Khutbat-eMasroor Vol 2

Khutbat-eMasroor Vol 2

خطبات مسرور (جلد 2۔ 2004ء)

Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده 2004ء جلد دوم

Page 2

مسرور جلد دوم.2004ء خطبات من س ایده الله تعالى بنصره العزيز خطبات جمعه فرموده حضرت مرزا سر در احمد صاحب امام جماعت احمد یہ علمگیر خلیفه اسم الناس Khutabaat e Masroor Volume: 2 2004 (Friday Sermons delivered by Hadhrat Mirza Masroor Ahmad, Head of the World wide Community, Khalifatul Masih V (aba) (May Allah be his Help) Ahmadiyya Islam International Publications

Page 3

پیش لفظ وقت کی آواز ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی ، اور اسکا سراسر فضل و احسان ہے کہ ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا ، ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے ہمارا اور درکھتا ہے ، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے ، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے ، اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کوسنیں اس کی ہدایات کو سنیں اور اس پر عمل کریں.کیونکہ اسکی آواز کوسفنا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا کی بھلائی کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے، زمانے کی ضرورت کے مطابق یہ الہی بندے بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ رہنمائی کرتے ہیں.الہی تائیدات ونصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے.خدائی صفات ان کے اندر جلوہ گر ہوتی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: وو خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے...اسے اپنی صفات بخشتا ہے.“ 66 (الفرقان“ مئی، جون 1967 ء صفحہ 37)

Page 4

پھر فرماتے ہیں: ” خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں 'سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم یا وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.“ ( خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936 ء مندرجہ الفضل 31 جنوری 1936ء) احباب جماعت کی سہولت کے پیش نظر اور علمی ، اخلاقی اور روحانی تشکلی کو کم کرنے کے لئے حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات کتابی صورت میں شائع کئے جارہے ہیں.پہلی جلد کی اشاعت کے بعد اب دوسری جلد پیش خدمت ہے جو کہ 2004ء کے خطبات جمعہ پر مشتمل ہے.یہ تمام خطبات الفضل انٹر نیشنل لندن میں انٹرنیشنل شائع شدہ ہیں اور وہیں سے ان کو لیا گیا ہے.سوائے اس تبدیلی کے کہ:.1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر کتب کے حوالہ جات کے متن کو اصل حوالہ کے مطابق کر دیا گیا ہے،.2 کتب کے حوالہ جات مکمل اور تفصیل کے ساتھ درج کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے لئے یہ کام با برکت کرے اور ان تمام احباب کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس کام کی تکمیل کے لئے معاونت فرمائی.آمین 9-8-2005

Page 5

خطبہ نمبر فهرست عنوان تاریخ صفحه 1 تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ عاجزی آنحضرت ﷺ کی ذات میں نظر آتی ہے 2 جنوری 2 جو جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے 9 جنوری والدین کے لئے دعا کرو اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور ان کو کوئی دکھ نہ پہنچے 16 جنوری 30 /جنوری 3 23 45 63 83 13 فروری 119 4 خدا تعالیٰ کی پرستش کرو، والدین سے احسان اور قیموں سے حسن سلوک سے پیش آؤ 23 جنوری ہر ایک پر ہیز گار کو اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا چاہئے امانت کو ادا کرنے اور خیانت سے بچنے کے لئے آنحضرت ﷺ کا اسوہ اپنائیں 6 فروری 103 7 خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کرنا اللہ کے فضلوں کا وارث بنادیتا ہے اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی کو معاف کرو گے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں تمہاری عزت پہلے سے زیادہ قائم کرے گا 20 فروری 137 9 انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا ہے 27 فروری 157 10 حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو 5 مارچ 26 / مارچ 175 191 217 11 نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شوری کا ادارہ ہی ہے 12 / مارچ 12 ہر پاک دل کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے آؤ 19 / مارچ | 207 13 اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اپنی نمازوں کو خالص کریں.14 اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض یہ بتائی ہے کہ وہ اس کی عبادت کرنے والا ہو 2 اپریل 225 15 چاہئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے کا ثبوت دیں 9 اپریل | 233 16 خدائی وعدہ میں اور میرا رسول غالب آئیں گے، آج بھی پورا ہوتے ہم دیکھ رہے ہیں 16 اپریل 241 17 ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اپنی ظاہری و باطنی صفائی کی طرف خاص توجہ دے 23 اپریل 259 18 احمدیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قناعت اور سادگی کو اپنا ئیں 19 مومن وہ ہے جو در حقیقت دین کو مقدم سمجھے.دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکہ ہے 30 اپریل 277 7 رمئی 297

Page 6

20 نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں 21 خلیفہ وہی ہے جو خدا بناتا ہے ( بمقام باد کروز ناخ جرمنی) 22 ہمیشہ اپنے چندوں کے حساب کو صاف رکھنا چاہئے (بمقام گروس گراؤ، جرمنی) 23 دعوت الی اللہ کا کام ایک مستقل کام ہے ( بمقام من سپیٹ ہالینڈ ) 24 قرآن مجید اور احادیث نبویہ کو سمجھنے کے لئے خود بھی صادق بنو 14 رمئی 23 رمئی 28 رمئی 4/جون 11 / جون 25 آج سید مہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں 18 /جون 315 335 355 371 391 405 425 26 ایسے سفر جو اللہ کی خاطر کئے جاتے ہیں ان میں بہت زیادہ تقویٰ کا خیال رکھیں (مسی ساگا کینیڈا) 25 جون 27 آنحضرت اللہ کا گھر کے سربراہ کی حیثیت سے اسوۂ حسنہ (مسی ساگا کینیڈا) 2 جولائی 443 28 جولوگ محرمات کا کاروبار کر رہے ہیں وہ اس کو ختم کریں ور جولائی 465 29 ایک احمدی کو اس خلق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر بہت توجہ دینی چاہئے.16 جولائی 481 30 سچا مومن وہی ہے جو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کرتا ہے 31 جلسہ سالانہ کی اہمیت اور برکات 32 نظام خلافت اور نظام وصیت کا بہت گہرا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ لین دین چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ،لکھا کرو 23 جولائی 503 30 جولائی 527 6 اگست 549 13 اگست 563 34 نیکیوں کی معراج حاصل کرنے کے لئے تمام نیکیاں بجالانا ضروری ہے (منہائم جرمنی) 20 اگست | 581 35 برکت ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی ہے ( ہمبرگ، جرمنی) 27 اگست 603 36 اسلام سلامتی کا پیغام ہے.( بمقام زیورک ، سویٹزرلینڈ) 37 ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھے.( ہم مقام برسلز ، حکیم ) 38 ہمیشہ ایک دوسرے کی صلح کروانے کی کوشش کریں 39 ہمیں جو کچھ بھی ملنا ہے قرآن کریم کی برکت سے ہی ملنا ہے 40 برمنگھم میں جماعت احمدیہ کی مسجد کا بابرکت افتتاح 41 دعوت الی اللہ ایک احمدی کا بنیادی کام ہے 623 3 ستمبر 10 ستمبر | 643 17 ستمبر | 665 24 ستمبر 681 یکم اکتوبر 701 8 اکتوبر 719

Page 7

42 رمضان کی برکتوں اور عظمتوں کا تذکرہ 43 اپنی عبادتوں کو زندہ کریں 44 رمضان کا درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے 45 دفتر اول کے مجاہدین کے کھاتوں کو زندہ کرنے کی تحریک کی یاددہانی 15 اکتوبر | 737 22 اکتوبر 756 29 /اکتوبر | 775 5 نومبر 794 46 احمد یوں کو جمعہ کی حاضری اور اس کی حفاظت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے 12 /نومبر | 815 47 ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کی ستاری کرے 48 دعاؤں اور صدقات کا آپس میں گہرا تعلق ہے 49 عبادت کی ضرورت اور اہمیت 50 آنحضرت علی کی بلندشان اور مقام ارفع کا ذکر 19 نومبر | 831 26 نومبر | 847 3 /دسمبر 10 دسمبر 865 883 51 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے 17 /دسمبر | 905 52 رشتہ ناطہ کے مسائل اور ان کی طرف قرآنی احکام اور ارشادات کی روشنی میں راہنمائی 24 دسمبر تمام جماعت کا نظام، نظام خلافت کے گردگھومتا ہے 31 دسمبر 941

Page 8

$2004 3 1 خطبات مسرور صلى الله تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ عاجزی آنحضرت ﷺ کی ذات میں نظر آتی ہے ۲ جنوری ۲۰۰۴ء بمطابق ۲ صلح ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، مورڈن لندن عاجزی اور انکسار ایک ایسا خلق ہے ہ...لوگ اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں.بلند مقام عاجزی سے ہی ملتا ہے.شادی بیاہ اور جہیز میں دکھاوے کی خاطر خرچ کرنا اور قرآنی حکم کی خلاف ورزی.اگر خدا کی تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دلوں کے پاس.آنحضرت ﷺ کا بجز وانکسار میں اسوہ.عجز و انکسار کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح.

Page 9

خطبات مسرور $2004 4 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِيْنَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَّإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُوْنَ قَالُوْا سَلمًا ﴾ (سورة الفرقان آیت ۶۴) عاجزی اور انکساری ایک ایسا خلق ہے جب کسی انسان میں پیدا ہو جائے تو اس کے ماحول میں اور اس سے تعلق رکھنے والوں میں باوجود مذہبی اختلاف کے جس شخص میں یہ خلق ہو اس پر انگلی اٹھانے کا موقعہ نہیں ملتا بلکہ اس خُلق کی وجہ سے لوگ اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں، اس سے تعلق رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں.ہمیں تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ عاجزی اگر کسی میں نظر آتی ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہے چنانچہ دیکھ لیں باوجود خاتم الانبیاء ہونے کے آپ اپنے ماننے والوں کو یہی فرماتے ہیں کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو اور اس یہودی کو بھی پتہ تھا کہ باوجود اس کے کہ میں یہودی ہوں اور جھگڑا میرا مسلمان سے ہے اور پھر معاملہ بھی آپ ﷺ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اپنے اس جھگڑے کا معاملہ آپ ﷺ کے پاس ہی لاتا ہے، آپ کی خدمت میں ہی پیش کرتا ہے.کیونکہ مذہبی اختلاف کے باوجود اس کو یہ یقین تھا اور وہ اس یقین پر قائم تھا کہ یہ عاجز انسان کبھی اپنی بڑائی ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور اس یہودی کو یہ بھی یقین تھا کہ میرا دل رکھنے کے لئے اپنے مرید کو یہی کہیں گے کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو.یہ یقین اس لئے قائم تھا کہ آپ کی زندگی جو زندگی اس یہودی کے سامنے تھی اس سے یہی ثابت ہوا تھا اور آپ کا یہ حسن خلق اس کو پتہ تھا اور یہ حسن خلق آپ میں اس لئے تھا کہ وہ شرعی کتاب جو آپ پر اتری یعنی قرآن کریم اس میں اللہ

Page 10

$2004 5 خطبات مسرور تعالیٰ نے فرمایا ہے جو میں نے آیت پڑھی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواباً کہتے ہیں سلام.یعنی جھگڑے کو بڑھاتے نہیں بلکہ وہیں معاملہ نپٹا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں.اور اگر کوئی جھگڑا کرنے کی کوشش بھی کرے تو اس کو آگے نہیں بڑھنے دیتے.جاہلوں کی طرح ذرا ذراسی بات پر سالوں جنگیں لڑنے کی ان کو عادت نہیں ہے.تو یہ ہے وہ حسن خلق جو آنحضرت ﷺ میں تھا اور جو آپ اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے.اس بارہ میں علامہ رازی آیت قرآنی الَّذِيْنَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا ﴾ کی تغییر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ کون سے مراد نرمی اور ملائمت ہے.اس کے معنی یہ ہوں گے کہ چال میں نرمی ہو چال میں نرمی ہوتی ہے ، سکینت ہوتی ہے، وقار اور تواضع ہوتی ہے اور تکبر اور نخوت سے اپنے پاؤں زمین پر نہیں مارتے اور متکبر لوگوں کی طرح اکٹڑ کر نہیں چلتے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا.یعنی وہ زمین پراکٹر کر نہیں چلتے.لکھتے ہیں کہ زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے ھوں کی تفسیر تلاش کی تو مجھے نہ ملی تو خواب میں مجھے بتایا گیا کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو زمین میں فساد نہیں چاہتے.پھر ایک روایت ہے ،حضرت عیاض بن حمار سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺ نے ہم سے خطاب فرمایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ انکساری اختیار کرو اس حد تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر فخر نہ کرے.اب امت کو تو یہ حکم ہے کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے لیکن کیا ہمارے عمل اس کے مطابق ہیں.کسی کو اپنی قوم کا فخر ہے، خاندان کا فخر ہے، تو کسی کو دولت کا فخر ہے، کسی کو دوستوں کا فخر ہے، کسی کو اولاد کا فخر ہے اور جس طرف بھی نظر ڈالیں آپ کوئی نہ کوئی فخر کا راستہ یا کوئی نہ کوئی فخر کی سوچ ہر ایک میں نظر آجاتی ہے.پھر اور تو اور بعض دفعہ بعض لوگ اچھے سوٹ سلوالیں یا کپڑے پہن لیں تو

Page 11

$2004 6 خطبات مسرور اسی پر فخر ہونے لگ جاتا ہے.اس تعلیم پر نظر نہیں.اگر ہر ایک کی اس تعلیم پر نظر ہو جو ہمیں آنحضرت نے دی تو فخر کے بجائے ہم میں سے ہر ایک میں ہر وقت عاجزی ہی عاجزی نظر آنی چاہئے.پھر دیکھیں روایت میں ہے جس میں آپ نے اپنے زبردست مقام کے بارے میں اعلان فرمایا ہے کہ اَنَا سَيَّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ.یعنی پہلی بات تو یہ آنَا سَيَّدُ وُلْدِ آدَمَ.اور پھر ساتھ ہی عاجزی کا بھی ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے کہ پھر فرما رہے ہیں وَلَا فَخْرَ.کہ میں تمام بنی آدم کا سردار ہوں اور یہ بہت بڑا اعلان ہے لیکن عاجزی کی انتہا کہ مگر کوئی فخر نہیں کرتا.اس میں مجھے کوئی فخر نہیں ہے.( مسنداحمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۲ مطبوعہ بیروت ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے لئے اس طرح تواضع اختیار کی.یہ فرماتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے اپنی ہتھیلی کو زمین کے ساتھ لگا دیا.اس کو میں اس طرح بلند کروں گا اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی ہتھیلی کو آسمان کی طرف اونچا کرنا شروع کیا اور بہت بلند کر دیا یعنی جو عاجزی اختیار کرے اور زمین کے ساتھ لگ جائے اس کو خدا تعالیٰ خود بلند کرتا ہے.(مسند احمد بن حنبل مسند العشر المبشرين بالجنة جلد ا صفحه ۴۴ مطبوعه بيروت) اب ایسے لوگ جن کو اپنی بڑائی بیان کر کے اپنے مقام کا اظہار کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے ان کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بلند مقام عاجزی سے ہی ملتا ہے.اچھا با غبان یا مالک ہو باغ کا وہ ہمیشہ درخت کی اس شاخ کی قدر کرتا ہے.جو پھلوں سے لدی ہو اور زمین کے ساتھ لگی ہو.اسی طرح مالک ارض و سما اس سر کی قدر کرتا ہے جو زمین کی طرف جھکتا ہے.عاجزی کے مقابلے پہ فخر غرور اور تکبر ہی ہے یعنی اس کا الٹ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ شرک کے بعد تکبر جیسی کوئی بلا نہیں.اگر غور کریں تو تکبر ہی آہستہ آہستہ شرک کی طرف بھی لے کر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ عاجزانہ راہوں پر چلائے.پھر ایک روایت ہے حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا جس

Page 12

7 $2004 خطبات مسرور نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا یعنی اس کو ایک درجہ بلند کرے گا.جس نے عاجزی اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرے گا یہاں تک کہ اسے علیین میں جگہ دے گا.بہت اونچے مقام پر لے جائے گا اور جس نے اللہ کے مقابل پر ایک درجہ تکبر اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرادے گا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین میں داخل کر دے گا (مسند احمد بن حنبل باقی مسند المكثرين من الصحابة جلد ۳ صفحہ ۷۶ ).یعنی انتہائی نچلے درجے پر جہنم کے بھی نچلے درجے میں لے جائے گا.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اسفل السافلین میں گرنے سے بچائے.حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا ہر انسان کا سر دو زنجیروں میں ہے.ایک زنجیر ساتویں آسمان تک جاتی ہے اور دوسری زنجیر ساتویں زمین تک جاتی ہے.جب انسان تواضع یا عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زنجیر کے ذریعہ اسے ساتویں آسمان تک لے جاتا ہے اور جب وہ تکبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زنجیر کے ذریعہ اسے ساتویں زمین تک لے جاتا ہے.انتہائی نیچے گرا دیتا ہے.(کنز العمال حدیث ۵۷۴۵) پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے دنیا میں اپنا سر بلند کیا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کاٹ دے گا.اور جس نے خدا کی خاطر دنیا میں تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف ایک فرشتہ بھجوائے گا جو اسے مجمعے میں سے اپنی طرف کھینچ لے گا اور کہے گا کہ اے صالح بندے اللہ تعالی کہتا ہے میری طرف آ، میری طرف آن، کیونکہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.(کنز العمال ۵۷۴۶) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے مجھے فرمایا کہ اے عائشہ اے عائشہ ! عاجزی اختیار کر کیونکہ اللہ تعالیٰ عاجزی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.اور تکبر کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے.(کنز العمال ۵۷۳۴) اب حضرت عائشہ کو حالانکہ ان کا بھی ایک مقام تھا اور بڑی عاجزی تھی ان میں بھی.آپ

Page 13

$2004 8 خطبات مسرور نصیحت فرمارہے ہیں کہیں ہلکی سی کوئی چیز دیکھی ہوشائد.تو آج کل اگر کسی کو نصیحت کرو تو وہ کہتا ہے کیا ہم تو بڑے عاجز ہیں.کیا تم دیکھتے نہیں ہم میں عاجزی.پھر حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تواضع انسان کو صرف بلندی میں ہی بڑھاتی ہے.پس تواضع اختیار کرو.اللہ تعالیٰ تمہیں رفعتیں عطا کرے گا.(کنز العمال حدیث نمبر ٥٧٤٠) پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے عاجزی اور انکساری کی وجہ سے عمدہ لباس ترک کیا حالانکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اختیار دے گا کہ ایمان کی پوشاکوں میں سے جو پوشاک چاہے پہن لے.(ترمذی کتاب الصفۃ القیامۃ باب ماجاء فی صفتہ اوانی الحوض) اب صرف اس سے یہی مراد نہیں.اصل میں تو نیت مراد ہے.اب دیکھیں کہ آج کل بھی شادی بیا ہوں میں صرف ایک دو دفعہ پہنے کے لئے دلہن کے لئے یا دولہا کے لئے بھی اور رشتہ داروں کے لئے بھی کتنے مہنگے جوڑے بنوائے جاتے ہیں جو ہزاروں میں بلکہ لاکھوں میں چلے جاتے ہیں، صرف دکھانے کے لئے کہ ہمارے جہیز میں اتنے مہنگے مہنگے جوڑے ہیں یا اتنے قیمتی جوڑے ہیں یا ہم نے اتنا قیمتی جوڑا پہنا ہوا ہے.صرف فخر اور دکھاوا ہوتا ہے.کیونکہ پہلے تو یہ ہوتا تھا پرانے زمانے میں کہ قیمتی جوڑا ہے تو آئندہ وہ کام بھی آجاتا تھا.کام سچا ہوتا تھا اچھا ہوتا تھا پھر اب تو وہ بھی نہیں رہا کہ جو اگلی نسلوں میں یا اگلے بچوں کے کام میں آجائیں ایسے کپڑے.یونہی ضائع ہو جاتے ہیں، ضائع ہورہے ہوتے ہیں.پھر فیشن کے پیچھے چل کر دکھاوے اور فخر کے اظہار کی رو میں بہہ کر قرآن کریم کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ.فیشن میں بس یسے ایسے عریاں قسم کے لباس سل رہے ہوتے ہیں کسی کو کوئی خیال ہی نہیں ہوتا.تو احمدی بچوں اور احمدی خواتین کو ایسے لباسوں سے جن سے ننگ ظاہر ہوتا ہو پر ہیز کرنا چاہئے.اور پھر فخر کے لئے لباس پہنیں گے تو دوسری برائیاں بھی جنم لیں گی.اللہ تعالیٰ ہر احمدی بچی ہر احمدی عورت کو ایمان کی پوشاک ہی پہنائے اور دنیاوی لباس جو دکھاوے کے لباس ہیں ان سے بچائے رکھے.اسی طرح

Page 14

9 $2004 خطبات مسرور مرد بھی اگر دکھاوے کے طور پر کپڑے پہنتے ہیں ، لباس پہن رہے ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں.صاف ستھرا اچھا لباس پہننا منع نہیں.اس سوچ کے ساتھ یہ لباس پہننا منع ہے کہ اس میں فخر کا اظہار ہوتا ہو، دکھاوا ہوتا ہو.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تواضع میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان اپنے بھائی کا جوٹھا پی لے.اور جس نے اپنے بھائی کا جوٹھا پی لیا اللہ تعالیٰ اس کے ستر درجے بڑھائے گا.اس کے ستر گناہ معاف کر دے گا اور اس کے لئے ستر نیکیاں لکھی جائیں گی.(کنز العمال ۵۷۴۸) بعض لوگ اس لئے کراہت کرتے ہیں کہ جوٹھا ہے یا فلاں میرے ہم پلہ نہیں.اس لئے اس کا جوٹھا نہیں پینا، دوسرے کا پی لینا ہے.اس میں بھی ایک قسم کا تکبر ہے.اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی ہے ہمارے ایک بزرگ تھے ان کے بچے نے آکر شکایت کی کہ ابا ! فلاں بھائی نے یا بہن نے میرا پانی پی کر جو ٹھا کر دیا ہے.تو انہوں نے کہا بچے ایسی باتیں نہیں کیا کرتے.اور اسی پانی کو پی لیاد یکھو اس کا جوٹھا میں نے پی لیا.جو ٹھا کوئی نہیں ہوتا.تو بچے نے اور رونا شروع کر دیا کہ اب آپ نے بھی جو ٹھا کر دیا.تو بہر حال یہ جوٹھ کوئی نہیں ہوتا.سوائے اس کے کہ کوئی بیماری ہوا اور چھوت لگنے والی ہواس میں احتیاط ضروری ہے.پھر ایک دفعہ کسی نے آنحضرت ﷺ کو یا خَيْرُ الْبَرِيَّه کہہ دیا ( یعنی اے مخلوق کے بہترین وجود) تو آپ نے فرمایاوہ تو براہیم علیہ السلام تھے.عاجزی کی انتہا ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۷۸) پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آکر آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا.اسے محمد ﷺ ہم میں سے سب سے بہترین اور اے ہم میں سے سب سے بہترین لوگوں کی اولا داے ہمارے سردار اور اے ہمارے سرداروں کی اولاد.آپ نے سنا تو فرمایا.کہ دیکھو تم اپنی اصلی بات کہو اور کہیں شیطان تمہاری پناہ نہ لے.میں محمد بن عبد اللہ ہوں اور اللہ کا رسول ہوں.میں

Page 15

خطبات مسرور 10 نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرا مقام اس سے بڑھا چڑھا کر بتاؤ جو اللہ نے مقررفرمایا ہے.$2004 (مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۳ صفحه ٣٤٩ مطبوعه مصر آج کل یہاں کسی کی تعریف کر دیں تو پھولے نہیں سما تا بلکہ فخر ہورہا ہوتا ہے چاہے وہ اس مقام کا ہو بھی یا نہ.اور آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ دیکھیں.ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.کہ تم میں سے کسی کو اس کے اعمال جنت میں لے کر نہیں جائیں گے.صحابہ نے تعجب سے عرض کیا.یا رسول اللہ ! کیا آپ کے عمل بھی ؟.تو آپ نے فرمایا ہاں.مجھے بھی اگر خدا کی رحمت اور فضل ڈھانپ نہ لیں تو میں بھی جنت میں نہیں جاسکتا.(مسلم کتاب صفات المنافقين واحكامهم باب لن يدخل احد الجنة بعمله) اب دیکھیں عاجزی کی کتنی انتہا ہے حالانکہ کائنات کو آپ کی خاطر پیدا کیا گیا.اور آپ کی عاجزی اس حد تک ہے اس انتہا تک ہے.پھر حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر کوئی حسین اخلاق والا نہیں تھا.آپ کے صحابہ میں سے یا اہل خانہ میں سے جب بھی کسی نے آ کو بلایا تو ہمیشہ آپ کا جواب یہ ہوتا تھا کہ میں حاضر ہوں.تب ہی تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.کہ آپ عظیم خلق پر قائم تھے.(الوفاء باحوال المصطفى از علامه ابن جوزی صفحه ٤٦٧ حامد اینڈ کمپنی (لاهور پھر اپنی عاجزی کے اظہار اور اپنے خاندان کو صحیح راستے پر ڈالنے کے لئے اور ان کو عباد الرحمن بنانے کے لئے آپ نے کیسی خوبصورت نصیحت فرمائی.ایک موقع پر آپ نے اپنی پھوپھی صفیہ کو فرمایا اے میری پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب اور اے میری لخت جگر فاطمہ، میں تم کو اللہ کے عذاب سے ہرگز نہیں بچا سکتا.اپنی جانوں کی خود فکر کرلو.(بخاری کتاب التفسير سورة الشعراء زير آيت وانذر عشيرتك الاقربين تو ہمیشہ اللہ کا فضل اور صرف اس کا فضل ہی ہے جو انسان کو بچائے اور ہر وقت اس کے.آگے جھکے رہنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ہر وقت تعمیل کرتے رہنا چاہئے اور اس کی مخلوق کی خدمت کرتے رہنا چاہئے.

Page 16

$2004 11 مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں کہ اگر خدا کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دلوں کے پاس تلاش کرو.اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا.اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے یا تمہارا خاندان کیا ہے بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تمہارا عمل کیا ہے.اسی طرح پیغمبر خدا نے اپنی بیٹی کو فرمایا کہ اے فاطمہ ! خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا اگر تم کوئی برا کام کرو گی تو خدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگذر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو.( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۷ الحکم ۷ار جولائی ۱۹۰۳ء) پھر دیکھیں آج کل اگر کسی کو کوئی عہدہ مل جائے یا مالی حالت کچھ بہتر ہو جائے تو زمین پر پاؤں نہیں سکتے.اپنے آپ کو کوئی بالا مخلوق سمجھنے لگ جاتے ہیں.ماتحتوں سے یا غریب رشتہ داروں سے اس طرح بات کرتے ہیں جیسے کوئی انتہائی کم درجہ کے لوگ ہوں.لیکن اسوہ رسول دیکھیں کیا ہے.ابو مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور کے پاس ایک شخص آیا آپ اس سے گفتگو فرما رہے تھے تو اسی دوران میں اس پر آپ کا رعب اور ہیبت طاری ہوگئی اور اس وجہ سے اس کو کپکپی طاری ہو گئی کا پنپنے لگ گیا وہ تو آپ اسے فرمانے لگے.کہ دیکھو اطمینان اور حوصلہ رکھو، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے میں کوئی جابر بادشاہ تھوڑا ہی ہوں میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی.(ابن ماجه کتاب الاطعمه باب القديد) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ میں یہ وصف تھا.آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپ کا کیا معاملہ ہے.اس نے کہا سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں.اللهم صل عـلـى

Page 17

$2004 12 خطبات مسرور مُحَمَّدٍ وَعَلَى ال مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكْ وَسَلَّمْ.تو یہ ہے وہ نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا اور یہ بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردو پیش حاضر رہتے ہیں.فرمایا اس لئے اگر کسی کے انکسارا اور فروتنی اور تحمل اور برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے بعض مر دیا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمت گار سے ذرا کوئی کام بگڑا.مثلاً چائے میں نقص ہوا تو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کر دیا اور ذرا شور بے میں نمک زیادہ ہو گیا تو بس بیچارے خدمت گاروں پر آفت آئی.( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۴۳۷ ، ۱۳۴۸الحکم، ارنومبر ۱۹۰۵) ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ ایک کم سن لونڈی کو بازار میں روتے دیکھا جو گھر کے مالکوں کا آٹا پینے کی تھی مگر در ہم گم کر بیٹھی.آپ نے اسے درہم بھی مہیا کئے اور اس کے صلى الله مالکوں کے گھر جا کر سفارش بھی کی.اس بات پر کہ آنحضرت ﷺ سفارش کرنے کے لئے آئے ہیں مالکوں نے اس کو آزاد بھی کر دیا.(مجمع الزوائد از علامه هیثمی جلد ۹ صفحه ۴۱ مطبوعه بیروت) حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور ایک مجلس میں اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے.مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا، ذرا پاگل پن تھا تھوڑا.تو حضور کے پاس آئی اور عرض کیا کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے لیکن میں آپ سے ان لوگوں کے سامنے باتیں نہیں کروں گی.علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں.حضور نے فرمایا ٹھیک ہے جہاں بھی مدینہ کے راستوں میں سے جس رستہ پہ چاہو یا سڑک پر چاہو یا جو بیٹھنے کی جگہیں ہیں وہاں چاہو مجھے بتادو میں وہاں جا کر بیٹھتا ہوں اور تم بات کرو اور میں تمہاری بات سنوں گا.اور فرمایا جب تک تیری بات سن کر تیری ضرورت پوری نہ کر دوں وہاں سے نہیں ہٹوں گا.حضرت انس کہتے ہیں حضور کی بات سن کر وہ حضور کو ایک راستہ پر لے گئی پھر وہاں جا کر بیٹھ گئی حضور بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جب تک اس کی بات سن کر اس کا کام نہیں کر دیا حضور وہیں بیٹھے رہے.(الشفا لقاضی عیاض باب تواضعه صفحه ۱۹۲) تو اس زمانہ میں یہی مثال یہی اسوہ ہمیں آپ کے عاشق صادق اور غلام حضرت اقدس مسیح

Page 18

$2004 13 خطبات مسرور موعود علیہ السلام کی زندگی میں نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپنے تو در کنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو اور لا ابالی مزاج ہر گز نہیں ہونا چاہئے.پھر اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سیر کو جارہا تھا تو ایک پٹواری میرے ساتھ تھا وہ ذرا آگے تھا اور میں پیچھے.راستے میں ایک بڑ ہیا ۷۰، ۷۵ سال کی ملی پہلے ان پٹواری صاحب کو اس نے خط پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑ کیاں دے کر ہٹا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے دل پر چوٹ سی لگی.پھر اس بڑہیا نے وہ خط مجھے دیا تو فرماتے ہیں کہ میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا.اس پر پٹواری کو بڑی شرمندگی ہوئی کیونکہ ٹھہر نا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا.(ملفوظات جلد چهارم صفحه ۸۲ ۸۳ الحكم ۳۱ جولائی تا ١٠ اگست ١٩٠٤) پھر آنحضرت ﷺ کی عاجزی کی ایک اور مثال دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کس طرح عاجزانہ مناجات کرتے ہیں باوجود اس کے کہ آپ کو ہر طرح کی ضمانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی ، باوجود اس کے کہ آپ کو علم تھا کہ آپ کے پاس شیطان کا گزرنہیں ہوتا جیسا کہ فرمایا کہ میرا تو شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے.لیکن پھر بھی کسی خوف اور عاجزی سے مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے.روایت ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر عرفات کی شام میں اس طرح دعا کی کہ : اے اللہ ! تو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر مخفی نہیں میں ایک بد حال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں تیری مدداور پناہ کا طالب ، سہا اور ڈرا ہوا اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس چلا آیا ہوں.میں تجھ سے عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں ہاں تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگار کی طرح زاری کرتا ہوں، ایک اندھے نابینے کی طرح ٹھوکروں سے خوف زدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے.اے اللہ تو مجھ اپنے حضور دعا کرنے میں بد بخت

Page 19

14 $2004 خطبات مسرور نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا.اے وہ جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے میری دعا قبول کر لینا.(مجمع الزوائد هیثمی مطبوعه بیروت جلد نمبر ٣ صفحه ٢٥٢) تو اندازہ کریں کہ ان عاجزانہ دعاؤں کا.کیا ہم اس سے کم عاجزانہ دعائیں مانگ کر اللہ تعالیٰ کی بخشش کے طالب ہو سکتے ہیں.ہمیں تو بہت بڑھ کر اپنی عاجزی کا اظہار کرنا چاہئے.اصل میں تو یہ وہ طریقے ہیں یا اسلوب ہیں جو آنحضرت ﷺ نے دعا کر کے ہمیں سکھائے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی اس اسوہ حسنہ پر چل کر اسی طرح عاجزی اور انکساری اختیار کرنے والے ہوں.پھر حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ میری مدد کر میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا اور میری نصرت کرا اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا ، اور میرے حق میں تدبیر کر مگر میرے خلاف تدبیر نہ کرنا اور مجھے ہدایت دے اور ہدایت کو میرے لئے آسان بنا دے اور مجھ پر زیادتی کرنے والے کے خلاف میری مدد کراے اللہ مجھے اپنا بہت شکر کرنے والا کثرت سے ذکر کرنے والا اور بہت زیادہ ڈرنے والا بنا دے مجھے اپنا بے حد مطیع اپنی طرف انکساری کے سرتسلیم خم کرنے والا بہت نرم دل اور سچے دل سے جھکنے والا بنا دے اے اللہ میری توبہ قبول کر اور میرے گناہوں کو دھو ڈال میری دعا قبول کر اور میری دلیل کو مضبوط بنادے اور میری زبان کو بہتری بخش اور میرے دل کو ہدایت عطا کر اور میرے سینے کے کینے کو دور کر دے.(ترمذى كتاب الدعوات باب في دعاء النبي وہ جو داعیان الی اللہ ہیں وہ بھی جب جائیں تو اس دعا کے ساتھ ان کو باہر نکلنا چاہئے.پھر فرمایا کہ اے اللہ میں تجھ سے ایسے دل سے پناہ مانگتا ہوں جس میں عاجزی اور انکساری نہیں اور ایسی دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو مقبول نہ ہو اور ایسے نفس سے جو بھی سیر نہ ہو.اور ایسے علم سے جو کوئی فائدہ نہ دے میں ان چاروں سے تیری پناہ مانگتا ہوں.( ترمذى كتاب الدعوات باب ماجاء في جامع الدعوات عن رسول الله صل الله تو یہ عاجزی اور انکساری کے وہ چند نمونے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہمیں نظر عليسة

Page 20

15 $2004 خطبات مسرور آتے ہیں بہت سارے بے شمار واقعات ہیں ان میں سے ہی یہ چند لئے گئے ہیں تو آپ کی زندگی کا تو لمحہ لمحہ عاجزی اور انکساری میں گزرا باوجود اس کے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کل عالم کے لئے نبی مبعوث فرمایا تھا اور آپ خاتم الانبیاء تھے.کوئی نبی آپ کے بعد بجز آپ کی کچی اتباع کے اور اطاعت کے آنہیں سکتا.اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے نظارے آپ ہر روز دیکھتے تھے لیکن پھر بھی عاجزی کی یہ انتہا تھی جس کی چند مثالیں میں نے دیں.اب اس زمانے میں بھی دیکھیں آپ سے وفا اور غلامی کے طفیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس عاجزی کی وجہ سے جو آپ علیہ السلام نے اپنے آقا سے سیکھی تھی پیار کے جلوے دکھائے اور پھر آپ نے اپنی جماعت کو ان اسلوب اور طریقوں کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی.جماعت احمدیہ کی اجتماعی ترقی ہو یا ہر احمدی کی انفرادی ترقی ہو اس کا راز اب عاجزی دکھانے میں اور عاجز رہنے میں ہی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما بتایا ہے کہ ” تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں.الهام ۱۸ مارچ ۱۹۰۷ء.تذکر طبع چہارم صفحه ۵۹۵ ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بارہ میں فرماتے ہیں: خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.(اور ہم اللہ کے فضل سے ان کو پورا ہوتے بھی دیکھ رہے ہیں.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشت خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا.(روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۰،۴۰۹)

Page 21

مسرور 16 آپ اپنے ایک کلام میں شعروں میں فرماتے ہیں.کون کہتا ہے کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے میرے قدیر کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعت قرب و جوار حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ : $2004 وہ عبادالرحمن جنہوں نے دنیا میں انکسار اور عدل وانصاف کے ساتھ اپنی عمر بسر کی.جودن کے اوقات میں بھی احکام الہی کے تابع رہے اور رات کی تاریکیوں میں بھی سجدہ و قیام میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے اور دعائیں کرتے رہے.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرتے ہوئے انہیں ساتویں آسمان پر جگہ عنایت فرمائے گا یعنی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ رکھے جائیں گے.کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سا تو میں آسمان پر ہی ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۲۰۸،۲۰۷).اس کی طرف رسول کریم ﷺ نے اس حدیث میں بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ ( کنز العمال جلد ۲ صفحه ۵۲) کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ساتویں آسمان میں جگہ دیتا ہے.چونکہ ان لوگوں نے خدا کے لئے ھون اور تَذَلُّ ن اختیار کیا ہوگا اس لئے خدا تعالیٰ بھی انہیں سب سے اونچا مقام رفعت عطا فرمائے گا اور انہیں منازل قرب میں سے سب سے اونچی منزل عطا کی جائے گی.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۵۹۷) اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان فرماتے ہیں ؎ جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اس زمانے میں عاجزی اختیار کرنے کے طریقے

Page 22

17 $2004 خطبات مسرور اور سلیقے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سکھائے اس لئے آپ علیہ السلام کے نسخوں پر عمل کر کے ہی ہم اس خلق کو حاصل کر سکتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی شخص اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے.اپنے آپ کو ٹولو، اگر بچے کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ ہیں.﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴾ کی دعا صحابہ کی طرح جاری رکھو.راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھائے.آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے بھی تدریجا تربیت پائی.(ملفوظات جلد اول صفحه ۲۸ رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷) پھر آپ فرماتے ہیں: "عاجزی اختیار کرنی چاہیے.عاجزی کا سیکھنا مشکل نہیں ہے اس کا سیکھنا ہی کیا ہے.انسان تو خود ہی عاجز ہے اور وہ عاجزی کیلئے ہی پیدا کیا گیا ہے.﴿مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذاریات: 57 ) ( ملفوظات جلد سوم صفحه 232 البدر ۲۴ اپریل ۱۹۰۳) تو اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ عاجزی اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو ، اس کی عبادت کرو.تو عاجزی سمیت تمام خلق پیدا ہوتے جائیں گے انشاء اللہ.پھر آپ فرماتے ہیں: 'پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو.اپنی زبان میں بھی دعا کرنامنع نہیں ہے.نماز کا مزہ نہیں آتا جب تک حضور نہ ہو اور حضور قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عاجزی نہ ہو.عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آجائے کہ کیا پڑھتا ہے.اس لئے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کیلئے جوش اور اضطراب پیدا ہوسکتا ہے“.(ملفوظات جلد.سوم صفحه ٤٣٤ الحكم ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۳ء) جب آدمی دعا کر رہا ہو سمجھ نہ آ رہی ہو تو عاجزی کس طرح پیدا ہوگی اگر مطلب نہ آرہا ہو.اس لئے اپنی زبان میں دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ سے مانگیں اس کے آگے روئیں ، گڑ گڑا ئیں.پھر آپ فرماتے ہیں انبیاء میں بہت سے ہنر ہوتے ہیں.ان میں سے ایک ہنر سلب

Page 23

$2004 18 خطبات مسرور خودی کا ہوتا ہے.ان میں خودی نہیں رہتی.وہ اپنے نفس پر ایک موت وارد کر لیتے ہیں.کبریائی خدا کے واسطے ہے.جولوگ تکبر نہیں کرتے اور انکساری سے کام لیتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوتے“.(ملفوظات جلد ٥ صفحه ٢١٦ البدر ۲ مئی ۱۹۰۷ء پھر آپ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”انسان بیعت کنندہ کو اول انکساری اور بجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنے خودی اور نفسانیت سے الگ ہونے پڑتا ہے تب وہ نشو ونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا“.(ملفوظات جلد سوم صفحه ٤٥٥ ، ١٦ نومبر ١٩٠٣) پھر آپ نے فرمایا: ”میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات و تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہوتا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ.خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو.اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈرسکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو“.(نزول المسيح - روحانی خزائن جلد ١٨ صفحه ٤٠٣،٤٠٢) فرمایا: انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامت اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے.کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے.اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکار انہیں پاسکتا.کبیر نے سچ کہا ہے.بھلا ہوا ہم بیچ بھنے ہر کو کیا سلام جے ہوتے گھر اونچ کے ملتا کہاں بھگوان ( یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے.اگر عالی خاندان میں پیدا

Page 24

$2004 19 خطبات مسرور ہوتے تو خدا نہ ملتا.جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی کم ذات پر نظر کر کے شکر کرتا تھا.).پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا بیچ ہوں.میری کیا ہستی ہے.ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نسج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو تمام کا ئنات سے اپنے آپ کو ضرور بالضرور نا قابل و پیچ جان لے گا.انسان جب تک ایک غریب و بیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جو ایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتا ہے یا برتنے چاہئیں اور ہر ایک طرح کے غرور ور عونت و کبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا.(ملفوظات جلد سوم صفحه ٣١٥،٣١٤ الحكم ٣١ مئى ١٩٠٣) فرمایا: خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہرگز نہیں کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے وہ اسے خائب و خاسر کرے اور ذلت کی موت دیوے.جو اس کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھا اور پھر وہ نامراد رہا.خدا تعالیٰ بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش اس کے حضور پیش نہ کرے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے.جو اس طرح جھکتا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور ہر ایک مشکل سے خود بخو د اس کے واسطے راہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فرماتا ہے ﴿مَنْ يُتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِب اس جگہ رزق سے مراد صرف روٹی نہیں بلکہ عزت علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کو ضرورت ہے اس میں داخل ہیں.خدا تعالیٰ سے جو ذرہ بھر بھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرٌ ايْرَهُ ﴾.ہمارے ملک ہندوستان میں نظام الدین صاحب اور قطب الدین صاحب اولیاء اللہ کی جو عزت کی جاتی ہے وہ اسی لئے ہے کہ خدا تعالیٰ سے ان کا سچا تعلق تھا.(البدر جلد ٢ نمبر ١٤ مورخه ٢٤/اپریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰۷)- پھر فرمایا: ” خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.

Page 25

$2004 20 خطبات مسرور سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور بیچ بیچ دلوں کے علیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل ہی میں پیدا ہوتا ہے.اگر تیرا دل شر سے خالی ہو تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء.ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے.سواپنے دلوں کو ہر دم ٹولتے رہو.پھر آپ نے فرمایا : ” اور عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے کہ تم اس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہوا ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنے والے اور ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک نفس ہو کر پر ہیز گاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی گزارو.اور تم بری عادتوں سے پاک ہو کر باوفا اور باصفا زندگی بسر کرو.اور یہ کہ خلق اللہ کے لئے بلا تکلف و تصنع بعض نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جاؤ.اور یہ کہ تم اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دکھ نہ دو.اور نہ کسی بات سے اس (کے دل) کو زخمی کرو.بلکہ تم پر واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو اور مرنے سے پہلے مرجاؤ اور اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کر لو اور جو کوئی ( ملنے کے لئے ) تمہارے پاس آئے اس کی عزت کرو خواہ وہ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ نئے جوڑوں اور عمدہ لباس میں اور تم ہر شخص کو السلام علیکم کہ خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو اور (لوگوں کی ) غم خواری کے لئے ہر دم تیار کھڑے رہو.(ترجمه عربی عبارت اعجاز المسیح از تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام جلد اول صفحه ۲۰۳ خلاصہ ان باتوں کا یہ ہوا کہ تم عاجزی دکھانے والے تب شمار کئے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے تب ہو گے جب تم اپنے سے نفرت کرنے والوں سے بھی محبت کرو، جب ضرورت ہو تو ان کے کام آؤ اور ان کے لئے دعا کرو.اور پھر دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے

Page 26

خطبات مسرور 21 $2004 والے بنو.غلطیوں کی وجہ سے کسی کے پیچھے نہ پڑ جاؤ.اور ان کی تشہیر نہ کرتے پھرو.کسی کی غلطی کو دیکھ کر دوسروں کو بتاتے نہ پھرو بلکہ پردہ پوشی کی بھی عادت ڈالو.پھر اس میں یہ بھی فرمایا کہ اپنے دل کو ٹٹولتے رہو، اس کو پاک رکھنے کی کوشش کرو، اپنا خود محاسبہ کرتے رہو.کسی کے لئے بھی دل میں کینہ، نفرت، بغض، حسد وغیرہ نہ ہو.کیونکہ اگر یہ چیزیں دل میں ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ دل بڑائی اور تکبر سے بھرا ہوا ہے اور اس میں عاجزی نہیں ہے.پھر کسی کو اپنی باتوں سے دکھ نہ دو اور ہر ایک کی عزت کرو.چاہے کوئی غریب ہو، فقیر ہو، کم طاقت کا ہو یا ما تحت ہو یا ملازم ہو سب کی عزت کرو.پھر سلام کہنے کی عادت ڈالو.اس سے بھی معاشرے میں محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہوتی ہے اور عاجزی اور انکساری بڑھنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، اپنے اندر بھی اور دوسرے ماحول میں بھی.تو فرمایا کہ یہ کام تو بہت مشکل ہے اور یہ تب ہی کر سکتے ہو جب گویا کہ اپنے آپ کو مار لیا، اپنے نفس کو بالکل ختم کر دیا.اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لئے ہمیشہ اس کا فضل مانگتے رہو.اس کے سامنے جھکے رہو اور دعائیں کرتے رہو.اللہ تعالیٰ ہمیں عاجزی اور انکساری کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند شعر ہیں وہ میں پڑھتا ہوں ؎ اے کرم خاک چھوڑ دے کبر وغرور کو زیبا ہے کبر حضرت غیور کو رب بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں چھوڑ و غرور وکبر کہ تقویٰ اسی میں ہے

Page 27

مسرور 22 ہو جاؤ خاک مرضی مولی اسی میں ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.$2004 اب نئے سال کی مبارک باد کی بہت ساری فیکسیں آرہی ہیں.جواب تو ان کو جائیں گے تو وقت لگے گا بہر حال ان سب کو جنہوں نے نئے سال کی مبارک باددی فیکسوں کے ذریعہ یا فون کے ذریعہ سے ان سب کو مبارک ہو.جنہوں نے نہیں بھجوائی ان کو بھی نیا سال مبارک ہو.ساری جماعت کو نیا سال مبارک ہو.اللہ کرے کہ یہ سال ہمارے لئے ہمیشہ کی طرح کامیابیاں لے کر آئے اور پہلے سے بڑھ کر کامیابیاں ہمیں دکھائے.

Page 28

$2004 23 21 خطبات مسرور جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے.مخلصين وقف جدید کی مالی تحریک میں ۱۲۴ ممالک کے چار لاکھ تھا شامل ہو چکے ہیں.۹ جنوری ۲۰۰۴ء بمطابق ۹ صلح ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن...وقف جدید کے نئے مالی سال کا اعلان.انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور برکات.احمدی احباب و خواتین کی مالی قربانیوں کا جذبہ.اگر کوئی چار روٹیاں کھاتا ہے تو سلسلہ کے لئے ایک روٹی الگ رکھے.ایم ٹی اے کے لئے کام کرنے والے وفا کے پتلے...اور پروگراموں کے متعلق ہدایات.

Page 29

خطبات مسرور 24 $2004 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيْمٌ (آل عمران: ۹۳) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جود و بڑی تحریکات جاری فرمائی تھیں ان میں سے ایک وقف جدید کی تحریک ہے.وقف جدید کا سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے اور ا۳ دسمبر کو ختم ہوتا ہے اور ۳۱ دسمبر کے بعد کے خطبے میں عموماً وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے اور خطبہ جمعہ میں عموماً جماعت نے جو سال کے دوران مالی قربانی کی ہوتی ہے اس کا ذکر ہوتا ہے.۱۹۵۷ء میں حضرت مصلح موعود کے ہاتھوں جاری کردہ یہ تحریک زیادہ تر پاکستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتی تھی یا کچھ حد تک ہندوستان میں.۱۹۸۵ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام دنیا میں جاری فرما دیا اور بیرونی جماعتوں نے بھی اس کے بعد بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لینا شروع کیا اور قربانیاں دیں.آج کے جمعہ سے پہلے بھی ایک جمعہ گزر چکا ہے اس مہینہ میں لیکن چونکہ مختلف ممالک سے رپورٹس آنی ہوتی ہیں تا کہ جائزہ پیش کیا جا سکے اس لئے گزشتہ جمعہ میں اس کا اعلان نہیں ہوا آج اس کا اعلان کیا جائے گا انشاء اللہ.لیکن اس جائزے اور اعلان کرنے سے پہلے میں مالی قربانیوں کے ضمن میں کچھ عرض کروں گا.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہرگز نیکی کو پانہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو.اور تم جو کچھ بھی خرچ

Page 30

$2004 25 خطبات مسرور کرتے ہو تو یقینا اللہ اس کو خوب جانتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر بیان کی ہے.فرمایا: ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﴾ قرآن کریم میں سورۃ بقرہ میں جہاں پہلا رکوع شروع ہوتا ہے وہاں منتقی کی نسبت فرمایا ہے ﴿وَمِمَّارَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ ﴾ یعنی جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں.یہ تو پہلے رکوع کا ذکر ہے.پھر اسی سورۃ میں کئی جگہ انفاق فی سبیل اللہ کی بڑی بڑی تاکیدیں آئی ہیں.پس تم حقیقی نیکی نہیں پا سکو گے جب تک تم مال سے خرچ نہیں کرو گے.تم پاسکو مما تُحِبُّونَ ﴾ کے معنے میرے نزدیک مال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ﴾ (العادیات : 9) انسان کو مال بہت پیارا ہے.پس حقیقی نیکی پانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز مال میں سے خرچ کرتے رہو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان یکم او ۸ جولائی ۱۹۰۹ بحواله حقائق الفرقان جلد اول صفحه ٥۰۱،۵۰۰) ایک روایت ہے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے.کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : ”اے آدم کے بیٹے تو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کر کے مطمئن ہو جا، نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ کسی چور کی چوری کا ڈر.میرے پاس رکھا گیا خزانہ میں پورا تجھے دوں گا اس دن جبکہ تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا“.(طبرانی) دیکھیں کتنا سستا سودا ہے.آج اس طرح خزا نے جمع کروانے کا کسی کو ادراک ہے،شعور ہے تو صرف احمدی کو ہے.وہ جو اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم کو سمجھتا ہے کہ ﴿وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَكَ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴾ (البقرہ:۲۷۲) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اللہ میاں کے دینے کے بھی کیا

Page 31

$2004 26 خطبات مسرور طریقے ہیں کہ جو اچھا مال بھی تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا لوٹائے گا.بلکہ دوسری جگہ فرمایا کہ کئی گنا بڑھا کر لوٹایا جائے گا.تم سمجھتے ہو کہ پتہ نہیں اس کا بدلہ ملے بھی کہ نہ ملے.فرمایا اس کا بدلہ تمہیں ضرور ملے گا بلکہ اس وقت ملے گا جب تمہیں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہوگی ہم اس کے سب سے زیاہ محتاج ہو گے.اس لئے یہ وہم دل سے نکال دو کہ تم پر کوئی ظلم ہوگا.ہرگز ہر گز تم پر کوئی ظلم نہیں ہو گا.لوگ دنیا میں رقم رکھنے سے ڈرتے ہیں.بینک میں بھی رکھتے ہیں تو اس سوچ میں پڑے رہتے ہیں کہ بینکوں کی پالیسی بدل نہ جائے.منافع بھی میرا کم نہ ہو جائے.اور بڑی بڑی رقوم ہیں.کہیں یہ تحقیق شروع نہ ہو جائے کہ رقم آئی کہاں سے.اور فکر اور خوف اس لئے دامن گیر رہتا ہے، اس لئے ہر وقت فکر رہتی ہے کہ یہ جو رقم ہوتی ہے دنیا داروں کی صاف ستھری رقم نہیں ہوتی ، پاک رقم نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس میں یہی ہوتا ہے کہ غلط طریقے سے کمایا ہوا مال ہے.گھروں میں رکھتے ہیں تو فکر کہ کوئی چور چوری نہ کر لے، ڈاکہ نہ پڑ جائے.پھر بعض لوگ سود پر قرض دینے والے ہیں.کئی سو روپے سود پر قرض دے رہے ہوتے ہیں.لیکن چھین پھر بھی نہیں ہوتا.سندھ میں ایک ایسے ہی شخص کے بارہ میں مجھے کسی نے بتایا کہ غریب اور بھو کے لوگوں کو جو قحط سالی ہوتی ہے.لوگ بیچارے آتے ہیں اپنے ساتھ زیور وغیرہ ، سونا وغیرہ لاتے ہیں، ایسے سود خوروں سے رقم لے لیتے ہیں، اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لئے اور اس پر سود پھر اس حد تک زیادہ ہوتا ہے کہ وہ قرض واپس ہی نہیں کر سکتے.کیونکہ سودا تا ر نا ہی مشکل ہوتا ہے، سود در سود چڑھ رہا ہوتا ہے.تو اس طرح وہ سونا جو ہے یا زیور جو ہے وہ اس قرض دینے والے کی ملکیت بنتا چلا جاتا ہے.تو ایک ایسا ہی سود خور تھا اور فکر یہ تھی کہ میں نے بینک میں بھی نہیں رکھنا.تو اپنے گھر میں ہی ، اپنے کمرے میں ایک گڑھا کھود کے وہیں اپنا سیف رکھ کے تجوری میں سارا کچھ رکھا کرتا تھا.اور چالیس پچاس کلو تک اس کے پاس سونا اکٹھا ہو گیا تھا.اور اس کے اوپر اپنا پلنگ بچھا کر سویا کرتا تھا، خطرے کے پیش نظر کہ کوئی لے ہی نہ

Page 32

$2004 27 خطبات مسرور جائے.اور سونا کیا تھا کیونکہ سونے کے اوپر تو چار پائی پڑی ہوئی تھی.ساری رات جاگتا ہی رہتا تھا.اسی فکر میں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہو گیا.تو وہ مال تو اس کے کسی کام نہ آیا.اب اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے وہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے.لیکن ایسے لوگوں کی ضمانت خدا تعالی بہر حال نہیں دے رہا جب کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی ضمانت ہے کہ تمہیں کیا پتہ تم سے کیا کیا اعمال سرزد ہونے ہیں، کیا کیا غلطیاں اور کوتا ہیاں ہو جاتی ہیں.لیکن اگر تم نیک نیتی سے اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو یہ ضمانت ہے کہ اعمال کے پلڑے میں جو بھی کمی رہ جائے گی تو چونکہ تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوگا تو کبھی نہیں ہوسکتا کہ تم پر ظلم ہو، اس وقت کمیوں کو اسی طرح پورا کیا جائے گا اور کبھی ظلم نہیں ہوگا.اس بارہ میں ایک اور روایت ہے.حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والا اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سایہ میں رہے گا“.( مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۴۸) لیکن شرط یہ ہے کہ یہ خرچ کیا ہوا مال پاک مال ہو ، پاک کمائی میں سے ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اتنے اجر اگر لینے ہیں اور اپنے مال کے سائے میں رہنا ہے تو گند سے تو اللہ تعالیٰ ایسے اعلیٰ اجر نہیں دیا کرتا.اور جن کا مال گندہ ہو ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے نہیں ہوتے اور اگر کہیں خرچ کر بھی دیں.اگر لاکھ روپیہ جیب میں ہے اور ایک روپیہ نکال کر دے بھی دیں گے تو پھر سو آدمیوں کو بتائیں گے کہ میں نے یہ نیکی کی ہے.لیکن نیک لوگ ، دین کا در درکھنے والے لوگ، جن کی کمائی پاک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی بڑی قدر کرتا ہے.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایک کھجور بھی پاک

Page 33

$2004 28 خطبات مسرور کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی.اور اللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی.جس طرح تم میں سے کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ ایک بڑا جانور بن جاتا ہے.(بخاری کتاب الزکواۃ باب الصدقة من كسب طيب) آج جماعت میں ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان کے بزرگوں نے تکلیفیں اٹھا کر اپنی پاک کمائی میں سے جو قربانیاں کیں اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلوں کے اموال ونفوس بے انتہاء برکت ڈالی.پھر روایت ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے مسجد نبوی کے منبر پر رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”اے لوگو! جہنم کی آگ سے بچو اگر چہ تمہارے پاس کھجور کا آدھا ہی ٹکڑا ہو ، وہی دے کر آگ سے بچو.اس لئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا انسان کی کبھی کو درست کرتا ہے.بُری موت مرنے سے بچاتا ہے اور بھوکے کا پیٹ بھرتا ہے“.(الترغیب و الترهيب) تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کی ہوئی قربانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس دنیا میں بھی راستے سے بھٹکنے سے بچاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے شخص سے ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں جن سے اس کا انجام بھی بخیر ہو.حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے.ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا.دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ ، دانائی اور علم وحکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا بھی ہے.(بخاری کتاب الزكوة باب انفاق المال في حقه)

Page 34

$2004 29 مسرور ایک روایت میں آتا ہے، عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: الشُّح یعنی بخل سے بچو! یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی ( قوموں) کو ہلاک کیا.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۱۹۱ مطبوعه بیروت) الحمد للہ ! کہ آج جماعت میں ایسے لاکھوں افراد مل جاتے ہیں جو بخل تو علیحدہ بات ہے اپنے اوپر تنگی وارد کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں.اور بخل کو کبھی بھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں یقین سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے.جوشخص سچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے وہ اپنا مال صرف اس مال کو نہیں سمجھتا جو اس کے صندوق میں بند ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتا ہے اور امساک اس سے دُور ہو جاتا ہے ( یعنی کنجوسی اس سے دور ہو جاتی ہے جیسا کہ روشنی سے تاریکی دور ہو جاتی ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۹۸) پھر فرمایا : ” قوم کو چاہئے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجالا وے.مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں چاہئے.دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا.رسول الله کریم حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے.اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے.ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تو اُسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۳۵۸ احکام، اجولائی ۱۹۰۳ء) ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا اور وہاں محنت مزدوری کرتا اور اسے اجرت کے طور پر ایک مد ( اناج وغیرہ) ملتا تو وہ اس میں سے صدقہ

Page 35

30 $2004 خطبات مسرور کرتا ) اور اب ان کا یہ حال ہے کہ ان میں سے بعض کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار ہے.(بخاری کتاب الاجاره باب من آجر نفسه ليحمل على ظهره ثم تصدق به اسی سنت کی پیروی کرتے ہوئے آج بھی جماعت میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں عورتوں نے بھی سلائی کڑھائی کر کے یا مرغی کے انڈے بیچ کر اپنے استعمال میں لائے بغیر خلیفہ وقت کی طرف سے کی گئی تحریکات میں حصہ لیا.اور اس طرح سے پہلوں سے ملنے کی پیشگوئی کو بھی پورا کیا.حضرت خلیفہ اول کا واقعہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے بارہ میں لکھا ہے لیکن ہر دفعہ پڑھنے سے ایمان میں ایک تازگی پیدا ہوتی ہے اور قربانی کی ایک نئی روح پیدا ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.ان کے بعض خطوط کی چند سطر میں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں : میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیر ومرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنی خدمت بجالاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کر دوں.حضرت پیر و مرشد نابکارشر مسار عرض کرتا ہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے.میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ میرے پر ڈال دیا جائے.پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو.مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں.دعا فرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو“.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۶).( یعنی پیسے بھی دے رہے ہیں اور فرمایا کہ اس کے بعد جو آمد ہو وہ بھی اسی کام کو جاری رکھنے کے لئے خرچ ہو ).

Page 36

$2004 31 مسرور پھر حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی قربانی کا بھی ایک واقعہ ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ اول زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لدھیانہ میں کسی ضروری تبلیغی اشتہار کے چھپوانے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی.اس وقت حضرت صاحب کے پاس اس رقم کا انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی.منشی صاحب کہتے تھے کہ میں اس وقت حضرت صاحب کے پاس لدھیانہ میں اکیلا آیا ہوا تھا.حضرت صاحب نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اس وقت یہ اہم ضرورت درپیش ہے.کیا آپ کی جماعت اس رقم کا انتظام کر سکے گی.میں نے عرض کیا حضرت انشاء اللہ کر سکے گی.اور میں جا کر روپے لاتا ہوں.چنانچہ میں فوراً کپورتھلہ گیا.اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے حاصل کئے اور حضرت صاحب کی خدمت میں لا کر پیش کر دیئے حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپورتھلہ کو ( کیونکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے تھے کہ اس رقم کا جماعت نے انتظام کیا ہے ) دعا دی.چند دن کے بعد منشی اروڑا صاحب بھی لدھیانہ گئے تو حضرت صاحب نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی.منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ” حضرت کون سی امداد؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں حضرت صاحب نے فرمایا.یہی جونشی ظفر احمد صاحب جماعت کپورتھلہ کی طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے.منشی صاحب نے کہا ” حضرت ! منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا.اور میں ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا.اس کے بعد منشی اروڑا صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا.میں نے کہا منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیور سے پوری کر دی.اس میں آپ کی ناراضگی کی کیا بات ہے.مگر منشی صاحب کا غصہ کم نہ ہوا اور وہ برابر یہی کہتے رہے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی تھی اور تم نے یہ ظلم کیا کہ مجھے نہیں بتایا.پھر

Page 37

$2004 32 خطبات مسرور منشی اروڑا صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے.اللہ! اللہ ! یہ وہ فدائی لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود مہدی معہود کو عطا ہوئے.ذرا غور فرمائیں کہ حضرت صاحب جماعت سے امداد طلب فرماتے ہیں مگر ایک اکیلا شخص اور غریب شخص اٹھتا ہے اور جماعت سے ذکر کر نے کے بغیر اپنی بیوی کا زیور فروخت کر کے اس رقم کو پورا کر دیتا ہے.اور پھر حضرت صاحب کے سامنے رقم پیش کرتے ہوئے یہ ذکر نہیں کرتا کہ یہ رقم میں دے رہا ہوں یا کہ جماعت.تا کہ حضرت صاحب کی دعا ساری جماعت کو پہنچے.اور اس کے مقابل پر دوسرا فدائی یہ معلوم کر کے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور میں اس خدمت سے محروم رہا.ایسا بیچ وتاب کھاتا ہے کہ اپنے دوست سے چھ ماہ تک ناراض رہتا ہے کہ تم نے حضرت صاحب کی اس ضرورت کا مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا.(الفضل ٤ ستمبر ١٩١٤ء بحواله اصحاب احمد روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تهلوی صفحه ٦٢،٦١) اب کوئی دنیا دار ہو تو اس بات پر ناراض ہو جائے کہ تم روز روز مجھ سے پیسے مانگنے آجاتے ہو.لیکن یہاں جنہوں نے اگلے جہان کے لئے اور اپنی نسلوں کی بہتری کے سودے کرنے ہیں ان کی سوچ ہی کچھ اور ہے.اس بات پر نہیں ناراض ہو رہے کہ کیوں پیسے مانگ رہے ہو بلکہ اس بات پر ناراض ہورہے ہیں کہ مجھے قربانی کا موقع کیوں نہیں دیا.پھر ایک واقعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چوہدری رستم علی صاحب آف مدار ضلع جالندھر کے بارہ میں کہ وہ کورٹ انسپکٹر تھے ان کی ۸۰ روپے تنخواہ تھی.حضرت صاحب کو خاص ضرورت دینی تھی.آپ نے ان کو خط لکھا کہ یہ خاص وقت ہے اور چندے کی ضرورت ہے.انہی دنوں گورنمنٹ نے حکم جاری کیا کہ جو کورٹ انسپکٹر ہیں وہ انسپکٹر کر دئے جائیں.جس پر ان کو نیا گریڈ مل گیا اور جھٹ ان کے ۸۰ روپے سے ۱۸۰ روپے ہو گئے.اس پر انہوں نے حضرت صاحب کو لکھا کہ ادھر آپ کا خط آیا اور اُدھر ۱۸۰ روپے ہو گئے.اس لئے یہ اوپر کے سوروپے میرے نہیں ہیں، یہ حضرت صاحب کے طفیل ملے ہیں اس واسطے وہ ہمیشہ سور و پیہ علیحدہ بھیجا کرتے تھے.( روزنامه الفضل-۱۵ مئی ۱۹۲۲ء صفحه ۲)

Page 38

$2004 33 خطبات مسرور پھر ایک واقعہ ہے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کا.ان کا تھوڑ اسا تعارف بھی کرا دوں.یہ حضرت ام ناصر جو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی پہلی بیگم تھیں، ان کے والد تھے اور حضرت الحي الثر خلیفہ اسیح الثالث" کے نانا ہوئے.تو ان کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ: ’ جب انہوں نے ایک دوست سے حضرت مسیح موعود کا دعویٰ سنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعوی کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود کی بیعت کر لی.حضرت مسیح موعود نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے اور ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت مسیح موعود نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جب کہ آپ پر مقدمہ گورداسپور میں ہورہا تھا اور آپ کو اس میں روپیہ کی ضرورت تھی.حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں لنگر خانہ دو جگہ پر ہو گیا ہے.ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں اور اس کے علاوہ مقدمہ پر بھی خرچ ہو رہا ہے لہذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں.جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ قریباً چار سو پچاس روپے ملی تھی.وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی.ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ گھر کی ضروریات کے لئے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح موعود لکھتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کے لئے رکھ سکتا ہوں.غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کے لئے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت مسیح موعود کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ اب آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.(تقاریر جلسه سالانه ١٩٦٢ء- انوارالعلوم جلد ٩ صفحه ٤٣٠) اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں کو بھی اسی اخلاص اور وفا کے ساتھ قربانیوں کی توفیق دے.ان کی نسلیں اب دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص اور وفا میں بہت بڑھے ہوئے بھی ہیں، اللہ تعالیٰ مزید بڑھائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

Page 39

مسرور 34 $2004 میں یقیناً جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریا کاری کے موقعوں میں تو صد ہا روپیہ خرچ کریں.اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں.شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی نخست اور بخل کو نہ چھوڑے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے.ہمارے نبی ہے نے بھی کئی مرتبہ صحابہ پر چندے لگائے.جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر رہے....جو ہمیں مدد دیتے ہیں.آخر وہ خدا کی مدد دیکھیں گے.(مجموعه اشتهارات جلد سوم صفحه ۱۵۶) جماعت میں بہت سے خاندان اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے بزرگوں کی ایسی قربانیوں اور مدد کی وجہ سے وہ آج مالی لحاظ سے کہیں کے کہیں پہنچے ہوئے ہیں.اگر ہم اپنی نسلوں کو بھی دینی اور دنیاوی لحاظ سے خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی چاہئے کہ قربانیوں کے یہ معیار قائم رکھیں اور قائم رکھتے چلے جائیں اور اپنی نسلوں میں بھی اس کی عادت ڈالیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: پانچواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھیرایا ہے یعنی اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اپنے مالوں اور اپنی جانوں اورا.اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو اور جو کچھ ہم نے عقل اور علم اور فہم اور ہنر وغیرہ تم کو دیا ہے وہ سب کچھ خدا کی راہ میں لگاؤ.جو لوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش بجالاتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں.“ ( اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ٤١٩،٤١٨) پھر فرمایا: میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش

Page 40

$2004 35 خطبات مسرور آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک کچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سو میں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدددیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے اُن علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالے کی پاک روح نے مجھے دی ہیں“.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۱۶) فرماتے ہیں: چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس ( یعنی ہر شخص یہ عہد کرے کہ میں اتنا چندہ دیا کروں گا.جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے عہد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے.اس دفعہ تبلیغ کے لئے جو بڑا بھاری سفر کیا جاوے اس میں ایک رجسٹر بھی ہمراہ رکھا جاوے.جہاں کوئی بیعت کرنا چاہے اس کا نام اور چندے کا عہد درج رجسٹر کیا جاوے.اب یہ بات پہلے دن سے ہی نو مبایعین کو سمجھا دینی چاہئے.شروع میں اگر وہ با شرح چندہ عام وغیرہ نہیں دیتے یا نہیں دے سکتے تو کسی تحریک میں مثلاً وقف جدید میں یا تحریک جدید میں چندہ لیں، پھر آہستہ آہستہ ان کو عادت پڑ جائے گی اور پھر ان کو بھی چندوں کی ادائیگی میں مزا آنے لگے گا اور ایک فکر پیدا ہوگی.جیسا کہ ہم میں سے بہت سے ہیں جن کو فکر ہوتی ہے، بہت سارے لوگ خطوں میں لکھتے ہیں کہ بڑی فکر ہے ہم نے اتنا وعدہ کیا ہوا ہے وقف جدید کے چندے کا یا تحریک جدید کے چندے کا اور پورا کرنا ہے، وقت گزر رہا ہے، دعا کریں پورا ہو جائے.تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ ہمدردی ہمیں نو مبایعین سے بھی ہونی چاہئے اور ان کو بھی چندوں کی عادت ڈالنی چاہئے.

Page 41

خطبات مسرور 36 $2004 پھر فرمایا : کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو اس بات کا علم نہیں کہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے.ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا اور نا واقف لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاوے کہ وہ پوری تابعداری کریں.اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کر سکتے تو پھر جماعت میں شامل ہونے کا کیا فائدہ؟ نہایت درجہ کا بخیل اگر ایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کے لئے الگ کرے تو وہ بھی بہت کچھ دے سکتا ہے.ایک ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے.اگر کوئی چار روٹی کھاتا ہے تو اسے چاہئے کہ ایک روٹی کی مقدار اس میں سے اس سلسلہ کے لئے الگ رکھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کے لئے اسی طرح سے نکالا کرے....66 (البدر، جلد ٢ نمبر ٢٦ - صفحه ۲۰۲ - بتاريخ ۱۷ جولائی ۱۹۰۳ء) پھر آپ اپنی ایک رؤیا اور ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رؤیا دیکھا کہ ایک دیوار پر ایک مرغی ہے.وہ کچھ بولتی ہے.سب فقرات یاد نہیں رہے مگر آخری فقرہ جو یا در رہا یہ تھا: إن كُنتُم مُسْلِمِینَ.اگر تم مسلمان ہو.اس کے بعد بیداری ہوئی.یہ خیال تھا کہ مرغی نے یہ کیا الفاظ بولے ہیں.پھر الہام ہوا: أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ كُنتُمْ مُسْلِمِينَ.اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.اگر تم مسلمان ہو.فرمایا کہ مرغی کا خطاب اور الہام کا خطاب ہر دو جماعت کی طرف تھے.دونوں فقروں میں ہماری جماعت مخاطب ہے.چونکہ آجکل روپیہ کی ضرورت ہے.لنگر میں بھی خرچ بہت ہے اور عمارت پر بھی بہت خرچ ہورہا ہے اس واسطے جماعت کو چاہئے کہ اس حکم پر توجہ کریں.پھر فرمایا کہ: مرغی اپنے عمل سے دکھاتی ہے کہ کس طرح انفاق فی سبیل اللہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ انسان کی خاطر اپنی ساری جان قربان کرتی ہے اور انسان کے واسطے ذبح کی جاتی ہے.اسی

Page 42

خطبات مسرور 37 $2004 طرح مرغی نہایت محنت اور مشقت کے ساتھ ہر روز انسان کے واسطے انڈا دیتی ہے.ایسا ہی ایک پرند کی مہمان نوازی پر ایک حکایت ہے کہ دو پرندے تھے.درخت پر ان کا گھونسلہ تھا.درخت کے نیچے ایک مسافر کو رات آ گئی.جنگل کا ویرانہ اور سردی کا موسم.درخت کے اوپر ایک پرند کا آشیانہ تھا.نر اور مادہ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ یہ غریب الوطن آج ہمارا مہمان ہے اور سردی زدہ ہے.اس کے واسطے ہم کیا کریں؟ سوچ کر ان میں یہ صلاح قرار پائی کہ ہم اپنا آشیانہ تو ڑ کر نیچے پھینک دیں اور وہ اس کو جلا کر آگ تا پے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ یہ بھوکا ہے.اس کے واسطے کیا دعوت تیار کی جائے.اور تو کوئی چیز موجود نہ تھی.ان دونوں نے اپنے آپ کو نیچے اس آگ میں گرا دیا تا کہ ان کے گوشت کا کباب ان کے مہمان کے واسطے رات کا کھانا ہو جائے.اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کی ایک نظیر قائم کی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :سو ہماری جماعت کے مومنین اگر ہماری آواز کو نہیں سنتے تو اس مرغی کی آواز کو سنیں.مگر سب برابر نہیں.کتنے مخلص ایسے ہیں کہ اپنی طاقت 66 سے زیادہ خدمت میں لگے ہوئے ہیں.خدائے تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.“ ( ملفوظات جلد ٤ صفحه ٥٨٣،٥۸۲ بدر ۱۸ دسمبر (519.0 اب بھی جن لوگوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر مالی قربانیوں میں حصہ لیا ہے اور لے رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بنائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا تعالیٰ سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس

Page 43

$2004 38 خطبات مسرور جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلوتہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرہ محتاج نہیں.ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقعہ دیتا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۴۹۸،۴۹۷) اللہ نہ کرے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسی سوچ والا ہو جو سچائی کی روشنی پا کر پھر اندھیروں میں بھٹکنے والا ہو اور گمراہی کی موت مرے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے.اب گزشتہ سال کے دوران وقف جدید کی مالی قربانیوں کا جائزہ پیش کرتا ہوں مختصر تعارف تو شروع میں وقف جدید کا کروا دیا تھا.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۸۵ء میں اس کو تمام ممالک کے لئے جاری فرمایا اس وقت سے ملکوں کا بھی مقابلہ شروع ہوا ہوا ہے.اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۲۴ ممالک اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے.اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۳ء کو وقف جدید کا چھیالیسواں سال ختم ہوا تھا اور یکم جنوری سے سینتالیسواں سال شروع ہو چکا ہے.تو گزشتہ سال کے جو اعداد و شمار ہیں ان کے مطابق وقف جدید کی مد میں کل وصولی ۱۸لاکھ ۸۰ ہزار پاؤنڈ ہے اور یہ وصولی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۳لاکھ ۷۰ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے گزشتہ سال کی نسبت.الحمد للہ.اور وقف جدید میں شامل ہونے والے مخلصین کی تعداد بھی

Page 44

39 $2004 خطبات مسرور ۴لاکھ 8 ہزار تک پہنچ چکی ہے اور گزشتہ سال کی نسبت ۲۸ ہزارا فرا دزیادہ شامل ہوئے ہیں.الحمد للہ.گزشتہ سال میں یعنی ۲۴ ویں سال میں وقف جدید میں دنیا بھر کی جماعتوں میں جماعت امریکہ سب سے آگے رہی ہے.اس طرح امریکہ اول ہے، پاکستان دوسرے نمبر پر.لیکن گزشتہ سال پاکستان اول تھا اور امریکہ دوسرے نمبر پر تھا اور اس سے ایک سال پہلے بھی امریکہ نمبر ایک تھا اور پاکستان نمبر دو تھا.یہ مقابلہ بڑا آپس میں چل رہا ہے دونوں کا.لیکن امسال امریکہ نے بہت بڑی Lead دی ہے.اللہ تعالیٰ اسے قائم رکھے.امسال انہوں نے قریباً گزشتہ سال کی نسبت ۷۰ فیصد زائد وصولی کی ہے.لیکن بہر حال پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کے مقابلہ میں اور اس لحاظ سے انہوں نے بھی ترقی کی ہے ۱۲ فیصد وصولی زائد ہوئی ہے.جبکہ دو سالوں سے یعنی پچھلے سال بھی انگلستان کی جماعت تیسرے نمبر پر تھی اور امسال بھی تیسرے نمبر پر ہی آئی ہے.انہوں نے اسے Maintain رکھا ہوا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اور قدم بڑھانے کی توفیق دے.تو اب مجموعی طور پر پہلی دس جماعتیں جو ہیں دنیا کی ان میں (۱) امریکہ، (۲) پاکستان، (۳) برطانیه، (۴) جرمنی، (۵) کینیڈا، حالانکہ کینیڈا کی جماعتیں کوشش کریں تو یہ اپنی پوزیشن بہت بہتر کر سکتی ہیں ).(۶) بھارت (۷) انڈونیشیا، (۸) بلجیم، (۹) سویٹزرلینڈ اور (۱۰) آسٹریلیا.اب چندہ دینے کے لحاظ سے بھی امریکہ کی پہلی پوزیشن ہی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ باقی جماعتوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے.ان کی توجہ اب مساجد کی تعمیر کی طرف بھی ہوئی ہے.اور امریکہ کے ماحول میں مخلصین جماعت میں جو نیکیوں اور قربانیوں میں سبقت لے جانے کی روح پیدا ہوئی ہے خدا کرے کہ یہ قائم رہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان کے سر اللہ تعالیٰ کے حضور اور اس کے آستانے پر جھکے رہیں اور یہ قدم جو آگے بڑھا ہے پیچھے نہ ہٹے.امریکہ کی جماعتوں میں بھی بتا دیتا ہوں بعض دفعہ جماعتوں کو بھی شوق ہوتا ہے کہ ہمارا بھی ذکر ہو جائے.تو امریکہ کی جماعتوں میں Silicon Valley اول ہے، لاس اینجلیس دوم اور

Page 45

$2004 40 خطبات مسرور میری لینڈ نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے.پھر پاکستان میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۶۶ء میں اطفال کے سپر بھی وقف جدید کا کام کیا تھا کہ وہ بھی چندہ دیا کریں.اور اس وقت سے دفتر اطفال علیحدہ چل رہا ہے وقف جدید میں.تو ان کا علیحدہ علیحدہ موازنہ بھی پیش کر دیتا ہوں.بالغان یعنی بڑوں میں پہلی پوزیشن لاہور کی ہے، اور دوسری کراچی کی اور تیسری ربوہ کی.اور اطفال میں اول کراچی ، دوم لا ہور اور سوئم ربوہ.اسی طرح اضلاع کی جو قربانیاں ہیں ان میں پاکستان کے اضلاع میں پہلا نمبر ہے اسلام آباد کا، دوسرا راولپنڈی کا ، راولپنڈی کا مجموعی قربانیوں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت تیزی سے قدم آگے بڑھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور یہ قدم بڑھتا چلا جائے.پھر تیسرے نمبر پر سیالکوٹ ہے، چوتھے پر فیصل آباد، پانچویں پر گوجرانوالہ، چھٹے پر میر پورخاص، ساتویں پر شیخوپورہ، آٹھویں پر سرگودھا، نویں پر گجرات اور دسویں پر بہاولنگر.اسی طرح دفتر اطفال میں اضلاع میں اسلام آباد نمبر ایک پر، سیالکوٹ نمبر دو پر ، گوجرانوالہ نمبر تین پر، فیصل آباد نمبر چار پر، راولپنڈی نمبر پانچ پر ، شیخو پورہ نمبر چھ پر، میر پور خاص نمبر سات پر، سرگودھا نمبر آٹھ پر، نارووال نمبر نو اور بہاولنگر نمبر دیں.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکتیں نازل فرمائے اور مالی قربانیوں کے میدان میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.اس کے ساتھ ہی میں وقف جدید کے سینتالیسویں سال کا اعلان کرتا ہوں.اس کے علاوہ آج ایم ٹی اے کے بارہ میں بھی کچھ بتانا چاہتا ہوں.جیسا کہ پروگراموں سے سب کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ جنوری کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ کی با قاعدہ نشریات کو شروع ہوئے دس سال پورے ہو گئے ہیں.تو اس عرصہ میں والنٹیئر ز نے اس کام کو خوب چلایا ہے اور دنیا حیران ہوتی ہے کہ یہ سب کام رضا کارانہ طور پر بغیر کسی با قاعدہ ٹرینگ

Page 46

$2004 41 خطبات مسرور کے کس طرح ہوتا ہے لیکن جو خلوص اور جذ بہ اور وفا اور لگن ان نا تجربہ کار لوگوں میں ہے ان دنیا داروں کو کیا پتہ کہ ہزاروں پاؤنڈ خرچ کر کے بھی تم نہیں خرید سکتے.اس کے لئے تو یہ عہد چاہیئے کہ میں جان، مال ، عزت اور وقت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا.تو یہ تو وہ پیارے لوگ ہیں، وفاؤں کے پتلے ہیں جو نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات.ان میں لڑکے بھی ہیں، خواتین بھی ہیں، لڑکیاں بھی ہیں، مرد بھی ہیں، کالجوں اور یو نیورسٹیوں کے طلباء بھی ہیں اور اپنی ذاتی ملازمتوں اور کام کرنے والے لوگ بھی ہیں جو اپنی رخصتیں بھی ایم ٹی اے کے لئے قربان کرتے ہیں اور اس بات سے خوش ہیں کہ ان کو اپنے وفا کے عہد کو نبھانے کی توفیق مل رہی ہے.ان میں سے بہت سوں میں وہ روح بھی ہے جس کی مثال میں نے پہلے دی تھی کہ کیوں ساٹھ روپے اپنی جیب سے خرچ کئے اور ہمیں قربانی کا موقعہ کیوں نہ دیا.ان میں سے کچھ تو ہمیں سامنے نظر آجاتے ہیں جیسے کیمرہ مین ہیں جو اس وقت بھی آپ کو نظر آرہے ہیں اور خطبے کو آپ تک پہنچارہے ہیں.بہت سے ایسے بھی ہیں جو پیچھے رہ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں.اور پروگرام بنارہے ہیں کچھ ان میں سے ایڈیٹنگ وغیرہ کر رہے ہیں، کچھ ریکارڈنگ کر رہے ہیں.ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے ہوئے ان نشریات کو پوری دنیا تک پہنچا ر ہے ہیں.تو یہ تو یہاں کی مرکزی ٹیم کے لوگ ہیں.پھر مختلف ممالک میں پروگرام بنانے والے ہیں.مختلف ممالک کو اس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے ، جماعتوں کو یہ بھی کہہ دوں کو جس طرح جماعتوں کی طرف سے پروگرام بن کے آنے چاہتے تھے اس طرح نہیں آرہے.افریقن ممالک سے بہت کم ہیں پروگرام.یورپ سے اس طرح نہیں جس طرح آنے چاہئیں.ایشیا کے بہت سے ممالک ہیں جہاں مختلف پروگرام بن سکتے ہیں، ڈاکومینٹریز بن سکتی ہیں.وہاں کے اور بہت سارے پروگرام ہیں اور ان ملکوں میں جو اس چیز کے ماہرین ہیں بہت سی جگہوں پر ایسے لوگ ہیں جو احمدیوں کے واقف ہیں یا بعض جگہوں پر احمدی خود ہیں ،ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، ان سے مشورہ کیا جاسکتا ہے، پروگراموں میں جدت پیدا کی

Page 47

$2004 42 خطبات مسرور جاسکتی ہے، نئے نئے پروگرام بنائے جاسکتے ہیں.مختلف نوع کے پروگرام بنانے چاہئیں.تو یہاں لندن کی ٹیم جس طرح کام کرتی ہے، اگر دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح ، اس کے علاوہ امریکہ میں بھی ٹیم ہے جو کام کر رہی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے، آگے پہنچانے کی حد تک، پروگرام بنانے کی حد تک نہیں.تو اگر دنیا کے دوسرے ممالک بھی با قاعدہ کام شروع کر دیں تو عین ممکن ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہو اور کام زیادہ ہوں.بہر حال یہ کام تو انشاء اللہتعالیٰ بڑھے گا اور بڑھنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی اسی میں ہے.اور یہ کام اللہ تعالیٰ نے اُس خلیفہ اسی رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور میں شروع کروایا جس کے منہ سے یہ الفاظ بھی نکلوائے کہ ساتھ میرے ہے تائید رب الوریٰ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ تائید رب الوری ہمیشہ کی طرح جماعت کے ساتھ رہے گی اور یہ خدا کا وعدہ ہے جو ہمیشہ پورا ہونا ہے.یہ خدا کا وعدہ اپنے پیارے مسیح الزماں علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہے ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.تو اب اللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.فرمایا کہ میں نے یہ کام کرنا ہے تم لوگوں نے تو صرف ہاتھ لگا کر ثواب کمانا ہے.وہی لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے والی بات ہی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی تائید کے یہی نظارے ہم ہر وقت دیکھ رہے ہیں اور ایم ٹی اے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک اب یہ پیغام پہنچ رہا ہے.اور جو کمی رہ گئی تھی وہ 3 Asia Sat کے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہے.پہلے ایشیا میں کم تھا پہلے امریکہ 30 میں بھی اسی طرح.پروگرام جن جگہوں پر نہیں پہنچ رہے تھے یا اتنے اچھے سگنل نہیں تھے.گزشتہ دنوں امریکہ میں جو طوفان آیا ہے اس سے وہاں کا سیٹیلائٹ جس کے ساتھ ہمارا تعلق تھا اس کا نظام درہم برہم ہوگیا.اور چند دن پروگرام نہیں آتے رہے.اس کے بعد اس کمپنی نے تو کہہ دیا کہ ہم اس کام کو نہیں چلا سکتے آپ کہیں اور بات کر دیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نیا معاہدہ ایسی کمپنی کے ساتھ ہوا جن کا پھیلاؤ اس سے زیادہ تھا جو پہلے سیٹلائٹ کا تھا اور ان کے سگنل بھی زیادہ مضبوط

Page 48

$2004 43 خطبات مسرور تھے.اور پھر یہ کہ جو خرچ پہلے ہو رہا تھا اس سے کم خرچ پر معاہدہ ہوا.تو یہاں تو وہی مثال صادق آتی ہے کہے کولات راس آ گئی کہ ٹھیک ہے چار دن کی تکلیف تو برداشت کرنی پڑی ہے لیکن اس سے ہمارے خرچ میں بھی کم آئی اور پھیلاؤ میں بھی زیادتی ہوئی.تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری پردہ پوشی فرماتا رہے اور تائید و نصرت فرماتا چلا جائے.ایم ٹی اے کے کارکنان جو ہیں یہ اپنے لئے بھی دعا کریں اور جماعت بھی ان کے لئے دعا کرے کہ خدا تعالیٰ ان کو خدمت کا موقع دیتار ہے اور ان کے کام کو مزید جلا بخشے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت محنت اور لگن سے کام کر رہے ہیں.اور مرکزی ٹیم میں مختلف قوموں کے لوگ ہیں.عرب بھی ہیں ، بوز نین بھی ہیں، دوسرے یورپ کے لوگ بھی ہیں، پاکستانی قومیت کے لوگ جو یہاں آباد ہوئے ہوئے ہیں وہ بھی ہیں، افریقن بھی ہیں.تو اس طرح ہر قوم کے لوگ اسی خدمت کے جذبے سے کام کر رہے ہیں.ایک فکرمندی والی خبر بھی ہے.بنگلہ دیش میں گزشتہ کچھ عرصہ سے مولویوں نے جماعت کے خلاف فتنہ برپا کیا ہوا تھا اور مساجد پر حملہ وغیرہ بھی ہو رہے تھے.اسی طرح رمضان میں ایک احمدی کو شہید بھی کر دیا.اب لگتا ہے کہ حکومت بھی ان مولویوں کا ساتھ دینے پر تلی ہوئی ہے اور احمدیوں کے خلاف کچھ قانون پاس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ تمام احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ثبات قدم عطا فرمائے اور دشمنوں کی تدبیر انہی پر لوٹا دے.اے اللہ ! تو نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا.آج بھی ہمیں اپنی تائید ونصرت کے نظارے دکھا.بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ صبر ، حوصلہ اور دعا سے کام لیں.ہمارا سہارا صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اس کے حضور جھک جائیں اور جھکے رہیں.یہاں تک کہ اس کی تائید و نصرت کے نظارے نظر آنے شروع ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ابتلا کا یہ دور لمبا نہ کرے اور دشمنوں کی جلد از جلد پکڑ کرے.وہاں کی حکومت کو بھی چاہئے کہ ہمسایوں سے سبق لیں اور جو ان کے کام ہیں حکومت چلانے کے وہ چلائیں کسی کے مذہب میں دخل اندازی نہ کریں.ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ڈرنا چاہئے.⭑⭑⭑⭑⭑

Page 49

$2004 44 خطبات مسرور

Page 50

$2004 45 31 خطبات مسرور والدین کے لئے دعا کرو اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور ان کو کوئی دکھ نہ پہنچے اپنے والدین کی خدمت بجالا ؤور نہ اُس جنت سے محروم ہو جاؤ گے جو ان کے قدموں کے نیچے ہے ار جنوری ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۶ صلح ۱۳۸۳ هجری تشسی بمقام مسجد بیت الفتوح ، مورڈن لندن والدین سے حسن سلوک اور ان کے لئے دعاؤں کی تعلیم.ہ جو شخص ماں باپ سے بدسلوکی کرتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.صلى الله آنحضرت علی کا خدمت والدین میں اسوہ اور ارشادات.ہ میں تم سے بچ بچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد بھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں تم سے کہتا ہوں اور پر آزاد بی خیر وبرکت کامنہ نہ گے.والدین کی خدمت اور دین کی خدمت میں ایک توازن کا رنگ ہو.بہانہ سازی نہ ہو.

Page 51

خطبات مسرور $2004 46 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَ قَضَى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَ ِبالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا أُقٍ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا.وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا بنی اسرآئیل: ۲۵،۲۴) اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کے بارہ میں بڑی تاکید فرمائی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکیں.یا شرک کی تعلیم دیں.اس کے علاوہ ہر بات میں ان کی اطاعت کا حکم ہے.اور یہ حکم اس لئے ہے کہ جو خدمت انہوں نے بچپن میں ہماری کی ہے اس کا بدلہ تو ہم نہیں اتار سکتے.اس لئے یہ حکم ہے کہ ان کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے لئے دعا بھی کرو کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور بڑھاپے کی اس عمر میں بھی ان کو ہماری طرف سے کسی قسم کا کبھی کوئی دیکھ نہ پہنچے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدمت اور دعا کے باوجود یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ان کی بہت خدمت کر لی اور ان کا حق ادا ہو گیا.اس کے باوجود بچے جو ہیں اس قابل نہیں کہ والدین کا وہ احسان استارسکیں جو انہوں نے بچپن میں ان پر کیا.اس ضمن میں جو دو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اور تیرے رب نے فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک

Page 52

$2004 47 خطبات مسرور کرو.اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی ، تو انہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر.اور ان دونوں کے لئے رحم سے بجز کا پر جھکا اور کہہ کہ اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی.اس آیت میں سب سے پہلے یہ بات بیان فرمائی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور وہ خدا جس نے تمہیں اس دنیا میں بھیجا اور تمہیں بھیجنے سے پہلے قسم قسم کی تمہاری ضروریات کا خیال رکھا اور اس کا انتظام بھی کر دیا.اور پھر یہ کہ اس کی عبادت کر کے اور اس کا شکر ادا کر کے تم اس کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے اور سب سے بڑا فضل جو اس نے ہم پر کیا وہ یہ ہے کہ تمہیں ماں باپ دئے جنہوں نے تمہاری پرورش کی بچپن میں تمہاری بے انتہاء خدمت کی، راتوں کو جاگ جاگ کر تمہیں اپنے سینے سے لگایا.تمہاری بیماری اور بے چینی میں تمہاری ماں نے بے چینی اور کرب کی راتیں گزاریں، اپنی نیندوں کو قربان کیا، تمہاری گندگیوں کو صاف کیا.غرض کہ کون سی خدمت اور قربانی ہے جو تمہاری ماں نے تمہارے لئے نہیں کی.اس لئے آج جب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تم منہ پرے کر کے گزرنہ جاؤ، اپنی دنیا الگ نہ بساؤ اور یہ نہ ہو کہ تم ان کی فکر تک نہ کرو.اور اگر وہ اپنی ضرورت کے لئے تمہیں کہیں تو تم انہیں جھڑ کنے لگ جاؤ.فرمایا نہیں، بلکہ وہ وقت یاد کرو جب تمہاری ماں نے تکالیف اٹھا کر تمہاری پیدائش کے تمام مراحل طے کئے.پھر جب تم کسی قسم کی کوئی طاقت نہ رکھتے تھے تمہیں پالا پوسا تمہاری جائز و نا جائز ضرورت کو پورا کیا.اور آج اگر وہ ایسی عمر کو پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے جو ایک لحاظ سے ان کی اب بچپن کی عمر ہے، کیونکہ بڑھاپے کی عمر بھی بچپن سے مشابہ ہی ہے.ان کو تمہارے سہارے کی ضرورت ہے.تو تم یہ کہہ دو کہ نہیں، ہم تو اپنے بیوی بچوں میں مگن ہیں ہم خدمت نہیں کر سکتے.اگر وہ بڑھاپے کی وجہ سے کچھ ایسے الفاظ کہہ دیں جو تمہیں ناپسند ہوں تو تم انہیں ڈانٹنے لگ جاؤ، یا مارنے تک سے گریز نہ کرو.

Page 53

$2004 48 خطبات مسرور بعض لوگ اپنے ماں باپ پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں.میں نے خود ایسے لوگوں کو دیکھا ہے، بہت ہی بھیا نک نظارہ ہوتا ہے.اُف نہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تمہاری مرضی کی بات نہ ہو بلکہ تمہارے مخالف بات ہو تب بھی تم نے اُف نہیں کرنا.اگر ماں باپ ہر وقت پیار کرتے رہیں، ہر بات مانیں، ہر وقت تمہاری بلائیں لیتے رہیں، لاڈ پیار کرتے رہیں پھر تو ظاہر ہے کوئی اُف نہیں کرتا.فرمایا کہ تمہاری مرضی کے خلاف باتیں ہوں تب بھی نرمی سے ، عزت سے، احترام سے پیش آنا ہے.اور نہ صرف نرمی اور عزت و احترام سے پیش آنا ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی ہے.اور اتنی پیار، محبت اور عاجزی سے ان کی خدمت کرنی ہے جیسی کہ کوئی خدمت کرنے والا کر سکتا ہو.اور سب سے زیادہ خدمت کی مثال اگر دنیا میں موجود ہے تو وہ ماں کی بچے کے لئے خدمت ہی ہے.اب یہاں رہنے والے، مغرب کی سوچ رکھنے والے، بلکہ ہمارے ملکوں میں بھی ، برصغیر میں بھی ، بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ماں باپ کی خدمت نہیں کر سکتے ، ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور یہ لکھتے ہیں کہ جماعت ایسے بوڑھوں کے مراکز کھولے جہاں یہ بوڑھے داخل کروا دئے جائیں کیونکہ ہم تو کام کرتے ہیں، بیوی بھی کام کرتی ہے، بچے اسکول چلے جاتے ہیں اور جب گھر آتے ہیں تو بوڑھے والدین کی وجہ سے ڈسٹرب (Disturb) ہوتے ہیں، اس لئے سنبھالنا مشکل ہے.کچھ خوف خدا کرنا چاہئے.قرآن تو کہتا ہے کہ ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو اور اس عمر میں اُن پر رحم کے پر جھکا دو.جس طرح بچپن میں انہوں نے ہر مصیبت جھیل کر تمہیں اپنے پروں میں لیٹے رکھا.تمہیں اگر کسی نے کوئی تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تو مائیں شیرنی کی طرح جھپٹ پڑتی تھیں.اب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو کہتے ہو کہ ان کو جماعت سنبھالے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنبھالتی ہے لیکن ایسے بوڑھوں کو جن کی اولاد نہ ہو یا جن کے کوئی اور عزیز رشتے دار نہ ہوں.لیکن جن کے اپنے بچے سنبھالنے والے موجود ہوں تو بچوں کا فرض ہے کہ والدین کو سنبھالیں.تو ایسی سوچ رکھنے والوں کو اپنی طبیعتوں کو ، اپنی سوچوں کو تبدیل کرنا چاہئے.یہ نہیں کہ جب تک والدین سے فائدہ اٹھاتے رہے، اٹھالیا، مکان اور

Page 54

$2004 49 خطبات مسرور جائیدادیں اپنے نام کروالیں، اب ان کو پرے پھینک دو.کسی احمدی کی یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تو اسلام کی بھلائی ہوئی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں رائج کرنے کے لئے تشریف لائے تھے، اس کے حسن کی چمک دنیا کو دکھانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے نہ کہا س کے خلاف عمل کروانے کے لئے.اب ماں باپ کے حقوق اور ان سے سلوک کے بارہ میں چند روایات پیش کرتا ہوں.نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا.اس نے کہا کہ : اے اللہ کے رسول ! میں نے اپنی ماں کو یمن سے اپنی پیٹھ کر اٹھا کر حج کرایا ہے، اسے اپنی پیٹھ پر لئے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا ،صفا ومروہ کے درمیان سعی کی ، اسے لئے ہوئے عرفات گیا ، پھر اسی حالت میں اسے لئے ہوئے مزدلفہ آیا اور منی میں کنکریاں ماریں.وہ نہایت بوڑھی ہے ذرا بھی حرکت نہیں کر سکتی.میں نے یہ سارے کام صلى الله اُسے اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے سرانجام دئے ہیں تو کیا میں نے اس کا حق ادا کر دیا ہے؟.آپ می نے فرمایا : ”نہیں، اس کا حق ادا نہیں ہوا.اس آدمی نے پوچھا: ”کیوں“.آپ نے فرمایا: اس لئے کہ اس نے تمہارے بچپن میں تمہارے لئے ساری مصیبتیں اس تمنا کے ساتھ جھیلی ہیں کہ تم زندہ رہو مگر تم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا وہ اس حال میں کیا کہ تم اس کے مرنے کی تمنار کھتے ہو تمہیں پتہ ہے کہ وہ چند دن کی مہمان ہے.(الوعي، العدد ۵۸، السنة الخامسة) اب عام آدمی خیال کرتا ہے کہ اتنی تکلیف اٹھا کر میں نے جو سب کچھ کیا تو میں نے بہت بڑی قربانی کی ہے.لیکن آپ فرماتے ہیں کہ نہیں.حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ ہمیں ہشام بن عروہ نے بتایا کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ مجھے اسماء بنت ابی بکر نے بتایا میری والدہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں میرے پاس صلہ رحمی کا تقاضا کرتے ہوئے آئی تو میں نے نبی ﷺ سے اس کے بارہ میں دریافت کیا کہ کیا میں اپنی مشرک والدہ سے صلہ رحمی کروں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ”ہاں“.(بخاری.کتاب الهبة.باب الهدية المشركين)

Page 55

$2004 50 مسرور تو جہاں تک انسانیت کا سوال ہے، صرف والدہ کا سوال نہیں ، اس کے ساتھ تو صلہ رحمی کا سلوک کرنا ہی ہے، حسن سلوک کرنا ہی ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگر انسانیت کا سوال آئے ،کسی سے صلہ رحمی کا سوال آئے یا مدد کا سوال آئے تو اپنے دوسرے عزیزوں رشتہ داروں سے بھی بلکہ غیروں سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے.پھر ایک روایت ہے حضرت ابو اسید السَّاعِدِی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ! والد ین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کر سکوں؟ آپ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں.تم ان کے لئے دعائیں کرو.ان کے لئے بخشش طلب کرو، انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو.ان کے عزیز واقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے.اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت واکرام کے ساتھ پیش آؤ.(ابو داؤد.کتاب الادب.باب في بر الوالدين).تو یہ ہے ماں باپ سے حسن سلوک کہ زندگی میں تو جو کرنا ہے وہ تو کرنا ہی ہے، مرنے کے بعد بھی ان کے لئے دعائیں کرو، ان کے لئے مغفرت طلب کرو اور اس کے علاوہ ان کے وعدوں کو بھی پورا کرو، ان کے قرضوں کو بھی اتارو.بعض دفعہ بعض موصی وفات پا جاتے ہیں.وہ تو بے چارے فوت ہو گئے انہوں نے اپنی جائیداد کا ۱/۱۰ حصہ وصیت کی ہوتی ہے لیکن سالہا سال تک ان کے بچے، ان کے لواحقین ان کا حصہ وصیت ادا نہیں کرتے بلکہ بعض دفعہ انکار ہی کر دیتے ہیں، ہمیں اس کی توفیق نہیں.گویا ماں باپ کے وعدوں کا پاس نہیں کر رہے، ان کی کی ہوئی وصیت کا کوئی احترام نہیں کر رہے.والدین سے ملی ہوئی جائیدادوں سے فائدہ تو اٹھا رہے ہیں لیکن ان کے جو وعدے ان ہی کی جائیدادوں سے ادا ہونے والے ہیں وہ ادا کرنے کی طرف توجہ کوئی نہیں.جبکہ اس جائیداد کا جو دسواں حصہ ہے وہ تو بچوں کا ہے ہی نہیں.وہ تو اس کی پہلے ہی وصیت کر چکے ہیں.تو وہ جو ان کی

Page 56

$2004 51 خطبات مسرور اپنی چیز نہیں ہے وہ بھی نہیں دے رہے.اللہ تعالیٰ ایسے بچوں کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اپنے والدین کے وعدوں کو پورا کرنے والے بہنیں.یہاں تو یہ حکم ہے کہ صرف ان کے وعدوں کو ہی پورانہیں کرنا بلکہ ان کے دوستوں کا بھی احترام کرنا ہے، ان کو بھی عزت دینی ہے اور ان کے ساتھ جو سلوک والدین کا تھا اس سلوک کو جاری رکھنا ہے.پھر ایک روایت ہے آنحضرت ﷺ کی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ آئیں اور حضور سے مل کر قحط الله صلى الله اور مویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا.حضور ﷺ نے حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا.(طبقات ابن سعد جلد اول صفحه ١١٣ مطبوعه بيروت ١٩٦٠) اب خدمت صرف حقیقی والدین کی نہیں ہے بلکہ ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ کا اسوہ حسنہ تو یہ ہے کہ اپنی رضاعی والدہ کی بھی ضرورت کے وقت زیادہ سے زیادہ خدمت کرنی ہے.اور اس کوشش میں لگے رہنا ہے کہ کسی طرح میں حق ادا کروں.اور یہاں اس روایت میں ہے کہ مال چونکہ حضرت خدیجہ کا تھا، وہ بڑی امیر عورت تھیں اور گو کہ آپ نے اپنا تمام مال آنحضرت ﷺ کے سپر د کر دیا تھا، آپ کے تصرف میں دے دیا تھا، آپ کو اجازت تھی کہ جس طرح چاہیں خرچ کریں لیکن پھر بھی حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور ہمیں ایک اور سبق بھی دے دیا.بعض لوگ اپنی بیویوں کا مال ویسے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے تصرف میں نہیں بھی ہوتا ان کے لئے بھی سبق ہے.پھر ایک روایت ہے حضرت ابوطفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو مقام چغرانہ میں دیکھا.آپ گوشت تقسیم فرمارہے تھے.اس دوران ایک عورت آئی تو حضور نے اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی.میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے جس کی حضور اس قدر عزت افزائی فرما ر ہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ آنحضور ﷺ کی رضاعی والدہ ہیں.(ابو داؤد.کتاب الادب ـ باب في بر الوالدين) ایک بار حضور تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے.حضور نے ان کے لئے چادر کا

Page 57

$2004 52 خطبات مسرور ایک پلو بچھا دیا.پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپ نے دوسرا پلو بچھا دیا.پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا.(سنن ابوداؤد کتاب الادب با ب برالوالدین.پوری کی پوری چادر اپنے رضاعی رشتہ داروں کے لئے دے دی اور آپ ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے.تو یہ عزت اور احترام اور تکریم ہے جس کا نمونہ آپ ﷺ نے پیش فرمایا.نہ صرف یہ کہ رضاعی والدین کا احترام فرما رہے ہیں بلکہ جب رضاعی بھائی آتا ہے تو اس کے لئے بھی خاص اہتمام سے جگہ خالی کر رہے ہیں.اور یہ تمام عزت و احترام اس لئے ہے کہ آپ نے جس عورت کا کچھ عرصہ دودھ پیا تھا دوسرے لوگ بھی اس کی طرف منسوب ہیں، اس کے عزیز ہیں.آج کل تو بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ قریبی عزیز بھی آجائیں تو بچے اگر کرسیوں پر بیٹھے ہیں تو بیٹھے رہتے ہیں، کوئی جگہ خالی نہیں کرتا.اور ان بچوں کے بڑے بھی یہ نہیں کہتے کہ اٹھو بچو، بڑے آئے ہیں ان کے لئے جگہ خالی کر دو.تو یہ مثالیں صرف قصے کہانیوں کے لئے نہیں دی جاتیں بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے.یہ حسین تعلیم ہمارے لئے عمل کرنے کے لئے ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہمٹی میں ملے اس کی ناک مٹی میں ملے اس کی ناک ( یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ دہرائے ) لوگوں نے عرض کیا کہ حضور کون؟ آپ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا.(مسلم.کتاب البر والصلةـ باب رغم انف من ادرك ابويه) تو یہ دیکھیں کس قدر ڈرایا گیا ہے، آپ نے کس طرح بیزاری کا اظہار فرمایا ہے بلکہ ایک طرح سے لعنت ہی ڈالی گئی ہے ایسے شخص پر کہ جنت میں جانے کے مواقع ملنے کے باوجودان سے فائدہ نہیں اٹھایا کہ تم پر پھٹکار ہو خدا کی.اللہ تعالیٰ تمام ایسے بگڑے ہوؤں کو جو اپنے ماں باپ سے بدسلوکی کرتے ہیں راہ راست پر لائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے ماں باپ سے اس

Page 58

$2004 53 خطبات مسرور.طرح بدسلوکی کرتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں.جیسا کہ فرمایا کہ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۹) پھر ایک روایت ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت مہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں.پھر اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.اس نے چوتھی بار پوچھا اس کے بعد کون؟ آپ نے فرمایا ماں کے بعد تیرا باپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے.پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار.(بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة) ایک روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عمر کا قول ہے کہ رب کی رضا باپ کی رضا مندی میں ہے، اور رب کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے.الادب المفرد للبخارى باب قوله تعالى و وصينا الانسان بوالديه (حسنا حضرت عبداللہ بن عمر و سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیر گناہ ہے.صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے سکتا ہے؟.فرمایا: ہاں وہ دوسرے آدمی کے ماں اور باپ کو گالی دیتا ہے تو اپنے ہی ماں باپ کو گالی دیتا ہے.( صحیح مسلم کتاب الایمان ).کیونکہ وہ بھی جواب میں گالی دے گا.تو اس سے ایک سبق تو یہ ملا کہ گالی نہیں دینی اور دوسرے یہ کہ اپنے ماں باپ کو دعائیں دلوانی ہیں تو اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھلاؤ.تمہارے سے واسطہ رکھنے والے یہ کہیں کہ اللہ اس کے والدین کو جزاء دے جس نے اپنے بچوں کی ایسی اعلیٰ تربیت کی ہے.جنگ حنین میں بنو ہوازن کے قریباً چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے.ان میں حضرت حلیمہ کے قبیلہ والے اور ان کے رشتہ دار بھی تھے جو وفد کی شکل میں حضور ﷺ کی خدمت

Page 59

54 $2004 خطبات مسرور میں حاضر ہوئے اور حضور کی رضاعت کا حوالہ دے کر آزادی کی درخواست کی.(یعنی یہ حوالہ دیا کہ حضرت حلیمہ اس قبیلے کی ہیں، ان کا دودھ آنحضرت ﷺ نے پیا ہوا ہے ).آنحضرت نے انصار اور مہاجرین سے مشورہ کے بعد سب کو رہا کر دیا.( طبقات ابن سعد جلد اول صفحه ١١٥،١١٤ - بيروت ١٩٦٠) - یہ حسن سلوک تھا آپ گا.ذرا سا بھی تعلق ہو تو ایسے کیا کرتے تھے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اسکا رزق بڑھا دیا جائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے.(مسند احمد.جلد ۳ - صفحه نمبر ٢٦٦ ـ مطبوعه بيروت).تو یہاں عمر بڑھانے کا اور رزق میں برکت کا ایک اصول بتا دیا گیا ہے کہ اگر کشائش چاہتے ہو، اپنے بچوں کی دور دور کی خوشیاں دیکھنا چاہتے ہوتو والدین سے حسن سلوک کرو.ان کے تم پر جو احسانات ہیں انہیں یا درکھو.یاد رکھو کہ بچپن میں تمہیں انہوں نے بڑی تکلیف سے پالا ہے.اگر تمہاری طرف توجہ نہ دیتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تمہاری تو قیمی کی حالت تھی.کچھ کر نہیں سکتے تھے.کیونکہ تمہیں کسی نے پوچھنا بھی نہیں تھا.وہ ماں باپ ہی ہیں جو بچے کو اس طرح پوچھتے ہیں ، درد سے پوچھتے ہیں.تو جب تم بڑے ہوتے ہو تو تمہاری لکھائی پڑھائی کی کوشش کی طرف توجہ دیتے ہیں.اپنے پر ہر تکلیف وارد کرتے ہیں اور تمہیں پڑھاتے ہیں.کئی والدین ایسے ہیں جو فاقے کرتے ہیں اور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھ جائیں.تا کہ بڑے ہو کر وہ معاشرے میں عزت و احترام سے رہ سکیں ، ہمارے والا ان کا حال نہ ہو.لیکن بعض ایسے ناخلف اور بدقسمت بچے ہوتے ہیں کہ جب وہ سب کچھ ماں باپ سے حاصل کر لیتے ہیں، تعلیم حاصل کر کے بڑے افسر لگ جاتے ہیں تو اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں اور پھر ماں باپ کی کوئی پروا بھی نہیں ہوتی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی مثال دی ہے کہ کسی ہندو نے بڑی تکلیف

Page 60

$2004 55 خطبات مسرور و, برداشت کر کے اپنے لڑکے کو بی اے یا ایم اے کرایا اور اس ڈگری کو حاصل کرنے کے بعد وہ ڈپٹی ہو گیا.آجکل ڈپٹی ہونا کوئی بڑا اعزاز نہیں سمجھا جاتا لیکن پہلے وقتوں میں ڈپٹی ہونا بھی بڑی بات تھی.اُس کے باپ کو خیال آیا کہ میرا لڑکا ڈپٹی ہو گیا ہے میں بھی اُس سے مل آؤں.چنانچہ جس وقت وہ ہندو اپنے بیٹے کو ملنے کے لئے مجلس میں پہنچا تو اس وقت اُس کے پاس وکیل اور بیرسٹر وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے.یہ بھی اپنی غلیظ دھوتی کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گیا.باتیں ہوتی رہیں کسی شخص کو اس غلیظ آدمی کا بیٹھنا بر امحسوس ہوا اور اُس نے پوچھا کہ ہماری مجلس میں یہ کون آ بیٹھا ہے.ڈپٹی صاحب اس کی یہ بات سن کر کچھ جھینپ سے گئے اور شرمندگی سے بچنے کے لئے کہنے لگے یہ ہمارے ٹہلیا ہیں.باپ اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر غصے کے ساتھ جل گیا اور اپنی چادر سنبھالتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا.جناب میں ان کا پہلیا نہیں ان کی ماں کا ہلیا ہوں“.(حضرت مصلح موعوددؓ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ).ساتھ والوں کو جب معلوم ہوا کہ یہ ڈپٹی صاحب کے والد ہیں تو انہوں نے اس کو بہت لعن طعن کی اور کہا کہ اگر آپ ہمیں بتاتے تو ہم اُن کی مناسب تعظیم و تکریم کرتے اور ادب کے ساتھ ان کو بٹھاتے.بہر حال اس قسم کے نظارے روزانہ دیکھنے میں آتے ہیں کہ لوگ رشتہ داروں کے ساتھ ملنے سے جی چراتے ہیں تا کہ اُن کی اعلیٰ پوزیشن میں کوئی کمی واقع نہ ہو جائے.گویا ماں باپ کا نام روشن کرنا تو الگ رہا اُن کے نام کو بٹہ لگانے والے بن جاتے ہیں اور سوائے ان لوگوں کے جو اس نقطہ نگاہ سے والدین کی عزت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ والدین کی عزت کرو.دنیا داروں میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو والدین کی پورے طور پر عزت کرتے ہیں اور زمینداروں اور تعلیم یافتہ طبقہ دونوں میں یہی حالات نظر آتے ہیں.اسی طرح بعض نو جوان اپنی ماؤں کی خبر گیری ترک کر دیتے ہیں اور جب پوچھا جاتا ہے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اماں جی کی طبیعت تیز ہے اور میری بیوی سے اُن کی بنتی نہیں.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ماں کا بھی بہر حال ایک مقام ہے.پس اس خطرناک

Page 61

56 $2004 خطبات مسرور نقص کو دور کرو اور اپنے والدین کی خدمت بجالاؤ.ورنہ تم اس جنت سے محروم ہو جاؤ گے.جو تمہارے ماں باپ کے قدموں کے نیچے رکھی گئی ہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ ۵۹۳) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:." وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ أَسِيرًا﴾ (الدھر:۹) اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بوڑھے اور ضعیف ہو کر بے دست و پا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے.اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہوتی ہے اور اسی طرح اولا د جو کمزور ہوتی ہے اور کچھ نہیں کرسکتی اگر یہ اس کی تربیت اور پرورش کے سامان نہ کرتے تو وہ گویا یتیم ہی ہے.پس ان کی خبر گیری اور پرورش کا تہیہ اس اصول پر کرے تو ثواب ہوگا.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ نمبر ۵۹۹ الحکم ۱۰/ مارچ ۱۹۰۴ء) اس بات سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صدقہ کے طور پر ماں باپ کی خدمت کرنی ہے بلکہ بڑھاپے کی حالت میں وہ مسکینی کے زمرے میں آتے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے لیکن تمہارے فرائض میں داخل ہے کہ ان کی خدمت کرو.کیونکہ تمہاری جو حالت بچپن میں تھی وہ یتیمی کی حالت تھی.والدین نے تمہیں یتیم سمجھ کے تو نہیں پالا پوسا بلکہ ایک محبت کے جذبے کے ساتھ تمہاری خدمت کی ہے.آج وقت ہے کہ اسی محبت اور اسی جذبے سے تم بھی والدین کی خدمت کرو.پھر والدین کے حق میں دعائیں بھی کرنی چاہئیں.جس طرح باپ کی دعا بیٹے کے حق میں قبول ہوتی ہے اور جس طرح ہر قدم پر ماں باپ کی دعائیں بچوں کے کام آ رہی ہوتی ہیں.اسی طرح بچوں کی دعائیں بھی ماں باپ کے حق میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں.ملفوظات میں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظہر کے وقت ایک نو وارد صاحب سے ملاقات کی اور ان کو تاکید سے فرمایا کہ وہ اپنے والد کے حق میں جو سخت مخالف ہیں دعا کیا کریں انہوں نے عرض کی کہ حضور میں دعا کیا کرتا ہوں اور حضور کی خدمت میں بھی دعا کے لئے ہمیشہ لکھا

Page 62

$2004 57 خطبات مسرور کرتا ہوں حضرت اقدس نے فرمایا کہ.توجہ سے دعا کرو باپ کی دعا بیٹے کے واسطے اور بیٹے کی دعا باپ کے واسطے قبول ہوا کرتی ہے اگر آپ بھی توجہ سے دعا کریں تو اس وقت ہماری دعا کا بھی اثر ہوگا.“ (ملفوظات جلد.دوم.صفحه نمبر ٥٠٢ البدر ٢١ نومبر ۱۹۰۲ء) بٹالہ کے سفر کے دوران حضرت اقدس، شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سے ان کے والد صاحب کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ : ان کے حق میں دعا کیا کرو ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دلجوئی کرنی چاہیے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو.اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کر سکتے سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیزی شخص ہوتا ہے شاید خدا تعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے.اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا.دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے.دل و جاں سے ان کی خدمت بجالاؤ.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه ٢٩٤ البدر ١٤ / نومبر ١٩٠٢ء) پھر فرمایا کہ: صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی بعض ایسے مشکلات آگئے تھے کہ دینی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ان کے والدین سے نزاع ہو گئی تھی.بہر حال تم اپنی طرف سے ان کی خیریت اور خبر گیری کے واسطے ہر وقت تیار رہو جب کوئی موقع ملے اسے ہاتھ سے نہ دو.تمہاری نیت کا ثواب تم کومل رہے گا.اگر محض دین کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرنے کے واسطے والدین سے الگ ہونا پڑا ہے تو یہ ایک مجبوری ہے.اصلاح کو مدنظر رکھو اور نیت کی صحت کا لحاظ رکھو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو.یہ معاملہ کوئی آج نیا نہیں پیش آیا حضرت ابراہیم کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا.بہر حال خدا کا حق مقدم ہے.پس خدا کو مقدم کرو اور اپنی طرف سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی کوشش میں لگے رہو اور

Page 63

$2004 58 خطبات مسرور اُن کے حق میں دعا کرتے رہو اور صحت نیت کا خیال رکھو.(الحكم جلد ٢ ، نمبر ١٦ - مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ٤ ـ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد.سوم صفحه ٦١،٦٠) پھر فرمایا کہ اگر دین کی وجہ سے اختلاف پیدا ہو جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے حقوق ادا کر نے چھوڑ دو.تمہارے جو فرائض ہیں وہ تم پورا کرو.اور ان کے لئے دعا بھی کرتے رہو.شاید کسی وقت تمہاری دعائیں سنی جائیں اور اللہ تعالیٰ ان کو بھی راہ ہدایت دکھا دے.ان کو بھی اس کا پتہ چل جائے.پھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی والدہ کے بارہ میں ہے کہ وہ قادیان آئی ہوئی ہیں.انہوں نے اپنی والدہ کی پیری اور ضعف کا اور ان کی خدمت کا جو وہ کرتے ہیں ذکر کیا یعنی بڑھاپے اور کمزوری کا تو حضرت نے فرمایا: والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں.ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے.والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم وغنم والدین اٹھاتے ہیں.جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے، کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اٹھاتی ہے.کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو.چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو، ماں اس کو چھوڑ نہیں سکتی.پھر حضرت اماں جان کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ”ہماری لڑکی کو ایک دفعہ ہیضہ ہو گیا تھا ہمارے گھر سے اس کی تمام قے وغیرہ اپنے ہاتھ پر لیتی تھیں.ماں سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے.یہ طبعی محبت ہے.جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کرسکتی.خدا تعالیٰ نے اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کیا ہے کہ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ إِيْتَائِ

Page 64

59 $2004 خطبات مسرور ذِي الْقُرْبى (النحل: 91)‘ (ملفوظات جلد چهارم صفحه نمبر ۲۹۰،۲۸۹ بدریکم جون ١٩٠٥ء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ والدہ کی عزت کرے.اویس قرنی کے لئے بسا صلى الله اوقات رسول اللہ ہے یمن کی طرف منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے.آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آ سکتا.بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا موجود ہیں، مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے.صرف اپنی والدہ کی خدمت الله گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی.یا اولیس گو یا مسیح کو.یہ ایک عجیب بات ہے، جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی.چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمر ان سے ملنے کو گئے ، تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں.ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی.ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لئے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قو میں چوہڑے چمار بھی کم لیتے ہو نگے.ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے.اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کر کے اس کو ماننا نہیں چاہتا، تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونے سے دوسروں کو ٹھو کر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے“.فرمایا: ”میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد کبھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں گے.پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا رسول کے فرمودہ پر عمل

Page 65

60 خطبات مسرور کرنے کو تیار ہو جاؤ.بہتری اسی میں ہے، ورنہ اختیار ہے.ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے.“ $2004 (ملفوظات.جلد اول صفحه نمبر ١٩٦،١٩٥ الحكم ۱۲ مئى (۱۸۹۹ء حضرت اویس قرنی کا واقعہ بیان ہوا ہے اس کے بارہ میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں.کہ بعض لوگ اس واقعہ کو غلط رنگ میں اپنی اپنی دلیل دینے لگ جاتے ہیں کہ اگر کہو کہ فلاں دینی کام ہے یا جماعتی ضرورت ہے کچھ وقت دے دو تو والدین کی خدمت کا بہانہ کرنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ اپنے دنیاوی کام اسی طرح کر رہے ہوتے ہیں.کئی کئی دن والدین کی خبر بھی نہیں لے رہے ہوتے.اور جب اپنی دنیاوی ضروریات سے فارغ ہو کر کچھ وقت مل جاتا ہے تو پھر والدہ کے پاس بیٹھ کر اپنے خیال میں خدمت انجام دے رہے ہوتے ہیں.تو یہاں تو یہ ذکر ہے کہ اویس قرنی تو ہر وقت اپنی والدہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے.ہر وقت اسی خدمت پر کمر بستہ ہوتے تھے.ان کو تو دنیاوی کاموں کی ہوش ہی نہیں تھا کیونکہ ان کے تو اونٹ وغیرہ چرانے اور دوسرے جانور جو تھے ان کا کام بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہوا تھا.جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ میرے کام تو فرشتے کرتے ہیں.تو یہ نہیں کہ دنیاوی کاموں کے لئے تو ہمارے پاس وقت ہوا اور جب دین کے کام کے لئے ضرورت ہو تو اویس قرنی کی مثالیں دینا شروع کر دیں.پھر ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو ماں کی محبت اور خدمت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن جب اپنا مفاد ہو تو ماں باپ سے سخت کلامی سے پیش آتے ہیں.اور ماؤں سے غصے کا اظہار بھی کر رہے ہوتے ہیں.ان کو بعض دفعہ برا بھلا بھی کہہ رہے ہوتے ہیں.حالانکہ ماں باپ کے آگے تو اونچی آواز میں بولنا بھی منع ہے.تو بعض دفعہ دینی خدمت نہ کرنے یا بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ کرنے کے لئے ماں کی یا باپ کی خدمت کا بہانہ بنایا جاتا ہے.اس لئے ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ ماں باپ کی خدمت کے نام پر کہیں نفس دھو کہ تو نہیں دے رہا اور دینی خدمت سے آدمی محروم نہ ہورہا ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو فر مایا کہ:

Page 66

$2004 61 مسرور والدہ کا حق بہت بڑا ہے اور اس کی اطاعت فرض.مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ آیا اس ناراضگی کی تہہ میں کوئی اور بات تو نہیں ہے.جو خدا کے حکم کے بمو جب والدہ کی ایسی اطاعت سے بری الذمہ کرتی ہو.مثلا اگر والدہ اس سے کسی دینی وجہ سے ناراض ہو یا نماز روزہ کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہو.تو اس کا حکم مانے اور اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں.اور اگر کوئی ایسا مشروع امر ممنوع نہیں ہے جب ، ( بیوی کے بارہ میں پوچھا تھا کہ والدہ یہ کہتی ہے ) تو وہ خود ( یعنی بیوی) واجب الطلاق ہو جاتی ہے.سب سے زیادہ خواہشمند بیٹے کے گھر کی آبادی کی والدہ ہوتی ہے اور اس معاملہ میں ماں کو خاص دلچسپی ہوتی ہے.بڑے شوق سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے خدا خدا کر کے بیٹے کی شادی کرتی ہے تو بھلا اس سے ایسی امید وہم میں بھی آسکتی ہے کہ وہ بے جا طور سے اپنے بیٹے کی بیوی سے لڑے جھگڑے اور خانہ بربادی چاہے.ایسے بیٹے کی بھی نادانی اور حماقت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ والدہ تو ناراض ہے مگر میں ناراض نہیں ہوں..والدہ اور بیوی کے معاملہ میں اگر کوئی دینی وجہ نہیں تو پھر کیوں یہ ایسی بے ادبی کرتا ہے.اگر کوئی وجہ اور باعث اور ہے تو فوراً سے دور کرنا چاہئے.بعض عورتیں اوپر سے نرم معلوم ہوتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بڑی بڑی نیش زنیاں کرتی ہیں.پس سب کو دور کرنا چاہئے اور جو وجہ ناراضگی ہے اس کو ہٹادینا چاہئے اور والدہ کو خوش کرنا چاہیئے.دیکھو شیر اور بھیڑیئے اور اور درندے بھی تو ہلائے سے ہل جاتے ہیں اور بے ضرر ہو جاتے ہیں.دشمن سے بھی دوستی ہو جاتی ہے اگر صلح کی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ والدہ کو ناراض رکھا جاوے.“ (ملفوظات جلد پنجم - صفحه نمبر ٤٩٨٠٤٩٧ الحكم ٢٦ / مارچ ١٩٠٨ء) مرد تو چونکہ مضبوط اعصاب کا ہوتا ہے، قوام ہے اس لئے اگر گھر میں کسی اختلاف کی وجہ بن بھی جائے تو پیار سے محبت سے سمجھا کر حالات کو سنبھالیں.اسی طرح جوان بچیاں اور بہو ئیں بھی ان کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بوڑھوں کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور ان سے اگر کوئی سخت بات بھی

Page 67

62 $2004 خطبات مسرور ہو تو برداشت کر لیں اور اس وجہ سے برداشت کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنی ہے تو پھر خدا طاقت اور ہمت بھی دیتا ہے اور حالات میں سدھار پیدا ہوتا ہے اور انشاء اللہ ہوتا چلا جائے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: فَلا تَقُلْ لَّهُمَا أُقٍ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں ان سے نہ کر کہ جن میں ان کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو.اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت ملے ہیں لیکن دراصل مرجع کلام امت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت کے والد اور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہو چکے تھے.اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عظمند یہ سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگا نہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے.اور اسی کی طرف ہی دوسری آیت اشارہ کرتی ہے.وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانا یعنی تیرے رب نے چاہا کہ تو فقط اسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کرے.اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی.اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو.کیونکہ وہ بھی مجازی رب ہیں.اور ہر ایک شخص طبعاً یہاں تک کہ چرند بھی اپنی اولا د کو ان کی خوردسالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں.پس خدا کی ربوبیت کے بعد ان کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.(حقیقۃ الوحی صفحه ۲۰۵،۲۰۴) اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی خدمت کرنے والے اور ان سے حسن سلوک کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنی رضا کی راہوں پر ہمیں چلائے.آج بنگلہ دیش میں ان کا جلسہ سالانہ بھی ہو رہا ہے.بڑے نامساعد حالات میں وہ اپنا جلسہ کر رہے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ جلسہ با برکت فرمائے.

Page 68

$2004 63 4 خطبات مسرور خدا تعالیٰ کی پرستش کرو، والدین سے احسان اور یتیموں سے حسن سلوک سے پیش آؤ ۲۳ جنوری ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۲۳ صلح ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن حسن خلق کے اعلی معیار قائم نہ کئے تو عبادتیں بھی ضائع ہو جائیں گی.حسن سلوک کے مختلف طریق اور معیار بیتامی کی نگہداشت ایک با قاعدہ سکیم بنا کر شروع کریں.حمل والدین اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کے ارشادات...بیویوں سے حسن سلوک اور آنحضرت ﷺ کا اسوہ شیخ محبوب عالم خالد صاحب ، مولانا محمد سعید انصاری صاحب، صاحبزاده مرزار فیع احمد صاحب اور سمیع اللہ قمر صاحب کا ذکر خیر

Page 69

خطبات مسرور $2004 64 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالْدَيْنِ إِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتْمَى وَالْمَسْكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجُنُبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا﴾.(النساء :۳۷) گزشتہ خطبہ میں میں نے والدین سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کے بارہ میں کچھ عرض کیا تھا.ابھی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عبادت کرو اور اس طرح عبادت کرو کہ جو عبادت کا حق ہے.یہ چھوٹے بت یا بڑے بت یا دلوں میں بسائے ہوئے بت تمہیں کسی طرح بھی میری عبادت سے روک نہ سکیں.پھر والدین سے حسن سلوک کا حکم ہے،اُن سے حسن سلوک کرو.اور اس حسن سلوک کا بھی مختلف جگہوں پر مختلف پیرایوں میں ذکر آیا ہے.پھر فرمایا کہ یہ دو بنیادی باتیں ہیں اگر تم میں پیدا ہو گئیں تو پھر آگے ترقی کرنے کے لئے اور منازل بھی طے کرنی ہوں گی.دین کی صحیح تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تم نے اخلاق کے اور بھی اعلیٰ معیار دکھانے ہیں.اگر یہ معیار قائم ہو گئے تو پھر تم حقیقی معنوں میں مسلمان کہلانے کے مستحق ہو اور اگر یہ معیار قائم کر لئے اور اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کر لئے تو پھر ٹھیک ہے تم نے مقصد پا لیا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن گئے اور انشاء اللہ بنتے رہو گے.اور اگر یہ اعلیٰ معیار قائم نہ کئے اور تکبر دکھاتے رہے اور ہر وقت اس فکر میں رہے کہ اپنے آپ کو میں کسی طریقے سے نمایاں کروں تو یاد رکھو کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں.پھر تو حقوق العباد ادا کرنے والے نہیں ہو گے بلکہ اپنی عبادتوں کو ضائع

Page 70

$2004 65 خطبات مسرور کرنے والے ہو گے.اگر حسن خلق کے اعلیٰ معیار قائم نہ کئے تو اس کے ساتھ ساتھ اپنی عبادتوں کو بھی ضائع کر رہے ہو گے.اور وہ معیار کیا ہیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم قائم کریں.فرمایا وہ معیار یہ ہے کہ تم قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو.وہ قریبی رشتہ دار جو تمہارے ماں باپ کی طرف سے تمہارے قریبی رشتہ دار ہیں، تمہارے رحمی رشتہ دار ہیں.پھر جو شادی شدہ لوگ ہیں ان کی بیوی کی طرف سے یا بیوی کے خاوند کی طرف سے رشتہ دار ہیں یہ سب قرابت داروں کے زمرہ میں آتے ہیں.اور ان رشتوں سے حسن سلوک کا عورت اور مرد کو یکساں حکم ہے، ایک جیسا حکم ہے.جب عورت اور مرد ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک کر رہے ہوں گے، ایک دوسرے کے قریبیوں سے اچھے اخلاق سے پیش آرہے ہوں گے، ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے تو ظاہر ہے کہ میاں بیوی دونوں میں آپس میں بھی محبت اور پیار کا تعلق خود بخود بڑھے گا.ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو فرمایا کہ قربت کے رشتوں کی یعنی رحمی رشتوں کی حفاظت کر رہے ہو گے تو پھر تم میرے پسندیدہ ہو گے.پھر فرمایا کہ اپنے گھر میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے والا اپنے ماحول میں مست ہو جاتا ہے کہ ارد گرد کی فکر نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری پسندیدگی کے کچھ حصے تو تم نے حاصل کر لئے ہیں، کچھ کام تو تم سرانجام دے رہے ہو، میری ہدایات پر کچھ تو عمل کر رہے ہولیکن مومن کے معیار تو بہت بلند ہیں اس لئے حسن سلوک کی اور بھی بہت ساری منازل ہیں جو طے کرنی ہیں تب تم عبادالرحمن کہلانے کے مستحق ہو سکتے ہو.ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ تیموں سے بھی حسن سلوک کرو، ان کا بھی خیال رکھو، ان کو معاشرے میں محرومی کا احساس نہ ہونے دو اور اس حدیث کو یا درکھو کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے جس طرح دو انگلیاں ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یتامیٰ کی خبر گیری کا بڑا اچھا انتظام موجود ہے.مرکزی طور پر بھی انتظام جاری ہے گو اس کا نام یکصد یتامی کی تحریک ہے لیکن اس کے

Page 71

$2004 66 خطبات مسرور تحت سینکڑوں یتامی بالغ ہو کر پڑھائی مکمل کر کے کام پر لگ جانے تک ان کو پوری طرح سنبھالا گیا.اسی طرح لڑکیوں کی شادیوں تک کے اخراجات پورے کئے جاتے رہے اور کئے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس میں دل کھول کر امداد کرتی ہے اور زیادہ تر جماعت کے جو مخیر احباب ہیں وہی اس میں رقم دیتے ہیں.الحمد للہ، جزاک اللہ ، ان سب کا شکریہ.اب میں باقی دنیا کے ممالک کے امراء کو بھی کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں ایسے احمدی بیتامی کی تعداد کا جائزہ لیں جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، پڑھائی نہ کر سکتے ہوں، کھانے پینے کے اخراجات مشکل ہوں اور پھر مجھے بتائیں.خاص طور پر افریقن ممالک میں، اسی طرح بنگلہ دیش ہے، ہندوستان ہے، اس طرف کافی کمی ہے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے.تو با قاعدہ ایک سکیم بنا کر اس کام کو شروع کریں اور اپنے اپنے ملکوں میں بیتامی کو سنبھالیں.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت میں مالی لحاظ سے مضبوط حضرات اس نیک کام میں حصہ لیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے سنبھالنے میں جو اخراجات ہوں گے ان میں کوئی کمی نہیں پیش آئے گی.لیکن امراء جماعت یہ کوشش کریں کہ یہ جائزے اور تمام تفاصیل زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک مکمل ہو جائیں اور اس کے بعد مجھے بھجوائیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم بتا می کا جو حق ہے وہ ادا کر سکیں.پھر فرمایا : مسکین لوگوں سے بھی حسن سلوک کرو.ان مسکینوں میں تمام ایسے لوگ آجاتے ہیں جن پر کسی کی قسم کی تنگی ہے.ان کی ضروریات پوری کرو.اس کا جائزہ بھی ہر احمدی کو اپنے ماحول میں لیتے رہنا چاہئے.مسکینوں سے صرف یہ مراد نہ لیں کہ جو مانگنے والے ہیں.مانگنے والے تو اپنا خرچ کسی حد تک پورا کر ہی لیتے ہیں مانگ کر.لیکن بہت سے ایسے سفید پوش ہیں جو تنگی برداشت کر لیتے ہیں لیکن ہاتھ نہیں پھیلاتے.اور اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں کہ لَا يَسْتَلُوْنَ النَّاسَ الحافاً تو ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں.پھر فرمایا کہ تمہارے اس سلوک کے بہت زیادہ مستحق ہمسائے بھی ہیں، ان سے بہت زیادہ حسن سلوک کرو.بلکہ اس کی تاکید تو آنحضرت

Page 72

خطبات مسرور علومة 67 $2004 نے اس قدر فرمائی کہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں خیال ہوا کہ اب شاید ہماری وارثت میں بھی ہمسائے کا حق ٹھہر جائے گا.فرمایا کہ یہ ہمسائے جو ہیں ان میں تمہارے رشتہ دار بھی ہیں چاہے دور کے رشتہ دار ہوں یا قریب کے ہوں تمہیں خیال آجائے کہ چلو رشتہ دار ہیں ان سے حسن سلوک کرنا چاہئے ، ان کی ضروریات پوری کرنی چاہئیں.تو فرمایا کہ صرف رشتہ دار ہمسائے ہی نہیں بلکہ غیر رشتہ دار ہمسائے ہیں وہ بھی تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں، ان سے بھی حسن سلوک کرنا.پھر تمہارے ہم جلیس ہیں تمہارے ساتھ بیٹھنے والے ہیں یہ سب تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں.حضرت خلیفہ المسح الاول فرماتے ہیں کہ : اس میں تمہارے ساتھ ایک سیٹ پر بیٹھنے والے بھی ہیں.اب دیکھیں دائرہ کتنا وسیع ہورہا ہے.صرف ہم مذہب نہیں ،صرف تمہارے ساتھی ہی نہیں بلکہ سکول میں، کالج میں، یونیورسٹی میں ساتھ بیٹھنے والے بھی تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں ، ان کا بھی خیال رکھو، ان سے بھی حسن سلوک کرو.ان سے بھی اچھے اخلاق سے پیش آؤ.پھر بازاروں میں دوکاندار ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ،ان سے بھی اخلاق سے پیش آئیں.پھر دفتروں میں کام کرنے والے ہیں، افسران ہیں، ماتحت ہیں.تو حضرت خلیفہ اسیح الاول فرماتے ہیں کہ صرف کام کرنے والے افسران یا ماتحت نہیں بلکہ جس محکمے میں آپ کام کرتے ہیں اس محکمہ میں کام کرنے والا ہر شخص تمہارے ہم جلیسوں میں شمار ہوتا ہے اور تمہارے حسن سلوک کا مستحق ہے.پھر سفر کے دوران، بس میں بیٹھے ہوئے ٹرین میں بیٹھے ہوئے جو لوگ ہیں یہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ان سے بھی حسن سلوک کرو.بعض دفعہ بعض مسافروں کو نیند آ جاتی ہے، کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے اس طرح ، تو بے چارے کا سرا گر کسی کے کندھے سے یاسر سے ٹکرا جائے تو دوسرے مسافر کو غصہ چڑھ جاتا ہے کہ اپنے آپ کو سنبھال کر بیٹھو.تو یہ چیزیں چھوٹی چھوٹی ہیں چونکہ آپ کے ہمسائے میں اس کا شمار ہو رہا ہے، ساتھ بیٹھنے والوں میں شمار ہو رہا ہے اس لئے ان سے بھی حسن سلوک کرنا چاہئے.

Page 73

خطبات مسرور 68 $2004 پھر ایک تو مسافر ہے کہ مسافر سے حسن سلوک کرے.اس کے علاوہ ایسے مسافر ہیں جو کیونکہ بعض دفعہ سفر میں وقتیں پیش آ رہی ہوتی ہیں.گاڑی خراب ہوگئی ، بس خراب ہوگئی ، کار خراب ہوگئی کسی جگہ آگئے اور آپ کی مدد کی ضرورت پڑی تو ان کی مدد کرنی چاہئے ، ان کی رہنمائی کرنی چاہئے ، تو جب تک ان کی پریشانی دور نہ ہو جائے ، ان کا ساتھ دینا چاہئے ، یہ سب حسن سلوک کے مستحق ہیں.پھر فرمایا کہ ان سے بھی حسن سلوک کرو جن کے تم مالک ہو.اس زمانے میں تو خیر غلام کا تصور نہیں، پرانے زمانے میں غلام ہوتے تھے.لیکن تمہارے جو ملازمین ہیں ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھو، ان کو اگر تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو ان کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کر و غمی خوشی میں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھو.ان کے بچوں کو اگر مالی تنگی کی وجہ سے پڑھنے میں دقت ہے تو ان کی مدد کرو، ان کو پڑھاؤ.اگر کوئی لائق نکل آئے اور پڑھ لکھ کر قابل آدمی بن جائے تو تمہارے لئے ویسے بھی مستقل ثواب کا باعث بن جائے گا.تو یہ ہے اسلام کی وہ حسین تعلیم کہ حسن سلوک سے تم ایک حسین معاشرہ قائم کر سکتے ہو.اور بھی بہت ساری باتیں ہیں، قیدیوں سے بھی حسن سلوک کا ذکر ہے مریضوں سے بھی وغیرہ وغیرہ تو اگر ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں دوسرے سے حسن سلوک کرنے والا بن جائے تو دنیا کے فساد تو خود بخود ختم ہو جائیں گے اور پھر وہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بھی ہوں گے تو پھر تو یہ سونے پر سہاگے والی بات ہوگی اور آج اس تفصیل سے یہ حسن سلوک سوائے احمدی کے اور کوئی نہیں کر سکتا.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم نے ادا کرنی ہے اس لئے اس طرف ہمیں بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.اب چند احادیث پیش کرتا ہوں اور اقتباسات.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: تم خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور ان سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں (اس فقرے میں اولا د اور بھائی اور

Page 74

$2004 69 خطبات مسرور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آگئے ) اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں، جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسائے ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو.خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو، جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن.جلد۲۳.صفحہ نمبر ۲۰۹،۲۰۸) بعض لوگ اپنے بڑے بھائیوں کا احترام نہیں کر رہے ہوتے.حسن سلوک تو ایک طرف رہا ان سے بد تمیزی سے پیش آرہے ہوتے ہیں، ان کو عدالتوں میں گھسیٹ رہے ہوتے ہیں، ہر طرف سے ان کی عزت پر بٹہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو ان لوگوں کو اس روایت سے سبق لینا چاہئے.حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: بڑے بھائی کا حق اپنے چھوٹے بھائیوں پر اس طرح کا ہے جس طرح والد کا حق اپنے بچوں پر.یعنی بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے لئے بمنزلہ باپ کے ہے اس لئے اس کا ادب واحترام بھی واجب ہے.(مراسیل ابی داؤد باب في برالوالدین صفحه ۱۹۷) والد کے حقوق کا تو آپ گزشتہ خطبے میں سن چکے ہیں.پھر اس طرح بڑے بھائیوں کے لئے بھی اس میں نصیحت ہے کہ چھوٹے بھائیوں سے وہ سلوک رکھیں جو ایک باپ کو اپنے بچوں سے ہوتا ہے.اللہ کرے کہ ہر احمدی محبت کی فضا کو قائم کرنے والا ہو.بعض دفعہ گھروں میں میاں بیوی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلخ کلامی ہو جاتی ہے پہنی ہو جاتی ہے.مرد کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ مضبوط اور طاقتور بنایا ہے اگر مرد خاموش ہو جائے تو شاید اسی فیصد سے زائد جھگڑے وہیں ختم ہو جائیں.صرف ذہن میں یہ رکھنے کی بات ہے کہ میں نے حسن سلوک کرنا ہے اور صبر سے کام لینا ہے.ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس بارہ میں ہمیں کیا اسوہ دکھایا.روایت ہے کہ

Page 75

$2004 70 خطبات مسرور ایک دن حضرت عائشہ گھر میں آنحضرت ﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا، حضرت ابوبکر تشریف لائے.یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے کہ تو خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو.آنحضرت یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابو بکر کی متوقع سزا سے حضرت عائشہ کو بچالیا.جب حضرت ابوبکر چلے گئے تو رسول کریم حضرت عائشہ سے از راہ مذاق فرمایا.دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا ؟.تو دیکھیں یہ کیسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ نہ صرف خاموش رہ کر جھگڑے کوختم کرنے کی کوشش کی بلکہ حضرت ابوبکر جو حضرت عائشہ کے والد تھے ان کو بھی یہی کہا کہ عائشہ کو کچھ نہیں کہنا.اور پھر فوراً حضرت عائشہ سے مذاق کر کے وقتی بوجھل پن کو بھی دور فرما دیا.پھر آگے آتا ہے روایت میں کہ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ ہنسی خوشی با تیں کر رہی تھیں.حضرت ابوبکر کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو.(ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء في المزاح) آنحضرت یہ حضرت عائشہ کے بہت ناز اٹھاتے تھے.ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ عائشہ میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں.حضرت عائشہ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں رب محمد مہ کرفتم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو رب ابراہیم کہہ کر بات کرتی ہو.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپ کا نام چھوڑتی ہوں ( دل سے تو آپ کی محبت نہیں جاسکتی ).(بخاری کتاب النکاح باب غيرة النساء و وجد هن ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : و فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں اور فرمایا ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے

Page 76

71 $2004 خطبات مسرور اور در حقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے.اس کا شکریہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں.“ ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے.حضور اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے، بہت رنجیدہ ہوئے ، بہت ناراض ہوئے اور فرمایا: ”ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے.حضور بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارے میں گفتگو فرماتے رہے اور پھر آخر پر فرمایا: ”میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بائیں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکلا تھا.اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۰۷ الحکم ۷ ارجنوری ۱۹۰۰ء) تو یہ ہیں بیویوں سے حسن سلوک کے نمونے جو آج ہمیں اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عمل سے اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیروی میں نظر آتے ہیں.اور انہی پر چل کر ہم اپنے گھروں میں امن قائم کر سکتے ہیں.رحمی رشتوں کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے، اس کی وضاحت تو پہلے ہو چکی ہے کہ یہ قریب ترین رشتے ہیں اور ان کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے.اس بارہ میں ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی.کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: رحم، رحمن سے مشتق ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جس نے تجھ سے تعلق جوڑا میں اس سے تعلق جوڑوں گا اور جس نے تجھ سے تعلق توڑا میں اس سے قطع تعلقی اختیار کر لوں گا.(بخاری کتاب الادب باب من وصل وصله الله) حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا یقینا اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب وہ اس کی تخلیق سے فارغ ہو گیا تو رحم نے کہا یہ قطع رحمی سے تیری

Page 77

$2004 72 خطبات مسرور پناہ میں آنے کا مقام ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ہاں.کیا تو اس چیز پر راضی نہیں کہ میں اس سے تعلق جوڑوں گا جو تجھ سے تعلق جوڑے گا.اور جو تجھ سے قطع تعلقی کرے گا میں اس سے تعلق توڑ لوں گا.اس پر رحم نے کہا اے میرے رب! میں اس بات پر کیوں راضی نہ ہوں گا.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا.یہ مقام صرف تجھے حاصل ہے اور پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.پس اگر تم چاہتے ہو تو قرآن کریم کی یہ آیت پڑھو.فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِعُوْا أَرْحَامَكُمْ (محمد: ۲۳) یعنی کیا تمہارے لئے ممکن ہے کہ اگر تم متوتی ہو جاؤ تو تم زمین میں فساد کرتے پھرو اور اپنے ریمی رشتوں کو کاٹ دو؟.(بخاری کتاب الادب باب من وصل وصله الله) ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے کہا کہ جبیر بن مطعم نے انہیں بتایا کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے.لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعْ - کہ رحمی تعلقات کو توڑنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا.(بخاری کتاب الادب باب اثم القاطع) تو دیکھیں کتنی تاکید ہے ان رشتوں کا خیال رکھنے اور ان سے تعلق جوڑنے کی.کیونکہ اللہ تعالیٰ تعلق قائم رکھتا ہے ان سے جو ان رشتوں سے تعلق قائم رکھتے ہیں اور ان سے حسن سلوک کرتے ہیں.حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ:.صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں تعلق جوڑے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے جس سے جب تعلق تو ڑا جائے تو وہ تعلق جوڑے.( بخاری کتاب الادب).یعنی اگر تم سے کوئی صلح رحمی کر رہا ہے یا اچھے اخلاق سے پیش آرہا ہے تو تم اس کے بدلے میں اچھے اخلاق سے پیش آؤ.اگر کوئی تعلق توڑنا بھی چاہتا ہے تو اس سے تعلق جوڑو.تو دیکھیں کتنی پیاری تعلیم ہے.صلح کا ہاتھ تم پہلے بڑھاؤ اگر ہر مسلمان اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو کیا کوئی جھگڑا باقی رہ جاتا ہے.ہر طرف امن کی فضا قائم ہو جائے گی.اب یہ تعلیم جو ہے

Page 78

$2004 73 خطبات مسرور اس کو رواج دینا اور یہ اعلیٰ اخلاق اپنے رشتہ داروں کو سکھانا آج ہر احمدی کا کام ہے.تب ہی تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام نے فرمایا ہے کہ تم صلح میں پہل کرو اور سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو.تب ہی یہ اعلیٰ اخلاق کا معاشرہ قائم ہو سکتا ہے.آنحضرت ﷺ کا اپنا اسوہ اس بارہ میں کیا اعلیٰ تھا.بخاری کی روایت ہے.رسول کریم کے اکثر رحمی رشتہ داروں نے دعوی نبوت پر آپ کی مخالفت کی ، مگر آپ ﷺ فرماتے تھے کہ بے شک قریش کی فلاں شاخ والے لوگ میرے دوست نہیں رہے، دشمن ہو گئے ہیں مگر آخر میرا اُن سے ایک خونی رشتہ ہے، میں اس رحمی تعلق کے حقوق بہر حال ادا کرتار ہوں گا.(بخاری کتاب الادب باب قبل الرحم ببلالها تو دیکھیں یہ وہ تعلیم ہے جس پر آپ نے عمل کر کے دکھایا.پھر اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کیا نمونہ تھا.یہ واقعہ سنیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کو یہ اطلاع ملی کہ یہی مرزا نظام الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود کے اشد ترین مخالف تھے بیمار ہیں اس پر حضور ان کی عیادت کے لئے بلا توقف ان کے گھر تشریف لے گئے اس وقت ان پر بیماری کا اتنا شدید حملہ تھا کہ ان کا دماغ بھی اس سے متاثر ہو گیا تھا.آپ نے ان کے مکان پر جا کر ان کے لئے مناسب علاج تجویز فرمایا جس سے وہ خدا کے فضل سے صحت یاب ہو گئے.ہماری اماں جان حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا بیان فرماتی تھیں کہ باوجود اس کے کہ مرزا نظام الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف بلکہ معاند تھے آپ ان کی تکلیف کی اطلاع پا کر فورا ہی ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کا علاج کیا اور ان سے ہمدردی فرمائی.یہ وہی مرزا نظام الدین صاحب ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے خلاف بعض جھوٹے مقدمات کھڑے کئے اور اپنی مخالفت کو یہاں تک پہنچا دیا کہ حضرت مسیح موعود اور حضور کے دوستوں اور

Page 79

$2004 74 خطبات مسرور ہمسایوں کو دکھ دینے کے لئے حضور کی مسجد یعنی خدا کے گھر کا رستہ بند کر دیا اور بعض غریب احمدیوں کو ایسی ذلت آمیز اذیتیں پہنچا ئیں کہ جن کے ذکر تک سے شریف انسان کی طبیعت حجاب محسوس کرتی ہے.مگر حضور کی رحمت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ مرزا نظام الدین صاحب جیسے معاند کی بیماری کا علم پا کر بھی حضور کی طبیعت بے چین ہوگئی.(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه ۲۹۱،۲۹۰) تو یہ ہے اس مسیح اور مہدی کا اسوہ.اب ہم میں سے ہر ایک کو جو آپ کی جماعت کی طرف منسوب ہورہے ہیں.ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم کس حد تک اس پر عمل کرتے ہیں.بعض دفعہ بعض ایسے رشتہ دار بھی ہوتے ہیں، ہمسائے بھی ہوتے ہیں، جن پر جتنا چاہے حسن سلوک کرو جب بھی موقع ملے نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے.ان کی سرشت میں ہی نقصان پہنچانا ہوتا ہے.ان کاوہی حساب ہوتا ہے کہ بچھوؤں کی ایک قطار جا رہی تھی کسی نے پوچھا کہ اس میں سردار کون ہے.انہوں نے کہا کہ جس کے ڈنگ پر ہاتھ رکھ دو ہی سردار ہے، وہ ڈنگ مارے گا.لیکن حکم کیا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے.ایسے لوگوں کے بارہ میں حسن ظن کی ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں.میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں وہ تو ڑتے ہیں.میں احسان کرتا ہوں وہ بدسلوکی کرتے ہیں.میرے نرمی اور حلم کے سلوک کا جواب وہ زیادتی اور جہالت سے دیتے ہیں.نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر وہ ایسا ہی کرتے ہیں جیسا تم نے بیان کیا تو تم گویا ان کے منہ پر خاک ڈال رہے ہو ( یعنی ان پر احسان کر کے ان کو ایسا شرمسار کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے.) اور اللہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک مددگار فرشتہ اس وقت تک مقر ر ر ہے گا جب تک تم اپنے حسن سلوک کے اس نمونہ پر قائم رہو گے.(مسند احمد جلد ۲ ص ۳۰۰ مطبوعه (بيروت) پھر حضرت ابوزر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میرے محبوب علی نے مجھے چند

Page 80

$2004 75 خطبات مسرور باتوں کی نصیحت فرمائی.ان میں نمبر ایک یہ تھی کہ جو لوگ مجھ سے مال جو جاہ وغیرہ میں فوقیت رکھتے ہیں یعنی مالی لحاظ سے زیادہ اچھے ہیں، ان کی طرف نہ دیکھوں بلکہ ان لوگوں کو دیکھوں جو مجھ سے کمتر ہیں تا کہ میرے دل میں شکر کا جذبہ ابھرے.دوسری بات یہ نصیحت فرمائی کہ مسکینوں سے محبت کرو اور ان کے ساتھ جاؤ.اور پھر تیسری بات یہ فرمائی کہ میرے اعزا اور رشتہ دار چاہے مجھ سے خفا ہوں اور میرے حقوق ادا نہ کریں تب بھی میں ان سے اپنا تعلق جوڑے رکھوں اور ان کے حقوق ادا کرتارہوں.(ترغیب و ترہیب بحواله طبرانی، المعجم الطبرانی جلد ٢ صفحه ١٥٦) صلى الله حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: غریب مسکین کو صدقہ دینے سے صرف صدقے کا ثواب ملتا ہے اور غریب رشتہ دار کو دینے سے دوہرا ثواب ملتا ہے.ایک صدقے کا، دوسرا رشتے داری کے حقوق ادا کرنے کا.صدقے والی اور بات ہوتی ہے اور ان کی مدد کرنے کی کہ ان کے مالی حالات میں بہتری ہو، مددکرنے کی غرض نہیں ہوتی.اس کا نام صدقہ نہ رکھیں لیکن مد دضرور کرنی چاہئے.پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ دوسروں کی تکلیف کی پیروی کرنے والے نہ بنو.اس طرح نہ سوچو کہ لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے.اور اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے.بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر قائم کرو کہ لوگ تم سے اچھا سلوک کریں گے تو تم بھی ان سے اچھا سلوک کرو گے.اور اگر برا برتاؤ کریں گے تو پھر بھی تم ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کروگے، بلکہ نیکی کرو گے.تو یہ آج کل احمدی کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ باوجود سختیوں کے اور تنگیوں کے اپنے ہمسایوں کے لئے دل میں در در رکھتے ہیں.کہیں ضرورت پیش آجائے ان کی خدمت کے لئے فوری طور پر اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں.ہر وقت اسی بات پر کمر بستہ رہتے ہیں.

Page 81

$2004 76 مسرور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيْتَائِ ذِي الْقُرْبَى...(النحل:۹۱) کے یہ معنے ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ اُن سے کچھ تعرض نہ کرو اور انصاف پر قائم رہو.اور اگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے اور اُس کی آزار کی عوض میں تو اس کو راحت پہنچاوے اور مروت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے.پھر بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یا جس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجالا وے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہو جیسی شدت قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرےخولیش کے ساتھ نیکی کرتا ہے.سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یامد عایا غرض درمیان نہ ہو بلکہ اخوت و قرابت انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشو ونما پا جائے کہ خود بخود کسی تکلف کے اور بغیر پیش نہاد ر کھنے کسی قسم کی شکر گزاری یا دعا یا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۵۲٬۵۵۱) یعنی نیکی جب کرو تو اس کے بدلہ میں کسی انعام کا اور کسی چیز کے لئے تمہارے دل میں کوئی خیال نہ ہو.پھر فرمایا کہ : ” جو شخص قرابت داروں سے حسن سلوک نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“.(کشتی نوح صفحہ ۱۷) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ نیکیاں اور حسن سلوک کر کے تمہیں ذاتی فائدے ہی ملیں گے، اسی دنیا میں ملیں گے.اور وہ کیا ہیں کہ تمہیں چین نصیب ہوگا اور عمر میں برکت پیدا ہوئی.

Page 82

$2004 77 مسرور آپ فرماتے ہیں کہ : ”جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے.جب اللہ تعالیٰ کسی دل کو ایسا پاتا ہے کہ اس نے مخلوق کو نفع رسانی کا ارادہ کر لیا ہے تو وہ اسے توفیق دیتا اور اس کی عمر دراز کرتا ہے جس قدر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتا ہے اسی قدر اس کی عمر دراز ہوتی اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا اس کی زندگی کی قدر کرتا ہے لیکن جس قدر وہ خدا تعالیٰ سے لا پر واہ اور لا اُبالی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا.اس جگہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو نیک اور برگزیدہ ہوتے ہیں چھوٹی عمر میں بھی اس جہاں سے رخصت ہوتے ہیں اور اس صورت میں گویا یہ قاعدہ اور اصل ٹوٹ جاتا ہے مگر یہ ایک غلطی اور دھوکا ہے“.(حضور نے فرمایا کہ بعض لوگ بڑی نیکی کرتے ہیں.لیکن چھوٹی عمر میں فوت ہو رہے ہوتے ہیں یہ کوئی قاعدہ نہیں ) ” دراصل ایسا نہیں ہوتا.یہ قاعدہ کبھی نہیں ٹوٹتا مگر ایک اور صورت پر درازی عمر کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کا اصل منشاء اور درازی عمر کی غایت تو کامیابی اور بامراد ہونا ہے.پس جب کوئی شخص اپنے مقاصد میں کامیاب اور با مراد ہو جاوے اور اس کو کوئی حسرت اور آرزو باقی نہ رہے اور مرتے وقت نہایت اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو تو وہ گویا پوری عمر حاصل کر کے مرا ہے اور درازی عمر کے مقصد کو اس نے پالیا اُس کو چھوٹی عمر میں مرنے والا کہنا سخت غلطی اور نادانی ہے.صحابہ میں بعض ایسے تھے جنہوں نے ہیں بائیس برس کی عمر پائی مگر چونکہ ان کو مرتے وقت کوئی حسرت اور نامرادی باقی نہ رہی بلکہ کامیاب ہو کر اٹھے تھے اس لئے انہوں نے زندگی کا اصل منشاء حاصل کر لیا تھا.(الحكم جلد ٧ - نمبر ١٣ - مورخه ٢٤/اگست ۱۹۰۳ء.صفحه ۲ - ۳ ـ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد دوم صفحه ٧٣٩ ،٧٤٠) - پھر آپ فرماتے ہیں: ”اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر

Page 83

78 $2004 خطبات مسرور رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو تم سچ سچ اس کے ہو جاؤ تا کہ وہ بھی تمہارا ہو جائے.(کشتی نوح صفحہ ۱۳) اللہ کرے کہ ہم اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والے ہوں اور ان سے حسن سلوک کر کے اللہ تعالیٰ کو اپنا بنانے والے بن جائیں.اب میں بعض مرحومین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا ذکر گزشتہ جمعہ سے رہ گیا.سب سے پہلے تو مکرم و محترم شیخ محبوب عالم خالد صاحب ہیں.آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۹۵ سال کی عمر پائی.آپ خانصاحب فرزند علی خان صاحب کے بیٹے تھے.۱۹۳۶ میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حکم سے آپ نے اپنی زندگی وقف کی اور جماعتی خدمت کا آغاز کیا.نہایت منکسر المزاج اور مخلص اور لگن اور محنت سے کام کرنے والے تھے.۶۸ سال تک انہوں نے اللہ کے فضل سے جماعت کی خدمت کی توفیق پائی.ان میں بطور استاد مدرستہ البنات ، اور پھر مدرسہ احمدیہ، پھر کچھ دیر کالج میں پڑھاتے رہے اور پھر ناظر بیت المال کے طور پر، پھر حضرت خلیفة أسبح الثالث رحمہ اللہ کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے خدمت انجام دی.پھر صدر، صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے عہدہ پر فائز ہوئے.۱۹۲۹ء میں جب آپ کالج سے ریٹائر ہوئے تو صدر انجمن کے دفاتر میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے آپ کو بطور ناظر بیت المال کے لگا دیا تھا اور وفات تک تقریباً ۳۷ سال تک آپ نے خدمت کی.صدرانجمن کے دفاتر میں.آپ خدام الاحمدیہ کے بانی ارکان میں سے تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے جب خدام الاحمدیہ بنائی ہے تو جو چند بانی ارکان تھے ان میں سے آپ بھی تھے.اور آپ اس کے پہلے جنرل سیکرٹری بنے.پھر آپ کو خدام الاحمدیہ کے مختلف شعبوں میں بھی کام کرنے کا موقع ملا اور بارہ سال تک قائد عمومی انصار الله ر رہے.جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث صدر انصار اللہ مرکز یہ ہوتے تھے.اور وفات تک آپ مجلس انصاراللہ پاکستان کی عاملہ کے اعزازی ممبر بھی رہے.اور پھر ۲۰۰۲ء میں حضرت طلیقہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کو صدرصد را نیمن احمد یہ منظر رفرمایا.اور وفات تک

Page 84

$2004 79 خطبات مسرور آپ اس عہدہ پر فائز رہے.آخر تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ذہنی لحاظ سے بالکل ٹھیک تھے اور اپنے کام بخوبی انجام دیتے رہے.چھ بیٹے آپ نے یاد گار چھوڑے ہیں.میں ان کے بارہ میں مختصراً یہ بھی بتادوں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قادیان میں آپس میں اخوت کا رشتہ قائم کرنے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا تھا کہ دولڑکوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیتے تھے.کس طرح بنتے تھے اس کی ایک لمبی تفصیل ہے.تو حضرت شیخ صاحب میرے والد صاحبزادہ مرز امنصور احمد صاحب کے بھائی بنے اور ان کے ساتھ یہ رشتہ قائم ہوا.پھر ان کے انکسار اور اخلاص کا ذکر کر آیا ہوں یہ صفت واقعی ان میں بہت زیادہ تھی.یہ نہیں کہ ذکر کرنے کے لئے کیا ہے بلکہ میں یہ بھی بتادوں کہ جب مجھے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی مقر فر مایا تھا تو آپ اس وقت ناظر بیت المال تھے.باوجود ایک بہت سینئر ناظر ہونے کے، عمر میں بھی مجھ سے بہت بڑے تھے، میرے والد صاحب کے برابر تھے تو شیخ صاحب نے اطاعت کا وہ نمونہ دکھایا جو واقعی ایک مثال ہے اور بعض دفعہ تو ان کی اس اطاعت اور اخلاص کو دیکھ کر شرم بھی آتی تھی.پھر جب حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صدر صدرانجمن احمد یہ مقر فرمایا تو با وجود اس کے کہ ان کے پاس ایک بڑا عہدہ تھا لیکن شفقت کے ساتھ ساتھ اطاعت کا پہلو بھی رہا.وہ اس لئے کہ میں امیر مقامی بھی تھا اور امیر کی اطاعت ضروری ہے.تو یہ قابل مثال ہیں بہت سوں کے لئے.اللہ تعالیٰ ان سے بے انتہا مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے.آپ موصی تھے اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے.اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی انہی کی طرح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.پھر ہمارے ایک بزرگ حضرت مولا نا محمد سعید انصاری صاحب تھے جن کی 9 جنوری کو وفات ہوئی.یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن ہی ان کی پیدائش ہوئی اور جمعہ کے دن ہی ان کی وفات ہوئی ہے.آپ نے ۱۹۴۶ء میں اپنی زندگی وقف کی تھی.حضرت علیہ اسیح الثانی نے آپ کی

Page 85

$2004 80 خطبات مسرور پہلی تقرری ملایا ، سنگا پور میں بطور مربی کے فرمائی.پھر آپ سماٹرا اور برٹش نارتھ بور نیو جو آج کل ملائشیا کہلاتا ہے اس میں ۱۹۵۹ء تک رہے.۱۹۶۱ء میں دوبارہ سنگا پور میں تقرری ہوگئی.پھر ۱۹۶۴ سے ۱۹۶۶ء تک جامعہ احمدیہ میں انڈونیشین زبان پڑھاتے رہے.۱۹۷۶ء میں انہیں دوبارہ ملائشیا بھجوایا گیا.واپسی پر تین سال مرکزی دفاتر میں خدمات سرانجام دیں.پھر ۱۹۷۳ء سے ۱۹۷۶ء تک ملائشیا چلے گئے پھر واپسی پر جامعہ احمدیہ میں تقرری ہوئی اور ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک آپ وکالت تبشیر ربوہ اور وکالت اشاعت ربوہ میں خدمات سرانجام دے رہے تھے.انڈونیشین زبان میں متعدد کتب کا ترجمہ کرنے کی بھی آپ کو توفیق ملی.آپ نیک، باوفا مخلص، دعا گو اور عالم با عمل بزرگ مربی تھے.آپ نے نہایت اخلاص، محنت اور لگن کے ساتھ ۵۷ سال تک بے لوث خدمات سلسلہ ادا کرنے کی توفیق پائی ہے.مرحوم کی چھ بیٹیاں تھیں.واقعی بہت سادہ مزاج بالکل عاجز انسان تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور مغفرت کا سلوک فرمائے.ان کے ایک داماد ہمارے مبلغ مکرم نسیم باجوہ صاحب ہیں.اللہ ان کی بچیوں کو صبر اور حوصلہ کے ساتھ یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.پھر مکرم صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب جن کی ۱۵ جنوری بروز جمعرات بعمر ۷۷سال وفات پاگئے..انا للہ وانا اليه راجعون.مرحوم مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر رہے.آپ نے انڈونیشیا میں بطور مبلغ کے بھی خدمات کی توفیق پائی اور جامعہ احمدیہ میں بھی پڑھاتے رہے.ان کے بیٹے مکرم صاحبزادہ عبد الصمد احمد صاحب اس وقت سیکرٹری مجلس کار پرداز کے طور پر خدمات بجا لا رہے ہیں.پسماندگان میں بیگم کے علاوہ ۳ بیٹے اور بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں.آپ حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے.جب اللہ تعالیٰ نے مجھے خلافت پر متمکن فرمایا تو ان کی طرف سے انتہائی عاجزی اور اخلاص اور وفا کا خط مجھے ملا اور پھر اس کے بعد ہر خط میں یہ حال بڑھتا چلا گیا.باوجود اس کے کہ میرے ساتھ انتہائی قریبی رشتہ تھا، ماموں کا رشتہ تھا.ان کے اخلاص اور وفا کے الفاظ پڑھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا تھا.میرا خیال ہے کہ میرے چند ایک ایسے بڑے

Page 86

81 $2004 خطبات مسرور رشتہ دار ہیں جنہوں نے اس طرح وفا اور اطاعت کا اظہار کیا ہو گا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی رشتہ داروں نے وفا کا اظہار نہیں کئے.ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے ہر فرد نے بڑے اخلاص اور وفا سے خلافت کی بیعت کی ہے.ان میں بہت سے مجھ سے عمر میں بھی بڑے ہیں، تجربے میں بھی بڑے ہیں.اللہ تعالیٰ تمام خاندان کو خلافت سے محبت اور وفا میں ہمیشہ بڑھاتا رہے اور آئندہ آنے والی ہر خلافت کے ساتھ بھی سب لوگ اطاعت کا نمونہ دکھا ئیں.بہر حال یہاں ذکر میاں صاحب کا تھا.اپنا انجام بخیر ہونے کے بارہ میں مجھے با قاعدہ لکھتے رہتے تھے اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے.آپ کی تدفین بھی موصی ہونے کی وجہ سے بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی ہے.آپ ہمیشہ مجھے اپنی بیگم صاحبہ کے بارہ میں لکھا کرتے تھے کہ ان کے لئے دعا کریں کہ ان کو صحت دے.ان کو اپنی صحت کی تکلیف کوئی نہ تھی.بہر حال اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک طریق ہے.یہ خیال نہیں تھا کہ پہلے خود چلے جائیں گے.احباب ان کی بیگم صاحبہ کے لئے دعا کریں وہ دل کی مریضہ ہیں.ان کی بیگم صاحبہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی بیٹی ہیں.پھر ہمارے مبلغ جو زمبابوے کے مشنری انچارج تھے ان کی بھی کچھ عرصہ ہوا وفات ہوئی ہے.یہ مکرم سمیع اللہ قمر صاحب ہیں آپ مکرم عطاء اللہ صاحب سابق اسسٹنٹ مینجر سندھ جینگ و پراسسنگ فیکٹری سندھ کے بیٹے تھے.مئی ۱۹۷۷ میں ربوہ سے شاہد پاس کیا اور پھر قریباً دس سال تک پاکستان میں خدمات سرانجام دیں اور پھر قریباً ساڑھے تیرہ سال زیمبیا اور زمبابوے میں خدمات سرانجام دیتے رہے.زمبابوے کے امیر تھے.بہت محنت اور اخلاص سے خدمات سرانجام دیتے رہے.بہت محنت اور اخلاص اور بڑی جانفشانی سے خدمات سرنجام دیتے رہے.اچانک آپ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور آپ کی وفات ہوئی.اس طرح غیر ملک میں وفات ہونے کی وجہ سے شہادت کا رتبہ بھی پایا.پسماندگان میں بوڑھے والدین بھی زندہ ہیں، اہلیہ اور پانچ بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور بچیوں کا خود ہی کفیل ہو جائے..مرحوم موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی ہے.

Page 87

$2004 82 خطبات مسرور

Page 88

$2004 83 51 خطبات مسرور..ہر ایک پر ہیز گار کو اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا چاہیئے ۳۰ / جنوری ۲۰۰۴ بمطابق ۳۰ صلح ۱۳۸۳ شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن پردے کی اہمیت اور اسکی برکات وفوائد.پردے کو فرسودہ یا غیر ضروری قرار دینا درست نہیں.اسلام اور احمدیت کی ترقی اسی اسلامی تعلیم کے ساتھ ہے.پردے کی تفصیلات اور ملازمت وغیرہ کے دوران پردہ کی شکل.انٹرنیٹ کے خطرات اور ان سے ہوشیار رہنے کی تلقین.شادی بیاہ کے مواقع پر پردہ کے احکام کا خیال رکھنا.غض بصر کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ہے.

Page 89

خطبات مسرور $2004 84 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ.إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ.وَقُلْ لِلْمُؤْمِنتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ.وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا اَ يُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور : ۳۲،۳۱) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں.یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے.یقینا اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے ازخود ظاہر ہو.اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں.اور اپنی زمینیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں

Page 90

85 $2004 خطبات مسرور کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیر نگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی ( جنسی ) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں.اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر ) وہ ظاہر کر دیا جائے جو ( عورتیں عموماً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں.اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف تو بہ کرتے ہوئے جھکوتا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.آج کی ان آیات سے جو میں نے تلاوت کی ہیں ، سب کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ کس چیز کے بارہ میں میں بیان کرنا چاہتا ہوں.اس مضمون کو خلاصہ دو تین مرتبہ پہلے بھی مختلف اوقات میں بیان کر چکا ہوں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون کو کھولنے کی مزید ضرورت ہے.کیونکہ بعض خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی بہت سے ایسے ہیں جو اس حکم کی اہمیت کو یعنی پردے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے.کوئی کہہ دیتا ہے کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کیا صرف پردہ ہی ضروری ہے؟.کیا اسلام کی ترقی کا انحصار صرف پردہ پر ہی ہے؟ کئی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فرسودہ باتیں ہیں، پرانی باتیں ہیں.اور ان میں نہیں پڑنا چاہئے ، زمانے کے ساتھ چلنا چاہئے.گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہے لیکن زمانے کی رو میں بہنے کے خوف سے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس معمولی چیز کو بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.ایسے لوگوں کو میرا ایک جواب یہ ہے کہ جس کام کو کرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اس کامل اور مکمل کتاب میں اس بارہ میں احکام آگئے ہیں اور جن اوامر ونواہی کے بارہ میں احضرت اللہ ہمیں بتا چکے ہیں کہ یہ صحیح اسلامی تعلیم ہے تو اب اسلام اور احمدیت کی ترقی اسی کے ساتھ وابستہ ہے.چاہے اسے چھوٹی سمجھیں یا نہ سمجھیں.اور یہ آخری شرعی کتاب جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر اتاری ہے اس کی تعلیم بھی فرسودہ اور پرانی نہیں ہوسکتی.اس لئے جن کے دلوں

Page 91

خطبات مسرور 86 میں ایسے خیالات آتے ہیں وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور استغفار کریں.$2004 ان آیات میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کو میں مزید کھولتا ہوں.سب سے پہلے تو مردوں کو حکم ہے کہ: - غض بصر سے کام لیں.یعنی اپنی آنکھ کواس چیز کو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے.یعنی بلا وجہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں.جب بھی نظر اٹھا کر پھریں گے تو پھر تجس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو.اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نیم وا آنکھوں سے چلو.یعنی ادھ کھلی آنکھوں سے، راستوں پر پوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو.بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو.لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہوتا ہو کہ جس چیز پر ایک دفعہ نظر پڑ جائے پھر اس کو دیکھتے ہی چلے جانا ہے.نظر کس طرح ڈالنی چاہئے اس کی آگے حدیث سے وضاحت کروں گا.لیکن اس سے پہلے علامہ طبری کا جو بیان ہے وہ پیش کرتا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ غض بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکنا ہے جس سے اللہ تعالی نے روکا ہے.( تفسیر الطبری جلد ۱۸ صفحہ ۱۱۷،۱۱۶) تو مردوں کے لئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو.اور اگر مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں گے تو بہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہو جاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے.بے محابا نظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی.(رپورٹ جلسه اعظم مذاهب صفحه ۱۰۳،۱۰۲ ـ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد سوم صفحہ ٤٤٤)

Page 92

$2004 87 مسرور پھر مومن عورتوں کے لئے حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں اور آنکھیں نیچی رکھا کریں.اگر عورت اونچی نظر کر کے چلے گی تو ایسے مرد جن کے دلوں پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے وہ تو پھر ان عورتوں کے لئے مشکلات ہی پیدا کرتے رہیں گے.تو ہر عورت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بدنامی سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے غض بصر کا، اس پر عمل کرے تا کہ کسی بھی قسم کی بدنامی کا باعث نہ ہو.کیونکہ اس قسم کے مرد جن کے دلوں میں کبھی ہو، شرارت ہوتو وہ بعض دفعہ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں اور پھر بلاوجہ کے تبصرے شروع ہو جاتے ہیں.اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اپنی بیویوں کو یہاں تک فرمایا تھا کہ اگر مخنث آئے تو اس سے بھی پردہ کرو.ہوسکتا ہے کہ یہ باہر جا کر دوسرے مردوں سے باتیں کرے اور اس طرح اشاعت فحش کا موجب ہو.تو دیکھیں آنحضرت ﷺ نے کس حد تک پابندی لگائی ہے.کجا یہ کہ جوان مرد جن کے دل میں کیا کچھ ہے ہمیں نہیں پتہ، ان سے نظر میں نظر ڈال کر بات کی جائے یاد یکھا جائے.بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے کسی مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ایسا لہجہ ہونا چاہئے جس میں تھوڑی سی خفگی ہو ، ترشی ہوتا کہ مرد کے دل میں کبھی کوئی برا خیال نہ پیدا ہو.تو اس حد تک سختی کا حکم ہے اور بعض جگہوں پر ہمارے ہاں شادیوں وغیرہ پر لڑکوں کوکھاناServe کرنے کے لئے بلا لیا جاتا ہے.دیکھیں کہ سختی کس حد تک ہے اور کجا یہ ہے کہ لڑکے بلا لئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ چھوٹی عمر والے ہیں حالانکہ چھوٹی عمر والے بھی جن کو کہا جاتا ہے وہ بھی کم از کم ۱۸،۱۷ سال کی عمر کے ہوتے ہیں.بہر حال بلوغت کی عمر کوضرور پہنچ گئے ہوتے ہیں.وہاں شادیوں پر جوان بچیاں بھی پھر رہی ہوتی ہیں اور پھر پتہ نہیں جو بیرے بلائے جاتے ہیں کس قماش کے ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا ہے بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور ان سے پردے کا حکم ہے.اگر چھوٹی عمر کے بھی ہیں تو جس ماحول میں وہ بیٹھتے ہیں، کام کر رہے ہوتے ہیں ایسے ماحول میں بیٹھ کر ان کے ذہن بہر حال گندے ہو چکے ہوتے ہیں.اور سوائے کسی استثناء کے الا ماشاء اللہ، اچھی زبان ان کی نہیں

Page 93

$2004 88 خطبات مسرور ہوتی اور نہ خیالات اچھے ہوتے ہیں.پاکستان میں تو میں نے دیکھا ہے کہ عموماً یہ لڑ کے تسلی بخش نہیں ہوتے.تو ماؤں کو بھی کچھ ہوش کرنی چاہئے کہ اگر ان کی عمر پردے کی عمر سے گزر چکی ہے تو کم از کم اپنی بچیوں کا تو خیال رکھیں.کیونکہ ان کام کرنے والے لڑکوں کی نظریں تو آپ نیچی نہیں کر سکتے.یہ لوگ باہر جا کر تبصرے بھی کر سکتے ہیں اور پھر بچیوں کی ، خاندان کی بدنامی کا باعث بھی ہو سکتے ہیں.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ احمدی لڑکے، خدام، اطفال کی ٹیم بنائی جائے جو اس طرح شادیوں وغیرہ پر کام کریں.خدمت خلق کا کام بھی ہو جائے گا اور اخراجات میں بھی کمی ہو جائے گی.بہت سے گھر ہیں جو ایسے بیروں وغیرہ کو رکھنا Afford ہی نہیں کر سکتے لیکن دکھاوے کے طور پر بعض لوگ بلا بھی لیتے ہیں تو اس طرح احمدی معاشرے میں باہر سے لڑ کے بلانے کا رواج بھی ختم ہو جائے گا.خدام الاحمدیہ، انصار اللہ یا اگرلڑکیوں کے فنکشن ہیں تو لجنہ اماء اللہ کی لڑکیاں کام کریں.اور اگر زیادہ ہی شوق ہے کہ ضرور ہی خرچ کرنا ہے، Serve کرنے والے لڑکے بلانے ہیں یا لوگ بلانے ہیں تو پھر مردوں کے حصے میں مرد آئیں.یہاں میں نے دیکھا ہے کہ عورتیں بھی Serve کرتی ہیں عورتوں کے حصے میں تو وہاں پھر عورتوں کا انتظام ہونا چاہئے اور اس بارہ میں کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ بعض لوگ دیکھا دیکھی خرچ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ ایک طرح کا احساس کمتری ہے.کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے.اگر یہ ارادہ کر لیں کہ ہم نے قرآن کے حکم کی تعمیل کرنی ہے اور پاکیزگی کو بھی قائم رکھنا ہے تو کام تو ہو ہی جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کو ثواب بھی مل رہا ہوگا.پھر فرمایا کہ زینت ظاہر نہ کرو.اس کا مطلب یہی ہے کہ جیسا عورتوں کو حکم ہے میک اپ وغیرہ کر کے باہر نہ پھریں.باقی قد کاٹھ، ہاتھ پیر، چلنا پھرنا، جب باہر نکلیں گے تو نظر آ ہی جائے گا.یہ زینت کے زمرے میں اس طرح نہیں آتے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے لئے اس طرح کی قید نہیں رکھی.تو فرمایا کہ جو خود بخود ظاہر ہوتی ہو اس کے علاوہ.باقی چہرے کا پردہ ہونا چاہئے اور یہی

Page 94

$2004 89 خطبات مسرور اسلام کا حکم ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی ایک تشریح یہ فرمائی تھی کہ ماتھے سے لے کر ناک تک کا پردہ ہو.پھر چادر سامنے گردن سے نیچے آ رہی ہو.اس طرح بال بھی نظر نہیں آنے چاہئیں.سکارف یا چادر جو بھی چیز عورت اوڑھے وہ پیچھے سے بھی اتنی لمبی ہو کہ بال وغیرہ چھپ جاتے ہوں.إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعود تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو.یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہو شریعت نے صرف اس کو جائز رکھا ہے.یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے.اس کا ظاہر کرنا اس کے لئے جائز ہو.میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں.چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے.کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے.پھر فرمایا کہ: اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا.اور پردہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں.اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریاتِ معیشت کے لئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پر دے کے حکم میں ہی شامل لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اُس پر اس اجازت کا اطلاق نہ ہو گا.غرض اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ نگا کرنا پڑے نگا کیا جاسکتا ہے.(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۲۹۹،۲۹۸) ہے.

Page 95

90 $2004 خطبات مسرور تو اس تفصیل سے پردے کی حد کی بھی کافی حد تک وضاحت ہوگئی کہ کیا حد ہے.چہرہ چھپانے کا بہر حال حکم ہے.اس حد تک چہرہ چھپایا جائے کہ بے شک ناک نگا ہو اور آنکھیں نگی ہوں تا کہ دیکھ بھی سکے اور سانس بھی لے سکے.چہرہ کا پردہ کیوں ضروری ہے اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے احادیث سے یہ دلیل دی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک صحابیہ کوکسی لڑکی کا رشتہ آیا تھا، اس کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا تا کہ دیکھ کر آئیں.اگر چہرہ کا پردہ نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ پھر تو ہر ایک نے شکل دیکھی ہوتی.پھر دوسری مرتبہ یہ واقعہ حدیث میں بیان ہوتا ہے کہ جب ایک لڑکے کو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو.تم نے اس کو دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو جا کر دیکھ آؤ.کیونکہ پردے کا حکم تھا بہر حال دیکھا نہیں ہوگا.تو جب وہ اس کے گھر گیا اور لڑکی کو دیکھنے کی خواہش کی تو اس کے باپ نے کہا کہ نہیں اسلام میں پردے کا حکم ہے اور میں تمہیں لڑکی نہیں دکھا سکتا.پھر اس نے آنحضرت ﷺ کا حوالہ دیا تب بھی وہ نہ مانا.بہر حال ہر ایک کی اپنی ایمان کی حالت ہوتی ہے.اسلام کے اس حکم پر اس کی زیادہ بختی تھی بجائے اس کے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کو موقعہ محل کے مطابق تسلیم کرتا اور مانتا.تو لڑکی جو اندر بیٹھے یہ باتیں سن رہی تھی وہ باہر نکل آئی کہ اگر آنحضرت ﷺ کا حکم ہے تو پھر ٹھیک ہے میرا چہرہ دیکھ لو.تو اگر چہرہ کے پردہ کا حکم نہیں تھا تو حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ پھر آنحضرت مے نے یہ کیوں فرمایا.ہر ایک کو پتہ ہوتا کہ فلاں لڑکی کی یہ شکل ہے اور فلاں کی فلاں شکل.اسی طرح ایک موقع پر آنحضرت ﷺ اعتکاف میں تھے.رات کو حضرت صفیہ کو چھوڑنے جا رہے تھے تو سامنے سے دو آدمی آ رہے تھے ان کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا گھونگھٹ اٹھاؤ اور فرمایا دیکھ لو یہ میری بیوی صفیہ ہی ہے.کوئی شیطان تم پر حملہ نہ کرے اور غلط الزام لگانا نہ شروع کر دو.تو چہرے کا پردہ بہر حال ہے.

