عليه وسلم ) یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہترین خلاصہ ہے.کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے تجویز فرمایا ہزاروں ہزار درود سلام ہوں اس پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جس نے خود بھی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور اپنی امت کو بھی اس کی نصیحت فرمائی.اللهم صلّ على محمد وعلى آل محمد وبارك وسلم انك حميد مجيد حضرت عبداللہ بن رواحہ نے بجاطور پر آپ کی تعریف میں یہ شعر لکھا ہے کہ ؎ يَبِيتُ يُحَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِيْنَ الْمَضَاجِعُ کہ آپ اس وقت بستر سے الگ ہو کر رات گزار دیتے ہیں جب مشرکوں پر بستر کو چھوڑ نا نیند کی وجہ سے بوجھل ہوتا ہے.(بخاری کتاب التهجد باب فضل من تعار من الليل فصلّی.حدیث نمبر 1155) بہر حال ایسے لوگ جو یہ لغویات ، فضولیات اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں.اس کے لئے گزشتہ ہفتے بھی میں نے کہا تھا کہ جماعتوں کو انتظام کرنا چاہئے.مجھے خیال آیا کہ ذیلی تنظیموں

Page 113

خطبات مسرور جلد سوم 106 خطبہ جمعہ 18 فروری 2005ء خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی کہوں کہ وہ بھی ان چیزوں پر نظر رکھیں کیونکہ لڑکوں ، نوجوانوں کی آج کل انٹرنیٹ اور اخباروں پر توجہ ہوتی ہے، دیکھتے بھی رہتے ہیں اور ان کی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ نظر رکھیں اور جواب دیں.اس لئے یہاں خدام الاحمدیہ بھی کم از کم 100 ایسے لوگ تلاش کرے جو اچھے پڑھے لکھے ہوں جو دین کا علم رکھتے ہوں.اور اسی طرح لجنہ اپنی 100 نوجوان بچیاں تلاش کر کے ٹیم بنائیں جو ایسے مضمون لکھنے والوں کے جواب مختصر خطوط کی صورت میں ان اخبارات کو بھیجیں جن میں ایسے مضمون آتے ہیں یا خطوط آتے ہیں.آج کل پھر اخباروں میں مذہبی آزادی کے اوپر ایک بات چیت چل رہی ہے.اسی طرح دوسرے ملکوں میں بھی جہاں جہاں یہ اعتراضات ہوتے ہیں.وہاں بھی اخباروں میں یا انٹرنیٹ پر خطوط کی صورت میں لکھے جاسکتے ہیں.یہ خطوط کو ذیلی تنظیموں کے مرکزی انتظام کے تحت ہوں گے لیکن یہ ایک ٹیم کی Effort نہیں ہوگی بلکہ لوگ اکٹھے کرنے ہیں.انفرادی طور پر ہر شخص خط لکھے یعنی 100 خدام اگر جواب دیں گے تو اپنے اپنے انداز میں.خط کی صورت میں کوئی تاریخی ، واقعاتی گواہی دے رہا ہوگا اور کوئی قرآن کی گواہی بیان کر کے جواب دے رہا ہو گا.اس طرح کے مختلف قسم کے خط جائیں گے تو اسلام کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تصویر واضح ہوگی.ایک حسن ابھرے گا اور لوگوں کو بھی پتہ لگے گا کہ یہ لوگ کس حسن کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے ماند کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ جو تصور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے مسلمانوں کے پاس دلیل نہیں ہے اس لئے جلد غصے میں آ جاتے ہیں.اس کو بھی اس سے رد کرنا ہوگا.ہمارے پاس تو اتنی دلیلیں ہیں کہ ان کے پاس اتنی اپنے دفاع کے لئے نہیں ہیں.لیکن کیونکہ مسلمان تمام انبیاء کو مانتے ہیں.اس لئے انبیاء کے خلاف تو کوئی بات کر نہیں سکتے اور یہ لوگ بے شرم ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کے شر سے پناہ دے.谢谢谢

Page 114

خطبات مسرور جلد سوم 107 7 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء نبی اکرم صلی للہا لی کی پاکیزہ سیرت اور آپ کے حسین شمائل خطبه جمعه فرموده 25 فروری 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن، لندن.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (الاحزاب : 22) پھر فرمایا:.گزشتہ دو تین خطبات سے میں نے سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مضمون شروع کیا ہوا ہے.جس کی فوری وجہ بعض معترضین اسلام اور مخالفین اسلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض بیہودہ الزامات تھے.لیکن اب میرا خیال ہے کہ آپ کی سیرت اور آپ کے شمائل کے مختلف پہلوؤں کو لے کر کچھ بیان کروں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کا اعلیٰ خلق اتنا وسیع ہے اور ہر طرف پھیلا ہوا ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں جن کو مکمل طور پر بیان کرنا ممکن نہیں ہے.ہر خلق کی اتنی بیشمار مثالیں ہیں کہ ان کو سلسلہ خطبات میں بھی بیان کرنا ممکن نہیں.لیکن میں نے سوچا ہے کہ ان اعلیٰ ترین اخلاق کے نمونوں کی چند مثالیں پیش کروں گو اس کے لئے بھی کئی خطبے درکار ہوں گے.بہر حال اپنے اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات، آپ کے اطوار اور

Page 115

خطبات مسرور جلد سوم 108 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء سیرت کا مضمون یقیناً ہم سب کے لئے باعث برکت ہوگا.اور جہاں یہ ہمارے لئے برکت اور آپ کی سیرت کے پہلوؤں کو اپنی یادداشت میں تازہ کرنے کا موجب ہوگا، ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا باعث ہوگا وہاں غیروں کے سامنے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی چند جھلکیاں بھی آجائیں گی.ان کو بھی پتہ لگے گا کہ وہ نبی کن اعلیٰ اخلاق کا مالک تھا.گو کہ پہلے بھی پتہ ہے لیکن پھر بھی گہرائی میں جا کر دیکھنا نہیں چاہتے.پرانی باتیں ان کو بھول جاتی ہیں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے.ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے.تو ہر ایسا شخص جو اللہ کا خوف رکھتا ہے اس کو آخرت کا یقین ہے اور اگر اس کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر حساب کتاب کا خوف ہے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنا چاہتا ہے تو اس کو لا ز ما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کی پیروی کرنا ہوگی کیونکہ یہ اعلیٰ نمونے ، یہ اعلیٰ اخلاق ، یہ اعلی مثالیں صرف اور صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی مل سکتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ ان نمونوں پر تم نے کیوں قائم ہونا ہے؟ اس لئے قائم ہونا ہے، فرماتا ہے، حکم دیتا ہے کہ اگر خلق عظیم پر کوئی شخص ہے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جیسا کہ فرمایا وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عظیم ﴾ (القلم: 5) ( یعنی تو اپنی تعلیم اور اپنے عمل میں اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے.) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ) کے بارے میں فرماتے ہیں: تو اے نبی ایک خلق عظیم پر مخلوق ومفطور ہے.یعنی اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا تم اور مکمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں.’ کہ یہ جواعلیٰ اخلاق ہیں اتنے مکمل آپ میں پائے جاتے ہیں کہ اس سے زیادہ کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا.فرمایا: کیونکہ لفظ محاورہ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو.یعنی جو بھی صفت ہے اس میں وہ انتہائی حد تک پہنچی ہو.“ آپ فرماتے ہیں کہ: بعضوں نے کہا ہے کہ عظیم وہ چیز ہے.جس کی عظمت اس حد تک پہنچ جائے کہ حیطۂ ادراک سے باہر ہو

Page 116

خطبات مسرور جلد سوم 109 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء یعنی عظیم چیز وہ ہوتی ہے کہ عقل اس کو سوچ نہیں سکتی ، اس کا احاطہ نہیں کر سکتی ، اس تک پہنچ ہی نہیں سکتی.“ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه 194 بقيه حاشیه نمبر 11) تو یہ ہیں وہ عظیم اخلاق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے اعلیٰ معیار تک تمہاری عقل وسوچ پہنچ ہی نہیں سکتی.وہ سوچ سے باہر ہیں.اور جب وہ ایک مومن کی سوچ سے باہر ہو جائیں تو ایک ایسا آدمی جو مومن نہیں ہے، اس کی سوچ تو ان تک پہنچ ہی نہیں سکتی.وہ تو ہر ایسے پہلو کی اپنی سوچ کے مطابق اپنی ہی تشریح کرے گا.اور اگر کرے گا بھی تو اگر اچھائی کی طرف بھی جائے تو اس کا ایک محدود دائرہ ہوگا.ہمیں بہر حال یہ حکم ہے کہ تم بہر حال اپنی استعدادوں کے مطابق ان اخلاق کی پیروی کرنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ کی اس زبر دست گواہی کے باوجود کہ آپ عظیم خلق پر قائم ہیں اور اللہ کا قرب پانے کے لئے ، آپ کے نقش قدم پر چلنا ضروری ہے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیشہ اپنے آپ کو عاجز بندہ ہی سمجھا ہے.چنانچہ ایک دعا جو آپ مانگا کرتے تے وہ آپ کے اس خلق عظیم کو اور بلندیوں پر لے جاتی ہے.اور بے اختیار آپ کے لئے درود وسلام نکلتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے : کہ اے اللہ ! جس طرح تو نے میری شکل وصورت اچھی اور خوبصورت بنائی ہے اسی طرح میرے اخلاق و عادات بھی اچھے بنادے.(مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحه 155 مطبوعه (بيروت) دیکھیں خوبصورت شکل وصورت پر بے اختیار اللہ تعالیٰ کے حضور شکر کے جذبات نکل رہے ہیں.اور ساتھ یہ بھی کہ اے خدا! تو نے کہہ تو دیا کہ یہ نبی خلق عظیم پر قائم ہے.لیکن میں بشر ہوں اس لئے میرے اخلاق و اطوار ہمیشہ اچھے ہی رکھنا.ان پاک نمونوں کو قائم کرنے کی جو ذمہ داری تو نے میرے سپرد کی ہے اس کو مجھے احسن طور پر بجالانے کی توفیق بھی دینا.تو دیکھیں یہ اعلیٰ اخلاق اور عاجزی کی انتہا.اللہ تعالیٰ آپ کو فرما رہا ہے کہ تم خلق عظیم پر قائم ہو، امت کو فرما رہا

Page 117

خطبات مسرور جلد سوم 110 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء ہے کہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو.لیکن آپ یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ! میرے اخلاق و عادات واطوار ہمیشہ اچھے ہی رکھنا.دنیا داروں میں دیکھ لیں اگر کوئی افسر کسی کی تعریف کر دے تو دماغ آسمانوں پر چڑھ جاتا ہے کہ میں پتہ نہیں کیا چیز بن گیا ہوں.اب یہ اعتراض کرنے والے بتائیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا انسانی تاریخ میں اس جیسا عاجزی کا پیکر کوئی نظر آتا ہے.آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی تھی کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے اخلاق پر ڈھالیں.اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور یوں اپنی امت کے لئے کامل اور مکمل نمونہ بنیں.اور آپ نے یہ ثابت کر دکھایا.چنانچہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کے عین مطابق تھے وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں خوش ہوتے تھے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی ہوتی تھی.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں تو اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثانى - الفصل العاشر الاخلاق الحميدة) اور یہ کوئی چند ایک یا دس ہیں واقعات نہیں ہیں جن سے آپ کے اخلاق کا ہمیں پتہ چلتا ہے.اور اس بارے میں صرف آپ کی بیوی کی ہی گواہی نہیں ہے.گھر یلو زندگی کا اندازہ کرنے کے لئے بیوی کی گواہی بھی بہت بڑی گواہی ہوتی ہے اور بیوی بچوں کی گواہیوں سے ہی کسی کے گھر کے اندرونی حالات کا اور کسی کے اعلیٰ اخلاق کا پتہ لگتا ہے.لیکن آپ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں تو ہزاروں مثالیں مختلف طبقات کے لوگوں سے مل جاتی ہیں.خادم جو گھر کے اندر خدمت کے لئے ہو، گھر کے حالات سے بھی باخبر رہتا ہے اور باہر کے حالات سے بھی باخبر رہتا ہے.انہیں خدام میں سے ایک حضرت انس تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے.حضرت انس کا یہ بیان بھی ہے کہ اتنا عرصہ میں نے خدمت کی ، 10-12 سال جو خدمت کی کبھی آج تک کسی بات پر ، میری کسی کوتا ہی پر ،

Page 118

خطبات مسرور جلد سوم 111 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء میری کسی غلطی پر سخت الفاظ مجھے نہیں کہے.پھر آپ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں ایک اور روایت میں حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت صلى الله (بخاری کتاب المناقب ـ باب صفة النبي ﷺ عليه اور خوش اخلاق تھے.اعلیٰ اخلاق کا اظہار چہروں سے بھی ہوتا ہے.اگر کوئی ہر وقت اپنے چہرے پر بدمزگی طاری کئے رکھے اور سنجیدگی اور غصہ ظاہر ہورہا ہو تو اندر جیسے مرضی اچھے اخلاق ہوں ، دوسرا د یکھنے والا تو ایک دفعہ پریشان ہو جاتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی کیفیت بھی کیا ہوتی تھی.روایات میں آتا ہے کہ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی.حضرت عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متبسم اور مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثانى - الفصل السادس عشر.حسن عشرته) پھر ایک صحابی حضرت قیس " بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے جریر بن عبداللہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ اسلام لانے کے زمانے سے ( یعنی جب سے وہ مسلمان ہوئے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کبھی بھی ملنے سے منع نہیں فرمایا.اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی انہیں دیکھتے تو مسکرا دیا کرتے تھے.(بخارى كتاب المناقب باب ذكر جرير بن عبدالله البجلي) حضرت اُمّ معبد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو یوں بیان کرتی ہیں کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم دور سے دیکھنے میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت تھے اور قریب سے دیکھنے میں انتہائی شیریں زبان اور عمدہ اخلاق والے تھے.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثاني الفصل الثالث - نظافته.دیکھ کے ہی پتہ لگ جاتا تھا کہ یہ شخص نرم خو، نرم دل ہے.جوحسن دور سے دیکھنے پر ہر ظاہری حسن کو ماند کر دیتا تھا.کوئی بھی حسین چہرہ دیکھنے میں اس چہرے کے مقابلے کا نہیں تھا.یہ حسن

Page 119

خطبات مسرور جلد سوم 112 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء صرف ایسا حسن نہیں تھا جو دور سے ہی حسین نظر آتا ہو کہ واسطہ پڑنے پر کچھ اور نکلے.بلکہ اس حسین چہرے سے جب ملاقات کا موقع پیدا ہوتا تھا تو آپ کے اعلیٰ اخلاق ، آپ کی نرم اور میٹھی زبان اس حسن کو چار چاند لگا دیا کرتے تھے اور حضرت ام معبد نے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کا بڑا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے کہ قریب سے دیکھنے سے انتہائی شیریں زبان اور عمدہ اخلاق والے تھے.لوگوں سے معاملات کے بارے میں حضرت علیؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: آپ لوگوں میں سب سے زیادہ فراخ سینہ تھے.اور گفتگو میں لوگوں میں سب سے زیادہ کچے تھے.اور ان میں سب سے زیادہ نرم خو تھے اور معاشرت اور حسن معاملگی میں سب سے زیادہ معزز اور محترم تھے.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثاني الفصل السادس عشر.حسن عشرته ) یعنی آپ میں بہت ہی زیادہ وسعت حوصلہ تھی.باوجود بچے ہونے کے اگر کسی معاملے میں آپ سے کوئی بدکلامی کرتا تو پھر بھی آپ قصبر وتحمل کا مظاہرہ فرماتے تھے.چنانچہ جب ایک دفعہ آپ سے ایک یہودی نے واپسی قرضہ کا مطالبہ کیا اور قرضے کی مدت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اور یہ مطالبہ اس سے پہلے ہی کر دیا تھا اور سختی بھی کی بلکہ آپ کی گردن میں کپڑا کھینچا تب بھی آپ نے انتہائی نرمی سے اس سے گفتگو فرمائی اور میعاد کا حوالہ نہیں دیا بلکہ اس کا مطالبہ پورا کر دیا.آپ کا حسن ، آپ کے اعلیٰ اخلاق ، آپ کا صدق آپ کے چہرے سے چھلکا کرتا تھا اور ہر اس شخص کو نظر آتا تھا جو تعصب کی عینک اتار کر دیکھتا تھا.چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک چہرہ دیکھا تو میں جان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا.(دارمی - کتاب الاستئذان- باب فی افشاء السلام) اب اسلام لانے سے پہلے یہ بڑے یہودی عالم تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی نیکی کی وجہ سے حق کی پہچان کروائی تھی اور جب انہوں نے انصاف کی نظر سے دیکھا تو پہچان لیا کہ یقیناً

Page 120

خطبات مسرور جلد سوم 113 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء یہ ایسے شخص کا چہرہ ہے جو یقینا سچا اوراللہ تعالیٰ کے خلق پر قائم ہے.آپ کی مجالس کی خوبصورتیاں اور حسن سلوک کے نظارے اب دیکھیں.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اچھے اخلاق کا مالک کوئی بھی نہیں تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یا اہل خانہ میں سے جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا تا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فور اس کی بات کا جواب دیتے اور حضرت جریر بن عبداللہ نے بتایا کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی مجھے دیکھایا نہیں بھی دیکھا مگر میں نے ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومسکراتے ہوئے ہی پایا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے اور ان میں گھل مل جاتے تھے.اور ان سے باتیں بھی کرتے تھے اور ان کے بچوں سے خوش طبعی بھی فرماتے تھے.( یعنی ہنسی مذاق کی باتیں بھی کیا کرتے تھے ).انہیں اپنی آغوش میں بھی بٹھا لیتے تھے اور ہر ایک کی پکار کا جواب بھی دیتے تھے.ہر ایک جو بلاتا تھا اس کا جواب بھی دیتے تھے خواہ وہ آزاد ہو ( ایک آزاد آدمی ہو ) یا غلام ہو ( یا لونڈی ہو ) یا مسکین ہو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر کے دور کے حصے میں بھی مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور معذور کا عذر قبول فرمالیا کرتے تھے.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثاني - الفصل السادس عشر - حسن عشرته صل الله پھر حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بات کرنے کے لئے آپ کے کان سے منہ لگا تا تو آپ کسر کو پیچھے نہ ہٹاتے تھے یہاں تک کہ وہ خود پیچھے ہٹ جاتا.جب بھی کسی نے آپ کے دست مبارک کو پکڑا تو آپ نے کبھی اپنا ہاتھ نہ چھڑایا جب تک وہ خود نہ چھوڑ دیتا.صحابہ کرام سے مصافحہ کرنے میں آپ پہل فرمایا کرتے تھے.جب بھی کو ئی شخص ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہلے سلام کرتے.اپنے ساتھیوں کے درمیان پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے جس سے دوسروں کو تنگی ہو.جو شخص آپ کے پاس حاضر ہوتا آپ اس کی عزت کرتے اور بعض اوقات اس کے لئے کپڑا بچھا دیتے یا وہی تکیہ دے دیتے جو آپ کے پاس ہوا کرتا تھا اور آپ اصرار فرمایا کرتے تھے کہ وہ اس پر بیٹھے.صحابہ کو ان کی کنیت اور ان کے پسندیدہ ناموں سے بلایا کرتے تھے.کسی کی بات کو

Page 121

خطبات مسرور جلد سوم 114 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء ٹوکتے نہ تھے.اگر کوئی شخص آپ کے پاس ایسے وقت میں آجاتا کہ آپ نماز میں مشغول ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر فرما دیا کرتے تھے.اس کی ضرورت کو پوری کرنے کے بعد پھر نماز میں مشغول ہو جایا کرتے تھے.نزول قرآن ، وعظ و نصیحت اور خطبہ کے وقت کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ متبسم اور ہشاش بشاش نظر آتے تھے.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثاني - الفصل السادس عشر حسن عشرته دیکھیں اتنے بوجھ ، اتنی ذمہ داریاں ، اتنی فکر میں، دشمنوں کی طرف سے بے شمار چر کے اور تکلیفیں ، ان باتوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے اپنے رب کے حضور حاضر ہیں لیکن جب کوئی ملنے آگیا تو اعلیٰ اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی بات پہلے سن لی جائے.فوراً عبادت کو مختصر کیا اور مسکراتے ہوئے تشریف لے آئے کہ ہاں بتاؤ کیا حاجت ہے، کیا ضرورت ہے.تو یہ سب کچھ اس لئے برداشت کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق یہ اعلیٰ اخلاق دنیا میں قائم کرنے ہیں، لوگوں کے لئے نمونہ بننا ہے.پھر دیکھیں وہ نظارہ کہ لوگ لائنوں میں لگے کھڑے ہیں کہ تبرک حاصل کر لیں اور آپ بڑی خوش اخلاقی کے ساتھ ان کی اس خواہش کو پورا فرما رہے ہیں اور ان میں بھی بہت بڑا طبقہ بچوں اور غرباء پر مشتمل ہوتا تھا.چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے رہنے والے خدمت گزار اپنے برتنوں میں پانی بھر کر لاتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز سے فارغ ہو کر ان کے برتنوں میں ہاتھ ڈبوتے حالانکہ بسا اوقات صبح کے وقت سخت سردی بھی ہوا کرتی تھی.یہ لوگ برکت کی خاطر ایسا کرتے تھے، کہ پانی کا تبرک لے کر جائیں.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثاني - الفصل السادس عشر حسن عشرته.پھر دیکھیں گھر میں کیا زندگی تھی.ایک آواز پر سارا شہر بخوشی آپ کی خدمت کے لئے دوڑا چلا آتا، اکٹھا ہوسکتا تھا، جمع ہوسکتا تھا لیکن کیونکہ اعلیٰ نمونے قائم کرنے تھے اس لئے اپنے ذاتی کاموں میں کسی سے مد نہیں لی.

Page 122

خطبات مسرور جلد سوم 115 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی شخص نے پوچھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کوئی کام کاج کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ نے کہا: ہاں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے تھے، اپنا کپڑ اسی لیتے تھے اور اپنے گھر میں اسی طرح کام کیا کرتے تھے جس طرح تم سب لوگ اپنے گھروں میں کام کرتے ہو.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحه 167 مطبوعه بيروت) آج کل دیکھیں 99 فیصد مرد ایسے ہیں کہ اگر قمیص کا بٹن ٹوٹ گیا ہو یا کوئی ٹانکا اکھڑا ہو تو بیویوں کے ناک میں دم کیا ہوتا ہے.آپ خود لگا لیا کرتے تھے.بلکہ بعض دفعہ تو گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے تھے.آپ کی سادگی اور اعلیٰ اخلاق کی تصویر ایک اور روایت میں ذرا تفصیل سے اس طرح کھینچی گئی ہے.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بڑی سادہ تھی.آپ کسی کام کو عار نہیں سمجھتے تھے.اپنے اونٹ کو خود چارہ ڈالتے ، گھر کا کام کاج کرتے ، اپنی جوتیوں کی مرمت کر لیتے، کپڑے کو پیوند لگا لیتے ، بکری کا دودھ دوہ لیتے ، خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے.آٹا پیتے ہوئے اگر وہ تھک جاتا تو اس میں اس کی مدد کرتے.بازار سے گھر کا سامان اٹھا کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے.امیر غریب ہر ایک سے مصافحہ کرتے.سلام میں پہل کرتے.اگر کوئی معمولی کھجوروں کی دعوت دیتا تو آپ اسے حقیر نہ سمجھتے اور قبول کرتے.آپ نہایت ہمدرد، نرم مزاج اور حلیم الطبع تھے.آپ کا رہن سہن بہت صاف ستھرا تھا.بشاشت سے پیش آتے.تبسم آپ کے چہرے پر چھلکتا رہتا.آپ زور کا قہقہ لگا کر نہیں بنتے تھے.خدا کے خوف سے فکر مند رہتے تھے لیکن ترش روئی اور خشکی نام کو نہ تھی.منکسر المزاج تھے لیکن اس میں بھی کسی کمزوری ، پس ہمتی کا شائبہ تک نہ تھا.بڑے بھی تھے لیکن بے جا خرچ سے ہمیشہ بچتے.نرم دل رحیم و کریم تھے.ہر مسلمان سے مہربانی سے پیش آتے.اتنا پیٹ بھر کر نہ کھاتے کہ ڈکار لیتے رہیں.کبھی حرص وطمع کے جذبہ سے ہاتھ نہ بڑھاتے بلکہ صابر وشاکر اور کم پر قانع رہتے.(الرسالة القشيرية ، باب الخشوع والتواضع)

Page 123

خطبات مسرور جلد سوم 116 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء اور یہ صبر وشکر اور وقار اللہ تعالیٰ نے آپ کی فطرت میں بچپن سے ہی پیدا کر دیا تھا.چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کی چچی بچوں کوکھانا وغیرہ یا کوئی اور چیز دیا کرتی تھیں تو آپ وقار سے ایک طرف بیٹھے رہتے تھے اور بلانے پر بڑے باوقار طریقے سے جا کر کوئی چیز لیا کرتے تھے.پھر آپ کا حسن کلام ہے یعنی آپ کس طرح گفتگو فرمایا کرتے تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص آپ کے الفاظ کو گننا چاہے تو گن سکتا تھا.(سنن ابی داؤد کتاب العلم - باب في سرد الحديث) یہ ٹھہراؤ اس لئے تھا کہ لوگ سمجھ جائیں اور کسی قسم کا ابہام نہ رہے.کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس بات کی سمجھ نہیں آئی.لیکن اگر اس کے باوجود بھی کوئی دوبارہ پوچھتا تھا تو آپ بڑے تحمل سے بیان فرمایا کرتے تھے.بلکہ روایات میں آتا ہے کہ بعض دفعہ تو آپ اہم باتوں کو کئی کئی دفعہ دوہرایا کرتے تھے.آپ کے حسن کلام اور اعلیٰ اخلاق کے بارے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے انداز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یوں لگتے جیسے کسی مسلسل اور گہری سوچ میں ہیں اور کسی خیال کی وجہ سے آپ کو کچھ بے آرامی سی ہے.آپ اکثر چپ رہتے ، بلا ضرورت بات نہ کرتے.جب بات کرتے تو پوری وضاحت سے کرتے.آپ کی گفتگو مختصر لیکن فصیح و بلیغ ، پر حکمت اور جامع مضامین پر مشتمل ،مگر زائد باتوں سے خالی ہوتی تھی.لیکن اس میں کوئی کمی یا ابہام نہیں ہوتا تھا.نہ کسی کی مذمت اور تحقیر کرتے ، نہ توہین و تنقیض کرتے.چھوٹی سے چھوٹی نعمت کو بھی بڑا ظاہر فرماتے.اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے.شکر گزاری کا رنگ نمایاں تھا.کسی چیز کی مذمت نہ کرتے.نہ اتنی تعریف جیسے وہ آپ کو بے حد پسند ہو.مزیدار یا بدمزہ کے لحاظ سے کھانے پینے کی چیزوں کی تعریف یا مذمت میں زمین و

Page 124

خطبات مسرور جلد سوم 117 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء آسمان کے قلابے ملانا آپ کی عادت نہ تھی.ہمیشہ میانہ روی شعار تھا.کسی دنیوی معاملے کی وجہ سے نہ غصے ہوتے ، نہ برا مناتے.لیکن اگر حق کی بے حرمتی ہوتی اور یا حق غصب کر لیا جاتا تو پھر آپ کے غصے کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا تھا.جب تک اس کی تلافی نہ ہو جاتی آپ کو چین نہیں آتا تھا.حق کے لئے بہر حال سینہ سپر رہتے تھے اور وہ برداشت نہیں تھا کہ حق بیان نہ کیا جائے.اپنی ذات کے لئے کبھی غصے نہ ہوتے اور نہ اس کے لئے بدلہ لیتے.جب اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے کرتے صرف انگلی نہ ہلاتے.جب آپ تعجب کا اظہار کرتے تو ہاتھ کو الٹا دیتے.جب کسی بات پر خاص طور پر زور دینا ہوتا تو ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے اس طرح ملاتے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو مارتے.جب کسی ناپسندیدہ بات کو دیکھتے تو منہ پھیر لیتے اور جب خوش ہوتے تو آنکھ کسی قدر بند کر لیتے.آپ کی زیادہ سے زیادہ جنسی کھلے تقسیم کی حد تک ہوتی.یعنی زور کا قہقہہ نہ لگاتے.ہنسی کے وقت آپ کے دندان مبارک ایسے نظر آتے تھے جیسے بادل سے گرنے والےسفید سفید اولے ہوتے ہیں.؛ (شمائل ترمذی ـ باب كيف كان كلام رسول الله ) حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.آپ نے سرخ جوڑ ادھاری دار پہنا ہوا تھا اور پڑکا باندھا ہوا تھا.آپ سے بڑھ کر خوبصورت میں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا.حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح ( لمبا اور پتلا ) تھا تو آپ نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ چاند کی طرح ( گول صلى الله (بخارى كتاب المناقب - باب صفة النبي ﷺ اور چمکدار ) تھا.عرب بھی مثالیں خوب تلاش کرتے ہیں.عربوں کے لئے تلوار اس زمانے میں ایک بہت اہم چیز تھی اور مردانگی اور مردانہ وجاہت کی نشانی بھی کبھی جاتی تھی.انہوں نے شاید اسی لئے تلوار کی مثال دی.لیکن جس صحابی نے دیکھا تھا انہوں نے کہا کہ نہیں ایسے چہرے کی مثال تو چاند کی ہے جو گول بھی ہے، چمکدار بھی ہے.جس سے ٹھنڈی روشنی بھی نکلتی ہے.جس کو مستقل دیکھنے کو

Page 125

خطبات مسرور جلد سوم 118 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء دل بھی چاہتا ہے.یہ اپنا گرویدہ بھی بنالیتی ہے.اس حسین چہرے میں تو ٹھنڈک ہی ٹھنڈک تھی.تلوار کی مثال تو نہیں دی جاسکتی جس میں کاٹنے کی خاصیت ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن تو دلوں کو موہ لینے والا حسن تھا.پھر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا.آپ کا چہرہ دمک رہا تھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی کی خبرملتی تھی تو آپ کا چہرہ ایسے چمک اٹھتا تھا گویا چاند کا ٹکڑا ہے اور اسی سے ہم آپ کی خوشی پہچان لیتے تھے.(بخارى كتاب المناقب - باب صفة النبى - حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ رنگ کا لباس زیب تن فرمایا ہوا تھا میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا اور کبھی چاند کو.پس میرے نزدیک تو آ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم يقينا أَحْسَنُ مِنَ القَمَرَ یعنی چاند سے کہیں زیادہ حسین تھے.(شمائل ترمذى.باب ماجاء فى خلق رسول الله ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال، خوبصورتی ، وجاہت اور اخلاق کے بارے میں ایک تفصیلی روایت اس طرح بیان ہوئی ہے.حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کرنے میں بڑے ماہر تھے اور میں چاہتا تھا کہ یہ میرے پاس ایسی باتیں بیان کریں جنہیں میں گرہ میں باندھ لوں.چنانچہ ہند نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بارعب اور وجیہہ شکل وصورت کے تھے.چہرہ مبارک یوں چمکتا تھا گویا چودھویں کا چاند.میانہ قد یعنی پستہ قامت سے دراز اور طویل قامت سے قدرے چھوٹا.یعنی نہ چھوٹا قد تھا نہ بہت لمبا.درمیانہ قد تھا.سر بڑا ، بال خم دار اور گھنے جو کانوں کی لو تک پہنچتے تھے.مانگ نمایاں، رنگ کھلتا ہوا سفید، پیشانی کشادہ، ابر و لمبے باریک اور بھرے ہوئے جو باہم ملے ہوئے نہیں تھے بلکہ درمیان میں سفید سی لکیر نظر آتی تھی جو غصے کے وقت نمایاں ہو جاتی تھی.ریش مبارک گھنی ، رخسار نرم اور ہموار، دہن کشادہ ، دانت ریخدار اور

Page 126

خطبات مسرور جلد سوم 119 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء چمکیلے، آنکھوں کے کوئے باریک، گردن صراحی دار مگر چاندنی کی طرح شفاف جس پر سرخی جھلکتی تھی.معتدل الخلق ، بدن کچھ فربہ لیکن بہت موزوں.پیٹ اور سینہ ہموار ہوتا تھا.سینہ چوڑا اور فراخ.جوڑ مضبوط اور بھرے ہوئے.جلد چمکتی ہوئی نازک اور ملائم.چھاتی اور پیٹ بالوں.ނ بالکل صاف سوائے ایک بار یک سی دھاری کے جو سینے سے ناف تک چلی گئی تھی.کہنیوں تک دونوں ہاتھوں اور کندھوں پر کچھ کچھ بال.پہنچے لمبے، ہتھلیاں چوڑی، اور گوشت سے بھری ہوئی.انگلیاں لمبی اور سڈول.پاؤں کے تلوے قدرے بھرے ہوئے.قدم نرم اور چکنے کہ پانی بھی ان کے اوپر سے پھسل جائے.جب قدم اٹھاتے تو پوری طرح اٹھاتے.رفتار با وقار لیکن کسی قدر تیز جیسے بلندی سے اتر رہے ہوں.جب کسی کی طرف رخ پھیرتے تو پورا رخ پھیرتے.نظر ہمیشہ نیچی رہتی.یوں لگتا جیسے فضا کی نسبت زمین پر آپ کی نظر زیادہ پڑتی ہے.آپ اکثر نیم وا آنکھوں سے دیکھتے.اپنے صحابہ کے پیچھے چلتے اور ان کا خیال رکھتے.ہر ملنے والے کو سلام میں پہل فرماتے.(شمائل ترمذی - باب ماجاء فى خُلُقٍ رسول الله ﷺ یہ آپ کے حسن دو وجاہت اور اعلیٰ خلق کا ایک ایسا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جو کچھ بھی انسانی طاقت کسی چیز کو بیان کرنے کی ہے اس طرح بیان کیا گیا ہے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ آپ کا ہر خلق عظیم تھا اور ہر معاملے میں آپ کی عظمت اتنی تھی کہ احاطہ نہیں کیا جا سکتا.پھر بھی لگتا ہے کہ یہاں کمی رہ گئی ہے.اس سے بہت بڑھ کر ہوں گے جو بیان ہوا ہے.آپ کے حسن کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر شفاف حسین اور خوبصورت تھے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک چاندی سے ڈھالا گیا ہے.(شمائل ترمذی - باب ماجاء في خلق رسول الله ﷺ اور آپ کی خوبصورت چال کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین کوئی نہیں دیکھا گویا آپ کا چہرہ مبارک ایک درخشندہ آفتاب کی مانند تھا.اور میں نے چلنے میں آپ سے تیز کسی کو نہیں پایا گویا

Page 127

خطبات مسرور جلد سوم 120 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء زمین آپ کے لئے سمٹتی جاتی تھی.ہمیں آپ کے ساتھ چلتے رہنے میں کافی وقت پیش آتی تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی معمول کی رفتار سے چل رہے ہوتے تھے.(شمائل ترمذی - باب ما جاء في مشية رسول الله صل الله وسلم حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روشن اور صاف رنگ کے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ موتیوں کی طرح نظر آتا تھا.اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے تو جس طرح آدمی ڈھلوان سے اترتے ہوئے چل رہا ہوتا ہے آپ کے چلنے میں اس طرح کی روانی ہوتی تھی.(مسلم - كتاب الفضائل - باب طيب ريحه......آپ کے ہاتھوں کی نرمی کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کوئی ریشم یاریشم ملا کپڑا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو کبھی نہیں چھوا.صلى الله (بخارى كتاب المناقب - باب صفة النبي ﷺ با وجود اس کے کہ گھریلو کام بھی کرتے تھے، جنگوں میں بھی حصہ لیتے تھے.سب صحابہ سے سخت جان تھے.جنگ احزاب میں جب ایک جگہ چٹان نہیں ٹوٹ رہی تھی تو آپ کی ضربات نے ہی اسے ریزہ ریزہ کر دیا تھا.تو نرم ہاتھوں سے کوئی اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ ان ہاتھوں نے مشقت نہیں کی تھی.یہ ہاتھ تو سب سے زیادہ مشقت کرنے والے ہاتھ تھے اور اس کی بے شمار مثالیں ہیں.آپ کو خوشبو بہت پسند تھی.خوشبولگایا کرتے تھے.حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی آپ اپنے اہل خانہ کی طرف چلے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہولیا تو کچھ بچے آپ کے سامنے آگئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ہر ایک کے رخسار کو چھونے اور پیار کرنے لگے.راوی بیان کرتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گال پر بھی پیار کرتے ہوئے چھوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھنڈا اور ایسا خوشبو دار پایا گویا کہ آپ نے اسے کسی عطار کے برتن میں سے نکالا ہے.(مسلم - كتاب الفضائل - باب طيب ريحه ولين مسه....) خوشبو آپ کو بہت پسند تھی ، خوشبولگایا کرتے تھے اور ایک خاص جگہ رکھا کرتے تھے.

Page 128

خطبات مسرور جلد سوم 121 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ ایک شیشی میں رکھا کرتے تھے.اس سے خوشبولگایا کرتے تھے.صلى الله (شمائل ترمذی باب ماجاء في تعطر رسول الله ﷺ پھر آپ کی حیا ہے.وہ بھی آپ میں اس قدر تھی کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.اور آپ نے فرمایا کہ حیا ایمان کا حصہ ہے.بچپن میں بھی آپ میں اتنی حیا تھی کہ ایک موقع پر آپ کا کپڑا اوپر ہونے پر جب آپ کونگ کا احساس ہوا تو آپ کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں.حالانکہ وہ کوئی ایسی بات نہیں تھی اور اس وقت آپ کی عمر بھی چھوٹی تھی لیکن آپ کی حیادار فطرت کو اتنا بھی گوارا نہیں ہوا.اور پھر جب آپ نے اپنے نمونے قائم کرنے تھے پھر تو اس حیا میں کوئی مقابلہ ہی نہیں کر سکتا.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پرده دار کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ حیادار تھے.(بخارى كتاب المناقب - باب صفة النبي ) صلى الله عليه.اور آپ جب بھی کوئی نا پسندیدہ چیز کو دیکھتے تو ہم اسے آپ کے چہرہ مبارک سے جان لیا کرتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اعلیٰ نمونوں کی وجہ سے صحابہ کا اخلاص بھی اس قدر بڑھ گیا تھا کہ وہ ہر وقت آپ کے چہرے کو دیکھا کرتے تھے کہ اس سے آپ کی پسند اور نا پسند کا پتہ لگائیں اور پھر آپ کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں.حضرت حسان بن ثابت ایک قصیدے میں فرماتے ہیں.وَأَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ وَأَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءِ کہ تجھ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی تجھ سے زیادہ خوبصورت بچہ کسی عورت نے جنا ہے.پھر کہتے ہیں کہ ے خُلِقْتَ مُبَرَّءُ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ كَأَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءُ کہ آپ ہر عیب و نقص سے پاک بنائے گئے گویا کہ آپ اپنی مرضی سے اور جس طرح

Page 129

خطبات مسرور جلد سوم 122 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء آپ نے چاہا اس عالم میں تشریف لائے.عطاء بن یسار سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ملا اور کہا کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ نشانیاں بتائیں جو تو رات میں مذکور ہیں.انہوں نے کہا ٹھیک ہے اور پھر فرمایا خدا کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض صفات تورات میں بھی وہی مذکور ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے.مثلاً یہ آیت يَا يُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا (الاحزاب : 45) یعنی اے نبی ہم نے تجھے بطور شاہد کے اور مبشر اور نذیر کے بھیجا ہے.نیز امیوں کے لئے حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے.تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے.میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے.نیز نہ تو تو بد خلق ، درشت کلام ہے اور نہ سخت دل.اور نہ ہی بازاروں میں شور مچانے والا ہے.بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتا بلکہ درگزر کرتا اور معاف کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس وقت تک اسے وفات نہیں دے گا جب تک کہ وہ اس کے ذریعے سے ایک ٹیڑھی قوم کو راہ راست پر قائم نہ کر دے.(بخاری - کتاب التفسير - سورة الفتح - باب انا ارسلناك شاهد...) پس دیکھیں کس طرح یہ باتیں سچی ثابت ہوئی ہیں.دنیا دار لوگ اگر کوئی بھی نیکی کریں یا مثلا نیکیوں کا اظہار کرنے والے لوگ.اگر کوئی نیکی کرے یا نیکی کرنے کی کوشش کریں تو نیکی کے اظہار کے لئے وقتی طور پر یہ ہوتا ہے کہ مشکل راستہ اختیار کیا جائے.وقتی طور پر اس لئے کہ ان میں مستقل مزاجی تو ہوتی نہیں.دکھاوے کی نیکیاں ہوتی ہیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کیا ہے.اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو معاملات میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق دیا جاتا تو آپ ہمیشہ آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ گناہ نہ ہو.اور اگر آسان معاملے میں گناہ کا اندیشہ ہوتا تو آپ تمام لوگوں سے اس معاملے میں سب سے زیادہ دور اور محتاط ہوتے.آپ نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا.سوائے اس کے کہ اگر کوئی اللہ کی بے حرمتی کرتا تو آپ اللہ کے لئے اس سے انتقام لیتے.(بخارى- كتاب المناقب - باب صفة النبي

Page 130

خطبات مسرور جلد سوم 123 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء آپ کا ہر قول، ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تھا.ایک تو ہر کام میں آسان راستہ تلاش کرتے.دوسرے آسان اور مشکل راستے کا فیصلہ اس سوچ سے فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے، اس کی رضا کیا ہے.اور پھر اگر کسی سے انتقام لیا بھی تو اپنی ذات کے لئے نہیں لیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کی خاطر لیا.آپ کی غذا بھی نہایت سادہ تھی.لیکن اچھا کھانا میسر آتا تو وہ بھی پسند فرمایا کرتے تھے.حضرت انس ایک دعوت کا ذکر کرتے ہیں کہ آپ ایک دعوت میں تشریف لے گئے.کہتے ہیں میں بھی ساتھ تھا.اس دعوت میں جو کی روٹی اور کدو گوشت کا سالن پیش کیا گیا.راوی کہتے ہیں چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو پسند تھا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم شور بے میں سے کدو تلاش کر کر کے نوش فرماتے رہے.اس لئے مجھے بھی کدو سے رغبت ہو گئی.(شـمـــائــل تــــرمــذى- باب ما جاء في صفة ادام رسول الله صلى الله اگر آج کسی دعوت میں کسی کو کد و گوشت کھلائیں تو شاید مذاق اڑنا شروع ہو جائے.اس زمانے میں تو ایسے حالات تھے کئی کئی دن فاقوں میں گزرتے تھے.پھر حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھانے میں میٹھی چیز اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے ، آپ کو میٹھا پسند تھا.(بخاری کتاب الأطعمة - باب الحلوى والعسل) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل خانہ اکثر کئی کئی راتیں بھوک میں گزار دیا کرتے تھے.(شمائل ترمذی باب ما جاء فى صفة اكل رسول الله ﷺ تو جیسا کہ پسند کا ذکر آیا ہے، میٹھا کھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میٹھا ہوگا تو کھاؤں گا، نہیں ہو گا تو نہیں کھاؤں گا.فلاں چیز پکے گی تو کھاؤں گا اور وہ ضرور ملے.اگر مل گیا تو احمد اللہ اور اگر نہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف بھوک برداشت کرنے کی تلقین ہی نہیں فرمائی بلکہ عملاً یہ کر کے دکھایا.بعض دفعہ یہ بھی ہوتا تھا کہ پوچھتے ہیں گھر میں کچھ کھانے کو ہے.اگر جواب نہیں، میں ملتا تو کہتے اچھا ٹھیک ہے آج روزہ رکھ لیتے ہیں.اور یہ روزے بھی

Page 131

خطبات مسرور جلد سوم 124 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء اکثر اوقات آٹھ پہرے ہوتے تھے.یعنی ایک رات کو کھایا ہے تو اگلے دن 24 گھنٹے بعد رات کو روزہ افطار کیا ہے.جنگ خندق میں جب صحابہ نے بھوک کی وجہ سے خالی پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے.آپ کو دکھائے تو آپ نے بھی اپنا کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ تمہارا ایک پتھر بندھا ہوا ہے، میرے دو پتھر بندھے ہوئے ہیں.غرض اگر کبھی صحابہ کسی مشکل میں گرفتار ہوئے تو سب سے بڑھ کر اس مشکل میں آپ نے خود اپنے آپ کو ڈالا ہے تا کہ نمونے قائم کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھو کہ آپ کی نبوت کے زمانہ میں سے تیرہ سال مصائب اور شدائد کے تھے اور دس سال قوت و ثروت اور حکومت کے.مقابل میں کئی قو میں.اول تو اپنی ہی قوم تھی.یہودی تھے.عیسائی تھے.بت پرست قوموں کا گروہ تھا.مجوس تھے وغیرہ ، جن کا کام کیا ہے؟ بت پرستی ، جو ان کا حقیقی خدا کے اعتقاد سے پختہ اعتقاد اور مسلک تھا.وہ کوئی کام کرتے ہی نہ تھے جو بتوں کی عظمت کے خلاف ہو.شراب خوری کی یہ نوبت کہ دن میں پانچ مرتبہ یا سات مرتبہ شراب بلکہ پانی کی بجائے شراب ہی سے کام لیا جا تا تھا.حرام کو تو شیر مادر جانتے تھے.اور قتل وغیرہ تو ان کے نزدیک ایک گاجر مولی کی طرح تھا.غرض گل دنیا کی اقوام کا نچوڑ اور گندے عقائد کا عطر ان کے حصہ میں آیا ہوا تھا.اس قوم کی اصلاح کرنی اور پھر ان کو درست کرنا اور پھر اس پر زمانہ وہ کہ یکہ و تنہا بے یارو مددگار پھرتے ہیں.کبھی کھانے کو ملا اور کبھی بھو کے ہی سور ہے.جو چند ایک ہمراہی ہیں ان کی بھی ہر روز بُری گت بنتی ہے.بے کس اور بے بس.ادھر کے اُدھر اور اُدھر کے ادھر مارے مارے پھرتے ہیں.وطن سے بے وطن کر دیئے گئے ہیں.پھر دوسرا زمانہ تھا کہ تمام جزیرہ عرب ایک سرے سے دوسرے سرے تک غلام بنا ہوا ہے.کوئی مخالفت کے رنگ میں چوں بھی نہیں کر سکتا.اور ایسا اقتدار اور رعب خدا نے دیا ہوا ہے کہ اگر چاہتے تو کل عرب کو قتل کر ڈالتے.اگر ایک نفسانی انسان ہوتے تو ان سے ان کی کرتوتوں

Page 132

خطبات مسرور جلد سوم 125 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء کا بدلہ لینے کا عمدہ موقع تھا.جب الٹ کر مکہ فتح کیا تو لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم فرمایا.غرض اس طرح سے جو دونو زما نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آئے اور دونوں کے واسطے ایک کافی موقع تھا کہ اچھی طرح سے جانچے پر کھے جاتے.اور ایک جوش یا فوری ولولہ کی حالت نہ تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر طرح کے اخلاق فاضلہ کا پورا پورا امتحان ہو چکا تھا.اور آپ کے صبر، استقلال، عفت، حلم، بردباری ، شجاعت ، سخاوت، جود وغیره وغیره کل اخلاق کا اظہار ہو چکا تھا اور کوئی ایسا حصہ نہ تھا کہ باقی رہ گیا ہو.(ملفوظات جلد سوم صفحه 148-149 - البدر 20 مارچ 1903 صفحه 67) پھر فرمایا کہ: ” وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قومی کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً وعملاً وصد قاوثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا یعنی اپنے تمام عمل اور فعل سے اعلیٰ نمونے دکھائے جو ایک مکمل انسان کے ہو سکتے ہیں.وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ، ختم المرسلین، فخر انبیین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملا کی اور بیچی اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگر چہ سب مقرب اور وجیہہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے.یہ اسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں بچے سمجھے گئے.اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِيْنَ وَاخِرُ دَعْوَانَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ اتمام الحجة - روحانی خزائن جلد 8 صفحه 308)

Page 133

خطبات مسرور جلد سوم 126 خطبہ جمعہ 25 فروری 2005ء آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر آپ پر درود بھیجیں.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ َو عَلى آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ - 谢谢谢

Page 134

خطبات مسرور جلد سوم 127 8 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء قرآن کریم کی عظمت اور فضائل و برکات خطبه جمعه فرموده 4 / مارچ 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن ،لندن.تلاوت کی :.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی رَسُولٌ مِّنَ اللهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيْهَا كُتُبُ قَيْمَةً ( البينة: 4) پھر فرمایا:.اس کا ترجمہ ہے کہ اللہ کا رسول مطہر صحیفے پڑھتا تھا ان میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں.قرآن کریم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب ہے اور ہر قسم کے ممکنہ عیب سے پاک ہے اور نہ صرف پاک ہے بلکہ ہر قسم کی حسین اور خوبصورت تعلیم اس میں پائی جاتی ہے جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے.اور اس میں وہ تمام خوبیاں شامل کر دی گئی ہیں جن کی پہلے صحیفوں میں کمی تھی اور اب یہی ایک لیم ہے جو ہر ایک قسم کی کمی سے پاک ہے.بلکہ اس تعلیم پر عمل کر کے ہر برائی سے بچا جا سکتا ہے.اور نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ اس کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس تعلیم کو لاگو کرنے سے ہی اپنی اور دنیا کی اصلاح ممکن ہے.یعنی یہ تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری یہی اب دنیا کی اصلاح کی ، دنیا میں نیکیاں رائج کرنے کی ، دنیا میں امن قائم کرنے کی ، دنیا میں عبادت گزار

Page 135

خطبات مسرور جلد سوم 128 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء پیدا کرنے کی ، دنیا میں ہر طبقے کے حقوق قائم کرنے کی ضمانت ہے.تو جس نبی پر یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کامل اور مکمل تعلیم اتری اور جو خَاتَمَ النَّبِيِّين کہلائے ، جن کے بعد کوئی نئی شریعت آہی نہیں سکتی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے.تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس تعلیم پر کس قدر عمل کرنے والے ہوں گے، اس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے.کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کو سمجھا، وہ آپ ہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے اس کلام کا مکمل فہم اور ادراک حاصل ہوا.یہ آپ ہی کی ذات ہے جس کو اپنے پر اترنے والی اس آخری کتاب، اس آخری شریعت، کلام کے مطالب اور معانی کے مختلف زاویوں اور اس کے مختلف بطون کو سمجھنے کا کامل علم حاصل ہوا.گویا یہ خاتم النَّبِيِّينَ کی ذات ہی تھی جس نے اس خَاتَمُ الكتب کو سمجھا اور نہ صرف اس گہرائی میں جا کر عمل کیا بلکہ صحابہ کو بھی وہ شعور عطا فرمایا جس سے وہ اس کو سمجھ کر پڑھتے تھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے.اس آخری کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی اور شریعت یا کتاب سے رہنمائی کی جائے.کیونکہ پہلوں کی باتیں بھی اس میں آچکی ہیں اور آئندہ کی باتیں اور خبر میں بھی اس میں آچکی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے.بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خَاتَمُ الْكُتُبُ ہو.اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں.کیونکہ کلام الہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قد رقوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اسی قد رقوت وشوکت اس کلام کی ہوتی ہے“.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کو ہر کوئی جانتا ہے کہ کس طرح آپ نے صحابہ میں پاک تبدیلیاں پیدا کیں.جو پاک تبدیلیاں صحابہ میں ہوئیں کہ راتوں کو جاگ کر محفلیں لگانے والے اب بھی راتوں کو جاگتے تھے لیکن راگ رنگ کی محفلیں نہیں جمتی تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدوں میں راتیں گزرتی تھیں.پھر جو شراب کو پانی کی طرح پینے والے تھے انہوں

Page 136

خطبات مسرور جلد سوم 129 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء نے جب خبر سنی تو نشے کی حالت میں بھی یہ نہیں کہا کہ پہلے پتہ کرو کیا ہورہا ہے کیا نہیں ہو رہا.بلکہ پہلے شراب کے مٹکے توڑے گئے.تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی ہی تھی جس نے یہ انقلاب برپا کیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جس قدر کسی شخص کی قوت قدسی ہوتی ہے اسی قدر اس کا قوت وشوکت کا کلام ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا.جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا.اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی.اور تمام مقامات کمال آپ پر ختم ہو چکے تھے اور آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اور اس مقام پر قرآن شریف جو آپ کپر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے.اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے.آپ خاتم النبین ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری.جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے.یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالات تعلیم، کیا باعتبار ثمرات تعلیم ، غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو.خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت، خواه بلحاظ مطالب و مقاصد، خواه بلحاظ تعلیم ، خواه بلحاظ، پیشنگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں.غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ مجزہ ہے“.(ملفوظات جلد 2 صفحه 26-27 جدید ایڈیشن - الحکم 24 اپریل 1903ء صفحه (21) تو جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم ایک مکمل معجزہ ہے.اور یہی نہیں کہ اس میں مکمل تعلیم آ گئی اور یہ معجزہ ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معجزے کے ہر حکم کو اپنی زندگی کا حصہ بنا

Page 137

خطبات مسرور جلد سوم 130 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء لیا اور اس پر عمل کر کے دکھایا تا کہ اپنے ماننے والوں کو بھی بتا سکیں کہ میں بھی ایک بشر ہوں، جہاں تک بشری تقاضوں کا سوال ہے.لیکن ایسا بشر ہوں جس کو خدا تعالیٰ نے اپنا پیارا بنایا ہے.اور اپنی طرف جھکنے کی وجہ سے پیارا بنایا ہے.تم بھی اس تعلیم پر عمل کرو، میری سنت کی پیروی کرو اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے بنو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے حکموں پر کس حد تک عمل کرتے تھے.اس بارے میں حضرت عائشہ کا مشہور جواب ہر ایک کے علم میں ہے کہ جب آپ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے.چھنے والے نے کہا: کیوں نہیں.تو انہوں نے فرمایا کہ "فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن ہی تھے.(مسلم ، کتاب صلاة المسافرين ، باب جامع صلاة الليل ومن نام عنه او مرض حديث نمبر 1739 ) یعنی قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی.قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ حقوق العباد ادا کرو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق العباد ادا کئے.قرآن کریم میں جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں اور حکموں پر مکمل طور پر عمل کیا، ان کو بجالائے ، ان کی ادائیگی کی.قرآن نے جن باتوں سے رکنے کا حکم دیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو ترک کیا.قرآن کریم نے روزوں کا حکم دیا، صدقات کا حکم دیا، زکوۃ کا حکم دیا.آپ نے روزوں ، صدقات اور زکوۃ کے اعلیٰ ترین معیار قائم کر دیئے.قرآن کریم نے معاشرے میں لوگوں کے ساتھ نرمی کا حکم دیا تو آپ نے نرمی کی وہ انتہا کی جس کی مثال نہیں مل سکتی.اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا.اگر اللہ تعالیٰ نے اصلاح معاشرہ کے لئے سختی کا حکم دیا تو آپ نے اس کی بھی پوری اطاعت وفرمانبرداری کی.غرض کون سا حکم ہے قرآن کریم کا جس کی آپ نے نہ صرف پوری طرح بلکہ اعلیٰ ترین معیار قائم کرتے ہوئے تعمیل نہ کی ہو.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے،

Page 138

خطبات مسرور جلد سوم 131 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء آپ کے آپس کے تعلق کی بہت اچھی طرح مثال پیش کی ہے.کہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو موتی ہیں جو ایک ہی سیپ سے اکٹھے نکلے ہیں.قرآن کریم کی تعلیم کو جانا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھ لو.اور اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں معلومات لینا چاہتے ہو، اگر یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ آپ کے صبح و شام اور رات دن کس طرح گزرتے تھے، تو قرآن کریم کے تمام حکموں کو ، اوامر و نواہی کو پڑھ لوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سامنے آجائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہادی کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فرمایا.مگر آپ کی زندگی کے کل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں.جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے، اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر (ملفوظات جلد 3 صفحه 34 جدید ایڈیشن) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم سے عشق اور محبت ، اس کے احکامات پر عمل، اللہ تعالیٰ کی خشیت، اس بارے میں آپ کی سیرت ہمیں کیا بتاتی ہے؟ آپ کا قرآن کریم کو پڑھنے کے بارے میں کیا طریق تھا؟ اس بارے میں چند مثالیں احادیث سے پیش کرتا ہوں.حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں نماز فجر پڑھائی آپ نے سورۃ مومنون سے تلاوت شروع کی.یہاں تک کہ جب موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کا ذکر آیا تو شدت خشیت الہی کے باعث آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانسی شروع ہوگئی.اس پر آپ نے رکوع کیا.(مسلم - كتاب الصلاة -باب القراءة في الصبح) تو یہ خشیت اس حد تک تھی کہ اپنی قوم کی بھی ساتھ یقینا فکر ہو گی.کیونکہ آپ کا دل تو

Page 139

خطبات مسرور جلد سوم 132 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء انتہائی نرم تھا کہ جس طرح فرعون اور اس کی قوم تباہ ہوئے یہ لوگ بھی کہیں انکار کی وجہ سے تباہ نہ ہو جائیں.اس بات پر اتنا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ ذکر کیا ہے، جو مثالیں دی ہیں، تو انکار کی وجہ سے آئندہ بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں.تو کہیں میری قوم بھی اس انکار کی وجہ سے تباہ نہ ہو جائے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت ﴿وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيتُ بِيَمِيْنِه سُبْحَنَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (الزمر:68) کے بارہ میں دریافت کیا.جس کا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کا حق تھا.اور قیامت کے دن زمین تمام تر اس کے قبضہ میں ہوگی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیٹے ہوئے ہوں گے.تو آنحضور صلی اللہ یہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں جبار ہوں، میں یہ ہوں، میں یہ ہوں ، اللہ تعالیٰ اپنی بزرگی بیان کرتا ہے.راوی کہتے ہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات اس جوش سے بیان کر رہے تھے کہ منبر رسول اس طرح ہل رہا تھا کہ ہمیں اس بات کا خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں منبر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لئے ہوئے گر نہ پڑے.(الدر المنثور - تفسير سورة الزمر زير آيت نمبر 68 ) اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے آپ کا جوش غیر معمولی ہو جایا کرتا تھا.کیونکہ آپ کی ذات ہی تھی جسے اللہ تعالیٰ کی جبروت اور قدرتوں کا صحیح ادراک تھا، صحیح علم تھا، صحیح گہرائی تک آپ پہنچ سکتے تھے.اور آپ ہی کی ذات تھی جس کے سامنے خدا تعالیٰ کی ذات سب سے بڑھ کر ظاہر ہوئی.تو آپ کو پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کیا کیا قدرتیں ہیں اور طاقتیں ہیں.اور اللہ تعالیٰ کا اگر رحم نہ ہو تو یہ لوگ جو اس کی باتوں سے دور ہٹتے جارہے ہیں، اس کے حکموں پر عمل نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑی طاقتوں کے مالک ہیں، اس پہ بڑا فخر ہے، اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھ رہے ہوتے ہیں تو اُن کو وہ اس طرح تباہ و برباد کر دے جس طرح ایک کیڑے کی بھی شاید کوئی حیثیت ہو، ان کی وہ بھی حیثیت نہیں ہے.

Page 140

خطبات مسرور جلد سوم 133 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء قرآن کریم جب نازل ہوا تو سب سے زیادہ آپ اس کو آسانی اور روانی سے پڑھ سکتے تھے اور اسی روانی میں اس کے مطالب کو بھی خوب سمجھ سکتے تھے.لیکن اس کے باوجود آپ کا قرآن کریم پڑھنے کا طریق کیا تھا.اس بارے میں حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے.(سنن ابی داؤد - كتاب الوتر - باب استحباب الترتيل في القراءة) آپ کا قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں کیا طریق ہوتا تھا اس بارے میں اور بہت ساری روایات ہیں.جن میں بیان کرنے والوں نے اپنے اپنے رنگ میں بیان کیا ہے.اُن سے آپ کے حسن قراءت کی اور بھی زیادہ وضاحت ہوتی ہے.ایک روایت یعلی بن مملک کی ہے کہ میں نے اُم المومنین ام سلمة رضی اللہ عنہا سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کریم کی تلاوت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت قراءت مفسرہ ہوتی تھی.یعنی ایک ایک حرف کے پڑھنے کی سننے والے کو سمجھ آ رہی ہوتی تھی.(ابوداؤد كتاب الوتر، استجاب الترتيل في القرآءة.حديث نمبر (1463) پھر حضرت اُمّ سلمہ ہی ایک اور جگہ روایت کرتی ہیں.آپ کے پڑھنے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرتے تھے آپ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ﴾ پڑھ کر توقف فرماتے.پھر الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پڑھتے اور پھر تو قف فرماتے ، رکتے.(مشكوة المصابيح كتاب فضائل القرآن الباب الأوّل ، الفصل الثاني حديث نمبر (2205) تو آپ اتنا غور کر رہے ہوتے تھے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ہر ہر لفظ میں معنی پنہاں ہیں اس لئے بڑے ٹھہر ٹھہر کر غور کرتے ہوئے وہاں سے گزرتے تھے.پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ

Page 141

خطبات مسرور جلد سوم 134 وسلم رات کو کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ آواز سے تلاوت کرتے تھے.خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء (سنن ابی داؤد كتاب التطوع - باب فى رفع الصوت بالقراءة في صلاة الليل) اور یہ بلند آواز بھی اور آہستہ آواز بھی انہیں حدود کے اندر تھی جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا پھر ایک روایت میں آتا ہے، جس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی تلاوت کو کس طرح دیکھتا تھا.یہ بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کسی چیز کو ایسی توجہ سے نہیں سنتا جیسے قرآن کو سنتا ہے جب پیغمبر اس کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھے.(سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب استجاب الترتيل في القرآءة حديث نمبر (1470) تو اللہ تعالیٰ کی اپنے پیارے نبی پر جو نظر ہے اس وقت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے، جب وہ اپنا کلام اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے خوش الحانی سے سنتا ہے کہ دیکھو میرا پیارا میرے کلام کو کس خوف کسی خشیت اور کس محبت کے ساتھ مکمل طور پر اس میں فنا ہو کر پڑھ رہا ہے.پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی.جب آپ رکوع کرتے تو سُبحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ پڑھتے اور جب سجدہ کرتے تو سُبْحَانَ رَبِّيَ الأغلى پڑھتے.اور جب کوئی رحمت کی آیت آتی تو آپ رک جاتے ، تلاوت کے وقت اور رحمت طلب کرتے.اور جب کوئی عذاب کی آیت آتی تو آپ رک جاتے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے.(سنن ابی داؤد - کتاب الصلاة -باب مايقول الرجل في ركوعه وسجوده) اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ یہ رحمت اور پناہ طلب کرتے وقت بعض دفعہ آپ کی روتے روتے ہچکی بندھ جایا کرتی تھی.آپ میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور پیار اور تعلق اور محبت اس طرح تھا کہ جس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا.پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے

Page 142

خطبات مسرور جلد سوم 135 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء عرض کی یا رسول اللہ ! آپ میں بڑھاپے کے آثار نظر آنے لگے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے سورۃ ھود، سورۃ واقعہ، سورۃ مرسلات اور عَمَّ يَتَسَاءَلُوْنَ اور وَإِذَا الشَّمْسُ كُوّرَتْ ، سورہ تکویر وغیرہ نے بوڑھا کر دیا ہے.( ترمذى ، كتاب تفسير القرآن ، باب ومن سورة الواقعة حديث نمبر 3297) سورۃ ھود میں ان قوموں کا ذکر بھی ہے جو انبیاء کے انکار کی وجہ سے ہلاک کر دی گئیں اور آپ جو رحمتہ للعالمین تھے، آپ کا دل اس بات سے بے چین ہو جایا کرتا تھا کہ اب بھی کہیں انکار کی وجہ سے قوم پر عذاب نہ آ جائے.پہلے انبیاء تو صرف اپنی اپنی قوموں کے لئے ہوتے تھے، آپ تو کل دنیا کے لئے نبی تھے.پس آپ کو اس زمانے میں اپنی موجودہ قوم کی بھی فکر تھی اور جو آئندہ آنے والی نسلیں ہیں اور دنیا کی تمام قومیں ہیں ان کی بھی فکر تھی ، یہ لوگ عذاب میں گرفتار نہ ہو جائیں.اور پھر اس وجہ سے آپ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ، گڑ گڑاتے تھے، رحم مانگتے تھے.اور پھر اس سورۃ کی اس آیت نے بھی آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کر دی کہ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِير (هود: 113) کہ جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے اس پر مضبوطی سے قائم ہو جا اور وہ بھی قائم ہو جائیں جنہوں نے تیرے ساتھ تو بہ کی ہے.اور حد سے نہ بڑھو یقینا وہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری 280 نظر رکھنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : "رسول اللہ ﷺ کو دیکھو کہ صرف اس ایک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْ...( هود :113) نے ہی بوڑھا کر دیا.کس قدر احساس موت ہے آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی ؟ صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہادی کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فر مایا.مگر آپ کی زندگی کے کل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 34 جدید ایڈیشن)

Page 143

خطبات مسرور جلد سوم 136 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء تو خود تو آپ کی زندگی پاکیزہ تھی ہی، اس فکر میں بڑھاپا آیا کہ دوسرے بھی یہ معیار حاصل کر سکیں گے یا نہیں.وہ بھی اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر سکیں گے یا نہیں.دوسرے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ان نیکیوں پر جن نیکیوں کا حکم ہے قائم ہو سکیں گے کہ نہیں ، ان برائیوں سے جن سے رکنے کا حکم ہے بیچ سکیں گے کہ نہیں، اس فکر میں آپ پر ایک عجیب حالت طاری رہتی تھی.پھر اسی طرح باقی سورتیں ہیں جن کے مضامین میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور آخری زمانے کی خبریں، لوگوں کی حالتیں نہ سدھرنے کی وجہ سے تباہیاں، دجل اور یہ سب کچھ ہیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اللہ تعالیٰ نے یقینا آئندہ کا زمانہ بھی دکھا دیا تھا اور آپ جو ہر ایک کے لئے رحمت تھے اس بات سے بے چین ہو جاتے تھے کہ دنیا کا کیا ہوگا ، اور امت کا کیا ہوگا اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کیا.کیا کسی نے ایسا محسن انسانیت دیکھا ہے؟ جو قرآن کریم کے اس طرح سمجھنے کی وجہ سے کئی صدیوں دور کی حالت دیکھ کر بھی بے چین ہو رہا ہے.آپ کہتے ہیں مجھے اپنی تو کوئی فکر نہیں ہے.مجھے تو ان باتوں نے بوڑھا کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے دنیا میں ہو رہی ہیں اور دنیا میں ہونے والی ہیں.مجھے تو اس بات نے بوڑھا کر دیا ہے اور اس فکر نے بوڑھا کر دیا ہے، اور اس غم نے بے چین کر دیا ہے کہ کیوں دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف رجوع نہیں کرتی ؟ پھر اور بہت ساری سورتیں ہیں.جن کی آپ بڑی باقاعدگی سے تلاوت کیا کرتے تھے جن میں قوموں کی تباہی ، ان میں شرک رائج ہونے اور توحید سے پرے ہٹنے یا قیامت کے آنے وغیرہ کا ذکر ہے.پھر ایسی سورتیں جن میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور توحید کا ذکر ہے، نیکیوں پر قائم ہونے کا ذکر ہے، برائیوں سے ہے، بچنے کا ذکر ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا ذکر ہے ،آخرین کے زمانے کا ذکر ہے ، قربانیوں کا ذکر ہے جن میں مالی قربانیاں اور جانی قربانیاں ہیں ، اور پھر یہ آپ کو نصیحت کہ آپ تو صرف نصیحت کرتے چلے جائیں ، آپ کا کام نصیحت کرنا ہے.تو یہ سورتیں بھی بہت سی ہیں جن کی تلاوت آپ اکثر کیا کرتے تھے بلکہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ روزانہ پڑھا کرتے تھے.اور یہ تو ہم پہلی روایات میں دیکھ ہی آئے ہیں کہ آپ کے پڑھنے کا طریق کیا تھا.عذاب کی آیات یا

Page 144

خطبات مسرور جلد سوم 137 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء الفاظ جہاں بھی آتے تھے آپ کانپ جایا کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ کی خشیت غالب آجایا کرتی تھی.اور پھر یقیناً آپ اسی صورت میں امت کے لئے دعائیں بھی کرتے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے انعامات والی آیات سن کر، پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے تھے.غرض کہ عجیب انداز تھا، عجیب اسلوب تھا آپ کا قرآن کریم پڑھنے کا اور سمجھنے کا اور تلاوت کرنے کا.ایک روایت میں آتا ہے.عَبْدُالله بن مُغَفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹ پر سوار سورۃ الفتح پڑھتے دیکھا.آپ بار بار ہر آیت کو دوہراتے تھے.(سنن ابی داؤد - كتاب الوتر - باب استحباب الترتيل في القراءة – حديث نمبر 1464) اُس وقت آپ کے جذبات اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز تھے، اس کے شکر سے لبریز تھے.آپ کا سر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز تھا.روایات میں آتا ہے جس اونٹ پر آپ بیٹھے ہوئے تھے اس کی سیٹ کے اگلے حصے پر سر ٹک گیا تھا.کیونکہ آپ کو اس فتح کے ساتھ آئندہ آنے والی فتوحات کے نشانات بھی نظر آ رہے تھے.اس سے اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے جذبات اور زیادہ بڑھ گئے تھے.پھر سوتے وقت بھی آپ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دے کر سویا کرتے تھے.چنا نچہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر شب جب اپنے بستر پر جاتے تو دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں ملاتے پھر ان میں پھونکتے اور قُلْ هُوَ اللهُ اَحَد ، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتے.پھر جہاں تک ہو سکتا اپنے بدن پر ہاتھ ملتے اور آغا ز سر اور منہ اور جسم کے اگلے حصے سے فرماتے اور - تین دفعہ ایسا ہی کرتے تھے.(بخاری - کتاب فضائل -القرآن باب فضل المعوذات) گویا ایک ڈھال تھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی جس کو آپ اپنے اوپر اوڑھ لیا کرتے تھے.حالانکہ روایات میں آتا ہے کہ آپ کا سونا بھی جاگنے جیسا ہی تھا.کئی آدمی عموماً جاگتے ہوئے بھی سور ہے ہوتے ہیں.تو آپ کا تو یہ حال تھا کہ سوتے ہوئے بھی مسلسل دعائیں ہی کر

Page 145

خطبات مسرور جلد سوم 138 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء رہے ہوتے تھے.پھر قرآن کریم کا علم جاننے والوں ، حفظ کرنے والوں کی بھی آپ بے انتہا قدر کیا کرتے تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کا کلام اپنے دل و دماغ میں بسایا ہوا ہے.اس زمانے میں جب جنگیں ہوا کرتی تھیں.جنگ احد میں بہت زیادہ شہادتیں ہوئی تھیں.اس میں قرآن جاننے والے، اس کا علم حاصل کرنے والے بہت سارے حفاظ بھی شہید ہوئے تھے.تو جب سب کی تدفین کا معاملہ پیش ہوا تو اس وقت آپ نے تدفین کے لئے ایک اصول وضع فرمایا جس کا روایات میں یوں ذکر آتا ہے کہ جنگ احد کے دن زخمی صحابہ نے شہداء کے لئے قبریں کھودنے کی بابت اپنی مجبوری عرض کی بہت سارے زخمی بھی ہو گئے تھے اور جو شہید ہوئے تھے وہ کافی تعداد میں تھے.علیحدہ علیحدہ ان کے لئے قبر کھودنا بڑا مشکل تھا.طاقت اور ہمت نہیں تھی.تو آپ نے فرمایا کہ کشادہ قبریں کھو دو اور انہیں عمدگی سے تیار کرو اور ایک قبر میں دو دو اور تین تین شہداء کو دفن کر واور فرمایا ان شہداء میں سے مقدم اس شہید کو رکھو جو قرآن زیادہ جاننے والا تھا.(ترمذی ، کتاب الجہاد، باب ماجاء في دفن الشہداء) ان کا بھی اس وقت احترام ہے.شہید تو سارے ہیں لیکن قرآن زیادہ جاننے والے کو مقدم رکھو.قرآن کریم سے عشق و محبت تو آپ کو تھا ہی کیونکہ آپ پر نازل ہوا تھا.جس کے اعلیٰ معیاروں کا مقابلہ کرنا تو ممکن نہیں ہے ہاں یہ معیار حاصل کرنے کے لئے حتی المقدور اپنی کوشش کرنی چاہئے.کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر اس شخص سے محبت تھی جو قرآن کریم عمدگی سے پڑھا کرتا تھا اور اس کو یاد کیا کرتا تھا.اور قرآن کریم کو پڑھنے شوق سے پڑھنے اور یاد کرنے کا شوق پیدا کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے قرآن کریم سنا بھی کرتے تھے.چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ.راوی کہتے ہیں میں نے عرض کی کیا میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟ حالانکہ آپ پر قرآن کریم نازل کیا گیا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سن کر فرمایا: میں یہ پسند کرتا ہوں اپنے علاوہ کسی اور سے

Page 146

خطبات مسرور جلد سوم 139 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء بھی قرآن کریم سنوں.تو حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سورۃ نساء کی تلاوت کرنا شروع کی یہاں تک کہ میں آیت فَكَيْفَ إِذَا جِفْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا» (النساء:42) پر پہنچا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جاؤ.حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.(بخاری کتاب فضائل القرآن - باب قول المُقْرِيُّ لِلْقَارِيُّ ، حَسْبُكَ) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ پس کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے.تو آپ کو اپنی اس گواہی پر اللہ کے حضور اپنے اس مقام کا سن کر ایک خشیت کی کیفیت طاری ہو گئی تھی اور پھر یہ کہ میری اس گواہی کی وجہ سے جو ظاہر ہے ایک سچی گواہی ہونی ہے، میری امت کے کسی شخص کو سزا نہ ملے.آپ کو اس گواہی پر فخر نہیں تھا کہ مجھے تو بڑا مقام ملا ہے.بلکہ فکر تھی.اور اس فکر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فکر بھی ہوتی تھی کہ امت میں قرآن کریم پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے پیدا ہوں جس کے لئے آپ ہمیشہ تلقین فرماتے رہتے تھے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے قرآن کے ماننے والو! قرآن کو تکیہ نہ بناؤ اور رات دن کے اوقات میں اس کی ٹھیک ٹھیک تلاوت کرو اور اس کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دو.اور اس کے الفاظ کو صحیح طریق سے پڑھو اور جو کچھ قرآن میں بیان ہوا ہے ہدایت حاصل کرنے کی غرض سے اس پر غور و فکر کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.اس کی وجہ سے کسی دنیاوی فائدے کی خواہش نہ کرنا.بلکہ خدا کی خوشنودی کے لئے اس کو پڑھنا.(مشکوۃ المصابیح).یعنی صرف اس کو زبانی سہارا نہ بناؤ ،قرآن کریم رکھا ہوا ہے اور پڑھ رہے ہیں.بلکہ اس کو پڑھو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو.اس کے الفاظ و معانی پر غور کرو اور پھر اس کا پڑھنا خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو، نہ کہ ذاتی فائدے اٹھانے کے لئے جس طرح آج کل بعض لوگ کرتے ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبیدہ الملیکی رضی اللہ عنہ جو صحابہ میں سے ہیں

Page 147

خطبات مسرور جلد سوم 140 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو.اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے.اور اس کو پھیلاؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو.اور اس کے مضامین پر غور کیا کرو تا کہ تم فلاح پاؤ.(مشکوۃ المصابيح.كتاب فضائل القرآن الباب الأول، الفصل الثالث حديث نمبر 2210) یعنی قرآن کریم کو پڑھو بھی اس کی تعلیم کو پھیلا ؤ بھی اور اس پر عمل بھی کرو.دوسروں کو بھی بتاؤ.پھر آپ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کا حافظ ہے وہ ایسے لکھنے والوں کے ساتھ ہوگا جو بہت معزز اور بڑے نیک ہیں.اور وہ شخص جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اس کی تعلیمات پر شدت سے کار بند ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہوگا.(بخاری، کتاب التفسير - تفسير سورة عبس- حديث نمبر 4937) تو زیادہ اجر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی ہے.اور عمل اسی وقت آئے گا جب اس کے مفہوم کو سمجھ سکیں گے.اور آپ اس کی بار بار تلقین اس لئے فرماتے تھے کہ قرآن کریم پڑھو اور سمجھو کہ قرآن کریم کو گھروں میں صرف سجاوٹ کا سامان نہ بنا کے رکھو یا صرف یہی نہیں کہ پڑھ لیا اور عمل نہ کیا بلکہ عمل سے ہی درجات بلند ہوتے ہیں.پھر ایک اور ترغیب دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اونچی آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے لوگوں کے سامنے خیرات کرنے والا اور آہستہ آواز میں قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسا چپکے سے خیرات کرنے والا.(سنن ابی داؤد - كتاب التطوع.باب فى رفع الصوت بالقراءة في صلاة الليل) پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے روز اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہوگی، جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی.پھر جب اس کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا.جس نے قرآن پر عمل کیا.(سنن ابي داؤد - كتاب الوتر - باب ثواب قراءة القرآن)

Page 148

خطبات مسرور جلد سوم 141 خطبہ جمعہ 4 / مارچ 2005ء دیکھیں آپ کو ہر وقت یہ گن تھی کہ اس کتاب کو امت ہمیشہ پڑھتی رہے، اس پر عمل کرتی رہے.کہیں یہ نہ ہو کہ اس کو چھوڑ دے.اور یقیناً اس کے لئے آپ دعا ئیں بھی کرتے تھے.اور یہ جو درجات کی بلندی کے بارے میں فرما رہے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو بتایا ہوگا.اور اسی سے علم پا کر آپ نے بتایا ہے کہ اس کے درجات کی بلندی ہوگی.اللہ کرے کہ آپ کی اس دلی تمنا کو امت سمجھے.اور بھی بے شمار مثالیں ہیں جن میں آپ نے امت کو قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی نصیحت فرمائی ہے تا کہ وہ اعلیٰ اخلاق قائم ہو سکیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہوا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ امت بھی ان پر عمل کرے اور قرآن کریم کی تعلیم تمام دنیا میں رائج ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اس بارہ میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن مجید وحی متلو ہے اور اس کا ہر حصہ متواتر اور قطعی ہے اور حتیٰ کہ اس کے نقطے اور حروف بھی.خدا تعالیٰ نے اسے ایک زبر دست اور کامل اہتمام کے ساتھ ملائکہ کی حفاظت اور پہرہ میں اتارا ہے.پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کسی قسم کا دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ہمیشہ اس بات پر مداومت سے عمل کیا کہ اس کی آیت آیت آپ کی آنکھوں کے سامنے اسی طرح لکھی جائے جس طرح نازل ہوتی تھی.یہاں تک کہ آپ نے تمام قرآن کو جمع فرما دیا اور بنفس نفیس اس کی آیات کی ترتیب قائم فرمائی.آپ ہمیشہ نمازوں وغیرہ میں اس کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے رفیق اعلیٰ اور محبوب رب العالمین سے جاملے.(ترجمه عربی عبارت 'حمامة البشرى، روحانی خزائن جلد 7 صفحه (216) اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 149

142 خطبات مسرور جلد سوم

Page 150

خطبات مسرور جلد سوم 143 9 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء آنحضرت صل اللہ یلم کا خلق عظیم عجز وانکسار خطبه جمعه فرموده 11 / مارچ 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن ،لندن.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.پھر فرمایا:.وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمَّا (الفرقان: 64) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی اور عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں سلام.ان عبادالرحمن میں سے سب سے بڑے عبد رحمن وہ نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کی قوت قدسی نے عباد الرحمن پیدا کئے.تکبر سے رہنے والوں کو بجز کے راستے دکھائے.ان کے ذہنوں سے غلام اور آقا اور امیر اور غریب کی تخصیص ختم کر دی.یہ سب انقلاب کس طرح آیا.یہ اتنی بڑی تبدیلی دلوں میں کس طرح پیدا ہوئی.کیا صرف پیغام پہنچانے سے؟ تعلیم دینے سے؟ نہیں ، اس کے ساتھ ساتھ خود بھی عبدیت کے اعلیٰ معیار آپ نے قائم گئے.خود بھی یہ عاجزی اور انکساری کے نمونے دکھا کر اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھایا کہ جو کچھ

Page 151

خطبات مسرور جلد سوم 144 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء میں کہہ رہا ہوں اس کے اعلیٰ معیار بھی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں.یہ عاجزی اور انکساری کے نمونے آپ نے عمل سے دکھائے کہ یہ میری زندگی کے ہر پہلو میں نظر آئیں گے.معاشرے کے غریب اور کمزور طبقے سے بھی میرا یہی سلوک ہے، جاہل اور اجڈ لوگوں سے بھی میرا یہی سلوک ہے، بڑوں سے بھی یہی سلوک ہے اور چھوٹوں سے بھی یہی سلوک ہے.اور یہی سلوک ہے جو میری زندگی کے ہر لمحے میں ہر ایک کے ساتھ تمہیں نظر آئے گا.اور یہی کچھ دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ سند عطا فرمائی کہ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ (القلم:5) یعنی ہم تم کھاتے ہیں کہ تو اپنی تعلیم اور عمل میں نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی اس قسم نے آپ کو عاجزی میں اور بھی بڑھایا.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت حسین بن علی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مجھے میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بندہ پہلے بنایا ہے اور رسول بعد میں.(مجمع الزوائد للهيثمى - كتاب علامات النبوة -باب في تواضعه صلى الله اور حضرت حسینؓ کا یہ جو بیان ہے یہ کسی شخص کے اس رویہ پر ہے جس نے آپ سے بے انتہا محبت کر کے غیر ضروری طور پر بعض الفاظ آپ کے لئے استعمال کر دیئے تھے.آپ نے فرمایا تم جو میرے لئے الفاظ استعمال کر رہے ہو مجھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات اپنے لئے یاد ہے کہ یہ الفاظ آپ نے اپنے لئے فرمائے تھے کہ مجھے بھی میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو.پس یہ ہے عاجزی کی وہ اعلیٰ مثال جو آپ نے اپنی اولاد در اولاد میں بھی پیدا کر دی کہ یا درکھو کہ میں بھی اللہ کا بندہ ہوں یعنی بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف: 111) کی وضاحت فرمائی اور پھر فرمایا کہ پھر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھ پر وحی نازل فرمائی اور اپنا رسول بنایا.یہ اعلیٰ درجہ کی ہدایت اور آپ کا جواب آپ کے مقام کو اور بھی بلند کرتا ہے.آپ کیونکہ ایک اعلیٰ درجہ کے عبد کامل تھے اس لئے یہ تعلیم دی اور اس پہ بڑا ز ور دیا کہ مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا.اس بارے میں ایک اور روایت میں آتا ہے، حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری بہت زیادہ تعریف نہ کرو جس طرح عیسائی

Page 152

خطبات مسرور جلد سوم 145 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء ابن مریم کی کرتے ہیں.میں صرف اللہ کا بندہ ہوں.پس تم صرف مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو.(بخاری - کتاب احاديث الانبياء - باب قول الله واذكر في الكتب مريم....) تو فرمایا کہ میں تو ایک عاجز انسان ہوں، ایک بشر ہوں، اللہ کا بندہ ہوں.ہاں اللہ تعالیٰ کے رسول ہونے کے ناطے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے تم نے میری پیروی کرنی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت مجھ پر اتاری ہے اور یہ کامل اور مکمل تعلیم بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا کے مقام کو بندے کے مقام سے نہ ملاؤ.اور عیسائیوں کی طرح نہ کرنا جنہوں نے ایک عاجز انسان کو جو خدا کا نبی تھا اور نبی بھی ایک محدود قوم کے لئے تھا، اس عاجز انسان کو انہوں نے خدا کا بیٹا بنا لیا.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی اطاعت خدا تعالی کی اطاعت کے برابر ہے لیکن آپ نے امت کو یہی تلقین کی کہ اس سے یہ نہ سمجھنا کہ میرا مقام بندگی سے بڑھ گیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ: ” ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہو سکتا ہے.پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضور کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی اور بار بار ﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف : 111) ہی فرماتے رہے.یہاں تک کہ کلمہ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا.جس کے بدوں مسلمان، مسلمان ہی نہیں ہوسکتا.سوچو اور پھر سوچو، پس جس حال میں ہادی اکمل کی طرز زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقام قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے“.(رپورٹ جلسه سالانه 1897ء صفحه 140) پھر روزمرہ کے معمولات ہیں ان میں بھی امت کی تربیت کے لئے کوئی موقع بھی آپ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جس سے آپ کے بشر ہونے اور عاجز ہونے کا اظہار نہ ہوتا ہو.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

Page 153

خطبات مسرور جلد سوم 146 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی مگر اس میں کچھ کمی بیشی ہوگئی.جب آپ نے سلام پھیرا تو عرض کی گئی کہ کیا نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے.آپ نے فرمایا یہ کیا کہہ رہا ہے؟ تو صحابہ نے عرض کی کہ آپ نے اتنی نماز پڑھائی ہے، کچھ کم یا زیادہ تھی.یہ سن کر آپ قبلہ رخ مڑ گئے اور دو سجدے کئے.سجدہ سہو کیا ، پھر سلام پھیرا، پھر ہماری طرف چہرہ کر کے فرمایا کہ اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو میں تمہیں ضرور بتا تا لیکن میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں.میں بھی بھولتا ہوں جس طرح کہ تم بھولتے ہو.پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دیا کرو.اور جب تم میں سے کسی کو نماز پڑھتے ہوئے شک گزرے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو چاہئے کہ وہ یقینی بات کو اختیار کرے اور پھر فرمایا کہ سجدہ سہو کرلیا کرو.(بخاری -كتاب الصلوة -باب التوجه نحو القبلة حيث كان) پھر حضرت ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اپنے جھگڑے لے کر میرے پاس آتے ہو اور میں بھی ایک بشر ہوں اور ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایک اپنی دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز ہو اور میں جو سنوں اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دوں.پس جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ ایسی صورت میں اس کو آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں گا.(بخاری-کتاب الجہاد والسير - باب حفر الخندق) با وجود اس کے کہ اللہ تعالی گواہی دیتا ہے کہ آپ کامل انسان تھے اور ظاہر ہے کہ کامل انسان کی فراست بھی ایک اعلیٰ درجہ پر پہنچی ہوئی فراست تھی.اور اس فراست سے بھی آپ جھوٹ اور سچ کا کچھ اندازہ لگا سکتے تھے لیکن ایک بشر ہونے کا احساس آپ کو اس قدر تھا فرمایا کہ اگر مجھ سے اپنے حق میں غلط فیصلہ کرواؤ گے تو آگ کا ٹکڑا کھاؤ گے.آج کل دیکھ لیں ایک معمولی عقل والا انسان بھی ہو کوئی ، اس کو فیصلے کا اختیار دیا جائے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے تمہاری باتوں سے اندازہ ہو گیا ہے.اتنی فراست مجھ میں ہے کہ میں سچ اور جھوٹ کو دیکھ لوں.لیکن آپ کا ایک بڑا محتاط طریقہ تھا.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ

Page 154

خطبات مسرور جلد سوم 147 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء آپ عاجزی اور انکسار کا کس طرح اظہار فرمایا کرتے تھے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حسن خلق کا مالک نہیں تھا.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صحابہ میں سے یا اہل بیت میں سے کسی نے آپ کو بلایا ہو اور آپ نے اس کو لبیک یا حاضر ہوں، کہہ کر جواب نہ دیا ہو.حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ اسی وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: 5 ) کہ تو خلق عظیم پر فائز کیا گیا ہے.تو دیکھیں بادشاہ دو جہان اللہ کا سب سے پیارا، آخری نبی لیکن عاجزی کی یہ انتہا کہ ہر بلانے والے کو ایک عام آدمی کی طرح جواب دے رہے ہیں کہ میں حاضر ہوں.بلکہ عام آدمی سے بھی بڑھ کر عاجزی دکھاتے ہوئے.پھر حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے دیکھا کہ حضور اپنی سوئی کو ٹیکتے ہوئے ہماری طرف آ رہے ہیں.ہم حضور کو دیکھ کر احتراما کھڑے ہو گئے.حضور نے فرمایا کہ نہیں بیٹھے رہو اور دیکھو جس انداز میں عجمی ایک دوسرے کے احترام کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تم ایسے نہ کھڑے ہوا کرو.پھر آپ نے فرمایا کہ میں تو اللہ کا صرف ایک بندہ ہوں.اس کے دوسرے بندوں کی طرح میں بھی کھاتا پیتا ہوں اور انہیں کی طرح اٹھتا بیٹھتا صلى الله ہوں.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثاني الفصل التاسع عشر - باب تواضعه ) پھر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کی طرف رخ پھیرتے تو پورا رخ پھیرتے نظر ہمیشہ نیچی رہتی.یوں لگتا جیسے فضا کی نسبت زمین کی طرف آپ کی نظر زیادہ پڑتی ہے.آپ اکثر نیم وا آنکھوں سے دیکھتے، اپنے صحابہ کے پیچھے پیچھے چلتے اور جب کبھی خاص جگہوں پہ جانا ہوتا تو ان کا خیال رکھتے.ہر ملنے والے کو سلام میں پہل کرتے.(شمائل ترمذی باب خَلْق رسول الله ﷺ اور آپ کا یہ صحابہ کے ساتھ اس طرح گھل مل کر بیٹھنا اور کوئی تخصیص نہ ہونا بعض نئے آنے والوں کو مشکل میں ڈال دیتا تھا.جو آپ کو جانتے نہ تھے ان کے لئے آپ کو پہچاننا مشکل

Page 155

خطبات مسرور جلد سوم ہو جایا کرتا تھا.148 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر جب مدینہ میں ورود فرما ہوئے تو دوپہر کا وقت تھا.دھوپ کی شدت تھی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سائے میں تشریف فرما ہوئے.لوگ جوق در جوق آنے لگے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جو آپ کے ہم عمر ہی تھے.اہل مدینہ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے قبل نہ دیکھا تھا.لوگ آپ کے پاس آنے لگے مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وجہ سے آپ کو نہ پہچانتے تھے.پہچاننا مشکل ہو گیا.تو آپ اس قدر عاجزی اور سادگی کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ سب لوگ حضرت ابوبکر کو ہی سمجھنے لگے کہ وہ ہی نبی ہیں، رسول خدا ہیں.جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ محسوس کیا تو کھڑے ہو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کرنے لگے جس سے لوگوں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں.(السيرة النبوية لابن هشام - منازل المهاجرين بالمدينة - باب قدومه ﷺ قباء) پھر آپ کی انتہائی عاجزی کا ایک اور روایت میں یوں ذکر آتا ہے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا: اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) ، اے ہم میں سے سب سے بہترین اور اے ہم میں سے بہترین لوگوں کی اولاد، اور اے ہمارے سردار اور ہمارے سرداروں کی اولاد!.آپ نے سنا تو فرمایا کہ دیکھو تم اپنی اصل بات کہو اور شیطان کہیں تمہاری پناہ نہ لے.میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کا رسول ہوں.میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرا مقام اس سے بڑھا چڑھا کر بتاؤ جو اللہ نے مقرر فرمایا ہے.یہ ساری باتیں جو آنے والے نے کہی تھیں سچ تھیں ایک بھی غلط نہیں تھی لیکن آپ کی عاجزی نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس طرح کوئی آپ کی تعریف کرے.فوراً اسے ٹوک دیا.کسی دنیاوی بادشاہ کے دربار میں جائیں بلکہ کسی عام امیر آدمی کے پاس ہی چلے جائیں تو جب تک اس کی تعریف نہ کریں وہ آپ کی بات سننا نہیں چاہتا.اکثر یہی ہوتا ہے اور وہ بھی جھوٹی تعریفیں ہوتی ہیں، مبالغہ سے پُر ہوتی

Page 156

خطبات مسرور جلد سوم 149 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء ہیں.لیکن آپ کے بارے میں حقیقت بیان کی جارہی ہے اس کو بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں اس طرح بیان نہ کرو.پھر باوجود اس کے کہ آپ کو اپنے اعلیٰ مقام کا خوب خوب علم تھا لیکن عاجزی کا اظہار اس سے بڑھ کر تھا.حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں بنی آدم کا سردار ہوں مگر اس میں کوئی فخر کی بات نہیں اور قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے زمین کو پھاڑا جائے گا.مگر اس میں کوئی فخر کی بات نہیں.قیامت کے دن میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا.اور سب سے پہلا ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی.لیکن وَلَا فَخْرَ اس میں کوئی فخر کی بات نہیں.اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا.لیکن اس میں (ابن ماجه - كتاب الزهد - باب ذكر الشفاعة) کوئی فخر نہیں.پھر سفروں یا جنگوں وغیرہ پر جاتے ہوئے بھی سواریوں کی کمی کی وجہ سے جو سلوک دوسرے قافلے والوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا آپ اپنے لئے بھی وہی پسند فرمایا کرتے تھے.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے تشریف لے گئے تو صرف ستر سواریاں تھیں اور تمام صحابہ ان پر سوار نہ ہو سکتے تھے چنانچہ تین تین اور چار چار صحابہ باری باری ایک ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی کوئی الگ اونٹ نہ تھا.آپ اور حضرت علی اور مرثد بن ابی مرشد ، ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے.(السيرة النبوية لابن هشام - غزوة بدر الكبرى عدد ابل المسلمين) اور باوجود اصرار کے بھی آپ نہیں مانا کرتے تھے کہ نہیں اسی طرح باری کے حساب سے ہم بیٹھیں گے.پھر ایک روایت میں آتا ہے عبداللہ بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے.آپ کے لئے کپڑے کا سایہ کیا گیا.جب آپ نے سایہ دیکھا اور سر اوپر اٹھایا اور دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو

Page 157

خطبات مسرور جلد سوم 150 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء کپڑے سے سایہ کیا جا رہا ہے.آپ نے فرمایا رہنے دو.کپڑا لے کر رکھ دیا اور فرمانے لگے میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں.(مجمع الزوائد للهيثمى كتاب علامات النبوة باب في تواضعه ) پھر ایک روایت میں ایک سفر کا حال یوں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ سفر پر تھے.راستہ میں کھانا تیار کرنے کا وقت آیا تو ہر ایک نے اپنے اپنے ذمے کچھ کام لئے.کسی نے بکری ذبح کرنے کا کام لیا تو کسی نے کھال اتارنے کا ، اور کسی نے اسے پکانے کی ذمہ داری لی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے لاؤں گا.صحابہ نے عرض کیا حضور ! ہم کام کرنے کے لئے کافی ہیں.آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں.آپ نے فرمایا میں جانتا ہوں لیکن میں امتیاز پسند نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کو نا پسند کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں میں امتیازی شان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہو.پھر باوجود اس کے کہ بعض کاموں کے لئے کارندے مقرر کئے ہوئے تھے لیکن آپ کے پاس وقت ہوتا تھا تو وہ کام خود بھی کر لیا کرتے تھے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے.عبداللہ بن طلحہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ مجھ سے انس بن مالک نے کہا کہ صبح کے وقت میں ابوطلحہ کے ساتھ اس کے نومولود بیٹے کو گھٹی دلوانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا.میں نے دیکھا کہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اونٹ داغنے کا آلہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوۃ کے اونٹوں کو نشان لگا رہے تھے.جو ز کوۃ میں بیت المال کے پاس اونٹ آئے تھے ان کو نشان لگا ر ہے تھے.(بخاری کتاب الزكاة - باب وسم الامام ابل الصدقة) آپ اس انتظار میں نہیں رہے کہ بیت المال کے اونٹ ہیں جن لوگوں کے سپرد یہ کام کیا ہوا ہے وہ خود آ کر یہ کام کرلیں گے.بلکہ جب دیکھا کہ وقت ہے تو ایک عام کارکن کی طرح خود ہی یہ کام سرانجام دینے لگے.پھر گھر کے کام کاج بھی آپ ایک عام آدمی کی طرح کیا کرتے تھے.پہلے بھی ذکر آپکا ہے اور یہی آپ فرماتے تھے کہ میں تو محض ایک انسان ہوں اور عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا

Page 158

خطبات مسرور جلد سوم 151 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء ہوں اور اٹھتا بیٹھتا ہوں اور اس لئے میں کام بھی کرتا ہوں.پھر ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں، اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مددفرماتے تھے.آپ کپڑے خود دھو لیتے تھے.گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے تھے.خود اونٹ کو باندھتے تھے.اپنے پانی لانے والے جانور اونٹ وغیرہ کو خود چارہ ڈالتے تھے.بکری خود دوہتے تھے، اپنے ذاتی کام بھی خود کر لیتے تھے.خادم سے کوئی کام لیتے تو اس میں اس کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے.حتی کہ اس کے ساتھ مل کر آٹا بھی گوندھ لیتے.بازار سے اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے.(تلخیص از مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحه 121 واسد الغابة ذكر محمد ذكر جمل من اخلاقه ومعجزاته ،مشكوة المصابيح - كتاب الفضائل - باب في اخلاقه وشمائله صلى الله عليه صلى الله عافيه وسكم.اب جو گھر میں کام ہو رہے ہیں وہ تو کسی کو باہر نظر نہیں آ رہے لیکن بازار سے جب سامان لا رہے ہیں کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ خود اپنی چیزیں بازار سے اٹھا کر لاؤں گا تو لوگ کیا کہیں گے.یہ اس معاشرے میں جہاں بڑائی کا بہت زیادہ اظہار ہوتا تھا اس معاشرے میں یہ ایک عجیب چیز تھی.کبھی بھی آپ کو اس جھوٹی عزت کی پرواہ نہیں تھی.پھر حضرت ابو مسعود روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مخاطب ہوئے تو وہ تھر تھر کانپنے لگا.آپ نے فرمایا کہ اپنے آپ کو سنبھالو میں کوئی بادشاہ نہیں بلکہ ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سو کھا گوشت کھایا کرتی تھی.(ابن ماجه - كتاب الأطعمة - باب (القديد تو اپنی عاجزی کا اظہار فرمایا.آپ کو یہ برداشت نہ تھا کہ کوئی آپ کو ایک عام انسان سے زیادہ سمجھے.یہ تو دنیا داروں کی نشانی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عام انسانوں سے بڑا سمجھتے ہیں اور یہ ذہنیت اس تکبر کی وجہ سے ہوتی ہے جو ایک دنیا دار کے ذہن میں ہوتا ہے اور آپ جو عاجزی کے اعلیٰ ترین خلق پر قائم تھے کس طرح برداشت کر سکتے تھے کہ کوئی آپ سے اس طرح خوفزدہ ہو

Page 159

خطبات مسرور جلد سوم 152 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء جس طرح متکبر بادشاہ سے لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعے کا یوں ذکر فرمایا ہے.فرماتے ہیں کہ: ”دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں اگر چہ ایسی تھیں کہ تمام انبیائے سابقین میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر آپ کو خدا تعالیٰ نے جیسی جیسی کامیابیاں عطا کیں آپ اتنی ہی فروتنی اختیار کرتے گئے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص آپ کے حضور پکڑ کر لایا گیا.آپ نے دیکھا تو وہ بہت کا پتا تھا اور خوف کھاتا تھا.مگر جب وہ قریب آیا تو آپ نے نہایت نرمی اور لطف سے دریافت فرمایا کہ تم ایسے ڈرتے کیوں ہو؟ آخر میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں اور ایک بڑھیا کا فرزند ہوں“.(ملفوظات جلد 5 صفحه 548 جدید ایڈیشن - الحکم مورخه 26 30اگست 1908ء صفحه 3) پھر معاشرے کے دھتکارے ہوئے طبقے ، غریب لوگ بلکہ ذہنی طور پر کمزور لوگوں کے لئے بھی آپ انتہائی عاجزی سے ان کا خیال کیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آیا کرتے تھے.چنانچہ حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتو تھا، حضور کے پاس آئی اور عرض کیا کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے.لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان لوگوں کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتی میرے ساتھ آ کر علیحدگی میں سنیں.حضور نے اس کی بات سن کر فرمایا کہ اے فلاں! تو مدینہ کے راستوں میں سے جس راستے پر تو چاہے میں وہاں تیرے ساتھ جاؤں گا.وہاں بیٹھ کر تیری بات سنوں گا اور جب تک تیری بات سن کر تیری ضرورت پوری نہ کر دوں وہاں سے نہیں ہٹوں گا.حضرت انس کہتے ہیں کہ حضور کی بات سن کر وہ حضور کو ایک راستہ پر لے گئی.وہاں جا کر بیٹھ گئی.حضور بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جب تک اس کی بات

Page 160

خطبات مسرور جلد سوم 153 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء سن کر اس کا کام نہ کر دیا حضور وہیں بیٹھے رہے.پیش آئے.( مسلم - كتاب الفضائل -باب قربة من الناس......) اب یہ نہیں کہ بے عقل ہے، غریب ہے، چھوڑ دیا بلکہ اس سے بھی انتہائی عاجزی سے پھر ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”خالی شیخیوں سے اور بے جا تکبر اور بڑائی سے پر ہیز کرنا چاہئے اور انکساری اور تواضع اختیار کرنی چاہئے.دیکھو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ حقیقتا سب سے بڑے اور مستحق بزرگی تھے ان کے انکسار اور تواضع کا ایک نمونہ قرآن شریف میں موجود ہے.لکھا ہے کہ ایک اندھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر قرآن شریف پڑھا کرتا تھا.ایک دن آپ کے پاس عمائد مکہ اور رؤسائے شہر جمع تھے اور آپ ان سے گفتگو میں مشغول تھے.باتوں میں مصروفیت کی وجہ سے کچھ دیر ہو جانے سے وہ نابینا اٹھ کر چلا گیا.یہ ایک معمولی بات تھی.اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق سورۃ نازل فرما دی.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں گئے اور اسے ساتھ لا کر اپنی چادر مبارک بچھا کر بٹھایا.اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں عظمت الہی ہوتی ہے ان کو لازماً خاکسار اور متواضع بنا ہی پڑتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی بے نیازی سے ہمیشہ تر ساں ولرزاں رہتے ہیں“.(ملفوظات جلد 5 صفحہ 611-612 جدید ایڈیشن - الحکم مورخہ 18 مئی 1908ء صفحہ 1 تا 14 ) پھر دیکھیں اس عاجزی کا ایک اور اعلیٰ نمونہ.آپ جن کے منہ سے نکلے ہوئے ہر کلمے کو خدا تعالیٰ قبولیت کا شرف بخشا تھا یہاں تک کہ آپ کو یہ دعا بھی کرنی پڑی کہ یا اللہ ! بعض دفعہ میں کسی کو مذاق میں یا ویسے ہی کوئی بات کہہ دیتا ہوں تو کہیں اس کی وجہ سے اس کو پکڑ میں نہ لے لینا بلکہ اس کے بداثر سے اس کو محفوظ رکھنا.جس ہستی کا یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ میری اتنی سنتا ہے کہ عام کہی ہوئی بات سے بھی کوئی پکڑ میں نہ آ جائے تو اس کے باوجود وہ اپنے لئے کسی دوسرے کو دعا کے لئے کہے تو یہ عاجزی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے.

Page 161

خطبات مسرور جلد سوم 154 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمر نے عمرہ پر جانے کے لئے اجازت چاہی تو آپ نے اجازت دیدی اور کمال انکسار سے فرمایا کہ اے میرے بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس بات سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا بھی مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی.(ابوداؤد - كتاب الوتر - باب الدعاء) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خوشی یقیناً اس بات سے بھی ہوئی ہوگی اور یقین ہوگا کہ آپ کے یہ فرمانے کے بعد میری دوسری بھی تمام دعائیں قبول ہو جائیں گی.کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کی دعاؤں کی قبولیت کی بھی یقیناً دعا کی ہوگی.پھر دیکھیں عاجزی کی انتہا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیاء پر فضیلت دی.آپ کو خاتم النبین فرمایا ہے.تمام امتوں کی فلاح آپ کے ہاتھ پر اکٹھا ہونے میں رکھی ہے.لیکن جب ایک مسلمان اور یہودی کی لڑائی ہوتی ہے تو آپ مسلمان کو نصیحت کرتے ہیں، سرزنش کرتے ہیں.چنانچہ روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی اور مسلمان کا آپس میں جھگڑا ہو گیا.مسلمان نے کہا اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی اور چن لیا.اس پر یہودی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی اور چن لیا.اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ دے مارا.یہودی شکایت لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور تمام واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کیا.آپ نے اس مسلمان کو بلا کر اس واقعہ کے بارے میں پوچھا اور تفصیل سن کر اس مسلمان پر ناراض ہوئے اور فرمایا لَا تُخَيَّرُوْنِيْ عَلَى مُوسَى مُجھے موسیٰ “ پر فضیلت نہ دو.(بخارى كتاب الخصومات -باب ما يذكر في الاشخاص والخصومة بين المسلم واليهود) پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے خوف اور عاجزی کی ایک اور مثال.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی (اپنے اعمال

Page 162

خطبات مسرور جلد سوم 155 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء کی وجہ سے نجات نہ پائے گا).صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا آپ بھی؟ فرمایا: ہاں میں بھی اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پاؤں گا.لیکن اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا.( یعنی اس کی رحمت کے نتیجہ میں مجھے نجات ملے گی ).پس تم سیدھے رہو اور ( شریعت کے قریب رہو اور صبح و شام اور رات کے اوقات میں (عبادت کے لئے ) نکلو اور میانہ روی اختیار کرو اور میانہ روی اختیار کرو تو تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے“.(بخاری کتاب الرقاق -باب القصد والمداومة على العمل) دیکھیں جس نبی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اس نبی کی بیعت بھی خدا تعالیٰ کی بیعت ہے.وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ میرے سے وہ کام ہو ہی نہیں سکتے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہوں بلکہ اپنی بشریت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فرما رہے ہیں کہ مجھے بھی اپنے اعمال کی وجہ سے کچھ نہیں ملے گا بلکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کی وجہ سے ملے گا.ایک اور موقع پر اپنے عزیزوں کو اور اپنی بیٹی فاطمہ کو کہا کہ تم لوگ یہ نہ سمجھنا کہ میرے ساتھ تعلق ، میرے ساتھ پیار یا محبت یا میرا تم سے پیار یا محبت تمہیں بخش دے گا، تمہاری بخشش کے سامان پیدا کر دے گا.فرمایا کہ بلکہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرو.یہ کبھی نہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ تم سے اس لئے درگزر فرمائے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو ( فاطمہ کو فرمایا تھا).باوجود اس کے کہ آپ کو شفاعت کا حق دیا گیا تھا.آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے فاطمہ ! میری لاڈلی بیٹی تیرے تھوڑے عمل بھی ہوں گے تو میں اللہ تعالیٰ کے حضور تیری شفاعت کروں گا تو بخش دی جائے گی.فرمایا میری کوئی حیثیت نہیں ہے.پس اس کا فضل اور رحم ہر وقت مانگنے کی کوشش کرو.کیونکہ مجھے بھی اس کے رحم کی چادر نے ہی لپیٹنا ہے.پھر دیکھیں عاجزی کا وہ نظارہ جہاں اگر کوئی اور ہو تو فخر سے سر اونچا ہو اور چہرے سے رعونت ٹپکتی ہو، تکبر ہو.فتح حاصل کر لینے کے بعد دشمن کے بچوں اور بوڑھوں کو بھی چیونٹیوں کی طرح کچل دیا جاتا ہے لیکن جس شان اور طاقت سے آپ نے مکہ فتح کیا اس وقت آپ کے دل

Page 163

خطبات مسرور جلد سوم 156 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء کی جو کیفیت تھی اس کا اظہار بھی بے اختیار آپ کے عمل سے ہو گیا.اس عمل کا نقشہ تاریخ نے یوں کھینچا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دس ہزار قد وسیوں کے جلو میں فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے وہ دن آپ کے لئے بہت خوشی اور مسرت اور عظمت کے اظہار کا دن تھا.مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے ان فضلوں کے اظہار پر خدا کی راہ میں بچھے جاتے تھے.خدا نے جتنا بلند کیا آپ انکساری میں اور بڑھتے جا رہے تھے.یہاں تک کہ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا سر جھکتے جھکتے اونٹ کے کجاوے سے جالگا.جس کجاوہ پر بیٹھے ہوئے تھے اس کے آگے ابھرے ہوئے حصے سے جالگا اور اللہ تعالیٰ کے نشانوں پر اس کی حمد و ثنا میں مشغول تھے.(السيرة النبوية لابن هشام - ذكر فتح مكة - باب وصول النبي الى ذى طوى ) | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں: علو جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے ، یعنی بلندی اور اعلیٰ مقام ” وہ انکسار کے رنگ میں ہوتا ہے.اور شیطان کا عُلُو استکبار سے ملا ہوا تھا یعنی شیطان کی بلندی تکبر میں ہوتی ہے.”دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کیا تو آپ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح ان مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکہ میں آپ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا جب آپ نے دیکھا کہ میں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیا ہوں تو آپ کا دل خدا کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے سجدہ کیا.(ملفوظات جلد 2 صفحه 404 حاشیه جدید ایڈیشن - الحکم /31 اکتوبر 1902ء صفحه (7) پس یہ ہے عاجزی کی وہ اعلیٰ ترین مثال جو طاقت و فتح حاصل کر لینے کے بعد آپ نے دکھائی.اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی اس عاجزی کو کس طرح انعامات سے نوازا.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اسرافیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس

Page 164

خطبات مسرور جلد سوم 157 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء تواضع کی بدولت جو آپ نے اس کے لئے اختیار کی یہ انعام عطا کیا ہے کہ آپ قیامت کے روز تمام بنی آدم کے سردار ہوں گے.سب سے اول حشر بھی آپ کا ہو گا.سب سے پہلے شفیع بھی آپ ہوں گے.(كتاب الشفاء للقاضي عياض - الباب الثاني - الفصل التاسع عشر - تواضعه - حجۃ الوداع کے موقع پر جو آپ نے دعا کی اس کے الفاظ یہ تھے.اے اللہ ! تو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے.میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے خوب واقف ہے.میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں ہے میں ایک بد حال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں.تیری مدد اور پناہ کا طالب ہوں ، سہما اور ڈرایا ہوا ، اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس چلا آیا ہوں.میں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں.ہاں تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگار کی طرح زاری کرتا ہوں.ایک اندھے نابینے کی طرح ٹھوکروں سے خوفزدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں.میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں.میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلود ہے.اے اللہ تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بدبخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا.اے وہ جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا ہے اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے.(مجمع الزوائد للهيثمي - كتاب الحج - باب في العرفة والوقوف بها دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتنی تسلیاں اور انعامات ملنے کے باوجود قرآن کریم میں کئی جگہ ان کا ذکر ہے.اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھا کہ میں ہوں تو اللہ کا ایک بندہ ہی.ہوں تو ایک بشر ہی اس لئے آخر تک اس عاجزی کے ساتھ اپنے خدا سے اس کا رحم اور فضل مانگتے رہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا کی رضا میں فانی لوگ نہیں چاہتے کہ ان کو کوئی درجہ اور امامت دی جاوے.وہ ان درجات کی نسبت گوشہ نشینی اور تنہا عبادت کے مزے لینے کو زیادہ پسند کرتے ہیں.مگر ان کو

Page 165

خطبات مسرور جلد سوم 158 خطبہ جمعہ 11 / مارچ 2005ء خدا تعالیٰ کشاں کشاں خلق کی بہتری کے لئے ظاہر کرتا اور مبعوث فرماتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو غار میں ہی رہا کرتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کسی کو پتہ بھی ہو.آخر خدا نے ان کو باہر نکالا اور دنیا کی ہدایت کا بار ان کے سپرد کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہزاروں شاعر آتے اور آپ کی تعریف میں شعر کہتے تھے مگر لعنتی ہے وہ دل جو خیال کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعریفوں سے پھولتے تھے.وہ ان کو مردہ کیڑے کی طرح خیال کرتے تھے.مدح وہی ہوتی ہے جو خدا آسمان سے کرے.یہ لوگ محبت ذاتی میں غرق ہوتے ہیں.ان کو دنیا کی مدح وثنا کی پروا نہیں ہوتی.تو یہ مقام ایسا ہوتا ہے کہ خدا آسمان اور عرش سے ان کی تعریف اور مدح کرتا ہے.(ملفوظات جلد 3 صفحه 187 جدید ایڈیشن - الحكم مورخه 31 مارچ 1903ء صفحہ 7 کالم 3) اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ -

Page 166

خطبات مسرور جلد سوم 159 (10) خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء آنحضرت صل اللہ وسلم کا خلق عظیم جود و سخا خطبه جمعه فرمودہ 18 / مارچ 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن، لندن.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.عام طور پر دنیا میں ایک دنیا دار انسان دولت کی خواہش کرتا ہے، دولت جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ دنیا داروں میں اپنا ایک مقام بنائے.اپنی دولت سے دوسروں کو مرعوب کرے.اپنے لئے آرام و آسائش کے سامان مہیا کرے.اپنے لئے آرام دہ رہائش اور آرام دہ سواریوں کا انتظام کرے.اپنے بیوی بچوں کے لئے دولت کے انبار چھوڑ کر جائے تا کہ وہ بھی اس کے بعد آسائش کی زندگی گزار سکیں.اور اس میں بھی ایک چھپی ہوئی خواہش ہوتی ہے کہ میرے مرنے کے بعد لوگ یہی کہیں گے کہ فلاں امیر آدمی مرنے کے بعد اتنی دولت چھوڑ کر مرا.اور اس کی اولا داشتنی دولت میں کھیل رہی ہے.یہ تو ہیں ظاہری دنیا داروں کی باتیں.ہر ایک کو نظر آرہے ہوتے ہیں.لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے خیال میں انسانیت کے ہمدرد اور غمخوار ہوتے ہیں، جو انسانی ضرورتوں کے پورا کرنے کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں.لیکن ان کے عمل بھی ان دنیا داروں سے کوئی مختلف نہیں ہورہے ہوتے ، صرف ظاہری نعرے اور دعوے ہی ہوتے ہیں.کیونکہ کبھی بھی اپنے مفاد کی قربانی کرتا ہوا ان میں سے کوئی بھی نظر نہیں آئے گا.لیکن دولت کے ملنے پر اور پھر اس کے خرچ کرنے کے جو طریقے ہیں اس بارے میں جو اُسوہ حسنہ آنحضرت

Page 167

خطبات مسرور جلد سوم 160 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے قائم فرمایا ہے اس کی مثالیں آپ کی زندگی کا ہی حصہ ہیں.یہ تو بعض دفعہ ہو جاتا ہے کہ دنیا کے دکھاوے کے لئے جیسا کہ میں نے کہا لوگ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں اور اس کی خاطر پھر بعض لوگ اپنی طرف سے سخاوت کا اظہار بھی کر دیتے ہیں، لوگوں کے لئے خرچ بھی کر دیتے ہیں.لیکن یہ وقتی جذ بہ ہوتا ہے.لیکن صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور لوگوں کی تکلیفوں کو دور کرنے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ان کا احساس کرتے ہوئے یہ جو دوسخا کے نظارے ہمیں صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نظر آئیں گے.یہ معیار نہ کبھی اس سے پہلے قائم ہوئے اور نہ قائم ہوں گے.بہر حال ایک اسوہ حسنہ ہے جو آپ نے ہمارے لئے قائم فرمایا.جہاں آپ رات دن اس فکر میں رہتے تھے کہ لوگ ایک خدا کو پہچانیں، روحانیت میں ترقی کریں.وہاں اپنی آسائش اور اپنے آرام کی فکر نہیں تھی بلکہ ایک یہ بھی فکر تھی کہ لوگوں کی ضروریات کس طرح پوری ہوں.اپنے بیوی بچوں کے آرام و آسائش کی کوئی فکر نہیں تھی بلکہ ان کو بھی یہ تعلیم تھی اور یہی تربیت کی کہ دوسروں کے لئے اپنے ہاتھ کو کھولو اور اپنے دل کو کھولو.اور ان کوخود یہی تلقین تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے پر زیادہ زور دو، بجائے اس کے کہ مال جمع کرنے اور اکٹھا کرنے پر زور ہو، اپنی آرام و آسائش پر زور ہو کیونکہ یہی چیز ہے جو آخری زندگی میں تمہارے کام آئے گی.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ جو دوسخا، لوگوں کی خاطر خرچ کرنا ، قربانی کر کے خرچ کرنا یہ بھی آپ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی میں کرتے تھے.اور اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کے لئے کرتے تھے.آپ ہی کی ذات ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے اعلیٰ معیار جو کسی انسان میں ہو سکتے ہیں نظر آتے ہیں.پس اس جو دوسخا کے نمونے بھی خدا تعالیٰ کی ذات کے بعد اگر کسی انسان میں نظر آ سکتے ہیں تو وہ اسی انسان کامل کی ذات ہے.آپ کو پتہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا سب سے بڑا مظہر میں ہوں.اور یہ جود وسخا بھی ( یہ بھی ایک خلق ہے، کوئی اس سے باہر نہیں) چنانچہ آپ نے خود فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمام سخاوت کرنے والوں سے بڑھ

Page 168

خطبات مسرور جلد سوم 161 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء کر سخاوت کر نیوالا ہے.اور پھر میں تمام انسانوں میں سے سب سے بڑا سخی ہوں.(مجمع الزوائد للهيثمي ، كتاب علاماة النبوة باب في جوده ) اب یہ کوئی زبانی دعوی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں چند مثالیں پیش کروں گا اس سے ثابت ہوگا کہ آپ سے بڑھ کر حقیقت میں دنیا میں کوئی بھی پیدا نہیں ہوا.آپ کو کبھی یہ خیال نہیں آیا که به دولت خدا تعالیٰ نے مجھے دی ہے، مجھے اپنے آرام کے لئے اسے رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے آپ " کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع پیدا کئے جب آپ کے پاس دولت کے انبار لگ گئے.لیکن آپ نے کبھی ان کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا بلکہ فوری طور پر لوگوں میں تقسیم کرنے کی فکر ہوتی تھی.چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ " إِنَّمَا أَنَا فَاسِمٌ وَيُعْطِى الله “ کہ میں تو صرف قاسم ہوں.خدا تعالیٰ دیتا ہے اور میں تقسیم کر دیتا ہوں.(بخارى ، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة ، باب قول النبي ﷺ لا تزال طائفة من امتى ظاهرين على الحق........ان تقسیم کرنے کے نظاروں کی تصویر کشی مختلف روایات میں ہوئی ہے صحابہ نے اپنے اپنے رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جودوسخا کے واقعات کو بیان فرمایا ہے.ان روایات کو بھی پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ صحابہ اس سے بھی زیادہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن الفاظ ساتھ نہیں دیتے تھے.چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ " كَانَ النبي ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَجْوَدَ النَّاسِ“ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں میں سے حسین ترین اور سب انسانوں میں سے زیادہ بنی اور سب سے بہادر تھے.(بخاری - كتاب الادب باب حسن الخلق والسخاء.......) پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر، معزز یخنی اور نورانی وجود کسی کو نہیں دیکھا.(الطبقات الكبرى لابن سعد جلد اوّل ذكر صفة اخلاق رسول الله صلى الله

Page 169

خطبات مسر در جلد سوم 162 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء حضرت عبداللہ بن عباس نے بیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان کے مہینے میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ جاتی تھی.جب جبرئیل آپ سے ملاقات کرتے تھے اس وقت آپ کی سخاوت اپنی شدت میں تیز آندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی.صل الله (بخارى - كتاب الصوم - باب أجود ما كان النبى يكون في رمضان) آپ کی سخاوت کا عمومی رنگ بھی ایسا تھا کہ جس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا.جیسا کہ میں آگے بعض روایات سے پیش کروں گا.لیکن صحابہ کہتے ہیں کہ رمضان میں تو اس سخاوت کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا تھا.یہ کبھی عام حالات میں بھی نہیں ہوا کہ کبھی کسی نے مانگا ہو اور آپ نے نہ دیا ہو.حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا ہو اور آپ نے نہ کہا ہو.اگر ہوتا تو عطا فرما دیتے ورنہ خاموش رہتے ، یا اس کے لئے دعا کر دیتے.(شرح مواهب اللدنيه للزرقاني الفصل الثاني قيما اكرمه الله تعالى به من الاخلاق الزكية ) پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ بعض انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیا.انہوں نے پھر مانگا تو آپ نے مزید عطا فرمایا.انہوں نے پھر مانگا تو آپ نے کچھ اور عطا فرمایا یہاں تک کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جو مال ہوتا ہے اسے تم سے روک کر نہیں رکھتا.(بخارى كتاب الزكاة - باب الاستعفاف.المسألة) عن پھر ایک روایت میں حضرت سھل بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لباس کی ضرورت محسوس کر کے ایک صحابیہ نے ایک خوبصورت چادر کڑھائی کر کے آپ کی خدمت میں پیش کی.اور عرض کی کہ یہ میں نے آپ کے لئے اپنے ہاتھ سے بنی ہے تاکہ آپ اس کو استعمال فرمائیں.( کیونکہ آپ سب کچھ دے دیا کرتے تھے، اپنے لئے نہیں رکھتے

Page 170

خطبات مسرور جلد سوم 163 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء تھے ).حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت بھی تھی.آپ اندر گئے اور وہ چادر پہنی اور باہر تشریف لائے تو ایک صحابی نے کہا کیا عمدہ چادر ہے یہ مجھے پہنادیجئے.اس پر لوگوں نے اس کو کہا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پہن لیا ہے اور آپ " کو اس کی ضرورت بھی ہے تو تم نے پھر یہ چادر کیوں مانگ لی.حالانکہ تم یہ بھی جانتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی انکار نہیں کیا.اس پر اس نے کہا کہ یہ میں نے پہننے کے لئے نہیں مانگی ہیں نے تو یہ اپنے کفن کے لئے مانگی ہے.صلى الله (بخارى كتاب الجنائز - باب من استعد الكفن في زمن النبي ) ایک روایت میں آتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نوے ہزار درہم پیش کئے گئے.آپ نے انہیں ایک چٹائی پر رکھوا لیا اور تقسیم فرمانے لگے.ہر آنے والے سوالی کو عطا فرماتے تھے اور کسی کو بھی خالی ہاتھ نہ جانے دیتے.جب آپ سارے درہم تقسیم فرما چکے تو ایک اور سوالی آ گیا.اس وقت تک ختم ہو چکے تھے تو آپ نے فرمایا تم ہمارے نام پر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لو اور جب کہیں سے مال آئے گا یا میرے پاس گنجائش ہوگی تو میں تمہارا قرض اتار دوں گا.تو اس موقع پر وہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جس کام کی استطاعت نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ضروری قرار نہیں دیا.یعنی جب آپ کے پاس نہیں ہے تو انکار کر دیں.تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا بڑا برا منایا.آپ کو یہ بات پسند نہیں آئی.وہاں ایک انصاری بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ خرچ کرتے چلے جائیں اللہ آپ کو کبھی بھی مال کی کمی نہیں ہونے دے گا.یہ سن کر آپ مسکرائے اور آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار جھلکنے لگے.اور فرمایا مجھے یہی حکم ملا ہوا ہے.نہیں کی.(الشفاء لقاضي عياض الباب الثانى الفصل الثالث عشر.الجود والكرم) اور آپ کی اسی سخاوت کی وجہ سے آپ پر قرض بھی ہو جاتا تھا.لیکن کبھی اس کی پرواہ

Page 171

خطبات مسرور جلد سوم 164 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء چنا نچہ اس قرض کا ایک روایت میں ذکر آتا ہے کہ عبداللہ الھو زنی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حلب میں ملا اور نبی کریم ﷺ کے آمد و خرچ کی بابت سوال کیا کہ کس طرح آمد ہوتی تھی ، کس طرح خرچ ہوتا تھا؟ تو بلال کہنے لگے کہ آنحضور ﷺ کی وفات تک یہ سارا انتظام ، آمد و خرچ کا حساب کتاب، یہ میرے سپر دہی ہوتا تھا.اور اس طرح ہوتا تھا کہ جب بھی کوئی مسلمان کپڑوں سے عاری ہے یا کوئی ضرورت مند ہے اور آپ کے پاس آتا تو آپ مجھے حکم فرماتے اور میں اس کو کپڑا خرید دیتا یا اس کی ضرورت پوری کر دیتا.کھانے کی ضرورت ہوتی یا کوئی اور جو بھی انتظام ہوتا.اور حضرت بلال کہتے ہیں کہ بعض دفعہ رقم نہیں ہوتی تھی اس کے لئے اگر مجھے قرض بھی لینا ہوتا تھا تو میں لے لیا کرتا تھا.تو ایک دن ایک مالدار مشرک مجھے ملا اور کہنے لگا کہ اے بلال! میں صاحب استطاعت ہوں! مجھے توفیق ہے تم کسی اور سے کیوں قرض لیتے ہو، جب ضرورت ہو مجھ سے لے لیا کرو.تو کہتے ہیں میں اس سے قرض لینے لگ گیا.تو ایک روز میں وضو کر رہا تھا کہ وہی شخص کچھ اور تاجروں کے ہجوم میں میرے پاس آیا اور مجھے دیکھتے ہی بڑی رعونت سے کہنے لگا کہ اے حبشی ! تمہیں علم ہے کہ میرا قرض چکانے کے دن قریب آ گئے ہیں، چند دن باقی رہ گئے ہیں.تو میں نے کہا ہاں مجھے پتہ ہے.بہر حال اس نے بڑے سخت الفاظ میں کہا کہ میں ان دنوں کے اندر اندر اپنا قرض واپس لے کے رہوں گا اور نہ تم میری نوکری کرو گے اور میری بکریاں چراؤ گے اور میری غلامی میں آجاؤ گے.تو بہر حال بلال کہتے ہیں کہ میرے دل پر اس بات کا بڑا اثر ہوا.اس کی یہ باتیں مجھے بڑی بری لگیں.عشاء کی نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ فلاں مشرک سے اتنا قرض لیا تھا، لوگوں کی ادائیگیوں اور ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ، اب آج اس نے مجھے قرض کی ادائیگی کے لئے بڑا سخت برا بھلا کہا ہے.ابھی کچھ دن رہتے ہیں.اور حالت یہ ہے کہ نہ آپ کے پاس کچھ ہے اور نہ میرے پاس ہے کہ قرض کی ادائیگی کا کچھ انتظام کر سکیں.تو میرے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ میں کچھ دنوں کے لئے جب تک ادا ئیگی کا انتظام نہیں ہو جاتا کسی مسلمان قبیلہ کی طرف چلا جاتا ہوں.تو کہتے ہیں کہ میں یہ کہہ کر اپنے گھر آ گیا اور تیاری کرنے لگا.جوتی

Page 172

خطبات مسرور جلد سوم 165 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء اور ڈھال وغیرہ اپنے سرہانے رکھ لی کہ صبح صبح سفر شروع کر دوں گا.تو کہتے ہیں کہ جب صبح جانے کے لئے تیار تھا تو ایک شخص میرے پاس آیا اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بلا رہے ہیں.میں حضور کے پاس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار اونٹ سامان سے لدے پھندے بیٹھے ہیں اور ان پر مال لدا ہوا تھا.تو جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.اجازت چاہی.آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا کہ اے بلال! خوش ہو جا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے قرض کی ادائیگی کا سامان کر دیا ہے.اور پھر فرمایا کہ کیا تم نے چار اونٹ نہیں دیکھے؟ یہ جو سامان سے لدے ہوئے ہیں.میں نے کہا ہاں جی دیکھے ہیں.فرمایا کہ سارا سامان لے لو اور سب قرضے اتار دو.یہ فدک کے رئیس نے تحفہ بھجوائے ہیں.تو کہتے ہیں کہ چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا.واپس آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے.فرمانے لگے کہ بلال جو تیرے پاس تھا اس کا کیا بنا.تو کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جو آپ پر تھا وہ سارا قرض اتار دیا اور اب کوئی قرض باقی نہیں رہا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کوئی مال بچا ہے.میں نے کہا جی ہاں.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بچ گیا اس کو بھی ضرورت مندوں کو دے دو اور میری تسلی اور راحت کا سامان کرو.جب تک اس میں سے کچھ بھی موجود ہے میں گھر نہیں جاؤں گا.جب نماز عشاء ہوگئی تو کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بنا؟ میں نے عرض کیا کہ مال پڑا ہوا ہے کوئی لینے ہی نہیں آیا.تو حضور نے وہ رات مسجد میں گزاری.اور جب دوسرے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا کی تو پھر پوچھا کہ بلال مال کا کیا بنا.تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ! اللہ نے آپ کو اس مال سے بے فکر کر دیا ہے“.یعنی سب تقسیم ہو گیا ہے.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا اور اس کا شکر ادا کیا کہ سب مال تقسیم ہو گیا ہے.(سنن ابی داؤد - كتاب الخراج - باب في الامام يقبل هدايا المشركين ) اب دیکھیں آپ لوگوں کے لئے کوئی معمولی قرض نہیں لے رہے.بلکہ وہ اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ اس کی ادائیگی کے لئے بھی اونٹوں پہ جو مال لد کے آیا ہے اس سے ادا ئیگی ہورہی ہے ہے.اور پھر جب اس میں سے کچھ بچ گیا تو پھر یہ خیال نہیں آیا کہ بچ گیا ہے اس کو رکھ لیا جائے.

Page 173

خطبات مسرور جلد سوم 166 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء آئندہ جب کوئی آئے گا تو دے دیں گے یا اپنی ضرورتوں کے لئے استعمال ہو جائے گا.نہیں، بلکہ فرمایا کہ میں اس وقت تک گھر نہیں جاؤں گا جب تک جو مال بھی پڑا ہے تقسیم نہ ہو جائے.ضرورت مند تلاش کرو اور ان میں تقسیم کر دو.پھر ایک روایت ہے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین سے واپسی کے موقع پر کچھ بدو آپ کے پیچھے پڑ گئے.وہ بڑے اصرار سے سوال کر رہے تھے.جب آپ انہیں دینے لگے تو انہوں نے اتنا رش کیا کہ آپ کو مجبوراً ایک درخت کا سہارا لینا پڑا.حتی کہ آپ کی چادر بھی چھین لی گئی.آپ نے فرمایا میری چادر تو مجھے واپس دے دو.پھر کیکروں کے بہت بڑے جنگل کی طرف اشارہ کیا (ایک درختوں کا جنگل تھا ) آپ نے فرمایا اگر اس وسیع جنگل کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوں تو میں ان کو تقسیم کرنے میں خوشی محسوس کروں گا.اور تم مجھے کبھی بخل سے کام لینے والا ، جھوٹ بولنے والا یا بز دلی دکھانے والا نہیں پاؤ گے.صلى الله (بخارى - كتاب الفرض الخمس - باب ما كان النبي ﷺ يعطى المؤلفة قلوبهم) پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کا واسطہ دے کر مانگا جاتا تو آپ حسب استطاعت ضرور دیتے.ایک دفعہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور آپ نے اس کو بکریوں کا اتنا بڑا ریوڑ دیا کہ دو پہاڑوں کے درمیان کی وادی بھر گئی.جب وہ بکریاں لے کر اپنی قوم میں واپس آیا تو آ کر کہا کہ اے لوگو! اسلام قبول کر لو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تو اس طرح دیتے ہیں جیسے غربت و احتیاج کا انہیں کوئی ڈر ہی نہیں.(صحيح مسلم - كتاب الفضائل باب في سخانه ) ایک اور روایت ہے کہ جب آپ اس طرح لوگوں میں تقسیم کیا کرتے تھے تو اس دنیا حاصل کرنے کی وجہ سے لوگ ایمان لے آیا کرتے تھے.اسلام قبول کر لیا کرتے تھے.لیکن جب ایمان حاصل ہو جا تا تھا اسلام قبول کر لیتے تھے تو پھر ان کو مال سے زیادہ اسلام پیارا ہوتا تھا اور پھر وہ بھی قربانیوں میں لگ جایا کرتے تھے.پھر غزوہ حنین کے دن ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان کو سو اونٹ دیئے ، پھر سو اونٹ

Page 174

خطبات مسرور جلد سوم 167 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء دیئے ، پھر مزید سو اونٹ دیئے.یعنی تین سو اونٹ دیئے.وہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے سب سے زیادہ نفرت تھی.لیکن اس عنایت اور عطا نے میرے بغض کو محبت میں بدل دیا.(مسلم - كتاب الفضائل - باب فی سخائه پھر حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپ نے ایک سخت کھردرے کناروں والی چادر اوڑھ رکھی تھی کہ ایک بد و آیا.اس نے چادر سے پکڑ کر بڑی زور سے اپنی طرف کھینچا.یہاں تک کہ آپ کی چادر سے آپ کے کندھوں پر نشان پڑ گئے.پھر اس نے کہا اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے ان دو اونٹوں پر اللہ کے اس مال میں سے لدوا دو جو تیرے پاس ہے.اور جو مال تم مجھے دو گے وہ مال تمہارا یا تمہارے باپ کا نہیں ہے.آپ اس کی یہ بات سن کر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ مال تو اللہ کا مال ہے اور میں اس کا بندہ ہوں.پھر فرمایا کہ اے اعرابی جو سلوک تم نے میرے ساتھ کیا ہے یعنی یہ چادر کھینچی ہے اس کا تم سے بدلہ لیا جائے گا.بد و کہنے لگا کہ ایسا نہیں ہوگا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں؟ وہ کہنے لگا کہ اس لئے کہ آپ " کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے.اس پر آپ مسکرا دیئے اور پھر آپ نے ایک شخص کو فرمایا کہ اس کو ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجور میں لا ددو.( الشفاء لقاضي عياض ، الباب الثانى ، الفصل الثاني عشر ، الحلم والعفو) | اب دیکھیں مانگنے والے کی کرختگی اور اجڈ پن لیکن آپ نے اس کو سامان دینے سے انکار نہیں کیا.یہ فرمایا کہ یہ جو جاہلانہ رویہ تم نے اختیار کیا ہے اور چادر کھینچی ہے اس کی سزا تمہیں ملے گی.اور یہ بھی شاید مذاق میں ہی کہا ہو.لیکن اس بدو کے جواب پر کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے تو آپ فورا مسکرا دیئے.اور یہ آپ کی نرم طبیعت ہی تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بدو لوگ آپ سے اس طرح مخاطب ہوا کرتے تھے.ورنہ کب کوئی کسی دنیا دار حاکم کے سامنے اس طرح رویہ اختیار کر سکتا ہے.ایک مرتبہ عین اقامت نماز کے وقت ایک بدو آیا.نماز کھڑی ہونے لگی تھی.آپ کا دامن پکڑ کر کہا کہ میری ایک معمولی سی ضرورت باقی رہ گئی ہے، خوف ہے کہ میں اس کو بھول نہ

Page 175

خطبات مسرور جلد سوم 168 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء جاؤں.آپ اسے پورا کر دیجئے.چنانچہ آپ اس کے ساتھ تشریف لے گئے اور اس کی ضرورت پوری کر کے واپس آئے اور پھر نماز پڑھائی.“ (الادب المفرد للبخارى باب سخاوة النفس حديث نمبر (278) ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم ع کے پاس دس درہم تھے.کپڑے کا تاجر آیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے چار درہم میں ایک قمیص خریدی.وہ چلا گیا تو آپ نے وہ قمیص زیب تن فرمائی اور پہن لی.اچانک ایک حاجت مند آیا اس نے آ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے قمیص عطا فرما ئیں اللہ تعالیٰ آپ " کو جنت کے لباس میں سے کپڑے پہنائے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی نئی قمیص اتار کر ا سے دے دی.پھر آپ دکاندار کے پاس گئے اور اس سے ایک اور قمیص چار درہم میں خرید لی.تو آپ کے پاس ابھی دو درہم باقی تھے.راستے میں آپ کی نظر ایک لونڈی پر پڑی جو بیٹھی رو رہی تھی.آپ نے پوچھا کیوں روتی ہو، کہنے لگی یا رسول اللہ ! مجھے مالکوں نے دو درہم کا آٹا خریدنے کے لئے بھیجا تھا اور وہ مجھ سے کہیں گر گئے ہیں.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دو درہم اسے دیئے کہ جاؤ آنا خرید لو.پھر بھی وہ روتی جارہی تھی.پھر آپ نے پوچھا اب کیوں روتی ہو؟ تو کہنے لگی کہ اس خوف سے کہ گھر والے دیر ہونے کی وجہ سے سزا نہ دیں.تو اس پر آپ اس بچی کے ساتھ اس کے گھر تشریف لے گئے.آپ نے سلام کیا.پھر دوبارہ سلام کیا.پھر تیسری دفعہ سلام کیا.تو پھر گھر والوں نے جواباوعلیکم السلام کہا.اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے پہلی بار سلام نہیں سنا تھا.انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ ! سن لیا تھا.لیکن ہم چاہتے تھے کہ آپ ہمیں اور زیادہ سلام کریں.ہمارے ماں باپ تو آپ کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے اس لونڈی پر ترس آیا کہ کہیں تم اسے دیر سے آنے کی وجہ سے مارو نہ.اس لئے میں اس کے ساتھ چلا آیا ہوں.تو یہ سن کر لونڈی کے مالک نے کہا ہم اللہ کی خاطر اس کو آزاد کرتے ہیں کیونکہ آپ اس کے ساتھ تشریف لائے ہیں.اس پر آپ نے انہیں جنت کی بشارت دی اور فرمایا کہ دیکھو دس درہموں میں اللہ تعالیٰ نے کتنی برکت ڈال دی ہے.اپنے نبی کو

Page 176

خطبات مسرور جلد سوم 169 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء قمیص پہنادی اور اس کے ذریعہ سے ایک انصاری شخص کو قمیص پہنا دی.اور پھر اس کے ذریعہ سے ایک گردن بھی آزاد کرالی.(مجمع الزوائد للهيثمي كتاب علامات النبوة) تو آپ لوگوں کی ضرورتیں پوری کر کے خوش ہوا کرتے تھے.تو ایک آزادی ملنے پر تو خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ کوئی غلام آزاد ہو جائے.پھر حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین کا مال لایا گیا.تو آپ نے فرمایا کہ مسجد میں اس کا ڈھیر لگا دو اور یہ سب سے زیادہ مال تھا جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں لایا گیا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے مسجد تشریف لائے تو مال کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا.جب نماز سے فارغ ہوئے تو سارا مال تقسیم فرما دیا اور ایک درہم بھی باقی نہیں بچا.اور اس وقت کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جسے کچھ نہ کچھ ملا نہ ہو.(بخارى كتاب الصلوة ، باب القسمة وتعليق القنو في المسجد) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدو نے ایک دفعہ آ کر اپنی ضرورت سے متعلق سوال کیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب حال جو میسر تھا اسے عطا فرما دیا.وہ اس پر سخت ناراض ہوا کہ میری ضرورت پوری نہیں ہو رہی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شان میں بڑی بے ادبی کے کلمات کہے.تو صحابہ کرام کو اس پر بڑی غیرت آئی اور اس کی طرف مارنے کے لئے بڑھے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک دیا.اور آپ اس بدو کو اپنے ساتھ گھر میں لے گئے.اور اس کو وہاں کھانا وغیرہ کھلایا، خاطر تواضع کی اور اس کو مزید انعام واکرام سے نوازا.اور پھر اس سے پوچھا کہ کیا تم اب راضی ہو.تو وہ خوش ہو کر بولا کہ اب تو میں کیا میرے قبیلے والے بھی آپ سے راضی اور خوش ہیں.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میرے صحابہ کے سامنے جا کر بھی یہ اظہار کر دو.کیونکہ تم نے ان کے سامنے میرے ساتھ سخت کلامی کر کے ان کی دل آزاری کی تھی.اور جب اس نے صحابہ کے سامنے بھی اسی طرح اظہار کیا تو آپ نے فرمایا : میری مثال اس اونٹ کے مالک کی طرح ہے جو اپنے اڈیل

Page 177

خطبات مسرور جلد سوم 170 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء اونٹ کو بھی قابو کر لیتا ہے.میں سخت مزاج لوگوں کو بھی محبت سے سدھا لیتا ہوں.(مجمع الزوائد للهيثمي كتاب علامات النبوة باب في حسن خلقه وحيائه وحسن معاشرته) پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں قبائیں تقسیم فرمائیں اور ایک نابینا صحابی تھے، مخرمہ، ان کو کوئی قبا نہ دی.وہ وہاں موجود نہیں تھے.تو وہ اپے بیٹے کو لے کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بیٹے کو اندر بھیجا کہ جاؤ اور جا کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا کے آؤ کہ میں باہر آیا ہوں، باہر تشریف لائیں.اس پر وہ اندر گیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سنا کہ وہ نابینا صحابی مخرمہ آئے ہیں تو آپ باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں ایک قباتھی اور آپ نے فرمایا: اے مَـخْـرَمه! خَبَأْتُ هَذَا لَكَ كم اے مخرمہ !میں نے قباتمہارے لئے سنبھال کے رکھی ہوئی تھی.(بخاری کتاب فرض الخمس باب قسمة الامام ما يقدم عليه ويخبأ لمن لم يحضره...تو دیکھیں غریب اور نابینا صحابی کو بھولے نہیں.بلکہ سامان ایسا آیا ہوتا تھا رش ہوتا تھا کاموں کا بوجھ ہوتا تھا تو بھول بھی جاتے تو ایسی کوئی حرج کی بات نہیں تھی.لیکن اس کے لئے بھی حصہ نکال کر رکھا کہ وہ آئے گا اور اس کو دینا ہوگا.پھر حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے اور پھر اس کے بدلے میں لوٹاتے بھی تھے.جب آپ تحفہ لیتے تو لوٹا یا بھی کرتے تھے.اور بڑھ کر لوٹایا کرتے تھے.چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر بھی روایات میں آتا ہے کہ جب قبائل گروہ در گروہ آنے شروع ہوئے اور آپ کے لئے تحائف لے کے آتے تھے تو آپ بڑھ کر ان کو تحائف لوٹایا کرتے تھے.(ابوداؤد كتاب البيوع باب في قبول الهدايا) پھر حضرت ربیعہ بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ مجھے میرے والد مُعَوَّذ بن عَفْرَاء نے تازہ کھجوروں کا ایک طشت اور کچھ لکڑیاں دیں کہ حضور کی خدمت میں تحفہ کے طور پر لے جاؤ.تو کہتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئی چھوٹی لکڑیاں حضور کو بہت پسند تھیں.اس زمانے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین کے علاقے سے کچھ زیورات

Page 178

خطبات مسرور جلد سوم 171 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء آئے ہوئے تھے تو آپ نے کھجوروں اور لکڑیوں کا تحفہ لے کے مجھے مٹھی بھر زیور عطا فرمایا.ایک دوسری روایت میں تو یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ بھر کر سونے کے زیور ربیعہ کو دیئے اور فرمایا یہ زیور پہن لو.صلى الله (مجمع الزوائد للهيثمي كتاب علامات النبوة باب في جوده (ﷺ) تو یہ تھا آپ کی سخاوت کا انداز کہ کھجوروں اور کٹڑیوں کے بدلے میں سونا عنایت فرما رہے ہیں.یہ نہیں خیال آیا کہ معمولی سا تحفہ کسی نے مجھے بھیجا ہے، غریب آدمی ہے تو چلو کوئی معمولی سی چیز اس کو لوٹا دی جائے یا اس سے بہتر چیز اس کو لوٹا دی جائے.نہیں.بلکہ اس کے بدلے میں آپ نے سونا عنایت فرمایا.اب ان سخاوت کے نظاروں کی مثال دنیا میں ہمیں کہاں نظر آتی ہے؟ سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے.پھر ایک اور روایت میں حضرت محمد بن حصین اپنی دادی ام سنبلہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تحفہ لائیں.آپ کی ازواج مطہرات نے اسے قبول نہ کیا.(اس وقت کوئی وجہ ہو گی) بہر حال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ لگا تو آپ نے حکم دیا اور انہوں نے رکھ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بدلے میں انہیں ایک وادی عطا فرمائی.(اسد الغابة في معرفة الصحابة - كتاب النساء – ام سنبلة الاسلمية) ایک بہت بڑا رقبہ عطا فر مایا چھوٹے سے تحفے کے بدلے میں.پھر آپ اپنے قریبیوں سے تعلق رکھنے والوں کا بھی خوب خیال رکھا کرتے تھے، نوازا کرتے تھے.چنانچہ روایت میں آتا ہے حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی تحفہ آتا تھا تو فرمایا کرتے تھے کہ یہ فلاں عورت کو دے آؤ کیونکہ وہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دوست تھی اور فلاں کو بھی دے آؤ کیونکہ وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پیار کرتی تھی.(كتاب الشفاء ، للقاضي عياض الباب الثاني ، الفصل الثامن عشر ) عموماً یہی ہوتا تھا کہ آپ کسی کو نواز نے کے لئے ذرائع تلاش کرتے تھے کہ کس طرح اس کو فائدہ پہنچایا جائے.ہو سکتا ہے بعض دفعہ بعض حالات کا علم ہو جانے کے بعد بھی یہ نوازشات

Page 179

خطبات مسرور جلد سوم ہوتی ہوں.172 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء روایات میں آتا ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص سے ایک چیز خریدتے اور پھر قیمت چکا دینے کے بعد، وہی چیز اس کو بطور عطیہ واپس فرما دیتے.بطور تحفہ کے واپس دے دیتے تھے.ایک مرتبہ آپ نے حضرت عمر سے ایک اونٹ خریدا اور پھر اسی وقت اسے حضرت عبداللہ بن عمر کو دے دیا.ان کے بیٹے کو وہ اونٹ تحفے کے طور پر دے دیا.(بخاری - كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها باب اذا وهب بعيرا لرجل وهو راكبه فهو جائز) پھر ایک اور روایت میں آتا ہے.جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے.انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں غزوہ سے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا.آپ نے فرمایا جو کوئی آگے بڑھ کر گھر والوں کو پہلے ملنا چاہے وہ تیزی سے روانہ ہو کر گھر پہنچ جائے.حضرت جابر کہتے ہیں کہ یہ سن کر ہم جلدی سے آگے بڑھے.میں کالے سرخ بے داغ اونٹ پر سوار تھا اور لوگ مجھ سے پیچھے رہ گئے.یکا یک میرا اونٹ اڑ گیا، چلنے سے رک گیا تو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ تک پہنچ گئے.تو فرمایا کہ اے جابر ! اپنا اونٹ مضبوطی سے تھام اور پھر آپ نے اس کو ایک چابک ماری تو وہ چل پڑا اور دوسروں سے آگے نکل گیا.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جابر! کیا تو اپنا اونٹ بیچتا ہے.میں نے کہا ہاں بیچوں گا.حضرت جابر کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ مسجد میں تشریف لے گئے.میں آپ کے پاس گیا اور اونٹ کو باندھ دیا اور میں نے عرض کی کہ آپ کا اونٹ حاضر ہے.آپ باہر نکلے اور اونٹ کے گرد پھرنے لگے.اس کو دیکھا.پھر فرمایا یہ ہمارا اونٹ ہے.پھر آپ نے اس اونٹ کی قیمت کئی اوقیہ سونا ادا فرمائی.اور پھر جس کے ہاتھ یہ قیمت بھجوائی تھی اس کو یہ فرمایا کہ یہ جابر کو دے دو.پھر آ نے پوچھا کہ کیا تم نے قیمت وصول کر لی ہے.تو جابر نے کہا ہاں یا رسول اللہ !.اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ رقم بھی تمہاری ہے اور یہ اونٹ بھی تمہارا ہے.دونوں چیزیں تم لے جاؤ.(بخاري - كتاب الجهاد - باب من ضرب دآبة غيره في الغزو)

Page 180

خطبات مسرور جلد سوم 173 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء دنیا کے مال کی آپ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں تھی اور آپ کی ہر وقت یہ خواہش ہوتی تھی کہ جو بھی مال آئے میں لوگوں میں تقسیم کر دوں.حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں جارہا تھا.تو سامنے اُحد پہاڑ تھا.اس کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا آ جائے تو مجھے اس بات سے خوشی ہوگی کہ اس پر تیسرا دن چڑھنے سے پہلے پہلے اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دوں اور ایک دینار بھی اپنے پاس بچا کے نہ رکھوں.سوائے اس کے کہ جو میں قرض ادا کرنے کے لئے رکھ لوں اور سارا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دوں.آپ نے دائیں بائیں، آگے پیچھے ہاتھوں سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس طرح سارا مال دے دوں.پھر فرمایا کہ جو لوگ زیادہ مالدار ہیں قیامت کے دن وہ گھاٹے میں ہوں گے.سوائے ان کے جو اس طرح دائیں اور بائیں، آگے پیچھے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں.(بخاری - كتاب الرقاق - باب قول النبي لا ما يسرني ان عندى مثل احد هذا ذهبا) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سخاوت کرنے والا اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور جنت کے بھی قریب اور لوگوں کے بھی قریب ہوتا ہے اور دوزخ سے دور ہوتا ہے.جبکہ بخیل انسان ، ( کنجوس انسان ) اللہ سے دور ہوتا ہے، لوگوں سے بھی دور ہوتا ہے اور دوزخ سے قریب ہوتا ہے.اور جاہل سنی ، بخیل عبادت کرنے والے کی نسبت اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے.(ترمذی - کتاب البر – باب ما جاء في السخاء ) یعنی ایک جاہل انسان ہو لیکن سخاوت کرنے والا ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اُس کے جو بڑا عبادت گزار بھی ہولیکن کنجوس ہو.ی تھی وہ تعلیم جس کے مطابق آپ نے اپنی تمام عمر گزاری.آپ کی جو دوسخا کے بے تحاشا واقعات ہیں لیکن بیان نہیں ہو سکتے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

Page 181

خطبات مسرور جلد سوم 174 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ وہ صد ہا مواقع میں اچھی طرح کھل گئے اور امتحان کئے گئے اور ان کی صداقت آفتاب کی طرح روشن ہو گئی.اور جو اخلاق کرم اور جو د اور سخاوت اور ایثار اور فتوت اور شجاعت اور زہد اور قناعت اور اعراض عن الدنیا کے متعلق تھے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں ایسے روشن اور تاباں اور درخشاں ہوئے کہ میسیج کیا بلکہ دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس کے اخلاق ایسی وضاحت تامہ سے روشن ہو گئے ہوں“.آنحضرت کو دنیا سے کوئی غرض نہیں تھی.اور یہ ایسے اخلاق تھے جو آپ میں تمام پہلے نبیوں سے بڑھ کر تھے.کیونکہ خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دیئے سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک جبہ بھی خرچ نہ ہوا.نہ کوئی عمارت بنائی نہ کوئی بارگاہ تیار ہوئی.بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کو ٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی اپنی ساری عمر بسر کی.بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جو دل آزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی.سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا اور کھانے کے لئے نان جو یا فاقہ اختیار کیا.دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا.اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا.اور اس دن سے جو ظہور فرمایا تا اس دن تک جو اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے بجز اپنے مولا کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا.فرمایا: ” غرض جو د اور سخاوت اور زہد اور قناعت اور مردی اور شجاعت اور محبت الہیہ کے متعلق جو جو اخلاق فاضلہ ہیں وہ بھی خداوند کریم نے حضرت خاتم الانبیاء میں ایسے ظاہر کئے کہ جن کی مثل نہ کبھی دنیا میں ظاہر ہوئی اور نہ آئندہ ظاہر ہوگی.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد 1 صفحه 288 تا 291 بقیہحاشیہ نمبر 11) پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’ دولت سے دل نہ لگانا.دولت سے مغرور نہ ہونا، دولت مندی میں امساک اور بخل

Page 182

خطبات مسرور جلد سوم 175 خطبہ جمعہ 18 / مارچ 2005ء اختیار نہ کرنا اور کرم اور جود اور بخشش کا دروازہ کھولنا.اور دولت کو ذریعہ نفس پروری نہ ٹھہرانا اور حکومت کو آلہ ظلم و تعدی نہ بنانا، یہ سب اخلاق ایسے ہیں کہ جن کے ثبوت کے لئے صاحب دولت اور صاحب طاقت ہونا شرط ہے.اور اسی وقت بپایہ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب انسان کے لئے دولت اور اقتدار دونوں میسر ہوں“.فرمایا: ” اور اس بارے میں سب سے اول قدم حضرت خاتم الرسل، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال وضاحت سے یہ دونوں حالتیں وارد ہو گئیں.اور ایسی ترتیب سے آئیں کہ جس سے تمام اخلاق فاضلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثل آفتاب کے روشن ہو گئے.اور مضمون إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِیم کا بپا یہ ثابت پہنچ گیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور پر علی وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے.کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا.اور ان کا مقرب اللہ ہونا ظاہر کر دیا ہے.“ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد 1 صفحه 283 تا 285 بقیہ حاشیہ نمبر 11) 谢谢谢

Page 183

176 خطبات مسرور جلد سوم

Page 184

خطبات مسرور جلد سوم 177 (11) خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء نظام شوری اور اُسوہ رسول صلی الشماییم خطبه جمعه فرموده 25 / مارچ 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح - مورڈن لندن.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.فَمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (ال عمران:160) پھر فرمایا:.66 حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری شرعی نبی تھے اور تمام دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے.جن پر خدا تعالیٰ نے وہ کلام اتارا جس نے تمام امور کا احاطہ کیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، اللہ تعالیٰ قدم قدم پر آپ کی رہنمائی فرما تا تھا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ شَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ “ کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ہرا ہم قومی معاملے میں اپنے لوگوں سے، اپنے ماننے والوں سے، اپنی ریاست میں رہنے والوں سے، اپنی حکومت کے زیر انتظام رہنے والوں سے مشورہ لے لیا کر.تو اس آیت کے مکمل مضمون سے بھی اس امر کی وضاحت ہوتی ہے.یہ تمام حکم جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمایا، یہ آیت جو

Page 185

خطبات مسرور جلد سوم 178 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء نازل فرمائی یہ منافقین اور معترضین کی باتوں کا جواب ہے کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ یہ نبی بڑا سخت دل اور اپنی مرضی ٹھونسنے والا ہے، کسی کی بات نہیں سنتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے تو ان کے لئے اتنا نرم دل واقع ہوا ہے کہ جس کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے.تو تو اپنوں کے لئے بھی مجسم رحمت ہے اور غیروں کے لئے بھی عفو اور درگزر کی تلاش میں رہتا ہے.اور اتنا نرم دل واقع ہوا ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی.تو اے نبی ! منافقین سے بھی صرف نظر کرتے ہوئے نرمی کا سلوک کرتا ہے اور دشمنوں سے بھی نرمی کا سلوک کرتا ہے اور نہ صرف نرمی کرتا ہے بلکہ ریاستی معاملات میں بھی مشورہ کر لیتا ہے.قومی معاملات میں مشورہ بھی کر لیتا ہے.چنانچہ ایک موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کو بھی جنگ کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے مشورے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شامل فرمایا تھا.اور ان منافقین کی اس بات کو رد کرنے کے لئے یہ دلیل بھی کافی ہے کہ جس طرح پروانوں کی طرح تیرے اردگرد یہ ایمان والے اکٹھے رہتے ہیں اگر سخت دل ہوتا تو کبھی اس طرح اکٹھے نہ ہوتے بلکہ دور بھاگنے والے ہوتے.اور آپ کی ہمدردی اور لوگوں کو اہمیت دینے نے جو بہت سے دور ہٹے ہوئے تھے ، جن کو منافقین نے خراب کیا ہوا تھا، وہ بھی نرمی اور اس حسن سلوک کی وجہ سے اپنی اصلاح کرتے ہوئے آپ کے قریب آگئے.انہیں اللہ تعالیٰ نے قریب آنے کی توفیق دی.اور منافقین کو یہ بھی جواب ہے کہ یہ نبی تو نہ صرف اس تعلیم کے مطابق مشوروں پر بہت زور دیتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کم علمی یا بشری کمزوریوں کی وجہ سے بعض غلط مشورے دینے والوں سے درگزر کا سلوک بھی کرتا ہے اور ان کے لئے بخشش اور مغفرت کی دعا بھی مانگتا ہے.بہر حال یہ ہے جس کی وجہ سے ان کو اعتراض ہے کہ یہ اپنا فیصلہ بھی کرتا ہے.نبی کو مشورے لینے کے بعد فیصلے کرنے کا اختیار ہے اور کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا نبی ہے اس لئے جب تمام مشوروں کے بعد کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اسی پر توکل کرتا ہے.پھر بہتر نتائج کی امید، اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ پر ہی رکھتا ہے.اور یہی وہ عمل ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو

Page 186

خطبات مسرور جلد سوم 179 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء اللہ تعالیٰ کا محبوب بنایا ہوا ہے.اور یہی وہ اسوہ ہے جس پر چلنے کے لئے درجہ بدرجہ اپنے دائرہ اختیار کے مطابق اللہ تعالیٰ نے امت کو بھی نصیحت فرمائی ہے.نظام خلافت اور نظام جماعت کو بھی نصیحت فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شدت سے مشوروں کی طرف توجہ دینا یہ صرف اس لئے تھا ، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ امت میں بھی مشوروں کی اہمیت اجاگر ہو ، امت کو بھی مشوروں کی اہمیت کا پتہ لگے.چنا نچہ اس حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب شَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چہ اللہ اور اس کا رسول اس سے مستغنی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے میری امت کے لئے رحمت کا باعث بنایا ہے.پس ان میں سے جو مشورہ کرے گا وہ رشد و ہدایت سے محروم نہیں رہے گا.اور جو مشورے کو ترک کرے گاوہ ذلت سے نہ بچ سکے گا.“ (شعب الايمان للبيهقى - الحادي والخمسون من شعب الايمان وهو باب في الحكم بين الناس ) تو نہ تو اللہ تعالیٰ کو کسی بات کے فیصلے کے لئے مشورہ چاہئے.اور پھر اللہ کا رسول ہے جس کو علاوہ قرآنی وحی کے بہت سی باتوں سے اللہ تعالیٰ وقت سے پہلے خود بھی آگاہ کر دیا کرتا تھا.تو جن باتوں کے بارے میں مشورہ لیا جا رہا ہے یا جن باتوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشورے لیا کرتے تھے ان سے بھی اللہ تعالیٰ آگاہ کر سکتا تھا.نبی کو کسی رائے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ مشورے کی فضیلت بتانے کے لئے تا کہ امت بعد میں اس پر عمل پیرا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشورے لیا کرتے تھے.تو آپ نے بڑی وضاحت سے فرما دیا کہ میری تو اللہ تعالی رہنمائی فرما ہی دیتا ہے.تم لوگ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمیٹنا چاہتے ہو تو مشوروں کو ضرور پیش نظر رکھنا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی اسی نصیحت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کی وجہ سے جماعت میں شوری کا نظام بھی رائج ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اسی شورای کے نظام کی وجہ سے بھی ، اس نصیحت پر عمل کرنے کی وجہ سے جماعت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنتی نظر آتی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر جو مشورے لئے اس وقت میں ان کے کچھ

Page 187

خطبات مسرور جلد سوم 180 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء واقعات بیان کروں گا جس سے آپ کے خلق کے اس عظیم پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق ، جو آیت میں نے پڑھی ہے، اس قدر مشورے لیا کرتے تھے کہ ہر ایک کو صاف نظر آ رہا ہوتا تھا کہ آپ جیسا مشورے لینے والا اور اچھے مشورے کی قدر کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ” میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے اصحاب سے کسی کو مشورہ کرنے والا نہیں پایا.“ (سنن الترمذى - ابواب فضائل الجهاد.باب ما جاء في المشورة ) اور یہ سب کچھ جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں اس لئے تھا کہ لوگوں کو احساس ہو کہ میں جو اللہ تعالیٰ کا نبی ہو کر بعض اہم معاملات میں مشورہ لیتا ہوں یا ایسے معاملات میں مشورہ لیتا ہوں جن میں اللہ تعالیٰ کی براہ راست رہنمائی نہیں آئی ہوتی تو تم لوگوں پر اس پر عمل کرنا کس قدر ضروری ہے.پھر باوجود اس کے کہ آپ میں نور فراست اپنے صحابہ سے ہزاروں ہزار گنا زیادہ تھا.لیکن کبھی صحابہ کے سامنے اس کا اظہار نہیں کیا بلکہ مشوروں کے وقت بھی اپنی اس عاجزی کے خُلق کو ہی سامنے رکھا.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجوانے کا ارادہ فرمایا تو حضور نے صحابہ میں بہت سے لوگوں سے مشورہ طلب فرمایا.ان صحابہ میں ابوبکر، عمر، عثمان علی، طلحہ زبیر اور بہت سارے صحابہ تھے (رضی اللہ عنہم ).حضرت ابو بکر نے عرض کی کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے مشورہ نہ طلب فرماتے تو ہم کوئی بات نہ کرتے.حضور نے فرمایا کہ جن امور کے بارے میں مجھے وجی نہیں ہوتی ان کے بارے میں میں تمہاری طرح ہی ہوتا ہوں.معاذ بتاتے ہیں کہ حضور کے اس فرمان کے مطابق جب حضور رائے لے رہے تھے قوم کے ہر شخص نے اپنی اپنی رائے بیان کی.اور اس کے بعد حضور نے فرمایا معاذ ! تم بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ تو میں نے عرض کی کہ میری وہی رائے ہے جو حضرت ابو بکر کی ہے.(مجمع الزوائد للهيثمي كتاب العلم.باب الأجتهاد )

Page 188

خطبات مسرور جلد سوم 181 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء دیکھیں کس سادگی سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دو.کیونکہ جن معاملات میں مجھے اللہ تعالیٰ نہیں بتا تا ان میں میں بھی تمہاری طرح کا ہی ایک انسان ہوں جس کو مشوروں کی ضرورت ہے.پھر دیکھیں جب آپ کی سب سے چہیتی بیوی پر الزام لگا.اس وقت اگر آپ چاہتے اور یہ عین انصاف کے مطابق بھی ہے کہ حضرت عائشہ سے پوچھ کر اس الزام کا رد فرما سکتے تھے ، غلط الزام تھا.لیکن منافقین کے فتنہ کو روکنے کے لئے آپ خاموش رہے اور صحابہ سے اس بارے میں مشورہ کیا.کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ یہ معاملہ اب ذات سے نکل کر معاشرے میں فتنہ پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت عائشہؓ خود ہی روایت کرتی ہیں کہ واقعہ افک کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو اس وقت بلوایا جب آپ ابھی وحی کے منتظر تھے اور ان دونوں سے حضرت عائشہ سے علیحدگی کے بارے میں مشورہ طلب فرمایا.اس پر حضرت اسامہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل سے تعلق محبت رکھنے کا مشورہ دیا.لیکن پھر بھی حضرت عائشہ کے مطابق یہ سرد مہری جاری رہی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بریت ثابت فرمائی.“ (بخارى - كتاب الشهادات - باب تعديل النساء بعضهن بعضا) اور جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی بریت ثابت فرما دی تو پھر مجرموں کو سزا بھی آپ نے دی.پھر کوئی پرواہ نہیں کی کہ اس کا اثر کیا ہوگا.اس بارے میں ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت اسامہ سے حضرت عائشہ پر لگائے گئے بہتان کے بارے میں مشورہ کیا اور ان کی رائے سنی.لیکن جب اس بارے میں قرآن کریم نازل ہوا تو اس کے مطابق تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگوائے اور حضرت علیؓ اور حضرت اسامہ کے اختلاف رائے کی طرف التفات نہ فرمایا بلکہ وہی حکم جاری فرمایا جس کا اللہ نے آپ " کو حکم دیا تھا.(بخاری - کتاب الأعتصام بالكتاب والسنّة - باب قول الله تعالى وامرهم شورى بينهم )

Page 189

خطبات مسرور جلد سوم 182 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء تو جہاں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنے ذاتی معاملات کے بارے میں بھی کس قدر محتاط تھے اور مشورے لیا کرتے تھے وہاں یہ بھی واضح ہو گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا تو پھر اس کے سامنے کسی کی نہیں سنی.اور آئندہ کے لئے ایسے لوگوں کو سزا کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انکی گواہی بھی ختم ہوگئی.پھر مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی جب کفار نے یہ کوشش جاری رکھی کہ آپ کو اور مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دیں اور تنگ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں چھوڑتے تھے تو آپ نے اس کے سدِ باب کے لئے صحابہ سے مشورہ لیا.لیکن کیونکہ ابتدائی زمانہ تھا اس لئے آپ کی خواہش تھی که تمام متعلقہ سردار جو تھے انصار میں سے بھی وہ بھی اس میں شامل ہوں تا کہ بعد میں کسی کی طرف سے بھی کوئی عذر نہ ہو.اس واقعہ کا تاریخ میں یوں ذکر ہوا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے تجارتی قافلے کی روانگی کا علم ہوا تو آپ نے اس بات کا اظہار فرمایا کہ ہم ان کے قافلے کو ضرور روکیں گے.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ طلب کیا اور صحابہ کو قریش کے ارادوں کے بارے میں بتایا.اس پر حضرت ابو بکر صدیق کھڑے ہوئے اور اپنا مؤقف بڑے اچھے انداز میں پیش کیا.پھر حضرت عمر بن خطاب کھڑے ہوئے اور بڑے اچھے انداز میں اپنا موقف پیش کیا.پھر مقداد بن عمرو کھڑے ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! آپ نے جوارادہ کیا ہے اس کی تکمیل کے لئے چلیں.ہم آپ کے ساتھ ہیں.اللہ کی قسم ! ہم آپ سے ویسے نہیں کہیں گے جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا.کہ اِذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُون المائده : 25﴾ کہ تو اور تیرا رب جاؤ ان سے جنگ کرو ہم تو یہیں بیٹھیں ہیں.بلکہ ہم یہ عرض کئے دیتے ہیں کہ آپ اور آپ کا رب دشمنان دین کے ساتھ جنگ کے لئے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہو کر ان سے لڑیں گے.اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے.اگر آپ ہمیں بڑک الغماد ( یہ یمن کے قریب ایک مقام تھا ) وہاں تک بھی لے جانا چاہیں گے تو ہم وہاں تک پہنچنے کے لئے رستے کے تمام لوگوں سے لڑائی کرتے چلے جائیں گے.یہاں تک کہ آپ وہاں فروکش ہوں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 190

خطبات مسرور جلد سوم 183 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء نے انہیں خیر و برکت کی دعا دی.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ مشورہ طلب کیا اور آپ دراصل انصار سے مشورہ مانگ رہے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ زیادہ تھے اور دوسرا مشورہ طلب کرنے کا باعث یہ بھی تھا کہ انصار نے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر یہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! ہم اس وقت تک آپ کی حفاظت کی ذمہ داری سے بری ہیں جب تک کہ آپ ہمارے پاس نہیں آ جاتے.جب آپ ہم میں آبسیں گے تو پھر آپ کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہوگی.ہم آپ سے ہر دشمن کا دفاع کریں گے جس طرح ہم اپنے بچوں اور بیویوں کا کرتے ہیں.تو حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں انصار کی نصرت یا مد دصرف مدینہ کے اندر رہ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کا مقابلہ کرنے کی حد تک محدود نہ ہو.اور یہ نہ ہو کہ کہیں دشمن سے مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے میں ساتھ نہ دیں.جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورے کے لئے دوبارہ فرمایا تو سعد بن معاذ نے عرض کی کہ اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ! شاید آپ کا روئے سخن ہم انصار کی طرف ہے.آپ شاید ہم سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں.تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم درست سمجھے ہو.اس پر حضرت سعد بن معاذ نے عرض کی.ہم آپ پر ایمان لائے اور ہم نے آپ کی تصدیق کی اور ہم نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ آپ جو تعلیم لے کر آئے ہیں وہ برحق ہے اسی وجہ سے ہم نے آپ سے سننے اور اطاعت کرنے کا پختہ عہد کیا ہوا ہے.یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے ارادے کی تکمیل کے لئے چلیں.ہم آپ کے ساتھ ہیں.اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر یہ سمندر بھی ہماری راہ میں حائل ہوا اور آپ نے اسے پار کر لیا تو ہم بھی آپ کی معیت میں اسے پار کریں گے.ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا.اور ہم اس بات کو نا پسند نہیں کرتے کہ آپ ہمارے دشمن سے مقابلہ کریں.ہم جنگ کی صورت میں بہت صبر کرنے والے ہیں اور دشمن کے مقابلے میں آ کر اپنی بات کو سچ کر دکھانے والے ہیں.شاید اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے وہ مقام عطا کرے جس سے آپ کی آنکھ ٹھنڈی ہو.آپ اللہ تعالیٰ کی برکت کیسا تھ ہمیں ساتھ لیتے ہوئے چلیں.حضرت سعد بن معاذ کا یہ کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ رض

Page 191

خطبات مسرور جلد سوم 184 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء مبارک خوشی سے تمتانے لگا.(السيرة النبوية لابن هشام ، ذكر غزوة بدر الكبرى ابوبكر و عمر والمقداد وكلماتهم في الجهاد واستيثاق الرسول ﷺ من امر الانصار) تو اس واقعہ سے جہاں آپ کی اس احتیاط کا پتہ چلتا ہے کہ اکثریت کی رائے بھی آنی چاہئے وہاں یہ مقصد بھی تھا کہ مشورہ دینے والے اپنی بات کا پاس بھی رکھیں گے.ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہوگا کہ ہمیں تو زبر دستی اس میں کھینچا گیا ہے.ہماری مدد تو صرف مشروط تھی ، ایک حد تک تھی.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی گہرائی سے انسانی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان سب سے مشورہ لیا.پھر اُس سے اس انقلاب عظیم کا بھی پتہ چلتا ہے جو آپ نے تھوڑے وقت میں ان لوگوں میں پیدا فرما دیا کہ کہاں تو محدود مشروط حفاظت کا معاہدہ تھا اور کہاں یہ انقلاب آیا کہ سمندروں میں کودنے کے لئے تیار ہو گئے.پس آپ کے مشورہ کا ایک یہ بھی مقصد ہوتا تھا کہ ان نئے ایمان لانے والوں کے ایمان کو بھی پر کھا جا سکے.ان کے دلوں کو ٹول کر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا جائزہ لیا جا سکے.یہ نمونے آپ نے قائم کرنے کی اس لئے بھی کوشش کی کہ بعد میں آنے والے بھی ان نمونوں پر چلنے والے ہوں.آخرین بھی پہلوں سے ملنے کے نمونے دکھا ئیں.جب شوری پر مشورے دیں تو صرف اس لئے نہ دیں کہ اپنے علم اور عقل کا اظہار کرنا ہے بلکہ اس لئے دیں کہ ان مشوروں پر عمل کرنے اور کروانے کے لئے ہم خود بھی ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوں گے.اگر خود یہ قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں تو پھر شوری کے ان نمونوں پر چلنے والے نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں نظر آتے ہیں.اور وہ نمونے کیا تھے، اس کا اظہار آپ دیکھ چکے ہیں.اس کی ایک جھلک ایک صحابی کے ان الفاظ سے بھی یوں نظر آتی ہے.” مقداد بن اسود نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے ، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے.“ 66 (بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر.حديث نمبر 3952) اور ایک روایت میں آتا ہے، یہ بھی کہا، کہ آپ کا دشمن آپ تک نہیں پہنچ پائے گا یہاں

Page 192

خطبات مسرور جلد سوم 185 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء تک کہ وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آئے.اور پھر یہ صرف تقریر کی حد تک نہیں تھا.بلکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے، گواہ ہے کہ اپنے عمل سے انہوں نے اپنے اس قول کو پورا کر کے دکھایا.اس میں ہمارے شوری کے نمائندگان کے لئے بھی ایک پیغام ہے.اس پر غور کریں، اس پیغام کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں.تبھی تمام دنیا کے نمائندگان شوری خلافت اور نظامت خلافت اور نظام جماعت کی حفاظت میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں.جیسا کہ ذکر آیا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر جنگیں ٹھونسی گئیں تو تبھی انہوں نے جواب دیا اور جب بھی ایسے موقعے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ضرور مشورہ لیا.لیکن اگر کبھی فیصلہ خود فرما بھی لیا اور بعد میں کوئی بہتر رائے سامنے آگئی تو فوراً اس بہتر رائے کو اختیار فرمالیا.چنانچہ جنگ بدر کے واقعہ کا ایک روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ جس جگہ اسلامی لشکر نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا وہ ایسی اچھی جگہ نہ تھی اس پر حباب بن منذر نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ نے خدائی الہام کے تحت یہ جگہ پسند فرمائی ہے یا محض اپنی رائے سے فوجی تدبیر اور حکمت عملی سے سے اختیار کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارے میں کوئی خدائی حکم نازل نہیں ہوا بلکہ یہ میری رائے، ایک حکمت عملی اور محض ایک داؤ پیچ ہے اس لئے اگر تم اس سے بہتر کوئی مشورہ دینا چاہتے ہو تو بتاؤ.حباب نے عرض کی کہ پھر میرے خیال میں پڑاؤ کے لئے یہ جگہ اچھی اور مناسب نہیں ہے.بہتر ہوگا کہ آگے بڑھ کر قریش سے قریب ترین چشمے پر قبضہ کر لیا جاوے.میں اس چشمے کو جانتا ہوں اس کا پانی اچھا ہے اور عموماً ہوتا بھی کافی ہے.وہاں مد مقابل قریش کی نسبت پانی کے زیادہ قریب ہوں گے اس لئے وہاں جا کر پڑاؤ کریں اور اس جگہ سے پیچھے جتنے کنویں ہیں ان کا پانی گہرا کر دیں.پھر اس جگہ پر ہم ایک حوض بنا ئیں اور اس کو پانی سے بھر لیں اور پھر ان لوگوں سے جنگ کریں.اس صورت میں ہم تو پانی پی سکیں گے مگر وہ پانی نہیں پی سکیں گے.تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بہت اچھا مشورہ دیا ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ تمام لوگ اٹھ کر چل پڑے اور اپنے مد مقابل کی نسبت پانی

Page 193

خطبات مسرور جلد سوم 186 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء کے زیادہ قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈالا.قریش اس وقت تک ٹیلے کے پرے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور چشمہ خالی پڑا تھا.مسلمانوں نے وہاں پڑاؤ ڈال کر چشمے کو اپنے قبضے میں کر لیا.اور پھر آپ نے کنوؤں کے بارے میں ارشاد فرمایا اور ان کا پانی گہرا کر دیا گیا.اور جس کنویں پر آپ نے خود پڑا ؤ فرمایا تھا اس کو پانی سے بھر دیا گیا.(السيرة النوية لابن هشام، ذكر غزوة البدر الكبرى مشورة الحُباب على الرسول الله ﷺ تو جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ جنگیں جب مسلمانوں پر ٹھونسی گئیں تو مجبور مسلمانوں کو بھی اپنے بچاؤ کے سامان کرنے پڑے.جنگ بدر میں، جنگ کے بعد جب مسلمان جنگ جیت گئے تو بہت سے کفار قیدی بنائے گئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد نہ تو کفار کو قتل کرنا تھا نہ قیدی بنا کر رکھنا تھا.آپ کی خواہش تو یہ تھی کہ یہ جو جنگ کی مجبوری کی وجہ سے قیدی بن گئے ہیں ان کے ساتھ کس طرح زیادہ سے زیادہ نرمی کا سلوک کیا جاسکتا ہے یا ان کو آزاد کر دیا جائے.لیکن آپ اپنی اس رائے کو ، اس خواہش کو دوسروں کی رائے پر فوقیت نہیں دینا چاہتے تھے باجود اس کے کہ آپ جو بھی فیصلہ فرماتے صحابہ نے اس کو بخوشی قبول کرنا تھا لیکن آپ کی محتاط طبیعت نے اس بات کو گوارا نہ کیا اور پھر آپ کا ویسے بھی یہ طریق تھا کہ قومی معاملات میں رائے اور مشورہ لے لیا کرتے تھے.اس لئے آپ نے ان قیدیوں کے بارے میں کہ کیا سلوک کیا جائے مشورے کے لئے معاملہ رکھا اور اس کا روایت میں اس طرح ذکر آتا ہے.حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اسیران بدر کے بارے میں مشورہ طلب فرمایا آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ان لوگوں میں سے بعض پر غلبہ عطا فرمایا ہے.حضرت عمر بن خطاب کھڑے ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! ان کو قتل کروا دیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اعراض فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بارا اپنی بات دوہرائی اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان پر غلبہ عطا فرمایا ہے جبکہ کل تک وہ تمہارے بھائی تھے.حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ انہیں قتل کروا دیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اعراض فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار اپنی بات دوہرائی.اس

Page 194

خطبات مسرور جلد سوم 187 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء دفعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کھڑے ہوئے.اور عرض کی کہ اگر حضور مناسب سمجھیں تو ان کو معاف فرما دیں اور ان سے فدیہ لے لیں.یہ سن کر حضور کے چہرے سے غم کے آثار جاتے رہے.چنانچہ حضور نے انہیں معاف کر دیا اور ان سے فدیہ قبول فرمالیا.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 243.مطبوعه بيروت ) آپ کی زیادہ سے زیادہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ نرمی اور درگزر کا سلوک کیا جائے.چاہے دشمن ہی کیوں نہ ہو جب آپ نے حضرت ابو بکر" کے نرمی کے سلوک کی رائے سنی تو فوراً اس پر عملدرآمد کر وایا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں سختی تھی.اس لئے باوجود اس کے کہ آپ حضرت عمر کی رائے کو بڑی اہمیت دیا کرتے تھے اس موقع پر اس سے اعراض فرماتے رہے.چنانچہ جب ایک موقع پر حدیبیہ کے معاہدے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کو معاہدہ توڑنے کی سزا دینے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت قریش کے حوالے سے آپ کے دل میں نرمی نہیں آئی بلکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نرم رائے کے مقابلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سخت رائے کو زیادہ فوقیت دی اور اس پر عمل کیا.چنانچہ ذکر آتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضور ﷺ کو تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر عرض کی یا رسول اللہ کیا آپ کسی علاقے کی طرف لشکر کشی کا ارادہ رکھتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! پھر حضرت ابو بکر نے کہا شاید آپ بنوا صفر یعنی اہل روم کی طرف لشکر کشی کرنا چاہتے ہیں؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں.پھر حضرت ابو بکر نے کہا کیا آپ اہل نجد کی طرف لشکر کشی کرنا چاہتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں.حضرت ابو بکر نے کہا پھر شاید آپ کا ارادہ قریش کی طرف ہے.اس مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاں میں جواب دیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب سن کر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا آپ میں اور ان میں معاہدے کے وقت ( باہم جنگ نہ کرنے ) کی مدت طے نہیں ہوئی تھی ؟ صلح حدیبیہ میں ایک مدت طے ہوئی تھی یہ سن کر آنحضور صلی

Page 195

خطبات مسرور جلد سوم 188 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں قریش کے معاہدہ کی خلاف ورزی کا علم نہیں ہوا.راوی کہتے ہیں پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی علاقوں میں رہنے والے اور مدینے کے ارد گرد کی بستیوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اس پیغام کے ساتھ بلا بھیجا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے مہینہ میں مدینہ آ جائے.اور یہ پیغام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ سے مکہ والوں پر حملہ کرنے کے بارے میں مشورے کے بعد بھیجا تھا.حضرت ابو بکر نے تو حملہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور یہ عرض کی تھی کہ یا رسول اللہ ! وہ آپ کی قوم ہیں.مگر حضرت عمرؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کرتے ہوئے آپ کو مشورہ دیا اور عرض کی کہ وہ کفر کا سر چشمہ ہیں.انہوں نے کہا کہ آپ ساحر ہیں.آپ جھوٹے ہیں، (آنحضر نہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار یہ الزام لگاتے تھے.نعوذ باللہ ) حضرت عمرؓ نے اس موقع پر ان تمام بری باتوں کا ذکر کیا جو کفار مکہ کیا کرتے تھے.اور پھر انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! عرب اس وقت تک ماتحتی قبول نہیں کریں گے جب تک اہل مکہ ماتحتی قبول نہ کر لیں.اس موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ حضرت ابو بکر کی غلط رائے ہے.ان کی رائے کی بہت قدر کیا کرتے تھے.فرمایا کہ ابوبکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کے معاملات میں بہت زیادہ نرم مزاج تھے.اور عمر حضرت نوح کی طرح ہیں اور نوح اللہ تعالیٰ کے معاملات میں چٹان کی طرح سخت تھے.اور اس وقت میں عمر کا مشورہ قبول کرتا ہوں.“ 66 (السيرة الحلبية - باب ذكر مغازيه - فتح مكة شرفها الله تعالى تو موقع محل کے لحاظ سے آپ مشورہ کو اہمیت دیا کرتے تھے کیونکہ آپ نے دیکھا کہ اب بختی میں ہی انسانیت کی بقا ہے اس لئے آپ نے لشکر کشی کا حکم فرمایا.اس میں ان لوگوں کے لئے بھی ایک سبق ہے، نصیحت ہے جو خلیفہ وقت کے بعض فیصلوں پر پہلے خلفاء کا یا کسی پہلے موقع پر دیئے گئے کسی فیصلے کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ کیونکہ پہلے یہ ہو چکا ہے اس لئے اب بھی اس طرح ہونا چاہئے.تو یہ وقت وقت کے مطابق، حالات کے مطابق فیصلے ہوا کرتے ہیں.اور کبھی کوئی فیصلہ کسی سے بغض عناد اور کینے کی وجہ سے نہیں ہوتا.اصل مقصد اصلاح اور انسانیت کی

Page 196

خطبات مسرور جلد سوم 189 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء قدریں بحال کرنا ہوتا ہے.پھر دیکھیں اُحد کا واقعہ ہے جس میں تو کل علی اللہ کا ایک عظیم نمونہ ظاہر ہوتا ہے.اس کی تفصیل تاریخ میں یوں بیان ہوئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کر کے ان سے قریش کے اس حملہ سے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینے میں ہی ٹھہرا جاوے یا باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے.اس مشورے میں عبد اللہ بن ابی بن سلول بھی شریک تھا.دراصل تو منافق تھا مگر بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو چکا تھا.اور یہ پہلا موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مشورے میں شرکت کی دعوت دی.مشورے سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے حملہ اور ان کے خونی ارادوں کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ آج رات میں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے نیز میں نے دیکھا کہ میری تلوار کا سرٹوٹ گیا ہے.اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جا رہی ہے اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک محفوظ اور مضبوط زرہ کے اندر ڈالا ہے.اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوار ہوں.تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے.تو آپ نے فرمایا کہ گائے کے ذبح ہونے سے تو میں سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض شہید ہوں گے.اور میری تلوار کے کنارے ٹوٹنے سے یہ مراد ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت ہوگی یا شاید مجھے بھی کوئی نقصان پہنچے.اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملے کے مقابلے کے لئے ہمیں مدینہ کے اندر ٹھہر نا زیادہ مناسب ہوگا.مدینہ کے اندر ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے.اور مینڈھے پر سوار ہونے والی خواب کی آپ نے یہ تعبیر فرمائی کہ اس سے کفار کے لشکر کا سردار یعنی علمبر دار مراد ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارا جائے گا.اس کے بعد آپ نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا تو بعض اکابر صحابہ نے حالات کی مشکل کو سمجھ کر ، سوچ کر اور شاید کسی قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب سے متاثر ہو کر یہ مشورہ دیا کہ مدینے میں ٹھہر کرہی مقابلہ کرنا چاہئے.اور عبداللہ بن ابی بن سلول نے بھی یہی مشورہ دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور یہ فرمایا کہ یہی بہتر ہے کہ ہم مدینے کے اندر رہ کر مقابلہ کریں لیکن

Page 197

خطبات مسرور جلد سوم 190 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء اکثر صحابہ اور خصوصاً نو جوان صحابہ جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے ان میں ایک جوش تھا، شہادت کا جوش تھا اور بڑے بیتاب ہو رہے تھے.انہوں نے یہ اصرار کیا کہ نہیں کھلے میدان میں جا کر مقابلہ کرنا چاہئے.چنانچہ ان کے جوش کو دیکھ کر اور اکثریت کی رائے کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے، باہر نکل کر مقابلہ کرتے ہیں.پھر آپ نے مسلمانوں کو تحریک فرمائی کہ غزوہ میں شامل ہوں اور جہاد فی سبیل اللہ میں شامل ہوں اور پھر آپ تیاری کے لئے اپنے گھر تشریف لے گئے.اس دوران میں صحابہ نے سمجھایا اور کچھ لوگوں کو خود بھی سمجھ آئی تو نو جوانوں میں سے بھی اکثریت نے اپنی رائے بدل لی کہ نہیں، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق ہی ہمیں کرنا چاہئے اور مدینے کے اندر رہ کر ہی مقابلہ کرنا چاہئے.تو جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تیار ہو کر جنگی لباس پہن کر باہر تشریف لائے تو سعد بن معاذ " جو انصار کے سردار تھے انہوں نے اپنی غلطی محسوس کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہو کر کہا کہ حضور کا فیصلہ ہی ٹھیک ہے اور ہم اپنے فیصلے پر شرمندہ ہیں ، یہ ہمیں نہیں کہنا چاہئے تھا.تو یہیں مدینے کے اندر رہ کر مقابلہ کرتے ہیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نہیں.خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر پھر انہیں اتار دے.قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ فرمائے.پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اور اگر تم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی.بحوا (طبقات ابن سعد ،زرقانی، سیرت ابن ہشام اور بخاری واله سيرت خاتم النبيين از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب - صفحه 484 تا 486.) تو یہاں دیکھیں باوجود اپنی رائے مختلف ہونے کے بعض کبار صحابہ کی رائے مختلف ہونے کے، اکثریت کی رائے کا، نو جوانوں کی رائے کا احترام کیا اور پھر نو جوانوں کی رائے بدلنے کے بعد فرما دیا یہ بھی تو کل کی ایک اعلیٰ مثال تھی کہ نبی کی شان کے یہ خلاف ہے کہ آگے بڑھ کر پیچھے ہے.لیکن فرمایا کہ اگر تم لوگ صبر سے کام لو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ اللہ کی مدد اور تائید بھی تمہارے ساتھ ہوگی.لیکن اس ہدایت کے باوجود بے صبری کی وجہ سے واضح طور پر جو جیتی ہوئی

Page 198

خطبات مسرور جلد سوم 191 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء جنگ تھی اس کی وہ کیفیت نہ رہی اور مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا.تو غرض اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں.جنگوں وغیرہ میں بھی اور دوسرے قومی معاملات میں بھی جن سے آپ کے قوم سے مشورے لینے پر روشنی پڑتی ہے.لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سارے معاملات ہیں جن میں آپ لوگوں کے ذاتی معاملات میں اور اپنے ذاتی معاملات میں بھی اور بعض دوسرے معاملات میں بھی مشورے لیا کرتے تھے، مشورے دیا کرتے تھے.چنانچہ جب نماز کے لئے بلانے کے طریق کی تجویز زیر غور آئی کہ کس طرح نماز کے لئے بلانا چاہئے اس وقت اذان کا رواج نہیں ہوا تھا تو بہت سارے لوگوں نے مشورے دیئے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی خواب کے ذریعہ سے عبداللہ بن زید اور حضرت عمرؓ کو اذان کے الفاظ سکھا دیئے.بہر حال جب یہ مشورے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لئے تو اس کا روایت میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ اس سے پہلے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کے وقت بلانے کے لئے الصَّلوةُ جَامِعَة" کے الفاظ بآواز بلند پکارا کرتے تھے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا کہ کس طرح بلایا جائے.مختلف لوگوں نے مشورے دیئے.کسی نے کہا کہ عیسائیوں کی طرح ناقوس بجایا جائے کسی نے کہا کہ یہود کی طرح بگل بجایا جائے.کسی نے کہا کہ آگ روشن کی جایا کرے.لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشوروں کو ناپسند فرمایا اور اسی رات انصار میں سے حضرت عبد اللہ بن زید کو اور مہاجرین میں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے گئے.حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا.اس شخص نے ان کو اذان اور اقامت سکھائی اور صبح ہونے پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی رؤیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی.اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سچی خواب ہے.بلال کے ساتھ جاؤ اور اسے اذان کے وہ الفاظ سکھاؤ جو تمہیں سکھائے گئے ہیں کیونکہ اس کی آواز تم سے بلند ہے.حضرت عبداللہ بن زید کہتے ہیں کہ میں بلال کے ساتھ کھڑا ہوا اور ان کو اذان کے الفاظ بتاتا جاتا اور وہ بآواز بلند ان کو دوہراتے جاتے تھے.تو جب یہ اذان ہو رہی تھی تو اس

Page 199

خطبات مسرور جلد سوم 192 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء دوران میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں سے سنا تو وہ بھی جلدی جلدی گھر سے دوڑتے ہوئے آئے اور وہ کہہ رہے تھے کہ یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے خواب میں ایسے ہی دیکھا ہے جیسے اب میں دیکھ رہا ہوں.( المواهب اللدنية (رؤيا الاذان ).الجزء الاول - دار الكتب العلميه بيروت طبع اول 1996 صفحه 163) (مسند احمد بن حنبل - جامع ترمذی ابواب الصلاة باب ماجاء في يدء الاذان) پھر بعض قومی معاملات میں بھی آپ عورتوں سے بھی مشورے لے لیا کرتے تھے.ازواج مطہرات سے بھی مشورے لے لیا کرتے تھے.حدیبیہ کے موقع پر جب صلح نامہ لکھا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ اٹھو اور اونٹوں کو ذبح کرو.صحابہ کو اس کا بڑا افسوس تھا اور وہ اس پر کسی طرح راضی نہ تھے.اس لئے کہ شاید اس کو شکست سمجھتے تھے.جب پھر بھی کوئی کھڑا نہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور صحابہ کو قربانیوں کا حکم دینے والا سارا واقعہ سنایا کہ اس طرح میں نے کہا ہے اور کوئی قربانی نہیں کر رہا.اس پر ام سلمہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا آپ اپنی بات پر عمل دیکھنا چاہتے ہیں.تو پھر باہر نکلیں اور کسی سے کوئی بات کئے بغیر اپنے اونٹ کو قربان کر دیں اور حجام کو بلوا کے اپنا سر منڈوانا شروع کر دیں.تو دیکھیں صحابہ خود بخود آپ کے پیچھے چلیں گے.چنانچہ آپ اٹھے اور خاموشی سے اسی طرح کرنا شروع کر دیا اور جب صحابہ نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ بھی اپنی قربانیوں کی طرف لپکے اور ذبح کرنے لگے اور ایک دوسرے کے سرمونڈھنے لگے.تو جن لوگوں کا خیال ہے اور اعتراض کرنے والوں کی طرف سے یہ شور مچایا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں.اس روایت سے ظاہر ہے کہ اس موقع پر ایک عورت کی ہی ہوش و حواس پر قائم رائے مردوں کو راستہ دکھانے کا باعث بنی تھی.اس نے مردوں کو راستہ دکھایا تھا.کیونکہ اس وقت جوش میں پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ کیا کریں.غرض جیسا کہ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مختلف نوعیت کے مشوروں کے بے شمار واقعات ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں.لیکن جیسا کہ ذکر کر آیا ہوں آپ اصل میں تو امت

Page 200

خطبات مسرور جلد سوم 193 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء کو مشوروں کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ان کو مشوروں کی عادت ڈالنے کے لئے مشورے کیا کرتے تھے.اور اس بارے میں ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ”جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے.“ اس کو امانت کا حق ادا کرنا چاہئے.اور پھر فرمایا کہ "تم میں سے اگر کوئی اپنے بھائی سے مشورہ مانگے تو وہ اسے مشورہ دے“.(سنن ابن ماجه ، كتاب الادب -باب المستشار مؤتمن) اور مشورے کی یہ اہمیت ہے کہ اس کو امانت قرار دیا گیا ہے اور امانت کا حق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح حکم ہے.پھر ایک روایت میں اس طرح بھی آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری طرف جس نے بھی ایسی جھوٹی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے.اور جس سے اس کے مسلمان بھائی نے کوئی مشورہ طلب کیا اور اس نے بغیر رشد کے مشورہ دیا یعنی بغیر غور و خوض اور عقل استعمال کئے تو اس نے اس سے خیانت کی ہے.(الأدب المفرد للبخارى، باب المشورة) خیانت کرنے والوں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ گناہوں میں بڑھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ ان کو بالکل پسند نہیں کرتا.پس مشورے بھی بڑی سوچ سمجھ کر دینے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو یہ توفیق دے کہ وہ ان نصائح پر عمل کرنے والا ہو، اس اسوہ پر عمل کرنے والا ہو.پھر ایک روایت میں آتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مشورہ لیتے وقت کس قسم کے لوگوں سے مشورہ لینا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ سمجھدار اور عبادت گزارلوگوں سے مشورہ کرو اور مخصوص افراد کی رائے پر نہ چلو.(كنز العمال باب فى الاخلاق وافعال المحمودة حرف الميم المشورة) جلد 3 حديث نمبر 7191) صرف یہی ذہن میں نہ سوچ لو کہ یہ چند افراد ہیں عقل کی بات کر سکتے ہیں ان کے علاوہ کوئی مشورہ نہیں دے سکتا.یہ دیکھو کہ عقل ہو اور عبادت گزار ہو.پس اس میں بھی نمائندگان شوری کے لئے

Page 201

خطبات مسرور جلد سوم 194 خطبہ جمعہ 25 / مارچ 2005ء توجہ اور نصیحت ہے کہ آپ لوگوں کو آپ کا یہ معیار سمجھتے ہوئے شوری کا نمائندہ بنایا گیا ہے.پاکستان میں اور دیگر ملکوں میں بعض جگہ شوری ہو رہی ہیں.اس لئے عبادتوں کے حق بھی ادا کرنے کی کوشش کریں.اور اپنی عقل اور اپنے علم کو دعا کے ساتھ مشورے کی شکل میں ڈھالیں تبھی اللہ تعالیٰ بہتر مشورے کی توفیق عطا فرمائے گا.اور اس میں برکت ڈالے گا.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.谢谢谢

Page 202

خطبات مسرور جلد سوم 195 (12) خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء آنحضرت صلی اللہ وسلم کا خلق عظیم شکر گزاری خطبہ جمعہ فرموده یکم را پریل 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن ،لندن.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں وہ تمام اخلاق جمع تھے جن کا انسانی سوچ احاطہ کر سکتی ہے اور آپ کی ذات میں وہ تمام صفات جمع تھیں جن کی جھلک اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں اور انبیاء میں نظر آتی ہے یا آسکتی ہے.ان میں سے ایک خلق شکر گزاری کا بھی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ شاكرًا لِانْعُمِه (النحل: 122 ) یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا شکر گزار تھا اور حضرت نوح کے بارے میں فرمایا کہ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا (بنی اسرائیل: 4) یعنی وہ یقیناً شکر گزار بندہ تھا.اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سند صرف ان دو انبیاء کو ملی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو فرمایا ہے کہ آپ میں تو تمام انبیاء کی خوبیاں اکٹھی کر دی گئی ہیں بلکہ آپ آفضل الرسل ہیں یعنی تمام رسولوں سے بڑھ کر ہیں.ان تمام خوبیوں ، ان تمام اخلاق، جو بھی خلق ہیں، اور ان تمام صفات کی انتہا دیکھنی ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں دیکھو.آپ کے بارے میں فرمایا وَلكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين ﴾ (الاحزاب: 41) آپ کا مقام اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب ہے.ان تمام اخلاق اور صفات کے اعلیٰ معیار جو پہلے

Page 203

خطبات مسرور جلد سوم 196 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء انبیاء میں پائے جاتے تھے.یا آئندہ آنے والے میں پائے جائیں گے ان سب کی انتہا آپ کی ذات میں پوری ہوئی گویا کہ ان سب پر آپ نے اپنے نمونوں کی مہر لگا دی.اور اب یہی نمونے ہیں جو رہتی دنیا تک قائم رہنے والے ہیں.پس یہ سب سے بڑی سند ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا یہ خلق جو ہے شکر گزاری کا آج اس کے بارے میں کہوں گا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر گزار ہونے اور بندوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے کیا کیا طریق آپ نے اختیار کئے اس پر کچھ روشنی پڑتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ، ہرلمحہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے.کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے جس میں خدا تعالیٰ کے حضور شکر کے جذبات کے ساتھ دُعا نہ کی ہو.آپ کی ہر وقت یہ کوشش رہتی تھی کہ سب سے بڑھ کر عبد شکور بہنیں اور اس کے لئے ہر وقت دعا مانگا کرتے تھے.چنانچہ روایت میں آتا ہے، عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ "اللَّهُمَّ اجْعَلْنِى لَكَ شَاكِرًا لَكَ ذَاكِرا “ یعنی اے میرے اللہ تو مجھے اپنا شکر بجالانے والا اور بکثرت ذکر کر نے والا بنادے.(ابوداؤد كتاب الوتر - باب ما يقول الرجل اذا سَلَّمَ) ایک اور روایت میں آتا ہے اس میں دعا کے ساتھ یہ زائد الفاظ آتے ہیں.اپنے رب کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرا سب سے زیادہ شکر کرنے والا ہوں اور تیری نصیحت کی پیروی کرنے والا ہوں اور تیری وصیت کو یاد کرنے والا ہوں.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 311 مطبوعه بيروت) آئندہ جو آگے میں مثالیں پیش کروں گا ان سے پتہ لگے گا کہ آپ کس حد تک شکر گزاری کرتے تھے.کس طرح ہر وقت ہر لمحہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ شکر کے جذبات کا اظہار کریں.لیکن اس کے باوجود یہ فکر ہے اور یہ دعا کر رہے ہیں کہ میں ہمیشہ شکر گزار بندہ بنوں ، شکر گزار رہنے والا بنوں.آپ ہر بات خواہ وہ چھوٹی سے چھوٹی ہو لیکن جس سے آپ کی ذات کو فائدہ پہنچتا

Page 204

خطبات مسرور جلد سوم 197 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء ہو یا پہنچا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا شکر ادا کیا کرتے تھے.اور پھر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تو سوال ہی نہیں کہ اس کا شکر یہ ادا کئے بغیر ر ہیں.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جب بھی پہلی بارش ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے.اس بارے میں حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ تھے.بارش ہوئی اور آپ علیہ نے اپنے سر سے کپڑا ہٹا دیا اور ننگے سر پر بارش لینے لگے.پوچھنے پر فرمایا کہ یہ میرے رب سے تازہ تازہ آئی ہے.(مسند احمد بن حنبل - جلد 3 صفحه 267- مطبوعه بيروت) ایک اور روایت میں آتا ہے کہ پہلی بارش پر بارش کے قطرے زبان پر لیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کا شکر گزاری کا طریقہ یہی ہے کہ اس کو اپنے اوپر لیا جائے یا اس کو چکھا جائے.پھر اور بہت ساری باتیں ہیں مثلاً کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر کس طرح ادا کرتے تھے.روایت میں آتا ہے ابوسعید سے روایت ہے کہ جب بھی کوئی چیز کھاتے یا پیتے تو اس کے بعد یوں شکر ادا کیا کرتے تھے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ “ کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا.(ابوداؤد كتاب الاطعمة باب ما يقول الرجل اذا طعم – حديث نمبر 3846) اور کھانے بھی یہ نہیں کہ کوئی بڑے اعلیٰ مرغن قسم کے کھانے کھایا کرتے تھے بلکہ نہایت سادہ غذا تھی اور بڑے شکر کے جذبے سے ہر چیز کھا رہے تھے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ نے روٹی کے ایک ٹکڑے پر کھجور رکھی ہوئی تھی اور فرمارہے تھے کہ یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے.(ابوداؤد - كتاب الأيمان - باب الرجل يحلف ان لا يأتدم) اور اکثر یہ ہوتا تھا کہ سرکہ سے یا پانی کے ساتھ ہی روٹی تناول فرمالیا کرتے تھے.اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کیا کرتے تھے.

Page 205

خطبات مسرور جلد سوم 198 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء پھر جب نیا کپڑا پہنتے تو اسے پہن کر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے.اس کے بد اثرات سے بچنے کی دعا مانگا کرتے تھے.اس بارے میں حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ جب کوئی نیا کپڑ پہنتے تو اس کا نام لے کر ( عمامہ میض یا چادر ) یہ دعامانگتے کہ " اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيْهِ أَسْأَلُكَ خَيْرَهُ وَخَيْرَ مَا صُنِعَ لَهُ وَأَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ " کہ اے اللہ ہر قسم کی تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں.تو نے ہی مجھے پہنایا.میں تجھ سے اس کے خیر اور جس غرض کیلئے بنایا گیا اس کی خیر مانگتا ہوں.اور تجھ سے اس کے شر اور جس غرض کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں.(ترمذى - كتاب اللباس باب ما يقول اذا لبس ثوبا جديدًا- حدیث نمبر 1767) اصل میں تو اس کے بہت سارے پہلو ہیں.ایک تو بعض دفعہ بعض کپڑوں میں اس قسم کی چیز بھی ہوتی ہے، آجکل خاص طور پر ، جن سے بعض لوگوں کو الرجی بھی ہو جاتی ہے.یہ بھی ایک شر کا پہلو نکل جاتا ہے.پھر بعض لوگ بڑے اعلیٰ قسم کے سوٹ اور جوڑے سلواتے ہیں گو آپ میں وہ چیز تو نہیں آئی تھی لیکن اپنی امت کو سبق دینے کیلئے یہ دعاما نگتے تھے کہ اس کے شر سے بھی بچانا کسی قسم کے کپڑے سے کبھی کسی قسم کا تکبر پیدا نہ ہو.پھر سوتے وقت اور نیند سے بیدار ہوتے ہوئے اللہ کی تعریف کے ساتھ یہ دعا کیا کرتے تھے.اس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے.حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر آرام کے لئے جاتے تو یہ دعا فرماتے کہ اے اللہ " اللهم بِاسْمِكَ اَمُوْتُ وَاحْيَا کہ میرا مرنا اور جینا تیرے نام کے ساتھ ہے.اور جب صبح ہوتی تو یہ دعا مانگتے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُور کہ ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد پھر زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.(بخارى - كتاب التوحيد - باب السؤال باسماء الله تعالى والاستعاذ بها) زندگی کا کوئی پہلو نہیں تھا جس میں آپ اپنے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے اس کا شکر ادا نہ فرماتے ہوں.حتیٰ کہ رفع حاجت کے لئے جاتے تھے، واپسی پر شکر کے جذبات ہوتے.اس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ جب بیت الخلاء سے باہر

Page 206

خطبات مسرور جلد سوم 199 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005 ء تشریف لاتے تو یہ دعا کرتے کہ " الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَذْهَبَ عَنِى الْأَذَى وَعَافَانِي “ کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مضر چیز مجھ سے دور کر دی اور مجھے تندرستی عطا کی.(ابن ماجه - كتاب الطهارة - باب ما يقول اذا خرج من الخلاء) ڈاکٹر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں جو ہیں معدے اور انتڑیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ان میں صحیح حرکت نہ ہونے کی وجہ سے.اجابت نہ ہونے کی وجہ سے.بعض اور تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.تو یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ ہر چیز جو جسم کا حصہ ہے، ہر عضو جو ہے وہ صحیح کام کر رہا ہو اور جو اس کا فنکشن ہے وہ پورا کر رہا ہو.اس پر بھی شکر کرنا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے اعلیٰ معیار اس لئے قائم فرمائے کہ اس کا شکر گزار بندہ بنوں.اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عائشہ یہ روایت کرتی ہیں کہ آپ علی رات کو اس قدر لمبا قیام فرماتے تھے کہ اس کی وجہ سے آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے.کھڑے ہو کر جو نماز پڑھا کرتے تھے.اس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے سارے گناہ بخشے گئے ہیں.پہلے بھی اور بعد کے بھی تو اب بھی اتنا لمبا قیام فرماتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کیا میں خدا کا عبد شکور نہ بنوں جس نے مجھ پر اتنا احسان کیا ہے.کیا میں اس کا شکر یہ ادا کرنے کے لئے نہ کھڑا ہوا کروں.(بخاري - كتاب التفسير - سورة الفتح - باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر) پھر ایک روایت میں عبادت کے تعلق میں شکر گزاری کا یہ واقعہ آتا ہے.عطارضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں میں ، ابن عمرؓ اور عبید اللہ بن عمر کے ساتھ گئے اور ہم نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب ترین بات بتائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھی ہو.اس پر حضرت عائشہ آپ کی یاد میں بیتاب ہو کر رو پڑیں اور کہنے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہر ادا ہی نرالی تھی.پھر فرمانے لگیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تشریف لائے اور لیٹے بستر پر.پھر آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ اپنے رب کی عبادت کر

Page 207

خطبات مسرور جلد سوم 200 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء لوں.میں نے کہا خدا کی قسم مجھے تو آپ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے.میری طرف سے آپ کو اجازت ہے.تب آپ اٹھے.مشکیزہ سے وضو کیا اور نماز کیلئے کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنی شروع کی اور اس قدر روئے کہ آنسو آپ کے سینے پر گرنے لگے اور نماز کے بعد دائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپ کا دایاں ہاتھ آپ کی دائیں رخسار کے نیچے تھا.پھر رونا شروع کر دیا یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے.فجر کی نماز کے وقت حضرت بلال بلانے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ وزاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں اور میں کیوں نہ روؤں کہ آج رات میرے رب نے یہ آیات نازل کی ہیں.وہ آیات ہیں آل عمران کی اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ - وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النار ( آل عمران: 191-192) یعنی یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں ، رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحب عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں.اور اے ہمارے رب تو ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچانا.پھر دوسری روایت میں اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ حضرت عائشہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کو اتنا رونا کیوں آرہا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے گناہ بخش دیئے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.اور میں ایسا کیوں نہ کروں جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس رات اپنی یہ آیات نازل فرمائی ہیں وإِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِ - الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَّ قُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ - رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا - سُبْحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ ( آل عمران: 191-192) تک آیات

Page 208

خطبات مسرور جلد سوم 201 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005 ء پڑھیں.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کیلئے ہلاکت ہو جو یہ آیات پڑھتا ہے مگران پر غور وفکر نہیں کرتا.(تفسیر روح البیان زیر تفسير سورة آل عمران آیت نمبر 191-192) پھر دیکھیں ایک عجیب نظارہ جس سے امت کیلئے فکر اور بخشش کے جذبات کا بھی پتہ چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے شکر کا بھی.حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ ہم آنحضرت علی کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے جب ہم عَزوَراء مقام پر پہنچے تو آنحضور نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کچھ دیر دعا کی.پھر حضور سجدہ میں گر گئے.اور بڑی دیر تک سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی.پھر سجدہ میں گر گئے.آپ نے تین دفعہ ایسا کیا.پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے یہ دعا مانگی تھی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دے دی.میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدہ میں گر گیا اور سراٹھا کر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزید ایک تہائی امت کی شفاعت کی اجازت فرمائی.پھر میں شکرانہ کا سجدہ بجالایا.پھر سر اٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی.تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کیلئے مجھے اجازت عطا فرما دی.اور میں اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجالانے کیلئے گر گیا.(ابوداؤد - كتاب الجهاد - باب في سجود الشكر ) | تو اس عبد شکور کے شکر کے جذبات کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفاعت کا حق عطا فر ما دیا.پھر ایک روایت میں آپ کے شکر کے جذبات کے پہلو کا یوں پتہ چلتا ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے.میں ان کے پیچھے گیا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں پہنچ گئے.وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گر گئے اور بہت لمبا سجدہ کیا.یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپ کی روح قبض کرلی ہے.میں آپ کو دیکھنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تو آپ اٹھ بیٹھے اور فرمایا عبدالرحمن کیا بات ہے؟ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! آپ نے اتنا لمبا سجدہ

Page 209

خطبات مسرور جلد سوم 202 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء کیا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض تو نہیں کر لی.آپ نے فرمایا مجھے جبریل نے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں فرماتا ہے کہ جو آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کروں گا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا.یہ سن کر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالایا ہوں.(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحه 191 مطبوعه بيروت ) اللہ تعالیٰ کا شکر اس لئے بجالا رہے ہیں ، اتنا لمبا سجدہ اس لئے کر رہے ہیں کہ ایک تو امت کو آپ کیلئے دعاؤں اور درود کی ترغیب دی جارہی ہے یہ کہہ کے کہ درود بھیجنے والے پر فضل ہوگا.دوسرے اس وجہ سے سجدہ شکر بجالا رہے ہیں کہ اس درود کی وجہ سے امت کے بھی بخشش کے سامان پیدا ہورہے ہیں.پھر اگر غیر قوموں میں بھی شکرانے کے طریق کو دیکھا تو اس پر بھی عمل کرنے کی کوشش فرمائی بلکہ عمل کیا تا کہ اللہ تعالیٰ کے شکر ادا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جائے.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ایسے یہودیوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے یوم عاشورہ کے روز کا روزہ رکھا ہوا تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا یہ کیسا روزہ ہے.انہوں نے جواب دیا کہ آج کے دن ہی اللہ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا.اور اس روز فرعون غرق ہوا تھا ، نوح کی کشتی جودی پہاڑ پر رکی تھی.نوح علیہ السلام نے اور موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا.اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں موسیٰ کے ساتھ تعلق کا سب سے زیادہ حقدار ہوں اور اسی وجہ سے اس دن روزہ رکھنے کا بھی میں زیادہ حقدار ہوں.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی عاشورہ کا روزہ رکھنے کا فرمایا.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 359-360 مطبوعه بيروت) تو یہاں یہ سوال نہیں کہ دوسری قوموں یا مذہب والوں کا طریق ہے ، کیا ضرورت ہے کرنے کی.بلکہ نیک کام اور شکرانے کے طور پر جو کام ہور ہا تھا اس طرف آپ کی توجہ پیدا ہوئی.پھر اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں آپ کے شکر کا ایک اور عجیب نظارہ نظر آتا ہے.جب فتح

Page 210

خطبات مسرور جلد سوم 203 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء مکہ ہوئی.عموماً فاتح قوم، فتح کے بعد جو مفتوح ہوتا ہے، ( جس کو فتح کیا جاتا ہے ) اس کے شہر اور ملک جو ہیں ان میں بڑے رعب اور دبدبے سے داخل ہوتے ہیں، فخر سے داخل ہوتے ہیں.لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ پر بھی شکر گزاری کے جذبات لئے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے.روایت میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی طوی مقام پر پہنچے تو سرخ یمنی کپڑے کا عمامہ باندھے اپنی سواری پر ٹھہر گئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح دے کر آپ کی کس قدر عزت افزائی فرمائی ہے تو حضور نے تواضع اور شکر گزاری سے اپنا سر اس قدر جھکایا کہ یوں لگتا تھا کہ آپ کی ریش مبارک سواری کے کجاوے سے چھو جائے گی.(السيرة النبوية لابن هشام.ذكر فتح مكة.وصول النبي الى ذى طوئ) اتنا جھک گئے تھے کہ جس سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اس کا جو آگے ابھار تھا اس پر جا کر آپ کی داڑھی لگ رہی تھی.اس جیسی روایات میں بہت ساری ایسی مثالیں ملتی ہیں جو آپ کے عمل کے کئی کئی خُلق ظاہر ہورہے ہوتے ہیں.پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ بندوں کے لئے آپ کی شکر گزاری کے جذبات کس قدر ہوتے تھے.کسی سے فائدہ پہنچتا تھا تو اس کا کس قدر شکر ادا کیا کرتے تھے، ایسی عجیب عجیب مثالیں نظر آتی ہیں خوشی غمی کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ذرا سے بھی کام آنے والے کے جذبات کی بے انتہا قدر کیا کرتے تھے.ان کا خیال رکھا کرتے تھے.پھر اپنے ساتھ براہ راست تعلق والوں کا ہی نہیں (اپنے ساتھ جو واقعہ ہو اس سے نہیں ) بلکہ اپنے قریبی سے تعلق رکھنے والوں کیلئے بھی بے انتہا شکر گزاری کے جذبات رکھا کرتے تھے اور ان کا خیال رکھا کرتے تھے.حضرت ابو بکر صدیق جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پرانے ساتھیوں میں سے تھے، دوستوں میں سے تھے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر خوشی و غمی میں ، تکلیف میں، رنج کے موقعہ پر ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا تھا.ان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے نازک احساسات رکھتے تھے کہ برداشت نہیں تھا کہ حضرت ابوبکر کے بارے میں کوئی ایسی بات رض

Page 211

خطبات مسرور جلد سوم 204 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء کہے جس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے.اور یہ سب کچھ شکر گزاری کے جذبات کی وجہ سے تھا کہ اس شخص نے دوستی کا حق نبھایا ہے اور قربانیوں میں پیش پیش رہے ہیں اس لئے یہ برداشت رض نہیں تھا کہ ان کو کوئی تکلیف پہنچے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی کا حضرت ابوبکر صدیق ” سے اختلاف ہو گیا.حضور کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا جب اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تو تم سب نے مجھے جھوٹا کہا اور ابوبکر نے میری سچائی کی گواہی دی اور اپنی جان اور مال سے میری مدد کی.کیا تم میرے ساتھی کی دل آزاری سے باز نہیں رہ سکتے.پھر ایک دفعہ اپنی وفات کے قریب فرمایا کہ لوگوں میں سے ہمہ وقت موجودگی اور مال کے ساتھ مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر نے کیا ہے.فرمایا مسجد نبوی میں کھلنے والی تمام کھڑکیاں بند کر دی جائیں سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے.(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى - باب قول النبى سدوا الابواب الا باب ابى بكر ) پھر حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بڑے اچھے انداز اور تعریفی انداز میں ذکر فرمایا کرتے تھے.ایک روز میں نے اس بات سے غیرت کھاتے ہوئے کہا کہ آپ کیا ہر وقت اس بڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر بیویاں عطا کیں.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو انہوں نے مجھے قبول کیا.جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو وہ ایمان لائیں.جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور اللہ نے انہیں سے مجھے اولاد بھی عطا فرمائی.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحه 118،117 مطبوعه بيروت) بیوی کا جو تعلق تھا وہ تو تھا ہی لیکن وہ ایسی وفا شعار بیوی تھیں جنہوں نے سب کچھ آپ پر قربان کر دیا تھا اور آپ جو سب سے زیادہ شکر گزار انسان تھے، یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اس احسان کو بھولیں جو اس وقت حضرت خدیجہ نے کیا تھا.پھر تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے 13 ویں سال میں، حضور کی ہجرت سے قبل مدینہ سے ستر لوگوں نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی اور کہا کہ جب حضور مدینہ

Page 212

خطبات مسرور جلد سوم 205 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء تشریف لائیں گے تو ہم اپنی جانوں کی طرح حضور کی حفاظت کریں گے.اس موقعہ پر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مدینہ کے یہود کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات ہیں آپ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے، کٹ جائیں گے، ختم ہو جائیں گے.ایسا نہ ہو کہ جب اللہ آپ کو غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ واپس آجائیں.تو حضور نے فرمایا: نہیں نہیں.ہرگز ایسا نہیں ہوگا.تمہارا خون میرا خون ہوگا.تمہارے دوست میرے دوست اور تمہارے دشمن میرے دشمن.(السيرة النبوية لابن هشام، امرا لعقبة الثانية ، عهد الرسول عليه السلام على الانصار) آپ میں تو شکر گزاری اور احسان مندی انتہا کی تھی.یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ مہاجرین پر انصار کے احسانوں کو یاد نہ رکھتے.چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ آپ نے نہ صرف اس کو یاد رکھا بلکہ خوب خوب نبھایا.اپنے آپ کو انصار ہی کا ایک حصہ قرار دیا.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جنگ حنین کے بعد مال غنیمت کی تقسیم پر جب ایک انصاری نے اعتراض کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دردناک خطاب کیا.فرمایا کہ اگر تم یہ کہو کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تو اس حال میں آیا کہ تو جھٹلایا گیا تھا اور ہم نے اس وقت تیری تصدیق کی.اور تجھے جب اپنوں نے دھتکار دیا تو ہم نے اس وقت تجھے قبول کیا اور پناہ دی تھی.تو ہمارے پاس اس حال میں آیا کہ مالی لحاظ سے بہت کمزور تھا اور ہم نے تجھے غنی کر دیا.اگر تم یہ کہو تو میں تمہاری ان باتوں کی تصدیق کروں گا.اے انصار ! اگر لوگ مختلف گھاٹیوں یا وادیوں میں سفر کر رہے ہوں تو میں اس وادی اور گھاٹی میں چلوں گا جس میں تم انصار چلو گے.اگر میرے لئے ہجرت مقدر نہ ہوتی تو میں تم میں سے کہلانا پسند کرتا تم تو میرے ایسے قریب ہو جیسے میر کپڑے جو میرے بدن کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور باقی لوگ میری اوپر کی چادر کی طرح ہیں.(بخاری کتاب المغازى باب غزوة الطائف.ے وہ پس یہ شکر گزاری کے جذبات ہی تھے جن کی وجہ سے آپ نے انصار کو اپنے قریب ترین ہونے کا اعزاز بخشا.پھر تاریخ میں ہمیں آپ کی احسان مندی اور شکر گزاری کی ایک اور اعلیٰ مثال یوں ملتی

Page 213

خطبات مسرور جلد سوم 206 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005 ء ہے کہ جب مسلمانوں پر ملکہ میں طرح طرح کے مصائب ڈھائے گئے تو انہوں نے خدا تعالیٰ کے اذن سے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی.مسلمان ادھر چلے گئے.اس وقت شاہ حبشہ نے ان کو اپنے ملک میں پناہ دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بادشاہ نجاشی کے اس احسان کو ہمیشہ یادرکھا اور ہر موقعہ پر آپ نے اس احسان کی شکر گزاری کا اظہار اپنے عمل سے ، اپنے قول سے ، اپنی باتوں سے کیا.چنانچہ جب نجاشی کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے استقبال کیلئے خود کھڑے ہوئے اور آپ کے صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ہم کافی ہیں.آپ نے فرمایا وہ ہمارے ساتھیوں کے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آتے تھے.بڑی عزت کی تھی اور ان کو اپنے پاس رکھا تھا.تو میں پسند کرتا ہوں کہ ان کے اس 66 احسان کا بدلہ خودا تاروں.“ (السيرة الحلبية - باب ذكر مغازيه ﷺ ، غزوة خيبر ) پھر ایک واقعہ کا یوں ذکر ہے کہ جب جنگ بدر کے موقعہ پر قیدی لائے گئے تو ان میں حضرت عباس بھی تھے اور آپ کے تن پر کوئی کپڑا نہیں تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے کوئی قمیص تلاش کی لیکن چونکہ وہ لمبے قد کے تھے کسی کی قمیص پوری نہیں آتی تھی.تو صحابہ نے جب یہ دیکھا تو پھر عبداللہ بن ابی بن سلول کی قمیص آپ کو پوری آ سکتی تھی وہ لمبے قد کا تھا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا.اس پر حضور نے اس کی قمیص لے کر آپ کو پہنا دی.“ باوجود اس کی بعد کی بے انتہا د زبانیوں اور بد نیتوں اور بدطینتی کے حملوں کے روایت میں آتا ہے کہ اس کی وفات پر جب اسے قبر میں اتارا گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے اس کو باہر نکالنے کا حکم دیا اور اس کا سر اپنے گھٹنے پر رکھا اور اس کو اپنا لعاب لگایا اور اس کے احسان کا بدلہ چکاتے ہوئے اسے اپنی قمیص پہنائی.“ (بخارى - كتاب الجنائز - باب هل يخرج الميت من القبر واللحد لعلة- حديث نمبر 1350) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خادموں کو بھی ان کی خدمت کی وجہ سے شکر گزاری کے

Page 214

خطبات مسرور جلد سوم 207 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005 ء جذبات کے ساتھ دعا دیا کرتے تھے.چنانچہ غزوہ خیبر کے واقعہ میں ذکر آتا ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ سے شادی کی تو شادی والی رات حضرت ابوایوب خالد بن زید نے رات بھر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے باہر پہرہ دیا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح بیدار ہوئے اور دیکھا کہ ابوایوب باہر پہرہ دے رہے ہیں تو ان سے پوچھا: مَالَكَ يَا أَبَا أيوب؟ کہ ابو ایوب خیریت تو ہے؟ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ کے بارے میں اس عورت سے خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ آپ کو نقصان نہ پہنچائے کیونکہ جنگ خیبر میں آپ نے اس کے باپ، اس کے خاوند اور اس کے لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے اور اس نے نیا نیا اسلام قبول کیا ہے اس لئے مجھے اس کی طرف سے آپ کے متعلق خوف پیدا ہوا.راوی بیان کرتے ہیں کہ ان کا یہ اخلاص دیکھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی.اللَّهُم احْفَظْ اَبَا أَيُّوبَ كَمَا بَاتَ يَحْفَظُنِی کہ اے اللہ تو ابوایوب کی اس طرح حفاظت فرما جس طرح اس نے رات بھر میری حفاظت کی ہے.(الروض الأنف ذكر غزوة خيبر – بقية امر خيبر حاشيه) پھر ایک اور خادم کی خدمت پر اس کو دعا دینے کے واقعہ کا یوں ذکر ملتا ہے.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بیت الخلاء میں گئے تو میں نے آپ کے لئے پانی رکھا.( جانے سے پہلے پانی رکھ دیا وہاں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس نے رکھا ہے تو آپ کو بتایا گیا کہ ابن عباس نے.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی کہ اللَّهُمَّ فَقِهْهُ فِى الدِّينِ کہ اے اللہ ! اس کو دین کی سمجھ بوجھ عطا کر.(بخارى كتاب الوضوء باب وضع الماء عند الخلاء ) دیکھیں تھوڑی سی خدمت پر کتنی جامع دعا آپ نے دی.پھر ایک روایت میں آتا ہے.اسماعیل بن ابراہیم بن عبد اللہ بن ابی ربیعہ اپنے والد اور اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس ہزار درہم مجھ سے بطور قرض لئے.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال آیا تو آپ نے مجھے رقم لوٹا دی اور دعا دیتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ تیرے اہل اور مال میں برکت دے.نیز فرمایا قرض دینے کا بدلہ "

Page 215

خطبات مسرور جلد سوم 208 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء شکریہ کے ساتھ ادا ئیگی ہے.(سنن النسائى - كتاب البيوع – باب الاستقراض) اکثر ایسا ہوتا تھا کہ آپ قرض لوٹاتے تھے تو زائد رقم بھی عطا فرما دیا کرتے تھے اور یہ اسوہ آپ نے اس لئے قائم کیا کہ جنہوں نے قرض لیا ہوا ہے وہ جب واپس کریں تو احسن طریق سے واپس کریں.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی دستور تھا کہ جب کوئی خوشی کی خبر ملتی تو فرماتے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ - کہ سب تعریف اس خدا کے لئے ہے جس کی نعمت سے نیکیاں کمال کو پہنچتی ہیں اور جب کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جسے آپ نا پسند فرماتے تو یہ دعا کرتے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَال میں ہر حال میں اللہ کی حمد کرتا ہوں.(كنز العمال -باب في الدعاء - ادعية السرور والحزن حديث نمبر 5027) اور یہ شکر گزاری کے جذبات آپ اپنی امت میں بھی پیدا کرنا چاہتے تھے اور آپ کی یہ خواہش تھی کہ آپ کی امت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنے.اور اللہ کی تعریف کرنے والا اور اس کی حمد بیان کرنے والا بنے.چنانچہ حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب کبھی کوئی بندہ کھانے کا لقمہ کھائے تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرے اور جب پانی کا گھونٹ پیئے تب بھی اس پر اللہ کی حمد بیان کرے یعنی چھوٹی سے چھوٹی نعمت پر بھی اللہ کی حمد اور شکر کرے.(مسلم ، كتاب الذكر والدعاء ، باب استحباب حمد الله تعالى بعد الاكل والشرب) پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا کہ اب کیا حال ہے اس نے کہا اچھا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا کہ اب کیا حال ہے.اس نے کہا اچھا ہوں.پھر تیسری دفعہ پوچھا اس سے.تو اس نے کہا کہ اچھا ہوں اور خدا کی حمد و شکر ادا کرتا ہوں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہی میں چاہتا ہوں کہ تم اس طرح کہو.(مجمع الزوائد للهيثمي - كتاب البر والصلة ـ باب ما يقول اذا سئل عن حاله )

Page 216

خطبات مسرور جلد سوم 209 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء تو یہ نصیحت تھی سب امت کو کہ اس طرح شکر ادا کرتے ہوئے اپنا حال بتانا چاہئے.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف کرتے ہوئے اور شکر کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہئے.آپ اپنے پیاروں کے بارے میں ہمیشہ یہ پسند فرماتے تھے کہ وہ شکر گزار بنیں.66 چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دفعہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ بخدا میں تم سے محبت کرتا ہوں اور اے معاذ میری تمہیں یہ نصیحت ہے کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا کبھی نہ بھولنا کہ ” اللَّهُمَّ أَعِنِّيْ عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ ، یعنی اے میرے اللہ مجھے توفیق بخش کہ میں تیرا ذ کر کروں اور تیرا شکر کروں اور احسن رنگ میں تیری عبادت کروں.(ابو داؤد كتاب الوتر.باب في الاستغفار ) پھر آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس نے کھانا کھایا اور اس نے دعا کی ك الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِيْ هَذَا وَرَزَقَنِيْهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه یعنی سب تعریف اللہ کی ہے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور مجھے یہ رزق بغیر اس کے کہ میری کسی طاقت یا قوت کا دخل ہو عطا فرمایا.تو اس سے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں (ترمذى.كتاب الدعوات.باب ما يقول اذا فرغ من الطعام ) گے.پس شکر گزاری کے جذبات ہی ہیں جو گناہوں کی بخشش کے بھی سامان کرتے ہیں اور پھر اس وجہ سے مزید نیکیاں کرنے کی توفیق بھی پیدا ہوتی ہے.پھر آپ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے.حضور نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا، جو تھوڑے پر یعنی چھوٹی بات پر شکر نہیں کرتا وہ بڑی نعمت پر بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کیا کرتا.اور نعماء الہیہ کا ذکر کرتے رہنا شکر گزاری ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہیں انسان کے اوپر ان کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہئے.اور اس کا ذکر نہ کرنا کفر اور ناشکری ہے.اور جماعت ایک رحمت ہے اور تفرقہ بازی عذاب ہے.اس پر بھی شکر کرنا چاہئے کہ ایک جماعت سے منسلک ہے انسان.پھر امت کو دنیا کی

Page 217

خطبات مسرور جلد سوم 210 خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء لالچوں سے دور رہنے اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنے کیلئے آپ نے اس طرح نصیحت فرمائی ہے کہ تم میں سے جو کم درجے والا یا کم وسائل والا ہے تم اس کی طرف دیکھو اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم میں سے اوپر اور اچھی حالت میں ہے.“ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 254 مطبوعه بيروت) یہ بھی شکر کا ایک انداز ہے اور انسان نچلے کی طرف دیکھنے کی بجائے اوپر والے کی طرف نگاہ کرے تو اس سے حسد پیدا ہوتا ہے اور اگر نیچے والے کو دیکھے تو اس سے شکر پیدا ہوتا ہے.یہ طریق اختیار کرنا چاہئے جو تمہیں اس لائق بنا دے گا.تم اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری نہیں کرو گے.“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد صحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بدوں مشقت اور محنت کے دکھائی ہے بغیر کسی محنت اور مشقت کے دکھا دی ہے.وہ راہ جو آپ لوگوں کو اس زمانے میں دکھائی گئی ہے بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں.پس خدا تعالیٰ کے اس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وہ شکر یہی ہے کہ سچے دل سے ان اعمال صالحہ کو بجالاؤ جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصہ میں آتے ہیں اور اپنی عملی (مسند احمد جلد 4 صفحه 278 مطبوعه بيروت) حالت سے مدد لے کر دعا مانگو کہ وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے (ملفوظات جلد اول صفحه 94-95 جدید ایڈیشن - رپورٹ جلسه سالانه 1897ء صفحه (166) | اللہ کرے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہوں جو آپ نے ہمارے سامنے قائم فرمایا اور ان نصیحتوں پر عمل کرنے والے ہوں جو شکر گزار بندہ بننے کے لئے آپ نے ہمیں فرما ئیں.اور جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دعا مانگو کیونکہ دعاؤں کے ساتھ ہی ان پر عمل کرنے کی بھی توفیق ملے گی.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.

Page 218

خطبات مسرور جلد سوم 211 (13) خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005ء عظ آنحضرت صلی اللہ وسلم کا خلق و توکل علی اللہ خطبہ جمعہ فرمودہ 8 اپریل 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن ،لندن.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلًا (الاحزاب :4) پھر فرمایا:.اور اللہ ہی پر توکل کر اور اللہ ہی کارساز کے طور پر کافی ہے.یہ قرآنی فرمان اصل میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تسلی کا پیغام تھا کہ اے نبی ! صلی اللہ علیہ وسلم تو بھی بے فکر رہ اور اپنے صحابہ کو بھی تسلی کروا دے کہ جیسے بھی حالات ہوں.ہوسکتا ہے وسیع پیمانے پر تجھے اور تیری جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے ، تمام قبائل جمع ہو کر تجھے اور تیری جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کریں لیکن یہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے.پہلے بھی اللہ تعالیٰ کار ساز رہا ہے، تجھے ہر مشکل اور ہر مصیبت سے نکالتا رہا ہے اور آئندہ بھی وہی کارساز ہے.جیسے مرضی حالات ہوں، دشمن کے جو بھی منصوبے ہوں، جیسے بھی منصو بے ہوں، دشمن کبھی بھی اسلام کو مٹانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا.پس آپ اسی پر ہمیشہ کی طرح تو کل کرتے رہیں.یہ تسلی خدا تعالیٰ نے اس لئے نہیں دی تھی کہ خدانخواستہ آپ خوفزدہ تھے یا تو کل میں کوئی کمی آگئی تھی.بلکہ یہ صحابہ کے حو صلے بڑھانے کے لئے تھا کہ کسی کمزور دل میں بھی کبھی یہ خیال نہ آئے کہ

Page 219

خطبات مسرور جلد سوم 212 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005ء ہم کمزور ہیں اور اتنی طاقتوں کے سامنے ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں.اور پھر یہ بھی کہ دشمن پر بھی اظہار ہو جائے کہ ہم تمہارے سامنے جھکنے والے نہیں ، ہم ہمیشہ کی طرح اس خدائے واحد پر ہی تو کل کرتے ہیں اور اس یقین سے پُر ہیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح ہمارا مددگار ہوگا، ہماری مددفر ما تا رہے گا.اور دشمن ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد ہوگا.اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا اسلام کو کوئی نقصان پہنچا سکے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کو تو پہلے سے ہی خدا پر اس قدر یقین تھا اور تو کل تھا کہ جس کی کوئی انتہا نہیں.آپ نے تو تو کل کے اُس وقت بھی اعلیٰ معیار قائم کئے تھے جب آپ کے ساتھی کمزور تھے اور دشمن کے مقابلے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تھے.آپ نے تو اس وقت بھی تو تکل کے نمونے دکھائے جب آپ اکیلے تھے اور اکیلے ہی دوسرے شہروں میں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے چلے جایا کرتے تھے.آپ کو تو اس وقت بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ تھا اور توکل اور یقین تھا کہ آخر کار جیت میری ہی ہونی ہے.اور آپ نے تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق یہی آواز بلند کی قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ - عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَاب (الرعد: (31) کہ تو کہ دے وہ میرا رب ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں ، اسی پر میں تو کل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میرا عاجزانہ جھکنا ہے.پس یہ آپ کے توکل کی قرآنی گواہی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو یہ اعلان کرنے کے لئے کہہ رہا ہے کہ میں جو تیرے دل کا بھی حال جانتا ہوں، میں یہ کہتا ہوں کہ اعلان کر دے کہ تو نے ہمیشہ مجھ پر توکل کیا ہے.پھر پہلی کتابوں میں بھی آپ کی اعلیٰ صفات کا ذکر ملتا ہے جن میں تو کل کی صفت بھی ہے.اس بارے میں ایک روایت میں یوں ذکر آتا ہے.حضرت عطا بن لیسار سے روایت ہے آپ بیان کرتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے ملا.میں نے کہا مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صفت کے متعلق بتائیں جو تورات میں مذکور ہے.انہوں نے فرمایا.اللہ کی قسم ! آپ کو تو رات میں بعض ایسی صفات سے موصوف کیا گیا ہے جن سے قرآن میں بھی آپ کو موصوف کیا گیا ہے.پھر قرآنی آیت پڑھی کہ تايُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا

Page 220

خطبات مسرور جلد سوم 213 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء وَنَذِيرًا﴾ (الاحزاب : 46 کہ اے رسول ! یقیناً ہم نے تجھے شاہد اور مبشر اور ڈرانے والا بنا کر اور امیوں کے لئے محافظ بنا کر بھیجا ہے.تو میرا بندہ اور رسول ہے.سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّل میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے.یہ تورات کی گواہی ہے.آپ ہمیشہ خدا تعالیٰ پر توکل کرنے والے ہیں.آگے روایت اس طرح چلتی ہے کہ آپ نہ تند خو ہیں، نہ سخت (دل) اور نہ گلیوں میں شور و غوغا کرنے والے ہیں اور نہ بدی کا بدی سے جواب دینے والے ہیں.بلکہ درگزر کرنے والے اور معاف کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر گز آپ کو وفات نہ دے گا جب تک کہ آپ کے ذریعہ سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا (نہ) کر دے اور لوگ یہ کہنے لگیں کہ لَا إِلهَ إِلَّا الله اور آپ کے ذریعہ سے اندھے بینا ہوں اور بہرے سنے لگیں اور دلوں کے پردے اٹھ جائیں.(بخاری کتاب البيوع - باب كراهية السخب في السوق ) پس یہ وہ متوکل انسان تھا جس کا نام سینکڑوں ہزاروں سال پہلے سے اللہ تعالیٰ نے منو گل رکھ دیا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خود تو گل کے اعلیٰ نمونے دکھائے بلکہ اپنے مانے والوں میں، اپنی امت میں بھی یہ وصف پیدا کرنے کی کوشش فرمائی.آپ کی زندگی میں جو تو کل کی مثالیں ملتی ہیں، ان میں سے چند مثالیں یہاں رکھتا ہوں.لیکن پہلے یہ مختصر ابتا دوں کہ تو کل کہتے کسے ہیں؟ کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کو؟ کچھ کام نہ کرنے کو؟ اور صرف یہ کہنا کہ ہم بیٹھے ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری ضروریات پوری کر دے گا!.یہ تو کل نہیں ہے.بلکہ تمام وسائل کو بروئے کار لا کر ، استعمال کر کے پھر اللہ تعالیٰ پر انحصار کرنا اور اس کے آگے جھکنا، یہ تو کل ہے.اس کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمائی ہے کہ : ” توکل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر خود دعاؤں میں لگ جاؤ کہ اے خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر.صد ہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں جو اُن اسباب کو بھی برباد اور تہ و بالا کر سکتے ہیں، اُن کی دست برد سے بچا کر ہمیں کچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا.( ملفوظات جلد 3 صفحه 146.جدید ایڈیشن - الحكم جلد 7 مورخه 24 مارچ 1903ء صفحه 10)

Page 221

خطبات مسرور جلد سوم 214 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ جب بھی کوئی مشکل گھڑی آتی جس سے آپ کے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوتی تو آپ تمام ظاہری کوششیں کرنے کے بعد، تمام ظاہری اسباب استعمال کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑ دیا کرتے تھے.چنانچہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ گھبراہٹ کے وقت آپ فرماتے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے.وہ ربّ ہے.بڑے تخت حکومت کا، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ آسمانوں کا رب ہے، وہ زمینوں کا رب ہے.وہ بزرگ تخت کا رب ہے.یعنی وہی ہر چیز کا مالک ہے، وہی اس کا رب ہے، اس لئے اسی پر ہر قسم کا انحصار ہونا چاہئے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے مواقع پر بھی آپ اسی طرح تو کل فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح کوئی بات ہی نہیں ہوئی.اپنی طرف سے اسباب استعمال کر لئے اس کے بعد ہر چیز خدا پر چھوڑ دی.دیکھیں وہ واقعہ جب آپ اکیلے ہیں، طائف کے سرداروں کو تبلیغ کے لئے نکلے ہیں جنہوں نے ظلم کی انتہا کی.واپس آتے ہیں، بظاہر مکہ میں بھی داخل ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے.ایک خادم ساتھ ہیں، اور خادم پریشان ہے اب کیا ہوگا؟ لیکن آپ کو اپنے رب پر پورا تو کل ہے.چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے وہی خادم حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اب آپ مکہ میں کیسے داخل ہوں گے جبکہ وہ آپ کو نکال چکے ہیں.ادھر بھی رستہ نہیں ہے، اُدھر بھی رستہ نہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس شان تو کل سے جواب دیا کہ اے زید ! تم دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ ضرور کوئی راہ نکال دے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کا مددگار ہے.وہ اپنے نبی کو غالب کر کے رہے گا.چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سرداران قریش کو پیغام بھجوائے کہ آپ کو اپنی پناہ میں لے کر مکہ میں داخلے کا انتظام کریں.سارے سرداروں نے انکار کیا.آخر ایک شریف سردار مطعم بن عدی نے آپ کو اپنی پناہ میں مکہ میں داخل کرنے کا اعلان کیا.صل الله ابن سعد.طبقات الكبرى.ذكر سبب رسول الله علم الى الطائف) پس رواج کے مطابق آپ نے تدبیر تو کی لیکن تو کل اپنے خدا پر ہی تھا اور اس تدبیر سے پہلے ہی آپ کو یقین تھا کہ میں ضرور داخل ہو جاؤں گا.

Page 222

خطبات مسرور جلد سوم 215 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء پھر دیکھیں شان تو کل اور یقین کہ اللہ تعالیٰ نیک کام میں ضرور مدد کرتا ہے.اس لئے ہر نیکی کے کام میں اس پر تو کل کرتے ہوئے اس کو سرانجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مخالف ترین سردار قریش جو تھا اس کے پاس بھی ایک غریب آدمی کا حق دلوانے کے لئے تشریف لے گئے.چنانچہ اس واقعہ کا ذکر یوں آتا ہے کہ: ایک دفعہ اراشہ نامی شخص مکہ میں کچھ اونٹ بیچنے آیا اور ابوجہل نے اس سے یہ اونٹ خرید لئے مگر اونٹوں پر قبضہ کر لینے کے بعد قیمت ادا کرنے سے انکاری ہو گیا یا ٹال مٹول سے کام لینے لگا.اس پر وہ شخص جو مکہ میں اکیلا تھا، مسافر تھا، کوئی اس کا دوست ساتھی نہیں تھا بے یارو مددگار تھا، بہت پریشان ہوا اور چند دن تک اسی طرح ابو جہل کے پیچھے پھرتا رہا، اس کی منت سماجت کرتا رہا.مگر ہر دفعہ اس کو اسی طرح ٹال مٹول سے جواب ملتا رہا، آخر ایک دن وہ کعبہ میں جہاں قریش سردار بیٹھے ہوئے تھے گیا، اور کہنے لگا کہ اے معززین قریش! آپ میں سے ایک شخص ابوالحکم ہے.اس نے میرے اونٹوں کی قیمت دبا رکھی ہے مہربانی کر کے مجھے اس سے دلوا دیں.قریش کو شرارت سوجھی، انہوں نے مذاقاً کہا کہ ایک شخص ہے محمد بن عبد اللہ نامی وہ تمہیں یہ قیمت دلوا سکتا ہے، تم اس کے پاس جاؤ.ان کا تو یہی خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہ جائے گا تو آپ ہر حال میں انکار کریں گے.اور جب آپ انکار کریں گے تو ان لوگوں کو ایک تو مذاق اڑانے کا موقع ملے گا، دوسرے باہر سے آنے والے لوگوں کو آپ کی حیثیت کا پتہ لگ جائے گا.بہر حال جب یہ اراشہ وہاں پہنچا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.اپنامد عابیان کیا کہ اس طرح میں نے ابو جہل سے رقم لینی ہے.قریش نے اس آدمی کے پیچھے بھی اپنا ایک آدمی بھیج دیا کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے.بہر حال اس نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کہانی سنائی اور یہ ذکر کیا کہ ابوالحکام نے میری رقم دبا رکھی ہے اور مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ ہی ہیں جو میری رقم دلواسکتے ہیں.آپ کی بڑی منت کی کہ مجھے یہ رقم دلواد ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اٹھے اور کہا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.ابو جہل کے مکان پر آئے اور دروازے پر دستک دی، اس کو باہر بلوایا.وہ باہر آیا تو آپ کی شکل دیکھتے ہی ایک دم حیران پریشان ہو گیا.

Page 223

خطبات مسرور جلد سوم 216 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء آپ نے کہا تم نے اس آدمی کی یہ رقم دینی تھی وہ تم ادا کر دو.اس نے کہا ٹھہریں میں ابھی رقم لے کے آتا ہوں.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت ابو جہل کا رنگ بالکل فق ہو رہا تھا.کہا محمد اٹھہرو میں ابھی اس کی رقم لاتا ہوں.چنانچہ وہ رقم لے کر آیا اور اسی وقت اس شخص کے حوالے کر دی.اور وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کر کے چلا گیا.پھر وہ قریش کی مجلس میں دوبارہ گیا اور ان کا بھی شکر یہ ادا کیا کہ تم نے مجھے صحیح آدمی کا پتہ بتایا تھا جس کی وجہ سے مجھے رقم مل گئی ہے.اس پر وہ جو سارے رؤسا بیٹھے تھے بڑے پریشان ہوئے.پھر جب وہ آدمی جس کو پیچھے بھیجا تھا آیا تو اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا.اس نے یہ سارا قصہ سنایا تو یہ سب لوگ بڑے حیران تھے.تھوڑی دیر بعد ابو جہل خود بھی وہاں اس مجلس میں آ گیا تو اس کو دیکھتے ہی لوگوں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا کہ فوری طور پر اندر گئے اور ساری رقم واپس کر دی.اس قدر تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ڈر گئے تھے.اس نے کہا خدا کی قسم ! جب میں نے محمد کو اپنے دروازے پر دیکھا تو مجھے یوں نظر آیا کہ اس کے ساتھ لگا ہوا ایک مست اور غضب ناک اونٹ کھڑا ہے اور میں سمجھتا تھا کہ میں نے اگر ذرا بھی چون و چرا کیا تو وہ اونٹ مجھے چیا جائے گا.(بحواله سيرت خاتم النبيين صفحه 162-163- السيرة النبوية لأبن هشام صفحه 281 زير أمر الأراشي الذي باع اباجهل ابله) تو دیکھیں، جیسا کہ میں نے کہا، کفار نے تو اس نیت سے کہا تھا کہ آپ انکار کریں اور آپ کی سبکی ہوا اور باہر کے لوگوں پر آپ کا اثر نہ ہو.لیکن آپ کو اپنے خدا پر کامل تو کل تھا.اس لئے فوری طور پر اٹھے اور ساتھ چل دیئے.یہ نہ دیکھا کہ وہ کتنا بڑا سردار ہے اور کتنا میرا مخالف ہے.پھر کفار کا یہ خیال بھی شاید ہو کہ اگر چلے بھی گئے تو ابو جہل آپ سے سختی سے پیش آئے گا اور اس وقت اس شخص کے سامنے آپ کی حیثیت ظاہر ہو جائے گی.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اس تو کل کے نتیجہ میں کیسا انتظام فرمایا کہ وہ مجبور ہو گیا.ایسے حالات پیدا کئے ، اس کو ایسا خوفناک قسم کا اونٹ آپ کے پیچھے نظر آنے لگا جس کی وجہ سے وہ فوری طور پر گیا اور ساری رقم ادا کر دی.

Page 224

خطبات مسرور جلد سوم 217 خطبہ جمعہ 8 /اپریل 2005ء پھر ہجرت کے وقت دیکھیں خدائی وعدوں پر یقین اور توکل کی وجہ سے دشمن کے سامنے سے نکل گئے اور کسی قسم کا خوف اور ڈر آپ کی طبیعت میں پیدا نہیں ہوا.یہ واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ قریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے ان کے بڑے رؤساء آپ کے مکان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور مکان کو گھیرے میں لے لیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا نام لے کر اپنے گھر سے نکلے حالانکہ سارے سردار اور قبائل کے لیڈر آپ کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے لیکن ان کے ذہن میں یہ کبھی خیال بھی نہیں آسکتا تھا اور کچھ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا کہ اس طرح اتنی جرات سے ہمارے سامنے سے نکل سکتے ہیں.بہر حال آپ اپنی جگہ حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹا کر وہاں سے نکلے اور پھر تو کل یہ بھی تھا اوراللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین تھا کہ حضرت علی کو فرمایا کہ تم فکر نہ کرو میرے اس بستر میں لیٹ جاؤ.لیکن تمہیں یہ ضمانت ہے کہ تمہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.پھر جب آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار ثور میں پہنچے تو وہاں جا کر بھی تو تکل کی کیا اعلیٰ مثال ہمیں نظر آتی ہے کہ جب دشمن کو گھر سے یہ پتہ لگا کہ آپ تو جاچکے ہیں.اور آپ کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیٹے ہوئے ہیں تو اس وقت بڑے پریشان ہوئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں بھی گئے وہاں عورتوں سے زیادتیاں بھی کیں ، سختیاں بھی کیں.پھر یہ لوگ جب آپ کی تلاش میں غار کے بالکل قریب پہنچ گئے اور اتنے قریب پہنچ گئے کہ ان کے قدم بھی نظر آنے لگ گئے تھے، ان کی باتیں بھی سنائی دینے لگ گئی تھیں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی یہ باتیں سن کر پریشان ہو رہے تھے.لیکن یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو کل کی ایک اورشان نظر آتی ہے.آپ حضرت ابوبکر صدیق کو فرماتے ہیں کہ پریشان نہ ہو.فرمایا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ﴾ (التوبة: 40) کہ گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے.پھر فرمایا کہ اے ابو بکر ! تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے.ایک دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا

Page 225

خطبات مسرور جلد سوم 218 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005ء کہ یا رسول اللہ میں اپنی جان کے لئے نہیں گھبرا رہا اگر میں مارا جاؤں تو میں بس اکیلی جان ہوں لیکن خدانخواستہ اگر آپ پر کوئی آنچ آئے تو پھر تو گویا ساری امت کی امت ہی مٹ گئی.تو آنحضور ﷺ نے اس پر فرمایا کہ گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے.پھر جب تین دن کے بعد غار سے نکلے اور مدینہ کی طرف سفر شروع ہوا تو اس وقت بھی تو کل کی ایک اور شان نظر آتی ہے.حضرت ابو بکر صدیق نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑا دوڑائے ہوئے ان کے پیچھے آ رہا ہے.اس پر حضرت ابو بکر نے پھر گھبرا کر کہا یا رسول اللہ ! کوئی ہمارا تعاقب کر رہا ہے.آپ نے فرمایا کوئی فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے.کیا اللہ پر تو کل تھا.آپ کو یقین تھا، خدا پر توکل تھا کہ ہم اس کی خاطر نکلے ہیں اس کے حکم سے نکلے ہیں وہ خود ہی ہماری حفاظت فرمائے گا.چنانچہ سراقہ خود اس واقعہ کو بیان کرتا ہے کہ میں ان کے تعاقب میں نکلا اور جب میں قریب پہنچ گیا تو گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور میں زمین پر گر گیا.پھر تیر چلا کے فال نکالی تو فال اس کے اس تعاقب کے خلاف نکلی.لیکن پھر بھی کیونکہ لالچ تھا، کفار نے اعلان کیا ہوا تھا جو پکڑ کے لائے گا اس کو سو اونٹ ملیں گے.تو یہ جو سو سو اونٹوں کا لالچ تھاوہ اس کو اس بات پر مجبور کر رہا تھا کہ وہ فال کو تسلیم نہ کرے اور تعاقب کرے.اس نے پھر تعاقب شروع کیا.پھر گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور پھر گر گیا.یہ کہتا ہے کہ میں اتنی قریب پہنچ گیا تھا کہ آپ قرآن کریم پڑھ رہے تھے اور میں آپ کی تلاوت کی آواز سن رہا تھا.اور جب یہ صورتحال تھی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار مڑ کر پیچھے دیکھتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا.آپ کو تو اپنے خدا پر پورا بھروسہ تھا، پورا یقین تھا، کامل تو کل تھا کہ وہ حفاظت فرمائے گا.اس لئے محسوس ہی نہ کیا کہ پیچھے مڑ کر دیکھیں.بہر حال جب اس نے پھر فال نکالی تو پھر اس کے خلاف آئی.پھر اس نے تعاقب کرنا چھوڑ دیا، لیکن آپ کو آواز دے کر یہ کہا کہ میں اس نیست سے آیا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا تعاقب غلط تھا اور میں واپس جا رہا ہوں.لیکن اس کی یہ درخواست تھی.دیکھیں کہاں تو وہ شخص جو پکڑنے آیا تھا اور کہاں یہ معاملہ کہ جب وہ اپنا سارا قصہ

Page 226

خطبات مسرور جلد سوم 219 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء سنا کر جانے لگا تو اس نے آپ سے ایک تحریر لی کہ جب آپ کو سارے عرب پر غلبہ عطا ہوگا تو میرا بھی خیال رکھیں.اور پھر وہ اپنی امان کا پروانہ لے کر واپس مڑا کہ میرا خیال رکھا جائے گا.اس پر آپ نے سراقہ کو یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ تیرا کیا حال ہو گا جب کسری کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے.سراقہ اس بات پر بڑا حیران ہوا.چنانچہ یہ بات بھی حضرت عمرؓ کے زمانے میں پوری ہوئی.(تلخیص از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه 241-242 ) پھر دیکھیں کفار نے آپ کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ پر جنگ ٹھونسی.تو آپ معمولی تعداد صحابہ کے ساتھ جو پوری طرح ہتھیاروں سے بھی لیس نہ تھے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنے سے بڑی اور تعداد کے لحاظ سے بھی اور تجربے کے لحاظ سے بھی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے بھی ، جو اچھی طرح لیس فوج تھی اس کے مقابلے پر نکل کھڑے ہوئے.چنانچہ اس واقعہ کا ذکر یوں آتا ہے کہ جنگ بدر کے روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کی صف بندی کرنے اور انہیں تفصیلی ہدایت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگ گئے اور یہ دعا کی کہ اللهُم اِن تَهْلِك هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ کہ اے اللہ ! یہ مسلمانوں کی جماعت اگر تو نے آج ہلاک کر دی تو پھر زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی.(مسلم كتاب الجهاد والسير - باب الأمداد بالملئكة في غزوة بدر) آپ ہاتھ پھیلائے مسلسل نہایت درد کے ساتھ یہ دعا کر رہے تھے.راوی کہتے ہیں یہاں تک کہ جس شدت سے، تڑپ سے دعا ہو رہی تھی اس سے آپ کا جسم ہلتا تھا تو چادر آپ کے کندھوں سے گر جاتی تھی.حضرت ابو بکر آگے بڑھے، آپ کی چادر آپ کے کندھے پر ڈالی اور عرض کی کہ اے اللہ کے نبی ! بس کریں ، آپ نے اپنے رب سے بہت دعا کر لی ہے.اللہ ضرور آپ سے کئے ہوئے وعدے پورے کرے گا.یہ دعا، یہ گریہ وزاری ، یہ آہ و بکا اس لئے نہیں تھی کہ آپ کو کوئی خوف تھا کہ پتہ نہیں خدا تعالی مدد کرتا ہے یا نہیں کرتا.اگر ایسی کیفیت ہوتی تو تھوڑے سے اور معمولی ہتھیاروں کے ساتھ صحابہ کو لے کر جنگ کے لئے باہر نہ نکلتے.یہ دعا جو تھی یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب

Page 227

خطبات مسرور جلد سوم 220 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء کرنے کے لئے تھی اور یہ ضروری چیز ہے.اس لئے صف بندی کرنے کے بعد ان سب کو سمجھا کر کہ جنگ کے طریقے کیا ہوں، کس طرح جنگ کی جائے گی ، کہاں کہاں کس نے کھڑے ہونا ہے.پھر آپ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ جو ظاہری سامان اور تد بیر تھی ، جو اسباب ہمیں میسر تھے وہ تو ہم نے کر دیئے ہیں اور یہ سب کچھ تجھ پر تو کل کرتے ہوئے کیا ہے.اس لئے اے خدا! اب اپنے وعدے کو بھی پورا کرنا.آج ان صحابہ کے ایمانوں میں اضافے اور اپنے تو گل میں زیادتی کے لئے اپنی مدد کے ایسے نظارے دکھا جو ان کو ہمیشہ یادر ہیں.جو بعد میں آنے والوں کو بھی یا در ہیں.جہاں تک آپ کے اپنے ذاتی یقین کا تعلق تھا وہ تو اس قدر تھا کہ آپ نے جنگ سے پہلے ہی یہ بتادیا تھا کہ دشمن کا فلاں شخص کہاں گرے گا اور فلاں شخص کس طرح مرے گا.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جنگ بدر کے دن جنگ سے قبل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان کی بعض جگہوں پر اپنے ہاتھ سے نشان لگائے اور فرمایا یہاں فلاں آدمی ہلاک ہو گا اور اس کے گرنے کی جگہ یہ ہے اور یہ فلاں دشمن کے ہلاک ہونے اور گرنے کی جگہ ہے.اور حضرت سعد بن عبادہ کہتے ہیں کہ جہاں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشان لگایا تھا اس سے ذرا بھی فرق نہ ہوا اور ہر ایک کا فراسی جگہ ہلاک ہو کر گرا.(مسلم) - كتاب الجهاد والسير -باب غزوة بدر ) پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور توکل کی ایک اور مثال.حضرت جابر“ بیان کرتے ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگی مہم پر گئے.جب حضور علے صحابہ کے ساتھ واپس آ رہے تھے تو دو پہر کا وقت ہوا اور قافلہ ایک وادی میں پہنچا جہاں بہت سے درختوں کے جھنڈ تھے.تو آپ نے بھی وہاں پڑاؤ ڈالا.اور مختلف لوگ مختلف جگہوں پر بکھر گئے.سائے میں بیٹھ گئے یا لیٹ گئے آرام کرنے لگے.آپ نے بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی.( یہ عام واقعہ ہے اکثر نے سنا ہو گا ) تھوڑی دیر بعد آپ کو کسی دیہاتی نے جگایا.ایک دیہاتی آپ کے پاس کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں تلوار تھی.آپ نے صحابہ کو آواز دے کر یہ سارا واقعہ سنایا کہ دیکھو میں سویا ہوا تھا یہ دیہاتی آیا اور اس نے مجھے جگا کر

Page 228

خطبات مسرور جلد سوم 221 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء کہا کہ بتاؤ مجھ سے تمہیں کون بچائے گا.تو میں نے تین بار کہا اللہ اللہ اللہ.اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور وہ کچھ بھی نہ کر سکا.(بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع) ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب تلوار گر گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تلوار اٹھالی اور فرمایا کہ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے.اس پر وہ بہت گھبرایا اور معافیاں مانگنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا.کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں.اس نے جواب دیا میں یہ نہیں مانتا لیکن میں آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ آپ سے کبھی نہیں لڑوں گا اور نہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوں گا جو آپ سے لڑتے ہیں.خیر آپ نے اس کو معاف کر دیا.اور جب وہ اپنے لوگوں میں واپس گیا تو اس نے جا کے اعلان کیا کہ میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا میں سب سے بہتر ہے.(السيرة الحلبية ، باب ذكر مغازيه ، غزوة ذات الرقاع اب دیکھیں یہاں بھی جو شخص قتل کی نیت سے آیا تھا.ہاتھ جوڑ کر اپنی آزادی کی بھیک مانگ رہا ہے، اپنی جان بخشی کی بھیک مانگ رہا ہے.پھر جنگ احزاب ہے جس میں مسلمانوں پر انتہائی تنگی کے دن تھے.مدینہ میں رہ کر ہی دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اور یہ کسی خوف یا اللہ تعالیٰ پر تو گل کی کمی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ جنگی حکمت عملی کے تحت تھا.اور مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھودی گئی تھی کہ دشمن کے فوری طور پر یکدم حملہ کرنے سے اس خندق کی وجہ سے محفوظ رہا جا سکے.مسلمانوں کی ایسی حالت تھی ، اکثران میں سے غریب تھے ، اکثر روز کی روٹی کمایا کرتے تھے تو باوجود اس تنگی کے سب نے اکٹھے ہو کر اس خندق کی کھدائی میں حصہ لیا تا کہ ان حملوں سے محفوظ رہا جا سکے.اور تمام عرب کے بہت سارے قبائل اکٹھے ہو کر حملہ آور ہوئے تھے.مختلف روایتوں میں ان کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے.بہر حال کم سے کم تعداد بھی 10 ہزار بتائی جاتی ہے.کہیں 15 ہزار ہے، کہیں 24 ہزار ہے.ویسے تو 10 ہزار کی تعداد بھی مدینہ کی آبادی کے لحاظ سے، اس چھوٹے سے شہر کے لحاظ سے بہت بڑی تعداد ہے.بہر حال مسلمان اپنی تنگی کے حالات اور غربت کے حالات کے باوجود اس

Page 229

خطبات مسرور جلد سوم 222 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء مقابلے کے لئے اور تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اتنی بڑی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے.اور یہ حکمت عملی تھی کہ تھوڑی تعداد ہے اس لئے شہر کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل تھا.اللہ تعالیٰ نے پہلے آگاہ بھی کیا ہوا تھا.مسلمانوں کے ایمان میں مضبوطی بھی آچکی تھی کثرت کو دیکھ کر مسلمان پریشان نہیں ہوئے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تو کل نے تو مسلمانوں کو اس وقت تو کل میں اور بھی بڑھا دیا تھا.اور مخالفین اور منافقین کی باتیں سننے کے با وجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے تھے.پھر دیکھیں ثابت قدمی اور توکل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی کیسا انتظام کیا کہ آندھی اور طوفان نے کفار کو خوفزدہ کر دیا اور وہ بھاگ گئے اور بھاگے بھی ایسی افراتفری میں کہ بہت سارا اپنا سامان خوراک اور دوسرا سامان چھوڑ کر چلے گئے جو مسلمانوں کے کام آیا.تو یہ تھا اللہ تعالیٰ پر تو کل کا نتیجہ.انہیں دنوں میں جب اس جنگ کی تیاری ہو رہی تھی ، خندق کھودی جارہی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تو کل اور معجزے کی ایک اور مثال اس روایت میں ملتی ہے.حضرت جابر کہتے ہیں کہ جب ہم خندق کھودرہے تھے تو ایک سخت چٹان آئی اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ چٹان آگئی ہے.آپ نے فرمایا میں آتا ہوں.اور پھر آپ اٹھے اور اس حال میں کہ آپ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے کیونکہ ہم نے تین دنوں سے کچھ بھی نہ کھایا تھا ، رسول کریم نے کدال پکڑی اور چٹان پر ضرب لگائی تو چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی.میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں گھر سے ہو آؤں.چنانچہ آپ نے اجازت دی.حضرت جابڑا اپنے گھر آئے ، اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حالت دیکھی ہے کہ جس پر میں صبر نہیں کرسکتا.کیا تیرے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے؟.تو اس نے کہا میرے پاس کچھ جو اور ایک بکری کا بچہ ہے.میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جو پیسے یہاں تک کہ ہم نے گوشت ہنڈیا میں ڈال دیا.اور میں رسول کریم ﷺ کے پاس اس حالت میں پہنچا کہ ہنڈیا پکنے کو تیار تھی.میں نے عرض

Page 230

خطبات مسرور جلد سوم 223 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء کی یا رسول اللہ ! ہمارے ہاں کچھ کھانا تیار ہے بس آپ تشریف لے آئیں اور ایک دو اور آدمی راہ لے آئیں.آپ نے دریافت فرمایا کھانا کتنا ہے؟ میں نے صورت حال بیان کر دی تو آپ نے فرمایا کہ بہت ہے اور عمدہ ہے، كَثِیر طیب.جاؤ اور اپنی بیوی سے کہہ دو کہ اس وقت تک ہنڈیا نہ اتارے اور تنور میں روٹی نہ لگائے جب تک میں نہ آ جاؤں.پھر آپ نے اعلان کر دیا کہ سب چلو.تمام مہاجرین اور انصار چل پڑے.وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچے اور کہا تیرا بھلا ہو حضور تو سب صحابہ کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں.اس نے کہا حضور نے تم سے صورت حال پوچھی تھی ؟ انہوں نے کہا ہاں پوچھی تھی اور میں نے سب حالات بتا دیئے تھے.بہر حال حضور تشریف لائے اور آپ نے صحابہ سے فرمایا سب گھر میں آ جاؤ لیکن شور شرابہ نہیں کرنا.چنانچہ آپ روٹی اور سالن ڈال کر باری باری صحابہ کو دیتے جاتے.جبکہ آپ نے ہنڈیا اور آٹے کو ڈھانپ کے رکھا.اس کا ڈھکنا اٹھایا نہیں.اسی طرح آپ روٹی تقسیم فرماتے یہاں تک کہ سب نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور پھر بھی کھانا باقی بچ گیا اور آپ نے کہا خود بھی کھاؤ اور لوگوں کو بھی بھیجواؤ.کیونکہ کافی عرصے سے لوگوں کو بھوک برداشت کرنی پڑ رہی ہے.(بخارى كتاب المغازى - باب غزوة الخندق ) پس یہ آپ کا اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل ہی تھا جس کی وجہ سے یہ یقین تھا کہ آپ کی دعا کی برکت سے اعجاز دکھایا جائے گا.تھوڑے سے اسباب مہیا ہونے کی دیر تھی کہ سارے شہر نے ایک بکری کے بچے اور چند کلو آٹے سے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا.جب آپ کے پاس کچھ اسباب ہو جاتے تھے تو آپ ان کو استعمال کرتے تھے لیکن تو کل ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کیا کرتے تھے.آپ کی دعاؤں کی چند مثالیں میں یہاں پیش کرتا ہوں.حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز سے فارغ ہو جاتے تو یہ دعا کرتے کہ اے اللہ ! یہ میری دعا ہے اور تو اسے قبول کرنے والا ہے اور اے اللہ ! میری یہ کوشش ہے اور تو کل تجھ پر ہی ہے.(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء مايقول اذا قام من الليل الى الصلاة ) جو بھی ان کے بعد دعائیں مانگتے ان کی قبولیت

Page 231

خطبات مسرور جلد سوم 224 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005ء کے لئے دعا بھی کرتے اور پھر تو کل کا اظہار بھی کرتے.پھر حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعامانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں تیری فرمانبرداری کرتا ہوں تجھ پر ایمان لاتا ہوں، تجھ پر توکل کرتا ہوں، تیری طرف جھکتا ہوں، تیری مدد سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہوں.اے میرے اللہ ! میں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں.تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں.تو مجھے گمراہی سے بچا.تو زندہ ہے تیرے سوا کسی کو بقا نہیں.جن وانس سب کے لئے فنا مقدر ہے.(مسلم - كتاب الذكر - باب فى التعوذ من سوء القضاء ودرك الشقاء وغيره) پھر ایک دعا کا اس طرح ذکر آتا ہے کہ حضرت جابر سے روایت ہے کہ جب آپ رکوع میں جاتے تو یہ دعا کرتے تھے کہ اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ أَنْتَ رَبِّي خَشَعَ سَمْعِى وَبَصَرِى وَدَمِنْ وَلَحْمِلْ وَعَظْمِي وَعَصْبِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہ اے اللہ میں نے تیرے لئے رکوع کیا میں تجھ پر ایمان لایا، تیرے لئے مسلمان ہوا، اور تجھ پر توکل کیا.تو ہی میرا رب ہے.میری سماعت اور بصارت، خون اور گوشت اور ہڈیاں اور اعصاب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں.جو تمام جہانوں کا رب ہے.(النسائي - كتاب التطبيق – باب نوع آخر) حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ: "بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ اَنْ اضِلَّ أَوْ أَضَلَّ أَوْ أَزِلَّ أَوْ أَزَلَّ أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أَظْلَمَ اَوْ اَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ“ یعنی اللہ کے نام کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی پہ تو کل کرتا ہوں.اے میرے اللہ میں گمراہ ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوں.اسی طرح گمراہ کئے جانے سے بھی.پھسلنے اور پھیلائے جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں.اور پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے.اور اس بات سے بھی کہ میں کسی سے جہالت سے پیش آؤں اور اُس پر زیادتی کروں یا کوئی مجھ سے جہالت سے پیش آۓ.(ترمذی ابواب الدعوات باب منه دعاء : بسم الله توكلت على الله)

Page 232

خطبات مسرور جلد سوم 225 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005ء یعنی اللہ ہی پر تو کل کرتے ہوئے اللہ سے یہ دعا مانگتے تھے کہ اے اللہ ! تجھ پر توکل کرتا ہوں اس لئے مجھے ان سب برائیوں سے بچا کے رکھنا.پھر حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کے وقت نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے کہ : ”اے اللہ ! تیرے لئے ہر قسم کی تعریف ہے.تو زمین و آسمان کا نور ہے.اور تیرے لئے ہر قسم کی تعریف ہے اور تو زمین و آسمان کو قائم کرنے والا ہے.تیرے لئے ہر قسم کی تعریف ہے تو زمین و آسمان کا رب ہے اور اس کا بھی جوان کے درمیان ہے.تو حق ہے اور تیرا وعدہ بھی سچ ہے، حق ہے.اور تیری لقا بھی حق ہے اور جنت بھی حق ہے اور آگ بھی حق ہے اور قیامت بھی حق ہے.پھر فرماتے کہ اللہ ! میں نے تیری فرمانبرداری اختیار کی اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر توکل کیا اور تیری طرف ہی جھکا اور تیری خاطر ہی جھگڑا کیا اور تجھے ہی حکم بنایا.پس تو مجھے معاف فرما دے ہر وہ خطا جو مجھ سے سرزد ہوئی اور جو آئندہ ہوگی اور ہر وہ خطا جو پوشیدہ طور پر یا اعلانیہ طور پر کروں ، بخش دے وہ گناہ جومیں نے پہلے کئے اور جو بعد میں کئے اور جو میں نے نہ چھپائے اور جو میں نے ظاہر نہ کئے اور تو ہی میرا معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں.(ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء ما يقول إذا قام من الليل) گویا آپ کی ہر دعا میں اس بات کا ضرور اظہار ہوتا تھا کہ میری ہر حرکت اور ہرسکون ہر کام تجھ پر تو کل کرتے ہوئے ہی ہے.اور تیری ذات پر یقین اور توکل کے بغیر میری کوئی زندگی نہیں ہے.اور سب کچھ جو میری بہتری اور بھلائی میں ہے تجھ پر تو کل کرتے ہوئے تجھ سے ہی مانگتا ہوں.پھر دیکھیں اپنی آخری بیماری میں بھی کس طرح تو کل کا اظہار کیا.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس آپ نے سات یا آٹھ دینار رکھوائے.آخری بیماری میں فرمایا اے عائشہ! وہ سونا جو تمہارے پاس تھا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا وہ میرے پاس ہے.آپ نے فرمایا وہ صدقہ کر دو.پھر حضرت عائشہ کسی کام میں مصروف ہو گئیں.پھر ہوش آئی تو پوچھا کہ کیا صدقہ کر دیا ہے؟ انہوں نے کہا ابھی نہیں کیا.پھر آپ نے ان کو بھیجا کہ لے کے آؤ.آپ

Page 233

خطبات مسرور جلد سوم 226 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005ء نے وہ دینار منگوائے، ہاتھ پر رکھ کر گئے اور فرمایا کہ محمد کا اپنے رب پر کیا تو کل ہوا ، اگر خدا سے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ دینا ر اس کے پاس ہوں.پھر حضور نے وہ دینا صدقہ کر دیئے اور اسی روز آپ کی وفات ہوگئی.(الطبقات الكبرى لابن سعد السيرة النبوية الشريفة ذكر الدنانير التي قسمها رسول الله ﷺ في مرضه الذي مات فيه) تو آپ کو یہ فکر نہیں تھی کہ میرے بعد میرے بیوی بچوں کا کیا ہوگا.بچے تھے ، نوا سے تھے، ان کے لئے کچھ چھوڑ جاؤں.اللہ تعالیٰ پر یہ تو کل تھا کہ وہ میرے بعد میری وجہ سے ان کا بھی کفیل ہو گا ، ان کی ضروریات پوری کرتا رہے گا.اس لئے یہی حکم دیا کہ گھر میں جو کچھ ہے فوری طور پر صدقہ کر دو.پھر امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اگرتم اللہ پر توکل کرو جس طرح کہ اس پر تو گل کرنے کا حق ہے تو وہ ضرور تمہیں اسی طرح رزق دے گا جس طرح کہ پرندوں کو دیتا ہے.جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر کو ٹتے ہیں.(ابن ماجہ ابواب الزهد باب التوكل واليقين) تو یہاں آپ نے تو کل کرنے کے حق کی طرف توجہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ پر توکل کا حق اس وقت ادا ہو سکتا ہے جب اس پر کامل یقین ہو.اس کی تمام قدرتوں اور اس کی صفات پر مکمل ایمان ہو.اس کے حکموں کی مکمل تعمیل ہو رہی ہو.تو جب تقویٰ کی ایسی حالت پیدا ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اپنے بندوں کا کفیل ہو جاتا ہے، ان کی ضروریات پوری کرتا ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.آپ نے امت کو یہ خوشخبری دی.حضرت حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سعید بن جبیر کے پاس تھا انہوں نے کہا کہ مجھے ابن عباس نے بتایا کہ آنحضور نے فرمایا میرے سامنے امتیں لائی گئیں.ان کے ساتھ ان کا نبی بھی تھا.ہر نبی کے ساتھ ایک گروہ تھا.ایک نبی کے ساتھ دس لوگ تھے، ایک نبی کے ساتھ پانچ تھے ، ایک نبی کے ساتھ ایک تھا.پھر میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا.میں نے پوچھا اے جبریل! کیا یہ میری امت

Page 234

خطبات مسرور جلد سوم 227 خطبہ جمعہ 8 /اپریل 2005ء ہے.انہوں نے کہا نہیں لیکن افق کی طرف دیکھیں.میں نے دیکھا تو ایک بہت بڑا گر وہ تھا جبریل نے کہا یہ ستر ہزار ہیں جو تیری امت کے ہراول دستے کے طور پر ہوں گے اور ان سے حساب نہ لیا جائے گا، نہ انہیں عذاب دیا جائے گا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں حضرت جبریل نے کہا کہ وہ تعویذ گنڈے نہیں کرتے تھے اور نہ وہ دم درود کرتے تھے.اور نہ وہ بدشگون لیتے تھے اور اپنے رب پر توکل کرتے تھے.یہ وہ لوگ ہیں جو بے حساب جانے والے ہیں.اس پر مجلس میں بیٹھے ہوئے عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے.انہوں نے عرض کی حضور ! آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں بنا دے.تو آپ نے فرمایا : اے عکاشہ ! تو بھی ان میں شامل ہے.( بخاری کتاب الرقاق باب يدخل الجنة سبعون ألفا بغير حساب) تو آجکل کے حالات کے مطابق مسلمانوں میں تو یہ عموماً پایا جاتا ہے لیکن غیروں کی دیکھا دیکھی بعض احمدیوں میں بھی تعویذ گنڈوں پر اعتقاد پیدا ہو گیا ہے جو بالکل غلط چیز ہے.انڈیا پاکستان وغیرہ سے بھی اور بعض افریقن ممالک سے بھی بعض ایسے خط آتے ہیں جن سے ایسے لوگوں کی حالت کا پتہ لگتا ہے کہ ان کا بہت زیادہ اوٹ پٹانگ چیزوں پر اعتقاد بڑھ رہا ہے.پس اس روایت کی روشنی میں یہ دیکھیں اس سے ہمیشہ بچنا چاہئے.کیونکہ وہی لوگ جو اللہ پر توکل کرتے ہیں اور ان برائیوں سے بچنے والے ہیں ، ٹونے ٹوٹکوں سے بچنے والے ہیں.تعویذ گنڈوں سے بچنے والے ہیں ، وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں.اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنا چاہئے اور اسی کی پناہ میں رہنا چاہئے.بلکہ آپ نے تو ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ بدشگونی شرک ہے.تو آپ نے تین مرتبہ یہ بات دوہرائی اور فرمایا کہ تو کل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے دور فرما دیتا ہے.یعنی اگر تو کل کامل ہے تو پھر اگر دل میں کوئی خیال بھی پیدا ہوگا تو شاید اس تو کل کی وجہ سے دور ہو جائے.اس لئے یہ جو بدشگونی اور اس قسم کی چیزیں ہیں ان چیزوں سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ شرک کے برابر ہیں.کتنا بڑا انذار ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم کے دل کی ہر وادی میں ایک گھائی ہوتی ہے.اور جس کا دل ان سب

Page 235

خطبات مسرور جلد سوم 228 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء گھاٹیوں کے پیچھے لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کون سی وادی اس کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے.اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ سے ان سب گھاٹیوں سے بچالیتا ہے.ابن ماجه كتاب الزهد باب التوكل ) یعنی دنیا کی ہوا و ہوس، خواہشات اور لالچ کی وادیاں ہیں جن سے دل بھرا ہوا ہے.بہت سے ایسے ہیں جہاں غیر اللہ نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی بجائے دنیا کا خوف اور اس پر انحصار زیادہ ہوتا ہے.فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں ہوتی.اور خدا تعالیٰ ہر موقعہ پر دل میں خیال آنے پر ایسے مواقع پیدا کر دیتا ہے کہ اس کا بندہ بچ جائے جس کو اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : واقعات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ، اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیر نے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کوئی امید نہیں رکھتے تھے.بلکہ خدا تعالیٰ پر مکمل تو کل تھا) کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پروانہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی.اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور در داٹھانا ہو گا.بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کر کے اپنے مولیٰ کا حکم بجالائے.اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعات خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکل کر کے کھلا کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا ، اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں“.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اول صفحه 111، 112) یعنی یہ چیلنج ہے کہ ایسے حالات پیدا ہوئے.جہاں آپ کو سب سے زیادہ خطرہ تھا،

Page 236

خطبات مسرور جلد سوم 229 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005ء بے تحا شاد شنی تھی.اس کے باوجود آپ انتہائی ثابت قدمی سے اور مستقل مزاجی سے اپنے کام کو کرتے رہے اسی تو کل کی وجہ سے جو آپ کو خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا.پھر آپ فرماتے ہیں: "تبتل کا عملی نمونہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.نہ آپ کو کسی کی مدح کی پروا، نہ ذم کی.نہ کسی کی تعریف کی پرواہ تھی اورنہ یہ پرواہ کہ کوئی برا کہتا ہے یا نہیں کہتا.کیا کیا آپ کو تکالیف پیش آئیں مگر کچھ بھی پرواہ نہیں کی.کوئی لالچ اور طمع آپ کو اس کام سے نہ روک سکا جو آپ خدا کی طرف سے کرنے آئے تھے.جب تک انسان اس حالت کو اپنے اندر مشاہدہ نہ کرلے اور امتحان میں پاس نہ ہو لے کبھی بھی بے فکر نہ ہو.پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو شخص متبتل ہوگا متوکل بھی وہی ہوگا.“ ( یعنی جو خدا کی طرف کو لگانے والا ہوگا اور دنیا کو کچھ نہیں سمجھتا وہی اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا بھی ہوگا.) ” گویا متوکل ہونے کے واسطے متبتل ہونا شرط ہے.کیونکہ جب تک اوروں کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ ان پر بھروسہ اور تکیہ کرتا ہے اس وقت تک خالصتا اللہ پر توکل کب ہو سکتا ہے.جب خدا کی طرف انقطاع کرتا ہے تو وہ دنیا کی طرف سے توڑتا ہے اور خدا میں پیوند کرتا ہے“.( جب اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑو گے تو دنیا سے تعلق توڑو گے ).اور یہ تب ہوتا ہے جبکہ کامل تو کل ہو.جیسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل متل تھے ویسے ہی کامل متوکل بھی تھے.اور یہی وجہ ہے کہ اتنے وجاہت والے اور قوم و قبائل کے سرداروں کی ذرا بھی پروا نہیں کی اور ان کی مخالفت سے کچھ بھی متاثر نہ ہوئے.آپ میں ایک فوق العادت یقین خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا.اسی لئے اس قدر عظیم الشان بوجھ کو آپ نے اٹھا لیا اور ساری دنیا کی مخالفت کی اور ان کی کچھ بھی ہستی نہ کبھی.یہ بڑا نمونہ ہے تو کل کا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.اس لئے کہ اس میں خدا کو پسند کر کے دنیا کو مخالف بنالیا جاتا ہے.مگر یہ حالت پیدا نہیں ہوتی جب تک گویا خدا کو نہ دیکھ لے، جب تک یہ امید نہ ہو کہ اس کے بعد دوسرا دروازہ ضرور کھلنے والا ہے.جب یہ امید اور یقین ہو جاتا ہے تو وہ عزیزوں کو خدا کی راہ میں دشمن بنالیتا ہے.اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اور دوست بنادے گا.جائیدا دکھو دیتا ہے کہ

Page 237

خطبات مسرور جلد سوم 230 خطبہ جمعہ 8 اپریل 2005 ء اس سے بہتر ملنے کا یقین ہوتا ہے.(اللہ تعالیٰ کی خاطر اگر جائیداد جاتی ہے تو اس سے بہتر ملنے کی امید ہوتی ہے ).خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدا ہی کی رضا کو مقدم کرنا تو تبتل ہے اور پھر تبتل اور تو کل تو ام ہیں.یعنی تبتل کا راز تو گل ہے اور تو گل کی شرط ہے تبتل.یہی ہمارا مذ ہب اس امر میں ہے.(الحكم جلد 5 نمبر 37 صفحه 3 پرچہ 10 اکتوبر 1901ء) اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے اور اسی پر تو کل کرنے والے بنیں.谢谢谢

Page 238

خطبات مسرور جلد سوم 231 (14) خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء آنحضرت صلی اللہ وسلم کا خلق عظیم عیادت و تیمار داری خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن ،لندن.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوْفٌ رَّحِيمُ (العربة : 128) پھر فرمایا:.یقیناً تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو اور وہ تم پر بھلائی چاہتے ہوئے حریص رہتا ہے، مومنوں کے لئے بے حد مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہاں غیروں اور اپنوں کی روحانی اصلاح کے لئے اور ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے بے چین رہتے تھے وہاں مخلوق کی تکلیف کی وجہ سے اس سے ہمدردی کا بھی بے پناہ جذبہ تھا جو آپ کے دل میں بھرا ہوا تھا.دوسرے کی تکلیف کا احساس آپ کو اپنی تکلیف سے زیادہ تھا بلکہ اپنی تکلیف کا احساس تو تھا ہی نہیں.ہر وقت اس فکر میں ہوتے تھے کہ کہاں مجھے موقع ملے اور میں اللہ کی مخلوق سے ہمدردی کروں، اس کے کام آؤں، ان کے

Page 239

خطبات مسرور جلد سوم 232 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005ء لئے دعائیں کروں، ان کی تکلیفوں کو دور کروں.اب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں کہ یہ رسول تمہاری بھلائی کا حریص رہتا ہے.یہ حریص کوئی محدود معنی والا لفظ نہیں ہے جیسے ہم کہہ دیں کہ لالچ میں رہتا ہے.گو یہ لالچ میں رہنا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے.دنیالالچ کرتی ہے تو اپنے لئے کرتی ہے کہ ہمیں فائدہ پہنچ جائے ، ہماری تکلیفیں دور ہو جائیں لیکن ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ لالچ کر رہے ہیں تو دوسروں کے لئے کہ ان کو فائدہ ہو، ان کی تکلیفیں دور ہوں.بہر حال اس لفظ کے اور بھی بڑے وسیع معنی ہیں.یعنی بڑی شدت سے یہ خواہش کرنا کہ کسی بھی طرح دوسرے کو فائدہ پہنچا سکوں اور اس میں ذاتی دلچسپی لینا اور پھر اس معاملے میں نہایت احتیاط سے دوسرے کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس کے لئے درد اور ہمدردی رکھنا ، اس کے لئے خود تکلیف برداشت کرنا.تو یہ رویہ ہوتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر.اور پھر اس تکلیف کو دور کرنے کے لئے آپ تمام ذرائع اور وسائل استعمال کرتے تھے.اور ان تکلیفوں کو دور کرنے اور دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے آپ کے دل میں بے انتہا مہر بانی کے جذبات ہوتے تھے اور اس سے آپ کبھی نہیں تھکتے تھے.اور دوسروں کے لئے ہمدردی اور رحم کے جذبات کا آپ کا ایک ایسا وصف تھا کہ اس وصف کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا.بے حد مہربان ہونے اور بار بار رحم کرنے کی خدائی صفت کا انسانوں میں کامل اور اعلیٰ نمونہ صرف اور صرف آپ کی ذات میں تھا جس کی اللہ تعالیٰ بھی گواہی دے رہا ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”جذب اور عقد ہمت ایک انسان کو اُس وقت دیا جاتا ہے ( یعنی تکلیفوں کو محسوس کرنے کی طاقت اور تکلیف دور کرنے کا احساس اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے آ جاتا ہے اور ظل الله بنتا ہے.پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں گل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لئے آپ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ

Page 240

خطبات مسرور جلد سوم 233 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005ء یعنی یہ رسول تمہاری تکالیف کو دیکھ نہیں سکتا، وہ اس پر سخت گراں ہے ( بہت تکلیف دہ ہے ) اور اُسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں“.(الحكم جلد 6 نمبر 26 صفحه 6 مورخه 24/ جولائی 1902ء) پس اس سے دوسروں کے لئے آپ کے جذبات کی جو کیفیت ہوتی تھی اس کی مزید وضاحت ہو گئی.انسان کو آنے والی مختلف قسم کی تکلیفیں ہیں، پریشانیاں ہیں، ان میں سے ایک تکلیف، جس کا کم و بیش ہر ایک کو سامنا ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہر ایک کو کسی نہ کسی صورت میں یہ تکلیف پہنچتی ہے، وہ جسمانی عوارض یا بیماری ہے.تو آج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے اس پہلو کولوں گا کہ آپ مریضوں کی عیادت ، تیمار داری اور دعاؤں کی طرف کس طرح توجہ فرمایا کرتے تھے.آپ کے اُسوہ سے ہمیں یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنی تکلیف کے لئے وہ جذبات نہیں ہوتے تھے جو دوسرے کی تکلیف کے لئے ہوتے تھے.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس درد سے دعائیں کیا کرتے تھے کہ جس کی مثال ملنی بھی مشکل ہے.چند مثالیں اس کی پیش کرتا ہوں، چند واقعات کہ کس طرح آپ مریضوں کے لئے دعا کیا کرتے تھے، کس طرح جا کے ان کو پوچھا کرتے تھے، کیا آپ کا طریق ہوتا تھا.لیکن اس سے پہلے ایک صحابی کی یہ گواہی میں بتا دوں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی یہ گواہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں سے بہترین عیادت کرنے والے تھے.(سنن نسائی -كتاب الجنائز - باب عدد التكبير على الجنازة) پس اس سے ظاہر ہے کہ آپ اپنوں سے بھی بڑھ کر ہمدردی کے ساتھ مریض کی عیادت کیا کرتے تھے.چھوٹی موٹی تکلیفیں تو انسان کو لگی رہتی ہیں.اُس میں بھی آپ پوچھا کرتے تھے جب کسی سے رابطہ ہوتا لیکن اگر دو تین دن سے زیادہ کوئی بیمار ہوتا اور آپ کے علم میں یہ بات آتی تو آپ فوراً اس کی عیادت کے لئے جاتے اور اس کے لئے دعا کرتے.چنانچہ اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ

Page 241

خطبات مسرور جلد سوم 234 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005ء عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے تین دن سے زائد بیمار رہنے کی صورت میں اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے.(سنن ابن ماجه.کتاب الجنائز - باب ما جاء في عيادة المريض) جیسا کہ پہلی روایت میں آتا ہے کہ آپ سے بڑھ کر کوئی عیادت کرنے والا نہیں تھا.جب آپ اتنے پیار اور محبت سے مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے ہوں گے تو مریض کی آدھی بیماری تو اس وقت خود ہی دور ہو جاتی ہوگی.عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ڈاکٹر مریض کو توجہ سے دیکھ لے، اس کی بات غور سے سن لے تو اس مریض کی آدھی بیماری دور ہو جاتی ہے.اور وہی ڈاکٹر ان کو پسند آتے ہیں جو اس طرح ان کو توجہ سے دیکھ بھی رہے ہوں اور ان کی باتیں بھی سن رہے ہوں.تو جو سب طبیبوں سے بڑھ کر اور سب ڈاکٹروں سے بڑھ کر طبیب ہے اس کے آنے سے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مریض بہتری محسوس نہ کر رہا ہو.جو انتہائی توجہ سے مریض کی بات کو بھی سنتا تھا اس کے لئے دعا بھی کرتا تھا.مریض کے علاج میں برکت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کا اذن نہ ہو تو دوائی میں شفا نہیں ہوتی.دوائی میں شفا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہے.تو آپ کا یہ طریق تھا کہ جب بھی مریض کے پاس جاتے تو اس کے لئے سب سے پہلے دعا کرتے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی کسی بیوی کی عیادت کے لئے آتے تو اپنا دایاں ہاتھ اس پر پھیرتے اور یہ دعا کرتے " أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ انْتَ الشَّافِى - لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُ كَ شِفَاءٌ لَا يُغَادِرُ سَقَمًا.کہ اے میرے اللہ ! جولوگوں کا رب ہے اس بیماری کو دور کر دے.اور تو شفا دے کہ تو ہی شفا دینے والا ہے.تیری شفا کے سوا کوئی اور شفا نہیں.تو اسے ایسی شفادے جو بیماری کا کچھ بھی اثر نہ چھوڑے.(مسلم) - كتاب السلام - باب استحباب رقية المريض) اور یہ صرف اپنے گھر والوں کے لئے خاص نہیں تھا بلکہ دوسرے مریضوں کے ساتھ بھی آپ کا یہی سلوک تھا.جب بھی مریض کی عیادت کے لئے جاتے تو ان کے لئے ضرور دعا کرتے.

Page 242

خطبات مسرور جلد سوم 235 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء چنانچہ اپنے صحابہ سے شفقت اور ان کی بیماری میں ان کے لئے دعا کرنے کے بارے میں روایت میں آتا ہے، حضرت عائشہ بنت سعد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے ابا نے بیان کیا کہ میں مکہ میں شدید بیمار ہو گیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے اور میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں مال چھوڑ کر جا رہا ہوں مگر میری وارث صرف ایک بیٹی ہے.تو اس پر انہوں نے پوچھا کہ اس کے لئے کتنی جائیداد چھوڑ دوں.خیر یہ جائیداد کی باتیں ہوتی رہیں.آنحضور نے فرمایا کتنی چھوڑنی ہے.یہاں اس وقت کیونکہ بیماری کے حصے سے تعلق ہے اتنا حصہ میں بتا دیتا ہوں.تو کہتے ہیں کہ پھر یہ باتیں کرنے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میری پیشانی پہ رکھا.پھر میرے چہرے اور پیٹ پر اپنا دست مبارک پھیرتے ہوئے يد دعا کی اَللّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَاتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ کہ اے اللہ سعد کو شفا دے اور اس کی ہجرت کو پورا فرما.حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اب بھی جب میں اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کرتا ہوں.(الادب المفرد للبخارى -باب العيادة جوف الليل) پھر ابن منکدر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے مجھے بیہوش پایا.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوفر ما یا پھر اپنے وضو کا بقیہ پانی میرے اوپر انڈیل دیا تو اس سے مجھے افاقہ ہو گیا.جب مجھے ہوش آیا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس پایا.(الادب المفرد للبخارى - باب عيادة المغمى عليه ) تو تیز بخار کو توڑنے کے لئے پانی سے علاج کیا جاتا ہے اب بھی پانی کی پٹی کی جاتی ہے.لیکن یہ پانی جو تھا یہ تو دعاؤں سے بھرا ہوا تھا اور وضو بھی شاید آپ نے اس لئے فرمایا تھا کہ اس وقت آپ ان کے لئے خاص دعا کرنا چاہتے ہوں گے.پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم

Page 243

خطبات مسرور جلد سوم 236 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء حاضر تھے کہ ایک انصاری آیا تو حضور نے اس سے پوچھا کہ میرے بھائی سعد بن عبادہ کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ بہتر ہے.اس پر حضور نے فرمایا اس کی عیادت کے لئے تم میں سے کون کون چلے گا.چنانچہ حضور اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم تیرہ کے قریب افراد حضور کے ساتھ چل پڑے اور حضرت سعد بن عبادہ کی خیریت معلوم کی.(صحيح مسلم - كتاب الجنائز - باب في عيادة المرضى) تو ایک تو اپنے ساتھیوں کو یہ احساس دلانے کے لئے آپ ساتھ لے گئے کہ مریض کی عیادت کرنی چاہئے ، اس کی بیمار پرسی کرنی چاہئے.اور پھر جو آپ کا دعا کا عمومی طریق تھا اس لئے بھی کہ لوگ میرے ساتھ ہوں گے تو ہم دعا کریں گے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس دعا میں شامل ہو جائیں گے.بیماری میں انسان کے جذبات بہت حساس ہوتے ہیں.جو وطن سے دور ہوں انہیں اس حالت میں وطن بھی بہت یاد آتا ہے.حضرت ابو بکر اور حضرت بلال ایک دفعہ بیمار ہوئے تو ان کے جذبات کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی جس کی تفصیل کے بارے میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال کو بخار ہو گیا.تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں ان کی عیادت کے لئے گئی تو میں نے حضرت ابوبکر کو مخاطب کر کے کہا: اتا! آپ کا کیا حال ہے اور اے بلال! تمہارا کیا حال ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکر کو بخار ہوتا تھا تو آپ یہ شعر بڑھا کرتے تھے کہ كُلُّ امْرِي مُصَبَّحَ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ کہ ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے.اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا بخار جب ٹوٹتا تھا وہ اپنی چادر اٹھا کر مکہ کو یاد کر کے جو شعر پڑھتے تھے اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہائے مجھ پر وہ دن بھی آئے گا جب میں رات ایسی وادی میں گزاروں گا جب میرے ارد گر دا ذخر گھاس اور جلیل اُگی ہوگی.“

Page 244

خطبات مسرور جلد سوم 237 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکر اور بلال رضی اللہ عنھما کا یہ حال دیکھا تو میں نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے آگاہ کیا.اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی.اے اللہ ! ہمیں مدینہ ، مکہ سے بھی زیادہ محبوب بنا دے اور اس کی آب و ہوا درست فرما دے اور ہمارے لئے اس کے صاع اور مد میں برکت دے دے (یعنی جو پیمانے تھے ) اور اس کی بیماری کو جُحفہ کے علاقے میں منتقل فرما دے، دور کر دے.الادب المفرد للبخارى - باب ما يقول للمريض) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جذبات کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف بیماری سے شفا کی دعا کی بلکہ وطن سے دوری کی وجہ سے جو ان میں بے چینی تھی اس کو دور کرنے کے لئے مدینہ سے محبت پیدا کرنے کی بھی دعا کی.پھر دعاؤں کے سلسلے میں ہی اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تھا تو اس پر حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم معوذات یعنی قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر دم کیا کرتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں بیمار ہوئے تو میں بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر یہ سورتیں پڑھ کر دم کرتی اور آپ ہی کے ہاتھ آپ کے بدن پر پھیر دیتی تھی کیونکہ آپ کے ہاتھ میرے ہاتھوں سے زیادہ برکت والے تھے.(مسلم كتاب السلام باب رقية المريض بالمعوذات والنفث) یہ سبق جو آپ نے سکھائے تھے اس کو صحابہؓ بھی استعمال کیا کرتے تھے.پھر ایک روایت ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی اس کے بخار کی حالت میں عیادت کی اور اسے مخاطب کر کے فرمایا : مبارک ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بخار میری آگ ہے میں اسے اپنے گناہ گار بندے پر اس لئے مسلط کرتا ہوں تا کہ جہنم کی آگ میں سے اس کا جو حصہ ہے وہ اسے اسی دنیا میں مل جائے.(ترمذى - كتاب الطب- باب التَّداوى بالرَّماد)

Page 245

خطبات مسرور جلد سوم 238 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء تو اس طرح سے آپ نے اسے تسلی بھی دی اور صبر کی تلقین بھی فرمائی.تو بیمار کو اس کے مناسب حال اور اس کے ایمان کی حالت کے مطابق مختلف لوگوں کو مختلف تسلی کے الفاظ بھی فرمایا کرتے تھے.پھر حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب میری آنکھوں میں تکلیف تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے تھے.(ابوداؤد - كتاب الجنائز - باب العيادة من الرمد اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ غزوہ خندق میں جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو کسی دشمن نے بازو پر نیزہ مارا جس سے آپ کی رگ کٹ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خیمہ مسجد نبوی میں ہی لگوادیا تا کہ قریب سے ان کی تیمار داری کر سکیں.(ابوداؤد كتاب الجنائز باب في العيادة مرارًا) تو یہ زخم علاج کے باوجود جب ٹھیک نہیں ہورہا تھا تو آپ نے اس محبت کی وجہ سے جو آپ کو صحابہ سے تھی یہی مناسب سمجھا کہ اپنے قریب رکھوں تا کہ علاج کی بھی نگرانی ہوتی رہے اور مجھے تسلی بھی رہے اور خود حضرت سعد کی تیمارداری بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرسکیں.اور یہ بھی روایت میں ہے کہ آپ نے ان کے لئے ایسا بھی انتظام فرما دیا تھا کہ با قاعدہ ایک نرس کا انتظام کر دیا تھا جو ان کا علاج کرے، با قاعدہ پٹی کرے، دیکھ بھال کرے.اور مسجد نبوی میں ایسے خیمے لگے ہوئے تھے جہاں جنگ کے بعد مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے انتظام ہوتا تھا اور وہیں ان کی با قاعدہ نرسنگ وغیر ہ بھی ہوا کرتی تھی.پھر حضرت ام علاء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں بیمار تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لئے میرے ہاں تشریف لائے اور میری تسلی کے لئے فرمایا کہ ام علاء ! بیماری کا ایک پہلوخوش کن بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مرض کی وجہ سے ایک مسلمان کی خطائیں اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح آگ سونے اور چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے.(ابوداؤد - كتاب الجنائز - باب عيادة النساء )

Page 246

خطبات مسرور جلد سوم 239 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء دیکھیں کس طرح سے مریضوں کو تسلی دیتے رہتے تھے.اس بات کو آپ اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ بیماری کی وجہ سے بیماری کو کو سنے دیئے جائیں، بیماری کو برا بھلا کہا جائے کہ یہ کیا کمبخت بیماری آگئی ہے، جس طرح بعضوں کو عادت ہوتی ہے.حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُمّم سائب کے پاس گئے تو ان کو تکلیف میں دیکھا.اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے.اُمّم سائب نے جواب دیا کہ بخار ہو گیا ہے، خدا اسے غارت کرے.یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہرو، بخار کو گالیاں نہ دو کیونکہ یہ مومن کی خطائیں ویسے ہی دور کر دیتا ہے جس طرح بھٹی سونے کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے.(الأدب المفرد للبخاري - باب عيادة المرضى) اللہ تعالیٰ سے شفا کی دعا ضرور کرنی چاہئے اور آپ خود بھی مریضوں کے لئے کیا کرتے تھے لیکن اس طرح کو سنے نہیں دینے چاہئیں.دعا اور صدقہ و خیرات سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنی چاہئے.اور بیماری پر جو صبر کی تلقین تھی وہ صرف دوسروں کے لئے نہیں تھی بلکہ اگر خود بھی کبھی بیمار ہوتے تھے یا تکلیف میں ہوتے تھے تو سب سے بڑھ کر صبر دکھانے والے تھے.آپ کی بیماری کے واقعہ کا ذکر ایک روایت میں یوں آتا ہے.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ اس حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار تھا اور وہ چادر لے کر لیٹے ہوئے تھے.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے آپ کی چادر کے اوپر ہاتھ رکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بخار کی حرارت چادر کے اوپر سے محسوس کی.کافی تیز بخار تھا.تو حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! آپ کو کتنا سخت بخار ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم پر اسی طرح شدید آزمائشیں آتی ہیں اور اجر بھی ہم کو بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے.تو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن لوگوں کو سب سے زیادہ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء کو.پھر ان کے بعد صلحاء کو اور صالح لوگوں میں سے کسی کو غربت سے آزمایا

Page 247

خطبات مسرور جلد سوم 240 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء جاتا ہے اور غربت کے باعث کبھی تو اس کے پاس پہننے کو صرف جبہ ہی ہوتا ہے جس سے وہ لباس کا بھی اور جبہ کا بھی کام لیتا ہے.اور کبھی اسے جوؤں سے آزمایا جاتا ہے اور یہ اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اسے قتل ہی کر دیتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک آزمائش پر اتنا خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی کسی چیز کو پانے سے خوش ہوتا ہے.(الأدب المفرد للبخارى -باب هل يكون قول المريض ” انى وجع“ شكاية) تو یہ ہے آپ کا اسوہ کہ بیماری پر صبر اور اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکنا.انبیاء تو پاک ہوتے ہیں اور آپ تو سب سے بڑھ کر پاک تھے.آپ نے تو فرمایا کہ میرا تو شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے.تو انبیاء کو جو بیماری ہو ، بخار ہو وہ گناہوں سے پاک کرنے کے لئے نہیں بلکہ صبر ورضا کا ایک نمونہ دکھانے کے لئے ہوتی ہے تا کہ ماننے والوں کو بھی پتہ لگے کہ یہ صرف نصیحتیں کرنے والے نہیں بلکہ خود بھی ان پر عمل کرنے والے اور اسی صبر و رضا کے پیکر ہیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے آپ کے صحابہ بھی بیماریوں میں دعاؤں پر زور دیا کرتے تھے اور یہی طریق آگے پھیلاتے تھے.عبدالعزیز روایت کرتے ہیں کہ میں اور ثابت ، انس بن مالک رضی اللہ عنہما کے پاس گئے.ثابت نے کہا اے ابوحمزہ ! میں بیمار ہو گیا ہوں.اس پر انس نے کہا کیا میں آپ پر وہ دم نہ کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار کو کیا کرتے تھے.انہوں نے کہا کیوں نہیں.پھر حضرت انس نے ان الفاظ میں دم کیا.اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَأْسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي - لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ - شِفَاءٌ لَا يُغَادِرُ سَقَمًا (بخارى - كتاب الطب- باب رقية النبي (ﷺ) کہ اے اللہ ! جولوگوں کا رب ہے، تکلیف کو دور کرنے والا ہے.شفا عطا کر دے کیونکہ تو ہی شفا دینے والا ہے.تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں.اس کو ایسی شفا عطا کر کہ بیماری کا کچھ بھی اثر باقی نہر ہے.تو مریض کو خود بھی اپنی بیماری کے لئے دعا کرنی چاہئے بجائے اس کے کہ اپنی بیماری کو کو سنے دے.اور دوسرے بھی جو عیادت کے لئے جائیں ان کو اس کے لئے دعا کرنی چاہئے اور

Page 248

خطبات مسرور جلد سوم 241 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء اسی طرح دعا کے ساتھ صدقات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں بڑی توجہ دلائی ہے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے مریضوں کا علاج صدقات کے ساتھ کرو یہ تم سے بیماریوں اور آنے والے ابتلاؤں کو دور رکھتا ہے.(کنز العمال) كتاب الطب - حدیث نمبر 28182) تو ایک تو بیماری کی صورت میں صدقات کا حکم ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا علاج ہے.پھر بیماریوں اور بلاؤں سے بچنے کے لئے بھی اس طرف توجہ دلائی کہ صدقات دیتے رہنا چاہئے.کیونکہ اگر چھوٹے موٹے ابتلاء آتے بھی ہیں تو ان دعاؤں اور صدقات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے بدنتائج سے محفوظ رکھتا ہے.پھر آپ مریضوں کی عیادت کے وقت اس کی خواہش کے مطابق خوراک کے انتظام کی بھی کوشش فرمایا کرتے تھے.مریض کے بارے میں کوئی پہلو ایسا نہیں جس کو آپ نے چھوڑا ہو.اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی عیادت کی اور اس سے دریافت فرمایا کہ تمہیں کس چیز کی خواہش ہے.اس نے عرض کی کہ میں گندم کے آٹے کی روٹی کھانا چاہتا ہوں.(اس وقت) یہ ایسی خوراک تھی جو ہر ایک کو میسر نہیں ہوتی تھی.اس کی بات سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس گندم کے آٹے کی روٹی ہو تو وہ اپنے اس بھائی کو لا کر دے.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا مریض کسی چیز کے کھانے کی خواہش کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے کھلائے.(سنن ابن ماجه - كتاب الجنائز باب ما جاء في عيادة المريض) پھر اسی طرح کی ایک اور روایت ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے دریافت فرمایا تمہارا کوئی چیز کھانے کو دل کرتا ہے؟ پھر خودہی فرمایا کیا تم دودھ شکر میں گوندھے

Page 249

خطبات مسرور جلد سوم 242 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005ء ہوئے گندم کے آٹے کی روٹی کھانا پسند کرتے ہو؟ ( میٹھی روٹی بڑی مزیدار ہوتی ہے ) تو اس مریض نے کہا کہ ہاں! چنانچہ انہوں نے اس مریض کی مطلوبہ روٹی مہیا کرنے کا ارشاد فرمایا.(سنن ابن ماجه - كتاب الجنائز - باب ما جاء في عيادة المريض) بعض ڈاکٹر مریضوں کو بعض چیزیں کھانے سے منع کرتے ہیں.لیکن آپ مریض کی خواہش پوری کرنے کی نصیحت فرمایا کرتے تھے.مریض کی خوراک تو ویسے بھی بیماری میں بہت مختصر سی ہو جاتی ہے، تھوڑی سی رہ جاتی ہے.ایک مریض کتنا کھا سکتا ہے جس سے نقصان ہو.تو جب ڈاکٹر پابندیاں لگاتے ہیں تو اس کو مزید کمزور کر دیتے ہیں.لیکن اب ڈاکٹر ز بھی اس طرف آ رہے ہیں بلکہ اب تو اکثر یہ کہتے ہیں کہ خوراک کھانے کی جو مریض کی خواہش ہو تو وہ اس کو دے دینا چاہئے ، کھانا چاہئے.لیکن ہمارے ہاں جو حکیم ہیں وہ اس بارے میں بڑے پکتے ہیں اور ان کی کوئی بھی دوائی کھا ئیں تو ایک فہرست مہیا کر دیں گے کہ یہ یہ چیزیں نہیں کھانی.وہ چیز نہ کھا کر اتنی احتیاطیں کر کے تو ویسے بھی یا تو مریض نہیں رہے گا یا مرض نہیں رہے گا.پھر مریضوں کو بھی شفا پانے کے لئے دعاؤں کے سلیقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے.چنانچہ حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عیادت فرمائی جو بیماری کے باعث کمزور ہوتے ہوئے چوزے کی طرح ہو گیا تھا.بہت مختصر سا ہو گیا.تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کر کے فرمایا.کیا تم کوئی خاص دعا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں.پھر اس نے بتایا کہ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا ہے وہ مجھے اس دنیا میں دے دے.یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سُبْحَانَ اللہ.تم اس کی طاقت نہیں رکھتے.تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے کہ اَللَّهُمَّ تِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ اے اللہ ! تو ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.تو راوی کہتے ہیں کہ جب اس مریض نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا فرما دی.(مسلم) كتاب الذكر والدعاء باب كراهة الدعاء بتعجيل العقوبة في الدنيا ) |

Page 250

خطبات مسرور جلد سوم 243 تو اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دونوں جہان کی بھلائیاں مانگنی چاہئیں.خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005ء جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ جہاں جسمانی بیماری کو دیکھ کر آپ بے چین ہو جاتے تھے تسلی دیتے تھے، دعا کرتے تھے وہاں روحانی مریضوں کے لئے بھی بے چینی ہوتی تھی.اور جن سے کوئی تعلق ہوتا تھا ان کے لئے تو خاص طور پر آپ کے بڑے درد بھرے جذبات ہوا کرتے تھے.کوشش ہوتی تھی کہ وہ بھی کسی طرح پاک دل ہو جائیں اور جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو اس کی رحمت کی نظر اُن پر پڑے.ایک حدیث میں ایک واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم تھا وہ بیمار ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.اس کے سرہانے بیٹھ کر حال احوال پوچھا اور اسلام قبول کرنے کی بھی تحریک فرمائی.لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو پاس ہی بیٹھا تھا.اس کے باپ نے کہا ابو القاسم کی بات مان لو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ لقب تھا) تو چنا نچہ اس نے اسلام قبول کر لیا.حضور خوش خوش وہاں سے یہ کہتے ہوئے واپس آئے کہ سب تعریفیں اس جل شانہ کے لئے ہیں جس نے اس نوجوان کو دوزخ کی آگ سے بچالیا.(بخاری - کتاب الجنائز - باب اذا اسلم الصبى فمات، هل يصلّى عليه ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ مریض کے پاس عیادت کرنے کے سلسلے میں شور وغل نہ کرو اور نہ مریض کے پاس زیادہ بیٹھو کیونکہ مریض کے پاس کم بیٹھنا سنت ہے.(مشكوة المصابيح كتاب الجنائز، الباب الأوّل ، الفصل الثالث حديث نمبر (1589) تو مریض کے کمرے میں شور شرابہ کرنا، بڑی دیر تک جمگھٹا لگا کر بیٹھ رہنا ، یہ آپ علی کے عمل کے خلاف تھا.مریض کی عیادت کرنے کے بعد واپس آ جانا چاہئے.اور گھر کے جو افراد تیمارداری کر رہے ہیں انہیں کو وہاں رہنا چاہئے.یا اگر ہسپتال میں ہیں تو ہسپتال کے انتظام کے تحت.بعض دفعہ عزیز رشتہ دار ہسپتالوں میں بھی اتنارش کر دیتے ہیں کہ ساتھ کے دوسرے مریض

Page 251

خطبات مسرور جلد سوم 244 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء بھی ان کے بچوں اور ان کے اپنے شور سے ڈسٹرب ہونا شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر ایسی صورت میں بعض دفعہ ہسپتال کی انتظامیہ کو سختی بھی کرنی پڑتی ہے.ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ رش کرنے کی عموماً عادت ہے.بعض اوقات مریض کے پاس زیادہ رش کرنے کی وجہ سے لوگوں کی سانسوں کی وجہ سے، مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں، فضا بھی اتنی صاف نہیں رہتی جس سے مریض کی تکلیف بڑھنے کا بھی امکان ہوتا ہے.اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھیں ہمارے سامنے پہلے ہی یہ اسوہ رکھ دیا کہ مریض کی عیادت کرو، اس کو تسلی دو، اس کے لئے دعا کرو اور واپس آ جاؤ.وہاں بیٹھ کے مجلسیں نہ جاؤ.اسی طرح ان کے علاوہ مریض کے گھر والوں کو بھی جو تیمار داری کر رہے ہیں زیادہ رش نہیں کرنا چاہئے.پھر اپنی امت کو بھی آپ نے اس خلق کو اپنانے اور مریضوں کی عیادت کرنے کی طرف توجہ دلائی.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم ! میں بیمار ہوا تھا تو نے میری عیادت نہیں کی.اس پر وہ جواب دے گا تو رب العالمین ہے تو کیسے بیمار ہوسکتا ہے اور میں تیری عیادت کس طرح کرتا.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے اور تو اس کی عیادت کے لئے نہیں گیا تھا.کیا تجھے یہ سمجھ نہ آئی کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا اور اس کی عیادت میری عیادت ہوتی.(مسلم - كتاب البر والصلة - باب فضل عيادة المريض) پس مریضوں کی عیادت کرنا بھی خدا تعالیٰ کے قرب کو پانے کا ایک ذریعہ ہے.ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے.خاص طور پر جو ذیلی تنظیمیں ہیں ان کو میں ہمیشہ کہتا ہوں.خدمت خلق کے جو اُن کے شعبے ہیں لجنہ کے، خدام کے، انصار کے ایسے پروگرام بنایا کریں کہ مریضوں کی عیادت کیا کریں، ہسپتالوں میں جایا کریں.اپنوں اور غیروں کی ،سب کی عیادت کرنی چاہئے اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ بھی ایک سنت کے مطابق ہے.اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعے ہم اختیار کریں.

Page 252

خطبات مسرور جلد سوم 245 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ عیادت کس طرح کرو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیادت کا ایک عمدہ طریق یہ ہے کہ آدمی مریض کے پاس جائے ، اس کی پیشانی یا اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس سے پوچھے کہ اس کی طبیعت کیسی ہے.اور آپس میں ملنے ملانے کا عمدہ طریق یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملتے وقت مصافحہ کرو تو اس طرح ایک اپنائیت اور محبت کا احساس اور بڑھے گا.(ترمذى - أبواب الأدب - باب ما جاء في المصافحة ) پھر ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ آپ نے صحابہ کو حکم دیا تھا کہ بیماروں کی عیادت کیا کرو.پس ہم سب کو اس حکم کی بھی تعمیل کرنی چاہیئے.(بخاری ، کتاب المرضى ، باب وجوب عيادة المريض) پھر آپ نے فرمایا جب کسی مریض کی عیادت کو جاؤ یا کسی کے جنازے میں شرکت کرو تو زبان سے خیر کے کلمات کہو کیونکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہہ رہے ہوتے ہیں.(صحيح مسلم - كتاب الجنائز - باب مايقول عند المريض والميت) تو وہاں بھی اچھی باتیں کرو.دعائیں کرو اپنے لئے بھی ، مریض کے لئے بھی.پھر عیادت کی ترغیب دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا جس کی روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مریض کی عیادت کرتا ہے.یا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی بھائی سے ملنے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی یہ صدا لگاتا ہے کہ تو خوش رہے، تیرا چلنا مبارک ہو، جنت میں تیرا ٹھکانا ہو.(سنن ابن ماجه -كتاب الجنائز - باب ماجاء في ثواب من عاد مريضًا ) اصل میں تو یہ ایک انسان کا دوسرے انسان کے لئے ہمدردی اور نیک جذبات کے اظہار کا اعلان ہے.پس ان جذبات کو پھیلانے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے.تبھی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا ، اس کی جنتوں کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مریضوں کی عیادت فرماتے تو بعض اوقات بعض نسخے

Page 253

خطبات مسرور جلد سوم 246 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء بھی تجویز فرمایا کرتے تھے.ان کا روایات میں ذکر ملتا ہے.چند ایک کا میں ذکر کرتا ہوں یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ آپ کو مریضوں کی کتنی فکر رہا کرتی تھی.ان کے علاج معالجے ، خوراک وغیرہ کا بھی خیال رکھتے تھے اور بعض بیماریوں کا علاج بھی فرمایا کرتے تھے.ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس سیاہ دانے یعنی کلونجی میں ہر مرض سے نجات دینے کے لئے شفار کھ دی گئی ہے سوائے موت کے.(بخاری -كتاب الطب – باب الحبة السوداء) تو آپ " بعض لوگوں کو بعض بیماریوں کے لئے نسخے تجویز بھی فرمایا کرتے تھے کہ یہ کھاؤ.سنا ہے یہ دردوں کے لئے بڑی اچھی چیز ہے.اور بیماریوں کے لئے بھی ہوگی جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.پھر ایک دفعہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی کہ میرے بھائی کے پیٹ میں تکلیف ہے.اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ اس کو شہد پلاؤ.وہ شخص دوبارہ حاضر ہوا، تکلیف دورنہ ہوئی تھی.فرمایا اور شہد پلاؤ.تکلیف نہیں دور ہوئی.پھر وہ تیسری دفعہ آیا تو آپ نے کہا اسے اور شہد پلاؤ.لیکن ہر دفعہ وہ یہی شکایت لے کر آتا.اس پر آپ نے فرمایا ”صَدَقَ اللَّهُ وَكَذَبَ بَطْنُ أَحِيْكَ “ کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا لیکن تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ بولا ہے.اسے شہد ہی پلاؤ.(بخارى - كتاب الطب، باب الدواء بالعسل وقول الله تعالى فيه شفاء للناس) پتہ نہیں کس صورت میں اس کو پلا رہے تھے بہر حال شہد پلاتے رہے اور آخر میں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تندرست ہو گیا..شہد بھی مختلف قسم کے ہیں اور مختلف بیماریوں کے لئے بعض مختلف قسم کے شہد ہوتے ہیں.پھر ایک نسخہ کا روایت میں یوں ذکر ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انجیر کھایا.کرو.پھلوں میں سے بڑا اچھا پھل ہے.اگر میں یہ کہوں کہ جنت سے ایک پھل نازل ہوا ہے تو

Page 254

خطبات مسرور جلد سوم 247 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء میں یہ کہوں گا کہ انجیر جنت سے آنے والا ایسا پھل ہے جس میں گٹھلی نہیں ہے.پس اس کو کھاؤ کیونکہ یہ بواسیر کے مرض کو دور کرتا ہے اور نقرس Gout) کے مرض میں بھی نفع بخشتا ہے.(کنز العمال - كتاب الطب - الباب الاول - الفصل الاول التين من الاكمال – حديث نمبر 28280) جن کو گاؤٹ کے مرض کی تکلیف ہوتی ہے اس کے لئے بھی اچھا ہے.پھر ایک نسخے کا ذکر ہے کشمش کے بارے میں آتا ہے کہ اس کا استعمال کرنا چاہئے کیونکہ یہ کڑواہٹ کو دور کرتا ہے، بلغم کو دور کرتا ہے ، اعصاب کو مضبوط کرتا ہے، لاغر پن کو دور کرتا ہے ، اخلاق کو عمدہ کرتا ہے.دل کو فرحت بخشتا ہے اور غم کو دور کرتا ہے.(كنز العمال - كتاب الطب الباب الاول - الفصل الاول - الزبيب حديث نمبر 28265) اس بارے میں بھی بڑے لوگوں نے تجربہ کیا ہے.بعضوں نے عرق گلاب میں ڈبو کر کشمش کھائی ہے اور جن کے دل کی نالیاں بند تھیں اور ڈاکٹر بائی پاس آپریشن تجویز کر رہے تھے وہ اللہ کے فضل سے کھل گئیں.اس تجربے کوکئی لوگوں نے مجھے بتایا ہے.پھر زیتون کے بارے میں آتا ہے کہ اس کی مالش کیا کرو کیونکہ اس میں جذام سمیت ستر امراض کے لئے شفا ہے.کھایا بھی کرو.(كنز العمال - كتاب الطب - الباب الاول - الفصل الاوّل اشياء متفرقة حديث نمبر 28299) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ مریض کو اور غمزدہ افراد کو شہد اور آئے سے تیار کردہ پتلی کھیر کھلانے کا آپ کہا کرتی تھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہ ( کھیر ) مریض کے دل کو فرحت بخشتی ہے اور اس کا کچھ غم دور کر دیتی ہے.( بخارى كتاب الطب، باب التلبينة للمريض) پھر کھجور کے بارے میں فرمایا کہ یہ بھی کھانی چاہئے.قولنج کو دور کرتا ہے.(كنز العمال - كتاب الطب الباب الاوّل - الفصل الأوّل التمر حديث نمبر 28195) غرض بے انتہا نسخے ہیں.ایک اور میں یہاں بھی بیان کر دیتا ہوں.فرمایا کہ گائے کا دودھ پینا چاہئے کیونکہ یہ دوا

Page 255

خطبات مسرور جلد سوم 248 خطبہ جمعہ 15 اپریل 2005 ء ہے اور اس کی چربی اور مکھن میں شفا ہے اور تمہیں اس کا گوشت کھانے سے اجتناب کرنا چاہئے کہ اس کے گوشت میں ایک قسم کی بیماری ہے.(كنز العمال - كتاب الطب - الباب الاول - الفصل الاول - اللبن حديث نمبر 28210) تو یہ بات اب ثابت شدہ ہے کہ گائے کا گوشت زیادہ کھانے والوں میں بعض قسم کی بیماریاں آجاتی ہیں.مثلاً جن مریضوں کو یورک ایسڈ ہو، گاؤٹ کی تکلیف ہو ان کو ڈاکٹر منع کرتے ہیں کہ گائے کا گوشت نہ کھائیں.پھر بعض اور بیماریاں ہیں.یہ بھی ہوسکتا ہے، کسی خاص مریض کو کسی خاص بیماری کی وجہ سے نصیحت فرمائی ہو، شاید وہاں گائے کے گوشت کا زیادہ استعمال ہوتا ہو.پھر بلڈ پریشر کے مریضوں کو بھی اور دل کے مریضوں کو بھی ڈاکٹر گائے کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں.تو دیکھیں آج سے چودہ سو سال پہلے آپ نے یہ ساری باتیں بتا دیں جو آج کل کی ریسرچ میں پتہ لگ رہی ہیں.( جہاں تک چربی کا سوال ہے یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اس میں کیا اس کی خصوصیات ہیں.کوئی نیوٹریشنسٹ (Nutritionist) ہی بتا سکتے ہیں.اگر کسی کو پتہ ہو کہ گائے کی چربی کا کیا فائدہ ہوتا ہے اور کہاں کی خاص چربی ہے جس سے جسم کو فائدہ ہوتا ہے.اگر کوئی ایسے ماہر ہوں جن کے علم میں ہو تو مجھے بھی بتا ئیں.اور اگر علم میں نہیں ہے تو اس کا علم حاصل کرنے کی کوشش کریں.جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے اور ایک گائیڈ لائن دی ہے.) تو جیسا کہ میں نے کہا بے انتہا نسخے ہیں جو آپ علاج کے وقت تجویز فرمایا کرتے تھے.اب تو ان کو بیان کرنے کا وقت بھی نہیں.یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے تھا کہ مخلوق سے آپ کو بے انتہا محبت، پیار اور ہمدردی تھی.آپ کا دل اس ہمدردی سے بھرا ہوا تھا.جس کی وجہ سے آپ ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کس طرح میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچاؤں.اللہ تعالیٰ کے ہزاروں ہزار درودوسلام ہوں اس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس اسوہ پر چلنے کی اور ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم بھی اس کی مخلوق کی خدمت کی تو فیق پاسکیں.

Page 256

خطبات مسرور جلد سوم 249 (15) خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005 ء آنحضرت صلی اللہ علیم کا خلق عظیم شجاعت و بہادری خطبه جمعه فرموده 22 اپریل 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح.مورڈن، لندن.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَلَتِ اللهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا إِلَّا الله وَكَفَى بِاللهِ حَسِيْبَان (الاحزاب : 40) پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا ایک خلق بہادری اور جرات بھی ہوتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ پر یقین اور تو گل کی وجہ سے مزید ابھرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جو کام ان کے سپرد کئے ہوتے ہیں وہ اس وقت تک انجام نہیں دیئے جاسکتے جب تک جرات اور بہادری کا وصف ان میں موجود نہ ہو.دوسرے اوصاف کی طرح یہ وصف بھی انبیاء میں اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں، ان میں تو یہ وصف تمام انسانوں سے بلکہ تمام نبیوں سے بھی بڑھ کر تھا.جس کی مثالیں نہ اُس زمانے میں ملتی تھیں، نہ آئندہ زمانوں میں مل سکتی ہیں.جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر جرات کا مظاہرہ کیا ہے تاریخ میں کسی لیڈر کی ایسی مثال نظر نہیں آتی بلکہ سوواں، ہزارواں حصہ بھی نظر نہیں آتی.انتہائی مشکل حالات میں بھی قوم کا

Page 257

خطبات مسرور جلد سوم 250 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005 ء حوصلہ بلند رکھنے کے لئے ، اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے ، ان کو صبر اور استقامت اور جرات اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی تلقین نہ کی ہو.اور خود آپ کا عمل یہ تھا کہ اگر تنہا بھی رہ گئے اور دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں تب بھی کبھی کسی قسم کے خوف کا اظہار نہیں کیا.یه آیت جو میں نے تلاوت کی ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اللہ کے پیغام پہنچایا کرتے تھے اور اس سے ڈرتے رہتے تھے اور اللہ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ حساب لینے کے لحاظ سے بہت کافی ہے.یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے بھی گزر چکی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑھ کر اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے تھے.آپ کا عمل اور صحابہ کی گواہیاں اس بات پر شاہد ہیں کہ خدائے واحد کا پیغام پہنچانے میں جس جرات کا مظاہرہ آپ نے کیا وہ بے مثال ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں یہ جرات اور اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ کرنا.آپ میں اس وقت بھی یہ وصف تھا جب آپ پر ابھی اللہ تعالیٰ کی وحی نازل نہیں ہوئی تھی.آپ کے اُس زمانے کے معمولات کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک روایت میں اس طرح کیا ہے.آپ بیان کرتی ہیں کہ شروع شروع میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوا تو وہ رویائے صالحہ کی شکل میں ہوتا تھا یعنی خوا ہیں وغیرہ آیا کرتی تھیں.کہتی ہیں کہ آپ رات کے وقت یہ پہلی وحی سے پہلے کا واقعہ ہے ) جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا تھا.پھر آپ کو خلوت اچھی لگنے لگی تو آپ غار حرا میں بالکل اکیلے ، کئی کئی راتیں خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے.اور جتنے دن آپ وہاں قیام کرتے آپ اپنا زادراہ ساتھ لے جاتے اور جب یہ ختم ہو جاتا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس تشریف لاتے اور کھانے پینے کا مزید سامان ساتھ لے کر دوبارہ غار حرا میں چلے جاتے اور عبادتوں میں مشغول ہو جاتے.یہاں تک کہ آپ پر وحی نازل ہوئی اور آپ کے پاس حق آ گیا.(بخاری -کتاب بدء الوحى ـ باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله ﷺ تو اس میں جہاں آپ کی خدا تعالیٰ سے محبت اور عبادتوں کا پتہ چلتا ہے وہاں آپ کی اس جرات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ بغیر کسی خوف اور ڈر کے کئی کئی راتیں غار میں اور جنگل میں،

Page 258

خطبات مسرور جلد سوم 251 جہاں کئی قسم کے خطرات ہوتے ہیں، گزارا کرتے تھے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005ء اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُنس اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اہل دنیا سے ایک نفرت اور کراہت پیدا ہو جاتی ہے.بالطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی حالت تھی.اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپ اس قد رفنا ہو چکے تھے کہ آپ اس تنہائی میں ہی پوری لذت اور ذوق پاتے تھے.ایسی جگہ میں جہاں کوئی آرام کا اور راحت کا سامان نہ تھا اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو، آپ وہاں کئی کئی راتیں تنہا گزارتے تھے.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے بہادر اور شجاع تھے.جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت بھی آ جاتی ہے اس لئے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا.اہل دنیا بز دل ہوتے ہیں.ان میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحه 317 جدید ایڈیشن - الحکم مورخه 10 اگست 1905ء صفحه 2°3) پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وحی نازل ہونے کے بعد مختلف اوقات میں آپ نے کس قدر بہادری اور جرأت کے مظاہرے کئے.مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں یعنی دعوی نبوت کے بعد آپ کو ہر طرح سے ڈرایا دھمکایا گیا اور آپ کے بزرگوں اور پناہ دینے والوں کی پناہیں آپ سے ہٹانے کی کوششیں کی گئیں.لیکن اس جرات و شجاعت کے پیکر نے ان کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی.اس ملگی زندگی میں آپ پر ظلم اور زیادتیوں کے واقعات کی روایات جو ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتا ہوں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے کسی بہادری اور جرات اور بغیر کسی پریشانی اور گھبراہٹ کے اظہار کے ان سب چیزوں کا مقابلہ کیا.آپ کو فکر رہتی تھی تو اپنے ماننے والوں کی.یہ فکر ہوتی تھی کہ ان پر ظلم نہ ہوں.روایتوں کو پڑھتے ہوئے بعض دفعہ ذہن کے رجحان کے مطابق ایک آدھ پہلو سیرت کا سامنے آتا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو بعض ایسی روایتیں ہیں جن میں ایک ایک حدیث میں آپ کی سیرت اور خلق کے کئی پہلو نظر آتے ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو نہایت جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے دھڑک خانہ کعبہ کا طواف اور وہاں اپنے طریق پر عبادت کیا کرتے

Page 259

خطبات مسرور جلد سوم 252 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005 ء تھے.قریش مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خانہ کعبہ میں اس طرح عبادت کرتے ہوئے دیکھتے تھے تو بہت غصے میں آ جایا کرتے تھے کہ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور پھر ہمارے سامنے ہی بغیر کسی جھجک کے اپنے طریق پر اپنی عبادتیں بھی کر رہے ہیں، طواف بھی کر رہے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ ایسے ہی ایک موقع پر قریش کا رویہ کیا تھا اس کا ذکر عبداللہ بن عمرو بن عاص نے کیا ہے.کہتے ہیں کہ ایک روز میں خانہ کعبہ کے قریب موجود تھا تو قریش کے سب بڑے بڑے لوگ حجر اسود کے پاس خانہ کعبہ میں اکٹھے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے لگے کہ یہ بتوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور ہم نے بڑا صبر کر لیا اور اب صبر کی انتہا ہو گئی ہے.تو کہتے ہیں کہ یہ لوگ باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ طواف میں مشغول ہو گئے.جب آپ طواف کرتے ہوئے ان لوگوں کے پاس سے گزرتے تو کفار آپ پر آوازے کتے تھے ، بیہودہ باتیں آپ کے متعلق کرتے تھے.چنانچہ تین بارایسا ہوا.کہتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر دکھ محسوس کیا اور تیسری دفعہ آوازے کسنے پر آپ کھڑے ہو گئے اور آپ نے فرمایا کہ اسے گروہ قریش ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں تم جیسوں کی ہلاکت کی خبر لے کر آیا ہوں.راوی کہتے ہیں کہ اس بات کا قریش پر ایسا اثر ہوا کہ وہ سکتے کی حالت میں آگئے.اور جو شخص اُن میں سب سے زیادہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی نرمی سے بات کرنے لگا اور کہنے لگا کہ آپ تشریف لے جائیں.( جو بھی معذرت کی ) پھر آپ وہاں سے تشریف لے آئے.دوسرے روز پھر یہ لوگ اکٹھے ہوئے اور ہر طرف سے آپ کو گھیر لیا اور کہنے لگے کہ تم ہی ہو جو ہمارے بتوں میں عیب نکالتے ہو، ہمارے دین کو برا بھلا کہتے ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں میں کہتا ہوں.تو دیکھیں کس جرات سے آپ اکیلے تن تنہا ظالموں اور جابروں کے گروہ کے بیچ میں چلے جایا کرتے تھے.قطعاً اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ یہ ظالم اور انسانیت سے عاری لوگ آپ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے.اور پھر یہی نہیں بلکہ ان کولکار کر کہا کہ تم جو آج بڑھ کر بڑھ کر مجھ سے باتیں کر رہے ہو ، مجھے پر باتیں بنا رہے ہو، میرے خلاف غلیظ اور

Page 260

خطبات مسرور جلد سوم 253 خطبہ جمعہ 22 /اپریل 2005ء انسانیت سے گری ہوئی گندی زبان استعمال کر رہے ہو یا درکھو کہ تم لوگوں کی ہلاکت میرے ہاتھوں سے ہونی ہے.اب جس کو ذرا سا بھی دنیا کا خوف ہو، وہ ایسی بات نہیں کر سکتا.وہ تو مصلحت کے تقاضوں کی وجہ سے خاموش ہو جائے گا کہ کہیں مجھ سے اور زیادتی نہ کریں.لیکن خدا کا یہ شیر سب کوللکارتا ہے بغیر کسی کی پرواہ کے، بغیر کسی خوف کے، بغیر کسی ڈر کے، اور اس للکار میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رعب ہی ایسا دیا گیا ہے کہ باوجود مضبوط گروہ ہونے کے وہ سب اس بات پر خاموش ہو گئے جیسے جسم سے جان ہی نکل گئی ہو.اور پھر اس شرارت کرنے والے نے بڑی عاجزی دکھائی.بہر حال ان کی فطرت میں کیونکہ شرارت تو تھی ، ان لوگوں کی فطرت میں گند تھا ، اگلے دن پھر وہ لوگ اکٹھے ہوئے اور اسی طرح اکٹھے بیٹھے لیکن اب دُور سے آوازے نہیں کسے.کیونکہ ایک دن پہلے جو واقعہ ہوا تھا کہ آپ کے کہنے پر سب سکتے میں آگئے تھے، اس وقت اور بھی وہاں لوگ ہوں گے کسی نے کہا ہو گا کہ اس طرح تو ہماری عزت جاتی رہے گی، ہماری عزت خاک میں مل جائے گی اور آپ جس مقصد کو لے کے اٹھے ہیں اس میں کامیاب ہو جائیں گے.تو اگلے روز ان سب نے دُور سے چر کے لگانے کی بجائے آپ کو گھیر لیا.اب کوئی راہ فرار نہیں ہے.سارے لوگ ارد گر دا کٹھے ہیں.پھر پوچھا جا رہا ہے کہ کیا تم ہمارے بتوں کو برا کہتے ہو اور اُن کی برائیاں بیان کرتے ہو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں بھی فرماتے ہیں، جبکہ ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں، کہ ہاں میں صحیح کہتا ہوں.کیونکہ یہ جو تمہارے بہت ہیں ان بیچاروں میں تو کوئی طاقت ہی نہیں ہے.یہ تو خود تمہارے ہاتھوں سے بنے ہوئے ہیں.تو دیکھیں آپ نے یہ جواب کسی جرات سے دیا اور اس بات کی کوئی بھی پرواہ نہیں کی کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے.اور اگلے ہی لمحے اس بات پر انہوں نے آپ پر زیادتی بھی کی.چنانچہ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے حضور کی چادر مبارک پکڑ لی اور ابو بکر بھی وہاں موجود تھے.وہ یہ حالت دیکھ کر روتے ہوئے کھڑے ہوئے اور قریش سے کہنے لگے کہ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے.تب قریش نے آپ کو

Page 261

خطبات مسرور جلد سوم 254 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005 ء بيروت) چھوڑ دیا اور وہاں سے چلے گئے.(مسند مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 218 مطبوعه تو جس ارادے سے اگلے دن جمع ہوئے تھے.اس کو پورا بھی کرنا چاہا.ان کو پتہ تھا کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بتوں کے بارے میں سوال کریں گے تو آپ یقین بیزاری کا اظہار کریں گے اور اس صورت میں ہم انہیں ماریں پیٹیں گے.چنانچہ اسی ارادے سے آپ کو پکڑ بھی لیا لیکن حضرت ابو بکر کی حمایت کی وجہ سے چھوڑ دیا.شاید کچھ اور لوگ بھی ہوں جنہوں نے شرافت دکھائی ہو تو بہر حال ایسے حالات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی جرأت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے.پھر مکہ میں بھی آپ کی جرات کا وہ واقعہ دیکھیں جب سب سردار جمع ہو کر آپ کے چچا حضرت ابو طالب کے پاس آئے کہ اپنے بھتیجے کوروکو کہ اپنی تعلیم نہ پھیلائے ورنہ پھر ہم تمہارا بھی لحاظ نہیں کریں گے.اس پر چچا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھانے کے لئے بلایا تو آپ نے سمجھ لیا کہ اب میرے چچا بھی میری مدد نہیں کر سکتے.لیکن اس خیال نے آپ کی جرات میں کمی نہیں کی بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس سے یقین میں اور جرات میں اور اضافہ ہوا.اور فرمایا کہ چا! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تو پھر بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑوں گا.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو پورا کر دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں..پھر وہ واقعہ بھی اکثر سنا ہوا ہے.میں بھی پہلے بیان کر چکا ہوں لیکن جب اس واقعہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جرات اور بہادری کی نظر سے دیکھیں تو ایک اور شان اس کی نظر آتی ہے.جب اونٹوں کا ایک تاجر ابو جہل کو اونٹ فروخت کرتا ہے اور اونٹوں پر قبضہ کر لینے کے بعد ابو جہل نے اس کی رقم ادا نہیں کی اور کئی بہانے بنا رہا ہے.غریب آدمی بیچارا چکر لگا لگا کر تھک گیا ہے.سرداران قریش کے پاس فریاد لے کر گیا کہ مجھ پر رحم کرو اور ابوالحکم سے میری رقم دلوا دو.وہ سردار جو خود بھی اس ظالمانہ معاشرے کا حصہ تھے جنہوں نے خود بھی یقیناً کئی لوگوں کی رقمیں ماری ہوں گی اُس غریب الوطن کی مدد کرنے کی بجائے اس سے ٹھٹھا کرتے ہوئے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ دکھا رہے ہیں.اور کسی نیک نیتی سے نہیں دکھار ہے.بلکہ اس نیت سے کہ جب یہ آپ صلی

Page 262

خطبات مسرور جلد سوم 255 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005 ء اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے گا تو آپ ابو جہل کے خوف کی وجہ سے یا اس کے سردار قریش ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ آپ کا شدید ترین مخالف ہے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیں گے.لیکن جب وہ غریب آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو بغیر کسی تردد کے یہ جرات و شجاعت کا پیکر اس آدمی کے ساتھ چل پڑا اور ابو جہل کے گھر جا کر دروازہ کھٹکھٹایا.ابو جہل گھر سے باہر آیا تو اُسے کہا کہ تم نے اس شخص کے پیسے دینے ہیں.ابو جہل نے کہا مدد ہاں دینے ہیں اور ابھی لایا.وہ گھر کے اندر گیا اور اس کی رقم لا کر ا دا دی.تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ تھی.اور اس کے نظارے بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح دکھائے کہ ابو جہل کو ایک خوفناک اونٹ نظر آیا.پس آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین نے ہی یہ جرات بھی دلائی تھی کہ ایسے خطرناک دشمن کے گھر بغیر کسی حفاظتی سامان کے چلے جائیں.اور یہ شجاعت بھی صرف اور صرف آپ کا ہی خاصہ تھی.پھر دیکھیں جب مکہ سے ہجرت کی تو پہلی پناہ کی جگہ ایک قریب کی غار تھی.دشمن تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچ گیا.آپ اور حضرت ابو بکڑ اندر بیٹھے ہوئے تھے اور دشمن اگر چاہتا تو آپ کو دیکھ سکتا تھا بلکہ اندر بیٹھے ہوؤں کا خیال تھا کہ ضرور دیکھ بھی لے گا غار بھی کوئی ایسی غار نہیں تھی جس کا منہ تنگ ہو اور اندر سے گہری ہو یا چھپ کے ایک کونے میں آدمی چلا جائے.حضرت ابو بکر پریشان ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پریشانی کے کوئی آثار نہیں ہیں.ایک ہی بات ذہن میں ہے کہ اگر کوئی ڈر یا خوف کسی چیز کا کسی ذات کا ہونا چاہئے تو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اور جب خدا تعالیٰ کی خاطر کوئی کام ہورہا ہے تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے.غار میں بیٹھنے کے واقعہ کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا.میں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دکھائی دیئے.اس پر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی نظر نیچے کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا.آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا اے ابو بکر ! ہم دو ہیں اور ہمارے ساتھ تیرا خدا ہے.تو جہاں یہ واقعہ خدا تعالیٰ کی

Page 263

خطبات مسرور جلد سوم 256 خطبہ جمعہ 22 /اپریل 2005ء ذات پر یقین کا اظہار کرتا ہے.وہاں آپ کی جرات و شجاعت کا بھی اظہار ہو رہا ہے.آپ خاموشی سے اشارہ بھی کر سکتے تھے کہ خاموش رہو.باہر لوگ کھڑے ہیں بولو نہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین کی وجہ سے آپ میں جو جرآت تھی اس کی وجہ سے دشمن کے سر پر کھڑا ہونے کے باوجود اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ابوبکر فکر نہ کرو، خدا ہمارے ساتھ ہے.(بخاری - كتاب مناقب الانصار - باب هجرة النبي ﷺ واصحابه الى المدينة) اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہورہی ہیں.بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشان پایہاں تک ہی آکر ختم ہو جاتا ہے.لیکن اُن میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہو گا مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے.کبوتر نے انڈے دیئے ہوئے ہیں.اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں.اور آپ بڑی صفائی سے اُن کو سن رہے ہیں.ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھتے آئے ہیں.لیکن آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ آپنے رفیق صادق صدیق کو فرماتے ہیں لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا (التوبة:40).یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں.(یعنی یہ الفاظ بولے بغیر تو ادانہیں ہو سکتے ) اشارہ سے کام نہیں چلتا.باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم ومخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں.اس امر کی پروانہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے.یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه 250-51 جدید ایڈیشن - الحكم مورخه 17 مارچ تا 24 مارچ 1905ء) | پھر دشمن کے چلے جانے کے بعد اور یہ اطمینان ہو جانے کے بعد کہ اب غار سے نکل کر اگلا سفر شروع کیا جا سکتا ہے.آپ حضرت ابوبکر کے ساتھ غار سے نکلے اور جو بھی انتظام کیا تھا اس کے مطابق وہاں سواریاں پہنچ گئی تھیں.ان پر سوار ہوئے اور سفر شروع ہو گیا.لیکن کفار مکہ

Page 264

خطبات مسرور جلد سوم 257 خطبہ جمعہ 22 راپریل 2005 ء نے آپ کے پکڑے جانے کے لئے 100 اونٹ کا انعام مقرر کیا ہوا تھا.اور اس کے لالچ میں کئی لوگ آپ کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے.ان میں ایک سراقہ بن مالک بھی تھے تو ان کا بیان ہے کہ میں گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدرنزدیک ہو گیا کہ میں آپ کے قرآن پڑھنے کی آواز سن رہا تھا.میں نے دیکھا کہ آپ دائیں بائیں بالکل نہیں دیکھتے تھے ہاں حضرت ابو بکر بار بار دیکھتے جاتے تھے.تو اس حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گھبراہٹ نہیں تھی بلکہ آرام سے کلام الہی کی تلاوت فرمارہے تھے.(بخاری کتاب مناقب الانصار - باب هجرة النبى واصحابه الى المدينة) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا کہ فکر کیوں کرتے ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین تھا.آپ کو ہر وقت اور ہر موقع پر یہی یقین ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے ساتھ ہے جس کی وجہ سے خطرناک سے خطرناک موقعے پر بھی آپ کو کبھی گھبراہٹ نہیں ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امن پسند طبیعت لڑائیوں اور جنگوں کو نہیں چاہتی تھی.لیکن فطرتی جرات اور بہادری کو بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ دشمن سے اگر مقابلہ ہو جائے تو پھر بزدلی کا مظاہرہ کیا جائے.اور آپ اپنے صحابہ کو بھی یہ نصیحت فرماتے تھے کہ اگر جنگ ٹھونسی جائے تو پھر بز دلی نہیں دکھانی.چنانچہ اس بارے میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر دشمن سے مقابلے کے لئے اتنا انتظار فرمایا کہ یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا.پھر آپ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے لڑائی کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت طلب کرتے رہو.لیکن جب دشمن سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو صبر واستقامت دکھاؤ اور اس بات کا یقین کرو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے.اس کے بعد آپ نے دعا کی کہ "اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَب وَمُجْرِئَ السَّحَابِ وَهَازِمِ الْأَحْزَابِ اهْزِمُهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ “اے اللہ ! جو کتاب نازل کرنے والا ہے.بادلوں کو چلانے والا ہے اور دشمن

Page 265

خطبات مسرور جلد سوم 258 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005 ء گروہوں کو شکست دینے والا ہے تو ان لوگوں کو شکست دے اور ہمیں اپنی مدد سے ان پر غلبہ عطا فرما.(بخارى - كتاب الجهاد والسير - باب لاتمنوا لقاء العدو) اور جب دعاؤں کے ساتھ آپ دشمن کے حملوں کا جواب دیتے تھے تو پھر جرات و بہادری کے وہ اعلیٰ جو ہر آپ دکھا رہے ہوتے تھے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.صحابہ میں سے بڑے بڑے بہادر بھی آپ کی جرات و بہادری کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے اور اس بات کی گواہی خود صحابہ دیتے ہیں.چنانچہ حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم جب شدید لڑائی شروع ہو جاتی تو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھال بنا کر لڑتے تھے.اور ہم میں سے بہادر وہی سمجھا جاتا تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ لڑتا تھا.(مسلم کتاب الجہاد - باب غزوة حنين) اصولی طور پر جب جنگ ہو رہی ہو تو خطرناک جگہ بھی وہی ہونی چاہئے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تھے کیونکہ دشمن کی تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ جب کسی قوم سے جنگ ہو تو یا مخالف قوم کے لیڈر کوقتل کر دیا جائے یا اس کو گرفتار کر لیا جائے تا کہ اس کی قوم کا حوصلہ پست ہو جائے اور فوجوں کا حوصلہ پست ہو جائے اور جنگ ختم ہو جائے.اس لئے دشمن کا سارا زور مرکز کی طرف ہوتا ہے اور خاص طور پر جب آمنے سامنے جنگ ہو رہی ہو، اور قوم کے لیڈر بھی اس میں موجود ہوں تو پھر اندازہ کریں کہ کس طرح شدت کے ساتھ مخالف فوجیں اس مرکز میں پہنچنے کی کوشش کرتی ہوں گی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی فطرتی جرات اور بہادری کی وجہ سے دشمنوں کے سامنے بہت زیادہ آ جایا کرتے تھے اور پھر ایسے میں آپ کے جانثار صحابہ بھی کس طرح برداشت کرتے کہ آپ کو اکیلا چھوڑیں.صحابہ کے لئے بھی جنگ میں یہی سخت ترین مقام ہوتا تھا اور دشمن کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ مرکزی ٹارگٹ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے اس لئے صحابہ پر حملہ کرنے کی نسبت آپ پر حملہ کرنے کی زیادہ کوشش ہوتی تھی.لیکن دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا لیڈر بھی کسی قوم کو کیا ملا ہو گا کہ جو آپ کے اردگر دا کٹھے ہو رہے ہیں ،جمع

Page 266

خطبات مسرور جلد سوم 259 خطبہ جمعہ 22 راپریل 2005 ء ہو رہے ہیں کہ دشمن کا حملہ سخت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے محفوظ رکھنا ہے.وہ یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے ڈھال ہوتے تھے.آپ بھی اس فکر سے جنگ میں دشمن کے حملوں کو نا کام کرتے تھے، اس فکر سے لڑ رہے ہوتے تھے کہ میں نے اپنے صحابہ کی حفاظت بھی کرنی ہے اور دشمن کے حملوں کو نا کام بھی کرنا ہے.تو یہ تھے جرات و شجاعت و بہادری کے نمونے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے.پھر جنگ بدر کے موقع پر آپ کی جرات و بہادری کا ایک واقعہ ہے.حضرت انس بن مالک سے مروی ہے.کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مدینے سے روانہ ہوئے اور مشرکین سے پہلے بدر کے میدان میں پہنچ گئے.پھر مشرکین بھی پہنچ گئے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی آگے نہ بڑھے جب تک میں اس سے آگے نہ ہوں.(یعنی میرے پیچھے رہنا اور دشمن سے مقابلے کے وقت میں ہی سب سے آگے ہوں گا.) پھر جب مشرکین آگے بڑھ کر اسلامی فوج کے قریب آئے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس جنت کو حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھو جس کی لمبائی اور چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 136 137 مطبوعه بيروت) یعنی جب با قاعدہ لڑائی شروع ہو گئی تو پھر سب کو اجازت دی کہ اب اپنے اپنے ہنر دکھاؤ اور اب جنگ میں کود پڑو.اب بزدلی نہیں دکھانی.اور آپ بھی ان میں پیش پیش تھے.پھر آپ کی جنگ کے بارے میں حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ جب میدان جنگ خوب گرم ہو جاتا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگر دشدید لڑائی شروع ہو جاتی ، جیسا کہ میں نے کہا کہ زیادہ مرکز کی طرف حملہ ہوتا تھا.تو کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم کی پناہ لیا کرتے تھے.ایسے مواقع پر تمام لوگوں کی نسبت آپ دشمن کے زیادہ قریب ہوا کرتے تھے.پھر آگے کہتے ہیں کہ بدر میں میں نے آپ کو دیکھا میں آپ کی پناہ لئے ہوئے تھا حالانکہ آپ کفار کے بالکل قریب پہنچے ہوئے تھے تو اس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ سخت جنگ کی.جنگ کی

Page 267

خطبات مسرور جلد سوم 260 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005ء شدت میں جب اس طرح آمنے سامنے جنگ ہو رہی ہو تو پتہ نہیں لگتا کہ اپنوں میں کون اپنے ساتھ ہے.تو جب حضرت علیؓ نے دشمن کے وار سے بچ کر دیکھا ہوگا یا یہ دیکھا ہوگا کہ مجھے کس نے وار سے بچایا تو دیکھا آپ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے تو حضرت علیؓ کے متعلق مشہور ہے کہ جنگی حربوں کے ماہر تھے اور انتہائی نڈر انسان تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جرات و بہادری کے بارے میں جو آپ بیان کر رہے ہیں تو آپ ان کی پناہ میں ہیں.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثاني - الفصل الرابع عشر - الشجاعة والنجدة) پھر جنگ اُحد کا واقعہ دیکھیں جب بعد مشورہ آپ کی مرضی کے خلاف باہر جا کر دشمن سے مقابلے کا فیصلہ ہوا اور بعض صحابہ کو بعد میں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا اور اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے کی کوشش بھی کی.تو جو جواب آپ نے دیاوہ جہاں آپ کے تو کل کو ظاہر کرتا ہے وہاں آپ کی جرات و شجاعت کا بھی اس میں خوب اظہار ہے.آپ نے فرمایا کہ یہ بات نبی کی شان کے خلاف ہے کہ جب وہ ایک دفعہ ہتھیار باندھ لے پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلہ فرمانے سے پہلے اتار دے.یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ہو یا پھر اب میدان جنگ میں ہی فیصلہ ہو گا.اب جنگ سے بچنے کے لئے میں یہ کام نہیں کروں گا یہ جرات و مردانگی کے خلاف ہے.اور نبی بھی وہ نبی جو خاتم الانبیاء ہے وہ اب یہ بزدلی کا کام کس طرح کر سکتا ہے.اور پھر جب مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور دشمن نے مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچایا، مسلمان تتر بتر ہو گئے ، اس وقت بھی آپ ایک مضبوط چٹان کی طرح ڈٹے رہے.یہ بھی ایک عظیم واقعہ ہے.اس کا مختلف روایات میں ذکر آتا ہے.ایک جگہ یوں ذکر ملتا ہے کہ غزوہ احد میں بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریباً اکیلے ہی رہ جاتے تھے.کسی ایسے ہی موقعہ پر حضرت سعد بن ابی وقاص کے مشرک بھائی عقبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھر آپ کے چہرہ مبارک پر لگا جس سے آپ کا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ہونٹ بھی زخمی ہوا.ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اور پتھر جو عبداللہ بن شہاب نے پھینکا تھا اس نے آپ کی پیشانی کو زخمی کیا.اور تھوڑی دیر کے بعد تیسرا پتھر جو ابن قمئہ نے پھینکا تھا آپ کے رخسار مبارک پر لگا جس

Page 268

خطبات مسرور جلد سوم 261 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005ء سے آپ کے خود کی دو کڑیاں آپ کے رخسار میں چڑھ گئیں.(السيرة النبوية لابن هشام - غزوة احد - مالقيه الرسول يوم احد) آپ لہولہان ہو گئے تھے لیکن کوئی پناہ گاہ تلاش نہیں کی کہ جہاں بیٹھ کر پٹی کروائیں اور خون صاف کریں یا آرام کریں.اور صرف اس لئے کہ آپ کی یہ جرات دیکھ کر مسلمان بھی جمع ہوں اور دشمن کا مقابلہ کریں جیسا کہ مقابلہ کرنے کا حق ہے.پھر دیکھیں اس زخمی حالت میں جب آپ لہولہان تھے، جنگ تقریبا ختم تھی کیونکہ اب کفار اپنے زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے اور مسلمان شہداء کے چہرے بگاڑنے کی کوشش کر رہے تھے.یہ اُس زمانے میں رواج تھا کہ ناک کان وغیرہ کاٹ لیتے تھے تو اس وقت جب جنگ ذرا ٹھنڈی ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ ایک محفوظ جگہ پر جانے لگے تو راستے میں ابی بن خلف نے آپ کو دیکھ لیا اور پہچان لیا اور آپ پر وار کرنے کے لئے آگے بڑھا.اس وقت آپ زخمی حالت میں تھے.لیکن اس وقت بھی آپ نے جرأت کا مظاہرہ کیا.اس واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جنگ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہونے کے بعد جب صحابہ کے ساتھ ایک گھائی میں ٹیک لگائے ہوئے تھے.دوسری روایت میں ہے کہ پہاڑی کی طرف جا رہے تھے تو بہر حال ابی بن خلف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر للکارتے ہوئے پکارا کہ اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر آج تم بچ گئے تو میری زندگی عبث ہے، فضول ہے صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا ہم میں سے کوئی اس کی طرف بڑھے!.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے چھوڑ دو اور راستے سے ہٹ جاؤ.اسے میری طرف آنے دو جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیزہ تھام لیا اور آگے بڑھ کر اس کی گردن پر ایک ہی وار کیا جس سے وہ چنگھاڑتا ہوا مڑا اور اپنے گھوڑے سے زمین پر گر گیا ، قلابازیاں کھانے لگا.(السيرة النبوية لابن هشام ، غزوة احد، مقتل ابی بن خلف) اس حالت میں جو کمزوری کی حالت تھی ، خون بے تحاشا بہا ہوا تھا، زخمی تھے، مرہم پٹی بھی کوئی نہیں ہوئی تھی.آپ نے کسی صحابی کو آگے نہیں بڑھنے دیا بلکہ فرمایا کہ نہیں اس کا علاج میں

Page 269

خطبات مسرور جلد سوم 262 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005ء نے ہی کرنا ہے.کیونکہ مکہ میں ایک دفعہ اس نے آپ کو چیلنج دیا تھا کہ آپ ( نعوذ باللہ ) میرے ہاتھ سے مریں گے.تو آپ نے فرمایا تھا کہ نہیں بلکہ تم میرے ہاتھ سے مرو گے.وہ آدمی جو سواری پر بھی تھا، بظاہر ٹھیک بھی تھا، زخمی بھی نہیں تھا.آپ زخموں سے لہولہان تھے اور سواری پر ہونے کی وجہ سے وہ بہتر طور پر آپ پر حملہ کر سکتا تھا.اس کے باوجود آپ نے اپنی جرات اور شجاعت کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے صحابہ کو کہا کہ نہیں تم پرے ہٹ جاؤ.اس کا میں علاج کروں گا.اور اسی نیزے کے زخم سے وہ بعد میں مکہ کے راستے میں واپس جاتے ہوئے فوت بھی ہو گیا تھا.پھر جرات اور شجاعت کی ایک اور اعلیٰ مثال ہے.غزوہ اُحد کے اگلے دن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ہمراہ مدینہ پہنچے تو آپ کو یہ اطلاع ملی کہ کفار مکہ دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ بعض قریش ایک دوسرے کو یہ طعنے دے رہے تھے کہ نہ تو تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کیا.( نعوذ باللہ ).اور نہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال و متاع پر قبضہ کیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تعاقب کا فیصلہ کیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کا تعاقب کریں گے اور اس تعاقب کے لئے میرے ساتھ صرف وہ صحابہ شامل ہوں گے جو گزشتہ روز غزوہ اُحد میں شامل ہوئے تھے.(الطبقات الكبرى لابن سعد - ذكر عدد مغازى رسول الله - غزوة رسول الله ﷺ حمراء الأسد) ایسی حالت میں جب آپ خود بھی زخمی تھے اور صحابہ کی اکثریت بھی زخمی تھی بلکہ شاید تمام کے تمام زخمی تھے.آپ نے اپنے سے بڑے دشمن کے تعاقب کا فیصلہ کیا.اور صحابہ میں بھی یہ روح پھونکی کہ شجاعت دکھاؤ گے تو کامیابیاں حاصل کرو گے.آپ کا یہ جراتمندانہ فیصلہ ایسا تھا کہ جس نے دشمن کو پریشان کر دیا اور وہ جو دوبارہ حملے کی سوچ رہا تھا جب اس نے دیکھا کہ ہمارا تعاقب کیا جارہا ہے تو وہیں سے واپس ملکہ کی طرف مڑ گیا.یہ جنگی لحاظ سے جہاں اہم فیصلہ تھا وہاں آپ کی جرات وشجاعت کا بھی اظہار کرتا ہے.

Page 270

خطبات مسرور جلد سوم 263 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005 ء.پھر جنگ حنین میں آپ کی بہادری کی روایت ملتی ہے.ابو اسحاق سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص حضرت براء کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے جنگ حنین کے موقع پر دشمن کے مقابلے پر پیٹھ پھیر لی تھی؟.تو انہوں نے جواب دیا کہ میں سب کے بارے میں تو کچھ نہیں کہ سکتا لیکن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ضرور گواہی دوں گا کہ آپ نے دشمن کے شدید حملے کے وقت بھی پیٹھ نہیں پھیری تھی.پھر انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہوازن قبیلے کے خلاف جب مسلمانوں کا لشکر نکلا تو انہوں نے بہت ہلکے پھلکے ہتھیار پہنے ہوئے تھے یعنی ان کے پاس زرہیں وغیرہ اور بڑا اسلحہ نہیں تھا اور ان میں بہت سے ایسے تھے جو بالکل نہتے تھے.لیکن اس کے مقابل پر ہوازن کے لوگ بڑے کہنہ مشق تیرانداز تھے.جب مسلمانوں کا لشکر ان کی طرف بڑھا تو انہوں نے اس لشکر پر تیروں کی ایسی بوچھاڑ کر دی جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر حملہ کرتی ہے.اس حملے کی تاب نہ لا کر مسلمان بکھر گئے.لیکن اُن کا ایک گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا.حضور ایک خچر پر سوار تھے جسے آپ کے چچا ابوسفیان بن حارث لگام سے پکڑے ہوئے ہانک رہے تھے.جب مسلمانوں کو اس طرح بکھر تے ہوئے دیکھا تو آپ کچھ وقفے کے لئے اپنے خچر سے نیچے اترے اور اپنے مولا کے حضور دعا کی.پھر آپ خچر پر سوار ہو کر مسلمانوں کو مدد کے لئے بلاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے اور آپ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ میں خدا کا نبی ہوں اور یہ سچی بات ہے لیکن میں وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں.یعنی میری غیر معمولی جرات دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی فوق البشر چیز ہوں.ایک انسان ہوں اور اسی طرح جرات دکھا رہا ہوں.اور آپ یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ اللَّهُمَّ نَزِلْ نَصْرَكَ اے خدا! اپنی مدد نازل کر.پھر حضرت براء نے کہا کہ حضور کی شجاعت کا حال سنو کہ جب جنگ جو بن پر ہوتی تھی تو اس وقت حضور سب سے آگے ہو کر سب سے زیادہ بہادری سے لڑ رہے ہوتے تھے.اور ہم لوگ اس وقت حضور کو ہی اپنی ڈھال اور اپنی آڑ بنایا کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیادہ وہی

Page 271

خطبات مسرور جلد سوم 264 خطبہ جمعہ 22 /اپریل 2005ء بہادر سمجھا جاتا تھا جو حضور کے شانہ بشانہ لڑتا تھا.(صحیح مسلم کتاب الجہاد باب غزوة حنين) | تو کئی جگہوں سے اس کی گواہی ملتی ہے ایک آدھ صحابی کی مثال نہیں ہے.تو یہ تھے جنگوں کے واقعات کہ کس طرح آپ جرات دکھاتے تھے اور کس طرح ان جنگوں میں صحابہ کی فکر کرتے تھے.آپ ایک ایسے لیڈر تھے جو ہر وقت اپنی رعایا کی ، اپنے ماننے والوں کی فکر میں رہتے تھے.ان کی حفاظت کا خیال رکھتے تھے اور راتوں کو اٹھ کر بے خوف ہوکر حالات کا جائزہ لیا کرتے تھے.اسی طرح کے ایک واقعہ کا روایت میں ذکر ملتا ہے حضرت انسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں سے زیادہ خوبصورت تھے اور سب انسانوں سے زیادہ بہادر تھے.ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا.کسی طرف سے کوئی آواز آئی اور لوگ آواز کی طرف دوڑے.تو سامنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے ہوئے ملے.آپ بات کی چھان بین کر کے واپس آ رہے تھے.اور حضرت ابوطلحہ کے گھوڑے کی تنگی پیٹھ پر سوار تھے.آپ نے اپنی گردن میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی.آپ نے ان لوگوں کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ڈرو نہیں ، ڈرو نہیں میں دیکھ کر آیا ہوں کوئی خطرے کی بات نہیں ہے.پھر آپ نے ابوطلحہ کے گھوڑے کے متعلق فرمایا کہ ہم نے اس کو تیز رفتاری میں سمندر جیسا پایا.(صحيح بخاري كتاب الجهاد - باب الحمائل وتعليق السيف بالعنق) ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ان دنوں مدینے میں دشمن کی طرف سے حملے کا خطرہ تھا جس کی وجہ سے ہر کوئی چوکس رہتا تھا کہ دشمن کہیں اچانک حملہ نہ کر دے.ایسے حالات میں جب دشمن کی طرف سے خطرہ بھی ہو اس وقت اکیلے جا کر جائزہ لے کر واپس آنا غیر معمولی جرات کا اظہار ہے.اور پھر اتنی فکر میں ، اتنی جلدی میں آپ گئے کہ گھوڑے پر زین بھی نہیں ڈالی.اسی حالت میں گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر ہی روانہ ہو گئے تا کہ جلدی سے جائزہ لیا جاسکے.دوسرے لوگ دوسرے کام کرنے والے لوگ ابھی سوچ رہے ہیں کہ کس طرح جائزہ لیں ، کس طرف سے شور کی

Page 272

خطبات مسرور جلد سوم 265 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005ء آواز آئی ہے.لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی پریشانی دور کرنے کے لئے ہر طرف سے پھر پھرا کر تسلی کا پیغام لے کر ان کے نکلنے سے پہلے واپس بھی پہنچ گئے.عام حالات میں تو کوئی بھی جائزہ لے سکتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ، ایسے حالات میں جب دشمن کی طرف سے خطرہ بھی ہوا یسی جرأت کا مظاہرہ کوئی انتہائی جرات مندہی کر سکتا ہے.اور یقیناً آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا.اس روایت سے آپ کے بہترین اور جرات مند سوار ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے کہ گھوڑا بھی منہ زور تھا (اس کے متعلق یہی مشہور تھا کہ بڑا منہ زور ہے ) اور بغیر کاٹھی کے اس پر سوار ہوئے.سواری کرنے والے جانتے ہیں کہ ایسے گھوڑے کو قابو کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے اور پھر بغیر زمین کے.غرض کوئی پہلو لے لیں جہاں بھی جرات و مردانگی کے اظہار کی ضرورت محسوس ہوگی یا نظر آئے گی وہاں اس وصف میں سب سے بڑھی ہوئی ذات ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نظر آئے گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کی جرات و شجاعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ایک وقت ہے کہ آپ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کر رہے ہیں.ایک وقت آتا ہے کہ تیر و تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں.سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں.حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں.الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خدا تعالیٰ نے دکھا دیا ہے.اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جز و سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے.اس کا پھل، اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتے غرضیکہ ہر چیز مفید ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ ہا مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام اور پناہ لیتی ہے.لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا.کیونکہ آپ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے.سبحان اللہ ! کیا شان ہے.اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں

Page 273

خطبات مسرور جلد سوم 266 خطبہ جمعہ 22 اپریل 2005 ء ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے.اس میں صحابہ " کا قصور نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے.ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے.( یعنی حسنین کے واقعہ کا ذکر ہے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں ) کہتے ہیں حضرت کی پیشانی پر ستر زخم لگے مگر زخم خفیف تھے.یہ خلق عظیم تھا.“ (ملفوظات جلد اول صفحه 84 جدید ایڈیشن - رپورٹ جلسه سالانه 1897ء صفحه 152 153) اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.谢谢谢

Page 274

خطبات مسرور جلد سوم 267 (16) خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005 ء مسابقت في الخيرات اور احمدی کی ذمہ داریاں خطبه جمعه فرموده 29 اپریل 2005 ء بمقام نیروبی، کینیا (مشرقی افریقہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:.وَلِكُلِ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا * يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( البقرة : 149) پھر فرمایا:.کال کی تقریر میں میں نے آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ انبیاء کے آنے کا جو مقصد ہوتا ہے اور جس مقصد کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے وہ یہ ہے کہ خدا سے ملانا اور گناہ سے بچنے کے طریقے سکھانا اور نیکیوں کی طرف لے جانے والے راستے بتانا.اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ یہ مقصد ہم بڑی آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں.جب آپ نیکیوں پر قائم ہونے کی کوشش شروع کرتے ہیں اور کچھ نیکیاں بجالا نا شروع کرتے ہیں تو یہ ایک قدم ہے یا چند قدم ہیں جو ہم نے اس راستے میں اٹھائے ہیں.یہ وہ انتہا نہیں ہے جس پر ایک احمدی مسلمان کو پہنچنا چاہئے.اور انتہا ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ ہر منزل پر اگلی منزل کا پتہ ملتا ہے جس کے لئے رہنما کی ضرورت ہوتی ہے.

Page 275

خطبات مسرور جلد سوم 268 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005 ء اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ” گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں“.دین میں اور روحانیت میں کوئی خود بخود اعلی معیاروں کو حاصل کرنے کے راستے تلاش نہیں کر سکتا.جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا کوئی چنیدہ بندہ وہ راستے نہ دکھائے.اور اس زمانے میں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا وہ چنیدہ بندہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے قرب کے اعلیٰ معیار صرف کچھ عبادت کر کے حاصل نہیں ہو جاتے اور نہ ہی نیکیوں کی انتہا کچھ نیکیاں حاصل کرنے سے ہو جاتی ہے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے اور مسلسل سفر ہے جس پر چلتے ہوئے جب مومن اپنے خیال میں منزل کے قریب پہنچتا ہے تو اسے اور منزلیں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ نیکیوں کی منزلیں تلاش کرے.ان میں عبادتیں بھی ہیں، نیک کام بھی ہیں، جن پر احمدی ہر وقت چلتا رہے اور نیکی کی منزلیں تلاش کرے.اعلیٰ اخلاق ہیں جن میں ہر احمدی کو ترقی کرنی چاہئے.لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں ایک فکر کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے.غرض کہ ایک احمدی مسلمان کے سامنے ایک وسیع میدان ہے جس میں ہر وقت ایک لگن کے ساتھ اور ایک توجہ کے ساتھ کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور آگے بڑھتے چلے جانا ہے.کسی ایک کام کو پکڑ کر خیال کرنا کہ ہم نے معیار حاصل کر لئے بالکل غلط ہے.بلکہ اُن تمام نیکیوں میں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے ترقی حاصل کرو گے تو صحیح مومن کہلا سکو گے.اور اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر ایک کے لئے ایک مطمح نظر ہوتا ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے.پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا کر کے لے آئے گا.یقینا اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائی قدرت رکھتا ہے.تو واضح ہو گیا کہ تمہاری زندگی کا مقصد اور شیح نظر جس کو سامنے رکھ کر ایک انسان اپنے راستوں کا تعین کرتا ہے ، وہ یہ ہونا چاہئے کہ تم نے نیکیوں میں ترقی کرنی ہے.اور جب ہر

Page 276

خطبات مسرور جلد سوم 269 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005 ء مومن، ہر احمدی ایک لگن کے ساتھ ، ایک تڑپ کے ساتھ اس دوڑ میں شامل ہوگا کہ اس نے نیکیوں میں ترقی کرنی ہے تو تصور کریں کہ ایسی صورت میں کس قدر حسین معاشرہ قائم ہو گا.جہاں عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہو رہے ہوں گے اور دوسری نیکیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہوں گے.کچھ تو ایک دوسرے کو دیکھ کر اس رنگ میں رنگین ہو رہے ہوں گے کہ ہم نے بھی وہ معیار حاصل کرنے ہیں جو دوسرے حاصل کر رہے ہیں.ان کو بھی یہ فکر ہوگی کہ ہم نے بھی خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے وہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں جو ہمارے بھائی حاصل کر رہے ہیں.دوسروں کی عبادتوں اور نیکیوں کو دیکھ کر حسد کے جذبے پیدا نہیں ہوں گے بلکہ ان پر رشک آئے گا اور پھر خود بھی ان نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش ہوگی.صحابہ کرام اس طرف بہت توجہ دیا کرتے تھے اور بڑی فکر کے ساتھ توجہ دیا کرتے تھے.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ صحابہ اکٹھے ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ دولتمند لوگ اپنی دولت کی وجہ سے سارا ثواب لے جاتے ہیں یا ان سے زیادہ ثواب لے جاتے ہیں.وہ بھی نماز پڑھتے ہیں جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں.وہ بھی روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں.وہ بھی دوسری عبادتیں کرتے ہیں جس طرح ہم عبادتیں کرتے ہیں.لیکن ایک زائد بات اُن میں ہے جو ہم نہیں کر سکتے اور وہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو امیر ہیں ، ان ساری نیکیوں کے ساتھ ساتھ اپنے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.لیکن ہم اپنی غربت کی وجہ سے باوجود خواہش ہونے کے اس میدان میں ان سے پیچھے ہیں.ہمیں بھی کوئی راستہ بتا ئیں کہ ہم اس نیکی میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال نہیں دیا جو تم بطور صدقہ خرچ کرو؟ آپ نے یہ سوال کیا.پھر آپ نے فرمایا کہ یاد رکھو کہ ہر تیج صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، اور الحمد للہ کہنا صدقہ ہے لا إلهَ إِلَّا اللہ کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے.ایک روایت میں ہے، آپ نے فرمایا کہ تم لوگ ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سُبْحَانَ الله پڑھا کرو، 33 دفعہ الْحَمْدُلِلہ پڑھا کرو، اور 34 دفعہ اللہ اکبر پڑھا کرو.یہ تمہیں ان امیروں ،

Page 277

خطبات مسرور جلد سوم 270 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005 ء کے برابر لے آئے گا جو صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.تو صحابہ نے یہ عمل شروع کر دیا.لیکن کچھ عرصہ بعد جوامیر صحابہ تھے انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ نماز کے بعد بیٹھ کر وظیفہ کرتے ہیں.کیونکہ ان صحابہ میں بھی نیکی میں آگے بڑھنے کی ایک لگن تھی.دنیا دار امیر کی طرح تو نہیں تھے جو اپنی دولت کی وجہ سے اندھے ہو جاتے ہیں کہ نہ ہی خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہیں اور نہ ہی بندوں کے حقوق ادا کرتے ہیں.بلکہ دنیا دار امیر لوگ تو نیکیوں میں بڑھنے کی بجائے برائیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.بہر حال اُن امیر صحابہ کو بھی ان غرباء کو دیکھ کر یہ تجسس پیدا ہوا کہ یہ کیا ذکر الہی کرتے ہیں.آخر ان کو پتہ چل گیا کہ یہ نماز کے بعد اس طرح ذکر الہی کرتے ہیں.چنانچہ اُن امیر صحابہ نے بھی ذکر الہی شروع کر دیا.کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو نیکیوں میں بڑھنے کے مفہوم کو سمجھتے تھے.اس پر یہ غریب صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اُن امیر صحابہ کو بھی پتہ چل گیا ہے اور انہوں نے بھی ہماری طرح ذکر الہی اور وظیفہ شروع کر دیا ہے.یہ لوگ پھر ہم سے آگے نکل گئے ہیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب میں کیا کر سکتا ہوں.جس کو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی توفیق دے رہا ہے اسے میں کس طرح روک سکتا ہوں.(صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاة ـ باب استحباب الذكر بعد الصلاة و بيان صفته) تو دیکھیں یہ صحابہ کے ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کے نمونے تھے.اور یہ نمونے ہمارے سامنے صرف اس لئے نہیں بتائے جاتے کہ ہم سنیں اور ان سے محظوظ ہوں.بلکہ اس لئے ہیں کہ ہم اُن پر عمل کرنے والے بنیں.صحابہ کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کا اس قدر شوق تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بار بار بڑے تجس سے اس بارے میں سوال کیا کرتے تھے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا کام بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور دوزخ سے دور رکھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ایک بہت بڑی اور مشکل بات

Page 278

خطبات مسرور جلد سوم 271 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005 ء پوچھی ہے.لیکن اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو یہ آسان بھی ہے.تو اللہ کی عبادت کر ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا، نماز پڑھ ، باقاعدگی سے زکوۃ ادا کر، رمضان کے روزے رکھ، اگر زادراہ ہو تو بیت اللہ کا حج کر.پھر آپ نے یہ فرمایا کہ اب میں بھلائی اور نیکیوں کے دروازوں سے متعلق تجھے نہ بتاؤں؟ سنو ! روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے.صدقہ گناہوں کی آگ کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے.رات کے درمیانی حصے میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (السجدة: 17).پھر آپ نے فرمایا کیا میں تم کو سارے دین کی جڑ بلکہ اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کی : جی ہاں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا کہ دین کی جڑ اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے، اور اس کی چوٹی جہاد ہے.پھر آپ نے فرمایا کیا میں تجھے اس سارے دین کا خلاصہ نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کی : جی ہاں یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے.آپ نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا اسے روک کر رکھو.میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! کیا جو کچھ ہم بولتے ہیں اس کا بھی ہم سے مؤاخذہ ہو گا ؟ آپ نے فرمایا تیری ماں تجھ کو گم کرے ( یہ عربی کا محاورہ ہے افسوس کے اظہار کے لئے بولا جاتا ہے) فرمایا کہ لوگ اپنی زبانوں کی کائی ہوئی کھیتیوں یعنی اپنے بُرے بول اور بے موقع باتوں کی وجہ سے ہی جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں.(سنن الترمذی ابواب الايمان ـ باب ما جاء في حرمة الصلاة) تو دیکھیں کتنی فکر ہے کہ ہلکا سا بھی کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس سے دوزخ کی ہوا بھی لگے.بلکہ ایسے کام سرزد ہوں، ایسی نیکیاں سرزد ہوں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں.یہ صحابہ کا رویہ ہوتا تھا.لیکن دیکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب کہ یہ ہے تو مشکل کام لیکن اگر تم اس بات پر قائم ہو جاؤ کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ فضل بھی فرماتا ہے اور انسان کی جنت میں جانے کی خواہش بھی پوری ہو سکتی ہے.لیکن اس کے لئے بعض

Page 279

خطبات مسرور جلد سوم 272 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005ء عمل کرنے ہوں گے.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ایسی عبادت کرو جو اس کا حق ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ.نمازوں کے اوقات میں جیسا کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے، پوری توجہ نمازوں کی طرف رکھو.تمہارے کام یا تمہارے دوسرے عذر تمہیں نمازیں پڑھنے سے نہ روکیں.کام کی خاطر نماز کو نہ چھوڑو بلکہ نماز کی خاطر کام چھوڑو.ورنہ یہ بھی ایک قسم کا مخفی شرک ہے.کیونکہ اگر کام کی خاطر نماز چھوڑو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے نزدیک دنیاوی کام تمہارے خدا کی عبادت کرنے سے زیادہ اہم ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اپنے کام کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر دیا ہے.اس زمانے میں جو دنیا داری بہت ہے.تو دیکھیں یہ شرک خاص طور پر بہت پھیل گیا ہے.دنیاوی کاموں اور دھندوں میں انسان اس قدر ڈوب گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نمازوں کی حیثیت ایک ثانوی حیثیت ہو گئی ہے اور اس زمانے میں جو نمازوں کو خاص توجہ اور شوق سے ادا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق یقیناً اس کا قرب پانے والا ہوگا.پس ہر احمدی کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اگر اُس نے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اور اُس کی جنت حاصل کرنی ہے تو اُسے اپنی نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرنی ہوگی.بلکہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیکی کے دروازوں میں داخل ہونے کے لئے مزید ترقی کرنی ہے تو رات کو تہجد کے لئے اٹھنا بھی ضروری ہے جس سے نیکیوں کی طرف اور قدم بڑھیں گے، عبادت کے مزید ذوق پیدا ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے مزید کوشش ہوگی.اور اس طرح ہمارے اندر ایک روحانی تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جائے گی.جو روحانی ترقی کی مزید منزلیں طے کروائے گی اور ہر دن اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف ہمارا قدم ایک نئے انداز میں اٹھے گا.پس ہر احمدی اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرنے کی کوشش کرے.اور پھر ایک مومن کیونکہ صرف اپنا ہی ذمہ دار نہیں بلکہ اپنے بیوی بچوں اور اس کے زیر اثر جو ماحول ہے اس کا بھی ذمہ دار ہے.اس لئے ان عبادتوں کے معیار حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے شرک سے پاک

Page 280

خطبات مسرور جلد سوم 273 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005 ء معاشرہ قائم کرنے کے لئے ، اپنے بیوی بچوں کی بھی نگرانی کرنی ہوگی کہ وہ بھی عبادتوں کی طرف توجہ دیتے ہیں کہ نہیں.اور جب آپ اپنے پاک نمو نے قائم کریں گے تو یقینا آپ کی نسلیں بھی ان پاک نمونوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو آپ پر برستا دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا عابد بننے کی کوشش کریں گی.اور یوں وہ بھی عبادتوں میں ترقی کرنے کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گی.اور نمازوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے ساتھ وہ دوسری قربانیوں اور عبادتوں میں ترقی کرنے کی طرف بھی توجہ دیں گی.اور یوں جماعت کے اندر نیکیوں کو قائم کرنے اور نہ صرف قائم کرنے بلکہ ترقی کرنے اور مسلسل جاری رکھنے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھلائی اور نیکی کے دروازے جو جنت کی طرف لے جاتے ہیں ان میں سے ایک دروازہ صدقہ بھی ہے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ہے جو گناہ کی آگ کو بجھا دیتا ہے.اس طرح ٹھنڈا کرتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے.تو جب انسان گناہ کا احساس کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہوئے ، آئندہ سے تو بہ کرتے ہوئے اس کے آگے جھکے اور وہ یہ عہد کرے کہ وہ آئندہ اس گناہ سے بچے گا اور ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں بھی کچھ دے تو اس کا یہ احساس فکر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کھینچنے والا ہوگا.اور اس سے نہ صرف گناہ سے بچے گا بلکہ نیکی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.اور پھر نہ صرف نیکی کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی بلکہ اس میں ترقی کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.ایک غریب آدمی کو خیال آ سکتا ہے کہ ہم کس طرح صدقہ کریں.ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں.ان کو یا د رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کے لئے دین کی اشاعت کے لئے حسب توفیق کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہئے.کیونکہ اس رزق میں سے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اپنی جان پر قربانی کر کے اس کی راہ میں کچھ خرچ کریں گے تو اس سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کے مزید راستے کھلیں گے.دوسرے، ایسے لوگوں کو جن کی توفیق تھوڑی ہے یاد رکھنا چاہئے کہ جیسے کہ میں پہلے حدیث بتا آیا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح وتحمید اور ذکر الہی کو بھی صدقہ قرار دیا ہے.

Page 281

خطبات مسرور جلد سوم 274 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005 ء یہ بھی ایک مال ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہئے.جب احمدی اس نظر سے بھی ذکر الہی کر رہے ہوں گے کہ ایک تو یہ کہ ہم اللہ کے حضور یہ دعائیں نذر کرتے ہیں اور اللہ سے امید رکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری تو فیقوں کو بڑھائے گا تا کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے بنیں تو اس نیکی میں بڑھنے کی خواہش کی اللہ بہت قدر کرتا ہے اور پھر ایسے ذریعوں سے نوازتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین اسلام کی چوٹی جہاد ہے.اب اس زمانے میں تلواروں اور بندوقوں کا جہاد تو ختم ہو گیا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح کی آمد کے ساتھ ہی تلوار کا جہاد ختم ہونا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وجہ سے فرمایا ہے کہ میرے آنے کے بعد اب تلوار کا جہاد نہ صرف بند ہو گیا ہے بلکہ حرام ہو گیا ہے.اس کے بعد کیا یہ سمجھا جائے کہ اسلام کی اس چوٹی تک پہنچنے کے راستے ختم ہو گئے؟.نہیں، بلکہ تلوار کا جہاد تو جہاد کی ایک قسم ہے جس کی اُس وقت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی تھی.بلکہ اُس وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت اور تبلیغ کو ہی جہاد اکبر قرار دیا.تھا.بلکہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآنی دلائل سے دشمن کا منہ بند کرنے اور پیغام پہنچانے کو جہاد قرار دیا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے ﴿ وَ جَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ﴾ (الفرقان : 53) یعنی اس قرآن کے دلائل کے ساتھ بڑا جہاد کرو.پس دلائل کے ساتھ اسلام کی خوبیاں بتانا اور اسلام کی تبلیغ کرنا اصل جہاد ہے.اور ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچائے.یقیناً اس کی وجہ سے قربانیاں بھی دینی پڑیں گی.لیکن یہ قربانیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی چوٹی جہاد کو قرار دیا ہے.اور اس نیکی میں ہر احمدی کو ایک دوسرے سے بڑھنے کی خاص کوشش کرنی چاہئے.اپنے عملوں کو بھی درست کریں کہ اسے دیکھ کر لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوں اور پھر تبلیغ کے میدان میں کود جائیں.آپ کی وطن سے محبت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ان لوگوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے بارے میں بتائیں، اس کی خوبیاں بتا ئیں.آئندہ انسانیت کی بقا

Page 282

خطبات مسرور جلد سوم 275 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005ء بھی اسی میں ہے کہ دنیا ایک خدا کو مانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.پس اس چوٹی کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرے.ورنہ ہمارا یہ دعویٰ غلط ہوگا کہ ہم ہر میدان میں نیکیوں میں آگے بڑھنے والے لوگ ہیں اور یہ ہمارا سمح نظر ہے اور یہی ہمارا مقصد ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حسین معاشرے کے قیام کے لئے ایک بڑی اہم بات ہمیں یہ بتائی ہے جس پر عمل کر کے ہم جنت کے وارث ہو سکتے ہیں اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی، اور وہ ہے زبان پر قابو.اگر ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے لئے نیک خیالات رکھتا ہو، کبھی اس کے متعلق غلط بات کہنے کا خیال بھی دل میں نہ لائے.ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات ہوں.بعض دفعہ ایک شخص دوسرے کو ایسی بات کہہ جاتا ہے جو نامناسب ہوتی ہے، دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی ہوتی ہے، جس کو یہ بات کہی جائے وہ اگر وقتی طور پر خاموش بھی رہے لیکن دل میں محسوس کرتا ہے اور اس کے دل میں رنجش کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے جو آہستہ آہستہ فساد کا باعث بنتی ہے.اور جہاں یہ باتیں معاشرے میں تلخیوں کا باعث بنتی ہیں وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تلخ اور کڑوی باتیں کرنے والوں کو انذار کیا ہے کہ وہ لوگ پھر جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں.تو دیکھیں کہ کہاں تو مومنوں کا یہ مطمح نظر کہ انہوں نے نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے.اور نہ صرف خود نیکیوں میں ترقی کرنی ہے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلانی ہے، ان کو بھی نیکیوں میں اپنے ساتھ ملانا ہے.اور کہاں یہ عمل کہ دوسرے کے جذبات کا خیال بھی نہ رکھنا تو ایسے لوگوں کو تو کبھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کا صح نظر نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے.پس ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ وہ نیکیوں میں ترقی کے لئے اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرے.جماعت کی خاطر قربانی کے معیار بلند کرے.احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو ہر شخص تک پہنچا کر تبلیغ کا حق ادا کرے اور اس کے ساتھ ساتھ مخلوق کے حق ادا کرنا بھی ضروری ہے.ہرایسی چیز جو معاشرے میں امن پھیلانے کا باعث بنتی ہے، نیکی ہے.اور ہمیں یہ حکم ہے کہ

Page 283

خطبات مسرور جلد سوم 276 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005 ء نیکیوں میں آگے بڑھنے کو اپنا مقصد قرار دیں.ظاہر ہے جب ہم یہ فیصلہ کر لیں گے کہ ہم نے نیکیاں کرنی ہیں اور یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے تو پھر برائی کے خیال بھی ہمارے دل میں کبھی نہیں آ سکتے.کبھی یہ خیال بھی ہمارے دل میں نہیں آئے گا کہ ہم نے دل لگا کر محنت نہیں کرنی ، اپنے کام کا پورا حق ادا نہیں کرنا.کبھی یہ خیال دل میں نہیں آئے گا کہ ہم نے کسی کا حق مارنا ہے.کبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ ہم نے کسی بھی قسم کی اخلاقی برائی کرنی ہے.کبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ ہم نے جھوٹ بولنا ہے یا کوئی غلط بات کر کے فائدہ اٹھانا ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑا جھوٹ بولنا گناہ ہے لیکن چھوٹی موٹی غلط بات بیان کرنا جائز ہے.یہ سب نفس کے دھو کے ہیں.ہر احمدی کو اس سے بچنا چاہئے.اور صرف بچنا ہی نہیں چاہئے بلکہ یہ ارادہ کر لیں کہ ہم نے سوائے نیکیوں کے کچھ اور کرنا ہی نہیں اور جب یہ نیکیاں کر رہے ہوں گے تو پھر اس میں بڑھنے اور ترقی کرنے کی دوڑیں بھی لگیں گی ورنہ وہ مقصد حاصل کرنے والے نہیں ہوں گے جس کی خاطر آپ نے احمدیت قبول کی.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : اسلام میں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں.ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ ، مُقْتَصِدٌ ، سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ.ظَالِمٌ لِنفْسِه تو وہ ہوتے ہیں جو نفس امارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں.اور ابتدائی درجہ پر ہوتے ہیں.جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ اس حالت سے نجات پائیں.مُقْتَصِدٌ وہ ہوتے ہیں جن کو میانہ رو کہتے ہیں.ایک درجہ تک وہ نفس امارہ سے نجات پا جاتے ہیں.لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ اُن پر ہوتا ہے اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں ، پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی.مگر سابق بِالْخَيْرَات وہ ہوتے ہیں کہ اُن سے نیکیاں ہی سرزد ہوتی ہیں اور وہ سب سے بڑھ جاتے ہیں.ان کے حرکات وسکنات طبعی طور پر اس قسم کے ہو جاتے ہیں کہ اُن سے افعال حسنہ ہی کا صدور ہوتا ہے.گویا ان کے نفس امارہ پر بالکل موت آ جاتی ہے اور وہ

Page 284

خطبات مسرور جلد سوم 277 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005ء مطمئنہ حالت میں ہوتے ہیں.ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں گویاوہ ایک معمولی امر ہے.اس لئے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حد تک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی معرفت اور بصیرت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے.یہی وجہ ہے جو صوفی کہتے ہیں حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَيِّئَاتُ الْمُقَرَّبِيْن.(الحكم جلد نمبر 39 مورخه 10 نومبر 1905ء صفحه 5-6) اللہ کرے ہم اس کے مطابق نیکیاں کرنے والے ہوں اور نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں اور ہر احمدی ایک دوسرے سے نیکیوں میں بڑھنے والا ہوتا کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو خدا تعالیٰ ہمیں یہ نہ کہے کہ جب تمہیں نیکیوں کے کرنے بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کا حکم تھا تو پھر کیوں تم نے ان پر عمل نہیں کیا.اللہ ہم پر رحم فرمائے اور اپنے حکموں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اپنی بات ختم کرنے سے پہلے میں پھر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ان دو دنوں میں آپ نے جو بھی نیکی کی باتیں سکھی ہیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں.اپنے گھروں میں جا کر یہ نیکی کی باتیں بھول نہ جائیں بلکہ اپنے بیوی بچوں میں بھی ان کو قائم کرنے کی بھر پور کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے.اللہ تعالیٰ آپ کو ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جلسہ پر آنے والوں کے لئے کی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے.آپ کی ہر فکر ، رنج اور غم کو دور فرمائے اور اس ملک کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھولے.اور آپ سب کے دلوں میں جماعت اور خلافت سے وفا اور محبت کو بڑھاتا رہے.آمین.آخر پر خطبہ ثانیہ سے پہلے میں دو وفات شدگان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ایک تو ہیں مولانا محمد احمد صاحب جلیل.یہ سلسلہ کے ایک پرانے خادم تھے.انہوں نے جماعت کے شعبوں میں مختلف جگہوں پر کام کیا ہے اور جامعہ احمد یہ ربوہ میں بھی پڑھایا ہے.ان کے بہت سارے شاگرد ہیں جو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور خدمات دینیہ بجالا رہے ہیں.یہ بڑا لمبا عرصہ مفتی سلسلہ عالیہ

Page 285

خطبات مسرور جلد سوم 278 خطبہ جمعہ 29 اپریل 2005 ء احمد یہ بھی رہے ہیں.اور بڑے ہنس مکھ اور خوش مزاج آدمی تھے.اور بڑے عاجز انسان تھے.نیکیوں میں بڑھنے والے اور بڑی بزرگ طبیعت کے مالک تھے، نیک طبیعت کے مالک تھے.ایک لمبا عرصہ بیمار رہ کر ان کی دو تین دن پہلے وفات ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.دوسرے میرے بڑے بھائی مکرم مرزا ادریس احمد صاحب کی دو دن پہلے وفات ہوئی ہے.پھیپھڑوں میں کینسر کی وجہ سے کچھ عرصہ سے بیمار تھے.آپریشن ہوا تھا جس کے بعد طبیعت بگڑتی گئی.چند ماہ پہلے سے، جب سے بیماری کا پتہ لگا، بڑی بہادری سے بیماری کا مقابلہ کیا بلکہ دوسرے عزیزوں کو بھی تسلی دلایا کرتے تھے.بے نفس اور بڑی خوبیوں کے مالک تھے.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے.یہ بھی دعا کریں کہ ہر دو وفات یافتگان جو ہیں ان کی نسلوں میں بھی خلافت اور جماعت سے وفا و محبت ہمیشہ قائم رہے.ابھی نماز جمعہ اور عصر کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب بھی میں پڑھاؤں گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان جلسوں کی ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ دوران سال جو دوست وفات پائیں ان کی مغفرت کے لئے بھی دعا کی جائے.تو اس ملک کینیا میں بھی جو احمدی بزرگ جنہوں نے وفات پائی ہے ان کی مغفرت کے لئے دعا بھی اس جنازہ میں ساتھ شامل کر لیں.امیر صاحب نے حاضری کی یہ رپورٹ دی ہے کہ ان کا پہلے جو جلسہ ہوا تھا اس میں پندرہ سو حاضری تھی.اب اللہ کے فضل سے اس وقت سات ہزار دوسو حاضری ہے.اور بہت سارے لوگ غربت کی وجہ سے بہت سارے علاقوں سے آئے بھی نہیں.انشاء اللہ تعالیٰ میں ان علاقوں میں جا بھی رہا ہوں ، دورہ کروں گا.بہر حال حاضری اس سے بہت بڑھ سکتی تھی.

Page 286

خطبات مسرور جلد سوم 279 (17) خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005 ء امر بالمعروف ونهى عن المنكر اور جماعت کی ذمہ داری خطبه جمعه فرموده 6 مئی 2005ء بمقام مسجد بیت الرحمن، ممباسہ، کینیا ( مشرقی افریقہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَلَوْا مَنَ أَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ پھر فرمایا:.( آل عمران: 111) اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہے.تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو.یعنی ہم لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، بہترین لوگ ہیں.اور اب جبکہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش خبریوں کے مطابق آنے والے مسیح اور مہدی کو بھی مان لیا ہے جس نے اسلام کی بھولی ہوئی تعلیم کو دوبارہ ہم میں رائج کیا تو اس مسیح موعود کو ماننے کے بعد ہم یقیناً بہترین لوگ ہیں.کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے

Page 287

خطبات مسرور جلد سوم 280 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005 ء لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک تمام انبیاء کو مان کر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کا اعلان کیا ہے تو اس اعلان کے بعد ہماری ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس اعلان کے ساتھ کہ ہم احمدی مسلمان ہیں ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بہترین امت کہلاتے ہو اس لئے کہ دوسروں تک تم نیکیوں کا پیغام پہنچاتے ہو اور ان کو برائیوں سے روکتے ہو.اور دوسروں کے بارے میں بھی ہمیشہ نیک سوچ رکھتے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اچھے لوگ اس لئے ہو کہ صرف اپنے متعلق یا اپنے بیوی بچوں کے متعلق نہیں سوچتے یا اپنے خاندان کے متعلق یا اپنے قبیلے سے متعلق یا صرف اپنے ملک کے لوگوں کے متعلق نہیں سوچتے، بلکہ یہ سوچ رکھتے ہو کہ کوئی شخص چاہے وہ کسی خاندان کا ہو، کسی قبیلے کا ہو، کسی ملک کا ہو تم نے ہر ایک سے نیکی کرنی ہے اور ہر ایک کا دل جیتنا ہے.اور یہ تم پر فرض ہے کہ اس دل جیتنے کے لئے کبھی کسی سے کسی قسم کی برائی نہیں کرنی، بلکہ تمہارے ہر عمل سے محبت ٹپکتی ہو.اور یہ سب کام تم نے اس لئے کرنے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور اس کے بغیر تمہارا اللہ تعالیٰ پر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا.تو دیکھیں بہترین امت اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے نہیں بنایا کہ ہم مسلمان ہو گئے.جس طرح بہت سے مسلمانوں کو آپ دیکھتے ہیں، جن سے اگر تم پوچھو کہ مسلمان ہو تو کہتے ہیں کہ الحمد للہ ہم مسلمان ہیں.لیکن اگر ان کے عمل کو دیکھو تو نظر آئے گا کہ شیطان بھی ان لوگوں سے دور بھاگتا ہے.تو امت مسلمہ کا بہترین فرد ہونے کے لئے ضروری ہے کہ نیک عمل کرو اور برائیوں کو چھوڑو.جب اپنے عمل ایسے بناؤ گے تبھی تم دوسروں کو نیکیوں کا حکم دے سکتے ہو اور برائیوں سے روک سکتے ہو.ورنہ تو جب بھی تم اصلاح کی کوشش کرو گے تو تمہیں یہی جواب ملے گا کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو، اپنی اصلاح کرو.پس خیر امت نہ لوگوں کو دھوکہ دے کر بنا جا سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کو دھوکہ دے کر بنا جا سکتا ہے.اس لئے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے ، جماعت کو مضبوط کرنے کے لئے اچھی باتوں کو اپناؤ اور پھر آگے پہنچاؤ.اور جب ایسے عمل نیکیوں پر چلتے ہوئے اور برائیوں سے بچتے ہوئے انجام پارہے ہوں گے تو پھر تبلیغ میں آسانی ہوگی.اور جماعت کے اندر بھی بہترین تربیت

Page 288

خطبات مسرور جلد سوم 281 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005 ء ہو رہی ہوگی.کیونکہ نیکیوں کو رائج کیا جارہا ہوگا اور برائیوں سے روکا جار ہا ہوگا.یہ نیک باتیں اور اچھی باتیں بے شمار ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.مثلاً رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے، امانت ہے، دوسروں کی خاطر قربانی ہے، انسانی ہمدردی ہے، دوسروں کے متعلق اچھے خیالات رکھنے کی تعلیم ہے، سچ بولنا ہے، دوسروں کو معاف کرنا ہے، صبر کرنا ہے، انصاف سے کام لینا ہے، دوسروں پر احسان کرنا ہے، اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہے، ہر طرح کے گند، ذہنی بھی اور جسمانی بھی، سے اپنے آپ کو پاک رکھنا ہے.ذہنی گند یہ ہے کہ دماغ میں دوسرے کو نقصان پہنچانے یا اخلاق سے گری حرکتیں کرنے کا خیال دل میں آئے.پھر اچھی باتوں میں معاشرے میں آپس میں محبت اور پیار کو بڑھانا ہے.رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا ہے، ہمسایوں سے، اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے اچھا سلوک کرنا ہے.خوش اخلاقی ہے، پھر جواچھی حیثیت کے ہیں یعنی مالی لحاظ سے بہتر حیثیت کے ہیں ان کو خود بھی غریبوں کا خیال رکھنا چاہئے اور اس تعلیم کو پھیلانا بھی چاہئے.اسی طرح بیشمار برائیاں ہیں جن سے انسان کو خود بھی رکھنا چاہئے اور دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہئے کیونکہ نیکیاں اختیار کرنے کے لئے برائیاں چھوڑ نا از حد ضروری ہے.ان برائیوں میں سے بعض کی مثال دیتا ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن میں یہ برائیاں نہیں ہونی چاہئیں.مثلاً کنجوسی کی عادت ہے یعنی دوسروں کی ضرورت کو دیکھ کر با وجود توفیق ہونے کے اس کی مدد نہ کرنا یا جماعتی چندوں میں ہاتھ روک کر رکھنا.پھر بدظنی کرنا ہے، دوسروں پر بلا وجہ الزام لگانا ہے، لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے، حسد کرنا ہے ، لغو اور بیہودہ باتیں ہیں جن سے اپنے آپ کو اور جماعت کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان ہو رہا ہوتا ہے.کسی کی غیبت کرنا ہے.جھوٹ بولنا ہے.جھوٹ بھی ایک بہت بڑی لعنت ہے جو انسان کو دوسرے گنا ہوں میں مبتلا کر دیتی ہے.خیانت کرنا ہے، اس میں آنکھ کی خیانت بھی ہے، مرد کا عورت کو بری نیت سے دیکھنا.کسی کی امانت میں خیانت بھی ہے.اس میں اور بھی بہت سی باتیں آجاتی ہیں.مثلاً اپنا کام صحیح طرح نہ کرنا.تو جیسا کہ میں نے کہا نیکیاں اختیار کرنے کے لئے برائیاں چھوڑنی ہوں گی.کیونکہ نیکی اور بدی ایک جگہ نہیں رہ سکتے.اس لئے ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ جب بھی کسی نیکی

Page 289

خطبات مسرور جلد سوم 282 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005 ء کو اختیار کریں تو اس کے ساتھ ہی چند برائیاں بھی چھٹ جائیں.اور اس طرح پھر ہر احمدی کا دل ہر برائی سے پاک ہوسکتا ہے.اور ہر ایک احمدی مسلمان جس کو نیکی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کا حکم ہے اسے سب سے پہلے اپنے آپ کو ہی برائیوں سے پاک کرنا ہوگا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہوگا.تبھی وہ دوسروں کو حکم دے سکتا ہے.ورنہ اگر ہم یہ نہیں کرتے تو ہم منافقت اور دوغلی باتوں کے مرتکب ہوتے ہیں.اور ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا ہےا.سخت انذار فرمایا ہے.اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جہنمی ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے.چنانچہ حضرت ابو وائل کی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے وسیلہ سے ایک لمبی روایت ہے.اس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک شخص کو قیامت کے روز لایا جائے گا.پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا.اس کی انتڑیاں آگ میں پیٹ سے باہر نکل آئیں گی.اس پر وہ ان کے گرد اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا اپنے کھونٹے کے گرد چکر لگاتا ہے.پھر جہنم والے اس کے گرد جمع ہو جائیں گے.اور اس سے پوچھیں گے تمہارا کیا معاملہ ہے.کیا تو ہمیں معروف کام کرنے اور نا پسندیدہ امور کو ترک کرنے کا حکم نہ دیتا تھا ؟ اس پر وہ کہے گا کہ میں تم کو معروف کام کرنے کا حکم دیتا تھا.مگر خود معروف کام نہ کرتا تھا.اور میں تم کو نا پسندیدہ افعال کا مرتکب ہونے سے روکتا تھا مگر میں خود ان کو بجالاتا تھا تو دیکھیں کس قدر ڈرایا گیا ہے.اس لئے ہر احمدی کو جو نیکیوں کی تلقین دوسروں کو کرتا ہے خود بھی ان نیکیوں پر عمل کرنا چاہئے.اور خاص طور پر جن کے سپر د جماعت کی طرف سے یہ کام ہوتا ہے ان کو تو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ، اس کا فضل مانگنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے اگر یہ انذار سن کر کسی کو یہ خیال آئے کہ پھر تو بہتر ہے کہ میں خاموش رہوں اور کبھی نیکیوں کی تعلیم نہ دوں اور نہ بری باتوں سے روکوں جب تک کہ میں خود اس قابل نہیں ہو جاتا.اگر یہ خیال آئے گا تو انسان اپنی اصلاح سے بے پرواہ ہو جاتا ہے.اس لئے یہ تعلیم دینا بھی ضروری

Page 290

خطبات مسرور جلد سوم 283 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005 ء ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے.پس ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیکیوں کی تعلیم بھی دے اور ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرتا رہے، اپنا جائزہ بھی لیتا رہے کہ میری اصلاح ہورہی ہے کہ نہیں.یہ انتہائی ضروری امر ہے.اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور امر بالمعروف کرو اور تم ضرور نا پسندیدہ باتوں سے منع کرو.ورنہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کرے.اور عذاب نازل ہونے کے بعد تم دعا کرو گے مگر تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی.(ترمذى.ابواب الفتن.باب ماجاء في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر ) تو آئندہ آنے والی ہر مصیبت سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک مومن نیک باتوں کی طرف لوگوں کو بلائے اور برائیوں سے انہیں روکے.تو جیسا کہ فرمایا کہ اس کام کو نہ کرنے کی وجہ سے تم پر عذاب آ سکتا ہے اور پھر دعا ئیں بھی قبول نہیں ہوں گی.اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ نیک کام کرنے کی وجہ سے تمہاری دعائیں بھی قبول ہوں گی اور تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیک باتوں کے کرنے اور پھیلانے اور اسی طرح برائی سے رکنے اور دوسروں کو روکنے کے بارے میں اس طرح توجہ فرماتے تھے کہ آپ نے نیک کام نہ کرنے والے سے لا تعلقی کا اظہار فرمایا ہے.چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ نیکیاں کرو اور نیکیاں بجالاؤ.چنانچہ ایک روایت میں آپ فرماتے ہیں وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے بچوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بوڑھوں کی عزت اور احترام کا حق ادا نہیں کرتا اور معروف باتوں کا حکم نہیں دیتا اور نا پسندیدہ باتوں سے منع نہیں کرتا.(ترمذی - کتاب البر والصلة – باب ما جاء في رحمة الصبيان) یعنی یہ معروف باتیں ہیں.اس حد تک کہ بچوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے.کیونکہ ان سے حسن سلوک بھی نیک عمل میں ایک عمل ہے.اسی طرح بڑوں ، بوڑھوں اور بزرگوں کی عزت کا اور احترام کا خیال رکھنا ہے اور اسی طرح اور دوسری نیکی کی باتیں ہیں جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے

Page 291

خطبات مسرور جلد سوم 284 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005 ء وہ کرنی ضروری ہیں.اور جن برائیوں سے رُکنے کا حکم دیا گیا ہے ان برائیوں سے رُکنا بھی ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس طرح نہیں کرتے تو پھر میرا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں ہے.نیکیوں کے کرنے اور برائیوں سے رکنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں : ” پس زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے.اسی طرح امر حق کے اظہار کے لئے کھولنا لا زمی امر ہے.يَا مُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾ ( آل عمران : 115) مومنوں کی شان ہے.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے.پس یا درکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو.ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے.اور انداز بیان ایسا ہونا چاہئے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو.اور ایسا ہی تقویٰ کے خلاف بھی زبان کا کھولنا سخت گناہ ہے“.یعنی ہمیشہ یہ یادرکھیں کہ حق کے اظہار کے لئے کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا کیونکہ جرات سے نیکیوں کو پھیلانا ، ان کے کرنے کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہی ایک معیار ہے جس سے مومن ہونے کا پتہ چلتا ہے.لیکن مومن کا عمل بھی اس کے مطابق ہونا چاہئے.جب اپنا عمل بھی ہو گا تب ہی اثر بھی قائم ہو گا.اور جب عمل ہوگا تو پھر سختی کی ضرورت نہیں رہے گی.ایسے آدمی کی تلقین کا بھی لوگ نیک اثر لیں گے جن کے اپنے عمل بھی اچھے ہوں گے.آپ نے یہی تلقین فرمائی ہے کہ اگر سمجھانے والے کے دل میں تقویٰ ہے، سمجھانے والے کے دل میں نیکی ہے، سمجھانے والے کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف ہے تو موقع کے مطابق اگر بات کرو گے تو نیک بات کا اثر ہوگا.لیکن موقع محل کے حساب سے تلقین کرنا ضروری ہے.اگر کسی کی برائی دیکھ کر لوگوں کے سامنے ہی اس کو سمجھانے لگ جاؤ گے اور زبان میں تیزی پیدا کرو گے تو پھر دوسرا شخص جس کو تم سمجھا (ملفوظات جلد اول صفحه 281-282 جدید ایڈیشن)

Page 292

خطبات مسرور جلد سوم 285 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005ء رہے ہو گے نیک اثر نہیں لے گا.بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر ضد میں آکر برائی کرے.پس سمجھانے کے لئے بھی موقع اور وقت اور عمل اور تقویٰ ضروری ہے.اگر اس طرح عمل ہوں گے تو خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس کے رحم کے بھی یقیناً حقدار ہوں گے.کیونکہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو یہ نیک عمل کر رہے ہوں گے میں ان پر ضرور رحم کروں گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ہر قسم کی برائی سے رکنے اور ہر قسم کی نیکی اختیار کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان برائیوں اور نیک باتوں کی بعض کی میں نے مثالیں بھی دی ہیں، مختصر طور پر نام بتائے ہیں.اب ان برائیوں میں سے چند ایک کی وقت کے لحاظ سے کچھ تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتا ہوں.مثلاً غیبت ہے.کسی کا اس کے پیچھے برے الفاظ میں ذکر کرنا قطع نظر اس کے کہ وہ برائی اس میں ہے یا نہیں.اگر اس کی کسی برائی کا اس کے پیچھے ذکر ہوتا ہے اور باتیں کی جاتی ہیں تو یہ غیبت ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بیعت لیا کرتے تھے تو اس بات پر خاص طور پر بیعت لیا کرتے تھے کہ غیبت نہیں کروں گا.تو کتنی اہمیت ہے اس بُرائی کی کیونکہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے.ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا ہوتی ہیں.اور پھر یہ بعض دفعہ جماعت میں فتنے کا باعث بنتی ہیں.اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس برائی کے متعلق بہت زور دے کر سمجھایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں.لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دُور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں.کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دور نہیں ہو سکتا.اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعے سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے.آپ نے فرمایا کہ : ” ایک صوفی کے دو مرید تھے.ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا.دوسرے نے صوفی سے شکایت کی.اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جا کر اٹھا نہیں لاتا.وہ اُسی وقت گیا اور اسے اٹھا کر لے چلا.کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت

Page 293

خطبات مسرور جلد سوم 286 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005ء شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اسے اٹھا کر لے جارہا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ صوفی کا یہ مطلب تھا کہ تو نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی“.آپ فرماتے ہیں کہ : "آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے برا لگے غیبت ہے.اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تو بیان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا (الحجرات: 13) اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے.اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں.اور اگر یہ بات نہیں ہے تو یہ آیت بریکار جاتی ہے.اگر مومنوں کو ایسا ہی مظہر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی؟.بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے.بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے.بعض میں کچھ طاقت آگئی ہے.پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے.اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے.اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضاء وقد رکا معاملہ سمجھے.جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سر دست جوش نہ دکھلا یا جاوے.ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے.قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے.بلکہ لکھا ہے الْقُطْبُ قَدْ يَزنى، قطب سے بھی زنا ہو جاتا ہے.بہت سے چور اور زانی آخر کا ر قطب اور ابدال بن گئے.جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے.کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پوری کوشش کرتا ہے.ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے.قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلا ؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو.بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةٍ ﴾ (البلد: 18 ) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مرحمۃ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے.دعا میں بڑی

Page 294

خطبات مسرور جلد سوم 287 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005ء تاثیر ہے.اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو.( آپ نے یہاں فارسی کا ایک شعر بیان فرمایا ہے اس میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کو تو علم ہے اس کے باوجود پردہ پوشی کرتا ہے) مگر ہمسایہ کو علم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے.خدا تعالیٰ کا نام ستار ہے.تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ الله بنو.ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آ گیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے.شیخ سعدی کے دوشاگرد تھے.ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کیا کرتا تھا.دوسرا جلا بھنا کرتا تھا.آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے.شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تو نے غیبت کی.غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم ، دعا، ستاری اور مَرْحَمَۃ آپس میں نہ ہو.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 60-61 جدید ایڈیشن - البدر صفحه 4 مورخہ 18 جولائی 1904ء) پس اس سے واضح ہو گیا کہ غیبت کتنی بری چیز ہے اور کتنی بڑی برائی ہے.پھر ایک برائی ہے جھوٹ ، کوئی شخص اگر ذراسی مشکل میں بھی ہو تو اس سے بچنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لے لیتا ہے.اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جھوٹ کو برائی نہیں سمجھا جاتا.حالانکہ جھوٹ ایسی برائی ہے جو سب برائیوں کی جڑ ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک برائی سے چھٹکارہ پانے کی درخواست کرنے والے کو یہی فرمایا تھا کہ اگر ساری برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو ایک برائی کو چھوڑ دو اور وہ ہے جھوٹ.اور یہ عہد کرو کہ ہمیشہ سچ بولو گے.اب بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ صرف اتنا ہے کہ عدالت میں غلط بیان دے دیا.اگر چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تو جھوٹ بول کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی.اگر کوئی غیر اخلاقی حرکت کی تو جھوٹ بول دیا.یا کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دے دی اور بلاوجہ کسی کو مشکل میں مبتلا کر دیا.یقیناً یہ سب باتیں جھوٹ ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی غلط بیانیاں کرنا بھی جھوٹ ہے.