Page 96

$2004 91 مسرور پھر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے.بے شک ہم اس حد تک قائل ہیں کہ چہرے کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کا صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے مثلاً باریک کپڑا ڈال لیا جائے یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنالیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزا در ہوتا ہے.مگر چہرے کو پردے سے باہر نہیں رکھا جا سکتا.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۱۰۳) پھر فرمایا کہ جو جو عورتیں بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں اور نکاح کے قابل نہ رہیں وہ اگر معروف پردہ چھوڑ دیں تو جائز ہے ہاں خواہ مخواہ زیور پہن کر اور بناؤ سنگار کر کے باہر نہ نکلیں یعنی پردہ ایک عمر تک ہے اس کے بعد پردہ کے احکام ساقط ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک نے پردہ کے احکام کو ایسی بری طرح استعمال کیا ہے کہ جوان عورتیں پردہ چھوڑ رہی ہیں.اور بوڑھی عورتوں کو جبراً گھروں میں بٹھایا جارہا ہے.عورت کا چہرہ پردہ میں شامل ہے ورنہ أَنْ يُضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مونہہ اور ہاتھ تو پہلے ہی ننگے تھے اب سینہ اور باز و بھی بلکہ سارا بدن بھی ننگا کرنا جائز ہو گیا حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۳۹۷،۳۹۶) ہوتا یہی ہے کہ اگر پردہ کی خود تشریح کرنی شروع کر دیں اور ہر کوئی پردے کی اپنی پسند کی تشریح کرنی شروع کر دے تو پردے کا تقدس کبھی قائم نہیں رہ سکتا.اس لئے ماں باپ دونوں کو اپنی اولاد کے پردے کی طرف توجہ دینی چاہئے.اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے.اب کسی نے لکھا کہ مغربی ملک میں ملازمت کے سلسلہ میں ایک یونیفارم ہے جس میں جینز اور بلاؤز یا سکرٹ استعمال ہوتا ہے تو کیا میں یہ پہن کر کام کر سکتی ہوں.اس کو میں نے جواب دیا کہ اگر لمبا کوٹ پہن کر اور سکارف سر پر رکھ کر کام کرنے کی اجازت ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی اجازت نہیں.

Page 97

$2004 92 مسرور اب اس میں جن عزیزوں یا رشتوں کا ذکر ہے کہ ان سے پردہ کی چھوٹ ہے ان میں وہ سب لوگ ہیں جو انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں.یعنی خاوند ہے، باپ ہے یا سسر ہے، بھائی ہے یا بھتیجے، بھانجے وغیرہ.ان کے علاوہ باقی جن سے رشتہ داری قریبی نہیں ان سب سے پردہ ہے.پھر فرمایا کہ اپنی عورتوں کے سامنے تم زینت ظاہر کرسکتی ہو.حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ عورتوں کے سامنے زینت ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورتیں جو ہیں جن سے بے تکلفانہ یا بے حجابانہ تمہیں سامنے نہیں آنا چاہئے.اب بازاری عورتیں ہیں ان سے بچنے کی تو ہر شریف عورت کوشش کرتی ہے.ان کی حرکات، ان کا کردار ظاہر وباہر ہوتا ہے، سامنے ہوتا ہے لیکن بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جو غلط قسم کے لوگوں کے لئے کام کر رہی ہوتی ہیں.اور گھروں میں جا کر پہلے بڑوں سے دوستی کرتی ہیں.جب ماں سے اچھی طرح دوستی ہو جائے تو پھر بچیوں سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ بعض دفعہ برائیوں کی طرف ان کو لے جاتی ہیں.تو ایسی عورتوں کے بارہ میں بھی یہ حکم ہے کہ ہر ایرے غیرے کو، ہر عورت کو اپنے گھروں میں نہ گھنے دو.ان کے بارہ میں تحقیق کر لیا کرو، اس کے بعد قدم آگے بڑھاؤ.حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ پہلے یہ طریق ہوا کرتا تھا لیکن اب کم ہے.(کسی زمانے میں کم تھا لیکن آج کل پھر بعض جگہوں سے ایسی اطلاعیں آتی ہیں کہ پھر بعض جگہوں پر ایسے گروہ بن رہے ہیں ).جو اس قسم کی حرکات کرتے ہیں.خاص طور پر احمدی بچوں کو پاکستان میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے.بلکہ ماں باپ کو بھی احتیاط کرنی چاہئے کہ بعض دفعہ گھریلو کام کے لئے ایک عورت گھر میں داخل ہوتی ہے اور اصل میں وہ ایجنٹ ہوتی ہے کسی کی اور اس طرح پھر آہستہ آہستہ ورغلا کر پہلے دوستی کے ذریعہ اور پھر دوسرے ذریعوں سے غلط قسم کی عادتیں ڈال دیتی ہیں بچیوں کو.تو ایسے ملازمین یا ملازمائیں جو رکھی جاتی ہیں، ان سے احتیاط کرنی چاہئے اور بغیر تحقیق کے نہیں رکھنی چاہئے.اسی طرح اب اس طرح کا کام، بری عورتوں والا ، انٹرنیٹ نے بھی شروع کر دیا ہے.جرمنی

Page 98

93 $2004 خطبات مسرور وغیرہ میں اور بعض دیگر ممالک میں ایسی شکایات پیدا ہوئی ہیں کہ بعض لوگوں کے گروہ بنے ہوئے ہیں جو آہستہ آہستہ پہلے علمی باتیں کر کے یا دوسری باتیں کر کے چارہ ڈالتے ہیں اور پھر دوستیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر غلط راستوں پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے.میں متعدد بارانٹرنیٹ کے رابطوں کے بارہ میں احتیاط کا کہہ چکا ہوں.بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.یہ باپوں کی بھی ذمہ داری ہے، یہ ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ انٹرنیٹ کے رابطوں کے بارہ میں بچوں کو ہوشیار کریں.خاص طور پر بچیوں کو.اللہ تعالیٰ ہماری بچیوں کو محفوظ رکھے.تو ملازم رکھنے ہوں یا دوستیاں کرنی ہوں جس کو آپ اپنے گھر میں لے کر آرہے ہیں اس کے بارہ میں بہت چھان بین کر لیا کریں.آج کل کا معاشرہ ایسا نہیں کہ ہر ایک کو بلا سوچے سمجھے اپنے گھر میں لے آئیں.یہ قرآن کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے.پھر بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ ہر قسم کے ملازمین کے سامنے بے حجابانہ آجاتے ہیں.تو سوائے گھروں کے وہ ملازمین یا وہ بچے جو بچوں میں پلے بڑھے ہیں یا پھر بہت ہی ادھیڑ عمر کے ہیں.جو اس عمر سے گزر چکے ہیں کہ کسی قسم کی بدنظری کا خیال پیدا ہوا یا گھر کی باتیں باہر نکالنے کا ان کو کوئی خیال ہو.اس کے علاوہ ہر قسم کے لوگوں سے، ملازمین سے، پردہ کرنا چاہئے.بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے ملازمین جن کو ملازمت میں آئے چند ماہ ہی ہوئے ہوتے ہیں، بے دھڑک بیڈ روم میں بھی آجارہے ہوتے ہیں اور عورتیں اور بچیاں بعض دفعہ وہاں بغیر دوپٹوں کے بھی بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں.اور اس کو روشن دماغی کا نام دیا جاتا ہے.یہ روشن دماغی نہیں ہے.جب اس کے نتائج سامنے آتے ہیں تو پچھتاتے ہیں.پھر جو چھوٹ ہے اس آیت میں وہ چھوٹے بچوں سے پردہ کی ہے.فرمایا کہ چال بھی تمہاری اچھی ہونی چاہئے ، باوقار ہونی چاہئے ، یونہی پاؤں زمین پر مار کے نہ چلو.اور ایسی با وقار چال ہو کہ کسی کو جرات نہ ہو کہ تمہاری طرف غلط نظر سے دیکھ بھی سکے.جب تم پردوں میں ہوگی

Page 99

94 $2004 خطبات مسرور اور مکمل طور پر صاحب وقار ہوگی تو کسی کو جرات نہیں ہو سکتی کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر ڈالے.پھر ہمارے معاشرے میں زیور وغیرہ کی نمائش کا بھی بہت شوق ہے.گو چوروں ڈاکوؤں کے خوف سے اب اس طرح تو نہیں پہنا جاتا لیکن پھر بھی شادی بیاہوں پر اس طرح بعض دفعہ کہ راستوں سے عورتیں گزر کر جا رہی ہوتی ہیں جہاں مرد بھی کھڑے ہوتے ہیں ہو جاتا ہے اور وہاں ڈگر ڈگر زیور کی نمائش بھی ہو رہی ہوتی ہے.تو اس سے بھی احتیاط کرنی چاہئے.پھر حضرت مصلح موعودؓ نے پاؤں زمین پر مارنے سے ایک یہ بھی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شریعت نے ناچ یا ڈانس کو بھی مکمل طور پر منع کر دیا ہے کیونکہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور بعض عورتیں کہتی ہیں کہ عورتیں عورتوں میں ناچ لیں تو کیا حرج ہے؟ عورتوں کے عورتوں میں ناچنے میں بھی حرج ہے.قرآن کریم نے کہہ دیا ہے کہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے تو بہر حال ہر احمدی عورت نے اس حکم کی پابندی کرنی ہے.اگر کہیں شادی بیاہ وغیرہ میں اس قسم کی اطلاع ملتی ہے کہ کہیں ڈانس وغیرہ یا ناچ ہوا ہے تو وہاں بہر حال نظام کو حرکت میں آنا چاہئے اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے.اب بعض عورتیں ایسی ہیں جن کی تربیت میں کمی ہے کہہ دیتی ہیں کہ ربوہ جاؤ تو وہاں تو لگتا ہے کہ شادی اور مرگ میں کوئی فرق نہیں ہے.کوئی ناچ نہیں، کوئی گانا نہیں، کچھ نہیں.تو اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ شرفاء کا ناچ اور ڈانس سے کوئی تعلق نہیں.اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو ایسی شادیوں میں نہ شامل ہو.جہاں تک گانے کا تعلق ہے تو شریفانہ قسم کے ، شادی کے گانے لڑکیاں گاتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں.پھر دعائیہ نظمیں ہیں جو پڑھی جاتی ہیں.تو یہ کس طرح کہ سکتی ہیں کہ شادی میں اور موت میں کوئی فرق نہیں، یہ سوچوں کی کمی ہے.ایسے لوگوں کو اپنی حالت درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم تو دعاؤں سے ہی نئے شادی شدہ جوڑوں کو رخصت کرتے ہیں تا کہ وہ اپنی نئی زندگی کا ہر لحاظ سے بابرکت آغاز کریں اور ان کو اس خوشی کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی ضرورت

Page 100

$2004 95 خطبات مسرور ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا گھر آبا د ر کھے ، نیک اور صالح اولا د بھی عطا فرمائے.پھر یہ کہ وہ دونوں دین کے خادم ہوں اور ان کی نسلیں بھی دین کی خادم ہوں.پھر یہ ہے کہ دونوں فریق جو شادی کے رشتے میں منسلک ہوئے ہیں، ان کے لئے یہ دعائیں بھی کرنی چاہئیں کہ وہ اپنے والدین کے اور اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں.تو احمدی تو اسی طرح شادی کرتے ہیں اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو ہوتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہی حکم ہے کہ خوشیاں بھی مناؤ تو سادگی سے مناؤ اور اللہ کی رضا کو ہمیشہ پیش نظر رکھو.کیونکہ ہماری کامیابی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی طرف جھکنے میں ہی ہے.اس لئے ہم تو اسی طرح شادیاں مناتے ہیں.اور جو غیر بھی ہماری شادیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ اچھا اثر لے کر جاتے ہیں.اب چند احادیث پیش کرتا ہوں.ابوریحانہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے.ایک رات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ”آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی.اور آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے،،.پھر اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آگ اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے.اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عزوجل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو.(سنن دارمی، کتاب الجهاد، باب فى الذى يسهر في سبيل الله حارسا) تو دیکھیں غض بصر کا کتنا بڑا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والوں ، شہید ہونے والوں یا دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والی آنکھ کا رتبہ ایسے لوگوں کو حاصل ہو رہا ہے جو اس حکم پر عمل کرتے ہوئے، ہمیشہ عبادت بجالانے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے.حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

Page 101

خطبات مسرور 96 $2004 راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو.صحابہ نے عرض کی، یا رسول اللہ ہمیں رستوں میں مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر رستے کا حق ادا کرو.انہوں نے عرض کی کہ اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غض بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی رہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو.(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۶ مطبوعہ بیروت) دیکھیں کس قدر تا کید ہے کہ اول تو اگر کام نہیں ہے تو کوئی بلا وجہ راستے میں نہ بیٹھے.اور اگر مجبوری کی وجہ سے بیٹھنا ہی پڑے تو پھر راستے کا حق ادا کر و.بلاوجہ نظر میں اٹھا کے نہ بیٹھے رہو بلکہ خفض بصر سے کام لو، اپنی نظروں کو نیچا رکھو، کیونکہ یہ نہیں کہ ایک دفعہ نظر پڑ گئی تو پھر ایک سرے سے دیکھنا شروع کیا اور دیکھتے ہی چلے گئے.اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس تھی اور میمونہ بھی ساتھ تھیں تو ابن ام مکتوم آئے.یہ پردہ کے حکم کے نزول سے بعد کی بات ہے تو آنحضرت نے فرمایا کہ اس سے پردہ کرو ہم نے عرض کی یا رسول اللہ کیا وہ نابینا نہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی پہچان سکتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو.اور تم اس کو دیکھ نہیں رہیں.(ترمذی کتاب الأدب عن رسول الله باب ما جاء في احتجاب النساء من الرجال) دیکھیں کس قدر پابندی ہے پردہ کی کہ غض بصر کا حکم مردوں کو تو ہے ،ساتھ ہی عورتوں کے لئے بھی ہے کہ تم نے کسی دوسرے مرد کو بلا وجہ نہیں دیکھنا.حضرت جریر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑ صلى الله جانے کے بارہ میں دریافت کیا.حضور نے فرمایا اضرِقْ بَصَرَكَ اپنی نگاہ ہٹا لو.(ابو داؤد كتاب النكاح باب في ما يؤمر به من غض البصر) تو دیکھیں اسلامی پردہ کی خوبیاں.نظر پڑ جاتی ہے ٹھیک ہے، قدرتی بات ہے.ایک طرف

Page 102

97 $2004 خطبات مسرور تو یہ فرما دیا عورت کو کہ تمہیں باہر نکلنے کی اجازت اس صورت میں ہے کہ پردہ کر کے باہر نکلو.اور جو ظاہری نظر آنے والی چیزیں ہیں، خود ظاہر ہونے والی ہیں ان کے علاوہ زینت ظاہر نہ کرو.اور دوسری طرف مردوں کو یہ کہہ دیا کہ اپنی نظریں نیچی رکھو، بازار میں بیٹھو تو نظر نیچی رکھو اور اگر پڑ جائے تو فوراً نظر ہٹالو تا کہ نیک معاشرے کا قیام عمل میں آتا رہے.حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ فضل (بن عباس ) رسول اللہ کے پیچھے سوار تھے تو خثعم قبیلہ کی ایک عورت آئی.فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی.تو اس پر نبی کریم ﷺ نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا.(بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج وفضله حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ بغض بصر کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے.(مسند احمد مسند باقی الانصار باب حديث أبي أمامة الباهلي الصدى بن عجلان) تو دیکھیں نظریں اس لئے نیچی کرنا کہ شیطان اس پر کہیں قبضہ نہ کر لے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو نیکیوں کی توفیق دیتا ہے اور عبادات کی توفیق دیتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس انسانی پھیلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچار ہے.کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذراسی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر.یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرنے...یہ ہے ستر اسلامی پردہ کا اور میں نے خصوصیت سے اسے ان مسلمانوں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے

Page 103

خطبات مسرور 98 $2004 احکام اور حقیقت کی خبر نہیں.البدر جلد ۳ نمبر ٣٤ مورخه ١٨ ستمبر ١٩٠٤ء صفحه ٦- ٧ ـ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود پھر فرماتے ہیں:.عليه السلام جلد.سوم صفحه ٤٤٣) ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پر شہوت آواز میں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں.یہ وہ تدبیر ہے کہ جس سے پابندی ٹھوکر سے بچاسکتی ہے.(رپورٹ جلسه اعظم مذاهب صفحه ۱۰۰ ـ ۱۰۱ - بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام صفحه ٤٤٤) جلد سوم پھر فرمایا: مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے، بلکہ ﴿يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ﴾ (النور: ۳۱) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چاہئے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ ۵۳۳ از نوٹ بک مولوی شیر علی صاحب) اب یہ جو غض بصر کا حکم ہے، پردے کا حکم ہے اور تو بہ کرنے کا بھی حکم ہے، یہ سب احکام ہمارے فائدے کے لئے ہیں ہیں.اللہ تعالیٰ اپنا پیار ، اپنا قرب عطا فرمائے گا کہ اس کے احکامات پر عمل کیا.لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس معاشرے میں، اس دنیا میں جہاں تم رہ رہے ہو، ان نیکیوں کی وجہ سے تمہاری پاکدامنی بھی ثابت ہو رہی ہوگی اور کوئی انگلی تم پر یہ اشارہ کرتے ہوئے نہیں اٹھے گی کہ دیکھو یہ عورت یا مرد اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہے، ان سے بچ کر ر ہو.اور یہ کہتے پھریں لوگ کہ خود بھی بچو اور اپنے بچوں کو بھی ان سے بچاؤ نہیں بلکہ ہر جگہ اس نیکی کی وجہ سے ہمیں عزت کا مقام ملے گا.دیکھیں جب ھرقل بادشاہ نے ابوسفیان سے آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے بارہ میں پوچھا

Page 104

99 $2004 خطبات مسرور کہ کیا ان کی تعلیم ہے اور کیا ان کے عمل ہیں.تو باوجود دشمنی کے ابوسفیان نے اور بہت ساری باتوں کے علاوہ یہی جواب دیا کہ وہ پاکدامنی کی تعلیم دیتے ہیں.تو ھرقل نے اس کو جواب دیا کہ یہی ایک نبی کی صفت ہے.پھر محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل امور کی وصیت کی پھر ایک لمبی روایت بیان کی جس میں سے ایک وصیت یہ ہے.کہ عفت ( یعنی پاکدامنی ) اور سچائی ، زنا اور کذب بیانی کے مقابلہ میں بہتر اور باقی رہنی والی ہے.(سنن دار قطنی ، کتاب الوصایا، باب ما يستحب بالوصية من التشهد والكلام ) تو پاکدامنی ایسی چیز ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے اور جس میں ہو اس کا طرہ امتیاز ہوگی اور ہمیشہ ہر انگلی اس پر اس کی نیکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اٹھے گی.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہوسکتی ہیں“.(اب اس میں ایسی عورتیں بھی ہیں جو پردہ میں نہیں ہوتیں.اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو عورت پردے میں نہیں ہے اس کو دیکھنے کی اجازت ہے بلکہ ان کو بھی دیکھنے سے بچیں).اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں.ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بریگا نہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے، ان کے حسن کے قصے نہ سنے.یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے.رپورٹ جلسه اعظم مذاهب صفحه ۱۰۰ ـ بحواله تفسیر حضرت موعود عليه السلام جلد سوم صفحه ٤٤٠) اب تو گانے وغیرہ سے بڑھ کر بیہودہ فلموں تک نوبت آگئی ہے.اس بارے میں عورتوں اور مردوں دونوں کو یکساں احتیاط کی ضرورت ہے، دونوں کو احتیاط کرنی چاہئے.دکانیں کھلی ہوئی

Page 105

$2004 100 خطبات مسرور ہیں، جاکے ویڈیو کیسٹ لے آئیں یا سیڈیز لے آئیں، اور پھر انتہائی بیہودہ اور لچر قسم کی فلمیں اور ڈرامے ان میں ہوتے ہیں.جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارہ میں نظر رکھنی چاہئے اور اس کے نتائج سے لوگوں کو ، بچوں کو آگاہ کرتے رہنا چاہئے ،سمجھانا چاہئے.کیونکہ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ چیزیں بالآخر غلط راستوں پر لے جاتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدائے تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کیلئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کیلئے پانچ علاج بھی بتلا دیئے ہیں.یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا ، کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا، نامحرموں کے قصے نہ سننا، اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا.اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ.اس جگہ ہم بڑے دعوئی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یادر کھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہوسکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پا کر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے.یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں.اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زمینوں پر نظر ڈال لیں.اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کر لیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگا نہ جوان عورتوں کا گانا بجاناسن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں.نہ پاک نظر سے اور نہ نا پاک نظر سے.اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں.نہ پاک خیال

Page 106

$2004 101 خطبات مسرور سے اور نہ نا پاک خیال سے.بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے، تا ٹھوکر نہ کھاویں.کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکر میں پیش آویں.سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ٣٤٣-٣٤٤) پھر فرمایا: خدا تعالیٰ نے چاہا کہ انسانی قوی کو پوشیدہ کاروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تکلیف پیش نہ آئے جس سے بد خطرات جنبش کر سکیں.پھر آپ عورتوں کے لئے پر دے کے بارہ میں فرماتے ہیں: شرعی پردہ یہ ہے کہ چادر کو حلقہ کے طور پر کر کے اپنے سر کے بالوں کو کچھ حصہ پیشانی اور زنخدان کے ساتھ بالکل ڈھانک لیں اور ہر ایک زینت کا مقام ڈھانک لیں.مثلاً منہ پر اردگر داس طرح پر چادر ہو کہ صرف آنکھیں اور ناک تھوڑ اسانگا ہو اور باقی اس پر چادر آ جائے.اس قسم کے پردہ کو انگلستان کی عورتیں آسانی سے برداشت کر سکتی ہیں اور اس طرح پر سیر کرنے میں کچھ حرج نہیں آنکھیں کھلی رہتی ہیں.(ریویو آف ریلیجنز جلد ٤ نمبر ۱ صفحه ۱۷ ـ ماه جنوری ۱۰۵ ١٩٠٥ء.بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود.رد عليه السلام جلد سوم صفحه ٤٤٦) تو آج کل جو برقعے کا رواج ہے ،کوٹ کا اور نقاب کا، اگر وہ صحیح طور پر ہو، ساتھ چپکا ہوا برقعہ یا کوٹ نہ ہو تو بڑا اچھا پر دہ ہے.اس سے ہاتھ بھی کھلے رہتے ہیں، آنکھیں بھی کھلی رہتی ہیں، سانس بھی آتارہتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کر سکتا.ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرات سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاک دامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا.دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے

Page 107

$2004 102 خطبات مسرور جس کو ذراسی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں.ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں.یہی حال دینی امور کا ہے.شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے.پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے.خدا کو راضی کرے پھر کسی سے خوف نہ کھائے اور نہ کسی کی پروا کرے.ایسے معاملات سے پر ہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہو جاوے مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الہی کے سوا نہیں ہوسکتا.صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل شامل حال نہ ہو.خُلِقَ الْأَنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء:۲۹) انسان نا تواں ہے.غلطیوں سے پر ہے.مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں.پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۵۴۳ الحکم ۶ مئی ۱۹۰۸ء) اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 108

$2004 103 61 خطبات مسرور امانت کو ادا کرنے اور خیانت سے بچنے کے لئے آنحضرت ﷺ کا اسوہ اپنائیں فروری ۲۰۰۴ء بمطابق ۶ تبلیغ ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن خیانت کے بھیانک اور خطرناک نقصانات.خیانت کے نتیجہ میں معاشرے کا امن وسکون تباہ ہو جاتا ہے.خیانت اور اس کی مختلف شکلیں.جماعتی عہدے نیک نیتی اور امانت کے ساتھ ان کو بجالانا.ہ میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی.قرض اور با ہمی لین دین میں امانت و دیانت.

Page 109

خطبات مسرور $2004 104 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا آمَنَتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الانفال : ۸۲) اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور (اس کے ) رسول سے خیانت نہ کرو ورنہ تم اس کے نتیجہ میں خود اپنی امانتوں سے خیانت کرنے لگو گے جبکہ تم (اس خیانت کو ) جانتے ہو گے.خیانت ایک ایسی برائی ہے جس کا کرنے والا اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق ادانہ کرنے والا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے مختلف پیرایوں میں مختلف سیاق وسباق کے ساتھ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اس کے بارہ میں فرمایا ہے اور خیانت کرنے والا خائن کہلاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس پر اعتماد کیا جائے اور وہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائے.پھر قرآن کریم میں خَائِنَةُ الْأَعْيُنِ ) کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز پر گہری نظر ڈالنا جس کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے.یا جان بوجھ کر ایسی چیز کو دیکھنا جس کو دیکھنے کی اجازت نہ ہو.اور یہ آنکھ کی خیانت کہلاتی ہے.گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے پردے کے بارہ میں کہا تھا تو بعض خواتین کو یہ شکوہ پیدا ہوا کہ ہمارے بارے میں بہت کچھ کہہ دیا مردوں کو کچھ نہیں کہا گیا کیونکہ پردے کے بارہ میں مردوں کو بھی کہنا چاہئے.میرے خیال میں تو خواتین کا شکوہ غلط ہے کیونکہ نفض بصر کے بارہ میں میں نے

Page 110

$2004 105 خطبات مسرور کھل کر بات کی تھی.اور بڑی وضاحت سے بتایا تھا اور مختلف حوالوں سے مردوں کو بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور سمجھایا تھا.تو آج کے لئے میں نے خیانت کا عنوان چنا تو سورۃ المومن کی یہ آیت نظر سے گزری جس کا تھوڑا سا حصہ میں نے بتایا تھا.تو مجھے خیال آیا کہ آنکھ کی خیانت کے حوالہ سے بھی دوبارہ مختصر بتا دوں کہ مردوں اور عورتوں دونوں کو غض بصر کا حکم ہے اور چونکہ مردوں کو زیادہ دیکھنے کی عادت ہوتی ہے اس لئے ان کو بہر حال غض بصر سے زیادہ کام لینا چاہئے.اور اس میں واضح طور پر منع ہے کہ آزادی سے ایک دوسرے کو دیکھیں.کیونکہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے منع ہے کہ جو نامحرم رشتے ہیں ان کو دیکھا جائے.اور اگر وہ اس طرح کرتے ہیں تو یہ بات بھی آنکھ کی خیانت کے زمرے میں آتی ہے.اب میں اس آیت کی طرف آتا ہوں جو میں نے ابھی تلاوت کی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے تمہیں جو تعلیم دی ہے ، جو احکامات دئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے جو حقوق معین کئے ہیں ، ان کی ادائیگی میں اگر خیانت کرو گے تو پھر تم آپس میں بھی اپنی امانتوں کو ادا کرنے کے معاملہ میں خیانت سے کام لو گے.لوگوں کی امانتوں کولوٹانے اور ان کے حقوق ادا کرنے کے بارہ میں بھی خیانت کرنے والے بن جاؤ گے، حقوق ادا نہیں کرو گے.اس لئے ہر دو قسم کے حقوق یعنی خدا تعالیٰ کے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے تمہیں صاف ستھرا اور کھر ا ہونا ہوگا.پھر اس میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی تم پر فرض ہے.جب تم نے یہ عہد کر لیا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں، ایمان لاتا ہوں ، تمام حکموں پر جو اللہ تعالیٰ نے ادا کرنے کا حکم دیا ہے ان کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ تو کرنے ہیں اور یاد رکھیں کہ اگر یہ احکامات سچے دل سے بجا نہیں لائیں گے تو معاشرے کے جو حقوق و فرائض ہیں وہ بھی صحیح طرح ادا نہیں ہوں گے.اور پھر معاشرے میں ایک دوسرے کا اعتماد بھی حاصل نہیں ہوگا کیونکہ جب تم خیانت کرو گے تو دوسرے بھی خیانت کریں گے اور معاشرے کا امن، چین اور سکون کبھی قائم نہیں ہو سکے گا.

Page 111

$2004 106 مسرور جب انسان کے روز مرہ کے معاملات میں دنیا داری شامل ہو جائے اور جب یہ خیال پیدا ہو جائے کہ جھوٹ، فریب اور دھوکے کے بغیر میں اپنے کاروبار میں یا کام میں کامیاب نہیں ہو سکتا.تو پھر انسان اپنے ارد گرد ایسا گروہ بنا لیتا ہے جو غلط قماش کے لوگوں کا ہوتا ہے تا کہ بوقت ضرورت ایک دوسرے کے کام آسکیں.چنانچہ دیکھیں آج کل دنیا داروں میں ہر جگہ یہی چیز ہے.ایسے لوگوں میں جب کوئی شخص غلط کام کرتا ہے تو صرف اپنے سردار کے پاس، اپنے سر براہ کے پاس آتا ہے.یا ہمارے ملکوں میں زمیندارہ رواج ہے وڈیروں کے پاس چلے جاتے ہیں تا کہ وہ ان کو قانون سے بچائیں.اور پھر یہ لوگ ان کو قانون سے بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگار ہے ہوتے ہیں.بڑی بڑی سفارشیں کروائی جاتی ہیں.اور جو بے چارے شریف آدمی ہوں، جن کی غلطی نہ بھی ہو اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کو پھنسا دیا جائے اور غلط قسم کے لوگوں کو بچا لیا جائے.رشوتیں دی جاتی ہیں کہ ہمارا آدمی بچ جائے چاہے بے گناہ آدمی کو سزا ہو جائے.حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ اگر کوئی چور ہے، بے ایمان ہے تو تم نے کوئی سفارش نہیں کرنی.آنحضرت ﷺ کی یہ بات پیش نظر نہیں رکھتے جب ایک عورت کی سفارش کی گئی چوری کے الزام میں تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ وہ اپنے چھوٹوں کو سزا دیا کرتی تھیں اور بڑوں کو بچالیا کرتی تھیں.تو فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا.تو یہ ہے اسوہ امانت کو صحیح طور پر ادا کرنے کا اور خیانت سے بچنے کا.اور یہی تعلیم ہے جس کو لے کر جماعت احمد یہ کھڑی ہوئی ہے.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس معاشرہ میں بڑا پھونک پھونک کر قدم رکھے.ہم نے معاشرہ کی برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا بھی ہے اور اپنے اندر امانت ادا کرنے کے حکم کو جاری اور قائم بھی رکھنا ہے.اور قرآن کریم کے اس حکم کو پیش نظر بھی رکھنا ہے کہ وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِيْنَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيْمًا﴾ (النساء: ۱۰۸).اور لوگوں.

Page 112

107 $2004 خطبات مسرور کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں.یقینا اللہ سخت خیانت کرنے والے گنہگار کو پسند نہیں کرتا.تو یہاں مزید کھلا کہ اللہ تعالیٰ یہ بات بالکل پسند نہیں کرتا کہ جو خائن ہے، چور ہے ، غلط کام کرنے والا ہے ، اس کی حمایت کی جائے چاہے جتنے مرضی اونچے خاندان سے ہو، جتنے مرضی اونچے مقام کا ہو.اور قطع نظر اس کے کہ کس کی اولاد ہے اگر وہ خیانت کا مرتکب ہوا ہے تو اس کو سزاملنی چاہئے.اور آنحضرت ﷺ کا اسوہ ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ اگر تم نے ایسے لوگوں سے رعایت کی تو نہ صرف تم اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے ہو گے بلکہ اپنے بھائیوں کو بھی نقصان پہنچار ہے ہو گے کیونکہ ایسے شخص کو جب ایک دفعہ معاف کر دیا جائے تو اس کو جرات پیدا ہوتی ہے اور یہی عموماً سامنے آتا ہے کہ پھر ایسے لوگ دھو کے دیتے رہتے ہیں.اگر تمہارا بھائی، بیٹا یا اور عزیز رشتہ دار ہے تو اس کی خیانتوں کی وجہ سے لوگوں کے نقصان پورے کرتے رہوگے کیونکہ قریبی عزیز کو سزا سے بچانے کے لئے اور اپنی عزت کو بچانے کے لئے بعض دفعہ جن کو احساس ہو وہ نقصان پورے کرتے ہیں.بے چاروں کو قربانی دینی پڑتی ہے.تو جب اس طرح جرمانے بھرتے رہیں گے تو پھر اپنا بھی ساتھ نقصان کر رہے ہوں گے.تو فرمایا کہ ایسے سخت خیانت کرنے والے گنہ گار کو اللہ پسند نہیں کرتا اس لئے تم بھی اس کو چھوڑ دو، اس کو سزا لینے دو.ہو سکتا ہے کہ اس دفعہ یہ سزا اس کی اصلاح کا باعث ہو جائے.لیکن اگر ایسے لوگوں کی حمایت کی تو ایسا شخص تمہارے ساتھ جماعت کی بدنامی کا باعث بھی بنتا رہے گا.پھر خیانت کی مختلف شکلیں ہیں.اور مختلف طریقوں سے لوگ خیانت کرتے رہتے ہیں.اس کی وضاحت میں اب احادیث سے کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے حضرت خلیفہ امسیح الاول کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں.فرمایا: وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِيْنَ خَصِيْمًا: شریر کی طرف سے حمایت کا بیڑا کبھی نہیں اٹھانا چاہئے.خائن کی طرف سے بھی جھگڑا نہیں کرنا چاہئے.اگر کسی عزیز رشتہ دار کی مصیبت پڑ جاوے.

Page 113

$2004 108 خطبات مسرور تو استغفار بہت پڑھو.خدا تعالی تمہیں بچالے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان ۲۹ جولائی ۱۹۰۹ء ـ بحواله حقائق الفرقان جلد دوم صفحه ٦٥) حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن میں جھوٹ اور خیانت کے سوا تمام بری عادتیں ہو سکتی ہیں.(مسنداحمد بن حنبل) اب جھوٹ ایک بہت بڑی برائی ہے.اس کو چھوڑنے سے تمام قسم کی برائیاں چھٹ جاتی ہیں.تو یہاں یہ فرمایا کہ خیانت بھی جھوٹ کی طرح کی برائی ہے.کیونکہ خائن ہمیشہ جھوٹا ہوگا.اور جھوٹا ہمیشہ خائن ہوگا.فرمایا کہ اصل میں تو یہ دو بڑی برائیاں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو دوسری چھوٹی چھوٹی برائیاں ویسے ہی ختم ہو جاتی ہیں اور انسان خود بخو دان کودور کر لیتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.ر کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر نیز صدق اور کذب اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی امانت اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں“.( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۳۴۹ مطبوعہ بیروت) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کو ( عند الطلب) امانت لوٹا دو جس نے تمہارے پاس امانت رکھی تھی اور اُس شخص سے بھی خیانت نہ کرو جو تجھ سے خیانت کرتا ہے.(سُنن الترمذى أَبَوَابُ الْبُيُوْع) بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں آدمی کے پیسے ہم اس لئے نہیں دے رہے کہ اس شخص نے فلاں وقت میں ہمارے ساتھ لین دین میں خیانت کی.تو فرمایا کہ نہیں ،اگر کسی نے خیانت کی بھی تھی اور پھر اس نے تمہارے پر اعتماد کر کے کوئی چیز تمہارے پاس امانت کے طور پر رکھوائی ہے تو تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی امانت دبا لو.اگر وہ واپس مانگے تو اس کو بہر حال ادا کرو.تو تمہارے ساتھ پہلے کا لین دین ہے اس کے بارہ میں جو بھی قانونی چارہ جوئی کرنی ہے کرو.یا اگر نہیں کرنا چاہتے اور خدا پر معاملہ چھوڑنا ہے تو چھوڑو لیکن یہ حق بہر حال نہیں پہنچتا کہ کسی کی دی ہوئی امانت کو اس لئے دبالو کہ اس نے تمہارے ساتھ خیانت کی تھی.اگر تم ایسا کرو گے تو اپنے ایمان کو ضائع کرنے والے بنو گے.

Page 114

$2004 109 مسرور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے.وہ نہ اس کی خیانت کرتا ہے اور نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے.ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت ، اس کا مال اور اس کا خون حرام ہے.( حضور نے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) تقویٰ یہاں ہے.کسی شخص کے شر کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے “.(سنن الترمذی.کتاب البر والصلة) پھر حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ اس شخص کو سر سبز و شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے اسی طرح آگے پہنچایا کیونکہ بہت سارے ایسے لوگ جنہیں بات پہنچائی جاتی ہے وہ خود سننے والے سے زیادہ اسے یا درکھنے والے ہوتے ہیں.تین امور کے بارہ میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا اور وہ تین یہ ہیں.خدا تعالیٰ کی خاطر کام میں خلوص نیت، دوسرا ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی اور تیسرے جماعت مسلمین کے ساتھ مل کر رہنا.تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تین باتیں جو بیان کی گئی ہیں کسی مسلمان میں ہوں تو اس کو جائزہ لینا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس میں یہ تین باتیں ہوں وہ مسلمان ہی نہیں ہے.اب پہلی بات جو اس میں بیان کی گئی ہے، اس کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جو کام تم اللہ تعالیٰ کی خاطر کر رہے ہو اس میں ہمیشہ خلوص نیت ہونا چاہئے.جماعتی عہدے جو تمہیں دئے جاتے ہیں انہیں نیک نیتی کے ساتھ بجالاؤ.صرف عہدے رکھنے کی خواہش نہ رکھو بلکہ اس خدمت کا جو حق ہے وہ ادا کرو.ایک تو خود اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ اس خدمت کو سرانجام دو.دوسرے اس عہدے کا صحیح استعمال بھی کرو.یہ نہ ہو کہ تمہارے عزیزوں اور رشتہ داروں کے لئے اور اصول ہوں، ان سے نرمی کا سلوک ہو اور غیروں سے مختلف سلوک ہو،ان پر تمام قواعد لاگو ہو رہے ہوں.ایسا کرنا بھی خیانت ہے.پھر اس عہدے کی وجہ سے تم یا تمہارے عزیز کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے والے نہ ہوں.مثلاً

Page 115

$2004 110 خطبات مسرور یہ بھی ہوتا ہے کہ چندوں کی رقوم اکٹھی کرتے ہیں.تو بہتر یہی ہے کہ ساتھ کے ساتھ جماعت کے اکاؤنٹ میں بھجوائی جاتی رہیں.یہ نہیں کہ ایک لمبا عرصہ رقوم اپنے اکاؤنٹ میں رکھ کر فائدہ اٹھاتے رہے.اگر امیر نے یا مرکز نے نہیں پوچھا تو اس وقت تک فائدہ اٹھاتے رہے.یہ بالکل غلط طریقہ ہے.اور اگر کبھی مرکز پوچھ لے تو کہہ دیا کہ ہم نے یہ رقم ادا کرنی تھی مگر بہانے بازی کی کہ یہ ہو گیا اس لئے ادا نہیں کر سکے.تو غلط بیانی اور خیانت دونوں کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں.شیطان چونکہ انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے اس لئے ایسے مواقع پیدا ہی نہ ہونے چاہئیں اور ان سے بچنا چاہئے.پھر یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے کام آؤ، ان کے حقوق ادا کرو.پھر یہ بھی یاد رکھو کہ نظام جماعت کے ساتھ ہمیشہ چھٹے رہو، نظام کی پوری پابندی کرو.کسی بات پر اعتراض پیدا ہوتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ وہ اعتراض انسان کو بہت دور تک لے جاتا ہے.اور پھر آہستہ آہستہ عہدے داروں سے بڑھ کر نظام تک اور پھر نظام سے بڑھ کر خلافت تک یہ اعتراض چلے جاتے ہیں.اس لئے اگر یہ کرو گے تو یہ بھی خیانت ہے.پھر میاں بیوی کے تعلقات ہیں.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہوگی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے پھر وہ بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے.(سنن ابی داود کتاب الادب باب في نقل الحديث اب میاں بیوی کے بہت سے جھگڑے ہیں، جو جماعت میں آتے ہیں، قضا میں آتے ہیں، خلع کے یا طلاق کے جھگڑے ہوتے ہیں اور طلاق ناپسندیدہ فعل ہے.بہر حال اگر کسی وجہ سے مرد اور عورت میں نہیں بنی تو مرد کو حق ہے کہ وہ طلاق دے دے اور عورت کو حق ہے کہ وہ خلع لے لے.اور بعض دفعہ بعض باتیں صلح کروانے والے کے سامنے بیان کرنی پڑتی ہیں.اس حد تک تو موٹی موٹی باتیں بیان کرنا جائز ہے لیکن بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کے علاوہ دیگر رشتہ

Page 116

$2004 111 خطبات مسرور دار بھی شامل ہو جاتے ہیں جو ایک دوسرے پر ذاتی قسم کے الزامات لگا رہے ہوتے ہیں.جن کو سن کر بھی شرم آتی ہے.اب میاں بیوی کے تعلقات تو ایسے ہیں جن میں بعض پوشیدہ باتیں بھی ظاہر ہو جاتی ہیں.تو جھگڑا ہونے کے بعد ان کو باہر یا اپنے عزیزوں میں بیان کرنا صرف اس لئے کہ دوسرے فریق کو بدنام کیا جائے تا کہ اس کا دوسری جگہ رشتہ نہ ہو.تو فرمایا کہ اگر ایسی حرکتیں کرو گے تو یہ بہت بڑی بے حیائی اور خیانت شمار ہوگی اور خائن کے بارہ میں انذار آئے ہیں کہ ایک تو خائن مومن نہیں ، مسلمان نہیں اور پھر جہنمی بھی ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت کی کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے اور جس کسی نے قرض اس نیت سے لیا کہ ادا نہ کرے گا تو میں اسے چور شمار کرتا ہوں.( مجمع الزوائد جلد ٤ صفحه ۱۳۱ كتاب البيوع باب فيمن نوى ان لا يقضى دينه) اب دیکھیں حق مہر ادا کرنا مرد کے لئے کتنا ضروری ہے.اگر نیت میں فتور ہے تو یہ خیانت ہے، چوری ہے.پھر بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں.اور بعض لوگ تو عادی قرض لینے والے ہوتے ہیں.پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے وسائل اتنے نہیں کہ ہم یہ قرض واپس کر سکیں.لیکن پھر بھی قرض لیتے چلے جاتے ہیں کہ جب کوئی پوچھے گا کہہ دیں گے کے ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں ، ہم تو دے ہی نہیں سکتے.اپنے اخراجات پر کنٹرول ہی کوئی نہیں ہوتا.جتنی چادر ہے اتنا پاؤں نہیں پھیلاتے اصل میں نیت یہی ہوتی ہے پہلے ہی کہ ہم نے کون سا دینا ہے.بے شرموں کی طرح جواب دے دیں گے.یہاں جو قرض دینے والے ہیں ان کو بھی بتادوں کہ بجائے اس کے کہ بعد میں جھگڑے ہوں اور امور عامہ میں اور جماعت میں اور خلیفہ وقت کے پاس کیس بھجوائیں کہ ہمارے پیسے دلوائیں تو پہلے ہی سوچ سمجھ کر ، جائزہ لے کر ایسے لوگوں کو قرض دیا کریں.یا تو اس نیت سے دیں کہ ٹھیک ہے اگر نہ بھی واپس ملا تو کوئی حرج نہیں.یا پھر اچھی طرح جائزہ لے لیا کریں کہ اس کی اتنی استعداد بھی

Page 117

$2004 112 خطبات مسرور ہے، قرض واپس کر سکتا ہے کہ نہیں.پھر ایک دوسری روایت میں حضرت صہیب سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی اس نیت سے کوئی چیز خریدتا ہے کہ وہ اس کی قیمت ادا نہ کرے گا تو جس دن وہ مرے گا وہ خائن ہوگا اور خائن جہنمی ہے.(مجمع الزوائد جلد ٤ صفحه ١٣١) بعض لوگ چیزیں ادھار خرید لیتے ہیں یہ بھی ایک طرح کا قرض ہے ایسے لوگوں کے بارہ میں بھی بڑا انذار ہے.حضرت طلیقہ مسیح الا فی اس بارہ میں فرماتے ہیں: خا فَإِنْ آمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤةِ الَّذِى اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ - اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کے متعلق مطمئن ہو اور اسے بلا رہن روپیہ دے دے تو وہ شخص جسے روپیہ دیا گیا ہے اور جسے امین جانا گیا ہے اس کا فرض ہے کہ دوسرے کے مطالبہ پر روپیہ بلا حجت واپس کر دے اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے.اس جگہ قرض کو امانت قرار دیا گیا ہے جس میں یہ حکمت ہے کہ دنیا میں عام طور پر امانت کی ادائیگی تو ضروری سمجھی جاتی ہے.لیکن قرض کی ادائیگی میں نا واجب تساہل اور غفلت سے کام لیا جاتا ہے.اس لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قرض بھی ایک امانت ہی کی قسم ہے اس آیت سے ہر قسم کی امانتوں کی حفاظت اور ان کی بروقت واپسی کا بھی ایک عام سبق ملتا ہے جس کی طرف قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ﴿وَالَّذِينَ هُمْ لَا مَنتِهِمُ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ﴾ (المومنون: 9) میں بھی اشارہ کیا گیا ہے اور نصیحت فرمائی ہے کہ تمدنی معاملات کی ایک اہم شاخ دوسرے کے پاس امانت رکھوانا بھی ہے.پس نہ صرف قرض کے معاملات میں بلکہ امانت کے معاملہ میں بھی تمہیں تقویٰ اللہ سے کام لینا چاہئے.ایسا نہ ہو کہ امانت لینے والا آئے اور تم واپسی میں پس و پیش کرنے لگ جاؤ.( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۶۴۹،۶۴۸) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایک شخص کا ذکر ہوا کہ وہ ایک

Page 118

113 $2004 خطبات مسرور دوسرے شخص کی امانت جو اس کے پاس جمع تھی لے کر کہیں چلا گیا ہے.اس پر فرمایا: ادائے قرضہ اور امانت کی واپسی میں بہت کم لوگ صادق نکلتے ہیں اور لوگ اس کی پروا نہیں کرتے حالانکہ یہ نہایت ضروری امر ہے.حضرت رسول کریم ﷺ اس شخص کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جس پر قرضہ ہوتا تھا.دیکھا جاتا ہے کہ جس التجا اور خلوص کے ساتھ لوگ قرض لیتے ہیں اسی طرح خندہ پیشانی کے ساتھ واپس نہیں کرتے بلکہ واپسی کے وقت ضرور کچھ نہ کچھ تنگی ترشی واقع ہو جاتی ہے.ایمان کی سچائی اسی سے پہچانی جاتی ہے“.( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۲۶۵، بدر ۵ ستمبر ۱۹۰۷ء) تو احمدی کی پہچان تو یہ ہونی چاہئے کہ ایک تو قرض اتارنے میں جلدی کریں، دوسرے قرض دینے والے کے احسان مند ہوں کہ وہ ضرورت کے وقت ان کے کام آیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: د مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں، اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں.یہ عدل کے خلاف ہے.آنحضرت ﷺ تو ایسے لوگوں کی نماز ( جنازہ) نہ پڑھتے تھے.پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یادر کھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دُور بھاگنا چاہئے.کیونکہ یہ امر الہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں یعنی 66 إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيْتَائِ ذِي الْقُرْبى (النحل: 91) دیا ہے.(ملفوظات جلد ٤ - صفحه ٦٠٧ الحكم ٢٤ جنورى ١٩٠٦ء) تو یہاں یہ بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ ایک تو یہ کہ قرض مقررہ میعاد کے اندر ادا کیا جائے جس کا وعدہ کیا گیا ہے.اور اگر پتہ ہے کہ واپس نہیں کر سکتے کیونکہ وسائل ہی نہیں ہیں، اور غلط بیانی کر کے میعاد مقرر کر والی ہے تو پھر بہتر ہے کہ خائن بننے کی بجائے مدد مانگ لی جائے.لیکن جھوٹ اور خیانت کے مرتکب نہیں ہونا چاہئے.لیکن مدد مانگنے والوں کو بھی عادت نہیں بنا لینی چاہئے کیونکہ سوائے انتہائی اضطراری حالت کے اس طرح مدد مانگنا بھی منع ہے اور معیوب سمجھا گیا ہے.اور

Page 119

$2004 114 خطبات مسرور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے سخت خلاف تھے.ایک اقتباس ہے علامہ شبلی نعمانی کا خیانت کے بارہ میں.کہتے ہیں:.” خیانت کے ایک معنی یہ ہیں کہ کسی جماعت میں شامل ہوکر خود اسی جماعت کو جڑ سے اکھاڑنے کی فکر میں لگے رہنا، چنانچہ منافقین جو دل میں کچھ رکھتے تھے اور زبان سے کچھ کہتے تھے، وہ ہمیشہ اسلام کے خلاف چھپی سازشوں میں لگے رہتے تھے مگر ان کی یہ چال کارگر نہیں ہوتی تھی اور ہمیشہ اس کا بھید کھل جاتا تھا.فرمایا وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةِ مِّنْهُمْ (مائدہ:۳) اور ہمیشہ تو خبر پاتارہتا ہے اُن کی ایک خیانت کی.یعنی ان کی کسی نہ کسی خیانت کی خبر رسول کو ملتی ہی رہتی ہے.اس حوالے سے مزید وضاحت کر دیتا ہوں.بعض عہد یداران کی شکایت کر دیتے ہیں کہ فلاں امیر ایسا ہے، فلاں امیر ایسا ہے ، رویہ ٹھیک نہیں ہے یا فلاں عہد یدارا ایسا ہے، کوئی کام نہیں کر رہا.اور کوئی معین بات بھی نہیں لکھ رہے ہوتے.اور پھر خط کے نیچے اپنا نام بھی نہیں لکھتے.تو یہ منافقت ہے.ایک طرف تو اس عہد کے سخت خلاف ہے کہ جان قربان کر دوں گا جماعت کے لئے اور عزت بھی قربان کر دوں گا جماعت کے لئے اور دوسری طرف اپنا نام تک شکایت میں چھپاتے ہیں کہ امیر یا فلاں عہد یدار ہم سے ناراض نہ ہو جائے.اس کا مطلب یہ ہے وہ اس حدیث کی رو سے بدظنی بھی کر رہے ہیں اور تقویٰ سے بالکل عاری ہیں.اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ ایسا ہی ہے تو پھر وہ شکایت کرنے والا کونسا تقویٰ سے خالی نہیں ہے.کیونکہ اس کے دل میں امیر کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف سے زیادہ ہے.اور جس کے دل میں اللہ کا خوف نہیں ہے وہ مومن بہر حال نہیں ہوسکتا.اور اس طرح یہ اس کے علاوہ اندر ہی اندر لوگوں میں بھی شکوک پیدا کرتا ہے.خود بھی منافقت کر رہا ہوتا ہے اور خیانت کا بھی مرتکب ہو رہا ہوتا ہے.لوگوں کے ذہنوں کو بھی گندہ کر رہا ہوتا ہے.اس لئے اس بارہ میں میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ بغیر نام کے کوئی درخواست کوئی شکایت کبھی بھی قابل پذیرائی نہیں ہوتی.اور اب یہ دوبارہ بھی واضح کر دیتا ہوں.اس لئے اگر جماعت کا درد ہے،اصلاح

Page 120

$2004 115 خطبات مسرور مدنظر ہے تو کھل کر لکھیں اور اگر اس کی وجہ سے کوئی عہدیدار شکایت کرنے والے سے ذاتی عناد بھی رکھتا ہے، مخالفت بھی ہو جاتی ہے تو یہ معاملہ خدا پر چھوڑیں اور دعاؤں میں لگ جائیں.اگر نیت نیک ہے تو اللہ تعالیٰ ہر شر سے محفوظ رکھے گا.بے نام لکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ لکھنے والا خود خائن ہے.پھر ایک حدیث میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: چار ایسی علامتیں ہیں کہ جس میں وہ ہوں وہ پکا منافق ہوگا.اور جس میں ان میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہوگی سوائے اس کے کہ وہ اسے چھوڑ دے.وہ چار باتیں یہ ہیں.جب اسے امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرتا ہے.جب بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے.جب کسی سے معاہدہ کرے تو بے وفائی کرتا ہے.اور جب کسی سے جھگڑ پڑے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے.(مسلم کتاب الایمان.باب بيان خصال المنافق پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے میری طرف ایسی جھوٹی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے.اور جس سے اس کے مسلمان بھائی نے کوئی مشورہ طلب کیا تو اس نے بغیر رشد کے مشورہ دیا تو اس نے اس سے خیانت کی.(الادب المفرد صفحه ۷۵ از حضرت امام بخاری بعض دفعہ جان بوجھ کر غلط طریقے سے غلط مشورہ دے دیا جاتا ہے تو یہ بھی خیانت ہے تا کہ کسی کو نقصان پہنچ جائے.یہ بالکل نہیں ہونا چاہئے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے.اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بھوک سے جس کا اوڑھنا بچھونا بہت برا ہے اور میں پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ یہ اندرونے کو خراب کر دیتی ہے یا اس کی چاہت برے نتائج پیدا کرتی ہے.(نسائی کتاب الاستعاذه من الخيانة.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خائن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.(کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۳)

Page 121

$2004 116 خطبات مسرور پھر آپ نے فرمایا: جو شخص بدنظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۸ـ ۱۹) پھر آپ عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”خیانت نہ کرو.گلہ نہ کرو.ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے“.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد۱۹ صفحه ۸۱) بعض عورتوں کو عادت ہوتی ہے کہ ہمدرد بن کر دوسری کسی شریف عورت کے گھر جاتی ہیں ،اس سے باتیں نکلواتی ہیں، دوستیاں قائم کرتی ہیں.اور پھر مجلسوں میں بیان کرتی پھرتی ہیں.تو اس قسم کے لوگ چاہے مرد ہوں یا عورت ( عورتوں کو زیادہ عادت ہوتی ہے ) وہ بھی مجالس کی امانت میں خیانت کرنے والے ہوتے ہیں.ہر احمدی کو ان باتوں سے بھی اپنے آپ کو بچا کر رکھنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدا کے واحد ماننے کے ساتھ یہ لازم ہے کہ اس کی مخلوق کی حق تلفی نہ کی جاوے.جو شخص اپنے بھائی کا حق تلف کرتا ہے اور اس کی خیانت کرتا ہے وہ لَا إِله إِلَّا اللہ کا قائل نہیں.(ملفوظات جلد ۵ صفحه ۹۱ حاشیه بدر جلد ٦ نمبر ۲،۱ صفحه (۱۲) پھر آپ نے چندوں کے بارہ میں فرمایا :.ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ماہواری روپے ہی ضرور دو، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ معاہدہ کر کے دو جس میں کبھی فرق نہ آوے.صحابہ کرام کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا: ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون (آل عمران : 93).اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکید اور اشارہ ہے.یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اس کو نباہنا چاہئے.اس کے برخلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے.کوئی کسی ادنی درجہ کے نواب کی خیانت کر کے اس کے سامنے نہیں ہوسکتا تو احکم الحاکمین کی خیانت کر کے کس طرح سے اپنا چہرہ دکھلا سکتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۱۶ البدر۷ ارجولائی ۱۹۰۳)

Page 122

مسرور 117 $2004 اب چندہ عام وغیرہ بھی اسی زمرے میں شامل ہوتے ہیں.کیونکہ یہ بھی ایک وعدہ ہے جو آپ نے کیا ہوتا ہے.پھر چندہ وصیت ہے.بعض موصی ہیں جو لمبے عرصہ تک چندہ ادا نہیں کرتے اور بقایا دار ہو جاتے ہیں اور وصیت منسوخ ہو جاتی ہے.پھر یہ شکوہ ہوتا ہے کہ دفتر نے کیوں یاد نہیں کروایا، ہماری وصیت منسوخ ہو گئی.حالانکہ دفتر تو یاد کرواتا ہے.اور اگر نہیں بھی یاد کروایا تو معاہدہ کا دوسرا فریق تو خود ہے اس کو بھی تو یا درکھنا چاہئے کہ اس نے کیا عہد کیا ہوا ہے.اب یہاں جون میں جماعت کا مالی سال ختم ہورہا ہے تو میں یہاں یاد کروا دیتا ہوں کہ جو بھی آپ کے چندے ہیں، ادائیگیاں ہیں، وعدے ہیں، پورے کر لیں.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے: "لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِيْنَ لِمَنْ لَّا عَهْدَلَه “ یعنی جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پاس نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں.( مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۱۳۵ مطبوعہ بیروت) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :.”خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لِبَاسُ التقوى قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کار بند ہو جائے“.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۱۰) یعنی امانتوں کا خیال رکھے اور ان کے باریک در باریک پہلوؤں میں جا کر ان کو ادا کرنے کی کوشش کرے.پھر آپ فرماتے ہیں:

Page 123

$2004 118 مسرور انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حُسن ہیں.ایک حُسن معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو.جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں رائوں کا لفظ اسی طرف اشارہ کرتا ہے.ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوق عباد میں تقویٰ سے کام لے.یہ حسن معاملہ ہے یا یوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۲۱۸) پھر آپ نے فرمایا کہ: ہر مومن کا یہی حال ہوتا ہے.اگر وہ اخلاص اور وفاداری سے اُس کا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا ولی بنتا ہے لیکن اگر ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بے شک خطرہ ہوتا ہے.ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں.سینہ کا علم تو خدا کو ہی ہے مگر انسان اپنی خیانت سے پکڑا جاتا ہے.اگر خدا تعالیٰ سے معاملہ صاف نہیں تو پھر بیعت فائدہ دے گی نہ کچھ اور.لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اُس کی خاص حفاظت کرتا ہے.اگر چہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے آپ کو خاص کرتے ہیں اُن پر خاص تجلی کرتا ہے اور خدا کے لئے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس بالکل چکنا چور ہوکر اُس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہ جائے.اس لئے میں بار بار اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو اگر دل پاک نہیں ہے.ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کیا فائدہ دے گا جب دل دُور ہے.جب دل اور زبان میں اتفاق نہیں تو میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر منافقانہ اقرار کرتے ہیں.تو یا درکھو ایسے شخص کو دو ہر اعذاب ہوگا مگر جو سچا اقرار کرتا ہے اُس کے بڑے بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحه ٦٥ الحكم ١٤ فروری ١٩٠٣ء اللہ تعالیٰ ہم سب کو امانتوں کو نیک نیتی سے ادا کرنے اور ہرقسم کی خیانت سے بچنے کی تو فیق عطا فرماتا رہے.

Page 124

$2004 119 7 خطبات مسرور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کرنا اللہ کے فضلوں کا وارث بنادیتا ہے ۱ فروری ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۳ تبلیغ ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کرنا اللہ کے فضلوں کا وارث بنادیتا ہے محنت کی کمائی فرض ہے ، مانگنے کی عادت کبھی نہ پیدا کرو بعدی کا جواب نیکی سے دو، ابتلاؤں پر صبر اور حوصلہ سے کام لینا چاہیے فارغ بیٹھنے کی بجائے چھوٹے سے چھوٹا کام کر لینا بہتر ہے قیموں کی پرورش کرتا اور حو صلے اور ہمت سے اپنے گھروں میں رکھنا ، بڑی نیکی کا کام ہے ہ کسی سے کوئی تکلیف پہنچے، کسی میں کوئی عیب دیکھو تو اپنے دل میں اسکے لئے رحم پیدا کر و اور اس کے لئے دعا کرو سچے دل سے ہر حکم کی اطاعت کرد.دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت ، کر کے شیخص وہ نہیں رہا

Page 125

خطبات مسرور $2004 120 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ ( البقرہ : ۱۵۴) اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.صبر ایک ایسا خلق ہے، اگر کسی میں پیدا ہو جائے یعنی اس طرح پیدا ہو جائے جو اس کا حق ہے تو انسان کی ذاتی زندگی بھی اور جماعتی زندگی میں بھی ایک انقلاب آ جاتا ہے.اور انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ صبر کرنے کا حق کس طرح ادا ہو؟ اس کو آزمانے کے لئے ہر روز انسان کو کوئی نہ کوئی موقع ملتا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی موقع پیدا ہوتا رہتا ہے کوئی نہ کوئی دکھ، مصیبت، تکلیف، رنج یا غم کسی نہ کسی طرح انسان کو پہنچتا رہتا ہے، چاہے وہ معمولی یا چھوٹا سا ہی ہو.تو اس آیت میں فرمایا کہ جب کوئی ایسا موقع پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو تمہیں اس دکھ، تکلیف، پریشانی یا اس مشکل سے نکال سکتی ہے اس لئے اس کے سامنے جھکو، اس سے دعا مانگو کہ وہ تمہاری تکلیف اور پریشانی دور فرمائے لیکن دعا بھی تب ہی قبولیت کا درجہ پاتی ہے جب کسی قسم کا بھی شکوہ یا شکایت زبان پر نہ ہو اور لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کبھی نہ ہو بلکہ ہمیشہ صبر کا مظاہرہ ہو اور ہمیشہ صبر دکھاتے رہو.اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور اس سے عرض کرو کہ اے اللہ ! میں تیرے سامنے سر رکھتا ہوں، تیرے سامنے جھکتا ہوں، تجھ سے ہی اپنی اس پریشانی اور تکلیف اور

Page 126

$2004 121 خطبات مسرور مشکل کو دور کرنے کی التجا کرتا ہوں.میں نے کسی اور کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا.یہ تکلیف یا پریشانی جو مجھے آئی ہے میری کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہے یا میرے امتحان کے لئے آئی ہے میں اس کی وجہ سے تیرا نا فرمان نہیں ہوتا، نہ ہونا چاہتا ہوں، اس کو دور کرنے کے لئے میں کبھی بھی غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکتا.بلکہ صبر سے اس کو برداشت تو کر رہا ہوں لیکن تجھ سے اے میرے پیارے خدا! میں التجا کرتا ہوں کہ مجھے اس سے نجات دے اور ساتھ ہی یہ بھی التجا کرتا ہوں کہ اس امتحان میں ، اس ابتلاء میں مجھے اپنے حضور میں ہی جھکائے رکھنا کبھی کسی غیر اللہ کے در پر جانے کی غلطی مجھ سے نہ ہو.اور یہ صبر اور یہ تیرے در پہ جھکنا اے اللہ ! تیرے فضل سے ہی ہوسکتا ہے اور اسے اللہ اکبھی اپنے نافرمانوں میں سے مجھے نہ بنانا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ رویہ تمہارا ہو گا اور اس فکر اور کوشش سے تم میرے در پر آؤ گے تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پھر ایسے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے.اور ایسے ایسے راستوں سے اس کی مدد کرتا ہے جہاں تک انسان کی سوچ بھی نہیں جاسکتی.حضرت مصلح موعودؓ نے صبر کے معانی اور اس کی کیا کیا صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں کے بارے میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے یہاں میں مختصراً کچھ عرض کر دیتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ صبر کے معنی کیا ہیں، الصبر صبر کے اصل معنی تو رکنے کے ہیں.مگر اس لفظ کے استعمال کے لحاظ سے اس کے مختلف معانی ہیں چنانچہ اس کے ایک معنی تَرْكُ الشَّكْوَى مِنْ الَمِ الْبَلْواى لِغَيْرِ اللهِ یعنی جب کوئی مصیبت اور ابتلاء وغیرہ انسان کو پہنچے اور اس سے تکلیف ہو تو خدا تعالیٰ کے سوا دوسروں کے پاس اس کی شکایت نہ کرنا صبر کہلاتا ہے، ہاں اگر وہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی بے کسی کی شکایت کرتا ہے تو یہ صبر کے منافی نہیں چنانچہ لغت کی کتاب اقرب الموارد میں لکھا ہے إِذَا دَعَا اللَّهَ الْعَبْدُ فِي كَشْفِ الضُّرَعَنْهُ لَا يُقْدَحُ فِي صَبْرِهِ جب بندہ خدا تعالیٰ سے اپنی مصیبت کے دور کرنے کے لئے دعا کرتا ہے تو اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس نے بے

Page 127

$2004 122 خطبات مسرور صبری دکھائی ہے.چونکہ صبر کے اصل معنی رکنے کے ہوتے ہیں اس لئے محققین لغت نے لکھا ہے کہ الصَّبْرُ صَبْرَانِ، صَبْرٌ عَلَى مَا تَهْوِي وَ صَبْرٌ عَلَى مَا تَكْرَهُ یعنی صبر کی دو قسمیں ہیں جس چیز کی انسان کو خواہش ہو اس سے باز رہنا بھی صبر کہلاتا ہے اور جس چیز کو نا پسند کرتا ہولیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ آ جائے اس پر شکوہ نہ کرنا بھی صبر کہلاتا ہے.قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے کہ صبر اصل میں تین قسم کا ہوتا ہے.پہلا صبر تو یہ ہے کہ انسان جزع فزع سے بچے.قرآن کریم میں آتا ہے وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ (لقمان:۱۸) تجھے جو بھی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر سے کام لے یعنی جزع فزع نہ کر.دوسرے یہ ہے کہ نیک باتوں پر اپنے آپ کو روک رکھنا یعنی نیکی کو مضبوط پکڑ لیتا.ان معنوں میں یہ الفاظ اس آیت میں استعمال ہوئے ہیں.فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ أَئِمًا أَوْ كَفُوْرًا﴾ (الدھر: ۲۵) اپنے رب کے حکم پر قائم رہ اور انسانوں میں سے گنہ گار اور ناشکر گزار کی اطاعت نہ کر.پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر احکام قرب الہی کے حصول کے لئے دیئے گئے ہیں ان پر استقلال سے قائم رہنا اور اپنے قدم کو پیچھے نہ ہٹانا بھی صبر کہلاتا ہے.اور تیسرے معنے اس کے بدی سے رکے رہنے کے ہیں یعنی برائی سے رکے رہنے کے ہیں.ان معنوں میں یہ لفظ اس آیت میں استعمال ہوا ہے کہ ولو أَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ.وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.یعنی اگر وہ تجھے بلانے کے لئے گناہ سے باز رہتے اور اس وقت تک انتظار کرتے جب تک کہ تو باہر نکلتا تو یہ ان کے لئے بہت اچھا ہوتا مگر اب بھی وہ اصلاح کرلیں تو بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.(تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه ٢٨٤ یہ جو تیسری مثال دی گئی ہے آیت کی اس سے پہلی آیت میں یہ ذکر ہے کہ لوگ آنحضرت ﷺ کو گھر سے بلانے کے لئے اونچی آواز سے گھر سے باہر کھڑے ہو کر بلاتے تھے تو اس پر یہ فرمایا کہ جب ان کے پاس وقت ہوگا کوئی ایسی ایمر جنسی نہیں ہے باہر آجائیں گے، تم بلا وجہ نبی کا

Page 128

$2004 123 خطبات مسرور وقت ضائع نہ کیا کرو.یہ بے ادبی کی بات ہے کہ باہر کھڑے ہو کے آوازیں دینا اور انتہائی نامناسب ہے موقع محل کے لحاظ سے بات کرنا بھی صبر میں شمار ہوتا ہے اور بے موقع اور بے محل بات کرنا بے صبری ہے اور گناہ ہے.حدیث میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن قیس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی کسی تکلیف دہ بات کو سن کر صبر کرنے والا نہیں یعنی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں.کیوں؟ وہ اس طرح کہ لوگ اللہ کا شریک بناتے ہیں اور اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں اس کے باوجود وہ انہیں رزق دیئے جاتا ہے اور عافیت دیئے جاتا ہے اور عطا کئے جاتا ہے.(مسلم كتاب صفة المنافقين باب في الكفار) تو دیکھیں کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمام گناہ معاف کر سکتا ہوں لیکن شرک کا گناہ معاف نہیں کروں گا.اور اس کے باوجود وہ مشرکوں کو بھی ، عیسائیوں کو بھی جنہوں نے خدا کا بیٹا بنایا ہوا ہے، رزق بھی دیتا ہے اور دوسری نعمتیں بھی ان کو عطا فرمارہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ صبر کرنے والی ذات تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.حضرت صہیب روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کا تمام معاملہ خیر پر مشتمل ہے اور یہ مقام صرف مومن کو حاصل ہے اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو یہ اس پر شکر بجالاتا ہے، الحمد للہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے تو یہ امر اس کے لئے خیر کا موجب ہوتا ہے اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ صبر کرتا ہے تو یہ امر بھی اس کے لئے خیر کا موجب بن جاتا ہے.(مسلم کتاب الزهد باب المؤمن امره كله خير) تو جس طرح خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اس کا شکر کرنا، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا انسان کو وارث بناتا ہے.اسی طرح تکلیف میں صبر کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا تا ہے.اس لئے ہر تکلیف جو مومن کو پہنچ رہی ہوتی ہے وہ اگر صابر ہے،صبر کرنے والا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے

Page 129

$2004 124 خطبات مسرور فضلوں کو سمیٹنے والا بن جاتا ہے.حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ ، بیماری، بے چینی ، تکلیف اور غم پہنچتا ہے، یہاں تک کہ اگر اس کو کوئی کانٹا بھی لگتا ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کی بعض خطائیں معاف کر دیتا ہے.(بخاری کتاب المرضى باب ما جاء في كفارة المرض) تو ان لوگوں کے لئے جو ذرا ذرا سی بات پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کے لئے انذار بھی ہے کہ اگر تم بے صبری کا مظاہرہ کرو گے ، جزع فزع کرو گے تو اپنی خطائیں معاف کروانے کے موقع کو ضائع کر رہے ہو گے.دوسری طرف صبر کرنے والوں کے لئے کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ ہلکی سی بھی تکلیف پر صبر کرنے والے کے صبر کو اللہ تعالٰی ضائع نہیں کرتا، بغیر اجر دیئے نہیں جانے دیتا.اور خطائیں اور غلطیاں معاف فرماتا ہے.بعض لوگ بعض دفعہ کسی سے کوئی معمولی سی بات سن کر جھگڑے شروع کر دیتے ہیں.بعض دفعہ اس طرح بھی شکایات آ جاتی ہیں کہ اجلاسوں میں بیٹھے ہوئے تو تو میں میں اور پھر لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور اس اجلاس کے ماحول کے تقدس کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں.حوصلہ اور صبر ذرا بھی نہیں ہوتا جبکہ مومن کے لئے بڑا سخت حکم ہے کہ صبر دکھاؤ، حوصلہ دکھاؤ، پھر ہمسائے ہیں، ہمسائے نے اگر کوئی بات کہہ دی تو اس سے ذرا سی بات پر لڑائی شروع ہو گئی.یہاں سے اینٹ اٹھا کے وہاں کیوں رکھ دی، وہاں کوئی پتھر کیوں رکھ دیا گیٹ کیوں کھلا رہ گیا.کارکیوں میرے گھر کے گیٹ کے سامنے آ گئی.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو لڑائی جھگڑے پیدا کر رہی ہوتی ہیں اور دونوں ہمسائے پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے لڑنے کے مختلف حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور انتہائی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں ہوتی ہیں.بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مکان کی دیوار بنائی ہے.تمہاری دیوار میری زمین میں چند انچ سے بھی زائد آ گئی ہے.خالی کرو، یا تمہارے درخت کے پتے میرے گھر میں گرتے ہیں اس درخت کو وہاں سے کاٹو تو

Page 130

125 $2004 خطبات مسرور ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے قضاء میں مقدمے بھی چل رہے ہوتے ہیں.جو میں باتیں کر رہا ہوں یہ عملاً ایسا ہوتا ہے.شرم آتی ہے ایسی باتیں سن کر اور یہ باتیں پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں نہیں ہوتیں بلکہ اس طرح ہر جگہ ہو رہا ہے، یہاں بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے بعض دفعہ لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہوتے ہیں.ہمسائے کو کچھ تعمیر نہیں کرنے دے رہے ہوتے حالانکہ دوسرے ہمسائے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا.ذراذراسی بات پہ شکایتیں ہورہی ہوتی ہیں.تو احمدی کا یہ فرض ہے کہ اگر کوئی ایسی حرکت کرتا بھی ہے تو اس کو معاف کرنا چاہئے.اور غصے پر قابورکھنا چاہئے اور صبر کرنا چاہئے.کیونکہ خدا کو یہی پسند ہے.حضرت حسن روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہنے والا قطرہ خون اور رات کے وقت تہجد میں خشیت باری تعالیٰ کے نتیجے میں آنکھ سے ٹیکنے والے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں.اور نہ ہی اللہ کو کوئی گھونٹ غم کے اس گھونٹ سے زیادہ پسند ہے جو انسان صبر کر کے پیتا ہے اور اسی طرح اللہ کو غصے کے گھونٹ سے زیادہ کوئی گھونٹ پسند نہیں جو غصہ دبانے کے نتیجہ میں وہ پیتا ہے.(مصنف ابن ابی شیبة جلد ۷ صفحه ۸۸) پھر ایک روایت حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص پڑوسی کی شکایت لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آنحضور نے اس کو فرمایا کہ جا اور صبر کر.پیشخص دو یا تین بار حضور کی خدمت میں شکایت لے کر آیا تو پھر آنحضرت ﷺ نے اس کو فرمایا کہ جا اور اپنا مال ومتاع باہر رکھ دے یعنی اپنے گھر کا سامان سڑک پہ لے آ.چنانچہ اس نے اپنا مال راستے میں رکھ دیا.اس پر لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھا کہ تم اس طرح کیوں کر رہے ہو تو ان کو بتا تا رہا کہ کس وجہ سے کر رہا ہوں.تب لوگوں نے اس ہمسائے پر لعنت ملامت کی اور کہنے لگے اللہ اس سے یوں کرے یوں کرے وغیرہ وغیرہ.اس پر اس کا ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا تو اپنے گھر میں واپس چلا جا.اب تو مجھ سے کوئی نا پسندیدہ بات نہیں دیکھے گا.(ابو داؤد کتاب الادب باب حق

Page 131

$2004 126 خطبات مسرور الجوار ).تو یہاں بھی صبر کی وجہ سے ہی معاملہ حل ہو گیا.حضرت کبشہ انماری سے مروی ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزوں کے بارے میں میں قسم کھا کے بتا تا ہوں کہ انہیں اچھی طرح یاد رکھو، صدقہ بندے کے مال میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرتا.جب بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے اور عزت بخشتا ہے.پہلی بات یہ کہ صدقہ دو کیونکہ صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا ہے اور جب کسی پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت بخشتا ہے اور تیسری بات یہ کہ جس نے سوال کرنے کا دروازہ کھولا اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقر اور محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے.(ترمذی کتاب الزهد باب مثل الدنيا مثلُ اربعة نَفَرِ) زیادہ مانگنے والے ہوں تو ان کی محتاجی بڑھتی چلی جاتی ہے.ایک تو خودان میں بیٹھے رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے.پھر خواہشات بھی بڑھتی رہتی ہیں.تو اس میں ایک تو صبر کرنے والے کے لئے خوشخبری ہے کہ صبر سے کام لو اگر تنگ بھی کئے جاؤ تو اپنے خدا کی رضا کی خاطر صبر کرو اور جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ جو دینے سے کبھی نہیں تھکتاوہ تمہیں نہ صرف اس مشکل اور تکلیف سے نکالے گا بلکہ صبر کی وجہ سے تمہیں عزت بھی دے گا.پھر ایک اہم بات یہ یہاں بیان فرمائی کہ مانگنے کی عادت اپنے اندر کبھی نہ پیدا کرو.جیسے مرضی حالات ہوں صبر شکر کے ساتھ گزارا کرو اور اسی طرح گزارا کرنے کی کوشش کرو کیونکہ اگر ایک دفعہ مانگنے کی عادت پڑ گئی تو پھر یہ بڑھتی چلی جائے گی.قناعت پھر بالکل ختم ہو جاتی ہے.تن آسانی کی بھی عادت پڑ جاتی ہے، پتہ ہے کہ کھانے کو مل رہا ہے، کسی قسم کا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا، اور صرف اس لئے کہ میری ساری ضروریات پوری ہو رہی ہیں مدد کے ذریعے سے تو ایسے نکے مرد بیٹھے رہتے ہیں اور بیوی بچوں کی بھی کوئی فکر نہیں ہوتی.اگر جماعتی وسائل کے مطابق محدود پیمانے پر ضروریات پوری ہورہی ہوں تو بیوی بچوں کی بہت سی ایسی ضروریات بھی ہیں جو ان وسائل کے ساتھ پوری نہیں ہوسکتیں، ایک محدود مدد

Page 132

$2004 127 خطبات مسرور ہوتی ہے.تو بہر حال ہر انسان کو اگر مدد ہو بھی رہی ہو تو کام کرنا چاہئے ، اپنی ذمہ داری خود اٹھانی چاہئے اس لئے جس قسم کا بھی کام ملتا ہو کرنا چاہئے اور ہر ایک کو اپنے پاؤں پر ہر ایک کو کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.فرمایا کہ اگر تم سوال کرنے کی عادت جاری رکھو گے تو پھر اللہ تعالیٰ محتاجی میں بھی اضافہ کرتا چلا جائے گا اور اس وجہ سے پھر گھر سے برکت بھی اٹھ جاتی ہے.چنانچہ دیکھ لیں ایسے گھروں میں میاں بیوی کی لڑائیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں.بچے الگ پریشان ہو رہے ہوتے ہیں، نفسیاتی مریض بن رہے ہوتے ہیں.اس بات کو کوئی معمولی بات نہ سمجھیں.عزت اور وقاراسی میں ہے کہ خود محنت کر کے کمایا جائے.اور امدادوں یا وظیفوں کو کبھی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض کی طرح محنت کی کمائی بھی فرض ہے.آپ نے فرمایا کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے اور بہت سے فرائض ہیں ان میں یہ بھی فرض ہے کہ محنت کر کے کماؤ اور کھاؤ.میں نے دیکھا ہے کہ جن کو اپنی عزت نفس کا خیال ہو مانگنے سے گھبراتے ہیں.یہ مجھے پاکستان کا تجربہ ہے.ایسے خاندان بھی میری نظر سے گزرے ہیں جن کے وسائل اتنے بھی نہیں تھے کہ پورا مہینہ کھانا کھا سکیں تو بعض دن ایسے بھی آ جاتے تھے کہ لنگر خانے سے آکے سوکھے ٹکڑے لے جاتے تھے اور ان کو پانی میں بھگو کر کھاتے رہے.لیکن کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا.گو بعد میں پتہ لگ گیا اور ان کی مدد کی گئی اور ضرورت پوری کی گئی لیکن انہوں نے خود کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا ، ایسے سفید پوش بھی ہوتے ہیں.لیکن بعض ایسے ہیں کہ اچھی بھلی آمدنی ہو جس سے بہت اچھا نہ سہی لیکن غریبانہ گزارا چل رہا ہوتا ہے پھر بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں وظیفہ دیا جائے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے گھروں سے اللہ تعالیٰ برکت اٹھا لیتا ہے.اگر ہمت ہو اور نیک نیتی ہو تو بہت معمولی رقم قرضہ حسنہ کے طور پر لے کر بھی کام کیا جا سکتا ہے.میں نے بعض لوگوں کو اس طرح

Page 133

$2004 128 خطبات مسرور معمولی رقم سے کاروبار وسیع کرتے بھی دیکھا ہے.تو جب انسان ہمت کرے تو خدا تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے.یہاں یورپ میں بھی بعض لوگ جو جوان ہیں بعض فارغ بیٹھے رہتے ہیں کہ ضروریات تو پوری ہو رہی ہیں تو ان کو بھی چاہئے کہ چاہے چھوٹے سے چھوٹا کام ملے اپنی تعلیم کے مطابق نہ بھی کام ملے تب بھی کام کرنا چاہئے فارغ بہر حال نہیں بیٹھنا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے بعض افراد نے رسول اللہ اللہ سے کچھ مال طلب کیا جس شخص نے بھی آنحضور ﷺ سے مانگا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نواز دیاحتی کہ آپ کے پاس جمع شدہ مال ختم ہو گیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ میرے پاس جو مال ہوتا ہے جب تک وہ میرے پاس ہوتا ہے تو میں اسے دونوں ہاتھوں سے خرچ کرتا رہتا ہوں.میں اسے تم سے بچا کر تو نہیں رکھتا لیکن تم میں سے جو شخص سوال کرنے سے بچے گا اللہ تعالیٰ بھی اس سے عفو کا سلوک فرمائے گا، اور جو کوئی صبر کا مظاہرہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا کر دے گا.اور جو کوئی استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے گا.اور تمہیں کوئی عطا صبر سے بہتر اور وسیع تر نہیں دی گئی.(بخاری کتاب الرقاق باب الصبر عن محارم الله.پھر حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے دنیا میں اپنی بھوک مثالی قیامت کے دن یہ اس کی امیدوں کے درمیان روک ہوگی.اور جس نے حالت فقر میں اہل ثروت کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا وہ رسوا ہو گا اور جس نے حالت فقر میں صبر سے کام لیا اللہ تعالیٰ اسے جنت فردوس میں جہاں وہ شخص چاہے گا اسے ٹھہرائے گا.( مجمع الزوائد جلده اصفحہ ۲۴۸) پھر ہمارے معاشرے کی ایک یہ بھی بیماری ہے کہ جس کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہو جائیں یا زیادہ بیٹیاں پیدا ہو جائیں وہ بیٹیوں کے حقوق اس طرح ادا نہیں کرتے جس طرح اولاد کے کرنے

Page 134

$2004 129 خطبات مسرور چاہئیں.بلکہ بعض تو با قاعدہ اپنی بیٹیوں کو کو سنے بھی دیتے رہتے ہیں اور بعض بچیاں تو اتنی تنگ آجاتی ہیں رکھتی ہیں کہ لگتا ہے کہ ہم ماں باپ پر بوجھ بن گئے ہیں، ہمیں تو اب اپنی موت کی خواہش ہونے لگ گئی ہے.تو ایسے ماں باپ کو جو بیٹیوں سے اس قسم کا سلوک کرتے ہیں خوف کرنا چاہئے.ان کو تو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچیاں دے کر ان کے لئے آگ سے بچنے کے لئے انتظام کر دیا ہے.حدیث میں آتا ہے حضرت عائشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ جسے زیادہ بیٹیوں سے آزمایا گیا اور اس نے ان پر صبر کیا تو اس کی بیٹیاں اس کے لئے آگ سے پردے یا ڈھال کا باعث ہوں گی.(ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في النفقة على البنات والأخوات) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک یتیم یا دو یتیموں کو پناہ دی اور پھر اس پر ثواب کی نیت سے صبر کیا تو آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ میں اور وہ جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے جس طرح شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی ساتھ ساتھ ہوتی ہیں.(المجمع الاوسط جلد ۸ صفحه ۲۲۷) تو یتیموں کی پرورش کرنا اور ان کو حو صلے اور ہمت سے اپنے گھروں میں رکھنا اور اپنے بچوں کی طرح ان سے سلوک کرنا، یہ بڑی نیکی کا کام ہے اور اس حدیث میں ایسا کام کرنے والوں کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے جو یتیموں کو پالتے ہیں کیونکہ پیار اور محبت سے کسی کے بچے کو پالنا اور پھر اس کی سب باتوں کو حو صلے اور صبر سے برداشت کرنا اور ان کی تربیت کرنا اور اپنی کمائی میں.حو صلے اور ہمت سے خرچ کرنا اپنی بعض خواہشات پر صبر کرتے ہوئے ان کو دبانا اور یتیم بچوں کے اخراجات پورے کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ بہت بڑی نیکی ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بہت بڑی خوشخبری فرمائی ہے.

Page 135

$2004 130 مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھر وہ بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ﴾ کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مَرْحَمَہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے.اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے.دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سومرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رورو کر دعا کی ہو.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۶۰ ، ۶۱ - البدر ۸ جولائی ۱۹۰۴) اگر اس اصول پر عمل کریں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی کسی کا عیب بیان کرے.نہ آپ چالیس دن دعا کریں گے اور نہ عیب بیان ہوگا.یہ بہت اہم نصیحت ہے کہ اگر کسی سے کوئی تکلیف بھی پہنچے اس میں کوئی عیب بھی دیکھو تو بجائے لوگوں میں پھیلانے کے ان کے لئے دل میں رحم پیدا کرو، ان کے لئے دعا کرو، اس پر صبر کرو اور صبر اور مستقل مزاجی سے اس کے لئے دعا کرو، اگر یہ باتیں کسی معا شرے میں پیدا ہو جائیں تو کیا اس معاشرے میں کوئی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے؟ بہت ساری برائیاں معاشرے سے ختم ہو جائیں.اب جماعتی زندگی میں انسان کو صبر کا کس طرح مظاہرہ کرنا چاہئے.یعنی ہمارے اندر جو نظام ہے اس کے اندر وہ یہی ہے کہ امیر کی یا کسی عہدیدار کی طرف سے اگر زیادتی بھی ہو جائے تو برداشت کریں، صبر کریں، حوصلہ دکھا ئیں.زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت تک اس کی شکایت پہنچادیں لیکن اپنی اطاعت میں کبھی فرق نہ آنے دیں.حدیث میں آیا ہے، حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے امیر میں ایسی بات دیکھی جسے وہ نا پسند کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ صبر کرے یاد

Page 136

131 $2004 خطبات مسرور رکھو کہ جس نے جماعت سے بالشت بھر بھی انحراف کیا اور وہ اسی حالت میں مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی.(مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن) ہمیں ان حدیثوں میں مختلف صورتوں میں اور مختلف موقعوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے.اور ساتھ یہ بھی کہ اگر صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا قرب پاؤ گے، میری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے.لیکن جب دعا کرنے کے طریقے اور سیلقے سکھائے تو یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے صبر مانگو بلکہ فرمایا کہ مجھ سے میرافضل مانگو اور ہمیشہ ابتلاؤں سے بچنے کی دعا مانگو.اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے.ترمذی میں روایت ہے حضرت معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دعا کرتے ہوئے سنا وہ کہ رہا تھا کہ اے اللہ ! میں تجھ سے تیری نعمت کی انتہا کا طلب گار ہوں.آپ نے اس سے فرمایا نعمت کی انتہا سے کیا مراد ہے اس شخص نے جواب دیا میری اس سے مراد ایک دعا ہے جو میں نے کی ہوئی ہے اور جس کے ذریعے میں خیر کا امیدوار ہوں.آپ نے فرمایا نعمت کی ایک انتہاء یہ ہے کہ جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے اور آگ سے نجات عطا ہو.اسی طرح آپ نے ایک اور شخص کی دعاستی جو کہ رہا تھا یا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ تو آپ نے فرمایا تمہاری دعا قبول ہو گئی اب مانگ جو مانگنا ہے.تو اس طرح اللہ کا واسطہ دے کر مانگا جا رہا ہے.اسی طرح آپ نے ایک اور شخص کو سنا جو دعا کر رہا تھا.اے میرے اللہ ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں آپ نے فرمایا تم نے اللہ تعالیٰ سے ابتلاء مانگا ہے.( صبر مانگنے کا مطلب یہی ہے کہ ابتلا مانگا ہے ) یعنی کوئی ابتلاء آئے گا تو صبر کرو گے.خدا سے عافیت کی دعا کرو.(ترمذى كتاب الدعوات).آنحضرت نے فرمایا اگر مانگنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعامانگا کرو.کبھی اس طرح دعا نہ مانگو کہ میں صبر مانگتا ہوں.یہ تو بعض ذاتی معاملات کے بارے میں بتایا.اب جماعتی ابتلا ء ہے، مخالفین کی طرف

Page 137

$2004 132 خطبات مسرور سے جماعت پر مختلف وقتوں میں آتے رہتے ہیں.ان میں بھی ہر احمدی کو ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہئے.ہمیشہ صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مد مانگنی چاہئے ، پاکستان میں تو یہ حالات تقریباً جب سے پاکستان بنا ہے احمدیوں کے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ احمدیوں نے صبر اور حو صلے سے ان کو برداشت کیا ہے.اور کبھی اپنے ملک سے وفا میں کمی نہیں آنے دی، یا اس وجہ سے ایک قدم بھی وفا میں پیچھے نہیں ہٹے.اور جب بھی ملک کو ضرورت پڑی.سب سے پہلے احمدیوں کی گردنیں کٹیں.اور گردن کٹوانے کے لئے سب سے پہلے یہی آگے ہوئے.اور آئندہ بھی ملک کو ضرورت پڑے گی تو احمدی ہی صف اول میں شمار ہوں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.اسی طرح آج کل بنگلہ دیش میں بھی احمدیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی فتنہ وفساد اٹھتا رہتا ہے.چند سال پہلے مسجد میں بم پھٹا وہاں بھی چند ا حمدی شہید ہوئے اور گزشتہ سال بھی مخلص احمدی شاہ عالم صاحب کو شہید کیا گیا.تو ایک مستقل تلوار یہاں بھی احمدیوں پر لٹکی ہوئی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے حوصلے اور صبر سے کام لے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان پر بھی اپنا فضل فرمائے.جتنا چاہیں یہ ہم پر ظلم کر لیں اور جہاں جہاں بھی اور جس جس ملک میں ظلم کرنا چاہتے ہیں کر لیں لیکن احمدی ہر جگہ اپنے ملک کے ہمیشہ وفادار ہی ہوں گے.اور جتنا دعوی کرنے والے یہ مخالفین ہیں اپنی وفاؤں کے ان سے زیادہ وفادار ہوں گے.اور الہی جماعتوں سے دشمنی اور مخالفت کا سلوک ہمیشہ رہا ہے.سب سے زیادہ تو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سلوک ہوا اور آپ نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا، طائف کا واقعہ اس کی یاد دلاتا ہے کس طرح پتھر برسائے گئے لیکن آپ کا سلوک اس کے بعد کیا تھا.ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ نے بتایا کہ انہیں ام المومنین حضرت عائشہ نے بتایا کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ پر جنگ احد سے سخت دن بھی

Page 138

$2004 133 خطبات مسرور کبھی آیا ہے.اس پر آنحضور نے فرمایا مجھے تیری قوم سے بڑے مصائب پہنچے ہیں اور عقبہ والے دن مجھے سب سے زیادہ تکلیف پہنچی تھی.جب میں نے اپنا دعویٰ عبدیالیل بن کلال کے سامنے پیش کیا تو اس نے میری خواہش کے مطابق مجھے جواب نہ دیا اور لڑکوں کو میرے پیچھے لگا دیا پھر میں غمزدہ چہرے کے ساتھ قرن الثعالب نامی مقام تک آیا میں نے اپنا سر او پراٹھایا تو کیا دیکھا کہ میرے اوپر ایک بادل ساید میگن ہے.میں نے غور سے دیکھا تو اس میں جبرئیل تھے.اس نے مجھے پکارا اور کہا اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کے تیرے بارے میں تبصرے اور جواب سن لئے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ تو ان کے بارے میں اسے جو چاہے حکم دے.پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے پکارا، مجھے سلام کہا پھر کہا اے محمد ! آپ کو ان کے بارے میں اختیار ہے آپ چاہتے ہیں کہ میں ان پر یہ دونوں پہاڑ گرا دوں؟ تو میں ایسا کرنے پر تیار ہوں.مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، میں ان کو تباہ کرنا پسند نہیں کرتا بلکہ میں تو یہ اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں میں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو بھی شریک قرار نہ دیں.(بخارى كتاب بدء الخلق باب ذكر الملائكة صلوات الله عليهم) ہمیں بھی انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.تیرہ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا اس عرصہ میں آپ نے ( یعنی آنحضرت می ﷺ نے ) جس قدر دکھ اٹھائے ان کا بیان بھی آسان نہیں ہے.قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذارسانی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جاتی تھی.اور ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر و استقلال کی ہدایت ہوتی اور بار بار حکم ہوتا تھا کہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے تو بھی صبر کر اور آنحضرت ﷺ کمال صبر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں ست نہ ہوتے تھے.بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا اور اصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا صبر پہلے نبیوں جیسا نہ تھا

Page 139

$2004 134 خطبات مسرور کیونکہ وہ تو ایک محدودقوم کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے اس لئے ان کی تکالیف اور ایذارسانیاں بھی اسی حد تک محدود ہوتی تھیں لیکن اس کے مقابلے میں آنحضرت کا صبر بہت ہی بڑا تھا کیونکہ سب سے اول تو اپنی ہی قوم آپ ﷺ کی مخالف ہوگئی اور ایذا رسانی کے در پہ ہوئی اور عیسائی بھی دشمن ہو گئے.(ملفوظات جلد چهارم صفحه ٥٣ الحكم ٢٤ و ٣٠ ستمبر ١٩٠٤) پھر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرت ﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے.چنا نچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معا دوست، رشتہ دار، اور برادری الگ ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بہن بھائی مخالف ہو جاتے ہیں.السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے.اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یا درکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے.تم انبیاء اور رسل سے زیادہ نہیں ہو، ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئے اور یہ اسی لئے آتی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقع ملے.دعاؤں میں لگے رہو ، پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء اور رسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیار کرو تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا.وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے.ورنہ چاہئے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا.تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے میں شمولیت اختیار کر لی ہے.ان سے دنگایا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو کہ:.و اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے.تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے.دیکھو میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں

Page 140

$2004 135 خطبات مسرور سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو، بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو.بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسدانہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا.تو خود سے شرم آ جاتی ہے.اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو.صبر کا ہتھیا را ایسا ہے کہ تو پوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتا ہے“.(ملفوظات جلد چهارم صفحه ١٥٨،١٥٧ ـ الحكم ٣٠ ستمبر ١٩٠٤ء) پھر آپ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : فتنہ کی بات نہ کرو بشر نہ کرو، گالی پر صبر کرو کسی کا مقابلہ نہ کرو جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ.سچے دل سے ہر حکم کی اطاعت کرو کہ خدا تعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا.مقدمات میں سچی گواہی دو.اس سلسلے میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل ، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے دنیا ختم ہونے پر آئی ہوئی ہے.(ملفوظات جلد.سوم صفحه ٦٢٠، ٦٢١ - ١٦ مارچ ١٩٠٤) اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 141

$2004 136 خطبات مسرور

Page 142

$2004 137 8 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی کو معاف کرو گے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں تمہاری عزت پہلے سے زیادہ قائم کرے گا ۲۰ فروری ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۰ تبلیغ ۱۳۸۳ هجری ششی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن آپس میں معاف نہ کرنے کی عادت معاشرے کے امن وسکون کو برباد کر دیتی ہے، یہ اعلیٰ اخلاق اگر آج کوئی دکھلا سکتا ہے تو وہ احمدی ہی ہے جنہوں نے زمانے کے امام کے ہاتھ پر تجدید بیعت کی ہے درگزر کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے تا کہ معاشرے میں صلح جوئی کی بنیاد پڑے اپنے ملازمین اور ماتحتوں سے درگزر کرنے کی ہدایت صلى الله نبی اکرم ﷺ کے عفو عام کے حسین نظارے حضرت اقدس مسیح موعود کے عفو و درگزر کی مثالیں ہے.اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان ، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو سے تقویٰ سرایت کر جاوے

Page 143

خطبات مسرور $2004 138 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴾ (سورة ال عمران آیت : ۱۳۵) معاشرے میں جب برائیوں کا احساس مٹ جائے تو ایسے معاشرے میں رہنے والا ہر شخص کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہوتا ہے اور اپنے نفس کے بارے میں ، اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ حساس ہوتا ہے اور دوسرے کی غلطی کو ذرا بھی معاف نہیں کرنا چاہتا، چنانچہ دیکھ لیں، آج کل کے معاشرے میں کسی سے ذراسی غلطی سرزد ہو جائے تو ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے چاہے اپنے کسی قریبی عزیز سے ہی ہو اور بعض لوگ کبھی بھی اس کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اور اسی وجہ سے پھر خاوند بیوی کے جھگڑے، بہن بھائیوں کے جھگڑے، ہمسایوں کے جھگڑے، کاروبار میں حصہ داروں کے جھگڑے، زمینداروں کے جھگڑے ہوتے ہیں حتی کہ بعض دفعہ راہ چلتے نہ جان نہ پہچان ذراسی بات پہ جھگڑا شروع ہو جاتا ہے.مثلاً ایک راہ گیر کا کندھارش کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ٹکرا گیا، کسی پر پاؤں پڑ گیا تو فوراً دوسرا آنکھیں سرخ کر کے کوئی نہ کوئی سخت بات اس سے کہ دیتا ہے پھر دوسرا بھی کیونکہ اسی معاشرے کی پیداوار ہے، اس میں بھی برداشت نہیں ہے، وہ بھی اسی طرح کے الفاظ الٹا کے اس کو جواب دیتا ہے.اور بعض دفعہ پھر بات بڑھتے بڑھتے سر پھٹول اور خون خرا بہ شروع ہو جاتا ہے.پھر بچے کھیلتے کھیلتے لڑ پڑیں تو بڑے بھی بلاوجہ بیچ میں کود پڑتے ہیں اور پھر وہ حشر ایک دوسرے کا

Page 144

$2004 139 خطبات مسرور ہو رہا ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ.اور اس معاشرے کی بے صبری اور معاف نہ کرنے کا اثر غیر محسوس طریق پر بچوں پر بھی ہوتا ہے، گزشتہ دنوں کسی کالم نویس نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ایک باپ نے یعنی اس کے دوست نے اپنے ہتھیار صرف اس لئے بیچ دیئے کہ محلے میں بچوں کی لڑائی میں اس کا دس گیارہ سال کا بچہ اپنے ہم عمر سے لڑائی کر رہا تھا کچھ لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا دیا.اس کے بعد وہ بچہ گھر آیا اور اپنے باپ کا ریوالور یا کوئی ہتھیار لے کے اپنے دوسرے ہم عمر کو قتل کرنے کے لئے باہر نکلا.اس نے لکھا ہے کہ شکر ہے پستول نہیں چلا ، جان بچ گئی.لیکن یہ ماحول اور لوگوں کے رویے معاشرے پر اثر انداز ہورہے ہیں.اور معاشرے کی یہ کیفیت ہے اس وقت کہ بالکل برداشت نہیں معاف کرنے کی بالکل عادت نہیں، اور یہ واقعہ جو میں نے بیان کیا ہے پاکستان کا ہے لیکن یہاں یورپ میں بھی ایسے ملتے جلتے بہت سے واقعات ہیں جن کی مثالیں ملتی ہیں.بعض دفعہ اخباروں میں آجاتا ہے.تو جب اس قسم کے حالات ہوں تو سوچیں کہ ایک احمدی کی ذمہ داری کس حد تک بڑھ جاتی ہے.اپنے آپ کو، اپنی نسلوں کو اس بگڑتے ہوئے معاشرے سے بچانے کے لئے بہت کوشش کرنے کی ضرورت ہے.اور ہمارے لئے کس قدرضروری ہو جاتا ہے کہ ہم قرآنی تعلیم پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کریں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو آسائش میں خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی ، اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.اس میں احسان کرنے والوں کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ جب تم یہ نہیں دیکھو گے کہ تمہاری ضروریات پوری ہوتی ہیں کہ نہیں تمہیں مالی کشائش ہے یا نہیں اور ہر حال میں اپنے بھائیوں کا خیال رکھو گے تو نیکی کرنے کی روح پیدا ہوگی اور پھر فرمایا کہ ایک بہت بڑا خلق تمہارا غصے کو دبانا ہے.اور لوگوں سے عفو کا سلوک کرنا ہے اور ان سے درگزر کرنا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگوں

Page 145

140 $2004 خطبات مسرور سے عفو کا سلوک کرو گے معاف کرنے کی عادت ڈالو گے، اس لئے کہ معاشرے میں فتنہ نہ پھیلے، اس لئے کہ تمہارے اس سلوک سے شاید جس کو تم معاف کر رہے ہو اس کی اصلاح ہو جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں سے میں محبت کرتا ہوں.آج کل کے معاشرے میں جہاں ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے یہ خلق تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور بھی پسندیدہ ٹھہرے گا اور آج اگر یہ اعلیٰ اخلاق کوئی دکھا سکتا ہے تو احمدی ہی ہے.جنہوں نے ان احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لئے زمانے کے امام کے ہاتھ پر تجدید بیعت کی ہے.اللہ تعالیٰ نے عفو کے مضمون کی اہمیت کے پیش نظر مختلف جگہوں پر قرآن کریم میں اس بارے میں احکامات دیئے ہیں، مختلف معاملات کے بارے میں مختلف سورتوں میں.میں ایک دو اور مثالیں پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ دوسری جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ ﴾ (سورۃ الاعراف ۲۰۰) یعنی عفو اختیار کر ، معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر.یہاں فرمایا معاف کرنے کا خُلق اختیار کرو اور اچھی باتوں کا حکم دو اگر کسی سے زیادتی کی بات دیکھو تو درگزر کرو.فوراً غصہ چڑھا کر لڑنے بھڑنے پر تیار نہ ہو جایا کرو اور ساتھ یہ بھی کہ جو زیادتی کرنے والا ہے اس کو بھی آرام سے سمجھاؤ کہ دیکھو تم نے ابھی جو باتیں کی ہیں مناسب نہیں ہیں اور اگر وہ باز نہ آئے تو وہ جاہل شخص ہے، تمہارے لئے یہی مناسب ہے کہ پھر ایک طرف ہو جاؤ چھوڑ دواس جگہ کو اور اس کو بھی اس کے حال پر چھوڑ دو.دیکھیں کہ یہ کتنا پیارا حکم ہے اگر کسی طرح عفوا ختیار کیا جائے تو سوال ہی نہیں ہے کہ معاشرے میں کوئی فتنہ و فساد کی صورت پیدا ہو.لیکن یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح تو پھر فتنہ پیدا کرنے والے اور فساد کرنے والوں کو کھلی چھٹی مل جائے گی ، وہ شرفاء کا جینا حرام کر دیں گے.اور شریف آدمی پرے ہٹ جائے گا.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ فساد کرنے والے معاشرے میں

Page 146

$2004 141 خطبات مسرور رہیں اور فساد بھی کرتے رہیں، ان کی اصلاح بھی تو ہونی چاہئے اگر تمہارا معاف کرنا ان کو راس نہیں آتا تو پھر ان کی اصلاح کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بھی چھوڑ انہیں ہے دوسری جگہ حکم فرمایا ہے.کہ وَجَزَاؤُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا.فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ.إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ (سورۃ الشوریٰ آیت (۱۴) بدی کا بدلہ اتنی ہی بدی ہوتی ہے اور جو معاف کرے اور اصلاح کو مد نظر رکھے اس کا بدلہ دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوتا ہے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.اب ہر کوئی تو بدی کا بدلہ نہیں لے سکتا کیونکہ اگر یہ دیکھے کہ فلاں شخص کی اصلاح نہیں ہو رہی باز نہیں آرہا تو خود ہی اگر اس کی اصلاح کی کوشش کی جاے گی تو پھر تو اور فتنہ و فساد معاشرے میں پیدا ہو جائے گا.یہ تو قانون کو ہاتھ میں لینے والی باتیں ہو جائیں گی.اس کی وجہ سے ہر طرف لاقانونیت پھیل جائے گی.اس کے لئے بہر حال ملکی قانون کا سہارا لینا ہوگا، قانون پھر خود ہی ایسے لوگوں سے نبٹ لیتا ہے.اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر ایسے، اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے والے ، لڑائی کرنے والے، فتنہ وفساد پیدا کرنے والے، لاقانونیت پھیلانے والے جب قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو پھر صلح کی طرف رجوع کرتے ہیں، سفارشیں آ رہی ہوتی ہیں کہ ہمارے سے صلح کر لو تو فرمایا کہ اصل میں تو تمہارے مد نظر اصلاح ہے اگر سمجھتے ہو کہ معاف کرنے سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے تو معاف کر دو لیکن اگر یہ خیال ہو کہ معاف کرنے سے اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی یہ تو پہلے بھی یہی حرکتیں کرتا چلا جارہا ہے اور پہلے بھی کئی دفعہ معاف کیا جا چکا ہے لیکن اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ، نا قابل اصلاح شخص ہے تو پھر بہر حال ایسے شخص کو سزاملنی چاہئے.اور اس کے مطابق جماعتی نظام میں بھی تعزیر کا، سزا کا طریق رائج ہے، جب اللہ تعالیٰ کے احکامات کو توڑو گے، جب دوسروں کے حقوق غصب کرو گے جب بھائی کی زمین یا جائیداد پر قبضہ کرنے کی کوشش کرو گے، جب بیوی پر ظلم کرو گے تو نظام کی طرف سے تو سزا ملے گی.جس کو سزا ملی ہو وہ درخواستیں لکھنا شروع کر دیتے ہیں

Page 147

$2004 142 خطبات مسرور کہ اللہ تعالیٰ تو معاف کرنے کو پسند کرتا ہے.فوراً معاف کرنے والا حکم ان کے سامنے آ جاتا ہے اور اس کے مفسر بن جاتے ہیں.اگلی بات بھول جاتے ہیں کہ اصلاح کی خاطر سزا دینا بھی اللہ کا حکم ہے.ہراحمدی کو ہر وقت یہ یا درکھنا چاہئے کہ اگر اس بھیا نک معاشرے میں اس نے بھی اپنا رویہ ٹھیک نہ کیا تو پھر حضرت اقدس مسیح موعود کے ارشاد کے مطابق وہ جماعت سے کاٹا جائے گا.بہر حال اصلاح کی خاطر عفو سے کام لینا مستحسن ہے.لیکن اگر بدلہ لینا ہے تو ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے.یہ قانون کا کام ہے کہ اصلاح کی خاطر قانونی کارروائی کی جائے یا اگر نظام جماعت کے پاس معاملہ ہے تو نظام خود دیکھے گا ہر ایک کو دوسرے پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت بہر حال نہیں ہے.جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزر کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں صلح جوئی کی بنیاد پڑے صلح کی فضا پیدا ہو.عموماً جو عادی مجرم نہیں ہوتے وہ درگزر کے سلوک سے عام طور پر شرمندہ ہو جاتے ہیں اور اپنی اصلاح بھی کرتے ہیں اور معافی بھی مانگ لیتے ہیں.اس ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے فرماتے ہیں کہ مومنون کو یہ عام ہدایت دی ہے کہ انہیں دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنا اور ان کے قصوروں سے درگزر کرنا چاہئے مگر معاف کرنے کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے.بعض لوگ نادانی سے ایک طرف نکل گئے ہیں اور بعض دوسری طرف.وہ لوگ جن کا کوئی قصور کرتا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجرم کو سزا دینی چاہئے تا کہ دوسروں کو عبرت ہو اور جو قصور کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ معاف کرنا چاہئے خدا خود بھی بندے کو معاف کرتا ہے.تو جب خدا بندے کو معاف کرتا ہے تم بھی بندوں کے حقوق ادا کرو نا.وہی سلوک تمہارا بھی بندوں کے ساتھ ہونا چاہئے.مگر یہ سب خود غرضی کے فتوے ہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا معاف کرتا ہے تو بندے کو بھی معاف کرنا چاہئے وہ اس قسم کی بات اسی وقت کہتا ہے جب وہ خود مجرم ہوتا ہے.اگر مجرم نہ ہوتا تو ہم اس کی بات مان لیتے لیکن جب اس کا کوئی قصور کرتا

Page 148

$2004 143 خطبات مسرور ہے تب وہ یہ بات نہیں کہتا، اس طرح جو شخص اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاف نہیں کرنا چاہئے بلکہ سزاد ینی چاہئے وہ بھی اسی وقت یہ بات کہتا ہے جب کوئی دوسرا شخص اس کا قصور کرتا ہے لیکن جب وہ خود کسی کا قصور کرتا ہے تب یہ بات اس کے منہ سے نہیں نکلتی.اس وقت وہ یہی کہتا ہے کہ خدا جب معاف کرتا ہے تو بندہ کیوں معاف نہ کرے.پس یہ دونوں فتوے خود غرضی پر مشتمل ہیں.اصل فتویٰ وہی ہوسکتا ہے جس میں کوئی اپنی غرض شامل نہ ہو اور وہ وہی ہے جو قر آن کریم نے دیا ہے کہ جب کسی شخص سے کوئی جرم سرزد ہو تو تم یہ دیکھو کہ سزا دینے میں اس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا معاف کرنے میں.(تفسیر کبیر جلد ٦ صفحه (٢٨٥ اب میں اس بارے میں احادیث سے کچھ روشنی ڈالتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی بیان کروں گا.حضرت معاذ بن انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والوں سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی تو دے اور جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے تو درگزر کر.( مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۴۶۱) فرمایا کہ تمہارا مقام اس طرح بنے گا، تم ہر اس شخص سے جو کسی بھی طریق سے تمہارے ساتھ برا سلوک کرتا ہے، تمہارے سے تعلق توڑتا ہے، تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، تمہارے ساتھ لڑنے مارنے پر آمادہ ہے تمہیں طاقت ہے تو پھر بھی تم اس سے درگزر کر و اور یہی نیکی کا اعلیٰ معیار ہے.پھر فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ اگر تم معاف کر دو گے تو تمہاری اس حرکت کی فضیلت صرف میری نظر میں ہے یا خدا کی نظر میں ہے بلکہ یاد رکھو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی کو معاف کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی تمہاری عزت پہلے سے زیادہ قائم کرے گا کیونکہ عزت اور ذلت سب خدا کے ہاتھ میں ہے.(مسند احمد بن حنبل)

Page 149

خطبات مسرور 144 $2004 حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے.جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے.(مسلم کتاب البر والصلة باب استحباب العفو والتواضع) پھر ایک روایت ہے.حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرا ایک خادم ہے جو غلط کام کرتا ہے اور ظلم کرتا ہے کیا میں اسے بدنی سزادے سکتا ہوں ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس سے ہر روز ستر مرتبہ درگزر کر لیا کرو.(م) رو.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۹۰ مطبوعه بيروت) جو اپنے ملازمین پہ بلاوجہ تختیاں کرتے ہیں ان کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے.جوا ماتحتوں سے حسن سلوک نہیں کرتے ان کو بھی اس بات پر نظر رکھنی چاہئے.ایک اور روایت حضرت ابو بکر کے بارے میں ہے.حضرت ابوبکر سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دوست ،ساتھی اور رفیق نہیں تھا.ہجرت کے دوران بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ رہے اور قربانیاں کیں.آنحضرت ﷺ آپ کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے، ایمان بھی لائے تو بغیر کسی دلیل کے ، تو ان سب باتوں کے با وجود کہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت تعلق اور پیار تھا، اور آپ تحلق عظیم پر قائم تھے اس لئے اپنے قریبیوں سے بھی اعلیٰ اخلاق کی توقع کرتے تھے.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں ایک آدمی نے حضرت ابوبکر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں برا بھلا کہنا شروع کیا حضور اس کی باتیں سن کر تعجب کے ساتھ مسکرا رہے تھے، جب اس شخص نے بہت کچھ کہ لیا تو حضرت ابو بکر نے اس کی ایک آدھ

Page 150

$2004 145 خطبات مسرور بات کا جواب دیا.اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا اور آپ مجلس سے تشریف لے گئے.حضرت ابو بکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، عرض کیا اے اللہ کے رسول ! وہ آپ کی موجودگی میں مجھے برا بھلا کہ رہا تھا اور آپ بیٹھے مسکرا رہے تھے لیکن جب میں نے جواب دیا تو آپ غصے ہو گئے اس پر آپ نے فرمایا وہ گالی دے رہا تھا تم خاموش تھے تو خدا کا ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا لیکن جب تم نے اس کو الٹ کر جواب دیا تو فرشتہ چلا گیا اور شیطان آ گیا.(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه (۱۷۷ اور جب شیطان آ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں بیٹھنے کا کوئی مطلب نہیں تھا.یہ ہیں وہ معیار جو آپ نے اپنے صحابہ میں پیدا کئے اور پیدا کرنے کی کوشش کی اور یہی ہیں وہ معیار جن کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں آخرین میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.پھر ایک روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمرو سے رسول اللہ کی توریت میں بیان فرمودہ علامت پوچھی گئی تو انہوں نے بیان کیا کہ وہ نبی تند خو اور سخت دل نہ ہوگا.نہ بازاروں میں شور کر نے والا ، برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دے گا بلکہ عفو اور بخشش سے کام لے گا.(بخاری کتاب البیوع باب كراهية الشعب فى السوق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس بات کی گواہ ہے بلکہ آپ نے تو اپنے جانی دشمنوں تک کومعاف فرمایا ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا.(مسلم کتاب الفضائل باب مباعدته صلى الله عليه وسلم للانام ۲۰ صفحه (۲۹ اب دیکھیں وہ یہودیہ جس نے گوشت میں زہر ملا کر آپ کو کھلانے کی کوشش کی تھی اور آپ کے ساتھیوں نے کھایا بھی ، اس کا اثر بھی ہوا، بہر حال آپ نے اسے بھی معاف فرما دیا.

Page 151

$2004 146 مسرور حضرت معاذ بن رفاعہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق منمنبر پر چڑھے اور پھر بے اختیار رو دیئے اور فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سال جب منبر پر چڑھے تو رونے لگے اور فرمایا اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت طلب کرو کیونکہ یقین کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں جو کسی کومل سکتی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے حق میں بددعا کرنے والوں کو کہا میں دنیا میں لعنت کے لئے نہیں بلکہ رحمت کے لئے آیا ہوں.صله الله (صحیح بخاری بعث النبي ) جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو ذاتی دشمنوں پر بھی محیط تھا.اس لئے دشمنوں کو بھی آپ کے اس خلق کا پتہ تھا کہ آپ میں یہ بہت اعلیٰ خلق ہے.اور اسی وجہ سے ان کو جرات پیدا ہوتی تھی کہ وہ باوجود دشمنیوں کے آپ کے سامنے آکے معافی مانگ لیا کرتے تھے.ایک مثال دیکھیں کہ ہبار بن الاسود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب پر مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت نیزے سے قاتلانہ حملہ کیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ان کا حمل ضائع ہو گیا اور بالآخر یہی چوٹ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی.اس جرم کی بنا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا فیصلہ فرمایا تھا.فتح مکہ کے موقع پر یہ بھاگ کر کہیں چلا گیا مگر بعد میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لائے تو صبار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے عرض کیا کہ پہلے تو میں آپ سے ڈر کر فرار ہو گیا تھا مگر پھر آپ کے عفو اور رحم کا خیال مجھے آپ کے پاس واپس لے آیا ہے.اے خدا کے نبی! ہم جاہلیت اور شرک میں تھے خدا نے ہمیں آپ کے ذریعے ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا.میں اپنی زیادتیوں کا اعتراف کرتا ہوں پس میری جہالت سے صرف نظر فرمائیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو بھی معاف فرمایا ، بخش دیا اور فرمایا جا اے ھبار! میں نے تجھے معاف

Page 152

$2004 147 خطبات مسرور کیا.اللہ کا یہ احسان ہے جس نے تمہیں قبول اسلام کی توفیق دی.(السيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ١٠٦ - مطبوعه بيروت اپنی بیٹی کے قاتل کو معاف کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.لیکن کیونکہ آپ عفو کی تعلیم دیتے تھے اس لئے خود کر کے دکھایا کیونکہ اصل مقصد تو اصلاح ہے جب آپ نے دیکھا کہ اس کی اصلاح ہو گئی ہے تو بیٹی کا خون بھی معاف کیا اور بعض حالات میں دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی.وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک قاتل کو پیش کیا گیا جس کے گلے میں پٹہ ڈالا گیا.راوی کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے وارث کو بلوایا اور فرمایا کیا تم معاف کرتے ہو؟ اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا کیا تم دیت لو گے؟ اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا کیا تم اسے قتل کرو گے؟ اس نے کہا جی ہاں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے جاؤ.جب وہ شخص قاتل کو لے کر جانے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار فرمایا کیا تم معاف کرتے ہو؟ اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا کیا تم دبیت لو گے؟ اس نے کہا نہیں ، آپ نے فرمایا کیا تم اسے قتل ہی کرو گے؟ اس نے کہا جی حضور ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے جاؤ، چوتھی مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عفو کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم اسے معاف کر دیتے تو یہ اپنے گناہ اور اپنے مقتول ساتھی کے گناہ کے ساتھ لوٹتا.(سنن ابی داؤد کتاب الديات باب الامام يامر بالعفو) پھر ایک اور اعلیٰ مثال دیکھیں.عبداللہ بن سعد ابن ابی سرح کا تب وحی تھا مگر بغاوت اور ارتداد اختیار کرتے ہوئے کفار مکہ سے جاملا اور وہاں جا کر کھلے بندوں یہ کہنے لگا کہ جو میں کہتا تھا اس کے مطابق وحی بنا کر لکھ دی جاتی تھی (نعوذ باللہ ).اس کی ایسی حرکتوں پر اسے واجب القتل قرار دیا گیا اور بعض مسلمانوں نے یہ نذر مانی کہ اس دشمن خدا اور رسول کو قتل کریں گے مگر اس نے اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان غنی کی پناہ میں آ کر معافی کی درخواست کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 153

$2004 148 خطبات مسرور نے پہلے تو اعراض فرمایا مگر حضرت عثمان کی اس بار بار کی درخواست پر کہ میں اسے امان دے چکا ہوں حضور نے بھی اسے معاف فرما دیا اور اس کی بیعت قبول فرمالی.بیعت کی قبولیت کے بعد عبداللہ اپنے جرائم کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آنے سے کتراتا تھا مگر جب معاف کر دیا تو پھر دیکھیں کیا رویہ ہے.آپ نے اسے نہایت محبت سے پیغام بھجوایا کہ اسلام قبول کرنا اس سے پہلے کے گناہ معاف کر دیتا ہے اس لئے تم شرمندہ ہو کے گھبراؤ نہ، چھو نہیں.(السيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ١٠٤،١٠٢ - بيروت) پھر ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے اسلام کے خلاف جنگوں کے دوران کفار قریش کو اکسانے اور بھڑ کانے کا فریضہ خوب ادا کیا تھا.وہ ابھارنے کے لئے اشعار پڑھتی تھی.مردوں کو انگیخت کیا کرتی تھی کہ اگر فتح مند ہو کے لوٹو گے تو تمہارا استقبال کریں گے ورنہ نہیں ہمیشہ کی جدائی اختیار کر لیں گی.(السيرة النبيوية لابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۹ - دار المعرفة بيروت جنگ احد میں اسی ہند نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کی نعش کا مثلہ کیا ، اس نے ان کے ناک، کان اور دیگر اعضاء کاٹ کر لاش کا حلیہ بگاڑ دیا اور ان کا کلیجہ نکال کر چبا لیا.فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی بیعت لے رہے تھے تو یہ ہند بھی نقاب اوڑھ کر آگئی، کیونکہ اس کے جرائم کی وجہ سے اسے واجب القتل قرار دیا گیا تھا.بیعت کے دوران اس نے بعض شرائط بیعت کے بارے میں استفسار کیا.نبی کریم پہچان گئے کہ ایسی دیدہ دلیری ہند کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتی تو آپ نے پوچھا کیا تم ابوسفیان کی بیوی ہند ہو؟ اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ ! اب تو میں دل سے مسلمان ہو چکی ہوں جو پہلے گزر چکا آپ اس سے درگز رفرما ئیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک فرمائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند کو بھی معاف فرما دیا اور ہند پر آپ کے عفو کرم کا ایسا اثر ہوا کہ اس کی کایا ہی پلٹ گئی.واپس گھر جا کر اس نے تمام بت تو ڑ دیئے.اسی شام جب اس نے بیعت کی ہند نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ضیافت کا

Page 154

$2004 149 خطبات مسرور اہتمام بھی کیا اور خاص طور پر دو بکرے ذبح کروائے اور بھون کر حضور کی خدمت میں بھجوائے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آج کل جانور کم ہیں اس لئے حقیر سا تحفہ بھیج رہی ہوں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو د عادی اور عفو کا یہ سلوک دیکھیں کہ نہ صرف معاف کیا بلکہ اس کو دعا بھی دی.کہ اے اللہ ہند کے بکریوں کے ریوڑ میں بہت برکت ڈال دے، چنانچہ اس دعا کے نتیجے میں بہت برکت پڑی اور اس سے بکریاں سنبھالی نہ جاتی تھیں.(سیرۃ الحلبیہ جلد3 صفحه ٤٧٠٤٣ مطبوعه بيروت) کعب بن زهیر ایک مشہور عرب شاعر تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان خواتین کی عزت پر حملہ کرتے ہوئے گندے اشعار کہا کرتے تھے اس بنا پر رسول اللہ نے اس کے قتل کا حکم دیا تھا.کعب کے بھائی نے اسے لکھا کہ مکہ فتح ہو چکا ہے اس لئے تم آ کر رسول اللہ سے معافی مانگ لو، چنانچہ وہ مدینے آکر اپنے جاننے والے کے پاس آکر ٹھہرا اور فجر کی نماز نبی کریم کے ساتھ مسجد نبوی میں جا کر ادا کی.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا تعارف کرائے بغیر یہ کہا کہ یا رسول اللہ ! کعب بن زہیر تائب ہو کر آیا ہے اور معافی کا خواستگار ہے اگر اسے اجازت ہو تو اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے.(آپ اس کو شکل سے نہیں پہچانتے تھے ) آپ نے فرمایا ہاں.تو وہ کہنے لگا کہ میں ہی کعب بن زحیر ہوں یہ سنتے ہی ایک انصاری کیونکہ اس کے قتل کا حکم تھا اس کو قتل کرنے کے لئے اٹھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اب چھوڑ دو یہ معافی کا خواستگار ہو کر آیا ہے.پھر اس نے ایک قصیدہ آنحضرت کی خدمت میں پیش کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے اپنی چادر انعام کے طور پر اس کے اوپر ڈال دی اور اس اور اس طرح یہ دشمن بھی معافی کے ساتھ ساتھ انعام لے کر واپس آیا.(السيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ٤٣) پھر عبد اللہ بن ابی بن سلول نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کیا زیادتیاں نہیں کیں ، ہر ایک جانتا ہے لیکن آپ نے اسے بھی معاف فرمایا، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس

Page 155

$2004 150 خطبات مسرور کی تمام تر گستاخیوں اور شرارتوں کے باوجود اس کی وفات پر اس کا جنازہ پڑھایا حضرت عمرؓ کو اس بات کا بڑا غصہ تھا آپ بار بار اصرار کیا کرتے تھے کہ حضور اس کا جنازہ نہ پڑھائیں.اور حضرت عمرؓ اس کی زیادتیاں بھی آپ کے سامنے پیش کیا کرتے تھے.مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اے عمر! پیچھے ہٹ جاؤ مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے استغفار کرو یا نہ کرو برابر ہے اگر تم ستر مرتبہ بھی استغفار کرو تو اللہ ان کو نہیں بخشے گا.پھر فرمایا کہ اگر مجھے پتہ ہو کہ ستر سے زائد مرتبہ استغفار سے یہ بخشے جائیں گے تو میں ستر سے زائد بار استغفار کروں.پھر بھی آپ نے اس کا جنازہ پڑھایا اور جنازہ کے ساتھ قبر تک تشریف لے گئے.(بخاری کتاب الجنائز بان ما يكره من الصلاة على المنافقين...آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عضو کی تو بے انتہا مثالیں ہیں کس کس کو بیان کیا جائے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے.یہ اس تعلیم کا عملی نمونہ تھا جسے لے کر آپ آئے تھے.اس تعلیم کو آج پھر ہر احمدی نے اس معاشرے میں جاری کرنا ہے اپنے پہ لاگو کرنا ہے.کیونکہ زمانے کے امام کے ساتھ ہم نے عہد کیا ہے کہ اس تعلیم کا عملی نمونہ بن کر دکھا ئیں گے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کی طرف جھکتے ہوئے اس طرف بہت زیادہ توجہ دیں.درگز ر اور عفو کی عادت ڈالیں.یہ نہیں ہے کہ چونکہ جماعت میں قضا کا یا امور عامہ کا یا اصلاح و ارشاد یا تربیت کا شعبہ قائم ہے اس لئے ضرور ان کو مصروف رکھنا ہے.ذرا ذراسی باتوں کے جھگڑے لے کر ان تک پہنچ جاتا ہے.میرے خیال میں تو ذراسی بھی برداشت کا مادہ پیدا ہو جائے تو آدھے سے زیادہ مسائل اور جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں گو دوسروں کی نسبت یہ جھگڑے بہت کم ہوتے ہیں.ان میں سے بھی آدھے جھڑ سکتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود حضرت ابو بکٹر کے نمونے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی ، اس

Page 156

$2004 151 خطبات مسرور تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے اور ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ ابو بکر کے گھر سے دو وقت روٹی کھایا کرتے تھے.حضرت ابو بکڑ نے اس کی خطا پر قسم کھائی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا.اس پر یہ آیت نازل ہوئی وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ.وَاللَّهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾.اور پھر حضرت ابوبکر نے اپنے عہد کو توڑ دیا اور بدستور اس کو روٹی جاری کر دی کھانا کھلا نا شروع کر دیا.(ضمیمه براهین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۸۱) پھر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئی ہیں.بہت بری طرح ستایا گیا مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴾ کا ہی خطاب ہوا.خو داس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں ، بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا؟ ان کے لئے دعا کی.اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل وخوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے.اب حضرت مسیح موعود کے عفو کی چند مثالیں دیتا ہوں.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوئی فرماتے ہیں.کہ ایک عورت نے حضرت مسیح موعود کے گھر سے کچھ چاول چرائے ، چور کا دل نہیں ہوتا اس لئے اس کے اعضاء میں غیر معمولی قسم کی بیتابی اور اس کا ادھر ادھر دیکھنا بھی خاص وضع کا ہوتا ہے.یعنی وہ چوری کر لے تو اس کے ایکشنز (Actions) اور طرح کے ہو جاتے ہیں.کسی دوسرے تیز نظر نے تاڑ لیا اور پکڑ لیا.وہ وہاں موجود تھا.اس کی تیز نظر تھی اس کو شک ہوا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے اور شور پڑ گیا.اس کی بغل میں سے کوئی پندرہ سیر کے قریب چاولوں کی گھڑی نکلی اور اس کو ملامت اور پھٹکار شروع ہوگئی.حضرت مسیح موعود بھی کسی

Page 157

$2004 152 خطبات مسرور وجہ سے ادھر تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا واقعہ ہے تو لوگوں نے یہ بتایا تو فرمایا کہ یہ محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور نصیحت نہ کرو یعنی بلا وجہ اس کو کچھ کہو نہ.اور خدا تعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو.(سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جلد اول صفحه ۱۰۶،۱۰۵) پھر خان صاحب اکبر خان صاحب نے بتایا کہ مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر حضرت اقدس کے مکان تک جانے کے لئے پہلے بھی اسی طرح ایک راستہ ہوتا تھا.ایک دفعہ لالٹین اٹھا کر حضرت اقدس کو راستہ دکھانے لگے.اتفاق سے لالٹین ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور لکڑی پر تیل پڑا اور اوپر نیچے سے آگ لگ گئی.کہتے ہیں بہت پریشان ہوا.بعض اور لوگ بھی بولنے لگے لیکن حضور نے فرمایا خیر ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں.مکان بچ گیا اور ان کو کچھ نہ کہا.سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جلد اول صفحه ١٠٤) خان اکبر صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وطن چھوڑ کر قادیان آگئے تو ہم کو حضرت اقدس نے اپنے مکان میں ٹھہرایا.حضور کا قاعدہ یہ تھا کہ رات کو عموماً موم بتی جلا لیا کرتے تھے.اور بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے.کہتے ہیں کہ جن دنوں میں میں آیا میری لڑکی بہت چھوٹی تھی ایک دفعہ حضرت اقدس کے کمرے میں بتی جلا کر رکھ آئی، اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بہتی گر پڑی.اور حضور کی کتابوں کے بہت سارے مسودات اور چند اور چیزیں جل گئیں اور نقصان ہو گیا.تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تو سارا نقصان ہو گیا ہے.سب کو بہت سخت پریشانی اور گھبراہٹ شروع ہو گئی یہ کہتے ہیں کہ میری بیوی اور لڑکی بھی بہت پریشان تھی کہ حضوڑا اپنی کتابوں کے مسودات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے وہ سارے جل گئے ہیں لیکن جب حضور کو اس بات کا علم ہوا تو کچھ نہیں فرمایا سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہئے کہ کوئی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا.( سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جلد اول صفحه ۱۰۳) پھر دیکھیں آپ کے مخالف اور معاند مولوی محمد حسین بٹالوی ہماری جماعت میں ان کو

Page 158

$2004 153 خطبات مسرور جانتے ہیں وہ جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست اور ہم مکتب تھے یعنی اکٹھے پڑھا کرتے تھے اور حضور کی پہلی تصنیف ”براہین احمدیہ پر انہوں نے بڑا شاندار ریو یو بھی لکھا تھا اور یہاں تک لکھا تھا کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں اسلام کی تائید میں کوئی کتاب اس شان کی نہیں لکھی گئی.مگر مسیح موعود کے دعوئی پر یہی مولوی صاحب مخالف ہو گئے اور مخالف بھی ایسے کہ انتہا کو پہنچ گئے اور حضرت مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگایا اور دجال وغیرہ کہا ( نعوذ باللہ ) اس طرح سارے ملک میں مخالفت کی آگ بھڑکائی.ڈاکٹر مارٹن کلارک کے اقدام قتل والے مقدمے میں بھی مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب عیسائیوں کی طرف سے گواہ کے طور پر پیش ہوئے.اس وقت حضرت مسیح موعود کے وکیل مولوی فضل دین صاحب جو ایک غیر احمدی بزرگ تھے ، مولوی محمد حسین کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے ان کے حسب و نسب کے بارے میں بعض طعن آمیز سوالات کرنے لگے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں روک دیا کہ میں آپ کو ایسے سوالات کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ کہتے ہوئے آپ نے جلدی سے اپنا ہا تھ مولوی فضل دین صاحب کے منہ پر رکھا کہ کہیں ان کی زبان سے کوئی ایسا فقرہ نکل نہ جائے.تو اس طرح آپ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمایا کرتے تھے اور یہاں بھی فرمائی.اس کے بعد مولوی فضل دین صاحب موصوف ہمیشہ یہ واقعہ حیرت سے ذکر کیا کرتے تھے کہ مرزا صاحب عجیب اخلاق کے انسان ہیں کہ ایک شخص ان کی عزت بلکہ جان پر حملہ کرتا ہے.اور اس کے جواب میں اس کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے اس پر بعض سوالات کئے جاتے ہیں تو آپ فورا روک دیتے ہیں کہ میں ایسے سوالات کی اجازت نہیں دیتا.(سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے.رضی الله عنه صفحه ٥٣ تا ٥٥) حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وَ الْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ.وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِین یعنی مومن وہی ہیں جو غصہ کو کھا جاتے ہیں اور یا وہ گو ظالم طبع لوگوں کو معاف

Page 159

$2004 154 خطبات مسرور کر دیتے ہیں اور بے ہودگی کا بے ہودگی سے جواب نہیں دیتے.(مجموعه اشتهارات جلددوم صفحه (١٢٦ فرمایا ہم دنیا میں دیکھتے ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان سے ایک دو مرتبہ عفو و درگزر کیا جائے اور نیک سلوک کیا جائے تو اطاعت میں ترقی کرتے اور اپنے فرائض کو پوری طرح سے ادا کرنے لگ جاتے ہیں.اور بعض شرارت میں اور بھی زیادہ ترقی کرتے اور احکام کی پرواہ نہ کر کے ان کو توڑ دینے کی طرف دوڑتے ہیں.اب اگر ایک خدمت گار کو جو نہایت شریف الطبع آدمی ہےاور اتفاقاً اس سے غلطی ہو گئی ہے اسے اٹھ کر مارنے اور پیٹنے لگ جائیں تو کیا وہ کام دے سکے گا، نہیں، بلکہ اسے تو عفو و درگزر کرنا ہی اس کے واسطے مفید اور اس کی اصلاح کا موجب ہے.مگر ایک شریر کو جس کا بارہا تجربہ ہو گیا ہے کہ وہ عفو سے نہیں سمجھا بلکہ اور بھی شرارت میں قدم آگے رکھتا ہے اس کو ضرور سزا دینی پڑے گی اور اس کے واسطے مناسب یہی ہے کہ سزادی جاوے.(ملفوظات جلد سوم صفحه ٢٥٦ ـ الحكم ۱۷ اپریل ۱۹۰۳ء) پھر آپ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو سے تقویٰ سرایت کر جاوے، تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو، اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصے کا نقص اب تک موجود ہے.تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا.اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا وقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے.ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے.( یعنی جماعت کے ممبران کی اصلاح ان کے اخلاق سے شروع ہوتی ہے ) چاہئے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بد گوئی کرے اس کے لئے درد دل سے دعا کرے.کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینے کو ہرگز نہ بڑھاوے جیسے دنیا

Page 160

$2004 155 خطبات مسرور کے قانون ہیں ویسے ہی خدا کا بھی قانون ہے، جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے.پس جب تک تبدیلی نہیں ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں ، خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو.اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے.لیکن افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے ان باتوں سے صرف شماتت اعداء ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود ہی قریب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں.یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے ﴿كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِه (بنی اسرائیل: ۸۵) بعض آدمی کسی قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں تو دوسری قسم میں کمزور، اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا لیکن تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے.(ملفوظات جلد صفحه ۱۰۰ البدر ٨ و ١٦ ستمبر ١٩٠٤ ) - اصلاح کی کوشش کرو تو اصلاح ہو سکتی ہے.پھر فرمایا تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے.اور بد بخت ہے وہ جوضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا.سواس کا مجھ میں حصہ نہیں.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۳ جدید ایڈیشن) پھر آپ فرماتے ہیں جو نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۹ جدید ایڈیشن) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ بلند حوصلگی کا مظاہرہ کرنے والے ہوں.قرآن کریم کی تعلیم کو ہمیشہ اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ پیروی کرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے والے بنیں.آمین

Page 161

$2004 156 خطبات مسرور

Page 162

$2004 157 01 9 خطبات مسرور انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقوی کی باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.۲۷ فروری ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۷ تبلیغ ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن یے ہر وہ عہد جو انصاف اور سچائی پر بنی ہے اس کا اللہ تعالی ضامن ہوتا ہے باہمی عہد و پیمان اور وعدہ وعید کی بابت اسلام کی تعلیمات پر مبنی احکامات حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا عہد جو ہر احمدی بیعت کے وقت کرتا ہے منافق وہی ہے جو ایفائے عہد نہیں کرتا ہی اعلیٰ اخلاق کی تربیت ہمیشہ بچپن سے ہی ہوتی ہے

Page 163

خطبات مسرور $2004 158 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ﴾ (سورة ال عمران آیت (۷۷ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہاں کیوں نہیں جس نے بھی اپنے عہد کو پورا کیا اور تقویٰ اختیار کیا اللہ متقیوں سے محبت کرنے والا ہے.آج کل کے معاشرے میں ایک یہ بھی بیماری عام ہے کہ بات کرو تو مکر جاؤ ، وعدہ کرو تو اسے پورا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لو، جب کوئی عہد کرو تو اس کو توڑنے کے بہانے تلاش کرو کیونکہ دوسری طرف بہتر مفادنظر آ رہا ہوتا ہے.اور یہ باتیں انفرادی طور پر بھی اور جہاں پانچ دس افراد اکٹھے مل کر کام کر رہے ہوں، کوئی مشترکہ کا روبار ہو وہاں بھی.اور بدقسمتی سے ملک ملک سے بھی جب معاہدے کرتے ہیں تو بد عہدی اور زیادتی کر رہے ہوتے ہیں.خاص طور پر جب کسی امیر ملک اور غریب ملک میں کوئی معاہدہ ہو تو بعض دفعہ اپنے مفاد منوانے کی خاطر دباؤ ڈالتے ہیں اور اگر دباؤ میں آنے سے کوئی انکاری ہو تو پھر معاہدوں میں بد عہدیاں شروع ہو جاتی ہیں تو بہر حال یہ ایک ایسی برائی ہے جو شخصی معاہدوں سے لے کر بین الاقوامی معاہدوں تک حاوی ہے، سب تک پھیلی ہوئی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے.فرمایا اگر تم میری محبت چاہتے ہو، یہ چاہتے ہو کہ میں تم سے راضی رہوں، یہ چاہتے ہو کہ میں تمہاری دعاؤں کو سنوں تو تقویٰ اختیا کرو، مجھ سے ڈرو، میری تعلیم پر

Page 164

$2004 159 خطبات مسرور عمل کرو.اور تعلیم میں سے بھی ایک بہت اہم تعلیم اپنے عہد کو پورا کرنا ہے، اپنے وعدوں کا پاس رکھنا ہے.تو قرآن کریم نے مختلف پیرایوں میں، مختلف حالات میں عہد کی جو صورتیں ہوسکتی ہیں ان پر روشنی ڈالی ہے.فرماتا ہے کہ نیکیاں قائم کرنے کے لئے حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی ادا کرو اور ان کو ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد کو بھی پورا کرو اور بندوں سے کئے گئے معاہدوں اور وعدوں پر بھی عملدرآمد کرو.امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ خداوند تعالیٰ کے اس حکم کے مشابہ ہے کہ یايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَوْفُوْ بِالْعُقُودِ﴾ اور اس قول میں تمام عقد مثلاً عقد بیع ، عقد شرکت، عقدیمین ، عقد نظر، عقد صلح اور عقد نکاح وغیرہ سب شامل ہیں.تو کہتے ہیں کہ خلاصہ یہ کہ اس آیت کا منشاء یہ ہے کہ دوانسانوں کے درمیان جو بھی عقد ہو اور جو عہد قرار پائے اس کے مطابق دونوں پر اس کا پورا کرنا واجب ہے.(تفسیر کبیر رازی جلد ٥ صفحه ٥٠٥) اب دیکھیں آج کل کیا ہوتا ہے.بہت سے جھگڑے اس بات پر ہورہے ہوتے ہیں کہ فروخت کرنے والا کہتا ہے کہ میں نے فلاں چیز اتنی تعداد میں دی یا اگر زمین کا معاملہ ہے تو اتنا رقبہ دیا ہے اور معاہدے میں اتنا ہی لکھا ہوتا ہے لیکن اصل میں موقع پر کچھ اور ہوتا ہے.اب بیچنے والا اپنے اس عمل کی وجہ سے اس سودے میں بد عہدی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے اور جھگڑے ہوتے ہیں پھر جھگڑے قضا میں جاتے ہیں، عدالتوں اور پولیس میں جاتے ہیں، کیس بن رہے ہوتے ہیں ، تو ایک فریق تو بد عہدی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا بے صبری اور کم حوصلگی کا.پھر جیسا کہ امام رازی نے لکھا ہے، کاروبار میں شراکت داریاں ہیں اس میں بھی عہد کی پابندی کی ضرورت ہے، معاہدے ہوتے ہیں جس جس کا جتنا جتنا حصہ ہو جتنا جتنا شیئر (Share) ہو اس کے مطابق کاروبار ہوگا.پھر یہ کہ کس نے کیا کام کرنا ہے کس نے کتنا سرمایہ لگانا ہے وغیرہ وغیرہ.لیکن اگر کسی فریق میں بھی کوئی

Page 165

160 $2004 خطبات مسرور بد نیتی پیدا ہو جائے تو پھر اس کے ساتھ ہی بدعہدی بھی شروع ہو جاتی ہے.معاہدے بھی ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر جھگڑے شروع ہوتے ہیں.ان میں خاندانوں کے خاندان اس طرح اجڑ رہے ہوتے ہیں.عام روز مرہ کے کاموں میں بھی وعدہ خلافیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ہوتے ہوتے بعض دفعہ سخت لڑائی پر یہ چیزیں منتج ہو جاتی ہیں.جھگڑوں کے بعد اگر صلح کی کوئی صورت پیدا ہو تو معاہدے ہوتے ہیں اور جب صلح کرانے والے ادارے دو فریقین کی صلح کرواتے ہیں تو وہاں صلح ہو جاتی ہے، وعدہ کرتے ہیں کہ سب ٹھیک رہے گا، بعض دفعہ لکھت پڑھت بھی ہو جاتی ہے لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ صلح کر کے دفتر یا عدالت سے باہر نکلے تو پھر سر پھٹول شروع ہوگئی ،کوئی وعدوں اور عہدوں کا پاس نہیں ہوتا.پھر نکاح کا عہد ہے فریقین کا معاملہ ہے اس کو پورا نہیں کر رہے ہوتے.یہ معاہدہ تو ایک پبلک جگہ میں اللہ کو گواہ بنا کر تقویٰ کی شرائط پر قائم رہنے کی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے.لیکن بعض ایسی فطرت کے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے.بیویوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے ان پر ظلم اور زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، گھر کے خرچ میں باوجود کشائش ہونے کے تنگی دے رہے ہوتے ہیں، بیویوں کے حق مہر ادا نہیں کر رہے ہوتے ، حالانکہ نکاح کے وقت بڑے فخر سے کھڑے ہو کر سب کے سامنے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہاں ہمیں اس حق مہر پر نکاح بالکل منظور ہے.اب پتہ نہیں ایسے لوگ دنیا دکھاوے کی خاطر حق مہر منظور کرتے ہیں کہ یا دل میں یہ نیت پہلے ہی ہوتی ہے کہ جو بھی حق مہر رکھوایا جارہاہے لکھوالو کونسا دینا ہے، تو ایسے لوگوں کو یہ حدیث سامنے رکھنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس نیت سے حق مہر رکھواتے ہیں ایسے لوگ زانی ہوتے ہیں.اللہ رحم کرے اگر ایک فیصد سے کم بھی ہم میں سے ایسے لوگ ہوں ، ہزار میں سے بھی ایک ہو تو تب بھی ہمیں فکر کرنی چاہئے.کیونکہ پرانے احمدیوں کی تربیت کے معیار اعلیٰ ہوں گے

Page 166

$2004 161 خطبات مسرور تو نئے آنے والوں کی تربیت بھی صحیح طرح ہو سکے گی.اس لئے بہت گہرائی میں جا کر ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوْا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ الله عَلَيْكُمْ كَفِيلا.إِنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ (سورة النحل آیت :۹۲) اور تم اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد نہ توڑو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپرکفیل بنا چکے ہواللہ یقیناً جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ جو تم عہد کرتے ہو اس کو بھی پورا کرو اور جو تمہارے آپس میں معاہدات ہوتے ہیں ان کو بھی مت توڑو، یعنی جب تم خدا تعالیٰ کو ضامن کر کے کسی انسان سے معاہدہ کرو تو اس کو ضرور پورا کرو کیونکہ تم خدا تعالیٰ کو ضامن مقرر کر چکے ہو.پس خدا کا نام لے کر کئے گئے معاہدے کو اگر تم توڑو گئے تو گویا خدا تعالیٰ کو بدنام کرنے والے ہو گے اور خدا تعالیٰ کو غیرت آئے گی اور اسے تمہیں سزا دینی پڑے گی فرمایا کہ اس عہد کو پورا کرو جس میں تم نے اللہ تعالیٰ کو ضامن مقرر کیا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے عہد پورے نہ کرو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ خدائی عہد میں سچ بولنا شامل ہے.بلکہ ان الفاظ سے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انہی عہدوں کی پابندی انسان پر فرض ہے کہ جن کا ضامن اللہ تعالیٰ ہو اور جن عہدوں کا ضامن اللہ تعالیٰ نہ ہو ان کا پورا کرنا غیر ضروری ہی نہیں بلکہ گناہ بھی ہے.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ عہد جو انصاف اور سچائی پر مبنی ہے اس کا اللہ تعالیٰ ضامن ہوتا ہے، چاہے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے.جو بھی عہد انصاف اور سچائی پر بنی ہوگا اللہ تعالی کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہو گا اس عہد کا بہر حال ضامن اللہ تعالیٰ ہے، چاہے وہاں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے فرماتے ہیں کیونکہ

Page 167

$2004 162 خطبات مسرور وہ ہر مومن سے سچائی کا عہد لے چکا ہے.اللہ تعالیٰ یہ ہر ایک سے عہد لے چکا ہے کہ میں سچ بولوں گا اور جو شخص اس عہد کے بعد کسی انسان سے کسی جائز امر کا اقرار کرتا ہے وہ اس عہد کے ساتھ گویا خدا تعالیٰ سے بھی ایک عہد باندھتا ہے اور خدا تعالیٰ اس عہد کا ضامن ہو جاتا ہے لیکن جو عہد کسی نا پاک امر یا کسی ظلم کے متعلق ہو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ گناہ ہے.اللہ تعالیٰ اس عہد کا ضامن نہیں کیونکہ وہ گناہ اور ناپاکی کے لئے ضامن نہیں ہوتا.غرض اللہ تعالیٰ کے ضامن ہونے سے اس طرف اشارہ نہیں کیا کہ جن عہدوں پر قسم کھا ؤ صرف انہیں پورا کرو بلکہ اس مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سب وہ عہد جو عدل ، احسان اور ایتائے ذی القربی کے مطابق ہوں انہیں پورا کرو اور وہ عہد جن میں فحشا، منکر اور بغی کا رنگ پایا جاتا ہوا نہیں پورا نہ کرو ان کے بارے میں تم سے کوئی سوال نہ ہوگا.کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کا ضامن نہیں بلکہ ان سے منع کرتا ہے تو مذکورہ بالا حکم میں ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو اگر کسی نا جائز امر پر قسم کھا لیتے ہیں تو عہد کی پابندی کے نام سے اس پر مصر رہتے ہیں.(تفسیر کبیر جلد چهارم صفحه (۲۲۸ جیسے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں سے ہماری بول چال اس لئے بند ہے یا قطع تعلقی اس لئے کی ہوئی ہے کہ فلاں وقت اس نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی اور باوجود کوشش کے ہماری صلح نہیں ہوئی اور یہ نہیں ہوا اور وہ نہیں ہوا، شکوے اور شکایتیں ہوتی ہیں تو اب میں نے بھی یہ عہد کر لیا ہے کہ میں اس سے کبھی بات نہیں کروں گا.تو یہ غلط قسمیں ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے حکم تو یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع تعلقی نہ کرو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑ ناحسن اخلاق میں داخل ہے مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی تو بہ اور

Page 168

$2004 163 خطبات مسرور تضرع پر معاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق ہو جائے.مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں ترک وعدہ پر باز پرس ہوگی مگر ترک وعید پر نہیں.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۲۶، ۲۷) اب ایک اور بہت بڑا عہد ہے جو احمدیت میں شامل ہو کر ہم نے کیا ہے اور وہ یہ کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کریں گے اور یہ عہد کسی عام آدمی سے نہیں کر رہے بلکہ نبی کے ساتھ یہ عہد کیا ہے.اور نبی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک عہد باندھ رہے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُوْنَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللَّهَ يَدُ اللَّهَ فَوْقَ أَيْدِيْهِمْ فَمَنْ نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُتُ عَلى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيْهِ أَجْرًا عَظِيمًا.(سورة الفتح آیت ١١) یقیناً وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھ پر ہے پس جو کوئی عہد توڑے تو وہ اپنے ہی مفاد کے خلاف عہد توڑتا ہے اور جو کوئی اس عہد کو پورا کرے جو اس نے اللہ سے باندھا تو یقیناً وہ اسے بہت بڑا اجر عطا کرے گا.اب اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں بھی شامل ہورہے ہیں.کیونکہ آپ کے حکم کے مطابق ہی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا.تو کچھ نے تجدید بیعت کی ہے اور کچھ نئے شامل ہور ہے ہیں تو اس کے بعد بدعہدی کرنا تو اپنے آپ کو خسارے میں ڈالنے والی بات ہے.اور اگر اس عہد پر قائم رہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر میں اتنا بڑا اجر عطا کروں گا کہ جس کا تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے ، جس کے بارے میں تم سوچ بھی نہیں سکتے لیکن شرط یہ ہے کہ تمہیں بہر حال میری باتیں ماننی ہوں گی یہی کہ میری عبادت کرو، اپنے دل میں نوع انسان کی ہمدردی پیدا کرو، کبھی کسی انسان کو تمہارے سے دکھ نہ پہنچے اور دکھ پہنچانے والی ہر چیز سے تمہیں نفرت ہو.ہر وقت لوگوں کی بھلائی کا سوچو اور

Page 169

$2004 164 خطبات مسرور جھگڑوں کو ختم کرو اور صلح کی فضا پیدا کرو“.پھر فرمایا کہ یہ تمہیں حکم ہے کہ یہ یہ کرو لیکن اگر تم باز نہ آئے اور زمین میں فساد پیدا کرتے رہے تو یقینا تم خسارہ پانے والے ہو اور ایسے لوگ پھر عباد الرحمن نہیں ہوتے.رحمن خدا کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں جیسا کہ فرمایا ہے.الَّذِيْنَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُوْنَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوْصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ.أَوْلَئِكَ هُمُ الْخَسِرُوْنَ ﴾ (سورة البقره آیت۲۸) یعنی وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوطی کے ساتھ باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تعلقات کو کاٹ دیتے ہیں جن کا جوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں.اب کن تعلقات کو اللہ تعالیٰ نے باندھنے کا حکم دیا ہے، جوڑنے کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک تو یہی ہے جیسا کہ پہلے میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرو، اس کی عبادت کرو، ہمیشہ اس کے آگے جھکو اور چھوٹے سے چھوٹے رنگ میں بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ.تمہاری نوکریاں تمہارے کا روبارہ تمہاری مصلحتیں اس کی عبادت سے تمہیں نہ روکیں.اس کے علاوہ قرابت داروں سے، عزیزوں سے، دوستوں سے، ہمسایوں سے ایک تعلق پیدا کرو، ایسا مضبوط پیار اور محبت کا تعلق پیدا کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے.پھر کہا جا سکتا ہے کہ تم صلہ رحمی کرنے والے ہوا اور قطع رحمی کرنے والے نہیں ہو کیونکہ قطع رحمی کرنے والے آخر کار وہی ہوتے ہیں جو زمین میں فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں اور فساد پیدا کرنے والے خسارے میں ہیں گھانا پانے والے ہیں.اب جس کے دل میں خوف خدا ہے وہ تو اس بات سے ہی کانپ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو خسارے کی وارنگ دی ہے لیکن بعض اس بات کو آسانی سے نہیں سمجھتے تو ان کے لئے مزید کھول کر فرما دیا کہ وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيْثَاقِهِ وَيَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي

Page 170

خطبات مسرور 165 $2004 الْأَرْضِ أُوْلَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ.(سورة الرعد آیت ۲۶) اور وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو پختگی سے باندھنے کے بعد تو ڑ دیتے ہیں اور اسے قطع کرتے ہیں جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے بدتر گھر ہوگا.تو یہاں فرمایا کہ دیکھو یہ خسارہ کیا ہے جو تمہیں اپنی بدعہدی کی وجہ سے ہوگا.یہ نقصان کیا ہے جو تمہیں اپنے عہد توڑنے کی وجہ سے برداشت کرنا پڑے گا.تو سنو اس کو معمولی نہ سمجھو یہ بہت بڑا نقصان ہے جس کی برداشت کی تم میں طاقت نہیں ہے، ان بدعہدیوں کی سزا یہ ہوگی ، ایسے بدعہدں کو فرمایا کہ پھر تم پر لعنت ہو گی ، اب اللہ جس پر لعنت ڈال دے اس کا تو نہ دین رہانہ دنیار ہی اور پھر بدتر گھر ہوگا مرنے کے بعد بھی تمہارا ٹھکانہ جہنم ہی ہوگا اور وہ ایسا ٹھکانہ ہے کہ پھر اگر تم ہاتھ بھی جوڑتے رہو گے کہ اے اللہ تعالیٰ ! ہم سے غلطی ہو گئی ، ہمیں ایک موقع دے واپس دنیا میں بھیج دے تو ہم نیکیاں کریں تو وہ سب بے فائدہ ہوگا.تو دیکھیں کتنا خوفناک انذار ہے.عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ عہد کرو، معاہدے کرو ، توڑ دو کوئی فرق نہیں پڑتا اور کیونکہ عمومی طور پر معاشرہ بگڑا ہوا ہے اس لئے جب ایسے لوگوں کے پاس (یہ دنیا دار لوگوں کی میں بات کر رہا ہوں ) جب حکومت آتی ہے تو حکومتی معاہدوں کو بھی عذر تلاش کر کے توڑنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اس لئے ہر سطح پر اب یہ احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاہدوں کی پاسداری کرنے والے اور کرانے والے ہوں.اور اس اعلیٰ خلق کو قائم کرنے والے ہوں.حدیث میں آتا ہے حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پاس نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ١٣٥ مطبوعه بيروت)

Page 171

خطبات مسرور 166 $2004 پھر حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی سے جھگڑے کی طرح نہ ڈالو اور نہ اس سے بیہودہ تحقیر آمیز مذاق کرو اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جسے پورا نہ کر سکو.(الادب المفرد لامام بخاری الجامع الصغير لسيوطى حرف لا) بعض لوگ ضرورت کے وقت کسی سے قرض لے لیتے ہیں اور بڑے اعتماد سے اس کی لکھت پڑھت بھی کر لیتے ہیں کبھی شک ہی نہیں پڑتا اور قرض لینے والے کو خود یہ پتہ ہوتا ہے کہ ہم اس مدت میں یہ ادا نہیں کر سکیں گے تو ایسے لوگوں کو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جب یہ پتہ ہو کہ نہیں ادا کر سکتے تو پھر صاف صاف بات کرنی چاہئے ، قول سدید سے کام لینا چاہئے کہ اتنی مدت سے پہلے ادا کرنا ممکن نہیں جتنی مدت میسر ہے کرو، دینے والا اگر اس مدت میں برداشت کر سکے گا تو دے دے گا نہیں دے گا تو کہیں اور سے انتظام کر لے گا.تو بہر حال بدعہدی نہیں ہونی چاہئے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین علامتیں ہیں جب گفتگو کرتا ہے تو کذب بیانی سے کام لیتا ہے، جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے.(بخاری کتاب الشهادات باب من امر بانجاز الوعد وفعله الحسن) اب اگر کسی کو یہ پتہ چلے کہ فلاں نے مجھے منافق کہا تو فوراً مر نے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، یہ تصور ہے لیکن اگر وہی بد عہد ہے اور اپنے وعدے کے خلاف کرتا ہے تو اس کو کبھی احساس ہی نہیں ہوتا پر واہ ہی نہیں ہو رہی ہوتی.ایک عام آدمی کے منافق کہنے پر تو بہت زیادہ غصے میں آجاتے ہیں لیکن اللہ کے رسول نے ایسے لوگوں کو کو منافق کہا ہے تو پھر ایسے لوگوں کو بہر حال دل میں خوف ہونا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یا درکھو کہ منافق وہی نہیں ہے جو ایفائے عہد نہیں کرتا، زبان سے اخلاص ظاہر کرتا ہے مگر دل میں اس کے کفر ہے بلکہ وہ بھی منافق ہے جس کی

Page 172

$2004 167 خطبات مسرور فطرت میں دورنگی ہے اگر چہ وہ اس کے اختیار میں نہ ہو.صحابہ کرام کو دیکھو (اب یہ بہت بار یک تشریح حضرت مسیح موعود فرما رہے ہیں) کہ صحابہ کرام کو اس دورنگی کا بہت خطرہ رہتا تھا، ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ رو رہے تھے تو حضرت ابو بکڑ نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو کہا کہ اس لئے روتا ہوں کہ مجھ میں نفاق کے آثار معلوم ہوتے ہیں.جب میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا ہوں تو اس وقت دل نرم اور اس کی حالت بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر جب ان سے جدا ہوتا ہوں تو وہ حالت نہیں رہتی.ابو بکڑ نے فرمایا کہ یہ حالت تو میری بھی ہے پھر دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کل ماجرا بیان کیا.آپ نے فرمایا کہ تم منافق نہیں ہو، انسان کے دل میں قبض اور بسط ہوتی رہتی ہے یعنی تنگی بھی آتی ہے مختلف حالتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں.جو حالت تمہاری میرے پاس ہوتی ہے اگر وہ ہمیشہ رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں.تو اب دیکھو صحابہ کرام اس نفاق اور دورنگی سے کس طرح ڈرتے تھے جب انسان جرات اور دلیری سے زبان کھولتا ہے تو وہ بھی منافق ہوتا ہے.دین کی ہتک ہوتی سنے اور وہاں کی مجلس نہ چھوڑے یا ان کو جواب نہ دے تب بھی منافق ہوتا ہے.اگر مومن میں غیرت اور استقامت نہ ہوتب بھی منافق ہوتا ہے، جب تک انسان ہر حال میں خدا کو یا د نہ کرے تب تک نفاق سے خالی نہ ہوگا اور یہ حالت تم کو بذریعہ دعا حاصل ہوگی، ہمیشہ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ اس سے بچاوے جو انسان داخل سلسلہ ہو کر پھر بھی دورنگی اختیار کرتا ہے تو وہ اس سلسلے سے دور رہتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے منافقوں کی جگہ اسفل السافلین رکھی ہے کیونکہ ان میں دورنگی ہوتی ہے اور کافروں میں یک رنگی ہوتی ہے.(ملفوظات جلد.سوم صفحه ٤٥٦،٤٥٥ البدر ١٦ نومبر ۱۹۰۳ء) یعنی کا فر کم از کم کھل کر دشمن ہوتے ہیں منافقت نہیں کر رہے ہوتے.حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس وقت کوئی

Page 173

168 $2004 خطبات مسرور آدمی اپنے بھائی کے ساتھ وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی ہو مگر کسی وجہ سے وہ اس کو پورا نہ کر سکے اور وقت پر نہ آئے تو اس پر کوئی گناہ نہیں.(سنن ابو داؤد ـ باب فی العدة) تو ایسے لوگوں کی پھر اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتا ہے.کیونکہ ان کی نیت نیک ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ بیان فرمایا تھا.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کا قصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ وہ اپنی قوم کے ایک امیر شخص کے پاس گیا اور ایک ہزار اشرفی کا اس سے قرض مانگا تو اس شخص نے کہا تمہارا ضامن کون ہے تو اس نے کہا کہ میرا ضامن تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے.پھر اس نے کہا کہ گواہ کون ہو گا ، اس نے کہا گواہ بھی میرا خدا تعالیٰ ہی ہے.قرض دینے والے نے اس کی بات پر اعتبار کر لیا اور مقررہ مدت کے لئے ایک ہزار اشرفی اس کو دے دی اس کے بعد قرض لینے والا اپنے کام سے سمندری جہاز پر بیٹھا اور چلا گیا جب قرض کی واپسی کا وقت قریب آیا تو وہ ساحل سمندر پر آیا کہ واپس جائے کیونکہ اس کا کام بھی ختم ہو گیا تھا اور جس سے قرض لیا ہے اس کی ایک ہزار اشرفی بھی واپس کر سکے تو کئی دن وہ ساحل پر انتظار کرتار ہا لیکن کوئی جہاز نظر نہیں آ رہا تھا جس پر وہ جاسکے.تو آخر اس نے یہ سوچا کہ میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اس عرصے میں اس وقت تک بہر حال میں رقم ادا کروں گا اور اللہ تعالیٰ میرا گواہ ہے اور اللہ تعالیٰ ہی میرا ضامن ہے تو اس نے ایک لکڑی لی اس میں سوراخ کیا اور اس میں ایک ہزار اشرفی ڈال کر اور ساتھ ایک خط لکھ کر کہ میں نے بڑی کوشش کی ہے مجھے سواری نہیں مل سکی تو میں نے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ضامن ٹھہرایا ہے، اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرایا ہوا ہے اس لئے اسی کے بھروسے پر یہ لکڑی سمندر میں ڈالتا ہوں اور پھر دعا کی کہ: اے اللہ ! تیری خاطر اس شخص نے مجھے قرض دیا تھا اور تو میرا ضامن اور گواہ ہے اس لئے اس تک پہنچا بھی دے.اتفاق سے جس دن قرض کی واپسی کا وعدہ تھا جس شخص نے قرض دیا تھا وہ

Page 174

$2004 169 خطبات مسرور بھی دوسری طرف سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر شاید جہاز آتا ہو اور جس نے میرا قرض واپس کرنا ہے آ جائے ، تو اس کو جہاز تو کوئی نظر نہیں آیا البتہ ایک لکڑی تیرتی ہوئی نظر آئی ، درخت کا ایک ٹکڑا.اس نے اس لکڑی کو کنارے سے نکال لیا اور گھر لے گیا کہ جلانے کے کام آئے گی.تو گھر جا کر جب اس نے چیرا لکڑی کو کلہاڑے سے پھاڑا تو اس میں سے ایک ہزار اشرفی اور وہ خط نکل آیا.اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ وجہ ہو گئی جس کی وجہ سے میں نہیں آسکا.بہر حال کچھ دنوں کے بعد اس کو جہاز بھی مل گیا اور وہ جہاز پہ بیٹھ کر وہ اپنے گھر پہنچ گیا ، جس سے قرض لیا تھا اس شخص کو بھی پیسے دینے کے لئے گیا کہ یہ لو اپنی ایک ہزار اشرفی تو جس نے قرض دیا تھا اس نے کہا کہ تم نے مجھے پہلے بھی کوئی رقم بھیجی ہے؟ اس نے کہا ہاں یہ رقم میں نے بھیجی تھی، اس نے کہا ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ نے وہ مجھے پہنچا دی ہے.اور عین وقت پہ پہنچا دی ہے.(بخارى كتاب الكفالة باب الكفالة في القرض والديون) - تويه ہے عہدوں کا پاس.کہ جب اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کوئی عہد کریں تو اللہ تعالیٰ بھی مددفرماتا ہے.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ اصحاب جبکہ ہم ابھی بچے تھے جھوٹی قسمیں کھانے اور جھوٹی گواہی دینے اور عہد کر کے پورا نہ کرنے پر ہماری سرزنش فرمایا کرتے تھے.(مسندا احمد بن حنبل) تو اعلیٰ اخلاق کی تربیت ہمیشہ بچپن سے ہی ہوتی ہے.اس لئے ہمیں بھی اپنے بچوں کی بچپن سے ہی تربیت کرنی چاہئے اور یہ نہیں کہ ابھی عمر نہیں آئی اس لئے تربیت کی ضرورت نہیں ہے.چھوٹی چھوٹی باتیں جو بظاہر چھوٹی لگتی ہیں یہی بڑے ہو کر اعلیٰ اخلاق بنتے ہیں.حضرت ابوامامہ باہلی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا مجھ سے کون عہد باندھتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان نے عرض کیا حضور میں عہد باندھنے کے لئے تیار ہوں، حضور نے فرمایا عہد کرو کہ تم کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگو گے، اس پر

Page 175

170 $2004 خطبات مسرور ثوبان نے عرض کیا حضور اس عہد کا اجر کیا ہو گا.حضور نے فرمایا جنت.اس پر ثوبان نے حضور کے اس عہد پر عمل کرنے کا اقرار کیا.ابوامامہ کہتے ہیں میں نے ثوبان کو مکے میں دیکھا کہ سخت بھیڑ کے باوجود بھی اگر وہ گھوڑے پر بیٹھے ہوتے تھے تو اگر چابک بھی گر جاتا تھا تو کسی کو یہ نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دو بلکہ اتر کر زمین پر سے اٹھاتے تھے اور اگر کوئی شخص پکڑانا بھی چاہتا تھا تو نہ لیتے بلکہ خود اتر کر اٹھاتے تھے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد کیا ہوا ہے.(الترغيب والترهيب) تو عہد نبھانے کے یہ معیار ہیں.پھر حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ مجھے ابوسفیان نے بتایا کہ ھرقل نے انہیں کہا کہ میں نے یہ پوچھا تھا کہ محمد تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے اس کا تو نے جواب دیا کہ وہ نماز، صدق ، پاک دامنی، عہد پورا کرنے اور امانتیں ادا کرنے کا حکم دیتا ہے.ھرقل نے کہا یہی تو ایک نبی کی صفت ہے.(صحیح بخاری کتاب الشهادات باب من امر بانجاز الوعد شہنشاہ روم ھر قل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغی خط ملنے پر اپنے دربار میں سردار قریش ابوسفیان کو بلا کر جب بغرض تحقیق کچھ سوال کئے تو یہی پوچھا تھا کہ کیا اس مدعی رسالت نے کبھی کوئی بد عہدی بھی کی ہے.تو ابوسفیان رسول اللہ کا جانی دشمن تھا مگر پھر بھی اسے ھر قل کے سامنے تسلیم کرنا پڑا کہ آج تک اس نے ہم سے کوئی بد عہدی نہیں کی.البتہ آج کل ہمارا ایک معاہدہ چل رہا ہے، ( جو حدیبیہ کا تھا)، دیکھیں اس میں وہ کیا کرتے ہیں تو ابوسفیان کہتا ہے کہ میں ھر قل کے سامنے اس سے زیادہ میں اپنی گفتگو میں حضور کے خلاف کوئی بات داخل نہیں کر سکا تھا.(بخاری کتاب بدء الوحي باب كيف بدء الوحي الى رسول الله) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عہدوں کی پابندی کی اس قدر تلقین فرمائی ہے کہ بعض دفعہ مسلمانوں کو انتہائی تکلیف دہ صورتحال دیکھ کر بھی کبھی عہد شکنی نہیں کی.ایک روایت ہے کہ صلح حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ مکے سے جو مسلمان ہو کر مدینے چلا جائے گا وہ اہل مکہ کے مطابق واپس کر دیا جائے تو عین اس وقت جب معاہدے کی شرطیں زیر تحریر

Page 176

$2004 171 خطبات مسرور تھیں اور آخری دستخط نہ ہوئے تھے حضرت ابوجندل پابہ زنجیر مکہ کی قید سے فرار ہو کر آگئے اور رسول اللہ سے فریادی ہوئے اور تمام مسلمان اس دردانگیز منظر کو دیکھ کر تڑپ اٹھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اطمینان سے ان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے ابو جندل !صبر کرو ہم بدعہدی نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لئے کوئی راستہ نکالے گا.(صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط في الجهاد صلح حدیبیہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ مسلمان بھاگ کر مدینے جائے گا تو اس کو واپس اہل مکہ کی طرف لوٹایا جائے گا.اس شق پر مسلمانوں نے تحمیل معاہدہ سے بھی پہلے عمل کر کے دکھایا اور مکہ سے بھاگ کر آنے والے ابو جندل کو دوبارہ اس کے باپ کے سپرد کر دیا گیا جس نے پھر اسے اذیت ناک قید میں ڈال دیا.تو یہ ہے معاہدوں کی پابندی.پھر صلح کے زمانے میں مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابیاں دیکھ کر قریش نے معاہدہ امن تو ڑنا چاہا اور قریش کے ایک گروہ نے اپنے حلیف بنو بکر سے ساز باز کر کے تاریک رات میں مسلمانوں کے حلیف بنوخزاعہ پر حملہ کر دیا تو خزاعہ نے حرم کعبہ میں پناہ لی لیکن پھر بھی اس کے ۳۲ آدمی نہایت بے دردی سے قتل کر دیئے گئے.خود سردار قریش ابوسفیان کو پتہ چلا تو اس نے اسے اپنے آدمیوں کی شرانگیزی قرار دیا اور کہا کہ اب محمد سہم پہ ضرور حملہ کریں گے.ادھر اللہ تعالیٰ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع بذریعہ وحی اسی صبح کر دی تھی.تو آپ نے حضرت عائشہ کو یہ واقعہ بتا کر فرمایا کہ منشاء الہی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قریش کی اس بد عہدی کا ہمارے حق میں کوئی بہتر نتیجہ ظاہر ہو اور پھر تین روز بعد قبیلہ بنو خزاعہ کا چالیس شتر سواروں کا ایک وفد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی بنو بکر اور قریش نے مل کر بد عہدی کر کے شب خون مار کر ہمارا قتل عام کیا ہے.اب معاہدہ حدیبیہ کی رو سے آپ کا فرض یہ ہے کہ ہماری مدد کریں تو بنوخزاعہ کے نمائندہ عمرو بن سالم نے اپنا

Page 177

$2004 172 خطبات مسرور حال زار بیان کر کے خدا کی ذات کا واسطہ دے کر ایفائے عہد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا.يَا رَبِّ إِنِّي نَــاشِـدٌ مُحَمَّدًا خَلْقَ أَبِيْنَا وَابِيْهِ الْاتَلَدَا یعنی اے میرے رب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا واسطہ دے کر مدد کے لئے پکارتا ہوں اور اپنے آباء اور اس کے آباء کے پرانے حلف کا واسطہ دے کر عہد پورا کرنے کا خواستگار ہوں.تو خزاعہ سے مظلومیت کا حال سن کر رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا، آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے ایفائے عہد کے جذبے سے سرشار ہو کر فرمایا کہ اے بنوخزاعہ ! یقینا یقیناً تمہاری مدد کی جائے گی، اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے.تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو عہد پورا کرنے والا اور باوفا پاؤ گے تم دیکھو گے کہ جس طرح میں اپنی جان اور بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوں اسی طرح تمہاری حفاظت کروں گا.(السیرۃ النبویہ لابن هشام جلد ۴ صفحه ۸۶ - مطبوعہ بیروت) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو بکر کے ساتھ کیا گیا عہد پورا فرمایا اور دس ہزارقد وسیوں کو ساتھ لے کر ان پر ہونے والے مظالم کا بدلہ لینے کے لئے نکلے اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ کی شاندار فتح عطا فرمائی.(السیرة الحلبيه جز ۳ صفحه ۸۲ تا ٨٥- مكتبه دار احیاء التراث العربی بیروت) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انسان کے جان و مال اور تمام قسم کے آرام خدا کی امانت ہے.جس کو واپس دینا امین ہونے کے لئے شرط ہے لہذا ترک نفس وغیرہ کے یہی معنے ہیں کہ یہ امانت خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے اس طور سے یہ قربانی ادا کرے اور دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایمان کے وقت اس کا عہد تھا اور جو عہد اور امانتیں مخلوق کی اس کی گردن پر ہیں ان سب کو ایسے طور سے تقویٰ کی رعایت سے بجالا وے پھر وہ بھی ایک سچی قربانی ہو جاوے کیونکہ دقائق تقوی کو انتہا تک پہنچانا یہ بھی ایک قسم کی موت ہے.(تفسیر حضر مسیح موعود عليه السلام.جلد سوم صفحه (۳۸۷

Page 178

$2004 173 مسرور پھر آپ فرماتے ہیں کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقوی کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خدو خال ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قو تیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہوٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواقع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ عملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوى قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے.( جتنی طاقت ہے ان کا پابند رہے، ان کو بجالائے ).(تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد.سوم صفحه ٣٦٧، ٣٦٨) اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے تمام عہدوں پر کار بند رہنے اور ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور اللہ کی مخلوق سے کئے گئے تمام وعدے اور عہد بھی پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگیاں گزارنے والے ہوں.

Page 179

$2004 174 خطبات مسرور

Page 180

$2004 175 10 خطبات مسرور حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو.۵/ مارچ ۲۰۰۴ء بمطابق ۵/ امان ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن حق وانصاف اور سچی گواہی کے بارہ میں قرآنی تعلیم کا حسین اور بے مثل بیان عائلی زندگیوں میں مردوں کی ذمہ داریاں اور ان کی ادائیگی کا حکم بیرون ملک آکر بسنے والے ایسے افراد جو دیکھے اپنے خاندانوں کے حقوق سے غافل ہیں گھر کا ماحول اور میاں بیوی کی ذمہ داریاں ہے.اس زمانے میں ہم احمدیوں پر عدل و انصاف کو قائم رکھنے کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے

Page 181

خطبات مسرور $2004 176 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا كُوْنُوْا قَوْمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِيْنَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيْرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوْا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوا اَوْتَعْرِضُوا فَإِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيرًا (النساء : ١٣٦ ) اس کا ترجمہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف.خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے.پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو.اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو قرآن کریم میں جن اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ اقدار کو اپنانے کی طرف توجہ دلائی ہے، ان میں سے ایک انصاف اور عدل ہے.جس پر عمل کرنا ، جس پر قائم ہونا اور جس کو چلانا مومنوں پر فرض ہے.جیسا کہ اس آیت میں فرمایا کہ جو مرضی حالات ہو جائیں جیسے بھی حالات ہو جائیں تم نے انصاف اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود کے زمانے میں ایک دفعہ عیسائیوں نے یہ اعتراض کیا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اور آیتوں کے علاوہ اس آیت کو بھی پیش فرمایا کہ اس کے بعد تم کس منہ سے یہ دعویٰ کر

Page 182

$2004 177 خطبات مسرور سکتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہوگا.نیز یہ بھی فرمایا انعام کا چیلنج دیا اور عیسائیوں کو للکارا کہ جس طرح سچ بولنے اور انصاف پر قائم رہنے کی تلقین قرآن کریم میں ہے، عیسائی اگر انجیل میں سے دکھا دیں تو ایک بڑی رقم آپ نے فرمایا میں انعام کے طور پر پیش کروں گا.لیکن کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ مقابلے میں آئے تو یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی اس نے توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں قرآن کریم کی چھپی ہوئی حکمت کی باتوں اور براہین کا ہمیں ہتھیار دیا.لیکن یہ ہتھیار صرف غیروں کے منہ بند کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حسین تعلیم ہے اس کو ہم نے اپنے اوپر لاگو کرنا ہے، اگر اپنے گھر کی سطح پر ، اپنے محلہ کی سطح پر اپنے ماحول میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا یہ عدل کا نظام قائم نہ کیا تو ہمارے دنیا کی رہنمائی کے تمام دعوے کھوکھلے ہوں گے.پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ جو گواہی بھی دینی ہے.جس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا حکم ہے وہ صرف اس صورت میں پورے ہو سکتے ہیں کہ جب دل میں خدا تعالیٰ کا خوف ہو.جب یہ پتہ ہو کہ ایک خدا ہے جو میری ظاہری اور پوشیدہ اور چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے.جس کو میرے موجودہ فعل کی بھی خبر ہے اور جو میں نے آئندہ کرنا ہے اس کی بھی خبر رکھتا ہے.جب اس سوچ کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقویٰ میں بھی ترقی ہوگی اور جب تقویٰ میں ترقی ہوگی تو پھر عدل کو قائم رکھنے کے لئے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا کہ اپنے یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے کسی دوسرے عزیز کے خلاف بھی کبھی گواہی دینے کی ضرورت پڑی تو گواہی دینے کی ہمت پیدا ہوگی اور توفیق ملے گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا.جب آپ نے اپنے والد کی طرف سے کئے گئے مقدمہ میں دوسرے کے حق میں گواہی دی

Page 183

$2004 178 خطبات مسرور آپ کے والد کے ساتھ مزارعین کا درختوں کا معاملہ تھا، زمین کا جھگڑا تھا، مزارعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت دیانت، انصاف اور عدل کو دیکھتے ہوئے عدالت میں کہہ دیا کہ اگر حضرت مرزا غلام احمد یہ گواہی دے دیں کہ ان درختوں پر ان کے والد کا حق ہے تو ہم حق چھوڑ دیں گے، مقدمہ واپس لے لیں گے.عدالت نے آپ کو بلایا، وکیل نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ، آپ نے فرمایا کہ میں تو وہی کہوں گا جو حق ہے کیونکہ میں نے بہر حال عدل، انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں.چنانچہ آپ کی بات سن کر عدالت نے ان مزارعین کے حق میں ڈگری دے دی اور اس فیصلے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس طرح خوش خوش واپس آئے کہ لوگ سمجھے کہ آپ مقدمہ جیت کر واپس آرہے ہیں.یہ ہے عملی نمونہ جو حضرت اقدس مسیح موعود نے ہمیں اس معیار عدل کو قائم رکھنے کے لئے دکھایا.اور آپ نے اپنی جماعت سے بھی یہی توقع رکھی ، یہی تعلیم دی کہ تم نے بھی یہی معیار قائم رکھنے ہیں.اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ یہ نہ ہو کہ ایسی بات کر جاؤ جس کے کئی مطلب ہوں اور ایسی گول مول بات ہو کہ شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حق میں فیصلہ کروالو.اگر اس طرح کیا تو یہ بھی عدل سے پرے ہٹنے والی بات ہو گی ، عدل کے خلاف چلنے والی بات ہوگی اس لئے ہمیشہ قول سدید اختیار کرو، ہمیشہ ایسی سیدھی اور کھری بات کرو جس سے انصاف اور عدل کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہوں ، پھر یہ عدل کے معیار اپنے گھر میں، اپنی بیوی بچوں کے ساتھ سلوک میں بھی قائم رکھو، روز مرہ کے معاملات میں بھی قائم رکھو، اپنے ملازمین سے کام لینے اور حقوق دینے میں بھی یہ معیار قائم رکھو، اپنے ہمسایوں سے سلوک میں بھی یہ معیار قائم رکھو، حتی کہ دوسری جگہ فرمایا کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل کے اعلیٰ معیار قائم رکھو.اللہ تعالیٰ جو تمہارے کاموں کی خبر رکھنے والا ہے تمہارے دلوں کا حال جاننے والا ہے، تمہاری نیک نیتی کی وجہ سے تمہیں اعلیٰ انعامات سے بھی نوازے گا.

Page 184

خطبات مسرور 179 $2004 تو دیکھیں کتنی خوبصورت تعلیم ہے دنیا میں انصاف اور عدل اور امن قائم کرنے کی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ.اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو، جھوٹ مت بولو، اگر چہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے اور قریبیوں کو.(اسلامی اصول کی فلاسفی صفحه ۵۳ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد دوم صفحه ٢٧٤ (یعنی بچوں، بیویوں اور رشتہ داروں کو نقصان پہنچے ،تب بھی گواہی جھوٹی نہیں دینی ).پھر آپ فرماتے ہیں.﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبِي﴾ اور جب تم بولوتو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر یچ اور عدالت کی بات ہے، اگر چہ اپنے تم کسی قریبی پر گواہی دو.یعنی انصاف قائم رکھنے کے لئے تم نے اپنا ذاتی مفاد نہیں دیکھنا.یا اپنے عزیزوں اور قریبیوں کا مفاد نہیں دیکھنا بلکہ حق اور سچ بات کہنی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مزید کھول کر فرمایا کہ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُوْنُوْا قَوْمِيْنَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (سورة المائده آیت نمبر ۹) یعنی اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.اب دیکھیں اس سے زیادہ عدل و انصاف قائم رکھنے کے کون سے معیار ہو سکتے ہیں کہ دشمن سے بھی تم نے بے انصافی نہیں کرنی.اگر تم دشمن سے بھی بے انصافی کرو گے اور عدل کے تقاضے پورے نہیں کرو گے اس کا مطلب ہے تمہارے دل میں خدا کا خوف نہیں ہے.منہ سے تو کہہ

Page 185

$2004 180 خطبات مسرور رہے ہو کہ ہم اللہ کے بندے اور اس کا خوف رکھنے والے ہیں.لیکن عمل اس کے خلاف گواہی دے رہا ہے.اب بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی آپس میں بھی چپقلشیں ہو جاتی ہیں کجا یہ کہ دشمنوں سے بھی انصاف کا سلوک ہو تو کہاں بعض دفعہ یہ عمل ہوتا ہے اپنوں سے بھی چھوٹی موٹی لڑائیوں میں، چپقلشوں میں ناراضگیوں میں اپنے خاندان یا ماحول میں فوراً مقد مے بازی شروع ہو جاتی ہے.اور بعض دفعہ انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہو جاتی ہے کہ معمولی سی باتوں پر تھانے کچہری کے چکر لگنے شروع ہو جاتے ہیں.مقدمے بازی شروع ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف بعض دفعہ جھوٹی گواہیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا کوئی خوف نہیں رہتا ہکمل طور پر شیطان کے پنجے میں چلے جاتے ہیں اور اس کے باوجود کہ اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے پتہ بھی ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر بعض غلط باتیں بھی کر رہے ہیں، جھوٹ بھی بول رہے ہیں لیکن شیطان اتنی جرات دلا دیتا ہے کہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا.بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اوپر خدا بھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم رحمن کے بندے بنا چاہتے ہو تو اپنے ذہنوں کو مکمل طور پر صاف کرو اور مقصد صرف اور صرف انصاف اور عدل قائم کرنا ہو.کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات سے نہ رو کے کہ تم انصاف اور عدل قائم نہ کرو.اس حکم کی عملی شکل ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلے میں اس طرح نظر آتی ہے، روایت یہ ہے.حضرت مصلح موعود نے کوٹ (Quote) کیا ہے کہ ایک دفعہ کچھ صحابہ کو باہر خبر رسانی کے لئے بھجوایا گیا، کیونکہ جنگی حالات تھے مسلمانوں پر مشکلات تھیں، حالات پر نظر رکھنی ہوتی تھی.تو دشمن کے کچھ آدمی ان کو حرم کی حد میں مل گئے اور انہوں نے ( یعنی مسلمانوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے ان کو زندہ چھوڑ دیا تو یہ مکہ والوں کو جا کر خبر کر دیں گے اور ہم مارے جائیں گے.اس سوچ کے ساتھ انہوں نے ان پر حملہ کر دیا اور ان کفار میں سے ایک آدمی مارا بھی گیا.جب یہ خبریں دریافت کرنے والا قافلہ واپس مدینے پہنچا تو پیچھے پیچھے

Page 186

$2004 181 خطبات مسرور مکہ والوں کے بھی آدمی آ گئے کہ اس طرح یہ ہمارے دو آدمی مار کے آگئے ہیں اور حرم کے اندر مارے ہیں تو جو لوگ پہلے حرم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کرتے رہے ، ان کو جواب تو یہ ملنا چاہئے تھا کہ تم بھی تو یہی کچھ کرتے رہے ہو لیکن آپ نے فوراً کیا کارروائی کی؟ آپ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ بے انصافی ہوئی ہے.ممکن ہے وہ لوگ اس خیال سے حرم میں چلے گئے ہوں کہ وہ محفوظ ہیں اور انہوں نے اپنے بچاؤ کی پوری کوشش نہ کی ہو، انہوں نے جنگ میں تھوڑی سی کمی دکھائی ہو، اس پر آپ نے ان دونوں کا خون بہا (جس کا عربوں میں دستور تھا ) ان دو مقتولین کے ورثاء کے حوالے کیا.(دیباچه تفسیر القرآن صفحه (٢٥٠،٢٤٩ حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں كُونُوا قَوْمِيْنَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ کہ تمہاری گواہیاں اللہ تعالیٰ کے لئے عدل کے ساتھ ہوں پھر اس کی تشریح که ﴿ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا کسی کی دشمنی انصاف کے مانع نہ ہو.مثال دیتے ہیں مثلاً بعض غیر آریہ لوگ اس زمانے میں تھے تمہیں دفتروں سے نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اسلام کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ تم ان کے مقابلے میں بھی ایسی کوشش کرو، جہاں تمہیں اختیار ہو تم ان کے خلاف کارروائی کرو نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے.فرمایا اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا علاج یہ بتایا ہے کہ تم یہ یقین رکھو کہ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا اور ان سے خبر رکھنے والا بھی کوئی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان ۱۵ اگست ۱۹۰۹ء بحواله حقائق الفرقان جلد ۲ صفحه ٨٥).اس طرح تم تقوے پہ قائم ہو جاؤ گے، تمہیں یقین ہوگا کہ تمہیں دیکھنے والا، تمہارے کاموں سے باخبر کوئی ہے تو پھر یہ اعلیٰ معیار عدل و انصاف کے قائم ہوسکیں گے.پھر بعض لوگوں کو عادت ہے کہ بعض کا روباری لوگ جو بعض دفعہ بہت ہوشیار چالاک بنتے ہیں کم تجربہ والے کو ساتھ ملا کر کاروبار کرتے ہیں.بعض بیچاروں کے پاس پیسہ تو آ جاتا ہے ایسے سیدھے ہوتے ہیں کہ جو ان چالاک اور ہوشیار آدمیوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور ان سے کاروبار کا ایسا معاہدہ کر لیتے ہیں جو آخر کار سراسر نقصان پر منتج ہوتا ہے.اور سارا سرمایہ بھی ان لوگوں

Page 187

$2004 182 خطبات مسرور کا ہوتا ہے اور کام کی ساری ذمہ واری بھی ان لوگوں کی ہوتی ہے.اور اس دوسرے شخص کو گھر بیٹھے صرف منافع مل رہا ہوتا ہے ایسے ہوشیار لوگوں کو بھی کچھ خوف خدا کرنا چاہئے کہ لوگوں کو اس طرح بیوقوف نہ بنایا کریں، اگر کوئی باتوں میں آکے بیوقوف بن گیا ہے یہ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہے جو دیکھ رہی ہے.اس کو تو خبر ہے تمہارے دل میں کیا ہے تو کبھی بھی ایسے تقوی سے عاری معاہدے نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ جب بھی تم نے ایسا معاہدہ کیا تو ایسا معاہدہ کرنے والا جس نے کسی ایسے شخص کا جس کو پوری طرح تجر بہ نہیں ہے رقم دلوائی اور ضائع کروائی اس نے بہر حال عدل و انصاف کا خون کیا.اور بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا یہ پیسہ بھی لوٹ لیتے ہیں اور اس کے بعد جب ان لوگوں کو سمجھایا جائے کہ یہ تم نے غلط کام کیا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے ایسے معاہدے بھی نہیں ہونے چاہئیں تقویٰ کو مد نظر رکھ کر ایسے معاہدے کیا کرو تو جواب ان کا یہ ہوتا ہے کہ دیکھو جی ! اس نے اپنی خوشی سے دستخط کئے تھے ہم نے کون سا اس پر پستول رکھ کر اس سے منوایا تھا.یہ بہت قابل شرم حرکت ہے، ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں.لیکن جو دوسرے لوگ اس طرح کی بے وقوفی میں پیسہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں ان کو بھی اپنا سرمایہ سوچ سمجھ کر لگانا چاہئے.مشورہ کر کے، دعا کر کے سمجھ کے، کچھ فائدہ بھی ہوگا کہ نہیں بلا وجہ بیوقوف نہیں بن جانا چاہئے مومن کو کچھ تو فر است دکھانی چاہئے.بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں اور واپسی کے وقت بہانے بنارہے ہوتے ہیں.ان کو بھی خوف خدا کرنا چاہئے.ایک حدیث میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی حدر دالاسلمی بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی کا ان کے ذمے چار درہم قرض تھا جس کی میعاد ختم ہوگئی ، اس یہودی نے آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس شخص کے ذمے میرے چار درہم ہیں اور یہ مجھے ادا نہیں کرتا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ سے کہا کہ اس یہودی کا حق دے دو، عبداللہ نے عرض کی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے.آپ نے دوبارہ فرمایا اس کا حق اسے لوٹا دو، عبداللہ نے پھر وہی عذر کیا اور کہا کہ میں نے اسے

Page 188

$2004 183 خطبات مسرور کہہ دیا ہے کہ آپ ہمیں خبر بھجوائیں گے اور مال غنیمت میں سے کچھ حصہ دیں گے اور واپس آ کر میں اس کا قرض چکا دوں گا، آپ نے فرمایا ابھی اس کا حق ادا کرو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات تین دفعہ فرما دیتے تھے تو وہ قطعی فیصلہ سمجھا جاتا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ اسی وقت بازار گئے، انہوں نے ایک چادر بطور تہہ بند کے باندھ رکھی تھی.سرکا کپڑا اتار کر تہ بند کی جگہ باندھ لیا اور چادر چار درہم میں بیچ کر قرض ادا کر دیا.اتنے میں ایک بڑھیا وہاں سے گزری ، کہنے لگی اے رسول اللہ کے صحابی یہ آپ کو کیا ہوا ہے، عبداللہ نے سارا قصہ ان کو سنایا اس نے اسی وقت جو اپنی چادر جوڑ رکھی تھی ان کو دے دی.اور یوں ان کا قرض بھی اتر گیا اور ان کی چادر بھی ان کومل گئی.(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ٤٢۳ ـ مطبوعه بيروت) اس صحابی کی دیکھیں قرض ادا کرنے کی حالت بھی نہیں تھی.اس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا چاہے اپنے تن کے کپڑے بھی بیچ کر قرض ادا کر و قرض بہر حال ادا کرنا ہے.تبھی حق اور انصاف قائم ہوسکتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عدل کی حالت یہ ہے کہ جو متقی کی حالت نفس امارہ کی صورت میں ہوتی ہے.اس حالت کی اصلاح کے لئے عدل کا حکم ہے، اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے.مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کسی طرح سے اسے دبالوں اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گزر جائے اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بے باک ہو گا کہ اب تو قانونی طور پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہو سکتا مگر یہ ٹھیک نہیں.عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دین واجب ادا کیا جاوے، یعنی اس کا قرض واپس ادا کیا جائے اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جائے، فرمایا مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پرواہ نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں بہت کم توجہ کرتے ہیں، یہ عدل کے خلاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے یعنی جنازہ نہ پڑھتے

Page 189

184 $2004 خطبات مسرور تھے، پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یادر کھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئے کیونکہ یہ امرالہی کے خلاف ہے.(ملفوظات جلد ٤ صفحه ٦٠٧ ـ الحكم ٢٤ جنورى ١٩٠٦) ایک حدیث ہے، حضرت زحیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، انصاف کرنے والے خدائے رحمن کے داہنے ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے.( اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ ہی داہنے شمار ہوں گے ).تو یہ لوگ اپنے فیصلے اور اپنے اہل وعیال میں اور جس کے بھی وہ نگران بنائے جاتے ہیں عدل کرتے ہیں.(مسلم کتاب الامارة باب فضيلة الامير العادل وعقوبة........یہاں میں اب گھر کی مثال لیتا ہوں ، ہر شادی شدہ مرد اپنے اہل وعیال کا نگران ہے، اس کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے، مرد قوام بنایا گیا ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنا، بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا ، ان کی تمام تعلیمی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا، یہ سب مرد کی ذمہ داری ہے.لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت میں بھی بعض مرد ایسے ہیں جو گھر کے اخراجات مہیا کرنے تو ایک طرف ، الٹا بیویوں سے اپنے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے خرچ پورے کرو، حالانکہ بیوی کی کمائی پر ان کا کوئی حق نہیں ہے.اگر بیوی بعض اخراجات پورے کر دیتی ہے تو یہ اس کا مردوں پر احسان ہے.تو مردوں کو اس حدیث کے مطابق ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ پانا ہے، اللہ تعالیٰ کے نور کے حقدار بننا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی.بچوں کی تربیت کا حق ادا کرنا ہوگا، ان میں دلچسپی لینی ہوگی، ان کو معاشرے کا ایک قابل قدر حصہ بنانا ہو گا.اگر نہیں تو پھر ظلم کر رہے ہو گے.انصاف والی تو کوئی چیز تمہارے اندر نہیں.بعض لوگ یہاں انگلستان، جرمنی اور یورپ کے بعض ملکوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، معاشرے میں، دوستوں میں بلکہ جماعت کے عہدیداروں کی نظر میں بھی بظاہر بڑے مخلص اور نیک

Page 190

$2004 185 خطبات مسرور بنے ہوتے ہیں.لیکن بیوی بچوں کو پاکستان میں چھوڑا ہوا ہے اور علم ہی نہیں کہ ان بیچاروں کا کس طرح گزارا ہورہا ہے ، یا بعض لوگوں نے یہاں بھی اپنی فیملیوں کو چھوڑا ہوا ہے.کچھ علم نہیں ہے کہ وہ فیملیاں کس طرح گزارا کر رہی ہیں.جب پوچھو تو کہہ دیتے ہیں کہ بیوی زبان دراز تھی یا فلاں برائی تھی اور فلاں برائی تھی تو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسے لوگوں کی بات ٹھیک ہے.تو پھر انصاف اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک وہ تمہاری طرف منسوب ہے اس کی ضروریات پوری کرنا تمہارا کام ہے.بچوں کی ضروریات تو ہر صورت میں مرد کا ہی کام ہے کہ پوری کرے.بیوی کو سزا دے رہے ہو تو بچوں کو کس چیز کی سزا ہے کہ وہ بھی دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں.ایسے مردوں کو خوف خدا کرنا چاہئے.احمدی ہونے کے بعد یہ باتیں زیب نہیں دیتیں.اور نہ ہی نظام جماعت کے علم میں آنے کے بعد ایسی حرکتیں قابل برداشت ہو سکتی ہیں یہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں.ہمیں بہر حال اس تعلیم پر عمل کرنا ہو گا جو اسلام نے ہمیں دی اور اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نکھار کر وضاحت سے ہمارے سامنے پیش کی.ا یک حدیث ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سے سب سے بہتر اخلاق کا مالک ہے.اور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں سے بہترین سلوک کرنے والے ہیں.(ترمذی كتاب الرضاع باب ما جاء فى حق المرأة على زوجها ) پھر ایک اور روایت میں آتا ہے سلیمان بن عمرو بن احوص اپنے والد عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے ایک لمبی روایت کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے فرمایا تھا اس میں کچھ حصہ جو عورتوں سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ ”سنو! تمہارا تمہاری بیوی پر ایک حق ہے، اسی طرح تمہاری بیوی کا بھی تم پر ایک حق ہے تمہاراحق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ان لوگوں کو نہ بٹھا ئیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو اور نہ وہ ان لوگوں کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت دیں جن کو تم نا پسند کرتے

Page 191

186 $2004 خطبات مسرور ہو، اور تمہاری بیویوں کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان سے ان کے کھانے کے معاملے میں اور ان کے لباس کے معاملے میں احسان کا معاملہ کرو“.(ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء في حق المرأة على زوجها) اس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ گھر کے ماحول کو انصاف اور عدل کے مطابق چلانا ہے تو میاں اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہو گا ان کے حقوق کی حفاظت کرنی ہوگی ،عورتوں کو کس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے گھروں میں آنے والیاں عورتوں کی سہیلیاں ہی ہوتی ہیں ایسی نہ ہوں جن کو خاوند گھروں میں آنا پسند نہیں کرتے اور اپنی دوستیاں بھی ان سے ناجائز یا جائز نہ بنائیں ، اگر خاوند پسند نہیں کرتا کہ گھروں میں یہ لوگ آئیں تو نہ آئیں.ہوسکتا ہے کہ بعض گھروں کے معاملے میں خاوند کو علم ہو اس کی وجہ سے وہ پسند نہ کرتا ہو کہ ایسے لوگ گھروں میں آئیں.یہ باتیں ایسی ہی ہیں کہ خاوند کی خوشی اور رضامندی کی خاطر عورتوں کو برا ماننا بھی نہیں چاہئے اور جو خاوند کہتے ہیں مان لینا چاہئے.اس حدیث میں دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ خاوندوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اہل وعیال کا جو حق ہے وہ ادا کریں، گھر کے اخراجات اور ان کے لباس وغیرہ کا خیال رکھیں.اس کی وضاحت تو میں پہلے ہی کر چکا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ( مردوں کے لئے ) فرماتے ہیں: دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوْاهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کے حکم سے ہی کر سکتا ہے.البدر جلد ۳ صفحه ٢٦ / جولائی ١٩٠٤ء بحواله تفسیر حضرت.موعود جلد ۲ صفحه ٢١٦) پھر اولا د سے بھی بعض لوگ بے انصافی کر جاتے ہیں.بعض کو بے جالاڈ سے بگاڑ دیتے ہیں اور بعض پر ضرورت سے زیادہ بختی کر کے بگاڑ دیتے ہیں تو پھر ایسے بچے بڑے ہو کر بعض دفعہ اپنے باپوں سے بھی نفرت کرنے لگ جاتے ہیں.

Page 192

$2004 187 مسرور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو دور کرنے کے لئے اور انصاف قائم کرنے کے لئے بڑی باریکی سے خیال رکھتے ہوئے ہمیں تعلیم دی ہے.حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں ان کے ابا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا میں نے اس بچے کو ایک غلام تحفہ دیا ہے.حضور نے فرمایا کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا تحفہ دیا ہے.میرے ابا نے عرض کیا نہیں حضور ، آپ نے فرمایا یہ تحفہ واپس لے لو.ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد سے انصاف اور مساوات کا سلوک کرو.اس پر میرے والد نے وہ تحفہ واپس لے لیا.ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضور نے فرمایا مجھے اس ہبہ کا گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم کا گواہ نہیں بن سکتا.(بخارى كتاب الهبة باب الهبة للولد......پھر نظام جماعت ہے.جماعت میں بھی بعض معاملات میں عہد یداران کو فیصلے کرنے ہوتے ہیں.ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں.پھر قضاء کا نظام ہے.ان کے پاس فیصلے کے لئے معاملات آتے ہیں.ان کو بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنا چاہئے کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے دعا کر کے، گہرائی میں جا کر، ہر چیز کوغور سے دیکھ کر پھر فیصلہ کریں تا کہ کبھی کسی کو شکوہ نہ ہو کہ عدل و انصاف کے فیصلے نہیں ہوتے.بعض دفعہ قضا میں صلح و صفائی کی کوشش کے لئے معاملہ لمبا ہو جاتا ہے جس سے کسی فریق کو یہ شکوہ پیدا ہو جاتا ہے کہ قضا فیصلے نہیں کر رہی.ان فریقین کو بھی صبر اور حو صلے سے کام لینا چاہئے.بہر حال عہد یداران اور قضا کو انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کرنا چاہئیں.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن تک کہ جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ہر عضو کے لئے صدقے دینا چاہئے.اور جو شخص لوگوں میں عدل سے فیصلے کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے.(بخاری کتاب الصلح باب فضل الاصلاح بين الناس والعدل بينهم

Page 193

$2004 188 مسرور یعنی جن لوگوں کو اس کام پر مقرر کیا گیا ہے جو فیصلے کریں اگر وہ عدل وانصاف کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کریں گے تو یہ بھی ان کی طرف سے ایک صدقہ ہے تو جہاں یہ دل کی تسلی کی بات ہے کہ ان کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا وہاں فکر انگیز بھی ہے،فکر ڈالنے والی بات بھی ہے کہ کہیں غلط فیصلوں کی سزا نہ ہو جائے کہیں پو چھ کچھ نہ ہو جائے.ایک اور روایت ہے عبداللہ بن موہب روایت کرتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو قاضی بنا کر بھیجتے ہوئے کہا، جاؤ لوگوں میں ان کے معاملات کے فیصلے کرو.انہوں نے کہا اے امیر المومنین کیا آپ مجھے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے معاف نہیں رکھ سکتے اس پر حضرت عثمان نے کہا تم قضا کے عہدے کو نا پسند کیوں کرتے ہو جبکہ آپ کے والد فیصلے کیا کرتے تھے.حضرت ابن عمرؓ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مَنْ كَانَ فَاضِيَا فَقَضَا بِالْعَدْلِ یعنی جو قضا کے عہدے پر فائز ہو.اسے چاہئے عدل کے ساتھ فیصلے کرے اور مناسب یہ ہے کہ اس عہدے سے اس طرح نکلے کہ اس پر کوئی الزام نہ ہو.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سننے کے بعد میں اس عہدے کی خواہش نہیں رکھتا.صل الله (ترمذى كتاب الاحكام باب ما جاء عن رسول الله له في القاضي) ان کو اللہ کا خوف تھا کہیں ایسا فیصلہ نہ ہو جائے کہ جس پر الزام ہو.پھر ایک روایت ہے.حسن روایت کرتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد، معتقل بن یسار کی مرض الموت میں ان کی عیادت کو گئے انہوں نے کہا میں تمہیں ایسی حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں ابھی زندہ رہوں گا تو میں یہ حدیث تمہیں نہ سنا تا.میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کوئی بندہ جس کے سپر د اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کی دیکھ بھال فرض کی ہوا گر وہ اس حال میں مرتا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کی نگہبانی کرنے میں عدل سے کام نہ لیا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا.(سنن الدارمی کتاب الرقائق باب فى العدل بين الرعية

Page 194

189 $2004 خطبات مسرور تو اس زمانے میں ہم احمدیوں پر عدل اور انصاف کو قائم رکھنے کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم اس بات کے دعوے دار ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام کو پہچانا اور اس کی بیعت میں شامل ہوئے.وہ امام جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم اور عدل کہا ہے جہاں وہ امام ان خصوصیات کا حامل ہوگا وہاں اس کے ماننے والوں سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عدل کے اعلیٰ معیار قائم کریں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن مریم حکم اور عدل بن کر ضرور نازل ہوگا.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ٤٩٤ - بيروت).جو حضرت مسیح موعود کے آنے کی پیشگوئی ہے.پھر ایک روایت ہے.حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر دنیا کی زندگی کا ایک دن بھی باقی ہو گا تو اللہ تعالیٰ ضرور میرے اہل بیت سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا جو دنیا کو عدل سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ پہلے ظلم وجور سے بھری ہوگی.(ابو داؤد کتاب الفتن اول كتاب المهدی) یعنی امام مہدی کا آنا بہر حال ضروری ہے اور قیامت سے پہلے اس نے آنا ہے چاہے قیامت کو ایک دن بھی رہ جائے تو وہ مبعوث ہو گا اس کے بعد یہ سب کچھ ہو گا.ہم لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے امام مہدی کو دیکھا، پہچانا اور اس کی جماعت میں شامل ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورے ہوتے دیکھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اب دور مسیح موعود آ گیا ہے.اب بہر حال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا کر دے گا جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق خونریزی سے پر تھی اب عدل، امن اور صلح کاری سے پُر ہو جائے گی اور مبارک وہ امیر اور بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصہ لیں.( گورنمنٹ انگریزی اور جهاد روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه (۱۹)

Page 195

$2004 190 مسرور پھر آپ فرماتے ہیں خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اس سے اور اس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو.یعنی حق اللہ اور حق العباد بجالاؤ اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کر و یعنی فرائض سے زیادہ اور ایسے اخلاق سے خدا کی بندگی کرو گویا تم اس کو دیکھتے ہو اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروت اور سلوک کرو اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو ایسے بے علت اور بے غرض خدا کی عبادت اور خلق اللہ کی خدمت بجالاؤ کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے.(شحنه حق روحانی خزائن جلد ٢ صفحه ٣٦٢،٣٦١) ایک اور جگہ فرمایا جس طرح ماں اپنے بچے کے ساتھ کرتی ہے اس طرح کرو.پھر آپ فرماتے ہیں غرض نوع انسان پر شفقت سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبر دست ذریعہ ہے مگر میں دیکھتا ہوں اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے ان پر ٹھیٹھے کئے جاتے ہیں ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے جولوگ غرباء کے ساتھ بہت اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے ان کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں اور اس خداداد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں.(ملفوظات جلد چهارم صفحه ٤٣٩،٤٣٨ ـ الحكم ۱۰/ نوبمر (١٩٠٥ء اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اس دنیا میں امن، صلح اور عدل کی فضا پیدا کرنے والے ہوں، قائم کرنے والے ہوں اور اس لحاظ سے اپنی نسلوں کی تربیت کرنے والے بھی ہوں کیونکہ آئندہ دنیا کے جو حالات ہونے ہیں اس میں احمدی کا کردار ایک بہت اہم کردار ہو گا جو اس کو ادا کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین

Page 196

$2004 191 11 خطبات مسرور نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شوری کا ادارہ ہی ہے مجلس شوریٰ ہو یا صدرانجمن احمد یہ، خلیفہ کا مقام بہر حال دونوں کی سرداری ہے ۱۲؍ مارچ ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۲ رامان ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن مجالس شوری کی اہمیت اور طریق کار کے بارہ میں احباب جماعت کے لئے پر معارف ہدایات مشورہ دینے والے اور نمائندگان شوری کی بھاری ذمہ داری اور اس کے تقاضے نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شوری کا ادارہ ہی ہے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جماعت میں ہمیشہ دینی علوم کے بھی اور دوسرے علوم کے بھی ماہرین پیدا فرما تا ر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عبادالرحمان پیدا فرمائے افریقہ کے دورہ کے لئے احباب جماعت سے دعا کی تحریک

Page 197

خطبات مسرور $2004 192 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَمْرُهُمْ شُوْرَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُوْنَ (سورۃ شوری آیت (۳۹) اور جو اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کا امر باہمی مشورے سے طے ہوتا ہے اور اس میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا خرچ کرتے ہیں.آئندہ چند دنوں میں بعض ممالک کی جماعتوں میں مجالس شوریٰ منعقد ہونے والی ہیں اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتے رہنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.جماعتوں کی طرف سے مجالس شوری کے پیغام بھجوانے کا اظہار ہوتا ہے،اب یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ براہ راست ایم ٹی اے پر ہر ملک کی مجلس شورای کے لئے پیغام بھیجا جائے یا کچھ کہا جائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں جماعتیں پھیل رہی ہیں، اور جیسا کہ میں نے عرض کیا اب یہ سلسلہ کافی لمبے عرصے تک چلتا ہے.بہر حال آج کا خطبہ میں نے شورای کے مضمون پر دینے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ جماعتیں اپنی اپنی مجالس شورای کے موقع پر اس سے فائدہ اٹھا سکیں.شوری کے متعلق چند بنیادی باتیں ہیں جو میں عرض کروں گا.علاوہ ممبران شوری کے عمومی طور پر جماعت کے افراد کے لئے بھی ان کے علم میں لانا مناسب ہے کیونکہ اگر وقتا فوقتا اس کی اہمیت اور طریق کار کے بارے میں نہ بتایا جائے تو بعض پرانے تجربہ کار بھی بعض پہلو مجلس شورای کی اہمیت

Page 198

193 $2004 خطبات مسرور کے بارے میں اور اس کے طریق کار کے بارے میں نظر انداز کر دیتے ہیں اور نئے آنے والے اور نوجوان پوری طرح اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتے جس سے مجلس شورا ی کا وقار اور تقدس بعض دفعہ متاثر ہوتا ہے.حضرت مصلح موعود نے جہاں اپنی گہری فراست سے جماعت کے مختلف اداروں کو منظم کیا وہاں شوریٰ کے نظام کو بھی انتہائی مضبوط بنیادوں پر جماعت میں قائم فرمایا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہراس ملک میں جہاں جماعت احمد یہ قائم ہے یہ شوریٰ کا نظام قائم ہے اور بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے.لیکن اس کے بعض پہلو بعض دفعہ نمائندگان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اس لئے چند بنیادی باتیں میں پیش کروں گا.پہلے تو یہ وضاحت کر دوں کہ شاور کا لفظ شار سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے شہد کے چھتے میں سے شہدا کٹھا کیا یا نکالا اور اس سے موم کو علیحدہ کیا اور شاورہ کا مطلب ہے کسی نے کسی سے مشورہ لیا، اس کی رائے لی وغیرہ.مشاورت کا اس لحاظ سے یہ مطلب بھی ہوا کہ جس طرح محنت اور احتیاط سے وقت لگا کر چھتے میں سے شہد نکالتے ہو اور اسے بعض ملونیوں سے صاف کرتے ہو، موم سے علیحدہ کرتے ہو تا کہ کھانے کے لئے خالص چیز حاصل ہو اسی طرح مشورے بھی سوچ سمجھ کر غور کر کے اس کا اچھا اور برا دیکھ کر پھر دیے جائیں تو تب ہی یہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں.اس لئے جہاں بھی مشورے ہوں اس سوچ کے ساتھ ہوں کہ ہر پہلو کو انتہائی گہری نظر سے اور بغور دیکھ کر پھر رائے دی جائے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی نیکیوں کو قائم کرنے والوں کی ، اپنے رب کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی یہ نشانی بتائی ہے، ایک تو یہ لوگ نماز قائم کرنے والے ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، اس کے عبادت گزار ہیں اور پھر یہ کہ تمام قومی معاملا

Page 199

$2004 194 خطبات مسرور میں آپس میں مشورہ کرتے ہیں، بات کو غور سے دیکھتے ہیں، اس کے برے بھلے کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر مشورہ دیتے ہیں اور جب پھر ایک فیصلہ پر پہنچ جاتے ہیں تو جو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں تو فیق دی ہے، جو بھی استعداد یں دی ہیں ان کے مطابق وہ خرچ کرتے ہیں.مشورہ دینے کے بعد دوڑ نہیں جاتے بلکہ مشورے کے بعد اپنے قومی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک رائے پر پہنچ جاتے ہیں پھر عملدرآمد کروانے کے لئے اپنی پوری طاقتوں کو خرچ کرتے ہیں.جب یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے اپنے اور اپنی بیوی بچوں کی تربیت کے لئے اور نیکیوں کو قائم کرنے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کے لئے عمل کرنا ہے تو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پھر پوری طرح اس کام میں بجت جاتے ہیں اور جب یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فرستادے کا پیغام پہنچانا ہے تو پھر اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ دعوت الی اللہ بھی کرتے ہیں.لوگوں کی ہمدردی کی خاطر خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں.پہلے سے ہمت نہیں ہار دیتے کہ لوگوں نے سننا نہیں ہے دنیا دار لوگ ہیں اور فضول وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.اور پھر جب یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ قربانیاں کرنی ہیں کیونکہ یہ ہمارے عہدوں میں شامل ہے تو پھر جماعت کے مقاصد کے حصول کے لئے مالی قربانیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، اپنی جسمانی طاقتوں کو بھی اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اپنے علم کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بھی جماعتی مقاصد کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں.غرض کہ ایسے لوگوں کے مشورے بھی نیکیاں قائم کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور مشورے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے پر تمام صلاحیتیں اور استعداد میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں.اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ مومن کا یہ فرض ہے، ایک تو خوب غور کر کے مشورہ دیں جب بھی مشورہ مانگا جائے ، جب بھی مشورے کے لئے بلایا جائے اور پھر مشورے کے بعد ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے جن کے بارے میں مشورہ دیا گیا تھا مکمل تعاون کریں بلکہ ممبران شورای کا

Page 200

$2004 195 خطبات مسرور یہ بھی فرض ہے کہ اس کے ذمہ وار بنیں.حدیث میں آتا ہے حضرت ابو مسعود سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنْ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہوتا ہے یا اسے امین ہونا چاہئے.(سنن ابن ماجه کتاب الادب باب المستشار موتمن) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جو شورای سے متعلق حصہ ہے وہ میں پڑھتا ہوں ) کہ جس سے اس کے مسلمان بھائی نے کوئی مشورہ طلب کیا اور اس نے بغیر رشد کے مشورہ دیا یعنی بغیر غور و خوض اور عقل استعمال کئے تو اس نے اس سے خیانت کی ہے.(الادب المفرد از حضرت امام بخاری صفحه ٧٥) تو دیکھیں مشورہ دینے والوں پر کتنی بڑی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ اگر بغیر غور کے جس مسئلہ کے بارے میں مشورہ مانگا جا رہا ہے اس کی جزئیات میں جائے بغیر اگر مجلس میں بیٹھے ہوئے ، یونہی سطحی سا مشورہ دے دیتے ہو کہ جان چھڑاؤ پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے خواہ مخواہ وقت کا ضیاع ہے، کوئی ضرورت نہیں اس کی.اگر اس سوچ کے ساتھ بیٹھے ہو کہ معاملے کو جلدی ختم کرنا چاہئے کیونکہ آخر کار یہ معاملہ خلیفہ وقت کے سامنے پیش ہونا ہے خود ہی وہ غور کر کے فیصلہ کر لے گا تو یہ خیانت ہے.اور خائن کے بارے میں فرمایا کہ اس میں نفاق پایا جاتا ہے.تو یہ جو حدیث ہے اس میں تو یہ فرمایا گیا کہ ایک مسلمان بھائی بھی اگر تمہارے سے مشورہ مانگے تو تب بھی غور کر کے پوری تفصیلات میں جا کر اس کو مشورہ دو.جب جماعتی معاملے میں خلیفہ وقت کی طرف سے نظام کی طرف سے بلایا جائے کہ مشورہ دو تو اس میں دیکھیں کس قدر احتیاط کی ضرورت ہے.مجلس شورای میں جب بھی مشورے کے لئے بلایا جاتا ہے تو ایک بہت بڑی ذمہ داری مجلس شوری پر ڈالی جاتی ہے ،ممبران شورای پر ڈالی جاتی ہے اور

Page 201

$2004 196 خطبات مسرور ایک مقدس ادارے کا اسے ممبر بنایا جاتا ہے کیونکہ نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ جماعت میں شورای کا ادارہ ہی ہے.اور جب خلیفہ وقت اس لئے بلا رہا ہو اور احباب جماعت بھی لوگوں کو اپنے میں سے منتخب کر کے اس لئے بھیج رہے ہوں کہ جاؤ اللہ تعالیٰ کی تعلیم دنیا میں پھیلانے ، احباب جماعت کی تربیت اور دوسرے مسائل حل کرنے اور خدمت انسانیت کرنے کے لئے خلیفہ وقت نے مشوروں کے لئے بلایا ہے اس کو مشورے دو تو کس قدرذمہ داری بڑھ جاتی ہے.اگر یہ تصور لے کر مجلس شورای میں بیٹھیں تو پوری طرح مجلس کی کارروائی سننے اور استغفار کرنے اور درود بھیجنے کے علاوہ کوئی دوسرا خیال ذہن میں آہی نہیں سکتا تا کہ جب بھی اس مجلس میں رائے دینے کے لئے کھڑا کیا جائے تو صحیح اور مکمل ذمہ داری کے ساتھ رائے دے سکیں کیونکہ یہ آراء خلیفہ وقت کے پاس پہنچنی ہیں اور خلیفہ وقت یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ ممبران نے بڑے غور سے سوچ سمجھ کر کسی معاملے میں رائے قائم کی ہوگی اور عموماً مجلس شوری کی رائے کو اس وجہ سے من وعن قبول کر لیا جاتا ہے، اسی صورت میں قبول کر لیا جاتا ہے.سوائے بعض ایسے معاملات کے جہاں خلیفہ وقت کو معین علم ہو کہ شوری کا یہ فیصلہ ماننے پر جماعت کو نقصان ہو سکتا ہے اور یہ بات ایسی نہیں ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے یا اس سے ہٹ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہوئی ہے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله (سورة ال عمران آیت ۱۶۰) یعنی اور ہراہم معاملے میں ان سے مشورہ کر ( نبی کو یہ لم ہے ) پس جب کوئی تو فیصلہ کر لے تو پھر اللہ پر توکل کر.یعنی یہاں یہ تو ہے کہ اہم معاملات میں مشورہ ضروری ہے، ضرور کرنا چاہئے اور اس حکم کے تابع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ کیا کرتے تھے بلکہ اس حد تک مشورہ کیا کرتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے نہیں دیکھا.

Page 202

$2004 197 مسرور تو یہ حکم الہی بھی ہے اور سنت بھی ہے اور اس حکم کی وجہ سے جماعت میں بھی شورای کا نظام جاری ہے.لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ مشورہ تو لے لولیکن اس مشورے کے بعد تمام آراء آنے کے بعد جو فیصلہ کر لو تو ہوسکتا ہے کہ بعض دفعہ یہ فیصلہ ان مشوروں سے الٹ بھی ہو.تو فرمایا جو فیصلہ کر لو پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرو کیونکہ جب تمام چھان پھٹک کے بعد ایک فیصلہ کر لیا ہے پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر ہی چھوڑنا بہتر ہے.اور جب اے نبی ! تو نے معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی کی بات کی لاج رکھے گا.اور انشاء اللہ اس کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے.جس طرح تاریخ میں ہے کہ جنگ بدر کے موقعے پر قیدیوں سے سلوک کے بارے میں اکثریت کی رائے رد کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت ابو بکر کی رائے مانی تھی ، پھر بعض دفعہ دوسری جنگوں کے معاملات میں صحابہ کے مشورہ کو بہت اہمیت دی جنگ احد میں ہی صحابہ کے مشورے سے آپ وہاں گئے تھے ورنہ آپ پسند نہ کرتے تھے.آپ کا تو یہ خیال تھا کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیا جائے اور جب اس مشورہ کے بعد آپ کہتھیار بند ہوکر نکلے تو صحابہ کو خیال آیا کہ آپ کی مرضی کے خلاف فیصلہ ہوا ہے، عرض کی یہیں رہ کر مقابلہ کرتے ہیں.تب آپ نے فرمایا کہ نہیں نبی جب ایک فیصلہ کر لے تو اس سے پھر پیچھے نہیں ہٹتا، اب اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور چلو.پھر یہ بھی صورت حال ہوئی کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام صحابہ کی متفقہ رائے تھی کہ معاہدہ پر دستخط نہ کئے جائیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی رائے کے خلاف اس پر دستخط فرما دیئے.اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ نے اس کے کیسے شاندار نتائج پیدا فرمائے.تو مشورہ لینے کا حکم تو ہے تا کہ معاملہ پوری طرح نظھر کر سامنے آ جائے لیکن ضروری نہیں ہے کہ مشورہ مانا بھی جائے تو آپ کی سنت کی پیروی میں ہی ہمارا نظام شوری بھی قائم ہے، خلفاء مشورہ لیتے ہیں تا کہ گہرائی میں جا کر معاملات کو دیکھا جا سکے لیکن ضروری نہیں ہے کہ شوری کے تمام فیصلوں کو قبول بھی کیا جائے اس لئے ہمیشہ یہی

Page 203

$2004 198 خطبات مسرور ہوتا ہے کہ شورای کی کارروائی کے آخر پر معاملات زیر غور کے بارے میں جب رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو اس پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ شورای یہ سفارش کرتی ہے، یہ لکھنے کا حق نہیں ہے کہ شورای یہ فیصلہ کرتی ہے.شوریٰ کو صرف سفارش کا حق ہے.فیصلہ کرنے کا حق صرف خلیفہ وقت کو ہے.اس پر کسی کے ذہن میں یہ بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ پھر شوری بلانے کا یا مشورہ لینے کا فائدہ کیا ہے، آج کل کے پڑھے لکھے ذہنوں میں یہ بھی آجاتا ہے تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہ آیا ہوں کہ مجلس مشاورت ایک مشورہ دینے والا ادارہ ہے.اس کا کردار پارلیمنٹ کا نہیں ہے جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں.آخری فیصلے کے لئے بہر حال معاملہ خلیفہ وقت کے پاس آتا ہے اور خلیفہ وقت کو ہی اختیار ہے کہ فیصلہ کرے، اور یہ اختیار اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے.لیکن بہر حال عموماً مشورے مانے بھی جاتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا سوائے خاص حالات کے، جن کا علم خلیفہ وقت کو ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ بعض حالات میں بعض وجوہات جن کی وجہ سے وہ مشورہ رد کیا گیا ہوان کو خلیفہ وقت بتانا نہ چاہتا ہوا یسی بعض مجبوریاں ہوتی ہیں.تو بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مشورہ لینے کا فائدہ ہوتا ہے.کیونکہ مختلف ماحول کے مختلف قوموں کے، مختلف معاشرتی حالات کے لوگ، زیادہ اور کم پڑھے لکھے لوگ مشورہ دے رہے ہوتے ہیں پھر آج کل جب جماعت پھیل گئی ہے، مختلف ملکوں کے لحاظ سے ان کے حالات کے مطابق مشورے پہنچ رہے ہوتے ہیں تو خلیفہ وقت کو ان ملکوں میں عمومی حالات اور جماعت کے معیار زندگی اور جماعت کے دینی روحانی معیار اور ان کی سوچوں کے بارے میں علم ہو جاتا ہے ان مشوروں کی وجہ سے.اور پھر جو بھی سکیم یا لائحہ عمل بنانا ہو اس کو بنانے میں مدد ملتی ہے.غرض کہ اگر ملکوں کی شورای کے بعض مشورے ان کی اصلی حالت میں نہ بھی مانے جائیں تب بھی خلیفہ وقت کو دیکھنے اور سننے سے بہر حال ان کو فائدہ ہوتا ہے.مشورہ دینے والے کا بہر حال یہ فرض بنتا ہے کہ نیک نیتی سے مشورہ دے اور خلیفہ وقت کا یہ حق بھی ہے اور فرض بھی ہے کہ وہ جماعت سے مشورہ

Page 204

199 $2004 خطبات مسرور لے.حضرت عمر تو فرمایا کرتے تھے کہ لَا خِلَافَةَ إِلَّا عَن مَشْوَرَةٍ“ کہ خلافت کا انعقاد مشورہ اور رائے لینے کے بغیر درست نہیں.اور یہ بھی کہ خلافت کے نظام کا ایک اہم ستون مشاورت ہی ہے.(کنز العمال كتاب الخلافة جلد ۳ صفحه (۱۳۹ تو جماعتی ترقی کے لئے اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے ایک انتہائی اہم چیز ہے، جیسا کہ حضرت عمر کا قول ہے کیونکہ قوم کی مشترکہ کوششیں ہوں تو پھر کامیابی کی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں.پھر ایک اور روایت ہے جس سے مشورے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے.حضرت علی بن ابو طالب سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا امر در پیش ہوا جس کے بارے میں وحی قرآن نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی ہم نے آپ سے کچھ سنا تو ہم کیا کریں گے.اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے معاملے کو حل کرنے کے لئے مومنوں میں سے علماء کو یا عبادت گزارلوگوں کو جمع کرنا اور اس معاملے کے بارے میں ان سے مشورہ کرنا اور ایسے معاملے کے بارے میں فرد واحد کی رائے پر فیصلہ نہ کرنا.(کنز العمال باب فی فضل حقوق القرآن جلد ۲ صفحه (٣٤٠ اس حدیث کی طرف بھی جماعت کو توجہ کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جماعت میں ہمیشہ دینی علوم کے بھی اور دوسرے علوم کے بھی ماہرین پیدا فرما تا رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عباد الرحمن پیدا فرمائے اور ہمیں عباد الرحمن بنائے تا کہ خلیفہ وقت کو مشورہ دینے میں بھی کبھی دقت پیش نہ آئے اور ہمیشہ مشورے سن کر یہ احساس ہو کہ ہاں یہ نیک نیتی سے دیا گیا مشورہ ہے.یہ نیک نیتی پرمبنی مشورہ ہے.اور اس میں اپنی ذات کی کسی قسم کی کوئی ملونی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احباب جماعت سے مشورہ طلب کرنے کے بارے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بعض امور جب پیش آتے تو آپ سال میں دو تین چار بار بھی اپنے خدام کو

Page 205

200 $2004 خطبات مسرور بلا لیتے کہ مشورہ کرنا ہے.کسی جلسے کی تجویز ہوتی تو یاد فرمالیتے کوئی اشتہار شائع کرنا ہوتا تو مشورہ کے لئے طلب کر لیتے.(رپورٹ مجلس مشاورت ١٩٢٧ صفحه ١٤٤) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجلس شورای میں خلیفہ وقت کی حیثیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مجلس شوریٰ ہو یا صدرانجمن احمد یہ خلیفہ کا مقام بہر حال دونوں کی سرداری ہے انتظامی لحاظ سے وہ صدرانجمن احمدیہ کا رہنما ہے اور آئین سازی اور بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کے لئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے.(الفضل ۲۷ /اپریل ۱۹۳۸ء) تو اس اصول کے تحت تمام ممالک کی مجالس شوری کی رپورٹس خلیفہ وقت کے پاس پیش ہوتی ہیں اور خلیفہ وقت جائزہ لے کر فیصلہ کرتا ہے لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کیونکہ ہر ملک کی مجلس شوری کی صدارت کرنا تو خلیفہ وقت کے لئے اب ممکن نہیں رہا کہ ہر ملک میں مجلس شوری ہو رہی ہو ، وہاں جائے اور صدارت کرے، خلیفہ وقت کسی کو اپنا نمائندہ مقررہ کرتا ہے جو صدارت کر رہا ہوتا ہے.تو یہ بات بھی نمائندگان شوری کو یا د رکھنی چاہئے کہ جو بھی شوری کی کارروائی کی صدارت کر رہا ہو وہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہوتا ہے.پھر حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ : ” خلیفہ نے اپنے کام کے دو حصے کئے ہوئے ہیں، ایک حصہ انتظامی ہے، اس کے عہد یدار مقرر کرنا خلیفہ کا کام ہے..دوسرا حصہ خلیفہ کا کام اصولی ہے اس کے لئے وہ مجلس شوریٰ کا مشورہ لیتا ہے تو فرمایا کہ ” پس مجلس شوری اصولی کاموں میں خلیفہ کی جانشین ہے“.(رپورٹ مجلس مشاورت (۱۹۳۰ء صفحه (٣٦) اس لئے نمائندگان شوریٰ کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ان کی ذمہ داری شوری کے اجلاس کے بعد ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک دفعہ کا منتخب کردہ نمائندہ مجلس شوری پورے سال تک کے لئے نمائندہ ہی رہتا ہے تاکہ اصولی باتوں میں مدد کر سکے اور شوری کی کارروائی میں جو فیصلے ہوئے ہیں، جو

Page 206

$2004 201 خطبات مسرور اصولی باتیں ہوئی ہیں ان پر عمل درآمد کرانے میں تعاون بھی کرے اور پوری ذمہ داری سے مقامی انتظامیہ کی مددبھی کرے.گو فیصلہ سے ہٹی ہوئی بات دیکھ کر جو بھی شوری میں ہوئی ہو.ممبران شوریٰ براہ راست تو مقامی انتظامیہ کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے ورنہ اس طرح تو ایک ٹکر کی صورت پیدا ہو جائے گی لیکن ان کو توجہ ضرور دلا سکتے ہیں کہ یہ یہ فیصلے ہوئے تھے، اس طرح کا رروائی ہونی چاہئے تھی ، یہ ہماری جماعت میں نہیں ہو رہی.اور جیسا کہ میں نے کہا توجہ کے ساتھ ساتھ عملدرآمد کرانے کے لئے ان سے تعاون بھی کریں اور اگر دیکھیں کہ مقامی انتظامیہ پوری طرح جو شورای کے فیصلے ہوئے ان پر عمل نہیں کر رہی تو پھر نظام جماعت قائم ہے وہ مرکز کو توجہ دلا سکتے ہیں، خلیفہ وقت کو اس بارے میں لکھ سکتے ہیں.تو یہ اطلاع دینا بھی ممبران شوری کا فرض ہوتا ہے کہ سارا سال جب تک وہ ہمبر ہیں ان معاملات پر عملدرآمد کرانے میں مدد کریں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اس کے یعنی خلافت کے اغراض و مقاصد بتائے ہیں، قرآن مجید میں اس کے کام کرنے کا طریق بھی بتا دیا ہے.وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ مجلس شورا ی کو قائم کرو، ان سے مشورہ لے کر غور کرو، پھر دعا کرو، جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں قائم کر دے اس پر قائم ہو جاؤ تو خلیفہ وقت کا یہ کام ہے کہ شوریٰ کے مشوروں کے بعد دعا کر کے فیصلہ کرے.اور جب کوئی فیصلہ کر لے پھر اس پر قائم ہو جائے جیسا کہ قرآن کریم میں حکم ہے.فرمایا کہ وہ خواہ اس مجلس کے مشورہ کے خلاف بھی ہو تو خدا تعالیٰ مدد کرے گا.خدا تعالیٰ تو کہتا ہے جب عزم کر لو تو اللہ پر توکل کرو گویا ڈرو نہیں اللہ تعالیٰ خود تمہاری تائید و نصرت کرے گا.اور یہ لوگ چاہتے ہیں ( یعنی جو لوگ چاہتے ہیں خلیفہ ان کی باتوں کے پیچھے چلے کہ خواہ خلیفہ کا منشاء کچھ ہو اور خدا تعالیٰ اسے کسی بات پر قائم کرے) مگر وہ چند آدمیوں کی رائے کے خلاف نہ کرے.بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی رائے پر

Page 207

$2004 202 خطبات مسرور ہی چلا جائے.خلیفے خدا مقرر کرتا ہے اور آپ ان کے خوفوں کو دور کرتا ہے جو شخص دوسروں کی مرضی کے موافق ہر وقت ایک نوکر کی طرح کام کرتا ہے اس کو خوف کیا اور اس میں موحد ہونے کی کونسی بات ہے.حالانکہ خلفاء کے لئے تو یہ ضروری ہے کہ خدا انہیں بناتا ہے اور ان کے خوف کوامن سے بدل دیتا ہے اور وہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیں اور شرک نہیں کرتے.فرمایا کہ اگر نبی کو بھی ایک شخص نہ مانے تو اس کی نبوت میں فرق نہیں آتا وہ نبی ہی رہتا ہے.یہی حال خلیفہ کا ہے اگر اس کو سب چھوڑ دیں پھر بھی وہ خلیفہ ہی ہوتا ہے کیونکہ جو حکم اصل کا ہے وہ فرع کا بھی ہے.خوب یا درکھو کہ جو شخص محض حکومت کے لئے خلیفہ بنا ہے تو جھوٹا ہے اور اگر اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کام کرتا ہے تو خدا کا محبوب ہے خواہ ساری دنیا اس کی دشمن ہو.( منصب خلافت انوار العلوم جلد ۲ صفه ۵۴،۵۳) اب میں نمائندگان شورای کے لئے جن اہم باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے ان کو خلاصہ پیش کرتا ہوں اور یہ باتیں عمومی طور پر احباب جماعت کے بھی علم میں ہونی چاہئیں.ہو سکتا ہے کل کو یہ بھی ممبر مجلس شورای بن جائیں.تو یہ باتیں حضرت مصلح موعودؓ نے نمائندگان شورای کو بیان فرمائی تھیں.(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحه ۸ تا ۱۳) لیکن یہ آج بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی آج سے ۰۸ سال پہلے اہم تھیں اور ضروری تھیں اس لئے ان کو ہمیشہ اس لحاظ سے پیش نظر رکھنا چاہئے.پہلی بات تو یہ ہے کہ شورای میں جب شامل ہوں تو محض اللہ شامل ہوں.یعنی جب رائے دیں تو یہ سوچ کر دیں کہ ہم نے اپنی آراء اللہ تعالیٰ کی خاطر دینی ہیں.پھر یہ ہے کہ خالی الذھن ہو کر دعا سے شامل ہوں.ذاتی باتوں کو دل سے نکال دیں، اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے شورای کے اجلاس کے دوران بھی دعاؤں میں مصروف رہیں اور دعاؤں میں لگے رہیں.پھر یہ ہے کہ اپنی رائے منوانے کی نیت نہ ہو.کسی کی رائے بھی مفید ہو سکتی ہے.یہ نہیں ہے کہ جس طرح دنیا کی پارلیمنٹیں ، اسمبلیاں ہوتی ہیں وہاں بحث و تمحیص شروع ہو جاتی ہے.بحث کرنے کا کوئی حق نہیں.

Page 208

$2004 203 خطبات مسرور رائے دیں اور بیٹھ جائیں.اگر آپ کی رائے میں وزن ہوگا ، لوگوں کو پسند آئے گی خود اس کے حق میں عمومی رائے بن جائے گی.اگر نہیں تو آپ کا کام صرف نیک نیتی سے جو بھی ذہن میں بات آئی اس کا اظہار کرنا تھا وہ کر دیا.اور اس کے لئے یہ بھی ہے کہ دوسروں کی رائے کو غور سے سنیں.آپ نے ایک رائے اپنے ذہن میں بنائی ہے ہو سکتا ہے کہ جب دوسرا اس سے پہلے آکے اپنی رائے دے دے تو آپ اپنی رائے چھوڑ دیں.پھر یہ ہے کہ کسی کی خاطر رائے نہ دیں.کسی رائے سے صرف اس لئے اتفاق نہ کریں کہ یہ میرے دوست یا عزیز نے رائے دی ہے یا میری جماعت کے فلاں فرد نے سیہ رائے دی ہے.آزادانہ رائے ہونی چاہئے ، خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئے اور پھر یہ ہے کہ کسی حکمت کے تحت کبھی کوئی رائے نہ دیں بلکہ یہ مد نظر ہو کہ جو سوال در پیش ہے اس کے لئے کون سی بات مفید ہے، یہ نہیں کہ فلاں حکمت حاصل کرنی ہے.پھر یہ ہے کہ سچی بات تسلیم کرنے سے پر ہیز نہ کریں، پہلے بھی میں نے بتایا ہے خواہ اسے کوئی بھی پیش کر رہا ہو، بعض لوگ صرف اس لئے مخالفت کر دیتے ہیں بعض باتوں کی کہ پیش کرنے والا کم پڑھا لکھا یا دیہاتی مجلس کا آیا ہوا ہے.پھر یہ ہے کہ رائے قائم کرنے کے بارے میں جلد بازی سے کام نہ لیں.اپنی رائے کو کبھی اس طرح نہ سمجھیں کہ یہ بہت مضبوط ہے اور کبھی غلط نہیں ہو سکتی.اس وجہ سے اس پر اصرار کرتے رہیں.پھر یہ ہے کہ رائے دیتے وقت احساسات کی پیروی نہیں ہونی چاہئے.مجھے یہ احساس ہے، یہ احساس ہے، یہ احساس ہے، بلکہ واقعات کو مدنظر رکھنا چاہئے ، تائیدی طور پر یہ احساسات تو پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر جب رائے دے رہے ہوں تو واقعات پیش ہونے چاہئیں، معین اعداد و شمار پیش ہونے چاہئیں، جس کی روشنی میں دوسرا بھی رائے قائم کر سکے.اور وہ بات کریں جس میں دینی فائدہ ہو.اصل مقصد تو دین کی ترقی ہے نہ کہ اپنی بڑائی یا علم کا اظہار کرنا ہے.اس لئے ہر مشورہ اسی سوچ کے ساتھ ہونا چاہئے.پھر یہ ہے کہ ایسی رائے کو سوچ سمجھ کے آنا چاہئے،

Page 209

$2004 204 خطبات مسرور شورای میں ایسے ایجنڈے آنے چاہئیں جو مخالفین کے مقابلہ میں اعلیٰ اور مؤثر ہوں صرف چھوٹی چھوٹی باتوں پر شوری میں ایجنڈے پیش نہ ہوں ہم نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے.اور اسلام کو دنیا میں پھیلانا ہے تو ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی اس لحاظ سے ہونی چاہئے.فروعات پر بحث نہ ہو بلکہ واقعہ کو دیکھیں کہ مفید ہے یا مضر ہے کیونکہ اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.بعض چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلا وجہ بخشیں چلتی رہتی ہیں اور طول پکڑ جاتی ہیں.پھر یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اگر آپ کی رائے دینے سے پہلے کوئی اور رائے دے چکا ہے اس معاملے میں اور وہ آپ کی رائے سے مطابقت رکھتی ہے تو ضروری نہیں ہے کہ پھر سینچ پہ آیا جائے اور میں آخر پہ سب سے اہم بات یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ کا ہر عمل اور ہر مشورہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہو، مختصراً میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے، تقویٰ کے پیش نظر ہو، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے مشورہ دیں کہ اے اللہ ! ہم تو ہر علم کا مکمل احاطہ کئے ہوئے نہیں ہیں تو ہی ہماری مددفرما اور ہماری صحیح رہنمائی فرما.تیرے نام پر، تیرے دین کی سر بلندی کی خاطر ، تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کی خاطر، ان کی لائی ہوئی شریعت کو دنیا میں قائم کرنے کی خاطر، تیرے مسیح و مہدی نے ہمیں ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا ہے اور اس کام کو سر انجام دینے کے لئے مشورے کی خاطر خلیفہ وقت نے ہمیں بلایا ہے، تو ہمیں توفیق دے کہ صحیح مشورہ دے سکیں.ہماری ذات کی کوئی ملونی بیچ میں نہ ہو اور خالصتاً ہم تیری خاطر مشورہ دینے والے ہوں.صحیح راستے سمجھانے والا بھی تو ہے اور ذہنوں کو کھولنے والا بھی تو ہے، تو ہماری مددفرما اور ہمیں اس مرحلے سے تقویٰ پہ چلتے ہوئے گزار.اگر اس سوچ کے ساتھ مجالس میں بیٹھیں گے اور مشورے دیں گے تو انشاء اللہ تعالی، اللہ تعالیٰ بہت مدد فرمائے گا اور صحیح راستے بھی سمجھائے گا اور ایسی مجالس کی برکات سے بھی آپ فیضیاب ہوں گے.

Page 210

$2004 205 مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ جب انسان جذبات نفس.سے پاک ہوتا ہے اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے.اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے جہاں لوگ ابتلاء میں پڑتے ہیں وہاں یہ امر ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ فعل خدا کے ارادہ سے مطابق نہیں ہوتا.خدا کی رضا اس کے برخلاف ہوتی ہے.ایسا شخص اپنے جذبات کے نیچے چلتا ہے.مثلاً غصے میں آ کر کوئی ایسا فعل اس سے سرزد ہو جاتا ہے جس سے مقدمات بن جایا کرتے ہیں.فوجداریاں ہو جاتی ہیں.مگر اگر کسی کا ارادہ ہو تو بلا استصواب کتاب اللہ ( یعنی اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم کے اس حکم کے بغیر ) اس کا حرکت وسکون نہ ہوگا.اور اپنی ہر ایک بات پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا.یقینی امر ہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی جیسے کہ فرمایا وَلَا رَطْبٍ وَّلَايَا بِسِ إِلَّا فِي كِتَبٍ مُّبِيْنٍ (سورۃ الانعام: ۰۶ - سواگر ہم یہ ارادہ کریں کہ مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے تو ہم کو ضرور مشورہ ملے گا لیکن جو اپنے جذبات کا تابع ہے وہ ضرور نقصان ہی میں پڑے گا.بسا اوقات وہ اس جگہ مواخذے میں پڑے گا سواس کے مقابل اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ولی جو میرے ساتھ بولتے چلتے کام کرتے ہیں وہ گویا اس میں محو ہیں.سو جس قدر محویت میں کم ہے وہ اتنا ہی خدا سے دور ہے.لیکن اگر اس کی محویت ویسی ہے جیسا کہ خدا نے فرمایا تو اس کے ایمان کا اندازہ نہیں.ان کی حمایت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مـن عــادلـي ولـيـا فقد اذنته بالحرب (الحدیث) جو شخص میرے ولی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا ہے اب دیکھ لو تقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدر عالی ہے جس کا قرب خدا کی جناب میں ایسا ہے اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہے.تو خدا اس کا کس قدر معاون و مددگار ہوگا.لوگ بہت سے مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں لیکن متقی بچائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پاس جو آتا ہے وہ بھی بچایا جاتا ہے.مصائب کی کوئی حد نہیں انسان کا اپنا اندر اس قدر مصائب سے بھرا ہوا ہے،اس کا کوئی اندازہ نہیں.

Page 211

206 $2004 خطبات مسرور امراض کو ہی دیکھ لیا جائے کہ ہزار ہا مصائب کے پیدا کرنے کو کافی ہیں لیکن جو تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ ہے.اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه ۹ - ۱۰ - رپورٹ جلسه سالانه (۱۸۹۷ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے تمام کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اب میں احباب جماعت کو دعا کی غرض سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.کل انشاء اللہ تعالیٰ میں افریقہ کے بعض ممالک کے دورے پہ جا رہا ہوں اور بعض ممالک ایسے ہیں جن میں خلیفہ وقت کا یہ پہلا دورہ ہے.اور ان ممالک میں جماعتیں بھی خلافت رابعہ میں قائم ہوئی تھیں.دعا کریں اور بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اپنی رحمتوں اور فضلوں کے نشان دکھاتا رہے.اور دورے کو غیر معمولی کامیابی سے نوازے.اس کے فضل کے بغیر تو ہم ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے.اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں اسلام اور احمدیت کی فتوحات کے نظارے دکھائے اور دشمن کے ہر شر سے ہر احمدی کو ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہر احمدی کے ایمان واخلاص کو بڑھا تار ہے.انشاء اللہ تعالیٰ کوشش ہوگی کہ وہاں سے بھی ایم ٹی اے کے ذریعے سے جماعت سے رابطہ رہے لیکن جس حد تک یہ ممکن ہو سکا.بعض ممالک میں سے شاید نہ ہو سکے لیکن بہر حال انشاء اللہ رابطہ رہے گا.دعاؤں میں یا درکھیں.

Page 212

خطبات مسرور 12 الله $2004 207 ہر پاک دل کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے آؤ تو یہ بھی تمہارا قوم پر ایک بہت بڑا احسان ہوگا ۱۹ مارچ ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۹ رامان ۱۳۸۳ هجری شمسی به مقام بستان احمد اکرا، غانا (مغربی افریقہ ) احسان کی بابت تعلیمات اور ارشادات اللہ تعالیٰ کے دوست اور محبوب اور ولی بنے کی بنیادی شرط احسان کرنے والے بن جاؤ جب اس فکر کے ساتھ نمازیں ادا کی جائیں گی تو پھر دیکھیں کس طرح تو پھر دیکھیں انقلابات برپا ہوتے ہیں اللہ کرے کہ قیموں کی پرورش کا اعلیٰ خلق ہر احمدی گھرانے میں تمام دنیا میں قائم ہو جائے ، والدین اور عورتوں سے حسن سلوک کی بابت ارشادات غانا میں خلیفہ وقت کا اردو زبان میں خطبہ جمعہ اور اس کی وجہ

Page 213

خطبات مسرور $2004 208 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: لَيْسَ عَلَى الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَّامَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّامَنُواْ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ.(المائده آیت ۹۴) اس آیت کا ترجمہ ہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے ان پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھاتے ہیں.بشرطیکہ وہ تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں.پھر مزید تقویٰ اختیار کریں اور مزید ایمان لائیں پھر اور بھی تقوی اختیار کریں اور احسان کریں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.بنیادی اخلاق جن کا ہر احمدی کو خیال رکھنا چاہئے کے بارے میں میں نے سلسلہ خطبات شروع کیا ہوا ہے اس سلسلے میں آج احسان کا مضمون میں نے لیا ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے عدل کے بارے میں بتایا تھا.جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مومن ایک منزل پر آ کر رک نہیں جاتا بلکہ آگے بڑھتا ہے تو ہماری انتہاء صرف عدل قائم کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے قدم بڑھانا ہے.ایک دنیا دار کہے گا کہ جب عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار قائم ہو گئے تو پھر کیا رہ گیا ہے.یہ تو ایک معراج ہے جو انسان کو حاصل کرنا چاہئے.اور جب یہ قائم ہو جائے تو دنیا کی نظر میں اس سے زیادہ کوئی نیکیوں پر قائم ہو ہی نہیں سکتا.اس بارے میں کل میں نے اپنی تقریر میں بھی کچھ عرض کیا تھا کہ عدل کے معیار اس حد تک لے جاؤ کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل سے کام نہ لو.

Page 214

$2004 209 مسرور بہر حال ایک جگہ پر کھڑے ہو جانا دنیا کی نظر میں تو یہی اعلیٰ معیار ہے.لیکن کامل ایمان والوں کی نظر میں یہ اعلیٰ معیار نہیں بلکہ اس سے آگے بھی اللہ تعالیٰ کی حسین تعلیم کی روشنیاں ہیں.اور عدل سے اگلا قدم احسان کا قدم ہے.لیکن یاد رکھو یہ قدم تم اس وقت اٹھانے کے قابل ہو گے جب تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوگی، جب تم میں بنی نوع انسان سے انتہاء کی محبت پیدا ہو گی.اور یہ باتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کا فضل یقیناً ان پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے.ہر موقع پر دوست اور محبت کرنے والے کا حق ادا کرنے کے لئے وہ اس کے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے احسان کرنا بھی ایک بہت بڑا احکم اور خلق ہے.اب اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک بہت بڑی نشانی بتائی ہے کہ وہ احسان کرنے والا ہو ، اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے بہت محبت کرتا ہے.لیکن فرمایا کہ یہ احسان کرنے کا خلق یونہی پیدا نہیں ہو جاتا.اس کے لئے تقویٰ اختیار کرنے کی ضرورت ہے خالصتا اللہ تعالیٰ کا ہونے کی ضرورت ہے.یعنی تقویٰ کی اعلیٰ سے اعلیٰ منازل طے کرنے کی ضرورت ہے.اس وقت میں ان منازل کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تقویٰ کی تین منازل کا ذکر کیا ہے.فرمایا کہ جب تم اس حد تک تقویٰ اختیار کر لو تو تم پھر احسان کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ گے.یا درکھیں ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دوست اور ولی ہو.اللہ تعالیٰ ہر مشکل سے اس کو نکالے.تو جب تم اپنے تقویٰ کے معیار کو اس حد تک لے جاؤ گے کہ احسان کرنے والے بن سکو، پھر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ گے اور جو اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جائے اس کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچاسکتی.

Page 215

$2004 210 مسرور پھر قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے احسان کی مختلف شکلیں بیان فرمائی ہیں.کہیں فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور یہ بھی احسان کرنا ہے.لیکن یہ خدا تعالیٰ پر احسان نہیں بلکہ یہ تمہارا اپنے پر احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس وجہ سے بہت سی بلاؤں سے محفوظ رکھے گا.پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ اپنے قریبیوں کے ساتھ جس طرح بعض دفعہ تم بغیر کسی ذاتی فائدہ کے حسن سلوک کرتے ہو، جس طرح تم اپنے بیوی بچوں، بہن بھائیوں یا قریبی دوستوں کی مدد کرتے ہو اور بے نفس ہو کر کرتے ہو، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوق سے بھی حسن سلوک کرو، ان سے بھی احسان کا سلوک کرو، ان کے کام آؤ، جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہو ان کے لئے بھی پسند کرو، اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نعمت سے نوازا ہے کہ تمہیں اس زمانے کے امام اور مسیح اور مہدی علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اپنے ہم قوموں کو بھی یہ روشنی وسیع پیمانے پر دکھانے کی کوشش کرو یہ بھی تمہارا ان پر احسان ہوگا.ہر پاک دل کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے آؤ.تو یہ بھی تمہارا قوم پر ایک بہت بڑا احسان ہوگا اور تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بھی بن رہے ہو گے لیکن یہ بھی یادرکھیں کہ اپنے میں شامل کر کے پھر یہ تعلق چھوڑ نہیں دینا بلکہ ان سے پختہ رابطہ اور تعلق بھی رکھنا ہے.تو اس سوچ کے ساتھ ہر احمدی کو احسان کے اعلیٰ ترین خلق کو دنیا میں رائج کرنا چاہئے.اب اس بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں.ایک لمبی حدیث ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں جبرائیل علیہ السلام نے آکر اسلام ایمان وغیرہ سے متعلق سوال پوچھے.اور اس میں سے ایک سوال احسان کے بارے میں بھی کیا ، احسان سے متعلقہ حصہ میں سناتا ہوں.سوال تھا کہ احسان کے متعلق کچھ بتائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر تجھے یہ درجہ حاصل نہیں تو کم از کم یہ تصور

Page 216

$2004 211 خطبات مسرور اور احساس ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے.(بخاری کتاب الايمان باب سؤال جبريل النبي الله عن الايمان) تو احمدیوں کو اپنی نمازوں کی ادائیگی میں ہمیشہ یہ اصول اپنے سامنے اور نظر میں رکھنا چاہئے ، جب ہر احمدی اس طرح نمازیں پڑھنے والا ہو جائے گا نہ کہ صرف سر سے ٹالنے کے لئے نمازیں پڑھے گا.تو جب اس فکر کے ساتھ نمازیں ادا کی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہیں ، تمام توجہ اسی کی طرف ہے، تو پھر دیکھیں کس طرح انقلابات برپا ہوتے ہیں.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : نیکی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں.اور اس کی محبت ذاتی رگ و ریشہ میں سرایت کر جاوے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ﴿انَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيْتَاءِ ذِي الْقُرْبى خدا کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یا دکر کے اس کی فرمانبرداری کرو.اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور اسے پہچانو.اور اس پر ترقی کرنا چاہو تو درجہ احسان کا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے.اور جن لوگوں نے تم سے سلوک نہیں کیا ان سے سلوک کرنا.اور اگر اس سے بڑھ کر سلوک چاہو تو ایک اور درجہ نیکی کا یہ ہے کہ خدا کی محبت طبعی محبت سے کرو، بہشت کی طمع یا لالچ ، نہ دوزخ کا خوف ہو بلکہ اگر فرض کیا جاوے نہ بہشت ہے نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے.اور ایسی محبت جب خدا سے ہو تو اس میں ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فتور واقع نہیں ہوتا.( البدر جلد ۲ نمبر ٤٣ - ١٦ / نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۵) پھر ایک حدیث میں بیان کرتا ہوں، اس میں دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں، حسن خلق کے کس اعلیٰ معیار تک ہمیں لے جانا چاہتے ہیں.حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم

Page 217

$2004 212 خطبات مسرور دوسروں کی دیکھا دیکھی ایسے نہ کہو کہ لوگ ہم سے حسن سلوک کریں گے تو ہم بھی ان سے حسن سلوک کریں گے اور اگر انہوں نے ہم پر ظلم کیا تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے بلکہ تم اپنے نفس کی تربیت اس طرح کرو کہ اگر لوگ تم سے حسن سلوک کریں تو تم ان سے احسان کا معاملہ کرو.اور اگر وہ تم سے بدسلوکی کریں تو بھی تم ظلم سے کام نہ لو.(ترمذى كتاب البر والصلة والادب باب ماجاء في الاحسان والعفو دیکھیں کس قدر حسین تعلیم ہے.پھر ہر کوئی اپنا جائزہ لے.خوف پیدا ہوتا ہے کیا ہم نے یہ معیار حاصل کر لیا ہے، حکم تو یہ ہے کہ اگر کوئی تم سے معمولی نیکی بھی کرتا ہے تو تم اس سے احسان کا سلوک کرو، جو نیکی تمہارے سے کسی نے کی ہے اس سے کئی گنا بڑھ کر اس سے نیکی کرو.اور پھر یہیں بس نہیں کر دینا فرمایا کہ اگر تمہارے سے کوئی برائی بھی کرتا ہے تو پھر بھی تم نے ظلم نہیں کرنا.اگر معاف نہیں کر سکتے تو اتنا بدلہ نہ لوکہ ظلم بن جائے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کرنے کا طریق بھی ہمیں بتادیا، اس بارے میں ایک روایت ہے.حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس پر کوئی احسان کیا گیا ہو اور وہ احسان کرنے والے کو کہے کہ جَزَاكَ الله خيرًا کہ اللہ تعالیٰ تجھے بہترین جزا دے تو اس نے شکریہ ادا کرنے کی انتہا کر دی.(ترمذى كتاب البر والصلة باب في ثناء بالمعروف) تو یہ بات یا درکھنی چاہئے کہ احسان کرنے والے کو صرف تكلفاً جزاک اللہ کہنا کافی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی دعا ہے جو تمہارے دل سے نکلنی چاہئے کیونکہ احسان کرنے والے کا ممنون احسان ہونے کے بعد اس کا احسان تبھی اتارا جا سکتا ہے.کہ تمہارے دل سے اس شکریہ کی آواز نکلے جو عرش تک پہنچے، اللہ میں ایسی دعاؤں کی توفیق دے جن سے پاک معاشرہ قائم ہو جائے.پھر حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں اللہ تعالیٰ اس پر اپنا دامن رحمت پھیلا دے گا اور اسے جنت میں داخل

Page 218

$2004 213 خطبات مسرور کرے گا.اول یہ کہ کمزوروں پر رحم کرنا دوسرے والدین سے محبت و شفقت کرنا ، تیسرے خادموں اور نوکروں سے احسان کا سلوک کرنا.پھر حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس سے احسان کا سلوک کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم سے بدسلوکی کی جائے.( ابن ماجه كتاب الادب باب حق اليتم ) میرے پر یہ تاثر ہے خدا کرے کہ یہ تاثر صحیح ہو کہ یہاں اس ملک (غانا) میں عموماً اپنے بہن بھائیوں اور یتیم بچوں کی اچھی نگہداشت کی جاتی ہے.اللہ کرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ئیں ان تمام مومنوں کے حق میں پوری ہوں جو قتیموں سے احسان کا سلوک کرتے ہیں.اور کسی احمدی کا گھر یہ حق ادا نہ کر کے کبھی بدترین گھر کے زمرے میں نہ آئے.اللہ کرے کہ یتیموں کی پرورش کا اعلیٰ خلق ہر احمدی گھرانے میں تمام دنیا میں قائم ہو جائے، کبھی یہ نہ ہو کہ احسان کر کے پھر احسان جتانے والے بھی پیدا ہو جائیں بلکہ اس محاورے پر عمل کرنے والے ہوں کہ نیکی کر دریا میں ڈال.یعنی پھر بھول جاؤ کہ کوئی نیکی کی بھی تھی.پھر یتیم بچوں سے حسن سلوک کرنے والوں کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور خوشخبری بھی دی ہے.حضرت ابو امامہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے یتیم بچے یا بچی کے سر پر محض اللہ کی خاطر دست شفقت پھیرا اس کے لئے ہر بال کے اوپر جس پر اس کا مشفق ہاتھ پھرے نیکیاں شمار ہوں گی.اور جس شخص نے اپنے زیر کفالت یتیم بچے یا بچی سے احسان کا معاملہ کیا وہ اور میں جنت میں یوں ہوں گے ( آپ نے اپنی دوانگلیوں کو ملا کر دکھایا).(مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ٢٥٠ ـ بيروت) تو جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنت میں رفاقت مل جائے اس کو کیا چاہئے.پھر عورتوں سے حسن سلوک کے بارے میں کچھ بیان کرتا ہوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس ہے کہ:

Page 219

خطبات مسرور 214 $2004 مرد کو بہ نسبت عورت کے فطرتی قومی زبر دست دیئے گئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے مرد عورت پر حکومت کرتا چلا آیا ہے اور مرد کی فطرت کو جس قدر با اعتبار کمال قوتوں کے انعام عطا کیا گیا ہے عورت کی قوتوں کو عطا نہیں کیا گیا.اور قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگر مرد اپنی عورت کو مروت اور احسان کی رو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے، اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے.ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے اور بہر حال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بالمعروف یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عظمند معلوم کر سکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آتے ہو“.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸۸) پھر والدین کے احسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے بارے میں حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے.یہ اس وجہ سے کہ مشکل سے اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں اس کو رکھا اور مشکل ہی سے اس کو جنا.اور یہ مشکلات اس دور دراز مدت تک رہتی ہیں کہ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ کا چھوٹنا ۳۰ مہینے میں جا کر تمام ہوتا ہے.یہاں تک کہ جب ایک نیک انسان اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اے میرے پروردگار! مجھ کو اس بات کی توفیق دے کہ تو نے جو مجھ پر اور میرے ماں باپ پر احسانات کئے ہیں تیرے ان احسانات کا شکر یہ ادا کرتا رہوں اور مجھے اس بات کی بھی توفیق دے کہ میں کوئی ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو جائے..(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۰۹ حاشیه اول نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو جوشخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو.اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر حسن سلوک کرو.یہ احسان ہے.احسان کا درجہ اگر چہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان کرنے والا اپنا

Page 220

$2004 215 خطبات مسرور احسان جتلاوے.مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا کوئی بھی حصہ نہیں ہوتا.جیسے ماں اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے.جو اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی.بلکہ طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم احسان کے اعلی خلق کو مکمل طور پر اپنانے والے ہوں اور دل کی گہرائیوں سے یہ خلق ادا کرنے والے ہوں.ہمارا کوئی فعل کبھی بھی ایسا نہ ہو جس سے کسی بھی طرف سے کسی بھی احمدی پر یہ انگلی اٹھے کہ یہ بداخلاق اور احسان فراموش ہے.آج کا خطبہ یہاں میں نے اُردو میں اس لئے دیا ہے کہ پاکستان کے ظالمانہ قانون نے خلیفہ وقت کی زبان بندی کی ہوئی ہے اور خلیفہ اسلام کی تعلیم جماعت کو دینے کا حق نہیں رکھتا.یا دوسرے الفاظ میں پاکستانی احمدی کو ظالمانہ قانون کی وجہ سے خلیفہ وقت کی آواز سننے سے محروم کیا گیا ہے لیکن ان دنیا داروں کو کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر ان کی تدبیروں سے بہت بالا ہے اور انہوں نے خلیفہ وقت کی آواز ایک ملک میں بند کی تھی اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعے تمام دنیا میں یہ آواز پہنچادی ہے.اور یہ خطبہ بھی یہاں سے تمام دنیا میں نشر ہورہا ہے.تو بہر حال یہ پاکستانی احمدی کا حق بھی ہے اور یہ اس احسان کے شکرانے کا تقاضا بھی ہے جو پاکستانی مبلغین نے دنیا کے اس خطے میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو پہنچا کر کیا.پس اس احسان کا شکر ادا کرتے ہوئے جہاں ہمیں ان مبلغین کے لئے دعا کرنی چاہئے جو ابتداء میں یہاں احمدیت کا پیغام لے کر آئے.وہاں ان کی نسلوں اور قوم کے لئے بھی دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مخالفین کے ہر شر سے محفوظ رکھے اور ان کو بھی آزادی کے دن دیکھنے نصیب کرے اور وہ بھی آپ کی طرح جلسے منعقد کرنے کے قابل ہو سکیں.میں یہاں کی حکومت خاص طور پر صدر مملکت اور لوگوں کے پیار اور محبت کے سلوک پر ممنون احسان ہوں.اور جَزَاكَ الله خَيْرًا کہتا ہوں.اور یہی سب سے بڑی دعا ہے.اور سب سے بڑھ کر میں دلی جذبات کے ساتھ اپنے پیارے احمدی بھائیوں اور بہنوں کو دعا دیتا ہوں جنہوں

Page 221

216 $2004 خطبات مسرور نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس زمانے کے امام کی بیعت کی.اور اس کے خلیفہ سے محض اللہ اخلاص و وفا اور محبت کے اعلیٰ معیار قائم کئے.اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان، اخلاص اور وفا کے معیار میں مزید ترقیاں دیتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ آپ کو یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے اس خطے میں پھیلانے کی توفیق دے.آج انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کے بعد یہ جلسہ اختتام کو پہنچے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ جلسے کے ان دو دنوں میں جو کچھ آپ نے روحانی ترقی حاصل کی ہے اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ہر مشکل اور ہر پریشانی سے محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ خیریت سے آپ کو گھروں میں لے جائے.سفر میں ہر طرح سے حافظ و ناصر ہو، اور آپ کی طرف سے ہمیشہ خوشیوں کی خبریں مجھے ملتی رہیں.اور میرا بھی یہ سفر جو مختلف ملکوں کا تقریباً ایک ماہ تک جاری رہے گا، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کے فضلوں کو سمیٹتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچے.اللہ تعالیٰ جماعت کی ترقی کی تمام منازل کو پورا ہوتا ہوا ہمیں دکھائے.آمین ( اس خطبہ کا مقامی زبان میں ساتھ کے ساتھ ترجمہ کرنے کی سعادت مکرم عبدالوہاب آدم صاحب امیر ومبلغ انچارج غانا کو حاصل ہوئی).

Page 222

$2004 217 13 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اپنی نمازوں کو خالص کریں.اگر نماز میں ذوق آ گیا تو سمجھیں سب کچھ مل گیا.۲۶ مارچ ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۶ رامان ۱۳۸۳ هجری شمسی ہم مقام وا گا ڈوگو، بورکینا فاسو ( مغربی افریقہ ) ذات اور قبائل کی تقسیم کسی بڑائی کا باعث نہیں ہے ، بڑا وہی ہے جو تقویٰ میں سب سے آگے ہے تقویٰ کا مطلب ہے نفس کو خطرے سے محفوظ کرنا...تمام بری باتوں سے اس وقت بچا جا سکتا ہے جب دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت ہو نمازوں میں روروکر اپنے رب سے مانگیں تو اپنے وعدوں کے مطابق ضرور ہماری دعائیں سنے گا قرآن شریف سیکھنے اور پڑھنے ، ترجمہ سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے اور درس کو رواج دینے کا ارشاد تلاوت قرآن تو بہر حال ہر احمدی کو روزانہ ضرور کرنی چاہیے ہر احمدی کے لئے ضروری ہے کہ جونور ہدایت اس نے حاصل کیا ہے وہ اپنی نسلوں میں بھی جاری کرے

Page 223

خطبات مسرور $2004 218 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: يأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَّأَنْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شَعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ اكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيْمٌ خَبِيرٌ (سورة الحجرات آیت ۱۴) اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا لفظ قرآن کریم میں اتنی بار استعمال کیا ہے کہ اس کی کوئی انتہا نہیں اور شاید ہی کوئی اور لفظ اتنی بار استعمال ہوا ہو.مختلف پیرایوں اور مختلف شکلوں میں اس کے بارے میں توجہ دلائی گئی ہے.بلکہ ایک مسلمان جب شادی کے بندھن میں بندھتا ہے تو اس وقت نکاح کے خطبہ میں پانچ دفعہ تقویٰ کے بارہ میں ذکر آتا ہے.تقویٰ کی اہمیت کا اسی بات سے اندازہ کر لیں.کیونکہ شادی میں مرد اور عورت ایک نئی زندگی کا آغاز کر رہے ہوتے ہیں اور نہ صرف مرد اور عورت ایک معاہدہ کر رہے ہوتے ہیں بلکہ دو خاندان آپس میں ایک تعلق پیدا کر رہے ہوتے ہیں.اگر تقویٰ نہ ہو تو معاشرے میں ایک فساد پیدا ہو جائے.پھر ایک مسلمان عورت اور مرد کے ایک تعلق میں بندھنے کے نتیجہ میں نئے وجودوں کی آمد ہوتی ہے.اگر ایک مسلمان میاں بیوی تقویٰ پر قائم نہیں رہیں گے تو آنے والی نسل کے متقی ہونے کی کوئی ضمانت نہیں.تو خلاصہ یہ کہ تقومی ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس کے بغیر خدا تعالیٰ کے ملنے اور اس سے زندہ تعلق جوڑنے کا تصور ہی غلط ہے.آج اسی بارے میں چند باتیں کہوں گا.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.

Page 224

$2004 219 خطبات مسرور بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے.تو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا کہ تمہاری چھوٹے قبیلوں یا بڑے قبیلوں میں جو تقسیم ہے یہ صرف تمہاری پہچان کے لئے ہے.اب دیکھ لیں یہاں افریقہ میں آپ کے ملک کی طرح چھوٹے چھوٹے علاقوں کے چیف ہیں اور پھر کئی چیف کسی بڑے چیف کے ماتحت ہیں.اور پھر یہ سب مل کر ملکی سطح پر ایک قوم ہیں.اسی طرح دنیا کے تمام ممالک میں بھی اس طرح کی تقسیم ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو تقسیم ہے اس کو اپنی بڑائی کی علامت نہ سمجھو.تمہاری بڑائی بڑا قبیلہ ہونے یا زیادہ امیر ملک ہونے سے نہیں ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہی شخص ہے وہی قبیلہ یا وہی قوم ہے جو تقویٰ میں سب سے آگے ہے اور یا درکھیں کہ تقویٰ کا معیار اپنی نیکیوں کے اظہار سے نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہماری ہر حرکت اور فعل سے باخبر بھی ہے اور اس کا علم بھی رکھتی ہے.اللہ تعالیٰ کو سب علم ہے کہ کون سا فعل دکھاوے کی خاطر کیا گیا ہے اور کون سا فعل اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے کیا گیا ہے.تقویٰ کے مختصرا معنی بتاتا ہوں.تقویٰ کا مطلب ہے نفس کو خطرے سے محفوظ کرنا اور شرعی اصطلاح میں تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ نفس کو ہر اس چیز سے بچانا جو انسان کو گناہگار بنادے.اور یہ تب ہوتا ہے جب ممنوعہ اشیاء سے بچا جائے بلکہ اس کے لئے بعض اوقات جائز چیزوں کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے.مثلاً رمضان میں پاک اور جائز چیزوں سے بھی مومن اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے رک جاتا ہے.تو بہر حال اصل تقویٰ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بچانا جو گناہوں کی طرف لے جائے.اور یہ ہر مسلمان کے لئے فرض ہے چاہے وہ کسی قوم کا ہو.اللہ تعالیٰ یہ نہیں پوچھے گا کہ تم فلاں قوم کے ہو جو امیر ہے اس لئے تمہیں کچھ چھوٹ دی جاتی ہے.یا تم فلاں قوم کے ہو جو ترقی یافتہ نہیں

Page 225

$2004 220 خطبات مسرور اس لئے چھوٹ دی جاتی ہے.نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے یہ عذر قابل قبول نہیں ہوں گے.اس لئے ہر ایک کو اپنے آپ کو ہر برائی سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے.اور ہر نیکی کو بجا لانے کے لئے تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہئے.تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم امام الزمان کی جماعت میں شامل ہیں.یاد رکھیں کہ تمام بری باتوں سے اس وقت بچا جا سکتا ہے جب دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت ہو.اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف ہو جس سے اس کی محبت بھی ظاہر ہوتی ہو.اور یہ باتیں تب ملتی ہیں جب اس کے آگے جھکا جائے ، اس سے مانگا جائے.یہ دعا کی جائے کہ اے خدا! میں تیری محبت میں وہ تمام باتیں چھوڑ نا چاہتا ہوں جن کے چھوڑنے کا تو نے حکم دیا ہے.اور وہ تمام باتیں اختیار کرنا چاہتا ہوں جن کے کرنے کا تو نے حکم دیا ہے.لیکن تیرا قرب پانے کے لئے بھی تیرا فضل ہونا ضروری ہے.اے اللہ ! اپنے فضل سے مجھے تقولٰی عطا فرما.اگر نمازوں میں رو رو کر اپنے رب سے مانگیں گے تو اپنے وعدوں کے مطابق ضرور ہماری دعائیں سنے گا.پس سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنی نمازوں کو، اپنی دعاؤں کو، اس کے لئے خالص کرنا ہوگا.اور یہی بنیادی چیز ہے.اگر نمازوں میں ذوق اور سکون میسر آ گیا تو سمجھیں سب کچھ مل گیا.نمازوں میں خاص طور پر یہ دعا کریں جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے.حدیثوں میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَتِهَا وَأَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّهَا.اے اللہ ! میرے نفس کو اس کا تقومی عطا کر اور اس کو خوب پاک صاف کر دے، اور تو ہی سب سے بہتر ہے جو اس کو پاک کر سکے.( دل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پاک صاف ہو سکتا ہے).(صحیح مسلم كتاب الذكر والدعاء) - اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دلوں کو پاک کرنے کی توفیق دے.دلوں کو اللہ تعالیٰ کے نور سے بھرنے کے لئے ، یہ دیکھنے کے لئے کہ کون سی باتیں ہیں جن

Page 226

$2004 221 خطبات مسرور سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور کونسی باتیں ہیں جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم عطا فرمایا ہے ہمیں قرآن شریف سیکھنا اور پڑھنا چاہئے.جن کو قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے وہ دوسروں کو سکھائیں.قرآن کریم کے درس کو روزانہ جماعتوں میں رواج دیں، چاہے چند منٹ کا ہی ہوتا کہ جو خود پڑھ اور سمجھ نہیں سکتے ان تک بھی یہ خوبصورت تعلیم وضاحت کے ساتھ پہنچ جائے.تلاوت قرآن کریم تو بہر حال ہر احمدی کو روزانہ ضرور کرنی چاہئے تا کہ قرآن کریم کی برکات نازل ہوں اور دل تقویٰ سے بھرتے چلے جائیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ بھی فرمایا ہے اگر کوئی شخص مومن نہ بھی ہو اور صرف انصاف سے کام لے کر قرآن دیکھے نہ کہ جہالت، حسد اور بخل سے تو یہ بھی تقوی کی ابتدائی شکل ہے تو اگر کوئی شخص انصاف سے قرآن شریف پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو نور ہدایت دے دیتا ہے.تو جو ایمان لے آئے ہیں اور تقویٰ کی نظر سے قرآن کریم پڑھتے ہیں ان کے لئے کس طرح ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم ہدایت نہ دے اور تقویٰ پر نہ چلائے.اگر ایک ایمان لانے والے کے دل میں قرآن کریم پڑھ کر اور سن کر نور ہدایت کا جوش پیدا نہیں ہوتا تو پھر اس کو فکر کرنی چاہئے کہ تقویٰ میں کہیں کمی رہ رہی ہے.یہ سوچنا چاہئے کہ ہماری بڑائیاں اور ہماری خود پسندیاں ہمیں اصل تعلیم سے دور لے جا رہی ہیں اور ہم میں تقویٰ نہیں ہے.کیونکہ قرآن کریم نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ اس میں متقیوں کے لئے ہدایت ہے.اگر ہم قرآن کریم کے حکموں پر عمل نہیں کر رہے تو یہ ہماری غلطی ہے اور ہمارے لئے یہ فکر کی بات ہے.اللہ تعالیٰ تو ہمیں اجر دینے کا وعدہ بھی کرتا ہے بشرطیکہ ہم اس کی تعلیم کے مطابق ہدایت پر قائم ہوں اور نیکیاں بجالانے والے ہوں جیسا کہ وہ فرماتا ہے ﴿وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوْهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِيْنَ﴾ آل عمران : ۱۱۲ ) اور جو نیکی بھی وہ کریں گے تو ہرگز ان سے اس کے بارے میں ناشکری کا سلوک نہیں کیا جائے گا اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے تقویٰ پر قائم رہنے اور نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.اور

Page 227

222 $2004 خطبات مسرور ہم اس کے ہر اس انعام سے حصہ لینے والے ہوں جو اس کے نزدیک ہمارے لئے بہترین ہے.حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تم جہاں بھی رہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بدی کے بعد نیکی کرو، نیکی بدی کے اثر کو مٹادیتی ہے.( مسند احمد بن حنبل - مسند الانصار - حدیث ابی ذر الغفاری) اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جان بوجھ کر کوئی بدی کر دو اور اس کے بعد کوئی چھوٹی سی نیکی کر کے سمجھو کہ بدی ختم ہوگئی.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غلطی سے انجانے میں کوئی بدی ہو جائے اور پھر اس کا احساس ہو،شرمندگی ہو، اللہ کا خوف ہو تو پھر استغفار کرو اور برائیاں نہ کرنے کا عہد کرو تو پھر اس کے اثرات مٹ جائیں گے.اسی لئے پہلے فرمایا کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یعنی برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہو تو پھر اللہ تعالیٰ بھول چوک معاف کر دے گا.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے عمل کے بارے میں دریافت کیا گیا جو کثرت سے لوگوں کو جنت میں داخل کرنے کا موجب ہوگا.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا تقویٰ اور حسنِ اخلاق.یہ بڑی اچھی بات ہے کہ اس ملک کے لوگ بڑے اچھے اخلاق دکھاتے ہیں.اگر احمدی ہونے کے بعد اس حسن اخلاق کے ساتھ آپ میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ بھی پیدا ہو جائے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو پھر اللہ اور اللہ کا رسول جنت کی بشارت دیتا ہے.اگلی بات یہ ہے کہ تقویٰ کے مطابق زندگیوں کو ڈھالنا اور اُسے صرف اپنی ذات تک محدود رکھنا کافی نہیں بلکہ اپنی نسلوں میں بھی یہ اعلیٰ وصف پیدا کرنا ہے.کیونکہ اگر ہم نے اپنی نسلوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق چلانے کی کوشش نہ کی تو ہمارا تقویٰ ہماری ذات تک ہی محدود رہ جائے گا.اور ہمارے مرنے کے بعد ہماری نسلوں میں یہ جاری نہیں رہ سکے گا.اگر ہم نے اپنی نسلوں کی صحیح

Page 228

$2004 223 خطبات مسرور طرح تربیت نہ کی اور ان کو تقویٰ پر قائم نہ کیا تو پھر ہماری نسلیں بگڑ کر پہلے کی طرح ہو جائیں گی جن میں کوئی دین نہیں رہے گا.اس لئے ہر احمدی کے لئے ضروری ہے کہ جو نور ہدایت اس نے حاصل کیا ہے وہ اپنی نسلوں میں بھی جاری کرے تاکہ ہر آنے والی نسل پہلے سے بڑھ کر تقویٰ پر چلنے والی ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ’” جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دین دار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے ، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے.اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سیئات رکھنا جائز ہوگا.( یعنی نیک نسل نہیں، بدنسل ).لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعوی ہی ہو گا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے.اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعوئی میں کذاب ہے.صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بناوے.تب اس کی ایسی خواہش نتیجہ خیز خواہش ہوگی.اور ایسی اولا د حقیقت میں اس قابل ہوگی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں“.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاص طور پر ہم احمدیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہے دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ.نمازوں کی پابندی کرو، اور توبہ واستغفار میں مصروف رہو ، نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو، راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا.عورتوں بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں.اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے روکو.

Page 229

$2004 224 خطبات مسرور پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ ( ظاہر ہے جب تک آپ خود اس پر عمل نہیں کریں گے سکھا بھی 66 نہیں سکتے ).ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عملدرآمد کرنا تمہارا کام ہے.(ملفوظات جلدسوم صفحه ٤٣٤ اکتوبر ١٩٠٣ء) اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں تقویٰ پر قائم کرے، ہم اپنی نسلوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ بھی تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی ہوں.اور کبھی ہم یا ہماری نسلیں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور جانے والی نہ ہوں.ہم سب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح پر عمل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے ہوں.اس کا فضل مانگنے والے ہوں.جس مقصد کے لئے یہاں ہم اس جلسے میں اکٹھے ہوئے ہیں اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں.سفروں میں اللہ تعالیٰ ہمیں خاص طور پر دعاؤں میں مشغول رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور روحانیت اور تقویٰ میں ترقی عطا فرمائے اور جب ہم اپنے گھروں میں پہنچیں تو ہم اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کر رہے ہوں.تا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے

Page 230

$2004 225 14 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض یہ بتائی ہے کہ وہ اس کی عبادت کرنے والا ہو ۲ اپریل ۲۰۰۴ء بمطابق ۲ رشہادت ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام بو بوجلاسو، بورکینا فاسو ( مغربی افریقہ ) عبادت کے صحیح طریق آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی خوبصورت شریعت کی پیروی سے ہی حاصل ہوں گے، اب مسیح موعود اور مہدی معہود ہی بتائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی صحیح صورت کیا ہے عبادت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیاوی کاموں کا ترک کر دیا جائے عبادت کے طریق ارشادات نبوی ﷺ کی روشنی میں ہر احمدی کا فرض ہے کہ پانچ وقت نماز کے لئے مسجدوں میں آئے صرف خودہی نیک اور عبادت گزار نہیں بنتا بلکہ اپنی اولادوں میں بھی یہ نیکی پیدا کرنی ہے کوئی بچہ مالی کمزوری کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہے گا ، بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ان پر ظلم ہے

Page 231

خطبات مسرور $2004 226 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: يايُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقره: ٢٢) اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض یہ بتائی ہے کہ وہ اس کی عبادت کرنے والا ہو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد بار اس بارے میں حکم فرمایا ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! اپنے پیدا کرنے والے رب کی عبادت کرو.یہی خدا ہے جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور جو تم سے پہلے تھے ان کو بھی پیدا کیا اور تمہیں بھی یہی حکم ہے اور تمہارے سے پہلے لوگوں کو بھی یہی حکم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں.اور ایک خدا کی عبادت کر کے ہی تقویٰ پر قائم رہا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کا خوف اور اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں قائم رہ سکتی ہے.لیکن پہلوں نے اس حکم کو بھلا دیا وہ ایک خدا کی بجائے کئی خداؤں کی عبادت کرنے لگ گئے.کسی نے تین خداؤں کی عبادت کرنی شروع کر دی ، کسی نے بتوں کی پوجا کرنی شروع کر دی کسی نے دنیاوی جاہ و حشمت کو اپنا خدا بنا لیا.اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ کی محبت ، اس کا خوف، اس کی خشیت ان کے دلوں میں قائم نہ رہی.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے لوگو! سن لو کہ اگر تقویٰ اختیار کرنا ہے تو تقویٰ اس کا نام ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو.اور عبادت کے صحیح طریقے تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی خوبصورت شریعت کی پیروی سے ہی حاصل ہوں گے.لیکن یا درکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ ایک زمانے کے بعد مسلمان بھی اس کو

Page 232

$2004 227 خطبات مسرور سمجھنے میں غلطی کریں گے.اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکیں گے.بعض ایسی حرکتیں کرنی لگ جائیں گے جن سے اظہار ہو کہ وہ عبادالرحمن نہیں رہے.تب مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور ہوگا اور وہ بتائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی صحیح صورت کیا ہے، تشریح کیا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے طریق کیا ہیں.الحمدللہ کہ آپ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہوں نے ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی مسیح موعود اور مهدی موعود کی آواز کو سنا اور اس کو مانا.اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا.پس اس فضل کے شکرانے کے طور پر ہم پر مزید فرض عائد ہو جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف اور توجہ دیں.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عبادت کے طریق کیا ہیں.کیا صرف منہ سے نماز کے الفاظ دہرا لینا اور ظاہری رکوع و سجود کر لینا کافی ہے؟ کیا یہی باتیں یعنی ظاہری حرکات ہمیں اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں میں شمار کرنے کے لئے کافی ہوں گی ؟ یاد رکھیں کہ عبادت کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے لئے بہترین طریق یہ ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سے عبادت کے طریق سمجھیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ فہم اور علم عطا فرمایا ہے جس کو آپ نے ہم تک پہنچایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے ( یعنی بنیادی مقصد یہی عبادت ہے ).جیسے دوسری جگہ فرمایا ﴿ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ﴾ (الذاریت : ۵۷) یعنی عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت کجی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندارز مین کو صاف کرتا ہے.( یعنی دل کی سختی اور کبھی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے ).عرب کہتے ہیں کہ مَوْرٌ مُعَبَّدٌ جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھ میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں.اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر پتھر نا ہمواری نہ رہے اور ایسا صاف ہو گو یا روح ہی روح ہو، اس کا نام عبادت

Page 233

$2004 228 خطبات مسرور ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آ جاتی ہے.اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع واقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری کے کنکر پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.(ملفوظات جلد اول صفحه ٣٤٧ ـ الحكم ٢٤ جولائی ١٩٠٢ء) تو یہ معیار ہیں ہماری عبادت کے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے توقع رکھتے ہیں.کہ ہمارے دل صاف ہو کر اس طرح خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں ، اس طرح اس کی عبادت بجا لائیں کہ ان میں خدا نظر آنے لگے.یعنی ہماری کوئی حرکت ایسی نہ ہو جو خدا کے حکم کے خلاف ہو بلکہ ہماری سوچیں بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلنے والی ہوں.جب ہماری یہ کیفیت ہو جائے گی تو تب ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے کہلا سکتے ہیں.ورنہ تو دنیا کی ملونیاں اور اس کے گند ہمارے دلوں میں ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں: پس کس قدر ضرورت ہے کہ تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو، میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے.اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے.فرماتے ہیں کہ : ” میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو یا بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں.اسلام تو انسان کو چست اور ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے.اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جد و جہد سے کرو ، حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تر ڈد نہ کرے تو اس کا مواخذہ ہو گا.پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جائے تو وہ غلطی کرتا ہے.نہیں اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کا روبار جو تم

Page 234

229 $2004 خطبات مسرور کرتے ہو دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو.اور اس کے ارادے سے باہر نکل کر اپنی اغراض و جذبات کو مقدم نہ کرو.(ملفوظات جلد اول صفحه ۱۱۸ - الحکم ۳۱ جولائی ۱۹۰۱ء) تو یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ عبادت کرنے سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ دنیا کو چھوڑ دے اور اپنے معاشرے اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لے.فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ محنت سے اپنے دنیاوی کام بھی کرنا تم پہ فرض ہے.لیکن یہ کام تمہیں عبادت سے روکنے والے نہ ہوں.اگر تم کاروباری آدمی ہو تو محنت سے کاروبار کرو.اگر تم زمیندار ہو تو اپنی زمین پر دوسروں سے زیادہ محنت کرو.اگر تم کہیں ملازم ہو تو محنت سے کام کرو اور دنیا کو یہ پتہ چلے کہ احمدی کی شان ہے کہ وہ اپنے دنیاوی کام بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرتا ہے.اور وہ اپنی عبادات بھی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بجالاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعو علیہ السلام نے ہمیں عبادت کے طریق کس طرح سکھائے ہیں.ایک حدیث کی وضاحت میں آپ فرماتے ہیں کہ صلوۃ ہی دعا ہے اور نماز ہی عبادت کا مغز ہے.اور نماز کے بارے میں جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اللہ کا حکم ہے کہ باجماعت ادا کرنی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاَنْ اَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَاتَّقُوْهُ.وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (انعام (۷۳) اور یہ کہہ دے کہ نماز قائم کرو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو وہی ہے جس کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نماز قائم کرو.اور نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ باجماعت نماز کی ادائیگی کرو.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ اپنی مساجد کو آباد کریں اور پانچ وقت نماز کے لئے مسجدوں میں آئیں.اور نہ صرف خود آئیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی مساجد میں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں.اور ہماری مساجد اتنی زیادہ نمازیوں سے بھرنی شروع ہو جائیں کہ چھوٹی پڑ جائیں.خدا کرے کہ ہم اس کے عابد بندے بن سکیں.اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرنے والے ہوں.

Page 235

$2004 230 مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ” خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہرگز نہیں ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے وہ اسے خائب و خاسر کرے اور ذلت کی موت دیوے.جو اس کی طرف آتا ہے ہرگز ضائع نہیں ہوتا.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھا اور پھر وہ نامراد رہا.خدا تعالیٰ بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش اس کے حضور پیش نہ کرے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے، جو اس طرح جھکتا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی.اور ہر ایک مشکل سے خود بخو داس کے واسطے راہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود فرماتا ہے.﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبْ ﴾ (الطلاق : ۳۴) اس جگہ رزق سے مراد روٹی وغیرہ نہیں بلکہ عزت علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کو ضرورت ہے اس میں داخل ہیں.خدا تعالیٰ سے جو ذرہ بھر بھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ﴾ (الزلزال :۸) ہمارے ملک ہندوستان میں جو اولیاء گزرے ہیں جن کی عزت کی جاتی ہے وہ اسی لئے ہے کہ خدا تعالیٰ سے ان کا سچا تعلق تھا.اور اگر یہ نہ ہوتا تو تمام انسانوں کی طرح وہ بھی زمینوں میں ہل چلاتے ، معمولی کام کرتے ،مگر خدا تعالیٰ سے بچے تعلق کی وجہ سے لوگ ان کی مٹی کی بھی عزت کرتے ہیں.(البدر جلد ٢ نمبر ١٤ - ٢٤ / اپریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰۷) پھر جیسا کہ میں نے کہا صرف خود ہی نیک اور عبادت گزار نہیں بننا بلکہ اپنی اولادوں میں بھی یہ نیکی پیدا کرنی ہے.صحیح عبادت کرنے والا وہی ہے جو اپنی اولا د میں بھی یہی نیکی قائم رکھتا ہے.ایک روایت ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے.مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے.ایک یہ کہ وہ صدقہ جاریہ کر جائے، یا ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں.تیسرے نیک لڑکا جو اس کے لئے دعا کرتا رہے.(صحیح مسلم کتاب الوصية باب ما يلحق الانسان من التواب ) پس نیک لڑکا جو دعائیں کرنے والا ہوگا، وہ بھی اس کے لئے ایک طرح کا صدقہ جاریہ ہی

Page 236

خطبات مسرور 231 ہے.ہر احمدی کو اپنی اولاد کی تربیت کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے.$2004 پھر ایک روایت ہے حضرت ایوب اپنے والد اور پھر اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین اعلیٰ تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولا د کو دے سکتا ہے.(ترمذی ابواب البر والصلة باب في ادب الولد) پھر ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کا اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا اس کے لئے صدقہ دینے سے زیادہ بہتر ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاکیزہ خوراک وہ ہے جو تم خود کما کر کھاؤ اور تمہاری اولاد بھی تمہاری عمدہ کمائی میں شامل ہے.(ترمذی ابواب الاحكام باب ان الولدياخذ مال ولده اولاد کی عمدہ کمائی سے مراد یہ ہے کہ ایسے رنگ میں تربیت کرو کہ وہ نیک ہوں عبادت گزار ہوں.جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں آیا کہ وہ تمہارے لئے دعائیں کرنے والے ہوں.تربیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے.ان کی تعلیم کا خیال رکھا جائے.بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا بھی تمہارے فرائض میں داخل ہے.اگر کوئی بچہ مالی حالت کی کمزوری کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر رہا تو جماعت کو بتا ئیں.مجھے بتائیں انشاء اللہ کوئی بچہ مالی کمزوری کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہے گا.لیکن بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ان پر ظلم ہے.پھر ایک اور بات ہے جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں اس علاقے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ ریڈیو قائم ہے جو تقریباً 13-14 گھنٹے روزانہ چلتا ہے.اور اب انشاء اللہ اجازت ملنے پر 17 گھنٹے تک بھی اس کی نشریات ہو جائیں گی.تو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم تو اس ذریعہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں تک پہنچ رہی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ہی ہر احمدی کا عمل بھی ایسا ہو جائے کہ ہر ایک کو نظر آنے لگے کہ یہ صرف خوبصورت تعلیم ہی ہمیں نہیں دیتے بلکہ ان کے عمل بھی ایسے ہیں.ان کے مردوں میں بھی اور ان کی عورتوں میں بھی اور ان کے بچوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی

Page 237

$2004 232 خطبات مسرور عبادت کرنے والے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والے لوگ موجود ہیں.اگر آپ کے عمل اس طرح ہوئے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی دعوت الی اللہ کئی گنا بڑھ جائے گی.لوگ آپ کا نمونہ دیکھ کر آپ کی طرف آئیں گے.کیونکہ حقیقی اسلام ان کو آپ میں ہی نظر آئے گا.اپنے عملی نمونے کے ساتھ ان لوگوں کے لئے دعائیں بھی بہت کریں.آپ نے ایک چیز کو بہترین سمجھ کر اپنے لئے قبول کیا ہے.تو آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق جو چیز تم اپنے لئے بہترین سمجھتے ہو اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرو.تو جب احمدیت کو آپ نے بہترین سمجھتے ہوئے قبول کیا ہے تو لوگوں تک اس پیغام کو پہنچانا بھی آپ کا فرض بنتا ہے.اس لئے دعوت الی اللہ کے ساتھ ساتھ اپنے ہم قوموں کے لئے اور ساری دنیا کے بھٹکے ہوؤں کے لئے دعائیں بھی بہت کریں.مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں اس علاقے میں یا اس شہر میں کافی بڑی تعد اد اور اکثریت مسلمانوں کی ہے.جو ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور یہاں کے لوگوں میں شرافت بھی ہے اور اس کا پتہ اس طرح چلتا ہے کہ بہت بڑی اکثریت ہمارا ریڈ یو سنتی ہے اور پسند کرتی ہے.اس لئے ان کے لئے بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھا راستہ دکھائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.بہت سے لوگ دوسری جگہوں سے بھی یہاں آئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ خیریت سے انہیں اپنی حفاظت میں لے کے جائے.اور اپنے گھروں میں جا کر وہ دعوت الی اللہ کرنے والے بھی بنیں اور اپنا نیک نمونہ دکھانے والے بھی بنیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو.آمین

Page 238

$2004 233 15 خطبات مسرور اللہ نرے اقوال سے راضی نہیں ہوتا.چاہئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے کا ثبوت دیں.۹ را پریل ۲۰۰۴ء بمطابق ورشہادت ۱۳۸۳ هجری شمسی به مقام مسجد بیت الوحید کو تو نو بین (مغربی افریقہ) اللہ کا فضل ہے کہ آج ہم آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام کی جماعت میں شامل ہیں آج اگر ہم دنیا میں رائج بہت سی برائیوں اور بدعتوں سے بچ سکتے ہیں تو جماعت میں شامل ہو کر ہی....بیعت کی حقیقی منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کر و یعنی تقوی اختیار کرو ہ عبادات بجالاؤ، قرآن پڑھو، اس پر تدبر کر وسو چو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو حضرت مسیح موعود ہم سے کس قسم کی پاک تبدیلی کی توقع رکھتے تھے ی کامل وفا کے ساتھ اپنے پیارے خدا کے ساتھ چھٹے رہیں

Page 239

خطبات مسرور $2004 234 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّا تَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيْمَ حَنِيْفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيَّلا (سورة النساء ١٢٢).اس آیت کا ترجمہ یہ ہے اور دین میں اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کر دے اور جو احسان کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کی ہو اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنالیا تھا.یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی.جس کی وجہ سے آج ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام کی جماعت میں شامل ہیں.آج ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم کی وضاحت ہوسکتی ہے، صحیح تعلیم مل سکتی ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہے.آج اگر ہم دنیا میں رائج بہت سی برائیوں اور بدعتوں سے اپنے آپ کو پاک کر سکتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو کر ہی کر سکتے ہیں.اور یہی خدا کی منشاء ہے اور یہی اس کی مرضی ہے.اور اس کی خبر آج سے 14 سو سال پہلے ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی تھی.اور ہمیں بتادیا گیا تھا کہ اسلام کی تعلیم میں بعض بدعات اور بگاڑ داخل ہو جائیں گے جنہیں مسیح محمدی ہی آکر درست کرے گا اور صحیح راستے پر چلائے گا.چنانچہ آپ دیکھ لیں دنیا کے ہر ملک میں مسلمانوں میں بعض ایسی روایات یا بدعات داخل ہو چکی ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں.اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل نہ کرتے ہوئے اس زمانہ کے

Page 240

$2004 235 خطبات مسرور امام کی جماعت میں شامل نہیں ہورہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے آپ کو مسیح اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق دی.اس لئے آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کر سکیں کریں.اور شکر ادا کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اپنے اندر احمدیت قبول کرنے کے بعد نمایاں تبدیلیاں پیدا کریں.اپنے عمل، کردار، بات چیت اور چال ڈھال سے یہ ثابت کریں اور دنیا کو بتائیں کہ ہم ہی ہیں جو اسلام کا صحیح اور حقیقی نمونہ ہیں.اللہ تعالیٰ سے ایسا زندہ تعلق پیدا کریں کہ نظر آئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ابراہیم کو خلیل بنالیا تھا.اور خلیل ایسے دوست کو کہتے ہیں جس کا پیار روح کی گہرائیوں تک میں اترتا ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل ، شرک سے نفرت اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے پیار کیا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو مکمل طور پر میرے آگے جھکتے ہیں اپنی تمام تر استعدادوں اور مکمل سپردگی کے ساتھ میرے احکامات پر عمل کرتے ہیں میں ان کو اپنا دوست بنالیتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت کرنے والے اور خالص ہو کر میری عبادت کرنے والے اور میری دی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے والے وہ کامل تعلیم اور کامل شریعت جو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہے ، اس پر عمل کرنے والے ہیں وہ بھی میرے دوست بن سکتے ہیں.یہ باتیں قصے کہانیوں کے لئے نہیں لکھی گئیں تمہیں یہ بتانے کے لئے نہیں لکھی گئیں کہ ابراہیم میرا دوست تھا بلکہ یہ اس لئے تمہیں بتائی جارہی ہیں کہ تم بھی یہ نمونے قائم کرو، اور یہ نمونے تم تب قائم کر سکتے ہو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری اتباع کرو، پوری اطاعت کرو.اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے یہ اعلان کروا دیا ہے کہ پھر تم میری پیروی کرو.جیسا کہ فرمایا فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ﴾ (ال عمران آیت ۳۲)

Page 241

236 $2004 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت ضروری ہے اور آپ کی اطاعت میں یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کے غلام کامل کی جماعت میں شامل ہوا جائے.اور پھر جس طرح وہ حکم اور عدل کے طور پر ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم بتا ئیں اس پر عمل کیا جائے.تو اس لحاظ سے شکر کے ساتھ ساتھ ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کریں اور اسلام کی صحیح تعلیم کو اپنے اوپر لاگوکریں.ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے کس قسم کی پاک تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: پس تمہاری بیعت کا اقرار کر نا زبان تک محدود رہا تو یہ بیعت کچھ فائدہ نہ پہنچائے گی.چاہئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں.میں ہرگز یہ بات نہیں مان سکتا کہ خدا تعالیٰ کا عذاب اس شخص پر وارد ہو جس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو.خدا تعالیٰ اسے ذلیل نہیں کرتا جو اس کی راہ میں ذلت اور عاجزی اختیار کرے.یہ سچی اور صحیح بات ہے.پس راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو.کوٹھڑی کے دروازے بند کر کے تنہائی میں دعا کرو کہ تم پر رحم کیا جائے.اپنا معاملہ صاف رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل تمہارے شامل حال ہو.جو کام کر ونفسانی غرض سے الگ ہوکر کروتا خدا تعالیٰ کے حضور اجر پاؤ.(ملفوظات جلد ۵ صفحه ۲۷۲.الحکم ۱۰ ستمبر ١٩٠٧ء) پھر آپ فرماتے ہیں: یا درکھو انری بیعت سے کچھ نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ اس رسم سے راضی نہیں ہوتا جب تک کہ حقیقی بیعت کے مفہوم کو ادا نہ کرے.(اگر بیعت کے مفہوم کو ادا نہیں کرتے ) اس وقت تک یہ بیعت، بیعت نہیں نری رسم ہے.اس لئے ضروری ہے کہ بیعت کے حقیقی منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کرو.یعنی تقویٰ اختیار کرو.قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو اور اس پر تدبر کرو اور پھر (اس پر) عمل کرو کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نرے اقوال اور باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے احکام کی پیروی کی جاوے.اور اس کے

Page 242

$2004 237 خطبات مسرور نواہی سے بچتے رہو.اور یہ ایک ایسی صاف بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی نری باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی خدمت ہی سے خوش ہوتا ہے.سچے مسلمان اور جھوٹے مسلمان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جھوٹا مسلمان باتیں بناتا ہے کرتا کچھ نہیں.اور اس کے مقابلے میں حقیقی مسلمان عمل کر کے دکھاتا ہے، باتیں نہیں بناتا.پس جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ میرے لئے عبادت کر رہا ہے اور میرے لئے میری مخلوق پر شفقت کر رہا ہے تو اس وقت ( وہ ) اپنے فرشتے اس پر نازل کرتا ہے.اور بچے اور جھوٹے مسلمان میں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے فرقان رکھ دیتا ہے.(ملفوظات جلد نمبر ۳ صفحه ٢١٥ ـ الحكم ۱۷ اپریل ١٩٠٤ تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عبادات بجالاؤ، نمازیں پڑھو، دعائیں کرو، اللہ سے اس کا فضل مانگو پھر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کو سمجھو اور یہ علیم ہمیں قرآن کریم سے ہی حاصل ہوسکتی ہے.اس لئے قرآن کریم کو بھی غور سے پڑھو، اس پر تدبر کرو، سو چو اور اس میں دیئے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرو.کیونکہ اگر ہمیشہ کی ہدایت پانی ہے، ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنا ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کا لطف اٹھانا ہے تو پھر اس تعلیم پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں دی ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ بَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصَّلِحَتِ.أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا.(سورة بنی اسرائیل آیت : ۱۰) یقیناًیہ قرآن اس (راہ) کی طرف ہدایت دیتا ہے جو سب سے زیادہ قائم رہنے والی ہے اور ان مومنوں کو جو نیک کام کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ( مقدر) ہے.ایک حدیث میں ہے حضرت عثمان بن عفان بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کریم سیکھتا اور دوسروں کو سکھاتا ہے.(بخاری کتاب فضائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن وعلمه پھر ایک دوسری روایت میں آتا ہے زید کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو سلام سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابوامامہ الباہلی نے مجھے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن پڑھو کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے بطور شفیع آئے گا.پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو قرآن کریم کا

Page 243

$2004 238 خطبات مسرور کچھ حصہ بھی یاد نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے.(ترمذی کتاب فضائل القرآن باب من قرأ حرفاً) پھر ایک لمبی روایت ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہ یقیناً قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت ہے اس کی دعوت سے جس قدر ہو سکے فائدہ اٹھاؤ.یقیناً قرآن اللہ کی رسی اور نورمبین ہے اور نفع بخش شفا ہے.اور حفاظت کا ذریعہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اس کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے.اور نجات ہے اس کے لئے جو اس کی پیروی کرتا ہے.ایسا شخص راستی سے نہیں ہلتا کہ بعد میں اسے معذرت کرنی پڑے اور نہ وہ کج روی اختیار کرتا ہے تا اسے درست کرنا پڑے.قرآن کریم کے عجائبات ختم نہیں ہوتے ، پڑھنے والا اس کو بار بار پڑھنے سے اکتا تا نہیں پس تم اس کو پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کی تلاوت کے نتیجہ میں ہر حرف پر دس نیکیوں کا ثواب دیتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ السم ایک حرف ہے بلکہ ان میں سے الف پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور لام پر بھی دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور میم پر بھی دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے.(سنن الدارمی فضائل القرآن) اس حدیث میں قرآن کریم کی بے شمار خوبیاں گنوائی گئی ہیں بشرطیکہ انسان صاف دل ہو کر اس کو پڑھے.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا روحانی مائدہ ہے کہ اس سے تم جتنا زیادہ فائدہ اٹھاؤ گے روحانیت میں بڑھتے چلے جاؤ گے.تمہارے ایمانوں کی حفاظت اس میں ہے،شیطان سے بچاؤ کی تدبیر اس میں ہے.ایک جماعت اور نظام کی پابندی کرتے ہوئے ،سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوطی قائم کرنے کا سبق اس میں ہے.برائیوں سے بچنے اور نیکیوں پر قائم رہنے کے سبق اس میں ہیں.اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے راستے اس میں بتائے گئے ہیں.پھر ہر لفظ پڑھنے کا ثواب ہے تو دیکھیں کتنی بے شمار برکات قرآن کریم کے پڑھنے سے حاصل ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یقینا سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کا نوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی صفحه نمبر ۱۲۳)

Page 244

$2004 239 مسرور پھر آپ فرماتے ہیں: تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہیں.اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی (ع) ہمیشہ کے لئے زندہ ہے“.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۱۴۱۳) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ“ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے.پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی.یہ نہایت پیاری نعمت ہے یہ بڑی دولت ہے.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحه ۲۶، ۲۷)

Page 245

$2004 240 مسرور پھر آپ فرماتے ہیں: یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآن کا مغز سمجھتا ہوں.قرآن کریم کے 30 سپارے ہیں اور سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں.لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پورا عملدرآمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے.مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے.دعا کو مضبوطی سے پکڑ لو.میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالی ساری مشکلات کو آسان کر دے گا.( ملفوظات جلد نمبر ٤ صفحه ١٤٩ ـ الحكم ٢٤ ستمبر ١٩٠٤ء) پس یہ خوبصورت مسجد ( مسجد بیت الوحید ) جو آپ نے بنائی ہے اور جس میں آج جمعہ پڑھ رہے ہیں.یہ بھی آپ نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے بنائی ہے اب اس مسجد کو بھی بھرنا آپ کا کام ہے اور اپنے گھروں کو بھی دعاؤں سے لبریز رکھنا آپ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا عبادت گزار بندہ بنائے.ایسا بندہ جس سے اس کا دوستی کا معاملہ ہو.یادرکھیں دوستوں کی خاطر قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں یہ نہ ہو کہ جب خدا ہم سے قربانی مانگے تو ہم پیچھے ہٹنے والے ہو جا ئیں نہیں بلکہ کامل وفا کے ساتھ اپنے پیارے خدا کے ساتھ چھٹے رہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی اس کامل اور مکمل کتاب کو ہمیشہ اپنا رہنما بنائے رکھیں.اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں اور اس کا پر چار کرنے والے بھی ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور آئندہ بھی باہم ملنے کے مواقع پیدا فرما تار ہے.

Page 246

$2004 241 16 خطبات مسرور خدائی وعدہ ”میں اور میرارسول غالب آئیں گے، آج بھی پورا ہوتے ہم دیکھ رہے ہیں ۱۶ اپریل ۲۰۰۴ء بمطابق ۶ ارشہادت ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن دورہ افریقہ اور افریقہ کے خلصین کے ایمان افروز نا قابل بیان عشق و محبت ، اور خدائی فضلوں کا ذکر امام جماعت کی پاکستان سے ہجرت کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے ساتھ تائید ایزدی اور دشمنوں کی ہر چال کو ناکام و نا مراد کرنا افریقہ کا براعظم وہ خوش قسمت ترین ہے جس نے احمدیت کو قبول کرنے میں سب سے زیادہ جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا، افریقہ کے مبلغین کی قابل قدر قربانیاں اور مساعی MTA کے چینل 2 کا آغاز

Page 247

خطبات مسرور $2004 242 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيز (سورة المجادله آیت (۲۲) اس کا ترجمہ ہے کہ اللہ نے لکھ رکھا ہے ضرور میں اور میرے رسول غالب آئیں گے یقیناً اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے.خدا تعالیٰ جب انبیاء کو دنیا میں مبعوث فرماتا ہے تو اس کے ساتھ ہی مخالفین کی طرف سے مخالفت کی آندھیاں بھی بڑی شدت سے چلنا شروع ہو جاتی ہیں.لیکن انبیاء کو کیونکہ اپنے پیدا کرنے والے اور بھیجنے والے پر کامل یقین ہوتا ہے اس لئے ان کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ خدا ان کو مخالفت کی آندھیوں میں تنہا چھوڑ دے گا.ہاں ان کے دلوں میں جواللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ ڈرتے رہتے ہیں لیکن جوں جوں مخالفت کی آندھیاں بڑھتی ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی ٹھنڈی ہوائیں بھی اسی تیزی سے بلکہ اس سے زیادہ تیزی سے بڑھ کر انبیاء اوران کے ماننے والوں کی تسلی کا باعث بنتی ہیں.اور اس کے نظارے ہمیں تمام انبیاء کی زندگیوں میں نظر آتے ہیں.اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جنگ بدر سے لے کر فتح مکہ تک کے نظارے ہمیں نظر آتے ہیں.اور خدائی وعدہ کہ میں اور میرا رسول غالب آئیں گے پوری شان سے پورا ہوتا نظر آتا ہے.تو یہ سنت اللہ ہے جو آج ختم نہیں ہو گئی آج بھی اسے پورا ہوتے ہم دیکھ رہے ہیں.آج ان نظاروں کو دیکھ کر احمدیوں کے ایمان ویقین میں اضافہ ہوتا ہمیں نظر آتا ہے.آج سے تقریباً 20 سال پہلے جب ایک قانون کے تحت احمدیوں پر پابندیاں لگائی گئی

Page 248

$2004 243 خطبات مسرور تھیں اور دشمن نے اپنے زعم میں گویا جماعت کی ترقی کے تمام راستے بند کر دیئے تھے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان وعدوں کے مطابق جو اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے تھے دشمن کی ہر چال کو نا کام و نامراد کر دیا.اور معجزانہ رنگ میں حضرت خلیفہ المسح الرابع کے لندن آنے کے سامان پیدا فرما دیئے.اور دشمن نے اپنے زعم میں ایک ملک میں احمدیت کے پھیلنے کے راستے بند کئے تھے، اللہ تعالیٰ نے پاکستان سمیت پونے دوسو سے زائد ممالک میں احمدیت کا پیغام پہنچانے اور جماعتیں قائم کرنے کے سامان پیدا فرما دیئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کو پورا کر کے دکھایا اور دکھا رہا ہے، یورپ میں بھی تبلیغ کے راستے کھل گئے ،امریکہ میں بھی ، ایشیا میں بھی ، اور افریقہ میں بھی.اور افریقہ کا براعظم وہ خوش قسمت ترین ہے جس کے رہنے والوں نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کرنے میں سب سے زیادہ جوش اور جذبے کا مظاہرہ کیا اور کر رہے ہیں.ان کے دل نوریقین سے پر ہیں اخلاص و وفا کے پیکر ہیں اور اپنے ایمان میں ترقی کر رہے ہیں.الحمد للہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” میں خدا سے یقینی علم پا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ تمام مولوی اور انکے سجادہ نشین اور ان کے ملہم اکٹھے ہو کر الہامی امور میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو خدا ان سب کے مقابل پر میری فتح کرے گا.کیونکہ میں خدا کی طرف سے ہوں پس ضرور ہے کہ بموجب آیت کریمہ كَتَبَ اللَّهُ لَاغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی میری فتح ہو.(ضمیمه انجام آتھم صفحه ٥٨،٥٧ ـ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود جلد چهارم صفحه ۳۲۹) پھر آپ فرماتے ہیں ” خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنے قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رھیں گے.پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے، بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاءکا نام پاکر اور اسی میں ہو کر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں اس لئے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے، ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا.“ ( نزول المسیح صفحه ۳۸۰، ۳۸۱ روحانی خزائن جلد ۱۸)

Page 249

$2004 244 مسرور پس جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے نبیوں اور رسولوں سے وعدہ ہے کہ وہ ان کو غالب کرتا ہے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی خدا کے مامور ہیں اور آپ سے یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کو اور آپ کی جماعت کو انشاء اللہ ضرور غلبہ عطا فرمائے گا.اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے تحت ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہوتا ہے، انبیاء آتے ہیں اور بیج ڈال کر چلے جاتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ مومنین کی جماعت کے ذریعہ اور نظام خلافت کے ذریعے اس کے پھیلاؤ میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے.ایسا ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نظارے خلافت رابعہ کے دور میں بھی دکھائے اور اس سے پہلے بھی دکھائے اور غیر معمولی طور پر خلافت رابعہ میں جماعتوں کا قیام اور جوق در جوق لوگوں کے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کے نظارے ہمیں نظر آتے ہیں.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے فرانکوفون افریقی ممالک میں احمد بیت کو وسیع پیمانے پر پھیلنے کی خوشخبری دی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد سے وہاں جماعتیں بہت تیزی سے قائم ہوئیں جن کا پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا.بہر حال ان باتوں کے پیش نظر اور ان نئے شامل ہونے والوں سے ملنے کے لئے میں نے بھی بعض افریقن ممالک غانا، بورکینا فاسو، بین اور نائیجیریا کے دورے کا پروگرام بنایا اور ان میں سے بورکینا فاسو اور بین فرانکو فون ممالک ہیں، فرانسیسی زبان یہاں بولی جاتی ہے ایم ٹی اے کے ذریعے سے کچھ خبر میں لوگوں کو ملتی رہی ہیں اور اس وجہ سے تمام دنیا کے احمدیوں کی طرف سے خوشی اور مبارک باد کے پیغام وصول ہو رہے ہیں، حقیقت میں تو ان مبارکبادوں کے مستحق وہ افریقن احمدی بھائی اور بہنیں ہیں جن کے دل نوریقین سے پر ہیں، دنیا کے تمام احمدیوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے ،اکثر لوگوں کی خواہش ہے اور ہوگی بھی کہ وہ ان سفروں کا حال کچھ میری زبانی سنیں.تو سفر کے حالات کی تمام تفصیلات تو بیان کرنا مشکل ہے بعض صرف احساسات ہیں اور جذبات ہیں جن کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے تا ہم سفر کے مختصر حالات میں آج بیان کروں گا.سب سے پہلے تو میں تمام دنیا کے احمدیوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ

Page 250

$2004 245 خطبات مسرور دورے پر جانے سے پہلے سفر کے ہر لحاظ سے کامیاب ہونے کے لئے انہیں دعا کی تحریک کی تھی تو احباب جماعت کی مقبول دعاؤں کے نظارے ہمیں اپنے سفر کے دوران ہر قدم پر نظر آتے رہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وہ بارش برسی ہے جو انسانی تصور سے باہر ہے.اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود سے وعدوں اور خوشخبریوں کے مطابق یہ کامیابیاں تو ہونی تھیں.لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے یہ نظارے اس نے ہماری زندگیوں میں ہمیں دکھائے.دورے سے پہلے کئی لوگوں نے مبشر خوا میں بھی دیکھی تھیں بعض کو تو پتہ تھا کہ افریقہ کا دورہ ہے.دعا کر رہے تھے اس دوران اچھی خواہیں آئیں لیکن بعضوں کو علم بھی نہیں تھا، تو بہر حال اس سے میری تسلی ہو گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ یہ سفر ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے گا، اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے الحمد للہ.یہاں سے روانہ ہو کر جب ہم اکرا ایئر پورٹ پر پہنچے ہیں، جہاز وہاں آکر ر کا بلکہ جہاز رن وے پر اترا تو اس وقت ہی نظر آ گیا تھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ہے اور سفید رومال لہرا رہے ہیں، جب میں جہاز سے اترنے لگا تو جہاز کا پائلٹ بھی بڑا ا یکسا ئیٹڈ میرے پاس آیا، برٹش ائرویز کا جہاز تھا، یہ نہیں پتہ کہ اسے پہلے علم تھا یا اس نے خود اندازہ لگایا اور آ کے کہنے لگا تمہارے لوگ تمہارے استقبال کے لئے آئے ہوئے ہیں.اور اتنا غیر معمولی رش تھا اور جوش تھا کہ ہر ایک کو نظر آرہا تھا.مسافر بھی کھڑکیوں سے جھانک جھانک کے دیکھ رہے تھے، اترنے سے پہلے.گھانا جماعت نے بھی ماشاء اللہ دوروں ، ملاقاتوں ،میٹنگوں کے بھر پور پروگرام بنائے ہوئے تھے، اس کے بارے میں ایم ٹی اے میں کچھ خبریں پتہ لگتی رہی ہیں.بہر حال مختصراً بعض جگہوں کے بارے میں جہاں میں رہا ہوں یا جن جگہوں کو میں جانتا ہوں وہاں کیا کیا تبدیلیاں دیکھیں، اس بارے میں مختصر بیان کرتا ہوں.وہاں پہنچنے کے اگلے دن ہم نے دو سکولوں، ایک ہسپتال اور جامعہ احمد یہ گھانا کا معائنہ کیا، اس دن تقریباً دو تین سو کلومیٹر کا سفر ہوا ہو گا.جامعہ احمدیہ تو وہاں نیا کھلا ہے یعنی میرے وہاں سے

Page 251

$2004 246 خطبات مسرور واپس آنے کے بعد نئی جگہ پر.پہلے یہ سالٹ پانڈ میں ہوا کرتا تھا چھوٹی سی جگہ پر ، اب تو ماشاء اللہ وسیع رقبہ ہے اور اس میں عمارتیں بھی کافی ہیں کلاس روم بلاک ہیں ، ہوٹل ہیں ، سٹاف کوارٹر ہیں اور اس کو مزید وسعت بھی دی جارہی ہے.یہاں گھانا کے علاوہ بعض دوسرے افریقن ممالک جہاں جامعہ کی سہولت نہیں ہے کے طلبا آ کے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو دین کا علم سیکھنے اور وقف کی روح کے ساتھ آگے پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے.سکولوں میں بھی ماشاء اللہ بڑی وسعت پیدا ہو چکی ہے، جس زمانے میں میں وہاں تھا اس وقت اس بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا.کہ اتنی عمارتیں بن جائیں گی اور اتنی وسعت پیدا ہو جائے گی.پھر اس دوران ہی دو مساجد کا افتتاح بھی ہوا،سالٹ پانڈ جہاں ہمارے ابتدائی مبلغین کام کرتے رہے ہیں اس جگہ کو بھی دیکھنے کے لئے گئے.وہاں صرف معائنہ تھا کیونکہ ابتد کی قربانی کرنے والوں کی قربانی کا پھل ہی آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھا رہے ہیں.جن میں حکیم فضل الرحمان صاحب، مولانا نذیر احمد علی صاحب، مولانا نذیر احمد مبشر صاحب وغیرہ شامل ہیں.سالٹ پانڈ کی وسیع خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس وغیرہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ان مبلغین نے مال کی کمی ، کمزوری اور وسائل کی کمی کے باوجود ایسی عالی شان اور خوبصورت عمارتیں کھڑی کر دیں.اکرا(Accra) میں جہاں اب ہمارا ہیڈ کوارٹر ہے، یہیں قیام تھا، یہاں بھی بعض عمارات کا افتتاح ہوا وہاں جب میں ۱۹۵۸ء میں آیا ہوں تو کافی بڑی مسجدا کر امشن ہاؤس کے ساتھ ہی تھی لیکن اب انہوں نے اس کو مزید وسعت دے کر اور دو منزلہ بنا کر تقریباً اس وقت سے بھی تین گنا زیادہ کر لیا ہے.لیکن اس دورے کے دوران امیر صاحب گھانا کو یہ احساس ہو گیا ہوگا کہ یہ مسجد بھی چھوٹی پڑ گئی ہے.الہی وعدوں کے مطابق جماعت نے تو انشاء اللہ تعالیٰ پھیلنا ہے، جتنی بڑی چاہیں مسجدیں بنائیں وہ چھوٹی ہوتی چلی جائیں گی.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے قربانی کی روح اور اللہ کے گھروں کی تعمیر کی طرف توجہ اور خواہش رہی تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشیں سنبھالی نہیں جائیں

Page 252

$2004 247 خطبات مسرور گی.پھر اس دوران میں یعنی اگر میں جتنے دن رہائش رہی ، وہاں قیام رہا ، پھر گھانا کے صدر صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی پہلے تو رسمی سی باتیں ہوتی رہیں، کیونکہ یہ لوگ فطرتا بڑے روایتی رجحان رکھنے والے لوگ ہیں عموماً.بہر حال اس کے بعد پھر بڑے خوشگوار ماحول میں بے تکلفانہ، غیر رسمی باتیں ہوئیں، اور بار بار صدر صاحب اپنے ملک کی ترقی کے لئے دعا کی درخواست کرتے رہے.پھر جلسے کی کارروائی ہے.وہ تو آپ لوگوں نے دیکھ ہی لی ہے.لیکن جمعہ کے بعد جب میں سلام کہنے کے لئے لجنہ کی طرف گیا ہوں تو وہ نظارہ دیکھنے کے قابل تھا لیکن افسوس کہ کیمروں کی پہنچ سے اس وقت باہر تھا.اس لئے کہ آپ اس کو Live دیکھ ہی نہیں سکے اور وجہ اس کی یہ تھی کہ گھانا ٹیلیویژن نے اپنی ذمہ داری لے لی تھی کہ Live کوریج ہم کریں گے.اور ایم ٹی اے نہیں کرے گی.اس لئے یہ وقت وہاں تھی ، بہر حال میرا خیال ہے کہ کچھ لوگوں نے اس کی فلم بنائی بھی ہوگی ، لگتا تھا کہ جوش پھوٹ پھوٹ کر باہر آ رہا ہے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اخلاص و وفا کا اظہار اس طرح ہورہا تھا کہ ان کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے چہروں سے خوشی اس طرح پھوٹی پڑتی تھی کہ نا قابل بیان ہے کماسی کے مسجد کے احاطے میں عورتوں اور مردوں کا اظہار آپ نے دیکھ لیا ہے وہ کچھ دکھایا گیا تھا.تو یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ جلسہ پر یہ اظہار زیادہ تھا یا کماسی میں.پھر جلسہ کے بعد 100 کے قریب اماموں اور چیفوں سے بھی ملاقات تھی.جو احمدیت قبول کر چکے ہیں اور اپنی بہت بڑی فالوانگ(Following) کے ساتھ احمدیت قبول کر چکے ہیں.اور اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام مسیح محمدی کا پیغام اپنے اپنے علاقوں میں پھیلا رہے ہیں.گھانا کا دوسرا بڑا شہر کماسی (Kumasi) ہے، کماسی کے قریب جماعت نے داعیان الی اللہ کی ٹریننگ اور نو مبائعین میں سے چنیدہ لوگوں کی تربیت کے لئے تا کہ وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم لے کر اپنے علاقوں میں نئے شامل ہونے والوں کو بھی سکھاسکیں.دو عمارتیں بنائی ہیں.اور ان عمارتوں کا تقریباً سارا خرچ بھی ایک مخلص احمدی نے ادا کیا ہے اس کے ساتھ ہی طاہر ہومیو

Page 253

$2004 248 خطبات مسرور پیتھک کمپلیکس ہے جس میں کلینک بھی ہے دوائیاں تیار کرنے کی لیبارٹری بھی ہے اور بوتلیں وغیرہ بنانے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری بھی ہے.ماشاء اللہ یہ ادارہ بھی انسانیت کی بڑی خدمت کر رہا ہے.پھر مختلف شہروں میں مساجد ، سکول، ہسپتال کے وارڈز وغیرہ کے افتتاح ہوئے.مختصراً یہ کہ گھانا میں اس دورہ کے دوران 13 مساجد کا افتتاح ہوا اور دو کا سنگ بنیا د رکھا گیا اور سات متفرق عمارات کا افتتاح ہوا یا سنگ بنیا درکھا گیا.ٹمالے ایک جگہ ہے جو نارتھ میں گھانا کا ایک بڑا شہر ہے.اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے.یہاں ایک بہت بڑی دو منزلہ مسجد کا افتتاح ہوا.اس جگہ چند سال پہلے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اتنی بڑی مسجد بن سکتی ہے اور پھر نمازی بھی آ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں بیعتیں بھی کافی ہوئی ہیں الحمد للہ.اور یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے.یہاں دو افراد نے بیعت کا اظہار کیا اور جماعت میں شامل ہوئے.ہمارے قافلے کے بعض لوگوں کی گاڑیوں کے ڈرائیور تھے انہوں نے دیکھا اور کہا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم احمدیت قبول کر لیں.پھر وہاں مسجد میں نماز مغرب وعشاء کے بعد دستی بیعت ہوئی.باقی جوموجود تھے انہوں نے بھی بیعت کی.ٹمالے سے بورکینا فاسو کا سفر ہم نے بذریعہ سڑک کیا.اور راستے میں دو مساجد کا افتتاح بھی ہوا.ایک مسجد تو عین گھانا کے بارڈر سے چند گز کے فاصلے پر ہے اور ایک مخلص احمدی نے وہاں یہ مسجد بنائی ہے.اس طرح جو بھی بارڈر کر اس کرتا ہے آنے والے یا جانے والے کیونکہ کافی آمد ورفت رہتی ہے اور عمومی طور پر دونوں طرف ان علاقوں میں مسلمان ہیں ان کی نظر ہماری مسجد پر ضرور پڑتی ہے اس لئے وہ نماز پڑھنے کے لئے ہماری مسجد میں آجاتے ہیں.بذریعہ سڑک جانے کا پروگرام بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر سے ہی بنا لگتا ہے.کیونکہ پہلے جو گھانا والوں نے پروگرام بنایا تھا اور اس کی اپروول ہو گئی تھی ، اس کے مطابق تو دورہ نارتھ تک کا مکمل کرنے کے بعد ہمیں پھر واپس اکرا آنا تھا اور وہاں سے بائی ایئر پھر بورکینا فاسو جانا تھا لیکن روزانہ فلائیٹ نہیں جاتی بلکہ دودن جاتی

Page 254

$2004 249 خطبات مسرور ہے ان میں سے ایک جمعہ کا دن تھا.تو وکیل التبشیر ماجد صاحب نے مجھے کہا کہ جمعہ جلدی پڑھ کے فوراً ہی ایئر پورٹ جانا ہو گا اس پر مجھے کچھ انقباض ہوا، میں نے کہا اس طرح نہیں جانا بلکہ بعض شہر جو انہوں نے پروگرام میں نہیں رکھے ہوئے تھے اور میرے علم میں تھے میں نے کہا وہ بھی دیکھ کے جائیں گے اور بائی روڈ جائیں گے.بہر حال اس کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ چند مزید مساجد کا افتتاح بھی ہو گیا لیکن اصل بات اس میں یہ ہے کہ لندن سے سفر شروع کرنے سے چند دن پہلے ماجد صاحب نے بتایا کہ بورکینا فاسو کے مبلغ نے انہیں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک خواب یاد کرائی ہے.جو ماجد صاحب کو بھی یاد آ گئی کہ حضور نے دیکھا تھا کہ وہ کاروں کے ذریعے سے بائی روڈ گھانا سے بورکینا فاسو میں داخل ہوئے ہیں اور کوئی اسماعیل نامی آدمی بھی ان کو وہاں ملتا ہے بارڈر پر یا کراس کر کے.اس پر حضور نے بعض اسماعیل نامی احمدیوں کی تصویر میں بھی منگوائی تھیں، بہر حال پتہ نہیں کوئی ملا کہ نہیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک الہی تقدیر تھی کہ ہم بذریعہ کار بورکینا فاسو داخل ہوں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہمارے قافلے میں ایک اسماعیل نامی ڈرائیور بھی تھا جس نے کچھ وقت ہماری گاڑی بھی چلائی جس میں میں بیٹھا ہوا تھا.اس ملک میں ہمارے مبلغین بھی ماشاء اللہ قربانیوں کے معیار قائم کر رہے ہیں.وہاں جائیں تو پتہ لگتا ہے کہ واقعی لوگ قربانیاں دے رہے ہیں.اور پھر بورکینافاسو میں جب داخل ہوئے بارڈر کراس کرنے کے بعد جو پہلا ٹاؤن آتا ہے، چند کلو میٹر پر ہی.وہاں اس علاقے کا جو ہائی کمشنر تھا وہ استقبال کے لئے آیا ہوا تھا.جلسہ بھی ماشاء اللہ بڑا کامیاب رہا، صرف 15 سال پہلے یہاں جماعت رجسٹر ہوئی ہے لیکن جماعت کے افراد کے ایمان واخلاص میں ماشاء اللہ ایسی ترقی ہو رہی ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے.یہاں کیونکہ فرنچ بولنے والے ہیں اس لئے ہر تقریر یا خطبے کا ایک دفعہ فرنچ میں ترجمہ ہوتا تھا پھر اس کا مقامی زبان میں ہوتا تھا.پھر جلسہ کے بعد ہم صحارا ڈیزرٹ کے قریب ایک قصبہ ڈوری ان کے لحاظ سے تو وہ شہر ہے بہر حال وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے وہاں گئے وہاں بھی ایک چھوٹی سی گیدرنگ (Gathering ) تھی لوگ آئے ہوئے تھے، غریب

Page 255

$2004 250 خطبات مسرور لوگ ہیں، زیادہ تر وہابی ہیں ان میں سے احمدی ہوئے ہیں.یہاں بھی سکول کا سنگ بنیا د رکھا گیا.جس کا راستہ کل راستے میں سے 165 کلومیٹر کا کچا راستہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے آرام سے ہو گیا.لیکن واپسی پر ہمارے قافلے کی ایک گاڑی کو حادثہ پیش آیا.جس میں ہمارے دو مربیان اور دو قافلے کے افراد تھے جو یہاں سے گئے ہوئے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ، گاڑی سڑک سے اتر کر ایک کھائی میں گر گئی اور الٹ گئی لیکن کسی کو کچھ نہیں ہوا.معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے سب کو بچالیا.بورکینا فاسو میں بھی وزیر اعظم اور ان کے صدر مملکت سے ملاقات ہوئی بڑے خوشگوار ماحول میں ،ان کو بھی زراعت سے دلچسپی زیادہ تھی اس لئے کافی دیر تک بٹھائے رکھا بلکہ میری کوشش تھی کہ اب اٹھا جائے لیکن وہ کافی دیر باتیں کرتے رہے.وہاں ایک تو لینڈ لاکڈ ( Land Locked) علاقہ ہے، اس ملک کے ساتھ سمندر کوئی نہیں لگتا اور پھر صحارا کے قریب ہے اس لئے بارشیں بھی کم ہوتی ہیں اتنی زیادہ بارشیں نہیں ہوتیں لیکن ایک چیز ان علاقوں میں مجھے اچھی لگی کہ انہوں نے ہر جگہ چھوٹے ڈیم بنالئے ہیں جہاں بارشوں کا پانی اکٹھا ہو جاتا ہے.حالانکہ ابھی پانچ چھ مہینے بارشوں کا سیزن ختم ہوئے ہو چکے تھے لیکن اچھی مقدار میں وہاں پانی جمع تھا.محنتی لوگ ہیں یہ ملک بھی امید ہے کہ ترقی کرے گا.انشاء اللہ.بور کینا فاسو میں بھی گھانا کی طرح جو بھی میری Activities رہیں، ان کا روزانہ نیشنل ٹیلیویژن، ریڈیو اور اخبارات میں باقاعدہ ذکر ہوتا رہا.بورکینا فاسو میں تین نئی مساجد کا افتتاح ہوا اور ایک سکول اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور پھر جو وا گاڈ و گوان کا دارالحکومت ہے وہاں احمدیہ ہسپتال کا افتتاح بھی ہوا.بڑی وسیع اور خوبصورت انہوں نے ہسپتال کے لئے نئی عمارت بنائی ہے.پہلے وہ کرائے کی عمارت میں تھا، اب اپنی عمارت بن گئی ہے.نصف کے قریب عمارت ابھی پہلے فیز میں بنی ہے لیکن اس کے باوجود بڑی وسیع عمارت ہے، یہاں بھی افتتاح کی تقریب میں وہاں کے وزیر صحت آئے ہوئے تھے ، انہوں نے جماعتی خدمات کو بہت سراہا.بورکینا فاسو کا ایک شہر بو بوجلاسو

Page 256

$2004 251 خطبات مسرور جہاں سے ایک خطبہ بھی نشر ہوا تھا یہاں ہماری جماعت کا ایک ریڈیو سٹیشن بھی ہے.جو تقریباً 70 80 کلومیٹر کی رینج میں سنا جاتا ہے، یہاں جمعہ پر بھی کافی حاضری یعنی ۴، ۵ ہزار کے قریب حاضری ہوگئی تھی ، احباب و خواتین آگئے تھے، اس جگہ کی 90% آبادی مسلمانوں کی ہے.یہ سب 66 ریڈیو کے پروگرام پسند کرتے ہیں، بلکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے ریڈیو پر جو نظمیں نشر ہوتی ہیں، وہ بھی بہت مقبول ہیں.اور غیر احمدی بھی یہ نظم اکثر پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ ”میرا نام پوچھوتو میں احمدی ہوں.“ تیسرا ملک بین تھا جہاں ہم بائی ایئر گئے تھے چیفوں کے نمائندے اور حکومت کے نمائندے وزیر اور تھوڑی دیر بعد ان کے وزیر خارجہ بھی آگئے انہوں نے کہا کہ میں میٹنگ میں کافی دور گیا ہوا تھا اور ٹریفک میں پھنس گیا (وہ ٹریفک کافی تنگ کرنے والا ہے، وزیروں کو بھی نہیں چھوڑتے ) یہاں بھی ان کے کیپیٹل کوتو نو وو میں بڑی خوبصورت نئی مسجد بنی ہے اس کا افتتاح ہوا اور گزشتہ جمعہ یہیں پڑھا گیا اور آپ نے سنا بھی.کو تو نو دو کے قریب 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جگہ ہے جہاں ان کا پہلے لیپیٹل ہوا کرتا تھا اب انہوں نے ادھر شفٹ کیا ہے.یہاں ایک مسجد کا سنگ بنیا درکھا ہے پہلے مسجد چھوٹی سی ہے اب انشاءاللہ وسیع مسجد بنے گی.پارا کو یہاں کا دوسرا بڑا شہر ہے وہاں جاتے ہوئے راستے میں ایک جگہ الا ڈا ہے وہاں کے چیف احمدی ہو چکے ہیں اور یہاں جلسہ پر آ بھی چکے ہیں ( آپ ان کو پہچانتے بھی ہوں گے انہوں نے جھالروں والا تاج پہنا ہوتا تھا ) انہوں نے وہاں بھی کافی لوگ اکٹھے کئے ہوئے تھے یہ لوگ عیسائی تھے، چیف بھی عیسائی تھے، چیف شروع میں بعض وجوہات کی وجہ سے احمدیت کو چھپاتے رہے لیکن اب وہ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں بلکہ وہاں مجمع میں اپنی تقریر میں بھی انہوں نے کہا کہ اگر اپنی دنیا و آخرت سنوارنی ہے اور نجات چاہتے ہو تو احمدیت کو قبول کر لو.یہی حقیقی اسلام ہے، عیسائی بھی اور مسلمان بھی ، وہاں کافی اچھی گیدرنگ (Gathering تھی.اب بھی ان کو اس علاقے میں کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ثابت قدم بھی رکھے اور ہر شر سے محفوظ رکھے.پارا کو جب ہم پہنچے ہیں تو وہاں کے میئرز اور گورنر )

Page 257

252 $2004 خطبات مسرور جو دو صوبوں کے گورنر ہیں دونوں مسلمان ہیں، شہر سے باہر شہر کے گیٹ پر استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.باوجود اس کے کہ انہیں بھی وہاں ملاؤں نے کہا بعض مسلمان ملکوں سے بھی کافی مدد کی جاتی ہے اور زیادہ زور یہی ہوتا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو کر سکتے ہو کر و.انہوں نے میئر کو بہت کہا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں، ان سے نہ ملو.تو میئر نے اس کو کہا پھر تو میں ضرور جاؤں گا کہ دیکھوں مجھے پتہ تو لگے کہ کہتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں.جب مجھے اس نے وہاں ایڈریس پیش کیا تو وہاں اس نے برملا یہ اظہار کیا کہ اصل مسلمانوں والے کام تو جماعت احمد یہ کر رہی ہے وہ پورے ملک کے ہاؤس آف میئرز کے صدر بھی ہیں.یہاں ہمارا انشاء اللہ نیا ہسپتال شروع ہونا ہے اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور بڑی اچھی جگہ پر یعنی مین روڈ کے اوپر اس شہر کے ساتھ 16ایکڑ جگہ ہے جو جماعت نے لی تھی ہسپتال کے لئے تو میئر نے ایک اور گیدرنگ میں یہ اعلان کیا کہ یہ جگہ تھوڑی ہے، پانچ ایکڑ میں اپنی طرف سے ہسپتال کے لئے اور دیتا ہوں.یہاں ایک جگہ سے امام اور چیف تقریباً 400 دوسرے افراد مرد وزن 70 کے قریب عورتیں اور باقی مرد ) آئے ہوئے تھے اور بڑا دور کا سفر طے کر کے آئے تھے ان علاقوں میں بعض دفعہ بسیں نہیں چلتیں ، ٹرک ہائر کر کے اس پر بیٹھ کر آئے ہوئے تھے.انہوں نے یہ کہا کہ ہم نے بیعت کرنی ہے، عرصہ سے ہم جماعت کو دیکھ رہے ہیں اور آج کے دن کا ہمیں انتظار تھا.میں نے وہاں امیر صاحب اور مبلغ صاحب سے پوچھا کہ آپ کے علم میں تھا کہ انہوں نے بیعت کرنی ہے انہوں نے کہا نہیں ہمیں تو صرف یہ علم تھا کہ آپ سے صرف ملاقات کے لئے آئے ہیں یا صرف دیکھنے آئے ہیں.میں نے ان امام اور چیف کو پوچھا ( وہ اچھے پڑھے لکھے لگ رہے تھے ) کہ تم جلدی تو نہیں کر رہے، تمہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے تمام دعاوی پر یقین ہے؟ امام، چیف اور دوسروں لوگوں نے کھل کے کہا کہ ہمیں پوری شرح صدر ہے.ہم پوری شرح صدر سے احمدیت قبول کر رہے ہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ ہزاروں لوگ اور ایسے ہیں جن کی معین تعداد بعد میں پتہ لگ جائے گی انشاء اللہ جلسے یہ بتاؤں گا جنہوں نے کہا تھا

Page 258

$2004 253 خطبات مسرور ہماری نمائندگی کر دینا ہم بھی احمدیت میں شامل ہونا چاہتے ہیں.پھر وہاں انہوں نے دستی بیعت کی تو اس لحاظ سے یہاں بھی دستی بیعت ہوئی اور ایک اچھی تعداد جماعت میں شامل ہوئی.پھر یہ کہ انہوں نے بڑے اخلاص اور وفا کا اظہار کیا اور سوائے اللہ کے اور کوئی دلوں میں پیدا نہیں کر سکتا اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو پیدا کرتی ہے.پیدا کرتی ہے.واپسی پر وہاں سے پھر ایک جگہ ہے جہاں تین چار ہزار کی گیدرنگ تھی.رات کو بارش ہو گئی موسم خراب ہو گیا.کچھ غیر احمدیوں نے مولویوں نے کافی شور مچایا اور لوگوں کو ڈرایا کہ وہاں نہیں جانا ، کچھ ٹرانسپورٹرز کو کہا، ٹرانسپورٹ مہیا نہیں ہو سکی اور ان کو پیسے دیئے کہ احمدیوں کے جلسے یہ نہیں جانا.ہم تمہیں خرچ دیتے ہیں اس مخالفت کے باوجود تین چار ہزار کی یہاں حاضری تھی لوگ اکٹھے ہو گئے احمدی تھے.یہاں بھی میئر نے کھڑے ہو کر کھلے عام اعلان کیا کہ میں احمدی ہوتا ہوں اور آج بیعت میں شامل ہوتا ہوں مجھے پورا یقین ہے کہ احمدیت کچی ہے.اور تقریباً اس کے علاوہ ہزار کے قریب اور لوگوں نے بھی بیعت کی اور اعلان کیا کہ ہم پوری شرح صدر کے ساتھ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں اندازے کے مطابق ہزاروں میں دورے کے دوران لوگ احمدیت میں شامل ہوئے ہمارے ساتھ مستقل یہاں اخباری نمائندے اور ریڈیو ٹیلیویژن کے نمائندے پھرتے رہے ان میں سے بھی ایک مرد نے تو بیعت کر لی اور ایک عورت نے یہ اظہار کیا کہ میں بہت قریب ہوگئی ہوں اور عنقریب بیعت کرلوں گی کیونکہ اگر کوئی میرا مذہب ہے تو وہ احمدیت ہی ہے.یہاں بھی جذبات کا اظہار بہت ہے گو تھوڑی سی خاموشی ہے.ہر ایک کا اپنا اپنا طریق کار ہوتا ہے طبیعت ہوتی ہے.یہاں اس طرح نعرے تو نہیں لیکن بے تحاشا خاموش جذبات کا اظہار تھا.آتے ہوئے جس طرح چہروں پر اداسیاں اور بعض لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے.اس سے نظر آتا تھا کہ کافی جذباتی کیفیت ہے.نائیجیریا میں گوصرف دو دن پروگرام تھا بلکہ پہلے پروگرام نہیں تھا اور آخری وقت میں یہ بنا ہے.میں نے بیٹن میں ایک اور بہت اچھی چیز دیکھی ہے.وہاں لجنہ نے اپنی ایک خاص ٹیم تیار کی

Page 259

$2004 254 خطبات مسرور ہے جو ہر موقعے پر ڈیوٹیاں دیتی ہے.بڑی باپردہ، نقاب لے کے اور مستقل ڈیوٹیاں دیتے رہے ہیں.ایم ٹی اے پر دکھایا گیا تو دیکھ بھی لیں.نائیجیریا کا میں بتا رہا تھا کہ یہاں پروگرام پہلے نہیں تھا لیکن اتفاق سے اور مجبوری سے بن گیا.کیونکہ اور کوئی فلائیٹ نہیں تھی اگر تھیں تو مہنگی تھیں.وہاں جا کر یہ احساس ہوا کہ اگر یہاں نہ آتے تو غلط ہوتا.کیونکہ باجود اس کے کہ کچھ عرصہ پہلے ان کا جلسہ سالا نہ ہو چکا تھا اور لوگ بڑی تعداد میں وہاں شامل ہو چکے تھے.یہ خیال نہیں تھا کہ دور دراز سے لوگ آ سکیں گے.لیکن صرف دو گھنٹے اکٹھا ہونے کے لئے ، مجھے ملنے کے لئے 30 ہزار سے زیادہ وہاں احمدی مرد و عورتیں جمع ہو چکے تھے اور ان کے اخلاص اور وفا کے جو نظارے میں نے دیکھے ہیں وہ نا قابل بیان ہیں.بہر حال جو تین دن ہم وہاں رہے، تیسرے دن رات کو واپسی ہوگئی تھی جس میں امیر صاحب نے کافی بھر پور پروگرام بنائے جتنا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اٹھایا اور مصروف رکھا.نائیجیریا میں بھی تین مساجد کا افتتاح کیا گیا.انہوں نے بڑی بڑی اور خوبصورت مساجد بنائی ہیں اس کے علاوہ مختلف عمارتوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد رکھے گئے یہاں کے لوگوں کے اخلاص اور خلافت سے تعلق اور محبت نا قابل بیان ہے.واپسی کے وقت دعا میں بعض خواتین اور لوگ اس طرح جذباتی تھے اور اس طرح تڑپ رہے تھے کہ یہ محبت صرف خدا ہی پیدا کر سکتا ہے.اور خدا کی خاطر ہی ہوسکتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو ایمان یقین میں بڑھا تا چلا جائے بلکہ تمام دنیا کے احمدیوں کو اخلاص و وفا کے اعلیٰ معیار پر قائم رہنے کی توفیق دے.ایم ٹی اے پر جواب تک دکھایا جا چکا ہے یہ اخلاص و وفا کے نظارے دنیا نے دیکھے ہیں اور ابھی بہت سے پروگراموں میں دیکھیں گے.مولوی کہتے ہیں کہ ہم نے افریقہ کے فلاں ملک میں جماعت احمدیہ کے مشن بند کرا دیے اور فلاں میں ہمارے سے وعدے ہو چکے ہیں.اور یہ کر دیا اور وہ کر دیا ہے اب ان سے کوئی پوچھے یہ اخلاص و وفا اور نور سے پُر چہرے ایم ٹی اے میں دنیا نے دیکھ لئے اور وہاں جا کر ہم خود دیکھ آئے ہیں.یہ کیا ہے سب کچھ؟ کیا یہ مشن بند کروانے کا نتیجہ ہے.انہوں نے جو بھی اپنی بڑ ہیں مارنی تھیں مار لیں.اور مار رہے ہیں.یہ بھی ہمارے ایمان میں زیادتی کا باعث بنتی ہیں.یہ تو صرف چار ملکوں کے مختصر حالات ہیں جو میں نے بیان کئے اور ایم ٹی اے پر مولویوں نے بھی دیکھے ہوں گے.اور شاید سن بھی رہے ہوں بعض سنتے بھی ہیں ان کو سنے کا شوق بھی

Page 260

$2004 255 خطبات مسرور ہوتا ہے.مولویوں یا مخالفین کو اگر ذرا بھی شرم ہو تو سوچیں کہ یہ تو صرف چار ملکوں کا قصہ ہے دنیا کے پونے دوسو سے زائد ممالک اخلاص و وفا سے پر احمدیوں سے بھرے ہوئے ہیں.اگر ان کے نظارے دیکھیں گے تو ان کا کیا حال ہوگا.اس عرصے میں ان چار ملکوں میں 21 نئی مساجد کا افتتاح ہوا ہے اور دو تین کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کے علاوہ کافی تعداد میں سکول ، ہسپتال اور دوسری عمارتوں کا سنگ بنیا در کھایا افتتاح ہوا.ایک اور اللہ تعالیٰ کا فضل جو ہے اس کو بھی میں بیان کر دوں کہ یہ بھی اللہ کے خاص فضلوں میں سے ایک خاص فضل ہے، ایم ٹی اے، اس کے ذریعہ سے ہم تمام دنیا کے احمدی ایک پاکیزہ ماحول میں اپنے پروگرام دیکھ اور سن سکتے ہیں.۲۲ / اپریل ۲۰۰۴ء سے جمعرات سے انشاء اللہ تعالیٰ ایم ٹی اے انٹر نیشنل ایک جز وقتی، کچھ وقت کے لئے ایک اور چینل شروع کر رہا ہے پھر بیک وقت دو چینل چلیں گے.اور یہ ضرورت اس لئے محسوس کی گئی ہے کیونکہ 24 گھنٹے کے دوران اب ایسے اوقات بھی ہیں جو یورپ اور ایشیا کے لئے یکساں اہمیت رکھتے ہیں اور ان کے دوران مختلف زبانوں میں پروگرام نشر ہوتے ہیں جو ایشیا اور یورپ کے بعض حصوں میں سمجھے نہیں جا سکتے.ان اوقات میں بہت سے ناظرین ایم ٹی اے کا استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں.اب نئے انتظام کے تحت انشاء اللہ GMT کے مطابق شام ۴ بجے سے لیکر رات سات بجے تک یو کے اور ایشیا (یعنی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش ) اور جنوبی اور شمالی امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں اردو اور انگریزی کے پروگرام چلا کریں گے.جبکہ اسی دوران میں نئی چینل ایم ٹی اے 2 پر باقی یورپ، مڈل ایسٹ، افریقہ، ماریشس وغیرہ پر فرنچ، جرمن اور عربی زبانوں کے پروگرام چلا کریں گے انشاء اللہ.اور باقی عرصے میں دونوں چینل بیک وقت چلیں گے.اور اس دوران میں اگر کوئی Live پروگرام آنا ہو تو وہ بہر حال پھر ایک ہی ہو جائے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے منصوبوں سے، اور اپنے بے بنیاد جھوٹوں سے اور اپنے افتراؤں سے اور اپنی ہنسی ٹھٹھے سے خدا کے ارادے کو روک دیں گے.یادنیا کو دھوکہ دے کر اس کام کو معرض التواء میں ڈال دیں گے.اس کا خدا

Page 261

$2004 256 خطبات مسرور نے آسمان پر ارادہ کیا ہے اگر کبھی پہلے بھی حق کے مخالفوں کو ان طریقوں سے کامیابی ہوئی ہے تو وہ کامیاب ہو جائیں گے.لیکن اگر یہ ثابت شدہ امر ہے کہ خدا کے مخالف اور اس کے ارادہ کے مخالف جو آسمان پر کیا گیا وہ ہمیشہ ذلت اور شکست اٹھاتے ہیں تو پھر ان لوگوں کے لئے بھی ایک دن ناکامی اور نامرادی اور رسوائی در پیش ہے، خدا کا فرمودہ کبھی خطا نہیں گیا اور نہ جائے گا.وہ فرماتا ہے گھب اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی یعنی خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنے قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے.پس چونکہ میں اس کا رسول اور فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت، نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم، خاتم الانبیاء کے نام پا کر اور اسی میں ہوکر اور اس کا مظہر بن کر آیا ہوں اس لئے میں کہتا ہوں جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا چلا آیا ہے.ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا.کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ جس زمانے میں ان مولویوں اور ان کے چیلوں نے میرے پر تکذیب اور بد زبانی کے حملے شروع کئے تھے اس زمانے میں میری بیعت میں ایک آدمی بھی نہیں تھا گو چند دوست جو انگلیوں پر شمار ہو سکتے ہیں میرے ساتھ تھے اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے 70 ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ گیا ہے.( جب حضور نے یہ لکھا اور اب ایک ایک دن میں کئی کئی ہزار بیعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہیں ) جو نہ میری کوشش ہے بلکہ اس ہوا کی تحریک سے ہوا جو آسمان سے چلی ہے میری طرف دوڑے ہیں اب لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلہ کے برباد کرنے کے لئے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جان کا ہی کے ساتھ ہر ایک قسم کے مکر کئے یہاں تک کہ حکام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں.خون کے جھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایا اور ہزارہا اشتہار اور رسائل لکھے کفر کے فتوے میری نسبت دیئے اور مخالفانہ منصوبوں کے لئے کمیٹیاں کیں مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجز نامرادی کے اور کیا ہوا.پس اگر یہ کاروبارانسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جان توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا.کیا کوئی نظیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں

Page 262

$2004 257 خطبات مسرور کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحہ ہستی پر اس کا نام ونشان نہ رہے مگر وہ تم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں.اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرندے اس پر آرام کر رہے ہیں.اور اب تو کروڑہا پرندے اس مسیح محمدی کے درخت پر بیٹھے ہوئے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں پیشگوئی ہے يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ اللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ یعنی مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نور خدا کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر خدا اپنے نور کو پورا کرے گا اگر چہ منکر لوگ کراہت ہی کریں.یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے جب کہ کوئی مخالف نہ تھا.بلکہ کوئی میرے نام سے بھی واقف نہ تھا پھر بعد اس کے حسب بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی اور ہزاروں نے مجھے قبول کیا تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہل مکہ کے پاس خلاف واقعہ باتیں بیان کر کے میرے لئے کفر کے فتوے منگوائے گئے.اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالا گیا قتل کے فتوے دیئے گئے حکام کو اکسایا گیا، عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بے زار کیا گیا.غرض ہر ایک طرف سے میرے نابود کرنے کے لئے کوشش کی گئی مگر خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور ان کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نامراد اور نا کام رہے، افسوس کس قدر مخالف اندھے ہیں ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانے کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوری ہوئی ہیں کیا بجز خدا تعالیٰ کے کسی اور کا کام ہے، اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو نہیں سوچتے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نامراد نہ رہتے.کس نے ان کو نا مرا درکھا، اسی خدا نے جو میرے ساتھ ہے.(حقيقة الوحى صفحه ٢٤٢،٢٤١ - روحانی خزائن جلد (۲۲) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 263

$2004 258 خطبات مسرور

Page 264

$2004 259 17 خطبات مسرور حقیقی تو بہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اپنی ظاہری و باطنی صفائی کی طرف خاص توجہ دے ۲۳ را پریل ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۳ / شہادت ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد ظاہری و باطنی صفائی کی طرف خاص توجہ دے، صفائی اور نظافت کی بابت ارشادات اور اسلامی تعلیمات اور ہمارے فرائض ربوہ میں صفائی اور صاف ستھرا ماحول اور ربوہ کو سرسبز بنایا جا رہا ہے اور مزید بنایا جائے قادیان میں بھی احمدی گھروں کے اندر اور باہر صفائی کا خاص خیال رکھیں، جماعتی عمارات کے ماحول کو صاف رکھنے کا با قاعدہ انتظام ہو اور ا سکے لئے خدام الاحمدیہ اور لجنہ وقار عمل کرے، عمارات اور مساجد کے ماحول کو بھی پھولوں اور سبزے سے خوبصورت بنایا جائے...

Page 265

خطبات مسرور $2004 260 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اسلام ایک ایسا کامل اور مکمل مذہب ہے جس میں بظا ہر چھوٹی نظر آنے والی بات کے متعلق بھی احکامات موجود ہیں.یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کی شخصیت کو بنانے اور کردار کو سنوار نے کا باعث بنتی ہیں.ان سے ظاہری طور پر بھی انسان کے مزاج کا پتہ چلتا ہے.اور اگر مومن ہے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے، انہیں باتوں میں سے ایک پاکیزگی یا طہارت یا نظافت ہے اور ایک مومن میں اس کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو پاکیزگی اور صفائی پسند ہے اور اللہ تعالی پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴾ (سورة البقره آيت : 223) لیکن یہ بات واضح ہونی چاہئے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے کہ اصل اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان اس وقت بنتا ہے جب تو بہ واستغفار سے اپنی باطنی صفائی کا بھی ظاہری صفائی کے ساتھ اہتمام کرے.ہم میں سے ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ ایمان کا دعوی کرنے کے بعد ہم اپنی ظاہری و باطنی صفائی کی طرف خاص توجہ دیں تا کہ ہماری روح و جسم ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے والے ہوں.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”بے شک اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے.اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے.اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو

Page 266

261 $2004 خطبات مسرور اپنا محبوب بنالیتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی تو بہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے.ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری ہے ورنہ نری تو بہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے.(الحكم ١٧.ستمبر ١٩٠٤ء جلد نمبر ٨ نمبر ۳۱ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود" جلد اوّل صفحه ٥..(V.پھر آپ فرماتے ہیں : ” جو باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں ان کو دوست رکھتا ہوں، ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی مد اور معاون ہے.اگر انسان اس کو چھوڑ دے اور پاخانہ پھر کر پھر طہارت نہ کرے تو اندرونی پاکیزگی پاس بھی نہ پھٹکے.پس یا درکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے.اسی لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کونسل کرو، ہر نماز میں وضو کرو، جماعت کھڑی کرو تو خوشبولگا لو، عیدین اور جمعہ میں خوشبو لگانے کا جو حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے ، اصل وجہ یہ ہے کہ اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہے ( بد بو کا اندیشہ ہوتا ہے ).پس غسل کرنے اور صاف کپڑے پہنے اور خوشبو لگانے سے سمیت اور عفونت سے روک ہوگی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھا ہے.(تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اوّل صفحه ٧٠٥،٧٠٤) صفائی کے بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں، حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ یعنی طہارت پاکیزگی اور صاف ستھرا رہنا ایمان کا ایک حصہ ہے.(مسلم کتاب الطهارة باب فضل الوضوء ) ابو مالک اشعری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاکیزگی اختیار کرنا نصف ایمان ہے“.(المعجم الکبیر جلد ۳ صفحه ٢٨٤) اب دیکھیں مومن کے لئے صفائی کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے، اور یہ احادیث اکثر مسلمانوں کو یاد ہیں، کبھی ذکر ہو تو آپ کو فورا حوالہ بھی دے دیں گے.لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس پر

Page 267

$2004 262 خطبات مسرور عمل کس حد تک ہے؟ یہ دیکھنے والی چیز ہے، اگر ایک جگہ صفائی کرتے ہیں تو دوسری جگہ گند ڈال دیتے ہیں اور بدقسمتی سے مسلمانوں میں جس شدت سے صفائی کا احساس ہونا چاہئے وہ نہیں ہے اور اسی طرح اپنے اپنے ماحول میں احمدیوں میں بھی جو صفائی کے اعلیٰ معیار ہونے چاہئیں وہ مجموعی طور پر نہیں ہیں.بجائے ماحول پر اپنا اثر ڈالنے کے ماحول کے زیر اثر آ جاتے ہیں.پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک میں اکثر جہاں گھر کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں ہے، گھر سے باہر گند پھینک دیتے ہیں حالانکہ ماحول کو صاف رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے گھر کو صاف رکھنا.ورنہ تو پھر اس گند کو باہر پھینک کر ماحول کو گندا کر رہے ہوں گے اور ماحول میں بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہوں گے.اس لئے احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے.کوئی ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ گھروں کے باہر گند نظر نہ آئے.ربوہ میں، جہاں تقریباً ۸۹ فیصد احمدی آبادی ہے، ایک صاف ستھرا ماحول نظر آنا چاہئے.اب ما شاء اللہ تزئین ربوہ کمیٹی کی طرف سے کافی کوشش کی گئی ہے.ربوہ کو سرسبز بنایا جائے اور بنا بھی رہے ہیں.کافی پودے، درخت گھاس وغیرہ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے ہیں اور نظر بھی آتے ہیں.اکثر آنے والے ذکر کرتے ہیں.اور کافی تعریف کرتے ہیں.کافی سبزہ ربوہ میں نظر آتا ہے.لیکن اگر شہر کے لوگوں میں یہ حس پیدا نہ ہوئی کہ ہم نے نہ صرف ان پودوں کی حفاظت کرنی ہے بلکہ اردگرد کے ماحول کو بھی صاف رکھنا ہے تو پھر ایک طرف تو سبزہ نظر آ رہا ہوگا اور دوسری طرف کوڑے کے ڈھیروں سے بدبو کے بھبھا کے اٹھ ر ہے ہوں گے.اس لئے اہل ربوہ خاص توجہ دیتے ہوئے اپنے گھروں کے سامنے نالیوں کی صفائی کا بھی اہتمام کریں اور گھروں کے ماحول میں بھی کوڑا کرکٹ سے جگہ کو صاف کرنے کا بھی انتظام کریں.تا کہ کبھی کسی راہ چلنے والے کو اس طرح نہ چلنا پڑے کہ گند سے بچنے کے لئے سنبھال سنبھال کر قدم رکھ رہا ہو اور ناک پر رومال ہو کہ بو آ رہی ہے.اب اگر جلسے نہیں ہوتے تو یہ مطلب نہیں کہ ربوہ

Page 268

$2004 263 خطبات مسرور صاف نہ ہو بلکہ جس طرح حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ دلہن کی طرح سجا کے رکھو.یہ سجاوٹ اب مستقل رہنی چاہئے.مشاورت کے دنوں میں ربوہ کی بعض سڑکوں کو سجایا گیا تھا.تزئین ربوہ والوں نے اس کی تصویریں بھیجی ہیں، بہت خوبصورت سجایا گیا لیکن ربوہ کا اب ہر چوک اس طرح سجنا چاہئے تاکہ احساس ہو کہ ہاں ربوہ میں صفائی اور خوبصورتی کی طرف توجہ دی گئی ہے اور ہر گھر کے سامنے صفائی کا ایک اعلیٰ معیار نظر آنا چاہئے.اور یہ کام صرف تزئین کمیٹی نہیں کر سکتی بلکہ ہر شہری کو اس طرف توجہ دینی ہوگی.اسی طرح قادیان میں بھی احمدی گھروں کے اندر اور باہر صفائی کا خاص خیال رکھیں.ایک واضح فرق نظر آنا چاہئے.گزرنے والے کو پتہ چلے کہ اب وہ احمدی محلے یا احمدی گھر کے سامنے سے گزر رہا ہے.اس وقت تو مجھے پتہ نہیں کہ کیا معیار ہے، 91ء میں جب میں گیا ہوں تو اس وقت شاید اس لئے کہ لوگوں کا رش زیادہ تھا ، کافی مہمان بھی آئے ہوئے تھے لگتا تھا کہ ضرورت ہے اس طرف توجہ دی جائے اور میرے خیال میں اب بھی ضرورت ہو گی.اس طرف خاص توجہ دیں اور صفائی کا خیال رکھیں اور جہاں بھی نئی عمارات بن رہی ہیں اور تنگ محلوں سے نکل کر جہاں بھی احمدی کھلی جگہوں پر اپنے گھر بنارہے ہیں وہاں صاف ستھرا بھی رکھیں اور سبزے بھی لگائیں ، درخت پودے گھاس وغیرہ لگنا چاہئے اور یہ صرف قادیان ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ اور جماعتی عمارات ہیں ان میں خدام الاحمدیہ کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ وہ وقار عمل کر کے ان جماعتی عمارات کے ماحول کو بھی صاف رکھیں اور وہاں پھول پودے لگانے کا بھی انتظام کریں اور صرف قادیان میں نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی جماعتی عمارات ہیں ان کے ارد گر د خاص طور پر صفائی اور سبزہ اس طرح نظر آئے کہ ان کی اپنی ایک انفرادیت نظر آتی ہو.پہلے میں تیسری دنیا کی مثالیں دے چکا ہوں صرف یہ حال وہاں کا نہیں بلکہ یہاں یورپ میں بھی میں نے دیکھا ہے، جن گھروں میں بھی گیا ہوں پہلے کبھی یا

Page 269

$2004 264 خطبات مسرور اب، کہ جو بھی چھوٹے چھوٹے آگے پیچھے صحن ہوتے ہیں ان کی کیاریوں میں یا گھاس ہوتا ہے یا گند پڑا ہوتا ہے.کوئی توجہ یہاں بھی اکثر گھروں میں نہیں ہو رہی ، چھوٹے چھوٹے صحن ہیں کیا ریاں ہیں، چھوٹے سے گھاس کے لان ہیں اگر ذراسی محنت کریں اور ہفتے میں ایک دن بھی دیں تو اپنے گھروں کے ماحول کو خوبصورت کر سکتے ہیں.جس سے ہمسایوں کے ماحول پر بھی خوشگوار اثر ہوگا اور آپ کے ماحول میں بھی خوشگوار اثر ہو گا.اور پھر آپ کو لوگ کہیں گے کہ ہاں یہ لوگ ذرا منفر دطبیعت کے لوگ ہیں، عام جوایشینز (Asians) کے خلاف ایک خیال اور تصور گندگی کا پایا جاتا ہے وہ دُور ہوگا.مقامی لوگوں میں کچھ نہ کچھ پھر بھی شوق ہے وہ اپنے پودوں کی طرف توجہ دیتے ہیں جبکہ ہمارے گھر کا ماحول ان لوگوں سے زیادہ صاف ستھرا اور خوشگوار نظر آنا چاہئے اور یہاں تو موسم بھی ایسا ہے کہ ذراسی محنت سے کافی خوبصورتی پیدا کی جاسکتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر سڑکوں کی صفائی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر سڑک پر جھاڑیاں یا پتھر اور کوئی گندی چیز ہو بلکہ آپ کا عمل یہ تھا کہ اگر کوئی گندی چیز ہوتی تو آپ اسے خود اٹھا کر ایک طرف کر دیتے اور فرماتے کہ جو شخص سڑکوں کی صفائی کا خیال رکھتا ہے خدا اس پر خوش ہوتا ہے اور اسے ثواب عطا کرتا ہے.(مسلم.کتاب البر و الصلة) اور یہاں تو گھر بھی اتنے چھوٹے چھوٹے ہیں کہ سڑکوں پر آئے ہوتے ہیں اس لئے جتنا آپ اپنے چھوٹے سے صحن کو صاف رکھیں گے، سڑک کی صفائی بھی اس میں نظر آئے گی.اسی طرح آپ فرماتے تھے کہ رستے کو روکنا نہیں چاہئے ، رستوں پر بیٹھنا یا اس میں ایسی چیز ڈال دینا کہ مسافروں کو تکلیف ہو یا رستہ میں قضائے حاجت وغیرہ کرنا یہ خدا تعالیٰ کو نا پسند ہے.(مشکواۃ.کتاب الطهارة) اسی طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ سڑک یا فٹ پاتھ پر تھوک دیتے ہیں جو بڑا کراہت والا منظر ہوتا ہے تو اگر ایسی کوئی ضرورت ہو بھی تو ایسے لوگوں کو چاہئے کہ ایک طرف ہو کر

Page 270

$2004 265 خطبات مسرور کنارے پر ایسی جگہ تھو کیں جہاں کسی کی کبھی نظر نہ پڑے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ﴿وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ﴾ (المدثر : ۲.۵) اپنے کپڑے صاف رکھو، بدن کو، اور گھر کو اورکوچہ کو اور ہر ایک جگہ کو جہاں تمہاری نشست ہو پلیدی اور میل کچیل اور کثافت سے بچاؤ یعنی نفسل کرتے رہو اور گھر وں کو صاف رکھنے کی عادت پکڑو.اسلامی اصول کی فلاسفی - صفحه ۳۲ بحواله تفسیر جلد نمبر ٤ صفحه ٤٩٦) جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بدن کو بھی صاف رکھو، کپڑوں کو بھی صاف رکھو، اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جتنا حلیہ خراب ہو اتنی بزرگی زیادہ ہوتی ہے حالانکہ اسلامی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے.ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے پر انعام کرتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ وہ اس نعمت کا اثر اس بندے پر دیکھئے“.(مسند احمدبن حنبل) پھر ایک روایت ہے، جو ابو الاحوص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے کہا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میرے جسم کے کپڑے معمولی اور گھٹیا تھے.آپ نے پوچھا کیا تمہارے پاس مال ہے؟ میں نے کہا: ہاں.آپ نے پوچھا کس طرح کا مال ہے.میں نے کہا ہر طرح کا مال اللہ تعالیٰ نے مجھے دے رکھا ہے.اونٹ بھی ہیں، گائے بھی ہیں.بکریاں بھی ہیں گھوڑے بھی ہیں اور غلام بھی ہیں.تو آپ نے فرمایا ”جب اللہ نے مال دے رکھا ہے تو اس کے فضل اور احسان کا اثر و نشان تمہارے جسم پر ظاہر ہونا چاہئے“.(سنن ابی داؤد كتاب اللباس باب فى الحلقان و غسل الثوب ) بعض لوگ تو طبعاً ایسے ہوتے ہیں کہ توجہ نہیں دیتے کہ صحیح طرح کپڑے پہن سکیں اور بعض کنجوسی میں اپنا حلیہ بگاڑ کر رکھتے ہیں.تو بہر حال جو بھی صورت ہے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تم پر فضل اور احسان کیا ہے اس کا اظہار

Page 271

$2004 266 خطبات مسرور تمہارے حلیے سے بھی ہونا چاہئے ، تمہارے کپڑوں سے ، تمہارے لباس سے تمہارے گھروں سے، اس لئے اپنا حلیہ درست رکھو اور اچھے کپڑے پہنا کرو.یہ نصیحت ان کو کی.ایک روایت میں ہے حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ایک پراگندہ بال شخص کو دیکھا یعنی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور فرمایا کہ " کیا اس کے پاس بال بنانے کے لئے کوئی چیز نہیں ہے.اور ایک گندے کپڑے والے شخص کو دیکھ کر فرمایا کہ کیا اسے کپڑے دھونے کے لئے پانی میسر نہیں“.(سنن ابو داؤد کتاب اللباس - باب في غسل الثوب) مطلب یہ تھا کہ یہ شخص اس حالت میں کیوں ہے.اب بعض لوگ ہمارے ملکوں میں پاکستان وغیرہ میں گندے کپڑوں والے اور لمبے چوغے پہنے ہوتے ہیں.گھنگھرو اور کڑے پہنے ہوئے ایسے لوگوں کو دیکھ کر مجھتے ہیں کہ ملنگ ہے، بڑا پہنچا ہوا بزرگ ہے حالانکہ یہ سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت ایسے لوگوں سے پاک ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عطاء ابن سیار بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص پراگندہ بال اور بکھری ڈاڑھی والا آیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اشارہ سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سر اور داڑھی کے بال درست کرو.جب وہ سر کے بال ٹھیک ٹھاک کر کے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ بھلی شکل (یعنی یہ خوبصورت شکل ) بہتر ہے یا یہ کہ انسان کے بال اس طرح بکھرے اور پراگندہ ہوں کہ وہ شیطان اور بھوت لگے.(موطأ امام مالك باب ما جاء في الطعام والشراب و اصلاح (الشعر) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے غلیظ حلیے والے لوگوں کو شیطان سے تشبیہ دی ہے.اور پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں ایسے حلیے کے لوگوں کو دیکھ کے ملنگ اور اللہ والے کہا جاتا ہے.تو یہ تضاد دیکھ لیں اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے اس زمانے کے امام کو نہیں مانا اور پہچانا.