Page 295

خطبات مسرور جلد سوم 288 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005 ء آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے ہمیں اس کی ایک مثال دی ہے.جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جھوٹ کی تعریف کیا ہے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا آؤ میں تمہیں کچھ دیتا ہوں اور اسے دیتا کچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہوگا.یہ جھوٹ کی تعریف ہے.اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو پتہ چلے گا کہ ہم روزانہ کتنی دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ بول جاتے ہیں.مذاق مذاق میں ہم کتنی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جھوٹ ہوتی ہیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اگر ہم اس بارے میں گہرائی میں جا کر توجہ کریں گے.تب ہم اپنے اندر سے اور اپنے بچوں کے اندر سے جھوٹ کی لعنت کو ختم کر سکتے ہیں.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رنجس قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے ﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾ (الحج: (31) دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے.اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے.جیسے بُت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجر ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا.جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو.اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دُور نہیں ہوتا.مدت تک ریاضت کریں تب جا کر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی.(ملفوظات جلد دوم صفحه 266 جدید ایڈیشن - الحکم صفحه 1 تا 3 مورخه 24/ اگست 1902ء) تو دیکھیں کتنی سچی بات آپ نے فرمائی ہے.ہم روزانہ اپنی زندگی میں تجربہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی جھوٹ بولنے والا سچ بھی بول دے تو تب بھی ہم اس کو جھوٹا ہی سمجھتے ہیں.نیکی اور برائی کے ضمن میں ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض نیکیوں اور بعض برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.اس بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی

Page 296

خطبات مسرور جلد سوم 289 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005 ء بندے کے دل میں ایمان اور کفر جمع نہیں ہو سکتے اور نہ سچائی اور کذب بیانی اکٹھے ہو سکتے ہیں.اور نہ ہی دیانت داری اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحه349 مطبوعه بيروت) تو پہلی بات تو آپ نے یہ فرمائی کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص جس کے دل میں ایمان ہو وہ کفر کی باتیں بھی کہے.جیسا کہ ہم شروع میں آیت میں دیکھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نیکیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہیں.اور اس حدیث کے مطابق جو یہ نہیں کرتے ان کے دل میں کفر ہے.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ سچائی جو اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے اور جھوٹ جو کافروں کا عمل ہے ایک جگہ اکٹھے ہوسکیں.اور اسی طرح دیانتداری جو ایمان کا حصہ ہے اور خیانت کسی کا مال کھانا، کسی کام کو صیح طور پر نہ کرنا جو یقیناً ایک مومن کی شان نہیں ، ایک جگہ جمع کیونکر ہو سکتے ہیں؟.پس ہم جو احمدی مسلمان ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے حکموں پر چلیں گے اور سب برائیوں کو چھوڑیں گے اور تمام نیکیوں کو اختیار کریں گے.ہمیں ہر برائی کو چھوڑنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے.اگر انسان کا ارادہ پکا ہو، اور اللہ تعالیٰ سے فضل مانگ رہے ہوں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ برائیاں نہ چھٹیں اور آپ اس قابل نہ ہوسکیں کہ دوسروں کو نیکیوں کی تلقین کرنے والے بنیں.سچ کو مان کر پھر انسان جھوٹ کس طرح بول سکتا ہے اور امانت کی ادائیگی کا عہد کر کے پھر کس طرح خیانت ہو سکتی ہے.پس ہر احمدی جو بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوا ہے اس کا بیعت کا عہد بھی ایک امانت ہے.اور کبھی کسی احمدی کو احمدیت کی تعلیم پر عمل نہ کر کے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہ کر کے خیانت کا مرتکب نہیں ہونا چاہئے.پس ہر احمدی اس پر سختی سے عمل کرے کہ نہ تو ذاتی طور پر اور نہ جماعتی طور پر خیانت کا مرتکب ہوگا.اگر کسی کے سپر د کوئی جماعتی خدمت ہے تو وہ اسے نہایت ایمانداری سے ادا کرے گا.اگر کسی کو جماعتی اموال کا نگران بنایا گیا ہے تو وہ اس کی نہایت ایمانداری سے حفاظت کرے گا اور کبھی کسی خیانت کا مرتکب نہیں ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ تم اپنی امانت کی ادائیگی کے معیاروں کو اس قدر بلند کرو کہ اگر دنیاوی معاملات میں بھی کوئی شخص تمہارے ساتھ

Page 297

خطبات مسرور جلد سوم 290 خطبہ جمعہ 6 رمئی 2005 ء یعنی خیانت سے پیش آچکا ہے تو پھر بھی تم اس سے خیانت نہ کرو.اگر اس کی کوئی امانت تمہارے پاس ہے تو اس کو لوٹا دو.تو پھر دین کے معاملے میں اس کا کس قدرا حساس ہمیں رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” امانت و دیانت.دوسرے کے مال پر شرارت اور بدنیتی سے قبضہ کر کے اس کو ایذا پہنچانے پر راضی نہ ہونا.سو واضح ہو کہ دیانت اور امانت انسان کی طبعی حالتوں میں سے ایک حالت ہے.اسی واسطے ایک بچہ شیر خوار بھی جو بوجہ اپنی کم سنی اپنی طبعی سادگی پر ہوتا ہے.اور نیز باعث صغرسنی ابھی بری عادتوں کا عادی نہیں ہوتا.اس قدر غیر کی چیز سے نفرت رکھتا ہے کہ غیر عورت کا دودھ بھی مشکل سے پیتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه (344) تو دیکھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی یہ فطرت بنائی ہے کہ ایک بچہ جس کو دنیا کا کچھ بھی پتہ نہیں وہ بھی اپنا حق پہچانتا ہے.اور سمجھتا ہے کہ دوسری عورت کا دودھ پینا خیانت ہے.اگر ضرورت ہو تو آخر اس کو کوشش کے بعد دوسری عورت کا دودھ پینے کی عادت ڈالی جاتی ہے.لیکن بڑے ہو کر ماحول کے زیر اثر بہت سے لوگ اکثر معاملات میں خیانت کرنے لگ جاتے ہیں.اور انبیاء اس ماحول کے اثر کو پاک کرنے اور نیک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں.اب ہم جو احمدی ہیں اور جنہوں نے اس زمانے میں مسیح موعود کی بیعت کی ہے.آپ کو مانا ہے، ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ہر قسم کی خیانت سے بھی بچنا چاہئے.جھوٹ سے بھی بچنا ہے دوسری برائیوں سے بھی بچنا ہے.اور نہ صرف بچنا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور ایک مومن کی جو اللہ تعالیٰ نے نشانی بتائی ہے، اس نشانی کے مطابق ان برائیوں سے دوسروں کو بھی بچانا ہے اور ان کو بھی نیکیوں کی تعلیم دینی ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنے اپنے دائرے میں اس عمل کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو مضبوط احمدی بنائے جو اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.آمین.انشاء اللہ اگلے دو دن تک میں اگلے دو ملکوں کے دورے پر جاؤں گا.اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت کرے.ہر لحاظ سے اپنی مدد اور نصرت فرما تار ہے.آمین

Page 298

خطبات مسرور جلد سوم 291 (18) جمعہ 13 رمئی 2005ء ہماری کامیابی کی ضمانت تقویٰ کا اعلیٰ معیار خطبه جمعه فرموده 13 رمئی 2005ء بمقام مسجد سلام ، دارالسلام، تنزانیہ (مشرقی افریقہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی.حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے.جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے:.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَّاتِكُمْ (الانفال : 30) وَيَجْعَل لَّكُمُ نُورًا تَمُشُونَ بِهِ (الحديد: 29) یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا.وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے.یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آجائے گا.تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا.تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہوگا.اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری

Page 299

خطبات مسرور جلد سوم 292 خطبہ جمعہ 13 رمئی 2005 ء زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا.اور جن را ہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قومی کی راہیں، تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گئے“.(آئینه کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحه 177-178) یہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ صرف دعوی ہی کافی نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور اس کا تقویٰ اختیار کرتا ہوں.بلکہ اگر اپنے ہر عمل سے یہ ثابت کرو گے کہ اگر مجھے کوئی خوف ہے تو صرف خدا کا خوف ہے، اگر مجھے کوئی خوف ہے تو صرف یہ کہ میرا خدا مجھ سے ناراض نہ ہو جائے ہمیں کوئی ایسا کام نہ کروں جو اس کی ناراضگی کا باعث بنے.دنیا کی ہر چیز سے زیادہ مجھے خدا محبوب ہو.اور پھر یہی نہیں کہ کبھی اس کا اظہار ہو گیا اور کبھی نہ، بلکہ اب یہ تمہاری زندگیوں کا حصہ بن جانا چاہئے.کوئی دنیاوی لالچ اور کوئی رشتہ تمہیں خدا تعالیٰ سے زیادہ محبوب نہ ہو، تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گیا ہے.تقویٰ کی وضاحت کرتے ہوئے آپ مزید فرماتے ہیں کہ : تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.عجب ، خود پسندی، مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے.(ملفوظات جلد اوّل صفحه 50 جدید ایڈیشن - رپورٹ جلسه سالانه 1897ء صفحه 83) یہ چند برائیاں گنوا کر آپ نے یہی فرمایا ہے کہ تمام برائیوں سے اس لئے بچنا اور تمام نیکیوں کو اس لئے اختیار کرنا ہے کہ اللہ کا پیار حاصل ہو.اور اسی کا نام تقویٰ ہے.اور جب تم یہ معیار حاصل کر لو گے تو سمجھو کہ تم نے خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کر لیا ہے.اور جب خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے گا تو یا درکھو کہ وہ انسانوں کی طرح پیار نہیں کرتا کہ کبھی دوستی نبھائی اور کبھی نہ نبھائی اور کبھی پرواہ نہ کی.بلکہ جو شخص تقویٰ پر قائم ہو جائے تو ایسے شخص کا اللہ تعالیٰ اس قدر فکر کرتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش سے پتہ لگ رہا ہوگا کہ یہ شخص وہ ہے جو تقویٰ پر قائم ہے اور ایک دنیا دار میں اور اُس میں ایک واضح فرق ہے.تقویٰ پر قائم شخص کو اللہ تعالیٰ

Page 300

خطبات مسرور جلد سوم 293 خطبہ جمعہ 13 رمئی 2005 ء سرتا پا نورانی بنادیتا ہے.اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو ہی نہیں سکتی جس سے اللہ تعالیٰ کے نور کا اظہار نہ ہو رہا ہو.اس کا ہر عمل ، اس کا ہر فعل اور اس کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہو رہا ہو گا.اور ایسا شخص جب کسی مجلس میں جائے گا، جہاں بھی جائے گا اس کا ایک رعب ہوگا.خدا تعالی کی تائید اس کے ساتھ ہوگی.پس آپ فرماتے ہیں کہ یہی تقویٰ ہے جو ہر احمدی میں ہونا چاہئے.اگر ہر احمدی یہ حاصل کرلے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق تم میں اور غیر میں ایک واضح فرق ظاہر فرما دے گا.پس ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہئے کہ ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.جماعت احمدیہ کی فتح اور اس کا غلبہ دنیاوی ہتھیاروں کے ذریعہ سے نہیں ہونا بلکہ یہ نیکیاں اور تقویٰ ہے جو ہماری کامیابی کے ضامن ہیں.ورنہ دنیاوی لحاظ سے تو نہ ہمارے پاس طاقت ہے اور نہ وسائل ہیں.دنیاوی وسائل کے لحاظ سے تو ہم غیر کا ایک منٹ بھی مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن اگر ہم میں تقویٰ پیدا ہو جائے گا ، اگر ہم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کر لیں گے، اگر ہم اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کر لیں گے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں وہ طاقتیں عطا کروں گا جن کا کوئی غیر اور کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی مقابلہ نہیں کر سکتی.پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خاص تبدیلی پیدا کرے.اپنے تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو کر ہم نے جو یہ عہد کیا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں گے، اس کی عبادت بجالائیں گے، اس کے حکموں پر عمل کریں گے ، دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے، مخلوق کے حقوق ادا کریں گے ، اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھا ئیں گے، کسی کا حق نہیں ماریں گے، تکبر نہیں کریں گے ، بیوی خاوند اور خاوند بیوی کے حقوق ادا کرے گا اور صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ حقوق ادا کر وتو تبھی ہم متقی کہلا سکتے ہیں.جب یہ سارے حقوق ادا کریں گے تو ہی متقی کہلا سکیں گے.ایک حدیث میں ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی اس لئے ڈالتا ہے کہ خدا کی رضا حاصل کروں تو اللہ تعالیٰ اس کا بھی ثواب دیتا ہے.پس جو کام بھی آپ اللہ کا خوف دل

Page 301

خطبات مسرور جلد سوم 294 خطبہ جمعہ 13 رمئی 2005 ء میں رکھتے ہوئے اور اس کے پیار کو حاصل کرنے لئے کریں گے وہ تقویٰ ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس سوچ کے ساتھ آپ اپنا ہر فعل کر رہے ہوں گے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت کبھی آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتی.اور نہ صرف آپ جماعتی لحاظ سے مضبوط ہوں گے بلکہ ذاتی طور پر بھی معاشرے میں آپ کا مقام بلند ہو گا.آپ کے مال اور اولاد میں خدا تعالیٰ برکت نازل فرمائے گا اور آپ کو عزت کا مقام عطا فرمائے گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللــ عِنْدَاللَّـ اتْقَاكُمْ (الحجرات : (14) یعنی اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ معزز کہے اسے پھر دنیا میں ذلیل ہونے کے لئے چھوڑ دے.اللہ تعالیٰ جو سب دوستوں سے زیادہ دوستی کا حق ادا کرنے والا ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا داروں کے مقابلے میں اپنے بندے کو ذلیل و رسوا کرائے.یہ ٹھیک ہے کہ انبیاء کو دنیاداروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ دنیا دار ہر کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اس کے پیغام کو پھیلنے نہ دیں.دنیا کی نظر میں اس کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر کیا خدا نے کبھی ان کو چھوڑا ہے؟ کبھی نہیں.نبی تو پھر خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرماتا ہے اور دنیا میں کامیاب کر کے چھوڑتا ہے یا نہ ماننے والوں کو سزا کے طور پر مختلف شکلوں میں عذاب دیتا ہے.لیکن یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ایک عام آدمی کو بھی جو تقویٰ پر قائم ہو، نہیں چھوڑتا.جو اُس سے تعلق جوڑ لیتا ہے وہ اپنے وعدے کے مطابق اس کی عزت قائم کرتا ہے.مگر شرط یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس میں استحکام ہونا چاہئے ، اس میں مستقل مزاجی ہونی چاہئے ، اور ذرا سے ابتلا سے دنیا سے ڈرکر جوسب دوستوں سے بڑھ کر دوست اور ولی ہے اس کا در چھوڑ نہیں دینا چاہئے.اگر مستقل مزاجی سے اس کے در پر جھکے رہیں گے اور اس کا دامن پکڑے رہیں گے تو وہ نہ صرف ہر مشکل سے بچائے گا بلکہ رعب بھی قائم کرے گا.اللہ تعالیٰ تو ایسا باوفا دوست ہے کہ اپنے بندوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کی تکلیفیں دور کرنے کی فکر میں بھی رہتا ہے اور ان کے لئے ان تکلیفوں کو دور کرنے کے

Page 302

خطبات مسرور جلد سوم 295 خطبہ جمعہ 13 رمئی 2005 ء راستے نکالتا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے ﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق: 3) یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے تکلیفوں اور پریشانیوں سے بچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا.اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے در پر آنے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے متعلق یہ بھی فرماتا ہے کہ میں ان کے رزق میں بھی برکت ڈالتا ہوں.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بے تحاشا مال ہونا بھی رزق میں برکت ہے.ٹھیک ہے اگر کسی نیک آدمی کے پاس مال ہے تو یہ اُس پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس سے وہ اپنے ساتھ اپنے بھائیوں کی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے.لیکن یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ مال میں برکت اس طرح بھی ڈالتا ہے کہ ایک بندے کو بہت سی لغویات اور گناہوں سے بچا کر رکھتا ہے.مثلاً جوا،شراب، زنا وغیرہ سے بچایا ہوا ہے.اور اسی رقم سے جہاں ایک احمدی مسلمان اپنے بیوی بچوں کے خرچ بھی برداشت کرتا ہے اور چندے بھی دیتا ہے وہاں اتنی رقم سے لغویات اور گناہوں میں مبتلا ایک شخص کے گھر میں ہر وقت دنگا فساد اور بے برکتی ہی رہتی ہے اور غلاظت اور پھٹکار ہی ہر وقت ایسے گھروں میں پڑی رہتی ہے.غرض ایک برکت جو ایک متقی کے پیسے میں ہے وہ غیر متقی کے پیسے میں نہیں.پھر ضروریات زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ متقی شخص کے لئے ایسے ذرائع سے رقم کا انتظام کر دیتا ہے جو اس کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتا.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.﴿وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ (الطلاق:4) یعنی متقی کو اللہ تعالیٰ وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اس کو خیال بھی نہیں ہوگا.اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے.تو جب اس حد تک تقویٰ بڑھ جائے گا کہ انسان اس پر تو کل کرتے ہوئے غیر اللہ کے سامنے نہ جھکے تو پھر وہ خدا تعالیٰ کے دینے کے نظارے بھی دیکھتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ: ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ وطہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے.اس کا معیار قرآن ہے.اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے.جیسا کہ فرمایا وَمَنْ يَتَّقِ

Page 303

خطبات مسرور جلد سوم 296 خطبہ جمعہ 13 رمئی 2005 ء اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾ (الطلاق:43) جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں.یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا.مثلاً ایک دکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اُس کا کام نہیں چل سکتا اس لئے دروغگو ئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بھولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے.لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں.خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اُسے ایسے موقع سے بچالیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں.یادرکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا.جب رحمن نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا.(رپورٹ جلسه سالانه 1897ء صفحه 34 ملفوظات جلد 1 صفحه 8 جدید ایڈیشن) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور حاجات مختلفہ رکھتا ہے.اور ان کے حل اور روا ہونے کے لئے بھی تقوی ہی کو اصول قرار دیا ہے.معاش کی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہ نجات تقومی ہی ہے.فرمایا: ﴿ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾ (الطلاق: 3-4) متقی کے لئے ہر مشکل میں ایک مخرج پیدا کر دیتا ہے اور اس کو غیب سے اس سے مخلصی پانے کے اسباب بہم پہنچا دیتا ہے.اُس کو ایسے طور سے رزق دیتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہ لگے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ انسان اور دنیا میں چاہتا کیا ہے.انسان کی بڑی سے بڑی خواہش دنیا میں یہی ہے کہ اس کو سکھ اور آرام ملے.اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ مقرر کی ہے جو تقویٰ کی راہ کہلاتی اور دوسرے لفظوں میں اس کو قرآن کریم کی راہ کہتے ہیں.اور یا اس کا نام صراط مستقیم رکھتے ہیں.کوئی یہ نہ کہے کہ کفار کے پاس بھی مال و دولت اور املاک ہوتے ہیں اور وہ اپنی عیش و عشرت میں منہمک اور مست رہتے ہیں.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل ذلیل دنیا داروں اور ظاہر پرستوں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں.مگر در حقیقت وہ ایک جلن

Page 304

خطبات مسرور جلد سوم 297 خطبہ جمعہ 13 رمئی 2005 ء اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں.تم نے ان کی صورت کو دیکھا ہے مگر میں ایسے لوگوں کے قلب پر نگاہ رکھتا ہوں.وہ ایک سَعِیر اور سلاسل و اغلال میں جکڑے ہوئے ہیں“.(الحكم جلد 5 نمبر 11 صفحه 3 کالم 3 مورخه 24/ مارچ 1901ء) تو فرمایا کہ اصل چیز تقویٰ ہی ہے.اللہ تعالیٰ متقی کا کفیل ہوتا ہے.لیکن کسی کو خیال آ سکتا ہے کہ کافروں کے پاس بھی اتنا پیسہ ہے وہ عیش کرتے ہیں.فرمایا کہ تمہیں ان کے دلوں کا حال نہیں پتہ.گووہ بظاہر عیش کر رہے ہوتے ہیں لیکن فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ ان کے دل میں ایک آگ ہوتی ہے جس میں وہ جل رہے ہوتے ہیں.ایک ایسے لوہے کے طوق میں ان کا گلا پکڑا ہوا ہوتا ہے جس سے وہ نکل نہیں سکتے.دنیا دار بیچارے کو یہی فکر رہتی ہے کہ کہیں ان کا پیسہ ضائع نہ ہو جائے.آج کل مختلف قسم کی بیماریاں بھی ایسے لوگوں کو ہیں جو عموماً متقیوں کو نہیں ہوتیں.متقی انسان کو اگر کوئی فکر ہوتی ہے تو وہ اس غم میں گھلتا ہے کہ کہیں خدا تعالیٰ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے.لیکن دنیا دار کی دولت ذراسی بھی ضائع ہو جائے تو اس کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں.پھر وہ اور مختلف قسم کی عیاشیوں میں پڑا ہوتا ہے جس سے مختلف قسم کی بیماریوں کا حملہ ہوتا ہے.بعض لوگ اپنی دولت کے حساب میں ساری ساری رات جاگتے ہیں اور اسی وجہ سے بیمار ہو جاتے ہیں.بہر حال اگر کسی کے پاس دولت ہے اور تقوی نہیں ہے تو یہ دولت بھی ایک وبال ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : 'یہ ( آیت) ایک وسیع بشارت ہے.تم تقویٰ اختیار کر و خدا تمہارا کفیل ہوگا.اس کا جو وعدہ ہے وہ سب پورا کر دے گا“.(الحكم جلد 5 نمبر 42 صفحه 14 کالم 2 مورخه 17/ نومبر 1901ء) لیکن یہ بات بہر حال یاد رکھنی چاہئے کہ کامل تقویٰ ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے وعدے بھی پورے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی یعنی خوش مزاجی اور غصہ) محض خدا کے لئے ہو جائے گی.اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم

Page 305

خطبات مسرور جلد سوم 298 خطبہ جمعہ 13 رمئی 2005 ء خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں تو ڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے.تم بھی انسان ہو جیسا کہ میں انسان ہوں اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے.پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو.اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو میں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے.خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے.پھر فرمایا کہ: ”تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں.اُن کے لئے موقع ہے کہ اپنے جو ہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.فرمایا کہ: ” یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا“.(رساله الوصيت.روحانی خزائن جلد 20 صفحه 308-309) پس دیکھیں آپ لوگ جو افریقہ کے اس ملک میں بیٹھے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی شاخیں ہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق آپ کی جماعت کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیا ہے.مخالفین کہتے ہیں کہ یہ شخص جھوٹا ہے، یہ اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنے والا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کرنے والا ہے.کیا اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والوں اور تقویٰ سے ہٹے ہوئے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہ سلوک فرماتا ہے؟ پس یہ مخالفین جھوٹے ہیں اور یقیناً جھوٹے ہیں.آپ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ، اُس کے آگے جھکتے ہوئے ، تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند مسیح زمان کی جماعت سے چھٹے رہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ذاتی طور پر بھی اور بحیثیت جماعت بھی اپنے وعدے

Page 306

خطبات مسرور جلد سوم 299 خطبہ جمعہ 13 رمئی 2005 ء کے مطابق اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازتا رہے گا.اور یقینا آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کئے ہوئے خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کے مصداق ٹھہریں گے جس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : ”خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ، ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان، نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں.اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.“ (رساله الوصيت.روحانی خزائن جلد 20 صفحه 309) اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم ہمیشہ صدق کے قدم پر چلنے والے ہوں اور ہمارے ہر عمل سے تقویٰ ظاہر ہوتا ہو.یہاں ایک اور بات میں بیان کرنے سے نہیں رہ سکتا کہ آپ میں خلافت سے محبت اور وفا کا جذبہ قابل تعریف ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو تقویٰ پر قائم رکھتے ہوئے اس مضبوط بندھن کو اور مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور مجھے بھی آپ سے پہلے سے بڑھ کر محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ مجھے پیارے ہیں اس لئے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہیں.اور ہر وہ شخص مجھے پیارا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے.اور آپ کے روحانی فرزند سے آپ سے محبت کی وجہ سے محبت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے یہ سب تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین 谢谢谢

Page 307

300 خطبات مسرور جلد سوم

Page 308

خطبات مسرور جلد سوم 301 (19) خطبہ جمعہ 20 رمئی 2005ء توبه و استغفار شرائط اور برکات خطبہ جمعہ فرمودہ 20 رمئی 2005ء بمقام جنجا (Jinja) یوگنڈا (مشرقی افریقہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.وَ أَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتَّعُكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمِ كَبِيرٍ (هود:4) پھر فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے مقصد پیدائش کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ دنیا اور اس کے کھیل کو داور اس کی چکا چوند تمہیں تمہارے اس دنیا میں آنے کے مقصد سے غافل نہ کر دے بلکہ ہر وقت تمہارے پیش نظر یہ رہنا چاہئے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنا ہے، اس کی عبادت کرنی ہے.اگر یہ مقصد تمہارے پیش نظر رہے تو یا درکھو یہ دنیا خود بخود تمہاری غلام بن جائے گی.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں جہاں بھی ہم نظر ڈالتے

Page 309

خطبات مسرور جلد سوم 302 خطبہ جمعہ 20 رمئی 2005 ء ہیں شیطان بازو پھیلائے کھڑا ہے.اس کے حملے اور اس کے لالچ اس قدر شدید ہیں کہ سمجھ نہیں آتی اُن سے کیسے بچا جائے.ہر کونے پر ، ہر سڑک پر ، ہر محلے میں ، ہر شہر میں شیطانی چرنے کام کر رہے ہیں.اور سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو ان شیطانی حملوں سے بچنا مشکل ہے.جدھر دیکھو کوئی نہ کوئی بلا منہ پھاڑے کھڑی ہے.دنیا کی چیزوں کی اتنی اٹریکشن (Attraction) ہے، وہ اتنی زیادہ اپنی طرف کھینچتی ہیں اور سمجھ نہیں آتی کہ انسان کس طرح اپنے پیدائش کو سمجھے اور اس کی عبادت کرے.لیکن ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص احسان ہے کہ اُس نے خود ہی ان چیزوں سے بچنے کے لئے راستہ دکھا دیا ہے کہ مستقل مزاجی اور مضبوط ارادے کے ساتھ استغفار کرو تو شیطان جتنی بار بھی حملہ کرے گا منہ کی کھائے گا اور اس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: مقصد اور یہ کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو، پھر اس کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھکو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہترین معیشت عطا کرے گا.اور وہ ہر صاحب فضیلت کو اس کے شایان شان فضل عطا کرے گا.اور اگر تم پھر جاؤ تو یقینا میں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں.تو دیکھیں فرمایا کہ استغفار کرو اور جو استغفار نیک نیتی سے کی جائے ، جو تو بہ اس کے حضور جھکتے ہوئے کی جائے کہ اے اللہ ! یہ دنیاوی گند، یہ معاشرے کے گند، ہر کونے پر پڑے ہیں.اگر تیرا فضل نہ ہو، اگر تو نے مجھے مغفرت کی چادر میں نہ ڈھانپا تو میں بھی ان میں گر جاؤں گا.میں اس گند میں گرنا نہیں چاہتا.میری پچھلی غلطیاں، کوتاہیاں معاف فرما، آئندہ کے لئے میری توبہ قبول فرما.تو جب اس طرح استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ پچھلے گناہوں کو معاف کرتے ہوئے ، توبہ قبول کرتے ہوئے ، اپنی چادر میں ڈھانپ لے گا.اور پھر اپنی جناب سے اپنی نعمتوں سے حصہ بھی دے گا.دنیا بجھتی ہے کہ دنیا کے گند میں ہی پڑ کر یہ دنیاوی چیز یں ملتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تو بہ کرنے والے ہیں، جو استغفار کرنے والے ہیں، ان

Page 310

خطبات مسرور جلد سوم 303 خطبہ جمعہ 20 رمئی 2005 ء کو میں ہمیشہ کے لئے دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازتا رہوں گا.اُن کی زندگی میں بھی ان کے لئے اس دنیا کے دنیاوی سامان ہوں گے اور ان پر فضلوں کی بارش ہوگی.اور اُن کے یہ استغفار اور اُن کے نیک عمل آئندہ زندگی میں بھی اُن کے کام آئیں گے.اور یہی استغفار ہے جس سے شیطان کے تمام حربے فنا ہو جائیں گے.استغفار کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل اور قرب کی چادر میں لپٹنے کی دُعا مانگی جائے.جب انسان اس طرح دعا مانگ رہا ہو تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دُعا نہ سنے اور انسان کی دنیا و آخرت نہ سنورے اللہ تعالیٰ نے تو خود فرمایا ہے کہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ﴾ (المُؤمن : 61) کہ اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے ، وہ تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب میرا بندہ مجھ سے دعا مانگے.خود فرماتا ہے کہ تم مجھ سے مانگو میں دعا قبول کروں گا.اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ کب میرا بندہ مجھ سے استغفار کرے، کب وہ بچے طور پر تو بہ کرتے ہوئے میری طرف رجوع کرے اور میں اس کی دُعاسنوں.حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بندے کی تو بہ پر اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اس آدمی کو بھی نہیں ہوتی جسے جنگل بیابان میں کھانے پینے کی چیزوں سے لدا ہوا اس کا گم ہونے والا اونٹ اچانک مل جائے.“ (صحيح بخاري - كتاب الدعوات – باب التوبة) تو دیکھیں اللہ تعالیٰ تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب میرا بندہ تو بہ کرے، استغفار کر.اور میں اس کے گزشتہ گناہ بخشوں اور آئندہ سے اسے اپنی چادر میں ڈھانپ لوں تا کہ وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رہے.لیکن یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہو.ورنہ اگر ایک دفعہ استغفار کی ، دوبارہ گند میں پڑ گئے اور موت اس صورت میں آئی کہ شیطان کے پنجے میں گرفتار ہو تو پھر اس دن سے بھی ڈرو جس میں گناہوں میں گرفتار لوگوں کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہوگا.پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ استغفار کرتے ہوئے اپنے گزشتہ گناہوں کی بخشش

Page 311

خطبات مسرور جلد سوم 304 خطبہ جمعہ 20 رمئی 2005ء مانگتے ہوئے اور آئندہ کے لئے ان سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے مستقل خدا کے سامنے جھکا رہے.اور جب اِس طرح عمل ہو رہے ہوں گے تو خدا تعالیٰ اپنی پناہ میں لے لے گا.اور جو خدا تعالی کی پناہ میں آ جائے تو اسے جیسا کہ میں نے پہلے بتایا شیطان کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ اب اس سے وہی عمل سرزد ہو رہے ہوں گے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے عمل ہوں گے.وہ تمام برائیاں ختم ہو جائیں گی جو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں روک ہیں.پس ہر احمدی ہر وقت سچے دل سے استغفار کرتے ہوئے ، تو بہ کرتے ہوئے ، خدا تعالیٰ کے حضور جھکے تا کہ اس کا پیار حاصل ہو.اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کو اپنا پیار اور قرب دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ بے چین رہتا ہے.بلکہ بندے کی اس بارے میں ذراسی کوشش کو بے حد نوازتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں.اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے میں اُس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں.(صحيح مسلم كتاب التوبة - باب في الحض على التوبة والفرح بها تو دیکھیں جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ قبول کرنے کے لئے اس قدر توجہ فرماتا ہے تو بندے کو کس قدر بے چینی سے اس کی طرف بڑھنا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ گناہ سے بچی تو بہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا (رساله قشيرية باب التوبة) ہی نہیں.جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کے محرکات اُسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے.واضح ہو کہ یہ مطلب نہیں کہ گناہ کرتے چلے جاؤ ، جان بوجھ کر گند میں گرتے چلے جاؤ اور سمجھو کہ میں نے استغفار کر لی ہے اور اللہ تعالی کہتا ہے کہ گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے.

Page 312

خطبات مسرور جلد سوم 305 خطبہ جمعہ 20 رمئی 2005 ء مطلب یہی ہے کہ اس کو بدی کی طرف، برائی کی طرف کوئی رغبت نہیں ہوتی.پھر حضور نے یہ آیت پڑھی کہ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ) اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! تو بہ کی علامت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ندامت اور پشیمانی علامت تو بہ ہے.تو دیکھیں علامت یہ بتائی کہ ندامت ہو، پشیمانی ہو اور اس کی وجہ سے پھر آئندہ ان سے بچتا بھی رہے.کیونکہ جس بات کی ندامت ہو اور پشیمانی ہو اس بات کو انسان دوبارہ جان بوجھ کر نہیں کرتا.تو بہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ تو بہ کے تین شرائط ہیں.بدوں اُن کی تکمیل کے سچی توبہ جسے توبة النصوح کہتے ہیں ، حاصل نہیں ہوتی.ان ہر سہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں.یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کر دیا جاوے جو ان خصائل ردیہ کے محرک ہیں.( یعنی جن کی وجہ سے رڈی خیالات دل میں پیدا ہوتے ہیں) اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثر پڑتا ہے.کیونکہ حیطۂ عمل میں آنے سے پیشتر ہر ایک فعل ایک تصوری صورت رکھتا ہے.پس تو بہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ اُن خیالات فاسدہ و تصورات بد کو چھوڑ دے.مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہے تو اُسے تو بہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قرار دے.اور اس کی تمام خصائلِ رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے ( یعنی گھٹیا اور ذلیل باتوں کو ذہن میں لائے ) کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے تصورات کا اثر بہت زبر دست اثر ہے.پس جو خیالات بدلذات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے.یہ پہلی شرط ہے.دوسری شرط نَدَم ہے.یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا.ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے.مگر بد بخت انسان اس کو معطل چھوڑ دیتا ہے.پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پر پشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چند روزہ ہیں.اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے.یہاں

Page 313

خطبات مسرور جلد سوم 306 خطبہ جمعہ 20 رمئی 2005 ء تک کہ بڑھاپے میں آکر جبکہ قومی بیکار اور کمزور ہو جائیں گے.آخر ان سب لذات دنیا کو چھوڑنا ہوگا.پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب لذات چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیا حاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو تو بہ کی طرف رجوع کرے.اور جس میں اوّل اقلاع کا خیال پیدا ہو یعنی خیالات فاسدہ و تصورات بیہودہ کا قلع قمع کرے.جب یہ نجاست اور نا پا کی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پر پشیمان ہو.تیسری شرط عزم ہے.یعنی آئندہ کے لئے مصمم ارادہ کر لے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کرے گا اور جب وہ مداومت کرے گا ( با قاعدگی کرے گا) تو خدا تعالیٰ اسے سچی تو بہ کی توفیق عطا کرے گا.یہاں تک کہ وہ سیات اس سے قطعاً زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے.اور یہ فتح ہے اخلاق پر.اس پر قوت اور طاقت بخشا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے جیسے فرمایا أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا) (البقرة: 166) (ملفوظات جلد 1 صفحه 87 88 جدید ایڈیشن - رپورٹ جلسه سالانه 1897ء صفحه 158) پس یہ اس حدیث کی وضاحت ہے کہ کس طرح ندامت اور پشیمانی کا اظہار ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہر وقت استغفار کرتے ہوئے اس کے حضور جھکے رہیں اور اس دنیا کے گند سے بچتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اس کی محبت حاصل کرنے والے ہوں.اور جب ہم اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کر لیں گے تو کبھی کوئی شیطان ہمیں دنیا کے گناہوں کی دلدل میں دھکیل نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ ہمیں سچی توبہ کی توفیق دے.آمین 谢谢邀

Page 314

خطبات مسرور جلد سوم 307 (20) خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء خلافت کی اہمیت اور برکات صد سالہ خلافت جوبلی کے حوالہ سے احباب جماعت کے لئے دعاؤں، درود و استغفار ، نوافل اور نفلی روزہ رکھنے کی خصوصی تحریک (خطبه جمعه فرموده 27 رمئی 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (النور: 56) پھر فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی تاریخ کا وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل لوگوں کی ، آپ کی وفات کے بعد ، خوف کی حالت کو امن میں بدلا.اور اپنے وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ کو تمنت عطا فرمائی یعنی اس شان اور مضبوطی کو قائم رکھا جو پہلے تھی.اور اللہ تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے یہ ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور نبی تھے.اور آپ وہی

Page 315

خطبات مسرور جلد سوم 308 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء خلیفہ اللہ تھے جس نے چودھویں صدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی شریعت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا اور آپ کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کا سلسلہ خلافت تا قیامت جاری رہنا تھا.پس آج 7 9 سال گزرنے کے بعد جماعت احمدیہ کا ہر بچہ، جوان، بوڑھا ، مرد اور عورت اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی اس بارے میں فعلی شہادت گزشتہ 97 سال سے پوری ہوتی دیکھی ہے اور دیکھ رہا ہوں.اور نہ صرف احمدی بلکہ غیر از جماعت بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں.گزشتہ مثالیں تو بہت ساری ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات کے بعد ، پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد، پھر حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد.لیکن جیسے کہ میں پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں کہ خلافت خامسہ کے انتخاب کی کارروائی دیکھ کر ، جو ایم ٹی اے پر دکھائی گئی تھی ،مخالفین نے یہ اعتراف کیا کہ تمہارے بچے ہونے کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن یہ بہر حال پتہ لگ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے.تو بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے اور اس کی نعمت ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.اور یہ شکر ہی ہے جو اس نعمت کو مزید بڑھاتا چلا جائے گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ یعنی اگر تم شکر گزار بنے رہو تو میں اور بھی زیادہ دوں گا.اس نعمت کے جو افضال ہیں ان سے میں تمہیں بھرتا چلا جاؤں گا.بہر حال ایک تو اس دن کی اہمیت کی وجہ سے، آج 27 مئی ہے، اور دوسرے جو اس خطبے کا محرک بنا ہے وہ ایک مضمون ہے جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا تھا لیکن آج کل اس کو کوئی شخص مختلف لوگوں کو بھیج رہا ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو خلافت کا مقام واضح کرنے کے لئے لکھا تھا اور اس کی وضاحت میں اپنے ذوق کے مطابق اس بات کا بھی ذکر فرمایا تھا کہ خلافت جماعت احمدیہ میں کب تک چلے گی یا اس کی کیا صورت ہو گی.لیکن یہ بات بہر حال واضح ہے اور اس میں رتی بھر بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ جماعت میں کسی وقت بھی کسی انتشار کا پھیلانا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے ذہن

Page 316

خطبات مسرور جلد سوم 309 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء میں نہیں تھا یا مقصد نہیں تھا.لیکن اس شخص نے جو آج کل مختلف لوگوں کو یہ مضمون بھیج رہا ہے اس کے عمل سے یہ لگتا ہے کہ جماعت خلافت کے بارے میں شکوک و شبہات میں گرفتار ہو.مثلاً اس سے لگتا ہے کہ اس کی نیت نیک نہیں ہے کہ بذریعہ ڈاک جن کو بھی مضمون فوٹو کاپی کر کے بھجوایا گیا اس پر لکھا گیا ہے ، ایک مہر لگائی ہے کہ ایک احمدی بھائی کا تحفہ.اب اگر نیک نیت تھا تو نام کے ساتھ بلکہ نظام جماعت سے یا مجھ سے پوچھ کر بھیج سکتا تھا کہ اس طرح اس مضمون کی میں اشاعت کرنا چاہتا ہوں.بڑی ہوشیاری دکھائی ہے کہ مضمون انہیں الفاظ میں بھیجا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.خلیفہ معزول نہیں کیا جا سکتا وغیرہ کی وضاحتیں بھی اس میں ہیں.لیکن حضرت میاں صاحب کے اس نظریے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ ایک وقت میں خلافت کی جگہ ملوکیت لے لے گی یعنی بادشاہت آجائے گی.تو بہر حال یہ حضرت میاں صاحب کا اپنا ایک ذوقی نظریہ تھا.اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس وقت اِس کا علم ہونے کے بعد اس نظریے کی تردید میں ایک وضاحت بھی شائع فرمائی تھی.آگے وضاحت میں کچھ باتیں کھولوں گا.تو ان صاحب کی حرکت سے لگتا ہے جیسے وہ یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پہلے چار خلفاء کی خلافت تو ٹھیک تھی لیکن اب خلافت نہیں رہی.بہر حال اس بارے میں اسی مضمون سے دکھاؤں گا جو حضرت میاں صاحب کا ہے کہ یہ ان صاحب کی عقل کا قصور ہے اور جن کو یہ مضمون بھیجے گئے ہیں ان میں سے بھی اگر کسی کے دل میں کوئی شک ، کوئی شبہ ہے تو وہ بھی دور ہو جائے.لیکن اس سے پہلے جو میں نے آیت تلاوت کی ہے اس کی کچھ وضاحت کروں گا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا.اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں.

Page 317

خطبات مسرور جلد سوم 310 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء یعنی خلافت قائم رکھنے کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو مضبوط ایمان والے ہوں اور نیک اعمال کر رہے ہوں.جب ایسے معیار مومن قائم کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خلافت کا نظام جاری رکھے گا.نبی کی وفات کے بعد خلیفہ اور ہر خلیفہ کی وفات کے بعد آئندہ خلیفہ کے ذریعہ سے یہ خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی.اور یہی ہم گزشتہ 100 سال سے دیکھتے آرہے ہیں.لیکن شرط یہ ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہوں اور دنیا کے لہو ولعب ان کو متاثر کر کے شرک میں مبتلا نہ کر رہے ہوں.اگر انہوں نے ناشکری کی، عبادتوں سے غافل ہو گئے ، دنیا داری ان کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے زیادہ محبوب ہوگئی تو پھر اس نافرمانی کی وجہ سے وہ اس انعام سے محروم ہو جائیں گے.پس فکر کرنی چاہئے تو ان لوگوں کو جوخلافت کے انعام کی اہمیت نہیں سمجھتے.یہ خلیفہ نہیں ہے جو خلافت کے مقام سے گرایا جائے گا بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خلافت کے مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے فاسقوں میں شمار ہوں گے.تباہ وہ لوگ ہوں گے جو خلیفہ یا خلافت کے مقام کو نہیں سمجھتے، ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں.پس یہ وارنگ ہے، تنبیہ ہے ان کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں یا یہ وارننگ ہے ان کمزور احمدیوں کو جو خلافت کے قیام و استحکام کے حق میں دعائیں کرنے کی بجائے اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہاں سے کوئی اعتراض تلاش کیا جائے.اب مثلاً ایک صاحب نے مجھے لکھا ، شروع کی بات ہے، کہ تم بڑی پلانگ کر کے خلیفہ بنے ہو.پلاننگ کیا تھی؟ کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی وفات کا اعلان الفضل اور ایم ٹی اے پر تمہاری طرف سے ہوتا تھا تا کہ لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوں.انا للہ.یہ میری مجبوری تھی اس لئے کہ حسب قواعد مجھے ناظر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے یہ کرنا تھا.بہر حال جرات اس شخص میں بھی نہیں جس نے یہ لکھا کیونکہ یہ بے نام خط تھا.تو ایسا شخص تو خود منافق ہے.اگر خلافت پر اعتماد نہیں تو پھر احمدی رہنے کا بھی فائدہ نہیں.اور اگر پھر بھی ایسا شخص اپنے آپ کو احمدی ثابت کرتا ہے تو وہ منافق ہے.مختصر ابتا دوں کہ اس وقت میرا تو یہ حال تھا کہ جب نام پیش ہوا تو میں ہل کر رہ گیا تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ کسی کا بھی ہاتھ میرے حق میں کھڑا نہ ہو.اور اس تمام کارروائی کے

Page 318

خطبات مسرور جلد سوم 311 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء دوران جو میری حالت تھی وہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے.یہ تو بے وقوفوں والی بات ہے کسی کا یہ سوچنا کہ خلافت کے لئے کوئی اپنے آپ کو پیش کرے.عموماً غیر مجھ سے پوچھتے ہیں تو اُن کو میں ہمیشہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا یہ جواب دیا کرتا ہوں ، ان سے بھی کسی نے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو پتہ تھا کہ آپ خلیفہ منتخب ہو جائیں گے.تو ان کا جواب یہ تھا کہ کوئی عقلمند آدمی یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا.تو یہ صاحب لکھنے والے یا تو مجھے بیوقوف سمجھتے ہیں اور اپنی بات کی یہ خود ہی تردید بھی کر رہے ہیں (جس سے لگتا ہے کہ یہ بیوقوف نہیں سمجھتے ) کیونکہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ تم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا نام پیش کر وایا.بہر حال مختلف وقتوں میں شیطان اپنی چالیں چلتا رہتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد سلسلہ خلافت کو ہمیشہ کے لئے قرار دیا ہے.جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے.اب میں اس طرف آتا ہوں، وہ منی با تیں تھیں، کہ خلافت جماعت احمد یہ میں ہمیشہ قائم رہنی ہے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذاء رساں بادشاہت قائم ہوگی.جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی جب تک اللہ چاہے گا.پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.اور یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.(مشكوة المصابيح - كتاب الرقاق باب التحذير من الفتن الفصل الثالث) اور یہ جو دوباہ قائم ہوئی تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہوئی تھی.پس یہ خاموش ہونا بتاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جو سلسلہ خلافت شروع ہونا ہے یا ہونا تھا.یہ دائمی ہے.اور یہ الہی تقدیر ہے.اور الہی تقدیر کو بدلنے پر کوئی فتنہ پرداز بلکہ کوئی شخص بھی قدرت نہیں رکھتا.یہ قدرت ثانیہ یا خلافت کا نظام اب انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے.اور اس کا آنحضرت

Page 319

خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء خطبات مسرور جلد سوم 312 صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے زمانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ تھیں سال تھی تو وہ تمہیں سالہ دور آپ کی پیشگوئی کے مطابق تھا.اور یہ دائی دور بھی آپ ہی کی پیشگوئی کے مطابق ہے.قیامت کے وقت تک کیا ہونا ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.لیکن یہ بتا دوں کہ یہ دور خلافت آپ کی نسل در نسل در نسل اور بے شمار نسلوں تک چلے جانا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ ، بشرطیکہ آپ میں نیکی اور تقویٰ قائم رہے.اسی لئے اس پر قائم رکھنے کے لئے میں پہلے دن سے ہی تربیتی مضامین پر اپنے خطبات وغیرہ دے رہا ہوں.مسلسل یہ وعدہ یا خبر جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اس کی تجدید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دے کر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : غرض ( خدا تعالیٰ ) دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی رض قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تر ڈو میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت مجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے ( یعنی ان پڑھ، جاہل، گاؤں کے رہنے والے ) اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ﴾ (النور: 56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت

Page 320

خطبات مسرور جلد سوم 313 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء میں ہوا.جبکہ حضرت موسی " مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچاویں، فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا.سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے.پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجو د ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی.اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.(اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک وقت میں بہت سارے ہوں

Page 321

خطبات مسرور جلد سوم 314 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء گے اس کا مطلب ہے کہ مختلف وقتوں میں آتے رہیں گے ) ”خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پاکر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو.(رساله الوصيت روحانی خزائن جلد 20 صفحه 304تا 307) تو دیکھیں کہ کتنا واضح ہے کہ خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں تیرے ماننے والے ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.یہ غلبہ توحید کے قیام اور ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی وجہ سے ہوگا.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں کسی خاص خاندان میں سے یا کسی خاص ملک میں سے ایسے لوگ کھڑے کروں گا جو دین کے استحکام کے لئے کوشش کریں گے بلکہ فرمایا کہ صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعاؤں میں لگے رہو.پس بجائے ہوشیاریاں، چالاکیاں دکھانے کے صالح بنو اور دعاؤں میں لگے رہوتا کہ یہ خلافت کا انعام تم میں ہمیشہ جاری رہے.جیسا کہ میں نے کہا یہ اعزاز قائم رکھنے کے لئے ، اگر یہ گزشتہ 97 سال سے کسی خاص ملک کے لوگوں کے حصے میں آ رہا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے حصے میں آرہا ہے تو اس کو قائم رکھنے کے لئے ، دعاؤں اور نیک اعمال کی ضرورت ہے.ورنہ کوئی قوم بھی جو اخلاص اور وفا اور تقویٰ میں بڑھنے والی ہوگی اس علم کو بلند کرنے والی ہوگی.کیونکہ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ ال قدرت دائمی ہے.اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن دائمی قدرت کے ساتھ شرائط ہیں.اعمال صالحہ.اب افریقہ کے دورے میں گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی مختلف ملکوں میں جا کر میں نے احمدیوں کے اخلاص و وفا کے جو نظارے دیکھے ہیں ان کی ایک تفصیل ہے.بعض محسوس کئے جا سکتے ہیں، بیان نہیں کئے جاسکتے.تنزانیہ کے ایک دور دراز علاقے میں جہاں سڑکیں اتنی خراب

Page 322

خطبات مسرور جلد سوم 315 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء ہیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنے میں چھ سات سو کلو میٹر کا سفر بعض دفعہ آٹھ دس دن میں طے ہوتا ہے.ہم اس علاقہ کے ایک نسبتاً بڑے قصبے میں جہاں چھوٹا سا ائر پورٹ ہے، چھوٹے جہاز کے ذریعہ سے گئے تھے تو وہاں لوگ اردگرد سے بھی ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے.ان میں جوش قابل دید تھا.بہت جگہوں پر وہاں ایم ٹی اے کی سہولت بھی نہیں ہے.اس لئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایم ٹی اے دیکھ کر اور تصویریں دیکھ کر یہ تعلق پیدا ہو گیا تھا.یہ جوش بتا تا تھا کہ خلافت سے ان نیک عمل کرنے والوں کو ایک خاص پیار اور تعلق ہے.جن سے مصافحے ہوئے ان کے جذبات کو بیان کرنا بھی میرے لئے مشکل ہے.ایک مثال دیتا ہوں.مصافحے کے لئے لوگ لائن میں تھے ایک شخص نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی جذبات سے مغلوب ہوکر رونا شروع کر دیا.کیا یہ تعلق، یہ محبت کا اظہار، ملوک یا بادشاہوں کے ساتھ ہوتا ہے یا خدا کی طرف سے دلوں میں پیدا کیا جاتا ہے.ایک صاحب پرانے احمدی جو فالج کی وجہ سے بہت بیمار تھے ،ضد کر کے 40-50 کلومیٹر یا میل کا فاصلہ طے کر کے مجھ سے ملنے کے لئے آئے.اور فالج سے ان کے ہاتھ مڑ گئے تھے ، ان مڑے ہوئے ہاتھوں سے اس مضبوطی سے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا کہ مجھے لگا کہ جس طرح شکنجے میں ہاتھ آ گیا ہے.کیا اتنا تردد کوئی دنیا داری کے لئے کرتا ہے.غرض کہ جذبات کی مختلف کیفیات تھیں.یہی حال کینیا کے دور دراز کے علاقوں کے احمدیوں میں تھا اور یہی جذبات یوگنڈا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کے تھے.جور پورٹس شائع ہوں گی ان کو پڑھ لیں خود ہی پتہ چل جائے گا کہ خلافت کے لئے لوگوں میں کس قد را خلاص ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی نیک عمل اور اخلاص جماعت احمدیہ میں ہمیشہ استحکام اور قیام خلافت کا باعث بنتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ: یا در ہے کہ اگر چہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں جو اس امت میں خلافت دائگی کی بشارت دیتی ہیں.اور احادیث بھی اس بارہ میں بہت سی بھری پڑی ہیں.لیکن بالفعل اس قدر لکھنا اُن لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمی سمجھ کر قبول کر

Page 323

خطبات مسرور جلد سوم 316 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جاوے“.(شهادة القرآن - روحانی خزائن جلد 6 صفحه 355) پس اس کے بعد کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ ہم ان بحثوں میں پڑیں کہ خلافت کب تک رہنی ہے اور کب ملوکیت میں بدل جاتی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ نیک اعمال کرنے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور خلافت کا سلسلہ ہمیشہ چلتا چلا جائے گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی بداندیشی نہیں کہ اسلام کو مردہ مذہب خیال کیا جاوے اور برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جائے.شروع سالوں تک جو اسلام کے ابتدائی سال تھے ان تک محدود رکھا جائے.اسی طرح یہ بھی بداندیشی ہے کہ یہ کہا جائے کہ پہلی چار خلافتوں کے مقابل پر چار خلافتیں آگئیں اور بس.اللہ تعالیٰ میں صرف اتنی قدرت تھی کہ پہلی خلافت راشدہ کے عرصہ کو تقریباً تین گنا کر کے خلافت کے انعام سے نوازے اور اس کے بعد اس کی طاقتیں ختم ہوگئیں.إِنَّا لِلہ.اور جیسا کہ میں حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے دکھا آیا ہوں کہ اگر کسی کی ایسی سوچ ہے تو غلط ہے.اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے ہاں تم میں سے ہر ایک اپنے عملوں کی فکر کرے.اب میں مختصرا ان صاحب کی طرف آتا ہوں جنہوں نے بڑی ہوشیاری سے مضمون پھیلا کر بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.اپنی طرف سے ایسے لوگوں کو آلۂ کار بنانے کی کوشش کی ہے جو شاید اس سوچ میں پڑ جائیں لیکن انہیں پتہ نہیں کہ جماعت کی اکثریت خلافت سے سچی وفا اور محبت رکھنے والی ہے اور وہ جن کو یہ مضمون بھجوائے گئے ہیں انہوں نے نظام کو یا مجھے اس سے آگاہ کر دیا ہمیں بھجوا دیئے.شیطان نے ایک چال چلی تھی لیکن وہ نا کام ہو گیا.لیکن جماعت کو بتانا میرا فرض ہے کہ وہ آئندہ محتاط رہیں.ان صاحب نے حضر میاں بشیر احمد صاحب کی اس بات کو انڈر لائن کیا ہے کہ کسی نبی کے بعد خلافت متصلہ کا سلسلہ دائمی طور پر نہیں چلتا بلکہ صرف اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ نبوت کے کام کی تکمیل کے

Page 324

خطبات مسرور جلد سوم 317 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء لئے ضروری خیال فرمائے اور اس کے بعد ملوکیت کا دور آ جاتا ہے یعنی اتسلسل قائم نہیں رہتا.ایک کے بعد دوسرا خلیفہ نہیں آتا.روحانی طور پر سلسلہ ختم ہو جائے گا.لیکن یہاں بھی واضح ہو کہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن تھا مکمل ہو گیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ حضرت میاں صاحب کا اپنا نظریہ تھا اور اس بارے میں ایک دو اور جگہ اس مضمون میں جو میں نے الفاظ پڑھے ہیں اس سے ملتے جلتے الفاظ ہیں لیکن یہ صاحب حضرت میاں صاحب کے اسی مضمون میں یہ الفاظ بھی پڑھ لیں کہ بچے خلفاء کی علامات کیا ہیں.آپ اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ پہلی اور ظاہری علامت یہ ہے کہ مومنوں کی جماعت کسی شخص کو اتفاق رائے یا کثرت رائے سے خلیفہ منتخب کرے.اب یہ صاحب بتائیں کہ کیا خلافت خامسہ کے انتخاب میں یہ نہیں ہوا.مجلس انتخاب میں تو بہت سے ایسے ممبران تھے جو مجھے جانتے بھی نہیں تھے لیکن الہی تقدیر کے ماتحت انہوں نے میرے حق میں رائے دی اور اکثر نے یہ کہا کہ ہمارے دل میں یہ خدائی تحریک پیدا ہوئی ہے.اور اس بات کی وضاحت بھی حضرت میاں صاحب نے مضمون میں کی ہوئی ہے.بہر حال میں میاں صاحب کے حوالوں سے اس لئے بات کر رہا ہوں کہ ان کے مضمون میں ہی جواب موجود ہیں.اور یہ بھی کہ تم جلد بازی نہ کرو.پھر آپ لکھتے ہیں.دوسری علامت یہ ہے جو باطنی علامتوں میں سے ہونے کی وجہ سے کسی قدر غور اور مطالعہ چاہتی ہے.وہ ہے قرآن شریف کی آیت استخلاف یعنی وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا کہ اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.آپ لکھتے ہیں کہ ہر خلیفہ کی وفات کے بعد عموماً جماعت میں ایک زلزلہ وارد ہوتا ہے.جماعت کے لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں.ایسے وقت میں خدا کی سنت ہے کہ وہ اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے ذریعہ انہیں اطمینان اور تمكنت عطا فرماتا ہے.اب آپ میں سے ہر کوئی گواہ ہے بلکہ دنیا کا ہر احمدی گواہ ہے، ہر بچہ گواہ ہے کہ کیا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد جو ایک خوف کی حالت تھی اسے اللہ تعالیٰ نے سکینت میں نہیں بدل دیا ؟ اگر ان صاحب کے لئے یہ دلیل کافی نہیں تو اللہ ہی رحم

Page 325

خطبات مسرور جلد سوم 318 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء کرے.اور تیسری علامت حضرت میاں صاحب نے اپنی ذوقی علامت بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر ظاہر کر دیتا ہے کہ کون آئندہ ہونا ہے.بہر حال اس کا تعلق تو نبی سے ہے.ضروری نہیں کہ ہر جگہ نبی کی طرف سے اظہار بھی ہو.تو ان صاحب سے میں حضرت میاں صاحب کے الفاظ میں یہی کہتا ہوں کہ اس زمانے کی قدر کو پہچانو اور اپنے پیچھے آنے والوں کیلئے نیک نمونہ چھوڑو تا کہ بعد کی نسلیں تمہیں محبت اور فخر کے ساتھ یاد کریں، اور تمہیں احمدیت کے معماروں میں یاد کریں نہ کہ خانہ خرابوں میں.بہر حال یہ بتادوں کہ جب یہ مضمون شائع ہوا تھا.جیسا کہ میں نے شروع میں یہ ذکر کیا تھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس کا جواب بھی لکھا تھا.تو میرے والد صاحب صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں لکھا تھا کہ حضرت میاں صاحب کا جو یہ مضمون ہے اس میں جو ملوکیت والا حصہ ہے اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے.حضرت مسیح موعود کی تحریرات اور بعض الہامات سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا.ضمناً بتا دوں کہ یہ خط جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں میرے والد صاحب نے لکھا تھا وہ خط بھی میں نے پڑھا ہوا ہے.پرانے کاغذات ایک دن میں دیکھ رہا تھا ان میں سے مجھے مل گیا.اور اس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا نوٹ بھی تھا کہ تمہارا خیال ٹھیک ہے.(کیونکہ اس کو پڑھے ہوئے کافی دیر ہو گئی ) مجھے یاد پڑتا ہے آپ نے یہ بھی لکھا تھا کہ احمدیت کی خلافت ملوکیت میں نہیں بدلے گی.بہر حال پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے الفضل میں ایک پیغام شائع کروایا جو میں پڑھ دیتا ہوں تا کہ جن ذہنوں میں غلط نہی ہے وہ دور ہو جائے.اور یہ بھی اتفاق کہہ لیں ، جیسے میں نے بتا دیا ، یا الہی تقدیر کہ میرے والد صاحب کے ذریعہ ہی اُس وقت خلیفہ وقت کو اس طرف توجہ پیدا ہوئی اور آر نے وضاحت فرمائی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ : " عزیزم مرزا منصور احمد نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے.اور لکھا ہے کہ غالباً اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر کیا

Page 326

خطبات مسرور جلد سوم 319 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق عارضی اور وقتی ہے.میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا.اس خط کی بنا پر میں نے اس مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت خلافت کے بارے میں پیش نہیں کی گئی.مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے.اس حدیث میں قانون نہیں بیان کیا گیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے.سب اوقات کے متعلق نہیں ہوتی.یہ امر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستبد ہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہو گیا.اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا.قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے.پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسے ملتا رہے گا.پس جہاں تک مسئلہ اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کر دے.لیکن اس اصل سے ہرگز یہ بات نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آ رہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں.پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰ کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزراوں سال تک قائم رہی.اس طرح گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت محمد یہ تو اتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معین عرصے تک چلتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کی تکمیل اور خوبی پر دلالت کرتے ہیں.سوائے ان امور کے کہ جن سے بعض ابتلاء ملے ہوتے ہیں.ان میں علاقہ محمد بیت ، علاقہ موسویت

Page 327

خطبات مسرور جلد سوم 320 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء پر غالب آ جاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے.جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکایا گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لڑکا یا گیا.کیونکہ میچ اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اور مسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی.خلافت چونکہ ایک انعام ہے.ابتلاء نہیں.اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیح اول کی امت کو ملیں.کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں.پس الفضل 3 اپریل 1952ء صفحه 3 جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکار ہے بلکہ خطرناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کر دیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصے تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جا سکتا.( یعنی اس لمبے عرصے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا یہ کہاں تک ہے؟ ) اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہوگا بلکہ ایسے ہی وقفہ ہوگا جیسے دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں.کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانے کے لئے قاعدہ نہیں تھا.تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی یہ وضاحت میرے خیال میں کافی ہے کیونکہ آپ کو بہر حال اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ملی تھی.ایسے خلیفہ تھے مصلح موعود تھے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ظاہری و باطنی علوم سے پُر کئے جانے کے بارے میں بتایا تھا.اور بہر حال خلیفہ کے مقابل پر کوئی شخص بھی چاہے وہ کتنا ہی عالم ہو کم حیثیت رکھتا ہے.کیونکہ جماعت کی رہنمائی اور بہتری کے لئے اللہ تعالیٰ خلیفہ سے ایسے الفاظ نکلوادیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق ہوں.پس ہر ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ جیسا کہ پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ لغویات اور فضولیات میں نہ پڑیں اور استحکام خلافت کے لئے دعائیں کریں تا کہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ قائم رہیں.جہاں تک میرا سوال ہے، میری غلطیاں اگر نظر آتی ہیں تو مجھے بتا ئیں لیکن ہر جگہ بیٹھ کر یا خاص دوستوں میں بیٹھ کر ( بعض جگہ سے ایسی رپورٹیں مل جاتی ہیں ) کسی کو باتیں کرنے کا حق

Page 328

خطبات مسرور جلد سوم 321 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء نہیں ہے کہ اس میں یہ کمی ہے یا یہ کمزوری ہے.اگر نیک نیت ہیں تو مجھے بتائیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمد یہ ایمان بالخلافت پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جدو جہد کرتی رہی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ خلافت قائم رہے گا اور کوئی شیطان اس میں رخنہ اندازی (تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 390) نہیں کر سکے گا.“ پس ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ سے ان فضلوں کو سمیٹنا چاہئے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.اپنے بزرگوں کی اس قربانی کو یاد کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ انہوں نے جو قیام اور استحکام خلافت کے لئے بھی بہت قربانیاں دیں.آپ میں سے بہت بڑی تعداد جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں یا جو میری زبان میں میری باتیں سمجھ سکتے ہیں اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کریں.پہلے سے بڑھ کر ایمان و اخلاص میں ترقی کریں.ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو باوجود زبان براہ راست نہ سمجھنے کے باوجود بہت کم رابطے کے، بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی خلیفہ کو دیکھا ہوگا اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں.مثلاً یوگنڈا میں ہی جب ہم اترے ہیں اور گاڑی باہر نکلی تو ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے ، دواڑھائی سال کا بچہ تھا، ساتھ ساتھ دوڑتی چلی جا رہی تھی.اس کی اپنی نظر میں بھی پہچان تھی ، خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آ رہا تھا، وفا کا تعلق ظاہر ہورہا تھا.اور بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیر تی تھی کہ دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی.اتنا رش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پرواہ نہیں کی.آخر جب بچے کی نظر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کے مسکرایا.ہاتھ ہلایا.تب ماں کو چین آیا.تو بچے کے چہرے کی جو ر وفق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو.تو جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں.تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ تو کسی کا رشتہ دار نہیں ہے.وہ تو ایسے ایمان

Page 329

خطبات مسرور جلد سوم 322 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء لانے والوں کو جو عمل صالح بھی کر رہے ہوں، اپنی قدرت دکھاتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے.پس اپنے پر رحم کریں، اپنی نسلوں پر رحم کریں اور فضول بحثوں میں پڑنے کی بجائے یا ایسی بحثیں کرنے والوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اور وعدے پر نظر رکھیں اور حضرت مسیح موعود کی جماعت کو مضبوط بنائیں.جماعت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پھیل چکی ہے اس لئے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہمارا خاندان، ہمارا ملک یا ہماری قوم ہی احمدیت کے علمبر دار ہیں.اب احمدیت کا علمبر دار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹا ر ہنے والا ہے.تین سال کے بعد خلافت کو 100 سال بھی پورے ہو رہے ہیں.جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی سے پہلے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے جماعت کو بعض دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی تحریک کی تھی.میں بھی اب ان دعاؤں کی طرف دوبارہ توجہ دلاتا ہوں.ایک تو آپ نے اس وقت کہا تھا کہ سورۃ فاتحہ روزانہ سات بار پڑھیں.تو سورۃ فاتحہ کوغور سے پڑھیں تا کہ ہر قسم کے فتنہ وفساد سے اور دجل سے بچتے رہیں.پھر رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِيْنَ کی دعا بھی بہت دفعہ پڑھیں.اور اس کے ساتھ ہی ایک اور دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو پہلوں میں شامل نہیں تھی کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّاب - ب بھی دلوں کو سیدھا ر کھنے کے لئے بہت ضروری اور بڑی دعا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے خواب میں یہ دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود آئے ہیں اور فرمایا ہے کہ یہ دعا بہت پڑھا کرو.پھر اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ پڑھیں.پھر استغفار بہت کیا کریں.اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَاتُوْبُ إِلَيْهِ - پھر درود شریف کافی پڑھیں.ورد کریں.آئندہ تین سالوں میں ہر احمدی کو اس طرف

Page 330

خطبات مسرور جلد سوم بہت توجہ دینی چاہئے.323 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء پھر جماعت کی ترقی اور خلافت کے قیام اور استحکام کے لئے ضرور روزانہ دو نفل ادا کرنے چاہئیں.ایک نفلی روزہ ہر مہینے رکھیں اور خاص طور پر اس نیت سے کہ اللہ تعالیٰ خلافت کو جماعت احمدیہ میں ہمیشہ قائم رکھے.اس کے بعداب میں پھر یہی کہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں شہر ہے تو استغفار کرے اور اسے نکال دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت اس قدر پھیل چکی ہے اور ایمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے کہ باوجود رابطوں کی سہولیات نہ ہونے کے انشاء اللہ تعالیٰ خلافت سے دور ہٹانے کی کوئی سکیم، کوئی منصو بہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.ضمناً یہ بتا دوں کہ گو میں مشرقی افریقہ کے تین ملکوں کا دورہ کر کے آیا ہوں اور وہاں اندرون ملک غریب جماعتوں تک پہنچنے کی کوشش بھی کی ہے.لیکن بعض دوسرے ممالک مثلاً ایتھوپیا، صومالیہ، برونڈی، کانگو، موزمبیق، زیمبیا، زمبابوے وغیرہ کے لوگ بھی وفود کی شکل میں آئے ہوئے تھے اور ان سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں.بعض لوگ تو سفر کی سہولتیں نہ ہونے اور کچی سڑکیں ہونے کے باوجود دو اڑھائی ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے آئے تھے.اور غربت کے باوجود اپنے خرچ کر کے آئے تھے.ان کی کوئی مد نہیں کی گئی.دنیاوی لیڈروں اور بادشاہوں کے لئے بھی لوگ جمع ہو جاتے ہیں لیکن بعض جگہ ان کو گھیر کے لایا جاتا ہے.پاکستان وغیرہ میں تو اکثر اسی طرح ہوتا ہے، لے کر آجاتے ہیں اور جانے کے لئے پھر بیچاروں کے پاس پیسے نہیں ہوتے لیکن وہ اپنے ملک کے لوگ ہیں ان کے لئے اکٹھے بھی کر لیتے ہیں.لیکن ایک ایسا شخص جو نہ ان کی قوم کا ہے، نہ ان کی زبان جانتا ہے، نہ اور کوئی چیز کا من ہے اگر مشترک ہے تو ایک چیز کہ وہ احمدی ہیں اور خلافت سے تعلق رکھنے والے ہیں.تو اسی لئے وہ اس قدر تر دو کر کے آئے تھے اور یقینا ان کو خلافت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے.اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کی وجہ سے انہوں نے یہ اتنی تکلیفیں

Page 331

خطبات مسرور جلد سوم 324 خطبہ جمعہ 27 رمئی 2005 ء اٹھا ئیں.پس جب تک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ان تمام نعمتوں سے حصہ لیتی رہے گی جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے.اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں جن کے بارہ میں بتایا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر احمدی کو اخلاص و وفا اور اعمال صالحہ میں بڑھاتا چلا جائے اور ہمیشہ وہ خلافت سے جڑے رہیں.اس دورے کے دوران ایک افسوسناک سانحہ بھی ہوا جس کا طبیعت پر بڑا اثر رہا.زیمبیا سے ایک وفد آیا ہوا تھا واپس جاتے ہوئے ان کا ایک حادثہ ہو گیا جس میں ہمارے غانین معلم جو وہاں تعینات تھے ابراہیم صاحب، ان کے سمیت پانچ احمدی شہید ہو گئے.ان میں ایک غیر احمدی ڈرائیور بھی شامل تھا.لیکن اس حادثے نے ان کے ایمان میں کمزوری نہیں پیدا کی بلکہ ان بچنے والوں اور وفات یافتگان کے عزیزوں کا تعلق جماعت سے اور بڑھا ہے.اور انہوں نے اس کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر سمجھا اور رضا سمجھا اور یہ اظہار کیا کہ موت تو کہیں بھی آسکتی تھی.تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جو زندہ ہیں ان کو ایمان میں اور مضبوط کرے اور جو وفات یافتہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت و مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے.یہ جو ہمارے غانین مبلغ تھے بہت وفا کا تعلق رکھنے والے، بہت خوبصورت نوجوان تھے.ابھی تک میری نظروں کے سامنے ان کا مسکراتا چہرہ گھوم جاتا ہے اور ملاقات کے وقت یہ عزم کر کے گئے تھے کہ ہم نئے سرے سے جماعت کے پیغام اور تربیت کے کام کو آگے بڑھائیں گے.ان کے ساتھ ان کی بیچاری پوری فیملی گئی.ان کی بیوی اور دو بچے بھی سفر کر رہے تھے.موقع پر وہیں ان کی اہلیہ اور ایک بچہ بھی شہید ہو گئے.اور ایک بچہ جس کی عمر پانچ سال ہے بچ گیا تھا.تو بہر حال اس بچے کے ذہن پر بھی حادثے کا بہت اثر ہوگا.اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے آئندہ ہر دکھ سے بچائے.ان سب کی میتیں غانا بھجوائی گئی ہیں جہاں ان کی تدفین ہوئی.اللہ تعالیٰ سب کے درجات بلند کرے.ان کی بلندی درجات کے لئے دعا کریں.ابھی جمعہ کی نماز کے بعد میں ان سب کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا.

Page 332

خطبات مسرور جلد سوم 325 (21) خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء مالی قربانی کی برکات مریم شادی فنڈ ، بلنسیہ (سپین) کی مسجد اور ظاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی تحریک خطبہ جمعہ فرموده 3 جون 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ ثُمَّ لَا يُتَّبِعُونَ مَا أَنْفَقُوْا مَنَّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : 263) پھر فرمایا:.اس آیت کا ترجمہ ہے کہ: وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر جو خرچ کرتے ہیں اس کا احسان جتاتے ہوئے یا تکلیف دیتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ ہم کریں گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو یہ خوشخبری دی ہے کہ اگر بے نفس ہو کر اس کی راہ میں خرچ کرو گے، خرچ کرنے کے بعد نہ ہی احسان جتاؤ گے اور نہ ہی کسی کو تکلیف دو گے، نہ ہی اپنے مطلب حل کرنے کی کوشش کرو گے تو تمہارا خدا تمہیں اس کا بہترین اجر دے گا.اب دیکھیں غیروں میں بعض لوگ تھوڑا سا کسی نیک کام میں خرچ کر لیتے ہیں اور پھر

Page 333

خطبات مسرور جلد سوم 326 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء اُس کا اِس قدر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے جیسے کہ قربانی کے کوئی اعلیٰ معیار قائم کر لئے ہوں.مثلاً آج کل ہمارے ملک پاکستان میں یا ہندوستان میں گرمیوں کے دن ہیں اس موسم میں بازاروں میں ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا جاتا ہے اور پھر بڑا فخر ہوتا ہے کہ ہم نے یہ انتظام کیا ہوا ہے.یا مسجدوں کی تعمیر میں معمولی سی رقم پانچ دس روپے دے دیتے ہیں تو باقاعدہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر یہ اعلان ہوتا ہے کہ فلاں صاحب نے اتنی قربانی دی اور خاص طور پر پاکستان میں چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں یہ بہت رواج ہے.تو عموماً کچھ نہ کچھ دینے والے مسلمانوں کا یہ حال ہے.اور اکثریت تو ایسی ہے کہ خدا کی راہ میں دینے کا تصور ہی نہیں ہے اور ایسے لوگوں میں سے چندا میر لوگ جن کو کچھ احساس ہے کہ دین کی خاطر خرچ کریں تو ایسے مدرسوں یا اداروں کی سر پرستی کی جاتی ہے جہاں انسانیت کے خلاف نفرتوں کے بیج بوئے جاتے ہیں.اور پھر اگر اپنے مطلب کے مطابق خرچ نہ ہو یا کوئی اختلاف ہو جائے تو پھر وہ ساری امداد میں بھی بند ہو جاتی ہیں.تو یہ خرچ جو وہ کر رہے ہوتے ہیں اصل میں خدا کی خاطر نہیں ہو رہے ہوتے بلکہ اپنے مقاصد کے لئے یا اپنی نیکی کے اظہار کے لئے یہ خرچ ہو رہے ہوتے ہیں.یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہوتا ہے کہ ہم نے اتنا خرچ کیا ہے.اور جب نیتیں نیک نہ ہوں تو پھر ظاہر ہے نتائج بھی بُڑے ہی نکلتے ہیں.یہ لوگ نیکیاں پھیلانے کی بجائے اپنے مطلب حاصل کرنے کی وجہ سے لوگوں کی تکلیف کا باعث بن رہے ہوتے ہیں.اور خاص طور پر احمدیوں کے لئے تو اس بات کو کار ثواب سمجھا جاتا ہے کہ خدا کے نام پر ان کو تکلیفیں دی جائیں.لیکن تصویر کا ایک دوسرا اور صحیح رخ بھی ہے جو احمدیوں کی مالی قربانیوں کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کی مالی قربانیوں کا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر چلتے ہوئے جب قربانی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھ کر ہی قربانی کر رہے ہوتے ہیں.وہ نہ تو کسی فرد پر یا جماعت پر احسان کا رنگ رکھتے ہوئے قربانی کرتے ہیں، نہ ہی کسی کو تکلیف پہنچانے کی نیت سے یہ قربانی کرتے ہیں.نیت ہوتی ہے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام دنیا میں پہنچانے کے لئے ہم بھی حصہ لیں.دُکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ہم بھی کچھ پیش کریں اور خدا تعالیٰ کی

Page 334

خطبات مسرور جلد سوم 327 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء رضا حاصل کرنے والے بنیں.اِن لوگوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر مالی قربانی کرنے والے ہیں ، چندے دینے والے ہیں.ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو بڑی مالی قربانیاں پیش کرنے والے ہیں.اپنے با قاعدہ چندوں کے علاوہ بھی کروڑوں روپے کی قربانی کر دیتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ لگے.پس یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اپنے رب سے ان قربانیوں کا اجر پانے والے لوگ ہیں.ان کو ان قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے.ان کے غموں کو خوشیوں میں بدل دیتا ہے.ان کے خوفوں کو اپنے فضل سے دور فرما دیتا ہے.ان کی اولا دوں کو ان کی آنکھ کی ٹھنڈک بنا دیتا ہے اور آئندہ زندگی میں خدا تعالیٰ نے ان کو جن نعمتوں سے نوازنا ہے اس کا تو حساب ہی کوئی نہیں ہے.تو یہ اللہ والے یہ قربانیاں اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے.یہ قربانیاں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا ادراک ہے کہ اپنے پیسوں کی تفصیلی کا منہ بند کر کے نہ رکھو ورنہ خدا تعالیٰ بھی رزق بند کر دے گا.اللہ کی راہ میں گن گن کر دو گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا.یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس بات کا یقین ہے اور خدائی وعدہ پر مکمل ایمان ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَانْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ - وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴾ (البقرة : 273) یعنی جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو تو وہ تمہارے اپنے ہی فائدے میں ہے.جبکہ تم اللہ کی رضا جوئی کے سوا ( کبھی ) خرچ نہیں کرتے اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو وہ تمہیں بھر پور واپس کر دیا جائے گا اور ہر گز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی.تو جب اللہ تعالیٰ یہ وعدہ کر رہا ہے کہ کوئی خوف نہ کرو بلکہ جو بھی تم خرچ کرو گے وہ تمہیں لوٹا دیا جائے گا.اور کسی بھی قسم کی زیادتی نہیں کی جائے گی.بلکہ زیادتی کا یا لوٹائے جانے کا کیا سوال ہے؟ اللہ تعالیٰ تو ایسا دیا لو ہے ، اس قدر بڑھا کر لوٹاتا ہے کہ اس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.اس کے خزانے لامحدود ہیں.اور جس کے خزانے لامحدود ہوں وہ انسانی ذہن میں کسی معیار کا تصور پیدا کرنے کے لئے پیمانے کا اظہار تو کر دیتا ہے لیکن وہ معیار یا پیمانے آخری

Page 335

خطبات مسرور جلد سوم 328 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء حد نہیں ہوتی ، انتہا نہیں ہوتی.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلَّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴾ (البقرة:262) یعنی ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اگا تا ہو، ہر بالی میں سودانے ہوں اور اللہ جسے چاہے اس سے بھی بڑھا کر دیتا ہے.اور اللہ وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.یعنی گو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے پیمانے کوئی نہیں وہ تو بے حساب رزق دینے والا ہے لیکن کیونکہ انسان کی سوچ محدود ہے اس لئے وہ بے حساب سے کہیں یہ نہ سمجھے کہ دس ہیں یا تمیں گنایا سو گنا اضافہ ہو جائے گا.نہیں، بلکہ بڑھانے کی ابتدا سات سو گنا سے ہے.اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ تو معیار تقویٰ اور ہر ایک کے معیار قربانی کے لحاظ سے اس سے بھی زیادہ بڑھا سکتا ہے.وہ جس کو چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا کر دے دے.جتنا زیادہ اس پر ایمان میں بڑھتے جاؤ گے اتنا زیادہ اس کے فضلوں کے وارث ٹھہرتے جاؤ گے.وہ تمہاری نیتوں کو بھی جانتا ہے.وہ تمہاری قربانیوں کی گنجائش کو بھی جانتا ہے.اس لئے جب احمدی اس نیت سے قربانی کر رہے ہوتے ہیں تو وہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کے وارث بھی ٹھہرتے ہیں.اللہ کرے کہ ہر احمدی کی قربانی کا یہ معیار، پیش کرنے کا یہ فہم اور ادراک بڑھتا چلا جائے.ہر احمدی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہو.ہر شخص کی تو فیقیں مختلف ہوتی ہیں، استعدادیں مختلف ہوتی ہیں.لیکن اپنے اپنے دائرے میں ہر احمدی کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ وہ مالی قربانی کرنے والا ہو.اور قربانی کا لفظ تو تقاضا ہی یہ کرتا ہے کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشات کو دبا کر، اپنے آپ کو اور اپنے مال کو خدا کی رضا کی خاطر جماعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیش کیا جائے.پس جو اس قربانی کے جذبے سے اپنے مال خدا کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں وہ یقینا اللہ تعالیٰ سے اجر پانے والے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ صدقہ اور مالی قربانی کا ذکر ایک حدیث میں یوں

Page 336

خطبات مسرور جلد سوم 329 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء فرمایا ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ: ایک آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ”اللہ کی راہ میں سب سے بڑا خرچ یہ ہے کہ تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو.غربت سے ڈرتا ہو اور خوشحالی چاہتا ہو.صدقہ و خیرات میں دیر نہ کر.کہیں ایسا نہ ہو کہ جب جان حلق تک پہنچ جائے تو تو کہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا.حالانکہ وہ مال اب تیرا نہیں رہا وہ فلاں کا ہو ہی چکا“.(بخارى - كتاب الزكوة - باب فضل الصدقة الشحيح الصحيح) پھر ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا: ” حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو.خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی ہی استطاعت ہو.(بخاری - كتاب الزكوة باب اتقوا النار ولو بشق تمرة ) پس جہاں صدقہ اور مالی قربانی کر کے ہم اپنے آپ کو اگلے جہان کی آگ سے محفوظ کر رہے ہوں گے وہاں دنیا کی حرص، لالچ اور ایک دوسرے سے دنیاوی خواہشات میں بڑھنے کی دوڑ سے بھی محفوظ ہورہے ہوں گے اور یوں آگ سے بچنے کے نظارے اس دنیا میں بھی دیکھیں گے.کیونکہ حسد کی آگ بھی بڑی سخت آگ ہے.احمدیوں میں تو بے شمار ایسے ہیں جو اس میدان کا تجربہ رکھتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ جو سکون مالی قربانی کرنے کے بعد ملتا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ، اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر بھی عمل کرنے کی توفیق دے جس میں آپ نے فرمایا کہ: "الشُّح یعنی بخل سے بچو.یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا“.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 159 160 مطبوعه بيروت ) اللہ تعالیٰ اس حکم پر عمل کرنے کی ہمیں توفیق دے اور ہم کبھی ہلاک ہونے والوں میں شمار نہ ہوں.بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے ہوں.اس کے لامحدود فضلوں اور انعاموں

Page 337

خطبات مسرور جلد سوم کے وارث ٹھہریں.وو 330 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء ایک حدیث میں ابن مسعوددؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے.ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا.دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی اور اس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے.(بخارى كتاب الزكوة -باب انفاق المال في حقه) اللہ کرے کہ ہم اس فرمان کو سمجھنے والے ہوں اور اس رشک کی وجہ سے مالی قربانیوں اور انصاف قائم کرنے میں بڑھنے والے ہوں.جب قربانیوں میں بڑھنے کی دوڑ شروع ہوگی تو نیکیوں میں بڑھنے کے حکم کے مطابق ہر شخص اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اپنی اس انتہا کو پہنچنے کی کوشش کرے گا.اپنی استعدادوں کو انتہا تک استعمال کرنے کی کوشش کرے گا.اور یوں ایک حسین اور پاک معاشرہ قائم ہو جائے گا.جیسا کہ آپ سب کو علم ہے جماعت کے مالی سال کا یہ آخری مہینہ ہے عموماً جماعت کے متعلقہ عہد یدار جن کے سپرد چندوں کی وصولی کا کام ہوتا ہے بڑے پریشان ہو جاتے ہیں کہ ایک مہینہ رہ گیا ہے اور وصولیاں ابھی اس رفتار سے نہیں ہوئیں.مجھے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی فکر نہیں اور پوری تسلی ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی جہاں کمی ہے اپنے فضل سے پوری فرمائے گا.لیکن کیونکہ نصیحت کرنے اور توجہ دلانے کا بھی حکم ہے اس لئے میں احباب جماعت کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جن کے چندہ عام کے بجٹ کی ادائیگی میں اور اسی طرح چندہ جلسہ سالانہ، یہ لازمی چندہ جات جو ہیں ان کی ادائیگی میں کمی رہ گئی ہے وہ کوشش کر کے ادا کریں.جماعت کا بڑے عرصہ سے یہ مزاج بن گیا ہے کہ آخر وقت پر جا کر اپنے چندوں کی ادائیگی کرتے ہیں.جو لا زمی چندے ہیں وہ تو آپ کو ہر ماہ ادا کرنے چاہئیں تا کہ بعد میں ادا ئیگی کا بوجھ نہ پڑے.اور اس سے فائدہ یہ ہے کہ باقاعدہ چندہ دینے کا اور باقاعدہ قربانی کرنے کا جو ثواب ہے وہ بھی آپ حاصل کرنے والے ہوں گے.

Page 338

خطبات مسرور جلد سوم 331 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء ماہوار چندوں کی ادائیگی کے سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” سواے اسلام کے ذی مقتدرت لوگو دیکھو! میں یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہئے اور اس کے سارے پہلوؤں کو بنظر عزت دیکھ کر بہت جلد حق خدمت ادا کرنا چاہئے.جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری دینا چاہتا ہے وہ اس کو حق واجب اور دین لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ما ہوا ر اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضہ کو خالصتاً للہ نذر مقرر کر کے اس کے ادا میں تخلف یا سہل انگاری کو روانہ رکھے.اور جو شخص یک مشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے.لیکن یادر ہے کہ اصل مدعا جس پر اس سلسلہ کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے وہ یہی انتظام ہے کہ بچے خیر خواہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے ایسی سہل رقمیں ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرالیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کر سکیں.یعنی سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری ہو جائے عام طور پر جو آسانی سے ادا کر سکتے ہیں ماہوار چندہ ادا کیا کریں.”ہاں جس کو اللہ جل شانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندہ کے اپنی وسعت ، ہمت اور اندازہ مقدرت کے موافق یک مشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے.اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شا خو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام ، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے.لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا، تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں“.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 33-34) پس ہر احمدی کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اپنی مالی قربانیوں کو با قاعدہ رکھے تا کہ ساتھ ساتھ تزکیہ نفس بھی ہوتا رہے.خلافت ثانیہ کے ابتدا میں جب سے چندہ عام کی ایک شرح مقرر

Page 339

خطبات مسرور جلد سوم 332 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء ہو چکی ہے یعنی 1/16 کے لحاظ سے.تو ہر احمدی کو اس کے مطابق چندہ دینا چاہئے اور چندہ دیتا ہے.لیکن اگر مالی حالات اجازت نہ دیں تو اسی اجازت کے ماتحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمائی ہے چھوٹ مل سکتی ہے.لیکن ہمیشہ ہر احمدی کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی تو فیقوں کو جانتا ہے.اس لئے تقویٰ پر چلتے ہوئے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اپنے چندوں میں کمی کرنی چاہئے تو بے شک کریں لیکن اس کے لئے جماعت میں طریق ہے کہ خلیفہ وقت سے اجازت لے لیں کہ میرے حالات ایسے ہیں جس کی وجہ سے میں پوری شرح سے چندہ نہیں دے سکتا، ادا ئیگی نہیں کرسکتا.لیکن اپنے آپ کو مکمل طور پر مالی قربانی سے فارغ نہ کریں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ اس طرف توجہ دلائی ہے اور ابتدا میں ہی (سورۃ بقرہ میں ) متقیوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ نماز پڑھنے والے، عبادتیں کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں جو متقی ہیں.پس جب آپ استحکام خلافت اور استحکام جماعت کے لئے دعا مانگتے ہیں اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے دعائیں مانگتے ہیں تو ان حکموں پر عمل بھی کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے دیئے ہیں.پس ہر احمدی فکر سے اپنے بقایا جات صاف کرنے کی کوشش کرے.یہ جو چھ مہینے تک بقایا دار کی شرط ہے جماعت کا یہ قاعدہ ہے کہ یہ نہ ہو.تو یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو زمینداره کرتے ہیں، زمیندار ہیں جن کی فصلوں کی آمد چھ مہینے کے بعد ہوتی ہے.یا جو ایسے کاروباری ہیں جن کو کسی وقفے کے بعد یا کچھ عرصے کے بعد منافع ملتا ہے.ملازم پیشہ اور تاجر پیشہ جولوگ ہیں جن کی ماہوار آمد ہے ان کو تو فکر کے ساتھ ہر ماہ چندوں کی ادائیگی کرنی چاہئے اور جماعت میں ہزاروں ایسے ہیں جو اس فکر کے ساتھ ادائیگی کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اپنے پیسوں میں برکت کے بیشمار نظارے دیکھتے ہیں.یہ جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ایک زمیندار کو اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا تھا کہ اس کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تھی تو بادل کو حکم ہوتا تھا کہ فلاں جگہ برس اور اس کی ضرورت پوری کر.تو اس زمیندار کی یہی خوبی تھی کہ اپنی آمد میں سے وہ ایک حصہ علیحدہ کر کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کے لئے رکھ لیتا تھا.تو کیا یہ قصہ روایتوں میں اس لئے

Page 340

خطبات مسرور جلد سوم 333 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے لوگوں سے یا پرانے لوگوں سے ایسا سلوک کرتا تھا اب اس کی یہ قدرت بند ہو گئی ہے.اب اس کو یہ قدرت نہیں رہی نہیں، بلکہ آج بھی وہ زندہ اور قائم خدا یہ نظارے بے شمار احمد یوں کو دکھاتا ہے.پس اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی راہ میں کی گئی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے.وہ لا محدود قدرتوں کا مالک ہے.وہ دیتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا.اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن تقوئی اور نیک نیتی شرط ہے.اس کے ساتھ ہی میں بعض اور تحریکات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں ، ان کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں.ان میں سے ایک تو مریم شادی فنڈ ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہ آخری تحریک تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بابرکت ثابت ہوئی ہے.بے شمار بچیوں کی شادیاں اس فنڈ سے کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں.احباب حسب توفیق اس میں حصہ لیتے ہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شروع میں جس طرح اس طرف توجہ پیدا ہوئی تھی اب اتنی توجہ نہیں رہی.جو لوگ مالی لحاظ سے اچھے ہیں، بہتر مالی حالات ہیں ان کو پتہ ہی نہیں کہ بچیوں کی شادیوں پر غریب لوگوں کے کتنے مسائل ہوتے ہیں.ایک تو میں عموماً لڑکے والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کا خوف کریں،ان کی بھی بچیاں ہوں گی، بلاوجہ کے مطالبے نہ کیا کریں.تقویٰ پر قدم ماریں.آپ بیٹے کی شادی کر رہے ہیں یا کوئی لڑکا اپنی مرضی سے اپنی شادی کرتا ہے.یہ شادی ہے کوئی کاروبار نہیں ہے کہ اتنا جہیز ہو گا، اتنا زیور ہوگا، اتنا سرمایہ ہو گا، اتنی فلاں چیز ہوگی تو شادی ہوگی.یہ سب دنیا کے دکھاوے کی چیزیں ہیں.ایک احمدی کو یہ زیب نہیں دیتیں.بعض ایسے خط بچیوں کی طرف سے آتے ہیں.شادی کے بعد سسرال کی طرف سے بھی اور لڑکے کی طرف سے بھی یہ طعنے ملتے ہیں کہ کچھ نہیں لے کے آئی.بعض لڑکے پاکستان سے بیاہ کر باہر آتے ہیں اور شاید اس سوچ کے ساتھ آ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے وہاں جا کے سب کچھ سسرال سے ہی لینا ہے.وہ مطالبے شروع کر دیتے ہیں کہ گھر ہمارے نام کرو اور فلاں چیز ہمارے نام کرو یا فلاں چیز ہمیں دو.تو پھر بعض ایسے لوگ ہیں جو اپنے عزیزوں کے زیر اثر اس طرح کے گھٹیا قسم کے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں.شرم

Page 341

خطبات مسرور جلد سوم 334 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء آتی ہے.بعض ان میں سے اپنے آپ کو بڑے خاندانی بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں.تو ایسے لڑکے اور ایسے خاندان اپنی اصلاح کریں اور خدا کا خوف کریں ورنہ بہتر ہے کہ ایسے گھٹیا لوگ جماعت سے قطع تعلق کر لیں اور جماعت کی بدنامی کا باعث نہ بنیں.اب میں پھر پہلی بات کی طرف آتا ہوں.غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے جیسا کہ میں نے کہا کہ اندازہ نہیں ہے.اب مہنگائی کی وجہ سے اخراجات بھی بہت بڑھ رہے ہیں اس لئے توجہ دینی چاہئے.جو لوگ باہر کے ملکوں میں ہیں اپنے بچوں کی شادیوں پر بے شمار خرچ کرتے ہیں.اگر ساتھ ہی پاکستان ، ہندوستان یا دوسرے غریب ممالک میں غریب بچوں کی شادیوں کے لئے کوئی رقم مخصوص کر دیا کریں تو جہاں وہ ایک گھر کی خوشیوں کا سامان کر رہے ہوں گے وہاں یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہو گا جو ان کے بچوں کی خوشیوں کی بھی ضمانت ہوگا.اللہ تعالیٰ نیکیوں کو ضائع نہیں کرتا.پھر بعض صاحب حیثیت لوگوں میں بے تحا شا نمود و نمائش اور خرچ کرنے کا شوق ہوتا ہے.شادیوں پر بے شمار خرچ کر رہے ہوتے ہیں.کئی کئی قسم کے کھانے پک رہے ہوتے ہیں جو اکثر ضائع ہو جاتے ہیں.یہاں سے جب خاص طور پر پاکستان میں جا کر شادیاں کرتے ہیں اگر سادگی سے شادی کریں اور بچت سے کسی غریب کی شادی کے لئے رقم دیں تو وہ اللہ کی رضا حاصل کر رہے ہوں گے.کھانوں کے علاوہ شادی کارڈوں پر بھی بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے.دعوت نامہ تو پاکستان میں ایک روپے میں بھی چھپ جاتا ہے.یہاں بھی بالکل معمولی سا پانچ سات پینس (Pens) میں چھپ جاتا ہے.تو دعوت نامہ ہی بھیجنا ہے کوئی نمائش تو نہیں کرنی.لیکن بلا وجہ مہنگے مہنگے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں.پوچھو تو کہتے ہیں کہ بڑا ستا چھپا ہے.صرف پچاس روپے میں.اب یہ صرف پچاس روپے جو ہیں اگر کارڈ پانچ سو کی تعداد میں چھپوائے گئے ہیں تو یہ پاکستان میں پچیس ہزار روپے بنتے ہیں اور پچیس ہزار روپے اگر کسی غریب کو شادی کے موقع پر ملیں تو وہ خوشی اور شکرانے کے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے.تو اس طرح بے شمار جگہیں ہیں جہاں بچت کی جاسکتی ہے.اور جن کو اتنی توفیق ہے کہ وہ کہیں کہ ہم بچیوں کی شادیوں میں بھی مدد کر سکتے ہیں

Page 342

خطبات مسرور جلد سوم 335 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء اس لئے ہمیں اس قسم کی چھوٹی بچت کی ضرورت نہیں ہے تو پھر ایسے لوگوں کو کم از کم جو خرچ وہ اپنے بچوں کی شادی پر کرتے ہیں اس کا ایک فیصد تو غریب کی شادی کی مدد کے لئے چندہ دینا چاہئے.پاکستان میں بھی بہت سے لوگ ہیں جو بڑی فضول خرچی کرتے ہیں.کچھ باہر سے جا کر کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ وہاں رہنے والے کر رہے ہوتے ہیں.یا جو فضول خرچی نہیں بھی کرتے ان کی ایسی توفیق ہوتی ہے کہ بچوں کی شادی میں مدد کر سکیں.ان سب کو آگے آنا چاہئے اور اس نیک کام میں حصہ لینا چاہئے.عموماً ایک غریبانہ شادی پچھیں تمہیں ہزار روپے کی مدد سے ہو جاتی ہے.کچھ نہ کچھ تو انہوں نے خود بھی کیا ہوتا ہے.اتنی مدد ہو جائے تو لوگوں کی بڑی مدد ہو جاتی ہے.تو پھر یہ غریب آدمی کے لئے سکون کا باعث بن رہی ہوتی ہے اور آپ کو دعاؤں کا وارث بنارہی ہوتی ہے.بہر حال ہر ایک کو حسب توفیق اس فنڈ میں ضرور حصہ لینا چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.دوسرے میں اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ سپین میں نئی مسجد کی تعمیر کا میں نے اعلان کیا تھا اور سپین کی جماعت کے محدود وسائل کی وجہ سے دوسروں کو بھی اس میں حصہ لینے کی تحریک کی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مخلصین نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.بڑی تعداد میں وعدے آئے.الحمد للہ.اور کچھ احباب نے اپنے وعدے تو پورے بھی کر دیئے یا کچھ حصہ ادا کر دیا.لیکن ابھی کافی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے وعدے قابل ادا ہیں.اب وہاں ایک جگہ پسند آئی ہے اور سودا ہورہا ہے.ویلنسیا سے کوئی پندرہ سولہ کلومیٹر پہ مین ہائی وے کے اوپر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور ہائی وے کے اوپر ہی ایک پلاٹ ہے.اس میں تعمیر شدہ ایک چھوٹی سی مضبوط عمارت بھی ہے جور ہائش کے لئے استعمال ہو سکتی ہے.بہر حال وہاں خالی جگہ بھی کافی ہے.وہاں مسجد کا پلان انشاء اللہ بن رہا ہے.تعمیر شروع ہو جائے گی.اللہ کرے کونسل کی طرف سے اجازت بھی مل جائے.اسی طرح اس کے ساتھ ایک اور خالی پلاٹ بھی ہے جو کو نے (Cormer) کا پلاٹ ہے.میں نے انہیں کہا ہے کہ وہ بھی خریدنے کی کوشش کریں.اس طرح اس پلاٹ کو دو طرف.ނ سڑک مل جائے گی.پہلا پلاٹ 2800 مربع میٹر کا ہے.اگر دوسرا بھی مل گیا تو انشاء اللہ

Page 343

خطبات مسرور جلد سوم 336 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء 5000 مربع میٹر سے اوپر جگہ بن جائے گی جو انشاء اللہ تقریباً ایک ایکڑ سے زیادہ جگہ ہے.اللہ کرے کہ یہ سودا بھی جلد ہو جائے تاکہ وہاں مسجد کی تعمیر جلدی شروع کی جا سکے.تو جیسا کہ میں نے کہا جن لوگوں نے اس تحریک میں وعدہ کیا ہے ان سے درخواست ہے کہ اپنے وعدے پورے کریں.لیکن یاد رکھیں کہ لازمی چندہ جات یعنی چندہ عام وغیرہ کو پیچھے رکھ کر یہ ادا ئیگی نہیں کرنی.پہلے بہر حال لازمی چندہ جات ضروری ہیں.اور انہوں نے ہی وعدے کئے ہیں جن کو توفیق تھی.مجھے امید ہے وہ آسانی سے ادا کر سکتے ہیں.اسی کے ساتھ آج میں جرمنی والوں کو بھی توجہ دلا دوں.ان کی 100 مساجد کی رفتار بھی بڑی سُست ہے.ان کو بھی چاہئے کہ اپنے کام میں تیزی پیدا کریں.دنیا میں بڑی تیزی سے مسجد میں بن رہی ہیں.تیسرے میں آج ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں خاص طور پر جماعت کے ڈاکٹر ز کو اور دوسرے احباب بھی عموماً، اگر شامل ہونا چاہیں تو حسب توفیق شامل ہو سکتے ہیں، جن کو تو فیق ہو، گنجائش ہو.یہ ظاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی تحریک ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ربوہ میں خلافت رابعہ کے شروع میں یہ خواہش تھی کہ یہاں ایک ایسا ادارہ ہو جو اس علاقے میں دل کی بیماریوں کے علاج کے لئے سہولت میسر کر سکے.اس دور میں کچھ بات چلی بھی تھی لیکن پھر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا.بہر حال میرا خیال ہے کہ آخری دنوں میں حضور کی اس طرف دوبارہ توجہ ہوئی تھی لیکن خلافت خامسہ کے شروع میں اس پر کام شروع ہوا.ایک ہمارے احمدی بھائی ہیں انہوں نے اپنے والدین کی طرف سے خرچ اٹھانے کی حامی بھری.پھر امریکہ کے ایک احمدی ڈاکٹر بھی اس میں شامل ہوئے.انہوں نے خواہش کی کہ میں بھی شامل ہونا چاہتا ہوں.بہر حال نقشے وغیرہ بنائے گئے اور بڑی خوبصورت ایک چھ منزلہ عمارت تعمیر کی جا رہی ہے جو اپنی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے اور اس فیلڈ کے ڈاکٹر ماہرین کے مشوروں سے یہ سارا کام ہوا ہے.وہ اس میں شامل ہیں.خاص طور پر ڈاکٹر نوری صاحب سے مشورہ لیا گیا ہے.ایک ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے کیسی کیسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.ڈاکٹر صاحب مرکزی کمیٹی

Page 344

خطبات مسرور جلد سوم 337 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء میں شامل بھی ہیں.مستقل وقت دیتے ہیں ماشاء اللہ.پھر جو نقشے انہوں نے بنوانے تھے جیسا کہ میں نے کہا وہ چھ منزلہ عمارت کے تھے جس میں تمام متعلقہ سہولتیں رکھی گئی تھیں جو دل کے ایک ہسپتال کے لئے ضروری ہیں.تو اس وقت انہوں نے جو تخمینہ دیا تھا، جو اندازہ خرچ دیا تھا اس وقت بھی اس رقم سے زیادہ تھا جس کی ان دو صاحبان نے (جن کا میں نے ذکر کیا ) دینے کی حامی بھری تھی.تو انتظامیہ کچھ پریشان تھی.میں نے انہیں کہا کہ یہ نقشے جو بنائے گئے ہیں جن کی میں نے منظوری دی تھی اسی کی منظوری دیتا ہوں.اللہ کا نام لے کر اسی کے مطابق کام کریں.انشاء اللہ، اللہ تعالی برکت ڈالے گا، فضل فرمائے گا.پھر کچھ اور لوگ بھی اس میں شامل ہوتے رہے اور اب جہاں تک عمارت کا تعلق ہے وہ قریباً مکمل ہو چکی ہے، جلد چند مہینوں میں ہو جائے گی.اس تعمیر میں ( بتا چکا ہوں) کچھ لوگوں نے حصہ بھی لیا.اور فضل عمر ہسپتال کی انتظامیہ نے بڑی محنت سے اور ہر جگہ پر جہاں بچت ہو سکتی تھی جہاں ضرورت تھی ، انہوں نے بچت کرائی اور تعمیر کروانے میں احتیاط کی.خاص طور پر ڈاکٹر نوری صاحب کے ٹیکنیکل مشورے بھی با قاعدہ ہر قدم پر ملتے رہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.لیکن اب جو ایکو پمنٹ (Equipment) اور سامان وغیرہ ہسپتال کا آنا ہے وہ کافی قیمتی ہے.میں نے انہیں کہا ہے کہ جیسے جیسے رقم کا انتظام ہوتا جائے گا یہ فیز (Phases) میں خریدیں.لیکن ابتدائی کام کے لئے بھی کافی بڑی رقم کی ضرورت ہے.اس لئے میں احمدی ڈاکٹروں سے خصوصاً کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر بڑا فضل فرمایا ہے اور خاص طور پر امریکہ اور یورپ کے جو ڈاکٹر صاحبان ہیں.اسی طرح پاکستان میں بھی بعض ایسے ڈاکٹر ز ہیں جو مالی لحاظ سے بہت اچھی حالت میں ہیں.اگر آپ لوگ خدا کی رضا حاصل کرنے اور غریب انسانیت کی خدمت کے لئے اس ہارٹ انسٹیٹیوٹ کو مکمل کرنے میں حصہ لیں تو یقیناً آپ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن کو خدا بے انتہا نوازتا ہے اور ان کے اس فعل کا اجراس کے وعدوں کے مطابق خدا کے پاس بے انتہا ہے.کوشش کریں کہ جو وعدے کریں انہیں جلد پورا بھی کریں.اس ادارے کو مکمل کرنے کی میری بھی شدید خواہش ہے.کیونکہ

Page 345

خطبات مسرور جلد سوم 338 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء میرے وقت میں شروع ہوا اور انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ سے امید ہے وہ خواہش پوری کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتا آیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ موقع دے رہا ہے کہ اس نیک کام میں ،اس کار خیر میں حصہ لیں اور شامل ہو جائیں اور اس علاقے کے بیمار اور دکھی لوگوں کی دعائیں لیں.آجکل دل کی بیماریاں بھی زیادہ ہیں.ہر ایک کو علم ہے کہ ہر جگہ بے انتہا ہو گئی ہیں اور پھر علاج بھی اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی تو افورڈ (Afford) کر ہی نہیں سکتا.ایک غریب آدمی تو علاج کروا ہی نہیں سکتا.پس غریبوں کی دعائیں لینے کا ایک بہترین موقع ہے جو اللہ تعالیٰ آپ کو دے رہا ہے.اس سے فائدہ اٹھا ئیں.ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم وہ آخرین ہیں جنہوں نے نیکی کے ہر میدان میں پہلوں سے ملنا ہے، ہم اپنے دعوے میں تبھی بچے ثابت ہو سکتے ہیں جب ان نیکی کے کاموں میں ان مثالوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں جو پہلوں نے ہمارے لئے قائم کی ہیں.وہ لوگ تو امیر ہوں یا غریب کسی بھی مالی تحریک پر بے چین ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مال پیش کیا کرتے تھے.محنت کرتے تھے، مزدوری کرتے تھے اور اپنی استعدادوں کے مطابق قربانی پیش کرتے تھے اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو بے انتہا نوازا اور اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی عمل کو ضائع نہیں کرتا.ان قربانیوں کا ذکر حدیث میں یوں آتا ہے.حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار چلا جاتا جہاں وہ محنت مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طور پر جو ایک مد اناج وغیرہ ملتا.چھوٹی موٹی جو مزدوری وغیرہ ملتی تھی، اللہ کی راہ میں خرچ کرتا.اور اب ان کا یہ حال ہے کہ ان میں سے بعض کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار ہیں.(بخارى كتاب الأجارة ـ باب من آجر نفسه ليحمل على ظهره ثمّ تصدق به) تو اس اُسوہ پر چلتے ہوئے قربانیوں کے نظارے جماعت احمدیہ میں بھی نظر آتے ہیں.پس آج بھی ان نظاروں کو ختم نہ ہونے دیں اور خدمت انسانیت کے اس اہم کام میں بڑھ چڑھ کر

Page 346

خطبات مسرور جلد سوم حصہ لیں.339 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء جہاں تک انسٹیٹیوٹ کے لئے ڈاکٹر ز کا تعلق ہے، ہمارے امریکہ کے ایک ڈاکٹر نے مستقل وقف کیا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ وہ جلد ربوہ پہنچ جائیں گے.دوسرے یہاں بھی بعض نو جوان واقفین زندگی ڈاکٹر ز تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو اپنی تعلیم مکمل ہونے پر وہاں چلے جائیں گے.اور پاکستان میں بھی بعض نوجوان ہیں جنہوں نے وقف کیا ہے ٹریننگ لے رہے ہیں.اور اسی طرح ڈاکٹر نوری صاحب کی سرپرستی میں انشاء اللہ یہ ادارہ چلتا رہے گا.اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں بھی برکت ڈالے.اور پھر یہ ادارہ مکمل ہونے کے بعد میں دوسرے سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی وقف عارضی کر کے یہاں آیا کریں.اللہ تعالیٰ ، انشاء اللہ ان کی قربانیوں کے بدلے ضرور دے گا، اجر ضرور دے گا.اور دعا کرتے رہیں، اللہ تعالیٰ اس ادارے کو بہت کامیاب ادارہ بنائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو، پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے.اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا“.یعنی اس کا مال ضائع ہو جائے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے.بلکہ خدا تعالی کی طرف سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو.بلکہ یہ اُس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.

Page 347

خطبات مسرور جلد سوم 340 خطبہ جمعہ 3 / جون 2005ء تم یقیناً مجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے.اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں.ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے“.(مجموعه اشتهارات جلد سوم صفحه 497-498) اللہ کرے کہ کبھی کسی احمدی کے دل میں قربانی کرنے کے بعد تکبر پیدا نہ ہو.اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کو ایک اعزاز سمجھے، ایک فضل سمجھے، اور ہمیشہ کی طرح وہ قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرتا چلا جائے.اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بننے والا ٹھہرے، نہ کہ آپ کی ناراضگی سے حصہ پانے والا ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا کہ: میں ایک دعا کے لئے بھی کہنا چاہتا ہوں.کل انشاء اللہ تعالیٰ میں کینیڈا کے سفر کے لئے روانہ ہورہا ہوں.وہاں جلسہ بھی ہے اور بہت سارے دوسرے پراجیکٹس بھی ہیں، مساجد اور مشن ہاؤسز کے افتتاح یا سنگ بنیاد وغیرہ.دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ کامیاب کرے.اور اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھاتا رہے.آمین

Page 348

خطبات مسرور جلد سوم 341 (22) خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء جماعت احمدیہ کی مساجد کا حسن ان کے نمازیوں سے ہوتا ہے وینکوور.کینیڈا کی مسجد کا سنگ بنیاد خطبه جمعه فرموده 10 رجون 2005ء بمقام وینکوور کینیڈا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.وَإِذْ يَرْفَعُ اِبْرهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمُعِيْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (البقرة: 128-129) پھر فرمایا:.کل انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی مسجد کی بنیاد رکھی جائے گی.ایک لمبے عرصے سے یہاں مسجد - کی تعمیر کی کوشش ہو رہی تھی لیکن بعض روکیں آڑے آتی رہیں جس کی وجہ سے باوجود زمین ہونے کے مسجد کا منصوبہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا.الحمد للہ کہ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان روکوں کو دور فرما دیا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو بھی جزا دے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کی منظوری میں مدد کی یا مدددی یا منظوری کے حصول میں کسی طرح بھی شامل ہوئے.جماعت احمدیہ کی مساجد کا شمار اُن مساجد میں نہیں ہوتا جو وقتی جوش اور جذبے کے تحت بنا دی جاتی ہیں اور صرف مسجدوں کی ظاہری خوبصورتی کی طرف توجہ ہوتی ہے نہ کہ اس کے باطنی اور اندرونی حسن کی طرف.ہماری مساجد وہ نہیں ہیں بلکہ جماعت احمدیہ کی مساجد کا حسن ان کے

Page 349

خطبات مسرور جلد سوم 342 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء نمازیوں سے ہوتا ہے، اس میں عبادت کے لئے آنے والے لوگوں سے ہوتا ہے.ہماری مساجد کی بنیادیں تو ان دعاؤں کے ساتھ اٹھائی جاتی ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خدا کے گھر کی بنیادیں اٹھاتے وقت کی تھیں.احمدی وہ لوگ نہیں ہیں جو بظاہر ایمان کی حرارت والے کہلاتے ہیں لیکن ان کے دل برسوں میں نمازی نہیں ہوتے.جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانا ان کو تو ایمان کی حرارت کا ادراک بھی نہیں ہے.پتہ ہی نہیں کہ ایمان کی حرارت کیا ہوتی ہے.وہ تو ایمان کو سطحی طور پر دیکھتے ہیں سطحی طور پر لیتے ہیں.ان لوگوں کو کیا پتہ کہ ایمان کی حرارت کیا ہوتی ہے.پس یہ اعزاز جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ملا ہے، اس کو قائم رکھنے کے لئے اپنے ایمانوں پر نظر رکھیں اور اپنی مسجد کی تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعاؤں کو پیش نظر رکھیں تب ہی آپ ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جو گو آخرین میں ہیں لیکن پہلوں سے ملنے والے ہیں.وہ دعائیں کیا تھیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کیں.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں ان کا ذکر آتا ہے.ان آیات کا ترجمہ یہ ہے : اور جب ابراہیم اس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی.یہ دعا کرتے ہوئے کہ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے قبول کر لے.یقینا تو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.اور اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دوفرمانبردار بندے بنا دے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر دے اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا.اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا.یقینا تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس ہم بھی اس مسجد کی بنیا در کھتے ہوئے یہی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! ہماری اس حقیر قربانی کو قبول فرما.تیرے حضور ہم یہ قربانی پیش کرتے ہیں.تو نے خود ہی فرمایا ہے کہ میں دعاؤں کو سننے والا ہوں.تو علیم بھی ہے، تو ہمارے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے.تو ہمارے گزشتہ حالات سے بھی باخبر ہے اور ہمارے آئندہ کے حالات بھی تو جانتا ہے کہ کیا ہونے والے ہیں.تو ہمارے

Page 350

خطبات مسرور جلد سوم 343 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء دلوں کو بھی جانتا ہے.اگر ہمارے دلوں میں کوئی بھی ہے، کوئی ٹیڑھا پن ہے تو اس کو دور کر دے اور ہمیں بھی ان دعاؤں کا وارث بنادے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی تھیں.اے خدا ! جس طرح تو نے ان دو بزرگوں کی دعاؤں کو سنا آج ہماری بھی سن لے اور اس خانہ خدا کی تعمیر کو، اس مسجد کی تعمیر کو قبول فرما اور ہماری نسل میں سے بھی ، ہماری اولا دوں میں سے بھی ایسے لوگ ہمیشہ پیدا کرتارہ جو تیری عبادت کرنے والے ہوں.اے اللہ ! ہم جو دنیا کے اس حصے میں آباد ہیں جہاں دنیا داری اور ہوا و ہوس نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے.اے اللہ ! ایسا نہ ہو کہ اس دنیا کی چکا چوند کے بہاؤ میں ہم بھی یہ جائیں.اس لئے ہماری رہنمائی فرماتے رہنا اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند مسیح و مہدی موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس زمانے میں خلافت علی منہاج نبوت جو تو نے قائم کی ہے، ہماری کسی غلطی کی وجہ سے اس سے ہمیں دور نہ لے جانا.ہماری دُور دُور کی نسلوں تک اس انعام کو قائم رکھنا.ہمیں ہمیشہ یہ توفیق دینا کہ ہم اور ہماری نسلیں تو بہ کرتے ہوئے ہمیشہ تیری طرف جھکنے والی ہوں اور تو ہمیشہ ہماری تو بہ قبول فرماتے ہوئے ، ہم پر رحم کرتے ہوئے ، ہمیں اپنے رحم اور فضل کی چادر میں لپیٹے رکھنا.اور ہمیشہ اس قابل بنائے رکھنا کہ ہم تیری عبادت کرنے والے بھی ہوں اور تیرے انعام خلافت سے وابستہ رہنے والے بھی ہوں.پس جب ہر احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے یہ دعائیں کرتے ہوئے مساجد کی تعمیر میں حصہ لے گا اور ساتھ ہی اپنے عمل سے اپنی عبادتوں سے ان مساجد کے حسن کو سجا رہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے وعدوں کے مطابق اپنے انعامات سے نوازتا رہے گا.پس آپ اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ آپ نے پہلے ابراہیم کو بھی مانا اور اس نے جس عظیم نبی کے آنے کی دعا کی تھی اور جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا تھا اور ایک عظیم نبی ، ایک پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا تھا اس پر بھی مکمل اور کامل یقین رکھتے ہوئے اس کی بیشمار پیشگوئیوں کے ساتھ اس پیشگوئی کو بھی آپ نے مانا کہ آخری زمانے میں جو میرا روحانی فرزند مبعوث ہو گا اس کو مان لینا.گھٹنوں کے بل برف پر چل کر بھی اس کے پاس جانا پڑے تو اس کے پاس جانا اور میرا

Page 351

خطبات مسرور جلد سوم 344 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء سلام کہنا کیونکہ وہ مسیح موعود و مہدی موعود اس اندھیرے کے زمانے میں مبعوث ہو گا جب اسلام کی تعلیم کو یکسر بھلایا جا چکا ہوگا اور اسلام کا فقط نام باقی ہوگا اور یہ مرد جری اس تعلیم کو حقیقی اسلامی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں رائج کرے گا، قائم کرے گا.پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اس جری اللہ کو مانا.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اس جری اللہ نے دین کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا.اگر ہم ماننے کے بعد اپنے اندر تبدیلیاں پیدا نہیں کریں گے، اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال کو اس معیار تک نہیں لائیں گے جس پر پہلوں نے اپنے معیار قائم کئے اس وقت تک ہمارا ایمان بے کار ہے.ہم اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مرد میدان کو ابراہیم کے نام سے بھی پکارا ہے.یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ ابراہیم ثانی اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اللہ تعالیٰ کے قریب لانے اور ہمارا تزکیہ کرنے ، ہمیں پاک کرنے اور روحانی خزائن تقسیم کرنے کا باعث بنے گا.بشرطیکہ ہم اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کریں.قرآن کریم میں ان سے پہلی آیتوں میں جن کی میں نے تلاوت کی ہے مقام ابراہیم کو نمونہ کے طور پر اختیار کرنے کا حکم ہے.اس مقام کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں وضاحت کرنے سے پہلے آپ کے الفاظ میں آپ کے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک تعلق کی وضاحت کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ آیت وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے.تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا.اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہو گا.(اربعین نمبر - روحانی خزائن جلد 17 صفحه 421) پس دیکھیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ خوش قسمت ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا.آپ خوش قسمت ہیں کہ اس آخری زمانے کے ابراہیم کو مان کر آپ نجات یافتہ فرقہ بن گئے ہیں.لیکن یا درکھیں کہ ایمان مکمل طور پر اس تعلیم پر عمل کرنے کا تقاضا کرتا ہے جو نبی لے کر آتے ہیں.تو نجات صرف منہ کے کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے نہیں مل جاتی.

Page 352

خطبات مسرور جلد سوم 345 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھی کچھ قانون ہیں.ان کے مطابق ایمان لانے سے نجات ملے گی.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو یہ ایمان حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ ایمان کا معیار کس طرح حاصل کرنا ہے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:.وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى ) اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو.اس جگہ مقام ابراہیم سے اخلاق مرضیہ و معامله باللہ مراد ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلنا اور اللہ تعالیٰ کے مطابق ہر معاملہ کرنا.پھر فرمایا: ” یعنی محبت الہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا.یہی حقیقی مقام ابراہیم کا ہے جو امت محمدیہ کو بطور تبعیت و وراثت عطا ہوتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اور خود کو بالکل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے ماتحت کر دینا ہو، اس کی رضا ہو، اسی سے وفا ہو اس کے حکموں کی وفاداری سے بجا آوری ہو ، یہ جب ہو گا تو فرمایا کہ یہی ہے جو امت محمدیہ کو اس پیروی کی وجہ سے مقام ابراہیم کی طرف لے جائے گا.بطور ر تبعیت و وراثت عطا ہوتا ہے.اور جو شخص قلب ابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحه 608 بقيه حاشیه در حاشیه نمبر 3) تو یہ ہے وہ مقام جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تعلیم دی اور یہ ہے وہ مقام جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر احمدی کو دیکھنا چاہتے ہیں.ہر احمدی کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور ایسی محبت قائم ہو جائے جس کے مقابلے میں ہر دوسری محبت کمتر نظر آئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں شرک کے خلاف ایک عظیم جہاد کیا تھا اور مخالفین نے اس وجہ سے ان کو آگ میں بھی ڈالا تھا.لیکن خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کو اس طرح ضائع نہیں کرتا.چنانچہ وہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکی.ہمیں بھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو ابراہیم کی برکات کا حصہ دار بنانا

Page 353

خطبات مسرور جلد سوم 346 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء چاہتے ہیں.ہم اس زمانے کے ابراہیم کو مان کر ہر قسم کے شرک سے بے زاری کا اظہار کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں.لیکن مثلاً نمازوں کے اوقات ہیں.چھوٹے چھوٹے بُت اور خدا، نوکری کے، کاروبار کے ہستیوں کے ہم نے بنائے ہوئے ہیں ان کے پنجے سے نکلنا نہیں چاہتے.یا اس طرح نکلنے کی کوشش نہیں کرتے جس طرح کوشش کرنی چاہئے.صرف منہ سے یہ کہہ دینا کہ اے اللہ ہمیں مقام ابراہیم پر فائز کر دے، کوئی فائدہ نہیں دے گا جب تک کہ وہ محبت اپنے دل میں پیدا نہ کریں جوابراہیم علیہ السلام کو اپنے خدا سے تھی.جب تک ہم اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے احکامات کے سپرد نہ کر دیں.جب تک ہم اپنے تمام معاملات خدا پر نہ چھوڑ دیں اور عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اناؤں کو نہ چھوڑ دیں.جب تک ہم اپنے خاندانوں اور برادری کی بڑائی کے تکبر سے باہر نہ نکلیں.جب تک ہم اس چکر میں رہیں گے کہ میں سید ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان ہوں یا جاٹ ہوں یا آرائیں ہوں ، ان لفظوں سے جب تک باہر نہیں نکلیں گے جب تک ہم اپنے معیار اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تقوی کو نہ بنالیں کوئی فائدہ نہیں.تو جب ہم یہ ساری چیزیں کرلیں گے تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم مقام ابراہیم پر قدم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں.تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس مقام پر قدم رکھتے ہوئے اپنے تمام معاملات خدا تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں.تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم وفاداروں میں ہیں.اور اس زمانے کے ابراہیم سے جو عہد بیعت ہم نے باندھا ہے اس کو پورا کرنے والے ہیں.پس جب ہم یہ معیار حاصل کر لیں گے یا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تب ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیاروں میں شامل سمجھے جائیں گے.اگر نہیں تو پھر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں نہیں سمجھے جاسکتے بلکہ ایک سوکھی ٹہنی کی طرح جس کو کوئی بھی باغبان برداشت نہیں کرتا ، کاٹ کر پھینک دیئے جائیں گے کیونکہ ہم اس مقام کی پیروی نہیں کر رہے، اس مقام پر کھڑے نہیں ہو رہے جس مقام پر کھڑے ہونے کا امت محمدیہ کو حکم دیا گیا ہے.پس اس زمانے کے ابراہیم کو مان کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق صادق اور غلام صادق بھی ہے ہمیں اپنے اندر پاک

Page 354

خطبات مسرور جلد سوم 347 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی.اپنے دلوں میں ابراہیمی صفات پیدا کرنی ہوں گی.اپنے عملوں کو بھی، اپنی عبادتوں کو بھی اس تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہوگا جس کا ہمیں خدا نے حکم دیا ہے.اپنی مساجد سے خدا کی وحدانیت کے نعروں کے ساتھ ساتھ پیار اور محبت اور اُلفت کے نعرے بھی لگانے ہوں گے تا کہ مقام ابراہیم پر کھڑا ہونے والے کہلا سکیں.ورنہ یہ بیعت کے دعوے کھو کھلے دعوے ہیں.عبادتوں کے یہ معیار قائم کئے بغیر اور عملوں کے یہ معیار قائم کئے بغیر ہم بھی وہیں کھڑے ہوں گے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آج وہ مسلمان کھڑے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانا.جن کی مساجد بظاہر نماز پڑھنے والوں سے پر لگتی ہیں، بھری ہوئی لگتی ہیں لیکن وہاں نفرتوں کے نعروں اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا.وہاں جس مُلاں کے قبضے میں منبر ہے وہ ہر دوسرے فرقے کے خلاف گالیاں بکنے کے علاوہ کچھ نہیں کہتا.جہاں جانے والے بعض شرفاء یہ کہہ کر اٹھ کر جاتے ہیں کہ مولانا ہم اسلام سیکھنے کے لئے آئے تھے گالیاں اور مغلظات سننے کے لئے نہیں آئے.تو بہر حال اس زمانے میں جب مسیح و مہدی کا ظہور ہو چکا ہے ان نام نہاد علماء نے اس کو نہ مان کر یہی کچھ کرنا تھا کیونکہ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی جس کا ایک حدیث میں اس طرح ذکر آتا ہے.حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہ رہے گا.الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.اس زمانے کے لوگوں کی مسجد میں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی.ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے.ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور انہیں میں لوٹ جائیں گے.(مشكوة المصابيح كتاب العلم - الفصل الثالث روايت نمبر 276) لیکن آپ لوگ جو ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان چکے ہیں واپس اس غار کی طرف نہ جائیں جہاں گہرے اندھیرے ہیں.بلکہ نیکیوں پر قائم ہوتے ہوئے مسجدوں کو بھلائی، خیر اور روشنی کے مینار بنا ئیں.

Page 355

خطبات مسرور جلد سوم 348 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو ہماری اس مسجد میں اس نیت سے داخل ہوگا کہ بھلائی کی بات سیکھے یا بھلائی کی بات جانے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہوگا.اور جو مسجد میں کسی اور نیت سے آئے تو وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کسی ایسی چیز کو دیکھتا ہے جو اس کو حاصل نہیں ہوسکتی.“ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 350.مطبوعه بيروت ) اس کا مسجد میں آنا بے فائدہ ہے.کیونکہ مومنوں کی مساجد منافقین کے لئے فتنہ پیدا کرنے والوں کے لئے نہیں ہوتیں.اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک مسجد میں اس نیت سے داخل ہونے والا ہو کہ ایک خدا کی عبادت کرنی ہے اور بھلائی سیکھنی ہے اور پھر اس سیکھی ہوئی بھلائی کی بات پر خود بھی عمل کرنا ہے اور آگے بھی پھیلانا ہے.ہماری نیتیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہوں تا کہ ان لوگوں میں شامل ہوں جو جہاد کا ثواب لینے والے ہیں.چھوٹی چھوٹی باتیں اور رنجشیں بھلائی اور خیر سے محروم کرنے والی نہ ہوں.ہمارا مسجدوں میں آنا ہمارے ماحول کے لئے خیر و برکات کا باعث ہو.نہ کہ دکھ اور تکلیف کا.پس جب اس نیت سے ہر کوئی کوشش کر رہا ہوگا تو یہ کوششیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک یقیناً مقبول ہوں گی.اور جہاں یہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائیں گی وہاں یہ ماحول میں محبتیں بھی بکھیر رہی ہوں گی.جماعت احمدیہ کی مساجد تو بہر حال بھلائی پھیلانے والی اور خیر پھیلانے والی ہیں.اس لئے ہر ایک کو یہاں آنا بھی اسی نیت سے چاہئے.اگر کوئی فتنہ وفساد کی نیت سے آئے گا تو اس کو کامیابی نہیں ہو سکتی.لیکن ہر احمدی کو اس لحاظ سے بھی اپنے ماحول کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کبھی کوئی شر جماعت کے اندر یا مساجد میں کامیاب نہ ہو.ہر احمدی کو بھلائی اور خیر کی تعلیم کوہی ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ یہی چیز ہے جس نے اسلام کی صحیح تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا کردار ادا کرنا ہے، بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھانا ہے.یہ تعلیم پھیلانے میں مساجد ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں.ہمیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہماری مساجد امن کا نشان ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے قریب لانے کی ضامن ہیں.

Page 356

خطبات مسرور جلد سوم 349 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :.اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے.جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر، جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو محض لِلہ اسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہر گز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا“.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 93 جدید ایڈیشن - البدر مورخه 24 اگست 1904) تو جماعت کی ترقی تبھی ہوگی جب دنیا کو یہ باور کرا دیں گے کہ مساجد خدا تعالیٰ کی مخلوق کو اس کے در پر جھکانے کا ذریعہ ہیں نہ کہ فساد کا.اللہ کرے یہ مسجد جو آپ یہاں تعمیر کرنے والے ہیں یہ اس کا صحیح حق ادا کرنے والی ہو.آپ لوگ اپنی ذمہ واریاں سمجھنے والے ہوں اور یہ مسجد اس علاقے میں جماعت کی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہو، لوگوں کو کھینچنے کا باعث بنے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :.مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے.بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں.ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی.کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی.اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا.مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیا داروں نے ایک مسجد بنوائی تھی.وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرادی گئی.اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا.یعنی ضرر رساں.اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی.مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں“.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 491 جدید ایڈیشن - بدر صفحه 1 تا 3 مورخه 31/ اکتوبر 1905ء) اللہ کرے کہ ہماری اس مسجد کی بنیاد بھی تقویٰ پر ہو.اور ہم اپنی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے اس کی تعمیر کریں.اس

Page 357

خطبات مسرور جلد سوم 350 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء کا خوف اور اس کی خشیت ہمارے دلوں میں قائم ہو اور ہم اس قرآنی حکم پر عمل کرنے والے ہوں که وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَطَمَعًا - إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِين (الاعراف: 57) یعنی اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فسادنہ پھیلاؤ اور اسے خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے رہو.یقینا اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب رہتی ہے.پس جب ہم اللہ تعالیٰ کا خوف دلوں میں قائم رکھتے ہوئے اسے پکاریں گے اور ہمیں کوئی خواہش، کوئی لالچ ہو گا تو صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے.اور ہمیں ان انعاموں کا وارث بنائے جن کا ذکر اس نے انبیاء کے ذکر میں قرآن کریم میں کیا ہے.اور ان دعاؤں کا وارث بنائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے کی ہیں.ان نیکیوں پر قائم کرے جن کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں سے کی ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمیں ہمیشہ اپنی چادر میں لیٹے رکھے اور کبھی ہمارا شمار ان فسادیوں میں نہ ہو جن کا اس آیت کے شروع میں ذکر آیا ہے اور جو اصلاح کے بعد پھر بگڑ جاتے ہیں.بلکہ ہمارا ہر فعل اللہ تعالیٰ کے پیار کو سمیٹنے والا ہو.اللہ کرے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں کہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، اس بات سے کہ میں کسی پر ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے.بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو جھوٹی آنا کے شیطانی چکر میں انسان کو پھنسا دیتی ہیں.اور بغیر دیکھے سوچے بدظنیوں پر بنیاد کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں اور سخت کلمات تک جا پہنچتی ہیں.ہر احمدی کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس نے زمانے کے امام کو مان کر جو عہد کیا ہے کہیں وہ ان باتوں کے کرنے سے یا صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے سے یا بدظنیوں کی وجہ سے یا دوسرے کو حقیر سمجھنے سے اور تکبر کی وجہ سے وہ اس عہد کو توڑنے والا تو نہیں بن رہا.پس جب آپ اس سوچ کے ساتھ اپنے جائزے لے رہے ہوں گے، ہر کوئی اپنا جائزہ لے رہا ہوگا تو جہاں آپ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں میں شمار ہو رہے ہوں گے وہاں محبتوں کی خوشبو بھی فضا میں بکھیر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایسے عملوں کی توفیق دے

Page 358

خطبات مسرور جلد سوم 351 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :.یا درکھو کہ ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں.نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلے میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی.جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ.مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے.پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ.یہ کمی حالت ہے.خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا.اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے.پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے.پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں.میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو.اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اس طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا اور صحابہ نے کیا.قرآن شریف کے صحیح منشاء کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو.خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے.یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالی قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی ، ( یعنی بغیر عمل کے زندہ نہیں رہ سکتی ).یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئی.کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو.پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہل حق کا گر وہ تم ہی ہو“.(ملفوظات جلد نمبر 2 صفحه 282 جدید ایڈیشن - الحکم صفحه 5 تا 8 پرچه 31 اگست 1902ء) تو یہ ہے وہ مقام جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں.پھر آپ اپنی جماعت کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” میری تمام جماعت جو اس

Page 359

خطبات مسرور جلد سوم 352 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء جگہ حاضر ہے...اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں.اور کوئی فساد اور شرارت اور بد چلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے.وہ پنج وقت نماز جماعت کے پابند ہوں.وہ جھوٹ نہ بولیں.وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں.“ تکلیف نہ دیں وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں.اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں“.(اب یہ نہیں کہ ظلم کرنا نہیں ہے بلکہ خیال بھی دل میں نہیں لانا.) غرض ہر ایک قسم کے معاصی ( یعنی گناہ ) اور جرائم اور نا کر دنی اور نا گفتنی ، یعنی تمام ایسی چیزیں جو نہ کرنی چاہئیں نہ کہنی چاہئیں اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں.اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں.اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں.اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچا دیں.اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں“.( جماعت میں یہ ابھی کافی کمی ہے یعنی با قاعدہ نمازیں پانچ وقت نہیں پڑھی جاتیں ” اور ظلم اور تعدی ( حد سے بڑھنا ) ” اور غبن اور رشوت اور اتلاف حقوق (لوگوں کے حقوق مارنا ) اور بے جا طرف داری سے باز رہیں.اب بے جا طرف داری میں یہ بھی آتا ہے کہ بعض دفعہ اپنے رشتہ داروں کا معاملہ اگر آ جائے تو بلا وجہ طرف داری کر دی جاتی ہے.جماعت میں اگر کوئی شکایت ہوتی ہے تو بے جا طرفداری کر کے اس کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے.یا اپنے کسی عزیز کی بے جا طرفداری کر کے دوسرے کے خلاف شکایت کی جاتی ہے.یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن سے جماعت کے ہر آدمی کو بچنا چاہئے.) اور کسی بد صحبت میں نہ بیٹھیں.اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو ان کے ساتھ آمد ورفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کا پابند نہیں ہے...یا حقوق عباد کی کچھ پروا

Page 360

خطبات مسرور جلد سوم 353 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج یا بد چلن آدمی ہے.اور یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت یا ارادت ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور بعد میں خلفاء سے ) اس کی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بد زبانی اور بہتان اور افتراء کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہوگا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پر ہیز کرو جو خطرناک ہے.اور چاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو.اور ہر ایک کے لئے بچے ناصح بنو.“ (یعنی حقیقت میں ایسے ہو جاؤ کہ بچے طور پر ان کو نصیحت کرنے والے ہو، مشورہ دینے والے ہو.اس کی بہتری چاہنے والے ہو ) ” اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بد چلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گزر نہ ہو.اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے.یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتدا سے کہتا چلا آیا ہوں.میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں.اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور جنسی کا مشغلہ نہ ہو.اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو.( بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ بیٹھ کر مجلسیں جماتے ہیں اور دوسروں پر ہنسی ٹھٹھا کر رہے ہوتے ہیں.پھر فرمایا کہ:.''یا درکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں.اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو.اور صبر اور حلم سے کام لو.اور کسی پر نا جائز طریق سے حملہ نہ کرو.اور جذبات نفس کو دبائے رکھو.(پھر آپ فرماتے ہیں کہ : " خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہر.(اب نمونہ تو اس وقت بنیں گے جب اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کریں گے کہ جن کا ایک معیار ہو ، جو نظر آتی ہوں.جن کو دیکھ کر دوسرے یہ کہہ سکیں کہ ہاں واقعی ایسی تبدیلی پیدا ہو چکی ہے کہ یہ نمونہ قابل تقلید ہے.پھر فرمایا: ”سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکا لوجو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی

Page 361

خطبات مسرور جلد سوم 354 خطبہ جمعہ 10 / جون 2005ء اور بدنفسی کا نمونہ ہے.جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیز گاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیکی چلنی کے ساتھ رہ نہیں سکتا وہ جلد ہم سے جُدا ہو جائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقین وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا.سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ.تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے.اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا.(اشتہار مورخہ 29 مئی 1898ء مجموعه اشتہارات جلد نمبر 3 صفحه 46تا 48) اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اس معیار پر پہنچ سکیں جس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں لانا چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ آپ کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں تا کہ تمام دنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرا سکیں.ہمارا کوئی فعل ایسا نہ ہو جس سے آپ نے بیزاری کا اظہار کیا ہے.بلکہ ہمارا ہر قول اور ہر فعل ایسا ہو جو ہمیں آپ کی دعاؤں کا وارث بنائے.

Page 362

خطبات مسرور جلد سوم 355 (23) خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء مساجد کی تعمیر اور ہماری ذمہ داریاں کیلگری (کینیڈا) میں جماعت احمدیہ کی مسجد - کی خطبه جمعه فرموده 17 جون 2005 ء بمقام کیلگری،کینیڈا.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.وَ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًان (الجن (19) پھر فرمایا:.اس آیت کا ترجمہ ہے یقیناً مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں.پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو.یہ ہے وہ تعلیم جس پر عمل کرتے ہوئے جماعت احمد یہ اپنی مساجد کی تعمیر کرتی ہے اور اس میں عبادت کے لئے جاتی ہے.ہماری مساجد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ایک نشان ہوتی ہیں.اور ہونی چاہئیں اور اسی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ایک لمبے عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل آپ کو، کیلگری جماعت کو ، اپنی مسجد بنانے کی اللہ تو فیق عطا فرما رہا ہے.انشاء اللہ کل بنیاد رکھی جائے گی.اللہ کرے کہ آپ کو اس مسجد کی جلد سے جلد تکمیل کی بھی توفیق عطا ہو.اور اللہ کرے جن لوگوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے کے لئے وعدے کئے ہوئے ہیں وہ جلد ان وعدوں کو پورا کرسکیں اور جنہوں نے حصہ نہیں لیا وہ جلد اس میں حصہ لینے کی توفیق پائیں.اللہ کرے کہ اس مسجد کی تعمیران تمام دعاؤں سے حصہ لینے والی ہو اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے والے اور اس میں نمازیں پڑھنے والے بھی ان تمام دعاؤں کے وارث ہوں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل

Page 363

خطبات مسرور جلد سوم 356 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے کی تھیں.آپ کی اولاد در اولاد اور آپ کی آئندہ نسلیں بھی تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس مسجد میں آنے والی ہوں اور آپ کی یہ مسجد بھی اپنے آقا اور مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں بنائی جانے والی مسجد میں شمار ہو جس کی بنیادیں تقویٰ پر اٹھائی گئی تھیں.وہ ایسی بابرکت مسجد ہے کہ اس کی بنیاد میں تقویٰ پر اٹھائے جانے کی گواہی خدا تعالیٰ نے دی ہے.جیسا کہ فرمایا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ اَوَّلِ يَوْم (التوبة: 108) یعنی وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے.وہ مسجد ایسی تھی کہ جس کی دیواریں کچی تھیں جس کی چھت کھجور کی خشک ٹہنیوں سے ڈالی گئی تھی اور جس کے فرش پر بارش کے موسم میں چھت ٹپک کر کیچڑ ہو جایا کرتا تھا.اور جب اس میں نمازیں پڑھنے والے تقوی شعار لوگ نمازیں پڑھا کرتے تھے تو ان کے ماتھوں پر کیچڑ لگ جایا کرتا تھا.لیکن وہ کیچڑ بھی ان کے تقویٰ پر ایک مہر ہوتا تھا.اس مسجد میں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے اور اللہ کی مخلوق کے حق ادا کرنے والے بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے، درس سنا کرتے تھے.اور وہاں پر آنے والے نیک اور پاکباز لوگ وہ لوگ تھے جو اپنی نیکی اور تقویٰ کو بڑھانے کے لئے آتے تھے اور اس مقصد کے لئے بے چین رہتے تھے اور ان کی اسی ادا کو خدا تعالیٰ بھی پسند کرتا اور ان سے محبت کرتا تھا.کیونکہ وہ بے چین ہوتے تھے خدا کی عبادت کرنے کے لئے ، کیونکہ وہ بے چین ہوتے تھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے کے لئے جو کہ خدا تعالیٰ کا محبوب ترین نبی تھا.ان پاکباز لوگوں کی پاکیزگی کی گواہی خدا تعالیٰ نے یوں دی ہے.فرمایا فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوْا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِين ﴾ (التوبة: 108) یعنی اس میں آنے والے ایسے لوگ ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ بالکل پاک ہو جائیں اور اللہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.پس اگر ہم نے مسجد میں بنانی ہیں اور یقینا بنانی ہیں اور اگر ہم نے ان مسجدوں کو آباد کرنا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یقیناً کرنا ہے تو پھر ہماری مسجد میں بھی اس مسجد کی تتبع میں بنائی جانی چاہئیں اور بنائی جاتی ہیں جس کی بنیادیں تقویٰ پر تھیں.اور جس میں آنے والوں ، عبادت کرنے والوں اور بیٹھنے والوں کا محور خدائے واحد تھا اور وہ لوگ خدائے واحد کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے تھے مخفی شرکوں کو بھی انہوں

Page 364

خطبات مسرور جلد سوم 357 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء نے اپنے سے کوسوں دور بھگا دیا تھا.وہ خدا تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرنے کے لئے بے چین اور بے قرار ہوتے تھے تبھی تو خدا تعالیٰ نے ان کے تقویٰ اور پاکیزگی کی گواہی دی ہے اور ان سے محبت کا اظہار کیا ہے.لیکن کیا خدا تعالیٰ کے یہ پیار کے اظہار انہیں لوگوں پر ختم ہو گئے ہیں؟ کیا خدا تعالیٰ کے خزانے محدود تھے کہ پہلوں پر آ کر ختم ہو گئے؟ نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ کے خزانے تو لامحدود ہیں.پس جب اس کے خزانے لامحدود ہیں تو پھر آج بھی وہ انہیں تقسیم کر سکتا ہے اور کرتا ہے بشرطیکہ بندہ بھی ان شرائط پر عمل کرے، ان حکموں پر عمل کرے جن کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.خدائے واحد کو پکارے ، ان مسجدوں کو اس کی عبادت کے لئے خالص کرے اور آباد کرے، اپنے اندر سے مخفی شرکوں کو ختم کرے خدا تعالیٰ تو اپنے بندے کو دینے کے لئے بے چین رہتا ہے.یہ بندہ ہی ہے جو اس سے منہ موڑتا ہے.اللہ تعالیٰ تو اپنی طرف آنے والے بندوں کو دیکھ کر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنی کہ ایک ماں اپنے گمشدہ بچے کے مل جانے پر خوش ہوتی ہے اور پھر اسے اپنے سینے سے لگاتی ہے.آج ہم احمدی جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اور اس کے سلسلہ بیعت میں شامل ہوئے ہیں اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں زمانے کے امام کو مان کر اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے پر پہلوں سے ملنے کی ضمانت دی گئی ہے.پس ان آخرین میں شامل ہونے کا فیض آپ تبھی اٹھا سکتے ہیں جب خدائے واحد کو پکارنے والے اور اس کے آگے جھکنے والے بھی ہوں گے.اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی زندگیوں کو بسر کرنے والے بھی ہوں گے اور حقوق العباد ادا کرنے والے بھی ہوں گے.آپ کی مساجد اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا درس دینے والی ہوں گی اور یہاں آنے والوں کی بے چین دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے کی تڑپ بھی ہوگی.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اللہ کا خالص بندہ بنے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس نیت کے ساتھ مسجد بنانے والے ہوں کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنی ہے تا کہ اس ارشاد سے بھی حصہ لیں جس کا حدیث میں بھی ذکر آتا ہے.

Page 365

خطبات مسرور جلد سوم 358 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء محمود بن لبید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی کی تعمیر نو اور توسیع کا ارادہ فرمایا تو کچھ لوگوں نے اسے نا پسند کیا.وہ یہ چاہتے تھے کہ اس مسجد کو اس کی اصل حالت میں ہی رہنے دیا جائے.یہ سن کر آپ (حضرت) عثمان) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مَن بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ فِي الْجَنَّةِ مِثْلَهُ - کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا.(مسلم - كتاب المساجد - باب فضل بناء المساجد والحث عليها ) پس ہر احمدی کو یہ مقصد سامنے رکھنا چاہئے.جب مسجد کی بنیاد میں اٹھائی جا رہی ہوں تو یہ ذہن میں ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے.جب یہ نیت ہوگی تو یہ نیت تقویٰ پر قائم دل کی ہی ہو سکتی ہے.اس کے لئے جب آپ مالی قربانی کر رہے ہوں گے تو آپ کے دل اللہ کے خوف سے بھرے ہوں گے اور مسجد کی تعمیر میں حصہ اس لئے نہیں لے رہے ہوں گے کہ فلاں نے اتنا چندہ دے دیا ہے تو میں بھی اتنا دوں.یہ مقابلہ اس لئے نہیں ہورہا ہوگا کہ دوسرے کو نیچا دکھانا ہے.ہاں اگر مقابلہ کرنا ہے تو اس نیت سے ہو گا کہ نیکیوں میں سبقت لے جانی ہے، نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ہے.نیکیوں میں آگے بڑھنے کے وہ نمونے قائم کرنے ہیں جو پہلوں نے کئے تھے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں ، نہ کہ اس لئے کہ منفی مقابلہ ہو.تو یہ منفی مقابلے تو تقویٰ پر بنیاد نہیں ہو سکتے.اس لئے جب خدائے واحد کا گھر بنانا ہے تو تقویٰ پر بنیاد رکھنی ہے، قربانیاں کرنی ہیں ، تقویٰ پر قائم ہو کر کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا بڑا اشکر اور احسان ہے کہ اس نے جماعت کو ایسے دل دیئے ہوئے ہیں جو تقویٰ پر قائم ہیں اور اس روح کے ساتھ مالی قربانی کرنے والے ہیں کہ خدا کی رضا حاصل کرنی ہے.کئی لوگ ملاقاتوں کے درمیان رو رو کر دعا کے لئے کہتے ہیں کہ ہمارا مسجد کے لئے اتنا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ جلد ادا کرنے کی توفیق دے.بلکہ یہ لوگ اظہار کرتے ہیں کہ جو جماعت نے ہم سے توقع کی ہے ہمیں اس سے زیادہ بڑھ کر ادا کرنے کی توفیق دے.تو یہ لوگ جو روتے ہوئے اپنے وعدے پورے کرنے کی فکر کا اظہار کر رہے

Page 366

خطبات مسرور جلد سوم 359 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء ہوتے ہیں ان کو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ دل دنیا کے دکھاوے کے لئے قربانیاں دینے والے دل ہیں.نہیں، بلکہ یہ لوگ وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ قربانیاں کر رہے ہیں اور جب تک اس سوچ کے ساتھ قربانیاں دیتے رہیں گے اس وقت تک آپ اور آپ کی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ٹھہرتی رہیں گی انشاء اللہ.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کی رضا حاصل کرنے اور تقویٰ پر قائم رہنے والوں سے محبت کرتا ہے اور ان کے لئے جنت میں گھر تعمیر کرتا ہے.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات اور عمل سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ مسجد میں عمدہ اور مضبوط بنانا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء کے مطابق ہے.شروع میں حالات ایسے نہیں تھے کہ زیادہ مضبوط اور پکی مسجدیں بنائی جائیں.لیکن جب حالات بہتر ہوئے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی توسیع بھی کی اور اسے مضبوط بھی بنایا.لیکن بنیادی چیز تقویٰ ہے جسے ہمیشہ ہر احمدی کو پیش نظر رکھنا چاہئے.یہ جو مسجد نبوی کی توسیع کی گئی تھی وہ بھی خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھی اور تقویٰ کی بنیاد پر تھی.پس ہر احمدی ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرتے رہیں گے تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے اور یوں جنت کے وارث بھی بنتے رہیں گے.یہ جنت اس دنیا میں بھی ملے گی اور اگلے جہان میں بھی.ایک تو جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے مسجد کی تعمیر اللہ کی رضا کی خاطر ہو، دوسرے ان مسجدوں میں اللہ کی عبادت اور اس کا ذکر ہوتار ہے جس کا ایک حدیث میں یوں ذکر آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرا کرو تو وہاں کچھ کھا پی لیا کرو.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! یہ جنت کے باغ کیا ہیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مساجد جنت کے باغ ہیں.میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ان سے

Page 367

خطبات مسرور جلد سوم 360 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء کھانے پینے سے کیا مراد ہے؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ پڑھنا.(ترمذى كتاب الدعوات - باب حديث في أسْمَاء الله الحسنى مع ذكرها تماماً) الحمد للہ کہ آج ( یا کل انشاء اللہ تعالیٰ کہہ لیں، ویسے بھی جب ارادہ ہو جائے تب سے کام تو شروع ہو جاتا ہے ) آپ بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو رہے ہیں جو جنت کا باغ لگانے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ جلد سے جلد اس کی تکمیل کر سکیں اور یہ جنت کا باغ اپنی تمام تر رونقوں اور پھلوں کے ساتھ جہاں آپ کو فائدہ دے رہا ہو وہاں دنیا کو بھی نظر آئے.شروع میں میں نے عرض کیا تھا کہ جس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر ہے وہی مسجد ایسی ہے جو خدائے واحد کی عبادت کرنے والوں کی مسجد کہلاتی ہے.تقویٰ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت دلوں میں رکھتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنا.اس کے احکامات میں اس کی عبادتوں کا بھی حکم ہے.اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کا بھی حکم ہے.پس ہماری عبادتیں بھی اس وقت تک خالص نہیں ہوسکتیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا ہماری قربانیاں بھی اس وقت تک قبولیت کا درجہ نہیں پاسکتیں جب تک ہم اللہ کی مخلوق کے حق ادا کرنے والے بھی نہ ہوں گے.رشتوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی نہیں ہوں گے.ہمسایوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی نہ ہوں گے اور جب تک ہم اس سوچ میں اپنی زندگی گزارنے والے نہ ہوں گے کہ معاشرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں.پس جہاں ہر احمدی کو اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی کوشش میں ترقی کرنی ہوگی وہاں معاشرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی.تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں اور ہماری مساجد کی بنیادیں تقویٰ پر اٹھائی جانے والی ہیں.اور ہمارے میناروں سے خدائے واحد کے حکم کے مطابق محبت کے نعرے بلند ہوتے ہیں.

Page 368

خطبات مسرور جلد سوم 361 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے.وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے.اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے.اور اس قدر تا کید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے.اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے.ایک مضبوط قلعہ ہے ہر فتنے سے بچنے کے لئے.) ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطر ناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہوکر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں“.(ايام الصلح.روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحه 342) تو یہ ہے ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ، کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے.پس جب اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس سے محبت کا معیار اس قدر ہوگا کہ ذراسی بھی جو بات اس کے احکامات کے خلاف ہے وہ دل میں خوف پیدا کر دے تو تبھی دل برائیوں کے خلاف سخت ہوتا جائے گا اور اس سے بیزاری کا اظہار ہوگا ، تقویٰ پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی اور چھوٹی چھوٹی نیکیاں بجالانے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.کسی کو نقصان پہنچانے کا، کسی کو نیچا دکھانے کا، کسی کے خلاف چغلی کرنے کا، جھوٹی افواہیں پھیلانے کا کبھی دل میں خیال نہیں آئے گا.اس لئے آپ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ : تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.معجب ، خود پسندی ( یعنی تکبر ، اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنا ) مال حرام سے پر ہیز ( ان چیزوں سے پر ہیز، یہ تین چیزیں یعنی تکبر سے بچے ، خود پسندی سے بچے حرام کا مال کھانے سے بچے ) اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے.“ (ملفوظات جلد اوّل صفحه 50 جدید ایڈیشن – رپورٹ جلسه سالانه 1897ء صفحه 83)

Page 369

خطبات مسرور جلد سوم 362 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء یہ چیزیں ہیں جن سے بچتے رہو گے تو یہ تقویٰ ہے.تو دیکھیں جب انسان ایسی چیزوں سے بیچ رہا ہوگا تو وہ یقیناً خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا ہو گا.اور یہ تقومی ہی اس کے لئے تعویذ بن جائے گا.بعض لوگ آتے ہیں کہ ہمیں کوئی خاص دعا بتا ئیں یا کوئی وظیفہ بتائیں جس سے ہماری مشکلات دور ہو جائیں.یہ باتیں بعض احمد یوں میں صرف اس لئے رائج ہیں کہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور پوری طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو تعلیم ہے اس کا علم نہ ہونے کی وجہ سے یا توجہ نہ دینے کی وجہ سے بعضوں میں فہم اور ادراک نہیں رہتا.یا بعض نئے احمدی ہوئے ہوتے ہیں ان میں بھی یہ باتیں ہوتی ہیں.اس معاشرے کے زیر اثر آ جاتے ہیں، ورنہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد صحیح طور پر اس تعلیم پر عمل کرنے والے بن جائیں تو یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی جو ادائیگی ہے وہی ان کے لئے تعویذ کا کام دے گی.یہ ایک ایسی چیز ہے جو بظاہر کہنے میں بہت چھوٹی ہے، جب حقوق اللہ ادا کرنے کی کوشش کریں اور باریکی میں جا کر حقوق العباد ادا کرنے کی کوشش کریں، اپنے نفس کا جائزہ لیتے رہیں تو تب پتہ لگے گا کہ یہ چھوٹی باتیں نہیں ، بہت بڑی باتیں ہیں.عبادتوں کا حق ادا کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی نظر حاصل کرنے والے ہو جائیں گے.اور بندوں کے حق ادا کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہو جائیں گے.اور جب اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے تو پھر وہ کون سی چیز رہ جاتی ہے جس کا انہیں ورد کرنے کی ضرورت ہو.وہ کون سا تعویذ ہے پھر جس کی انہیں ضرورت ہو.پس اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھائیں اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں.اور جب یہ حاصل کر لیں گے تو اللہ کے پیاروں میں شمار ہوں گے.اور جب اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شمار ہوں گے تو اس کے فضلوں سے حصہ پانے والے ہوں گے اور وہ اپنی قدرت کے نظارے دکھائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقوی اختیار کرے“.(ملفوظات جلد نمبر 1 صفحه 99 جدید ایڈیشن - الحكم /24 جون 1901ء صفحه (12)

Page 370

خطبات مسرور جلد سوم 363 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء پس جب بھی اللہ تعالیٰ آپ پر فضل فرمائے پہلے سے بڑھ کر اس کے حضور جھکنے والے بن جائیں.اس کے حکموں پر عمل کرنے والے بن جائیں.کامیابیاں آپ کو برائیوں کی طرف لے جانے والی نہ ہوں بلکہ تقویٰ میں بڑھانے والی ہوں.مالی کشائش اور آسودگی آپ کو تقویٰ میں بڑھانے والی بن جائے.آج کل دنیا کی ہوا و ہوس نے انسان کو اندھا کر دیا ہے.نیکی اور بدی کی کوئی تمیز نہیں رہی.ہمارے ملکوں میں چھپ کے برائیاں ہوتی ہیں، یہاں ظاہراً بھی ہو جاتی ہیں.لیکن ہر جگہ ایک ہی حال ہے.ان حالات میں ایک احمدی کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.اسی سورۃ میں ، سورۃ جمعہ میں ، جس کی ایک آیت کے کچھ حصے میں نے Quote کئے ہیں.جہاں آخرین والا حصہ Quote کیا تھا.اس میں آخرین سے پہلوں کے ساتھ ملنے کا ذکر ہے.اور یہ بھی ذکر ہے کہ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو وقت کے نبی کو لہو ولعب کی خاطر اکیلا چھوڑ دیں گے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل نہیں کریں گے اور آپ کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو نہیں مانیں گے.لیکن ہم جو احمدی ہیں ہم نے تو مسیح و مہدی کو مان لیا ہے، اس کے سلسلہ کبیعت میں داخل ہو گئے ہیں.اس لئے اب بڑی فکر کے ساتھ اس دنیا کی چکا چوند سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرتے ہوئے اس تعلیم پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوں جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے تا کہ اس فیض سے حصہ پانے والے ہوں جو آپ کی ذات سے وابستہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات سے وابستہ ہے.ورنہ مسجدیں تو اور بھی بنتی ہیں.بظاہر نیکیاں اور جگہ بھی ہورہی ہوتی ہیں جن میں تقویٰ کی باتیں نہیں ہوتیں.بعض مساجد میں اللہ تعالیٰ کے حکموں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے نفی کی تعلیم دی جارہی ہوتی ہے.پاکستان وغیرہ میں اکثر دیکھیں گے آپ کو ایسا نظر آئے گا.اور یہ سب کچھ بھی خدا کے نام پر ہورہا ہوتا ہے.عمارتوں کے لحاظ سے بھی جو یہ دوسرے مسجدیں بناتے ہیں ، بہت اعلیٰ پائے کی بھی ہوتی ہیں.لیکن وقت کے امام کی نافرمانی کی وجہ سے وہ تقویٰ سے عاری ہوتی ہیں.اگر غور کریں تو دل میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ہم بھی اس رو میں نہ بہہ جائیں.لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین اور ایمان ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ اپنے وعدوں

Page 371

خطبات مسرور جلد سوم 364 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں عبادت کرنے والے مخلوق کے حق ادا کرنے والے اور تقویٰ پر قائم رہنے والے اور خلافت سے تعلق اور محبت رکھنے والے، اور اس کے لئے قربانی دینے والے پیدا کرتا رہے گا جو ان چیزوں سے چھٹے رہیں گے اور کبھی وقت کے امام کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے.اگر کوئی بد قسمت ایمان کی حالت کے بعد جہالت کی حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے تو وہ اپنی بدقسمتی کو آواز دے رہا ہوگا.پس میں پھر آپ سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ آپ پر فضل فرمائے ہیں ان کا اظہار نیک اعمال کی صورت میں کریں.بعض دفعہ آسودگیاں برائیوں کی طرف لے جاتی ہیں.ان سے بچیں اور تقویٰ پر قائم ہوں.ان کے اظہار اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی صورت میں کریں.اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی صورت میں کریں.اپنی گزشتہ حالت پر بھی نظر رکھیں اور اپنے موجودہ حالات کو بھی دیکھیں.بہت سے ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان ملکوں میں لا کر مالی لحاظ سے پہلی حالت سے سینکڑوں گنا بڑھا دیا ہے، بہتر حالت میں کر دیا ہے.یہ اپنے جائزے آپ کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے والے بنائیں گے.جب آپ اپنا اس نظر سے جائزہ لے رہے ہوں گے اور جب آپ شکر کریں گے، تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اپنے فضلوں کی بارش کو مزید بڑھاتا چلا جائے گا.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے.لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ ﴾ کہ اے لوگو! اگر تم شکر گزار بنے تو تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا.پس جب تقویٰ پر چلتے ہوئے آپ اس شکر گزاری کے مضمون کو بھی ذہن میں رکھیں گے اور یہ شکر گزاری کے اظہار آپ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے بھی کر رہے ہوں گے اور بندوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے بھی کر رہے ہوں گے،مسجد کی تعمیر میں اور دوسری مالی قربانیوں میں جب اللہ تعالیٰ کے اپنے پر فضلوں کا اظہار کر رہے ہوں گے اس کے حضور جھکتے ہوئے یہ عرض کرتے ہوئے اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہوں گے کہ اے خدا! تو ہی ہے جس کے آگے ہم جھکتے ہیں اور تو ہی ہے جس نے ہمیں اپنی پہلی حالت سے بہتر حالت میں کر دیا ہے.جو قربانیاں ہم پیش کرتے ہیں تیرے فضلوں کے مقابلے میں بہت حقیر ہیں.تو اللہ

Page 372

خطبات مسرور جلد سوم 365 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء تعالیٰ پہلے سے بہت بڑھ کر آپ پر انشاء اللہ فضل فرمائے گا.جیسا کہ میں نے کہا تھا ، بہت سے ایسے ہیں جو اس اظہار کے ساتھ قربانیاں پیش کرتے ہیں.جو نہیں کرتے ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ یہ نسخہ آزمائیں.تقویٰ پر قدم ماریں عبادتوں کے حق ادا کریں.اللہ تعالیٰ کا شکر اپنے پر اس کے فضلوں کے حساب سے کریں.پھر اس کے فضلوں کو مزید اپنے پر برستا دیکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کے شکر اور تقویٰ کے معیار کو بڑھاتا چلا جائے.یہ مسجد جو آپ بنارہے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کا باعث بنے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ اگر جماعت کو بڑھانا ہے تو جس جگہ بڑھانا چاہتے ہو اس شہر یا قصبہ میں مسجد بنا دو.تو یہ مسجد تو انشاء اللہ لوگوں کی توجہ اور دلچسپی کا باعث بنے گی لیکن یہ دلچسپی ، لوگوں کی توجہ آپ کی طرف ، احمدیت کی طرف اور اسلام کی طرف تبھی ہوگی جب آپ اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے، آپ کے قول وفعل ایک دوسرے سے ٹکراتے نہ ہوں گے.جیسا کہ میں بڑی تفصیل سے پہلے کہہ آیا ہوں کہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں.حقوق العباد کے معیار بلند کریں.یہ چیزیں جہاں آپ پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ڈال رہی ہوں گی وہاں اس علاقے میں احمدیت کا پیغام بھی پہنچانے کا باعث بن رہی ہوں گی.پس اس نیت سے بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں.جو مالی قربانی میں زیادہ بڑھ نہیں سکتے وہ اپنے نفس کی اصلاح میں تو بڑھ سکتے ہیں.وہ اپنی عبادتوں کے معیار میں تو بڑھ سکتے ہیں.وہ علاقے میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی کوشش میں تو بڑھ سکتے ہیں.شہر میں اگر کوئی زیادہ مذہب کی طرف توجہ نہیں دیتا تو ارد گرد کے علاقوں میں نکل جائیں.علاقے کے لوگ بڑے دوست دار ہیں ، ملنے جلنے والے ہیں.ہر طبقے کے احمدی بوڑھا ، بچہ ، جوان عورتیں اگر سنجیدگی سے اس طرف توجہ کریں تو جماعت کا کافی تعارف ہو سکتا ہے.اور یہ تعارف ہی بعض نیک روحوں کو جماعت کی طرف لے آنے کا باعث بنے گا.اور انشاء اللہ تعالیٰ ان علاقوں میں یہاں بھی اور وینکوور میں بھی اور جگہ بھی جہاں مساجد بن رہی ہیں علاقے میں آپ کے تعارف ،احمدیت اور اسلام کے نفوذ کا باعث بنیں گے.خدا کے نبی کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہے کہ مسجدیں بناؤ اور جماعتیں بڑھاؤ.تو

Page 373

خطبات مسرور جلد سوم 366 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء وہ تو انشاء اللہ پوری ہوگی.بشرطیکہ ہم ایک توجہ کے ساتھ ، ایک لگن کے ساتھ کوشش کریں.لیکن بنیادی بات یاد رکھیں جس پر ساری بنیاد ہے کہ تقویٰ کو قائم کریں اور تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے تمام عملوں کو ڈھالیں.اللہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے.اگر کسی کی زندگی بیعت کے بعد بھی اسی طرح کی ناپاک اور گندی زندگی ہے جیسا کہ بیعت سے پہلے تھی اور جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر برانمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے.اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے.برے نمونے سے اوروں کو نفرت ہوتی ہے.اور اچھے نمونہ سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے.بعض لوگوں کے ہمارے پاس خط آتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ میں اگر چہ آپ کی جماعت میں ابھی داخل نہیں مگر آپ کی جماعت کے بعض لوگوں کے حالات سے البتہ اندازہ لگاتا ہوں کہ اس جماعت کی تعلیم ضرور نیکی پر مشتمل ہے.ان اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِيْنَ هُمْ مُحْسِنُون (النحل : 129) ( یعنی یا درکھ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ کا طریق اختیار کیا ہوا ہو اور جو نیکوکار ہوں.) فرمایا کہ خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روز نامچہ بناتا ہے.پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روز نامچہ تیار کرنا چاہئے اور اس میں غور کرنا چاہئے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے.انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں.جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے.انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا.بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں.ایک جو اولیاء اللہ میں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ جہاز میں سوار تھے، سمندر میں طوفان آ گیا قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا.اس کی دعا سے بچالیا گیا.اور دعا کے وقت اس کو الہام ہوا کہ تیری خاطر ہم نے سب کو بچا لیا.مگر یہ باتیں نر از بانی جمع خرچ کرنے سے حاصل نہیں ہوتیں.دیکھو ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ دیا ہے.اِنِّی أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ مگر دیکھو ان میں غافل

Page 374

خطبات مسرور جلد سوم 367 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء عورتیں بھی ہیں، مختلف طبائع اور حالات کے انسان ہیں.خدانخواستہ اگر ان میں سے کوئی طاعون سے مرجاوے یا جیسا کہ بعض آدمی ہماری جماعت میں طاعون سے فوت ہو گئے ہیں تو ان دشمنوں کو ایک اعتراض کا موقع ہاتھ آ گیا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوْا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْم (الانعام: 183) ( یعنی جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے مخلوط نہیں کیا، ظلم سے ملا نہیں دیا.ایمان لانے کے بعد پھر تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی.فرمایا ” بہر حال جماعت کے افراد کی کمزوری یا برے نمونے کا اثر ہم پر پڑتا ہے.اور لوگوں کو خواہ مخواہ اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے.پس اس واسطے ہماری طرف سے تو یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بنانے کی کوشش میں لگے رہو.جب تک فرشتوں کی سی زندگی نہ بن جاوے تب تک کیسے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی پاک ہو گیا.﴿ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ﴾ (التحريم : 7) “ یعنی جو کچھ کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں.ایسے بنا پڑے گا.تو فنافی اللہ ہو جانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا.چاہئے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں، خویش و اقارب اور ہمارے واسطے بھی باعث رحمت بن جاؤ.مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَّ مِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ (فاطر: 33) کہ بعض تو ایسے ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض ہیں وہ جو درمیانی چال چلنے والے ہیں اور بعض نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والے ہیں.فرمایا کہ " پہلی دونوں صفات ادنی ہیں.سابق بالخیرات بننا چاہئے.ایک ہی مقام پر ٹھہر جانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے.دیکھو ٹھہرا ہوا پانی آخر گندہ ہو جاتا ہے.کیچڑ کی صحبت کی وجہ سے بدبو دار اور بدمزہ ہوجاتا ہے.چلتا پانی ہمیشہ عمدہ،.ستھرا اور مزیدار ہوتا ہے اگر چہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہو.مگر کیچڑ اس پر کچھ اثر نہیں کر سکتا.یہی حال انسان کا ہے کہ ایک ہی مقام پر ٹھہر نہیں جانا چاہئے.یہ حالت خطر ناک ہے.ہر وقت قدم آگے ہی رکھنا چاہئے.نیکی میں ترقی کرنی چاہئے ورنہ خدا تعالیٰ انسان کی مدد نہیں کرتا.اور اس طرح سے انسان بے نور ہو جاتا ہے.جس کا نتیجہ آخر کار بعض اوقات ارتداد ہو جاتا ہے“.( بعض جو مرتد ہوتے ہیں دیکھ لیں

Page 375

خطبات مسرور جلد سوم 368 خطبہ جمعہ 17 / جون 2005ء اسی لئے کہ اپنی نیکیاں خود نہیں کر رہے ہوتے کبھی پوچھوتو نماز پڑھی نہیں ہوتی لیکن جماعت پر اعتراض ہوتا ہے اس طرح سے انسان دل کا اندھا ہو جاتا ہے.(ملفوظات جلد نمبر 5 صفحه 455 456 جدید ایڈیشن - الحكم صفحه 4 تا 6 مورخہ 2 مارچ 1908ء ) | اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق تقویٰ پر چلنے والا بنائے.ہم اپنی عبادتوں کے معیار قائم کرنے والے ہوں اور نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہمارے پیش نظر رہے.اللہ سب کو توفیق دے.آمین 谢谢谢

Page 376

خطبات مسرور جلد سوم 369 (24) خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء نمازوں کی حفاظت اور اس کی برکات عبادات کے ساتھ آپس میں محبت واخوت کی تلقین جماعت احمدیه کینیڈا کے 29 ویں جلسه سالانه سے افتتاحی خطاب خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جون 2005ء بمقام انٹرنیشنل سینٹر.ٹورانٹو ( کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے اور اس خطبہ کے ساتھ ہی آغاز ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ یہ جلسہ آپ کے لئے ، تمام شامل ہونے والوں کے لئے اور کسی مجبوری کی وجہ سے نہ شامل ہونے والوں کے لئے بھی بے شمار برکات کا حامل بنائے، بے شمار برکات لانے والا ہو، پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والا ہو.سب کو تقویٰ میں بڑھانے والا ہو اور جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان جلسوں کا انعقاد فر مایا تھا اس کو پورا کرنے والا ہو.ہمیشہ ہمارے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا قیام اور اس کے حکموں پر عمل کرنا ہو.اور اس کے لئے ہم اپنے آپ میں بھی تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں اور اپنی نسلوں میں بھی یہ تعلیم جاری رکھنے والے ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان جلسوں کا مدعا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ..

Page 377

خطبات مسرور جلد سوم 370 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں.اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو.اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پر ہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے نمونہ بن جائیں.اور انکسار اور تواضع 1 راستبازی ان میں پیدا ہو.اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں.(شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحه394) تو یہ ہیں وہ مقاصد جن کے حاصل کرنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں آواز دی ہے.آخرت کی طرف انسان تبھی جھک سکتا ہے جب دل میں خدا کا خوف اس طرح ہو کہ اس کو تمام طاقتوں کا سر چشمہ سمجھتے ہوں اور جب یہ خیال یقین میں بدل جائے گا کہ وہ خدا ایک ہے، مجھے پیدا کرنے والا بھی ہے، مجھے پالنے والا بھی ہے، مجھے دینے والا بھی ہے ، میرے کام میں یا میرے کاروبار میں برکت بھی اسی کے فضل سے پڑنی ہے.اگر اس کی عبادت کرنے والا رہا، اگر اس کے آگے جھکنے والا رہا، تو اس کی نعمتوں سے حصہ پاتا رہوں گا.اگر میرے اندر نیکیوں پر قائم رہنے کی رُوح رہی تو میں اس کے فضلوں کا وارث بنتا رہوں گا.اگر اس کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے ، تقویٰ پر چلتے ہوئے ، اس کے حقوق بھی ادا کرتارہا اور اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کر تا رہا تو اس کے انعاموں سے حصہ پانے والا ہوں گا.اگر یہ سوچ رہی تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ضرور اپنے انعاموں سے نوازتا رہے گا.لیکن یہ تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کے معیار اُس وقت قائم ہوتے ہیں جب اُس کے تمام حکموں پر عمل ہو رہا ہو.اور یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ہوسکتا ہے.اور پھر وہی بات کہ اُس وقت ہوتا ہے جب ذہن میں ہر وقت ، ہر لمحہ، خدا، خدا اور خدا ر ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے خدا ترسی بھی رہے گی، پرہیز گاری بھی رہے گی، اللہ کی مخلوق کے لئے نرم جذبات بھی رہیں گے، آپس میں محبت بھی رہے گی.اور جب یہ چیزیں پیدا ہوں گی تو تب ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ایک نمونہ بن سکیں گے.ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا یہ نمونے ہم اپنے اندر قائم کر رہے ہیں یا قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟

Page 378

خطبات مسرور جلد سوم 371 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء کیا ہم نے آپس میں محبت اور بھائی چارے کے وہ معیار قائم کر لئے ہیں جن کی توقع ہم سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے؟ کیا ہم نے اپنے اندر عاجزی کے اعلیٰ معیار قائم کر لئے ہیں؟ کیا ہمارے اندر وہ روح پیدا ہو چکی ہے جب ہم کہہ سکیں کہ ہم اپنی ضرورتوں کو اپنے بھائی کی ضرورتوں پر قربان کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے اندر اتنی عاجزی اور انکساری پیدا ہو گئی ہے کہ ہم اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھیں اور جہاں خدمت کا موقع ملے اس سے کبھی گریز نہ کریں؟ کیا ہم نے سچائی کے وہ معیار حاصل کر لئے ہیں جب ہم کہ سکیں کہ اگر ہمیں اپنے عزیزوں کے خلاف یا اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑی تو دیں گے اور سچ کے قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں گے؟ کیا ہم دینی ضروریات کے لئے ہر وقت تیار ہیں؟ یا صرف دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا نعرہ ہی ہے جو ہم لگا رہے ہیں.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا کہیں یہ تو نہیں کہ دعویٰ تو ہم یہ کر رہے ہوں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا میں کسی کو دوست بناؤں اور چھوٹے چھوٹے بت میں نے اپنے دل میں بسائے ہوں، پانچ وقت نمازوں میں سنتی دکھائی جا رہی ہو.اور یہ ستی اکثر میں نے دیکھا ہے، دکھائی جاتی ہے.میں نے بعض دفعہ ملاقاتوں میں جائزہ لیا ہے کہ نمازوں کی طرف با قاعدگی سے متعلق اگر پوچھو کہ توجہ ہے کہ نہیں تو اکثر یہ جواب ہوتا ہے کہ کوشش کرتے ہیں یا پھر کوئی گول مول سا جواب دے دیتے ہیں.حالانکہ نمازوں کے بارے میں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کو قائم کرو.باجماعت ادا کرو.اور نماز کو وقت مقررہ پر ادا کرو.جیسا کہ فرمایا وان الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَبًا وقُوْتًا﴾ (النساء: 104) یقیناً نماز مومنوں پر وقت مقررہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: میں طبعا اور فطرتا اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اور نماز مَوْقُوتَہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں“.(الحكم جلد نمبر 6 نمبر 42 مورخه 24 نومبر 1902ء صفحه 1 کالم (2)

Page 379

خطبات مسرور جلد سوم 372 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو وقت مقررہ تو علیحدہ رہا ، نمازوں میں اکثر ستی کر جاتے ہیں.کیا ایسا کر کے ہم اس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ حَفِظُوْا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى - وَقُوْمُوا لِلَّهِ قَنِتِينَ﴾ (البقرة: 239) تو نمازوں کا اور خصوصاً درمیانی نماز کا پورا خیال رکھو.اور اللہ کے فرمانبردار ہو کر کھڑے ہو جاؤ.پس ہر احمدی کو اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے اور انہیں وقت مقررہ پر ادا کرنا چاہئے.اگر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں لے کر آنا ہے، اگر تو حید کو قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والا بننا ہے تو اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہوں گے.اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہوگی ، کاموں کے عذر کی وجہ سے دو پہر کی یا ظہر کی نماز اگر آپ چھوڑتے ہیں تو نمازوں کی حفاظت کرنے والے نہیں کہلا سکتے.بلکہ خدا کے مقابلے میں اپنے کاموں کو ، اپنے کاروباروں کو اپنی حفاظت کرنے والا سمجھتے ہیں.اور اگر فجر کی نماز تم نیند کی وجہ سے وقت پر ادا نہیں کر رہے تو یہ دعویٰ غلط ہے کہ ہمارے دلوں میں خدا کا خوف ہے اور ہم اس کے آگے جھکنے والے ہیں.اسی طرح کوئی بھی دوسری نماز اگر عادتا یا کسی جائز عذر کے بغیر وقت پر ادا نہیں ہو رہی تو وہی تمہارے خلاف گواہی دینے والی ہے کہ تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم خدا کا خوف رکھنے والے ہیں لیکن عمل اس کے برعکس ہے.اور جب یہ نمازوں میں بے تو جنگی اسی طرح قائم رہے گی اور نمازوں کی حفاظت کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو پھر یہ رونا بھی نہیں رونا چاہئے کہ خدا ہماری دعائیں نہیں سنتا.نمازوں کی حفاظت اور نگرانی ہی اس بات کی ضامن ہوگی کہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو گنا ہوں اور غلط کاموں سے پاک رکھے.ہماری نمازوں میں با قاعدگی یقیناً ہمارے بچوں میں بھی یہ روح پیدا کرے گی کہ ہم نے بھی نمازوں میں با قاعدہ ہونا ہے.اس کی اسی طرح حفاظت کرنی ہے جس طرح ہمارے والدین کرتے ہیں.اور جب یہ بات ان بچوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے گی ، بیٹھ جائے گی کہ ہم نے نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرنی ہے تو پھر والدین کو یہ چیز اس فکر سے بھی آزاد کر دے گی کہ اس مغربی معاشرے میں جہاں ہزار قسم کے کھلے گند اور برائیاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، ہر وقت والدین کو یہ فکر رہتی ہے کہ ان کے بچے اس گند میں کہیں

Page 380

خطبات مسرور جلد سوم 373 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء گر نہ جائیں.دعا کے لئے لکھتے ہیں، کہتے بھی ہیں اور خود کوشش بھی کرتے ہوں گے، دعا بھی کرتے ہوں گے.اگر اپنے بچوں کو ان گندگیوں اور غلاظتوں میں گرنے سے بچانا ہے تو سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ نمازوں میں با قاعدہ کریں.کیونکہ اب ان غلاظتوں اور اس گند سے بچانے کی ضمانت ان بچوں کی نمازیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق دے رہی ہیں.جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرَ (العنكبوت: 46).یعنی يقيناً نماز بدیوں اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.گویا ان نمازوں کی حفاظت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان نمازوں کے ذریعہ سے ضمانت دے دی ہے کہ خالص ہو کر میرے حضور آنے والے اب میری ذمہ داری بن گئے ہیں کہ میں بھی اس دنیا کی گندگیوں اور غلاظتوں سے ان کی حفاظت کروں اور ان کو نیکیوں پر قائم رکھوں، تقویٰ پر قائم رکھوں.ایسے لوگوں میں شامل کروں جو تقویٰ پر قائم ہوں ، جو میرے پاکباز لوگ ہیں.ایسے لوگوں میں شامل کروں جو میرا انعام پانے والے لوگ ہیں.پس یہ سب سے بنیادی چیز ہے جس کی ٹریننگ اور جس کے کرنے کا عزم آپ نے ان جلسے کے دنوں میں کرنا ہے.جو نمازوں میں کمزور ہیں انہوں نے ان دنوں میں اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس میں با قاعدگی اور پابندی اختیار کرنے کی کوشش کرنی ہے.لیکن یہ بات واضح ہو کہ ان دنوں میں جلسے کی وجہ سے یا میرے دورہ کی وجہ سے، دوسری مصروفیات کی وجہ سے چند دنوں کے لئے نمازیں جمع کر کے پڑھائی جاتی ہیں.تو بچوں کے ذہنوں میں یا نوجوانوں کے ذہنوں میں یا بعض سست لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات نہ رہ جائے کہ یہ نمازیں جمع کر کے پڑھنا ہی ہماری زندگی کا مستقل حصہ ہے بلکہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نمازیں وقت مقررہ پر ادا کرو تو اس کے مطابق ادا ہونی چاہئیں.سوائے اس کے کہ مسافر ہوں یا دوسری جائز ضرورت ہو، جس طرح مثلاً آج کل یہاں بعض شہروں میں سورج سوا نو بجے یا ساڑھے نو بجے یا بعض جگہ پونے دس بجے غروب ہوتا ہے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھالی جاتی ہیں.لیکن جب وقت بدل جائیں گے تو پھر وقت پر ادا ہونی چاہئیں.تو بہر حال دین میں آسانی ہے اس لئے سہولت میسر ہے لیکن فکر کے ساتھ نمازیں ادا کرنا بہر حال ضروری ہے.اور یہ ہمیشہ ذہن میں ہونا چاہئے کہ یہ

Page 381

خطبات مسرور جلد سوم 374 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء آسانی دنیا داری یا سستی کی وجہ سے نہ ہو.یہ جومیں نے کہا تھا کہ نمازوں میں ” کمزور لوگ.سے مراد وہ لوگ ہیں جو بے وقت اور جمع کر کے نمازیں پڑھتے ہیں.بعض ایسے بھی ہیں جو پوری پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھتے.انہیں بھی ان دنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جبکہ دعاؤں کا ماحول ہے، اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتے ہوئے یا تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے ، اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے.ہر قدم پر یہاں شیطان کھڑا ہے جو اللہ تعالیٰ سے بندے کو دور لے جانے کی کوشش کر رہا ہے.اس کے خلاف جہاد کریں.اللہ کی پناہ میں آنے کی کوشش کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کا اوڑھنا بچھونا عبادت تھی آپ بھی اللہ تعالی کی پناہ میں آنے کے لئے دعا کیا کرتے تھے اور کس طرح دعا کیا کرتے تھے.اس کا ایک روایت میں یوں ذکر آتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے تیری عزت کا واسطہ دے کر پناہ طلب کرتا ہوں.تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ ذات ہے جو مرنے والی نہیں جبکہ جن وانس مر جائیں گے.(مسلم كتاب الذكر والدعاء ـ باب في الادعية) پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا کرنے کے لئے ، اس کی پناہ میں آنے کے لئے ، شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے اور ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنے کے لئے کہ وہ قائم رہنے والی ، قائم رکھنے والی ذات ہے، باقی سب کچھ فنا ہونے والی چیزیں ہیں استغفار کرتے ہوئے اس کی پناہ میں آئیں.اس کا عبادت گزار بندہ بننے کے لئے اس کا فضل مانگتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہم پر فضل فرمائے اور ہمیں اپنا عبادت گزار بندہ بنائے.جب عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم ہو جائیں گے یا یہ معیار حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ

Page 382

خطبات مسرور جلد سوم 375 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء کے حضور جھکتے ہوئے کوشش شروع ہو جائے گی تو باقی نیکیاں بھی جو انسان کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں ان کی طرف بھی توجہ پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور وہ ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا ہو، نمازوں کی ادائیگی کرنے والا ہو اور پھر یہ بھی ہو ساتھ کہ بندوں کے حقوق مارنے والا بھی ہو.یہ دو مختلف چیزیں ہیں.یہ بات تو اللہ تعالیٰ کے اس دعویٰ کے خلاف ہے.اگر بظاہر بعض نمازی ایسے نظر آتے ہیں جو نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن لوگوں کے حقوق بھی غصب کرنے والے ہوتے ہیں، حقوق مارنے والے ہوتے ہیں تو وہ ان نمازیوں میں شامل نہیں ہیں جو خالص ہو کر اللہ کو پکارتے ہیں.بلکہ وہ تو اس زمرے میں شامل ہو جائیں گے جن کے بارے میں فرمایا کہ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ﴾ ( الماعون: 5) ہلاکت ہے ایسے نمازیوں کے لئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تو نمازیوں کو جو نماز کا حق ادا کرنے والے ہیں، نیکیوں پر چلاتا ہوں.پس ہم میں سے ہر ایک کو اس فکر کے ساتھ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور ہمیشہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دیتے رہنا چاہئے.اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ آپس میں محبت اور اخوت کی فضا پیدا ہو، بھائی چارے کی فضا پیدا ہو.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں ایک دوسرے کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.تو تقویٰ کا اعلیٰ معیار بھی قائم ہو سکتا ہے جب پیار، محبت اور عاجزی اور ایک دوسرے کی خاطر قربانی کی روح پیدا ہو.کیونکہ جس میں اپنے بھائی کے لئے محبت نہیں اس میں تقویٰ بھی نہیں.جس میں انکسار نہیں وہ بھی تقویٰ سے خالی ہے.جس دل میں اپنے بیوی بچوں کے لئے نرمی نہیں وہ بھی تقوی سے عاری ہے.جو بیوی یا خاوند ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتے وہ بھی تقویٰ سے خالی ہیں.جو عہد یدار اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں وہ بھی تقوی سے خالی ہیں.غرض کہ جو دل بھی اپنی انا اور تکبر یا کسی بھی قسم کی بڑائی دل میں لئے ہوئے ہے وہ تقویٰ سے عاری ہے.جو بھی اپنے علم کے زعم میں دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے وہ تقویٰ سے خالی ہے.لیکن جو لوگ اپنی عبادتوں کے ساتھ ساتھ عاجزی اور انکساری

Page 383

خطبات مسرور جلد سوم 376 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی عزت کرتے ہیں ، ان سے محبت کرتے ہیں ، ان کے حقوق ادا کرتے ہیں، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں اور یہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف ہے، صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں.صرف اس لئے کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت نے اس کی مخلوق سے محبت پر بھی ان کو مجبور کیا ہے تو یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے بے انتہا انعام پانے والے ہیں.ایسے ہی لوگوں کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ایک حدیث میں اس بارے میں ذکر آتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے.اور آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا.(صحيح مسلم ، کتاب البر والصلة والأدب.باب فضل الحب في الله تعالیٰ) تو دیکھیں جو لوگ خدا تعالیٰ کا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے ، اس کے رعب اور اس کی عظمت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ان کے دل اس خوف سے کانپتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کے حقوق ادا نہ کر کے وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بن جائیں.ایسے بندے وہ بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہیں.پس یہ وہ روح ہے جو ہر احمدی کے دل میں پیدا ہونی چاہئے.کیونکہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے بعد آپ ہی وہ قوم ہیں جن پر دنیا کی اصلاح کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی خواہش ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہتے ہیں تو پھر اللہ کی مخلوق سے محبت بھی اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے اور اپنے انجام بخیر کے لئے اور اس کے سایہ رحمت میں جگہ پانے کے لئے کرنی ہوگی.اور جلسے کے یہ دن اس بات کی طرف توجہ پیدا کرنے کے لئے ٹرینگ کے طور پر ہیں.اس کی ابتدا آج سے ہی ہو جانی چاہئے.آج سے ہی ہر دل میں یہ ارادہ ہونا چاہئے کہ ہم نے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں، اپنے معیار اونچے کرنے ہیں.جو ناراض ہیں وہ ایک

Page 384

خطبات مسرور جلد سوم 377 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء دوسرے کو گلے لگائیں، جو روٹھے ہوئے ہیں وہ ایک دوسرے کو منا ئیں.جنہوں نے گلے شکوے دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں وہ ان گلوں شکووں کو اپنے دلوں سے نکال کر باہر پھینکیں.اور ان دنوں میں عبادتوں کے ساتھ ساتھ محبتیں بانٹنے کی بھی ٹریننگ حاصل کریں.یہ عہد کریں کہ پرانی رنجشوں کو مٹادیں گے.ایک دوسرے کے گلے اس نیت سے لگیں کہ پرانی رنجشوں کا ذکر نہیں کرنا.ایک دوسرے سے کی گئی زیادتیوں کو بھول جانا ہے.کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی بلکہ حقیقی مومن بن کر رہنا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی گئی عبادتیں بھی قبولیت کا درجہ پائیں.اور اللہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کی گئی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگیاں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پائیں.اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ طریق کے مطابق مومن بن جائیں تبھی ہم مومن بن سکتے ہیں جب یہ باتیں اپنے اندر پیدا کریں گے جن کے بارے میں ایک روایت میں اس طرح ذکر آتا ہے.حضرت عامر کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو مومنوں کو ان کے آپس کے رہن ، محبت اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا.جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم اس کے لئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے.( صحيح مسلم - كتاب البر والصلة والأدب - باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم) خدا کرے آپ لوگ اپنے ماحول میں پیدا ہوتی ہوئی برائیوں کو ایک جسم کی طرح دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل ہو جائیں.مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں.اور میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور لڑکے، لڑکی کے ماں باپ کا ہوتا ہے.ذرا بھی ان میں برداشت کا مادہ نہیں ہوتا.یا کوشش یہ ہوتی ہے کہ لڑکے کے والدین بعض اوقات یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ (Understanding) نہ ہو.اور ان کا آپس میں اعتماد پیدا نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں لڑکا

Page 385

خطبات مسرور جلد سوم 378 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء ہاتھ سے نہ نکل جائے.یا پھر اس لئے بھی رشتے ٹوٹتے ہیں کہ بعض پاکستان سے آنے والے لڑکے، باہر آنے کے لئے رشتے طے کر لیتے ہیں اور یہاں پہنچ کر پھر رشتے توڑ دیتے ہیں.کچھ بھی ایسے لوگوں کو خوف نہیں ہے.ان لڑکوں کو کچھ تو خدا کا خوف کرنا چاہئے.ان لوگوں نے ، جن کے ساتھ آپ کے رشتے طے ہوئے ، آپ پر احسان کیا ہے کہ باہر آنے کا موقع دیا.تعلیمی قابلیت تمہاری کچھ نہیں تھی.ایجنٹ کے ذریعے سے آتے تو 15-20 لاکھ روپیہ خرچ ہوتا.مفت میں یہاں آ گئے.کیونکہ اکثر یہاں آنے والے لڑکے ٹکٹ کا خرچہ بھی لڑکی والوں سے لے لیتے ہیں.تو یہاں آ کر پھر یہ چالاکیاں دکھاتے ہیں.یہاں آکر رشتے توڑ کر کوئی اپنی مرضی کا رشتہ تلاش کر لیتا ہے یا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق بعض رشتے ہو جاتے ہیں.اور بعض دوسری بیہودگی میں پڑ جاتے ہیں.اور پھر ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں ، چاہے وہ یہاں رہنے والے ہیں یا پاکستان میں رہنے والے ماں باپ ہیں.پھر بعض مائیں ہیں جولڑکیوں کو خراب کرتی ہیں اور لڑکے سے مختلف مطالبے لڑکی کے ذریعے کرواتی ہیں.کچھ خدا کا خوف کرنا چاہئے ایسے لوگوں کو.پھر بعض لڑکے، لڑکیوں کی جائیدادوں کے چکر میں ہوتے ہیں.بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی بجائے اس کے کہ بچوں کی خاطر قربانی دیں قانون سے فائدہ اٹھا کر علیحدگی لے کر جائیداد ہڑپ کرتے ہیں.اور اگر بیوی نے بیوقوفی میں مشترکہ جائیداد کر دی تو جائیداد سے فائدہ اٹھایا اور پھر بچوں اور بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے.کچھ مرد غلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں.ایسے لوگوں کا تو قضا کو کیس سننا ہی نہیں چاہئے جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں.ان کو سیدھا انتظامی ایکشن لے کر امیر صاحب کو اخراج کی سفارش کرنی چاہئے.غرض کہ ایک گند ہے جو کینیڈا سمیت مغربی ملکوں میں پیدا ہورہا ہے.اور پھر اس طبقے کے لوگ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں.بعض بچیوں کے جب دوسری جگہ رشتے ہو جاتے ہیں تو ان کو تڑوانے کے لئے غلط قسم کے خط لکھ رہے ہوتے ہیں.کوئی خوف نہیں ایسے لوگوں کو.اللہ تعالیٰ کے عظمت و جلال کی

Page 386

خطبات مسرور جلد سوم 379 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء ان کو کوئی بھی فکر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت سے دور رہنے کی ان کو کوئی بھی پروا نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کے رسول کے حکم کے خلاف چلتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کریں اور اس تکلیف پر ایک جسم کی طرح ، جس طرح جسم کا کوئی عضو بیمار ہونے سے تکلیف ہوتی ہے اُسے محسوس کریں، بے چینی کا اظہار کریں وہ بے حسی میں بڑھ جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مومنوں کو یہ فرما رہے ہیں کہ ایک لڑی میں پروئے جانے کے بعد تم ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرو.میاں بیوی کا بندھن تو اس سے بھی آگے قدم ہے.اس سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے.یہ تو ایک معاہدہ ہے جس میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر تم یہ اقرار کرتے ہو کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں گے.تم اس اقرار کے ساتھ ان کے لئے اپنے عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہو کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم ہر وقت اس فکر میں رہیں گے کہ ہم کن کن نیکیوں کو آگے بھیجنے والے ہیں.وہ کون سی نیکیاں ہیں جو ہماری آئندہ زندگی میں کام آئیں گی.ہمارے مرنے کے بعد ہمارے درجات کی بلندی کے کام بھی آئیں.ہماری نسلوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے کام بھی آئیں.اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ کے نیچے یہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خبیر ہے.جو کچھ تم اپنی زندگی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرو گے یا کر رہے ہو گے دنیا سے تو چھپا سکتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کی ذات سے نہیں چھپا سکتے.وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے.دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے.دنیا کو دھوکا دے سکتے ہو کہ میری بیوی نے یہ کچھ کیا تھایا بعض اوقات بیویاں خاوند پہ الزام لگا دیتی ہیں لیکن (اکثر صورتوں میں بیویوں پر ظلم ہو رہا ہوتا ہے ) لیکن خدا تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے.اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ مرد عورت کو دھوکا دیتے ہیں.لڑکیاں بھی بعض اس زمرے میں شامل ہیں لیکن ان کی نسبت بہت کم ہے.اور پھر عہدیدار بھی غلط طور پر مردوں کی طرفداری کی کوشش کرتے ہیں.عہد یداروں کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ اپنے رویوں کو بدلیں.اللہ نے اگر ان کو خدمت کا موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھا ئیں.یہ نہ ہو کہ ایسے تقویٰ سے عاری عہدیداروں کے خلاف بھی مجھے تعزیری

Page 387

خطبات مسرور جلد سوم کارروائی کرنی پڑے.380 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے، اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.اس کے اعصاب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں.اگر چھوٹی موٹی غلطیاں، کوتاہیاں ہو بھی جاتی ہیں تو ان کو معاف کرنا چاہئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں ایک صحابی کی اپنی بیوی سے سختی کی باتوں کا ذکر ہورہا تھا.جو صحابہ پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو اس بات پر اس قدر رنج اور غصہ تھا کہ ہم نے کبھی ایسی حالت میں آپ کو نہیں دیکھا.ایک اور صحابی اس مجلس میں بیٹھے تھے جو اپنی بیوی سے اسی طرح سختی سے پیش آیا کرتے تھے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ حالت دیکھ کر اس مجلس سے اٹھے، بازار گئے ، بیوی کے لئے کچھ تحفے تحائف لئے اور گھر جا کر اپنی بیوی کے سامنے رکھے اور بڑے پیار سے اس سے باتیں کرنے لگے.بیوی حیران پریشان تھی کہ آج ان کو ہو کیا گیا ہے.یہ کا یا کس طرح پلٹ گئی ، اس طرح نرمی سے باتیں کر رہے ہیں.آخر ہمت کر کے پوچھ ہی لیا، پہلے تو جرات نہیں پڑتی تھی.کہنے لگے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بیویوں پر سختی کرنے کی وجہ سے بہت غصے کی حالت میں دیکھا ہے.اس سے پہلے کہ میری شکایت ہوئیں اپنی حالت بدلتا ہوں.تو دیکھیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نمونہ بنیں.اس صحابی نے فورا توبہ کی اور نمونہ بنے کی کوشش کی.آج آپ میں سے اکثریت بھی جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے یا کم از کم کافی تعداد میں یہاں لوگ ایسے ہیں جو ان صحابہ کی اولاد میں سے ہیں جنہوں نے بیعت کے بعد نمونہ بنے کی کوشش کی اور بنے.آپ بھی اگر اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ نیکیاں اختیار کریں.آج عہد کریں کہ ہم نے نیکی کے نمونے قائم کرنے ہیں.اپنی بیویوں کے قصور معاف کرنے ہیں.جولڑکی والے ہیں زیادتی کرنے والے ، وہ عہد کریں کہ لڑکوں کے قصور معاف کرنے ہیں.تو ان

Page 388

خطبات مسرور جلد سوم 381 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء جھگڑوں کی وجہ سے جو مختلف خاندانوں میں، معاشرے میں جو تلخیاں ہیں وہ دور ہو سکتی ہیں.اگر ایسی چیزیں ختم کر دیں اگر ان عائلی جھگڑوں میں ، میاں بیوی کے جھگڑوں میں علیحدگی تک بھی نوبت آ گئی ہے تو ابھی سے دعا کرتے ہوئے ، اس نیک ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے ، ان پھٹے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں.اور اسی طرح بعض اور وجوہ کی وجہ سے معاشرے میں تلخیاں پیدا ہوتی ہیں.جھوٹی اناؤں کی وجہ سے جو نفرتیں معاشرے میں پنپ رہی ہیں یا پیدا ہو رہی ہیں ان کو دور کریں.ایک دوسرے کی غلطیوں اور زیادتیوں اور کوتاہیوں سے پردہ پوشی کو اختیار کریں.ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی برائیاں مشہور کرنے کی بجائے پردہ پوشی کا راستہ اختیار کریں.ہر ایک کو اپنی برائیوں پر نظر رکھنی چاہئے.اللہ کا خوف کرنا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے یک و تنہا چھوڑتا ہے.جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی حاجات پوری کرتا جاتا ہے.اور جس نے کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کے مصائب میں سے ایک مصیبت اس سے کم کر دے گا.اور جو کسی مسلمان کی ستاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ستاری فرمائے گا.(سنن ابی داؤد - كتاب الأدب ـ باب المؤاخاة) پس اپنے دل میں ہر وقت یہ خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ جو علیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے.اس کو سب علم اور خبر ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے.اگر اس نے آپ کی برائیوں کو دنیا پر ظاہر کر دیا تو آپ کا کیا حال ہوگا.اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد اگر اللہ تعالیٰ ستاری فرمائے تو اس سے زیادہ اور بڑی چیز کیا ہوسکتی ہے.انسان گناہگار ہے، غلطی کا پتلا ہے اس سے اگر اللہ تعالیٰ حساب کتاب لینے لگ جائے اور ستاری نہ فرمائے تو کیا رہ جاتا ہے.پس آپس میں ایسی محبت پیدا کریں کہ دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں.دوسرے کی ضروریات کو اس لئے پورا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی آپ کو بھی اللہ تعالیٰ

Page 389

خطبات مسرور جلد سوم 382 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء کے قریب کرنے کا باعث بنے گی اور آپ کی ضرورتیں بھی خدا تعالیٰ پوری فرماتا رہے گا.دوسروں کی تکلیف دور کرنے سے اللہ تعالیٰ آپ کی بھی تکلیفیں دور فرمائے گا.اور سب سے بڑی بات جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ قیامت کے دن ستاری ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس زمرے میں شامل فرمائے جن سے ہمیشہ ستاری اور مغفرت کا سلوک ہوتا رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق آپ کی خواہش کے مطابق ایسی جماعت بنے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی بھی ہو اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والی بھی ہو آپس میں محبت اور اخوت کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے والی بھی ہو.آپ فرماتے ہیں کہ : تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.د اطلاع منسلکه آسمانی فیصله - روحانی خزائن جلد 4 صفحه (351) پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور یہ ماحول تو یہاں میسر آ گیا ہے کہ ان تین دنوں میں دنیا داری سے ہٹ کر خالص اللہ کے ہوتے ہوئے اس کے حضور جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے ، اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی محبت ، سب محبتوں پر غالب آ جائے.اور یہ محبت اس وقت تک غالب نہیں ہو سکتی جب تک دنیا کی محبت ٹھنڈی نہ ہو جائے.اگر نمازیں پڑھ رہے ہیں اور اس طرح جلدی جلدی پڑھ رہے ہیں کہ دنیا کے کام کا حرج نہ ہو جائے تو یہ تو انقطاع نہیں ہے.یہ تو دنیا سے تعلق توڑنے والی بات نہیں ہے.اللہ تعالیٰ دنیاوی کاموں کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ یہ بھی ناشکری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کام کے جو موقعے دیئے ہیں ان سے پورا فائدہ نہ اٹھایا جائے.لیکن اگر یہ کام یہ کاروبار، یہ جائیدادیں خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں تو پھر ایسے کام بھی ، ایسی ملازمتیں بھی ، ایسے کاروبار بھی ایسی جائیدادیں بھی پھینک دینے کے لائق ہیں.اگر ملازمتوں میں، کاروباروں میں خدا تعالیٰ کو بھلا کر دھو کے اور فراڈ کئے جا رہے ہیں تو ایسے کاروبار اور ایسی ملازمتوں پر لعنت ہے.

Page 390

خطبات مسرور جلد سوم 383 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء لیکن اگر یہی کام ، یہی کاروبار، یہی جائیدادیں اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کا باعث بن رہی ہیں تو یہی چیزیں ہیں جو بندے کو خدا تعالیٰ کے سایہ رحمت میں رکھ رہی ہیں اور سایہ رحمت میں رکھنے کے قابل بنا رہی ہیں.پس احمدی کی دنیا داری بھی دین کی خاطر ہونی چاہیئے.پھر ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان ، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقومی سرایت کر جاوے.تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو.اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو.اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو.میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے.تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں.ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا.اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے.ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے.چاہئے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھا دے.جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے.جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے.پس جب تک تبدیلی نہ ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں.خدا تعالیٰ ہر گز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو.اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے.لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے.ان باتوں سے صرف شماتت اعداء ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں.(ملفوظات جلد 4 صفحه 99 جدید ایڈیشن - البدر صفحه 3 تا 8 مورخه 8/ ستمبر 1904ء) پس ہم میں سے ہر ایک اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں

Page 391

خطبات مسرور جلد سوم 384 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء سے کہلا سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد اعلیٰ اخلاق بھی اپنائے جائیں.دراصل تو اعلیٰ اخلاق بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کا ہی ایک حصہ ہیں.کیونکہ اعلیٰ اخلاق بھی تقویٰ سے ہی پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے اندر اپنی محبت اور اس کے نتیجے میں تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور جن برائیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے ان سے مکمل بچنے والے ہوں.اپنے دلوں کو کینوں اور بغضوں سے پاک کرنے والے ہوں.اپنی ذاتی رنجشوں کو جماعتی رنگ دینے والے نہ ہوں کسی عہدیدار سے ذاتی عناد یار بخش کی وجہ سے اس عہد یدار کی حکم عدولی کرنے والے نہ ہوں.اور اسی طرح عہدیداران بھی اپنی کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی کے خلاف ایسی کارروائی نہ کریں جس سے ان کے عہدے کا ناجائز استعمال ظاہر ہوتا ہو.اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو موقع دیا ہے کہ وہ جماعتی عہد یدار بنایا گیا ہے اس پر خدا کا شکر کریں.نہ کہ اس وجہ سے گردنیں اکٹر جائیں اور تکبر اور رعونت پیدا ہو جائے.جماعتی عہد یداران کو اپنی عبادتوں میں بھی اور اعلیٰ اخلاق میں بھی ایک نمونہ ہونا چاہئے.عاجزی اور انکساری کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں.عدل اور انصاف کے بھی تمام تقاضے پورے کرنے چاہئیں.پس جہاں ایک عام احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے، صبر سے کام لے، ایک دوسرے کے قصوروں کو معاف کرنے کی عادت ڈالے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق جماعت کا فرد بنے تا کہ دشمن کے ہنسی ٹھٹھا سے بھی بچے.کیونکہ جب احمدی اتنے دعووں کے بعد ایسی غلطیاں کرتا ہے تو دشمن کے لئے جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتا ہے، مخالفین کے لئے جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا سے وہ باعث بنتا ہے.اور کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی غیرت رکھتا ہے ایسی حرکتوں کی وجہ سے احمدی جس نے دشمن کو نسی کا موقع دیا اللہ تعالیٰ کے قرب سے گر جاتا ہے.تو جب ایک عام احمدی کی ایسی حرکتوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا تو جو عہدیدار ہیں وہ تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں زیادہ ہیں.اس لئے ان کو اور زیادہ استغفار کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا اہل بنائے کہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرسکیں.