Page 272

$2004 267 مسرور ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص جس کے دل میں ذرا سا بھی تکبر ہوگا.وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا.ایک شخص نے عرض کی کہ ہر شخص پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جو تے خوبصورت ہوں.اس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے“.(مسلم کتاب الایمان باب تحريم الكبر و بيانه) اب اس حدیث سے یہ واضح ہونا چاہئے کہ صاف ستھرا رہنے یا اچھے کپڑے پہنے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے اور یہ خیال دل میں نہیں آنا چاہئے کہ اپنے سے مالی لحاظ سے کم تر کسی شخص کے ساتھ نہ بیٹھوں.اگر یہ صورت ہوگی تو پھر تکبر ہے.ورنہ اچھے کپڑے پہنا اور صاف ستھرا رہنا، اچھے جوتے پہنا یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار ہے.اور اگر تکبر ہوگا تو تب فرمایا کہ ایسے شخص کے لئے پھر جنت کے دروازے بند ہیں.اس لئے مومن اور دنیا دار میں یہی فرق ہے کہ وہ صاف ستھرا رہتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے اچھے جوتے پہنتا ہے اپنے گھر کو سجا کر رکھتا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو خوبصورتی پسند ہے یعنی اس کا یہ ظاہری خوبصورتی کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے اور کیونکہ مومن کا یہ اظہار اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے.اس لئے غریب آدمی کے ساتھ مالی لحاظ سے اپنے سے کم بھائی کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا اس کا پاس لحاظ رکھنا یہ بھی اس کے لئے ایسا ہی ہے جیسا کسی مالدار شخص کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اس کا پاس لحاظ کرنا ہے.یہ ہے اسلامی تعلیم کہ تم خدا تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ سے اظہار بھی کر ولیکن اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ان غریبوں کا بھی خیال رکھو تا کہ ان کا ایک بھائی کی حیثیت سے حق پورا ادا ہو.حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے جب آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا تو سول سروس میں گئے کیونکہ برصغیر میں عموماً افسر اپنے آپ کو عام آدمی سے بالا سمجھتے تھے اور اب بھی اکثر پاکستان وغیرہ میں جو بیورو کریٹ ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی ایسی شخصیت ہیں جو

Page 273

$2004 268 خطبات مسرور دوسروں سے بالا ہیں اور غریب آدمی کے وقت اور عزت کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی.حضرت میاں صاحب جب اپنے علاقے میں افسر بن کر گئے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور نصائح کے علاوہ ان کو ایک یہ بھی نصیحت کی تھی کہ تمہارے گھر کا کوئی قالین کا ٹکڑا یا ڈرائینگ روم کا صوفہ کسی غریب کو تمہارے گھر میں قدم رکھنے یا بیٹھنے سے نہ رو کے یا روک نہ بنے.بڑی پر حکمت نصیحت ہے.ایک تو یہ کہ غریب بھی تمہارے گھر میں بے جھجک آسکے، کوئی روک نہ ہو.دوسرےاس کو بھی وہی عزت دو جو کسی امیر کو دو.تو حضرت میاں صاحب نے ہمیشہ غریبوں کا بہت خیال رکھا اور اس نصیحت پر عمل کیا.ہمارے آج کل کے افسروں کو بھی اس نصیحت کو پلے باندھنا چاہئے.یہ نہیں کہ سفر کی وجہ سے کسی غریب کے کپڑے میلے ہیں تو اس کے صوفے پہ بیٹھنے سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہو.پھر صفائی کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبولگانے کو بھی بہت پسند فرمایا ہے اور اس تحفے کو بھی بڑا پسند کیا کرتے تھے.ایک روایت میں ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں کوئی دوست بطور تحفہ خوشبودے تو اسے قبول کرو اور اسے استعمال کرو.(مسند الامام اعظم كتاب الارب صفحه (۲۱۱ روایت آتی ہے کہ آپ کے جسم میں سے تو ہر وقت خوشبو آتی رہتی تھی.جیسے حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک دفعہ میرے گال پر ہاتھ پھیرا تو آپ کے ہاتھ سے میں نے ایسی اعلیٰ درجہ کی خوشبو محسوس کی جیسے وہ ابھی عطار کی صندوقچی سے باہر نکلا ہو.(مسلم کتاب الفضائل باب طيب رائحة النبى الله.یعنی جو شخص عطر بناتا ہے اس کا جوڈ بہ جس میں عطر پڑے ہوتے ہیں جس طرح اس میں سے ہاتھ نکالا ہو.حضرت جابر ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس راستے سے گزرتے ، اس پر اگر کوئی آپ کے پیچھے جاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخصوص خوشبو کی وجہ سے اسے پتہ چل جاتا

Page 274

269 $2004 خطبات مسرور تھا کہ حضور ابھی یہاں سے گزر کر گئے ہیں.( تاريخ الكبير للبخاری نمبر ٤٢٩٧) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی جمعے کے دن غسل کرے اور جہاں تک صفائی کر سکتا ہے صفائی کرے اور تیل لگائے اور اپنے گھر میں موجود خوشبو میں سے کچھ لگائے، پھر نماز کے لئے نکلے تو اس جمعے سے لے کر اگلے جمعے تک اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے.(بخاری.کتاب الصلواة باب الدهن للجمعة) تو یہاں اس سے یہ مراد ہے کہ نیت یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ خوشبولگا کر مسجد میں جاؤ تا کہ اس کے بندوں کو ، ساتھ بیٹھے ہووں کو تکلیف نہ ہو.اللہ تعالیٰ کو بھی خوشبو اور صفائی پسند ہے.یہ نہیں کہ اس حکم کے مطابق تیار ہو کر جمعہ پڑھ لیا اور سارا ہفتہ اس کے بندوں کو تکلیف دیتے رہے تو گناہ بخشے گئے.عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس حدیث کو بھی سامنے رکھنا ہو گا نیت نیک ہوتب تو اب بھی ملتا ہے.دانتوں کی صفائی کے بارے میں روایت ہے، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مسواک کرنے سے منہ کی صفائی ہوتی ہے.خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ آنکھ کی روشنی بڑھتی ہے.(بخاری.كتاب الصوم باب سواك الرطب و اليابس للصائم) پھر اسی بارے میں دوسری روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت کی یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو یہ حکم دیتا کہ ہر نماز پر مسواک کیا کریں.(بخاری کتاب الصلوة بالسواك يوم الجمعة) اب بعض لوگوں کے منہ سے بو آتی ہے.ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے ، لوگوں کی تکلیف کا احساس ہونا چاہئے.حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو بیدار ہوتے تھے تو مسواک سے اپنا منہ صاف کیا کرتے تھے.آج کل ڈاکٹر اپنی تحقیق کے

Page 275

$2004 270 خطبات مسرور مطابق یہ کہتے ہیں کہ صبح شام ضرور برش کرنا چاہئے.رات کو سونے سے پہلے اور صبح اٹھ کر.ورنہ بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.بلکہ ایک تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ آدمی جب صبح اٹھتا ہے تو اس کے دانتوں پر چھ سومختلف سپیشیز (species ) کے لا تعداد بیکٹیریا ہوتے ہیں.سپیشیز (species ہی چھ سو ہوتی ہیں جو دانتوں پر لگی ہوتی ہیں اور تعداد کتنی ہے، یہ پتہ نہیں لیکن دیکھیں آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ سو سال پہلے ہمیں بتا دیا کہ سو کر اٹھو تو پہلے دانت صاف کرو.اب ان باتوں کو دیکھ کر آج کل کے ڈاکٹر اور سائنسدان کو خدا اور اسلام کی سچائی پر یقین ہونا چاہئے کہ جو باتیں اس زمانے کی تحقیق سے ثابت ہو رہی ہیں اور اب پتہ لگ رہی ہیں وہ باتیں آج سے پندرہ سوسال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتا چکے ہیں.کھانا کھانے سے پہلے بھی ہاتھ دھونے کا حکم آتا ہے.آپ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوتے تھے اور کمی کرتے تھے بلکہ ہر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کلی کرتے اور آپ پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد بغیر کلی کئے نماز پڑھنے کو نا پسند فرماتے تھے.(بخاری کتاب الاطعمه) کھانا کھا کر کئی بھی کرنی چاہئے اور ہاتھ بھی دھونے چاہئیں.اور اس سے پہلے بھی تا کہ ہاتھ صاف ہو جائیں.اور بعد میں اس لئے کہ سالن کی بو منہ اور ہاتھوں سے نکل جائے.آج کل تو مسالے بھی ایسے ڈالے جاتے ہیں کہ کھاتے ہوئے شاید اچھے لگتے ہوں لیکن اگر اچھی طرح ہاتھ منہ نہ دھویا ہوتو بعد میں دوسروں کے لئے کافی تکلیف دہ ہوتے ہیں.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہاتھ دھو کر دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا چاہئے.(بخاری کتاب الاطعمه باب التسمية على الطعام و الاكل باليمين دوسری جگہ فرمایا گند وغیرہ کی صفائی کے لئے بایاں ہاتھ استعمال کرو.لیکن آج کل یہاں یورپ میں کیونکہ لوگوں کو احساس نہیں ہے دائیں اور بائیں کا، اکثر دیکھا ہے گورے انگریز ، عیسائی بائیں ہاتھ سے ہی کھا رہے ہوتے ہیں.کبھی سڑک پہ جاتے ہوئے نظر پڑ جائے تو ہاتھ میں

Page 276

271 $2004 خطبات مسرور برگر ہوتا ہے ہمیشہ دیکھیں گے بائیں ہاتھ سے کھا رہے ہوں گے.چپس کا لفافہ دائیں ہاتھ میں ہوگا اور بایاں ہاتھ استعمال ہو رہا ہوگا.بعض لوگ اس کی تقلید کرتے ہیں، اس سے بچنا چاہئے.کھانا بہر حال دائیں ہاتھ سے کھانا چاہئے.پھر ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس باتیں فطرت انسانی میں داخل ہیں.مونچھیں تراشنا، ڈاڑھی رکھنا (خاص مردوں کے لئے ہے )، مسواک کرنا پانی سے ناک صاف کرنا، ناخن کٹوانا، انگلیوں کے پورے صاف رکھنا بغلوں کے بال لینا، زیر ناف بال لینا، استنجاء کرنا، طہارت کرنا.راوی کہتا ہے کہ میں دسویں بات بھول گیا ہوں شاید وہ کھانے کے بعد کلی کرنا ہے.(مسلم- كتاب الطهارة باب خصال الفطرة) یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو صفائی کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کے لئے بھی ضروری ہیں.اب پانی سے ناک صاف کرنے کا جو حکم ہے یہ وضو کرتے وقت دن میں پانچ دفعہ ہے اور اگر ناک میں پانی چڑھا کر صاف کیا جائے تو کافی حد تک نزلے وغیرہ سے بھی بچا جا سکتا ہے.مجھے کسی نے بتایا کہ جرمنی میں کسی کو نزلہ ہو گیا اور ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ تم لوگ جو مسلمان ہو، پانچ وقت وضو کرتے ہو تو ناک میں پانی چڑھاتے ہو تم اگر اس طرح کرو تو کافی حد تک نزلے سے بچ سکتے ہو.یہ اس ڈاکٹر کی اپنی سوچ یا تحقیق تھی یا اس پر کوئی اور تحقیق ہو رہی ہے یا ہوئی ہے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بہر حال اس میں حقیقت ہے.اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے.ہر ایک کے لئے ناک میں پانی چڑھانا مشکل ہوگا کیونکہ ناک میں زور سے پانی چڑھانا ہوتا ہے.بعض دفعہ ذراسی تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن میں نے تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ اگر ناک میں پانی ٹھیک طرح چڑھایا جائے اور صاف کیا جائے تو نزلے میں کافی فرق پڑتا ہے.پھر ناخن کٹوانا ہے،اس میں ہزار قسم کے گند پھنس جاتے ہیں لیکن آج کل بعض مردوں میں لیکن عورتوں میں تو اکثریت میں یہ فیشن ہو

Page 277

$2004 272 خطبات مسرور گیا ہے کہ لمبے لمبے ناخن رکھو اور ان کو کوئی گندگی کا احساس بھی نہیں ہوتا.بہر حال یہ سب پر واضح ہو جانا چاہئے کہ ناخن کٹوانے کا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور لمبے ناخن رکھنے کا نقصان ہی ہے فائدہ کوئی نہیں.صفائی کے ضمن میں ایک انتہائی ضروری بات جو جماعتی طور پر ضروری ہے وہ ہے جماعتی عمارات کے ماحول کو صاف رکھنا.اس کا پہلے میں ذکر کر چکا ہوں.اس کا با قاعدہ انتظام ہونا چاہئے.اور خدام الاحمدیہ کو وقار عمل بھی کرنا چاہئے.اور اگر عمارت کے اندر کا حصہ ہے تولجنہ کو بھی اس میں حصہ لینا چاہئے.اور اس میں سب سے اہم عمارات مساجد ہیں مساجد کے ماحول کو بھی پھولوں، کیاریوں اور سبزے سے خوبصورت رکھنا چاہئے ، خوبصورت بنانا چاہئے.اور اس کے ساتھ ہی مسجد کے اندر کی صفائی کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہئے.چند سال پہلے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا تفصیلی خطبہ اس ضمن میں دیا تھا اور توجہ دلائی تھی.کچھ عرصہ تک تو اس پر عمل ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ اس پر توجہ کم ہوگئی.خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں مسجد کے اندر ہال کی صفائی کا بھی با قاعدہ انتظام ہو.تنکوں کی وہاں صفیں بچھی ہوتی ہیں.صفیں اٹھا کر صفائی کی جائے ، وہاں دیواروں پر جالے بڑی جلدی لگ جاتے ہیں، جالوں کی صفائی کی جائے.پنکھوں وغیرہ پر مٹی نظر آ رہی ہوتی ہے وہ صاف ہونے چاہئیں.غرض جب آدمی مسجد کے اندر جائے تو انتہائی صفائی کا احساس ہونا چاہئے کہ ایسی جگہ آ گیا ہے جو دوسری جگہوں سے مختلف ہے اور منفرد ہے.اور جن مساجد میں قالین وغیرہ بچے ہوئے ہیں وہاں بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے.لمبا عرصہ اگر صفائی نہ کریں تو قالین میں بو آنے لگ جاتی ہے، مٹی چلی جاتی ہے.خاص طور پر جمعے کے دن تو بہر حال صفائی ہونی چاہئے.اور پھر حدیثوں میں آیا ہے کہ دھونی وغیرہ دے کر ہوا کو بھی صاف رکھنا چاہئے اس کا بھی باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے.لیکن مسجد میں خوشبو کے لئے بعض لوگ اگر بتیاں جلا لیتے ہیں.

Page 278

$2004 273 خطبات مسرور بعض دفعہ اس کا نقصان بھی ہو جاتا ہے، پاکستان میں ایک مسجد میں اگر بتی کسی نے لگا دی اور آہستہ آہستہ الماری کو آگ لگ گئی نقصان بھی ہوا.ایک تو یہ احتیاط ہونی چاہئے کہ جب موجود ہوں تب ہی لگے.دوسرے بعض اگر بتیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں اتنی تیز خوشبو ہوتی ہے کہ دوسروں کے لئے بجائے آرام کے تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں.اس سے اکثر کو سر در دشروع ہو جاتی ہے.تو ایسی چیز لگانی چاہئے یا دھونی دینی چاہئے جو ذرا ہلکی ہو.ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اس بات کی تحریک کرتے رہتے تھے کہ خاص طور پر اجتماعات کے دنوں میں جب لوگ اکٹھے ہور ہے ہوں مسجدوں کی صفائی کا خیال رکھا کریں اور ان میں خوشبو جلایا کریں تا کہ ہوا صاف ہو جائے.(مشکواۃ.کتاب الصلوۃ) ایک اور روایت ہے.آپ ہمیشہ صحابہ کو نصیحت کرتے رہتے تھے کہ اجتماع کے موقع پر بد بو دار چیزیں کھا کر مسجد میں نہ آیا کریں.جب نمازوں کے لئے مسجد میں آتے ہیں تو پیاز اور لہسن وغیرہ چیزیں کھا کر نہ آئیں.(بخاری.کتاب الاطعمه باب يكره من الثوم والبقول) اور اس کے ساتھ ہی بعض دفعہ جرا ہیں بھی کئی دنوں کی گندی ہوتی ہیں ان سے بھی بو آتی ہے وہ بھی پہن کے نہیں آنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ یعنی ہر ایک پلیدی سے جدا رہ.یہ احکام اسی لئے ہیں تا کہ انسان حفظان صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے (یعنی اپنے آپ کو جسمانی بلاؤں سے بچائے ) عیسائیوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے احکام ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتے.کہ قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کر کے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو اور خلال کرو اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ.اور بد بوؤں سے دور ر ہو اور مردار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ اس کا جواب یہی ہے کہ قرآن

Page 279

$2004 274 خطبات مسرور نے اس زمانے میں عرب کے لوگوں کو ایسا ہی پایا تھا.وہ لوگ نہ صرف روحانی پہلو کی رو سے خطرناک حالت میں تھے بلکہ جسمانی پہلو کے رُو سے بھی ان کی صحت خطرے میں تھی.(جسمانی پاکیزگی تو یہاں یورپ میں لوگوں میں کم ہی ہے.سو یہ خدا تعالیٰ کا ان پر اور تمام دنیا پر احسان تھا کہ حفظان صحت کے قواعد مقرر فرمائے.یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا یعنی بے شک کھاؤ پیو، مگر کھانے پینے میں بے جا طور پر زیادتی کیفیت یا کمیت کی مت کرو.(یعنی مقدار میں اس کی حالت کو دیکھ کے کھاؤ اور زیادتی نہ کرو) افسوس پادری اس بات کو نہیں جانتے کہ جو شخص جسمانی پاکیزگی کی رعایت کو بالکل چھوڑ دیتا ہے وہ رفتہ رفتہ وحشیانہ حالت میں گر کر روحانی پاکیزگی سے بھی بے نصیب رہ جاتا ہے.مثلاً چند روز دانتوں کا خلال کرنا چھوڑ دو جو ایک ادنی صفائی کے درجے پر ہے تو وہ فضلات جو دانتوں میں پھنسے رہیں گے، ان میں سے مردار کی بو آئے گی.آخر دانت خراب ہو جائیں گے.اور ان کا زہریلا اثر معدے پر گر کر معدہ بھی فاسد ہو جائے گا.خود غور کر کے دیکھو کہ جب دانتوں کے اندر کسی بوٹی کا رگ وریشہ یا کوئی جز پھنسا رہ جاتا ہے اور اسی وقت خلال کے ساتھ نکالا نہیں جاتا تو ایک رات بھی اگر رہ جائے تو سخت بد بواس میں پیدا ہو جاتی ہے.اور ایسی بدبو آتی ہے جیسے چوہا مرا ہوتا ہے.پس یہ کیسی نادانی ہے کہ ظاہری اور جسمانی پاکیزگی پر اعتراض کیا جائے اور یہ تعلیم دی جائے کہ تم جسمانی پاکیزگی کی کچھ پرواہ نہ رکھو، نہ خلال کرو، نہ کبھی غسل کر کے بدن پر سے میل اتارو اور نہ پاخانہ پھر کر طہارت کرو اور تمہارے لئے صرف روحانی پاکیزگی کافی ہے.ہمارے ہی تجارب ہمیں بتلا رہے ہیں کہ ہمیں جیسا کہ روحانی پاکیزگی کی روحانی صحت کے لئے ضرورت ہے ایسا ہی ہمیں جسمانی صحت کے لئے جسمانی پاکیزگی کی ضرورت ہے.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہماری جسمانی پاکیزگی کو ہماری روحانی پاکیزگی میں بہت کچھ دخل ہے.کیونکہ جب ہم جسمانی پاکیزگی کو چھوڑ کر اس کے بدنتائج یعنی خطر ناک بیماریوں کو بھگتنے لگتے ہیں تو اس وقت ہمارے دینی فرائض میں بھی بہت حرج ہو جاتا ہے اور ہم بیمار ہو کر ایسے نکھے ہو جاتے ہیں کہ کوئی

Page 280

$2004 275 خطبات مسرور خدمت دینی بجا نہیں لا سکتے اور چند روز دکھ اٹھا کر اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں ( یعنی وفات ہو جاتی ہے) بلکہ بجائے اس کے کہ بنی نوع کی خدمت کر سکیں اپنی جسمانی ناپاکیوں اور ترک قواعد حفظان صحت سے ( حفظان صحت کے قواعد چھوڑنے سے ) اوروں کے لئے وبال جان ہو جاتے ہیں.اور آخر ان ناپاکیوں کا ذخیرہ جس کو ہم اپنے ہاتھوں سے اکٹھا کرتے ہیں وبائی صورت میں مشتمل ہو کر تمام ملک کو کھاتا ہے.اور اس تمام مصیبت کا موجب ہم ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہم ظاہری یا کی کے اصولوں کی رعایت نہیں رکھتے.پس دیکھو کہ قرآنی اصول کو چھوڑ کر اور فرقانی وصایا کو ترک کر کے کیا کچھ بلائیں انسانوں پر وارد ہوتی ہیں.اور ایسے بے احتیاط لوگ جو نجاستوں سے پر ہیز نہیں کرتے اور عفونتوں کو اپنے گھروں اور کوچوں اور کپڑوں اور مونہوں سے دور نہیں کرتے ان کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے نوع انسان کے لئے کیسے خطرناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں اور کیسی یک دفعہ وبائیں پھوٹتی اور موتیں پیدا ہوتی ہیں اور شور قیامت برپا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ مرض کی دہشت سے اپنے گھروں اور مال اور املاک اور تمام جائیداد سے جو جانکا ہی سے اکٹھی کی تھیں دستبردار ہو کر دوسرے ملکوں کی طرف دوڑتے ہیں اور مائیں بچوں سے اور بچے ماؤں سے جدا کئے جاتے ہیں.کیا یہ مصیبت جہنم کی آگ سے کچھ کم ہے.ڈاکٹروں سے پوچھو اور طبیبوں سے دریافت کرو کہ کیا ایسی لا پرواہی جو جسمانی طہارت کی نسبت عمل میں لائی جائے وبا کے لئے عین موزوں اور موید ہے یانہیں پس قرآن نے کیا برا کیا کہ پہلے جسموں اور گھروں اور کپڑوں کی صفائی پر زور دے کر انسانوں کو اس جہنم سے بچانا چاہا جو اسی دنیا میں ایک دفعہ فالج کی طرح گرتا اور عدم تک پہنچا تا ہے“.ايام الصلح صفحه ٩٦،٩٥ ـ بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود جلد چهارم صفحه ٤٩٧٤٩٦) اللہ تعالیٰ ہمیں ظاہری اور باطنی صفائی کی طرف توجہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 281

$2004 276 خطبات مسرور

Page 282

$2004 277 18 خطبات مسرور احمدیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قناعت اور سادگی کو اپنائیں ۳۰ را پریل ۲۰۰۴ء بمطابق ۳۰ر شهادت ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن مومن کا کام یہ ہے کہ اصل مقصود اس کا اللہ تعالیٰ کی رضا ہو نہ کہ دنیا کے پیچھے دوڑنا.ہی یہ کافروں کا کام ہے کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں، لازمی چندہ جات اور دیگر مالی تحریکات میں رقوم کی ادائیگی کی طرف توجہ کی تلقین قناعت اور سادگی اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں...حضرت مسیح موعود کی سادہ زندگی واقفین زندگی کے لئے ایک ضروری اقتباس

Page 283

خطبات مسرور $2004 278 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ.ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا.وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَابِ﴾ (سورة ال عمران آیت نمبر: 15).اس کا ترجمہ ہے کہ لوگوں کے لئے طبعا پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں کی اور اولاد کی اور ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کی اور امتیازی نشان کے ساتھ دانے ہوئے گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتیوں کی محبت خوبصورت کر کے دکھائی گئی ہے.یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بہتر لوٹنے کی جگہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا دار طبعا یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے پاس خوبصورت اور مالدار عورتیں ہوں ان کی زوجیت میں ، آج کل بھی دیکھ لیں مالدار لوگ یا پیسے والے لوگ یا اس کی سوچ کو رکھنے والے اکثر مالدار گھرانے میں اس لئے شادیاں کرتے ہیں کہ یا تو ان کی طرف سے کچھ مال مل جائے گا یا دونوں طرف کا مال اکٹھا ہو کر ان کے مال میں اضافہ ہوگا.اس بات کی پرواہ کم کی جاتی ہے کہ جن چار وجوہات کی بنا پر رشتہ کیا جانا چاہئے یعنی مال (جیسا کہ حدیث میں آیا ہے)، خاندان، خوبصورتی یا دینداری.ان میں سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ پسندیدہ دین ہے، اس کی پر واہ کم کی جاتی ہے.لیکن مال کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے.اور پھر یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ اولاد کو اور اولاد میں بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ لڑکے ہوں.آجکل کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ، ترقی یافتہ زمانے میں بھی یہ

Page 284

$2004 279 خطبات مسرور سوچ ہے اور یہ سوچ بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے کہ لڑکے پیدا ہوں اور باپ کی طرح دنیا داری کے کاموں میں باپ کے ساتھ کام کریں.پھر جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ مال ہو، ڈھیروں ڈھیر مال کی خواہش ہو اور جتنا مال آتا ہے اتنی زیادہ حرص بڑھتی چلی جاتی ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ جس ذریعے سے بھی مال حاصل ہو سکتا ہے کیا جائے.دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کر کے بھی زمینیں بنائی جا سکیں تو بنائی جائیں، دوسروں کے پلاٹوں پر بھی قبضہ کیا جائے ، کاروبار پھیلایا جائے ، کارخانے لگائے جائیں ، سواریوں کے لئے کاریں خریدی جائیں، ایک گاڑی کی ضرورت ہے تو تین تین چار چار گاڑیاں رکھی جائیں اور پھر ہر نئے ماڈل کی کا ر خرید نا فرض سمجھا جاتا ہے.تو فرمایا کہ یہ سب دنیوی زندگی کے عارضی سامان ہیں ایک مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ ان عارضی سامانوں کے پیچھے پھرتا رہے.دنیا کے پیچھے پھر نا تو کافروں کا کام ہے، غیر مومنوں کا کام ہے، تمہارا نطمح نظر تو اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی عبادت اور اس کی مخلوق کی خدمت ہونا چاہئے.لیکن بدقسمتی سے اس خوبصورت اور پا کیز تعلیم کے باوجود مسلمانوں نے دنیا کو ہی طرح نظر بنا لیا ہے اور حرص اور ہوس انتہا تک پہنچ چکی ہے.دجال کے دجل کی ایک یہ بھی تدبیر تھی جس سے مقصد مسلمانوں کو دین سے پیچھے ہٹانا تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے ہیں.اور قناعت اور سادگی کو بھلا دیا گیا ہے اور ہوا و ہوس کی طرف زیادہ رغبت ہے اور امیر سے امیر تر بننے کی دوڑ لگی ہے.پس ان حالات میں خاص طور پر احمدیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہر طبقہ کے احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قناعت اور سادگی کو اپنائیں.تو دین کی خدمت کے مواقع بھی میسر آئیں گے ، دین کی خاطر مالی قربانی کی بھی توفیق ملے گی، اپنے ضرورت مند بھائیوں کی خدمت کی بھی توفیق ملے گی ، ان کی خدمت کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بھی توفیق ملے گی اور دنیا کے کاموں میں فنا ہونے سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی عبادات بجالانے کی بھی توفیق ملے گی.اور آخر کو انسان نے اللہ تعالیٰ کے حضور ہی حاضر ہونا ہے ، اسی طرح زندگی چلتی ہے.ایک دن اس دنیا کو چھوڑ نا

Page 285

$2004 280 خطبات مسرور ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہی بہترین جگہ ہے اور یہ بہترین جگہ اس وقت حاصل ہو گی جب دنیا داری کو چھوڑ کر میری رضا کے حصول کی کوشش کرو گے اور میرے احکامات پر عمل کرو گے.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا هَذِهِ الْحَيوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَ لَعِبٌ.وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ﴾ (العنکبوت : ۶۵).یعنی اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشا کے سوا کچھ بھی نہیں اور یقیناً آخرت کا گھر ہی دراصل حقیقی زندگی ہے کاش کہ وہ جانتے.فرمایا کہ مومنوں کو چاہئے کہ اس دنیا کی زندگی اور اس کی چکا چوند ہی اپنی زندگی کا مقصد نہ سمجھ لیں.یہ تو کافروں کا کام ہے کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں.مومن کا کام یہ ہے کہ اصل مقصود اس کا اللہ تعالیٰ کی رضا ہو.نہ کہ دنیا کے پیچھے دوڑنا.اور جب تک انسان میں قناعت پیدا نہ ہو ،سادگی پیدا نہ ہو وہ ہمیشہ مالی لحاظ سے اپنے سے بہتر کو دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے.اگر قناعت ہو گی تو اس کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوگی کہ فلاں کے پاس کیا ہے اور کیا نہیں ہے.بلکہ وہ اس بات پر عمل کرے گا کہ نیکیوں میں اپنے سے بہتر کو دیکھو اور رشک کرو اور پھر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور ہمیشہ یہ سامنے رہے گا کہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرنی ہے.اللہ تعالیٰ تو ہمارے لئے چاہتا ہے کہ ہم اس کے احکامات پر عمل کر کے اس کا قرب حاصل کریں.بار بار اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے.یہاں بھی یہی کہا کہ کاش تم جانتے کہ دنیا کی طرف بڑھ کر کس تباہی کی طرف تم جا رہے ہو.دنیا کی سہولیات اور چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھانا کوئی گناہ نہیں، بلکہ ضرور اٹھانا چاہئے.لیکن اس کو حاصل کرنے کے لئے غلط راستے اپنانا ، جو کچھ اپنے پاس ہے اس پر قناعت نہ کرنا اور دوسرے سے حسد کرنا ، اپنی زندگی کو سادہ بنا کر اپنے اخراجات کو کنٹرول کر کے دین کی ضروریات

Page 286

$2004 281 خطبات مسرور کے لئے قربانی نہ دینا برائی ہے.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال برائی نہیں ہے بلکہ وہ سوچ جس کے تحت بعض ایسے کام کئے جاتے ہیں وہ برائی ہے.اور ہر احمدی کو بہر حال اس سے بچنا چاہئے.بعض لوگ لازمی چندہ جات یا وعدہ والے چندوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں لیکن اپنی خواہشات کو کم نہیں کرتے.اگر قناعت اور سادگی ہوگی تو چندوں کے بوجھ کو کبھی بھی محسوس نہیں کرے گا.تو ہر احمدی کو ہمیشہ قناعت اور سادگی کی طرف توجہ دینی چاہئے.اگر یہ پیدا ہو جائے تو ہم بہت سی برائیوں سے بچ سکتے ہیں.اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہمارے پاس رقم بھی موجود ہو جائے گی ، ہمارے دل بھی وسیع ہو جائیں گے.اب اس بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "متقی بنو سب سے بڑے عابد بن جاؤ گے.قناعت اختیار کروسب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے.لوگوں کے لئے وہی چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو حقیقی مومن بن جاؤ گے.اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو حقیقی مسلمان بن جاؤ گے.کم ہنسو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنادیتا ہے.(سنن ابن ماجه كتاب الزهد باب الورع والتقوى) تو اس حدیث میں تقویٰ کے بعد جو دوسری اہم بات بیان کی گئی ہے وہ قناعت ہے کہ قناعت اختیار کرو.کیونکہ قناعت تمہیں شکر گزار بندہ بنادے گی اور اگر تم شکر گزار بن گئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم پھر میرے فضلوں کو اور بھی زیادہ حاصل کرنے والے ہو گے.مومن کا کام ہے کہ پوری محنت سے اپنے کام پر توجہ دے، تمام میسر وسائل کو بروئے کارلائے اور پھر جو کچھ حاصل ہواس پر قناعت کرے اور الحمد للہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے اس طرح نوازتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.اور بعض دفعہ بعض لوگوں کو ان کی پسند کا کام یا پسند کی تنخواہ نہیں ملتی اور یہ صورت پاکستان وغیرہ تیسری دنیا کے ممالک میں بھی ہے اور یہاں یورپ امریکہ وغیرہ میں بھی ہے کہ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اکثر آج کل دنیا کے جو معاشی حالات ہیں اس میں مرضی کا یا اس معیار کا کام نہیں

Page 287

$2004 282 خطبات مسرور ملتا کیونکہ بے روزگاری بھی بہت بڑھ گئی ہے.تو ان حالات میں ہمیں جو کچھ کام میسر آتا ہے کر لینا چاہئے.اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا تو بہر حال بہتر ہے.تو پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے.میرے پاس بھی کئی لوگ مشورے کے لئے آتے ہیں تو میں نے جس کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ جو بھی کام ملتا ہے کر لو تو پہلے جو فارغ تھے اب کچھ نہ کچھ کام پر لگ گئے ہیں اور پھر بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کام پر لگنے کے بعد وہ بہتر کام کی تلاش کرتے رہتے ہیں اور قناعت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنے رہتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے پھر بہتری کے سامان بھی پیدا فرما دیئے.اور بہتر ملازمتیں مل گئیں.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ: " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 66 فرمایا کہ قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.(رساله قشیریه باب القناعة صفحه ۲۱) بعض دفعہ انسان سوچتا ہے کہ یہ بھی میری ضرورت ہے یہ بھی میری ضرورت ہے لیکن جب قناعت کی عادت پڑ جائے تو ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی جنہیں پہلے وہ بہت اہم سمجھتا تھا.او راس طرح بچت کی بھی عادت پڑ جاتی ہے.اور ایک احمدی کو بچت کی عادت پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی خاطر مالی قربانی کی بھی عادت پڑ جاتی ہے.پھر ایک نیکی سے دوسری نیکیاں جنم لیتی رہتی ہیں.سوائے اس کے کہ کوئی انتہائی کنجوس ہو وہ تو صرف بچت کر کے صرف پیسے ہی جوڑتا ہے وہ تو استثناء ہوتے ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ” اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے.اور لوگوں سے محبت سے پیش آنا نصف عقل ہے اور سوال کو بہتر رنگ میں پیش کرنا نصف علم ہے.(بیہقی فی شعب الایمان - مشکواة باب الخدر الثاني في السور صفحه ٤٣٠) تو دیکھیں میانہ روی اور اپنے اخراجات کو کنٹرول کرنا اس حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تمہارے حالات ہیں ان پہ صرف کنٹرول کرنے سے ہی اور اعتدال کے

Page 288

خطبات مسرور 283 ساتھ اخراجات کرنے سے ہی مالی لحاظ سے اپنی ضروریات کو نصف پورا کر لیتے ہو.$2004 پھر فرمایا، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی روایت ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاح پا گیا جس نے اس حالت میں فرمانبرداری اختیار کی جبکہ اس کا رزق صرف اس قدر ہو کہ جس میں بمشکل گزارا ہوتا ہواور اللہ تعالیٰ نے اسے قناعت بخشی ہو.(ترمذی کتاب الزھد) تو دیکھیں قناعت کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہے.اس لئے کم پیسے والوں کے لئے بھی ایسی کوئی شرمندگی کی بات نہیں اگر شکر گزاری ہے تو فلاح بھی آپ کا مقدر ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو ( جولوگ قناعت نہیں کرتے اور حرص میں رہتے ہیں ان کے بارے میں یہ ہے ).ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو تب بھی وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس دوسری وادی بھی آجائے.اس کے منہ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی.اور اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے.(سنن الترمذی ابواب الزهد باب ما جاء لو كان لابن آدم و اديان.......تو قناعت نہ کرنے والوں کا یہ نقشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھینچا ہے.حریص آدمی تو یہی کوشش کرتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کے پاس آجائے اور تب بھی اس کی حرص پوری نہیں ہوتی.اور جب تک وہ زندہ رہتا ہے یہی حرص اسے اس دنیا میں بھی جہنم میں مبتلا کئے رکھتی ہے.کیونکہ اتنی زیادہ حرص بہر حال تکلیف میں مبتلا رکھتی ہے.تو مومن کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے اور اگر کبھی ایسی سوچ بن جاتی ہے تو اپنے آپ کو پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور توجہ کرتے ہوئے جھکنا چاہئے.اگر انسان اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے جھکے، توبہ استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے.اب بعض لوگ اچھے بھلے اپنے کاروبار ہونے کے باوجود دوسروں کے پیسوں پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں.اور کئی کم تجربہ کار اپنی بے عقلی سے زیادہ پیسہ کمانے کے لالچ میں ایسے لوگوں کی

Page 289

$2004 284 خطبات مسرور باتوں میں آجاتے ہیں اور پھر اپنے پیسوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور پھر نظام جماعت کو لکھتے ہیں یا مجھے لکھتے ہیں کہ فلاں احمدی کو ہم نے اس طرح اتنی رقم دی تھی وہ سب کچھ کھا گیا اور اب ہم خالی ہاتھ ہو گئے ہیں تو ہماری مدد کی جائے اور رقم ہمیں واپس دلوائی جائے.تو ایسے لوگوں کو یہ پہلے سوچنا چاہئے کہ واقعی یہ کاروبار اس طرح ہو بھی سکتا تھا کہ نہیں یا صرف کسی نے باتوں میں لگا کے، چکنی چوپڑی سنا کے، بتا کے تمہارے سے پیسے اور رقم بٹور لی.اگر قناعت کرتے رہتے اور کم منافع پر بھی کماتے رہتے تو کم از کم ایسے حالات تو نہ پیدا ہوتے.بلکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا سرمایہ کئی گنا زیادہ ہو چکا ہوتا.اس کے بعد جور تم ضائع ہوگئی منافع تو کیا ملنا تھا رقم بھی گئی ، اصل سرمایہ بھی گیا.لیکن ساتھ ہی میں ان احمدیوں کو بھی جو اس طرح کے کاروبار کا لالچ دے کر دوسروں کی رقم بٹورتے ہیں اور کاروبار میں بنکوں سے دوسرے شخص کی امانت پر رقم لے کر لگاتے ہیں ، دوسروں کے نام پر کاغذات بناتے ہیں، غلط بیانی کرتے ہیں اور دوسروں کو ان کی جائیداد یا رقم سے محروم کر دیتے ہیں ان کو میں کہتا ہوں، ان کو بھی خوف خدا کرنا چاہیئے.دنیا کی اتنی حرص کیا ہو گئی ہے.اگر قناعت کرتے ،اگر امیر سے امیر تر بننے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا خوف پیش نظر رکھتے تو ایسی حرکت کبھی نہ کرتے.جماعتی خدمات سے بھی محروم نہ ہوتے اور اپنے ماحول میں شرمندگی بھی نہ اٹھاتے.ہم باوجود اس بات کا علم ہونے کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یا نصیحت کی ہے، ہر احمدی بچے کو بھی پتہ ہے احمدی ماحول میں اس کا ذکر ہوتا رہتا ہے کہ ہمیشہ مالی معاملات یا دنیاوی معاملات میں اپنے سے اوپر نظر نہ رکھو بلکہ اپنے سے کم تر کو دیکھو یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ اللہ تعالی کی نعمت کو حقیر نہ جانو اور شکر ادا کر سکو.(مسند احمد جلد ٢ صفحه ٢٥٤ بيروت) پھر بھی ہم دنیا داری میں پڑے ہوئے ہیں.یعنی اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اپنے سے امیر کو دیکھ کر لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے اور یہی حرص ہوتی ہے کہ اس کا پیسہ بھی ہمارے پاس آ جائے یا کسی کے پاس چاہے تھوڑا پیسہ بھی ہو تو اس کو دیکھ کر بھی بعض لوگوں کی حرص بڑھ جاتی ہے.تو

Page 290

خطبات مسرور 285 اگر ہم ان نصائح پر عمل کرنے والے ہوں تو بہت سی قباحتوں سے بچ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے.$2004 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بندے کے اندر خدا کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہیں ہو سکتے.اور نہ ہی کسی بندے کے دل میں ایمان اور حرص جمع ہو سکتے ہیں.(سنن نسائی کتاب الجهاد باب فضل من عمل في سبيل الله على قدمه) یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیفیں اٹھانے والے کبھی جہنم کو نہیں دیکھیں گے.ان تک جہنم کا دھواں کبھی نہیں پہنچے گا.اور جس کے دل میں مضبوط ایمان ہو، پکا ایمان ہو، مومن ہے تو وہ کبھی بھی دنیاوی معاملات میں حریص نہیں ہوسکتا.ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے اس نے گویا ساری دنیا جیت لی.اور اس کی ساری نعمتیں اسے مل گئیں.(ترمذی کتاب الزهد باب فی الزهاد فی الدنیا).یہ قناعت ہو بھی میسر آ سکتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں: در جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اسی قدر اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں، کشمکش والے کے سینہ میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے.اس دنیا کی زندگی میں بھی یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہوں.کہتے ہیں ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا راستے میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا.اس نے لنگوٹ یا جانگیہ پہنا ہوگا.اس نے اس سے پوچھا کہ سائیں جی! کیا حال ہے؟.فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہوگئی ہوں اس کا حال کیا ہوتا ہے.اس گھوڑ سوار کو تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مراد میں کس طرح پوری ہوگئی ہیں.

Page 291

286 $2004 خطبات مسرور فقیر نے کہا جب ساری مرادیں ترک کر دیں تو گویا سب حاصل ہو گیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے لیکن جب قناعت کر کے سب کچھ چھوڑ دے تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحه (٣٢٦ ایک روایت ہے کہ : اے آدم کے بیٹے ! اگر تو اپنے زائد از ضرورت مال کو خدا کے محتاج بندوں اور دین کے کاموں پر لگائے تو یہ تیرے حق میں بہتر ہوگا.اور اگر تو ضرورت سے زیادہ مال کو اہل ضرورت پر خرچ نہیں کرے گا تو آخر کار یہ تیرے حق میں برا ہو گا.اور اگر تیرے پاس زائداز ضرورت مال نہیں ہے بلکہ اتنا ہی مال ہے جو تیری بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے تو اگر تو اس میں سے خرچ نہ کرے تو خرچ نہ کرنے پر اللہ تجھے ملامت نہیں کرے گا.اور خرچ کی ابتداء ان لوگوں سے کرو جن کی تم کفالت کرتے ہو.(ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء في الزهادة ) اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بھی ایسے امراء ہیں جو دل کھول کر اپنے مال میں سے علاوہ لا زمی چندہ جات کے یا دوسرے وعدوں کے جوروٹین کے چندے ہیں یا تحریکات ہیں ان میں ادا ئیگی کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد مساجد کی تعمیر کے لئے ، ہسپتالوں کی تعمیر کے لئے یا دوسرے جماعتی منصوبوں کے لئے چندے دیتے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جن کو دنیا کی حرص نہیں بلکہ حرص ہے تو صرف یہ کہ خدا راضی ہو جائے اور اس کی جماعت کے لئے خرچ کرنے کی جتنی زیادہ سے زیادہ توفیق پاسکیں، پائیں.اللہ کرے کہ ایسے لوگوں کی تعداد جماعت میں بڑھتی چلی جائے جن میں قناعت بھی ہو، قربانی کی روح بھی ہواور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی حرص بھی ہو.اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کا نمونہ دیکھیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب پوچھا گیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیسے رہتے تھے تو آپ فرمانے

Page 292

$2004 287 خطبات مسرور لگیں کہ عام انسانوں کی طرح رہتے تھے اور گھر یلو کاموں میں اہل خانہ کی مددفرماتے تھے اور اپنا کام خود کر لیتے تھے.(بخاری کتاب الاذان باب من كان فى حاجة اهله فاقيمت الصلاة فخرج ) ایک روایت میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر فر ماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ ذکر کر کے کہ آج لوگوں کے پاس کتنی دولت اور جائیداد ہے (حضرت عمر کے زمانے میں کافی فراوانی ہو گئی تھی) فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا ہوا ہے کہ سارا دن بھوک میں گزر جاتا حتی کہ آپ کو اتنی مقدار میں ردی کھجوریں بھی میسر نہ آتیں کہ جن سے اپنی بھوک مٹا لیتے.(صحیح مسلم کتاب الزهد عن نعمان بن بشير) حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبوت کے بعد سے زندگی بھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدے کا آٹا نہیں دیکھا.حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ جب سے آپ کو اللہ نے نبی بنایا اس وقت سے لے کر وصال تک چھنا ہوا آٹا نہیں دیکھا.پوچھا گیا کہ بغیر چھنے ہوئے آئے کو آپ لوگ کیسے کھاتے تھے تو بیان کرتے ہیں کہ ہم جو کو پیتے تھے اور آئٹے کومنہ سے پھونک مارتے تھے تو کچھ بھوسی اڑ جاتی تھی جو موٹا موٹا تھا اس میں سے نکل جاتا تھا اور بقیہ کی روٹی پکاتے اور کھا لیتے تھے.(صحيح بخاري عن سهل بن سعدة كتاب الاطعمة باب النفخ في السعير) اسی لئے ایک دفعہ نرم روٹی کھاتے ہوئے حضرت عائشہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور نرم لقمہ حلق سے نہیں اتر رہا تھا.کسی نے پوچھا کیوں؟ تو آپ نے فرمایا مجھے خیال آ گیا کہ آنحضرت کے وقت یہ میسر نہ تھا اور آپ نے ہمیشہ سخت روٹی کھائی.صل الله ام سعد کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے ہیں وہاں بیٹھی ہوئی تھی.حضور نے پوچھا کہ ناشتہ کیلئے کچھ ہے.حضرت عائشہ نے کہا ہمارے پاس روٹی، کھجور اور سرکہ ہے.رسول کریم نے فرمایا سر کہ کتنا عمدہ سالن ہے.یہ سادگی اور قناعت دونوں چیزیں تھیں.پھر دعا کی کہ اے اللہ ! سرکہ میں برکت ڈال، یہ میرے سے پہلے نبیوں کا بھی کھانا تھا.جس گھر میں سرکہ ہے وہ محتاج نہیں ہے.(ابن ماجه كتاب الاطعمه باب الائتدام بالخل)

Page 293

$2004 288 مسرور لیکن آجکل کے سینتھيئك (Synthetic) سر کے پیٹ بھی خراب کر دیتے ہیں.اصل سر کہ ہونا چاہئے.قناعت کے یہ معیار ہیں جو آنحضرت میلہ نے ہمیں سکھائے.ہم آجکل عمدہ عمدہ کھانے کھانے کے بعد بھی یہ نخرے کر رہے ہوتے ہیں کہ اس میں نمک زیادہ ہے، اس میں مرچ کم ہے یا اس میں مرچ زیادہ ہے، اس میں ہزاروں قسم کے نقص نکال رہے ہوتے ہیں.بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ اس زمانے میں ہمیں ایسی خوراک میسر ہے.آجکل یہ نہیں کہ صرف آدمی سرکہ ہی کھائے ، جیسا کہ میں نے پہلے کہا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے اور ان سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے لیکن شکر ادا کرتے ہوئے اور شکر کے جذبات پہلے سے زیادہ بڑھنے چاہئیں.حضرت عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ نے روٹی کے ایک ٹکڑے پر کھجور رکھی ہوئی تھی اور فرمارہے تھے کہ یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے“.(ابوداؤد کتاب الايمان باب الرجل يحلف ان لا يتأدم) اس حدیث کا نمونہ اس زمانے میں آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے.ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے کہ میں نے گوشت کا منہ نہیں دیکھا.اکثر مستی روٹی یا اچار یا دال کے ساتھ کھا لیتا ہوں.فرمایا آج بھی اچار کے ساتھ روٹی کھائی ہے".(ملفوظات جلد سوم صفحه ۲۰۰ ـ البدر ۱۰/ اپریل ۱۹۰۳ء) روٹی کیا ہوتی تھی ، روٹی کا ایک چپہ ہوتا تھا جو آپ کھایا کرتے تھے.پھر ایک حدیث ہے یہ اور بھی تڑپا دیتی ہے کہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی علی نے کس قناعت اور سادگی سے زندگی گزاری نہ صرف آپ نے بلکہ آپ کے اہل خانہ نے بھی.حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ بھانجے ہم دیکھتے رہتے اور رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی.اس پر میں نے پوچھا پھر خالہ آپ زندہ کس چیز پر تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ ہم کھجور میں کھاتے اور پانی پیتے تھے سوائے اس کے کہ آنحضرت ﷺ کے انصاری ہمسائے تھے ان

Page 294

289 $2004 خطبات مسرور کے دودھ دینے والے جانور تھے، وہ رسول اللہ گوان کا دودھ تحفہ بھیجتے تھے، جو آپ ہمیں پلا دیتے تھے.(بخارى كتاب الهبة وفضلها والتحريص عليها باب فضل الهبة ) حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کو چکی پینے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہوگئی اور ان دنوں آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تھے.حضرت فاطمہ بحضور کے پاس گئیں لیکن مل نہ سکیں، حضرت عائشہ سے ملیں اور آنے کی وجہ بتائی جب حضور باہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے حضرت فاطمہ کے آنے کا ذکر کیا.حضرت علی کہتے ہیں کہ اس پر آنحضرت ﷺ ہمارے گھر آئے ، ہم بستروں میں لیٹ چکے تھے، حضور کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے، آپ نے فرمایا نہیں لیٹے رہو.حضور ہمارے درمیان بیٹھ گئے ، یہاں تک کہ حضور کے قدموں کی ٹھنڈک حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے سینے پر محسوس کی.پھر آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتاؤں، جب تم بستروں میں لیٹنے لگو تو 34 دفعہ اللہ اکبر کہو، 33 دفعہ سبحان اللہ اور 33 دفعہ الحمد للہ کہو، یہ تمہارے لئے ایک نوکر سے بہتر ہے یعنی ان کلمات کی بدولت اللہ تعالیٰ تم کو برکت دے گا.اور اس قسم کے سوال سے بے نیاز ہو جاؤ گے.آج بھی ہر حاجتمند کو یہ طریق اپنانا چاہئے.( حديقة الصالحين صفحه ۲۳۳) حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کی شادی کے موقع پر نبی کریم نے ان کو بنیادی ضرورت کا صرف تھوڑ اسا سامان دیا تھا جو یہ تھا، ایک خویلا ریشمی چادر، چمڑے کا گدیلا جس میں کھجور کے ریشے تھے، آٹا پیسنے کی چکی ہمشکیزہ ، دوگھڑے یہ کل جہیز تھا جو حضرت فاطمہ کو دیا.(مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحه ١٠٦ مطبوعه بيروت اب آجکل کی شادی بیا ہوں پر فضول خرچی اتنی ہوتی ہے کہ جس کی انتہا نہیں ہے، پاکستان ہندوستان وغیرہ میں بھی ، اور یورپ اور مغرب کے دوسرے ممالک میں بھی.اب تو بعض لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس طرف لوگوں کو توجہ دلانی چاہئے.ایک تو جہیز کی دوڑ لگی ہوئی ہے، زیور

Page 295

$2004 290 خطبات مسرور بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، پھر دعوتوں میں غیر ضروری اخراجات اور نام و نمود کی دوڑ ہے اور جو بے چارہ نہ کر سکے، اگر خود اپنے وسائل کی وجہ سے کر سکتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن جو نہ کر سکے اس پر پھر باتیں بناتے ہیں کہ بلایا تھا، وہاں یہ تھا وہ تھا اور پھر کئی کئی دن مختلف ناموں سے رسمیں جاری ہو چکی ہیں اور دعوتیں کی جاتی ہیں.دعوت تو صرف ایک دعوت ولیمہ ہے، جو اسلام کی یہ صحیح تعلیم میں ہمیں نظر آتی ہے.اس کے علاوہ تو جس کو توفیق نہیں ہے دکھاوے کی خاطر تو دعوتیں کرنی ہی نہیں چاہئیں.اور کبھی اپنے اوپر بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے.ہاں جب مہمان آتے ہیں ہلکی پھلکی مہمان نوازی فرض ہے وہ کر دی جائے.اور پھر جس کے پاس وسائل ہیں وہ اگر دعوت کر لیتا ہے تو اپنے ہی وسائل سے خرچ کرتا ہے.اس کی دیکھا دیکھی اپنے پر بوجھ ڈال کر جس کے کم وسائل ہیں جس کی توفیق نہیں ہے.اس کو قرض لے کر یا پھر امداد کی درخواست دے کر ایسا نہیں کرنا چاہئے.اور کم وسائل والوں کو حتی المقدور کوشش یہی کرنی چاہئے جتنا کم سے کم خرچ ہو کریں کیونکہ ان کو تو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے نبی کی سنت پر عمل کر رہے ہیں.بجائے اس کے کہ احساس کمتری کا شکار ہوں.جماعت میں مریم شادی فنڈ کے نام سے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک سکیم شروع فرمائی تھی تا کہ ضرورت مند بچیوں کی شادیوں کے لئے اخراجات یا فنڈ مہیا کیا جا سکے.تو اس میں سے ایک سادہ اندازے کے مطابق جماعت رقم دیتی ہے لیکن اس پر بھی بعض لوگوں کی طرف سے مطالبے آجاتے ہیں کہ رقم تھوڑی ہے ہم نے یہ بھی خرچ کرنا ہے اور یہ بھی خرچ کرنا ہے، حالانکہ وہ تمام غیر ضروری اخراجات ہوتے ہیں ان کے بغیر بھی گزارا ہوسکتا ہے.اس لئے ایسے لوگوں کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ جماعت انشاء اللہ تعالیٰ اپنے وسائل کے مطابق احمدی بچیوں کا خیال رکھے گی ان کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرے گی.شادیوں میں جو کچھ ہوسکتا ہے کیا جائے گا لیکن ان کے والدین کو بھی قناعت اور شکر گزاری اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.

Page 296

$2004 291 مسرور اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت معہ اپنے خاص قریبیوں میں کس طرح قناعت کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے.حضرت عمرو بن تغلب بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بہت سا مال اور قیدی آئے ، آپ نے ان اموال کو تقسیم فرمایا.کچھ لوگوں کو دیا اور بعض کو کچھ نہ دیا.آپ کو اطلاع ملی کہ جن لوگوں کو کچھ نہیں ملا بڑے افسردہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید حضور ان سے ناراض ہیں.اس پر آپ تقریر کرنے کیلئے کھڑے ہوئے.اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر فرمایا میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بعض اوقات میں ایک آدمی کو دیتا ہوں اور دوسرے کو نہیں دیتا.لیکن جس کو نہیں دیتا وہ اس آدمی سے زیادہ محبوب اور پیارا ہوتا ہے جس کو میں دیتا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ میں کچھ لوگوں کو اس لئے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں مال و دولت کی خواہش اور حرص ہوتی ہے.اور بعض کے متعلق مجھے یہ بھروسہ اور اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں بھلائی ، بے نیازی اور استغناء رکھا ہے.اور عمرو بن تغلب بھی انہیں لوگوں میں شامل ہیں.عمرو کہتے ہیں کہ آپ کی اس بات سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹ پا کر بھی مجھے اتنی خوشی نہ ہوتی.اس زمانے میں بھی ایک مثال ہمیں ملتی ہے، مثالیں تو کئی ہوں گی ، ایک مثال میرے سامنے ہے.قادیان میں ایک دفعہ مہمان زیادہ آگئے ، حضرت میر محمد الحق صاحب دارالضیافت کے انچارج تھے.کھانا نہیں بچا بلکہ کھانا پکانے والوں کے لئے بھی نہیں بچا تو ایک آدمی کا کھانا صرف رہ گیا.اور دو باور چی ایسے تھے جنہوں نے کھانا نہیں کھایا تھا.حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ فلاں کو دے دو.اور دوسرے کو رہنے دو.شیطان تو ہر جگہ موجود ہوتا ہے نا، فتنہ پیدا کرنے کے لیے.ایک شخص تھا وہ دوسرے کے پاس گیا کہ دیکھو ایک آدمی کا کھانا تھا، میر صاحب نے اس کو دے دیا اور تمہیں نہیں دیا.دوسرے میں بڑی فراست تھی شاید یہ حدیث بھی اس کے سامنے ہو.اس نے کہا میر

Page 297

$2004 292 خطبات مسرور صاحب کو پتہ ہے کہ اس کو اگر کھانا نہ ملا تو اعتراض کرے گا اور اگر مجھے نہ ملا تو کوئی فرق نہیں پڑتا میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گا.کیونکہ میر صاحب کا تعلق میرے سے زیادہ ہے.پھر سادگی ، قناعت اور کسی پر بوجھ نہ بننے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو اس قدر تلقین فرماتے تھے کہ تکلیف گوارا کرتے رہتے تھے، کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے اور اپنا جو بھی کام ہو، محنت مزدوری کر کے کماتے تھے اور خود کھاتے تھے.حضرت زبیر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص رسی لے کر جنگل میں جاتا ہے اور وہاں سے لکڑیوں کا گٹھا پیٹھ پر اٹھا کر بازار میں آتا ہے اور اسے بیچتا ہے اور اس طرح اپنا گزارا چلاتا ہے اور اپنی آبرو اور خود داری پر حرف نہیں آنے دیتا وہ بہت ہی معزز اور اس کا یہ طرز عمل لوگوں سے بھیک مانگنے سے ہزار درجے بہتر ہے.نہ معلوم وہ لوگ اس کے مانگنے پر اسے کچھ دیں یا نہ دیں.(بخاری کتاب الزكواة باب استعفاف عن المسالة) اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کیا نمونہ دکھاتے ہیں اور یہ نمونہ اپنے ماننے والوں سے بھی پسند کرتے تھے ،سادہ زندگی کا اور قناعت کا.آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ایک سادہ زندگی بسر کرتے ہیں وہ تمام تکلفات جو آجکل یورپ میں لوازم زندگی بنارکھے ہیں یعنی زندگی کے لیے لازمی ضروری سمجھے ہوئے ہیں.ان سے ہماری مجلس پاک ہے.رسم و عادت کے ہم پابند نہیں ہیں.اس حد تک کہ ہر ایک عادت کی رعایت رکھتے ہیں کہ جس کے ترک سے کسی تکلیف یا معصیت کا اندیشہ نہ ہو، باقی کھانے پینے اور نشست و برخاست میں ہم سادہ زندگی کو پسند کرتے ہیں.(ملفوظات جلد سوم صفحه ٤٤٨ البدر ۲۹/ اكتوبر و ۸ نومبر ۱۹۰۳) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ مباحثہ امرتسر کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امرتسر میں رہائش کا ایک منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ چٹائی پر لیٹے

Page 298

$2004 293 خطبات مسرور ہوئے تھے اور وہ اتنی چوڑی تھی کہ آپ کا نیچے کا جسم گھٹنوں تک زمین پر تھا مگر آپ نہایت بے تکلفی اور سادگی سے اس پر لیٹے ہوئے اٹھ بیٹھے.میں بیان نہیں کر سکتا کہ ان واقعات کا دیکھ دیکھ کر میرے اور میاں اللہ دین صاحب کے دل پر کیا گزرا.آنکھوں کے سامنے نبی کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ گزر گیا.کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوریے پر آرام فرمارہے تھے ، اٹھے تو لوگوں نے دیکھا کہ پہلوئے مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں.عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم لوگ کوئی گڈا بنوا کر حاضر کریں، ارشاد ہوا مجھے دنیا سے کیا غرض، مجھ کو دنیا سے اسقدر تعلق ہے جس قدر اس سوار کو جو تھوڑی دیر کے لیے راہ میں کسی سائے میں بیٹھ جاتا ہے.پھر اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں اللہ دین صاحب نے کہا تھا کہ یہاں کوئی دری بچھا دی جائے تو فرمایا نہیں سونے کی غرض سے تو نہیں لیٹا تھا کام میں آرام سے حرج ہوتا ہے اور یہ آرام کے دن نہیں ہیں.(سیرت حضرت مسیح موعود - مصنفه حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحه ۳۳۰) حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کر نیل الطاف علی خان صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں.کرنیل صاحب کوٹ پتلون پہنے، داڑھی مونچھ منڈوائے ہوئے تھے.میں نے کہا تم اندر چلے جاؤ، باہر سے ہم کسی کو نہ آنے دیں گے.پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ، چنانچہ کرنیل صاحب اندر چلے گئے اور آدھ گھنٹے کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے.کرنیل صاحب جب باہر آئے تو چشم پر آب تھے.میں نے ان سے پوچھا آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہمیض یعنی رور ہے تھے.وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بوریے پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن بوریے پر حضور کا گھٹنا ہی تھا اور باقی زمین پر بیٹھے تھے میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں اور حضور نے یہ سمجھا کہ غالباً میں ( یعنی کرنیل صاحب ) بوریے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا.اس لیے حضور نے اپنا صافہ بوریے پر بچھا دیا اور فرمایا آپ یہاں بیٹھیں.یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے اور میں نے عرض کی کہ اگر چہ میں ولایت میں بپتسمہ لے چکا ہوں مگر اتنا بے ایمان نہیں ہوا کہ حضور کے صافے پر

Page 299

294 $2004 خطبات مسرور بیٹھ جاؤں.حضور فرمانے لگے کچھ مضائقہ نہیں کوئی حرج نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں میں صافے کو ہاتھ سے ہٹا کر بوریے پر بیٹھ گیا.اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا کہ میں شراب بہت پیتا ہوں، دیگر گناہ بھی کرتا ہوں، خدا رسول کا نام نہیں جانتا لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کر کے مسلمان ہوتا ہوں.مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ہیں ان کو چھوڑ نا مشکل معلوم ہوتا ہے.حضور نے فرمایا استغفار پڑھا کرو اور پنجگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو.جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہا میری حالت دگرگوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا اور ایسی حالت میں اقرار کر کے کہ میں ا اور نماز ضرور پڑھا کروں گا آپ کی اجازت لے کر آ گیا ، وہ اثر میرے دل پر اب تک ہے.استغفار روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرتبه ملك صلاح الدين صاحب ایم اے صفحه ٩٤،٩٣) آجکل ایک فیشن ہے چھری کانٹے سے کھانے کا وہ تو خیر کوئی حرج نہیں کھا لینا چاہئے لیکن اس فیشن میں کیونکہ یہاں کے لوگ بائیں ہاتھ سے کانٹا پکڑ کر کھاتے ہیں اس لیے بائیں ہاتھ سے کھایا جاتا ہے.اس بارے میں بھی احمدیوں کو جو اسلامی تعلیم ہے اس پر عمل کرنا چاہئے.رعب دجال میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں تو اس کا استعمال تو غلط نہیں.میں حضرت اقدس مسیح موعود کا ایک ارشاد پڑھتا ہوں کی آپ نے چھری کانٹے سے کھانے پر فرمایا: ” شریعت اسلام نے چھری سے کاٹ کر کھانے سے تو منع نہیں کیا.ہاں تکلف سے ایک بات یا فعل پر زور ڈالنے سے منع کیا ہے.اس خیال سے کہ اس قوم سے مشابہت نہ ہو جاوے ور نہ یوں تو ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری سے گوشت کاٹ کر کھایا اور یہ فعل اس لیے کیا کہ تا امت کو تکلیف نہ ہو.جائز ضرورتوں پر اس طرح کھانا جائز ہے مگر بالکل اس کا پابند ہونا اور تکلف کرنا اور کھانے کے دوسرے طریقوں کو حقیر جاننا منع ہے.کیونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کی نوبت تنتبع کی یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ ان کی طرح طہارت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے.مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُم “ سے مراد یہی ہے کہ التزاماً ان باتوں کو نہ کرے ورنہ بعض وقت ایک جائز ضرورت کے لحاظ سے کر لینا منع نہیں ہے جیسے کہ بعض اوقات کام کی کثرت ہوتی ہے اور بیٹھے لکھتے

Page 300

$2004 295 خطبات مسرور ہوتے ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ کھانا میز پر لگا دو اور اس پر کھا لیا کرتے ہیں اور صف پر بھی کھا لیتے ہیں نیچے بیٹھ کے.چار پائی پر بھی کھا لیتے ہیں.ایسی باتوں میں صرف گزارا کو مدنظر رکھنا چاہئے.فرمایا کہ تشبیہ کے معنے اس حدیث میں یہی ہیں کہ اس لکیر کو لازم پکڑ لینا ورنہ ہمارے دین کی سادگی تو ایسی شے ہے کہ جس پر دیگر اقوام نے رشک کھایا ہے.اور خواہش کی ہے کہ کاش ان کے مذہب میں ہوتی اور انگریزوں نے ان کی تعریف کی ہے اور اکثر اصول انہوں نے عرب سے لے کر استعمال کئے ہیں.مگر اب رسم پرستی کی خاطر مجبور ہیں ترک نہیں کر سکتے.(ملفوظات جلد دوم صفحه ٦٧٠ ـ البدر ٦ جنوری ۱۹۰۳ء) اب میں واقفین کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پڑھتا ہوں.آج تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے حالات بہت بدل گئے ہیں اور واقفین زندگی کے لیے بھی جماعت وسائل کے لحاظ سے جس حد تک سہولتیں بہم پہنچا سکتی ہے پہنچانے کی کوشش کرتی ہے.لیکن واقفین زندگی اور اب واقفین نو بھی بعض اس عمر کو پہنچ گئے ہیں اور جامعہ میں بھی ہیں کچھ اور کالجوں میں پڑھ رہے ہیں ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ ہمیشہ پیش نظر رکھنے چاہئیں جو میں پڑھوں گا.آپ فرماتے ہیں کہ : ” ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر کچھ کر کے دکھانے والے ہوں، علمیت کا زبانی دعوی کسی کام کا نہیں ہے.ایسے ہوں کہ نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں اور ہماری صحبت میں رہ کر یا کم از کم ہماری کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو.تبلیغ کے سلسلے کے واسطے ایسے آدمیوں کے دوروں کی ضرورت ہے، مگر ایسے لائق آدمی مل جاویں جو اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اشاعت اسلام کے واسطے دور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے.یہ جو چین کے ملک میں کئی کروڑ مسلمان ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ میں سے کوئی شخص پہنچا ہو گا.اگر اسی طرح 20 یا 30 آدمی متفرق مقامات کو چلے جاویں ) اب تو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو

Page 301

$2004 296 خطبات مسرور ہزاروں دے دیے ہیں اب تو بہت جلد تبلیغ ہو سکتی ہے ).سینکڑوں تو میدان میں ہیں اور ہزاروں پیچھے سے آ رہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ.مگر جب تک ایسے آدمی ہماری منشاء کے مطابق اور قناعت شعار نہ ہوں تب تک ہم ان کو پورے پورے اختیارات بھی نہیں دے سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایسے قانع اور جفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتوں پر ہی گزرکر لیتے تھے.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ٦٨٢ - پیسه اخبار ۲۲ مئی ۱۹۰۸ اس زمانے میں بھی کچھ عرصہ پہلے افریقہ میں بعض مبلغین ہمارے گئے ہیں اور وہ وسائل کی کمی کی وجہ سے معمولی غذا کھا کے ہی گزارہ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ اپنی زندگیوں میں سادگی پیدا کریں اور قناعت پیدا کریں.

Page 302

$2004 297 19 خطبات مسرور مومن وہ ہے جو درحقیقت دین کو مقدم سمجھے.دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکہ ہے.۷ رمئی ۲۰۰۴ء بمطابق ۷ ہجرت ۱۳۸۳ ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن ہیے.دنیا بھی کماؤ لیکن ساتھ دین کی خدمت بھی ہو، ملک وقوم کی خدمت بھی انسانیت کی خدمت بھی ہو ☆ دنیا اور مال سے بے رغبتی کی بابت ارشادات اور نبی پاک ﷺ کا اپنا اسوہ ہر احمدی کا خدا کے ساتھ معاملہ ہے اس لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے، نماز اس طرح پڑھو کہ جیسے ابھی کچھ دیر بعد دنیا کو چھوڑ جانا ہے، ہر شخص کو اپنی پہلی حالت کو بھول نہیں جانا چاہیے ، غریب رشتہ داروں کو بھلا نہ بیٹھیں، مومن وہ ہے جو در حقیقت دین کو مقدم سمجھے، دنیا سے دل لگا نا بڑا دھوکہ ہے،

Page 303

خطبات مسرور $2004 298 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِيْنَةُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَالْبَقِيتُ الصَّلِحَتُ خَيْرٌ عِنْدَرَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْراً مَلا.(سورة الكهف آیت نمبر:47) اس آیت کا ترجمہ ہے.مال اور اولا دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے طور پر بہتر اور امنگ کے لحاظ سے بہت اچھی ہیں.عموماًیہ سمجھا جاتا ہے کہ مال و دولت، جائیدادیں، فیکٹریاں، بڑے بڑے فارمز جو ہزاروں ایکڑ پہ پھیلے ہوئے ہوں ، جن پر جا گیر دار بڑے فخر سے پھر رہا ہوتا ہے اور دوسرے کو اپنے مقابلے پر یا عام آدمی کو اپنے مقابلے پہ بہت نیچ اور بیچ سمجھ رہا ہوتا ہے اور پھر اولا د جو اس کا ساتھ دینے والی ہو، نوکر چاکر ہوں یہ سب باتیں ایک دنیا دار کے دل میں بڑائی پیدا کر رہی ہوتی ہیں.اور اس کے نزدیک اگر یہ سب کچھ مل جائے تو ایک دنیا دار کی نظر میں یہی سب کچھ اور یہی اس کا مقصود ہے جو اس نے حاصل کر لیا ہے.اور اس وجہ سے ایک دنیا دار آدمی اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی بھلا بیٹھتا ہے.اس کی عبادت کرنے کی طرف اس کی کوئی توجہ نہیں ہوتی.اپنے زعم میں وہ سمجھ رہا ہوتا ہے یہ سب کچھ میں نے اپنے زور بازو سے حاصل کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احساس دلانے کا کوئی خانہ اس کے دل میں نہیں ہوتا.حقوق العباد ادا کرنے کی طرف اس کی ذرا بھی توجہ نہیں ہوتی اور اپنے کام کرنے والوں ، اپنے کارندوں، اپنے ملازمین کی خوشی غمی ، بیماری، میں کام آنے کا خیال بھی اس

Page 304

$2004 299 خطبات مسرور کے ذہن میں نہیں آتا.تو یہ سب اس لئے ہے کہ اس کے نزدیک اس زندگی کا سب مقصد دنیا ہی دنیا ہے اور ایک دنیادار کو شیطان اس دنیا کی خوبصورتی اور اس کی زینت اور زیادہ ابھار کر دکھاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باقی رہنے والی چیز نیکی ہے، نیک اعمال ہیں، اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے، اس کی عبادت کرنا ہے.اس لئے تم اس کے عبادت گزار بندے بنوا گر اس کی رضا حاصل کرنی ہے.یہ دنیا تو چند روزہ ہے، کوئی زیادہ سے زیادہ سو سال زندہ رہ لے گا اس کے بعد انسان نے مرکر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے.اس لئے آخرت کے لئے دولت اکٹھی کر و بجائے اس دنیا میں دولت بنانے کے.فرمایا کہ اگر یہ سوچ پیدا کر لو گے تو یہی مال اور دولت اور بیٹے اور وسیع کارو بار تمہارے لئے ایک بہترین اثاثہ بن جائیں گے.کیونکہ جو شخص اپنے مال و دولت کے ساتھ خدمت دین بھی کر رہا ہوا اپنے ملک وقوم کی خدمت بھی کر رہا ہو، انسانیت کی خدمت بھی کر رہا ہو تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے رب سے بہترین چیز حاصل کر لی اور ایسی چیزیں حاصل کر لیں جو مرنے کے بعد بھی تمہارے کام آئیں گی.اور اگر یہی وصف اپنی اولاد میں پیدا کر دو تو پھر دنیا نہ صرف تمہاری تعریف کر رہی ہوگی بلکہ تمہارے آباء و اجداد کے لئے بھی دعا کر رہی ہو گی، تمہارے لئے بھی دعا کرے گی اور تمہاری اولادوں کے لئے بھی دعا کرے گی.اس سے تمہاری نیکیوں میں اور اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور تمہاری آخرت مزید سنورتی چلی جائے گی.تو یہ سوچ اور کوشش ہر مومن کی ہونی چاہئے ، جس کو نہ صرف اپنی فکر رہے بلکہ اپنی نسلوں کی بھی فکر رہے.یہ سوچو کہ دنیا بھی کماؤلیکن مقصد صرف اور صرف دنیا نہ ہو بلکہ جہاں اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کا سوال پیدا ہوتا ہو تو اس وقت دنیا سے مکمل بے رغبتی ہو.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں تھوڑ اسا اقتباس میں پیش کرتا ہوں :.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مال اور اولاد بے شک دنیا کی زینت ہیں لیکن اگر انہیں

Page 305

$2004 300 خطبات مسرور صحیح طور پر استعمال کیا جائے یعنی دین میں مال خرچ ہوں اور دین کی خدمت کے لئے اولا دلگا دی جائے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو بھی دوام بخش دیتا ہے.روپیہ خرچ ہو جاتا ہے لیکن اس کا نیک اثر باقی رہ جاتا ہے.اولا د مر جاتی ہے لیکن اس کا ذکر خیر باقی رہ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے ماں باپ کا ذکر خیر بھی زندہ رہتا ہے.پھر فرماتے ہیں کہ الْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ اور اچھے کام باقیات صالحات کہلاتے ہیں.خَيْرٌ عِنْدَرَتِكَ ثَوَابًا وَ خَيْرٌ اَمَلا ، اس کے دو معانی ہیں.ایک یہ کہ نیک کام کا دنیا میں نیک نتیجہ نکلتا ہے اور اس کے متعلق آئندہ بھی اچھی نیتیں ہوتی ہیں گویا سواباً دنیا کے نتیجہ کے متعلق ہے اور املا آخرت کے متعلق ہے.ثواباً سے مراد خود اس عمل کرنے والے کی ذات کے متعلق بہتر نتائج کا پیدا ہونا ہے اور املا سے مراد آئندہ نسل کے لئے بہترین امیدوں کا ہونا ہے.مطلب یہ کہ نیک کاموں کا نتیجہ بھی تم کو نیک ملے گا اور تمہاری اولاد کو بھی.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نیک کی اولاد کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے.(تفسیر کبیر جلد چهارم صفحه ٧٥٤) لیکن جب انسان نیکیوں کی طرف مائل ہوتا ہے.دنیا سے بے رغبتی دکھانے کی کوشش کرتا ہے، اپنے مال کو دین اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شیطان بھی اپنا کام دکھاتا ہے اور اسے نیکی کے کام کرنے سے روکتا رہتا ہے.مختلف قسم کے حرص اور لالچ دے کر انسان کو اکساتا رہتا ہے.اور اگر مومن اللہ کے حضور نہ جھکے، اس سے اس کا فضل نہ مانگے کیونکہ نیکیوں کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے تو شیطان سے بچنے کے لئے کوئی اور راستہ نہیں ہے.شیطان سے بچنے کا صرف یہی راستہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو اور اس سے اس کا فضل مانگو اور یہ دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قدم پر شیطان سے بچاتا رہے کیونکہ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ تعالی کی پناہ میں نہ آئے تو پھر تو شیطان اپنے کامیاب حملے کرتا چلا جائے گا ، یہی خیال دل میں ڈالے گا کہ تمہارا مال تمہارا ہے، تمہیں کیا پڑی ہوئی ہے کہ دین کے لئے خرچ کرو.تمہارا مال

Page 306

$2004 301 خطبات مسرور تمہارا ہے تمہیں کیا ضرورت ہے کہ انسانیت کی خدمت کے لئے لگائے رکھو.تو اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ جب شیطان ایسے حملے کر رہا ہو تو اس کے جال میں نہ پھنس جانا.یاد رکھو اگر تم اس کے جال میں پھنس گئے تو پھر دھوکے میں آتے چلے جاؤ گے اور اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر وقت اس سے بچتے رہو جیسا کہ ایک اور جگہ فرمایا یا اَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللهِ الْغَرُور (سورة فاطر آیت:6).کہ اے لوگو! اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے پس تمہیں دنیا کی زندگی ہرگز کسی دھو کے میں نہ ڈالے.اور اللہ کے بارے میں تمہیں سخت فریبی یعنی شیطان ہرگز فریب نہ دے سکے.پھر فرمایا کہ یا درکھو اللہ کا وعدہ سچا ہے جو شیطان کے قدموں پہ چلنے والوں کو ضرور پکڑے گا.اور اس سے بچنے والوں، اپنے حضور جھکنے والوں کو ضرور پناہ دے گا.اس لئے تمہارا فرض ہے کہ اللہ کے حضور جھکتے رہو اور کبھی بھی شیطان کے دھوکے میں نہ آؤ.تمہارے مال کی تمہارے عہدے کی ، یا تمہارے خاندان کی بڑائی اور اس کی چمک دکھا کر شیطان تمہیں نیک کاموں کے کرنے سے روک سکتا ہے.تمہارے دل میں وسوسے پیدا کر سکتا ہے،عہد یداروں کے خلاف ، نظام جماعت کے خلاف تمہارے دل میں بغاوت یا تکبر پیدا کر سکتا ہے اس لئے یا درکھو کہ جتنا بڑا مقام اللہ تعالیٰ تمہیں دے، جتنی زیادہ دولت اللہ تعالیٰ تمہیں دے، اتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور شیطان سے بچنے کے لئے اس کی پناہ مانگو.ورنہ شیطان تمہیں اپنے فریب میں گرفتار کر لے گا اور تم اپنی دنیا و آخرت گنوا بیٹھو گے.اللہ تعالیٰ نے شیطان کے پنجے میں آنے والوں اور صرف دنیا پر نظر رکھنے والوں کے لئے سورۃ تکاثر میں اس طرح بیان کیا ہے کہ الهَكُمُ التَّكَاثُرُ ، حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ، كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ، ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ، كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ.(تكاثر ۲ تا ۶) که

Page 307

$2004 302 خطبات مسرور تمہیں غافل کر دیا ہے ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی دوڑ نے، یہاں تک کہ تم نے مقبروں کی زیارت کی.خبر دار تم ضرور جان لو گے، پھر خبر دار تم ضرور جان لو گے، خبر دار اگر تم یقینی علم کی حد تک جان لو.اس کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مختلف زاویوں سے بڑی تفصیل سے تفسیر فرمائی ہے.اس وقت میں اس میں سے چند نکات رکھوں گا.اور یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ کثرت ، تکبر یا غرور صرف حکومتوں کے لئے یا بڑے گروہوں کے لئے ہوتا ہے.بلکہ اپنے اپنے دائرے میں جو بھی ایسی حرکتیں کرنے والا ہو گا وہ انہیں نتائج سے دو چار ہوگا.حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ : اول : بنی نوع انسان میں ان کے خلاف رد عمل پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تکاثر کے نتیجہ میں تکبر پیدا ہوتا ہے.اور تکبر کے نتیجہ میں لوٹ مار اور ظلم پیدا ہوتا ہے.آخر بنی نوع انسان میں اس کے خلاف جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ حکومت کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں یا اگر اپنے دائرے میں جو بھی ظلم کرے والا ہوگا اس کے خلاف لوگ کھڑے ہوں گے.دوم : کبھی بنی نوع انسان میں تو ان کے خلاف رد عمل پیدا نہیں ہوتا لیکن ان کی اپنی اولاد ان کی کمائی کو استعمال کر کے عیاش ہو جاتی ہے.اور اس طرح ان میں اندرونی زوال پیدا ہونے لگتا ہے.باپ دادا کی جائیداد چونکہ مفت ہاتھ میں آجاتی ہے اس لئے عیاشی میں مبتلا ہو کر وہ سب کچھ برباد کر دیتے ہیں.بڑے بڑے بادشاہ ہوتے ہیں مگر عیاشیوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ انہوں نے کنچنیاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں.شرا میں پیتے رہتے ہیں اور حکومت کے کاموں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ برباد ہو جاتے ہیں اور ان کی حکومت امراء میں تقسیم ہو جاتی ہے.اسی طرح اپنے اپنے دائرے میں بعض امراء بھی اگر ایسی حرکتیں کرنے والے ہوں، دنیا کی نظر میں زیادہ اہمیت ہو اولاد کی صحیح طرح تربیت نہ ہو تو پھر ان کی اولادیں بھی ان کی

Page 308

$2004 303 خطبات مسرور جائیدادوں کے ساتھ یہی حشر کرتی ہیں.تیسرے فرمایا کہ یا پھر اللہ تعالیٰ سے ہی اس قوم کی ٹکر ہو جاتی ہے یعنی کوئی ایسا سبب پیدا ہو جاتا ہے کہ دنیاوی تباہی کے سامان تو نہیں ہوتے لیکن خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو کر اس قوم کو بالکل تباہ کر دیتا ہے.غرض جب کوئی قوم تکاثر کے نتیجہ میں زُرْتُمُ الْمَقَابِر کے مقام تک پہنچ جائے تو اس میں ان تین حالتوں میں سے کوئی ایک حالت ضرور پیدا ہو جاتی ہے.یا تو رعایا میں رد عمل پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے حاکموں کو توڑ دیتے ہیں.یا اندرونی طور پر حکام میں ایسا تنزل پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ آپ ہی آپ ٹوٹنے لگتے ہیں، یا ایسے امراء جن کی اولادوں کی صحیح تربیت نہیں ہوتی وہ اپنی جائیدادیں کھا کے خود بخود ختم کر جاتے ہیں.اور ایسے بھی لوگ دیکھے گئے ہیں جن کے باپ دادے بڑے امیر اور صاحب جائیداد تھے اور اولادیں اب در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں.اور پھر تیسری بات بتائی کہ یا پھر خدائی غضب نازل ہوکر ان کو تباہ کر دیتا ہے“.(تفسیر کبیر جلد نهم صفحه ٥٣٦،٥٣٥) مال سے بے رغبتی اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کے بارے میں چندا حادیث پیش کروں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی اس قدر فکر تھی کہ وہ صرف دنیا داری میں مبتلا نہ ہو جائے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ اندیشہ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میری امت خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے گی.اور دنیاوی توقعات کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے میں لگ جائے گی.تو اس خواہش نفس کی پیروی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حق سے دور جا پڑے گی.اور دنیا سازی کے منصوبے آخرت سے غافل کر دیں گے.اے لوگو! یہ دنیا رخت سفر باندھ چکی ہے اور جارہی ہے اور آخرت بھی آنے کے لئے تیاری پکڑ چکی ہے.اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ غلام اور بندے ہیں.پس اگر تم میں استطاعت ہو کہ دنیا کے بندے نہ بنوتو ضرور ایسا کرو.تم اس وقت عمل کے گھر میں ہو اور ابھی حساب کا وقت نہیں آیا مگر کل تم

Page 309

$2004 304 خطبات مسرور آخرت کے گھر میں ہو گے اور وہاں کوئی عمل نہیں ہوگا.یہ تنبیہ کی ہے.یہ مطلب نہیں کہ اگر استطاعت ہے تم دنیا کے بندے بن جاؤ.یہ وارنگ ہے کہ تم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ دنیا داری کے دھندوں میں خدا کو بھول جاؤ.اگر خدا کو بھول گئے تو اس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی یہاں نہیں ملے گی تو اگلے جہان میں ملے گی.سوچو اور غور کرو کیا تم خدا تعالیٰ کی سزا کو سہہ سکتے ہو.یقینا ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کرسکتا.جو یہ کہہ سکے کہ ہاں میں سہہ سکتا ہوں.فرمایا کہ اس لئے زندگی کے جو چند دن ہیں ان میں خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو.تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچو، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آگے جھکنے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والا بنائے.کعب بن ایاز بیان کرتے ہیں کہ میں نے ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنااِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةٌ وَفِتْنَةُ أُمَّتِنى الْمَالُ کہ ہر امت کی ایک آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی آزمائش مال کے ذریعے ہوگی.(ترمذی.کتاب الزهد باب ماجاء ان فتنة هذه الامة في المال) چنانچہ دیکھ لیں اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں اس کے مطابق مسلمانوں کی کیا حالت ہے.شرم آتی ہے یہ دیکھ اور سن کر کہ مال کمانے کی حرص اور ہوس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہی بے پرواہ کر دیا ہے.تول میں کمی ہے، ماپ میں کمی ہے، کاروبار میں دھوکہ ہے دکھائیں گے کچھ اور دیں گے کچھ.ماحول کے اثر کی وجہ سے بعض دفعہ بعض احمدی بھی اس برائی میں ملوث ہو جاتے ہیں، متاثر ہو جاتے ہیں.اپنوں اور غیروں سے بھی دھو کہ ہوتا ہے اور پھر غیروں کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے.چاہے وہ ایک احمدی ہزاروں میں نظر آرہا ہو.کیونکہ احمدیت کا ایک تصور قائم ہے تو جب ایسی مثال نظر آتی ہے تو بہت زیادہ واضح ہو کر اور ابھر کے سامنے آجاتی ہے.ایسے لوگوں کو جو اس قسم کی حرکتوں میں ملوث ہوں سزا بھی دی جاتی ہے، تعزیر بھی ہوتی ہے لیکن ہر احمدی کو یہ خود سوچنا چاہئے کہ

Page 310

خطبات مسرور 305 $2004 اس کا خدا کے ساتھ معاملہ ہے اور مسیح محمدی کے ساتھ ایک عہد بیعت کیا ہے، بیعت کی تجدید کی ہے کہ ہم تمام برائیوں سے بچتے رہیں گے.تو اس کے بعد بھی اگر ایسی حرکتیں ہوں تو پھر کیا ایسا عمل کرنے والا اس قابل ہوگا کہ جماعت میں رہ سکے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ایسوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کاٹا جائے گا.ایک روایت ہے حضرت سہل بیان کرتے ہیں.” ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا کام بتائیے کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ مجھے چاہنے لگیں.آپ نے فرمایا کہ دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا.جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دو، لوگوں کی طرف حریص نظروں سے نہ دیکھو، لوگ تجھ سے محبت کرنے لگ جائیں گئے.(ابن ماجہ.باب الزهد فی الدنیا) تو فرمایا کہ اگر یہ عمل کرو گے تو اس سے حرص، لالچ یا دوسرے نقصان پہنچانے کی سوچ سے بھی بچ جاؤ گے.نقصان پہنچانا تو ایک طرف رہا یہ سوچ بھی تمہارے اندر نہیں آئے گی.دنیا سے بے رغبتی کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعریف فرمائی ہے اگر ہر مومن وہ معیار حاصل کر لے اور پھر قناعت کے ساتھ ساتھ زہد بھی حاصل ہو جاتا ہے اور مومن کی قناعت زہد کے ساتھ مل کر ہی اعلیٰ معیار قائم کرتی ہے.آپ فرماتے ہیں: کہ دنیا سے بے رغبتی اور زہد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے اوپر کسی حلال کو حرام کر لے اور اپنے مال کو برباد کر دے.بلکہ زہد یہ ہے کہ تمہیں اپنے مال سے زیادہ خدا کے انعام اور بخشش پر اعتماد ہو اور جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا جو اجر و ثواب ملنا ہے اس پر تمہاری نگاہ جم جائے اور تم

Page 311

306 $2004 خطبات مسرور مصائب کو ذریعہ ثواب سمجھو.(جامع ترمذی کتاب الزهد باب ماجاء في الزهادة في الدنيا) تو دیکھیں بعض لوگ مال ضائع ہونے پر افسوس کرتے ہیں، حالانکہ کاروبار میں اونچ نیچ بھی ہوتی ہے.بعض دفعہ دشمنیاں بھی ہوتی ہیں ، شیطان صفت لوگ نقصان بھی پہنچا دیتے ہیں تو اس پر صرف انا للہ پڑھ کے اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہئے.اُس کے آگے جھکنا چاہئے نہ کہ رونا دھونا کیا جائے ، واویلا کیا جائے.اور یہ یقین ہونا چاہئے کہ جس خدا نے پہلے نعمتوں سے نوازا تھا وہ دوبارہ بھی دے سکتا ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہونا چاہئے ، اسی سے تعلق قائم رکھنا چاہئے اور جب اس یقین کے ساتھ تعلق رکھیں گے تو ہمیشہ نو از تارہے گا.احمدیوں نے مختلف اوقات میں جب کبھی پاکستان میں یا کہیں ان کے خلاف فسادا اٹھے یہ نظارہ دیکھا اور یہ تجربہ کیا کہ لاکھوں کا کاروبار جلایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازا کہ صبر کی وجہ سے اور اس اعتماد کی وجہ سے جو ان کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا کہ جماعت کی وجہ سے اور احمدی ہونے کی وجہ سے نقصان ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ دے گا، اللہ نے لاکھوں کو کروڑوں میں بدل دیا.اگر ہزاروں کا ہوا تو لاکھوں کا بدلا دے دیا.تو اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں سے یہ سلوک کرتا رہتا ہے اور ہم اپنی زندگیوں میں تجربہ بھی کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنے پر اعتماد اور یقین پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت رکھتی ہوتی تو کا فراس میں سے پانی کے ایک گھونٹ کے برابر بھی حصہ نہ پاتا“.(ریاض الصالحین.باب فضل الزهد في الدنيا) تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو دنیا کی حیثیت مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں ہے.کیونکہ اگر حیثیت ہوتی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو میری نعمت تھی میں مومنوں کو دیتا پھر کافروں کو کیوں دیتا.اور ہم ہیں کہ اس کے لئے قضاء میں ، تھانوں میں، کچہریوں میں اپنے عزیزوں رشتہ داروں کو گھسیٹتے

Page 312

$2004 307 خطبات مسرور پھر رہے ہوتے ہیں تو دونوں فریقین کو سوچنا چاہئے.کہ کیا احمدی بن کر، اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل کرنے کے بعد کیا یہ معیار ہیں جو ہمارے ہونے چاہئیں یا دنیا سے بے رغبتی.مال کا ہونا کوئی جرم نہیں لیکن اس کی ہوس اور حرص اور ہر وقت اس میں ڈوبے رہنا، یہ چیز منع ہے.اگر ہمارے میں سے ہر ایک غور سے یہ سوچنا شروع کر دے تو احمدیوں کے تو جھگڑے ختم ہو جائیں جائیدادوں اور مالی امور کے.پھر ایک روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ دنیا کی آخرت کے مقابلے میں اتنی کی حیثیت ہے جتنی کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے پھر اسے نکال کر دیکھے کہ اس کے ساتھ کتنا پانی لگا ہوا ہے.(ترمذی.کتاب الزھد باب ماجاء في هوان الدنيا على الله) یہ دنیا کی حیثیت ہے.اس دنیا میں ہم جو ہر چیز تلاش کرتے پھرتے ہیں اور آخرت کے متعلق سوچتے بھی نہیں اگر مقابلہ کرنا ہوتو دیکھیں آخرت میں جو جزا یا سزاملنی ہے یہ اتنی وسیع ہے کہ اس کے لئے آدمی کو ہر وقت فکر رہنی چاہئے.جبکہ دنیا جس کی حیثیت ہی کوئی نہیں ایک قطرہ پانی کے برابر بھی حیثیت نہیں سمندر کے مقابلے میں، اس کے پیچھے ہم دوڑتے رہتے ہیں.حضرت عمرو بن عاص روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بھیجا یعنی حضرت عمر و بن عاص کو یہ کہا کہ اپنے ہتھیار لے کر اور زرہ پہن کر میرے پاس آؤ.تو کہتے ہیں جب میں مسلح ہو کر آپ کے پاس حاضر ہوا تو اس وقت آپ وضوفر مار ہے تھے.آپ نے مجھے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میں تمہیں ایک جنگی مہم پر بھیجنا چاہتا ہوں اس مہم سے تمہیں اللہ تعالی بخیریت واپس لائے گا اور مال غنیمت دے گا.اور میں تمہیں مال کی ایک مقدار بطور انعام دوں گا.تو کہتے ہیں کہ میں نے اس پر کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے مال حاصل کرنے کے لئے ہجرت نہیں کی تھی.میری ہجرت تو صرف خدا اور اس کے رسول کے لئے ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ

Page 313

خطبات مسرور 308 وسلم نے فرمایا کہ اچھا مال نیک آدمی کے لئے بہت اچھی چیز ہے“.$2004 (مشكواة المصابيح كتاب الامارة باب وزق الولاة و هداهم الفصل الثاني مطلب یہ ہے کہ جب اچھا مال مل رہا ہو تو اس کا بھی انکار نہیں کرنا چاہئے اس سے اللہ تعالیٰ نے منع نہیں کیا.نیک مال ہو اور نیک مقاصد کے لئے خرچ کرنے والا مال ہو تو اس کو حاصل کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے.بلکہ برائی تو یہ ہے کہ صرف مال کی ہوس اور حرص ہو انسان اس کے پیچھے پڑا رہے اور خدا کو بھول جائے.ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جسے دنیا سے بے رغبتی اور قلت کلام کی صفات عطا ہوئی ہوں تو اس کی مجلس کا قصد کر و یعنی اس میں بیٹھا کرو، اس سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ ایسا شخص حکمت کی باتیں کرنے والا ہوگا“.میں نہ ہو.(سنن ابن ماجه - كتاب الزهد باب الزهد في الدنيا اللہ تعالیٰ جماعت میں زیادہ سے زیادہ ایسے لوگ پیدا فرمائے.دنیا کی حرص و ہوس ان حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشہور شاعر لبید نے یہ بات کہی.اس سے زیادہ اور سچی بات کسی اور شاعر نے نہیں کہی.یعنی اس نے یہ بہت سچی بات کہی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز بے کار اور بے سود ہے.ایک وہی سود و زیاں کا مالک ہے.(مسلم کتاب الشعر ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کوئی مختصر اور جامع نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا کہ جب تم اپنی نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو تو اس شخص کی طرح نماز پڑھو جو دنیا کو چھوڑ کر جانے والا ہو.اور اپنی زبان سے ایسی بات نہ نکالو کہ اگر قیامت میں اس کا حساب ہو تو تمہارے پاس کچھ کہنے کے لئے نہ رہ جائے.اور لوگوں کے پاس جو کچھ مال و اسباب ہے اس سے تم بالکل بے نیاز ہو جاؤ“.(مشکواۃ کتاب الرقاق الفصل الثالث)

Page 314

$2004 309 مسرور پہلی بات اس میں یہی ہے کہ نماز اس طرح پڑھو کہ جس طرح ابھی کچھ دیر بعد دنیا کو چھوڑ جانا ہے اور دنیا کو چھوڑنے کا جو خوف ہے.مرتے وقت تو بڑے بڑے ایسے لوگ جنہوں نے ظلم کی انتہا کی ہوتی ہے وہ بھی بعض دفعہ بڑی عاجزی دکھا رہے ہوتے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ازواج مطہرات سے ایک ماہ کے لئے علیحدگی اختیار فرمائی اور بالا خانے میں قیام فرمایا ، میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا.کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک خالی چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں، اس پر کوئی چادر یا گریلا وغیرہ نہیں ہے اور چٹائی کے اثر سے آپ کے بدن مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں.آپ ایک تکیے سے سہارا لئے ہوئے تھے جس کے اندر کھجور کے پتے بھرے تھے.کمرے کے باقی ماحول پر نظر کی تو وہاں چمڑے کی تین خشک کھالوں کے سوا کچھ نہ تھا.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ دعا کریں اللہ آپ کی امت کو فراخی عطا کرے.ایرانیوں اور رومیوں کو دنیا کی کتنی فراخی عطا ہے حالانکہ وہ خدا کی عبادت بھی نہیں کرتے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اے عمر ! تم بھی ان خیالوں میں ہو.ان لوگوں کو عمدہ چیزیں اسی دنیا میں پہلے عطا کر دی گئی ہیں.مومنوں کو آئندہ ملیں گی“.(بخاری کتاب التفسير - سوره التحريم باب تبتغى مرضاة ازواجك تو یہاں ایک تو آپ نے یہ فرمایا کہ مال کی اتنی ہوس نہ کرو اللہ تعالیٰ سے لولگاؤ ، مومن کا یہی سرمایہ ہے.لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال سے منع فرما دیا.وہ بھی روایت ہے کہ جب ایک کافر نے اس وقت تک بیعت نہیں کی تھی دو پہاڑیوں کے درمیان ایک وادی میں آنحضرت کی بکریوں کا ریوڑ دیکھا اسے وہ بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہا تھا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ پسند ہے.اس نے کہا ہاں.تو آپ نے اسے سارا دے دیا.اس کا مطلب ہے آپ کے پاس اتنی جائیداد میں اور باغ بھی تھے اور بکریوں کے بہت بڑے بڑے ریوڑ بھی تھے لیکن آپ نے صرف ان پر انحصار نہیں کیا کہ اس پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں کہ میری

Page 315

310 $2004 خطبات مسرور کل جائیداد اور سرمایہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ تھا اور یقین تھا اس کا آپ نے ہمیشہ اظہار فرمایا اور ہم سے بھی یہی توقع رکھی کہ ہمارے اندر بھی اللہ تعالیٰ کے لئے وہ اعتماد اور وہ ایمان پیدا ہو جائے.حضرت عمر بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح کو بحرین کا عامل بنا کر بھیجا تا کہ وہاں سے جزیہ کی رقم وصول کر لائیں.چنانچہ وہ بحرین کے محاصل لائے.( یعنی جو وہاں سے ٹیکس وغیرہ وصول ہوئے تھے ) تو انصار کو اس کا علم ہواوہ سویرے سویرے ہی فجر کی نماز میں پہنچ گئے.جب آنحضرت نے نماز پڑھ لی اور آپ مقتدیوں کی طرف مڑے تو لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو آپ نے اپنے سامنے دیکھا.آپ مسکرائے اور فرمایا میرا خیال ہے کہ تم نے ابوعبیدہ کی آمد سے متعلق سن لیا ہے.لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ.آپ نے فرمایا تمہیں بشارت ہو اور اس خوش کن خبر کی امید رکھو.خدا تعالیٰ کی قسم مجھے تمہارے فقر کا ڈر نہیں.اب فقر و احتیاج کے دن گئے یعنی غربت اور ضرورت پوری نہ ہونے کا خوف نہیں ہے.فرمایا کہ مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ دنیا کے خزانے تمہارے لئے کھول دیئے جائیں گے جس طرح پہلے لوگوں پر کھولے گئے تھے.تم دنیا کی طرف راغب ہو جاؤ گے اور اس کی حرص کرنے لگو گے.جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے حرص کی.پس تم کو بھی یہ حرص دنیا ہلاک کر دے گی جس طرح کہ اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا تھا.(بخارى كتاب الجزية والموادعة باب الجزية والموادعة مع اهل الذمة اللہ تعالیٰ ہمیں اس حرص سے بچائے اور ہلاک ہونے سے بچائے.اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.ایک روایت ہے خالد بن عمیر کہتے ہیں کہ عقبہ بن عدوان نے (جو بصرہ کے گورنر تھے ) تقریرفرمائی کہ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حال میں دیکھا ہے کہ میں ساتواں شخص تھا اور چھ اور آدمی تھے اور کہتے ہیں کہ معاشی تنگی کا یہ حال تھا کہ بول کے درخت کی پتیوں

Page 316

$2004 311 خطبات مسرور کے سوا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا.یہاں تک کہ پتیاں کھانے کی وجہ سے ہمارے منہ میں چھالے پڑ گئے تھے اور کپڑے کی قلت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک چادر مجھے ملی تو اس کے میں نے دو ٹکڑے کر دیئے.آدھی سعد بن مالک نے پہن لی اور آدھی میں نے.لیکن آج ہم ساتوں میں سے ہر شخص کسی نہ کسی علاقے کا گورنر ہے.مگر اس بات سے خدا کی پناہ کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے پہ ہونے کی وجہ سے بڑا جانوں اور اللہ کے نزدیک حقیر بنوں“.(ترغیب و ترهيب بحواله مسلم ) یعنی یہ خوف تھا کہ مجھے اس عہدے کی کوئی بڑائی نہیں اصل تو اللہ تعالیٰ کا خوف ہے.وہی میرے دل میں قائم رہے.ہر شخص کو اپنی پہلی حالت کو بھول نہیں جانا چاہئے.ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا چاہئے جن کو نیا نیا پیسہ آئے تو اپنے غریب رشتہ داروں کو بھلا بیٹھتے ہیں، ان کو کوئی سمجھتے ہی نہیں.اپنے گھر کے دروازے ان پر بند کر دیتے ہیں.ان سے نرمی سے بات کرنا بھی جرم سمجھتے ہیں.ہمیشہ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اپنے غریب رشتہ داروں کا بھی ہمیشہ خیال رکھا جائے ، ان کی بھی عزت کی جائے ان کا احترام کیا جائے اور اگر وہ گھر میں آتے ہیں تو اکرام ضیف کے تمام تقاضے ان کے ساتھ بھی پورے کئے جائیں.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کتان کے دو باریک کپڑے پہن رکھے تھے اعلی قسم کا کپڑا تھا) ان میں سے ایک کپڑے سے ناک صاف کیا اور فرمایا واہ واہ! ابو ہریرہ ! کتان سے ناک صاف کرتا ہے.اور آپ ہی کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو اس حال میں دیکھا تھا کہ میں بھوک سے بیہوش ہو جاتا تھا اور اس حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور حضرت عائشہ کے حجرہ کے درمیان گھسیٹا جایا کرتا تھا اور لوگ میری گردن پر پیر بھی رکھ دیا کرتے تھے یہ سمجھ کر کہ عقل میں فتور آ گیا ہے حالانکہ یہ نشی کی حالت ہوتی تھی جو بھوک کی وجہ سے طاری ہو جاتی تھی“.صلى الله (بخاری کتاب الاعتصام باب ماذكر النبي ع و حض على اتفاق اهل العلم یہ نہیں کہ آپ نے اس لئے تھوکا کہ آپ میں تکبر آ گیا تھا یا مال کی کثرت کی وجہ سے کوئی

Page 317

312 $2004 خطبات مسرور بڑائی پیدا ہو گئی تھی بلکہ دنیا سے بے رغبتی کا اظہار تھا زہد تھا نظر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے پر تھی نہ کہ ان دنیاوی چیزوں کی طرف ایک دنیا دار کے لئے یہ اعلیٰ کپڑے ہوں گے لیکن ایک اللہ والے کے لئے خدا رسیدہ کے لئے کوئی چیز نہیں تھی.حضرت وہب بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان اور حضرت ابودرداء کے درمیان بھائی چارہ کروایا، حضرت سلمان، حضرت ابودردار کو ملنے آئے تو دیکھا کہ ابودرداء کی بیوی نے پراگندہ حالت میں کام کاج کے کپڑے پہن رکھے ہیں اپنا حلیہ عجیب بنایا ہوا تھا.سلمان نے پوچھا تمہاری یہ حالت کیوں ہے.اس عورت نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابو درداء کو تو اس دنیا کی ضرورت ہی نہیں وہ تو دنیا سے بے نیاز ہے.اسی اثناء میں ابو درداء بھی آگئے.انہوں نے حضرت سلمان کے لئے کھانا تیار کروایا اور ان سے کہا کہ آپ کھا ئیں میں تو روزے سے ہوں.سلمان نے کہا جب تک آپ نہیں کھائیں گے میں بھی نہیں کھاؤں گا.چنانچہ انہوں نے روزہ کھول لیا ( نفلی روزہ رکھا ہوگا).اور جب رات ہوئی تو ابو درداء نماز کے لئے اٹھنے لگے.سلمان نے ان کو کہا ابھی سوئے رہو چنانچہ وہ سو گئے.کچھ دیر بعد وہ دوبارہ نماز کے لئے اٹھنے لگے تو سلمان نے انہیں کہا کہ ابھی سوئے رہیں.پھر جب رات کا آخری حصہ آیا تو سلمان نے کہا کہ اب اٹھو.چنانچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی.پھر سلمان نے کہا اے ابودرداء ! تمہارے پروردگار کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے.تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے.پس ہر حقدار کو اس کا حق دو، اس کے بعد ابودرداء آنحضرت کے پاس آئے اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا حضور نے فرمایا سلمان نے ٹھیک کیا ہے“.(بخارى كتاب الصوم باب من اقسم على اخيه ليفطر في التطوع زہد یہ نہیں ہے کہ دنیاوی حقوق بیوی بچوں کے جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں انکو انسان بھول جائے یا کام کاج کرنا چھوڑ دے.دنیاوی کام کاج بھی ساتھ ہوں لیکن صرف مقصود یہ نہ ہو.بلکہ ہر ایک کے حقوق ہیں وہ ادا کئے جائیں.

Page 318

$2004 313 مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ دنیا کو ترک کرتے ہیں اس سے یہ مراد ہے کہ دنیا کو اپنا مقصود اور غایت نہیں ٹھہراتے اور دنیا ان کی خادم اور غلام ہو جاتی ہے.جو لوگ برخلاف اس کے دنیا کو اپنا اصل مقصود ٹھہراتے ہیں خواہ کوکسی.وہ دنیا کو کسی قدر بھی حاصل کر لیں آخر کار ذلیل ہوتے ہیں“.(ذکر حبیب صفحہ ١٣٤) پھر آپ نے فرمایا وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا گروں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.( یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه (۱۳) پھر فرماتے ہیں ”جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۸) فرمایا: ” ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا ، جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں.دنیا سے بالکل کٹ ہی نہیں جانا چاہئے.فرمایا کہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں.اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ ان کی اندرونی حالت خراب ہوتی ہے اور وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا“.(ملفوظات.جلد دوم صفحه ٢٨٦٩٦/ جنوری ١٩٠٣ء) پس دنیا کی نعمتوں کی موجودگی میں ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت اور اس کے حضور جھکنا ہر وقت مد نظر رہنا چاہئے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان ست ہو جاویں.اسلام کسی کوست نہیں بناتا.اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کے لئے ان کا کوئی وقت بھی خالی نہ ہو.ہاں تجارت کے وقت پر تجارت کریں اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو اس وقت بھی

Page 319

$2004 314 خطبات مسرور مدنظر رکھیں تا کہ وہ تجارت بھی ان کی عبادت کا رنگ اختیار کرے.نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں.ہر معاملے میں کوئی ہو دین کو مقدم کریں.دنیا مقصود بالذات نہ ہو اصل مقصود دین ہو پھر دنیا کے کام بھی دین ہی کے ہوں گے.صحابہ کرام کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا.لڑائی اور تلوار کا وقت ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ محض اس کے تصور سے ہی انسان گھبرا اٹھتا ہے.وہ وقت جبکہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے ، نمازوں کو نہیں چھوڑا.دعاؤں سے کام لیا.اب یہ بدقسمتی ہے یوں تو ہر طرح سے زور لگاتے ہیں بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں جلسے کرتے ہیں کہ مسلمان ترقی کریں مگر خدا سے ایسے غافل ہوتے ہیں کہ بھول کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.پھر اس حالت میں کیا امید ہوسکتی ہے کہ ان کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں یا پھر وہ سب کی سب دنیا ہی کے لئے ہوں یا درکھو جب تک لا اله الا اللہ دل و جگر میں سرایت نہ کرے اور وجود کے ذرہ ذرہ پر اسلام کی روشنی اور حکومت نہ ہو کبھی ترقی نہ ہوگی“.(ملفوظات جلد اول صفحه ٤١٠ الحكم ۳۱ جنوری ۱۹۰۱ء) فرمایا دنیا کے کام نہ تو کبھی کسی نے پورے کئے اور نہ کرے گا.دنیا دار لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیوں دنیا میں آئے اور کیوں جائیں گے کون سمجھا وے جب کہ خدا تعالیٰ نے سمجھایا ہو، دنیا کے کام کرنا گناہ نہیں.مومن وہ ہے جو در حقیقت دین کو مقدم سمجھے اور جس طرح اس ناچیز اور پلید دنیا کی کامیابیوں کے لئے دن رات سوچتا یہاں تک کہ پلنگ پر لیٹے لیٹے فکر کرتا ہے اور اس کی ناکامی پر سخت رنج اٹھاتا ہے ایسا ہی دین کی غمخواری میں بھی مشغول رہے.دنیا سے دل لگانا بڑا دھوکہ ہے موت کا ذرہ اعتبار نہیں“.(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم مکتوب نمبر ۹ صفحه ۷۳،۷۲) اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلاتے ہوئے اپنی نعماء سے بھی نوازے اور دنیا کا کیڑا بننے سے بھی بچائے.آمین

Page 320

$2004 315 20 خطبات مسرور نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں ۱۴ مئی ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۴ ہجرت ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن تو بہ واستغفار کی ضرورت اور اہمیت چی تو بہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے، ہی ہمیں اپنے اندر پاکیزگی کے بیج کی پرورش کے لئے بہت زیادہ کوشش اور استغفار کی ضرورت ہے، مساجد میں حدیث اور ملفوظات کے درس اور اس میں حاضری کی تلقین ر درود شریف اور نماز بار بار پڑھنا روحانی قبض کا علاج دنیا کو بچانے کے لئے احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری اور اسکے لئے دعا اور استغفار کی ضرورت

Page 321

خطبات مسرور $2004 316 تشهد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ﴿وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا سورة النساء آیت نمبر: 111) انسان کی فطرت ایسی بنائی گئی ہے کہ غلطیوں ، کوتاہیوں اور سستیوں کی طرف بہت جلد راغب ہو جاتا ہے اور اس بشری کمزوری اور فطری تقاضے کی زد میں ، اس کی لپیٹ میں ایک عام آدمی تو آتا ہی ہے جو دنیاوی دھندوں میں پڑا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف ، اس سے اپنے گناہوں کی معافی کی طرف اس کی ذرا بھی توجہ نہیں ہوتی.لیکن نیک لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے حتی کہ انبیاء بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں.لیکن جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ انبیاء اس فطرتی کمزوری اور ضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں لہذاوہ دعا کرتے ہیں کہ یا الہی تو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں“.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ٦٠٧ الحكم ١٨ / مئى ١٩٠٨ء تو جب انبیاء کی یہ حالت ہو کہ وہ ہر وقت استغفار کرنے ، ہر وقت اپنے رب سے اس کی حفاظت میں رہنے کی دعا کرتے ہیں تو پھر ایک عام آدمی کو کس قدر اس بات کی ضرورت ہے کہ اس سے جو روزانہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں غلطیاں ہوتی ہیں یا ہوسکتی ہیں ان سے بچنے کے لئے یا ان کے بداثرات سے بچنے کے لئے استغفار کرے.اور اگر پہلے اس طرف توجہ ہو جائے تو بہت سی غلطیوں اور گناہوں سے انسان پہلے ہی بچ سکتا ہے.پس اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اس طرف توجہ دیں.اللہ تعالیٰ تو اپنے مومن بندوں کی توبہ قبول کرنے ، ان کی بخشش کے سامان پیدا

Page 322

$2004 317 خطبات مسرور کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے.اور قرآن کریم نے بیسیوں جگہ مغفرت کے مضمون کا مختلف پیرایوں میں ذکر کیا ہے، کہیں دعائیں سکھائی گئی ہیں کہ تم یہ دعائیں مانگو تو بہت سی فطری اور بشری کمزوریوں سے بچ جاؤ گے.کہیں یہ ترغیب دلائی ہے کہ اس طرح بخشش طلب کرو تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنو گے.کہیں بشارت دے رہا ہے، کہیں وعدے کر رہا ہے کہ اس اس طرح میری بخشش طلب کرو تو اس دنیا کے گند سے بچائے جاؤ گے اور میری جنتوں کو حاصل کرنے والے بنو گے.کہیں یہ اظہار ہے کہ میں مغفرت طلب کرنے والوں سے محبت کرتا ہوں.غرض اگر انسان غور کرے تو اللہ تعالیٰ کے پیار، محبت اور مغفرت کے سلوک پر اللہ تعالیٰ کا تمام عمر بھی شکر ادا کرتا رہے تو نہیں کر سکتا.ہماری بدقسمتی ہوگی کہ اگر اس کے باوجود بھی ہم اس غفور رحیم خدا کی رحمتوں سے حصہ نہ لے سکیں اور بجائے نیکیوں میں ترقی کرنے کے برائیوں میں دھنستے چلے جائیں.پس اللہ تعالیٰ سے ہر وقت اس کی مغفرت طلب کرتے رہنا چاہئے.وہ ہمیشہ ہمیں اپنی مغفرت کی چادر میں لیٹے رکھے اور ہمیں ہر گناہ سے بچائے اور گزشتہ گنا ہوں کو بھی معاف فرما تار ہے.حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو پھیلاتا ہے تا کہ دن کے وقت کے گناہ کرنے والوں کی تو بہ کو قبول کرے اور دن کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے وقت گناہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرے.اور اللہ تعالیٰ ایسے ہی کرتا رہے گا یہاں تک کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہو.(مسلم كتاب التوبة باب قبول التوبة من الذنوب یعنی یہ ناممکن ہے جب سے یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ مغفرت کی چادر میں اپنے پاک بندوں کو نہ لپیٹتا ر ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” استغفار کے معنی یہ ہیں کہ خدا سے اپنے گزشتہ جرائم اور معاصی کی سزا سے حفاظت چاہنا.اور آئندہ گناہوں کے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا.استغفار انبیاء بھی کیا کرتے ہیں اور عوام بھی.

Page 323

$2004 318 مسرور پھر آپ فرماتے ہیں کہ : "غفر کہتے ہیں ڈھکنے کو.اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خدا کو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے، نہ کس ولی کو اور نہ رسول کو کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں.پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خدا کے محتاج ہیں.پس اظہار عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور انبیاء کی طرح اپنی حفاظت خدا تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے“.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ٦٠٩ الحكم ۱۸ مئى ۱۹۰۸ء حدیث میں آتا ہے: ” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ بخدا میں اللہ تعالیٰ سے دن میں 70 مرتبہ سے بھی زیادہ تو بہ واستغفار کرتا ہوں“.(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبي في اليوم والليلة) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ استغفار ایک عربی لفظ ہے اس کے معنی ہیں طلب مغفرت کرنا کہ یا الہبی ہم سے پہلے جو گناہ سرزد ہو چکے ہیں ان کے بدنتائج سے ہمیں بچا کیونکہ گناہ ایک زہر ہے اور اس کا اثر بھی لازمی ہے اور آئندہ ایسی حفاظت کر کہ گناہ ہم سے سرزد ہی نہ ہوں.صرف زبانی تکرار سے مطلب حاصل نہیں ہوتا پس چاہئے کہ توبہ استغفار منتر جنتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ اس کے مفہوم اور معانی کو مد نظر رکھ کر تڑپ اور کچی پیاس سے خدا کے حضور دعائیں کرو.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ٦٠٩ الحكم ۱۸ / مئى ۱۹۰۸ء یہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس کی تفسیر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرماتے ہیں کہ: سو اس طور کی طبیعتیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں کہ جن کا وجو در وزمرہ کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے.اس کے نفس کا شورش اور اشتعال جو فطرتی ہے کم نہیں ہوسکتا.کیونکہ جو خدا نے لگا دیا اس کو کون دور کرے ہاں خدا نے ان کا ایک علاج بھی رکھا ہے.وہ کیا ہے؟ تو بہ واستغفار اور ندامت، یعنی جبکہ بر افعل جو ان کے نفس کا تقاضا ہے ان سے صادر ہو یا حسب خاصہ فطرتی کوئی برا خیال دل میں آوے تو اگر وہ تو بہ و استغفار سے اس کا تدارک چاہیں تو خدا اس گناہ کو معاف کر دیتا ہے.جب وہ بار بار ٹھوکر کھانے سے بار بار نادم اور تائب ہوں تو وہ ندامت اور توبہ اس آلودگی کو دھو

Page 324

319 $2004 خطبات مسرور ڈالتی ہے.یہی حقیقی کفارہ ہے جو اس فطرتی گناہ کا علاج ہے.اسی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے وَمَنْ يَعْمَلْ سُوْءَ أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهِ يَجِدِ اللَّهَ غَفُوْرًا رَّحِيمًا (النساء: ۱۱۱) جس سے کوئی بد عملی ہو جائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہو کر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفور و رحیم پائے گا.اس لطیف اور پر حکمت عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس ناقصہ کا خاصہ ہے جو ان سے سرزد ہوتا ہے اس کے مقابلے پر خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت و رحم ہے.اور اپنی ذات میں وہ غفور و رحیم ہے.یعنی اس کی مغفرت سرسری اور ا تفاقی نہیں بلکہ وہ اس کی ذات قدیم کی صفت قدیم ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے.اور جو ہر قابل پر اس کا فیضان چاہتا ہے.یعنی جب کبھی کوئی بشر بر وقت صدور لغزش و گناه بندامت و تو به خدا کی طرف رجوع کرے، یعنی جب کوئی انسان اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور پھر اس پر شرمندگی ، ندامت اور پشیمانی ہو تو فرمایا کہ ایسی حالت میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف انسان جھکے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے.تو پھر خدا تعالیٰ بھی اس کی پریشانی، پشیمانی، شرمندگی اور استغفار دیکھ کر اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی مغفرت کے سامان پیدا فرماتا ہے.تو فرمایا کہ یہ رجوع الہی بندہ نادم اور تائب کی طرف ایک یا دو مرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائگی ہے.فرمایا کہ یہ جواللہ تعالیٰ رجوع کرتا ہے اپنے ایسے بندے پر جو کئے ہوئے گناہوں پر نادم بھی ہو اور اس کی معافی بھی مانگ رہا ہو تو ایک دو دفعہ تک محدود نہیں ہے.مستقل انسان استغفار کرتارہتا ہے، مستقل اس سے معافی مانگتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ہمیشہ اس کی نیت دیکھ کر اس کے گناہوں کو بخشتا رہتا ہے.یہ نہیں کہ ہر مرتبہ جان بوجھ کے گناہ کرتے چلے جاؤ بلکہ نیت ایسی ہو کہ شرمندگی ہو اور گناہوں سے بچنے کی کوشش بھی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ہمیشہ معاف کرتا چلا جاتا ہے.اور جب تک کوئی گناہگار تو بہ کی

Page 325

خطبات مسرور 320 حالت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ خاصہ اس کا ضرور اس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے.$2004 براهین احمدیه روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ١٨٧،١٨٦ ـ حاشیه) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ گناہ سے بچی تو بہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں.جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا یعنی گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے اور گناہ کے بد نتائج سے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھتا ہے پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ» که اللَّہ تعالیٰ تو به کرنے والوں اور پاکیزگی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.تو عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! تو بہ کی علامت کیا ہے آپ نے فرمایا ندامت اور پریشانی علامت تو بہ ہے.(رسالہ قشیریہ باب التوبه) سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” سچی بات ہے کہ تو بہ اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے.﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ کچی تو بہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے.پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لئے خدا سے معاملہ صاف کر لے.اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اولیاء میں داخل ہو جائے گا.اور پھر اس پر کوئی خوف اور حزن نہیں ہوگا“.ملفوظات جلد سوم صفحه ٥٩٤ - ٥٩٥ الحكم ۱۰ مارچ ١٩٠٤ء) پھر آپ نے فرمایا کہ: ” حقیقی تو بہ انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور اس سے پاکیزگی اور طہارت کی توفیق ملتی ہے.جیسے اللہ کا وعدہ ہے کہ ﴿وَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ) یعنی اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے نیز ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہونے والے ہیں.تو بہ حقیقت میں ایک ایسی شے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اندر پاکیزگی کا بیج بویا جاتا ہے.

Page 326

$2004 321 خطبات مسرور جواس کو نیکیوں کا وارث بنا دیتا ہے.یہی باعث ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ گنا ہوں سے تو بہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ نہیں کیا.یعنی تو بہ سے پہلے کے گناہ اس کو معاف ہو جاتے ہیں اس وقت سے پہلے جو کچھ بھی اس کے حالات تھے اور جو بے جا حرکات اور بے اعتدالیاں اس کے چال چلن میں پائی جاتی تھیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو معاف کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد صلح باندھا جاتا ہے اور نیا حساب شروع ہوتا ہے“.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۲ احکام ۷ اکتوبر ۱۹ تو فرمایا تو بہ کے ذریعے سے پاکیزگی کا بیج ہے جو ہمارے دلوں میں بویا جاتا ہے.تو اس زمانے میں بھی جبکہ ہر طرف دنیا میں اتنا زیادہ گند ہو چکا ہے، ہمیں خاص طور پر احمدیوں کو اپنے اندر پاکیزگی کے بیج کی پرورش کے لئے بہت زیادہ کوشش اور استغفار کی ضرورت ہے.تا کہ اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرے اور دل صاف کرے اور اس طرح ہمیں اپنے دل کی زمین کو تیار کرنا ہوگا اور اس میں اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے نیکی کے بیچ کی پرورش کرنی ہوگی جس طرح ایک زمیندار جب اپنی فصل کے لئے بیج کھیت میں ڈالتا ہے تو جڑی بوٹیوں سے صاف رکھنے کے لئے وہ بعض دفعہ بیج ڈالنے سے پہلے ایسے طریقے اختیار کرتا ہے جو جڑی بوٹیوں کو اگنے میں مدد دیتے ہیں، تا کہ جو بھی جڑی بوٹیاں ہیں وہ ظاہر ہو جائیں.اور جب وہ ظاہر ہو جائیں تو ان کو تلف کرنے کی کوشش کرتا ہے.تو اسی طرح ہمیں بھی اپنے گناہوں کی جڑی بوٹیوں کے بیج کو بھی ظاہر کرنا پھر اس کو تلف کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے ، اپنے گناہوں پر نظر رکھنی چاہئے.تا کہ نیکی کا بیج صحیح طور پر نشو ونما پا سکے.جب نیکی کا بیج پھوٹتا ہے، بڑھنا شروع ہوتا ہے تو اس کی پھر اس طرح ہی مثال ہے کہ پھر شیطان بعض حملے کرتا ہے کیونکہ وہ بھی اپنی برائیوں کے بیج پھینک رہا ہوتا ہے یا کچھ نہ کچھ بیچ برائی کا بھی دل میں رہ جاتا ہے تو جس طرح فصل لگانے کے بعد زمیندار دیکھتا.

Page 327

$2004 322 خطبات مسرور ہے کہ بعض دفعہ فصل کے ساتھ بھی دوبارہ جڑی بوٹیاں اگنی شروع ہو جاتی ہیں تو پھر زمیندار کئی طریقے استعمال کرتا ہے.بوٹی مار دوائیاں پھینکتا ہے یا گوڈی کرتا ہے، زمین صاف کرتا ہے تا کہ ان بوٹیوں کو تلف کیا جائے تو اس طرح انسان کو بھی اپنے اندر نیکی کے بیج کو خالص ہو کر بڑھنے اور پنپنے کا ماحول میسر کرنے کے لئے استغفار کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل ما نگتے ہوئے اس کی پرورش کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تو جب اس طریق سے اپنے اندر نیکیوں کے بیج کو ہم پروان چڑھائیں گے اور پروان چڑھانے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پھلے گا اور پھولے گا اور پھر بڑھے گا اور ہمارے تمام وجود پر نیکیوں کا قبضہ ہو جائے گا.اور ہر برائی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ختم ہو جائے گی.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ہما وقت استغفار کرتارہتا ہے اللہ تعالیٰ ہر تنگی کے وقت اس کے نکلنے کے لئے راہ پیدا کر دیتا ہے اور ہر غم سے نجات دیتا ہے اور اسے اس راہ سے رزق عطا فرماتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہ کر سکے.(ابو داؤد - كتاب الوترباب في الاستغفار) وو پھر ایک اور روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس شخص کی خوشی کے بارے میں کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی بے آب و گیاہ جنگل میں گم ہو جائے اور اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کا سامان لدا ہوا ہو وہ اس کو اتنا ڈھونڈے وہ اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے اور پھر کسی درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور دیکھے کہ اس کی اونٹنی کی لگام کسی درخت کی جڑوں سے انکی ہوئی ہے.تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! وہ شخص تو بہت خوش ہوگا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخدا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تو بہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے“.(بخاری کتاب الدعوات باب التوبه) تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی خوشی کا حال اپنے بندوں کی تو بہ کی طرف مائل ہوتے دیکھ کر اور

Page 328

$2004 323 خطبات مسرور گناہوں سے معافی مانگتے ہوئے اس کے حضور حاضر ہونے پر.تو جب اللہ تعالیٰ کو ہمارا اس قدر خیال ہے تو ہمیں کس قدر بڑھ کر اس سے محبت کرنی چاہئے.اور اس کے آگے جھکنا چاہئے.اس کے احکامات پر عمل کرنا چاہئے.اس کے انبیاء کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.قرآن شریف کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس کے حضور تو بہ کرتے ہوئے جھکنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان تمام باتوں پر عمل کرنے والے ہوں.حضرت جندب روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی نے کہا اللہ تعالیٰ کی قسم فلاں آدمی کو اللہ نہیں بخشے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کون ہے جو مجھ پر پابندی لگائے کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا.میں نے اسے بخش دیا ہاں ( یہ جو کہنے والا ہے ) خوداس شخص کے اعمال ضائع ہو گئے جس نے ایسا کہا.(مسلم كتاب البر والصلة باب النهي عن تقنيط الانسان من رحمة الله تو بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ بیٹھ کر باتیں کر دیتے ہیں اپنی نیکیوں کے زعم میں فتوے لگا دیتے ہیں کہ فلاں گناہ گار ہے، فلاں یہ ہے، فلاں وہ ہے، اور یہ بخشا نہیں جاسکتا.تو بخشایا نہ بخشایہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.بندے کا کام نہیں.اور خدا تعالیٰ کا کام کسی بندے کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا.ایسی باتیں کر کے سوائے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہوں اور کچھ حاصل نہیں ہوتا.حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جس نے 99 قتل کئے تھے آخر اس کے دل میں ندامت پیدا ہوئی اور اس نے اس علاقے کے سب سے بڑے عالم کے متعلق پوچھا تا کہ وہ اس سے گناہ سے تو بہ کرنے کے بارے میں پوچھے تو اسے ایک تارک الدنیا عابد زاہد کا پتہ بتایا گیا وہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے 99 قتل کئے ہیں کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے تو اس عابد اور زاہد نے کہا ایسے آدمی کی تو بہ کیسے قبول ہوسکتی ہے اور اتنے بڑے گناہ کیسے معاف ہو سکتے ہیں اس پر اس نے اس کو بھی قتل کر دیا

Page 329

$2004 324 خطبات مسرور اس طرح پورے 100 قتل ہو گئے ، پھر اسے ندامت ہوئی ،شرمندگی ہوئی اور اس نے کسی بڑے عالم کے متعلق پوچھا پھر اسے ایک بڑے عالم کا پتہ بتایا گیا وہ اس کے پاس آیا اور کہا اور میں نے سو قتل کئے ہیں کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے تو اس نے جواب دیا ہاں کیوں نہیں تو بہ کا دروازہ کیسے بند ہو سکتا ہے اور تو بہ کرنے والے اور اس کی توبہ قبول ہونے کے درمیان کون حائل ہوسکتا ہے.تم فلاں علاقے میں جاؤ وہاں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوں گے اور دین کے کام کر رہے ہوں گے تم بھی ان کے ساتھ اس نیک کام میں شریک ہو جاؤ اور ان کی مدد کر و نیز اپنے اس علاقے میں واپس نہ آنا کیونکہ یہ برا اور فتنہ خیز علاقہ ہے چنانچہ وہ اس سمت میں چل پڑا لیکن ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ موت نے اسے آلیا ، تب اس کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے ، رحمت کے فرشتے کہتے تھے کہ اس شخص نے توبہ قبول کر لی ہے اور اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا ہے اس لئے ہم اسے جنت میں لے جائیں گے.عذاب کے فرشتے کہتے کہ اس نے کوئی نیک کام نہیں کیا یہ کیسے بخشا جا سکتا ہے تو اسی اثناء میں اس کے پاس ایک فرشتہ انسانی صورت میں آیا اور اس کو انہوں نے اپنا ثالث مقرر کر لیا اس نے ان دونوں کی باتیں سن کر کہا کہ جس علاقے سے یہ آ رہا ہے اور جس کی طرف یہ جا رہا ہے دونوں کا درمیانی فاصلہ ناپ لو اس میں سے جس علاقے سے وہ زیادہ قریب ہے وہ اسی علاقے کا شمار ہوگا.پس انہوں نے فاصلہ ماپا تو اس علاقے کے زیادہ قریب پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا.اس پر رحمت کے فرشتے اسے جنت کی طرف لے گئے.(مسلم کتاب التوبة - باب قبول توبة القاتل...تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کی بخشش کے طریق که نیک نیتی سے اس کی طرف بڑھو، تو بہ کر و استغفار کروتو وہ یقینا تمہیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے گا.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور انہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے جب وہ کوئی ایسی

Page 330

$2004 325 خطبات مسرور مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہورہا ہو تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں.ساری فضا ان کے سایہ برکت سے معمور ہو جاتی ہے جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ کہاں سے آئے ہو، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے، تو فرشتے جواب دیتے ہیں کہ ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کر رہے تھے، تیری بڑائی بیان کر رہے تھے تیری عبادت میں مصروف تھے اور تیری حمد میں رطب اللسان تھے اور تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں.اس پر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں اے میرے رب ! انہوں نے تیری جنت دیکھی تو نہیں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان کی کیا کیفیت ہوگی اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیں.پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری پناہ چاہتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں.فرشتے اس پر کہتے ہیں تیری آگ سے وہ پناہ چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں دیکھی تو نہیں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ میری آگ کو دیکھ لیں، پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری بخشش طلب کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں نے انہیں بخش دیا اور انہیں وہ سب کچھ دیا جو انہوں نے مجھ سے مانگا.اور میں نے ان کو پناہ دی جس سے انہوں نے میری پناہ طلب کی اس پر فرشتے کہتے ہیں اے ہمارے رب ان میں فلاں غلط کار شخص بھی تھاوہ وہاں سے گزرا اور ان کو ذکر کرتے ہوئے دیکھ کر تماش بین کے طور پر ان میں بیٹھ گیا اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اس کو بھی بخش دیا.کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بد بخت نہیں رہتا.(مسلم کتاب الذکر ـ باب فضل مجالس الذكر).تو اللہ تعالیٰ نے راہ چلتے تماش بین کو وہاں بیٹھنے کی وجہ سے بھی بخش دیا کیونکہ اس وقت اس کے کانوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کی آواز پہنچ رہی تھی.ہماری مساجد میں حدیث کے درس ہوتے ہیں یا مختلف ملفوظات وغیرہ کے اجلاسات ہیں، اجتماعات ہیں تو ان میں پہلے سے بڑھ کر ہماری

Page 331

$2004 326 خطبات مسرور حاضریاں ہونی چاہئیں.کیا پتہ اللہ تعالیٰ کو کس وقت کیا چیز پسند آ جائے اور ہماری بخشش کے سامان ہو جائیں.پھر جمعہ ہے، اپنے کام کی خاطر بعض لوگ جمعہ چھوڑ دیتے ہیں تو یہ خاص طور پر عبادت کا دن ہے ہفتہ میں ایک دن آتا ہے.خطبہ ہے نماز ہے اس کو ضرور سننا چاہئے اور ہر وہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہمیں کیا علم کس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے والے ہو جائیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: "روحانی سرسبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یا اس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا.یہی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار سے موسوم کرتا ہے.(نورالقرآن روحانی خزائن جلد۹ صفحه ٣٥٧) فرمایا کہ ہر گند سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے ، اس کے قرب کو پانے کے لئے اپنے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے استغفار کرتے رہنا چاہئے.پھر ایک شخص نے قرض کے متعلق دعا کے واسطے عرض کی کہ میرا قرض بہت ہے دعا کریں اتر جائے.(اب بھی بہت لوگ لکھتے رہتے ہیں ) تو آپ نے فرمایا: ”استغفار بہت پڑھا کروانسان کے واسطے غموں سے سبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے، نیز استغفار کلید ترقیات ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه ٤٤٢ ـ الحكم جنوری ١٩٠١ء) تو فرمایا تمہاری ہر قسم کی ترقی کے لئے اور قرضوں سے بچنے کے لئے پریشانیاں دور ہونے کے لئے استغفار ہی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ غور کر کے سمجھ کر پڑھو صرف رٹے ہوئے الفاظ نہ دہراتے چلے جاؤ اور پھر ساتھ اپنے اندر جو برائیاں ہیں ان کا بھی جائزہ لیتے رہو اور محاسبہ کرتے رہو اور ان سے بھی بچنے کی کوشش کرتے رہو.ترقی کے دروازے تم پر کھلتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ.پھر آپ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کی کہ حضور! میرے لئے دعا کریں میرے اولاد ہو جائے ، آپ نے فرمایا:

Page 332

$2004 327 خطبات مسرو استغفار بہت کرو اس سے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اولا د بھی دے دیتا ہے.یادرکھو یقین بڑی چیز ہے.جوشخص یقین میں کامل ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه ٤٤٤ - الحكم ۳۱ جنوری ۱۹۰۱ء) تو بہت سے لوگ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا لکھتے رہتے ہیں اولاد کے لئے بھی اور دوسری چیزوں کے لئے.ان کو یہ نسخہ آزمانا چاہئے.لیکن بات وہی ہے کہ صرف رٹے ہوئے فقرے نہ ہوں بلکہ دل کی گہرائیوں سے استغفار کرے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور انسان اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرے.اب یہ ہے کہ استغفار کس طرح پڑھنا چاہئے.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”استغفار بہت پڑھا کرو.انسان کی دوہی حالتیں ہیں یا تو وہ گناہ نہ کرے یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بد انجام سے بچائے.استغفار پڑھنے سے یا تو بد انجام سے اللہ تعالیٰ بچالیتا ہے یا وہ گناہ ہی اس سے سرزد نہیں ہوتا.سو استغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہئے.فرمایا: ” ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گزشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہے اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچائے.مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا بلکہ دل سے چاہئے نماز میں اپنی زبان میں بھی دعامانگو یہ ضروری ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه ۵۲۵.الحکم ۱۰ اگست ۱۹۰۱) پھر آپ فرماتے ہیں: ”خوب یا درکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا.اپنی زبان میں بھی استغفار ہوسکتا ہے کہ خدا پچھلے گناہوں کو معاف کرے اور آئندہ گنا ہوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے اور یہی حقیقی استغفار ہے.کچھ ضرورت نہیں کہ یونہی اَسْتَغْفِرُ اللهِ، اسْتَغْفِرُ الله کہتا پھرے اور دل کی خبر تک نہ ہو.یا درکھو کہ خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے.اپنی زبان میں ہی خدا سے بہت دعائیں مانگنی چاہئیں.اس سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے.زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے.اگر دل میں جوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے.بغیر دل کے صرف زبانی دعا ئیں عبث ہیں.یعنی فضول ہیں.”ہاں دل کی دعائیں اصل دعا ئیں ہوتی ہیں

Page 333

$2004 328 خطبات مسرور 6 جب قبل از وقت بلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا سے دعائیں مانگتا رہتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے.تو پھر خداوند رحیم کریم ہے وہ بلائل جاتی ہے.لیکن جب بلا نازل ہو جاتی ہے پھر نہیں ٹلا کرتی.بلا کے نازل ہونے سے پہلے دعائیں کرتے رہنا چاہئے اور بہت استغفار کرنا چاہئے اس طرح سے خدا بلا کے وقت محفوظ رکھتا ہے.(ملفوظات جلد نمبر ۵ صفحه ۲۸۲ الحکم ۲۴ ستمبر ١٩٠٧) تو عام حالات میں بھی دیکھ لیں جب آدمی کسی بیماری میں تکلیف میں دنیا میں بھی کسی انسان کو پکارتا ہے تو وہ اس کی مدد کے لئے آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو جب اس طرح خالص ہو کر پکاریں گے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے کہ ایک قدم چلو گے تو دو قدم چل کر آؤں گا ہم پیدل آؤ گے تو میں تمہاری طرف دوڑتا ہوا آؤں گا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” گناہ کی یہ حقیقت نہیں کہ اللہ گناہ کو پیدا کرے اور پھر ہزاروں برس کے بعد گناہ کی معافی سوجھے جیسے مکھی کے دو پر ہیں ایک میں شفا اور دوسرے میں زہر ، اسی طرح انسان کے دو پر ہیں ایک معاصی کا اور دوسرا خجالت.توبہ، پریشانی کا.یہ ایک قاعدے کی بات ہے جیسے ایک شخص جب غلام کو سخت مارتا ہے تو پھر اس کے بعد پچھتاتا ہے گویا کہ دونوں پر اکٹھے حرکت کرتے ہیں.زہر کے ساتھ تریاق ہے.اب سوال یہ ہے کہ زہر کیوں بنایا گیا تو جواب یہ ہے کہ گو یہ زہر ہے مگر کشتہ کرنے سے حکم اکسیر کا رکھتا ہے.زہر کو بھی جب ایک خاص پراسیس (Process) میں سے گزارا جائے تو وہ دوائی کا بھی کام دے جاتے ہیں.ایسے زہروں سے بہت ساری دوائیاں بنتی ہیں.فرمایا کہ : ” اگر گناہ نہ ہوتا تو رعونت کا زہر انسان میں بڑھ جاتا اور وہ ہلاک ہو جاتا.تو بہ اس کی تلافی کرتی ہے.کبر اور عجب کی آفت سے گناہ انسان کو بچائے رکھتا ہے.جب نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم 70 بار استغفار کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے.گناہ سے تو بہ وہی نہیں کرتا جو اس پر راضی ہو جاوے.اور جو گناہ کو گناہ جانتا ہے وہ آخرا سے چھوڑے گا“.فرمایا: ”حدیث میں آیا ہے کہ جب انسان بار بار روکر اللہ سے بخشش چاہتا ہے تو آخر کار

Page 334

$2004 329 خطبات مسرور خدا کہہ دیتا ہے کہ ہم نے تجھ کو بخش دیا.اب تیرا جو جی چاہے سو کر.اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے دل کو بدل دیا اور اب گناہ اسے بالطبع برا معلوم ہو گا جیسے بھیڑ کو میلا کھاتے دیکھ کر دوسرا حرص نہیں کرتا کہ وہ بھی کھادے اسی طرح وہ انسان بھی گناہ نہ کرے گا جسے خدا نے بخش دیا ہے.مسلمانوں کو خنزیر کے گوشت سے بالطبع کراہت ہے.حالانکہ اور دوسرے ہزاروں کام کرتے ہیں جو حرام اور منع ہیں.تو اس میں حکمت یہی ہے کہ ایک نمونہ کراہت کا رکھ دیا ہے اور اسے سمجھا دیا ہے کہ اس طرح انسان کو گناہ سے نفرت ہو جاوے.(ملفوظات جلد اول صفحه ۳ ـ البدر ۱۹ دسمبر ۱۹۰۲) پس اگر انسان کے دل میں گناہ سے نفرت ہو جائے اور پھر اصلاح کی طرف قدم بڑھنا شروع ہو جائے تو آہستہ آہستہ تمام برائیاں دور ہو جاتی ہیں.اب بعض شکایات آتی ہیں بعض نوجوانوں میں اور بعض ایسی پختہ عمر کے لوگوں میں بھی کہ نظام جماعت سے تعاون نہیں ہے، تربیتی طور پر بہت کمزور ہیں، فلمیں گندی دیکھ رہے ہوتے ہیں گھروں میں بھی ، ٹی وی کے ذریعے سے یا انٹرنیٹ کے ذریعے سے.تو جب تک ہم اپنے گھروں میں یہ احساس نہیں پیدا کریں گے اپنے بچوں میں بھی اور اپنے آپ میں بھی یہ احساس نہیں پیدا کریں گے اور جب تک ہمارے قول و فعل میں تضاد ہو گا اصلاح کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی.بیعت کرنے کے بعد ہمارے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے دعوے بالکل کھو کھلے ہوں گے.ان گندے پروگراموں کو دیکھ کر اپنے اخلاقی اور روحانی نقصان کے علاوہ مالی نقصان بھی کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اکثر ایسے پروگرام کچھ خرچ کرنے کے بعد ہی میسر آتے ہیں.تو ہماری توبہ واستغفار ایسی ہونی چاہئے کہ ہمارا ان باتوں کی طرف خیال ہی نہ جائے ، توجہ ہی نہ ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی رہتی ہے.بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے نمازوں میں لذت اور سرور پیدا ہوتا ہے لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک تنگی کی حالت ہو

Page 335

$2004 330 خطبات مسرور جاتی ہے.جب ایسی حالت ہو جائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور پھر درود شریف بہت پڑھے.نماز بھی بار بار پڑھے.قبض کے دور ہونے کا یہی علاج ہے“.(ملفوظات جلد اول صفحه ١٩٤ ـ الحكم جلد نمبر ۷ نمبر ۲۱) فرمایا کہ یہ روحانی تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنی ہے، پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنی ہے تو مستقل مزاجی سے استغفار کرتے رہنا پڑے گا.نمازوں کی طرف توجہ ہونی چاہئے ، نمازیں پڑھو، استغفار کرو تو اللہ تعالیٰ ایک وقت ایسا لائے گا کہ انسان اپنے اندر تبدیلی محسوس کرے گا.پھر ایک موقع پر آپ نے کسی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: ” نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں نماز میں دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ! مجھ میں اور میرے گناہوں میں دوری ڈال.صدق سے انسان دعا کرتارہے تو یہ یقینی بات ہے کہ کسی وقت منظور ہو جائے جلدی کرنی اچھی نہیں ہوتی.زمیندار ایک کھیت ہوتا ہے تو اسی وقت نہیں کاٹ لیتا.بے صبری کرنے والا بے نصیب ہوتا ہے.نیک انسان کی یہ علامت ہے کہ وہ بے صبری نہیں کرتا.بے صبری کرنے والے بڑے بڑے بد نصیب دیکھے گئے ہیں.اگر ایک انسان کنواں کھودے اور ہمیں ہاتھ کھو دے اور ایک ہاتھ رہ جائے تو اس وقت بے صبری سے چھوڑ دے تو اپنی ساری محنت کو برباد کرتا ہے اور اگر صبر سے ایک ہاتھ اور بھی کھود لے تو گوہر مقصود پالیوے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ ذوق اور شوق اور معرفت کی نعمت ہمیشہ دکھ کے بعد دیا کرتا ہے.اگر ہر ایک نعمت آسانی سے مل جائے تو اس کی قدر نہیں ہوا کرتی “.(ملفوظات جلد دوم صفحه ۲۵۵ - البدر ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء) پھر آپ نے فرمایا کہ: میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جولوگ قبل از نزول بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے.اور عذاب الہی سے ان کو بچالیتا ہے.میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو میں نَصْحالِلہ کہتا ہوں اپنے حالات پر غور کرو اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دعا میں لگ جانے کے لئے کہو استغفار عذاب الہی اور مصائب

Page 336

$2004 331 خطبات مسرور شدیدہ کے لئے سپر کا کام دیتا ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفَرُوْنَ (سورة الانفال آیت نمبر :34).” یعنی اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ مغفرت اور بخشش طلب کر رہے ہوں تو اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الہی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو.(ملفوظات جلد اول صفحه ١٣٤ ـ الحكم ٢٤ جولائی ١٩٠١ء) آج کل جو دنیا کی مشکلات ہیں اور ہر طرف ایک افراتفری پیدا ہو رہی ہے.ہر روز انسان اپنے اعمال کی وجہ سے شامت اعمال میں ہے، نیا فتنہ وفساد کھڑا ہو رہا ہے.نئی نئی مصیبتوں کے کھڑے ہونے کے سامان پیدا ہورہے ہیں.ان میں ہم احمدیوں کو خاص طور پر دعاؤں اور استغفار کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.دنیا کو بچانے کے لئے احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اسے سمجھنے کی بھی توفیق دے اور اپنے لئے بہت دعائیں کرنے کی بھی توفیق دے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” تمہارا خداوہ خدا ہے جو اپنے ا بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں ان کو معاف کر دیتا ہے کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے کہ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴾ (الزلزال: ٩ ) یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گاوہ اس کی سزا پائے گا.پس یادر ہے کہ اس میں اور دوسری آیت میں کچھ تناقض نہیں کیونکہ اس شر سے وہ شر مراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے.اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذَنْب کا تا معلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا.ورنہ سارا قرآن شریف اس بارے میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے“.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ٢٣ - صفحه (٢٤

Page 337

$2004 332 مسرور فرمایا کہ اگر گناہ پر نادم ہو پریشان ہو،شرمندہ ہو، استغفار کرے تو اللہ اس کے برے نتائج سے بچالیتا ہے لیکن گناہوں پر اصرار نہ ہو کبھی.اور اگر اصرار ہوگا اور احساس ختم ہو جائے گا تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اس آیت کے مطابق پھر انسان ضرور سزا پائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنے آگے جھکنے والا اور گناہوں سے بخشش طلب کرنے والا بنا تا ر ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ” تو بہ ایک طرف (موت) کو چاہتی ہے جس کے بعد انسان زندہ کیا جاتا ہے اور پھر نہیں مرتا.تو بہ کے بعد انسان ایسا بن جاوے کہ گویا نئی زندگی پا کر دنیا میں آیا ہے.نہ اس کی وہ چال ہونہ اس کی وہ زبان، نہ ہاتھ نہ پاؤں سارے کا سارانی وجود ہو جو کسی دوسرے کے تحت کام کرتا ہوا نظر آ جاوے.دیکھنے والے جان لیں کہ یہ وہ نہیں یہ تو کوئی اور ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۱٤٦ - ۱۷ مارچ ۱۹۰۳ء) ـ ١٩٠٣ء) تو اس طرح اگر تو بہ کی جائے اور اسی طرح تو بہ کرنی چاہئے.اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر کبھی ضد نہیں کرنی چاہئے.بہن بھائیوں کے حقوق ہیں ان کی ادائیگی کی طرف توجہ چاہئے.پھر ہمسایوں کے حقوق ہیں ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے.پھر معاشرے کے حقوق ہیں ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ہر گند سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور معاشرے کے جتنے زہر ہیں، جتنی برائیاں ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے مثلاً یہ آج کل عام بیماری ہے اور سکول میں 15-16-17 سال تک کی عمر کے بچوں کو سگریٹ کی عادت ڈالی جاتی ہے اور پھر سگریٹ میں بعض نشہ آور چیز میں ملا کے اس کی عادت ڈالی جاتی ہے.پھر وہ اپنے ساتھی لڑکوں کو عادت ڈالتے ہیں اس طرح یہ پھیلتی چلی جاتی ہے اور وہی سکول کے لڑکے ان کے ایجنٹ کے طور پر پھر کام کر رہے ہوتے ہیں.تو اس پر بھی ماں باپ کو نظر رکھنی چاہئے.کسی قسم کی معاشرے کی برائی کا اثر نہ ہم پر نہ ہمارے بچوں پر ظاہر ہو.حضرت اقدس مسیح موعود پھر فرماتے ہیں کہ : ” خلاصہ کلام یہ کہ یقین جانو کہ تو بہ میں بڑے

Page 338

$2004 333 خطبات مسرور بڑے ثمرات ہیں.یہ برکات کا سرچشمہ ہے.در حقیقت اولیاء وصلحاء یہی لوگ ہوتے ہیں جو تو بہ کرتے اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں.وہ گناہ سے دور اور خدا کے قریب ہوتے جاتے ہیں.کامل تو بہ کرنے والا شخص ہی ولی ، قطب اور غوث کہلا سکتا ہے.اسی حالت میں وہ خدا کا محبوب بنتا ہے.اس کے بعد بلائیں اور مصائب جو انسان کے واسطے مقدر ہوتی ہیں ٹل جاتی ہیں.(ملفوظات جلد.سوم صفحہ ١٤٧،١٤٧٦ ـ الحكم ٢٤ مارچ ۱۹۰۳ء) پھر فرمایا: ” پس اٹھو اور تو بہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو اور یاد رکھو کہ اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور ہندو یا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا لیکن جو شخص ظلم اور تعدی اور فسق و فجور میں حد سے بڑھتا ہے اس کو اسی جگہ سزادی جاتی ہے، تب وہ خدا کی سزا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتا.سو اپنے خدا کو جلد راضی کر لو اور قبل اس کے کہ وہ دن آوے جو خوفناک دن ہے.یہاں طاعون کی مثال دی ” یعنی طاعون کے زور کا دن جس کی نبیوں نے خبر دی ہے.اور آج بھی جو دنیا میں برائیاں پھیل رہی ہیں اس میں بھی ایک قسم کا طاعون ہی ہے جو ایڈز کی صورت میں دنیا میں پھیل رہا ہے.فرمایا کہ قبل اس کے کہ وہ دن آوے جو خوفناک دن ہے جس کی نبیوں نے خبر دی ہے " تم خدا سے صلح کر لو وہ نہایت درجہ کریم ہے.ایک دم کی گداز کرنے والی تو بہ سے 70 برس کے گناہ بخش سکتا ہے.اور یہ مت کہو کہ تو بہ منظور نہیں ہوتی.یادرکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بیچ نہیں سکتے.ہمیشہ فضل بچاتا ہے، نہ اعمال.اے خدائے کریم ورحیم ! ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے اور تیرے آستانہ پرگرے ہیں.(لیکچر لاهور روحانی خزائن جلد ٢٠ صفحه ١٧٤) کل انشاء اللہ تعالیٰ میں ایک سفر پر جا رہا ہوں، جرمنی، ہالینڈ وغیرہ کے اجتماعات اور جلسے ہیں.اس کے لئے بھی احباب سے دعا کی درخواست ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر طرح بابرکت ☆☆ فرمائے.

Page 339

Page 340

$2004 335 21 خطبات مسرور خلیفہ وہی ہے جو خدا بناتا ہے.خدا نے جس کو چن لیا اس کو چن لیا.مخالفین اور منافقین جتنا مرضی زور لگالیں خلافت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اور جب تک اللہ چاہے گا یہ رہے گی.۲۱ مئی ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۱ / بجرت ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام بادکروز ناخ (جرمنی) خلافت کا یہ سلسلہ دائمی ہے.انشاء اللہ ہم خوش قسمت ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی یہ پیشگوئی پوری ہوتی دیکھے رہے ہیں منکرین خلافت کے منصوبے اور ان کی نامرادیاں حضرت مصلح موعود کا تابناک دورِ خلافت اور جماعت کی ترقی ی خلافت ثالثہ اور رابعہ میں الہی تائید و نصرت اور اس کا تسلسل مجھ کو بس ہے میرا مولیٰ ، میرا مولی مجھ کو بس

Page 341

خطبات مسرور $2004 336 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا.وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلِئِكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ (سورة النور : 56) اس کا ترجمہ ہے: کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے، یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خلافت کا وعدہ کیا ہے لیکن ساتھ شرائط عائد کی ہیں کہ ان باتوں پر تم قائم رہو گے تو تمہارے اندر خلافت قائم رہے گی.لیکن اس کے باوجود خلافت را شدہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں صرف تمہیں سال تک قائم رہی.اور اس کے آخری سالوں میں جس طرح کی حرکات مسلمانوں نے کیں اور جس طرح خلافت کے خلاف فتنے اٹھے اور جس طرح

Page 342

$2004 337 خطبات مسرور خلفاء کے ساتھ بیہودہ گوئیاں کی گئیں اور پھر ان کو شہید کیا گیا.اس کے بعد خلافت راشدہ ختم ہوگئی اور پھر ملوکیت کا دور ہوا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرما دیا تھا اور اس ارشاد کے مطابق ہی تھا کہ اگر تم ناشکری کرو گے تو فاسق ٹھہرو گے.اور فاسقوں اور نافرمانوں کا اللہ تعالیٰ مددگار نہیں ہوا کرتا تو بہر حال اسلام کی پہلی تیرہ صدیاں مختلف حالات میں اس طرح گزریں جس میں خلافت جمع ملوکیت رہی پھر بادشاہت رہی پھر اس عرصہ میں دین کی تجدید کے لئے مجدد بھی پیدا ہوتے رہے.یہ ایک علیحدہ مضمون ہے، اس کا ویسے تو میں ذکر نہیں کر رہا.لیکن جو بات میں نے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خوشخبریاں دی تھیں اور جو پیشگوئیاں آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اپنی امت کو بتائی تھیں اس کے مطابق مسیح موعود کی آمد پر خلافت کا سلسلہ شروع ہونا تھا اور یہ خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی رہنا تھا اور رہنا ہے انشاء اللہ.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علی مِنْهَاج النُّبُوَّة قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے.پھر جب یہ دور ختم ہوگا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم وستم کے دور کو ختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی اور یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.(مسند احمد بن حنبل مشكوة كتاب الرقاق باب الانذار والتحذير الفصل الثالث) پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس دور میں اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس دائگی خلافت کے عینی شاہد بن گئے ہیں بلکہ اس کو ماننے والوں میں شامل ہیں اور اس کی برکات سے فیض پانے والے بن گئے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت ایک مبارک امت ہے.یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری

Page 343

$2004 338 خطبات مسرور زمانہ، یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے.اس آخری زمانے کی بھی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرما دی کہ وہ کیا ہے.حضرت ابو ہریرہ ا روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے اس کی آیت وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ پڑھی جس کے معنے یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے.تو ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے.تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب نہ دیا.اس آدمی نے تین دفعہ یہ سوال دو ہرایا.راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی ہم میں بیٹھے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ واپس لے آئیں گے.یعنی آخرین سے مراد وہ زمانہ ہے جب مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور اس پر ایمان لانے والے، اس کا قرب پانے والے، اس کی صحبت پانے والے صحابہ کا درجہ رکھیں گے.پس جب ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور یہ زمانہ پانے کی توفیق عطا فرمائی جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کا درجہ دیا ہے.تو یہ بھی ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت بھی قائم رہے.یہاں یہ وضاحت کر دی ہے جیسا کہ پہلے حدیث کی روشنی ) میں میں نے کہا کہ مسیح موعود کی خلافت عارضی نہیں ہے بلکہ یہ دائمی خلافت ہوگی.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الفاظ میں اس آیت کی کچھ وضاحت کرتا ہوں ، آپ فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ

Page 344

$2004 339 خطبات مسرور دکھاتا ہے، دوسرے ایسے وقت جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتے ہیں خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے.جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت کبھی گئی اور بہت سے بادیہ نشیں نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا (النور: ۵۶) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا ویں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا.جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسی کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا.فرمایا: ”سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت

Page 345

$2004 340 خطبات مسرور ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعده.ہ ہے.اور یہ وعدہ بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اس لئے اس وقت تک ہے جو لوگ نیک اعمال بجالاتے رہیں گے وہ ہی خلافت سے چمٹے رہیں گے.اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائگی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خد ا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہوا ور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر ہے،.اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کسی وقت وہ گھڑی آ جائے گی“.اور فرمایا کہ : ” چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جونفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں“.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کئی کھڑے ہو جا ئیں بیعت کرنے کے لئے بلکہ مختلف اوقات میں ایسے آتے رہیں گے.” خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی

Page 346

$2004 341 خطبات مسرور متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پاکر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو.(رساله الوصيت - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴ تا ۳۰۷ چنانچہ دیکھ لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد آپ نے ہمیں خوشخبریاں بھی دے دی تھیں کہ آپ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے انشاء اللہ خلافت دائمی رہے گی اور دشمن دو خوشیاں کبھی نہیں دیکھ سکے گا کہ ایک تو وفات کی خبر اس کو پہنچے اور اس پر خوش ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر ایسے بھی تھے جنہوں نے خوشیاں منائیں اور پھر یہ کہ وہ جماعت کے ٹوٹنے کی خوشی وہ دیکھ سکیں گے، یہ کبھی نہیں ہو گا.دشمن نے بڑا شور مچایا، بڑا خوش تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ تھا کہ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا کا ہمیں نظارہ بھی دکھایا.اور بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اب کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں، طبیعت کمزور ہو چکی ہے اور شاید اس طرح خلافت کا کنٹرول نہ رہ سکے اور شاید وہ خلافت کا بوجھ نہ اٹھاسکیں اور انجمن کے بعض عمائدین کا خیال تھا کہ اب ہم اپنی من مانی کر سکیں گے.کیونکہ عمر کی وجہ سے بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو اگر ہم حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی خدمت میں نہ بھی پیش کریں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ان کو پتہ نہیں چلے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمن کی یہ تمام اندرونی اور بیرونی جو بھی تدبیریں تھیں ان کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور اندرونی فتنے کو بھی دبا دیا اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ہر موقع پر حضرت خلیفہ اسی الاول نے اس فتنہ کو دبایا اور کتنے زور اور شدت سے اس کو دبایا اور کس طرح دشمن کا منہ بند کیا.آپ فرماتے ہیں:

Page 347

$2004 342 مسرور چونکہ خلافت کا انتخاب عقل انسانی کا کام نہیں ، عقل نہیں تجویز کر سکتی کہ کس کے قومی قوی ہیں کس میں قوت انسانیہ کامل طور پر رکھی گئی ہے.اس لئے جناب الہی نے خود فیصلہ کر دیا ہے که وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ خلیفہ بناتا الله تعالیٰ ہی کا کام ہے وَعَدَهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ.حقائق الفرقان جلد.سوم صفحه (٢٥٥ فرمایا کہ: ” مجھے نہ کسی انسان نے ، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رداء کو مجھ سے چھین لئے“.(الفرقان، خلافت نمبر مئی جون ١٩٦٧ء صفحه (٢٨) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے.یہ کام تو ایک ملاں بھی کر سکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفے کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں.بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے“.(الفرقان، خلافت نمبر.مئی جون ١٩٦٧ء صفحه ٢٨) پھر دنیا نے دیکھا کہ آپ کے ان پر زور خطابات سے اور جو آپ نے اس وقت براہ راست انجمن پر بھی ایکشن لئے ، جتنے وہ لوگ باتیں کرنے والے تھے وہ سب بھیگی بلی بن گئے، جھاگ کی طرح بیٹھ گئے.اور وقتی طور پر ان میں کبھی کبھی ابال آتا رہتا تھا اور مختلف صورتوں میں کہیں نہ کہیں جا کر فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن انجام کا رسوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملا.پھر حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات ہوئی.اس کے بعد پھر انہیں لوگوں نے سراٹھایا اور ایک فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی ، جماعت میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور بہت سارے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی طرف مائل بھی کر لیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر خلافت کا انتخاب ہوا تو حضرت مرزا

Page 348

$2004 343 خطبات مسرور بشیرالدین محمود احمد کوہی جماعت خلیفہ منتخب کرے گی.اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے ان شور مچانے والوں کو ، انجمن کے عمائدین کو یہ بھی کہ دیا کہ مجھے کوئی شوق نہیں خلیفہ بنے کا تم جس کے ہاتھ پر کہتے ہو میں بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.جماعت جس کو چنے گی میں اسی کو خلیفہ مان لوں گا.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ان لوگوں کو پتہ تھا کہ اگر انتخاب خلافت ہوا تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی خلیفہ منتخب ہوں گے.اس لئے وہ اس طرف نہیں آتے تھے اور یہی کہتے رہے کہ فی الحال خلیفہ کا انتخاب نہ کروایا جائے.ایک، دو، چار دن کی بات نہیں ، چند مہینوں کے لئے اس کو آگے ٹال دیا جائے ، آگے کر دیا جائے اور یہ بات کسی طرح بھی جماعت کو قابل قبول نہ تھی.جماعت تو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونا چاہتی تھی.آخر جماعت نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد کوخلیفہ منتخب کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.اور اس وقت بھی مخالفین کا یہ خیال تھا کہ جماعت کے کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور خزانہ ہمارے پاس ہے اس لئے چند دنوں بعد ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ رکھا اور خوف کی حالت کو پھر امن میں بدل دیا اور دشمنوں کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ان کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں.پھر خلافت ثانیہ میں 1934ء میں ایک فتنہ اٹھا اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دبا دیا اور جماعت کو مخالفین کوئی گزند نہیں پہنچا سکے.ان کا دعویٰ تھا کہ ہم پتہ نہیں کیا کر دیں گے.پھر 1953ء میں فسادات اٹھے.جب پاکستان بن گیا اس وقت دشمن کا خیال تھا کہ اب ہماری حکومت ہے یہاں انگریزوں کی حکومت نہیں رہی اب یہاں انصاف تو ہم نے ہی دینا ہے اور ان لوگوں کو انصاف کا پتہ ہی کچھ نہیں تھا اس لئے اب تو جماعت ختم ہوئی کہ ہوئی.لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو ان سخت حالات اور خوف کی حالت سے ایسا نکالا کہ دنیا نے دیکھا کہ جو دشمن تھے وہ تو تباہ و برباد ہو گئے ، وہ تو ذلیل وخوار ہو گئے لیکن جماعت

Page 349

344 $2004 خطبات مسرور احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی شان کے ساتھ پھر آگے قدم بڑھاتی ہوئی چلتی چلی گئی.غرض کہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور 52 سال رہا اور ہر روز ایک نئی ترقی لے کر آتا تھا.کئی زبانوں میں آپ کے زمانے میں تراجم قرآن کریم ہوئے.بیرونی دنیا میں مشن قائم ہوئے.افریقہ میں ، یورپ میں مشنز قائم ہوئے اور بڑی ذاتی دلچسپی لے کر ذاتی ہدایات دے کر.اس زمانے میں دفاتر کا بھی نظام اتنا نہیں تھا.خود مبلغین کو براہ راست ہدایات دے دے کر اس نظام کو آگے بڑھایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہندو پاکستان میں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی اور خاص طور پر افریقہ میں لاکھوں کی تعداد میں سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوئیں.پھر دیکھیں آپ نے کس طرح انتظامی ڈھانچے بنائے.صدرانجمن احمد یہ کا قیام تو پہلے ہی تھا اس میں تبدیلیاں کیں، ردو بدل کی.اس کو اس طرح ڈھالا کہ انجمن اپنے آپ کو صرف انجمن ہی سمجھے اور کبھی خلافت کے لئے خطرہ نہ بن سکے.پھر ذیلی تنظیموں کا قیام ہے، انصار اللہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ، آپ کی دُور رس نظر نے دیکھ لیا کہ اگر میں اس طرح جماعت کی تربیت کروں گا کہ ہر عمر کے لوگوں کو ان کی ذمہ واری کا احساس دلا دوں اور وہ یہ سمجھنے لگیں کہ اب ہم ہی ہیں جنہوں نے جماعت کو سنبھالنا ہے اور ہر فتنے سے بچانا ہے.اپنے اندر نیک تبدیلی اور پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے.اگر یہ احساس پیدا ہو جائے قوم کے لوگوں میں تو پھر اس قوم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.تو دیکھ لیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے ہر ملک میں یہ ذیلی تنظیمیں قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے فعال ہیں اور آج جرمنی کی خدام الاحمدیہ بھی اسی سلسلے میں اپنا اجتماع کر رہی ہے.تو یہ بھی ایک بہت بڑی انتظامی بات تھی جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت میں جاری فرمائی.پھر تحریک جدید کا قیام ہے.جب دشمن یہ کہہ رہا تھا کہ میں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا اس وقت

Page 350

$2004 345 خطبات مسرور آپ نے تحریک جدید کا قیام کیا اور پھر بیرون ممالک میں مشن قائم ہوئے.پھر وقف جدید کا قیام ہے جو پاکستان اور ہندوستان کی دیہاتی جماعتوں میں تبلیغ کے لئے تھا.اب تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں پھیل گئی.غرضیکہ اتنے کام ہوئے ہیں اور اس شخص کو جس کو اپنے زعم میں بڑے پڑھے لکھے اور عقلمند اور جماعت کو چلانے کا دعویٰ کرنے والے سمجھتے تھے کہ یہ بچہ ہے اس کے ہاتھ میں خلافت کی باگ ڈور ہے اور یہ کچھ نہیں کر سکتا اسی بچے نے دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا.اور تمام دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کو بھی پورے کرنے والے ہو گئے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ: جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کل خیالات کو یکجا جمع کرنا ہے.اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے.ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کر ہو.ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھا تا اچھا ہے کہ نہیں یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں.ممکن ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بھی اعلی ڈگری یافتہ ہوں.اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے، ماتختوں سے سلوک کرنا ہے یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی.اسی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہوگا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا.خالد بن ولید جیسی تلوار کس نے چلائی ؟ مگر خلیفہ ابوبکر ہوئے.اگر آج کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک بچی ہوئی ہے تو وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا.خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا.خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا.خالد بن ولید نے 60 آدمیوں کے ہمراہ 60 ہزار آدمیوں پر فتح پائی.عمر نے ایسا نہیں کیا.(حضرت عمرؓ نے) مگر خلیفہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہوئے.حضرت عثمان کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے، ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا.

Page 351

$2004 346 خطبات مسرور سارے جہان کو اس نے فتح کیا، مگر خلیفہ عثمان ہی ہوئے.پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج، کوئی متواضع ، کوئی منکسر المزاج ہوتے ہیں، ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے.جس کو معاملات ایسے پیش آتے ہیں.(خطبات محمود جلد٤ صفحه ٧٣،٧٢) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا تو اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکرلیں گی وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.خلافت حقه اسلامیه صفحه (۱۸ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جس بھی حکومت نے ٹکر لی اس کے اپنے ٹکڑے ہو گئے.اور پھر خلافت رابعہ میں بھی یہی نظارے ہمیں نظر آئے.ایک اور جگہ حضرت خلیفہ ثانی نے چھٹی ساتویں خلافت تک کا بھی ذکر کیا ہوا ہے.تفصیل تو میں آگے بتاتا ہوں.حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں کہ یہ سب لوگ مل کر جو فیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کے لئے قبول ہو گا.یعنی انتخاب خلافت کمیٹی کے بارے میں.اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہو گا اور جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہو گا ، اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہوگا ، وہ بڑا ہو یا چھوٹا ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا.پھر آپ فرماتے ہیں کہ خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں ، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے.جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں.(خطبه جمعه ٢٤ جنوری ١٩٣٦ء مندرجه الفضل ۳۱ / جنوری ١٩٣٦ء)

Page 352

$2004 347 مسرور پھر خلافت ثالثہ کا دور آیا.حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی وفات کے بعد پھر اندرونی اور بیرونی دشمن تیز ہوا.لیکن کیا ہوا ؟ کیا جماعت میں کوئی کمی ہوئی ؟ نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق پہلے سے بڑھ کر ترقیات کے دروازے کھولے.مشنوں میں مزید توسیع ہوئی.افریقہ میں بھی ، یورپ میں بھی اور پھر افریقہ کے دورے کے دوران حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں سکیم کا اجراء فرمایا.اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، ایک رؤیا کے مطابق.ہسپتال کھولے گئے.سکول کھولے گئے ، ہسپتالوں میں اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مریض شفا پاچکے ہیں.گورنمنٹ کے بڑے بڑے ہسپتالوں کو چھوڑ کر ہمارے چھوٹے چھوٹے دور دراز کے دیہاتی ہسپتالوں میں لوگ اپنا علاج کرانے آتے ہیں.بلکہ سرکاری افسران بھی اس طرف آتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے ہسپتالوں میں جو واقفین زندگی ڈاکٹر ز کام کر رہے ہیں وہ ایک جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں.اور ان کے پیچھے خلیفہ وقت کی دعاؤں کا بھی حصہ ہے.اور اللہ تعالیٰ اپنے خلیفہ کی لاج رکھنے کے لئے ان دعاؤں کو سنتا ہے اور جہاں بھی کوئی کارکن اس جذبے سے کام کر رہا ہو کہ میں دین کی خدمت کر رہا ہوں اور میرے پیچھے خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی اس میں بے انتہا برکت ڈالتا ہے.پھر سکولوں میں ہزاروں لاکھوں طلباء اب تک پڑھ چکے ہیں بڑی بڑی پوسٹ پر قائم ہیں.ہمارے گھانا کے ڈپٹی منسٹر آف انرجی جو ہیں انہوں نے احمد یہ سکول میں شروع میں کچھ سال تعلیم حاصل کی.پھر ایک سکول سے دوسرے سکول میں چلے گئے وہ بھی احمد یہ سکول ہی تھا.اور آج ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑا رتبہ دیا ہوا ہے.اسی طرح اور بہت سارے لوگ ہیں.افریقن ملکوں میں جائیں تو دیکھ کر پتہ لگتا ہے.یہ سب جو فیض ہیں اس وجہ سے ہیں کہ ڈاکٹر ہوں یا ٹیچر ، ایک جذبے کے تحت کام کر رہے ہیں اور یہ سوچ ان کے پیچھے ہوتی ہے کہ ہم جو بھی کام کر رہے ہیں ایک تو ہم نے دعا کرنی ہے، خود اللہ تعالیٰ سےفضل مانگنا ہے اور پھر خلیفتہ امسیح کو لکھتے احمدیہ

Page 353

$2004 348 خطبات مسرور چلے جانا ہے تا کہ ان کی دعاؤں سے بھی ہم حصہ پاتے رہیں.اور یہ جو افریقن ممالک میں ہمارے سکول اور کالج ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کا بھی ذریعہ بنے ہوئے ہیں.کل ہی سیرالیون کی رہنے والی خاتون بچوں کے ساتھ مجھے ملنے آئیں.وہ کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں تو خاندان میں اسلام کا پتہ ہی کچھ نہیں تھا.احمد یہ سکول میں میں نے تعلیم حاصل کی اور وہیں سے مجھے احمدیت کا پتہ لگا اور بڑے اخلاص اور وفا کا اظہار کر رہی تھیں.وہ بڑی مخلص احمدی خاتون ہیں.اسی طرح اور بہت سے ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں جو ہمارے ان سکولوں سے تعلیم حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں شامل ہوئے اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.پھر خلافت ثالثہ میں ہی آپ دیکھ لیں ، 74ء کا فساد ہوا اس وقت ان کا خیال تھا کہ اب تو احمدیت ختم ہوئی کہ ہوئی، ایک قانون پاس کر دیا کہ ہم ان کو غیر مسلم قرار دے دیں گے تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا.کئی شہید کئے گئے ، جانی نقصان کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی پہنچایا گیا.کاروبارلوٹے گئے ، گھروں کو آگئیں لگا دی گئیں، دکانوں کو آگئیں لگادی گئیں، کارخانوں کو آگئیں لگادی گئیں.لیکن ہوا کیا ؟ کیا احمدیت ختم ہوگئی.پہلے سے بڑھ کر اس کا قدم اور تیز ہو گیا، باپ کو بیٹے کے سامنے قتل کیا گیا، بیٹے کو باپ کے سامنے قتل کیا تو کیا خاندان کے باقی افراد نے احمدیت چھوڑ دی؟.ان میں اور زیادہ ثبات قدم پیدا ہوا ، ان میں اور زیادہ اخلاص پیدا ہوا.ان میں اور زیادہ جماعت کے ساتھ تعلق پیدا ہوا.دشمن کی کوئی بھی تدبیر کبھی بھی کارگر نہیں ہوئی اور کبھی کسی کے ایمان میں لغزش نہیں آئی.اور پھر اب دیکھیں کہ ان نیکیوں پر قائم رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو جو جانی نقصان ہوا یا جن خاندانوں کو اپنے پیاروں کا جانی نقصان برداشت کرنا پڑا، اگلے جہان میں تو اللہ تعالیٰ نے جزا دینی ہے اللہ نے اُن کو اس دنیا میں بھی ان کو بے انتہا نوازا ہے.مالی لحاظ سے بھی اور ایمان کے لحاظ سے بھی.جو پاکستان میں رہے ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے کاروباروں میں برکت دی.کئی لوگ ملتے ہیں جن کے ہزاروں کے کاروبار

Page 354

$2004 349 خطبات مسرور تھے اب لاکھوں میں پہنچے ہوئے ہیں.جن کے لاکھوں کے کاروبار تباہ کئے گئے تھے ان کے کاروبار کروڑوں میں پہنچے ہوئے ہیں اور آپ لوگ بھی جو یہاں نکلے ، اسی وجہ سے نکلے، آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی لئے نکلنے کا موقع دیا کہ جماعت پر پاکستان میں تنگیاں اور سختیاں تھیں.اور یہاں آ کے اگر نظر کریں پچھلے حالات میں اور اب کے حالات میں تو آپ کو خود نظر آ جائے گا کہ آپ پہ اللہ تعالیٰ کے کتنے فضل ہوئے ہیں.مالی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے کتنا آپ کو مضبوط کر دیا ہے.اب اس کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ لوگ اس کے آگے مزید جھکیں اور اس کے عبادت گزار بنتے چلے جائیں.اپنی نسلوں میں بھی یہ بات پیدا کریں کہ سب کچھ جو تم فیض پارہے ہو یہ اس سختی اور تنگی کا فیض ہے جو جماعت پر پاکستان میں تھی اور آج ہم اس کی وجہ سے کشائش میں بیٹھے ہوئے ہیں.کیونکہ یہ ہمیشہ یادرکھیں کہ نیک اعمال بجالانے کی شرط قائم ہے اور ہر وقت قائم ہے.پھر خلافت رابعہ کا دور آیا.پھر دشمن نے کوشش کی کسی طرح فتنہ وفساد پیدا کیا جائے لیکن جماعت ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو گئی.اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا.انتخاب خلافت کے ان حالات کے بعد جو بڑی سختی کے چند دن یا ایک آدھ دن تھے دشمن نے جب وہ سکیم ناکام ہوتی دیکھی تو پھر دو سال بعد ہی خلافت رابعہ میں، 84 ء میں ، پھر ایک اور خوفناک سکیم بنائی کہ خلیفہ المسیح کو بالکل عضو معطل کی طرح کر کے رکھ دو.وہ کوئی کام نہ کر سکے.اور جب وہ کوئی کام نہیں کر سکے گا تو جماعت میں بے چینی پیدا ہوگی اور جب جماعت میں بے چینی پیدا ہو گی تو ظاہر ہے وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتی چلی جائے گی ، اس کا شیرازہ بکھرتا چلا جائے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر پر اپنی تدبیر کو کیسے حاوی کیا.ان کی ہر تد بیر کو کس طرح الٹا کے مارا کہ حضرت خلیفہ المسح الرابع کے وہاں سے نکلنے کے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چھپ کے نکلے.کھلے طور پر نکلے اور سب کے سامنے نکلے اور کراچی سے دن کے وقت یا صبح شروع وقت کی ہی وہ فلائیٹ تھی.

Page 355

$2004 350 خطبات مسرور بہر حال وہاں کوشش بھی کی گئی کہ روکا جائے لیکن وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور وہ نہیں پہچان سکے.جماعت میں اس سے بڑی سچائی کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت کی ہے تو جو اس وقت سلوک ہوا تھا اس سلوک کی کچھ جھلکیاں ہم نے اس ہجرت کے وقت بھی دیکھیں اور جس سے ہمارے ایمانوں کو مزید تقویت پہنچی ہمارے ایمان مزید مضبوط ہوئے.پھر یہاں پہنچ کر بیرونی ممالک میں جماعتوں کو مشنوں کو منظم کرنے کا کام بہت وسعت اختیار کر گیا.اور اسی طرح دعوت الی اللہ کا کام بھی بہت وسیع ہو گیا.اور پھر لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں جماعت میں داخل ہونا شروع ہو گئے، پھر ایم ٹی اے کا اجراء ہوا، ایک ملک میں تو پلان تھا کہ یہاں خلیفہ اسی کی آواز کوروک دیا جائے لیکن ایم ڈی اے نے تمام دنیا میں وہ آواز پہنچا دی اور دشمن کی تدبیریں پھر نا کام ہو کر ان پر لوٹ گئیں.پہلے تو مسجد اقصیٰ ربوہ میں خلیفہ امسیح کا خطبہ سنتے تھے اب ہر شہر میں، ہر گاؤں میں، ہر گھر میں یہ آواز پہنچ رہی ہے.پھر افریقہ میں خدمت انسانیت کے کام کو اس دور میں بڑی وسعت دی گئی.غرض کہ ایک انتہائی ترقی کا دور تھا اور ہر روز جو دن چڑھ رہا تھا وہ ایک نئی ترقی لے کر آرہا تھا.دشمن خیال کرتا ہے یا انسان اپنی سوچ سے بعض اوقات سوچتا ہے کہ یہاں انتہاء ہوگئی اور اب اس سے زیادہ ترقی کیا ہوگی.لیکن اللہ تعالیٰ ایسے نظارے دکھاتا ہے کہ انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی.پھر آپ کی وفات کے بعد دشمنوں کا خیال تھا کہ اب تو یہ جماعت گئی کہ گئی اب بظاہر کوئی نظر نہیں آتا کہ اس جماعت کو سنبھال سکے.لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے سب نے دیکھے.بچوں نے بھی اور نو جوانوں نے بھی ،مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی اپنے ایمانوں کو مضبوط کیا حتی کہ غیر از جماعت بھی کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان سب نے ہی یہ نظارے دیکھے کیونکہ ایم ٹی اے کے ذریعے یہ ہر جگہ پہنچ رہے تھے.لندن میں مجھے کسی نے بتایا کہ ایک سکھ نے کہا کہ ہم بڑے حیران ہوئے آپ

Page 356

$2004 351 خطبات مسرور لوگوں کا یہ سارا نظام دیکھ کر اور پھر انتخاب خلافت کا سارا نظارہ دیکھ کر.پاکستان میں ہمارے ڈاکٹر نوری صاحب کے پاس ایک غیر از جماعت بڑے پیر ہیں یا عالم ہیں وہ آئے ( مریض تھے اس لئے آتے رہے ) اور ساری باتیں پوچھتے رہے کہ کس طرح ہوا، کیا ہوا اور پھر بتایا کہ میں نے بھی ایم ٹی اے پر دیکھا تھا.دشمن بھی وہ جس طرح کہتے ہیں نہ کہ کھلے طور پر تو نہیں دیکھتے لیکن چھپ چھپ کر ایم ٹی اے دیکھتے ہیں.یہ سارے نظارے دیکھے اور ڈاکٹر صاحب کو کہنے لگے کہ یہ ایسا نظارہ تھا جو حیرت انگیز تھا.اور باتوں میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ٹھیک ہے آپ کو پھر تسلیم کرنا چاہئے کہ جماعت احمد یہ بچی ہے کہتے ہیں کہ یہ تو میں نہیں کہتا، یہ مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ جماعت احمد یہ بچی نہیں ہے لیکن یہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت آپ کے ساتھ ہے.تو جب اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہمارے ساتھ ہو گئی تو پھر اور کیا چیز رہ گئی.یہ آنکھوں پر پردے پڑے ہونے کی بات ہے اور دلوں پر پردے پڑے ہونے کی بات ہی ہے.اب اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو خلافت کے منصب پر فائز کیا کہ اگر دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو شاید دنیا کے لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں.اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں لیکن خدا تعالیٰ دنیا کا محتاج نہیں ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ: ”خوب یادرکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے.حضرت خلیفتہ اسی مولوی نورالدین صاحب اپنی خلافت کے زمانے میں چھ سال متواتر اس مسئلے پر زور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے، نہ انسان.اور در حقیقت قرآن شریف کو غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالٰی نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں.(انوارالعلوم جلد ۲ صفحه ۱۱) پھر آپ فرماتے ہیں:

Page 357

$2004 352 مسرور خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانے کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے اگر وہ احمق، جاہل اور بیوقوف ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ: ”اس کے یہ معنی ہیں کہ خلیفہ خود خدا بناتا ہے اس کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جب کسی کو خدا خلیفہ بناتا ہے تو اسے اپنی صفات بخشتا ہے.اور اگر وہ اسے اپنی صفات نہیں بخشا تو خدا تعالیٰ کے خود خلیفہ بنانے کے معنی ہی کیا ہیں“.(الفرقان مئی جون ١٩٦٧ء صفحه ٣٧) میں جب اپنے آپ کو دیکھتا ہوں، اپنی نااہلی او کم مائیگی کو دیکھتا ہوں اور میرے سے زیادہ میرا خدا مجھے جانتا ہے کہ میرے اندر کیا ہے تو اس وقت ہر لمحے اللہ تعالیٰ کی قدرت یاد آ جاتی ہے.مکرم میر محمود احمد صاحب نے ایک شعر کہا ؎ مجھ کو بس ہے میرا مولیٰ، میرا مولیٰ مجھے کو بس کیا خدا کافی نہیں ہے، کی شہادت دیکھ لی اس کی بیک گراؤنڈ جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک تو کیا خدا کافی نہیں کی شہادت الیس اللہ کی انگوٹی ہے جوخلیفہ اسے کوملتی ہے.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں تھیں جو آپ کے تین بیٹوں کو ملیں.اور جو مولی بس، کی انگوٹھی تھی (ایک انگوٹھی جس پر مولی بس کا الہام کندہ تھا ) وہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے حصہ میں آئی تھی اور یہ میں نے پہنچی ہوئی ہے.اس کے بعد میرے والد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو ملی اور ان کی وفات کے بعد میری والدہ نے مجھے دے دی.میں تو اس کو بڑی سنبھال کے رکھتا تھا، پہنتا نہیں تھا لیکن انتخاب خلافت کے بعد میں نے یہ پہنی شروع کی ہے.تو مولی بس کے نظارے اور کیا خدا کافی نہیں ہے کے نظارے مجھے تو ہر لمح نظر آتے ہیں کیونکہ اگر ویسے میں دیکھوں تو میری کوئی حیثیت نہیں ہے.لوگوں کے دلوں میں محبت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.کوئی انسان محبت پیدا نہیں کر سکتا.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال

Page 358

$2004 353 خطبات مسرور کر کے دکھا دے.تو مخالفوں کی خوشیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پامال کیا.اب بھی بعض مخالفین شور مچاتے ہیں، منافقین بھی بعض باتیں کر جاتے ہیں.وہ چاہے جتنا مرضی شور مچالیس ، جتنا مرضی زور لگا لیں ، خلافت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اور جب تک اللہ چاہے گا یہ رہے گی اور جب چاہے گا مجھے اٹھا لے گا اور کوئی نیا خلیفہ آ جائے گا.لیکن حضرت خلیفہ اول کے الفاظ میں میں کہتا ہوں کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ ہٹا سکے یا فتنہ پیدا کر سکے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہے اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہے.افریقہ میں بھی میں دورہ پر گیا ہوں ایسے لوگ جنہوں نے کبھی دیکھا نہیں تھا اس طرح ٹوٹ کر انہوں نے محبت کا اظہار کیا ہے جس طرح برسوں کے بچھڑے ملے ہوتے ہیں یہ سب کیا ہے؟ جس طرح ان کے چہروں پر خوشی کا اظہار میں نے دیکھا ہے، یہ سب کیا ہے؟.جس طرح سفر کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر کے وہ لوگ آئے ، یہ سب کچھ کیا ہے؟.کیا دنیا دکھاوے کے لئے یہ سب خلافت سے محبت ہے جو ان دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے.تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے وہ انسانی کوششوں سے کہاں نکل سکتی ہے.جتنا مرضی کوئی چاہے، زور لگا لے.عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو با قاعدہ میں نے آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے.تو یہ سب محبت ہی ہے جو خلافت کی ان کے دلوں میں قائم ہے.بچے اس طرح بعض دفعہ دائیں بائیں سے نکل کے سیکیورٹی کو توڑتے ہوئے آ کے چمٹ جاتے تھے.وہ محبت تو اللہ تعالیٰ نے بچوں کے دل میں پیدا کی ہے، کسی کے کہنے پہ تو نہیں آسکتے.اور پھر ان کے ماں باپ اور دوسرے ارد گر دلوگ جو ا کٹھے ہوتے تھے ان کی محبت بھی دیکھنے والی ہوتی تھی.پھر اس بچے کو اس لئے وہ پیار کرتے تھے کہ تم خلیفہ وقت سے چمٹ کے اور اس سے پیار لے کر آئے ہو.یہ سب باتیں احمدیت کی سچائی کی دلیل ہیں.اگر کسی کی نظر ہو دیکھنے کی تبھی دیکھ سکتا ہے.چند لوگ اگر مرتد ہوتے ہیں یا منافقانہ باتیں کرتے ہیں تو ان کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے.ایک بدفطرت اگر جاتا ہے تو جائے، اچھا ہے خس کم جہاں پاک.وہ اپنے بدانجام کی طرف قدم بڑھا رہا ہے وہی.