Page 392

خطبات مسرور جلد سوم 385 خطبہ جمعہ 24 / جون 2005ء اور یہ جلسے کے جو دن ہمیں میسر آئے ہیں ان کو کھیل کو د اور گپیں لگانے اور مجلسیں لگانے میں ضائع کرنے کی بجائے دعاؤں اور اپنی اصلاح کی کوشش میں گزاریں.جلسے کے تمام پروگرام کسی نہ کسی رنگ میں علم اور روحانیت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں.اس لئے اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں.اس سوچ میں نہ رہیں کہ فلاں مقر راچھی تقریر کرتا ہے اس کی تقریرینی ہے اور فلاں کی نہیں سنی.بلکہ تمام پروگرام سنیں.خواتین بھی اپنی گپوں کی محفلوں کی بجائے ان دنوں کو روحانیت بڑھانے میں صرف کریں کیونکہ ان کی مجلسیں زیادہ لمبی ہوتی ہیں.دعاؤں میں وقت گزاریں.اپنے لئے ، اپنے بچوں کے لئے ، جماعت کے لئے دعائیں کریں.اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعائیں کریں.اس سے بھی تعلق اور محبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور بڑھتا ہے.جن کے خلاف ایک دوسرے کو شکوے شکائیتیں ہیں، ان کے لئے بھی دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ قادر ہے.دعاؤں کو سننے والا بھی ہے.قبول کرنے والا بھی ہے.آپ کی نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں کی وجہ سے ہو سکتا ہے ان لوگوں میں تبدیلی پیدا ہو جائے اور جن کے خلاف آپ کو شکوے اور شکایتیں ہیں وہ دور ہو جائیں اور ان کی اصلاح ہو جائے.اس لئے دعائیں کرنی چاہئیں.اور جب نیکی نیتی سے ہر ایک دوسرے کے لئے دعائیں کر رہا ہوگا تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کو قبولیت کا درجہ دے گا اور آپ کی اس سوچ کی وجہ سے یقیناً رحمت کی بارش نازل فرمائے گا.پس میں پھر کہتا ہوں کہ ان دنوں کو عبادتوں اور ذکر الہی میں گزاریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ کے قرب کے نمونے بھی قائم کریں اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے بھی قائم کریں.اور دشمن کو شانت کا موقع دینے کی بجائے ہنسی ٹھٹھا کا موقع دینے کی بجائے اس جلسے کو اپنے اندر پاک تبدیلیوں کا ایک نشان بنا دیں اور دنیا پر ثابت کر دیں کہ وہ مسیح جس نے اس دنیا میں آکر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی تھیں اور پاک نمو نے قائم کرنے تھے ہم ہیں جو اس کے مصداق ٹھہرے ہیں اور اب ہم کبھی اپنے اندر سے ان پاک تبدیلیوں کو مرنے نہیں دیں گے.انشاء اللہ.اللہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 393

Page 394

خطبات مسرور جلد سوم 387 (25) خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005 ء جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں نظام جماعت اور نظام خلافت کے تقاضے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 2005ء بمقام انٹر نیشنل سنٹر ٹورانٹو ( کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.الحمد للہ کہ جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ اتوار کو بخیر وخوبی اپنے اختتام کو پہنچا تھا.ان جلسوں کی بھی اپنی ایک فضا ہوتی ہے جس میں مختلف ماحول اور طبقات کے لوگ ایک مقصد کی خاطر جمع ہوتے ہیں.جماعت سے کمزور تعلق والے بھی جب ایک دفعہ جلسے پر آجائیں تو اپنے اندر جماعت اور خلافت سے اخلاص، تعلق اور وفا میں اضافہ اور بہتری دیکھتے ہیں.پھر مختلف شعبہ جات کی ڈیوٹیاں ہیں جن میں سے بعض شعبے میرے یہاں قیام کی وجہ سے ابھی تک جاری ہیں ، کام کر رہے ہیں.ان میں بھی مختلف طبیعتوں کے مالک افراد جن کا عام زندگی میں جلسے کے دنوں میں سپر د کردہ ڈیوٹیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، وہ ایسی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہوتے ہیں جو عام زندگی میں اس سے بالکل مختلف کام کر رہے ہوتے ہیں.اچھے بھلے پڑھے لکھے، کھاتے پیتے لوگ، جلسے کے مہمانوں کی خدمت کر کے ایک فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں.(حضور انور نے اس جگہ سب احباب تک آواز پہنچنے کے بارے میں استفسار فرمایا ) میں ذکر کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ خیر سے گز رگیا اور اس جلسے میں جو کمزور تعلق والے احمدی ہیں وہ بھی جب آ جاتے ہیں تو ان کو بھی ایک خاص تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اور

Page 395

خطبات مسرور جلد سوم 388 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء پھر ڈیوٹیوں کا ذکر تھا کہ مختلف قسم کے لوگ مختلف طبقات کے لوگ ڈیوٹیاں دے رہے ہوتے ہیں.اور یہ سب لوگ ایک جذبے کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں اور اس لئے کہ آنے والے مہمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں، خدا کی باتیں سننے کے لئے آنے والے مہمان ہیں.پھر بہت سے احمدی جو کہ پیس و پیج (Peace Village) میں رہنے والے ہیں بلکہ میں کہوں گا کہ تقریباً ہر گھرانے نے اپنے گھر مہمانوں کے لئے پیش کئے ہوئے تھے اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلسے کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دے رہا ہے.بلکہ اس کے علاوہ بھی اور جگہوں پر بھی احمدی گھروں میں مہمان ٹھہرے ہوئے تھے اور سب خوشی سے مہمانوں کی خدمت کر رہے تھے.پیس ولیج میں شائد اس لئے بھی زیادہ مہمان آئے ہوں کہ میرا قیام اس جگہ تھا.تو بہر حال یہ نظارے جماعت میں محبت اور اخلاص اور ایک دوسرے کی خدمت اور مہمان نوازی کے اس لئے نظر آتے ہیں کہ جماعت ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے.اور نظام خلافت سے ان کو محبت اور تعلق ہے.اور خلیفہ وقت کے اشارے پر اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں.یہ نظارے ہمیں جماعت احمدیہ سے باہر کہیں نظر نہیں آ سکتے.افراد جماعت کا خلافت سے تعلق اور خلیفہ وقت کا احباب سے تعلق ایک ایسا تعلق ہے جو دنیا داروں کے تصور سے بھی باہر ہے.اس کا احاطہ وہ کر ہی نہیں سکتے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا سچ فرمایا تھا کہ جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.بہر حال یہ تعلق جو جماعت اور خلافت کا ہے ان جلسوں پر اور ابھر کر سامنے آتا ہے.الحمد لله ، مجھے اس بات کی خوشی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کینیڈا بھی اس اخلاص و وفا کے تعلق میں بہت بڑھی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کا یہ تعلق مزید بڑھاتا چلا جائے اور یہ وقتی جوش اور جذبے کا تعلق نہ ہو.آپ لوگوں نے ہمیشہ محبت اور وفا کا اظہار کیا ہے.27 مئی کو جب میں نے خلافت کے حوالے سے خطبہ دیا تھا تو جماعتی طور پر بھی اور مختلف جگہوں سے ذاتی طور پر بھی ، سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خطوط وفا اور تعلق کے مجھے کینیڈا سے ملے

Page 396

خطبات مسرور جلد سوم 389 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء تھے.اللہ کرے یہ محبت اور وفا کے اظہار اور دعوے کسی وقتی جوش کی وجہ سے نہ ہوں بلکہ ہمیشہ رہنے والے اور دائی ہوں اور آپ کی نسلوں میں بھی چلنے والے اور قائم رہنے والے ہوں.یا درکھیں جہاں محبت کرنے والے دل ہوتے ہیں وہاں فتنہ پیدا کرنے والے شیطان بھی ہوتے ہیں جو اس تعلق کو توڑنے یا اس تعلق میں رخنے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.پس ایسے لوگوں سے بھی آپ کو ہوشیار رہنا چاہئے.اپنے ماحول پر نظر رکھنی ہے.کہیں سے بھی کوئی ایسی بات سنیں جو جماعتی وقار یا خلافت کے احترام کے خلاف ہو تو فوری طور پر عہد یداران کو بتا ئیں، امیر صاحب کو بتا ئیں، مجھے بتائیں.کیونکہ بعض دفعہ بظاہر بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن اندر ہی اندر پکتی رہتی ہیں اور پھر بعض کمزور طبائع کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہیں.عہد یداران بھی اپنے اندر یہ عادت پیدا کریں کہ جب ایسی باتیں سنیں تو سن کر سرسری طور پر دیکھنے کی بجائے اس کی تحقیق کر لیا کریں، یا کم از کم نظر رکھا کریں.ایک دفعہ اگر سنی ہے تو ذہن میں رکھیں اور اگر دوبارہ سنیں تو بہر حال اس پر توجہ دینی چاہئے.امیر صاحب کو بتا ئیں پھر مجھے بھی بتا ئیں اسی واسطے سے، بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ چھوٹی سی بات لگ رہی ہوتی ہے اس لئے کہ ہر ایک کو اس کے پس منظر کا ، بیک گراؤنڈ کا پتہ نہیں ہوتا.اس کی جڑیں کسی اور جگہ ہوتی ہیں.اس لئے کسی فتے کو کبھی چھوٹا نہ سمجھیں، اگر کوئی ایسی بات ہے جو وقتی ہے، آپ کے نزدیک سطحی سی بات ہے، اور غصے میں کسی نے کہہ دی ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے.اور ان وقتی شکایتوں اور شکووں کو دُور کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے.اور عہدیداروں کی طرف سے بھی کی جانی چاہئے.عہدیداروں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور ایسی باتیں سنی چاہئیں تا کہ توجہ نہ دینا فرد جماعت اور عہدیداروں میں دوری پیدا کرنے کا باعث نہ بن جائے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا جب بھی کسی بات کا مجلسوں میں ذکر ہورہا ہے اور پھر شرارت پھیلانے کی غرض سے ذکر ہورہا ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے.بہر حال ہر صورت میں جب بھی آپ کوئی ایسی بات سنیں جس میں ذراسی بھی نظام کے خلاف کسی بھی قسم کی بو آتی ہو تو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اس لئے یہاں سمیت تمام دنیا کے عہدیداران بھی اور امراء بھی جہاں جہاں بھی ہیں، ان سے میں کہوں گا

Page 397

خطبات مسرور جلد سوم 390 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005 ء کہ اپنے آپ کو ایک حصار میں ، ایک شیل (Shell) میں بند کر کے یا محصور کر کے نہ رکھیں ، جہاں صرف ایسے لوگ آپ کے اردگرد ہوں جو سب ٹھیک ہے“ کی رپورٹ دینے والے ہوں.بلکہ ہر ایک احمدی کی ہر متعلقہ امیر اور عہدیدار تک پہنچ ہونی چاہئے تا کہ ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں سے آپ کا براہ راست تعلق ہو.بعض دفعہ بعض نوجوان بھی ایسی معلومات دیتے ہیں اور ایسی عقل کی بات کہہ دیتے ہیں جو بڑی عمر کے لوگ یا تجربہ کارلوگوں کے ذہن میں نہیں آتی.اس لئے کبھی بھی ، کسی بھی نو جو ان کی یا کم پڑھے لکھے کی بات کو تخفیف یا کم نظر سے نہ دیکھیں.وقعت نہ دیتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ہر بات کو توجہ دینی چاہئے.پھر بعض دفعہ نو جوانوں کے ذہنوں میں بعض سوال اٹھتے ہیں اور اس معاشرے میں اور آج کل کے نواجونوں کے ذہن میں بھی باتیں اٹھتی رہتی ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ اور ایسا کیوں نہیں ہے؟.اس لئے خدام الاحمدیہ کو بھی ، لجنہ اماءاللہ کو بھی اور جماعتی عہدیداران کو بھی ایسے نوجوانوں کی تسلی کرانی چاہئے ، ان کو تسلی بخش جواب دینے چاہئیں تا کہ کسی فتنہ پرداز کوان کو استعمال کرنے کا موقع نہ ملے.پھر عہد یداران جو جماعتی نظام میں عہد یداران ہیں وہ صرف عہدے کے لئے عہد یدار نہیں ہیں بلکہ خدمت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں.وہ نظام جماعت، جو نظام خلافت کا ایک حصہ ہے، کی ایک کڑی ہیں.ہر عہدیدار اپنے دائرے میں خلیفہ وقت کی طرف سے ، نظام جماعت کی طرف سے تفویض کئے گئے ، ان کے سپرد کئے گئے اس حصہ فرض کو صحیح طور پر سر انجام دینے کا ذمہ دار ہے.اس لئے ایک عہدیدار کو بڑی محنت سے، ایمانداری سے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے کام کو سر انجام دینا چاہئے.اور اُن عہد یداروں میں اپنے آپ کو شمار کرنا چاہئے جن سے لوگ محبت رکھتے ہوں.جس کا ایک حدیث میں یوں ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں.( مسلم - كتاب الامارة باب خيار الائمة وشرارهم) تو اگر تقویٰ پر چلتے ہوئے تمام عہدیدار اپنے فرائض نبھا ئیں اور جب فیصلے کرنے ہوں

Page 398

خطبات مسرور جلد سوم 391 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء تو خالی الذہن ہو کر کیا کریں، کسی طرف جھکاؤ کے بغیر کیا کریں.جیسا کہ پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تقویٰ یہی ہے کہ اگر اپنے خلاف یا اپنے عزیز کے خلاف بھی گواہی دینی ہو تو دے دیں.لیکن انصاف کے تقاضے پورے کریں تو پھر ایسے عہدیدار اللہ کے محبوب بن رہے ہوں گے جیسا کہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے.حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور ان سے زیادہ قریب انصاف پسند حا کم ہوگا اور سخت نا پسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہوگا.(ترمذى - ابواب الاحكام باب ماجاء في الامام العادل) - یہاں حاکم تو نہیں ہیں لیکن عہدے بہر حال آپ کے سپرد کئے گئے ہیں ، ایک ذمہ واری پ کے سپرد کئی گئی ہے.ایک دائرے میں آپ نگران بنائے گئے ہیں.پس یہ جو خدمت کے مواقع دیئے گئے ہیں یہ حکم چلانے کے لئے نہیں دیئے گئے بلکہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے ہیں.خلیفہ وقت کے فرائض کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں یہ فرما دیا ہے که فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ ﴾ ( ص : 27) یعنی پس تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کر اور اپنی خواہش کی پیروی مت کر.وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی.پس جب عہدیداران پر خلیفہ وقت نے اعتماد کیا ہے اور اُن سے انصاف کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی امید رکھی ہے.کیونکہ ہر جگہ تو خلیفہ وقت کا ہر فیصلہ کے لئے پہنچنا مشکل ہے، ممکن ہی نہیں ہے.تو اگر عہدیداران، جن میں قاضی صاحبان بھی ہیں، دوسرے عہد یداران بھی ہیں اپنے فرائض انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا نہیں کرتے تو پھر اللہ کی گرفت کے نیچے آتے ہیں.میرے نزدیک وہ دوہرے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں.دوہرے گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں.ایک اپنے فرائض صحیح طرح انجام نہ دے کر، دوسرے خلیفہ وقت کے اعتما دکو

Page 399

خطبات مسرور جلد سوم 392 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء ٹھیس پہنچا کر ، خلیفہ وقت کے علم میں صحیح صورت حال نہ لا کر.نمائندے کی حیثیت سے جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، عہدیداران کا یہ فرض بنتا ہے کہ خلیفہ وقت کو ایک ایک بات پہنچائیں.بعض دفعہ بیوقوفی میں بعض لوگ یہ کہہ جاتے ہیں ، ان میں عہد یدار بھی شامل ہیں، کہ ہر بات خلیفہ وقت تک پہنچا کر اسے تکلیف میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے.عام لوگ بھی جس طرح میں نے کہا کہہ دیتے ہیں کہ اپنی تکلیفیں زیادہ نہ لکھو جو مسائل ہیں وہ نہ لکھو.وہ کہتے یہ ہیں کہ پہلے تھوڑے معاملات ہیں؟ پہلے تھوڑی پریشانیاں ہیں؟ جماعتی مسائل ہیں جو ان کو اور پریشان کیا جائے.تو یاد رکھیں ، میرے نزدیک یہ سب شیطانی خیال ہیں، غلط خیال ہیں.اللہ تعالیٰ کا براہ راست حکم خلیفہ کے لئے ہے اور کیونکہ کام کے پھیل جانے کی وجہ سے کام بہت وسیع ہو گئے ہیں، پھیل گئے ہیں، خلیفہ وقت نے اپنے نمائندے مقرر کر دیئے ہیں تا کہ کام میں سہولت رہے.لیکن بنیادی طور پر ذمہ داری بہر حال خلیفہ وقت کی ہے.اور جب اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے تو پھر اس کی مدد کے لئے وہ تیار رہتا ہے.کیونکہ خلیفہ بنایا بھی اُس نے ہے تو یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ بنائے بھی خود، ذمہ داری بھی اس پر ڈالے اور پھر اپنی مدد اور نصرت کا ہاتھ بھی اس پر نہ رکھے.اس لئے یہ تصور ہی غلط ہے کہ خلیفہ وقت کو تکلیف نہ دو.خلیفہ کی جو برداشت ہے اور تکلیف دہ باتیں سننے کا جس قدر حوصلہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہوتا ہے یا خلافت کے انعام کے بعد جس طرح اس کو بڑھاتا جاتا ہے کسی اور کو نہیں دیتا.اس لئے یہ ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سے ادا کروانی ہوتی ہے.بہر حال وہ حوصلہ بڑھا دیتا ہے.اس لئے یہ تصور غلط ہے کہ تکلیف نہ دو.کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور تکلیف پہنچانا اس حد تک جائز ہے بلکہ ہر ایک کا فرض ہے.پس اس تصور کو عہدیداران جن کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ خلیفہ وقت کو تکلیف کیا دینی ہے، وہ ذہن سے یہ بات نکال دیں اور مجھے بھی گناہگار ہونے سے بچائیں اور خود بھی گناہگار ہونے سے بچیں.اگر اصلاح کی خاطر کسی بڑے آدمی کے خلاف بھی کارروائی کرنی پڑے تو کریں اور اس بات کی قطعاً کوئی پرواہ نہ کریں کہ اس کے کیا اثرات ہوں گے.اگر فیصلے

Page 400

خطبات مسرور جلد سوم 393 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء تقویٰ پر مبنی اور نیک نیتی سے کئے گئے ہیں تو یا درکھیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمیشہ آپ کے شامل حال رہے گی.ورنہ یاد رکھیں اگر جماعت احمد یہ الہی جماعت ہے اور یقیناً الہی جماعت ہے تو پھر اس کی رہنمائی بھی اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے، فرماتا رہے گا.ایک حد تک تو بعض عہدیداران سے صرف نظر ہوگی لیکن پھر یا تو خلیفہ وقت کے دل میں اللہ تعالیٰ ڈال دے گا یا کسی اور ذریعہ سے اس عہد یدار سے خدمت کا موقع چھین لے گا، اس کو خدمت سے محروم کر دے گا.پس تمام عہد یداران تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ اپنے فرائض منصبی ادا کریں.اور آپ کا کبھی کوئی فیصلہ کبھی کوئی کام نفسانی خواہشات کے زیر اثر نہ ہو.اللہ سب کو اس کی توفیق دے.دوسری بات میں احباب جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں، جیسے کہ پہلے بھی میں کہہ آیا ہوں کہ ایک بہت بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھتی ہے.لیکن یاد رکھیں یہ ریزولیوشنز ، یہ خط، یہ وفاؤں کے دعوے تب سچے سمجھے جائیں گے، تب سچے ثابت ہوں گے جب آپ ان دعووں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں.نہ کہ وقتی جوش کے تحت نعرہ لگا لیا اور جب مستقل قربانیوں کا وقت آئے ، جب وقت کی قربانی دینی پڑے، جب نفس کی قربانی دینی پڑے تو سامنے سو سو مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں.پس اگر یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی خاطر خلافت سے محبت ہے تو پھر نظام جماعت جو نظام خلافت کا حصہ ہے اس کی بھی پوری اطاعت کریں.خلیفہ وقت کی طرف سے تقویٰ پر قائم رہنے کی جو تلقین کی جاتی ہے اور یقیناً یہ خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہی ہے، اس پر عمل کریں.اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور کی جس آیت میں خلافت کا انعام دیئے جانے کا وعدہ فرمایا ہے اس سے پہلی آیتوں میں یہ مضمون بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اللہ سے ڈرو، اس کا تقویٰ اختیار کرو تو پھر تمہاری کامیابیاں ہیں.ورنہ پھر کھوکھلے دعوے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گے.ہم آگے بھی لڑیں گے ، ہم پیچھے بھی لڑیں گے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُوْنَ - وَأَقْسَمُوا

Page 401

خطبات مسرور جلد سوم 394 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ - قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ - إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ - بمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ (النور:53-54) یعنی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس کا تقویٰ اختیار کرے تو یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے.تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ.دستور کے مطابق اطاعت کرو.یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.پس اگر حقیقت میں یہ سچا دعوی ہے تو پھر تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کریں، اس کے بندوں کے حقوق ادا کریں، جلسے کے دنوں میں جو نصائح کی گئی تھیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں.اپنے اس عہد پر عمل کر کے دکھائیں کہ ہر معروف فیصلے پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے.ورنہ یہ عہد یہ دعوے کھو کھلے ہیں.تم اپنی باتوں سے تو زبانی جمع خرچ میں یہ کہ سکتے ہو کہ ہاں ہم یوں کرتے ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ان دعووں کی کنہ تک سے واقف ہے.اس کو گہرائی تک علم ہے.دلوں کا حال جانتا ہے.باتوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہے.اس لئے اس کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا.پس اللہ کا یہ خوف دل میں رکھتے ہوئے ہر احمدی کو اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر اس طرح زندگی گزارو گے تو تمہارا خلافت کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہوگا اور کیونکہ یہ تعلق خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوگا اس لئے اللہ تعالیٰ تم پر اپنا فضل فرما تار ہے گا.اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے فیض پانے والے ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو نیک اعمال بھی بجالانے والے ہوں.پس خلافت سے تعلق مشروط ہے نیک اعمال کے ساتھ.خلافت احمدیہ نے تو انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.لیکن نظام خلافت سے تعلق انہیں لوگوں کا ہوگا جو تقویٰ پر چلنے والے اور نیک اعمال بجالانے والے ہوں گے.اگر جائزہ لیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ جن گھروں میں نمازوں میں بے قاعدگی نہیں ہے، ان کا نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے.جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں ان کا خلافت اور نظام سے تعلق بھی

Page 402

خطبات مسرور جلد سوم 395 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء زیادہ ہے.اور جن گھروں میں نمازوں میں بے قاعدگیاں ہیں، جن گھروں میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے میں وہ شدت نہیں ہے احمدی ہونے کے باوجود نظام جماعت کا احترام نہیں ہے، لوگوں کے حقوق صحیح طور پر ادا نہیں کرتے وہی لوگ ہیں جن کے گھروں میں بیٹھ کر خلیفہ وقت کے بارہ میں بعض منفی تبصرے بھی ہو رہے ہوتے ہیں.تو اپنے آپ کو نظام جماعت اور جماعتی عہدیداران سے بالا بھی وہاں سمجھا جا رہا ہوتا ہے.ایسے لوگ تبصرے شروع کرتے ہیں عہد یداروں سے اور بات پہنچتی ہے خلیفہ وقت تک.جب نظام جماعت کی طرف سے ان کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس پر بجائے استغفار کرنے کے اعتراض ہور ہے ہوتے ہیں.حالانکہ نظام جماعت میں تو خلافت کی وجہ سے یہ سہولت میتر ہے کہ اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ کوئی فیصلہ کسی فریق کی طرفداری میں کیا گیا ہے تو خلیفہ وقت کے پاس معاملہ لایا جاسکتا ہے.اگر پھر بھی بعض شواہد یا کسی کی چرب زبانی کی وجہ سے فیصلہ کسی کے خلاف ہوتا ہے تو اس کو تسلیم کر لینا چاہئے اور بلا وجہ نظام پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ یہ اعتراض تو بڑھتے بڑھتے بہت اوپر تک چلے جاتے ہیں.ایسے موقعوں پر اس حدیث کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے ، پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے میرے سے فیصلہ اپنے حق میں کروا لیتا ہے حالانکہ وہ حق پر نہیں ہوتا تو وہ آگ کا گولہ اپنے پیٹ میں ڈال رہا ہوتا ہے.یعنی اس وجہ سے وہ اپنے پر جہنم واجب کر رہا ہوتا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس فعل کی وجہ سے اس دنیا میں بھی اذیت میں مبتلا رکھے.اس کو کئی قسم کے صدمات پہنچ رہے ہوں مختلف طریقوں سے مختلف وجوہات سے وہ مشکلات میں گرفتار ہو جائے.تو بہر حال جیسا کہ میں پہلے عہدیداران سے بھی کہ آیا ہوں کہ انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں.لیکن فریقین سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ آپ بھی حسن ظنی رکھیں اور اگر فیصلے خلاف ہو جاتے ہیں تو معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں.اور جیسا کہ حدیث میں آیا ہے دوسرے فریق کو آگ کا گولہ پیٹ میں بھرنے دیں.اور لڑائیوں کو طول دینے اور نظام جماعت سے متعلق جگہ جگہ باتیں کرنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں کہ بچے ہو کر

Page 403

خطبات مسرور جلد سوم 396 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو.اللہ تعالیٰ سب میں یہ حوصلہ پیدا فرمائے اور ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بن جائے.لیکن یہاں میں عہدیداران خاص طور پر امراء کے لئے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان مغربی ممالک میں جیسا کہ میں اپنے جلسے کی تقریر میں ذکر کر چکا ہوں عائلی یا میاں بیوی کے جھگڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے.اور یہ جھگڑے ایسی نوعیت اختیار کر جاتے ہیں کہ علم ہونے اور ہمدردی ہونے کے باوجود نظام جماعت بعض پابندیوں کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا.کیونکہ بعض صورتوں میں ملکی قانون ایک فریق کو حق پر نہ ہونے کے باوجود اس کے شرعی حقوق کی وجہ سے بعض حق دے دیتا ہے.اس لئے ایسے مرد جو ظلم کر کے اپنی بیویوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں.یہ بھی نہیں دیکھتے کہ موسم کی شدت کیا ہے.پھر ایسے ظالم باپ ہوتے ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس موسم کی شدت میں ماں کی گود میں چند ماہ کا بچہ ہے.تو ایسے لوگوں کے خلاف نظام جماعت کو عورت کی مدد کرنی چاہئے.پولیس میں بھی اگر کیس رجسٹر کروانا پڑے تو کروانا چاہئے.یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم جماعت میں فیصلہ کرلیں گے اور باہر نہ نکلیں.بعد میں اگر فیصلہ جماعت کے اندر کیا جا سکتا ہو تو کریں، کیس واپس لیا جا سکتا ہے.لیکن ابتدائی طور پر ضرور رپورٹ ہونی چاہئے.اور پھر جو لا وارث اور بے سہارا عورتیں ہیں، ان ملکوں میں آکر لاوارث بن جاتی ہیں کیونکہ والدین یہاں نہیں ہوتے مختلف غیروں کے گھروں میں رہ رہی ہیں ان کو بھی جماعت کو سنبھالنا چاہئے ، ان کی رہائش کا بھی جماعت بندو بست کرے، ان کے لئے وکیل کا انتظام کرے.اور پھر ظاہر تو ہو جاتا ہے، پردہ پوشی کی جائے تو الگ بات ہے ).ایسے ظالم خاوندوں کے خلاف جماعتی تعزیر کی سفارش بھی مجھے کی جائے.تو اس کے لئے فوری طور پر امریکہ اور کینیڈا کے امراء ایسی فہرستیں بنائیں، بعض دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہیں، لجنہ کے ذریعہ سے بھی پتہ کریں اور ایسی عورتوں کو ان کے حق دلوائیں.اور جن عورتوں کے حقوق ادا نہیں ہو رہے اور نظام ر جماعت بھی اس بارے میں حرکت میں نہیں آرہا تو یہ عورتیں مجھے براہ راست لکھیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور

Page 404

خطبات مسرور جلد سوم 397 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء تقویٰ پر چلتے ہوئے جماعت کا فعال حصہ بننے کی توفیق دے.ہم اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تھا.وہ پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کریں جس کی آپ نے ہم سے توقع کی ہے.اپنے نیک نمونے قائم کرنے والے ہوں تا کہ ان نیک نمونوں کی وجہ سے غیر بھی ہماری طرف توجہ کریں.اور اس ذریعہ سے ہمیں تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کی توفیق ملے.پس اس کے لئے ہمیں اپنے ایمانوں کو بھی کامل کرنا ہو گا اگر کہیں سوچوں میں ٹیڑھ ہے تو اس کو بھی دور کرنا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب انسان مومن کامل بنتا ہے تو وہ اس کے اور اس کے غیر میں فرق رکھ دیتا ہے.اس لئے پہلے مومن بنو.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ.نمازوں کی پابندی کرو اور توبہ واستغفار میں مصروف رہو.نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دیکھ نہ دو.راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا “.(ملفوظات جلد 3 صفحه 434 جدید ایڈیشن ـ الحکم مورخه 17/ اکتوبر 1903صفحه 2) تو یہ توقعات ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم سے.دنیا کی خاطر جو ایک دوسرے پر ظلم ہورہے ہیں ان سے بچیں.راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا ذریعہ ہے.اور جب اللہ تعالیٰ کے فضل سمیٹنے والے ہوں گے تو اس کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل اور انعام جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر خلافت کی صورت میں جاری فرمایا ہے اس سے بھی حصہ پانے والے ہوں گے.اور اگر دعوے تو خلافت احمدیہ کو قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے ہوں اور عمل یہ کہ کسی طرح خلیفہ وقت کو باتوں ہی باتوں میں دھوکا دیا جائے.تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اپنا قانون استعمال کرتا ہے.اور ظالم اپنے ظلموں کی وجہ سے دنیا داروں سے تو بیچ سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق جس کا علم محدود ہے اس سے تو بیچ سکتا ہے، لیکن خدا تعالیٰ سے نہیں.پس ہر ایک کو اپنا اس لحاظ سے بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے.

Page 405

خطبات مسرور جلد سوم 398 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء نیکیاں اپنے اندر کس طرح پیدا کرنی چاہئیں ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : نوافل ہمیشہ نیک اعمال کے مُتمم اور مکمل ہوتے ہیں اور یہی ترقیات کا موجب ہوتے ہیں.مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات وصدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض ٹھہرایا ہے بجا لا وے اور ہر ایک کارخیر کے کرنے میں اس کو ذاتی محبت ہو اور کسی تصنع و نمائش وریاء کو اس میں دخل نہ ہو.یہ حالت مومن کی اس کے بچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کر دیتی ہے.اُس وقت اللہ تعالیٰ اس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے.اور اُس کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے.اور اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ کام کرتا ہے.الغرض ہر ایک فعل اس کا اور ہر ایک حرکت سکون اس کا اللہ ہی کا ہوتا ہے.اُس وقت جو اس سے دشمنی کرتا ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے“.(ملفوظات جلد 3 صفحه 343 جدید ایڈیشن - الحکم 30 جون 1903ء صفحه 10 11) تو فرمایا کہ ہر نیک کام میں ، ہر کارخیر میں ذاتی محبت ہو.ایک جوش سے نیکی کا کام ہورہا ہو، مجبوری سے نہ ہورہا ہو اور کوئی تصنع اور بناوٹ بھی نہ ہو.نیکی دنیا کو دھوکا دینے کے لئے بھی نہ ہو رہی ہو.دکھانے کے لئے بھی نہ ہو رہی ہو.تو یہ ہے تعریف نیک اعمال بجالانے اور تقویٰ پر قائم ہونے کی.اور پھر جب اس طرح پر اعمال بجالا رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس کے انعاموں سے بھی حصہ پانے والے ہوں گے.پس ان انعاموں سے حصہ پانے کے لئے ایک مسلسل اور مستقل عمل ہے جس پر ایک مومن کو چلنا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ گزشتہ دنوں کی برکتوں سے جو آپ نے حصہ پایا ہے اس کو ہمیشہ اپنی زندگی کا حصہ بنالیں اور معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف بعض جگہ جو نفرتیں پل رہی ہیں ان کو دُور کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.بڑے درد سے آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ میرے مرید ہو کر مجھے بدنام نہ کریں.

Page 406

خطبات مسرور جلد سوم 399 خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کو چاہئے کہ کوئی امتیازی بات بھی دکھائے.اگر کوئی شخص بیعت کر کے جاتا ہے اور کوئی امتیازی بات نہیں دکھاتا.اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہے جیسا پہلے تھا اور اپنے عیال و اطفال سے پہلے کی طرح ہی پیش آتا ہے تو یہ اچھی بات نہیں.اگر بیعت کے بعد بھی وہی بد خلقی اور بدسلوکی رہی اور وہی حال رہا جو پہلے تھا تو پھر بیعت کرنے کا کیا فائدہ؟ چاہئے کہ بیعت کے بعد غیروں کو بھی اور اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کو بھی ایسا نمونہ بن کر دکھاوے کہ وہ بول اٹھیں کہ اب یہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا.خوب یا درکھو کہ صاف ہو کر عمل کرو گے تو دوسروں پر تمہارا ضر ور رعب پڑے گا.(ملفوظات جلد 5 صفحه 282-283 جدید ایڈیشن - الحکم مورخه 24/ستمبر 1907ء صفحه 3°4) اللہ تعالیٰ سب کو بیعت کے حق کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیشہ نیکیوں میں بڑھنے والے، نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا سایہ ہم پر ہمیشہ قائم رہے.میرا یہاں کینیڈا میں اس دورہ کا یہ آخری جمعہ ہے.مختصراً یہاں ذکر کر دوں کہ جو وفا اور پیار اور اخلاص میں نے آپ میں دیکھا اور محسوس کیا ہے خدا کرے یہ ہمیشہ قائم رہے.اور آپ میں سے اکثریت جو اخلاص اور وفا میں بڑھی ہوئی ہے اپنے نمونوں اور اثر کی وجہ سے اپنے.کمزوروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے والی ہو، ہر فتنے سے محفوظ رہنے والی ہو.اللہ آپ کو ہر فتنے سے محفوظ رکھے اور آپ لوگوں کو یہ بھی توفیق دے کہ احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام اس خطہ کے لوگوں تک بھی پہنچانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ کی طرف لے جانے والا راستہ دکھانے والے ہوں.اللہ آپ کی طرف سے ہمیشہ مجھے خوشی کی خبریں پہنچا تار ہے.خدا حافظ، السلام علیکم.谢谢谢

Page 407

400 خطبات مسرور جلد سوم

Page 408

خطبات مسرور جلد سوم 401 (26) خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005 ء مشرقی افریقہ اور کینیڈا کے دوروں کا ایمان افروز تذکرہ لندن بم دھما کے اسلام اور آنحضرت صلی للہا علم کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 8 جولائی 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ تقریب دو ماہ سے میں دورہ پہ رہا ہوں.چند دن یہاں گزارے پھر چلا گیا.تو ان دوروں کا جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا ہوں، عموماً جماعت میں دوروں کی وجہ سے ترقی کی طرف قدم بڑھانے کا رجحان بڑھتا ہے.یہ ترقی خواہ تربیتی لحاظ سے ہو، مالی قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کے لحاظ سے ہو یا تبلیغی میدان میں ہو.جب ایک جگہ پر ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے تو پھر اس تعلق کی وجہ سے جو جماعت کو خلافت سے ہے براہ راست رابطے کی وجہ سے ،اس ترقی میں قدم جو بڑھ رہے ہوتے ہیں ان میں تیزی پیدا کرنے کی کوشش اور زیادہ شروع ہو جاتی ہے.اکثر خطوں میں متعلقہ ملکوں کے احمدی جہاں جہاں بھی دورے ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتے ہیں.چاہے وہ افریقن احمدی ہوں یا دوسرے ملکوں کے جہاں بھی گیا.تو یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد آپ کو ماننے والی اس پیاری جماعت کے لوگوں میں اس تعلیم کی وجہ سے جس کو لوگ پہلے بھول چکے تھے اور جس کو آپ نے دوبارہ ہمارے سامنے رکھا جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی خواہش پیدا ہوئی اور اس کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کی روح افراد میں پیدا ہوئی.یہ نظارے ہمیں ہر جگہ نظر آتے

Page 409

خطبات مسرور جلد سوم 402 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء ہیں.افریقہ میں بھی اور کینیڈا میں بھی.اکثر ملنے والوں نے زبانی اور بہت سے لوگوں نے خطوط کے ذریعے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے بلکہ دنیا میں ہر جگہ، ہر احمدی کو توفیق دے کہ ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر کے، خدا سے زندہ تعلق جوڑ کر ، اُس مقصد کو حاصل کرنے والے ہو جائیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.کیونکہ اب دنیا میں خدا کی طرف لانے کے لئے ، دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے ، یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلام کی وہ خوبصورت تعلیم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے اور وہ خوبصورت تصویر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھائی ہے، اس کو نہ صرف اپنے پر لاگو کریں، اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں، بلکہ دنیا کو بھی اس سے روشناس کرائیں.ان کو بھی بتائیں کہ دیکھو چند ایک سر پھرے، اللہ تعالیٰ کے خوف سے بے بہرہ لوگ جو بظاہر اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن اسلام کی اس صحیح اور خوبصورت تعلیم سے اُن کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے.جو بظاہر اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن اس محسن انسانیت اور رحمۃ للعالمین سے اُن کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے.کیونکہ وہ تو حسن و احسان کا پیکر تھا، وہ تو مظلوموں اور معصوموں بلکہ دشمنوں تک، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق کے لئے رحمت تھا.اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ان چیزوں سے کوئی بھی تعلق نہیں تھا جو آج کے سر پھرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو کر کرتے ہیں.اب یہاں کل ہی لندن میں جو مختلف ٹرینوں میں اور بسوں میں واقعہ ہوا ہے، جو ظلم اور بر بریت کی ایک مثال قائم کی گئی ہے، کیا یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والا شخص ایسی حرکت کر سکتا ہے.بہر حال یہ جس تنظیم یا جس گروہ نے بھی کیا اگر یہ مسلمان کہلانے والا گروہ ہے تو اس نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے.ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ان

Page 410

خطبات مسرور جلد سوم 403 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء بیہودہ اور ظالمانہ فعلوں سے اپنے آپ کو بچالیا ہے.اور جب بھی کہیں ظلم کا کھیل کھیلا گیا ہے، جماعت احمدیہ نے ہمیشہ اس سے بیزاری ، نفرت اور کراہت کا اظہار کیا ہے.کیونکہ اسلام تو انسانیت کی اقدار قائم کرنے کے لئے آیا تھا ، نہ کہ معصوموں کی جانیں لینے کے لئے.اللہ تعالیٰ رحم کرے اور دنیا کو اس ظلم سے بچائے.بہر حال ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اندر تبدیلیوں کے ساتھ اسلام کی خوبصورت تعلیم سے دنیا کو بھی آگاہ کرے، دنیا کو بھی بتائے.اللہ تعالیٰ ہر جگہ، ہر ملک میں ،جس کی طرف سے بھی ایسے ظالمانہ فعل ہو رہے ہوں ان کی خود پکڑ فرمائے اور ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلائے رکھے.تو ذکر میں کر رہا تھا دوروں کے بارے میں.ساتھ ہی یہ بات آگئی کہ اس تعلیم کو دنیا میں پھیلا نا چاہئے ، یہ تعلیم ہے.تو اس ضمن میں جو مختلف جگہوں پر دوروں کے دوران بعض جماعت نے نئے کام شروع کئے اور جو قربانیاں، خاص طور پر مالی قربانیاں دیں، ان کے بارے میں اب اس وقت میں ذکر کروں گا.اپنے دوروں کے دوران احمدیوں میں تبدیلیوں کی اور ان قربانیوں کی جو جماعت کے افراد نے اپنے وسائل کے لحاظ سے کیسں اور کر رہے ہیں.میں مساجد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ چند سالوں میں، دنیا کی مختلف جماعتوں میں مساجد کی تعمیر کی طرف یا بڑی عمارت خرید کر ان کو مسجدوں میں تبدیل کرنے یا نماز سینٹر قائم کرنے اور خرید کر قائم کرنے کی طرف رجحان کافی بڑھا ہے.چنانچہ اُس دورے کے دوران بھی پہلے جو افریقہ کا دورہ ہوا مختلف افریقہ کے ممالک میں چار مساجد کا سنگ بنیا درکھا اور چھ نئی مساجد کا افتتاح ہوا.افریقہ میں تو بہت غربت ہے، تھوڑا بہت اپنے وسائل سے لوگ اپنی مسجدوں کی تعمیر میں حصہ ڈالتے ہیں.بہر حال اپنے لحاظ سے جس قدر قربانی اور اخلاص کا وہ اظہار کر سکتے ہیں کرتے ہیں.اُن ملکوں میں زیادہ تر مرکزی طور پر یا یہ بھی ہوا ہے کہ بعض دوسرے ملکوں کے مخیر حضرات نے مسجدوں کی تعمیر میں حصہ لیا ہے، اور لے رہے ہیں..U.K کے بھی بعض افراد ان میں شامل ہیں.مشرقی افریقہ میں عموماً احمدی اتنے خوشحال نہیں ہیں جیسے مغربی افریقہ میں ہیں.وہاں تو ایک ایک احمدی خود بھی بڑی بڑی مساجد تعمیر

Page 411

خطبات مسرور جلد سوم 404 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء کروا دیتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا مشرقی افریقہ کے رہنے والے احمدیوں کے وسائل عموماً اتنے نہیں ہیں.لیکن کینیا میں مثلاً ایشین احمدی یا پاکستانی، ہندوستانی Origin کے احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے رہا ہے اور وہ مساجد کی تعمیر میں حصہ لے رہے ہیں.بلکہ بعض مساجد جن کی میں نے بنیاد میں رکھی ہیں ان کی تعمیر کا مکمل خرچ ان میں سے ایک ایک آدمی نے یا ان کی ایک فیملی نے برداشت کیا ہے.اسی طرح یوگنڈا میں بعض احمد یوں کے حالات کچھ نسبتا بہتر ہیں تو وہاں بھی افریقن احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں بڑھ کے حصہ لے رہے ہیں.ایک افریقن احمدی نے ایک بڑی اچھی مسجد بنوانے کا وعدہ کیا ہے بلکہ شروع بھی کروادی ہے.اس کی بنیاد میں نے رکھی تھی.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کو جزا دے ، ان کی تو فیقوں کو بڑھائے اور ان کے ایمان اور اخلاص میں ان کو ترقی دیتا چلا جائے.پھر اس کے بعد میں نے کینیڈا کا دورہ کیا ہے، کل ہی وہاں سے واپس آیا ہوں.یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ایمان اور اخلاص میں بڑھ رہی ہے.مالی قربانیوں کے لئے بھی ایک جوش ہے.اللہ تعالیٰ ان کی مالی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ان کے اخلاص کو بھی بڑھاتا چلا جائے اور ہر فر د جماعت کو تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.کینیڈا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین مساجد کے سنگ بنیاد رکھے گئے.پہلا سنگ بنیاد و نیکوور (Vancouver) میں رکھا گیا.یہ سمندر کے کنارے، پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے.دریا کے کنارے جماعت نے چند سال قبل ایک رقبہ خریدا تھا جس میں ایک عمارت بنی ہوئی تھی اور اس میں ایک چھوٹا سا ہال بھی تھا جس میں آجکل نمازیں ادا ہوتی ہیں.یہاں با قاعدہ مسجد کا سنگ بنیا درکھا گیا ہے.اس مسجد کا نام بیت الرحمن رکھا گیا ہے.اس مسجد کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ بھی ایک مخلص احمدی دوست نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے اور ان کے اموال ونفوس میں برکت عطا فرمائے.اس مسجد کا خرچ تقریباً ساڑھے تین چار ملین ہے، یعنی پینتیس، چالیس لاکھ ڈالرز.اور وہ اکیلے آدمی نے برداشت کرنے کا وعدہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جلد سے جلد تکمیل

Page 412

خطبات مسرور جلد سوم کروانے کی توفیق عطا فرمائے.405 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء پھر کیلگری کینیڈا کا ایک بڑا شہر ہے.یہاں بھی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنگ بنیاد کے وقت ایک بڑی اچھی تقریب ہوئی اور ان کے ممبر آف پارلیمینٹ اور شہر کے معززین دوست آئے ، بلکہ صوبے کے گورنر بھی آئے ہوئے تھے.اسی طرح وینکوور میں بھی دوست ، معززین اور پارلیمینٹ ممبران آئے ہوئے تھے.کینیڈا میں عموماً جماعت کا ایک اچھا اثر قائم ہے.اور ان دونوں شہروں میں بھی باقی کینیڈا کی طرح جماعت کا بڑا اچھا اثر قائم ہے.اللہ تعالیٰ یہ نیک اثر ہمیشہ قائم رکھے اور جماعت کو توفیق دے کہ اس میں مزید ترقی ہو اور اس نیک تاثر کے نیک اثرات بھی ظاہر ہوں اور وہاں کے احمدی ان لوگوں کو بھی اسلام کی روشنی سے منور کرنے کے قابل ہوسکیں.تو کیلگری میں مسجد کے سنگ بنیاد کا ذکر ہو رہا تھا.یہ منصو بہ بھی بڑا ہے.میرا خیال ہے کینیڈا کی یہ سب سے بڑی مسجد ہو گی.تقریباً چھ سات ملین ڈالرز کا خرچ ہے.اللہ تعالیٰ وہاں کے احمدی احباب کو توفیق دے، ان کی تو فیقوں کو بڑھائے اور جلد انہیں یہ مسجد تعمیر کرنے کی توفیق دے.بنیا د رکھی ہے انشاء اللہ کام شروع ہو جائے گا.جس جوش اور درد کے ساتھ وہاں کے لوگوں نے اپنے وعدے پورے کرنے اور بڑھا کر پورے کرنے کا اظہار کیا اور دعا کے لئے کہا مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی مسجد کی تعمیر بھی مکمل ہو جائے گی ، اور کوئی مالی مسئلہ نہیں ہو گا.اس مسجد کا نام ” بیت النور رکھا گیا ہے.پھر ٹورانٹو کے پاس ایک جگہ ہے.بریمپٹن (Brampton) ، یہاں بھی مسجد کا سنگ بنیادرکھا گیا ہے.یہاں کچھ روکیں ابھی حائل ہیں ، جیسا ان ملکوں میں ہوتا ہے، بعض اجازتیں لینی ہوتی ہیں.بعض ہمسایوں کی طرف سے روکیں ہیں.بہر حال بنیا د رکھ دی گئی ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ روکوں کو دور فرمائے اور یہاں بھی مسجد کی تعمیر جلد شروع ہو جائے.پھر کینیڈا کی جماعت نے ایڈمنٹن، لائیڈ منسٹرز اور سکاٹون وغیرہ میں مساجد کے لئے پلاٹ خریدے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی بڑے بڑے پلاٹ ہیں.دس ہیں اور تمیں ایکٹر کے.یہاں بھی جلد اللہ کرے ان کو مساجد کی تعمیر کی توفیق ملے.تو جو پہلی جگہیں ہیں ونکوور اور کیلگری کیونکہ یہ شہر کے اندر ہیں.

Page 413

خطبات مسرور جلد سوم 406 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء یہ پلاٹ میرا خیال ہے چار پانچ ایکڑ کے ہیں.باقی جگہ کھلی جگہوں کے پلاٹ ہیں.ان بڑے پلاٹوں کا یہ فائدہ ہے کہ بہت ساری چیزوں کے لئے ہمیں جو ضرورت پڑتی ہے، جماعت کے فنکشنز کے لئے وہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے.پھر کینیڈا کی جماعت نے دوسنٹرز خریدے ہیں جہاں بڑی اچھی مضبوط عمارتیں بنی ہوئی ہیں.بلکہ ایک جگہ Darham میں تو ایک چھوٹا سا قلعہ نما گھر بنا ہوا ہے.کسی ہالینڈ کے باشندے نے بنایا تھا.اور اس کے بعد اس نے دے دیا.بڑا مضبوط بنا ہوا ہے اور اس کے ساتھ رقبہ بھی تقریباً سترہ اٹھارہ ایکڑ ہے.جیسا کہ میں نے کہا اچھی مضبوط عمارت ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی جماعت کے پیسے کو، قربانی کرنے والوں کے پیسے کو ، اس طرح برکت دی ہے اور ان سے اس طرح استعمال کرواتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.یہ قلعہ نما گھر جو ہے،118 یکٹر زمین کے ساتھ یہ تقریباً ایک ملین ڈالر کا خریدا گیا ہے اور اس کا خرچ بھی صرف ایک آدمی نے دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے مخلص دوست دیئے ہیں جو خرچ برداشت کرتے ہیں.اور جماعت کو بڑے ستے داموں یہ زمین مل گئی ہے جبکہ اس کی اب قیمت تقریباً اس سے ڈیوڑھی ہو چکی ہے.تو ان سب خرچ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جزا دے اور ان کے اموال ونفوس میں برکت ڈالے.جیسا کہ میں نے کہا، یہ عمارت بھی جو خریدی گئی ہے یہ اتفاق سے قبلہ رخ بنی ہوئی عمارت ہے.اس لئے مسجد کے طور پر بھی فوراً اس کا استعمال شروع ہو چکا ہے.اور مزید تھوڑی سی تبدیلیاں ہونی ہیں.اس میں علاوہ کمروں کے دو بڑے بڑے ہال ہیں اور ایک ہال تو خیر سوئمنگ پول کا ہے، اس میں کچھ تبدیلی کر کے اس کو نماز کے ہال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے.کر رہے ہیں اور انشاء اللہ کیا جائے گا اور ان دونوں میں تقریباً چار پانچ سونمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.پھر کا رنوال میں ایک عمارت جس کو مسجد کی شکل دے دی جائے گی خریدی گئی ہے.یہ بھی ماریشس کے احمدی ڈاکٹر ہیں انہوں نے خرید کے دی ہے.تقریباً 3 لاکھ ڈالرز میں.تو یہ کارنوال کا قصبہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اس لئے یہاں اس ضرورت کے تحت تھوڑی زمین اور عمارت خریدی گئی ہے.اللہ تعالیٰ یہاں جماعت کو بھی توفیق دے کہ جو اپنے نیک نمونے قائم کرنے کا اصل

Page 414

خطبات مسرور جلد سوم 407 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء رہے اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے کا ، وہ قائم کریں اور قصبے میں مقامی لوگوں کی بھی ایک مضبوط جماعت قائم کرنے کے قابل ہو سکیں.تو بہر حال یہ عجیب نظارے جماعت کی قربانیوں کے دنیا میں نظر آتے ہیں.جہاں دنیا اپنے پیسے کھیل کود میں ضائع کر رہی ہوتی ہے ، وہاں احمدی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے پیسے کا استعمال کر رہا ہوتا ہے.کیونکہ آج اس کو یہ فہم اور ادراک ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں ہی اس کی بہتری اور بھلائی ہے.کیونکہ کھیل کود میں خرچ کیا ہوا پیسہ تو ضائع ہو جاتا ہے، لہو ولعب میں خرچ کیا ہوا پیسہ تو ضائع ہو جاتا ہے، لیکن خدا کی راہ میں خرچ کئے ہوئے پیسے کے ضائع ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ لوٹاتا ہے.کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا جا رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ادھار نہیں رکھتا.اور نہ صرف ادھار نہیں رکھتا بلکہ کئی گنا بڑھا کر احسان کر کے دیتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ليْسَ عَلَيْكَ هُدَهُمْ وَلكِنَّ اللهَ يَهْدِي مَنْ يَّشَاءُ - وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَانْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۖ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ ﴾ (البقرة: 273) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ ہدایت دینا تجھ پر فرض نہیں ہے.یہ ہدایت اللہ نے لوگوں کو دینی ہے.لیکن فرمایا اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.اور پھر جب ہدایت دیتا ہے.اور آگے فرمایا کہ جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو وہ تمہارے اپنے ہی فائدے میں ہے.جبکہ تم تو اللہ کی رضا جوئی کے سوا کبھی خرچ نہیں کرتے اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو وہ تمہیں بھر پور واپس کر دیا جائے گا اور ہر گز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہدایت دینا اور ہدایت پر قائم رکھنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو ہدایت دیتا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ ذکر آیا کہ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ﴾ (البقرة:4) کہ غیب پر ایمان بھی لاتے ہیں، نمازیں قائم

Page 415

خطبات مسرور جلد سوم 408 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.پس اگر ان چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمل کرتے ہوئے، سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کرتے رہو گے، تو اللہ تعالیٰ بھی سیدھے راستے پر چلائے گا.اس آیت میں جو میں نے پہلے پڑھی ہے اس میں اس بات کا ذکر فر مایا کہ اگر اللہ پر ایمان لانے والے اس بات کو سمجھ لیں اور اس کے لئے کوشش کریں کہ ہدایت پانے کے کیا طریق اختیار کرنے ہیں جن میں سے ایک طریق تو بتایا گیا کہ مال خرچ کرنا بھی ہے تو ہدایت پر قائم رہو گے اور دوسری نیکیاں کرنے کی بھی توفیق ملتی رہے گی.اور اس زمانے میں جب مال بے انتہا عزیز ہو چکا ہے یا اس کو جمع کرنے کا شوق ہے یا نفسانی لذات کی خاطر خرچ کرنے کا شوق ہے.تو اس زمانے میں جو مال تم خدا کی راہ میں خرچ کرو گے، آج جو مال تم خدا کی راہ میں خرچ کرو گے، وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمیٹنے والا ہو گا.اور اللہ ایسے لوگوں کو جو اللہ کی رضا کی خاطر خرچ کرتے ہیں.ہدایت پر قائم رکھتا ہے.اس کا اس مال کے خرچ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ خرچ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو رہا ہوتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ بھی اپنے فضلوں سے حصہ دیتے ہوئے ہدایت پر قائم رکھتا ہے.اور پھر یہ بھی ہمارے لئے خوشخبری ہے کہ جس طرح اولین کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرما دیا کہ اب میری ہدایات پر چلنے کے بعد تمہارے سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوگا جو میری مرضی کے خلاف ہو، جیسا کہ اس آیت میں فرمایا، میری رضا کی خاطر خرچ کرتے ہیں، اس کے علاوہ خرچ ہی نہیں کرتے اس لئے تمہارے خرچ صرف میری مرضی حاصل کرنے کے لئے ہیں.تو اسی طرح ہمیں آخرین کو پہلوں سے ملنے کی خوشخبری دے کر یہ بتا دیا کہ آج تم بھی اگر اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس طرح خرچ کرو جس طرح اولین نے کئے تھے اور وہ یہ کہ تمہارے خرچ اس کی رضا حاصل کرنے کے علاوہ اور کسی مقصد کے لئے نہ ہوں.اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ایسے ہیں جن کی سوچ ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کرنا ہے.اور پھر جب اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ ہو رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اس پیسے کو اپنے پاس نہیں رکھ لیتا بلکہ جیسا کہ آیت میں ذکر آیا، ایک

Page 416

خطبات مسرور جلد سوم 409 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء فائدہ تو یہ ہے کہ ہدایت تمہارے لئے مستقل حصہ بن جائے گی ہم مستقل ہدایت پہ قائم رہو گے.ایک دفعہ اگر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ انعام دیا ہے کہ احمدیت کو قبول کر لیا تو اس پر قائم رہنے کے لئے یہ خرچ تمہیں ایک سہارے کا کام دیں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ اب اس ذریعہ سے تمہیں خود ہدایت دے گا.اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہ کئی گنا ہو کر واپس مل جائے گا.جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا کر دیتا ہے.تو اللہ تعالیٰ تو کسی سے کوئی زیادتی نہیں کرتا بلکہ زیادتی کا کیا سوال ہے اللہ تعالیٰ تو احسان کرنے والوں میں سے ہے.جیسا کہ کہتا ہے کہ میں بڑھا کے دیتا ہوں اور سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا کے دیتا ہوں.تو جو احمدی اس جذبے سے چندے دیتے ہیں، اُس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے ہیں.اور جنہوں نے یہ نکتہ سمجھ لیا وہ یہ پرواہ نہیں کرتے کہ کتنے ملین ڈالر ز یا کتنے ملین پونڈ خرچ ہو رہا ہوگا ، وہ بے دھڑک خرچ کرنے والوں میں سے ہوتے ہیں.تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جولوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے ہیں اور یہ فضل اس بات کی فعلی شہادت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو قبول کر لیا ہے، اور کئی گنا بڑھا کر دیا.اور یہ ہر اس احمدی کے لئے جس نے حضرت مسیح موعود کو مانا، آپ کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ایک عملی دلیل ہے جس کو احمدی اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے ہیں.اور یہ بات ایمان میں مزید پختگی پیدا کرتی ہے کہ یقینا ہم ہی وہ آخرین ہیں جن کے پہلوں کے ساتھ ملنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.غرض اگر غور کریں تو ہر بچے احمدی کا اپنا وجود ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے.اور اس بات پر گواہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے والے لوگ ہیں.مالی قربانیوں کے ضمن میں.U.K جماعت کا بھی ذکر کر دوں.دنیا یہ نہ سمجھے کہ دوروں سے بس باہر کی جماعتیں ہی فائدہ اٹھا رہی ہیں اور یو کے میں گزشتہ بیس بائیس سال سے یہاں خلافت کا مرکز ہے اس قرب کی وجہ سے شاید یہ لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے یا بھول گئے ہیں، یا اہمیت کا اندازہ نہیں ہے.اگر یہ غلط فہمی ہے کسی کی تو دور کر لینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے.U.K کی

Page 417

خطبات مسرور جلد سوم 410 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء جماعت بھی قربانیوں میں بہت بڑھی ہوئی ہے اور ہر آواز پر، ہر تحریک پر صف اول میں شمار ہونے والوں میں ہے.یہاں بھی اخلاص اور نیکیوں میں بڑھنے کے نمونے اللہ تعالیٰ کے فضل سے موجود ہیں جو ہمیں دوسری احمدی دنیا میں نظر آتے ہیں.خلافت سے محبت و عشق ان میں بھی کم نہیں ، جس کے نظارے ہمیں مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر نظر آتے ہیں.جس طرح ان لوگوں نے گزشتہ بیس بائیس سال میں، بلکہ تئیس سال میں خلیفہ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے مستقل بعض کام کئے ہیں اور کر رہے ہیں اور والنٹیئر ز یا عارضی کارکنان کے ذریعہ سے یہ سب کام سنبھالے ہوئے ہیں یہ انتہائی قابل قدر چیز ہے.پس آپ.U.K والے بھی ، جو یہاں میرے سامنے بیٹھ ہوئے ہیں، جو باتیں میں دوسری دنیا کی اپنے دوروں کی بیان کر رہا ہوتا ہوں سن کر مایوس نہ ہو جایا کریں کہ ہم کیا کر رہے ہیں.آپ بھی ماشاء اللہ قربانیوں میں بڑھنے والوں میں شامل ہیں.حضرت خلیفہ اسی الرابع رحمہ اللہ نے جب اس مسجد کو بنانے کی تحریک کی تھی تو.U.K کی جماعت نے بھی ماشاء اللہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پھر بعض وجوہ کی وجہ سے جب خرچ تقریبا دو گنے کے قریب ہو گیا، زیادہ ہو گیا، دوبارہ تحریک کرنی پڑی تو آپ لوگ تھک کر بیٹھ نہیں گئے تھے.حضور کی تحریک پر دوبارہ اسی طرح بڑھ چڑھ کر آپ نے حصہ لیا اور یہ خوبصورت اور ایک شاندار مسجد یورپ کے دل میں بنادی.یہ ٹھیک ہے کہ اس میں باہر کی جماعتوں نے بھی حصہ لیا، ان کی بھی قربانیاں شامل ہیں لیکن.U.K کی جماعت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی ، بلکہ بہت بڑا حصہ ان کا ہے.اور ابھی تک بعض چھوٹے کام ہورہے ہیں اور مستقل خرچ ہو رہے ہیں تو دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ یہ ابھی تک اس مسجد پر خرچ کر رہے ہیں.پھر برمنگھم میں گزشتہ سال ایک خوبصورت مسجد بنی.وہاں کی جماعت نے بھی اپنے شہر میں مسجد بنا کر ایک خوبصورت اضافہ کیا.پھر جب میں نے ہارٹلے پول اور بریڈ فورڈ کی مسجد کے لئے تحریک کی تو پھر.U.K کی جماعت نے غیر معمولی قربانیاں دیں.انصار اللہ نے بھی ، لجنہ نے بھی اور دوسری جماعت کے افراد نے بھی.تو یہ جو ہر جگہ غیر معمولی قربانی کے نظارے ہمیں یہاں بھی نظر آتے ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ سے پیار اور اس کی رضا حاصل کرنے کی طرف قدم ہی ہیں نا.

Page 418

خطبات مسرور جلد سوم 411 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے تو اپنی پسندیدہ چیزیں، اپنی محبوب چیز میں خرچ کروں تبھی پتہ چلے گا کہ واقعی تم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کر رہے ہو کہ نہیں.ورنہ تو یہ تمہارے دعوے ہوں گے کہ ہم نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے والے ہیں.جیسا کہ فرماتا ہے لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ﴾ آل عمران: 93) یعنی تم کامل نیکی کو ہر گز نہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے خدا کے لئے خرچ نہ کرو.تو یہاں اس حکم میں بھی جماعت نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر عمل کرنے کی کوشش کی ہے.اور اس حکم کے مطابق خرچ کرنے کے نمونے جہاں ہمیں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اور دوسرے ملکوں میں ملتے ہیں وہاں یو.کے بھی کسی سے کم نہیں ہے.مردوں اور عورتوں نے بڑھ چڑھ کر یہ نمونے قائم کئے ہیں.خاص طور پر میں عورتوں کا ذکر کروں گا.ان کی پسندیدہ چیز زیور ہوتی ہے جس کو وہ بڑے شوق سے بناتی ہیں اور ان کے لئے سب سے پسندیدہ مال یہی ہے.لیکن احمدی عورت جس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی مقصود ہے اس نے ہمیشہ اپنی اس پسندیدہ چیز کو جماعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیش کیا.اور احمدیت کی تاریخ میں ابتداء سے لے کے آج تک کرتی چلی آ رہی ہیں.اور.U.K کی عورتوں نے بھی یہ نظارے ہمیں دکھائے ہیں.ایسی عورتیں بھی ہیں جنہوں نے ہر تحریک پر اپنا کوئی نہ کوئی زیور نکال کر پیش کر دیا.یہاں تک کہ اپنے آخری زیور چوڑیاں یا بالیاں جو بھی تھیں وہ بھی دے دیں، خالی ہاتھ ہو گئیں.بعض ان کے پاس بزرگوں کی نشانیاں تھیں وہ بھی پیش کر دیں.پھر اگر خاوند نے یا ان کے ماں باپ نے اور زیور بنا کر دیئے تو وہ بھی لا کر پیش کر دیئے.کئی ایسی آئی ہیں میرے پاس کہ یہ بھی آپ کسی تحریک میں شامل کر لیں.تو یہ مثالیں احمدی عورت میں ہی ہمیں نظر آتی ہیں.کینیڈا میں لجنہ کی سیکرٹری مال بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگیں کہ یہاں کی عورتوں کے لئے دعا کریں کہ اس طرح مختلف تحریکات میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے زیور پیش کئے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح قرآن کے حکم کے مطابق اپنی پسندیدہ چیز کو پیش کر رہی ہیں.تو میں نے ان کو یہی کہا تھا کہ یہی تو ایک احمدی عورت کی خوبصورتی ہے، یہی تو اس کا حسن ہے کہ اپنے

Page 419

خطبات مسرور جلد سوم 412 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء ظاہری دنیاوی زینت کے سامان کو ، اس کو جس سے وہ محبت کرتی ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت کی زینت بنانے کے لئے اور خدا کے گھر کی تعمیر اور زینت کے لئے قربان کر دیتی ہیں.اور یہ نظارے ہمیں احمدی دنیا میں ہر جگہ نظر آتے ہیں.یہ پسندیدہ مال خرچ کرنے والی جہاں ہمیں کینیڈا میں نظر آتی ہیں وہاں.U.K میں بھی، جرمنی میں بھی ہیں، پاکستان جیسے غریب ملک میں بھی ہیں، جہاں غریب کی کل جمع پونچی ایک آدھ زیور ہوتا ہے.اور یہ بھی پھر کوئی امید نہیں ہوتی کہ شاید کبھی اور بھی زیور بنانے کا موقع مل جائے.لیکن وہ بڑے شوق.ނ آکر پیش کرتی ہیں.غرض دنیا کے ہر ملک میں یہی نمونے نظر آتے ہیں.اور یہی نشانی ہے زندہ قوموں کی کہ ان کی مائیں، بیٹیاں قربانی کے میدان میں اپنے باپوں ، بیٹوں سے پیچھے نہیں رہتیں.کسی صورت میں بھی پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتیں.پس جب تک یہ نمونے قائم رہیں گے، خدا تعالیٰ کی رضا کی اس کی عبادت کرنے کی کوشش اور خواہش رہے گی اور اس پر عمل کرتے رہیں گے.ہر احمدی مرد، عورت، بچہ، بوڑھا اپنی عبادتوں کے ساتھ ، اپنی مالی قربانیوں کو بھی زندہ رکھے گا، تو انشاء اللہ تعالیٰ ، خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا ہو گا، اس کی رضا حاصل کرنے والا ہوگا اور کبھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھے گا.اس کے مال میں بھی برکت پڑے گی انشاء اللہ تعالیٰ اور اس کی اولا د میں بھی برکت پڑے گی.ایک بات اور میں یہاں کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں اس ملک میں جب تک حالات کی وجہ سے جلسہ.U.K کو مرکزی حیثیت حاصل رہے گی.کیونکہ یہ تو یقین ہے کہ یہاں رہائش کی وجہ سے خلیفہ وقت نے شامل ہونا ہے.باقی ملکوں میں تو ضروری نہیں کہ ہر جلسے میں شامل ہوا جائے تو اس وجہ سے یہاں دنیا کے مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور آتے ہیں.تو جیسا کہ میں نے کہا جب تک اس کی مرکزی حیثیت ہے یا حاصل رہے گی.U.K جماعت کو زیادہ قربانی دینی پڑتی ہے.جس میں مالی قربانی کے علاوہ وقت کی قربانی بھی ہے اور ابھی تک ما شاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ذمہ داری کو.U.K کی جماعت نے خوب نبھایا ہے.اب پھر جلسہ قریب آ رہا ہے، میں دن رہ گئے ہیں.اس سال جماعت نے یہ فیصلہ کیا

Page 420

خطبات مسرور جلد سوم 413 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005 ء ہے، اسلام آباد میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے جلسہ کے لئے متبادل جگہ کرائے پر لی گئی ہے.تو اس سال انشاء اللہ وہاں جلسہ ہو گا.اور اس کی وجہ سے انتظامات بھی دو جگہ بٹ جائیں گے.کچھ انتظامات اسلام آباد میں رہیں گے، کچھ دوسری جگہ پہ چلے جائیں گے.شاید بعض انتظامی وقتیں بھی پیدا ہوں.دو جگہ کام کی وجہ سے والنٹیئر ز کو شاید بعض شعبہ جات میں زیادہ دقت اور زیادہ توجہ سے کام کرنا پڑے.تو اُن کو اپنے آپ کو بھی ذہنی طور پر تیار کر لینا چاہئے کہ اس دفعہ ایک نیا تجربہ ہے اس لحاظ سے کچھ مختلف کام کی نوعیت ہو سکتی ہے.بعض انتظام نئی جگہ پر عارضی ہوں گے، کیونکہ بعض مستقل انتظامات اسلام آباد میں تھے جو وہاں نہیں ہو سکتے ، بہت سے کام شاید اس عارضی انتظام کی وجہ سے معیاری نہ ہو سکیں.کیونکہ کرائے کی جگہ ہے اس لئے مستقل انتظام بھی نہیں کیا جاسکتا.تو کارکنان کو بھی جہاں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ عارضی انتظام سے کس طرح بھر پور فائدہ اٹھانا ہے وہاں مہمانوں سے بھی میں کہوں گا، مہمان آنے بھی شروع ہو گئے ہیں کچھ جلد آنے والے ہیں کہ بعض کمیوں اور خامیوں کو اس سال برداشت کریں جو ہو سکتا ہے کہ پیدا ہو جائیں.لیکن اس کے ساتھ ہی.UK جماعت کو میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ جماعت.U.K کو جلسے کے لئے اب کوئی وسیع جگہ مستقل تلاش کرنی ہوگی.ملکی جماعت کی انتظامیہ،امیر صاحب وغیرہ اس کے لئے کوشش کر بھی رہے ہیں.لیکن کتنی جلدی یہ جگہ ملتی ہے پتہ نہیں.اور اگر جگہ مل گئی تو پھر جب اس کو خریدنے کا بھی وقت آئے گا تو جماعت یو.کے نے اس کو اپنے وسائل سے ہی خریدنا ہے.اس لئے ابھی سے میں احباب کو توجہ دلا دوں، ذہنی طور پر تیار ہو جائیں کہ آپ کو ایک اور مزید قربانی کرنے پڑے گی.جب تحریک کا وقت آئے گا تو انشاء اللہ تحریک بھی کر دوں گا.اور ہو سکتا ہے کہ جلد ہی کوئی صورت پیدا ہو جائے اور جلد ہی اس طرف توجہ کرنی پڑے.اس لئے آپ لوگ ہمیشہ کی طرح کمر ہمت کس لیں ، اپنی ہمتوں کو بڑھائیں ، خدا تعالیٰ انشاء اللہ آپ کی تو فیقوں کو بڑھائے گا.اب تو یہاں نئے آنے والے بہت سے جماعت میں شامل ہو چکے ہیں.نئے آنے والوں سے میری مراد جو یورپ کے مختلف ممالک سے آئے ہیں ، یہاں آ کر آباد ہو گئے ہیں.

Page 421

خطبات مسرور جلد سوم 414 خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء اب تعداد میں بھی کافی اضافہ ہو چکا ہے یہاں کی جماعت میں.تو اس نسبت سے بلکہ اس سے بڑھ کر قربانیوں میں بھی اضافہ ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے.جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ جلسے میں صرف ہیں دن رہ گئے ہیں.جلسے کی ایک بہت اہم چیز اس کے کامیاب انعقاد کے لئے اور انتظامات کے لئے دعائیں ہر ایک کو کرنی چاہئیں.وہ ابھی سے شروع کر دیں، کہ اللہ تعالیٰ ہر کی ، خامی اور کمزوری کو دور فرمائے.کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنے فضل سے ان کمیوں کو دور کر سکتا ہے.نئی جگہ ہے بہت ساری کمیاں نظر آ رہی ہیں اور جب موقع آئے گا تو مزید ابھریں گی.اس لئے پر دہ پوشی بھی فرمائے اور جس حد تک جو سہولت میسر ہو سکتی ہے اس میں مدد فرمائے.اس دفعہ یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ عارضی انتظام کے تحت ہم یہ جلسے کے انتظامات کر سکتے ہیں کہ نہیں.گو جرمنی میں کینیڈ اوغیرہ میں بھی جلسہ کرائے کی جگہ پر ہوتا ہے.لیکن وہاں بعض انتظامات کی سہولتیں بھی ہیں جو ان کو میسر ہیں.ہال ہیں اور انفراسٹرکچر سارا موجود ہے جو یہاں اس جگہ پر اس گراؤنڈ میں نہیں ہے.اس لئے وقتیں بہر حال پیدا ہوں گی اور اس لئے میں کہہ رہا ہوں خاص طور پر دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے دور فرمائے.اس جلسے سے یہ بھی پتہ لگ جائے گا کہ آئندہ آپ کے لئے مستقل انتظام کتنا ضروری ہے.اور اگر یہ عارضی انتظام ہی چلنا ہے تو کتنا عرصہ اسے چلنے دیا جائے.لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں اپنی مستقل جگہ کا انتظام کرنا ہی پڑے گا.یہ عارضی انتظام بہت مشکل ہوں گے.اس کے لئے بھی بہت زیادہ دعا کریں.اللہ تعالیٰ مدد فرمائے اور اس کے لئے اگر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ مالی قربانی کی ضرورت پڑی تو آپ کی تو فیقوں کو بھی بڑھائے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور دنیا میں ہر جگہ ہر احمدی کو بھی نیکیوں میں آگے بڑھنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا بنائے تا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی ہدایت کے راستوں پر ہمیں چلاتا رہے.آمین.

Page 422

خطبات مسرور جلد سوم 415 (27) خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء امانت، دیانت اور عہد کی پابندی سے متعلق آنحضرت صلی الہ العلیم کے ارشادات اور آپ کی پاکیزہ سیرت خطبه جمعه فرمودہ 15 جولائی 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.پھر فرمایا:.وَالَّذِينَ هُمْ لِاَمَتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَعُونَ ) (المؤمنون: 9) اپنے بیرونی ممالک کے دوروں سے پہلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مضمون بیان کر رہا تھا اور خیال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خُلق اور سیرت کے ہر پہلو کو کچھ حد تک بیان کروں.لیکن پھر دوروں کی وجہ سے وہاں کی مقامی ملکی ضرورت کے مطابق خطبات اور تقاریر ہوتی رہیں.میرا خیال تھا کہ سفر میں بھی اس مضمون کو جاری رکھوں گا مگر جیسا کہ میں نے کہا که مقامی ضروریات کی وجہ سے وہاں دوسرے مضمون بیان ہوتے رہے.گوجیسا کہ میرا طریق ہے ان خطبات میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور نصائح کے مطابق ہی مختلف تربیتی مضامین بیان ہوتے رہے، مگر سوائے کینیڈا کے جلسے کی ایک تقریر کے آپ کی سیرت کے کسی خاص پہلو کو لے کر خطبات کا سلسلہ نہیں چل سکا.بہر حال آج پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا

Page 423

خطبات مسرور جلد سوم 416 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء ہی مضمون بیان کرنے لگا ہوں اور انشاء اللہ مختلف خطبات میں بیان ہوتا رہے گا.لیکن بیچ میں ہوسکتا ہے کہ جلسوں کی وجہ سے پھر دوسرے مضامین بھی آتے رہیں.بہر حال جیسے کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ان خطبات میں آپ کی سیرت کے ہر پہلو کا بیان ناممکن ہے، یہ بیان ہو ہی نہیں سکتا.لیکن مختلف پہلوؤں کی جو چند جھلکیاں ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بھی چند ایک سننے اور پڑھنے کے بعد جو ایک مومن میں تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے، اگر وہ نیک نیت ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو سُنے اور پڑھے، وہ تبدیلی یقیناً ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بننے کی طرف لے جانے والی ہو گی.اللہ تعالیٰ آج بھی ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام قرب اور قوت قدسی کی برکت سے اس اسوہ پر اور تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے جو آپ نے ہمیں دی اپنا قرب عطا فرما سکتا ہے اور فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں 280 اس کی توفیق دے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اور اس کا آپ کے ذریعہ اعلان بھی فرمایا جیسا کہ فرمایا کہ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ - وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران : 32 ) یعنی تو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو.اس صورت میں وہ بھی تم سے محبت کرے گا.اور تمہارے قصور بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.تو دیکھیں بڑا واضح ارشاد ہے کہ آپ کی محبت اور اس محبت کی وجہ سے آپ کی اتباع ایک زمانے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہمیشہ رہنے والا اور جاری حکم ہے.یہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا قرب پاؤ گے.اور اب اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلو تا کہ خدا کا پیار حاصل کر سکو اور اس کا قرب پاسکو.اللہ تعالیٰ اس اہم نکتے کو ہر احمدی کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوہ کے جس پہلو کا میں ذکر کر نے لگا ہوں وہ ہے امانت و دیانت اور عہد کی پابندی.یہ ایک ایسا خلق ہے جس کی آج ہمیں ہر طبقے

Page 424

خطبات مسرور جلد سوم 417 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء میں ، ہر ملک میں، ہر قوم میں کسی نہ کسی رنگ میں کمی نظر آتی ہے اور اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے.بظاہر جو ایماندار نظر آتے ہیں، عہدوں کے پابند نظر آتے ہیں، جب اپنے مفاد ہوں تو نہ امانت رہتی ہے نہ دیانت رہتی ہے، نہ عہدوں کی پابندی رہتی ہے.دو معیار اپنائے ہوئے ہیں لیکن ہمارے بادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے ، اپنے اسوہ سے، اپنی امت کو ان باتوں کی پابندی کرتے ہوئے عمل کرنے کی نصیحت فرمائی ہے اور امانت و دیانت اور عہدوں کی پابندی کے اعلیٰ معیار قائم کئے ہیں.اب وہی معیار ہیں جن پر چل کر انسان اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکتا ہے.اس سے باہر کوئی چیز نہیں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی اس میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی نگرانی کرنے والے ہیں.اس پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے ہمارے آ قا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے تبھی تو حضرت عائشہ نے کہا تھا کہ آپ کے اخلاق کے لئے قرآن کریم کی تعلیم دیکھ لو.یعنی آپ کا ہر فعل قرآنی تعلیم کے مطابق تھا.اب دیکھیں آج کل بھی جنگیں ہوتی ہیں.اپنے آپ کو بڑی پڑھی لکھی اور مہذب کہنے والی قو میں کمزور قوموں کو نیچا دکھانے کے لئے ایسے حربے استعمال کر رہی ہوتی ہیں کہ انسانیت کو شرم آئے.جنگوں کی وجہ سے بغض اور کینے کی آگ اس قدر بھڑک رہی ہوتی ہے کہ مقصد صرف اور صرف دوسری قوم کو ذلیل ورسوا کرنا اور تباہ کرنا ہوتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے اسلام پھیلانے کے لئے جنگیں کیں یا اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے جنگیں کیں.یہ سب الزام اور بہتان ہیں، اس وقت میں اس موضوع پر تو بات نہیں کر رہا لیکن ایک جنگ کے دوران کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حالت میں، جبکہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح دشمن کو ایسی حالت میں لایا جائے جس سے وہ مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دے، آپ نے امانت و دیانت کے کیا اعلیٰ نمونے دکھائے اور تاریخ اس کی گواہ ہے.جب اسلامی فوجوں نے خیبر کوگھیرا تو اس وقت وہاں کے ایک یہودی سردار کا ایک ملازم ، ایک خادم، ایک جانور چرانے والا جانوروں کا نگران جانوروں سمیت اسلامی لشکر

Page 425

خطبات مسرور جلد سوم 418 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء کے علاقے میں آگیا اور مسلمان ہو گیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں تو اب مسلمان ہو گیا ہوں ، واپس جانا نہیں چاہتا، یہ بکریاں میرے پاس ہیں، ان کا اب میں کیا کروں.ان کا مالک یہودی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بکریوں کا منہ قلعے کی طرف پھیر کر ہانک دو.وہ خود اس کے مالک کے پاس پہنچ جائیں گی.چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا اور قلعہ والوں نے وہ بکریاں وصول کر لیں ، قلعے کے اندر لے گئے.تو دیکھیں یہ ہے وہ امانت و دیانت کا اعلیٰ نمونہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا.کیا آج کوئی جنگوں میں اس بات کا خیال رکھتا ہے.نہیں، بلکہ معمولی رنجشوں میں بھی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی ، ایک دوسرے کا پیسہ مارنے کی اگر کسی نے کسی سے لیا ہو تو ، کوشش کی جاتی ہے.یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی احساس تھا کہ اس حالت میں بھی جبکہ دشمن کے مال پر قبضہ مل رہا تھا ، اس طرح کے قبضے کو نا جائز سمجھا.اس محاصرے کی وجہ سے، اس گھیرے کی وجہ سے جو قلعے کا تھا، باہر سے تو خوراک اندر جا نہیں سکتی تھی اور یہ بکریاں جو تھیں یہ قلعے والوں کے لئے کچھ عرصے کے لئے خوراک کا سامان مہیا کر سکتی تھیں.محاصرہ لمبا بھی ہو سکتا تھا، لڑائی لمبی بھی ہو سکتی تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ برداشت نہ کیا کہ ایک شخص جو کسی کے مال کا امین بنایا گیا ہے اور اب مسلمان ہو چکا ہے وہ مسلمان ہو کر کسی خیانت کا مرتکب ہو.اور اس شخص کو اسلام لاتے ہی پہلا سبق یہ دیا کہ امانت میں کبھی خیانت نہیں کرنی چاہئے.جیسے بھی حالت ہو تم نے خدا تعالیٰ کے اس حکم کی ہمیشہ تعمیل کرنی ہے کہ اپنی امانتوں کی نگرانی کرو.ان کو واپس لوٹاؤ.اس نگرانی سے کبھی بے پرواہ نہ ہو.پس یہ ہے ایسے حالات میں آپ کا امانت و دیانت کا اعلیٰ معیار.اس وقت جب جنگ ہو رہی تھی شاید مسلمانوں کو بھی خوراک کی ضرورت ہو اور وہ بکریاں ان کے کام آسکتی تھیں اور بعضوں کے نزدیک شاید یہ جائز بھی ہو کہ یہ مال غنیمت کے زمرہ میں آتا ہے.لیکن آپ نے فرمایا: نہیں یہ ناجائز ہے، خیانت ہے.اور نا جائز اور خیانت سے لیا ہوا مال مسلمان پر حرام ہے.پس یہ سبق ہیں اور یہ اسوہ ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیں دیا.اب اس کی مختلف مواقع کی چند اور مثالیں ہیں وہ میں پیش کرتا ہوں.

Page 426

خطبات مسرور جلد سوم 419 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء آپ کی پاک فطرت میں امانت و دیانت اور عہدوں کی پابندی کا اعلیٰ خلق دعوی نبوت سے پہلے بھی تھا.اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور قرآنی تعلیم نے اس کو مزید اجاگر کیا اور مزید نکھارا.وہ واقعہ بھی دیکھیں جس سے آپ کے مختلف اخلاق اور اخلاقی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے.اس میں ایک سبق یہ بھی ہے جو کہ عہد کی پابندی کے بارے میں ہے.دعویٰ نبوت سے پہلے مکہ کے چند شرفاء نے مل کر لوگوں کے بعض حقوق قائم کرنے کے لئے ، ان کو حقوق دلوانے کے لئے انسانیت کی خدمت کے لئے ایک معاہدہ کیا تھا جس کا نام حلف الفضول تھا.اس معاہدے کے تحت جب ایک مظلوم نے اس معاہدے کا حوالہ دے کر آپ سے مدد کی درخواست کی تو آپ فوراً اٹھے اور گو دعوی نبوت کے بعد آپ پر بڑے سخت حالات تھے اور ابو جہل تو مخالفین میں سب سے زیادہ بڑھا ہوا تھا لیکن اس عہد کی وجہ سے جو آپ نے کیا تھا.بہت پہلے کا کیا ہوا عہد تھا، جس میں سے بہتوں نے تو شاید اس عہد کو تو ڑ بھی دیا ہو یا بھول بھی ہو گئے ہوں لیکن کیونکہ آپ ایک دفعہ عہد کر چکے تھے اس لئے اس کو آپ نے ان حالات میں بھی نبھایا.آپ فوراً اس شخص کی مدد کے لئے ابو جہل کے پاس گئے اور اس کا حق اس کو دلوایا.آپ کی امانت و دیانت جوانی میں ہی اس قدر مشہور تھی کہ قریش مکہ آپ کو ہمیشہ جوانی کے دوران بھی امین کے نام سے پکارا کرتے تھے.اس لئے جب حجر اسود کے رکھنے کے بارے میں ایک فیصلے کے تحت سرداران قریش سب سے پہلے آنے والے کا انتظار کر رہے تھے کہ صبح جو بھی سب سے پہلے آئے گا اس سے فیصلہ کروائیں گے.تو انہوں نے جب آپ کو آتے دیکھا تو بے اختیار هذا الامین ان کے منہ سے نکلا کہ یہ تو امین ہے.یقینا یہ بہترین فیصلہ کریں گے.اور پھر دنیا نے دیکھا کہ آپ نے کیا خوبصورت فیصلہ فرمایا.تمام گروہوں کی تسلی ہو گئی.نبوت سے پہلے کا یہ ذکر ہے.ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بعثت سے پہلے ایک سودا کیا.میرے ذمے کچھ رقم تھی ، ادا کرنی رہ گئی تھی.تو میں نے کہا آپ اسی جگہ ٹھہریں میں بقیہ رقم لے کر آیا.گھر آنے پر کہتے ہیں میں

Page 427

خطبات مسرور جلد سوم 420 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء بھول گیا.کہتے ہیں مجھے تین دن کے بعد یاد آیا.پس میں گیا تو دیکھا کہ آپ اسی جگہ کھڑے ہیں.مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا اے نوجوان! تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا.میں تین دن سے اس جگہ تیرا انتظار کر رہا ہوں.(ابوداؤد - كتاب الأدب- باب في العدة) یعنی عہد کا اتنا پاس تھا.اس سے کہہ دیا ٹھیک ہے میں تمہارے انتظار میں یہاں کھڑا ہوں.اور کیونکہ ایک بات منہ سے نکال دی تھی کہ انتظار میں کھڑا ہوں اس لئے تین دن تک مختلف اوقات میں وہاں جاتے رہے، دیکھتے رہے اور خاص طور پر اس وقت جس وقت وہ کہہ کے گیا تھا که انتظار کریں آپ وہاں جا کے انتظار کرتے رہے.تو یہ معیار تھے جو آپ نے اپنی بات کے، اپنے وعدوں کے، اپنے عہدوں کے قائم کئے.پھر نو جوانی کے زمانے کی یہ روایت ہے جب حضرت خدیجہ نے اپنا مال تجارت دے کر آپ کو بھیجا اور ایک غلام جو ساتھ بھیجا تھا.اس نے جب آپ کی امانت و دیانت کی تصویر کھینچی تو حضرت خدیجہ نے اس سے متاثر ہو کر آپ کو رشتے کا پیغام بھیجا.پھر مکہ والوں میں سے ہی ، ان دنوں میں جب آپ نے نبوت کا دعوی کیا تو ایک شخص نے آپ کے بارے میں گواہی دی.یہ شخص نضر بن حارث ہیں.انہوں نے تمام قریش کو مخاطب کر کے یہ اعلان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں ایک چھوٹا لڑکا تھا تم میں پلا بڑھا تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت کا مالک ہے، تم میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہے، اور تم میں سے سب سے زیادہ امین ہے.جب تم نے اس کی کنپٹیوں میں بڑھاپے کے آثار دیکھے اور وہ تمہارے پاس وہ تعلیم لے کر آیا جس کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے تو تم نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ ساحر ہے.اللہ کی قسم وہ ہرگز ساحر نہیں ہے.(الشفاء لقاضي عياض - الباب الثاني الفصل العشرون عدله وامانته تو یه ساری خصوصیات جو آپ کی نوجوانی میں سب کو نظر آئیں اور قوم کے اس وقت جو شرفاء تھے ، انہوں نے اس پر گواہی بھی دی.تو دوسرے لوگ جو مخالفین تھے ، اعتراض کرنے والے تھے ، ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو ، ہم نے تو کبھی امین نہیں دیکھا.

Page 428

خطبات مسرور جلد سوم 421 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005 ء بلکہ سب خاموش ہو گئے.بلکہ آپ کے دعوی نبوت کے بعد بھی جب مخالفت زوروں پر تھی اور سردار آپ کے مخالف تھے مکہ کے رہنے والوں میں سے ہی لوگ تب بھی آپ کے پاس اپنی امانتیں رکھوا دیا کرتے تھے.کیونکہ پتہ تھا کہ یہی ایک امین شخص ہے جس کے پاس ہماری رکھی ہوئی امانت کبھی ضائع نہیں ہوگی.اور پھر دیکھیں آپ نے ان کا کیسے حق ادا کیا کہ جب آپ نے مکہ سے ہجرت کرنی تھی تو اس وقت بھی بہتوں کی امانتیں آپ کے پاس تھیں اور آپ نے اس کا انتظام فرمایا.اس بارے میں بھی دیکھیں کہ کیسی مثال قائم کی.اس وقت کفار آپ کے خون کے پیاسے تھے جب آپ نے ہجرت کا فیصلہ کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے حکم سے ، فیصلہ ہوا کہ آپ ہجرت کریں.اور پروگرام کے مطابق بڑی خاموشی سے ہجرت کی تھی.اگر آپ پہلے امانتیں لوٹانے کا انتظام فرماتے تو بات نکل جاتی ، خطرہ پیدا ہو جاتا.لیکن آپ کو اس بات کی بھی فکر تھی کہ لوگوں کی امانتیں ان تک پہنچ جائیں.کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہو کہ ہماری امانتیں دیئے بغیر چلے گئے.ہم تو امین سمجھے تھے آج ہم دھو کہ کھا گئے.یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا.تو اس کے لئے آپ نے یہ انتظام فرمایا کہ حضرت علیؓ کو مقرر کیا اور ان کے سپر دامانتیں کیں کہ جن جن لوگوں کی امانتیں ہیں ان کو لوٹا دینا.اور فرمایا اس وقت تک تم نے مکہ میں ہی رہنا ہے جب تک ہر ایک کو اس کی امانت نہ پہنچ جائے.پس اس صادق و امین نے اُس مشکل وقت میں بھی اپنے ایک جاں شار کو پابند فرمایا کہ اس شہر کے لوگوں نے تو مجھے نکالنے یا ختم کرنے کے سامان کئے ہیں.لیکن میرے امین ہونے کے اعلیٰ معیار کا تقاضا یہ ہے کہ اُن کی امانتوں کو محفوظ طریقہ سے اُن تک واپس پہنچایا جائے.پھر آپ نے جہاں امانت و دیانت کے یہ اعلیٰ نمونے دکھائے وہاں اُمت کو بھی نصیحت کی کہ اس کی مثالیں قائم کرو.اور پھر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی اس کا خیال رکھو.مثلاً میاں بیوی کے تعلقات ہیں.اس میں بھی آپ نے نصیحت فرمائی کہ یہ تعلقات امانت ہوتے ہیں ان کا خیال رکھو.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہوگی کہ ایک آدمی اپنی

Page 429

خطبات مسرور جلد سوم 422 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء بیوی سے تعلقات قائم کرے.پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے.( سنن ابي داؤد كتاب الأدب - باب فى نقل الحديث) آج کل کے معاشرے میں میاں بیوی کی آپس کی باتیں جو اُن کی ہوتی ہیں وہ لوگ اپنے ماں باپ کو بتا دیتے ہیں اور پھر اس سے بعض دفعہ بدمزگیاں پیدا ہوتی ہیں.لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.بعض دفعہ ماں باپ کو خود عادت ہوتی ہے کہ بچوں سے کرید کرید کے باتیں پوچھتے ہیں.پھر یہی جھگڑوں کا باعث بنتی ہیں.اس لئے آپ نے فرمایا: میاں بیوی کی یہ باتیں کسی بھی قسم کی باتیں ہوں نہ ان کا حق بنتا ہے کہ دوسروں کو بتا ئیں اور نہ دوسروں کو پوچھنی چاہئیں اور سنی چاہئیں.اگر اس نصیحت پر عمل کرنے والے ہوں تو بہت سارے جھگڑے میرے خیال میں خود بخود ختم ہو جائیں.پھر آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کو امانت لوٹا دے جس نے تم پر اعتماد کر کے تمہارے پاس امانت رکھی اور اس شخص سے بھی خیانت نہ کر جو تجھ سے خیانت کرتا ہے.( سنن الترمذي - ابواب البيوع - باب ما جاء في النهى للمسلم......یہ صرف نصیحت ہی نہیں بلکہ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ آئے ہیں آپ نے کس طرح امانتیں لوٹانے کا حق ادا کیا.پھر ہمیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ، حضرت ابو ہریرہ اس کی روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین علامتیں ہیں.جب گفتگو کرتا ہے تو کذب بیانی سے کام لیتا ہے، جھوٹ سے کام لیتا ہے.جب اس پر اعتماد کیا جاتا ہے تو وہ خیانت کرتا ہے.اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے.( بخاری کتاب الشهادات باب من امر بانجاز الوعد) تو یہ بہت خوف کا مقام ہے.اللہ ہر احمدی کو ایسی حالت سے محفوظ رکھے.اور ہر ایک کو ہمیشہ بچوں ، ایمانداروں اور عہدوں کی پابندی کرنے والوں میں شامل رکھے.ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ " لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَّا مَانَةَ لَهُ وَلَا

Page 430

خطبات مسرور جلد سوم 423 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء دِينَ لِمَنْ لَّا عَهْدَ لَهُ ، یعنی جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کی پابندی نہیں کرتا، اس کا پاس نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 135 مطبوعه بيروت) اپنے عمل سے امانتوں کے معیار قائم کرنے کے علاوہ عہد کے پورا کرنے کے بارے میں آپ نے کیا نمونے ہمیں دکھائے اور آپ کے عہد کے پابند ہونے کی دشمن نے کس طرح گواہی دی اس کی بھی ایک مثال دیکھ لیں.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوسفیان نے مجھ سے خود ذکر کیا کہ اس زمانے میں جبکہ ہمارے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تھا، میں شام کے علاقے میں تجارت کی غرض سے گیا.ابھی میں شام میں ہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغی خط قیصر روم ہرقل کے پاس پہنچا.یہ خط دخیه گلبی لائے تھے.انہوں نے بھر ی کے سردار کو یہ خط دیا کہ وہ ہر قل کے پاس آپ کا یہ خط پہنچا دے.جب یہ خط ہر قل کو ملا تو پوچھا کہ عرب میں جو شخص نبی ہونے کا دعوی کر رہا ہے کیا اس کی قوم کا کوئی آدمی یہاں ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں کچھ لوگ اس علاقے میں آئے ہوئے ہیں.چنانچہ مجھے قریش کی جماعت سمیت بلایا گیا.کہتے کہ جب ہم ہر قل کے دربار میں پہنچے تو ہمیں اس کے سامنے بٹھایا گیا.پھر ہر قل نے پوچھاتم میں اس عربی شخص کا جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کوئی قریبی رشتہ دار ہے؟ ابو سفیان کہتے ہیں میں نے کہا میں اس کا قریبی رشتہ دار ہوں.چنانچہ منتظمین نے مجھے ہر قل کے سامنے بٹھا دیا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا.پھر ہر قل نے ترجمان کو بلایا اور اسے کہا کہ ان لوگوں کو جو میرے سامنے بیٹھے ہیں کہو کہ میں اس شخص سے متعلق جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ابوسفیان سے بعض باتیں پوچھوں گا اگر یہ جھوٹ بولے تو تم مجھے پیچھے سے اشارہ کر کے بتا دینا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے.ابوسفیان کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میرے بیٹھنے والے ساتھی میرا جھوٹ ظاہر کر دیں گے تو میں ضرور کذب بیانی سے کام لیتا.تو بہر حال یہ ایک لمبی روایت ہے جہاں ہرقل نے بہت سے سوال پوچھے ان میں سے

Page 431

خطبات مسرور جلد سوم 424 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء ایک عہد کے بارے میں بھی تھا.ابو سفیان کہتے ہیں کہ سارے سوالوں کے بعد پھر اس نے جب مجھ سے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں) یہ پوچھا کہ کبھی اس نے غداری اور بدعہدی بھی کی ہے؟ تو میں نے کہا اس سے پہلے تو نہیں کی لیکن آج کل ہمارا اس سے صلح کا معاہدہ ہوا ہے ، نامعلوم اب وہ اس کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرے.ابوسفیان کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اس ساری گفتگو میں سوائے اس بات کے مجھے آپ کے خلاف کہنے کا کوئی اور موقع نہ ملا.تو بہر حال اس جواب پر ہر قل نے کہا کہ میں نے تم سے پوچھا کہ کبھی اس نے غداری کی ہے.تو تم نے کہا ہے کہ نہیں کی.یہی تو رسولوں کا نشان ہوتا ہے کہ وہ کبھی بد عہدی اور غداری نہیں کرتے.اور نہ ہی کبھی امانت میں خیانت کرتے ہیں.وہ قول کے پکے اور سچے ہوتے ہیں.پس دیکھیں وہاں رہنے والوں کا سینہ نہیں کھلا جبکہ ہر قل کو یہ بات سمجھ آ گئی.اللہ ہی ہے جو کسی کا سینہ کھولتا ہے.پھر صلح حدیبیہ کے معاہدے کی پابندی کے ضمن میں ہی عہد کی پابندی کا یہ واقعہ بھی عدیم المثال ہے، جس کا تاریخ میں یوں ذکر آتا ہے کہ ابھی صلح حدیبیہ کا صلح نامہ لکھا جارہا تھا کہ ابو جندل بن سہیل بن عمروز نجیروں سے بندھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی خدمت میں آئے جبکہ مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ پہلے تو بڑے ذوق وشوق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کی خبر سن کر مکہ کی زیارت اور فتح کی امید سے آئے تھے.اب جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح صلح کر کے واپس ہوتے دیکھا تو مسلمان بہت افسردہ دل ہو گئے اور قریب تھا کہ اس رنج سے ہلاک ہو جائیں.تو بہر حال سہیل بن عمرو نے اپنے بیٹے ابو جندل کو کھڑا دیکھا تو ایک طمانچہ اس کے منہ پر مارا اور حضور سے کہا اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے تمہارے درمیان قضیہ کا اس کے آنے سے پہلے فیصلہ ہو چکا ہے.یعنی میں اپنے بیٹے ابو جندل کو تمہارے ساتھ جانے نہ دوں گا.حالانکہ یہ بھی غلط بات تھی.بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو سچ کہتا ہے.سہیل نے ابو جندل کو کھینچ کے پیچھے کرنا چاہا تا کہ قریش میں پہنچا دے.ابو جندل نے شور کرنا شروع کر دیا کہ یا رسول اللہ ! اور اے مسلمانو! کیا میں کافروں میں واپس کر دیا جاؤں گا تا کہ وہ مجھ کو تکلیفیں پہنچا ئیں.مسلمانوں کو اس سے بہت قلق ہوا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے

Page 432

خطبات مسرور جلد سوم 425 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء ابو جندل ! تم چند روز اور صبر کرو.عنقریب خدا وند تعالیٰ تمہارے واسطے کشادگی پیدا کرے گا.میں مجبور ہوں ” وَاَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى ذَلِكَ وَاعْطُوْنَا عَهْدَ اللَّهِ وَإِنَّا لَا نَغْدُرُ بِهِمْ “ کہ ہم نے اس بارے میں ایک دوسرے سے معاہدہ کر لیا ہے اور ہم ان سے کئے گئے عہد کی ہرگز بد عہدی نہیں کریں گے.(السيرة النبوية لابن هشام.امر الحديبية.ما أهم الناس من الصلح ومجئ ابي جندل) دیکھیں سب سے زیادہ تکلیف اور صدمہ تو آپ کو اس واقعے سے پہنچا ہو گا.لیکن آپ نے عہد کا پاس کیا.اس کی پابندی کی.حالانکہ عہد ابھی لکھا ہی گیا تھا.شاید اس کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی ہو.اور اس دوران ابو جندل وہاں پہنچ چکے تھے.لیکن آپ جو معاہدوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے تھے، آپ جو اس بات کا سب سے زیادہ ادراک رکھتے تھے کہ اپنے عہدوں کی پابندی اور نگرانی کرو.آپ نے فرمایا کہ صبر کرو، ہمیں مجبور ہوں اور عہد پر عمل کا پابند ہوں.اور پھر دیکھیں عہد کی پابندی کا اجر اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑا دیا اور ان مظلوموں اور مجبوروں کے صبر کا پھل کتنا بڑا دیا کہ خود کفار سے ہی ایسی حرکتیں سرزد ہو گئیں جن سے عہد ختم ہو گیا، معاہدہ ٹوٹ گیا اور آخر اس کے نتیجہ میں فتح مکہ ہوئی.پھر دیکھیں جنگوں میں اور خاص طور پر جنگ بدر میں جب مسلمان بہت ہی کمزور تھے.جتنی بھی مددمل جاتی اتنی ہی کافی تھی کیونکہ کفار بھر پور رنگ میں تیار ہو کر آئے تھے.آپ نے عہد کی پابندی کی خاطر دو اشخاص کو جنگ میں حصہ لینے سے روک دیا.اس واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ حذیفہ بن یمان روایت کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں شریک ہونے کے لئے مجھے یہ بات مانع ہوئی ، روک یہ بن گئی کہ میں اور ابو حُسَیل نکلے.وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہا کہ تم محمد (ﷺ) سے ملنے کا ارادہ رکھتے ہو.ہم نے کہا ہمارا یہ ارادہ نہیں ہے.ہمارا ارادہ صرف مدینہ جانے کا ہے.انہوں نے ہم سے عہد لے کر چھوڑا کہ ہم مدینہ جائیں گے اور محمد (ع) کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے.چنانچہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کو اس واقعہ سے جو ہمیں پیش آیا تھا آگاہ کیا.یہ سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں جاؤ اور ان سے کیا ہوا عہد پورا کرو.ہم ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی مد

Page 433

خطبات مسرور جلد سوم کریں گے.426 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء (مسلم - كتاب الجهاد - باب الوفاء بالعهد) دیکھیں یہ تھا آپ کا عمل.آدمیوں کی سخت ضرورت ہے.ایک ایک آدمی کی اہمیت ہے جنگ کی حالت میں کوئی بھی ایسی باتوں کو اہمیت نہیں دیتا.لیکن آپ نے فرمایا عہد کو نبھانا ضروری ہے.اللہ خود ہمارا مددگار ہوگا.اور پھر دیکھیں اللہ نے بھی کس طرح مدد فرمائی.پھر ایک اور واقعہ دیکھیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس باریکی سے آپ عہدوں کی پابندی فرمایا کرتے تھے.حسن بن علی بن ابی رافع بیان کرتے ہیں کہ ابو رافع رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ قریش نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا.جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت گھر کر گئی.اس پر میں نے کہا: یا رسول اللہ ! بخدا میں ان قریش کے ہاں واپس نہیں جاؤں گا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بدعہدی نہیں کیا کرتا اور نہ سفیروں کو قید کرتا ہوں.البتہ تم واپس جاؤ اور اگر تمہاری وہ کیفیت جو اس وقت ہے برقرار رہے ( یہ بھی پتہ لگ جائے گا کہ وقتی جوش تو نہیں ہے) تو واپس آ جانا.ابورافع کہتے ہیں کہ میں واپس گیا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا اور اسلام قبول کر لیا.(ابوداؤد - كتاب الجهاد.باب فى الامام يستجن به في العهود) تو ہر نئے مسلمان ہونے والے کو آپ نے پہلے دن سے ہی یہ سبق دیا کہ ایک تو امانت میں خیانت نہیں کرنی ، اس کا پہلے ذکر آ چکا ہے.دوسرے یہ کہ عہد کی پابندی کرنی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امین ہونے کی شان کی جو تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے اصل تو وہ شان ہے، اور یہ مثالیں اس کی چند معمولی جھلکیاں ہیں.آپ فرماتے ہیں.امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں ( یعنی تمام روحانی اور جسمانی نعمتیں ہیں ) جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے.اور پھر انسان کامل بر طبق آیت ان اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّوا الا منتِ إِلَى أَهْلِهَا ﴾ (النساء :59) (یعنی اس آیت کے مطابق

Page 434

خطبات مسرور جلد سوم 427 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005ء ک اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤْدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا ﴾ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کردو) اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے.یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے..اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولی ، ہمارے ہادی ، نبی امی صادق مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد پنجم صفحه 161-162) تو امانت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تمام طاقتوں کا اس کے موقع پر اور صحیح محل پر استعمال ہواور اظہار ہو.اور اس کی سب سے اعلیٰ صورت یہ ہے کہ یہ تمام طاقتیں اور صلاحیتیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق خرچ کیا جائے.جس میں خدا تعالیٰ کے حقوق بھی ادا ہوتے ہوں اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی ادا ہوتے ہوں.اور پھر یہی نہیں بلکہ زندگی کا ہر لمحہ اسی سوچ اور فکر میں گزرے کہ یہ حقوق ادا کرنے ہیں اور اپنی تمام طاقتیں اور صلاحیتیں اس کی تعلیم کے مطابق خرچ کرنی ہیں.تبھی کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے اپنی امانتوں کو اور عہدوں کو صحیح طور پر نبھایا اور ان کا حق ادا کیا.تو آپ نے فرمایا کہ جب ہم آنحضرت علی اللہ کی زندگی کا جائزہ لیں تو ان تمام اخلاق کا اعلیٰ ترین معیار ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے.اور یہی اسوۂ حسنہ ہے جو ہمارے سامنے ہے.اس کی پیروی سے ہمیں بھی خدا تعالیٰ کا قرب مل سکتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں.اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں.کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے.ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا اُن کا.وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گئے.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحه 19-20) اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنے عہدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان خوش قسمتوں میں شامل فرمائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے کی گئی دعاؤں کے وارث

Page 435

خطبات مسرور جلد سوم 428 خطبہ جمعہ 15 جولائی 2005 ء بننے والوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے لئے کی گئی دعاؤں کے وارث بننے والے ہوں.اور ہمیشہ اپنے عہدوں کا حق ادا کرنے والے، عہدوں کو پورا کرنے والے، اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہوں.ایک اور بات میں کہنی چاہتا ہوں.آجکل دنیا کے بعض ممالک میں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے اور جہاں با قاعدہ جماعت احمدیہ بھی ہے وہاں مخالفین بڑے سرگرم ہوئے ہوئے ہیں.ہماری پہنچ تو دنیاوی طاقت کے لحاظ سے نہ کسی دنیاوی بادشاہ تک یا صدر تک یا کسی اور تک ہے اور نہ ہی اُن پر ہمارا انحصار ہے.ہم تو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے اور اسی سے مدد مانگنے والے ہیں.اس لئے خاص طور پر ان دنوں میں بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر نشر سے محفوظ رکھے.خاص طور پر آج کل انڈونیشیا میں کافی فساد پھیلا ہوا ہے.گزشتہ دنوں میں وہاں ہمارا جلسہ ہورہا تھا اور مخالفین نے حملہ کیا.کچھ احمدی زخمی بھی ہوئے اور اس کے بعد خبریں آرہی تھیں کہ آج وہاں کے ایک شہر میں (اس کا نام مجھے بھول گیا ) وہاں حملے کا پروگرام تھا.تو آج انہوں نے جمعہ کے وقت وہ حملہ کیا ہے.اور کچھ احمدی وہاں زخمی بھی ہوئے ہیں اور انتظامیہ کا تعاون بھی نہ ہونے کے برابر ہے.مسجد انتظامیہ نے ہمارے آدمیوں سے خالی کروالی ہے.تو بہر حال اللہ تعالیٰ خود ہی ان مخالفین سے نمٹے اور جماعت کو ہر شر سے محفوظ رکھے.یہ تو بہر حال ہمیں پتہ ہے اور ہر ایک احمدی کو علم ہونا چاہئے کہ جماعت کی ترقی جب بھی ہوگی یہ باتیں بھی ہوں گی.دشمن کی حسرت کی آگ بھڑ کے گی.لیکن جب دشمن کی حسرت کی آگ بھڑکتی ہے تو احمدی کا بھی کام ہے کہ اور زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جائے اور دعائیں کرے.اپنے لئے دعائیں کرے، ایمان کی ترقی کے لئے دعائیں کرے، جو عہد بیعت باندھا ہے اس کو پورا کرنے کے لئے دعائیں کرے اور مجموعی طور پر جماعت کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر شر سے محفوظ رکھے.اور یہ بھی دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ متاثرہ احمدیوں کو بھی حوصلہ دے اور صبر دے اور استقامت دے اور ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے.اور ہر شر سے محفوظ رکھے.(آمین )

Page 436

خطبات مسرور جلد سوم 429 (28) خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء آنحضرت صلی للہا علم کی پاکیزہ سیرت کا ایک خلق مهمان نوازی جلسه سالانه برطانیه کے حوالہ سے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے سے متعلق تاكيدى نصائح خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن.برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :.مہمان نوازی انبیاء کے خُلق میں سے ایک اعلیٰ خلق ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں اس کو یوں بیان فرمایا ہے کہ جب آپ کے پاس معزز مہمان آئے تو سب سے پہلا کام جو آپ نے کیا وہ یہ تھا کہ ﴿فَرَاغَ إِلى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنٍ ﴾ الذاريات : 27) یعنی وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوا بچھڑا لے آیا.تو آپ نے مہمانوں سے یہ نہیں پوچھا کہ ڈور سے آئے ہو یا نز دیک سے آئے ہو، یا بھوک لگی ہے یا نہیں لگی ، کھانا کھاؤ گے یا نہیں کھاؤ گے، بلکہ فوری طور پر گھر کے اندر گئے اور کھانا تیار کروا کر لے آئے.تو یہ خلق ہے جو اللہ والوں کا مہمانوں کے ساتھ ہوتا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کا جامع اور افضل الرسل فرمایا ہے ان میں تو یہ خلق ایسا قائم تھا.جس کی مثال نہیں.بلکہ زمانہ نبوت سے پہلے بھی آپ کا یہ خلق ایسا تھا کہ دوسروں کو متاثر کیا کرتا نا.چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی اور آپ بڑے سخت گھبرائے

Page 437

خطبات مسرور جلد سوم 430 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء ہوئے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ سے اس گھبراہٹ کا ذکر کیا تو دیکھیں کیسا جواب تھا.روایت میں آتا ہے آپ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم ! جیسے آپ سوچ رہے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہو گا.اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہ کرے گا.اللہ کی قسم آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کرتے ہیں ، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناپید نیکیاں بجالاتے ہیں ، لوگوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفات سماوی کے نازل ہونے پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں.(بخارى - كتاب التفسير - سورة اقرأ باسم ربك......حدیث نمبر 4953) یعنی جو اعلیٰ اخلاق دنیا سے غائب ہو گئے ہیں ان کو آپ قائم کرتے ہیں جن میں سے ایک مہمان نوازی بھی ہے.اور اللہ تعالیٰ کو یہی خلق تو پسند ہیں.تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایسے اخلاق والے انسان کو خدا تعالیٰ ضائع کر دے.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ مختلف قسم کی نیکیوں میں سے ایک نیکی مہمان نوازی بھی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور اس کی رضا حاصل کرنے کا باعث بنتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مہمان نوازی کے تعلق میں جو نمونے قائم فرمائے اور اپنے عمل سے جو اعلیٰ مثالیں ہمارے سامنے پیش فرما ئیں اب میں ان میں سے چند ا یک پیش کرتا ہوں.اور پھر یہ کہ اپنی امت کو بھی نصیحت فرمائی کہ کس طرح مہمان نوازی کرو.آپ کے پاس گھر میں بھی اگر کوئی مہمان آتا تو جو بھی میسر ہوتا مہمان کو پیش فرماتے.بعض دفعہ گھر میں آپ کھانا تناول فرما رہے ہوتے اگر کوئی آتا تو بڑی بے تکلفی سے آنے والے کو اپنے ساتھ شامل کرتے.ایک روایت میں آتا ہے.عبدالحمید بن صیفی اپنے والد اور اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ صہیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھجور اور روٹی پڑی ہوئی تھی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صہیب سے کہا کہ قریب آ جاؤ اور کھاؤ.راوی کہتے ہیں کہ صہیب کھجوریں کھانے لگے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کی آنکھ دیکھنے آئی ہوئی ہے (اس وقت ان کی ایک آنکھ دیکھ رہی تھی ) اس کے باوجود تم

Page 438

خطبات مسرور جلد سوم 431 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء نے کھجوریں کھانی شروع کر دی ہیں.( تو بے تکلف ماحول تھا ) حضرت صہیب نے اس پر جواب دیا کہ یا رسول اللہ ! میں اس آنکھ کی طرف سے کھا رہا ہوں جو درست ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه 61-62 مطبوعه بيروت) دیکھیں کتنا سادہ اور بے تکلف ماحول ہے.بعض دفعہ ایسے موقعے بھی آئے کہ آپ کھانا تناول فرمارہے ہیں اور کوئی آ گیا تو اس کو بھی ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی ، چاہے کھانا جتنی مرضی تھوڑی مقدار میں ہو.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی کسی کام سے نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی آپ کی رہائش کی طرف دروازے تک آپ کے ساتھ آگئے.تو آپ اندر گئے اور تھوڑی دیر بعد تھوڑا سا کھانا لے کے آئے اور فرمایا کہ آؤ کھا ئیں.لیکن کھانا اتنی کم مقدار میں تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں ہچکچاتا رہا.بہر حال آنحضور نے فرمایا تم لگتا ہے کسی کام سے آئے ہو.تو جو بھی کام تھا وہ پوچھا اور واپس چلے گئے.لیکن آپ دیکھیں کہ جو ساتھ آ گیا اس کو مہمان سمجھا اور گھر کے اندر اس کو لے آئے اور فرمایا کہ آؤ کھانا کھائیں.پھر جب کبھی کافی تعداد میں مہمان آجایا کرتے تھے تو آپ مہمانوں کو صحابہ میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور صرف انہی میں نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے ساتھ بھی اس طرح تقسیم کر کے لے جاتے تھے.ایک ایسے ہی موقع کا روایات میں یوں ذکر آتا ہے.عبداللہ بن طُهْفَه بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کثرت سے مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہر کوئی اپنا مہمان لیتا جائے.ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت زیادہ مہمان آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے حصہ کا مہمان ساتھ لے جائے.عبداللہ بن طفه رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان میں تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے.چنانچہ جب آپ گھر پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: کیا گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کی جی ہاں کویہ نامی کھانا ہے جو میں نے آپ کے افطار کے لئے تیار کیا ہے.تو راوی کہتے ہیں کہ وہ کھانا ایک برتن میں ڈال کر لائیں (تھوڑا سا ہوگا ) اس میں

Page 439

خطبات مسرور جلد سوم 432 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005ء سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا لیا اور تناول فرمایا اور پھر فرمایا کہ بسم اللہ کر کے کھائیں.پھر ہمیں بھی دیا.چنانچہ ہم نے اس کھانے میں سے اس طرح کھایا کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے.پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! کیا تمہارے پاس پینے کو کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، حریرہ ہے جو میں نے آپ کے لئے تیار کیا ہے.فرمایا: لے آؤ.حضرت عائشہ وہ لائیں تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پکڑا اور برتن کو اپنے منہ کی طرف بلند کیا.تھوڑ اسا نوش کر کے فرمایا: بسم اللہ کر کے پینا شروع کرو.پھر ہم اس سے اس طرح پینے لگے کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے.پھر اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے مسجد میں چلے آئے اور یہاں آنے کے بعد روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم کہاں سونا چاہتے ہو؟ یہاں رہنا ہے یا مسجد جانا ہے؟ تو سب نے کہا ہم مسجد جا کے سوئیں گے.تو کہتے ہیں ہم مسجد چلے گئے اور وہاں جا کے سو گئے اور صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،نماز کے لئے ہر ایک کو جگایا.(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحه 426 مطبوعه بيروت) اس روایت میں جو ہے کہ پہلے آپ نے اس کو پیا اس سے یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ شاید اس لئے کہ آپ نے سمجھا کہ میرا پہلے حق ہے میں پی لوں ، بلکہ اس لئے کہ اس کی مقدار تھوڑی تھی اور آپ کو پتہ تھا کہ آپ کے پہلے منہ لگانے سے اس میں برکت پیدا ہوگی اور آپ کی دعا سے یہ کھانا مہمانوں کے لئے کافی ہو جائے گا.اس لئے آپ نے پہلے شروع کیا.اور پھر مہمانوں کے آرام کے لئے فرمایا کہ جاؤ اب سو جاؤ ، جہاں بھی سونا چاہتے ہو.پھر نماز کے لئے جگایا.مہمان نوازی کے زمرے میں یہ بھی ہے کہ جب مہمان آئیں اگر وہ آپ کے ہم مذہب ہیں تو ان کو نمازوں کی طرف بھی توجہ دلائی جائے، صبح اٹھایا جائے.یہاں بھی ہمارے جلسے پر اسی لئے انتظام ہوتا ہے تا کہ لوگ نمازوں میں شامل ہوسکیں.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کی حالت کا اندازہ تھا کہ وہ کس طرح فاقہ کشیاں کرتے ہیں.غربت کا زمانہ تھا اور سب سے زیادہ جو اس دور سے گزرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے.فاقے کی حالت میں ہوتے تھے اور جب بھی کھانے کے ظاہری اسباب میسر آتے

Page 440

خطبات مسرور جلد سوم 433 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء تھے، چاہے وہ تھوڑے سے ہی ہوں، آپ اس یقین کے ساتھ کہ اس کھانے میں خدا تعالیٰ میری دعا سے برکت ڈال دے گا، اپنے صحابہ کو بھی بلا لیا کرتے.ان لوگوں کو بھی بلا لیا کرتے تھے جو وہاں بھوکے بیٹھے ہوا کرتے تھے تاکہ ان کی بھی اس انتظام کے تحت مہمان نوازی ہو جائے.ایک واقعہ کا یوں ذکر ملتا ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے گھر کے قریب سے گزرتے تو ان کے گھر آتے اور ان کو سلام کہتے.حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت نبی کریم کی شادی حضرت زینب بنت جحش سے ہوئی تو مجھے میری والدہ ام سلیم نے کہا کہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تحفہ بھیجیں تو کتنا اچھا ہو گا.اس پر میں نے کہا بھیج دیں.تو میرے کہنے کے بعد میری والدہ نے کھجور لی اور پنیر کو ایک برتن میں ڈالا اور ان کو ملا کر خنیس نامی کھانا تیار کیا اور پھر وہ کھانا مجھے دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا.جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے ارشاد فر ما یا اس برتن کو رکھو.پھر کچھ آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ ان کو بلالا ؤ اور ہر وہ شخص جو تمہیں ملے اسے کہنا کہ میں بلا رہا ہوں.حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کیا.جب میں واپس آیا تو گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا.پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنا دست مبارک اس کھانے پر رکھا اور اس کو برکت دینے کے لئے کچھ دیر دعا کرتے رہے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دس افراد کو بلانے لگے جو اس برتن میں سے کھاتے تھے.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو فرماتے تھے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ان سب کو بلاتے رہے یہاں تک کہ ان سب نے کھانا کھا لیا.( بخاری.کتاب النكاح.باب الهدية للعروس ) دیکھیں کتنا خیال تھا کہ کھانا آیا ہے تو باقیوں کو بھی کھلایا جائے.جو بھو کے ہیں ان کی بھی مہمان نوازی ہو جائے.یہ تھے آپ کے مہمان نوازی کے طریقے کہ بھوکوں ، ضرورت مندوں کو بلا کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کھانا کھلاتے اور مہمان نوازی فرمایا کرتے تھے.پھر صرف یہی نہیں کہ آپ نے عارضی طور پر کبھی کبھی مہمان بلائے اور مہمان نوازی کر دی، بلکہ ایسا بھی ہوا کہ

Page 441

خطبات مسرور جلد سوم 434 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء آپ نے بعض مہمان مستقل اپنے ہاں لمبے عرصے کیلئے ٹھہرائے اور ان کے لئے مستقل خوراک کا انتظام فرمایا.حالانکہ اس وقت حالت ایسی تھی کہ خود بھی گھر میں شاید اتنا اچھا انتظام نہیں ہوتا تھا.اور نہ صرف انتظام فرمایا بلکہ کھانے کا انتظام ہی ان کے سپر د کر دیا کہ اپنا پیٹ بھرنے کے بعد میرے لئے بھی رکھ دیا کرو.اس کا ذکر یوں ملتا ہے، حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی جن کی محنت و مشقت اور خوراک کی کمی کی وجہ سے قوت سماعت اور بصارت یعنی دیکھنے اور سنے کی جو طاقت تھی متاثر ہو گئی تھیں ، نظر اور آنکھوں پر اثر پڑا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پاس آئے.مگر ان میں سے کسی نے ہماری طرف توجہ ہی نہ دی.پھر ہم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ہمیں اپنے گھر والوں کے پاس لے گئے.وہاں پر تین بکریاں تھیں.آپ نے فرمایا ان کا دودھ دوہا کرو اور ہم میں سے ہر ایک اپنا اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کا حصہ لے جاتے.یعنی جو کھانے کا انتظام تھا وہ ان لوگوں کے سپرد کر دیا.تم پی لیا کرو اور مجھے میرا حصہ دے دیا کرو.کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت تشریف لاتے اور سلام کرتے تو آواز اتنی اونچی نہ ہوتی کہ سویا ہوا بیدار ہو جائے.جو جاگ رہا ہوتا وہ سن لیتا.پھر آپ مسجد میں تشریف لے جاتے اور نماز ادا فرماتے.پھر آپ کے پاس پینے کے لئے دودھ لایا جاتا جو آپ پی لیتے.ایک دن وہ کہتے ہیں کہ بھوک کی وجہ سے میں سارا دودھ پی گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو دودھ نہیں تھا لیکن آپ کی برکت کی وجہ سے بکری جو دودھ دینے والی تھی اس کو دوبارہ دودھ اتر آیا.پھر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا نہیں پہلے خود پی لو.آپ کو بتایا نہیں تھا کہ ہم سارا پی چکے ہیں.تو بہر حال پہلے انہیں پلا کے پھر آپ نے تھوڑ اسا پیا اور بقایا پھر مہمانوں کو دے دیا.(ترمذی - كتاب الاستئذان والادب.باب کیف السَّلام ) پھر ایک اور روایت میں اسی مستقل مہمان نوازی کا ذکر یوں ملتا ہے.مالک بن ابی عامر

Page 442

خطبات مسرور جلد سوم 435 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005ء کی ایک لمبی روایت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص طلحہ بن عبید اللہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے ابو محمد ا تم اس بیمانی شخص یعنی ابو ہریرہ کو نہیں دیکھتے کہ یہ تم میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جاننے والا ہے.ہمیں اس سے ایسی ایسی احادیث سننے کو ملتی ہیں جو ہم تم سے نہیں سنتے.اس پر انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں.انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ باتیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسکین تھے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان بن کر پڑے رہتے تھے.ان کا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے ساتھ ہوتا تھا.اور ہم لوگ کئی کئی گھر والے اور امیر لوگ تھے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دن میں کبھی صبح اور کبھی شام آیا کرتے تھے.(ترمذى ـ كتاب المناقب باب مناقب لابى هريرة رضى الله عنه – حديث نمبر 3846) - ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب بھی کھانے کی کوئی چیز آتی تحفہ وغیرہ آتا تو آپ ان لوگوں کو پہلے بلا لیا کرتے جو مستقل وہاں پڑے ہوئے تھے.پھر آپ کی مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ مہمان کو کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے جس سے مہمان کو یہ خیال پیدا ہو کہ آپ کی میرے کھانے پر نظر ہے تا کہ وہ کبھی سبکی محسوس نہ کرے، شرمندگی محسوس نہ کرے.بلکہ بعض دفعہ یہ ہوتا کہ اگر مہمان کے ساتھ کھانا کھا رہے ہوتے تو آہستہ آہستہ آپ خود بھی کھاتے رہتے تا کہ مہمان کسی شرمندگی کے بغیر کھاتا رہے.لیکن بعض دفعہ یوں بھی ہوا کہ کوئی کا فرمہمان ہوا اور ضرورت سے زیادہ خوش خوراکی کا مظاہرہ کیا لیکن آپ نے اظہار نہیں ہونے دیا اور جتنی اس کی خواہش تھی ، جتناوہ پیٹ بھر سکتا تھا اس کے مطابق اس کو خوراک مہیا کی.ایک واقعہ یوں بیان ہوتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو کافر تھا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مہمان بنا.حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہ کر لانے کے لئے فرمایا جو اس کافر نے پی لیا.

Page 443

خطبات مسرور جلد سوم 436 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005ء پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا.راوی کہتے ہیں کہ صبح اس نے اسلام قبول کر لیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کے لئے ارشادفرمایا جو اس نے پی لیا.پھر آپ نے دوسری بکری کا دودھ لانے کا فرمایا تو وہ پورا دودھ ختم نہ کر سکا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن ایک آنت میں کھاتا ہے جبکہ کا فرسات آنتوں کو بھرتا ہے.(ترمذی کتاب الاطعمة با ماجاء ان المؤمن يأكل في معى واحد) تو اس وقت جب وہ کا فر تھا، مہمان تو بہر حال تھا اس کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ کھانا مفت مل رہا ہے تو اتنا تو نہ کھاؤ کہ تمہارا پیٹ خراب ہو جائے.لیکن اگلے دن جب وہ آپ کے سلوک کی وجہ سے خود ہی مسلمان ہو گیا، اس نے اسلام قبول کر لیا تو اس کو خود بھی پتہ لگ گیا کہ زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا ہی نہیں ہوتا.ایک رات میں ہی اس نیک فطرت کو احساس بہر حال ہو گیا اور ایک رات میں ہی آپ کی قوت قدسی کی وجہ سے، آپ کے حسن سلوک کی وجہ سے، مہمان نوازی کی وجہ سے، ایک تو اس کو اسلام کے نور سے منور ہونے کی توفیق مل گئی اور پھر زندگی کے مقصد کا پتہ چل گیا.اور پھر اس وقت جو خوراک لی وہ ایک مومن کی خوراک تھی.اسی طرح کے ایک واقعہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں ذکر فرماتے ہیں کہ: ”ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبی کو اختیار کیا.کوئی شخص عیسائی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.حضرت نے اس کی بہت تواضع و خاطر داری کی.وہ بہت بھوکا تھا.حضرت نے اس کو خوب کھلایا کہ اس کا پیٹ بہت بھر گیا.رات کو اپنی رضائی عنایت فرمائی.جب وہ سو گیا تو اس کو بہت زور سے دست آیا کہ وہ روک نہ سکا.(اس بیچارے کا پیٹ خراب ہو گیا ) اور رضائی میں ہی کر دیا.جب صبح ہوئی تو اس نے سوچا کہ میری حالت کو دیکھ کر کراہت کریں گے.شرم کے مارے وہ نکل کر چلا گیا.جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سے عرض کی کہ جو نصرانی عیسائی تھا وہ رضائی کو خراب کر گیا ہے.حضرت نے فرمایا کہ وہ مجھے دوتا کہ میں صاف کروں.لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں.ہم جو حاضر ہیں، ہم صاف کر دیں گے.حضرت نے فرمایا کہ وہ میرا مہمان تھا ، اس لئے میرا ہی کام ہے اور اٹھ کر پانی منگوا کر خود ہی صاف

Page 444

خطبات مسرور جلد سوم 437 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005ء کرنے لگے.وہ عیسائی جب کہ ایک کوس نکل گیا تو اس کو یاد آیا کہ اس کے پاس جو سونے کی صلیب تھی وہ چار پائی پر بھول آیا ہوں.اس لئے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ حضرت اس کے پاخانہ کو رضائی پر سے خود صاف کر رہے ہیں.اس کو ندامت آئی اور کہا کہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو میں کبھی اس کو نہ دھوتا.اس سے معلوم ہوا کہ ایسا شخص کہ جس میں اتنی بے نفسی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.پھر وہ مسلمان ہو گیا.“ (ملفوظات جلد 3 صفحه 370-371 جدید ایڈیشن - الحکم 17 جولائی 1903ء صفحہ 15 16 ) دیکھیں کیا کیا مثالیں ہیں جو ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نمونے میں دکھائیں.پھر جب کثرت سے وفود آنے لگے تو ان کی مہمان نوازی کا بھی آپ اہتمام فرماتے تھے.اس طرح کہ ایک وفد کو آپ نے انصار کے سپرد کیا اور فرمایا ان کا خیال رکھنا اور اچھی طرح مہمان نوازی کرنا اور پھر اگلے دن اس وفد کے افراد سے پوچھا کہ تمہارے بھائیوں نے تمہاری صحیح طرح مہمان نوازی کی ہے؟ سب نے کہا کہ واقعی انہوں نے مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا ہے اور بہترین بھائی ثابت ہوئے ہیں.انہوں نے ہمارے لئے عمدہ کھانے کا انتظام کیا اور ہمارے لئے نرم بستر بچھائے پھر ہمیں قرآن وسنت کی باتیں بھی سکھائیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا.تو جیسا کہ پہلے حدیث میں ذکر آچکا ہے کہ آپ مہمانوں کی ظاہری مہمان نوازی کے ساتھ ان کی روحانی تربیت کی طرف بھی توجہ دیا کرتے تھے.اور یہی کچھ آپ نے صحابہ کو سکھایا تھا.جیسا کہ اس میں ذکر آتا ہے کہ صبح نماز کے وقت آپ نے نماز کے لئے جگایا.تو اسی اسوہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ بھی اپنے مہمانوں کی مادی اور روحانی دونوں غذاؤں کا خیال رکھا کرتے تھے.پھر آپ نے ایک وفد کی خود مہمان نوازی اپنے ہاتھوں سے کی.صرف اس لئے کہ فرمایا کہ ابتدائے اسلام میں جب مجبور اور مظلوم مسلمانوں پر مکہ میں زیادتیاں ہو رہی تھیں تو ان کے ہم قوموں نے اس وقت مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا.غرض ہر موقع پر آپ اس تلاش میں ہوتے تھے کہ کس طرح مہمان کی خدمت کا موقع ہاتھ آئے اور یہی نصیحت آپ صحابہ کو فرمایا کرتے

Page 445

خطبات مسرور جلد سوم 438 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء تھے.اپنے عمل کے ساتھ اپنی امت کو بھی یہی اسلوب آپ نے سکھائے اور نصیحت فرمائی ہر غیب دلوائی.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری سنت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میزبان جس کے گھر مہمان آیا ہوا عزاز و تکریم کے ارادے سے، اس نیت سے کہ اس نے مہمان کو عزت دینی ہے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک الوداع کہنے کے لئے آئے.تو الوداع کہنے کے لئے باہر چھوڑنے کے لئے آپ باہر دروازے تک آیا کرتے تھے.پھر ایک روایت میں آتا ہے، آپ نے فرمایا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے.اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے.اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے.(صحیح مسلم کتاب الايمان- باب الحث على اكرام الجار) تو مہمان نوازی بھی ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے.ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مہمان کا جائز حق ادا کرو.اور جائز حق کے بارے میں فرمایا کہ کم از کم ایک دن اور رات کی مہمان نوازی ہے.ویسے تو فرمایا کہ تین دن کی مہمان نوازی ہے.پھر آپ کے اس اُسوہ اور نصیحتوں کا یہ اثر تھا کہ صحابہ نے ، مردوں نے بھی عورتوں نے بھی اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کاٹ کر، بھوکا رہ کر اور بچوں کو بھوکا رکھ کر اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کے حق ادا کئے.اور اسی طرح کی ایک اعلیٰ مثال روایت میں یوں ملتی ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.آپ نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ.جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا.اس مہمان کے کھانے کا بندو بست کون کرے گا.ایک انصاری نے عرض کیا حضور! میں انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارت کا اہتمام کرو.بیوی نے جوابا کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے.انصاری نے کہا اچھا تم کھانا تیار کرو.پھر چراغ جلا ؤ اور جب بچوں کے

Page 446

خطبات مسرور جلد سوم 439 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر ، بہلا کر سلا دو.چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا.چراغ جلایا اور بچوں کو بھوکا سلا دیا.روتے روتے سو گئے.پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا اور پھر دونوں مہمانوں کے ساتھ بیٹھے بظاہر کھانا کھانے کی آوازیں نکالتے اور چٹخارے لیتے رہے تا کہ مہمان سمجھے کہ میزبان بھی میرے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں.اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ بھوکے سورہے.صبح جب وہ انصاری حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنسا.یعنی وہ آیت نازل ہوئی کہ پاک باطن اور ایثار پیشہ مخلص اور مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں.تو دیکھیں کہ کس قدر خوبصورت معیار ہیں مہمان نوازی کے جو صحابہ نے قائم کئے.(بخاری ، کتاب المناقب باب يؤثرون على انفسهم ولوكان بهم خصاصة) پھر اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چل کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے خود بھی کس طرح مہمان نوازی کے معیار قائم کئے اور اس ضمن میں جماعت کو نصیحت بھی فرمائی.اس کی کچھ جھلکیاں میں دکھاتا ہوں.حضور نے ایک جماعت کو خطاب کر کے فرمایا: ” میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سب وشتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کرنا چاہئے ( یعنی سخت الفاظ بھی استعمال کرے) کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے ( اگر غیر آتا ہے تو ) ہمارا کیا حق ہے کہ اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مریدوں سے چاہتے ہیں.یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے بات کریں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مہمان کو اگر ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے“.(ملفوظات جلد 3 صفحه 79-80 جدید ایڈیشن - الحکم /21 فروری 1903ء صفحه 3 تا 5) یعنی اگر مہمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو گناہ ہے.کیونکہ ایسے لوگ جو ابھی احمدیت میں داخل نہیں ہوئے ، ایک تو وہ احمدی نہیں، اس لحاظ سے بھی نرمی سے پیش آنا چاہئے.ویسے بھی

Page 447

خطبات مسرور جلد سوم 440 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء مہمان ہیں اس لحاظ سے بھی نرمی سے پیش آنا چاہئے.احمدیوں کو بعض اصولوں کا پتہ ہوتا ہے.اس لحاظ سے یہ نہیں کہ اگر احمدی ہے تو ضرور سختی سے پیش آیا جائے.مہمان احمدی بھی ہے لیکن بعض اصول و قواعد جماعت کے ہیں، جماعت کی روایات ہیں.ایک غیر کو تو پتہ نہیں ، ایک احمدی کو پتہ ہوتا ہے.تو اس لحاظ سے آپ نے فرمایا کہ مہمان ہونے کی حیثیت سے بھی اور غیر ہونے کی حیثیت سے بھی اس کا تم زیادہ احترام کرو.پھر ایک اور روایت ملتی ہے کہ : ”اعلیٰ حضرت حجة اللہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان نوازی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں.جن لوگوں کو کثرت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی مہمان کو ( خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہو یا نہ داخل ہو ) ذراسی بھی تکلیف حضور کو بے چین کر دیتی ہے.مخلصین احباب کے لئے تو اور بھی آپ کی روح میں جوش اور شفقت ہوتا ہے.اس امر کے اظہار کے لئے ہم ذیل کا ایک واقعہ درج کر دیتے ہیں.وہ واقعہ یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ ”میاں ہدایت اللہ صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں اپنی اس پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے.آج انہوں نے رخصت چاہی جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ: آپ جا کر کیا کریں گے ، یہاں ہی رہیے، اکٹھے چلیں گے.آپ کا یہاں رہنا باعث برکت ہے.اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلا دو اس کا انتظام کر دیا جاوے گا.پھر اس کے بعد آپ نے عام طور پر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ : " چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم ( اہل عملہ کو ) نہ ہو.اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ جس شے کی اسے ضرورت ہو وہ بلا تکلف کہہ دے.اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو وہ گناہگار ہے.ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے.بعد ازیں حضرت اقدس نے میاں ہدایت اللہ صاحب کو خصوصیت سے سید سرورشاہ صاحب کے سپر دکیا کہ ان کی ہر ضرورت کو وہ بہم پہنچاویں.“.(ملفوظات جلد 4 صفحه 79-80 جدید ایڈیشن - الحکم /31 جولائی.10 / اگست 1904 صفحه 14)

Page 448

خطبات مسرور جلد سوم 441 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005ء اسی طرح ایک دفعہ آسام سے کچھ مہمان آئے اور جب لنگر خانہ میں آکے اترے تو لنگر خانہ کے عملے کے رویہ کی وجہ سے ناراض ہو کر اسی طرح اسی ٹانگے پہ بیٹھ کے واپس چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب پتہ لگا تو آپ بڑے ناراض ہوئے کہ کیوں ایسی صورت پیدا ہوئی.اور فوری طور پر اس طرح کہ جوتے پہننا بھی مشکل تھا جلدی جلدی جوتے پہنے اور ان کے پیچھے تیز تیز قدموں سے گئے حالانکہ وہ تانگے پر تھے دور نکل چکے تھے لیکن آپ پیدل ان کے پیچھے پیچھے گئے اور روایت میں آتا ہے کہ نہر پہ پہنچ کے آپ نے ان کو وہاں روک لیا اور پھر ان کو واپس لے کر آئے.پھر مہمانوں کو کہا کہ آپ ٹانگے پر بیٹھ کر چلیں میں پیدل چلتا ہوں.بہر حال اس خلق کو دیکھ کر مہمان بھی شرمندہ تھے.وہ شرمندگی سے کہیں نہیں حضور ہم تو نہیں بیٹھیں گے ساتھ ہی چلے.پھر بہر حال واپس قادیان آئے لنگر میں آکے آپ نے خود سامان اتارنے کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن کیونکہ کارکنان کو شرمندگی کا احساس تھا انہوں نے فوری طور پر آگے بڑھ کر سامان اتارا.تو پھر ان لوگوں کی خوراک کے بارے میں کیونکہ یہ آسام کے لوگ تھے خاص خوراک کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انتظام فرمایا.ایک روایت حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا.غالباً 1897 ء یا 1898 ء کا واقعہ ہو گا.مجھے حضرت صاحب نے مسجد مبارک میں بٹھایا جو کہ اس وقت ایک چھوٹی سی جگہ تھی.فرمایا کہ آپ بیٹھنے میں آپ کے لئے کھا نالا تا ہوں.یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے.میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے.مگر چند منٹ کے بعد جبکہ کھڑ کی کھلی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اٹھائے ہوئے ( طشتری اٹھائے ہوئے ، ٹرے اٹھائے ہوئے ) میرے لئے کھانا لائے ہیں.مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھائیے میں پانی لاتا ہوں.کہتے ہیں کہ بے اختیار رفت سے میرے آنسو نکل آئے کہ جب حضرت ہمارے مقتداء اور پیشوا ہو کر ہمارے لئے یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہئے.پھر ایک دفعہ جب مہمانوں کی زیادتی کی وجہ سے بستر بہت کم ہو گئے تو اپنے گھر میں جو

Page 449

خطبات مسرور جلد سوم 442 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء آخری رضا ئی تھی وہ بھی مہمانوں کو دے دی اور خود ساری رات تکلیف میں گزاری تا کہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو.پھر ایک دفعہ مہمان نوازی کے بارے میں ذکر ہوا تو فرمایا کہ: ”میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو.بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے.مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذراسی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا.مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پر ہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا.ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی اس لئے بمجبوری علیحدگی ہوئی.ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے.بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں ان کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہو سکتا ہے.(ملفوظات جلد 3 صفحه 292 جدید ایڈیشن - البدر مورخه 15 مئی 1903ء صفحه 130) ایک دفعہ آپ نے جب مہمان بہت سارے آئے ہوئے تھے میاں نجم الدین صاحب کو جو لنگر خانے کے انچارج تھے، فرمایا، تاکید کی کہ دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں.اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الا کرام جان کر تواضع کرو.سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو.تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو.ان سب کی خوب خدمت کرو.اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو“.(ملفوظات جلد 3 صفحه 492 جدید ایڈیشن - البدر 18 جنوری 1904ء صفحه 4٬3) تو دیکھیں کس طرح مہمانوں کی خدمت کی نصیحت فرمائی.خدا کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حسن ظن جو آپ نے اپنے کارکنوں اور مہمان نوازی کرنے والوں سے اس وقت بھی کیا تھا آج بھی وہ قائم رہے اور ہمیشہ قائم رہے.یہ اُسوہ حسنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان نوازی کا ہمارے سامنے رکھا اور جس طرح آپ نے اپنے ماننے والوں کو اس طرف توجہ دلائی، اپنی امت کو اس طرف توجہ دلائی اور جس کی مثالیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود

Page 450

خطبات مسرور جلد سوم 443 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005 ء علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے قائم فرمائیں یہ اس لئے ہیں کہ ہم بھی اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کے اُسی طرح حق ادا کرنے والے ہوں.اسی طرح جو ہمارے سامنے مثالیں جو قائم کی گئی تھیں.اگلے جمعہ سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمد یہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.باہر سے مہمان ہمیشہ آتے ہیں.اب بھی انشاء اللہ آئیں گے.U.K سے مختلف جگہوں سے بھی آئیں گے.بلکہ بیرونی ممالک کے اکثر مہمان تو آنے بھی شروع ہو گئے ہیں.بہت سے ہیں جو اپنے عزیزوں کے ہاں ٹھہرے ہوں گے.جو تو قریبی عزیز ہیں وہ تو اپنے مہمانوں کی، والدین کی، بھائیوں کی خدمت کرتے ہیں اور کرنی چاہئے.مہمان نوازی کے حق ادا کرنے چاہئیں.دور سے لوگ آتے ہیں.لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہے کہ کوئی واقف کار یا عزیز یا کسی تعارف کی وجہ سے وہ کسی کے گھر ٹھہر گیا ہے تو ہمیشہ کی طرح اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے ان کی مہمان نوازی کے پورے حق ادا کریں.اور اس طرح بعض لوگ ہیں جو جماعتی انتظام کے تحت ٹھہرے ہوئے ہیں اور جماعت کا جو انتظام ہے یہ عارضی کا رکنان کے سپرد ہوتا ہے.اس لئے بعض دفعہ یوں بھی ہو جاتا ہے کہ نئے آنے والے اور ناتجربہ کار معاونین ( کیونکہ نئے شامل ہوتے رہتے ہیں، بعض دفعہ ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں).وہ مہمان نوازی کے حق کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے.اس لئے اُن پر بھی منتظمین کی نظر رہنی چاہئے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو مہمان کی دل آزاری کا باعث ہو، اس کی کسی تکلیف کا باعث ہو.اور جو اپنے گھروں میں مہمان رکھنے والے ہیں وہ بھی اور جماعتی انتظام کے تحت جو مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ کبھی کوئی ایسی بات نہ ہو جو کسی مہمان کے لئے تکلیف کا یا دل دکھانے کا باعث بنے.برطانیہ کے مقامی لوگ جو جلسے پر آئیں گے دو تین دن کے لئے ٹھہریں گے.جلسہ سننے کے بعد چلے جائیں گے.لیکن باہر سے آنے والے جو خرچ کر کے آتے ہیں ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جن کو بڑی مشکل سے ویزے ملے اور خرچ کر کے آتے ہیں.اس لئے کم از کم پندرہ دن تو ان کو ٹھہرنے کا حق ہے اور پندرہ دن ان کی مہمان نوازی بھی کرنی چاہئے اور کی جاتی ہے.لیکن بعض دفعہ جو گھروں میں

Page 451

خطبات مسرور جلد سوم 444 خطبہ جمعہ 22 جولائی 2005ء ٹھہرے ہوتے ہیں اگر ان کو وقت ہو کہ اتنا لمبا عرصہ مہمان نوازی نہیں کر سکتے تو ان کو چاہئے کہ جماعتی انتظام کے تحت پھر ان کو جماعت کے سپرد کر دیں تا کہ پندرہ دن تک مہمان نوازی کی جا سکے.امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی طرح تمام کارکنان جلسے کے انتظامات میں پوری دلچسپی سے حصہ لیں گے.اور مہمانوں کے حق بھی ادا کریں گے.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حسن ظن ہے.یہ حسن ظن ہمیشہ جماعت کے کارکنان کا ایک نشان بنا رہے گا.اس دفعہ کیونکہ جلسہ کہیں اور ہونا ہے ، دو جگہ کی تقسیم کی وجہ سے کچھ مہمان ایک جگہ ٹھہریں گے کچھ مهمان دوسری جگہ ٹھہریں گے.بعض شعبوں پر زیادہ ذمہ داریاں پڑ جائیں گی تو اس لئے بھی اپنے آپ کو ، کارکنوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہئے کہ اس دفعہ ڈیوٹیاں زیادہ توجہ سے دینی ہوں گی.اور ہوسکتا ہے زیادہ وقت کے لئے دینی پڑیں.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر آنے والے ان مہمانوں کی صحیح طرح مهمان نوازی کر سکیں.اللہ سب کو توفیق دے.

Page 452

خطبات مسرور جلد سوم 445 (29) خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء مہمانوں کے حقوق وفرائض جلسہ سالانہ برطانیہ کے مہمانوں کے لئے نہایت اہم ہدایات خطبہ جمعہ فرمودہ 29 جولائی 2005ء بمقام رشمورا میر بینا.برطانیہ سر تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج شام کو انشاء اللہ تعالیٰ با قاعدہ جلسہ کے افتتاح کے ساتھ جماعت احمدیہ.U.K کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.لیکن جلسے کی رونق ، اس کے کام، مہمانوں کی آمد اور گہما گہمی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ کئی دنوں سے شروع ہے.اسی طرح جلسے کی تیاریاں بھی ہورہی تھیں، اس نئے علاقے میں کافی کام تھا اور یہاں مقامی جماعت کی کافی گہما گہمی تھی.گزشتہ خطبے میں اسوہ رسول صلی اللہ کی روشنی میں میں نے میزبانوں کو ، مہمان نوازی کرنے والوں کو ، مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کو مہمان نوازی کی طرف توجہ دلائی تھی.آج کے خطبے میں میں مہمانوں کو بعض باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.مہمانوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں جن کو اگر مہمان اچھی طرح ادا کریں تو معاشرے میں مزید نکھار پیدا ہوتا ہے، آپس کے تعلقات مزید نکھرتے ہیں.پس جہاں مومن کو یہ حکم ہے کہ مہمان کا خیال رکھو، اُس کو اُس کا حق دو، وہاں مہمانوں کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ تم نے اپنے مہمان ہونے کے حقوق کس طرح استعمال کرنے ہیں اور فرائض کس طرح ادا کرنے ہیں.تم نے مہمان بن کر گھر میں کس طرح جانا ہے، کب جانا ہے اور مقصد پورا کرنے کے بعد ، کام پورا ہو جائے تو پھر واپس آ جانا

Page 453

خطبات مسرور جلد سوم 446 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء ہے.گھر والوں کے لئے تنگی کے سامان نہیں کرنے.اگر مہمان ان باتوں کو مدنظر رکھیں تو معاشرے کے ہر طبقے میں مختلف حالات میں جو تعلقات ہیں ان کی وجہ سے جو بے چینیاں پیدا ہو رہی ہوتی ہیں وہ ختم ہو جائیں.عموماً معاشرے میں ، خاص طور پر ہمارے ملکوں میں یہ ہوتا ہے کہ اچانک بہت سے مہمان آ گئے.گھر والے پریشان ہیں کہ کیا کریں.بعض دفعہ ایسے حالات نہیں ہوتے کہ ان کی اچھی طرح خدمت کر سکیں اس لئے فرمایا کہ لَاتَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا (النور: 28) کہ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو، ان کے رہنے والوں پر سلام بھیجو.اجازت کے جو طریقے سکھائے گئے ہیں یہ گھر پہنچ کر ہی نہیں بلکہ آج کل کے زمانے میں تو دور بیٹھ کر بھی اجازت لی جا سکتی ہے.جب اجازت مل جائے ، گھر والے بھی تیار ہوں ان کو پتہ ہو کہ ہمارے مہمان فلاں تاریخ کو آرہے ہیں تو ٹھیک ہے پھر اس گھر میں جائیں.یہاں جلسے پر جو مہمان آتے ہیں دوسرے ملکوں سے، ان کو تو خیر باہر سے آنا ہوتا ہے، جہاز پر آنا ہوتا ہے اطلاع بھی ہوتی ہے تاکہ کوئی ریسیو (Recieve) کرنے والا بھی مل جائے اور پھر سواری بھی میسر آ جائے اور رہائش گاہوں میں یا گھروں میں لایا بھی جاسکے.لیکن چونکہ مہمان نوازی کا عموماً ذکر ہو رہا ہے اس لئے میں یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ عام طور پر ہمارے ملکوں میں جو نفسیات ہے، ہمارے ملکوں میں لوگوں کو یہ عادت ہے کہ اچانک کسی کے گھر پہنچ جاتے ہیں.پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا ہے.اور یہ عادت چونکہ اب مہمانوں اور میزبانوں دونوں کا مزاج بن چکا ہے اس لئے عموماً دونوں فریق زیادہ محسوس نہیں کرتے.اس صورت میں اگر کھانے وغیرہ میں دیر ہو جائے تو بعض اوقات بعض مہمان شکوہ کرتے ہیں کہ دیکھو دو پہر کا کھانا ہمیں شام کو جا کر دیا.گو کہ پاکستان میں ہمارے دیہاتوں میں یہ عادت بھی ہے کہ وہ اطلاع دے کر بھی جائیں تب بھی پہنچنے کے بعد ہی کھانا پکانا شروع کرتے ہیں.تو بہر حال یہ چھوٹے چھوٹے شکوے پھر بڑے شکوے بننے شروع ہو جاتے ہیں.اور خاص طور پر ان رشتوں میں جو بڑے نازک رشتے ہوتے ہیں.بچوں کے سسرال والوں کا معاملہ آ جاتا ہے تو اس طرح پھر دلوں میں دوریاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی

Page 454

خطبات مسرور جلد سوم 447 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005 ء ہیں.یہ پاکستان کی جو میں مثال دے رہا ہوں یہ پاکستان کی یا کسی خاص طبقے کی مثال نہیں ہے.ان مغربی ممالک میں بھی میرے سامنے ایسی مثالیں ہیں کہ بغیر اطلاع کے بے وقت کسی کے گھر پہنچ گئے خواہ اپنے کسی عزیز کسی رشتے دار کے گھر ہی پہنچے اور گھر والے نے سمجھا کہ اس وقت آئے ہیں تو کھانا کھا کے ہی آئے ہوں گے اور جب گھر والے نے کچھ دیر کے بعد چائے پانی وغیرہ کے متعلق پوچھا تو یہ شکوے پیدا ہوئے کہ مجھے کھانے کے بارہ میں کیوں نہیں پوچھا، بڑا بداخلاق ہے، یہ ہے، وہ ہے.تو یوں رشتوں میں پھر دراڑیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں اور دوریاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.آجکل کے زمانے میں جس طرح میں نے کہا ، رابطے کا نظام بہت تیز ہے، اطلاع کرنے کا نظام بڑا تیز ہے.فون کر کے اطلاع کرنی چاہئے ، پوچھنا چاہئے کہ فلاں وقت میں آ رہا ہوں یا میں آنا چاہتا ہوں اگر مصروفیت نہ ہو اور وقت دے سکو تو میں آ جاؤں.تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ آداب اس وقت سکھا دیئے جب کسی کو ان آداب کا پتہ ہی نہیں تھا.پھر ایک جگہ حکم ہے کہ دعوت پر اگر بلایا جائے تو پھر جاؤ اور وقت پر جاؤ.اور پھر جب دعوت سے فارغ ہو جاؤ تو واپس آ جاؤ.بعض تو بڑی کھلی دعوتیں ہوتی ہیں شادی بیاہ وغیرہ کی.ساری ساری رات ہو ہا ہوتی رہتی ہے، شور شرابے ہوتے رہتے ہیں.ہماری جماعت میں تو کم ہے مگر غیروں میں بہت زیادہ ہوتے ہیں.وہاں تو وقت کی پابندی نہیں ہوتی لیکن بعض سنجیدہ مجلسیں بھی ہوتی ہیں، جماعتی دعوتیں بھی ہوتی ہیں.یا ایسی دعوتیں ہوتی ہیں جو جماعتی جگہوں پر کی جارہی ہوتی ہیں.تو ان میں ان سب آداب کا خیال رکھنا چاہئے جو ان دعوتوں کے لئے مہمانوں کو ادا کرنے ضروری ہیں.انہوں نے وقت پر جانا بھی ہے اور فارغ ہو کر اٹھ کر واپس آ جانا بھی ہے.تو اس طرح کے مہمانوں کے لئے بے شمار احکامات ہیں.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے لوگوں کی دعوت کی.کہیں سے کھانا آیا اور لوگوں کو بلا لیا کہ آ جاؤ.تو راوی کہتے ہیں کہ جب ساروں نے کھانا کھا لیا تو اکثر لوگ تو چلے گئے ، بعض ان میں سے بیٹھے رہے اور باتوں میں مصروف ہو گئے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے پاس بیٹھے نہیں بلکہ آپ اٹھ کر أُمَّهَاتُ الْمُؤْمِنین کے حجرے کی طرف چلے گئے.

Page 455

خطبات مسرور جلد سوم 448 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005 ء آخر جب کچھ دیر کے بعد وہ لوگ بھی چلے گئے تو پھر آپ واپس اپنی جگہ پر آ گئے.کئی کام ہوتے ہیں اور آنحضرت علی ملالہ کو تو اور بھی اپنی مصروفیات تھیں.ان کے لئے خاص طور پر اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ خیال رکھا کرو اور بیٹھے باتیں نہ کرتے رہا کرو.اور نبی کریم صلی اللہ کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنو.پھر یہ حکم جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارے میں ہیں وہاں بعض دوسرے حکموں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا ایک عمومی رنگ بھی ہے.بعض دفعہ گھر والوں نے رات کو دعوت کے بعد برتن سمیٹنے ہوتے ہیں، کام سمیٹنا ہوتا ہے.لیکن اگر لوگ بیٹھے رہیں تو بلا وجہ کی پریشانی ہوتی ہے.تو اس لئے یہ جو حکم ہیں، یہ عمومی رنگ بھی رکھتے ہیں اور مسلمان معاشرے کے لئے ، احمدی معاشرے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان پر عمل کیا جائے.ضمنا ذکر کر دوں کہ یہاں مثلاً بیت الفتوح میں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی وسیع جگہ ہے بڑے بڑے ہال ہیں، لوگ اپنی شادیوں کے فنکشنز کے لئے لے لیتے ہیں.ٹھیک ہے جماعت کے لوگوں کو ایک اچھی جگہ میسر ہے، بے شک استعمال کریں.لیکن اتناذہن میں رکھیں کہ یہ تمام کام جو وہاں ہو رہا ہوتا ہے ، اس سارے کام کو سمیٹنے والے سب والنٹیئر ز ہوتے ہیں.کوئی پیڈ (Paid) طبقہ ان کاموں کے لئے جماعت نے نہیں رکھا ہوا.والنٹیئر ز نے عموماً شادی کے فنکشن کے بعد کام سمیٹنے ہوتے ہیں.لیکن بعض دفعہ فنکشن ختم ہو جاتا ہے اور لوگ گھنٹوں بعد بھی ، رونق لگائے رہتے ہیں، بیٹھے تصویریں کھنچواتے رہتے ہیں.اور والنٹیئر ز بے چارے بعض دفعہ رات کو ایک دو بجے گھروں کو پہنچتے ہیں.تو ان ہالوں کو استعمال کرنے والوں کو ان والنٹیئر ز کا ، ان خدمت کرنے والوں کا بھی خیال کرنا چاہئے کہ انہوں نے بھی اپنے گھروں کو جانا ہوتا ہے.ٹھیک ہے آپ مہمان ہوتے ہیں اور وہ بے چارے کچھ کہ نہیں سکتے.لیکن بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بعض دفعہ وقت پر اپنا فنکشن ختم کر جاتے ہیں.اور جب یہ والٹیئر ز وقت پر ختم کرنے والوں کا شکر یہ ادا کرتے ہیں تو اس سے صاف پتہ لگ رہا ہوتا ہے کہ بعض لوگ ان سے کافی زیادتی کر جاتے ہیں.تو یہاں رہنے والوں کو میں کہہ رہا ہوں، ہمیں بھی، جو بعض موقعوں پر مہمان بنتے ہیں ان باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے.

Page 456

خطبات مسرور جلد سوم 449 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء پھر بعض دفعہ بعض مہمان بڑے مشکل ہوتے ہیں جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ کھانا وقت پر نہ ملے، اچھا نہ ملے تو اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں، شکوے شروع ہو جاتے ہیں.تو ایسی باتوں سے بھی ایک احمدی کو بچنا چاہئے.اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت علی اللہ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ اسے قبول کرے اور اگر روزہ سے ہے تو حمد وثنا اور دعا کرتا رہے اور معذرت کرے.اور اگر روزے دار نہیں تو جو کچھ پیش کیا گیا خوشی سے کھائے.(مسلم - کتاب النکاح – باب الامر باجابة الداعي الى دعوة) تو فرمایا کہ جو پیش کیا جائے اسے خوشی سے کھانا چاہئے.اور یہ خوشی سے کھانا ہی ہے جو مہمان اور میزبان کے رشتے کو مزید مضبوط کرتا ہے.اس میں پہلا سبق یہی ہے کہ اگر دعوت دی گئی ہے تو دعوت کو قبول کرو.کیونکہ یہ بھی رشتوں میں تعلق اور مضبوطی کو قائم کرنے کا ذریعہ ہے.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا دوسری بات جو بیان فرمائی کہ بغیر اعتراض کے کھانا چاہئے ، خوشی سے کھانا چاہئے.دعوت کرنے والے نے اخلاص سے اہتمام کیا ہوتا ہے.اس کا اظہار کرنا چاہئے.ایک مومن مہمان اپنے ساتھ برکتیں لے کر آتا ہے اس لئے ہمیشہ ایسا مہمان بننا چاہئے جو برکتیں لانے والا مہمان ہو اور کبھی ایسے مہمان نہ بنیں جو گھر والوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوں.بلکہ ان کو پریشانی سے نکالنے والے ہوں.بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کھانا گھر والے نے تھوڑا پکایا اور مہمان اچانک آگئے تو اس وقت مل جل کر کھانا چاہئے.کوشش کرنی چاہئے کہ ایک تو احتیاط سے کھائیں اور کھانا ضائع نہ ہو.دوسرے، دوسرے مہمانوں کا خیال رکھتے ہوئے اس طرح کھایا جائے کہ سب کو حصہ رسدی مل جائے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین کے لئے کافی ہے اور تین کا کھانا چار کے لئے کافی ہے.ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے اور چار کا آٹھ کے لئے کافی ہے.(مسلم - كتاب الاشربة - باب فضيلة المواساة في الطعام...

Page 457

خطبات مسرور جلد سوم 450 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005 ء جلسہ کے دنوں میں بعض اوقات ایسے ہو جاتا ہے کہ کھانے میں وقتی طور پر کمی آجاتی ہے.اس لئے ایک تو یہ کہ کھانا کھانے والوں کو ، مہمانوں کو اس وقت صبر سے کام لینا چاہئے.ویسے تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، عموماً جلسے کے دنوں میں اگر کھانے میں وقتی کمی آ جائے.بعض دفعہ اگر سالن ہو بھی تو روٹی میں کمی آجاتی ہے تو وہ بہت تھوڑے وقت کے لئے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ انتظام فرما دیتا ہے، جلدی اصلاح بھی ہو جاتی ہے.گزشتہ سال مثلاً مشین میں چند گھنٹوں کے لئے خرابی ہوگئی جس کی وجہ سے پریشانی ہوئی لیکن کیونکہ متبادل انتظام تھا اور اس عرصے میں مشین بھی ٹھیک ہوگئی تو اتنا احساس نہیں ہوا.تو جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ خود جلدی انتظام بھی فرما دیتا ہے.ایک دفعہ ربوہ میں روٹی پکانے والوں نے ہڑتال کر دی یا پیٹڑے بنانے والوں نے کام سے انکار کر دیا.روٹی کے پیڑے وہاں مشین سے نہیں بنتے.ایک دفعہ عین موقعے پر بڑی دقت پیدا ہوگئی.تو اللہ تعالیٰ نے ویسے تو جماعت کے افراد کو ہنگامی حالات سے نپٹنے کا بڑا ملکہ دیا ہوا ہے اور جب بھی کوئی ایسے حالات پیدا ہوں ہر وقت تیار رہتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ایک تو یہ اعلان فرمایا کہ ہر شخص دوروٹیوں کی بجائے ( کیونکہ فی کس عموماً دو روٹیوں کا اندازہ رکھا جاتا ہے ) ایک کھائے.اور پھر ربوہ کے گھروں کو کہا کہ تم روٹیاں بنا کر بھجواؤ.تعداد تو اس وقت مجھے یاد نہیں بہر حال ہر گھر کے ذمہ معین مقدار لگائی گئی تھی آٹے کی یا روٹیوں کی.تو گھروں سے مختلف سائزوں کی روٹیاں آنی شروع ہو گئیں جو تقسیم کے لئے لنگر خانوں میں آجاتی تھیں، وہاں سے تقسیم ہو جاتی تھیں.گو اس کے بعد فوری طور پر حالات ٹھیک بھی ہو گئے.لیکن اس ارشاد کی وجہ سے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ان دنوں میں میرا خیال یہی ہے کہ تقریباً سارا جلسہ ہی لوگوں نے ایک روٹی پر گزارا کیا اور یوں اپنی خوراک نصف کر لی اور دو کے کام آ گئی.تو یہ جو آنحضرت علی یا اللہ نے بظاہر چھوٹے چھوٹے ارشادات فرمائے ہیں ان کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور جب موقع آئے تب پتہ لگتا ہے کہ ان کی کیا اہمیت ہے.اور ان پر عمل کرنے والے بھی آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہی ہیں.اسی

Page 458

خطبات مسرور جلد سوم 451 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005 ء وجہ سے اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے.مجھے یاد ہے ربوہ میں جب جلسے ہوتے تھے یا جب تک میں وہاں رہا، جلسوں کی ڈیوٹیاں دیتا رہا، تو روزانہ رات کو متوقع مہمانوں کی حاضری کو سامنے رکھتے ہوئے اور جو اس دن کھانا استعمال ہوا تھا، اس دن کی جو حاضری تھی اس کو سامنے رکھتے ہوئے ، یہی طریق کار ہے کہ افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے اگلے دن کا جو آرڈر ملا کرتا تھا کہ اتنا کھانا پکانا ہے، اتنی روٹی پکانی ہے.تو میں نے یہ دیکھا ہے کہ عموماً اتنی تعداد میں روٹی پکا نہیں کرتی تھی کیونکہ کچھ دیر پہلے تک کے جو اندازے ہوتے تھے روٹی کی تعداد اتنی ہی ہوتی تھی.لیکن جب آخری وقت آتا تھا تو جو روٹی تقسیم ہوتی تھی وہ اتنے مہمانوں کی یا اس سے زیادہ کی ہوتی تھی جتنا کہ آرڈر دیا جا تا تھا.تو یہ ھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس وقت بڑی پریشانی ہوا کرتی تھی کہ روٹی پوری کس طرح ہو گی مہمان بھوکے رہ جائیں گے، ابھی شور پڑ جائے گا، ابھی خلیفہ اسیح کور پورٹ ہو جائے گی کہ مہمان بھوکے رہ گئے.اور پھر بڑی فکر میں اور دعاؤں میں وقت گزرا کرتا تھا.تو اللہ تعالیٰ ایسے انتظامات فرما دیتا تھا کہ یا تو لوگوں کے پیٹ چھوٹے ہو جاتے تھے یا کیا وجہ ہوتی تھی ، بہر حال لوگ پیٹ بھر کر کھانا بھی کھا لیتے تھے اور ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ اس کم روٹی سے اتنی ہی تعداد میں یا اس سے زیادہ تعداد میں لوگوں نے کھانا کھایا ہے.بعض دفعہ اتنی کمی ہوتی تھی کہ اگر تعداد کو گنا جائے تو ایک ایک آدمی کا کھانا جو تھا وہ تین تین کے لئے کافی ہوا کرتا تھا.تو یہ برکت کے نظارے ہمیں جلسے کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ خوراک میں برکت ڈالتا ہے.پھر مہمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ نے ارشاد فرمایا ہے جس پر اگر عمل کیا جائے تو دونوں طرف کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں.فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی تکریم کرے.اس کی پر تکلف مہمان نوازی ایک دن رات ہے جبکہ عمومی مہمان نوازی تین دن تک ہے.اور تین دن سے زائد صدقہ ہے.مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اتنا عرصہ میزبان کے پاس ٹھہرار ہے کہ جو اس کو تکلیف میں ڈال دے.(بخارى - كتاب الادب - باب اكرام الضيف وخدمته اياه بنفسه |

Page 459

خطبات مسرور جلد سوم 452 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء اس حدیث کا پہلا حصہ میں نے میزبانوں سے متعلق جو گزشتہ خطبہ تھا اس میں بیان کیا تھا.لیکن مہمانوں کے فرائض کا حصہ چھوڑ دیا تھا.تو جہاں میز بانوں کو فرمایا کہ تم نے مہمان نوازی کرنی ہے اور ایک دن رات تو اچھی طرح کرنی ہے اور پھر عمومی مہمان نوازی ہے جو تین دن رات تک چلے گی.اور فرمایا کہ اس سے زائد جو ہے وہ صدقہ ہے.اب صدقہ بھی دیکھیں نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے.تو گھر والوں کا یا تمہاری نیکیوں میں اضافے کا باعث ہی بنے گا.لیکن ہر ایک کے حالات ہوتے ہیں.اور اس کے مطابق ضروری نہیں ہے، لازمی نہیں ہے کہ ہر کوئی اس قابل بھی ہو کہ صدقہ بھی دے سکے.تو پھر اسی طرح نارمل زندگی گزرے گی جس طرح عام گھر میں لوگ گزار رہے ہوتے ہیں.اور اگر مہمان زیادہ دیر رہتا ہے تو پھر گھر والے کی مرضی ہے کہ جس طرح عام روکھی سوکھی کھا کر گھر والے گزارہ کر رہے ہیں، مہمان بھی ان کے ساتھ اسی طرح گزارہ کرے.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے حالات ایسے نہیں ہوتے ، اس لئے گھر والوں نے کسی کھانے کا ناغہ بھی کر دیا، یا کوئی ہلکی پھلکی غذا کھالی تو پھر مہمان کو یہ شکوہ نہیں ہونا چاہئے کہ اسے اسی طرح کا کھانا ملے، اسی طرح کی غذا ملے بلکہ پھر جس طرح گھر والے گزارہ کر رہے ہیں اسی طرح وہ بھی گزارہ کرے.اور مہمان کو صدقے کا لفظ استعمال کر کے یہ توجہ دلا دی کہ اگر اب زائد مہمان نوازی کروار ہے ہو تو صدقہ کھا رہے ہو.ویسے تو اگر تمہیں یا کسی کو عام طور پر صدقے کی کوئی چیز دی جائے تو بڑا برا منائیں گے کہ انہیں صدقہ دیا جا رہا ہے.لیکن یہ بھی ایک صدقے کی قسم ہے کہ زبر دستی کسی کے ہاں لمبا عرصہ مہمان بن کر رہا جائے.اور اس طرح گھر والوں کے لئے تکلیف کا باعث بنا جائے.ضمناً یہاں ربوہ کے لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کا ذکر کر دیتا ہوں.اس کا بڑا وسیع سلسلہ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے روزانہ پندرہ سو سے لے کر دو ہزار آدمی وہاں کھانا کھاتے ہیں.کافی بڑی تعداد میں مہمان آ کر ٹھہرتے ہیں.وہاں بھی بعض دفعہ دھونس جمانے والے مہمان آ جاتے ہیں، زبر دستی کرنے والے مہمان آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لنگر خانہ ہے ہم چاہے جتنا مرضی ٹھہریں تم ہمیں انکار کرنے والے کون ہوتے

Page 460

خطبات مسرور جلد سوم 453 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء ہو.یہ کہنے والے کون ہو کہ میاں اتنے دن ہو گئے ہیں اب گھر جاؤ.تم ہمیں نہیں روک سکتے.تو بہر حال جیسا کہ حدیث میں ہے، اسی اصول کے تحت اور اسی حکم کے تحت عموماً مہمانوں کو تین دن کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ آپ کے یہاں ٹھہرنے کی کوئی جائز وجہ ہے مثلاً علاج وغیرہ ہے یا اور کوئی اس قسم کی کوئی دوسری ضرورت ہے تو پھر ایک انتظام ہے اس انتظام کے تحت اجازت لے لیں.پھر بے شک ٹھہریں.تو بہر حال مہمانوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ اس طرح کا رویہ رکھیں جو میزبان کے لئے تکلیف کا باعث نہ ہو.لیکن میزبان جو ہیں یا لنگر خانے والے جو ہیں یا مہمان نوازی کے شعبے جو ہیں ربوہ میں آجکل لنگر خانے کو دارالضیافت کہتے ہیں تو اس کی انتظامیہ کا یا کارکنوں کا یہ کام نہیں ہے کہ کسی بھی مہمان سے سخت رویہ اختیار کریں.وہ اپنے بالا انتظام کو اطلاع کر کے اس سے ہدایت لے سکتے ہیں لیکن رویوں میں سختی نہیں آنی چاہئے جس سے مہمانوں کو تکلیف ہو.ایک اور روایت میں آتا ہے آپ نے یہ ساری باتیں بیان فرما کر فرمایا کہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے.“ (ترمذى - كتاب البر والصلة - باب ما جاء فى الضيافة وغاية الضيافة الى كم هى) اوپر کی حدیث کی یہ نصیحت بتاتی ہے کہ اگر مہمانوں کو احساس دلانا ہے تو اس کا اظہار اتنی سختی سے نہ ہو کہ مزید جھگڑے شروع ہو جائیں.اور یہ نصیحت مہمانوں کے لئے بھی ہے کہ تم اپنے میزبان سے اچھے کلمات میں بات کرو.اچھی بات ہی کہا کرو.تو دونوں طرف کے لئے یہ نصیحت ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے اچھی بات کہیں.پھر ایک ایسی ہی روایت میں جب صحابہ نے پوچھا کہ گھر والوں کو تکلیف میں ڈالنے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا تکلیف میں ڈالنا اس طرح ہے کہ گھر والے کے پاس کھلانے کو کچھ نہ ہو اور وہ (مہمان ) اس کے پاس ٹھہرا رہے.(مسلم - كتاب اللقطة -باب الضيافة ونحوها) تو دیکھیں ایک حسین معاشرے کے قیام کے لئے کس گہرائی میں جا کر آ ہمیں نصائح فرمائی ہیں.بعض گھر والے مہمان کی وجہ سے اس طرح بھی تکلیف میں پڑ جاتے ہیں

Page 461

خطبات مسرور جلد سوم 454 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005 ء کہ مہمان کا حق ادا کرنے کے لئے مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کے لئے قرض لے کر بھی مہمان نوازی کرتے ہیں.ہمارے معاشرے میں ، برادریوں میں یہ رواج ہے کہ جان بوجھ کر کسی پر مہمان نوازی کا بوجھ ڈال دو.اور خاص طور پر غیر احمدی معاشرہ میں (احمدیوں میں تو نہیں ) جب کسی کی موت وغیرہ ہو تو اس پر بڑا بوجھ ڈالا جاتا ہے.ایک تو اس بے چارے غریب آدمی کا کوئی عزیز رشتہ دار فوت ہو جاتا ہے اس پر مزید کھانے وغیرہ کا بڑا بوجھ ڈالا جاتا ہے.صرف اس لئے کہ دیکھیں کس حد تک یہ مہمان نوازی کرتا ہے.اسی طرح شادیوں پر کھانے کا ضیاع کیا جاتا ہے اور اگر کوئی نہ کرے تو پھر اس کو بدنام کیا جاتا ہے.تو یہ انتہائی گھٹیا حرکتیں ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ احمدی معاشرہ تقریباً اس سے محفوظ ہے.کہتے ہیں کہ مہمان رحمت ہوتا ہے.تو ایسے بوجھ ڈالنے والے کی وجہ سے وہ مہمان گھر والوں کے لئے رحمت کی بجائے زحمت بن جاتا ہے.اس لئے باہر سے آنے والوں کو میں خاص طور پر کہہ رہا ہوں کہ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وقت کی پابندی کی جائے خاص طور پر پاکستان سے آنے والوں کو جن کے عزیز رشتہ دار، واقف کار یہاں ہیں.جن کے ہاں وہ مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں کہ یہاں لوگوں نے کام پر بھی جانا ہوتا ہے اور ان کے لئے کام کرنا بھی ضروری ہے.سوائے ان لوگوں کے جو نکھے اور گھر بیٹھنے والے ہوں.اس لئے مہمان غیر ضروری تو قعات اپنے میزبانوں سے نہ رکھیں کہ وہ آپ کے لئے اپنے کام کا حرج کر کے آپ کو سیریں بھی کروائیں اور آپ کی دوسری خواہشات کو بھی پورا کریں.اور آپ کی مرضی کے مطابق اپنے پروگرام رکھیں.پس ہمیشہ اپنے میز بانوں کے لئے تکلیف کا باعث بنے سے احتراز کریں، پر ہیز کریں.اور ان کے لئے رحمت کا باعث بنیں.پھر آپ نے ہمیں یہ اخلاق بھی سکھائے کہ اگر تمہاری دعوت کی جائے تو صرف وہی جائے جس کی دعوت ہے اور اگر خصوصی حالات ہیں تو پھر گھر والے سے پوچھ کر زائد مہمان لے جا سکتے ہو.کھانے کا انتظام محدود ہوتا ہے اور دوسرے انتظامات ہوتے ہیں.اگر زائد مہمان ہو جائیں تو اس انتظام میں مہمانوں کی وجہ سے بعض دفعہ خلل پیدا ہو جاتا ہے.حضرت ابو مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جسے ابوشعیب کہا جاتا تھا اپنے

Page 462

خطبات مسرور جلد سوم 455 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005 ء قصائی غلام کی طرف گیا اور اس سے کہا کہ میرے لئے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر دو.میں نے رسول اللہ عبید اللہ کے چہرے پر بھوک کے آثار دیکھے ہیں.اس نے کھانا تیار کیا اور نبی صلی عليه وسلم اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو جو آپ کے پاس بیٹھے تھے بلا بھیجا.جب آنحضرت صلی اللہ چلے تو ایک اور شخص بھی آپ کے پیچھے ہو لیا جو دعوت کے لئے بلانے کے وقت موجود نہ تھا.جب رسول الله صلی اللہ اس کے دروازے پر پہنچے تو آپ نے گھر والے سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ ایک ایسا شخص بھی آ گیا ہے جو اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھا جب تم نے ہمیں دعوت دی تھی.اگر تم اجازت دو تو وہ بھی آجائے.اس نے عرض کی ہماری طرف سے اجازت ہے کہ وہ بھی ساتھ آ جائے.(ترمذى كتاب النكاح.باب ما جاء فيمن يجىء الى الوليمة من غير دعوة) | یہ جو نمونے آپ علیل یا اللہ نے قائم فرمائے.یہ ہمیں نصیحت کے لئے اور ہمیں ان باتوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں.آپ اگر زائد مہمان بغیر پوچھے لے بھی جاتے تو گھر والے نے کیا کہنا تھا.گھر والوں کو تو پتہ تھا کہ اگر ایک کیا سو آدمی بھی آنحضرت علی یا اللہ لے آئیں گے تو آپ کی دعا سے کھانے میں برکت پڑ جائے گی اور وہ سب کے لئے پورا ہو جائے گا.اور اس طرح کے نمونے صحابہ کے سامنے موجود بھی تھے کہ اس طرح کھانے میں برکت پڑتی ہے.پس یہ نمو نے جو آپ نے قائم فرمائے ہیں یہ ہمیں نصیحت کے لئے ہیں کہ مہمان کے کیا اخلاق ہونے چاہئیں.کسی کے گھر کوئی آگیا ہے تو اس کو بغیر اجازت کے کبھی کسی دعوت پر لے کر نہیں جانا.اور اگر گھر والے روک دیں تو بن بلائے مہمانوں کو بھی برا نہیں منانا چاہئے.اور یہ بنیادی اخلاق ہیں.بعض شادیوں پر اگر میاں بیوی کو بلایا گیا ہے تو بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں جس سے جیسا کہ میں نے کہا کہ انتظام میں خلل ہوتا ہے، انتظام متاثر ہوتا ہے اس لئے اس معاملے میں بھی احتیاط کرنی چاہئے.اعلیٰ اخلاق اس وقت قائم ہوں گے جب ہم بظاہر چھوٹی چھوٹی بات کو بھی چھوٹا نہیں سمجھیں گے.بچوں کے ضمن میں یہ بھی بتلا دوں کہ بچے کھانا کھاتے کم ہیں اور ضائع زیادہ کر رہے ہوتے ہیں اس لئے ان کو ہمیشہ تھوڑی مقدار میں کھا نا ڈال کے دینا چاہئے.اگر وہ ایک دفعہ ختم کر

Page 463

خطبات مسرور جلد سوم 456 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء لیں تو تھوڑ اسا اور ڈال دیں.لیکن عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بچوں کی پلیٹیں بھر دی جاتی ہیں اور وہ کھا بھی نہیں سکتے.اس طرح بعض لوگ عادتا خود بھی اپنی پلیٹیں بھر لیتے ہیں اور کھا نہیں سکتے اور کھانا ضائع ہو رہا ہوتا ہے.اس لحاظ سے بھی بہت احتیاط کرنی چاہئے اور جلسے کے دنوں میں تو خاص طور پر کھانا اگر خود ڈال رہے ہیں تو خود بھی احتیاط کریں اور جو کھانا ڈالنے والے کارکنان ہیں اگر وہ ڈال کر دے رہے ہیں تو وہ بھی احتیاط کریں.بے شک بار بار ڈال کر دیں.کسی ڈیوٹی والے نے مہمان کو کھانا دینے سے بہر حال انکار نہیں کرنا.لیکن مہمان بھی اتنا زائد نہ ڈلوائیں جتنا وہ کھا نہ سکیں.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی کی مہمان نوازی کا واقعہ بیان کرتا ہوں کہ وہ کس طرح مہمان نوازی کرتے تھے اور مہمان ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اب میں وہ واقعہ لکھتا ہوں جس کا وعدہ اوپر کر آیا ہوں.(وہ بیان کر رہے تھے ) وہ یہ ہے کہ میرے لئے جو ایک چار پائی حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے دے رکھی تھی.جب مہمان آتے تو میری چار پائی پر بعض صاحب لیٹ جاتے اور میں مصلی زمین پر بچھا کر لیٹ جاتا اور جو میں بستر چار پائی پر بچھا لیتا تو بعض مہمان اسی چار پائی بستر شدہ پر لیٹ جاتے (یعنی بچھے ہوئے بستر پر لیٹ جاتے ( تو کہتے ہیں ) کہ میرے دل میں ذرا بھر بھی رنج یا ملال نہ ہوتا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ مہمان ہیں اور ہم یہاں کے رہنے والے ہیں.اور بعض صاحب میرا بستر چار پائی کے نیچے زمین پر پھینک دیتے اور آپ اپنا بستر بچھا کر لیٹ جاتے.ایک دفعہ ایسا ہی ہوا تو حضرت اقدس علیہ السلام کو ایک عورت نے خبر دے دی کہ حضرت پیر صاحب زمین پر لیٹے پڑے ہیں.آپ نے فرمایا چار پائی کہاں گئی؟ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں.آپ فوراً باہر تشریف لائے اور گول کمرے کے سامنے ( حضرت پیر صاحب کہتے ہیں کہ ) مجھے بلایا کہ زمین پہ کیوں لیٹ رہے ہو.برسات کا موسم ہے اور سانپ بچھو کا خطرہ ہے ( کیڑے مکوڑے نکلتے ہیں تو کہتے ہیں ) میں نے سب حال عرض کیا کہ ایسا ہوتا ہے اور میں کسی کو کچھ نہیں کہتا، نہ کہ سکتا ہوں ) آخران لوگوں کی تواضع اور خاطر و مدارت

Page 464

خطبات مسرور جلد سوم 457 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005 ء ہمارے ذمہ ہے.یہ سن کر آپ اندر گئے اور ایک چارپائی میرے لئے بھجوادی.( تو کہتے ہیں کہ ) ایک دور وز تو وہ چار پائی میرے پاس رہی.آخر پھر ایسا ہی معاملہ ہونے لگا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.پھر کسی نے آپ سے کہہ دیا.پھر آپ نے اور چار پائی بھجوادی.پھر ایک روز کے بعد وہی معاملہ پیش آیا.پھر آپ کو کسی نے اطلاع دی اور صبح کی نماز کے بعد ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھ سے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب! بات تو یہی ہے جو تم کرتے ہو.اور ہمارے احباب کو ایسا ہی کرنا چاہئے.(مہمان نوازی اسی طرح کرنی چاہئے لیکن تم ایک کام کرو، ہم ایک زنجیر لگا دیتے ہیں چار پائی میں زنجیر باندھ کر چھت میں لٹکا دیا کرو.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ( وہاں کھڑے تھے ) یہ سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ ایسے بھی استاد آتے ہیں جو اس کو بھی اتار لیں گے.پھر آپ ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) بھی ہنسنے لگے.(سیرت حضرت مسیح موعود مصنفه شيخ يعقوب على صاحب عرفانی صفحه 344-345) تو آپ نے یہی فرمایا کہ اعلیٰ اخلاق تو یہی ہیں جو صاحبزادہ صاحب دکھا رہے ہیں لیکن اس حدیث کے مطابق خاموش رہو یا اچھی بات کرو مہمان کو کچھ کہنا نہیں.ہاں حفاظتی انتظام ہے اس کی طرف توجہ دلا دی کہ کس طرح اپنی چارپائی کو محفوظ کر لو.مہمان کی مہمان نوازی تو ضروری ہے لیکن مہمان کو بھی یہ خیال ہونا چاہئے کہ دھونس سے تو اپنا حق نہ لے.پھر اس کا ایک ہی علاج ہو گا کہ ہر چیز کو تالا لگا دے تاکہ مہمانوں سے محفوظ رہے.مہمانوں کو اپنے مہمان ہونے کا حق بھی جائز طور پر استعمال کرنا چاہئے.یہ نہیں کہ تین دن کے بعد مہمان گھر پر قبضہ کر کے بیٹھا ہو اور گھر والا باہر ہو.گو جلسے کے دنوں میں یوں ہوتا بھی ہے.ربوہ میں بھی اس طرح ہوا کرتا تھا اور قادیان کے متعلق بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ اسی طرح ہوتا تھا کہ جلسے کے دنوں میں تین ، چار پانچ چھ دن کے لئے ، بعض دفعہ ہفتے کے لئے لوگ اپنے گھر مہمانوں کے لئے دے دیا کرتے تھے.دس دن کے لئے بھی دے دیتے تھے اور خود باہر خیموں میں جا کر سو جایا کرتے تھے.لیکن یہ گھر والے کی خوشی سے ہوتا ہے.زبر دستی مہمان کسی کے بستر ، پلنگ یا گھر پر قبضہ نہیں کرتے.جہاں میزبان کے اعلیٰ اخلاق ہیں اور وہ اعلیٰ اخلاق دکھلاتا ہے وہاں مہمانوں کو بھی اعلیٰ اخلاق دکھانے چاہئیں.یہاں

Page 465

خطبات مسرور جلد سوم 458 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء بھی ماشاء اللہ لوگ مہمان نوازی کرتے ہیں.اور اپنے گھر مہمانوں کے لئے پیش کر دیتے ہیں لیکن بعض مہمان ضرورت سے زیادہ توقعات بھی رکھ لیتے ہیں اور اپنے مہمان ہونے کا ناجائز حق جتاتے ہیں.مثلاً بعض مہمان کہتے ہیں کہ ہم دوسرے ملک سے آئے ہوئے ہیں یا پاکستان سے آئے ہوئے ہیں پتہ نہیں دوبارہ موقع ملتا ہے کہ نہیں ملتا ہم شاپنگ کرنا چاہتے ہیں، ہمیں شاپنگ کے لئے لے کر جاؤ.پھر شا پنگ کے لئے اس بیچارے میزبان کا خرچ بھی کروا دیتے ہیں.کچھ تو وہ شرم میں ایسے مہمانوں کو ساتھ لے جا کر تحفہ دے دیتا ہے کچھ یہ کہہ کر اس سے شاپنگ کروا لیتے ہیں کہ اس وقت پونڈ میں پیسے نہیں ہیں، واپس جا کر پیسے ادا کر دیں گے یا اگر یورپ میں جرمنی وغیرہ میں ہیں تو یورو میں واپس جا کر دے دیں گے.یہ ان ملکوں میں جب بھی آتے ہیں تو اسی طرح ہوتا ہے بعض کی طرف سے، عموماً نہیں، ایسے چند ایک ہی ہوتے ہیں.اُس سے پھر اس طرح شاپنگ کی ادائیگی بھی کروا دیتے ہیں.تو اس سے احتیاط کرنی چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا گو اس قسم کے شاپنگ کروانے والے، زبر دستی کرنے والے یا بے جھجک ہو کر شاپنگ کروانے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن یہ چند ایک ہی بعض دفعہ بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں.گھر والا بیچارہ ان مہمانوں کو رکھ کے تو مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ چند دنوں کے لئے اپنے گھر سے بھی باہر ہوا، اپنے وقت کا بھی ضیاع کر دیا اور زبردستی کا ادھار بھی دینا پڑ گیا.شاپنگ بھی کروانی پڑ گئی.تو بعض عجیب طبیعتیں ہوتی ہیں اور بعض لوگوں کی قریبی رشتہ داری اور تعلق بھی نہیں ہوتا پھر بھی یہ مطالبے کر رہے ہوتے ہیں.تو ان پر تو پنجابی کی مثال ہے وہی اصل میں صادق آتی ہے ایسے مہمانوں پر کہ لیا د یو تے لد دیو، تے لدن والا نال دیو کہ سامان بھی دو، اٹھا کے پہنچاؤ بھی اور ہمارے ساتھ کوئی بھیجو بھی جو گھر تک چھوڑ کے بھی آئے.کیونکہ بعض دفعہ اتنی زیادہ شاپنگ ہو جاتی ہے کہ اپنی ٹکٹ کے مطابق تو وزن کی اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ سامان لے جاسکیں اور پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کہ ہمارا سامان بھجوا بھی دینا.ہر ایک جانے والے کا اپنا اپنا سامان ہوتا ہے.بھجوانے میں دیر بھی لگ جاتی ہے کبھی کوئی ایسا نہیں ملتا جو خالی ہاتھ جا رہا ہو جو سامان لے جاسکے اور جب عرصہ گزر جاتا ہے اور کچھ وقت لگ جاتا ہے تو پھر شکوے شروع ہو جاتے ہیں کہ جی بڑا غیر ذمہ دار

Page 466

خطبات مسرور جلد سوم 459 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء آدمی ہے.میں وہاں اپنا سامان چھوڑ کے آیا تھا اس نے ابھی تک مجھے پہنچایا نہیں.تو ان باتوں سے ہمیں بچنا چاہئے.ایک بھی مثال جماعت میں ایسی نہیں ہونی چاہئے جو ایسی حرکتیں کرنے والے ہوں.اور یہاں آنے کے لئے جلسے پر آنے کا جو اصل مقصد ہے اس کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں.جلسے کی برکات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں سے جھولیاں بھر کر جائیں بجائے سامان کی شاپنگ کرنے کے.اس سے اعلیٰ کوئی سامان نہیں جو آپ حاصل کریں گے.پس اخلاص کے ساتھ جلسے میں شامل ہوں اور اس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں کہ ہم نے برکتیں حاصل کرنی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے.اور جلسے کے پروگرام سنے ہیں.ایک جلسے کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جس میں یہ بھی توجہ دلائی کہ جلسے پر بیٹھ کر آرام سے جلسہ سنو اور مکمل سنو.صرف تقریروں وغیر ہ اور اچھائی یا برائی کونہ دیکھو بلکہ اس بات کودیکھو جو بیان کی جارہی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: ”سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں.میں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آ کر اس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کر رہا ہے.الفاظ میں کیسا زور ہے.میں اس بات پر راضی نہیں ہوتا.میں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا ہی یہی اقتضاء ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو ( میری فطرت یہی چاہتی ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو ) جو بات ہو خدا کے واسطے ہو..مسلمانوں میں ادبارا ورز وال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے ورنہ اس قدر کا نفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لستان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اور تقریریں کرتے ،شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں.وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا.قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزل ہی کی طرف جاتی ہے.بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے“.(ملفوظات جلد اول صفحه 265-266 جدید ایڈیشن)

Page 467

خطبات مسرور جلد سوم 460 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء پس یہ اخلاص ہے جس کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس مقصد کے لئے آنا چاہئے.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو اور جو بات ہو خدا کے واسطے ہو.اس اصول کو ہر ایک اپنے سامنے رکھے اور جلسہ کی برکات سے فائدہ اٹھائے اور ہر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.ان دنوں کو دعاؤں میں گزاریں.تمام پروگراموں کو سنیں.دھیان ہر وقت یہاں بیٹھ کے یہ نہ ہو کہ میں بازار جاؤں گا اور شاپنگ کروں گا یا فلاں کام کرنا ہے یا فلاں کا روبار کی طرف دیکھنا ہے.بلکہ جلسے پر آئے ہیں تو جلسے کے مقصد کو ہی پیش نظر رکھیں.اور ہر نیکی کی بات جو سنیں اس کو اپنانے کی کوشش کریں.اپنی زندگیاں اسی طرح گزارنے کی کوشش کریں جس طرح نیکی کی باتیں آپ کو سکھائی جارہی ہیں.نمازوں اور نوافل کو خاص اہتمام سے ادا کریں.جب ان دنوں خاص طور پر ذکر الہی اور دعاؤں کا ماحول ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی برکات سے آپ ہر لمحہ فیض پارہے ہوں گے.اس ذکر الہی کے نکتے کو حضرت مصلح موعودؓ نے بڑے خوبصورت انداز میں یوں بیان فرمایا ہے.آپ نے فرمایا کہ: ” مجھے ایک اور خیال آیا اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جلسے کے ایام میں ذکر 66 الہی کرو.اس کا فائدہ خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ " اذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرْكُمْ ، اگر تم ذکر الہی کرو گے تو خدا تمہارا ذکر کرنا شروع کر دے گا.بھلا اس بندے جیسا خوش قسمت کون ہے جس کو اپنا آقا یاد کرے اور بلائے.ذکر الہی تو ہے ہی بڑی نعمت خواہ اس کے عوض انعام ملے نہ ملے.پس تم ذکر الہی میں مشغول رہو.پس یہ دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے کے خاص دن ہیں اس میں ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کی بجائے ، جیسا کہ میں نے کہا کہ فلاں میری ضرورت پوری ہو اور فلاں کام ہو جائے.میں جو جلسہ سننے کے لئے آیا ہوں، ہمیں مہمان تھا میری فلاں ضرورتیں پوری نہیں کی گئیں اور فلاں بات کا خیال نہیں رکھا گیا، فلاں انتظام درست نہیں تھا، اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اعتراض ہو سکتے ہیں.کیونکہ جلسے کے وسیع انتظام ہیں اور ان دنوں میں اس جگہ پر خاص طور پر پورا

Page 468

خطبات مسرور جلد سوم 461 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005 ء ماحول مختلف ہے پہلی دفعہ سارے انتظام کئے گئے ہیں.ہو سکتا ہے آپ کو کچھ مشکلات بھی ہوں ، کچھ دقتیں بھی ہوں، تو حو صلے اور صبر سے ان کو برداشت کریں اور مکمل توجہ اس طرف رکھیں کہ ان دنوں میں اپنے دلوں کو ، اپنے دماغوں کو، اپنی روحوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے منور کرنا ہے اور ہر نیکی کی طرف قدم آگے بڑھانا ہے.ان دنوں میں دعائیں کریں اور خوب دعائیں کریں ، اپنے لئے دعائیں کریں، اپنے بیوی بچوں کے لئے ، اپنی نسلوں کے لئے دعائیں کریں، جماعت کی خدمت کرنے والوں کے لئے دعائیں کریں جن میں باقاعدہ خدمت کرنے والے بھی ہیں ، واقفین زندگی بھی ہیں اور مختلف دوسری خدمات کرنے والے والینٹیر ز بھی ہیں.مختلف ممالک میں جو مبلغین جماعت کے پھیلے ہوئے ہیں ان کے لئے بھی دعائیں کریں.جماعت کے لئے دعائیں کریں، جماعت کی ترقیات کے لئے دعائیں کریں.مختلف ممالک میں مثلاً انڈونیشیا میں آجکل خاص طور پر مخالفین نے بہت شور مچایا ہوا ہے حکومت پر دباؤ ہے کہ جماعت کو یہاں بین (Ban) کیا جائے ، پابندی لگائی جائے.اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی مخالفین وقتا فوقتا شوشے چھوڑتے رہتے ہیں.انڈونیشیا میں گزشتہ جلسے کے دوران مخالفین نے حملہ بھی کیا.لوگ بھی زخمی کئے ، نقصان بھی پہنچایا.پھر وہاں ہمارا سنٹر ہے وہاں بھی حملہ کیا.بظاہر حکومت بھی مخالفین کے دباؤ میں ہی لگ رہی ہے.ان دنوں میں ان مظلوموں کے لئے بھی خاص طور پر دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور جس طرح یہاں امن کی فضا میں جلسے منعقد کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں وہاں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے مواقع میسر آجائیں.یہ بہر حال یہاں کی حکومت کا احسان ہے کہ باوجود اس کے کہ گزشتہ دنوں میں جو واقعہ ہوا، ٹرینوں میں جو بم پھٹے ہیں اور جانی نقصان ہوا ہے اور عموماً یہی کہا جا رہا ہے کہ جو مجرم ہیں وہ پاکستانی ہیں یا مسلمان ہیں.بہر حال یہ مسلمانوں پر الزام لگ رہا ہے.تو یہاں مقامی لوگوں میں سے جو بعض شدت پسند ہیں مسلمانوں کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ لوگ یعنی حکومت ، بہر حال انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے اور کر رہی ہے.مکمل طور پر ظاہری تحفظ کا سامان ہمیں مہیا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور ان نیکیوں کے عوض ان لوگوں کو بھی حق پہچاننے کی توفیق

Page 469

خطبات مسرور جلد سوم 462 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء دے.ہمارا اصل سہارا تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے اور اسی پر ہمیں بھروسہ ہے اور ظاہری سامان تو ہم اس حکم کے تحت کرتے ہیں کہ اونٹ کا گھٹا باندھو.پس ان دنوں میں آج جمعہ کے اس بابرکت دن کے ساتھ خاص طور پر دعاؤں میں لگ جائیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل اور اس کی پناہ مانگتے رہیں اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت پر عمل کرنے والے ہوں جس میں آپ نے فرمایا کہ میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت ہے جو میں پہلے بھی کئی دفعہ کر چکا ہوں کہ عمر چونکہ تھوڑی اور عظیم الشان کام در پیش ہے اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خاتمہ بالخیر ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور عمل کرنا ہے.اسی سے خاتمہ بالخیر ہوتا ہے.ہر فعل اور عمل کو خدا کی رضا کے مطابق کرنا ہے تب خا تمہ بالخیر ہوگا.اس عمل کو خالص اللہ تعالیٰ کا ہوتے ہوئے اپنی دعاؤں سے بھی سجانا ہو گا.تو عمل کے ساتھ ساتھ دعاؤں پر بھی زور دینا ہو گا اور اگر اس نکتے کو سمجھ جائیں گے اور دعا کو اس طرح مانگیں گے جس طرح کہ اس کا حق ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ مانگیں گے تو پھر وہ دعا یقیناً قبولیت کا درجہ رکھتی ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کے مطابق زندگیاں ڈھالنے کی توفیق دے.تمام مہمان بھی اور میزبان بھی اور تمام دنیا میں اس جلسے کو سننے والے، اور تمام دنیا میں بسنے والے احمدی اس دعا کے مضمون کو سمجھتے ہوئے اس کا حق ادا کرنے والے ہوں.اب میں عمومی طور پر بعض ہدایات جو جلسے پر دی جاتی ہیں ان کا بھی مختصر اذکر کر دیتا ہوں.ویسے تو جلسہ کا جو پروگرام چھپا ہے اس میں گزشتہ تمام ہدایات درج کر دی گئی ہیں.لیکن بعض لوگوں نے شاید پروگرام نہ لیا ہو اور بعض لوگ صرف پروگرام کا حصہ دیکھ لیتے ہیں مکمل طور پر اس میں سے نہیں گزرتے.اس لئے پہلی بات تو یہ کہ ان تمام ہدایات کو غور سے پڑھ لیں جو پروگرام میں لکھی گئی ہیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں.اور جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ سب سے ضروری ہدایت یہی ہے کہ دعا اور نمازوں کی طرف خاص توجہ دیں.یہاں بازاروں میں بھی جو سٹال لگے ہوئے ہیں جلسے کے وقت میں یعنی جب جلسے کی کارروائی ہو رہی ہوتی ہے اور نمازوں کے وقت میں کوشش کریں کہ بالکل نہ جائیں کیونکہ سٹال بند ہوں گے.تھوڑا

Page 470

خطبات مسرور جلد سوم 463 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء سا برداشت کریں اور سٹال لگانے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ جس طرح گزشتہ سال انہوں نے اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا سال بند کئے تھے، اس سال بھی بند رکھیں.اور شعبہ تربیت اس کا جائزہ لیتا ر ہے.ہنگامی حالت میں اگر کسی کو ضرورت پڑے کھانے پینے کی مثلاً بعض مریض ہوتے ہیں تو مہمان نوازی کا شعبہ ہے وہ ان کی ضرورت پوری کر سکتا ہے.اور مہمان نوازی کے جو کارکنان ہیں ان کو مین آفس میں بھی اور رہائش گا ہوں میں بھی رہنا چاہئے تا کہ اگر کسی مریض وغیرہ کی کوئی ضرورت ہے تو وہ پوری کرسکیں.کارکنان بھی دعاؤں پر زور دیں کہ اللہ کے فضل سے تمام کام خیریت سے ہوں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہونے ہیں اس لئے دعاؤں کے بغیر چارہ نہیں.اور اللہ تعالیٰ اگر خوش ہو گیا تو مہمان خود ہی آپ سے خوش ہو جائیں گے.نمازوں کا بھی با قاعدہ انتظام رکھیں ان کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں.بچوں والی مائیں یا باپ جو بچوں کو لے کر آتے ہیں وہ کوشش کریں کہ بچوں کے لئے جو مخصوص جگہیں ہیں وہیں بیٹھیں.وہاں اگر جگہ نہیں ہے تو مار کی کے بالکل پچھلے حصے میں بیٹھیں تا کہ باقی جلسہ گاہ اس شور سے یا بچوں کی بے چینی سے ڈسٹرب نہ ہو.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے بھی بتایا ہے کہ جلسے کے جو پروگرام میں ان کو غور سے سنیں اور خواتین پردے کا خیال رکھیں.مرد بھی غض بصر سے کام لیں ،نظریں نیچی رکھیں اور پھر یہ ہے کہ صفائی کا خاص خیال رکھیں.اس دفعہ یہ جو جگہ ہے یہ کرائے کی ہے عارضی طور پر لی گئی ہے.اس لئے ہر شخص چاہے باہر سے آنے والے مہمان ہیں یا.U.K سے آنے والے مہمان یا یہاں کے کارکنان ہیں وہ اپنے ارد گرد صفائی کا ضرور خیال رکھیں.اور چلتے چلتے بھی اگر کوئی چیز پڑی ہوئی دیکھیں تو فوری طور پر اسے اٹھا کر ڈسٹ بن (Dust Bin) میں ڈالنے کی کوشش کریں تا کہ اس جگہ پر مالکان کو یہ احساس نہ ہو کہ یہ لوگ جلسہ کر کے ہمارے علاقے میں گند ڈال کے چلے گئے ہیں.اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ آجکل کے حالات کی وجہ سے بعض شدت پسند لوگوں میں مسلمانوں کے خلاف تناؤ ہے اور بعض چھوٹے چھوٹے شہروں میں اس کا اظہار بھی ہوا ہے.ان لوگوں بیچاروں کو تو جماعت احمد یہ کا پتہ نہیں.وہ ہمیں بھی ان جیسا ہی سمجھتے ہیں کہ شاید یہ بھی اس طرح کے لوگ ہیں جو دہشت گرد

Page 471

خطبات مسرور جلد سوم 464 خطبہ جمعہ 29 جولائی 2005ء ہیں.اس لئے ہم نے بہر حال اپنے اچھے نمونے قائم کرنے ہیں اور اگر ان کی طرف سے، نوجوان لڑکوں کی طرف سے بعض اوقات شرارت ہو جاتی ہے، اگر کوئی شرارت کرے بھی اور آپ سے چھیڑ چھاڑ بھی کرے تو اس سے بچنے کے لئے اگر ضرورت ہو اور وہاں کوئی پولیس والا ہے تو اس سے مدد لے لیں.اول تو یہ کہ صبر کریں اور وہاں سے نکل آئیں اور اگر پھر بھی آپ کو جسمانی طور پر کوئی اذیت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو پولیس کو اطلاع کریں، انتظامیہ کو اطلاع کریں.لیکن خود براہ راست کوشش کریں کہ وہاں سے نکل جائیں اور کسی قسم کا موقع کسی کو نہ ملے.کیونکہ ایسی شرات والی جگہوں کے بارے میں یہی حکم ہے کہ وہاں سے آ جاؤ.اور عورتیں خاص طور پر ان دنوں میں چھوٹی چھوٹی جگہوں پر بازاروں وغیرہ میں پھرنے کی کوشش نہ کریں.جو باہر سے آئی ہوئی ہیں ان کو بعض دفعہ پتہ نہیں لگتا کسی بھی قسم کی کوئی شرارت ہو سکتی ہے.پھر جلسہ گاہ اور اس پورے علاقے میں جو ہماری مارکیوں کی جگہ ہے، رہائشی علاقہ ہے جو بھی ہم نے پورا امر یا لیا ہوا ہے اس میں عموماً تو ڈیوٹی سیکیورٹی والوں کی لگی ہوئی ہے، خدام کی لگی ہوئی ہے، پولیس بھی نگرانی رکھ رہی ہے.لیکن ہر ایک کو بھی اپنے ماحول پر نظر رکھنی چاہئے.اور اگر کسی کو دیکھیں کہ شرارت کی غرض سے کوئی اندر آ گیا ہے تو فوری طور پر انتظامیہ کو اطلاع کریں.اگر کسی پر بھی آپ کو شک پڑتا ہے اس کو نظر میں رکھیں اور ساتھ ساتھ رہیں ، نظر سے اوجھل نہ ہونے دیں.اور عورتوں میں بھی خاص طور پر اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور اگر کوئی برقعہ پوش بھی اندر آئے اور وہ نقاب وغیرہ نہیں اتارتی تو اس پہ تو خاص طور پر نظر رکھنی چاہئے.اور بیگ وغیرہ بھی چیک ہونے چاہئیں لیکن اس طرح کہ کسی کو تکلیف نہ ہو.اور سب سے بڑھ کر جس طرح میں نے کہا کہ ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ ، خود برکتیں سمیٹنے کے ساتھ ساتھ جلسے کے بابرکت ہونے کے لئے بھی اور خیریت سے اختتام پذیر ہونے کے لئے بھی دعائیں کرتے رہیں اور دعاؤں میں وقت گزاریں.اللہ تعالیٰ سب پر اپنا فضل فرمائے اور ہر ایک کو برکات سے حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.谢谢谢

Page 472

خطبات مسرور جلد سوم 465 (30) خطبه جمعه 5 راگست 2005 ء جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش جماعت کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے اور اس کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے کی تلقین خطبه جمعه فرموده 5 اگست 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:.اِنْ تَكْفُرُوْا فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضُى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَ إِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرُى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ إِنَّهُ عَلِيْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (الزمر:8) پھر فرمایا:.اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اگر تم انکار کرو تو یقینا اللہ تم سے مستغنی ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرتا ہے.اور کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی.پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے.پس وہ تمہیں ان اعمال سے باخبر کرے گا جو تم کیا کرتے تھے.یقیناًوہ سینوں کے رازوں کو خوب جانتا ہے.

Page 473

خطبات مسرور جلد سوم 466 خطبه جمعه 5 راگست 2005 ء اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور محض اور محض اس کے فضل کی وجہ سے گزشتہ دنوں اتوار کو.U.K کا جلسہ سالانہ خیریت سے ختم ہوا.اور باوجود اس کے کہ نئی جگہ تھی کھلا میدان تھا، کوئی سہولت میسر نہ تھی، کیونکہ اسلام آباد میں جب جلسہ ہوا کرتا تھا تو کچھ نہ کچھ شیڈ (Shed) اور عمارتیں موجود ہیں اور کچھ حد تک ضروریات پورا کرنے کے لئے وہاں ان عمارتوں اور شیڈوں کو استعمال کیا جاتا تھا لیکن اس نئی جگہ پر جہاں جلسہ کیا گیا تمام انتظامات عارضی تھے.کھانا پکانے کا انتظام اسلام آباد میں تھا.کھلانے کا انتظام نئی جگہ پر تھا اور دس بارہ میل کا فاصلہ تھا.کھانا لے کر جانا ، پھر چھوٹی سڑکیں ،ٹریفک کی زیادتی ، وقت لگتا تھا.پھر بعض نئے کام بھی کرنے پڑے.اکثر کارکنان اس لحاظ سے ناتجربہ کار تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کی دعاؤں کو سنا اور سب کی پردہ پوشی فرمائی اور یہ جلسہ سالانہ اپنی تمام برکات بکھیر تا ہوا اپنے اختتام کو پہنچا.اس پر ہم خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.اور یہ شکر ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے.اور جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے تو یہ ایک مومن کو مزید شکر میں بڑھاتی ہے اور اس سے پھر اللہ تعالیٰ کی راہوں کے مزید دروازے کھلتے ہیں.غرض کہ یہ مضمون ایسا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں.دنیا کی ظاہری چیزوں کے ساتھ اس کی مثال نہیں دی جاسکتی.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو محدود کیا ہی نہیں جاسکتا.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ شکر کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کے دروازے مزید کھلتے چلے جاتے ہیں.پس انسان کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس کا شکر گزار بندہ بنتا چلا جائے کیونکہ یہ انسان ہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کو تو انسان کی کوئی ضرورت نہیں.اس آیت میں بھی جو میں نے تلاوت کی ہے یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تو غنی ہے، بندے کو اس کی ضرورت ہے اور اس ذات کے بغیر بندے کا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا، کوئی چارہ ہی نہیں ہے.اور اللہ تعالیٰ کو تو بندے کی کوئی ضرورت نہیں.وہ تو رب العالمین ہے.وہ تو سب جہان کا رب ہے، سب کا پالنے والا ہے.پس اگر محتاج ہے تو بندہ خدا کا محتاج ہے.خدا تعالیٰ بندوں کی تعریفوں کا محتاج ہے نہ بندوں کے شکر گزار ہونے کا محتاج.ہاں وہ

Page 474

خطبات مسرور جلد سوم 467 خطبه جمعه 5 راگست 2005 ء اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے بہتری کے لئے ، یہ چاہتا ہے کہ وہ ناشکری کرنے والے اور کفر کرنے والے نہ ہوں بلکہ اس کے شکر گزار ہوں.اور فرمایا کہ یہ شکر گزاری کے جذبات اور عمل تمہیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں گے.اور پھر اسی قرب کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کے وارث بنو گے.اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ ﴾ (ابراہیم :8) یعنی اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور بڑھاؤں گا.یقینا تم میری رضا کو اس شکر کی وجہ سے مزید حاصل کرنے والے ہو گے.اس لئے ہمیشہ شکر گزار بندے بنو.یہ نہ سمجھو کہ بڑوں کے اعمال کی وجہ سے، بزرگوں کے اعمال کی وجہ سے ، ان کی نیکیوں کی وجہ سے، ان کی شکر گزاری کے جذبات کی وجہ سے جو جماعت پر فضلوں کی بارشیں ہوتی رہیں وہ اسی طرح جاری رہیں گی.تمہارے بزرگوں نے شکر کر لیا تمہیں شکر گزاری کی ضرورت نہیں نہیں، بلکہ فرمایا کہ تم میری رضا تب حاصل کر سکو گے جبکہ خود شکرگزار بندے بنو گے اور شکر گزاری کرتے ہوئے ، میرے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے رہو گے.اور یہی شکر گزاری کے جذبات ہیں جو تمہیں اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنائیں گے.تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں جائے گی.تمہارا شکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرے گا بشرطیکہ یہ نیک نیتی سے ہو.اللہ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ ہمارے دلوں کے حال کو جانتا ہے.ہماری کنہ تک سے واقف ہے.وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہے.اللہ کرے کہ یہ شکر گزاری کے جذبات اور پاک دل ہو کر اس کے آگے شکر کرتے ہوئے جھکنے کے عمل ہر احمدی سے ظاہر ہورہے ہوں اور ہر احمدی میں نظر آ رہے ہوں اور ہمیشہ نظر آتے رہیں تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں.ہمارا تو جو کچھ ہے خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے.اس بات کو احمدی خوب سمجھتے ہیں اور اسی لئے ہمارے سب کام دعا سے شروع ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ایسے نظارے نظر آتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے.جلسے کے بعد مختلف ملکوں کے احمدیوں نے جلسہ کی کا میابی کی فیکس بھیجیں.خطوط لکھے اور ہر ایک خط میں اور فیکس میں بلا استثناء یہ بات مشترک تھی کہ

Page 475

خطبات مسرور جلد سوم 468 خطبه جمعه 5 اگست 2005 ء اس جلسہ کے کاموں اور پروگراموں میں گزشتہ سال کی نسبت بہتری نظر آتی تھی.اس طرح یہاں جلسہ پر جو لوگ شامل ہوئے ان میں سے اکثریت کا یہی اظہار تھا، یہی تاثرات تھے کہ جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب اور برکتوں کو سمیٹنے والا تھا اور شامل ہونے والوں کو برکتیں دینے والا تھا.اس کامیابی میں انسانی کوششوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے.بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے.وہی کاموں میں برکت ڈالتا ہے اور ان میں بہتری نظر آتی ہے ورنہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کام بڑا اچھا کر دیا.حالانکہ اتنا اچھا نہیں ہوا ہوتا.اور بعض دفعہ یہ خیال آتا ہے کہ کام میں فلاں فلاں کمی رہ گئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس طرح کمی پوری فرماتا ہے کہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کمی کو پورا فرمایا.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ، اس کے آگے جھکتے ہوئے اور دعائیں کرتے ہوئے جب ہم اپنے کام کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فضل فرماتا چلا جاتا ہے.اس لئے ہمیشہ شکر ادا کرتے ہوئے اس سے دعائیں کرتے ہوئے ہر احمدی کو اپنے کام کرنے چاہئیں اور یہی ہمیں تعلیم دی گئی ہے.جب ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے ہوئے اپنے کاموں کو سر انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کا فضل ما نگتے ہیں ، اس کی مددمانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے وعدے کے مطابق کہ اگر تم شکر گزار بندے بنو گے تو میں مزید برکت ڈالوں گا ، برکتیں نازل فرماتا چلا جاتا ہے.اپنے فضلوں اور برکتوں سے ہمیں نوازتا چلا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک نئی جگہ تھی اس کی وجہ سے فکر تھی کہ بعض کمیاں اور خامیاں رہ جائیں گی لیکن کارکنوں نے اللہ تعالیٰ کا فضل ما نگتے ہوئے بڑی محنت سے کام کیا ہے اور یہ بھی شکر کے مضمون کا ہی حصہ ہے کہ جو ذ رائع اور وسائل اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں، جو جسمانی طاقتیں اور استعداد یں اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائی ہیں ان سے بھر پور کام لو اور پھر معاملہ خدا پر چھوڑ دو.یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ کہا جائے کہ اے اللہ گزشتہ سال تو کام بڑے اچھے ہو گئے تھے ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں کہ تو نے ہماری بڑی مددفرمائی اس سال بھی ہمارے کام اچھے کر دے لیکن جہاں تک ہمارا سوال ہے ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ اتنی محنت کر سکیں جتنی پہلے کرتے تھے.پہلے سے ہی اگر آپ نعمت سے انکاری ہو جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے شکر کے مضمون کو نہ سمجھنے والی بات

Page 476

خطبات مسرور جلد سوم 469 خطبہ جمعہ 5 راگست 2005 ء ہوگی.شکر یہی ہے کہ اپنی جو منتیں ہیں ، جو جو استعداد میں ہیں ان کو اپنی نااہلیوں کے باوجود بھر پور طور پر بجالایا جائے ، ان کے مطابق عمل کیا جائے اور پھر معاملہ خدا پر چھوڑا جائے تو یہ شکر گزاری ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں جو تمام استعداد میں ہیں ، جسمانی طاقتیں ہیں، وسائل ہیں ، ان کو بھر پور طور پر استعمال کرنا بھی ضروری ہے اور ان کو بھر پور طور پر استعمال کرنے سے ہی شکر گزاری کا مضمون ہر ایک پر واضح ہوتا ہے.اور یہی مضمون ہمیں اللہ تعالیٰ نے سمجھایا ہے کہ صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ ہم تیرے شکر گزار ہیں کافی نہیں بلکہ شکر گزاری یہ ہے کہ پہلے جو اللہ تعالیٰ نے فضل کئے ہیں ان کا ذکر کرو اور آئندہ کے لئے اپنی استعدادوں کو بھر پور طور پر استعمال کرو.جو ظاہری وسائل ہیں ان کو استعمال کرو کیونکہ یہ شکر نعمت ہے.اور اس شکر نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید فضل کے دروازے کھلتے ہیں اور ان میں ظاہری کاموں کے علاوہ یہ جو میں نے بتایا کہ استعداد یں ہیں.ظاہری طور پر اپنے ہاتھ سے کام کرنے ہیں، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اپنی زندگی گزارنا بھی ہے.نیک اعمال بجالانا بھی ہے، دعاؤں پر زور دینا بھی ہے.بندوں کے حقوق ادا کرنا بھی ہے.ایک دوسرے سے تعاون اور شکر کے جذبات کو بڑھانا بھی ہے.اس لئے حدیث میں آتا ہے آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا ، ان کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرتا.پس آج احمدی ہی ہیں جو اس مضمون کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ نیک اعمال ، اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اور ایک دوسرے کے لئے شکرانے کے جذبات سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی سمیٹتے ہیں.بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ میں ان نیکیوں پر چلنے والے لوگ بہت ہیں.اور اسی لئے ہم ہر آن جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتے دیکھتے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں.اور یہ شکر کے جذبات ہر موقع پر اور خاص طور پر جلسوں پر پہلے سے بڑھ کر ادا کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی صورت میں ہمیں نظر آتے ہیں.پس یہ اصل مضمون ہے جو کبھی کسی احمدی کو بھولنا نہیں چاہئے.شکرانے کے ان جذبات کی وجہ سے میں تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.

Page 477

خطبات مسرور جلد سوم 470 خطبه جمعه 5 راگست 2005 ء کارکنوں کی اکثریت ایسی ہے جو یہاں کے پلے بڑھے بچے اور نوجوان ہیں.سب نے بڑی محنت سے رات دن ایک کر کے اپنے فرائض کی ادائیگی کی.اور ان ملکوں میں جہاں بچوں اور نو جوانوں کی ترجیحات بالکل اور طرح کی ہیں عجیب و غریب قسم کی مصروفیات ہیں.خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی مصروفیات ہیں ایک احمدی بچے اور نوجوان کی ترجیح اللہ تعالیٰ کی خاطر ، اس کے حکموں پر چلتے ہوئے ، کام کرنا اور نیک اعمال بجالانا ہے.یہ لوگ دنیاوی کھیل کود کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کے مہمانوں کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں.نہ رات دیکھتے ہیں، نہ دن بعض کارکنوں کو تو میں نے خود دیکھا ہے کہ مختلف وقتوں میں جس طرح انہوں نے یہ تین دن ،رات دن جاگ کر گزارے ہیں.کوئی کھیل نہیں ہور ہے، کوئی اور اس قسم کی دلچسپی کی باتیں نہیں ہور ہیں بلکہ بڑی توجہ سے ، بڑی محنت سے ، مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں.خاموشی سے مہمانوں کی خدمت کے لئے کمر بستہ ہیں.پھر یہ تین دن ہی نہیں بلکہ جلسے کے کاموں میں سے بعض تو چند مہینے پہلے شروع ہوتے ہیں لیکن ڈیوٹیاں ہفتہ دس دن پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں اور کم از کم ایک ہفتہ بعد تک یہ کام چلتے ہیں.لیکن یہ تمام والنٹیئر ز جن میں بچے بھی ہیں، نوجوان بھی ہیں ، بڑی عمر کے بھی ہیں ، اپنی دلچسپیوں اور اپنے کاموں کو قربان کرتے ہوئے یہاں ڈیوٹیوں کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں.بہر حال ان سب کا رکنان کا میں شکریہ ادا کر دیتا ہوں.اور سب سے بڑی جزا تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.یہ کارکنان جو اتنی قربانی کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے آتے ہیں ان سے بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اس خدمت کا موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا.آپ کو بھی اس خدمت کی وجہ سے شکر گزار ہونا چاہئے اور شکر کرنا چاہئے.یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ان مہمانوں کی خدمت کی آپ کو توفیق دی اور اپنے خاص فضل سے پردہ پوشی فرمائی کیونکہ بہت سے کاموں میں کمیاں ، خامیاں رہ جاتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی پردہ پوشی فرمائی اور تمام کام خیریت سے انجام کو پہنچے.اس پردہ پوشی کے ضمن میں یہ ذکر کر دوں کہ ایک مہمان کسی دوسرے ملک سے آئے ہوئے

Page 478

خطبات مسرور جلد سوم 471 خطبه جمعه 5 راگست 2005 ء تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ دوسری جگہ جلسہ ہونے کی وجہ سے بعض کمیاں رہ گئی ہوں گی ، آپ کو تکلیف ہوئی ہوگی.تو ان کا یہ کہنا تھا کہ اس سے اچھا انتظام ہو ہی نہیں سکتا تھا.تو اللہ تعالیٰ اس طرح پردہ پوشی فرماتا ہے.پس اس بات کو آپ میں مزید بہتری اور شکر گزاری پیدا کرنے کا باعث بننا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے جن انعاموں سے آپ کو نوازا ہے اس کا مزید اظہار ہونا چاہئے.اعمال صالحہ بجالانے کی طرف مزید توجہ پیدا ہونی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اس شکر گزاری کے عمل کی وجہ سے مزید فضلوں کے راستے آپ کے لئے کھولے.اسی طرح جلسہ سننے والوں کو بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو بھی شکر گزاری کے جذبات سے بھرا ہوا ہونا چاہئے.وہ جو یہاں آکر جلسہ میں شامل ہوئے ان کو اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے توفیق دی کہ آپ لوگ براہ راست یہاں آ سکے اور جلسہ سن سکے.جو دنیا کے مختلف ملکوں میں بیٹھ کر جلسہ سن رہے تھے کئی جگہوں سے معلوم ہوا ہے کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہمیں یوں لگ رہا تھا کہ ہم بھی وہیں موجود ہیں.تو بہر حال جو دور بیٹھ کر جلسہ سنتے رہے ان کو بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی انتہائی عاجزانہ قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے MTA جیسی نعمت سے ہمیں نوازا ہے جس سے دنیا کا ہر احمدی دور بیٹھے ہوئے جلسوں میں شامل ہو جاتا ہے.پس تمام جماعت کو جلسوں کو سننے کی وجہ سے جو جلسہ کے چند دنوں میں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ہیں یا بعض نیک اعمال بجالانے کی طرف توجہ ہوئی ہے، اس کی توفیق ملی ہے ، جیسا کہ لوگ زبانی اور خطوط میں بھی اظہار کرتے ہیں ، اب ہر ایک کا یہ کام ہے کہ شکرانے کے طور پر اور اس شکر گزاری کے اظہار کے طور پر ان پاک تبدیلیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں اور جب آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ان تبدیلیوں میں دوام حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کو مستقل اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کریں گے تو پھر خدا تعالیٰ کے فضلوں کے مزید دروازے کھلتے چلے جائیں گے.پس جہاں میں تمام مہمانوں کا ان کے بھر پور تعاون کی وجہ سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.بہت سی باتیں انہوں نے برداشت کیں اور انتظامیہ اور کارکنوں سے تعاون کیا اور انتظامیہ کوکسی

Page 479

خطبات مسرور جلد سوم 472 خطبه جمعه 5 راگست 2005 ء Panic سے یا بعض موقعوں پر شرمندگی سے بچایا اور معمولی سہولتوں کا بھی شکر یہ ادا کیا.وہاں شامل ہونے والے تمام مہمان خود بھی شکر گزاری کے جذبات سے اپنے اندر ، اپنی زندگیوں میں دے.تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ان تبد یلیوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں.پھر ہم حکومت کے اس محکمہ کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمیں جلسہ کرنے کے لئے بڑا وسیع میدان جو محفوظ بھی تھا مہیا کیا اور پھر بھر پور تعاون بھی کیا.شروع میں بعض سہولتوں کے انکار ہونے کی وجہ سے فکر تھی ،مثلاً پانی کی سپلا ئی تھی ،سیوریج وغیرہ کا نظام تھا، اس کے لئے گو متبادل انتظام کر لیا گیا تھا لیکن اس میں بھی بعض قباحتیں نظر آتی تھیں جو جلسہ کی انتظامیہ کے خیال میں تو اہم نہیں تھیں لیکن میرا خیال تھا کہ بعض باتیں پیدا ہوسکتی ہیں.بہر حال جن سہولتوں کو مہیا کرنے سے انتظامیہ نے پہلے انکار کیا تھا وہ ایک دن پہلے مہیا کر دیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا پھر آرمی کی جگہ ہونے کی وجہ سے مستقل سیکیورٹی کا بھی انتظام انہوں نے رکھا اور پولیس کے ساتھ مل کر اس میں بھی تعاون کیا.بہر حال جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہی ان لوگوں کا بھی شکر ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے کام میں آسانی پیدا کی.اس میدان کی جو جگہ تھی جہاں جلسہ ہوا، اس لحاظ سے بھی فکر تھی کہ چھاؤنی کا علاقہ ہے، آرمی کا علاقہ ہے اور 7 جولائی کے واقعہ کے بعد اس اہم علاقہ میں جلسہ کرنے سے ہمیں کہیں روک نہ دیں، اجازت کینسل نہ کر دیں.کیونکہ عموماً معاہدوں میں یہ شق رکھی جاتی ہے کہ مالک کے پاس یہ حق محفوظ ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو عین موقع پر اپنی ضرورت کے تحت وہ جگہ دینے سے انکار کر دے.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ان لوگوں کے دل نرم ہی رکھے.اللہ تعالیٰ سب کو جزا و اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ آئندہ انتظامات مکمل کر کے جونئی جگہ ہے وہاں جلسہ منعقد کر سکیں اور اس جلسہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ایک بہت بڑا فضل جماعت پر فرمایا ہے کہ جیسا کہ اعلان ہو چکا ہے آئندہ جلسہ کے لئے ہمیں ایک بڑی با موقع اور بڑی جگہ بھی میسر فرما رہا ہے.اللہ کرے کہ کاغذی کارروائی بھی مکمل ہو جائے اور جماعت جلد اس زمین کا قبضہ بھی لے لے اور کسی قسم کی دے.

Page 480

خطبات مسرور جلد سوم 473 خطبه جمعه 5 راگست 2005 ء روک بیچ میں نہ آئے.اس انعام پر بھی ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے.اللہ تعالیٰ کے یہ فضل اور انعام ہیں جو ہمیں مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنانے والے ہونے چاہئیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی اعلان کیا تھا کہ تمام دنیا کے احمدی جو سہولت سے اس نئی زمین کو خریدنے میں حصہ ڈال سکتے ہیں ، ڈالیں.کیونکہ یہ جگہ عملاً تو صرف.U.K والوں کے لئے نہیں ہے بلکہ اس جلسے کی حیثیت چونکہ ایک عالمی جلسہ کی بن چکی ہے اس لحاظ سے پوری دنیا اس کو استعمال کر رہی ہے.اگر صرف.U.K کا ہی جلسہ ہو اور باہر کے لوگ اس میں شامل نہ ہوں تو U.K کا جلسہ تو میرے خیال میں اسلام آباد میں ہی کافی ہو سکتا ہے.بہر حال اس تحریک پر احباب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور حسب توفیق لے بھی رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب وعدہ کنندگان کو ادائیگیاں کرنے کی بھی جلد توفیق عطا فرمائے.اس لئے ان وعدہ کرنے والوں کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی جزا دے.مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ.U.K کی جماعت کے افراد بھی اور دوسرے ملکوں میں سے صاحب حیثیت جلد ہی وعدہ کو پورا کر کے رقم ادا کرنے والے ہوں گے تا کہ جلد قیمت ادا کی جاسکے.اور یہی چیز ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا اور شکر ادا کرنے والا بنائے گی اور اس طرح آپ مزید اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے او پر برستا دیکھیں گے.اس دفعہ جلسہ پر اللہ کے جو بہت سارے فضل ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی فضل ہوا، جس کے لئے ہم خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ جماعت کے تعارف کے سامان اللہ تعالیٰ نے خود بخود پیدا فرمائے.بعض میڈیا اور اخباروں نے اس طرح خبروں کی اشاعت کی جس سے نہ صرف جماعت کا تعارف ہوا بلکہ اسلام کا بھی نام روشن ہوا.اور بعض جگہ یہ جو کہا جارہا ہے کہ ٹرین بم دھماکوں میں ملوث پاکستانی تھے ، پاکستانیوں کا نام لیا جا رہا ہے.تو اس جلسہ کی وجہ سے بعض جگہ پاکستان کے نام سے بھی دھبہ دھلتا ہوا ہمیں نظر آتا ہے.یہاں بی بی سی نے اور میڈیا نے مختلف ٹیلیویژن سٹیشنوں نے ، اخباروں نے عموماً بڑی اچھی کوریج دی، اور پہلے سے بہتر دی.اسی طرح امریکہ کے ایک ٹی وی چینل نے لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب دکھائی اور

Page 481

خطبات مسرور جلد سوم 474 خطبه جمعه 5 راگست 2005 ء ساتھ یہ خبر نشر کی کہ.U.K میں مسلمان بہت بڑی امن کا نفرنس منعقد کر رہے ہیں.پھر آسٹریلیا کے سرکاری چینل SBF نے جلسہ سالانہ.U.K کی جھلکیاں نشر کیں.کہتے ہیں کہ عموماً اس طرح پہلے کبھی نہیں ہوا.اور جو خبر نشر کی اس کا عنوان تھا دو مسلم علماء کا اختلاف رائے ایک احمدیہ مسلم کمیونٹی لندن میں اور دوسرا آسٹریلیا کا.اور آسٹریلیا والے کے بارہ میں بتایا کہ وہ شدت پسندی کے حق میں ہیں.اس میں بھی لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب دکھائی گئی.جماعت کا مختصر تعارف کروایا گیا.محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں "Love for all hatred for none" کے بارہ میں بتایا گیا کہ یہ جماعت کا ماٹو ہے.لندن کے جلسے کے مختلف مناظر دکھا کر بتایا گیا کہ تمیں ہزار کے قریب لوگ جمع ہو کر یہ کا نفرنس منعقد کر رہے ہیں.اسی طرح سپین کے دو ٹیلیویژن چینلز نے خبر دی.اور انہوں نے آج تک کبھی ہماری خبر نہیں دی.جلسہ کے جھلکیاں دکھائیں ، لوائے احمدیت لہراتا ہوا دکھایا گیا.اب MTA ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں حکومتوں کے جو ٹیلی ویژن چینلز ہیں ان پر بھی لوائے احمدیت لہراتا ہوا دکھایا جارہا ہے.لوگوں کو ملتے ہوئے دکھایا گیا.ایک اور ٹیلی ویژن چینل نے جلسہ کے مناظر دکھاتے ہوئے لندن بم دھماکے کے حوالے سے یہ بتایا کہ دنیا کے سب مسلمان ایک جیسے نہیں ہوتے اور پھر نہ ہی ہر پاکستانی جماعت دہشت گرد ہے.یعنی پاکستان پر جو یہ الزام ہے اس کو بھی اس نے دھونے کی کوشش کی.آگے لکھتے ہیں کہ یہ جماعت احمد یہ ہے جو لندن میں دنیا کے ممالک سے تمہیں ہزار کی تعداد میں جمع ہے اور جو انہوں نے Observation دی ہے اس کے نیچے بیان کرتے ہیں کہ دیکھیں کتنا پیارا ماحول ہے.تو دیکھیں آج کی دنیا کو بھی نظر آرہا ہے کہ اسلام کی صحیح علمبردار اگر کوئی جماعت ہے تو یہی جماعت ہے جو آنحضرت اللہ کے عاشق صادق کی جماعت ہے، جو اسلام کا صحیح نام دنیا میں پھیلانے والی جماعت ہے.پاکستان میں حکومت ہمیں غیر مسلم کہتی ہے اور دنیا ہمیں پاکستان کے سفیر کے نام سے پکار رہی ہے.ابھی جب میں جمعہ کے لئے آرہا تھا تو خبر آئی کہ پاکستان میں دشمنی کا یہ حال ہے کہ ربوہ

Page 482

خطبات مسرور جلد سوم 475 خطبه جمعه 5 اگست 2005 ء میں ہمارے جو دو پریس ہیں نصرت آرٹ پر لیس اور ضیاء الاسلام پریس، پولیس ان کو سیل کرنے کے لئے آئی ہوئی تھی اور شاید الفضل کو بھی بند کر دیں.ایک طرف تو دنیا یہ بھتی ہے کہ جماعت احمد یہ اسلام کا صیح نقشہ پیش کر رہی ہے.دوسری طرف یہ لوگ جو اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ، روکیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں.یہ چاہے جتنی مرضی روکیں ڈال لیں ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے اوپر بارش کے قطروں کی طرح نازل ہوتا دیکھ رہے ہیں.یہ ایک دو پریس بند کرنے سے جماعت احمدیہ کی ترقیات کو تو نہیں روک سکتے.ہاں یہ خطرہ ضرور ہے کہ کہیں وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کے عذاب کے نیچے نہ آجائیں.اصل میں ہم تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہیں ، اس کے پیارے نبی ﷺ پر مکمل اور کامل ایمان لانے والے ہیں، آپ پر اتری ہوئی شریعت پر عمل کرنے والے ہیں.اور آنحضرت کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل لوگ کسی ایک ملک کے سفیر نہیں ہیں ، پاکستان کے سفیر ہونے یا کسی خاص ملک کا سفیر ہونے کا سوال نہیں ہے بلکہ ہم اسلام کے سفیر ہیں.اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم کے سفیر ہیں جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی اور اس تعلیم کے سفیر ہیں جو محبتیں بکھیر نے والی ہے نہ کہ نفرت پھیلانے والی.اللہ تعالیٰ ہمیں شکر کے جذبات سے لبریز رکھتے ہوئے ہمیشہ اس تعلیم پر عمل کرنے اور اعمال صالحہ بجالانے کی توفیق دیتا چلا جائے.ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھتے رہیں.اور پھر اس کے ان فضلوں کو دیکھتے ہوئے اس کے آگے جھکتے ہوئے سجدات شکر بجالانے والے ہوں.جس دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر ہو رہا تھا یعنی جلسہ کے دوسرے دن ، اس دن اللہ تعالیٰ نے بارش بھیج کر یہ بتایا تھا کہ جس طرح تم اس بارش کے قطرے نہیں گن سکتے اور یہ جو جھڑی لگی ہوئی ہے اس کے قطروں کو نہیں گن سکتے اسی طرح میرے پیارے مسیح کی جماعت پر میرے افضال کی جو بارش ہو رہی ہے اس کو بھی تم گن نہیں سکتے.پس تمہارا کام ہے کہ ان فضلوں کی بارش کے ساتھ اپنے دلوں کو مزید شکرگزاری کے جذبات سے لبریز کرتے چلے جاؤ ، اپنے آپ کو مزید شکر گزار بندہ بناتے چلے جاؤ.

Page 483

خطبات مسرور جلد سوم 476 خطبه جمعه 5 راگست 2005 ء عموماً تیز بارش میں MTA کا رابطہ بھی متاثر ہوتا ہے لیکن جب میری تقریر کے دوران تیز بارش ہوئی ہے تو رابطہ تقریباً مسلسل قائم رہا ہے اور شاید ایک آدھ منٹ کے علاوہ جو میری تقریر سے پہلے ہو چکا تھا اور کوئی ایسی خاص روک نہیں آئی.اس بارش کی وجہ سے جو لندن میں بھی ہو رہی تھی انتظامیہ کو بڑی فکر ہورہی تھی کیونکہ بعض دفعہ Link نہیں رہتا.بلکہ جس کمپنی کے ذریعہ سے جلسہ گاہ سے آگے سگنل بھجوانے کا کام تھا اس کے جو نمائندے وہاں موجود تھے، انگریز تھے، اس نے کہا کہ ایسی بارش میں عموماً رابطے متاثر ہوتے ہیں، اس طرح Link نہیں رہتا لیکن لگتا ہے تمہارا خدا سے کوئی خاص تعلق ہے جو اس کام کو سنبھالے ہوئے ہے.تو یقیناً اس نے سچ کہا ہے.ہمارے کام تو ہمارا خدا ہی کرتا ہے اور پھر ہماری عاجزانہ کوششوں سے بے انتہا پھل ہمیں عطا فرماتا ہے.پھر پولیس اور آرمی کے افسران جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے انہوں نے بہت تعاون کیا ہے.وہ بھی بڑے خوش ہیں اور حیران ہیں کہ وہ ان حالات کی وجہ سے جو آج کل تھے.ان کا جس طرح خیال تھا، پریشانی بھی تھی ان کو کہ پتہ نہیں کس قسم کی مشکل ڈیوٹی ہوگی جو ہمیں دینی پڑے گی.وہ لوگ بھی بڑے حیران تھے کہ یہ تو سارے کام خود ہی کر رہے ہیں اور اتنے پرامن ہیں اور محبت بکھیر نے والے ہیں، ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے.بلکہ بعض نے تو یہ اظہار کیا کہ آئندہ سال کے لئے ہماری ابھی سے اپنے ساتھ ڈیوٹی لگوالو.کہتے ہیں کہ ایسی آسانی ڈیوٹی تو ہم نے زندگی بھر کبھی نہیں کی.پس یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جو ہمیں نظر آرہے ہیں.اس شکر کے مضمون کو سمجھتے ہوئے ہر احمدی کو چاہئے کہ شکر گزار بندہ بنا رہے اور اعمال صالحہ بجالاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں میں شامل رہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اس شکر گزاری کے نتیجہ میں پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہوں.اللہ کرے.آمین.谢谢邀

Page 484

خطبات مسرور جلد سوم 477 (31) خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء آنحضرت صلی للہا علم کی سیرت طیبہ سادگی ، مسکینی اور قناعت پسندی خطبه جمعه فرموده 12 اگست 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح ،لندن.برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.پھر فرمایا :.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک حسین پہلو سادگی ہمسکینی اور قناعت بھی تھا.جس کی آپ نے ہمیں تعلیم بھی دی اور اپنے عمل سے مثالیں بھی قائم فرما ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: آنحضرت علی اللہ کی یہ شان ہے وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ﴾ (ص: 87) یعنی میں تکلف کرنے کا عادی نہیں ہوں.آپ کے قول کے ساتھ ساتھ آپ کا ہر فعل بھی تصنع اور بناوٹ سے پاک تھا، تکلف سے پاک تھا.ہر عمل میں سادگی بھری ہوئی تھی.اور تصنع اور تکلف سے پاک زندگی کا اتنا اونچا معیار تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ اعلان کروایا.اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کو جانتا ہے، جس نے آپ کو مبعوث فرمایا ، آپ پر شریعت اتاری، آپ سے یہ اعلان کروایا کہ دنیا کو بتا دو کہ میں تمام تر تکلفات سے پاک ہوں.میری زندگی میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے جو دنیا کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کو کبھی استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو استعمال تو کرتا ہوں لیکن وہی زندگی کا مقصود و مطلوب نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال بھی اللہ تعالیٰ کے حکم تحدیث نعمت کی وجہ سے ہی ہے.اور اگر مجھے کوئی چیز پسند ہے، اگر کوئی میری مرغوب چیز ہے، اگر میرا کوئی مطلوب و مقصود ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی

Page 485

خطبات مسرور جلد سوم 478 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء ذات اور اللہ تعالیٰ کا پیار ہے.یہ دنیا کی چیزیں تو عارضی ٹھکانہ ہیں اور جہاں اپنے عمل سے ہمیں یہ دکھایا کہ یہ دنیاوی چیزیں میرا مقصد حیات نہیں ہیں وہاں یہ تعلیم بھی دی کہ دنیا کی آسائشیں اور نعمتیں تمہارے فائدہ کے لئے تو ہیں، ان سے فائدہ اٹھاؤ لیکن ان دنیاوی چیزوں کو ہی سب کچھ سمجھ نہ بیٹھو.ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہئے اور اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو سادگی اور قناعت ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے.یہی چیزیں ہیں جو تمہیں خدا کا قرب دلانے کا باعث بنتی ہیں.لیکن اگر تم دنیا کے آرام و آسائش کی تلاش میں پڑ گئے اور اس قدر پڑ گئے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا بھی بھول گئے تو پھر آہستہ آہستہ یہی چیزیں تمہارا مطلوب و مقصود ہو جائیں گی اور مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کی یاد آہستہ آہستہ دل سے نکل جائے گی.اس بارے میں قرآن کریم نے ہمیں متعدد جگہ پر نصیحت فرمائی.حکم دیا ہے کہ دنیا کی چیزوں کو ہی مقصود نہ سمجھو.جیسا کہ فرماتا ہے ﴿ وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِةٍ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ - وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وابقى (طه: 132 ) اور اپنی آنکھیں اس عارضی متاع کی طرف نہ پسیار جو ہم نے ان میں سے بعض گروہوں کو دنیاوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تا کہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں.اور تیرے رب کا رزق بہت اچھا اور باقی رہنے والا ہے.پس فرمایا کہ اس دنیاوی رزق اور اس کے سامانوں کو سب کچھ نہ سمجھ لو.اور اس کو اتنی حسرت سے نہ دیکھو کہ پتہ نہیں یہ کتنی بڑی نعمت ہے.دنیا کی چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں یقیناً نعمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا اول طور پر پیش نظر رہے.ورنہ یہی نعمتیں اگر اللہ سے دور لے جانے والی چیزیں بن جائیں تو وہ نعمت نہیں رہتیں بلکہ لعنت بن جاتی ہیں.اس لئے فرمایا کہ تمہیں خدا تعالیٰ کے رزق کو حاصل کرنے کی کوشش اور تلاش رہنی چاہئے.اور پھر آگے اس کی وضاحت بھی فرما دی کہ وہ رزق کیا ہے؟ اور یہ رزق اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے اور اس کی نے عبادت کرنا ہے، اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے.پس یہ وہ تعلیم تھی جس پر آنحضرت علی الا اللہ اپنے عمل سے اعلیٰ مثالیں قائم کیں اور اس کی اپنی امت کو نصیحت فرمائی ، آپ کی سادگی اور دنیا

Page 486

خطبات مسرور جلد سوم 479 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء کی جاہ و حشمت سے نفرت کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے آخری شرعی نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ کی بعثت کے بعد سے شرعی نبوت کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے لیکن اس عظیم اعزاز نے آپ میں کسی جاہ وجلال کا اظہار پیدا نہیں کیا.آپ کی زندگی میں تخت و حکومت کے اظہار نظر نہیں آتے بلکہ اس چیز نے آپ میں مزید مسکینی ، سادگی اور قناعت پیدا کی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کا اور شریعت کا اور اس تعلیم کا جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی سب سے زیادہ فہم و ادراک آپ کو ہی تھا.اور ان حکموں پر عمل کرنے کے لئے آپ نے ہی اعلیٰ معیار قائم کرنے تھے، آپ نے ہی اسوہ قائم کرنا تھا جن پر چلنے کی آپ کی امت نے آپ کے مانے والوں نے کوشش کرنی تھی اور کرنی چاہیئے.آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی امت کو یہ سمجھانے والے تھے کہ وہ تعلیم کیا ہے جس پر تم نے عمل کرنا ہے.ایک جگہ قرآن کریم میں اسی بات کا یوں حکم آیا ہے کہ ﴿وَمَا هَذِهِ الْحَيْوَةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبْ - وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ - لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ (العنکبوت :65) اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں اور یقیناً آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے.کاش کہ وہ جانتے.پس جس نے دوسروں کو یہ بتانا ہو، جس پر یہ تعلیم اتری ہو کہ دوسروں کو بتادو، اپنی امت کو یہ بتا دو کہ یہ دنیا کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کی فکر کرو.ان دنیاوی چیزوں کو ضرورت کے لئے استعمال تو کرو لیکن مقصود نہ بناؤ.سادہ زندگی اور قناعت اور خدا کو اس کے نتیجے میں یاد کرنا یقیناً فائدہ مند باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہیں.بجائے اس کے کہ تم دنیا کی کھیل کود میں پڑ کر دنیا کے آرام و آسائش میں وقت گزار دو.تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرو اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی گزارو.پس یہ تعلیم تھی جو آپ نے ہمیں دی اور جس نے یہ تعلیم ہمیں دی جس کا تقویٰ کا معیار بھی غیر معمولی تھا ، جو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی بھی تھا.تو دیکھیں انہوں نے اس اُسوہ کی ، ان باتوں کی خود کتنی اعلی مثالیں قائم کی ہوں گی.آپ نے اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اس چیز کو مدنظر رکھا.گھر میں بھی مسکینی اور سادگی کے سبق گھر والوں کو دیئے

Page 487

خطبات مسرور جلد سوم 480 خطبه جمعه 12 اگست 2005 اور ایسے دیے کہ جس سے گھر کے بچے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو لاڈلے نواسوں میں بھی کبھی یہ احساس پیدا نہ ہوا جو کہ آپ کے انتہائی لاڈلے تھے کہ ہم کسی ایسی ہستی کے نواسے ہیں کہ جس کے ماننے والے اس کے وضو کے پانی کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے اس لئے ہم بھی ان لوگوں کے سامنے شہزادوں کی طرح رہیں.آپ نے اپنے عمل سے اپنے بچوں میں بھی یہ بات راسخ کردی کہ تمہاری زندگی میں سادگی اور مسکینی رہے گی تو اسی میں تمہاری بڑائی ہے.چنانچہ روایت میں آتا ہے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ ہم سے بعض لوگ جب محبت کا غیر ضروری حد تک اظہار کرتے تھے تو ہم کہا کرتے تھے کہ ہم سے بے شک محبت کر و مگر محض اسلامی محبت.کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مجھے میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا کر نہ پیش کرو.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بندہ پہلے بنایا اور رسول بعد میں.صلى الله ( مجمع الزوائد - كتاب علامات النبوة باب في تواضعه.پس یہ تھی وہ تربیت جو آپ نے اپنے عمل سے اپنے گھر والوں کی بھی کی.اپنے عمل سے یہ سمجھا دیا کہ میں اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں اور اس بندگی کے اعلیٰ معیار نے ہی مجھے یہ قرب کا مقام عطا فر مایا ہے کہ تم لوگ بھی اس عاجزی، مسکینی اور سادگی کو اپنائے رکھو تو تمہیں بھی اللہ تعالیٰ قرب کے راستے دکھاتا رہے گا.ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ میں نسل آدم کا سردار ہوں لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں.حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس بات کا ذکر فرمایا ہے ( جو پہلے حدیث بیان کی گئی ہے) کہ میں اللہ کا بندہ پہلے ہوں، اس کا ایک اور روایت میں یوں ذکر ملتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا.کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری تعریف و تعظیم میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصاری نے ابن مریم کے حق میں کیا.میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں.اس لئے فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ مُجھے اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا.(بخاری - کتاب احادیث الانبياء - باب قول الله واذكر فى الكتب مريم

Page 488

خطبات مسرور جلد سوم 481 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء آپ کی یہ عاجزی اور سادگی ہی تھی جس کی وجہ سے ناواقف نئے آنے والے لوگ جب آتے تھے اور آپ مجلس میں بیٹھے ہوتے تھے تو پہچان نہیں سکتے تھے کیونکہ سادہ اور بے تکلف مجلس ہوا کرتی تھی اور نیا آنے والا شناخت نہیں کر سکتا تھا.چنانچہ ایسی ہی ایک مجلس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں ہجرت فرما کر مدینہ پہنچے تو وہ دوپہر کا وقت تھا.دھوپ شدت کی تھی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سائے میں تشریف فرما ہوئے.لوگ جوق در جوق آنے لگے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے جو آپ کے ہم عمر ہی تھے.اہل مدینہ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے قبل نہ دیکھا تھا.لوگ آپ کی طرف آنے لگے.حضرت ابو بکر کی وجہ سے آپ کو نہ پہچانتے تھے.آپ اس قدر سادگی اور عاجزی کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ سب لوگ ابو بکر کو رسول اللہ سمجھنے لگے.جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ محسوس کیا تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کرنے لگے جس سے لوگوں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں.(السيرة النبوية لابن هشام تاريخ الهجرة - قدومه قباء) | پھر ایک اور روایت میں آتا ہے کہ شریک بن عبداللہ بن ابو نمر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا.پھر پوچھنے لگا تم میں سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کون ہیں ؟.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے.ہم نے کہا یہ گورے رنگ کے شخص جو تکیہ لگائے بیٹھے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.تب وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا : کیا آپ عبدالمطلب کے بیٹے ہیں؟.آپ نے اس سے کہا ہاں میں ہی ہوں.وہ کہنے لگا ( آگے پھر سوال شروع ہو گئے ) کہ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں اور سختی سے پوچھوں گا کہ آپ اپنے دل میں برا نہ مانے گا.آپ نے فرمایا کہ جس طرح جی چاہے پوچھو.تب اس نے کہا، آپ کی سادگی کا ذکر

Page 489

خطبات مسرور جلد سوم 482 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء ہو چکا ہے، آپ کے سوال و جواب کا ذکر بھی کر دیتا ہوں کہ آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو سب لوگوں کی طرف بھیجا ہے؟.آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم ! پھر کہنے لگا میں آپ کو قسم دیتا ہوں، کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ رات اور دن میں پانچ نمازیں پڑھیں؟ حضور نے فرمایا ہاں.پھر اس نے کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینے یعنی رمضان میں روزے رکھو ؟.آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہاں.پھر کہنے لگا میں آپ کو قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوۃ لے کر ہمارے محتاجوں میں بانٹ دو؟.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم ایسے ہی ہے.وہ شخص کہنے لگا آپ جو تعلیم لے کر آئے ہیں میں اس پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہوئے بھیجا ہوا نمائندہ ہوں.میرا نام زمام بن ثعلبہ ہے اور میں بنو سعد بن بکر کا بھائی ہوں.(بخاری - کتاب العلم -باب القراءة والعرض على المحدث ) پھر آپ کا صحابہ کے ساتھ بے تکلف اور سادہ ماحول کا ایک اور روایت میں بھی ذکر ملتا ہے.روایات تو کئی ہیں.میں ایک اور روایت بیان کرتا ہوں جس سے آپ کی بے تکلفی اور سادگی کا وصف مزید نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ سفر میں تھے، راستہ میں کھانا تیار کرنے کا وقت آیا تو ہر ایک نے اپنے اپنے ذمہ کچھ کام لئے کسی نے بکری ذبح کرنے کا کام لیا، کسی نے کھال اتارنے کا، کسی نے کھانا پکانے کا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جنگل سے لکڑیاں لے کر آؤں گا.صحابہ نے عرض کیا کہ ہم کافی ہیں، ہم لے آتے ہیں.آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں.تو آپ نے فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن میں یہ امتیاز پسند نہیں کرتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کو نا پسند کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں میں امتیازی شان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہو.(شرح العلامة الزرقاني الفصل الثانى فيما اكرمه الله تعالى به من الاخلاق الزكية ) یہ سادگی اور نفسی کے اظہار کسی دکھاوے کے لئے نہ تھے بلکہ بے اختیار تھے اور اللہ تعالیٰ

Page 490

خطبات مسرور جلد سوم 483 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء کی محبت حاصل کرنے کے لئے تھے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی جو تعلیم تھی اس میں عمل دکھانے کے لئے تھے.پھر جس طرح پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ صحابہ کے ساتھ عام کام سرانجام دیا کرتے تھے اسی طرح جنگ احزاب کے موقع پر ایک عام آدمی کی طرح، ایک عام سپاہی کی طرح آپ نے کام کیا جس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے.حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ احزاب میں خندق کھود نے کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ مٹی لے جاتے ہوئے دیکھا اور مٹی نے آپ کی پیٹ کی سفیدی کو ڈھانپ لیا تھا.یعنی کام کر کر کے مٹی بھی گر رہی ہو گی تو مسلمانوں کی تعداد کم تھی ایک ایک آدمی کی بڑی اہمیت تھی، کام کی زیادتی بھی تھی ایک تو یہ کہ آپ کی طبیعت میں یہ تھا کہ عام مسلمانوں کی طرح میں بھی ہر کام میں حصہ لوں.دوسرے اس وقت میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ آپ پیچھے رہتے کہ صرف نگرانی کریں.بلکہ آپ نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ سارے کام سرانجام دیئے.پھر سادہ زندگی اور قناعت کی طرف اپنے بچوں کو بھی توجہ دلاتے رہتے تھے.ایک تو پہلے اس امر پہ ایک حدیث بیان کی گئی کہ کس طرح اس کا بچوں پہ اثر ہوا.ایک اس حدیث میں آپ نے براہ راست نصیحت فرمائی اور نصیحت بھی اپنی انتہائی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ کو فرمائی.اس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے.حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چکی پینے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہوگئی اور ان دنوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تھے.حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور کے پاس گئیں لیکن آپ کو وہاں نہ پایا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملیں اور آنے کی وجہ بتائی.جب حضور باہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کا ذکر کیا.حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے ، رات کا وقت تھا، کہتے ہیں کہ ہم بستروں پر لیٹ چکے تھے تو حضور کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا نہیں لیٹے رہو.پھر آپ ہمارے

Page 491

خطبات مسرور جلد سوم 484 خطبہ جمعہ 12 اگست 2005 ء درمیان تشریف فرما ہوئے.کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ حضور کے قدموں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ جب تم بستروں پر لیٹنے لگو تو 34 دفعہ اللہ اکبر کہو ، 33 بار سبحان اللہ اور 33 بار الحمد للہ کہو.یہ تمہارے لئے نوکر سے بہتر ہے، ملازمین رکھنے سے بہتر ہے.(مسلم - كتاب الذكر - باب التسبيح أول النهار وعند النوم) آپ نے اپنی لاڈلی بیٹی کے ہاتھ کے زخموں کو دیکھ کر باپ کی شفقت اور پیار سے مغلوب ہو کر ان کی اس وقت کی وہ ضرورت پوری نہیں کی.بلکہ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ یہ دنیا کی چیزیں عارضی فائدے کی چیزیں ہیں اور تم جس کا میرے ساتھ خونی رشتہ بھی ہے اس وجہ سے سب سے زیادہ قرب کا رشتہ بھی ہے، روحانی رشتہ بھی ہے خونی رشتہ بھی ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے یہ میں کہتا ہوں کہ ان دنیاوی آسائشوں پر نظر نہ رکھو بلکہ سادگی اور قناعت کو اختیار کرو.تمہارے ہاتھوں کے یہ زخم اللہ تعالیٰ کو پیارے ہیں.اللہ کے فضلوں کو مزید سمیٹنے کے لئے اس طرح سادہ زندگی بسر کرو، اپنے کام کو ہاتھ سے کرو اور اس کے ساتھ ساتھ تکبیر تسبیح اور تحمید جو بتائی ہے وہ کرو.یہ زیادہ بہتر ہے اور اللہ کا قرب دلانے والی چیز ہے اُس کی نسبت جس کا تم مطالبہ کر رہی ہو یعنی ایک غلام کا.ویسے بھی اس وقت اور بھی ضرورت مند تھے ان کو شائدان سہولتوں ان غلاموں کی زیادہ ضرورت ہو.آپ ہر قسم کے اسوہ کی مثالیں اپنی ذات اور اپنے گھر سے قائم کرنا چاہتے تھے.اس لئے آپ نے فرمایا کہ یہ چیزیں اپنے لئے نہ لو بلکہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور عبادت کی طرف تمہیں نظر رکھنی چاہئے.اور وہی دنیاو آخرت میں تمہارا بہترین سرمایہ ہوگی.اور حضرت فاطمہ کے ضمن میں اسی سادگی کی مثال ایک اور دے دوں کہ جب حضرت فاطمہ کی شادی ہوئی ہے انتہائی سادہ شادی تھی.جہیز میں آپ نے جو چیز میں حضرت فاطمہ کو دیں ان میں ایک ریشمی چادر تھی اور ایک چھڑے کا گدیلا تھا جس میں کھجور کے پتے یا ریشے بھرے ہوئے تھے.آٹا پینے کی ایک چکی تھی ، ایک مشکیزہ تھا اور دوگھڑے تھے.کل یہ جہیز تھا جو آپ نے دیا.اور اس طرح سادگی کی اعلیٰ مثال قائم کی ، ان کو بھی بتایا کہ سادہ رہو اور قناعت کرنے کی

Page 492

خطبات مسرور جلد سوم عادت ڈالو.485 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اندر سادہ ماحول کا نقشہ ایک حدیث کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں کہ : سنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا (یعنی دنیاوی چیزوں اور مال کا ) کہ ایک بار حضرت عمر آپ سے ملنے گئے ، ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے.جب حضرت عمر اندر آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے.حضرت عمر نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے.ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپ کی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے.حضرت عمران کو دیکھ کر رو پڑے.آپ نے پوچھا: اے عمر! تجھ کوکس چیز نے رُلایا ؟.(حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ کسری اور قیصر تو تنعیم کے اسباب رکھیں ( یعنی ان کے پاس ہر قسم کی چیزیں اور نعمتیں موجود ہیں ) اور آپ جو خدا تعالیٰ کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! مجھے دنیا سے کیا غرض ؟ میں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں جو اونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو.ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں سنتا لے اور جو نہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے“.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 51 جدید ایڈیشن - البدر 8 جولائی 1904ء صفحہ 3-2) | تو یہ ہے نقشہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس حدیث کا بیان فرمایا ہے.اور فرمایا کہ نبی اور رسول جو ہیں وہ آخرت کو ہی ہمیشہ مد نظر رکھتے ہیں.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ کی اس حالت کو دیکھ کر صحابہ نے کہا کہ ہم آپ کے لئے گدیلا بنا دیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے دنیا سے کیا غرض.بعض روایات میں گدیلے کے استعمال کا ذکر بھی ملتا ہے.اس لئے غلط فہمی نہ ہو جائے کہ گریلا کبھی استعمال نہیں کیا لیکن وہ گدیلا بھی اتنا سخت اور کھجور کے پتوں یا اس کے ریشے کا ہوتا تھا کہ وہ چٹائی کی طرح ہی جسم پر نشان

Page 493

خطبات مسرور جلد سوم 486 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء ڈال دیا کرتا تھا.آپ کا اصل مقصد تو یہی تھا کہ دنیاوی چیزیں مجھے اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں.اس لئے آپ زیادہ آسائش اور سہولت والی چیز میں زیادہ استعمال نہیں کرتے تھے.چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس بستر پر سوتے تھے وہ چمڑے کا ایک گدیلہ تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک دوسری روایت میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گھر والا بستر بالوں سے بنی ہوئی چادر پر مشتمل تھا جسے دوہرا کر دیا جاتا تو آپ اس پر سو جاتے تھے.ایک رات ہم نے اس کی چار جہیں کر دیں تو جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا رات کو تم نے میرے بستر پر کیا بچھایا تھا.اس پر ہم نے چادر کی چار نہیں کرنے کا ذکر کیا.اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا میرا بستر جیسے پہلے ہوتا تھا ویسے ہی کر دو.اس بستر پر سونے نے آج رات مجھے نماز سے روک دیا تھا.الشفاء للقاضي عياض.الباب الثاني الفصل الثاني والعشرون الزهد في الدنيا | ایک دفعہ حضرت عائشہ نے اس کھجور کے پتوں کے گدیلے پر ایک چادر چار نہیں کر کے بچھا دی.اس دن آپ تہجد کے لئے نہ اٹھ سکے تو آپ نے پوچھا آج بستر کچھ بدلا ہوا ہے، کیا وجہ ہے؟ تو حضرت عائشہؓ نے عرض کی کہ ہاں ایک چادر کی چار نہیں کر کے بچھا دی تھی تا کہ کھجور کے پتے آپ کو نہ چھیں ، جو ریشہ ہے.آپ نے فرمایا اس کو اٹھا دو اس وجہ سے آج مجھے دیر سے جاگ آئی ہے اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرا کوئی دم اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہو.ایک دفعہ آپ کے لئے ایک لباس آیا جس پر عمدہ نقش و نگار تھے، اچھا پرنٹ تھا.آپ نے اس پر غور نہیں کیا اور اسی طرح سادگی میں پہنا اور نماز کے لئے چلے گئے.نماز پڑھنے کے دوران آپ کی نظر اس پر پڑی تو نماز پڑھ کر جب گھر تشریف لائے تو اس کو اتار دیا اور حضرت عائشہ سے فرمایا یہ لباس فلاں کو بھیج دو اور میرے لئے تو سادہ کپڑے کا لباس مہیا کرو.میں ایسا لباس نہیں پہن سکتا جو مجھے اللہ کی یاد سے غافل کرے.اس لئے جو لوگ نماز کے دوران اپنے لباس کی فکر میں رہتے ہیں ان کے لئے بھی اس میں اُسوہ ہے، نمونہ ہے کہ ایسا لباس پہنا ہی نہیں چاہئے جو نماز سے توجہ ہٹائے اور بجائے نماز کی

Page 494

خطبات مسرور جلد سوم 487 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء طرف توجہ کے لباس کی طرف توجہ رہے.پھر سادگی کی ایک اور مثال، اگر کوئی غریب آدمی بھی آپ کو دعوت پر بلاتا تو آپ ضرور جاتے اور غریب کے تھنے کی بھی قدر کرتے.چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے ، ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریر گا روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے بکری کے پائے کی دعوت پر بھی بلایا جائے تو میں دعوت پر جاؤں گا.اور اگر مجھے بکری کا پایہ بھی تحفہ میں دیا جائے تو میں اسے (بخارى - كتاب النكاح - باب من اجاب الى كراع) قبول کروں گا.یہ بات آپ کی غریبوں اور مسکینوں سے محبت کا بھی اظہار کرتی ہے اور یہ محبت اس لئے بھی تھی کہ خدا تعالیٰ بھی غریبوں اور مسکینوں سے محبت کرتا ہے.اس لئے آپ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے کہ مجھے بھی یہ مسکینی کی حالت نصیب ہو.چنا نچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ: اے اللہ ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مجھے مسکینی کی حالت میں وفات دینا اور قیامت کے دن مساکین کے گروہ میں سے مجھے اٹھانا.اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ایسی دعا کیوں کرتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا کیونکہ مساکین امیر لوگوں سے چالیس سال قبل جنت میں داخل ہوں گے.اس لئے اے عائشہ ! تو مسکین کو نہ دھتکار خواہ تجھے کھجور کا ٹکڑہ ہی دینا پڑے.اور مساکین سے محبت رکھ اور انہیں اپنے قریب رکھا، اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں تجھے قیامت کے روز اپنا قرب عطا فرمائے گا.(سنن الترمذى كتاب الزهد عن رسول الله باب ما جاء عن فقراء المهاجرين) پس جہاں اپنے عمل سے مسکینوں سے محبت کے آپ نے اعلیٰ معیار آپ نے قائم فرمائے ، امت کو بھی یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے ضروری ہے کہ تم مساکین سے بھی محبت رکھو، غریب کا بھی خیال رکھو.ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ

Page 495

خطبات مسرور جلد سوم 488 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء علیہ وسلم کثرت سے ذکر کرتے اور لغو سے بچتے تھے.نماز نسبتا لمبی پڑھاتے تھے اور خطبہ چھوٹا دیتے اور تکبر نہ کرتے اور بیوگان اور مساکین کے ساتھ چل کر ان کی حاجات کو پورا کرنے میں عار محسوس نہ کرتے.صلى الله (سنن الدارمي مقدمه باب فى تواضع رسول الله ﷺ) پھر اس کمزور اور غریب طبقے کے اللہ کے نزدیک مقام کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.حضرت حارثہ بن وہب روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا میں تمہیں جنت والوں کی اطلاع نہ دوں.صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر کمزور قرار دیئے جانے والا اگر وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھالے تو اللہ تعالیٰ اس کی لاج رکھتا ہے.یعنی اس کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے.پھر فرمایا کہ کیا میں تم کو آگ والوں کی خبر نہ دوں.صحابہ نے عرض کی کیوں نہیں؟ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر سرکش ، درشت مزاج، متکبر، آگ والا ہے.(مسلم - كتاب الجنة ونعيمها - باب النار يدخلها الجبارون.......پس جیسا کہ آپ نے یہ خوشخبری دی ہے جنت تلاش کرنی ہے تو کمزوروں اور غریبوں میں تلاش کرو.ایک اور روایت میں انہیں غریبوں اور مسکینوں کے بارے میں اپنے صحابہ کو نصیحت کرتے ہوئے یہ فرمایا.حضرت ابو عباس سہل بن سعد ساعدی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس بیٹھنے والوں سے فرمایا اس شخص کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے.اُس نے کہا یہ معزز لوگوں میں سے ہے.اللہ کی قسم میہ اس قابل ہے کہ اگر یہ کہیں نکاح کا پیغام دے تو اس کا نکاح کر دیا جائے.اور اگر یہ سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے.اس کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.پھر ایک اور شخص کا گزر ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کہا اس آدمی کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ غریب مسلمانوں میں سے ہے.یہ تو ایسا ہی ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو اس کا نکاح نہ کیا جائے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر کوئی بات کہے تو اس کی بات نہ سنی جائے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ

Page 496

خطبات مسرور جلد سوم 489 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک فقیر، دنیا دار لوگوں سے بھری دنیا سے بھی زیادہ بہتر ہے.(رياض الصالحين - باب فضل ضعفة المسلمين) ایک فقیر مسکین نیک مسلمان کو آپ نے کئی دنیا داروں کے مقابلے پر ترجیح دی.اس لئے کہ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ایک فقیر اور مسکین اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو.اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا.اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں.اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے؟ بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تمہارا عمل کیا ہے.اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ ! خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا.اگر تم کوئی برا کام کروگی تو خدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگزرنہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو.“ 66 (ملفوظات جلد سوم صفحه 370 جدید ایڈیشن - الحکم 7 جولائی 1903ء صفحہ 16'15) پھر آپ کی جو خوراک تھی کتنی سادہ اور معمولی ہوا کرتی تھی اس کا ذکر روایات میں ملتا ہے.حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ بھانجے ہم دیکھتے رہتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی.اس پر میں نے پوچھا خالہ ! پھر آپ لوگ زندہ کس چیز پر تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم کھجور میں کھاتے اور پانی پیتے تھے.سوائے اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے انصاری تھے ان کے دودھ دینے والے جانور تھے وہ رسول اللہ کو ان کا دودھ تحفہ بھیجتے تھے جو آپ ہمیں پلا دیتے تھے.(بخارى كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها – باب فضل الهبة) پھر آپ کی سادہ خوراک کے بارے میں روایت آتی ہے.سہل بن سعد سے روایت ہے ان سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی کھائی

Page 497

خطبات مسرور جلد سوم 490 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء ہے؟.سہل نے جواب دیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تادم آخر کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیں دیکھی.اس پر میں نے پوچھا کیا تمہارے پاس آنحضرت کے زمانہ میں چھلنیاں نہیں ہوا کرتی تھیں.انہوں نے کہا آنحضرت نے اپنی بعثت سے لے کر وفات تک چھلنی نہیں دیکھی.ابو حازم کہتے ہیں میں نے سہل سے پوچھا آپ بغیر چھانے کے جو کا آٹا کس طرح کھاتے تھے.انہوں نے کہا کہ ہم کوٹنے کے بعد اسے پھونکیں مار لیتے اور اس طرح جواڑ نا ہوتا وہ اڑ جا تا اور باقی کو ہم بھگو کر کھا لیتے.(بخارى - كتاب الاطعمة - باب ما كان النبي ﷺ واصحابه ياكلون صلى الله ایک روایت اور بھی ہے اس میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک خادمہ ( کسی دوسرے ملک سے آئی تھی لونڈی) آٹا چھان رہی تھی تو آپ نے اسے فرمایا کہ یہ کیا کر رہی ہو؟ اس نے کہا آٹا چھان رہی ہوں، ہمارے ملک میں تو اس طرح چھانا جاتا ہے.آپ نے فرمایا نہیں اس کو بیچ میں ملا دو.حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی طشتریوں میں کھانا کھایا ہو اور نہ ہی آپ کے لئے کبھی چپاتیاں پکائی گئی ہیں ، روٹی پکائی گئی اور نہ کبھی آپ نے تپائی (چھوٹی میز سامنے رکھ کر اونچی چیز پر لگا ہوا کھانا با قاعدہ کھایا ہو.تو قتادہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس پر کھانا کھایا کرتے تھے.تو انہوں نے جواب دیا کہ دستر خوان پہ.یعنی زمین پہ کپڑا بچھا لیتے تھے.اور اس پہ بیٹھ کے کھانا کھایا کرتے تھے.(بخارى كتاب الاطعمة - باب الخبز المرقق والاكل على الخوان والسفرة) باوجود اس کے کہ آپ ایک طرح سے حکومت کے سربراہ بھی تھے، آپ حکومتی معاملات کسی در بار یا تخت پر بیٹھ کر نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ مسجد نبوی ہی آپ کا تخت و در بار تھا.یا سفر پر ہوتے تو جو بھی جگہ میسر آجاتی وہیں دربار لگ جاتا.لیکن اس کے باوجود اس در بار کا رعب لوگوں کے دلوں پر دنیا وی بادشاہوں کے درباروں سے زیادہ ہوتا تھا.

Page 498

خطبات مسرور جلد سوم 491 خطبه جمعه 12 اگست 2005 ء چنانچہ ایک روایت میں ذکر آتا ہے حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جب آپ سے بات کرنے لگا تو وہ کانپنے لگ گیا.اس پر آپ نے اس کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تسلی رکھو میں کوئی بادشاہ تو نہیں.میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی.(سنن ابن ماجه - كتاب الاطعمة - باب القديد) یه خدا دا در عب کسی تخت و تاج کو نہیں چاہتا تھا بلکہ سادگی اور عاجزی میں ہی اس کا حسن تھا.اس حدیث کو بیان کرنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ متکبر خدا تعالیٰ کے تخت پر بیٹھنا چاہتا ہے.پس اس قبیح خصلت سے ہمیشہ پناہ مانگو.خدا تعالیٰ کے تمام وعدے بھی خواہ تمہارے ساتھ ہوں مگر تم جب بھی فروتنی کرو کیونکہ فروتنی کرنے والا ہی خدا تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے.دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کا میابیاں اگر چہ ایسی تھیں کہ تمام انبیائے سابقین میں اس کی نظیر نہیں ملتی ، مگر آپ کو خدا تعالیٰ نے جیسی جیسی کامیابیاں عطا کیں، آپ اتنی ہی فروتنی اختیار کرتے گئے.“ - ( ملفوظات جلد 5 صفحه 548 جدید ایڈیشن - الحکم 26 /30/ اگست 1908ء صفحه 3) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اتنی سادہ تھی اور ماحول اس قدر گھلا ملا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ہر کوئی آ سکتا تھا، ہر کوئی اپنی ضرورت پوری کروا سکتا تھا.جو بھی ان کی ڈیمانڈ ہوتی تھی پوری کرنے کے لئے لوگ آجایا کرتے تھے.چاہے وہ معمولی سی کوئی لونڈی ہو.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی اپنے کام کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی لے جاتی اور آپ انکار نہ فرماتے اور اس کا کام کرتے.(رياض الصالحين باب التواضع.وخفض الجناح للمؤمنين) یہ بے تکلف اور سادہ ماحول تھا جو کسی سے چھپا ہوا نہیں تھا اور آپ کی یہ سادگی اور قناعت ایسی تھی جس کا اثر غیروں پر بھی تھا اور اس زمانے میں بھی اور یہ ہر جگہ نظر آتی ہے.

Page 499

خطبات مسرور جلد سوم 492 خطبہ جمعہ 12 اگست 2005 ء جس کی چند مثالیں میں نے پیش کی ہیں.بے شمار مثالیں ہیں.اور غیر بھی اس زمانے میں اس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے.چنانچہ کیرن آرمسٹرانگ نے لکھا ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمیشہ سادہ وسائل کو صحیح استعمال کرتے ہوئے اور قناعت سے پُر زندگی گزاری.اور اُس وقت بھی آپ سے اس نمونے کا اظہار ہوا جب آپ عرب کے طاقتور ترین سردار تھے.آپ کو ہمیشہ آسائشوں اور آرم دہ زندگی سے نفرت تھی اور اکثر ایسا ہوتا کہ آپ کے گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا.آپ کے پاس کبھی ایک جوڑے کپڑے سے زیادہ ایک وقت میں نہ ہوا.اور جب کبھی آپ کے صحابہ نے آپ کو بعض مواقع پر اعلیٰ لباس پہنے کو کہا ( موقع کی مناسبت سے ) تو آپ نے ہمیشہ انکار کیا بلکہ عام سادہ کھدر کے لباس کو ترجیح دی جو ہر معمولی آدمی پہنتا تھا.جب کبھی آپ کو تحائف اور مال غنیمت آیا آپ نے اسے غریبوں میں تقسیم فرما دیا.(اور آگے دیکھتی ہیں یہ سارا انہی کا بیان ہے ) اور حضرت عیسی کی طرح آپ مسلمانوں کو کہا کرتے تھے کہ غریب اور مسکین آدمی امراء سے پہلے جنت میں داخل ہوگا.اسی طرح بعض اور منصف مزاج عیسائیوں نے آپ کو اس طرح کے الفاظ سے یاد کیا ہے.جیسا کہ میں نے کہا آپ کی یہ سادگی مسکینی اور قناعت اتنی واضع تھی کہ اس کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں.تو اللہ تعالیٰ ہمیں جو اس نبی کی امت میں شامل ہونے کا دعوی کرنے والے ہیں یہ تو فیق دے کہ آپ کے اس اسوہ پر عمل کرتے ہوئے سادگی اور قناعت کو اپنا ئیں.ایک ایک حدیث میں کئی کئی پیغام ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ یہ ہمارے سامنے اسوہ ہیں، آنحضور نے جن پر عمل کر کے دکھایا یہ نمونے قائم فرمائے.یہ ہمارے عمل کے لئے ہیں، ہماری بہتری کے لئے ہیں.صرف سننے کے لئے اور کہانیوں کے لئے نہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 500

خطبات مسرور جلد سوم 493 (32) خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء آنحضرت صلی اللہ علیم : ایک عظیم معلم اخلاق للعالم اصلاح معاشرہ کے لئے نرمی ، محبت اور شفقت سے کام لینا چاہئے خطبه جمعه فرموده 19 اگست 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح ، لندن.برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ ( إن عمران (165) پھر فرمایا:.ایک زمانہ تھا جب عرب دنیا کے لوگوں کو باہر کی دنیا ، دوسری دنیا ایک معمولی حیثیت دیتی تھی اس لحاظ سے کہ بعض علاقے کے لوگوں کو بالکل جاہل اور اجد سمجھا جاتا تھا.اکا دُکا ان کے شہروں میں پکے مکان یا پتھر کے مکان ہوتے تھے اور اکثریت جھونپڑا نما مکانوں میں رہا کرتی تھی.اور دیہاتی ماحول تو بالکل ہی عارضی جھونپڑیوں کا ماحول تھا.اور جس طرح دنیا ان کو جاہل اجد سمجھتی تھی عملاً تہذیب سے یہ بالکل عاری لوگ تھے.حالت ان لوگوں کی یہ تھی کہ ذرا ذراسی بات پر لڑائیاں ہوتی تھیں تو سالوں چلا کرتی تھیں.

Page 501

خطبات مسرور جلد سوم 494 خطبہ جمعہ 19 اگست 2005 ء اسی طرح کی ایک لڑائی کا قصہ ہے ایک جنگ کا ، کہ ایک دفعہ ایک پرندہ ایک درخت پر گھونسلے میں اپنے انڈوں پر بیٹھا ہوا تھا تو عربوں کے سرداروں میں سے ایک جب وہاں سے گزرا اس نے اس کی طرف پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور اس کو دیکھ کر کہا کہ تو میری پناہ میں ہے.اگلے دن گیا تو دیکھا کہ وہ انڈے ٹوٹے پڑے ہیں ، زمین پر گرے ہوئے ہیں ، گھونسلہ بھی بکھرا ہوا ہے اور وہ چڑیا یا جو بھی پرندہ تھا بڑی درد ناک حالت میں درخت پر بیٹھا تھا.اس شخص نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک اونٹنی نظر آئی جو وہاں چر رہی تھی ، اسے یقین ہو گیا کہ یہ گھونسلہ گرانے والی یہی اونٹنی ہے.وہ اونٹنی ایک دوسرے قبیلے کے کسی سردار کے کسی مہمان کی تھی.وہ اس کے پاس گیا کہ آج تو میں نے اس اونٹنی کو چھوڑ دیا ہے لیکن اگر آئندہ یہ اس طرف آئی تو میں اس کو مار دوں گا.چنانچہ چند دنوں کے بعد وہ اونٹنی اس پہلے شخص جس نے یہ وارننگ دی تھی اور چڑیا کو پناہ دی تھی اس کے ریوڑ کے ساتھ مل کر پانی پینے لگی.جانور مل جایا کرتے ہیں.اس نے اس اونٹنی کو تیر مار دیا.وہ زخمی ہو کے دوڑی اور جہاں اس کا مالک ٹھہرا ہوا تھا وہاں دروازے پہ جا کے گری اور مرگئی.تو جس شخص کا یہ مہمان تھا جس کی اونٹنی مری وہاں شور پڑ گیا کہ دیکھو جی ہماری عزت برباد ہوگئی ، ہمارے مہمان کی اونٹنی کو مار دیا.اس نے اس اونٹنی مارنے والے کو جا کے قتل کر دیا.اور اس طرح جنگ شروع ہوئی اور 40 سال تک یہ جنگ جاری رہی.اس کی ایک لمبی تفصیل ہے، میں نے مختصر طور پر بتایا ہے.تو یہ تھی اس وقت عرب کے اجڈ پنے اور جہالت کی حالت.اور ان عربوں کو اپنی ان باتوں پر بڑا فخر تھا.عورت کی عزت نہیں تھی لڑکی پیدا ہوتی تو اسے مار دیا جاتا.تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.شراب خوری ، جوا اور زنا کو بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا.بڑے فخر سے اس کو بیان کیا جاتا تھا.غرض کہ ان لوگوں کے اخلاق انتہائی گرے ہوئے تھے.زندگی کا کوئی پہلو بھی لے لو ذلیل ترین حرکتیں ہوا کرتی تھیں.پھر وہ زمانہ آیا جس کا اللہ تعالیٰ، اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے، ذکر فرماتا ہے کہ یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب اس نے ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا.وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور

Page 502

خطبات مسرور جلد سوم 495 خطبہ جمعہ 19 اگست 2005ء حکمت سکھاتا ہے جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے.پس اس نبی عیب اللہ نے اللہ تعالیٰ سے سیکھ کر ان لوگوں کو پاک کیا.ان کو حکمت کی باتیں سکھائیں.ان کو بتایا کہ معاشرے میں کس طرح رہنا ہے، تہذیب کیا ہے، تمدن کیا ہے.ان کو خاندان کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی یعنی گھر کی سطح پر بھی جو رشتوں کی ذمہ داریاں ہیں ان کے بارے میں بتایا.آپس میں کس طرح ایک دوسرے کو اخلاق دکھانے ہیں اس کے بارے میں بتایا.اور پھر ایک شہری کی حیثیت سے کس طرح رہنا ہے وہ اخلاق سکھائے ، ان کے بارے میں تعلیم دی.پھر تم نے اپنے ہمسائے کے ساتھ کس طرح رہنا ہے.اس کے کیا اخلاق تمہیں دکھانے چاہئیں.تم نے بحیثیت ما تحت کس طرح رہنا ہے، کن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے.تم نے بحیثیت افسرا اپنی زندگی کس طرح گزارنی ہے.غرض کہ معاشرے کے مختلف درجات میں ایک فرد پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور جس جس حیثیت سے ایک شخص نے جس طرح اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے وہ انہیں سکھایا یعنی اجڈ اور جاہل لوگوں کو با اخلاق انسان بنایا اور پھر انہیں باخدا انسان بنایا.وہ لوگ جو خدائے واحد کے تصور سے ناواقف تھے انہیں اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ساتھ ایک خدا کے حضور جھکنے والا اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے والا بنایا اور پھر اعلیٰ اخلاق کے بھی ایسے نمونے ان سے قائم کروائے جو مثال بن گئے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.یہ انقلاب اس رسول اور معلم اخلاق علی اللہ کی تعلیم سکھانے اور اس کے خدا تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے جو آپ عیب اللہ کو قوت قدسی عطا ہوئی اس کا نتیجہ تھا.جیسا کہ میں نے کہا زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جس میں آپ نے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم نہ کئے ہوں.اور نہ صرف خود قائم کئے بلکہ اپنے ماننے والوں میں بھی قائم فرمائے.ان سب کو بیان کرنا تو ممکن نہیں، چند مختلف نمونوں کو میں مختلف جگہوں سے پیش کرتا ہوں جس سے آپ کے معلم اخلاق ہونے کی کچھ جھلکیاں نظر آتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے ہم پر اس احسان کی وجہ سے اس کے آگے سر جھکتا ہے کہ ہم آنحضرت عبل اللہ کے ان اخلاق کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا ئیں.آپ نے اپنی امت سے یہی توقع رکھی ہے کہ امت کا ہر فرد ان اعلیٰ اخلاق کو اپنائے.اپنے ماننے والوں کو با اخلاق اور باخدا بنانے کے لئے آپ عیبی یا اللہ نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ با

Page 503

خطبات مسرور جلد سوم 496 خطبہ جمعہ 19 اگست 2005 کے اس حکم پر عمل کیا کہ وَذَكَرْ فَإِنَّ الذِّكْرَ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (الذاريت : 56) اور تو نصیحت کرتا چلا جاپس یقیناً نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے.آپ کی نصیحت کا انداز بھی عجیب تھا.آپ کو اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم تھا کہ نرمی اور پیار سے اپنے ماننے والوں سے سلوک کرنا ہے.اس لئے آپ نے اپنوں یعنی اپنے قریبی عزیزوں ، بچوں سے بھی سمجھانے کے لئے نرمی اور محبت اور شفقت کے سلوک فرمائے اور امت کے دوسرے افراد سے بھی ، اپنے صحابہ سے بھی.اور ہمیشہ اس حکم کو مد نظر رکھا کہ تیرا کام نصیحت کرنا ہے آرام سے نصیحت کرتا چلا جا.اور ایک اعلیٰ معلم کا یہی نمونہ ہونا چاہئے.آپ نے ہمارے سامنے یہ نمونہ قائم کیا کہ اگر اصلاح معاشرہ کے لئے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں تو اپنے گھر سے اصلاح شروع کر و.اس کا اثر بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ.ان راستوں پر چلو اور ان کو چلا ؤ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانے والے راستے ہیں، جو اعلیٰ اخلاق حاصل کرنے والے راستے ہیں.اور آپ علی اللہ نے جن پر شرعی احکامات کا خاتمہ ہوا، آخری شرعی نبی تھے آپ نے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے تھے.چنانچہ چھوٹی سے چھوٹی بات کی طرف بھی آپ اپنے گھر والوں کو توجہ دلاتے اور ان کی تربیت فرماتے تھے لیکن انتہائی صبر سے،حوصلے سے.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمل چھ ماہ تک فجر کی نماز کے لئے جاتے ہوئے حضرت فاطمہ کے دروازے کے پاس سے یہ فرما کر گزرتے رہے کہ : اے اہل بیت ! نماز کا وقت ہو گیا ہے.اور پھر یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (الاحزاب: 34) کہ اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے.(ترمذی - کتاب التفسير -باب ومن سورة الاحزاب) یہ ہے نصیحت کا عمدہ طریقہ.کوئی غصہ نہیں لیکن مسلسل نصیحت ہے.اپنے گھر والوں کو ، اپنے بچوں کو ان کے مقام اور ذمہ داریوں کی طرف احساس بھی دلایا جا رہا ہے کہ تمہارا اصل کام

Page 504

خطبات مسرور جلد سوم 497 خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا، اس کی عبادت کرنا ہے اور اس میں معیار قائم کرنا ہے.ایک اور حدیث میں اسی طرح نصیحت کرنے کا ذکر آتا ہے اور اس سے آپ کے نصیحت کے رنگ اور وصف کا پتہ لگتا ہے.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم ہے رات کو ہمارے گھر تشریف لائے.اور مجھے اور فاطمہ کو تہجد کے لئے بیدار کیا.پھر آپ اپنے گھر تشریف لے گئے اور کچھ دیر نوافل ادا کئے.اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ وغیرہ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے اور ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو.حضرت علی کہتے ہیں میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور کہا خدا کی قسم! جو نماز ہمارے لئے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں.ہماری جانیں اللہ کے قبضے میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اٹھا دے.رسول کریم واپس لوٹے.آپ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے میرا ہی فقرہ دوہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لئے مقدر ہے پھر یہ آیت تلاوت کی کہ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْ ءٍ جَدَلًا ﴾ (الكهف: 55) که انسان اکثر باتوں میں بحث کرنے والا ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحه 91 مطبوعه بيروت) تو آپ ڈانٹ بھی سکتے تھے، سرزنش بھی کر سکتے تھے لیکن بڑے آرام سے نصیحت فرمائی.یہ بھی بچوں کو سمجھا دیا کہ یہ تو میں سمجھاتا رہوں گا بتاتا رہوں گا ، بلاتا رہوں گا، میرا کام نصیحت کرنا ہے اور یہ جو تم نے بات کی ہے یہ غلط ہے.بہت بحث کرنے والا انسان ہے.بحث کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.آپ چاہتے تھے کہ آپ کی اولا د سادگی سے زندگی بسر کرنے والی ہواور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو عبادت کرنے والی ہو اور اس میں معیار حاصل کرنے والی ہو.دنیا کی چیزوں سے انہیں کوئی رغبت نہ ہو.لیکن یہ بات پیدا کرنے کے لئے آپ نے کبھی سختی نہیں کی.یا تو آرام سے سمجھاتے تھے یا اپنے رویے سے اس طرح ظاہر کرتے تھے کہ ان کو خود ہی احساس ہو جائے.چنانچہ اس ضمن میں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ثعبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور علیل یااللہ جب کسی سفر پر جاتے تو سب سے آخر پر اپنے گھر والوں میں سے

Page 505

خطبات مسرور جلد سوم 498 خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء حضرت فاطمہ سے ملتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے.ایک مرتبہ جب آپ ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت فاطمہ کے ہاں گئے.جب دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ دروازے پر ایک پردہ لٹکا ہوا تھا اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما نے چاندی کے دو کڑے پہنے ہوئے تھے.آپ کے بڑے لاڈلے نواسے تھے.جب آپ نے یہ دیکھا آپ گھر میں داخل نہ ہوئے.بلکہ واپس تشریف لے گئے.حضرت فاطمہ بھانپ گئیں کہ آپ صلی اللہ کو ان چیزوں نے گھر میں داخل ہونے سے روکا ہے.اس پر حضرت فاطمہ نے پردہ پھاڑ دیا اور بچوں کے کڑے لے کر توڑ دیئے.اور اس کے بعد دونوں بچے روتے ہوئے حضور عابی یا اللہ کے پاس گئے.حضور علی یا اللہ نے ان میں سے ایک بچے کو اٹھایا اور راوی کہتے ہیں کہ مجھے ارشاد فرمایا کہ اس کے ساتھ مدینہ میں فلاں کے ہاں جاؤ اور فاطمہ کے لئے ایک ہار اور ہاتھی دانت کے بنے ہوئے دو کنگن لے آؤ اور پھر فرمایا کہ میں اپنے اہل خانہ کے لئے پسند نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا میں ہی تمام آسائش اور آسانیاں حاصل کر لیں.رض (سنن ابی داؤد - كتاب الترجيل - باب في الانتفاع بالعاج) چاندی کیونکہ اس زمانے میں بھی زیب وزینت کی علامت سمجھی جاتی تھی اس لئے پسند نہ فرمایا کہ میرے بچے یہ چیزیں پہنیں.بہر حال جو دوسری سادہ چیزیں تھیں منگوا بھی دیں.آپ جو اپنی بیویوں اور بچوں کے اعلیٰ اخلاق دیکھنا چاہتے تھے اور ان کو اعلیٰ اخلاق پر قائم دیکھنا چاہتے تھے آپ کو یہ برداشت نہ تھا کہ آپ کے قریبی کوئی ایسی بات کریں جو کسی کا دل دکھانے والی ہو.اس لئے ذراذراسی بات کی بھی آپ اصلاح فرمایا کرتے تھے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ عبید اللہ سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں چھوٹے قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاق کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کو صفیہ کے بارے میں یہ باتیں ہی کافی ہیں.ان کے چھوٹے قد پر طنز کیا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ اگر یہ سمندر میں ملا دیا جائے تو اس کو بھی مکد رکر دے.(سنن ابی داؤد کتاب الادب - باب في الغيبة)

Page 506

خطبات مسرور جلد سوم 499 خطبہ جمعہ 19 اگست 2005 ء تو آپ نے بڑے آرام سے ان کو یہ سمجھایا کہ میرے سے قریبی تعلق رکھنے والوں کے معیار اخلاق بہت اونچے ہونے چاہئیں.اس چھوٹی سی مذاق میں کی گئی بات کو گو اس میں طنز بھی شامل تھا ، عام طور پر معمولی سمجھا جاتا ہے لیکن آپ نے اس کا بھی نوٹس لیا کیونکہ جس کے بارے میں بات کی جارہی ہے، جب اس کو پہنچتی ہے تو اس کے لئے تو وہ بہت بڑی بات بن جاتی ہے.اور آپ نے طنز سے کراہت کا اظہار بھی فرما دیا.بات کرنے والے کو بڑے اچھے انداز میں اس طرف توجہ بھی دلا دی کہ جس کو تم مذاق سمجھ رہی ہو یہ اتنی بڑی بات ہے جس سے معاشرے میں فساد پیدا ہو جاتے ہیں.اور میرے قریبیوں کے اخلاق کے معیار اتنے اونچے ہونے چاہئیں کہ کبھی ذرا سی بھی ایسی بات نہ ہو جس سے کسی بھی قسم کا جھگڑا پیدا ہو.اور مثال دے کر یہ فرمایا کہ بظاہر یہ چھوٹی باتیں ہیں جو اپنے اندر اتنا گند لئے ہوئے ہیں کہ سمندر کا پانی جس کی انتہا نہیں ہوتی اس میں بھی اگر اس گند کو ڈالا جائے تو اس کو بھی یہ خراب کر دے.تو یہ ہیں اعلیٰ اخلاق، اور کس خوبصورت طریقے سے آپ نے سمجھایا.گھر والوں کو یہ اعلیٰ اخلاق سکھانے کے بارے میں ایک اور روایت ہے.کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ مجھے آنحضرت علب یا اللہ کے اخلاق فاضلہ کی بابت بتلائیں.حضرت عائشہ نے فرمایا کیا تم قرآن میں یہ نہیں پڑھتے.﴿وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عظيم - القلم : 5) پھر آپ فرمانے لگیں کہ ایک مرتبہ آنحضور علی یا اللہ اپنے صحابہ کے ساتھ تھے.میں نے آپ کے لئے کھانا تیار کیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی کھانا تیار کیا.اور حفصہ نے مجھ سے پہلے کھانا تیار کر کے بھجوا دیا میں نے اپنی خادمہ سے کہا جاؤ اور حفصہ کے کھانے کا برتن انڈیل دو.اس نے آنحضور عبیدلیل اللہ کے سامنے کھانے کا پیالہ رکھتے ہوئے انڈیل دیا جس سے پیالہ ٹوٹ گیا اور کھانا زمین پر بکھر گیا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالے کے ٹکڑوں اور کھانے کو جمع کیا اور چمڑے کے دستر خوان پر رکھا اور وہاں سے اس بچے ہوئے کھانے کو کھایا اور پھر میرا پیالہ حضرت حفصہ کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا کہ اپنے برتن کے عوض یہ برتن رکھ لو اور جو اس برتن میں ہے وہ بھی کھاؤ.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ لیکن آپ عبید اللہ کے

Page 507

خطبات مسرور جلد سوم 500 خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء چہرہ مبارک پر کوئی ایسے آثار نہیں تھے جس سے بہت زیادہ ناراضگی کا اظہار ہوتا ہو.(سنن ابن ماجة - كتاب الاحكام - باب الحكم فيمن كسر شيئًا) لیکن آپ نے بڑے آرام سے سمجھا دیا.تو اپنے عملی نمونے سے یہ بتایا کہ جو تم نے حرکت کی غلط کی.اور سزا یہ ہے کہ تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا.یہی کھاؤں گا جو تم نے ضائع کرنے کی کوشش کی ہے.اور جو پیالہ تم نے تو ڑا ہے اس کے بدلے میں بھی تم اپنے پاس سے دو.اور جو کھانا میرے لئے بنایا تھا اب وہ میں نہیں کھاؤں گا بلکہ وہ بیوی کھائے گی جس سے زیادتی ہوئی ہے.لیکن بڑے تحمل سے، بغیر غصے کے یہ سب باتیں سمجھا دیں کہ کسی سے بھی زیادتی نہیں ہونی چاہئے.اور یہ بات بھی سمجھا دی کہ یہ جو آپس کی Jealousies ہیں ان کو بھی اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ ایک دوسرے سے اعلیٰ اخلاق دکھائے جائیں.اور اب اس کا طریقہ یہی ہے کہ اب اپنا پیالہ لوٹاؤ.یہ ویسے بھی حکم ہے کہ تھنے کو احسن طریق پر لوٹایا جائے اس لئے اب احسن طریق یہی ہے کہ جو کھانا میرے لئے تیار کیا گیا تھا وہ بھی ان کو واپس بھجوا دیا جائے.تو یہاں اگر اس طرح عمل کیا جائے ، اگر عورتیں عمل کریں تو دیکھیں ہر سطح پر رشتے کتنے مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں.بچوں کو اعلیٰ اخلاق سکھانے اور نصیحت کرنے کا انداز بھی آپ کا بڑا عجیب اور پیارا ہوتا تھا.ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں.ابو رافع بن عمرو کے چچا سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی بچہ ہی تھا تو انصار کی کھجوروں پر پتھر مار مار کر پھل گرایا کرتا تھا.آنحضرت علیل اللہ کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ.عرض کیا گیا کہ یہاں ایک لڑکا ہے جو ہماری کھجوروں کو پتھر مارتا اور پھل گراتا ہے.چنانچہ مجھے آنحضرت علی اللہ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے پوچھا کہ اے لڑکے تو کیوں کھجوروں کو پتھر مارتا ہے.میں نے عرض کیا تا کہ میں کھجوریں کھا سکوں.فرمایا کہ آئندہ کھجور کے درخت کو پتھر نہ مارنا.ہاں جو پھل گر جائے اسے کھا لیا کر.پھر آپ نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور دعا دی.کہ اے میرے اللہ ! اس کا پیٹ بھر دے.(مسنداحمد بن حنبل جلد 5 صفحه 31 مطبوعه (بيروت) |

Page 508

خطبات مسرور جلد سوم 501 خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء پتھر مارنے سے تو ہر قسم کی کچی پکی کھجوریں گر جاتی ہیں.دوسرے درختوں پہ بھی پھل ضائع ہو جاتا ہے،.نقصان ہوتا ہے بلاوجہ کا.اس لئے آپ نے اس سے منع فرمایا.لیکن اگر بھوک لگی ہوئی ہے، بہت برا حال ہے، تو فرمایا جو نیچے پکی ہوئی گری ہوتی ہیں ان میں سے کھالیا کرو.لیکن سب سے اچھی بات جو میں تمہارے ساتھ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تمہیں دعا دیتا ہوں کہ ایسے کھانے کی نوبت ہی نہ آئے.تمہارا پیٹ یا حرص یا لالچ جو بھی ہے اگر ہے تو بھرا ر ہے تاکہ تم کبھی کسی دوسرے کی چیز پر نظر نہ رکھو.اور یہی اعلیٰ اخلاق بھی ہیں.دوسرے دعا دے کر اس بچے کو بھی اس طرف توجہ دلا دی کہ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہئے اور جو جائز طریقے ہیں ان کو اختیار کرنا چاہئے.اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا.کل ہی مجھے کسی نے بتایا کہ ہمارے بیت الفضل کے قریب ایک خاتون گزر رہی تھیں.انہوں نے اپنے بچے کو ایک تھیلا دے کر بھیجا، کسی گھر کے سیب باہر نکلے ہوئے نظر آ رہے تھے کہ جاؤ اور توڑ لاؤ.اور جب گھر والا باہر نکلا تو فورا روانہ ہوگئیں اگر تو جائز سمجھ رہی تھیں تو نہیں رکنا چاہئے تھا.اور یوں اس بچے کو بھی عادت پڑ گئی کہ شاید اس طرح کی چیزیں تو ڑنا جائز ہے.تو اس میں قصور اس بچے کا نہیں بلکہ اس ماں کا تھا.اگر بچوں کے اعلیٰ اخلاق ہو جائیں، ان کی تربیت ہو جائے تو آئندہ نسلوں میں بھی وہی اخلاق رائج ہوتے چلے جاتے ہیں.پھر ایک بچے کو کھانے کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا ایک روایت میں اس کا ذکر آتا ہے.حضرت عمر بن ابی سلمی رضی اللہ عنہ جو آنحضرت علی اللہ کے ربیب تھے ، حضرت ام سلمی کے بیٹے تھے بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں آنحضرت عیب اللہ کے گھر رہتا تھا.کھانا کھاتے وقت میرا ہاتھ تیزی سے تھالی میں ادھر اُدھر گھومتا تھا.یعنی بے صبری سے جلدی جلدی کھا تا اور اپنے آگے کا خیال بھی نہیں رکھ رہا تھا.حضور نے میری اس عادت کو دیکھ کر فرمایا کہ کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ.اور اپنے آگے سے کھاؤ.حضور کی یہ نصیحت میں ہمیشہ یادرکھتا ہوں اور اس کے مطابق کھانا کھاتا ہوں.عليه وسلم (بخارى - كتاب الاطعمة - باب التسمية على الطعام والاكل باليمين) |

Page 509

خطبات مسرور جلد سوم 502 خطبہ جمعہ 19 اگست 2005 ء دیکھیں بچپن سے ہی اس خلق کی طرف توجہ دلائی ، ان اعلیٰ اخلاق کی طرف توجہ دلائی، کھانا کھانے کے آداب کی طرف توجہ دلائی کہ ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کھاؤ تا کہ تمہیں یہ احساس بھی رہے کہ سب کچھ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے.پھر یہ کہ گنواروں کی طرح نہ کھاؤ.اب تم وہ اجڈ اور جاہل عرب کے شہری نہیں رہے بلکہ تم میں وہ نبی مبعوث ہو چکا ہے جس نے اعلیٰ اخلاق قائم کرنے ہیں اس لئے تم لوگوں کو کھانا کھانے کے آداب بھی آنے چاہئیں.ابتدائی زمانے میں جو لوگ مسلمان ہوئے تھے جب وہ مختلف باتیں سیکھتے تھے یعنی جو کچھ بھی آنحضرت عبیصلی اللہ سے سیکھایا آپ کے صحابہ سے سیکھا تو ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے..اور بعض دفعہ کم علمی کی وجہ سے یہ نہیں پتہ ہوتا تھا کہ کون ساعمل موقع کی مناسبت سے جائز ہے اور کون سا نہیں.بعض بے موقع باتیں ہو جاتی تھیں لیکن آپ صلی اللہ بڑے تحمل سے اصلاح فرمایا کرتے تھے سمجھایا کرتے تھے کہ کونسی بات کس موقع پر کہنی ہے، کس طرح عمل کرنا ہے.حضرت معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں رسول کریم علی اللہ کے پاس آیا تو میں نے حضور علی یا اللہ سے اسلام کے بارے میں باتیں سیکھیں.به وسلم ان میں سے ایک بات جو مجھے بتائی گئی وہ یہ تھی کہ جب تجھے چھینک آئے تو توالْحَمْدُ لِلہ کہہ.اور جب چھینک مارنے والا الْحَمْدُ لِله کہے تو ، تو يَرْحَمُكَ الله کہے.راوی کہتے ہیں کہ میں نماز میں رسول کریم صلی اللہ کے ساتھ کھڑا تھا کہ اسی اثناء میں ایک شخص نے چھینک ماری اور الْحَمْدُ لِلہ کہا تو میں نے جوا با بلند آواز سے يَرْحَمُكَ الله کہ دیا.اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے جو کہ مجھے بہت برا محسوس ہوا.میں نے کہا تم مجھے کیوں تیز نظروں سے گھورتے ہو.اس پر لوگوں نے سُبْحَانَ اللہ کہا.جب رسول کریم عیالہ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ بولنے والا کون تھا.اشارہ کر کے بتایا گیا کہ یہ بدوی باتیں کر رہا تھا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ نماز، قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہوتی ہے.پس جب تو نماز پڑھ رہا ہو تو تو یہی کام کیا کر.راوی کہتے ہیں (جو بیان کر رہے ہیں اور جس پرلوگوں نے گھورا تھا) کہ میں نے رسول کریم عیب یا اللہ سے زیادہ نرمی سے بات کرنے والا معلم اپنی عليه

Page 510

خطبات مسرور جلد سوم زندگی میں کبھی نہیں دیکھا.503 خطبہ جمعہ 19 اگست 2005 ( ابوداؤد - كتاب الصلوة - باب تشميت العاطس في الصلوة) دیکھیں نئے آدمی کو کس خوبصورتی سے نماز کے آداب بھی سکھا دیئے ، تقدس بھی بتا دیا اور اس خوبصورت انداز کا اس بدوی پر بھی ایسا اثر ہوا جو ساری عمر رہا.یہی لوگ تھے جو اسلام سے پہلے ان چیزوں یا ان باتوں کے سکھانے والوں سے بڑی سختی سے پیش آیا کرتے تھے یا مذاق اڑایا کرتے تھے.ایک اعلیٰ خلق سچ بولنا اور سچ کا قیام ہے اور جھوٹ سے نفرت ہے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قیام کے لئے بھی یہ انتہائی ضروری چیز ہے.اللہ تعالیٰ نے شرک اور جھوٹ سے اجتناب کا ایک ہی جگہ ذکر فرمایا ہے.اس لئے آپ بچوں کو بھی پہلا سبق یہی دیا کرتے تھے کہ سچ بولو.اور ماؤں اور باپوں کو بھی یہ کہا کرتے تھے کہ ان کو سچ سکھاؤ.اس طرح پر ہر نئے مسلمان ہونے والے کے لئے بھی یہی سبق ہوتا تھا کہ سچائی کو اختیار کرو، ہمیشہ سچ بولو.اب سچ کو قائم کرنے کے لئے اور بچوں میں اس کو راسخ کرنے کے لئے کتنا اس کا خیال رکھا کرتے تھے، اس بات کا ایک روایت سے پتہ لگتا ہے.عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم علی یا اللہ ایک دفعہ ہمارے گھر تشریف لائے.میں اس وقت کم سن بچہ تھا.میں کھیلنے کے لئے جانے لگا تو میری امی نے کہا عبداللہ ادھر آؤ میں تمہیں چیز دوں گی.رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ تم اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے جواب دیا کہ ہاں میں کھجور دوں گی.آپ صلی اللہ نے فرمایا اگر واقعی تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا اور صرف بچے کو بلانے کے لئے ایسا کہا ہوتا تو تمہیں جھوٹ بولنے کا گناہ ہوتا.(مسند احمد بن حنبل حديث عبدالله بن عامر جلد 3 صفحه 447 مطبوعه بيروت) اب دیکھیں اس چھوٹی عمر میں آنحضرت عبید اللہ کی یہ نصیحت بچے کے ذہن پر نقش ہو گئی.اب جس بچے کی اٹھان ایسے ماحول میں اور ان نصیحتوں کے ساتھ ہوئی ہو وہ کبھی زندگی بھر جھوٹ بول سکتا ہے؟ اور ایسے ہی تربیت یافتہ بچے ہوتے ہیں جو پھر دنیا کو سچائی دکھانے والے بن

Page 511

خطبات مسرور جلد سوم جاتے ہیں.504 خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء پھر جھوٹ سے ناپسندیدگی کے بارے میں یوں نصیحت فرمائی.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم عیب یا اللہ نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹ اور اس کے مطابق عمل اور جہالت کو نہیں چھوڑتا پس اللہ کو اس کا کھانا پینا چھوڑنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں.(بخارى كتاب الادب - باب قول الله تعالى واجتنبوا قول الزور ) یعنی روزے رکھ کر اگر جھوٹ بول رہے ہو تو اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے.اصل مقصد تو نیک تبدیلی پیدا کرنا ہے.اگر یہ نہیں کر رہے تو جس اللہ کی خاطر روزے رکھے جا رہے ہیں اس نے تو جھوٹ سے منع کیا ہے.اپنے عمل سے تو تم جھوٹے خدا، کے سامنے کھڑے ہو رہے ہو.پس اللہ کی عبادت کرنا اور پھر جھوٹ بھی بولنا یہ دونوں چیزیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں اور اللہ تعالیٰ کو انتہائی نا پسند ہیں.ایک دفعہ ایک شخص کو آپ نے فرمایا کہ اگر تم تمام برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو جھوٹ بولنا چھوڑ دو.چنانچہ اس ایک برائی کے چھوڑنے سے آہستہ آہستہ اس کی تمام برائیاں دور ہو گئیں.جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ جھوٹ شرک کی طرف لے جانے والی چیز ہے.اس لئے آپ کو جھوٹ سے شدید نفرت تھی.یہ ایسی برائی ہے جو انسان کو تباہی کے گڑھے میں لے جاتی ہے.آپ اپنی امت کو اس سے بچنے کے لئے شدت سے نصیحت فرمایا کرتے تھے.چنانچہ روایت میں آتا ہے عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله عليه وسلم نے تین بار فرمایا کیا میں تمہیں گناہ کبیرہ کے متعلق نہ بتاؤں.ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیوں نہیں.آپ نے فرمایا، گناہ کبیرہ یہ ہیں: اللہ کا شرک ، والدین کی نافرمانی ، آپ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے، اٹھ بیٹھے اور فرمایا اور غور سے سنو کہ جھوٹ اور جھوٹی گواہی ، غور سے سنو جھوٹ اور جھوٹی گواہی.راوی کہتے ہیں کہ آپ یہ فرماتے چلے گئے یہاں تک کہ میں نے خواہش کی کہ کاش حضور خاموش ہو جائیں.(بخاری – کتاب الادب -باب عقوق الوالدين من الكبائر) تو جس شدت سے آپ نے اس سے بچنے کی نصیحت فرمائی ہے اس شدت سے ہمیں بھی

Page 512

خطبات مسرور جلد سوم 505 خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے.اور بظاہر معمولی سی بھی غلط بیانی سے بچنا چاہئے.جیسا کہ اس بچے کی ماں کو آپ نے فرمایا تھا کہ اگر تم اس بچے کو کچھ نہ دیتیں تو یہ بھی جھوٹ ہوتا.یہ ایسی چیز ہے جو آج کل عام ہوئی ہوئی ہے.مذاق مذاق میں بھی اتنے جھوٹ بولے جا رہے ہوتے ہیں کہ جس کی انتہا نہیں.ہر احمدی کو جس کے اندر بھی ہو، اپنے اندر سے اس برائی کو جڑ سے اکھیڑنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر آپ بڑے حوصلے سے برداشت کیا کرتے تھے اور اگر کوئی انتہائی نا پسندیدہ شخص بھی آپ کے پاس آ جاتا اس سے بھی آپ کبھی بداخلاقی سے پیش نہیں آئے بلکہ بڑے حو صلے سے اس کی بات سنا کرتے تھے.اور اگر کوئی غلط حرکت کر جاتا تھا تو اس کو بھی بڑے اچھے طریقے سے برداشت کر لیا کرتے تھے.بعض دفعہ بعض بدو گاؤں کے لوگ آیا کرتے تھے جو بعض حرکتیں کر جاتے اور صحابہ کو اس پر بڑا غصہ چڑھا کرتا تھا.لیکن آپ علیل اللہ نہایت خوشی سے اچھے طریقے سے سمجھا دیتے تھے لیکن کبھی غصہ نہیں کیا.ایک روایت میں ذکر آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مسجد میں ایک اعرابی آیا اور وہیں پیشاب کرنے بیٹھ گیا.لوگ اس کی طرف لپکے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو منع کرتے ہوئے فرمایا.اس کو چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے وہاں پانی کا ڈول بہا دو تم لوگوں کی آسانی کے لئے پیدا کئے گئے ہو نہ کہ تنگی کے لئے “ (بخارى - كتاب الوضوء - با ب صب الماء على البول في المسجد) ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ بعد میں وہ بد ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا ہمیشہ تذکرہ کیا کرتا تھا.اور کہتا تھا کہ رسول کریم علی السلام پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپ نے کس طرح محبت سے مجھے سمجھایا.مجھے کوئی گالی نہیں دی.سرزنش نہیں کی ، مارا پیٹا نہیں بلکہ آرام سے سمجھا دیا.تو دیکھیں ایک ان پڑھ کو پیار سے سمجھانے سے ہی اس کی کایا پلٹ گئی.پھر بدظنی ایک ایسی برائی ہے بلکہ ایک زہر ہے جو معاشرے میں فساد پیدا کر دیتی ہے اور

Page 513

خطبات مسرور جلد سوم 506 خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء ایک چھوٹی سی بدظنی کی وجہ سے بھی خاندانوں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، رشتوں میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں.عہد یداروں کے خلاف نفرتیں پیدا ہو جاتی ہیں.عہد یداروں کے دلوں میں لوگوں کے خلاف نفرتیں پیدا ہو جاتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنّ ( الحجرات : (31) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہوظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو.کیونکہ بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے چھوٹی سے چھوٹی سطح پر بھی بدظنی سے بچنے کے نمونے دکھائے ہیں تا کہ کسی کمزور ایمان والے کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ ہو.آپ اس پیارے انداز میں نصیحت فرماتے تھے کہ دوسرا شخص نہ صرف نصیحت کا اثر لیتا تھا بلکہ شرمندہ بھی ہوتا تھا.روایت میں ایک واقعہ کا ذکر آتا ہے جو بظاہر چھوٹا سا ہے لیکن آپ نے برداشت نہ کیا کہ آپ جو معلم اخلاق ہیں آپ کے بارے میں کسی فاسد دل میں کوئی خیال پیدا ہو جس سے دوسروں کو مخالفین کو باتیں کرنے کا موقع ملے.حضرت ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت علی اللہ ایک دفعہ اعتکاف میں تھے.میں رات کے وقت آپ سے ملنے آئی.کچھ دیر باتیں کرتی رہی.جب واپس جانے کے لئے اٹھی تو حضور صلی اللہ بھی کچھ دور چھوڑنے کے لئے میرے ساتھ تشریف لے گئے.ہم دونوں جا رہے تھے کہ پاس سے دو انصاری گزرے.جب انہوں نے آنحضرت علی اللہ کو عليه وسلم دیکھا تو تیزی سے آگے نکل گئے.آنحضور علی یا اللہ نے ان کو فرمایا بھہر وہ یہ میری بیوی صفیہ ہے.اس پر ان انصاری نوجوانوں نے عرض کیا: سبحان اللہ ! معاذ اللہ ! کیا ہم آپ پر بد گمانی کر سکتے ہیں.آپ نے فرمایا شیطان انسان میں اس طرح سرایت کر جاتا ہے جس طرح خون رگوں میں چلتا ہے.مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی پیدا نہ ہو اور تم ہلاک نہ ہو جاؤ.(بخاري - كتاب الاعتكاف - باب هل يخرج المعتكف لحوائجه) یقیناً آپ کے نور فراست نے بھانپ لیا ہو گا کہ ان لوگوں کے سامنے اظہار ضروری ہے اس لئے کر دینا چاہئے ورنہ یہ کہیں کسی قسم کی بات کر دیں اور پھر فتنہ پیدا ہو.اور اپنے ماننے والوں

Page 514

خطبات مسرور جلد سوم 507 خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء کو یہ سبق بھی دیا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی ہوتی ہیں جن سے عموماً بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہی باتیں ہیں جو معاشرے میں فساد کی بنیاد پڑتی ہیں اس لئے ان سے ہمیشہ بچنا چاہئے.پھر پڑوسی ہیں، اگر پڑوسی ، پڑوسی سے خوش ہو تو اس پڑوسی کو جس سے اس کا پڑوسی خوش ہے اعلیٰ اخلاق کا مالک سمجھا جاتا ہے.اس لئے آپ نے اپنے پڑوسی کے حقوق کے بارے میں بہت سی نصائح فرمائی ہیں.صحابہ بھی اس وجہ سے بہت زیادہ کوشش میں رہتے کہ کس طرح پڑوسی کو خوش رکھیں.ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ مجھے کس طرح علم ہو کہ میں اچھا کر رہا ہوں یا برا کر رہا ہوں.حضور علی یا اللہ نے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بڑے اچھے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا طرز عمل اچھا ہے.اور جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بہت بُرے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا رویہ برا ہے.یعنی خود تم اپنے حج نہ بن جاؤ.بعض لوگ اپنے آپ کی خود ہی تعریف کرتے ہیں کہ ہم اچھے ہیں.بلکہ تمہارے پڑوس تمہارے اچھے ہونے کی گواہی دیں.اگر ہر کوئی اس بات پر عمل کرے تو ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہو جاتا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ پڑوسی سے اچھا سلوک کرنا اتنا بڑا اخلق ہے کہ جبریل علیہ السلام ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا رہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال پیدا ہوا کہ وہ اسے وارث ہی نہ بنادے.اتنی اہمیت ہے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی.پھر حکام کی اطاعت ہے.اس بارے میں آپ نے ہمیشہ ہی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ حکام کی اطاعت کرنا تمہارا فرض ہے اور اعلیٰ اخلاق کا یہ تقاضا ہے اور اچھا شہری ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے افسر کی اطاعت کرو.کوئی حبشی غلام بھی تمہارا امیر مقرر ہو جائے ، تمہارا افسر مقرر ہو جائے تو اس کی اطاعت کرو اور پھر جس ملک میں رہ رہے ہو جس کے شہری ہو اس سے محبت کرنے کے بارے میں فرمایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے.اس لیے جہاں یہ اخلاق تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے افسروں کی اطاعت کرو اور اپنے وطن سے محبت کرو وہاں یا درکھو کہ یہ چیزیں ایمان کا حصہ بھی ہیں.اس لیے ایک مسلمان کو جس ملک میں بھی وہ رہ رہا ہے ملکی قانون کی پابندی

Page 515

خطبات مسرور جلد سوم 508 خطبہ جمعہ 19 اگست 2005 کرتے ہوئے امن اور سکون سے رہنا چاہئے.پھر افسروں کو بتایا کہ تمہارے اعلیٰ اخلاق کیا ہیں.اس وقت تمہارے اعلیٰ اخلاق قائم ہوں گے جب تم اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھو گے اور قوم کی خدمت کے لئے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کارلاؤ گے.اپنے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی بجائے لوگوں کی خدمت کی طرف توجہ دو گے تو تبھی تم اچھے افسر اور اچھے لیڈر کہلا سکتے ہو.غرض کہ بیشمار اخلاق ہیں اور آداب ہیں جو آپ نے ہمیں سکھائے اور اپنے عمل سے ان کے معیار قائم کئے.کوئی بھی دنیا کا ایسا خلق نہیں جو اس معلم اخلاق نے اپنے نمونے سے ہمیں سکھایا نہ ہو اور لوگوں کو بتایا نہ ہو.بلکہ یہ توقع رکھی کہ یہ اخلاق نہ صرف اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے ہیں، ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے بلکہ ان کے اعلیٰ معیار بھی قائم کرنے ہیں.بعض دفعہ اصلاح کے لیے ناراضگی ہو بھی تو اخلاق کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہونی چاہئے.مقصد اصلاح ہونا چاہئے نہ کہ دلوں میں کینہ پیدا ہو جائے یا یہ مقصد ہو کہ کسی سے بدلہ لینا ہے.یہ معیار ہونا ہیں جو کہ ایک احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں.آنحضرت صلی اللہ کے بارے میں ایک اور روایت آئی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ بد اخلاق ترین اشخاص سے بھی کس طرح شفقت سے پیش آیا کرتے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک آدمی نے آنحضور علی اللہ کے پاس آنے کی اجازت طلب کی.آنحضور عبد اللہ نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ اپنے گھرانے میں بہت ہی بُرا بھائی ہے اور اپنے خاندان کا بہت ہی بُرا بیٹا ہے.جب وہ آکر بیٹھ گیا تو آنحضور علی اللہ نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے نہایت خوش اخلاقی سے گفتگو فرمائی.جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! جب آپ نے اسے دیکھا تو اس کے بارے میں فلاں فلاں بات کی اور پھر اس سے گفتگو کے دوران آپ نے کمال خندہ پیشانی کا مظاہرہ فرمایا.آپ نے فرمایا عائشہ ! تو نے کب مجھ کو بدزبانی کرتے ہوئے پایا.یقیناً سب سے بُرا آدمی اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ ہوگا جس کی بدی سے ڈر کر لوگ اس کی ملاقات چھوڑ دیں.(بخارى - كتاب الأدب – باب لم يكن النبى فاحشاً ولا متفاحشا حديث 6032)

Page 516

خطبات مسرور جلد سوم 509 خطبہ جمعہ 19 اگست 2005 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”ہاں جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبياء علي اللہ کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے اور نیز آنحضرت عبدلیل اللہ کے حق میں فرمایا ہے.إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيم (القلم: 5) تو خلق عظیم پر ہے اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائی کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے.مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لیے طول وعرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے.ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائل حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کا ملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں.(مکمل طور پر آنحضور عبہ میں موجود ہیں ).سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد 1 صفحه 606 بقيه حاشیه در حاشیه نمبر (3) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : " آنحضرت صلی اللہ کی زندگی ایک عظیم الشان کامیاب زندگی ہے.آپ کیا بلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کے اور کیا بلحاظ اپنی قوت قدسی اور عقد ہمت کے اور کیا بلحاظ اپنی تعلیم کی خوبی اور تکمیل کے اور کیا بلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعاؤں کی قبولیت کے ، غرض ہر طرح اور ہر پہلو میں چمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے ساتھ رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ایک نجی سے نبی انسان بھی (یعنی بیوقوف انسان بھی ) بشر طیکہ اس کے دل میں بے جا ضد اور عدوات نہ ہو ( ایسا جو ضدی قسم کا آدمی حد سے بڑھ جائے ) صاف طور پر مان لیتا ہے کہ آپ تَخَلَّقُوْا بِاخْلَاقِ الله کا کامل نمونہ اور کامل انسان ہیں.اور پھر اخلاق کو صحابہ میں رائج کرنے کی بھی کوشش فرمائی اور کیا بھی.اس بارے میں (الحکم 10 اپریل 1902ء صفحه 5) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : "جو تبدیلی آنحضرت صلی اللہ نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے سے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا اس ساری حالت کے نقشہ

Page 517

خطبات مسرور جلد سوم 510 خطبه جمعه 19 اگست 2005 ء 66 کو دیکھنے سے بے اختیار ہو کر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کیا.دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.یہ نری کہانی نہیں، یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے.(الحكم 24 جنوری 1907ء صفحه 5) آج ہمارا بھی فرض ہے کہ جو اخلاق آپ نے ہمیں سکھلائے ان کو اختیار کریں اور دنیا کو بتائیں کہ یہ وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو اس معلم اخلاق نے ہمیں سکھائے اور آج بھی حسین معاشرے کے قیام کے لیے ان کو اپنا نا ضروری ہے.پس اپنے نمونوں سے ہمیں ان کو دنیا کو دکھانا ہوگا.اللہ تو فیق دے 谢谢谢

Page 518

خطبات مسرور جلد سوم 511 (33) خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء حبل اللہ کے معانی اور خلافت علی منہاج نبوت کے تحت ایک جنت نظیر معاشرے کا قیام خطبه جمعه فرموده 26 اگست 2005ء بمقام مئی مارکیٹ.منہائیم (جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.پھر فرمایا:.( ال عمران : 104) اس کا ترجمہ ہے کہ: اور اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے

Page 519

خطبات مسرور جلد سوم 512 خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء کنارے پر کھڑے تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچالیا.اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ شاید تم ہدایت پا جاؤ.اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بے شمار احکامات دے کر ان پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کے ترجمہ میں جیسا کہ میں نے ابھی پڑھا ہے.ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ایک ہو کر رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ اللہ کی رسی تم پر ایک انعام ہے.اللہ کی اس ریتی کو پکڑنے کی وجہ سے تم پر اللہ کے فضل نازل ہوئے اور اس کے انعاموں سے تم نے حصہ پایا.تمہارے معاشرے کے تعلقات بھی خوشگوار ہوئے اور تمہاری آپس کی رشتہ داریوں میں بھی مضبوطی پیدا ہوئی.ہم آنحضرت علی اللہ کی بعثت سے قبل کے واقعات تاریخ میں پڑھتے ہیں اور پھر آپ کی بعثت کے بعد کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح محبتیں بڑھیں اور ایک دوسرے سے کس طرح اخوت کا رشتہ قائم ہوا.کس طرح ایک دوسرے کے بھائی بھائی بنے.دیکھیں مدینہ کے انصار نے ملکہ کے مہاجرین کو کس حد تک بھائی بنایا کہ اپنی آدھی جائیدادیں بھی ان مہاجرین کو دینے کے لیے تیار ہو گئے بلکہ بعض جن کی ایک سے زائد بیویاں تھیں.انہوں نے یہاں تک کہا کہ ہم ایک بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں اور تم اس سے شادی کر لو.تو اس حد تک بھائی چارے اور محبت کی فضا پیدا ہوگئی تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ محبت اور بھائی چارے کی یہ فضا صرف امن اور آسائش کے وقت میں نہیں تھی کہ فراوانی ہے ، کشائش ہے تو کچھ دے دیا بلکہ جنگ اور تکلیف کی حالت میں بھی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم ہوئے.اور یہ صرف اس لئے تھے کہ ان لوگوں نے اللہ کی رسی کی پہچان کی اور اسے مضبوطی سے پکڑا.یاد کریں ایک جنگ کے بعد کا وہ نقشہ جب جنگ کے بعد پانی پلانے والے مسلمان زخمیوں کے درمیان پھر رہے تھے ، ایک کراہ کی آواز سنی.جب وہ پانی پلانے والے اس کراہنے والے صحابی کے پاس پہنچے جو زخموں سے چور تھے ، جان کنی کی حالت تھی.پانی پلانے والے نے جب پانی ان کے منہ کو لگایا تو اس وقت ایک اور کراہ کی آواز آئی ، پانی مانگا گیا.پہلے زخمی نے کہا:

Page 520

خطبات مسرور جلد سوم 513 خطبه جمعه 26 اگست 2005 ء نہیں، بہتر یہ ہے تم مجھے چھوڑو.میں اس سے بہتر حالت میں ہوں.وہ جس طرح مجھے دیکھ رہا ہے، اسی طرح پانی کی طرف دیکھ رہا ہے ، پانی مانگ رہا ہے تم پہلے اس زخمی کو پانی پلاؤ.پانی پلانے والے جب اس دوسرے زخمی کے پاس پہنچے تو پھر ایک طرف سے کسی کی کراہتے ہوئے پانی مانگنے کی آواز آئی.تو اس دوسرے زخمی نے کہا کہ نہیں وہ زخمی میرے سے زیادہ حقدار ہے، اس کو پانی دو.میں برداشت کرلوں گا.اس طرح جب پانی پلانے والے تیسرے صحابی کے پاس پہنچے تو جب ان کے منہ کو پانی لگایا گیا تو پانی پینے سے پہلے ہی وہ اللہ کے حضور حاضر ہو گئے.اور جب یہ پانی پلانے والے واپس دوسرے کے پاس پہنچے تو ان کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی.اور جب پہلے کے پاس پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حضور حاضر ہو چکے تھے.(الأستيعاب في معرفة الاصحاب باب عكرمة بن ابی جہل) تو دیکھیں اس آخری جان کنی کے لمحات میں بھی اپنے بھائی کی خاطر قربانی کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہوئے وہ تمام رخی صحابہ اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.روایت میں آتا ہے کہ پہلے پانی مانگنے والے حضرت عکرمہ تھے.اور حضرت عکرمہ کا یہ حال تھا کہ ایک وقت میں مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے.اپنوں کے ساتھ بھی قربانی کا کوئی تصور نہیں تھا.اور ایک وقت ایسا آیا کہ دوسرے مسلمان کی خاطر اپنی جان بھی قربان کر دی.اسی طرح دوسرے دو صحابہ تھے.تو جان لینے والوں میں قربانی کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہوئے جان دینے کا یہ انقلاب تھا جوان لوگوں نے آنحضرت علی یا اللہ سے منسوب ہونے کے بعد قائم کیا ہے.انہوں نے یہ معیار عليه وسلم حاصل کئے اور یوں اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہوئے.ہم سب جانتے ہیں کہ وہ رہتی کون سی تھی یا کون سی ہے جس کو پکڑ کر ان میں اتنی روحانی اور اخلاقی طاقت پیدا ہوئی، قربانی کا مادہ پیدا ہوا، قربانی کے اعلیٰ معیار قائم ہوئے.جس نے ان میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انہیں اس حد تک اعلیٰ قربانیاں کرنے کے قابل بنا دیا.وہ رتی تھی اللہ تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب قرآن کریم ، جو احکامات اور نصائح سے پُر ہے.جس کے حکموں پر سچے دل سے عمل کرنے والا خدا تعالیٰ کا قرب پانے والا بن جاتا ہے.وہ رہتی تھی

Page 521

خطبات مسرور جلد سوم 514 خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء نبی کریم علی اللہ کی ذات کہ آپ کے ہر حکم پر قربان ہونے کے لیے صحابہ ہر وقت منتظر رہتے تھے.ان صحابہ نے اپنی زندگی کا یہ مقصد بنالیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے باہر نہیں نکلنا.اور پھر آنحضرت علیل یا اللہ کے بعد آپ کے پہلے چار خلفاء جو خلفاء راشدین کہلاتے ہیں، ان کے توسط سے مسلمانوں نے اُس رتی کو پکڑا جو اللہ کی رسی اور اس کی طرف لے جانے والی رہتی تھی.اور جب تک مسلمانوں نے اس رسی کو پکڑے رکھا وہ صحیح راستے پر چلتے رہے.اور جب فتنہ پردازوں نے ان میں پھوٹ ڈال دی اور انہوں نے فتنہ پردازوں کی باتوں میں آکرا س رہستی کو کاٹنے کی کوشش کی تو ان کی طاقت جاتی رہی.مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں میں اس کے بعد کامیابیاں تو ملتی رہیں لیکن اجتماعی قوت اور رعب جو تھا وہ جاتا رہا.وہ قوت جو تھی وہ پارہ پارہ ہو گئی.آپس میں بھی لڑائیاں ہوئیں.ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوا.اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا انکار کیا تھا.یہاں یورپ میں بھی دیکھیں مسلمان آئے ، سپین کو فتح کیا اور اس کو چند سو سالوں کے بعد گنوا بھی دیا.اور آج بھی مسلمانوں کی جو یہ ابتر حالت ہے، نا گفتہ بہ حالت ہے، آج بعض مسلمان ممالک جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن اس کے باوجود غیروں کے دست نگر ہیں، اس کی یہی وجہ ہے کہ اللہ کی رسی کی انہوں نے قدر نہیں کی اور اپنے ذاتی مفادات اللہ اور رسول کی محبت پر غالب کر لئے.ذاتی مفادات نے بھائی کی بھائی سے پہچان مٹادی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج یہ سب طاقت کھوئی گئی.لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ جس نے آنحضرت عبیل یا اللہ کو آخری شرعی نبی بنا کر دنیا میں بھیجا تھا.اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آپ کی شریعت نے رہتی دنیا تک نہ صرف قائم رہنا تھا بلکہ پھیلنا تھا.اپنے وعدے کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ان عملوں کی وجہ سے اس دین کو صفحہ ہستی سے مٹا تو نہیں دینا تھا.مسلمانوں کے بگڑنے کی وجہ سے اور ناشکری کی وجہ سے جو ایسی حرکتوں کے منطقی نتائج نکلتے ہیں اور نکلنے چاہئیں وہ تو نکلے.لیکن اللہ تعالیٰ کا آنحضرت علی اللہ عليه وسلم سے یہ بھی وعدہ تھا کہ آخرین میں سے تیری امت میں سے تیری لائی ہوئی شریعت کو دوبارہ قائم

Page 522

خطبات مسرور جلد سوم 515 خطبه جمعه 26 اگست 2005 ء کرنے کیلیے میں مسیح و مہدی کو مبعوث کروں گا تا کہ پھر وہ احکامات لاگو ہوں ، تا کہ پھر اللہ کی رہتی کی قدر کا احساس پیدا ہو، تاکہ پھر اس مسیح و مہدی کو ماننے والے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ سکیں.اس آیت کے آخر میں جو یہ فرمایا ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ شاید تم ہدایت پا جاؤ.یہ مسلمانوں کو پھر ایک حکم ہے، ایک وارننگ ہے کہ اللہ کے احکامات پر عمل کرو، پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے بعد ضد نہ کرو اور سیح و مہدی کو مان لو.جو تمہارے ساتھ ہو چکا اس سے سبق حاصل کرو.اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرو.اور اب تمہاری بقا اسی میں ہے کہ اس رسی کو مضبوطی سے پکڑو.لیکن اس میں ہم احمدیوں کے لیے بھی نصیحت ہے بلکہ اوّل مخاطب اس زمانے میں ہم احمدی ہیں کہ ایک انقلاب آج سے چودہ سو سال پہلے آیا تھا اور دشمن کو بھائی بھائی بنا گیا تھا اور ایک انقلاب اس زمانے میں اس نبی امی کی قوت قدسی کی وجہ سے، اس کے عاشق صادق کے ذریعہ سے برپا ہوا ہے جس نے تمہیں پھر سے اکٹھا کیا ہے.اس لئے اب پہلی باتیں جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں ، یہ تاریخ کا حصہ بننے کے لیے تھیں ان پر غور کرو اور اس مسیح و مہدی کو ماننے کے بعد ہمیشہ اس تعلیم پر عمل کرو جو تمہیں دی گئی ہے.ورنہ جو عمل نہیں کرے گا وہ اپنے آپ کو آگ کے گڑھے میں گرانے والا ہوگا.پہلے زمانے کے لئے آنحضرت عبید اللہ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ خلافت راشدہ کا زمانہ تھوڑا ہوگا اور اسی کے مطابق ہوا.لیکن اس زمانے کے لئے آنحضرت علی اللہ نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ میرے غلام صادق کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہوگی وہ علی منہاج نبوت ہوگی اور اس کا دور قیامت تک چلنے والا دور ہوگا.خلافت کے قیامت تک قائم رہنے کے بارے میں بعض لوگ اس کی اپنی وضاحت اور تشریح بھی کرتے ہیں.ہم میں سے بھی بعض لوگ بعض دفعہ باتیں کرتے رہتے ہیں.تو آج جو یہ باتیں کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رہتی کو کاٹنے کی باتیں کرتا ہے کہ قیامت تک اس نے رہنا ہے یا نہیں یا اس کی کیا تشریح ہے، کیا نہیں ہے.اگر کوئی دلیل ان کے پاس اس چیز کی ہے بھی تو حضرت

Page 523

خطبات مسرور جلد سوم 516 خطبہ جمعہ 26 راگست 2005 ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعریف کے بعد ہر چیز باطل ہو چکی ہے.وہ دلیل اپنے پاس رکھیں اور جماعت میں فساد کی کوشش نہ کریں.بہر حال واضح ہو کہ اب اللہ کی رسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود ہی ہے، آپ کی تعلیم پر عمل کرنا ہے.اور پھر خلافت سے چمٹے رہنا بھی تمہیں مضبوط کرتا چلا جائے گا.خلافت تمہاری اکائی ہو گی اور خلافت تمہاری مضبوطی ہوگی.خلافت تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آنحضرت عبید اللہ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والی ہوگی.پس اس رستی کو بھی مضبوطی سے پکڑے رکھو.ورنہ جو نہیں پکڑے گا وہ بکھر جائے گا.نہ صرف خود بر باد ہوگا بلکہ اپنی نسلوں کی بربادی کے سامان بھی کر رہا ہوگا.اس لئے ہر وہ آدمی جس کا اس کے خلاف نظریہ ہے وہ ہوش کرے.اس ریشی کو پکڑنا کس طرح ہو گا؟ یہ صرف بیعت کر کے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو مان لینے سے ہی نہیں ہوگا بلکہ ان شرائط بیعت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جو آپ نے مقرر فرمائی ہیں.دیکھیں کتنی کڑی شرائط ہیں.بعض تو بعض عمل کرنے والوں کو بڑی بڑی لگتی ہیں.لیکن کس درد سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے.کس طرح ایک ایک بات کو لے کر ہمیں سمجھایا ہے کہ میری بیعت میں آنے کے بعد کس طرح تمہیں اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی.عبادات اور توحید کے قیام سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی نیکیاں اختیار کرنے ، تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے اور اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی تا کہ اللہ کے احکامات کی رسی کو تھام کر ہم اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکیں ، اس کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں.اور یہی باتیں ہیں جن کی آپ کے بعد خلفائے وقت نے تلقین کی اور نصیحت فرماتے رہے.تین سال کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو قائم ہوئے سو سال کا عرصہ ہو جائے گا اور جماعت اس جو بلی کو منانے کے لیے بڑے زور شور سے تیاریاں بھی کر رہی ہے.اس کے لئے دعاؤں اور عبادات کا ایک منصوبہ میں نے بھی دیا ہے.ایک تحریک دعاؤں کی ، نوافل کی میں نے

Page 524

خطبات مسرور جلد سوم 517 خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء بھی کی تھی.تو بہت بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر عمل بھی کر رہی ہے.لیکن اگر ان باتوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں حقوق العباد کے اعلیٰ معیار ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی تو یہ روزے بھی برکار ہیں، یہ نوافل بھی برکار ہیں ، یہ دعا ئیں بھی بریکار ہیں.ہم جماعت کے عہدیداروں کو یہ رپورٹ تو دے دیں گے کہ خلیفہ وقت کو بتا دو کہ جماعت کے اتنے فیصد افراد نے روزے رکھے یا نوافل پڑھے یا دعا ئیں کر رہے ہیں اور اس پر عمل کر رہے ہیں.لیکن جب آپس کے تعلقات نبھانے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ، ایک دوسرے کی خاطر قربانیاں دینے اور قربانیوں کے وہ نمونے قائم کرنے ، جن کی میں نے مثال دی ہے کے بارے میں پوچھا جائے گا تو پتہ چلے گا کہ اس طرف تو توجہ ہی نہیں ہے.یا اگر توجہ پیدا ہوئی بھی ہے تو اس حد تک ہوئی ہے جس حد تک اپنے حقوق متاثر نہیں ہوتے.اس وقت تک حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے جب تک اپنی ذات کی قربانی نہ دینی پڑے.اس وقت تک توجہ پیدا ہوئی ہے جب تک اپنے مال کی قربانی نہ دینی پڑے.مال کی قربانی کے ضمن میں یہاں یہ بھی ضمنا ذکر کر دوں.جرمنی نے آج سے 10 سال پہلے 100 مساجد کا وعدہ کیا تھا.اس کی رفتار بڑی ست ہے.تو خلافت جو بلی منانے کے لیے اب اس میں بھی تیزی پیدا کریں اور خدام، انصار، لجنہ پوری جماعت مل کر ایک منصوبہ بنائیں کہ ہم نے سال میں صرف چار پانچ مساجد پیش نہیں کرنی بلکہ 2008 ء تک اس سے بڑھ کر مساجد پیش کرنی ہیں.اگر آپ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کام میں بجت جائیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا.اور آپ کی مساجد کی تعمیر کی رفتار بھی انشاء اللہ تعالی تیز ہوگی.جو روکیں راستے میں پیدا ہورہی ہیں وہ بھی دور ہوں گی.لیکن بہر حال اس کے لیے دعاؤں پر زور دینے اور پختہ ارادے کی ضرورت ہے.میں نے یہ ضمناذ کر کر دیا ہے.تو قربانی کا میں ذکر کر رہا تھا.اگر تو آپ کی توجہ صرف اس حد تک پیدا ہوئی ہے جہاں تک اپنے قریبیوں کے حقوق متاثر نہیں ہوتے.اپنے اور اپنے قریبیوں کے مفاد حاصل کرنے کے لیے اگر غلط بیانی اور نا جائز ذرائع استعمال کر رہے ہوں اور اگر اس کو بھی کوئی عار نہ سمجھتے ہوں تو پھر

Page 525

خطبات مسرور جلد سوم 518 خطبہ جمعہ 26 راگست 2005 ء حبل اللہ کو پکڑنے کے دعوے جھوٹے ہیں.پھر تو خلافت احمدیہ کے احترام اور استحکام کے نعرے کھو کھلے ہیں.پھر تو خلیفہ وقت کے لئے بھی فکر کی بات ہے.نظام جماعت کے لیے بھی فکر کی بات ہے اور ایک پکے اور نیچے احمدی کے لیے بھی فکر کی بات ہے.کیونکہ ان راہوں پر نہ چل کر جن پر چلنے کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے ، آگ کے گڑھے کی طرف بڑھنے کا خطرہ ہے.پس آج ہر احمدی کو حبل اللہ کا صحیح اور اک اور فہم حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.صحابہ کی طرح قربانیوں کے معیار قائم کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے.ایک دوسرے کے حقوق ادا کر نا حبل اللہ کو پکڑنا ہے.قرآن کریم کے تمام حکموں پر عمل کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے.اگر ہر فرد جماعت اس گہرائی میں جا کر حبل اللہ کے مضمون کو سمجھنے لگے تو وہ حقیقت میں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ایک جنت نظیر معاشرے کی بنیاد ڈال رہا ہوگا.جہاں بھائی بھائی کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں گے ، میاں بیوی کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں گے،ساسوں ، بہوؤں کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں گے.دوست دوست کے حق ادا کرتے ہوئے اس کی خاطر قربانی دے رہا ہو گا.جماعت کا ہر فر د نظام جماعت کی خاطر قربانی دینے کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہوگا.غرض کہ ایک ایسا معاشرہ قائم ہو گا جو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والا معاشرہ ہوگا.جس میں وہ لوگ بستے ہوں گے جو اس قرآنی آیت پر عمل کرنے والے ہیں.فرمایا الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران : 135 ) یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دیا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.فرمایا کہ اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.یہ اعلیٰ اخلاق دکھانے والے کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے آپس میں محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے ، ایک ہو کر رہنے کے لئے اللہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے

Page 526

خطبات مسرور جلد سوم 519 خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء کے لئے ، جماعت کی مضبوطی اور وقار کے لئے ، ایک دوسرے کے قصور معاف کرتے ہیں.اپنی جھوٹی اناؤں کو دباتے ہیں.یہ نہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھانا شروع ہو جائیں ، جھوٹی انائیں رکھنے والے ہوں.اس زعم میں بیٹھے ہوں کہ ہمارا خاندان بڑا ہے.جب اس فساد کے زمانے میں اس دنیا داری کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے سلسلۂ بیعت میں شامل ہو گئے تو پھر بڑائی کسی قبیلے، برادری یا خاندان کی نہیں ہے.پھر بڑائی تقوی میں ہے.جیسا کہ فرمایا ﴿إِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ ﴾ (الحجرات: 14) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.اور متقی کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرتا ہے.ہر وقت اس فکر میں ہے کہ میں حبل اللہ کو پکڑے رکھوں.پس اگر اللہ کی محبت حاصل کرنی ہے تو ان جھوٹی اناؤں کا خاتمہ کرنا ہوگا.اور نہ صرف یہ کہ کسی سے برائی نہیں کرنی یا برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا، بلکہ احسان کا سلوک کرنا ہے.یہی باتیں ہیں جو ایک حسین معاشرہ قائم کرتی ہیں اور اس کے لئے ایک احمدی کو جہاد کرنا چاہئے.کیونکہ اگر دل تقویٰ میں ہے تو اللہ تعالیٰ کے دین کی مضبوطی کی خاطر ، اپنے ایمانوں میں مضبوطی کی خاطر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے گی.اور اپنی اناؤں اور غصے کو دبانے کی توفیق ملتی رہے گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں.یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے.بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے.عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے.( یعنی غرور اور تکبر غضب سے پیدا ہوتا ہے، غصے سے پیدا ہوتا ہے ) اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے.کیونکہ غضب اس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے“.(ملفوظات جلد اول صفحه 22-23 جدید ایڈیشن) | تو جس طرح ایک نیکی سے دوسری نیکی پھوٹتی ہے اسی طرح ایک برائی سے دوسری برائی

Page 527

خطبات مسرور جلد سوم 520 خطبہ جمعہ 26 راگست 2005 ء پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.اس لئے ہر برائی سے بچنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور خاص طور پر غصہ جس سے غرور اور تکبر پیدا ہوتا ہے یا غرور اور تکبر جس کی وجہ سے انسان غصے میں آجاتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ ایک بہت مشکل امر ہے.بہت بڑی مشکل چیز ہے لیکن تمہیں ایک رکھنے کے لئے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کیلئے انتہائی بنیا دی امر ہے.ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یا درکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں.وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے.گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں.غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے.جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے.اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نفرت نہیں دئے جاتے“.(ملفوظات جلد سوم صفحه 104 جدید ایڈیشن) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ مزید جھنجھوڑنے والے ہیں.ایک طرف تو ہم اللہ کی رسی کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے دعویدار ہوں، ایک طرف تو ہم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے دعویدار ہوں اور دوسری طرف بداخلاقی کے نمونے دکھا رہے ہوں.ایک طرف تو ہم دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لانے کے دعویدار ہوں اور دوسری طرف ہمارے اپنے فعل ایسے ہوں کہ ہمارے ایسے فعلوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں معارف اور حکمت سے محروم کر رہا ہو.جب ہمارے اپنے اندر حکمت و معرفت نہیں ہوگی یا معارف پیدا نہیں ہوں گے تو دوسروں کو کیا سکھائیں گے.پس ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہو گا.اپنے جائزے لینے ہوں گے.کیونکہ جس میں عقل اور حکمت نہ ہو، جس کی عقل موٹی ہو گئی ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی رسی کو پکڑنے کا کیا ادراک ہوسکتا ہے.یہاں اس ملک میں آکر آپ میں سے بہتوں کے جو معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں اس بات سے آپ کے دلوں میں ایک دوسرے کی خاطر مزید نرمی آنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے آگے سر مزید جھکنا چاہئے کہ اس نے احسان فرمایا اور اس احسان کا تقاضا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رسی کو مزید

Page 528

خطبات مسرور جلد سوم 521 خطبه جمعه 26 راگست 2005 ء مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اس کے حکموں پر عمل کیا جائے.اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کئے جائیں اور یوں اللہ کا پیار بھی حاصل کیا جائے.اور جہاں ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر رہے ہوں گے وہاں آپس کی محبت اور پیار اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی وجہ سے آپس میں مضبوط بندھن میں بندھ رہے ہوں گے.اور جب ہم اس طرح بندھے ہوں گے اور اللہ کی رشتی کو تھامے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کر رہے ہوں گے تو ہمارا ایک رعب قائم ہوگا جو مخالفین کے ہر حملے سے ہمیں محفوظ رکھے گا.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا جماعتی وقار بھی جاتا رہے گا اور تمہارے اندر بزدلی بھی پیدا ہو جائے گی.جیسا کہ فرمایا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (الانفال:47) اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا.اور صبر سے کام لو.یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.پس ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر ایسے مواقع آ بھی جائیں جس میں کسی کی طرف سے زیادتی ہوئی ہو تو صبر اور حوصلے سے اس کو برداشت کرنا چاہئے.آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں پڑ کر اپنی اناؤں کے سوال پیدا کر کے اپنی طاقتوں کو کم نہ کریں.ہر بھائی دوسرے بھائی کی عزت کا خیال رکھے.ہر بہن دوسری بہن کی عزت کا خیال رکھے.اپنے بچوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے احترام پیدا کریں.عہدیدار افراد جماعت کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور افراد جماعت عہدیداروں کی عزت کریں، ان کے وقار کا خیال رکھیں.پھر آپس میں عہد یدار ایک دوسرے کی عزت اور احترام کریں.ذیلی تنظیموں کے عہد یدار دوسری ذیلی تنظیموں کے عہد یداروں کا احترام اپنے اندر اور اپنی تنظیم کے اندر پیدا کریں.پھر تمام ذیلی تنظیموں کے عہدیدار جماعتی عہدیداروں کا احترام اپنے دل میں پیدا کریں.آپس میں تمام عہدیدار ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں.عہدیداروں سے میں کہتا ہوں کہ جب یہ چیز عہدیداروں کی سطح پر اعلیٰ معیار کے مطابق پیدا ہو جائے گی.تو جماعت کے اندر ایک روحانی تبدیلی خود بخود پیدا ہوتی چلی جائے گی.جس طرح آپ تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام

Page 529

خطبات مسرور جلد سوم 522 خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء کر رہے ہوں گے.اسی طرح افراد جماعت ایک دوسرے کا احترام کر رہے ہوں گے اور خیال رکھ رہے ہوں گے.ضرورتیں پوری کر رہے ہوں گے.قربانی دینے کا شوق پیدا ہورہا ہوگا.پس اس بات کو چھوٹی نہ سمجھیں.یہی باتیں آپ کو اعلیٰ اخلاق کی طرف لے جانے والی ہیں اور انہیں باتوں کے اپنانے سے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے، اپنے اوپر لاگو کرنے سے ، ہم جماعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں گے.ان باتوں کے اختیار کرنے کی طرف توجہ کرنے کیلئے آنحضرت علی یا اللہ نے بھی مختلف طریقوں سے ہمیں سمجھایا ہے کہ آپس میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا کس طرح پیدا کرنی ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت اللہ نے فرمایا جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس کے کرب کو دور کرتا ہے.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے کرب اور اس کی بے چینی کو دور کرے گا.اور جو شخص کسی تنگ دست کے لیے آسانی مہیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی اور آرام کا سامان بہم پہنچائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.اللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد کر تا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کے لیے کوشاں رہتا ہے.(ترمذى كتاب البر والصلة باب فى السترة على المسلم) پس یہ آسانیاں پیدا کرنا بھی محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے.خاص طور پر ایک دوسرے کی پردہ پوشی کی طرف بہت توجہ دیں.لیکن یہاں ایک وضاحت بھی کر دوں.اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ غلاظت کو معاشرے میں پلنے اور بڑھنے دیا جائے اور جو غلط حرکات ہورہی ہوں ان سے اس طرح پردہ پوشی کی جائے کہ جو معاشرے پر برا اثر ڈال رہی ہو.اس کی اطلاع عہد یداران کو دینی ضروری ہے.مجھے بتائیں لیکن آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرنا یا کسی کے متعلق باتیں سن کے آگے پھیلانا یہ غلط طریق کار ہے.اس معاملے میں پردہ پوشی ہونی چاہئے.لیکن اصلاح کی خاطر بتانا بھی ضروری ہے.لیکن ہر جگہ بات کرنے سے پر ہیز کرنا چاہئے.یہ برائیاں اگر کوئی کسی میں دیکھتا ہے تو ایک احمدی کو بے چین ہو جانا چاہئے ، اس کی اصلاح کی کوشش کرنی

Page 530

خطبات مسرور جلد سوم 523 خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء چاہئے.بے چینی سے اس کی غلطیوں کو لوگوں پہ ظاہر نہیں کرنا.بے چینی اصلاح کے لئے ہونی چاہئے اور وہیں بات کرنی چاہئے جہاں سے اصلاح کا امکان ہو.اگر خو د اصلاح نہیں کر سکتے تو جس طرح میں نے کہا ہے پھر عہدیداروں کو بتا ئیں، مجھے بتائیں.اور پھر یہ عہد یدار رحم اور محبت کے جذبات کے ساتھ اس شخص کی اصلاح کی طرف توجہ کریں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عامر کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا تو مومنوں کو ان کے آپس کے رحم ، محبت و شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا.جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے.اس کا سارا جسم اس کے لئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے.(بخاری کتاب الأدب.باب رحمة الناس والبهائم) پس معاشرے کو تکلیف سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو اس بیماری سے بچانے کے لیے پاک دل ہو کر اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے ، دعا کرنی چاہئے.یہ رویے اگر ہوں گے تو یقیناً یہ ایسے رویے ہیں جو معاشرے کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے والے ہوں گے.صلى پھر آپس کے تفرقہ کو دور کرنے کے لیے، آپس میں محبت کرنے کے لیے آنحضرت عبید الا الله نے ایک نہایت خوبصورت اصل ہمیں بتا دیا.عليه روایت میں آتا ہے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے اور یہ کہ وہ راستے میں ایک دوسرے سے ملیں تو منہ پھیر لیں.ان دونوں میں سے بہترین وہ ہے جو سلام میں پہل کرے.(الادب المفرد للبخاری، باب من بدا بالسلام) پس آپس کی رنجشوں کو لمبا نہیں کرنا چاہئے اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور بڑھتے بڑھتے جماعتی و قار کو نقصان پہنچاتا ہے.غیر اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.کئی خط آتے ہیں لوگ لکھتے ہیں کہ فلاں شخص کے ساتھ ناراضگی تھی، آپ کے کہنے پر جب میں اس کے پاس گیا اور اس سے اپنی غلطی کی معافی مانگی تو اس نے سختی سے مجھے جھڑک دیا.وہ بات کرنے کا روادار نہیں ، سلام کرنے کا روادار نہیں.یہاں جرمنی میں کئی ایسے واقعات ہیں.

Page 531

خطبات مسرور جلد سوم 524 خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء تو جیسا کہ میں نے کہا یہ بڑا غلط طریقہ ہے.صلح کی بنیاد ڈالنی چاہئے.اوّل تو ہر ایک کو پہل کرنی چاہئے.یہ نظارے نظر آنے چاہئیں کہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دوڑے آئیں.ایک دوسرے کو معاف کرنے کی عادت ڈالیں.اور پہلے صلح کی بنیاد ڈال کر بہترین مسلمان بنیں اور اسلام اور احمدیت کی مضبوطی کا باعث بنیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم علی اللہ نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچارہا ہوتا ہے.پھر آپ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں خوب اچھی طرح سے پیوست کر کے ( یوں بنا کر ) بتایا کہ ایک حصہ دوسرے کے لیے اس طرح تقویت کا باعث ہوتا ہے.(صحیح بخاری، کتاب الصلوة ، باب تشبیک الاصابع فی المسجد) تو دیکھیں کیا تو قعات ہیں آنحضرت علیل اللہ کو ہم سے.اس زمانے میں احمدی ہو کر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے کہ آنحضرت علیم اللہ کے اقوال کو اپنا دستورالعمل بناؤں گا.ایک فکر کے ساتھ اگر ان اقوال پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے بن جائیں گے.معاشرے کو حسین بنانے والے بن جائیں گے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ نے فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہ تو نبی ہوتے ہیں اور نہ ہی شہید.مگر انبیاء اور شہداء بھی قیامت کے دن ان کے اس مرتبہ پر رشک کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملے گا.لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! یہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ آپس میں ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے اور نہ ہی وہ آپس میں مالی لین دین کرتے تھے بلکہ محض اللہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے.تو فرمایا بخدا ان کے چہرے اس دن نورانی ہوں گے اور ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہوگا.انہیں اس وقت کوئی خوف نہ ہوگا جبکہ لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے.اور نہ ہی انہیں کوئی غم ہو گا اس وقت جبکہ لوگ غم میں مبتلا ہوں گے.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی

Page 532

خطبات مسرور جلد سوم 525 خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء ألا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُوْنَ ﴾ (یونس : 63) یعنی سنو جو لوگ اللہ سے بچی محبت رکھنے والے ہیں ان پر نہ کوئی خوف غالب ہوتا ہے اور نہ وہ نہ وہ ہمگین ہوتے ہیں.(تفسير الدر المنثور تفسير سوره یونس زیر آیت 63) دیکھیں کتنا بڑا اعزاز ہے ایسے دلوں کا جو محض اللہ محبت کرتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرنے والے یقیناً ایسے اشخاص ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں.جو اپنے اوپر بھی اور اپنے ماحول میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر اخوت قائم کرنے والے ہیں.حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے ہیں اور حقوق اللہ کی بھی ادائیگی کرنے والے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف تفرقہ سے بیچ رہے ہیں بلکہ محبتیں بکھیر رہے ہیں اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کے بارہ میں کہا جاسکے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی رسی کو تھامے ہوئے ہیں.تو جب اللہ کا بندہ اللہ کا قرب پانے کے لئے اتنی کوشش کرتا ہے تو خدا جو سب پیار کرنے والوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے، جو سب دوستوں سے زیادہ دوستی کا حق ادا کرنے والا ہے اس خدا کے بارہ میں کس طرح سوچا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ایسے بندے کو اپنا دوست اور ولی نہیں بنائے گا تبھی تو آنحضرت علی اللہ نے اس ارشاد فرمانے کے ساتھ ہی یہ آیت پڑھی تھی کہ والا إِنَّ أَوْلِيَاء اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (يونس: 63) اور جب ایک دفعہ انسان اللہ کا ولی بن جائے تو پھر ہمیشہ اُس سے وہی فعل سرزد ہوتے ہیں، وہی عمل ہوتے ہیں جو خدا کی منشاء کے مطابق ہوں.اللہ تعالیٰ ان کے پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے اور آئندہ کے لئے ان سے نیک اعمال کرواتا ہے.پس دیکھیں اللہ کی خاطر اپنے بھائیوں سے محبت کرنے کا کتنا بڑا صلہ اللہ تعالیٰ عطا فرمارہا ہے.ان کے سب غم دور فرما دیتا ہے.اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا جوااپنی گردن پر ڈال رہے ہیں.اور پھر اس کے طفیل وہ ہمیشہ نیک اعمال کرنے والے بن جاتے ہیں.ان کی ضرورتوں کو بھی اللہ تعالیٰ پورا فرما تا ہے.ان کے خوفوں کو بھی اللہ تعالیٰ دور فرما دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی تشریح فرمائی ہے کہ : ”یقینا سمجھ کہ

Page 533

خطبات مسرور جلد سوم 526 خطبه جمعه 26 اگست 2005 ء جولوگ اللہ جل شانہ ) کے دوست ہیں یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے ( یعنی نہ خوف غالب آتا ہے ) کہ کیا کھائیں گے یا کیا پیئیں گے یا فلاں بلا سے کیونکر نجات ہوگی.کیونکہ وہ تسلی دئے جاتے ہیں.اور نہ گزشتہ کے متعلق کوئی حزن و اندوہ انہیں ہوتا ہے ( کوئی غم نہیں ہوتا ) کیونکہ وہ صبر دیئے جاتے ہیں.دوسری یہ نشانی ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں یعنی ایمان میں کامل ہوتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں.یعنی خلاف ایمان و خلاف فرمانبرداری جو باتیں ہیں ان 66 سے بہت دور رہتے ہیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.صفحہ 46 حاشیہ طبع اول ) تو دیکھیں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ایک نیکی سے پھر کئی نیکیاں پیدا ہوتی ہیں.تفرقہ کو دُور کرتے ہوئے خدا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے کی وجہ سے ایسے لوگوں کو روزمرہ کے مسائل سے بھی اللہ تعالیٰ غنی کر دیتا ہے.ان کے تمام دنیاوی غم بھی مٹ جاتے ہیں.ان کے ایمان میں بھی ترقی ہوتی ہے، ان کے تقویٰ کے معیار بھی بڑھتے ہیں ،غرض کوئی نیکی نہیں جو ان سے نہ ہورہی ہو.پس ان محبتوں کے بکھیر نے کو معمولی چیز نہ سمجھیں.یہ تقویٰ پر چلانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اپنی جماعت کے ہر فرد کو فرشتوں جیسادیکھنا چاہتے تھے.آپ فرماتے ہیں: "اس سلسلے کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ لوگ دنیا کے گند سے نکلیں اور اصل طہارت حاصل کریں اور فرشتوں کی سی زندگی بسر کریں.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 473 جدید ایڈیشن) اور اصل طہارت اور کامل ایمان کس طرح حاصل ہوگا ؟ اس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہرا دے.اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے ( یعنی ضد میں آکر ایک کام کرنا تا کہ

Page 534

خطبات مسرور جلد سوم 527 خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء دوسرا اس سے فائدہ نہ اٹھا لے.یہ اصول ہر ایسی جگہ پہ لاگو ہو گا جہاں بھی ضد سے کام چل رہے ہوں گے.تو ان ضدوں کو بھی چھوڑ نا ہوگا.اور ضدوں کو چھوڑیں گے تو آپس میں محبتیں بکھیر نے والے بنیں گے ) میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چار پائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں.اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سور ہوں.اور اس کے لیے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں.اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں.بلکہ مجھے چاہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لیے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے.اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں برجیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بد نیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں کسی کے اس طرح عیب تلاش کرنا بھی اور جو باقی باتیں ہوئی ہیں) کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو.جب تک وہ اپنے تئیں ہر ایک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختی دور نہ ہو جائیں ( یعنی اپنی خود پسندی اور بڑائی کو بیان کرنا دور نہ ہو جائے ) خادم القوم ہونا مخدوم بنے کی نشانی ہے ( قوم کا خادم بننے سے ہی بڑائی ملتی ہے، سرداری ملتی ہے ) اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الہی ہونے کی علامت ہے.اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں.اور غصہ کو کھالینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے“.(شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395-396) پس دیکھیں ہم جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل سمجھتے ہیں، ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اس حبل اللہ کو پکڑا تا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں.اس مقام تک پہنچنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے جو توقعات وابستہ کی ہیں ان پر پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہئے.ہمیں دعاؤں اور عمل سے

Page 535

خطبات مسرور جلد سوم 528 خطبہ جمعہ 26 راگست 2005 ء اخلاق کے ان اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس حد تک کوشش کرنی چاہئے جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں لے جانا چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جلسے کے یہ دن پھر ہمیں مہیا فرمائے ہیں جن کی برکات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خوشخبری دی تھی.پس ان برکات کو سمیٹنے کے لیے ان دنوں میں جہاں دعاؤں پر زور دیں وہاں تفرقے کو مٹانے کے لئے اور پیار و محبت کو قائم کرنے کے لئے اپنے عملی نمونے بھی دکھا ئیں.ایک دوسرے کی غلطیاں اور کو تا ہیاں معاف کریں.یہ آپس کے محبت و بھائی چارے کے اظہار ہی ہیں جن کا اثر پھر آپ کے ماحول سے نکل کر معاشرے میں بھی ظاہر ہوگا.دنیا کو خود بخود پتہ چل جائے گا کہ احمدی مسلمان ہی یسے مسلمان ہیں جو امن اور محبت کی فضا پیدا کرنے والے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو امن پسند اور صلح جو ہیں لیکن اگر آپ کے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے پولیس آپ کے دروازے پر ہوگی تو ماحول بھی آپ کو خوف کی نظر سے دیکھے گا.ہمسائے بھی آپ کو خوف کی نظر سے دیکھیں گے.پس ان باتوں سے بچنے کے لئے اگر آپ عمل کریں گے تو دنیا خود بخود جان لے گی کہ یہ احمدی مسلمان اور قسم کے مسلمان ہیں.آجکل کے حالات میں یہاں لوگوں کی مسلمانوں پر خاص طور پر بہت گہری نظر ہے.اس لئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہر سطح پر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا سفیر بن کر دکھا ئیں.دنیا کو ثابت کر کے دکھا ئیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے اور اس وجہ سے معاشرے میں ہر طرف محبتیں بکھیر نے والے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ اس ذمہ داری کو سمجھ سکیں اور یہ جلسہ بعض پھٹے ہوئے دلوں میں محبتیں پیدا کرنے کا باعث بن جائے.ایک دوسرے کی خاطر قربانیاں کرنے کا احساس پیدا ہو اور جماعت کے لیے قربانیوں کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو.اور ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بننے والے ہوں.

Page 536

خطبات مسرور جلد سوم 529 (34) خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء جماعت احمدیہ کے جلسوں کے انعقاد کا مقصد افراد جماعت میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنا ہے جلسه سالانه جرمنی کے کامیاب انعقاد کے بعد احباب جماعت کو زریں نصائح خطبہ جمعہ فرمودہ 2 /ستمبر 2005ء بمقام بیت الرشید.ہمبرگ (جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.گزشتہ اتوار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ جرمنی کا تین دن کا سالانہ جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا تھا.وہ تین دن ہر مخلص احمدی کو اپنے اندر رحمتیں اور برکتیں لئے ہوئے محسوس ہوئے.نہ صرف ان فضلوں سے آپ نے ، جو براہ راست اس جلسہ میں شامل تھے حصہ لیا، بلکہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں جماعتیں قائم ہیں ہر مخلص احمدی نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ان فضلوں کے نظارے دیکھے جن کا اظہار مختلف جگہوں سے خطوط اور فیکسوں کے ذریعہ سے ہو رہا ہے.پس یہ جو تبدیلی اُس ماحول کی وجہ سے اکثریت نے ان دنوں میں اپنے اندر محسوس کی یہ صرف اس وجہ سے نہیں تھی کہ تقریر میں بہت اعلیٰ تھیں، تقریروں کے عنوانات بہت عمدہ تھے، مقررین کا طرز خطابت کمال کا تھا یا شامل ہونے والوں کی جلسہ سننے کی طرف توجہ بہت زیادہ تھی.یا اکثریت محبت اور پیار سے رہ رہی تھی یا ہر ایک، ایک خاص جذبے سے سرشار تھا.یقیناً یہ باتیں تھیں لیکن ان سب کے پیچھے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو

Page 537

خطبات مسرور جلد سوم 530 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء کھینچنے اور پھر ان فضلوں کو جو ہر ایک کو نظر آرہے تھے جلسے کے اس ماحول پر نازل ہوتا دیکھنے کے لئے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وہ دعا ئیں تھیں جو آج سے سو سال سے زائد عرصہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ پر آنے والے شاملین کے لئے کیں.قادیان کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی گئی وہ دعائیں آج دنیائے احمدیت کے ہر ملک میں جہاں جہاں جماعت احمدیہ کے جلسے منعقد ہوتے ہیں اور ہم ان جلسوں کو دیکھتے ہیں تو ان دعاؤں کے اثر بھی اپنے اوپر دیکھتے ہیں.ان جلسوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقصد اپنی قائم کردہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنا تھا.ہر احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے والا بنانا تھا.ہر احمدی کو خدا تعالیٰ کا حقیقی عبد بنانا تھا.پس اس مقصد کے لئے آپ نے ان جلسوں کا انعقا د فرمایا اور آپ نے اس بات پر بڑی گہری نظر رکھی کہ لوگ ، احباب جماعت، جب جلسے پر آئیں تو اس مقصد کو لے کر آئیں کہ انہوں نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے.ایک سال آپ کو خیال آیا، یہ احساس پیدا ہوا کہ جلسے کا جو مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوا، جو لوگ شامل ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت یا بعض ایسے تھے جو اس جلسے کو بھی دنیاوی میلہ سمجھ رہے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وجہ سے ایک سال جلسہ منعقد نہیں فرمایا.اور یہ اعلان فرمایا کہ میرا مقصد جلسے سے اپنے ماننے والوں کی تعداد کا اظہار کرنا یا اپنی بڑائی ظاہر کروانا نہیں ہے بلکہ میں تو چاہتا تھا کہ لوگ خالصتا اللہ اس جلسے کے لئے آئیں.اور فرمایا کہ گزشتہ سال کے جلسے سے مجھے یہ لگا ہے کہ لوگ اس کو بھی ایک دنیاوی میلہ سمجھنے لگ گئے ہیں.اور یہ بات میرے لئے سخت کراہت والی ہے.اس لئے فرمایا کہ اس سال جلسہ نہیں ہو گا.اور اس وقت جب ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہو گی تو آپ جو اپنی جماعت میں ایک پاک تبدیلی اور پاک نمونے قائم ہوتا دیکھنا چاہتے تھے آپ نے اس وقت جب اگلے سال جلسہ منعقد ہوا یا اس سال میں بھی بڑی شدت سے اپنی جماعت کے لئے دعائیں کی ہوں گی کہ اللہ تعالیٰ ان میں روحانیت پیدا کرے ان میں پاک تبدیلیاں پیدا کرے اور یہ کہ جلسہ میں شامل ہونے والے خالصتا اللہ جلسہ

Page 538

خطبات مسرور جلد سوم 531 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء میں شامل ہوں اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں.پس آج ہم دنیا میں ہر ملک کے جلسے میں، جہاں جہاں جماعت احمد یہ جلسے منعقد کرتی ہے ان دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھتے ہیں.ہر جلسہ جو جماعت احمد یہ کسی بھی ملک میں منعقد کرتی ہے اس کی کامیابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی خواہش اور فکر اور متضرعانہ اور درد بھری دعاؤں کا ثمرہ ہے جو آج ہم ہر جگہ دیکھ رہے ہیں اور یہ ثمر کھا رہے ہیں، یہ پھل کھا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے متعدد دفعہ آپ کو آپ کی قبولیت دعا کے بارے میں خوشخبریاں دیں.مثلاً ایک فارسی الہام ہے کہ دست تو دعائے تو ترحم زخدا یعنی تیرے ہاتھ اٹھانے اور تیری دعاؤں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی رحمت کی بارش برستی ہے.پھر 1903ء کا ایک الہام ہے اور بھی بہت سارے ہیں کہ دُعَاءُ كَ مُسْتَجَابٌ تیری دعا مقبول ہوئی.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مسلسل دعائیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے وعدے ہیں جن کا فیض آج ہم پارہے ہیں.ورنہ اگر انسان دنیاوی نظر سے دیکھے تو بعض ایسے کام ہیں جو ان جلسوں کے دنوں میں ناممکن نظر آتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایسی آسانی پیدا فرما دیتا ہے اور ایسی خوش اسلوبی سے ان کی تکمیل کروا دیتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے.مثلاً جلسے کی تیاریوں کا مرحلہ ہے، جلسے کے دنوں میں آپ کے افسر صاحب جلسہ سالانہ کا ایک انٹرویو ایم ٹی اے پر آ رہا تھا کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح بعض والنٹیئرز ( Volunteers) ایسے ایسے کام کر رہے ہوتے ہیں جن کا ان کی روز مرہ زندگی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا.مارکیوں کے کھڑے کرنے کا معاملہ ہے یا اور کام ہیں جن میں ٹیکنیکل آدمی کی ضرورت ہوتی ہے.بعض پیشہ وار نہ صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے خدام بڑے جذبے اور جوش سے اور بڑے ماہرانہ طریقے سے یہ کام کر دیتے ہیں.اُن میں بعض ڈاکٹر ز ہیں، انجینئر ز بھی ہیں یا سائنس کے سٹوڈنٹس بھی ہیں، یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں، لیکن ایک عام آدمی کی طرح ، ایک

Page 539

خطبات مسرور جلد سوم 532 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء عام مزدور کی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ کام کر رہے ہوتے ہیں.پھر جلسے کے دنوں کی ڈیوٹیاں ہیں بعض بچے بچیاں چو میں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی ادا کر رہے ہوتے ہیں اور بالکل بے نفس ہو کر کسی معاوضے کے بغیر کسی ذاتی مفاد کے بغیر یہ سب کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.یہ روح اُن میں کس طرح پیدا ہوئی ؟ یقیناً اس میں یہ جذبہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت ہم نے کرنی ہے اور اُن دعاؤں کا وارث بننا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کے لئے کی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے یہ جلسے منعقد کئے جا رہے ہیں اور گزشتہ سوسال سے زائد عرصہ سے ہی ہم ایسے کام کرنے والوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا اثر دیکھتے چلے آ رہے ہیں.پس یہ کام کرنے کی روح اور یہ ایمان میں مضبوطی ، یہ قربانی کے مادے، یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے طفیل ہی ہیں.پھر جیسا کہ میں نے کہا ان کارکنوں کے علاوہ اور ان کارکنات کے علاوہ جو جلسہ گاہ کی تیاری، کھانے پکانے ، صفائی اور جلسہ کے بعد اس کو سمیٹنے وغیرہ کے کام میں شامل ہوتے ہیں.جلسہ سننے والوں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستی ہے.ہم دیکھتے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا صرف یہاں نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں ایم ٹی اے کے ذریعے یہ نظارے دیکھے گئے وہاں جس نے بھی جلسے کا ماحول بنایا، چاہے وہ گھروں میں ہو یا مساجد میں ہو، سب یہی لکھتے ہیں کہ ہم جلسے کی برکات کو اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھ رہے تھے.پس یہ فضل کام کرنے والوں پر بھی ہیں اور شامل ہونے والوں پر بھی ہیں چاہے وہ براہ راست شامل ہونے والے ہوں یا ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شامل ہونے والے ہوں.اور یہ صرف ان تین دنوں کے لئے نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ان فضلوں کو سمیٹ کر ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے.اور یہ ہر احمدی جوان، بوڑھے، عورت، مرد، بچے کا فرض ہے تا کہ وہ دعائیں نسلاً بعد نسل ہمارے حصے میں آتی چلی جائیں.اور

Page 540

خطبات مسرور جلد سوم 533 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء وہ اسی صورت میں ہو گا ( جیسا کہ میں جلسے کے دنوں میں بھی کہہ چکا ہوں ) کہ جب آپ نے ان تقاریر، ان نصائح ، ان عبادتوں اور ان دعاؤں کو ان تین دنوں میں اپنی زندگیوں پر لاگو کیا اور اُن کے فیض سے حصہ پایا یا حصہ پاتے ہوئے اپنے آپ کو محسوس کیا.اور جب بعضوں نے اس روحانی ماحول کو اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھا.بعض کو اللہ تعالیٰ اس ماحول کے نظارے بھی دکھا دیتا ہے تا کہ ایمان میں زیادتی کا باعث بنے.لیکن جو اس طرح نظارے نہیں بھی دیکھ رہے ہوتے وہ بھی اس ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس ماحول پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش سے فیض پار ہے ہوتے ہیں.ایک خاتون نے ایک واقعہ لکھا تھا، میں نے کارکنان کی میٹنگ میں بھی بتایا تھا کہ آٹھ دس سال پہلے جب بیعت کی تو جلسے پر تشریف لائیں اور جس پرانی احمدی خاتون کے ساتھ آئی تھیں ان کا پروگرام یہ تھا کہ اپنے کسی عزیز کے ہاں رات کو رہنا ہے.تو اس وقت یہ نئی بیعت کرنے والی بڑی پریشان تھیں کہ میرا تو یہاں کوئی واقف نہیں ہے، یہ میری ایک واقف عورت ہے، یہ بھی یہاں سے جارہی ہے.ان کو صحیح ماحول کا پتہ نہیں تھا علم نہیں تھا کہ جلسے پر کیسا ماحول ہوتا ہے.اکیلی میں کیا کروں گی.کسی کو میں جانتی نہیں.خیر پرانی احمدی خاتون تو رات ہوتے ہی چلی گئیں.اور یہ نئی احمدی خاتون جلسہ گاہ کے انتظام کے تحت وہیں جلسہ گاہ میں ہی رہیں.اور کہتی ہیں میں پریشانی میں دعائیں کرتی رہی.اتنے میں ایسی کیفیت میں آنکھ لگ گئی.( یہ مجھے متحضر نہیں ہے ) بہر حال نظارہ دیکھا کہ آسمان سے ایک روشنی پھوٹی ہے جو دائرے کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس میں سے کچھ اور اق ، کچھ صفحے، کچھ کا غذ نیچے آئے ہیں جن پہ عربی عبارت تھی ، ان کو یاد تو نہیں کہ وہ عبارت کیا تھی ، لیکن ان کا خیال ہے کہ قرآن کریم کے ہی کچھ احکامات تھے ، نصائح تھیں اور دعا ئیں تھیں.بہر حال وہ کہتی ہیں میں نے اسی طرح وہ کاغذ جمع کئے اور جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو ان کے مطابق وہ نظارہ ان کے لئے اتنی تسکین کا باعث تھا کہ سارا خوف ،فکر سب کچھ دور ہو گیا.یہ احساس ہی ختم ہو گیا کہ نئی جگہ ہے، نئے لوگ ہیں.تو اگلے دن صبح جب وہ احمدی خاتون آئیں جن کے ساتھ یہ آئی تھیں تو انہوں نے جو چلی گئی تھیں ان کو بتایا کہ میں تو اپنے فلاں

Page 541

خطبات مسرور جلد سوم 534 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء عزیز کے گھر چلی گئی تھی ، رات میری بڑے آرام سے گزری ہے، پتہ نہیں تمہاری رات یہاں کس طرح گزرسکی تو اس نو مبائع نے کہا کہ جو نظارے میں نے دیکھے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے تھے اپنے فضلوں سے نوازا ہے اور میری تسکین کے سامان پیدا فرمائے ہیں وہ بھلا تمہیں کہاں حاصل ہوئے.تو دیکھیں نیک نیتی سے جلسے میں شامل ہونے والوں کو اللہ تعالی کس طرح اپنے فضلوں کی بارش کے نظارے دکھاتا ہے جو ایمان میں مضبوطی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان کو بھی ظاہر کرتے ہیں.تو یہ فضل صرف اس ایک عورت یا صرف اس ایک خاندان کے لئے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس سارے ماحول کے لئے تھا.ان سب شاملین کے لئے یہ فضل تھے جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعائیں کی ہیں.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ: اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے“.(مجموعه اشتهارات جلد اوّل صفحه 281 جدید ایڈیشن) پس تائید حق کے یہ نظارے اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو ایک خاص شکل میں دکھا دیئے.بعضوں کو وہ دکھاتا ہے اور بعضوں کے دل اس تسکین کی وجہ سے اس کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ ہاں واقعی یہ جلسہ ایک خاص جلسہ ہے جس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائید اور قدرتوں کے نظارے دیکھے ہیں.لیکن یاد رکھیں ہر امر اس کے جو لوازمات ہیں ان کے ساتھ مشروط ہے.آپ نے جلسے کے دنوں میں مستقل مزاجی کے ساتھ ، استقلال کے ساتھ جو تبدیلیاں پیدا کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے وہاں سے آتے ہی اگر آپ ان کو بھول گئے ہیں کہ جلسے کے دن تو گزر گئے.اب یاد نہیں کہ ایک احمدی کی کیا ذمہ داریاں ہیں.بعد میں اس طرف توجہ نہیں رہی کہ ہم نے اپنی زندگیوں میں کیا مستقل تبدیلیاں لانی ہیں تو ان تین دنوں کے جلسے میں آپ کی شمولیت کوئی فائدہ

Page 542

خطبات مسرور جلد سوم 535 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء نہیں دے گی.اگر جلسہ کے ماحول کی دوری آپ کو تقویٰ سے دور لے گئی ہے تو وہ تین دن اس نماز کی طرح بے فائدہ ہیں جس میں آپ نے کسی مشکل اور مصیبت میں پڑنے کی وجہ سے، کسی ذاتی تکلیف کی وجہ سے رو رو کر دعا تو کر لی.لیکن اس نماز نے آپ میں یہ تبدیلی پیدا نہ کی کہ آپ مستقل پانچ وقت اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق نماز ادا کریں اور پھر زائد عبادتوں کی طرف توجہ کریں.تو جلسہ بھی اسی طرح ہے کہ ایک جلسے میں سنی اور سیکھی ہوئی باتوں کو اپنے دلوں میں بٹھانا ہے اور اس کا اثر اگلے جلسے تک قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور پھر اگلے سال ایک نئی روح ، ایک نئے جوش ، ایک نئے جذبے کے ساتھ پھر چارج (Charge) ہو کر آئندہ کے لئے پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.ورنہ آپ جلسے کے فیض سے حصہ پانے والے نہیں ہوں گے.جلسہ پر آپ نے مختلف عنوانات کے تحت تقریریں سنیں لیکن سب کا محور ایک ہی تھا کہ تقویٰ اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنا.پس اس تقوی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا ئیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کی دعاؤں کے مستقل وارث بنتے چلے جائیں گے.اب کون ہے جو یہ کہے کہ نہیں جی جلسے کے دنوں میں کافی فیض پالیا میری مصروفیات اس قسم کی ہیں کہ میں مستقل نہ اتنے انہاک سے، نہ با قاعدگی سے نمازیں پڑھ سکتا ہوں ، نہ توجہ دے سکتا ہوں اور نہ بعض دوسرے نیکی کے کام کر سکتا ہوں.منہ سے تو نہیں کہتے اور کوئی احمدی کہنے کی جرات بھی نہیں کرتا.لیکن عملاً بعض لوگ اپنے عمل سے یہی جواب دے رہے ہوتے ہیں.پس تقویٰ کی روح کو سمجھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کو جذب کرنے والے بنیں اور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوں اور اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرر.کر رہے ہوں.ان سنی ہوئی باتوں کو ، ان نصائح کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنار ہے ہوں.اور خود بھی ہمیشہ اس پر قائم رہنے کے لئے دعائیں کر رہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرما کہ جو کچھ ہم نے سیکھا اب یہ ہمارے اندر قائم ہو جائے.انسانی دل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اس لئے ہمیشہ دین پر اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.کسی کو کبھی یہ بڑائی کا احساس نہیں ہونا چاہئے کہ

Page 543

خطبات مسرور جلد سوم 536 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء میرے اندر یہ نیکی ہے بلکہ نیکی کو مزید عاجزی کی طرف لے جانا چاہئے ، مزید عاجزی کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے.اور پھر یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہ کوئی چیز حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہی زندگی کا مستقل حصہ بن سکتی ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے نور سے منور کیا ہے.اکثریت جو یہاں بیٹھی ہے، یا جرمنی میں آئی ہوئی ہے ان کے بزرگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی.ملاقات میں آتے ہیں تو اکثر یا بعض لوگ تعارف تو یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے نانا یا دادا یا پڑ دادا یا پڑ نا ن صحابی تھے.الحمد للہ یہ بڑا اعزاز ہے لیکن یہ اعزاز اس وقت تک ہے جب تک آپ خود بھی ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیک اور اعلیٰ اور پاک نمونے قائم کرنے والے ہوں گے.دین کی اہمیت اپنے اندر اور اپنی نسلوں کے دلوں میں قائم کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر آپ کی توقعات کے مطابق عمل کرنے والے ہوں گے.بعض خواتین اپنے تعارف تو صحابہ کے حوالے سے کروا رہی ہوتی ہیں لیکن لباس اور پردے کی حالت اور فیشن سے لگتا ہے کہ دین پر دنیا غالب آ رہی ہے.جماعت سے ایک تعلق تو ہے، ایک پرانا تعلق ہے، خاندانی تعلق ہے ایک معاشرے کا تعلق ہے لیکن ظاہری حالت جو معاشرے کے زیر اثر اب بن رہی ہے وہ دینی لحاظ سے ترقی کی طرف جانے کی بجائے نیچے کی طرف جارہی ہے.اور پھر یاد رکھیں کہ ظاہری حالت کا تعلق دل کی کیفیت سے بھی ہوتا ہے.اس کا دل پر بھی اثر ہوتا ہے.آہستہ آہستہ دل بھی اس ظاہری کیفیت کے زیر اثر آ جاتا ہے.اس لئے صرف اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہئے ، یہی فخر کا مقام نہیں ہے کہ ہم صحابی کی اولاد ہیں.مرد ہو یا عورت، جب تک آپ اپنے اندر خود پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کریں گے باپ دادا کا صحابی ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو فرمایا تھا کہ تمہیں میری بیٹی ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا جب تک تمہارے اپنے عمل نیک نہیں ہوں گے.اس لئے جو جلسے کے تین دن ہیں جو گزشتہ ہفتے میں آپ کو تین دنوں کا روحانی ماحول میسر آیا ہے اب گھروں میں بیٹھ کر بھی اس

Page 544

خطبات مسرور جلد سوم 537 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء کی جگالی کرتے رہیں.بچوں میں ، آپس میں اس کے ذکر چلتے رہیں، تقریروں کے موضوعات کے ذکر چلتے رہیں، نصائح کے ذکر چلتے رہیں تو پھر ہی آپ کو فائدہ ہوگا.پھر جب آپ سوچیں گے اور غور کریں گے اور اپنے جائزے لیں گے کہ ہم سے کیا توقعات ہیں اور ہم کس حد تک ان پر پورا اتر رہے ہیں، اس جگالی کے نتیجہ میں وہ جائزے بھی سامنے آئیں گے تو پھر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.ہر وقت ہمیں یہ خوف ہونا چاہئے کہ شیطان کہیں ہمارے دلوں پر قبضہ نہ کر لے کیونکہ وہ اسی طاق میں بیٹھا ہے.نیکی کے راستوں کی طرف توجہ ہونے کے بعد برائی کے راستوں کی طرف نہ ہم چل پڑیں.اللہ تعالیٰ کے دین پر مضبوطی سے قائم ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے دین سے دور لے جانے والی حرکات ہم سے سرزد نہ ہوتی ہوں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ یا مُقَلبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ کہ اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ.اُم سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دعا پر مداومت کی وجہ پوچھی ، با قاعدگی کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا اے ام سلمہ ! انسان کا دل خدا تعالیٰ کی دوانگلیوں کے درمیان ہے.(ایک تمثیل بیان کی ہے، اللہ میاں کی تو دو انگلیاں نہیں ہیں ) جس شخص کو ثابت قدم رکھنا چاہے اس کو ثابت قدم رکھے اور جس کو ثابت قدم نہ رکھنا چاہے اس کے دل کو ٹیڑھا کر دے.(ترمذی، کتاب الدعوات باب ماجاء في عقد التسبيح باليد) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنی با قاعدگی سے یہ دعا کرتے تھے تو ہمارے پر کس قد رفرض ہے کہ یہ دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو سیدھا رکھے.خلافت جو بلی کے استقبال کے لئے میں نے جو دعا ئیں بتائی ہیں اس میں یہ قرآنی دعا بھی شامل ہے کہ ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً - إِنَّكَ أنْتَ الْوَهَّابُ ﴾ (آل عمران (9) کہ اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا کر.یقینا تو بہت عطا کرنے

Page 545

خطبات مسرور جلد سوم والا ہے.538 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء پس یہ دعا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا اور نصیحت کے مطابق ہی ہے.تو دین کا علم اور دین پر قائم رہنا اور دین پر عمل کرنا اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرنا اللہ کے فضل سے ہوگا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے اپنے دلوں کو ٹیڑھا ہونے سے بچانا نہایت ضروری ہے.اس لئے ہر احمدی کو خاص طور پر یہ دعا کرتے رہنا چاہئے.بعض معمولی باتیں ہوتی ہیں جو دلوں کو ٹیڑھا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں اور عموماً یہی چیز میں ہوتی ہیں.مثلاً دو باتیں ہیں ایک شدید محبت اور ایک شدید غصہ جس میں انتہا پائی جاتی ہو.تو اصل میں جو شدید محبت ہے وہی شدید غصے کی وجہ بنتی ہے.جب غصہ آتا ہے تو وہ یا تو نفس کی محبت غالب ہونے کی وجہ سے آتا ہے یا اپنے کسی قریبی عزیز کی محبت غالب ہونے کی وجہ سے آتا ہے.بعض دفعہ میاں بیوی کی جو گھریلو لڑائیاں یا خاندانی لڑائیاں یا کاروباری لڑائیاں ہوتی ہیں ان میں انسان مغلوب الغضب ہو کر ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے.تو جب یہ مغلوب الغضب ہوتا ہے تو اس وقت اپنے نفس سے ہی پیار کر رہا ہوتا ہے.اس کو اپنے نفس کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آ رہی ہوتی اور اس کو پتہ نہیں لگ رہا ہوتا کہ کیا کہ رہا ہے.بالکل ہوش وحواس غائب ہوتے ہیں.قضاء میں بعض معاملات آتے ہیں اگر فیصلہ مرضی کے مطابق نہ ہو، ایک فریق کے حق میں نہ ہو تو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں.ہوش و حواس میں نہیں رہتے.صاف جواب ہوتا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو.اور پھر جب تعزیر ہو جاتی ہے، سزا مل جاتی ہے تو پھر معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے معافی مانگتے ہیں کہ غلطی ہو گئی ، ہمیں معاف کر دیں اور پھر فیصلہ پر بھی عملدرآمد کر دیں گے.تو یہ تو وہی حساب ہو جاتا ہے ان کا کہ سو جوتیاں بھی کھالیں اور سو پیاز بھی کھالئے.لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ، جھوٹی اناؤں نے انہیں اپنے قبضے میں لیا ہوتا ہے.اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اطاعت کرنی ہے.ویسے اگر اپنے اوپر کوئی بات نہ ہو، اپنا مسئلہ نہ ہو تو دعوے یہ ہوتے ہیں کہ نظام جماعت پر، خلیفہ وقت پر ہماری تو جان بھی قربان ہے.لیکن اپنے خلاف فیصلہ ہو جائے تو پھر وہ نہیں مانتے.اور پھر نہ صرف مانتے نہیں بلکہ جماعت کے خلاف

Page 546

خطبات مسرور جلد سوم 539 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء اعتراض بھی کرنے شروع ہو جاتے ہیں.تو ایسے جو لوگ ہیں وہ اس زمرے میں شمار ہوتے ہیں جن کے دل آہستہ آہستہ مستقل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں.جھوٹی اناؤں کی خاطر ، چند ایکڑ زمین کی خاطر وہ اپنا دین بھی گنوا بیٹھتے ہیں.لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے عزیز جو مجلس لگاتے ہیں یا ان کو اپنی مجلسوں میں بلاتے ہیں یا بعض دفعہ پاس بٹھا کر کھانا کھلا لیتے ہیں کہ جی مجبوری ہو گئی تھی.بعض دفعہ یہ بہانے بن رہے ہوتے ہیں کہ فلاں عزیز کی وفات پر وہ آیا تھا اس لئے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیا.تو ایسے لوگ بھی اس مجرم کی طرح بن رہے ہوتے ہیں.نظام جماعت کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہوتی.خلیفہ وقت کے فیصلوں کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہوتی.جماعت کی تعزیر جو ایک معاشرتی دباؤ کے لئے دی جاتی ہے، اس کو اہمیت نہ دیتے ہوئے چاہے ایک دفعہ ہی سہی اگر کسی ایسے سزایافتہ شخص کے ساتھ بیٹھتے ہیں جس کی تعزیر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زبانِ حال سے یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ سزا تو ہے لیکن کوئی حرج نہیں ، ہمارے تمہارے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے تعلقات قائم ہیں.سوائے بیوی بچوں یا ماں باپ کے.ان کے تعلقات بھی اس لئے ہوں کہ سزا یافتہ کو سمجھانا ہے.اور قریبی ہونے کی وجہ سے ان میں دردزیادہ ہوتا ہے اس لئے ایک درد سے سمجھانا ہے.ان کے لئے دعائیں کرنی ہیں.اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی جماعتی تعزیر یافتہ سے تعلق رکھتا ہے تو میرے نزدیک اسے نظام جماعت کا کوئی احساس نہیں ہے.اور خاص طور پر عہد یداران کو یہ خاص احتیاط کرنی چاہئے.پھر بعض دفعہ بعض لوگ غصے میں ایسے الفاظ کہہ جاتے ہیں جو ہر مخلص احمدی کو برے لگتے ہیں.مثلاً لڑائی ہوئی یا گھریلو ناچاقیاں ہوئیں.بیوی سے تعلقات خراب ہوئے تو کہہ دیا کہ جو تم نے کرنا ہے کر لو.خلیفہ وقت بھی کہے گا تو میں نہیں مانوں گا.تو ایسے لوگ پھر آہستہ آہستہ جماعت سے بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں.لیکن جن کے سامنے یہ باتیں ہوتی ہیں وہ پریشانی کے خط لکھتے ہیں کہ دیکھیں جی اس کو خلیفہ وقت کا بھی احترام نہیں ہے اس کو سزاملنی چاہئے.ایسے لوگوں کو سزا دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے.اگر ان کے اندر جماعت سے تعلق کا کوئی ہلکا سا بھی شائبہ ہے تو جب تعز یز ہوگی یا فیصلہ ہو گا تو ان کو احساس ہوگا کہ ہمیں مان لینا چاہئے.اور اگر نہیں مانیں گے تو

Page 547

خطبات مسرور جلد سوم 540 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء کسی حق کے ادا کرنے کے لئے سزا ہوگی اور سزا سے علیحدگی ہو ہی جاتی ہے.سزا اس لئے نہیں ہو گی کہ اس نے خلیفہ وقت کو کیوں کچھ کہا.خلیفہ وقت کو کہنے کے لئے تو سزا کی ضرورت ہی نہیں ہے.اس نے تو خود اعلان کر دیا کہ میں نظام جماعت میں شامل نہیں ہوں ، ہمیں بیعت میں شامل نہیں ہوں اس لئے اس کی فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے.وہ تو خود علیحدہ ہو رہا ہے.پھر وہ جانے اور اس کا خدا جانے.پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت زیادہ محبت ہو تو اس وجہ سے ٹھوکر لگتی ہے.بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے کہ بچے کو سزا ملی ہے تو اس سے محبت کی وجہ سے مغلوب ہو جاتے ہیں.بچے کی محبت غالب آ جاتی ہے اور نظام جماعت کے خلاف ماں باپ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، بہن بھائی ایک دوسرے کی محبت غالب آنے کی وجہ سے نظام کے فیصلوں پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں.اس طرح بعض دوسرے رشتے بھی ہیں.تو بہر حال محبت اور غضب کی وجہ سے یعنی ان دونوں میں شدت کی وجہ سے یہ برائیاں عموماً پیدا ہوتی ہیں.پس ہر احمدی کو یہ بھی ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب بھی ایسے معاملات ہوں اور بیچ بیچ ہو جاتی ہے، نظام جماعت سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں، قضا سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں.لیکن ہمیشہ ٹھنڈے دل سے ان فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہئے.اگر کوئی اپیل کا حق ہے تو ٹھیک نہیں تو جو فیصلہ ہوا ہے اس کو ماننا چاہئے.کوئی رشتہ کوئی تعلق نظام جماعت اور نظام خلافت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہیں آنا چاہئے.نہیں تو یہ عہد کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے یہ دعوے کھو کھلے ہیں.پس اگر اس دعوے کو سچا ثابت کرنا ہے تو ہر تعلق کو خالصت اللہ بنانا ہے.اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں.ایک دوسرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور نظام کا بھی احترام کرنا ہے.تو پھر ان دعاؤں کے وارث بنیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کیں اور اُن توقعات پر پورا اتریں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں سے رکھی ہیں.اگر ہم بچے اور پکے احمدی ہیں تو ہمیں ہمیشہ ان تو قعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے

Page 548

خطبات مسرور جلد سوم 541 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء رہنا چاہئے.ان راستوں پر چلنا چاہئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے لئے متعین کئے ہیں.آپ فرماتے ہیں : ” ہماری جماعت کو واجب ہے کہ اب تقویٰ سے کام لے اور اولیاء بنے کی کوشش کرے.پھر فرماتے ہیں : یا درکھو کہ بچے اور پاک اخلاق راستبازوں کا معجزہ ہے جن میں کوئی غیر شریک نہیں.کیونکہ وہ جو خدا میں محو نہیں ہوتے وہ اوپر سے قوت نہیں پاتے اس لئے ان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پاک اخلاق حاصل کر سکیں.سوتم اپنے خدا سے صاف ربط پیدا کر و.ٹھٹھا ہنسی ، کینه وری ، گنده زبانی، لالچ، جھوٹ ، بدکاری، بد نظری ، بد خیالی ، دنیا پرستی، تکبر، غرور تکبر اور غرور ہی ہے جو بہت سارے جھگڑوں کی بنیاد بنتا ہے ) خود پسندی ( یہ بھی بہت بڑی وجہ ہے ، جھگڑوں کی بنیاد کی ) شرارت، کج بحثی (بلا وجہ بحث میں پڑ جاتے ہیں.فرمایا کہ ) سب چھوڑ دو.پھر یہ سب کچھ تمہیں آسمان سے ملے گا (یعنی اعلیٰ اخلاق تمہیں تب ملیں گے.اللہ تعالیٰ کا قرب تب ملے گا ) جب تک وہ طاقت بالا جو تمہیں اوپر کی طرف کھینچ کر لے جائے تمہارے شامل حال نہ ہو اور روح القدس جو زندگی بخشتا ہے تم میں داخل نہ ہو تب تک تم بہت ہی کمزور اور تاریکی میں پڑے ہوئے ہو.بلکہ ایک مردہ ہو جس میں جان نہیں.اس حالت میں نہ تو تم کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہو، نہ اقبال اور دولتمندی کی حالت میں کبر اور غرور سے بچ سکتے ہو ( بہت سارا کبر اور غرور پیسہ آنے کی وجہ سے آجاتا ہے اگر اپنی زندگیوں میں غور کریں تو آپ کو نظر آئے گا ) اور ہر ایک پہلو سے تم شیطان اور نفس کے مغلوب ہو.سو تمہارا علاج تو در حقیقت ایک ہی ہے کہ روح القدس جو خاص خدا کے ہاتھ سے اترتی ہے تمہارا منہ نیکی اور راستبازی کی طرف پھیر دے.تم ابْنَاءُ السَّمَاء بنون أَبْنَاءُ الْأَرْضِ (آسمان کی طرف جانے والے بنو ، زمین کی طرف نہیں ) اور روشنی کے وارث بنو.نہ تاریکی کے عاشق.تا تم شیطان کی گزرگاہوں سے امن میں آ جاؤ.کیونکہ شیطان کو ہمیشہ رات سے غرض ہے دن سے کچھ غرض نہیں.کیونکہ وہ پرانا چور ہے جو تاریکی میں قدم رکھتا ہے.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 45)

Page 549

خطبات مسرور جلد سوم 542 خطبہ جمعہ 2 ستمبر 2005ء پس یہ ہے اس تعلیم کا خلاصہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان توقعات پر پورا اترنے والے ہوں.أَبْنَاءُ السَّمَاءِ بننے والے ہوں نہ کہ ابْنَاءُ الأرض - عرش سے ہمارا تعلق ہو.عرش سے تعلق جوڑنے والے ہوں نہ کہ دنیا داری میں پڑ کر جھوٹی اناؤں کی نظر ہو کر دنیا کے بندے بن جائیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا، ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ کس حد تک ہم ان پر برائیوں سے بچنے والے ہیں یا بچنے کی کوشش کرتے ہیں.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل مانگتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنی اولا دکو زمانے کے امام کی جماعت سے چمٹائے رکھیں کہ اس میں ہی ہماری بقا ہے.اس میں ہی ہماری بھلائی ہے.اسی سے ہمیں دنیا و آخرت کے فائدے حاصل ہونے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 550

خطبات مسرور جلد سوم 543 (35) خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء نفس کے جہاد کے تقاضے اعمال صالحہ کی بجا آوری اور اغویات سے اجتناب خطبہ جمعہ فرمودہ 9 ستمبر 2005ء بمقام مسجد نصرت جہاں.کوپن ہیگن (ڈنمارک) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا هَلْ اَدُلُكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ ليْهِ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) پھر فرمایا:.(الصف:11،12) آپ میں سے جو یہاں اس ملک میں آباد ہیں، بہت سے ایسے ہیں بلکہ شاید چند ایک کے سوا اکثریت ایسوں کی ہے جن کے باپ دادا کو، بزرگوں کو، اللہ تعالیٰ نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.ان کی نیکیوں کے سبب، ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.یہ انبیاء پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کفر کی حالت میں بھی کی گئی نیکیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا اور ان کا بدلہ دیتا ہے.کہتے ہیں ایک بوڑھا جو آگ کو پوجنے والا تھا، شدید بارش کے دنوں میں ایک دفعہ جبکہ

Page 551

خطبات مسرور جلد سوم 544 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء کئی دن سے بارش پڑ رہی تھی ، ہر طرف پانی ہی پانی کھڑا تھا، پرندوں کو دانہ کھانے کے لئے کوئی جگہ میسر نہیں تھی.تو وہ بوڑھا آتش پرست اپنے گھر کی چھت پر کھڑا پرندوں کو دانہ ڈال رہا تھا ، دانہ پھینک رہا تھا کہ پرندے آکے کھالیں.کسی نے دیکھ کر کہا کہ تم آتش پرست ہو، تمہیں اس کا کیا ثواب ملے گا، اگر مسلمان ہوتے تو اس نیکی کا ثواب بھی تمہیں ملتا.اس آتش پرست نے ، آگ کو پوجنے والے نے کہا کہ ثواب تم نے تو نہیں دینا تمہیں کیا پتہ خدا میرے ساتھ کیا سلوک کرے، کیونکہ ہر مذہب والے کے دل میں فطرتی طور پر خدا کا تصور بہر حال ہوتا ہے.پھر ایک دفعہ یہی مسلمان جس نے اس آتش پرست کو یہ بات کہی تھی، حج کرنے گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ آتش پرست بھی وہاں حج کر رہا تھا.اس نے پوچھا تم یہاں کس طرح آگئے؟ تو اس آتش پرست نے جواب دیا کہ میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ اگر یہ میری نیکی ہے تو اس کا اجر مجھے ضرور ملے گا.دیکھو اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی صورت میں اس کا اجر مجھے دیا اور آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حج بھی کر رہا ہوں اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہوں.تو اللہ تعالیٰ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتا.پس جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کی توفیق ملی ، آپ سے براہ راست فیض پانے کی توفیق ملی اور یوں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق عمل کر کے پہلوں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ملنے کی توفیق پائی اور اس طرح صحابہ کا درجہ پایا.پس یقیناً ان میں نیکی تھی ، ان میں اسلام کی گرتی ہوئی حالت دیکھ کر ایک فکر کی کیفیت تھی.ان میں خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی ایک تڑپ تھی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی نیکیوں اور ان کی اس تڑپ کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے ، آپ پر ایمان لانے اور پھر اس ایمان پر مضبوط ہوتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائی.پھر خلافت اولی اور خلافت ثانیہ کے ابتدائی زمانے میں آپ میں سے بعض کے باپ دادا نے ، بزرگوں نے بیعت کی ، احمدیت قبول کی.اللہ تعالیٰ نے ان کو احمدیت قبول کرنے کی

Page 552

خطبات مسرور جلد سوم 545 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء توفیق عطا فرمائی.پس ان بزرگوں نے ان نیکیوں کا صلہ پایا جو انہوں نے پہلے کبھی کی تھیں.اور یقیناً انہوں نے یہ دعائیں بھی کی ہوں گی کہ ان کی اولادیں بھی اس نعمت سے فیضیاب ہوتی رہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آپ کے ماننے والوں کی معاشی حالت اتنی اچھی نہیں تھی بلکہ اکثریت معاشی لحاظ سے ، مالی لحاظ سے کمزور طبقے سے آئے ہوؤں کی تھی.اور انبیاء کو عموماً معاشی لحاظ سے کمز ور لوگ ہی مانتے ہیں.کیونکہ عموماً ان میں خوف خدا زیادہ ہوتا ہے.بہر حال بات ہورہی تھی ان پہلے ایمان لانے والوں کی جن کی آپ میں سے اکثریت اولادیں ہیں.آج ان مغربی ملکوں میں آ کر آپ کے معاشی حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں.لیکن ان معاشی حالات کی بہتری یا آپ کے کاروباروں یا کام میں زیادتی آپ کو ان نیکیوں سے دور نہ لے جائے جن کی وجہ سے آپ کے بزرگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق ملی.وہ بزرگ تو نیکیوں پر قدم مارتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ، نیک اعمال بجالاتے ہوئے اور دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.لیکن اب آگے ہمارا ، ان کی اولادوں کا ، فرض بنتا ہے کہ ان کی نیکیوں کو قائم کرنے کی ہر دم کوشش کریں، ہر وقت کوشش کریں.ان بزرگوں کی قربانیوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں.آج ہمارے معاشی حالات کی بہتری اور بعض سہولتیں اور آسائشیں ہمیں اللہ تعالیٰ سے غافل نہ کر دیں.اور جب انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جائے تو پھر شیطان کے قبضے میں چلا جاتا ہے، بہت سی برائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے اور ہوش اس وقت آتا ہے جب انتہائی ضلالت اور گمراہی کے گڑھے میں پڑے ہوتے ہیں.اولاد برباد ہو رہی ہوتی ہے.اس وقت خیال آتا ہے کہ ہم سے بڑی غلطی ہوئی.ہم دنیا داری میں پڑکر دین کو بھول گئے ، اپنے خدا کو بھول گئے.اس کے حضور جھکنے کی بجائے ہم نے اپنے کاموں ، اپنے کاروباروں ، اپنی نوکریوں کو زیادہ اہمیت دی.لیکن جب یہ حالت ہو جائے تو پھر ایسی حالت میں گفِ افسوس ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، پھر

Page 553

خطبات مسرور جلد سوم 546 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے اسی لئے ہمیں قرآن کریم میں بے شمار جگہ اپنی ایمانی حالت کو درست کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس کے لئے مختلف راستے دکھائے ہیں کہ کس کس طرح تم اپنی ایمانی حالت کو درست رکھ سکتے ہو.اور نتیجہ آگ کے عذاب سے بچ سکتے ہو.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں دو باتوں کا ذکر ہے.ایمان لانے والوں کو فرمایا کہ: ایمان لانے کے بعد تمہاری یہ حالت نہ ہو جائے کہ پھر تم آگ کے گڑھے میں چلے جاؤ.اور اس سے بچنے کے لئے فرمایا کہ: جو تجارت تمہیں آگ کے عذاب سے بچانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوگی اس کے بارے میں میں تمہیں بتا تا ہوں کہ وہ کیا ہے.وہ تجارت ہے جان اور مال اللہ کی راہ میں قربان کرنا، جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا.اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری بھی دی کہ تم مسیح و مہدی کو مان کر ، اس پر ایمان لا کر پہلوں سے مل سکتے ہو.صحابہ سے مل سکتے ہو.تو صحابہ کے مال و جان کی قربانی کے معیار بہت بلند تھے ان پر بھی تو قدم مارنا ہوگا.اس زمانے میں جس صورت میں ہمیں پہلوں سے ملنے کی خوشخبری دی ہے وہاں ایسی صورت میں کھیل کو د اور تجارت کا ذکر کر کے نصیحت بھی کی ہے کہ اللہ کے پاس جو فوائد ہیں، ایمانی حالت میں ترقی کر کے جو فوائد تمہیں پہنچیں گے وہ کھیل کو د اور دنیاوی کاموں سے بہت بڑے ہیں.اس زمانے میں کھیل کود کی بھی انتہا ہوئی ہوئی ہے.اگر کھیل کے میدان میں نہ بھی جائیں تو گھر بیٹھے ہی کمپیوٹر کے اوپر ، ٹیلی ویژن کے اوپر، یا اور اس طرح کی چیزیں ہیں، ایسی دلچپسی کی چیزیں ہیں جو اسی زمرے میں آتی ہیں، جن میں آدمی ایک دفعہ لگ جائے تو اٹھنے کو دل ہی نہیں چاہتا.بعض کمپیوٹر والوں کو تو ایک طرح کا نشہ ہے.جب آدمی اس پر بیٹھا ہوتو بھول جاتا ہے کہ نماز کا وقت بھی ہو گیا ہے یا نہیں ، جمعہ پر بھی جانا ہے کہ نہیں.پھر تجارتیں ہیں، کام ہیں، نوکریاں ہیں جیسا کہ میں نے کہا، یہ چیزیں بھی نمازوں سے، جمعوں سے، عبادتوں سے، غافل کرنے والی ہیں اور آہستہ آہستہ جب انسان ان میں بہت زیادہ انوالو (Involve) ہو جاتا ہے تو پھر ایمان بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے.