Page 359

354 $2004 خطبات مسرور اس کا انجام مقدر تھا جس کی طرف جارہا ہے.لیکن جب اس کے مقابل پر ایک جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سینکڑوں سعید روحوں کو احمدیت میں داخل کرتا ہے.یا درکھیں وہ بچے وعدوں والا خدا ہے.وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے.وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا.وہ آج بھی اپنے مسیح سے کئے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے.وہ آج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے جس طرح پہلے وہ نو از تارہا ہے اور انشاء اللہ نوازتا رہے گا.پس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کہیں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کر کے خود ٹھو کر نہ کھا جائے.اپنی عاقبت خراب نہ کر لے.پس دعائیں کرتے ہوئے اور اس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کا بال بھی بر کا نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 360

خطبات مسرور الله $2004 355 ہمیشہ اپنے چندوں کے حساب کو صاف رکھنا چاہئے.پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس طرح نازل ہوتے ہیں ۲۸ مئی ۲۰۰۴ءء بمطابق ۲۸ / هجرت ۱۳۸۳ ہجری شمسی بمقام گروس گراؤ.جرمنی مالی قربانی کے فضائل اور اہمیت ہی جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی کا معیار بہت اعلیٰ ہے.زکوۃ کی اہمیت اور اس کی ادائیگی کی طرف توجہ

Page 361

خطبات مسرور $2004 356 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (سورة ال عمران آیت نمبر: 93) جماعت کا مالی سال 30 / جون کو ختم ہوتا ہے، اور دو تین مہینے پہلے سے ہر ملک کا جو مال کا شعبہ ہے ان کو اپنے لازمی چندہ جات کا بجٹ پورا کرنے کی فکر پڑ جاتی ہے.اور آخری ایک مہینہ میں تو یہ فکر بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے.اور فکر کے اظہار کے خط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دعا کریں بڑی فکر ہے، بجٹ میں اتنی کمی ہے، اتنی کمی ہے.بہر حال ان کی یہ فکر اپنی جگہ لیکن یہ بھی تسلی رہتی ہے کہ یہ الہی سلسلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہماری ضرورتوں کا خوب اندازہ ہے.اس لئے وہ انشاء اللہ تعالیٰ ان ضروریات کو پورا کرنے کے بھی اسی طرح سامان پیدا فرمائے گا جس طرح ضروریات کو بڑھا رہا ہے.تاہم کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نصیحت اور یاد دہانی کرواتے رہو اس لئے اس حکم کے ماتحت آج کے خطبے میں میں اس طرف کچھ توجہ دلاؤں گا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف جگہوں پہ مالی قربانی کی طرف توجہ بھی دلائی ہے اور ترغیب بھی دلائی ہے اور مومن کی نشانی بتائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے نہیں گھبراتے.اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے یہی فرمایا کہ تم نیکی کو ہرگز حاصل نہیں کر سکتے ، تمہیں نیکیاں بجالانے کی توفیق ہرگز نہیں مل سکتی جب تک تمہارے دل کی کنجوسی اور نخل ڈور نہیں ہوتا اور تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور اس کی مخلوق کی راہ میں وہ مال خرچ نہیں کرتے جو تمہیں بہت عزیز

Page 362

$2004 357 خطبات مسرور ہے.جب تک تم اپنے خرچ کے حساب کو صاف نہیں کرتے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کے حساب کو صاف نہیں رکھتے ، جب تک تم اس مال میں سے جو تمہیں بہت عزیز ہے، جس سے تمہیں بڑی محبت ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور یہ مال جو ہے اپنا جب تک تم اپنے مال کو صرف اپنے پر خرچ کرنے کی سوچتے رہو گے یا سنبھال کر تجوریوں میں بند کر لو گے، ان کنجوسوں اور بخیلوں کی طرح جو اپنی آل اولا د پر بھی بعض اوقات مال خرچ نہیں کرتے اور جمع کرتے رہتے ہیں اور آخر کار اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اور مال ان کے کچھ بھی کام نہیں آتا.فرمایا یہ بھی یاد رکھو کہ جو تم خرچ کرتے ہو اور جتنا تم بجٹ لکھواتے ہو اور جتنی تمہاری آمد ہے یہ سب اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے.اس لئے اس سے معاملہ ہمیشہ صاف رکھو.نیکی کا ثواب اللہ تعالیٰ سے حاصل کرنے کے لئے اپنی تشخیص بھی صحیح کر واؤ اور ادائیگیاں بھی صحیح رکھو تاکہ تمہاری روحانی حالت بھی بہتر ہو اور تم نیکیوں میں ترقی کرسکو.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : "پھر روحانی طور پر اس انفاق کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے اپنا مال خرچ کرتا ہے وہ آہستہ آہستہ دین میں مضبوط ہوتا جاتا ہے اسی وجہ سے میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو بارہا کہا ہے.کہ جو شخص دینی لحاظ سے کمزور ہو وہ اگر اور نیکیوں میں حصہ نہ لے سکے اس سے چندہ ضرور لیا جائے کیونکہ جب وہ مال خرچ کرے گا تو اس سے اس کو ایمانی طاقت حاصل ہوگی اور اس کی جرات اور دلیری بڑھے گی اور وہ دوسری نیکیوں میں بھی حصہ لینے لگ جائے گا“.(تفسیر کبیر جلد دوم صفحه ٦١٢) ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلا کت دے اور اس کا مال و متاع برباد کر دے.(بخاری کتاب الزكواة باب قول الله فاما من اعطى واتقى........

Page 363

$2004 358 مسرور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہیں جو خرچ کرنے والے سخنی کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے اخراجات کم کریں اور اپنے معیار قربانی کو بڑھا ئیں اور عموماً کم آمدنی والے لوگ قربانی کے یہ معیار حاصل کرنے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں.میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ اندازے سے بجٹ لکھوا دیتے ہیں خاص طور پر ہماری جماعت میں زمیندار طبقہ ہے ان کو صحیح طرح پتہ نہیں ہوتا اور خاص طور پر پاکستان میں زمینداری کا انحصار نہری علاقوں میں جہاں جاگیر داروں اور وڈیروں نے پانی پر مکمل طور پر قبضہ کیا ہوتا ہے اور اپنی زمینیں سیراب کر رہے ہوتے ہیں پانی کو آگے نہیں جانے دیتے اور چھوٹے زمیندار بیچارے پانی نہ ملنے کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہوتے ہیں.(آپ میں سے اکثر یہاں زمینداروں میں سے بھی آئے ہوئے ہیں خوب اندازہ ہوگا.تو نیچے ان کی فصلیں بھی اچھی نہیں ہوتیں لیکن ایسے مخلصین بھی ہیں کیونکہ بجٹ لکھوا دیا ہوتا ہے اس لئے قرض لے کر بھی اس کی ادائیگی کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور جب ان کو کہا جائے کہ رعایت شرح لے لو کیونکہ اگر آمد نہیں ہوتی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تو کہتے ہیں کہ اگر قرض لے کر ہم اپنی ذات پہ خرچ کر سکتے ہیں تو قرض لے کر اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کیوں نہیں کر سکتے.اور ان کا یہی نقطۂ نظر ہوتا ہے کہ شاید اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ فصلوں میں برکت ڈال دے.لیکن بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے.بہر حال یہ تو ہر ایک کا اللہ تعالیٰ سے معاملہ ہے، تو کل کا معاملہ ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا معیار ہوتا ہے اس لئے میں یہ تو نہیں کہتا کہ قرض لے کر اپنے چندے ادا کرو.طاقت سے بڑھ کر بھی اپنے اوپر تکلیف وارد نہیں کرنی چاہئے ، اپنے آپ کو تکلیف میں نہیں ڈالنا چاہئے.لیکن جہاں تک اخراجات میں کمی کر کے اپنے اخراجات کو، ایسے اخراجات کو جن کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے جو ملتوی کئے جاسکتے ہوں ان کو ٹالا جا سکتا ہوان کو ٹال کر اپنے چندے ضرور ادا کرنے چاہئیں، خاص طور پر موصی صاحبان کے لئے میں یہاں کہتا

Page 364

$2004 359 خطبات مسرور ہوں ، ان کو تو خاص طور پر اس بارے میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے.اس انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ دفتر ہمارا حساب بھیجے گا یا شعبہ مال یاد کروائے گا تو پھر ہم نے چندہ ادا کرنا ہے.کیونکہ پھر یہ بڑھتے بڑھتے اس قدر ہو جاتا ہے کہ پھر دینے میں مشکل پیش آتی ہے.چندے کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے.پھر اتنی طاقت ہی نہیں رہتی کہ یکمشت چندہ ادا کرسکیں.اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ کچھ رعایت کی جائے اور رعایت کی قسطیں بھی اگر مقرر کی جائیں تو وہ چھ ماہ سے زیادہ کی تو نہیں ہوسکتیں.اس طرح خاص طور پر موصیان کی وصیت پر زد پڑتی ہے تو پھر ظاہر ہے ان کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور پھر اس تکلیف کا اظہار بھی کرتے ہیں.تو اس لئے پہلے ہی چاہئے کہ سوچ سمجھ کر اپنے حسابات صاف رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں.اور جب بھی آمد ہو اس آمد میں جو حصہ بھی ہے نکالیں، موصی صاحبان بھی اور دوسرے کمانے والے بھی جنہوں نے چندہ عام دینا ہے،1/16 حصہ، اپنا چندہ اپنی آمد میں سے ساتھ کے ساتھ ادا کرتے رہا کریں.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قصہ بیان کیا کہ ایک آدمی بے آب و گیاہ جنگل میں جارہا تھا.بادل گھرے ہوئے تھے اس نے بادل میں سے ایک آواز سنی کہ اے بادل! فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر.وہ بادل اس طرف کو ہٹ گیا اور پھر پتھریلی سطح مرتفع پر بارش برسی ، کوئی چھوٹی سی پہاڑی تھی ) اور پھر بارش کے نتیجہ میں پانی چھوٹے سے نالے میں بہنے لگا.وہ شخص بھی اس نالے کے ساتھ ساتھ اس کے کنارے کنارے چلنا شروع ہو گیا اور وہ نالہ جا کے ایک باغ میں داخل ہوا، وہاں اس نے دیکھا باغ کا مالک کدال لے کر پانی ادھر ادھر مختلف کیاریوں میں لگا رہا ہے اس آدمی نے باغ کے مالک سے پوچھا اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس مسافر نے سنا تھا، ایک نظارے میں آواز اس کو آئی تھی.پھر باغ کے مالک نے اس مسافر سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے ! تم مجھ سے میرا نام کیوں

Page 365

$2004 360 خطبات مسرور پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا میں نے اس بادل میں سے جس کی بارش کا تم پانی لگارہے ہو یہ آواز سنی تھی کہ اے بادل! فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کر تم نے کون سا ایسا نیک عمل کیا ہے کہ جس کا تجھ کو یہ بدلہ مل رہا ہے.باغ کے مالک نے کہا کہ اگر پوچھتے ہیں تو سنیں کہ میرا طریق کار یہ ہے کہ اس باغ سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں، ایک تہائی اپنے اہل وعیال کے گزارے کے لئے رکھتا ہوں، اور باقی ایک تہائی دوبارہ ان کھیتوں میں بیج کے طور پر استعمال کرتا ہوں“.(مسلم کتاب الزهد باب فضل الانفاق على المساكين و ابن السبيل آج کل بھی کئی لوگوں کا یہ طریق ہے، کئی کاروباری لوگوں نے بتایا کہ وہ روزانہ کی آمد یا ماہوار آمد میں سے جو بھی ہو چندہ نکال کر الگ رکھ دیتے ہیں یا جب بھی وہ اپنے آمد و خرچ کا حساب کرتے ہیں اور اپنے منافع کو الگ کرتے ہیں تو ساتھ ہی وہ چندہ بھی علیحدہ کر دیتے ہیں.بعض ماہوار خرچ کے لئے اپنے کاروبار سے رقم لیتے ہیں اس میں سے چندہ ادا کر دیتے ہیں.اور سال کے آخر میں جب آخری فائنل حساب کر رہے ہوتے ہیں تو پھر اگر کوئی بچت ہو تو اس میں سے وہ چندہ ادا کر دیتے ہیں.تو اس طرح ایک تو ان پر زائد بوجھ نہیں پڑتا کہ سال کے آخر میں چندہ یا چند مہینوں بعد یہ چندہ کس طرح ادا کیا جائے.انسان پر ایک بوجھ ہوتا ہے.کیونکہ پھر اس صورت میں بڑی رقم نکالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.دوسرے بقایا دار ہونے کی فکر نہیں رہتی کہ بقایا دار ہوں گے تو جماعت میں بھی اور مرکز میں بھی سبکی ہو گی.اور تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے کاروبار میں بھی بے انتہاء برکت ڈالتا ہے.اور بعض بتاتے ہیں کہ ان کو یہ فائدہ ہے کہ بے انتہا برکتیں ہوتی ہیں کہ ان کو خود بھی حیرت ہوتی ہے کہ یہ روپیہ آ کہاں سے رہا ہے، یہ کمائی آکہاں سے رہی ہے.بہر حال یہ تو اللہ تعالیٰ کے دینے کے طریقے ہیں انسان بھلا کہاں اللہ تعالیٰ کی دین تک پہنچ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے تم میری راہ میں خرچ کرو تو میں تمہیں سات سو گنا تک بڑھ کر دیتا ہوں بلکہ فرمایا کہ وَاللَّهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ کہ اللہ جسے چاہے جتنا چا ہے بڑھا کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ میں سات سو گنا سے بھی

Page 366

361 $2004 خطبات مسرور زیادہ بڑھا کر دینے کی طاقت ہے.اللہ تعالیٰ تو پابند نہیں ہے کہ صرف سات سو گنا تک ہی بڑھائے.اس کے تو خزانے محدود نہیں ہیں.اس لئے ہمیشہ اپنے چندوں کے حساب کو صاف رکھنا چاہئے اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس طرح نازل ہوتے ہیں، کس طرح برستے ہیں.اب بعض لوگوں میں یہ غلط تصور ہے کہ کیونکہ قواعد میں یہ شرط ہے کہ کسی بھی عہدے کے لئے یا ویسے عام طور پر پوچھا جاتا ہے تو تب بھی کہ چھ مہینے سے زیادہ کا بقایا دار نہ ہو اس لئے ضروری ہے کہ چھ مہینے کے بعد ہی چندہ ادا کرنا ہے، بلاوجہ چھ چھ مہینے تک چندہ ادا نہیں کرتے تو یہ چھ مہینے کی جو شرط ہے صرف زمینداروں کے لئے ہے جن کی آمد کیونکہ زمیندارے پر ہے اور عموماً چھ ماہ کے بعد ہی زمیندار کو آمد ہوتی ہے.اس لئے یہ رعایت ان سے کی جاتی ہے.ماہوار کمانے والے ہوں ملازم پیشہ یا کاروباری لوگ، ان کو تو ماہوار ادائیگی کرنی چاہئے تاکہ بعد میں پھر بوجھ نہ رہے جیسا کہ میں نے کہا، بلا وجہ کی سبکی کا بھی احساس رہتا ہے.اور سب سے بڑا چندہ ادا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے رہتے ہیں.تو بہر حال اگر بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پوری شرح یعنی 1/16 سے چندہ عام ادا نہیں کر سکتے تو اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.یہ ان کے لئے ہے کہ وہ کم شرح سے بھی چندہ دے سکتے ہیں لیکن بہر حال غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے اور بقایا دار نہیں ہونا چاہئے.اور یہاں میں جو جماعتی عہد یداران ہیں، صدر جماعت یا سیکرٹریان مال، ان کو بھی یہ کہتا ہوں کہ ہر فر د جماعت کی کوئی بھی بات ہر عہدیدار کے پاس ایک راز ہے اور امانت ہے اس لئے اس کو باہر نکال کر امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے، یا مجلسوں میں بلا وجہ ذکر کر کے امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے.رعایت یا معافی چندہ کوئی شخص لیتا ہے تو یہ باتیں صرف متعلقہ عہد یداران تک ہی محدود رہنی چاہئیں.یہ نہیں ہے کہ پھر اس غریب کو جتاتے پھریں کہ تم نے رعایت لی ہوئی ہے اس لئے اس کو حقیر سمجھا جائے.بہر حال ہر ایک کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں،.اول تو اکثر میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ رعایت لیتے ہیں ان میں سے اکثریت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جتنی جلد ہو سکے اپنی

Page 367

$2004 362 خطبات مسرور رعایت کی اجازت کو ختم کروا دیں اور چندہ پوری شرح سے ادا کریں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جلد ہی دوبارہ اس نظام میں شامل ہو جائیں جہاں پوری شرح پہ چندہ دیا جا سکے.ایسے لوگ بہت سارے ہیں اور جو نہیں ہیں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.ہر ایک شخص کا خود بھی فرض بنتا ہے کہ اپنا جائزہ لیتا رہے تا کہ جب بھی توفیق ہو اور کچھ حالات بہتر ہوں جتنی جلدی ہو سکے شرح کے مطابق چندہ دینے کی کوشش کی جائے ، اللہ تعالیٰ سب کی توفیق میں اضافہ کرے.بعض دفعہ ایسے حالات آ جاتے ہیں کہ مثلاً ملازمت چھوٹ گئی یا کوئی اور وجہ بن گئی ، زمینداروں کی مثال میں پہلے دے آیا ہوں، کاروباری لوگوں کے بھی کاروبارمندے ہو جاتے ہیں یا بعض دفعہ ایسے حالات پیش آ جاتے ہیں کہ کاروبار کوفروخت کرنا پڑتا ہے، بیچنا پڑتا ہے ختم کرنا پڑتا ہے.تو گو یہ ساری باتیں انسان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہی ہو رہی ہوتی ہیں.اس کا نتیجہ انسان بھگتا ہے، یہ تو ایک علیحدہ مضمون ہے.بہر حال ایسے حالات سے بھی مایوس ہو کر بیٹھ نہیں جانا چاہئے بلکہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہئے، ہاتھ پیر مارتے رہنا چاہئے ، چاہے چھوٹا موٹا کام ہی ہو، انسان کو کسی بھی کام کوضرور کرنا چاہئے.کئی لوگ ایسے ملتے ہیں جو بہت زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں، ان کو بھی اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہئے.اور اس سے مدد مانگتے ہوئے جو بھی چھوٹا موٹا کوئی کام ملے یا کاروبار ہو اس کو دوبارہ نئے سرے سے شروع کرنا چاہئے.اور کسی کام کو بھی عار نہیں سمجھنا چاہئے.اگر اس نیت سے یہ کام شروع کریں گے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ چندے دینے ہیں پھر چندے پورے کرنے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان چھوٹے کاروباروں میں بھی بے انتہا برکت ڈالتا ہے.میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے، بالکل معمولی کاروبار شروع کیا، وسیع ہوتا گیا اور دکانوں کے مالک ہو گئے چھابڑی لگاتے لگاتے.تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جو ہوتے ہیں اگر نیت نیک ہو اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کے ارادے سے ہو.تو پھر وہ برکت بھی بے انتہاڈالتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو مسعود انصاری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی

Page 368

$2004 363 خطبات مسرور اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے ( بعض دفعہ کوئی تحریک ہوتی ) تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا اور وہاں محنت مزدوری کرتا اور اُسے اجرت کے طور پر ایک مد ،تھوڑ اسا، اناج ملتا مزدوری کا ، تو کہتے ہیں وہی صدقہ کر دیا کرتے تھے.اور کہتے ہیں اب ہم میں سے وہ لوگ جو اس طرح محنت مزدوری کرتے تھے اور چھوٹے چھوٹے کام کرتے تھے ان میں سے تقریباً تمام کا یہ حال ہے کہ بعضوں کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار تک ہیں.(بخاری کتاب الاجارة ـ باب من اجر نفسه ليحل على ظهره ثم صدق به.......تو یہ صرف پرانے قصے نہیں ہیں کہ اس زمانے میں ان صحابہ پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اب نہیں ہو رہا بلکہ اب بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنی نیک نیتی کی وجہ سے اور محنت کی وجہ سے لاکھوں میں کھیل رہے ہیں.پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دنیا سے بے رغبتی اور زہد یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے اوپر کسی حلال کو حرام کر لے اور اپنے مال کو برباد کر دے ( یعنی اپنے پاس مال نہ رکھے ) بلکہ زہد یہ ہے کہ تمہیں اپنے مال سے زیادہ خدا کے انعام اور بخشش پر اعتماد ہو.(جامع ترمذی.کتاب الزهد باب ما جاء في الزهادة الدنيا) مال ہو بھی تو یہ نہ سمجھو کہ مال ہمارے پاس ہے ہم سب کچھ کر سکتے ہیں یا اب ہمیں کوئی نقصان نہیں ہو سکتا یا اب ہم کوئی چیز بن گئے ہیں بلکہ نیت ہمیشہ نیک رہنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کی طرف ہمیشہ جھکتے رہنا چاہئے اور جھکے رہنا چاہئے اور اسی پر تو کل ہونا چاہئے.کہتے ہیں کہ جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا جو اجر اور ثواب ملنے والا ہے اس پر تمہاری نگاہ جم جائے اور تم مصائب کو ذریعہ ثواب سمجھو.اب کبھی مشکلات آتی ہیں تو پھر چیخنے چلانے یا مایوس ہونے کی بجائے یا خدا تعالیٰ کا انکار کرنے کی بجائے ( بعض لوگ اس صدمے میں نمازیں بھی پڑھنی چھوڑ دیتے ہیں) اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور اس امتحان میں سے ہر ایک کو سرخرو ہو کر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے.تو اگر اللہ تعالیٰ کے

Page 369

$2004 364 خطبات مسرور آگے ہر انسان جھلکتے ہوئے اس سے مدد مانگتا رہے تو دیکھتے ہیں کہ پھر وہ اللہ تعالیٰ کے کتنے بے انتہا فضلوں کا وارث بن جاتا ہے.جو اس دنیا میں بھی ظاہر ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی بلکہ آئندہ نسلوں میں بھی وہ فضل ظاہر ہورہے ہوتے ہیں.اس لئے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، کبھی اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ اس کے حضور اور زیادہ جھکتے ہوئے اس سے مدد چاہنی چاہئے اور اس کی عبادات کو پہلے سے بڑھ کر ادا کرنا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابو بکر کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو.ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا.اپنے رو پوؤں کی تھیلی کا منہ بند کر کے نہ بیٹھ جاؤ یعنی کنجوسی اور بخل سے کام نہ اور نہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا ( یعنی اگر کوئی روپیہ اس سے نکلے گا نہیں تو اس میں آئے گا بھی نہیں.(اس لئے ) جتنی طاقت ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ) دل کھول کر خرچ کرنا چاہئے.(بخاری كتاب الزكواة باب التحريص على الصدقة) الحمد للہ کہ اس طرح دل کھول کر خرچ کرنے کے نظارے جماعت میں بے شمار نظر آتے ہیں.اب خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر میں نے سو مساجد کی تعمیر میں ستی جو عموماً جماعت میں نظر آ رہی ہے، خدام الاحمدیہ کو صرف توجہ دلائی تھی ، عمومی طور پر جماعت کو بھی میں نے یہی کہنا تھا کہ اس طرف توجہ دیں.تو اگلے روز ہی خدام الاحمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال کے اپنے وعدے اور وصولی کے لئے ایک ملین یورو ( Euro) کا ، دوسری دنیا میں ہمارے ملکوں میں سمجھ نہیں آتی اس لئے 10لاکھ یورو (Euro) کا وعدہ کر دیا اور پہلے جبکہ یہ وعدہ ڈھائی لاکھ یوروکا تھا.اور ابھی جو انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تقریباً جو پہلا وعدہ تھا اتنی تو اب ایک ہفتے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وصولی بھی ہو چکی ہے.دل کھول کر چندے دینے کے اور روپوؤں کی تھیلیوں کو کھول کر رکھنے کے یہ نظارے ہمیں جماعت میں بے انتہا نظر آتے ہیں.بلکہ ایک مخلص نے تو یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ زمین کی خرید سمیت

Page 370

$2004 365 خطبات مسرور ایک مسجد کا مکمل خرچ ادا کریں گے.جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی کا معیار بہت اعلیٰ ہے، بہت سے ایسے ہیں جو بعض اوقات اپنے اوپر بوجھ بھی ڈال کے چندے ادا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے.کیونکہ میں آج لازمی چندہ جات کی بات کر رہا ہوں اس لئے یہ واضح کر دوں کہ یہ جو چندہ جات ہیں ان تحریکات کی ادائیگیوں کا اثر آپ کے لازمی چندہ جات پر نہیں ہونا چاہئے.وہ اپنی جگہ ادا کریں اور یہ زائد تحریکات کے وعدوں کو اپنی جگہ ادا کریں.اور پھر اللہ تعالیٰ بھی آپ پر انشاء اللہ تعالیٰ بے انتہا فضل فرمائے گا.کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی راہ میں ، اس کے دین کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لئے کس قدر خوشخبری فرمائی ہے.ہر خوف خدا رکھنے والے کو اپنی عاقبت کی عموماً فکر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں نہ جانے کیا سلوک ہوگا.تو آپ نے چندہ ادا کرنے والوں کو اس فکر سے آزاد کر دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سائے میں رہیں گئے.(مسند احمد بن حنبل ).یعنی کہ جو بھی آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے قیامت کے دن تک اس کے سائے میں آپ رہیں گے.لیکن یہ بھی دوسری جگہ فرما دیا کہ انفاق سبیل اللہ دکھاوے کے لئے نہ ہو بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہو.اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو خالصتا اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کا پیار حاصل کرنے کی خاطر ہی قربانیوں کی توفیق دے.ایک اہم چندہ جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ زکوۃ ہے.زکوۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معین شرح ہے عموماً اس طرف توجہ کم ہوتی ہے.زمینداروں کے لئے بھی جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہے ہوتے ان پر زکوۃ واجب ہے.اسی طرح جنہوں نے جانور وغیرہ بھیڑ،

Page 371

$2004 366 خطبات مسرور بکریاں، گائے وغیرہ پالی ہوتی ہیں ان پر بھی ایک معین تعداد سے زائد ہونے پر یا ایک معین تعداد ہونے تک پر زکوۃ ہے.پھر بنک میں یا کہیں بھی جو ایک معین رقم سال بھر پڑی رہے اس پر بھی زکوۃ ہوتی ہے.پھر عورتوں کے زیوروں پر زکوۃ ہے.اب ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے.اور بعض عورتیں بلکہ اکثر عورتیں جو خانہ دار خاتون ہیں، جن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی وہ لازمی چندہ جات تو نہیں دیتیں، دوسری تحریکات میں حصہ لے لیتی ہیں.لیکن اگر ان کے پاس زیور ہے، اس کی بھی شرح کے لحاظ سے مختلف فقہاء نے بحث کی ہوئی ہے.باون تولے چاندی تک کا زیور ہے یا اس کی قیمت کے برابر اگر سونے کا زیور ہے تو اس پر زکوۃ فرض ہے، اور اڑھائی فی صد اس کے حساب سے زکوۃ دینی چاہئے اس کی قیمت کے لحاظ سے.اس لئے اس طرف بھی عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور زکوۃ ادا کیا کریں.بعض جگہ یہ بھی ہے کہ کسی غریب کو پہنے کے لئے زیور دے دیا جائے تو اس پر زکوۃ نہیں ہوتی لیکن آج کل اتنی ہمت کم لوگ کرتے ہیں کسی کو دیں کہ پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہو.اس لئے چاہئے کہ جو بھی زیور ہے، چاہے خود مستقل پہنتے ہیں یا عارضی طور پر کسی غریب کو پہننے کے لئے دیتے ہیں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر زکوۃ ادا کر دیا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو حضرت اماں جان کے بارے میں فرمایا کہ وہ باوجود اس کے کہ غرباء کو بھی زیور پہننے کے لئے دیتی تھیں لیکن پھر بھی زکوۃ ادا کیا کرتی تھیں.تو احمدی خواتین کو زکوۃ ادا کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے.اور جب عورتوں کی کوئی آمد نہیں ہوتی اور اکثر عورتوں کی آمد نہیں ہے تو ظاہر ہے پھر اس زکوۃ کی ادائیگی میں مردوں کو مدد کرنی ہوگی.اسلام کے ابتدائی زمانے میں جب بھی دینی ضروریات کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی تھی.اس زمانے میں بھی عارضی طور پر تحریک ہوتی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور پھر خلفاء کے زمانے میں بھی تو باوجود اس کے کہ زکوۃ لی جاتی تھی ، ان تحریکات میں صحابہ بھی حصہ لیتے

Page 372

$2004 367 خطبات مسرور تھے.اس لئے باوجود اس کے کہ جماعت میں چندوں کا ایک نظام جاری ہے اور جو چندے ادا کرتے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جو زکوۃ کی شرح ہے.بہر حال یہ بھی ایک فرض ہے اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اور نصاب اور شرح کے مطابق زکوۃ کو ادا کرنا چاہئے.اور خاص طور پر جس طرح میں نے کہا عورتیں اس طرف توجہ کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ زکوۃ کی رقم میں بھی کافی اضافہ ہوسکتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی ، اس کی بیٹی نےسونے کے بھاری کنگن پہنے ہوئے تھے.حضور نے اس عورت سے پوچھا کہ کیا ان کی زکوۃ بھی دیتی ہو؟ اس نے جواب دیا نہیں یا رسول اللہ ! تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو پسند کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے آگ کے کنگن پہنائے؟.یہ سن کر اس عورت نے اپنی بیٹی کے ہاتھ سے کنگن اتار لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے ہیں، جہاں چاہیں آپ خرچ فرمائیں.(سنن ابو داؤد.کتــاب الزكواة باب الكفر ما هو وزكواة الحلى) اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تم یہ نہ دیتیں تو آگ کے کنگن پہنائے جاتے.اس روایت کے بعد خاص طور پر جن پر زکوۃ واجب ہے ان کو توجہ دینی چاہئے.اور جیسا کہ میں نے کہا عورتوں پر زیادہ واجب ہوتی ہے ان کے خاوندوں کو ان کی مدد کرنی چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”سواے اسلام کے ذی مقدرت لوگو! دیکھو میں یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچادیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانے کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہئے.اور اس کے سارے پہلوؤں کو بنظر عزت دیکھ کر بہت جلد حق خدمت ادا کرنا چاہئے.جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری چندہ دینا چاہتا ہے وہ اس

Page 373

368 $2004 خطبات مسرور کو حق واجب اور دین لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ما ہوا اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضے کو خالصتاً اللہ نذر مقرر کر کے اس کے ادا میں تخلف یا سہل انگاری کو روانہ رکھئے.( یعنی کسی قسم کی سستی وغیرہ نہ ہونی چاہئے ).اور جو شخص یکمشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے.لیکن یاد رہے کہ اصل مدعا جس پر اس سلسلے کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے (یعنی بغیر کسی روک کے چلنا چاہئے ) وہ یہی انتظام ہے کہ بچے خیر خواہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے (اپنی طاقت کے لحاظ سے، اپنے وسائل کے لحاظ سے ) ایسی سہل رقم ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرالیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کر سکیں“.(یعنی اگر کوئی اتفاقی حادثہ نہ پیش آ جائے آمدنی میں کمی نہ ہو جائے ، کاروبار میں نقصان نہ ہو جائے سوائے اس کے کہ ایسا کوئی اتفاقی حادثہ پیش آجائے ضرور ہے، لازمی ہے کہ ماہوار چندہ ادا کیا کریں ).پھر فرمایا: ”ہاں جس کو اللہ جلشانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندے کے اپنی وسعت، ہمت اور اندازہ مقدرت کے موافق یکمشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے“.یعنی ماہوار چندہ ادا کرنے کے علاوہ جو بھی توفیق ہوا سے جو بھی طاقت ہے اور آمدنی ہے اس کے حساب سے پھر اگر اکٹھی رقم بھی دینی پڑے تو دی جائے.پھر فرمایا : ” اور تم اے میرے عزیز و! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی ، اپنا آرام، اپنامال اس راہ میں فدا کر رہے ہو اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے.لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا.تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں“.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحه ٣٣-٣٤) ماہوار چندے کی شرح خلافت ثانیہ میں مقرر ہوئی جب با قاعدہ ایک نظام قائم ہوا اور چندہ

Page 374

$2004 369 خطبات مسرور عام کی شرح 1/16 اس وقت سے قائم ہے.لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ارشاد سے استنباط کر کے یہ شرح مقرر کی تھی.تو بہر حال جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ماہوار چندے کے علاوہ اپنی وسعت کے لحاظ سے اکٹھی رقم بھی تم دے سکتے ہو اور اس کے لئے جماعت میں مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا، پہلے بھی کہا ہے کہ اس نیت سے اور اس ارادے سے ہر ادا ئیگی، ہر چندہ اور ہر وعدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے نہ کہ کسی بناوٹ کی وجہ سے.اور ہمیشہ جب بھی خرچ کریں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں ہر نئی تحریک میں حصہ لینے کی توفیق دی یا فرض ماہوار چندہ کو ادا کرنے کی توفیق دی ، بجٹ پورا کرنے کی توفیق دی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا تعالیٰ سے بھی.صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو.پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے.اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا.یعنی جو اس نیت سے چھوڑتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے وہ اپنا نہیں سمجھتا.اب 1/16 جو چندہ ہے جو یہ سمجھے میری آمد میں سے 15 حصے تو میرے ہیں یہ 16 واں حصہ خدا تعالیٰ کا ہے تو آپ فرماتے ہیں وہ ضرور اس سے حصہ پائے گا.لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا“.یعنی ایک احمدی ہونے کے بعد پھر اگر ایسی سوچ ہوگی تو آپ فرماتے ہیں اس کا مال ضائع بھی ہوگا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف

Page 375

$2004 370 خطبات مسرور سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلوتہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذر محتاج نہیں ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے“.(مجموعه اشتهارات جلد سوم صفحه ٤٩٨،٤٩٧ - منقول از ضمیمه ریویو آف ریلیجنزار دو ستمبر ۱۹۰۳ء) اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ ان توقعات پر پورا اترتے رہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہیں.اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بنتے رہیں.اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے والے بنتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 376

خطبات مسرور $2004 371 23 دعوت الی اللہ کا کام ایک مستقل کام ہے ہر احمدی اپنے لئے فرض کر لے کہ اس نے سال میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ایک یا دو ہفتے تک اس کام کے لئے وقف کرنا ہے ۱۴ جون ۲۰۰۴ءء بمطابق ۴ را حسان ۱۳۸۳ ہجری تشسی بمقام ن سپیٹ.ہالینڈ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذوق و شوق تبلیغ آج کا جہاد.دین کی راہ میں حال اور وقت قربان کرنا عمر بڑھانے کا نسخہ.خلوص اور وفاداری کے ساتھ خدمت دین میں لگ جائیں.

Page 377

خطبات مسرور $2004 372 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ.(سورة حم سجده : ۳۴) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجالائے اور کہے کہ میں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جو بات پسند ہے وہ یہ ہے کہ اس کی مخلوق شیطان کے چنگل سے نکل کر اس کی عبادت بجالانے والی ہو.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو کھلی چھٹی دے دی، ٹھیک ہے تم میرے بندوں کو ورغلانے کی کوشش کرنا چاہتے ہو تو کرتے رہو، ان کو نیکی کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہو تو کرتے رہو لیکن ساتھ یہ فرما دیا کہ میرے بندے جو نیکی پر قائم رہیں گے ان کو نیکی پر قائم رکھنے کے لئے میرے انبیاء دنیا میں آتے رہیں گے اور ان کے ماننے والوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو میری عبادت بجالانے والے اور میری طرف جھکنے والے اور مخلوق کو میری طرف لانے کا فریضہ انجام دینے والے ہوں گے.اور فرمایا کہ یہی لوگ ہیں نیکیوں پر قائم رہنے والے جو فلاح پانے والے ہوں گے.اور یہی لوگ ہیں جو میری ابدی جنتوں کے وارث ہوں گے جو لوگوں کو نیکی کی تلقین کرنے والے ہوں گے اور عبادات بجالانے والے ہوں گے.جس طرح کہ میں نے کہا اور نیک اعمال بجالانے والے ہوں گے اور اس درد کے ساتھ نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور نیکیوں پر قائم رہنے والے ہوں گے کہ اے شیطان ! تو ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا.لیکن کیونکہ

Page 378

373 $2004 خطبات مسرور زبر دستی کوئی نہیں ہے اس لئے ایسے بھی لوگ ہوں گے جو شیطان کے بہکاوے میں آجائیں گے، شیطان کی پیروی کر رہے ہوں گے.اور یہ لوگ نور کو چھوڑ کر ظلمات کی طرف جانے والے ہوں گے.ان کا ٹھکانہ پھر آگ ہو گا.اور فرمایا کہ میں انہیں ضرور آگ میں ڈالوں گا.تو یہ دو قسم کے گروہ ہیں ایک اللہ کی عبادت کرنے والے اور ایک شیطان کے بہکاوے میں آنے والے.اور اللہ کی عبادت کرنے والے وہ ہیں جو درد کے ساتھ لوگوں کو بھی اللہ کی طرف بلاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر یہ انعام اور احسان بھی فرمایا ہے کہ اس نے ہمیں اس گروہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی جو تمام انبیاء پر یقین رکھنے والا اور ان پر ایمان لانے والا ہے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہادی کامل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا اور پھر یہ بھی انعام فرمایا کہ اس بادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور عاشق کامل علیہ السلام کی جماعت میں بھی شامل فرما دیا اور اس لحاظ سے ہم اپنے آپ کو جتنا بھی خوش قسمت سمجھیں کم ہے اور اس احسان پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.لیکن واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہم پر ایک ذمہ داری بھی ڈالتا ہے کہ جس قیمتی خزانے کو تم نے حاصل کیا ہے، جس لعل بے بہا کو تم نے پالیا ہے اس کو اپنے تک ہی محدود نہیں رکھنا بلکہ اس خزانے کو اور ان خزائن کو جو ہزاروں سال سے مدفون تھے، ان خزانوں کو جن کو حاصل کرنے کے بعد انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے، دوسروں تک بھی پہنچائیں، انہیں بھی شیطان کے چنگل سے آزاد کروائیں، اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بنا ئیں.اور اس حدیث پر عمل کرنے والے ہوں کہ جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو.ان کو بھی اس میں سے حصہ دو، اس خزانے کو ، اس گہر نایاب کو دبا کر ہی نہ بیٹھ جاؤ بلکہ اس کو دنیا کے ہر شخص تک پہنچاؤ.مسلمانوں کو بھی پہنچاؤ کہ وہ بھولے بیٹھے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب کوئی مہدی اور مسیح آتا ہے اور ان کی رہنمائی کرتا ہے.اور اسی انتظار میں وہ دجال کے دجل کے نیچے دبتے چلے جارہے ہیں اور نقصان اٹھاتے چلے جارہے ہیں.ہر طرف سے ان پر سختیاں ہیں.کچھ

Page 379

374 $2004 خطبات مسرور ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہا ہے.یہاں تک کہ مسلمان اپنے ملکوں میں بھی آزادی سے سانس لینے کے حقدار نہیں ہیں.اپنے ملکوں میں بھی وہ وہی کچھ کرنے پر مجبور ہیں جو دجال ان سے کروانا چاہتا ہے.پھر جیسا کہ میں نے کہا یہ مسلمان خود غرض ملاؤں اور دجالی قوتوں کے پنجے میں پھنس کے ظلم کی چکی میں اس طرح پس رہے ہیں کہ جس کی کوئی انتہا نہیں اور ان ہوس پرست ملاؤں نے انہیں دین سے بھی دور کر دیا ہے اور مسلمان کہلانے کے باوجود خدا تعالیٰ کی تعلیم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی دور جاچکے ہیں.لیکن ایک احمدی کو کیونکہ عمومی طور پر انسانیت سے ہمدردی بھی ہے اور پھر مسلمانوں سے تو خصوصی طور سے ہمدردی ہونی چاہئے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.ہم پر فرض بنتا ہے کہ ان کو ان اندھیروں سے نکالیں ، ان تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں کہ مسیح اور مہدی کی جماعت میں شامل ہو جاؤ تو فلاح پاؤ گے.اسی طرح عیسائیوں اور دوسرے مذاہب والوں کو بھی اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچائیں.ایک درد کے ساتھ ان کے لئے دعائیں کریں.ان کو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بنائیں.دنیا میں تیزی سے تباہی آ رہی ہے اور بڑی تیزی سے تباہی کی طرف دنیا بڑھ رہی ہے.اس کی نزاکت کے پیش نظر ہمیں اس طرف بہت توجہ دینی چاہئے تبھی ہم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بہترین ٹھہر سکتے ہیں تبھی ہم خیر امت ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں.اپنی امت کے کسی شخص کے ذریعے کسی دوسرے شخص کے ہدایت پا جانے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر خوشی کا اظہار فرمایا ہے.اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے.حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت علی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ بخدا تیرے ذریعے ایک آدمی کا ہدایت پا جانا ، تیرے لئے اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے.(مسلم کتاب فضائل الصحابه ـ باب فضائل علی بن ابی طالب) سرخ اونٹ اس زمانے میں بڑی قدر و قیمت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا.جس طرح اس

Page 380

$2004 375 خطبات مسرور زمانے میں بڑی بڑی کاریں ہیں یا شاید اس سے بھی زیادہ.کیونکہ اس زمانے میں سفر کا ذریعہ خاص طور پر ریگستان میں، اور وہ ریگستانی علاقہ ہی تھا اونٹ ہی ہوتا تھا.تو فرمایا کہ دنیاوی لحاظ سے جو ایک اعلیٰ معیار ہے کسی انعام کا اس سے بڑھ کر کسی کی ہدایت کا باعث بن کر کسی کو سیدھے راستے پر لا کر تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں کے مورد ہو گے.غرض کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والے کا دنیاوی نظر سے بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے، کوئی موازنہ نہیں ہے.انسان کی سوچ سے ہی باہر ہے، اس لئے اس طرف بہت توجہ کریں.آپ لوگ جو ان ملکوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، یہاں بھی فرض بنتا ہے کہ اسلام کی تعلیم کو پہنچائیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے بچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچالیں.اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کر کے تبلیغ کریں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں.(ملفوظات جلد دوم - صفحه ۲۱۹ ـ الحكم ۱۰ جولائی ۱۹۰۲ء) دیکھیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت میں یہ پیغام پہنچانے کا کس قدر جوش پایا جاتا ہے.پس ہمیں بھی اپنی ترجیحات کو بدلنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کے معاملہ میں سنجیدہ ہونا چاہئے تبھی ہم آپ کی بیعت میں شامل ہونے کے دعوے میں بچے ثابت ہو سکتے ہیں.آج جہاد کے لئے ہمیں تلوار چلانے کے لئے نہیں بلایا جا رہا.آج ہمیں تیروں کی بوچھاڑ کے آگے کھڑے ہو کر اسلام کا دفاع کرنے کے لئے نہیں کہا جا رہا.آج ہمیں توپ کے گولوں کے آگے کھڑے ہونے کے لئے نہیں کہا جا رہا.آج ہم سے جو مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اپنے مالوں کو بھی دین کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے وقت کو بھی دین کی راہ میں خرچ کرو.آج ہمیں

Page 381

$2004 376 خطبات مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حسین تعلیم کے وہ بے بہا خزانے دے دیئے ہیں جن کی مدد سے ہم دلائل کے ذریعہ سے دشمن کا منہ بند کرنے کے قابل ہو گئے ہیں.ان دلائل کے سامنے آج نہ کوئی عیسائی ٹھہر سکتا ہے نہ یہودی ، نہ ہندو اور نہ کوئی اور.اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا ان دلائل کے ذریعے سے ہی ہم معصوم مسلمان امت کو بھی مفاد پرست اور خود غرض اور نام نہاد علماء کے چنگل سے آزاد کروا سکتے ہیں جن کا کام صرف فتنہ پیدا کرنا اور فساد پیدا کرنا ہے.اور اب تو ان کے اپنے اخبار یہ کہہ رہے ہیں، سب کچھ لکھ رہے ہیں، روزانہ کے اخبار ان باتوں سے بھرے پڑے ہیں.اور اللہ کے نام پر ملاں کا فساد زبان زدِ عام ہو چکا ہے خواہ پاکستان ہو یا بنگلہ دیش ہو یا ہندوستان ہو یا اور کوئی اسلامی ملک ہو، ہر جگہ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم سے دور ہٹایا جارہا ہے اور مفاد پرست فائدہ اٹھا رہے ہیں.اب گزشتہ کچھ عرصہ سے بنگلہ دیش میں بھی ایک بڑا فساد پیدا ہوا ہوا ہے.لیکن بنگلہ دیش کے عوام میں اس وقت باقی ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ شرافت نظر آتی ہے اور اسی طرح اخبارات میں بھی کہ وہ ملاں کے خدا کے نام پر اس فساد کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو اس کا اجر دے اور اگلا جراتمندانہ قدم بھی اٹھانے کی توفیق دے اور ان کو اس قابل بنائے کہ اس زمانے کے امام کو بھی پہچان سکیں.اب تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اپنی طرف بلانے کے لئے راستے بھی آسان کر دیئے ہیں.آج اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ذریعہ اور وسیلہ بھی مہیا کر دیا ہے.آج مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے ذریعہ سے 24 گھنٹے یہی کام ہو رہا ہے، 24 گھنٹے اس کام کے لئے وقف ہیں.پس اگر اپنے علم میں کمی بھی ہو تو اس کے ذریعہ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.ضرورت توجہ کی ہے.لوگوں کے دلوں میں بے چینی پیدا ہو چکی ہے.پس ہمیں بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے.وسائل بھی میسر ہیں.اس لئے درخواست ہے کہ توجہ کریں.دنیا میں ہر

Page 382

$2004 377 خطبات مسرور احمدی اپنے لئے فرض کر لے کہ اس نے سال میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ایک یا دو ہفتے تک اس کام کے لئے وقف کرنا ہے.یہ میں ایک یا دو دفعہ کم از کم اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب ایک رابطہ ہوتا ہے تو دوبارہ اس کا رابطہ ہونا چاہئے اور پھر نئے میدان بھی مل جاتے ہیں.اس لئے اس بارے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ تمام طاقتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر ایک کو پیش کرنا چاہئے.چاہے وہ ہالینڈ کا احمدی ہو یا جرمنی کا ہو.یا بلجیم کا ہو یا فرانس کا ہو یا یورپ کے کسی بھی ملک کا ہو یا دنیا کے کسی بھی ملک کا ہو چاہے گھانا کا ہوا فریقہ میں یا بورکینا فاسو کا ہو ، کینیڈا کا ہو یا امریکہ کا ہو یا ایشیائی کسی ملک کا ہو، ہر ایک کو اب اس بارے میں سنجیدہ ہو جانا چاہئے اگر دنیا کو تباہی سے بچانا ہے.ہر ایک کو ذوق اور شوق کے ساتھ اس پیغام کو پہنچائیں ، اپنے ہم وطنوں کو اپنے اس پیغام کو پہنچائیں ، اور جیسا کہ میں نے کہا دنیا کو تباہی سے بچائیں کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر کوئی قوم بھی محفوظ نہیں.اس لئے اب ان کو بچانے کے لئے داعیان الی اللہ کی مخصوص تعداد یا مخصوص ٹارگٹ حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے.یا اسی پر گزارا نہیں ہو سکتا.بلکہ اب تو جماعتوں کو ایسا پلان کرنا چاہئے ، جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہر شخص، ہر احمدی اس پیغام کو پہنچانے میں مصروف ہو جائے.اور آپ لوگ جہاں اس کام سے دنیا کو فائدہ پہنچارہے ہوں گے ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کر رہے ہوں گے وہاں آپ کو بھی فائدہ ہوگا.اپنے آپ کو بھی فائدہ پہنچارہے ہوں گے اور ثواب بھی حاصل کر رہے ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوشخص کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ ثواب اس پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا.اور جو شخص کسی برائی اور گمراہی کی طرف بلاتا ہے اس کو بھی اس قدر گناہ ہوتا ہے جس قدر اس برائی کرنے والے کو ہوتا ہے.(مسلم کتاب الـعـلـمـ باب من سن حسنة أو سيئة) - تو دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کس طرح اپنے بندوں کو اپنی طرف بلانے والوں کو ثواب پہنچارہا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر

Page 383

$2004 378 خطبات مسرور بڑھائے اور لمبی عمر پائے تو اس کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے، خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کرے.یہ یادر کھے کہ اللہ تعالیٰ سے دھو کہ نہیں چلتا.جو اللہ تعالیٰ کو دعا دیتا ہے وہ یادر کھے کہ اپنے نفس کو دھوکہ دیتا ہے وہ اس کی پاداش میں ہلاک ہو جاوے گا.پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفا داری کے ساتھ اعلائے کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جاوے اور خدمت دین میں لگ جاوے اور آج کل یہ نسخہ بہت ہی کارگر ہے کیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے.اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے، یہ یونہی چلی جاتی ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۶۳ الحکم ۱۷ فروری ۱۹۰۴ء) پس اگر اپنی عمروں میں برکت ڈالنی ہے، اللہ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے تو دنیا کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ پیغام پہنچادیں.آپ فرماتے ہیں کہ: ”اے تمام لوگو جوز مین پر رہتے ہو اور تمام وہ انسانی روحو جو شرق ومغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذ ہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے.اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں.“ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد٥ ١ صفحه ١٤١) اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کچی تڑپ کے ساتھ نوع انسانی کی سچی ہمدردی اور امت محمدیہ کے ساتھ محبت کے جذبے کے تحت حضرت اقدس مسیح موعود کا یہ پیغام دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے والا ہو اور ہم اُسے پہنچاتے چلے جائیں.اور اللہ تعالیٰ نے آج کل، جیسا کہ پہلے میں نے کہا ، ایم ٹی اے کا بھی ایک ذریعہ نکال دیا ہے، اپنے دوستوں کو اس سے متعارف بھی کرانا چاہئے.

Page 384

$2004 379 خطبات مسرور لیکن یہ یادرکھیں کہ پیغام پہنچانے کے تبلیغ کرنے کے بھی کوئی طریقے سلیقے ہوتے ہیں.اس کچی تڑپ اور جوش اور جذبے کے ساتھ حکمت اور دانائی کا پہلو بھی مدنظر رہنا چاہئے.حکمت کے ساتھ اس پیغام کو پہنچانا چاہئے تا کہ دنیا پر اثر بھی ہو اور جس نیت سے ہم پیغام پہنچا رہے ہیں وہ مقصد بھی حاصل ہو، نہ کہ دنیا میں فساد پیدا ہو.اس لئے اس قرآنی آیت کو اس معاملے میں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.فرمایا: أَدْعُ إِلى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ) (النحل: ۱۲۲).یعنی اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو.یقیناً تیرا رب ہی اسے، جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو، سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے.پس جو مختلف ذرائع ہیں ان کو استعمال کریں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا.لیکن مختلف لوگوں کی مختلف طبائع ہوتی ہیں ان طبائع کے مطابق ان کو نصیحت ہونی چاہئے ، ان کو تبلیغ ہونی چاہئے.اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے جہاں فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو دعائیں کرتے ہوئے کیونکہ اصل چیز تو دعا ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھنچتی ہے تو اللہ سے دعائیں کرتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے ایسی جگہوں سے پھر بچنا چاہئے ، اٹھ جانا چاہئے عارضی طور پر.لیکن یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کے لئے دعائیں کرنی بند کر دیں بلکہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے مسلسل اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” جسے نصیحت کرنی ہوا سے زبان سے کرو.ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے

Page 385

380 $2004 خطبات مسرور پیرائے میں دوست بنا دیتی ہے.پس ﴿وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَن کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو.اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يشَاءُ“ (البقرة: ۲۷۰) ـ (الحكم جلد ۷ نمبر ۹ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۸) جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ حکمت بھی اسے میسر آتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ چاہے اس لئے داعی الی اللہ کو ایک تبلیغ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کے آگے بہت جھکنے والا اور اس سے ہر وقت مد مانگنے والا ہونا چاہئے.جب ہم اللہ تعالیٰ کی طرف کسی کو بلا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے واسطے سے ہی سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں.اس لئے دعوت الی اللہ کرنے سے پہلے بھی دعائیں کریں.اس دوران میں بھی دعائیں کریں اور ہمیشہ بعد میں بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھکتے رہنا چاہئے.اور اس سے حکمت و دانائی اور اس کا فضل ہمیشہ طلب کرتے رہنا چاہئے.اور جب اس طرح کام کو شروع کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت پڑے گی.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجادلہ حسنہ کا مطلب کیا ہے.فرمایا: اس کا مطلب مداہنت نہیں ہے.یعنی خوشامدانہ طور پر بزدلی سے بات چھپائی جائے یہ نہیں ہے.بلکہ حکمت جرات کے ساتھ بھی ہونی چاہئے.فرمایا کہ آیت جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَن کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مداہنہ کر کے خلاف واقعہ بات کی تصدیق کر لیں.کیا ہم ایسے شخص کو جو خدائی کا دعویٰ کرے اور ہمارے رسول کو پیشگوئی کے طور پر کذاب قرار دے (نعوذ باللہ ) اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو ر کھے (نعوذ باللہ ).راست باز کہہ سکتے ہیں؟ فرمایا ” کیا ایسا کرنا مجادلۂ حسنہ ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ منافقانہ سیرت اور بے ایمانی کا شعبہ ہے.“ (ترياق القلوب - روحانی خزائن جلد ١٥ صفحه ٣٠٥ حاشیه.بعض لوگ بعض دفعہ ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ہر بات میں ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں کہ وقت کا تقاضا تھا، ہم سمجھتے تھے کہ اس وقت ہاں میں ہاں ملانے سے ان لوگوں کے

Page 386

$2004 381 خطبات مسرور ہمارے ساتھ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں تو یہ غلط طریق ہے.یہ بزدلی ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی کمی ہے.اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ دلوں کو تو میں نے بدلنا ہے.تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے.اس لئے ایسے موقعوں پر بھی جرات کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ غلط باتیں ہیں وہاں سے اٹھ جانا چاہئے.اور ان لوگوں کا معاملہ پھر خدا پہ چھوڑ نا چاہئے.حضرت علیؓ کا قول ہے آپ نے فرمایا دلوں کی کچھ خواہشیں اور میلان ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی وقت بات سننے کے لئے تیار رہتے ہیں اور کسی و قت اس کے لئے تیار نہیں ہوتے.اس لئے لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے تحت داخل ہو کر اسی وقت اپنی بات کہا کرو جب کہ وہ سننے کے لئے تیار ہوں.اس لئے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیا جائے تو اندھا ہو جاتا ہے یعنی بعض دفعہ لوگ بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں.تو اس قول پر عمل کرنے کے لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس سے بھی آپ کا رابطہ ہو رہا ہے جس کو بھی آپ نے تبلیغ کرنی ہے اس سے ذاتی تعلق ہوا اور پھر یہ ذاتی تعلق اور ذاتی رابطہ مستقل رابطے کی شکل میں قائم رہنا چاہئے.اور موقع کے لحاظ سے موقع پا کر کبھی کبھی بات چھیڑ دینی چاہئے جس سے اندازہ ہو کہ یہ لوگوں پر اثر کرے گی.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے یا تو بزدلی دکھا دی یا پھر جوش میں پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں اور موقع و محل کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.اس سے جو تھوڑا بہت تعلق پیدا ہوا ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے.اور جس کو آپ تبلیغ کر رہے ہیں اس کو بالکل ہی پرے دھکیل دیتے ہیں.اور دوسری بات یہ ہے کہ بعض طبیعتیں ہوتی ہیں جن کا ذاتی میلان یا رجحان ہی دین کی طرف نہیں ہوتا.ان کو اگر شروع میں ہی تبلیغ شروع کر دی جائے تو ان کا تو اس سے کوئی تعلق ہی نہیں وہ تو لا مذہب لوگ ہیں ، وہ تو بعض خدا پر بھی یقین کرنے والے نہیں ہوتے.اپنے مذہب سے جوان کا بنیادی مذہب ہے اس سے بھی دور ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تو وہ

Page 387

$2004 382 خطبات مسرور ہماری بات کیسے سنیں گے.پہلے تو بات یہ ہے کہ ان کو مذہب پر یقین پیدا کروانا ہوگا ، پہلے ان کو خدا کی پہچان کروانی ہوگی.جب اس طرز پر باتیں ہوں گی تو نہ صرف ایک شخص جس کو آپ تبلیغ کر رہے ہیں اس پر اثر ہوگا بلکہ ماحول پر بھی اثر ہورہا ہوگا.اور ماحول میں بھی یہ اظہار ہورہا ہوگا کہ شیخص خدا کا خوف رکھنے والا ہے اور خدا کی خاطر ہر کام کرنے والا ہے اور خدا کی خاطر خدا کی طرف بلانے والا ہے.اس میں ایک درد ہے کہ خدا تعالیٰ کے بندے اس کے آگے جھکیں اور یہ کسی ذاتی مفاد کے لئے کام نہیں کر رہا.اس بات سے کہ جو کچھ بھی ہے خدا تعالیٰ کی خاطر ہے اس کا ماحول پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے اور دعوت الی اللہ کے اور بھی مواقع میسر آ جاتے ہیں اور اس میں مزید آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” ہمارے لوگ مخالفین سے سختی سے پیش نہ آیا کریں.ان کی درشتی کا نرمی سے جواب دیں اور ملاطفت سے سلوک کریں.چونکہ یہ خیالات مدت مدید سے ان کے دلوں میں ہیں رفتہ رفتہ ہی دور ہوں گے.اس لئے نرمی سے کام لیں.اگر وہ سخت مخالفت کریں تو اعراض کریں.مگر اس بات کے لئے اپنے اندر قوت جاذ بہ پیدا کرو اور قوت جاذ بہ اس وقت پیدا ہوگی جب تم صادق مومن بنو گے“.(ملفوظات جلد چهارم صفحه ۱۷۹ الحکم ۱۰ تا ۱۷ نومبر ١٩٠٤) اپنی طرف کھینچنے کے لئے ، ایک کشش پیدا کرنے کے لئے کہ لوگ آپ کی طرف کھینچے چلے آئیں فرمایا کہ سچے مومن بنو گے جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیئے ہیں ان کو بجالانے کی کوشش کرو گے تب اللہ تعالیٰ کی مددبھی شامل حال رہے گی اور لوگوں پر بھی اثر ہوگا.اب دیکھیں کہ عیسائی پادری تبلیغ کرتے ہیں اکثر و بیشتر ایسے ہمدرد بن کے اپنی طرف مائل کر رہے ہوتے ہیں کہ لوگوں کو ان کی طرف رجحان ہو جاتا ہے.خاص طور پر افریقہ میں بڑی ہمدردی سے لوگوں کے ساتھ پیش آ رہے ہوتے ہیں.دل میں جو مرضی ہو یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن ظاہری طور پر گاؤں میں جا کے ہمدردی کر رہے ہوتے ہیں، ان کی ضروریات کو پورا کر رہے ہوتے ہیں، ان کو پیغام پہنچارہے ہوتے ہیں.اور یہ

Page 388

383 $2004 خطبات مسرور سب کچھ وہ ایک جھوٹے مقصد کے لئے کر رہے ہیں جبکہ اصل سچائی ہمارے پاس ہے.ہمیں تو اس طرف بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے تا کہ انسانیت کو تباہی سے بچایا جا سکے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تبلیغ کے طریقے بتاتے ہوئے کہ کس طرح گفتگو کرنی چاہئے فرماتے ہیں کہ : ”دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں.عوام، متوسط درجے کے، امراء.فرمایا کہ عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں.ان کو اتنا دین کا علم وغیرہ بھی نہیں ہوتا، سمجھ بھی نہیں ہوتی.ان کی سمجھ موٹی ہوتی ہے اس لئے ان کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے.امراء کے لئے سمجھانا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبرا جاتے ہیں.اور ان کا تکبر اور تعلی اور بھی سد راہ ہوتی ہے.ایک تو ان کو اپنی دنیاوی پوزیشن کا بڑا خوف رہتا ہے.دوسرے تکبر پیدا ہو جاتا ہے.اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں اس لئے ان کے ساتھ گفتگو کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ان کے طرز کے موافق ان سے کلام کرے یعنی مختصر مگر پورے مطلب کو ادا کرنے والی تقریر ہو.قَلَّ وَدَلَّ مگر عوام کو تبلیغ کرنے کے لئے تقریر بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہئے.رہے اوسط درجے کے لوگ ، زیادہ تر یہ گروہ اس قابل ہوتا ہے کہ ان کو تبلیغ کی جاوے.وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کے مزاج میں وہ تعلی اور تکبر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو امراء کے مزاج میں ہوتی ہے.اس لئے ان کو سمجھانا بہت مشکل نہیں ہوتا.(ملفوظات جلد دوم صفحه ١٦١- ١٦٢ الحكم ٢٤ مارچ ١٩٠٢) پھر آپ نے فرمایا چاہئے کہ : ” جب کلام کرے تو سوچ کر اور مختصر کام کی بات کرے.بہت بحثیں کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.پس چھوٹا سا چٹکلہ کسی وقت چھوڑ دیا جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے.پھر کبھی اتفاق ہو تو پھر سہی.غرض آہستہ آہستہ پیغام حق پہنچاتا رہے اور تھکے نہیں.کیونکہ آج کل خدا کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق کو لوگ دیوانگی سمجھتے ہیں.اگر صحابہ اُس زمانے میں وتے تو لوگ انہیں سودائی کہتے اور وہ انہیں کافر کہتے.دن رات بیہودہ باتوں اور طرح طرح کی ہو

Page 389

$2004 384 خطبات مسرور 66 غفلتوں اور دنیاوی فکروں سے دل سخت ہو جاتا ہے.بات کا اثر دیر سے ہوتا ہے.ایک شخص علی گڑھی غالباً تحصیل دار تھا میں نے اس کو کچھ نصیحت کی.وہ مجھ سے ٹھٹھا کرنے لگا.میں نے دل میں کہا میں بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑنے کا.آخر باتیں کرتے کرتے اس پر وہ وقت آ گیا کہ وہ یا تو مجھ پر تمسخر کر رہا تھا یا چنیں مار مار کر رونے لگا.بعض اوقات سعید آدمی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شقی ہے، یعنی ظالم ہے سنگدل ہے تو یاد رکھو ہر قفل کے لئے ایک کلید ہے.ایک چابی ہے.’بات کے لئے بھی ایک چابی ہے.وہ مناسب طرز ہے.پھر آپ دواؤں کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی مریض کو کوئی دوا مفید ہوتی ہے اور کسی کو کوئی تو اس لحاظ سے دوائی بھی دینی چاہئے.پھر فرمایا ” ایسے ہی ہر ایک بات ایک خاص پیرائے میں خاص شخص کے لئے مفید ہو سکتی ہے.یہ نہیں کہ سب سے یکساں بات کی جائے.بیان کرنے والے کو چاہئے کہ کسی کے برا کہنے کو برا نہ منائے بلکہ اپنا کام کئے جائے اور تھکے نہیں.امراء کا مزاج بہت نازک ہوتا ہے اور وہ دنیا سے غافل بھی ہوتے ہیں.بہت باتیں سن بھی نہیں سکتے.انہیں کسی موقع پر کسی پیرائے میں نہایت نرمی سے نصیحت کرنی چاہئے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحه ٤٤١ بدر ۱۳ فروری ۱۹۰۸ء) پھر تبلیغ کرنے والوں کے لئے ایک اور نسخہ بیان فرمایا کہ اس کام کے واسطے وہ آدمی موزوں ہوں گے جو کہ مَنْ يَتَقِ وَ يَصْبِرْ کے مصداق ہوں.ان میں تقویٰ کی خوبی بھی ہو اور صبر بھی ہو.پاکدامن ہوں فسق و فجور سے بچنے والے ہوں ، معاصی سے دور رہنے والے ہوں لیکن ساتھ ہی مشکلات پر صبر کرنے والے ہوں.لوگوں کی دشنام دہی پر جوش میں نہ آئیں.ہر طرح کی تکلیف اور دکھ کو برداشت کر کے صبر کریں.کوئی مارے بھی تو مقابلہ نہ کریں جس سے فتنہ وفساد ہو جائے.دشمن جب گفتگو میں مقابلہ کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اسے جوش دلانے والے کلمات بولے جس سے فریق مخالف صبر سے باہر ہو کر اس کے ساتھ آمادہ بہ جنگ ہو جائے“.(یعنی لڑائی کی صورت پیدا ہو جائے ) (ملفوظات جلد پنجم صفحه ۳۱۸- بدر ۳ اکتوبر ۱۹۰۷ء)

Page 390

$2004 385 مسرور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس میں یہی مسلسل فرمایا کہ تھکنا نہیں.دعوت الی اللہ کا کام ایک مستقل کام ہے، مستقل مزاجی سے لگے رہنے والا کام ہے اور یہ نہیں ہے کہ ایک رابطہ کیا یا سال کے آخر میں دو مہینے اپنے ٹارگٹ پورے کرنے کے لئے وقف کر دیئے.بلکہ ساراسال اس کام پہ لگے رہنا چاہئے اور اس طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے.اور جس آدمی کو پکڑیں اس کا پتہ لگ جاتا ہے کس مزاج کا ہے.جو بھی آپ کے رابطے ہوتے ہیں پھر مسلسل اس سے رابطہ ہو.آخر ایک وقت ایسا آئے گا یا تو آپ کو اس کے بارے میں پتہ لگ جائے گا کہ اس کا دل سخت ہے اور وہ ایسی زمین ہی نہیں جس پہ کوئی چھینٹا بارش کا اثر کر سکے، کوئی نیکی کا اثر اس پر ہو، تو اس کو تو آپ چھوڑیں.لیکن بہت سارے ایسے ہیں جو آپ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس لئے اس عمل کو مسلسل جاری رہنا چاہیئے اور سونہیں جانا چاہئے کہ جی کام سال کے آخر میں کر لیں گے.پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں ان میں ایک بہت بڑی خوبی جس کی ضرورت ہے اور جس کے بغیر نہ جوش کام آسکتا ہے نہ تبلیغ کے لئے کسی قسم کا کوئی شوق کام آ سکتا ہے، نہ تبلیغ کے طریقوں میں حکمت ، دانائی اور علم کام آ سکتا ہے وہ جو سب سے ضروری چیز ہے وہ ہے عمل.اس لئے میں نے جو پہلی آیت تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کی تعریف کر کے یہ بھی فرمایا کہ صرف وہ نیکی کی طرف بلاتے ہی نہیں ہیں بلکہ نیک اعمال خود بھی بجالانے والے ہیں.ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے.یہ نہیں کہ وہ خود کچھ کر رہے ہوں اور لوگوں کو کچھ کہہ رہے ہوں.اور جب ان کا قول و فعل ایک جیسا ہوگا تو تبھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ بات کہنے کے بھی حقدار ہوں گے کہ ہم کامل فرمانبرداروں میں سے ہیں.تو اللہ تعالیٰ تو غیب کا علم جانتا ہے.وہ تو ہمارے سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کا خوب علم رکھتا ہے.ہر بات اس کے علم میں ہے.اگر ہمارے قول وفعل میں تضاد ہوگا تو وہ فرمائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم کامل فرمانبرداروں میں نہیں ہو کیونکہ

Page 391

$2004 386 خطبات مسرور تمہارے قول و فعل میں تضاد ہے.کہتے کچھ ہو کرتے کچھ ہو.اس لئے ایمان لانے والوں کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی کہ ﴿يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ (الصف: ۲.۳).کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں.اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں.تو اللہ تعالیٰ کوتو دھوکا نہیں دیا جا سکتا.لوگوں کی آنکھوں میں تو دھول جھونکی جاسکتی ہے.اپنی ظاہری پاکیزگی کا اظہار کر کے لوگوں سے تو واہ واہ کروائی جاسکتی ہے.لوگوں کو تو علم نہیں ہوتا ، نیکی کا ظاہری تأثر لے کر وہ کسی کو عہد یدار بنانے کے لئے ووٹ بھی دے دیتے ہیں اور عہدیدار بن بھی جاتے ہیں.پھر بڑھ بڑھ کر داعیان میں اپنے نام بھی لکھوا لیتے ہیں.لیکن اس کا فائدہ کیا ہو گا.کیونکہ تمہارے قول و فعل میں تضاد ہوگا اس وجہ سے تم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار ہو گے.فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہے.اس لئے ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے.کام میں برکتیں بھی اس وقت پڑتی ہیں جب نیتیں صاف ہوں.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”اسلام کی حفاظت اور سچائی کو ظاہر کرنے کے لئے سب سے اول تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ.(ملفوظات جلد چہارم صفحه ۲۱۵ الحکم ۳۱ جنوری ۱۹۰۲ء) تو ہر داعی الی اللہ کو، ہر تبلیغ کرنے والے کو، ہر واقف زندگی کو ، ہر عہد یدار کو اور کیونکہ دنیا کی نظر ایک جماعت کی حیثیت سے جماعت کے ہر فرد پر ہے.اس لئے ہر احمدی کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا ایک نمونہ بننے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ دعوت الی اللہ کے میدان میں بھی ہماری مددفرمائے اور ہماری زندگیوں میں بھی اس کے فضل کے آثار ظاہر ہوں.جب یہ عملی نمونے ہم دکھانے شروع کر دیں گے اور دکھانے کے قابل ہو جائیں گے اور ہر شخص خواہ وہ کسی عمر کا

Page 392

$2004 387 خطبات مسرور ہواور کسی پیشے سے تعلق رکھتا ہو، اپنے ماحول میں اس پاک تبدیلی کے ساتھ تبلیغ میں جت جائے گا تو تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والوں میں شمار ہو سکتے ہیں.اور احمدیت کے جھنڈے کو جلد از جلد دنیا میں گاڑ سکتے ہیں.ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.کہ : " اپنے پائے اور اپنے طبقے کے لوگوں کو احمدی بنائیں.زمیندار زمیندار کو احمدی بنائیں، وکیل وکیل کو ، ڈاکٹر ڈاکٹروں کو، انجینئر انجینئروں کو، پلیڈر پلیڈروں کو.اسی طرح چند سالوں میں ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے کہ طوفان نوح بھی اس کے سامنے مات ہو جائے“.(الفضل ١٥ فروری ۱۹۲۹ء) جائے“.(الفضل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینے کی کیا حالت ہوگئی، ہر ایک حالت میں تبدیلی ہے.پس اس تبدیلی کو مد نظر رکھو اور آخری وقت کو ہمیشہ یادرکھو.آنے والی نسلیں آپ لوگوں کا منہ دیکھیں گی.اور اسی نمونے کو دیکھیں گی.اگر تم پورے طور پر اپنے آپ کو تعلیم کا حاصل نہ بناؤ گے تو گویا آنے والی نسلوں کو تباہ کرو گے.انسان کی فطرت میں نمونہ پرستی ہے.وہ نمونے سے بہت جلد سبق لیتا ہے.ایک شرابی اگر کہے کہ شراب نہ پیو ایک زانی کہے کہ زنانہ کرو.ایک چور دوسرے کو کہے کہ چوری نہ کرو تو ان نصیحتوں سے دوسرے کیا فائدہ اٹھائیں گے.بلکہ وہ تو کہیں گے کہ بڑا ہی خبیث ہے وہ جو خود کرتا ہے اور دوسروں کو اس سے منع کرتا ہے.جو لوگ خود ایک بدی میں مبتلا ہو کر اسکا وعظ کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں.دوسروں کو نصیحت کرنے والے اور خود عمل نہ کرنے والے بے ایمان ہوتے ہیں اور اپنے واقعات کو چھوڑ جاتے ہیں.ایسے واعظوں سے دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحه ٥١٨ ـ الحكم ٣١ جنوری ١٩٠٤ء) تو جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا خود کسی بدی میں مبتلا ہو کر دوسرے کو اس بدی سے کس طرح روک سکتے ہو.کسی کو کس طرح راستہ دکھا سکتے ہوا گر خود ہی اس

Page 393

$2004 388 خطبات مسرور راستے کو نہ دیکھا ہو.جس شخص کو بھی آپ نصیحت کر رہے ہوں وہ کہے گا پہلے اپنے آپ کو تو سنبھالو، اپنے گھر کی خبر لو، مجھے تم کہ رہے ہو کہ ایک خدا کی عبادت کرو اور خود تمہارا یہ حال ہے کہ نمازوں کے اوقات میں مجلسیں لگا کر بیٹھے رہتے ہو یا اپنے دنیاوی دھندوں میں مشغول رہتے ہو، اللہ تعالیٰ کا حکم جو تم مجھے بتا رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرو، اس کا خیال رکھو اور تمہاری بیوی کا یہ حال ہے کہ دوسرے گھروں میں بتاتی پھرتی ہے کہ تم انتہائی ظالم خاوند ہو.اس پر دست درازی کرتے ہو، اس کو مارتے پیٹتے ہو.تم ایک ظالم سر ہو، اپنی بہو پہ بھی ہاتھ اٹھانے سے دریغ نہیں کرتے.وہ تمہیں کہے گا جس کو بھی تبلیغ کر رہے ہو کہ اپنی بیوی کو بھی سمجھا ؤ ، اپنے گھر کی بھی خبر لو کہ وہ بھی ان احکامات پر عمل کرے اور اپنی بہو سے حسن سلوک کرے.تم خود تو پہلے اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا کر وہ تمہارے ہمسائے تو تم سے تنگ آئے پڑے ہیں.تم خود تو اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرو.تمہارے ماں باپ تو تم سے سخت نالاں ہیں، ناراض ہیں کہ تم بڑھاپے میں ان سے بد تمیزی سے پیش آتے ہو.تم اپنے کاروباری ساتھی کو جو دھوکہ دے رہے ہو پہلے اس سے تو معاملہ صاف کرو.تم اپنے افسروں اور ماتحتوں کے جو حقوق دبائے بیٹھے ہو پہلے وہ تو ادا کرو.جو زیر تبلیغ ہے پہلے یہ ہی کہے گا اگر اس کو آپ کا علم ہے کہ جب تم اپنے اندرسب تبدیلیاں پیدا کر لو گے تو پھر مجھے نصیحت کرنا ، مجھے بھی اپنی جماعت کی خوبیاں بیان کرنا، مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا.ورنہ تم خود اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق ، قرآن کی تعلیم کے مطابق گنہگار ہو، مجھے کیا راستہ دکھاؤ گے.پس استغفار کا مقام ہے، بہت زیادہ استغفار کا مقام ہے.جو کوتاہیاں اور غلطیاں ہم سے ہو چکی ہیں ان کی اللہ سے معافی مانگیں.اس کے سامنے جھکیں یہ عہد کریں کہ ہم سے جو ظلم ہوئے ان سے محض اور محض رحم فرماتے ہوئے صرف نظر فرما اور آئندہ ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں اور ہم تیرے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں اور جو کام تو نے

Page 394

$2004 389 خطبات مسرور ہمارے سپرد کئے ہیں ان کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں.یاد رکھیں کہ ذاتی نمونے کی طرف لوگوں کی بہت توجہ ہوتی ہے، بہت نظر ہوتی ہے.کئی واقعات ایسے ہیں.ایک شخص نے مجھے بتایا کہ وہ احمدیت کے بہت قریب تھا، بیعت کرنے کے بہت قریب تھا لیکن اس کے ایک احمدی عزیز نے اس سے ایک بہت بڑا دھو کہ کیا جس کی وجہ سے وہ باوجود جماعت کو اچھا سمجھنے کے احمدیت قبول کرنے سے انکاری ہو گیا.تو بہر حال یہ تو اس کی بد قسمتی تھی ، شامت اعمال تھی جس کی وجہ سے اس کو موقع نہیں ملا.لیکن اس احمدی کا نام بھی اس کی اس بدی کے ساتھ لگ گیا.اس لئے اس حدیث کو ہمیشہ یادرکھیں کہ ہدایت کی طرف بلاؤ اور ہدایت کی طرف بلانے والے کا اجر سرخ اونٹوں کے حاصل کرنے سے زیادہ ہے.دینی اور دنیاوی انعامات سے اللہ تعالیٰ نوازتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، تو بہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مد نظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں.نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے.جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الہی کے متعلق ہو یا حقوق العباد کے متعلق ہو بچو“.(ملفوظات جلد ۳ صفحه ۲٤۲۲۲۲۲۱ اپریل (۱۹۰۳ء اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.عہد بیعت کو نبھانے والے بنیں.اسلام کی خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر بھی لاگو کریں اور دنیا کو پہنچانے والے بھی ہوں.اور جلد سے جلد اسلام کا غلبہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں.آمین

Page 395

$2004 390 خطبات مسرور

Page 396

$2004 391 24 خطبات مسرور قرآن مجید اور احادیث نبویہ کو سمجھنے کے لئے خود بھی صادق بنو اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہو گئے ہو تو اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرو ارجون ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۱ار احسان ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن والدین اپنے بچوں سے بے تکلف ہو کر دوستانہ ماحول پیدا کریں صحبت کا اثر اور اس کی اہمیت دوعاؤں کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود کی تفاسیر اور علم کلام سے فائدہ اٹھانا چاہئے ایم.ٹی.اے سے استفادہ اور ایم.ٹی.اے والوں کے لئے.پروگراموں کی راہنمائی

Page 397

خطبات مسرور $2004 392 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوْا اللَّهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصَّدِقِيْنَ﴾ (سورة توبه (119).ترجمہ : اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ جب بھی انبیاء مبعوث فرماتا ہے تو اس کے ماننے والے، اس پر ایمان لانے والے، تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوتے ہیں.اور ان کے تقویٰ کا اعلیٰ معیار اس لئے قائم ہورہا ہوتا ہے، اس کا اظہار اس لئے ہورہا ہوتا ہے، دنیا کو نظر آ رہا ہوتا ہے ( ان کی اپنی طرف سے نہیں ہوتا دنیا کو نظر آتا ہے ) اور ان کے اندر یہ تبدیلی اس لئے نظر آ رہی ہوتی ہے کہ انہوں نے اس قرب کی وجہ سے جو ان کو نبی سے ہے اللہ کی مدداور فضل سے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے.اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ خود بھی اس بچی پیروی کی وجہ سے ، اس بچے ایمان کی و - جہ سے، اپنے اندر تقویٰ قائم ہونے کی وجہ سے، اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی وجہ سے، صادقوں میں شامل ہو گئے ہوتے ہیں.اور پھر آگے بہت سوں کی رہنمائی کا باعث بنتے ہیں، بن رہے ہوتے ہیں، تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے یہ فیض رک نہیں جاتا بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے.ورنہ تو اس آیت میں جو حکم ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ اس کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے.اگر یہ عمل رکنے والا ہو تو یہ حکم تاریخ کا حصہ بن جائے

Page 398

393 $2004 خطبات مسرور گا.پھر تو لوگ پوچھتے کہ وہ کون ہیں صادق ، وہ کہاں ہیں جن کے ساتھ ہم نے ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے.تو یہ معرفت کی باتیں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعے سے ہی پتہ لگی ہیں.آپ کی قوت قدسی نے صادقین کی ایک فوج تیار کی جو روحانیت میں اتنی ترقی کر گئی کہ ان کو صحابہ کا مقام حاصل ہو گیا.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی جماعت میں رہ کر آپ کے قرآنی علوم و معارف سے فیضیاب ہو کر ہی صادقین میں شمار ہوسکتا ہے.تو جہاں اس آیت میں ایمان لانے والوں کو تقویٰ کی راہوں پر چلنے والوں کو، یہ حکم ہے کہ تم صادقوں کے ساتھ رہو وہاں ہمیں یہ بھی حکم ہے جس کی وجہ سے ہمیں ایک فکر پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ خود بھی صادق بنو.اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہو گئے ہو تو اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرو.خود بھی دوسروں کے لئے رہنمائی کا باعث بنو، ورنہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق صادق تو پیدا ہوتے رہیں گے لیکن یہ نہ ہو کہ ہم تعلیم سے دُور ہٹ کر گمراہی کے گڑھے میں گرتے چلے جائیں اور صادقین کی ایک اور جماعت آجائے جولوگوں کی رہنمائی کرنے والی ہو.اللہ تعالیٰ نے تو دنیا کو ہدایت پر قائم رکھنے کے لئے اپنے نیک بندوں کو بھیجتے رہنا ہے.ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہیں.اس سے دعا مانگتے رہیں کہ ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جو صادقین کے ساتھ جڑنے والے، جڑے رہنے والے ہوں.امام الزمان کے ساتھ جڑے رہنے والے ہوں، اس کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے والے ہوں اور اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے والے ہوں اور لوگوں کی رہنمائی کا باعث بھی بنیں.یہ نہ ہو کہ ہم دنیا کی طرف جھکتے ہی چلے جائیں اور آہستہ آہستہ دین سے اس قدر دور چلے جائیں کہ شیطان ہم پر حملہ آور ہو جائے.اور شیطان تو شروع میں بڑے سبز باغ دکھاتا ہے جب حملہ کرتا ہے اور بعد میں چھوڑ دیتا ہے.اس لئے ہمیشہ زندگی میں پھونک پھونک کر قدم مارنا

Page 399

394 خطبات مسرور چاہئے.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا چاہئے ، اس سے دعائیں مانگتے رہنا چاہئے.$2004 اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ ﴿ يَوَيْلَتَى لَيْتَنِيْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا لَقَدْ أَضَلَّنِيْ عَنِ الذِكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَ نِي وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِلْإِنْسَان خَدُولًا.(سورة الفرقان آیت: 29-30 ) کہ اے وائے ہلاکت کاش میں فلاں شخص کو پیارا دوست نہ بناتا اس نے یقیناً مجھے اللہ کے ذکر سے منحرف کر دیا بعد اس کے کہ وہ میرے پاس آیا اور شیطان تو انسان کو بے یار و مددگار چھوڑ جانے والا ہے.پس شیطان سے بچنے کیلئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے.اپنی روحانیت کو بڑھانے کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے اور اس زمانے میں جو صحیح طریقے ہمیں دین کو سمجھنے کے لئے بتائے وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی بتائے ہیں.اس لئے آپ کی کتب پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے.یہ بات بھی صحبت صادقین کے زمرے میں آتی ہے کہ آپ کے علم کلام سے فائدہ اٹھایا جائے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ : اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان تباہیوں کے اسباب اور بواعث کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے گندے جلیسوں کی وجہ سے تباہی کے گڑھے میں گرا کرتا ہے.وہ پہلے تو اپنے دوستوں کی مصاحبت پر فخر کرتا ہے مگر جب اسے کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فَلَانًا خَلِيْلًا ﴾ کہ اے کاش میں فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا اس نے تو مجھے گمراہ کر دیا.اسی وجہ سے قرآن کریم نے مومنوں کو خاص طور پر نصیحت فرمائی ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ (توبه : ۱۱۹) یعنی اے مومنو! تم ہمیشہ صادقوں کی معیت اختیار کیا کرو.حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گردو پیش کی اشیاء سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر وہ اپنی دوستی اور ہم نشینی کے

Page 400

$2004 395 خطبات مسرور لئے ان لوگوں کا انتخاب کرے گا جو اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوں گے اور جن کا مطمح نظر بلند ہوگا تولا زما وہ بھی اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا.اور رفتہ رفتہ اس کی یہ کوشش اس کے قدم کو اخلاقی بلندیوں کی طرف بڑھانے والی ثابت ہوگی.لیکن اگر وہ برے ساتھیوں کا انتخاب کرے گا تو وہ اسے کبھی راہ راست کی طرف نہیں لے جائیں گے.بلکہ اسے اخلاقی پستی میں دھکیلنے والے ثابت ہوں گے.اس کے بعد پھر حضرت مصلح موعودؓ نے مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک سکھ طالبعلم تھا جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑی عقیدت تھی.تو اس نے آپ کو لکھا کہ پہلے تو مجھے خدا کی ہستی پر بڑا یقین تھا لیکن اب مجھے کچھ کچھ شکوک وشبہات پیدا ہونے لگ گئے ہیں.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو جواب دیا کہ تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی دہریت کے خیالات رکھتا ہے جس کا تم پہ اثر پڑ رہا ہے، اس لئے اپنی جگہ بدل لو.چنانچہ اس نے اپنی سیٹ بدل لی اور خود بخود اس کی اصلاح ہو گئی.فرماتے ہیں کہ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان پر کتنا برا اثر پڑتا ہے.یعنی یہی حکمت ہے جس کے ماتحت رسول کریم ہے جس کسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے تو بڑی کثرت سے استغفار فرمایا کرتے تھے تا کہ کوئی بری تحریک آپ کے قلب مطہر پر اثر انداز نہ ہو.(تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ٤٨٢،٤٨١) تو دیکھیں آنحضرت علی اللہ بھی استغفار اس کثرت سے پڑھتے تھے.پھر ایک حدیث میں روایت ہے اور بہت اہم ہے جس کی طرف والدین کو بھی توجہ دینی چاہئے اور ایسے نوجوانوں کو بھی جو نو جوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ : ” انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے.یعنی دوست کے اخلاق کا اثر انسان پر ہوتا ہے.اس لئے اسے غور کرنا چاہئے کہ وہ کسے دوست بنا رہا ہے“.(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب من يومران (مجالس تو والدین کو بھی نگرانی رکھنی چاہئے اور یہ نگرانی سختی سے نہیں رکھنی چاہئے.بلکہ بچوں سے

Page 401

$2004 396 خطبات مسرور بے تکلف ہوں، کئی دفعہ پہلے بھی میں اس بارے میں کہہ چکا ہوں.اکثر کہتا رہتا ہوں کہ اس مغربی معاشرے میں بلکہ آجکل تو مغرب کا اثر ، دجالی قوتوں کا اثر ، شیطان کے حملوں کا اثر ، رابطوں میں آسانی یا سہولت کی وجہ سے ہر جگہ ہو چکا ہے، تو میں یہ کہ رہا ہوں شیطان کے ان حملوں کا مقابلہ کر نے کے لئے والدین کو اپنے بچوں سے ایک دوستانہ ماحول پیدا کرنا ہوگا اور پیدا کرنا چاہئے خاص طور پر ان ملکوں میں جو نئے آنے والے ہوتے ہیں.وہ شروع میں تو نرمی دکھاتے ہیں اس کے بعد زیادہ سخت ہو جاتے ہیں.وہ تصور نہیں ہے کہ بچوں سے بھی دوستی پیدا کی جاسکتی ہے تو ان کو پھر یہ احساس دلانا چاہئے یہ ماحول پیدا کر کے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے.بچے کو بچپن سے پتہ لگے پھر جوانی میں پتہ لگے.ایک عمر میں آکے والدین خود بچوں سے باتیں کرتے ہوئے جھجکتے ہیں.یہ بھی غلط ہے.ان کو دین کی طرف لانے کے لئے ، دین کی اہمیت ان کے دلوں میں پیدا کرنے کے لئے انہیں خدا سے ایک تعلق پیدا کروانا ہوگا.اس کیلئے والدین کو دعاؤں کے ساتھ ساتھ بڑی کوشش کرنی چاہئے.اور اس وقت تک یہ کام نہیں ہوگا جب تک والدین کا شمار خودصادقوں میں نہ ہو.پھر یہ بھی نظر رکھنی چاہئے کہ بچوں کے دوست کون ہیں بچوں کے دوستوں کا بھی پتہ ہونا چاہئے.یہ مثال تو ابھی آپ نے سن ہی لی.اس سیٹ پر بیٹھنے کی وجہ سے ہی صرف اس طالبعلم پر دہریت کا اثر ہورہا تھا.لیکن یہ مثالیں کئی دفعہ پیش کرنے کے باوجود، کئی دفعہ سمجھانے کے باوجود، ابھی بھی والدین کی یہ شکایات ملتی رہتی ہیں کہ انہوں نے سختی کر کے یا پھر بالکل دوسری طرف جا کر غلط حمایت کر کے بچوں کو بگاڑ دیا.ایک بچہ جو پندرہ سولہ سال کی عمر تک بڑا اچھا ہوتا ہے جماعت سے بھی تعلق ہوتا ہے، نظام سے بھی تعلق ہوتا ہے، اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں بھی حصہ لے رہا ہوتا ہے.جب وہ پندرہ سولہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو پھر ایک دم پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ہلتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایسی بھی شکایتیں آئیں کہ ایسے بچے ماں باپ سے بھی علیحدہ ہو گئے.اور پھر

Page 402

$2004 397 خطبات مسرور بعض بچیاں بھی اس طرح ضائع ہو جاتی ہیں.جن کا بہر حال افسوس ہوتا ہے.تو اگر والدین شروع سے ہی اس بات کا خیال رکھیں تو یہ مسائل پیدا نہ ہوں.پھر بچوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے دوست سوچ سمجھ کر بناؤ.یہ نہ سمجھو کہ والدین تمہارے دشمن ہیں یا کسی سے روک رہے ہیں بلکہ سولہ سترہ سال کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ خود ہوش کرنی چاہئے ، دیکھنا چاہئے کہ ہمارے جو دوست ہیں بگاڑنے والے تو نہیں، اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے تو نہیں ہیں.کیونکہ جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہیں وہ تمہارے خیر خواہ نہیں ہو سکتے.تمہارے ہمدرد نہیں ہو سکتے، تمہارے بچے دوست نہیں ہو سکتے.اور ایک احمدی بچے کو تو کیونکہ صادقوں کی صحبت سے فائدہ اٹھاتا ہے اس لئے یاد رکھیں کہ یہ گروہ شیطان کا گروہ ہے صادقوں کا گروہ نہیں اس لئے ایسے لوگوں میں بیٹھ کے اپنی بدنامی کا باعث نہ بنیں، ایسے بچوں یا نو جوانوں سے دوستی لگا کے اپنے خاندان کی بدنامی کا باعث نہ بنیں اور ہمیشہ نظام سے تعلق رکھیں.نظام جو بھی آپ کو سمجھاتا ہے آپ کی بہتری اور بھلائی کیلئے سمجھاتا ہے.نمازوں کی طرف توجہ دیں.قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دیں اللہ تعالیٰ ہمارے ہر بچے کو ہر شیطانی حملے سے بچائے.حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ : " آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہے جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو.کستوری اٹھانے والا تجھے مفت خوشبو دے گا یا تو اس سے خرید لے گا.ورنہ کم از کم تو اس کی خوشبو اور مہک سونگھ ہی لے گا.اور بھٹی جھو نکنے والا یا تیرے کپڑوں کو جلا دے گا یا اس کا بد بودار دھواں تجھے تنگ کرے گا“.(مسلم کتاب البر والصلة - باب استحباب مجالسة الصالحين) تو اللہ تعالیٰ ہم سب کو کستوری کی خوشبو بانٹنے والا بنائے اور ہمارے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہوں جو نہ صرف ہمیں فائدہ پہنچارہی ہوں بلکہ لوگ بھی ہم سے فائدہ اٹھا رہے ہوں.پس اس

Page 403

398 $2004 خطبات مسرور کے لئے بہت مجاہدے کی ضرورت ہے.اپنی نسلوں کو بچانے کیلئے بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” صحبت میں بڑا شرف ہے.اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا ہی دیتی ہے.کسی کے پاس اگر خوشبو ہو تو پاس والے کو بھی پہنچ ہی جاتی ہے.اسی طرح پر صادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے.یعنی صادقوں کی صحبت بھی سچائی کی روح پھونکتی ہے.وہ روح پیدا کرتی ہے.فرمایا کہ : ” میں سچ کہتا ہوں کہ گہری صحبت نبی اور صاحب نبی کو ایک کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں اگر صحیح تعلق ہو تو روحانیت کا مقام جو نبی کو ملتا ہے اس جیسا ہی مقام بچے طور پر ماننے والے کو بھی مل جاتا ہے.تو فرمایا: ” یہی وجہ ہے جو قرآن شریف میں ﴿كُوْنُوْا مَعَ الصَّدِقِينَ) (التوبة: ۹۱۱) فرمایا ہے.اور اسلام کی خوبیوں میں سے ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہر زمانے میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں.(الحكم جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ٢٤ جنوری ١٩٠٦ء صفحه ٥ ـ ملفوظات جلد چهارم صفحه (٦٠٩ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( یہ ایک لمبی حدیث ہے اس کا کچھ حصہ پڑھتا ہوں) کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور انہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے.جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہورہا ہو تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں.ساری فضا ان کے اس سایہ برکت سے معمور ہو جاتی ہے.جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں.تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ لمبا سوال جواب ہے کہ کیا مانگتے ہیں؟ جنت مانگتے ہیں، پناہ چاہتے ہیں.بخشش چاہتے ہیں.تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان کو پتہ ہو کہ میری پناہ کیا ہے اور یہ سب کچھ ، تو ان کا کیا حال ہوگا؟ اور پھر فرماتا ہے کہ اچھا اگر وہ میری بخشش چاہتے ہیں، بخشش طلب کرتے ہیں تو میں نے انہیں بخش دیا اور انہیں سب کچھ وہ دے دیا جو انہوں نے مجھ سے مانگا.تو فرشتے اس پہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ان میں فلاں خطا کار شخص بھی تھا.وہ وہاں سے گزرا اور انہیں ذکر کرتے دیکھ کر یونہی

Page 404

399 $2004 خطبات مسرور ان میں بیٹھ گیا.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اس کو بھی بخش دیا.کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بد بخت نہیں رہتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ” جب انسان ایک راستباز اور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے.لیکن جو راستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کرتی جاتی ہے.اسی لئے احادیث اور قرآن شریف میں صحبت بد سے پر ہیز کرنے کی تاکید اور تہدید پائی جاتی ہے.اور لکھا ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول علی کی اہانت ہوتی ہو اس مجلس سے فی الفور اٹھ جاؤ.ورنہ جو اہانت سن کر نہیں اٹھتا اس کا شمار بھی ان میں ہی ہوگا.صادقوں اور راستبازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہوتا ہے اس لئے کس قدرضرورت ہے اس امر کی کہ انسان كُوْنُوْا مَعَ الصَّدِقِيْنَ کے پاک ارشاد پر عمل کرے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذکر کر رہے تھے مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی ان میں ہی سے ہے کیونکہ إِنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَشْقَى جَلِيْسُهُمْ.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کی صحبت سے کس قدر فائدے ہیں.سخت بدنصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور ہے“.فرمایا: ”غرض نفس مطمئنہ کی تا شیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں امارہ والے میں نفس امارہ کی تاثیریں ہوتی ہیں.اور تو امہ والے میں تو امہ کی تاثیر میں ہوتی ہیں.اور جو شخص نفس مطمئنہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے.(الحكم جلد ۸ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ١٩٠٤ء صفحه ١)

Page 405

$2004 400 مسرور پھر آپ نے فرمایا: ” اصلاح نفس کی ایک راہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے ﴿كُوْنُوْا مَعَ الصَّدِقِينَ.یعنی جو لوگ قولی فعلی عملی اور حالی رنگ میں سچائی پر قائم ہیں“.یعنی باتیں بھی ، ان کے عمل بھی اور ان کی ہر حرکت بھی ایسی ہو اور ان کا حال بھی یہ ظاہر کر رہا ہو کہ وہ سچائی پر قائم ہیں ”ان کے ساتھ رہو.اس سے پہلے فرمایا يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ یعنی اے ایمان والو تقویٰ اللہ اختیار کرو.اس سے مراد یہ ہے کہ پہلے ایمان ہو پھر سنت کے طور پر بدی کی جگہ کو چھوڑ دے اور صادقوں کی صحبت میں رہے.صحبت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جواندر ہی اندر ہوتا چلا جاتا ہے.اگر کوئی شخص ہر روز کنجریوں کے ہاں جاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ کیا میں زنا کرتا ہوں.اس سے کہنا چاہئے کہ ہاں تو کرے گا اور وہ ایک نہ ایک دن اس میں مبتلا ہو جاوے گا کیونکہ صحبت میں تاثیر ہوتی ہے.اسی طرح پر جوشخص شراب خانے میں جاتا ہے.خواہ وہ کتنا ہی پر ہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں.لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ ضرور پیئے گا.پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ صحبت میں بہت بڑی تاثیر ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصلاح نفس کیلئے كُوْنُوْا مَعَ الصَّدِقِيْنَ ) کا حکم دیا.ہے.جو شخص نیک صحبت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت ہی کے رنگ میں ہولیکن وہ صحبت اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے گی اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز آ جائے گا.(الحكم جلد۸ نمبر ۱ مورخه ۱۰ جنوری ١٩٠٤ء صفحه ٤) تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ ایسی گندی جگہوں پر جا کر اگر پھر کوئی کہتا ہے میں کون سا یہ کام کر رہا ہوں.شراب خانے میں جا کر اگر کہے کہ میں کون سی شراب پی رہا ہوں تو فرمایا کہ ایک دن وہ اس ماحول کے زیر اثر آجائے گا.اور ہوسکتا ہے کہ پینا شروع کر دے.اس لئے حدیث میں بھی آیا ہے شراب کی ہر قسم کی مناہی کی گئی ہے پلانے کیلئے بھی اور بنانے والے کیلئے بھی اور کشید کرنے کیلئے بھی سب کچھ.کچھ سال پہلے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا تھا کہ جو یہاں آکے ایسے ریسٹورنٹ میں کام کرتے ہیں جہاں شراب وغیرہ بیچی جاتی ہے تو اس

Page 406

401 $2004 خطبات مسرور کام کوختم کریں اور ملازمتوں کو چھوڑیں اور اس کا جماعت کی طرف سے بڑا اچھا رسپانس تھا اور تقریباً سب نے ہی ایسی ملازمتیں یا ایسے کاروبار چھوڑ دیئے.لیکن سور کے گوشت کھانے پر بھی قرآن شریف میں مناہی ہے.ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جو ایسے ریسٹورنٹس میں کام کرتے ہیں جہاں برگر بناتے ہیں یا برگر Serve کرتے ہیں.تو کہتے یہی ہیں کہ ہم کون سا استعمال کر رہے ہیں لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بعض دفعہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ پھر انسان ان چیزوں سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہو جاتا ہے.اور یہ نہ ہو کسی دن وہ برگر استعمال بھی ہو جائے.اس لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی بچت کر لی جائے.اور ایسی نوکریوں کو چھوڑ دینا چاہئے.کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں صاف ستھرا کام ہوتا ہے وہاں نوکریاں مل سکتی ہیں، ملازمتیں مل سکتی ہیں، تلاش کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑیں گے تو انشاءاللہ تعالیٰ برکت پڑے گی.اور یہ اصلاح نفس کا بہت بڑا ذریعہ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دو چیزیں ہیں ایک تو دعا کرنی چاہئے اور دوسرا طریق یہ ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِینَ راستبازوں کی صحبت میں رہوتا کہ ان کی صحبت میں رہ کر تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہارا خدا قادر ہے، بینا ہے، دیکھنے والا ہے، سننے والا ہے، دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو صد ہا نعمتیں دیتا ہے“.( البدر جلد نمبر ۲ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۳ء - صفحه ۱ اس زمانے میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود کی تفاسیر اور علم کلام سے فائدہ اٹھانا چاہئے.اگر قرآن کو سمجھنا ہے یا احادیث کو سمجھنا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ تو بڑی نعمت ہے ان لوگوں کیلئے جن کو اردو پڑھنی آتی ہے کہ تمام کتابیں اردو میں ہیں.اکثریت اردو میں ہیں، چند ایک عربی میں بھی ہیں.پھر جو پڑھے لکھے نہیں ان کیلئے مسجدوں میں درسوں کا انتظام موجود ہے ان میں

Page 407

$2004 402 خطبات مسرور بیٹھنا چاہئے اور درس سننا چاہئے.پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.اور ایم ٹی اے والوں کو بھی مختلف ملکوں میں زیادہ سے زیادہ اپنے پروگراموں میں یہ پروگرام بھی شامل کرنے چاہئیں جن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کے تراجم بھی ان کی زبانوں میں پیش ہوں.جہاں جہاں تو ہو چکے ہیں اور تسلی بخش تراجم ہیں وہ تو بہر حال پیش ہو سکتے ہیں.اور اسی طرح اُردو دان طبقہ جو ہے، ملک جو ہیں ، وہاں سے اردو کے پروگرام بن کے آنے چاہئیں.جس میں زیادہ سے زیادہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام کے معرفت کے نکات دنیا کو نظر آئیں اور ہماری بھی اور دوسروں کی بھی ہدایت کا موجب بنیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو بے انتہا لوگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق مل رہی ہے، کروڑوں میں احمدیت داخل ہو چکی ہے ان کی تربیت کیلئے بھی ضروری ہے کہ ان تک بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ پہنچانے کی کوشش کی جائے اور یہ چیز تربیت کے لحاظ سے بڑی فائدہ مند ہوگی.تربیت کے شعبوں کیلئے بھی بہت فائدہ مند ہوگی.پس دعاؤں کے ساتھ اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور جماعت کو ہر ملک میں جہاں جہاں شعبہ تربیت ہیں ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”دیکھو ایک زمانہ وہ تھا کہ آنحضرت سے تن تنہا تھے مگر لوگ حقیقی تقویٰ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے حالانکہ اب اس وقت لاکھوں مولوی اور واعظ موجود ہیں لیکن چونکہ دیانت نہیں، وہ روحانیت نہیں، اس لئے وہ اثر اندازی بھی ان کے اندر نہیں ہے.انسان کے اندر جوزہر یلا مواد ہوتا ہے وہ ظاہری قیل وقال سے دور نہیں ہوتا اس کے لئے صحبت صالحین اور ان کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے فیضیافتہ ہونے کیلئے ان کے ہمرنگ ہونا اور جو عقائد صحیحہ خدا نے ان کو سمجھائے ہیں ان کو مجھ لینا بہت ضروری ہے.(ملفوظات جلد ۳ صفحه ۴۶، البدر ۲۹/ اکتوبر ۱۹۰۳)

Page 408

$2004 403 مسرور چنانچہ دیکھ لیں آج کل اخبار ان باتوں سے بھرے پڑے ہیں.بہت سے کالم نویس لکھتے ہیں ہماری مساجد بھی موجود ہیں.آذان کی آواز سن کر ان مساجد کی طرف جانے والے بھی لائنوں میں گروہ در گروہ جارہے ہوتے ہیں، آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں، حج پر بھی جاتے ہیں،صدقہ خیرات بھی بہت لوگ کرتے ہیں.لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری ان تمام نیکیوں کا نتیجہ ہمیں نظر نہیں آتا.اور امت مسلمہ ہر طرف سے خطرات میں گھرتی چلی جارہی ہے.تو ان کو پتہ تو ہے کہ کیا وجہ ہے.لیکن جو شخص دنیا کی اس زمانے میں اصلاح کا دعوی لے کر اٹھا ہے جو رسول اللہ ﷺ کا عاشق صادق ہے اس کی مخالفت کر رہے ہیں.ظاہری طور پر تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ادائیگی ہو رہی ہے لیکن اندرونی طور پر ہر رکن اسلام پر عمل کر کے دنیا دکھاوے کی خاطر اس کا اظہار ہورہا ہوتا ہے.اپنے دنیاوی فائدے اس سے حاصل کر رہے ہوتے ہیں.عبادات ہیں تو وہ اظہار کے طور پہ ہیں.حج ہے تو وہ اظہار کے طور پر ہے.صدقہ و خیرات ہے تو وہ اظہار کے طور پر ہورہا ہے.غرض کہ ہر بات میں دنیا کی ملونی نظر آتی ہے.تو جب دنیا کی ملونی ہوگئی اور زمانے کے امام کی مخالفت بھی انتہاء کو ہوگئی بلکہ اس کے ماننے والوں کو نقصان پہنچانا ثواب کا کام سمجھنے لگ گئے تو پھر اللہ تعالیٰ کا تو یہی سلوک ہے ایسے لوگوں سے اور یہی ہونا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل اور سمجھ دے جو اپنے ایسے علماء کے پیچھے چل پڑے ہیں جن کا کوئی عمل نہیں.ان کے دماغوں میں بھی یہ ہدایت کی بات آئے کہ اب اگر کچھ حاصل کرنا ہے اور اپنی اس گرتی ہوئی عظمت کو بحال کرنا ہے تو یہ سب کچھ صحبت صادقین سے ہی ہوگا اور اس زمانے کے امام اور آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہونے سے ہی ہوگا.ورنہ تو پھر یہ لڑائی جھگڑے، مار دھاڑ اور یہ سب ذلت و رسوائی جو ہے یہ سب ان کا مقدر ہے.اور پھر آخر کو یہی کہو گے کہ کاش ہم شیطان کے بہکاوے میں نہ آتے.پس ہم احمدیوں کا بھی حقیقی معنوں میں یہ فرض بنتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صدق پر قائم ہوں اور یہ بات ہمیں بھی اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم امت مسلمہ کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے.

Page 409

$2004 404 مسرور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " قرآن شریف میں آیا ہے.قذ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا﴾ (الشمس: ۱۰) اس سے اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا.تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین اور نیکیوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت مفید ہے جھوٹ وغیرہ اخلاق رذیلہ دور ہونے چاہئیں.اور جو راہ پر چل رہا ہے اس سے راستہ پوچھنا چاہئے.اپنی غلطیوں کو ساتھ ساتھ درست کرنا چاہئے جیسا کہ غلطیاں نکالنے کے بغیر املاء درست نہیں ہوتا.ویساہی غلطیاں نکالنے کے بغیر اخلاق بھی درست نہیں ہوتے.آدمی ایسا جانور ہے کہ اس کا تزکیہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے تو سیدھی راہ پر چلتا ہے ورنہ بہک جاتا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه ۳۰۹ـ بدر ۵ اکتوبر ۱۹۱۱) اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ رکھے اور کبھی شیطان ہم پر حملہ آور نہ ہو سکے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : " لوگ تلاش کرتے ہیں کہ ہمیں حقیقت ملے لیکن یہ بات جلد بازی سے حاصل نہیں ہوا کرتی جب انسان کی روح پکھل کر آستانہ الوہیت پر گرتی ہے اور اس کو اپنا اصلی مقصود خیال کرتی ہے.تب اس کیلئے حقیقت کا دروازہ بھی کھولا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور صحبت صادقین سے ہی باتیں حاصل ہوا کرتی ہیں“.(ملفوظات جلد ٥ صفحه ٣٤٧،٣٤٦ الحكم ۱۰ نومبر ١٩٠٧ء) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ،اس سے مدد مانگتے ہوئے ، اس انعام کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل کر کے عطا فرمایا ہے.سچے دل سے آپ کے تمام دعاوی پر ایمان لانے والے ہوں اور اپنے ایمانوں کو بھی مضبوط کرنے والے ہوں اور صادق کے ساتھ جڑ کر اپنے آپ کو بھی صادق ہونے کے قابل بنائیں اور اپنی نسلوں کو بھی ایک فکر کے ساتھ اس کے ساتھ جوڑے رکھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے.

Page 410

$2004 405 25 خطبات مسرور آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں ۱۸ جون ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۸ / احسان ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن یہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت ی احمدی اساتذہ کو نصیحت کہ علم کو پہنچانے میں بخل سے کام نہ لیں طلبہ کو نصیحت کہ اپنے استاد کی عزت کرو اجتماعات اور جلسوں سے بھر پور استفادہ کرنے کی تلقین حضرت مسیح موعود کی کتب اور ملفوظات کی اہمیت و برکت واقفین نو کے لئے ہدایت ، زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں.

Page 411

خطبات مسرور $2004 406 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: فَتَعْلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ.وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ (سورة طه آیت 115) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے.پس اللہ سچا بادشاہ ہے، بہت رفیع الشان ہے، پس قرآن کے پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر پیشتر اس کے کہ اس کی وحی تجھ پر مکمل کر دی جائے.اور یہ کہا کر کہ اے میرے رب مجھے علم میں بڑھا دے.اصل جو دعا اس میں سکھائی گئی ہے وہ ہے ﴿ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ﴾.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعا سکھا کر مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے یہ دعا صرف برائے دعا ہی نہیں کہ منہ سے کہہ دیا کہ اے اللہ میرے علم میں اضافہ کر اور یہ کہنے سے علم میں اضافے کا عمل شروع ہو جائے گا.بلکہ یہ توجہ ہے مومنوں کو کہ ہر وقت علم حاصل کرنے کی تلاش میں بھی رہو، علم حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہو.طالب علم ہو تو محنت سے پڑھائی کرو اور پھر دعا کرو تو اللہ تعالیٰ حقائق اشیاء کے راستے بھی کھول دے گا.علم میں اضافہ بھی کر دے گا اور پھر صرف یہ طالب علموں تک ہی بس نہیں ہے بلکہ بڑی عمر کے لوگ بھی یہ دعا کرتے ہیں.اور اس دعا کے ساتھ اس کوشش میں بھی لگے رہیں کہ علم میں اضافہ ہو اور اس کی طرف قدم بھی بڑھا ئیں.تو یہ ہر طبقے کے سب عمروں کے لوگوں کے لئے یہی دعا ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ اطلبُوا الْعِلْمَ مِنَ الْمَهْدِ إِلَى اللَّحْدِ یعنی چھوٹی عمر سے

Page 412

$2004 407 خطبات مسرور لے کے، بچپنے سے لے کے آخری عمر تک جب تک قبر میں پہنچ جائے انسان علم حاصل کرتا رہے.تو یہ اہمیت ہے اسلام میں علم کی.پھر اس کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ لگا لیں کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم یا دعا پر سب سے زیادہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا.اور آپ عمل کرتے تھے، اللہ تعالیٰ تو خود آپ کو علم سکھانے والا تھا اور قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب بھی آپ پر نازل فرمائی جس میں کائنات کے سربستہ اور چھپے ہوئے رازوں پر روشنی ڈالی جس کو اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شاید سمجھ بھی نہ سکتا ہو.پھر گزشتہ تاریخ کا علم دیا، آئندہ کی پیش خبریوں سے اطلاع دی لیکن پھر بھی یہ دعا سکھائی کہ یہ دعا کرتے رہیں کہ رَبّ زِدْنِي عِلْمًا.بہر حال ہر انسان کی استعداد کے مطابق علم سیکھنے کا دائرہ ہے اور اس دعا کی قبولیت کا دائرہ ہے.وہ راز جو آج سے پندرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے بتائے آج تحقیق کے بعد دنیا کے علم میں آ رہے ہیں.یہ باتیں جو آج انسان کے علم میں آ رہی ہیں اس محنت اور شوق اور تحقیق اور لگن کی وجہ سے آ رہی ہیں جو انسان نے کی.آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں، زیادہ سے زیادہ کوشش کریں.کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی قرآن کریم کے علوم و معارف دیئے گئے ہیں.اور آپ کے ماننے والوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں انہیں علم و معرفت اور دلائل عطا کروں گا.تو اس کے لئے کوشش اور علم حاصل کرنے کا شوق اور دعا کہ اے میرے اللہ! اے میرے رب ! میرے علم کو بڑھا، بہت ضروری ہے.گھر بیٹھے یہ سب علوم و معارف نہیں مل جائیں گے.اور پھر اس کے لئے کوئی عمر کی شرط بھی نہیں ہے.تو سب سے پہلے تو قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لئے ، دینی علم حاصل کرنے کے لئے ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بے بہا خزانے مہیا فرمائے ہیں ان کو دیکھنا ہو گا.ان کی طرف رجوع کریں، ان کو پڑھیں کیونکہ آپ نے ہمیں ہماری سوچوں کے لئے راستے

Page 413

$2004 408 خطبات مسرور دکھا دیئے ہیں.ان پر چل کر ہم دینی علم میں اور قرآن کے علم میں ترقی کر سکتے ہیں اور پھر اسی قرآنی علم سے دنیاوی علم اور تحقیق کے بھی راستے کھل جاتے ہیں.اس لئے جماعت کے اندر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھنے کا شوق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا شوق نو جوانوں میں بھی اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہونا چاہئے.بلکہ جو تحقیق کرنے والے ہیں، بہت سارے طالب علم مختلف موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں، وہ جب اپنے دنیاوی علم کو اس دینی علم اور قرآن کریم کے علم کے ساتھ ملا ئیں گے تو نئے راستے بھی متعین ہوں گے، ان کو مختلف نہج پر کام کرنے کے مواقع بھی میسر آئیں گے جو اُن کے دنیا دار پروفیسران کو شاید نہ سکھا سکیں.اسی طرح جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بڑی عمر کے لوگوں کو بھی یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ عمر بڑی ہوگئی اب ہم علم حاصل نہیں کر سکتے.ان کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھیں اس بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں یہ سوچ کر نہ بیٹھ جائیں کہ اب ہمیں کس طرح علم حاصل ہو سکتا ہے.اب ہم کس طرح اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے تو لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا جو سکھائی گئی ، جب یہ آیت اتری آپ کی عمر پچپن، چھپن سال تھی.تو کہتے ہیں کہ یہ اس لئے ہے کہ مومنوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ ہمارے لئے بھی ہے.کسی بھی عمر میں علم حاصل کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہئے اور مایوس نہیں ہونا چاہئے پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ: دنیا میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے، جوانی عمل کا زمانہ ہوتا ہے اور بڑھا پا عقل کا زمانہ ہوتا ہے.لیکن قرآن کریم کی رو سے ایک حقیقی مومن ان ساری چیزوں کو اپنے اندر جمع کر لیتا ہے.اس کا بڑھاپا اسے قوت عمل، اور علم کی تحصیل سے محروم نہیں کرتا.اس کی جوانی اس کی سوچ کو نا کارہ نہیں کر دیتی بلکہ جس طرح بچپن میں جب وہ ذرا بھی بولنے کے قابل ہوتا ہے ہر بات کو سن کر اس پر فوراً جرح شروع کر دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ فلاں بات کیوں ہے اور کس لئے ہے اور اس میں علم سیکھنے کی خواہش انتہا درجہ کی موجود ہوتی ہے.اسی طرح اس کا بڑھاپا بھی علوم سیکھنے میں

Page 414

$2004 409 خطبات مسرور لگا رہتا ہے.اور وہ کبھی بھی اپنے آپ کو علم کی تحصیل سے مستغنی نہیں سمجھتا.اس کی موٹی مثال ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات میں ملتی ہے، آپ کو پچپن ، چھپتین سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ الہام فرماتا ہے کہ قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا.یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے ساتھ ہمارا سلوک ایسا ہی ہے جیسے ماں کا اپنے بچے کے ساتھ ہوتا ہے.اس لئے بڑی عمر میں جہاں دوسرے لوگ بریکار ہو جاتے ہیں اور زائد علوم اور معارف حاصل کرنے کی خواہش ان کے دلوں سے مٹ جاتی ہے اور ان کو یہ کہنے کی عادت ہو جاتی ہے کہ ایسا ہوا ہی کرتا ہے، تجھے ہماری ہدایت یہ ہے کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دعا کرتارہ کہ خدایا میر اعلم اور بڑھا، میر اعلم اور بڑھا.پس مومن اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں بھی علم سیکھنے سے غافل نہیں ہوتا.بلکہ اس میں وہ ایک لذت اور سرور محسوس کرتا ہے اس کے مقابل میں جب انسان پر ایسا دور آجاتا ہے جب وہ سمجھتا ہے میں نے جو کچھ سیکھنا تھا سیکھ لیا ہے اگر میں کسی امر کے متعلق سوال کروں گا تو لوگ کہیں گے کیسا جاہل ہے اسے ابھی تک فلاں بات کا بھی پتہ نہیں تو وہ علم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے.دیکھ لو حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑی عمر کے آدمی تھے مگر پھر بھی کہتے ہیں رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُحْي الموتى...جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ابراہیم ! تو تو پچاس ساٹھ سال کا ہو چکا ہے اور اب یہ بچوں کی سی باتیں چھوڑ دے.بلکہ اس نے بتایا کہ ارواح کس طرح زندہ ہوا کرتی ہیں.پس ہر عمر میں علم سیکھنے کی تڑپ اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ الہی میراعلم بڑھا.کیونکہ جب تک انسانی قلب میں علوم حاصل کرنے کی ہر وقت پیاس نہ ہواس وقت تک وہ کبھی ترقی حاصل نہیں کر سکتا.(تفسیر کبیر جلد نمبر ٥ صفحه ٤٦٩ ، ٤٧٠) بعض لوگ کہتے ہیں حافظہ بڑی عمر میں کمزور ہو جاتا ہے.مجھے یاد ہے ہمارے ایک استاد ہوتے تھے، انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد قرآن کریم حفظ کیا اور ربوہ میں سائیکل کے ہینڈل پر قرآن کریم رکھا ہوتا تھا اور چلتے ہوئے پڑھتے رہتے تھے.لیکن آج کل ربوہ میں رکشے اتنے ہو گئے ہیں اب اس طرح نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پھر بزرگ ہسپتال پہنچے ہوں گے.

Page 415

$2004 410 مسرور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے بارے میں مختلف پیرائے میں جو ہمیں فرمایا وہ احادیث پیش کرتا ہوں ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم حاصل کرے.اب مسلمانوں میں جو علم حاصل کرنے کی نسبت ہے وہ دوسروں کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے.اور حکم ہمیں سب سے زیادہ ہے.پھر ایک روایت میں ہے، ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان علم حاصل کرے پھر اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے.( سنن ابن ماجه المقدمه باب ثواب معلم الناس الخير تو یہ علم حاصل کرنے کی اہمیت ہے.اور پھر اس کو سکھانے کی کہ یہ ایک صدقہ ہے اور صدقہ بھی ایسا ہے جو صدقہ جاریہ ہے کہ دوسروں کو علم سکھاؤ تو تمہاری طرف سے ایک جاری صدقہ شروع ہو جاتا ہے اسی لئے اساتذہ کی عزت کا بھی اتنا حکم ہے کہ اگر ایک لفظ بھی کسی سے سیکھو تو اس کی عزت کرو.اساتذہ کا بڑا معزز پیشہ ہے.لیکن پاکستان وغیرہ میں اس کو بھی صرف آمدنی کا ذریعہ بنالیا گیا ہے اور یہ پیشہ بھی بدنام ہو رہا ہے.ٹھیک ہے جائز طور پر ایک ملازم یہ پیشہ اختیار کرتا ہے اس کو تنخواہ ملتی ہے، کمانا چاہئے یا پھر ٹیوشن بھی لی جا سکتی ہے لیکن وہاں آج کل ہوتا یہ ہے کہ سکولوں میں پڑھانے کی طرف توجہ نہیں دیتے ، اور طالب علم کو کہہ دیا کہ تم میرے گھر آنا اور ٹیوشن پڑھو اور پھر ٹیوشن بھی اتنی لیتے ہیں کہ جو بعضوں کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے.امیر آدمی سے تو چلو لے لی لیکن بیچارے غریبوں کو بھی نہیں بخشتے اور اگر ٹیوشن نہ پڑھیں تو امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں وہ پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ اگر امتحان میں پاس ہونا ہے تو ٹیوشن پڑھو اور پھر بیچارے بعض لوگ (ایسے طالب علم یا ان کے والدین ) اسی ٹیوشن کی وجہ سے مقروض ہو جاتے ہیں احمدی اساتذہ کو اس سے پر ہیز کرنا چاہئے اپنا ایک نمونہ دکھانا چاہئے اور جو علم اور فیض انہوں نے حاصل کیا ہے اس کو دوسروں تک پہنچانے میں کنجوسی اور بخل سے کام نہیں لینا چاہئے.

Page 416

$2004 411 خطبات من مسرور پھر ایک روایت میں ہے حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس ہم آئے.آپ نے فرمایا اے لوگو! اگر کسی کو علم کی بات معلوم ہو تو بتا دینی چاہئے.اور جسے علم کی کوئی بات معلوم نہ ہو تو سوال ہونے پر وہ جواب دے کہ اللهُ أَعْلَمْ یعنی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.( کیونکہ یہ بھی علم کی بات ہے.کہ انسان جس بات کو نہیں جانتا اس کے متعلق کہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے ( یہ اسی کا حصہ ہے ) اے رسول ! تو کہ میں اس کا کوئی بدلہ نہیں مانگتا اور نہ ہی میں تکلف سے کام لینے والا ہوں.(بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة ص باب قوله وما انا من المتكلفين اس روایت میں جو پہلا حصہ ہے، اس میں اساتذہ کے لئے یہ سبق ہے کہ سکولوں میں ٹیوشن پر زیادہ توجہ ہے اور پڑھانے کی طرف کم.دوسرے یہ کہ بعض دفعہ تیاری کے بغیر پڑھانے چلے جاتے ہیں اور اگر کوئی نئی چیز پڑھانی پڑ جائے تو پھر ان کو کافی دقت کا سامنا ہورہا ہوتا ہے اور جو کچھ غلط سلط آتا ہے پڑھا دیتے ہیں.اور اس طرح پھر طلبا کی بھی ایک طرح کی غلط قسم کی رہنمائی ہو جاتی ہے.فرمایا کہ یہی بہتر طریقہ ہے کہ اگر علم نہیں تو کہہ دو کہ مجھے علم نہیں ہے.آج میری تیاری نہیں ہے میں نہیں پڑھا سکتا.علم سکھانے والے کے لئے بھی ایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اپنی انا کی خاطر نہ بیٹھ جائے بلکہ اگر علم نہیں ہے تو بتا دے کہ علم نہیں ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرو علم حاصل کرنے کے لئے وقار اور سکینت کو اپناؤ.اور جس سے علم سیکھو اس کی تعظیم تکریم اور ادب سے پیش آؤ.(الترغيب والترهيب جلد نمبر ۱ صفحه ۷۸ باب اف ، في اكرام العلماء واجلا لهم وتوقيرهم بحواله الطبراني في الاوسط) تو اس میں طلبہ کے لئے نصیحت ہے کہ اپنے استاد کی عزت کرو، ایک وقار ہونا چاہئے.آج کل مختلف ممالک میں طلبہ کی ہڑتالیں ہوتی ہیں توڑ پھوڑ ہوتی ہے،مطالبے منوانے کے لئے گلیوں میں نکل آتے ہیں، مطالبہ یونیورسٹی یا کالج کا ہوتا ہے اور توڑ پھوڑ سڑکوں پر سٹریٹ لائٹس کی یا

Page 417

$2004 412 خطبات مسرور حکومت کی پراپرٹی کی یا عوام کی جائیدادوں کی ہو رہی ہوتی ہے، دکانوں کو آ گیس لگ رہی ہوتی ہیں.تو یہ انتہائی غلط اور گھٹیا قسم کے طریقے ہیں.اسلام کی تعلیم تو یہ نہیں ہے، طالبعلم علم حاصل کرتا ہے اس کے اندر تو ایک وقار پیدا ہونا چاہئے.اور ادب اور احترام پیدا ہونا چاہئے اساتذہ کے لئے بھی ، اپنے بڑوں کے لئے بھی ، نہ کہ بدتمیزی کا رویہ اپنایا جائے.پھر بعض دفعہ ہمارے احمدی اسا تذہ کو سامنا کرنا پڑتا ہے یہ تو خیر میں ضمنا ذکر کر رہا ہوں کہ غیر احمدی طلبہ نے خود پڑھائی نہیں کی ہوتی فیل ہو جاتے ہیں اگر ان کا احمدی ٹیچر ہے یا احمدی استاد ہے تو فوراً اس کے خلاف وہاں ہڑتالیں شروع ہو جاتی ہیں.اس لحاظ سے بھی پاکستان میں بعض اساتذہ بڑی مشکل میں ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ بھی ایسے طلباء کو معقل دے اور احمدی طلباء کو بھی چاہئے کہ ایسی سٹرائکس (Strikes) میں جو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہوتی ہیں.کبھی حصہ نہ لیں اور اپنے وقار کا خیال رکھیں.احمدی طالب علم کی اپنی ایک انفرادیت ہونی چاہئے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے اور دیکھا کہ مسجد میں دو حلقے بنے ہوئے ہیں.کچھ لوگ تلاوت قرآن کریم اور دعائیں کر رہے ہیں اور کچھ لوگ پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہیں.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دونوں گروہ نیک کام میں مصروف ہیں.یہ قرآن پڑھ رہا ہے اور دعائیں مانگ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور چاہے تو نہ دے.یعنی ان کی دعائیں قبول کرے یا نہ کرے اور دوسرا گروہ پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہے.فرمایا: خدا تعالیٰ نے مجھے معلم اور استاد بنا کر بھیجا ہے اس لئے آپ پڑھنے پڑھانے والوں میں جا کے بیٹھ گئے.(سنن ابن ماجه كتاب المقدمه فضل العلماء والحث على طلب العلم ) تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے والوں کو یہ مقام دیا ہے.لیکن یہاں یہ بھی واضح ہو کہ جو پڑھنے پڑھانے والے تھے وہ بھی تقویٰ پر قائم رہنے والے تھے اور ایمان لانے والوں

Page 418

$2004 413 خطبات مسرور کا گروہ ہی تھا.آپ کی گہری نظر نے یہ دیکھ لیا کہ پڑھنے پڑھانے والے بھی نیکیوں پر قائم رہنے والے ہیں، تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور تقویٰ کے ساتھ پھر غور فکر اور تدبر سے علم سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے آپ ان میں بیٹھ گئے.ایک اور جگہ روایت ہے کہ اصل میں علم وہی ہے جس کے ساتھ تقویٰ ہو.تو اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ کبھی کسی قسم کا علم بھی تقوی سے دور لے جانے والا نہ ہو.علم وہی ہے جو تقویٰ کے قریب ترین ہو اور تقویٰ کی طرف لے جانے والا ہو، خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہو.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ صحیح اور حقیقی فقیہ وہ ہے جولوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونے دیتا اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا جواز بھی مہیا نہیں کرتا اور نہ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بے خوف بناتا ہے.قرآن کریم سے ان کی توجہ ہٹا کر کسی اور کی طرف انہیں راغب کرنے کی کوشش نہیں کرتا.یا درکھو علم کے بغیر عبادت میں کوئی بھلائی نہیں اور سمجھ کے بغیر علم کا دعویٰ درست نہیں.(اگر سمجھ نہیں آتی صرف رٹا لگالیا تو وہ علم علم نہیں ہے ) ، اور تدبر اور غور وفکر کے بغیر محض قراءت کا کچھ فائدہ نہیں.(سنن الدارمي - المقدمه باب من قال العلم الخشية وتقوى الله تو فرمایا کہ ایسا علم جو عمل سے خالی ہے ایسے علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے.علم تو انسان کو انسانیت کے اعلیٰ معیار سکھانے کے لئے حاصل کیا جاتا ہے.اگر پھر علم حاصل کرنے کے باوجو د وحشی کا وحشی رہنا ہے تو ایسے علم کا اسے کیا فائدہ.جیسا آج کل کے علماء دعوی کرتے ہیں اور پھر ان کی حرکتیں ایسی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ”علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالی محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے.یہعلم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس سے خشیت الہی پیدا ہوتی ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر: ۲۹ ).اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوئی تو یاد رکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه ١٩٥ الحکم جلد ۷ صفحه ۲۱) ـ 66

Page 419

$2004 414 مسرور پھر ایک روایت حضرت عبداللہ بن عباس سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو خوب چرو صحابہ نے عرض کی کہ حضور یہ ریاض الجنتہ (یعنی جنت کے باغ) کیا چیز ہیں تو آپ نے فرمایا کہ مجالس علمی.یعنی مجالس میں بیٹھ کر زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرو.(الترغيب الترهـ تو اس کے لئے پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں اجتماعوں اور جلسوں کے وقت ، جب اجتماعات یا جلسوں پر آتے ہیں تو وہاں ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے.اور صرف یہی مقصد ہونا چاہئے کہ ہم نے یہاں سے اپنی علمی اور روحانی پیاس بجھانی ہے.اور ان جلسوں کا جو مقصد ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.اگر جلسوں پر آ کے پھر دنیا وی مجلسیں لگا کر بیٹھنا ہے اور ان سے پورا استفادہ نہیں کرنا تو پھر ان جلسوں پر آنے کا فائدہ کیا ہے؟ یہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آج کل کے زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو بھی پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے یہ بھی قرآن کریم کی ایک تشریح و تفسیر ہے جو ہمیں آپ کی کتب سے ملتی ہے.، فى مجالسة العلماء جلد نمبر ۱ صفحه ٧٦ ـ بحواله الطبراني الكبير) آپ فرماتے ہیں کہ : ” دین تو چاہتا ہے مصاحبت ہو پھر مصاحبت سے گریز ہو تو دینداری کے حصول کی امید کیوں رکھتا ہے؟ ہم نے بارہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ وہ بار بار یہاں آکر ر ہیں اور فائدہ اٹھائیں مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے.لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں.مگر اس کی پروا کچھ نہیں کرتے.یادرکھو! قبریں آواز میں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے.ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے جاتے ہو.اللہ تعالیٰ سے مکر کرنا مومن کا کام نہیں ہے.جب موت کا وقت آ گیا پھر ساعت آگے پیچھے نہ ہوگی.وہ لوگ جو اس سلسلے کی قدر نہیں کرتے اور انہیں کوئی عظمت اس کی معلوم

Page 420

$2004 415 خطبات مسرور نہیں ان کو جانے دو.مگر ان سب سے بڑھ کر بد قسمت اور اپنی جان پر ظلم کرنے والا تو وہ ہے جس نے اس سلسلے کو شناخت کیا اور اس میں شامل ہونے کی فکر کی لیکن اس نے کچھ قدر نہ کی.وہ لوگ جو یہاں آ کر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور ان باتوں سے جو خدا تعالیٰ ہر روز اپنے سلسلے کی تائید میں ظاہر کرتا ہے نہیں سنتے اور دیکھتے، وہ اپنی جگہ پر کیسے ہی متقی اور پر ہیز گار ہوں مگر میں یہی کہوں گا کہ جیسا چاہئے انہوں نے قدر نہیں کی.میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تکمیل علمی کے بعد تحمیل عملی کی ضرورت ہے.پس تحمیل عملی بدوں تکمیل علمی کے محال ہے ( یعنی جو عمل ہے علم حاصل کئے بغیر بہت مشکل ہے ) اور جب تک یہاں آ کر نہیں رہتے تکمیل علمی مشکل ہے.پھر فرمایا’بار ہا خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہ دے سکے.اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ وہ لوگ یہاں نہیں آتے اور ان باتوں کو نہیں سنتے جو خدا تعالیٰ اپنے سلسلے کی تائید میں علمی طور پر ظاہر کر رہا ہے.0 (ملفوظات جلد اول صفحه ١٢٥ ـ الحكم ١٧ ستمبر ١٩٠١ء) تو وہ باتیں کتابوں کی صورت میں بھی اکٹھی ہو رہی تھیں پھر ملفوظات کی صورت میں بھی اکٹھی ہو چکی ہیں، اس طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ کتب ضرور پڑھنی چاہئیں.اور انہیں کتب سے آپ کو دلائل میسر آ جاتے ہیں لوگوں کے اعتراضوں کے جواب دینے کے اور یہی آج کل طریقہ ہے آپ کی مجلسوں سے فیضیاب ہونے کا ، آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا.کہ پہلے بھی میں کہتا رہا ہوں کہ آپ کی کتب پڑھنے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے.اور اس سے ہمیں مخالفین کے اعتراضوں کے جواب بھی ملیں گے اور قرآن کریم کے علوم کی بھی معرفت ہمیں حاصل ہوگی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان کامل دنیا میں نہیں گزرا لیکن آپ کو بھی رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا کی دعا کی تعلیم ہوئی تھی.پھر اور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کر کے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے.جوں جوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اسے معلوم ہوتا جاوے گا کہ ابھی بہت سی باتیں حل

Page 421

$2004 416 خطبات مسرور طلب باقی ہیں.بعض امور کو وہ ابتدائی نگاہ میں بالکل بے ہودہ سمجھتے تھے لیکن آخر وہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے.اس لئے کس قد رضروری ہے کہ اپنی حیثیت کو بدلنے کے لئے ساتھ علم کو بڑھانے کے لئے ہر بات کی تکمیل کی جاوے.تم نے بہت ہی بے ہودہ باتوں کو چھوڑ کر اس سلسلے کو قبول کیا ہے.اگر تم اس کی بابت پور اعلم اور بصیرت حاصل نہیں کرو گے تو اس سے تمہیں کیا فائدہ ہو.تمہارے یقین اور معرفت میں قوت کیونکر پیدا ہوگی.ذرا ذراسی بات پر شکوک وشبہات پیدا ہوں گے اور آخر قدم کو ڈگمگا جانے کا خطرہ ہے.دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک تو وہ جو اسلام قبول کر کے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں.شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے.نہیں ،صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے.انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کردے انہوں نے حاصل کیا.یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے.کوئی امران کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا.(ملفوظات جلد دوم صفحه ١٤٢،١٤١ - الحكم ۱۷ جولائی ۱۹۰۲ء) ایک روایت میں حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم علم اس غرض سے حاصل نہ کرو کہ اس کے ذریعہ دوسرے علماء کے مقابلے میں فخر کر سکو.نہ اس لئے حاصل کرو کہ جہلا میں اپنی بڑائی اور اکثر دکھا سکو.اور جھگڑے کی طرح ڈال سکو.اور نہ اس علم کی بنا پر اپنی شہرت اور نام و نمود کے لئے مجلسیں جماؤ.جو شخص ایسا کرے گا یا ایسا سوچے گا اس کے لئے آگ ہی آگ ہے یعنی اسے مصائب و بلیات ( بلائیں ) اور رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا.(سنن ابن ماجه المقدمه باب الانتفاع بالعلم) تو آج کل (عموماً مسلمانوں میں ) ہمارے جو علماء ہیں ان کا یہی حال ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھے رہتے ہیں.ذراسی بات لے کے اپنی علمیت کا رعب ڈالنے کی زیادہ کوشش

Page 422

$2004 417 خطبات مسرور ہوتی ہے.اور جس کا کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں ہورہا ہوتا.نہ کوئی علمی نہ روحانی ،صرف الجھانے کے لئے لوگوں میں ضد اور انا بھی بن جاتی ہے اور اپنا علم ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ مجھے اس کا علم ہے، تمہیں نہیں ہے.تو احمدیوں کو صرف اس لئے علم حاصل کرنا چاہئے کہ اپنی انا مقصد نہ ہو یا علم کا رعب ڈالنا مقصد نہ ہو بلکہ اس علم کے نور کو پھیلانا اور اس سے فائدہ اٹھانا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حاصل کرنا مقصد ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ واقعہ ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.جب آپ نے ایک عالم سے صرف اس لئے بحث نہیں کی تھی کہ اس کے نقطہ نظر کو آپ ٹھیک سمجھتے تھے تو جو لوگ آپ کو بحث کے لئے لے گئے تھے انہوں نے بہت کچھ کہا بھی لیکن پھر بھی آپ کو جس بات سے اصولی اختلاف تھا وہ آپ نے نہ کیا.تو آپ کے اس فعل سے اللہ تعالیٰ نے بھی خوشی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں.تو بندوں سے کچھ لینے کے لئے علم کا اظہار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا پیش نظر رہنی چاہئے.اور جو علم سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ ساتھ اس کی مخلوق کی بھی خدمت ہو سکے.ایک روایت میں حضرت ابو درداء بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص علم کی تلاش میں نکلے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے.اور فرشتے طالب علم کے کام پر خوش ہو کر اپنے پر اس کے آگے بچھاتے ہیں اور عالم کے لئے زمین و آسمان میں رہنے والے بخشش مانگتے ہیں.یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں بھی اس کے حق میں دعا کرتی ہیں.اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چاند کی دوسرے ستاروں پر.اور علماء انبیاء کے وارث ہیں.انبیاء روپیہ پیسہ ورثہ میں نہیں چھوڑ جاتے بلکہ ان کا اور یہ علم وعرفان ہے جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ بہت بڑا نصیب اور خیر کثیر حاصل کرتا ہے.(ترمذی کتاب العلم باب فضل الفقه)

Page 423

$2004 418 مسرور تو علم کی یہ اہمیت ہے، علم حاصل کرنے کے لئے یہاں بھی مغرب میں لوگ آتے ہیں.بڑی دور دور سے پڑھنے کے لئے ایشیئنز ملکوں سے.اگر ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رضا بھی مقصود ہو تو اللہ تعالیٰ ان کے حصول تعلیم کو بھی آسان کر دیتا ہے ، ان کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے.اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنی آسانیاں پیدا کر دیتا ہے کہ اس دنیا میں بھی ان کے لئے جنت پیدا ہو جاتی ہے.اور احمدی طالب علم خاص طور پر یہاں جو آ رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا ، ان کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہئے کہ انہوں نے تعلیم حاصل کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے ماتحت چلتے ہوئے تعلیم حاصل کرنی ہے.یہاں کی رونقیں اور دوسرے شوق ان کو اس مقصد کے حصول سے ہٹانے والے نہ ہو جائیں.یہ نیت ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانا ہے اور اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا ہے.اور اگر کوئی حصہ تعلیم اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے تو پھر اس کو بھی دنیا پر واضح کرنا ہے گہرائی میں جا کے بھی علم حاصل کرنا چاہئے.پھر ایک روایت ہے حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سریانی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا اور ایک روایت میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ یہودیوں کی خط و کتابت کی زبان سیکھو کیونکہ مجھے یہودیوں پر اعتبار نہیں کہ وہ میری طرف سے کیا لکھتے ہیں اور کیا کہتے ہیں.زید کہتے ہیں کہ پندرہ دن ہی گزرے تھے کہ میں نے سریانی میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا.اس کے بعد جب بھی حضور علیہ السلام کو یہود کی طرف کچھ لکھنا ہوتا تو مجھ سے لکھواتے اور جب ان کی طرف سے کوئی خط آتا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتا تھا.(ترمذی ابواب الادب باب ما جاء في تعليم السريانية) اس ضمن میں میں واقفین نو سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے.خاص طور پر لڑکیاں.

Page 424

419 $2004 خطبات مسرور وہ انگریزی، عربی، اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں، (میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ) کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا تر جمہ کرنے کے قابل ہوسکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں.مجھے یاد ہے گھانا کے نارتھ میں کیتھولک چرچ تھا، چھوٹی سی جگہ پہ ( میں بھی وہاں رہا ہوں ) تو پادری یہاں انگلستان کا رہنے والا تھا وہ ہفتے میں چار پانچ دن موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جنگل میں جایا کرتا تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ تم وہاں کیا کرنے جاتے ہو.اس نے بتایا کہ ایک قبیلہ ہے،ان کی باقیوں سے زبان ذرا مختلف ہے اور ان کی آبادی صرف دس پندرہ ہزار ہے اور وہ صرف اس لئے وہاں جاتا ہے کہ ان کی وہ زبان سیکھے اور پھر اس میں بائبل کا ترجمہ کرے.تو ہمارے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر واقفین نو بچے جو تیار ہورہے ہیں، توجہ ہونی چاہئے تا کہ خاص طور پر ہر زبان کے ماہرین کی ایک ٹیم تیار ہو جائے.بہت سے بچے ایسے ہیں جواب یو نیورسٹی لیول تک پہنچ چکے ہیں ، وہ خود بھی اس طرف توجہ کریں جیسا کہ میں نے کہا اور جوملکی شعبہ واقفین نو کا ہے وہ بھی ایسے بچوں کی لسٹیں بنائیں اور پھر ہر سال یہ فہرستیں تازہ ہوتی رہیں کیونکہ ہر سال اس میں نئے بچے شامل ہوتے چلے جائیں گے.ایک عمر کو پہنچنے والے ہوں گے.اور صرف اسی شعبے میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں عموماً جو ہمیں موٹے موٹے شعبے جن میں ہمیں فور اواقفین زندگی کی ضرورت ہے وہ ہیں مبلغین ، پھر ڈاکٹر ہیں، پھر ٹیچر ہیں ، پھر اب کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کی بھی ضرورت پڑ رہی ہے.پھر وکیل ہیں، پھر انجینئر ہیں، زبانوں کے ماہرین کا میں نے پہلے کہہ دیا ہے پھر ان کے آگے مختلف شعبہ جات بن جاتے ہیں، پھر اس کے علاوہ کچھ اور شعبے ہیں.تو جو تو مبلغ بن رہے ہیں ان کا تو پتہ چل جاتا ہے کہ جامعہ میں جانا ہے اور جامعہ میں جانا چاہتے ہیں اس لئے فکر نہیں ہوتی پتہ لگ جائے گا لیکن جو دوسرے شعبوں میں یا پیشوں میں جا رہے ہوں ان میں سے اکثر کا پتہ ہی نہیں لگتا.اب دوروں کے

Page 425

$2004 420 خطبات مسرور دوران مختلف جگہوں پر میں نے پوچھا ہے تو ابھی تک یا تو بچوں نے ذہن ہی نہیں بنایا ہوا 16-17 سال کی عمر کو پہنچ کے بھی ، یا پھر کسی ایسے شعبے کا نام لیتے ہیں جس کی فوری طور پر جماعت کو شاید ضرورت بھی نہیں ہے.مثلاً کوئی کہتا ہے کہ میں نے پائلٹ بننا ہے.پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو کھیلوں سے دلچسپی ہے، کرکٹر بننا ہے یا فٹ بال کا پلیئر (Player) بننا ہے.یہ تو پیشے واقفین نو کے لئے نہیں ہیں.صرف اس لئے کہ بچوں کی صحیح طرح کونسلنگ (Councling) ہی نہیں ہو رہی ان کی رہنمائی نہیں ہو رہی ، اور اس وجہ سے ان کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ان کا مستقبل کیا ہے.تو ماں باپ بھی صرف وقف کر کے بیٹھ نہ جائیں بلکہ بچوں کو مستقل سمجھاتے رہیں.میں یہی مختلف جگہوں پر ماں باپ کو کہتا رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو سمجھاتے رہیں کہ تم وقف نو ہو ہم نے تم کو وقف کیا ہے تم نے جماعت کی خدمت کرنی ہے، اور جماعت کا ایک مفید حصہ بنا ہے اس لئے کوئی ایسا پیشہ اختیار کر و جس سے تم جماعت کا مفید وجود بن سکو.پھر ایسے بچے بھی ملے ہیں کہ بڑی عمر کے ہونے کے باوجود ان کو یہ نہیں پتہ کہ وہ واقف نو ہیں اور وقف نو ہوتی کیا چیز ہے.ماں باپ کہتے ہیں کہ وقف نو میں ہیں.پھر بعض یہ کہتے ہیں کہ ماں باپ نے وقف کیا ہے لیکن ہم کچھ اور کرنا چاہتے ہیں تو جب ایسی فہرستیں تیار ہوں گی سامنے آ رہی ہوں گی، ہر ملک میں جب تیار ہو رہی ہوگی تو ہمیں پتہ لگ جائے گا کہ کتنے ایسے ہیں جو بڑے ہو کر جھڑ رہے ہیں اور کتنے ایسے ہیں اور کس ملک میں ایسے ہیں جہاں سے ہمیں مبلغ ملیں گے اور کتنے ایسے ہیں جن میں سے ہمیں ڈاکٹر ملیں گے، کتنے انجینئر ملیں گے یا ٹیچر ملیں گے وغیرہ پھر جو ڈاکٹر بنتے ہیں ان کی ڈاکٹری کے شعبے میں بھی دلچسپیاں ہر ایک کی الگ ہوتی ہیں تو اس دلچسپی کے مطابق بھی ان کی رہنمائی کی جاسکتی ہے.اس کے لئے بھی ملکوں کو مرکز سے پوچھنا ہوگا تا کہ ضرورت کے مطابق ان کو بتایا جائے.بعض دفعہ ہوتا ہے کہ کسی نے ڈاکٹر بننا ہے.صرف ایک شعبے میں دلچسپی نہیں ہوتی ، دو تین میں ہوتی ہے تو ضرورت کے مطابق رہنمائی کی جاسکتی ہے کہ فلاں

Page 426

$2004 421 خطبات مسرور شعبے میں جانا ہے تو اب تو اس عمر کو دوسری تیسری کھیپ پہنچ چکی ہے شاید چوتھی بھی پہنچ رہی ہو جہاں مستقبل کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے.تو اس لئے ہر سال با قاعدہ اس کے مطابق نئے سرے سے فہرستیں بنتی رہنی چاہئیں، نئے جو شامل ہونے والے ہیں ان کو شامل کیا جانا چاہئے ، جو جھڑ نے والے ہیں ان کو علیحدہ کیا جانا چاہئے.اس لحاظ سے اب شعبہ وقف نو کو کام کرنا ہوگا.پھر جو پڑھ رہے ہیں ان کے بارے میں بھی علم ہونا چاہئے کہ ان میں درمیانے درجے کے کتنے ہیں اور یہ کیا کیا پیشے اختیار کر سکتے ہیں، ان کو کیا کام دیئے جاسکتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا اس کام کو اب بڑے وسیع پیمانے پر دنیا میں ہر جگہ کرنے کی ضرورت ہے.اور واقفین نو کے شعبے کو میں کہوں گا کہ یہ فہرستیں کم از کم ایسے بچے جو پندرہ سال سے اوپر کے ہیں ان کی تیار کر لیں اور تین چار مہینے میں اس طرز پر فہرست تیار ہونی چاہئے.کیونکہ میرے خیال میں میں نے جو جائزہ لیا ہے جو رپورٹ کے اصل حقائق ہیں، زمینی حقائق جیسے کہتے ہیں وہ ذرا مختلف ہیں اس لئے ہمیں حقیقت پسندی کی طرف آنا ہوگا.کچھ شعبہ جات تو میں نے گنوا دیئے ہیں تو یہ ہی نہ سمجھیں کہ ان کے علاوہ کوئی شعبہ اختیار نہیں کیا جا سکتا یا ہمیں ضرورت نہیں ہے.بعض ایسے بچے ہوتے ہیں جو بڑے ٹیلینڈ (Talented) ہوتے ہیں ، غیر معمولی ذہین ہوتے ہیں ریسرچ کے میدان میں نکلتے ہیں جس میں سائنس کے مضامین بھی آتے ہیں، تاریخ کے مضامین بھی ہیں یا اور مختلف ہیں تو ایسے بچوں کو بھی ہمیں گائیڈ کرنا ہوگا وہی بات ہے جو میں نے کہی کہ ہر ملک میں کونسلنگ یا رہنمائی وغیرہ کے شعبہ کو فعال کرنا ہوگا.اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے تو اس کمال کے لئے کوشش بھی کرنی ہوگی.پھر انشاء اللہ تعالی ، اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہوں گے.بہر حال بچوں کی رہنمائی

Page 427

$2004 422 خطبات مسرور ضروری ہے چند ایک ایسے ہوتے ہیں جو اپنے شوق کی وجہ سے اپنے راستے کا تعین کر لیتے ہیں، عموماً ایک بہت بڑی اکثریت کو گائیڈ کرنا ہوگا اور جیسا کہ میں نے کہا گہرائی میں جا کر سارا جائزہ لینا ہوگا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ” میں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں.وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بدظن اور گمراہ کر دیتی ہے.اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں.چونکہ خود فلسفے کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں.ان کی روح فلسفے سے کا نپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه ٤٣ ـ رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷) تو ہم نے واقفین نو بچوں کو پڑھا کے نئے نئے علوم سکھا کے پھر دنیا کے منہ دلائل سے بند کرنے ہیں.اور اس تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اصل قرآن کا علم اور معرفت دی ہے، اللہ کرے کہ واقفین نو کی یہ جدید فوج اور علوم جدیدہ سے لیس فوج جلد تیار ہو جائے.پھر واقفین نو بچوں کی تربیت کے لئے خصوصاً اور تمام احمدی بچوں کی تربیت کے لئے بھی عموماً ہماری خواتین کو بھی اپنے علم میں اضافے کی ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی وقت دینے کی طرف توجہ دینی چاہئے.اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اجلاسوں میں اجتماعوں میں، جلسوں میں آکر جو سیکھا جاتا ہے وہیں چھوڑ کر چلے نہ جایا کریں، یہ تو بالکل جہالت کی بات ہوگی کہ جو کچھ سیکھا ہے وہ وہیں چھوڑ دیا جائے.تو عورتیں اس طرف بہت توجہ دیں اور اپنے بچوں کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دیں.کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ جن واقفین نو یا عمومی طور پر بچوں کی مائیں بچوں کی طرف توجہ دیتی ہیں اور خود بھی کچھ دینی علم رکھتی ہیں ان کے بچوں کے جواب اور وقف نو کے بارے میں دلچسپی بھی بالکل مختلف انداز میں ہوتے ہیں اس لئے مائیں اپنے علم کو بھی بڑھائیں

Page 428

$2004 423 خطبات مسرور اور پھر اس علم سے اپنے بچوں کو بھی فائدہ پہنچائیں.لیکن اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ باپوں کی ذمہ داریاں ختم ہو گئی ہیں یا اب باپ اس سے بالکل فارغ ہو گئے ہیں یہ خاوندوں کی اور مردوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ ایک تو وہ اپنے عملی نمونے سے تقویٰ اور علم کا ماحول پیدا کر دیں پھر عورتوں اور بچوں کی دینی تعلیم کی طرف خود بھی توجہ دیں.کیونکہ اگر مردوں کا اپنا ماحول نہیں ہے، گھروں میں وہ پاکیزہ ماحول نہیں ہے، تقویٰ پر چلنے کا ماحول نہیں.تو اس کا اثر بہر حال عورتوں پر بھی ہوگا اور بچوں پر بھی ہو گا.اگر مرد چاہیں تو پھر عورتوں میں چاہے وہ بڑی عمر کی بھی ہو جا ئیں تعلیم کی طرف شوق پیدا کر سکتے ہیں کچھ نہ کچھ رغبت دلا سکتے ہیں.کم از کم اتنا ہوسکتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں اس لئے جماعت کے ہر طبقے کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.مرد بھی عورتیں بھی.کیونکہ مردوں کی دلچسپی سے ہی پھر عورتوں کی دلچسپی بھی بڑھے گی اور اگر عورتوں کی ہر قسم کی تعلیم کے بارے میں دلچسپی ہو گی تو پھر بچوں میں بھی دلچسپی بڑھے گی.ان کو بھی احساس پیدا ہوگا کہ ہم کچھ مختلف ہیں دوسرے لوگوں سے.ہمارے کچھ مقاصد ہیں جو اعلیٰ مقاصد ہیں.اور اگر یہ سب کچھ پیدا ہوگا تو تبھی ہم دنیا کی اصلاح کرنے کے دعوے میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں.ورنہ دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے.اگر ہم خود توجہ نہیں کریں گے تو ہماری اپنی اولادیں بھی ہماری دینی تعلیم سے عاری ہوتی چلی جائیں گی.کیونکہ تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ کئی ایسے احمدی خاندان جن کی آگے نسلیں احمدیت سے ہٹ گئیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کی عورتیں دینی تعلیم سے بالکل لاعلم تھیں.اور جب مرد فوت ہو گئے تو آہستہ آہستہ وہ خاندان یا ان کی اولادیں پرے ہٹتے چلے گئے کیونکہ عورتوں کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تھا، تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہوگی تا کہ ہم اپنی اگلی نسل کو بچا سکیں.اللہ تعالی ہمیں صحیح طور پر دین کاعلم پیدا کرنے اور اگلی نسلوں میں قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 429

$2004 424 خطبات مسرور

Page 430

$2004 425 26 خطبات مسرور یسے سفر جو اللہ کی خاطر کئے جاتے ہیں ان میں بہت زیادہ تقویٰ کا خیال رکھیں ۲۵ / جون ۲۰۰۴ءء بمطابق ۲۵ / احسان ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسی ساگا ( کینیڈا) سفر کے آداب اور اسلامی تعلیمات سفر میں ہمیشہ دعاؤں اور استغفار سے کام لیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سفر کے معمولات

Page 431

خطبات مسرور $2004 426 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: انسان دنیا میں مختلف مقاصد کے لئے سفر کرتا ہے اور اس زمانے میں جب سفر کی بہت سی سہولتیں بھی میسر آ گئی ہیں اور ان سفر کی سہولتوں کی وجہ سے فاصلے بھی سمٹ گئے ہیں اور ان سہولتوں اور ان فاصلوں کے سمٹنے کی وجہ سے اکثر لوگ اپنے کاموں کے لئے اکثر سفروں میں رہتے ہیں.جو 25-20 میل کا فاصلہ پرانے زمانے میں سفر کہلاتا تھا وہ اب سفر نہیں کہلاتا لیکن بہر حال ایک لحاظ سے سفر ہی ہے تو یہ سفر جو مختلف مقاصد کے لئے کئے جاتے ہیں چاہے وہ کاروباری نوعیت کے ہوں چاہے عزیز رشتہ داروں کے ملنے کے لئے ہوں، چاہے تحصیل علم کے لئے ہوں، چاہے اللہ تعالیٰ کی پیدائش پر غور کرنے کے لئے تحقیق کے لئے ہوں، چاہے دینی اغراض کے لئے ہوں جو بھی مقصد ہو مومن کو ہمیشہ یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ ان سفروں میں کبھی بھی ایسا وقت نہ آئے ، چاہے جو بھی مجبوری ہو، کہ اس کا دل تقویٰ سے خالی ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے خالی ہو.آپ لوگ جو یہاں اس وقت بیٹھے ہیں ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے حالات کی مجبوری کے تحت پاکستان سے ہجرت کی اور ایک خطیر رقم خرچ کر کے بہت بڑے اخراجات کر کے اور ایک لحاظ سے اپنے تمام دنیاوی وسائل داؤ پر لگا کر یہاں آ کر اس ملک میں آباد ہوئے.بہت سے ایسے بھی ہیں جن کو شروع میں آ کر بہت سی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حالات بہتر بنا دیئے.پھر ایسے بھی ہیں جن کو یہاں کی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے حکومت کے احسان کی وجہ سے یہاں کی شہریت یا کام کرنے کی اجازت مل گئی.تو

Page 432

$2004 427 خطبات مسرور بہر حال یہ سفر ا کثر کے لئے کامیابی کا باعث بنے ہیں.تو جس طرح اپنے کیس پاس ہونے سے پہلے آپ نے اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکائے رکھا اس سے مدد مانگتے رہے خود بھی دعائیں کرتے رہے اور دوسروں کو بھی دعا کے لئے کہتے رہے، ایک درد اور ایک تڑپ آپ کے دلوں میں پیدا ہوتی رہی ، اللہ تعالیٰ کا خوف دلوں میں رہا اس طرح اب بھی یہ خوف، یہ تقویٰ دلوں میں قائم رہنا چاہئے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت ساری سہولتوں سے نواز دیا ہے.اب یہاں آ کر بھی آپ کو اپنے کاروباری سلسلوں میں مختلف سفر کرنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے.تو ہمیشہ یہ پیش نظر رہنا چاہئے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے کہ اب دنیاوی سہولتیں اور آسانیاں جو میسر آ گئی ہیں، کہیں تقویٰ سے دور نہ کر دیں.اگر اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارتے رہیں گے تو تقویٰ میں ترقی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا قرب پاتے ہوئے ، دینی اور دنیا وی دونوں میدانوں میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ.اس لئے ہمیشہ تقویٰ پر قائم رہیں، ورنہ یا درکھیں وہ خدا جس نے یہ سب نعمتیں دی ہیں ان کو واپس لینے کی قدرت بھی رکھتا ہے.پھر احمدی کی ہمیشہ سے یہ خصوصیت رہی ہے، یہ بھی امتیاز رہا ہے کہ وہ دین کی خاطر بھی سفر کرتا ہے.اجتماعوں پر ، جلسوں پر خاص اہتمام کے ساتھ عموماً احمدی بڑے ذوق اور شوق سے آتے ہیں اور آج آپ میں سے بہت بڑی تعداد اس لئے سفر کر کے یہاں آئی ہے، کچھ لوگ آ رہے ہیں کینیڈا کے مختلف شہروں سے بھی اور امریکہ سے بھی ، کہ اگلے جمعہ کو جو یہاں کینیڈا میں جلسہ ہو رہا ہے اس میں شمولیت اختیار کریں.یہ سفر آپ کا خالصتہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہونا چاہئے.اس کا تقویٰ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے.یہاں آ کر اپنے دلوں کو ایک دوسرے سے صاف کرنا ہے، ہر قسم کے لڑائی جھگڑے اور فساد سے بچنا ہے.ان دنوں میں جلسے کی خاطر تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے سفر تبھی شمار ہو سکتا ہے جب اس سفر میں آپ ہر قسم کی بدکلامی سے پر ہیز کرنے والے ہوں، نہ ہی مہمان اور نہ ہی میزبان ذراذراسی بات پر اپنے آپے سے باہر نکلنے والے ہوں.نہ ہی کسی کا مذاق

Page 433

$2004 428 خطبات مسرور اڑانے والے یا استہزاء کرنے والے ہوں اور نہ ہی ایسی مجلسوں میں بیٹھنے والے ہوں جہاں لوگوں کا ہنسی ٹھٹھا اڑایا جا رہا ہو.نہ ہی فضول قصے کہانیاں، لغو اور بیہودہ باتوں کی مجلسوں میں بیٹھنے والے، نہ ان میں شامل ہونے والے ہوں.یا رات گئے تک لمبی مجلسیں لگا کر گپیں مارنے والے ہوں کہ صبح کی نماز پر آنکھ ہی نہ کھلے.ویسے بھی فضول مجلسیں دلوں کو زنگ آلود کر دیتی ہیں.تو نہ صرف ایسی مجلسوں میں شامل نہیں ہونا بلکہ ایسی مجلسیں لگانے والے احمدیوں کو بھی سمجھا کر ایسی مجلسوں کو ختم کرانے کی کوشش کرنی ہے.کیونکہ یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے محروم کر دیں گی.اور پھر دل تقویٰ سے خالی ہو جائیں گے.تو یہ تو کسی صورت بھی ایک احمدی کے لئے برداشت نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس کا دل خالی ہو جائے.یادرکھیں کہ جب انسان تقویٰ سے خالی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دور چلا جاتا ہے تو پھر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے دنیاوی بندھن اور رشتے قائم رہیں گے.پھر دنیا وی رشتوں اور تعلقات میں بھی دراڑیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں.یہ بھی ٹوٹنے شروع ہو جائیں گے اور ایک فساد کی صورت پیدا ہو جائے گی.اس لئے ایسے سفر جو اللہ کے نام کی خاطر کئے جاتے ہیں ان میں بہت زیادہ تقویٰ کا خیال رکھیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں حج کے متعلق ارشاد فرمایا ہے وہاں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ سب سے بہتر زادراہ تقویٰ ہی ہے.جیسا کہ فرمایا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادَ التَّقْوى﴾ (البقرة: ۱۹۸) اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو صرف حج پر جانے والے ہیں وہی زادراہ جمع کریں اور تقویٰ پر قائم ہو جائیں یا صرف ان کے لئے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے.بلکہ فرمایا کہ جو تمہارے سفر خاص طور پر اللہ کی خاطر سفر ہوں دین کی خاطر ہوں، ان میں بہت زیادہ تقویٰ کا خیال رکھو.اگر اس پر تم قائم ہو گئے تو اپنی ذاتی اصلاح کا بھی موقع ملے گا اور اس طرح تم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بھی ہو گے.اللہ تعالیٰ سے تمہارا اخلاص کا تعلق بڑھے گا اس کی معرفت زیادہ سے زیادہ حاصل ہوگی.اور پھر تمہاری اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے اور انسانوں سے بھی محبت بڑھے گی.اور جب یہ چیزیں پیدا ہو جائیں گی تو پھر

Page 434

$2004 429 خطبات مسرور تمہارا معاشرہ یقیناً جنت نظیر معاشرہ کہلانے کا مستحق ہو جائے گا.یہ بھی یا درکھیں کہ دنیا میں لڑائی جھگڑے، فساد اس وقت زیادہ بڑھتے ہیں جب انسان دوسرے انسان پر بھروسہ کرتا ہے یا بھروسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.انسانوں سے زیادہ تو قعات رکھتا ہے.اللہ کی بجائے انسانوں پر توقعات ہوتی ہیں.ان پر زیادہ امیدیں لگا کے بیٹھا ہوتا ہے.تو جب اس سوچ کے ساتھ جو کسی کے گھر مہمان بن کر آئیں گے یا جائیں گے تو مہمانوں میں بھی اور میز بانوں میں بھی ہمیشہ بدظنیاں پیدا ہوں گی اور رنجشیں پیدا ہوں گی.اور ہمارے معاشرے میں تو بعض طبیعتیں اس کو کچھ زیادہ محسوس کر لیتی ہیں اور دلوں میں رنجشیں پالتے رہتے ہیں.یہ سب تقویٰ کی کمی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں.بعض لوگ جو عقلمند ہیں بڑا اچھا کرتے ہیں کہ اپنے چھوٹے خیمے لگا کر اپنی رہائش کا بندو بست کر لیتے ہیں.مجھے نہیں پتہ کہ یہاں یہ انتظام ہے کہ نہیں اور پھر جو صاحب استطاعت ہیں وہ اپنے کاروان (Caravan) بھی لے کے آ جاتے ہیں.اور یہ بڑی اچھی بات ہے.آزادی سے رہتے ہیں.تو انتظامیہ کی طرف سے صرف خیموں اور Caravan کے لئے جگہ مہیا کرنے کا انتظام ہونا چاہئے.ان کا یہ فرض بھی ہے کہ اگر ایسے لوگ چاہتے ہوں تو وہ مہیا کریں..U.K میں تو اس کا اب بہت رواج ہو گیا ہے.اور کھانا حضرت مسیح موعود کا لنگر تو خاص طور پر ان دنوں میں چلتا ہی رہتا ہے اس کا تو کوئی مسئلہ نہیں وہ تو مہیا ہو ہی جاتا ہے." اور انتظامیہ کا فرض بھی ہے کہ ان دنوں میں مہمانوں کا خیال بھی رکھیں.یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان بن کر آ رہے ہیں.تو میں سفر کی بات کر رہا تھا، کہ سفر جو بھی ہو بہر حال سفر ہی ہوتا ہے.اس لئے جو بھی انتظام ہو جتنا مرضی بہترین انتظام ہو کچھ نہ کچھ اس میں ایسی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو بعض دفعہ تکلیف کا باعث بنتی ہیں.اس لئے مسافروں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے سفر میں آسانی کے لئے خیر مانگتے رہنا چاہئے تا کہ ہمیشہ یہ سفر آرام سے گزریں جس قسم کے مرضی سفر ہوں.

Page 435

$2004 430 مسرور صل الله ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! میں سفر پر روانہ ہونا چاہتا ہوں مجھے زادراہ عطا کیجئے.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے تقویٰ کی زادراہ عطا کرے.اس نے عرض کی یارسول اللہ ! مجھے کچھ اور بھی دعاد بیجئے.اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تیرے گناہوں کو بخش دے.ابھی بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی ، اس نے عرض کی: میرے والدین آپ پر قربان جائیں، مجھے کچھ اور دعا بھی دیجئے.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم جہاں کہیں بھی ہواللہ تعالیٰ تمہارے لئے خیر آسان کر دے.(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء ما يقول اذا ودع انسانا) تو دیکھیں اس صحابی نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے کتنی جامع دعا منگوائی کہ سفر میں ہمیشہ ایسے حالات رہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی خیر اور فضل ملتا ر ہے.اگر یہ ملتا رہا تو مجھے تقویٰ پر چلنے میں بھی آسانی رہے گی، میرے دل میں اس کا خوف اور خشیت بھی قائم رہے گا.اور جب یہ قائم ہو جائے تو گناہوں سے بھی انسان بچتا رہتا ہے.اس لئے سفر میں خاص طور پر دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ! تقویٰ بھی تیرے فضل سے حاصل ہوتا ہے اس لئے ہمیشہ اپنا فضل فرما.ایسے حالات ہی پیدا نہ ہوں کہ میں دوسروں پر انحصار کر کے دل میں شکوہ پیدا کرنے والا بنوں اور تقویٰ سے دور ہو جاؤں.اس لئے اپنی جناب سے ہی مجھے ہر خیر عنایت فرماتا رہ.اس قسم کی دعا حضرت موسی نے بھی سفر میں اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی کہ رَبِّ اِنّى لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القصص: (۲۵).اے اللہ میں تو مسافر آدمی ہوں تو ہی مجھے خیر فرما تارہ میں تو تیرا ہی محتاج ہوں اور محتاج رہنا چاہتا ہوں اور تیرے بغیر میں ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا.الله پھر ایک روایت ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت علی کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں سفر پر جانا چاہتا ہوں آپ مجھے کوئی نصیحت کیجئے.آپ نے فرمایا: اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.جب بھی بلندی پر چڑھو تکبیر کہو، وہ آدمی

Page 436

$2004 431 خطبات مسرور واپس ہوا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! اس کی دوری کو لپیٹ دے.یعنی اس کا سفر آسان کر دے اور طے کردے.(ترمذی كتاب الدعوات باب ما يقول اذا ودع انسانا) ایک تو اس میں یہ سبق ہے کہ جب بھی سفر پر روانہ ہوں پہلے دعا کر کے چلنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر سفر کی مشکل اور پریشانی اور صعوبت سے بچائے ، تکلیف سے بچائے.آنحضرت ﷺ نے ہمیں سفر کرنے کے بارے میں جو طریق سکھلائے ان میں سے کچھ بیان کرتا ہوں.جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ دعا کر کے چلنا چاہئے.پھر سفر میں دعامانگے وہ دعا بھی ہمیں سکھا دی کہ سفر شروع کرنے سے پہلے جب سواری پر بیٹھ جائیں تو تین بار تکبیر کہتے ہوئے یہ دعا مانگو سُبْحَانَ الَّذِئ سَخَّرَلَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِيْنَ.وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ﴾ (الزخرف: ۱۴).یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع فرمان کیا حالانکہ ہم اسے قابو میں رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے.اور ہم اپنے رب کی طرف ہی جانے والے ہیں.پھر اور آگے دعائیں ہیں کہ اے ہمارے خدا! ہم تجھ سے اپنے سفر میں بھلائی اور تقویٰ چاہتے ہیں.تو ہمیں ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جو تجھے پسند ہیں.اے ہمارے خدا! تو ہی ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کی دوری کو لپیٹ دے.اے ہمارے خدا! تو سفر میں ہمارے ساتھ ہو اور پیچھے گھر میں بھی خبر گیر ہو.اے ہمارے خدا! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سفر کی سختیوں سے، ناپسندیدہ اور بے چین کرنے والے مناظر سے، مال اور اہل وعیال میں برے نتیجے سے اور غیر پسندیدہ تبدیلی سے.پھر جب آپ سفر سے واپس آتے تو یہی دعا مانگتے.اس میں یہ زیادتی فرماتے کہ ہم واپس آتے ہیں تو بہ کرتے ہوئے ، عبادت گزار اور اپنے رب کی تعریف میں رطب اللسان بن کر.یعنی اسی کی تعریف کرتے رہتے ہیں.تو دیکھیں کیسی جامع دعائیں ہیں.اُس زمانے میں اگر اونٹ اور گھوڑے کی سواری تھی

Page 437

$2004 432 خطبات مسرور اس کو سدھایا جاتا تھا تو سوار بھی کوئی سواری سیکھتا تھا.جس کو سواری آتی تھی وہی ان سواریوں پر بیٹھ سکتا تھا.ورنہ اناڑی سوار کو تو یہ سواریاں فوراً نیچے پھینک دیں.تو آج کل بھی جو سواریاں ہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ ایسی سواریاں بنائے اور پھر ان کے استعمال کی عقل بھی اللہ تعالیٰ نے دی اور یہ سہولت والی سواریاں پیدا فرما ئیں تو فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سواری پر بیٹھو اور پھر سفر میں بھی لوگوں کی باتیں اور آپس میں چغلیاں کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہو، اس سے بھلائی مانگو اور اس سے ڈرتے رہو اور سفر کے خیریت سے کٹ جانے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو.یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ سفر میں بھی ہماری حفاظت فرمائے.ہر قسم کے حادثے سے ہم کو بچا کے رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو انسان ہر شر سے محفوظ رہتا ہے.جتنا مرضی کسی کو زعم ہو کہ ہماری نئی گاڑی ہے، بڑی اعلی گاڑی ہے ، یا بڑی مضبوط گاڑی ہے اور اس پر ہم انحصار کر سکتے ہیں، بڑا اعتماد کر سکتے ہیں.کبھی سواری پر اعتماد یا انحصار نہیں کرنا چاہئے.ایک پرزہ بھی ڈھیلا ہو جائے ، بعض دفعہ فیکٹری سے نکل کر آتی ہے تو پرزہ ڈھیلا ہوا ہوتا ہے یا چلانے والے کو ہلکا سا نیند کا جھونکا ہی آجائے یا دوسری سواری جو سڑک پر ہے اس کی کوئی غلطی ہو جائے تو کوئی بھی حادثہ پیش آ سکتا ہے.اس لئے مومن کا تو کوئی قدم بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں اٹھ سکتا.کوئی لمحہ بھی اس کے فضل کے بغیر نہیں گزرسکتا.پھر اگر گھر کے کچھ لوگ آئے ہیں یا اکیلا ہی آیا ہے تو اس سفر میں بھی یہ دعامانگتے رہنا چاہئے کہ اے خدا پیچھے بھی خیر رکھنا یا تمام گھر والے بھی اگر سفر میں ہوں تو مال و اسباب، سامان وغیرہ گھر میں ہوتا ہے تو اس لئے پیچھے کی خیر کی دعا مانگتے رہنا چاہئے.یہاں تو ان ملکوں میں گھروں میں لکڑیوں کا استعمال بھی بہت زیادہ ہوتا ہے.کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں اور بجلی کا شارٹ سرکٹ ہوا اور واپس آئے تو گھر راکھ کا ڈھیر بنا ہوا تھا.اس لئے ہمیشہ سفر میں بھی دعاؤں میں رہنا چاہئے.

Page 438

خطبات مسرور 433 مومن کا تو ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے بغیر نہیں گزرسکتا.$2004 پھر سفر میں بھی ایسے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں جو انسان کی طبیعت پر برا اثر ڈالتے ہیں کوئی ایکسیڈنٹ ہی دیکھ لیا اس سے طبیعت پر ایک بوجھ پڑ جاتا ہے.تو آنحضرت ﷺ ہمیشہ خود بھی دعا کرتے تھے اور ہمیں بھی یہی حکم ہوا کہ جب بھی سفر پر ہود عائیں مانگتے رہو اور سفر سے واپس آؤ تو اللہ کا شکر ادا کرو.تو بہ کرتے ہوئے گھر میں داخل ہو، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دو تا کہ ہمیشہ اس کا فضل شامل حال رہے.حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تین آدمی سفر پر جائیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو اپنا امیر مقرر کر لیں.(سنن ابی داؤد - كتاب الجهاد باب فى القوم يسافرون يومرون) بعض لوگ گروپوں کی شکل میں نکلتے ہیں تو اپنا امیر مقرر کر لیں.یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ امیر ضرور مقرر کیا جائے اور پھر جب آپ نے امیر مقرر کر لیا تو اس کو مشورہ تو ضرور دیں، مشورہ دینے کا آپ حق رکھتے ہیں لیکن اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی بات نہیں کر رہا تو اس کی ہر بات بھی ماننی پڑے گی.اور بچوں میں یہ روح پیدا کرنے کے لئے کہ یہ اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ سفروں میں امیر مقرر کرو، بچوں کے ساتھ جب سفر کریں تو باپ یا جو بھی اس خاندان کا بڑا ہو جس کو بھی آپ امیر بنائیں، بتائے کہ یہ امیر ہے اور اس کی بات ماننی ہے.اللہ تعالیٰ کے رسول نے بتایا ہے کہ سفروں میں امیر ہونا چاہئے.تو جب آپ بچوں کو اس طرح ٹریننگ دیں گے تو بچوں کو بچپن سے ہی نظام جماعت سے اطاعت کی بھی عادت پیدا ہو جائے گی اور ایک سفر سفر میں ہی بچوں کو سبق مل جائے گا.پھر ایک روایت ہے حضرت کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت یہ سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور وہاں دو رکعت نفل نماز پڑھتے.(بخاری کتاب المغازى باب حديث كعب بن مالك

Page 439

$2004 434 مسرور تو جیسا کہ پہلے بھی میں نے بتایا ہے کہ آپ نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ سفر سے واپسی پر تو بہ کرتے ہوئے، اللہ کی تعریف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اور اس سے دعائیں مانگتے ہوئے گھروں میں داخل ہو جاؤ.تو اس حدیث نے یہ نمونہ دیا کہ سفر سے واپس آکر دو نفل مسجد میں ادا کر تے تھے.اب دیکھ لیں کیا ہوتا ہے.ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے سکتا ہے، اپنا محاسبہ کر سکتا ہے کہ نفل تو علیحدہ رہے بہت سے ایسے ہیں کہ سفر سے واپس آ کر بچوں میں یا دوسرے گھر یلو معاملات میں یا اپنی مجلسوں میں اتنے کھو جاتے ہیں، دنیاوی معاملات میں اتنے زیادہ گم ہو جاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آجکل کا سفر اُس زمانے کے سفر کے لحاظ سے بہت آرام دہ ہے، کوئی مقابلہ ہی نہیں اس زمانے کے سفر کے ساتھ ، لیکن پھر بھی جو فرض نماز میں ہیں وہ بھی قضا کر کے پڑھتے ہیں یا پڑھتے ہی نہیں اور تھکاوٹ کا بہانہ بنا لیتے ہیں.اگر ہر کوئی اپنا اپنا جائزہ لے تو آپ کو بڑی واضح تصویر سامنے آ جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں سب سستیاں دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے.کیونکہ وہ تمہارے کھانے، پینے اور سونے میں روک بنتا ہے پس چاہئے کہ جب مسافر اپنا کام مکمل کرلے تو اپنے اہل کی طرف واپسی کے لئے جلدی کرے.(مسلم کتاب الامارة باب السفر قطعة من العذاب واستحباب تعجيل المسافر الى اهله بعد قضاء مشغلة) آجکل بھی آپ دیکھ لیں کہ باوجود اس کے کہ سفر میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں.جہازوں، کاروں، گاڑیوں وغیرہ کے ذریعے ہم ہزاروں سینکڑوں میل کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود گھر سے بے گھر ہو کر ڈسٹرب (Disturb) ضرور ہوتے ہیں.آدمی کی وہ روٹین (Routine) نہیں رہتی جو اپنے گھر میں ہوتی ہے کھانے کے اوقات میں یا اس کی پسند میں تبدیلی آجاتی ہے.بعض مریضوں اور خوراک کے معاملے میں خاص مزاج رکھنے والے لوگوں کو تو

Page 440

$2004 435 خطبات مسرور سفروں میں بہت دقت پیدا ہو جاتی ہے.پھر اوقات کی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدگی نہیں رہتی ، سونے جاگنے میں باقاعدگی نہیں رہتی.جن کو وقت پر فجر کی نماز پڑھنے کی عادت بھی ہو وہ بھی بعض دفعہ سفر کی وجہ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور نماز چھوٹ جاتی ہے.اور بعض لوگ جس طرح کہ پہلے میں نے کہا کہ رات دیر تک مجلسیں لگانے کی وجہ سے ان کی نمازیں قضا ہو جاتی ہیں.تو جب اللہ کے حقوق ادا نہ ہور ہے ہوں تو پھر سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہی بن جاتا ہے.پھر ایک روایت میں ہے حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص کسی مکان میں رہائش اختیار کرتے یا کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے وقت یہ دعا مانگے کہ میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اور اس شر سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے پناہ چاہتا ہوں.عربی میں الفاظ یہ ہیں اَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.تو فرمایا کہ جب یہ دعامانگو گے تو اس شخص کو رہائش اختیار کرنے یا اس جگہ سے کوچ کرنے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی.(مسلم کتاب الذكر باب التعوذ من سوء القضاء ودرك الشقاء وشره تو سچی نیت سے تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے جب مومن سچے دل سے یہ دعا مانگے گا تو اللہ تعالیٰ کے رسول ضمانت دیتے ہیں کہ پھر تم ہر شر سے محفوظ رہو گے.تو اس سفر میں بھی جو آپ کا خالصتہ اللہی سفر ہے اور آئندہ ہر قسم کے سفر میں اس دعا کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے.دعاؤں پر زور دیں اور ہمیشہ سفروں میں دعاؤں پر زور دیتے رہیں کہ مسافر کی دعائیں بھی بہت قبول ہوتی ہیں.ایک روایت ہے، آپ نے فرمایا: تین دعائیں ایسی ہیں جو قبولیت کا شرف پاتی ہیں.مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی بیٹے کے بارے میں بد دعا.(ترمذى كتاب الدعوات باب ما ذكر في دعوة المسافر

Page 441

436 $2004 خطبات مسرور تو یہ تو فرمایا کہ سفر میں دعائیں مانگو اور یہ بھی ہمیں بتا دیا کہ کیا کیا دعائیں مانگو کچھ تو میں پہلے بتا آیا ہوں.ان دعاؤں کے بارے میں ایک اور بھی روایت ملتی ہے کہ کیا دعا مانگنی چاہئے.حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے اور رات ہو جاتی تو آپ دعا کرتے کہ اے زمین! میرا اور تیرا رب اللہ ہے.میں تجھ سے اور جو کچھ تیرے اندر ہے اس کے شر سے، اور جو کچھ تیرے اندر پیدا کیا گیا ہے اس کے شر سے، اور جو کچھ تیرے اوپر چلتا ہے اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں.اور میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں شیر اور اثر دھا اور سانپ اور بچھو کے شر سے اور شہروں کے رہنے والوں سے اور بدی کا آغاز کرنے والے سے اور اس بدی سے جس کا اس نے آغاز کیا.(سنن ابی داؤد کتاب الجهاد باب ما يقول الرجل اذا نزل المنزل تو دیکھیں کئی جگہ جب آدمی جاتا ہے تو بہت سے ناپسندیدہ واقعات ہو جاتے ہیں.آپ نے ان سب سے پناہ مانگی ہے.ان ملکوں میں آپ لوگ جو پاکستان سے آئے ہیں یا یہاں بھی سفر کرتے رہتے ہیں یا دنیا میں احمدی کہیں بھی سفر کر رہے ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو بعض برائیاں حملہ آور ہوتی ہیں ، ان سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.بہت زیادہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے.خاص طور پر یہاں کے ماحول کی آزادی اور بعض ایسی غلط باتیں ہیں جن سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہئے.آپ کی روایات آپ کے مذہب کی تعلیم یہی ہے کہ ان باتوں سے بچو اور اپنی روایات کو قائم رکھو اور اس معاشرے کی برائیوں کا زیادہ اثر نہ لو.لیکن اکثر لوگ اثر لے لیتے ہیں اور پھر وہ کہتے ہیں نا! ' کو اچلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا.پھر نہ اپنی چال رہتی ہے نہ ہنس کی چال رہتی ہے.تو کسی معاشرے کی اچھائیاں اپنانا اچھی بات ہے.بلکہ یہ مومن کی گمشدہ چیز ہے، متاع ہے.لیکن ہر معاشرے کی جو برائیاں ہیں ان سے ضرور بچنا چاہئے.اور یہ اچھائی اور برائی کی تمیز آپ کو اس وقت ہوگی جب آپ کو دین کے بارے میں بھی صحیح علم

Page 442

$2004 437 خطبات مسرور ہوگا.اس لئے اپنے دین کے سیکھنے پر بھی بہت غور کرنا چاہیئے.پھر ایک روایت ہے حضرت جابر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سفر کی غرض سے روانہ ہونے کیلئے سورج کے غروب ہو جانے سے رات کی سیاہی کے دور ہونے تک اپنے جانوروں کو نہ کھولو کیونکہ رات کی تاریکی میں شیاطین چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں.(سنن ابی داؤد.کتاب الجهاد باب فى كراهية السير في اول الليل تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رات کو سفر کرنے سے بچیں.یہاں بھی یورپ میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی وقت بچانے کے لئے رات کا سفر کرنے کی کوشش ہوتی ہے.اور خاص طور پر جب کاموں سے فارغ ہو کر چاہے وہ دنیاوی کام ہوں یا دینی مقاصد کیلئے سفر ہوں اجتماعوں، جلسوں وغیرہ پر آنے جانے کے لئے اس طرح سفر کرنا چاہئے کہ اگر انتہائی مجبوری بھی ہو تو کم از کم نیند پوری ہو جائے.اور یہ تسلی ہو کہ راستہ بھی محفوظ ہے.بہت سے حادثات صرف نیند نہ لینے کی وجہ سے یا تھکاوٹ کی وجہ سے ہو جاتے ہیں.اور پھر ہم سب کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں.اس لئے ہمارے محسن اعظم ﷺ نے جو بظاہر چھوٹی چھوٹی نصائح ہمیں فرمائی ہیں ان کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دعا کی کہ : اے اللہ میری امت کے علی الصبح کئے جانے والے سفروں میں برکت رکھ دے.یہ روایت حضرت صحر غامدی کی ہے.پھر وہ کہتے ہیں کہ آنحضور ﷺ جب کسی سریہ یا کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو اسے دن کے پہلے حصے میں روانہ فرماتے.اور صحر ایک تاجر شخص تھے وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے تجارتی اموال دن کے پہلے حصے میں روانہ کرتے تھے.اور اسی وجہ سے وہ مالدار ہو گئے اور ان کا مال بہت بڑھ گیا.( سنن ابی داؤد كتاب الجهاد باب في الابتكار في السفر) تو کاروباری آدمی کو بھی سفر صبح صبح کرنا چاہئے.کوئی بھی سفر ہو جلدی نکلنا چاہئے کیونکہ صبح

Page 443

$2004 438 خطبات مسرور صلى الله کے سفر شروع کرنے میں بہت برکت ہے.آدمی اس دعا کا حقدار بن جاتا ہے جو آنحضرت علی کے نے اپنی امت کے لئے کی.لیکن یہ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ برکتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہیں.اس لئے یہ ہمیشہ مدنظر رہنا چاہئے کہ سفر شروع کرتے وقت بھی اور سفر کے دوران بھی اور واپسی پر بھی کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی عبادت سب سے اول ہے.جب اس سوچ کے ساتھ آپ اپنے کاروباری سفر کریں گے تو ان میں پہلے سے بہت زیادہ برکت پڑے گی.کئی لوگ ملتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں یا ملازمتوں پر جاتے ہیں با قاعدگی سے روزانہ صبح اٹھنے والے بھی ہیں لیکن ان کا طریق یہ ہو گیا ہے کہ گھر سے نماز سے چند منٹ پہلے نکلے اور راستے میں کار چلاتے وقت ٹکریں مار کے نماز پڑھ لی یا کچھ لوگ کبھی نہیں بھی پڑھتے تو یہ بالکل غلط طریق ہے.یا تو گھر سے نماز پڑھ کر اور دعا کر کے سفر شروع کریں یا راستے میں رک کر نماز ادا کریں.لیکن نماز کو نماز سمجھ کر پڑھنا چاہئے نہ کہ جان چھڑانے کے لئے یا مجبوری کے تحت کہ نماز پڑھنی ہے گلے سے اتارو.اس طرح ٹکریں نہیں مارنی چاہئیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس طرح نہ پڑھو کہ لگے کہ مرغی دانہ کھا رہی ہے ، صرف ٹکریں ہوں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے سفر کا کس طرح اہتمام فرماتے تھے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں کہ ان سفروں میں جو آپ نے بعثت سے پہلے زمانے میں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کی اطاعت و پیروی کا نمونہ دکھانے کے لئے کئے آپ کے معمولات بہت مختصر تھے.کسی قسم کا سامان آپ ساتھ نہیں لیتے تھے.صرف وہی لباس ہوتا تھا جو آپ پہنے ہوئے ہوتے تھے اور ایک مختصر سا بستر ، ایک لوٹا اور ایک گلاس بھی لیا کرتے تھے.اور جو بعثت کے بعد کے سفر ہیں ان کی نوعیت پھر تبدیل ہو گئی.کیونکہ سفروں میں بہت سارے لوگ آپ کے ساتھ ہوتے تھے.قافلہ ہوتا تھا، ایک جماعت ساتھ ہوا

Page 444

$2004 439 خطبات مسرور کرتی تھی.اس لئے آپ کا معمول تھا کہ بہت سی موم بتیاں ، ضروری ادویات اور دیا سلائی وغیرہ تک ساتھ رکھا کرتے تھے.تا کہ جب کسی چیز کی ضرورت ہو تلاش نہ کرنی پڑے.اور انہوں نے لکھا ہے کہ چونکہ اس وقت سیاہی بھرے ہوئے پینوں (Pens) کا رواج نہیں تھا تو اس لئے قلم کاغذ دوات بھی ساتھ رکھا کرتے تھے.اور لمبے سفروں میں جو تبلیغی سفر تھے عام طور پر حضرت ام المومنین اور بچوں کو ساتھ رکھتے تھے اور یکے (ٹانگے ) کی سواری میں آپ اندر بیٹھا کرتے تھے.اور ریلوے کے سفر میں سیکنڈ کلاس میں ابتداء اور پھر تھرڈ اور انٹر میں سفر کیا کرتے تھے.مگر آپ تھرڈ انٹریا سیکنڈ کی تمیز یا خصوصیت نہیں کرتے تھے بلکہ صرف چونکہ ان کلاسوں میں بیت الخلاء کی زیادہ سہولت ہوتی ہے اس لئے اس کو پسند کرتے تھے اور ضرورت پڑتی تھی اور عام طور پر آپ کا طریق یہ تھا کہ علی اصبح سفر پر روانہ ہوتے تھے (اسی حدیث کی روشنی میں ) جب ریلوے سفر ہوتا تو ریل کے اوقات کے لحاظ سے بعد دو پہر بھی روانہ ہوتے.رات کے پہلے حصے میں سفر کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ رات کے پہلے حصے میں سفر کیا جائے.بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ تھوڑی دیر آرام کر کے پھر سفر کرنا چاہئے.وہی جو میں نے بات آپ سے کی کہ کچھ دیر نیند پوری کر کے پھر سفر کرنا چاہئے.اور ثابت نہیں ہے کہ رات کے ابتدائی حصے میں آپ نے سفر کیا ہو.وہ لکھتے ہیں کہ اس سے میری مراد یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے سفر کا آغاز رات کے ابتدائی حصے میں کیا ہو.ریل کے سفر میں بھی اس کو محوظ رکھتے تھے.پھر ایک روایت ہے آخری روایت.حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے سیر و سیاحت کی اجازت دیجئے.آپ نے فرمایا میری امت کی سیر و سیاحت اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد ہے.(سنن ابو داؤد كتاب الجهاد باب في النهي عن السياحة تو اس حدیث میں ہمیں ایک یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تمہارے جو بھی سفر ہیں ایک بات یاد

Page 445

$2004 440 خطبات مسرور رکھو کہ یہ سفر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے ہوں.سیر کرنے کے لئے بھی جب نکلو تو اللہ کی مخلوق پر غور کرتے رہو.مختلف نظارے دیکھو، ان پر غور کرو.اور پھر تمہارا یہ سفر اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرنے اور اس کی طرف لے جانے والا ہو.جہاد یہ نہیں کہ صرف تلوار سے ہی جہاد کرنا ہے.بلکہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ.تمہارے سفر میں اپنے نفس کے خلاف بھی جہاد ہے.ایسے موقعے پیدا ہوں تو اپنے آپ کو بھی تقویٰ پر قائم رکھو اور کبھی ایسا فعل سرزد نہ ہونے دو جو تمہیں خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والا ہو جائے.بلکہ تمہارا سفر اور تمہارے سفر میں اٹھنے والا تمہارا ہر قدم اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے والا ہو.اور پھر اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود کے ماننے والوں کا سب سے بڑا جہاد دعوت الی اللہ ہے.اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے.اس کے لئے اپنے سفروں میں تبلیغ کے مواقع ہر ایک کو پیدا کرنے چاہئیں.کاروباری سفر بھی اگر ہے تو جس جگہ آپ کا روبار کے لئے جائیں وہاں آپ کے نمونے اور آپ کے طرز عمل کو دیکھ کر لوگوں کی توجہ آپ کی طرف ہو.اپنے اندر ایک ایسی پاک تبدیلی پیدا کریں جولوگوں کو نظر آتی ہو اور جس کو دیکھ کر لوگوں میں خود بخود آپ کے دین کی کشش پیدا ہو جائے ، اسلام کی کشش پیدا ہو جائے.اگر دینی اجتماعات کے لئے سفر پر نکلے ہیں تو ان سفروں میں بھی ان اجتماعوں کے بعد ہر احمدی کی طبیعت میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہونا چاہئے.پہلے سے بڑھ کر تقویٰ کے معیار قائم ہوں.ایسے روحانی اجتماع میں ہر احمدی کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ایک جوش پیدا ہو جائے ، یہی جہاد ہے.اللہ کرے کہ اس جلسے میں آنے والا ہر احمدی اس جذبے کے تحت اس جلسہ میں شامل ہو اور یہ جلسہ ہر احمدی کے لئے بے انتہا برکتوں، رحمتوں اور فضلوں کا لانے والا بن جائے اور ہر احمدی میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہو جائے جو نظر بھی آتی ہو.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آخر میں ایک افسوسناک خبر ہے اس کے بارے میں ذکر کروں گا.حضرت صاحبزادہ

Page 446

$2004 441 خطبات مسرور مرزا مبارک احمد صاحب کی 21 جون کو وفات ہوگئی تھی.آپ کی عمر 90 سال تھی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اور آپ بڑا لمبا عرصہ بیمار ہے.1914ء میں آپ پیدا ہوئے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے دوسرے بیٹے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سفروں میں کافی رہے ہیں.اور پھر مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا، یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور اس کے بعد آپ نے زندگی وقف کر دی.اور تحریک جدید میں حضرت مصلح موعود نے ان کو لگایا تھا.اور آپ نے بڑا لمبا عرصه خدمت سلسلہ کی توفیق پائی.بطور وکیل صنعت، زراعت، آپ بہت عرصہ وکیل النبشیر رہے ہیں، وکیل الدیوان رہے پھر تحریک جدید کے وکیل اعلیٰ رہے.اور پھر صدر مجلس انصاراللہ مرکز یہ بھی رہے.خلافت رابعہ کے دور میں صدر مجلس تحریک جدیدر ہے.ابھی میں نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعا کریں.آپ کے دو بیٹے ہیں اور ایک بیٹی جو یہیں کینیڈا میں رہتی ہیں امتہ الباقی عائشہ، ان کے خاوند ظفر نذیر صاحب ہیں.اور بیٹے مرزا مجیب احمد صاحب اور ڈاکٹر مرزا خالد تسلیم صاحب.ڈاکٹر خالد تسلیم صاحب بھی آجکل ربوہ میں ہیں اور اللہ کے فضل سے اہل ربوہ کی بڑی خدمت کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے اور ان سب کو صبر کی توفیق دے.میاں مبارک احمد صاحب میرے ماموں بھی تھے.

Page 447

$2004 442 خطبات مسرور

Page 448

$2004 443 27 خطبات مسرور یا درکھیں بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے.۲ جولائی ۲۰۰۴ء بمطابق ۲ رو فا۱۳۸۳ هجری تشی بمقام انٹر نیشنل سنٹر مسی ساگا( کینیڈا) آنحضرت ﷺ کا گھر کے سربراہ کی حیثیت سے اسوہ حسنہ میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنی چاہئیں صلى الله حضرت اقدس رسول اللہ یہ ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں ہ گھر میلوں معاملات اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح بچوں کی عزت کرنی چاہئے اور ان کو آداب سکھائے جائیں.

Page 449

خطبات مسرور $2004 444 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا﴾ (سورة الفرقان آیت نمبر 75) اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم کو اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.اللہ تعالیٰ نے مرد کے قومی کو جسمانی لحاظ سے مضبوط بنایا ہے اس لئے اس کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی عورت سے زیادہ ہیں.اس سے ادا ئیگی حقوق کی زیادہ توقع کی جاتی ہے.عبادات میں بھی اس کو عورت کی نسبت زیادہ مواقع مہیا کئے گئے ہیں.اور اس لئے اس کو گھر کے سربراہ کی حیثیت بھی حاصل ہے اور اسی وجہ سے اس پر بحیثیت خاوند بھی بعض اہم ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں.اور اسی وجہ سے بحیثیت باپ اس پر ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں.اور بہت ساری ذمہ داریاں ہیں، چند ایک کا میں یہاں ذکر کروں گا.اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے حکم دیا کہ تم نیکیوں پر قائم ہو ، تقویٰ پر قائم ہو، اور اپنے گھر والوں کو، اپنی بیویوں کو، اپنی اولاد کو تقویٰ پر قائم رکھنے کے لئے نمونہ بنو.اور اس کے لئے اپنے رب سے مدد مانگو، اس کے آگے روڈ ، گڑ گڑاؤ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے اللہ! ان راستوں پر ہمیشہ چلا تارہ جو تیری رضا کے راستے ہیں، کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہم بحیثیت گھر کے سربراہ کے، ایک خاوند کے اور ایک باپ کے، اپنے حقوق ادا نہ کرسکیں اور اس وجہ سے تیری ناراضگی کا موجب بنیں.تو جب انسان سچے دل سے یہ دعا مانگے اور اپنے عمل سے بھی اس معیار کو حاصل

Page 450

445 $2004 خطبات مسرور کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ نہ ایسے گھروں کو برباد کرتا ہے، نہ ایسے خاوندوں کی بیویاں ان کے لئے دکھ کا باعث بنتی ہیں اور نہ ان کی اولا دان کی بدنامی کا موجب بنتی ہے.اور اس طرح گھر جنت کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ معیار حاصل کرنے کے لئے کیا نمونے دیئے ہیں اور کیا نصائح فرمائی ہیں.اس کی کچھ مثالیں میں اس وقت یہاں پیش کروں گا.حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا.امام نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا.اور مرد اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا.اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا.خادم اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا.راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مرد اپنے والد کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا.اور فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا.(بخاری كتاب الجمعة - باب الجمعة في القرى والمدن) تو اس روایت میں مختلف طبقوں کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ اپنے اپنے ماحول میں نگران ہیں لیکن اس وقت میں کیونکہ مردوں کے بارے میں ذکر کر رہا ہوں اس لئے اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں.عموماً اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ مرد کہتے ہیں کیونکہ ہم پر باہر کی ذمہ داریاں ہیں، ہم کیونکہ اپنے کاروبار میں اپنی ملازمتوں میں مصروف ہیں اس لئے گھر کی طرف توجہ نہیں دے سکتے اور بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری عورت کا کام ہے.تو یا درکھیں کہ بحیثیت گھر کے سر براہ مرد کی

Page 451

$2004 446 خطبات مسرور ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں ، ویک اینڈ ز پر جو ہوتے ہیں.انہیں مسجد سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے ، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے ، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تاکہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح آپ کے ساتھ بانٹ سکیں.بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھیں ، ان کے حل کرنے کی کوشش کریں.پھر ایک سربراہ کی حیثیت آپ کومل سکتی ہے.کیونکہ کسی بھی جگہ کے سربراہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سر براہ نہیں کہلا سکتا.اس لئے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہو.یہ قابل فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں.اور اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں.تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے.مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے مستقلاً اپنا یہ معمول بنالیا ہے، یہ روٹین بنالی ہے کہ اپنے گردو پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے ، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے ، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں کرتے ، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے.اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے.بلکہ یہ معیار حاصل کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر و اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو.جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عبداللہ ! جو مجھے بتایا گیا ہے کیا یہ

Page 452

$2004 447 خطبات مسرور درست ہے کہ تم دن بھر روزے رکھے رہتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو یعنی نمازیں پڑھتے رہتے ہو، اس پر میں نے عرض کی ہاں یارسول اللہ.تو پھر آپ نے فرمایا ایسانہ کر کبھی روزہ رکھو کبھی چھوڑ دو،رات کو قیام کرو اور سو بھی جایا کرو.کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری زیارت کو آنے والے کا بھی تم پر حق ہے.(بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم في الصوم) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر کے سربراہ کی حیثیت سے گھر والوں کے حقوق کس طرح ادا کیا کرتے تھے اس بارے میں حضرت اسود کی روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے دریافت کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر کیا کیا کرتے تھے.آپ نے فرمایا وہ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے.(صحیح بخاری کتاب الاذان من كان في حاجة اهله) تو آپ سے زیادہ مصروف اور آپ سے زیادہ عبادت گزار کون ہو سکتا ہے.لیکن دیکھیں آپ کا اسوہ کیا ہے کتنی زیادہ گھر یلو معاملات میں دلچسپی ہے کہ گھر کے کام کاج بھی کر رہے ہیں اور دوسری مصروفیات میں بھی حصہ لے رہے ہیں.آپ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے، اور فرمایا کہ میں تم سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں.(ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبي ) صل الله ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم اس خوبصورت نمونہ پر ، اس اسوہ پر عمل کرتے ہیں؟ بعض ایسی شکایات بھی آتی ہیں کہ ایک شخص گھر میں کرسی پہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، پیاس لگی تو بیوی کو آواز دی کہ فریج میں سے پانی یا جوس نکال کر مجھے پلا دو.حالانکہ قریب ہی فریج پڑا ہوا ہے خود نکال کر پی سکتے ہیں.اور اگر بیوی بیچاری اپنے کام کی وجہ سے یا مصروفیت کی وجہ سے یا کسی وجہ سے لیٹ ہوگئی تو پھر اس پر گر جنا، برسنا شروع کر دیا.تو ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں آنحضرت صلی

Page 453

$2004 448 خطبات مسرور اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور دوسری طرف عمل کیا ہے، ادنیٰ سے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرتے.اور کئی ایسی مثالیں آتی ہیں جو پوچھو تو جواب ہوتا ہے کہ ہمیں تو قرآن میں اجازت ہے عورت کو سرزنش کرنے کی.تو واضح ہو کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی ایسی اجازت نہیں ہے.اس طرح آپ اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے قرآن کو بدنام نہ کریں.گھریلو زندگی کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ کی گواہی یہ ہے کہ نبی کر یم تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم ، عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے، آپ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی، ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے.نیز آپ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھایا نہ کبھی خادم کو مارا.خادم کو بھی کبھی کچھ نہیں کہا.(شمائل ترمذی باب ما جاء في خلق رسول الله ) صلى الله آج کل دیکھیں ذرا ذراسی بات پر عورت پر ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے حالانکہ جہاں عورت کو سزا کی اجازت ہے وہاں بہت سی شرائط ہیں اپنی مرضی کی اجازت نہیں ہے.چند شرائط ہیں ان کے ساتھ یہ اجازت ہے.اور شاید ہی کوئی احمدی عورت اس حد تک ہو کہ جہاں اس سزا کی ضرورت پڑے.اس لئے بہانے تلاش کرنے کی بجائے مرد اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور عورتوں کے حقوق ادا کریں جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ الرِّجَالُ قَوْمُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ َوبِمَا أَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ فَالصَّلِحَتُ قِنِتَتٌ حَفِظْتُ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ.وَالَّتِي تَخَافُوْنَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا.إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا﴾ - (النساء) :35) یعنی مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال ان پر خرچ کرتے ہیں.( جو نکھٹو گھر بیٹھے رہتے ہیں وہ تو

Page 454

449 $2004 خطبات مسرور ویسے ہی نگران نہیں بنتے ) پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے.اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو تو ان کو پہلے تو نصیحت کرو ( اس میں بے حیائی نہیں ہے ایسی باتیں جو ہمسائیوں میں کسی بدنامی کا موجب بن رہی ہوں، بعض ایسی حرکتیں ہوتی ہیں ) تو پہلے ان کو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو اور پھر اگر ضرورت ہو تو ان کو بدنی سزا بھی دو اور پھر فرمایا پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر ان کے خلاف کوئی حجت یا بہانے تلاش نہ کرو.یقینا اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے، تو فرمایا کہ اس انتہائی باغیانہ رویے سے عورت اپنی اصلاح کرلے تو پھر بلا وجہ اسے سزا دینے کے بہانے تلاش نہ کرو یا د رکھو کہ اگر تم تقویٰ سے خالی ہو کر ایسی حرکتیں کرو گے اور اپنے آپ کو سب کچھ سمجھ رہے ہو گے اور عورت کی تمہارے نزدیک کوئی حیثیت ہی نہیں ہے تو یاد رکھو کہ پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے تمہاری پکڑ بھی کر سکتی ہے.اس لئے جو درجے سزا.کے مقرر کئے گئے ہیں ان کے مطابق عمل کرو اور جب اصلاح کا کوئی پہلو نہ دیکھو، اگر ایسی عورت کا بدستور وہی رویہ ہے تو پھر سزا کا حکم ہے.یہ نہیں کہ ذرا ذراسی بات پر اٹھے اور ہاتھ اٹھا لیا یا سوئی اٹھا لی.اور اتنے ظالم بھی نہ بنو کہ بہانے تلاش کر کے ایک شریف عورت کو اس باغیانہ روش کے زمرے میں لے آؤ اور پھر اسے سزا دینے لگو.ایسے مرد یا درکھیں کہ خدا کا قائم کردہ نظام بھی یعنی نظام جماعت بھی، اگر نظام کے علم میں یہ بات آجائے تو ایسے لوگوں کو ضرور سزا دیتا ہے.خدا کے لئے قرآن کو بدنام نہ کریں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ” ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں.

Page 455

$2004 450 خطبات مسرور دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو.جو باہر بظاہر نیک نظر آتے ہیں ان میں بھی کئی خامیاں ہوتی ہیں ، جو بیویوں کے ساتھ یا گھر والوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کر رہے اس لئے معاشرے کو بھی ایسے لوگوں پر غور کرنا چاہئے.ظاہری چیز پہ نہ جائیں.فرمایا کہ ” جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہوا اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنی بات پر زدو کوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصے سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مرگئی ہے.اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ عَاشِرُوْ هُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ہاں اگر وہ بے جا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه ٤٠٣ - ٤٠٤ الحكم ٢٤ دسمبر ١٩٠٠ء) 66 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو دوسرے میں عیب نظر آتا ہے یا اس کی کوئی اور ادانا پسند ہے تو کئی باتیں اس کی پسند بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگیں گی.تو وہ پسندیدہ باتیں جو ہیں ان کو مد نظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئے.آپس میں صلح و صفائی کی فضا پیدا کرنی چاہئے تو یہ میاں بیوی دونوں کو نصیحت ہے کہ اگر دونوں ہی اگر اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں تو چھوٹی چھوٹی جو ہر وقت گھروں میں لڑائیاں ، چیخ چیخ ہوتی رہتی ہیں وہ نہ ہوں اور بچے بھی برباد نہ ہوں.ذرا ذراسی بات پر معاملات بعض دفعہ اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان سوچ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں کہ جو کہنے کو تو انسان ہیں مگر جانوروں سے بھی بدتر.(مسلم کتاب الرضاع باب الوصية بالنساء) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً پندرہ سال کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد حضرت خدیجہ نے پہلی وحی کے موقع پہ جو گواہی دی، جب وحی ہوئی اور آنحضرت ﷺ بہت پریشان تھے کہ کیا ہو گیا تو حضرت خدیجہ نے عرض کیا کہ بخدا اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے

Page 456

$2004 451 خطبات مسرور گا.کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے اور رشتہ داروں سے حسن سلوک فرماتے ہیں اور غریبوں ناداروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور معدوم ہو جانے والی نیکیوں کو زندہ کرنے والے ہیں، یعنی جو نیکیاں ختم ہوگئی ہیں ان کو دوبارہ زندہ کرنے والے ہیں اور سچ بولنے کے نتیجہ میں پیش آنے والی مشکلات کے باوجود حق کے ہی معین و مددگار ہیں“.یعنی سچی بات ہی کہتے ہیں اور مہمان نواز بھی ہیں“.(بخارى بدء الوحى كيف كان بدء الوحى) تو ایک انسان میں جو خصوصیات ہونی چاہئیں خاص طور پر ایک مرد میں جن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے جس سے پاک معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے وہ یہی ہے جن کا ذکر حضرت خدیجہ نے آپ کے خلق کے ضمن میں فرمایا کہ صلہ رحمی اور حسن سلوک ، رشتہ داروں کا خیال ،ان کی ضروریات کا خیال ، ان کی تکالیف کو دور کرنے کی کوشش.اب صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے اس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے ہیں.ان سے بھی صلہ رحمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے.اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تو نکار ہو سکتی ہے؟ کوئی لڑائی جھگڑا ہوسکتا ہے؟ کبھی نہیں.کیونکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات سے ہوتے ہیں کہ ذراسی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بری لگی تو فور انا راض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا، میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا.میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ ہیں تو یہ زودرنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ، یہی پھر بڑے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدرا اپنی بیویوں کے رشتہ داروں سے اور ان کی سہیلیوں سے حسن سلوک فرمایا کرتے تھے.بے شمار مثالوں میں سے ایک یہاں دیتا ہوں.راوی نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں

Page 457

452 $2004 خطبات مسرور پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے یہ تو خدیجہ کی بہن حالہ آئی ہے.اور آپ کا یہ دستور تھا کہ گھر میں کبھی کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرمایا کرتے تھے.(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خديجه) لیکن یہاں تھوڑی سی وضاحت بھی کر دوں اس کی تشریح میں.بعض باتیں سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے وضاحت کرنی پڑ رہی ہے.کیونکہ معاشرے میں عورتیں اور مرد زیادہ مکس اپ (Mixup) ہونے لگ گئے ہیں.اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ عورتوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے اور بیویوں کی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی کھلی چھٹی مل گئی ہے.خیال رکھنا بالکل اور چیز ہے اور بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ کر لینا بالکل اور چیز ہے.اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ پھر بیوی تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور سہیلی جو ہے وہ بیوی کا مقام حاصل کر لیتی ہے.مرد تو پھر اپنی دنیا بسا لیتا ہے لیکن وہ پہلی بیوی بیچاری روتی رہتی ہے.اور یہ حرکت سراسر ظلم ہے اور اس قسم کی اجازت اسلام نے قطعا نہیں دی.کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں شادی کرنے کی اجازت ہے یہاں ان معاشروں میں خاص طور پر احتیاط کرنی چاہئے.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ، اُس بیوی کا بھی خیال رکھیں جس نے ایک لمبا عرصہ تنگی ترشی میں آپ کے ساتھ گزارا ہے.آج یہاں پہنچ کر اگر حالات ٹھیک ہو گئے ہیں تو اس کو دھتکار دیں، یہ کسی طرح بھی انصاف نہیں ہے.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک دفعہ آپ کو کہا کہ اے اللہ کے رسول ! خدا نے آپ کو اس قدر اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں.اب اس بڑھیا ( یعنی حضرت خدیجہ ) کا ذکر جانے بھی دیں.تو آپ نے فرماتے تھے کہ نہیں نہیں.خدیجہ اس وقت میری ساتھی بنی جب میں تنہا تھا.وہ اس وقت میری سپر بنی جب میں بے یارو مددگار تھا.وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہوگئیں اور اللہ تعالیٰ

Page 458

453 $2004 خطبات مسرور نے ان سے مجھے اولاد بھی عطا کی.انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ٦ صفحه ۱۱۸ مطبوعه بيروت تو یہ ہے اسوہ حسنہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے اور ایسے معاملات سن کر بڑی تکلیف ہوتی ہے، طبیعت بعض دفعہ بے چین ہو جاتی ہے کہ ہم میں سے بعض کس طرف چل پڑے ہیں.بیوی کی ساری قربانیاں بھول جاتے ہیں حتی کہ بعض تو اس حد تک کمینگی پر آتے ہیں کہ بیوی سے رقم لے کر اس پر دباؤ ڈال کر اس کے ماں باپ سے رقم وصول کر کے کاروبار کرتے ہیں یا ز بر دستی بیوی کے پیسوں سے خریدے ہوئے مکان میں اپنا حصہ ڈال لیتے ہیں اور پھر اس کو مستقل دھمکیاں ہوتی ہیں.اور بعض دفعہ تو حیرت ہوتی ہے کہ اچھے بھلے شریف خاندانوں کے لڑکے بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں.ایسے لوگ کچھ خوف خدا کریں اور اپنی اصلاح کریں.ورنہ یہ واضح ہو کہ نظام جماعت، اگر نظام کے پاس معاملہ آ جائے تو کبھی ایسے بیہودہ لوگوں کا ساتھ نہیں دیتا، نہ دے گا.اور پھر یہی نہیں کہ لڑکے خود کرتے ہیں بلکہ ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان پر دباؤ ڈال کے ایسی حرکتیں کرواتے ہیں.وہ بھی یا درکھیں کہ ان کی بھی بیٹیاں ہیں اور ان سے بھی یہی سلوک ہو سکتا ہے.اور اگر بیٹیاں نہیں ہیں جن کی تکلیف کا احساس ہو، بعضوں کے بیٹے ہوتے ہیں اس لئے ان کو بیٹیوں کی تکلیف کا پتہ ہی نہیں لگتا.تو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو تو جان دینی ہے، اس کے حضور تو حاضر ہونا ہے.حضرت عائشہ ایک روایت کرتی ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دیئے یا جگائے بغیر خود ہی کھانا لے کر تناول فرما لیتے یا دودھ ہوتا تو خود ہی لے کر نوش فرمالیتے.(مسلم کتاب الاشربه باب اکرام الضيف) یہ اُسوہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لیکن بعض مثالیں ایسی سامنے آتی ہیں ، عمو ماً اب یہ ہوتا ہے کہ مرد لیٹ کام سے واپس آتے ہیں اور یہ روز کا معمول ہے اور اگر بیوی کسی دن طبیعت

Page 459

$2004 454 خطبات مسرور کی خرابی کی وجہ سے پہلے کھانا کھالے تو ایک قیامت برپا ہو جاتی ہے.موڈ بگڑ جاتے ہیں کہ تم نے میرا انتظار کیوں نہیں کیا.ہمارے معاشرے میں پاکستانی، ہندوستانی اس مشرقی معاشرے میں یہ بات زیادہ پیدا ہوتی جارہی ہے، پہلے بھی تھی لیکن پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہونی چاہئے تھی ، اس کی بھی اصلاح کرنی چاہئے.اور زیادہ سے میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک دو فیصد بھی ہمارے اندر ہے تب بھی قابل فکر ہے، بڑھ سکتی ہے.پھر اس وجہ سے خاوند تو جو ناراض ہوتا ہے بیوی سے تو ہوتا ہے، ساس سسر بھی ناراض ہو جاتے ہیں اپنی بہو سے.کہ تم نے کیوں انتظار نہیں کیا.پھر ایک روایت ہے.آنحضرت کی ایک بیوی حضرت صفیہ تھیں جو رسول اللہ کے شدید معاند اور یہودی قبیلہ بنونضیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں.جنگ خیبر سے واپسی پر آنحضرت نے اونٹ پر حضرت صفیہ کے لئے خود جگہ بنائی.آپ نے جو عبا زیب تن کر رکھا تھا اسے اتار کر اور تہہ کر کے حضرت صفیہ کے بیٹھنے کی جگہ پر بچھا دیا.پھر ان کو سوار کرتے ہوئے آپ نے اپنا گھٹنا ان کے آگے جھکا دیا.اور فرمایا کہ اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہو جاؤ.(بخاری کتاب المغازى باب غزوة خيبر) تو دیکھیں کس طرح آپ نے بیوی کا خیال رکھا.یہ نمونے آپ نے ہمیں عمل کرنے کے لئے دیئے ہیں.آج کل بعض لوگ صرف اس خیال سے بیویوں کا خیال نہیں رکھتے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بیوی کا غلام ہو گیا ہے.بلکہ حیرت ہوتی ہے بعض لڑکوں کے، مردوں کے بڑے بزرگ رشتہ دار بھی بچوں کو کہہ دیتے ہیں کہ بیوی کے غلام نہ بنو.بجائے اس کے کہ آپس میں ان کی محبت اور سلوک میں اضافہ کرنے کا باعث نہیں.اپنے لئے کچھ اور پسند کر رہے ہوتے ہیں ، دوسروں کے لئے کچھ اور پسند کر رہے ہوتے ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جونمونہ گھر یلو زندگی میں ہے ہر لحاظ سے مثالی اور بہترین تھا آپ اپنے اہل خانہ کے نان و نفقہ کا بطور خاص اہتمام فرماتے تھے.

Page 460

$2004 455 خطبات مسرور یعنی جو ان کے اخراجات ہیں ان کا خاص اہتمام فرماتے تھے.حتی کہ اپنی وفات کے وقت بھی ازواج مطہرات کے نان نفقہ کے بارے میں تاکیدی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا خرچہ ان کو با قاعدگی کے ساتھ ادا کیا جائے.(بخاری کتاب الوصايا باب نفقة القيم للوقف) اس بات سے وہ مرد جو عورتوں کے مال پر نظر رکھے رہتے ہیں، انہیں یا درکھنا چاہئے کہ یہ ذمہ داری ان کی ہے اور عورت کی رقم پر ان کا کوئی حق نہیں.اپنے بیوی بچوں کے خرچ پورے کرنے کے وہ مرد خود ذمہ دار ہیں.اس لئے جو بھی حالات ہوں چاہے مزدوری کر کے اپنے گھر کے خرچ پورے کرنے پڑیں ان کا فرض ہے کہ وہ گھر کے خرچ پورے کریں.اور اس محنت کے ساتھ اگر دعا بھی کریں تو پھر اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے اور کشائش بھی پیدا فرماتا ہے.ایک روایت ہے حضرت سلمان بن احوص روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضور کے ہمراہ موجود تھے.اس موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثناء کے بعد وعظ ونصیحت فرمائی اور پھر فرمایا کہ عورتوں کے بارے میں ہمیشہ بھلائی کے لئے کوشاں رہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ قیدیوں کی طرح بندھی ہوئی ہیں.تم ان پر کوئی حق ملکیت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں ( یعنی تمہارا حق ملکیت نہیں کہ جب چا ہو مارنا شروع کر دو جب چاہو جو مرضی سلوک کر لو.سوائے اس کے کہ وہ بے حیائی کی مرتکب ہوں.اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان کے کپڑوں اور کھانے کا بہترین خیال رکھو.(ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء في حق المرأة في حق المرأة حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کا مطالعہ کرو تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے.

Page 461

$2004 456 خطبات مسرور باوجود یکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تھی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے.(ملفوظات جلد نمبر ۲ صفحه ۳۸۷ ، الحكم ۱۰ اپریل ۱۹۰۳ پھر ایک روایت ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں سے بھلائی سے پیش آیا کرو.عورت یقیناً پہلی سے پیدا کی گئی ہے.پہلی کے اوپر کے حصے میں زیادہ کبھی ہوتی ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے.اور تم اسے چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی ہی رہے گی.پس تم اس سے بھلائی ہی سے پیش آیا کرو.ایک اور روایت میں ہے کہ عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ دو گے اور اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو تم اس کی کبھی کے باوجود اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو.(بخاری کتاب الانبیاء با ب خلق آدم وذريته اب پسلی کا زاویہ یا گولائی جو بھی ہے وہی اس کی مضبوطی ہے.اور انتہائی نازک حصہ بھی کسی جاندار کا اس کے حصار میں ہے.یعنی دل اور بعض دوسری چیزیں بھی ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی اس تخلیق سے انسان نے فائدہ اٹھایا ہے.اس لئے دیکھ لیں عمارتوں اور پلوں میں جہاں زیادہ مضبوطی دینی ہو اسی طرح گولائی دی جاتی ہے.تو فرمایا کہ عورت کا جو مضبوط کردار ہے اس سے اگر فائدہ اٹھانا ہے تو اس کو زیادہ اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرو ورنہ فائدہ تو کیا وہ تمہارے کسی کام کی بھی نہیں رہے گی.لیکن یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ عورت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کا مادہ بہت زیادہ رکھا ہے.اگر خود نمونہ بن کر اس سے نیکی سے پیش آؤ گے تو وہ خود اپنے آپ کو تمہاری خواہشات پر قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے گی.اس لئے اس سے زیادہ فائدہ بختی سے نہیں بلکہ پیار ومحبت سے ہی اٹھایا جاسکتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے الہام فرمایا کہ یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو.خُذُو الرفق، خُذُو الرِّفْقَ، فَإِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ

Page 462

$2004 457 خطبات مسرور الْخَيْرَاتِ که نرمی کرونر می کردو کہ تمام نیکیوں کا سرنرمی ہے فرمایا کہ حتی المقدور پہلا فرض مومن کا ہر ایک کے ساتھ نرمی حسن اخلاق ہے اور بعض اوقات تلخ الفاظ کا استعمال بطور تلخ دوا کے جائز ہے.اربعین نمبر ۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ٤٢٩٠٤٢٨ - حاشيه | اس الہام پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حاشیہ رقم فرمایا ہے اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ” اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں.وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں.در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے.پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدے میں دغا باز نہ ٹھہرو.اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَاشِرُوْ هُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ) یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اور حدیث میں ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِه یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو.کیونکہ نہایت بدخدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو گندے برتن کی طرح مت توڑو.(ضمیمه تحفه گولڑویه - روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ٧٥ـ حاشيه وتذكره صفحه ٣٩٧،٣٩٦) پھر فرمایا: ” اسی طرح عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں.سیدھے رستے سے ہٹ گئے ہیں.” قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ﴿ وَعَاشِرُوْ هُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مگر اب اس کے خلاف عمل ہورہا ہے.فرمایا کہ ” دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیج الرسن کر دیا ہے“.(یعنی بے حیائی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی ہے ) ”دین کا ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا.بعض ایسے ہیں انہوں نے خلیج الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی

Page 463

$2004 458 خطبات مسرور فرق نہیں کیا جا سکتا.اور کنیزوں اور بہائم (یعنی جانوروں) سے بھی بدتر ان سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں.یہاں کے پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتار دی اور دوسری پہن لی.یہ بڑی خطر ناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں میں کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی دیکھو کہ آپ عورتوں سے کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے.(ملفوظات جلد دوم صفحه ٣٩٦ـ الحكم ۱۰ اپریل ۱۹۰۳ء) بعض دفعہ گھروں میں چھوٹی موٹی چپقلشیں ہوتی ہیں ان میں عورتیں بحیثیت ساس کیونکہ ان کی طبیعت ایسی ہوتی ہے وہ کہہ دیتی ہیں کہ بہو کو گھر سے نکالو لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب سسر بھی ، مرد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہوئی ہے اپنی بیویوں کی باتوں میں آ کر یا خود ہی بہوؤں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں حتی کہ بلاوجہ بہوؤں پہ ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں.پھر بیٹوں کو بھی کہتے ہیں کہ مارو اور اگر مرگئی تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بیوی لے آئیں گے.اللہ عقل دے ایسے مردوں کو.ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ یا درکھنے چاہئیں کہ ایسے مرد بزدل اور نا مرد ہیں.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” چاہئے کہ بیویوں سے خاوندوں کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں اگر انہیں سے ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خی 66 خَيْرُكُمْ لِاهْلِهِ تم میں سے اچھا ہے وہ جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے.(ملفوظات جلد.سوم صفحه ۳۰۱،۳۰۰ البدر ۲۲ مئی ۱۹۰۳ و الحكم ١٧ مئى ١٩٠٣ء)

Page 464

$2004 459 مسرور ایک دفعہ مسجد میں مستورات کا ذکر چل پڑا تو ان کے متعلق احمدی احباب میں سے سر بر آوردہ ممبر کا ذکر سنایا کہ ان کے مزاج میں اول سختی تھی عورتوں کو ایسا رکھا کرتے تھے جیسے زندان میں رکھا کرتے ہیں یعنی قید میں رکھا کرتے ہیں.اور ذرا وہ نیچے اترتیں تو ان کو مارا کرتے.لیکن شریعت میں حکم ہے که وَعَاشِرُوْ هُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ) (نساء :۲۰).نمازوں میں عورتوں کی اصلاح اور تقویٰ کے لئے دعا کرنی چاہئے.قصاب کی طرح برتاؤ نہ کریں فرمایا کہ قصائی کی طرح برتاؤ نہ کریں ) " کیونکہ جب تک خدا نہ چاہے کچھ نہیں ہوسکتا.(ملفوظات جلد.سوم صفحه ۱۱۸ البدر ۱۳ مارچ ۱۹۰۳) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے ( یعنی اس کے رشتہ داروں سے بھی ) نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۹) پھر مرد کے فرائض میں سے بچوں کے حقوق بھی ہیں.حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ابرار کو اللہ تعالیٰ نے ابرار اس لئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا.جس طرح تم پر تمہارے والد کا حق ہے اسی طرح تم پر تمہارے بچے کا حق ہے.الادب المفرد للبخاری باب بر الأب لولده حضرت ابو ہریرہ روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا بچہ تھاوہ اسے اپنے ساتھ چمٹانے لگا اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس پر رحم کرتا ہے؟ اس پر اس نے کہا جی حضور ! تو حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھ پر اس سے بہت زیادہ رحم کرے گا جتنا تو اس پر کرتا ہے اور وہ خدا ارحم الراحمین ہے.الادب المفرد للبخاری باب رحمة العيال.پھر حضرت ایوب اپنے والد اور اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی

Page 465

460 $2004 خطبات مسرور اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولا د کو دے سکتا ہو.(ترمذی ابواب البر والصلة باب في ادب الولد تو اس زمانے میں اور خاص طور پر اس ماحول میں باپوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.صرف اپنی باہر کی ذمہ داریاں نہ نبھائیں ، گھروں کی بھی ذمہ داری ہے.اور اس کو سمجھیں کیونکہ ہر طرف سے معاشرہ اور بگاڑنے والا ما حول منہ کھولے کھڑا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے“.( بعض دفعہ بعض باپوں کو سزائیں دینے کا بہت شوق ہوتا ہے ) ” گویا بد مزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے“.(اپنے آپ کو حصہ دار بنانا چاہتا ہے ).ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں بڑھتے بڑھتے دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد میں سزا سے کوسوں تجاوز کر جاتا ہے.اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا ہو اور پورا تعمل اور بردبار اور باسکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے ( کہ اگر مغلوب الغضب نہ ہو، غصے میں نہ ہو بلکہ اگر اصلاح کی خاطر سزا دینی ہو تو اس کو حق ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کوسزادے یا چشم نمائی کرے ( یا اس کو معاف کر دے) مگر مغلوب الغضب اور سبک سر اور طائش العقل ہرگز سزاوار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو.پھر فرمایا کہ : ” جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب ٹھہرا لیں اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه ۳۰۸ ، ۳۰۹ الحكم ۱۷ جنوری ۱۹۰۰ء) بعض لوگ صرف اپنے بچوں تک ہی ربوبیت میں حصہ دار نہیں بنتے بلکہ دوسروں میں اور

Page 466

$2004 461 خطبات مسرور نظام میں بھی دخل اندازی کر کے اپنے آپ کو بالا سمجھنے لگ جاتے ہیں.اب کل ہی یہاں مسجد میں ایک واقعہ ہوا ہے.وقف نو کی کلاس تھی اور کینیڈا والوں کی کلاس تھی واقفین نو کی.تو امریکہ سے ایک شخص اپنے بچے کے ساتھ آیا ہوا تھا اور زبردستی کوشش تھی کہ میرا بچہ بھی کلاس میں بیٹھے گا اور اس حد تک مغلوب الغضب ہو گیا کہ انتظامیہ سے بھی لڑائی شروع کر دی اور بچے کو بھی ڈانٹنا اور مارنا شروع کر دیا بلکہ بچے بیچارے کو غصے میں سیڑھیوں سے نیچے پھینک دیا.وہ تو شکر ہے کہ اس کو چوٹیں زیادہ نہیں لگیں اور غصے میں وہ شخص اتنی اونچی بول رہا تھا کہ باہر سے مسجد کے اندر تک آواز میں آرہی تھیں.تو ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ ہمارا رب صرف ایک رب ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے.اور تمہارے اس غصے سے تمہاری اس بد اخلاقی سے اور تو کچھ نہیں ہو گا سوائے اس کے کہ تمہارے اپنے اخلاق ظاہر ہو جائیں کہ وہ کیا ہیں.اس لئے استغفار کرو ورنہ ایسے لوگ پھر یا درکھیں کہ اگر اصلاح کی کوشش نہ کی تو خود ہی اپنی بربادی کے سامان کرتے رہیں گے اور اسی میں گر جائیں گے.ایک روایت ہے، حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو.(ابن ماجه ابواب الادب باب برالوالد تو اپنے بچوں میں عزت نفس پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کو آداب سکھائے جائیں اس کی ایسے رنگ میں تربیت ہو کہ وہ دوسروں کی بھی عزت اور احترام کرنے والا ہو.اس طرح نہ اس کی تربیت کریں کہ اس عزت کی وجہ سے جو آپ اس کی کر رہے ہیں وہ خودسر ہو جائے، بگڑنا شروع ہو جائے، اپنے آپ کو دوسروں سے بالا سمجھنے ، دوسروں سے زیادہ سمجھنے لگ جائے اور دوسرے بچوں کو بھی اپنے سے کم تر سمجھے اور بڑوں کا احترام بھی اس کے دل میں نہ ہو.تو تربیت ایسے رنگ میں کی جانی چاہئے کہ اعلیٰ اخلاق بھی بچے کو ساتھ ساتھ آئیں.تو یہ صاحب بھی جو وقف نو بچے کے باپ ہیں اپنی بھی اصلاح کریں تبھی ان کا بچہ وقف نو کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے.

Page 467

$2004 462 مسرور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو لڑکیوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالے اور وہ ان سے بہتر سلوک کرے وہ اس کے لئے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی.(بخاری كتاب الزكواة باب اتقوا النار ولو بشق تمرة) تو دیکھیں کس قدر خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جن کی لڑکیاں ہیں.انسان تو گناہگار ہے ہزاروں لغزشیں ہو جاتی ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے بھی قسم قسم کے راستے بخشش کے رکھے ہیں.تو لڑکیوں پر افسوس کرنے کی بجائے ، جن کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں ، ان کو شکر کرنا چاہئے اور ان کی نیک تربیت کرنی چاہئے اور ان کے لئے نیک نصیب کی دعا مانگنی چاہئے لیکن بعض دفعہ ایسے تکلیف دہ واقعات سامنے آتے ہیں کہ بعض لوگ اپنی بیویوں کو صرف اس لئے طلاق دے دیتے ہیں کہ تمہارے ہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں.تو خوف خدا کرنا چاہئے.کیا پتہ اگلی شادی میں بھی لڑکیاں ہی پیدا ہوں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور رات کو نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے اٹھتے اور عبادت کرتے تھے جب طلوع فجر میں تھوڑا سا وقت باقی رہ جاتا تو مجھے بھی جگاتے اور فرماتے تم بھی دو رکعت ادا کرلو.(بخاری کتاب الصلواة ، باب الصلوة خلف النائم ) تو مردوں کی ایک سربراہ کی حیثیت سے یہ بھی ذمہ داری ہے کہ متقی بنے اور متقی خاندان کا سربراہ بننے کے لئے خود بھی نمازوں کی پابندی کریں.رات کو اٹھیں یا کم از کم فجر کی نماز کے لئے تو ضرور اٹھیں، اپنی بیوی بچوں کو بھی اٹھا ئیں.جو گھر اس طرح عبادت گزار افراد سے بھرے ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکات کو سمیٹنے والے ہوں گے.لیکن یا درکھیں کہ کوشش بھی اس وقت بار آور ہو گی ، اس وقت کامیابیاں ملیں گی کہ جب دعا کے ساتھ یہ کوشش کر رہے ہوں گے.صرف اٹھاکے اور ٹکریں مار کے نہیں بلکہ دعائیں بھی مسلسل کرتے رہیں اپنے لئے ، اپنے بیوی بچوں

Page 468

463 $2004 خطبات مسرور کے لئے.اس لئے اپنی نمازوں میں بھی اپنی بیوی بچوں کے لئے بہت دعائیں کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِی کہ میری بیوی بچوں کی اصلاح فرما اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا د اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے.کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے.غرض ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں تو ان کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ٤٥٧٠٤٥٦ - ٢ مارچ ۱۹۰۸ پھر آپ نے فرمایا کہ میرا طریق کیا ہے کہ میں کس طرح دعائیں مانگا کرتا ہوں.فرمایا کہ میں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں.پہلی یہ کہ اپنے نفس کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے.دوسرے پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃ العین عطا ہو.اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں ( یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والے ہوں ).پھر تیسرے فرمایا کہ پھر میں اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں.پھر چوتھے فرمایا کہ میں اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام دعا کرتا ہوں.پھر پانچویں فرمایا پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلے سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے.(ملفوظات جلد اول صفحه ۳۰۹ ـ الحكم ۱۷ جنوری ۱۹۰۰ء) اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے بیوی بچوں کی طرف سے ہمارے لئے تسکین کے سامان پیدا فرمائے اور آنکھیں ٹھنڈی رکھے.اللہ کی عبادت کرنے والے ہوں اور نیکیوں پر قائم رہنے والے ہوں اور جب ہمارا اللہ تعالیٰ

Page 469

464 $2004 خطبات مسرور کے حضور حاضر ہونے کا وقت آئے تو یہ تسلی ہو کہ ہم اپنے پیچھے نیک اور دیندار اولا د چھوڑے جار ہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری مددفرمائے.آج جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے بلکہ میرا خیال ہے اس خطبے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے پروگراموں سے آپ سب کو بھی اور آپ کے بیوی بچوں کو بھی فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.جس مقصد کے لئے آپ آئے ہیں اس کو پورا کرنے والے ہوں.یعنی اپنی روحانیت کو مزید صیقل کرنے کے لئے ، مزید بڑھانے کے لئے.ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں پر اور درود پر بہت زور دیں.اپنے اخلاق کے اعلیٰ نمونے دکھائیں، اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں.ذراذراسی بات پر غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے.انتظامیہ ہر وقت آپ کی خدمت پر مامور ہے.لیکن اگر کوئی چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہو جائیں تو صرف نظر کریں، معاف کرنے کی عادت ڈالیں.اللہ کی خاطر ان تین دنوں میں اگر تنگیاں برداشت کر بھی لیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس کا اجر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت ملے گا.آپس میں محبت اور بھائی چارے کی مثالیں قائم کریں.اگر کچھ لوگوں کی آپس کی رنجشیں ہیں تو ان رنجشوں کو دور کریں، ایک دوسرے کو معاف کریں اور آپس میں ایک ہو جائیں.اللہ کرے کہ یہ جلسہ آپ سب کے لئے پہلے سے بڑھ کر روحانی تبدیلی لانے کا باعث بنے.آمین

Page 470

$2004 465 28 خطبات مسرور جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دی ہیں ان سے بچتے رہیں تو اللہ تعالی کا قرب پانے والے اور اس کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں گے.جولوگ محرمات کا کاروبار کر رہے ہیں وہ اس کو ختم کریں.ور جولائی ۲۰۰۴ء بمطابق ۹ روفا ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن ،لندن شکر گزاری اور قناعت، رزق میں اضافہ کا باعث بنتی ہے شک والی باتوں سے بچنا بہتر ہے حمد کینیڈا کے دورہ کے تاثرات اور ایمان افروز واقعات

Page 471

خطبات مسرور $2004 466 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ کسی خطبہ میں، میرا خیال ہے شاید دو ہفتے پہلے، میں نے ایسے لوگوں کو جو ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں سور کے گوشت کا استعمال ہوتا ہے کہا تھا کہ ایک تو ایسی جگہوں پر کھانے کی احتیاط ہونی چاہئے اور دوسرے ایسے لوگ یہ کام چھوڑ کر کوئی اور کام تلاش کریں.اس پر ایک شخص نے مجھے لکھا کہ میں نے بعض ریسٹورنٹ لئے ہیں یا ایک ریسٹورنٹ لیا ہے بہر حال اس کے مطابق کیونکہ اس علاقے میں اگر کھانوں میں سور کا گوشت استعمال نہ کیا جائے پھر تو دوکانداری نہیں چلے گی اور کاروبار نہیں چلے گا اور مختلف صورتوں میں یہ چربی کا گوشت استعمال ہوتا ہے.تو اس نے لکھا اب تو میں یہ خرید بیٹھا ہوں اگر یہ کاروبار میں اس طرح نہ چلاؤں تو اتنا نقصان ہوگا اس لئے اجازت دی جائے.تو جہاں تک اجازت کا سوال ہے وہ تو نہیں میں دے سکتا.باقی یہ بھی ان کا وہم ہے کہ کاروبار نہیں چلے گا، پکری نہیں ہوگی.اگر نہیں بھی ہوتی تو اس کاروبار کو بیچ کر کوئی اور کاروبار تلاش کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ رزق دینے والا ہے، نیک نیتی سے چھوڑیں گے تو کسی بہتر کام کے سامان پیدا فرما دے گا اور کام میسر آ جائے گا.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا واضح ارشاد بلکہ فتوی کہنا چاہئے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس کے بعد میرے خیال میں پھر کوئی عذر نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک مجلس میں امریکہ و یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہورہا تھا ، یہ لکھنے والے

Page 472

$2004 467 خطبات مسرور لکھتے ہیں، تو اسی میں یہ ذکر بھی آگیا کہ دودھ اور شور بہ وغیرہ جو ٹینوں میں بند ہوکر ولایت سے آتا ہے بہت ہی نفیس اور صاف ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جا تا دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے.اس پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: پر چونکہ نصاری اس وقت ایک قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال وحرام کی کوئی پرواہ نہیں رکھی اور کثرت سے سور کا گوشت ان میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سرجیسا کہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں.اس لئے شبہ پڑ سکتا ہے کہ سکٹ اور دودھ وغیرہ جو ان کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں ان میں سور کی چربی اور سور کے دودھ کی آمیزش ہو اس لئے ہمارے نزدیک ولایتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شور بے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقوی اور نا جائز ہیں.اس ضمن میں یہ بتادوں کہ یہاں ہر چیز پر Ingredients لکھے ہوتے ہیں، بعض اوقات چاکلیٹ یا بسکٹ لیتے وقت لوگ احتیاط نہیں کرتے، یا جیم (Jam) یا اس قسم کی چیزیں لیتے وقت احتیاط نہیں کرتے حالانکہ اس میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس میں الکوحل ملی ہوئی ہے یا اس میں سور کی چربی ملی ہوئی ہے یا اور کوئی چیز ملی ہوئی ہے، تو پڑھ کے لیا کریں.چونکہ مجھے تجربہ ہوا ہے بعض لوگ تحفے میں بعض دفعہ لے آتے ہیں، میں احتیاط کرتا ہوں اور میں نے پڑھا تو اس میں الکوحل ملا ہوا تھا، ہر احمدی کو احتیاط کرنی چاہیئے.نیز فرمایا : جس حالت میں کہ سور کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو یہ لوگ تیار کر کے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کا نہ ہوتا ہو.تو راوی لکھتے ہیں کہ اس پر ابوسعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں

Page 473

$2004 468 خطبات مسرور بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا وہ ایک مسلمان تاجر نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ میں خرید لیا.جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سور کی چربی اس کارخانے میں خریدی جاتی رہی ہے.دریافت پر کارخانے والوں نے بتایا کہ ہم اسے سکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے.اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا خیال کس قدر تقوی اور باریک بینی پر تھا.لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کا اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز امصار و بلا د میں اب تک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے اس لئے ان کو بھی مد نظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا.(حضرت مسیح موعودؓ سے دوبارہ پوچھا گیا) نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑاھیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں اس پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: ”ہمارے نزدیک نصاری کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو ( یعنی عیسائیوں کا وہ کھانا حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور از روئے قرآن مجید وہ حرام نہ ہو.ورنہ اس کے یہی معنے ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا مگر باہر نصاری کے ہاتھ سے کھا لیا.اور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے.مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیار کردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہوسکتا ہے.اسی لئے ہم گھر میں ولایتی کسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے.بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنیوں کے منگوایا کرتے ہیں.(ملفوظات جلد چهارم صفحه - 66 ـ البدر ١٦ جولائی ١٩٠٤) تو اصل بات یہ ہے کہ شیطان انسان کے دل میں ہر وقت یہ بات ڈالنے کی تاک میں لگا

Page 474

$2004 469 خطبات مسرور رہتا ہے کہ کوئی بات نہیں، فلاں کام کرلو، کچھ نہیں ہوتا.اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ، تم سؤ رکھا تو نہیں سکتے اور یا کھا تو نہیں رہے، یہ تو ایک کاروبار ہے کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے، جن کو کھلا رہے ہو ان کو تو یہ چیز پسند ہے اس لئے چوری بھی نہیں ہے، دھو کہ بھی نہیں ہے.تو یہ بات خوبصورت کر کے شیطان انسان کے دل میں ڈالتا ہے.اور پھر جب اس پر عمل شروع ہو جائے تو ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ انسان اس میں پورے طور پر ملوث ہو جاتا ہے، شامل ہو جاتا ہے، وہی حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے.اچھے برے کی تمیز بھی نہیں رہتی ، سب کچھ بھلا بیٹھتے ہیں.اور روحانی طور پر بھی پھر ایسی حالت میں انسان کمزور ہو جاتا ہے اور پھر صرف دنیا کمانے کی طرف توجہ رہتی ہے اور جائز نا جائز کے فرق کو بھلا بیٹھتے ہیں.سورۃ الناس کی تشریح میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : پس آخری وصیت یہ کی کہ شیطان سے بچتے رہو.پھر فرمایا کہ: "رب کی پناہ میں آؤخدا کی معرفت ، معارف اور حقائق پر پکے ہو جاؤ، تو اس سے بچ جاؤ گے.اب اس بارے میں بھی اگر صحیح طور پر گہرائی میں جا کر غور نہیں کریں گے تو شیطان وسوسہ ڈالے گا، شبہ میں مبتلا کرے گا، کہے گا دیکھو تمہیں غلط طور پر روکا گیا ہے حالانکہ قرآن کریم میں اجازت ہے کہ حد سے آگے نہ نکلو.اگر مجبوری ہو تو سو رکا گوشت کھالو، اگر مجبور ہو جاؤ تو یہ کر سکتے ہو.تو شیطان وسوسہ پیدا کر سکتا ہے یہاں کہ کیونکہ تمہارے کاروبار کا سوال ہے، مجبوری ہے، تم اپنی شریعت کے مطابق خود تو نہیں کھا رہے، قانون تمہیں اجازت دیتا ہے یہاں ان مغربی ممالک میں کہ تم دوسروں کو کھلا سکتے ہو اس لئے بے شک کاروبار کرو.تو یا درکھیں کہ یہ سب شیطان کے وسوسے ہیں جو دلوں میں پیدا کرتا ہے.ایک برائی میں پھنسیں گے تو دوسری میں بھی پھنتے چلے جائیں گے، دھنتے چلے جائیں گے.اس لئے مناسب یہی ہے کہ جو لوگ یہ کا روبار کر رہے ہیں وہ اس کو ختم کریں.

Page 475

$2004 470 مسرور ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ان کو مخاطب کر کے فرمایا: اے ابو ہریرہ ! تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کر ، تو سب سے بڑا عبادت گزار بن جائے گا.قناعت اختیار کر، تو سب سے بڑا شکر گزارشمار ہو گا.جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو تو صحیح مومن سمجھے جاؤ گے.جو تیرے پڑوس میں بستا ہے اس سے اچھے پڑوسیوں والا سلوک کرو تو بچے اور حقیقی مسلم کہلا سکو گے.کم ہنسا کرو کیونکہ بہت زیادہ قہقہے لگا کر ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے.(سنن ابن ماجه كتاب الزهد باب الورع والتقوى) تو فرمایا کہ پر ہیز گاری اختیار کرو، اللہ سے ڈرو، اس کا خوف کرو اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے عمل کرو.شیطان کے بہکاوے میں نہ آؤ.قناعت اختیار کرو،اگر قناعت ہوگی تو تھوڑے پر بھی انسان راضی ہو جاتا ہے.یہ نہیں کہ زیادہ کمانے کے شوق میں ناجائز ذرائع سے بھی کمانے لگ جاؤ.جس کی شریعت تمہیں اجازت نہیں دیتی وہ کام بھی تم کرنے لگ جاؤ.اور شکر گزاری بھی اسی میں ہے که قناعت کرو.اور شکر گزاروں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر صحیح طور پر شکر کرو گے تو تمہیں میں اور زیادہ دوں گا.تو اس وعدے کے تحت اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ شکر کرو میں تمہارے اموال میں بھی برکت دوں گا، تمہاری نسلوں میں بھی برکت دوں گا.اس لئے یہ وہم دل میں نہ لاؤ کہ یہ کاروبار ہم نے نہ کئے تو بھوکے مر جائیں گے خدانخواستہ.اللہ کی خاطر کوئی کام کرو اور اس پر شکر کرو گے تو اور زیادہ ملے گا.اور پھر صحیح مومن کی نشانی یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو.تو آپ خود تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سور کا گوشت نہیں کھاتے ، اس لئے نہیں کھاتے کہ اس میں فلاں فلاں ایسی باتیں ہیں جو انسان کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہیں، یہ یہ نقص ہیں.لیکن دوسروں کو کھلانے کے لئے تیار ہیں.تو یہ تو مومنوں والی بات نہیں ہے.اور پھر آگے بتایا کہ پڑوسیوں سے نیک سلوک کرو اور آخر میں یہ کہ دنیا کی کھیل کود کی محفلوں میں اتنے نہ گم ہو جاؤ کہ خدا ہی یاد نہ رہے اور دل مردہ ہو

Page 476

471 $2004 خطبات مسرور جائے اور جب دل مردہ ہوتا ہے تو انسان اللہ تعالیٰ سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے اور شیطان کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے.پھر وہی بات کہ اچھے برے کی تمیز ہی نہیں رہتی، اور یوں پھر انسان شیطان کے قبضے میں چلا جاتا ہے.حضرت نعمان بن بشیر سے ایک روایت ہے.آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : " حرام اور حلال اشیاء واضح ہیں اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے.پس جو لوگ مشتہیہات سے بچتے رہتے ہیں وہ اپنے دین کو اور اپنی آبرو کو محفوظ کر لیتے ہیں.اور جو شخص شبہات میں گرفتار رہتا ہے بہت ممکن ہے کہ وہ حرام میں جا پھنسے یا کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھے.ایسے شخص کی مثال بالکل اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ علاقے کے قریب قریب اپنے جانور چراتا ہے.بالکل ممکن ہے کہ اس کے جانور اس علاقے میں گھس جائیں.دیکھو ہر بادشاہ کا ایک محفوظ علاقہ ہوتا ہے جس میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی.یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا محفوظ علاقہ اس کے محارم ہیں.یہاں بھی اب دیکھ لیں کہ بعض علاقے گورنمنٹس نے بنائے ہوتے ہیں، بعض جانوروں کے لئے بھی رکھے ہوتے ہیں،Sanctury بنائی ہوتی ہیں.سنو! انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب تک وہ تندرست اور ٹھیک رہے تو سارا جسم تندرست اور ٹھیک رہتا ہے اور جب وہ خراب اور بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیمار اور لا چار ہو جاتا ہے اور اچھی طرح یا درکھو کہ یہ گوشت کا ٹکڑا انسان کا دل ہے“.(بخاری کتاب الایمان،باب فضل استبرأ لدينهـ مسلم كتاب البيوع باب اخذالحلال) تو یا درکھیں کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دی ہیں حدیث میں بڑا واضح طور پر بیان کر دیا کہ ان سے بچتے رہیں تو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے اور اس کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں گے.اس لئے ایسے موقعے پر ہمیشہ یہی یا درکھنا چاہئے کہ اس میں دل سے ضرور فتویٰ لے لیا کریں.کیونکہ اگر ایمان کی تھوڑی سی بھی رمق ہے، تھوڑا سا بھی دل میں ایمان ہے تو دل میں ایک بے چینی پیدا

Page 477

$2004 472 خطبات مسرور رہے گی، کوئی بھی کام انسان کرنے لگے گا تو کسی بھی غلط کام کو کرنے سے پہلے کئی سوال اٹھیں گے.اس.اگر نیکی ہے تو یقینا آپ اس کام کو چھوڑ دیں گے اور اگر شیطان غالب آ گیا تو پھر اچھے برے کی تمیز جیسا کہ میں نے کہا نہیں رہتی.پھر آپ کرتے چلے جائیں گے.پھر ایک اور روایت آئی ہے حضرت وابصہ بن معبد بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا : ” کیا تم نیکی کے متعلق پوچھنے آئے ہو.میں نے عرض کی ہاں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا کہ اپنے دل سے پوچھ.نیکی وہ ہے جس پر تیرا دل اور تیرا جی مطمئن ہو.اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تیرے لئے اضطراب کا موجب بنے اگر چہ لوگ تجھے اس کے جواز کا فتویٰ دیں اور اسے درست کہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر 4 صفحه 227-228 مطبوعه (بيروت تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا اس حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پہلے تصدیق کر لینی چاہئے اپنے دل سے پوچھ لینا چاہئے ، غور کرنا چاہئے.بہت سے ایسے مسائل ہیں، بہت سی ایسی برائیاں ہیں.جن کا انسان اگر اپنے دل سے فتوی لے، اپنے سامنے ان کو رکھے، خالی الذہن ہو کر فتویٰ لے تو خود ہی بہت سی برائیوں سے بچا جا سکتا ہے.کسی اور کی ضرورت ہی نہیں پڑتی.ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ” نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے نا پسند ہو کہ لوگوں کو اس کا پتہ چلے اور تیری اس کمزوری سے وہ واقف ہوں.(مسلم کتاب البر والصلة باب تفسير البرو الاثم) تو اس حدیث میں بھی یہی تلقین ہے کہ اپنا محاسبہ کرو، اپنے دل سے پوچھو.اور بہت سی باتیں تو فورا سامنے آ جاتی ہیں، بہت سی برائیوں سے انسان صرف یہ سوچ کر ہی بچ جاتا ہے کہ اگر یہ لوگوں کو پتہ چل گیا تو لوگ کیا کہیں گے میری بدنامی ہوگی ، میرے گھر والوں کی بدنامی ہوگی.میرے خاندان کی بدنامی ہوگی ، تو بات وہی ہے کہ اگر دل میں نیکی ہے تو اپنے دل سے زیادہ اچھا فتویٰ کہیں

Page 478

$2004 473 خطبات مسرور سے نہیں مل سکتا.اور اگر کسی بات کا علم نہیں تو اس بارے میں پوچھا بھی جاسکتا ہے اور پوچھنا چاہئے تا کہ اچھے برے کی تمیز بھی پتہ لگے، جن کو علم ہو ان سے جا کے پوچھنا چاہئے.حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی ، پنیر او جنگلی گدھے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے.اور وہ اشیاء جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کچھ نہیں فرمایا وہ ایسی اشیاء ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے درگز رفرمایا ہے.(سنن ابن ماجه کتاب الاطعمه باب أكل الجبن والسمن) تو یہاں بڑا واضح طور پر بتا دیا لیکن جن کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا وہاں بھی جب انسان کے تقویٰ کے معیار بڑھتے ہیں تو پھر ایک مومن کا رجحان اسی طرف ہوتا ہے کہ جو واضح حلال ہے اور کسی قسم کا بھی جس میں اشتباہ نہیں ہے وہی استعمال کیا جائے اور جہاں بھی کسی قسم کا شبہ پیدا ہو تو اس سے بچنے کی مومن ہمیشہ کوشش کرتا ہے.اس لئے ہمیشہ احمدیوں کو جنہوں نے تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں محتاط راستہ ہی اختیار کرنا چاہئے.حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اچھی طرح یاد ہے کہ شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو.شک سے مبر ایقین کو اختیار کرو کیونکہ یقین بخش سچائی اطمینان کا باعث ہے.اور جھوٹ اضطراب اور پریشانی کا باعث ہوتا ہے.(ترمذی كتاب صفة القيامة تو اس میں یہ واضح کر دیا جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے کہ بہتر یہی ہے کہ شک والی بات سے بچو.کیونکہ اگر تم حقیقی خوشی چاہتے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام کرنے کی کوشش کرواس سے تم بہت ساری اور بیماریوں اور پریشانیوں سے بھی بچ جاؤ گے.

Page 479

$2004 474 مسرور حضرت خلیفہ امسیح الاول فرماتے ہیں کہ : ” وسوسوں کا پیدا ہونا ضروری ہے.پر جب تک انسان اس کے شر سے بچا ر ہے یعنی ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے اور ان پر قائم نہ ہو، تب تک کوئی حرج نہیں.ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کی کہ میرے دل میں برے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں، کیا میں ان کے سبب سے گناہگار ہوں.فرمایا فقط برے خیال کا اٹھنا اور گزر جا ناتم کو گناہگار نہیں کرتا.یہ شیطان کا ایک وسوسہ ہے.جیسا کہ بعض انسان جو شیطان کی طرح ہوتے ہیں لوگوں کے دلوں میں برے خیالات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، پس فقط ان کی بات سننے سے اور رد کر دینے سے کوئی گناہگار نہیں ہوسکتا.ہاں وہ گناہگار ہوتا ہے جو ان کی بات کو مان لیتا اور اس پر عمل کر لیتا ہے.(حقائق الفرقان جلد نمبر 4 صفحه580) تو بہت ساری ایسی باتیں زندگی میں ہیں، انسان کو پیش آتی ہیں جہاں شیطان ہر وقت وسو سے دل میں ڈالتا رہتا ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ پھر مذہب کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں : پھر اور باتیں ہو جاتی ہیں: تو اگر شیطان کی باتیں مان لیں پھر تو گناہگار ہو گئے.اگر انسان شیطان سے لڑتا رہے اور نیت ہو کہ میں نے اس کی بات نہیں ماننی تو اگر برے خیال آتے بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا، اگر عمل کریں تو جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک چراگاہ ہے، ایک رکھ ہے جس میں جانا منع ہے تو وہاں قدم رکھ لیا تو پھر نقصان اٹھا ئیں گے، پھر اللہ تعالیٰ جو چاہے سلوک کرے.انسانی وسوسوں اور شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی نصیحت فرمائی.حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن کی آخری تین سورتیں یعنی سورۃ اخلاص، فلق اور الناس رات کو سوتے وقت پڑھ کر سویا کرو.ان جیسی کوئی چیز نہیں جس سے پناہ مانگی جائے.(نسائی کتاب الاستعاذه ما جاء في سورتي المعوذتين)

Page 480

$2004 475 مسرور آج کل جب دجال کا دور دورہ ہے.معاشرے میں ہر چیز ایک دوسرے میں خلط ملط ہو چکی ہے تو ہر احمدی کو یہ تینوں سورتیں ضرور پڑھ کر کے سونا چاہئے.شیطان کے حملے کے بھی مختلف طریقے ہو چکے ہیں تو اس لحاظ سے جس حد تک بچا جا سکتا ہے بچنا چاہئے.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی بیمار ہوتے تو آخری دو سورتیں پڑھ کر ہاتھوں میں پھونک کر جسم پرپل لیتے.جب آخری بیماری شدید ہوئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک کر آپ کے بدن پر مل دیتی تھی.(بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل المعوذات) حضرت خلیفہ المسیح الاول نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ: اس سورۃ شریفہ کے شان نزول کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج کی رات مجھ پر اس قسم کی آیات نازل ہوئیں.( یعنی سورۃ الناس کے بارے میں ) کہ ان جیسی میں نے کبھی نہیں دیکھیں.وہ مُعوذتین ہیں.ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جن وانس کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے مگر جب مُعوذتین نازل ہوئیں تو آپ نے اور طرح اس امر سے متعلق دعا کرنا چھوڑ دیا اور ہمیشہ ان الفاظ میں دعا مانگتے تھے.پھر آگے حضرت عائشہ کی وہی حدیث Quote کی ہوئی ہے کہ رسول اللہ جب بیمار ہوا کرتے تو ان دوسورتوں کا دم کیا کرتے تھے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان.9 جنوری 1912ء) اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی راہوں پر چلائے جو حقیقت میں اس کی طرف لے جانے والی را ہیں ہیں.ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہو کر ہم اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں.شیطان کے ہر وسوسے کو رد کرنے والے ہوں اور دل سے نکالنے والے بن جائیں اور یاد رکھیں کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے.اس لئے ہمیشہ اس کا فضل مانگتے رہنا چاہئے.اس کے آگے جھکے رہیں.شیطان کے ہر حملے سے اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتے رہیں.تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ

Page 481

$2004 476 خطبات مسرور نے فرمایا ہے کہ بندہ اگر ایک قدم اس کی طرف آتا ہے تو وہ کئی قدم اس کی طرف آتا ہے اور اگر وہ چل کے آتا ہے تو خدا تعالیٰ دوڑ کر آتا ہے تو ہمیشہ ہم ان بندوں میں شامل رہیں جن کی طرف خدا تعالی دوڑ کر آتا ہو.اور کبھی ان راستوں پر نہ جائیں جو خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہوں اور شیطان کی طرف لے جانے والے راستے ہوں.اب میں کینیڈا کے سفر کا بھی تھوڑا سا مختصر حال بتا دیتا ہوں.مختلف جگہوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی کینیڈا کے سفر کی کامیابی کے خطوط آتے رہے اور آرہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ہے اور احسان ہے کہ اس نے اس سفر میں اپنی تائید ونصرت کے نظارے دکھائے.اللہ تعالیٰ کے بھی فضل دکھانے کے عجیب نرالے طریقے ہیں.انسان جو زیادہ سے زیادہ سوچ سکتا ہے اس سے بھی بڑھ کر وہ دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا اور امریکہ کی جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل لبریز ہو جاتا ہے.وہاں ٹورانٹو میں دو جگہ احمدی آبادی ہے.جہاں زیادہ بڑی آبادی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکٹھی جگہ میں تمام احمدی آباد ہیں.اور اس کا بڑا اچھا اثر ہے علاقے کے لوگوں پر بھی اور افسران پر بھی ، میئر وغیرہ پر بھی اور لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں.جہاں ہماری مسجد ہے بیت الاسلام بڑی مسجد ہے اس جگہ کا نام پیں ویج (Peace Village) ہے.احمد یہ میں ویج اور جہاں شاید تقریباً 300 سے اوپر ہی احمدی گھر آباد ہیں.ماشاء اللہ بڑے مخلص، اخلاص میں ڈوبے ہوئے.اور یہ بھی بڑی خوشی کی بات ہے، میں نے پتہ کیا ہے، وہاں عام حالات میں بھی مسجد میں حاضری بڑی اچھی خاصی ہوتی ہے، لوگ بڑی تعداد میں نمازوں پر آتے ہیں.اور پانچوں نمازوں میں.اللہ تعالیٰ انہیں ایمان اور اخلاص میں مزید بڑھاتا چلا جائے.وہاں جا کر یوں احساس ہوتا ہے کہ جیسے اپنے ہی شہر میں آگئے ہیں.اور کوئی آبادی اردگرد نہیں تمام احمدی ہیں.بلکہ ایک چھوٹے ربوہ کا احساس ہوتا ہے.بڑی سڑک جہاں سے داخل ہوتے

Page 482

$2004 477 خطبات مسرور ہیں کونسل نے اس کا نام احمد یہ ایو مینور کھا ہوا ہے.پھر اندر کئی سڑکیں جاتی ہیں جو خلفاء کے نام پر ہیں.یعنی نو رسٹریٹ ہے.بشیر سٹریٹ ہے، ناصر سٹریٹ ، طاہر سٹریٹ پھر چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نام پر بھی کچھ گلیوں کے نام ہیں.ماشاء اللہ پورے علاقے میں ایک احمدی ماحول ہے.دو ہفتے مسلسل صبح سے شام تک چہل پہل رہی ، رونق رہی جلسے کی وجہ سے.گھروں میں چراغاں بھی رہا.اور جماعت کا بھی یہاں ایک بہت وسیع رقبہ ہے مسجد کے ساتھ شاید 150 ایکڑ کے قریب ہے جہاں آئندہ مستقبل میں انشاء اللہ مختلف جماعتی عمارات بنیں گی.کچھ ہال بنیں گے اور لنگر خانہ وغیرہ انشاء اللہ تعالیٰ کافی بڑے منصوبے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کو مکمل کرنے کی توفیق دے بہر حال اتنے دن جو بھی دو ہفتے گزرے لوگوں کا ایک عجیب نمونہ تھا.یوں لگتا تھا بعض لوگ تو گھروں میں جاتے ہی نہیں کیونکہ جب بھی باہر نکلو بچے ،عورتیں اور بوڑھے سڑکوں پر کھڑے ہوتے تھے.ایک بات اور جو مجھے وہاں کی بڑی اچھی لگی کہ باوجود اتنے رش کے، مہمان بھی لوگوں کے گھروں میں بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے.بعض جگہ تو کمرے چھوٹے پڑ گئے ، لوگ میٹر سیں (Mattresses) لے کے اپنے گھر خالی کر کے ایک کمرے میں چلے گئے اور سارا گھر مہمانوں کو دے دیا.لیکن اس کے باوجود سڑکوں پر اور ان کے گھروں کے سامنے جو چھوٹے لان تھے ان میں صفائی بڑی اچھی طرح ہوئی تھی.اور نظر آرہے تھے کہ یہ لان مستقل Maintain کئے جاتے ہیں.بڑی اچھی طرح سنبھالے ہوتے تھے پھولوں کی کیاریاں تھیں.گھاس اچھی طرح کٹا ہوا تھا اور تقریباً کیا بلکہ سو فیصد ہر گھر کا یہ حال تھا.تو یہاں میں پہلے ہی احمدی گھروں کو صفائی کے ضمن میں توجہ دلا چکا ہوں، کہ اپنے گھروں کے سامنے جو سمن Maintain میں لان میں چھوٹے سے، گھاس وغیرہ کی جگہ ہے یا پھولوں کے بیڈز ہیں ان کو اچھی طرح Maintain کریں.

Page 483

$2004 478 مسرور دوسری جگہ ایک احمدی آبادی ہے جہاں ملٹی سٹوری بلڈنگ ہے.احمد یہ ابوڈ آف پیس (Ahmadiyya Abode of peace) شاید یہ بھی پندرہ سولہ منزلہ عمارت ہے.یہاں بھی جماعت کی بہت بڑی تعداد ہے ماشاء اللہ.اور یہاں نیچے پہلی منزل میں نماز کے لئے ایک ہال بھی بنایا ہوا ہے جہاں پانچوں نمازیں ہوتی ہیں.میں اس بلڈنگ میں تقریباً دو گھنٹے رہا ہوں اور اتنا عرصہ اکثر لوگ اور بچیاں عمارت کے باہر کھڑے رہے اور نظمیں وغیرہ پڑھتے رہے.عجیب اخلاص کے نمونے تھے.اور کوئی تھکاوٹ ان کے چہروں پر نہیں تھی، کوئی آثار نہیں تھے.تو یہ امتیاز بھی صرف اس وقت اس زمانے میں صرف احمدی کو حاصل ہے.پھر وہاں کے کچھ اور چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں، شہر ہیں، مثلاً ہملٹن، مسی سا گا، اور پھر ٹورنٹو میں ایک جگہ ایسٹ ٹورانٹو کی آبادی ہے، جہاں مساجد وغیرہ ہیں وہ بھی دیکھنے گیا.بڑی تعداد میں ، بڑے اخلاص سے لوگ وہاں اکٹھے ہوئے ہوئے تھے.پھر سینٹ کیتھرین ایک جگہ ہے نیا گرا فال کے قریب تو یہاں تقریباً پونے دوا یکڑ کا ایک پلاٹ جماعت نے خریدا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑی نئی ہائی وے بنی ہے.تو بڑی اچھی جگہ ہے، اچھی لوکیشن (Location) ہے اور ہمارا جو قطعہ زمین ہے زمین سے اونچا بھی کافی ہے.اس وقت تو وہاں ایک چھوٹا سا مکان ہی ہے لیکن انشاء اللہ یہاں مسجد بنے گی تو یہاں بھی Highway سے وہ خوبصورت مسجد نظر آیا کرے گی اور اسلام کے امن پسند ہونے کی اس علاقے میں انشاء اللہ ایک عملی تصویر نظر آئے گی.جلسے پر تو جیسا کہ سب سن چکے ہیں ان کے لحاظ سے غیر معمولی حاضری تھی، تقریباً 21 ہزار سے زائد، اور وہاں کی زیادہ سے زیادہ حاضری جو کبھی کسی جلسے میں ہوئی ہے اس سے قریباً8 ، 9ہزار زیادہ تھی.لیکن انتظامات ایسے اعلیٰ تھے کہ کوئی ہنگامہ کسی قسم کا نہیں ہوا.کھانے وغیرہ پر بعض دفعہ بدمزگیاں ہوتی ہیں ، وہاں بھی بڑے آرام سے سہولت سے، ہر ایک کھانا لے کر چلا گیا.وجہ اس کی یہ ہے جو مجھے بڑی اچھی لگی ہے کہ

Page 484

$2004 479 مسرور 18 ، 20 ہزار آدمی جو تھا وہ قریباً 20، 25 منٹ میں کھانا لے کر فارغ ہو جا تا تھا.اور انہوں پہلے ہی یہ انتظام کیا ہوتا تھا کہ چھوٹے پیک لے کے ان میں کھانا ڈال کے رکھتے ہیں لیکن ہر آدمی کے لحاظ سے مناسب مقدار میں یعنی ایک نارمل آدمی جتنا کھا سکتا ہے اتنا رکھ دیتے ہیں.اور اس کے ڈبے پڑے ہوتے ہیں.ہر کوئی آتا ہے اور اپنا پیک اٹھا کے لے جاتا ہے.اور اگر کسی کو زائد بھوک ہو تو زائد لے گیا.اس سے یہ ہے کہ بڑے آرام سے، بڑے تھوڑے وقت میں کھانا کھایا جاتا ہے اور لوگ بھگت جاتے ہیں.اس دفعہ وہاں اس جلسہ میں تقریباً 1 3 ملکوں کی نمائندگی ہوگئی اور امریکہ سے بھی تقریباً چار ہزار کے قریب احمدی مردوزن ، بچے وغیرہ وہاں آئے ہوئے تھے اور امریکہ والے کہتے ہیں کہ ہماری جو تعداد جلسے پر ہوتی ہے شاید اس سے سو دو سو زائد ہی ہوں جو کینیڈا آگئے تھے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی طرف سے بھی بہت بڑی حاضری تھی.بڑے اخلاص و وفا کا تعلق دکھایا اور وہاں شامل ہوئے.تو بہر حال انتظامی لحاظ سے بھی بہت اچھا انتظام تھا.اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو اور انتظامیہ کو جزا دے جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی.جلسہ گاہ میں انتظامات اور ڈسپلن بھی ماشاء اللہ بہت اچھا تھا.تمام لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے اور جلسہ سنتے تھے اور بڑی سنجیدگی سے ماشاء اللہ سب نے جلسہ سنا اور یہی مقصد ہوتا ہے ان جلسوں پر آنے کا.اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی جزا دے اور انہیں بھی.اور دنیا میں ہر جگہ ہر احمدی کو احمدیت کا جھنڈا بلند رکھنے کی توفیق دے.بہت سے غیر جن میں مختلف نگاہ سے تعلق رکھنے والے دوست بھی تھے ان کی تعداد شاید ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی ، ان کا یہ اندازہ تھا جو انہوں نے مجھے بتایا.پھر ان میں اعلیٰ سرکاری افسران بھی تھے اور بعض وزراء بھی تھے.اور تمام لوگ جو جلسہ کے بعد مجھے ملے ، انہوں نے بر ملا اس بات کا اعتراف کیا اور تعریف کی کہ ہم نے کبھی زندگی میں اتنے بڑے مجمع کو اتنا منظم نہیں دیکھا.یہ پہلی دفعہ آئے تھے لیکن بار بار اس بات کا ذکر کرتے تھے.ایک وزیر نے تو یہ بھی کہا کہ دو باتوں نے مجھے بڑا حیران

Page 485

$2004 480 خطبات مسرور کیا ہے کہ اتنا بڑا مجمع اور اتنا ڈسپلن زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا.دوسرے اتنے زیادہ لوگ اور سب کا ایک جیسا تمہارے سے تعلق جو ان کے چہروں سے نظر آتا تھا، یہ بھی پہلے کبھی نہیں دیکھا.اور بھی اس طرح کے مختلف تبصرے تھے.بہر حال یہ تو تھے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے کہ غیروں کو بھی نظر آ رہے تھے بلکہ ان کو جو مذہب سے اتنی دلچسپی نہیں رکھتے.لیکن اگر نظر نہیں آتے تھے تو ہمارے ان نام نہاد پاکستانی علماء کو نظر نہیں آتے جو اور تو کچھ نہیں کہہ سکتے ہر دوسرے چوتھے دن یہ بیان ضرور اخباروں میں چھپا دیتے ہیں کہ جماعت احمد یہ ختم ہوئی کہ اب ختم ہوئی اور ان میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ہیں.اصل میں تو ان لوگوں پر شیطان کا قبضہ ہو چکا ہے، ان کی دین کی آنکھ تو رہی نہیں اس لئے اس کے علاوہ اور کچھ کہ بھی نہیں سکتے.بہر حال یہ لوگ جتنی مرضی چاہیں افواہیں پھیلا لیں یہ سلسلہ انشاء اللہ تعالیٰ پھیلے گا، پھولے گا اور بڑھے گا اور بڑھ رہا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے.اور اب دنیا کی کوئی طاقت نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے اس سلسلے کو بڑھنے سے روک سکے.اگر ٹکڑے ٹکڑے ہونا مقدر ہے اور یقیناً ہے تو ان علماء کا جو مسلم اُمہ کو غلط راستے پر چلا رہے ہیں.پس یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم احمدی، عام مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی سیدھے راستہ پر لائے اور ان نام نہاد علماء کے چنگل سے انہیں نجات دلائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.

Page 486

$2004 481 29 خطبات مسرور تم نے جن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے ان میں سے ایک خُلق مجالس کے حقوق بھی ہیں.ایک احمدی کو اس خلق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر بہت توجہ دینی چاہئے.۱۶ جولائی ۲۰۰۴ءء بمطابق ۱۶ روفا ۱۳۸۳ ہجری تشسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن - لندن دین کے معاملہ میں کبھی بے غیرتی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے نیک اور سلامتی کی مجالس....اجتماعات اور جلسے مجالس کے آداب اور نیک مجالس کی اہمیت

Page 487

خطبات مسرور $2004 482 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: يَأَيُّهَا الَّـذِيْنَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ﴾ (سورة المجادله : 10 ) انسان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مخلوق ہے جو معاشرتی زندگی گزارے بغیر نہیں رہ سکتی.معاشرتی زندگی کا صرف یہی مطلب نہیں کہ ایک گروہ اور ایک جتھہ اور خاندان بنا کر رہ لینا تا کہ اپنے گروہ یا خاندان کی پہچان ہو جائے.اس طرح کے گروہ تو دوسرے جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں ان میں بھی یہ احساس ہے کہ اگر اکٹھے رہیں گے جتھہ بنا کر رہیں گے تو دوسرے جانوروں سے بھی محفوظ رہیں گے.اپنے بچوں اور کمزوروں کی حفاظت کے لئے بعض جانور بڑی پلاننگ (Planning) سے چلتے ہیں.میں جب گھانا میں تھا وہاں جماعت کا ایک فارم تھا جو کہ جنگل کے اندر دریا کے کنارے واقع تھا اور جنگل کی کچھ صفائی کر کے وہ شروع کیا گیا تھا.وہاں مختلف قسم کے جانور بھی رہتے تھے.ایک دن میں جب فارم پر گیا تو جو ہمارے وہاں کام کرنے والے تھے، کارندے تھے ، انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم صبح صبح فارم کی طرف جا رہے تھے جب ہم جنگل کے سرے پہ پہنچے جہاں سے فارم شروع ہوتا ہے تو دیکھا کہ چیمپینزیز ( بندروں کی ایک قسم ہے ) ان کا ایک گروہ ، بہت بڑا غول وہاں کنارے پر بیٹھا تھا اور جب انہوں نے آدمیوں کی آوازیں سنیں تو دوڑ لگائی اور جب دوڑنے لگے تو

Page 488

$2004 483 خطبات مسرور پتہ لگا کہ ان میں سے کچھ کمزور بھی ہیں کچھ بڑی عمر کے بوڑھے بھی لگ رہے تھے اور کچھ بچے بھی ، تو کیونکہ ان کو اگلے جنگل میں پہنچنے کے لئے میدان سے گزرنا پڑنا تھا یعنی فارم سے تو ان کو بڑا گروہ نظر آیا تو انہوں نے بھی دیکھا کہ یہ کھلے عام ہیں اور ڈر کے دوڑے ہیں تو پھر آدمی میں بھی تھوڑی سی جرات پیدا ہو جاتی ہے، چار پانچ آدمی تھے ان کے ساتھ ایک کتا تھا، انہوں نے پیچھے دوڑ لگائی تو کہتے ہیں کہ جب وہ کتا جو ان سے آگے آگے دوڑ رہا تھا ان بندروں کے قریب پہنچ گیا تو ان میں سے ایک صحتمند اور پہلوان قسم کا بند ر تھا جو اس گروہ کے پیچھے چل رہا تھا جو شاید ان کی حفاظت کے لئے لگایا گیا ہو تو اس نے جب دیکھا کہ اتنے قریب کتا پہنچ گیا ہے تو وہ آرام سے بیٹھ گیا جس طرح ایک پہلوان بیٹھتا ہے، ٹانگوں پہ ہاتھ رکھ کے اور باقی گروہ دوڑتا چلا گیا.تو جب کتا اس کے قریب آیا تو اس نے اس زور کا اور جچا تلا انسان کی طرح اس کے تھپڑ مارا ہے کہ وہ کتا چیختا ہوا کئی لڑھکنیاں کھاتا چلا گیا.پھر اس نے انتظار کیا کہ کوئی اور بھی آئے جب اس نے دیکھ لیا کہ میرے لوگ محفوظ ہو گئے ہیں تو پھر وہ بھی اس گروہ میں شامل ہو گیا.تو یہ حفاظت کا یا اپنی خود حفاظتی کا جو نظام ہے اللہ تعالیٰ نے ہر جانور میں رکھا ہوا ہے، اپنے اپنے لحاظ سے جو ہر ایک کی سمجھ بوجھ ہے کچھ ایسے جانور بھی ہیں جو سکھائے بھی جاتے ہیں لیکن بہر حال ان کا ایک محدود دائرہ ہے.اور اسی کے اندر وہ رہ سکتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں رکھا ہے اس حد تک ہی وہ کام کر سکتے ہیں ان میں کوئی آداب یا تمیز یا اس قسم کی دوسری یعنی اخلاق وغیرہ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی.انہوں نے تو وہی کچھ کرنا ہے جیسا کہ میں نے کہا جو ان کی فطرت میں ہے.لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے.کہ معاشرے میں رہو، اکٹھے ہو کے رہو، مختلف قوموں اور خاندانوں میں تقسیم بھی کیا ہے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرو اور اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرو.اخلاق کے اعلیٰ معیار بھی قائم کرو اور ان میں ترقی کرتے چلے جاؤ.کیونکہ ایک وسیع میدان ہے جو کھلا ہے.اسی طرح روحانیت میں بھی ترقی کرواپنے دماغوں کو

Page 489

$2004 484 خطبات مسرور بھی استعمال کرو اور پھر اس کے ذریعے سے ان کو محنت کے ذریعے مزید چمکاتے چلے جاؤ.تو بہر حال اس معاشرے میں رہنے کے لئے اپنے ساتھی انسانوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم نے جن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے ان میں سے ایک خلق مجالس کے حقوق بھی ہیں.ایک احمدی کو روحانیت سے بھی حصہ ملا ہے اسے اس خلق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر بہت توجہ دینی چاہئے.پھر مجالس کی بھی کئی قسمیں ہیں کچھ مجلسیں دنیا داری کے لئے لگتی ہیں اور کچھ مجلسیں دین کی خاطر ہوتی ہیں.لیکن ایک مومن کے لئے دنیا وی مجالس بھی اگر وہ اللہ تعالیٰ کے خوف، خشیت اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے لگائی جائیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بن جاتی ہیں.قرآن کریم میں مجلسیں لگانے والوں کے لئے مختلف انداز میں نصیحت کی گئی ہے.کہیں فرمایا کہ تمہاری مجلسیں دینی غرض کے لئے ہوں یا دنیاوی غرض کے لئے ہوں، دنیاوی منفعت کے لئے ہوں ، جو بھی مجالس ہوں، ہمیشہ یاد رکھو ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو.اگر تم میرے بندے ہو تو تمہارے منہ سے صرف اچھی بات ہی نکلنی چاہیئے.ہمیشہ ﴿يَقُوْلُوْا الَّتِيْ هِيَ أَحْسَن کا ہی حکم ہے.کیونکہ اگر یہ نہیں کرو گے تو تمہارے معاشرے میں، تمہاری مجالس میں ہمیشہ شیطان فساد پیدا کرتا رہے گا.اور یا درکھو کہ شیطان کی فطرت میں ہے کہ اس نے تمہاری دشمنی کرنی ہی کرنی ہے.اس لئے تمہیں چاہئے کہ اپنے گھر میں، اپنی بیوی بچوں کے ساتھ مجلس لگا کر بیٹھے ہو یا اپنے خاندان کے کسی فنکشن(Function) میں اکٹھے ہو یا کاروباری مجلس میں ہو یا دینی مجلس میں ہو.ذیلی تنظیموں کے اجلاسوں میں ہو یا اجتماعات میں ہو، جہاں بھی تم ہو کوئی ایسی بات کرو گے جو دل کو جلانے والی ہو، کسی بھی قسم کی طنزیہ بات ہو یا تم اس مجلس کے آداب اور اصولوں کی پابندی نہیں کر رہے تو ضرور وہاں فساد پیدا ہوگا.اور شیطان یہی چاہتا ہے.اس لئے اگر تم صحیح مومن ہو تو اپنی زبان سے اور اپنے عمل سے اس فساد سے بچنے کی کوشش کرتے رہو.

Page 490

$2004 485 مسرور شیطان کیونکہ مومنوں پر مختلف طریقوں سے حملہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے.اس لئے جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم باہم خفیہ مشورے کرو تو گناہ سرکشی اور رسول کی نافرمانی پر مبنی مشورے نہ کیا کر وہاں نیکی اور تقویٰ کے بارے میں مشورے کیا کرو اور اللہ سے ڈرو جس کے حضور تم اکٹھے کئے جاؤ گے.دیکھیں اس میں مخاطب مومنوں کو کیا گیا ہے کہ انسان اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک دوسرے سے مشورے لیتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں.پھر اپنی رائے میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے اور لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں تو فرمایا کہ اس صورت میں یہ ہمیشہ یا درکھو کہ تمہارے مشورے چاہے تمہارے حقوق کی حفاظت کے لئے ہوں یا تمہارے خیال میں نظام میں درستی کے لئے ، ان میں کبھی گناہ ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کرنے والے مشورے نہ ہوں، جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں کہ شیطان اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کوئی فساد پیدا کرے اس لئے بعض دفعہ بعض لوگ اس لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور آپس میں بیٹھ کر مشورے شروع ہو جاتے ہیں کہ جماعت کا یہ کام اس طرح نہیں ہونا چاہئے جس طرح امیر کہ رہا ہے یا مرکزی عاملہ کہہ رہی ہے یا بعض دفعہ مرکز کہہ رہا ہے بلکہ اس طرح ہونا چاہئے جس طرح ہم کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم موقع پر موجود ہیں، ان لوگوں کو کیا پتہ کہ یہ کام کس طرح کرنا ہے تو یہ جومشورے ہیں، یہ جو مجلسیں ہیں جہاں اس قسم کی باتیں ہو رہی ہیں چاہے تم بد نیتی سے نہیں بھی کر رہے تو تب بھی یہ خدا اور رسول کی نافرمانی کے زمرے میں آئیں گی اس لئے کہ جب نظام نے تمہیں واضح طور پر ایک لائن دے دی کہ ان پر چل کر کام کرنا ہے تو تمہارا فرض بنتا ہے کہ ان پر چل کر ہی کام کرو اس کے بارے میں اب علیحدہ بیٹھ کر چند آدمیوں کو لے کر مجلسیں بنا کر باتیں کرنے اور امیر کے احکامات سے روگردانی کرنے کا اب کوئی حق نہیں پہنچتا.اگر نقص دیکھو تو امیر کو یا متعلقہ شعبہ کو یا خلیفہ وقت کو اطلاع کر دو اور بس.اس کے بعد ایک عام احمدی کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے.پھر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ

Page 491

$2004 486 خطبات مسرور ان کاموں میں برکت ڈالے تاکہ نظام جماعت پر کوئی زد نہ آئے.اور مشورے کرنے ہیں تو اس بات پر کریں کہ اس میں جو سقم ہے ان کو اس دیئے ہوئے دائرے کے اندر جو ان لوگوں کو دیا گیا ہے کس طرح سقم دور کر سکتے ہیں اور جماعت کی بہتری کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں.اگر اس طرح نہیں کر رہے تو پھر سمجھیں کہ شیطان کے قبضے میں آگئے ہیں اور تقویٰ سے دور ہو گئے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس بارے میں پوچھے جاؤ گے.تو یہاں بعض دفعہ نظام بھی ایکشن لیتا ہے ایسے لوگوں کے خلاف ، اور اگلے جہان کے بارے میں تو اللہ میاں نے کہہ دیا کہ مجھ سے ڈرو.حضرت خلیفہ المسیح الاول اس بارے میں لکھتے ہیں کہ : ” انسان کے دکھوں میں اور خیالات ہوتے ہیں،سکھوں میں اور یعنی تکلیف میں اور خیالات ہوتے ہیں اور جب آسائش ہو اس وقت اور خیالات ہوتے ہیں.” کامیاب ہو تو اور طریق ہوتا ہے، ناکام ہو تو اور طرز.طرح طرح کے منصوبے دل میں اٹھتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی کو محرم راز بناتے ہیں اور جب بہت سے ایسے محرم راز ہوتے ہیں تو پھر انجمنیں بن جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا تو نہیں مگر یہ حکم ضرور دیا ايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى.وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَنِ لِيَحْزُنَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَلَيْسَ بِصَارِهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (سورة المجادله: 10-11) (حقائق الفرقان جلد نمبر 4 صفحه 61) تو فرمایا کہ ایمان والو! ہم جانتے ہیں کہ تم منصوبے کرتے ہو، انجمنیں بناتے ہومگر یا در ہے کہ جب کوئی انجمن بناؤ تو گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کے بارے میں نہ ہو، بلکہ نیکی اور تقویٰ کے مشورے ہونے چاہئیں.جب یہ مجلسیں بنتی ہیں تو پھر یہ بھی امکان ہے کہ اتنا آگے بڑھ جاؤ کہ تقویٰ سے ہی ہٹی ہوئی باتیں کرنے لگ جاؤ.رسول کی نافرمانی کی باتیں کرو.کیونکہ رسول کا تو واضح حکم ہے کہ میرے امیر کی اطاعت کرو.جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو میرے امیر کی اطاعت کرتا ہے

Page 492

487 $2004 خطبات مسرور وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو میری اطاعت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے.یا جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی.تو ایسی مجلسوں میں ایسے مشورے میں نہ بیٹھنے کا حکم ہے.احتیاط کا تقاضا یہی ہے.کیونکہ یہ لوگ جب مجلسیں لگا کر اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں تو پھر امیر کا بھی اور نظام کا بھی تمسخر اڑا رہے ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کو بھی ، یہ جہاں بھی ہوں، خدا کا خوف کرنا چاہئے.پھر بعض مجالس غیروں کی ہیں آجکل کے معاشرے میں تو انسان بہت زیادہ گھل مل گیا ہے تو یہاں بھی جب دین کے خلاف بات سنو تو اٹھ جاؤ.جہاں دین کی غیرت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ضرور دکھانی چاہئے.لڑنا ضروری نہیں ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ ایسی مجلس سے اٹھ جایا جائے، بیزاری کا اظہار کیا جائے تا کہ ان کو بھی پتہ لگے کہ اس مجلس میں آپ ہیں کہ آپ نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” ہمارا مذہب تو یہ ہے اور یہی مومن کا طریق ہونا چاہئے کہ بات کرے تو پوری کرے ورنہ چپ رہے.جب دیکھو کہ کسی مجلس میں اللہ اور اس کے رسول پر ہنسی ٹھٹھا ہورہا ہے تو یا تو وہاں سے چلے جاؤ تا کہ ان میں سے نہ گنے جاؤ اور یا پھر پورا پورا کھول کر جواب دو.دو باتیں ہیں یا جواب یا چپ رہنا.یہ تیسرا طریق نفاق ہے کہ مجلس میں بیٹھے رہنا اور ہاں میں ہاں ملائے جانا.دبی زبان سے اختفاء کے ساتھ اپنے عقیدے کا اظہار کرنا.(ملفوظات جلد نمبره صفحه 449 بدر ١٤ مارچ ۱۹۰۸ تو یہ اصول اپنوں کی مجلس میں بھی جہاں نفاق دیکھو وہاں ضرور یہی رویہ اختیار کرنا چاہئے اور غیروں کی مجلس میں بھی.یہی استعمال کرنا چاہئے.دین کے معاملے میں کبھی بھی بے غیرتی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے.قرآن میں یہی طریق ہے کہ بیزاری کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ جاؤ.حضرت ضرغامہ بیان کرتے ہیں کہ: ” میرے والد صاحب اپنے باپ سے روایت کرتے

Page 493

$2004 488 خطبات مسرور ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی نصیحت کریں.آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جب تم کسی قوم کی مجلس میں جاؤ اور انہیں اپنے مزاج کی باتیں کرتے پاؤ تو وہاں ٹھہرو.اور اگر وہ ایسی باتوں میں مشغول ہوں جنہیں تم نا پسند کرتے ہو تو اس مجلس کو چھوڑ دیا کرو“.(مسند احمد اوّل مسند الكوفيين حديث حرملة العنبرى) تو یہاں بھی مختلف قسم کے لوگ ہیں، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے ہیں ان یورپین ممالک میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی آجکل تو معاشرہ اتنا مکس اپ (Mixup) ہو گیا ہے، آپ سے تعلق بھی بنتے ہیں ، رابطے بھی ہوتے ہیں تو ایسے رابطوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسی دوستیاں اب قائم ہو جائیں اور دوستیاں بڑھانے کی خاطر ان لوگوں کی ہر قسم کی فضول مجلسوں میں بھی شامل ہوا جائے.جیسا کہ حدیث میں آیا کہ جہاں مزاج کے مطابق بات نہ ہو.اس مجلس سے اٹھ جانا چاہئے.جہاں صرف شور شرابا اور نہو ہا ہورہا ہے.بلا وجہ غل غپاڑا مچایا جارہا ہے.یہاں نو جوانوں میں اکثر بلا وجہ شور مچانے کی عادت ہے.پھر غلط قسم کی لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستیاں ہیں تو ان سے ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ بچیں ان لوگوں میں تو یہ عادت اس وجہ سے بھی ہے کہ ان کو دین کا پتہ کچھ نہیں ، ان کا دین کا خانہ خالی ہے.ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مزے کا نہیں پتہ ، اس لئے وہ اپنی باتوں میں ، اس شور شرابے میں ، سکون اور سرور تلاش کر رہے ہوتے ہیں.مگر ہمارے نو جوانوں کو ہمارے لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ سے ملنے کے راستے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانے میں سکھاد ئیے ہیں.اس لئے ہمیشہ ایسی مجلسیں جو ہو ولعب کی مجلسیں ہوں، فضول قسم کی مجلسیں ہوں اور تاش اور ناچ گانے وغیرہ کی مجلسیں ہوں ،شراب وغیرہ کی مجلسیں ہوں ، ان سے بچتے رہنا چاہئے.اگر انسانیت کی ہمدردی ہے تو یہ کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ ان لوگوں کو بھی ان چیزوں سے بچانے کے لئے صحت مند کھیلوں کی طرف لائیں.لیکن ان سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں.جن دو

Page 494

$2004 489 خطبات مسرور مجالس کا میں نے ذکر کیا ، آنحضرت ﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ کس قسم کی مجالس ہیں جن میں ہمیں بیٹھنا چاہئے.اور مجالس کے حقوق کیا ہیں اور آداب کیا ہیں.ایک روایت میں آتا ہے، رسول اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجالس تین قسم کی ہوتی ہیں.سلامتی والی ، غنیمت والی یعنی زائد فائدہ دینے والی اور ہلاک کرنے دینے والی مجالس“.(مسند احمد باقی مسند المكثرين مسند ابی سعید الخدری تو جیسا کہ پہلے بھی ذکر گزر چکا ہے کہ ایسی مجلسوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے جو دین سے دور لے جانے والی ہوں ، جو صرف کھیل کود میں مبتلا کرنے والی ہوں.ایسی مجلسیں جو اللہ تعالیٰ سے دُور لے جانے والی مجلسیں ہیں وہ یہی نہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتی ہیں بلکہ بعض دفعہ مکمل طور پر بعض دفعہ کیا یقینی طور پر انسان کی ہلاکت کا سامان پیدا کر دیتی ہیں.اس لئے ہمیشہ ایسی مجالس کی تلاش رہنی چاہئے جہاں سے امن وسکون اور سلامتی ملتی ہو.تو سلامتی والی مجالس کیسی ہیں.اس بارے میں ایک روایت ہے.حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کسی نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ ہم نشیں کیسے ہوں.کن لوگوں کی مجلس میں ہم بیٹھیں.اس پر آپ نے فرمایا ”مَنْ ذَكَرَ كُمُ اللَّهَ رُؤْيَتُهُ وَزَادَ فِي عِلْمِكُمْ مَنْطِقُهُ وَذَكَّرَ كُمْ بِالْآخِرَةِ عَمَلُهُ، یعنی ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھو جن کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے اور جن کی گفتگو سے تمہارا دینی علم بڑھے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے.(ترغیب) تو ایسی مجالس سے ہی سلامتی ملتی ہے جہاں ایسے لوگ ہوں جہاں خدا کا ذکر ہورہا ہو، اس کے دین کی عظمت کی باتیں ہورہی ہوں.ایسے مسائل پیش کئے جارہے ہوں اور ایسی دلیلیں دی جارہی ہوں جن سے انسان کا اپنا دینی علم بھی بڑھے اور دعوت الی اللہ کے لئے دلائل بھی میسر آئیں.اور قرآن کریم کا عرفان بھی حاصل ہو رہا ہو.اور ایسی باتیں ہوں جن سے صرف اس دنیا کی چکا چوند ہی نہ دکھائی دے بلکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس دنیا کو چھوڑ کر بھی جانا ہے.اس لئے ایسے عمل ہونے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں.

Page 495

$2004 490 مسرور صلى الله پھر ایک روایت میں آتا ہے.ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی قوم مسجد میں کتاب اللہ کی تلاوت اور باہم درس و تدریس کے لئے بیٹھی ہو تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے.رحمت باری ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے جلو میں لے لیتے ہیں.(سنن الترمذى كتاب القراءت باب ما جاء ان القرآن انزل على سبعة أحرف) تو ایسی نیک مجالس ہیں جو سلامتی کی مجلسیں ہیں.ان میں عام گھر یلو مجالس، اجتماعات ،اور جلسے بھی ہو سکتے ہیں.جماعت احمد یہ خوش قسمت ہے کہ اس میں ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں.اب انشاء اللہ تعالیٰ یہاں کا جلسہ بھی آنے والا ہے اس سے بھی بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے تا کہ ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی بارش ہم پر پڑتی رہے.ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں اور وہاں ذکر الہی نہیں کرتے وہ اپنی اس مجلس کو قیامت کے روز حسرت سے دیکھیں گے.(مسند احمد مسند المكثرين من الصحابة مسند ابي هريرة تو ایسے لوگ جن کو ایسے مواقع بھی مل جاتے ہیں سفر کر کے خرچ کر کے جلسے پر بھی آتے ہیں.لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی مجلسیں جما کر ہنسی ٹھٹھے اور گئیں مار کر چلے جاتے ہیں.ان کو سوچنا چاہئے اور اس حدیث کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے اس لئے جو بھی جلسے پر آنے والے ہیں اس نیت سے آئیں کہ ان دنوں میں خاص طور پر اپنی زبانوں کو ذکر الہی سے تر رکھیں گے.پھر ایک روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جب کچھ لوگ اکٹھے ہوں اور بغیر اللہ کا ذکر کئے الگ ہو جائیں تو ضرور ان کا حال ایسا ہی ہے گویا کہ وہ مردہ گدھے کے پاس سے واپس آرہے ہیں.اور ان کی مجلس ان کے لئے افسوسناک بات بن جائے گی.(ابو داؤد كتاب الآداب باب في كفارة المجلس) گویا ایسی مجالس جو ہوں تو دینی اغراض کے لئے لیکن ان کی برکات سے فیضیاب نہ ہورہے ہوں، ان سے فائدہ نہ اٹھارہے ہوں اور اپنی علیحدہ مجلسیں لگانے کی وجہ سے ان کا یہ حال ہو رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ ان دینی مجالس سے فائدہ اٹھائیں.جہاں اللہ اور رسول کا ذکر ہو رہا ہے الٹا مردار کی بد بو لے کر واپس جارہے ہوتے ہیں، یعنی بجائے فائدے کے نقصان اٹھارہے

Page 496

$2004 491 خطبات مسرور ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے بچائے.حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہے جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو.کستوری اٹھانے والا تجھے مفت خوشبو دے گا یا تو اس سے خرید لے گا.ورنہ کم از کم تو اس کی خوشبو اور مہک تو سونگھ ہی لے گا.اور بھٹی جھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا اس کا بد بودار دھواں تجھے تنگ کرے گا.(صحيح مسلم كتاب البر والصلة باب استحباب مجالسة الصالحين یہ بھی ان مجالس کے ضمن میں ہے کہ ہمیشہ ایسی مجالس میں بیٹھنا اور اٹھنا چاہئے جہاں سے نیکی کی باتیں پتہ لگیں.تقویٰ کی باتیں پتہ لگیں، اللہ اور رسول کے احکامات کا علم ہو.اگر اپنی اصلاح کرنی ہے اور اپنی زندگی سنوارنا چاہتے ہیں اور دینی علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیشہ جیسا کہ حدیث میں آیا اپنی صحبت نیک لوگوں میں رکھنی چاہئے اور ایسی مجالس کی تلاش میں رہنا چاہئے.اس بات کو ایک حدیث میں یوں بھی بیان فرمایا ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ تم مومن کے سوا کسی اور کے ساتھ نہ بیٹھو.اور متقی آدمی کے سوا اور کوئی تمہارا کھانا نہ کھائے.ترغيب والترهيب بحواله صحيح ابن حبان بعض کمزور طبیعتیں بعض کا اثر جلدی لے لیتی ہیں.بجائے اثر انداز ہونے کے.اس لئے ایسے لوگوں کو بہر حال ایسی دوستیوں اور ایسی مجلسوں سے پر ہیز کرنا چاہئے.ہمیشہ یہی کوشش ہونی چاہئے کہ تقویٰ پر قائم رہنے والوں کا، نیکی پر قائم رہنے والے لوگوں کا آنا جانا ہواور جس حد تک بھی ان بری صحبتوں سے بچا جا سکے بچنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ”جب انسان ایک راستباز اور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے لیکن جو راستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کر جاتی ہے.اسی لئے احادیث اور قرآن شریف

Page 497

492 $2004 خطبات مسرور میں صحبت بد سے پر ہیز کرنے کی تاکید اور تہدید پائی جاتی ہے.اور لکھا ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اہانت ہوتی ہو اس مجلس سے فی الفور اٹھ جاؤ.ورنہ جو اہانت سن کر نہیں اٹھتا اس کا شمار ان میں ہی ہوگا.صادقوں اور راستبازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہوتا ہے اس لئے کس قدر ضرورت ہے اس امر کی کہ انسان كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴾ کے پاک ارشاد پر عمل کرے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالی ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے.وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھ لیتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذ کر کر رہے تھے.مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی ان میں سے ہی ہے کیونکہ انهُمْ قَوْمٌ لَا يَشْقَى جَلِيْسُهُمْ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کی صحبت سے کس قدر فائدے ہیں.سخت بدنصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور ہے“.(ملفوظات جلد سوم صفحه 507ـ الحکم جنوری ١٩٠٤) بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پاک مجالس میں تو بیٹھتے ہیں لیکن ان مجالس کی نیکیوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.بلکہ ان کی سوچ ہی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کوئی بری بات نظر آئے تو اس کو لے کر زیادہ شور مچایا جاتا ہے.تو ایسے لوگوں کی ہی مثال دیتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس شخص کی مثال جو حکمت کی بات سنے اور پھرسنی ہوئی باتوں میں سے سب سے شرانگیز بات کی پیروی کرے ایسے شخص کی ہے جو ایک چرواہے کے پاس آیا اور کہا کہ اپنے ریوڑ میں سے مجھے ایک بکری کاٹ دو.تو چرواہا اسے کہے کہ اچھار یوڑ میں سے تمہیں جو بکری سب سے اچھی لگتی ہے اسے کان سے پکڑ لو.تو وہ جائے اور ریوڑ کی حفاظت کرنے والے کتے کو کان سے پکڑ لے.(مسند احمد باقی مسند المكثرين باقى المسند السابق تو ایسے لوگ جو اس سوچ کے ہوتے ہیں اور اس سوچ سے مجلسوں میں آتے ہیں باہر نکل کر اچھی باتوں کا ذکر کرنے کی بجائے اگر انہوں نے کسی کی وہاں برائی دیکھی ہو تو اس کا زیادہ چرچا کرتے ہیں.کیونکہ ان کی صلاحیت ہی یہی ہے اور ان کی کم نظری یہ ہے کہ انہوں نے کتے کے علاوہ

Page 498

493 $2004 خطبات مسرور کچھ دیکھا ہی نہیں ہوتا.اس لئے آگے بڑھ کر صرف کتے کا کان ہی پکڑتے ہیں.اچھی مجلسوں سے فائدہ اٹھانا بھی مومن کی شان ہے.اب بعض مجالس کے حقوق کا میں ذکر کرتا ہوں کہ مجلسوں کے آداب کیا ہیں، ان کے حقوق کیا ہیں اور ان میں بیٹھنا کس طرح چاہئے.آنحضرت ﷺ جب مجلس میں آتے آپ کی یہ کوشش ہوتی کہ کسی کو تکلیف نہ ہو اس لئے ہمیشہ اس حالت میں مجلس میں آیا جائے جو مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لئے بھی آسانی کا باعث بنے اور ان کی طبیعتوں پر بھی اچھا اثر ڈالے.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ علے اس بات کو نا پسند فرماتے تھے کہ آپ کے وجود سے ایسی بُو آئے جس سے تکلیف ہو.(مسند احمد بن حنبل باقی مسند الانصار) دیکھیں کتنی نفاست ہے، حالانکہ آپ کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ کے جسم سے ایک عجیب طرح کی خوشبو اٹھا کرتی تھی، بد بو کا تو سوال ہی نہیں تھا.تو اصل میں تو یہ اظہار اپنی مثال دے کر دوسروں کے لئے تھا کہ آپ کی نفیس طبیعت پر گراں تھا کہ کوئی بھی ایسی حالت میں مجلس میں آئے جس سے دوسروں کو تکلیف ہو.اس لئے جمعہ وغیرہ پر عیدین پر ہمیشہ خوشبولگا کر آنے کی تلقین ہے.حدیث میں آتا ہے کہ یہ دن یعنی جمعہ کا دن عید ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کے لئے بنایا ہے.جو کوئی جمعہ ادا کرنے کی غرض سے آئے اسے چاہئے کہ وہ غسل کرے اور جس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبولگائے اور مسواک کرنا اپنے لئے لازمی کرلو.(سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلواة والسنة فيها باب ما جاء في الزينة يوم الجمعة) تو یہ بھی مجالس کے آداب میں سے ایک ادب ہے اور مجلس کے حقوق میں سے اس کا ایک حق ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” کہ انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں.جو شخص باطنی طہارت پر قائم ہونا چاہتا ہے وہ ظاہری پاکیزگی کا بھی لحاظ رکھے.پھر ایک

Page 499

$2004 494 خطبات مسرور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ﴾ (البقرة: 223) یعنی جو لوگ باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں میں ان کو دوست رکھتا ہوں.ظاہری پاکیزگی ، باطنی طہارت کی ممد اور معاون ہے.یعنی ظاہری پاکیزگی کی وجہ سے باطنی پاکیزگی بھی ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے جو چاہیں.اگر انسان اسے ترک کر دے اور پاخانہ پھر کر بھی طہارت نہ کرے تو باطنی پاکیزگی پاس بھی نہیں پھٹکتی.پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے.اس لئے ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کے دن ضرور غسل کرے، ہر نماز میں وضو کرے، جماعت کھڑی ہو تو خوشبوں گائے ، عیدین اور جمعہ میں جو خوشبو لگانے کا حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے.اصل وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے غسل کرنے اور پاک صاف کپڑے پہنے اور خوشبو لگانے سے سمیت اور عفونت سے روک ہوگی.یعنی زہر اور عفونت سے روک ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ قانون مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھا ہے.(ملفوظات جلد اول صفحه 164 رسالة الانذار صفحه ٥٤ تا ٧٣ پھر آجکل گرمیوں میں اب یہاں بھی کافی گرمی ہونے لگ گئی ہے، پسینہ کافی آتا ہے تو خاص طور پر یہ اہتمام ہونا چاہئے کہ مسجدوں میں یہاں کیونکہ قالین بھی بچھے ہوتے ہیں اس لئے جرابوں کی صفائی کا ضرور خیال رکھنا چاہئے.روزانہ دھلی ہوئی جراب پہنی چاہئے.تاکہ مجلس میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ ( کئی قسم کی طبائع کے لوگ ہوتے ہیں ) بھی کو برا نہ منائیں.مجالس کے آداب کے ضمن میں آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک حدیث میں روایت اس طرح ہے یقینا اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے.پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے اور ہر وہ شخص جو الحَمْدُ لِلہ کی آواز سنے اسے چاہئے کہ وہ کہے يَرْحَمُكَ الله یعنی اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے.جہاں تک جمائی کا تعلق ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے دبانے کی کوشش کرے، بعض لوگ تو نہیں دبا سکتے لیکن کوشش یہ کرنی چاہئے کہ دبائی جائے.لیکن کم از کم یہ ضرور ہوفر مایا کہ منہ کھول کر ہاہا نہ کرے.کیونکہ جمائی

Page 500

495 خطبات مسرور شیطان کی طرف سے آتی ہے.یعنی ستی کا موجب ہوتی ہے اور وہ اس کے آنے پر ہنستا ہے.(ترمذی ابواب الاستيذان والادب باب ماجاء ان الله.$2004 يحب العطاس ويكره التثاوب) تو بعض لوگ مجلس میں بیٹھے ہوتے ہیں ، جمائی آ گئی ، دبانا تو کیا منہ پر ہاتھ بھی نہیں رکھتے اور پھر ساتھ بازو پھیلا کے انگڑائی بھی ایسی لیتے ہیں کہ بعض دفعہ باز وجو پھیلتا ہے تو ساتھ والے شخص کے کہیں نہ کہیں ناک منہ پہ لگ جاتا ہے اور بچے بڑوں کی یہ عادت دیکھتے ہیں تو بچے بھی (وقف نو کلاس میں میں نے ذکر بھی کیا تھا) اس کا خیال نہیں رکھتے.ہمیشہ منہ پہ ہاتھ رکھیں اور ضروری نہیں کہ ساتھ انگڑائی بھی لی جائے.اور بعض لوگ تو میں نے دیکھا ہے مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے ایسی زور سے جمائی لیتے ہیں تو آوازیں نکالتے ہیں.یہاں تو ہاہا ہے لیکن وہ تو ہائے وائے کی آوازیں نکل رہی ہوتی ہیں.بعض دفعہ شک پڑ جاتا ہے کہ کسی کو کچھ ہو نہ گیا ہو.تو نماز پڑھتے وقت کم از کم احتیاط کرنی چاہئے.مجالس کے آداب اور اس کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ جب مجلس میں بیٹھیں تو مجلس میں اگر بات کر رہے ہیں تو اس طرح کریں کہ سب سن رہے ہوں.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دو افراد اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر آپس میں کھسر پھسر نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا تیسرے شخص کو رنجیدہ کر دے گا.(ابو داؤد کتاب الادب باب في التناجي) تو بعض دفعہ یہ رنجیدگی بعض طبائع کی وجہ سے لڑائیوں اور جھگڑوں کی وجہ بن جاتی ہے.بدظنیوں کی وجہ بن جاتی ہے تو ہمیشہ مجلسوں میں اس طرح کرنے سے بچنا چاہئے اور اگر کسی سے انتہائی ضروری بات کرنی بھی ہے تو جو ساتھ بیٹھا ہوا شخص ہے اس سے اجازت لے کر، کہ میں فلاں شخص سے فلاں ضروری بات کرنا چاہتا ہوں ایک طرف لے جاکے کرنی چاہئے تاکہ کسی بھی قسم کی بدظنی پیدا نہ ہو کیونکہ شیطان جو ہے ہر وقت اس تاک میں ہے کہ کسی طرح فساد پیدا کرے.ایک روایت میں آتا ہے ایسے لوگوں کے بارے میں جو رستوں پر مجلسیں جما کے بیٹھ جاتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ رستوں پر بیٹھنے سے بچو، اس پر صحابہ نے عرض کی کہ ہمیں رستوں پر مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ، وہاں بیٹھ کر ہم باتیں کرتے ہیں.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم

Page 501

$2004 496 خطبات مسرور راستوں پر نہ بیٹھنے سے انکار کرتے ہو یعنی اس کے علاوہ کوئی چارا نہیں ہے تو پھر رستے کو اس کا حق دو.اس پر صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! راستے کا کیا حق ہے.تو آپ نے فرمایا غض بصر سے کام لینا.پھر اپنی آنکھیں نیچی رکھو، ہر ایک کو دیکھتے نہ رہو.اور تکلیف دہ چیزوں کو دور کرنا.وہاں بیٹھے ہوئے بازار میں کوئی تکلیف دہ چیز دیکھو یا سڑک پر تو اس کو ہٹانے کی کوشش کرو، بعض لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں ان میں بھی صلح و صفائی کرانے کی کوشش کرو.پھر سلام کا جواب دینا، نیک باتوں کا حکم دینا.اگر کہیں بری بات دیکھو تو پیار سے سمجھاؤ.اور نا پسندیدہ باتوں سے منع کرنا.(ابوداؤد كتاب الادب باب فى الجلوس بالطرقات) راستے کی مجلسیں لگانے والوں کو فرمایا کہ اگر ایسی مجبوری ہے کہ تم اس کو چھوڑ نہیں سکتے تو یہ جو باتیں گنوائی گئی ہیں اس حدیث میں تو ان کی طرف توجہ دو اور یہ راستے کے حق ہیں اور ان کو ادا کرو تب تم راستے میں مجلس لگانے کا حق ادا کر رہے ہو گے.نہیں تو پھر کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مجلسیں لگاؤ.پھر مجلس میں بیٹھنے کے آداب ہیں بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اس طرح بیٹھے ہیں ایسا زاویہ ہوتا ہے کہ دائیں بائیں (اگر کہیں رش ہے تو ) کوئی دوسرا بیٹھ نہ سکے، باوجود اس کے کہ جگہ ہوسکتی ہے.تو ایسی مجالس میں جہاں رش کا زیادہ امکان ہو ہمیشہ اس طریق سے بیٹھنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے جگہ بنا سکے ، اس سے وسعت قلبی بھی پیدا ہوتی ہے اور ایک مومن کی یہی شان ہے کہ اپنے دل کو وسیع کرے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بہترین مجالس وہ ہیں جو کشادہ ہوں“.(ابوداؤد) كتاب الادب باب في سعة المجلس تو آنحضرت عمﷺ کا تو ہر فعل اور آپ کا ہر خلق قرآن کریم کے مطابق تھا تو یہ بھی تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجَالِس کی ہی تشریح ہے کیونکہ اگر یہ کشادگی پیدا ہوگی اور خوش دلی سے جگہ کو کشادہ کرو گے تو آپس میں محبت اور اخوت بھی بڑھے گی.اور اس وجہ سے شیطان تمہارے اندر نجشیں پیدا نہیں کر سکے گا بلکہ تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہو گے.مجالس میں بیٹھنے کے ضمن میں ایک روایت میں آتا ہے کہ تم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اس

Page 502

497 $2004 خطبات مسرور کی جگہ سے اس غرض سے نہ اٹھائے کہ تا وہ خود اس جگہ بیٹھے.وسعت قلبی سے کام لو اور کھل کر بیٹھو.چنانچہ ابن عمر کا طریق تھا کہ جب کوئی آدمی آپ کو جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے.(بخاری کتاب الاستیذان باب اذا قيل لكم تفسحوا في المجالس) خود تو ہر مومن کو یہی چاہئے کہ دوسرے کا خیال رکھے اور اپنے بھائی کو بیٹھنے کے لئے جگہ دے لیکن کسی دوسرے آنے والے کا حق نہیں بنتا کہ زبردستی کسی کو اٹھائے کہ یہ جگہ میرے لئے خالی کرو.یہ بھی مجلس کے آداب کے خلاف ہے اور اس بیٹھنے والے کے حق کے خلاف ہے سوائے اس کے کہ جہاں اجازت ہے، ایسی مجالس میں جہاں مجبوری ہو اٹھانے کے لئے کہا جائے.وہ تو قرآن شریف میں بھی حکم آیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ”اگر مجلسوں میں تمہیں کہا جائے کہ کشادہ ہو کر بیٹھو یعنی دوسروں کو جگہ دو تو جلد جگہ کشادہ کر دوتا دوسرے بیٹھیں اور کہا جائے کہ تم اٹھ جاؤ تو بغیر چون و چرا کے اٹھ جاؤ“.(اسلامی اصول کی فلاسفی - روحانی خزائن جلد نمبر ١٠ صفحه ٣٦٦) تو جہاں قرآن کریم میں یہ کشادگی کا حکم ہے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اگر مجلس سے اٹھایا جائے اور انتظامیہ اگر کہے کسی وجہ سے کہ یہاں سے بعض لوگ چلے جائیں ، اٹھ جائیں، تو اٹھ جایا کرو.کیونکہ بعض مجالس مخصوص ہوتی ہیں ان میں ہر ایک کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی.تو یہاں بھی ہر احمدی کو کھلے دل کا مظاہرہ کرنا چاہئے.بعض دفعہ شکایات آجاتی ہیں کہ فلاں عہدیدار نے فلاں مجلس میں مجھے اٹھا دیا یا میرے فلاں بزرگ کو اٹھا دیا.تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکوہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ نظام ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے.مومن کا شیوہ نہیں ہے کہ ایسی باتوں کا شکوہ کرے.پھر بعض مجالس ایسی ہیں مثلاً انتخاب وغیرہ میں بھی بعض لوگ حسب قواعد نہیں بیٹھ سکتے ، ان میں بعض کمیاں ہوتی ہیں تو اس پر شکوے بھی نہیں کرنے چاہئیں.بڑی خاموشی سے چلے جانا

Page 503

$2004 498 خطبات مسرور چاہئے.یا پھر جو ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا ادا کرنا چاہئے.وہ قواعد جن کی پابندی ضروری ہے اور جماعت نے مقرر کئے ہیں وہ کرنے چاہئیں.اگر قواعد پہ عمل نہیں کیا پھر شکوے بھی نہ کریں.یہ بھی اس مجلس کا حق ہے کہ اگر اٹھایا جائے تو اٹھ جائیں.مجلس میں جگہ دینے کے بارے میں آنحضرت یہ کس قدر خیال فرماتے تھے.اس کا اظہار یک روایت سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا ، حضور رسول علیہ السلام اسے جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے کچھ ہٹ گئے.وہ شخص کہنے لگا حضور جگہ بہت ہے آپ الله کیوں تکلیف فرماتے ہیں.اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ایک مسلمان کا حق ہے کہ اس کے لئے اس صلى الله کا بھائی سمٹ کر بیٹھے اور اسے جگہ دے.(بیھقی فی شعب الایمان.مشکوۃ باب القيام) تو دیکھیں جب ہمارے آقا و مطاع اپنے عمل سے یہ دکھا رہے ہیں تو ہمیں کس قدران باتوں پر عمل کرنا چاہئے بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مجلس میں آجائے تو بعض لوگ اور زیادہ چوڑے ہو کے اور پھیل کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہمارے بیٹھنے میں تنگی نہ ہو.جلسے کے دنوں میں خاص طور پہ جو مہمان آرہے ہیں اور یہاں والے بھی سن رہے ہیں، انشاء اللہ بہت سارے لوگ ہوں گے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ بعض دفعہ جگہ کی تنگی ہو جاتی ہے.انتظامیہ کے اندازے بالکل ختم ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں دوسروں کو ضرور جگہ دینی چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی جلسہ گاہ یا مسجد وغیرہ کے لئے اپنی جگہ سے اٹھے تو واپس آنے پر وہ اس جگہ کا زیادہ حق دار ہوتا ہے.(صحیح مسلم کتاب السلام باب اذا قام من مجلسه ثم عاد فهو احق به) تو بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے، وہ اس تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ فلاں جگہ اگر خالی ہو تو میں جا کر بیٹھوں یا بعض دفعہ کسی مجلس میں کسی کی کوئی پسندیدہ شخصیت یا کوئی دوست وغیرہ ہو تو اس کے اردگر دا گر جگہ نہیں ہوتی تو اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے بھی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کسی

Page 504

$2004 499 خطبات مسرور طرح حاصل کیا جائے.تو جب بھی موقع ملے کوئی جگہ خالی ہو چاہے کوئی عارضی طور پر پانی پینے کے لئے وہاں سے اٹھا ہو ، کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہاں پر بیٹھ جایا جائے.اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ چا ہے یہ دینی مجالس ہیں یا دعوتوں وغیرہ پر آپ اکٹھے ہوئے ہوئے ہیں یا کہیں بھی بیٹھے ہوتے ہیں.یا جو کسی کام سے عارضی طور پر اٹھ کر اپنی جگہ سے گیا ہے تو یہ اُسی کی جگہ ہے کسی دوسرے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کی جگہ پر بیٹھ جائے.یہ بڑی غلط چیز ہے.اور اگر وہ واپس آئے اور آپ ایک دومنٹ کے لئے بیٹھ بھی گئے ہیں تو فوراً اٹھ کر اس کو جگہ دینی چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے ابن عبدہ اپنے والد اور دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی شخص مجلس میں آکر دو افراد کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے.(ابوداؤد كتاب الادب باب في الرجل يجلس بين الرجلين........یہ بھی ایک بہت بری عادت ہے کہ جہاں جگہ دیکھی فوراً آ کے بیٹھ گئے.اول تو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اگر تین کرسیاں پڑی ہیں تو جو ساتھ جڑی ہوئی کرسیاں ہیں ان پر بیٹھیں تا کہ تیسرا شخص بھی آ کے بیٹھ سکے.اور اگر کسی وجہ سے خالی پڑی ہے تو آنے والے کو پوچھنا چاہئے تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو بنیادی اخلاق ہیں اور ہر احمدی میں ان کا موجود ہونا ضروری ہے.مجالس کے بارے میں یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ مجالس امانت ہوتی ہیں.یعنی جس مجلس میں بیٹھے ہیں اگر وہ پرائیویٹ ہے یا کسی خاص قسم کی مجلس ہے تو اس میں ہونے والی باتوں کو باہر نکالنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا.وسیع مجلس یا جلسہ وغیرہ کی اور بات ہے.جو پرائیویٹ مجالس ہیں اگر کوئی خاص باتیں ہو رہی ہیں تو سننے والوں کو انہیں باہر نہیں نکالنا چاہئے.اسی طرح دفتری عہدیداران کو بھی یا کارکنوں کو بھی دفتر میں ہونے والی باتوں کو کبھی باہر نہیں نکالنا چاہئے.پھر مختلف ذیلی تنظیمیں ہیں، جماعتی کارکنان ہیں ان کو بھی اپنے رازوں کو راز رکھنا چاہئے.یہ بھی مجلس کا حق ہے اور ایک امانت ہے.اس کو کسی طرح بھی باہر نہیں نکلنا چاہئے.

Page 505

$2004 500 مسرور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجلس کی ہر بات امانت ہوتی ہے سوائے تین قسم کی مجالس کے نمبر 1 ایسی مجالس جن میں ناحق خون کرنے کا منصوبہ ہو.نمبر 2 بدکاری کرنے کا منصوبہ ہو اور نمبر 3، ایسی مجالس جن میں کسی کا ناحق مال دبانے کا منصوبہ ہو.(ابو داؤد کتاب الادب باب في نقل الحدیث) تو فرمایا کہ ایسی مجالس جن سے کسی کے ذاتی نقصان کا یا قومی نقصان کے احتمال کا ، اندیشے کا اظہار ہوتا ہو وہ ضرور متعلقہ لوگوں تک پہنچائی جانی چاہئیں.اس کے علاوہ باقی سب امانت ہے.کیونکہ اگر یہ باتیں نہیں پہنچائیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی اس جرم میں شریک ہیں.ایک روایت میں آتا ہے مجلسیں برخاست کرنے کے بارے میں کہ مجلس برخاست کرتے یا مجلس سے اٹھتے ہوئے آنحضرت ﷺ کا کیا طریق تھا اور ہمیں آپ نے کیا سکھایا.حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کا یہ معمول تھا کہ جب مجلس برخاست کرنا ہوتی اور آپ اٹھنا چاہتے تو مجلس کے آخر پر یہ دعا کرتے : ”اے اللہ تو پاک ہے اور تیری حمد کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں تجھ سے مغفرت کا طلبگار ہوں اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں“.(ابوداؤد) کتاب الادب باب في كفارة المجلس) ایک مرتبہ اسی طرح آپ نے دعا کی تو ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اب آپ ایک ایسی دعا کرنے لگ گئے ہیں کہ پہلے آپ نہیں کیا کرتے تھے.اس پر آپ نے فرمایا یہ دعا ان باتوں کا کفارہ ہوگی جو مجلس میں ہو جاتی ہیں.(ابوداؤ د کتاب الادب باب في كفارة المجلس) یعنی آپ نے یہ سکھایا کہ مجلس میں بعض ایسی باتیں بھی ہو جاتی ہیں جو تکلیف دہ ہوتی ہیں ان کے کفارے کے طور پر.ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کچھ ایسے کلمات ہیں جس نے بھی ان کو اپنی مجلس سے اٹھتے ہوئے تین مرتبہ پڑھا تو اللہ تعالیٰ ان کے طفیل اس کے وہ گناہ جو اس نے وہاں کئے ہوں گے ان کو ڈھانپ دے گا.اور جس نے یہ کلمات کسی خیر کی مجلس میں اور ذکر الہی کی مجلس میں پڑھے تو ان کے ساتھ اس پر مہر کر دی جائے گی جیسے کہ مہر کے ساتھ کسی صحیفہ پر مہر کر دی جاتی ہے.اور

Page 506

501 $2004 خطبات مسرور وہ کلمات یہ ہیں.سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ اسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَيْكَ.اے اللہ تو اپنی حمد کے ساتھ ، پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے بخشش کا طالب ہوں اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں.(ابوداؤد) كتاب الادب باب في كفارة المجلس پس مجالس میں بہت سی باتیں انجانے میں ایسی ہو جاتی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، جو نقصان کا باعث بن سکتی ہیں اسلئے مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنی چاہئے کہ ہر شیطان کے حملے سے ہمیں محفوظ رکھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو.بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا.وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے.گناہ سے بچنے کے لئے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء وقدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہر گز رہائی نہیں ہوتی.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 96 البدر ٨، ١٦ ستمبر ١٩٠٤) “.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ پاک مجلسوں میں بیٹھنے والے ہوں ، اور ان مجالس کی خوبیاں اپنانے والے ہوں، اور ہر وقت شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل ، رحم اور مغفرت مانگنے والے ہوں اور ہر احمدی کی ہر مجلس صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف لے جانے والی ہو، نہ کہ شیطان کی طرف لے جانے والی اور فساد پیدا کرنے والی مجلس.(آمین)

Page 507

$2004 502 خطبات مسرور

Page 508

$2004 503 30 خطبات مسرور سچا مومن وہی ہے جو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کرتا ہے جلسہ کے انتظامات میں مہمان نوازی کی بنیادی حیثیت ہے ۲۳ جولائی ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۳ روفا ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن مہمان اور میزبان کے حقوق و فرائض ی مہمان نوازی اور آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کا اسوہ

Page 509

خطبات مسرور $2004 504 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَالَّذِيْنَ تَبَوَّ وَالدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِي صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أَوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ، وَمَنْ يُوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾.(سورة الحشر آیت نمبر 10) اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت جہاں جہاں بھی دنیا میں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکی ہے وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعے برطانیہ کا بھی جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.خلیفہ وقت کی فی الحال لندن میں موجودگی ، یا برطانیہ میں موجودگی یا عارضی لیکن لمبے عرصے کے قیام کی وجہ سے اس جلسے کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے آپ کو بعض دفعہ مالی مشکلات میں ڈال کر بھی اور بعض دفعہ جسمانی عوارض اور تکالیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی اس جلسے میں شامل ہونے کے لئے آتے ہیں اور اس طرح یہاں دنیا کے بہت سے ممالک کی نمائندگی ہو جاتی ہے.گو اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب میں کینیڈا گیا ہوں تو کینیڈا کے جلسے میں بھی 31 ممالک کی نمائندگی ہو گئی تھی.اور خاص طور پر وہاں قریب کے جو ممالک تھے، جنوبی امریکہ کے ممالک ان کے کافی نمائندے وہاں آ گئے جو پہلے بھی جلسوں میں اس طرح شامل نہیں ہوئے.پھر تعداد کے لحاظ سے بھی بعض ممالک کے جلسوں کی تعداد یہاں کے جلسوں سے زیادہ ہو جاتی ہے.مثلاً افریقہ کے دورے پہ جب میں گیا ہوں تو وہاں گھانا میں ہی 40 ہزار سے زائد

Page 510

$2004 505 خطبات مسرور تعداد تھی.اور پھر نائیجیریا میں صرف دو تین گھنٹے کے لئے ہی 30-31 ہزار احمدی مرد و خواتین اکٹھے ہو گئے تھے.تو اس لحاظ سے دنیا کے مختلف ممالک میں جلسے کی برکات سمیٹنے اور اس سے فیضیاب ہونے کے لئے احمدی اکٹھے ہوتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستان سے ہجرت کی وجہ سے جو خلیفہ وقت کو کرنی پڑی ، انگلستان کے سالانہ جلسہ کو کم و بیش اس کو وہی حیثیت حاصل ہوگئی جو مرکزی جلسے کی ہوتی ہے.کیونکہ برطانیہ کا جلسہ ہی وہ واحد جلسہ ہے جس میں گزشتہ 20-21 سال سے خلیفہ وقت کی باقاعدہ شمولیت ہورہی ہے.اور ماشاء اللہ انگلستان کی جماعت نے اس ذمہ داری کو خوب نبھایا ہے.اور آہستہ آہستہ جلسے کے انتظامات کو اپنی لائنوں پر جس طرح مرکز میں ہوتا تھا یہاں بھی چلا دیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو آئندہ بھی توفیق دیتا رہے.پہلے تو یہاں کے جلسے بڑے مختصر سے ہوتے تھے،اتنے بڑے اور وسیع انتظامات کی ضرورت نہیں ہوتی تھی.لیکن بہر حال اب تو کافی وسیع جلسے ہونے لگ گئے ہیں.کیونکہ پہلے تو پوری طرح کا رکنان کو انکل سے کام کرنا بھی نہیں آتا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں آہستہ آہستہ تمام انتظامات بہتر ہونے شروع ہوئے اور اب کافی ترقی ہو چکی ہے.اور پھر گزشتہ سال بھی انتظامیہ نے اپنی بہت سی کمزوریوں کی اصلاح کی اور اس سال بھی کوشش کر رہے ہیں اور بعض باتوں کا اگر میں نے ضمناً بھی ذکر کیا ہے تو امیر صاحب نے فوراً اس کے مطابق اصلاح کی کوشش کی ہے.تو اللہ تعالیٰ جلسے کے تمام انتظامات میں برکت ڈالے.میرے نزدیک جو بنیادی حیثیت ان انتظامات میں ہے وہ مہمان نوازی کی ہے.اگر مہمان نوازی کا نظام ٹھیک ہو جائے تو پھر جلسے کے باقی انتظامات کی حیثیت معمولی رہ جاتی ہے.کیونکہ باقی انتظامات میں بھی افراتفری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کھانے کے انتظام میں گڑ بڑ ہو جائے یا اسی طرح جو دوسرے مہمان نوازی سے متعلقہ انتظامات ہیں ان میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے یا خاطر خواہ انتظام نہ ہو تو اس لحاظ سے یہ مہمان نوازی کا شعبہ بہت اہم شعبہ ہے.اس لئے ہر خدمت کرنے والے کارکن کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس نے ہمیشہ جہاں اپنی ڈیوٹی کو صحیح طرح انجام دینا ہے وہاں حسن اخلاق کا رویہ بھی قائم رکھنا ہے اور ہمیشہ مہمانوں سے بڑی نرمی سے پیش آنا ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ سنہری اصول بتا دیا کہ یہ مہمان نوازی، خدمت کا جذبہ اور جوش

Page 511

$2004 506 خطبات مسرور اس وقت پیدا ہو گا جب تم دلوں میں محبت پیدا کرو گے.اور جب یہ محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے گی تو پھر تم اپنے آرام پر، اپنی ضروریات پر ، اپنی خواہشات پر، ان دور سے آنے والوں کی ضروریات کو مقدم کرو گے اور ان کو فوقیت دو گے.اور اگر اس جذبے کے تحت خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم فلاح پاگئے تم کامیاب ہو گئے.اور خاص طور پر ان مہمانوں کے لئے اپنے ان اعلیٰ جذبات کا اظہار کرو گے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں تو پھر تم یقیناً اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مستحق ٹھہرو گے.مہمان نوازی تو نبیوں اور نبیوں کے ماننے والوں کا ایک خاص شیوہ ہے.دیکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی مہمان نوازی کو دیکھتے ہوئے فوراً اس ا وقت آنے والوں سے یہ نہیں پوچھا کہ تم کھانا کھاؤ گے کہ نہیں، ایک بچھڑا ذبح کر دیا اور حضرت خدیجہ نے بھی پہلی وحی کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوئی تو اور بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی حضرت خدیجہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا کہ فکر نہ کریں خدا تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ میں مہمان نوازی کا وصف بھی انتہا کو پہنچا ہوا ہے.پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی کرتے ہیں آپ کے اس اعلیٰ خلق کو اختیار کریں اور آپ کے عاشق صادق کے مہمانوں کی خدمت میں جلسے کے ان دنوں میں خاص طور پر کمر بستہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے وارث بنیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایمان کی یہ نشانی بتائی ہے کہ سچا مومن وہی ہے جو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کرتا ہے.ایک روایت میں ہے، حضرت ابو ہریرہ سے یہ روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے.اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے.(صحیح مسلم کتاب الايمان باب الحث على اكرام الجار تو اعلیٰ اخلاق بھی ایمان کی نشانی ہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی قسم کھائی ہے.ہم جو آپ کی امت میں شمار ہوتے ہیں ہم نے بھی انہیں قدموں کی پیروی

Page 512

$2004 507 خطبات مسرور کرنے کی کوشش کرنی ہے.کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح حکم ہے کہ تم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جو میرا پیارا رسول ہے، اس کے اُسوہ حسنہ پر چلو.اور آپ نے ہمیں فرمایا کہ اگر میری پیروی کرنے والے شمار ہونا ہے تو ہمیشہ تمہارے منہ سے عزیزوں، رشتہ داروں ، قریبیوں تعلق داروں اور ہر ایک کے بارے میں خیر کے کلمات نکلنے چاہئیں.پھر پڑوسی کے ساتھ بھی عزت اور احترام کا سلوک ہے.صحابہؓ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمیں شک پڑتا تھا کہ جس طرح پڑوسی کے حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کہیں وہ ہمارے وارث ہی نہ ٹھہر جائیں، وراثت میں بھی ان کا حصہ نہ ہو.پھر اس میں مہمان کا احترام کرنا بھی بتایا ہے اور پھر جو مہمان ہیں وہ تو تمہارے قریب آ کر جب ساتھ رہنے لگ گئے تو ہمسائے بھی بن گئے اس لئے مہمان کا تو دوہرا حق ہو گیا کہ ایک مہمان اور دوسرے جب تک یہاں ہیں تمہارے ہمسائے بھی ہیں.اور ان کے بارے میں تمہارے منہ سے کوئی بھی ایسی بات نہیں نکلنی چاہئے جو ان لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنے، کسی تکلیف کا باعث بنے.ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو وفود آتے تھے آپ ان کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ کے سپرد کر دیتے.ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد حاضر ہوا تو آپ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا.چنانچہ انصار ان لوگوں کو لے گئے.صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میز بانوں نے تمہاری مدارات کیسی کی.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! بڑے اچھے لوگ ہیں ہمارے لئے نرم بستر بچھائے ، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب وسنت کی تعلیم دیتے رہے.(مسند احمد بن حنبل جلد (3 صفحه (431 الحمد للہ کہ ہمارے ہاں جماعت میں بھی یہ نظارے دیکھنے میں آتے ہیں اور یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی وجہ سے یہ اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی.ربوہ میں بھی ہم نے یہی دیکھا بلکہ خود بھی اسی طرح کرتے رہے کہ

Page 513

$2004 508 خطبات مسرور مہمان جن سے کوئی خونی رشتہ بھی نہیں ہوتا بلکہ اکثر دفعہ سال کے سال ملاقات ہوتی ہے اور بعض دفعہ کئی سال کے بعد کیونکہ جماعتی نظام کے تحت جس کو جس گھر میں ٹھہرایا جائے اس نے وہیں ٹھہرنا ہوتا ہے اور اس لئے ضروری نہیں ہوتا کہ ہر مرتبہ ہر مہمان و ہیں ٹھہرے، بعض دفعہ مہمان بدل بھی جاتے ہیں تو صرف اس لئے ان جلسے پر آنے والے مہمانوں کو مہمان بنا کر گھروں میں رکھا جاتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں اور اسی لئے اپنے آرام کو ان کی خاطر قربان کیا جاتا ہے.مجھے امید ہے یہاں بھی آپ لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے لئے اسی طرح حوصلہ دکھاتے رہے ہیں اور انشاء اللہ دکھاتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ تو فیق دے کہ پہلے سے بھی بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کریں.اس دفعہ جب میں کینیڈا گیا ہوں تو بعض احمدی گھروں میں یہ دیکھ کر ربوہ کے جلسوں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی کہ گھر والے نیچے ایک کمرے میں یا ہیں منٹ (Basement) میں محدود ہو گئے ہیں اور گھر کے کمرے مہمانوں کو دے دیئے ، ان مہمانوں کو جن کو جانتے بھی نہیں ، کوئی خون کا رشتہ بھی نہیں لیکن ایک مضبوط رشتہ ہے، احمدیت کا رشتہ، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہی اس رشتے کو قائم کیا ہوا ہے اور اس مضبوط رسی کو پکڑا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر ملک میں ہمیں یہ نظارے دکھائے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.آپ نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ.جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں.اس پر حضور نے صحابہ سے فرمایا اس مہمان کے کھانے کا بندو بست کون کرے گا.ایک انصاری نے عرض کیا: حضور! میں انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ گھر گیا اور بیوی سے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کا اہتمام کرو.بیوی نے جواباً کہا.آج گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے.انصاری نے کہا اچھا تو کھانا تیار کرو اور چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر اور بہلا کر سلا دو.چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا، چراغ جلایا، بچوں کو بھو کا سلا دیا.پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا.اور پھر دونوں مہمانوں کے

Page 514

$2004 509 خطبات مسرور ساتھ بیٹھ گئے.بظاہر کھانا کھانے کی آوازیں نکالتے رہے تاکہ مہمان سمجھے کہ میز بان بھی ہمارے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں.اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ خود بھوکے سو گئے.صبح جب وہ انصاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ہنس کر فرمایا : تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنسا اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی.” یہ پاک باطن ایثار پیشہ مخلص مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں.جبکہ وہ خود ضرورتمند اور بھوکے ہوتے ہیں.اور جونفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں“.(بخاری کتاب المناقب باب يؤثرون على انفسهم و لو كان بهم.خصاصة (اس کا ترجمہ میں نے پڑھ دیا ہے.) اس حدیث میں جو ہم میں سے بہت دفعہ بہت سے سن بھی چکے ہوں گے ، پڑھ بھی چکے ہوں گے لیکن ہر دفعہ جب اس کو پڑھو اس کا عجیب لطف اور مزا ہے اور خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اس صحابی کی جگہ ہم ہوتے کیونکہ یہ مہمان نوازی تو ایسی اعلیٰ پائے کی مہمان نوازی ہے کہ جب تک یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہمان نوازی کی مثال کو محفوظ کر لیا ہے اور ہمیشہ کے لئے یہ حوالہ بن چکی ہے اور ریکارڈ میں رہے گی.کیونکہ یہ ایسی مہمان نوازی ہے جس پر خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے خود دیا ہے.یہ مثالیں قصے کہانیوں کے طور پر نہیں دی جاتیں.آج بھی اگر چاہو تو ایسی مہمان نوازی کی مثال قائم کر سکتے ہو.ہر ایک کی اپنی اپنی استعدادیں ہوتی ہیں، توفیق ہوتی ہے.اس کے مطابق جتنی زیادہ مہمان نوازی کی جاسکے کرنی چاہئے اور مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار حاصل کئے جا سکتے ہیں.لیکن یہ اعزاز بہر حال اس انصاری کا قائم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.لیکن ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی خوشنودی کی خاطر قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے مہمان نوازی کریں گے اور اس لئے مہمان نوازی کریں گے کہ یہ خدا کے پیارے مسیح کے مہمان ہیں محض اللہ یہاں یہ ا کٹھے ہوئے ہیں.اور ان کی خدمت ہم نے کرنی ہے تو چاہے ہمیں پتہ چلے یا نہ چلے یہ مہمان نوازیاں بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ریکارڈ ہو جائیں گی.اور اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی فعل کو

Page 515

$2004 510 خطبات مسرور بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا.تو چاہے اس جہان میں اجر دے، چاہے اگلے جہان میں رکھے، جو نیکیاں ہیں ان کا تو دونوں جہانوں میں اجر ملتا ہے.لیکن بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے زندگی میں ہی ایسے سلوک ہو جاتے ہیں جو فوری طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں.اور اس کے فضل نظر آ رہے ہوتے ہیں جس سے احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ فضل فلاں وجہ سے ہوا ہے.اور جب کبھی ایسا موقعہ ہو تو ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور اور جھکنا چاہئے.کسی قسم کی بڑائی دل میں نہیں آنی چاہئے بلکہ عاجزی میں ترقی ہونی چاہئے.عبدالله بن طُهْفَه رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کثرت سے مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہر کوئی اپنا مہمان لیتا جائے.ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت زیادہ مہمان آ گئے.اور آپ نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے حصے کا مہمان ساتھ لے جائے.عبداللہ بن طفقہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان میں سے تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے.چنانچہ جب آپ گھر پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: کیا گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کی : جی ہاں ! حریرہ نامی کھانا ہے جو میں نے آپ کے افطار کے لئے تیار کیا ہے.راوی کہتے ہیں کہ آپ وہ کھانا ایک برتن میں ڈال کر لائیں.اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا کھایا اور پھر فرمایا بسم اللہ پڑھ کر کھا ئیں اور مہمانوں کو دے دیا.چنانچہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کھانے میں سے اس طرح کھایا کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے.اس کے بعد آنحضرت نے فرمایا اے عائشہ! کیا تمہارے پاس پینے کو کوئی چیز ہے.انہوں نے کہا : جی ہاں حریرہ ہے جو میں نے آپ کے لئے تیار کیا ہے.فرمایا کہ لے آؤ تو وہ لے آئیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برتن لے کے اپنے منہ کو لگایا ، اس میں سے تھوڑا سا لیا اور پھر مہمانوں کو دے دیا کہ بسم اللہ کر کے پینا شروع کریں.پھر کہتے ہیں کہ ہم بھی اسے اسی طرح پینے لگے کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر وہ سونے کے لئے مسجد میں چلے گئے اور پھر کہتے ہیں صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور لوگوں کو الصَّلوۃ الصلوۃ کہہ کر لوگوں کو بیدار کرنے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب

Page 516

$2004 511 خطبات مسرور آپ صبح کے وقت آتے تو لوگوں کو نماز کے لئے اٹھاتے.راوی کہتے ہیں جب میرے پاس سے گزرے تو میں اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا.آپ نے دریافت فرمایا تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا میں عبداللہ بن طیفہ ہوں.آپ فرمانے لگے سونے کا یہ انداز ایسا ہے جسے اللہ پسند نہیں کرتا.(مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحه 326 مطبوعه (بيروت) الٹے ہو کر سونا بھی ناپسندیدہ فعل ہے.سیدھے سونا چاہئے اور بہتر یہی ہے کہ دائیں کروٹ سوئیں.اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو.جیسا کہ ہر معاملے میں جو بھی جماعتی طور پر ذمہ داریاں بانٹی جاتی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حصہ میں ضرور کچھ نہ کچھ ذمہ داری لیا کرتے تھے.یہاں بھی جب مہمانوں کو گھروں میں لے جانے کا موقع آیا تو آپ کچھ مہمانوں کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور لگتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے جو بھی خوراک تیار کی ہوئی تھی ، جیسا کہ روایت سے ظاہر ہے، وہ بہت تھوڑی مقدار میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کی گئی تھی.جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ خوراک تھوڑی سی مقدار میں ہے، آپ کی افطاری کے لئے تیار کی گئی ہے تو آپ نے اس وجہ سے بھی کہ آپ روزے دار تھے اور افطاری کرنی تھی اور اس لئے بھی کہ آپ کو پتہ تھا کہ آپ پہلے منہ لگائیں گے تو اللہ تعالیٰ اس خوراک میں برکت ڈال دے گا، پہلے خود کھایا اور پھر باقیوں کو دیا کہ اب کھاؤ.اور وہ بھی بغیر دیکھے کھاتے گئے.جتنے بھی لوگ تھے سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا.پھر پینے کے لئے حریرہ منگوایا تو یہاں روزہ کھولنے والی بات تو کوئی نہیں، زیادہ غالب یہی ہے کہ اس لئے کہ اس خوراک میں برکت پڑ جائے اس کو بھی پہلے آپ نے خود پیا.تو اسی طرح اور بھی کھانے کے بہت سارے واقعات ہیں آپ پہلے لیتے تھے.مقصد یہی ہوتا تھا کہ اس میں برکت پڑ جائے کیونکہ جب میں کھاؤں گا ، دعا کروں گا تو اس خوراک میں برکت ہو جائے گی.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خوراک پہلے استعمال کی یہ اصل میں مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کے لئے تھا کہ تھوڑی سی خوراک

Page 517

512 $2004 خطبات مسرور ہے اور اس سے سیر نہیں ہو سکتے تو میں پہلے لوں اور اس پہ دعا پڑھوں تو اللہ تعالی برکت ڈال دے گا.اس لئے یہ کوئی عام اصول نہیں ہے بلکہ مہمانوں کی جب خدمت کی جائے تو پہلے مہمانوں کو کھانے کا موقع دینا چاہئے اور اس کے بعد پھر بچا کھچا آپ کھانا چاہئے.ایک روایت ہے حضرت عبداللہ بن سلام کہتے ہیں جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قدم رنجہ فرمایا تو لوگ اثر دھام کر کے آپ کے گرد جمع ہو گئے ، بہت سارا ہجوم کر کے رش کر کے آ گئے.کہتے ہیں میں بھی ان میں شامل تھا جو دوڑ دوڑ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے.جب آپ کا چہرہ خوب مجھ پر روشن ہو گیا تو میں نے جان لیا کہ یہ منہ جھوٹے کا منہ نہیں ہے اور سب سے پہلی بات جو میں نے آپ کو کہتے ہوئے سنا وہ یہ تھی کہ سلام کو رواج دو، کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے.(مسند احمد بن حنبل.مسند باقى الانصار جلد ۵ صفحه (٤٥١ فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے ہوئے سلام کو رواج دو.سلام کے رواج دینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ ہر ایک سے محبت سے پیار سے پیش آؤ تبھی سلام کرنے کا بھی حق ادا ہوتا ہے.پھر یہ ہے کہ ایک تو ضرورتمندوں کو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ.دوسرے جب تمہارے پاس جب کوئی مہمان آئے تو مہمان نوازی کے اصول کے تحت اس کی کوئی خاطر تواضع کرو.بعض دفعہ بعض دُور پار کے رشتہ دار یا کسی حوالے سے واقف لوگ آ جاتے ہیں یہ سمجھ کر کہ فلاں میرے عزیز کا کوئی واقف کار ہے اس سے مل لیں.جب ایسے لوگ آئیں تو ان سے بھی اچھے طریقے سے ملنا چاہئے ، یہ نہ ہو کہ بیچارے خرچ کر کے جب آپ کے پاس پہنچیں تو بے رخی سے کہہ دو نہ تو میں آپ کو جانتا ہوں ، نہ اس واقف کار کو جانتا ہوں اور السلام علیکم کیا اور گھر کا دروازہ بند کر دیا.اگر کوئی دھو کے باز ہواس کا تو چہرے سے پتہ چل جاتا ہے.احمدی کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکل پہچانی جاتی ہے کہ

Page 518

$2004 513 خطبات مسرور یہ احمدی ہے.اس لئے اس کا بھی خیال رکھیں اور پھر اپنے غریب رشتہ داروں سے خاص طور پر صلہ رحمی کا سلوک کرنا چاہئے.فرمایا کہ عبادت کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرو کیونکہ یہ تو ہر مومن سے توقع کی جاتی ہے.فرض نمازوں کی طرف تو توجہ دو گے ہی، اس کی ادائیگی تو تم کر ہی رہے ہو گے مہمان نوازی کے دنوں میں یہ نہ ہو کہ نمازوں کو بھی بھول جاؤ.پھر یہ کہ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ان حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد اب نیکی کے معیار اتنے بلند ہو گئے ہیں اور نمازوں کی ضرورت نہیں رہی.اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی ضرورت نہیں رہی.فرمایا کہ نہیں، حقوق العباد کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور عبادت کے اعلیٰ معیار بھی اس وقت قائم ہوں گے جب بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہو گے.اس لئے دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں.ایک کا دوسرے پر انحصار ہے.تب ہی اعلیٰ معیار قائم ہو سکتے ہیں جو ایک مومن کے لئے چاہئیں اور اگر یہ معیار قائم ہو جائیں تو فرمایا کہ تم بے فکر ہو جاؤ کیونکہ یہ معیار قائم کر کے تم بڑے امن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ گے.پھر ایک روایت میں آتا ہے صحابہ رضوان اللہ علیھم کی مہمان نوازی صرف مہمانوں تک محدود نہ تھی بلکہ دشمن بھی اس سے محروم نہ تھے.یہاں تک کہ جنگ کے قیدیوں سے بھی یہی سلوک تھا.چنانچہ ایک شخص ابوعزیز بن عمیر جو جنگ بدر میں قید ہوئے تھے بیان کرتے ہیں کہ انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور خود کھجور میں وغیرہ کھا کر گزارا کر لیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اگران کے پاس روٹی کا چھوٹا ساٹکڑا بھی ہوتا تو وہ مجھے دے دیتے اور خود نہ کھاتے تھے اور اگر میں تامل کرتا یعنی تھوڑ اسا انکار کرتا تو اصرار کے ساتھ کھلاتے تھے.(السيرة النبوية لابن هشام حصه اول حالات غزوۂ بدر صفحه (۷۰۳ تو یہ ہیں قربانی کے اعلیٰ معیار کہ جنگی قیدیوں سے بھی اتنا حسن سلوک ہو رہا ہے کہ اپنی خوراک کی قربانی دے کر قیدیوں کو کھلایا جا رہا ہے.تو جب غیروں کے ساتھ یہ سلوک ہو تو اپنوں سے

Page 519

$2004 514 خطبات مسرور کس قدر حسن سلوک ہونا چاہیئے اور پھر وہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں اس بات کے کس قدر حق دار ہیں کہ ان کی مہمان نوازی میں کوئی بھی کمی نہ آئے.اب کچھ روایات حضرت اقدس مسیح موعود کی ہیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں 1901ء میں ہجرت کر کے قادیان آیا اور اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لایا اس وقت میرے دو بچے جن کی عمر پانچ سال اور ایک سال تھی، ساتھ تھے.پہلے تو حضرت مسیح موعود نے مجھے وہ کمرہ رہنے کے واسطے دیا جو حضوڑ کے اوپر والے مکان میں حضور کے رہائشی صحن اور کوچہ بندی کے اوپر والے صحن کے درمیان تھا.اس میں صرف دو چھوٹی چھوٹی چار پائیاں بچھ سکتی تھیں.چند ماہ ہم وہاں رہے اور چونکہ ساتھ ہی کے برآمدے اور صحن میں حضرت مسیح موعود مع اہل بیت رہتے تھے.اس واسطے حضرت مسیح موعودؓ کے بولنے کی آواز سنائی دیتی تھی.ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لئے حضرت ام المومنین حیران ہو رہی تھیں (یعنی ان کو بڑی گھبراہٹ تھی ) کہ سارا مکان تو پہلے ہی کشتی کی طرح پر ہے.( بہت بھرا ہوا ہے ) اب ان کو کہاں ٹھہرایا جائے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا ایک قصہ سنایا.کہتے ہیں کہ کیونکہ میں ساتھ کے کمرے میں تھا اس واسطے مجھے ساری کہانی سنائی دے رہی تھی اور وہ قصہ یہ تھا کہ ایک دفعہ ایک جنگل میں ایک مسافر کو شام ہو گئی رات اندھیری تھی ، قریب کوئی بستی نہیں تھی وہ بیچارا ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے لئے لیٹ گیا.اس درخت کے اوپر پرندوں کا گھونسلہ تھا.ان پرندوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات یہ ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں.تو مادہ نے نر کی اس بات کا اقرار کیا.پھر ان دونوں نے مشورہ کیا کہ رات ٹھنڈی ہے ہمارے مہمان کو آگ سینکنے کی ضرورت پڑے گی.آگ تاپنے کی ضرورت پڑے گی تو

Page 520

$2004 515 خطبات مسرور ہمارے پاس کچھ اور تو ہے نہیں چلو اپنا گھونسلہ اور اپنا آشیانہ تو ڑ کر نیچے پھینک دیتے ہیں.ان لکڑیوں کو جلا کے وہ آگ سینک لے گا.انہوں نے تنکا تنکا کر کے اس گھونسلے کو نیچے پھینک دیا تو مسافر نے اس کو جلایا اور اس کو غنیمت جانا اور آگ لگا کے ٹھنڈ سے بچنے کی کوشش کی.اس کے بعد پرندوں نے مشورہ کیا کہ مہمان کو یہ آرام تو پہنچ گیا اس کے لئے کھانے کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہئے.اور تو ہمارے پاس کچھ ہے نہیں ہم خود ہی اس آگ میں جا گرتے ہیں.جب بھن جائیں گے تو مسافر کھالےگا.(ذکر حبیب صفحه 85تا 87 مصنفه حضرت مفتی محمد صادق صاحب تو اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کا حق ادا کیا.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے حضرت اماں جان کو یہ کہانی سنائی کہ اس طرح مہمانوں کی خدمت کرنی چاہئے.آپ یہ نمونہ اپنے لوگوں میں قائم کرنا چاہتے تھے.اس لئے مہمان نوازی کے لئے ہمیشہ یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ قربانی کرنی پڑتی ہے اور چاہے جتنی مرضی سہولتیں ہوں کچھ نہ کچھ ماحول کے مطابق قربانی کرنی ہی پڑتی ہے.اس لئے کہتے ہیں کہ مہمان کا آنا رحمت کا باعث ہوتا ہے.کیونکہ مہمان کے لئے بہر حال قربانیاں کرنی پڑتی ہیں.یہ مہمان نوازی کے طریقے اور سلیقے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ہمیں سکھانا چاہتے ہیں اور ہم سے توقع رکھتے ہیں اس کا آج کل اظہار ہونا چاہئے.حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار یا معزز آدمی آئے تو اس کی عزت و تکریم کرو.(سنن ابن ماجه ابواب الادب باب اذا أتاكم كريم قوم فاكرموه یہاں بھی بعض معززین آتے ہیں، بعض تو احمدی نہیں ہوتے اور بعض احمدی بھی ہوتے ہیں.اپنی اپنی قوم میں ، اپنے ملک میں ان کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے.ان کے ساتھ بہت زیادہ احترام کے ساتھ پیش آنا چاہئے.یہ ٹھیک ہے کہ ان کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے اور انتظامیہ ان کا بہت

Page 521

$2004 516 خطبات مسرور خیال رکھتی ہے لیکن ہر احمدی کو جو جلسہ پر آ رہا ہو، ان لوگوں کا خاص طور سے خیال رکھنا چاہئے.بعض دفعہ بعض مواقع پیش آ جاتے ہیں اس لئے ہمیشہ خیال رکھیں کہ ان لوگوں کا خاص احترام کرنا ہے.یہ خیال دل میں کبھی نہ آئے کہ یہ تو فلاں غریب ملک کا آدمی ہے اس کی عزت واحترام اتنازیادہ کرنے کی ضرورت نہیں.یہ سب شیطانی خیال ہیں.انہیں غریب ملکوں نے احمدیت قبول کرنے میں کھلے دل کا اظہار کیا ہے اور ان معززین میں سے اکثریت نے بھی جماعت سے بہت تعاون کیا ہے جو یہاں آتے ہیں.اس لئے ان کی عزت و احترام کا ہر احمدی کو بہت خیال رکھنا چاہئے.ایک اور واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کا ہے کہ ایک ہندو حضرت اقدس کے حضور حاضر ہوا.کیونکہ ہندوؤں کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے اور کھانے پینے کا بھی اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے.کیونکہ مسلمانوں کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لنگر جاری تھا لوگ آتے تھے، کھاتے تھے.لیکن ہندو مہمان کے لئے خاص انتظام کرنا پڑا اور وہ انتظام چونکہ دوسروں کے ہاں کرانا ہوتا تھا اس لئے ظاہر میں اس کی مشکلات بھی ہوتی تھیں.تو اس موقعے یہ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان نوازی کا پورا اہتمام فرماتے تھے.جب وہ آیا اور آپ سے ملاقات کی تو آپ نے فرمایا یہ ہمارا مہمان ہے، اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کر دینا چاہئے.ایک شخص کو خاص طور پر حکم دیا کہ ایک ہندو کے گھر اس کے لئے بندوست کیا جاوے.(سیرت حضرت مسیح موعود عليه السلام مرتبه شيخ يعقوب علی عرفانی صاحب جلد اول صفحه (142 اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو یہ ہے کہ ایسے غیر جو آتے ہیں ان کے لئے انتظام علیحدہ ہوتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ جتنا بہترین انتظام ہو سکے ، کیا جائے.ان رش کے دنوں میں لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ڈیوٹی والے بھی اور عام لوگ بھی ایسے لوگوں کے آنے جانے کے وقت میں بھی کوئی ایسا واقعہ نہ ہو جو کسی قسم کی تکلیف کا باعث بنے.اس لئے ایک تو کوئی نہ کوئی معاون انتظامیہ کو ان لوگوں کے ساتھ ہمیشہ رکھنا چاہئے تا کہ چیکنگ وغیرہ کے وقت میں کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو.بعض دفعہ اس کے علاوہ بھی بعض احمدی اپنے ساتھ کسی غیر کو جلسہ

Page 522

$2004 517 خطبات مسرور دکھانے کے لئے لے آتے ہیں تو ان کا بھی انتظامیہ کو خیال رکھنا چاہئے.ایک تو اس لئے بھی کہ اس شخص کے بارے میں تسلی ہو جائے اس کے لئے بھی ضروری ہے اور دوسرے مہمان نوازی کے تقاضے کے لئے بھی.تسلی کے لئے اس لئے ضرورت پڑتی ہے کہ بعض دفعہ بہت تھوڑے عرصے کی واقفیت ہوتی ہے اور دعوت الی اللہ کے شوق میں لوگ بعض دفعہ بعض غلط لوگوں کو بھی لے آتے ہیں اس لحاظ سے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.بہر حال غیر محسوس طریقے پر یہ نہ ہو کہ اتنی چیکنگ شروع ہو جائے کہ اگلے کو احساس ہو جائے، اگر کوئی صحیح بھی ہے تو اس کو برا لگنے لگ جائے ، دونوں صورتوں کے لئے ہر وقت ایک خاص انتظام رہنا چاہئے.ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مغرب کی نماز کے بعد مجلس میں بیٹھے تو میر صاحب نے عبد الصمد صاحب آمدہ از کشمیر کو آگے بلا کر حضور کے قدموں میں جگہ دی اور حضرت اقدس سے عرض کیا کہ ان کو یہاں ایک تکلیف ہے کہ یہ چاولوں کے عادی ہیں اور یہاں روٹی ملتی ہے.حضرت اقدس نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْن.ہمارے مہمانوں میں سے جو تکلف کرتا ہے اسے تکلیف ہوتی ہے اس لئے جو ضرورت ہو کہہ دیا کرو.پھر آپ نے حکم دیا کہ ان کے لئے چاول پکوا دیا کرو.(ملفوظات جلد 2 صفحه 482 البدر ١٤ نومبر (١٩٠٢ء یہاں بھی عمومی انتظام ہوتا ہے اور بعض قوموں کے لئے مختلف ممالک سے لوگ آ رہے ہوتے ہیں مختلف قومیتوں کے لوگ آ رہے ہوتے ہیں ، ان کے مطابق کھانے کا بھی انتظام ہوتا ہے.لیکن بعض دفعہ بعض لوگوں کو جو عام خوراک کھانے والے ہیں ان کو بھی کچھ نرم یا پر ہیزی غذا کی بھی ضرورت پڑ جاتی ہے.اس خوراک کا انتظام تو ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ مہمانوں کو پتہ نہیں ہوتا اس لئے انتظامیہ کو اجتماعی قیام گاہوں پر یہ انتظام کرنا چاہئے اور دیکھتے رہنا چاہئے کہ اگر کوئی ایسا مریض کی حالت میں ہو تو اس کے لئے یہ انتظام ہو جائے.بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی چھوٹی موٹی بیماری ہے یا خوراک کو بدلنا چاہتے ہیں تو وہ مہمان آجاتے ہیں کہ ہم نے تو پر ہیزی کھانا ہی کھانا ہے اور

Page 523

518 $2004 خطبات مسرور بعض دفعہ مہمان نا جائز بختی بھی کر جاتے ہیں.ٹھیک ہے مجھے بھی اس کا تجربہ ہے لیکن کارکنان کو اس کے باوجو د صبر اور حو صلے اور برداشت سے کام لینا چاہئے.حضرت سید حبیب اللہ صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اطلاع دی تو حضوڑ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر میں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے.اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں.(ملفوظات جلد5صفحه 163ـ بدر 14 مارچ 1907) تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ مہمانوں کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے.یہاں بھی یہی سبق ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود نے ہمیں دیا ہے کہ باوجود تکلیف کے اور شدید تکلیف کے مہمان کے لئے آپ گھر سے باہر تشریف لے آئے نہیں تو ایسی حالت نہیں تھی کہ ملتے.خوداظہار فرمایا ، اس لئے ہمیشہ اس سنہری اصول کو یا درکھنا چاہئے کہ گھر آئے مہمان سے ضرور مل لینا چاہئے.جیسا کہ پہلے میں نے کہا کسی قسم کی ٹال مٹول نہ ہو یا یہ کہ گھر آئے اور بے رخی سے مل کر گھر کا دروازہ بند کر لیں.کیونکہ یہاں کے بعض لوگوں کو اندازہ نہیں، پرانے رہنے والے ہیں کہ پاکستان وغیرہ ملکوں سے جولوگ آتے ہیں کس طرح پیسہ پیسہ جوڑ کے کرایہ بناتے ہیں اور پھر صرف اس لئے کہ یہاں جلسہ اٹینڈ (attend) کریں گے کیونکہ اس جلسے کی ایک مرکزی حیثیت ہو چکی ہے اور اس لحاظ سے بھی ان کا خیال رکھنا چاہئے.آپ سب تو یہاں رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود بیت الفکر میں ایک دفعہ لیٹے ہوئے تھے ایک بیان کرنے والے نے بیان کیا اور کہتے ہیں کہ میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرے کی کھڑکی پر لالہ شرمپت یا شاید ملا وامل نے دستک دی.میں اٹھ کر کھڑ کی کھولنے لگا.لیکن حضرت صاحب نے بڑی جلدی اٹھ کر تیزی سے جاکے مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت صلی

Page 524

$2004 519 خطبات مسرور اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے.(سیرت حضرت مسیح موعود مرتبه یعقوب علی عرفانی صاحب جلد اول صفحه (160) تو دیکھیں جہاں مریدی کا سوال ہے، اس روایت میں وہاں مرید کی خواہش کے مطابق پاؤں دبانے کی اجازت تو دے دی لیکن جہاں مہمان کے حق کا سوال ہے تو برداشت نہ کیا اور پہلے تیزی سے اٹھ کے خود دروازہ کھول دیا کہ آپ مہمان ہیں.آج کل کے پیروں کی طرح یہ نہیں کہ تم پاؤں دبار ہے ہو اس لئے جاؤ دروازہ کھولو کیونکہ تمہارا مقام ہی یہی ہے.تو یہ نمونے ہیں، دیکھیں کس باریکی سے آپ نے ان کا خیال رکھا تا کہ یہ مثالیں جماعت کی ترقی کے لئے قائم ہو جائیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر پنڈی میں دکان کیا کرتے تھے، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان آیا.سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی.میں شام کے وقت قادیان پہنچا.تھا رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا تو کافی رات گزرگئی اور تقریباً بارہ بجے کا وقت ہو گیا کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی.میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے تھے.ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی.میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے کہا کہ آپ کو دے آؤں آپ یہ دودھ پی لیں، آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی.اس لئے دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں.سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے.سبحان اللہ! کیا اخلاق ہیں.خدا کا برگزیدہ پیج اپنے ادنی خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پا رہا ہے اور تکلیف اٹھا رہا ہے.(سیرت المهدى حصه سوم بحواله سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، چار تقریریں صفحه (٢٥٢،٢٥١)

Page 525

$2004 520 مسرور تو دیکھیں مہمان نوازی کے نظارے، خدا کے مسیح کی مہمان نوازی کے.اس واقعہ کو تصور میں لائیں تو ہر ایک کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خودرات بہت دیر گئے ، ایک ہاتھ میں لالٹین پکڑی ہوئی ، اندھیرا بہت زیادہ تھا اور وہاں کے رستے بھی ایسے تھے، اور دوسرے ہاتھ میں دودھ کا گلاس مہمان کے لئے لے کے جار ہے ہیں.اسی طرح مہمانوں کی ضرورت کے خیال کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک مہمان نے آکے کہا کہ میرے پاس بستر نہیں ہے تو حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحب کو کہا کہ اس کو لحاف دے دیں حافظ حامد علی صاحب نے عرض کیا کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا (اس کے حلیے سے لگ رہا ہو گا کہ لے جانے والا ہے ) تو حضور نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ لحاف لے جائے گا تو اس کا گناہ اس کے سر ہوگا.اور اگر بغیر لحاف کے سردی سے مر گیا تو ہمارا گناہ ہوگا.(سیرت حضرت مسیح موعود جلد اوّل صفحه 130 مولفه شیخ یعقوب علی عرفانی مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے ہیں کہ چار برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے.جون کا مہینہ تھا.مکان نیا نیا بنا تھا.دو پہر کے وقت وہاں چار پائی بچھی ہوئی تھی.میں وہاں لیٹ گیا.تو حضور ٹہل رہے تھے میں ایک دفعہ جا گا تو آپ فرش پر میری چار پائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے.میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا.آپ نے بڑی محبت سے پوچھا کہ آپ کیوں اٹھے.میں نے عرض کیا آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں اور میں اوپر کیسے سور ہوں.کے فرمایا کہ میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا.لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے.مسکرا (سیرت حضرت مسیح موعود" مصنفه حضرت مولانا عبدا لكريم صاحب صفحه (41) حضرت منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے

Page 526

$2004 521 خطبات مسرور انتظار میں تشریف فرما تھے.اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلے پر بیٹھے تھے.اتنے میں چند معزز مہمان آ کر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر مرتبہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑتا.تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی معزز آ جاتا تھا.اس کی وجہ سے وہ جگہ دے کے خود پیچھے ہٹ جاتے تھے حتی کہ وہ ہٹتے ہٹتے جو تیوں کی جگہ پر پہنچ گئے.پھر کہتے ہیں کہ اتنے میں کھانا آیا تو حضور نے جو یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا : آؤ میاں نظام دین! ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں.یہ فرما کر حضور مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کوٹھڑی کے اندر بیٹھ کر ایک ہی پیالے میں کھانا کھایا.اور اس وقت میاں نظام دین پھولے نہیں سماتے تھے اور جو لوگ میاں نظام دین کو عملاً پرے دھکیل کر حضرت مسیح موعود کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کئے جاتے تھے.سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه (188 گزشتہ جمعے میں میں نے مجالس کے حقوق کے بارے میں بتایا تھا تو یہ واقعہ مجالس کے حقوق سے بھی متعلق ہے اور مہمان نوازی سے بھی متعلق ہے اور دوسرے کے جذبات کے احساس سے بھی معلق ہے.کسی مجلس میں جو بھی نیا آنے والا ہو اس کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ بیٹھے ہوئے آدمی کی جگہ پر بیٹھے، چاہے وہ اس کے لئے جگہ خالی بھی کرے.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس وقت تو ایسے لوگوں کو کچھ نہیں کہا کہ کیوں اسے پیچھے دھکیل رہے ہو.تربیت کرنا مقصود تھا.اصل مقصد تو تربیت تھی ان لوگوں کی.تو سوچ لیا تھا کہ ان بڑوں کی اصلاح یا تربیت میں نے کس طرح کرنی

Page 527

$2004 522 خطبات مسرور ہے.اور آپ کا حستاس دل غریب کے دل کا احساس کر رہا تھا.اس لئے آپ نے کھانا آتے ہی خاموشی سے کھانا ڈالا اور اٹھا کر ایک طرف لے گئے اور خاموشی خاموشی میں سارے ماحول کو ساری مجلس کو سبق دے دیا کہ تم لوگ جسے حقیر سمجھ کر جو تیوں میں دھکیل چکے تھے یہ نہ سمجھو کہ وہ اس کا حقدار تھا بلکہ وہ تم سب سے زیادہ معزز ہے کیونکہ آج اہل خانہ کے پہلو میں بیٹھ اور خدا کے مسیح کے پہلو میں بیٹھ کر اس کی پلیٹ میں اس کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے.یہ دیکھ کر جیسا کہ روایت میں بھی آتا ہے، کہ ان بڑوں کا کیا حال ہو گا.شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے.اس لئے ہمیشہ عاجزی کو پکڑے رکھیں اور ہر مہمان کی عزت واحترام کریں.مہمانوں کے ساتھ جو مہمان نوازی کا سلوک ہے وہ ہمیشہ ایک جیسا ہونا چاہئے.کسی کو غریب سمجھ کر، حقیر سمجھ کر مہمان نوازی میں فرق نہ آئے.اور مہمانوں سے فرق کرنا اللہ تعالیٰ کو اس قدرنا پسند تھا کہ ایک دفعہ اس طرح کا فرق ہونے پر جو کارکنان کی طرف سے ہوا اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود کو خبر دی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ رات اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ لنگر خانے میں رات کو ریاء کیا گیا ہے.فرمایا کہ اب جو نگر خانے میں کام کر رہے ہیں ان کو علیحدہ کر کے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں.جتنی نرم طبیعت تھی اس کے باوجود اتنا ناراضگی کا اظہار فرمایا حضور نے.آپ نے فرمایا ان لوگوں کو چھ مہینے کے لئے قادیان سے ہی نکال دو.اور ایسے شخص مقرر کئے جائیں جو نیک فطرت اور صالح ہوں.(رجسٹر روایات صحابه جلد 3 صفحه 194 روایت میاں الله دتا صاحب سهرانی سکنه بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خان ایک اور جگہ ایک روایت میں فرمایا کہ رات خدا تعالیٰ کی طرف سے جھڑک آئی ہے ( یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جھڑک کا نام دے رہے ہیں ) کہ میرا لنگر ذرا بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ اس میں ریاء کیا گیا ہے مسکین محروم رہ گئے ہیں اور امراء کو اچھا کھانا کھلایا گیا ہے.پھر کھانے کا انتظام حضرت صاحب نے اپنے سامنے کروایا اور سب کو ایک قسم کا کھانا کھلایا.ویسے بھی لنگر خانے کا شعبہ خدائی منشاء کے مطابق ایک لمبے عرصے تک حضرت مسیح موعود نے اپنے پاس ہی رکھا تھا.جب

Page 528

$2004 523 خطبات مسرور مصروفیات بہت زیادہ بڑھ گئیں اور طبیعت میں بھی کچھ کمزوری آ گئی اس وقت پھر ایک انتظامیہ کے سپرد کیا.جب آپ انتظام اپنے پاس رکھتے تھے تو اس وقت کا واقعہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ تھا.ان دنوں جلسے کے لئے الگ چندہ جمع ہو کر نہیں جاتا تھا.حضرت مسیح موعود اپنے پاس سے صرف فرماتے تھے، خرچ کرتے تھے.تو میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آ کر عرض کیا کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سامان نہیں ہے.آپ نے فرمایا بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر یعنی حضرت اماں جان کا کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے اس کو بیچ دو اور اس سے اتنا لے لو جس سے رات کی مہمان نوازی کا سامان ہو جائے.چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچایا.دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت، کہتے ہیں میری موجودگی میں کہا کل کے لئے پھر کچھ نہیں ہے.فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کر دیا تھا.پہلے تو میں نے جو ظاہری اسباب تھے زیور گھر میں پڑا ہوا تھا اس کو پکوا کے انتظام کر دیا تھا اب ہمیں ضرورت نہیں ہے، جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا.یعنی اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں وہ خود انتظام کر لے گا.تو اگلے دن کہتے ہیں کہ آٹھ یا نو بجے صبح جب چھٹی رساں (ڈا کیا) آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا.چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈرز ہوں گے جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے سوسو پچاس پچاس روپے کے (اس زمانے میں سو اور پچاس کی بہت قیمت تھی ) اور اس پر لکھا تھا کہ ہم حاضری کے لئے معذور ہیں یعنی جلسے پر حاضر نہیں ہو سکتے ، مہمانوں کے اخراجات کے لئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں.وہ آپ نے وصول فرمائے پھر تو کل پر ایک تقریر فرمائی.اور بھی چند آدمی تھے جہاں آپ کی نشست تھی.وہاں کا یہ ذکر ہے.فرمایا کہ جیسا کہ دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا نکال لوں گا اس سے زیادہ ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر توکل

Page 529

$2004 524 خطبات مسرور کرتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے.اور ایسا ہی ہوتا ہے جب ضرورت ہوتی ہے فور خدا تعالیٰ بھیج دیتا ہے.آپ نے فرمایا جس کے مہمان ہیں آپ ہی سنبھال لے گا.تو اللہ تعالیٰ نے فور ارقم کا انتظام کر دیا.(سيرت المهدی حصه چهارم غیر مطبوعه روایات نمبر 1126 صفحه 563,564) تو جہاں تک آجکل فی زمانہ مہمان نوازی کے اخراجات کا تعلق ہے وہ تو اللہ تعالیٰ مہیا کرتا ہے اس کی تو کوئی فکر کی بات نہیں ہے لیکن یہ یاد رکھیں کہ مہمانوں کی مہمان نوازی میں کوئی تخصیص یا فرق نہیں ہونا چاہئے.ایک غیر از جماعت کا آپ کی مہمان نوازی اور جماعت کے احباب کی مہمان نوازی کے بارے میں تبصرہ ہے.مولوی ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی تھے ابو النصر آہ مئی 1905 ء کو قادیان تشریف لائے اور اخبار وکیل میں اپنے سفر قادیان کی داستان لکھی.اس میں یہ اس طرح لکھتے ہیں.میں نے اور کیا دیکھا ، قادیان دیکھا، مرزا صاحب سے ملاقات کی ، مہمان رہا، مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہئے.میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے اور میں شور غذا ئیں کھا نہیں سکتا تھا ( یعنی زیادہ نمک مرچ والی نہیں کھا سکتے تھے ) مرزا صاحب نے جبکہ وہ گھر سے تشریف لائے دودھ اور پاؤ روٹی تجویز فرمائی.کارکنان کو کہا ان کو دودھ اور روٹی دو کیونکہ یہ مرچیں نہیں کھا سکتے.پھر کہتے ہیں آجکل مرزا صاحب قادیان سے باہر ایک وسیع اور مناسب باغ جو خود انہی کی ملکیت ہے.میں قیام پذیر ہیں.بزرگان ملت بھی وہیں ہیں.قادیان کی آبادی تقریباً 3 ہزار آدمی کی ہے مگر رونق اور چہل پہل بہت ہے.نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی شاندار اور بلند عمارت تمام بستی میں صرف ایک ہی عمارت ہے.راستے کچے اور نا ہموار ہیں بالخصوص وہ سڑک جو بٹالہ سے قادیان تک آتی ہے.اپنی نوعیت میں سب پر فوق لے گئی ہے (یعنی کہ ایسی خراب سڑک ہے جو خراب سڑکوں میں یا سفر کی مشکلات میں سب سے بڑھ گئی ہے ) کہتے ہیں آتے ہوئے یکے میں مجھے ٹانگے میں جس قدر تکلیف ہوئی تھی نواب صاحب کے رتھ نے کوٹنے کے وقت

Page 530

$2004 525 خطبات مسرور تخفیف کر دی.آئے تو ٹانگے پہ تھے واپسی پر نواب محمد علی خاں صاحب نے رتھ دے دی تھی اس سے کہتے ہیں کہ میرا سفر نسبتاً آسان ہو گیا.پھر آگے لکھتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہوتا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی میں آگے نہ بڑھ سکتا، اتنا گندا راستہ تھا.پھر کہتے ہیں کہ اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی.چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا.(سیرت حضرت مسیح موعود مرتبه یعقوب علی عرفانی صاحب صفحه 145-144) یہ نمونے ہمیں ہمیشہ قائم رکھنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم پوری توجہ کے ساتھ اور انشراح صدر کے ساتھ خوش دلی سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر سکیں.اور یہاں ان دنوں میں کسی کو کوئی بھی تکلیف نہ ہو.جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ لمبے تجربے سے ماشاء الله اور معاونین بھی اس قابل ہو چکے ہیں کہ ان مہمانوں کی خدمت احسن طور پر انجام دے سکیں.تو اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ خدمت کرنی چاہئے اور ہمیشہ صبر ، حو صلے اور دعا کے ساتھ اس خدمت پر کمر بستہ رہیں، اس خدمت کو کرتے رہیں اور اپنے کسی قریبی عزیز کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت اقدس مسیح موعود کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق پائیں.علاوہ ان لوگوں کے جوڈیوٹی پر ہیں وہ تو خدمت پر مامور ہیں، خدمت کریں گے لندن میں رہنے والے اور اسلام آباد کے ماحول میں رہنے والوں سے بھی امید ہے کہ وہ بھی مہمان نوازی کے نمونے دکھائیں گے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.