Page 554

خطبات مسرور جلد سوم 547 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء حدیث میں آتا ہے کہ اگر انسان ایک جمعہ نہیں پڑھتا تو دل کا ایک حصہ سیاہ ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جمعے چھوڑتے چلے جانے سے پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے.تو جمعوں کی اہمیت، جمعہ پڑھنے کی اہمیت ہر احمدی کے دل میں ہونی چاہئے.اور کوئی پروگرام کوئی کھیل کود، کوئی کام یا کاروبار جمعہ کی نماز کی ادائیگی میں حائل نہیں ہونا چاہیئے.اس دن کے بابرکت ہونے کا، دعاؤں کی قبولیت کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جب مسلمان کو اس میں ایسا وقت ملتا ہے اور جب وہ کھڑا ہو کے نماز پڑھ رہا ہو، تو جو دعا وہ کرے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے.آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ وہ چھوٹا سا وقت ہوتا ہے، بہت مختصر وقت (مسلم ، کتاب الجمعة باب في الساعة التي في يوم الجمعة) ہوتا ہے.اس لئے جو لوگ مختصر وقت کے لئے ، آخری وقت میں جب خطبہ ختم ہونے والا ہو، جمعہ پڑھنے آتے ہیں کہ جلدی جلدی نماز سے فارغ ہو کر اپنے کام پر چلے جائیں گے یا اپنی کھیل کو دکو چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے بے دلی سے مسجد میں آتے ہیں کہ جلدی جلدی فارغ ہو کر چلے جائیں گے.تو ان کو بھی یادرکھنا چاہئے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جو خطبہ ہے یہ بھی نماز کا حصہ ہے.اس لئے جمعہ کی نماز کی دورکعتیں کی گئی ہیں.ان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت یاد رکھنی چاہئے.اس خوشخبری سے فائدہ اٹھانا چاہئے کہ دعاؤں کا وقت میسر آتا ہے اور کس کو دعاؤں کی ضرورت نہیں ہوتی.اس لئے جمعہ کی نماز پر بڑی توجہ سے، پابندی سے آنا چاہئے.اس پابندی سے آئیں گے، اس کوشش سے آئیں گے تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے.آپ کی دعائیں بھی قبولیت کا شرف پارہی ہوں گی.اور دنیاوی فوائد بھی آپ کو حاصل ہورہے ہوں گے.پس ہر احمدی کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جو فرائض اللہ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں ان کو ادا کرنے کی کوشش کرے.آج کل نفس کا جہاد یہی ہے کہ دنیاوی فوائد بھی اگر ہورہے ہوں تو یا درکھو کہ یہ عارضی فوائد ہیں اس لئے دین کی خاطر ان عارضی فوائد کی پرواہ نہیں کرنی.پھر نفس کے جہاد میں تمام قسم کی

Page 555

خطبات مسرور جلد سوم 548 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء برائیوں کو چھوڑنے کا جہاد ہے.حقوق العباد ادا کرنے کے لئے جہاد ہے.تب کہا جا سکتا ہے کہ ہم ایمان لانے والے ہیں، ہم اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں.عہد تو ہم یہ کرتے ہیں کہ اے مسیح موعود (علیہ السلام) تیری جماعت میں شامل ہونے کے بعد خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے لیکن ہمارے عمل اس کے الٹ ہوں، ہماری برادریاں، ہماری رشتہ داریاں، ہماری دوستیاں، ہم پر جماعتی وقار سے زیادہ حاوی ہو جائیں، ہماری انائیں جماعتی عزت پر حاوی ہو جائیں اگر یہ باتیں ہم میں ہیں تو یہ سب دعوے اور یہ سب عہد جھوٹے ہیں.پس ہر احمدی گہرائی میں جا کر اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہے؟ اور فی زمانہ اپنی جان قربان کرنے کا مطلب اپنے نفس کی قربانی ہے.اور نفس کی قربانی جماعت کا وقار قائم کرنے کے لئے بھی دینی ہوگی.اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے کے لئے بھی دینی ہوگی.جھوٹی اناؤں اور عزتوں کو ختم کرنے کے لئے بھی دینی ہوگی.پھر مال کا جہاد ہے، مالی قربانی ہے.ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ جو مالی کشائش اللہ تعالیٰ نے آپ میں پیدا کی ہے کیا اس کے مطابق چندوں کی ادائیگی کر رہے ہیں؟ دنیاوی خواہشیں تو کبھی ختم نہیں ہوتیں.ایک کے بعد دوسری خواہش تیار ہوتی ہے.لیکن اگر ہر احمدی، کمانے والا احمدی ، اپنے اوپر فرض کر لے کہ میری آمد کا سولہواں حصہ میرا نہیں ہے بلکہ جماعت کا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر میں نے جماعت کو دینا ہے تو مجھے یقین ہے آپ کے بجٹ یہاں بھی کئی گنا بڑھ سکتے ہیں.الحمد للہ کہ وصیت کرنے کی تحریک کے بعد سے آپ کے موصی صاحبان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے.چار گنا تقریباً.بارہ سے چوالیس ہو گئے ہیں.چھوٹی سی جماعت ہے.گواتنی چھوٹی بھی نہیں.ابھی بہت گنجائش باقی ہے.لیکن میرا خیال ہے یہ اضافہ بھی بالکل نو جوانوں اور عورتوں کی وجہ سے ہوا ہے.ابھی میں نے جائزہ نہیں لیا ، جب جائزہ لیا جائے گا تو پتہ لگ جائے گا کہ صورت حال کیا ہے.تو بڑی عمر کے اور اچھا کمانے والے جو لوگ ہیں ان کو بھی وصیت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.الحمد للہ یہ بات مجھے نظر آئی ہے کہ نو جوان بچے اور بچیاں احمدیت سے رشتے اور تعلق میں زیادہ بڑھ رہے ہیں.اللہ ان کے ایمان میں مزید ترقی دے لیکن بعض دفعہ بعض

Page 556

خطبات مسرور جلد سوم 549 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء بڑوں کی حرکتوں کی وجہ سے نو جوانوں کو ٹھو کر بھی لگ سکتی ہے.اس لئے نو جوانوں کے اس تعلق اور اخلاص میں بڑھنے کی وجہ سے جماعت کے بڑوں پر اور زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ان کو اور زیادہ فکر سے اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں تا کہ کبھی کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں.اپنے نفس کی قربانیوں میں اور زیادہ ترقی کریں.اپنی مالی قربانیوں میں اور زیادہ ترقی کریں.اپنے بزرگوں کے نمونوں کو بھی دیکھیں، اپنے پہلے حالات پر بھی نظر رکھیں اور اپنے موجودہ حالات پر بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں.اور شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں اپنے پر اظہار ہورہا ہو وہاں اللہ تعالیٰ کی خاطر دینے کا بھی اظہار ہو رہا ہو.اور ہر قسم کی قربانی میں پہلے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اپنی اگلی نسل کے لئے بھی نیک نمو نے قائم کریں.یہی باتیں ہیں جو آپ کے ایمان میں ترقی کا بھی باعث بنیں گی اور احمدیت کی نوجوان نسل کے جماعت کے ساتھ بہتر تعلق اور نیکیوں میں بڑھنے کا بھی باعث بنیں گی.نوجوانوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ آپ لوگ جو اپنے ہوش و حواس کی عمر میں ہیں.جماعت سے اپنے تعلق کو مزید پختہ کریں.اپنے نمونے قائم کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بتائی ہوئی تعلیم پر عمل کریں.اگر برائی کسی میں دیکھتے ہیں تو اس پر اعتراض شروع کر کے اس پر ٹھوکر نہ کھائیں.اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں.اس معاشرے میں جہاں قدم قدم پر گند اور بے حیائی ہے اپنے آپ کو اس سے بچائیں.اللہ کے حضور جھکنے والے بہنیں.اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے بنیں.کیونکہ یہی چیز ہے جس سے آپ کا خدا تعالیٰ سے مزید پختہ تعلق پیدا ہوگا.مزید مضبوط تعلق پیدا ہوگا.اور جب اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے گا تو پھر نیکیوں میں قدم آگے بڑھے گا.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا مزید فہم اور ادراک پیدا ہوگا.ایمان میں مزید ترقی ہوگی.صرف اس بات پر ہمیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان لیا ہے اور بس کافی ہے.یہ تو ماننے کے بعد ایک پہلا قدم ہے.ایمان میں ترقی ہو گی تو مومن کہلائیں گے.ورنہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی بعض ان پڑھ جاہل لوگوں کو یہ جواب دیا تھا کہ ٹھیک ہے تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور تم مسلمان ہو گئے

Page 557

خطبات مسرور جلد سوم 550 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء لیکن ایمان کے اعلیٰ معیار تمہیں حاصل نہیں ہوئے.ابھی بہت گنجائش ہے.پکے مومن تب کہلاؤ گے جب ایمان میں ترقی کرو گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے پہلے دن بھی ان بدوؤں پر بہت اثر ڈالا لیکن تب بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابھی بہت گنجائش ہے.تو آجکل تو اور بھی زیادہ گنجائش ہے جیسا کہ اللہ میاں قرآن کریم میں اعراب کو مخاطب کر کے فرماتا ہے قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَاوَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات: 15) بادیہ نشین یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے.تو کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے لیکن صرف اتنا کہا کرو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں.جبکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں پوری طرح داخل نہیں ہوا.پس نئے احمدی ہوں یا پرانے ، بوڑھے ہوں یا نو جوان، یا درکھیں کہ کامل مومن صرف مان لینے سے نہیں بن جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر بھی عمل کرنا ہوگا کہ نیکیوں میں آگے بڑھو.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات ﴾ (البقرة: 149) پس یہ نیکیوں میں آگے بڑھنا ہی ہے جو ایمان میں مضبوطی پیدا کرتا ہے اور جب ایمان میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے تو پھر ایک مومن مال اور جان کی قربانی میں بھی دریغ نہیں کرتا.اور یہ طاقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس کا عبد بننے سے ہی حاصل ہوتا ہے، اس کا بندہ بننے سے ہی حاصل ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بیچ کے ہے اور پھر لغو باتوں کے چھوڑنے سے ایمان اپنا نرم نرم سبزہ نکالتا ہے اور پھر اپنا مال بطور ز کوۃ دینے سے ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں جو اس کو کسی قدر مضبوط کرتی ہیں اور پھر شہوات نفسانیہ کا مقابلہ کرنے سے ان ٹہنیوں میں خوب مضبوطی اور سختی پیدا ہو جاتی ہے.اور پھر اپنے عہد اور امانتوں کی تمام شاخوں کی محافظت کرنے سے درخت ایمان کا اپنے مضبوط تنا پر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر پھل لانے کے وقت ایک اور طاقت کا فیضان اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس طاقت سے پہلے نہ درخت کو پھل لگ سکتا ہے نہ پھول“.(ضمیمه براہین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحه 209 حاشيه |

Page 558

خطبات مسرور جلد سوم 551 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء تو فرمایا کہ جب تک عاجزی پیدا نہیں ہوگی ،نفس کی قربانی کا جذبہ پیدا نہیں ہو گا اس وقت تک ایمان نہیں بڑھ سکتا.پس یہ عاجزی اور نفس کی قربانی ہے اگر پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دل میں ، دل کی زمین پر ایمان کا بیج بویا گیا ہے.اس لئے اپنے اندر ایمان پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے عاجزی کو اپنے اندر جگہ دو.پس جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اپنے اندر عاجزی اور نفس کی قربانی پیدا کریں گے تو تب ایمان میں ترقی کرنے کے لئے دل کی زمین تیار ہوگی ،.پھر فرمایا کہ لغو باتیں ہیں.اس میں کھیل کو د بھی ہیں، جیسا کہ پہلے میں بتا آیا ہوں ایسے کھیل بھی ہیں جو عبادتوں سے روکنے والے ہیں.پھر یہ لغویات ہیں جو جھوٹی اناؤں اور عزتوں کی طرف لے جانے والی ہیں.پھر اس قسم کی اور لغویات ہیں جو مختلف قسم کی برائیاں ہیں.تو پہلی بات یہ ہے کہ عاجزی اختیار کرو تو ایمان دل میں جگہ پائے گا.پھر لغو اور بیہودہ باتوں کو ترک کرو.لوگوں کے حقوق مارنے سے بچو.تو ایمان کا یہ بیج جو عاجزی اختیار کرنے سے، بے نفسی کی وجہ سے تمہارے دل میں آ گیا تھا یہ پھر پھوٹنا شروع ہو جائے گا.اور جس طرح کھیت میں جب بیج باہر نکلتا ہے، یہاں بھی آپ نے دیکھا ہوگا، فصلیں لگتی ہیں تو تھوڑی تھوڑی ہریالی نظر آنی شروع ہو جاتی ہے.زمین پر مٹی اور ہریالی دونوں نظر آ رہی ہوتی ہیں.تو اس عاجزی کا بیج جو دل کی زمین پر ایمان کی مضبوطی کے لئے لگایا گیا ہے تب اگنا شروع ہو گا جب تم ہر قسم کی لغویات سے بھی بچو گے، تم تمام قسم کی برائیوں کو بھی چھوڑو گے.لیکن ابھی نرم حالت میں ہو گا.اس نے پوری طرح زمین کو ڈھانکا بھی نہیں ہوگا.چلنے والے کے پاؤں تلے آ کے کچلا بھی جاسکتا ہے.شیطان کے حملوں سے بھی وہ کچلا جا سکتا ہے.اپنی اناؤں اور جھوٹی غیرتوں کے نیچے کچلا جا سکتا ہے.پھر آگے فرمایا کہ جب زکوۃ دو گے.مالی قربانی کرو گے اور اپنے پاک مال سے ، حلال ذریعہ سے کمائے ہوئے مال سے زکوۃ دو گے.یہ نہیں کہ مالی دباؤ سے مجبور ہوکر شراب بیچنے یا اس قسم کے جو دوسرے کاروبار ہیں ان میں پڑ جاؤ.ایسے مال پر اگر تم چندہ دو گے تو اس سے مال پاک نہیں ہوسکتا.زکوۃ کا مطلب ہے کہ پاکیزہ مال اور مال کو پاک کرنے کے لئے تمہاری روحانیت کو

Page 559

خطبات مسرور جلد سوم 552 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء پاک کرنے کے لئے مال کی قربانی.جیسا کہ بعض غیر احمد یوں میں رواج ہے، اپنے کاروبارنا جائز طور پر کرتے ہیں.لوگوں کو لوٹتے ہیں یا گھٹیا سودا بیچتے ہیں یا کوالٹی اچھی نہیں ہوتی یا شراب بیچنے والے ہیں اور پھر حج پر جا کر یا تھوڑا بہت صدقہ و دقہ کر کے سمجھتے ہیں کہ بہت نیک کام کر لیا اور اسی طرح واپس آ کر پھر وہی پرانے دھو کے شروع ہو جاتے ہیں.تو ایسے حج اور ایسے صدقے کوئی فائدہ نہیں دیتے.جو مستقل صاف کرنے والے نہ ہوں یا حرام ذریعہ سے کمائے ہوئے مال سے ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو پاک مال چاہئے تا کہ تمہارا تزکیہ ہو.اور جب اس پاک مال سے تزکیہ نفس بھی ہوگا اور یہ ان پہلی دو قسم کی نیکیوں میں بھی شامل ہو جائے گا.مالی قربانیوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی تو پھر وہ ایمان کا پودا بڑھتا ہے اور پھر اس کی ٹہنیاں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں پھر وہ نرم پودا نہیں رہتا.پس ایمان کے پودے کی بڑھوتری کے لئے پاک مال سے کی گئی مالی قربانی بھی ضروری ہے.پھر شہوات نفسانیہ ہیں.ان کو کنٹرول کرنا ہے.ان ملکوں میں آزادی کی وجہ سے بہت سی بیہودگیاں ہیں.جگہ جگہ پر غلاظتیں ہیں، نفسانی خواہشات ہیں، جن میں پڑ کر انسان اپنے اندرا اپنے ایمان کے پودے کو کمزور کرنے والا بن جاتا ہے.پس یہ ایمان کی نرم ٹہنیاں بھی اس وقت مضبوط ہوں گی جب اپنے نفس پر کسی برائی کو غالب نہیں آنے دو گے.اور جب یہ چیز حاصل کر لو گے تو ایمان میں مزید مضبوطی پیدا ہوگی اور پھر اگلا قدم یہ ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے تمہارے جتنے بھی عہد ہیں ان کی حفاظت کرو.جتنی امانتیں ہیں ان کی حفاظت کرو.ہر احمدی کا بہت بڑا عہد اس زمانے کے امام کے ساتھ ہے، ان کو مان کر ہے.جو عہد بیعت آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہوا ہے، ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ ان دس شرائط بیعت کی پابندی کر رہا ہے؟ ہر احمدی خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہے کہ اے خدا! میں تیری تعلیم کو بھلا بیٹھا تھا لیکن اب مسیح موعود کے ہاتھ پر عہد کرتا ہوں کہ میرے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما آئندہ انشاء اللہ میں اس عہد پر قائم رہوں گا.پھر عہدیداروں کے عہد ہیں.ان کے سپر د امانتیں ہیں.وہ جائزے لیں کہ کہاں تک وہ اپنے عہد اور اپنی امانتیں پوری طرح ادا کر رہے ہیں.ان کی حفاظت کر رہے ہیں.جائزہ لیں

Page 560

خطبات مسرور جلد سوم 553 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء کہ اپنے کام، اپنے فرائض کا حق ادا نہ کر کے وہ کہیں گناہگار تو نہیں ہور ہے.وہ اپنے ایمانوں میں ترقی کرنے کی بجائے، ایمانی پودے کی حفاظت اور آبیاری کی بجائے اس کو سکھا تو نہیں رہے.کیونکہ ایمان کی مضبوطی کے لئے ہر پہلو پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اس لئے جائزہ لیں کہ کوئی پہلو ایسا تو نہیں رہ گیا جس سے میرا ایمان وہیں رک گیا ہو.مجھے تو حکم ہے کہ تم نے نیکیوں میں ترقی کرنی ہے.جہاں نیکیوں میں ترقی رکی وہاں ایمان کی ترقی بھی کر جائے گی.غرض یہ عہد اور امانتیں اس قدر ہیں کہ جس کی انتہا نہیں ہے.ایک عہد سے دوسرا عہد سامنے آتا چلا جاتا ہے.اور ایک امانت کی ادائیگی کے بعد دوسری امانت کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.چاہے وہ ایک عام احمدی کی طرف سے ہو ، عہدیداروں کی طرف سے ہو یا کسی ذمہ دار کی طرف سے ہو.اور یہیں پر بس نہیں ہے.بلکہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد جو تم نے ایمان کے درخت کو مضبوط کیا ہے اس پر بھی ابھی پھل نہیں لگے گا جس سے تم بھی فیض پاسکو اور دوسرے بھی فیض اٹھائیں.اس کے لئے اور طاقتیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے.غرض یہ ایک مسلسل عمل ہے جس کو تا زندگی جاری رکھنا ہوگا.اور جب ان نیکیوں میں اور ایمان کو مضبوط کرنے کی کوشش میں با قاعدگی آجائے گی پھر ایمان ایسی حالت میں پہنچ جائے گا کہ جب ہر فعل خود بخو دخدا کی رضا حاصل کرنے والا فعل ہو گا.پس ہر احمدی کو اپنے ہر فعل سے خدا کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے.جب یہ صورت ہو جائے گی تو اپنے ماحول پر بھی آپ پہلے سے بہت بڑھ کر اثر انداز ہورہے ہوں گے.اور احمدیت اور حقیقی اسلام کے پیغام کو لوگوں کی ہمدردی اور خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے پھیلا رہے ہوں گے.اللہ کرے کہ آپ اس طرف توجہ کریں.اپنی ایمانی حالت میں بھی ترقی کرنے والے ہوں اور دنیا کو بھی احمدیت کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرنے والے ہوں.اور آپ کی زندگی بھی پھل لانے والی زندگی بن جائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا سے مفقود ہو گئی تھی اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائے نہیں جاتے

Page 561

خطبات مسرور جلد سوم 554 خطبہ جمعہ 9 ستمبر 2005ء تھے دوبارہ اسے قائم کرے.(ملفوظات جلد چهارم صفحه 213 214 جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ کی معرفت جود نیا میں ختم ہو گئی دوبارہ لے کے آئے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : وو سواے دے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو ( جو اپنے آپ کو میری جماعت میں شامل سمجھتے ہو ) آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو.اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جوز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کوسنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.یقین یا د رکھو کہ کوئی عمل خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ 66 سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ15) نیکی کے ادا کرنے کے جو لوازمات ہیں، باتیں ہیں ان کو پوری طرح ادا کرنا چاہئے.اور بدی سے بیزاری ہونی چاہئے.اس طرف توجہ ہی نہیں پیدا ہونی چاہئے.پس یہ تقویٰ ہی ہے جوایمان کو بڑھاتا ہے.آپ لوگ ہمیشہ، جیسا کہ میں نے کہا، اپنے جائزے لیتے رہیں.اگر ہم خود ہی اپنے جائزے لیتے رہیں اور تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے یہ جائزے لیں تو کمزوریاں بھی سامنے آئیں گی اور اصلاح کی توفیق بھی ملے گی.اللہ ہم سب کو اپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے اور اس کی رضا حاصل کرتے ہوئے ہم نیکیوں میں قدم بڑھانے والے ہوں.(آمین) 谢谢谢

Page 562

خطبات مسرور جلد سوم 555 (36) خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کے حصول کے طریق سکنڈے نیوین ممالک کے پہلے جلسہ کے موقع پر بصیرت افروز خطاب خطبه جمعه فرموده 16 ستمبر 2005ء بمقام گوتھن برگ (سویڈن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.يَا يُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ پھر فرمایا:.(البقرة : 22) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو! عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تم کو پیدا کیا اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیکنڈے نیوین ممالک کا ( جو مجھے بتایا گیا ہے اس کے مطابق ( پہلا جلسہ ہے جو ، دنیا کے لئے بھی بتا دوں کہ اکٹھا ایک جگہ تینوں ممالک کا یعنی ڈنمارک،سویڈن اور ناروے کا مشترکہ ہو رہا ہے.تینوں ممالک سے آپ لوگ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ان جلسوں کے قیام کا ایک بہت بڑا مقصد افراد جماعت کے تقویٰ کے معیار کو بلند کرنا اور اپنے ماننے والوں کو ایک خدا کی حقیقی پہچان کروا کر ان کو اس کے سامنے جھکنے والا ، اس کی عبادت کرنے والا اور اس کے حکموں پر عمل کرنے

Page 563

خطبات مسرور جلد سوم 556 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء والا بنانا تھا.اور آپ نے اپنی آمد کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد یہی بیان فرمایا ہے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں.: ”خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد ہر احمدی کا یہی مقصد ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچے چلے جانے کی کوشش کرتا رہے.اور اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچے جانے کے لئے یا اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے لئے جو کوشش ہے اس میں ایک تو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اس کی عبادت کرنا ہے، جس کا قرآن کریم میں بڑا واضح ذکر ہے یعنی نماز، روزہ ، زکوۃ اور حج ہیں.یہ عبادات ہیں.اور پھر دوسرے احکامات ہیں جو معاشرے کو حسین بنانے اور آخر کار اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے حقیقی عبد بنانے والے احکامات ہیں.تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ سب کچھ یعنی بندے کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکانا اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والا بنانا، اس نور کی وجہ سے ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمایا ہے.پس آج اس زمانے میں خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے اگر کسی کو نظر آ سکتے ہیں تو وہ احمدی کو نظر آسکتے ہیں.کیونکہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ رہنے کا عہد کیا ہے.کیونکہ اس نے یہ عہد کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق جس حکم اور عدل نے آنا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا تھا اس کو ماننے کے بعد اس کے ہر حکم کو سچے دل سے ماننے والے بنیں گے.یہ ہر احمدی کا عہد ہے، یہ عہد ہے اور یہ عہد ہونا چاہئے.اگر آج ہر احمدی اس سوچ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کر رہا تو وہ آپ کے لائے ہوئے نور سے بھی حصہ نہیں پا رہا اور وہ

Page 564

خطبات مسرور جلد سوم 557 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء خدا تعالیٰ کے احکامات پر بھی عمل نہیں کر رہا اور اسی طرح اس کا عبادت گزار بھی نہیں ہے.پھر تو صرف منہ کی باتیں ہیں کہ ہم احمدی ہیں جبکہ عمل اس سے مختلف ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوئی نئی شریعت تو لے کر نہیں آئے تھے.آپ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے طور پر آپ کی لائی ہوئی شریعت یعنی قرآن کریم کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے آئے تھے.آپ تو دنیا کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں لیکن اگر ایک احمدی ہونے کا دعوی کرنے والا ان باتوں پر عمل کرنے والا نہیں ہے تو وہ کبھی بھی اس نور سے منور نہیں ہو سکتا ، وہ کبھی بھی اس روشنی سے حصہ نہیں پاسکتا جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے.پس ہر احمدی کو ، ہر اس شخص کو جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے منسوب کرتا ہے، ہر اس شخص کو جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق عبادت گزار بندہ بھی بنا ہو گا.اور اللہ تعالیٰ کے جو دوسرے احکامات ہیں ان پر بھی عمل کرنا ہو گا.آج ان باتوں کو کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح بیان فرما دیا ہے کہ اس میں کوئی ابہام نہیں رہا.آپ نے اپنی جماعت کو خصوصاً اور دنیا کو عموماً بڑے درد سے ایک خدا کی طرف آنے ، اس کی عبادت کرنے ، اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی بار ہا نصیحت فرمائی ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے، ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے.اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے، اگر چہ تمام وجو دکھونے سے حاصل ہو.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحه 21) پس ہر احمدی کا جو پہلا مقصد ہونا چاہیئے وہ اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنا ہے.اور اس کے لئے سب سے بنیادی چیز اس کی عبادت ہے.جو آیت میں نے شروع میں تلاوت کی ہے، ترجمہ

Page 565

خطبات مسرور جلد سوم 558 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء بھی آپ نے سن لیا ہے، اس میں خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے.اور بڑے واضح الفاظ میں یہ بتا کر نصیحت فرمائی ہے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، وہ تمہارا رب ہے، اس نے پیدا کرنے کے بعد تمہارے لئے سامان بھی میسر فرمائے ہیں.اس نے تم سے پہلوں کو بھی پیدا کیا تھا ، ان کی بھی پرورش کی تھی.پس اس احسان پر کہ تمہیں اس نے پیدا کیا، شکر گزاری کے طور پر تمہیں چاہئے کہ اس کی عبادت کرو، اور یہ عبادت بھی تمہیں تقویٰ میں بڑھائے گی اور جب تقویٰ میں بڑھو گے تو خدا کا مزید قرب حاصل کرنے والے بنو گے اور اس کے فضلوں کے وارث بنو گے.کیونکہ تم اپنے اس رب کی عبادت کر رہے ہو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمام مخلوق کو بھی پیدا کیا ہے.وہ خدا رب العالمین ہے، تمام عالم کو پیدا کرنے والا ہے، تو جو خدا اس کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اس سے دور جا کر تم کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہو ، کس طرح زندگیاں گزار سکتے ہو.اگر تم حقیقت میں اس کے سامنے جھکنے والے بنو گے تو وہ علاوہ تمہیں تقویٰ میں بڑھانے کے اپنا قرب حاصل کرنے والا بنانے کے تمہیں رزق بھی ایسے ایسے ذریعوں سے دے گا جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے ﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق: 3) اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا.اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا.اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کو رزق آنے کا خیال بھی نہیں ہوگا.پس اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے تقویٰ ضروری ہے تا کہ پیار حاصل کرنے کے بعد یہ نعمتیں ملیں.اور تقویٰ حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا جیسا کہ پہلے بھی واضح ہو گیا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں ، تمہیں رزق بھی دیتا ہوں تمہیں پالنے کے سامان بھی پیدا کرتا ہوں.اور تمہاری ضروریات بھی پوری کرتا ہوں.اور تمام کائنات کا پیدا کرنے والا بھی ہوں.یہ تمام کائنات جو ہے میرے ایک اشارے پر حرکت کرنے والی ہے.ذرا سا اس کائنات کا بیلنس (Balance) خراب ہو جائے تو تباہی و بربادی آ جائے.پس فرمایا کہ میری عبادت کرو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس مضمون کو یعنی یہ بتانے کے لئے کہ اپنے

Page 566

خطبات مسرور جلد سوم 559 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء رب کی عبادت کرو، اس طرح بیان فرماتے ہیں.فرمایا کہ : ”اے لوگو! اس خدا کی پرستش کرو جس نے تم کو پیدا کیا.پھر فرمایا: ” عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا.یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے اسی سے دل لگاؤ.پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے اور دوسری سب چیزوں کو اس کے مقابلہ میں بیج سمجھا جائے اور جو شخص اولاد کو یا والدین کو یا کسی اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت انہیں کا فکر رہے تو وہ بھی ایک بت پرستی ہے.بت پرستی کے یہی تو معنی نہیں کہ ہندوؤں کی طرح بت لے کر بیٹھ جائے اور اس کے آگے سجدہ کرے.حد سے زیادہ پیار و محبت بھی عبادت ہی ہوتی ہے.(الحکم جلد 12 نمبر 48 مورخہ 22 اگست 1908ء صفحہ نمبر 1) پھر آپ فرماتے ہیں: ”جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے تو وہ معبود ہو جاتا ہے اور یہ صرف خدا تعالیٰ ہی کا وجود ہے جس کا کوئی بدل نہیں.کسی انسان یا اور مخلوق کے لئے ایسا نہیں کہہ سکتے.(الحكم جلد 9 نمبر 43 مورخه 10 دسمبر 1905ء صفحه 5) پس کسی سے بھی ضرورت سے زیادہ محبت یا اپنے کسی کام میں بھی ضرورت سے زیادہ غرق ہونا اس حد تک Involve ہو جانا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہوش ہی نہ رہے، یہ شرک ہے.کاروباری آدمی ہے یا ملا زمت پیشہ ہے.اگر نمازوں کو بھول کر ہر وقت صرف اپنے کام کی ، پیسہ کمانے کی فکر ہی رہے تو یہ بھی شرک ہے.نوجوان اگر کمپیوٹر یا دوسری کھیلوں وغیرہ یا مصروفیات میں لگے ہوئے ہیں جس سے وہ اللہ کی عبادت کو بھول رہے ہیں تو یہ بھی شرک ہے.پھر گھروں میں بعض ظاہری شرک بھی غیر محسوس طریقے سے چل رہے ہوتے ہیں ، اس کا احساس نہیں ہوتا.ایک طرف تو احمدی کہلاتے ہیں گو یہ بہت کم احمدی گھروں میں ہے جبکہ دوسرے لوگوں میں بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی ایک آدھے گھر میں بھی کیوں ہو.ایسے گھروں میں بعض دفعہ ایسی فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جن میں گند اور غلاظت کے علاوہ دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا کو دکھایا جا رہا ہوتا ہے.پھر ان مورتیوں کو جو پوجنے والے ہیں یہ لوگ اپنے گھروں میں ان چیزوں کو رکھتے ہیں،

Page 567

خطبات مسرور جلد سوم 560 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء شیلفوں میں سجا کر رکھا ہوتا ہے یا بعض خاص جگہ پر رکھا ہوتا ہے.تو ڈراموں میں دیکھ دیکھ کر ان کے دیکھا دیکھی بعض اپنے گھروں میں بھی ان مورتیوں کو سجا لیتے ہیں.بازار میں ملنے لگ گئی ہیں کہ سجاوٹ کر رہے ہیں.اپنے گھروں میں ڈرائنگ رومز وغیرہ میں شیلفوں میں رکھ لیتے ہیں.تو پھر ان فلموں کو دیکھنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ احساس ختم ہو جاتا ہے.ان مورتیوں کو گھروں میں رکھنے کی وجہ سے، چاہے سجاوٹ کے طور پر ہی ہوں ، احساس مر جاتا ہے.اور اگر کسی گھر میں عبادتوں میں سستی ہے، نمازوں میں سستی ہے تو ایسے گھروں میں پھر بڑی تیزی سے گراوٹ کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس ہر احمدی کو نہ صرف ان لغویات سے پر ہیز کرنا ہے بلکہ اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی اوپر لے کر جانا ہے.ہم ہر نماز میں ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن کی دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں کہ ہمیں عبادت کرنے والا بنا.اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے یقیناً اس کو ہر قسم کے شرک سے پاک ہونا چاہئے.پس اس لحاظ سے بھی ہر احمدی کو اپنے دل کو ٹولنا چاہئے کہ ایک طرف تو ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بننے کی خدا تعالیٰ سے دعامانگ رہے ہیں دوسری طرف دنیا داری کی طرف ہماری نظر اس طرح ہے کہ ہم اپنی نمازیں تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اپنے کام کا حرج نہیں ہونے دیتے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں رازق ہوں اور اپنی عبادت کرنے والوں کے لئے رزق کے راستے کھولتا ہوں.لیکن ہم منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے ، حق ہے لیکن ہمارے عمل اس کے الٹ چل رہے ہیں.اُس وقت جب ایک طرف نما ز بلا رہی ہو اور دوسری طرف دنیا کا لالچ ہو، مالی منفعت نظر آ رہی ہو تو ہم میں سے بعض رالیں ٹپکاتے ہوئے مال کی طرف دوڑتے ہیں.اس وقت یہ دعوے کھو کھلے ہوں گے کہ ہم ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں.پس جماعت کے ہر طبقے ، عورت، مرد، بچے ، بوڑھے ، جوان، ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر کیا روحانی تبدیلی ہم میں پیدا ہوئی ہے.کیا ہماری عبادتوں کے معیار بڑھے ہیں یا وہیں کھڑے ہیں یا گر رہے ہیں، کہیں کمی تو نہیں آ رہی.جب ہر کوئی خود اس نظر سے اپنے

Page 568

خطبات مسرور جلد سوم 561 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء جائزے لے گا تو انشاء اللہ عبادتوں کے معیار میں یقیناً بہتری پیدا ہوگی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: غرض کہ ہر آن اور پل میں اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے اور مومن کا گزارا تو ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کا دھیان ہر وقت اس کی طرف لگا نہ رہے.اگر کوئی ان باتوں پر غور نہیں کرتا اور ایک دینی نظر سے ان کو وقعت نہیں دیتا تو وہ اپنے دنیوی معاملات پر ہی نظر ڈال کر دیکھے کہ کیا خدا کی تائید اور فضل کے سوا کوئی کام اس کا چل سکتا ہے؟ اور کوئی منفعت دنیا کی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.دین ہو یا نی ہر ایک امر میں اسے خدا کی ذات کی بڑی ضرورت ہے اور ہر وقت اس کی طرف احتیاج لگی ہوئی ہے.جو اس کا منکر ہے سخت غلطی پر ہے.خدا تعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھو یا نہ.وہ فرماتا ہے ﴿قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ﴾ (الفرقان : 78 ) کہ اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہوگا.انسان جس قدر اپنے وجود کو مفید اور کار آمد ثابت کرے گا اسی قدر اس کے انعامات کو حاصل کرے گا.دیکھو کوئی بیل کسی زمیندار کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو مگر جب وہ اس کے کسی کام بھی نہ آوے گا، نہ گاڑی میں بجھتے گا، نہ زراعت کرے گا، نہ کنوئیں میں لگے گا تو آخر سوائے ذبح کے اور کسی کام نہ آوے گا“.( یہاں کے پلے بڑھوں کو شاید تصور نہ ہو، یہاں یہ پرانی چیزیں شاید میوزیم میں پڑی ہوں.ہمارے پاکستان ہندوستان وغیرہ میں بیل ابھی بھی پالے جاتے ہیں اور ان کو بڑی توجہ سے پالا جاتا ہے کا شتکاری کے لئے جس سے ہل چلایا جاتا ہے.ٹریکٹر اور مشینری وغیرہ تو بہت سے لوگوں کے پاس بہت کم ہے.تو فرمایا کہ جب ان کاموں کے لئے بیل پالا جائے گا اگر وہ کام کے قابل نہیں رہا تو سوائے ذبح کرنے کے اور کچھ نہیں ہو گا اور ) ایک نہ ایک دن مالک اسے قصاب کے حوالے کر دے گا.ایسا ہی جو انسان خدا کی راہ میں مفید ثابت نہ ہو گا تو خدا اس کی حفاظت کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا.ایک پھل اور سایہ دار درخت کی طرح اپنے وجود کو بنانا چاہئے تا کہ مالک بھی خبر گیری کرتا رہے (ایسا درخت بناؤ جس کو پھل لگتے ہوں جس سے سایہ ملتا ہو.جس کا

Page 569

خطبات مسرور جلد سوم 562 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء کوئی فائدہ ہو.اور تبھی تو اس کو پالنے والا اس کی خبر گیری کرے گا ) لیکن اگر اس درخت کی مانند ہو گا کہ جو نہ پھل لاتا ہے اور نہ پہنتے رکھتا ہے کہ لوگ سایہ میں آ بیٹھیں تو سوائے اس کے کہ کاٹا جاوے اور آگ میں ڈالا جاوے اور کس کام آ سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) جو اس اصل غرض کو مد نظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں، فلاں مکان بنالوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے.انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شے ہو جاوے گا.اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے ( جو دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس کا ہی درد ہے ) تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ مہلت اس لئے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھا وے تو اسے وہ کیا کرے.پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے.سب عبادتوں کا مرکز دل ہے.اگر عبادت تو بجالاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی.اس لئے دل کا رجوع تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 221 222.جدید ایڈیشن) پس انسان کی پیدائش کا یہ مقصد ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو اور یہ سب ہماری اپنی بہتری کے لئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو تو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے.اس نے تو ایک مقصد ہمیں بتایا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو گے تو میرا قرب پاؤ گے ورنہ شیطان کی گود میں گر جاؤ گے.اور جو شیطان کی گود میں گر جائے وہ نہ صرف خدا تعالیٰ سے دور چلا جاتا ہے بلکہ کسی نہ کسی رنگ میں معاشرے میں فساد پھیلانے کا بھی باعث بنتا ہے.پس اللہ کی عبادت بندوں کے فائدے کے لئے ہے ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبّى لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ﴾ (الفرقان : 78) یعنی ان کو بتا دو کہ میرا رب

Page 570

خطبات مسرور جلد سوم 563 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء اس کی کیا پر واہ رکھتا ہے اگر تم دعا نہ کرو، اس کی عبادت نہ کرو، اس سے اس کا فضل نہ چاہو.اللہ تعالیٰ نے عبادت کرنے کا یہ حکم بھی تمہارے ہی فائدے کے لئے دیا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک نظارہ دکھایا گیا کہ بہت ساری بھیڑیں ہیں جو ایک لائن میں ذبح کی ہوئی پڑی ہیں اور آواز آتی ہے ﴿قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ﴾ (الفرقان : 78) اور پھر ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ تم کیا ہو، آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہونا.اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پر واہ ہے.(تلخيص رؤیا از الحکم مورخه 17/ اگست 1901ء صفحه 1) پس یہ رویا بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے.یہ نظارہ بھی جو ہے یہ ہم احمدیوں کو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننے کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے کہ دوسرے لوگ جو اللہ کی عبادت نہیں کرتے تو اللہ کو ان کی پرواہ ہی کیا ہے.کوئی ان کی پرواہ نہیں.لیکن تم لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ زمانے کے امام کو ہم نے مانا ہے تم تو اپنی عبادتوں سے غافل نہ ہو.تم تو اس نور اور روشنی سے حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے ہیں.اگر تم نے بھی عبادتوں میں کمزوریاں دکھا ئیں تو اس نور سے بھی حصہ نہیں ملے گا اور خدا سے بھی دور ہو گے اور جو خدا سے دور ہو اللہ کو اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی.پس ہمیں چاہئے کہ ہم وہ بے فائدہ بھیڑیں نہ نہیں کہ جن کی خدا کو کچھ بھی پرواہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ان مقربوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں جن کے آنکھ ، کان ، ہاتھ ، اور پاؤں خدا تعالیٰ ہو جاتا ہے.جن کی خاطر خدا تعالیٰ لڑتا ہے.جن کو اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے.ہمارا ہر فعل ایسا ہو جو خدا کی رضا حاصل کرنے والا ہو.اس کے لئے جیسا کہ پہلے بتایا ہے محنت کی بھی ضرورت ہے، کوشش کر کے عبادتیں کرنے کی بھی ضرورت ہے.جب اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، اس کا فضل مانگتے ہوئے عبادتوں کی طرف توجہ کریں گے تو یقینا اللہ تعالی مدد فرماتا ہے، فرمائے گا انشاء اللہ.لیکن جیسا کہ میں نے کہا شرط یہ ہے کہ خالص ہو کر اس کی عبادت کی جائے.

Page 571

خطبات مسرور جلد سوم 564 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ : ” اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی بھی اور ناہمواری، کنکر پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا“.(ملفوظات جلد نمبر اوّل صفحه 347 جدید ایڈیشن) پس ہمیں چاہئے کہ ہر قسم کے کنکر ، پتھر کو دل میں سے نکال دیں اور خدا کا سچا عبادت گزار بنیں.جب انسان اس طرح کوشش سے اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے تو پھر اللہ اس سے زیادہ بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی عبید اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہوں جیسا وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے.اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں.اگر وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں.اور جو میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں.اور اگر وہ میری طرف چلتے ہوئے آتا ہے تو میں دوڑتے ہوئے اس کی طرف جاتا ہوں.(بخاری کتاب التوحيد.باب قول الله تعالى ويحذركم الله...پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس سے وہ عمل سرزد ہوں اور وہ عبادتیں عمل میں آئیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میرے آنے کا مقصد ایک خدا کی پہچان اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کروانا ہے.اللہ تعالیٰ کے جن حکموں پہ ہم نے عمل کرنا ہے ان کا علم کس طرح ہو؟ وہ ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے.اس کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے سے اس کا علم حاصل ہوگا.پس اس طرف بھی ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے كه ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ﴾ (البقرة :3).یہ وہ کتاب ہے اس میں کوئی

Page 572

خطبات مسرور جلد سوم 565 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء شک نہیں ، ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو.پس جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے.اپنے رب کی عبادت کرو تو تقویٰ میں بڑھو گے.اور تقویٰ میں بڑھنے کے لئے قرآن کریم جو خدا کا کلام ہے اس کو بھی پڑھنا ضروری ہے ، اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.پس تقویٰ اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک قرآن کریم کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا زندگیوں کا حصہ نہ بنالیا جائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کے نزول کی علت غالى هُدًى لِلْمُتَّقِين قرار دی ہے.( یعنی اس کا مقصد متقیوں کے لئے ہدایت ہے ) اور قرآن کریم سے رشد اور ہدایت اور فیض حاصل کرنے والے با تخصیص متقیوں ہے.“ کو ہی ٹھہرایا ہے آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحه 139) یعنی خاص طور پر جو تقویٰ میں بڑھنے والے ہوں گے وہی قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کریں گے.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی کوئی قوم قرآن کریم پڑھنے کے لئے اور ایک دوسرے کو پڑھانے کے لئے خدا تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھی ہوتی ہے تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کے گرد حلقے بنا لیتے ہیں.(سنن ابی داؤد - كتاب الوتر - باب في ثواب قراءة القرآن ) پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور فرشتوں کے حلقے میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے ، اپنے بچوں کو پڑھائیں ، انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں.اور یاد رکھیں کہ جب تک ان چیزوں پر عمل کرنے کے ماں باپ کے اپنے نمونے بچوں کے سامنے قائم نہیں ہوں گے اس وقت تک بچوں پر اثر نہیں ہو گا.اس لئے فجر کی نماز کے لئے بھی اٹھیں اور اس کے بعد تلاوت کے لئے اپنے پر فرض کریں کہ تلاوت کرنی ہے پھر نہ صرف تلاوت کرنی ہے بلکہ توجہ سے پڑھنا ہے اور پھر بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی پڑھیں ، انہیں بھی پڑھائیں.جو چھوٹے بچے ہیں ان کو بھی پڑھایا جائے.

Page 573

خطبات مسرور جلد سوم 566 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء آنحضرت علہ نے ہمیں قرآن کریم پڑھنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے، کس طرح پڑھنا ہے.آپ نے فرمایا کہ " قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف پڑھو اور اس کے غرائب پر عمل کرو.“ (مشكوة المصابيح ، كتاب فضائل القرآن الفصل الثالث) غرائب سے مراد اس کے وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور وہ احکام ہیں جن کو کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.جب قرآن کریم اس طرح ہر گھر میں پڑھا جا رہا ہوگا، غور ہورہا ہوگا، ہر حکم جس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اس پر عمل ہورہا ہو گا اور ہر وہ بات جس کے نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس سے بیچ رہے ہوں گے ، اس سے رک رہے ہوں گے تو ایک پاک معاشرہ بھی قائم کر رہے ہوں گے.عبادتوں کے معیاروں کے ساتھ ساتھ آپ کے اخلاق کے معیار بھی بلند ہو رہے ہوں گے.آپس کی رنجشیں دور کرنے کی بھی کوشش ہو رہی ہوگی.جھوٹی اناؤں اور عزتوں سے بھی بیچ رہے ہوں گے.تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بھی آپ کوشش کر رہے ہوں گے.اگر ایک شخص بظا ہر نمازیں پڑھنے والا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں احکامات دیئے ہیں ان پر عمل نہیں کر رہا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایسے نمازیوں کی نمازوں کو ان کے منہ پر مارتا ہے.یہی نمازیں ہیں جو نمازیوں کے لئے لعنت بن جاتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان عبادتوں کا ذکر کیا ہے جو تقویٰ میں بڑھاتی ہیں.اور تقویٰ بڑھتا ہے ان احکامات پر عمل کرنے سے جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں.جن کی تعداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پانچ سو یا سات سو بتائی ہے.اور آپ نے فرمایا کہ جوان حکموں پر عمل نہیں کرتا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے.پس یہ ہوشیاری یا چالا کی کسی کام نہیں آئے گی.بعض لوگوں کو اپنی علمیت پر بڑا ناز ہوتا ہے اور دوسروں کے علم کا استہزاء کر رہے ہوتے ہیں.یا کسی اور بات کا بڑا فخر ہے اس پر استہزاء ہو رہا ہوتا ہے مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں.تو چاہے وہ قرآن کریم کا علم ہو یا کوئی اور علم ہو کیونکہ یہ علم جو ہے یہ تقویٰ سے عاری ہوتا ہے اس لئے اس علم کی بھی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں جو اس نے حاصل کیا ہے.بے فائدہ علم ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ان احکامات پر عمل کرو.اگر صرف پڑھ لیا دوسروں کو بتادیا اور خود عمل نہ کیا

Page 574

خطبات مسرور جلد سوم 567 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء تو ایسے لوگوں کو قرآن ہدایت نہیں دیتا.ہدایت بھی تقویٰ کے ساتھ مشروط ہے اور عبادت کرنے کا بھی اس لئے حکم دیا تا کہ تم تقویٰ میں ترقی کرو.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ تقویٰ کے حصول کے لئے عبادت کرے اور تقویٰ کے حصول کے لئے ہی قرآن کریم پڑھے اور پڑھائے ، قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والا بنے.اب مثلاً قرآن کریم کا ایک حکم آپس میں محبت اور پیار کی فضا پیدا کرنا ہے اور دوسروں کو اچھی بات کہنا ہے، نرمی اور پیار سے بات کرنا ہے.چھتی ہوئی اور کڑوی بات نہ کرنے کا حکم ہے جس سے دوسروں کے جذبات کو تکلیف ہو.جیسا کہ فرمایا ہے قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا یعنی لوگوں سے نرمی اور پیار سے بات کیا کرو.ایسے طریقے سے جن سے کسی کے جذبات کو تکلیف نہ پہنچے.معاشرے میں اکثر جھگڑے زبان کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں.اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ اس عضو کو سنبھال لو تو جہنم سے بچ جاؤ گے.یہ بھی جہنم میں لے جانے کا ایک ذریعہ ہے.بعض لوگ بڑے نرم انداز میں باتیں کر دیتے ہیں جو کسی کی برائی ظاہر کر دے.یا بڑے آرام سے نرم الفاظ میں کوئی چھتی ہوئی بات کر دی.اور کہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو بڑے آرام سے بات کی تھی.دوسرا شخص ہی بھڑک گیا ہے.اس کو پتہ نہیں کیا تکلیف ہوئی.تو یہ چالاکیاں بھی کسی کے سامنے کہو گے تو شاید دنیا کے فیصلہ کرنے والوں کی نظر سے تو بچالیں گی لیکن اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اس کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.پس ایک احمدی کو باریکی میں جا کر اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.اگر آپ یہ کر لیں گے تو ان ملکوں میں بھی اور دنیا میں ہر جگہ جہاں احمدیوں کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، دلوں میں بغض اور کینے پلتے بڑھتے ہیں ان کی اصلاح ہو جائے گی.پس اپنی اصلاح کے لئے قرآن کریم کو غور سے پڑھیں اور اس کے احکامات کو زندگیوں کا حصہ بنائیں ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انذار کے نیچے بھی آسکتے ہیں.ایک روایت ہے حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خوفناک چیز کا ذکر کر کے فرمایا کہ ایسا اس وقت ہوگا جب دین کا علم مٹ جائے گا.میں

Page 575

خطبات مسرور جلد سوم 568 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! علم کیوں کر مٹ جائے گا جبکہ ہم قرآن پڑھ رہے ہیں اور اپنی اولا دکو پڑھا رہے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنی اولاد کو پڑھاتے رہیں گے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آفرین ہے زیاد! میں تمہیں مدینہ کا انتہائی سمجھدار آدمی سمجھتا تھا.کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہود ونصاری انجیل کی کتنی تلاوت کرتے ہیں مگر ان کی تعلیمات پر کچھ بھی عمل نہیں کرتے.(سنن ابن ماجة كتاب الفتن، باب ذهاب القرآن والعلم ) پس اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے دین کا علم دوبارہ قائم ہوا ہے.یہ روشنی اور نور ہمیں دوبارہ ملا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نور اور روشنی دوبارہ میسر فرمائی ہے.اگر اپنے آپ کو بدلیں گے نہیں تو صرف قرآن کریم پڑھنا کوئی فائدہ نہیں دے گا.اور پھر ایسے لوگوں سے جو عمل نہیں کرتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بیزاری کا اظہار فرمایا ہے کہ مجھ سے تمہارا کوئی حصہ نہیں.ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ کاٹے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اصل یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھایا ہے جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے ( اور آج دیکھ لیں کہ ان کا یہی حال ہے ہر جگہ سے ماریں پڑ رہی ہیں.ان کے ملکوں میں آ کر غیر ان کو مار رہے ہیں.صرف اس لئے کہ پابندی نہیں ہے) جس قدر وہ قرآن شریف سے دور جا رہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جارہے ہیں.قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے“.(ملفوظات جلد 4 صفحه 379.جدید ایڈیشن ) پس ہر احمدی اپنے جائزے لے غور کرے، گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے جائزے لے.مائیں بچوں کو شروع سے ہی اس کی اہمیت سے آگاہ کریں.ہر روز کی تلاوت کے بعد جائزہ لینا چاہئے کہ اس میں بیان کردہ جو حکم ہیں ، اوامر اور نواہی ہیں کرنے اور نہ کرنے کی باتیں ہیں.ہم کس حد تک ان پر عمل کر رہے ہیں.تبھی ہم اپنی اصلاح کی کوشش کر سکتے ہیں.پس دعا کے ساتھ

Page 576

خطبات مسرور جلد سوم 569 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں.قرآن شریف کے تمیں سپارے ہیں.اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پورا عملدرآمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے.مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے ( یعنی اس کی چابی اور طاقت دعا ہے ) دعا کو مضبوطی سے پکڑ لو.میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا“.(ملفوظات جلد نمبر 4 صفحه 149 جدید ایڈیشن) اللہ کرے کہ ہم جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے منسوب کرتے ہیں.آپ کی خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بھی بن جائیں اور اس کے حکموں پر عمل کرنے والے بھی ہوں.قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والے بھی ہوں.اس کے حکموں پر عمل کرنے والے بھی ہوں اور جہاں ہماری سمجھ میں اور ہمارے عمل میں روک پیدا ہو وہاں خدا کے آگے جھکیں اس کے حقیقی عابد بنتے ہوئے اس سے راہنمائی چاہیں.اس سے عرض کریں کہ اے خدا تو نے ہی کہا ہے کہ خالص ہو کر میرے آگے جھکو تو میں راہنمائی کروں گا اور ہدایت دوں گا.ہم ہدایت کے طلبگار ہیں.جب اس طرح دعائیں ہوں گی تو یقیناً اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا.یہ جلسے کے دن جن میں خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک روحانی ماحول میسر فرمایا ہے ان میں اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی بڑھائیں.حقیقی تقویٰ کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کریں ہم حاصل کرنے کی کوشش کریں، سمجھنے کی کوشش کریں.ان جلسے کے دنوں میں مختلف موضوعات پر تقاریر ہوں گی.جن کا محور تو وہی ایک ہوتا ہے کہ تقویٰ.ان سے بھی فائدہ اٹھا ئیں اور اپنے علاوہ اپنے بیوی بچوں کو بھی اس امر پر قائم کریں کہ ہم نے ان تین دنوں میں روحانیت میں ترقی کرنے

Page 577

خطبات مسرور جلد سوم کی کوشش کرنی ہے.570 خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے.اس لئے یہ نہ ہو کہ آپ لوگ جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے ہیں، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے ہیں.بعض واقف کافی دیر بعد ایک دوسرے کو ملے ہوں گے کہ اپنی محفلیں جما کر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں باتیں کرتے رہیں اور جلسے سے فائدہ نہ اٹھا ئیں.بلکہ جلسے سے ہر ایک کو جو شامل ہونے والا ہے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب بھر پور فائدہ اٹھائیں گے تو تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بھی بنیں گے.اللہ کرے کہ آپ سب اس جلسے کی برکات سے فیض حاصل کرنے والے ہوں.(آمین)

Page 578

خطبات مسرور جلد سوم 571 (37) خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء آنحضرت صلی اللہ علیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی مالی قربانی کی شاندار مثالیں جماعت احمد یہ ناروے کو مسجد کی تعمیر کے لئے تحریک خطبه جمعه فرموده 23 ستمبر 2005ء بمقام اوسلو.(ناروے) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی :.پھر فرمایا:.لَن تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (آل عمران : 93) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم کامل نیکی ہر گز نہیں پاسکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے خدا کے لئے خرچ نہ کرو.اور جو کوئی بھی چیز تم خرچ کرو، اللہ اسے یقیناً خوب جانتا ہے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے بنیادی حکموں میں سے ایک حکم ہے.قرآن کریم کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے نماز کے حکم کے ساتھ ہی مالی قربانی کے بارے میں بھی فرما دیا جیسا کہ فرمایا وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُون ﴾ (البقرة: 4) نماز کو قائم کرتے

Page 579

خطبات مسرور جلد سوم 572 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے ، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، جہاں اس کی عبادت کرنا ضروری ہے وہاں اس کی راہ میں اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرنا بھی ضروری ہے.اور یہی چیز ہے جس سے تزکیہ نفس بھی ہوتا ہے.مال سے محبت کم ہوتی ہے اور ایک مومن اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی وقتاً فوقتاً قومی ضرورت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تحریک فرماتے تھے.اور صحابہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے تھے.کیا مرد اور کیا عورتیں سب اپنے مال قربان کرتے تھے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں میں تحریک فرمائی کہ دین کو مالی قربانی کی ضرورت ہے تو حضرت بلال نے جو اپنی چادر پھیلائی ہوئی تھی وہ عورتوں کے زیورات سے بھر گئی.عورتیں انڈی پڑتی تھیں، ایک دوسرے پر گرتی پڑتی تھیں کہ جو کچھ ہے پیش کر دیں.ایک دفعہ آپ کی تحریک پر حضرت عمر اپنے گھر کا آدھا سامان لے کر حاضر ہوئے.اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کا کل اثاثہ اللہ اور اس کے رسول کے حضور پیش کرنے کے لئے لے آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ابو بکر ! گھر میں بھی کچھ چھوڑ کے آئے ہو؟ تو عرض کی : گھر میں اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں جس سے بڑھ کر کوئی اثاثہ نہیں ہے، جس سے بڑھ کر کوئی سامان نہیں ہے، جس سے بڑھ کر کوئی جائیداد نہیں ہے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جب میں اپنے گھر کا آدھا سامان لے کر حاضر ہوا تھا تو اس وقت میرا خیال تھا کہ آج میں ابوبکر سے آگے نکل گیا ہوں لیکن کہتے ہیں کہ ابو بکر کی بات سن کر میں نے سوچا کہ میں ابوبکر سے کبھی آگے نہیں نکل سکتا.جب آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﴾ (آل عمران: 93) نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ انصاری جو مدینہ کے انصار میں سے سب سے زیادہ مالدار تھے ، ان کے کھجوروں کے باغات تھے جن میں سب سے عمدہ باغ بیرحاء “ نامی تھا جو حضرت طلحہ کو بہت پسند تھا اور مسجد نبوی کے بالکل سامنے اور قریب تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وہاں تشریف

Page 580

خطبات مسرور جلد سوم 573 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء لے جایا کرتے تھے اور وہاں کے کنویں کا ٹھنڈا پانی پیا بھی کرتے تھے ، جو آپ کو بڑا پسند تھا.آیت نازل ہونے کے بعد حضرت ابوطلحہ انصاری آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یہ باغ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے.میں اسے اللہ کی راہ میں دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری اس نیکی کو قبول کرے گا اور میرے آخرت کے ذخیرے میں شامل کرے گا.تو صحابہ کی مالی قربانیوں کے یہ نمونے ہوتے تھے.(بخارى كتاب الاشربة ـ باب استعذاب الماء ) اس آیت کی وضاحت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تم حقیقی نیکی کو ( جو نجات تک پہنچاتی ہے ) ہرگز نہیں پاسکتے جب تک کہ بنی نوع کی ہمدردی میں وہ مال خرچ نہ کرو جو تمہارا پیارا مال ہے.“ ( اور وہ چیزیں خرچ نہ کرو جو تمہاری پیاری ہیں) اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 358) پھر آپ نے فرمایا: ” مال کے ساتھ محبت نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ﴾ کہ تم ہرگز نیکی کونہیں پاسکتے جب تک کہ تم اُن چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جن سے تم پیار کرتے ہو.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ آجکل کے حالات کا مقابلہ کیا جاوے تو اس زمانہ کی حالت پر افسوس آتا ہے.کیونکہ جان سے پیاری کوئی شے نہیں.اور اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان ہی دینی پڑتی تھی.تمہاری طرح وہ بھی بیوی اور بچے رکھتے تھے.جان سب کو پیاری لگتی ہے.مگر وہ ہمیشہ اس بات پر حریص رہتے تھے کہ موقع ملے تو اللہ کی راہ میں جان قربان کر دیں.(کلمه طیبه صفحه نمبر 14 تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام آل عمران آیت نمبر 93) پھر آپ فرماتے ہیں: ”برکار اور نکمی چیزوں کے خرچ سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا.نیکی کا دروازہ تنگ ہے.پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ یکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا.کیونکہ نص صریح ہے لنْ تَنَالُوا البِرَّحَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران: 93) جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے

Page 581

خطبات مسرور جلد سوم 574 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا.اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کا میاب اور بامراد ہو سکتے ہو.کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا.دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی ملتا ہے.پھر خیال کرو کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں.خدا ٹھگا نہیں جاتا.مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پروانہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی (رپورٹ جلسه سالانه 1897 صفحه 79 طبع اول) پس چودہ سو سال بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے اپنے ماننے والوں میں یہ انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی اور بہت سوں کے دلوں میں یہ انقلاب پیدا کیا جس کی وجہ سے مسیح محمدی کے ماننے والوں نے بھی پہلوں سے ملنے کی خوشخبری پائی اور رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کے انعام سے انعام یافتہ ہوئے.آج ہم احمدی بھی جو ان بزرگوں کی اولادیں ہیں اور خالصتا اللہ کی خاطران نیکیوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور جن کے کرنے کا اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر عہد کیا ہے.یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کے مطابق دائمی اور ہمیشہ رہنے والا زمانہ ہے اور خلافت حقہ کے ذریعہ اس نے تا قیامت جاری رہنا ہے.اس لئے اس تعلیم کے ذریعہ سے جس کی چند جھلکیاں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات سے پیش کی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کیں اور قربانی کے اعلیٰ نمونے قائم کئے اُن تبدیلیوں کو ہم نے اس زمانے میں جاری رکھنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہماری بچت اسی میں ہے کہ ہم اس

Page 582

خطبات مسرور جلد سوم 575 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء کی راہ میں اپنا بہترین مال پیش کریں، اس کی رضا حاصل کریں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انْفِقُوْا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرو.یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہو گا.یعنی تمہارے اپنے لئے بھی یہ بہتر ہے کیونکہ تم جو مال خرچ کرو گے اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہارے سے راضی ہوگا، تمہیں مزید نیکیوں کی توفیق ملے گی.بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بعد تم اپنے یا اپنے گھر پر یا اپنی اولاد پر جو خرچ کرو گے اس میں بھی برکت پڑے گی.تمہارے تھوڑے مال میں بھی خدا تعالیٰ اتنی برکت رکھ دے گا جو تم پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کر رہی ہو گی.تمہارے بچوں میں اور ان کی تربیت میں بھی اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا.غرض کہ یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں تم سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے.جیسا کہ فرمایا وَمَنْ يُوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (الحشر : 10) اور جولوگ اپنے دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں.پس اگر فلاح پانی ہے، کامیابی حاصل کرنی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اگر اپنے مالوں اور اولادوں میں برکت ڈالنی ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں کبھی کنجوسی اور بخل سے کام نہ لو.آج اس بخل سے بچنے کی احمدی کو سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد مالی قربانی کا زیادہ فہم اور ادراک حاصل ہوا ہے.اور اللہ تعالیٰ مالی قربانی کرنے والوں کو کس طرح کامیاب فرماتا ہے؟ فرمایا کہ اِن تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْلَكُمْ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ ﴾ (التغابن: 18).اگر اللہ کو قرضہ حسنہ دو گے تو وہ اُس کو تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہارے لئے بخشش کے سامان پیدا کرے گا اور اللہ بہت قدردان اور ہر بات کو سمجھنے والا ہے.پس یہ مالی قربانی قرضہ حسنہ ہے.اللہ کو بظاہر مال کی ضرورت نہیں ہے.یہ ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ اللہ کس طرح قدر کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو قربانی ہے کیونکہ یہ تم نے میری خاطر کی ہے.اس لئے میں اسے تمہیں واپس لوٹاؤں گا.اور اللہ تعالیٰ سب قدر کرنے والوں سے زیادہ قدر کرنے والا ہے.اس لئے اس کو کئی گنا بڑھا کر لوٹاتا ہے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

Page 583

خطبات مسرور جلد سوم 576 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ کر کے لوٹاتا ہے.تو یہ قرضہ حسنہ کیا ہے؟ یہ تو ایک تجارت ہے اور تجارت بھی ایسی جس میں سوائے فائدے کے کچھ ہے ہی نہیں.اس لئے کسی بھی قربانی کرنے والے کو کبھی یہ خیال نہ آئے کہ میں نے خدا پر کوئی احسان کیا ہے.اور صرف مالی لحاظ سے یا دنیاوی لحاظ سے ایسے قربانی کرنے والوں کے حالات اللہ تعالیٰ ٹھیک نہیں کرتا بلکہ فرمایا کہ تمہارے جود نیاوی فائدے ہونے ہیں وہ تو ہونے ہیں ہمیں گناہ بھی بخش دوں گا.انسان گناہوں کا پتلا ہے ایک دن میں کئی کئی گناہ سرزد ہو جاتے ہیں، کئی کئی غلطیاں ہو جاتی ہیں.ایک تو ان قربانیوں کی وجہ سے ان گناہوں سے بچے رہو گے، نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے گی.دوسرے جو غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہو گئی ہیں، اللہ کی راہ میں قربانی کر کے ان کی بخشش کے سامان بھی پیدا کر رہے ہو گے.پس اس طرف توجہ کرو اور اللہ کے فضلوں کے وارث ٹھہرو.اللہ تعالیٰ کس طرح ان قربانی کرنے والوں کو نوازتا ہے، اس بارے میں ایک حدیث سے روشنی پڑتی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر صبح دوفرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.دوسرا کہتا ہے اے اللہ ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاک کر اور اس کا مال و متاع بر باد کر دے.(بخارى كتاب الزكوة باب قول الله فاما من اعطى و اتقى.......تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے لئے فرشتے بھی دعا کر رہے ہوتے ہیں.یہ فرشتوں کی دعا کا انتظام اللہ تعالیٰ نے اس لئے کیا ہے کہ وہ قربانی کرنے والوں کی قدر کرتا ہے.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اپنے فضل نازل کرنے کے طریقے ہیں.اس حدیث نے تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا دیا کہ ایک طرف تو خدا تعالی مالی قربانی کرنے والوں کی قدر کرتا ہے، ان کی بخشش کے سامان پیدا فرماتا ہے، ان کے مال میں اضافہ کرتا ہے، ان کے نفوس میں برکت ڈالتا ہے.دوسری طرف بخیل اور کنجوس اور دنیا داروں کو نہ صرف ان برکات سے محروم کر رہا ہوتا ہے بلکہ ایسے مواقع بھی آجاتے ہیں کہ جو ان کے پاس ہے اس دنیا میں بھی اس سے محروم کر دیتا ہے.اور آخرت

Page 584

خطبات مسرور جلد سوم 577 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء میں بھی اس کی ہلاکت کے سامان ہورہے ہوتے ہیں.ایک سخی اور مالی قربانی کرنے والے کے جنت میں جانے اور بخیل کے دوزخ کے قریب ہونے کے بارے میں ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھی اللہ کے قریب ہوتا ہے، لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا ہے اور دوزخ سے دور ہوتا ہے.اس کے برعکس بخیل اللہ سے دور ہوتا ہے، لوگوں سے دور ہوتا ہے، جنت سے دور ہوتا ہے لیکن دوزخ کے قریب ہوتا ہے.فرمایا: ان پڑھ ینی بخیل عابد سے اللہ کی راہ میں زیادہ محبوب ہے..(الرسالة القشيرية ، باب الجود والسخاء) آدمی بڑی عبادتیں کرنے والا بھی ہے لیکن کنجوس ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں اتنا محبوب نہیں جتنا ایک سخی ہے چاہے کم عبادتیں بھی کر رہا ہو.عبادتیں تو کم نہیں ہوں گی.اللہ تعالیٰ فیق دیتا ہے کہ پھر عبادتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں.پھر اللہ تعالیٰ دنیاوی لحاظ سے بھی کسی طرح نوازتا ہے اور مال میں برکت دیتا ہے، کس طرح قرضہ حسنہ کو لوٹا تا ہے.اس بارے میں ایک روایت ہے.کئی بارسنی ہوگی.لیکن جب مالی قربانیوں کا وقت آتا ہے اس وقت اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کا یوں ذکر فرمایا ہے کہ ایک آدمی جنگل میں جار ہا تھا.آسمان پر بادل تھے.اتنے میں اس نے بادلوں میں سے آواز سنی کہ اے بادل ! فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر دے.وہ بادل اس طرف چلا گیا.وہ آدمی جس نے یہ آواز سنی تھی وہ بادل کے اس ٹکڑے کے پیچھے پیچھے گیا تو دیکھا کہ وہ ایک پتھریلی زمین پہ برس رہا ہے.ایک چٹان ہے، پہاڑی سی ہے وہاں بادل برس رہا ہے اور پھر ایک نالے کی صورت میں وہ پانی اکٹھا ہو کے بہنے لگا.وہ شخص بھی نالے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تو دیکھا کہ وہ نالہ ایک باغ میں داخل ہوا اور باغ کا مالک اس پانی کو بڑا سنبھال کے، طریقے سے، جہاں جہاں باغ میں پانی کی ضرورت تھی وہاں لگارہا تھا.تو اس آدمی نے جس نے یہ آواز سنی تھی باغ کے مالک سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے.اس نے وہی

Page 585

خطبات مسرور جلد سوم 578 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء نام بتایا جو اس نے بادلوں سے سنا تھا.باغ کے مالک نے نام پوچھنے کی وجہ پوچھی.تو اس نے بتایا کہ اس طرح میں نے بادل سے آواز سنی تھی.وہ کون سا نیک عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تم پر اتنا مہربان ہے.باغ کے مالک نے کہا کہ میرا یہ طریق کار ہے کہ باغ سے جو بھی آمد ہوتی ہے اس کا ایک تہائی (1/3 حصہ ) خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہوں.اور 1/3 حصہ اپنے اہل وعیال کے گزارے کے لئے ، گھر کے خرچ کے لئے رکھ لیتا ہوں اور 1/3 حصہ دوبارہ اس باغ کی نگہداشت اور ضرورت کے خرچ وغیرہ کے لئے رکھ لیتا ہوں.(مسلم - كتاب الزهد.باب فضل الاتفاق على المساكين وابن السبيل) تو اس 113 کی قربانی کی وجہ سے دیکھیں اللہ تعالیٰ اس شخص پر کس قدر فضل فرمارہا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میری خاطر قربانی کرتے ہیں ان کو بغیر اجر کے نہیں جانے دیتا.دیکھیں کس کس طرح نوازتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے آپ کے ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ نے قربانیوں کا فہم اور ادراک عطا فرمایا ہے اور حیرت انگیز طور پر انہوں نے قربانیوں کے معیار قائم کئے ہیں.اس بارے میں اپنے صحابہ کی مثال دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” ایسا ہی ہمارے دلی محبت مولوی محمد احسن صاحب امروہی جو اس سلسلہ کی تائید کے لئے عمدہ عمدہ تالیفات میں سرگرم ہیں.اور صاحبزادہ پیر جی سراج الحق صاحب نے تو ہزاروں مریدوں سے قطع تعلق کر کے اس جگہ کی درویشانہ زندگی قبول کی.اور میاں عبداللہ صاحب سنوری اور مولوی برہان الدین صاحب جہلمی اور مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی اور منشی چودہری نبی بخش صاحب بٹالہ ضلع گورداسپورہ ، اور منشی جلال الدین صاحب یلانی وغیرہ احباب اپنی اپنی طاقت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں.میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں.وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری

Page 586

خطبات مسرور جلد سوم 579 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء چندہ میں شریک ہیں.ان کے دوست میاں عبد العزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے که با وجود قلت معاش کے ایک دن سور و پیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے.وہ سور و پیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہوگا.مگر یہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا.( ضمیمه انجام آتهم.روحانی خزائن جلد 11 صفحه 314٬313 حاشیه) اب دیکھیں ! مالی قربانی کرنے کے علاوہ بھی جو وہ ریگولر (Regular) کیا کرتے تھے انہوں نے قربانیوں کے معیار قائم کئے.اُس زمانے کا جو سو روپیہ ہے وہ آجکل شاید لاکھ روپے بلکہ میں نے حساب کیا ہے اگر گندم کی قیمت کا حساب لیں تو لاکھ روپے سے بھی زیادہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کے قریب بنتا ہے.پس آج کے کمانے والے اس زمانے کی کمائی کو دیکھیں.ان میں سے بہت سارے بزرگ ہیں جن کی اولادیں یہاں بھی ہیں.یورپ میں ، دوسرے ملکوں میں اچھا کمانے والی ہیں.بڑے اچھے حالات میں ہیں.اور آج اپنی کمائی کو دیکھیں اور پھر اپنی قربانی کے معیاروں کا بھی اندازہ لگائیں.پھر ایک خادم کے تعلق میں جو ہر وقت قربانی کے لئے تیار رہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ: جبی فی اللہ منشی محمد اروڑا نقشہ نویس مجسٹر یٹی.منشی صاحب محبت اور خلوص اور ارادت میں زندہ دل آدمی ہیں.سچائی کے عاشق اور سچائی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں.خدمات کو نہایت نشاط سے بجالاتے ہیں.بلکہ وہ تو دن رات اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت مجھ سے صادر ہو جائے.عجیب منشرح الصدر اور جان نثار آدمی ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ ان کو اس عاجز سے ایک نسبت عشق ہے.شاید ان کو اس سے بڑھ کر اور کسی بات میں خوشی نہیں ہوتی ہوگی کہ اپنی طاقتوں اور اپنے مال اور اپنے وجود کی ہر یک توفیق سے کوئی خدمت بجالا ویں.وہ دل و جان سے وفادار اور مستقیم الاحوال اور بہادر آدمی ہیں.خدائے تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 532)

Page 587

خطبات مسرور جلد سوم 580 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء پھر منشی ظفر احمد صاحب کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی ضرورت کے لئے رقم کا اظہار فرمایا کہ ان کی جماعت ادا کر سکتی ہے تو وہ لینے کے لئے گئے اور گھر جا کر بیوی کا زیور بیچ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں وہ رقم پیش کر دی اور یہ نہ بتایا کہ یہ رقم کہاں سے حاصل ہوئی ہے، کس طرح حاصل ہوئی ہے.کچھ عرصے بعد جب ان کے دوسرے ساتھیوں کو علم ہوا تو بڑے ناراض ہوئے کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا، ہمیں کیوں ثواب سے محروم رکھا.تو یہ جذبے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے زمانے میں اپنے ماننے والوں میں پیدا کئے.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب جو حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کے خسر تھے اور حضرت ام ناصر کے والد تھے ، ان کے بارے میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ قربانی میں اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اگر یہ کچھ نہ بھی دیں تب بھی ان کے قربانی کے وہ معیار جو پچھلے ہو چکے ہیں بہت اعلیٰ ہیں ، وہ ہی کافی ہیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی مقصد کے لئے تحریک فرمائی تو انہوں نے (ڈاکٹر صاحب نے ) اپنی تنخواہ جو اس وقت ان کو ملی تھی فوری طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پوری کی پوری بھجوادی.اُن کے قریب جو کوئی موجود تھے انہوں نے کہا کہ کچھ اپنے خرچ کرنے کے لئے بھی رکھ لیں ، آپ کو بھی ضرورت ہوگی.انہوں نے کہا کہ آج خدا کے مسیح نے دین کی ضرورت کے لئے رقم کا مطالبہ کیا ہے.میری ضرورتیں دینی ضرورتوں سے بڑھ کر نہیں ہیں.اس لئے یہ ساری کی ساری رقم جو میرے پاس موجود ہے فوری طور پر بھجوا رہا ہوں.غرض کہ ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کئے.ایک دفعہ کسی نے اعتراض کیا کہ حضرت خلیفہ اول کے بعد کوئی ایسا نہیں ہے جو اتنی قربانی کرنے والا ہو تو اس معترض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: "آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک حکیم مولوی نورالدین صاحب اس جماعت میں عملی رنگ

Page 588

خطبات مسرور جلد سوم 581 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء رکھتے ہیں.دوسرے ایسے اور ایسے ہیں.میں نہیں جانتا کہ آپ اس افتراء کا خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی زندگی کی یہ بات کر رہے ہیں.اور آج اللہ کے فضل سے یہ تعداد کہیں کی کہیں پہنچی ہوئی ہے ) اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیروان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقا داور صلاحیت کا نور پاتا ہوں.ہاں شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص اور صلاحیت میں کم رہا ہوتو وہ شاذ و نادر میں داخل ہے.میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے.ہزار ہا آدمی دل سے فدا ہیں.اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہو جاؤ تو وہ دستبردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں.پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگر دل میں خوش ہوتا ہوں.(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه 165 ایڈیشن دوم مطبوعه 1935ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں جو پاک تبدیلی پیدا کی اس کی نظیر نہیں ملتی ، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.اور ہر زمانے میں قربانی کرنے والے پیدا ہوتے رہے.ان میں امیر بھی ہیں اور غریب بھی ہیں.خلافت ثانیہ میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مالی تحریک فرمائی تو ہر طبقہ نے لبیک کہا.ایک بڑھیا جس کا گزارا بھی مشکل سے ہوتا تھا.شاید امداد سے ہوتا تھا یا چند ایک مرغیاں رکھی ہوئی تھیں، ان کے انڈے بیچتی تھی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے پاس آئی اور عرض کی کہ میری جو یہ ایک دو مرغیاں ہیں ان کے انڈے بیچ کر یہ تھوڑے سے پیسے حضور کی خدمت میں اس تحریک کے لئے لائی ہوں.دیکھیں اس عورت کا جذ بہ جواس نے خلیفہ وقت کی طرف سے کی گئی تحریک میں پیچھے رہنا گوارا نہیں کیا.یقینا اس کے اس جذبے کی وجہ سے اس کے جو چند پیسے یا جو چند انڈے تھے خدا تعالیٰ کے نزدیک کروڑوں

Page 589

خطبات مسرور جلد سوم 582 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء روپوں سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے.اور یہ واقعات ہر زمانے میں ہوتے ہیں.آج بھی ایسی عورتیں ہیں جوقربانیوں کی اعلیٰ مثال قائم کرتی ہیں.ایک خاتون نے اپنا بہت سا زیور خلافت رابعہ کی مختلف تحریکات میں دے دیا تھا.میری طرف سے بھی جب بعض تحریکات ہوئیں تو پھر کچھ زیورات جو باقی بچے ہوئے تھے وہ دے دیئے تھے.پھر ان کو کچھ زیورات تحفہ ملے یا دوبارہ بنائے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دیئے.اسی طرح مردوں میں سے بھی بہت قربانیاں کرنے والے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی توفیق سے بڑھ کر قربانیاں کی ہیں.تو قربانی کے یہ معیار آج اللہ تعالیٰ نے صرف جماعت احمدیہ میں ہی قائم فرمائے ہوئے ہیں.اور صرف یہی نہیں ہے کہ کسی پاکستانی یا ہندوستانی کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ باپ دادا صحابی تھے اس لئے ہماری نسلوں میں بھی قربانی کے وہ معیار چل رہے ہیں.بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ، ہر قوم میں ، قربانی کی مثالیں قائم ہو رہی ہیں.افریقہ میں وہاں کے غریب لوگ بھی آج اپنی مرغیاں یا مرغیوں کے انڈے یا ایک آدھ بکری جو ان کے پاس ہوتی ہے وہ لے کر آتے ہیں کہ پیسے تو نقد ہمارے پاس ہیں نہیں ، یہ ہمارے چندے میں کاٹ لیں.پھر افریقنوں میں ایسے خوشحال مرد اور عورتیں بھی ہیں جنہوں نے بڑی بڑی مالی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں.مسجدوں کے لئے پلاٹ خریدے.مسجد میں بنائیں اور کافی بڑی رقم سے بڑی بڑی مسجد میں بنائیں.ابھی اسی سال افریقہ کے ایک ملک میں ایک عورت نے ایک بڑی خوبصورت مسجد بنا کر جماعت کو پیش کی ہے.تو یہ انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد ان لوگوں میں آیا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے، ہزار ہا آدمی دل سے فدا ہیں.اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہو جائیں تو وہ دستبردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیاری جماعت نے یہ نمونے حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی قائم نہیں کئے بلکہ آج بھی یہ نمونے قائم ہیں.اور یقیناً یہ ان دعاؤں کے پھل ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں.جب بھی

Page 590

خطبات مسرور جلد سوم 583 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء کوئی مالی تحریک ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان پیاروں نے ہمیشہ لبیک کہا.اس سلسلے میں آج میں بھی آپ کو، ناروے کی جماعت کو، ایک مالی تحریک کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، ایک ایسی مالی تحریک جس کا دوہرا ثواب ہے.جس سے آپ جنتوں کے دوہرے وارث ہو رہے ہیں.ایک تو مالی قربانی کر کے اور دوسرے اُس خاص مقصد کے لئے قربانی کر کے جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس نے اپنے لئے جنت میں گھر بنالیا.فرمایا جومسجد تعمیر کرتا ہے وہ ویسا ہی گھر اپنے لئے جنت میں بناتا ہے.جماعت احمد یہ ناروے نے چند سال پہلے اپنی ضرورت کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی اجازت سے بلکہ شاید حضور رحمہ اللہ کے کہنے پر ہی.( بہر حال مجھے اس وقت مستحضر نہیں ہے).ایک مسجد بنانے کا وعدہ کیا تھا.لیکن بدقسمتی سے یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا.ہر ایک نے دوسرے پر الزام دینے کی کوشش کی، بہر حال یہ ایک لمبی کہانی ہے.اور سوائے بیسمنٹ (Basement) کے جوابھی آتے ہوئے میں نے دور سے ہی دیکھی ہے.اور وہ بھی اب کافی بُری اور نا گفتہ بہ حالت میں ہے کچھ تعمیر نہیں ہو سکا.اس میں کوئی شک نہیں کہ افراد جماعت نے بہت مالی قربانیاں کی ہیں لیکن شاید اپنی طاقت سے بڑھ کر منصو بہ بنالیا تھا اس لئے پورا نہیں کر سکے.ایک احمدی جب ایک دفعہ عہد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ وعدہ کرتا ہے تو پھر اس کو پورا کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے.اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.لیکن شاید آپ لوگوں کی اس طرف پوری طرح توجہ نہیں ہوئی یا صحیح طریقے سے یاد دہانی نہیں کروائی گئی.یہ احساس نہیں ہوا کہ اگر یہ مسجد نہ بنی تو ایک عہد کو پورا نہ کرنے کے علاوہ ہم دنیاوی نقصان بھی اٹھا رہے ہیں.کیونکہ اس پر جو کچھ بھی بن چکا ہے یا زمین وغیرہ خریدی اس پر بھی کافی رقم خرچ ہو چکی ہے.اور پھر کیونکہ استعمال کے قابل جگہ نہیں ہے اس لئے وہ ضائع بھی ہورہی ہے.دوسرے کونسل نے بھی کئی دفعہ سوال اٹھایا ہے اور دوسری تنظیمیں بھی جو نہیں چاہتیں کہ جماعت یہاں مسجد بنائے، یہ جگہ وہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں.مختلف اوقات میں اخباروں وغیرہ میں شور مچاتے رہتے ہیں.یا اور طریقوں سے شور مچاتے

Page 591

خطبات مسرور جلد سوم 584 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء رہے ہیں.اور جو خرچ اب تک ہو چکا ہے وہ اس قدر ہے کہ اگر آپ اس کو بیچیں تو وہ قیمت نہیں مل سکتی.اس لئے یہ محاورہ ہے ناں کہ نہ نگلے بنے نہ اُگلے بنے.یہ وہی ہو رہا ہے.لیکن مجھے یقین ہے اور جماعت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جماعت کے افراد اور جماعت نے جب بھی ایک منصوبے کے تحت ایک ہو کر ، ایک عزم کے ساتھ کسی کام کو شروع کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر اسے انجام تک پہنچایا ہے.اگر آپ بھی اب اس کام کو پختہ ارادے سے شروع کریں تو یہ مسجد یقیناً بن سکتی ہے.میں نے آپ میں سے مردوں، عورتوں، بچوں ، نوجوانوں کی اکثریت کے چہرے پر اخلاص و وفا کے جذبات دیکھے ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ آپ کے اخلاص و وفا میں کمی ہے یا کسی سے بھی کم ہیں.بعض ذاتی کمزوریاں ہیں اُن کو دور کریں.ایک دوسرے سے تعاون کرنا سیکھیں.مضبوط ارادہ کریں تو اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر آپ کی مدد فر مائے گا.اور اپنے وعدوں کے مطابق ایسے ذریعوں سے آپ کے رزق کے اور آپ کے کاموں کی تکمیل کے اور آپ کے اس وعدے کو پورا کرنے کے سامان پیدا فرمائے گا کہ جس کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے.جو کمزور ہیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلیں.اُن کو بھی بتائیں کہ خدا کا گھر بنانے کے کیا فوائد ہیں.جو قربانیاں کر رہے ہیں وہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے عہدوں کی نئے سرے سے تجدید کرتے ہوئے ، نئے سرے سے پلاننگ کریں، سب سر جوڑ کر بیٹھیں ، ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کریں.آج جب دنیا میں ہر جگہ مسجدوں کی تعمیر ہو رہی ہے، ہر جگہ جماعت کی ایک خاص توجہ پیدا ہوئی ہے.آج جب دشمن جہاں اس کا زور چلتا ہے ہماری مسجدوں کو نقصان پہنچانے اور ان کو بند کروانے کی کوشش کر رہا ہے.ان ملکوں میں جہاں امن ہے جہاں آپ کے مالی حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں ، جہاں خدا کے نام کو ہر شخص تک پہنچانے کی انتہائی ضرورت ہے، آج جہاں اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اسلام کے نور کو پھیلانے کی ضرورت ہے.اگر بہتر حالات میسر ہونے کے بعد بھی آپ نے خدا کے اس گھر اور اس کے روشن میناروں کی تعمیر نہ کی تو یہ ناشکری ہوگی.یاد رکھیں یہ آخری موقع ہے اگر اس دفعہ بھی اور اجازت

Page 592

خطبات مسرور جلد سوم 585 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء ملنے کے بعد ابھی آپ لوگ اسے تعمیر نہ کر سکے تو پھر زمین بھی ہاتھ سے نکل جائے گی اور جو ر تم اب تک اس پہ خرچ ہوئی ہے وہ بھی ضائع ہو جائے گی اور جماعت کے وقار کو بھی دھکہ لگے گا.پس آج ایک ہو کر اس گھر کی تعمیر کریں، اس تعمیر سے جہاں آپ جماعت کے وقار کو روشن کر رہے ہوں گے وہاں اپنے لئے خدا کی رضا حاصل کرتے ہوئے جنت میں گھر بنا رہے ہوں گے.اور یاد رکھیں کہ ہر بڑے کام کے لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے.دعاؤں کے ساتھ اس قربانی کے لئے تیار ہوں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا.یا درکھیں اگر یہ موقع آپ نے ضائع کر دیا تو آج نہیں تو کل جماعت احمدیہ کی کئی مساجد اس ملک میں بن جائیں گی.لیکن احمدیت کی آئندہ نسلیں ، اس جگہ سے گزرتے ہوئے آپ کو اس طرح یاد کریں گی کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جماعت کو مسجد بنانے کا موقع میسر آیا لیکن اس وقت کے لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا اور یہ جگہ ہاتھ سے نکل گئی.اللہ نہ کرے کہ کبھی وہ دن آئے جب آپ کو تاریخ اس طرح یاد کرے.اللہ کرے کہ آپ ہمیشہ ان لوگوں میں شمار ہوں جن کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ دل سے فدا ہیں.ہمیشہ آپ فدائیت کے نمونے دکھانے والے ہوں.پس نو جوان بھی توجہ کریں، بوڑھے بھی توجہ کریں، عورتیں بھی توجہ کریں، بچے بھی اپنے والدین کے پیچھے پڑیں کہ جلد سے جلد اس مسجد کی تعمیر کریں.آپ کے اخلاص و وفا کے بارے میں میں نے پہلے بھی کہا کہ مجھے کوئی شبہ نہیں ہے صرف توجہ کی ضرورت ہے.گزشتہ سال جب میں نے جلسہ برطانیہ پر وصیت کی تحریک کی تھی تو اس جماعت میں صرف 67 موصی تھے اور ایک سال میں تقریباً ڈ گنے مزید اس میں شامل ہو گئے اور 191 کی تعداد ہوگئی.کل چندہ دہند آپ کے تقریباً 500 ہیں ہو سکتا ہے جلدی آپ نصف تک بھی پہنچ جائیں.یہ بات یقیناً اس بات کی دلیل ہے کہ آپ لوگ مالی قربانیاں کرنے میں پیچھے رہنے والے نہیں ہیں.اخلاص و وفا میں پیچھے رہنے والے نہیں ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ توجہ کی ضرورت ہے.اگر سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ایک ہو کر کام کریں گے تو یقینا اس میں برکت پڑے گی.

Page 593

خطبات مسرور جلد سوم 586 خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2005ء اللہ کرے کہ آپ میں سے ہر ایک آج یہاں سے اس ارادے کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ اٹھے کہ چاہے جو مرضی ہو جائے، چاہے جو مرضی مجھ پر بیت جائے ہم نے اب اللہ تعالیٰ کے اس گھر کو تعمیر کرنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.谢谢谢

Page 594

خطبات مسرور جلد سوم 587 (38) خطبہ جمعہ 30 ستمبر 2005ء دعوت الی اللہ اور ہماری ذمہ داریاں خطبہ جمعہ فرمودہ 30 ستمبر 2005ء بمقام ننسپٹ (ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:.پھر فرمایا:.وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (حم السجدة: 34) اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو فرمانبرداروں میں سے ہوں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم لوگ جو ایمان لے آئے ہو اور دین کی کچھ شدھ بدھ رکھتے ہو اور یہ دعویٰ کرتے ہو کہ مسلمان ہو گئے ہوا گر تم حقیقت میں مسلمان ہو اور نام کے مسلمان نہیں بلکہ کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا جذبہ رکھتے ہوئے تم نے اسلام قبول کیا ہے تو یاد رکھو کہ تم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اور ان میں سے ایک ذمہ داری تبلیغ دین بھی ہے.اور تبلیغ بھی اس وقت فائدہ مند ہوگی، اس وقت اس کو بھی پھل لگیں گے جب تمہارے عمل بھی نیک ہوں گے.

Page 595

خطبات مسرور جلد سوم 588 خطبہ جمعہ 30 ستمبر 2005ء پس ایک احمدی جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے اس زمانے کے حکم اور عدل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس لئے مانا ہے کہ میں کامل فرمانبرداروں میں شمار کیا جاؤں، اس لئے مانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کروں، اس لئے مانا ہے کہ آج خدا تک پہنچنے کا راستہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہی دکھایا ہے تو پھر ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے که تمام فیض بھی تبھی حاصل کر سکتے ہیں جب ان تمام حکموں پر بھی عمل کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے اور جن کی طرف اس زمانے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے توجہ دلائی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میرا پیغام تمام دنیا کو پہنچا دو اور آپ کو سب سے بڑا داعی الی اللہ قرار دیا تھا.فرماتا ہے ﴿دَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيرا ( الاحزاب: (47) یعنی اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور ایک چمکتا ہوا سورج بنا کر بھیجا ہے.پس اس چمکتے ہوئے سورج نے ہر طرف اللہ تعالیٰ کی تعلیم کی روشنی پھیلائی اور اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کر دیا.اور اندھیروں کو دور کیا.جہاں آپ نے دعوت الی اللہ کر کے خودان اندھیروں کو دور کیا وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کہ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ ﴾ (حم السجدة: 34 اپنے ماننے والوں کو بھی یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو آگے پہنچاتے رہو.اور تم دنیا میں جو بھی بات کرتے ہو ان میں سب سے زیادہ پیاری اور خوبصورت وہ باتیں ہوتی ہیں جب تم اللہ تعالیٰ کا پیغام دوسروں تک پہنچارہے ہوتے ہو.لیکن ساتھ یہ بات بھی ہر وقت ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ دعوت الی اللہ اور تبلیغ بھی اس وقت ہی اللہ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک نیکی شمار ہوگی جب تمہارے عمل بھی نیک ہوں گے.ورنہ تو گنہگار ہو گے.ایسی تبلیغ میں برکت ہی نہیں ہوگی جب اپنے عمل اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق نہ ہوں.تمہاری باتیں سن کر ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر کوئی متاثر ہو جائے لیکن جب تمہارے درمیان میں آ کر تمہارے میں شامل ہو کر تمہارے عمل دیکھے گا تو اگر اس شخص پر جو شامل ہوا ہے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو، تو ہوسکتا ہے کہ جو بات کچھ کر رہے ہوں، عمل کچھ کر رہے ہوں ان کے عملوں کی وجہ سے ان کو دھکا لگے اور وہ کہے کہ ٹھیک ہے تعلیم اچھی ہے اس پر مجھے عمل

Page 596

خطبات مسرور جلد سوم 589 خطبہ جمعہ 30 ستمبر 2005ء کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں تسلیم کرتا ہوں کہ بہت خوبصورت تعلیم ہے.لیکن جماعت میں مجھے شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے.کیونکہ اس میں شامل بہت سوں کے اپنے عمل، اس تعلیم کے خلاف ہیں، اس تعلیم سے مختلف ہیں.اس سفر میں ، سکنڈے نیوین ممالک میں مجھے ایک خاتون نے کہا ، وہ احمدیت کے کافی قریب ہیں کہ میں جماعت کو بہت اچھا سمجھتی ہوں.جمعہ بھی آ کے اکثر ہمارے ساتھ ہی پڑھتی ہیں.لیکن بیعت نہیں کرنا چاہتیں.کیونکہ انہوں نے کہا کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ بعض عورتوں کی باتیں اور ایک دوسرے کے خلاف بولنا ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک غیر احمدی عورت میں ہے تو کیا ضرورت ہے کہ میں جماعت میں شامل ہوں.کبھی میں سوچتی ہوں کہ بیعت کرلوں، کبھی سوچتی ہوں نہ کروں، عجیب مخمصے میں پڑی ہوئی ہوں.اس لئے دعوت الی اللہ کے ساتھ نیک اعمال کا بہت جوڑ ہے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.ورنہ باوجود اس کے کہ بات اچھی ہو گی، لیکن اپنے بدنمونے کی وجہ سے نیک نتائج پیدا نہیں ہوتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ تمہاری علمی دلیلیں تمہارے تبھی کام آئیں گی جب تمہارے عمل بھی نیک ہوں گے.اور نیک عمل وہ ہیں جو دوسروں کو کھینچتے ہیں.پس آج میں اپنے اس مختصر سے خطبے میں ( کیونکہ ابھی میں نے سفر کرنا ہے ) اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ایک تو دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دیں.یہاں ہالینڈ کے لوگ ، بعض یہاں شدت پسند بھی ہیں لیکن بہت تھوڑے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف ہیں.یہاں بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو دین سے دلچسپی بھی رکھتی ہے اور اسلام کے بارے میں سننا بھی چاہتی ہے.یہ چھوٹا سا ملک ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ لوگوں کی اکثریت بھی شریف ہے.پھر یہاں دوسرے ملکوں کے بعض لوگ ، عرب ممالک سے بھی آکر یہاں آباد ہوئے ہیں.اگر آپ لوگ پروگرام بنا کر ان میں تبلیغ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے عمل بھی ان کو متاثر کرنے والے ہوں تو یہاں مقامی لوگوں میں بھی اور مختلف قومیتوں میں بھی آپ کو کامیابیاں حاصل ہوسکتی ہیں.اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچائیں.ایسا پیغام جو ثمر آور ہو جس میں پھل لگنے ہوں.وہ

Page 597

خطبات مسرور جلد سوم 590 خطبہ جمعہ 30 ستمبر 2005ء پیغام پہنچانے کے لئے مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ موقعے میسر آ سکتے ہیں.عموماً ہم سمجھتے ہیں کہ صرف مہینے میں یا کبھی کبھار ایک آدھ سٹال لگا لیا یا نمائش وغیرہ ہوئی تو اس میں سٹال لگالیا تو یہی تبلیغ کا ذریعہ ہے اور کافی ہے.ٹھیک ہے یہ ایک ذریعہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس ذریعہ سے تبلیغ فرمایا کرتے تھے.حج کے موقعوں پر یا دوسرے میلوں کے موقعوں پر آپ جاتے تھے اور تبلیغ کرتے تھے، آپ کو بڑی سختیاں بھی جھیلنی پڑیں.لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے راستے ہیں.آپ نے تبلیغ کا ہر راستہ اپنایا.یہاں مثلاً دیہاتوں میں رابطے بڑھائیں.دیہاتوں میں نسبتاً شریف آدمی ہوتے ہیں.پھر عرب وغیرہ جو یہاں مختلف جگہوں سے مختلف ملکوں سے آ کر آباد ہوئے ہیں ان میں جائیں.یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جو بچے پڑھتے ہیں، ہمارے سٹوڈنٹ پڑھتے ہیں ، وہ وہاں سیمینار وغیرہ کریں.اکثر ملکوں نے اس طرف توجہ دی ہے اور دے رہے ہیں اور ان جگہوں پر اسلام کا جو صیح حقیقی اسلام ہے اور جو اسلام کی اصل خوبصورت تعلیم ہے اس کا تعارف حاصل ہو رہا ہے.ڈنمارک ایک چھوٹا سا ملک ہے، جماعت کی تعداد بھی شاید آپ کی جماعت سے کم ہی ہو.وہاں بھی میرے دورہ کے موقع پر نوجوان لڑکوں نے جو مختلف پیشوں سے بھی وابستہ تھے یا کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے.اپنے پروفیسروں اور پڑھے لکھے لوگوں اور ممبر آف پارلیمنٹ وغیرہ کو ایک ہوٹل میں ریسیپشن (Reception) میں بلایا اور سب نے بڑا اچھا اثر لیا.پہلے بھی کیونکہ ان کے رابطے تھے ، احمدیت کے بارے میں کچھ نہ کچھ تعارف تھا.مزید ان کو تعارف ہوا ، ان کے دلوں میں مزید روشنی پیدا ہوئی.لیکن یہ پرانے رابطوں سے چیز پیدا ہو سکتی ہے کہ مسلسل رابطے ہوں.اس لئے رابطے بڑھائیں.اور پھر آپ کے نیک نمونے، آپ کی شرافت، آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق جب ان لوگوں پر ظاہر ہو گا تو تبلیغ کے مزید میدان کھلیں گے.پھر اس کے علاوہ بھی اپنے مقامی حالات کے مطابق مختلف راستے تلاش کریں.یہ ضروری نہیں کہ ایک معین راستہ دے دیا ، اس پر عمل کرنا ہے.اور جب ایک لگن سے اور صبر کے ساتھ تبلیغی رابطے کریں گے اور لوگوں تک پیغام پہنچائیں گے، اپنے عملوں سے ان پر ایک نیک اثر

Page 598

خطبات مسرور جلد سوم 591 خطبہ جمعہ 30 ستمبر 2005ء بھی قائم کریں گے اور سب سے بڑھ کر دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ نیک نتائج بھی پیدا فرمائے گا انشاء اللہ.یہاں لوگوں میں دلچسپی میں نے دیکھی ہے.ہمارے قافلے کے کئی افراد نے بھی اس کو محسوس کیا ہے.جہاں بھی میں گیا ہوں مختلف جگہوں پہ سیر کی غرض سے ہی چاہے گیا ، لوگ دلچپسی سے سوال پوچھتے تھے.بعض لوگوں نے قافلے کے افراد سے جماعت کی ویب سائٹ کے بارے میں بھی پوچھا کہ لٹریچر وغیرہ پڑھنا تو مشکل ہے ہمیں ویب سائٹ بتادو ہم خود ہی تلاش کریں گے اور وہاں انشاء اللہ بہت معلومات مل جائیں گی.اور یہ وعدہ کیا کہ ہم ویب سائٹ ضرور دیکھیں گے، معلومات بھی لیں گے.اس کے علاوہ عالمی عدالت انصاف جو پیس پیلیس(Peace Palace) کہلاتا ہے اس کو جب میں دیکھنے گیا تو وہاں بھی گائیڈ تھی.وہ جب ہمیں اس کمرہ میں لے کر گئی جہاں مختلف جوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں.تو ان میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تصویر بھی ہے.گائیڈ بھی پڑھی لکھی گائیڈ تھی.یہ نہیں کہ یونہی کوئی معمولی سی پڑھی لکھی ہو.اس نے چوہدری صاحب کے بارے میں پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ وہ احمدی تھے.کیا وہ پکے احمدی تھے.کیونکہ ان لوگوں کی نظر میں دنیا دار تو مذہبی نہیں ہو سکتا.تو میں نے اس کو بتایا نہ صرف پکے بلکہ جماعت میں بہت مقام رکھتے تھے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا ترجمہ بھی کیا ہوا ہے اور خود بھی بعض کتابیں لکھی ہوئی ہیں.لیکن اس کو نہیں پتہ تھا.وہاں اس عمارت میں لائبریری بھی ہے.لائبریری کا وہ تعارف کروارہی تھی تو میں نے چوہدری صاحب کے حوالے سے اس سے پوچھا کہ کیا چوہدری صاحب کی کتابیں بھی رکھی جا سکتی ہیں کیونکہ یہاں قانون کی کتا بیں ہیں، مذہبی کتا بیں تو نہیں.تو اس نے کہا کہ ہاں رکھی جاسکتی ہیں.بہر حال میں نے امیر صاحب کو کہا ہے کہ اس خاتون کو بھی کتا بیں دیں.اس سے بھی بعض مذہبی کتابیں دینے کا وعدہ کیا ہے اور لائبریری میں بھی رکھوانے کی کوشش کریں.تو ہمارا کام تو اللہ تعالیٰ کی باتوں کو، نیک اور پاکیزہ باتوں کولوگوں تک پہنچانا ہے.اور اپنے آپ کو پاک رکھتے ہوئے اپنے عملوں کے معیاروں کو اونچا کرتے ہوئے ، دعاؤں کے ساتھ

Page 599

خطبات مسرور جلد سوم 592 خطبہ جمعہ 30 ستمبر 2005ء یہ پیغام پہنچانا ہے.آگے اللہ تعالیٰ برکت ڈالنے والا ہے.جو نیک فطرت ہوگا وہ آئے گا انشاء اللہ.ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے.لیکن اگر ہم صرف منصوبہ بندیاں ہی کرتے رہیں اور مہینوں ،سالوں صرف اس سوچ میں ضائع کر دیں کہ کیا پلاننگ کرنی ہے اور کس طرح کی پلاننگ ہونی چاہئے.کیا کیا طریقے استعمال کرنے چاہئیں.اس بات پر سوچتے ہی رہیں اور عمل کچھ نہ ہو تو ہم یقینا گناہگار بن رہے ہیں.یہاں آ کر اگر نیک نیتی سے اس طرف بھی توجہ دیتے تو بعض لوگ یہاں کہتے ہیں بہت سارے اسائلم سیکرز آئے ہوئے ہیں کہ ہمارے کیس پاس نہیں ہو رہے.وہ روک پڑ گئی، یہ روک پڑگئی ،اتنے سال ہو گئے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں.وہ اگر اس طرف بھی توجہ دے رہے ہوتے تو اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے ، سب قدرتوں کا مالک ہے.وہ اس نیکی کی وجہ سے آسانیاں بھی پیدا کر سکتا تھا.پس کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا تقاضا ہے کہ اس طرف توجہ دیں.ابھی بہت میدان خالی ہے.ہر طبقہ میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچنا چاہئے.آج اسلام پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں اور بدقسمتی سے مسلمان کہلانے والوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہی ہو رہے ہیں.آج اگر اسلام کی خوبصورت تصویر کو کوئی پیش کر سکتا ہے تو وہ احمدی ہیں.آج اگر ہم نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا، نہ سمجھا تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں فرمانبرداروں میں شمار نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں جماعتی طور پر بھی اور ذیلی تنظیمیں اپنے طور پر بھی.خدام اپنے طور پر ، انصار اپنے طور پر، لجنہ اپنے طور پر حالات کے مطابق اپنے تبلیغی پروگرام بنائیں.اور ہمیشہ یادرکھیں، جیسا کہ پہلے بھی کہا ہے کہ تبلیغ کے لئے عمل صالح شرط ہے.اپنی حالتوں کو بھی بدلنا ہو گا.اللہ تعالیٰ توفیق دے اور سب کو گزشتہ کوتاہیوں کا مداوا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نیک نتائج پیدا فرمائے.谢谢谢

Page 600

خطبات مسرور جلد سوم 593 (39) خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2005ء رمضان المبارک کی فرضیت، فضائل اور برکات مونگ ضلع منڈی بہاء الدین ( پاکستان ) کا المناک واقعہ اور جماعت کو صبر کی تلقین خطبه جمعه فرموده 7 اکتوبر 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن.برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة :184) پھر فرمایا:.اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو روزوں کی فرضیت کی طرف توجہ دلائی ہے.اور فرمایا یہ اس لئے ضروری ہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو، تاکہ تم روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچو، تاکہ تمہارے اندر خدا کا خوف پیدا ہو، تاکہ تمہارے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ خدا کی ناراضگی مول لے کر کہیں ہم اپنی دنیا و آخرت برباد کرنے والے نہ بن جائیں.تا کہ یہ احساس پیدا ہو اور اس کے لئے کوشش کرو کہ ہم نے خدا کا پیار حاصل کرنا ہے.تو یہ مقصد ہیں جن کے حاصل کرنے کے لئے ہمیں روزے رکھنے چاہئیں اور یہ وہ مقصد ہیں جن کے حاصل کرنے کے لئے ہمیں رمضان کا

Page 601

خطبات مسرور جلد سوم 594 خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2005ء انتظار ہونا چاہئے تبھی ہم گزشتہ سال میں جو رمضان گزرا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ،اس میں جو ہم نے نیکیاں کی تھیں، جو تقویٰ اختیار تھا، جو منزلیں ہم نے حاصل کی تھیں، ان کا فیض پا سکتے ہیں.اس رمضان میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ رمضان میں جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں کیا ان پر ہم قائم ہیں.کہیں اس سے بھٹک تو نہیں گئے.اگر بھٹک گئے تو رمضان نے ہمیں کیا فائدہ دیا.اور یہ رمضان بھی اور آئندہ آنے والے رمضان بھی ہمیں کیا فائدہ دے سکیں گے.اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ اگر یہ فرض روزے رکھو گے تو تقویٰ پر چلنے والے ہو گے، نیکیاں اختیار کرنے والے ہو گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے.لیکن یہ کیا ہے کہ ہمارے اندر تو ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی جس سے ہم کہہ سکیں کہ ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو گیا ہے.یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ خدا تعالیٰ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی.بندہ جھوٹا ہوسکتا ہے اور ہے.پس یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے اندر ہی کمزوریاں اور کمیاں ہیں یا تو پہلے رمضان جتنے بھی گزرے ان سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا، یا وقتی فائدہ اٹھایا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے.حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ تقویٰ کا جو معیار گزشتہ رمضان میں حاصل کیا تھا، یہ رمضان جو آب آیا ہے، یہ ہمیں نیکیوں میں بڑھنے اور تقویٰ حاصل کرنے کے اگلے درجے دکھاتا.پس جنہوں نے گزشتہ سال کے رمضان میں اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کیں، جو تقویٰ حاصل کیا، جو تقویٰ کے معیارا اپنی زندگیوں کے حصے بنالئے وہ تو خوش قسمت لوگ ہیں اور اب ان کے قدم آگے بڑھنے چاہئیں.اور جو بھلا بیٹھے یا جنہوں نے کچھ حاصل ہی نہیں کیا ان کو سوچنا چاہئے کہ روزے ہمیں کیا فائدہ دے رہے ہیں.اگر کسی چیز کا فائدہ ہی نہیں ہے تو اس کو کرنے کی کیا ضرورت ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا روزوں کا فائدہ ہے اور یقینا ہے، اللہ تعالیٰ کا کلام کبھی غلط نہیں ہوسکتا.پس ہم سے جو غلطیاں ہوئیں اس کی خدا سے معافی مانگنی ہو گی اور یہ عہد کرنا ہوگا کہ اے میرے خدا میری گزشتہ کوتاہیوں کو معاف فرما اور اس رمضان میں مجھے وہ تمام نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرما جو تیرا قرب دلانے والی ہوں اور مجھے اس رمضان کی برکات سے

Page 602

خطبات مسرور جلد سوم 595 خطبه جمعه 7 /اکتوبر 2005ء فیضیاب کرتے ہوئے ہمیشہ تقویٰ پر چلنے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما.جب ہم اس طرح دعا کریں گے اور اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے تو ان نیکیوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے.بہت سی برائیاں بھی چھوڑنی ہوں گی جن کے ترک کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے.ورنہ تو ہمارے یہ روزے، روزے نہیں کہلا سکتے.یہ صرف فاقے ہوں گے.ایک بھوک ہوگی کہ صبح سے شام تک نہ کھایا ، نہ پیا.پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوں کا بھی پورا ہو گا جب ہم ان حکموں پر بھی عمل کریں گے اور نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے.اور رمضان میں تو اللہ تعالیٰ ان نیکیوں کے کرنے کی وجہ سے عام حالات کی نسبت ان کا کئی گنا بڑھا کر اجر دیتا ہے بلکہ بے حساب دیتا ہے.پس یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ روزے میرے لئے ہیں اور میں ہی ان کی جزا ہوں.یہ اس لئے ہے کہ بندہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو تمام جائز چیزوں سے روکتا ہے.جو نہ کرنے والی ہیں ان سے تو رُکنا ہی ہے، جائز چیزوں سے بھی رکھتا ہے.نیکیوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے.برائیوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے.اپنی عبادتوں کے معیار بڑھاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے لئے ، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلتے ہوئے ، پہلے بندہ کو ہی کوشش کرنی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے پہلی ذمہ داری بندہ کی ہی لگائی ہے کہ بندہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو پھر میں اس کی طرف دو ہاتھ آؤں گا.اور اگر اللہ تعالیٰ کی طرف چل کر جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دوڑ کر اس کی طرف آؤں گا.پس ایک مومن کو ہر وقت یہ فکر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے پیار کرنے والے خدا کی طرف جاؤں تو ایسے بندے کے لئے اللہ تعالیٰ رمضان میں عام دنوں سے زیادہ دوڑ کر آتا ہے اور اسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رمضان میں ان

Page 603

خطبات مسرور جلد سوم 596 خطبه جمعه 7 اکتوبر 2005ء برکتوں اور ثواب اور اجر کا کوئی حساب ہی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ عام حالات کی نسبت دیتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو مسعود غفاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضلیت کا علم ہوتا تو میری اُمت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو.اس پر بنو خزاعہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں.چنانچہ آپ نے فرمایا یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے.پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں.(الترغيب والترهيب - كتاب الصوم - الترغيب فى صيام رمضان احتساباً.....حديث نمبر 1498) پس یہ ہوائیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاک بندوں کو جنہوں نے یہ عہد کیا ہو کہ اپنے اندر رمضان میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اور تقویٰ اختیار کرنا ہے اونچا اڑا کر لے جانے والی ثابت ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنتی ہیں.یہ جو فرمایا کہ سارا سال جنت کی تزئین و آرائش ہو رہی ہے اس کا فیض یونہی نہیں مل جاتا.یقینا روزوں کے ساتھ عمل بھی چاہئیں.پس جب اللہ تعالیٰ اتنا اہتمام فرما رہا ہو کہ سارا سال جنت کی تیاری ہو رہی ہے کہ رمضان آ رہا ہے میرے بندے اس میں روزے رکھیں گے، تقویٰ پر چلیں گے، نیک اعمال کریں گے اور میں ان کو بخشوں گا اور میں قرب دوں گا.تو ہمیں بھی تو اپنے دلوں کو بدلنا چاہئے.ہمیں بھی تو اس لحاظ سے تیاری کرنی چاہئے اور جو اللہ تعالیٰ نے موقع میسر کیا ہے اس سے فیض اٹھانا چاہئے.رمضان کے کچھ اور فضائل بھی مختلف احادیث میں ہیں ان میں سے میں چند ایک بیان کرتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کس کس طرح اپنے بندوں کو رمضان میں نوازتا ہے یا نوازنا چاہتا ہے.پس بندہ کا بھی یہ کام ہے کہ اس کی طرف بڑھے اور تقویٰ پیدا کرے.اگر ان شرائط کے ساتھ روزے رکھے جائیں جن کے کرنے کا ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو یہی روزے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنارہے ہوں گے.حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم

Page 604

خطبات مسرور جلد سوم 597 خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2005ء سے شعبان کے آخری روز خطاب فرمایا اور فرمایا : اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ سایہ لگن ہوا ہے.ایسا بابرکت مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے.یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں.اور جس کی راتوں کا قیام اللہ تعالیٰ نے نفل قرار دیا ہے.جو شخص کسی بھی اچھی خصلت کو اس میں اپناتا ہے، وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو اس کے علاوہ جملہ فرائض کو ادا کر چکا ہو.اور جس شخص نے ایک فریضہ اس مقدس مہینے میں ادا کیا، وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے ستر فرائض رمضان کے علاوہ ادا کئے.اور رمضان کا مہینہ صبر کرنے کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے.اور یہ مواسات واخوت کا مہینہ ہے اور یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں برکت دی جاتی ہے.(الترغيب والترهيب كتاب الصوم الترغيب في صيام رمضان حدیث نمبر 1487) تو دیکھیں کیا کیا برکتیں ہیں اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے روزہ رکھ رہے ہیں اور تقویٰ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں، نیکیوں پر قدم مارنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے رسول نے ہمیں یہ خوشخبری دی ہے کہ اس نیت سے کئے گئے عمل پھر اللہ تعالی ضائع نہیں کرتا.بلکہ اتنا دیتا ہے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے.صرف ایک اچھی عادت اور نیکی کا کام کرنے کا اجر اتنا ہے کہ گویا تمام فرائض جو ہمارے ذمہ ہیں وہ ہم نے ادا کر دیئے.اور رمضان میں تقویٰ پر چلتے ہوئے ادا کئے گئے.ایک فرض کا ثواب اتنا ہے کہ عام حالات میں ادا کئے گئے 70 فرائض جتنا ثواب ہوتا ہے.اتنا بڑھا کر اللہ میاں رمضان میں دیتا ہے.تو ان دنوں کی ایک ایک نیکی عام حالات کی 70-70 نیکیوں کے برابر ثواب دلا رہی ہے.لیکن ہمیں یہ یا درکھنا چاہئے کہ ثواب تبھی ہو گا جب ہم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کر رہے ہوں گے.پھر فرمایا: یہ صبر کا مہینہ ہے.بہت سی باتوں سے مومن صبر کر رہا ہوتا ہے.صرف کھانے پینے سے ہی نہیں ہاتھ روک رہا بلکہ اور بھی بہت سے کام ہیں جن سے رکتا ہے.بہت سی ایسی برائیاں ہیں جن سے رکتا ہے.دشمنوں کی زیادتیوں پر صبر کرتا ہے.بعض دفعہ اپنے حقوق چھوڑتا

Page 605

خطبات مسرور جلد سوم 598 خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2005ء ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کرتا ہے.ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے که وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ ﴾ (الرعد: 23) اور ایسے لوگ جنہوں نے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لئے صبر کیا.پس یہ صبر جو اللہ کی خاطر کیا جائے وہ نیکیوں کے ساتھ مشروط ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر تمہیں کوئی گالی دے تو صبر کرو اور جواب نہ دو اور اتنا کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں تو تمہارے لئے یہ اجر کا موجب ہوگا.تمہیں اس کا ثواب ملے گا.اور جب ایک مومن کو رمضان میں ایسے صبر کی عادتیں پڑ جاتی ہیں تو پھر زندگی کا حصہ بن جانی چاہئیں تا کہ جنت کا وارث بنانے والی ہوں.یہ فرمایا کہ اگر اللہ سے رحم ، درگز راور بخشش مانگتے ہو تو خود بھی دوسروں کے غمخوار بنو، ان کی تکلیفوں کا خیال رکھو، ان کا بھی کچھ احساس اپنے دل میں پیدا کرو.اللہ کی خاطر ہمدردی کر رہے ہو تو اس کا رنگ ہی کچھ اور ہونا چاہئے.جب اللہ کی خاطر دوسروں سے نیک سلوک ہوگا تو یہ نیک سلوک اپنے مفادات متاثر ہونے سے کم نہیں ہوگا بلکہ اپنی فطرت کا حصہ بن چکا ہو گا.اور جب ایک دوسرے سے ہمدردی اور درگزر سے کام لے رہے ہوں گے تو یہ اس دنیا میں بھی جنت کا باعث بن رہا ہو گا اور اگلے جہان میں بھی ہمیں جنت کی خوشخبری دے رہا ہوگا.پھر یہ بھائی چارے اور محبت و پیار کا مہینہ ہے.ہر بھائی دوسرے بھائی کے قصور اللہ کی خاطر معاف کر رہا ہوگا.ہر رشتہ دوسرے رشتے کے قصور معاف کر رہا ہو گا.ہر تعلق دوسرے تعلق کے قصور معاف کر رہا ہوگا اور بھائی چارے کی فضا اللہ تعالیٰ کی خاطر پیدا کر رہا ہو گا.تو اس مہینہ کی برکت کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ایک فعل کے عام حالات کی نسبت 70 گنا ثواب دینے کی وجہ سے ہم پھلانگتے اور دوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی منزل کی طرف جارہے ہوں گے اور جنت میں داخل ہورہے ہوں گے.پھر فرمایا کہ مومن کے رزق میں برکت ہوتی ہے.ظاہر ہے مومن کا رزق بھی حلال رزق ہوتا ہے اور ہونا چاہئے.تھوڑی سی محنت اور تھوڑے سے رزق میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا

Page 606

خطبات مسرور جلد سوم 599 خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2005ء ہے.بعض دفعہ ایسے ذرائع اُسے مہیا کرتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا.اس لئے کہ مومن اللہ کی خاطر بہت سے کام کر رہا ہوتا ہے.اللہ کی عبادت میں زیادہ وقت گزار رہا ہوتا ہے.قرآن کریم کی تلاوت میں رمضان میں زیادہ وقت گزر رہا ہوتا ہے.دوسری عبادتوں میں زیادہ وقت گزر رہا ہوتا ہے.تو دنیا کے دھندوں کو کم کر کے ان نیکیوں کے لئے ایک مومن وقت نکال رہا ہوتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ بھی بے انتہا نوازتا ہے.اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق دنیاوی ضروریات بھی اس کی پوری کرتا ہے.لیکن یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر خالص ہو کر عمل کرنے سے ہوگا.اور یہ اسی وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کی رحمت ملے گی اور بخشش کئی گنا بڑھ جائے گی.جب ہم تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں گے اور ان نیکیوں کو بجالا رہے ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت میں روزوں کی فضیلت کے بارہ میں اور اس کی برکات حاصل کرنے کے طریق کے بارے میں یوں بیان فرمایا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے.روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا.اور روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر اس کو کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں.آگے فرمایا: (اس میں سے کچھ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ) اس ذات کی قسم! کہ جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیب ہے.روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں.ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہوگا.(بخاری کتاب الصوم - باب هل يقول إني صائم اذا شتم) تو اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ روزے کی میں جزا دوں گا تو ویسے بھی ہر عمل کی جزا تو اللہ تعالی ہی دیتا ہے.لیکن دوسرے سارے عمل ایسے ہیں جن میں یہ نیکیاں ہیں ، جائز باتیں ہیں

Page 607

خطبات مسرور جلد سوم 600 خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2005ء جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یا برائیاں ہیں جن سے رکنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.لیکن رمضان میں روزہ رکھ کر ایک مومن نا جائز باتوں سے تو رک ہی رہا ہوتا ہے ، بعض جائز باتیں بھی خدا کی خاطر چھوڑ رہا ہوتا ہے.اور پھر عام حالات کی نسبت پہلے سے بڑھ کر نیکیاں کر رہا ہوتا ہے.نیکیاں کرنے کی توفیق پا رہا ہوتا ہے.پھر اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بُرائی کا جواب بھی اللہ کی خاطر نیکی سے دے رہا ہوتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا اجر بھی بے حساب رکھا ہے یہ سوچ کر کہ تم میری خاطر کچھ عمل کر رہے ہو یا کرو گے تو میں اس کا اجر بے حساب دوں گا.ہر بات کا ، ہر کام کا، ایک فرض کے ادا کرنے کا 70 گنا ثواب ملتا ہے.تو مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کے اس فعل سے کہ اس نے اللہ کی خاطر روزہ رکھا اور تمام نیکیاں بجالانے اور برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ کی بلکہ بعض جائز باتیں بھی جیسا کہ میں نے کہا جو عام حالات میں انسان کر سکتا ہے ان سے بھی اس لئے رکا کہ اللہ کا حکم ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ اس کی جزا بن گیا.پس یہ عبادت بھی خالص ہو کر اس کے لئے کرنا اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہی اس کی رحمتوں کا وارث بنائے گا اور بے حساب رحمتوں کا وارث بنائے گا اور خالص ہو کر ہم اس کی خاطر یہ کریں گے.اللہ تعالیٰ کو ایسے مومن کی ہر حالت اور ہر حرکت پر پیار آتا ہے جو اس کی خاطر یہ فعل کر رہا ہوتا ہے.یہاں تک فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے بعض دفعہ جو منہ سے بو آتی ہے اللہ تعالیٰ کو وہ بھی خوشبو سے زیادہ پسند ہے.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچانے والا مضبوط قلعہ ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 402 مطبوعه بيروت) پس یہ ڈھال تو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرما دی لیکن اس کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی آنا چاہئے.اس کے بھی کچھ لوازمات ہیں جنہیں پورا کرنا چاہئے.تبھی اس ڈھال کی حفاظت میں تقوی اختیار کرنے کی توفیق ملے گی.یہ ڈھال اس وقت تک کارآمد رہے گی جب روزہ کے دوران ہم سب برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں گے.جھوٹ نہیں بولیں گے، غیبت نہیں کریں گے، اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے، اپنے جسم کے ہر عضو کو اس طرح سنبھال کر

Page 608

خطبات مسرور جلد سوم 601 خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2005ء رکھیں گے کہ جس سے کبھی کوئی زیادتی نہ ہو.ہر ایک، ایک دوسرے کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے عیب تلاش کر رہا ہوگا.ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی برائیوں ، کمیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو ڈھونڈ رہا ہو گا.میں حیران ہوتا ہوں بعض دفعہ یہ سن کر بعض لوگ بتاتے بھی ہیں اور لکھ کر بھی بھیجتے ہیں کہ آپ کے فلاں خطبے پر مجھ سے فلاں شخص نے کہا یہ تمہارے بارے میں خطبہ آیا ہے اس لئے اپنی اصلاح کر لو.حالانکہ چاہئے تو یہ کہ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے اور دوسرے کی آنکھ کے تنکے تلاش نہ کرے.تو جب روزوں میں اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے، کان، آنکھ، زبان، ہاتھ سے دوسرے کو نہ صرف محفوظ رکھ رہے ہوں گے بلکہ اس کی مدد کر رہے ہوں گے تو پھر روزے تقوے میں بڑھانے والے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بے انتہا اجر پانے والے ہوں گے.پس اس لحاظ سے بھی ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے.اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے.(بخاری ، کتاب الایمان، باب صوم رمضان احتساباً من الايمان تو اس بات کو اس حدیث میں مزید کھول دیا کہ صرف روزے رکھنا کافی نہیں ہے.بلکہ روزے ان تمام لوازمات کے ساتھ رکھنے ضروری ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اپنے روزوں کے معیار کو دیکھنا اور تقویٰ کی طرف قدم بڑھنے کا تبھی پتہ چلے گا جب اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے.دوسرے کے عیب نہیں تلاش کر رہے ہوں گے بلکہ اپنے عیب اور کمزوریاں تلاش کر رہے ہوں گے.یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آج میں نے کتنی نیکیاں کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہے.اور کتنی برائیاں ترک کی ہیں، کتنی برائیاں چھوڑی ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے : ” ہمیں اس طرح جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری صبحیں اور ہماری راتیں ہماری نیکیوں کی گواہ ہونی چاہئیں.آپ فرماتے ہیں

Page 609

خطبات مسرور جلد سوم 602 خطبه جمعه 7 اکتوبر 2005ء کہ چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12) پس جب ہم اس طرح اپنی صبحوں اور شاموں سے گواہی مانگ رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر رہے ہوں گے.ہمارے گزشتہ گناہ بھی معاف ہورہے ہوں گے.اور آئندہ تقویٰ پر قائم رہنے اور مزید نیکیاں کرنے کی توفیق بھی مل رہی ہوگی.ورنہ ہمارے روزے بھوک اور پیاس برداشت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرما رہے تھے رمضان آ گیا ہے.اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے مقفل کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو اس میں زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے.ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس نے رمضان کو پایا اور اس سے بخشانہ گیا.اور اگر وہ رمضان میں نہیں بخشا گیا تو پھر کب بخشا جائے گا.(الترغيب والترهيب كتاب الصوم الترغيب فى صيام رمضان حدیث نمبر 1495) پس اس حدیث سے مزید بات کھلتی ہے کہ بخشے جانے کے لئے صرف رمضان کا آنا ضروری نہیں ہے اور رمضان کی مبارکبادیں دینا کافی نہیں ہے جب تک اس میں روزے اس کوشش کے ساتھ نہ رکھے جائیں گے کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا ہے ان تبدیلیوں کو مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے.صرف ایک سال یا ایک مہینہ کے عمل سے تو نہیں بخشے جائیں گے.یہ مسلسل عمل ہے.باوجود اس کے کہ ذکر ہے کہ جہنم کے دروازے مقفل کر دیئے جاتے ہیں.لیکن پھر بھی آگے یہ بتایا کہ اس کے باوجود ضروری نہیں کہ سارے بخشے جائیں.اس کے لئے عمل کرنے ہوں گے.پس اس طریق سے ہمیں اپنے روزوں کو سنوارنا چاہئے تا کہ یہ نیکیاں اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں.ایک روایت میں آتا ہے کہ نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان

Page 610

خطبات مسرور جلد سوم 603 خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2005ء کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو.ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہا :ہاں! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے رکھنا فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیا ہے.پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے اس میں روزے رکھے وہ گنا ہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا ہو.یعنی بالکل معصوم ہو جاتا ہے.(سنن نسائی کتاب الصيام باب ذكر اختلاف يحيى بن ابى كثير والنضر بن شيبان فيه) اللہ کرے کہ ہم اس رمضان میں اسی طرح پاک ہوکر اور معصوم ہو کر نکلیں اور پھر یہ پاک تبدیلیاں بھی ہماری زندگیوں کا ہمیشہ حصہ بن جائیں.رمضان میں عبادتوں کے معیار بلند تر کرنے اور قرآن کریم پڑھنے کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طریق صدقہ و خیرات کرنا بھی تھا.ایک روایت میں آتا ہے کہ ان دنوں میں آنحضور یہ اموال اس طرح خرچ کرتے تھے کہ اس خرچ کرنے میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتے تھے.(نسائی، کتاب الصيام باب الفضل والجود في شهر رمضان) پس رمضان کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ایک ذریعہ ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس طرف بھی توجہ ینی چاہئے.اموال کی قربانی بھی تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق دے کہ رمضان کی برکتوں کو سمیٹنے والے ہوں اور ہمارے روزے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے لئے ہوں اور پھر یہ برکتیں ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں.جو کمزوریاں ہیں اس رمضان میں دور کریں.دوبارہ کبھی پیدا نہ ہوں.اور ہمیشہ اللہ کی بخشش اور رحمت اور پیار کی چادر میں لیٹے رہیں.روزہ کی حقیقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں.اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا

Page 611

خطبات مسرور جلد سوم 604 خطبہ جمعہ 7 اکتوبر 2005ء نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے.روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے.انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قو تیں بڑھتی ہیں.خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا ر ہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو.پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسکی اور سیری کا باعث ہے.اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا ا نہیں مل جاوے“.(ملفوظات جلد پنجم صفحه 102 جدید ایڈیشن) اللہ کرے کہ حقیقت میں اس رمضان میں ہمارا تزکیہ نفس ہو اور روحانی حالت میں بہتری پیدا ہو اور آئندہ ہمارا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو.ایک افسوسناک خبر بھی ہے.ٹی وی پر بھی آچکی ہے.کافی لوگوں نے سن بھی لی ہوگی.آج صبح پاکستان میں منڈی بہاؤالدین کے نزدیک ایک جگہ مونگ رسول ہے جہاں صبح فجر کی نماز کے وقت جب احمدی نماز ادا کر رہے تھے دو دہشت گرد ، دہشت گرد تو نہیں کہنا چاہئے ، مخالفین احمدیت ہی ہوں گے، دہشت گردی تو آپس میں جب ان کی لڑائیاں ہوتی ہیں ان کے لئے دہشت گردی ہے ہم نے تو جواب نہیں دینا.ہمارے ہاں تو جو حملے کئے جاتے ہیں وہ اس لئے کہ ہم احمدی ہیں.بہر حال وہ مسجد میں آئے اور نمازیوں پر فائرنگ کر کے فرار ہو گئے ،.جس سے 8 راحمدی شہید ہو گئے اور تقریباً 20 زخمی ہیں.شہید ہونے والوں میں دو بڑی عمر کے بزرگ تھے.ایک کی 70 سال اور دوسرے کی 73 سال عمر تھی.کچھ اور تفصیلات ابھی آتی ہیں.باقی تقریباً سارے نوجوان ہی تھے.ایک چھوٹا لڑکا بھی تھا جس کی عمر 16 سال ہے.ایک 12 سال کا بچہ بھی شدید زخمی ہے.

Page 612

خطبات مسرور جلد سوم 605 خطبه جمعه 7 اکتوبر 2005ء اللہ تعالیٰ ان شہداء کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے اور زخمیوں کو شفا عطا فرمائے.ان کے رشتہ داروں، عزیزوں اور سب احمدیوں کو صبر اور حوصلے کے ساتھ ، یہ بہت بڑا صدمہ ہے، اس کو برداشت کرنے کی توفیق دے.اللہ تعالیٰ ان مجرموں کو پکڑنے کے بھی خود سامان پیدا فرمائے.رمضان میں جہاں احمدی نیکیوں کے حصول اور خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے.یہ ملاؤں کے تربیت یافتہ نام نہاد مسلمان ٹولہ، سارے مسلمان تو ایسے نہیں ہیں ان میں سے ایک مخصوص ٹولہ ہے، یہ لوگ اپنی طرف سے یہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ احمدیوں کو قتل کر کے شاید ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن رہے ہیں.حالانکہ ان حرکات سے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دے رہے ہیں.اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں.احمدیوں کو اس لئے ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ہم نے ایک منادی کی آواز پر یہ کہا، زمانے کے امام کی آواز پر یہ کہا جس نے ہمیں بلایا کہ اللہ کی طرف آؤ اور ہم نے امنا کہہ دیا.تو بہر حال اور تفصیلات آئیں گی تو انشاء اللہ کبھی ذکر کروں گا.فی الحال صبح ہی یہ واقعہ ہوا ہے زیادہ تفصیلات تو نہیں ہیں.لیکن ان دنوں میں جماعت کے لئے ہر شر سے بچنے کے لئے دعائیں کرتے رہیں.پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا میں تینوں جگہوں پر خاص طور پر احمدی ظلم کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچائے.

Page 613

606 خطبات مسرور جلد سوم

Page 614

خطبات مسرور جلد سوم 607 (40) خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء دو المناک واقعات.سانحۂ مونگ اور شمالی پاکستان اور آزاد کشمیر میں خوفناک زلزله زلزلہ کے متاثرین کی امداد کے لئے جماعت محض اللہ کی خاطر خدمت میں مصروف ہے.خدا تعالیٰ نے جماعت کی قربانیاں نہ کبھی ضائع کیں اور نہ کرے گا خطبه جمعه فرموده 14 اکتوبر 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَا وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمُ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمُ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرة: 155 تا 157) پھر فرمایا:.گزشتہ دنوں دوا ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے ہر احمدی کے دل میں چاہے وہ کہیں کا بھی رہنے والا احمدی ہے، ایک غم اور درد کی لہر دوڑا دی.مختلف ممالک سے خطوط کے ذریعہ سے اس کا اظہار ہوا.خاص طور پر پاکستانی احمدیوں کے لئے یہ دونوں صدمے بہت تکلیف دہ تھے.ہر دل بے چین ہو گیا.ایک واقعہ تو گزشتہ جمعہ کو ہوا تھا جس کا میں نے خطبہ کے آخر پر ذکر بھی کیا تھا.دوسرا واقعہ دوسرے روز صبح ایک خوفناک زلزلے کا تھا جس نے شمالی پاکستان اور کشمیر کے وسیع

Page 615

خطبات مسرور جلد سوم علاقے میں خوفناک تباہی پھیلائی.608 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء جہاں تک پہلے واقعہ کا تعلق ہے ہمیں پتہ ہے کہ الہبی جماعتوں پر امتحان آتے ہیں.تمام انبیاء پر ایسی سختیاں اور ظلم ہوئے اور انہوں نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے فریاد کی اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا.جماعت احمدیہ کی گزشتہ سو سال سے زائد کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی جماعت کے افراد پر یا جماعت پر ایسا موقع آیا تو جماعت کے افراد نے صبر اور حوصلے کے ساتھ تمام ظلم برداشت کئے.کبھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا.اور اسی صبر کا نتیجہ ہے کہ ہر ایسے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ جماعت کو پہلے سے بڑھ کر نوازتا ہے اور نو از تا چلا جارہا ہے، اور انشاء اللہ تعالیٰ نواز تار ہے گا.اس لئے آج بھی افراد جماعت کو اور خاص طور پر ان لوگوں کو جن کے بچے ، بھائی یا خاوند شہید ہوئے یا زخمی ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے صبر کے ساتھ اس کا رحم اور فضل مانگتے رہنا چاہئے.یہ افراد جو شہید ہوئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمیشہ کی زندگی پاگئے اور جماعت احمدیہ کی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں جن کو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیشہ یادرکھیں گی.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کے متعلق یہ مت کہو کہ وہ مُردہ ہیں.وہ مُردہ نہیں مگر تم نہیں سمجھتے.کتنا بڑا اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا ہے، وہ ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں.پس مونگ کے یہ آٹھ شہید اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر حاصل کرنے والے ہیں.پھر ان لوگوں کا خون تو اُس وقت بہایا گیا تھا جب خدا کے گھر میں اس کی عبادت میں مصروف تھے.ظالمانہ طور پر گولیوں کا نشانہ اس وقت بنایا گیا تھا جب وہ خدا کے حضور جھکے ہوئے تھے.یقینا یہ شہداء اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں.پس ہر احمدی جس نے خدا کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور شہادت کا مقام پایا، اس کے عزیز اور رشتہ دار اور ہر احمدی کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ خدا کی خاطر قربانی کرنے والے اپنی دائمی زندگی بنا گئے ہیں، ہمیشہ کی زندگی بنا گئے ہیں.گوان کے بچوں اور قریبی عزیزوں کے لئے یہ صدمہ بہت بڑا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ملنے کے بعد ہم نے حوصلے اور صبر سے اس کو برداشت کرنا ہے اور اس آزمائش پر پورا

Page 616

خطبات مسرور جلد سوم 609 خطبه جمعه 14 اکتوبر 2005ء اترنا ہے، ان کے لئے دعا کرنی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے کبھی بھی جماعت کی قربانیاں ضائع نہیں کیں اور یہ قربانیاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالی ضائع نہیں کرے گا.لیکن وہی بات ہے کہ ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے.ہمارے لئے خوشخبریاں بھی اسی صورت میں ہیں جب ہم صبر کریں گے.اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اور ہم ہمیشہ ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ الَّذِيْنَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوْا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴾ یعنی ان پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو گھبراتے نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں.پس جب یہ سوچ ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنی خاطر قربانی دینے والے افراد کے درجات تو بلند فرما ہی رہا ہو گا.ان شہداء کے پیچھے رہنے والوں کے لئے یہ امتحان آسان کر دے گا.اور نہ صرف یہ کہ یہ امتحان آسان فرمائے گا بلکہ اپنے فضل سے ایسی برکات سے اور ایسے فضلوں سے نوازے گا کہ بندہ سوچ بھی نہیں سکتا.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایک مومن کو کوئی دکھ پہنچے یا رنج پہنے یا تنگی اور نقصان پہنچے اور اگر وہ صبر کرتا ہے تو اس کا یہ طرز عمل بھی اس کے لئے خیر و برکت کا باعث بن جاتا ہے.(تفسیر الدرالمنثور تفسير سورة البقرة آيت نمبر 157) کیونکہ وہ صبر کر کے ثواب حاصل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ شہداء کے تمام عزیزوں کو صبر سے 66 صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی جناب سے بے انتہا نوازے.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں کہ: خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو.گالیاں سنو اور چپ رہو.ماریں کھاؤ اور صبر کرو اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پر ہیز کرو تا آسمان پر تمہاری قبولیت لکھی جاوے.یقین یا درکھو کہ جولوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور دل ان کے خدا کے خوف سے پکھل جاتے ہیں انہیں کے ساتھ خدا ہوتا ہے“.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 68)

Page 617

خطبات مسر در جلد سوم 610 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء پس ہمارا کام ہے کہ صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگے رہیں.اللہ کا خوف ہمارے سب خوفوں پر غالب ہو.اور اس کی رضا کا حصول ہماری زندگی کا مقصد ہو.بعض لوگ جلد بازی میں مخالف پر بعض دفعہ طعن و تشنیع کر جاتے ہیں یا دوسروں سے طعن و تشنیع کی باتیں کر جاتے ہیں.ایک احمدی کو یہ زیب نہیں دیتا.کسی نے مجھے کسی کی شکایت بھی لکھی تھی.ہم نے اپنا جو ایک امتیاز قائم رکھا ہوا ہے اسے قائم رکھنا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : کیا وہ شخص جو بچے دل سے تم سے پیار کرتا ہے اور بیچ بیچ تمہارے لئے مرنے کو بھی طیار ہوتا ہے اور تمہارے منشاء کے موافق تمہاری اطاعت کرتا ہے اور تمہارے لئے سب کچھ چھوڑتا ہے.کیا تم اس سے پیار نہیں کرتے ؟ اور کیا تم اس کو سب سے عزیز نہیں سمجھتے.پس جب کہ تم انسان ہوکر پیار کے بدلہ میں پیار کرتے ہو پھر کیونکر خدا نہیں کرے گا.خدا خوب جانتا ہے کہ واقعی اس کا وفادار دوست کون ہے اور کون غذار اور دنیا کو مقدم رکھنے والا ہے.سو تم اگر ایسے وفادار ہو جاؤ گے تو تم میں اور تمہارے غیروں میں خدا کا ہاتھ ایک فرق قائم کر کے دکھلائے گا“.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 68) پھر آپ نے فرمایا کہ: یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا، اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے.تا کہ خدا تمہاری آزمائش کرے.(رساله الوصيت، روحانی خزائن جلد 20صفحه 309) تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود کا یہ درخت بڑھا اور بڑھ رہا ہے.اور ایک جگہ آپ نے فرمایا چھوٹی چھوٹی شاخ تراشیاں اس لئے ہوتی ہیں کہ مزید بہتری پیدا ہو.پس ہمارا کام اس ایمان پر قائم رہنا ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.اس دنیا میں ہمیشہ سب شہیدوں کی اولادوں کو

Page 618

خطبات مسرور جلد سوم 611 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء بھی اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے.ضمنا میں یہ بھی ذکر کر دوں کہ رمضان سے کچھ عرصہ پہلے ہی ( شاید ایک ڈیڑھ مہینہ پہلے ) کوئٹہ میں بھی ایک شہادت ہوئی تھی.وقتاً فوقتاً ا گا ڑ گا وہاں تو ہوتی رہتی ہیں.یہ بڑا ایک حادثہ ہوا تھا رمضان سے پہلے.ان کی اولا دکو بھی سب لوگ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.سب جماعت کا فرض بنتا ہے کہ شہداء اور ان کی اولادوں کو دعاؤں میں یا درکھیں.اللہ تعالیٰ سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور آئندہ جماعت کو ہر شر سے محفوظ رکھے.اب میں کچھ ذکر گزشتہ دنوں پاکستان میں جو زلزلہ آیا ہے، اس کا کرنا چاہتا ہوں.یہ زلزلہ جیسا کہ میں نے کہا کہ شمالی پاکستان کے کچھ حصوں اور کشمیر کے علاقے میں بہت زیادہ تباہی پھیلا کر گیا ہے.جماعت احمدیہ کا ہر فرد بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلمان بھی اس آسمانی آفت پر دل میں در داور دکھ محسوس کر رہا ہے.اور ہم پاکستانی احمدی تو اپنے بھائیوں کی تکلیف اور دُکھ دیکھ کر انتہائی دکھ اور کرب میں ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے ہم وطنوں کی تکلیفوں کو کم کرے اور انہیں آفات سے بچائے.میں نے صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان اور صدر آزاد کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کو جو افسوس کا خط لکھا تھا اس میں بھی انہیں یقین دلایا تھا کہ جماعت احمد یہ ہمیشہ کی طرح ان کی ہر ممکن مدد کرے گی.وطن کی محبت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ہر پاکستانی احمدی اس کڑے وقت میں اپنے بھائیوں کی مدد کرے.عملی طور پر بھی اور دعاؤں سے بھی.اپنی تکلیفوں کو بھول جائیں اور دوسرے کی تکلیف کا خیال کریں.جماعت احمدیہ نے پہلے دن سے ہی جب سے کہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے ہمیشہ پاکستان اور مسلمانوں کے حقوق کے لئے قربانیاں دی ہیں اس لئے یہ تو کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک احمدی کا کوئی مسلمان بھائی تکلیف میں ہو یا ملک پر کوئی مشکل ہو اور ایک احمدی پاکستانی شہری دُور کھڑ ا صرف نظارہ کرے اور اس تکلیف کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے.پس جماعت احمدیہ نے اس ملک کے بنانے میں بھی حصہ لیا ہے اور انشاء اللہ اس کی تعمیر و ترقی میں بھی ہمیشہ کی طرح حصہ لیتی رہے گی.کیونکہ آج ہمیں وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے“ کا سب سے زیادہ ادراک ہے.آج احمدی ہے جو جانتا ہے کہ وطن کی محبت کیا

Page 619

خطبات مسرور جلد سوم 612 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء ہوتی ہے.اور جس جس ملک میں بھی احمدی بستا ہے وہ اپنے وطن سے، اپنے ملک سے خالص محبت کی عملی تصویر ہے.اس لئے اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہے کہ پاکستانی احمدی ملک کے وفادار نہیں ہیں تو یہ اس کا خام خیال ہے.گو کہ اس زلزلے کے بعد سے فوری طور پر ہی افراد جماعت بھی اور جماعت احمدیہ پاکستان بھی اپنے ہموطنوں کی ، جہاں تک ہمارے وسائل ہیں، مصیبت زدوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے.لیکن میں پھر بھی ہر پاکستانی احمدی سے یہ کہتا ہوں، ان کو یہ توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ان حالات میں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں، حتی المقدور ان کی مدد کریں.جو پاکستانی احمدی باہر کے ملکوں میں ہیں ، ان کو بھی بڑھ چڑھ کر ان لوگوں کی بحالی اور ریلیف (Relief) کے کام میں حکومت پاکستان کی مدد کرنی چاہئے.وہاں کی ایمبیسیوں نے جہاں جہاں بھی فنڈ کھولے ہوئے ہیں اور جہاں ہیومینیٹی فرسٹ (Humanity First) نہیں ہے، ان ایمبیسیز میں جا کر مدد دے سکتے ہیں.ہماری ذمہ داریاں تو کئی طرح بنتی ہیں.ایک بحیثیت انسان، جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک احمدی کو سب سے زیادہ انسانیت کا ادراک حاصل ہے.ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم محسن انسانیت کے سب سے زیادہ عاشق ہیں.اس لئے آج اگر دکھی انسانیت ہمیں بلا رہی ہے تو ہمیں اس کی مدد کے لئے آگے آنا چاہئے.یہ میں صرف اس لئے نہیں کہہ رہا کہ میں پاکستانی ہوں اس لئے پاکستان کی مدد کریں.انڈونیشیا میں طوفان آیا وہاں بھی ہم نے مدد کی ہے اور جگہوں پر بھی آیا ، وہاں پر بھی مدد کی.ایران میں بھی کی ، جاپان میں بھی کی.تو ہر جگہ جماعت احمدیہ ہمیشہ کرتی ہے.لیکن ہم میں سے یہاں بیٹھے ہوئے اکثریت جو پاکستانیوں کی ہے ، اپنے وطن کی محبت کا تقاضا ہے کہ ان کو بہر حال مدد کرنی چاہئے.اور بحیثیت ایک مسلمان، قطع نظر اس کے کہ وہ لوگ ہمیں کیا سمجھتے ہیں، ہم بہر حال مسلمان ہیں اور وہ بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.اس لئے بحیثیت مسلمان ہمیں مدد کرنی چاہئے.عوام کی اکثریت کم علمی کی وجہ سے اپنے بعض علماء کے پیچھے پڑ کر ہمارے خلاف ہے لیکن یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 620

خطبات مسرور جلد سوم 613 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء طرف منسوب ہوتے ہیں.منسوب ہونے کا کم از کم دعوئی رکھتے ہیں.اس لئے آج یہ تکلیف میں ہیں تو ہمیں اپنی تکلیفیں بھلا کر ان کی مدد کرنی چاہئے.پھر پاکستانی احمدی کا جیسا کہ میں نے کہا ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اس آسمانی آفت کی وجہ سے ملک میں جو تباہی آئی ہے اس کی بحالی کے لئے ملک کی مدد کریں.آسمانی آفات جب آتی ہیں تو پھر چھوٹا ، بڑا، بچہ ، بوڑھا، غریب، امیر سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں.دیکھ لیں خبریں یہی بتاتی ہیں کہ بعض شہروں میں سرکاری افسران بھی اور ممبر آف پارلیمنٹ بھی ، سیاسی لیڈر بھی ، سکولوں کے بچے بھی ، عورتیں بھی ، بوڑھے بھی ،سب کے سب بعض جگہوں پر اس زلزلے کی وجہ سے مکانوں کے گرنے کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے ، وفات پا گئے.تو یہ بہت بڑی تباہی تھی.شہروں کے شہر جڑ گئے ، دیہاتوں کے دیہات ملیا میٹ ہو گئے ، بعض تو صفحہ ہستی سے ختم ہو گئے.ابھی تک بعض جگہوں پر امدادی ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں.لیکن پھر بھی جو روز خبریں آتی ہیں بڑا خوفناک منظر پیش کرتی ہیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعت بعض جگہ اپنے وسائل کے لحاظ سے امدادی کام کر رہی ہے اور کرنا بھی چاہئے.بعض جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں خدام الاحمدیہ کی ٹیمیں سب سے پہلے پہنچیں.نہ کوئی حکومتی ٹیم وہاں پہنچی ، نہ کوئی فوج پہنچی، نہ کوئی اور ادارہ، این جی او یا کوئی اور پہنچا.لیکن بہر حال جماعت وہاں پہنچتی ہے اور خاموشی سے کام کرتی ہے کیونکہ اس کا اتنا زیادہ پراپیگینڈ نہیں ہوتا، زیادہ شور شرابہ نہیں کرتی.مقصد صرف خدمت خلق ہوتا ہے اس لئے بہت سوں کو ان خدمات کا پتہ نہیں ہوتا جو چھپی ہوئی خدمات ہورہی ہوتی ہیں.لیکن بعض احمدی کیونکہ مستقل فیکسیں بھیجتے رہتے ہیں یا مشورے بھی لکھتے رہتے ہیں کہ یوں ہونا چاہئے اور بعض غیر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ احمدی خاموش ہیں تو شاید یہ لوگ، پاکستانی احمدی اس آسمانی آفت پر قوم سے ہمدردی نہیں کر رہے، اور ان کی مدد نہیں کر رہے.تو اس لئے میں مختصر البعض کام جو فوری طور پر جماعت نے شروع کئے ان کے متعلق بتا دیتا ہوں.پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ جیسا میں نے کہا ہم تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کرنے والے ہیں،

Page 621

خطبات مسرور جلد سوم 614 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء ہمیں کوئی نام و نمود نہیں چاہئے.کسی سے بھی اس کا اجر نہیں چاہئے.صرف دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہمارا مقصد ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض لوگوں کی تسلی کے لئے مختصر آبتا دوں، پہلے بھی کہہ چکا ہوں، کہ بعض جگہ سب سے پہلے ہماری ٹیمیں پہنچی ہیں.وہاں ابتدائی طور پر جو بھی مدد ہو سکتی تھی وہ ان کی کی گئی.پھر جو حالات تھے کہ آفت کے بعد آفت.یعنی زلزلے کے بعد سخت بارش اور اولے پڑنے شروع ہو گئے.گھر تو لوگوں کے رہے نہیں تھے، باہر ٹھنڈ میں لوگ پڑے ہوئے تھے جو اس آفت اور زلزلے سے بچ گئے تھے، گھروں میں دبنے سے بچ گئے تھے، بھوکے پیاسے تھے تو وہاں بھوک پیاس مٹانے کے لئے خشک راشن کا تو کوئی فائدہ نہیں تھا.کیونکہ باہر بارش ہو رہی تھی لکڑی جل نہیں سکتی تھی.تو ہمارے خدام اسلام آباد سے کئی کئی دیگیں چاول پکوا کے اور ان کے پیکٹ بنا کے لے جاتے تھے.جن علاقوں تک وہ پہنچ سکتے تھے قریب ترین، پورے علاقے کو تو سنبھال نہیں سکتے تھے لیکن ایک دو گاؤں تک جہاں تک وہ پہنچ سکتے تھے وہ پہنچتے رہے اور روزانہ ڈیڑھ دو ہزار آدمیوں کو پکا ہوا کھانا ملتا رہا.پھر اس کے علاوہ روزانہ دو تین ٹرک جماعت کی طرف سے جن میں خشک راشن، کپڑے کمبل وغیرہ بھی جاتے رہے ہیں.پھر ملک کے دوسرے حصوں سے بھی ہر جگہ سے جہاں جہاں جماعت ہے انہوں نے ریلیف فنڈ کے لئے مدد کی ہے.احمدی سامان اکٹھا کر رہے ہیں اور بھیج رہے ہیں.کل ہی تین ٹرک چاول جس میں ساڑھے سات سو بوری چاول تھا.چار ٹرک کمبل ، بستر اور گرم کپڑے وغیرہ سیالکوٹ ، شیخوپورہ سے گئے ہیں.اس سے پہلے لاہور وغیرہ سے بھی جاچکے ہیں.پھر ربوہ سے کل ایک ٹرک گرم کپڑوں کا گیا ہے.وہاں لجنہ ، انصار، خدام ماشاء اللہ سب یہ کام کر رہے ہیں.اپنی ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے ہیں اور یہ امدادی کام سنبھالا ہوا ہے.اور بڑی خوش اسلوبی سے یہ سرانجام دے رہے ہیں.دو دن کی بات ہے میں ٹی وی پر سن رہا تھا کہ سرکاری عہدیدار، کوئی سیاسی لیڈر باتیں کر رہے تھے کہ آئندہ چند دنوں میں ان علاقوں میں شدید سردی پڑنے والی ہے.کشمیر کے علاقے میں تو ٹھنڈ ہوتی ہے.اس لئے فوری طور پر وہاں جو مسئلہ ہے وہ رہائش کا ہے.کیونکہ موجودہ

Page 622

خطبات مسرور جلد سوم 615 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء رہائش تو اس قابل نہیں رہی.اس لئے ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہاں ان کی رہائش کا مسئلہ حل کریں.اور پھر چونکہ بے تحاشا اموات ہوئی ہیں اور ان کو فوری طور پر دفنانے کا بھی انتظام نہیں ہے ،ان کے پاس سامان نہیں اس لئے بیماری پھیلنے کا خطرہ ہے.تو ٹینٹ اور گرم کپڑے اور دوائیاں وغیرہ اور ڈاکٹر وغیرہ فوری طور پر وہاں چاہئیں.جماعت کا خیال تھا کہ کچھ علاقے مخصوص کر کے، جو بھی وہاں حکومت علاقے جماعت کے لئے مخصوص کر دے، وہاں ایک ٹینٹ کالونی قائم کر دی جائے اور اُن لوگوں کو مکمل طور پر جماعت سنبھالے.کم از کم دو مہینے کے لئے راشن وغیرہ اور کھانا وغیرہ بھی مہیا کرے اور ہر چیز رہائش اور کپڑے بھی.اس کے لئے بہر حال کوشش ہو رہی ہے.باقی سامان کا تو انشاء اللہ تعالیٰ انتظام ہو جائے گا بلکہ ہو گیا ہے لیکن وہاں خیمے نہیں مل رہے تھے.کیونکہ فوج نے اور دوسرے لوگوں نے پہلے لے لئے تھے.کچھ تو یہاں سے ہیومینٹی فرسٹ UK نے 500 کے قریب خیمے خریدے ہیں.اسی طرح پاکستانی جماعت نے انتظام کیا ہے، چین سے منگوا رہے ہیں ہزار ڈیڑھ ہزار خیمے.اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ یہ لوگ اس کام کو باحسن کر سکیں اور ہمیشہ کی طرح دکھی انسانیت کی بے نفس ہو کر خدمت کر سکیں.ہیومینیٹی فرسٹ کی طرف سے ڈاکٹروں کا ایک گروپ تقریباً 20 ہزار پونڈ مالیت کی دوائیاں بھی ساتھ لے کر گئے ہیں جس میں پانچ ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس کے دو آدمی شامل ہیں اور جرمنی سے دو ڈاکٹر ز گئے ہیں اور ایک یہاں UK سے بھی گیا ہے جو پاکستان پہنچ چکا ہے.ڈاکٹروں کی ایک ٹیم امریکہ میں بھی تیار بیٹھی ہے جب بھی ان کو اشارہ ملے گا، کیونکہ روٹیشن (Rotation) میں جانا ہے، تو وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ روانہ ہو جائیں گے.ہیومینیٹی فرسٹ کے تحت یہاں سے کنٹینر بھی آج یا کل جانے والا ہے جس میں خیمے اور دوسرا سامان بھی ہوگا.یہ جو ڈاکٹر یہاں سے گئے تھے اب ان کی اطلاع ہے کہ باغ جو وہاں ایک جگہ ہے وہاں وہ پہنچ چکے ہیں اور کام شروع کر دیا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ نقد رقم بھی اور سامان بھی ہو مینیٹی فرسٹ مہیا کرتی رہے گی.لیکن یہ کام اتنا بڑا اور تباہی اتنی وسیع علاقے پر ہے کہ جیسے میں بتا چکا ہوں، چھوٹی چھوٹی

Page 623

خطبات مسرور جلد سوم 616 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء این جی اوز بلکہ پوری حکومتی مشینری بھی اس کو نہیں سنبھال سکتی.ایسی آفتیں جب آتی ہیں تو بڑی بڑی حکومتیں بھی بحالی کا کام نہیں کر سکتیں.اب دیکھیں گزشتہ دنوں امریکہ میں جو دو طوفان آئے تھے ، پہلے نے جو تباہی پھیلا ئی تھی ان کا خیال ہے کہ اس شہر کو آباد کرتے ہوئے تو کئی سال لگ جائیں گے.تو پاکستان کے پاس تو وسائل بھی اتنے نہیں ہیں.بہت تھوڑے سے وسائل ہیں اور تباہی بہت وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی ہے.یہ تو اگر پوری قوم جذبے سے کام کرے، ایمانداری سے امداد کی پائی پائی بحالی پر خرچ ہو تب بھی کئی سال لگ جائیں گے.پاکستان کے ایک ٹی وی چینل پر ڈسکشن (Discussion) ہو رہی تھی، کوئی ایم این اے یا دوسرے سیاسی لوگ مشورے دے رہے تھے کہ ایم این ایز وغیرہ کے ڈویلپمنٹ فنڈ ز بحالی پر خرچ کر دیئے جائیں.بڑی مدد ہو جائے گی.کوئی صاحب کہہ رہے تھے کہ اب عید آ رہی ہے، فطرانہ اس کے اوپر سارا لگا دیا جائے تو بہت اعلیٰ کام ہو جائے گا.یہ تو ٹھیک ہے کہ اس سے کچھ حد تک مدد تو مل جائے گی.یہ اتنی چھوٹی موٹی تو بتا ہی نہیں ہے.بحالی کے لئے تو بڑا خرچ چاہئے.اب مثلاً فطرانہ ہی لے لیں.ان کی بات سے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کی کل آبادی تقریباً15 کروڑ ہے اور میں روپے کہتے ہیں فطرانہ فی کس مقرر ہے کہ اس سے بڑے پیسے جمع ہو جائیں گے.اوّل تو وہاں پر ہر شہری فطرانہ دیتا ہی نہیں.بہت سے غریب لوگ ہیں جو اس قابل ہی نہیں کہ دے سکیں.اور پھر نظام بھی ایسا ہے کہ پورا اکٹھا بھی نہیں کیا جاتا.اگر فرض کر لیا جائے کہ تمام فطرانہ دے دیں گے تو پھر بھی 4 ارب پچاس کروڑ روپے ہی رقم بنتی ہے.جبکہ ہمارے اندازے کے مطابق دو ماہ کا راشن اور ٹینٹ اور گرم کپڑے وغیرہ اگر ایک خاندان کو مہیا کئے جائیں تو 16 ہزار روپے فی خاندان کا خرچ ہے.پہلے تو کہہ رہے تھے کہ 40لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں.اب کہتے ہیں 50 لاکھ.ابھی کسی کو اندازہ نہیں ہے.موتیں بھی بے تحاشہ ہیں بہر حال اگر یہ تعداد لی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ کم از کم آٹھ لاکھ خاندان متاثر ہوا ہے.اس حساب سے تقریباً دو ماہ کے لئے اگر ان کو کھانا پینا دینا ہواور ٹینٹ مہیا کرنے ہوں تو تقریباً 13 ارب روپے چاہئے.13 ارب روپے کا مطلب ہے 130 ملین پونڈ اگر

Page 624

خطبات مسرور جلد سوم 617 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء صرف دو مہینے کا کھانا دیں.اگر اپنے ڈویلپمنٹ اخراجات بھی خرچ کر دیں اور سب کچھ خرچ کر دیں تب بھی ممکن نہیں ہے.اور ہم جب اندازہ لگاتے ہیں تو ہم تو ایک ایک پائی خرچ کر رہے ہوتے ہیں..کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا.لیکن سرکاری کاموں میں تو بے تحاشا اخراجات ہو رہے ہوتے ہیں.پھر جماعت کے بہت سارے کام والنٹیئر ز کے ذریعے ہوتے ہیں.خدمت خلق کے ذریعے سے ہو رہے ہوتے ہیں.خدمت خلق کے جذبہ کے تحت ہو رہے ہوتے ہیں.دوسروں میں یہ جذ بہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے.آجکل گو کہ جذبہ پیدا ہوا ہوا ہے لیکن دیکھیں کتنی دیر قائم رہتا ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ صرف دو مہینے کا خرچ ہے.جو تباہی آئی ہے، سڑکیں، ہسپتال ، سکول اور متفرق چیزیں ان کو بحال کرنے کے لئے ایک انفراسٹرکچر بحال کرنے کی ضرورت پیش آئے گی.پھر لوگوں کے گھر ہیں، کاروبار ہیں، ایک خوفناک صورت حال ہے جو اس علاقے میں ہے.ان کے لئے تو بلیز روپوں کی ضرورت ہوگی.اربوں کی باتیں نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ رحم کرے اور آئندہ ملک کو ہر آفت سے بچائے.یہ سارے لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے ہوں.حکومت کے ادارے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں.اور عوام کی خدمت اور بحالی کے کام میں اسی طرح اچھے نمونے قائم کریں جس طرح آج کل اظہار کیا جارہا ہے.جس طرح ایک سیاسی لیڈر نے کہا کہ ان حالات میں سیاسی فائدے نہ اٹھا ئیں بلکہ ایک ہو کر کام کریں.اور بظاہر عمومی طور پر پروگراموں میں یہ نظارے ایک ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں.اللہ کرے کہ یہ ایک ہونا ہمیشہ قائم بھی رہے.اور یہ اپنے رویے مستقل طور پر ایسے ہی کر لیں.ایک قوم ہو کر آفت زدوں کی مدد کریں.سیاسی مخالفتیں اور مذہبی منافرتیں ختم کریں.علماء ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے بند کریں.اس سے باز آ ئیں.استغفار زیادہ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ مہربان ہو اور قوم کو آئندہ ہر قسم کی آفت سے محفوظ رکھے.ان حالات میں جب آسمانی آفات کا امکان ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہمارے سامنے کیا ہے.آپ نے کیا دعاؤں کے نمونے ان سے بچنے کے لئے قائم کئے ان کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے.آجکل پاکستانی اخباروں میں آتا ہے خود ان کے بعض علماء یہ مانتے

Page 625

خطبات مسرور جلد سوم 618 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں وارنگ ہے تو چاہئے کہ ایک دوسرے سے خدا کی خاطر محبت کریں اور سمجھیں کہ کیوں وارننگ ہے.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ہمیشہ پناہ مانگیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ہمیں ایک دعا یوں سکھائی ہے کہ : اے اللہ ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں ، اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں.میں خالص تیری پناہ چاہتا ہوں.میں تیری تعریف شمار نہیں کر سکتا.بے شک تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے خود اپنی تعریف آپ کی ہے.(ابن ماجة.كتاب اقامة الصلوة - باب ماجاء في القنوت في الوتر) پس اللہ کی رضا کی پناہ اور اللہ کی معافی کی پناہ میں آنے کے لئے اپنے آپ کو بدلنا چاہئے.سیاسی لیڈروں کو بھی ، علماء کو بھی ، عام آدمی کو بھی.آپس کی نفرتوں اور کدورتوں اور دشمنیوں کو، ایک دوسرے پر کفر کے فتووں کو ختم کرنا چاہئے.ہم احمدی بہر حال ہمدردی کے جذبے سے یہ دعا کرتے ہیں کہ جس طرح بظا ہر آجکل اس آفت کی وجہ سے پوری قوم ایک ہوئی ہوئی ہے ہمیشہ ایک رہے اور اللہ کا خوف ان کے دل میں قائم ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ حال تھا کہ بارش ، بادل کو دیکھ کر بھی آپ کی عجیب حالت ہو جایا کرتی تھی.اس کا ایک روایت میں ذکر آتا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل یا آندھی کے آثار دیکھتے تو آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا.کہتی ہیں ایک دن میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! لوگ تو با دل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی.مگر میں دیکھتی ہوں کہ آپ بادل دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں.آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا پتہ اس آندھی میں بھی ویسا ہی عذاب پوشیدہ ہو جس سے ایک قوم ہلاک ہو گئی تھی.اور ایک قوم ایسی گزری ہے جس نے عذاب دیکھ کر کہا تھا کہ یہ تو بادل ہے برس کر چھٹ جائے گا.مگر وہی بادل ان پر درد ناک عذاب بن کر برسا.(بخاری.کتاب التفسير - سورة الاحقاف باب قوله فلما رأوه عارضا مستقبل أوديتهم) پس ہم جو مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں.ان سب کو یہی

Page 626

خطبات مسرور جلد سوم 619 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء کہتے ہیں کہ اس اُسوہ کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنی چاہئے اور اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہیئے.پھر ایک روایت میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا کا یوں ذکر کیا ہے: حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بادل گرج اور کڑک، سنتے تو یہ دعا کرتے کہ اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلَا تُهْلِكُنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ (ترمذى كتاب الدعوات - باب ما يقول اذا سمع الرعد) کہ اے اللہ! تو ہمیں اپنے غضب سے قتل نہ کرنا.اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کرنا اور اس سے پہلے ہمیں بچا لینا.پھر ایک دعا کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے: حضرت عائشہ کہتی ہیں جب کبھی آندھی چلتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے کہ اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلْكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا فِيْهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَافِيْهَا وَشَرِّمَا أُرْسِلَتْ بِهِ (مسلم، کتاب صلاة الاستسقاء باب التعوذ عند رؤية الريح والغيم) اے اللہ ! میں اس آندھی کی تجھ سے ظاہری اور باطنی خیر و بھلائی چاہتا ہوں اور وہ خیر بھی چاہتا ہوں جس کے ساتھ یہ ھیجی گئی ہے.اور میں اس کے ظاہری و باطنی شر سے اور اس شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے.پھر آپ کی دعا ہے کہ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ (مسلم کتاب الرقاق، باب اكثر اهل الجنة الفقراء) کہ اے اللہ ! میں تیری نعمت کے زائل ہو جانے سے، تیری عافیت کے ہٹ جانے سے، تیری اچانک سزا سے اور ان سب باتوں سے پناہ مانگتا ہوں جن سے تو ناراض ہو.

Page 627

خطبات مسرور جلد سوم 620 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء پھر ایک اور دعا آنحضرت سے مروی ہے کہ: اعُوْذُ بِوَجْهِ اللَّهِ الْعَظِيمِ الَّذِي لَيْسَ شَيْى ءُ أَعْظَمُ مِنْهُ وَبِكَلِمَاتِ اللَّهِ التّامَّاتِ الَّتِى لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَّلَا فَاحِرٌ وَبِأَسْمَاءِ اللَّهِ الْحُسْنَى كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ » 66 (موطاء امام مالک ، کتاب الجامع باب مايُؤمَرُ به مِنَ التَّعَوِّذ) کہ میں اپنے عظیم شان والے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ جس سے عظیم تر کوئی شے نہیں اور ان کامل اور مکمل کلمات کی پناہ میں بھی کہ جن سے کوئی نیک و بد تجاوز نہیں کرسکتا.اور اللہ کی تمام نیک صفات جو مجھے معلوم ہیں یا نہیں معلوم ان سب کی پناہ طلب کرتا ہوں اس مخلوق کے شر سے جسے اس نے پیدا کیا اور پھیلایا.پس یہ سنت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قائم فرما گئے اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ ہر احمدی کو سب سے بڑھ کر یہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے اور بہت زیادہ استغفار کرنی چاہئے.جب 100 سال پہلے 1905 ء میں کانگڑہ کا زلزلہ آیا تو قادیان میں بھی اس کے جھٹکے لگے تھے.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں روایت میں آتا ہے کہ آپ سب گھر والوں اور دوستوں کو لے کر بڑی دیر تک نفلوں اور دعاؤں سجدوں اور رکوع میں پڑے رہے.اور روایت میں آتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی سے سخت لرزاں وتر ساں تھے.بڑا سخت خوف تھا.خشیت طاری تھی.اور پھر کہتے ہیں اس وقت بھی تھوڑے تھوڑے وقفے سے زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے رہتے تھے.اس لئے آپ کا سب خدام کو لے کر تین منزلہ عمارت میں رہنا بہتر نہیں تھا ، قادیان میں جو آپ کا باغ تھا وہاں چلے گئے اور خیمے لگا کر وہاں رہے تھے.تو اس بات کو بھی ہر ایک احمدی کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہر آفت جو آتی ہے اس سے بہت زیادہ اپنے آپ کے محفوظ رہنے کے لئے بھی اور قوم کے محفوظ رہنے کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں.اور ان دعاؤں میں، ان سجدوں میں یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اپنی ان دعاؤں میں اور ان سجدوں میں قوم کے لئے بھی دعائیں کر رہے ہوں گے، بلکہ قوم کے لئے ہی کر رہے

Page 628

خطبات مسرور جلد سوم 621 خطبہ جمعہ 14 اکتوبر 2005ء ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عذاب سے بچائے.اس لئے ہر احمدی کو ان آفات سے پناہ مانگنی چاہئے.اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے پناہ مانگنی چاہئے.جو دعائیں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کے ذریعہ پہنچی ہیں وہ بھی مانگیں اور اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگیں.استغفار بھی بہت کثرت سے کرنی چاہئے.اپنی قوم کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں جیسا کہ میں نے کہا ہے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں ایسی حالت میں دعا کرنے کا جو طریق سکھایا ہے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں کہ: جماعت کے سب لوگوں کو چاہئے (اُس وقت کے زلزلے کی کیفیت کی یہ دعا آپ نے بتائی ہے ) کہ اپنی حالتوں کو درست کریں.توبہ و استغفار کریں اور تمام شکوک و شبہات کو دور کر کے اور اپنے دلوں کو پاک وصاف کر کے دعاؤں میں لگ جائیں اور ایسی دعا کریں کہ گویا مر ہی جائیں تا کہ خدا ان کو اپنے غضب کی ہلاکت کی موت سے بچائے.بنی اسرائیل جب گناہ کرتے تھے تو حکم ہوتا تھا کہ اپنے تئیں قتل کرو.اب اس امت مرحومہ سے وہ حکم تو اٹھایا گیا ہے مگر یہ اس کی بجائے ہے کہ دعا ایسی کرو کہ گویا اپنے آپ کو قتل ہی کر دو“.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 256 جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دعاؤں کے یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آجکل رمضان کا بابرکت مہینہ بھی ہے اور اس میں قبولیت دعا کے بھی خاص مواقع ملتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ عطا فرمایا ہوا ہے.اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر دنیا کی ہدایت اور تباہی سے بچنے کے لئے ہر احمدی کو دعا کرنی چاہئے.اور اپنے آپ کو بھی ہر آفت سے محفوظ رکھنے کے لئے دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو دعا کرنے کی توفیق بھی دے اور محض اور محض اپنے فضل سے ان دعاؤں کو قبول بھی فرمائے.

Page 629

622 خطبات مسرور جلد سوم

Page 630

خطبات مسرور جلد سوم 623 (41) خطبه جمعه 21 اکتوبر 2005ء تلاوت قرآن کریم کی اہمیت ، آداب اور برکات خطبه جمعه فرموده 21 /اکتوبر 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.الَّذِينَ أَتَيْهُمُ الْكِتَبَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِه أُولَيكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَيكَ هُمُ الْخَسِرُونَ (البقرة: 122) پھر فرمایا:.آجکل ماشاء اللہ جہاں رمضان کی وجہ سے مسجدوں میں درسوں کے سنے اور پھر اس کا مختصر ترجمہ اور تفسیر یا اہم مقامات کی وضاحت سنے کا موقع میسر ہوتا ہے جس سے بڑے شوق کے ساتھ بہت سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں.اور پھر نماز تراویح میں قرآن کریم کا دور مکمل ہو رہا ہوتا ہے اور خاصی تعداد اس سے بھی فائدہ اٹھاتی ہے، وہاں گھروں میں بھی قرآن کریم پڑھنے ، اس کی تلاوت کرنے اور بعض کو اس کا ترجمہ پڑھنے کا بھی موقع ملتا ہے.عموماً ماشاء اللہ ! اکثر احمدی گھروں میں رمضان میں قرآن کریم کے پڑھنے کی طرف خاص توجہ ہوتی ہے.اس کی ایک وجہ تو رمضان کی وجہ سے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے کی مومن عمومی کوشش کرتا ہے.دوسرے قرآن کریم کو جیسا کہ ہم جانتے ہیں رمضان سے ایک خاص نسبت ہے.اس کا نزول اس مہینے میں شروع ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے حضور مناجات کو خدا تعالیٰ نے

Page 631

خطبات مسرور جلد سوم 624 خطبه جمعه 21 /اکتوبر 2005ء سنا اور اپنی رحمت کے دروازے کھولے اور دنیا کو گند اور شرک میں پڑا ہوا دیکھ کر بے چین اور بیزار ہونے والے وجود کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے آخری شرعی کتاب دے کر دنیا میں مبعوث فرمایا.اور پھر 23 سال کے لمبے عرصہ تک یہ شریعت اترتی رہی اور جبریل آپ کے پاس ہر رمضان میں اس وقت تک کے نازل شدہ قرآن کا ایک دور مکمل کرواتے تھے.اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے سال (جس سال آپ کا وصال ہوا) اس سال کا جورمضان تھا، اس سال میں جبکہ شریعت مکمل اور کامل ہو چکی تھی جبریل نے دو دفعہ قرآن کریم ختم کروایا.پس یہ سنت ہے جس کو مومن جاری رکھتے ہیں.اور کم از کم ایک یا دو دفعہ رمضان میں قرآن کریم کا دور مکمل کرتے ہیں ختم کرتے ہیں، پڑھتے ہیں.اور جن کو تو فیق ہو وہ دو دفعہ سے زیادہ بھی پڑھ لیتے ہیں.لیکن اتنی جلدی بھی نہیں پڑھنا چاہئے کہ سمجھ ہی نہ آئے کہ کیا پڑھ رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جواہل زبان تھے،عرب تھے ان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جس نے تین دن سے کم عرصے میں قرآن کریم کو ختم کیا اس نے قرآن کریم کا کچھ بھی نہیں سمجھا.“ (ترمذى.ابواب القراءات باب ما جاء انزل القرآن على سبعة أحرف) ایک روایت میں سات دن کا بھی ذکر آتا ہے.تو صحابہ کی بھی جو اپنی استعداد تھی اس کے مطابق آپ حکم دیا کرتے تھے، ارشاد فرمایا کرتے تھے، نصیحت فرمایا کرتے تھے.بہر حال بنیادی مقصد یہی ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرو، اس کے مطالب پر غور کرو، اس کی تعلیمات پر غور کرو.ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ.اگر اس طرح قرآن کریم کی تلاوت نہیں کر رہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.صحابہ نے اس نکتے کو خوب سمجھا کہ قرآن کریم کو کس طرح پڑھنا ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی گواہی دی.جیسا کہ اس آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی، وہ اس کی ایسی ہی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو درحقیقت اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی بھی اس کا انکار کرے پس وہی ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں.

Page 632

خطبات مسرور جلد سوم 625 خطبه جمعه 21 اکتوبر 2005ء تو یہ تھے وہ لوگ جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوت قدسی اور اس کتاب کے ذریعہ سے نہ صرف انسان بنایا بلکہ عبادت گزار اور باخدا انسان بنایا.یہ تلاوت کا حق وہ کس طرح ادا کیا کرتے تھے؟.کیا صرف پڑھ لینے سے ہی حق ادا ہو جاتا ہے؟.نہیں، بلکہ اس کے بھی کچھ لوازمات ہیں.اس کے لئے بھی کچھ شرطیں ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح رمضان میں آجکل ہم میں سے ہر کوئی صبح جلدی اٹھتا ہے اور نفل ادا کرتا ہے پھر روزہ رکھنے کے لئے سحری کھاتا ہے، اور پھر نماز کے لئے جاتا ہے.اگر سحری اور نفل کے درمیان میں وقت ہو تو پھر بعض دفعہ بعض لوگ اُس وقت میں قرآن کریم کی تلاوت بھی کر لیتے ہیں.نوافل میں قرآن کریم جتنا یاد ہو وہ پڑھا جاتا ہے.اور پھر نماز کے بعد بھی ہر گھر میں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے.عموماً کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر گھر میں تلاوت ہو رہی ہو.کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جس سے روحانیت میں زیادہ ترقی ہوتی ہے.اس وقت ایک خاص ماحول ہوتا ہے.اس طریق کو ہمیں جاری رکھنا چاہئے.رمضان کے بعد بھی ، روزے تو رمضان کے بعد نہیں رکھنے ہوں گے لیکن نفل ہیں، نماز ہے، قرآن کریم کی تلاوت ہے، وقت پر صبح اٹھنا چاہئے اور یہ کام ضرور کرنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فجر کے وقت کی تلاوت کی اہمیت بیان فرمائی ہے کہ وَقُرْان الفجر اور قرآن اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دو.اور پھر فرمایا ان قران لْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (بنی اسرائیل: 79) کہ یقیناً فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اس کی گواہی دی جاتی ہے.پس یہ صبح کے وقت کی تلاوتیں ہر مومن کے لئے گواہ بن رہی ہوں گی.لیکن کیا صرف پڑھ لینا ہی کافی ہے.ہماری دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے اور ہمارے حق میں گواہی دینے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں بلکہ جو تلاوت کی ہے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے.تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کوفر مایا تھا، میں نے ضمناً پہلے بھی ذکر کیا تھا لیکن تفصیلی حدیث یہ ہے.آپ نے فرمایا : ” قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو“ (بخاری ، کتاب فضائل القرآن ، باب في كم يقرأ القرآن؟)

Page 633

خطبات مسرور جلد سوم 626 خطبه جمعه 21 اکتوبر 2005ء تا کہ آہستہ آہستہ جب پڑھو گے ،غور کرو گے، سمجھو گے تو گہرائی میں جا کر اس کے مختلف معانی تم پر ظاہر ہوں گے.لیکن جب انہوں نے کہا کہ میرے پاس وقت بھی ہے اور اس بات کی استعداد بھی رکھتا ہوں کہ زیادہ پڑھ سکوں تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے پھر ایک ہفتہ میں ایک دور مکمل کر لیا کرو اس سے زیادہ نہیں.تو آپ صحابہ کو سمجھانا چاہتے تھے کہ صرف تلاوت کر لینا، پڑھ لینا کافی نہیں ہے.انسان جلدی جلدی پڑھنا شروع کرے تو دس گیارہ گھنٹے میں پورا قرآن پڑھ سکتا ہے لیکن اس میں سمجھ خاک بھی نہیں آئے گی.بعض تراویح پڑھنے والے حفاظ اتنا تیز پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا الفاظ پڑھ رہے ہیں.جماعت میں تو میرے خیال میں اتنا تیز پڑھنے والا شاید کوئی نہ ہو لیکن غیر از جماعت کی مساجد میں تو 18-20 منٹ میں یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں ایک پارہ بھی پڑھ لیتے ہیں اور دس گیارہ رکعت نفل بھی پڑھ لیتے ہیں.تو اتنی جلدی کیا خاک سمجھ آتی ہو گی ؟ تلاوت کرنے کی بھی ہر ایک کی اپنی استعداد ہوتی ہے اور انداز ہوتا ہے.کوئی واضح الفاظ کے ساتھ زیادہ جلدی بھی پڑھ سکتا ہے.کچھ زیادہ آرام سے پڑھتے ہیں لیکن ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تلاوت سمجھ کر کرو.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.﴿وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ﴾ (المزمل: 5) کہ قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کرو.اب جس نے 20-18 منٹ میں یا آدھے گھنٹے میں نماز پڑھانی ہے اور قرآن کریم کا ایک پارہ بھی ختم کرنا ہے،اس نے کیا سمجھنا ہے اور کیا نکھارنا ہے.ایک دفعہ میں وقف عارضی پر کسی کے ساتھ گیا ہوا تھا.تو ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم تلاوت سے فارغ ہوئے تو وہ مجھے کہنے لگے کہ میاں تم سے مجھے ایسی امید نہیں تھی.میں سمجھا پتہ نہیں مجھ سے کیا غلطی ہو گئی.میں نے پوچھا ہوا کیا ہے.کہنے لگے کہ میں دو تین دن سے دیکھ رہا ہوں کہ تم تلاوت کرتے ہو تو بڑی ٹھہر ٹھہر کے تلاوت کرتے ہو.اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اسکتے ہو تمہیں ٹھیک طرح قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا.تو میں نے ان کو کہا کہ اٹکتا نہیں ہوں بلکہ مجھے اسی طرح عادت پڑی ہوئی ہے.ہر ایک کا اپنا اپنا طریق ہوتا ہے.اس حدیث کا حوالہ تو نہیں پتہ تھا.قرآن کی یہ آیت میرے ذہن میں نہیں آئی.لیکن میں نے کہا مجھے تیز پڑھنا بھی آتا ہے بے شک

Page 634

خطبات مسرور جلد سوم 627 خطبه جمعه 21 /اکتوبر 2005ء تیز پڑھنے کا مقابلہ کر لیں لیکن بہر حال جس میں مجھے مزا آتا ہے اسی طرح میں پڑھتا ہوں، تلاوت کرتا ہوں.تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی علمیت دکھانے کے لئے بھی سمجھتے ہیں کہ تیز پڑھنا بڑا ضروری ہے حالانکہ اللہ اور اللہ کے رسول کہہ رہے ہیں کہ سمجھ کے پڑھوتا کہ تمہیں سمجھ بھی آئے اور یہی مستحسن ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا ہر ایک کی اپنی اپنی استعداد ہے.ہر ایک کی اپنی سمجھنے کی رفتار اور اخذ کرنے کی قوت بھی ہے تو اس کے مطابق بہر حال ہونا چاہئے اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت ہونی چاہئے.قرآن کریم کا ادب بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے.اگر اچھی طرح ترجمہ آتا بھی ہو تب بھی سمجھ کر ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھنا چاہئے تاکہ ذہن اس حسین تعلیم سے مزید روشن ہو.پھر جب انسان سمجھ لے، ہر ایک کا اپنا علم ہے اور استعداد ہے جس کے مطابق وہ سمجھ رہا ہوتا ہے جیسا کہ میں نے کہا لیکن قرآن کریم کا فہم حاصل کر کے اس کو بڑھانا بھی مومن کا کام ہے.ایک جگہ ہی یہ تعلیم محدود نہیں ہو جاتی.تو جتنی بھی سمجھ ہے، بعض تو بڑے واضح احکام ہیں، سمجھنے کے بعد ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.کسی بھی اچھی بات کا یا نصیحت کا فائدہ تبھی ہو سکتا ہے جب وہ نصیحت پڑھ یا سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہو گی.کیونکہ تلاوت کا ایک مطلب پیروی اور عمل کرنا بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرما دیا ہے کہ یہ قرآن میں نے تمہارے لئے ، ہر اس شخص کے لئے جو تمام نیکیوں اور اچھے اعمال کے معیار حاصل کرنا چاہتا ہے اس قرآن کریم میں یہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے تمام اصول اور ضابطے مہیا کر دیئے ہیں.ہر قسم کے آدمی کے لئے ، ہر قسم کی استعداد رکھنے والے کے لئے ، اور نہ صرف یہ کہ جیسا کہ میں نے کہا کسی خاص آدمی کے لئے نہیں رکھے ہیں بلکہ ہر طبقے اور ہر معیار کے آدمی کے لئے رکھے ہیں.اور اس میں ہر آدمی کے لئے نصیحت ہے وہ اپنی استعداد کے مطابق سمجھ لے.فرمایا کہ ﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مدكر (القمر: 18).اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا ہے.پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا.اب یہ ہمارے پر ہے کہ ہم اس تعلیم کو کس حد تک اپنے اوپر لاگو کر تے ہیں اور اس کی تعلیمات سے نصیحت پکڑتے ہیں.

Page 635

خطبات مسرور جلد سوم 628 خطبه جمعه 21 اکتوبر 2005ء پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پُر کلام کو ، جیسا کہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے، اپنی زندگیوں پر لا گو بھی کریں.اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کریں.اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں، ان سے بچیں، اور کبھی بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میں ذکر ہے.فرمایا کہ وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : 31) اور رسول کہے گا اے میرے رب ! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.یہ زمانہ اب وہی ہے جب اور بھی بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.پڑھنے والی کتابیں بھی اور بہت سی آ چکی ہیں.اور بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.انٹرنیٹ وغیرہ ہیں جن پر ساری ساری رات یا سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں.اس طرح ہے کہ نشے کی حالت ہے اور اس طرح کی اور بھی دلچسپیاں ہیں.خیالات اور نظریات اور فلسفے بہت سے پیدا ہو چکے ہیں.جو انسان کو مذہب سے دور لے جانے والے ہیں اور مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں ہیں.دنیا میں سارا معاشرہ ہی ایک ہو چکا ہے.قرآنی تعلیم کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کی تعلیمات پر ہر جگہ عمل ہو رہا ہے.یہی زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.اسی زمانے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ قرآن کو متروک چھوڑ دیا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی اس متروک شدہ تعلیم کو دنیا میں دوبارہ رائج کرنا ہے اور آپ نے یہ رائج کرنا تھا بھی اور آپ نے یہ رائج کر کے دکھایا بھی ہے.آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے پر لاگو کرنے والا ہو بلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھائے.اور کبھی بھی یہ آیت جو میں نے اوپر پڑھی ہے کسی احمدی کو اپنی لپیٹ میں نہ لے.ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ جو لوگ قرآن کو

Page 636

خطبات مسرور جلد سوم 629 خطبه جمعه 21 را کتوبر 2005ء عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں.اور عزت اس وقت ہو گی جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے.اور جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والا اور ہمارے لئے رحمت کی چھتری ہوگا.جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (بنی اسرائیل: 83) اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھاتا.پس ہمیں چاہئے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے تمام اوامر ونواہی کو سامنے رکھیں اور اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں.اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تبھی ہم روحانی اور جسمانی شفا پانے والے بھی ہوں گے اور قرآن کریم ہمارے لئے رحمت کا باعث بھی ہوگا.اور عمل نہ کرنے والے تو ظالم ہیں اور ان کے لئے سوائے گھاٹے کے اور کچھ ہے ہی نہیں ، جیسا کہ قرآن شریف نے فرمایا.ان کی تو آنکھ ہی اندھی ہے.ان کو تو قرآن کریم کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.اسلام کے خلاف بہت ساری کتابیں لکھی جاتی ہیں.بعض گو کہ مسلمان نہیں ہیں ، عیسائی ہیں، لیکن بعض دفعہ حق میں بھی باتیں لکھ دیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک کتاب لکھنے والی ہیں کیرن آرمسٹرانگ.انہوں نے اپنی کتاب میں کسی کا حوالہ Quote کیا ہے.کوئی لکھنے والا ہے فیٹر ویلڈن، اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اندھوں کی نشانی بتا دی ہے.اس نے قرآن کریم سے کیا اخذ کیا ؟ سنیں ، وہ کہتا ہے که قرآن کریم میں کوئی بھی قابل توجہ اور سوچنے والی بات نہیں ہے.پھر کہتا ہے کہ یہ کوئی ایسا کلام نہیں ہے کہ جس پر معاشرہ عقل و شعور سے بنیاد کر سکے.مفہوم تقریباً یہی بنتا ہے اس کی باتوں کا.پھر کہتا ہے کہ یہ صرف طاقت اور ہتھیار مہیا کرتا ہے ان لوگوں کو جو ہر اس تصور کو دباتے ہیں جو ان کے خیال سے مطابقت رکھنے والا نہ ہو.اور پھر آگے اسی طرح لکھتا ہے کہ اس کا نفس مضمون محدود ہے اور سوچوں کو محدود کرنے والا ہے.تو قرآن نے تو پہلے ہی دعویٰ کر دیا ہے ایسے لوگوں کے

Page 637

خطبات مسرور جلد سوم 630 خطبه جمعه 21 اکتوبر 2005ء بارے میں اور ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے ہدایت پانی ہے کہ یہ تو ہدایت ان کو دیتا ہے جن کے دل میں کوئی نیکی ہو یا نیکی کی طرف جانے کا رجحان ہو.شروع میں فرما دیا کہ ھدی للمتقين (البقرة: 3) تو ہر ایک کا جو پہلے مسلمان نہیں بھی ہوا تقویٰ کا ایک معیار ہے کہ چیزوں کو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو کے دیکھے.یہ بھی ایک تقویٰ کی قسم ہے.تو یہ تو متقیوں کے لئے جوصاف ذہن رکھتے ہیں ان کے لئے ہدایت ہے.تو جس نے دیکھنا ہی تعصب کی نظر سے ہے اس کے لئے تو قرآن نے خود ہی کہہ دیا ہے کہ ان کو کبھی ہدایت نہیں دے گا.بلکہ فرمایا کہ یہ متعصب لوگ جو اسلام کی دشمنی کی باتیں کرتے ہیں یہ تو ظالم لوگ ہیں اور قرآن کریم میں ان کے لئے سوائے گھاٹے کے اور کچھ بھی نہیں ہے.جیسا کہ فرمایا ہے ﴿وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا (بنی اسرائیل: 83) کہ وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا کسی چیز میں نہیں بڑھاتا.پس اب یہ احمدی کا فرض ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی تلاوت کو بھی اور اس پر عمل کر کے بھی اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائیں تاکہ ہر احمدی کے عمل سے ان ظالموں کے منہ خود بخود بند ہوتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” قرآن شریف پر تدبر کرو.اس میں سب کچھ ہے.نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں.انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا.اس کی تعلیم اُس زمانے کے حسب حال ہو تو ہولیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں.یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے.اور تمام قومی کی تربیت فرمائی ہے.اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے.اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو.اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو“.(ملفوظات جلد 5 صفحه 102 جدید ایڈیشن)

Page 638

خطبات مسرور جلد سوم 631 خطبه جمعه 21 اکتوبر 2005ء اب میں چند احادیث پیش کرتا ہوں جن سے قرآن کریم کے پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی برکات پر مزید روشنی پڑتی ہے.عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے قرآن کا ایک حرف بھی پڑھا اس کو اس کے پڑھنے کی وجہ سے ایک نیکی ملے گی اور اس ایک نیکی کی وجہ سے دس اور نیکیاں ملیں گی.پھر فرمایا میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، اور لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے.(ترمذى كتاب فضائل القرآن باب ماجاء فى من قرأ حرفا من القرآن......پھر ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: وہ شخص جو قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اس میں عبور رکھتا ہے، اچھی طرح پڑھتا ہے، وہ فرمانبردار اور معز ز سفر کرنے والوں کے ساتھ ہوگا.ان کے ساتھ اس کو مقام ملے گا.(ترمذى كتاب فضائل القرآن باب ماجاء في فضل قارى ، القرآن) پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : جس شخص نے ایک رات میں پچاس آیات قرآن کی تلاوت کیں وہ غافل لوگوں میں شمار نہ کیا جائے گا.“ (سنن الدارمي - كتاب فضائل القرآن باب من قرأ خمسين آية) ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ : ” جس نے ایک رات میں پچاس آیات قرآن کی تلاوت کیں وہ حفاظ قرآن میں شمار ہوگا.“ (سنن الدارمي - كتاب فضائل القرآن باب من قرأ خمسين آية) اور حفاظ قرآن کے درجات کے بارے میں روایت میں یوں ذکر آتا ہے.حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حافظ قرآن کو جنت میں داخل ہوتے وقت کہا جائے گا کہ تم قرآن پڑھتے جاؤ اور بلندی کی طرف چڑھتے جاؤ.پس وہ قرآن کریم پڑھتا جائے گا اور بلندی کی منازل طے کرتا جائے گا.کیونکہ ہر ایک آیت کے بدلے اس کے لئے ایک درجہ ہوگا.یہاں تک کہ آخری آیت کے پڑھنے تک جو اسے یاد ہوگی وہ

Page 639

خطبات مسرور جلد سوم 632 خطبہ جمعہ 21 /اکتوبر 2005ء بلندی کی طرف چڑھتا جائے گا.(سنن ابن ماجه كتاب الادب باب ثواب القرآن) پھر قرآن کریم کی گھروں میں باقاعدہ تلاوت کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھروں میں کثرت سے تلاوت قرآن کریم کیا کرو.یقیناً وہ گھر جس میں قرآن نہ پڑھا جاتا ہو وہاں خیر کم ہو جاتی ہے.اور وہاں شر زیادہ ہو جاتا ہے.اور وہ گھر اپنے رہنے والوں کے لئے تنگ پڑ جاتا ہے.(کنز العمال.ادب المعبر الفصل الثاني في آداب البيت والبناء حدیث نمبر 41496 مطبوعه مكتبة التراث الاسلامي حلب) پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھے.اس رمضان میں گھر کے ہر فرد نے جس برکت کو قرآن کریم کی تلاوت کر کے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اس کو جاری رکھیں.اس برکت سے نہ صرف دین و دنیا سنوار رہے ہوں گے بلکہ شیطان کے حملوں کے خلاف طاقت بھی حاصل کر رہے ہوں گے.لیکن یاد رکھیں کہ یہ برکتیں اس وقت حاصل ہو رہی ہوں گی جب اس کو سمجھ کر ، اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں گے.ورنہ تو اندھوں والا ہی حال ہو گا جس کا میں نے ذکر کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ برکت حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور چال چلن کو اس تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو.پھر قرآن کریم کی تلاوت کس طرح کرنی چاہئے اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قرآن کے حسن میں اپنی عمدہ آواز کے ساتھ اضافہ کیا کرو.کیونکہ عمدہ آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کا موجب ہوتی ہے.“ (سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن.....باب التغنى بالقرآن)

Page 640

خطبات مسرور جلد سوم 633 خطبه جمعه 21 اکتوبر 2005ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : پرستش کی جڑ تلاوت کلام الہی ہے.کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا جائے یا سنا جائے تو ضرور بچے محبت کے لئے محبت انگیز ہوتا ہے اور شورش عشق پیدا کرتا ہے.(سرمه چشم آریه.روحانی خزائن جلد 2، صفحہ 283).ایک گرمی پیدا ہوتی ہے اور عشق میں توجہ پیدا ہوتی ہے.پس اگر خدا تعالیٰ سے محبت کا دعوئی ہے.تو اس محبت میں مزید اضافے کے لئے اور خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ہمیں قرآن کریم کو پڑھنا چاہئے اور سمجھ کر پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے اور یہ بہت ضروری ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، کسی صاحب نے سوال کیا تھا اس کے جواب میں فرمایا کہ : " قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے.( بڑا غور کرو اس پر ) حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارِ يَلْعَنُهُ الْقُرْانُ یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے.تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے.اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر وغور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے“.(ملفوظات جلد 5صفحہ157جدید ایڈیشن) تو یہ ہے قرآن کریم پڑھنے کا طریق.حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرت عل اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن کریم پڑھا کرو یقیناً وہ قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفاعت کرے گا.فرمایا زَهْرَاوَيْن دو خوشنما اور حسین پھولوں یعنی سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران کی تلاوت کیا کرو.یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن دو بدلیوں کی مانند ہوں گی یا دو منتہائے مقصود.ایسی چیز میں جن کو حاصل کرنا ہو.یا صفت بستہ پرندوں کی دوٹولیوں کی شکل میں ہوں گی.اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوں گی ، ان کے حق میں بیان کر رہی ہوں گی.

Page 641

خطبات مسرور جلد سوم 634 خطبه جمعه 21 اکتوبر 2005ء پھر فرمایا کہ سورۃ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کو اختیار کرنا یا عمل کرنا موجب برکت ہے اور اس کو چھوڑنے میں حسرت.اور کوئی جھٹلانے والا اسے جھٹلا نہیں سکتا.یا کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.(مسلم، کتاب فضائل القرآن باب فضل قراءت القرآن وسورة البقرة) تو یہی ہے کہ سورۃ بقرہ اور آل عمران میں جو مضمون ہیں ان کو سمجھو، پڑھو، تلاوت کرو، ان پر عمل کرو تو بہت ساری باتیں اس سے حاصل ہو جاتی ہیں.اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ باقی قرآن کریم کی تلاوت ضروری نہیں ہے.اور یہ دو سورتیں ہی ہیں جن کی ہر وقت تلاوت کی جائے.بلکہ ان کے مضمون کے لحاظ سے اور ان کو سمجھ کر عمل کرنے کے لحاظ سے بات کی گئی ہے.پھر ان کو یاد کر کے نماز میں، خاص طور پر اپنے نوافل میں پڑھنے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی کی رات کو آنکھ کھل گئی تو انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نفل پڑھ رہے ہیں.تو وہ بھی بڑے شوق سے ساتھ شامل ہو گئے.کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد تھک کے میرا برا حال ہو گیا.(مسلم ، کتاب صلاة المسافرين، باب استحباب تطويل القراءة في صلاة الليل) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو پوری سورۃ بقرہ پڑھی پھر شاید دوسری رکعت میں سورة آل عمران پڑھی.دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھنے کا انداز بھی کیسا ہوتا ہوگا.اس بیچارے نے تو تھکنا ہی تھا.روایت میں ملتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور سنتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خاص کیفیت ہو جایا کرتی تھی.پھر سورۃ بقرہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ ہے.(سنن ترمذی ، ابواب فضائل القرآن ، باب ماجاء في فضل سورة البقرة) سورۃ بقرہ میں متعدد مضامین ہیں.حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیاء کا ذکر بھی اس میں موجود ہے.عبادتوں کے مسائل کا ذکر بھی ہے.نماز وغیرہ کس طرح پڑھنی ہے.روزے کس طرح رکھنے ہیں.اس طرح دوسرے احکامات ہیں.حضرت ابراہیم اور اسماعیل کی دعاؤں کا بھی ذکر ہے اس طرح اور بھی مختلف دعا ئیں سکھائی گئی ہیں.پھر آل عمران

Page 642

خطبات مسرور جلد سوم 635 خطبه جمعه 21 /اکتوبر 2005ء میں بھی مختلف مضامین عیسائیت کے بارے میں بھی اور حضرت عیسی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں وغیرہ کے جنگ بدر کے بارے میں اور دوسری جنگوں کے بارے میں.تو ان میں یہ مختلف قسم کے مضامین کا خزانہ ہے.پھر ایک روایت میں قرآن کریم کے یاد کرنے اور نماز میں پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں اس طرح آتا ہے.حضرت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”نماز میں قرآن کریم کا پڑھنا افضل ہے، اُس پڑھنے سے جونماز کے علاوہ پڑھا گیا ہو.جو نماز میں قرآن کریم پڑھا جاتا ہے وہ اس سے زیادہ افضل ہے جو عام حالات میں پڑھا جائے.اور نماز کے علاوہ قرآن کریم پڑھنا خدا تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی بیان کرنے سے زیادہ افضل ہے.اور جو دوسرے ذکر ہیں ان کی نسبت قرآن کریم کا پڑھنا زیادہ افضل ہے.” اور خدا تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرنا صدقہ کرنے سے زیادہ افضل ہے.یہ جو بہت زیادہ ذکر کرنے والے اور سوچ سمجھ کر کرنے والے ہیں بعض دفعہ صدقے سے بھی زیادہ افضل ہیں.اور فرمایا صدقہ کرنا روزے سے زیادہ افضل ہے.اور روزہ آگ سے بچنے کے لئے ڈھال ہے.تو کتنی فضیلت ہے قرآن کریم کو یاد کرنا اور پھر نماز میں پڑھنا.کیونکہ نماز میں ایک خاص کیفیت ہوتی ہے.اس لئے تلاوت کرتے وقت ایک ایک لفظ پر مومن زیادہ غور کر رہا ہوتا ہے.اور جہاں جہاں انذار ہوں ، جہاں جہاں بشارتیں ہوں، ان آیات پر استغفار اور حمد کی توفیق مل رہی ہوتی ہے.ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے.یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں.نماز کے بارہ میں یہ آیا ہے کہ نماز یہ سوچ کر پڑھو کہ میں خدا کے سامنے کھڑا ہوں، وہ مجھے دیکھ رہا ہے.اسی لئے فرمایا کہ نماز میں قرآن کریم پڑھنا سب سے افضل ہے.دوسرے یہ فائدہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن کریم یاد کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوگی.یہ ایک علیحدہ برکت ہے.لیکن بہر حال فرمایا کہ ویسے تلاوت کرنا بھی بہت ساری نیکیوں سے زیادہ افضل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :" قرآن مجید ایک ایسی پاک (مشكوة المصابيح كتاب فضائل القرآن الفصل الثالث)

Page 643

خطبات مسرور جلد سوم 636 خطبه جمعه 21 /اکتوبر 2005ء کتاب ہے جو اُس وقت دنیا میں آئی تھی جبکہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے.اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں.اور تقریباً سب کے سب لوگ بداعمالیوں اور بدعقید گیوں میں گرفتار تھے.اسی کی طرف اللہ جل شانۂ قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ (الروم:42) یعنی تمام لوگ کیا اہل کتاب اور کیا دوسرے سب بدعقید گیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فساد عظیم بر پا تھا.غرض ایسے زمانے میں خدا تعالیٰ نے تمام عقائد باطلہ کی تردید کے لئے قرآن مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی جس میں کل مذاہب باطلہ کا رد موجود ہے.اور خاص طور سورہ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کل عقائد کا ذکر ہے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحه 379 جدید ایڈیشن) پھر آپ فرماتے ہیں: ” تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.“ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحه 13) فرمایا : ”میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر قرآن شریف سے اعراض صوری یا معنوی نہ ہو (نہ ظاہری طور پر نہ معنوں کے لحاظ سے.جو بھی تعلیم دی گئی اس پر عمل ہو ) تو اللہ تعالی اس میں اور اس کے غیروں میں فرقان رکھ دیتا ہے (فرق ظاہر کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان پیدا ہوتا ہے.اس کی قدرتوں کے عجائبات وہ مشاہدہ کرتا ہے.اس کی معرفت بڑھتی ہے.اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کو وہ حواس اور قومی دیئے جاتے ہیں کہ وہ ان چیزوں اور اسرار قدرت کو مشاہدہ کرتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھتے.وہ ان باتوں کو سنتا ہے کہ اوروں کو اس کی خبر نہیں“.(الحکم 17 اگست 1905ء صفحه 5 کالم نمبر 4) تو دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی قرآن کریم کا سیکھنا ، پڑھنا، یاد کرنا ضروری ہے.

Page 644

خطبات مسرور جلد سوم 637 خطبه جمعه 21 اکتوبر 2005ء اللہ کرے کہ ہم نے رمضان کے گزشتہ دنوں میں، آج 17 روز سے گزر گئے ہیں، قرآن کریم کے پڑھنے سے جو فیض پایا ہے اس سے بڑھ کر رمضان کے جو بقیہ دن تھوڑے سے رہ گئے ہیں ان دنوں میں یہ فیض حاصل کرنے کی کوشش کریں.اس کو پڑھیں، سمجھیں اور اس پر عمل کریں.اور یہ بھی ممکن ہے جب ہم روزانہ اپنا جائزہ لیں اور لیتے رہیں کہ ہر روز ہم نے اس سلسلے میں کیا ترقی کی ہے.اور پھر یہ بھی ارادہ کریں کہ رمضان کے آخری دنوں تک جو ہم نے قرآن کریم سے حاصل کیا ہے اس کو اب باقاعدہ اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے.یہ تلاوت کی عادت جو ہمیں رمضان میں پڑ گئی ہے اس کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھنا ہے.اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہم نے رمضان کے بعد عام دنوں میں بھی کرنی ہے.اپنے گھروں کی بھی نگرانی کرنی ہے کہ ہمارے بیوی بچے بھی اس طرح عمل کر رہے ہیں یا نہیں.وہ بھی تلاوت کر رہے ہیں یا نہیں جس طرح آج کل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے کہ ہم قرآن کریم کی برکات سے فیض پانے والے ہوں اور ہمیشہ فیض پاتے چلے جائیں.谢谢谢

Page 645

638 خطبات مسرور جلد سوم

Page 646

خطبات مسرور جلد سوم 639 (42) خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء رمضان کے آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کے فضائل اور دعا کی اہمیت و برکات خطبه جمعه فرموده 28 /اکتوبر 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : 187) پھر فرمایا:.رمضان آیا اور بڑی تیزی سے گزر گیا، صرف چند روز باقی رہ گئے ہیں، پانچ چھ دن.جب رمضان شروع ہو تو انسان سوچتا ہے، ایک مومن سوچتا ہے کہ یہ تمیں دن ہیں ، اس میں بڑی نیکیاں کرنے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا موقع مل جائے گا.میں یہ بھی کرلوں گا ، میں وہ بھی کرلوں گا جس سے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکوں.لیکن آج یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ کیا! صرف چند روز رہ گئے؟ اور رمضان کا آخری جمعہ بھی آ گیا.میں تو کچھ بھی نہیں کر سکا.سوچنے والا صیح مومن یہی سوچتا ہے.تو بہر حال اب یہ چند دن بھی یہ احساس دلا دیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنا ہے.جتنا سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں ، خالص ہو کر اس کی عبادت کی

Page 647

خطبات مسرور جلد سوم 640 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء طرف توجہ کریں.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے کی کوشش کریں، اس سے مدد مانگیں تو یہ احساس اور یہ عمل ہر قسم کی نیکیاں بجالانے کی طرف توجہ دلانے والا ہوگا اور اس کی عبادت کی طرف خالص ہو کر متوجہ کرنے والا ہوگا ، اس کے فضلوں کا وارث بنانے والا ہوگا.اس آخری عشرہ میں تو پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ اپنے بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے.قبولیت دعا کے نظارے پہلے سے بڑھ کر ظاہر کرتا ہے بلکہ ان دنوں میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کہا ہے اور یہ ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے.اس ایک رات کی عبادت انسان کو باخدا انسان بنانے کے لئے کافی ہے.تو اگر ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے خالص ہو کر ان چھ دنوں میں ہی خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں گے تو کیا بعید کہ یہ چھ راتیں بلکہ ان میں سے ایک رات ہی ہمارے اندر انقلابی تبدیلی لانے والی ہو، خدا کا صحیح عبد بنانے والی بن جائے اور ہماری دنیا و آخرت سنور جائے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کا مقصد پیدائش تو یہی بتایا ہے کہ اس کے عبادت گزار بندے بن جائیں.یہی پیدائش کا مقصد ہے.پس اپنی عبادتوں کے معیار کو اونچا کرنے کے لئے یہ چند دن رہ گئے ہیں.اور ان چند دنوں کے بارے میں خدا تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ جو آخری عشرہ کے دن ہیں یہ اس برکتوں والے مہینے کی وجہ سے جہنم سے نجات دلانے کے دن ہیں.گناہ گار سے گناہ گار شخص بھی اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے تو اپنے آپ کو آگ سے بچانے والا ہو گا.پس یہ گناہگار سے گناہ گار شخص کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے کہ اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے سامان کر لو.پس جن کو اس رمضان کے گزرے ہوئے دنوں میں دعاؤں کا موقع ملا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا موقع ملا ہے، اس کی رضا کی راہوں پر چلنے کا موقع ملا ہے یا جن کو اپنی شامت اعمال کی وجہ سے گزرے ہوئے دنوں کی برکات سے فیضیاب ہونے کا موقع نہیں ملا.ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت دل میں پیدا کرتے ہوئے ان آخری دنوں کی برکات سے فیض اٹھاتے ہوئے، دعائیں کرتے ہوئے ، خدا تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے ان بقیہ دونوں کے فیض سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.

Page 648

خطبات مسرور جلد سوم 641 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء اور یہ دن جو ہیں ان کو دعاؤں میں گزارنا چاہئے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس سے پہلے بھی رمضان سے متعلقہ احکامات ہیں اور اس کے بعد بھی جو آیات آتی ہیں ان میں بھی.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں.میں دُعا کرنے والے کی دُعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں تو اس میں اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کا طریق ہمیں سمجھا دیا.پہلی بات تو یہ کہ صرف اپنی دنیاوی اغراض کے لئے ہی میرے پاس نہ آؤ بلکہ مجھے تلاش کرنے کے لئے میرے پاس آؤ.میری رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو.جب مجھ سے مجھے مانگو گے تو پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ میں تمہارے سے دور نہیں ہوں.میں تو تمہارے قریب ہوں بلکہ تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں.اور میں اپنے لئے اپنے بندے کی پکار سن کر دوڑتا ہوا اس کی طرف آتا ہوں.مگر تم اس طریقے اور سلیقے سے مجھے پکارو تو سہی جو میں نے تم کو بتائے ہیں.صرف اپنا مطلب پڑنے پر ہی مجھے آواز نہ دو.جب کسی مشکل میں گرفتار ہو جاؤ صرف اسی وقت مجھے نہ پکارو.صرف کسی ضرورت اور تکلیف کے وقت ہی نہ مجھے پکارو گو کہ ایسی تکلیف کی حالت میں بھی پکارنے والوں کی تکلیفیں اللہ تعالیٰ دور کرتا ہے.لیکن صرف ایسی صورت میں پکارنے سے دوستیاں قائم نہیں ہوتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بندے کا خدا تعالیٰ کے ساتھ دوست کا معاملہ ہے.پس اصل اور پائیدار اور ہمیشہ رہنے والی دوستی کے لئے دوست کی باتیں بھی ماننی پڑتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری بات پر لبیک کہو.جو میں کہتا ہوں اسے مانو تو پھر یہ ہماری دوستی پکی ہوگی.اس لئے پہلا حکم جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے یہی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو.صرف رمضان کے تین دن عبادتوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ فرمایا کہ میرا حکم یہ ہے کہ مستقل عبادت کرو.روزانہ کی پانچ نمازیں باجماعت ادا کر و جو فرض کی گئی ہیں.مردوں کے لئے یہی حکم ہے کہ مسجد میں جا کے ادا کریں یا جہاں بھی سنٹر ہے وہاں جا کے ادا کریں،

Page 649

خطبات مسرور جلد سوم 642 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء عورتوں کے لئے حکم ہے گھروں میں پانچ نمازیں پڑھیں، وقت پر نماز میں ادا کریں.اپنی نمازوں کی خاطر دوسری مصروفیات کو کم کریں.جس طرح آج کل رمضان میں ہر ایک کوشش کر کے نمازوں کی طرف توجہ دے رہا ہوتا ہے، قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دے رہا ہوتا ہے.تو اس طرح رمضان کے بعد بھی وقت پر پانچوں نمازیں ادا کرو.کوئی دوستی اللہ تعالیٰ کی دوستی سے بڑھ کر نہ ہو.اس ذات پر ایسا ایمان ہو جو کسی اور پر نہ ہو اور ہمیشہ اسی کو مدد کے لئے پکارو.یہ نہ ہو کہ بعض دفعہ بعض معاملات میں مدد کے لئے تم غیر اللہ کی طرف جھک جاؤ ، ان سے مدد مانگنے لگو.اگر یہ صورت ہوگی تو یہ کمزور ایمانی حالت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی ایمانی حالت کو بڑھاؤ.میرے پر پختہ اور کامل یقین رکھو.ہم کہہ تو دیتے ہیں کہ ہمیں خدا پر بڑا پکا ایمان ہے لیکن بعض دفعہ ایسے عمل سرزد ہو جاتے ہیں جو ہمارے دعوے کی نفی کر رہے ہوتے ہیں.ایمان کی تعریف یہ ہے کہ حق کی یا سچائی کی تصدیق کر کے اس کا فرمانبردار ہو جائے.اب ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد، یہ تصدیق کرنے کے بعد کہ آپ خدا کے مسیح ہیں اور حق پر ہیں کس حد تک ہم نے آپ کی باتوں کی فرمانبرداری کی ہے.اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے آپ نے جن شرائط پر ہم سے بیعت لی ہے اس تعلیم پر کس حد تک ہم عمل کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں جو احکامات دیئے ہیں ان پر کس حد تک عمل کر کے ہم فرمانبرداری کا ثبوت دے رہے ہیں.اور کس حد تک ہم نے فرمانبرداری کرنی ہے اس فرمانبرداری کی مزید وضاحت ، اس ایمان کی حالت کی مزید وضاحت اس طرح ہوتی ہے کہ ہمارا دل بھی اس بات کی تصدیق کر رہا ہو، ہماری زبان بھی اس بات کا اقرار کر رہی ہو اور ہمارے ہر عضو کا، جسم کے ہر حصے کا عمل بھی اس بات کی تصدیق کر رہا ہو.تو یہ ہے ایمان کی حالت.اکثر دفعہ اکثر کا دل تو اس بات کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے یا کم از کم یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بات صحیح ہے، یہ بات حق ہے، یہ سچ ہے لیکن وہ صرف دل میں یہ تسلیم کر رہے ہوتے ہیں گو بعض دفعہ زبان سے بھی اظہار کر دیتے ہیں کہ یہ بات حق ہے، یہ سچ ہے اور میرا دل خدا پر ایمان لاتا ہے.میں خدا کو مانتا ہوں.لیکن اس چیز سے ایمان مکمل نہیں ہو جاتا بلکہ جسم کے ہر عضو سے، ہر حصے سے یہ اظہار ہونا چاہئے کہ میرا

Page 650

خطبات مسرور جلد سوم 643 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء کوئی بھی عمل خدا تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف نہ ہو ، تب جا کے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے.یعنی اللہ تعالیٰ پر اعتقاد بھی ہو ، قول صدق بھی ہو اور عمل صالح بھی.یہ ساری چیزیں اکٹھی ہوں گی تو اس کو ایمان کہا گیا ہے اور اگر یہ تینوں چیزیں اکٹھی نہیں ہیں تو کامل ایمان بھی نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پر ایمان لاؤ اور اس طرح ایمان لاؤ.اب دیکھیں کتنے خدا تعالیٰ کے احکامات ہیں، کتنوں پر ہم عمل کرتے ہیں.عبادت کو ہی لے لیں، کیا ہم اس کا حق ادا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ہیں، کیا ہم ان کو ادا کرتے ہیں.اگر کسی معاملے میں ذرا سا کہیں اپنا مفاد آ جائے تو فوراً سب کچھ بھول جاتے ہیں اور اپنے مفاد کی فکر ہوتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو اور پھر دعا کے لئے صبر سے مانگتے چلے جانے کی شرط ہے.جلد بازی کرتے ہوئے بیچ میں چھوڑ دینا دعا مانگنے کا طریق نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ جب صبر سے دعا کرتے ہیں اور جب بھی دعا کرتے ہیں صبر سے کرتے ہیں اور جلد بازی نہیں کرتے جب اس طرح کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے مقصود کو پالیتے ہیں.اور ان کا مقصود کیا ہوتا ہے.کیا چیز انہوں نے حاصل کرنی ہوتی ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، جیسا کہ فرمایا وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ ﴾ (الرعد: (23) اور جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا.تو جب اللہ تعالیٰ کی وجہ سے صبر کرتے ہیں، مستقل مزاجی سے اس سے دعائیں مانگتے ہیں اور پھر مانگتے چلے جاتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فرمایا پھر میں دعاؤں کو سنتا بھی ہوں بشرطیکہ اس کا حق ادا کیا جائے یعنی یہی کہ صبر کے ذریعہ سے مانگتے چلے جائیں اور مقصد بھی ان کا یہ ہو کہ میری رضا حاصل کرنی ہے تو باقی چیزیں تو ضمنی چیزیں ہیں ، وہ تو مل ہی جائیں گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے گی.فرمایا کہ سلمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ﴾ (الرعد:25) تمہارے اس صبر اور ثابت قدمی کی وجہ سے تم پر سلامتی ہو.تمہارے اس طرح مانگنے کی وجہ سے تمہیں میری نعمتیں حاصل ہوں.

Page 651

خطبات مسرور جلد سوم 644 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء پس جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی اور اچھے انجام کی خبر مل رہی ہو تو پھر کسی اور طرف جانے کی کیا ضرورت ہے.اس لئے ہمیشہ ایک مومن کو صبر سے دعائیں مانگتے رہنا چاہئے اور جب ہم دعاؤں میں خدا تعالیٰ سے اس کی رضا اور توجہ مانگیں گے تو غیر ضروری دعاؤں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی.دوسری سب دعا ئیں غیر ضروری بن جائیں گی.کبھی ہمارے منہ سے ایسی دعا ئیں نہیں نکلیں گی جو بعض دفعہ جلد بازی میں آ کر ایسی ہو جاتی ہیں جو خیر سے خالی ہوں.ایسی دعائیں کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی جن میں صرف اور صرف اپنی ذات کا لالچ ہو ،صرف اور صرف دنیاوی ضروریات ہی ان کا محور ہو، دنیا وی ضروریات کے گرد ہی گھوم رہی ہوں.جب اللہ تعالیٰ کی مرضی مل جائے گی تو خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خود ہمارا کفیل ہو جائے گا.خود ہی ہماری ضروریات پوری کرنے والا ہو گا.بعض دوسری دعائیں کرنے والوں جن کے اندر دعاؤں کی وجہ سے تبدیلیاں پیدا ہوئی ہوتی ہیں ، ان کو دیکھ کر بھی توجہ پیدا ہوتی ہے.یہ خیال آیا ہے کہ ہم بھی دعاؤں کی طرف توجہ کریں، ہم بھی ان جیسے بنیں.اگر یہ توجہ پیدا ہوئی ہے تو شرط یہ ہے کہ ان رمضان کے تمہیں دنوں کے بعد صبر ٹوٹ نہ جائے بلکہ دعاؤں کی عادت جو اس خالص ماحول کی وجہ سے پڑگئی ہے یا اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے کہ ہم دعائیں کریں، یہ خیال آتا ہے تو اب یہ چیزیں زندگیوں کا حصہ بننی چاہئیں.ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اب ہم اس عادت کو جو ہمیں یا اس چیز کو جو ہم نے اپنائی ہے، اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنالیں.جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری عشرہ میں اللہ تعالیٰ جہنم سے نجات دیتا ہے.دعائیں قبول کرتا ہے.تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی ہوا و ہوس کی جہنم سے بھی ہمیں نجات دے.ہماری دعائیں قبول فرمائے ، ہماری توبہ قبول فرماتے ہوئے ہمیں اپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنادے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : " أجِيبُ دَعْوَةَ ـدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ (البقرة : 187) یعنی میں تو بہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ بچے دل سے تو بہ کرنے والا کرتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی

Page 652

خطبات مسرور جلد سوم 645 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہوتا تو پھر تو بہ کا منظور ہونا ایک مشکل امر تھا.سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر خدا تعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اس نے تو بہ کرنے والوں کے ساتھ کئے ہیں اور اسی وقت سے ایک نور کی تحابی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“.(البدرمورخه 24 اپریل 1903ء صفحه 107 کالم نمبر 1) پس یہ سچے دل کا اقرار ہے یہی ہے جو بڑی اہمیت رکھتا ہے.ان بقیہ دنوں میں ہمیں خاص طور پر یہ اقرار کرنا چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس اقرار پر قائم رہیں اور رمضان کے بعد بھی جو تبدیلیاں ہم نے اپنے اندر پیدا کی ہیں ان کو قائم رکھنے کی کوشش کریں، ان کو جاری رکھ سکیں.ہم اپنے اس عہد پر قائم رہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور دعا کے ساتھ ساتھ جب ہم اپنا جائزہ لیں گے کہ کیا ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھ رہے ہیں تو پھر ہمیں مزید اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہوگی، مزید تو بہ کرنے کی توفیق ملے گی.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق ملے گی.نیک اعمال بجالانے کی توفیق ملے گی.اور جب اس طرح ہو رہا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہماری توبہ قبول کرتے ہوئے ہماری طرف متوجہ ہوگا، مزید نیکیوں کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے.پس یہ برکت اسی وقت پڑے گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے سب کام ہورہے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” دعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ.أجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ (البقرة : 187) یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتا ہوں.یہ جواب کبھی رویا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے جو کہ

Page 653

خطبات مسرور جلد سوم 646 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء مشکلات کو حل کر دیتا ہے.غرض دُعا بڑی دولت اور طاقت ہے.اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی.انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو.دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جائے“.(الحكم مورخه 17 جنوری 1905ء صفحه 3 کالم نمبر 21) جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا.ان آخری دنوں میں خاص طور پر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ دعاؤں میں لگا رہے اور اپنی ایمانی اور عملی حالت کو بڑھانے کی کوشش کرے.دعاؤں کی قبولیت کے لئے پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل کر رہا ہوتا ہے.پس ان دنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت زیادہ دعاؤں پر زور دیں اور رمضان کی برکات سمیٹنے کی ہر احمدی کوشش کرے.اور زیادہ تر دعا ئیں یہ ہونی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور تب ہی ہمارا دعائیں کرنا ہماری زندگی کا مستقل حصہ بن سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی رضا ہم حاصل کر لیں گے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری عشرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لئے اتنی کوشش فرماتے جو اس کے علاوہ کبھی دیکھنے میں نہ آتی تھی.(صحيح مسلم - كتاب الاعتكاف باب الاجتهاد في العشر الاواخر من شهر رمضان) پس ہمارے سامنے یہ اُسوہ ہے.ان بقایا دنوں میں ہمیں چاہئے کہ خاص توجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یہ دن گزاریں، دعاؤں میں لگ جائیں اور اپنی دنیا و آخرت سنوار نے والے بن جائیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں.کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے، اسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس

Page 654

خطبات مسرور جلد سوم 647 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلتہ القدر کی رات قیام کیا اسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے.(بخاری کتاب فضل ليلة القدر - باب فضل ليلة القدر) گزشتہ گناہ بخشے جانے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس کو آئندہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہو جائے گی اور نیکیاں کرنے کی طرف توجہ زیادہ پیدا ہو جائے گی اور اس کا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جائے گا.پس ایک مومن جب اپنی غلطیوں پر نظر رکھتے ہوئے ، اپنا محاسبہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہو گا ، اس کے آگے جھک رہا ہوگا، دعائیں کر رہا ہو گا تو یہ دن یقینا اس میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنے والا دن ہوگا.پس ہر احمدی کو چاہئے کہ ان دنوں کو اپنی زندگیوں کو سنوارنے کا ذریعہ بنالیں اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں.ایک روایت میں ہے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص محض اللہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے.(ابن ماجه کتاب الصيام.باب فى من قام في ليلتي العيدين) پس دیکھیں ، رمضان کی تبدیلیوں کو جو پاک تبدیلیاں دل میں پیدا ہوتی ہیں ان کو مستقل بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے خوبصورت انداز میں ترغیب دلائی ہے.عید کی خوشیوں میں اکثر لوگ بھول جاتے ہیں، اگلے جمعے عید بھی آتی ہے ) کہ نماز بھی وقت پر پڑھنی ہے کہ نہیں ، تو رات کی عبادت کی طرف، نوافل کی طرف توجہ دلا کر یہ بتا دیا کہ فرائض تو تم نے پورے کرنے ہی ہیں لیکن اگر ہمیشہ کی رضا اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو راتوں کو بھی ان دنوں میں عبادت سے سجاؤ.رمضان کے بعد بھی اور خاص طور پر ایسے موقعوں پر جب خوشی کے موقعے ہوتے ہیں.جب آدمی کو دوسری طرف توجہ زیادہ ہورہی ہوتی ہے.صرف ڈھول ڈھمکوں اور دعوتوں میں ہی نہ وقت گزار دو.پس یہ عبادتیں جو ہیں یہ زندگی کا مستقل حصہ بننی دعاؤں کے سلسلے میں چند اور احادیث ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح ہمیں

Page 655

خطبات مسرور جلد سوم 648 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء دعائیں کرنی چاہئیں اور کس طرح ہم دعاؤں کے فیض حاصل کر سکتے ہیں.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے.اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ محبوب اس کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے عافیت طلب کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان پر جو ابتلاء آ چکے ہیں یا جن سے خطرہ درپیش ہو ان سے محفوظ رہنے کے لئے سب سے زیادہ مفید بات دعا ہے.پس اے اللہ کے بندو تمہیں چاہئے کہ تم دعا میں لگے رہو.صلى الله (سنن الترمذى.كتاب الدعوات.باب في دعاء النبي ﷺ) عليه تو اللہ تعالیٰ کی محبوب دعاؤں میں سے سب سے زیادہ محبوب دعا اس سے عافیت طلب کرنا ہے، اس کی رضا حاصل کرنا ہے، اس کی پناہ میں آنا ہے.جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے تو پھر باقی چیزیں تو ایک مومن کو خود بخو دل جاتی ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف اور مصائب کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ وہ خوشحالی کے اوقات میں کثرت سے دعائیں کرتا رہے.آئیں گے.(مشكاة المصابيح كتاب الدعوات الفصل الثاني حديث نمبر (2240) پس یہ دعاؤں کا تعلق مستقل قائم رہے گا تو پھر ہی قبولیت دعا کے غیر معمولی نظارے بھی نظر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے.وہ فنا کرنے والی چیز ہے.وہ گداز کرنے والی آگ ہے.وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے.وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے.وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے.ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے.

Page 656

خطبات مسرور جلد سوم 649 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں.تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے.مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے.مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے.مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے ، کبھی تھکتے نہیں.اور تمہاری روح دعا کے لئے پچھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینے میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھریوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے.اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنادیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم ، حیا والا ، صادق، وفا دار ، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے.پس تم بھی وفادار بن جاؤ.اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا.دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو.خدا کے لئے ہارا اختیار کر لو اور شکست کو قبول کر لوتا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ.دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا.اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی.دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.خود بخو دانسان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ دعا قبول ہو گئی.اپنے اندر ایک تبدیلی نظر آ رہی ہوتی ہے.فرمایا ”پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے.صفات تو اس کی وہی ہیں لیکن ایک نیا انداز ہوتا ہے جب ایک انسان تبدیلی پیدا کرتا ہے.ان صفات کے ساتھ ہی.جس کو دنیا نہیں جانتی گویا وہ اور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں.مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے.تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا.یہی وہ خوارق ہے.یہی وہ خاص چیزیں ہیں جو انسان میں دعا کے بعد پیدا ہوتی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے معجزات ہیں.

Page 657

خطبات مسرور جلد سوم 650 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء غرض دعاوہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے.ایک مٹی کو بھی قیمتی چیز بنا دیتی ہے.اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے.اس دعا کے ساتھ روح پچھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے.اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھائی ہے“.(لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 222-224) پس یہ ہے دعا کرنے کا طریق اور یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہم سے تو قعات.خدا کرے کہ اس رمضان میں ہم میں سے ہر ایک اس فلسفہ کوسمجھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے اور یہ بہتر تبد یلیاں، پاک تبدیلیاں پھر ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں.ان دنوں میں اپنے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، اس کے حکموں پر عمل کرنے اور چلنے کی توفیق ملے ، اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے کی ہمیں توفیق ملے.رمضان کی برکات ہماری زندگیوں کا مستقل حصہ بن جائیں.جو نیکیاں ہم نے اپنالی ہیں ان کو کبھی چھوڑنے والے نہ ہوں.اور جو برائیاں ہم نے ترک کی ہیں وہ کبھی دوبارہ ہمارے اندر داخل نہ ہوں.ہماری اولاد در اولاد اور آئندہ نسلیں بھی خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والی اور نیکیوں پر چلنے والی ہوں.یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کو عقل اور سمجھ دے اور وہ اس زمانے کے امام کا انکار نہ کریں.اس کو پہچان لیں اور اس انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت نہ دیں.ہمارے دل تو بہر حال ان کی تکلیفوں سے بے چین رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصے میں قوم کے بارے میں کچھ دعائیں کی ہیں.ان میں سے چند دعائیں ایک آدھ لفظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ میں پڑھتا ہوں.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.آپ نے فرمایا : اے میرے رب! میری قوم کے بارہ میں میری دعا اور میرے بھائیوں

Page 658

خطبات مسرور جلد سوم 651 خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء کے بارے میں میری تضرعات کو سن.میں تیرے نبی خاتم النبین و شفیع المذ مبین صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں.اے میرے رب ! انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال اور دوریوں کے صحرا سے اپنے حضور میں لے آ.اور اپنی ہلاکت سے اس قوم کو بچا جو میرے دونوں ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں.ان کے دلوں کی جڑوں میں ہدایت داخل فرما.ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما.انہیں پاک وصاف کر اور انہیں ایسی آنکھیں دے جن سے وہ دیکھ سکیں.اور ایسے کان دے جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل دے جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فر ما جن سے وہ پہچان سکیں اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں ان سے درگز رفرما کیونکہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں.اے میرے رب ! حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور ان کے بلند درجات اور راتوں کو قیام کرنے والے مومنین اور دو پہر کی روشنی میں غزوات میں شریک ہونے والے نمازیوں اور جنگوں میں تیری خاطر سوار ہونے والے مجاہدین اور ام القری مکہ مکرمہ کی طرف سفر کرنے والے قافلوں کا واسطہ.تو ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کروا.تو ان کی آنکھیں کھول دے اور ان کے دلوں کو منور فرما.انہیں وہ کچھ سمجھا جو تو نے ہمیں سمجھایا ہے.اور ان کو تقویٰ کی راہوں کا علم عطا کر.( ترجمه از عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحات 22-23) اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور ان سب کے سینے کھولے.谢谢谢

Page 659

652 خطبات مسرور جلد سوم

Page 660

خطبات مسرور جلد سوم 653 (43) خطبہ جمعہ 4 نومبر 2005ء دنیا میں امن اور صلح اور آشتی قائم ہو عید الفطر کے روز مختصر بصیرت افروز خطبه خطبہ جمعہ فرموده 4 /نومبر 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک انذاری وحی کے بعد ایک نظارہ دیکھا ایک روح بڑی بے چینی کا اظہار کر رہی ہے.اس نظارے کے دیکھنے پر آپ نے فرمایا ”انسان کا کیا حرج ہے اگر وہ فسق و فجور چھوڑ دے.کون سا اس میں اس کا نقصان ہے اگر وہ مخلوق پرستی نہ کرے.آگ لگ چکی ہے.اٹھو اور اس آگ کو اپنے آنسوؤں سے بجھاؤ.“ (اشتہار الانذار 18 اپریل 1905ء مندرجه الحکم مورخہ 10 اپریل 1905ء صفحه 2 کالم نمبر 3) اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے لئے بھی اور انسانیت کے لئے بھی دعاؤں کی توفیق دے اور یہ جو آگ لگی ہوئی ہے اس کو اپنے آنسوؤں سے بجھانے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا میں امن اور صلح اور آشتی قائم ہو اور یہ لوگ مامور کو پہچاننے کے قابل ہوں.آمین.

Page 661

654 خطبات مسرور جلد سوم

Page 662

خطبات مسرور جلد سوم 655 (44) خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان ہارٹلے پول (برطانیہ) میں مسجد ناصر کا افتتاح مساجد کی تعمیر کا مقصد خدائے واحد کی عبادت ھے خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 نومبر 2005ء بمقام مسجد ناصر.ہارٹلے پول ( برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی:.يُبَنِي أَدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوَاتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ أَيْتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (الاعراف: 27) يبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (الاعراف: 32) پھر فرمایا:.الحمد للہ آج ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ ہم ملک کے اس حصے میں بھی مسجد تعمیر کرنے کے قابل ہوئے.اللہ تعالیٰ جماعت کی قربانی کو قبول فرمائے اور جس مقصد کے لئے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے یہاں کا رہنے والا ہر احمدی اس مقصد کو پورا کرنے والا ہو.اس مسجد کی تعمیر کے

Page 663

خطبات مسرور جلد سوم 656 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء لئے میں نے انصار اللہ UK کی ذمہ داری لگائی تھی کہ وہ اس کا تمام خرج ادا کریں یا اکثر حصہ ادا کریں.الحمد للہ کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور بڑے کھلے دل کے ساتھ اس قربانی میں حصہ لیا اور اس طرح یہ مسجد کم و بیش ان کی قربانی سے ہی تعمیر ہوگئی.جو وعدے انہوں نے کئے تھے وہ بھی 75 فیصد ادا ہو چکے ہیں، امید ہے بقایا بھی جلد ہی ادا کر دیں گے.اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کی صورت میں یا اور کسی بھی رنگ میں حصہ لیا.بہت سا کام والنٹیئر ز ( Volunteers) نے وقار عمل کی صورت میں کیا.دیکھنے والوں کو بظاہر یہ کام ناممکن نظر آتا تھا کہ آج اس تاریخ کو مسجد کا افتتاح ہو سکے گا.لیکن ان والنٹیئر ز نے اس طرح رات دن کر کے کام کیا ہے کہ اس ناممکن کو آج ممکن بنا دیا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی قربانیوں کے نمونے ہیں جو آج جماعت احمدیہ کے علاوہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتے.جب ایک دفعہ کام میں لگ جائیں، ارادہ کر لیں کہ کرنا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعائیں کرتے ہوئے اس کام میں بہت جاتے ہیں اور جنونیوں کی طرح کام کرتے ہیں.نہ رات کا ہوش رہتا ہے نہ دن کا ہوش رہتا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے، ان کی پریشانیوں اور مشکلوں اور مسائل کو دور فرمائے.اب یہ مسجد تو بن گئی لیکن ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے.ہماری مساجد صرف اس لئے نہیں بنائی جاتیں کہ ایک خوبصورت عمارت ہم بنادیں اور دوسرے بھی دیکھ کر خوش ہوں کہ دیکھو کتنی اچھی خوبصورت مسجد بنائی ہے اور ہم بھی اس کو دیکھ کر خوش ہور ہے ہوں.یہ مساجد تو نشان ہیں اس بات کا کہ اللہ والوں کی جماعت جن کے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہتے ہیں ایک خدا کی عبادت کرنے کے لئے اللہ کے نام پر اللہ کا گھر تعمیر کرتے ہیں دنیا کا کوئی بھی لالچ، دنیا کی کوئی بھی مصروفیت انہیں خدا کی عبادت سے غافل کرنے والی نہیں ہوتی.وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا صحیح فہم اور ادراک رکھتے ہیں کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: (57) یعنی میں نے جن اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری

Page 664

خطبات مسرور جلد سوم 657 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء عبادت کریں اور مجھے پہچانیں.عبادت کے لئے جو ہمیں طریقے سکھائے گئے ہیں اور ایک مومن کے لئے جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ، اس کے لئے یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ پانچ وقت نماز ادا کرے.پھر نماز کے اوقات معین کر کے بتائے کہ یہ پانچ اوقات ہیں.تم پر فرض ہے کہ ان اوقات میں نماز مسجد میں جا کر با جماعت ادا کرو.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”باجماعت نماز اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت ستائیس گنا افضل ہے“.(صحیح مسلم كتاب الصلوة باب فضل صلوة الجماعة) یعنی اس کا ثواب ستائیس گنا زیادہ ہے.پس ہم جب مسجد بناتے ہیں تو کسی دکھاوے یا مقابلے کے لئے نہیں بناتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لئے ، اس کی عبادت کے لئے بناتے ہیں.اور یہی سوچ ہے جس کے تحت ہر احمدی کو مسجد میں نمازوں کے لئے آنا چاہئے ، یہاں کے رہنے والے احمدیوں میں سے بعض تو ایسے ہیں جو کام پر جاتے ہیں، بعض نمازوں کے اوقات مثلاً ظہر، عصر یا بعض حالات میں مغرب پر مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتے وہ تو اپنے کام کی جگہ پر پڑھ لیں.لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو کسی کام کے بغیر ہیں، اسائکم کے فیصلے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں یا ویسے ہی کام سے فارغ ہو چکے ہیں ان کو پانچوں وقت مسجد میں آنا چاہئے.اب یہ مسجد پانچ وقت نمازوں کے لئے کھلنی چاہئے اور جو پہلی قسم میں نے کام کرنے والوں کی بیان کی ہے ان کو بھی فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں آنا چاہئے.ہر مرد پر یہ فرض ہے بلکہ جو بچے دس سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں ان پر بھی فرض ہے.ایک احمدی جس کا یہ دعویٰ ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا اور آپ کو مان کر اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کیا ہے اس کی شان کے خلاف ہے کہ دنیا کی مصروفیتیں یا کام یا اور اس قسم کے بہانے اسے نماز کے لئے مسجد میں آنے سے روکیں.احمدی کی شان یہی ہے کہ ہر دنیا وی مجبوری کو پس پشت ڈال دے، پیچھے پھینک دے.دنیا کا کوئی لالچ، دنیا کی کوئی دلچسپی اس کی باجماعت نمازوں میں روک نہ بنے.ورنہ یہ قربانیاں

Page 665

خطبات مسرور جلد سوم 658 خطبہ جمعہ 11 نومبر 2005ء بھی بے فائدہ ہیں جو آپ نے مسجد کی تعمیر کے لئے کی ہیں اور یہ عمارت بھی بے فائدہ ہے جو تقویٰ سے پُر دلوں کی بجائے وقتی جوش رکھنے والے دلوں نے بنائی ہے.اللہ کرے کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اس مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے اپنے دل کو تقویٰ سے سجاتے ہوئے مسجد کو آباد کرنے والا ہو.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں آدم کے بیٹے کہہ کر بات شروع کی ہے.کیونکہ اس سے پہلے آدم کا ذکر چل رہا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں سے روکا لیکن شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ان سے ہو گئی.اور پھر جب آدم اور حوا کو احساس ہوا کہ اللہ کی بات نہ مان کر یہ سب کچھ غلط ہو گیا تو پھر توجہ استغفار کی طرف ہوئی.پھر تو بہ واستغفار سے انہوں نے اللہ کے فضل کو سمیٹنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور اس کی خشیت ان کے دل میں پیدا ہوئی.اس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اے بنی آدم! یقیناً ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے.یہ اللہ کی آیات میں سے کچھ ہیں تا کہ وہ نصیحت پکڑیں.یعنی تمہارے سامنے تمہارے باپ آدم کی مثال موجود ہے جب شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا جس سے ایک غلطی سرزد ہوئی ، پھر اس کو اپنی کمزوریوں کا پتہ چلا اور پھر تو بہ واستغفار اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہی تھا جس نے آدم کے ننگ اور کمزوریوں کو ڈھانپا.اب اگر تم نے بھی شیطان کے حملوں سے بچنا ہے اور یہ شیطان کے حملے قدم قدم پر پھیلے ہوئے ہیں.اگر دنیاوی لالچوں سے بچنے کے لئے کوئی طریق اختیار کرنا ہے تو وہ یہی تو بہ واستغفار ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہے اور اپنے مقصد پیدائش کو پہچاناہی ہے.اس کے بغیر تمہاری کمزوریوں کو کوئی چیز دور نہیں کر سکتی.اس کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے جو تمہیں شیطان کے حملوں سے بچا سکے.پس یہی چیزیں ہیں جن کی طرف تمہیں توجہ دینی چاہئے اور جب تم اس پر توجہ دو گے تو تمہارے دل میں اللہ کی خشیت اور اس کا تقویٰ پیدا ہو گا.اور جب یہ تقویٰ پیدا ہوگا تو یہ تمہارا لباس بن کر رہے گا، تمہارے حسن کو نکھارے گا، تمہیں ہر شیطانی حملے سے محفوظ رکھے گا، اللہ کا قرب

Page 666

خطبات مسرور جلد سوم 659 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء دلانے والا ہو گا.پس اگر دین و دنیا کی بھلائی چاہتے ہو تو اس تقویٰ کے لباس کو اپناؤ جو بہترین لباس ہے.جس میں تمہاری حفاظت کے ساتھ ساتھ موسم کی شدت سے، شیطانی حملوں سے بچنے کے علاوہ تمہاری خوبصورتی بھی ہے.پھر اگلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا کہ اے ابنائے آدم ہر مسجد میں اپنی زینت یعنی لباس تقوی ساتھ لے جایا کرو.اور کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو.کیونکہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.یعنی اے آدم کے بیٹو! گو کہ تمہارا دھیان اور خیال اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف رہنا چاہئے تا کہ تمہاری دنیا و آخرت سنور جائے اور تم اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکو.لیکن ایک عمل خاص طور پر اس کا قرب دلانے والا ہے جس میں انسان عاجزی، انکساری، تذلیل اور دعاؤں کا مختلف شکلوں میں اظہار کرتا ہے اور وہ نماز کی حالت ہے.جس میں سجدہ کی حالت بھی آتی ہے جس میں انتہائی تذلیل کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے حضور گرتا ہے، جھکتا ہے اور گرنا چاہئے.یہ ایک مسلمان کا فرض ہے.اس لئے جب تم مسجد میں اس عبادت کے لئے جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے پر فرض کی ہے، تمہارے لئے مقرر فرمائی ہے، تو اپنے ذہن تمام دنیا وی دلچسپیوں سے مکمل طور پر خالی کر کے جاؤ.تو بہ واستغفار اور ذکر الہی کرتے ہوئے مسجدوں میں داخل ہوتا کہ مکمل توجہ عبادت کی طرف ہو.جس طرح ظاہری طور پر وضو کر کے تم اپنے جسم کو پاک کرتے ہو اور وضو کر کے اپنے ظاہری گند کو اتارنے کی کوشش کرتے ہو اسی طرح روحانی طور پر بھی اپنی صفائی کے سامان کر لو.اسی سے تمہاری زینت ہے اور تمہارے روحانی حسن میں اضافہ ہو گا.اللہ کے حضور جب اس کی خشیت دل میں لئے ہوئے اور تقویٰ کا لباس پہنے ہوئے حاضر ہو گے تو اللہ جو اپنے بندوں کو گلے لگانے کے لئے انتظار میں رہتا ہے دوڑ کر تمہیں اپنی آغوش میں لے لے گا.لیکن شرط یہی ہے کہ خالص اللہ کے ہوتے ہوئے اس کے آگے جھکنے والے ہو.یہ نہ ہو کہ سنتی، کاہلی سے اور نہ چاہتے ہوئے مسجد میں جا رہے ہو.اور پھر مسجد میں نماز کا انتظار کرنا پڑ جائے تو وہ بھی دوبھر لگ رہا ہو.پھر یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ تو نماز جیسے تیسے پڑھ لی، جس طرح بھی امام نے پڑھائی لیکن اس میں بھی اپنی دنیاوی الجھنوں کے چکر میں پڑے

Page 667

خطبات مسرور جلد سوم 660 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء رہے اور پھر سلام پھیر کر جب سنتیں پڑھنے کا وقت آیا تو جلدی جلدی ٹکریں مار لیں تا کہ جلدی فارغ ہوں.تو یہی وسوسے ہیں جو شیطان ابن آدم کے دل میں پیدا کرتا ہے کہ جلدی کرو فلاں کام کا حرج نہ ہو جائے.ایسا نہ ہو جائے ویسا نہ ہو جائے.اس لئے یہ بھی حکم ہے کہ نماز میں جب امام کی انتظار میں یا نماز کھڑی ہونے کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا پڑے تو ذکر الہی میں وقت گزارو.اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تک نماز کی خاطر کوئی شخص مسجد میں بیٹھا رہتا ہے نماز میں ہی مصروف سمجھا جاتا ہے.اور فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں.اے اللہ! اس پر رحم کر اس کو بخش دے، اس کی توبہ قبول کرے.(مسلم.کتاب المساجد باب فضل الصلاة المكتوبة في جماعة.....) تو دیکھیں نماز کا انتظار کرنے والوں کا بھی کتنا بڑا اجر ہے.اس تو بہ واستغفار کی وجہ سے، اس انتظار کی وجہ سے، اس ذکر الہی کی وجہ سے جو ایک مومن اللہ کے حکم کے مطابق زینت اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، فرشتے بھی اس پر درود بھیج رہے ہیں اور اس کی زینت کو اور زیادہ صیقل کر رہے ہیں اور زیادہ نکھار رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس میں مدد دے رہے ہیں.پس یہ جو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے لئے دوڑ کر آنا ہے، ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ بندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے.اس کے نظارے بھی اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے اپنے بندے کو کرواتا ہے، بلکہ اللہ کی عبادت کا جوش رکھتے ہوئے مسجد میں جانے کی وجہ سے ہر اس قدم پر جو مسجد کی طرف اٹھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا بھی ثواب دیتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ ” جب ایک شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز کی نیت سے مسجد کی طرف آئے یعنی نماز کے علاوہ کوئی اور چیز اسے مسجد میں نہ لائے“.ظاہری نمود و نمائش نہ ہو بلکہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے مسجد میں آ رہا ہو تو ایسے شخص کا کوئی قدم نہیں اٹھتا مگر اس وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند ہو جاتا ہے.اور ایک گناہ معاف ہو جاتا ہے“.(صحیح بخاری کتاب الاذان.باب فضل صلوة الجماعة)

Page 668

خطبات مسرور جلد سوم 661 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء تو جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ مسجد میں جانے سے پہلے یا نماز پڑھنے سے پہلے زینت سے مراد ظاہری صفائی اور وضو بھی ہے تو یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ اچھی طرح وضو کرو یہ بھی ایک بنیادی حکم ہے.اس طرح اچھی طرح وضو کرنے کا طریق بھی آپ نے ہمیں سمجھا دیا.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ پانی منگوایا.پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھوئے.پھر اپنے دائیں ہاتھ سے برتن سے پانی لے کر کلی کی پھر ناک صاف کیا پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا.پھر کہنیوں تک تین بارا اپنے ہاتھ دھوئے ، کہنیاں شامل کر کے اس کے بعد سر کا مسح کیا پھر تین بارٹخنوں تک اپنے پاؤں دھوئے.وضو میں ٹخنے بھی شامل ہوتے ہیں.پھر اس طرح وضو مکمل کرنے کے بعد آپ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے اس طرح وضو کیا جس طرح میں نے کیا ہے پھر وساوس سے محفوظ رہ کر خشوع و خضوع سے دورکعت نماز پڑھی اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے.(بخارى ، كتاب الوضوء ، باب الوضوء ثلاثاً ثلاثاً) پس یہ زینت کے لوازمات ہیں جو ہر مومن کو اختیار کرنے چاہئیں.پھر اسی آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے.زینت اور لباس تقوی کے ذکر کے بعد فرمایا کہ کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو.ایک تو اس کا یہ مطلب ہے کہ کیونکہ خوراک کا بھی انسانی ذہن پر اثر پڑتا ہے طبیعت پر اثر پڑتا ہے.خیالات میں سوچوں پر اثر پڑتا ہے اس لئے پاکیزہ ، صاف اور حلال غذا کھاؤ تا کہ کسی بھی لحاظ سے تمہارے سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو تمہیں تقویٰ سے دور لے جانے والا ہو.جن چیزوں کے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے کھانے سے رک جاؤ.جن چیزوں کے پینے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے پینے سے رک جاؤ.کیونکہ ان کا کھانا اور پینا اس حکم کے تحت نا جائز ہے.اگر کھاؤ پیو گے تو اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرو گے.اسراف کا ایک مطلب گھن لگنا بھی ہے.آج کل دیکھ لیں بہت سی بیماریاں جو پیدا ہو رہی ہیں اس خوراک کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں.ٹھیک ہے اور بہت سے عوامل بھی ہیں لیکن جب

Page 669

خطبات مسرور جلد سوم 662 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء علاج ہو رہا ہو تو ڈاکٹروں کی تان دوائیوں کے علاوہ خوراک پہ بعض دفعہ آ کے ٹوٹتی ہے.اور اس زمانے میں جبکہ انسان بہت زیادہ تن آسان ہو گیا ہے سنتی اور آرام کی اتنی زیادہ عادت پڑ گئی ہے یہ خوراک ہی ہے جو کئی بیماریاں پیدا کرتی ہے.یہاں یورپ میں بھی کہتے ہیں کہ جو برگر وغیرہ زیادہ کھانے والے لوگ ہیں ان کو انتڑیوں کی بعض بیماریاں ہو جاتی ہیں.پھر چاکلیٹ کھانے والے بچوں کو کہتے ہیں کہ زیادہ چاکلیٹ نہ کھاؤ دانت خراب ہو جاتے ہیں، کیٹر ا لگ جاتا ہے.اور جب انسان پہ بیماریاں آجائیں تو پھر یکسوئی سے عبادت بھی نہیں ہو سکتی.اس لئے حکم ہے کہ مومن کو بھوک چھوڑ کر اور اعتدال سے کھانا چاہئے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مومن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ کا فرسات آنتوں سے کھاتا ہے.(بخاري، كتاب الأطعمة ، باب المؤمن ياكل فى معى واحد......) پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض دوسری چیزیں مثلاً شراب وغیرہ اور دوسری نشہ آور چیزیں جو استعمال کرتے ہیں ان کا بھی اسی وجہ سے مذہب سے کوئی تعلق نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ سے بھی دور چلے جاتے ہیں.تو اس لئے فرمایا کہ کھانے پینے میں حدود سے تجاوز نہ کرو ورنہ ایسی قباحتیں پیدا ہوں گی، ایسی حالت پیدا ہوگی ، ایسی تکلیفیں ہوں گی جو گھن کی طرح تمہاری صحت کو کھالیں گی اور نیکیوں ، عبادتوں سے محروم ہو جاؤ گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : واضح ہو کہ قرآن شریف کے رو سے انسان کی طبعی حالتوں کو اس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے نہایت ہی شدید تعلقات واقع ہیں.یہاں تک کہ انسان کے کھانے پینے کے طریقے بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر اثر کرتے ہیں.اور اگر ان طبعی حالتوں سے شریعت کی ہدایتوں کے موافق کام لیا جائے تو جیسا کہ نمک کی کان میں پڑ کر ہر ایک چیز نمک ہی ہو جاتی ہے.یعنی نمک کی جو کان ہے اس میں چیزیں نمکین ہو جاتی ہیں.ایسا ہی یہ تمام حالتیں اخلاقی ہی ہو جاتی ہیں.اور روحانیت پر نہایت گہرا اثر کرتی ہیں.اسی واسطے قرآن شریف نے تمام

Page 670

خطبات مسرور جلد سوم 663 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء عبادات اور اندرونی پاکیزگی کی اغراض اور خشوع خضوع کے مقاصد میں جسمانی طہارتوں اور جسمانی آداب اور جسمانی تعدیل کو بہت ملحوظ رکھا ہے یہ جو عبادات میں حرکات ہیں اور آداب ہیں مختلف عبادتوں کے انسان کا ایک معین معتدل نظام ہے.اس کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھنا چاہئے.اسراف نہ ہو.فرمایا کہ: ”اور غور کرنے کے وقت یہی فلاسفی نہایت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جسمانی اوضاع کا روح پر بہت قوی اثر ہے.جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طبعی افعال کو بظاہر جسمانی ہیں مگر ہماری روحانی حالتوں پر ضرور ان کا اثر ہے.پھر فرمایا: ” جسمانی سجدہ بھی روح میں خشوع اور عاجزی کی حالت پیدا کرتا ہے.اس کے مقابل پر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب ہم گردن کو اونچی کھینچ کر اور چھاتی کو ابھار کر چلیں تو یہ ضع رفتار ہم میں ایک قسم کا تکبر اور خود بینی پیدا کرتی ہے.تو ان نمونوں سے پورے انکشاف کے ساتھ کھل جاتا ہے کہ بے شک جسمانی اوضاع کا روحانی حالتوں پر اثر ہے.فرمایا: ” ایسا ہی تجربہ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ طرح طرح کی غذاؤں کا بھی دماغی اور دلی قوتوں پر ضرور اثر ہے.مثلاً ذرا غور سے دیکھنا چاہئے کہ جو لوگ کبھی گوشت نہیں کھاتے ، رفتہ رفتہ ان کی شجاعت کی قوت کم ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ نہایت دل کے کمزور ہو جاتے ہیں اور ایک خداداد اور قابل تعریف قوت کو کھو بیٹھتے ہیں.اس کی شہادت خدا کے قانون قدرت سے اس طرح پر بھی ملتی ہے کہ چارپایوں میں سے جس قدر گھاس خور جانور ہیں کوئی بھی ان میں سے وہ شجاعت نہیں رکھتا جو ایک گوشت خور جانور رکھتا ہے.پرندوں میں بھی یہی بات مشاہدہ ہوتی ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ اخلاق پر غذاؤں کا اثر ہے.ہاں جو لوگ دن رات گوشت خوری پر زور دیتے ہیں اور نباتاتی غذاؤں سے بہت ہی کم حصہ رکھتے ہیں وہ بھی حلم اور انکسار کے خلق میں کم ہو جاتے ہیں.اور میانہ روش کو اختیار کرنے والے دونوں خلق کے وارث ہوتے ہیں.اسی حکمت کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے كُلُوا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا (الاعراف: 32) یعنی گوشت بھی کھاؤ اور دوسری چیزیں بھی کھاؤ مگر کسی چیز کی حد سے زیادہ کثرت نہ کرو تا اس کا اخلاقی حالت پر بداثر نہ پڑے اور تا یہ کثرت مضر صحت بھی نہ ہو.اور جیسا

Page 671

خطبات مسرور جلد سوم 664 خطبہ جمعہ 11 نومبر 2005ء کہ جسمانی افعال اور اعمال کا روح پر اثر پڑتا ہے ایسا ہی کبھی روح کا اثر بھی جسم پر جا پڑتا ہے.جس شخص کو کوئی غم پہنچے آخر وہ چشم پر آب ہو جاتا ہے اور جس کو خوشی ہو آ خر وہ قسم کرتا ہے.( اسلامی اصول کی فلاسفی - روحانی خزائن جلد 10 صفحه 319-321) تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خوراک کا اخلاق پر بھی اثر پڑتا ہے.اور جب اخلاق پر بداثر پڑے گا تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پیروی بھی متاثر ہوگی اور نتیجتا عبادتوں پر بھی اثر پڑے گا.اور پھر فرمایا کہ جسمانی وضع قطع کا اخلاق پر اثر پڑتا ہے.جو حالتیں انسان اپنی بناتا ہے تو جب انسان کی وضع قطع ایسی ہو جس سے تکبر جھلکتا ہو، تکبر کا اظہار ہوتا ہو جیسا کہ فرمایا کہ گردن اکڑا کے چلنے والا انسان تو پھر اپنی زینت اس تکبر کو ہی سمجھے گا ، اس گردن اکڑانے کو ہی سمجھے گا ، خشیت اور عاجزی اس میں پیدا نہیں ہو سکتی.اور جب یہ چیزیں پیدا نہیں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی توجہ نہیں ہو گی.اگر دنیا کے دکھاوے کے لئے مسجد میں نمازوں کے لئے کبھی آ بھی جائے تو وہ دنیا کمانے کے لئے ہوگا نہ کہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی وجہ سے.پس یہ جو لوگ بعض دفعہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسجد کی زینت کا تقویٰ کا کھانے پینے سے کیا تعلق ہے اس میں یہ واضح ہو گیا کہ کھانا پینا بھی اخلاق پر اثر ڈالتا ہے اور اخلاق عبادتوں پر اثر ڈالتے ہیں.ان لوگوں کی کم فہمی ہے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں بڑی حکمتیں ہیں.اسراف کا مطلب فضول خرچی کرنا بھی ہے، کسی کام سے غافل ہونا بھی ہے، کام کو بھلا دینا بھی ہے.تو کھانے پینے سے مراد صرف کھانا پینا ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام آسائشوں سہولتوں کا استعمال، اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کا استعمال ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو نعمتیں میں نے تمہیں مہیا کی ہیں ان کا استعمال کرو، جو چیزیں تمہارے لئے حلال ہیں ، پاک ہیں، طیب ہیں ، ان کو استعمال کرو.کھاؤ، جونعمتیں تمہاری سہولت کے لئے اور تمہاری خدمت کے لئے تمہیں عطا کی ہیں ان کا استعمال کرو.لیکن ان کی بھی کچھ حدود ہیں.اتنا تجاوز نہ کر جاؤ اور اس حد تک نہ چلے جاؤ کہ ہر وقت انہیں چیزوں کی تلاش میں رہو اور عبادتوں سے غافل ہو جاؤ.ایک اچھی سواری، اچھی کار،

Page 672

خطبات مسرور جلد سوم 665 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء اچھا گھر اور باقی سہولتیں تمہارے آرام و آسائش کے لئے ہیں اور یہ چیزیں تمہاری زینت میں بھی اضافہ کرتی ہیں.لیکن یاد رکھو کہ اصل زینت تقویٰ میں ہے اور تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے گھروں کو آباد کرنا ہے.پس یہ خیال رکھو یہ دنیاوی زینتیں تمہیں اصل زینت سے غافل نہ کر دیں تمہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے دور نہ لے جائیں.تمہاری عبادتیں اور تمہارے اعلیٰ اخلاق ہی اصل میں تمہاری زینت ہیں.تمہارے مال جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیئے ہیں، تمہیں اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والے نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر مزید چلانے والے ہوں.ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے طفیل اس پر حکمت تعلیم کو سمجھا.اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے ، تو بہ واستغفار کرتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے توجہ بھی دیتے ہیں اور اس کی راہ میں اس کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ بھی کرتے ہیں.اور یہی سوچ ایک احمدی کی ہونی چاہئے.ہماری بڑائی اور زینت گردن اکڑا کے چلنے اور اپنے پیسے کے اظہار میں نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے اس کے حکموں پر عمل کرنے اور اس کی راہ میں خرچ کرنے میں ہے.پس جب تک ہم میں یہ سوچ قائم رہے گی ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بھی حصہ پاتے چلے جائیں گے اور اس کے فضلوں کے وارث بھی بنتے چلے جائیں گے.اس زمانے میں جس میں مادیت کا دور دورہ ہے احمدی ہی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے اس کے گھر بھی تعمیر کرتا ہے اور اس کی عبادت سے اپنے آپ کو سجانے کی کوشش بھی کرتا ہے.اپنی نسلوں میں بھی ان کی اعلیٰ تربیت کے ذریعہ یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتا ہے.اس ضمن میں مجھے یاد آیا کہ ہمارے بچپن میں تحریک جدید میں ایک مد مساجد بیرون کی بھی ہوا کرتی تھی.ہر سال جب بچے پاس ہوتے تھے تو عموماً اس خوشی کے موقع پر بچوں کو بڑوں کی طرف سے کوئی رقم ملتی تھی.وہ اس میں سے اس مد میں ضرور چندہ دیتے تھے یا اپنے جیب خرچ سے دیتے تھے.یہ مداب بھی شاید ہو.حالات کی وجہ سے پاکستان میں تو میں اس پر زور نہیں دیتا لیکن باہر

Page 673

خطبات مسرور جلد سوم 666 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء پتہ نہیں، ہے کہ نہیں اور اسے اب بیرون کہنے کی تو ضرورت بھی نہیں.عموماً مساجد کی ایک مدہونی چاہئے اس میں جب بچے پاس ہو جائیں تو اس وقت یا کسی اور خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر میں چندہ دیا کریں اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں بے شمار احمدی بچے امتحانوں میں پاس ہوتے ہیں.اگر ہر سال ذیلی تنظمیں اس طرف توجہ دیں ، ان کو کہیں اور جماعتی نظام بھی کہے کہ اس موقع پر وہ اس مد میں اپنے پاس ہونے کی خوشی میں چندہ دیا کریں تو جہاں وہ اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے کی خاطر مالی قربانی کی عادت ڈال رہے ہوں گے وہاں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل سمیٹتے ہوئے اپنا مستقبل بھی سنوار رہے ہوں گے.والدین بھی اس بارے میں اپنے بچوں کی تربیت کریں اور انہیں ترغیب دلائیں تو اللہ تعالیٰ ان والدین کو بھی خاص طور پر اس ماحول میں بہت سی فکروں سے آزاد فرمادے گا.اللہ کرے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق عبادتیں کرنے والے بھی ہوں جس طرح آپ جماعت کو بنانا چاہتے تھے.اور مشرق و مغرب میں مسجدوں کا جال پھیلانے والے بھی ہوں.اور پھر ان مسجدوں کو تقوی سے پر دلوں سے بھرنے والے بھی ہوں.انشاء اللہ تعالیٰ مساجد کی تعمیر سے بہت سے تبلیغی راستے کھلیں گے اور اللہ کے فضل سے کھلتے بھی ہیں.لیکن اس کے لئے ہمیں بھی توبہ و استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے معیار قائم کرنے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.آج اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر یہاں کے پرانے احمدیوں کو یقیناً ان دو مخلصین کی یاد بھی آ رہی ہوگی جو یہاں کے ابتدائی احمدیوں میں سے ہیں جنہوں نے یہاں جماعت قائم کی.ایک وقت ایسا آیا کہ اپنے بچوں کے بڑے ہونے کی وجہ سے وہ یہاں سے شفٹ ہونا چاہتے تھے ،شاید پاکستان جانا چاہتے تھے.لیکن حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر کہ پہلے یہاں جماعت بنائیں اور پھر جائیں.ایک مشنری روح کے ساتھ انہوں نے یہاں کام کیا اور جماعت بنائی تبلیغ کی، مقامی لوگوں میں بھی احمدیت پھیلی.اور پھر اس جماعت کی تربیت اور ان مقامی لوگوں کے پیار کی وجہ سے اور تبلیغ کا جو مزا اُن کو آ چکا تھا اس وجہ سے وہ واپس جانے کا

Page 674

خطبات مسرور جلد سوم 667 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء خیال ہی بھول گئے اور یہیں کے ہو گئے.اور پھر ان دونوں کی یہیں وفات بھی ہوئی اور یہیں دفن بھی ہیں.آج ڈاکٹر حمید خان صاحب اور ساجدہ حمید صاحبہ کی روح بھی اس مسجد کی تعمیر کا ثواب حاصل کر رہی ہوگی.ان کو بھی یہ ثواب مل رہا ہو گا جن کی کوششوں سے یہ رقبہ خریدا گیا اور جن کی خواہش پر اللہ کے فضل سے یہ مسجد بن بھی گئی ہے.ان دونوں فدائین کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی احمدیت کا حقیقی خادم بنائے.ان کے چاروں بچوں میں سے بڑی بیٹی یہاں رہتی ہیں.ماشاء اللہ اللہ کے فضل سے اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے کام میں اور ان کے علم میں مزید برکت ڈالے.امید ہے کہ چھوٹا بیٹا جو تعلیم کے لئے لندن مقیم ہے وہ بھی یہاں آ کے رہے گا تا کہ اس کام کو جاری رکھے جو اس کے ماں باپ نے جاری کیا.بہر حال جب بھی ہارٹلے پول کی تاریخ احمدیت لکھی جائے گی، یہاں کی جماعت کی تاریخ لکھی جائے گی اس جوڑے کا نام سب سے نمایاں ہوگا جنہوں نے یہاں جماعت قائم کی.اب تو اللہ کے فضل سے یہاں کافی لوگ ہیں.کچھ اسائکم والے بھی آگئے ، دوسرے بھی آگئے.اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے کہ اس جوڑے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تبلیغ کے میدان میں بھی آگے بڑھیں اور جماعت میں اضافے کا باعث بنیں اور اس مسجد کے اصل مقصد کو پورا کرنے والے بھی ہوں.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ ہے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان.یکم نومبر سے تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز ہوجاتا ہے لیکن گزشتہ جمعہ عید کی وجہ سے اس کا اعلان نہیں کیا گیا اس لئے آج میں اس نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.میر انہیں خیال کہ خلیفہ مسیح کے UK ہجرت کر جانے کے بعد لندن سے باہر کبھی تحریک جدید کا اعلان ہوا ہو.ہارٹلے پول سے تو بہر حال کبھی نہیں ہوا اور ایم ٹی اے کے ذریعے سے Live کبھی نہیں ہوا.تو آج اس نئی مسجد کے افتتاح کے ساتھ تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان بھی ہو رہا ہے.

Page 675

خطبات مسرور جلد سوم 668 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تحریک جدید کو جاری کرنے کا مقصد یہی تھا کہ مبلغین تیار ہوں جو بیرونی ملکوں میں جائیں، وہاں مشن کھولے جائیں، مسجدیں تعمیر کی جائیں اور اسلام اور احمدیت کے پیغام کو دنیا میں پھیلایا جائے.آپ نے ایک دفعہ بڑے درد سے فرمایا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ دنیا کے چپہ چپہ پر مسجد بن جائے اور دنیا جس میں عرصہ دراز سے تثلیث کی پکار بلند ہو رہی ہے خدائے واحد کے نام سے گونجنے لگے.پس آج ہم خوش تو ہیں کہ عیسائیت کے گڑھ میں ہم نے خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے ایک اور مسجد کا افتتاح کر دیا ہے.لیکن یہ ہماری انتہا نہیں ہے.ہمارے مقصد تو تبھی پورے ہوں گے جب ہم ہر شہر میں، ہر قصبے میں اور ہر گاؤں میں خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے مسجد تعمیر کریں گے اور اس کو پھر خالصتاً خدائے واحد کی عبادت کرنے والی روحوں سے بھر دیں گے.پس یہ وہ روح ہے جس کے ساتھ واقفین زندگی اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں اور اسی روح کے ساتھ زندگیاں وقف کرنی چاہئیں ہمارے سارے مبلغین کو ، سارے واقفین زندگی کو.اور یہ وہ روح ہے جس کے ساتھ مجاہدین تحریک جدید مالی قربانیاں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں.اور اس روح کے ساتھ قربانیاں پیش کرنی چاہئیں.جب یہ جذبہ ہر دل میں ہو گا تو قربانیوں کے معیار بھی بڑھیں گے اور ہر ایک صرف اس وجہ سے تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہا ہو گا کہ مجبوری ہے اس کو سیکرٹری تحریک جدید کی طرف سے یا جماعت کی طرف سے توجہ دلائی گئی ہے، بلکہ دلی جوش اور جذبے کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس تحریک میں حصہ لے رہے ہوں گے.اب گزشتہ سال کے کوائف بتانے سے پہلے یہ بھی بتا دوں کہ گزشتہ سال میں نے اعلان کیا تھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں یہ توجہ دلائی تھی کہ دفتر اول کے پانچ ہزار مجاہدین کے کھاتے کبھی مردہ نہیں ہونے چاہئیں.ان بزرگوں کے لواحقین کو کوشش کرنی چاہئے ، ان کے ورثاء کو کوشش کرنی چاہئے کہ جو کھاتے ختم ہو گئے ہیں وہ دوبارہ زندہ ہوں لیکن اُس وقت کیونکہ براہ راست سنے کا ذریعہ نہیں تھا اور ہر ایک تک خبر بھی نہیں

Page 676

خطبات مسرور جلد سوم 669 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء پہنچی ہوگی.شاید اسی لئے اس اعلان کے باوجود لوگوں نے اس طرف توجہ نہیں کی تھی.لیکن گزشتہ سال میرے توجہ دلانے پر ان بزرگوں کی اولادوں نے بھی یا دوسروں نے بھی کافی رقوم بھیجی ہیں اور تقریباً ساڑھے تین ہزار کے قریب مردہ کھاتے زندہ ہو چکے ہیں.اور یہ رقوم جو آئی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ہر سال اس آخری ادائیگی کے مطابق جوان مجاہدین نے کی تھی سوائے ان کے جن کے ورثاء نے خود کھاتے جاری کروائے ہیں باقی جو کھاتے ہیں وہ ان کی آخری ادائیگی کے مطابق جاری کر دیئے گئے ہیں اور انشاء اللہ جاری رہیں گے اور یہ تسلسل قائم رہے گا.اب کوائف پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جور پورٹس موصول ہوئی ہیں، ( تمام آتی بھی نہیں ہیں) ان کے مطابق مجموعی ادا ئیگی 34لاکھ 46 ہزار پاؤنڈ ہے.کیونکہ بہت سی جگہوں پر عموماً کرنسی کی قیمت گرنے سے قیمت میں بڑا فرق پڑ جاتا ہے.پھر بھی وصولی گزشتہ سال سے تین لاکھ اٹھارہ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.پاکستان بھی اپنی پوزیشن کے لحاظ سے حسب سابق اول ہے.پھر امریکہ ہے، پھر برطانیہ ہے، جرمنی، کینیڈا، انڈونیشیا، بھارت، بیلجیئم، آسٹریلیا، ماریشس اور سوئٹزر لینڈ.آسٹریلیا نے اس دفعہ بڑی کوشش کی ہے کہ دسویں نمبر سے نویں نمبر پر آیا ہے اور افریقن ممالک میں نائیجیریا نے اس دفعہ بڑا نمایاں کام کیا ہے.گزشتہ سال کی نسبت انہوں نے تقریباً دوگنی وصولی کی ہے اور افریقہ کی جماعتوں میں تو نائیجیریا ہی نمبر ایک پر ہے.جو مجاہدین ہیں ان کی تعداد 4لاکھ 42 ہزار ہے.اس میں بڑی گنجائش ہے.جماعتوں کو میں نے کہا ہے کہ اس میں اضافہ کریں.اگر یہ اضافہ کر دیں گے تو کئی گنا چندہ بڑھ سکتا ہے.بہر حال گزشتہ سال کی نسبت 24 ہزار زائدافراد نے اس قربانی میں حصہ لیا ہے.پاکستان کے کیونکہ جماعت وار کوائف بھی بتائے جاتے ہیں اس لئے وہاں جماعتوں کی پوزیشن کے لحاظ سے اوّل لاہور ہے، دوم ربوہ اور سوئم کراچی.اور پاکستان میں نمایاں کام کرنے والی جماعتوں میں اسلام آباد ، راولپنڈی، کوئٹہ، ملتان، سرگودھا، کنری، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، مردان، واہ کینٹ ، خانیوال.اس کے علاوہ جو نمایاں چھوٹی جماعتیں ہیں ان میں کوٹلی ،کھوکھر غربی، گھٹیالیاں ، بشیر آبادسندھ ، مظفر گڑھ، بدین مٹھی نے بھی کافی کام کیا ہے.اور

Page 677

خطبات مسرور جلد سوم 670 خطبہ جمعہ 11 /نومبر 2005ء ضلعوں کا نام بھی لیا جاتا ہے اس لئے وہ بھی عرض کر دوں.ان ضلعوں میں سیالکوٹ ، میر پور خاص، بہاولنگر ، نارووال، حیدر آباد، پشاور، میر پور آزادکشمیر، سانگھڑ، منڈی بہاؤالدین اور قصور.اس ترتیب سے ان کی پوزیشن ہے.اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور یہ سب قربانی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پانے والے ہوں اور آئندہ ان قربانیوں کو بڑھانے والے بھی ہوں اور اپنے مقصد پیدائش کو پہچانے والے بھی ہوں.

Page 678

خطبات مسرور جلد سوم 671 (45) خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء امانت اور با ہمی لین دین کے معاملات میں اسلامی تعلیم ہر احمدی کو کاروباری معاملات میں اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہونا چاہئے خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 نومبر 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی :.پھر فرمایا:.أوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ ® وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (الشعراء:182-184) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی حضرت شعیب کی قوم کا ذکر کیا ہے ان کو یہ نصیحت فرمائی کہ ماپ تول پورا دیا کرو.کم تولنے کے لئے ڈنڈی مارنے کے طریقے اختیار نہ کرو کیونکہ تمہاری یہ بد نیتی ملک میں فساد اور بدامنی پھیلانے کا باعث بنے گی.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں یہ بھی اسی مضمون کی ہیں.ان کا ترجمہ ہے کہ: پورا پورا ماپ تو لو اور ان میں سے نہ بنو جو کم کر کے دیتے ہیں.اور سیدھی ڈنڈی سے تو لا کرو.اور لوگوں کے مال ان کو کم کر کے نہ دیا کرو.اور زمین میں فسادی بن کر بدامنی نہ پھیلاتے پھرو.

Page 679

خطبات مسرور جلد سوم 672 اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء اور کسی طور سے لوگوں کو ان کے مال کا نقصان نہ پہنچاؤ اور فساد کی نیت سے زمین پر مت پھرا کرو.یعنی اس نیت سے کہ چوری کریں یا ڈا کہ ماریں یا کسی کی جیب کتریں یا کسی اور ناجائز طریق سے بیگانہ مال پر قبضہ کریں.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 347) تو یہ ماپ تول پورا نہ کرنا یاڈنڈی مارنا، دیتے ہوئے مال تھوڑا تول کر دینا اور لیتے ہوئے زیادہ لینے کی کوشش کر نا یہ تمام باتیں چوری اور ڈاکے ڈالنے کے برابر ہیں.اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے لے کہ کوئی بات نہیں تھوڑ اسا کاروباری دھوکہ ہے کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں.بڑے واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ خبردار رہو، سن لو کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے.پھر بعض لوگ دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بات نہیں اس کو تو پتہ نہیں چل رہا کہ فلاں چیز کی کیا قدر ہے، اس کو دھوکے سے بیوقوف بنالو کوئی فرق نہیں پڑتا.کچھ اپنی جیب میں ڈال لو، کچھ اصل مالک کو دے دو.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ بات یہ عمل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جو فساد پیدا کرنے والے عمل ہیں.اس قسم کے لوگ جو اس طرح کا مال کھانے والے ہوتے ہیں یہ لوگ دوسروں کے مال کھا کر آپس میں لڑائی جھگڑوں اور فساد کا باعث بن رہے ہوتے ہیں.دوسرے فریق کو جب پتہ چلتا ہے کہ اس طرح میرا مال کھایا گیا تو ان کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور اس طرح آپس کے تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں.تعلقات خراب ہوتے ہیں ، مقدمے بازیاں ہوتی ہیں.دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی ہیں.لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں.اور اگر دوسرا فریق صبر کرنے والا ہو، حوصلہ دکھانے والا ہو تو پھر تو بچت ہو جاتی ہے ورنہ جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ لڑائی جھگڑے، فساد، فتنہ یہی صورتحال سامنے آتی ہے.اور روزمرہ ہم ان باتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں.پھر لوگوں کا مال کھانے والا، کم تول کرنے والا اس حرام مال کی وجہ سے جو وہ کھا رہا ہوتا ہے طبعا فسادی اور فتنہ پرداز بن جاتا ہے.دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والا نہیں ہوتا.نیکی اور

Page 680

خطبات مسرور جلد سوم 673 خطبہ جمعہ 18 نومبر 2005ء امن کی بات کی اس سے توقع نہیں کی جاسکتی.اس کی ہر بات اور ہر کام میں سے برکت اٹھ جاتی ہے.اور یہ کاروباری بددیانتی یا کسی بھی وجہ سے دوسرے کا مال کھانا یہ ایسے فعل ہیں جن کی وجہ سے جیسا کہ اس آیت میں آیا کہ فساد نہ کرو، پہلی قوموں پہ تباہی بھی آئی ہے، یہ بھی ایک وجہ تباہیوں کی بنتی رہی ہے.تو یہ واقعات جو قرآن کریم میں ہمیں بتائے گئے ہیں صرف ان پرانے لوگوں کے قصے کے طور پر نہیں تھے بلکہ یہ سبق ہیں آئندہ آنے والوں کے لئے بھی کہ دیکھو اللہ تعالیٰ سے کسی کی رشتہ داری نہیں ہے.اگر اس تعلیم سے دور ہٹو گے تو اس کے عذاب کے مور د بنو گے.ور نہ پہلی قو میں بھی یہ سوال کر سکتی ہیں کہ ہماری ان غلطیوں کی وجہ سے تو ہمیں عذاب نے پکڑا لیکن بعد میں آنے والے بھی یہی گناہ کرتے رہے اور آزادانہ پھرتے رہے اور عیش کرتے رہے.یہ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ مالک ہے جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے لیکن جن واقعات کی خدا تعالیٰ نے خود اطلاع دے دی، یہ اطلاع اس لئے ہے کہ پہلی قوموں میں یہ یہ برائیاں تھیں جن کی وجہ سے ان کو یہ سزائیں ملیں ہم اگر سزا سے بچنا چاہتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو اور ان فساد کی باتوں سے رکو.اس زمانے میں دنیا کے لالچ کی وجہ سے عموماً انفرادی طور پر بھی اور قوموں کی سیاست کی وجہ سے قومی طور پر بھی ایک دوسرے کو تجارت میں ، لین دین میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے.جو معاہدے ہوتے ہیں ان پر من و عن عمل نہیں ہوتا.سوسو تاویلیں اور حجتیں نکالی جاتی ہیں.اگر ان مغربی قوموں کی اپنی مرضی کے مطابق غریب ممالک عمل نہ کریں تو یہ اپنے معاہدوں کو اور سودوں کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ اس معاہدے سے اتنا استفادہ نہ کر سکیں جس کی وجہ سے یہ معاہدے ہورہے ہیں.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ان غریب ممالک کو پہلے تجارت اور ہمدردی کے دھوکے میں رکھ کر لوٹا جاتا ہے اور پھر زیرنگیں کر لیا جاتا ہے.جو اختلاف کرے اس پر فوج کشی کر دی جاتی ہے.طاقت استعمال کر کے اس قوم کو اپنے تسلط میں لے لیا جاتا ہے.تو بہر حال ان فساد پیدا کرنے والوں کے ، دوسروں کے حقوق چھینے والوں کے یہ دوہرے معیار ہوتے ہیں کہ اپنی پسند کی قوموں سے، اپنی ہم مذہب قوموں سے لین دین

Page 681

خطبات مسرور جلد سوم 674 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء اور طرح سے کرتے ہیں.غریب ملکوں سے یا غیر مذہب قوموں سے لین دین اور طرح سے ہوتے ہیں.بلکہ یہ بھی کرتے ہیں کہ غریب ملکوں کی معاشی پالیسیاں بنانے کے بہانے سے ان کو ایسے شیطانی معاشی چکر میں گرفتار کر دیتے ہیں کہ وہ ترقی کر ہی نہیں سکتے.اور یہ لوگ پھر ان غریب ملکوں کی دولت بھی لوٹ لیتے ہیں.تو ان سب چیزوں کی جڑ جن کی وجہ سے یہ فائدے اٹھائے جا رہے ہوتے ہیں اور نقصان پہنچائے جا رہے ہوتے ہیں یہی تجارتیں اور لین دین اور ماپ تول ہی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ فرمایا ہے کہ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَ هُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ﴾ (الاعراف :86) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ کسی طور سے لوگوں کو ان کے مال کا نقصان نہ پہنچاؤ اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ.سورۃ الاعراف میں ایک آیت میں اس مضمون کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ مُؤْمِنِيْنَ ﴾ (الاعراف: 86) کہ تمہارے لئے بہتر تھا اگر تم ایمان لانے والے ہوتے.پس آج یہ پیغام ہمیں ہر اس شخص تک اور ہر اس قوم کے لیڈروں تک پہنچانا چاہئے اور ہر اس قوم تک پہنچانا چاہئے جو ان تجارتی دھو کے بازیوں میں مبتلا ہیں کہ تم ان دھوکوں سے امن اور اپنی بالا دستی حاصل نہیں کر سکتے ، اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر ایمان لانا ضروری ہے ور نہ پرانی قوموں کی تباہیاں تمہارے سامنے ہیں.یہ عذاب جنہوں نے پہلی قوموں کو تباہ کیا اب بھی آسکتے ہیں.اگر ہوش کی آنکھ ہو تو دیکھیں کہ آرہے ہیں.دنیا میں ہر جگہ جو آفتیں اور تباہیاں آ رہی ہیں امریکہ میں بھی، ایشیا میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی اور اب موسم کی سختیوں کے بارے میں بھی پیشگوئیاں کی جارہی ہیں.تو ان آفتوں کی وجہ سے بہت ساری برائیاں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ان سے بچنے کا ایک ہی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرو.ہر احمدی کو یہ پیغام اپنے اپنے دائرے میں اور اپنے حلقے میں پہنچانا چاہئے ، قرآن کریم کے اندار کو سامنے رکھنا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کو پیش کرنا چاہئے.

Page 682

خطبات مسرور جلد سوم 675 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء مسلمانوں کو بھی سمجھانا چاہئے کہ سب سے اول یہ حکم تمہارے لئے ہے کہ اس تعلیم پر عمل کرو.کیونکہ ہمارے مسلمان ملکوں میں سے جس کسی کا بس چلتا ہے انفرادی طور پر ماپ تول اور لین دین میں تقریباً سبھی ڈنڈی مارنے والے ہیں، دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں.عیسائی مغربی ممالک کم از کم چھوٹی اور انفرادی تجارت میں کافی حد تک ایمانداری سے اپنی چیز میں بیچتے ہیں اور لین دین کرتے ہیں اور عموماً اسی اعتماد پر ان سب کے کاروبار بھی چل رہے ہوتے ہیں.لیکن مسلمان ملکوں میں اس کی بہت زیادہ کمی ہے.کئی ملکوں سے تجارت ہوتی ہے اور مغربی ممالک سے بڑے بڑے آرڈر ملتے ہیں.لیکن آہستہ آہستہ بعض کا روباری مسلمان بھائی کا روبار سیج نہیں رکھتے اور دھو کے کی وجہ ہے وہ تجارتیں بجائے پھیلنے کے کم ہوتی چلی جاتی ہیں.اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم نے دوسرے کو دھوکہ دے کر تیر مار لیا.جبکہ بعد میں وہ نقصان اٹھا رہے ہوتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو انذار فرمایا ہے یعنی جو اس کا علم رکھنے والے اور اس کتاب کو ماننے والے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ اس کے نیچے آتے ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان بحیثیت قوم ترقی نہیں کر پا رہے.کیونکہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر کھول کر ان پرانی قوموں کے واقعات بتائے ہیں اور احکامات بھی دیئے ہیں کہ یہ یہ باتیں تم نے نہیں کرنی اور یہ یہ کرنی ہیں.اس لئے ہم بہر حال جب تک اس پر عمل نہیں کرتے ، ترقی نہیں کر سکتے.دوسروں کو تو ڈھیل زیادہ لمبا عرصہ ہو سکتی ہے لیکن مسلمانوں کو نہیں.پس آج دنیا کو ہر مصیبت ، آفت اور پریشانی سے بچانے کے لئے ہر قسم کے اعلیٰ خلق پر عمل اور اس کی تبلیغ کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے کیا اسوہ قائم فرمایا.کس طرح آپ متجارت اور لین دین اور اس کے معاہدے کیا کرتے تھے، کس طرح اپنے عہد پورے کیا کرتے تھے، کس طرح قرضے اتارا کرتے تھے آپ نے اپنی امت کو بھی نصیحتیں فرمائیں کہ کس طرح لین دین کیا کرو.اور یہ سب تعلیم آپ نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق دی اس کی چند مثالیں یہاں پیش کرتا ہوں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عداء بن خالد بن هو ذه رضی اللہ عنہ روایت

Page 683

خطبات مسرور جلد سوم 676 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے ایک دستاویز لکھی کہ عداء بن خالد بن هو ذه نے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک غلام خریدا جس کے اندر نہ تو کوئی بیماری ہے اور نہ کوئی اخلاقی خرابی و خباثت ہے.یہ دو مسلمانوں کا آپس میں ایک سودا ہے (جس میں کسی طرح کی دھو کے بازی نہیں کی گئی).(ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء في كتابة الشروط) تو دیکھیں کس طرح اور کس قدر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محتاط ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور تقویٰ کا جو معیار تھا اس تک تو کوئی نہیں پہنچ سکتا.یقینا آپ نے اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد یہ تحریر لکھوائی ہوگی.اس غلام کو اچھی طرح پر کھنے اور دیکھنے کے بعد اس پر یہ اعتماد قائم ہوا ہو گا.آپ نے کھول کر بتا دیا کہ یہ باتیں میں اس کے متعلق کہہ رہا ہوں.بعض دفعہ انسانی طبیعتوں کا پتہ بھی نہیں چلتا لیکن یہ جو باتیں کہی ہیں تم بھی ان کا جائزہ لے لو کہ یہ ایسا ہی ہے جس طرح میں نے کہا ہے اور ہر چیز کھول کر بیان کر دی.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نو عمر اونٹ کسی سے قرض لیا.پھر آپ کے پاس زکوۃ کے کچھ اونٹ آئے تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ اس آدمی کا نو عمر اونٹ واپس کر دو.میں نے کہا ان اونٹوں میں سے صرف ایک اونٹ ہے جو بہت عمدہ ہے اور سات سال کا ہے.تو آپ نے فرمایا وہی اسے دے دو اس لئے کہ بہترین آدمی وہ ہے جو بہترین طریق پر قرض ادا کرتا ہے.(صحیح مسلم، کتاب المساقات، باب جواز اقتراض الحيوان) تو دیکھیں قرض کی حسن ادائیگی ، معاشرے میں محبت و پیار پھیلانے کا طریق.لوگ تو آمنے سامنے کے سودوں پر بھی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح دھوکہ دینے کی کوشش کریں.پھر زمانہ نبوت سے پہلے بھی لین دین کے معاملے میں تجارت میں ، آپ کے اعلیٰ خلق کے بارے میں روایت میں آتا ہے، حضرت ابی سائب سے روایت ہے کہ ہم آپ کے ساتھ جاہلیت کے زمانے میں کاروبار میں شراکت کرتے لیکن ہم نے آپ کو کبھی دھوکے بازی اور جھگڑا کرتے نہیں دیکھا.

Page 684

خطبات مسرور جلد سوم 677 خطبہ جمعہ 18 نومبر 2005ء اگر آج اس اسوہ پر عمل ہو تو بہت سارے جھگڑوں سے معاشرہ محفوظ ہو سکتا ہے.تحریریں بھی لکھی جاتی ہیں.اس کے باوجود بھی جھگڑے ہوتے ہیں.مقدمے بازیاں چلتی ہیں اور سالوں تک ان مقد مے بازیوں کی وجہ سے دونوں فریق وقت کے ساتھ ساتھ اپنا مالی نقصان بھی کر رہے ہوتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے مُحارب بن دثار روایت کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا قرض ادا کرنا تھا چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میری رقم ادا فرمائی اور میری رقم سے زائد بھی عنایت فرمایا.(سنن ابی داؤد - كتاب البيوع ـ باب في حسن القضاء) یہ اس طرح رقم ادا کرنا کوئی سود نہیں ہے.بلکہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ قرضے کی احسن رنگ میں ادا ئیگی ہے کہ قرض کی ادائیگی اس طرح احسن طور پر ہو، اس طرح شکریہ کے ساتھ کی جائے کہ میں تمہارا ممنون ہوں تم نے وقت پر میری ضرورت پوری کی اور اس شکر کے اظہار کے طور پر میں تمہیں یہ زائدا اپنی خوشی سے دے رہا ہوں.تو یہی وہ اُسوہ ہے جس سے معاشرے میں محبت اور امن کی فضا پیدا ہوسکتی ہے.دار قطنی کی ایک لمبی روایت ہے جس میں راوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابتدائی زمانے میں مشرکین مکہ کے ظالمانہ سلوک کا نقشہ کھینچا ہے.پھر اسلام کے غالب آنے کے بعد جب تمام عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرنگیں تھا اس وقت کا آپ کے لین دین کا واقعہ بیان کیا ہے.طارق بن عبداللہ المحاربی کہتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ایک قافلے کے ساتھ مدینہ کے قریب آکر پڑاؤ کیا.اس پڑاؤ کے دوران ایک شخص سفید کپڑوں میں ملبوس ہمارے پاس آیا اور سلام کیا.(جولین دین سے تعلق والا حصہ ہے وہ میں بیان کر رہا ہوں ) اور پھر ہم سے پوچھا آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ ہم نے بتایا کہ رمضہ سے آئے ہیں.راوی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک سرخ اونٹ بھی تھا ( اس زمانے میں سرخ اونٹ کافی مہنگے اونٹوں میں شمار ہوتے تھے ) تو اس آنے والے شخص نے ( جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 685

خطبات مسرور جلد سوم 678 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء تھے جنہیں راوی اس وقت نہیں جانتے تھے) پوچھا کیا تم اپنا یہ سرخ اونٹ فروخت کرنا چاہتے ہو؟.انہوں نے کہا: ہاں ہم فروخت کرنا چاہتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا: کتنے میں فروخت کرو گے؟ تو انہوں نے کچھ صاع کھجوریں اس کی قیمت بتائی کہ اتنے میں فروخت کریں گے.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے مجھے دے دو.اور آپ نے وہ اونٹ لیا اور مدینہ کی طرف چل دیئے کہ قیمت مدینہ جا کے میں بھجوا دوں گا.تو راوی کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ آپ اونٹ لے کر چلے گئے اور ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے.اس کے بعد ہمیں خیال آیا کہ ہم نے ان سے تعارف تو حاصل ہی نہیں کیا کہ کون ہے.پتہ نہیں کون شخص ہے؟ کیا ہے؟ اب رقم بھی ملے گی یا نہیں؟ یا کھجوروں کا جو سودا ہوا ہے اس کی مقدار ملے گی یا نہیں ؟ اس فکر میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگ گئے.ہر کوئی دوسرے کو کہ رہا تھا کہ تم نے کیوں اونٹ جانے دیا.ایسے شخص کو اتنا قیمتی اونٹ دے دیا جس کو ہم جانتے ہی نہیں.کہتے ہیں کہ ہمارے اس قافلے میں ایک خاتون بھی موجود تھیں.( لگتا ہے کہ وہ بڑی ذہین اور قیافہ شناس تھیں اور ان میں مومنانہ فراست تھی) اس عورت نے ہمیں کہا کہ ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو.میں نے اس شخص کے چہرے کو دیکھا تھا وہ ایسا نہیں لگتا کہ تمہیں ذلیل کرے.میں نے کبھی کسی شخص کا چہرہ ایسا نہیں دیکھا جو اس سے زیادہ چودھویں رات کے چاند سے مشابہت رکھتا ہو.تو راوی کہتے ہیں کہ رات کے کھانے کے وقت ایک شخص ہمارے پاس آیا اور ہمیں سلام کیا اور بتایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبر کے طور پر آیا ہوں.انہوں نے تمہارے لئے کھانا بھیجا ہے، خوب سیر ہو کر کھاؤ.اور یہ کھجور میں اپنے اونٹ کی قیمت کے مطابق ماپ لو یعنی کھانا بھی رات کا بھجوا دیا اور قیمت بھی بھجوا دی.روایت آگے بھی چلتی ہے.یہ لوگ پھر مدینہ گئے.بہر حال دیکھیں آپ نے صرف یہ نہیں کہا کہ میں نے ماپ کے کھجوریں بھیج دی ہیں لے لو.بلکہ فرمایا کہ تم لوگ بھی اس کو ماپ لو تا کہ کسی بھی قسم کا ابہام نہ رہے اور تمہاری قیمت پوری ہو جائے، کوئی غلط فہمی نہ رہے.(سنن الدار قطنی کتاب البیوع روایت نمبر 186/2944) پھر ہمیں آپس کے لین دین کے بارے میں امانتوں کی ادائیگی کے بارے میں آپ

Page 686

خطبات مسرور جلد سوم 679 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء نصیحت فرماتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی تمہارے پاس کوئی چیز امانت کے طور پر رکھتا ہے اس کی امانت اسے لوٹا دو اور اس شخص سے بھی ہرگز خیانت سے پیش نہ آؤ جو تم سے خیانت سے پیش آچکا ہے.(ابوداؤد.کتاب البیوع ـ باب في الرجل ياخذحقه من تحت يده) پھر صرف یہی نہیں کہ امانت لوٹا دو بلکہ فرمایا کہ وہ شخص مومن ہی نہیں کہلا سکتا جو امانتوں میں خیانت کرتا ہے، جو دوسروں کے حق مارتا ہے، جو کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے، جو اپنے عہد کو صحیح طور پر نہیں نبھا تا.اس بارے میں ایک اور روایت ہے.حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِين لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ یعنی جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا اس کا کوئی دین نہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 135 مطبوعه بيروت) اب امانت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ کسی نے کوئی چیز یار تم کسی کے پاس رکھوائی تو وہ اس طرح واپس کر دی.یہ تو ہے ہی لیکن کوئی بھی شخص جو بھی کام کر رہا ہے اگر وہ اس کا حق ادا نہیں کر رہا ، چاہے کام میں ستی کر کے حق ادا نہیں ہو رہا یا کاروباری آدمی کا اپنے کاروبار میں دوسرے کو دھو کے دینے کی وجہ سے اس سے انصاف نہیں ہو رہا، حق ادا نہیں ہو رہا تو یہ خیانت ہے کیونکہ کاروبار میں ، لین دین میں مثلاً اگر کسی نے کسی دوسرے پر اعتبار کیا ہے تو اس کو امین سمجھ کر ہی ، اس کو امانتدار سمجھ کر ہی اس سے کاروبار یا لین دین کا معاہدہ کیا ہے.اگر اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے تو یہ خیانت ہے.پھر ہمارے ملکوں میں سودے ہوتے ہیں.لوگ چیزیں بیچتے ہیں تو اس میں ملاوٹ کر دیتے ہیں.یہ خیانت ہے.امانت کا صحیح طرح حق ادا کرنا نہیں ہے، کسی کا حق مارنا ہے.تو یہ سب باتیں ایسی ہیں جو ایمان میں کمزوری کی نشانی ہیں.وعدوں کا پاس کرنا ہے.اگر اپنے عہد نہیں نبھا ر ہے تو عہد توڑنے کے گناہ کے مرتکب

Page 687

خطبات مسرور جلد سوم 680 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء ہورہے ہیں اور عہد توڑنے کے ساتھ ساتھ خیانت بھی کر رہے ہیں.تو ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ بے ایمان اور بے دین لوگ ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں امانت، دیانت اور لین دین میں اعلیٰ معیار قائم کرنے کا جو احساس پیدا کیا، جو تربیت کی اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بعض دفعہ صحابہ سودے میں اس بات پر بحث کیا کرتے تھے کہ مثلاً لینے والا یا خرید نے والا کسی چیز کی قیمت زیادہ بتا رہا ہے اور دینے والا اس کی قیمت کم بتا رہا ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ ”ایک دفعہ ایک صحابی ایک دوسرے صحابی کو ایک گھوڑا بیچنے لگے اور اس کی جو قیمت بیچنے والے نے بتائی وہ خریدنے والے کے نزدیک کم تھی.انہوں نے اس کی قیمت تین چار گنا کر کے بتائی.اور اس بات پہ جھگڑا ہو گیا.لینے والا کہہ رہا ہے میں کم قیمت لوں گا.دینے والا کہہ رہا ہے کہ نہیں میں زیادہ قیمت دوں گا.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 249) تو یہ تھے وہ معیار جو صحابہ نے حاصل کئے.اور یہی معیار ہیں جو ایک مومن کو حاصل کرنے چاہئیں، جن باتوں کا ایک مومن کو خیال رکھنا چاہئے اور اس طرح اپنی امانت اور دیانت کے معیاروں کو بڑھانا چاہئے.ایک بہت بڑی بیماری جو دنیا میں عموماً ہے اور جس کی وجہ سے بہت سارے فساد پیدا ہوتے ہیں وہ ہے کاروبار کے لئے یا کسی اور مصرف کے لئے قرض لینا اور پھر ادا کرتے وقت ٹال مٹول سے کام لینا.بعض کی تو نیت شروع سے ہی خراب ہوتی ہے کہ قرض لے لیا پھر دیکھیں گے کہ کب ادا کرنا ہے.اور ایسے لوگ باتوں میں بھی بڑے ماہر ہوتے ہیں جن سے قرض لینا ہوان کو ایسا باتوں میں چراتے ہیں کہ وہ بیوقوف بن کے پھر رقم ادا کر دیتے ہیں یا کاروباری شراکت کر لیتے ہیں.بہر حال ایسے ہر دو قسم کے قرض لینے والوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس شخص نے لوگوں سے واپس کرنے کی نیت سے مال قرض پر لیا اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادائیگی کے سامان کر دے گا.اور جو شخص مال ہڑپ کرنے کی نیت سے قرض لے گا اللہ تعالیٰ اسے تلف کر دے گا“.(بخاری، کتاب فى الاستقراض، باب من اخذ اموال الناس......)

Page 688

خطبات مسرور جلد سوم 681 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء اکثر مشاہدہ میں آتا ہے ایسے لوگ جو بد نیتی سے قرض لیتے ہیں ان کے کاموں میں بڑی بے برکتی رہتی ہے.مالی لحاظ سے وہ لوگ ڈوبتے ہی چلے جاتے ہیں اور خود تو پھر ایسے لوگ برباد ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی اس بے چارے کو بھی اس رقم سے محروم کر دیتے ہیں جس سے انہوں نے باتوں میں چرا کر رقم کی ہوئی ہوتی ہے.جو بعض دفعہ اس لالچ میں آ کر قرض دے رہا ہوتا ہے، پیسے کا روبار میں لگا رہا ہوتا ہے کہ مجھے غیر معمولی منافع ملے گا.وہاں عقل اور سوچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بس وہ منافع کے چکر میں آکر اپنے پیسے ضائع کر دیتے ہیں اور بظاہر اچھے بھلے عقلمند لوگوں کی اس معاملے میں عقل ماری جاتی ہے اور ایسے دھو کے بازوں کو رقم دے دیتے ہیں.تو قرض جب بھی لینا ہو نیک نیتی سے لینا چاہئے.جیسا کہ آپ نے فرمایا اللہ پھر اس کی مدد کرتا ہے.اور ایک احمدی کا یہی نمونہ ہونا چاہئے اور قرض کی واپسی بھی بڑے اچھے طریقے سے ہونی چاہئے جیسا کہ پہلے بھی ذکر آ چکا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی ایک اور روایت میں بیان کرتا ہوں.ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال کا اونٹ لینا تھا وہ آیا اور تقاضا کرنے لگا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے دے دو.جس کو بھی آپ نے کہا تھا انہوں نے طلب کرنے والے کے تقاضے کے مطابق اونٹ تلاش کیا تو اس عمر کا یعنی ایک سال کا اونٹ انہوں نے نہیں پایا.بڑی عمر کا اونٹ تھا جو زیادہ قیمتی تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو دے دو.اس پر جس کو دینا تھا اس نے کہا آپ نے میرا قرض بہتر طور پر پورا کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بہتر دے.” بہر حال وہ اس کی دعا تھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرض ادا کرنے کے لحاظ سے بہتر ہو.(بخاری - كتاب الوكالة -باب وكالة الشاهد والغائب جائزة.....تو یہ قرض کی ادائیگی کے نیک طریق کے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دکھائے ہیں.احمدیوں نے اگر دنیا سے فساد کو دور کرنا ہے تو آپس میں جو بھی لین دین یا قرض لیتے ہیں ان کی اس طرح حسن ادائیگی ہونی چاہئے.آپس میں کاروباری معاملات خوبصورتی سے طے

Page 689

خطبات مسرور جلد سوم 682 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء ہونے چاہئیں.اور کوئی دھو کہ اور کسی قسم کی بھی بد نیتی شامل نہیں ہونی چاہئے.فرماتے ہیں: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نفس امارہ کی حالت بیان کرتے ہوئے اس حالت کی اصلاح کے لئے عدل کا حکم ہے.اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے.مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اس کو دبا ہو لوں اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گزر جاوے.اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بے باک ہے گا کہ اب تو قانونی طور پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہو سکتا.مگر یہ ٹھیک نہیں.عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دین واجب ادا کیا جاوے (اس کا قرض واجب ادا کرو) اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں.یہ عدل کے خلاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے ( یعنی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے ) پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یادر کھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئے.کیونکہ یہ امر الہی کے (ملفوظات جلد 4 صفحه 607 جدید ایڈیشن) خلاف ہے.پس ہمارے سامنے یہ تعلیم ہے.ہم جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح تعلیم کے نمونے قائم کرتے ہیں.اگر ہمارے عمل اس کے خلاف ہوں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ نہ تو ہم امانت کا حق ادا کر رہے ہیں، نہ ہی ہم اپنے عہد پورے کر رہے ہیں بلکہ کاروبار میں دوسروں کو دھوکہ دے کر قرضوں میں ٹال مٹول سے کام لے کر گناہگار بن رہے ہیں اور اُس زمرے میں آ رہے ہیں جو فساد پیدا کرنے والے ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پرواہ نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں سے بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں.تو میں بھی آج بڑے افسوس سے یہی بات کہنا چاہتا

Page 690

خطبات مسرور جلد سوم 683 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء ہوں کہ ہم اتنا بڑا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں پہلے تو ذرائع وسائل اتنے نہیں تھے کہ خلیفہ وقت جو بات کہہ رہا ہوتا تھا یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات جو بیان کئے جاتے تھے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعلیم بتائی جاتی تھی جس کو ماننے کا ہم دعویٰ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات بیان کئے جاتے تھے وہ اسی جگہ پر محدود ہوتے تھے جس مجمع کو یا جس جلسے کو وہ خطاب کیا جا رہا ہوتا تھا.یا زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس کا خلاصہ یا کچھ حد تک تفصیل چند ہفتوں بعد جماعت کے افراد تک پہنچ جاتی تھی اور ان کی تعداد بہت کم ہوتی تھی جو براہ راست استفاده کر سکیں.لیکن آج ایم ٹی اے کے بابرکت انعام اور انتظام کی وجہ سے یہ آواز اس وقت لاکھوں احمدیوں کے کانوں تک پہنچ جاتی ہے.بلکہ آج ہمارے دعوے کی آواز اپنوں اور غیروں تک یکساں ایک ہی وقت میں پہنچ جاتی ہے.دوسرے بھی بہت سارے استفادہ کرتے ہیں.اس لئے ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ ہر ملک میں ، ہر شہر میں، ہر احمدی اپنے آپ کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالے جس کا وہ دعویٰ کرتا ہے.اپنی کمزوریوں کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے چھپانے کی کوشش کرے، دور کرنے کی کوشش کرے.اور حتی الوسع یہ کوشش کرے کہ ایسی کمزوریاں اور عمل سرز دنہ ہوں جو جماعت کی بدنامی کا موجب بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو بڑے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ ایسے لوگوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے.میری طرف منسوب ہو کے اور پھر مجھے بدنام کرتے ہو تو پھر میرے سے کوئی تعلق نہیں ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے تو میری بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں ہو.کیونکہ جب ایک شخص غیر کے سامنے اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے تو دوسرا تو بہر حال اس کو احمدی سمجھتا ہے اور کسی احمدی کہلانے والے کے بارے میں گہرائی میں جانے سے پہلے، جاننے سے پہلے ، یہی سمجھتا ہے کہ عموماً جس طرح احمدی دوسروں کی نسبت زیادہ قابل اعتماد ہیں، قابل اعتبار ہیں، یہ بھی ہوگا.لیکن جب کسی احمدی سے ایسی سوچ والے کسی شخص کو لین دین میں یا کاروبار میں یا دوسرے وعدوں میں کوئی نقصان پہنچتا ہے یا صدمہ پہنچتا ہے تو وہ پوری جماعت کو ہی برا سمجھتا ہے.آج کل مجھے کئی خط مل رہے ہیں غیر از جماعت مسلمانوں کی طرف سے بھی اور

Page 691

خطبات مسرور جلد سوم 684 خطبہ جمعہ 18 /نومبر 2005ء غیر مسلموں کی طرف سے بھی.چاہے مہینے میں دو چار ہی ہوں لیکن بہر حال بدنامی کا باعث بنتے ہیں.جماعت جس طرح پھیل رہی ہے بعض نئے آنے والے اپنے کاروباری ساتھیوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور ان کے پرانے دھو کے چل رہے ہوتے ہیں.لیکن مجھے تکلیف اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب پرانے احمدی خاندانوں کے بعض لوگ بھی دھوکے میں ملوث ہوتے ہیں.پاکستان سے بھی اور دوسرے ملکوں سے بھی بعض غیر از جماعت خط لکھتے ہیں کہ آپ کا فلاں احمدی ہمارے اتنے پیسے کھا گیا.بلکہ ایک نے تو یہ لکھا کہ میں نے آپ کو خط لکھا تھا آپ نے جماعت کو کہا جماعت نے بڑی مدد کی.لیکن وہ احمدی کسی طرح اس وعدے کو پورا کرنے یا پیسے دینے پر راضی نہیں ہے.اس لئے میں اب اپنا معاملہ خدا پر چھوڑتا ہوں.یہ الفاظ تو ایک احمدی کو کہنے چاہئیں کہ میں اپنا معاملہ خدا پہ چھوڑتا ہوں کجا یہ کہ کوئی دوسرا کہہ رہا ہو.تو جب بھی ایسے معاملات کا علم ہوتا ہے تو دوسرے کے پیسے واپس کرانے یا ادا کرنے کی کوشش تو کی جاتی ہے لیکن بعض دفعہ مطالبہ کرنے والا بھی غلط ہوتا ہے، ناجائز مطالبہ کر رہا ہوتا ہے.بہر حال احمدیوں کا فرض بنتا ہے کہ اپنے لین دین کو ، ماپ تول کو، کاروبار کو، قرضوں کی واپسی کو ، بالکل صاف ستھرا رکھیں.قرآنی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات کے مطابق ہمیشہ اپنا دامن پاک وصاف رکھیں.اس طرح کرنے سے جہاں وہ اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے وہاں جماعت کی نیک نامی کا بھی باعث بن رہے ہوں گے.پہلے بھی میں کئی دفعہ اس بارے میں کہہ چکا ہوں یہ بھی ایک خاموش تبلیغ ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہر کوئی اپنے معاملات ہمیشہ صاف رکھنے ولا ہو.

Page 692

خطبات مسرور جلد سوم 685 (46) خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء شادی بیاہ کے مواقع پر لغویات اور اسراف سے بچنے کی تاکید ،، خوشی کے ان مواقع پر صاحب حيثيت افراد " مریم شادی فنڈ میں چندہ دے کر مستحقین کی مدد کریں.خطبه جمعه فرموده مورخہ 25 نومبر 2005ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.الَّذِيْنَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِّى الَّذِى يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيْتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمُ وَالْأَغْلُلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَةَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الاعراف: 158) پھر فرمایا:.اس آیت کا ترجمہ ہے کہ جو اس رسول نبی امی پر ایمان لاتے ہیں جسے وہ اپنے پاس تو رات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری بات سے روکتا ہے.اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور اُن سے اُن کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے جو اُن پر پڑے ہوئے تھے.پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے عزت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اُس نور کی پیروی کرتے ہیں

Page 693

خطبات مسرور جلد سوم 686 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء جو اس کے ساتھ اتارا گیا یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کے رہنے والوں کے بعض رسم و رواج ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک قسم جو رسم و رواج کی ہے وہ ان کی شادی بیاہوں کی ہے چاہے عیسائی ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب کے ماننے والے.ہر مذہب کے ماننے والے کا اپنے علاقے ، اپنے قبیلے کے لحاظ سے خوشی کی تقریبات اور شادی بیاہ کے موقع پر خوشی کے اظہار کا اپنا اپنا طریقہ ہے.اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب والوں نے تو ایک طرح ان رسم و رواج کو بھی مذہب کا حصہ بنالیا ہے.جس جگہ جاتے ہیں ، عیسائیت میں خاص طور پر ، ہر جگہ ہر علاقے کے لوگوں کے مطابق ان کے جو رسم و رواج ہیں وہ تقریباً حصہ ہی بن چکے ہیں.یا بعض ایسے بھی ہیں جو رسم و رواج کی طرف سے آنکھ بند کر لیتے ہیں.لیکن اسلام جو کامل اور مکمل مذہب ہے، جو باوجود اس کے کہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ خوشی کے مواقع پر بعض باتیں کر لو.جیسے مثلاً روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ ایک عورت کو دلہن بنا کر ایک انصاری کے گھر بھجوایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے عائشہ رخصتانہ کے موقع پر تم نے گانے بجانے کا انتظام کیوں نہیں کیا ؟ حالانکہ انصاری شادی کے موقع پر اس کو پسند کرتے ہیں.ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ نکاح کا اچھی طرح اعلان کیا کرو اور اس موقع پر چھاننی بجاؤ.یہ دف کی ایک قسم ہے.لیکن اس میں بھی آپ نے ہماری رہنمائی فرما دی ہے اور بالکل مادر پدر آزاد نہیں چھوڑ دیا.بلکہ اس گانے کی بھی کچھ حدود مقرر فرمائی ہیں کہ شریفانہ حد تک ان پر عمل ہونا چاہئے اور شریفانہ اہتمام ہو، ہلکے پھلکے اور اچھے گانوں کا.ایک موقعہ پر آپ نے خود ہی خوشی کے اظہار کے طور پر شادی کے موقع پر بعض الفاظ تر تیب فرمائے کہ اس طرح گایا کرو کہ آتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ فَحَيَّانَا فَحَيَّاكُمْ یعنی ہم تمہارے ہاں آئے ہمیں خوش آمدید کہو.تو ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہر قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرو، شادی کا موقعہ ہے کوئی حرج نہیں، ان کی غلط سوچ ہے.بعض دفعہ ہمارے ملکوں میں شادی کے موقعوں پر ایسے ننگے اور گندے گانے لگا دیتے ہیں کہ ان کو سن کر شرم

Page 694

خطبات مسرور جلد سوم 687 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء آتی ہے.ایسے بے ہودہ اور لغو اور گندے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں لوگ سنتے کس طرح ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدی معاشرہ بہت حد تک ان لغویات اور فضول حرکتوں سے محفوظ ہے لیکن جس تیزی سے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہمارے پاکستانی ہندوستانی معاشرہ میں یہ چیز میں راہ پا رہی ہیں.دوسرے مذہب والوں کی دیکھا دیکھی جنہوں نے تمام اقدار کو بھلا دیا ہے اور ان کے ہاں تو مذہب کی کوئی اہمیت نہیں رہی.شرابیں پی کر خوشی کے موقع پر ناچ گانے ہوتے ہیں ،شور شرابے ہوتے ہیں، طوفان بدتمیزی ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ اس معاشرے کے زیر اثر احمدیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے بلکہ بعض اکا دُکا شکایات مجھے آتی بھی ہیں.تو یا درکھیں کہ احمدی نے ان لغویات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے اور بچنا ہے.بعض ایسے بیہودہ گانے گائے جاتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا یہ ہندو اپنے شادی بیاہوں پر تو اس لئے گاتے ہیں کہ وہ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں.مختلف مقاصد کے لئے مختلف قسم کی مورتیاں انہوں نے بنائی ہوتی ہیں جن کے انہوں نے نام رکھے ہوئے ہیں ان سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں.اور ہمارے لوگ بغیر سوچے سمجھے یہ گانے گا رہے ہوتے ہیں یا سن رہے ہوتے ہیں.اس خوشی کے موقعہ پر بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو طلب کرنے کے کہ اللہ تعالیٰ یہ شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے ، آئندہ نسلیں اسلام کی خادم پیدا ہوں، اللہ تعالیٰ کی سچی عباد بننے والی نسلیں ہوں، غیر محسوس طور پر گانے گا کر شرک کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.پس جو شکایات آتی ہیں ایسے گھروں کی ان کو میں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں.پھر ڈانس ہے، ناچ ہے، لڑکی کی جو رونقیں لگتی ہیں اس میں یا شادی کے بعد جب لڑکی بیاہ کر لڑکے کے گھر جاتی ہے وہاں بعض دفعہ اس قسم کے بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہورہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جاسکتی.بعض گھر جود نیا داری میں بہت زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں ان کی ایسی رپورٹس آتی ہیں اور کہنے والے پھر کہتے ہیں کہ کیونکہ فلاں امیر آدمی تھا اس لئے اس پر کارروائی نہیں ہوئی.یا فلاں عہد یدار کا رشتہ دار عزیز تھا اس لئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ، اس سے صرف نظر

Page 695

خطبات مسرور جلد سوم 688 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء کیا گیا.غریب آدمی اگر یہ حرکتیں کرے تو اسے سزا ملتی ہے.بہر حال یہ تو بعض دفعہ لوگوں کی بدظنیاں بھی ہیں لیکن جب اس طرح صرف نظر ہو جائے چاہے غلطی سے ہو جائے اور پتہ نہ لگے تو یہ بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں.اس بارے میں واضح کر دوں کہ ایسی حرکتیں جو جماعتی وقار کی اور اسلامی تعلیم اور اقدار کی دھجیاں اڑاتی ہوں اگر مجھے پتہ لگ جائے تو ان پر میں بلا استثنا، بغیر کسی لحاظ سے کارروائی کروں گا اور کی بھی جاتی ہیں اس لئے یہ بدظنیاں دور ہونی چاہئیں.بعض لوگ اکثر مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ علیحدہ پروگرام بناتے ہیں اور پھر اسی طرح کی لغویات اور ہلڑ بازی چلتی رہتی ہے گھر میں علیحدہ ناچ ڈانس ہوتے ہیں چاہے لڑکیاں لڑکیاں ہی ڈانس کر رہی ہوں یا لڑکے لڑکے بھی کر رہے ہوں لیکن جن گانوں اور میوزک پر ہو رہے ہوتے ہیں وہ ایسی لغو ہوتی ہیں کہ وہ برداشت نہیں کی جاسکتیں اس لئے آج میں خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان اور اس معاشرے کے لوگوں کو جہاں ہندووانہ رسم ورواج تیزی سے راہ پا رہے ہیں ، داخل ہو رہے ہیں، ان کے احمدیوں کو کہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں اپنی اصلاح کر لیں اور جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کا نظام جو ہے یہ بھی ان بیاہ شادیوں پر نظر ر کھے اور جہاں کہیں بھی اس قسم کی بیہودہ فلموں کے ناچ گانے یا ایسے گانے جو سراسر شرک پھیلانے والے ہوں دیکھیں تو ان کی رپورٹ ہونی چاہئے.اس بارے میں قطعاً کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی کس خاندان کا ہے اور کیا ہے؟ آج کل پاکستان میں کیونکہ شادیوں کا سیزن ہے تو جیسا کہ میں نے کہا اکا دُکا یہ شکایات پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے چند مہینے خاص طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.ویسے تو جب بھی اور جہاں بھی اس قسم کی حرکتیں ہو رہی ہوں فوری نوٹس لینا چاہئے لیکن ان دنوں میں جیسا کہ میں نے کہا شادیوں کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی بھی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں.حالانکہ غیروں کو جب ہم اپنی شادیوں پر بلاتے ہیں تو ان کی اکثریت جو ہے وہ ہماری شادی کے طریق کو پسند کرتی ہے کہ تلاوت کرتے ہیں، دعائیہ اشعار پڑھتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور بچی کو رخصت کرتے ہیں.اور یہی طریق ہے جس سے اس جوڑے کے ہمیشہ پیار محبت سے رہنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں اور اس کی آئندہ نسل کے

Page 696

خطبات مسرور جلد سوم 689 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء لئے اولاد کے لئے بھی نیک صالح ہونے کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں.ہاں جیسا کہ میں نے کہا کہ لڑکی کی شادی کے وقت دعائیہ اشعار کے ساتھ خوشی کے اظہار کے لئے شریفانہ قسم کے دوسرے شعر بھی پڑھے جا سکتے ہیں اور یہ ہر علاقے کے رسم و رواج کے مطابق جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ انصار پسند کرتے ہیں تو یہ نہیں فرمایا کہ ضرور ہونا چاہئے بلکہ فرمایا کہ انصار پسند کرتے ہیں.یہ خاص خاص لوگ ہیں جو پسند ہیں اور اس میں کیونکہ کوئی شرک کا اور دین سے ہٹنے کا اور کسی بدعت کا پہلو نہیں تھا اس لئے آپ نے فرمایا کہ اس طرح کرنا چاہئے کوئی حرج نہیں ہے.یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک، ہر قبیلہ ضرور دف بجایا کرے اور یہ ضروری ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے رواج کے مطابق ایسے رواج جو دین میں خرابیاں پیدا کرنے والے نہ ہوں ان کے مطابق خوشی کا اظہار کر لیا کرو یہ ہلکی پھلکی تفریح بھی ہے اور اس کے کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں.لیکن ایسی حرکتیں جن سے شرک پھیلنے کا خطرہ ہو ، دین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہواس کی بہر حال اجازت نہیں دی جاسکتی.شادی بیاہ کی رسم جو ہے یہ بھی ایک دین ہی ہے جبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تم شادی کرنے کی سوچو تو ہر چیز پر فوقیت اس لڑکی کو دو، اس رشتے کو دو، جس میں دین زیادہ ہو.اس لئے یہ کہنا کہ شادی بیاہ صرف خوشی کا اظہار ہے خوشی ہے اور اپنا ذاتی ہمارا فعل ہے.یہ غلط ہے.یہ ٹھیک ہے جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ آیا ہوں اسلام نے یہ نہیں کہا کہ تارک الدنیا ہو جاؤ اور بالکل ایک طرف لگ جاؤ.لیکن اسلام یہ بھی نہیں کہتا کہ دنیا میں اتنے کھوئے جاؤ کہ دین کا ہوش ہی نہ رہے.اگر شادی بیاہ صرف شور وغل اور رونق اور گانا بجانا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ شروع ہو کر اور پھر تقویٰ اختیار کرنے کی طرف اتنی توجہ نہ دلاتے.بلکہ شادی کی ہر نصیحت اور ہر ہدایت کی بنیاد ہی تقویٰ پر ہے.پس اسلام نے اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جن جائز باتوں کی اجازت دی ہے اُن کے اندر ہی رہنا چاہئے اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے.حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.اس لئے ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ایک مومن کے لئے ایک ایسے انسان کے لئے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے شادی نیکی

Page 697

خطبات مسرور جلد سوم 690 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء پھیلانے ، نیکیوں پر عمل کرنے اور نیک نسل چلانے کیلئے کرنی چاہئے.اور یہی بات شادی کرنے والے جوڑے کے والدین، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی یادرکھنی چاہئے.ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات ہونی چاہئے کہ یہ شادی ان مقاصد کیلئے ہے نہ کہ صرف نفسانی اغراض اور لہو ولعب کیلئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادیاں کی تھیں اور اسی غرض کے لئے کی تھیں اور یہ اسوہ ہمارے سامنے قائم فرمایا کہ شادیاں کرو اور دین کی خاطر کرو.یہی آپ نے نصیحت فرمائی.نہ ان لوگوں کو پسند فرمایا جو صرف عبادتوں میں لگے رہتے ہیں اور دین کی خدمت میں ڈوبے رہتے ہیں.نہ اپنے نفس کے حقوق ادا کرتے ہیں نہ بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں.نہ ان لوگوں کو پسند کیا جو دولت کے لئے ، خوبصورتی کے لئے ، اعلیٰ خاندان کے لئے رشتے جوڑتے ہیں یا جو ہر وقت اپنی دنیا داری اور بیوی بچوں کے غم میں ہی مصروف رہتے ہیں.نہ ان کے پاس عبادت کے لئے وقت ہوتا ہے اور نہ دین کی خدمت کے لئے کوئی وقت ہوتا ہے.خلاصہ یہ کہ نہ اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیا میں اتنے پڑ جاؤ کہ دین کو بھول جاؤ، نہ یہ کہ بالکل ہی تجرد کی زندگی اختیار کرنا شروع کر دو اور دنیا داری سے ایک طرف ہو جاؤ.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ کسی صحابی نے کہا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گا اور مسلسل عبادتوں میں اور روزوں میں وقت گزاروں گا.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیسے لوگ ہیں.میں تو عبادتیں بھی کرتا ہوں ، روزے بھی رکھتا ہوں، بندوں کے دوسرے حقوق بھی ادا کرتا ہوں شادیاں بھی کی ہیں.پس جو شخص میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.پھر اسلام کسی بھی طرف جھکاؤ سے منع کرتا ہے.اپنا اُسوہ حسنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے رکھ دیا.نہ افراط کرونہ تفریط کرو.آخر میں جو فرمایا کہ جو میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.اس میں ان لوگوں کے لئے بھی وارننگ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شادی صرف خوشی کا نام ہے اور اس میں ہر طرح جو مرضی کر لو کوئی حرج نہیں.تو آپ نے یہ کہہ کر کہ جو میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.یعنی افراط کرنے والوں کو بھی بتا دیا کہ لغویات سے بچنا نیکیوں کو قائم کرنا بلکہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنا میری سنت ہے اس

Page 698

خطبات مسرور جلد سوم 691 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء لئے تم بھی نیکیوں پر چلنے کی اور لغویات سے بچنے کی، لہو ولعب سے بچنے کی میری سنت پر عمل کرو.بعض لوگ بعض شادی والے گھر جہاں شادیاں ہورہی ہوں دوسروں کی باتوں میں آ کر یا ضد کی وجہ سے یا دکھاوے کی وجہ سے کہ فلاں نے بھی اس طرح گانے گائے تھے ، فلاں نے بھی یہی کیا تھا، تو ہم بھی کریں گے اپنی نیکیوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں.اس سے بھی ہر احمدی کو بچنا چاہئے.فلاں نے اگر کیا تھا تو اس نے اپنا حساب دینا ہے اور تم نے اپنا حساب دینا ہے.اگر دوسرے نے یہ حرکت کی تھی اور پتہ نہیں لگا اور نظام کی پکڑ سے بھی بچ گیا تو ضروری نہیں کہ تم بھی بچ جاؤ.تو سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب کام کرنے ہیں یا نیکیاں کرنی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کرتی ہیں ، وہ تو دیکھ رہا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہر اس چیز سے بچنا ہو گا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے.اس برائی کے علاوہ بھی بہت سی برائیاں ہیں جو شادی بیاہ کے موقعہ پر کی جاتی ہیں اور جن کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں.اس طرح معاشرے میں یہ برائیاں جو ہیں اپنی جڑیں گہری کرتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح دین میں اور نظام میں ایک بگاڑ پیدا ہو رہا ہوتا ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ،اب پھر کہہ رہا ہوں کہ دوسروں کی مثالیں دے کر بچنے کی کوشش نہ کریں، خود بچیں.اور اب اگر دوسرے احمدی کو یہ کرتا دیکھیں تو اس کی بھی اطلاع دیں کہ اس نے یہ کیا تھا.اطلاع تو دی جا سکتی ہے لیکن یہ بہانہ نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں نے کیا تھا اس لئے ہم نے بھی کرنا ہے تا کہ اصلاح کی کوشش ہو سکے، معاشرے کی اصلاح کی جا سکے.ناچ ڈانس اور بیہودہ قسم کے گانے جو ہیں ان کے متعلق میں نے پہلے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اگر اس طرح کی حرکتیں ہوں گی تو بہر حال پکڑ ہوگی.لیکن بعض برائیاں ایسی ہیں جو گو کہ برائیاں ہیں لیکن ان میں یہ شرک یا یہ چیز یں تو نہیں پائی جاتیں لیکن لغویات ضرور ہیں اور پھر یہ رسم ورواج جو ہیں یہ بوجھ بنتے چلے جاتے ہیں.جو کرنے والے ہیں وہ خود بھی مشکلات میں گرفتار ہو رہے ہوتے ہیں اور بعض جو ان کے قریبی ہیں، دیکھنے والے ہیں ، ان کو بھی مشکل میں ڈال رہے ہوتے ہیں ان میں جہیز ہیں ،شادی کے اخراجات ہیں، ولیمے کے اخراجات ہیں ، طریقے ہیں اور بعض دوسری رسوم ہیں جو بالکل ہی لغویات اور بوجھ

Page 699

خطبات مسرور جلد سوم 692 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء ہیں.ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہم ایسے دین کو ماننے والے ہیں جو معاشرے کے قبیلوں کے، خاندان کے رسم و رواج سے جان چھڑانے والا ہے.ایسے رسم و رواج جنہوں نے زندگی اجیرن کی ہوئی تھی.نہ کہ ہم دوسرے مذاہب والوں کو دیکھتے ہوئے ان لغویات کو اختیار کرنا شروع کر دیں.اس آیت کے ترجمے میں جو میں نے تلاوت کی ہے، آپ سن چکے ہیں کہ تم ایسے دین اور ایسے نبی کو ماننے والے ہو جو تمہارے بوجھ ہلکے کرنے والا ہے.جن بے ہودہ رسم و رواج اور لغو حرکات نے تمہاری گردنوں میں طوق ڈالے ہوئے ہیں، پکڑا ہوا ہے، ان سے تمہیں آزاد کرانے والا ہے.تو بجائے اس کے کہ تم اُس دین کی پیروی کرو جس کو اب تم نے مان لیا ہے اور اُن طور طریقوں اور رسوم ورواج اور غلط قسم کے بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد کرو، ان میں دوبارہ گرفتار ہو رہے ہو.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تم تو خوش قسمت ہو کہ اس تعلیم کی وجہ سے ان بوجھوں سے آزاد ہو گئے ہو اور اب فلاح پا سکو گے، کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی، نیکیوں کی توفیق ملے گی.پس ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو ان رسموں اور لغویات کو چھوڑنے کی وجہ سے ہمیں کامیابیوں کی خوشخبری دے رہا ہے.اور ہم دوبارہ دنیا کی دیکھا دیکھی ان میں پڑنے والے ہو رہے ہیں.بعض اور باتوں کا بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ وہ بعض دفعہ احمدی معاشرہ میں نظر آتی ہیں.بعض طبقوں میں تو یہ برائیاں بدعت کی شکل اختیار کر رہی ہیں.ان کے خیال میں اس کے بغیر شادی کی تقریب مکمل ہو ہی نہیں سکتی یہ باتیں ہماری قوم کے علاوہ شاید دوسری قوموں میں بھی ہوں لیکن ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں نے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا تھا ( بہت سے ایسے بیٹھے ہیں جن کے بزرگوں نے قبول کیا تھا ) ان کی یہ سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے اندر کسی ایسے رسم و رواج کو راہ پانے کا موقع نہ دیں جہاں رسم ورواج بوجھ بن رہے ہیں.یعنی جن کا اسلام سے، دین سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہو.اگر آپ لوگ اپنے رسم و رواج پر زور دیں گے تو دوسری قوموں کا بھی حق ہے.بعض رسم و رواج تو دین میں خرابی پیدا کرنے والے نہیں وہ تو جیسا کہ ذکر آیاوہ بے شک کریں.ہر قوم کے مختلف ہیں جیسا کہ پہلے میں نے کہا انصار کی شادی کے موقعہ پر بھی خوشی کے

Page 700

خطبات مسرور جلد سوم 693 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء اظہار کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال بیان فرمائی ہے.لیکن جو دین میں خرابی پیدا کرنے والے ہیں وہ چاہے کسی قوم کے ہوں رد کئے جانے والے ہیں کیونکہ احمدی معاشرہ ایک معاشرہ ہے اور جس طرح اس نے گھل مل کر دنیا میں وحدانیت قائم کرنی ہے، اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے، اگر ہر جگہ مختلف قسم کی باتیں ہونے لگ گئیں اس سے پھر دین بھی بدلتا جائے گا اور بہت ساری باتیں بھی پیدا ہوتی چلی جائیں گی.ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے پھر بڑی بدعتیں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں ، اس لئے بہر حال احتیاط کرنی چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا مثال ہمارے سامنے قائم فرمائی.آپ کی لاڈلی بیٹی کی شادی ہوئی سب جانتے ہیں پہلے بھی کئی دفعہ سن چکے ہیں، کس طرح سادگی سے ہوئی ؟ اگر دینا چاہتے تو بہت کچھ دے سکتے تھے.لوگ تو قرض لے کر جہیز بناتے ہیں.آپ کے صحابہ تو آپ پر بہت کچھ نچھاور کر سکتے تھے.کئی صاحب حیثیت تھے، چیزیں مہیا کر سکتے تھے لیکن سادگی سے ہی آپ نے رخصت کیا.ایک روایت میں آتا ہے جو کہ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور اُم المومنین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم حضرت فاطمہ کو تیار کریں تا کہ ان کو علی کے پاس لے جائیں.اس سے پہلے انہوں نے اپنے کمرے کی تیاری کی جس کا نقشہ کھینچا کہ ہم نے کمرے میں مٹی سے لپائی کی پھر دو تکئے تیار کئے جن میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی.پھر ہم نے لوگوں کو کھجور اور انگور کھلائے اور انہیں میٹھا پانی پلایا اور ہم نے ایک لکڑی لی جس کو ہم نے کمرے کے ایک طرف لگا دیا تا کہ اس کو کوئی کپڑ الٹکانے اور من رمشکیزہ لٹکانے کے لئے استعمال کیا جا سکے.پس ہم نے حضرت فاطمہ کی شادی سے زیادہ اچھی شادی اور کوئی نہیں دیکھی.(سنن ابن ماجة، كتاب النكاح ، باب الوليمة) یہ نقشہ تو صرف کھینچا ہے انہوں نے شادی کا.اس وقت کے لحاظ سے جو سادگی تھی آپ نے اس کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور اپنی بیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اصل چیز یہ سادگی ہی ہے اور خدا کی رضا ہے جس کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے.بعد میں بھی ایک موقعہ پر جب

Page 701

خطبات مسرور جلد سوم 694 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء انہوں نے غلام کی درخواست کی کہ ہاتھ میں چھالے پڑ گئے ہیں تو آپ نے یہی فرمایا تھا کہ خود ہاتھ سے کام کرو اور بہت سارے مسلمان ہیں جن کو تمہارے سے زیادہ ضرورت ہے.تو بہر حال اپنے گھر سے ہی انہوں نے سادگی کی تعلیم دی اور تلقین کی.میں یہ نہیں کہتا کہ اس طریقے کے مطابق دو تکئے دینے چاہئیں لیکن ایک مثال ہے سادگی کی سادہ رہنا چاہئے اور بلا وجہ بوجھ ڈال کر اپنی گردنوں پر قرضوں کے طوق نہیں ڈالنے چاہئیں.سادگی اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے جو میسر ہو ، جو رسم و رواج ہیں اس وقت کے اس کے مطابق یہ فرض پورا کرنا چاہئے.شادی کا بھی حق ادا کرنا چاہئے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کا بھی حق ادا کرنا چاہئے لیکن اپنے وسائل کے اندر رہ کے.اس ضمن میں یہ ذکر کر دوں کہ اللہ کے فضل سے مریم شادی فنڈ سے بہت سی بچیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں لیکن بعض دفعہ جن کی مدد کی جاتی ہے ان کا یہ بار بار مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ ہمیں فلاں چیز بھی بنا کر دی جائے اور فلاں چیز بھی بنا کے دی جائے یا اتنی رقم ضرور دی جائے ، اس سے کم نہیں.تو جو چند ایک تنگ کرنے والے ہیں بعض دفعہ ضد کرنے والے، ان لوگوں کو میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو معاشرے کے رسم و رواج کے بوجھ تلے نہ لائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں.جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا.یعنی کوشش ہوگی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا اور ہوا ہوس سے بھی باز رہوں گا.تو قناعت اور شکر پر زور دیا.یہ شرط ہر احمدی کے لئے ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ہو.اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مد نظر رکھنا چاہئے.اس ضمن میں امراء کو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اب بھی یہ کہتا ہوں ، دوبارہ تحریک کر دیتا ہوں کہ مریم شادی فنڈ میں ضرور شامل ہوا کریں اور خاص طور پر جو صاحب حیثیت ہیں اور جب ان کے بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں اس وقت یہ ضرور ذہن میں رکھا کریں کہ کسی نہ کسی غریب کی شادی کروانی ہے.و

Page 702

خطبات مسرور جلد سوم 695 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء پھر شادی بیاہوں میں مہر مقرر کرنے کا بھی ایک مسئلہ ہے.یہ بھی رہتا ہے ہر وقت.اور اگر کبھی خدانخواستہ کوئی شادی ناکام ہو جائے تو پھر لڑکے کی طرف سے اس بارے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پھر ان کے خلاف ایکشن بھی ہوتا ہے.اس لئے پہلے ہی سوچ سمجھ کر مہر رکھنا چاہئے دنیا کے دکھاوے کے لئے نہ رکھنا چاہئے بلکہ ایسا ہو جو ادا ہو سکے.ایسا مہر مقرر نہ ہو، جیسا کہ میں نے کہا،صرف دکھاوے کی خاطر ہوا اور پھر معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والا ہو.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے انصار کی ایک عورت کو شادی کا پیغام بھجوایا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کوئی چیز ہوتی ہے.اس نے کہا میں نے اسے دیکھ لیا ہے.آپ نے فرمایا تو مہر کیا رکھ رہے ہو؟ اس نے کہا چاراوقیہ چاندی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا چار اوقیہ؟ سوال کیا.چار اوقیہ گو یا تم اس پہاڑ کے گوشے سے چاندی کھود کر اسے دو گے.ہمارے پاس اتنا نہیں ہے جو ہم تجھے دیں لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ہم تمہیں کسی مہم پر بھجوا دیں وہاں سے تم کچھ مال غنیمت حاصل کر لو.پھر آپ نے ایک دستہ بنی عبس کی طرف بھجوایا تو اس شخص کو اس میں شامل کیا.(مسلم کتاب النکاح باب ندب من اراد نكاح امرأة الى ان ينظر الى وجهها ) تو دیکھیں مہر کے بارے میں بھی آپ نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ طاقت سے بڑھ کر ہو.جو اس کی حیثیت کے مطابق نہیں تھا تو کہا یہ بہت زیادہ ہے.اور پھر یہ بھی پتہ تھا کہ آپ سے مانگے گا، نظام سے درخواست کرے گا.آنحضرت صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ مہم پر جاؤ مال غنیمت مل گیا تو اس سے اپنا مہر ادا کر دینا اور یہی بات ہے کہ مہر جو ہے سوچ سمجھ کر رکھنا چاہئے جتنی توفیق ہو جتنی طاقت ہو.مہر ایک ایسا معاملہ ہے جس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.قضاء میں بہت سارے کیس آتے ہیں.ایسے موقعوں پر تو بڑی عجیب صورت پیدا ہو جاتی ہے.شادی سے پہلے لڑکی والے لڑکے کو باندھنے کی غرض سے زیادہ مہر لکھوانے کی کوشش کرتے ہیں اور شادی کے بعد

Page 703

خطبات مسرور جلد سوم 696 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء اگر کہیں جھگڑے کی صورت پیدا ہو جائے ، طلاق کی صورت ہو جائے تو لڑکے بہانے بنا کر اس کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر نظام کے لئے اور میرے لئے اور بھی زیادہ تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ادا ئیگی نہ کرنے کی صورت میں سزا بھی دینی پڑتی ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے واضح ارشادات فرمائے ہیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کسی نے پوچھا مہر کے متعلق کہ اس کی تعداد کس قدر ہونی چاہئے.آپ نے فرمایا کہ مہر تراضی طرفین سے ہو ، آپس میں جو فریقین ہیں ان کی رضامندی سے ہو جس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے.کوئی حد نہیں ہے مہر کی بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے.ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے.صرف ڈراوے کے لئے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں.نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے نہ خاوند کی دینے کی.جیسا کہ فرمایا : مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب لڑائی جھگڑے ہوں.فرمایا کہ میرا مذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازع آ پڑے تو جب تک اس کی نیت ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقر ر مہر نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون.تو اس بارے میں جو معاملات آتے ہیں اس کو بھی قضاء کو دیکھنا چاہئے.اتنا ہی نظام کو یا قضا کو بوجھ ڈالنا چاہئے جو اس کی حیثیت کے مطابق ہو اور اس کے مطابق حق مہر کا تعین کرنا چاہئے.ایسے موقعوں پر بڑی گہرائی میں جا کر جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے.حیثیت کا تعین کرنے کے لئے فریقین کو بھی قول سدید سے کام لینا چاہئے.نہ دینے والا حق مارنے کی کوشش کرے اور نہ لینے والا اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے کی کوشش کرے.حق مہر کی ادائیگی کے بارے میں ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی.

Page 704

خطبات مسرور جلد سوم 697 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء شادی کر کے اس کو کہتے ہیں کہ بخش بھی دو) تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ عورت کا حق ہے.اسے دینا چاہئے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کرنا چاہئے.پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر ( یعنی عورتوں کی یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر ) خاوند کو اپنا مہر بخش دیتی ہیں.یہ صرف رواج ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحه 606جدید ایڈیشن) ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی نے عرض کیا کہ میری بیوی نے مجھے مہر بخش دیا ہے، معاف کر دیا ہے.تو آپ نے فرمایا تم نے اس کے ہاتھ پر رکھا تھا.انہوں نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا جاؤ پہلے ہاتھ پہ رکھو پھر اگر وہ بخش دے، معاف کر دے تو پھر ٹھیک ہے.تو جب واپس آئے کہتے ہیں میں نے تو اس کے ہاتھ پر رکھا اور وہ دینے سے انکاری ہے.فرمایا یہی طریقہ ہے.(تلخیص از الازهار لذوات الخمار صفحه 160طبع دوم) اصل طریقہ بھی یہی ہے پہلے ہاتھ پر رکھو پھر معاف کرواؤ.اس لئے جو کوشش کرتے ہیں ناں مقدمہ لانے سے پہلے کہ جو ہم نے یہ کہہ دیا وہ کہہ دیا ان کو سوچنا چاہئے.اور پھر اسی ضمن میں ایک اور بات بھی بیان کردوں کیونکہ کل ہی بنگلہ دیش سے ایک نے خط لکھ کر پوچھا تھا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے اور مہر میں نے ادا نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں اب مجھے کیا کرنا چاہئے.تو اسی قسم کا ایک سوال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہوا تھا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے میں نے نہ مہر اس کو دیا ہے نہ بخشوایا ہے.اب کیا کروں.تو آپ نے فتوی دیا ، فرمایا کہ ”مہر اس کا ترکہ ہے اور آپ کے نام قرض ہے.آپ کو ادا کرنا چاہئے اور اس کی یہ صورت ہے کہ شرعی حصص کے مطابق اس کے دوسرے مال کے ساتھ تقسیم کیا جاوے.جس میں ایک حصہ خاوند کا بھی ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے نام پر صدقہ دیا جاوے.“ (فتاویٰ حضرت مسیح موعود عليه السلام صفحه 148) تو بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں یہاں یورپ میں بعض دفعہ ایسے جھگڑے آ جاتے ہیں کہ ملکی قانون جو ہے وہ حقوق دلوا دیتا ہے طلاق کی صورت میں وہ کافی ہے حق مہر نہیں دینا چاہئے.ایک تو

Page 705

خطبات مسرور جلد سوم 698 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء یہ ہے کہ وہ حقوق بعض دفعہ اگر بچے ہوں تو بچوں کے ہوتے ہیں.دوسرے کچھ حد تک اگر بیوی کے ہوں بھی تو وہ ایک وقت تک کے لئے ہوتے ہیں اس لئے بعد میں یہ مطالبہ کرنا کہ حق مہر نہ دلوایا جائے اور حق مہر میں اس کو ایڈجسٹ کیا جائے یہ میرے نزدیک جائز نہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلی تو بات یہ کہ دیکھ کر حق مہر مقرر کیا جائے.حیثیت سے بڑھ کر نہ ہو.اس کا تعین قضا کر سکتی ہے کتنا ہے.اور جب تعین ہو گیا ہے تو فرمایا کہ یہ تو ایک قرض ہے اور قرض کی ادائیگی بہر حال کرنی ضروری ہے اس لئے یہ بہانے نہیں ہونے چاہئیں کہ حق مہر ادا نہیں کیا.تو یہ قرض جو ہے وہ قرض کی صورت میں ادا ہونا چاہئے اس کا ان حقوق سے کوئی تعلق نہیں جو ملکی قانون دلواتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ جس کی حیثیت دس روپے کی ہے اس کا مہر ایک لاکھ کس طرح مقرر ہو سکتا ہے.اس لئے حیثیت کے مطابق حق مہر مقرر کرنے کا حق یا تبدیل کرنے کا حق نظام جماعت کو ہے.غیر احمدیوں نے تو عجیب عجیب ایسی رسمیں بنالی ہیں یعنی دین کو بھی بالکل تمسخر بنا دیا ہے.بیہودہ قسم کے رسم و رواج جو ہیں وہ بیچ میں ڈال دیئے ہیں مثلاً برصغیر میں ہندوستان، پاکستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی رواج تھا وہیں سے میں نے مثال دی ہے کہ مثلا حق مہر دو من مچھر کی چربی.اب نہ اتنی چربی اکٹھی ہو اور نہ حق مہر ادا ہو.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو بالکل غلط طریق کار ہے.ہمیں شکر کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہم نے مان لیا جنہوں نے ان بے عمل علماء کے فیصلوں اور فتووں سے ہمیں بچالیا.پس اس بات کا شکرانہ بھی اس بات میں ہے کہ شادی کرنے والے جوڑے بھی ہمیشہ قول سدید اور تقویٰ سے کام لیں اور ان کے عزیز رشتہ دار بھی.ایک خرچ جو آجکل شادی بیاہوں پر بہت بڑھ گیا ہے اور کم طاقت رکھنے والے اس خرچ کو پورا کرنے کے لئے مطالبہ بھی کرتے ہیں، مدد کی درخواست بھی کرتے ہیں وہ کھانے کا خرچ ہے.لڑکی والے بھی اسراف سے کام لے رہے ہوتے ہیں اور لڑکے والے بھی گو کہ اب پاکستان

Page 706

خطبات مسرور جلد سوم 699 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء میں قانون بن گیا ہے کھانا نہیں کھلانا اور ایسی دعوت نہیں کرنی لیکن پھر بھی کچھ لوگ اس کام کو کرتے ہیں اور پھر مختلف طریقے نکال لئے ہیں.جب کہا جائے کہ اخراجات تو توفیق اور حیثیت کے مطابق ہونے چاہئیں تو جواب یہی ہوتا ہے کہ صرف ایک کھانا پکا یا تھا.سوال یہ ہے کہ کیا یہ دھوکا نہیں ہے.اگر توفیق نہیں تو نہیں کرنا چاہئے یہ کام.پھر قانون کے مطابق عمل ہونا چاہئے.یا گھر میں سادہ سا جو بھی توفیق ہو اس کے مطابق اتنے آدمیوں کو بلا کر کھلایا جائے.اسی طرح بعض صاحب حیثیت جو ہیں وہ اپنی شادیوں پر بلا وجہ کھانوں کا ضیاع کر رہے ہوتے ہیں.آٹھ دس قسم کے سالن تیار کئے ہوتے ہیں جو کھائے تو جاتے نہیں، ضائع ہو رہے ہوتے ہیں.ان میں بہت سے یہاں یورپ سے جانے والے بھی شامل ہیں جو جا کر اپنی شادیاں کرتے ہیں یا اپنے عزیزوں کی شادیاں کرتے ہیں دکھاوے کی خاطر کہ ہم یورپ سے آ رہے ہیں.اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ کھانا پھر بچ جاتا ہے وہ غریبوں میں بھی تقسیم نہیں ہوسکتا که چلو کسی غریب کے کام آ جائے تب بھی کوئی بات ہے.اس لئے بہتر یہی ہے کہ اگر اتنی کشائش ہے کہ اتنے کھانے پکا سکتے ہیں اور خرچ بھی کر سکتے ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا تھا غریبوں کی شادیوں پر خرچ کرنے کے لئے چندہ دے دیں.پھر عام طور پر غیر معمولی سجاوٹیں کی جاتی ہیں اس کے لئے کوشش ہو رہی ہوتی ہے.بعض لوگ ربوہ میں شادی کرنے والے اس احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں.یہاں سے، باہر سے جانے والے بھی اور ربوہ کے رہنے والے بھی شاید ہوں، رہنے والوں کے پاس تو کم ہی پیسہ ہوتا ہے اس لئے وہ تو اس طرح نہیں کرتے ایک آدھ کے علاوہ، کہ شادی کا انتظام کرنے کے لئے جو لوگ موجود ہیں، جو کاروبار کرتے ہیں ان سے کام کروانے کی بجائے یا ان سے کھانے پکوانے کی بجائے ،باہر سے، لا ہور وغیرہ سے منگوائے جاتے ہیں کہ زیادہ اعلیٰ انتظام ہوگا.ٹھیک ہے ہر ایک کی اپنی اپنی پسند ہے اس کے مطابق کریں.لیکن کسی احساس کمتری کے تحت یہ کام نہیں ہونا چاہئے.احمدی میں اس قسم کا دکھاوے کے لئے احساس کمتری بالکل نہیں ہونا چاہئے بلکہ کسی قسم کا بھی احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے.یہی طوق ہیں جو گردنوں کو جکڑے ہوئے ہیں.

Page 707

خطبات مسرور جلد سوم 700 خطبہ جمعہ 25 /نومبر 2005ء دوسرے یہ بھی ہے کہ ربوہ میں جو شادی بیاہ کے انتظامات کا کام کرنے والے ہیں.ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے اب وہاں تمام سہولتیں میسر ہیں.ربوہ میں جو لوگ اس کا روبار میں بیٹھے ہوئے ہیں یا اور دوسرے جو کاروباری لوگ ہیں ان کی مدد کرنی چاہئے.چھوٹا سا ایک شہر ہے.وہاں یہ کاروباری لوگ اس سہولت کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں تا کہ احمدیوں کو سہولت میسر آ جائے تو احمدی کو بہر حال احمدی کا خیال رکھنا چاہئے.اور یہ جو کاروباری لوگ ہیں ربوہ میں ، ان کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اپنی چیزوں کے اعلیٰ معیار قائم کریں.اپنی سروسز کے اعلیٰ معیار قائم کریں تا کہ کسی قسم کی کمی نہ رہے ان کا بھی دوسروں سے مقابلہ ہونا چاہئے.اپنی قیمتوں کو بھی مناسب رکھیں تا کہ یہ شکوہ نہ ہو کہ زیادہ قیمتیں لیتے ہیں اس لئے ہم نے کام نہیں کروایا.تو یہی کا روبار کا گر ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جب ربوہ قائم فرمایا ، بنیاد ڈالی تو اس وقت جودکانداروں کو نصیحت فرمائی تھی وہ بھی یہی تھی کہ ایک تو اشیاء کے معیار ا چھے رکھو دوسرے کم سے کم منافع لو.کاروبار اس سے چمکے گا.کاروبار کسی دھو کے سے کامیاب نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ ان سب کو تو فیق دے کہ اس کے مطابق عمل کریں.اللہ کرے کہ ہم ہر قسم کے رسم و رواج بدعتوں اور بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد رکھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والے ہوں اور ہمیشہ اس زمانے کے حکم و عدل کی تعلیم کے مطابق دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں.دین کو دنیا پر مقدم کرنا بھی ایسا عمل ہے جو تمام نیکیوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے اور تمام برائیوں اور لغو رسم و رواج کو ترک کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے.تو اس کی طرف بھی خاص توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.حضور انور نے خطبه ثانیه میں فرمایا که پرسوں انشاء اللہ تعالیٰ میں سفر پر روانہ ہورہا ہوں.دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ سفر با برکت فرمائے اور اس کے نیک نتائج پیدا فرمائے.اور جلد سے جلد ہم ہر جگہ احمدیت اور حقیقی اسلام کی حکومت کو قائم ہوتا دیکھیں.

Page 708

خطبات مسرور جلد سوم 701 (47) خطبہ جمعہ 2 / دسمبر 2005ء جماعتی جلسوں کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ اختیار کرنا اور اللہ کی محبت دلوں میں پیدا کرنا ہے ماریشس کے سالانه جلسه کے موقع پر احباب جماعت کو نهایت اهم نصائح خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 2 دسمبر 2005ء بمقام ماریشس تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی :.پھر فرمایا:.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة: 119) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ماریشس کا 44 واں جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے.میری موجودگی میں یہ جلسہ پہلا جلسہ ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ کسی بھی خلیفہ المسیح کی موجودگی کا یہ پہلا جلسہ ہے جو جماعت احمد یہ ماریشس منعقد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے اور یہ جلسہ جماعت کی روحانی اور عددی ترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہو.ہمیشہ یادرکھیں کہ جماعت احمدیہ کے جلسوں کے خاص مقاصد ہوتے ہیں اور سب سے بڑا مقصد اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کرنا ہے.اس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا کرنا ہے.اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے یہ دن آپ لوگ دعاؤں

Page 709

خطبات مسرور جلد سوم 702 خطبہ جمعہ 2 / دسمبر 2005ء اور عبادتوں میں گزارنے کی کوشش کریں.اگر یہ مقصد آپ نے حاصل کر لیا اور پھر اسے اپنی زندگیوں کا ہمیشہ اور دائی حصہ بنانے کی کوشش کی تو سمجھیں آپ کا اس جلسہ میں شمولیت کا مقصد پورا ہو گیا.پس ان دنوں میں خاص طور پر اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.اور ان تین دنوں میں آپ خود بھی اور آپ کے عزیزوں اور دوستوں کو بھی یہ احساس ہو کہ واقعی آپ نے اپنے اندر نمایاں تبدیلی پیدا کی ہے.اگر یہ تبدیلیاں پیدا نہیں ہور ہیں ، آپ کے نیکی اور تقویٰ کے معیار نہیں بڑھ رہے تو پھر اس جلسے میں شمولیت بے فائدہ ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا واضح طور پر فرما دیا ہے کہ یہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے جہاں لوگ جمع ہوں اور آپس میں گھلیں ملیں.شور شرابہ ہو، نعرے بازی ہو اور بس.ایک سال جب آپ نے محسوس کیا کہ لوگ اس مقصد کو پورا نہیں کر رہے تو آپ نے جلسہ بھی منعقد نہیں فرمایا تھا.اگر نعرے دل سے نہیں اٹھ رہے، اگر نعرے آپ کے دل میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کا جوش پیدا نہیں کر رہے تو یہ نعرے بے فائدہ ہیں.اگر تقریریں سن کر آپ میں صرف وقتی جوش پیدا ہورہا ہے اور جلسہ گاہ سے باہر نکل کر اسی جگہ پر کھڑے ہوں جہاں آپ پہلے تھے.اور اپنی روحانی ترقی میں قدم آگے بڑھانے والے نہ ہوں تو غور کرنا چاہئے کہ ہم کیوں جلسے میں شامل ہوتے تھے.یہ غور کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں.پس اگر آپ میں سے ہر ایک کو اس غور کی عادت پڑ جائے یا احساس پیدا ہو جائے ، جوان اور بوڑھے، مرد اور عورتیں سب اس سوچ کے ساتھ جلسے کے یہ تین گزارنے کی کوشش کریں گے تو نہ صرف ان تین دنوں میں روحانیت میں ترقی کر رہے ہوں گے بلکہ جلسے کے بعد بھی یہ احساس رہے گا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو ماننے کے بعد اس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں.ہم نے آپ کے ہاتھ پر ان شرائط پر بیعت کی ہے جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی طرف لے جاتی ہیں.ہم نے ان شرائط پر آپ کی بیعت کی ہے جو صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی طرف توجہ دلانے والی ہیں.اگر یہ احساس پیدا نہیں ہوتا تو احمدی ہونا بھی بے فائدہ ہے.بلکہ اپنے آپ کو گناہگار بنانے والی بات ہے.اور اس کے ساتھ

Page 710

خطبات مسرور جلد سوم 703 خطبہ جمعہ 2 / دسمبر 2005ء ساتھ دنیاوی لحاظ سے بھی بے مقصد مشکلات میں گرفتار ہونے والی بات ہے.یہاں بھی بعض اوقات آپ لوگوں کو دوسرے مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی اکثریت اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں قائم کرتے ہوئے، اللہ کی خاطر احمدیت کی وجہ سے آنے والی مشکلوں اور مخالفتوں کو برداشت کرتی ہے اور آپ اللہ کے فضلوں کے وارث بھی ٹھہرتے ہیں.لیکن جو احمدیت قبول کرنے کے بعد بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کر رہے وہ بلا وجہ ان مخالفتوں کو اپنے سرمول لے رہے ہیں.کیونکہ اپنے اعمال ٹھیک نہ کر کے، اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی طرف توجہ نہ دے کر آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں ٹھہر رہے ہوتے.پس اس جذبے کو جو پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کرنے کا جذبہ ہے آپ نے آگے بڑھانا ہے، اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں.اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرنے کے تمام اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں.ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں.آپس میں محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنی ہے.جیسا کہ میں نے کہا ایک جگہ ٹھہر نا نہیں بلکہ آگے سے آگے بڑھنا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ تمہاری زندگیوں کا یہی مقصد ہونا چاہئے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ﴾ (البقرة: 149) تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو.جب تم ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے تو نیکیوں کے اعلیٰ معیار بھی قائم کر رہے ہو گے.اور یہ تبھی ہو گا جب اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو گے.پس ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف دلوں میں رکھتے ہوئے ، تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے ، اس کے آگے جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش کریں.اور ایک اچھے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے جو ہماری ذمہ داری لگائی ہے آپ لوگ اس کو پورا کرنے والے ہوں.احمدی لوگ تو بہت خوش قسمت لوگ ہیں جو اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے بنے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر عمل کرنے والے بنے ہیں کہ جب میرے مہدی کا ظہور ہوتو اسے مان لینا

Page 711

خطبات مسرور جلد سوم 704 خطبہ جمعہ 2 / دسمبر 2005ء خواہ تمہیں برف کی سلوں پر گھٹنوں کے بل چل کر بھی جانا پڑے جانا اور میرا سلام کہنا.پس آپ کو اپنے احمدی ہونے پر فخر اور ناز ہونا چاہئے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر پیشگوئی اور آپ کے ہر حکم پر ایمان لانے والے ہیں.لیکن یہ ایمان کامل تبھی ہو گا جب آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی تعلیم پر عمل بھی کر رہے ہوں گے ، ان نصائح پر عمل کر رہے ہوں گے جو آپ نے قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح طور پر سمجھ کر ہمیں دیں.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ قرآن وسنت کو سمجھنے والا کوئی نہیں.کیونکہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم اور عدل کہہ کر یہ بتا دیا کہ یہی وہ شخص ہے جس کو قرآن وسنت کا سب سے زیادہ فہم و ادراک ہے.اس لئے کسی بھی مسئلے کی یہ شخص جو تشریح کرے گا ، وضاحت کرے گا، وہی صحیح اور درست ہوگی.جس تعلیم کو یہ تم میں رائج کرے گا، یہی خدا کے ساتھ ملانے والی تعلیم ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ ہمیں نصیحت فرما رہا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب آپ کا غلام صادق ہی سب سے بڑا صادق ہے.پس اب جب آپ نے اس صادق کے ساتھ تعلق جوڑا ہے تو اس تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کریں.اور آپ اپنی جماعت جیسی بنانا چاہتے تھے ویسی جماعت بننے کی کوشش کریں.دنیا کو بتادیں کہ تم ہمیں مسلمان سمجھو یا غیر مسلم اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا.ہم نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس صادق کو پالیا ہے اور اب اس کی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں.اور اب ہم ہی ہیں جن سے اسلام کی آئندہ تاریخ بنی ہے (انشاء اللہ ) اس لئے ہم اب تمہیں بھی کہتے ہیں کہ آؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق صادق کی جماعت میں داخل ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوار لو.لیکن جب یہ دعوی کر کے آپ دنیا کو اپنی طرف بلائیں گے تو اپنے آپ پر بھی نظر ڈالنی ہوگی کہ ہم نے اپنے اندر کیا انقلاب پیدا کیا ہے.اس زمانے کے مسیح و مہدی اور سب سے بڑے صادق کو مان کر ہمارے اپنے نمونے کیا ہیں.ہمارے اپنے تقویٰ کے معیار کیا ہیں.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ

Page 712

خطبات مسرور جلد سوم 705 خطبہ جمعہ 2 / دسمبر 2005ء الصلوۃ والسلام نے کیا تعلیم دی اور ہم سے آپ نے کیا کیا توقعات وابستہ کیں اور ہم اب کس حد تک اس پر عمل کر رہے ہیں.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پڑھ کے مختصر البعض باتوں کا ذکر کر دیتا ہوں کہ آپ ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں اور کیا تعلیم آپ ہمیں دیتے ہیں.آپ فرماتے ہیں : ” عزیز و! خدائے تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو.موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے.ایک بچے کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو.نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے.اور جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کر رہا ہے.بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہر وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھوڈالو.تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑ گڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیا جائے“.پھر فرمایا: وو ” سچائی اختیار کرو.سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.کیا انسان اس کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے“.پھر آپ فرماتے ہیں: باہم بخل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ.قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں.ایک توحید و محبت و اطاعت باری عَزَّ اسْمه.دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.(ازاله اوهام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 549-550) تو یہ ہے پاک تعلیم اس زمانے کے سب سے بڑے صادق کی جس کے ساتھ منسوب ہو کر اور جس کی جماعت میں شامل ہو کر انسان خود بھی صادق بن سکتا ہے.آپ نے پہلے ہمیں انتہائی بنیادی بات کی طرف توجہ دلائی کہ اگر یہ دعوی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی مسلمان ہوں تو اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے جو قرآن کریم میں سینکڑوں احکام ہیں.ان میں سے کسی ایک کو بھی بے قدری کی نظر سے نہیں دیکھنا.کسی ایک حکم کے بارے میں بھی یہ نہیں

Page 713

خطبات مسرور جلد سوم 706 خطبہ جمعہ 2 / دسمبر 2005ء سوچنا کہ چلو کوئی بات نہیں اگر اس حکم پر عمل نہ کیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا.ایک دوسری جگہ آپ نے فرمایا کہ جوان حکموں پر عمل نہیں کرتا اور ان میں سے ایک کو بھی چھوڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.آپ لوگ جو اس چھوٹے سے جزیرے میں رہتے ہیں یہاں بھی کسی حد تک ہر مذہب والے کا کچھ نہ کچھ مذہب سے تعلق قائم ہے.لیکن جس تیزی سے دنیا ایک ہو رہی ہے یہاں بھی بہت سی دوسری قوموں کا آنا جانا ہو گیا ہے جو مذہب سے دور ہٹتے جا رہے ہیں.پھر اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے نئی نسل کے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں.مختلف نظریات اور فلسفے ان بچوں کو سننے کو ملتے ہیں جو خدا سے دور لے جانے والے ہیں، جو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے دور لے جانے والے ہیں.اس لئے یا درکھو ہمیشہ ایسے نظریات اور فلسفوں سے بچو جو تمہیں خدا سے دور لے جانے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم میں ایسے فلسفوں کو رد کرنے کی تمہیں دلیل مل جائے گی اس لئے کسی بھی قسم کا احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں.آپ نے فرمایا جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنے ماں باپ کی ہدایت پر عمل کرتا ہے، تم بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرو.لیکن یاد رکھیں کہ ان حکموں پر عمل کرنے کے لئے قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی طرف بھی توجہ کرنی پڑے گی.پس نیکیاں اپنانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بھی پڑھنا ہو گا اور اس کے فضلوں کو بھی سمیٹنا ہو گا.اور اس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے بہترین ذریعہ نماز ہے.اس لئے نمازوں کی طرف توجہ دو اور نمازیں صرف دکھاوے کے لئے یا کسی وجہ سے وقتی جوش سے نہ ہوں.بلکہ جس طرح آج کل میں دیکھ رہا ہوں مسجد بھری ہوتی ہے آپ کی تمام مسجد میں بھری ہوں اور ہمیشہ بھری رہنے والی ہوں.ایک بات مجھے آپ کی بہت اچھی لگی ہے کہ آپ نے مسجدیں بنانے کی طرف توجہ دی ہے اور بہت چھوٹی چھوٹی جگہوں پر بہت خوبصورت مسجدیں بنائی ہیں.لیکن ان مسجدوں کو نیک اور پاکباز نمازیوں سے بھرنا ہے.عمارتیں بنانا ہمارا مقصد نہیں بلکہ عبادالرحمان پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نمازیں پڑھو گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل

Page 714

خطبات مسرور جلد سوم 707 خطبہ جمعہ 2 / دسمبر 2005ء حاصل کرو گے اور اس کی برکتیں بھی حاصل ہوں گی.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نماز میں ایسی حالت میں آؤ کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں ہو.دوسرے دنیاوی خیالات ہیں ، کاروباری خیالات ہیں یا دوسری دنیا داروں کی باتیں ہیں ان کو مکمل طور پر اس وقت دل سے نکال دو اور جب اس طرح صرف خالص اللہ کے ہو کر نمازیں پڑھو گے تو اللہ تعالی تم پر مہربان بھی ہوگا اور رحم فرمائے گا.پھر ان عبادتوں کے ساتھ ایک اہم چیز تمہارے دوسرے اعمال ہیں.ان اعمال میں بھی تمہاری اس نیکی کا اثر ظاہر ہونا چاہئے.اس لئے یہ معیار حاصل کرنے کے لئے تمہارے ہر قول و فعل سے سچائی ظاہر ہونی چاہئے.کبھی دھوکہ اور جھوٹ تمہارے کسی عمل سے ظاہر نہ ہو.کیونکہ اگر ہماری باتوں میں جھوٹ اور غلط بیانی شامل ہے تو یہ شرک کی طرف لے جانے والی چیز ہے.اس لئے شرک سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو بھی اور اپنے بچوں کو بھی جھوٹ سے پاک کرنا ہوگا.جیسا کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے دو بڑے حکم ہیں.پس ہمیشہ ان کو اپنے پیش نظر رکھو یعنی ایک تو ایک خدا کو ماننا اور اس کی محبت دل میں قائم کرنا.اس سے بڑھ کر کسی سے محبت نہ ہو.اور اس محبت کا یہ تقاضا ہے کہ اس کے ہر حکم کی تعمیل بھی ہو.دوسرے اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی ہو.اپنے کسی بھائی کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہ پہنچاؤ بلکہ ایک دوسرے کے کام آؤ.اگر تم یہ دونوں باتیں نہیں کر رہے تو تمہارا اس زمانے کے امام صادق سے تعلق اور بیعت کا دعویٰ صرف منہ کی باتیں ہیں.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس درد کے ساتھ اپنے ماننے والوں کو جو نصائح فرمائی ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں.اسی ضمن میں دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ آج ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نئی ایجادات کے ذریعے سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الفاظ میں ہی ہر جگہ پہنچانے کا موقع میسر فرمایا ہے پس اس سے بھی فائدہ اٹھائیں اور ایم ٹی اے کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو نعمت میسر فرمائی ہے اس میں وہ تمام پروگرام جو آپ سمجھ سکتے ہیں وہ دیکھیں.خاص طور پر خطبہ جمعہ کوضرور سنے کی عادت ڈالیں.کیونکہ اب تک کی

Page 715

خطبات مسرور جلد سوم 708 خطبہ جمعہ 2 / دسمبر 2005ء ملاقاتوں میں جو جائزہ میں نے لیا ہے اس سے مجھے احساس ہوا ہے کہ کافی بڑی تعداد یہاں جماعت کی ہے جو ایم ٹی اے سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھاتی.اس طرف جماعتی نظام بھی توجہ دے اور ذیلی تنظیمیں بھی توجہ دیں اور دیکھیں کہ کتنے لوگ ایم ٹی اے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.اور کیا کوشش کرنی چاہئے جن سے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے کیونکہ جتنی زیادہ دنیا میں مذہب رلے جانے والی دلچسپیاں پیدا ہو رہی ہیں اتنی زیادہ ہمیں اس سلسلے میں کوشش کرنے کی سے دور ضرورت ہے.پس جہاں اس کے لئے عملی کوشش کریں کہ دنیا کے گند سے بچیں وہاں ان دنوں میں جیسا کہ میں نے کہا ہے نمازوں اور دعاؤں کی طرف بھی خاص توجہ پیدا کریں.اور جیسا کہ میں نے کہا ان دنوں میں یہ عہد بھی کریں اور اللہ سے مدد بھی مانگیں اور کوشش بھی کریں کہ زیادہ سے زیادہ ایسے پروگرام جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا جارہا ہو ان کو توجہ سے سنا جائے.ان دنوں میں ایک دوسرے سے ملنے ملانے ، ملاقات کرنے اور پیارو محبت کو پھیلانے کی طرف بھی خاص توجہ دیں.کیونکہ یہ جلسے کا ماحول جو آپ کو میسر آیا ہے اس میں محبتیں بکھیر نے کا یہ بہت عمدہ موقع ہے.ہر قسم کے اعلیٰ اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی طرف خاص توجہ کریں.اور پھر اس تبدیلی کو ہمیشہ اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تا کہ آپ کے ماحول کو یہ نظر آئے کہ احمدی عبادتوں میں بھی اعلیٰ ہیں اور اخلاق میں بھی اعلیٰ ہیں، احمدیوں اور دوسروں میں ایک نمایاں فرق ہے.آپ کے یہ خاموش عمل بھی خاموش تبلیغ کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور یہ جلسہ بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا حامل بن جائے.اور آپ میں سے ہر ایک اس جلسہ کی بے شمار برکات سے فائدہ اٹھانے والا ہو.

Page 716

خطبات مسرور جلد سوم 709 (48) خطبہ جمعہ 19 دسمبر 2005ء ماریشس کے ابتدائی مبلغین کی بے مثال قربانیاں قابل تقلید ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو سیکھیں ، اس پر عمل کریں اور پھر اسے آگے پھیلائیں خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 9 دسمبر 2005ء بمقام مسجد دارالسلام.روزہل ( جزائر ماریشس ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.الحمدللہ کہ ماریشس کا یہ میرا پہلا دورہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور انشاء اللہ تعالی کل یہاں سے روانگی ہوگی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ اس چھوٹے سے جزیرے کی مخلص اور باوفا جماعت ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے اخلاص و وفا میں اضافہ فرماتا رہے.اور آپ ہمیشہ ان خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں جو یہاں کے ابتدائی احمدیوں اور آپ کے بزرگوں نے آپ کے بارے میں رکھیں اور آپ ہمیشہ ان دعاؤں کے وارث بنے والے ہوں جو آپ کے بزرگوں نے اپنی نسلوں کے بارے میں کیں.ان لوگوں نے انتہائی مشکل حالات میں یہاں احمدیت کے پودے کو لگایا اور اسے پروان چڑھایا.مخالفتوں کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی.وہ لوگ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہے اور اس سے مدد اور طاقت مانگتے رہے.باوجود اس کے کہ وہ لوگ یہاں دنیا کمانے آئے تھے لیکن انہوں نے ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا.اور یہ وہ سبق ہے اور یہ وہ اعلیٰ نمونہ ہے جو آپ کے بزرگوں اور ابتدائی احمدیوں نے آپ کو دیا ہے.اور ان کی یہ وہ مثالیں ہیں جو وہ آپ کے سامنے رکھ گئے ہیں.

Page 717

خطبات مسرور جلد سوم 710 خطبہ جمعہ 9 دسمبر 2005ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جزیرے میں احمدیت 1912 ء میں خلافت اولی کے زمانے میں آئی.یہاں کے ابتدائی احمدیوں میں سے نور دیا صاحب، ماسٹر محمد عظیم سلطان غوث صاحب، میاں جی رحیم بخش صاحب ، میاں جی سبحان محمد رجب علی صاحب وغیرہ ہیں.بہر حال یہ ایک لمبی فہرست ہے جو 1912 ء سے لے کر 1920 ء تک کے عرصے میں احمدی ہوئے.انہیں مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا.ان میں سے بعض کے خلاف قتل کے مقدمے بھی بنائے گئے.لیکن جس سچائی کو وہ پہچان چکے تھے اس سے وہ ذرا بھر بھی پیچھے نہیں ہے.بلکہ پہلے مبلغ آنے تک انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا خلیفہ وقت سے براہ راست تربیت پانے والے کسی شخص کو دیکھا بھی نہیں تھا.لیکن اس کے باوجود وہ اخلاص و وفا میں بڑھتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام دعاوی پر جن کا اس وقت تک ان کو علم تھا یا نہیں تھا وہ ایمان لانے والے تھے اور اس فکر میں رہتے تھے کہ ان کو مانیں.اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ہم سے یا ہماری نسلوں سے ایمان ضائع نہ ہو جائے.چنانچہ مکرم ایم اے سلطان غوث صاحب نے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی خدمت میں جماعت کے حالات کے بارے میں لکھا اور مبلغ بھجوانے کے بارے میں درخواست کی ، اپنی وفا اور تعلق کا اظہار کیا.آخر میں لکھا پیارے آقا آپ ہمیں راستہ دکھائیے اور ہمیں اپنے مذہب کی تعلیم سے مزید آشنا کیجئے.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشق میں اس طرح کھوئے ہوئے تھے، آپ کی سیرت کو اس طرح وہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے سوانح کی کوئی جلد بھیجی جائے تو مجھ پر بڑا احسان ہوگا.تو ان لوگوں کو مزید سیکھنے کا بہت شوق تھا اور بار بار مبلغ بھجوانے کا مطالبہ کرتے تھے.آخر ان کی خواہش کے مطابق 1915ء میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب ماریشس پہنچے.لیکن ائر پورٹ پر ہی ان کو روک لیا گیا.اور دوسرے مسلمانوں کی طرف سے اس وقت بھی بڑی کوشش ہوئی کہ انہیں واپس بھجوا دیا جائے.آخر روشن علی بھنو صاحب کی 30 ہزار روپے کی ضمانت پر انہیں ماریشس کی سرزمین پر اترنے کی اجازت ملی.مکرم صوفی غلام محمد صاحب کی کوششوں سے ماشاء اللہ جماعت آہستہ آہستہ بڑھنی شروع ہوئی.دوسرے مبلغ یہاں حضرت حافظ عبید اللہ صاحب

Page 718

خطبات مسرور جلد سوم 711 خطبہ جمعہ 9 دسمبر 2005ء آئے.اور آپ نے بھی انتھک محنت اور کوشش سے جماعت کو آگے بڑھایا.اور آخر یہیں ان کی وفات ہوئی.ان کی وفات پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں ان کے بارے میں فرمایا کہ مولوی عبید اللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ دین کے لئے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نبھانا دونوں باتوں کو جانتا تھا.شہادت کا پہلا موقع عبید اللہ کو ملا یعنی ہندوستان کے کسی شخص کی شہادت کا.فرمایا ہمیں اس کی موت پر فخر ہے تو اس کے ساتھ صدمہ بھی ہے کہ ہم میں سے ایک نیک اور پاک روح جو خدا کے دین کی خدمت میں شب وروز مصروف تھی جدا ہوگئی.پھر حضرت صوفی غلام محمد صاحب کی واپسی پر حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے حضرت حافظ جمال احمد صاحب کو یہاں بھجوایا.آپ یہاں 29 جولائی 1928ء کو پہنچے.حضرت حافظ جمال احمد صاحب نے روانگی کے وقت حضرت خلیفہ المسح الثانی سے درخواست کی کہ ان کے بچوں کو بھی ساتھ جانے کی حضور اجازت فرمائیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس شرط پر ان کو اجازت دی کہ پھر ساری زندگی وہیں گزارنی ہوگی.واپس آنے کی کبھی بھی اجازت نہیں ہوگی.جب ان کے بچے جوان ہوئے تو رشتوں کے لئے انہوں نے آنے کی اجازت چاہی.حضور نے فرمایا نہیں، اپنے وعدے کے مطابق وہیں رہیں.اس وقت جماعت کے مالی وسائل اس قابل نہ تھے کہ ان کو واپس بلایا جا سکتا.حضرت حافظ جمال احمد صاحب نے بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ کا خوب حق ادا کیا.مسلموں اور غیر مسلموں دونوں میں آپ نے خوب احمدیت کا پیغام پہنچایا.حضرت حافظ جمال احمد صاحب جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہیں دفن ہیں.آپ کے بچے بھی یہیں ہیں.حضرت حافظ جمال احمد صاحب کی وفات پر خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ لمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے کام اور خدمات اور قربانیوں کا ذکر فرمایا.نیز فرمایا وہ زمین مبارک ہے جس میں ایسا اولوالعزم اور پارسا انسان مدفون ہوا.تو ان سب پرانے احمدیوں کا جن میں سے چند ایک کا میں نے ذکر کیا ہے اور ان ابتدائی مبلغوں کا میں نے ذکر اس لئے کیا ہے تا کہ آپ

Page 719

خطبات مسرور جلد سوم 712 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 2005ء لوگوں کو احساس رہے کہ جماعت کے ابتدائی بزرگوں نے اور ان مبلغین نے اس ملک میں احمدیت کو پھیلانے اور اپنے اندر احمدیت کو قائم رکھنے کے لئے کیا کیا کام کئے ہیں.اس سے پوری تصویر تو سامنے نہیں آتی لیکن کچھ نہ کچھ پتہ لگ جاتا ہے.اس کے لئے آپ جب تک ان پرانے بزرگوں کی تاریخ نہ پڑھیں آپ کو پتہ نہیں لگے گا کہ وہ لوگ کس طرح قربانیاں دیتے رہے.تو بہر حال ان لوگوں نے قربانیوں کی بڑی اعلی مثالیں قائم کیں.آپ کو میں اس لئے بتا رہا ہوں کہ ان کی قربانیوں کو بھلا نہ دیں.ہمارے مبلغین کے لئے بھی ان مبلغین کی قربانیاں قابل تقلید ہیں.اپنے بزرگوں کے اس عمل اور احمدیت کے لئے اس درد کو بھلا نہ دیں.جس طرح ان بزرگوں نے کوشش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو سیکھیں اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں اور پھر اسے آگے پھیلائیں ، آپ بھی اس پر عمل کریں.آپ کے بزرگوں نے احمدیت کو اس لئے قبول کیا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی.انہوں نے احمدیت کی تبلیغ کو آگے اس لئے پھیلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہ جو تم اپنے لئے پسند کرو وہ اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرو اس لئے انہوں نے اس فرض کو ادا کیا.اب آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس نکتہ کو سمجھیں اور جہاں احمدیت کے انعام کے وارث ہونے کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتے رہیں، اپنی نسلوں میں بھی احمدیت کی حقیقی تعلیم کو دلوں میں راسخ کئے جانے کی کوشش کرتے چلے جائیں.وہاں اس خوبصورت پیغام کو دوسروں تک بھی پہنچائیں.اور یہ کام آپ اس وقت احسن رنگ میں کرسکیں گے جب اپنے ہر عمل کو اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے.یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اور 1907ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی زندگی میں ہی یہ پیغام اس جزیرے میں پہنچ گیا جس کو زمین کا کنارہ بھی کہا جاتا ہے اور بغیر کسی مبلغ کے یہاں اللہ تعالیٰ نے دلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف پھیرنا

Page 720

خطبات مسرور جلد سوم 713 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 2005ء شروع کر دیا.اور اب تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وسائل بھی عطا فرما دیئے ہیں جن سے چوبیس گھنٹے آپ کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچ رہا ہے.یہ تو خدا تعالیٰ کی اٹل تقدیر ہے.اس نے تو انشاء اللہ تعالیٰ پورا ہو کر رہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہے اور دل پھیرنے ہیں.جس طرح آج مخالفین آپ کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اس ابتدائی زمانے میں بھی یہ نعرے لگاتے تھے جب احمدیوں کی تعداد چند ایک تھی اور جیسا کہ میں نے کہا ان کے خلاف بڑے سخت منصوبے بنائے جا رہے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان مخلصین کی تضرعات اور دعاؤں کو سنا اور ہر شر سے احمدیت کو محفوظ رکھا.ان ابتدا ئی مخلصین اور فدائین میں جن کا میں نے ذکر کیا ہے کچھ اور بھی ہیں، ذکر کر دیتا ہوں.یعنی عباس کا اہلوں صاحب ، حاجی سلمان اچھا صاحب ، لطیف بخت صاحب، مولا بخش بھنو صاحب وغیرہ.مناف سوکیہ صاحب اسی طرح سدھن فیملی کے بزرگ تھے، جوا ہر فیملی کے بزرگ تھے، محراب فیملی کے بزرگ تھے، نو بھے فیملی کے بزرگ تھے، درگاہی فیملی کے بزرگ تھے، عبدالرحمن صاحب تھے ، بدھن خاندان کے بزرگ تھے، سلیمان تیجو صاحب تھے ، یہ سب لوگ ابتدائی احمدیوں میں سے تھے.ان کا نام میں نے اس لئے لیا ہے کہ ان خاندانوں کے افراد کو ذاتی تعلق کی وجہ سے احساس ہو کہ ہمارے بزرگوں نے احمدیت کی تعلیم کو اپنایا اور اس پر قائم رہے.یہ لوگ وہ تھے جو ہمیشہ اللہ کے آگے جھکے رہے.اپنے اخلاص و وفا کو بڑھاتے رہے اور اس بات کو اپنی نسلوں میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے.پس ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ بھی یہ اعمال بجالائیں.اس اہم کام کو دنیا کی چکا چوند اور دنیا کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے بھول نہ جائیں.آپ کا جوش اور وفا کا تعلق عارضی نہ ہو.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر آپ نے اپنے دلوں میں اور اپنی اولادوں کے دلوں میں یہ اخلاص و وفا کا تعلق قائم رکھا تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ اپنے ترقی کے قدم دیکھتے رہیں گے.پس ہر وقت اس کوشش میں رہیں کہ ہم قرآن کریم کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے کی

Page 721

خطبات مسرور جلد سوم 714 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 2005ء کوشش کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو مکمل طور پر اپنانے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ کیسی تبدیلی ہے جو آپ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں؟.آپ فرماتے ہیں: ” سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقومی کی راہوں پر قدم مارو گے.سوا اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جوز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے.اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بے زار ہوکر ترک کرو.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19.صفحه 15) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم کے مطابق ہر احمدی کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑے.اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرے.نمازوں کی طرف توجہ کرے، عبادات کی طرف توجہ صرف رسماً نہ ہو بلکہ حقیقت میں یہ نیکیاں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں قائم رکھتے ہوئے پیدا ہو رہی ہوں.جیسا کہ آپ نے فرمایا بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.وہ بدیاں کیا ہیں؟.بظاہر عبادتیں کرنے والے ہوتے ہیں لیکن بعض برائیوں میں گرفتار ہوتے ہیں.ان کی عبادتیں ان کو کچھ فائدہ نہیں دے رہی ہوتیں.اگر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو ایسے لوگوں کی عبادتیں دوسروں پر نیک اثر ڈالنے کی بجائے بداثر ڈال رہی ہوتی ہیں اور ان کو خود بھی کوئی فائدہ نہیں دے رہی ہوتیں.کمزور ایمان والوں کو اور کچے ذہنوں کو مذہب سے دور لے جا رہی ہوتی ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اکثر فرمایا ہے کہ حقوق دو قسم کے ہیں.ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد.پس جہاں آپ حقوق اللہ ادا کر رہے ہوں وہاں حقوق العباد بھی ادا کرنا ضروری ہے.حقوق العباد میں آپس میں محبت اور بھائی چارے کا تعلق پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے.اور یہی بنیادی چیز ہے جس سے کہ انسان دوسرے انسان کے حقوق ادا

Page 722

خطبات مسرور جلد سوم 715 خطبہ جمعہ 9 دسمبر 2005ء کرتا ہے پس اس بنیادی چیز کو پکڑ لیں.جماعت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے ہر قسم کی ناراضگیوں کو دور کر کے محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کریں.ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں.اس سے خدا سے تعلق مزید مضبوط ہوگا اور مزید نیکیاں اختیار کرنے اور برائیاں چھوڑنے کی توفیق ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اپنی جماعت کے تقویٰ کے معیار کو بہت اونچادیکھنا چاہتے ہیں.پس جہاں ان معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے آپ عبادات کی طرف تو جہ کریں.وہاں آپس کی محبت اور پیار اور ایک جان ہونے کی طرف بھی توجہ کریں.یہاں مخالفت بھی کافی ہے اور مخالفین بھی یقیناً اس کوشش میں ہیں کہ یا تو ڈرا کر یا آپ میں بداعتمادی پیدا کر کے آپ کو کمزور کیا جائے.پس اپنی چھوٹی چھوٹی رنجشوں کو بھلا کر ایک دوسرے سے پیار اور محبت کا تعلق پیدا کریں.تا کہ جماعت کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے والے بن سکیں.ہمیشہ قرآن کریم کے اس حکم کو اپنے سامنے رکھیں کہ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا (الانفال: 47) اور آپس میں جھگڑے نہ کیا کروا گر ایسا کرو گے تو تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا.اور صبر سے کام لو.پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آپس کے لڑائی جھگڑے اور آپس کے اختلافات ختم کر دے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صبر سے کام لے.غیروں کے مقابلے میں تو ہم صبر سے کام لیتے ہیں.گالیاں سن کر اکثر اوقات چپ رہتے ہیں.لیکن آپس میں بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر مہینوں، سالوں ناراضگیاں چلتی رہتی ہیں.حالانکہ ہمیں تو یہ حکم ہے کہ آپس میں زیادہ محبت کا سلوک کرو.دیکھیں جو وقار آپ کے بڑوں نے بنایا ، جماعت کو مخالفت کے باوجود ایک مقام دلانے کی کوشش کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی اس نیک نیتی اور جماعت کی خاطر قربانی کو قبول فرمایا.آج ان کا نام جماعت کی تاریخ کا حصہ ہے.آپ لوگ بھی یا درکھیں کہ جماعت کی خاطر ، اللہ تعالیٰ کی خاطر اگر آپ آپس میں ایک دوسرے کے قصوروں کو معاف کرنے کی کوشش کریں گے تو جہاں آپ جماعت کا وقار قائم کر رہے ہوں گے وہاں آپ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا پیار بھی حاصل کر رہے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والا یقینا اس کے فضلوں کا وارث ٹھہرتا ہے.اس کی نسلیں بھی اللہ تعالیٰ کے

Page 723

خطبات مسرور جلد سوم 716 خطبہ جمعہ 19 دسمبر 2005ء فضلوں کو سمیٹنے والی ہوتی ہیں.اور ان کا مخالفین پر بھی رعب قائم رہتا ہے.ان کے اعلیٰ نمونے دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوتے ہیں.پس دعوت الی اللہ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپس کے اختلافات دور ہوں.ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی فکر ہو.یہی چیز آپ میں مضبوطی پیدا کرے گی.اور آپ کو تبلیغ کے میدان میں بھی آگے لے جانے والی ہوگی.دیکھیں آپ کے بڑوں نے کس فکر کے ساتھ اس چیز کو اپنایا تھا.یہاں کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ گویا وہ ایک جان تھے اور اس کا اثر تھا کہ ان چندلوگوں نے آج سے 70 سال بلکہ اس سے بھی پہلے 6-7 سو افراد کی جماعت بنالی.اب ان میں سے ایک ایک کے آگے کئی کئی بچے ہیں.ان میں تو نسل بڑھ رہی ہے لیکن تبلیغ کے میدان میں پیچھے ہیں.اس کی ایک وجہ دنیا داری کی طرف زیادہ توجہ بھی ہو سکتی ہے.آپس کی ان لوگوں کی طرح پیار و محبت میں کمی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے پس اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے جہاں اپنی کمزوریوں کو دور کریں وہاں جیسا کہ میں نے کہا تبلیغ میں بھی آگے بڑھیں ، لوگوں کی رہنمائی کریں لیکن اس کے لئے اپنے بھی اعلیٰ عمل اور عملی نمونے دکھانے ہوں گے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو خلافت سے وابستگی اور اخلاص ہے.لیکن اس کے با وجود یہ کمزوری یہاں کافی ہے کہ تبلیغ کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی جا رہی جس طرح ہونی چاہئے.اس لئے جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنائیں.اردگرد کے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں جہاں بھی آبادی ہے وہاں وفد بھیجیں اور ان جزیروں کو احمدیت کی آغوش میں لائیں.یہاں اس جزیرے میں بھی تبلیغ کریں.مسلمان یہاں اگر خلاف ہیں تو اپنے مولویوں کے احمدیت کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کی وجہ سے خلاف ہیں.ان کے علم میں ہی نہیں ہے کہ احمدیت کی حقیقی تعلیم کیا ہے اور ہمارا کیا ایمان ہے اور کیا مانتے ہیں.کئی مسلمان شرفاء با وجودان فسادیوں کے جلوس نکالنے اور تقریریں کرنے کے، جو کہ ہمارے جلسے کے دوران آخری دن انہوں نے کیں، یہ شرفاء ہمارے جلسے میں شامل ہوئے اور مجھے ملے اور اسلام کی صحیح تصویر دکھانے اور احمدیت کے حقیقی پیغام کے پہنچانے کا شکریہ ادا کر کے گئے.تو یہ مستقل تبلیغی را بطے اگر

Page 724

خطبات مسرور جلد سوم 717 خطبہ جمعہ 9 دسمبر 2005ء ہوں گے تو انہیں احمدیت کی حقیقی تعلیم سے آگاہی ہوگی.پس آپ لوگ ایک ہو کر اس تبلیغی مہم میں جت جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے.یاد رکھیں یہی ایک ذریعہ ہے جس سے آپ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے اور اپنی اولادوں کو بھی محفوظ رکھیں گے.اپنے نو جوان بچوں اور بچیوں کو دنیا کے گند سے بچا کر رکھ سکیں گے.اپنے بچوں میں بھی اس بات کو راسخ کریں کہ تمہارے باپ دادا نے ، تمہارے بزرگوں نے احمدیت کو صحیح سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بے انتہا فضلوں سے نوازا.تم لوگ بھی بجائے یہ دیکھنے کے کہ دنیا آجکل کس طرف جا رہی ہے یہ دیکھو کہ خدا تعالیٰ تمہیں کس طرف بلا رہا ہے.پس اس طرف آؤ اور اس کے حکموں پر عمل کرو.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.پس اس کے لئے آپ کو اپنے بچوں کے لئے اپنے عملی نمونے بھی پیش کرنے ہوں گے، اپنے اندر سے بھی چھوٹی چھوٹی برائیوں کو ختم کرنا ہوگا.آپ لوگوں کو خود بھی نیکیوں کو اپنانا ہوگا.آجکل معاشرے میں بہت سی ایسی برائیاں ہیں جن کا اثر ہمارے معاشرے میں پڑ رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے خود بھی ان سے بچیں اور اپنی اولا دوں کو بھی ان سے بچائیں.کیونکہ اسی میں اب آپ کی بہتری ہے.اللہ کرے کہ آپ لوگ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس حقیقت کو سمجھنے والے ہوں اور نوجوان بھی اور بوڑھے بھی اور مرد بھی اور عورتیں بھی نیکیوں کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو سمجھنے والے ہوں تا کہ اپنی نسلوں اور نئے آنے والوں کی تربیت بھی کر سکیں اور احمدیت کے پیغام کو اپنے عمل سے بھی اپنے ہم قوموں کو پہنچا سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور دعوت الی اللہ کے میدان میں اب تک جو ستی ہوئی ہے اس کی کمی کو پورا کرنے کی توفیق دے.آپ کو ہر لحاظ سے اپنی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ کا جماعت اور خلافت سے جذبہ اخلاص و وفا ہمیشہ قائم رہے اور اس میں اللہ تعالیٰ اضافہ فرما تار ہے.آمین 谢谢谢

Page 725

718 خطبات مسرور جلد سوم

Page 726

خطبات مسرور جلد سوم 719 (49) خطبہ جمعہ 16 / دسمبر 2005ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بستی میں رہنے والوں کا فرض ہے کہ دین کو دنیا پر ہمیشہ مقدم رکھیں قادیان دارالامان سے حضور انور کا پہلا تاریخی خطبہ جمعہ جو براہ راست تمام دنیا میں نشر ہوا خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 دسمبر 2005ء بمقام مسجد اقصی.قادیان دارالامان ( بھارت) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.آج محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اس کی دی ہوئی توفیق سے میں اس بستی سے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بستی سے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلیفہ اور نمائندہ کے طور پر مخاطب ہوں.آج کا دن میرے لئے اور جماعت کے لئے دو لحاظ سے اہم ہے.ایک تو میرا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خوبصورت اور روحانیت سے پر بستی میں خلیفہ مسیح کی حیثیت سے پہلی دفعہ آنا.اور دوسرے جماعت احمد یہ عالمگیر کے لئے یہ ایک عجیب خوشی اور روحانی سرور کا موقع ہے کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ایک اور نئی شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے.گو کہ یہ الہام مختلف پہلوؤں سے بڑی شان کے ساتھ کئی دفعہ پورا ہو چکا ہے.لیکن آج یہاں اس بستی سے اللہ تعالیٰ نے اس کو پورا کرنے کا، اس وعدے کو پورا کرنے کا نشان دکھایا ہے.آج یہاں سے پہلی دفعہ ایم ٹی اے کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام براہ راست دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہا ہے.یہ ایم ٹی اے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کو قبول فرماتے

Page 727

خطبات مسرور جلد سوم 720 خطبہ جمعہ 16 / دسمبر 2005ء ہوئے اور فضل فرماتے ہوئے ایک انعام کے طور پر جماعت کو عطا فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کا یہ ایک عظیم الشان شمر ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو بڑی شان کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کا ذریعہ بناتا رہے.ہمارا کام ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ خالصتا اللہ کے ہوتے ہوئے دعاؤں اور استغفار کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں.میں جب سے اس ملک بھارت میں آیا ہوں، مجھ سے کئی دفعہ یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ اب آپ قادیان جارہے ہیں آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ تو میرا جواب تو ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بستی ہے اور ہر احمدی کو اس سے ایک خاص تعلق ہے، ایک جذباتی لگاؤ ہے اور جوں جوں ہم قادیان کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں ان جذبات کی کیفیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے.ایک دنیا دار کا جذباتی تعلق تو ایک وقتی جوش اپنے اندر رکھتا ہے لیکن ایک احمدی کو جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روحانیت کے مدارج طے کرنے کے راستے دکھائے ہیں اس کا آپ سے روحانیت کا تعلق ہے.اس کے جذبات میں تلاطم یا جذباتی کیفیت وقتی اور عارضی نہیں ہوتی اور نہ ہی وقتی اور عارضی ہونی چاہئے.اس بستی میں داخل ہو کر جو روحانی بجلی کی اہر جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے سب احمدیوں کو ، یہاں آنے والوں اور رہنے والوں کو، اس لہر کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لینا چاہئے اور یہاں کے رہنے والوں کی تو یہ سب سے زیادہ ذمہ داری ہے.آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس بستی کے رہنے والے ہیں جس کے گلی کو چوں نے مسیحا کے قدم چومے.اور آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس بستی کے رہنے والے ہیں جس کی خاک نے مسیح دوران اور امام الزمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے پاؤں دم بدم چومے ہیں.آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ میں سے ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے یا اُن لوگوں کی نسل میں سے ہے جنہوں نے مسیح پاک کی اس بستی کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دینے کا عہد کیا تھا.جنہوں نے اپنے اس عہد کو نبھایا اور خوب نبھایا.

Page 728

خطبات مسرور جلد سوم 721 خطبہ جمعہ 16 / دسمبر 2005ء جو درویشان یہاں رہے.ان میں سے اب جو موجود ہیں اکثر ایسی عمر کو پہنچ چکے ہیں جس عمر میں صحت کی وجہ سے اتنی فعال زندگی گزارنے کا موقع نہیں مل سکتا.یہ ایک قدرتی بات ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ ہے.پھر قادیان کی احمدی آبادی میں سے ایسے بھی ہیں جو مختلف جگہوں سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں ان میں سے بھی میرے خیال میں ایک بڑی تعداد اس لئے یہاں آئی کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے، دین کی خدمت کریں گے.بہر حال ایک احمدی جب یہاں آیا اور یہاں رہا تو میں یہی حسن ظن رکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عشق ہی انہیں یہاں کھینچ لایا ہو گا.آپ سے میں یہی کہنا چاہتا ہوں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ایک احمدی پر اس بستی کا یہی حق ہے اور ایک احمدی جو اس بستی میں رہتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ صرف دنیا کو اپنا مقصود نہ بنائیں.درویشوں کی نسلیں بھی اور نئے آنے والے بھی ، سب یہ بات یاد رکھیں.خدا سے ایسا تعلق قائم ہو جو ہر دیکھنے والے کو نظر آئے.یہاں باہر سے آنے والے احمد یوں کو بھی اور غیروں کو بھی نظر آئے اور یہاں رہنے والے غیروں کو بھی نظر آئے.اور وہ تب نظر آئے گا جب ہر ایک میں دعائیں، استغفار اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف خاص توجہ پیدا ہوگی.نیک نیتی سے کی گئی دعائیں اور استغفار یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہوتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ایسے پاک اور نیک لوگوں کو اپنے نشان بھی دکھاتا ہے.ان کو دینی لحاظ سے بھی اوپر لے کے جاتا ہے، ان کی دنیاوی ضروریات بھی پوری فرماتا ہے، ان کا خود کفیل ہوتا ہے.اور ایسے لوگوں کا اگر اپنے پیدا کرنے والے سے صحیح تعلق ہو، تو ان کے دل میں دنیاوی خواہشات بھی کم ہو جاتی ہیں.آج کل کے معاشرے میں ایک دوسرے کو دیکھ کر، آپس میں رابطے کی کثرت کی وجہ سے، میڈیا کی وجہ سے دنیاوی خواہشات ہی ہیں جو انسان کو دنیا کی طرف زیادہ مائل کر دیتی ہیں.گھانا میں ایک دفعہ کسی نے مجھے کہا کہ ہم بھی واقف زندگی ہیں اور ڈاکٹر بھی وقف کر کے آتے ہیں لیکن ان کے حالات ہم سے بہتر ہیں.بہر حال یہ چیز ان کے سامنے تھی تو میں نے ان سے کہا کہ زیادہ استغفار کرو.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.اس نے بڑی

Page 729

خطبات مسرور جلد سوم 722 خطبہ جمعہ 16 / دسمبر 2005ء نیک نیتی سے استغفار شروع کیا ، دعائیں کرنی شروع کیں اور کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ وہ جو خواہش تھی اور مقابلہ تھا اور دنیاوی لحاظ سے آگے بڑھنے کی جستجو تھی وہ ان کے دل میں ختم ہوگئی.بلکہ یہاں تک ہوگیا کہ دوسرے کی خاطر قربانی دینے کی عادت پڑ گئی.تو اگر نیک نیتی سے کی گئی دعائیں ہوں، استغفار کیا گیا ہو تو اللہ تعالیٰ بہت فضل فرماتا ہے.خدا کرے کہ نہ صرف یہاں رہنے والے احمدی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں لئے ہوئے ہوں بلکہ یہاں سے باہر جا کر دنیا کمانے والے بھی ایسے ہوں جن کو دیکھ کر دنیا خود بخود کہہ اٹھے کہ یہ حقیقت میں وہ لوگ نظر آتے ہیں جن میں میسیج پاک کی پاک بستی کی روحانی جھلک نظر آتی ہے.یہاں کا رہنے والا ہر احمدی اپنی حرکات وسکنات کے لحاظ سے، اپنے چہرے کی سچائی کے لحاظ سے، اپنے عمل کے لحاظ سے، پاک دل ہونے کے لحاظ سے، خود بخود یہ اظہار کر رہا ہو کہ وہ ایک روحانی ماحول سے اٹھ کر باہر آیا ہے.کبھی بھی یہاں کا رہنے والا کوئی احمدی نہ اپنوں کے لئے کسی کی ٹھوکر کا باعث بنے ، نہ غیروں کے لئے کسی قسم کی ٹھوکر کا باعث بنے.یہاں نو مبائعین بھی آتے ہیں اور اب تو ایک خاصی بڑی تعداد ہے جو یہاں آئی ہے وہ بھی آپ کے نمونے دیکھتے ہیں.جو پرانے بزرگوں کی اولادیں ہیں ان کے نمونے تو بہر حال ہر کوئی دیکھے گا.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ایسے لوگوں کی اولاد ہیں جن کی تربیت ایک خاص ماحول میں ہوئی ہوئی ہے.اس لئے یہاں کے پرانے رہنے والے، جو یہاں رہے، درویش رہے، انہوں نے بڑی قربانیاں کیں اور اب بھی جو اُن میں سے زندہ ہیں قربانیاں کر رہے ہیں، ایک عمر کا بڑا حصہ گزار چکے ہیں اور زیادہ فعال نہیں رہے.اب ان کی اولادوں کا فرض ہے کہ اس مقام کو سمجھیں جس کی خاطر ان کے باپ دادا نے قربانیاں دیں.تو بہر حال میں کہہ رہا تھا کہ نومبائعین یہاں بھی آتے ہیں، ان کی تربیت کے لئے آپ کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی.ہم سورۃ فاتحہ میں دعا کرتے ہیں کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْن ﴾ کہ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں.پس جب ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگیں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی فرمائے گا.ہمیں سیدھے راستے پر رکھے گا،

Page 730

خطبات مسرور جلد سوم 723 خطبہ جمعہ 16 / دسمبر 2005ء دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کی ہمیں توفیق ملے گی.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” یعنی ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.ذوق ، شوق ، حضور قلب بھر پور ایمان ملنے کے لئے.روحانی طور پر ( تیرے احکام پر ) لبیک کہنے کے لئے سرور اور نور کے لئے.(ترجمه کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7صفحه 121) پھر فرماتے ہیں کہ : ” مومن جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معاً اس کے دل میں گزرتا ہے کہ میں کیا چیز ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اس کا فضل اور کرم نہ ہو.اس لئے وہ معا کہتا ہے ایسا كَ نَسْتَعِيْن مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.(الحكم 10 فروری 1904ء صفحه 2 کالم (1) پس اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے ، اس کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے ، دنیا کی محبت ٹھنڈی کر کے دین میں آگے بڑھنے کے لئے ، ایمان میں اضافے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کے لئے گویا ہر معاملے میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے حقوق بتائے ہیں وہاں اپنے بندوں کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے زیادہ مشکل ہو جاتے ہیں.کئی دفعہ کئی لوگوں کے معاملات آتے ہیں.بظاہر بڑے نیک اس لحاظ سے کہ نمازیں پڑھنے والے، بظاہر جماعتی طور پر اچھا کام کرنے والے ہوتے ہیں لیکن حقوق العباد کا سوال آئے اور اپنا مفاد ہوتو بعض دفعہ غلط بیانی بھی کر جاتے ہیں، دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کے ساتھ ہی مشروط ہے.ظالم شخص کبھی بھی اللہ تعالیٰ کا مقرب نہیں ہوسکتا اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل میں اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل کرنا، اس کی صحیح اور حقیقی عبادت ہے.پس اس میں ظاہری نمازوں اور عبادتوں کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا، نظام جماعت کی پیروی کرنا، امانتدارانہ طور پر اپنے کام سرانجام دینا، اپنے فرائض کی ادائیگی کرنا، یہ سب باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ

Page 731

خطبات مسرور جلد سوم 724 خطبہ جمعہ 16 / دسمبر 2005ء کی عبادت کے زمرہ میں آتی ہیں.اس لئے ہمیشہ ہر احمدی کو اس فکر میں رہنا چاہئے کہ کبھی بھی ، کسی معاملے میں بھی اس سے کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ ہو.اور بہر حال کیونکہ انسان کی طبیعت میں کمزوری ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو بہت سے احکامات پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے.اس لئے اس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے ہمیشہ دعاؤں اور استغفار اور اس کی مدد طلب کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے اور اس کی مدد طلب کرنے کا ایک بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ استغفار کرو.جیسا کہ میں نے مثال بھی دی ہے کہ کس طرح ایک شخص میں استغفار کی وجہ سے تبدیلی پیدا ہوئی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " ظاہر ہے کہ انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے اور خدا تعالیٰ کے صدہا احکام کا اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے.پس اس کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بعض احکام کے ادا کرنے سے قاصر رہ سکتا ہے.اور کبھی نفس امارہ کی بعض خواہشیں اس پر غالب آ جاتی ہیں.پس وہ اپنی کمز ور فطرت کی رو سے حق رکھتا ہے کہ کسی لغزش کے وقت اگر وہ تو بہ اور استغفار کرے تو خدا کی رحمت اس کو ہلاک کرنے سے بچالے.“ فرمایا : ” اور تو بہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک بدی کو اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اس کے اگر وہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہر گز نہیں کرے گا“.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 189-190) پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم برائیاں کرنے کے بعد کسی غلطی کے سرزد ہونے کے بعد اس درد کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں؟ استغفار کے ساتھ ايَّاكَ نَسْتَعِین کے مضمون کو بھی سامنے رکھتے ہیں؟ کمزوری سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس سوچ کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے گناہوں اور غلطیوں کی معافی مانگ رہے ہیں؟ اور پھر اس کے ساتھ اس عہد پر قائم ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے بھی حالات ہو جائیں یہ غلطیاں نہیں دوہرائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 732

خطبات مسرور جلد سوم 725 خطبہ جمعہ 16 / دسمبر 2005ء والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی نہیں کرے گا.لیکن آگ میں ڈالنا تو علیحدہ بات ہے.معمولی سا دنیاوی لالچ یا ذاتی مفاد بھی بعض لوگوں کو وہی غلطیاں کرنے پر مجبور کر دیتا ہے.کئی لوگوں کو جب بعض غلطیوں پر جماعتی نظام کے تحت سزا ہوتی ہے، تعزیر ہوتی ہے تو معافی مانگتے ہیں.اور معافی کے بعد پھر وہی چیز دوہراتے ہیں.پھر سزا ہوتی ہے پھر دوبارہ وہی حرکت کر لیتے ہیں.تو ایسے لوگوں کو تو اگر دوبارہ سزا کے بعد معافی ہو بھی جاتی ہے تو بعض دفعہ مشروط معافی ہوتی ہے.بعض دفعہ کا رکن یا عہدیدار ہوں تو معافی تو ہو گئی لیکن عہدوں یا کام پر نہیں لگایا گیا.اس پر خطوط کے سلسلے شروع ہو جاتے ہیں ، نظام کے متعلق شکایات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.تو ایسے لوگوں کو پہلے اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ، آپ کی بستی میں وقت گزار کر پھر بھی اگر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر ان کا معاملہ نظام جماعت سے نہیں یا خلیفہ وقت سے نہیں بلکہ خدا سے ہو جاتا ہے.اس لئے میری ان باتوں سے باہر کی دنیا کیونکہ ہر جگہ خطبہ سنا جارہا ہے، یہ تاثر نہ لے لے کہ خدانخواستہ یہاں بگڑے ہوؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اب پرانے درویشوں کے بعد نیکی اور تقویٰ کے معیار بالکل ہی ختم ہو گئے ہیں.کسی بھی معاشرے میں اگر دو چار ہی لوگ خراب ہوں تو برائی نظر آ جاتی ہے.اور جتنا شفاف معاشرہ ہوگا اگر اس میں برائی پیدا ہوگی تو اتنا زیادہ نظر آ جائے گی.جتنی سفید چادر ہوگی اتنا ہی اس میں داغ زیادہ نمایاں ہو کر نظر آئے گا.اس لئے ہر احمدی کو اس لحاظ سے سوچنا چاہئے اور احتیاط کرنی چاہئے.تو اس لئے بجائے اس کے کہ بعد میں برائیاں پیدا ہوں اور پھیلتی چلی جائیں اور پھر ایک کے بعد دوسرا لپیٹ میں آئے میں تو اس اصول پر چلتا ہوں کہ پہلے سمجھانا چاہئے.اس انتظار میں نہیں رہنا چاہئے کہ جب برائی پھیلے گی تو دیکھیں گے.جب دوسروں کو متاثر کرے گی تو دیکھیں گے.بہر حال یہاں کے احمدیوں میں اخلاص و وفا ماشاء اللہ بہت ہے.اللہ تعالیٰ اس کو مزید بڑھاتا چلا جائے.لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا اس بستی پر دنیا کی نظر بہت زیادہ ہے اور جتنا زیادہ ایکسپوژر (Exposure) دنیا کے

Page 733

خطبات مسرور جلد سوم 726 خطبہ جمعہ 16 / دسمبر 2005ء سامنے ہو رہا ہے یہ نظر بڑھتی چلی جارہی ہے.آج آپ اس وقت براہ راست ساری دنیا کے سامنے ہیں اس لئے اتنے ہی زیادہ آپ کو تقویٰ کے معیار اونچے کرنے کی ضرورت ہے.پھر استغفار کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے.یہ لفظ غَفَر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں.سو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مُسْتَغْفِیر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس کے معنی اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ڈھانک لے.لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مُسْتَغْفِر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے.کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قوی اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے.پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قیومیت کے ذریعہ بگڑنے سے بچاوے.پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے.اسی کی طرف قرآن شریف میں یہ اشارہ فرمایا گیا ہے ﴿ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (البقرة:256) سوہ خالق بھی ہے اور قیوم بھی.اور جب انسان پیدا ہو گیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے اسی لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی.غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے اور استغفارصفت قیومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے ہے.نیکی کرنے کی توفیق اسی وقت ملے گی جب استغفار ہوتا رہے گا.پودا اسی وقت

Page 734

خطبات مسرور جلد سوم 727 خطبہ جمعہ 16 / دسمبر 2005ء پروان چڑھتا ہے جب اس کو پانی اور کھا دملتی رہے.تو استغفار جو ہے وہ انسان کے لئے کھاد کا کام دیتی ہے.فرمایا کہ: ” اسی کی طرف اشارہ سورہ فاتحہ کی اس آیت میں ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کر سکیں.( ریویو آف ریلیجنز اردو جلد اول نمبر 5صفحه 187 تا 189).(ریویو پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ نیکیوں پر قائم رہنے، دعاؤں پر توجہ دینے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے استغفار کرتے رہیں.اور صرف منہ سے ہی استغفار نہ کرتے رہیں بلکہ اس مضمون کو سمجھ کر استغفار کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کو یہ واسطہ دے کر استغفار کرنے والے ہوں کہ اے اللہ! ہم کمزور ہیں، تیرے مسیح موعود کی اس بستی میں رہنے والے ہیں، ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرما.ہمیں اس بستی کا حق ادا کرنے والا بنا ، پہلے سے بڑھ کر ہم تیرے مسیح کے پیغام کو سمجھنے والے ہوں، اس کو آگے پہنچانے والے ہوں.اور پیغام کو آگے پہنچانا بھی ہر احمدی کا فرض ہے.اور اس کے لئے بھی سب سے بڑا ذریعہ آپ کا اپنا عملی نمونہ ہے.جب تک آپ کے اپنے نمونے اس قابل نہیں بنتے اس وقت تک دوسروں کو آپ متاثر نہیں کر سکتے.دلیل سے قائل بھی کرلیں گے تو وہ آپ سے پوچھے گا کہ آپ کے اندر کیا پاک تبدیلی پیدا ہوئی ہے.آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی ہماری توجہ ہو.نظام جماعت کے احترام کی طرف بھی ہماری توجہ ہو.اور یہ دعا کریں کہ اے اللہ ! تیری عبادت کی طرف بھی ہماری تو جہ ہو.ہماری توبہ واستغفار کوقبول فرما، ہر شر سے بچا.ہمارے نفس کے شیطان کو ختم فرما اور ہمیں ہمیشہ ان نیکیوں پر قائم فرما اور ان اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما جن پر تو نے ہمیں ایک دفعہ قائم فرما دیا ہے.ہماری کوتاہیاں ، ہماری کمزوریاں ، ہماری لغزشیں تیری ناراضگی کی وجہ بننے سے پہلے ہماری توبہ واستغفار قبول فرماتے ہوئے ہمیں معاف فرما دے.ہمارے دل و دماغ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو اپنے اندر بٹھائے رکھنے والے ہوں کہ

Page 735

خطبات مسرور جلد سوم 728 خطبہ جمعہ 16 دسمبر 2005ء فرمایا : ” پس اٹھو اور تو بہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو“.(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 ، صفحه 174) اللہ کرے کہ وہ مالک ہم سے ہمیشہ راضی رہے اور کبھی ہمارے سے ایسا فعل سرزد نہ ہو جو اس کی ناراضگی کا موجب بنے.اللہ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے.ایک اور بات ہے جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں.یہ دعا کے لئے ہے کہ میرے یہاں آنے کی وجہ سے مختلف ممالک سے بہت سارے احمدیوں کی خواہش ہے کہ وہ بھی یہاں آئیں اور جلسے میں شامل ہوں لیکن بعض جگہ پر ویزے کے حصول میں دقت ہے.اللہ تعالیٰ ان کی دقتوں کو دور فرمائے اور اپنے فضل سے ان کی اس پاک بستی میں آنے کی نیک خواہش کو پورا فرمائے اور اس مقصد کے لئے جو بھی یہاں آئے ہیں اور جو آنا چاہتے ہیں وہ اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں.پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی بعض سفری وقتیں ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی دور فرمائے.پہلے انتظامیہ نے یعنی ہماری اپنی انتظامیہ نے صحیح پلاننگ نہ کرنے کی وجہ سے یا بہر حال کسی وجہ سے بعض علاقوں اور ربوہ کے بہت سارے لوگوں کا کوئی ایسا انتظام ہوا کہ ویزہ نہیں مل سکا.اب جن کو ویزہ ملا ہے ان کے لئے بھی بعض سفر کی وقتیں پیدا ہو رہی ہیں.اس لئے یہاں والے بھی ان کے لئے دعا کریں اور جو آنے کے خواہش مند ہیں اور جن کو ویزہ وغیرہ مل چکا ہے لیکن اس کے بعد روکیں پیدا ہو رہی ہیں وہ خود بھی دعا کریں، استغفار کریں اور استغفار سے اس طرف توجہ دیں.اللہ تعالیٰ ان کے مسئلے حل فرمائے.ان کی نیک خواہش کو پورا فرمائے اور ان کی راستے کی ہر مشکل کو دور فرمائے.ایک اعلان انتظامیہ کی طرف سے ہے یہ میں دنیا کے لئے بتا رہا ہوں کہ یہاں کے انتظامات محدود ہیں اور بہت سارے ممالک سے ، یورپ، امریکہ وغیرہ سے لوگ آ رہے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا اور جماعت کے وسائل بھی محدود ہیں.کیونکہ یہاں سردی کافی ہے، رات کو خاص طور پر کافی زیادہ ہو جاتی ہے اس لئے باہر سے آنے والے موسم کے لحاظ سے اپنے بستر

Page 736

خطبات مسرور جلد سوم 729 خطبہ جمعہ 16 دسمبر 2005ء وغیرہ کا انتظام کر کے یہاں آئیں.اور جو یورپ سے پہلی دفعہ آ رہے ہیں اور اس خیال سے آرہے ہیں کہ بڑا انتظام ہوگا ان پر بھی واضح ہو کہ اس لحاظ سے ان کو اپنا انتظام کرنا ہو گا.اس لئے بستر وغیرہ لے کر آئیں.کیونکہ یہاں کے انتظام کے تحت اس ملک کے دُور سے آنے والے لوگوں اور غریب لوگوں کے لئے انتظام کیا جاتا ہے.دوسرے بعض لوگوں کو بعد میں شکایتیں پیدا ہوتی ہیں کہ ہمیں پہلے بتایا ہی نہیں گیا.اس لئے بتادوں کہ رہائش کا انتظام بھی اتنی سہولت والا یہاں نہیں ہو گا جیسا کہ بعض دفعہ لوگوں کو توقعات بہت زیادہ ہوتی ہیں.اسی طرح غسل خانوں وغیرہ کی سہولت بھی اس طرح نہیں ہو سکتی جس طرح ان کو وہاں میسر آ جاتی ہے.بعض لوگ زیادہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو اور زیادہ نزاکت آ جاتی ہے تو وہ یہ سوچ کر آئیں کہ یہاں کافی سختی برداشت کرنی پڑے گی اور جو بھی دیسی طرز کا جماعتی لحاظ سے یہاں انتظام موجود ہے اسی پر گزارہ کرنا ہوگا.پھر یہاں کے رہنے والے تو جانتے ہی ہیں لیکن بہت سارے باہر سے آنے والے غلطی کر جاتے ہیں.1991ء میں میں آیا تھا اس وقت بھی ایک دو سے اس طرح غلطی ہوئی اور پھر دوسروں نے بتایا کہ یہاں پر بعض دکانوں پر گوشت کا سالن جو رکا ہوتا ہے ایک تو یہ ہے کہ وہ حلال نہیں ہوتا، ذبیحہ نہیں ہوتا اور بعض دفعہ گوشت بھی صحیح نہیں ہوتا بعض دفعہ سور وغیرہ کا گوشت بھی مل رہا ہوتا ہے جو مجھے بتایا گیا ہے.اس وقت تو یہ بہر حال ہوتا تھا.اس لئے اس لحاظ سے احتیاط کریں کہ بازاروں میں کھانا وانا نہ کھائیں.جو آنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو خیریت سے لائے اور ان کے نیک مقاصد کو پورا فرمائے اور آنے والے بھی دعا اور استغفار کے مضمون کو سمجھتے ہوئے نیکیوں کے حصول اور ان پر قائم رہنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.谢谢邀

Page 737

730 خطبات مسرور جلد سوم

Page 738

خطبات مسرور جلد سوم 731 (50 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کے تعلقات پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں جلسه سالانه قادیان کے موقع پر خدمت کرنے والے کارکنان اور مہمانوں کو نہایت اہم نصائح خطبہ جمعہ فرمودہ 23 دسمبر 2005ء بمقام جلسه گاه ، قادیان دارالامان (بھارت) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ تین دن بعد قادیان کا جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ دنیائے احمدیت اپنے گھر بیٹھے بھی براہ راست جلسہ سے فیض پاسکے گی.جلسہ سالانہ کا آغاز 1891ء میں اس چھوٹی سی بستی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا.اور اس کا مقصد اللہ اور اس کی مخلوق سے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے لوگوں کا ، مومنوں کا ایک تعلق جوڑ نا تھا.اس جلسے کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہ مجھو، یہ دنیا چند روزہ ہے، آخر کو انسان نے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اس لئے اپنی آخرت کی بھی فکر کرو، اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرو.شیطان بہت سے دنیاوی لالچ دے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگتے ہوئے شیطان کے

Page 739

خطبات مسرور جلد سوم 732 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء حملوں سے بچنے کی کوشش کرو.اپنے اندر زہد اور تقویٰ پیدا کرو.خدا ترسی کی عادت ڈالو.آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کے تعلقات پیدا کرو.کیونکہ یہ آپس کے معاشرے کے تعلقات خدا تعالیٰ کا خوف اور زہد و تقویٰ پیدا کرنے کے لئے بھی ضروری ہیں.اور اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے بھی ضروری ہیں.شیطان کے حملوں سے بچنا، اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرنا یہ سب چیزیں اُس وقت ہوں گی جب افراد جماعت عاجزی کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہوں گے اور سچائی کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہوں گے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے اور اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہوں گے.تو یہ ہے خلاصہ ان مقاصد کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جلسہ سالانہ منعقد کر کے حاصل کرنا چاہتے تھے.اور یہ مقاصد ہم اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا نہیں ہوتا ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کی روح اور تڑپ پیدا نہیں ہوتی.اب یہاں جلسے کی گہما گہمی شروع ہوگئی ہے، رونقیں شروع ہو گئی ہیں.باہر سے آنے والا ہر مہمان اور یہاں کا رہنے والا ہر شخص صرف اس رونق کو دیکھ کر اور بازاروں میں پھر کر خوش نہ ہو بلکہ ابھی سے جلسے کے استقبال کے لئے جو ایک لحاظ سے شروع بھی ہو چکا ہے دعاؤں میں مشغول ہو جائے.ہر ایک اس جلسے کی برکات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے کی گئی دعاؤں کا وارث بننے کے لئے دعاؤں میں مصروف ہو جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ ان برکات کو سمیٹ سکے.نیز جلسے کے ہر لحاظ سے کامیاب ہونے اور اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدات اور رحمتوں اور فضلوں کے نازل ہونے کے لئے بھی دعائیں کریں.جو لوگ اس مقصد کے لئے سفر اختیار کر کے آ رہے ہیں ان کے خیر و عافیت سے یہاں پہنچنے کے لئے دعا کریں.دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ آرہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ان کا حافظ ہو.بھارت کے دُور دراز علاقوں سے لوگ آرہے ہیں یا آنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن مخالفین کی بعض حرکات کی وجہ سے انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.ان بے چارے غریب لوگوں کے لئے دعا کریں، بڑی تکلیف اٹھا کر جلسے میں شامل ہونے کے لئے آرہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں سفر کے ہر شر سے بچائے اور

Page 740

خطبات مسرور جلد سوم 733 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء ہر خیر ان کا مقدر کر دے.سفر کئی طرح کے ہوتے ہیں لیکن بہت ہی بابرکت ہے وہ سفر جو دینی اور روحانی اغراض کے لئے کیا جائے.اس لئے جہاں بہت سے لوگوں کو دعاؤں کا موقع مل رہا ہوگا اپنے ساتھ ان سب کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں جو یہاں آ رہے ہیں، سفر میں ہیں یا آنے کی خواہش اور تڑپ رکھتے ہیں لیکن بعض مجبوریوں کی وجہ سے آ نہیں سکے.جلسے کی مناسبت سے میں یہاں کے رہنے والوں، کارکنوں اور مہمانوں کو چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال ایسے مہمان بھی یہاں آئے ہیں جو بڑی کوشش کر کے دور دراز علاقوں سے یا دوسرے ملکوں سے یہاں آئے ہیں یا آ رہے ہیں.میرے یہاں آنے کی وجہ سے بعض ایسے لوگ بھی آئے ہیں اور مجھے ملے ہیں جو صحت کی کمزوری یا دوسری روکوں کے با وجود راستے کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی نیک خواہشات کو اور تمناؤں کو اور دعاؤں کو جن کو لے کر وہ یہاں آئے ہیں قبول فرمائے.یہ سب لوگ بڑے پیار اور خلوص سے مل رہے ہیں.آنکھوں میں پہچان اور شدت کے جذبات ہیں اور یہ جذ بات بالکل نئے احمدیوں میں بھی ہیں جنہوں نے ایک دو سال پہلے بیعت کی ہے.یوں لگتا ہے کہ جیسے صدیوں کے بچھڑے ملے ہوں.یہ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری جماعت کی خلافت سے محبت کی وجہ سے ہے.یہ حالت دیکھ کر ، آپ لوگوں کے، مہمانوں اور یہاں کے رہنے والوں کے اخلاص و وفا اور تعلق کو دیکھ کر بے اختیار اللہ تعالیٰ کی اس پیاری جماعت پر پیار آتا ہے.احمدیوں کی یہاں چھوٹی سی جگہ ہے، یہاں کی احمدی آبادی کے جس گلی کوچے میں جاؤ نعرہ تکبیر اور اللہ اکبر کی صدا گونج رہی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ حقیقت میں اپنی کبریائی ہر احمدی کے دل میں راسخ کر دے.جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی بڑائی کی حقیقت کو پائے رکھیں گے اس وقت تک راستے کی کوئی روک ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی.پس ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے اپنے رب کی پہچان، فہم و ادراک اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کے مطابق

Page 741

خطبات مسرور جلد سوم 734 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء عمل کرنے والے ہوں کہ : ”اے سننے والو سنو کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم اُس کے ہو جاؤ ، اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، نہ آسمان میں نہ زمین میں“.اللہ ہمیں ایسا بنا دے، ہم اس کے ہر حکم پر عمل کرنے والے بن جائیں.اس کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بن جائیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تعداد میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کی مثالیں ہمیں جماعت احمدیہ کے اندر نظر آتی ہیں.زبان، معاشرہ، قبیلہ، قوم، ملک مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی پہچان ہے، ایک دوسرے کے لئے قربانی کا شوق ہے.آج آپ دیکھ لیں بہت سے لوگ مختلف جگہوں سے آئے ہیں جو اس حسین معاشرے کے گواہ ہیں.قادیان کی مختصر سی احمدی آبادی آنے والوں کے لئے کس طرح خوشی سے اپنے آراموں کو تج کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت پر کمر بستہ ہے.اپنے گھر مہمانوں کو دیئے ہوئے ہیں.جن کے زیادہ مہمان آ رہے ہیں، انہوں نے اگر صحنوں میں گنجائش ہے تو صحنوں میں چھولداریاں یا خیمے لگا کر رہائش کی جگہیں بنائی ہوئی ہیں.یہ نظارے دیکھ کر ربوہ کے جلسوں کے نظارے بھی نظر کے سامنے گھوم جاتے ہیں ، جب وہاں جلسے ہوتے تھے تو یہی نظارے نظر آتے تھے.یہ بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اہل ربوہ اور اہل پاکستان کی بے بسی کے دن بھی اپنے فضلوں سے بدلے اور وہ چہل پہل ، وہ رونقیں ، وہ قربانیوں کی مثالیں، دوبارہ وہاں جاری ہو جائیں.تو بہر حال میں یہ کہہ رہا تھا کہ خدا کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آنے والے مہمانوں کی اہل قادیان خوب خدمت کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور یہ سب اپنے گھر بار اور جو بھی دوسری سہولتیں میسر ہیں، اس پاک مقصد کے لئے آنے والے مہمانوں کے لئے مہیا کر رہے ہیں.24 گھنٹے ان کے لئے اپنی خدمات وقف کی ہوئی ہیں.لیکن جب کام کی زیادتی ہو تو غیر ارادی طور پر بعض دفعہ کارکنان سے مہمانوں کی دل آزاری ہو جاتی ہے.کارکنان کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے ، جیسا کہ کل بھی میں نے مختصراً کارکنان کے معائنہ کے وقت خطاب میں کہا

Page 742

خطبات مسرور جلد سوم 735 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء تھا کہ جو بھی حالات ہوں، انتہائی وسیع حوصلگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے.بعض دفعہ ایسے مواقع پیش آ جاتے ہیں کہ مہمان کی طرف سے کسی بات کا مطالبہ ہوتا ہے جو یا تو جلسے کے حالات کے مطابق جائز نہیں ہوتا یا فوری طور پر اس کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا تو مہمان اس بات پر سخت رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور جواباً کارکن بھی اسی رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ ایک کارکن کو زیب نہیں دیتا.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ہر حالت میں اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے اس لئے احتیاط کریں.بعض نئے معاونین بھی ہوتے ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ اس خدمت کا اعزاز پایا ہے بعض طبیعت کے لحاظ سے گرم مزاج کے یا غصیلے ہوتے ہیں.وہ یاد رکھیں کہ اگر اپنی طبیعت پر کنٹرول نہیں تو ڈیوٹی سے معذرت کر دیں.یہ زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ بداخلاقی کا مظاہرہ کیا جائے جو کسی بھی صورت ایک احمدی کارکن کو زیب نہیں دیتا.ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی خاطر آئے ہوئے مہمان ہیں.اس لئے مومن کی یہ شان ہے کہ ان کا احترام کرے.اللہ تعالیٰ نے مومن متقی کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ الناس (آل عمران: (135) یعنی مومن غصہ کو دبانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں.تو جب عام انسان سے بھی اس سلوک کا حکم ہے تو جو اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف برداشت کر کے آتے ہیں.ان سے تو بڑھ کر عفو اور درگزر کا سلوک ہونا چاہئے اور خدا تعالیٰ کے اس حکم پر بھی عمل ہونا چاہئے کہ ﴿وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا ﴾ (البقرہ: 84) یعنی لوگوں سے پیار اور محبت سے بات کیا کرو.یقین ممکن ہے کہ اپنے رویے کی سختی کے بعد آپ کے نرم رویے اور درگزر اور پیار کو دیکھ کر مہمان خود ہی شرمندہ ہو کر اپنے بے موقع مطالبے سے دست بردار ہو جائے.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ یہ آنے والے مہمان نیک ارادے سے آنے والے ہیں یقیناً کارکنان کے اعلیٰ اخلاق کے رویے سے ان میں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کا احساس بڑھے گا جبکہ آپ کے سخت رویے سے سوائے کج بحثی یا جھگڑے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا.پھر یہاں کارکنان بھی دو قسم کے ہیں.ایک تو یہاں بھارت کے رہنے والے ہیں جن میں آگے پھر قسمیں ہیں.معاشرے اور روایات کے لحاظ سے فرق ہے.ایک تعداد تو یہاں

Page 743

خطبات مسرور جلد سوم 736 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء قادیان کے رہنے والوں کی ہے.یہ باوجود مختلف قومیتوں کے ہونے کے کم و بیش ایک مزاج کے ہیں.ان پر ماحول نے کچھ اثر ڈالا ہوا ہے.ان میں جامعہ وغیرہ کے طلباء بھی ہیں ان پر بھی خاص ماحول کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ وہ واقف زندگی ہیں اور خدا کی رضا کے حصول کے لئے انہوں نے اپنی زندگیاں گزارنے کا عہد کیا ہے.کچھ تربیت اور ٹریننگ کا اثر ہوتا ہے ان کے مزاج بدلتے ہیں.اور ہر اس طالب علم کا جس نے اپنی زندگی وقف کی ہے بلکہ ہر واقف زندگی کا مزاج بدلنا چاہئے.دوسرے کچھ کارکنان ہندوستان کے جنوب سے یا کشمیر سے آنے والے ہیں.یہی مجھے زیادہ نظر آئے ہیں ، جب میں دو تین جگہ پر گیا ہوں.ان کے رہن سہن میں ، معاشرے میں بہت فرق ہے.اس لئے بعض دفعہ مزاجوں کے خلاف بات ہو جائے یا کسی وجہ سے غلط فہمی ہو جائے تو آپس میں رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں.پھر جیسا کہ میں نے کہا باہر سے آنے والوں کی دوسری قسم خاص طور پر پاکستان سے آنے والے کارکنان بھی ہیں جو شوق سے ڈیوٹیاں دے رہے ہیں.تو یاد رکھیں کہ آپ جس جذبے کو لے کر آئے ہیں اس جذبے کے ساتھ خدمت کر سکتے ہیں.آپ کو بعض مجبوریوں کی وجہ سے وہاں موقع نہیں ملتا.بعض کے لئے یہ بالکل نیا کام ہے اس لئے بعض کو شاید کام کرنے میں دقت بھی ہو، سمجھ نہ بھی آتی ہو کہ کیا کرنا ہے.لیکن اگر بے لوث خدمت کے جذبے سے اور اپنے افسر کی اطاعت کے جذبے سے کام کریں گے تو آپ خدمت کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی ہوں گے.تو دونوں قسم کے کارکنان یہ یادرکھیں کہ یہاں آپ کسی جگہ کے خاص شہری ہونے یا کسی خاص قبیلے یا علاقے کے ہونے کی وجہ سے کام نہیں کر رہے بلکہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے کر رہے ہیں اور کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے اس لئے ایک احمدی کا نمایاں وصف چاہے وہ کہیں کا بھی شہری ہو یہ ہونا چاہئے کہ اس نے اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتے ہوئے خدمت کرنی ہے، اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے خدمت کرنی ہے، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدمت کرنی ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں تبھی آپ کا یہ جذ بہ ہر وقت بیدار رہے گا.اور