Page 531

Page 532

خطبات مسرور اته 31 $2004 527 جلسوں پر آنے والے صرف میلے کی صورت میں اکٹھے ہو جانے کا تصور لے کر نہ آئیں.جلسہ کی تقاریر کو پورے غور اور توجہ کے ساتھ سنیں.۳۰ جولائی ۲۰۰۴ء بمطابق ۳۰ روفا ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام اسلام آباد.(ٹلفورڈ، یو.کے) جلسہ سالانہ کی اہمیت اور برکات جلسہ کے دنوں میں دعاؤں اور آپس میں محبت واخوت کا اظہار رہے جلسہ کے دنوں میں نمازوں کا اہتمام بالخصوص کریں صفائی، قواعد کی پابندی اور سیکورٹی کا اہتمام کریں

Page 533

خطبات مسرور $2004 528 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ انگلستان کا 38 واں جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.آپ سب لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ تین دن گزارنے کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں.اللہ کرے کہ آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اُن مقاصد کو حاصل کرنے والے ہوں جو ان جلسوں کے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : تمام خلصین ، داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو.اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے.اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو.پھر جلسے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ : ” قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسے کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین ، اگر خدا تعالیٰ چاہے، بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں“.(آسمانی فیصله، روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحه (351) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگ جو میری بیعت میں شامل ہو ،صرف زبانی دعوے کی حد تک نہ رہو.اب تمہیں اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہئے.اور وہ کیا باتیں ہیں جو تمہارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہوں، فرمایا کہ وہ باتیں یہ ہیں اور اگر تم یہ باتیں اپنے اندر پیدا کر لوتو

Page 534

529 $2004 خطبات مسرور میں سمجھوں گا کہ تم نے مجھے حقیقت میں پہچان لیا اور جس مقصد کے لئے تم نے بیعت کی تھی اس کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہو.پہلی بات تو یہ یا درکھو کہ میری بیعت میں داخل ہو کر تمہارے اندر سے، تمہارے دل میں سے دنیا کی محبت نکل جانی چاہئے.اگر یہ نہ نکال سکو تو تمہارا بیعت کرنے کا مقصد پورا نہیں ہو.اگر دنیا کے کاروبار تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکتے ہیں.تمہاری ملازمتیں ،تمہاری تجارتیں حقوق اللہ کی ادائیگی میں روک ہیں.تمہارے کاروبار، تمہاری انائیں، تمہاری دنیاوی عزتیں، شہر تیں، تمہارے پر جو اللہ کی مخلوق کے حقوق ہیں ان کی راہ میں روک بن رہی ہیں تو پھر تمہارا میری جماعت میں شامل ہونے کا مقصد پورا نہیں ہوتا.پھر اللہ تعالیٰ کی محبت، حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایک اہم تبدیلی جو تمہیں اپنے اندر پیدا کرنی ہو گی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے، آپ سے محبت دنیا کی تمام محبتوں سے بڑھ کر ہونی چاہئے کیونکہ اب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے تمام راستے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں فنا ہونے سے ہی ملیں گے، آپ کے پیچھے چلنے سے ہی ملیں گے، آپ کے احکام پر عمل کرنے سے ہی ملیں گے، آپ کی سنت پر عمل کرنے سے ہی ملیں گے.اس لئے اس محبت کو اپنے پر غالب کرو کیونکہ فرمایا کہ میں تو خود اس محبوب کا عاشق ہوں.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تم میری بیعت میں شامل ہونے والے شمار ہو اور پھر میرے پیارے سے تمہیں محبت نہ ہو، وہ محبت نہ ہو جو مجھے ہے یا جس طرح مجھے ہے.پھر فرمایا کہ دنیا کی اس چکا چوند سے تمہیں کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے.تمہارے یہ مقاصد ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لئے اللہ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرو.اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرو.اللہ کی مخلوق کے حقوق ادا کر و اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ادائیگی میں اس قدر کھوئے جاؤ کہ تمہیں یہ احساس ہو کہ یہ سب کچھ تم اللہ اور اس کے

Page 535

530 $2004 خطبات مسرور رسول کی محبت میں کر رہے ہو.جب یہ حالت ہوگی تو تم ان لوگوں کی طرح کف افسوس نہیں مل رہے ہو گے جو بستر مرگ موت کے بستر پر بڑی بیچارگی اور پریشانی سے یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ کاش ہم نے بھی زندگی میں کوئی نیک کام کیا ہوتا، اللہ تعالیٰ کی عبادت، خالص اس کی عبادت کرتے ہوئے کی ہوتی.بہت سے لوگ بیعت کرنے کے بعد اپنے کاروبار زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں اور کاروبار زندگی میں مصروف ہونا بھی منع نہیں بلکہ ضروری ہے کہ انسان اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنے کے سامان پیدا کرے.لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہی تمام کام کرنے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنے کے لئے بھی کوشش کرنی ہے تا کہ ، جیسا کہ پہلے ذکر کر آیا ہوں، بیعت کے مقاصد بھی حاصل ہوں.تو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ، ٹرینگ کے لئے سال میں تین دن جماعت کے افراد اکٹھے ہوتے ہیں اور سوائے کسی اشد مجبوری کے تمام احمدی اس میں شامل ہونے کی کوشش کریں.یہی آپ کا منشا تھا.کیونکہ ٹرینگ بھی بہت ضروری چیز ہے.اس کے بغیر تو تربیت پر زوال آنا شروع ہو جاتا ہے، تربیت کم ہونی شروع ہو جاتی ہے، کمی آنی شروع ہو جاتی ہے دیکھ لیں دنیا میں بھی اپنے ماحول میں نظر ڈالیں تو ہر فیلڈ میں ترقی کے لئے کوئی نہ کوئی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹریننگ لینے کے بعد پھر بھی ریفریشر کورسز بھی ہو رہے ہوتے ہیں، سیمینارز وغیرہ بھی ہو رہے ہوتے ہیں تا کہ جو علم حاصل کیا ہے اسے مضبوط کیا جائے، مزید اضافہ کیا جائے.ٹریننگ کے لئے کمپنیاں بھی اپنے ملازمین کو دوسری جگہوں پہ بھجواتی ہیں.ملک کی فوجیں سال میں ایک دفعہ عارضی جنگ کے ماحول پیدا کر کے اپنے جوانوں کی ٹریننگ کرتی ہیں.یہ اصول ہر جگہ چلتا ہے تو دین کے معاملے میں بھی چلنا چاہئے.اس لئے اپنی دینی حالت کو سنوارنے کے لئے جلسوں پر ضرور آئیں اس سے روحانیت میں

Page 536

531 $2004 خطبات مسرور بھی اضافہ ہوگا اور دوسرے متفرق فوائد بھی حاصل ہوں گے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ : حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئے.اور اس جلسے میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعا ئیں اور خاص توجہ ہوگی.اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے.اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر ایک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے.اور وشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا.اور جو بھائی اس عرصے میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسے میں اُس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی.اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ عزت جل شانہ کوشش کی جائے گی.اور اس روحانی جلسے میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گئے“.(آسمانی فیصله، روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحه 352-351) پس تمہاری ٹریننگ کے لئے تمہارے علم میں اضافے کے لئے اور جو جانتے ہیں یا جن کو یہ خیال ہے کہ ان کو پہلے ہی کا فی علم ہے ان کے بھی علم کو تازہ کرنے کے لئے ایسے طرز پر یہ ٹرینگ کو رس ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے عرفان کے بارے میں تمہارے اضافے کا باعث بنے گا، اس کے رسول اور اس کی کتاب کی حکمت کی باتوں کے بارے میں تمہیں معرفت حاصل ہو گی بہت سے نئے زاویوں کا تمہیں پتہ چل جائے گا کیونکہ ہر شخص ہر بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا.حضرت مسیح موعود یہ معرفت کی باتیں خود ہی بیان کر دیا کرتے تھے اور اُس زمانے میں

Page 537

$2004 532 خطبات مسرور حقائق بھی پتہ چلتے رہتے تھے لیکن اب بھی جو ارشادات آپ نے بیان فرمائے انہیں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، انہیں کو سمجھتے ہوئے، انہیں تفسیروں پر عمل کرتے ہوئے ماشاء اللہ علماء بڑی تیاری کر کے جہاں جہاں بھی دنیا میں جلسے ہوتے ہیں اپنی تقاریر کرتے ہیں، خطابات کرتے ہیں اور یہ باتیں بتاتے ہیں.تو آج بھی ان جلسوں کی اس اہمیت کو سامنے رکھنا چاہئے.وہی اہمیت آج بھی ہے اور تقاریر جب ہو رہی ہوں تو ان کے دوران تقاریر کو خاموشی سے سننا چاہئے.پھر آپ نے فرمایا کہ شامل ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کی بھی توفیق ملتی ہے.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں آج بھی شاملین جلسہ کے لئے برکت کا باعث ہیں کیونکہ آپ نے اپنے ماننے والوں کے لئے جو نیکیوں پر قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی سچی محبت دل میں رکھتے ہیں ، قیامت تک کے لئے دعائیں کی ہیں.پھر یہاں آکر ایک دوسرے کی دعاؤں سے بھی حصہ لیتے ہیں.ضمنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں.ایک دوسرے کی پہچان ہو جاتی ہے، حالات کا پتہ لگ جاتا ہے.اب تو دنیا یوں اکٹھی ہو گئی ہے، فاصلے اتنے کم ہو گئے ہیں کہ تمام دنیا کے لوگ کم از کم نمائندگی کی صورت میں یہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں جس سے ایک دوسرے کے حالات کا پتہ چلتا ہے، ان کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق ملتی ہے.پھر آپس میں اس طرح گھلنے ملنے سے، اکٹھے ہونے سے محبت واخوت بھی قائم ہوتی ہے.آپس میں تعلق اور پیار بھی بڑھتا ہے اور بعض دفعہ حقیقی رشتہ داریاں بھی قائم ہو جاتی ہیں کیونکہ بہت سے تعلق پیدا ہوتے ہیں.رشتہ ناطے کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں.اور اس سے جماعت میں جو مضبوطی پیدا ہونی چاہئے وہ پیدا ہوتی ہے اور اجنبیت بھی دور ہوتی ہے.ایک دوسرے کے لئے بغض و کینے کم ہوتے ہیں اور جب ایسی باتوں کا، آپس میں لوگوں کی رنجشوں کا پتہ لگتا ہے تو ان کے لئے پھر دعائیں کرنے کا بھی موقع ملتا ہے.اور پھر جو دوران سال وفات پاگئے ہیں ان کی مغفرت کے لئے بھی دعا کرنے کا موقع ملتا ہے.جیسا کہ

Page 538

$2004 533 خطبات مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی باتوں کے سنانے کا شغل رہے گا.لیکن جلسوں پر آنے والے صرف میلے کی صورت میں اکٹھے ہو جانے کا تصور لے کر نہ یہاں آئیں.جب یہاں آئیں تو غور سے ساری کارروائی کوسننا چاہئے.اگر اس بارے میں سستی کرتے ہیں تو پھر تو یہاں آکر بیٹھنا اور تقریریں سننا کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا.اس لئے باہر سے آنے والے بھی جو خرچ کر کے آئے ہیں اور یہاں کے رہنے والے بھی جلسے کی تقریروں کے دوران پورا پورا خیال رکھیں اور بڑے غور اور دلجمعی سے جلسے کی کارروائی کوسنیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے.پورے غور اور فکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے.اس میں سستی ،غفلت اور عدم توجہ بہت برے نتائج پیدا کرتی ہے.جولوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جائے تو غور سے اس کو نہیں سنتے ، ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجے کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا.ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں.پس یا درکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑے غور سے سنو.کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتناوہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.(الحكم ۱۰ مارچ ۱۹۰۲ء) دیکھیں کس قدر ناراضگی کا اظہار فرمایا ان لوگوں کے لئے جو جلسہ پر آ کر پھر جلسہ کی کارروائی کو توجہ سے نہیں سنتے.تو ایسے لوگوں کی حالت ایسی ہے کہ باوجود کان اور دل رکھنے کے نہ سننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ رحم کرے اور ہر احمدی کو اس سے بچائے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں.میں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل وقال جو لیکچروں میں ہوتی ہے

Page 539

$2004 534 خطبات مسرور اس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آکر اس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کر رہا ہے.الفاظ میں کیسا زور ہے.میں اس بات پر راضی نہیں ہوتا.میں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا یہی اقتضا ہے.یہی تقاضا کرتی ہے کہ ” جو کام ہو اللہ کے لئے ہو.جو بات ہو خدا کے واسطے ہو.مسلمانوں میں ادبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے“.یعنی کمزوریاں اور گراوٹ جو آئی ہے اس کی یہی وجہ ہے، ورنہ اس قدر کا نفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لستان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اور تقریریں کرتے شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں.وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا.قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزل ہی کی طرف جاتی ہے“.فرمایا کہ: ”بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے.(ملفوظات جلد اول صفحه 265-266ـ الحكم جلد ٤ نمبر ۳ صفحه تا ۱۱ خط عبدالكريم مؤرخه ۱۹۰۰ء) بعض دفعہ لوگ جلسے کے دوران باہر آ جاتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ فلاں مقرر کا جو انداز ہے، جس طرح وہ بیان کر رہا ہے میں تو اس طرح نہیں سن سکتا اس لئے باہر آ گیا ہوں.یہ بھی ایک طرح کا تکبر ہے.اور چاہے کوئی مقرر دھواں دار تقریر کرتا ہے یا نہیں ، چاہے وہ اپنے الفاظ اور آواز کے جادو سے آپ کے جذبات کو ابھارتا ہے یا نہیں، تقریریں سنیں اور ان میں علمی اور روحانی نکتے تلاش کریں اور پھر ان سے فائدہ اٹھائیں.فرمایا کہ جو صرف آواز اور الفاظ کے جادو سے متاثر ہونے والے ہوتے ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتے کیونکہ وقتی اثر ہوتا ہے اور مجلس سے اٹھ کر جاؤ تو اثر ختم ہو گیا.اور یہی بات ایک احمدی میں نہیں ہونی چاہئے.پھر آپ نے فرمایا کہ : ” اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی

Page 540

$2004 535 خطبات مسرور اور پر ہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں.پھر فرمایا کہ یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ نخواہ التزام اس کالا زم ہے.بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے ورنہ غیر اس کے پیچے.یعنی اس کی اصل نیت جو ہے وہ روحانی عزت کو بڑھانے کی ہے.اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی ہے رسول کی محبت حاصل کرنے کی ہے.ورنہ تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے.اور فرمایا کہ ” جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجر بہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد کہ اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے ایک معصیت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے.میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں.صرف اس لئے اکٹھا نہیں کرتا کہ نظر آئے کہ لوگوں کا کتنا مجمع اکٹھا ہو گیا ہے.بلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاح خلق اللہ ہے.وہ مقصد جس کے لئے یہ وجہ پیدا کی گئی ہے وہ اللہ کی مخلوق کی اصلاح ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہرا دے.اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چار پائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سویا رہوں.یعنی میری حالت پر افسوس ہے کہ میں امن سے سویا رہوں.اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے

Page 541

$2004 536 خطبات مسرور آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں.اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں.بلکہ مجھے چاہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے.اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ میں اس سے کوئی ٹھٹھا کروں یا چیں بر جبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بد نیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں.کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو، جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے جب تک وہ اپنے آپ کو ہر ایک سے ذلیل نہ سمجھے اور ساری مشیخیں دور نہ ہو جائیں.خادم القوم ہونا مخدوم بنے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الہی ہونے کی علامت ہے.اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے.(شهادت القرآن روحانی خزائن جلد نمبر 6 صفحه 394-396) | یہاں پر آپ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جلسہ پر شامل ہو کر جلسہ کی تقریروں کو سن کر پھر بھی اگر اس طرف توجہ نہیں ہوتی تو جلسوں پر آنا بے فائدہ ہے.جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ جلسہ پرآئیں وقتی جوش پیدا ہوجیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور جلسہ ختم ہوتے ہی باہر جا ئیں تو جذبات پر اتنا سا بھی کنٹرول نہ رہے کہ دوسرے کی کوئی بات ہی برداشت کر سکیں.اگر یہ حالت ہی رکھنی ہے تو بہتر ہے کہ پھر جلسے پر نہ آئیں.یہاں کئی واقعات ایسے ہو جاتے ہیں جن کو اپنے آپ پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا.صحیح طور پر نہ خود جلسہ سنتے ہیں اور نہ ہی دوسرے کو سننے دیتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر پھر سر پٹول بھی ہو رہی ہوتی ہے.تو ایسے لوگ پھر وہی لوگ ہیں جیسے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کان رکھتے ہیں اور سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں اور سمجھتے نہیں.ذرا غور کریں یہ کون لوگ ہیں؟ اللہ

Page 542

$2004 537 خطبات مسرور تعالیٰ نے یہ ان لوگوں کی نشانی بتائی ہے جو انبیاء کا انکار کرنے والے ہیں.جب اس طرح کے رویے اختیار کرنے ہیں تو پھر جب نظام جماعت ایکشن لیتا ہے پھر یہ شکایت ہوتی ہے کہ کارکنان نے ہمارے ساتھ بدتمیزی کی ہے اور ہمیں یہ کہا اور وہ کہا.یہ ٹھیک ہے میں نے کارکنان کو بھی بڑی دفعہ یہ سمجھایا ہے کہ براہ راست ان کو کچھ نہیں کہنا، ایسے لوگوں کو جوا اپنے عمل سے خود کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نظام کو کچھ نہیں سمجھتے، جلسے کے تقدس کو کچھ نہیں سمجھتے تو پھر ان کا ایک ہی علاج ہے کہ اس تکبر کی وجہ سے ان کو پولیس میں دے دیا جائے.گزشتہ سال بھی ایسے ایک دو واقعات ہوئے تھے.تو اگر اس سال بھی کوئی اس نیت سے آیا ہے کہ بجائے اس کے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت واخوت پیدا کرے، یہ نیت ہے کہ فساد پیدا کرے تو پھر جلسے پر نہ آنا ہی بہتر ہے اور اگر آئے ہوئے ہیں تو بہتر ہے کہ چلے جائیں تا کہ نظام جماعت کے ایکشن پر پھر شکوہ نہ ہو.گزشتہ جمعہ میں میں نے کارکنان کو اور یہاں کے رہنے والوں کو جو لندن یا اسلام آباد کے ماحول میں رہ رہے ہیں، یہ کہا تھا کہ مہمان نوازی کے بھی حق ادا کریں.لیکن آنے والے مہمانوں کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ وہ ڈیوٹی پر مامور کارکنوں کو ابتلاء میں نہ ڈالیں اور جو نظام ہے اس سے پورا پورا تعاون کریں.اس لئے جہاں خدمت کرنے والے کارکنان مہمانوں کی خدمت کے لئے پوری محنت سے خدمت انجام دے رہے ہیں وہاں مہمانوں کا بھی فرض ہے کہ مہمان ہونے کا حق بھی ادا کریں اور جس مقصد کے لئے آئے ہیں اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو پاک تبدیلیاں ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کریں.آپ فرماتے ہیں کہ نیکی کو محض اس لئے کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو.قطع نظر اس کے کہ اس پر ثواب ہو یا نہ ہو.ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جب کہ یہ وسوسہ اور وہم درمیان سے اٹھ جاوے اگر چہ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا.اِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِين.مگر نیکی کرنے والے کو اجر مدنظر نہیں رکھنا

Page 543

$2004 538 خطبات مسرور چاہئے.دیکھو اگر کوئی مہمان یہاں محض اس لئے آتا ہے کہ وہاں آرام ملے گا، ٹھنڈے شربت ملیں گے یا تکلف کے کھانے ملیں گے تو وہ گویا ان اشیاء کے لئے آتا ہے.حالانکہ خود میز بان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کرے اور اس کو آرام پہنچاوے اور وہ پہنچا تا ہے.لیکن مہمان کا خود ایسا خیال کرنا اس کے لئے نقصان کا موجب ہے.(تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد سوم صفحه (542) پس جو مہمان آ رہے ہیں اس نیک مقصد کے لئے آئیں اور اگر کوئی سہولت میسر آ جائے اور آرام سے یہ دن کٹ جائیں تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے یہ سامان مہیا فرما دیئے.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بغیر اجر کے کسی نیکی کو جانے نہیں دیتا تو آپ کے یہاں آنے کے مقصد کو ضائع نہیں کرے گا اور بے شمار فضل اور رحمتیں نازل ہوں گی.ایک حدیث میں آتا ہے.ایک دعا ہے جو آنے والے مہمانوں کو پڑھتے رہنا چاہئے.حضرت خولہ بنت حکیم بیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص کسی مکان میں رہائش اختیار کرتے وقت یا کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے وقت یہ دعامانگے کہ اَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ یعنی میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اور اس شر سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے پناہ چاہتا ہوں.تو اس شخص کو یہاں کی رہائش ترک کرنے یا اس جگہ سے کوچ کرنے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی.(مسلم كتاب الذكر باب التعوذ من سوء القضاء ودرك الشقاء وشره یہ دعائیں پڑھتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہر آنے والے کو ہر شر سے بچائے اور نیک اثرات لے کر یہاں سے جائیں اور نیک اثرات چھوڑ کر جائیں.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسے پر آنے والے مہمانوں کو یہ مقصد پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آپس میں محبت واخوت پیدا ہو تو اس بات میں جو تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہے اس کا بھی اس روایت سے اظہار ہوتا ہے.

Page 544

$2004 539 مسرور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ کون سا اسلام سب سے بہتر ہے.فرمایا ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے ، سلام کہو.(صحیح بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام تو جب اس طرح سلام کا رواج ہوگا تو آپس میں محبت بڑھے گی.اور انشاء اللہ تعالیٰ جب آپ ایک دوسرے کو سلام کر رہے ہوں گے، ہر طرف سلام سلام کی آواز میں آ رہی ہوں گی تو یہ جلسہ محبت کے سفیروں کا جلسہ بن جائے گا کیونکہ محض اللہ یہ سب عمل ہور ہا ہوگا تو اللہ کی پیار کی خاص نظر بھی آپ پر پڑ رہی ہوگی.اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر عورتیں بھی ، بچے بھی ، مرد بھی سلام کو بہت رواج دیں.کیونکہ اس سے ایک تو محبت بھی آپس میں بڑھے گی اور پھر اسلام کا صحیح نمونہ بھی پیش ہو رہا ہو گا جو غیروں کو بھی نظر آ رہا ہوگا.اب بعض متفرق باتیں جو جلسہ کے تعلق میں ہیں میں کہنا چاہتا ہوں جو مہمانوں، میزبانوں، ڈیوٹی والوں ہر ایک کے لئے ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ مسجد میں اور مسجد کے ماحول میں اس کے آداب اور تقدس کا خیال رکھیں.مسجد فضل میں جب یہاں سے جائیں گے وہاں بھی کافی رش ہوتا ہے.جلسہ کے دنوں میں یہ مار کی بھی مسجد کا ہی متبادل ہے بلکہ یہ پورا علاقہ یعنی جلسہ گاہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق وہی نظارے نظر آنے چاہئیں جو ایک ایسے پاکیزہ مقدس ماحول میں ہونے چاہئیں.جہاں صرف اللہ اور اس کے رسول کی باتیں ہورہی ہوں ، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی باتیں ہو رہی ہوں.جلسہ کے ایام ذکر الہی اور درود شریف پڑھتے ہوئے گزاریں اور التزام کے ساتھ بڑی با قاعدگی کے ساتھ توجہ کے ساتھ نماز با جماعت کی پابندی کریں.

Page 545

$2004 540 مسرور نمازوں اور جلسے کی کارروائی کے دوران بچوں کی خاموشی کا بھی انتظام ہونا چاہئے.ڈیوٹی والے بھی اس چیز کا خاص خیال رکھیں اور مائیں اور باپ بھی اس کا بہت خاص خیال رکھیں اور ڈیوٹی والوں سے اس سلسلے میں تعاون کریں.جو جگہیں بچوں کے لئے بنائی گئی ہیں وہاں جا کے چھوٹے بچوں کو بٹھا ئیں تا کہ باقی جلسہ سننے والے ڈسٹرب نہ ہوں.ا جلسہ کے دوران اگر کسی غیر از جماعت مہمان کی تقریر آپ سنیں ، اس میں سے آپ کو کوئی بات پسند آئے اور اس کو خراج تحسین دینا چاہتے ہوں تو اس کے لئے تالیاں بجانے کی بجائے جو ہماری روایات ہیں اللہ اکبر کا نعرہ لگانا.ماشاء اللہ وغیرہ کہنا ایسے کلمات ہی کہنے چاہئیں کیونکہ تالیاں بجانا ہمارا شعار نہیں ہے.ہماری اپنی بھی کچھ روایات ہیں اور ان کا خیال رکھنا چاہئے.یہاں پر بھی اور دنیا میں جہاں جہاں جلسے ہوتے ہیں انہیں روایات کا خیال رکھنا چاہئے.نعروں کے ضمن میں یادرکھیں کہ ہر کوئی اپنی مرضی سے نعرے نہ لگائے بلکہ انتظامیہ نے اس کے لئے پروگرام بنایا ہوا ہے، نعرے لگانا کچھ لوگوں کے سپر د کیا ہوا ہے.وہی جب نعرے لگانے کی ضرورت محسوس کریں گے تو نعرے لگا دیں گے.لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو اگر نعرے نہ لگ رہے ہوں تو تقریر کے دوران نیند آ جاتی ہے.ایسے لوگوں کے لئے پھر نعروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بے وجہ نعرے لگاتے جائیں تو نظم یا تقریر جو ہورہی ہوتی ہے بعض دفعہ اس کا مزا نہیں رہتا.ایسے لوگ جن کو نیند آ رہی ہو خا موشی سے ساتھ والا ان کو ٹھوکا مار کر جگا دیا کرے.انگلستان کے احمدیوں کو، بہت سارے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں شامل ہو چکے ہیں حضرت اقدس مسیح موعود کی خواہش تو تھی کہ ہر کوئی شامل ہو، تو خاص طور پر ذوق شوق سے جلسے میں شامل ہونا چاہئے.جو ابھی تک نہیں آئے وہ بھی کوشش کریں کہ کم از کم کل صبح جلسے کا سیشن شروع ہونے سے پہلے پہلے آجائیں کیونکہ بغیر کسی جائز عذر کے جلسے سے غیر حاضر نہیں رہنا چاہئے.بعض

Page 546

$2004 541 خطبات مسرور دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ صرف دو دن یا آخری دن ہی آجاتے ہیں.ان کو کوئی مجبوری نہیں ہوتی کیونکہ ہفتہ اتوار تقریباً ہر ایک کا فارغ ہوتا ہے.اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ جائیں گے آخری دن کچھ ملاقاتیں ہو جائیں گی کچھ لوگوں سے مل لیں گے.ٹھیک ہے آپ نے ایک مقصد تو پورا کر لیا لیکن صرف یہی مقصد ہی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت پیدا کرنا سب سے بڑا مقصد ہے.یہ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ تقاریر کو با قاعدہ سنا کریں جس حد تک ممکن ہوسننا چاہئے اور اس میں ڈیوٹی والے کارکنان بھی ، اگر ان کی اس وقت ڈیوٹی نہیں ہے ان کو تقاریر سننے کی طرف توجہ دینی چاہئے.ان ایام میں پورے التزام سے نمازوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں.لنگر خانے یا جہاں جہاں بھی ڈیوٹیاں ہیں وہاں بھی کارکنان کی با قاعدہ نمازوں کی ادائیگی کا انتظام ہونا چاہئے.اور ان کے افسران کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں.نمازوں کے دوران جو آپ مارکی کے اندر نمازیں پڑھنے کے لئے آتے ہیں تو نماز شروع ہونے سے پہلے ہی آ کے بیٹھ جایا کریں.کیونکہ یہاں لکڑی کے فرش ہیں گو اس کے اوپر پتلا سا قالین تو بچھا ہوا ہے لیکن چلنے سے اس قدر آواز اور شور آتا ہے کہ جب نماز شروع ہو جائے تو پھر نماز خراب ہو رہی ہوتی ہے.دوسروں تک جونماز پڑھ رہے ہوتے ہیں آواز ہی نہیں پہنچتی.کل بھی مغرب کی نماز کے وقت شور کا تسلسل تھا جو دوسری رکعت تک رہا.اس لئے نماز میں پہلے آکر بیٹھا کریں.بعض لوگوں کو موبائل فون بڑے اہم ہوتے ہیں (اس وقت بھی شاید کسی کا فون بج رہا ہے اگر اتنے اہم فون آنے کا خیال ہو تو پھر وہ فون رکھیں جو اچھی قسم ہیں جن کی آواز کم کی جاسکتی ہے.جیب میں رکھیں اس کی وائبریشن (Vibration) سے آپ کو احساس ہو جائے کہ فون آیا ہے اور باہر جا کر سن لیں.کم از کم لوگوں کو نمازوں کے دوران جلسوں کے دوران اور تقریروں کے دوران ڈسٹرب نہ کیا کریں.

Page 547

$2004 542 مسرور جلسے کے دوران بازار بند رہنے چاہئیں اور آنے والے مہمان بھی سن لیں اور یہاں رہنے والے بھی سن لیں ، ڈیوٹیاں دینے والے بھی سن لیں.پہلے کہا جاتا تھا کہ اگر مجبوری ہو تو چند ضرورت کی چیزیں مہیا ہو سکتی ہیں وہ دکانیں کھلی رہیں گی اور انتظامیہ جائزہ لیتی تھی کہ کون کون سی دکانیں کھلی رہیں یا نہ کھلی رہیں.لیکن کل بازار کا خود میں نے جو جائزہ لیا ہے اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کوئی دکان کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.جلسے کے دوران تمام دکانیں بندر ہیں گی اور دکاندار جنہوں نے سٹال لگائے ہوئے ہیں وہ سب جلسہ کی کارروائی سنیں اور کوئی گاہک بھی ادھر نہیں جائے گا کسی قسم کی خرید و فروخت نہیں ہونی چاہئے.کیونکہ اگر ایمر جینسی میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو جو نظام ہے جلسہ سالانہ کا اس کے تحت وہ چیزیں مہیا ہو جاتی ہیں.اس لئے کسی قسم کی دکانیں کھولنے کی ضرورت نہیں.فضول گفتگو سے اجتناب کریں.آپس کی گفتگو میں دھیما پن اور وقار قائم رکھیں.سخت گفتگو، تلخ گفتگو سے پر ہیز کرنا چاہئے.کیونکہ محبت اور بھائی چارے کی فضا بھی اسی طرح پیدا ہو گی.بات چیت میں بھی ایک دوسرے کا خیال رکھیں.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نو جوانوں میں تو تو میں میں شروع ہو جاتی ہے.اس سے اجتناب کرنا چاہئے پر ہیز کرنا چاہئے ، بچنا چاہئے.ی ٹولیوں میں بعض دفعہ بیٹھے ہوتے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں، باتیں کر رہے ہوتے ہیں.یہ بھی اچھی عادت نہیں ہے.بعض دفعہ بہت سے غیر ملکی بھی یہاں آئے ہوئے ہیں ان لوگوں کی مختلف زبانیں ہیں.زبانیں نہیں سمجھتے جب آپ بات کر رہے ہوں اور کوئی قریب سے گزرنے والا بعض دفعہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید میرے یہ کوئی تبصرہ ہو رہا ہے یا مجھ پر ہنسا جا رہا ہے.تو ماحول کو خوشگوار کھنے کے لئے ان چیزوں سے بھی بچنا چاہئے.

Page 548

$2004 543 مسرور اسلام آباد کے ماحول میں بھی جو اسلام آباد میں سڑکیں آتی ہیں وہ بہت چھوٹی سڑکیں ہیں.یہاں بھی شور شرابے یا ہارن وغیرہ یا ہر قسم کی ایسی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہئے کیونکہ یہاں کے لوگوں کو بعض دفعہ اعتراض پیدا ہوتا ہے.کل بھی کسی نے مجھے بتایا کہ یہاں اخبار میں خبر تھی کہ لوگوں کو اعتراض پیدا ہورہا ہے کہ شور ہوتا ہے اس لئے اس ماحول کا لحاظ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا یہاں شور شرابہ نہیں ہونا چاہئے.گاڑیاں پارک کرتے ہوئے بھی خیال رکھیں کہ گھروں کے سامنے یا ممنوعہ جگہوں پر پارک نہ ہوں.ٹریفک کے قواعد کا بھی خیال رکھیں.جلسہ گاہ میں بھی جو پارکنگ کا شعبہ ہے منتظمین سے پورا تعاون کریں اور جہاں جہاں وہ کہتے ہیں وہیں گاڑیاں کھڑی کریں.ڈرائیونگ کے دوران ملکی قانون کی پوری پابندی کریں کیونکہ یورپ میں بعض جگہوں پر بعض سڑکوں پر Speed Limit ( حد رفتار ) کوئی نہیں ہے یا سپیڈ لمٹ یہاں سے زیادہ ہے.یہاں کی سپیڈ لمٹ میں اور وہاں کی سپیڈ لمٹ میں فرق ہے.اس کا یورپ جرمنی وغیرہ سے آنے والے خاص طور پر خیال رکھیں.ویزے کی میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے آپ نے اپنی اپنی جگہوں پر اپنے ملکوں میں واپس چلے جانا ہے.جن کو خاص طور پر جلسے کا ویز املا ہے ان کو تو اس بات کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے.اگر یہ پابندی نہیں کریں گے تو پھر جماعتی نظام بھی حرکت میں آ جاتا ہے.صفائی کے لئے خاص طور پر جہاں اتنا رش ہو، جگہ چھوٹی ہو اور تھوڑی جگہ پر عارضی انتظام کیا گیا ہو بہت ساری مشکلات پیش آتی ہیں.تو ہر کوئی یہ کوشش کرے کہ ٹائلٹ وغیرہ کی صفائی کا خاص طور پر خیال رکھیں.اگر کوئی کارکن نہیں بھی ہے اور کوئی جاتا ہے تو خود صفائی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے.آخر ایک دوسرے کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوا کرتا.آپس میں بھائی

Page 549

$2004 544 خطبات مسرور بھائی ہوں تو ایسے کام کر لینے چاہئیں.یہ نہیں ہے کہ کارکن آئے گا تب ہی صفائی ہوگی اور اس کی شکایت میں کروں گا اور انتظامیہ اس سے پوچھے گی تب ہی صفائی ہوگی.بلکہ چھوٹی موٹی اگر صفائی کی ضرورت ہو تو کر لینی چاہئے.کیونکہ صفائی کے بارے میں آتا ہے کہ یہ نصف ایمان ہے.خواتین بھی گھومنے پھرنے میں احتیاط اور پردے کی رعایت رکھیں.لیکن بعض دفعہ غیر خواتین بھی آئی ہوتی ہیں وہ تو ویسی پابندی نہیں کر رہی ہوتیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ جلسے پر آئی ہوئی ساری خواتین احمدی ہیں لیکن بعض غیر احمدی بھی ہوتی ہیں غیر از جماعت ہوتی ہیں تو وہ پابندی نہیں کر رہی ہوتیں.اس لئے انتظامیہ یہ خیال رکھے کہ عورتوں اور مردوں کے رش کے وقت راستے علیحدہ علیحدہ ہوجائیں.چھوٹے بچوں میں بھی ان دنوں میں خاص طور پر جماعتی روایات کا خیال رکھتے ہوئے ٹوپی پہنے کی عادت ڈالیں.ایسے بچے جو نمازیں پڑھنے کی عمر کے ہیں.اور اس طرح ایسی بچیاں جو اس عمر کی ہیں ان کو سر پر چھوٹا سا دو پٹہ بھی لے دینا چاہئے بجائے اس کے کہ یہاں کے لباس پہن کر پھریں.بعض دفعہ شکایت آ جاتی ہے گو یہ بہت معمولی ہے ایک آدھ کیس ایسا ہوتا ہوگا کہ بعض لفٹ دینے والے مہمانوں سے پیسے کا مطالبہ کرتے ہیں.یہ نہیں ہونا چاہئے.تو مہمانوں کی عزت و اکرام اور خدمت کے بارے میں میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں اس کو خاص اہمیت دیں.محبت خلوص ایثار اور قربانی کے جذبے کے تحت ان کی خدمت کریں.یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں ان کے ساتھ نرم لہجہ اور خوشدلی سے بات کریں.یہ فصیلی ہدایت تو پہلے میں دے چکا ہوں.جو مہمان آ رہے ہیں وہ بھی یہ خیال رکھیں کہ نظم و ضبط کا خاص خیال رکھیں اور منتظمین جلسہ سے پورا پورا تعاون کریں.ان کی ہر طرح سے اطاعت کریں.بعض مائیں اپنے بچوں کی بڑی غیرت رکھتی ہیں کوئی ڈیوٹی والا اگر کسی کو کچھ کہہ دے تو

Page 550

545 $2004 خطبات مسرور لڑنے مارنے پہ آمادہ ہو جاتی ہیں وہ بھی سن لیں کہ اگر وہ تعاون نہیں کر سکتیں اور اتنی غیرت ہے تو پھر جلسے کے وقت اس دوران اس مار کی میں نہ آئیں.کھانا کھاتے وقت بھی بعض باتیں دیکھنے میں آتی ہیں.بعض دفعہ ضیاع ہو جاتا ہے.اب اس دفعہ انہوں نے کچھ انتظام بدلا ہے.کیونکہ پہلے ہی پیکنگ کر کے دے رہے ہیں اور میں نے دیکھا ہے اتنی مقدار ہے کہ امید ہے ضائع نہیں ہوگی عموماً ایک آدمی اتنا کھا ہی لیتا ہے لیکن بعض کو بعض چیزیں نہ کھانے کی عادت ہوتی ہے.یہاں اگر آلو نہیں بھی پسند تب بھی مجبوراً کھا لیں اور ضائع نہ کریں کیونکہ پھر یہاں ڈمپ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتیں ایک دوسرے پر مذاق میں ہو رہی ہوتی ہیں وہ بھی بعض دفعہ بڑی لڑائیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ان سے بھی پر ہیز کریں، اجتناب کریں.اور زبان کی نرمی بڑی ضروری ہے.اور دونوں مہمان بھی اور میزبان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ نرم زبان کا استعمال ہو اور کسی بھی قسم کی سختی دونوں طرف سے نہیں ہونی چاہئے.اور پیار سے، محبت سے ایک دوسرے سے ان دنوں پیش آئیں بلکہ ہمیشہ پیش آئیں اور خاص طور پر دعاؤں میں یہ دن گزاریں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں.اور جلسے کی جو خاص برکات ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.بعض دفعہ جہاں کھانا کھایا جاتا ہے وہاں لوگ اپنی پلیٹیں چھوڑ جاتے ہیں یا انہوں نے جو پیک بنائے ہیں وہ چھوڑ جاتے ہیں تو ان کو اٹھا کے جہاں ڈسٹ بن بنائے گئے ہیں وہاں پھینکیں.حضرت مسیح موعود کے حوالے سے میں یہ پہلے بیان کر چکا ہوں کہ یہ جماعتی جلسہ ہے اس کو کٹھی میلہ نہ سمجھیں کیونکہ آپس میں ملاقاتیں وغیرہ یا فیشن کا اظہار تو یہاں مقصود نہیں ہے.عورتیں آ ہوں تو باتیں شروع کر دیتی ہیں اور پھر ختم نہیں ہوتیں.ان کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اور انتظامیہ اس کا خاص طور پر خیال رکھے اور نگرانی کرے.

Page 551

$2004 546 مسرور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں جہاں جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.بعض باہر سے آنے والے یہاں شاپنگ کرنے کے لئے قرض لینے کی کوشش کرتے ہیں.یہ بات قناعت کی صفت کو گدلا کر رہی ہوتی ہے.قناعت کی صفت میں ایسا اظہار ہو رہا ہوتا ہے جو لوگوں کو اچھا نہیں لگتا.تو اس سے بچنا چاہئے.اتنا ہی خرچ کریں جتنی توفیق ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ شاپنگ کرنے کے لئے جتنی ضرورت ہے رقم آپ کے پاس ہے اتنی شاپنگ کریں ،عزیزوں رشتہ داروں سے قرض نہ لیں.یہ بڑا غلط طریقہ ہے.جلسہ سننے کی غرض سے آتے ہیں تو جلسہ سننا چاہئے اور جو روحانی مائدہ یہاں تقسیم ہورہا ہے اس سے ہر ایک کو اپنی جھولیاں بھرنی چاہئیں.گوکہ یہی کہا جاتا ہے کہ مہمان نوازی تین دن کی ہوتی ہے لیکن بعض لوگ دور سے آ رہے ہوتے ہیں خرچ کر کے آرہے ہوتے ہیں اور پھر یہ خیال ہوتا ہے کہ دوبارہ موقع مل سکے یا نہ مل سکے تو زیادہ ٹھہر نا چاہتے ہیں.اگر اپنے قریبی عزیزوں رشتہ داروں کے ہاں ٹھہر جائیں تو ان کو خوشی سے ٹھہرا لینے میں حرج نہیں ہے.اور بعض طبیعتیں بڑی حساس ہوتی ہیں ایسے مہمانوں کو مذاقاً بھی احساس نہیں دلانا چاہئے جو مالی لحاظ سے ذرا کم ہوں یا قریبی عزیز ہوں کہ تین دن ہو گئے اور مہمان نوازی ختم ہوگئی.اس طرح اس سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں.حفاظتی طور پر بھی خاص نگرانی کا خیال رکھنا چاہئے اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں.یہ ہر ایک کا فرض ہے.اجنبی آدمی یا کوئی ایسا شخص آپ دیکھیں جس پر شک ہو تو متعلقہ شعبہ کو اطلاع دیں لیکن خود کسی سے اس طرح نہ پیش آئیں جس سے کسی قسم کا چھیڑ چھاڑ کا خطرہ پیدا ہو اور آگے لڑائی جھگڑے کا خطرہ پیدا ہو.لیکن اگر اطلاع کا وقت نہیں ہے پھر اس کا بہترین حل یہی ہے کہ آپ اس شخص کے آپ ساتھ ساتھ ہو جائیں ، اس کے قریب رہیں.تو ہر شخص اس طرح سیکیورٹی کی نظر سے

Page 552

$2004 547 خطبات مسرور دیکھتا ر ہے تو بہت سارا مسئلہ تو اسی طرح حل ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ بعض خبروں کی بنا پہ گزشتہ سالوں میں آتی رہی ہیں، انتظامیہ بعض دفعہ چیکنگ سخت کرتی ہے.تو اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو چیکنگ سخت ہو رہی ہو تو مکمل تعاون کرنا چاہئے خاص طور پر عورتوں کو وہ عام طور پر جلدی بے صبری ہو جاتی ہیں.اس لئے ہماری حفاظت کے نقطہ نظر سے ہی یہ سب کچھ ہورہا ہوتا ہے.اس لئے تعاون ہر ایک کا فرض ہے.پھر یہ کہ جو آپ کو کارڈ دئے گئے ہیں وہ اپنے پاس رکھیں اور اگر کسی کا کارڈ گم ہو گیا ہو تو متعلقہ شعبہ کو اطلاع کریں تا کہ ان کو بھی پتہ لگ جائے کون سا کارڈ گم ہوا ہے کس کا گم ہوا ہے تا کہ اگر کسی اور نے ایسا لگایا ہو وہ بھی پتہ لگ جائے اور آپ کو بھی کارڈ میسر آ جائے.قیمتی اشیاء اپنی نقدی یا پیسے وغیرہ کی حفاظت بھی آپ پر فرض ہے کہ خود کریں.کیونکہ یہاں بہت سے لوگ آئے ہوئے ہیں اور کھلی جگہیں ہیں ٹینٹ میں اجتماعی قیام گاہیں ہیں تو بعد میں شکایات نہیں ہونی چاہئیں.اس لئے آپ خود اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جو اس جلسہ کے لئے دعائیں ہیں وہ حاصل کرنے والے ہوں اور ان مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے آپ نے جلسوں کا اجراء فر مایا تھا اور ان دنوں میں ہمیں دعاؤں کی بھی توفیق ملے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی بھی توفیق ملے.

Page 553

$2004 548 خطبات مسرور

Page 554

خطبات مسرور الله $2004 549 جلسہ سالانہ کے کامیاب و با برکت انعقاد پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائیں نظام خلافت اور نظام وصیت کا بہت گہرا تعلق ہے راگست ۲۰۰۴ء بمطابق ۶ ظہور ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن (یو.کے ) شکر کی اہمیت اور برکات انتظام وصیت میں شمولیت کی برکات اور نصیحت تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے.

Page 555

خطبات مسرور $2004 550 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: الحمد للہ کہ جماعت احمد یہ یو.کے.کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو لے کر آیا اور اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور برکات بانٹتا ہوا چلا گیا.کئی لوگوں نے خطوط میں اور زبانی بھی اظہار کیا کہ ایک عجیب روحانی کیفیت تھی جو ہم اپنے اندر محسوس کرتے رہے.خدا کرے کہ یہ روحانی کیفیت عارضی نہ ہو بلکہ ہمیشہ رہنے والی اور دائی ہو.ہم ہمیشہ اس کوشش میں رہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جن فضلوں کو ہم نے سمیٹا ہے ان کو اپنی زندگی پر لا گو بھی کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے رہیں.مقررین کی باتیں ان مقررین کی طرح نہ ہوں جن کے جو شیلے خطابات کا صرف وقتی اثر تو ہوتا ہے لیکن مجلس سے اٹھتے ہی وہ اثر زائل ہو جاتا ہے.یہی دنیا اور اس کے دھندوں میں انسان کھویا جاتا ہے.ترقی کرنے والی اور انقلاب پیدا کرنے کا دعویٰ کرنے والی قوموں کے یہ طریق نہیں ہوا کرتے.وہ جب ایک کام کرنے کا عزم لے کر اٹھتی ہیں تو پھر اس کو انتہا تک پہنچانے کی بھی کوشش کرتی ہیں.لیکن جو الہی جماعتیں ہوتی ہیں ان کا ایک اور خاصہ بھی ہوتا ہے ان کو اپنی ترقیات اپنی کسی قابلیت یا اپنی کسی محنت یا اپنی کسی خوبی کی وجہ سے نظر نہیں آ رہی ہوتی بلکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضلوں کی وجہ سے ہے نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے اور پھر جب جماعت بحیثیت جماعت بھی اور ہر فرد جماعت انفرادی طور پر بھی ان فضلوں کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اس کے آگے جھکتا ہے اس کے آگے گڑ گڑاتا ہے کہ اے خدا! تو نے اس قدر فضل ہم پر کئے جو

Page 556

$2004 551 خطبات مسرور بارش کے قطروں کی طرح برستے جا رہے ہیں ہماری کسی غلطی ، ہماری کسی نالائقی ، ہماری کسی نا اہلی کی وجہ سے بند نہ ہو جائیں.اس لئے ہمیں توفیق دے ہمیں طاقت دے اور ہم پر مزید فضل فرما کہ ہم تیرے ان فضلوں کا شکر ادا کر سکیں، کیونکہ شکر ادا کرنے کی طاقت بھی اے خدا! تجھ سے ہی ملتی ہے.جب یہ سوچ ہوگی اور ہم اس طرح دعائیں بھی کر رہے ہوں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے، اللہ تعالیٰ کی اس پیار بھری تسلی کے حقدار بھی بن رہے ہوں گے کہ ﴿ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ ﴾ (ابراہیم : 8).اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا.اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے اس وعدے اور اس اعلان کے حقدار ٹھہریں اور کبھی نافرمانوں اور ناشکروں میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ بنیں.جیسا کہ فرماتا ہے.﴿وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ (ابراہیم : 8) یعنی اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بہت سخت ہے.اس لئے ہمیشہ شکر گزاروں میں سے بنے رہو.شکر گزاری کے بھی مختلف مواقع انسان کو ملتے رہتے ہیں اور جو مومن بندے ہیں وہ تو اپنے ہر کام کے سدھرنے کو ، ہر فائدے کو، ہر ترقی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پھر اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہیں اور ہمیشہ عبد شکور بنے رہتے ہیں.جلسہ سالانہ برطانیہ گزشتہ اتوار کوختم ہوا جیسا کہ میں نے کہا احمدیوں نے اس نعمت سے فائدہ اٹھایا لیکن یہ فائدہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنارہے گا.جلسے کا انتظام ہوتا ہے اور چھ مہینے پہلے ہی انتظامیہ کو اس کی فکر شروع ہو جاتی ہے.سب سے پہلے تو انتظامیہ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے.اس کے اس احسان پر اس کے آگے مزید جھکنا چاہئے کہ تمام کام بخیر و خوبی تحمیل کو پہنچے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تو فیق دی کہ خدمت کر سکیں.با وجود بہت سی کمزوریوں اور نا اہلیوں کے اس نے پردہ پوشی فرماتے ہوئے اس جلسہ کو خیریت سے اختتام تک پہنچایا.تو جب اس طرح اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہم اس کے آگے جھکیں گے تو آئندہ یہ فضل اس کے وعدوں کے مطابق پہلے سے بھی بڑھ کر ہم

Page 557

$2004 552 خطبات مسرور پر نازل ہوں گے.پھر انہیں فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے تمام کارکنان مہمانوں کے بھی شکر گزار ہوں گے کہ انہوں نے بھی تعاون کیا اور میز بانوں کی کمیوں پر صرف نظر کیا اور کسی قسم کا شکوہ یا گلہ نہیں کیا.اور اس بات پر ان کو مہمانوں کا شکر گزار ہونا چاہئے اور پھر اللہ تعالیٰ کا بھی مزید شکرگزار ہونا چاہیئے کہ اس نے مہمانوں کے دلوں کو ہماری طرف سے بھی نرم رکھا اور انہوں نے صرف نظر سے کام لیا.پھر مہمانوں کو بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ وہ یہاں آرام سے رہے اور کسی قسم کی تکلیف یا زیادہ تکلیف ان کو برداشت نہیں کرنی پڑی.ان کو تمام انتظامیہ کا شکر گزار ہونا چاہئے اور پھر جو تمام کارکنان ہیں جن میں چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کی عمر کے لوگ شامل ہیں جنہوں نے جہاں جہاں ڈیوٹی تھی بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ڈیوٹیاں ادا کیں ، اپنے فرائض نبھائے اور مہمانوں کے لئے سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی.مہمانوں کو بھی چاہئے کہ اس شکرانے کے طور پر ان سب کارکنان کے لئے ، ان کی دینی و دنیاوی ترقیات کے لئے دعا کریں.جلسے سے پہلے گزشتہ تین چار ہفتے سے تو بعض کارکنان دن رات ایک کر کے اپنی ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کے انتظامات کو بہتر سے بہتر بنانے کی خدمت میں لگے رہے ہیں.اور پھر جلسے کے دنوں میں بھی ایک بڑی تعداد کارکنان اور کارکنات کی اس خدمت پر مامور رہی اور اپنے آرام اپنی خوراک کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی.اور کارکنات نے اس خدمت کے جذبے کے تحت اپنے بچوں کو ( بعض بچوں کی مائیں بھی تھیں ) دوسروں کے سپر د کیا.یا گھروں میں بھی چھوڑ کے آئیں.بالکل بے پرواہ ہو گئیں اس بات سے کہ ان کے سر پر کوئی رہا بھی کہ نہیں یا بچوں کا کیا حال ہے.ان بچوں کی ضروریات کا خیال بھی رکھا جا رہا ہے یا نہیں.آنے والے مہمانوں کو اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ ان کارکنوں کا بھی شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرتا.اس شکر گزاری کا بہترین طریقہ یہ ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان تمام کارکنوں کے

Page 558

$2004 553 خطبات مسرور لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کی بہترین جزا دے اور پھر ان پر ہمیشہ اپنی پیار کی نظر ڈالتا رہے.پھر مہمانوں کو ان عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے ان کو اپنے گھروں میں اس جذبے کے تحت مہمان ٹھہرایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں.ان کے لئے خاص دعائیں کرتے رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو جنہوں نے اپنے اپنے گھروں میں مہمان ٹھہرایا جزا دے اور ان کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت دے.یہ شکر گزاری کی فضا جب پیدا ہوگی اور ایک دوسرے کے لئے دعائیں ہو رہی ہوں گی تو یہی اس دنیا کی جنت ہے.جس میں ایک دوسرے کے لئے سوائے نیک اور پاک جذبات کے اور شکر کے جذبات کے اور کچھ ہے ہی نہیں.اور جب یہ شکرانے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا سلسلہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ چلتا رہے گا.ایک روایت میں آتا ہے ” حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ نعمت شکر کے ساتھ وابستہ ہے اور شکر کے نتیجہ میں مزید عطا ہوتا ہے اور یہ دونوں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں.اور خدا کی طرف سے مزید عطا کرنے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ بندہ شکر کرنا نہ چھوڑ دے.(کنز العمال جلد نمبر 2 صفحه (151 تو دیکھیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت کسی نہ کسی طرح دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے تم شکر کرو تو پھر اللہ دیتا چلا جائے گا.اپنے بھائیوں کے بھی شکر گزار بنواور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بھی شکر گزار بندے بنوتو میری نعمتوں سے حصہ پاتے چلے جاؤ گے، ان میں اضافہ دیکھتے چلے جاؤ گے.یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی نعمتیں ایک لڑی میں ہیں.ہر نعمت کے بعد شکر ہو تو پھر یہ نعمتوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا.ہر نعمت کے بعد شکر اور ہر شکر کے بعد نعمت.بندہ ناشکرا ہو جائے تو ہو جائے،اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور نعمتوں کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے اور صرف یہ خیال نہ رہے کہ یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان کا کیا شکر ادا کرنا.بعض دفعہ بعض خیال آ جاتے ہیں، نہیں بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی

Page 559

554 $2004 خطبات مسرور چیز بھی اگر میسر آتی ہے تو اس کا شکر ادا کرنا چاہئے.بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مانگنی ہو تو مجھ سے مانگو.اگر جوتی کے تسمے کی ضرورت بھی ہے تو مجھ سے مانگو.تو جب یہ حالت ہو گی کہ تم جوتی کا تسمہ بھی خدا سے مانگ رہے ہو اور پھر اس کے بعد اس کا شکر بھی ادا کر رہے ہو تو اللہ تعالیٰ پھر نعمتوں کو اور بڑھاتا چلا جاتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے ” حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ حضور نے منبر پر کھڑے ہو کے فرمایا کہ جو تھوڑے پر ( چھوٹی بات پر ) شکر نہیں کرتا وہ بڑی ( نعمت ) پر بھی شکر ادا نہیں کرتا.اور جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کیا کرتا.نعمائے الہی کا ذکر کرتے رہنا شکر گزاری ہے اور اس کا عدم ذکر کفر ( یعنی ناشکری) ہے.جماعت ایک رحمت ہے اور تفرقہ بازی ( پراگندگی ) عذاب ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه 278 یعنی تفرقہ بازی جو ہے آپس میں پڑے رہنا یہ عذاب ہے اس سے ہلاکت ہوگی.تو اس میں ایک یہ بھی نصیحت فرما دی کہ ایک جماعت رہتے ہوئے ایک دوسرے کے شکر گزار بنو اور اس طرح سے شکر گزاری کے ساتھ ایک جماعت بن کر رہنے سے تم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو بھی جذب کرنے والے ہو گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ”یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر نہیں کر سکتا.جس قدر آسائش اور آرام اس زمانے میں حاصل ہے اس کی نظیر نہیں ملتی.ریل، تار، ڈاک، ڈاک خانہ، پولیس وغیرہ انتظام کو دیکھو کس قدر فوائد پہنچتے ہیں.آج سے 60-70 برس پہلے بتاؤ کیا ایسا آرام و آسانی تھی ؟ پھر خود ہی انصاف کرو جب ہم پر ہزاروں احسان ہیں تو ہم کیوں کر شکر نہ کریں“.(ملفوظات جلد 4 صفحه 547 الحكم ٣٠.ستمبر ١٩٠٦ء) حکومت نے جو چیزیں مہیا کی ہوتی ہیں ان کا بھی ہمیں ہمیشہ شکر گزار ہوتے رہنا چاہئے.انہوں نے یہ سہولتیں میسر کی ہیں اور مہیا کی ہیں.

Page 560

$2004 555 مسرور پھر آپ فرماتے ہیں کہ: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْالِيْ وَلَا تَكْفُرُونِ (بقره: 153) یعنی اے میرے بندے ! تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو اور میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو“.(ملفوظات جلد 3 صفحه 189 البدر 3 اپریل 1903) پس یہ شکر جس کا آخری سرا ہمیں اللہ تعالی تک پہنچاتا ہے یہی ہر احدی کا مطمح نظر ہونا چاہئے یہی ہے جس کو حاصل کرنا ہر احمدی کا مقصد ہونا چاہئے.پس ہم میں سے ہر ایک کوشش کرے کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے والا ہو.پھر آپ فرماتے ہیں: ﴿ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ (ابراہیم : 8) - کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو تو میں اپنے احسانات کو اور بھی زیادہ کرتا ہوں اگر تم کفر کرو تو میرا اعذاب بھی بڑا سخت ہے.یعنی جب انسان پر خدا تعالیٰ کے احسانات ہوں تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے اور انسانوں کی بہتری کا خیال رکھے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے اور الٹا ظلم شروع کر دے تو پھر خدا تعالیٰ اس سے وہ نعمتیں چھین لیتا ہے اور عذاب کرتا ہے.چاہئے کہ نرمی اور پیار سے کام کیا جائے اور چاہئے کہ جو شخص کسی ذمہ داری کے عہدے پر مقرر ہو وہ لوگوں سے خواہ امیر ہوں یا غریب نرمی اور اخلاق سے پیش آئے کیونکہ اس میں نہ صرف ان لوگوں کی بہتری ہے بلکہ خود اس کی بھی بہتری ہے“.(ملفوظات جلد 5 صفحه 533 تشحيذ الاذهان اپریل ۱۹۰۸ء بدر ۲۳ اپریل ۱۹۰۸ء پس کام کرنے والے بھی اور عام احمدی بھی شکر گزار ہونے کی صفت کو اپنانے والے اور اس کے مطابق عمل کرنے والے، اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں گے تو تبھی اپنے فائدہ کے بھی سامان کر رہے ہوں گے.کیونکہ خیر و برکت کے سامان بھی شکر گزاری کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اس لئے نہ صرف شکر کر رہے ہیں بلکہ اپنے لئے اور دوسروں کے لئے خیر و برکت بھی حاصل کر رہے ہوں گے.بلکہ اللہ تعالیٰ جن قوموں سے جن لوگوں سے خوش ہوتا ہے ان کو شکر گزار بنادیتا ہے.

Page 561

$2004 556 مسرور ایک روایت میں آتا ہے کہ ” جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو خیر و برکت عطا کرنا چاہے تو ان کی عمریں بڑھا دیتا ہے اور انہیں شکر بجالا نا سکھا دیتا ہے.(کنزالعمال جلد 2 صفحه 53 ) تو دیکھیں اس شکر گزاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی عمروں میں بھی برکت دیتا ہے.کیونکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس نیکی کو شکر گزاری کی اعلیٰ صفت کو آگے پھیلا رہے ہوتے ہیں اور لوگ ان سے فیض بھی حاصل کر رہے ہوتے ہیں.تو لوگوں میں فیض پہنچانے والوں کی عمروں میں بھی برکت ہوتی ہے.حضرت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اس قدر لمبا قیام فرماتے تھے (اب دیکھیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کس طرح کی جاتی ہے ) کہ اس کی وجہ سے آپ کے پاؤں سو جایا کرتے تھے.اس پر ( کہتی ہیں کہ ) میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے سارے گناہ بخشے گئے ہیں.پہلے کے بھی اور بعد کے بھی تو آپ کیوں اتنا لمبا قیام فرماتے ہیں.آپ نے فرمایا کیا میں خدا کا عبد شکور نہ بنوں.جس نے مجھے پہ اتنا احسان کیا ہے کیا میں اس کا شکر ادا کرنے کے لئے نہ کھڑا ہوا کروں“.(بخاری کتاب التفسير سورة الفتح باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك پس جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ عبد شکور بننے کی کوشش کرنی چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو دیکھنے کے بعد تو ہمیں بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہر احمدی کو اپنی عبادات میں ایک خاص ذوق پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ جھکنا چاہئے اور اس زمانے میں تو خاص طور پر جب دنیا میں ہر طرف افرا تفری پڑی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک جماعت میں ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے اس پر ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے اور اس کے عبادت گزار بندے بنے کی کوشش کریں.اس شکر گزاری کے جذبے کے تحت جس کے اظہار کا ہمیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے تمام ان مہمانوں کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں

Page 562

$2004 557 خطبات مسرور جنہوں نے خاموشی سے اس جلسے کو سنا اور اس کی برکات سے فیض پایا اور اب اس کوشش میں ہیں کہ اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں.اللہ تعالیٰ انہیں اپنی نیک خواہشات کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے.اسی طرح میں میزبانوں اور ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے گھروں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کو ٹھہرایا ، ان کا رکنوں اور ان کا رکنات کا جنہوں نے بے نفس ہو کر رات دن ایک کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی ان سب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.ہر کارکن چاہے وہ ہنگر خانے میں کام کرنے والا کا رکن تھایا صفائی کے شعبے کا تھایا آب رسانی کے شعبے کا تھا ان دنوں میں تو گرمی بھی کافی رہی ہے اور پانی کی ضرورت بھی محسوس ہوتی رہی تو پانی پلانے کے لئے چھوٹے بچوں نے ڈیوٹی دی اور اس ڈیوٹی کو خوب نبھایا اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو اور بڑھا تا چلا جائے.جب ربوہ میں جلسے ہوتے تھے تو یہی نظارے دیکھنے میں آیا کرتے تھے اس طرح اور مختلف شعبہ جات ہیں.ایم ٹی اے کے کارکن ہیں، تمام شعبوں کا تو نام لیناممکن نہیں بہر حال سب کا شکریہ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہتر الفاظ جن سے شکریہ بھی ادا ہو جائے اور دعا بھی مل جائے وہ یہ ہیں کہ جَزَاكَ اللهُ خَيْرًا اللہ تعالیٰ سب کو بہترین جزا دے.اس شکرانے کے ضمن میں ایک اور بات بھی کہنی چاہتا ہوں کہ جلسے کی آخری تقریر میں میں نے احباب جماعت کو وصیت کرنے اور اس بابرکت نظام میں شامل ہونے کی طرف بھی توجہ دلائی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں اور احباب جماعت نے ذاتی طور پر بھی اس سلسلہ میں وعدے کئے ہیں اور وعدے آ بھی رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ اس عہد کو جلد از جلد نبھا سکیں اور جتنی تعداد میں میں نے خواہش کی تھی اس سے بڑھ کر اس بابرکت نظام میں وہ شامل ہوں.بعض دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں جو دوسری جماعتی خدمات میں بعض دفعہ جب ان کو کوئی تحریک کی جائے تو پیش پیش ہوتے ہیں یا کم از

Page 563

$2004 558 خطبات مسرور کم اتنا ضرور ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکتے ہیں اس میں حصہ لیں لیکن وہ نظام وصیت میں شامل ہونے سے محروم ہیں.ان میں سے بھی کئی لوگوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اب اس نظام میں شامل ہوں گے.ایسے صاحب حیثیت لوگوں کو ایسے احمدیوں کو تو سب سے پہلے چھلانگ مار کر آگے آنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل فرمائے ہیں.ان کے شکرانے کے طور پر ہم اس نظام میں شامل ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے مزید کھلیں.اللہ تعالیٰ نے جو ان پر نعمتیں نازل فرمائی ہیں ان کا اظہار ہونا چاہئے اور وہ اپنے ذاتی اظہار کے.قربانیوں کی طرف توجہ دینے کا بھی اظہار ہونا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے." حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے فضل اور اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے پر دیکھے.(ترمذب كتاب الادب باب ان الله يحب ان يرى اثر نعمته على عبده) پس جہاں اپنی ذات پر اپنے خاندان پر یہ اثر دکھا رہے ہوں وہاں قربانیوں میں بھی ایسے ظاہر ہونا چاہئے اور یہ جو تسلسل قربانی کا ہے کبھی کبھا کی قربانی نہیں بلکہ تسلسل کی قربانی کا اظہار ہونا چاہئے تا کہ اور زیادہ شکران نعمت ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد صحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بدوں مشقت و محنت کے دکھائی ہے وہ راہ جو آپ لوگوں کو اس زمانے میں دکھائی گئی ہے.بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں.پس خدا تعالیٰ کے اس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وہ شکر یہی ہے کہ بچے دل سے ان اعمال صالحہ کو بجالا ؤ جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصے میں آتے ہیں اور اپنی عملی حالت سے مدد لے کر دعا مانگو وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے.حصہ عبادات میں صوم صلوۃ وزکوۃ وغیرہ امور شامل ہیں“.(ملفوظات جلد اول صفحه 94-95 رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء)

Page 564

$2004 559 مسرور پس اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ اس کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے ہم بھی ان اعمال کو بجالانے والے ہوں پھر جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ یہ نظام وصیت بھی ذہنوں اور مالوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض مسلمان کرتے ہیں کہ غلط طریق سے مال کمایا اور پھر بازار میں ٹھنڈے پانی کی سبیل لگا دی یا برف ڈلوادی یا مسجد بنوا دی یا اس کا کچھ حصہ بنوا دیا.یا حج کر آئے اور سمجھ لیا کہ ہمارے ناجائز ذریعے سے کمائے ہوئے مال پاک ہو گئے ہیں.ایسے لوگ تو دین کے ساتھ مذاق کرنے والے ہوتے ہیں.بلکہ یہاں پاک کرنے کے ذریعے سے یہ مطلب ہے کہ پاک ذرائع سے کمائی ہوئی جو دولت ہے اس کو جب پاک مقاصد کے لئے خرچ کیا جائے گا تو اس سے تمہارے اندر جہاں روحانی تبدیلیاں پیدا ہوں گی وہاں تمہارے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت پڑے گی.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی ہے رسالہ الوصیت میں اور تین دفعہ یہ دعا کی ہے کہ ایسے لوگوں کو جو اس نظام میں شامل ہوں نیک اور پاک لوگوں کی جماعت بنا دے.تو مختصراً آج میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں جلسے کے بابرکت اختتام پر آپ نے شکرانے کا اظہار کیا اور شکرانے کا اظہار کر رہے ہیں وہاں اس شکرانے کا عملی اظہار بھی کریں کیونکہ جہاں اس نظام میں شامل ہونے والے تقویٰ میں ترقی کریں گے وہاں جماعت کی مضبوطی کا باعث بھی بنیں گے.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے رسالہ الوصیت میں دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ایک تو یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد نظام خلافت کا اجراء اور دوسرے اپنی وفات پر آپ کو یہ فکر پیدا ہونا کہ ایسا نظام جاری کیا جائے جس سے افراد جماعت میں تقویٰ بھی پیدا ہو اور اس میں ترقی بھی ہو اور دوسرے مالی قربانی کا بھی ایسا نظام جاری ہو جائے جس سے کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو جائے اور جماعت کی مالی ضروریات بھی باحسن پوری ہو سکیں.اس لئے وصیت کا نظام جاری فرمایا تھا.تو اس لحاظ سے میرے نزدیک میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نظام خلافت اور نظام وصیت کا بڑا گہرا

Page 565

$2004 560 خطبات مسرور تعلق ہے اور ضروری نہیں کہ ضروریات کے تحت پہلے خلفاء جس طرح تحریکات کرتے رہے ہیں، آئندہ بھی اسی طرح مالی تحریکات ہوتی رہیں بلکہ نظام وصیت کو اب اتنا فعال ہو جانا چاہئے کہ سوسال بعد تقویٰ کے معیار بجائے گرنے کے نہ صرف قائم رہیں بلکہ بڑھیں اور اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں اور قربانیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں.یعنی ا حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں.اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے پیدا ہوتے رہیں.جب اس طرح کے معیار قائم ہوں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ خلافت حقہ بھی قائم رہے گی اور جماعتی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی.کیونکہ متقیوں کی جماعت کے ساتھ ہی خلافت کا ایک بہت بڑا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو اس کی توفیق دے اور ہمیشہ خلافت کی نعمت کا شکر ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں اور کوئی احمدی بھی ناشکری کرنے والا نہ ہو.کبھی دنیا داری میں اتنے محو نہ ہو جائیں کہ دین کو بھلا دیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”سعید آدمی ناکامی کے بعد کامیاب ہو کر اور بھی سعید ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایمان بڑھ جاتا ہے ( یعنی جب ٹھوکر لگتی ہے تو اور بھی سعادت پیدا ہوتی ہے ) اس کو ایک مزا آتا ہے جب وہ غور کرتا ہے کہ میرا خدا کیسا ہے اور دنیا کی کامیابی خداشناسی کا ایک بہانہ ہو جاتا ہے.ایسے آدمیوں کے لئے یہ دنیوی کامیابیاں حقیقی کامیابی کا ( جس کو اسلام کی اصطلاح میں فلاح کہتے ہیں) ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ سچی راحت دنیا اور دنیا کی چیزوں میں ہرگز نہیں ہے.حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام شعبے دیکھ کر بھی انسان سچا اور دائمی سرور حاصل نہیں کر سکتا تم دیکھتے ہو کہ دولتمند زیادہ مال و دولت رکھنے والے ہر وقت خنداں رہتے ہیں.(فرمایا کہ ) مگر ان کی حالت جرب یعنی خارش کے مریض کی سی ہوتی ہے جس کو کھجلانے سے راحت ملتی ہے.کھجلی کا مریض جب کھجلی کرتا ہے تو اس کو بڑا مزا آ رہا

Page 566

561 $2004 خطبات مسرور ہوتا ہے ) لیکن اس خارش کا آخری نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ خون نکل آتا ہے.پس ان دنیوی اور عارضی کا میابیوں پر اس قدر خوش مت ہو کہ حقیقی کامیابی سے دور چلے جاؤ بلکہ ان کا میابیوں کو.خداشناسی کا ایک ایک ذریعہ قرار دو، اپنی ہمت اور کوشش پر نازمت کرو اور مت سمجھو کہ ہماری کامیابی کسی قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے بلکہ یہ سوچو کہ اس رحیم خدا نے جو بھی کسی کی کچی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے ہماری محنت کو بارور کیا..پھر فرمایا: ” اس لئے واجب اور ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر مومن خدا کے حضور سجدات شکر بجالائے کہ اس نے محنت کوا کارت تو نہیں جانے دیا.اس شکر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ سے محبت بڑھے گی اور ایمان میں ترقی ہوگی اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی کامیابیاں ملیں گی.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر کرو گے تو البتہ میں نعمتوں کو زیادہ کروں گا.اور اگر کفران نعمت کرو گے تو یاد رکھو کہ عذاب سخت میں گرفتار ہو گے.اس اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھو.مومن کا کام یہ ہے کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے شرمندہ ہوتا ہے اور خدا کی حمد کرتا ہے کہ اس نے اپنا فضل کیا اور اس طرح پر وہ قدم آگے رکھتا ہے اور ہر ابتلاء میں وہ ثابت قدم رہ کر ایمان پاتا ہے.بظاہر ایک ہندو اور ایک مومن کی کامیابی ایک رنگ میں مشابہ ہوتی ہے لیکن یا درکھو کہ کا فر کی کامیابی ضلالت کی راہ ہے اور مومن کی کامیابی سے اس کے لئے نعمتوں کا دروازہ کھلتا ہے.کافر کی کامیابی اس لئے ضلالت کی طرف لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ اپنی نعمت، دانش اور قابلیت کو خدا بنا لیتا ہے.مگر مومن خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے خدا سے ایک نیا تعارف پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر ہر ایک کامیابی کے بعد اس کا خدا سے ایک نیا معاملہ شروع ہو جاتا ہے.اور اس میں تبدیلی ہونے لگتی ہے.اکثر لوگوں کے حالات کتابوں میں لکھے ہیں کہ اوائل میں دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور شدید تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے کوئی دعا کی اور وہ قبول ہوگئی اس کے بعد ان کی حالت ہی بدل گئی اس لئے اپنی دعاؤں کی قبولیت اور کامیابیوں پر نازاں نہ ہو بلکہ خدا

Page 567

$2004 562 خطبات مسرور کے فضل اور حمایت کی قدر کرو.قاعدہ ہے کہ کامیابی پر ہمت اور حو صلے میں ایک نئی زندگی آ جاتی ہے اس زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنی چاہئے.کیونکہ سب سے اعلیٰ درجے کی بات جو کام آنے والی ہے وہ یہی معرفت الہی ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم پر غور کرنے سے پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا.فرمایا: " غرض اگر اس پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کام پڑنا ہے تو تقویٰ کا طریق اختیار کرو.مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کرے اور بدقسمت وہ ہے جو ٹھو کر کھا کر اس کی طرف نہ جھکئے“.(ملفوظات جلد اول صفحه 98-99 الحكم ٢٤ جون ١٩٠١ء) پھر آپ فرماتے ہیں : ” تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے.مسلمان کا پوچھنے پر الحمد للہ کہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت و تقویٰ کی راہیں اختیار کرلیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا“.(ملفوظات جلد اول صفحه 49 رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء) اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ شکر گزار بندہ بنائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی نصائح پر عمل کرنے والا بنائے.تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے چھوٹی سے چھوٹی نعمت سے لے کر بڑی بڑی نعمتوں کے ملنے پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے بنیں.اس کے شکر گزار ہیں.ہمیشہ عبد شکور بنے رہیں اور نظام خلافت اور نظام جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں.اور اس کے لئے قربانیاں بھی دیتے چلے جائیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.

Page 568

$2004 563 33 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ لین دین چاہے چھوٹا ہو یا بڑا لکھا کرو ۱۳ / اگست ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۳ ظهور ۱۳۸۳ هجری شمسی به مقام مسجد بیت الفتوح مورڈن (یو.کے) لین دین کی بابت تعلیم اور احکام احمد یوں کو چاہئے کہ زمانے کے رواج کو چھوڑیں اور خدا کے حکم کے مطابق کام کریں ہ قرض یا ادھار سے بچنے کی کوشش کریں قرض لینے اور دینے والے کے متعلق اسلامی تعلیمات

Page 569

خطبات مسرور $2004 564 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ياَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنِ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ.وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَايَابَ كَاتِبٌ أَنْ يُكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا.فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيْهَا أَوْضَعِيفًا أَوْلاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ.وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ.فَإِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَا تنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكَّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى.وَلَا يَابَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوْا وَلَا تَسْتَمُوْا أَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ.ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلْشَّهَادَةِ وَأَدْنَى إِلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيْرُوْنَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوْهَا وَأَشْهِدُوْا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارٌ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيدٌ.وَإِنْ تَفْعَلُوْا فَإِنَّهُ فُسُوْقَ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ.وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (سورة البقره آیت (283 ہماری تمدنی اور معاشرتی زندگی کا ایک اہم حصہ آپس کا لین دین کا معاملہ ہے.انسان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے.لیکن یہی لین دین جب قرض کی صورت میں ہو تو بے انتہاء معاشرتی مسائل پیدا کر دیتا ہے.بھائیوں بھائیوں کی نجشیں ہو جاتی ہیں، دوستوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں اور جب بڑے پیمانے پر

Page 570

$2004 565 خطبات مسرور کاروباری اداروں اور بنکوں سے قرض لئے جاتے ہیں تو بعض دفعہ سب کچھ لٹنے اور ذلت و رسوائی تک نوبت آ جاتی ہے.تو ایک مومن کو ، ایسے شخص کو جو خدا تعالیٰ کا عبد کہلانے کا دعویٰ رکھتا ہے، معاشرے کی اس برائی سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے.اور پھر طریق بھی فرما دیا کہ کس طرح لڑائی جھگڑوں اور ذلت ورسوائی کی باتوں سے بچا جا سکتا ہے، اسلام نے قرض دینے والوں کو بھی بتادیا کہ کس طرح قرض دینے کے بعد واپس لینے کا تقاضا کرنا ہے اور لینے والوں کو بھی بتا دیا کہ تم نے کس طرح حسن ادائیگی کی طرف توجہ دیتے ہوئے معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنا ہے یا اپنا مقام بلند کرنا ہے.قرآن کریم نے اتنی گہرائی میں جا کر انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے لین دین جو قرض کی صورت میں ہو اس کا حساب رکھنے کا طریق سکھایا ہے کہ اگر نیت نیک ہو تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ فریقین کو کسی بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنِ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوه کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معین مدت کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اب یہ دیکھیں کتنا خوبصورت حکم ہے، بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں بڑا اعتبار ہے، کیا ضرورت ہے لکھنے کی ہم تو بھائی بھائی کی طرح ہیں.لکھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ بے اعتباری ہے اس طرح سے تو ہمارے اندر ڈوری پیدا ہوگی اور ہمارے اندر رنجشیں بڑھیں گی.اور ہمارے آپس کے تعلقات خراب ہوں گے.تو یاد رکھیں کہ اگر تعلقات خراب ہوتے ہیں اور اگر تعلقات خراب ہوں گے تو تب ہوں گے جب قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی کریں گے نہ کہ قرآن کریم پر عمل کرنے سے.بعض دفعہ یہ لکھتے ہیں یا کہتے ہیں کہ چھوٹی رقم کا لین دین ہے اس کو کیا لکھنا ہمیں تو شرم آتی ہے کہ اتنی چھوٹی سی رقم کے بارے میں لکھیں کہ اتنا قریبی تعلق ہے اور اتنی چھوٹی سی رقم کے لئے

Page 571

$2004 566 خطبات مسرور تحریر لی جائے.یا پھر کوئی چیز استعمال کے لئے لی ہے اس کے بارے میں تحریر لی جائے مثلاً بعض دفعہ بیاہ شادیوں وغیرہ پر بھی ایک دوسرے کی چیزیں استعمال کے لئے لی جاتی ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتی ہیں.وہ بھی لکھ لینی چاہئیں کیونکہ ان میں بھی بعض دفعہ بدظنیاں پیدا ہو جاتی ہیں.بعد کی بدظنیوں سے بچنے کے لئے بہترین طریق ہے کہ چھوٹی سی تحریر بنالی جائے.اللہ تعالیٰ کا حکم تو ہے کہ لین دین چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ان جھگڑوں سے بچنا ہے تو لکھا کرو.جیسا کہ فرمایا کہ ﴿وَلَا تَسْتَمُوا أَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ که لین دین خواه چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مقررہ میعاد پر یعنی جب تک کا معاہدہ ہے وہ بھی لکھو اور معاہدے کی تفصیل بھی لکھو، اور اس سے اکتانا نہیں چاہئے.یا اس کو معمولی چیز نہیں سمجھنی چاہئے.کیونکہ اکتانے کا مطلب تو یہ ہے کہ شیطان کسی وقت بھی تمہارے اندر بدظنیاں پیدا کر دے گا اور بظاہر جو تم بلند حوصلگی کا مظاہرہ کر رہے ہو یا جو تم نے کیا ہے یہ تمہیں ایک وقت میں ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دے گا کہ بلند حوصلگی تو ایک طرف رہی تم ادنی اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کر رہے ہو گے.اور اس طرح عموماً ہوتا ہے، عموماً یہ باتیں ہوتی ہیں.یعنی تصور میں باتیں نہیں میں کر رہا ایسے معاملات آتے ہیں اور کئی جگہ ایسے لین دین میں، ایسے معاملوں میں کئی لوگوں کے قضا میں، امور عامہ میں، جماعت میں یا ملکی عدالتوں میں کیس چلتے ہیں اور چلے جاتے ہیں.وہی جو ایک وقت میں ہم پیالہ ہم نوالہ ہوتے تھے.اکٹھے بیٹھتے تھے، اکٹھے کھاتے تھے، پیتے تھے، بڑی پکی دوستیاں ہوتی تھیں، ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوئے ہوتے ہیں.ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں بھی تلاش کرنی پڑیں تو تلاش کر رہے ہوتے ہیں.تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے جس کو اپنی مخلوق کا علم ہے کہ کس قسم کے ذہن میں ایسے لین دین کی تحریر لکھنے کا طریق بھی بتا دیا کہ کس طرح لکھی جائے اور کون لکھوائے.تو تحریر لکھوانے کی ذمہ داری قرض

Page 572

$2004 567 خطبات مسرور لینے والے پر ڈال دی ہے جیسا کہ فرماتا ہے کہ ﴿وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا.یعنی وہ لکھوائے جس کے ذمے دوسرے کا حق ہے.اور لکھوانے والا اللہ، اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے.یعنی جس نے قرض لیا ہے وہ لکھوائے.اس کی وجہ مثلاً ایک تو یہ ہے کہ جس کے ذمے قرض ہے وہ خود ہی وضاحت کرے کہ اتنا قرض میں نے لیا ہے اور اس قرض کی جو رسید بنے اس میں واپسی کی شرائط بھی اس طرح ہی لکھی جائیں جس طرح قرض لینے والے نے کہی ہیں مثلاً اگر قسطیں ہیں تو لکھا جائے کہ اتنی قسطیں ہیں.عرصہ معین ہے تو لکھا جائے کہ اتنا عرصہ ہے وغیرہ.تا کہ قرض لینے والا یہ نہ کہے کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے.اور زبردستی یا دھوکے سے بعض الفاظ گھما پھرا کر معاہدے میں ایسے لکھ دیئے گئے ہیں جو مجھ پر اثر انداز ہورہے ہیں.تو اس سے بچنے کے لئے کہا کہ قرض لینے والا خود ہی الفاظ بنالے اور یہ بات بھی صرف آپ کو اسلامی معاشرے میں ہی نظر آئے گی ، اسلام کی تعلیم میں ہی نظر آئے گی پھر قرض دینے والے کو ثواب کا حقدار قرار دیا گیا ہے.کہ اگر وہ قرض دیتے وقت سہولت والی شرطیں منظور کر لے تو اس کو ثواب ملے گا.آجکل دنیا میں عموماً یہ ہوتا ہے کہ قرض دینے والا ، اپنی شرطیں ڈکٹیٹ کرا رہا ہوتا ہے.اسلام کی تعلیم میں قرض لینے والا اپنی شرائط پر قرض لے رہا ہے.اور قرض دینے والے کو یہ حکم ہے کہ تم شرائط مان لو تم کو اس کا بڑا اجر ملے گا.(آگے اس بارے میں کچھ حدیثوں کا ذکر کروں گا).پھر یہ کہ قرض لینے والا جب اپنی شرائط پر قرض لے لے گا تو پھر پابند بھی ہوگا کہ ان کو پورا کرے.اس کو پھر یہ شکوہ نہیں ہوگا اور نہ ہونا چاہئے کہ مجھ پر ظلم ہوا ہے.پھر قرض خواہ کے خلاف کسی قسم کی شکایت نہیں ہوگی.تو یہ اسلامی معاشرے کی خوبصورتی ہے کہ ضرورت مند کے لئے ضرورت مہیا کرنے کے ضرورت باہم پہنچانے کے سامان پیدا کئے گئے ہیں.پھر یہ کہ اگر دونوں کو لکھنا نہ آتا ہوتو اپنے واقفوں میں سے اپنے قریبیوں میں سے اپنے عزیزوں میں سے کسی کو تلاش کر لو جولکھنا جانتا

Page 573

568 $2004 خطبات مسرور ہو تو اس سے تحریر لکھواؤ.اور اس بات کو اتنی اہمیت دی ہے کہ لکھنے والے کو بھی کہہ دیا کہ ایک تو انصاف سے لکھوانصاف سے تحریر بناؤ، کسی کی قرابت داری یا عزیز داری تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تحریر میں کسی فریق کی ناجائز حمایت کر دو اور پھر یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو علم دیا ہے یعنی لکھنا سکھایا ہے تو وہ تمہیں اس بات کا بھی حکم دیتا ہے کہ جب بھی کسی تحریر لکھوانے کا معاملہ تمہارے پاس آئے تو تم نے انکار نہیں کرنا.سارے معاشرے کو اکٹھا جوڑ دیا ہے.پھر یہ بھی کہ جس نے قرض لیا ہے اس بات کی طاقت نہیں رکھتا اتنا پڑھا لکھا نہیں یا ذہنی طور پر کم ہے تو اس کی کم علمی یا بیوقوفی سے فائدہ اٹھا کر کوئی قرض دینے والا اس کو نقصان نہ پہنچا دے.اس لئے فرمایا کہ اس کا کوئی قریبی عزیز یا ولی اس کی طرف سے تحریر لکھوائے.یا بعض دفعہ بعض نابالغ ایسے ہوتے ہیں جن کی جائیداد ہوتی ہے ان سے بھی بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں.اس طرح بھی بعض دفعہ ہوتا ہے کہ کسی کو قرض کی تھوڑی سی رقم دے کر ، بے وقوف بنا کر، اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس سے کئی گنا سود منافع کا نام دے کر لے لیتے ہیں اس سے بھی بچانا فرض ہے.پھر اتنی احتیاط کی گئی ہے کہ کوئی وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب کسی قسم کی بدظنیاں پیدا ہو جائیں ہر کوئی اپنے مطلب کی بات کرنے لگ جائے اور جھگڑے اور نجشیں پیدا ہونی شروع ہو جائیں تو اس سے بچنے کے لئے فرمایا کہ جب یہ تحریر مکمل ہو جائے تو اس پر گواہوں سے گواہی بھی ڈلوالو جیسا کہ فرماتا ہے ﴿وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ یعنی اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہراؤ.اور پھر آگے فرمایا اگر دو مرد نہ ہوں تو دو عورتیں ، ایک مرد کی جگہ دو عورتیں گواہی ڈال سکتی ہیں.دو کی شرط اس لئے رکھی کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسرا اس کو یاد کروا دے.تو یہاں ایک اور بھی مسئلہ حل ہو گیا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے.تو دیکھیں کتنی تاکید کی گئی ہے اس طرح پورا طریق کار بتا دیا گیا ہے.اور پھر اسی آیت میں دو دفعہ فرمایا کہ اگر تم اس طریق کار پر عمل کرنے والے نہیں تو پھر تم تقویٰ سے بھی دور جانے والے ہو گے.اور یہ تقویٰ کی تلقین

Page 574

$2004 569 خطبات مسرور فریقین کو بھی کی، لکھنے والے کو بھی کی اور گواہوں کو بھی کی.اور آخر پر یہ بھی فرما دیا کہ شاید کسی طرح ایک دوسرے کو دھوکہ دے سکو یا حقوق دبا لو یا احسن طریق پر ادا نہ کرو، کسی طرح گواہوں پر پریشر ڈال کر دباؤ ڈال کر جس طرح آجکل اکثر ہوتا ہے اپنے مطلب کی بات کہلو الوتو یا د رکھو کہ لوگوں کو تو شاید دھوکہ دے لو لیکن اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اسے علم ہے اصل لین دین کن شرائط پر ہوا تھا اس کے علم میں ہے اصل تحریر کیا تھی ، اگر تحریر میں کوئی ردو بدل کرو گے تو وہ تمہیں ضرور پکڑے گا.یا گواہوں پر دباؤ ڈالو گے تو تمہیں اس کی بھی سزا ملے گی کیونکہ یہ بھی گناہ ہے.اس لئے ہر ایک کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ چاہے وہ کاروباری لین دین ہو یا ذاتی لین دین سوائے نقد لین دین کے کہ وہاں اجازت ہے اس کے علاوہ جس قسم کا بھی اور جب بھی کوئی ایسا لین دین ہو جس میں کچھ وقفہ پڑتا ہو، جہاں بھی ادھار یا قرض کی صورت بنے تو ایک تحریر ہونی چاہئے.آجکل بہت سے کاروبار زبانی باتوں پر ہورہے ہوتے ہیں.اور پھر ادھار بھی چل رہے ہوتے ہیں.اور اکثر اس طرح ہوتا ہے کہ جو پارٹی شریف ہوتی ہے جس کے پاس بڑا جتھہ نہیں ہوتا ( کیونکہ کاروباری لوگوں نے بہت بڑے بڑے جتھے بنائے ہوتے ہیں ) تو ان کی رقمیں ماری جاتی ہیں.تو احمدیوں کو چاہئے کہ زمانے کے رواج کو چھوڑ ہیں.جو خدا کا حکم ہے اس کے مطابق ایسے لین دین کی کارروائی کیا کریں اور اسی میں سب کی بچت ہے.پھر بعض دفعہ بعض روز مرہ کی ضروریات کے لئے یا سفر کے دوران ضرورت کے پیش آنے پر کوئی شاپنگ کی اور رقم کم ہوگئی یا خرید وفروخت کی ہے اور رقم کم ہوگئی یا کوئی چیز پسند آئی تو خریدنے کی خواہش پیدا ہوئی اور کسی دوست سے کسی عزیز سے کسی رشتہ دار سے قرض لے لیا، یہاں ایک چیز واضح کر دوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تھوڑی سی رقم ادھار لی تھی.ان کے نزدیک ادھار اور قرض میں فرق ہے، حالانکہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں.یہاں بھی بعض اوقات بعض لوگ یا دوست آتے ہیں پھر اپنے دوستوں سے رقمیں بھی لے

Page 575

$2004 570 خطبات مسرور لیتے ہیں کہ واپس جا کے ادا کر دیں گے یا اگر کسی نے اپنے وہاں کسی عزیز کو رقم دینی ہو تو کہہ دیتے ہیں اتنی رقم مجھے دے دو میں پاکستان جا کے اس کو روپوں میں دے دوں گا.یا کسی ملک میں بھی جہاں رہتے ہوں وہاں جا کر تمہارے عزیز رشتہ دار کو وہاں کی مقامی کرنسی میں دے دوں گا.اور پھر بعض دفعہ ہوتا یہ ہے کہ واپس پہنچ کے ٹال مٹول سے کام لینے لگ جاتے ہیں کہ ابھی انتظام نہیں ہوا اگلے مہینے یا دو مہینے بعد دے دوں گا.تو بعض دفعہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں پھر رنجشیں پیدا کرتی ہیں.بہر حال ایسی صورت میں بھی تحریر بنا لینی چاہئے اور دینے والا جس کو رقم دی گئی ہے اس سے تحریرلکھوائے کہ اتنی رقم فلاں کرنسی میں فلاں رشتہ دار کودینی ہے.اس طرح کی کوئی تحریر بن سکتی ہے.اس طرح کریں گے تو بہت سارے جھگڑے، رنجشیں ختم ہو جائیں گی بلکہ پیدا ہی نہیں ہوں گی.یہاں بھی اکثر تو مہمان چلے گئے ہیں کچھ ٹھہرے بھی ہوئے ہیں جلسے پر بھی لوگ آتے ہیں.جلسے پر مہمان آئے ہوتے ہیں.ان سے میں یہی کہوں گا کہ وہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں یا دوستوں سے سوائے اشد مجبوری کے کسی بھی قسم کی رقم کا مطالبہ نہ کریں.قرض یا ادھار سے بچنے کی کوشش کریں، جتنا زیادہ پر ہیز کریں گے اتنا ہی زیادہ بہتر ہوگا.ادھار کے ضمن میں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا.کسی نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ شروع میں جب ربوہ آباد ہوا ہے، چند ایک اس وقت ربوہ میں دکا نہیں ہوتی تھیں.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار سودا لینے کے لئے گئے ، ان کے ساتھ خدمتگار تھا.تو میاں صاحب نے بازار سے کچھ سودا خریدا.جب رقم کی ادائیگی کرنے لگے تو رقم دیکھی تو پوری نہیں تھی.خیر جو صاحب ساتھ تھے ، جو خدمتگار ساتھ تھے انہوں نے وہ رقم ادا کر دی اور سامان کا بیگ اٹھا لیا.گھر پہنچے تو انہوں نے وہ بیگ اندر دینا چاہا تو میاں صاحب نے کہا.نہیں ٹھہریں، دروازے کے باہر رکیں.میں آتا ہوں.اندر گئے اور اندر سے جا کے رقم لے کر آئے اور ان کے ہاتھ پر رکھ دی اور پھر سامان کا

Page 576

$2004 571 خطبات مسرور تھیلا پکڑ لیا اور فرمایا کہ اب مجھے دے دو کیونکہ جب تک میں نے تمہیں پیسے نہیں دیئے تھے، یہ سامان میرا نہیں تھا.یہ تمہارا تھا اور اب پیسے میں نے ادا کر دیئے ہیں ،اس لئے یہ اب مجھے دے دو.تو ایسی مثالیں اگر معاشرے میں قائم ہونے لگ جائیں تو بہت سارے جھگڑے فساد کبھی پیدا ہی نہ ہوں.تو یہ چند باتیں تھیں جو میں نے قرض دینے والے اور قرض لینے والے کو کیا طریق اختیار کرنا چاہئے ، اس کے بارے میں کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا طریق سکھایا ہے، جس پر عمل کر کے ہم معاشرے میں کسی قسم کی بدمزگی پیدا نہ ہونے دیں.اب اس ضمن میں چند باتیں اور کرنا چاہتا ہوں کہ قرض دینے والا اپنے مقروض سے کیا سلوک کرے اور جس نے قرض دینا ہے اس نے کس طرح اس کی واپسی کی فکر کرنی چاہئے تا کہ باہم محبت اور پیار اور بھائی چارے کی فضا قائم رہے کسی بھی قسم کے لڑائی جھگڑے اور مقدمہ بازی کی نوبت نہ آئے تو پہلے جو قرض خواہ یا قرض دینے والا ہے اس کے بارے میں کچھ کہوں گا کہ اس کو کس حد تک اپنے قرض کے مطالبے میں نرمی کرنی چاہئے سہولت دینی چاہئے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ.وَانْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ (البقرة:281) جب کوئی تنگدست ہو تو اسے آسائش تک مہلت دینی چاہئے اور اگر تم خیرات کر دو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اگر تم کچھ علم رکھتے ہو یعنی قرض خواہ کو کہا گیا ہے کہ اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ قرض دار بہت تنگدست ہو تو بہتر یہ ہے کہ یا تو اس کو سہولت دو کہ وہ آسان قسطوں پر قرض واپس کر دے یا پھر اگر وہ بہت ہی زیادہ مجبور ہے اور تم اس قابل ہو کہ اس کا قرض معاف کر سکو اور تمہارے حالات ایسے ہیں کہ تمہیں کوئی فرق نہ پڑتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ معاف کر دو اور یادرکھو کہ تمہیں یہ پتہ ہونا چاہئے اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے بے پناہ فضلوں کو حاصل کرنے والے ہو گے.اور اگر تم اپنے مقروض کو تنگ کرو گے سختی کرو

Page 577

خطبات مسرور 572 $2004 گے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بھی تم پر نظر رکھے ہوئے ہے.اس کے بہت سارے تم پر احسانات ہیں.تمہاری ضروریات پوری کر رہا ہے.یہ بھی اگر اس طرح حساب لینا شروع کر دے تو پھر تو تم مشکل اور مصیبت میں پڑ جاؤ گے.اس لئے ہمیشہ نرمی کا سلوک کرو.ایک حدیث میں آتا ہے " آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی سے قرض کی رقم لینی ہو اور وہ اس کو مقررہ میعاد گزرنے کے بعد بھی مہلت دیتا ہے تو ہر وہ دن جو مہلت کا گزرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ ہوگا.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه 442مطبوعه بيروت) تو یہ اس قرآنی حکم کی مزید تشریح ہوگئی کہ تمہاری یہ مہلت تمہاری یہ سہولت جو تم نے اپنے مقروض بھائی کے لئے مہیا کی ہے تمہارے ثواب میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے.ایک تو قرض کا ثواب کما رہے ہو، دوسرے صدقے کا ثواب کمارہے ہو.کیونکہ قرض دینے کا بھی ثواب ہے اور صدقے سے زیادہ کا ثواب ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت علﷺ نے فرمایا کہ اسراء والی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا کہ صدقے کی جزا دس گنا ہوگی اور قرض دینے کی جزا اٹھارہ گنا ملے گی.میں نے پوچھا اے جبرائیل ! قرض صدقہ سے افضل کیوں ہے؟ ( تو جبرائیل نے ) جواب دیا کہ سائل اس حال میں سوال کرتا ہے کہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے جبکہ قرض لینے والا صرف ضرورت کے وقت ہی قرض مانگتا ہے“.(سنن ابن ماجه کتاب الاحکام باب القرض ).تو اس میں قرض لینے والوں کے لئے بھی ایک سبق ہے، نصیحت ہے کہ سوائے اشد مجبوری کے قرض نہ مانگیں ورنہ ان کا شمار بھی صدقہ کھانے والوں میں ہوگا.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو اور اس کی تکلیف دور ہو جائے تو اسے چاہئے کہ وہ تنگدست مقروض کو سہولت دے“.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 23 مطبوعه (بیروت)

Page 578

$2004 573 خطبات مسرور تو تنگدست مقروض بھائیوں کی ضرور مدد کرنی چاہے لیکن بعض لوگوں نے جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ قرض لینے کو بھی پیشہ بنالیا ہے.کام کچھ نہیں کریں گے ، مانگنے کا ذرا بہتر طریقہ یہ اختیار کر لیا کہ قرض دے دو اورا تارنے کی کوئی فکر نہیں ہوتی.حضرت ابو قتادہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مسلمان پر ان کا کچھ قرض تھا تو جب یہ تقاضا کرنے جاتے تو یہ چھپ رہتا تھا، (چھپ جاتا تھا).تو ایک روز گئے تو اس شخص کے لڑکے سے معلوم ہوا کہ گھر میں بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں ( تو اس کو انہوں نے ) آواز دے کر کہا کہ باہر نکلو مجھے معلوم ہو گیا ہے ) کہ تم اندر ہو ) اب چھپنا بے کار ہے اور پھر جب وہ باہر آئے تو چھپنے کی وجہ معلوم کی.اس نے کہا بات یہ ہے کہ میں بڑا تنگدست ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے اس کے ساتھ عیال دار ہوں، ( بچے بھی بہت ہیں، خاندان بھی بڑا ہے، تو انہوں نے پوچھا واقعی تمہارا یہی ہے تو اس نے کہا خدا کی قسم میرا یہی حال ہے تو اس پہ ابو قتادہ آبدیدہ ہو گئے اور انہوں سے اس کو سارا قرض معاف کر دیا.(سیـر صـحـابـه جلد 3 صفحه 200 ).یہاں جوصورت نظر آ رہی ہے اس میں دوسرے مسلمان کا شرمندگی کا پہلو نظر آ رہا ہے.اس خیال سے کہ میں وعدے کے مطابق قرض نہیں اتارسکا کوئی صورت نظر نہیں آرہی ، سامنے جاؤں گا تو باتیں بھی سنوں گا، شرمندگی بھی اٹھانی پڑے گی تو اس وجہ سے وہ چھپے رہتے تھے لیکن صحابہ جن کی ٹرینگ آنحضرت ﷺ سے براہ راست ہوئی تھی ان کے دل بھی نرم تھے اور وہ پہنچانتے بھی تھے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط.ان میں کافی فراست ہوتی تھی تو انہوں نے اس کا جائزہ لیا.اس سے بات کی اور پھر قرض معاف کر دیا.یہ آجکل کے لوگ بعض لوگوں کی طرح نہیں ہیں کہ قرض بھی لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ ابھی حالات نہیں ، ابھی واپس نہیں کر سکتے اور واپس کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے.حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آسانی

Page 579

$2004 574 خطبات مسرور پیدا کرنے والے (سنی) آدمی پر رحم فرمائے جب وہ خرید وفروخت کرتا ہے اور جب وہ قرضے کی واپسی کا تقاضا کرتا ہے“.(بخاری کتاب البیوع باب السهولة والسماحة في الشراء والبيع ومن طلب حقا فليطلبه فی عفاف).یعنی کا روبار میں بھی ناجائز منافع لوٹ مار نہیں کرتا بلکہ مناسب منافع رکھتا ہے اور جب کسی قرضدار سے قرض واپس نہیں ہوتا اس سے نرمی کا سلوک کرتا ا ہے کیونکہ ایسا آدمی اللہ تعالی کے بندوں پر رحم کر رہا ہوتا ہے.اس لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں سے پھر رحم کا سلوک فرماتا ہے.پھر ایک روایت ہے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو جنت میں داخل کیا جو خریدتے وقت اور بیچتے وقت قرض دیتے وقت اور قرض کا تقاضا کرتے وقت آسانی پیدا کرتا تھا“.(سنن نسائى كتاب البيوع باب حسن المعاملة والرفق فى المطالبة پھر ایک روایت آتی ہے آپ نے فرمایا کہ " جس شخص نے تنگدست مقروض کو قرضہ کی ادا ئیگی میں مہلت دی یا معاف کر دیا تو قیامت کے دن جب اللہ کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے عرش کے نیچے سایہ عطا فرمائے گا.(ترمذى كتاب البيوع ما جاء في انظار المعسر والرفق به حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اگر وہ کسی تنگدست شخص کو دیکھتا تو اپنے ملازموں کو کہتا اس سے صرف نظر کرو.شاید اللہ تعالیٰ ہم سے بھی صرف نظر فرمائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سے صرف نظر فرمایا “.(بخارى كتاب البيوع باب من انظر معسرا) پس جن کو توفیق ہو ان کو جس حد تک ممکن ہو سہولت مہیا کرنی چاہئے ، بجائے لڑائی جھگڑوں اور عدالتوں کے.اب میں جو قرض لینے والے ہوتے ہیں ان کو کس قسم کا نمونہ دکھانا چاہئے ، ان کے بارے میں کچھ بتاؤں گا کہ قرض کی واپسی کس طرح کرنی چاہئے.اور کتنی فکر سے اور کتنی جلدی کرنی چاہئے.اس سلسلے میں تو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کا اپنانمونہ ہے.

Page 580

$2004 575 مسرور ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے ( قرض کی واپسی کا ) تقاضا کیا اور شدت سے کام صلى الله لیا بختی سے بات کی تو صحابہ نے اس کو مارنا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو صاحب حق ہے.(یعنی جس نے قرض لینا ہو ) اس کو کہنے کا حق ہے پھر فرمایا اس کے اونٹ کی مانند اس کو اونٹ دے دو تو صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ ہے ( ویسا نہیں بلکہ اس سے بہتر ہیں ) تو آپ نے فرمایا اس کو وہی دے دو تم میں سے بہتر وہ ہے جو ( قرض کی ادائیگی میں بہترین انداز اپناتا ہے.(بخاری کتاب الوكالة باب الوكالة في قضاء الديون) تو قرض لینے والے بھی یادرکھیں کہ جب قرض لیں تو اس نیت سے لیں کہ ایک تو جلد واپس کرنا ہے اور جب واپس کرنا ہے تو احسن طریق پر کوشش کر کے، اگر بڑھا کے واپس کرنا ہے تو یہ سب سے اچھا طریقہ ہے.اور یہ بڑھا کر واپس دینا سود نہیں ہے بلکہ یہ احسان ہے.وہ شکریہ کے جذبات ہیں کہ ضرورت کے وقت کوئی شخص آپ کے کام آیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے.یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ سود میں داخل نہیں ہے، وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے.پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادائیگی کے وقت اسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ (نہ) دے دیا ہو.یہ خیال رہنا چاہئے کہ اپنی خواہش نہ ہو خواہش کے برخلاف جو زیادہ ملے وہ سود میں داخل نہیں ہے“.( ملفوظات جلد 3 صفحه 166-167ـ البدر ۲۷ مارچ ۱۹۰۳ء) الله پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت علیہ نے فرمایا کہ دولت مند کا ( قرض ادا

Page 581

$2004 576 خطبات مسرور کرنے میں ) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اگر تم میں سے کسی کو ٹال مٹول کرنے والے کا پیچھا کرنے کو کہا جائے تو چاہئے کہ وہ (اس ٹال مٹول کرنے والے کا ) پیچھا کرئے“.(بخارى كتاب الحوالة باب الحوالات وهل يرجع في الحوالة یعنی اس کو مجبور کر کے اس کو قرض واپس دلوائے.تو بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ قرض لے لیا اور واپس نہیں کرتے.بینکوں سے لے لیتے ہیں اور نیت یہی ہوتی ہے کہ بہت ہی کوئی پیچھے پڑے گا تو واپس کریں گے ورنہ نہیں کریں گے.پاکستان وغیرہ اور ایسے ملکوں میں بڑے بڑے لوگ یہی کرتے ہیں قرض لے لیتے ہیں اور پھر سالوں ان کے پیچھے بینک پھرتے رہتے ہیں پھر جب کبھی زور چلا تو مل ملا کے معاف کروالیا.اگر ایسے لوگوں کو کوئی کہے کہ صدقہ لے لو تو بڑا برا منائیں گے کہ ہمیں کہہ رہے ہو، اتنے امیر آدمی کو صدقہ لے لو لیکن قرض جو اس طرح مارنے والے ہیں وہ صدقہ کھانے والے ہی ہیں یا قرض لینا بھی ایک قسم کا صدقہ ہی ہے، اس کو ہضم کر جاتے ہیں اور کوئی فکر نہیں ہوتی ، بہر حال جماعت میں بھی بعض اوقات بعض واقعات ایسے ہو جاتے ہیں اور پھر نظام جماعت ان کو حق دلوانے کی کوشش بھی کرتا ہے.ہمیں چاہئے کہ سارے احتیاط سے کام لیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ” قرض ادا کر سکنے والے کا ٹال مٹول کرنا ( یعنی جس کو توفیق ہو کہ قرض ادا کر سکے اس کا پھر ٹال مٹول کرنا ) اس کی آبرو اور اس کی سزا کو حلال کر دیتا ہے.(ابوداؤد كتاب الحوالات باب الحوالة ) تو ایسے لوگوں کے خلاف جماعت کے اندر جب نظام جماعت حرکت میں آتا ہے تو کہتے ہیں کہ دیکھو یہ ہماری خاندانی عزت سے کھیلا گیا.فلاں عہد یدار نے ہماری بے عزتی کی یا قضا نے ہمیں غلط سزادی.تو ایسے لوگ جو صاحب استطاعت ہوں، استطاعت رکھتے ہوں اور پھر تعاون نہ کریں تو اس حدیث کی رو سے ان سے ایسا سلوک جائز ہے.اگر ان کی بے عزتی بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اور جب نظام جماعت ایسا سلوک کرتا ہے تو ان کو پھر شور مچانے کا بھی کوئی حق نہیں

Page 582

$2004 577 خطبات مسرور ان کو پہلے ہوش کرنی چاہئے.پھر ایک روایت میں آتا ہے ”جس شخص نے لوگوں سے واپس کرنے کی نیت سے مال ( قرض پر لیا اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا ئیگی کرا دے گا.اور جو شخص مال کھا جانے اور تلف کر جانے کی نیت سے لے گا اللہ تعالیٰ اسے تلف کر دے گا.(بخاری کتاب الاستقراض واداء الديون ـ باب من اخذ اموال الناس يريد اداءها واتلافها) تو نیت نیک ہونی چاہئے اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتا ہے اور اگر بری نیت ہوگی تو اس میں برکت بھی نہیں ہوگی.پس نیتوں کو صاف رکھنا چاہئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ بعض لوگ صرف قرض اس لئے لے لیتے ہیں کہ چلو سہولت میسر آ گئی ہے، کہیں سے لے لو واپس تو کرنا نہیں تو ایسے لوگ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ نہیں لیتے بلکہ آپ نے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مور د ٹھہرتے ہیں.آنحضرت معہ تو مقروض کے بارے میں اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ آپ جنازہ بھی نہیں پڑھایا کرتے تھے.حضرت سلمیٰ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا اور نماز جنازہ پڑھنے کی درخواست کی گئی آپ نے پوچھا اس کے ذمہ قرض ادا کرنا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں ( پھر ) پوچھا کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے؟ جواب دیا گیا کہ نہیں.آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی.پھر ایک اور جنازہ لایا گیا، صحابہ نے درخواست کی یا رسول اللہ ! اس کی نماز جنازہ پڑھیں آپ نے پوچھا کیا اس کے ذمے قرض ادا کرنا ہے؟ عرض کیا گیا ہاں ! ( پھر ) پوچھا کیا کوئی چیز اس نے ترکے میں چھوڑی ہے؟ عرض کیا تین دینار، آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی.پھر تیسرا جنازہ لایا گیا صحابہ نے عرض کیا حضور اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں آپ نے فرمایا کیا اس نے کوئی چیز ( ترکہ میں ) چھوڑی ہے.صحابہ نے کہا نہیں، پھر دریافت کیا کیا اس کے ذمے کوئی قرض ہے، صحابہ نے

Page 583

578 $2004 خطبات مسرور عرض کیا تین دینار ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو.(یعنی آپ نے نہیں پڑھائی اور کہا کہ دوسرے پڑھ لیں ).تو ابو قتادہ نے عرض کی یا رسول اللہ ! اس کا جنازہ پڑھا دیں.اس کا قرض میرے ذمہ ہے اس پر آنحضور نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی.(بخارى كتاب الحوالة باب اذا احال دين الميت على رجل (جاز) ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں کفر اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ( یہ آپ دعا کر رہے تھے ) ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا قرض کا معاملہ کفر کے برابر کیا جائے گا؟ اس پر رسول اللہ نے فرمایا ہاں“.(مسند احمد بن حنبل مسند باقي المكثرين جلد ۳ صفحه ۳۸) بہت بڑا انذار ہے.ایک طرف تو ہم ایمان لانے کا دعوی کریں مومنوں میں شمار ہونے کی خواہش کریں دوسری طرف بلاوجہ قرضوں میں پھنس کر دین سے دور ہٹ رہے ہوں.قرض ادا کرنے کے معاملے میں لیت و لعل سے کام لینے والے ہوں اور کفر کی طرف بڑھ رہے ہوں.اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں گناہوں اور قرض سے تیری پناہ چاہتا ہوں کسی کہنے والے نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ اللہ تعالیٰ سے قرض کے بارے میں کتنی ہی زیادہ پناہ طلب کرتے ہیں.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایک شخص جب مقروض ہو جاتا ہے تو بات کرتے ہوئے جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے خلاف ورزی کرتا ہے“.(بخاری کتاب الاستقراض واداء الديون باب من استعاذ من (الدين اس سے پہلی حدیث کی بھی مزید وضاحت ہو گئی تو پھر جھوٹ اور وعدہ خلافی جب بڑھنے شروع ہوتے ہیں یہ کفر کی طرف لے جاتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”عدل کی حالت یہ ہے جو تقی کی حالت نفس امارہ کی صورت میں ہوتی ہے.اس حالت کی اصلاح کیلئے عدل کا حکم ہے اس لئے

Page 584

$2004 579 خطبات مسرور نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اس کو دبالوں اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گزر جاوے.اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بے باک ہو گا کہ اب تو قانونی طور پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوسکتا.مگر یہ ٹھیک نہیں، عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دین واجب ادا کیا جاوے اور کسی حیلے سے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے.( فرمایا) مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پرواہ نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں.یہ عدل کے خلاف ہے.آنحضرت ﷺ تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے.پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یادر کھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئے کیونکہ یہ امرالہی کے خلاف ہے“.(ملفوظات جلد 4 صفحه 607 ، الحكم 24 جنوری (1906 آپ کا اپنا نمونہ کیا تھا.ایک پیش کرتا ہوں.ایک دفعہ آپ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے پانچ سو روپے قرض لیا تو اس کے بعد آپ نے ان کو خط لکھا اس میں لکھا کہ باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ کیونکہ اس عاجز نے پانچ سوروپے آں محب کا قرض دینا ہے، مجھے یاد نہیں کہ میعاد میں سے کیا باقی رہ گیا ہے اور قرضے کا ایک نازک اور خطرناک معاملہ ہوتا ہے.میرا حافظہ اچھا نہیں.یاد پڑتا ہے کہ پانچ برس میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا.اور کتنے برس گزر گئے ہوں گے.عمر کا کچھ اعتبار نہیں.آپ براہ مہربانی اطلاع بخشیں کہ کس قدر میعاد باقی رہ گئی ہے تا حتی الوسع اس کا فکر رکھ کر بتو فیق باری تعالیٰ میعاد کے اندراندرادا ہو سکے اور اگر ایک دفعہ نہ ہو سکے تو کئی دفعہ کر کے میعاد کے اندر بھیج دوں ( یعنی قسطیں مقرر کر دوں).امید ہے کہ جلد اس سے مطلع فرمائیں گے تا میں اس فکر میں لگ جاؤں کیونکہ قرضہ بھی دنیا کی بلاؤں میں سے ایک سخت بلا ہے.اور راحت اسی میں ہے کہ اس سے سبکدوشی ہو جائے“.(حضرت حجة الله نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹله اصحاب احمد حصه دوم مرتبه ملك صلاح الدین صاحب ایم اے، صفحه 762 تا 764) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے احکامات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ہر کام میں وہ

Page 585

خطبات مسرور 580 $2004 اعلیٰ نمونے قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جن کی ہمیں تلقین فرمائی ہے.قرضوں کی لین دین کی شرائط ان احکامات کے مطابق کرنے والے ہوں اور قرضوں کی واپسی کا تقاضا بھی ہم تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے کرنے والے ہوں.اور قرضوں کے حصول کی کوشش بھی صرف اس وقت ہو جب اشد مجبوری ہو.اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کی بھی فکر ہو.اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے ہوئے ان قرضوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے جھکنے والے ہوں.ان معاشرے کے بہت سے فساد اسی لین دین کی وجہ سے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو ان سے بچائے.اور جماعت احمدیہ کے معاشرے کو ان بکھیڑوں سے پاک رکھے.جب اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں گے اور کوشش بھی یہ ہوگی کہ قرضے ادا کرنے ہیں اور ان کی فکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ خود ہی سامان بھی اپنے فضل سے پیدا فرما دیا کرتا ہے.ایک نسل حضرت طلیقہ انہی الاول کی روایت میں ملتا ہے کسی شخص نے آپ سے کہا کہ 25 ہزار روپے کا مقروض ہو گیا ہوں تو آپ نے فرمایا اس کے تین علاج ہیں ( بہت زیادہ ) (۱) استغفار کرو، (۲) فضول خرچی چھوڑ دو.( سارے اپنا اپنا جائزہ لیں تو یہی باتیں سامنے آتی ہیں) اور (۳) ایک پیسہ بھی ملے تو قرض خواہ کو دے دو.(حیات نور صفحه ٥١٧ ، مرتبه مولانا عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل یعنی یہ نہیں کہ پوری رقم ملے گی کہیں سے تو قرض ادا ہوگا بلکہ جتنی کم سے کم بھی رقم ملتی ہے کوشش یہ کرو کہ قرض ادا کرنا ہے اور اس کی ادائیگی کرتے چلے جاؤ.تو جو بھی مقروض ہیں وہ یہ نسخہ بھی آزمائیں.بہت سوں نے اس کو آزمایا ہے، کئی روایتیں ہیں، بڑا فائدہ اٹھایا ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو قرضے کی مشکلات سے نکالے اور اپنی رضا کی راہوں پر ہمیں چلائے.(آمین)

Page 586

$2004 581 34 خطبات مسرور نیکیوں کی معراج حاصل کرنے کے لئے تمام نیکیاں بجالانا ضروری ہے لغویات ایک حد کے بعد گناہ میں شمار ہونے لگتی ہیں ۲۰ را گست ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۰ ظهور ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مئی مارکیٹ، منہائم (جرمنی) الغوامور کی تفصیلات اور ان سے بچنے کی ضرورت انٹرنیٹ کا استعمال جو ایک بہت بڑی لغو چیز ہے.....Chatting کے نقصانات اور خطرات سکریٹ نوشی کے نقصانات ،اس سے جان چھڑائیں

Page 587

خطبات مسرور $2004 582 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ حَشِعُوْنَ.وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ.وَالَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكَوةِ فَعِلُوْنَ.وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حَفِظُوْنَ إِلَّا عَلَى اَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ.فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَدُونَ.وَالَّذِيْنَ هُمْ لَا مَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُوْنَ.وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلَى صَلَوتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ.أَوْلَئِكَ هُمُ الْوَرِثُوْنَ الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيْهَا خلِدُونَ (سورة المومنون آيات 2 تا 12) انسان دنیا میں بہت سی ایسی باتیں کر جاتا ہے کہ جو برائیوں کی طرف لے جانے والی اور خدا تعالیٰ سے دور کرنے والی ہوتی ہیں اور اچھے بھلے سمجھدار لوگ جن کو دین کا بھی علم ہوتا ہے وہ بھی بعض دفعہ ایسی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کے لوگ بھی ایسی باتیں کر سکتے ہیں.یہ باتیں، یہ حرکتیں جو جان بوجھ کر کی جا رہی ہوں یا انجانے میں کی جارہی ہوں لغو، فضول یا بیہودہ حرکتوں میں شمار ہوتی ہیں.اور ایسی حرکتیں کرنے والے یا با تیں کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہلکی پھلکی باتیں ہیں مذاق کی باتیں ہیں، دل لگانے کی باتیں یا حرکتیں ہیں.لیکن اُن کو پتہ نہیں چلتا کہ یہی باتیں بعض دفعہ پھر برائیوں کی طرف لے جانے والی اور خدا تعالیٰ کے احکامات سے پرے ہٹانے والی بن جاتی ہیں.اس لئے ایک مومن کو ہمیشہ ان سے بچنا چاہئے.کیونکہ اپنی فلاح اور کامیابی کے لئے بھی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بھی ان سے بچنا انتہائی ضروری ہے.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا حاصل کرنے والوں،

Page 588

$2004 583 خطبات مسرور اپنے فضلوں اور اپنی رحمتوں کے وارث بننے والوں، اپنی جنتوں کے وارث بنے والوں کے لئے مختلف طریقے سکھائے ہیں کہ اگر ان راستوں پر چلو گے اس طرح اپنی اصلاح کرو گے تو پھر میری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ میری جنتوں تک پہنچنے کی جو سیڑھی ہے اس کے یہ یہ قدم ہیں، یہ یہ درجے ہیں.ہر سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے اگر میری رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو گے تو فردوس کے مالک ہو گے.یعنی میری اُس جنت کے وارث ہو گے جو تمام جنتوں کا مجموعہ ہے.وہ اعمال کیا ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث ہو گے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کے مختلف درجے ہیں.فرمایا پہلا زینہ یا درجہ نمازوں میں عاجزی دکھانا ہے.دوسرا ز مینہ یہ ہے کہ لغویات سے پر ہیز کرنا.تیسرا درجہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا ہے.پھر چوتھی سیڑھی یا درجہ یہ ہے کہ فروج کی حفاظت کرنا یعنی شرم گاہوں کی.اسی طرح منہ آنکھ کان وغیرہ کی بھی حفاظت کرنا اور ان کا صحیح استعمال کرنا.پھر پانچواں قدم اس سیڑھی کا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق سے کئے گئے عہدوں اور وعدوں کی ادائیگی.پھر چھٹا درجہ ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرنے والے یہ لوگ ہوتے ہیں.یعنی ایک فکر کے ساتھ اپنی نمازوں کی بروقت ادائیگی کی طرف توجہ رکھتے ہیں.تو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فردوس کے وارث بننے کے لئے ، میری جنتوں کے وارث بننے کے لئے تمہیں یہ تمام منزلیں طے کرنی ہوں گی.ان میں سے کسی درجے کو بھی کم نہ سمجھو.یہ تمہیں بتدریج اُس معیار تک پہنچانے کے لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا معیار ہے.اس لئے ان آیات کے شروع میں ہی بتا دیا کہ تمہاری فلاح، تمہاری کامیابی تمہارا اپنے مقصد کو حاصل کرنے کا دعوی اسی صورت میں حقیقت ہو گا جب ہر درجے اور اس سیڑھی کا ہر قدم جس پر تم کامیابی سے چڑھ جاؤ تمہیں اگلے قدم یا اگلے درجے کی طرف لے جانے والا ہو.پس نیکیوں کی معراج حاصل کرنے و

Page 589

$2004 584 خطبات مسرور کے لئے تمام نیکیاں بجالا نا ضروری ہے.اس لئے کسی ایک نیکی کو بھی کسی صورت میں بھی کم نہ سمجھو.کیونکہ آخری منزل پر پہنچنے تک ہر وقت یہ خطرہ ہے.جب تک تم آخری منزل تک پہنچ نہیں جاتے یہ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے کہ کسی ایک قدم پر کسی ایک سیڑھی پر سے بھی تمہارا پاؤں کہیں پھسل نہ جائے.اگر پاؤں پھسلا تو تم پھر اپنی پہلی حالت میں واپس آ جاؤ گے.اس لئے وہی مومن فلاح پانے والے ہوں گے جو ہر سیڑھی پر پاؤں رکھتے ہوئے اپنے مقصد حیات کو حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کی جنتوں تک پہنچ جائیں گے اور جب وہاں پہنچ جائیں گے تو فرمایا پھر فکر کی کوئی بات نہیں ہے تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو کیونکہ اب تمہاری اس محنت کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ بھی تمہاری حفاظت کرے گا.ان آیات میں بیان کیا گیا نیکیوں کو حاصل کرنے کا ہر درجہ کیونکہ ایک تفصیل چاہتا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس کی بڑی تفصیل سے تفسیر بیان فرمائی ہے.ساروں کی تفصیل تو بیان نہیں ہوسکتی، اس وقت میں نسبتاً ذرا تفصیل سے اس سیڑھی کے دوسرے درجے یعنی ﴿وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُون کے بارے میں کچھ کہوں گا.لغو باتوں اور لغوحرکتوں اور لغویات میں ڈوبنے کی یہ بیماری آجکل کچھ زیادہ جڑ پکڑ رہی ہے.اور اسی وجہ سے یہ بیماری تقویٰ میں بھی روک بنتی ہے.اور اس طرح غیر محسوس طور پر اس کا حملہ ہو رہا ہے کہ اس بیماری کی گرفت میں آنے کے بعد بھی انسان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس بیماری میں گرفتار ہے اور کیونکہ پورا معاشرہ ہر جگہ اور ہر علاقے میں ہر ملک میں اس بیماری میں مبتلا ہے اس لئے اس بیماری کے پیٹ میں آ کر بھی پتہ نہیں لگتا کہ ہم اس بیماری میں گرفتار ہیں.بعض قریبی عزیزوں کو بھی اس وقت پتہ چلتا ہے جب ان لغویات کی وجہ سے ان کے حقوق متاثر ہورہے ہوتے ہیں.بیویاں بھی اس وقت شور مچاتی ہیں جب ان کے اور ان کے بچوں کے حقوق مارے جارہے ہوں.اس سے پہلے وہ بھی معاشرے کی روشنی کا نام دے کر اپنے خاوندوں کی ہاں میں ہاں ملا رہی

Page 590

$2004 585 خطبات مسرور ہوتی ہیں.بلکہ بعض دفعہ خود بھی ان لغویات میں شامل ہورہی ہوتی ہیں تو اسی طرح ماں باپ ، دوست احباب اس وقت تک کچھ توجہ نہیں دیتے جب تک پانی سر سے اونچا نہیں ہو جا تا.نظام جماعت کو بھی پتہ نہیں لگ رہا ہوتا جب تک کسی دوست یا عزیز رشتہ دار کی طرف سے یہ نہ پتہ چل جائے کہ لغویات میں مبتلا ہے.بظاہر ایک شخص مسجد میں بھی آ رہا ہوتا ہے اور جماعتی خدمات بھی بجالا رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بعض قسم کی غلط حرکتوں میں لغویات میں بھی مبتلا ہوتا ہے اس لئے یہ نہایت اہم مضمون ہے جس پر کچھ کہنا ضروری ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض لوگ بعض باتیں اور حرکتیں ایسی کر رہے ہوتے ہیں جوان کے نزدیک کوئی برائی نہیں ہوتی حالانکہ وہ لغویات میں شمار ہورہی ہوتی ہیں اور نیکیوں سے جانے والی ہوتی ہیں.اور بعض دفعہ جائز بات بھی غلط موقع پرلغو ہو جاتی ہے.سے دور اب میں بعض تفسیر میں بیان کرتا ہوں.علامہ فخر الدین رازی وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُون کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ اس بارے میں متعد دا قوال ہیں.بہت سے لوگوں نے کہا ہے.ایک یہ کہ اللغو میں تمام حرام اور تمام مکر وہ شامل ہیں.دوسرے یہ کہ اللغو سے مراد صرف ہر حرام ہے.تیسرے یہ کہ اللغو کا لفظ خصوصی طور پر قول و کلام میں معصیت پر دلالت کرتا ہے.پھر یہ کہ اللغو سے مراد وہ حلال ہے جس کی حاجت نہیں.( تفسیر کبیر رازی صفحه ۷۹ جلد ۲۳) تو مختلف مفسرین نے جو اس کے مختلف معنی کئے ہیں یعنی حرام چیزیں لغویات میں شامل ہیں ، ایک تو اس کی یہ تفسیر ہوگئی جو بڑی واضح ہے.مکروہ چیزیں لغویات میں شامل ہیں.پھر ایک نے یہ لکھا ہے کہ لغو کا لفظ خاص طور پر بات چیت میں غلط اور گناہ کی باتیں کرنے کو کہتے ہیں.اور ایک معنی یہ ہیں کہ ایسا جائز یا حلال کام بھی جس کی کسی مومن کو ضرورت نہیں ہے وہ بھی اگر وہ کرتا ہے تو وہ بھی لغویات میں شمار ہوتا ہے.تو دیکھیں لغویات سے بچنے کے لئے کس قدر باریکی میں جا کر لوگوں نے اس کے معنے نکالے ہیں.

Page 591

$2004 586 مسرور حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: ” اللغو میں کل باطل، کل معاصی ، لغو میں داخل ہیں، تاش، گنجوفہ چوسرسب ممنوع ہیں.گپیں ہانکنا، نکتہ چینیاں وغیرہ.“ حقائق الفرقان جلد 3 صفحه (171 یعنی ہر قسم کا جھوٹ غلط اور گناہ کی باتیں تاش کھیلنا، اس قسم کی اور کھیلیں.آجکل دکانوں پر مشینیں پڑی ہوتی ہیں چھوٹے بچوں کو جوئے کی عادت ڈالنے کے لئے ، رقم ڈالنے کے بعد بعض نمبروں کی گیمیں ہوتی ہیں کہ یہ ملا ، اتنے پیسے ڈالو تو اتنے پیسے نکل آئیں گے تو اس طرح جیتنے سے اتنی بڑی رقم حاصل ہو جائے گی ، یہ سب لغو چیزیں ہیں.اسی طرح بیٹھ کر مجلسیں جمانا، گپیں ہانکنا، پھر دوسروں پر بیٹھ کے اعتراض وغیرہ کرنا یہ سب ایسی باتیں ہیں جو لغویات میں شامل ہیں.وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴾ کی وضاحت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” دوسرا کام مومن کا یعنی وہ کام جس سے دوسرے مرتبہ تک قوت ایمانی پہنچتی ہے اور پہلے کی نسبت ایمان کچھ قوی ہو جاتا ہے، عقلِ سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ مومن اپنے دل کو جو خشوع کے مرتبہ تک پہنچ چکا ہے لغو خیالات اور لغو شغلوں سے پاک کرے.کیونکہ جب تک مومن میدادنی قوت حاصل نہ کر لے کہ خدا کے لئے لغو باتوں اور لغو کاموں کو ترک کر سکے جو کچھ بھی مشکل نہیں اور صرف گناہ بے لذت ہے اس وقت تک یہ طمع خام ہے کہ مومن ایسے کاموں سے دستبردار ہو سکے جن سے دستبردار ہونا نفس پر بہت بھاری ہے اور جن کے ارتکاب میں نفس کو کوئی فائدہ یا لذت ہے.پس اس سے ثابت ہے کہ پہلے درجے کے بعد کہ ترک تکبر ہے ( یعنی پہلا درجہ ترک تکبر ہے عاجزی دکھانا ) دوسرا درجہ ترک لغویات ہے.اور اس درجہ پر وعدہ جو لفظ افلح سے کیا گیا ہے یعنی فوز مرام اس طرح پر پورا ہوتا ہے کہ مومن کا تعلق جب لغو کاموں اور لغوشغلوں سے ٹوٹ جاتا ہے تو ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے اس کو ہو جاتا ہے اور قوت ایمانی بھی پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے.اور خفیف تعلق اس لئے ہم نے کہا کہ لغویات سے تعلق بھی خفیف ہی ہوتا ہے (جیسا کہ

Page 592

587 $2004 خطبات مسرور پہلے فرمایا کہ باقی گناہوں کے نسبت بعض لغویات چھوڑنی بڑی آسان ہوتی ہیں ) پس خفیف تعلق چھوڑنے سے خفیف تعلق ہی ملتا ہے“.( ضمیمه براهین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحه 230-231) تو فرمایاافلح کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے ان لغو کاموں کو چھوڑنے سے پورا کرنا ہے لیکن جیسے کہ پہلے بھی بتایا ہے یہ کامیابی کا ایک حصہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے، ایک درجہ ہے کہ لغو کام جب انسان چھوڑتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے سے کچھ تعلق جوڑتا ہے اس کے تعلق میں بھی کچھ اضافہ ہوتا ہے اور پھر ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے.ایک دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: ”ایسے مومن کو خدا تعالیٰ کی طرف کچھ رجوع تو ہو جاتا ہے مگر اس رجوع کے ساتھ لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغوشغلوں کی پلیدی لگی رہتی ہے جس سے وہ انس اور محبت رکھتا ہے.ہاں کبھی نماز میں خشوع کے حالات بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں لیکن دوسری طرف لغو حرکات بھی اس کے لازم حال رہتی ہیں اور لغو تعلقات اور لغو مجلسیں اور لغو ہنسی ٹھٹھا اس کے گلے کا ہار بنارہتا ہے گویاوہ دورنگ رکھتا ہے کبھی کچھ کبھی کچھے“.66 ( ضمیمه براهین احمدیه حصه پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحه (235) تو دیکھیں یہاں آپ نے فرمایا کہ یہ لغویات جن سے تعلقات ہیں تمہارے گلے کا ہار بن رہے ہوتے ہیں.یہاں جلسوں پر آتے ہیں خطبہ جمعہ سنتے ہیں، نمازوں میں کبھی کبھی بڑا ذوق شوق بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ جو لغو تعلقات ہیں یہ تمہارے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں.ان مجلسوں، اجتماعوں اور نمازوں کے بعد تمہارے دل پر جو اثر ہوتا ہے اس کی وجہ سے تم نیکیوں کے راستے اختیار کرنا چاہتے ہو.لیکن یہ جو لغو تعلقات ہیں، یہ فضول قسم کے جو لوگ ہیں اور فضول قسم کے لوگوں کی جو دوستیاں ہیں یہ تمہیں پھر واپس انہیں راستوں پر ڈال دیتی ہیں.جلسوں کے بعد اجتماعوں کے بعد، جمعہ کے بعد دل پر بعض دفعہ بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اور انسان ارادہ کرتا ہے کہ اب میں نے نیکی کی طرف

Page 593

$2004 588 خطبات مسرور ہی آگے قدم بڑھانا ہے.لیکن جب شام ہوتی ہے گھر سے نکلے بازار گئے ،کوئی کام کرنے کے لئے گئے ، کوئی دوست مل گیا بڑی محبت کا اظہار کیا بڑے طریقے سے بڑی خوبیاں گنوا کر کسی لاٹری کا تعارف کرا دیا.تمہارے پیسے بھی اس نے اس طرح ضائع کئے کہ لالچ تو یہ دیا کہ پیسے ضائع نہیں ہوں گے لیکن حقیقت میں پیسے ضائع ہو رہے ہوتے ہیں.اور وہ آپ کے پیسوں کے ساتھ اپنے پیسے بھی ضائع کر رہا ہوتا ہے.یا پھر رقمیں جیتنے کے لئے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ مختلف جگہوں پر بعض مشینیں لگی ہوتی ہیں بعض گیمز پڑی ہوتی ہیں خاص طور پر نو جوان اور بچے ، ویسے تو بڑے بھی اس میں کافی دلچسپی لیتے ہیں ، باتوں باتوں میں ہی ان کو کھیلنے میں لگا دیا.اس طرح وہ دوستوں کی باتوں میں آگئے.یا ایسے دوست جن کو سگریٹ پینے کی عادت ہوتی ہے ان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے سگریٹ کی عادت پڑ جاتی ہے.پھر بڑھتے بڑھتے دوسری نشہ آور اشیاء بھی استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں.تو ایسے لوگ جو اس طرح بگاڑنے کی کوشش کریں غلط قسم کے بیہودہ اور لغولوگوں کے زمرے میں آتے ہیں، ان سے تعلقات ختم کرنے چاہئیں.جلسہ کے دنوں میں بھی بعض دفعہ بعض ایسے نو جوان یہاں آ جاتے ہیں جو نشے کے عادی ہوتے ہیں چاہے ایک آدھ ہی ہو.کیونکہ اتنی جرات کر کے وہی لوگ آتے ہیں جو نشہ کا کاروبار کرنے والوں کے بعض دفعہ ایجنٹ بھی ہوتے ہیں.اور یہاں آ کر نو جوانوں کو باتوں باتوں میں لغویات میں ڈال دیتے ہیں.یہ جو لغویات ہیں ایک حد کے بعد یہ گناہ میں شمار ہونے لگ جاتی ہیں تو اس طرح آپ کو بعض لوگ گناہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.پھر لغو مجلسیں ہیں جہاں بیٹھ کر لوگوں کے متعلق باتیں ہو رہی ہوتی ہیں ہنسی ٹھٹھا کیا جارہا ہوتا ہے.یہ تمام مجالس بھی لغو مجالس ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.خاص طور پر یہ دن جو جلسے کے دن ہیں یہ آپ کی اصلاح کے دن ہیں، ایک ٹریننگ کے لئے آپ یہاں اکٹھے ہوتے ہیں.ان دنوں میں اگر ان برائیوں سے بچنے کی

Page 594

$2004 589 خطبات مسرور کوشش کریں اور اپنے پہ فرض کر لیں کہ ہم نے صرف اور صرف جلسے کے پروگراموں سے ہی فائدہ اٹھانا ہے کسی بھی قسم کی فضول یا لغو باتوں میں نہیں پڑنا تا کہ ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوں، تا کہ ہماری یہ کوشش ہو کہ ہم کامیابی کی سیڑھی کے اگلے قدم پر پاؤں رکھنے کے قابل ہوسکیں تو ایسے لوگوں کی دعوت پر جو برائی کی طرف بلانے کی دعوت دیتے ہیں قرآن کے حکم کے مطابق عمل کریں که ﴿وَإِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ﴾.یعنی جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں.بغیر اس طرف توجہ دیئے گزر جاتے ہیں.تو جہاں یہ حکم ہے کہ لغو کے پاس سے وقار کے ساتھ منہ پرے کر کے گزر جاؤ وہاں اس آیت میں اس سے پہلے یہ کم بھی ہے کہ ﴿وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّوْرَ کہ ایسے تعلقات جولوگوں سے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں جو لوگوں کے خلاف منصوبے بنانے والے ہیں وہ جھوٹے بھی ہوتے ہیں.کیونکہ کہیں بھی جھوٹی گواہی کی ضرورت پڑے تو وہ دریغ نہیں کرتے.اس لئے یاد رکھو کہ یہ لوگ تمہیں بھی جھوٹ بلوانے کی کوشش کریں گے.تمہارے سے بھی ایسی حرکات سرزد کر وا ئیں گے کہ تم بھی جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاؤ.اس لئے جب کبھی ایسے لوگ تمہارے قریب آئیں تو یاد رکھو کہ شیطان تمہارے خلاف حرکت میں آ گیا ہے اب اپنی خیر منالو، اب تم جھوٹ بولنے کے لئے تیار ہو جاؤ اب تم بھی جرائم میں ملوث ہونے والے ہو.اس لئے بہتر ہے کہ اگر تم سچے ہو، بچے بننا چاہتے ہو، اپنا دامن بچانا چاہتے ہو تو ان لوگوں سے بچ کر رہوتا کہ ہمیشہ سچ پر قائم رہو کیونکہ یہ سب لغو تعلقات والے لوگ ہیں.اس لئے بڑے وقار سے ان لوگوں سے پہلو بچاتے ہوئے پرے ہو جاؤ، ایک طرف ہو جاؤ.ان کی دوستی کی باتیں، ان کی چکنی چوپڑی باتیں تمہیں ان لغویات میں کہیں ملوث نہ کر دیں یہ بہت احتیاط کی ضرورت ہے.یادرکھیں کہ یہ ہنسی ٹھیٹھے اور دوسروں کے جذبات کا خیال نہ رکھنے والی باتیں جب منہ سے نکلیں گی تو مزید برائیوں کی دلدل میں پھنساتی چلی جائیں گی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے

Page 595

590 $2004 خطبات مسرور ہی وارننگ دے دی ہے کہ جھوٹ جو سب برائیوں کی جڑ ہے اس سے پر ہیز کرو اس سے بچو تا کہ تمام لغویات سے بچے رہو.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں.جب گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے، جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت سے کام لیتا ہے.(بخاری کتاب الادب باب قول الله تعالى يا ايها الذين امنوا اتقوا الله وكونوا مع الصدقين تو یہاں مزید کھول دیا کہ جھوٹ ایسی چھوٹی برائی نہیں ہے کہ کبھی کبھی بول لیا تو کوئی حرج نہیں.یہ ایک ایسی حرکت ہے جو منافقت کی طرف لے جانے والی ہے.ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو بڑی فکر کی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ ذرا ذراسی بات پر بعض دفعہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے یا مذاق میں یا کوئی چیز حاصل کرنے کے لئے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں ، غلط بیانی سے کام لے رہے ہوتے ہیں.پھر وعدہ خلافی ہے یہ بھی جھوٹ کی ہی ایک قسم ہے.قرض لے کر ٹال مٹول کر دیا وعدہ خلافی کرتے رہے، توفیق ہوتے ہوئے بھی واپس کرنے کی نیت کیونکہ نہیں ہوتی اس لئے ٹالتے رہے.پھر اس کے علاوہ بھی روزمرہ کے ایسے معاملات ہیں کہ جن میں انسان اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھتا.پھر میاں بیوی کے بعض جھگڑے صرف اس لئے ہور ہے ہوتے ہیں کہ بیوی کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ خاوند نے فلاں وعدہ کیا تھا پورا نہیں کیا.مثلاً یہ وعدہ کر لیا کہ جب میں اپنے کام سے واپس آ جاؤں تو فلاں جگہ جائیں گے.اس کو پورا نہیں کیا بلکہ واپس آ کے اپنے دوستوں کی مجلسوں میں گئیں مارنے کے لئے چلا گیا.یا اس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آئندہ میرے ماں باپ سے حسن سلوک کرے گا یا کرے گی کیونکہ یہ عورت و مرد دونوں کی طرف سے ہوتا ہے اور پھر اس کو پورا نہیں کیا.تو یہی چھوٹی چھوٹی وجہیں ہیں جو جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں.جہاں تک اس کا تعلق ہے، ایک دوسرے کے رشتوں کا ، ماں باپ کا خیال رکھنا، یہ تو چیز ایسی ہے کہ یہ تو رحمی رشتوں کے زمرے میں آتا ہے.ان سے تو

Page 596

$2004 591 خطبات مسرور ویسے ہی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے.وعدہ نہ بھی کیا ہو تو حکم ہے کہ حسن سلوک کرو.پھر امانت میں خیانت کرنے والے ہیں کچھ عرصہ تو ایمانداری دکھا کے اپنی ایمانداری کا کسی پر رعب جما لیتے ہیں، اور اس کے بعد پھر خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ تمام باتیں جھوٹ ہی کی قسم ہیں اور لغویات میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ ہر وہ چیز جو شیطان کی طرف لے جانے والی ہے وہ لغو ہے.حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : صدق فرمانبرداری کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور فرمانبرداری جنت کی طرف لے جاتی ہے.اور ایک شخص مسلسل سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ نافرمانیوں کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانیاں دوزخ کی طرف لے جاتی ہیں اور ایک شخص مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب شمار ہونے لگتا ہے.(بخاری کتاب الادب باب قول الله تعالیٰ یا ایها الذین امنوا اتقوا الله وكونوا مع الصدقين) تو دیکھیں جھوٹ ایک ایسی لغو حرکت ہے جو جب عادت بن جائے تو ایسے شخص کا شمار اللہ کے نزدیک کذاب کے طور پر ہوتا ہے.اور کا ذب (جھوٹا) جو ہے وہ پھر کبھی ہدایت پانے والا نہیں ہوتا.وہ ہدایت سے دور جانے والا ہوتا ہے.اور پھر اس کا ٹھکانہ بھی دوزخ ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے حقیقی مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکوۃ کے ساتھ آئے گا اور اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا.پس اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے ساتھ اس نے یہ سلوک کیا ہوگا.اگر اس کی نیکیاں اس کا حساب برابر ہونے سے قبل ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے جو گناہ ہیں اس ظلم کرنے کی وجہ سے اس کے سر پہ ڈال دیئے جائیں گے اور پھر اس کو آگ میں پھینک دیا جائے گا.(مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الظلم

Page 597

$2004 592 مسرور تو دیکھیں ان لغویات کی وجہ سے جو اس سے سرزد ہوئی ہوں گی اس کی نماز روزہ زکوۃ وغیرہ اس کو کوئی فائدہ نہیں دے رہا.اس لئے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہر سیڑھی پر قدم رکھنا ضروری ہے.ورنہ انجام کا رایسے لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان کا ٹھکانہ پھر جہنم ہوتا ہے.پس کسی پر بلا وجہ الزام تراشی کرنا یا کسی کا مال کھانا یا کسی بات کو معمولی سمجھنا کہ یہ ایسا گناہ نہیں ہے کوئی ایسی گناہ کی حرکت کر لینا.فرمایا کہ اس کی سزا بھی کسی کا خون بہانے کے برابر ہے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے یونہی بدظنی کرتے ہوئے الزام لگا دیتے ہیں، بغیر تحقیق کے یہ سوچ لیتے ہیں کہ فلاں نے میری شکایت کی ہوگی.یا فلاں نے فلاں شخص کو میرے خلاف ابھارا ہے وہ تو ہے ہی ایسا اور ویسا.تو بلا سوچے سمجھے ایسے الزام لگانا بھی ٹھیک نہیں ہے.اگر دوسرے شخص نے تمہارے خلاف واقعی ایسی حرکت کی ہے تو اس کا گناہ اس کے سر ہے تم کیوں بہتان لگا کر، ان لغویات میں پڑ کر اپنے سر اس کا گناہ لیتے ہو.ایک دوسرے کا مال بھی بعض لوگ ہوشیاری دکھا کے کھا جاتے ہیں.یا درکھو کہ تم نے اس دنیا میں تو ہوشیاری دکھالی لیکن اس دن کا خیال بھی کرو کہ جب جس کا مال کھایا ہے اس کا گناہ بھی اس حدیث کے مطابق، یہ جو انذار کیا گیا ہے، اس مال کھانے والے کے سر پر ہی پڑے گا.اس لئے اس دنیا میں بہت پھونک پھونک کے قدم رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ ہر ہلکی سی برائی بھی بعض دفعہ خوفناک انجام تک لے جاتی ہے.اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہنا چاہئے اس کا فضل مانگتے رہنا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس بات کو ترک کر دے جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں.(ترمذی.کتاب الزهد باب فيمن تكلم بكلمة يضحك بها الناس)

Page 598

$2004 593 مسرور بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بلا وجہ دوسروں کو مشورے دینے لگ جاتے ہیں.کسی نے کوئی مشورہ نہ بھی پوچھا ہو تو عادتاً مشورہ دیتے ہیں یا بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو کسی کی دل شکنی کا یا اس کے لئے مایوسی کا باعث بن جاتی ہے.مثلاً کسی نے کارخریدی، کہ دیا یہ کار تو اچھی نہیں فلاں زیادہ اچھی ہے.وہ بیچارہ پیسے خرچ کر کے ایک چیز لے آتا ہے اس پہ اعتراض کر دیا یا پھر اور اسی طرح کی چیز لی اس پہ اعتراض کر دیا.اس کی وجہ سے پھر دوسرا فریق جس پہ اعتراض ہورہا ہوتا ہے وہ پھر بعض دفعہ مایوسی میں چڑ بھی جاتا ہے اور پھر تعلقات پر بھی اثر پڑتا ہے.تو بلا ضرورت کی جو باتیں ہیں وہ بھی لغویات میں شمار ہوتی ہیں.بعض دفعہ دو آدمی باتیں کر رہے ہیں تیسر ا بلا وجہ ان میں دخل اندازی شروع کر دے، یہ بھی غلط چیز ہے لغویات میں اس کا شمار ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جو لغو کاموں اور لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں.(تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد سوم سورة النحل يا سورة يس صفحه 359 ) تو یہ تمام لغویات جن کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نشان دہی فرمائی ہے یہ کیا ہیں؟ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا کسی پر الزام تراشی کرنا ، بغیر ثبوت کے کسی کو بلاوجہ بدنام کرنا، اس کے افسران تک اس کی غلط رپورٹ کرنا ، عدالتوں میں بلاوجہ اپنی ذاتی انا کی وجہ سے کسی کو کھینچنا، گھریلو جھگڑوں میں میاں بیوی کے ایک دوسرے پر گندے اور غلیظ الزامات لگانا پھر سینما وغیرہ میں گندی فلمیں ( گھروں میں بھی بعض لوگ لے آتے ہیں ) دیکھنا، تو یہ تمام لغویات ہیں.پھر انٹرنیٹ کا غلط استعمال ہے یہ بھی ایک لحاظ سے آجکل کی بہت بڑی لغو چیز ہے.اس نے بھی کئی گھروں کو اجاڑ دیا ہے.ایک تو یہ رابطے کا بڑا ستا ذریعہ ہے پھر اس کے ذریعہ سے بعض لوگ پھرتے پھراتے رہتے ہیں اور پتہ نہیں کہاں تک پہنچ جاتے ہیں.شروع میں شغل کے طور پر

Page 599

$2004 594 خطبات مسرور سب کام ہو رہا ہوتا ہے پھر بعد میں یہی شغل عادت بن جاتا ہے اور گلے کا ہار بن جاتا ہے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا نشہ ہے اور نشہ بھی لغویات میں ہے.کیونکہ جو اس پر بیٹھتے ہیں بعض دفعہ جب عادت پڑ جاتی ہے تو فضولیات کی تلاش میں گھنٹوں بلاوجہ، بے مقصد وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں.تو یہ سب لغو چیزیں ہیں.آجکل بعض ویب سائٹس ہیں جہاں جماعت کے خلاف یا جماعت کے کسی فرد کے خلاف گندے غلیظ پراپیگنڈے یا الزام لگانے کا سلسلہ شروع ہوا ہوا ہے.تو لگانے والے تو خیر اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں، اپنی عقل کے مطابق کہ یہ مغلظات بک کے وہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچارہے ہیں حالانکہ اُن کی ان لغویات پر کسی کی بھی کوئی نظر نہیں ہوتی.جماعت کا شاید اعشاریہ ایک فیصد بھی طبقہ اس کو نہ دیکھتا ہو، اس کو شاید پتہ بھی نہ ہو.تو بہر حال یہ تمام لغویات ہیں اس لئے وہ جو ان گندے غلیظ الزاموں کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، بعض نو جوانوں میں یہ جوش پیدا ہو جاتا ہے تو اس جوش کی وجہ سے وہ جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کو بھی اس سے بچنا چاہئے.جماعت کی اپنی ایک ویب سائٹ ہے اگر کوئی اعتراض کسی کی نظر میں قابل جواب ہو کسی کی نظر سے گزرے تو وہ اعتراض انہیں بھیج دینا چاہئے.انٹرنیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں پتہ ہے اس کا پتہ کیا ہے.اور اگر کسی کے ذہن میں اس اعتراض کا کا کوئی جواب آیا ہوتو وہ جواب بھی بے شک بھیج دیں.لیکن وہاں پر خود کسی کے اعتراض کا جواب نہیں دینا.ہو سکتا ہے آپ کو جواب دینا صحیح نہ آتا ہو کیونکہ جہاں آپ بھیجیں گے خود ہی چیک کر لیں گے.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اعتراض کا جواب دینا بھی ہے کہ نہیں یا اس معاملے میں پڑنا صرف لغویات یا صرف وقت کا ضیاع ہی ہے.کیونکہ اعتراض کرنے والے کی اصلاح تو ہونی نہیں ہوتی کیونکہ اگر ان کا یہ مقصد ہو، یہ نیت ہو کہ انہوں نے اپنی اصلاح کرنی ہے یا کوئی فائدہ اٹھانا ہے تو پھر اتنی غلیظ اور گندی زبان استعمال نہیں ہوتی ، شریفانہ زبان استعمال کی جاتی ہے.اور بعض اعتراضوں کے جواب کا تو دوسروں کو فائدہ بھی

Page 600

$2004 595 خطبات مسرور نہیں ہوتا.پھر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر کسی کے پاس جواب ہو تو اس جماعتی نظام کے تحت جواب بھیج دیں خود ہی نظام اس کو دیکھ لے گا کہ آیا جو جواب آپ نے بھیجا ہے درست ہے یا اس سے بہتر جواب دیا جا سکتا ہے.تو بہر حال مقصد یہ ہے کہ جماعت کے کسی بھی فرد کا وقت بلا مقصد ضائع نہیں ہونا چاہئے اس لئے جس حد تک ان لغویات سے بچا جاسکتا ہے، بچنا چاہئے اور جو اس ایجاد کا بہتر مقصد ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.علم میں اضافے کے لئے انٹرنیٹ کی ایجاد کو استعمال کریں.یہ نہیں ہے کہ یا اعتراض والی ویب سائٹس تلاش کرتے رہیں یا انٹرنیٹ پر بیٹھ کے مستقل باتیں کرتے رہیں.آجکل چیٹنگ (Chatting) جسے کہتے ہیں.بعض دفعہ یہ چیٹنگ مجلسوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے اس میں بھی پھر لوگوں پہ الزام تراشیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں ، لوگوں کا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہوتا ہے تو یہ بھی ایک وسیع پیمانے پر مجلس کی ایک شکل بن چکی ہے اس لئے اس سے بھی بچنا چاہئے.پھر غلط صحبتوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ بھی لغویات میں شمار ہوتی ہیں ان سے بھی بچو.اگر براه راست ان مجلسوں اور ان صحبتوں میں نہیں بھی شامل ہو تو پھر بھی ایسی مجلسوں میں ایسے لوگوں کی صحبتوں میں بیٹھنا جہاں غیر تعمیری گفتگو یا کام ہو رہے ہوں تمہیں بھی متاثر کر سکتا ہے.پھر بعض تعلقات ایسے ہوتے ہیں جو متاثر کر رہے ہوتے ہیں.کسی شخص کا تمہارے پر بڑا اچھا اثر ہے اس کی ہر بات کو بڑی اہمیت دیتے ہو لیکن اگر وہ نظام جماعت کے خلاف بات کرتا ہے یا امیر کے خلاف بات کرتا ہے یا کسی عہدیدار کے خلاف بات کرتا ہے تو اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر یقین کر لیتے ہو حالانکہ اس وقت اپنی عقل سے کام لینا چاہئے.یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ بھی وہ کہہ رہا ہے وہ سچ اور حق بات ہی کہہ رہا ہے.بلکہ انصاف اور عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ نظام تک بات پہنچاؤ.یہ بات اس بات کرنے والے کو بھی کہو کہ اگر یہ بات ہے جس طرح تم کہہ رہے ہو تو امیر تک بات پہنچا و یا بالا انتظام

Page 601

$2004 596 خطبات مسرور تک بات پہنچاؤ تا کہ اصلاح ہو جائے.تو جب آپ اس طرح کہیں گے تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ یہ شخص صحیح نہیں کیونکہ وہ نہ خود بات آگے پہنچانے پر راضی ہوگا اور نہ آپ کو اجازت دے گا کہ آپ بات آگے پہنچائیں ایسے لوگوں کا کام صرف باتیں کرنا اور فتنہ پھیلانا ہوتا ہے اس لئے ایسے تعلقات لغو تعلقات ہیں ان سے بھی بچیں.پھر فرمایا بعض دفعہ تمہارے جوش بھی لغو ہوتے ہیں.کہیں سے اڑتی اڑتی بات اپنے یا اپنے کسی عزیز کے بارے میں سن لی اور فورا جوش میں آگئے اور جس کی طرف بات منسوب کی گئی ہے اس سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے.تو یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جو لغویات ہیں.مومن کا کام یہ ہے کہ ہمیشہ ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرے اور ہمیشہ اس حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں.زبان ایک ایسی چیز ہے جس کا اچھا استعمال سب کو آپ کا گرویدہ بنا سکتا ہے اور اس کا غلط استعمال دوست کو بھی دشمن بنا سکتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” ایک اور بات بھی ضروری ہے جو ہماری جماعت کو اختیار کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ زبان کو فضول گوئیوں سے پاک رکھا جاوے.زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خدا تعالیٰ وجود کی ڈیوڑھی میں آ جاتا ہے.جب خدا تعالی ڈیوڑھی میں آ گیا تو پھر اندر آنا کیا تعجب ہے.(ملفوظات جلد2 صفحه 182 الحكم (31 مارچ 1902 | یعنی ہمارے جسم کا اندر داخل ہونے کا جو دروازہ ہے، جو مین گیٹ (Main Gate) ہے، راستہ ہے، وہ زبان ہے اگر یہ لغو اور فضول باتوں سے پاک ہے تو سمجھو کہ تمہارے وجود میں داخل ہونے کا راستہ صاف اور پاک ہے.اور اللہ تعالیٰ کیونکہ خوبصورت ، پاک اور صاف چیزوں کو پسند کرتا ہے تو اس طرح تمہاری پاک زبان کی وجہ سے خدا تعالیٰ بھی تمہارے قریب آ جائے گا.تو جب تمہاری پاک زبان سے خدا تعالیٰ تمہارے اتنے قریب آ گیا تو پھر عین ممکن ہے کہ تمہارے دوسرے

Page 602

597 $2004 خطبات مسرور اعمال بھی ایسے ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ کی پسند کے اعمال ہوں اور پھر تمہارا سارا وجود خدا تعالیٰ کا پسندیدہ وجود بن جائے.پھر آجکل کی لغویات میں سے ایک چیز سگریٹ وغیرہ بھی ہیں جیسا کہ مختصر سا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں.نوجوانوں میں اس کی عادت پڑتی ہے اور پھر تمام زندگی یہ جان نہیں چھوڑتی سوائے ان کے جن کی قوت ارادی مضبوط ہو.اور پھر سگریٹ کی وجہ سے بعض لوگوں کو اور نشوں کی عادت بھی پڑ جاتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے امریکہ سے تمباکو نوشی سے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اشتہار سنایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ: " اصل میں ہم اس لئے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نو عمر لڑ کے ، نو جوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار و مبتلا ہو جاتے ہیں تا وہ ان باتوں کو سن کر اس مضر چیز کے نقصانات سے بچیں.یعنی جو لوگ مبتلا ہوتے ہیں وہ یہ باتیں سنیں تو اس کے نقصانات سے بچیں.فرمایا: ”اصل میں تمبا کو ایک دھواں ہوتا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے.اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے.لہذا اس سے پر ہیز ہی اچھا ہے“.(ملفوظات جلد3 صفحه 110 الحكم 28 فروری 1903 تو وہ لوگ جو اس لغو عادت میں مبتلا ہیں کوشش کریں کہ اس سے جان چھڑا ئیں.اور والدین خاص طور پر بچوں پر نظر رکھیں کیونکہ آجکل بچوں کونشوں کی با قاعدہ پلاننگ کے ذریعے عادت بھی ڈالی جاتی ہے.اور پھر آہستہ آہستہ یہ ہو جاتا ہے کہ بیچارے بچوں کے برے حال ہو جاتے ہیں.آپ یہاں بھی دیکھیں کس قدر لوگ ان نشوں کی وجہ سے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں.ایک بہت بڑی تعداد ان ملکوں میں جن میں آپ رہ رہے ہیں ، آپ دیکھیں گے سگریٹ پینے کی وجہ سے حشیش یا دوسرے نشوں میں مبتلا ہو گئی.اور اپنے کاموں سے بھی گئے ، اپنی ملازمتوں سے بھی گئے ،

Page 603

$2004 598 خطبات مسرور اپنی نوکریوں سے بھی گئے ، اپنے کاروباروں سے بھی گئے ، اپنے گھروں سے بھی بے گھر ہوئے اور زندگیاں برباد ہوئیں.بیوی بچوں کو بھی مشکل میں ڈالا.خود پارکوں، فٹ پاتھوں یا پکیوں کے نیچے زندگیاں گزار رہے ہیں.گندے غلیظ حالت میں ہوتے ہیں.لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہوتے ہیں.ڈسٹ بنوں (Dust Bins) سے گلی سڑی چیزیں چن چن کے کھا رہے ہوتے ہیں.تو یہ سب اس لغو عادت کی وجہ سے ہی ہے.اس لئےکسی بھی لغو چیز کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے.یہی چھوٹی چھوٹی باتیں پھر بڑی بن جایا کرتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”حدیث میں آیا ہے ومن حُسْنِ الْإِسْلَامِ تَرْكُ مَالَا يَعْنِيْهِ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے.اسی طرح پر یہ پان، حقہ زردہ ( یعنی تمبا کو جو پان میں کھاتے ہیں) افیون وغیرہ ایسی ہی چیز میں ہیں.بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پر ہیز کرے کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان ان کا بفرض محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آ جاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور اشیاء نہیں دی جائیں گی.یا اگر قید نہ ہو (اور ) کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائمقام ہوتو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں.عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہئے.شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے.یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے.افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے.طبی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قوی لے کر انسان آیا ہے ان کو ضائع کر دیتی ہے.(ملفوظات جلد2 صفحه 219 الحكم 10 جولائی (1902 اور اب تو افیون سے بھی زیادہ خطرناک نشے پیدا ہو چکے ہیں.پس ان لغویات سے بچنے والے ہی تقویٰ پر قائم رہ سکتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والوں میں شمار ہو سکتے ہیں.یہاں جس طرح فرمایا کہ افیون کا نشہ شراب سے بڑھ کر ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شراب کبھی پی لی تو کوئی حرج نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور یہ حرام ہے.ان ملکوں میں کیونکہ شراب

Page 604

$2004 599 خطبات مسرور بہت عام ہے اور محبتیں بھی ایسی مل جاتی ہیں جہاں شراب پینے والے مل جاتے ہیں اس لئے اس بارے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے.فرمایا کہ : ” شراب جو ام الخبائث ہے اسے حلال سمجھا گیا ہے اس سے انسان خشوع و خضوع سے جو کہ اصل جز و اسلام ہے بالکل بے خبر ہو جاتا ہے.ایک شخص جو رات دن نشہ میں رہتا ہے ہوش اس کے بجاہی نہیں ہوتے تو اسے دوسری بدیوں کے ارتکاب میں کیا رکاوٹ ہوسکتی ہے.موقع موقع پر ہر ایک بات مثل، زنا، چوری، قمار بازی و غیرہ کر سکتا ہے.ہماری شریعت میں قطعا اس کو بند کر دیا ہے.یہاں تک لکھ دیا ہے کہ یہ شیطان کے عمل سے ہے تا کہ خدا کا تعلق ٹوٹ جاوے“.تو شراب کا جو نشئی ہے وہ بھی مختلف جرائم میں گرفتار ہوتا ہے.بلکہ ان ملکوں میں بھی جہاں جہاں شراب کی اجازت ہے آپ دیکھیں گے کہ بعض لوگ نشے میں بعض قسم کی حرکات کر جاتے ہیں اور پھر جیلوں میں چلے جاتے ہیں.اور پھر یہاں کے معاشرے کے مطابق بعض شریف لوگ بظاہر شراب کے نشے میں دھت ہوتے ہیں اور سڑکوں پر گرے پڑے ہوتے ہیں، پولیس ان کو اٹھا کے لے جاتی ہے.پھر جوا وغیرہ ہے یہ بھی لغویات ہیں.یہ بھی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.شرابیوں کو عام طور پر جوا کھیلنے کی بھی عادت ہوتی ہے.کسی بھی نشہ کرنے والے کو عادت ہوتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے بنیں.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ سمجھایا کہ یہ تمام چیزیں جو ہیں یہ لغویات اور فضولیات میں شمار ہیں اس لئے ان سے بچو.پھر آپ فرماتے ہیں: کہ اللہ اللہ ! کیا ہی عمدہ قرآنی تعلیم ہے کہ انسان کی عمر کو خبیث اور مضر اشیاء کے ضرر سے بچالیا.یہ منشی چیزیں شراب وغیرہ انسان کی عمر کو بہت گھٹا دیتی ہیں اس کی قوت

Page 605

$2004 600 خطبات مسرور کو برباد کر دیتی ہیں اور بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں.یہ قرآنی تعلیم کا احسان ہے کہ کروڑوں مخلوق ان گناہ کے امراض سے بچ گئی جو ان نشہ کی چیزوں سے پیدا ہوتی ہیں.اور یہ تو آجکل کی میڈیکل میں ثابت شدہ ہے کہ شراب ہزاروں دماغ کے سیل اور خلیوں کو نقصان پہنچا دیتی ہے اور آہستہ آہستہ آدمی کی بہت ساری دماغی کمزوریاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں.تو جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ ” شراب وغیرہ تو اس میں شراب کے ساتھ اور بھی نشے جو آجکل نئے نئے نکل آئے ہیں شامل ہو گئے ہیں.پس ان ملکوں میں رہتے ہوئے خاص طور پر جہاں منظم طریقوں سے نشوں کا کاروبار ہوتا ہے اور شراب کی تو ویسے بھی یہاں اجازت ہے بہت استغفار کرتے ہوئے اور اپنے پہلو بچاتے ہوئے ان چیزوں سے بچیں اور بچنے کی کوشش کریں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : " خدا کو چھوڑ کر بدی اور گند میں رہنا صرف خدا کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ اس میں خدا تعالیٰ پر ایمان میں بھی شک ہوتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ چور جب چوری کرتا ہے تو ایمان اس میں نہیں ہوتا اور زانی جب زنا کرتا ہے تو ایمان اس میں نہیں ہوتا.یاد رکھو کہ وسو سے جو بلا ارادہ دل میں پیدا ہوتے ہیں ان پر مواخذہ نہیں ہوتا.جب پکی نیت انسان کسی کام کی کرے تو اللہ تعالیٰ مواخذہ کرتا ہے.اچھا آدمی وہی ہے جو دل کو ان باتوں سے ہٹا دے.ہر ایک عضو کے گناہوں سے بچے.ہاتھ سے کوئی بدی کا کام نہ کرے.کان سے کوئی بری بات چغلی غیبت ، گلہ وغیرہ نہ سنے.آنکھ سے محرمات پر نظر نہ ڈالے.پاؤں سے کسی گناہ کی جگہ چل کر نہ جاوے“.(ملفوظات جلد3 صفحه 139 البدر 13 مارچ (1903 کہتے ہیں بعض عادتیں چھٹ نہیں سکتیں.فرماتے ہیں کہ: ”انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے.بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادات کو چھوڑ بیٹھتے ہیں.دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو ہمیشہ سے شراب پیتے چلے آئے ہیں بڑھاپے میں آ کر جبکہ عادت کا چھوڑ نا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے یا بلا کسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد

Page 606

601 $2004 خطبات مسرور اچھے بھی ہو جاتے ہیں فرمایا ”میں حقہ کو نہ منع کرتا ہوں اور نہ جائز قرار دیتا ہوں مگر ان صورتوں میں کہ انسان کو کوئی مجبوری ہو.یہ ایک لغو چیز ہے اور اس سے انسان کو پر ہیز کرنا چاہئے“.آپ فرماتے ہیں ، بہت قابل فکر یہ ارشاد ہے، کہ ہر ایک زانی ، فاسق ، شرابی ، خونی، چور، قمار باز ، خائن ، مرتشی، غاصب، ظالم، دروغ گو ( یعنی جھوٹ بولنے والا جعلساز اور ان کا ہم نشیں (ان میں بیٹھنے والا بھی ) اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 19) تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام بڑے بڑے گناہ کرنے والوں، لوگوں کے حق مارنے والوں ، لوگوں پر ظلم کرنے والوں، جھوٹ بولنے والوں، دھوکہ دینے والوں، لوگوں پر الزام تراشیاں کرنے والوں، بری مجلس میں بیٹھنے والوں کو ایک ہی زمرے میں شمار کیا ہے.اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا پھر مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے.پس ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ایمان کے دعوے کے بعد ہم میں کہیں کوئی برائی تو نہیں.یا ہم ایسی برائیاں کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے والوں میں سے تو نہیں.ہماری مجالس پاکیزہ ہیں ، ہمارے اعمال ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہیں، ہم اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے.آج سے جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو گیا ہے.ان جلسوں کا مقصد بھی اپنے روحانی معیار کو بلند کرنا اور اپنے اندر نیکیوں کو قائم کرنا ہے.پس ان دنوں میں ایک تو دعاؤں پر زور دیں.اپنے لئے بھی، اپنے ماحول کے لئے بھی ، اپنے عزیزوں کے لئے بھی ، اپنے بچوں کے لئے بھی ، اور جماعت کے لئے بھی بہت دعائیں کریں.دوسرے ہر ایک اپنا جائزہ لیتا ر ہے کہ کیا کیا لغویات اس میں پائی جاتی ہیں.کیونکہ ہر برائی لغو ہے یا ہر لغوحرکت یا بات گناہ ہے، اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر اس جلسے کو جیسا کہ

Page 607

$2004 602 خطبات مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کو کوئی دنیاوی جلسہ نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ ایک دینی اور روحانی جلسہ ہے.ایک دینی اور روحانی اجتماع ہے یہاں کسی خرید و فروخت یا صرف میل ملاقات کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا.ہمیں ان مجلسوں کو ان قواعد کے تحت لانا چاہئے جو حج کے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ مثلاً رفٹ کی تشریح میں آپ نے فرمایا کہ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ بد کلامی کرنا، گالیاں دینا، گندی باتیں کرنا ، گندے قصے سنانا ، لغو اور بیہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گئیں مارنا کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی حج کو جائے تو اسے کسی بھی قسم کی یہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں.نہ بد کلامی کرنی چاہئے ، نہ گندے قصے کرنے چاہئیں وغیرہ.پھر فرمایا کہ دوسری چیز جو حج کے لئے ہے وہ فسوق ہے.اس کے معنے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر نکل جانا.تو یہاں بھی یادرکھیں کہ نظام کی اطاعت اور اس کے ساتھ پورا تعاون آپ کا فرض ہے.پھر آپس میں بعض باتوں پر رنجشیں اور پھر بعض دفعہ تلخ کلامیاں بھی ہو جاتی ہیں جب اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں.تو یہ سب لغو چیزیں ہیں.نظام جماعت کی یا یہاں جو جلسے کا نظام ہے اس کی ہدایات سے انحراف یہ بھی لغویات میں شمار ہوتا ہے.پھر جدال آتا ہے.فرمایا کہ یہاں بھی احتیاط کی ضرورت ہے ان تلخ کلامیوں کی وجہ سے ان رنجشوں کی وجہ سے بعض لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں ایک دوسرے پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں.پھر بعض دفعہ کسی ڈیوٹی والے سے یا کسی ڈیوٹی والی سے، کارکنوں سے کوئی ایسی بات ہو جائے مثلاً کسی بچے کو کچھ کہہ دیا تو اس پر اس کے ماں یا باپ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو ان باتوں سے بچنا چاہئے.پس کوشش کریں کہ ان دنوں میں ان تمام برائیوں اور لغویات سے اپنے آپ کو بچائیں اور اپنی زبانوں کو ذکر الہی سے تر رکھیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور سب شامل ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے.آمین

Page 608

$2004 603 35 55 برکت ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی ہے جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے ۲۷ را گست ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۷ ظهور ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام بیت الرشید“ ہمبرگ (جرمنی) یاد رکھو کہ تمہارا مطمع نظر ، تمہارا مقصد حیات صرف اور صرف خدا تعالی کی رضا ہونا چاہئے.نظام جماعت سے ٹکر لے کر کئے جانے والے کاموں کی نظام کوئی مدد نہیں کرے گا.خطبات مسرور

Page 609

خطبات مسرور $2004 604 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ياَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ أُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ.فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ.ذلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَأْوِيلا.(سورة النساء آیت:60) اس کا ترجمہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی، اور اگر تم کسی معاملے میں اولو الامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو.اگر فی الحقیقت تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو.یہ بہت بہتر طریقہ ہے اور اپنے انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے.کسی بھی قوم یا جماعت کی ترقی کا معیار اور ترقی کی رفتار اس قوم یا جماعت کے معیار اطاعت پر ہوتی ہے.جب بھی اطاعت میں کمی آئے گی ترقی کی رفتار میں کمی آئے گی.اور الہی جماعتوں کی نہ صرف ترقی کی رفتار میں کمی آتی ہے بلکہ روحانیت کے معیار کے حصول میں بھی کمی آتی ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار دفعہ اطاعت کا مضمون کھولا ہے.اور مختلف پیرایوں میں مومنین کو یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ کی اطاعت اس وقت ہوگی جب رسول کی اطاعت ہوگی.کہیں مومنوں کو یہ بتایا کہ بخشش کا یہ معیار ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور تمام احکامات پر عمل کریں

Page 610

605 $2004 خطبات مسرور تو پھر مغفرت ہوگی.پھر فرمایا کہ تقویٰ کے معیار بھی اس وقت قائم ہوں گے بلکہ تم تقویٰ پر قدم مارنے والے اس وقت شمار ہو گے جب اطاعت گزار بھی ہو گے.اور جب تم اپنی اطاعت کے معیار بلند کر لو گے تو فرمایا تم ہماری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے.تو اس طرح اور بھی بہت سے احکام ہیں جو مومنوں کو اطاعت کے سلسلہ میں دیئے گئے ہیں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی خدا تعالیٰ نے اطاعت کے مضمون کو ہی بیان فرمایا ہے، یہ فرمانے کے بعد کہ اے مومنو! اے وہ لوگو! جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہم اللہ پر بھی ایمان لائے اور اس کے رسول پر بھی ایمان لائے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی کرو.اور پھر ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ تمہارے جو عہدیدار ہیں، تمہارے جو امیر ہیں تمہارا جو بنایا ہوا نظام ہے، جو نظام تمہیں دیا گیا ہے اس کی بھی اطاعت کرو.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول کی طرف معاملہ لوٹانے کا حکم ہے.یعنی یہ کہ اگر اختلاف ہو تو قرآن اور حدیث کی طرف جاؤ.وہاں سے دیکھو کہ کیا حکم ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اختلاف کی صورت میں ہر کوئی ، جس کو علم نہ بھی ہوا اپنے مطابق خود ہی تشریح و تفسیر کرنے لگ جائے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہی ہے کہ جب آپس میں لوگوں کے اختلاف ہو جاتے ہیں تو کیونکہ تمام معاملات ، ہدایات اور احکامات کی تشریح و تفسیر کا کس کو پتہ نہیں ہوتا، بعض ایسے احکامات ہیں جو تفسیر طلب ہوتے ہیں اور ہر ایک کو اس کا علم نہیں ہوتا اس لئے قرآن وحدیث کے حوالے لینے کے لئے جو اس کا علم رکھنے والے ہیں ان سے بھی پوچھنا پڑے گا، ان کی طرف بھی جانا پڑے گا.اسلام کے ظلمت کے زمانے میں بھی ، جو ہزار سال تاریکی کا دور گزرا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ مفسرین اور مجددین پیدا فرما تا رہا جو دین کا علم رکھتے تھے اور وہ اپنے اپنے علاقے میں رہنمائی فرماتے رہے.لیکن اس زمانے میں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے حکم اور عدل بنا کر بھیجا ہے اس دور میں

Page 611

$2004 606 خطبات مسرور تو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا صحیح فہم اور ادراک صرف اور صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی ہے.اب آپ جو بھی تفسیر و تشریح کسی بھی حکم کی فرمائیں گے وہی صحیح تفسیر و تشریح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست آپ کو سکھایا ہے.پس ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے زمانے میں پیدا فرمایا اور بہت سے ہمارے مسائل حل کر دیئے جن کے لئے پہلے لوگ لڑتے رہے.اور فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ کے حکم پر عمل کرنے کے لئے آسانی پیدا فرما دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان معارف اور ان مسائل کو سمجھنے کا بے انتہا خزانہ ہمیں عطا فرما دیا.اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ایک ایسا نظام بھی ہم میں جاری فرما دیا کہ ہر مسئلے کے حل کے لئے ہمیں اللہ اور رسول کے حکموں کو سمجھنے کے لئے آسانیاں پیدا ہو گئیں.پس ہم اس بات پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پر اور یوم آخرت پر ایمان میں اور بھی مضبوط کر دیا.اور اس طرح ہمارے معاملات کے انجام کو بھی بہتر کر دیا اور ہمیں بھی اپنے اس حکم اور عدل کی پیروی کرنے پر بہتر انجام کی خبر دے دی.پس ہم سب پر فرض بنتا ہے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قدرت ثانیہ کے اس جاری نظام کی بھی مکمل اطاعت کریں اور اپنی اطاعت کے معیاروں کو بلند کرتے چلے جائیں.لیکن یاد رکھیں کہ اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے.پھر دنیا وی لحاظ سے بھی جو حاکم ہے اس کی دنیاوی معاملات میں اطاعت ضروری ہے.کسی بھی حکومت نے اپنے معاملات چلانے کے لئے جو ملکی قانون بنائے ہوئے ہیں ان کی پابندی ضروری ہے.آپ اس ملک میں رہ رہے ہیں یہاں کے قوانین کی پابندی ضروری ہے بشرطیکہ قوانین مذہب سے کھیلنے والے نہ ہوں، اس سے براہ راست ٹکر لینے والے نہ ہوں جیسا کہ پاکستان میں ہے.احمدیوں کے لئے

Page 612

$2004 607 خطبات مسرور بعض قوانین بنے ہوئے ہیں تو صرف اُن قوانین کی وہاں بھی پابندی ضروری ہے جو حکومت نے اپنا نظام چلانے کے لئے بنائے ہیں.جو مذہب کا معاملہ ہے وہ دل کا معاملہ ہے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ قانون آپ کو کہے کہ نماز نہ پڑھو اور آپ نماز ہی پڑھنا چھوڑ دیں.تو بہر حال جو بھی نظام ہو، دنیاوی حکومتی نظام ہو یا جماعتی نظام یا مذہبی نظام اُن کی اطاعت ضروری ہے.سوائے جو قانون، جیسا کہ میں نے کہا، براہ راست اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے ٹکراتے ہوں.تو دینی لحاظ سے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا دوسرے مسلمانوں کو فکر ہو تو ہو احمدی مسلمان کو کوئی فکر نہیں کیونکہ ہم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنا بندھن جوڑ کر اپنے آپ کو اس فکر سے آزاد کر لیا ہے کہ کیا ہم خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق عمل کرتے ہیں.اور جن امور کی وضاحت ضروری تھی کہ کون کون سے امور شریعت میں وضاحت طلب ہیں ان کی بھی ہمیں حضرت مسیح موعود سے وضاحت مل گئی کیونکہ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک لائن بتادی، تمام امور کی وضاحت کر دی کہ اس طرح اعمال بجالاؤ تو یہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اختلافی معاملات کے حل کے لئے جب لوگ علماء، مفسرین یا فقہاء سے رجوع کرتے رہے تو ہر ایک نے اپنے علم ، عقل اور ذوق کے مطابق ان امور کی تشریح کی.اپنے اپنے زمانے میں ہر ایک نے اپنے اپنے حلقے میں اپنی طرف سے نیک نیتی سے یہ تمام امور بتائے.مگر آہستہ آہستہ جن امور میں مفسرین اور فقہاء کا اختلاف تھا ان کے اپنے اپنے گروہ بنتے گئے اور یوں فرقے بندی ہو کر مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے اور لڑکی جھگڑے بھی ہوتے رہے اور اس تفرقہ بازی نے مسلمانوں کو پھاڑ دیا.لیکن اب اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پا کر ہمارے لئے صحیح اور غلط کی تعیین کر دی ہے.پس احمدی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کریں تبھی وہ

Page 613

$2004 608 خطبات مسرور جماعت کی برکات سے فیضیاب ہو سکتے ہیں اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے.کسی کے ایمان کے اعلیٰ معیار کا تو تبھی پتہ چلتا ہے جب اس پر کوئی امتحان کا وقت آئے اور وہ صبر دکھاتے ہوئے اور قربانی کرتے ہوئے اس میں سے گزر جائے.اس کی انا اس کے راستے میں روک نہ بنے.اس کا مالی نقصان اس کے راستے میں روک نہ بنے.اس کی اولا داس کے اطاعت کے جذبے کو کم کرنے والی نہ ہو.جب یہ معیار حاصل کر لو گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ انفرادی طور پر تمہارے ایمانوں میں ترقی ہوگی اور جماعتی طور پر بھی مضبوط ہوتے چلے جاؤ گے.بعض لوگ ذاتی جھگڑوں میں نظام جماعت کے فیصلوں کا پاس نہیں کرتے یا ان فیصلوں پر عملدرآمد کے طریقوں سے اختلاف کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے چلے جاتے ہیں اور اپنا نقصان کر رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿وَاَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوْا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِيْنَ ﴾ (الانفال: 47) یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑ اور نہ تم بزدل بن جاؤ گے.اور تمہارا رعب جاتا رہے گا.اور صبر سے کام لو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں بتا دیا کہ یا درکھو تمہارے ایک ہونے کے لئے تمہیں اکٹھے باندھ کر رکھنے کے لئے بنیادی چیز اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے.اس لئے اس پر قائم رہو، آپس میں نہ جھگڑو.اور یہ حکم بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے حکموں میں سے ایک ہے کہ مسلمان آپس میں لڑیں نہیں.لیکن آجکل دیکھ لیں کیا ہورہا ہے.ایک فرقے نے دوسرے فرقے کا گریبان پکڑا ہوا ہے.ایک تنظیم دوسری تنظیم کے خلاف گالم گلوچ کر رہی ہے.تو پیشگوئی فرما دی تھی کہ اس طرح کرنے سے تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا.چنانچہ آجکل دیکھ لیں اس کے عین مطابق نتیجہ نکل رہا ہے.باوجود مسلمانوں کی اتنی بڑی

Page 614

$2004 609 خطبات مسرور تعداد ہونے کے اور بے تحاشہ تیل کا پیسہ ہونے کے رعب کوئی نہیں دوسرے اپنی مرضی کے مطابق ان ممالک کو بھی چلاتے ہیں.اگر یہ لوگ صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے بارے میں بے صبری کا مظاہرہ نہ کرتے اور بدظنی کا مظاہرہ نہ کرتے تو یہ حالت نہ ہوتی.بہر حال ہم جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان لیا، ہمارا کام ہے کہ یہ نمونہ اپنے سامنے رکھیں اور جو اللہ اور اس کے رسول نے احکامات دیئے ہیں اور اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو ہمیں بتایا ہے اس کی مکمل اطاعت کریں، ان کے مطابق عمل کریں.آپس میں محبت پیار سے رہیں، لڑائی جھگڑے نہ کریں.جو معاملات بھی اٹھتے ہیں ان پر صبر کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت میں شامل رہنے کی وجہ سے جو رعب خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گا.ورنہ انفرادی طور پر تو کسی کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا.یہ وعدہ دیا ہوا ہے کہ نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ.کہ آپ کے رعب کے قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ خود ہی مدد کے سامان پیدا فرما تا رہے گا، خود ہی مدد کرے گا.پس جو لوگ جماعت میں شامل رہیں گے، جماعت کے نظام کی اطاعت کریں گے ان کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے چھٹے رہنے کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ رعب قائم رہے گا.پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اطاعت میں ہی برکت ہے اور اطاعت میں ہی کامیابی ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اولوالامر سے نہیں جھگڑیں گے.اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے.اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.(مسلم كتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء)

Page 615

$2004 610 مسرور تو پہلی بات تو یہی کہ جب بیعت کر لی تو پھر جو کچھ بھی احکام ہوں گے تو ہم کامل اطاعت کریں گے.یہ نہیں کہ جب ہماری مرضی کے فیصلے ہو رہے ہوں تو ہم مانیں گے، ہمارے جیسا اطاعت گزار کوئی نہیں ہوگا.اور اگر کوئی فیصلہ ہماری مرضی کے خلاف ہو گیا ہے جس سے ہم پر تنگی وارد ہوئی تو اطاعت سے باہر نکل جائیں ، نظام جماعت کے خلاف بولنا شروع کر دیں.نہیں، بلکہ جو بھی صورت ہوفر مایا کہ تنگی ہو یا آسانی ہو ہم نظام جماعت کے فیصلوں کی مکمل اطاعت کریں گے اور نظام سے ہی چھٹے رہیں گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی طاعت در معروف پر ہی بیعت لی ہے اور اب تک یہ سلسلہ شرائط میں بیعت کے ساتھ چل رہا ہے.اس لئے یہ خیال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ عہد بیعت تھا اب نہیں، یا اب اگر اس کو توڑیں گے تو گناہ کوئی نہیں ہوگا یہ خیال ذہن سے نکال دیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی یہ سلسلہ قائم ہوا ہے اور اس لئے یہ اسی کا تسلسل ہے.اور پھر ویسے بھی ایک حدیث میں آتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی.اور جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی.اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی.(صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب وجوب طاعة الامراء فى غير معصية وتحريمها في المعصية) تو یہ وہی سلسلہ چل رہا ہے.اس لئے فرمایا کہ چاہے خوشی پہنچے یا غم پہنچے جو بھی امیر ہے اس سے جھگڑنا نہیں.اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہے اور اگلی بات یہ کہ حق پر قائم رہیں گے.اس کا کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ہم حق پر ہیں اس لئے ہم یہ فیصلہ نہیں مانتے.بلکہ فرمایا تمہیں ہمیشہ اس بات کا خیال رہے کہ تم نے سچی بات کہنی ہے.دنیا کی کوئی سختی کوئی دباؤ کوئی لالچ تمہیں حق اور سچ کہنے سے نہ روکے.اور پھر یہ بھی کہ جب تمہارا کوئی معاملہ آئے تم نے سچی بات کہنی ہے، بچی

Page 616

$2004 611 خطبات مسرور گواہی دینی ہے اور جھوٹ بول کر نظام سے یا دوسرے فریق سے جھگڑنے کی کوشش نہیں کرنی.اور نہ کبھی یہ خیال آئے کہ ہم نے اگر نظام کی بات مان لی ، اپنے بھائی بندوں سے صلح وصفائی کر لی، بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کر لیا تو دنیا کیا کہے گی.ہمیشہ یاد رکھو کہ تمہارا مطمح نظر، تمہارا مقصد حیات صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا ہونا چاہئے.اور یہی کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے نظام کے جو احکامات وقواعد اور فیصلے ہیں ان کی پابندی کرنی ہے اور اس بارے میں اپنی اطاعت میں بالکل فرق نہیں آنے دینا.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے حاکم سے نا پسندیدہ بات دیکھے وہ صبر کرے کیونکہ جو نظام سے بالشت بھر جدا ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی.(صیح مسلم، کتاب الامارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن وتحذير الدعاة الى الكفر ) بعض لوگ ، لوگوں میں بیٹھ کر کہہ دیتے ہیں کہ نظام نے یہ فیصلہ کیا فلاں کے حق میں اور میرے خلاف لیکن میں نے صبر کیا لیکن فیصلہ بہر حال غلط تھا.میں نے مان تو لیا لیکن فیصلہ غلط تھا.تو اس طرح لوگوں میں بیٹھ کر گھما پھرا کر یہ باتیں کرنا بھی صبر نہیں ہے.صبر یہ ہے کہ خاموش ہو جاتے اور اپنی فریاد اللہ تعالیٰ کے آگے کرتے.ہو سکتا ہے جہاں بیٹھ کر باتیں کی گئی ہوں وہاں ایسی طبیعت کے مالک لوگ بیٹھے ہوں جو یہ باتیں آگے لوگوں میں پھیلا کر بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح نظام کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہو.اور اس سے بعض دفعہ فتنے کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے.اور پھر جولوگ اس فتنے میں ملوث ہو جاتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ پھر وہ جاہلیت کی موت مرتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: کیا اطاعت ایک سہل امر ہے جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلے کو بدنام

Page 617

612 $2004 خطبات مسرور کرتا ہے.حکم ایک نہیں ہو تا بلکہ حکم تو بہت ہیں.جس طرح بہشت کے کئی دروازے ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے، اسی طرح دوزخ کے کئی دروازے ہیں.ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو.(ملفوظات جلد دوم صفحه ٤١١ ، البدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء) لوگ منہ سے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم اطاعت گزار ہیں سلسلے کا ہر حکم سر آنکھوں پر.لیکن جب موقع آئے ، جب اپنی ذات کے حقوق چھوڑنے پڑیں، تب پتہ لگتا ہے کہ اطاعت ہے یا نہیں ہے.اس لئے آپ نے فرمایا کہ اطاعت اتنا آسان کام نہیں ہے.ہر حکم کو بجالانا اور ہر معاملے میں اطاعت اصل مقصد ہے اور فرمایا کہ جو مکمل طور پر حکم کی اطاعت نہیں کرتا وہ سلسلے کو بدنام کرتا ہے.اللہ کے حقوق ادا نہ کر کے بھی بدنامی کا باعث بنتے ہو اور بندوں کے حقوق ادا نہ کر کے بھی بدنامی کا باعث بنتے ہو اور جس طرح جنت میں جانے کے کئی دروازے ہیں نیکیاں کر کے جنت میں داخل ہوتے ہو اسی طرح دوزخ کے بھی کئی دروازے ہیں.یہ نہ ہو کہ پوری اطاعت نہ کر کے کوئی دروازہ کھلا رکھو اور دوزخ میں داخل ہو جاؤ.اس لئے کامل وفا کے ساتھ اطاعت گزار بندے بنے رہو اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہئے اس کا فضل ہو تو انسان ان باتوں سے بچ سکتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ” اطاعت پوری ہو تو ہدایت پوری ہوتی ہے.ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب سن لینا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے توفیق طلب کرنی چاہئے کہ ہم سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو.(ملفوظات جلد.سوم صفحه ٢٨٤ ، البدر ۸ مئی ۱۹۰۳ء) تو فرمایا کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں اس کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ پوری طرح ایمان لا یا اور ہدایت پائی جس میں اطاعت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہو، ایک ذرہ بھی وہ اطاعت سے باہر نہ ہو.اور فرمایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ملتا ہے اس لئے اس سے توفیق طلب کرتے رہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمیں ہر ایسی حرکت سے بچائے جس سے ہماری اطاعت پر کوئی حرف آتا ہو.پس

Page 618

613 $2004 خطبات مسرور ہم خوش قسمت ہیں کہ زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہیں جس نے ہمیں انتہائی باریکی میں جا کران امور کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے ہم اللہ اور اس کے رسول کے اطاعت گزار کہلا سکیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا نہ کہتے پھرو بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کر دے گا.جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بدعملیوں کے سبب آتی ہے ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے.مومن کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے.میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو“.(تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد دوم صفحه 246 زیر آیت سورة النساء :60) فرمایا کہ چاہے حاکم ہو یا امیر ہو یا کوئی عہدیدار ہو کوئی افسر ہو اگر تم پاک ہو اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہو اور دعائیں کرتے ہو پھر یا تو اللہ تعالیٰ اس حاکم کو ، اس افسر کو ، اس عہد یدار کو، اس امیر کو بدل دے گا یا پھر نیک کر دے گا اس کی طبیعت میں تبدیلی پیدا کر دے گا.فرمایا کہ بعض دفعہ ابتلاء جو آتے ہیں یہ اپنی ہی بدعملیوں کی وجہ سے آتے ہیں.اپنی ہی کچھ حرکتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ابتلاء میں ڈال دیتا ہے.اس لئے خود بھی استغفار کرتے رہنا چاہئے.نیکیوں پر قائم ہونے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور اللہ اور رسول دونوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ میری امت کو ضلالت اور گمراہی پر جمع نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ کی.جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے.مَنْ شَدَّ شُدَّ إِلَى النَّارِ.جو شخص جماعت سے الگ ہواوہ گویا آگ میں پھینکا گیا.(ترمذی کتاب الفتن باب في لزوم الجماعة) مدد تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ایک ہزار سال کے تاریک زمانے کا

Page 619

$2004 614 خطبات مسرور دور گزر گیا جس میں عملاً مسلمان اکثریت دین کو بھلا بیٹھی تھی.پھر اپنے وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور آپ نے ایک جماعت قائم فرمائی جس نے دنیا کی رہنمائی کا کام اپنے ذمہ لیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے جو لوگ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہو گئے وہ گمراہی اور ضلالت پھیلانے کے لئے تو اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ دنیا کو خدائے واحد کی پہچان کروانے کے لئے جمع ہوئے ہیں.اس لئے اس جماعت کے اندر بھی وہی رہ سکتے ہیں جو کامل وفا اور اطاعت کے نمونے دکھانے والے بھی ہوں.اور جب ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے.پس ہر ایک جو وفا اور اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم نہیں کرتا وہ خود اپنا نقصان کر رہا ہے.اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ برکت ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی ہے.اس لئے اگر کبھی کسی کے خلاف غلط فیصلہ ہو جاتا ہے، تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے ، بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے.ہر ایک کی اپنی سمجھ ہے.قضاء نے اگر کوئی فیصلہ کیا ہے اور ایک فریق کے مطابق وہ بھی نہیں ہے پھر بھی اس پر عمل درآمد کروانا چاہئے اور دعا کریں کہ قاضیوں کو اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کی توفیق دے.قاضیوں کو بھی غلطی لگ سکتی ہے لیکن ہر حالت میں اطاعت مقدم ہے.بعض لوگ اتنے جذباتی ہوتے ہیں کہ بعض فیصلوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے منسوب ہونے سے ہی انکاری ہو جاتے ہیں.تو یہ بدنصیبی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ، اپنے آپ کو آگ میں ڈال رہے ہوتے ہیں.دنیا کے چند سکوں کے عوض اپنا ایمان ضائع کر رہے ہوتے ہیں.جماعت میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شامل ہوئے ہیں، کسی عہدیدار کی جماعت میں تو شامل نہیں ہوئے کہ اس کی غلطی کی وجہ سے اپنا ایمان ہی ختم کر لیں.بہر حال عہدیداروں کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اور کسی کمزور ایمان والے کے لئے ٹھوکر کا باعث نہیں بننا چاہئے.