Page 744

خطبات مسرور جلد سوم 737 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس نبی کے غلام ہیں جس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے کو مہمان کی عزت اور تکریم کرنے کے لئے حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ تین دن تک اس کی مہمان نوازی کرو.اس طرف خاص توجہ دلائی ہے.اللہ اور یوم آخرت پر ایمان سے مہمان نوازی کو باندھا ہے.تو اس حدیث میں یہ تین دن کی مہمان نوازی کی جو ہدایت ہے یہ تو مہمان کو احساس دلانے کے لئے ہے کہ میزبان پر بوجھ نہ پڑے.لیکن اگر نظام جماعت کی طرف سے زائد عرصہ کی میزبانی ہو رہی ہے تو آپ لوگوں نے جو اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے تو آپ سب کو ، تمام کارکنوں کو اتنا عرصہ خوش دلی سے میز بانی کرنی چاہئے.اور پھر آپ اس غلام صادق کے نمونے دیکھیں کس قدر خوبصورت ہیں کہ اندھیری راتوں میں لالٹین کی روشنی میں جا کر مہمان کو دودھ پلا رہے ہیں.مہمان آتے ہیں تو خود ہی طشتری میں کھانا لگا کر مہمان کے لئے لا رہے ہیں اور کبھی کسی طرح اور کبھی کسی طرح مہمان کی مہمان نوازی کے اہتمام کر رہے ہیں.آسام سے آئے ہوئے مہمانوں کے بارہ میں مشہور واقعہ ہے کہ وہ آئے اور کسی وجہ سے مہمان خانے کے عملے سے ناراض ہو کر چلے گئے.تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پتہ لگا کہ مہمان ناراض ہو کر ٹانگے میں بیٹھ کر واپس روانہ ہو گئے ہیں تو کس طرح آپ ان کے پیچھے جلدی جلدی روانہ ہوئے.اتنی جلدی میں کہ جوتی بھی چلتے چلتے پہنی.اور جب راستے میں ان مہمانوں کو جالیا، ان کو راستے میں پکڑ لیا، ان کے پاس پہنچ گئے ، تو حضور علیہ السلام نے ان سے خود ہی لنگر خانے کے عملے کے رویے پر معذرت کی.ان کو واپس چلنے کے لئے کہا.پھر ان کو ٹانگے پر بٹھانے کی کوشش کی کہ میں پیدل چلتا ہوں آپ ٹانگے پر بیٹھ کر چلیں.لیکن مہمان بھی شرمندہ تھے.وہ ساتھ چلے اور واپس آئے ، آخر قادیان پہنچے.حضور علیہ السلام نے خود ہی ٹانگے سے سامان اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا.مہمان بھی شرمندہ ہیں روک رہے ہیں اور خود ہی سامان اتارنا چاہتے ہیں.مہمان خانے کا عملہ بھی شرمندہ ہے فوراً سامان اتارنے کے لئے آگے بڑھا.پھر آپ نے عملے کو نصیحت کی کہ مہمان دُور سے آئے ہیں ان کے

Page 745

خطبات مسر در جلد سوم 738 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء جذبات کا خیال رکھا کرو.پھر ان کے علاقے کے رواج اور مزاج کے مطابق ان کے لئے خاص طور پر کھانا تیار کروایا.تو یہ ہیں نمونے مسیح پاک علیہ السلام کے.پھر کچھ عرصے بعد آخری عمر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے، طبیعت کی وجہ سے بھی اور مہمانوں کی زیادہ آمد کی وجہ سے بھی خود تو اس طرح براہ راست نگرانی نہیں کر سکتے تھے تو لنگر خانے کے، مہمان خانے کے نگران کو ہدایت کی کہ مہمانوں کا خیال رکھا کرو.میں نے تم پر اعتماد کیا ہے اس اعتما پر پورا اتر و.تو بہر حال یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ اب ان جلسوں پر آپ لوگ ہیں یا کارکنان ہیں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے کہ مہمانوں کی خدمت کریں.اس لئے پوری طرح حق مہمان نوازی ادا کریں.ہمیشہ یادرکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان جو یہاں آتے ہیں ان میں امیر بھی ہوتے ہیں غریب بھی ہوتے ہیں لیکن آپ نے ان سب کی خدمت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان سمجھ کر کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کے دنوں میں جو یہ حکم دیا ہوا تھا کہ ایک ہی کھانا پکا کرے گا اس لئے تھا کہ سب مہمان برابر اور ایک طرح ٹریٹ (Treat) کئے جائیں، ایک طرح ان کی خدمت کی جائے تاکہ مہمانوں کی مہمان نوازی میں کسی قسم کی تخصیص نہ ہو کہ یہ خاص مہمان ہیں اور یہ عام مہمان ہیں.تو آج بھی یہ روایت قائم ہے.لنگر خانوں میں ایک طرح کا کھانا پکتا ہے بلکہ بعض لوگ اپنے گھروں میں ٹھہر نے والے مہمانوں کے لئے علیحدہ کھانا بھی تیار کرتے ہیں لیکن اکثر یہ ہوتا ہے کہ مہمان لنگر خانے کے کھانے کو زیادہ پسند کرتے ہیں.تو بہر حال بات یہ ہو رہی تھی کہ مہمانوں کی عزت اور احترام اور تکریم کرنی ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا بعض دفعہ ایسے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں کہ سختی کرنے کی مجبوری ہوتی ہے.نہ چاہتے ہوئے بھی غیر ارادی طور پر سختی ہو جاتی ہے.لیکن ایک کارکن کو اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے تب بھی جذبات پر کنٹرول کرنا چاہئے غلطی سے کوئی لفظ نکل بھی جائے تو فوری طور پر معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کرنا چاہئے.جیسا کہ میں پہلے بھی بتا آیا ہوں کہ یہاں مختلف ملکوں اور معاشروں اور مزاجوں کے کارکنان ہیں لیکن آپ سب نے آپس میں ایک ہو کر کام کرنا ہے.آپس میں پیار محبت اور قربانی

Page 746

خطبات مسرور جلد سوم 739 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء کے اعلیٰ نمونے دکھانے ہیں.بعض دفعہ بعض نوجوان جو زیادہ جوشیلی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں ذراسی بات پر جوش میں آجاتے ہیں اور جھگڑ کر نہ صرف فضا کو مکدر کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ہی دوسروں پر، غیروں پر ، دیکھنے والوں پر بھی جماعت کا اچھا اثر قائم نہیں کر رہے ہوتے.اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ جہاں بھی آپ خدمت کر رہے ہیں وہاں بعض عملہ یا کام کرنے والے غیر از جماعت یا غیر مسلم بھی ہوتے ہیں مثلاً لنگر خانوں وغیرہ میں آپ مزدوروں کو کسی قسم کی غلط حرکت کر کے غلط تاثر دے رہے ہوں گے.پس اس سے بھی بچیں.کچھ عرصے کی بات ہے مجھے ایک نوجوان نے لکھا کہ 1991ء میں آپ کی یہاں ڈیوٹی تھی ، یعنی میری یہاں ڈیوٹی تھی.اُس وقت میں نے لنگر خانہ نمبر 1 میں بطور نائب ناظم کے لنگر میں ڈیوٹی دی تھی.اس لڑکے کی بھی یہاں ڈیوٹی تھی یہیں قادیان انڈیا کے رہنے والے تھے.اس لڑکے نے کہا کہ اسے غصہ آ گیا اور وہ کہتا ہے کہ میں نے ایسے الفاظ کہے جس سے پاکستانی معاونین اور کام کرنے والے، ڈیوٹی دینے والے جو آئے ہوئے تھے، ان کے خلاف غصے کا اظہار ہوتا تھا.تو مجھے اس نوجوان نے لکھا کہ اس وقت میں بالکل نو جوانی کی عمر میں تھا.اس لئے غصہ بھی زیادہ آتا تھا تو آپ نے مجھے دیکھا اور اس بات پر کچھ نہیں کہا اور مسکرا دیئے.اور میرے دوبارہ یا تیسری مرتبہ کہنے پر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پیار سے سمجھایا کہ ہم کس طرح ڈیوٹی دیں گے؟ ہم کون ہیں؟ اس نوجوان پر اثر ہوا ہو گا تو اس نے یہ بات آج تک یاد رکھی ہے ور نہ اس وقت میں نائب ناظم کی حیثیت سے اس کی سرزنش کرتا یا شکایت کرتا یا پاکستانی جو دوسرے معاونین تھے ان کے غصے کو بھڑ کنے دیتا تو صرف نفرتیں بڑھتیں اور کچھ بھی نہ ہوتا.تو یہ بات اس نے بارہ تیرہ سال یا درکھی ہے اور اب مجھے لکھی ہے.تو آپس میں ڈیوٹیاں دینے والے پیار محبت سے کام کیا کریں.اس طرح جہاں کام کے بہتر نتائج نکلیں گے وہاں آپ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بھی ٹھہریں گے.وہاں آپ جماعت کا نیک اثر قائم کرنے والے بھی ہوں گے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس طرح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 747

خطبات مسرور جلد سوم 740 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء پھر بعض دفعہ افسران قومیت کے کمپلیکس (Complex) کی وجہ سے اپنے ماتحت افسران سے بلا وجہ چڑ جاتے ہیں.یہ ساری عملی باتیں ہیں جو سامنے آتی ہیں جن کو میں بیان کر رہا ہوں اور میں دیکھ چکا ہوں.اس سے کام پر بہت برا اثر پڑتا ہے.معاونوں اور مزدوروں کے کاموں پر بھی اثر پڑ رہا ہوتا ہے اس لئے افسران صیغہ جات بھی اپنے ماتحتوں اور دوسرے شعبے کے افسران کے متعلق وسعت حوصلہ سے کام لیا کریں.افسران شعبہ جات تو بہر حال یہیں کے رہنے والے ہیں، اکثریت ان میں سے قادیان کی ہے یا شاید مربیان بھی ہوں گے.باہر سے آنے والے کارکنان مکمل طور پر ان سے تعاون بھی کریں اور ان کی اطاعت بھی کریں، کسی قسم کا شکوہ نہ پیدا ہونے دیں.لیکن بہر حال دونوں طرف سے ایک دوسرے کی خاطر بعض چیزیں برداشت کرنی پڑتی ہیں.ناظمین یا افسران شعبہ یا شعبوں کے جو انچارج ہیں وہ بھی یہ یاد رکھیں کہ بحیثیت نگران آپ کی تمام تر ذمہ داری ہے کہ شعبے کا کام صحیح طور پر اور صحیح نہج پر چل رہا ہو.اگر پاکستان سے آئے ہوئے کارکنان یا کسی دوسرے ملک سے آئے ہوئے کارکنان یا کوئی بھی کارکنان جو آپ کی مدد کے لئے لگائے گئے ہیں، وہ صرف آپ کی مدد کے لئے لگائے گئے ہیں چاہے وہ کسی بھی عمر یا لیول (Level) کے ہوں.اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ یہاں کے جو افسران اور انچارج بنائے گئے ہیں ان کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے.بلکہ کسی بھی شکایت یا بے قاعدگی کی صورت میں جوابدہ شعبہ کا افسر ہوگا.اس لئے کبھی آپ لوگوں کا یہ جواب نہ ہو کہ فلاں شخص جو پاکستان سے آیا تھا یا فلاں شخص جو فلاں ملک سے آیا تھا اور جس کو انتظامیہ نے اس کے تجربے کی و جہ سے ہمارے ساتھ لگا دیا تھا اس کی وجہ سے بعض خرابیاں پیدا ہوئی ہیں.جس کی بھی کوتاہی ہو چاہے وہ معاون کی ہو افسران شعبہ یا نگران صیغہ جات کی جو بھی ہوں جو قادیان یا بھارت کے رہنے والے ہیں وہی ذمہ دار ہیں.اور بحیثیت افسر وہ اپنے سب کارکنوں کے نگران ہیں.اور یہی اصول ہمیں بتایا گیا ہے کہ نگران ہی اپنی زیر نگرانی کام کرنے والوں کے لئے یا اپنی رعایا کے عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا.پھر جیسا کہ میں نے کل معائنے کے دوران بھی کہا تھا کہ کارکنوں کی ڈیوٹیوں کی ادائیگی

Page 748

خطبات مسرور جلد سوم 741 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء کی نگرانی بھی آپ نے کرنی ہے ان کے اخلاق کی نگرانی بھی آپ نے کرنی ہے ، ان کی نمازوں کی ادائیگی کی پابندی کے بارے میں بھی آپ ذمہ دار ہیں.تو ہر شعبے کا ہر کارکن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے مقرر کیا گیا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ جس طرح ہر مہمان کے لئے چاہے وہ غریب ہے یا امیر ہے جیسا کہ میں نے کہا، مہمان نوازی، کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام کرنا ہے.اسی طرح ہر مہمان کی عزت کرنا بھی آپ پر فرض ہے.اور کارکنوں کے یہی نمونے ہیں جو نئے آنے والوں کو مزید قریب لانے کا موجب بنتے ہیں.یہ نہ ہو کہ اچھے کھاتے پیتے مہمان کی خدمت تو ہو رہی ہو.ان کی عزت واحترام تو ہورہا ہو اور یہاں دُور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت میں کوتاہی ہورہی ہو.پھر جو باہر سے، دوسرے ملکوں سے مہمان آرہے ہیں وہ بھی خیال رکھیں کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جلسے میں شامل ہونے کے لئے آ رہے ہیں یا آئے ہیں ، جو خالصتا اللہ تعالیٰ کے قریب لانے اور دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے منعقد کیا جارہا ہے اور کیا جاتا ہے.اس لئے آپ یہاں آ کر اس ماحول کے تقدس اور احترام کا بھی خیال رکھیں.اس میں سلام کو رواج دینا بھی ہے، ایک دوسرے سے محبت سے ملنا ہے، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا ہے.سلام کو رواج دینا صرف سارے مہمانوں کا کام ہی نہیں بلکہ مہمان ہوں، میز بان ہوں، باہر کے ہوں، آپس میں اس ماحول میں سلام کو خوب رواج دیں تا کہ ہر غریب امیر میں یہ احساس پیدا ہو کہ ہم ایک جماعت ہیں.معاشرے اور مالی حالات کے فرق کے باوجود بحیثیت انسان، بحیثیت احمدی ہم بھائی بھائی اور ایک دوسرے کے لئے باعث عزت و تکریم ہیں.یہ نمایاں وصف ہے جو ہر احمدی میں ان دنوں میں نظر آنا چاہئے.کسی کا علم کسی کی نیکی یا اور خصوصیات بے فائدہ ہیں اگر اپنے غریب بھائیوں کے لئے دل میں عزت و احترام نہیں ہے.پھر میں مہمانوں سے بھی یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ جو ایک نیک مقصد کے لئے یہاں آ رہے ہیں اس مقصد کو حاصل کرنے کی طرف ہمیشہ نظر رکھیں.اپنے میز بانوں سے

Page 749

خطبات مسرور جلد سوم 742 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء انتظامیہ سے غیر ضروری توقعات وابستہ نہ کریں.بے آرامی بھی اگر ہو تو اس کو برداشت کریں.جلسے کے یہ چند دن ہیں اور پھر آپ آئے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہیں.باہر سے جو آنے والے ہیں خاص طور پر یورپ وغیرہ سے، بعض اوقات ان کو سردی بھی لگے گی، خاص طور پر گھروں کے اندر سردی لگے گی، کیونکہ وہاں ان کو ہیٹنگ (Heating) کی عادت ہے، یہاں وہ چیزیں اور وہ سہولتیں میسر نہیں.لیکن اگر آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر برداشت کر رہے ہوں گے تو اس کوفت میں بھی مزا آئے گا.بستروں کے لئے میں گزشتہ خطبے میں بھی بتا چکا ہوں کہ لے کر آئیں.جو آ گئے ہیں اگر نہیں لائے تو یہاں سے خریدنے کا انتظام کریں، انتظامیہ سے رابطہ کر کے جو بھی میسر ہو سکتا ہے بہر حال جو تو فیق رکھتے ہیں وہ خریدیں تا کہ نظام پر بوجھ نہ پڑے.پھر جب جلسہ ختم ہوگا اور اگر آپ کے بستر بہتر حالت میں اور نئی حالت میں اور اچھی حالت میں ہوں تو جاتے ہوئے آپ یہاں کے انتظام جلسہ کو دے کر جا سکتے ہیں تا کہ اگلے سال مہمانوں کے کام آ سکیں.یہ بھی آپ کے لئے ایک ثواب کمانے کا ذریعہ ہے.تو بہر حال جن کو یہاں کے انتظام کے تحت بستر ملیں، جیسے بھی ہیں اس پر صبر شکر کریں.اس سال آج تو کچھ سردی کا ذرا سا زور ہے، 1991ء کی نسبت تو بہت کم سردی ہے شاید جلسے کے دنوں میں بڑھتی چلی جائے.بہر حال 1991ء میں مجھے یاد ہے کہ شدید سردی تھی اور رضائی اور لحاف نا کافی ہوتے تھے اس لئے سویٹر اور جیکٹ پہن کر ہی سونا پڑتا تھا.تو بہر حال مہمان یہ بات یاد رکھیں کہ بجائے میزبان سے توقعات رکھنے کے خود جس حد تک انتظام کر سکتے ہیں جو آسودہ حال ہیں وہ اپنے انتظام کریں تا کہ جو غریب ہیں ان کے لئے جو انتظام ہے اس کے تحت جس حد تک سہولت میسر کی جاسکتی ہے، کی جا سکے.اللہ تعالیٰ سب مہمانوں کو صبر اور برداشت سے یہ دن گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً احمدی جو جلسے پر آتے ہیں اسی جذبے کے تحت آتے ہیں.لیکن بعض دفعہ بعض غصیلی طبیعتیں یا نازک مزاج اپنے رویے کی وجہ سے انتظامیہ کے لئے بھی تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں اور ماحول کو بھی خراب کر رہے ہوتے

Page 750

خطبات مسرور جلد سوم 743 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء ہیں.اس لئے ایسی صورت جب ہو تو مہمان خود بھی جو ایک دوسرے کے واقف ہیں، ایک دوسرے کو پیار اور حکمت سے سمجھاتے رہیں.پھر سب احمدی چاہے وہ میزبان ہیں یا مہمان ،اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ یہاں ہمارے جلسے پر بہت سے غیر از جماعت اور غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں.شوق سے شامل ہونے کے لئے آ جاتے ہیں اور عموماً بڑے متاثر ہو کر جاتے ہیں اور اب تو ایم ٹی اے کے کیمروں کی نظر بھی آپ پر ہوگی.اس لئے جلسے کے دوران اور سڑکوں وغیرہ پر آپ کی ہر حرکت اور سکون سلجھا ہوا ہونا چاہئے جو دوسروں پر نیک اثر ڈالنے والا ہو.یہاں کی ایک بڑی پڑھی لکھی شخصیت ہیں ، ان کے زیر انتظام سکول بھی چلتے ہیں مجھے ملنے آئے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ میں بچپن سے اپنے والد صاحب کے ساتھ جلسے پر آ رہا ہوں اور اب تو عادت پڑ گئی ہے اس لئے ہمیشہ شامل ہوتا ہوں حالانکہ وہ غیر مسلم تھے.انہوں نے بتایا کہ والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ قطع نظر اس کے کہ ہمارے مذہب اور احمدیوں کے مذہب میں فرق ہے لیکن جو باتیں جلسے میں ہوتی ہیں وہ ایسی پیاری اور نیکی کی باتیں اور نیکی کی طرف بلانے والی باتیں ہوتی ہیں کہ انہیں ضرور سننا چاہئے اور اس لئے میں شامل ہوتا ہوں.تو دیکھیں غیروں پر بھی ہمارے جلسوں کا ایک نیک اثر ہے.ہمارے بزرگوں نے جواثر پیدا کیا اور اسے قائم رکھا.ہمارا بھی کام ہے کہ اپنی روایات کو قائم رکھیں.جس تعلیم کا دعویٰ ہے اس پر سختی سے کار بند ہوں.اس پر عمل کرنے والے ہوں.اپنی بھی اصلاح کریں اور دوسروں کے لئے بھی نیک نمونے قائم کریں.اس لئے ہر احمدی کو یہ عہد کرنا چاہیئے کہ اس نے نیک اور پاک نمونوں کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہے.اگر ہم صرف نیک باتیں کرتے ہیں اور ان پر عمل نہیں کرتے تو یہ نیکی کی باتیں بے فائدہ ہیں.ایک احمدی میں کبھی بھی دو عملی نہیں ہونی چاہئے.یہ جلسے بھی ہماری تبلیغ کے ذریعے ہیں اس لئے ہر احمدی کو جو اس میں شامل ہونے کے لئے آتا ہے اپنی اصلاح کی طرف ان دنوں میں توجہ دینی چاہئے اور اپنے قول و فعل کو ایک کرنا چاہئے ، اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہی حکم ہے.فرمایا ہے ﴿يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ - كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 3-4) یعنی اے مومنو! وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں.خدا کے نزدیک

Page 751

خطبات مسرور جلد سوم 744 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء اس بات کا دعوی کرنا جو تم کرتے نہیں بہت ناپسندیدہ ہے.اس کے عذاب کو بھڑ کانے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ : یا د رکھو کہ صرف لفاظی اور استانی کام نہیں آسکتی جب تک عمل نہ ہو.اور باتیں عند اللہ کچھ وقعت نہیں رکھتیں“.رپورٹ جلسه سالانه 1897ء صفحه 80) یعنی ادھر ادھر کی باتیں مارنا یا بہانے کرنا یا وضاحتیں کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ وقعت نہیں رکھتیں.عمل ہی ہے جو وقعت رکھنے والی چیز ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ: ”اسلام کا دعویٰ کرنا اور میرے ہاتھ پر بیعت تو بہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ جب تک ایمان کے ساتھ عمل نہ ہو کچھ نہیں.منہ سے دعویٰ کرنا اور عمل سے اس کا ثبوت نہ دینا خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانا ہے اور اس آیت کا مصداق ہو جانا ہے ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ - كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴾ (الصف: (43)..پس وہ انسان جس کو اسلام کا دعوی ہے یا جو میرے ہاتھ پر تو بہ کرتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو اس دعوے کے موافق نہیں بناتا اور اس کے اندر کھوٹ رہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے بڑے غضب کے نیچے آ جاتا ہے.اس سے بچنا لازم ہے.“ (الحكم مورخه 10 جولائی 1903ء صفحه 15 کالم نمبر 2) اس غضب سے بچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: دعائیں کرتے رہو کوئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا جب تک خدا نہ رکھے.(الحكم مورخه 24 مارچ 1903ء صفحه 8 کالم نمبر 1 (2) پس آپ سب جن کو اللہ تعالیٰ نے جلسے سے چند دن پہلے میچ پاک کی اس روحانیت سے پُر اور پیاری بستی میں آنے کا موقع دیا ہے، مختلف جگہوں پر جاتے ہیں، پرانی عمارتیں ہیں ، بہشتی مقبرہ ہے، ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے.تو یاد رکھیں کہ آپ نے اپنے قول و فعل میں یک رنگی پیدا کرنی ہے اور یہ کیفیت پیدا کرنے کے لئے دعائیں کرنی ہیں.جو آ رہے ہیں وہ بھی یہاں کے دن رات دعاؤں میں گزار ہیں.اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والا بنائیں اور اپنے

Page 752

خطبات مسرور جلد سوم 745 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء نمونوں سے غیروں پر بھی نیک اثرات قائم کریں.ہر جگہ ہر موقع پر آپ سے اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے ، بازاروں میں پھرتے ہوئے ،سودے خریدتے ہوئے ، جو غیر مسلم ہیں ان سے باتیں کرتے ہوئے اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے ، کوئی بھی غیر ضروری اور غیر اخلاقی بات کسی احمدی کے منہ سے نہ نکلے.مختلف شخصیات جو مجھے ملی ہیں ان سے ملنے سے یہی تاثر ملتا ہے بلکہ بعض نے تو کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کی نظر میں قادیان کو ایک خاص مقام حاصل ہے.ہر احمدی جو یہاں مختلف جگہوں سے آیا ہے وہ یادر کھے کہ اس نے اس کے مقام اور تقدس کو مزید اجاگر کرنا ہے.یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم سچے دل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا، یہی آپ کا نیک نمونہ خاموش دعوت الی اللہ اور تبلیغ ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.جلسے کے دنوں میں یہاں مختلف جگہوں سے مہمان بھی آئے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے لئے نئی شکلیں ہوں گی ، پہچانتے بھی نہیں ہوں گے کیونکہ قادیان کی تھوڑی سی آبادی ہے، اس سے پانچ چھ گنا زیادہ آبادی باہر سے آئی ہوگی تو ایسے مجمعوں میں بعض دفعہ شرارتی عنصر یا ایسا طبقہ آ جاتا ہے جو شرارت کرنے والا ہو.اس لئے جب تک کسی کے بارے میں صحیح علم نہ ہو جائے محتاط بھی رہیں اور نظر بھی رکھیں.کیونکہ ایسے لوگوں کی بعض حرکتیں شک میں ڈال دیتی ہیں.اگر کسی پر شک ہو تو ہر احمدی کو نظر رکھنی چاہیئے اور فوری طور پر انتظامیہ کو بھی بتا دینا چاہئے.خاص طور پر عورتوں میں نگرانی کی خاص ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں لمبی تربیت کے بعد اس طرف توجہ پیدا ہو چکی ہے اور عموماً لوگ اس کا احساس کرتے ہیں.آپ کو انتظامیہ کی طرف سے تحریراً بھی ہدایات دی جارہی ہیں یا مل چکی ہیں، اعلان بھی ہوتا رہتا ہے.کوئی مشکوک چیز دیکھیں، کوئی مشکوک آدمی دیکھیں کوئی اور ایسی چیز دیکھیں جس سے آپ کے دل میں شک گزرے تو فوری طور پر انتظامیہ کو اطلاع کریں.اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہمارے ساتھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب سے بڑھ کر ہماری حفاظت تو اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے.لیکن بعض نئے آنے والوں کو ، نو جوانوں کو میں اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کیونکہ ہر

Page 753

خطبات مسرور جلد سوم 746 خطبہ جمعہ 23 / دسمبر 2005ء احمدی کی یہ ٹریننگ بھی ہونی چاہئے کہ وہ محتاط بھی ہو، نظر رکھنے والا بھی ہو اور ہوشیار بھی ہو.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور آپ سب اس بستی اور اس جلسے کی برکتیں اور روحانیت سمیٹنے والے ہوں.谢谢谢

Page 754

خطبات مسرور جلد سوم 747 (51) خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء جلسہ سالانہ قادیان کے نہایت کامیاب و با برکت انعقاد پر احباب جماعت کو شکر گزاری کی تاکید شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ نیک اعمال بھی ھونے چاھئیں عباد توں کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی کوشش کرنی چاھئے.خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 دسمبر 2005ء بمقام قادیان دارالامان (بھارت) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:.پھر فرمایا:.بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدُ وَكُنْ مِنَ الشَّكِرِينَ (الزمر:67) اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو دن کے مل سے دو دن پہلے ہمارا جلسہ سالانہ قادیان اختتام کو پہنچا تھا.اس جلسے کے دوران جو یہاں شامل تھے انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے نظارے دیکھے اور اپنے اندر ایک روحانیت اترتی محسوس کی.آپ میں سے ہر ایک جو اس جلسے میں شامل ہو وہ اس بات کا گواہ ہے، کئی لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا.کئی نو مبائعین اور خواتین نومبائعات سے بھی جن کی ابھی پوری طرح تربیت بھی نہیں ہوئی یہ اظہار ہوئے.بعض کے چہروں اور جذبات سے یہ اظہار ہوئے.اللہ تعالیٰ کی خاص تائید اور حکم سے جس جلسے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 755

خطبات مسرور جلد سوم 748 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء آغاز فرمایا تھا، 100 سال سے زائد عرصہ کے بعد آج بھی وہ تائیدات شامل ہونے والوں کے چہروں پر نظر آ رہی ہیں، ان دعاؤں کی قبولیت کے نشان نظر آ رہے ہیں.ایک خاتون جنہوں نے چند سال پہلے بیعت کی تھی پاکستان سے آئی ہوئی تھیں اور اداس بیٹھی تھیں.اُن سے جب کسی نے پوچھا کہ آپ بڑی خاموش بیٹھی ہیں تو کہنے لگیں کہ پہلی دفعہ جلسے میں شامل ہوئی ہوں، ماحول ہی کچھ ایسا ہے، اپنے اندر ایک عجیب قسم کی روحانیت محسوس کر رہی ہوں، اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کر رہی ہوں اور کیونکہ اب واپس جانا ہے اس لئے اداس بھی ہو رہی ہوں.تو یہ ایک آدھ نہیں نئے آنے والوں میں ایسی سینکڑوں، ہزاروں مثالیں ملتی ہیں.بہر حال میں بتا رہا تھا کہ جلسے کی برکات سے آپ جو یہاں شامل ہیں نے فائدہ اٹھایا ہے وہ تو ہے ہی، اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کی نعمت سے جو ہمیں نوازا ہے اور جو انعام عطا فرمایا ہے اس کی بدولت دنیا کے کونے کونے میں احمدیوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کے عظیم الشان نظارے دیکھے ہیں.دنیا کے کونے کونے سے لوگوں کی فیکسز آ رہی ہیں کہ ہم نے وہاں ایک خاص ماحول دیکھا جس کا دور بیٹھے، ایم ٹی اے کو دیکھ کر ، ہم پر بھی خاص اثر ہورہا تھا.پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے یہاں سے Live ٹرانسمیشن کا میتر آ جانا بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں میں سے ایک فضل ہے.یہاں بھی اور باہر بیٹھے ہوئے احمدی بھی سمجھتے ہیں کہ بس اس نئی ایجاد سے بڑی آسانی سے فائدہ اٹھا لیا ہے.یہاں سے سگنل سیٹیلائٹ کے ذریعہ سے بھیج دیا اور وہاں سے ایم ٹی اے سٹوڈیو نے لے کر آگے دنیا میں پھیلا دیا.بظاہر تو یہ اسی طرح ہے.لیکن ہر ملک کے کچھ قوانین ہیں اور یہاں کے قوانین کے مطابق کافی فارمیلیٹیز (Formalities) سے گزرنا پڑتا ہے.باوجود اس کے کہ ہم نے کئی مہینے پہلے اس سلسلے میں کام شروع کر دیا تھا.ایک کمپنی سے ٹھیکہ بھی ہو گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی مناسب قیمت پر ہوا تھا.لیکن قانون کے مطابق بعض سرکاری محکموں سے اجازت لینی بھی ضروری تھی جو میرے یہاں بھارت پہنچنے کے بعد تک نہیں ملی تھی.ہماری انتظامیہ بھی پریشان تھی اور جس کمپنی سے ٹھیکہ ہوا تھا اور جن کا

Page 756

خطبات مسرور جلد سوم 749 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء سیٹیلائٹ استعمال ہونا تھا ، وہ بھی پریشان تھے کیونکہ ان کی کچھ چیزیں استعمال ہوئی تھیں اور ان کے سیٹلائٹ کے ذریعہ سے رابطہ ہونا تھا اور یہی خیال تھا کہ 16 دسمبر کا خطبہ Live نہیں جا سکے گا.البتہ اس کمپنی نے ہمیں یہ آفر دی کہ ہم اپنے نام کے ساتھ بھیج دیتے ہیں.اس میں قانونی طور پر کچھ حرج بھی نہیں ہو گا، بہت سارے ٹی وی چینلز دو دو ناموں کے ساتھ اپنے پروگرام ٹیلی کاسٹ کرتے ہیں، نشر کرتے ہیں.لیکن اس صورت میں یہ خیال ضرور آیا کہ ابھی تک ایم ٹی اے نے جو اپنی انفرادیت قائم رکھی ہوئی ہے کہ صرف ایم ٹی اے کے نام ، نشان اور لوگو (Logo) کے ساتھ دنیا میں ہمارے سارے پروگرام چلتے ہیں، خاص طور پہ جلسوں کے پروگرام، تو اس میں تو ایک اور ٹی وی چینل کا نام بھی آ جائے گا.بہر حال 14 دسمبر تک سب پر مایوسی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات بدلے، سرکاری محکموں سے ایک دن پہلے تک یہی جواب ملا تھا کہ اس میں ابھی وقت لگے گا اتنی جلدی نہ کریں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا 14 دسمبر کو ایسے حالات بدلے کہ اسی دن دو پہر کو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے اجازت نامہ مل گیا.اور 16 دسمبر کا خطبہ لائیو (Live) ہر ایک نے سنا.پھر اگلا خطبہ ہوا پھر جلسے کے پروگرامز ہوئے جو یقینا اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اس وعدے کی ایک بار اور بڑی شان سے پورے ہونے کی دلیل ہے کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ، میں تیرے ہر کام کو سنواروں گا.اور اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ جو کام مہینوں سے نہیں ہو رہا تھا وہ چند منٹوں میں ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی یہ تائیدات ہمیں اس طرف مزید توجہ دلاتی ہیں کہ ہم اس کے آگے اور زیادہ جھکنے والے اور شکر ادا کرنے والے بنیں.اسی طرح اس سلسلے میں ہمیں اس کمپنی کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے اس سلسلے میں ہم سے مکمل تعاون کیا.پھر ایم ٹی اے کا سٹاف جو تقریباً تمام والنٹیئرز ہیں.کچھ لندن سے آئے تھے، کچھ یہاں کے تھے، کچھ معاونین پاکستان سے آئے تھے ان سب نے اچھی طرح کام کیا، اپنے اپنے فرائض ادا کئے.بہر حال یہ اپنی نوعیت کا ایک خاص چینل ہے جو تقریب والنٹیئر ز سے چلتا ہے.یعنی زیادہ تر وہی ہیں.لندن میں تو بہت بڑی تعداد میں والنٹیئرز ہیں، ایسے کارکنان ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے

Page 757

خطبات مسرور جلد سوم 750 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء وقف کیا ہوا ہے، کسی نے پورے ہفتے کے لئے کسی نے چند گھنٹے کے لئے کسی نے ہفتے میں چند دن کے لئے اور یہ ایسا واحد ٹی وی چینل ہے جو بغیر اشتہاروں کے چلتا ہے.دنیا میں جب بھی کبھی کسی کو ملا ہوں اور ایم ٹی اے کا ذکر ہوا، جب بھی کسی کو بتا تا ہوں کہ یہ 24 گھنٹے چلنے والا چینل ہے اور بغیر اشتہاروں کے چلتا ہے.تو یہ بات ان سب کے لئے بڑی عجیب ہوتی ہے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے، اس کے تو بڑے اخراجات ہوتے ہیں.تو یہاں کے علاوہ جن کارکنان کا میں نے ذکر کیا ہے، جنہوں نے یہ جلسہ دنیا کو دکھانے کے لئے خدمت کی اور اپنا وقت دیا ، ان میں لندن میں بیٹھے ہوئے والنٹیئر ز بھی ہیں، ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.جو اس مغربی ماحول میں پلنے بڑھنے کے باوجود بڑے اخلاص و وفا کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کے لئے مددگار ہو رہے ہیں.ان میں سے کچھ یہاں بھی آئے ، بلکہ بعض دوروں پہ میرے ساتھ افریقہ بھی جاتے ہیں، موسم کی سختیاں اور بے آرامیاں جھیلتے ہیں، کبھی کسی نے شکوہ نہیں کیا.اور یہ دو چار نہیں ہیں بلکہ سو ڈیڑھ سو یا اس سے بھی زیادہ ہوں گے اور میرے نزدیک یہ اس زمرہ میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اس عہد کو سچ کر دکھایا ہے که نحْنُ انصار الله یعنی ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں.پس اس تاریخی جلسے کو دنیا میں پہنچانے میں معاون ہونے کی حیثیت سے صرف یہاں سامنے نظر آنے والے ایم ٹی اے کے کارکنان ہی نہیں بلکہ پیچھے بیٹھے ہوئے وہ مدد گار بھی شکریے اور دعاؤں کے مستحق ہیں جنہوں نے بڑے خوبصورت طریق پر یہ پروگرام ساری دنیا میں پہنچایا اور ہر احمدی نے دیکھا.جہاں احمدی ان سارے ظاہری جو سامنے کارکنان تھے ان کے لئے دعائیں کر رہے ہوں یا باقی کارکنان کے لئے دعا کر رہے ہوں وہاں ان کا رکنان کو بھی جوان خدمات پر مامور تھے، یہ میں کہتا ہوں کہ اس جذبے کو قائم رکھتے ہوئے اور شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح محمدی کے مددگاروں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی، پہلے سے مزید بڑھ کر اس روح کو قائم رکھتے ہوئے خدمت کرتے چلے جائیں، اللہ اس کی توفیق دے.

Page 758

خطبات مسرور جلد سوم 751 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء پھر اس کے علاوہ بھی ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے دیکھے وہ بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنانے والے ہونے چاہئیں.عموماً جماعت احمدیہ کا جہاں بھی جلسہ سالانہ ہوتا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی قبولیت کے طفیل ہم اللہ تعالیٰ کے فضل بارش کی طرح برستے دیکھتے ہیں، اور ہر جلسے کے بعد ایک نیا سنگ میل ، ایک نئی منزل ہمیں نظر آ رہی ہوتی ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی طرف توجہ دلا رہی ہوتی ہے.اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بستی میں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنا کامیاب جلسہ ہوا، جہاں پہلے جلسے میں صرف 75 افراد شامل تھے اور اس بستی کو چند لوگ جانتے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی قبولیت کے طفیل آج دیکھیں اس بستی میں جلسے کی حاضری 70 ہزار افراد کے قریب تھی اور دنیا کے کونے کونے میں قادیان دارالامان کی آواز پہنچ رہی تھی.ہمارے سر اس انعام پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جانے چاہئیں.ہمارے دل شکر کے جذبات سے لبریز ہونے چاہئیں تا کہ اللہ تعالیٰ مزید اپنے فضلوں کی بارش برسائے اور اپنے مزید انعامات سے ہمیں بہرہ ور فرمائے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں شکر گزاری کے کیا طریق بتائے ہیں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جا.یعنی شکر گزاری تبھی ہوگی جب تم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے اور اس کی مکمل بندگی اختیار کرنے والے ہو گے اور یہی ایک مومن کی شان ہے اور اس سے ایک مومن مزید انعامات کا وارث بنتا ہے.پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اس نکتے کو سمجھے اور صرف یہ نہ ہو کہ نعرے لگا کر ہی ہماری شکر گزاری کا اظہار ہورہا ہو، جو ہم نے جلسے میں لگائے اور اس کے بعد ختم ہو گیا.بلکہ حقیقی اظہار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کریں ، نیک اعمال بجالا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ، لوگوں کے حقوق ادا کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں.حضرت سلیمان کی ایک دعا کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرماتے ہوئے قرآن کریم میں بیان

Page 759

خطبات مسرور جلد سوم 752 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء فرمایا ہے اور یہ دعا ہر احمدی کو بھی ہر وقت یاد رکھنی چاہئے کیونکہ آج احمدی ہی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضلوں کی موسلا دھار بارش ہو رہی ہے.اور جتنا ہم اس طرح شکر گزاری کریں گے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا فیض پانے والے ہوں گے.اور وہ دعا یوں سکھائی گئی کہ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِيْنَ ﴾ (النمل: 20) کہ اے میرے رب مجھے تو فیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالا ؤں جو تجھے پسند ہوں اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر.پس اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرتب ادا ہوگا ، جب عبادت کے معیار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے نیک اعمال بجالانے کی طرف بھی ہر وقت توجہ رہے گی ، اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی اور تبھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک اعمال، عبادات کے اعلیٰ ترین معیار اور اسوہ حسنہ ہمارے سامنے رکھا ہے.آپ کی عبادتوں کے معیار دیکھیں کبھی آپ گھر سے باہر نکل کر ویران جگہ پر جا کے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے ہیں تا کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ اللہ تعالیٰ سے کیا راز و نیاز ہور ہے ہیں.کبھی اپنے گھر میں بیوی سے اجازت لیتے ہیں کہ مجھے اجازت دو کہ آج رات اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں.جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہوا ہے، تمام انعامات سے نواز دیا ہوا ہے پھر کیوں اپنی جان ہلکان کرتے ہیں؟ تو کیا خوبصورت جواب عطا فرماتے ہیں کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ ہوں؟ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر آن خدا کو یادر کھتے تھے.(مسلم - كتاب الحيض - باب ذكر الله تعالى فى حال الجنابة وغيرها) پس یہ نمونے ہیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے بطور اسوہ پیش فرمائے تا کہ ہم بھی ان پر عمل کریں، ان نمونوں پر چلنے والے ہوں.پھر امت کی بخشش کی فکر ہے اس کے لئے دعا کرتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ جس حد تک قبولیت دعا کی

Page 760

خطبات مسرور جلد سوم 753 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء خوشخبری دیتا ہے آپ شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ سجدے میں چلے جاتے ہیں اور ہر دفعہ خوشخبری کے بعد سجدات شکر بجالاتے ہیں.اس بارے میں عامر بن سعد اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے جب ہم زَوْرَء مقام کے قریب پہنچے تو وہاں حضور نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کچھ دیر دعا کی.پھر حضور سجدے میں گر گئے اور بڑی دیر تک سجدے میں رہے.پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی.پھر سجدے میں گر گئے.آپ نے تین دفعہ ایسا کیا.پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے دعا مانگی تھی اور اپنی امت کے لئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے میری امت کے ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دے دی.پھر اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کے لئے سجدے میں گر گیا اور سراٹھا کر پھر اپنی امت کے لئے اپنے رب سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزید ایک تہائی امت کی شفاعت کے لئے اجازت مرحمت فرمائی.میں پھر شکرانے کا سجدہ بجالا یا.پھر سراٹھایا اور امت کے لئے اپنے رب سے دعا کی.تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لئے مجھے اجازت عطا فرما دی اور میں اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجالانے کے لئے گر گیا.(ابوداؤد - کتاب الجہاد.باب في سجود الشكر) پس یہ شکر بھی ایک عظیم نعمت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمیں عطا کیا گیا ہے، اس کو حاصل کرنے کے لئے بھی ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننا چاہئے اس کے آگے جھکنا چاہئے اور اس کی عبادت کرنی چاہئے اور صحیح معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر دیکھیں بندوں کی شکر گزاری کے کیا کیا طریق سکھلائے.جب مسلمانوں پر مکہ میں طرح طرح کے مصائب ڈھائے گئے تو انہوں نے خدا تعالیٰ کے اذن سے حبشہ کی طرف ہجرت کی.اس وقت شاہ حبشہ نے ان کو اپنے ملک میں پناہ دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بادشاہ نجاشی کے اس احسان کو ہمیشہ یادرکھا اور ہر موقعہ پر آپ نے اس احسان کی شکر گزاری

Page 761

خطبات مسرور جلد سوم 754 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء کا اظہا راپنے اقوال و افعال سے فرمایا.چنانچہ جب نجاشی کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس ان کی خدمت میں مصروف ہو گئے.آپ کے صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! ان کی خدمت کے لئے ہم کافی ہیں.آپ نے فرمایا انہوں نے ہمارے ساتھیوں کو بڑے اکرام سے رکھا تھا اور میں پسند کرتا ہوں کہ ان کے اس احسان کا بدلہ میں خودا تاروں.- (کتاب الشفا للقاضي عياض - الفصل الثامن عشر – الوفاء وحسن العهد) پس یہ سبق ہے ہمارے لئے بھی کہ تم بھی ان بندوں کا شکر ادا کرو جو تمہارے کام یہاں حکومت کی انتظامیہ نے بھی ہر معاملے میں بہترین تعاون کیا ہے.جلسہ سے پہلے جلسہ کے مدنظر قادیان کی گلیوں اور سڑکوں کو ٹھیک کروایا.سیکیورٹی انتظامات ہر طرح سے صحیح ہونے کی طرف توجہ دی.اور بڑی بھاری تعداد میں پولیس کی نفری یہاں مہیا کی.جلسے کے جماعتی انتظامات کے لئے تو اس کی ضرورت نہ تھی کیونکہ جماعت میں تو خود ہی انتظام ہو جاتا ہے.احمدی تو خودہی اپنے انتظامات کر لیتے ہیں.اگر کوئی اور دنیاوی جلسہ ہو تو اتنے بڑے مجمعے میں دنگا فساد کا خطرہ ہوتا ہے.ہم تو ایک پر امن قوم ہیں اور جو ایک دفعہ جماعت کے نظام میں اچھی طرح پر ودیا جائے اس کو تو اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی.اس سے تو یہ فعل کبھی سرزد نہیں ہوتا کہ وہ ہنگامہ کرے.وہاں اس قسم کی سیکیورٹی کی ضرورت نہیں ہوتی جس طرح باہر ہوتی ہے.لیکن شاید بیرونی خطرے کی وجہ سے بھی انہوں نے اپنی ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے سیکیورٹی کا انتظام کیا تھا.بہر حال ہمیں اس معاملے میں ان کا شکر گزار ہونا چاہیئے.ضمناًیہ بھی بتا دوں کیونکہ یہاں بعض بالکل غیر تربیت یافتہ نو مبائعین بھی آئے تھے، جن کو اب اپنی تربیت کی طرف خود بھی توجہ دینی چاہئے اور جن کے ذریعے سے بیعتیں ہوئی ہیں ان کو بھی ان کی تربیت کی طرف توجہ دینی چاہئے.اور اس کے علاوہ ان کے ساتھ جلسہ دیکھنے کے لئے کچھ غیر از جماعت یا غیر مسلم بھی شامل ہو گئے تھے.اور بعض دفعہ پتہ نہیں لگتا کون کس قسم کا انسان

Page 762

خطبات مسرور جلد سوم 755 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء ہے.تو بہر حال جلسہ جب ختم ہوا ہے تو جلسے کے اختتام پر نظارت دعوت الی اللہ کے اصرار پر کہ ان نو مبائعین کو ضرور ملنا چاہئے میں نو مبائعین کے بلاک میں گیا.لیکن ان کی عدم تربیت اور جماعت کے ڈسپلن کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں ایک ہنگامہ سا ہو گیا تھا.بہر حال کچھ تو جذبات میں کھڑے تھے لیکن کچھ ایسا عصر بھی تھا جو صرف شور کرنے والا تھا.جس طرح کسی دنیاوی جلسے میں ہوتا ہے یہ بعضوں کے چہروں سے نظر آ رہا تھا.اور ہوسکتا ہے کہ بعض شرارت کی غرض سے بھی اندر بٹھائے گئے ہوں کیوں کہ یہاں بھی مخالفت تو ہے.بہر حال ہمارے سیکیورٹی والوں کو اس وقت بڑی ہمت کرنی پڑی اور ان لوگوں کو کنٹرول کرنا پڑا.یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ جو ان کے لئے احاطہ بنایا گیا تھا وہ اسی میں رہے.لیکن اس صورتحال کے باوجود بھی پولیس کی سیکیورٹی کو نہیں بلانا پڑا جس طرح دوسرے جلسوں میں ہوتا ہے.یہاں آ کر بلکہ دنیا میں جہاں بھی جماعت کے جلسے ہورہے ہوں پولیس والے یہی کہتے ہیں کہ آپ کے لوگوں کا کام بڑا آسان ہے کہ خود ہی یہ سارے کام سنبھال لیتے ہیں.تو بہر حال جماعت کی روایات سے ہٹ کر تھوڑی دیر کے لئے بد انتظامی ہوئی تھی اور کیونکہ اس وقت Live چل رہا تھا، ایم ٹی اے کے کیمروں نے اسی وقت فوری طور پر اس کو تمام دنیا کو دکھا بھی دیا.تو مختلف جگہوں سے یہ پیغام آنے شروع ہو گئے سیکیورٹی والوں کو بھی، مجھے بھی خط آئے کہ یہ کیا کیا؟ اس لئے میں نے ذکر کر دیا ہے.بہر حال آئندہ انتظامیہ کو بھی خیال رکھنا چاہئے.بغیر با قاعدہ پلاننگ کے یہ کام نہیں ہونا چاہئے.ایسی صورت میں کیونکہ بعض دفعہ ایسے لوگ جن کا آپ کو متعین طور پر پستہ نہ ہو وہ کوئی بھی ایسی حرکت کر سکتے ہیں جس سے نقصان ہو اور جماعتی روایات اور وقار کو خطرہ ہو.بہر حال وہ بھی وقت خیریت سے گزر گیا.اس پر بھی ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچالیا.تو جیسا کہ میں نے کہا اس دفعہ جلسہ پر 70 ہزار کی حاضری تھی جواب تک قادیان کے جلسوں میں ایک ریکارڈ حاضری ہے.سات آٹھ ہزار شاید باہر کے ملکوں سے آئے ہوں گے، باقی تمام یہیں کے تھے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے، ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے

Page 763

خطبات مسرور جلد سوم 756 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء اتنی تعداد میں لوگوں کو یہاں اکٹھا کیا اور بڑے آرام سے ان کے انتظامات کرنے کا موقع بھی مہیا فرمایا، تو فیق بھی عطا فرمائی.ان سب کی رہائش اور کھانے کا انتظام بھی احسن رنگ میں پورا ہوا.تمام کارکنان نے بڑے احسن رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی ڈیوٹیاں دیں اور دے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.مہمانوں کو بھی ان کا شکر گزار ہونا چاہئے.کارکنان خود بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ کافی بڑے رش کے، جلسے کے دن تھے خیریت سے گزر گئے اور وہ اس قابل رہے کہ آسانی سے ڈیوٹیاں دے سکیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر سکیں.غرض کہ ہر جگہ ہر موقع پر ہمیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کے فضل کے نظارے نظر آتے ہیں اور ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہئے.آج ہم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا ادراک رکھنے والے ہیں ﴿وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا ﴾ (ابراہیم: 34) اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو شمار کرنا چاہو تو اس کو احاطہ میں نہ لا سکو گے.انہیں شمار کرنا تو ممکن نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ تو ہم بن سکتے ہیں.ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت کہ اس کی جو نعمتیں نازل ہوتی ہیں ان کا ذکر کر کے مزید شکرگزار بندہ بنے کی ہم کوشش تو کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَأَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِتْ الضُّحَى :12) اور جہاں تک تیرے رب کی نعمت کا تعلق ہے تو اسے بکثرت بیان کیا کر.1905ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی الہاماً یہ فرمایا تھا.که وَأَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِتْ پس یہ احمدی کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو بے شمار نعمتیں نازل ہو رہی ہیں ان کا شکریہ ادا کرتا چلا جائے اور جیسا کہ شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ نیک اعمال بھی ہونے چاہئیں ، عبادتوں کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی کوشش ہونی چاہئے.یہ بھی ہر احمدی کا فرض ہے کہ ایسا کرے.یہ جلسہ ہر ایک احمدی کے آپس کے تعلقات میں مضبوطی پیدا کرنے والا بھی ہونا چاہئے.

Page 764

خطبات مسرور جلد سوم 757 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء بھائی بھائی کو معاف کرے اور صلح پیدا کرنے کی طرف بھی کوشش ہونی چاہئے.صرف کوشش ہی نہیں بلکہ آگے بڑھ کر صلح کرنی چاہئے.میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے.رشتہ داروں کو رشتہ داروں کے قصور معاف کرنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے.ہر احمدی ، ہر دوسرے احمدی بلکہ ہر انسان کے ساتھ ہمدردی اور احسان کا سلوک کرنے والا ہونا چاہئے.اور اس طرف توجہ کریں تبھی شکر گزار بندوں میں شمار ہو سکتے ہیں.یہ شکر کے جذبات اپنے اندر پیدا کریں گے تبھی جلسے کے فیض سے فیضیاب ہونے والے بھی کہلائیں گے.اور مز ید اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بھی ہوں گے.اور یہی چیز زبان حال سے وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِتْ کا آپ کو مصداق بنارہی ہوگی.اور ہم اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے حصہ پارہے ہوں گے کہ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ (ابراهيم : 8) کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا.پس شکر گزاری کے جذبات سے تمام نیکیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تاکہ آپ کو بھی اور آپ کی نسلوں کو بھی مزید نیکیوں کی توفیق ملتی چلی جائے.صرف اس بات پر فخر نہ ہو کہ جلسہ کامیاب ہو گیا ہے بلکہ یہ سوچ رکھیں کہ آپ کی زندگی کے لئے جلسہ تب کامیاب ٹھہرے گا کہ جب آپ اُن نیکیوں کو جن کی آپ کو تلقین کی گئی ہے اور آپ نے سنی ہیں، ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں.اس بات کی خوشی منائیں کہ یہ باتیں سن کر آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی زندگی میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اس طرف خود بھی توجہ پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے توفیق بھی عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نزول ہوا ہے.پس اس جذبے کے ساتھ اپنی شکر گزاری کے جذبات کو بڑھاتے چلے جائیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ تمبر 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِتْ اس لحاظ سے اس سال کے اس آخری جمعہ کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے تشکر سے پُر جذبات کے ساتھ دعاؤں کا دن بنالیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں کہ جمعہ کے دن کے دوران در و د خاص اہمیت رکھتا ہے اور پھر یہ شکر اور یہ درود ہمیشہ آپ سب کی زندگیوں کا حصہ بن جائے اور پھر اس شکر کے مضمون کے ساتھ نئے سال کا آغاز ہو.اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کریں جو گزشتہ سال عطا ہوئی تھیں

Page 765

خطبات مسرور جلد سوم 758 خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2005ء تا کہ جو آئندہ آنے والا سال ہے وہ پہلے سے بڑھ کر برکات لانے والا ہو.احمدیت کی فتح کے جو آثار ہم دیکھ رہے ہیں وہ مزید قریب تر آجائیں.پس خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے کی گئی ، شکر گزاری کے جذبات سے پر ہماری عبادتیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور جماعت کی آئندہ ترقیات کو ہمارے قریب تر لے آئیں گی.پس آگے بڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے جھولیاں بھرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے چلے جائیں.حقوق اللہ کی ادائیگی بھی کریں اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 766

1 7 21 47 72 77 اشاریہ مرتبہ : طاہر محمود احمد ایم.اے مربی سلسله نظارت اشاعت ربوه آیات قرآنیہ احادیث نبویہ مضامین اسماء مقامات کتابیات

Page 767

1 آیات قرآنیہ آیات قرآنیہ صفح البقرة ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِين.(البقرة: ٣) وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنفِقُون.(البقرة : ۴) آیات قرآنیہ أجيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة : ۱۸۷) حفِظُوْا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلوةِ 630564 - الوسطى.(البقرة: ۲۳۹) اللَّهُ لَا إِلهَ إِلَّاهُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ.571'407 يأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ (البقرة: ۲۵۶) صفحہ 644 639 مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيل 372 726 اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ....(البقرة : ٢٢٢) 328 وَالَّذِيْنَ مِن.....(البقرة: (۲۲) 555:21 الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيْلِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.(البقره: ۸۴) 735 اللهِ ثُمَّ لَا يُتَّبِعُونَ.(البقرة : ۲۶۳) : وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ الَّذِيْنَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَتْلُوْنَهُ حَقَّ تلاوته (البقرة: ۱۲۲) 623 مَرْضَاتِ اللهِ.( البقرة : ٢٦٦) 325 1 وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَانْفُسِكُمْ.وَمَا اسمعيل....( البقرة : ۱۲۹.۱۲۸) 341 تُنْفِقُونَ.....(البقرة: ٢٣) 407327 آل عمران وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا ( البقرة : ۱۴۹) 550 رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ الْخَيْرَاتِ.وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ لَنَا مِنْ.......(آل عمران: ٩ ) امْوَاتُ.....(البقره: ۵۵ ۱ تا ۱۵۷) 607 - قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّهَ فَاتَّبِعُوْنِي اَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِيعًا (البقرة: (١٦٦ 306 يُحْبَبْكُمُ اللهُ.(آل عمران: ۳۲) يَأْيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ كَمَا كُتِبَ.....(البقرة : ۱۸۴) 593 (آل عمران: ۹۳) 537 416 573571*411

Page 768

367 655 2 آیات قرآنیہ صفحہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَّلَا آیات قرآنیہ الانعام تَفَرَّقُوا...........آل عمران: ۱۰۴) 511 الَّذِيْنَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوْا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ (الانعام: ۸۳) الاعراف يبَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِفْ سَوْا تِكُمْ.(الاعراف: ۲۷) 279 284 بالْمَعْرُوفِ (آل عمران : ۱۱۱) يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ( آل عمران: ۱۱۵) الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ (آل عمران: ۱۳۵) 735518 يبَنِي آدَمَ خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلَّ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ مَسْجِدٍ.(الاعراف: ۳۲ 663655 | كُنتَ فَظًّا.(آل عمران: ١٢٠) لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ إِذْ بَعَثَ 177 فِيْهِمْ رَسُولًا.(آل عمران : ۱۶۵) 493 إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلافِ ( آل عمران: ۱۹۲.۱۹۱) 200 النساء فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدِ.(النساء: ۴۲) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الَّا مَنتِ إِلَى أَهْلِهَا.(النساء : ۵۹) 139 426 وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا (الاعراف: ۵۷) وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَ هُمْ وَلَا تُفْسِدُوا.(الاعراف: ۸۶) 350 674 الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْا مِّيَّ الَّذِي يَجدُوْنَهُ.(الاعراف: ۱۵۸) 685 الانفال اطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا.(الانفال: ۴۷) التوبة 715 521 إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتبًا إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ مَّوْقُوْتًا.(النساء : ۱۰۴) المائدة اذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُوْن.(المائده : ۲۵) 371 182 30 وَالْيَوْمِ الْآخِرِ......(التوبة: ١٨) لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا.(التوبة: ٤٠) 217 لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمِ.(التوبة: ١٠٨ ).356

Page 769

3 آیات قرآنیہ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوْا اللَّهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة: ١١٩) يونس قُلْ لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُمْ بِه.(یونس : ۱۷) الَّا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ.(يونس : ٢٣) هود وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوا إِلَيْهِ 701 صفحہ 75'73 525 آیات قرآنیہ النحل شَاكِرًا لانْعُمه.(النحل : ١٢٢) إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ محْسِنُون.(النحل: ۱۲۹) بنی اسراء یل 195 366 أَنَّهُ كَانَ عَبْدَا شَكُورًا.(بنی اسرائیل (۴) 195 إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْركَانَ مَشْهُودًا.(بنی اسرائیل: ۷۹) وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ 625 لِلْمُؤْمِنِيْنَ.(بنی اسرائیل: ۸۳) 629 630 يُمَتِّعَكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا (هود: ۴) 301 497 الكهف وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (الكهف: ۵۵) طة وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِةٍ 135 643 فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا.(هود:۱۱۳) الرعد وَالَّذِيْنَ صَبَرُوْا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ (الرعد: ۲۳) سَلَمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ.(الرعد: ۲۵ // أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ (طه: ۱۳۲) قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ.عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ.(الرعد: ۳۱) ابراهيم 212 لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ.(ابراهيم: ) 467 وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا.(ابراهیم: ۳۴) 757 756 الحج فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ.(الحج: ٣١) المؤمنون وَالَّذِيْنَ هُمْ لَا مَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ.(المؤمنون: ٩) 478 288 415

Page 770

آیات قرآنیہ الَّذِي يَرَاكَ حِيْنَ تَقُوْمُ ، وَ تَقَلُّبَكَ الشعراء : ۲۲۰۲۱۹) النمل رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي صفحه 90 أَنْعَمْتَ عَلَيَّ......(النمل: ٢٠) 752 العنكبوت اتْلُ مَا أُوْحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَأَقِمِ الصَّلوةَ.(العنكبوت: ۴۲) 24 479 636 271 211 496 وَمَا هَذِهِ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ.(العنکبوت : ۶۵) الروم 4 آیات قرآنیہ صفحہ النور لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا.(النور: ۲۸) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ.(النور: ۵۴٬۵۳) 446 394 393 وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّ لَنَّهُمْ.(النور : ۵۶) الفرقان 312 628 274 وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا.(الفرقان : ۳۱) وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: ۵۳) الْأَرْضِ هَوْنًا.(الفرقان : ۶۴) وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ.(الروم: ۴۲) وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا.السجدة ( الفرقان : ۶۵) 103'98 تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ.قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ.( الفرقان: ۷۸) 562561 (السجدة: 1 ) الاحزاب وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ.وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا.(الاحزاب : ۴) إِنَّمَا يُرِيْدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ.(الاحزاب: ۳۴) 671 81 الشعراء أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِينَ.(الشعراء: ۱۸۲ تا ۱۸۴) وَانْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الأقْرَبيْرَ (الشعراء : ۲۱۵)

Page 771

5 آیات قرآنیہ صفحہ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنِ (الاحزاب: ۴۱) ياَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا 195 آیات قرآنیہ صفحہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ.(المُؤْمن: (1) 303 حم السجدة وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَمُبَشِّرًا وَّنَذِيرًا.(الاحزاب: ۴۶) 213122 وَعَمِلَ.حم السجدة : ۳۴) 588587 دَاعِيًا إِلَى اللهِ بإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا.( الاحزاب: ۴۷) فاطر 588 الحجرات إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ.(الحجرات : ۱۴) 519 294 فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ و قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا مِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ.(فاطر:۳۳) 367 وَلكِنْ قُوْلُوْا.....(الحجرات: ۱۵) 550 فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ.....(ص:۲۷) 391 (14) وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْن.(ص: 87) الزمر انْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرضى (الزمر: ۸) بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدُ وَ كُنْ مِّنَ الشَّكِرِينَ (الزمر: ۶۷) 477 465 747 وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ احَدُكُمْ.....( الحجرات : ١٣) الذاريت فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنِ.(الذاريت: ۲۷) وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ.286 429 496 (الذاريات: ۵۶) مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون.(الذاریات: ۵۷) 656'562 القمر وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ.(الزمر: ۲۸) المؤمن 132 وَلَقَدْيَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ.(القمر: ۱۸) الحشر 627

Page 772

6 آیات قرآنیہ صفحہ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ.( الحشر: ١٠)575 الصف يا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ.(الصف:۴۳) 744 743 يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى آیات قرآنیہ وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (الجن: ١٩) المزمل صفحہ 355 وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا.(المزمل: ۵) 626 إِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ أَشَدُّوَطًا وَأَقْوَمُ قِيْلا.( المزمل : ) 89 تِجَارَةٍ.(الصف: ۱۲۱۱) الجمعة 543 المدثر وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ.يا يُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِرُ.(المدثر: ۳۲) 93 (الجمعة : ۴) التغابن إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْلَكُمْ (التغابن: ۱۸) 14 575 البلد تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ.( البلد : ۱۸) الصحى 286 الطلاق وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا.وَأَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِتْ (الضحى : ۱۲) 558 296 295 (الطلاق: ۴۳) التحريم البينة رَسُوْلٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً.يَفْعَلُوْنَ مَايُؤْمَرُون.(التحريم : 367 فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ.( البيِّنة : ٤) القلم الماعون فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ.( الماعون : ۵) وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ.(القلم:۵)509499 الجن 756 127 375

Page 773

7 احادیث احادیث صفحه )......امانت دیانت.جنگ خیبر کے دوران یہود کی بکریاں چرانے والا مسلمان ہو گیا.احادیث انفاق فی سبیل اللہ جو خدا کے راستے میں خرچ کرنے کا وقت.329 فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو.// ہے.دو اشخاص قابل رشک..جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا 418 آپ ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی تم میں سے سب سے زیادہ امین ہے 420 تم نے مکہ میں ہی رہنا ہے جب تک ہر ایک کو اس کی امانت نہ پہنچ جائے.421 بازار چلا جاتا.......ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں.330 4 338 5.اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو //.اس شخص کو امانت لوٹا دے جس نے ا.اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر تم پر اعتماد کر کے تمہارے پاس امانت رکھی.422 بھی سونا آجائے..حضرت ابو طلحہ انصاری نے اپنا لا إِيْمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا پسندیدہ باغ خدا کی راہ میں دے دیا." 423'422 دِيْنَ لِمَنْ لَّا عَهْدَ لَهُ “ امر بالمعروف نهي عن المنكر.ایک آدمی نے جنگل میں بادلوں میں سے آواز سنی.تم ضرور نا پسندیدہ باتوں سے منع کرو.283.ایک دفعہ حضرت عمر اپنے گھر کا آدھا ے.ے.وہ شخص ہم میں سے نہیں جو مال لے آئے اور ابو بکر سارا مال.معروف باتوں کا حکم نہیں دیتا ایثار کسی بندے کے دل میں دیانت داری اور خیانت اکٹھے نہیں ہو سکتے ہیں.289 کا واقعہ..جنگ کے بعد زخمی صحابہ کو پانی پلانے 173 573 577 572 512

Page 774

8 احادیث صفحه احادیث.جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس قربان کرنا اور جہاد کرنا ہے.کے کرب کو دور کرتا ہے.ایفائے عہد 522 تلاوت قرآن کریم تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا.میں تھے..آپ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تین دن سے اس جگہ تیرا انتظار کر رہا ہوں 420.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت وَأَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى ذَلِكَ قراءت مفسرہ ہوتی تھی.وَأَعْطُوْنَا عَهْدَ اللَّهِ وَإِنَّا لَا نَغْدُرُبِهِمْ “ 425.آپ رات کو بھی بلند آواز سے اور کبھی حذیفہ بن یمان اور اَبُوحُسَيْل آہستہ آواز سے تلاوت کرتے تھے.کی عہد کی پابندی ا.فرمایا: اللہ کسی چیز کو ایسی توجہ سے میں بد عہدی نہیں کیا کرتا اور نہ نہیں سنتا جیسے قرآن کو سنتا ہے سفیروں کو قید کرتا ہوں.بدظنی 426.جب کوئی رحمت کی آیت آتی تو رحمت طلب کرتے.جب عذاب کی صفحہ 546 133 || 134 آیت آئی تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے //.سبحان اللہ ! معاذ اللہ ! کیا ہم آپ پر.میں یہ پسند کرتا ہوں اپنے علاوہ کسی بد گمانی کر سکتے ہیں.بھائی چارہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد 506 اور سے بھی قرآن کریم سنوں.اے قرآن کے ماننے والو! اس کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دو..اے اہل قرآن ! قرآن پڑھے بغیر مکہ میں بھائی چارہ کی فضا.512 نہ سویا کرو پڑوسی.پڑوسی سے حسن سلوک تجارت 507 138 139 140.جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہوگا.// ے.اونچی آواز سے قرآن پڑھنے والا ظاہراً خیرات کرنے والا اور آہستہ آواز سے پڑھنے والا چپکے سے خیرات کرنے والا.//.قرآن پڑھنے والے اور عمل کرنے // والے کے ماں باپ کے سر پر دو تاج اصل تجارت خدا کی راہ میں جان و مال

Page 775

9 احادیث صفحہ تو به استغفار احادیث صفحہ والوں پر لعنت کی ہے.68.اپنے بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ کی * اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِى وَثْنَا - 69 303 ہے.میں بندوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک خوشی کا اظہار...جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے کرتا ہوں جیسا میرے بارے گمان کرتا ہے 564 میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں.304 بچپن میں ہی ” بوانہ بت خانہ.گناہ سے سچی توبہ کرنے والا ایسا ہی میں جانے سے آنحضور کو طبعا نفرت تھی.58 ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں.توحید باری تعالیٰ.بچپن میں بامر مجبوری بت خانہ جانے حملہ.بت کے قریب ہونے پر سفید رنگ کا طویل القامت شخص متماثل ہوا.||.لا إله إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله 71 پر بھی اللہ نے آپ کو توحید کی طرف تو کل علی اللہ جھکائے رکھا.عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلَى رَبِّه - 58 59 ہ مجھ سے بتوں کا واسطہ دے کر سوال نہ کرو // ہیں.میں اس میں سے کھانے والا نہیں جو تم بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو.اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں تورات میں آپ کو متوکل کہا گیا 213.طائف میں تبلیغ کے بعد مکہ میں داخل ہونے کا واقعہ..اراشہ نامی شخص کو ابو جہل سے اس کا حق دلوانے کا واقعہ.ہجرت مدینہ کے وقت یقین اور سورج اور بائیں طرف چاند بھی لا کر رکھ تو کل کرتے ہوئے دشمنوں کے درمیان دیں تو بھی تبلیغ تو حید کو نہیں چھوڑ سکتا.لبید کا یہ مصرعہ کہ ”سنو اللہ کے سوا 61 سے تشریف لے گئے..غار ثور میں حضرت ابو بکر کو آپ کا یقینا ہر چیز باطل اور مٹ جانے والی ہے.67 یہ فرمانا.لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا..تم جا سکتے ہو.میں کسی مشرک سے.سراقہ کا آپ کے قریب پہنچ جانا اور آپ کا خدا پر یقین و توکل.سے مدد نہیں لینا چاہتا.ے.جسے قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے // 68.ایک دیہاتی کا آپ پر تلوار سونتنے کا واقعہ.214 215 217 218 221'220.آپ نے قبروں کی زیارت کرنے ا.جابر کے ہاں کم کھانا اور آنحضور کا

Page 776

10 احادیث صفحہ احادیث تو کل کرتے ہوئے تمام صحابہ کو کھانے کے تم سے روک کر نہیں رکھتا.لئے اپنے ساتھ لے جانا.222 223.آنحضور نوے ہزار درہم ایک چٹائی اے اللہ ! میں تیری فرمانبرداری کرتا ہوں پر رکھوا کر تقسیم فرمانے لگے.تجھ پر ایمان لاتا ہوں، تجھ پر توکل کرتا ہوں 224.فدک کے رئیس نے سامان سے.اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ.........وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْت لدے ہوئے چار اونٹ تحفہ بھجوائے صفحہ 162 163 165.اگر میرے پاس اونٹ ہوں تو میں بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ ان کو تقسیم کرنے میں خوشی محسوس کروں گا.166 اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبك.|| || ہیں.آپ نے بکریوں کا اتنا بڑا ریوڑ دیا.اگر تم اللہ پر توکل کرو تو وہ ضرور تمہیں کہ دو پہاڑوں کے درمیان کی وادی بھر گئی // رزق دیگا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے 226.غزوہ حنین کے دن آپ نے صفوان.جو اللہ پر تو گل کرتا ہے تو اللہ کو تین سو اونٹ دیئے..167 166 اسے ان سب گھاٹیوں سے بچالیتا ہے.228.آپ نے ایک شخص کو فرمایا کہ اس کو ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دو.167 جمعۃ المبارک ج.بحرین سے مال آیا تو آپ نے مسجد میں ڈھیر لگوا کر اسے تقسیم کروا دیا.یا.اگر انسان ایک جمعہ نہیں پڑھتا تو دل.ایک بدو نے آپ سے سختی سے مال کا ایک حصہ سیاہ ہو جاتا ہے 547 مانگا تو آپ نے اسے عطا کیا..ے.ایک ایسی گھڑی آتی ہے جو دعا فرمایا: ”اے مَـخْـرَمه! خَبَأْتُ کرے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے.// هذَا لَكَ.جود وسخا.آپ نے دونوں ہاتھ بھر کر سونے 169 169 170 لا - فرمايا: إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي الله.161 کے زیور دیئے اور فرمایا یہ زیور پہن لو.171.الله "كَانَ النبي علم أَحْسَنَ النَّاسِ وَاجْوَدَ النَّاسِ.ام سنبلہ کو تحفہ کے بدلے میں آپ نے ایک وادی عطا فرمائی.|| ا.یہ رقم بھی تمہاری ہے اور یہ اونٹ بھی.آپ کی سخاوت رمضان کے مہینے میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ جاتی تھی.162 تمہارا ہے.دونوں چیزیں تم لے جاؤ.172 سخاوت کرنے والا اللہ تعالیٰ کے قریب ہیے.میرے پاس جو مال ہوتا ہے اسے

Page 777

11 احادیث صفحہ احادیث ہوتا ہے اور جنت کے بھی قریب.173 577 بنائی ہے اخلاق بھی اچھے بنا دے.جہاد.میں تو اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.صفحہ 109.دین اسلام کی چوٹی جہاد ہے..آپ نے تربیت اور تبلیغ کو ہی جہاد اکبر قرار دیا.جھوٹ.جو شخص جھوٹ نہیں چھوڑ تا اللہ کو اس کا 274.آپ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور خوش اخلاق تھے..میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے 110 111 زیادہ متبسم اور مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا //.آپ دور سے دیکھنے میں کھانا پینا چھوڑنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں 504 سب سے زیادہ خوبصورت تھے اور قریب.اگر تم تمام برائیاں نہیں چھوڑ سکتے سے دیکھنے میں انتہائی شیریں زبان آپ لوگوں میں سب سے زیادہ تو جھوٹ بولنا چھوڑ دو..گناہ کبیرہ یہ ہیں: جھوٹ اور جھوٹی فراخ سینہ تھے.اور نرم خو تھے گواہی ، غور سے سنو جھوٹ اور جھوٹی گواہی.//.آپ کا مبارک چہرہ دیکھا تو میں حق حقوق آنحضور کی آخری وصیت و پیغام الصلواة وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ.66 112 جان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا //.جب بھی کسی نے آپ کے دست مبارک کو پکڑا تو آپ نے اپنا ہاتھ نہ چھڑایا 113.آپ اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے تھے، اپنا کپڑا سی لیتے تھے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہترین خلاصه 105 آنحضور پردہ دار کنواری دوشیزہ سے بھی خ خلافت زیادہ حیادار تھے..تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک دعا دعائیں اللہ چاہے گا.خلق اخلاق ہیں.جس طرح تو نے میری شکل اچھی / 311.جس کیلئے باب الدعا کھولا گیا اس کے 115 121 لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے 648 خوشحالی کے اوقات میں کثرت سے

Page 778

12 احادیث صفحہ دعائیں کرنی چاہئیں.عربی دعائیں * اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ.648 23 احادیث.آپ سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے..ہرقل کے دربار کا واقعہ.اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلَا ہوئے معاہدہ کو دیمک کھا گئی تُهْلِكُنَا بِعَذَابَكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذلِكَ.619 اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ خَيْرَهَا وَ خَيْرَ مَا فِيْهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ رمضان المبارک صفحہ 79 80 آنحضور کا بتانا کہ خانہ کعبہ میں لٹکے 82 آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا 85 اللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوْذُبِكَ مِنْ زَوَالِ.جنت کو رمضان کے لئے سال کے ةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ.نِعْمَتِكَ وَتَحَوُّل عَافِيَتِكَ وَفُجَاءَ || ے.اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک.اَعُوْذُ بِوَجْهِ اللَّهِ الْعَظِيْمِ الَّذِي لَيْسَ شَيْيٌّ أَعْظَمُ مِنْهُ وَبِكَلِمَاتِ 620 مہینہ سایہ فگن ہوا ہے..يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَى.ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے 597 آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے.596 دِيْنِكَ..رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً.رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ 537 لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے.روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزد یک کستوری سے زیادہ طیب ہے.599 || ے.روزہ ڈھال ہے اور آگ سے نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى 752 بچانے والا مضبوط قلعہ ہے.600 رمضان گزشتہ گناہ بخشنے کا ذریعہ 646601.رمضان میں جنت کے دروازے کھول ر راستبازی / سچائی.آپ امانتدار ہیں اور احسن اخلاق دیئے جاتے ہیں.رمضان میں آنحضور علیه اموال 602 کے مالک ہیں اور بات کہنے میں سچے ہیں 77 603 تیز ہوا کی طرح خرچ کرتے تھے.* - كَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيْكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ.رمضان کا آخری عشرہ جہنم سے 78 نجات کے لئے ہے.640

Page 779

13 سادگی احادیث س صفحہ احادیث.غار ثور میں آپ کا حضرت ابو بکر کو دلاسہ دینا.لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا..سراقہ بن مالک کا قریب پہنچ جانا اور آپکا صفحہ 256 جنگ احزاب میں خندق کھودنے آرام سے کلام الہی کی تلاوت فرماتے رہنا.257 کے دوران آنحضور کامٹی ڈھونا.یا.آپ نے حضرت فاطمہ کو جہیز میں کو ڈھال بنا کرلڑتے تھے.ایک ریتمی چادر...دیئے.484.ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا.اے عمر! مجھے دنیا سے کیا غرض؟ میں تو لوگ آواز کی طرف دوڑے.پتہ چلا کہ 483 لڑائی کے دوران ہم رسول کریم علی 258 آنحضور حالات کا جائزہ لے کر آ رہے ہیں 264 تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں.485 یہ لباس فلاں کو بھیج دو اور میرے شکر گزاری 486 اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي لَكَ شَاكِرًا لئے تو سادہ کپڑے کالباس مہیا کرو.یں.اگر مجھے بکری کے پائے کی دعوت پر لَكَ ذَاكِرًا “ بھی بلایا جائے تو میں دعوت پر جاؤں گا.487.اے اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میں.آپ نے تادم آخر کبھی چھنے ہوئے تیرا سب سے زیادہ شکر کرنے والا ہوں.ہے.بارش ہوئی تو آپ ننگے سر پر بارش لینے لگے.پوچھنے پر فرمایا کہ یہ آٹے کی چپاتی نہیں دیکھی.490.آپ زمین پہ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے.// شجاعت / بهادری ش حضرت ابوطالب کے پاس کفار مکہ کا میرے رب سے تازہ تازہ آئی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا 66 وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ".آپ نے روٹی کے ایک ٹکڑے پر کھجور رکھی ہوئی تھی اور فرمارہے تھے کہ یہ کھجور تبلیغ رکوانے کے لئے آنا اور آنحضور کا اس روٹی کا سالن ہے.196 197 || کمال جرات سے جواب دینا.حمد ابو جہل کا ایک تاجر کا حق مارنا اور آنحضور کا وہ حق اس کو دلوانا.254 اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيْهِ أَسْأَلُكَ خَيْرَهُ وَخَيْرَ - "اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوْتُ وَأَحْيَا 198

Page 780

14 احادیث الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانًا بَعْدَ صفحه || احادیث الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هذَا وَرَزَقَنِيْهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي اذْهَبَ عَنِّي قُوَّةٍ غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُوْر.الأذى وَعَافَانِي 199 ہے.جو چھوٹی بات پر شکر نہیں کرتا وہ بڑی ہوا.آپ نے فرمایا کیا میں خدا کا عبد نعمت پر بھی شکر ادا نہیں کرتا.شکور نہ بنوں.شوری رمشوره جو مشورہ کرے گا وہ رشد و ہدایت خدا تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کی اجازت ملنے پر بار بار سجدات شکر بجالانا.201 سے محروم نہیں رہے گا..میں نے آنحضور سے زیادہ اپنے صفحہ 179 جبریل کی طرف سے خوشخبری سننے پر آپ نے قبرستان میں ایک لمبا سجدہ شکر اصحاب سے کسی کو مشورہ کر نیوالا نہیں پایا 180 ادا کیا.202.جن امور کے بارے مجھے وحی نہیں ہوتی ان میں میں تمہاری طرح ہی ہوتا ہوں..یوم عاشورہ کو آپ نے فرعون سے ا.واقعہ افک کے سلسلے میں آنحضور حضرت موسیٰ کی نجات کے شکرانہ کے طور نے عائشہ کے بارے میں مشورہ طلب فرمایا 181 پر روزہ رکھا اور امت کو حکم دیا.فتح مکہ کے دن حضور نے تواضع اور مشورہ طلب کیا اور ابوبکر کے مشورہ پر عمل کیا.187 شکر گزاری سے اپنا سر جھکایا دیا.* اللَّهُمَّ احْفَظْ اَبَا أَيُّوبَ كَمَا 203 207.آپ نے اسیران بدر کے سلسلہ میں.میں عمر کا مشورہ قبول کرتا ہوں.188 جنگ اُحد کے سلسلہ میں مشورہ دینے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی.صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں آنحضور شریک تھا.فرمایا: قرض دینے کا بدلہ شکریہ بَاتَ يَحْفَظُنِي.کے ساتھ ادا ئیگی ہے.208 207 الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُ الصَّالِحَاتُ.189 208 نے مشورہ سے اپنے اونٹ کو ذبح کیا فرمایا: جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے.192 193 ** اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَ یں.فرمایا: مجھدار اور عبادت گزارلوگوں سے 209 مشورہ کرو اور مخصوص افراد کی رائے پر نہ چلو.// شُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ

Page 781

15 احادیث صفحہ ص صبر کرنے سے مومن کے لئے دکھ خیر و برکت کا باعث بن جاتا ہے.صدقہ اصدقات احادیث.اس کمزوری کے باوجود آج رات صفحہ میں نے نماز تہجد میں طویل سورتیں پڑھی 102 ہے.ہمیشہ دن کے وقت سفر سے واپسی پر مسجد دورکعت نفل ادا کرتے.609.باوجود خود زخمی ہونے اور 70 صحابہ تسبیح و تحمید اور ذکر الہی صدقہ ہے.273 عبادت ع کے شہید ہونے کے آپ نماز معمول کے مطابق ادا کرتے.|| 103 104 105.آخری بیماری میں بھی آنحضور کو نماز کی فکر لگی ہوئی تھی.آخری وصیت و پیغام: الصَّلواة وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ.93 بجز وانکساری.ایک روز ایک بد بخت دشمن نے سجدہ میں آنحضور پر اونٹنی کی بچہ دانی ڈال دی.94.مجھے میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا 480 144 آنحضوراکثر غار حرا میں جا کر معتکف ہوکر عبادت کیا کرتے تھے.کر پیش نہ کرو.اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی.میری اس قدر تعریف نہ کرو جس طرح عیسائی ابن مریم کی کرتے ہیں 144 145 480 ہے اور میری خواہش رات کی عبادت ہے 95.شدت گریہ وزاری کے باعث آپ ہے.میں بھی تمہاری طرح ایک بشر کے سینے سے چکی چلنے کی آواز آ رہی تھی." رات کو اتنی لمبی نماز ادا کرتے تھے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے تھے.96 ہوں.میں بھی بھولتا ہوں جس طرح کہ تم 146 میں تو اللہ کا صرف ایک بندہ ہوں 147.بوقت ہجرت آپ اس قدر عاجزی.اے عائشہ! کیا آج کی رات اور سادگی کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ سب میں اپنے رب کی عبادت کرلوں.97 لوگ حضرت ابو بکر کو ہی نبی سمجھنے لگے.148.جو دعائیں میں رات سجدے میں کر رہا تھا وہ جبریل نے مجھے سکھائی تھیں.100 تم میرا مقام اس سے بڑھا چڑھا کر نہ بتاؤ جو اللہ نے مقرر فرمایا ہے..آپ کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر اٹھ کر ہیں.میں بنی آدم کا سردار ہوں مگر اس میں نماز میں مصروف ہوتے.کوئی فخر کی بات نہیں.149

Page 782

16 احادیث صفحہ احادیث صفحه میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں 150 اَنْتَ الشَّافِي.اللہ تعالیٰ اس کو نا پسند کرتا ہے جو اپنی امتیازی شان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہو.//.رسول کریم اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مددفرماتے تھے..میں ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی..ایک بے عقل غریب عورت سے 151 || حضرت سعد کے لئے دعا فرمائی: اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَاتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ.235.جابز کے بے ہوش ہونے پر آنحضور نے وضو کا بقیہ پانی جابر پر انڈیل دیا سعد بن عبادہ کی عیادت کے لئے آنحضور کے ساتھ ۱۳ آدمی گئے.آنحضور کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تو 235 236 عاجزی سے پیش آئے اور ضرورت پوری کی 152 آپ معوذتین پڑھ کر دم کیا کرتے تھے.237 حضرت عمرؓ کو فرمایا کہ اے میرے بھائی ! ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا.154 ||.گناہ گار بندے کو بخار آنا اس کی بخشش کا موجب ہے.* لَا تُخَيَّرُوْنِيْ عَلَى مُوسَى..آپ نے جنگ خندق میں زخمی سعد.میں بھی اپنے اعمال کی وجہ سے بن معاذ ” کا خیمہ مسجد میں لگوایا تاکہ رض 238 نجات نہیں پاؤں گا.لیکن اللہ تعالیٰ مجھے عیادت آسانی سے کی جاسکے.اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا.155 د ٹھہرو، بخار کو گالیاں نہ دو کیونکہ یہ مومن میں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی کی خطائیں دور کر دیتا ہے جس طرح بھٹی 157 سونے کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے.239 طرح سوال کرتا ہوں.عدل و انصاف.ہم پر اسی طرح شدید آزمائشیں آتی.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے قریب ہیں اور اجر بھی بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے //.جب تم میں سے کسی کا مریض کسی چیز انصاف پسند حا کم ہوگا عیادت / تیمارداری 391 کے کھانے کی خواہش کرے تو اسے کھلاؤ.241.چوزے کی طرح کمزور ہو نیوالے کو فرمایا.آنحضور تمام انسانوں میں سے اَللّهُمَّ تِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ بہترین عیادت کرنے والے تھے.آنحضور کسی کے تین دن سے زائد بیمار آنحضور ایک یہودی لڑکے کی رہنے کی صورت میں عیادت کیلئے جاتے 234 عیادت کیلئے تشریف لے گئے..أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ 233 حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پڑھا کرو 242 243

Page 783

17 احادیث صفحہ احادیث.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اور تمہیں اس کا گوشت کھانے سے 244 اجتناب کرنا چاہئے کہ اس کے گوشت اے ابن آدم !میں بیمار ہوا تھا...ی کسی مریض یا جنازے میں شرکت کرو میں ایک قسم کی بیماری ہے.تو زبان سے خیر کے کلمات کہو.مریض کی عیادت کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی نسخہ جات برائے امراض.سیاہ دانے یعنی کلونجی میں ہر مرض سے نجات دینے کے لئے شفا رکھ دی گئی ہے سوائے موت کے.: 245 246 ہے.پیٹ میں تکلیف کے لئے شہد.صَدَقَ اللهُ وَكَذَبَ بَطْنُ آخِيْكَ // عید صفحہ 248'247.جو شخص محض اللہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے گا.ف.جو نماز جمعہ کے لئے آنا چاہے وہ بے شک جمعہ کے لئے آ جائے اور جو نماز جمعہ ی.انجیر بواسیر اور نقرس کے مرض کے لئے نہیں آنا چاہتا وہ نہ آئے.میں نفع بخش ہے.کشمش کڑواہٹ ، بلغم اور لاغر پن کو 247 دور کرتا ہے،اعصاب کو مضبوط اور اخلاق قرآن کریم ق کو عمدہ کرتا ہے.دل کو فرحت بخش اور غم آنحضور قرآن کریم کی تلاوت شہر کو دور کرتا ہے.247 ٹھہر کر کرتے تھے.فرمایا: اللہ کسی چیز کو ایسی توجہ سے ے.زیتون کی مالش کیا کرو جذام سمیت ستر نہیں سنتا جیسے قرآن کو سنتا ہے.امراض کے لئے شفا ہے.شہد اور آٹے سے بنی ہوئی کھیر دل کو فرحت بخشتی اور غم دور کرتی ہے.کھجور قولنج کو دور کرتی ہے.ے.رحمت کی آیت پر آپ رحمت طلب کرتے.اور عذاب کی آیت پر اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے.ی.قرآن کریم پڑھنے پر سکینت نازل 647 56 56 133 134.گائے کا دودھ پینا چاہئے کیونکہ یہ دوا ہوتی ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے 565 ہے اور اس کی چربی اور مکھن میں شفا ہے قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف پڑھو

Page 784

18 احادیث صفحہ احادیث اور اس کے غرائب پر عمل کرو..جس نے تین دن سے کم عرصے میں اور جھگڑا کرتے نہیں دیکھا.قرآن کریم ختم کیا اس نے کچھ بھی نہیں سمجھا 624.آپ نے مجھے میری رقم ادا فرمائی اور قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں میری رقم سے زائد بھی عنایت فرمایا.625.جو کوئی تمہارے پاس کوئی چیز امانت 566 * ہم نے آپ کو کبھی دھوکے بازی مکمل کیا کرو.صفحہ 676 677 قرآن کا ایک حرف پڑھنے سے کے طور پر رکھتا ہے اسکی امانت اسے لوٹا دو.678 ایک نیکی ملے گی.631.قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا وَلَا دِيْنِ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ.فرمانبردار اور معز ز سفر کرنیوالوں کیساتھ ہوگا // لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَةَ لَهُ فرمایا : تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرض پچاس آیات قرآن کی تلاوت ادا کرنے کے لحاظ سے بہتر ہو.کرنے والا غافل لوگوں میں شمار نہ ہوگا.631.ایک رات میں پچاس آیات کی تلاوت کر نیوالا حفاظ قرآن میں شمار ہوگا.11 مسابقت بالخیرات.حافظ قرآن جنت میں قرآن پڑھتے.جس کو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے || 681 ہوئے بلندی کی طرف چڑھتا جائے گا.// نیکیوں میں آگے بڑھنے کی توفیق دے رہا ہیں.اپنے گھروں میں کثرت سے ہے اسے میں کس طرح روک سکتا ہوں.270 632 تلاوت قرآن کریم کیا کرو.ہے.تو اللہ کی عبادت کر، اس کے ساتھ.قرآن کے حُسن میں اپنی عمدہ آواز کسی کو شریک نہ ٹھہرا، نماز پڑھ کے ساتھ اضافہ کیا کرو..قرآن کریم قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفاعت کرے گا.633 لیلة القدر J.......مسجد / مساجد.اللہ کے نزدیک شہروں میں پسندیدہ.جب تم کسی شخص کو مسجد میں عبادت جگہیں ان کی مساجد ہیں.کے لئے آتے جاتے دیکھو تو تم اس کے مومن ہونے کی گواہی دو..ہزار مہینوں سے بہتر رات 640 د.اس زمانے کے لوگوں کی مسجد میں بظاہر تو لین دین 271 29 31 آبا د نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہونگی 347

Page 785

19 احادیث ا ہماری مسجد میں بھلائی کی بات صفحہ احادیث.آپ نے کھانے پر ہاتھ رکھ کر برکت صفحہ سیکھنے ولا جہاد کرنے والے کی طرح ہوگا 348 کی دعا کی تو تھوڑا سا کھانا کافی ہو گیا.433.مساجد جنت کے باغات ہیں.35931.آپ کے پاس جب بھی کھانے کی.جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کوئی چیز آتی ، تو دوسروں کو بلا لیتے..ایک دفعہ ایک کافر آپ کا مہمان کے لئے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا.بن کر سات بکریوں کا دودھ پی گیا لیکن * مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ بَنَى اللَّهُ آپ کا دل تنگ نہ پڑا.لَهُ فِي الْجَنَّةِ مِثْلَهُ مسکینی 358.آپ مہمانوں کی ظاہری مہمان نوازی کے ساتھ ان کی روحانی تربیت کی ہے.اے اللہ ! مجھے مسکینی کی حالت میں طرف بھی توجہ دیا کرتے تھے.زندہ رکھ اور وفات دے اور قیامت کے دن ہے.جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے مساکین کے گروہ میں سے مجھے اٹھانا.487 وہ اپنے مہمان کا احترام کرے..آپ مساکین کیساتھ چل کر انکی حاجات مہمان کا جائز حق ایک دن اور رات کی مہمان نوازی ہے..ایک انصاری اور اس کی بیوی کا کو پورا کرنے میں عار محسوس نہ کرتے.488 اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو.489 مهمان نوازی کا واقعہ جس میں بچوں کو بہلا مومن کر سلا دیا جاتا ہے.پر تکلف مہمان نوازی ایک دن رات.مومن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ ہے جبکہ عمومی مہمان نوازی تین دن تک کا فرسات آنتوں سے کھاتا ہے.رکھا.662 435 || 437 438 || ہے.اور تین دن سے زائد صدقہ ہے.451.ایک صحابی نے چار اوقیہ چاندی مہر نرمی رشفقت محبت مهمان نوازی.عبد الله بن طُهْفَه رضی اللہ عنہ کو آنحضور کے مہمان بنے کی سعادت 695 431 ن آنحضور نماز تہجد کے لئے اٹھانے میں نرمی و محبت سے کام لیتے تھے.حضرت صفیہ کے چھوٹے قد کے طعنے پر حضرت عائشہ کو نرمی سے سمجھایا.497 498

Page 786

20 احادیث.حضرت عائشہ نے حضرت حفصہ کا کھانے کا برتن تروا دیا...صفحه احادیث.رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے 499 نماز فجر پر جمع ہوتے ہیں.آئندہ کھجور کے درخت کو پتھر نہ.جب تک نماز کی خاطر کوئی شخص مسجد صفحہ || مارنا.ہاں جو پھل گر جائے اسے کھا لینا 500 میں بیٹھا رہتا ہے نماز میں ہی ہوتا ہے.660 حملے.اس کو چھوڑ دو اور جہاں اس نے وضو کر کے نماز کی نیت سے مسجد آنے پیشاب کیا ہے وہاں پانی کا ڈول بہادو.505 والے کا مقام اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن محض اللہ محبت خشوع و خضوع سے وضو کر کے دو کر نیوالوں کی تلاش مومن آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں 377 دیئے جائیں گے.376 رکعت نماز پڑھنے والے کے پہلے گناہ بخش محض اللہ ایک دوسرے سے محبت.باجماعت نماز اکیلے نماز پڑھنے کی کر نیوالوں پر رشک.524 نسبت ستائیس گنا افضل.نماز نیکی لوگوں کے اعمال میں سے قیامت ہے..ایک آتش پرست کا بارش کے دنوں || 661 657 کے دن سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا.25 میں اپنی چھت پر پرندوں کو دانہ ڈالنا اور اس اوراس ے.پانچ نمازوں کی مثال ایک نہر سے 26 نیکی کے بدلے مسلمان ہونے کی توفیق پانا 544.باجماعت نماز پڑھنا کسی شخص کے اکیلے نماز پڑھنے سے 25 گنا زیادہ ثواب 27

Page 787

88 87 416 507 557 558 || || 559 || 21 مضامین مضامین.وحشی قوم کی کامل اصلاح آپ ہی مضامین صفح.....آ سے ہوئی.اطاعت آزادی ے.مذہبی آزادی پر بحث 106 ضروری ہے.محبت الہی کے لئے اطاعت رسول ہے.ذیلی تنظیموں کو جوابات دینے کا حکم 106.حکام اور ملکی قانون کی اطاعت پر J)......حمد.احمدیت یعنی حقیقی اسلام 40 اللہ تعالیٰ.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے......خدا نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اپنی عبادت کا حکم دیا..رب العالمین.احمدیت کا پیغام پھیلانے کی طرف توجہ 41.ایک عیسائی سپینش مصنف کی کتاب میں احمدیت کا ذکر.اسراف / فضول خرچی حمد.اسراف کا مطلب اصلاح 49 664 اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے تقوی ضروری ہے.تمام کائنات خدا تعالیٰ کے ایک اشارے پر حرکت کرنے والی ہے..دوسری سب چیزوں کو خدا کے مقابلہ میں بیج سمجھا جائے.آنحضور کا زمانہ ایک کامل مصلح کا.جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری تقاضا کر رہا تھا.87 سمجھا جاتا ہے تو وہ معبود ہو جاتا ہے اور یہ صرف خدا تعالیٰ ہی کا وجود ہے.

Page 788

22 مضامین صفحه.جس دل میں کبھی ناہمواری، کنکر پتھر نہیں اس میں خدا نظر آتا ہے.564 بندہ جیسا خدا کے متعلق سوچتا ہے خدا ویسا ہی اس سے سلوک کرتا ہے.الہام الہامات مضامین امر بالمعروف نهي عن المنكر صفحہ تم ضرور نا پسندیدہ باتوں سے منع کرو.283.وہ شخص ہم میں سے نہیں جو معروف باتوں کا حکم نہیں دیتا کسی بندے کے دل میں دیانت داری نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ الہام مسیح موعود 44 اور خیانت اکٹھے نہیں ہو سکتے ہیں.|| 289.دست تو دعائے تو ترحم زخدا (/) 531 ی خود عمل پیرا ہوکر نیکیوں کا حکم دیا جاتا ہے 282 خودعمل پیراہوکر کاحکم دیا جاتا ہے دُعَاءُ كَ مُسْتَجَابٌ ) // ) امانت دیانت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے موقع اور محل ضروری ہے..جنگ خیبر کے دوران یہود کی بکریاں انسان چرانے ولا مسلمان ہوگیا..418 تم میں سے سب سے زیادہ امین ہے 420 تم نے مکہ میں ہی رہنا ہے جب تک ہر ایک کواس کی امانت نہ پہنچ جائے.421 ہے.اس شخص کو امانت لوٹا دے جس نے ہے.دنیا دار انسان صرف دولت، آرام اور عزت چاہتا ہے..اسلام میں انسان کے تین طبقے.جب انسان مومن کامل بنتا ہے تو وہ اس 284 159 276 تم پر اعتماد کر کے تمہارے پاس امانت رکھی.422 کے اور اس کے غیر میں فرق رکھ دیتا ہے.397 "لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا انسان کامل 66 دِيْنَ لِمَنْ لَّا عَهْدَ لَهُ “ حمد امانت کی تعریف.423'422 426.دیانت اور امانت انسان کی طبعی انفاق فی سبیل اللہ حالتوں میں سے ایک حالت ہے.عہدیداروں کے عہد ان کے سپرد امانتیں ہیں.ہیں.خیر امت کی ذمہ داریاں.290 125.آنحضور علی انسان کامل..خدا کے راستے میں خرچ کرنے کا وقت.329 فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو.// 552 یا.دو اشخاص قابل رشک..جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا 280 آپ ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی نیکیوں کو اختیار کرنا اور برائیاں چھوڑنا 282 بازار چلا جاتا..330'4 338'5

Page 789

صفحہ 15 16 18 411 575 581 512 522 23 مضامین.ہر صبح دوفرشتے اترتے ہیں.صفحہ 6 مضامین.اموال طیبہ کو دینی مہمات میں خرچ ا.اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو // کرنے کی ترغیب.اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر ہیں.دلوں کی پاکیزگی قربانیوں سے ہی 173 پیدا ہوتی ہے.بھی سونا آجائے.حضرت ابو طلحہ انصاری نے اپنا ہے.عاجزی سے قربانیاں کرنے والے پسندیدہ باغ خدا کی راہ میں دے دیا..ایک آدمی نے جنگل میں بادلوں 573 ہی دعاؤں کے حصہ دار بنیں گے.میں سے آواز سنی..U.K جماعت کی قربانیاں 577.مالی قربانی قرضہ حسنہ ہے.یں.ایک دفعہ حضرت عمرؓ اپنے گھر کا آدھا.ایک عورت انڈے بیچ کر مالی تحریک مال لے آئے اور ابوبکر سارا مال..خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی مثال ایک باغ سے..امراء اور غرباء دونوں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں.ید گھانا میں ایک احمدی پر قربانی کرنے سے 572 میں شامل ہوئی.2 5 ایثار یں.جنگ کے بعد زخمی صحابہ کو پانی پلانے کا واقعہ..جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس خدا کے بہت فضل ہوئے اور وہ بھی بڑھ چڑھ کے کرب کو دور کرتا ہے.کر راہ خدا میں خرچ کر رہے ہیں.7 ایفائے عہد ہیں.مالی قربانی میں عورتیں بھی بڑھ چڑھ تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا.میں کر حصہ لیتی ہیں.یا.عورت اور بچوں کی قربانی میں مرد کو بھی ثواب ملتا ہے.تو فیق پاتے ہیں.9'8 تین دن سے اس جگہ تیرا انتظار کر رہا ہوں 420 وَأَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى ذَلِكَ.غرباء کے مقابل پر امراء قربانی کی کم وَاعْطُوْنَا عَهْدَ اللَّهِ وَإِنَّا لَا نَغْدُرُ بِهِمْ “ 425 12 حذیفہ بن یمان اور اَبُوحُسَيْل میں بد عہدی نہیں کیا کرتا اور نہ اے خوشا مال که قربان مسیحا گردد کی عہد کی پابندی کہ مبارک ہے وہ مال جو خدا کے مسیح کے لئے قربان کر دیا جائے.14 سفیروں کو قید کرتا ہوں.|| 426

Page 790

24 مضامین صفحه ایم ٹی اے پیدائش مضامین صفحہ ے ایم ٹی اے جیسی نعمت کے ذریعہ حضرت.انسانی پیدائش کا مقصد عبادت الہی مسیح موعود کا پیغام دنیا تک پہنچ رہار ہے.40.تیز بارش میں بھی خدا کے خاص فضل سے MTA کا رابطہ قائم رہا.پیشگوئی پیشگوئیاں 476.سلسلہ احمدیہ کی ترقی کی پیشگوئی 51 تجارت.سبحان اللہ ! معاذ اللہ ! کیا ہم آپ پر.اصل تجارت خدا کی راہ میں جان و مال 506 قربان کرنا اور جہاد کرنا ہے.بد گمانی کر سکتے ہیں.ا.بیعت کی غرض دنیا کی محبت ٹھنڈی.وقف عارضی کے لئے سپین جانے کی تحریک تحریکات 546 کرنا اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت دلوں میں بٹھانا ہے.تحریک.382.طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی.بیعت کے بعد اپنے اندر تبدیلی پیدا قربانی کی تحریک.50 336 399.ناروے کو ایک مالی تحریک کی طرف توجہ 583 کرنی چاہئے.بھائی چارہ تحریک جدید آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان 667 مکہ میں بھائی چارہ کی فضا.512 پڑوسی.پڑوسی سے حسن سلوک تحریک جدید کے مقاصد.مجاہدین تحریک جدید مالی قربانیاں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں..دفتر اول کے پانچ ہزار مجاہدین کے کھاتے کبھی مردہ نہیں ہونے چاہئیں.668 507

Page 791

25 مضامین صفحه تقوی مضامین آہستہ آواز سے تلاوت کرتے تھے..فرمایا: اللہ کسی چیز کو ایسی توجہ سے تقویٰ کے نتیجہ میں نور دیا جاتا ہے.291 نہیں سنتا جیسے قرآن کو سنتا ہے تقویٰ کے اجزاء.عجب خود پسندی، مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا 292 رحمت طلب کرتے.جب عذاب کی.تقویٰ کامیابی کا ضامن ہے.اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا.تقویٰ کا دوسرا نام صراط مستقیم ہے.اللہ تعالیٰ متقی کا کفیل ہوتا ہے.قوت بخشتی ہے.293 296 297 جب کوئی رحمت کی آیت آتی تو آیت آتی تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے.ہیں.میں یہ پسند کرتا ہوں اپنے علاوہ کسی اور سے بھی قرآن کریم سنوں.اے قرآن کے ماننے والو! اس.اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دو.361 تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے نه سویا کرو لئے سلامتی کا تعویذ ہے.تقویٰ سے عاری لوگوں کی تفصیل 375 صفحہ 134 || || 138 139 140 جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہوگا.// ہے.اعلیٰ اخلاق تقوی سے پیدا ہوتے ہیں 384.اونچی آواز سے قرآن پڑھنے والا ظاہراً خیرات کرنے والا اور آہستہ آواز تکبر وغرور غرور اور تکبر غضب سے پیدا ہوتا ہے.519 سے پڑھنے والا چپکے سے خیرات کرنے والا.//.غصہ کو کھالینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے.قرآن پڑھنے والے اور عمل کرنے 527 والے کے ماں باپ کے سر پر دو تاج تلاوت قرآن کریم.آپ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے.133 خوشی کا اظہار..|| تو به استغفار اپنے بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ کی 303.جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت ی لی لی وسلم کی قراءت مفسرہ ہوتی تھی.|| میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں..آپ رات کو بھی بلند آواز سے اور کبھی.گناہ سے سچی تو بہ کرنے والا ایسا ہی 304

Page 792

26 مضامین ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں.ے.استغفار کا مطلب کی.استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی صفحہ || مضامین صفحہ.جسے قسم کھانے کی ضرورت پیش 303 آئے وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے 68 726.آپ نے قبروں کی زیارت کرنے توبہ و استغفار بہترین معیشت اور والوں پر لعنت کی ہے.دین ودنیا کی نعمتیں ملنے کا ضامن 302 303 توبہ کے معنی تو بہ کے تین شرائط توحید باری تعالیٰ ہے.دنیا میں توحید خالص کے قیام کے 724 305 لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت علی کو بھیجا.57 اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِى وَثْنَا.میں بندوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک || 69 کرتا ہوں جیسا میرے بارے گمان کرتا ہے 564 بچپن میں ہی ” بوانہ بت خانہ میں جانے سے آنحضور " کو طبعا نفرت تھی.58.بت کے قریب ہونے پر سفید رنگ کا بچپن میں بامر مجبوری بت خانہ جانے طویل القامت شخص متماثل ہوتا.پر بھی اللہ نے آپ کو توحید کی طرف جھکائے رکھا.عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلَى رَبِّه - 58 59.لا إله إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله 71.آپ نے اپنی قوم کو شرک کا چولہ اتار کر توحید کا جامہ پہنایا..مجھ سے بتوں کا واسطہ دے کر سوال نہ کرو // جید میں اس میں سے کھانے والا نہیں جو توکل علی اللہ تم بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو.اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں || 87 تو رات میں آپ کو متوکل کہا گیا 213 طائف میں تبلیغ کے بعد مکہ میں داخل سورج اور بائیں طرف چاند بھی لا کر رکھ ہونے کا واقعہ.دیں تو بھی تو حید کو نہیں چھوڑ سکتا.61.اراشہ نامی شخص کو ابو جہل سے اس کا م لبید کا یہ مصرعہ کہ سنو اللہ کے سوا حق دلوانے کا واقعہ.یقیناً ہر چیز باطل اور مٹ جانے والی ہے.67 ہجرت مدینہ کے وقت یقین اور.تم جا سکتے ہو.میں کسی مشرک سے توکل کرتے ہوئے دشمنوں کے درمیان سے مدد نہیں لینا چاہتا.سے تشریف لے گئے.214 215 217

Page 793

27 مضامین ے.غار ثور میں حضرت ابوبکر کو آپ کا یہ فرمانا.لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.صفحه ی.سراقہ کا آپ کے قریب پہنچ جانا اور جلسہ سالانہ آپ کا خدا پر یقین وتوکل.مضامین ج 218.جلسہ میں شمولیت دلوں میں پاک.ایک دیہاتی کا آپ پر تلوار سونتنے کا تبدیلی کا باعث ہونی چاہئے.واقعہ.220 221.جلسہ سالا نہ فرانس کے انعقاد سے قبل.جماعت کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ صفحہ 18 44 ا.جابر کے ہاں کم کھانا اور آنحضور کا بعض مشکلات کا احوال.تو کل کرتے ہوئے تمام صحابہ کو کھانے کے لئے اپنے ساتھ لے جانا.222 223 ہزاروں میل کی دُوری کے باوجود دونوں ایک.اے اللہ ! میں تیری فرمانبرداری کرتا ہوں دوسرے کے جلسوں سے فیض اٹھا رہے تھے.44 تجھ پر ایمان لاتا ہوں، تجھ پر تو کل کرتا ہوں 224.جلسہ چین کی کامیابی.اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ..وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْت بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبك.ہیں.اگر تم اللہ پر توکل کرو تو وہ ضرور تمہیں || || رزق دیگا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے 226 جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اسے ان سب گھاٹیوں سے بچالیتا ہے.228.اسباب کو جمع کرو پھر تو کل کرو.ہوگا.جو شخص متبتل ہوگا متوکل بھی وہی 213 49 88.بنگلہ دیش کا 81 واں جلسہ سالانہ.جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ 369 جلسہ سالانہ برطانیہ پر عمومی ہدایات 462.جلسوں کے انعقاد کے مقاصد.گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے یہ جلسے منعقد کئے جارہے ہیں..جلسہ پر آئی ہوئی ایک خاتون کا ایمان افروز واقعہ - ی.اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.“ جلسہ سالانہ قادیان پر کارکنان 229 تفصیلی نصائح یں.خدا تعالیٰ کی ذات پر فوق العادت جماعت احمدیہ یقین کامل تو کل پیدا کرتا ہے.530 532 533 534 7410738.دنیا میں خدا کی راہ میں قربانی کرنے

Page 794

28 مضامین والی قابل رشک جماعت..جماعت کے اکثر افراد چندوں میں برکت پڑنے کے راز کو جانتے ہیں..آخرین کی جماعت.صفحہ 4 6 10 مضامین صفحہ جمعۃ المبارک.اگر انسان ایک جمعہ نہیں پڑھتا تو دل کا ایک حصہ سیاہ ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود نے جماعت کی ہے.ایک ایسی گھڑی آتی ہے جو دعا تربیت کے لئے بہت پُر درد دعائیں کیں.// ہے.جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب 11.جماعت کو ”صحابہ سے ملا جب مجھ 14 547 کرے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے.// ہے.جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہونا چاہئے..جمعہ کے دن کا روبار بند کر کے جمعہ 28 کو پایا“ کا مصداق قرار دیا گیا ہے.ہیں.واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس ادا کرنا اور بعد میں پھر کاروبار شروع کرنا.29 جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے جود وسخا عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا.18 فرمايا: إِنَّمَا أَنَا فَاسِمٌ وَيُعْطِي اللَّهُ.161.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 178 ممالک میں جماعت قائم ہے." كَانَ النبي علم أَحْسَنَ 39 النَّاسِ وَاجْوَدَ النَّاسِ“ یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری.آپ کی سخاوت رمضان کے مہینے || حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئی.351 میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ جاتی تھی.162 353 352.میرے پاس جو مال ہوتا ہے اسے.جماعت کو نصائح.افراد جماعت اور عہدیداران کو نصائح 389 تم سے روک کر نہیں رکھتا..جماعت احمدیہ کا ماٹو.Love for“.آنحضور نوے ہزار درہم ایک چٹائی پر 474 رکھوا کر تقسیم فرمانے لگے.all hatred for none".ہماری جماعت کو واجب ہے کہ اب کوشش کرے.541 فدک کے رئیس نے سامان سے || 163 165 تقویٰ سے کام لے اور اولیاء بننے کی لدے ہوئے چار اونٹ تحفہ بھجوائے.اگر میرے پاس اونٹ ہوں تو میں جماعت احمد یہ بنانے کا مقصد حقیقی ان کو تقسیم کرنے میں خوشی محسوس کروں گا.166 معرفت اور حقیقی تقویٰ و طہارت کو دوبارہ قائم کرنا ہے.554'553.آپ نے بکریوں کا اتنا بڑا ریوڑ دیا کہ دو پہاڑوں کے درمیان کی وادی بھر گئی //

Page 795

29 مضامین یں.غزوہ حنین کے دن آپ نے صفوان کو تین سو اونٹ دیئے.صفحہ 167 166 مضامین صفحہ حقوق العباد ادا کرنے کے لئے جہاد 548 جھوٹ.آپ نے ایک شخص کو فرمایا کہ اس کو ایک.جو شخص جھوٹ نہیں چھوڑتا اللہ کو اس کا اونٹ پر جو اور دوسرے پر بھجور میں لا د دو.167 کھانا پینا چھوڑنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں 504 بحرین سے مال آیا تو آپ نے می میں ڈھیر لگوا کر اسے تقسیم کروا دیا.169 فرمایا: اگر تم تمام برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو جھوٹ بولنا چھوڑ دو.ں.ایک بدو نے آپ سے سختی سے مال مانگا تو آپ نے اسے عطا کیا.فرمایا: "اے مَخْرَمه! خَبَاتُ هذَا لَكَ..آپ نے دونوں ہاتھ بھر کر سونے 169 170 کے زیور دیئے اور فرمایا یہ زیور پہن لو.171.گناہ کبیرہ یہ ہیں: جھوٹ اور جھوٹی گواہی ، غور سے سنو جھوٹ اور جھوٹی گواہی 504.فی زمانہ جھوٹ کو برائی نہیں سمجھا جاتا 287.جھوٹ سب برائیوں کی جڑ ہے.قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک ام سنبلہ کو تحفہ کے بدلے میں نجاست اور پرجنس قرار دیا ہے.آپ نے ایک وادی عطا فرمائی..یہ رقم بھی تمہاری ہے اور یہ اونٹ بھی || تمہارا ہے.دونوں چیزیں تم لے جاؤ.172 چندہ جات سخاوت کرنے والا اللہ تعالیٰ کے قریب چ پاکستان میں باوجود غربت کے لوگ || 288 ہوتا ہے اور جنت کے بھی قریب.173 577 چندہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.5 جہاد ہیں.دین اسلام کی چوٹی جہاد ہے..آپ نے تربیت اور تبلیغ کو ہی جہاد اکبر قرار دیا.274 ||.چندہ عام کی شرح 1/16 ہے..خلیفہ وقت کی اجازت سے چندہ میں کمی ہوسکتی ہے.332 پیشگوئی کے مطابق مسیح کی آمد کے ساتھ ہی تلوار کا جہاد ختم ہونا تھا.|| قرآن کے دلائل کے ساتھ بڑا جہاد // نفس کا جہاد 547 حبل اللہ حبل اللہ آخری شرعی کتاب قرآن کریم اور نبی کریم علیہ کی ذات ہے.514513

Page 796

30 مضامین صفحہ مضامین.اب اللہ کی رسی حضرت مسیح موعود علیہ.قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت 516 خلافت سے افریقی جماعتوں کا الصلوۃ والسلام کا وجود ہی ہے..جس کی عقل موٹی ہوگئی ہو اس کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی اخلاص و محبت کی رسی کو پکڑنے کا کیا ادراک ہو سکتا ہے.520 ہیں.بچے خلفاء کی علامات حق حقوق احمدیت کی خلافت ملوکیت میں نہیں خلاف ملکہ بدلے گی.آنحضور کی آخری وصیت و پیغام یا.خلافت ایک انعام ہے.الصَّلودَة وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ.“ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہترین خلاصه 105 لمبے عرصے تک چلے گی.خدمت خلق خ.پاکستان میں زلزلہ کے سلسلہ میں.اب احمدیت کا علمبر دار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے.صفحہ 311 315 317 318 319 320 322 صدسالہ خلافت جو بلی کیلئے دعائیں // جماعت احمدیہ کی خدمات.614613 خُلق اخلاق خشوع و خضوع.ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بنائی ہے اخلاق بھی اچھے بنادے.بیج کے ہے.خلافت 550 ی.جس طرح تو نے میری شکل اچھی.میں تو اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں..تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک.آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ چاہے گا.311 خوبصورت اور خوش اخلاق تھے.109 110 111.خلافت احمدیہ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ یں.میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے 308 زیادہ تبسم اور مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا // کی فعلی شہادت.قیام خلافت کے بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے خط کا ذکر ||.آپ دور سے دیکھنے میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے اور قریب خلافت خامسہ کے انتخاب کا ذکر 310 سے دیکھنے میں انتہائی شیریں زبان

Page 797

31 مضامین صفحہ مضامین.آپ لوگوں میں سب سے زیادہ * اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبكَ وَلَا صفحہ 112 تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ 619.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ خَيْرَهَا وَ فراخ سینہ تھے.اور نرم خو تھے.آپ کا مبارک چہرہ دیکھا تو میں جان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا // خَيْرَ مَا فِيْهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ.جب بھی کسی نے آپ کے دست اللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوْذُبِكَ مِنْ زَوَالِ مبارک کو پکڑا تو آپ نے اپنا ہاتھ نہ چھڑایا 113 نِعْمَتِكَ وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ وَفُجَاءَ آپ اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے ةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ.تھے، اپنا کپڑا سی لیتے تھے.اَعُوْذُ بِوَجْهِ اللَّهِ الْعَظِيْمِ الَّذِي.آنحضور پردہ دار کنواری دوشیزہ سے بھی لَيْسَ شَيْي ءُ أَعْظَمُ مِنْهُ وَبِكَلِمَاتِ 620 121 يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَى زیادہ حیادار تھے.115.اے نبی تو ایک خلق عظیم پر مخلوق و مفطور ہے 108 دِينِكَ..آپ کے اخلاق تمام پہلے نبیوں سے بڑھ کر تھے.- إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا 174 | وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً.175 - رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ 537 ||.آپ کے اخلاق حسنہ کی مثال ایک نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى 752 بڑے عظیم الشان درخت کی ہے., دعار دعائیں 265 ی.خدا تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا جو دعا نہیں کرتا.دعا کو مضبوطی سے پکڑ لو.میں یقین رکھتا 563 ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ.جس کیلئے باب الدعا کھولا گیا اس کے تعالی ساری مشکلات کو آسان کر دے گا“.569 لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے 648.انبیاء کی زندگی کی جڑ اور ا کامیابیوں خوشحالی کے اوقات میں کثرت سے کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہی ہے.دعائیں کرنی چاہئیں.عربی دعائیں 648 ا.وہ دعا جو معرفت کے بعد اور کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ اور کیفیت رکھتی ہے.وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ.23 646 648

Page 798

مضامین صفحه 32 مضامین صفحہ.مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں.تھکتے نہیں.648 ہے.دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک راستبازی / سچائی 649 کو کیمیا کر دیتی ہے..آپ امانتدار ہیں اور احسن اخلاق حضرت مسیح موعود کی ایک پر درد دعا 651650 کے مالک ہیں اور بات کہنے میں بچے ہیں 77 دعوت الی اللہ كَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيْكَ.آنحضرت ا سب سے بڑے اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ داعی الی اللہ ہیں.588.آپ سب سے زیادہ سچ بولنے.ابوجہل کی گواہی : ہم تمہیں جھوٹا نہیں اعمال صالح کے ساتھ دعوت الی اللہ والے تھے.|| 78 79 کامیاب ہوتی ہے.کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیمینار کہتے.البتہ ہم اس تعلیم کو جھوٹا سمجھتے ہیں.// کے ذریعہ تبلیغ کریں.دہشت گردی جو لندن بم دھما که.اسلام اور آنحضرت ﷺ کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی.590.ہرقل کے دربار کا واقعہ.402 ||.آنحضور کا بتانا کہ خانہ کعبہ میں لڑکا ہوا معاہدہ کو دیمک کھا گئی 80 00 82 آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا 85 ہیں.آنحضور کی صداقت کی ایک دلیل ہیں.حجر اسود کی تنصیب کا واقعہ آپ کی 75 ز ذکر الہی.جلسے کے ایام میں ذکر الہی کرو.سچائی پر دلیل..آنحضور کی سچائی کا نور نہ پہلے چھپا تھا اور نہ آئندہ چھپے گا.460.آنحضور اظہار سچائی کے لئے ایک.ذکر الہی تو ہے ہی بڑی نعمت خواہ اس مجد داعظم تھے.کے عوض انعام ملے نہ ملے.رب (صفت باری تعالیٰ).اگر تم ذکر الہی کرو گے تو خدا تمہارا.ربوبیت عبودیت کو چاہتی ہے.ذکر کرنا شروع کر دے گا.76 86 87 21

Page 799

33 مضامین صفحه.ایک احمدی کا نسبتا زیادہ فرض ہے کہ قومی اثر ہے.وہ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرے اور عبادت کرے.رمضان المبارک جنت کو رمضان کے لئے سال کے مضامین جسمانی سجدہ بھی روح میں خشوع اور 22 عاجزی کی حالت پیدا کرتا ہے.آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے.596.اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ سایہ یمکن ہوا ہے..جسمانی افعال اور اعمال کا روح پر اثر پڑتا ہے ایسا ہی کبھی روح کا اثر بھی جسم پر جاپڑتا ہے.597 | زلزله......ز......یا.ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے د شمالی پاکستان اور کشمیر کے علاقے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے.روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیب ہے.ے.روزہ ڈھال ہے اور آگ بچانے والا مضبوط قلعہ ہے.599 || 600 رمضان گزشتہ گناہ بخشنے کا ذریعہ ہے 601 646 حمد رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.رمضان میں آنحضور له اموال تیز ہوا کی طرح خرچ کرتے تھے..رمضان کا آخری عشرہ جہنم.نجات کے لئے ہے.ނ 602 603 640 میں زلزلہ اور بتا ہی.سادگی س.جنگ احزاب میں خندق کھودنے کے دوران آنحضور کامٹی ڈھونا..آپ نے حضرت فاطمہ کو جہیز میں ایک ریتمی چادر....دیئے..اے عمر! مجھے دنیا سے کیا غرض ؟ میں صفحہ 663 664 611 483 484 تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں.485.یہ لباس فلاں کو بھیج دو اور میرے لئے تو سادہ کپڑے کالباس مہیا کرو.روزہ دار ذکر الہی میں مصروف رہ کر.اگر مجھے بکری کے پائے کی دعوت پر تبتل اور انقطاع حاصل کرسکتا ہے.روح جسمانی اوضاع کا روح پر بہت 604 486 بھی بلایا جائے تو میں دعوت پر جاؤں گا.487 ے.آپ نے تادم آخر کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیں دیکھی.490

Page 800

34 مضامین صفحہ مضامین صفحہ آپ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے //.غار ثور میں آپ کا حضرت ابوبکر کیرن آرمسٹرانگ نے لکھا ہے کہ محمد کو دلاسہ دینا.لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا 256 (ع) نے ہمیشہ سادہ وسائل کو صحیح سراقہ بن مالک کا قریب پہنچ جانا اور آپکا استعمال کرتے ہوئے زندگی گزاری.492 آرام سے کلام الہی کی تلاوت فرماتے رہنا.257 سال نو لڑائی کے دوران ہم رسول کریم علی.سال نو پر جماعت اور سب انسانیت کو ڈھال بنا کرلڑتے تھے.کے لئے حضور انور کی دعائیں.شادی بیاه.ش ہے.مریم شادی فنڈ نصائح چیز کے بارے میں ہدایات کھانا اور شادی کارڈ کے متعلق عمومی 19 333 ||.ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا 258 تو لوگ آواز کی طرف دوڑے.پتہ چلا کہ آنحضور حالات کا جائزہ لے کر آ رہے ہیں 264.خدا تعالیٰ سے شدید تعلق شجاعت پیدا کرتا ہے..مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا..جنگ میں آپ سب سے بڑے 334 خطرناک مقام میں ہوتے تھے..کینیڈا میں شادی بیاہ کے معاملہ پر شکر گزاری تفصیلی ہدایات.378'377 686 - "اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي لَكَ شَاكِرًا.شادی پر دف بجانے کی اجازت لَكَ ذَاكِرًا “.ہندو اپنے شادی بیاہوں پر گا کر دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں.شجاعت / بهادری 687.اے اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میں 251 || 265 196 تیرا سب سے زیادہ شکر کرنے والا ہوں.// ام.بارش ہوئی تو آپ ننگے سر پر.حضرت ابوطالب کے پاس کفار مکہ کا بارش لینے لگے.پوچھنے پر فرمایا کہ یہ تبلیغ رکوانے کے لئے آنا اور آنحضور کا کمال جرات سے جواب دینا.ابو جہل کا ایک تاجر کا حق مارنا اور 254 میرے رب سے تازہ تازہ آئی ہے." الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا 197 آنحضور کا وہ حق اس کو دلوانا.وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ “ ||

Page 801

35 مضامین.آپ نے روٹی کے ایک ٹکڑے پر صفحہ مضامین.فرمایا: قرض دینے کا بدلہ شکریہ کھجور رکھی ہوئی تھی اور فرمارہے تھے کہ یہ کھجور کے ساتھ ادا ئیگی ہے.اس روٹی کا سالن ہے.صفحہ 208 207 * - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيْهِ الصَّالِحَاتُ.198.اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَ اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوْتُ شُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ أَسْأَلُكَ خَيْرَهُ وَخَيْرَ وَاحْيَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ هذَا وَرَزَقَنِيْهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا || قُوَّةٍ غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُوْر." الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِيْ اَذْهَبَ عَنِّي ہیں.جو چھوٹی بات پر شکر نہیں کرتا وہ بڑی الأَذِى وَعَافَانِي ا.آپ نے فرمایا کیا میں خدا کا عبد شکور نہ بنوں.خدا تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کی 199 نعمت پر بھی شکر ادا نہیں کرتا.|| نمازوں کی طرف توجہ دیں.شکر گزار بندہ بن سکتے ہیں.بھی شکر نعمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے 208 209 || 23 اجازت ملنے پر بار بار سجدات شکر بجالانا.201 مزید فضل کے دروازے کھلتے ہیں..جبریل کی طرف سے خوشخبری سننے شوری رمشوره پر آپ نے قبرستان میں ایک لمبا سجدہ شکر.جو مشورہ کرے گا وہ رشد و ہدایت ادا کیا.202 سے محروم نہیں رہے گا..میں نے آنحضور سے زیادہ اپنے 469 179 ہیں.یوم عاشورہ کو آپ نے فرعون سے حضرت موسیٰ کی نجات کے شکرانہ کے طور اصحاب سے کسی کو مشورہ کر نیوالا نہیں پایا 180.جن امور کے بارے مجھے وحی نہیں ہوتی پر روزہ رکھا اور امت کو حکم دیا..فتح مکہ کے دن حضور نے تواضع اور ان میں میں تمہاری طرح ہی ہوتا ہوں.شکر گزاری سے اپنا سر جھکایا دیا.* - اَللَّهُمَّ احْفَظْ اَبَا أَيُّوبَ كَمَا بَاتَ يَحْفَظُنِي.203 207 واقعہ افک کے سلسلے میں آنحضور نے عائشہ کے بارہ میں مشورہ طلب فرمایا.181.آپ نے اسیران بدر کے سلسلہ میں مشورہ طلب کیا اورا بو بکٹر کے مشورہ پر عمل کیا.187

Page 802

36 مضامین صفحہ مضامین 188.ایک روز ایک بد بخت دشمن نے سجدہ میں صفحہ 94 یا.میں عمر کا مشورہ قبول کرتا ہوں.188 جنگ اُحد کے سلسلہ میں مشورہ دینے آنحضور پر اونٹنی کی بچہ دانی ڈال دی.والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی لا.اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی 189 ہے اور میری خواہش رات کی عبادت ہے 95 شریک تھا.صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں آنحضور یں.شدت گریہ وزاری کے باعث آپ نے مشورہ سے اپنے اونٹ کو ذبح کیا فرمایا: جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے.فرمایا: سمجھدار اور عبادت گزارلوگوں سے 192 کے سینے سے چکی چلنے کی آواز آرہی تھی..رات کو اتنی لمبی نماز ادا کرتے تھے کہ 193 آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے تھے..اے عائشہ! کیا آج کی رات مشورہ کرو اور مخصوص افراد کی رائے پر نہ چلو.// میں اپنے رب کی عبادت کرلوں.یں.جو دعائیں میں رات سجدے میں کر رہا شیطان.شیطان کو ہمیشہ رات سے غرض ہے تھا وہ جبریل نے مجھے سکھائی تھیں.دن سے کچھ غرض نہیں.ص صبر کرنے سے مومن کے لئے دکھ خیر و برکت کا باعث بن جاتا ہے.صدقہ اصدقات 541 609 ے.آپ کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے.96 97 100 ہے.اس کمزوری کے باوجود آج رات میں نے نماز تہجد میں طویل سورتیں پڑھی 102.ہمیشہ دن کے وقت سفر سے واپسی پر مسجد دورکعت نفل ادا کرتے.باوجود خود زخمی ہونے اور 70 صحابہ کے شہید ہونے کے آپ نماز معمول کے تسبیح و تحمید اور ذکر الہی صدقہ ہے.273 مطابق ادا کرتے.103 ع.آخری بیماری میں بھی آنحضور کو نماز کی فکر لگی ہوئی تھی.104 آخری وصیت و پیغام : الصَّلواة وَ مَا عبادت.آنحضور اکثر غارحرا میں جا کر مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ.105 مخالفت نفس بھی ایک عبادت ہے.23 معتکف ہوکر عبادت کیا کرتے تھے.93

Page 803

37 مضامین.جب آدمی عارف ہو جاتا ہے تو اس صفحہ مضامین صفحہ میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں 150 کی عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے.23.اللہ تعالیٰ اس کو نا پسند کرتا ہے جو اپنی.جوانی میں کی گئی عبادات بڑھاپے امتیازی شان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہو./ اور بیماری کی کمزوری سے نجات دلاتی ہیں.24.رسول کریم اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مددفرماتے تھے..رات کو اٹھ کر عبادت کرنا نفس کو.میں ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو ہلاک کرنے کا بہتیرن ذریعہ ہے..سب سے بڑھ کر بے قراری سے سجدہ کرنے والے آنحضور تھے.ع عجز وانکساری کر پیش نہ کرو.90 سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی..ایک بے عقل غریب عورت سے 151 || عاجزی سے پیش آئے اور ضرورت پوری کی 152.حضرت عمرؓ کو فرمایا کہ اے میرے بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا.154 لَا تُخَيَّرُوْنِيْ عَلَى مُوسَى.|| مجھے میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا 480 144 جید میں بھی اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پاؤں گا.لیکن اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا.155 ی.میری اس قدر تعریف نہ کرو جس طرح ی میں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی عیسائی ابن مریم کی کرتے ہیں 144 145 480 میں بھی تمہاری طرح ایک بشر طرح سوال کرتا ہوں..جب تک عاجزی پیدا نہیں ہو گی، 157 ہوں.میں بھی بھولتا ہوں جس طرح کہ تم 146 نفس کی قربانی کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا.551 ہے.میں تو اللہ کا صرف ایک بندہ ہوں 147 ہے.بوقت ہجرت آپ اس قدر عاجزی اور سادگی کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ.اپنے اندر عاجزی اور نفس کی قربانی پیدا کرنے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے.// سب لوگ حضرت ابو بکر کو ہی نبی سمجھنے لگے 148 عدل و انصاف حم تم میرا مقام اس سے بڑھا چڑھا کر نہ بتاؤ جو اللہ نے مقررفرمایا ہے.ہیں.میں بنی آدم کا سردار ہوں مگر اس میں کوئی فخر کی بات نہیں.||.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے قریب انصاف پسند حا کم ہوگا 391 عہدیداروں کو انصاف کے تقاضوں کو 149 پورا کرتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں.395

Page 804

38 مضامین صفحہ عفو و در گذر.لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمِ.125 عہد یداران مضامین.آپ نے جنگ خندق میں زخمی سعد بن معاذ کا خیمہ مسجد میں لگوایا تاکہ عیادت آسانی سے کی جاسکے.ٹھہر و، بخار کو گالیاں نہ دو کیونکہ یہ مومن صفحہ 238 ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کی خطائیں دور کر دیتا ہے جس طرح بھٹی جماعتی عہدے داروں کا احترام سونے کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے.239 521.ہم پر اسی طرح شدید آزمائشیں آتی کریں.عہدیدار رم اور محبت کے جذبات کے ساتھ ہیں اور اجر بھی بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے.جب تم میں سے کسی کا مریض کسی چیز اصلاح کی طرف توجہ کریں.عیادت / تیمارداری 523 || کے کھانے کی خواہش کرے تو اسے کھلاؤ.241.چوزے کی طرح کمزور ہونے والے آنحضور تمام انسانوں میں سے کو فرمایا.اَللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةًوَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پڑھا کرو 242 243 244 245 || 246 233 بہترین عیادت کرنے والے تھے.آنحضور کسی کے تین دن سے زائد بیمار رہنے کی صورت میں عیادت کیلئے جاتے 234.ایک یہودی لڑکے کی عیادت کے لئے أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ.حضرت سعد کے لئے دعا فرمائی: آنحضور تشریف لے گئے.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم !میں بیمار ہوا تھا...اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَاتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ.235.کسی مریض یا جنازے میں شرکت کرو.جابر کے بے ہوش ہونے پر آنحضور تو زبان سے خیر کے کلمات کہو نے وضو کا بقیہ پانی جابر پر انڈیل دیا ا.سعد بن عبادہ کی عیادت کے لئے آنحضور کے ساتھ ۱۳ آدمی گئے.235 مریض کی عیادت کرنے والے کے 236 لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی نسخہ جات برائے امراض : آنحضور کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تو.سیاہ دانے یعنی کلونجی میں ہر مرض آپ معوذتین پڑھ کر دم کیا کرتے تھے.237.گناہ گار بندے کو بخار آنا اس کی بخشش کلا موجب ہے.سے نجات دینے کے لئے شفا رکھ دی گئی ہے سوائے موت کے.

Page 805

39 مضامین.پیٹ میں تکلیف کے لئے شہد.صفحه ”صَدَقَ اللهُ وَكَذَبَ بَطْنُ آخِيْكَ //.انجیر بواسیر اور نقرس کے مرض غضب رغصہ میں نفع بخش ہے.کشمش کڑواہٹ ، بلغم اور لاغر پن کو مضامین غ صفحہ 247 * غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے.519 غضب اس وقت ہوگا جب انسان دور کرتا ہے، اعصاب کو مضبوط اور اخلاق اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.کو عمدہ کرتا ہے.دل کو فرحت بخش اور غم کو دور کرتا ہے..زیتون کی مالش کیا کرو جذام سمیت ستر امراض کے لئے شفا ہے.247 غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہوسکتے..جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل شہد اور آٹے سے بنی ہوئی کھیر دل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے.کو فرحت بخشتی اور غم دور کرتی ہے.|| || 520 || شدید محبت شدید غصہ کی وجہ بنتی ہے.538 ہ کھجور قولنج کو دور کرتی ہے..گائے کا دودھ پینا چاہئے کیونکہ یہ دوا ی.کسی کے پیچھے برے الفاظ میں ذکر ہے اور اس کی چربی اور مکھن میں شفا ہے کرنا، قطع نظر اس کے کہ وہ برائی اس میں اور تمہیں اس کا گوشت کھانے سے ہے یا نہیں.اجتناب کرنا چاہئے کہ اس کے گوشت میں ایک قسم کی بیماری ہے.247 248 - بیعت میں غیبت چھوڑنے کا وعدہ 285 ہے.دعا کے ذریعہ کسی کا عیب دور کرنا ہے.جو شخص محض اللہ دونوں عیدوں کی.ایک صوفی کے دومریدوں کا واقعہ راتوں میں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے گا..شہر اور دیہات کے لوگ مل کر نماز عید ادا کریں.غیبت کرنا بھائی کے گوشت کھانے 647 سے تعبیر.آسمانی سلسلہ میں غیبت کرنے 29 والے ضرور ہوتے ہیں.|| 286

Page 806

40 مضامین.قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت صفحه مضامین قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف پڑھو اور اس کے غرائب پر عمل کرو.صفحہ 566 کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے..عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا ہے.جس نے تین دن سے کم عرصے میں چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس قرآن کریم ختم کیا اس نے کچھ بھی نہیں سمجھا 624 فقہ کے لئے رو رو کر دعا کی ہو.ف.جو نماز جمعہ کے لئے آنا چاہے وہ بے 287.قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو.قرآن کا ایک حرف پڑھنے سے ایک نیکی ملے گی.قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا 625 631 شک جمعہ کے لئے آ جائے اور جو نماز جمعہ فرمانبردار اور معز ز سفر کرنیوالوں کیساتھ ہوگا // کے لئے نہیں آنا چاہتا وہ نہ آئے.56 پچاس آیات قرآن کی تلاوت ہے.عید اور جمعہ اکٹھا پڑھنے کے متعلق کرنے والا غافل لوگوں میں شمار نہ ہوگا.631 فقہی مسئلہ.ق قرآن کریم 55.ایک رات میں پچاس آیات کی تلاوت کر نیوالا حفاظ قرآن میں شمار ہوگا.//.حافظ قرآن جنت میں قرآن پڑھتے ہوئے بلندی کی طرف چڑھتا جائے گا.// ہیں.اپنے گھروں میں کثرت سے آنحضور قرآن کریم کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرتے تھے.133 تلاوت قرآن کریم کیا کرو.فرمایا: اللہ کسی چیز کو ایسی توجہ سے ہیں.قرآن کے حُسن میں اپنی عمدہ آواز نہیں سنتا جیسے قرآن کو سنتا ہے..رحمت کی آیت پر آپ رحمت طلب کی پناہ طلب کرتے.134 کے ساتھ اضافہ کیا کرو.قرآن کریم قیامت کے روز اپنے 632 || کرتے.اور عذاب کی آیت پر اللہ تعالیٰ پڑھنے والوں کے لئے شفاعت کرے گا.633 قرآن کریم ایک کامل اور حسین تعلیم 127.قرآن کریم پڑھنے پر سکینت نازل ی آخری کتاب و شریعت ہوتی ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے 565 خَاتَمُ الْكُتُبُ 128

Page 807

41 مضامین جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی صفحه مضامین عبادتوں سے روکنے والے کھیل کود اس شخص کا ہوتا ہے اسی قد رقوت وشوکت لغویات میں شامل ہیں.اس کلام کی ہوتی ہے.لیلة القدر قرآن کریم تمام کتب وصحائف پر.ہزار مہینوں سے بہتر رات فوقیت رکھتا ہے..اعجاز کلام کے کمالات قرآن پر ختم.قرآن کریم ایک مکمل معجزہ.فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ لا كَانَ الْقُرْآن..قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ 129 || 130 لین دین.ہم نے آپ کو کبھی دھوکے بازی اور جھگڑا کرتے نہیں دیکھا..آپ نے مجھے میری رقم ادا فرمائی اور میری رقم سے زائد بھی عنایت فرمایا.ے.جو کوئی تمہارے پاس کوئی چیز امانت صفحہ 551 640 676 677 علیہ وسلم دوموتی ہیں جو ایک ہی سیپ سے کے طور پر رکھتا ہے اسکی امانت اسے لوٹا دو.678 اکٹھے نکلے ہیں.131 لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَةَ لَهُ.آنحضور کی زندگی فعلی کتاب ہے جو وَلَا دِيْنِ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ.|| قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے.آمحصور کا قرآن کریم سے عشق.||.فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو.قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ادا کرنے کے لحاظ سے بہتر ہو.قرض ہدایت کا موجب ہے..جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ تجارت میں کافی حد تک ایمانداری سے 629628 لین دین کرتے ہیں.568.عیسائی مغربی ممالک انفرادی چھوٹی آسمان پر عزت پائیں گے.......ل لغويات لغو باتوں کے چھوڑنے سے ایمان اپنا نرم نرم سبزہ نکالتا ہے.550 مخالفت دشمن کی طرف سے ہتک ناموس رسول ﷺ کی مہم.681 675 86

Page 808

42 مضامین صفحه مضامین حضور انور کی طرف سے اس مہم کے.جب تم کسی شخص کو مسجد میں عبادت جواب پر اعتراضات کے جوابات اور کے لئے آتے جاتے دیکھو تو تم اس کے آنحضور کی سیرت بیان کرنے کا ارشاد مومن ہونے کی گواہی دو.ے.اسلام کی مخالفت میں دشمن کے کان آنکھ اور دل پر مہرلگی ہوئی ہے..انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں آجکل مخالفین نے بہت شور مچایا ہوا ہے.مخالفین احمدیت نے مونگ رسول“ میں 8 احمدی شہید کر دیے.مسابقت بالخيرات.جس کو خدا تعالیٰ اپنے فضل ޏ 91 461 604.اس زمانے کے لوگوں کی مسجد میں بظاہر تو صفحہ 31 آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہونگی 347.ہماری مسجد میں بھلائی کی بات سیکھنے ولا جہاد کرنے والے کی طرح ہوگا 348.مساجد جنت کے باغات ہیں.35931 ہے.جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا.مَنْ بَنَىٰ مَسْجِدًا لِلَّهِ بَنَى اللَّهُ نیکیوں میں آگے بڑھنے کی توفیق دے رہا لَهُ فِي الْجَنَّةِ مِثْلُهُ ہے اسے میں کس طرح روک سکتا ہوں.270 ے.مساجد کی تعمیر کے مقاصد..بلنسیہ (سپین) میں مسجد کی تعمیر.تو اللہ کی عبادت کر، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا، نماز پڑھ نیکی کے دروازوں میں داخل ہونے 32 358 32'33 33 271 مسجد قرطبہ میں اب چرچ ہے.4746 بیت الفتوح میں امن کا نفرنس کے لئے مزید ترقی کرنی ہے تو رات کو تہجد.جماعت احمدیہ کی مساجد کا حسن ان 272 || 341 342 کے لئے اٹھنا بھی ضروری ہے.کے نمازیوں سے ہوتا ہے.ہیں.نیکی کے دروازے جو جنت کی طرف تعمیر مسجد کے وقت کی دعا ئیں.ا.جماعت احمدیہ کی مساجد بھلائی حَسَنَاتُ الْأَبْرَارِ سَيِّئَاتُ پھیلانے والی اور خیر پھیلانے والی ہیں.348 لے جاتے ہیں.الْمُقَرَّبِين.مسجد / مساجد 273 277 مسجد ضرار.ہماری مساجد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ایک نشان ہوتی ہیں..اللہ کے نزدیک شہروں میں پسندیدہ کیلگری ( کینیڈا) میں مسجد کی بنیاد جگہیں ان کی مساجد ہیں.29 349 355

Page 809

43 مضامین صفحه مضامین مسجد نبوی کی توسیع تقویٰ کی بنیاد پرتھی 359.لڑکی والی لڑکے کو باندھنے کے لئے صفحہ مسجدیں بناؤ اور جماعتیں بڑھاؤ.دورہ افریقہ کے دوران چار مساجد کا 365 مہر زیادہ سے زیادہ رکھواتے ہیں.حق مہر کی ادائیگی کا مسئلہ سنگ بنیا درکھا گیا.403 مہر عورت کا ترکہ ہے اور لڑکے کے 696 || م کینیڈا میں تین مساجد کا سنگ بنیاد 404 نام قرض ہے.اس کو ادا کرنا چاہئے.697 مسکینی 698.ہند و پاک میں غلط رواج.حق مہر دومن مچھر کی چربی..اے اللہ ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور وفات دے اور قیامت کے دن مهمان نوازی مساکین کے گروہ میں سے مجھے اٹھانا.487 ا عبدالله بن طُهْفَہ رضی اللہ عنہ کو ی.آپ مساکین کیساتھ چل کر انکی حاجات آنحضور کے مہمان بننے کی سعادت کو پورا کرنے میں عار محسوس نہ کرتے.488.آپ نے کھانے پر ہاتھ رکھ کر برکت.اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو کی دعا کی تو تھوڑا سا کھانا کافی ہو گیا.433 مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو.489.آپ کے پاس جب بھی کھانے کی کوئی چیز آتی تو دوسروں کو بلا لیتے.معجزات.ایک دفعہ ایک کا فرآپ کا مہمان بن اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی کرسات بکریوں کا دودھ پی گیا لیکن آپ آنحضور کے شامل حال ہمیشہ عبودیت کا دل تنگ نہ پڑا.شامل ہوتی ہے.مومن 70 ** آپ مہمانوں کی ظاہری مہمان نوازی کے ساتھ ان کی روحانی تربیت کی مومن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ طرف بھی توجہ دیا کرتے تھے.کا فرسات آنتوں سے کھاتا ہے..مومن کی تعریف.مہر رکھا.662.جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے 398 وہ اپنے مہمان کا احترام کرے.مہمان کا جائز حق ایک دن اور رات کی مہمان نوازی ہے..ایک صحابی نے چار اوقیہ چاندی مہر ہے.ایک انصاری اور اس کی بیوی کا 695 مهمان نوازی کا واقعہ جس میں بچوں کو بہلا 431 435 || 437 438

Page 810

44 مضامین صفحه کر سلا دیا جاتا ہے.|| پر تکلف مہمان نوازی ایک دن رات ہے جبکہ عمومی مہمان نوازی تین دن تک مضامین صفحہ ہر زمانے میں کسی خاص بندے کو بھیجتا ہے.42 عربی نبی محمد مال کا مقام - 7069.اس جگہ مقام ابراہیم سے اخلاق ہے.اور تین دن سے زائد صدقہ ہے.451 مرضیہ ومعاملہ باللہ مراد ہے.حمد مہمان نوازی انبیاء کے خُلق میں سے نرمی رشفقت محبت 429 آنحضور نماز تہجد کے لئے اٹھانے ایک اعلیٰ خُلق ہے.یا.اگر کوئی مہمان آوے اور سب وشتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا میں نرمی و محبت سے کام لیتے تھے..حضرت صفیہ کے چھوٹے قد کے طعنے پر 439 کرنا چاہئے..مہمان کو اگر ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ حضرت عائشہ کو نرمی سے سمجھایا..حضرت عائشہؓ نے حضرت حفصہ کا معصیت میں داخل ہے.حضرت مسیح موعود نے مفتی محمد صادق کھانے کا برتن نڑ وا دیا.....آئندہ کھجور کے درخت کو پتھر نہ 441 345 497 498 499 صاحب کی خود مہمان نوازی کی..مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک مارنا.ہاں جو پھل گر جائے اسے کھالینا 500 ہوتا ہے.442.اس کو چھوڑ دو اور جہاں اس نے.جلسہ سالانہ U.K پر مہمان نوازی پیشاب کیا ہے وہاں پانی کا ڈول بہا دو.505 443 کے متعلق ہدایات..پیر سراج الحق نعمانی صاحب کی.قیامت کے دن محض اللہ باہمی محبت چار پائی اور بستر کا واقعہ.مينارة اصبح 456 376 کرنے والوں کا حال مومن آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں 377.مینارة امسیح کی تعمیر کے لئے دو کر نیوالوں پر رشک.مخلصین کا چندہ ن نبی رانبیاء ہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی اصلاح کے لئے 12 محض اللہ ایک دوسرے سے محبت غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات 524 کرنا مقبول الہی ہونے کی علامت ہے.527 ی.کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو.||

Page 811

45 مضامین صفحه نماز لوگوں کے اعمال میں سے قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا.25 پانچ نمازوں کی مثال ایک نہر سے 26 مضامین نماز با جماعت وحدت جمہوری پیدا کرتی ہے..توحید کے قیام کے لئے نمازوں کی حفاظت ضروری ہے..بچوں کو برائیوں سے بچانے کے.باجماعت نماز پڑھنا کسی شخص کے لئے نمازوں کی طرف توجہ دلائیں.اکیلے نماز پڑھنے سے 25 گنا زیادہ ثواب 27.باجماعت نماز اکیلے نماز پڑھنے کی ا.رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے نسبت ستائیس گنا افضل ہے.نماز فجر پر جمع ہوتے ہیں..جب تک نماز کی خاطر کوئی شخص مسجد || میں بیٹھا رہتا ہے نماز میں ہی ہوتا ہے.660 نوافل صفحہ 28 372 373 657 نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی نجی ہے 705 نوافل ہمیشہ نیک اعمال کے مُتَمَّم وضو کر کے نماز کی نیت سے مسجد اور مکمل ہوتے ہیں اور یہی ترقیات کا آنیوالے کا ایک درجہ بلند ہو جاتا موجب ہوتے ہیں.ہے.اور ایک گناہ معاف ہو جاتا ہے.خشوع وخضوع سے وضو کر کے دو || نیکی 398 رکعت نماز پڑھنے والے کے پہلے گناہ بخش یں.ایک آتش پرست کا بارش کے دنوں دیئے جائیں گے.661 میں اپنی چھت پر پرندوں کو دانہ ڈالنا اور اس شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے نیکی کے بدلے مسلمان ہونے کی توفیق پانا.544 نماز با جماعت کی ادائیگی بہت ضروری ہے.24 * حقیقی نیکی خدا کی محبت کی خاطر اعمال نماز بے حیائی اور ہر نا پسندیدہ بات بجالانا ہے.سے روکتی ہے.ہیں.نماز اصل میں دعا ہے.قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ 25 26.ہر کارخیر کے کرنے میں ذاتی محبت ہونی چاہئیے.بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا 52 398 527 نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے سعادت کے آثار ہیں.زور سے کرے.27 27

Page 812

صفحہ 53 54 55 54 46 مضامین صفحہ و مضامین ہے.اس ادارہ کے تحت مختلف ممالک میں خدمات..اس ادارہ سے انڈونیشیا کے.وصیت کرنے کی تحریک 548 سفارتخانے کی امداد کی درخواست.وقف جدید وقف جدید کے نئے سال کا اعلان.امدادی سامان کی تفصیل ی ہیں.پاکستان میں وقف جدید بچوں کے یتیم ریائی ذمہ ہوا تھا.ہیومینیٹی فرسٹ (Humanity First).خدمت خلق کا جماعتی ادارہ 9 52.سونامی آفت سے یتیم ہونے والے 200 بچوں کی نگہداشت.

Page 813

47 اسماء اسماء صفحه اسماء.آپ نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں شرک کے خلاف ایک عظیم جہاد کیا تھا اور صفحہ آدم علیہ السلام مخالفین نے اس وجہ سے آپ کو آگ مہمان نوازی.فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر میں بھی ڈالا تھا.حضرت مسیح موعود تک تمام انبیاء کو مان کر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتا ہے.279 280 فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِيْن.آمنہ.حضرت 345 429 حضرت ابوبکر کی آپ سے مشابہت 188.اللہ تعالی نے رویا میں آپ کو ابراہیم صاحب ( غانین معلم ) آنحضور کے متعلق خبر دے دی تھی.57 زیمبیا میں متعین تھے.ایک حادثہ ابراہیم علیہ السلام J.إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا..حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت 195 میں شہید ہوئے.ابراہیم بونسو صاحب.اکرا کے قریب قبرستان اور بہشتی مقبرہ کے لئے جگہ لے کر دی.اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیادیں ابن اسحاق اٹھاتے وقت بہت دعائیں کیں.حضرت مسیح موعود کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک تعلق.342 344 ابن عباس رضی اللہ عنہ اللَّهُمَّ فَقِهْهُ فِي الدِّيْنِ.324 7 60 207

Page 814

۴۸ اسماء صفحہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اسماء تو آنحضور نے آپ کو یہ دعادی.اللَّهُم صفحہ احْفَظْ أَبَا أَيُّوبَ كَمَا بَاتَ يَحْفَظُنِي 207.ایک مرتبہ آپ نے عطا اور عبید اللہ بن عمر کیسا تھ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ.حضرت خلیفہ اول کر آنحضور کی کوئی عجیب ترین بات پوچھی 97.آنحضور کے دعوئی کے متعلق کوئی ابن قمئه دلیل نہیں مانگی..اسیران بدر کو معاف کر کے ان سے.جنگ اُحد میں اس کے پھینکے ہوئے پتھر سے حضور کے خود کی دوکڑیاں آپ فدیہ لینے کا مشورہ دیا.کے رخسار ( کلوں) میں چھ گئیں.260 261.آنحضور کی آپ کے متعلق رائے.78 187 ابن مسعود رضی اللہ عنہ ابن مُنكَدِر ابو اسحاق ابوالبختری ابوامامہ رضی اللہ عنہ 330`4 235 263 65 ابوبکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہیں 188 ابوجندل بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کا صلح نامہ لکھے جانے کے دوران آپ زنجیروں سے بندھے ہوئے رسول کریم اللہ کی خدمت میں آئے.424 ابو جہل (ابوالحکم ).آپ نے گواہی دی کہ آپ ﷺ.حضور نے اس پر گرفت کرنے کی تمام انسانوں میں سے بہترین عیادت درخواست خدا کے حضور کی.کرنے والے تھے.ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ابوایوب خالد بن زید 233 633 523 ابو حازم رضی اللہ عنہ 94 آپ نے سہل سے پوچھا آپ بغیر چھانے کے جو کا آٹا کس طرح کھاتے تھے 490 ابُوحُسَيْل آنحضور اور حضرت صفیہ کی شادی ی.قریش سے معاہدہ کی وجہ سے جنگ والی رات آپ نے ساری رات پہرہ دیا بدر میں شامل نہ ہو سکے.425

Page 815

۴۹ اسماء صفحه ابو حمزہ رضی اللہ عنہ (انس بن مالک) کو دعوت دی.اسماء ا.آپ نے ثابت کی بیماری پر یہ دم ابوصفوان (امیہ بن خلف) پڑھا.اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ.آپ کے متعلق آنحضور نے الْبَأْس إِشْفِ أَنْتَ الشَّافِي.لَا شَافِيَ سے قتل کی خبر دے دی تھی.إِلَّا أَنْتَ شِفَاءٌ لَا يُغَادِرُ سَقَمًا ابوذر رضی اللہ عنہ 240 ابوطالب.حضرت ( چچا آنحضور).صفحہ 455 454 حضرت رسول کریم علیہ حضرت.آپ کو مخاطب کر کے حضور نے فرمایا.ابو طالب کے ساتھ سفر شام کے دوران اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا بحیرہ راہب سے ملے تو آپ نے بتوں آ جائے تو میں اسے خدا کی راہ میں خرچ سے بیزاری کا اظہار کیا.173 اے میرے چا! اگر یہ لوگ میرے 83 59 59 کردوں.“ ابورافع ( کفار مکہ کا سفیر ) ابورافع بن عمرو 426 دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں طرف چاند بھی لا کر رکھ دیں تب بھی 66 میں اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا.“ 61.آنحضور نے آپ کے چا کو یہ دعا.حضرت مسیح موعود نے فرمایا." یہ دی.کہ اے میرے اللہ ! اس کا پیٹ بھر سب مضمون ابو طالب کے قصہ کا اگر چہ 500 کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت دے.66 ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ابوسفیان بن حرب 121'115 الہامی ہے جو خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے دل پر نازل کی.صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اس عاجز کی طرف سے ہے.62.دربار قیصر روم ہرقل میں آپ سے.آنحضور نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر سوالات پوچھے گئے.ابو سلمہ بن عبد الرحمن.آپ نے آنحضور اور دوسرے صحابہ 80 602 حضرت ابوطالب کو بتایا کہ کفار کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اور خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اس میں سوائے اللہ کے لفظ کے باقی سارے معاہدے کو دیمک کھا گئی ہے.88 82

Page 816

اسماء ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ انس بن مالک نے کہا کہ صبح کے صفحہ ابی بن خلف اسماء صفحہ جنگ احد میں اس نے آنحضور کو وقت میں ابوطلحہ کے ساتھ اس کے نو مولود زخمی حالت میں للکارا اور آپ کے وار سے بیٹے کو گھٹی دلوانے کے لئے حضور صلی اللہ چنگھاڑتا ہوا گھوڑے سے گر گیا.علیہ وسلم کے پاس گیا..آپ نے ابوطلحہ کے گھوڑے کے 150 ادرلیس احمد صاحب.مرزا لیا.پھیپھڑوں میں کینسر کی وجہ سے کچھ متعلق فرمایا کہ ہم نے اس کو تیز رفتاری عرصہ بیمار رہ کر وفات پاگئے.میں سمندر جیسا پایا.264.آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتَّى تُنْفِقُوْا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ مِمَّا تُحِبُّون کے نزول کے بعد حضرت ہے.واقعہ افک کے سلسلہ میں آنحضور ابوطلحہ نے اپنا پسندیدہ باغ بیرحاء نے آپ سے بھی مشورہ لیا.573572 اسماعیل علیہ السلام.حضرت اللہ کی راہ میں وقف کر دیا.ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ 596 338 151`5 524 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خدا کے گھر کی بنیادیں اٹھانے میں شامل ہوئے..آپ کی دعاؤں کا ذکر.261 278 181 342 ||.حضرت ابو ہریرۃ نے عرض کی یا رسول اللہ ! یہ جنت کے باغات کیا ہیں؟ اس پر اسماعیل بن ابراہیم بن عبداللہ بن ابی ربیعہ 207 اسماء بنت ابوبكر رضي الله عنها آنحضور کی نسبتی ہمشیرہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.مساجد جنت.آنحضور نے آپ کو نصیحت فرمائی کہ کے باغات ہیں.اراشه 31 اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کریگا.11.ابو جہل نے اس سے اونٹ خرید کر اللہ رکھا صاحب (مدراس کے تاجر ) قیمت دینے سے انکار کر دیا.215 امام الدین کشمیری 6 11

Page 817

۵۱ اسماء صفحہ اسماء صفحہ.تین آنه یا چار آنه روزانه مزدوری ام سنبلہ رضی اللہ عنہا کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں.ام ايمن رضي الله عنها حضرت اُم ایمن کہتی ہیں کہ 11 حضور نے تحفہ کے بدلہ میں آپ کو ایک وادی عطا کی.اُمّ عَلاء رضی الله عنها.بیماری کے دوران حضور نے آپ کو میں نے دیکھا ابو طالب اور آپ کی تسلی دی اور فرمایا.” بیماری کا ایک پہلو پھوپھیاں ایک دفعہ آپ پر سخت ناراض خوش کن بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مرض کی ہوئیں اور کہنے لگیں آپ ہمارے معبودوں وجہ سے ایک مسلمان کی خطائیں اس طرح سے اجتناب کرتے ہیں.ام سائب 58 171 دور کر دیتا ہے جس طرح آگ سونے اور چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے.238.آنحضور نے آپ کو بخار کی حالت ام معبد رضی اللہ عنہا میں پا کر فرمایا.” بخار کو گالیاں نہ دو کیونکہ.حضرت ام معبد نے یہ آنحضرت صلی یہ مومن کی خطائیں ویسے ہی دور کر دیتا اللہ علیہ وسلم کے خلق کا بڑا خوبصورت نقشہ ہے جس طرح بھٹی سونے کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے.“ ام سلمی رضی اللہ عنہا 239 کھینچا ہے کہ قریب سے دیکھنے سے انتہائی شیریں زبان اور عمدہ اخلاق والے تھے.111 امیہ بن خلف.آپ کو آنحضور نے حضرت فاطمہ کو حضور" نے اس پر گرفت کرنے کی شادی کے لئے تیار کرنے کے لئے فرمایا.693 درخواست خدا کے حضور کی.اُمّ سَلْمَة ام المومنین رضی اللہ عنہا 133 انس بن مالک رضی اللہ عنہ اُم سُلیم (حضرت انس" کی والدہ).آپ نے ثابت کی بیماری پر یہ دم پڑھا.اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ.آپ نے آنحضور اور حضرت زینب الْبَأْسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي.لَاشَافِيَ بنت جحش کی شادی کے موقعہ پر تحفہ بھجوایا.433 إِلَّا أَنْتَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا 94 240

Page 818

۵۲ اسماء صفحہ بحیرہ (راہب.بت پرست) اسماء اذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرْكُمْ» " قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوموتی ہیں جو ایک ہی سیپ سے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکٹھے نکلے ہیں.“ حضرت ابو طالب کے ساتھ سفر شام کے دوران بحیرہ راہب سے ملے.59 -1957ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک وقف جدید شروع کی اور یہ خواہش فرمائی تھی کہ ایک صفحہ 460 131 براء بن عازب رضی اللہ عنہ.ہم شدید لڑائی میں آنحضور کو ڈھال بنا کر لڑتے تھے.258 لاکھ چندہ دہند ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمد یہ ایمان بالخلافت پر قائم رہی اور اس کے قیام آپ نے آنحضور کو جنگ احزاب میں کے لئے صحیح جد و جہد کرتی رہی تو خدا تعالیٰ خندق کھود نے کے دوران ایک جگہ سے دوسری کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلۂ خلافت جگہ مٹی لے جاتے ہوئے دیکھا اور مٹی نے 17 16 قائم رہے گا اور کوئی شیطان اس میں رخنہ آپ کی پیٹ کی سفیدی کو ڈھانپ لیا تھا.483 اندازی نہیں کر سکے گا.“.آپ کا مشاہدہ: آنحضور سے بڑھ کر خوبصورت میں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا.117 ہیں.میں چاہتا ہوں کہ دنیا کے چپہ چپہ پر مسجد بن جائے اور دنیا جس میں عرصہ 321 برہان الدین صاحب جہلمی.مولوی دراز سے تثلیث کی پکار بلند ہو رہی ہے ے.جماعت کی خدمت میں سرگرم اور خدائے واحد کے نام سے گونجنے لگے.668 578 ہے.ربوہ کی بنیا در کھتے وقت آپ کی نصائح 700 حیرت انگیز قربانی کرنے والے.بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ ایم.اے.مرزا بلال رضی اللہ عنہ خلافت احمدیہ کے متعلق ایک اہم مضمون 308 آنحضور کی وفات تک یہ سارا بشیر الدین محمود احمد.مرزا.حضرت مصلح موعود انتظام، آمد و خرج کا حساب کتاب، آپ جلسے کے ایام میں ذکر الہی کرو.اس کے سپر دہی ہوتا تھا.164 کا فائدہ خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ.جب آپ بیمار ہوئے تو حضرت عائشہ

Page 819

۵۳ اسماء صفحہ نے کہا."اے بلال ! تمہارا کیا حال ہے.236.آپ نے آنحضور سے گریہ وزاری کا اسماء صفحہ سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا." کیا ثابت رضی اللہ عنہ (صحابی رسول) میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.“ 98.حضرت انس نے بیماری میں آپ پر یہ آذان دینے کے طریق سے قبل دم کیا.اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ حضرت بلال الصَّلوةَ جَامِعَةٌ کے الْبَأْسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي.لَا شَافِيَ الفاظ با واز بلند پکارا کرتے تھے.191 إِلَّا أَنْتَ.شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا ہیں.آپ نے حضور کے فرمان پر حضرت ثعبان رضی اللہ عنہ عبداللہ بن زیڈ سے اذان سیکھیں.آنحضور کی مالی قربانی کی تحریک پر || آنحضور نے آپ کو حضرت فاطمہ کے لئے ایک ہارا اور ہاتھی دانت کے بنے حضرت بلال نے جو اپنی چادر پھیلائی ہوئی ہوئے دوکنگن لانے کے لئے فرمایا.تھی وہ عورتوں کے زیورات سے بھر گئی.572 بنوا صفر (اہل روم) 187 بنوسعد بن بكر ( زمام بن ثعلبہ کا بھائی ) 482 شمود (قوم) ج بنو ہاتم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں.بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ آنحضور عمل اور ابوبکر کا رض 240 498 81 خانہ کعبہ میں لڑکا یا ہوا تھا.اس میں سوائے آپ کی عیادت کے لئے تشریف لانا..235 اللہ کے لفظ کے باقی سارا معاہدہ دیمک کھا گئی.بنی اسرائیل یوم عاشور کو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ " اور 82 بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا.202.حضور نے آپ سے اونٹ خرید کر رقم اور اونٹ دونوں چیزیں آپ کو دے دیں.172 جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ.آپ چاندنی رات میں کبھی آنحضور کو اور کبھی چاند کو دیکھتے تھے.بنی عبد مناف (آنحضور کے رشتہ دار) 64 جبریل علیہ السلام 118

Page 820

۵۴ اسماء صفحہ اسماء.آپ ہر رمضان میں آنحضور کے پاس کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوں تو قرآن کریم کا ایک دور مکمل کرواتے رہے.624 میں ان کو تقسیم کرنے میں خوشی محسوس جبریل نے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ کروں گا.اور تم مجھے کبھی بخل سے کام لینے تعالی آنحضور کے حق میں فرماتا ہے کہ جو والا، جھوٹ بولنے والا یا بزدلی دکھانے آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں والا نہیں پاؤ گے.نازل کروں گا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا.202 جریر بن عبد الله.حضور جب بھی انہیں دیکھتے تو مسکرا ہے.جبریل نے کہا یہ ستر ہزار ہیں جو دیا کرتے تھے.تیری امت کے ہراول دستے کے طور پر ہوں گے اور ان سے حساب نہ لیا جائے گا، نہ انہیں عذاب دیا جائے گا..آپ فرماتے ہیں.میں نے ہمیشہ ﷺ صفحہ 166 111 227 آپ کو مسکراتے ہوئے ہی پایا.113 یں.جبریل آنحضور کے پاس آئے اور کہا جلال الدین صاحب یلانی.منشی 578 کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اس رات جمال احمد صاحب حضرت حافظ میں اللہ تعالیٰ ایک بھیڑ کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگوں کو آگ سے نجات بخشتا ہے 100.جبریل نے مجھے سجدے میں یہ الفاظ.آپ ماریشس بطور مبلغ ۲۹ جولائی ۱۹۲۸ء کو پہنچے.711.آپ کی وفات پر خلیفہ امسیح الثانی پڑھنے کے لئے کہا ہے.جو یہ پڑھتا ہے وہ سراٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے.سَجَدَ نے فرمایا.وہ زمین مبارک ہے جس میں لَكَ سَوَادِي وَ خَيَالِي وَآمَنَ لَكَ ایسا اولو العزم اور پارسا انسان مدفون ہوا 711 فُؤَادِي رَبِّ هَذِهِ يَدَايَ وَ مَا جَنَيْتُ جمال الدین.میاں بِهَا عَلَى نَفْسِيْ يَا عَظِيمًا يُرْجَى لِكُلِّ عَظِيْمِ اِغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِيْمِ.جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ 101.کم معاش ہونے کے باوجود چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے..آپ سے ایک روایت ہے.آنحضور نے فرمایا: اگر اس وسیع جنگل حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ 11

Page 821

۵۵ اسماء صفحہ.آپ سے مروی ہے.ہر کمزور قرار دیئے جانے والا اگر وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی لاج رکھتا ہے.“ 488 ย حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ.آنحضور کے راز دان صحابی.مخلص احمدی.اسماء خ 134 خباب بن مُنڈ کر رضی اللہ عنہ 96 جنگ بدر میں آپ نے آنحضور کو چشمہ پر صفحہ 667 پڑاؤ کرنے کا مشورہ دیا جو قبول کر لیا گیا.185.قریش سے معاہدہ کی وجہ سے جنگ خدیجہ رضی اللہ عنہا بدر میں شامل نہ ہو سکے.حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ 425 حضور نے آپ کے بارے میں فرمایا: "جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو انہوں نے مجھے قبول کیا.اور اللہ ا آنحضور کے حُسن کے متعلق شعر نے انہیں سے مجھے اولاد بھی عطا فرمائی.204 وَأَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِي وَاجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ خُلِقْتَ مُبَرَّءُ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ كَأَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءُ 121.آپ نے اپنے غلام میسرہ سے سفر کے حالات سن کر آنحضور کو شادی کا پیغام بھجوایا 77.آپ نے نزول وحی کے بعد آپ کو پریشان دیکھ کر یوں تسلی دی.اگلا ابشر حسن بن علی بن ابی رافع رضی اللہ عنہ 426 فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيْكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ حسین رضی اللہ عنہ حصین رضی اللہ عنہ 144 لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيْثِ 78 ہے.جب کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو 226 جائیں تو آپ خدیجہ سے سامان لے کر حفصہ رضی اللہ عنہا.حضرت ام المؤمنین دوبارہ غار حرا تشریف لے جاتے.93.حضرت حفصہ کے تیار کردہ کھانے کا برتن ٹوٹ گیا.حمید احمد خان صاحب.ڈاکٹر 499.جب کوئی تحفہ آتا تو آنحضور خدیجہ کی سہیلیوں کو بھجوا دیتے.خلیفہ رشید الدین صاحب.ڈاکٹر 171 یں.ہارٹلے پول (برطانیہ) کے ابتدائی آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 822

۵۶ اسماء صفحه کے خسر اور حضرت ام ناصر کے والد تھے.580 اسماء ہمارے درویش خانہ کا اٹھایا ہے.“ صفحہ 11.آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود رستم علی صاحب منشی کورٹ انسپکٹر گورداسپور // نے فرمایا کہ قربانی میں اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اگر یہ کچھ نہ بھی دیں تب بھی ان روشن علی بھنو صاحب.ماریشس کے قربانی کے وہ معیار جو پچھلے ہو چکے ہیں ہیں.آپ کی ۳۰ ہزار روپے کی ضمانت پر صوفی غلام محمد صاحب کو ماریشس کی سرزمین پر اترنے کی اجازت ملی.بہت اعلیٰ ہیں ، وہ ہی کافی ہیں.خیر الدین.آپ کم معاش ہونے کے باوجود چندوں میں سرگرم تھے.دِحْيَه كَلْبی رضی اللہ عنہ , || 578 زبیر رضی اللہ عنہ ز.......حضرت معاذ بن جبل کو یمن بھجواتے 710 وقت آنحضور نے آپ سے بھی مشورہ لیا.180.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغی خط زمام بن ثعلبہ (بنو سعد بن بکر کا بھائی) آپ ہی ہر قل قیصر روم کے پاس لے گئے تھے 423.اپنی قوم کا نمائندہ بن کر رسول کریم ر ربيعه بنت معوذ رضی اللہ عنہ سے سوالات کئے اور ایمان لے آیا 482 زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ.آنحضور نے آپ کے متعلق فرمایا:.آپ نے کھجوروں اور لکڑیوں کا تحفہ حضور آفرین ہے زیاد! میں تمہیں مدینہ کا انتہائی کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے بحرین سمجھدار آدمی سمجھتا تھا.سے آئے ہوئے زیورات آپ کو دئیے.170 زید بن ارقم رضی اللہ عنہ آنکھوں کی بیماری میں آنحضور آپ رحمت اللہ صاحب.شیخ حضرت مسیح موعود نے آپ کے کی عیادت کے لئے تشریف لائے.568 238 متعلق فرمایا.حبی فی اللہ شیخ رحمت اللہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ ام المومنین ) 433 صاحب نے مالی اعانت سے بہت سا بوجھ

Page 823

۵۷ اسماء س صفحه اسماء صفحہ سعد بن بکر ( زمام بن ثعلبہ کے بھائی 482 سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ساجدہ حمید صاحبه ہارٹلے پول (برطانیہ) کی مخلص ابتدائی احمدی خاتون.667 آنحضور کے ساتھ ۱۳ آدمیوں نے آپ کی عیادت کی.236 سراج الحق صاحب نعمانی.سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ.سردار انصار پیر مہمان نوازی کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؓ کی طرف سے زنجیر سے چارپائی باندھنے کا واقعہ.سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ 457 456 ۱۰۰ اونٹ حاصل کرنے کے لالچ میں آنحضور کی تلاش میں نکلے.سرورشاہ صاحب سید 218 غزوہ خندق میں آپ کا خیمہ مسجد نبوی میں لگا تا کہ حضور آپ کی تیمارداری آسانی سے کر سکیں..امیہ بن خلف شام جاتے ہوئے سعد کے ہاں مدینہ میں ٹھہرا کرتا تھا..جب آنحضور نے قریش کے تجارتی قافلہ کو روکنے کے سلسلہ میں مشورہ لیا تو انصار میں سے آپ نے مشورہ دیا تو آنحضور 238 83.حضور نے میاں ہدایت اللہ صاحب کا چہرہ مبارک خوشی سے تمتمانے لگا.183 184 کوسید سرورشاہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان جنگ اُحد میں آپ نے انصار کی ہر ضرورت کو وہ بہم پہنچا دیں.“.440 سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نوجوانوں کی طرف سے آنحضور سے معذرت طلب کی کہ ہم غلطی پر تھے کہ.آپ بھی آنحضور کے ساتھ تھے مدینہ سے باہر جا کر لڑیں.جب آپ نے عَزوَراء مقام پر پہنچے کر سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ اپنی امت کی شفاعت کے لئے دعا کی.753 سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ.آپ کے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھر آنحضور کے چہرہ مبارک پر لگا.260 سلمان اچھا صاحب.حاجی.آپ ماریشس کے ابتدائی مخلصین میں سے تھے.190 226 596 713

Page 824

۵۸ اسماء صفحہ سلیمان علیہ السلام اسماء شکیل احمد صدیقی صاحب.آپ کی دعا: رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ ہے.بورکینا فاسو کے مربی سلسلہ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ 752.مغربی افریقہ میں مقیم مبارک صدیقی صاحب کے چھوٹے بھائی.صفحہ 71 || سلیمان تیجو صاحب.آپ ماریشس کے ابتدائی مخلصین.خلیفہ وقت نے فرمایا.”میدان عمل میں 713 ان کی وفات ایک شہید کی موت ہی ہے.“ 72 میں سے تھے.سیله بن ربیعہ سودہ رضی اللہ عنہا.ام المومنین نہایت سادہ مزاج اور نیک خاتون تھیں 97 ہیں.حضور نے اس پر گرفت کرنے کی.آپ کے اس تبصرہ پر حضور بہت محظوظ درخواست خدا کے حضور کی.بعد میں لوگوں نے انہیں بدر کے گڑھے میں قتل ہوئے.یا رسول اللہ !ارات آپ نے اتنا ہونے کے بعد گرے ہوئے پایا.لمبارکوع کروایا کہ مجھے تو لگتا تھا جیسے جھکے جھکے کہیں میری نکسیر نہ پھوٹ پڑے.“ سہل بن سعد ساعدی آپ کا بیان ہے کہ آنحضور صلی اللہ ص.صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف علیہ وسلم نے تادم آخر کبھی چھنے ہوئے.آپ ایک روایت کرتے ہیں کہ آٹے کی چپاتی نہیں دیکھی.سہیل بن عمرو (ابو جندل کے والد ) ہیں.صلح حدیبیہ کے موقعہ پر اپنے بیٹے ابو جندل کے منہ پر طمانچہ مارا.شریک بن عبد اللہ بن ابو نمر شعیب علیہ السلام.حضرت 489 424 481 ابی بن خلف مکہ میں آنحضور " کو قتل کی دھمکی دیا کرتا تھا.صہیب رضی اللہ عنہ.آپ آنکھ دکھنے کے باوجود حضور کی مجلس میں کھجور کھا رہے تھے تو حضور کے پوچھنے پر آپ نے جواب دیا.”یا رسول اللہ ! میں اس آنکھ کی طرف سے کھا رہا 94 84 431'430 ہوں جو درست ہے.671.ماپ تول پورا دینے کی نصیحت

Page 825

۵۹ اسماء صفحہ صَفْوَان غزوہ حنین کے دن آنحضور نے آپ کو تین سو اونٹ دیئے.صفیہ رضی اللہ عنہا.حضرت عائشہ " کا آپ کے بارہ میں طنزیہ بات کہنا اور آنحضور کا فرمانا.167 اسماء.ظاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی تحریک.لوکل مشنری یوسف آڈوسٹی صاحب کو ہڈی تک گہرا زخم ہوا تو آپ کے علاج اور دعا سے زخم ٹھیک ہو گیا.تحریک وقف عارضی برائے سپین.آپ نے اپنی خلافت کے ابتدائی یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ اگر یہ سمندر میں ملا دیا دور میں یہ توجہ دلائی تھی کہ دفتر اول کے جائے تو اس کو بھی مکد رکر دے.“ حضور گا آپ کے ساتھ رات کے وقت ہونے چاہئیں.چلنا اور دوانصاری نوجوانوں کو بدظنی.498 پانچ ہزار مجاہدین کے کھاتے کبھی مردہ نہیں بچانے کے لئے فرمانا کہ یہ میری بیوی ہے 506 ض لحہ بن عبید اللہ (ابو محمد ) ظ ضیاء الدین صاحب قاضی کوئی.قاضی ظفر احمد صاحب.منشی ی.اپنی طاقت کے موافق خدمت.آپ نے اپنی جماعت کو بتائے بغیر حضرت حضرت مسیح موعود کا رقم کا مطالبہ کرنے والے.578 b طارق بن عبد الله المحاربی.آپ سے ایک دفعہ رسول کریم نے سرخ اونٹ خریدا تھا.☆ پورا کر دیا.عاد (قوم) ع 678677 عاص بن وائل سردار قبیلہ.دشمن رسول طاہر احمد مرزا خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ تعالیٰ.ایک روز دوسرے سرداران قبیلہ سے..آخری تحریک مریم شادی فنڈ 333 مل کر انہوں نے آنحضور سے ترک تبلیغ کا مطالبہ کیا.صفحہ 336 7 50 668 435 580 81 66`65

Page 826

اسماء عامر بن سعد رضی اللہ عنہ صفحه اسماء.آپ کے والد بیمار ہوئے تو حضور صفحہ نے یہ دعا کی.اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَ.آپ حضور کے ساتھ تھے جب آپ اتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ.نے عَزَوْرء مقام پر اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا کی تھی.عائشہ رضی اللہ عنها (أم المؤمنين ) 753 عباس رضی اللہ عنہ (چچا آنحضور).جنگ بدر کے قیدیوں میں آپ بھی شامل تھے.آنحضور نے آپ کو عبداللہ 235 206 713 12 430 713 || علا.ایک رات آپ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت بن ابی بن سلول کی قمیص دی.ماریشس کے ابتدائی مخلصین میں دیتی ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرلوں.199 عباس کاہلوں صاحب.ایک روز آپ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کو اتنا رونا کیوں آ رہا ہے سے تھے.جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گزشتہ اور آئندہ عبدالحق صاحب.میاں ہونے والے گناہ بخش دیئے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیا متعلق فرمایا.” حبی فی اللہ میاں عبد الحق میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں..ایک روز آپ نے آنحضور سے 200 حضرت مسیح موعود نے آپ کے صاحب یہ ایک اول درجے کا مخلص اور سچا ہمدرد اور محض اللہ محبت رکھنے والا دوست اور حضرت خدیجہ کو کثرت سے یاد کرنے غریب مزاج ہے.“ عبدالحمید بن صیفی 204 کے متعلق شکوہ کیا.آنحضور کے متعلق آپ کا مشہور قول: "فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عبدالرحمن صاحب عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنِ“.130.آپ ماریشس کے ابتدائی مخلصین.آنحضور نے آپ کے پاس سات یا میں سے تھے.آٹھ دینا ر رکھوائے اور وفات کے دن ہے.درگاہی فیملی کے بزرگ تھے.اسے صدقہ کر دینے کا ارشاد فرمایا.عائشہ بنت سعد رضی اللہ عنہا 225 عبدالرحمان اوّل.حضور نے ان کو قرآن کریم“ اور

Page 827

اسماء صفحہ اسماء اسلامی اصول کی فلاسفی تحفہ میں دی.عبداللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ عبدالرحمن.حاجی سیٹھ آپ کے بھول جانے سے رسول کریم مدراس کے تاجر.محبت و اخلاص صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ تین دن انتظار سے بھرے ہوئے.کرنا پڑا.عبدالرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن ابی امیہ ں.حضور نے آپ کو گناہ کبیرہ کے متعلق بتایا.عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سردار قریش و دشمن رسول 504 | عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ 84 صفحہ 420'419.آپ کی ایک روایت.اے لوگو! عبدالعزیز.میاں، پٹواری ضلع گورداسپور دشمن سے لڑائی کی تمنا نہ کرو...جنت تعمیر مینارہ اسیح کے لئے ۱۰۰ روپیہ چندہ دیا.لنگر خانہ کے لئے بھی امداد بھیجی.عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ.آپ کا قول.”جب آدمی عارف ہو جاتا ہے تو اس کی عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے.“ تلواروں کے سائے تلے ہے.“ 12 عبد اللہ بن ابی بن سلول رئیس المنافقین 13 23 جنگ بدر کے قیدیوں میں حضرت عباس بھی تھے.آنحضور نے عبد اللہ ابن سلول کی قمیص عباس کو دی تھی.آنحضور نے جنگ احد کے لئے 65 102 206 مشورہ دینے والوں میں آپ بھی شامل کیا تھا 178 عبداللہ ابن ابی قیس رضی اللہ عنہ عبدالکریم صاحب.مولوی.چار پائی کو زنجیر کے ساتھ باندھنے ں.آپ کی ایک روایت - قیام اللیل کے سلسلہ میں آپ ہنس پڑے اور کہا.کہ مت چھوڑ نا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ 102 ایسے بھی استاد آتے ہیں جو اس (چین علیہ وسلم نہیں چھوڑتے تھے.“ (Chain) کو بھی (کاٹ کر چار پائی ) عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ اتار لیں گے.( تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہنسے ).آپ کا بیان ہے کہ ”میں نے حضور 457 صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متبسم اور

Page 828

اسماء صفحہ اسماء مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا.“ 111 عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ.بچپن میں حضور آپ کے گھر تشریف صفحہ.آپ کا آنحضور کی تعریف میں شعر لے گئے اور جھوٹ نہ بولنے کی تعلیم دی.503 يَبيْتُ يُجَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِيْنَ الْمَضَاجِعُ 105 عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ کا بیان ہے کہ مریض کے پاس عیادت کرنے کے سلسلے میں شور و غل نہ اللہ تعالی نے خود ہی خواب کے کرو اور نہ مریض کے پاس زیادہ بیٹھو 243 ذریعہ سے عبداللہ بن زید کو اذان کے الفاظ سکھا دیے.عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ.سابقہ بڑے یہودی عالم.آپ نے حضور کا چہرہ دیکھ کر کہا.یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا.عبداللہ بن شہاب 191 131 عبداللہ بن عمرو بن عاص.ایک روز آپ خانہ کعبہ کے قریب تھے اور آنحضور کعبہ کا طواف کر رہے تھے جبکہ کفار آپ پر زبان درازی کر رہے تھے.63 85 عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ || آنحضور نے آپ کو قرآن سنانے کو فرمایا 138 عبداللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ عنہ.آپ کا بیان ہے کہ ”میں نے فتح.جنگ احد میں آپ کے پھینکے ہوئے مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر سے حضور کی پیشانی مبارک زخمی ہوئی 260 ایک اونٹ پر سوار سورۃ الفتح پڑھتے دیکھا“ 137 عبدالله بن طُهْفَه رضی اللہ عنہ عبدالله الهوزنی آپ حلب میں حضرت بلال سے.دوسرے لوگوں کے ساتھ حضور کے گھر گئے اور کھانے میں برکت پڑنے کا ملے اور آنحضور کے آمد وخرچ کے بارے معجزہ دیکھا.432 431 میں پوچھا.عبد اللہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ 150 عبداللہ صاحب سنوری.میاں 164

Page 829

۶۳ اسماء صفحہ اسماء.حضرت مسیح موعود کا آپ کے متعلق عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ خلیفہ ثالث بیان.”اپنی اپنی طاقت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں.“ 578.آپ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی کی تعمیر نو اور توسیع کا ارادہ فرمایا.صفحہ 32 عبد المطلب.حضرت (آنحضور کے دادا).آپ کا خوش اسلوبی سے وضو کرنا.661 ا.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ 263 عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عداء بن خالد بن ہوذہ رضی اللہ عنہ آپ کے لئے حضور نے ایک دستاویر لکھی..ایک مرتبہ آپ ابن عمرؓ اور عطا کے ساتھ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور 676`675 حضور کی کسی عجیب ترین بات کے متعلق سوال کیا 97 ں.آپ کی ایک روایت ” صدقہ دے کر آگ سے بچو.خواہ آدھی کھجور خرچ عبیدہ الملیکی رضی اللہ عنہ کرنے کی ہی استطاعت ہو.329.آپ سے ایک روایت ”اے اہل قرآن ! عروہ رضی اللہ عنہ (حضرت عائشہؓ کے بھانجے ) قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو.‘ 139 140.آنحضور کے گھر دو دو ماہ تک آگ عبید اللہ صاحب رضی اللہ عنہ حضرت حافظ نہ جلنے کی روایت آپ نے بیان کی.489.آپ ماریشس میں پہلے ہندوستانی عُزّى (بت) شہید ہیں.عتبہ بن ابی وقاص 711 بحیرہ راہب نے اس بت کا واسطہ دے کر آنحضور سے کچھ پوچھنا چاہا..ایک مرتبہ آپ ابن عمر اور عبید اللہ.سعد بن ابی وقاص کے مشرک بھائی.260 عطا رضی اللہ عنہ.جنگ احد میں آپ کے پھینکے ہوے پتھر سے حضور کا دانت مبارک ٹوٹ گیا.// عتبہ بن ربیعہ بن عمرؓ کے ساتھ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کی کسی.حضور نے اس پر گرفت کرنے کی عجیب تیرین بات کے متعلق سوال کیا.درخواست خدا کے حضور کی.94 59 97

Page 830

۶۴ اسماء عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ صفحہ اسماء صفحہ عمر بن ابی سلمی رضی اللہ عنہ ( آنحضور کے ربیب).آپ نے عبداللہ بن عمرو بن عاص.آپ کو حضور نے فرمایا کہ کھانا کھاتے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ وقت بسم اللہ پڑھو اور اپنے دائیں ہاتھ نشانیاں پوچھیں جو تو رات میں مذکور ہیں.212 سے کھاؤ.عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ عقبہ بن ابی معیط.حضور نے اس پر گرفت کرنے کی.آپ کو ایک روز آنحضور کے ساتھ درخواست خدا کے حضور کی.94 عبادت کرنے کا موقع ملا.501 95 عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ عیسی علیہ السلام.حضرت 492319.جنت میں بے حساب جانے والوں میں آپ بھی شامل ہیں.227 غ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( خلیفہ رالغ) غلام احمد قادیانی حضرت مرزا.واقعہ افک کے سلسلہ میں آنحضور نے آپ سے بھی مشورہ لیا.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امام مهدی 546 515 363 347 343 279 181 عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ.خلیفہ ثانی اسیران بدر کے سلسلہ میں آپ نے آنحضور کو ان کے قتل کا مشورہ دیا.آنحضور کی آپ کے متعلق 186 بیعت کے اغراض و مقاصد 704 703.اخلاق حسنہ اپنے اندر پیدا کرنا.383.سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل رائے.عمر حضرت نوح کی طرح ہیں اختیار کرو.اور نوح اللہ تعالیٰ کے معاملات میں چٹان کی طرح سخت تھے.“ اللہ تعالیٰ نے خود ہی خواب کے 188 نوافل ہمیشہ نیک اعمال کے مُتَمَّم اور مکمل ہوتے ہیں اور یہی ترقیات کا ذریعہ سے حضرت عمرؓ کو اذان کے الفاظ شکر گزاری سکھا دیئے.191 66 موجب ہوتے ہیں.“ شکر یہی ہے کہ بچے دل سے ان 395 398

Page 831

اسماء اعمال صالحہ کو بجالاؤ جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصہ میں آتے ہیں صفحه 210 اسماء آنحضور حضرت فاطمہ کے دروازے کے پاس سے یہ فرما کر گزرتے رہے کہ: صفحہ مہمان نوازی اے اہل بیت ! نماز کا وقت ہو گیا ہے.496.پیر سراج الحق صاحب نعمانی کے.آنحضور جب کسی سفر پر جاتے تو سب ساتھ مہمان نوازی کا واقعہ.456 سے آخر پر حضرت فاطمہ سے ملتے اور غلام محمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت صوفی واپسی پر سب سے پہلے حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے جاتے..آپ ۱۹۱۵ء میں ماریشس پہنچے.710.روشن علی بھنو صاحب کی ۳۰ ہزار روپے کی ضمانت پر آپ کو ماریشس کی سرزمین پر اترنے کی اجازت ملی.فاطمہ رضی اللہ عنہا ف 498 497 آنحضور فاطمہ کے لئے ایک ہار اور ہاتھی دانت کے بنے ہوئے دو کنگن منگوائے.498 فرعون.یوم عاشورہ کے روز فرعون غرق ہوا.202 فیر ویلڈن ہیں.نبی کی بیٹی ہونے سے نہیں بلکہ اپنے والا مصنف.اعمال سے بخشش ہوگی.489 155 آنحضور کی آپ کو نصیحت.جب قرآن کریم کے متعلق غلط سوچ رکھنے ق تم بستروں پر لیٹنے لگو تو 34 دفعہ اللہ اکبر کہو، قتادہ رضی اللہ عنہ 33 بارسبحان اللہ اور 33 بار الحمد للہ کہو.484 آنحضور کے کھانے کے متعلق قتادہ سے مشتمل تھا..آپ کا جہیز ان چیزوں پر ایک ریمی چادر....ایک مشکیزہ قریش (قوم) اور دو گھڑے.|| سوال کیا گیا کہ کس پر کھاتے تھے.بوانه بت خانہ میں قریش حاضری وقت آنحضور پر اونٹ کی بچہ دانی رکھ دی.رات تک اعتکاف کرتے تھے.حضرت فاطمہ نے آکر اس کو اتارا.94 دیتے تھے.اور ہر سال ایک دن کا قریش کی عداوت آنحضور سے دن ہیں.دشمنوں نے بیت اللہ میں نماز پڑھتے 629 490 58

Page 832

اسماء صفحہ بدن بڑھتی رہی.60 ۶۶ اسماء لبید (مشہور عرب شاعر ) صفحہ.آپ نے سرداران قریش کو پیغام.آپ کے شعر کے مصرعہ کا ترجمہ : بھجوائے...صرف سردار مطعم بن عدی سنو اللہ کے سوا یقیناً ہر چیز باطل اور مٹ نے آپ کو اپنی پناہ میں مکہ میں داخل جانے والی ہے.“ کرنے کا اعلان کیا.214.ہجرت مدینہ سے پہلے تمام قریش لطیف بخت صاحب کے سردار اور قبائل کے لیڈر آنحضور کے گھر کے سامنے اکٹھے ہو گئے..ابتدائے جوانی میں قریش مکہ نے آنحضور کو صادق اور امین کے لقب سے بلاتے تھے.قیس رضی اللہ عنہ ک کعب بن مالک رضی اللہ عنہ.......ایک دفعہ آپ نے آنحضور کو سلام کیا.آپ کا چہرہ دمک رہا تھا.کیرن آرمسٹرانگ 217.آپ ماریشس کے ابتدائی مخلصین میں سے تھے.76 مالک بن ابی عامر 111 مبارک صدیقی صاحب 118 67 713 434.آپ کے چھوٹے بھائی مربی سلسلہ کی وفات بورکینا فاسو میں ایک حادثہ میں ہوئی 71 مبارک علی صاحب سیالکوٹی.مولوی 578 محارب بن دثار محمد اروڑا منشی.نقشہ نویس مجسٹریٹی.آنحضرت ﷺ کی سیرت پر ایک.حضرت مسیح موعود نے آپ کے متعلق کتاب کی مصنفہ.لات (بت) 629 677 حبی فی اللہ اور بہت سی صفات بیان فرما ئیں 579.ل محمد عالم صاحب.پیر.قریش کا بڑا بت جس کا واسطہ دیا جاتا 59.لندن میں مقیم.ریٹائرمنٹ کے بعد خدمت کیلئے پیش کیا، آپ کی وفات کا تذکرہ 72

Page 833

۶۷ اسماء صفحه اسماء محمد مصطفیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو انکساری سے آپ کا سر جھکتے جھکتے اخلاق - إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيم.108 اونٹ کے کجاوے سے جالگا..آپ تَخَلَّقُوْا بِاخْلَاقِ الله“ کا ہیں.حجتہ الوداع کے موقع پر آپ کی کمال کامل نمونہ اور کامل انسان ہیں.امانت و دیانت.آپ کو جوانی میں ”مین کے لقب سے پکارا جاتا تھا..مکہ سے ہجرت کے وقت آپ نے حضرت علی کو امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری سونپی.509 76 421 عاجزانہ دعائیں..میں نسل آدم کا سردار ہوں لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں.صفحہ 156 157 480 جود وسخا.” إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِى اللهُ » 161 حضرت انسؓ کا بیان."كَانَ النبي الله اَحْسَنَ النَّاسِ.آپ کی سخاوت رمضان کے مہینے یا.اس شخص سے بھی خیانت نہ کر جو تجھ وَاجْوَدَ النَّاسِ سے خیانت کرتا ہے.422 || انکساری.ایک شخص کا آپ کے سامنے میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ جاتی تھی.162 کانپنا اور آپ کا فرمانا.میں تو ایک بڑھیا کا فرزند ہوں..ایک غریب فائر العقل عورت سے عاجزی سے پیش آئے.491 152.غزوہ حنین کے دن آپ نے صفوان کو تین سو اونٹ دیئے.سادگی.وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنِ.167 166.بوقت ہجرت آپ اس قدر سادگی اور.ایک نابینا شخص کی دلجوئی کے لئے اس عاجزی کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ سب لوگ ابوبکر کو رسول اللہ سمجھنے لگے.477 481 کے گھر گئے اور اپنی چادر مبارک بچھا کر بٹھایا 153.سفر میں پڑاؤ کیا اور آپ نے لکڑیاں حضرت عمر کو آپ کا دعا کے لئے فرمانا 154 لَا تُخَيَّرُوْنِيْ عَلَى مُوسَى مُجھے موسی“ پر فضیلت نہ دو.ہے.ہاں میں بھی اپنے اعمال کی وجہ سے 155 جمع کرنا اپنے ذمہ کام لیا..جنگ احزاب میں خندق کھودنے P 482 کے دوران آپ مٹی ڈھوتے تھے.483.آپ نے اپنی لاڈلی بیٹی فاطمہ کو نجات نہیں پاؤں گا.جہیز میں ایک چکی، مشکیزہ اور گدیلا دیکر.دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں سادگی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی.فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے 484

Page 834

۶۸ اسماء صفحہ میں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا تشریف لائے.اسماء صفحہ 103 ہوں جو اونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو.485.آخری بیماری کے دوران بار بار غشی ہیں.نقش و نگار والا لباس تحفتاً ملنے پر آنے کے باوجود آپ کو نماز کی فکر تھی.104.آپ کی آخری وصیت اور آخری پیغام - الصَّلوة وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ.105 فرمایا.یہ لباس فلاں کو بھیج دو اور میرے لئے تو سادہ کپڑے کالباس مہیا کرو.شکر گزاری.فتح مکہ پر آپ کا دل خدا عہد کی پاسداری.عبداللہ بن ابی الحمساء کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے سجدہ کیا.156 کے بھول جانے سے رسول کریم ع کو أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا.97 ایک جگہ تین دن انتظار کرنا پڑا.420419 شجاعت.دشمن سر پر کھڑے ہونے کے عیادت.کسی کے تین دن سے زائد بیمار با وجود غار ثور میں حضور کا حضرت ابوبکر رہنے کی صورت میں اس کی عیادت کے کو فرمانا.لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.لئے تشریف لے جایا کرتے تھے..غزوہ حنین میں آپ یہ شعر پڑھتے ی.بیوی کی عیادت کے لئے یہ دعا جاتے تھے.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ 217 263 95 کرتے ” أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ 234 وَ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُ كَ شِفَاء لَا يُغَادِرُ سَقَمًا.234 عبادت.غارِ حرا میں کئی کئی روز تن تنہا مسکینی.اے اللہ ! مجھے مسکینی کی حالت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے تھے.59 میں زندہ رکھ اور مجھے مسکینی کی حالت میں نماز میں شدت گریہ و زاری کے وفات دینا اور قیامت کے دن مساکین کے گروہ میں سے مجھے اٹھانا.باعث آپ کے سینے سے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز کی طرح آواز آتی.وسعت حوصلہ.ایک اعرابی کا مسجد میں سفر سے واپسی پر سیدھے مسجد جا کر دو پیشاب کرنا اور آپ کا صحابہ کو حوصلہ اور رکعت نفل ادا کرتے.102 برداشت کی تعلیم دینا.جنگ احد کی شام خود کی کڑیاں لگنے محمد بن حصین اور ہ ے صحابہ کی شہادت کے غم کے باوجود.آپ کی دادی ام سنبلہ کو آنحضور آپ عام دنوں کی طرح نماز کے لئے نے ایک وادی تحفہ میں دی.487 505 171

Page 835

۶۹ اسماء صفحه اسماء صفحہ محمد ظفر اللہ خان صاحب.چوہدری.آپ نے حضرت مسیح موعود کی کتب مخرمہ رضی اللہ عنہ (نابینا صحابی) کی خدمت میں تحفہ کے طور پر لے جائے.170 کا ترجمہ کیا.عالمی عدالت انصاف جو پیس پیلیس قباتمہارے لئے سنبھال کے رکھی ہوئی تھی.170 (Peace Palace) کہلاتا ہے اس معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان.آپ کو یمن بھجواتے وقت آنحضور صاحب کی بطور جج کے تصویر لگی ہوئی ہے.نے مختلف صحابہ سے مشورہ لیا.محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ پشاوری.قاضی مطعم بن عدی.سردار ہے.ایک پٹواری کے سو روپیہ چندہ دینے ہیں.اس نے آنحضور کو اپنی پناہ 591 حضور نے فرمایا.اے مخرمہ میں نے پر آپ کا رشک.محمود بن لبید مرشد بن ابی مرند 13 180 میں مکہ میں داخل کرنے کا اعلان کیا.214 358 معین الدین صاحب رضی اللہ عنہ.حافظ.باوجود تنگی کے آپ غیر معمولی قربانی.جنگ بدر کے موقع پر آنحضور اور کرنے والے تھے.حضرت علی اور مرثد بن ابی مرشد ، ایک مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے.149.حضور نے آپ کو اپنی بکریوں کا دودھ معاویہ بن حکم اسلمی رضی اللہ عنہ دھونے پر لگا لیا.حضور کی تشریف آوری حضور نے مجھے یہ بات سکھائی.” جب پر بکری کے تھن میں دوبارہ دودھ آنے کا تجھے چھینک آئے تو تو الْحَمْدُ لِله کہے.معجزہ دیکھا.اور جب چھینک مارنے والا الْحَمْدُ لله مناف سوکیہ صاحب کہے تو تو يَرْحَمُكَ الله کہے 502.آپ ماریشس کے ابتدائی مخلصین مُعَوَّذ بن عَفْرَاء (ربیعہ بنت معوذ کے والد ) میں سے تھے..آپ نے تازہ کھجوروں کا ایک طشت منصوراحمد صاحب.صاحبزادہ مرزا اور کچھ لکڑیاں اپنی بیٹی ربیعہ کو دیں کہ حضور 14 434 713

Page 836

اسماء.خلافت احمد ہم کے متعلق آپ کا ایک صفحه اسماء صفحہ خط جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو بھجوایا.318 میور صاحب (Moore) موسیٰ علیہ السلام یوم عاشورہ کے روز اللہ تعالیٰ نے 92'91 ن ناصر احمد مرزا.خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ.آپ کا قول : ” جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.“.جلسہ سالانہ کے ہنگامی حالات میں 388 آپ کو فرعون سے نجات دی.202 فرمایا.” ہر شخص دو روٹیوں کی بجائے ایک آنحضور نے فرمایا لَا تُخَيَّرُونِي کھائے.“ علی موسی مجھے موسیٰ “ پر فضیلت نہ دو.154.آپ نے پاکستان میں بچوں کے ہیں.بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے ذمہ وقف جدید کیا تھا.کہا تھا.کہ اِذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُون (المائدة : ۲۵ 182 میں فرمایا.” کوئی عقلمند آدمی یہ کبھی سوچ.خود خلیفہ بننے کے اعتراض کے بارہ آپ مصر اور کنعان کی راہ میں ہی بھی نہیں سکتا.“ فوت ہو گئے..آپ کی خلافت حضرت عیسی علیہ 313 نبی بخش صاحب منشی چودہری نجاشی بادشاہ 450 9 311 578 السلام کے بعد کسی نہ کسی شکل میں ہزراوں سال تک قائم رہی.مولا بخش بھنو صاحب 317.جب نجاشی کا وفد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے خود انکی خدمت کی.206.آپ ماریشس کے ابتدائی مخلصین نسیم مهدی صاحب میں سے تھے.میسرہ (خدیجہ کے غلام) 713 نضر بن حارث سردار قریش نضر بن شیبان حضرت خدیجہ کیطرف سے ایک نعمان بن بشیر تجارتی سفر میں آپ بھی آنحضور کیسا تھ تھے 77 56 420'79 602 209 نوح علیہ السلام.حضرت

Page 837

اسماء صفحہ اسماء نوح اللہ تعالیٰ کے معاملات خط قیصر روم ہرقل کے پاس پہنچا.یہ خط میں چٹان کی طرح سخت تھے.“......و 188 دِحْيَه كَلْبی لائ.ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ ہند بن ابی ہالہ (حسن بن علی کے ماموں ) ولید بن عقبہ آنحضور کا حلیہ مبارک بیان کرنے آنحضور نے خدا کے حضور اس پر کے ماہر.گرفت کرنے کی استدعا کی.0 94 ی یعقوب علی صاحب عرفانی.شیخ ہدایت اللہ صاحب.میاں.احمدی شاعر حضور نے میاں ہدایت اللہ صاحب کو يَعْلى بن مملك سید سرور شاہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہر یوسف آڈوسئی صاحب ضرورت کو وہ بہم پہنچا دیں ہر قل شاہ روم 440.گھانا کے لوکل مشنری انچارج جو ہمہ وقت قربانی کے لئے تیار رہتے..ہرقل کے دربار میں آنحضور کے یونس رضی اللہ عنہ متعلق سوال وجواب..آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغی 80 صفحہ 423 115 116 457 133 7 25 25

Page 838

170 169 94`84'83'67 669 669'443 7 410 405 669 17 72 مقامات آزاد کشمیر 607 670 | بحرین بدین 17 برطانیہ 669 614 413`17 48:47 بریمپٹن (Brampton) 298 267 71'54 6 برآباد (سندھ) 7 45 بنگلہ دیش ابوظہبی اسلام آباد اشبیلیه (سپین) افریقہ اکرا (گھانا) الجزائر امریکہ 7286154733361687 بورکینا فاسو 697 605 461 88 71 428537'669612 | بھارت 7407317196695216 739227 بہاؤالدین انڈونیشیا انڈیا ایڈمنٹن (کینیڈا) 405 بہاولنگر ایکواڈور (سپین) 45 بہاولپور 670 604 670'17 669

Page 839

حیدر آباد مقامات خ صفحہ 670 669 417'207 406 590`555'543 669 203 158 669 17 خانیوال 73 مقامات صفحہ 227 194 17'5 728 604 561 412 323 697 440 670 پاکستان پنجاب پشاور ٹورانٹو 405369 | Darham ( کینیڈا) } 612:17 ڈنمارک 17 52'412336 | ڈیرہ غازی خان ز ذی طویٰ راولپنڈی 517 511 458 414 て 753'206'69 250`59 164 جاپان حبشہ حرا (غار)

Page 840

74 ربوه مقامات صفحہ 17 277 336 | سیالکوٹ 734 728 699 614450 445 رشمور امرینا (برطانیہ) رمضہ (عرب) ز 677 | شاء 423 187'80 مقامات ش صفحہ 670 614 423 83 80 50 حب ابی طالب (مکہ کی ایک گھائی ) 82 شیخوپورہ 614 17 عَزَوْرَء مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے) 753 غ 324 45'43'17 17 غانا فرانس فیصل آباد 324 470 474 335 33 19 1 669 17 53'8 405 17 669 45 17 555 17 زیمبیا سپین سرگودھا سری لنکا سکاٹون سعودی عرب سوئٹزرلینڈ سویڈن

Page 841

قادیان مقامات صفحہ ق 620 530 457 441 44 751 747 745 740 731'719 46'35 (سپین) 75 سینڈا مقامات صفحہ 669 369 340 86 56'17 گجرات گوجرانوالہ گ 17 670 ک گورداسپور گھانا || 578 440 12 11 721'7 کارنوال (کینیڈا) 406 گھٹیالیاں 669 کانگڑہ 620..ل کراچی 669'17 Lambaro (انڈونیشیا) 53 کنری کوٹلی لاہور لائیڈ منسٹرز 736 611 607 || ( / ) Lamno 669 669 614 441 440 405 669'611'17 کھوکھر غربی 669 کیلگری 355 405 | ماریشس 404 315 278 207 710 709 701 669 406

Page 842

صفحہ 669`39 مقامات نائیجیریا واہ کینٹ 669 ويلنسيا (Valencia) (سپین) 335 وینکوور (Vancouver) ( کینیڈا) 405 404 365 341 76 صفحہ مقامات مٹھی مدینہ 669 425 204 148`83 753 677 572 568 481 669 45 669 مردان مراکو مظفر گڑھ 650 420 203 125`84'30 669 ملتان منڈی بہاؤالدین 604593 670 ہارٹلے پول (برطانیہ) 41 667655 مورڈن (برطانیہ) 24989735739 589 587 406 17 54'52'17 711 687 561 404 326 410'314 15 7 ی 742 728 662 579 474 409 403 404 321 315 301 604 | ہندوستان یورپ یو کے.U.K 670 670'17 مونگ رسول میریور میر پور خاص......نارووال (پاکستان) 670`17 587 571 555 17 ناروے

Page 843

77 کتابیات BIBLIOGRAPHY مشكوة المصابيح شمائل الترمذي الادب المفرد للبخارى تفسير الدرر المنثور كنز العمال تفسیر روح البيان المعجم الكبير للطبراني حدیث مجمع الزوائد للهيثمي الترغيب والترهيب شعب الايمان للبيهقي جامع صحیح بخاری صحیح مسلم جامع ترمذی کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء سلسلہ سنن نسائی سنن ابوداؤد آئینہ کمالات اسلام سنن ابن ماجه اربعین نمبر ۳ مسند احمد بن حنبل ازاله اوهام مسند دارمی اسلامی اصول کی فلاسفی صحیح ابن حبان انجام آتھم ریاض الصالحين ایام الصلح اصحاب احمد ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات

Page 844

78 براہین احمدیہ ہر چہار حصص تحفہ گولڑو یہ چشمه معرفت حقیقۃ الوحی حمامة البشری رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ رساله الوصیت..شہادت القرآن ضمیمہ انجام آتھم فتاوی حضرت مسیح موعود فتح اسلام کرامات الصادقین کشتی نوح لیکچر سیالکوٹ.لیکچر لاہور مجموعہ اشتہارات ملفوظات الازهار لذوات الخمار تاریخ وسیرت طبقات ابن سعد اسد الغابة في معرفة الصحابة.المواهب اللدنية شرح مواهب اللدنيه للزرقاني الروض الأنف السيرة النبوية لأبن هشام السيرة الحلبية الاصابة في تمييز الصحابة الأستيعاب في معرفة الاصحاب دلائل النبوة للبيهقي الوفاء باحوال المصطفى للجوزى.كتاب الشفاء للقاضي عياض شرح العلامة الزرقاني سیرت المہدی سیرت خاتم النبین (مرزا بشیر احمد صاحب...سیرت حضرت مسیح موعود ( شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی)

Page 844