Page 620

$2004 615 مسرور حدیث میں آیا ہے کہ عہدیدار بھی پوچھے جائیں گے اگر صحیح طرح سے وہ اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہے.حدیث میں تو ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے جن کے سپر د کام ہوں اور وہ پوری ذمہ داری سے کام نہیں کر رہے ان کے لئے جنت حرام کر دیتا ہے.تو عہد یدار ان کے لئے تو یہ بہت بڑا انذار ہے تو جب خدا تعالیٰ خود ہی حساب لے رہا ہے تو پھر متاثرہ فریق کو کیا فکر ہے.آپ نیکی پر قائم رہیں تو دنیاوی نقصان بھی خدا تعالیٰ پورا فرمادے گا.ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح بکریوں کا دشمن بھیڑیا ہے اور اپنے ریوڑ سے الگ ہو جانے والی بکریوں کو بآسانی شکار کر لیتا ہے اسی طرح شیطان انسان کا بھیڑیا ہے.اگر جماعت بن کر نہ رہیں یہ ان کو الگ الگ نہایت آسانی سے شکار کر لیتا ہے.فرمایا اے لوگو! پگڈنڈیوں پر مت چلنا بلکہ تمہارے لئے ضروری ہے کہ جماعت اور عامۃ المسلمین کے ساتھ رہو.تو یہاں فرمایا کہ شیطان سے بچ کر رہنے کا ایک ہی طریق ہے کہ جماعت سے وابستہ ہو جاؤ اور اس زمانے میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہی ہے جوالہی جماعت ہے جو دنیا میں خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچارہی ہے.اور اگر کوئی اور جماعت، جماعت کہلاتی بھی ہے تو ان کے اور بھی بہت سارے سیاسی مقاصد ہیں.پس اس عافیت کے حصار کے اندر آگئے ہیں تو پھر اس کے اندر مضبوطی سے قائم رہیں اور اطاعت کرتے رہیں.ورنہ جیسا کہ فرمایا کہ بھیڑیے ایک ایک کر کے سب کو کھا جائیں گے اور کھا بھی رہے ہیں.ہمارے سامنے روز نظارے نظر آ رہے ہیں.یہاں ایک اور مسئلہ بھی حل ہو رہا ہے کہ جماعت میں شامل لوگ ہی عامتہ المسلمین ہیں یعنی تعداد کے لحاظ سے زیادتی عامتہ المسلمین نہیں کہلاتی.پس آپ ہی وہ خوش قسمت ہیں جو جماعت میں شامل ہیں اور عامتہ المسلمین کہلانے کے مستحق ہیں تو اس لئے اپنے آپ کو بھی اگر بچاتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تو مکمل صبر اور وفا سے اطاعت گزارر ہیں.ایک روایت میں آتا ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جنت کے وسط میں اپنا گھر

Page 621

$2004 616 خطبات مسرور بنانا چاہتا ہوا سے جماعت سے چمٹے رہنا چاہئے اس لئے کہ شیطان ایک آدمی کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ دو ہو جائیں تو وہ دُور ہو جاتا ہے یعنی شیطان پھر چھوڑ دیتا ہے.اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دلوں میں پھاڑ پیدا کیا جائے.پس جماعت میں ہی برکت ہے اور نظام جماعت کی اطاعت میں ہی برکت ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو یہ معیار قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.اس ضمن میں ایک اور بات بھی کہنی چاہتا ہوں کہ شیطان کیونکہ ہر وقت اس فکر میں ہوتا ہے کہ کسی طرح دلوں میں کدورتیں پیدا کرے، دوریاں پیدا کرے، رنجشیں پیدا کرے.اس لئے بعض دفعہ اچھے بھلےسوچ سمجھ رکھنے والے شخص کو بھی غلط راستے پر چلا رہا ہوتا ہے.اس کو بھی پتہ نہیں لگ رہا ہوتا کہ کب شیطان کے پنجے میں آ گیا.یہاں جرمنی میں 100 مساجد کی تعمیر کا معاملہ ہے.کچھ کو شکوہ ہے کہ بعض بڑی بڑی عمارات خریدی گئی ہیں اگر وہ نہ خریدی جاتیں تو اور چھوٹی چھوٹی کئی مساجد بن سکتی تھیں.پھر یہ کہ جو بنی بنائی عمارات خریدی گئی ہیں وہ 100 مساجد کے زمرے میں نہیں ہیں.بعض لوگ خط لکھتے رہتے ہیں کہ ہم آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں یہاں یوں ہورہا ہے اور یوں ہورہا ہے.ایک تو ان سب لکھنے والوں کی اطلاع کے لئے میں بتادوں کہ گزشتہ سال یا اس سے بہت پہلے میں اس کا جائزہ لے چکا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ کون کون سی عمارات خریدی گئی ہیں اور کن کن کو 100 مساجد کے زمرے میں شامل کرنا ہے یا نہیں کرنا.اس لئے آپ بے فکر رہیں.پھر ایک دفعہ خط لکھ دیا تو ٹھیک ہے.آپ نے یہ صحیح سمجھا اس کا حق ادا کر دیا، مجھ تک پہنچا دیا.دوبارہ دوبارہ لکھنے کا کوئی مقصد نہیں ہے.یہ تو پھر ضد بن جاتی ہے.مجھے خط لکھ دیا میں نے آپ کو ایک عمومی سا جواب دے دیا.خط آپ کو پہنچ گیا ، جزاك الله.یہی کافی ہے.ضروری نہیں کہ ہر ایک کو تفصیل بتائی جائے کیونکہ یہ جو بار بار زور دے کر لکھنا ہے جس میں بعض اوقات عہدیدار بھی شامل ہوتے ہیں، یہ غلط ہے.

Page 622

$2004 617 مسرور جب میں نے خرید کردہ عمارات کو بھی 100 مساجد کے زمرے میں شامل کر لیا ہے تو پھر آپ لوگ اور مزید کیا کہنا چاہتے ہیں.میں سمجھتا ہوں وہ اس پیسے سے خریدی گئی ہیں، وہ مساجد میں شمار ہیں.پھر خط لکھتے وقت جو متعلقہ عہد یداران ہیں ان کے متعلق بڑے سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں.مساجد کی خرید کی انتظامیہ کے بارے میں بھی سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، یہ طریق غلط ہے.یہ بھی ایک طرح سے اطاعت سے باہر نکلنے والی بات ہے، بے صبری کا مظاہرہ ہے.اس لئے اس سے بچیں.آپ لوگوں کا کام ہے کہ 100 مساجد بنانے کا جو منصو بہ دیا گیا ہے اس پر لگے رہیں ، اس پر عمل کریں.دعا سے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے رہیں، انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالی مددفرمائے گا.اب کام میں کچھ تیزی بھی پیدا ہوئی ہے.انشاء اللہ یہ مساجد مکمل بھی ہو جائیں گی اور جب بننا شروع ہوگئی ہیں تو دیکھا دیکھی رفتار میں بھی تیزی آرہی ہے.بہتوں کو بڑی تیزی سے خیال آرہا ہے کہ ہمیں اپنے علاقے میں مسجد بنانی چاہئے اور کوشش بھی کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ مزید برکت ڈالے.دوسری بات یہ ہے کہ بعض کام چاہے وہ نیکی اور خدمت خلق کے کام ہی ہوں اگر نظام جماعت سے ٹکر لے کر کئے جارہے ہیں تو نظام جماعت اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کرتا.نہ ہی خلیفہ وقت سے یہ امید رکھنی چاہئے کہ وہ نظام سے ہٹ کر چلنے والے کاموں پر خوشنودی کا اظہار کرے گا.نظام کی حفاظت تو خلیفہ کا سب سے پہلا فرض ہے.کیونکہ دو متوازی نظام چلا کر تو کامیابیاں نہیں ہوا کرتیں.مثلاً بعض شرائط پوری کئے بغیر یہاں اس ملک میں عام طور پر ہومیو پیتھی کی پریکٹس کی اجازت نہیں ہے اس لئے جماعت بحیثیت جماعت اس کام میں ہاتھ نہیں ڈال رہی.اور اگر کوئی یہ کام کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے اور خدمت خلق کے جذبے سے کر رہا ہے تو کرے.لیکن جماعت اس میں کبھی ملوث نہیں ہوگی.اگر کسی کے خدمت خلق کے کام پر میں اس کو تعریفی خط لکھ دیتا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو کوئی جماعتی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور وہ امیر جماعت کو بھی پس پشت ڈال دے اور اس سے بھی ٹکر لینی شروع کر دے.مجھے یہاں فی الحال نام لینے کی ضرورت نہیں ہے،

Page 623

$2004 618 خطبات مسرور جو ہیں وہ خود سمجھتے ہیں اس لئے اپنی اصلاح کرلیں.دوسرے ہیومینیٹی فرسٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہے.اور اس کی مرکزی انتظامیہ لندن میں ہے.لندن سے با قاعدہ پہنچ Manage) کیا جاتا ہے.افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرکزی ادارہ ہے مختلف ممالک نے اس میں بہت کام کیا ہے.جرمنی کے علاوہ.جرمنی میں یہ اس طرح فعال نہیں ہے.فعال اس لئے نہیں ہے کہ بعض معاملات میں انہوں نے زیادہ آزاد ہونے کی کوشش کی ہے.اس لئے میں یہاں امیر صاحب کو اس کا نگران اعلیٰ بنا تا ہوں اور وہ اب اپنی نگرانی میں اس کو ری آرگنا ئز (Re-organize) کریں اور چیئر مین اور تین ممبران کمیٹی بنائیں اور پھر جس طرح باقی ممالک میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں یہ بھی کریں لیکن مرکزی ہدایت کے مطابق.کیونکہ مرکزی رپورٹ کے مطابق بھی یہاں کی ہیومینیٹی فرسٹ کی انتظامیہ کا تعاون اچھا نہیں تھا.بار بار توجہ دلانے پر اب بہتری آئی ہے لیکن مکمل نہیں.تو یہ بھی اطاعت کی کمی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خلیفہ وقت سے براہ راست رابطہ ہو جائے تو باقی نظام سے جو مرضی سلوک کرو کوئی حرج نہیں ہے.یہ غلط تاثر ہے.ذہنوں سے نکال دیں.اگر کوئی دقت اور مشکل ہو کسی انتظام کو چلانے میں تو آپ خلیفہ وقت کو بھی خط لکھ سکتے ہیں.لیکن بہر حال متعلقہ امیر کو اس کی کاپی جانی چاہئے.لیکن براہ راست کسی قسم کا خود قدم اٹھانے کی اجازت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ سب کو کامل فرمانبرداروں میں سے رکھے اور اطاعت کے معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ جب سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے.مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا

Page 624

$2004 619 خطبات مسرور ہے.بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی بغیر اس کے اطاعت نہیں ہوسکتی.” اور ہوائے نفس ہی، یعنی نفس کی خواہشات ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے مؤحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی.یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.اور اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں.مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں.یعنی یہ سب جو کمیاں اور تنزل ہیں یہی مسلمانوں میں گراوٹ پیدا ہونے کے اسباب ہیں اور یہی جواند رونی اختلافات اور تنازعات ہیں انہیں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے.بجائے ترقی کرنے کے وہ نیچے گرتے چلے گئے.” پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے.اس میں یہی تو سر ہے“ یہی راز ہے.اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.پیغمبر خدا ﷺ کے زمانے میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے.خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی.مگر رسول کریم اللہ کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو ان کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا.پھر فرماتے ہیں: ”اگر ان میں یہ اطاعت تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے.میرے نزدیک شیعہ سنیوں کے

Page 625

$2004 620 خطبات مسرور جھگڑوں کو چپکا دینے کے لئے یہی کافی دلیل ہے کہ صحابہ کرام میں باہم پھوٹ ، ہاں با ہم کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پر دلالت کرتی رہی ہیں کہ وہ باہم ایک تھے اور کچھ بھی کسی سے عداوت نہ تھی.ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا.مگر میں کہتا ہوں کہ یہ میچ نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہن نکلی تھیں.یہ اس اطاعت اور اتحادکا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کرلیا.آپ ( پیغمبر خدا ) کی شکل و صورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا اور جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی.اس میں ایک ہی کشش اور قوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچے لیتے تھے اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت رسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا.غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے تیار ہو رہی ہے اُسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے تیار کی تھی.اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے.اس لئے تم جو سیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزور کھتے ہو، اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو، باہم محبت و اخوت ہو تو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جوصحابہ کی تھی.(تفسیر حضرت مسیح موعود عليه السلام جلد دوم صفحه 246 تا 248 زیر آیت سورة النساء :60) پس جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا پہلوں سے ملنے کے لئے صحابہ کی طرح اطاعت کا نمونہ بھی دکھانا ہوگا.اور جیسا کہ پہلے بھی آپ سن آئے ہیں.اطاعت کے لئے صبر اور قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے اس لئے اپنے اندر یہ خصوصیات بھی پیدا کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب اطاعت و فرمانبرداری کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے والے ہوں.

Page 626

$2004 621 مسرور اب میں تمام کارکنان جنہوں نے جلسے کی ڈیوٹیاں دی تھیں ان کا شکر یہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں.پہلے تو خیال تھا کہ یہ سارے Live سن لیں گے.خطبہ شاید Live نہیں جا رہا.عموماً تمام کارکنان نے اور تمام کارکنات نے مہمانوں کے ساتھ پیار اور محبت کا رویہ رکھا اور ان کی خوب خدمت کی ہے.انتظامات کے بارے میں بھی عموماً جن سے بھی میں نے پوچھا ہے لوگوں نے تعریف ہی کی ہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.یہ بھی ان کارکنان اور کارکنات کی فرمانبرداری اور اطاعت کا عملی نمونہ ہی تھا کہ جو ہدایات ان کو دی گئیں ان پر انہوں نے پوری طرح عملدرآمد کیا.اور یہی ایک جماعت کا حسن ہے جو صرف اور صرف جماعت احمدیہ میں نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو یہ نیکیاں بڑھاتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین گزشتہ جلسے کی آخری تقریر میں میں نے جلسے کی حاضری خواتین کے پنڈال میں جب گیا ہوں وہاں بتائی تھی.اب امیر صاحب نے بتایا ہے کہ مختلف ممالک کے لوگوں کی وہاں حاضری نہیں بتائی گئی تھی.اس میں کل حاضری تو 28 ہزار تھی اور جن ملکوں نے حصہ لیا وہ جرمنی سمیت 30 ہیں.( میرا خیال ہے یہی بنتا ہے ) جن ملکوں نے حصہ لیا 29 اور جن قوموں نے حصہ لیا وہ 30 تھے.شاید جرمنی کو انہوں نے شامل نہیں کیا.بہر حال 29 ملکوں کی نمائندگی تھی.اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے اور سب کو جلسے کی برکات سے بھی فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے.ایک ہفتے کے بعد بھول نہ جائیں.

Page 627

Page 628

$2004 623 36 خطبات مسرور اسلام سلامتی کا پیغام ہے.ہر احمدی کو اس کو دنیا میں پھیلانا چاہئے جتنی زیادہ دعاؤں سے آپ میری مدد کر رہے ہوں گے اتنی زیادہ جماعت میں مضبوطی آتی چلی جائے گی.۳ ستمبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۳ رتبوک ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام زیورک، (سویٹزرلینڈ ) ہ عام میل ملاقات اور گھروں میں جانے کے آداب اور دینی تعلیمات اپنے بچوں کو بھی سلام کہنے کی عادت ڈالنی چاہئے.عہدیداران کو نصائح کہ آنے والے کو اچھی طرح خوش آمدید کہیں ان سے ملیں مصافحہ کریں آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس شعار اسلام کو اتنا رواج دیں کہ یہ احمدی کی پہچان بن جائے.

Page 629

خطبات مسرور $2004 624 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا.ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ.فَإِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيمٌ (سورة النور آیت 28-29 اس کا ترجمہ یہ ہے.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو.یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں پر سلام بھیج لو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو.اور اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تمہیں اس کی اجازت دی جائے.اور اگر تمہیں کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جایا کرو.تمہارے لئے یہ بہت زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے اور اللہ سے جو تم کرتے ہو خوب جانتا ہے.ہر معاشرے میں ملنے جلنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں، اچھی طرح ملنے والے کو اچھے اخلاق کا مالک سمجھا جاتا ہے، اچھے اخلاق والے جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر چہرے پر شگفتگی اور مسکراہٹ لاتے ہیں.ایک دوسرے کو نہ پہچانتے ہوں تب بھی چہرے پر نرمی ہوتی ہے.اور جو اچھی طرح سے نہ ملے عموماً اس کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ بڑا بداخلاق ہے،

Page 630

$2004 625 خطبات مسرور کسی کام کے سلسلے میں اس کو ملنے گیا اور بڑی بداخلاقی سے پیش آیا ، بڑے بیہودہ اخلاق کا مالک ہے، کام نہیں کرنا تھا نہ کرتا لیکن کم از کم مل تو اخلاق سے لیتا وغیرہ، اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں.تو اس طرح کی باتیں ، اچھے اخلاق سے نہ پیش آنے والے کے بارے میں دل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں ، جیسا کہ میں نے کہا.پھر مختلف معاشروں کے ایک دوسرے سے ملتے وقت مختلف حرکات کے ذریعے سے اظہار کے مختلف طریقے ہیں.کوئی سر جھکا کر اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، کوئی رکوع کی پوزیشن میں جاکے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، کوئی دونوں ہاتھ جوڑ کر ، اپنے چہرے تک لے جا کر ملنے کی خوشی کا اظہار کرتا ہے.پھر حال احوال پوچھ کے لوگ مصافحہ بھی کرتے ہیں.لیکن اسلام نے جو ہمیں طریق سکھایا ہے، جو مومنین کی جماعت کو ، اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو اپنے اندر رائج کرنا چاہئے وہ ہے کہ سلام کرو.یعنی ایک دوسرے پر سلامتی کی دعا بھیجو اور پھر یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ سلامتی کی دعا کس طرح بھیجو اور پھر دوسرا بھی جس کو سلام کیا جائے ، اسی طرح کم از کم انہیں الفاظ میں جواب دے.بلکہ اگر بہتر الفاظ میں گنجائش ہو جواب دینے کی تو بہتر جواب دے.اس طرح جب تم ایک دوسرے کو سلام بھیجو گے تو ایک دوسرے کے لئے کیونکہ نیک جذبات سے دعا کر رہے ہو گے اس لئے محبت اور پیار کی فضا بھی تمہارے اندر پیدا ہوگی.پھر یہ بھی بتایا کہ اسلامی معاشرہ کیونکہ امن اور سلامتی پھیلانے والا معاشرہ ہے اس لئے یہ بھی خیال رکھو کہ جب تم کسی کے گھر ملنے جاؤ تو مختلف اوقات میں انسان کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں، طبیعتوں کی مختلف کیفیت ہوتی ہے اس لئے جب کسی کے گھر ملنے جاؤ اور گھر والا بعض مجبوریوں کی وجہ سے تمہارے سلام کا جواب نہ دے یا تمہاری تو قعات کے مطابق تمہارے ساتھ پیش نہ آئے تو ناراض نہ ہو جایا کرو.زود رنجی کا اظہار نہ کیا کرو بلکہ حوصلہ دکھاتے ہوئے ، خاموشی سے واپس آ جایا کرو.اور اگر اس طرح عمل کرو گے تو ہر طرف سلامتی بکھیر نے والے اور پر امن معاشرہ قائم کرنے والے ہو گے.

Page 631

$2004 626 مسرور یہ جو دو آیات میں نے تلاوت کی ہیں، آپ نے ان کا ترجمہ بھی سن لیا.اس میں اسلام کے حسین معاشرے کو قائم کرنے اور آپس کے تعلقات کو ہمیشہ بہترین رکھنے کے لئے چند بڑی خوبصورت نصائح فرمائی گئی ہیں.پہلی بات تو یہ بیان فرمائی کہ تمہارا دائرہ عمل صرف تمہارا اپنا گھر ہے.تم اگر آزادی سے داخل ہو سکتے ہو تو اپنے گھروں میں کسی دوسرے کے گھر میں منہ اٹھا کے نہ چلے جایا کرو.اس سے تم بہت سی قباحتوں سے بچ جاؤ گے.اگر کسی کے پاس ملاقات کے لئے یا کام کے لئے جانا ہے تو پہلے گھر والوں سے اجازت لو اور اجازت لینے کے بہت سے فوائد ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو لکھا ہے کہ بغیر اجازت کسی کے گھر جانے سے ہو سکتا ہے کہ تمہارے پر کوئی اخلاقی الزام لگ جائے ، کوئی چوری کا الزام لگ جائے.اس لئے اجازت کو انا کا مسئلہ بنانے کی ضرورت نہیں.تمہاری اپنی بھی اسی میں بچت ہے اور گھر والوں سے جو تمہارے تعلقات ہیں ان میں بھی اس میں فائدہ ہے کہ اجازت لے لو.پھر بہت ضروری چیز، بہت اہم بات یہ ہے کہ اجازت لینے کا طریق کیا ہے.فرمایا کہ اجازت لینی کس طرح ہے.وہ اس طرح لینی ہے کہ سلام کہہ کر اجازت لو، اونچی آواز میں سلام کہو.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما تھے، کسی شخص نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر آنے کی اجازت چاہی.آپ نے اپنے ملازم کو کہا کہ جاؤ اس کو جا کر اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ.جو یہ ہے کہ پہلے سلام کرو پھر اندر آنے کی اجازت لو.کیونکہ یہی ایک طریق ہے جس سے تم اپنے آپ کو بھی پاک کر رہے ہوتے ہو اور گھر والوں کو بھی سلامتی بھیج رہے ہوتے ہو.سلامتی کا یہ پیغام بھیجنے سے یہ احساس بھی رہتا ہے کہ میں نے سلامتی کا پیغام بھیجا ہے اب ان گھر والوں کے لئے میں نے امن کا پیامبر بن کر ہی رہنا ہے ان سے بہتر تعلقات ہی رکھنے ہیں.اور پھر گھر والے بھی جو جواب میں سلامتی کا جواب ہی دیتے ہیں تو پھر اس طرح سے دونوں

Page 632

$2004 627 خطبات مسرور طرف سے محبت کے جذبات کی فضا پیدا ہوتی ہے.گھر میں سلام کہہ کر داخل ہونے کی اجازت کے بارے میں ایک اور روایت میں یوں آتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے قرض کے معاملہ میں حاضر ہوا.میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے فرمایا: کون؟ میں نے کہا میں ہوں.آپ نے فرمایا یہ کیا میں میں لگا رکھی ہے.گویا کہ آپ نے یہ بات پسند نہیں فرمائی کہ بغیر سلام کے اپنا تعارف کروایا جاۓ.(بخاری کتاب الاستئذان باب اذا قال من ذا).یہ بات آپ کو سخت نا پسند تھی کہ کوئی مسلمان ہو اور سلام کو رواج نہ دے اور یونہی گنواروں کی طرح گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے.اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا بھی بڑا واضح حکم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.﴿فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِمُوْا عَلَى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُبْرَكَةً طَيِّبَةً﴾ (النور: 62) - یعنی جب تم گھروں میں داخل ہو تو پہلے اپنے آپ کو سلام کر لیا کرو.اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں یعنی اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو سلام کہو جو ان مکانوں میں رہتے ہیں اور یا درکھو کہ یہ سلام تمہارے منہ کا سلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بہت بڑا تحفہ ہے.یعنی سلام کا لفظ بظا ہر تو بہت معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن ہے بڑے عظیم الشان نتائج پیدا کرنے والا.کیونکہ سلام کے لفظ کے پیچھے خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا وعدہ ہے.پس جب تم کسی بھائی کو سلام کہتے ہو تو تم نہیں کہتے بلکہ خدا تعالی کی دعا اسے پہنچاتے ہو.فرمایا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ عموماً ہمارے ملک میں لوگ اپنے گھروں میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم نہیں کہتے.گویا ان کے نزدیک ایک دوسرے کے لئے تو یہ دعا ہے لیکن اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے لئے نہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب بھی وہ اپنے گھروں میں جائیں السلام علیکم کہیں.

Page 633

خطبات مسرور 628 $2004 پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا اے میرے بیٹے ! جب تم اپنے گھر والوں کے ہاں جاؤ تو سلام کہا کرو.یہ تمہارے اور تمہارے اہل خانہ کے لئے خیر و برکت کا موجب ہوگا.یہاں یہ بات مزید واضح ہوگئی کہ اپنے گھر میں بھی داخل ہو تو سلام کہا کرو کیونکہ سلامتی کا پیغام تو ہر وقت بکھیر تے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جب تم جنت میں جاؤ گے تو وہاں کیونکہ صحیح معنوں میں اس سلامتی کے کلمہ کا ادراک ہوگا، صحیح معنے پتہ ہوں گے اس لئے اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کے بعد دوسری اہم بات جو تم کرو گے وہ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنا ہی ہوگا.اس لئے یہاں بھی اگر جنت نظیر معاشرہ قائم کرنا ہے تو ایک دوسرے پر سلام بھیجو.تو سلام کی عادت ڈالنے کے لئے جیسا کہ اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیں بھی اپنے بچوں کو سلام کہنے کی عادت ڈالنی چاہئے.یہ تو ٹرینگ کا ایک مستقل حصہ ہے، بچے کو سمجھاتے رہیں کہ وہ سلام کرنے کی عادت ڈالے، گھر سے جب بھی باہر جائے سلام کر کے جائے اور گھر میں جب داخل ہو تو سلام کر کے داخل ہو.پھر بچوں کو اس کا مطلب بھی سمجھائیں کہ کیوں سلام کیا جاتا ہے تو بہر حال بچوں، بڑوں سب کو سلام کہنے کی عادت ہونی چاہئے.بعض دفعہ بے تکلف دوستوں اور بے تکلف عزیزوں کے گھروں میں لوگ بے دھڑک چلے جاتے ہیں.یہاں یورپ میں تو اکثر گھروں میں باہر کے دروازوں کو کیونکہ تالا لگا ہوتا ہے یا اس طرح کالاک (Lock) ہوتا ہے جو خود بخود بند ہو جاتا ہے یابا ہر سے کھل نہیں سکتا اس لئے اس طرح جانہیں سکتے اور جن گھروں میں اس طرح کا نظام نہیں ہے یا اگر یہ نہ ہواور گھر کھلے ہوں تو شاید ان گھروں میں گھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے لیکن پاکستان ہندوستان وغیرہ میں بلکہ تمام تیسری دنیا جو کہلاتی ہے ان ملکوں میں یہی طریق ہے اور جب رو کو کہ اس طرح نہیں ہونا چاہئے تو پھر برا مناتے ہیں.یہ حکم عورتوں کے لئے بھی اسی طرح ہے جس طرح یہ مردوں کے لئے ہے.عورتوں میں بھی

Page 634

629 $2004 خطبات مسرور وہی قباحتیں پیدا ہو سکتی ہیں جس طرح مردوں میں پیدا ہوسکتی ہیں بلکہ بعض حالات میں عورتوں کے لئے زیادہ قباحتیں پیدا ہو جایا کرتی ہیں.اس لئے سلام کر کے ، اعلان کر کے اجازت لے کر گھر کے جس فرد کے پاس بھی آئی ہوں وہاں جائیں تا کہ تمام گھر والوں کو بھی پتہ ہو کہ فلاں اس وقت ہمارے گھر میں موجود ہے.پھر پردہ دار عورت کے لئے اور بھی آسانی پیدا ہو جاتی ہے کہ اس اعلان کی وجہ سے جہاں وہ گھر میں موجود ہوگی وہاں مرد آسانی سے آ جا نہیں سکیں گے یا آنے میں احتیاط کریں گے.پردہ کروا کر آئیں گے.تو اس طرح اور بھی بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن میں صرف سلام کہنے سے فائدہ ہوتا ہے.پھر یہ بھی فرمایا کہ گھر میں کوئی نہ ہو تو یہ نہیں کہ گھر یا کمرہ کھلا دیکھ کر وہاں جا کے بیٹھ جاؤ بلکہ اگر گھر میں کوئی نہیں تو تین دفعہ سلام کہو اور جب تین دفعہ سلام کہ دیا اور کسی نے نہیں سنا تو واپس چلے جاؤ.اور پھر یہ کہ گھر میں اجازت ملے تو داخل ہونا ہے.اگر تم نے تین دفعہ سلام کیا اور اجازت نہیں ملی یا گھر میں کوئی نہیں ہے یا گھر والا پسند نہیں کرتا کہ تم اس وقت اس کے گھر آؤ تو واپس چلے جاؤ.اگر کوئی گھر والا موجود ہو اور کھل کر یہ کہہ بھی دے کہ اس وقت مجبوری کی وجہ سے میں مل نہیں سکتا تو پھر برا نہ مناؤ بلکہ جو کہا گیا ہے وہ کرو.اور وہ یہی کہا گیا ہے کہ واپس چلے جاؤ اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ واپس چلے جاؤ.سلام تو اس لئے پھیلا رہے ہو کہ سلامتی کا پیغام پھیلے امن کا پیغام پھیلے، آپس میں محبت اور اخوت قائم ہو، تمہارے اندر پاکیزگی قائم ہو تو پھر اگر کوئی گھر والا معذرت کر دے یا ملنا نہ چاہے تو اس کے باوجود ملنے والا برا نہ منائے.اور گھر والے کی بات مان لے.تو یہ ہے اسلامی معاشرہ جو سلام کو رواج دے کر قائم ہوگا.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی تین دفعہ اجازت مانگ لے اور اسے اجازت نہ دی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ واپس لوٹ جائے.(بخاری کتاب الاستئذان باب التسليم والاستئذان (ثلاثا) یہاں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اتنی دور سے آئے ہوتے ہو گھر والے نے تمہیں واپس لوٹا دیا تو اس نے غلط کیا، کم از کم ایک دومنٹ بٹھا کر پانی ہی پوچھ لیتا.بلکہ یہاں آنے والے کو کہا ہے کہ اگر

Page 635

$2004 630 خطبات مسرور گھر والا اجازت نہ دے تو واپس چلے جاؤ.ٹھیک ہے اور جگہوں پر مہمان نوازی کا بھی حکم ہے.لیکن یہاں تمہیں یہی حکم ہے کہ گھر والا گھر کا مالک ہے.تمہیں اگر اندر آنے کی اجازت نہیں دیتا تو واپس چلے جاؤ.لیکن پاکیزگی یہی ہے کہ واپس ناراضگی سے نہیں جانا، برانہیں منانا بلکہ دل میں بلاکسی رنجش لانے کے اس پر عمل کرنا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے اور اس سے ہمارے اندر محبت واخوت پیدا ہوگی.دل میں کسی قسم کے بدلے کا خیال نہیں لانا کہ میں بھی جب مجھے موقع ملے اسی طرح کروں گا.اس طرح تو بجائے امن کے فساد پھیلانے والے ہوں گے.پھر یہ ہے کہ آجکل چونکہ گھروں میں گھنٹی لگی ہوتی ہے، گھنٹیوں کا رواج ہے اس لئے لوگ سمجھتے ہیں کہ سلام کی ضرورت نہیں ہے.حالانکہ گھنٹی کے ساتھ بھی سلام کہا جا سکتا ہے.اس میں برکت ہے اسی سے محبت بھی پیدا ہوتی ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے.تم اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک تم ایمان نہ لاؤ اور تم صاحب ایمان اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک باہم محبت نہ کرو.کیا میں تم کو ایک ایسا فعل نہ بتاؤں جو تم بجالاؤ تو باہم محبت کرنے لگو.پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ یعنی آپس میں سلام کہنے کو رواج دو.(مسلم کتاب الایمان باب بيان انه لا يدخل الجنة الا المومنون......تو یہاں آپ نے فرمایا کہ جنت میں داخل ہونے کے لئے ایمان لانا ضروری ہے.یہ ہر ایک کو پتہ ہے اور مومن کون ہے، ایمان لانے والا کون ہے.فرمایا کہ ایمان لانے والے وہ ہیں جو آپس میں محبت و پیار سے رہتے ہیں.ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں.یہ نہ سمجھو کہ ہم نے بیعت کر لی، الفاظ بیعت دوہرا دیئے تو مومن بن گئے.فرمایا کہ اگر تمہارے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا نہیں ہوتیں، اگر تم نے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال نہیں رکھا، اگر تم تعلیم کے تمام حصوں پر پوری طرح عمل نہیں کر رہے تو ایمان میں بہت خلا باقی ہے.تم جماعت میں شامل تو ہو گئے

Page 636

631 $2004 خطبات مسرور لیکن جو انقلاب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ پیدا نہیں ہوا.مومن کی جونشانیاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں وہ حاصل نہیں ہوئیں.جو اعلیٰ معیار حاصل کرنے تھے وہ ابھی حاصل کرنا باقی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کمزوریوں کے ساتھ تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ اسلــمــنــا ہم نے فرمانبرداری قبول کر لی.فرمایا یہ کہنے کے بعد تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایمان لائے.آگے فرماتا ہے کہ وَلَمَّا يَدْخُلِ الايْمَانُ فِي قُلُوْبِكُمْ ﴾ جہاں تک ایمان کا تعلق ہے وہ تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.ایمان تب داخل ہوا ہوا سمجھا جائے گا جب یہ اعلیٰ معیار قائم ہوں گے.اللہ کی بھی عبادت کرنے والے ہو گے، کوئی نماز بھی چھوڑنے والے نہیں ہو گے اور خدا کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہو گے اور آپس میں انتہائی محبت بھی پیدا کرنے والے ہو گے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محبت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ سلام کو رواج دو اور سلام کو رواج دینے کا یہ مطلب ہے کہ جب منہ سے سلام کہو تو اس وقت تمہارے دل سے بھی تمہارے بھائی کے لئے دعائے خیر نکل رہی ہو.پھر اس بارے میں ایک اور روایت ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں میں عداوت اور حسد کی بیماری بھی پیدا ہو جائے گی جس سے دین کی برکات بھی جاتی رہیں گی اور تمہارے اندر سے دین بالکل نکل جائے گا.چنانچہ آجکل دیکھ لیں یہی مسلمانوں کا حال ہے.پس ہم احمدی مسلمان خوش قسمت ہیں کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آکر ان بیماریوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن اگر اصلاح نہ کی تو پھر بیعت سے ہی کاٹے جائیں گے.اللہ ہر ایک کو محفوظ رکھے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلی امتوں کی بیماری عداوت اور حسد تمہارے اندر بھی گھس آئے گی.عداوت تو جڑ سے کاٹ دینے والی شئے ہے.یہ بالوں کو نہیں کاٹتی بلکہ دین کو کاٹ دیتی ہے.قتسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم جنت میں نہیں جاسکو گے جب تک مومن نہ بنو

Page 637

632 $2004 خطبات مسرور اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک تم میں باہم میل ملاپ اور محبت نہ ہو.کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ یہ باہمی محبت تم میں کیوں کر پیدا ہو گی.اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپس میں السلام علیکم کو رواج وو(الترغيب والترهيب بحواله بزار) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر یہ بھی بتایا کہ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنے کے موقعے کس طرح پیدا کرنے ہیں.اور پھر کس طریق سے سلام کرنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ محبت بڑھے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے السلام علیکم کہا.آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا.جب وہ بیٹھ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کو دس گنا ثواب ملا ہے.پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا.حضور نے سلام کا جواب دیا.جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا اسکو بیس گنا ثواب ملا ہے.پھر ایک اور شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا.آپ نے انہیں الفاظ میں اس کو جواب دیا.جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا اس شخص کو میں گنا ثواب ملا ہے.(ترمذی ابواب الاستئذان في فضل السلام تو دیکھیں اپنے پیارے نبی کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں محبت پیدا کرنے کے لئے کس باریکی میں جا کر طریقے سکھائے ہیں.ہر دعا جو السلام علیکم کے ساتھ شامل کرتے ہیں وہ سلام کرنے والے کے لئے دس گنا ثواب کا باعث بنتی ہے، دس گنا اضافے ، کے ساتھ ثواب کا باعث بنتی ہے.اور جب یہ دعا ثواب میں اضافہ کر رہی ہو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کھاتے صرف اس لئے نہیں بنائے کہ اگلے جہان میں پہنچنے پر ہی دکھائے گا بلکہ وہ اس دنیا میں بھی ایسی دعائیں کرنے والوں کو ، جو دل سے دوسروں کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں، مزید نیکیاں قائم کرنے کی توفیق دیتا ہے.اور اس کے اُس بھائی کو بھی ان دعاؤں سے فیضیاب فرماتا ہے جو دعا کرنے والا اس کو دے رہا ہوتا ہے.اور پھر

Page 638

$2004 633 خطبات مسرور جواب میں ایک دوسرے کو دے رہے ہوتے ہیں.پھر جب دوسرا بڑھا کر جواب دیتا ہے تو پھر اور زیادہ نیکیاں حاصل ہوتی ہیں.کیونکہ یہ بھی تو حکم ہے کہ جب کسی کو کوئی خیر لوٹاؤ تو بڑھا کر دو.اگر کسی کو کوئی چیز نیکیوں میں سے لوٹا ؤ تو بڑھا کر لوٹاؤ.اگر ایک اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ کہتا ہے تو جواب والا وَرَحْمَةُ اللہ ساتھ لگا دیتا ہے یا بَرَكَاتُہ بھی ساتھ لگا دیتا ہے تو وہ اتنا ہی زیادہ ثواب کا مستحق ہو جاتا ہے اور دینے والا بھی اور جس کومل رہی ہوں اس کو بھی زائد دعائیں مل رہی ہوتی ہیں.یہاں میں ضمناً حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم اللہ تعالی کی اس سلسلہ میں ایک بات ذکر کر دوں.میں بھی بعض اوقات جان بوجھ کر اسی طرح کرتا ہوں.ان سے کسی نے سوال کیا تھا کہ زیادہ ثواب تو السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کہنے میں ہے.آپ صرف السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله کہتے ہیں تو آپ نے جواب دیا تھا کہ میں جان بوجھ کر ایسا کرتا ہوں تا کہ آپ زیادہ بہتر طور پر لوٹ سکیں کیونکہ احسن رنگ میں لوٹانے کا بھی تو حکم ہے.مجھے کسی بچی نے سوال کیا اس سفر کے دوران بھی کہ آپ کو سب دعا کے لئے کہتے ہیں آپ کسی کو نہیں کہتے.تو میں نے اس کو کہا تھا کہ میں تو پہلے دن سے آج تک دعا کے لئے کہتا چلا آ رہا ہوں.ہاں ہر ملنے والے کو انفرادی طور پر نہیں کہتا.بعضوں کو کہہ بھی دیتا ہوں اور خطوں میں بھی لکھتا ہوں لیکن اجتماعی طور پر عموماً میں دعا کے لئے کہتا رہتا ہوں اور اجتماعی دعائیں لینے کی کوشش کرتا ہوں.مسجد میں بھی سلام کرتے وقت، اجتماعوں وغیرہ میں بھی.اس سے ایک تو جو میں نے کہا حضرت خلیفہ المسیح الرابع کا طریق کار تھا اور میں بھی بعض دفعہ کرتا ہوں ،جیسا کہ آپ نے جواب دیا تھا کہ اس لئے مختصر سلام کرتے ہیں کہ جواب دینے والے کو زیادہ ثواب ہو.ایک تو یہ ہے کہ اس کو ثواب مل جائے کہ وہ بڑھا کر لوٹائے تو وہ جو بڑھا کر لوٹا رہا ہوتا ہےاس میں سے بھی تو دعاؤں کا حصہ مل رہا ہوتا ہے.کیونکہ مجھے تو سب سے زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.جتنی زیادہ دعاؤں سے آپ

Page 639

$2004 634 خطبات مسرور میری مدد کر رہے ہوں گے اتنی زیادہ جماعت میں مضبوطی آتی چلی جائے گی اور اتنی زیادہ آپس کی محبت بڑھتی چلی جائے گی.بہر حال یہ ضمنا بات آگئی تھی.اصولی طور پر یہ نہیں ہے کہ سلام کرنے والا آدھا سلام کرے یا مختصر الفاظ میں کرے اور جواب دینے والا ضرور پورا جواب دے.دونوں طرف سے جتنی زیادہ دعائیں دی جائیں اتنا زیادہ بہتر ہے.میں بعض اوقات پورا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ بھی کہتا ہوں.اور جس طرح حدیث میں ہے کہ اس کو رواج دینا چاہئے.ہر کوئی کیونکہ اس طرح سوچ کر نہ تو سلام کر رہا ہوتا ہے اور نہ جواب دینے والا سوچ کر جواب دیتا ہے اس لئے انفرادی طور پر یا ویسے بھی عام طور پر جو لوگ ملیں تو زیادہ ثواب اسی میں ہے جتنے زیادہ الفاظ سلامتی کے، دعا کے دوہرائیں گے.یہ وضاحت میں نے اس لئے تفصیل سے دے دی ہے کہ بعض لوگ نا کبھی میں بعض باتوں میں کچے ہو جاتے ہیں.حضرت خلیفتہ اصبح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی اگرکسی نے یہ بات سنی ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس بات پہ جان بوجھ کر قائم ہی ہو جائے کہ سلام صرف اتنا ہی فرض ہے کہ مختصر کیا جائے اور جواب دینے والا زیادہ جواب دے.کیونکہ بعض باتیں موقع محل کے حساب سے اور بعض لوگوں کے مقام کے لحاظ سے ہوتی ہیں، وہ اصول نہیں بن جایا کرتے.اصول وہی ہیں جو ہمیں ہمارے آقا و مطاع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں اور ہمیں تو جتنا زیادہ ثواب حاصل کر سکیں کرنا چاہئے.اور یہ لوٹانے والے کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی بڑھا کر لوٹائے تا کہ اس کو بھی ثواب ملے اور جس کو وہ سلام کا جواب دے رہا ہے اس کو بھی ثواب ملے.پھر جن باتوں کے کرنے سے مومن جنت میں داخل ہو گا.اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.ایک روایت میں اس طرح آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! سلام کو رواج دو، ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ.صلہ رحمی کرو اور اس وقت نماز پڑھو

Page 640

635 $2004 خطبات مسرور جب لوگ سوئے ہوئے ہوں.اگر تم ایسا کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے.(ترمذى ابو اب صفة القيمة) اس حدیث میں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان میں سے تین تو حقوق العباد سے تعلق رکھتی ہیں جو میں نے پہلے حدیث پڑھی تھی یہ اس کی مزید وضاحت ہے.یعنی سلام کے رواج سے ایک دوسرے کے لئے نرم جذبات پیدا ہوں گے اور نرم جذبات کے پیدا ہونے سے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی.دوسرے یہ فرمایا کہ ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ.لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھو.اگر کوئی ضرورت مند نہیں ملتا، یہاں بعض اوقات ان ملکوں میں کوئی ضرورت مند نہیں ملتا.تو جماعت میں صدقات کا نظام موجود ہے.یہاں سے دوسرے ملکوں میں بھی مدد کی جاتی ہے.بے انتہا غریبوں کی مدد کی جاتی ہے تم بھی اس میں داخل ہو جاؤ تو براہ راست سلام تو نہیں پہنچا ر ہے لیکن ان غریبوں کے لئے سلامتی کے سامان پیدا کر رہے ہو.ان کی ضروریات کا خیال رکھ رہے ہو اور ان سے غائبانہ دعائیں بھی لے رہے ہو.یہ صرف محبت اور ہمدردی کے اس جذبے کے تحت کر رہے ہیں کہ ہمارے بھائی بند ہیں اور ضرورت مند ہیں.پھر فرمایا کہ صلہ رحمی کرو.اپنے رشتہ داروں کا ، اپنے قریبیوں کا ، اپنے عزیزوں کا ایک دوسرے کے سسرالی قریبیوں کا ، عزیزوں کا خیال رکھو، کیونکہ ایک دوسرے کے سسرال کے جو رحمی رشتہ دار ہیں وہ بھی قریبی عزیز ہی ہیں.ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچاؤ.تکلیف صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی جسمانی تکلیف نہیں پہنچائی یا کل کے گالم گلوچ نہیں کی بلکہ اگر خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے جذبات کا اور ایک دوسرے کے عزیزوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھتے تو وہ بھی سلامتی پھیلانے والے نہیں ہیں.سلامتی تو ایک دعا ہے اور دعائیں جذبات کو ٹھیس پہنچا کر نہیں دی جاتیں.فرمایا کہ یہ سب باتیں سلامتی سے تعلق رکھتی ہیں.اس لئے تم بھی ان باتوں کو کر کے سلامتی کے ساتھ ہی جنت میں داخل ہو گے.اور پھر آخر میں حق اللہ کی طرف بھی توجہ دلا دی.کہ اللہ کا حق کیا ہے؟ بلکہ وہ بھی بندوں

Page 641

$2004 636 خطبات مسرور کی ضرورت ہی ہے کہ نمازیں بھی پڑھو، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، بلکہ تہجد کی نماز پڑھنے کی عادت ڈالو.جب اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر اس وقت تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے اٹھو گے تو پھر دل بھی صاف ہوگا.خدا کی خشیت بھی پیدا ہوگی اور جب خدا کی خشیت پیدا ہو گی تو اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور سلامتی کی دعا بھیجنے کی طرف اور توجہ پیدا ہوگی.اور نہ صرف اگلے جہان میں بلکہ اس جہان میں بھی تمہیں سلام بھیجنے کا فہم حاصل ہو رہا ہوگا.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جن سے جان پہچان ہے صرف انہیں کو سلام کرنا چاہئے.مسلمان معاشرے میں تو ہر راہ چلتے کو سلام کرنا چاہئے.جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے پوچھا.اسلام کا کون سا کام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا غریبوں، مسکینوں کو کھانا کھلانا اور ہر مسلمان کو سلام کرنا، چاہے تو اسے پہچانتا ہویا نہ پہچانتا ہو.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ مسلمان معاشرے میں سلام کو رواج دینا چاہئے.پاکستان میں تو ہمارے سلام کہنے پر پابندی ہے، بہت بڑا جرم ہے.بہر حال ایک احمدی کے دل سے نکلی ہوئی سلامتی کی دعا ئیں اگر یہ لوگ نہیں لینا چاہتے تو نہ لیں اور تبھی تو یہ ان کا حال ہو رہا ہے.لیکن جہاں احمدی اکٹھے ہوں وہاں تو سلام کو رواج دیں.خاص طور پر ربوہ، قادیان میں.اور بعض اور شہروں میں بھی اکٹھی احمدی آبادیاں ہیں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا رواج دینا چاہئے.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ ربوہ کے بچوں کو کہا تھا کہ اگر بچے یاد سے اس کو رواج دیں گے تو بڑوں کو بھی عادت پڑ جائے گی.پھر اسی طرح واقفین نو بچے ہیں.ہمارے جامعہ نئے کھل رہے ہیں ان کے طلباء ہیں اگر یہ سب اس کو رواج دینا شروع کریں اور ان کی یہ ایک انفرادیت بن جائے کہ یہ سلام کہنے والے ہیں تو ہر طرف سلام کا رواج بڑی آسانی سے پیدا ہوسکتا ہے اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے.بعض اور دوسرے شہروں میں کسی دوسرے کو سلام کر کے پاکستان میں قانون ہے کہ مجرم نہ بن جائیں.احمدی کا تو چہرے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے.اس لئے فکر کی یا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے.اور مولوی ہمارے اندر ویسے ہی پہچانا جاتا ہے.

Page 642

$2004 637 مسرور پاکستان میں بھی عموماً لوگ شریف ہیں جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ گونگی شرافت ہے.کچھ کہہ نہیں سکتے.اندر سے وہ بھی مولوی سے بڑے سخت تنگ ہیں.تھانیدار والا ہی حساب ہے کہ جب ایک دفعہ ایک احمدی پر مقدمہ ہو گیا.سلام کہنے پر مولوی نے پرچہ درج کروایا.جب تھانیدار نے جرم دیکھا تو اس نے اس کو کہا کہ کیا اس نے تمہیں سلام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ جرم ہے اس نے کیوں مجھے سلام کیا ہے.اس نے کہا ٹھیک ہے اگر یہ جرم ہے اس احمدی کا تو وہ آئندہ سے تمہیں لعنت بھیجا کرے گا.احمدی لعنت کبھی نہیں بھیجتا.دوست ہو یادشمن ہو احمدی نے تو ہمیشہ سلامتی کا نعرہ ہی لگانا ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ایوب بن بشیر تقبیلہ عنزہ کے ایک شخص کے حوالے سے بیان کرتے ہیں.اس شخص نے حضرت ابوذرغفاری سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوقت ملاقات آپ لوگوں سے مصافحہ کیا کرتے تھے؟ اس پر حضرت ابوذر نے بتایا کہ میں جب کبھی بھی حضور سے ملا، مصافحہ کیا ہے.بلکہ ایک مرتبہ حضور نے مجھے بلا بھیجا، میں اس وقت گھر پر نہیں تھا.جب میں گھر آیا اور مجھے بتایا گیا تو میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا، حضور اس وقت بستر پر تھے، حضور نے مجھے اپنے گلے کے ساتھ لگا لیا اور معانقہ کیا.اس خوش نصیبی کے کیا کہنے.(ابوداؤد كتاب الادب باب في المعانقه پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتا اور آپ سے گفتگو کرتا ، آپ اس سے اپنا چہرہ مبارک نہ ہٹاتے.یہاں تک کہ وہ خود واپس چلا جائے اور جب کوئی آپ سے مصافحہ کرتا تو آپ اپنے ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہ چھڑاتے یہاں تک کہ وہ خود ہاتھ چھڑا لے.اور کبھی آپ کو اپنے ساتھ بیٹھنے والے سے آگے گھٹنے نکال کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا گیا.(ابن ماجه کتاب الادب باب اکرام الرجل جليسه اس سے جہاں ہم سب کے لئے نصیحت ہے، خاص طور پر جماعت کے عہدیداران کو بھی

Page 643

$2004 638 خطبات مسرور میں کہنا چاہتا ہوں، ان کو بھی سبق لینا چاہئے کہ ملنے کے لئے آنے والے کو اچھی طرح خوش آمدید کہنا چاہئے.خوش آمدید کہیں ، ان سے ملیں، مصافحہ کریں، ہر آنے والے کی بات کو غور سے سنیں.بعض لکھنے والے مجھے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے بعض معاملات ہیں کہ آپ سے ملنا تو شاید آسان ہولیکن ہمارے فلاں عہد یدار سے ملنا بڑا مشکل ہے.تو ایسے عہدیداران کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ حسنہ کو یا درکھنا چاہئے ، ملنے والے سے اتنے آرام سے ملیں کہ اس کی تسلی ہو اور وہ خود تسلی پا کر آپ سے الگ ہو.پھر دفتروں میں بیٹھے ہوتے ہیں.ہر آنے والے کو کرسی سے اٹھ کر ملنا چاہئے ، مصافحہ کرنا چاہئے.اس سے آپ کی عاجزی کا اظہار ہوتا ہے اور یہی عاجزی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے.دیکھیں آپ بیٹھتے وقت بھی کتنی احتیاط کیا کرتے تھے.مصافحے کے بارے میں یہاں ایک وضاحت کر دوں یہاں مغرب میں ہمارے معاشرے سے آئی ہوئی بعض خواتین کو بھی مردوں کے کہنے کی وجہ سے یا خود ہی کسی کمپلیکس (Complex) کی وجہ سے مردوں سے مصافحہ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور بڑے آرام سے عورتیں مردوں سے مصافحہ کر لیتی ہیں.مردوں اور عورتوں دونوں کو اس سے بچنا چاہئے.اگر آرام دوسرے کو سمجھا دیں کہ ہمارا مذ ہب اس کی اجازت نہیں دیتا تو لوگ سمجھ جاتے ہیں.نہ عورت مرد کو سلام کرتی ہے تو پھر نہ مرد عورت کو سلام کرے گا.دوسرے بعض معاشروں میں بھی تو مصافحے نہ کرنے کا رواج ہے وہ بھی تو نہیں کرتے.ہندو بھی ہاتھ جوڑ کر یوں کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ وہاں ان کا سلام کا رواج ہے.اور معاشروں میں بھی اس طرح مختلف طریقے ہیں.اس لئے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے.کسی قسم کے کمپلیکس میں آنے کی ضرورت نہیں ہے.مذہب بہر حال مقدم ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بہر حال زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول

Page 644

$2004 639 خطبات مسرور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوار شخص پیدل کو سلام کرے اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں.(بخاری کتاب الاستئذان باب يسلم الراكب على الماشي تو یہ طریق بھی عاجزی پیدا کرنے اور تکبر کو دور کرنے لئے سکھایا گیا ہے.ایک روایت میں آتا ہے.آپ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے اور اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا چٹان حائل ہو جائے.پھر دوبارہ اس سے ملے تو دوبارہ سلام کرے.یعنی ایک دفعہ سلام کافی نہیں ہے.پھر ملے پھر بے شک سلام کرے.یعنی سلام کو اتنا زیادہ رواج دو کہ تمہارے اندر کی ساری کدورتیں ، دل کے تمام میل صاف ہو جائیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے قریب سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرک بت پرست اور یہودی سب بیٹھے ہوئے تھے.تمام کی مشترکہ مجلس تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کیا.(بخاری کتاب الاستئذان باب التسليم فى يجلس في اختطلاط من المسلمين و المشركين تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بلا استثناء اس مجلس کے ہر فرد کو سلام کیا.یہ نہیں کہا کہ مسلمانوں کو سلام ہو.جبکہ آج کا ملاں کہتا ہے کہ فلاں کو سلام کرو اور فلاں کو سلام نہ کرو.آپ لوگ بھی یہاں بلا جھجک اس معاشرے میں بھی لوگوں کو سلام کیا کریں.پھر اس کا مطلب بتایا کریں.آخر ان کا سلام بھی تو آپ کرتے ہیں.آپ کو بھی سلام کرنا چاہئے بعض قریبی تو خیر جانتے ہیں، سلام بھی کر لیتے ہیں.کل جب میں آیا ہوں تو بڑی اچھی بات لگی بعضوں نے جو یہاں کے مقامی تھے السلام علیکم بھی کہا.تو ہر ایک کو بتانا چاہئے ، اس کا مطلب بھی بتا ئیں تا کہ اسلام کی تعلیم کی جو خوبیاں ہیں وہ بھی لوگوں کو پتہ لگیں.اور اس سے آپ کی دعوت الی اللہ کے اور راستے بھی کھلیں گے.اس سلسلے میں حضرت اقدس مسیح موعود کے طریق کار کے بارے میں بتا تا ہوں.قاضی محمد

Page 645

640 $2004 خطبات مسرور یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سلام کا اس قدر خیال تھا کہ حضوڑ اگر چہ چند ھوں کے لئے بھی جماعت سے اٹھ کر جاتے اور پھر واپس تشریف لاتے تو ہر بار جاتے بھی اور آتے بھی السلام علیکم کہتے.(سیرت المهدی حصه.سوم صفحه 32) حافظ محمد ابراہیم صاحب قادیانی بیان کرتے ہیں.اکثر حضور علیہ السلام، السلام علیکم پہلے کہا کرتے تھے.(سیرت المہدی حصه سوم صفحه 114)' تو یہ سب کچھ اس محبت کی وجہ سے تھا جو آپ کے دل میں اپنے مانے والوں کے لئے تھی بلکہ کوئی بھی بیٹھا ہو تو آپ اس طریقے سے سلام کیا کرتے تھے.گویا اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے اور اسی جذبے کے تحت آپ سلام کو پھیلایا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” اس زمانے میں اسلام کے اکثر امراء کا حال سب سے بدتر ہے.وہ گویا یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف کھانے پینے اور فسق و فجور کے لئے پیدا کئے گئے ہیں دین سے وہ بالکل بے خبر اور تقویٰ سے خالی اور تکبر اور غرور سے بھرے ہوتے ہیں.اگر ایک غریب ان کو السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا اپنے لئے عار سمجھتے ہیں.بلکہ غریب کے منہ سے اس کلمہ کو ایک گستاخی کا کلمہ اور بیبا کی کی حرکت خیال کرتے ہیں.حالانکہ پہلے زمانے کے اسلام کے بڑے بڑے بادشاہ السلام علیکم میں اپنی کوئی کسر شان نہیں سمجھتے تھے.یعنی اپنی شان میں کوئی کمی نہیں سمجھتے تھے مگر یہ لوگ تو بادشاہ بھی نہیں ہیں پھر بھی بے جا تکبر نے ان کی نظر میں ایسا پیارا کلمہ جو السلام علیکم ہے، جو سلامت رہنے کے لئے ایک دعا ہے، حقیر کر کے دکھایا ہے.پس دیکھنا چاہئے کہ زمانہ کس قدر بدل گیا ہے کہ ہر شعار اسلام کا تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے“.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 327 ) پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس شعار اسلام کو اتنا رواج دیں کہ یہ احمدی کی پہچان بن جائے.اس کے لئے خود بھی کوشش کریں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی کہیں ان دنوں میں، جلسہ کے

Page 646

$2004 641 خطبات مسرور دنوں میں دعاؤں کے ساتھ جہاں وقت گزار رہے ہوں گے، جلسے کی کارروائی سننے میں جہاں وقت گزار رہے ہوں گے، وہاں ہر ملنے والے کو سلامتی کی بھی دعا دیں تا کہ اس مجمع میں، یہاں جولوگ اکٹھے ہوئے ہیں ان میں جو دینی اور روحانی حالت کی بہتری کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، یہاں جو آپ آپس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق رشتہ محبت واخوت قائم کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں اس رشتے کی مضبوطی کے لئے سلامتی کی دعائیں بھی بھیجیں.دنیا میں ہر جگہ احمدی پاک دل کے ساتھ ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں دینا شروع کر دیں تو بہت جلد اس پجہتی اور دعاؤں کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ آپ احمدیت کی ترقی کو دیکھیں گے.دنیا میں آج اور جگہ بھی جلسے ہو رہے ہیں.ہر جگہ ان جلسوں کو سلامتی کے پیغام سے بھر دیں.ان ملکوں میں جب آپ اسلام کے اس امن اور سلامتی کے پیغام کو پھیلائیں گے تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ دعوت الی اللہ میں بھی آسانیاں پیدا ہوں گی، لوگوں سے رابطوں میں بھی آسانیاں پیدا ہوں گی.اس لئے اس ملک میں رہنے والے ہر احمدی کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے آپ کو اپنے ملک میں رہنے اور کمانے ، اپنے حالات بہتر بنانے کی اجازت دی ہے اور ایک احسان کیا ہے کہ بہت سوں کے حالات اپنے ملک میں اتنے اچھے نہیں تھے یہاں کی نسبت تو اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس خوبصورت تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جو اسلام نے آپ کو دی ہے، جس کو اس زمانے میں صحیح رنگ میں ہمارے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھا ہے.اس کو ان لوگوں تک پہنچائیں.اسلام سلامتی کا پیغام ہے، ہر احمدی کو اس کو دنیا میں پھیلانا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بہت سے الہامات و رویا میں

Page 647

$2004 642 خطبات مسرور السلام علیکم کہ کر خوشخبریاں دی ہیں.اس وقت میں ایک رؤیا پیش کرتا ہوں.آپ لکھتے ہیں کہ : ” میں نے خواب میں دیکھا کہ اول گویا کوئی شخص مجھ کو کہتا ہے کہ میرا نام فتح وظفر ہے اور پھر یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے أَصَلَحَ اللهُ أَمْرِى كُلَّهُ یعنی اللہ تعالیٰ نے میرے سارے کام اپنے فضل سے ٹھیک کر دیئے.پھر دیکھا کہ مکان شبیہ مسجد میں ہوں ( یعنی مسجد کی شکل کے مکان میں ہوں ) اور ایک الماری کے پاس کھڑا ہوں اور حامد علی بھی کھڑا ہے.اتنے میں نظر پڑی میں نے عبداللہ غزنوی کو دیکھا کہ بیٹھے ہیں اور میرا بھائی غلام قادر بھی بیٹھا ہے تب میں نے نزدیک ہو کر ان کو السلام علیکم کہا تو انہوں نے بھی وعلیکم السلام کہا اور بہت سے دعائیہ کلمات ساتھ ملا دیئے جن میں صرف یہ لفظ محفوظ رہا یعنی ذہن میں یہی رہا کہ اَخَّرَكَ الله کہ اللہ تعالیٰ تیرے سارے کام ٹھیک بنادے.انجام بخیر کرے.مگر معنے یہی یا در ہے کہ ان کے کلمات ایسے ہی تھے کہ تیرا خدا مددگار ہو، تیری فتح ہو ، پھر میں اس مجلس میں بیٹھ گیا اور کہا کہ میں نے خواب بھی دیکھی ہے کسی کو میں نے السلام علیکم کہا ہے.اس نے جواب ديا وَ عَلَيْكُمُ السَّلَامِ وَالظَّفر “.(تذکره صفحه 249 مطبوعه 1969ء) پس ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ کے اس سلام کو حاصل کرنے والے بنیں.یہ سلام حضرت اقدس کے ساتھ آپ کی جماعت کو بھی ہے.آپ کا مقصد ایک پاک جماعت کا قیام تھا اور نیک انجام اس جماعت کے لئے بھی ہے جیسا کہ اس میں بتایا گیا ہے.لیکن ہر فر د جماعت کو سلامتی پھیلا کر انفرادی طور پر بھی ان برکات سے حصہ لینا چاہئے تا کہ فتح وظفر کی جو خوشخبری اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس کی برکات سے ہر ایک حصہ لے سکے.اس لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اس سلامتی کے پیغام کو دوسروں تک بھی پھیلائیں اور آپس میں بھی مومن بنتے ہوئے محبت اور پیار کی فضا پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کی ابدی جنتوں کے بھی وارث بنیں جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 648

$2004 643 37 خطبات مسرور ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھے.اپنی پوری استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ نیکیاں کرنے کی طرف توجہ دیں ۱۰رستمبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۰ارتبوک ۱۳۸۳ هجری شمسی به مقام بیت السلام، برسلز ( بلجیم) دنیا میں بننے والی تنظیمیں UNO وغیرہ کی ناکامی اور اس کی وجوہات تشدد سے اسلام کو غالب کرنے والے اسلام کے حسن کی بجائے اس کی بھیا نک شکل پیش کر رہے ہیں.ہ آج اگر نیکیوں میں بڑھنا کسی کا مطمع نظر ہے تو صرف احمدی کا ہے.

Page 649

خطبات مسرور $2004 644 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيْعًا.إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ (سورة البقره آیت : 149) یہ آیت جوئیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے.اور ہر ایک کے لئے ایک مطمح نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے.پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ، تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کر کے لے آئے گا.یقینا اللہ ہر ایک چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ نیکیوں پر قائم ہو اور نہ صرف نیکیوں پر قائم ہو بلکہ ان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے.تو جب آپس میں ایمان لانے والوں کو نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا حکم ہے تو پھر یہ کس طرح برداشت ہوسکتا ہے کہ غیروں کے مقابلے میں کسی بھی قسم کی کوئی بھی نیکی ان کی کم ہو اور وہ دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کریں.کیونکہ نیکی کرنا اور نیک اعمال بجالا نا تو صرف مومن کا ہی خاصہ ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ وہ اللہ کے نزدیک بہترین مخلوق ہے.جیسا کہ فرماتا ہے ﴿إِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ﴾ (البينة: 8) یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے یہی ہیں وہ جو بہترین مخلوق ہیں.کیونکہ اب اسلام قبول کر کے اور ان لوگوں میں شامل ہو کر جن میں شامل ہونے کی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی تھی، حکم دیا

Page 650

$2004 645 خطبات مسرور تھا، مسیح و مہدی کو مان کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ مضبوط بندھن اور تعلق کا اگر دعوی کرتے ہیں تو آپ کے لئے اگر کامیابی کی کوئی راہ ہے اور آپ اگر اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر صرف اور صرف یہی راستہ ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھیں.یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اگر تم مسلمان ہو اور پکے مسلمان ہو تو تمہیں خوشی سے اچھلنا چاہئے ،خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک راستہ دکھا دیا جو اس کی طرف لے جانے والا ہے.دنیا میں مختلف تنظیمیں بنتی ہیں، ایسوسی ایشنیں بنتی ہیں ان کا کوئی نہ کوئی مطمح نظر ہوتا ہے، کوئی ماٹو ہوتا ہے.اور کوشش کرتی ہیں کہ اس کو حاصل کریں اور پھر انفرادی طور پر بھی انسان اپنی زندگی کو ایک مقصد بناتا ہے، اس کے بارے میں سوچتا ہے اور پھر اس کے حصول کے لئے کوشش بھی ہوتی ہے.لیکن ان سب کا جو مقصد ہے وہ دنیا داری ہے کیونکہ کسی کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ نہیں ہے کہ یہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد تمہارا انجام بخیر ہوگا.کوئی ضمانت نہیں ہے.لیکن ہمارے سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم اسلام پر اسی طرح عمل کر رہے ہو جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اور اس کی وضاحت اور تشریح زمانے کے امام نے کی ہے تو نہ صرف یہ نیکیاں قائم کر کے تم دنیا میں بہترین مخلوق ہو بلکہ اگلے جہان میں بھی اللہ کی رضا حاصل کرنے والے ہو، فلاح پانے والے ہو.چنانچہ دیکھ لیں یہ تنظیمیں بظاہر جو بڑے بڑے مقاصد لے کر اٹھتی ہیں، ملکوں میں صلح کرانے کا دعولی لے کر اٹھتی ہیں، بظاہر نیک کام کے لئے بنی ہوتی ہیں لیکن کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی نہیں اس لئے جو یہ دعویٰ لے کر اٹھی تھیں کہ ہم دنیا میں نیکیوں کو پھیلائیں گے اور امن قائم کریں گے، کچھ بھی نہ کر سکیں.کیونکہ نیکی تو اللہ تعالیٰ کی خشیت سے پیدا ہوتی ہے.وہ کیونکہ ان میں نہیں تھی اس لئے نیکیوں پر قائم نہ رہ سکے.ذاتی ہلکی اور ہر قوم کے قومی مفاد آڑے آ گئے اور دوسری جنگ عظیم کو بھی نہ روک سکے.اور پھر یو این او (U.N.O) بنی لیکن وہ بھی دیکھ لیں اب چند قوموں کے ہاتھوں میں ہے.اب پھر حالات اس نہج پر چل رہے ہیں ،غریب ملکوں کو ایک طرح سے یرغمال بنا کر ان پر ظلم کئے جا رہے ہیں.ان کے وسائل کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی من مانی شرطیں منوائی

Page 651

$2004 646 خطبات مسرور جاتی ہیں.اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے ان کو نام نہاد امداد دی جاتی ہے.پھر ان کے وسائل کو اپنے ملکوں کی ترقی کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اور غریب ملکوں کے عوام غربت اور فاقے کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اور کر رہے ہیں.اگر کوئی آواز اٹھائے تو اسے بندوق کی نوک پر چپ کرایا جاتا ہے.اور پھر یہ دعویٰ کہ ہم دنیا میں امن قائم کر رہے ہیں اور نیکی پھیلا رہے ہیں، غریب انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، یہ سب جھوٹے دعوے اور ڈھکو نسلے ہیں.یہ لوگ اس طرح کر ہی نہیں سکتے.آج اگر حقیقت میں نیکیاں قائم کر سکتے ہیں تو پکے اور سچے مسلمان ہی کر سکتے ہیں.اور سچے مسلمان سوائے احمدی کے کوئی نہیں.کیونکہ انہوں نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام کو مانا ہے.چنانچہ دیکھ لیں تمام مسلمان ممالک باوجود اس کے کہ بعض کے پاس وسائل بھی ہیں، نیکیاں نہیں کر سک رہے.ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھ سک رہے.غریب کی امیر ملک کوئی خدمت نہیں کرتے.ان کی ان کے دل میں کوئی فکر نہیں.اپنی امارت سے غریب بھائیوں کی ،غریب ملکوں کی مدد کرنے کی بجائے خود اپنے نفس کی ہوس میں مبتلا ہیں.اور جتنے پیسے والے مسلمان ممالک ہیں ان کو دیکھ لیں یہ سوائے اپنی دولت اکٹھی کرنے کے یا غریب ملک میں جس کو اختیار مل جائے وہ اپنی ذات کے لئے دولت اکٹھی کرنے کے اور کچھ نہیں کرتا.نہ حقوق اللہ کی فکر ہے، نہ حقوق العباد کی فکر ہے.اور اگر ان میں سے کوئی اسلام کی خدمت کا دعویدار ہے بھی ، اگر کوئی دعویٰ لے کر اٹھتا بھی ہے تو وہ صرف یہ سمجھتا ہے کہ تشدد سے ہی اسلام کا غلبہ ہو گا.اور صرف تشدد پسندی توپ ، بندوق کے گولے کے علاوہ بات نہیں کرتا.اور یہ لوگ اسلام کے حسن کو دکھانے کی بجائے اس کی نہایت بھیانک شکل پیش کرنے والے ہیں.تو یہ لوگ تو نیکیاں قائم کرنے والے نہیں ہیں اور ہو بھی نہیں سکتے.کیونکہ جب انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی نافرمانی کی اور آپ کے غلام صادق کو اور آپ کے عاشق صادق کو نہ صرف مانا نہیں بلکہ اس کی مخالفت بھی کی اور اس میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں

Page 652

$2004 647 خطبات مسرور رکھی اور اپنے ذاتی اور دنیاوی مفاد کو دین پر مقدم رکھتے ہوئے انہیں کو ترجیح دی اور اس کے علاوہ کوئی ذہن میں خیال نہیں ہے.پھر یہ کہ دینی معاملے میں بھی جو تھوڑا بہت دین تھا اس میں بھی دنیا غالب آ گئی.اور خدا کے خوف کے بجائے ، خدا کے خوف سے زیادہ مُلاں کے خوف کو دل میں جگہ دیتے ہوئے ملاں کے پیچھے چل پڑے تو پھر کس طرح نیکیوں میں بڑھنا ان کا صطح نظر ہوسکتا ہے.آج اگر نیکیوں میں بڑھنا کسی کا طمح نظر ہے تو صرف احمدی کا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا نیکیاں کیا ہیں جن میں بڑھنا ہے، جن میں دوسروں سے آگے نکلنا ہے.کیا نیکیاں دوسرے نہیں کر رہے اور آج ہر احمدی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کرے.وہ نیکیاں یہ ہیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہو.حقوق اللہ کی ادائیگی کیا ہے.حقوق اللہ کی ادائیگیاں یہ ہیں کہ اللہ کا خوف اور اس کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے اس کی عبادات بجالائیں اور کوئی موقع اس کی عبادت کا اس کا قرب پانے کا اس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر کرنے کا نہ چھوڑیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نمازوں کو جو اس کا حق ہے اس طرح ادا کرو.مردوں کے لئے نمازوں کا یہ حق ہے کہ پانچ وقت مسجد میں جا کے باجماعت ادا کی جائیں.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں یہ ادا کرنی مشکل ہیں، ہر جگہ مسجد نہیں ہوتی.مسجد نہیں ہوتی تو کوئی نہ کوئی جگہ تو ہوتی ہے.مسلمان کے لئے تو ساری زمین ہی مسجد بنائی گئی ہے.کام کا وقت ہوتا ہے اور اس وقت کام چھوڑ نا بڑا مشکل کام ہے.گویا کہ اللہ تعالیٰ کو پتہ نہیں تھا کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں ملازم پیشہ کو اور کاروباری لوگوں کو کام بہت زیادہ کرنا پڑے گا اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.اللہ تعالیٰ تو غیب کا علم جانتا ہے اس کے تو علم میں ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے اور سو سال کے بعد کیا ہونے والا ہے اور ہزار سال کے بعد کیا ہونے والا ہے.اور اس کے بعد کیا ہونا ہے اور کیسا زمانہ آنا ہے لیکن اس کے باوجود فرمایا کہ نمازوں کی طرف توجہ کرو گے تو نیکیوں پر قدم مارنے والے کہلاؤ گے،

Page 653

$2004 648 خطبات مسرور نیکیوں پر چلنے والے کہلاؤ گے.ورنہ مسیح و مہدی کو ماننے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے کے باوجود کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا ہے، نیکیاں قائم کرنے والے اور نیکیوں پر عمل کرنے والے نہیں ہو گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو بڑا واضح حکم دیا ہے کہ نمازوں کو قائم کرو.جیسا کہ فرماتا ہے.وَأَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ (النور: 57) نماز قائم کرو.اس کو مسجد میں جا کر ادا کرو.زکوۃ دو.رسول کی اطاعت کرو.زکوۃ بھی ایک قربانی ہے ایک نیکی ہے.رسول کی اطاعت یہی ہے کہ جو بھی احکامات دیئے وہ کرو تم اس طرح یہ نیکیاں کرو گے، نمازیں وقت پہ اور باجماعت ادا کرو گے تو پھر تم پر رحم کیا جائے گا.ورنہ نہ تم رحم کی توقع رکھو اور نہ ہی تمہارا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ہم نیکیوں پر قائم ہیں.کیونکہ نیکی پر چلنے والے، نیکی میں بڑھنے والے اس وقت کہلاؤ گے جب وقت پر نماز ادا کر رہے ہو گے، کیونکہ وقت پر نماز ادا کرنا بہت ضروری ہے.جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا) (النساء: 104) کہ نماز یقیناً مومنوں پر وقت پر ادا کرنا فرض ہے.تو نیکی یہی ہے کہ ایک تو نمازیں باجماعت ادا کی جائیں، دوسرے وقت پر ادا کی جائیں.اگر دنیا کی چکا چوند ، کام کی مصروفیت، پیسے کمانے کالالچ نمازوں سے روکتا ہے تو یہ نیکی نہیں ہے.اس لئے اپنی فکر کرو.صحابہ کرام نیکیوں میں بڑھنے میں کس قدر فکر کیا کرتے تھے.ایک حدیث سے پتہ لگتا ہے.کہ ایک دفعہ مالی لحاظ سے کم اور غریب صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑے شکوے اور شکایت کے رنگ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ ! جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں اسی طرح امراء بھی نمازیں پڑھتے ہیں.جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں.اسی طرح امراء بھی روزے رکھتے ہیں.جس طرح ہم جہاد کرتے ہیں اسی طرح امراء بھی جہاد کرتے ہیں.مگر یا رسول اللہ ! ایک زائد کام وہ کرتے ہیں.وہ صدقہ خیرات بھی دیتے ہیں جو ہم اپنی غربت اور ناداری

Page 654

$2004 649 خطبات مسرور کی وجہ سے نہیں دے سکتے ہمیں کوئی ایسا طریقہ بتا ئیں جس پر چل کر ہم اس کمی کو پورا کر سکیں.آپ نے فرمایا تم ہر نماز کے بعد تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللہ ، تینتیس دفعہ الْحَمْدُ لِلہ اور چونتیس دفعہ اللهُ اكبر کہ لیا کرو.یہ صحابہ بڑے خوش کہ اب ہم بھی امراء کے برابر نیکیوں میں آجائیں گے.انہوں نے اس طریق پر عمل شروع کر دیا مگر کچھ دنوں کے بعد امیروں کو ، اس طریقہ عبادت کا بھی پتہ لگ گیا.اور انہوں نے بھی اسی طرح تسبیح و تحمید شروع کر دی.یہ صحابہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور شکایت کی کہ ان امراء نے بھی یہ طریق شروع کر دیا ہے.اور پھر ہمارے سے آگے نکل گئے ہیں.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو نیکی کی توفیق دے رہا ہے تو میں اس کو کس طرح روک سکتا ہوں.تو دیکھیں اس تڑپ کے ساتھ صحابہ نیکیوں میں بڑھنے کے لئے نیکی کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے.ان میں بڑے بڑے کاروباری بھی تھے، بڑے پیسے والے بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم کہ نیکیوں میں سبقت لے جاؤ اس حکم پر اس طرح ٹوٹ کر عمل کرتے تھے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ہے.پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی نیکیوں کی کس طرح قدر کی ہے اور انفرادی اور جماعتی دونوں طرح سے انہیں خوب نوازا.تو جیسا کہ اس حدیث میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کے تحت صحابہ امیر ہوں یا غریب نماز ، روزہ ، جہاد، صدقات ہر ایک نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے.حقوق اللہ بھی ادا کرنے والے تھے اور حقوق العباد بھی ادا کرنے والے تھے.اپنے مالوں کو بھی صدقہ و خیرات کر کے اللہ کی مخلوق کی خدمت کیا کرتے تھے.تو یہ نیکیوں میں بڑھنا آج ہم احمدیوں کے لئے بھی ضروری ہے.ہمیں اپنی نمازوں کو بھی قائم کرنا ہوگا، ان کو بھی سنوارنا ہوگا اور حقوق العباد بھی ادا کرنے ہوں گے.

Page 655

$2004 650 مسرور یہ حقوق العباد کیا ہیں؟ اپنے رشتہ داروں سے عزیزوں سے حسن سلوک کرنا.پھر ان میں سب سے پہلے اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنا، بیویوں کو خاوند کے حقوق ادا کرنا، میاں بیوی کو ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا، غرباء کی دیکھ بھال کرنا، جماعت میں بھی اس کا ایک وسیع نظام موجود ہے.اس کے تحت مالی قربانی کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے وسیع پیمانے پر غرباء اور بیوگان کی مدد کی جاتی ہے، یتامیٰ کی مدد کی جاتی ہے اس میں حصہ لیں.لڑائی جھگڑے سے پر ہیز کرنا.کاروباری شراکتوں میں بھی بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ جھگڑوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے.ایک احمدی کو تو کبھی سوچنا بھی نہیں چاہئے کہ وہ دھو کے سے کسی دوسرے کا مال کھائے گا اس سے مدد پر ہیز کرنا چاہئے.اس لئے ہمیشہ استغفار کرتے ہوئے ، اس سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ سے ، مانگنی چاہئے.جب اس طرح توجہ سے ہر احمدی نیکیوں پر قائم ہونے کی کوشش کرے گا تبھی وہ اس دعوے میں سچا ہو سکتا ہے کہ ہم نہ صرف نیکیوں پر قائم رہنے والے ہیں بلکہ اس کو پھیلانے والے ہیں.اور نیکیوں کو اختیار کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے ہیں.ورنہ تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ آج کل کے دنیا داروں اور دنیاوی تنظیموں کی مثال ہوگی.ہمارا بھی وہی حال ہو جائے گا ، خدا نہ کرے کہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں.یہاں مجھے یاد آ گیا.یورپ کے ایک ملک کے بڑے منجھے ہوئے اور سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں، مجھے ملنے آئے کہ میں ابھی ایک ملک سے جنیوا سے یا کسی اور جگہ سے دورہ کر کے آ رہا ہوں.اور ایک کمیٹی یورپین ملکوں کی بنائی گئی ہے کہ کس طرح غریب ملکوں کی مدد کی جائے اور ہم نے بڑا پلان بنایا ہے اور منصوبہ بنایا ہے.انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے.میں نے ان سے کہا کہ بڑی اچھی نیکی کی بات ہے، ضرور کرنا چاہئے.امیر ملکوں کو غریب ملکوں کی مدد کرنی چاہئے لیکن یہ بتائیں کہ یہ ان یورپین ممالک کا پہلا منصوبہ ہے یا پہلے بھی ماضی میں اس

Page 656

$2004 651 خطبات مسرور جیسے منصوبے بن چکے ہیں.تو انہوں نے کہا ہاں ہاں ماضی میں بھی بہت منصو بے بنے ہیں.میں نے کہا مجھے پہلے یہ بتائیں کہ ماضی کے جو منصوبے ہیں، ان منصوبوں کا کیا انجام ہوا.کتنے ملکوں کی یا کتنے لوگوں کی آپ نے اس منصوبے کے تحت غربت ختم کی ہے.کیا یہ منصوبے سنجیدگی سے چلے؟ تو کہنے لگے بڑا مشکل سوال ہے.ان کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں.وہ بھی ہنس پڑیں کہ اب جواب دو اس کا.ان کی اہلیہ نے ذاتی طور پر خود، این جی او (N.G.O) بنائی ہوئی ہے اس کے ذریعہ افریقن ممالک میں جا کر مدد کرتی ہیں.بعض بڑے دور دراز علاقوں میں بھی گئی ہوئی ہیں.میں نے جاکے جب پتہ کیا تو پتہ لگا کہ وہاں وہ واقعی آتی ہیں.تو بہر حال اگر ذاتی طور پر کوئی سنجیدگی بھی ہے تو کیونکہ ملکوں کی تنظیم کے ساتھ یہ سارا کاروبار وابستہ ہے اس لئے وہ خود کچھ نہیں کر سکتا.تو یہ دنیاوی تنظیمیں جو ہیں اپنے مفاد کی خاطر خدمت بھی کرتی ہیں ، نہ کہ نیکی کے لئے ، نہ کہ نیکی میں آگے بڑھنے کے لئے.جیسا کہ میں نے کہا بعض لوگ ان میں انفرادی طور پر نیک بھی ہو سکتے ہیں.لیکن کچھ کر نہیں سکتے.اور ان تنظیموں کے پروگرام بھی اس وقت تک چلتے ہیں جب تک اپنے مفاد ہوں.نہیں تو اگر مفاد نہ ہو اور خدمت کا جذبہ ہو تو ان ملکوں میں بے انتہا کھانے پینے کی چیزیں ضائع ہوتی ہیں.ان کو ضائع کرنے کی بجائے ان غریب ملکوں میں بھیجنے کا انتظام کر دیں تو بہت سوں کے پیٹ بھر سکتے ہیں.انسانیت کی بے انتہا خدمت ہو سکتی ہے.لیکن مقصد ان کے یہ نہیں ہیں.کیونکہ نیکیاں کر کے اللہ کی رضا تو مقصد نہیں ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس کی بڑی تفسیر فرمائی ہے.اس میں سے کچھ خلاصہ بیان کرتا ہوں.یہ حکم جو ہے کہ ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ در حقیقت اسلام اور دوسرے مذاہب میں جہاں اور بہت سے امتیازات ہیں جو اس کی فضیلت کو نمایاں طور پر ثابت کرتے ہیں وہاں ایک فرق یہ بھی ہے کہ دوسرے مذاہب صرف نیکی کی

Page 657

$2004 652 خطبات مسرور طرف بلاتے ہیں مگر اسلام استباق کی طرف بلاتا ہے.اول تو نیکی اختیار کر واور پھر نیکیوں میں استباق کرو.اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ نے یہاں استباق کا لفظ رکھا ہے جس میں بظاہر سرعت اور تیزی نہیں پائی جاتی.کیونکہ لغت کے لحاظ سے دو آدمی اگر سست بھی چل رہے ہوں لیکن ایک دوسرے سے آگے نکل جائے تو اس نے استباق کر لیا.فرماتے ہیں کیونکہ یہاں ہر شخص کے لئے حکم ہے کہ وہ استباق کرے.اب اگر ایک شخص کوشش سے آگے بڑھے تو دوسرے کے لئے بھی حکم ہے کہ وہ بھی آگے بڑھے تو جب وہ اس سے آگے بڑھے گا تو پہلے والے کی کوشش ہو گی کہ اس سے آگے بڑھے تو ہر ایک کو کیونکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کا حکم ہے اس طرح نیکیاں کرنے کی ایک دوڑ ہو گی.جس طرح جو روایت بیان کی ہے اس میں آتا ہے کہ صحابہ نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کیا کرتے تھے.اور جیسا کہ روایت بیان کی گئی ہے بڑے پریشان ہوتے تھے کہ فلاں ہمارے سے آگے کیوں نکل گیا.پس ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اس تعلیم کے مطابق نیکیوں میں آگے بڑھے اور اس بڑھنے کی طرف کوشش کریں، توجہ دیں.اور اپنی پوری استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ نیکیاں کرنے کی طرف توجہ دیں.ہر ایک کی اللہ تعالیٰ نے مختلف استعداد میں رکھی ہیں.کم از کم ان کے مطابق تو ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے.اور پھر یہ ہے کہ ان نیکیوں میں بڑھنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.ایک جب نیکیوں کے مقام پر پہنچے تو دوسرے کو بھی ساتھ لانے کی کوشش کرے کیونکہ وہ بھی حکم ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو.تو اس طرح نیکیوں میں بڑھنے کی دوڑ بھی لگی رہے گی.اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے نیکی کی جاگ بھی لگے گی.اس میں حسد نہیں ہو گا.کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں ہوگی بلکہ نیکی کرنے کی کوشش ہوگی.اس طرح جب آپ تبلیغ کریں گے اور جب نیکیاں کرنے کے لئے دوسروں کو اپنے ساتھ ملائیں گے اور برائی کے خاتمے کی

Page 658

$2004 653 خطبات مسرور کوشش کریں گے تو فرمایا جب اس طرح کرو گے تو تم یہ نہ سمجھو کہ اگر تم نیکیاں نہیں کرو گے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.نہیں، بلکہ ایک دن تم نے اللہ کے پاس آنا ہے اور تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کر کے اپنے پاس لے آئے گا.اگر تم ست ہو نیکیوں کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہو تو تمہیں ان غفلتوں کا جواب دینا ہو گا کہ تم نے دعوی تو یہ کیا تھا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کی جماعت میں شامل ہو کر نیک اعمال بجالائیں گے.شرائط بیعت کی پوری پابندی کریں گے.لیکن عملاً تمہاری حالت ایک غافل انسان کی سی ہے.نہ تم نے حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف توجہ کی ، نہ تم نے حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ دی اور اگر تم یہ کر رہے ہو تو پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ تم فلاح پانے والے ہو گے، کامیاب ہو گے.اللہ کی رضا حاصل کرنے والے ہو گے اور اپنی کمزوریوں کے باوجود یہ نیکیاں کر رہے ہو گے.تو اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اس جذبے کی قدر کرتے ہوئے تمہیں نیکیوں کی توفیق دیتا چلا جائے گا کیونکہ وہ قادر خدا ہے.پس اب بھی وقت ہے، نیکیاں کرنے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دیں.اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ آہستہ آہستہ نیکیوں میں آگے بڑھتے رہیں.اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کی صلاحیتوں اور استعدادوں کا بھی علم ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر ایک کی اپنی اپنی صلاحیتیں ہوتی ہیں.وہ یہ نہیں کہتا کہ تم نے ایک ہی چھلانگ میں تمام نیکیاں حاصل کر لینی ہیں، تمام نیکیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کر لینے ہیں.وہ کہتا ہے کہ تمہاری کامیابی اس میں ہے کہ تسلسل کے ساتھ نیکیوں میں قدم بڑھاتے رہو.تمہارے قدم رکیں نہیں.برائیوں کو پیچھے چھوڑتے جاؤ اور نیکیوں میں بڑھتے جاؤ.اور پھر ہر ایک اپنے سے زیادہ نیکی کی طرف، نیک عمل کرنے والے کی طرف دیکھے.یہی حکم ہے اور اس سے نیکیوں میں مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے.لیکن وہی جیسا کہ میں نے پہلے کہا مسابقت کی روح پیدا کرنے کے لئے مستقل مزاجی شرط ہے.ایک تسلسل سے کام کرنا ہوگا.

Page 659

$2004 654 مسرور حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ بہترین نیکی وہ ہے جس پر انسان استقلال کے ساتھ قائم رہے جو حالت بطور ایک دورہ کے ہوتی ہے وہ حقیقی نہیں بلکہ ایک مرض کا نشان ہوتی ہے.جس طرح ایک دماغی مرض والا انسان کبھی ہنسے تو ہنستا ہی چلا جاتا ہے، رونے لگے تو روتا ہی چلا جاتا ہے، کھانے لگتا ہے تو کھاتا ہی.رہتا ہے، اگر سوتا ہے تو سوتا ہی رہتا ہے اور جاگنے لگے تو ہفتوں اسے نیند نہیں آتی.ان تمام باتوں میں اُس کے ارادے کا دخل نہیں ہے.اور کسی فعل پر اسے سزا نہیں دی جاتی.اسے کوئی نہیں پوچھتا کہ اس قدر روتا یا ہنستا کیوں ہے بلکہ اس کا علاج کرتے ہیں اس کا رونا رنج پر اور ہنسنا خوشی پر دلالت نہیں کرتا.سونا غفلت کی اور بیداری ہوشیاری کی دلیل نہیں ہوتی.اسی طرح روحانی حالت میں بھی انسان پر ایسے اوقات آتے ہیں جب وہ کسی بیرونی اثر یا دماغی نقص کی وجہ سے ایک خاص حالت کو انتہا تک پہنچادیتا ہے.اگر نماز پڑھنی شروع کرتا ہے تو حد ہی کر دیتا ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد اگر اس کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ بالکل چھوڑ چکا ہے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نمازیں پڑھنا روحانی حالت کی ترقی کی وجہ سے نہ تھا.کیونکہ اگر خدا کے لئے وہ پڑھتا تو چھوڑ نہ دیتا.وہ ایک بیماری تھی ، جس طرح زیادہ کھانے اور زیادہ سونے کی بیماری ہوتی ہے.اس طرح زیادہ نمازیں پڑھنے کی بیماری بھی ہوسکتی ہے.(خطبات محمود جلد نمبر 13 صفحه 432) تو نیکی یہ نہیں ہے کہ کچھ وقت کے لئے کی اور بے انتہا کی اور چھوڑ دی.بلکہ مستقل مزاجی سے کی جائے ،اس میں استقلال ہو.پس نیکی کرو اپنی طاقت کے مطابق کرو اور پھر اس میں بڑھتے چلے جاؤ.مستقل مزاجی دکھاؤ.بعض لوگوں کو جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا دورہ کی طرح نیکیاں کرنے کا جنون ہوتا ہے.نہ بھی کوئی دماغی عارضہ ہو تب بھی ایک فیز (Phase) آتی ہے اور پھر بالکل ہی جنون میں دوسری طرف نکل جاتے ہیں.اور اگر نمازیں نہ پڑھنے کا کسی آدمی کی وجہ سے دھکا لگ جائے ، کسی

Page 660

$2004 655 خطبات مسرور عہد یدار کی وجہ سے، امام الصلواۃ کی وجہ سے کسی لڑائی کی وجہ سے کسی سے کسی رنجش کی وجہ سے تو پھر اللہ کی عبادت کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں.ایسی کئی مثالیں سامنے آجاتی ہیں یا بعض لوگ ایسے بناوٹی نیک ہوتے ہیں کہ انہیں خیال آ جاتا ہے کہ ہم نے بہت نیکیاں کر لیں ، اب ضرورت نہیں ہے.تو فرمایا کہ یہ نہیں ہے، نیکی وہ ہے جس میں بڑھتے چلے جاؤ اور مرتے دم تک نیکیاں کرنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ اور ان میں بڑھنے کی کوشش کرتے جاؤ.اسی میں تمہاری فلاح ہے، اسی میں تمہاری کامیابی ہے اور اسی سے تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف روایات میں مختلف نیکیوں کو ادا کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے کہ کس طرح ان کو ادا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے اور اس میں خوشخبریاں بھی دی ہیں.چند روایات پیش کرتا ہوں.حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا گر بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ.نماز باجماعت پڑھو، زکوۃ دو اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو.(مسلم کتاب الايمان باب بيان الايمان الذي يدخله به الجنة) - تو پہلی شرط تو ایک مومن کے لئے یہی ہے کہ خدا کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ، کام، کاروبار، ملازمت، بیوی، بچے، دنیاوی تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں روک نہ بنیں.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں روک نہ بنیں.اور اس کے بعد سب سے اہم حکم یہ ہے کہ نماز پڑھو جیسا کہ پہلے بھی میں بتا آیا ہوں کہ اس طرف بہت توجہ دو.زکوۃ دو، مالی قربانی کرو تا کہ جماعتی ضروریات کا بھی خیال رکھا جا سکے اور غرباء کی بھی مدد ہو سکے.اس کے لئے جماعت میں چندے کا نظام بھی قائم ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے لے کر آج تک خلفاء مختلف وقتوں میں چندوں کی طرف توجہ

Page 661

$2004 656 خطبات مسرور دلاتے رہے ہیں.کچھ عارضی تحریکیں ہوتی تھیں، کچھ مستقل ہوتی تھیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک احمدی کو ماہوار با قاعدہ بھیجنا چاہئے.زکوۃ تو ایسا چندہ ہے جو ہر ایک پر لاگو بھی نہیں ہوتا، ہر ایک کے لئے واجب بھی نہیں ہے.لیکن جماعتی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے چندوں کا نظام جماعت میں قائم ہے.اس طرف پوری توجہ دینی چاہئے.مالی قربانی کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے بنیادی حکموں میں سے ایک ہے.قرآن کریم کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کے بعد فرمایا ہے ﴿وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ.مومن وہی ہیں اور نیکیاں بجالانے کی دوڑ میں شامل وہی لوگ ہیں جو اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے.یہ نہیں کہ جب مالی قربانی کا سوال اٹھے تو بہانے بنانے شروع کر دیئے کہ ہم خود ہی جماعت کی براہ راست فلاں فلاں قربانی کر رہے ہیں.کام کر رہے ہیں یا اپنے کسی عزیز کی خدمت کر رہے ہیں اس لئے ہمیں چندوں سے چھوٹ مل جانی چاہئے.تو یہ نیکیوں میں پیچھے رہنے والی باتیں ہیں اور نفس کے بہانے ہیں.پھر فرمایا کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو.ان کا خیال رکھو، ان کے جذبات کا بھی خیال رکھو، ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھو.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا کام بتائیے کہ وہ مجھے جنت میں لے جائے اور دوزخ سے دور رکھے، آپ نے فرمایا تم نے ایک بہت بڑی اور مشکل بات پوچھی ہے لیکن اگر اللہ تعالی توفیق دے تو یہ آسان بھی ہے.فرمایا: تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کر ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا.نماز پڑھ.باقاعدگی سے زکوۃ ادا کر.رمضان کے روزے رکھ.اگر زادراہ ہو تو بیت اللہ کا حج کر ، اگر اجازت ہو، وسائل بھی ہوں اور امن بھی ہو تو حج کرو.پھر آپ نے یہ فرمایا : کیا میں بھلائی اور نیکی کے دروازے کے متعلق تجھے نہ بتاؤں.سنو روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے.صدقہ

Page 662

$2004 657 خطبات مسرور گناہ کی آگ کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے.رات کے درمیانی حصے میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی تجافی بخونم عَنِ الْمَصابع (السجدہ: 17) کہ اُن کے پہلو اُن کے بستروں سے تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے الگ ہو جاتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو سارے دین کی جڑ بلکہ اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے.آپ نے فرمایا: دین کی جڑ اسلام ہے.اس کا ستتون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے.پھر آپ نے فرمایا: کیا میں تجھے اس سارے دین کا خلاصہ نہ بتاؤں.میں نے عرض کیا : جی ہاں یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے.آپ نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا اسے روک کر رکھو.میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس کا بھی ہم سے مؤاخذہ ہو گا.آپ نے فرمایا: عربی کا محاورہ ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تیری ماں تجھ کو گم کرے.یعنی جب کسی کو افسوس سے کچھ کہنا ہو یا تاسف سے اس وقت یہ فقرہ بولا جاتا ہے کہ لوگ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیوں یعنی اپنے برے بول اور بے موقع باتوں کی وجہ سے ہی جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں.(ترمذی ابواب الايمان باب في حرمة الصلواة) اس میں پہلی روایت کے علاوہ بھی چند باتوں کا ذکر ہے.یعنی رمضان کے روزے اور حج.پھر کیونکہ آپ میں امت کو سیدھے راستے اختیار کروانے کے لئے نیکیوں پر قائم کرنے کے لئے ایک تڑپ تھی اس لئے اور بہت سی نیکیوں کی باتیں آپ نے خود کھول کھول کر بیان کر دیں.کہ روزہ تمہیں گناہوں سے بچائے گا صدقہ خیرات، مالی قربانی تمہیں آگ سے بچائے گی، تہجد پڑھنا بہت بڑے اجر کا باعث ہوگا، پھر اس کی چوٹی جہاد بتایا اور اس زمانے میں جہاد کیا ہے، کیونکہ تلوار کا جہاد تو حضرت مسیح موعود کی آمد کے بعد اب ختم ہو گیا جنگ اور قتال کو تو آپ نے دین کے لئے حرام قرار دے دیا.یہاں جہاد سے مراد اپنے نفس کے خلاف جہاد ہے.نفس کو برائیوں سے روک کر نیکیوں پر

Page 663

$2004 658 خطبات مسرور قائم کرنے کا بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کا جہاد یہاں مراد ہے.مالی قربانیوں کا جہاد مراد ہے.دلائل سے دشمن کا منہ بند کرنے کا جہاد مراد ہے.آج دجال نے اپنی چالوں سے مسلمانوں کو اپنے دین سے لاتعلق کر دیا ہے.اس دجال کے خلاف اسی طرح کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ،اس سے وہ جہاد کرنا مراد ہے.وہ تو اپنے لٹریچر کے ذریعے سے جہاد کر رہے ہیں.تو جماعت احمدیہ بھی لٹریچر کے ذریعہ سے ہی جہاد کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کا جہاد مراد ہے.اور انہی چیزوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہادا کبر قرار دیا ہے.پھر جو دین کا خلاصہ آپ نے بیان فرمایا وہ یہ ہے کہ اپنی زبان سے ہمیشہ اچھے کلمات نکالو.نیکی کی تعلیم دو.لوگوں کو کبھی اپنی زبان سے دیکھ نہ دو، کبھی کسی کے جذبات کو کوئی کڑوی بات کہہ کر دکھ نہ پہنچاؤ.کیونکہ تمہاری باتیں ہی ہیں جو تمہیں جہنم میں لے جانے والی ہیں.بعض دفعہ مظلوم کی آہ لگ جاتی ہے.اور وہ ایک آہ ساری زندگی کی نیکیوں کو ختم کر دیتی ہے نیکیوں میں آگے بڑھنے والوں کی زبانیں ہمیشہ پاک صاف رہتی ہیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے پانچ حق ہیں.سلام کا جواب دینا، بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرنا ، فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شامل ہونا ، اس کی دعوت قبول کرنا اور اگر وہ چھینک مارے اور اَلْحَمْدُ لِلہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب يَرْحَمُكَ الله کی دعا کے ساتھ دینا.ایک اور روایت میں زائد بات یہ ہے کہ جب تو اسے ملے تو اسے سلام کہے اور جب وہ تجھ سے خیر خواہانہ مشورہ مانگے تو خیر خواہی اور بھلائی کا مشورہ دے.تو یہ ہیں نیکیاں پھیلانے اور ان پر بڑھنے کے طریقے جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بتائے ہیں.اگر غور کریں تو دیکھیں ان باتوں پر عمل کر کے ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہوگا.جو

Page 664

$2004 659 خطبات مسرور صرف نیکی کرنے والا معاشرہ ہوگا، جو صرف نیکی پھیلانے والا معاشرہ ہوگا، جوصرف نیکیوں میں آگے بڑھنے والا معاشرہ ہوگا.جہاں ایک دوسرے کو دعائیں بھی دے رہے ہوں گے اور خیر خواہی اور بھلائی کے مشورے بھی دے رہے ہوں گے.نیکی میں پیچھے رہ جانے والوں کو ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بھی ملا رہے ہوں گے.پھر ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خدا کی راہ میں جس نیکی میں ممتاز ہوا اسے اس نیکی کے دروازے میں جنت کے اندر آنے کے لئے کہا جائے گا.اسے آواز آئے گی ، اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ تیرے لئے بہتر ہے.اسی سے اندر آؤ.اگر وہ نماز پڑھنے میں ممتاز ہوا تو نماز کے دروازے سے اسے بلایا جائے گا.اگر جہاد میں ممتاز ہوا تو جہاد کے دروازے سے.اگر روزے میں ممتاز ہوا تو روزے کے دروازے سے.اگر صدقہ میں ممتاز ہوا تو صدقے کے دروازے سے بلایا جائے گا.حضور کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں جسے اس دروازے میں سے کسی ایک سے بلایا جائے اسے کسی اور دروازے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی کوئی ایسا خوش نصیب بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے آواز پڑے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی ان خوش نصیبوں میں سے ہو.(بخاری کتاب الصوم باب الريان للصائمين تو یہ ہے اصل نیکیوں میں بڑھنے والوں کا رویہ اور خواہش کہ کاش وہ ہر دروازے سے داخل ہوں اور کوشش یہ کرنی چاہئے کہ ہر قسم کی نیکی بجالائی جائے.کیونکہ ایک دوسری حدیث میں یہ بھی ہے کہ جہنم کے بھی دروازے ہیں اور بعض گناہگاروں کو جہنم کے دروازے جنت میں داخل ہونے سے روک بن سکتے ہیں.نمازیں پڑھنے والوں کے بارے میں جو آیا ہے کہ نمازیں ان پہ الٹادی جائیں گی وہ اسی لئے ہے کہ اگر ایک نیکی کر رہے ہیں تو دوسری نیکیوں میں بھی بڑھنے کی کوشش کرنی

Page 665

$2004 660 خطبات مسرور ہے لیکن ایک نیکی انتہا تک پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کو اس دروازے سے آواز پڑ جاتی ہے.تو اس لئے یہ نہیں کسی کو سمجھ لینا چاہئے کہ گناہ بھی کر رہا ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، باقی نیکیاں نہ بھی کر رہا ہو، اگر کسی کے حقوق سلب کر رہا ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا.نمازیں پڑھ لو.موقع کے لحاظ سے بات کی گئی ہے اور دوسری جگہوں پہ اور باتیں بھی آرہی ہیں.تو اس لئے ہر قسم کی نیکی میں بڑھنے کی اور برائیوں کو چھوڑنے کی کوشش ہونی چاہئے.اور پھر اگر کوئی کمی رہ گئی ہے پھر اللہ تعالیٰ جس میں زیادہ توجہ ہو آواز دے دے گا بلکہ اللہ کا فضل ہے بغیر اس کے بھی آواز دے سکتا ہے.لیکن بہر حال یہ ایک ترغیب دلانے کے لئے بتایا گیا ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے.آپ نے فرمایا: سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو.غربت سے ڈرتا ہو اور خوشحالی چاہتا ہو.صدقہ وخیرات میں ایسی دیر نہ کر مبادا جب جان حلق تک پہنچ جائے تو کہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا.حالانکہ وہ مال اب تیرا نہیں رہا.وہ فلاں کا ہو ہی چکا ہے.یعنی مرنے والے کا اختیار تو اس سے نکل گیا.(بخارى كتاب الزكوة باب فضل صدقة الشحيح الصحيح) - تو وصيت کے ضمن میں بھی میں یہی کہنا چاہتا ہوں بعض لوگ جوانی میں یا اچھی عمر میں جب اچھی کمائی ہو رہی ہو، مال ہو، اس وقت وصیت نہیں کرتے اور بڑھاپے کے وقت جب مرنے کا بالکل قریب وقت ہوتا ہے تو وصیت کے فارم فل (Fill) کرتے ہیں اور شکوہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری وصیت منظور نہیں ہوئی تو نیکی جب کرنی ہے تو نیکی کرنے کی عمر یہی ہے کہ اچھے حالات میں نیکی کی جائے جب خیال ہو کہ مجھے اس کی ضرورت ہے تب 1/10 حصہ کی قربانی کی جائے.

Page 666

$2004 661 مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان کو چاہئے کہ اپنا فرض ادا کرے اور اعمال صالحہ میں ترقی کرے.الہام کرنا اور و یا دکھانا ی تو خدا تعالیٰ کا فعل ہے.اس پر ناز نہیں کرنا چاہئے.اپنے اعمال کو درست کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ.أَوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّة البينة: 8) یہ نہیں کہا کہ جن کو کشوف اور الہامات ہوتے ہیں وہ خیر البریہ ہیں“.(الحكم جلد نمبر 11 نمبر 41 مورخه 17 نومبر 1907ء صفحہ 13).بلکہ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے ہی خیر البر یہ ہیں.تو فرمایا ہے کہ یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ بعض لوگوں کو چار سچی خوا میں آجائیں تو سمجھتے ہیں ہم بڑے نیک ہو گئے ہیں.نیکیوں میں آگے بڑھنے سے مراد صرف وہ شخص نہیں جس کو سچی خواب آ جائے.لوگ بھی ایسے لوگوں کو بعض دفعہ خراب کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں کو بڑی سچی خوا میں آتی ہیں اس لئے دعا کروانے کے لئے اس کے پاس جاؤ.تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو کچی خوا ہیں آتی ہیں، الہام بھی ہوتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے کہ وہ کسی کو سچی خوا ہیں دکھا دے.تمہاری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھو، اگر سچی خواہیں آ بھی گئیں تو کسی قسم کی بڑائی نہیں پیدا ہونی چاہئے.وہ بھی مزید اللہ کی طرف جھکانے والی اور نیکیوں میں بڑھانے والی ہوں.کیونکہ آپ نے فرمایا کہ صرف سچی خوا ہیں دیکھنا کوئی نیکی نہیں ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ” پہلے نوع انسان صرف ایک قوم کی طرح تھی اور پھر وہ تمام زمین پر پھیل گئے.تو خدا نے ان کی سہولت کے تعارف کے لئے ان کو قوموں پر منقسم کر دیا اور ہر ایک قوم کے لئے اس کے مناسب حال ایک مذہب مقرر کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے لِكُلِّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا..فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾ (المائدہ: 49)...ہر ایک قوم کے لئے ہم نے ایک مشرب اور مذہب مقرر کیا تاہم مختلف فطرتوں کے جو ہر بذریعہ اپنی مختلف ہدایتوں کے

Page 667

$2004 662 خطبات مسرور ظاہر کر دیں.پس تم اے مسلمانو ! عام بھلائیوں کو دوڑ کر لو کیونکہ تم تمام قوموں کا مجموعہ ہو اور تمام فطرتیں تمہارے اندر ہیں.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه (146) فرمایا کہ: چونکہ اے مسلمانوں تمہارے اندر تمام قوموں کا مجموعہ ہے اس لئے تمام قوموں کی نیکیاں بھی تمہارے اندر ہونی چاہئیں.اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کرو.پس آج ہم احمدیوں کے لئے ہی یہ حکم ہے جن میں مختلف قوموں کے نیک فطرت لوگ داخل ہورہے ہیں اس کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ جو بھی ایک دوسرے کی نیکیاں ہیں وہ اپنا ئیں.پھر آپ فرماتے ہیں: ”اسلام میں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں، ظَالِمٌ لِنَفْسِه، مُقْتَصِدٌ اور سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ تو وہ ہوتے ہیں جو نفس امارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں اور ابتدائی درجہ پر ہوتے ہیں جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ وہ اس حالت سے نجات پائیں.مُقتصد وہ ہوتے ہیں جن کو میانہ رو کہتے ہیں.ایک درجہ تک وہ نفس امارہ سے نجات پا جاتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ ان پر ہوتا ہے اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں.پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی.مگر سابِقٌ بِالْخَيْرَات وہ ہوتے ہیں کہ ان سے نیکیاں ہی سرزد ہوتی ہیں اور وہ سب سے بڑھ جاتے ہیں.ان کی حرکات وسکنات طبعی طور پر اس قسم کی ہو جاتی ہیں کہ ان سے افعال حسنہ ہی کا صدور ہوتا ہے.گویا ان کے نفس امارہ پر بالکل موت آ جاتی ہے.اور وہ مطمئنہ حالات میں ہوتے ہیں.ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں گویا وہ ایک معمولی امر ہے.اس لئے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حد تک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں.(الحکم جلد 9 نمبر 39 مورخه 10 /نومبر 1905ء صفحه 5-6 ).یعنی بعض دفعہ ایسے جو اللہ تعالیٰ کے اتنے قرب میں پہنچ جاتے ہیں ان کے لئے بعض ایسی باتیں جو ایک عام آدمی کے لئے نیکی ہو وہ بھی ان کے نزدیک گناہ ہوتی ہے.

Page 668

$2004 663 مسرور پھر آپ فرماتے ہیں : ” بیکار اور نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعوی نہیں کر سکتا.نیکی کا دروازہ تنگ ہے.پس یہ امر ذہن نشین کرلو کہ ملکی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ نص صریح ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ.جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا.اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو.کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا.دنیاوی خطابوں کو حاصل کرنے کے لئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی ، ملتا ہے.پھر خیال کرو کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا ؟.بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں.خدا ٹھگا نہیں جا سکتا.مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پرواہ نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے.(رپورٹ جـلـســـه سالانه 1897ء صفحه 79 ).فرمایا کہ اگر تم نیکیاں اس لئے کر رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو تو پھر محنت کرنی پڑے گی.ہر قسم کی نیکی کرنی ہوگی اور اس کے لئے مستقل مزاجی کی کوشش کرنی ہوگی.اور پھر جب اس طرح اپنی تکلیفوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نیکیاں کرنے کی کوشش کرو گے تو پھر ہی ہمیشہ کی خوشی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ : " قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پر ہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے.وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی

Page 669

664 $2004 خطبات مسرور کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے.اور اس قدر تا کید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک حصین باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے.اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے لئے حصن حص ہے.یعنی ایک مضبوط قلعہ ہے.ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بعض اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں“.( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ١٤ صفحه ٣٤٢ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نہ صرف نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوں بلکہ ان نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے تقویٰ کے بھی اعلیٰ مدارج حاصل کریں.ہمارا ہر قول، ہر فعل، ہمارا اٹھنا بیٹھنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو.اللہ تعالیٰ جلسے کے ان دنوں میں جو آج سے شروع ہو چکا ہے آپ کو اس کی برکات حاصل کرنے والا بنائے.ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بنائے.مہمان بھی اور میزبان بھی ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے اور جس مقصد کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں یعنی نیکیوں کو سیکھنے کے لئے اور نیکیوں کو پھیلانے کے لئے اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کے لئے اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں.عبادات کے بھی اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں.اور مالی قربانیوں کے بھی اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو آپ نے اپنے ماننے والوں کے لئے کی ہیں.

Page 670

$2004 665 38 خطبات مسرور ہمیشہ ایک دوسرے کی صلح کروانے کی کوشش کریں ۱۷ ستمبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۷ ارتبوک ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن.لندن اختلافات اور جھگڑوں کے متعلق اصولی تعلیمات اور ارشادات معاشرے کی اصلاح اور احادیث نبویہ آ پس میں صلح کاری اختیار کر و صلح میں خیر ہے.

Page 671

خطبات مسرور $2004 666 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَانْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَ هُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى اَمْرِ اللَّهِ.فَإِنْ فَآءَتْ فَأَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ، إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾.(سورة الحجرات آيات 10-11) آجکل اخبار روزانہ ہی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں کہ فلاں ملک میں یہ فساد ہورہا ہے اور فلاں ملک میں وہ فساد ہو رہا ہے.لوگ آپس میں بھی لڑائیوں میں لگے ہوئے ہیں.عدالتوں میں جاؤ تو یوں لگتا ہے جیسے سوائے لڑائی جھگڑوں کے اور مقدمے بازیوں کے لوگوں کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے.ہمارے ملک پاکستان میں اور تقریباً سارے برصغیر میں عام مشہور ہے کہ زمیندار کے پاس جب تھوڑے سے پیسے آجائیں یعنی کچھ فصل کی آمد ہو جائے، کیونکہ ویسے تو عموماً ہمارا زمیندار قرضوں کے بوجھ تلے ہی رہتا ہے بلکہ اکثر غریب ملکوں کے زمینداروں کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ قرض لے کے پیدا ہوتا ہے اور قرضوں میں ہی زندگی گزارتا ہے اور قرض میں ہی مرتا ہے یعنی پچھلوں کے لئے بھی قرض چھوڑ کے جاتا ہے.تو بہر حال میں یہ کہ رہا تھا کہ ہمارے دیہاتی طبقے ، چھوٹے زمینداروں بلکہ کسانوں میں

Page 672

$2004 667 خطبات مسرور بھی جب کسی کے پاس تھوڑا سا پیسہ آ جائے کچھ رقم آ جائے تو یہ رقم عموماً لڑائیوں اور مقدمہ بازیوں میں خرچ کر دی جاتی ہے.زمین کے ایک ایک فٹ کے لئے فساد پیدا ہورہا ہوتا ہے.تو بعض دفعہ پھر ان پر لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں.پھر قتل ہو جاتے ہیں.پھر مقدمے چلتے ہیں اور جتنی ان لوگوں کی کمائی ہوتی ہے وہ سب انہیں مقدموں اور لڑائیوں میں اور وکیلوں اور اپنے حمایتیوں کے اخراجات پورے کرنے کی نذر ہو جاتی ہے.پھر قرض لے کر مقدمے چل رہے ہوتے ہیں تو عمو ماً جو ہمارے میں سے بہت سارے لوگ جو زمیندارہ خاندانوں میں سے آئے ہوئے ہیں ان کو پتہ ہے کہ کیا حالات ہو رہے ہوتے ہیں.تو یعنی صلح والی کوئی بات نہیں ہوتی.شہروں میں بھی یہی حال ہے.ذرا ذراسی بات پر لڑائیاں ہوتی ہیں.سارا زور ہے تو اپنی جھوٹی انا پر.اور اس کے لئے بر باد بھی ہو جائیں تو کوئی بات نہیں.اللہ کا خانہ تو ان لوگوں کا بالکل خالی ہے.اور مسلمانوں میں بھی عموماً یہ بہت ہے.پاکستان میں بھی دیکھیں اگر پوچھو آپ مسلمان ہیں ، ہاں! الحمد للہ، ماشاء اللہ ہم مسلمان ہیں لیکن مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے تعلیم پر عمل نہیں کرنا.اور پھر یہ حال ان کا ہونا تھا.اسی لئے ان کی اصلاح کے لئے امام مہدی نے بھی آنا تھا.یہی حال ملکوں اور قوموں کا ہے.ناجائز طور پر دوسرے ملکوں کوامن کے نام پر اپنے ماتحت کرتے ہیں زیر نگیں کرتے ہیں.اپنی شرطوں پر ان کو زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں.صرف اس لئے کہ چھوٹے ملکوں کے وسائل سے فائدہ اٹھا سکیں.ان کی دولت پر قبضہ کر سکیں.آج دنیا میں جو تمام فساد نظر آتا ہے وہ اسی وجہ سے ہے.دنیا کی معیشت پر قبضہ کرنے کے لئے یا معاشی فائدے اٹھانے کے لئے یا پیسہ کمانے کے لئے یہ سب فساد ہے.یعنی یا یہ کہہ لیں کہ دوسرے کی چیز پر نظر رکھنے کی وجہ سے یہ ہے.دوسرے کے مال کو اپنا مال بنانے کی حوس جو ہے اس کی وجہ سے یہ فساد ہے.اور یہ سب کچھ اس زمانے میں اس لئے بڑھ گیا ہے کہ جس نا جائز پیسہ کمانے کے طریق سے اللہ تعالیٰ نے روکا تھا وہ عام ہو گیا ہے.یعنی سود، اور اس کی بھی اتنی قسمیں نکل آئی ہیں کہ اگر کوئی بچنا

Page 673

$2004 668 خطبات مسرور بھی چاہے تو اس کو بھی پتہ نہیں لگتا کہ کس طرح بچا جائے.کسی نے قرض لیا ہے کہ سود ہے بھی اس میں کہ نہیں ہے.اور اس شیطانی چکر نے ان سب کو اس طرح گھیر لیا ہے کہ سوائے مومن کے، تقویٰ پر چلنے والے کے اس سے بچنا مشکل ہے.اور کچھ نہیں اگر کسی نے انفرادی طور پر قرض نہیں بھی لیا ہوا تو ملکوں نے ،حکومتوں نے جو سود پر قرض لئے ہوتے ہیں.اس نے ہی قوم کے ہر فرد کو زیر بار کیا ہوا ہے.آخر وہ سود قوم کے پیسے سے ہی اترنا ہے.تو بہر حال اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ اس وجہ سے (جو وجہ میں نے بیان کی ہے) ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ﴾ (الروم : 42) کے نظارے نظر آئیں گے.یعنی ان نالائقیوں ، ان حوسوں، ان چالا کیوں سودی کاروباروں، اور لوگوں کے حقوق غضب کرنے کے طریقوں، اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے کی وجہ سے زمین میں بھی اور سمندر میں بھی فساد ہوگا.چنانچہ دیکھ لیں دنیا میں آجکل اسی طرح ہو رہا ہے.عموماً وجوہات یہی ہیں.لیکن اس زمانے میں مومنوں کو ، زمانے کے امام کے ماننے والوں کو یہ نصیحت ہے کہ جب بھی ایسی صورت ہو، تم نے اصلاح کی کوشش کرنی ہے فریقین میں صلح و صفائی کروانے کی کوشش کرنی ہے.چاہے وہ گھر یلو لیول (Level) پر میاں، بیوی کے جھگڑے ہوں، چاہے وہ کاروباری جھگڑے ہوں، چاہے وہ جھوٹی انانیت کے جھگڑے ہوں، چاہے قوموں کے قوموں سے جھگڑے ہوں، قوموں کے بارے میں نہیں بلکہ آج کے خطبے میں میں چھوٹے لیول پر ، معاشرے کے لیول پر، اس حوالے سے بات کروں گا.لیکن اگر قو میں بھی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں طریق سکھایا ہے اس کو اپنا لیں تو دنیا کے فساد ختم ہو سکتے ہیں، دنیا کے جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں.تبھی جو امن قائم کرنے والی تنظیمیں ، امن قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں.تبھی یو این او (UNO) کامیاب ہو سکتی ہے.لیکن بہر حال یہ ایک علیحدہ مضمون ہے.اس وقت میں معاشرے کے لیول کی بات کر رہا ہوں.اسی کے بارے میں کچھ بتاؤں گا.

Page 674

669 $2004 خطبات مسرور مؤمن کے لئے یہ حکم ہے کہ اول تو تم ان جھگڑوں سے بچو ، اور اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ یہ لڑائی جھگڑے آپس میں ہونے لگیں تو دوسرے مومن مل بیٹھیں ، اور ان کی آپس میں صلح کروائیں.دونوں کو قائل کریں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر یوں لڑنا اچھا نہیں ہے.کیوں اللہ تعالیٰ کے نافرمان بنتے ہو.آپس میں ایک دوسرے کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے.ایک دوسرے سے بدلے لینے کا کسی کو اختیار نہیں ہے.اگر وہ اس کو سمجھانے سے باز آجائیں اور صلح اور صفائی سے سی فیصلے پر پہنچ جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر جو فیصلہ نہیں مانتا اس کو پھر فرمایا کہ سزا دو.اس کو معاشرے میں کوئی مقام نہ دو، اس کے ہمدردنہ بنو.اب بعض جھگڑوں کے فیصلے کے لئے لوگ جماعتی طور پر بھی قضاء میں آتے ہیں یا ثالثی کرواتے ہیں.اور جب ایک فیصلہ ہو جاتا ہے.تو بعض ان میں سے فیصلہ ماننے سے انکار کرنے لگ جاتے ہیں.اور اس وجہ سے جب ان کو کوئی تعزیر ہوتی ہے کوئی سزا ملتی ہے، کیونکہ جماعتی معاشرے کے اندر تو نظام جماعت کا فیصلہ نہ ماننے پر اظہار ناپسندیدگی ہوسکتا ہے نا.کوئی پولیس فورس تو جماعت کے پاس ہے نہیں تو جب یہ سزا ملتی ہے تو فیصلہ نہ ماننے والوں کے عزیز یا دوست بجائے اس کے کہ ان پر دباؤ ڈالیں کہ برکت اسی میں ہے کہ فیصلہ مان لو، یہ کہنے کی بجائے ان کی حمایت کرنا شروع کر دیتے ہیں.ناجائز حمایت کرنا شروع کر دیتے ہیں.تو اس طرح کی ناجائز حمایت سے تو سزا یافتہ شخص کی اصلاح نہیں ہو سکتی.اس کو پتہ ہے میرا بھی ایک گروہ ہے میرے قریبی میرا برا نہیں مان رہے.میرا اٹھنا بیٹھنا جس معاشرے میں ہے اس میں اس چیز کو برائی نہیں سمجھا جا رہا.تو پھر اصلاح نہیں ہوتی.یا ہوتی ہے تو بڑا لمبا عرصہ چلتا ہے.اس لحاظ سے اصلاح کے لئے حکم ہے تو پورے معاشرے کو حکم ہے کہ جب کسی کے خلاف تعزیر ہو تو پورا معاشرہ اس پر دباؤ ڈالے، اس کی اصلاح کی کوشش کرے.نہ کہ نا جائز حمایت.

Page 675

خطبات مسرور 670 $2004 تو فرمایا ایسے لوگوں سے فیصلہ منوانے کے لئے ضروری ہے کہ ان پر دباؤ ڈالو، فیصلہ غلط ہے یا صحیح ہے.جب اپیل کے بعد تمام حق ختم ہو گئے تو اب معاشرے کا کام ہے کہ فیصلہ پر عمل درآمد کے لئے دباؤ ڈالے اور اگر معاشرہ صحیح طور پر دباؤ ڈال رہا ہو تو معاشرے کا دباؤ کوئی نہیں سہہ سکتا.تو چھوٹے معاشرے کی حد تک جماعت کے اندر جیسا کہ میں نے کہا اس حکم کی تعمیل کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ اس کا یہی مطلب ہے کہ ان پر معاشرے کا دباؤ ڈالو.رشتہ داریوں کا دباؤ ڈالو، دوستیوں کا دباؤ ڈالو تو جب یہ دباؤ پڑ رہے ہوں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی فیصلہ ماننے سے انکاری ہو جائے.تو اس طرح پورا معاشرہ نظام جماعت کی مدد کر رہا ہو گا.بلکہ میں تو کہوں گا کہ جب اس حکم کے تحت ایسا معاشرہ قائم ہو جائے گا تو ایک دو واقعات کے بعد ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کرے گا.یہ لڑائیاں ، فساد اور فتنے ہی جماعت کے اندر نہیں ہوں گے.پھر فرمایا کہ جب اس دباؤ کی وجہ سے دوسرا فریق صلح پر راضی ہو جائے ، فیصلہ ماننے پر راضی ہو جائے تو پھر نہ ہی معاشرے کو ، لوگوں کو ، دوستوں کو نہ ہی نظام جماعت کو کسی قسم کی انا کا مسئلہ بنانا چاہئے بلکہ انہیں شرائط پر جو فیصلہ میں طے کی گئی تھیں.ان کی تنفیذ ہونی چاہئے.اور پھر یہ ہر فریق کو بھول جانا چاہئے کہ کوئی مسئلہ ہوا تھا خاص طور پر جس فریق کو حق ملنا ہے یا جن لوگوں نے تنفیذ کروانی ہے پھر یہ نہیں کہ کچھ عرصے بعد اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کو یاد کروایا جائے کہ تمہارے ساتھ یہ ہوا تھا، تمہاری تعزیر ہوئی تھی ، تمہارے ساتھ فلاں ہوا تھا.پھر اس چیز کو بھول جائیں، پھر فیصلہ پر عمل کرنے والے کو معاشرے میں وہی مقام دیں جو ایک عام آدمی کا ہے.جو سب کا ہے.دوسرے فریق کو بھی یہ کہنا ہو گا جس کا حق غصب کیا گیا جیسا کہ میں نے کہا کہ اب کیونکہ تمہیں تمہارا حق مل گیا ہے اس لئے آپس میں محبت اور پیار سے رہنا شروع کر دو، دلوں کے کینے نکال دو.اگر اس طرح معاشرہ عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرے گا تو فرمایا پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں سے

Page 676

$2004 671 خطبات مسرور محبت کرتا ہے.اور جب اللہ تعالیٰ کسی سے محبت کرتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے.جو ایک مومن کو ملتی ہے.پھر اگلی آیت میں فرمایا ہے کہ مومن بھائی بھائی ہیں.ان کو معاشرے میں صلح وصفائی سے رہنا چاہئے اور اگر کبھی رنجش پیدا ہو بھی جائے تو صلح کروانے کے طریق کو اختیار کر وہ تمام معاشرہ ، ہر فرد جماعت ایک دوسرے کے حق کی حفاظت کرے.اور اس کو حق دلوائے.یہی اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے.اس سے تم اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے حقوق العباد ادا کرنے والے کہلا ؤ گے.اور جب یہ حالت تمہیں حاصل ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ جو اسی انتظار میں رہتا ہے کہ اپنے بندوں پر رحم کرے وہ پیارا خدا تم پر رحم کرے گا.اب میں چند احادیث پیش کرتا ہوں جس سے معاشرے کی اصلاح کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا پتہ چلتا ہے.حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، وہ شخص کذاب نہیں کہلا سکتا جو لوگوں کے درمیان اصلاح کروانے کی غرض سے صرف اچھی بات ان تک پہنچا تا ہے یا کوئی بھلائی کی بات کہتا ہے.یعنی وہ شخص جھوٹا نہیں ہوسکتا جو اصلاح کی غرض سے صرف اچھی بات پہنچائے.بعض دفعہ دو آدمیوں میں تعلقات ٹھیک نہیں ہوتے لیکن ایک دوسرے کی اچھائیوں، برائیوں، نیکیوں اور بدیوں کا بھی پتہ ہوتا ہے جب تعلق ایک دوسرے سے ٹھیک تھے.اگر کوئی تیسرا شخص جس کا ان دونوں سے تعلق ہے وہ اگر کسی سے دوسرے کے بارے میں نیکی کی بات سنے تو دونوں میں صلح کروانے کی غرض سے اس نیکی کی بات کو ان تک پہنچائے.اور سمجھائے کہ دیکھو کہ فلاں نے، دوسرے آدمی نے تمہارے بارے میں فلاں وقت میں بتا دیا تھا کہ تمہارے اندر فلاں فلاں نیکیاں ہیں.اس کے دل میں تمہاری بڑی قدر ہے.اور جن باتوں پر تمہاری رنجشیں ہو چکی

Page 677

$2004 672 خطبات مسرور ہیں ان باتوں کو بھول جاؤ اور صلح صفائی کرو، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں تو فرمایا کہ ایسا شخص کذاب نہیں کہلائے گا.چاہے اس کے علم میں تھا کہ ان دونوں نے ایک دوسرے کی برائیاں کی ہوتی ہیں وہ بھی اس کے علم میں آجاتی ہیں لیکن کیونکہ صلح کروانے کی کوشش کرنی ہے اس لئے وہاں صرف اچھی باتیں جو کی ہوتی ہیں وہی بتاؤ.اور برائیاں بتانے کی ضرورت نہیں.فساد اور جھگڑے کو ہوا دینے کی ضرورت نہیں.لیکن بعض ایسے فتنہ پرداز بھی ہوتے ہیں، تجربے میں آتے ہیں، باتوں کا مزا لینے کے لئے آپس میں دو اشخاص کو لڑا کر بھی بعضوں کو مزا آ رہا ہوتا ہے وہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کس طرح لڑتے ہیں.اگر ایک سے دوسرے کے خلاف کوئی بات سنیں گے تو پھر اور اس کو مرچ مصالحہ لگا کر ، دوسرے کو بتاتے ہیں.تو ایسے لوگ فتنہ پرداز تو ہیں ہی لیکن ساتھ جھوٹے بھی ہیں اس لئے ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کے لئے ایک دوسرے کی نیک باتوں کو ایک دوسرے تک پہنچانا چاہئے فرمایا اور مشورے بھی ہمیشہ بھلائی کے دو، ایسے مشورے دو جو صلح کے مشورے ہوں، نیکی اور خیر کے مشورے ہوں اور جھوٹے کے بارے میں تو یہی ہے، ایک تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی، پھر اور بھی بہت ساری سزا ئیں ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر اس دن میں جس پر سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے ہر عضو پر صدقہ ہے.اگر تو دو بندوں کے درمیان عدل کرتا ہے تو یہ صدقہ ہے.اگر کسی شخص کو اس کی سواری پر سوار کرنے میں مدد کرتا ہے یا اس کا سامان اس پر لادنے میں مدد کرتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے اچھی بات بھی صدقہ ہے.اور ہر قدم تو جو نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہوئے اٹھاتا ہے صدقہ ہے.اور اگر تو رستہ سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹادیتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے.تو یہاں اچھی بات کہنے کا، بھلائی کی بات کہنے کا صلح صفائی کی بات کہنے کا بھی وہی ثواب

Page 678

$2004 673 خطبات مسرور وہی درجہ رکھا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف جانے والے کی حرکتوں کا ہے.دوسرے یہاں یہ بھی پتہ لگ گیا کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کرنے والے ان کے حقوق ادا کرنے والے، ایسے حقوق کی ادائیگی کرنے والے لوگوں کو ان کی نیکیوں کا بھی اتنا ثواب ملے گا جتنا عبادت کرنے کا ثواب ہے جتنا نماز پڑھنے کا ثواب ہے.یعنی یہ دونوں چیزیں جیسا کہ کئی دفعہ ذکر ہو چکا ہے اور سب کو علم ہے.کہ اللہ کے حقوق بھی ، بندوں کے حقوق بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں.پھر فرمایا کیونکہ صدقہ ہے.اس لئے اس کا ثواب بھی یقینا صدقے کی طرح ہوگا.اور ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ صدقے کا ثواب سات سو گنا تک ہو جاتا ہے تو یہ ہے بھلائی کی بات کہنے والے کا صلح صفائی کروانے والے کا مقام.پھر حضرت ابو عباس سہل روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساتھیوں کے ساتھ ان کی صلح کروانے کے لئے تشریف لے گئے.اس دورانآ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں دیر ہوگئی.اور نماز کا وقت ہو گیا.چنانچہ حضرت بلال ، حضرت ابوبکر، کے پاس آئے اور کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمر و بن عوف میں صلح کروانے کے لئے گئے تھے وہاں دیر ہوگئی ہے جبکہ نماز کا وقت ہو گیا ہے کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے.تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں تو میں نماز پڑھادیتا ہوں.اصل حدیث میں جو مضمون ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ترجیح دی کہ کچھ دیر رک جائیں اور فریقین میں صلح صفائی کروا دیں.نماز جو با جماعت ہوئی تھی وہ بعد میں پڑھ لیں گے.ظاہر ہے اس وقت کچھ وقت نماز کا ہوگا.تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ٹھیک ہے کچھ لوگ بعد میں پڑھ لیں گے پڑھا دی جائے.لیکن اس وقت مقدم یہی ہے کہ دو مسلمان جولڑے ہوئے ہیں ان کی صلح صفائی کروائی جائے.

Page 679

$2004 674 مسرور پھر لڑائی جھگڑوں میں کئی کئی مہینے بلکہ سالوں ناراضگیاں چلتی ہیں.لیکن ایک مومن کے لئے یہ حکم ہے کہ اس کو صلح کرنے میں جلدی کرنی چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے.یعنی بول چال بند رکھے.بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے یہ باتیں سن کر کہ قریبی رشتہ دار آپس میں بعض دفعہ مہینوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور جس بات پر لڑائی یار بخش ہو وہ بالکل معمولی سی بات ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کو ہمیشہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سامنے رکھنا چاہئے کہ اول تو لڑنا ہی نہیں ہے.اگر کوئی لڑائی ہو بھی گئی ہے، کوئی وجہ بن بھی گئی ہے تو تین دن سے زیادہ حکم نہیں ہے کہ کوئی مومن دوسرے مومن سے بات نہ کرے.پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو.یعنی اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا پس ہر احمدی کو چاہئے کہ تقویٰ اختیار کرے اور خدا تعالیٰ کا پسندیدہ بننے کی کوشش کرے.آپس کے جھگڑوں اور لڑائیوں اور فسادوں کو ختم کریں.مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ ایک طرف تو ایمان لانے کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف اپنے بھائی کے گناہ نہ بخشتا ہو.اس کی غلطیاں نہ معاف کر سکتا ہو.کیونکہ ایسے لوگ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ترین شخص ہوں گے.(بخاری کتاب التفسير باب وهو الد الخصام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس ضمن میں ہم سے کیا چاہتے ہیں.آپ فرماتے ہیں ( آپ وہی چاہتے ہیں جو خدا چاہتا ہے ) فرماتے ہیں کہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے.اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا.تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو.کیونکہ شریر ہے وہ انسان جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں ہے.وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 12 )

Page 680

خطبات م مسرور 675 $2004 خدا کرے کہ ہم آپس میں جو چھوٹی چھوٹی باتوں میں رنجشیں ہیں اور لڑائیاں ہوتی ہیں ان کو جلد ختم کرنے والے ہوں، ہر کوئی جلد صلح کی طرف بڑھنے والا ہو.یہ بڑا سخت انذار ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.کہ وہ کاٹا جائے گا.خدا نہ کرے کہ کبھی کوئی احمدی کاٹا جائے پس استغفار کریں اور ہر احمدی کو بہت زیادہ استغفار کرنا چاہئے.اور یہ دعا بھی پڑھنی چاہئے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.(آل عمران : ٩) پھر آپ فرماتے ہیں: ” میں صلح کو پسند کرتا ہوں اور جب صلح ہو جاوے پھر اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہئے کہ اس نے کیا کہا اور کیا کیا“.یعنی جب کسی سے لڑائی ہوئی اور پھر صلح ہوئی تو پھر دوبارہ جس سے صلح ہو گئی ہے اس کے پاس ذکر نہیں ہونا چاہئے کہ اس نے کیا کہا.یا کیا کیا، میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص جس نے مجھے ہزاروں مرتبہ دجال اور کذاب کہا ہو اور میری مخالفت میں ہر طرح کوشش کی ہو اور وہ صلح کا طالب ہو تو میرے دل میں خیال بھی نہیں آتا اور نہیں آ سکتا کہ اس نے مجھے کیا کہا تھا اور میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا.ہاں خدا تعالیٰ کی عزت کو ہاتھ سے نہ دے.یہ سچی بات ہے کہ جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی وجہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچے اس کو کینہ ور نہیں ہونا چاہئے.اگر وہ کینہ ور ہو تو دوسروں کو اس کے وجود سے کیا فائدہ پہنچے گا جہاں ذرا اس کے نفس اور خیال کے خلاف ایک امر واقعہ ہوا اور انتقام لینے کو آمادہ ہو گیا.اسے تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر ہزاروں نشتروں سے بھی مارا جاوے پھر بھی پرواہ نہ کرئے“.فرمایا کہ : ” میری نصیحت یہی ہے کہ دو باتوں کو یادرکھو.ایک خدا تعالیٰ سے ڈرو دوسرے اپنے بھائیوں سے ایسی ہمدردی کرو جیسے اپنے نفس سے کرتے ہوا گر کسی سے کوئی قصور اور غلطی سرزد ہو جاوے تو اسے معاف کرنا چاہئے نہ یہ کہ اس پر زیادہ زور دیا جاوے اور کینہ کشی کی عادت بنالی جائے.(ملفوظات جلد 5 صفحه 69 الحكم 10ستمبر 1906).

Page 681

$2004 676 مسرور بہت سی لڑائیاں صرف اس لئے چل رہی ہوتی ہیں کہ دلوں کے کینے دور نہیں ہوتے.پس صلح کرنے کی ضرورت ہے، دلوں کو صاف کرنے کی ضرورت ہے.اس لئے ہر ایک کو کینوں سے اپنے آپ کو صاف کرنا چاہئے.فرمایا کہ یہ تبھی ہو سکتا ہے تبھی ممکن ہے کہ اپنے بھائیوں سے اسی طرح ہمدردی کرو جیسی اپنے نفس سے کرتے ہو.ان کے حقوق ادا کرنے کے لئے بھی اسی طرح سوچو جس طرح اپنے حقوق لینے کے لئے سوچتے ہو.تو یہ پاک معاشرہ جب قائم ہوگا تو لڑائیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور صلح کی بنیا دیں بھی پڑ جائیں گی.بلکہ صرف صلح ہی صلح ہوگی.پھر آپ فرماتے ہیں : ” آپس میں صلح کاری اختیار کر و صلح میں خیر ہے.جب وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ.خدا کے نیک بندے صلح کاری کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں.اور اگر کوئی لغو بات کسی سے سنیں جو جنگ کا مقدمہ اور لڑائی کی ایک تمہید ہو تو بزرگانہ طور پر طرح دے کر چلے جاتے ہیں.یعنی بڑے وقار سے سلام کہہ کر ان سے الگ ہو جاتے ہیں.اور ادنی ادنی بات پر لڑنا شروع نہیں کر دیتے.یعنی جب تک کوئی زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پردازی کو اچھا نہیں سمجھتے.اور صلح کاری کے محل شناس کا یہی اصول ہے کہ ادنی ادنی باتوں کو خیال میں نہ لاویں.اور معاف فرما دیں.صلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بے ہودہ عزا سے چشم پوشی فرماویں.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 349 ) تو جیسا کہ میں پہلے بھی خطبوں میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، آپ نے یہاں بھی فرمایا کہ لغویات سے پر ہیز کرو گے تو صلح کی بنیاد پڑے گی.کیونکہ یہ لغویات جو ہیں، یہ گناہ کی باتیں جو ہیں یہی باتیں ہیں جو صلح سے دور کرتی ہیں اور لڑائیوں کے قریب لاتی ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ : " تیسری قسم ترک شر کی اخلاق میں سے وہ قسم ہے کہ جس کو عربی میں ھدنہ اور ہون کہتے ہیں یعنی دوسرے کو ظلم کی راہ سے بدنی آزار نہ پہنچانا اور بے شر انسان ہونا اور صلح

Page 682

$2004 677 خطبات مسرور کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا پس بلا شبہ صلح کاری اعلیٰ درجہ کا خلق ہے اور انسانیت کے لئے از بس ضروری ہے اور اس خلق کے مناسب حال طبعی قوت جو بچہ میں ہوتی ہے“.یعنی کہ بچے میں یہ صفت ہوتی ہے آپ بچوں کو دیکھ لیں ، جب آپس میں جب لڑتے بھی ہیں تو فورا صلح میں بھی آجاتے ہیں.اور ان کے دلوں میں کینے بھی نہیں رہتے.تو جب آپ اس کو سنوارتے ہیں مزید بہتر ہوتی ہے.سیدکل ہوتی ہے.اس میں اس عادت کو مزید ٹھیک کرتے ہیں یا اس عادت کو پختہ کرتے ہیں اور جب عادی ہو جاتے ہیں تو یہ خلق بن جاتا ہے..فرمایا : یہ تو ظاہر ہے کہ انسان صرف طبعی حالت میں یعنی اس حالت میں کہ جب انسان عقل سے بے بہرہ ہو صلح کے مضمون کو نہیں سمجھ سکتا.اور نہ جنگ جوئی کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے پس اس وقت ایک عادت موافقت کی اس میں پائی جاتی ہے وہی صلح کاری کی عادت کی جڑ ہے.لیکن چونکہ وہ عقل وتدبر اور خاص ارادہ سے تیار نہیں کی جاتی اس لئے خلق میں داخل نہیں.بلکہ خلق میں تب داخل ہوگی کہ جب انسان بالا رادہ اپنے تئیں بے شر بنا کر صلح کاری کے خلق کو اپنے محل پر استعمال کرے.اور بے محل استعمال کرنے سے مجتنب رہے.اس میں اللہ جلشانہ ی تعلیم فرماتا ہے ﴿وَأَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ (الانفال: 1) ﴿وَالصُّلْحُ خَيْرٌ (النساء: 129) ﴿وَإِنْ جَنَحُوْا للْسِلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾ (الانفال:62) ﴿وَعِبَادُ الرَّحْمنِ الَّذِيْنَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا﴾ (الفرقان: 64) ﴿وَإِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا﴾ (الفرقان: 73) ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴾ ( حم السجدة: 35) یعنی آپس میں صلح کاری اختیار کر و صلح میں خیر ہے.جب وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ.خدا کے نیک بندے صلح کاری کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں اور اگر کوئی لغو بات کسی سے سنیں یا جنگ کا مقدمہ اور لڑائی کی تمہید ہو تو بزرگانہ طور پر طرح دے کر چلے جاتے ہیں یعنی بیچ کر نکل جاتے ہیں اور ادنی ادنی بات پر لڑنا نہیں شروع کر دیتے.یعنی جب تک کوئی

Page 683

$2004 678 خطبات مسرور زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پردازی کو اچھا نہیں سمجھتے.اور صلح کاری کے محل شناسی کا یہی اصول ہے کہ ادنی ادنی باتوں کو خیال میں نہ لاویں.اور معاف فرماویں اور لغو کا لفظ جو اس آیت میں آیا ہے سو واضح ہو کہ عربی زبان میں لغو اس حرکت کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک شخص شرارت سے ایسی بکواس کرے یا بنیت ایذاء ایسا فعل اس سے صادر ہو یعنی اس نیت سے کہ کسی کو تکلیف پہنچانی ہے، ایسا کام کرے کہ دراصل اس سے کچھ ایسا حرج اور نقصان نہیں پہنچتا.کہ ایسا فعل بے شک اس سے ہو جائے لیکن اس سے کچھ نقصان نہ پہنچتا ہو.یا صرف باتیں کر رہا ہو تو اس کو بخش دینا چاہئے.فرمایا: ” س صلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بیہودہ ایذاء سے چشم پوشی فرماویں.اگر اس طرح کی باتیں ہیں کہ کسی کو نقصان نہیں پہنچ رہا تو اس سے چشم پوشی کرنی چاہئے.اس کو معاف کر دینا چاہئے اور بزرگانہ سیرت عمل میں لاویں.اسلامی اصول کی فلاسفی - روحانی خزائن جلد 10 صفحه 348-349) پھر آپ نے فرمایا اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان ، کان ، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے.تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو، اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہوں.میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے.تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے.اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں.ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا.اور میں نہیں سمجھ سکتا اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے اور دوسرا چپ رہے.اور اس کا جواب نہ دے.ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے.چاہئے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دے دے.اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے.جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے.پس جب تک تبدیلی نہ ہوگی جب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں،

Page 684

679 $2004 خطبات مسرور خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو.اگر تم ان صفات حسنہ میں کوئی ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے".( ملفوظات جلد 4 صفحه 99 البدر 8 ستمبر (1904) پس ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اس معیار پر پورا اتر رہا ہے.جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے امید رکھ رہے ہیں.نہ یہ کہ ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہیں، ایک دوسرے سے یہ توقع رکھیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے.اور اپنی طرف نظر ہی نہ ہو.پھر آپ فرماتے ہیں: ”سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں، دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور دردمندوں کے ہمدرد بنیں.زمین پر صلح پھیلا دیں کہ اس سے ان کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا.کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی زیادہ دوڑا کر دکھلا دیا ہے.ایسا ہی اب وہ روحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا.بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی.جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی.تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا.یہ سب غلطیاں تھیں.سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا تو حید کے لئے تم سے زیادہ غیرت مند ہے اور دعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جاؤ.اے حق کے بھو کو اور پیاسو! سن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتداء سے وعدہ تھا ، خدا ان قصوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں ایسا ہی ان دنوں میں ہوگا.( گورنمنٹ انگریزی اور جهاد ، روحانی خزائن جلد 17 صفحه 15-16) پس ہمیں چاہئے کہ ہم سب ان نصائح پر عمل کرنے والے ہوں.یہ جھگڑے،لڑائیاں اور فساد

Page 685

$2004 680 خطبات مسرور انفرادی ہوں، گروہی ہوں یا ملکی ہوں ، ان کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ خدا کے سوا اس دنیا کی مادی چیزوں کو خدا بنایا ہوا ہے پس آج ہر احمدی کو یہ بھی کوشش کرنی چاہئے ، یہ بھی عہد کرنا چاہئے کہ دنیا میں صلح کاری کی بنیاد ڈالنے کے لئے آپس میں صلح کو رواج دینے کے لئے ان دنیا وی خداؤں کو بھی تو ڑنا ہوگا اور اس میں ہماری بقا ہے، اسی میں ہماری زندگی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں دعا سکھائی ہے.اس کا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں کہ ہدایت کے بعد ہمارے دل کہیں ٹیڑھے نہ ہو جائیں.یہ دعا کرتے رہنا چاہئے.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے.پس اللہ سے فضل مانگتے رہیں.اس سے رحم ما نگتے رہیں.اس کے حکموں کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور پھر جیسا کہ فرمایا اللہ کے فیصلوں کا انتظار کریں دیکھیں کس طرح خدا تعالیٰ آتا ہے.اب آخری اقتباس پڑھتا ہوں.آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ” پس اٹھو اور تو بہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو اور یا درکھو اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور ہندو یا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا.لیکن جو شخص ظلم اور تعدی اور فسق و فجور میں حد سے بڑھتا ہے اس کو اسی جگہ سزا دی جاتی ہے ، تب وہ خدا کی سزا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتا.سوا اپنے خدا کو جلدی راضی کر لو اور قبل اس کے کہ وہ دن آوے جو خوفناک دن ہے تم خدا سے صلح کرلو.وہ نہایت درجہ کریم ہے، ایک دم کے گداز کرنے والی تو بہ سے ستر برس کے گناہ بخش سکتا ہے اور یہ مت کہو کہ تو بہ منظور نہیں ہوتی.یہ ستر برس کے گناہ سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے.یادرکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے.ہمیشہ فضل بچاتا ہے نہ اعمال.اے خدائے کریم و رحیم ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے اور تیرے آستانہ پر گرے ہیں.(لیکچرلاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 174) اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے.

Page 686

$2004 681 39 خطبات مسرور ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں.پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر پڑھیں ۲۴ ستمبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۴ رتبوک ۱۳۸۳ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن ،لندن ہ ہمیں جو کچھ بھی ملنا ہے قرآن کریم کی برکت سے ہی ملنا ہے تلاوت قرآن کریم کے آداب قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا امید نہ ہو.

Page 687

خطبات مسرور $2004 682 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (سورة البقره آيت :3).دنیا میں، جب سے یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اصلاح کے لئے بے شمار نبی بھیجے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی قوموں کے لئے شریعت لے کر آئے جو کتاب ان پر اتری اس کے احکام انہوں نے اپنی قوم کو بتائے ، کچھ ان نبیوں کی پیروی میں بھی تھے جو اس شریعت کو آگے چلانے والے تھے، تو بہر حال نبیوں کا یہ سلسلہ اپنی اپنی قوم تک محدود رہا، یہاں تک کہ انسان کامل اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنی شریعت بھی کامل کی اور آخری شرعی کتاب قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمائی جس میں گزشتہ انبیاء کے تمام واقعات بھی آگئے اور تمام شرعی احکام بھی اس میں آگئے اور آئندہ کی پیش خبریاں بھی اس میں آگئیں.اور تمام علوم موجودہ بھی اور آئندہ بھی، ان کا بھی اس میں احاطہ ہو گیا گویا کہ علم و عرفان کا ایک چشمہ جاری ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ایک ایسا چشمہ ہے جو پاک دل ہو کر اس سے فیض اٹھانا چاہے وہ اس سے فائدہ اٹھائے گا.وہ تقویٰ میں بھی آگے بڑھے گا، وہ ہدایت پانے والوں میں بھی شمار ہوگا کیونکہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے.

Page 688

$2004 683 مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اس کے فیوض اور برکات کا در ہمیشہ جاری ہے.اور وہ ہر زمانے میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھا.تو یہ دعوی ہے جو اس کتاب کا ہے اگر تم پاک دل ہو کر اس کی طرف آؤ گے، ہر کانٹے سے ہر جھاڑی سے جو تمہیں الجھا سکتی ہے، تمہیں بچنے کی تمنا ہے اور نہ صرف تمہیں بچنے کی تمنا ہے بلکہ اس سے بچنے کی کوشش کرنے والے بھی ہو اور تمہارے دل میں اگر اس کے ساتھ خدا کا خوف بھی ہے، اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش بھی اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش اور تڑپ بھی ہے پھر یہ کتاب ہے جو تمہیں ہدایت کی طرف لے جائے گی.اور جب انسان، ایک مومن انسان ، تقویٰ کے راستوں پر چلنے کا خواہشمند انسان قرآن کریم کو پڑھے گا، سمجھے گا اور غور کرے گا اور اس پر عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ اس ذریعے سے ہدایت کے راستے بھی پاتا چلا جائے گا اور تقویٰ پر بھی قائم ہوتا چلا جائے گا، تقویٰ میں ترقی کرتا چلا جائے گا.اور قرآن کریم کی ہدایت تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب کرے گی.تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو پانے والے بھی ہو گے.اللہ تعالیٰ کیونکہ انسانی فطرت کو بھی جانتا ہے اس لئے ہمیں قرآن کریم نے اس بات کی بھی تسلی دے دی کہ یہ کام تمہارے خیال میں بہت مشکل ہے.عام طور پر تمہیں یہ خیال نہ آئے کہ اس کتاب کے احکام ہر ایک کو سمجھ نہیں آسکتے ، ہر ایک کے لئے ان کو سمجھنا مشکل ہے.اگر کوئی سمجھ آ بھی جائیں تو اس پر عمل کرنا مشکل ہے.تو اس بارے میں بھی قرآن کریم نے کھول کر بتا دیا کہ یہ کوئی مشکل نہیں ہے.یہ بڑی آسان کتاب ہے.اور اس کی یہی خوبی ہے کہ یہ ہر طبقے اور مختلف استعدادوں کے لوگوں کے لئے راستہ

Page 689

$2004 684 خطبات مسرور دکھانے کا باعث بنتی ہے.بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے، ہدایت کے راستے تلاش کرنا چاہتا ہے ، وہ نیک نیت ہو کر ، پاک دل ہو کر اس کو پڑھے اور اپنی عقل کے مطابق اس پر غور کرے، اپنی زندگی کو اس کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے.کوشش تو بہر حال شرط ہے وہ تو کرنی پڑتی ہے.دنیاوی چیزوں کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا.روٹی کمانے کے لئے دیکھ لیں کتنی کوشش کرنی پڑتی ہے.سوائے ان لوگوں کے جن کا شیوہ ہی نکھے بیٹھ کر کھانا ہوتا ہے.دوسروں سے امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں یا ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیویوں کو کہتے ہیں جاؤ کماؤ، میں گھر میں بیٹھتا ہوں.پیشہ ور مانگنے والے بھی مانگنے کی کوششوں میں محنت کرتے ہیں.یہاں مغرب میں بھی بہت سارے مانگنے والے سارا دن باجے ، ڈھول اور دوسری اس طرح کی چیزیں لے کر سڑکوں اور پارکوں میں بیٹھتے ہیں.یہ سب کچھ اس کوشش میں ہی ہے نا! کہ روٹی حاصل کی جائے.تو بہر حال میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر کوشش کرو گے، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی ہدایت پانے کی اور تقویٰ حاصل کرنے کی تو پھر تمہیں اس کتاب سے بہت کچھ ملے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نیت نیک ہے تو میں نے اس کو تمہارے لئے آسان کر دیا ہے اور کر دوں گا، بشرطیکہ تم اس کو پڑھ کر عمل کر کے ہدایت پانا چا ہو.جیسا کہ فرماتا ہے ﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرْ﴾ (القمر: 18) ، اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنادیا ہے، پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا ؟ پس یہ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے، یہ اس کا دعویٰ ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی فطرت کی ہر اونچ نیچ کو جانتا ہے.اس کے اندر کو بھی جانتا ہے جہاں تک انسان خود بھی نہیں پہنچ سکتا.اس کو پڑ ہے کہ کس شخص کی کتنی استعداد یں ہیں.

Page 690

$2004 685 خطبات مسرور اور اس کی فطرت میں کیا کیا خوبیاں یا برائیاں ہیں.اس نے فرمایا کہ تم نصیحت پکڑنے والے بنو تم اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنے والے بنو.صرف نام کے مسلمان ہی نہ ہو.صرف یہ دعویٰ کر کے کہ ہم نے امام مہدی کو مان لیا اور بس قصہ ختم ، اس کے بعد دنیاوی دھندوں میں پڑ جاؤ.اگر اس طرح کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بھلانے والے ہو گے.اور اگر نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کو پانے کی تلاش میں ہو گے، اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہو گے.تو فرمایا کہ میں نے قرآن کریم میں انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے آسان انداز میں نصیحت کی ہے.بڑے آسان حکم دیئے ہیں جن پر ہر ایک عمل کر سکتا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اس میں تمام بنیادی اخلاق اور اصول و قواعد کا ذکر بھی آ گیا جن پر عمل کرنا کسی کم سے کم استعداد والے کے لئے بھی مشکل نہیں ہے.عبادتوں کے متعلق بھی احکام ہیں تو وہ ہر ایک کی اپنی استعداد کے مطابق ہے.عورتوں کے متعلق حکم ہیں تو وہ ان کی طاقت کے مطابق ہیں.گھر یلو تعلقات چلانے کے لئے حکم ہے تو وہ عین انسان کی فطرت کے مطابق ہے.معاشرے میں تعلقات اور لین دین کے بارے میں حکم ہے تو وہ ایسا کہ ایک عام آدمی جس کو نیکی کا خیال ہے وہ بغیر اپنایا دوسرے کا نقصان کئے اس پر عمل کر سکتا ہے.پھر جن باتوں کی سمجھ نہ آئے یا بعض ایسے حکم ہیں جو بعض لوگوں کی ذہنی استعدادوں سے زیادہ ہوں، اور بعض گہری عرفان کی باتیں ہیں ان کے سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زیادہ استعداد والوں کو علم دیا کہ انہوں نے ایسے مسائل آسان کر کے ہمارے سامنے رکھے دیئے.اور ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق ملی جن کو اللہ تعالیٰ نے حکم اور عدل بنا کر بھیجا.جنہوں نے قرآن کریم کے ایسے چھپے خزانے جن تک

Page 691

$2004 686 خطبات مسرور ایک عام آدمی پہنچ نہیں سکتا تھا ان خزانوں کے بارے میں کھول کر وضاحت کر دی.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ اور اس دعویٰ کے مطابق ہے کہ اگر تمہیں نصیحت حاصل کرنے کا شوق ہے تو ہم نے قرآن کریم کو آسان بنایا ہے.کیونکہ بعض معارف ایسے ہیں کہ ایک عام آدمی کی استعداد سے زیادہ ہیں، اس کی سمجھ سے بالا ہیں.ان کو کھولنے کے لئے فرمایا کہ میں اپنے پیاروں پر علم کے معارف کھولتا رہا ہوں اور رہتا ہوں اور اس زمانے میں یہ تمام دروازے مسیح موعود اور مہدی موعود پر کھول دیئے ہیں.پس انہوں نے جس طرح آسان کر کے، کھول کر قرآن کریم کی نصیحت ہمیں پہنچائی ہے اس پر عمل کرنا چاہئے.اور اگر کوئی ان نصائح پر عمل نہیں کرتا، جن کی خدا تعالیٰ سے علم پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے وضاحت فرمائی ہے، تو یہ اس کی بد قسمتی ہے.اللہ تعالیٰ نے تو اپنی نصیحت کو آسان کر کے سمجھانے کے لئے اپنا نمائندہ بھیج دیا ہے، اس کی بات نہ ماننا بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے.اور اس کو نہ مانے کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ جن نصائح اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو امام وقت نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر آسان کر کے دکھایا ہے ، اس میں یہ لوگ ایچ بیچ تلاش کرتے ہیں اور بعض باتوں کو نا قابل عمل بنا دیا ہے.کچھ حکموں کو کہہ دیا کہ منسوخ ہو گئے.کچھ کو صرف قصہ کہانی کے طور پر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے تو کہہ دیا تھا کہ بعض باتیں صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو اللہ نے کامل علم دیا ہے.اور اب جبکہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے کے مطابق دین کو سنبھالنے والا ایک پہلوان حکم اور عدل آ گیا تو ان تفسیروں کو بھی ماننا ضروری ہے جو اس نے کی ہیں.بہر حال ایک احمدی کو خاص طور پر یہ یا درکھنا چاہئے کہ اس نے قرآن کریم پڑھنا ہے،سمجھنا ہے، غور کرنا ہے اور جہاں سمجھ نہ آئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 692

$2004 687 خطبات مسرور کی وضاحتوں سے یا پھر انہیں اصولوں پر چلتے ہوئے اور مزید وضاحت کرتے ہوئے خلفاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان کو ان کے مطابق سمجھنا چاہئے.اور پھر اس پر عمل کرتا ہے تب ہی ان لوگوں میں شمار ہو سکیں گے جن کے لئے یہ کتاب ہدایت کا باعث ہے.ورنہ تو احمدی کا دعوی بھی غیروں کے دعوے کی طرح ہی ہوگا کہ ہم قرآن کو عزت دیتے ہیں.اس لئے ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ صرف دعویٰ تو نہیں؟ اور دیکھے کہ حقیقت میں وہ قرآن کو عزت دیتا ہے؟ کیونکہ اب آسمان پر وہی عزت پائے گا جو قرآن کو عزت دے گا اور قرآن کو عزت دینا یہی ہے کہ اس کے سب حکموں پر عمل کیا جائے.قرآن کی عزت یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض لوگ شیلفوں میں اپنے گھروں میں خوبصورت کپڑوں میں پیٹ کر قرآن کریم رکھ لیتے ہیں اور صبح اٹھ کر ماتھے سے لگا کر پیار کر لیا اور کافی ہو گیا اور جو برکتیں حاصل ہوئی تھیں ہو گئیں.یہ تو خدا کی کتاب سے مذاق کرنے والی بات ہے.دنیا کے کاموں کے لئے تو وقت ہوتا ہے لیکن سمجھنا تو ایک طرف رہا، اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ایک دور کوع تلاوت ہی کرسکیں.پس ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں.پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر پڑھیں.یہ تفسیر بھی تفسیر کی صورت میں تو نہیں لیکن بہر حال ایک کام ہوا ہوا ہے کہ مختلف کتب اور خطابات سے، ملفوظات سے حوالے اکٹھے کر کے ایک جگہ کر دیئے گئے ہیں اور یہ بہت بڑا علم کا خزانہ ہے.اگر ہم قرآن کریم کو اس طرح نہیں پڑھتے تو فکر کرنی چاہئے اور ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کہ کیا وہ احمدی کہلانے کے بعد ان باتوں پر عمل نہ کر کے احمدیت سے دور تو نہیں جارہا.

Page 693

$2004 688 مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے.لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں چنانچہ میں اس وقت اس ثبوت کے لئے بھیجا گیا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اپنی حمایت اور تائید کے لئے بھیجتا رہا ہے.کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا کہ ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّالَهُ لَحَافِظُونَ یعنی بے شک ہم نے اس ذکر (یعنی قرآن شریف ) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں“.(الحکم 17 نومبر 1905ء) پس ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ ہمیں بھی جو کچھ ملنا ہے قرآن کریم کی برکت سے ہی ملنا ہے اور برکت اس کے احکام پر عمل کرنے میں ہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے.اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں.صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو.دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہو گئے.ابتداء میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں.لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جوصدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا“.(ملفوظات جلد اول صفحه 409 الحكم ۳۱ جنوری ۱۹۰۱ء) پس بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھیں.ہر گھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہئے.پھر ترجمہ پڑھنے کی کوشش بھی کریں.اور سب ذیلی تنظیموں کو اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے ، خاص طور پر انصار اللہ کو کیونکہ میرے خیال میں خلافت ثالثہ کے دور میں ان

Page 694

689 $2004 خطبات مسرور کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا.اسی لئے ان کے ہاں ایک قیادت بھی اس کے لئے ہے جو تعلیم القرآن کہلاتی ہے.اگر انصار پوری توجہ دیں تو ہر گھر میں با قاعدہ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی کلاسیں لگ سکتی ہیں.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوموسی سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مومن قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال ایک ایسے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی عمدہ اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے.اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو عمدہ ہے مگر اس کی خوشبو کوئی نہیں.اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس خوشبو دار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو عمدہ ہے مگر مزا کڑوا ہے.اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ایسے کڑوے پھل کی طرح ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہے جس کی خوشبو بھی کڑوی ہے.(بخاری کتاب فضائل القرآن باب اثم من رأى بقراة القرآن او تأكل به او فجر به اس حدیث سے قرآن کریم کی مزید وضاحت یہ ہوتی ہے کہ نہ صرف تلاوت ضروری ہے بلکہ اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.جو قرآن کریم پڑھتے بھی ہیں اور اس پر غور بھی کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں وہ ایسے خوشبو دار پھل کی طرح ہیں جس کا مزا بھی اچھا ہے اور جس کی خوشبو بھی اچھی ہے.کیسی خوبصورت مثال ہے.کہ ایسا پھل جس کا مزا بھی اچھا ہے جب انسان کوئی مزیدار چیز کھاتا ہے تو پھر دوبارہ کھانے کی بھی خواہش ہوتی ہے.تو قرآن کریم کو جو اس طرح پڑھے گا کہ اس کو سمجھ آ رہی ہوگی اس کو سمجھنے سے ایک قسم کا مزا بھی آرہا ہوگا اور جب اس پر عمل کر رہا ہوگا تو اس کی خوشبو بھی ہر طرف پھیلا رہا ہوگا.اس کے احکام کی خوبصورتی ہر ایک کو ایسے شخص میں نظر آ رہی ہوگی.

Page 695

$2004 690 مسرور پس ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو تقویٰ میں ترقی کرنے والے اور راہ ہدایت پانے والے ہوتے ہیں.ان کے گھر کے ماحول بھی جنت نظیر ہوتے ہیں.ان کے باہر کے ماحول بھی پرسکون ہوتے ہیں.وہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ ماں باپ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ صلہ رحمی کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہوتے ہیں.وہ ہمسایوں کے بھی حقوق ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ اپنے دنیاوی کاموں کے بھی حق ادا کر رہے ہوتے ہیں اور وہ جماعتی خدمات کو بھی ایک انعام سمجھ کر اس کی ادائیگی میں اپنے اوقات صرف کر رہے ہوتے ہیں.اور سب سے بڑھ کر وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے، رحمان کے بندے ہوتے ہیں.ان کے بچے بھی ایسے باپوں کو ماڈل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کی بیویاں بھی ان سے خوش ہوتی ہیں اور پھر ایسی بیویاں ایسے خاوندوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں، اپنے عملوں کو بھی ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس طرح ایسے لوگ بغیر کچھ کہے بھی خاموشی سے ہی ایک اچھے راعی ، ایک اچھے نگر ان کا نمونہ بھی قائم کر رہے ہوتے ہیں.ان کا ہمسایہ بھی ان کی تعریف کے گیت گا رہا ہوتا ہے اور ان کا ماحول اور معاشرہ بھی ایسے لوگوں کی خوبیاں گنوا رہا ہوتا ہے.ان کا افسر بھی ایسے شخص کی فرض شناسی کے قصے سنا رہا ہوتا ہے اور اس کا ماتحت بھی ایسے اعلیٰ اخلاق کے افسر کے گن گا رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہوتا ہے.اور اس کے دوست اور ساتھی بھی اس کی دوستی میں فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں.یہ خوبیاں ہیں جو قرآن پڑھ کر اس پر عمل کر کے ایک مومن حاصل کر سکتا ہے.بلکہ اور بھی بہت ساری خوبیاں ہیں.یہاں تو میں ساری گنوا نہیں سکتا.تو جس کو یہ سب کچھ مل جائے وہ کس طرح سوچ سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ کر اس پر عمل نہ کرے

Page 696

$2004 691 خطبات مسرور جب عمل کرنے کے بعد یہ سب کچھ حاصل ہو رہا ہے.اور پھر جو دوسری مثال اس میں دی کہ جو اتنی نیکی رکھتا ہے گو وہ با قاعدہ گھر میں تلاوت تو نہیں کر رہا ہوتا ،ترجمہ پڑھنے والا تو نہیں ہے، اس پر غور کرنے والا تو نہیں ہے لیکن جب بھی جمعہ پر آتا ہے، درسوں پر آتا ہے، نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے، وہاں قرآن کریم کی کوئی ہدایت کی بات سن لیتا ہے تو پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے.تو وہ اس کا مزا تو نہیں لیتا جو قرآن کریم کو پڑھنے، سمجھنے اور غور کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے لیکن اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے بھی وہ کچھ نہ کچھ حصہ لے رہا ہوتا ہے.اس مثال میں جس طرح بیان کیا گیا ایسے لوگ ہیں جو دنیا کے دکھاوے کے لئے قرآن کریم پڑھتے ہیں تو قرآن کریم کی خوشبو اس کو پڑھنے کی وجہ سے ماحول میں قائم ہو گی.کوئی نیک فطرت اس سے فائدہ اٹھالے گا.لیکن وہ شخص جو دکھاوے کی خاطر یہ سب کچھ کر رہا ہے اس شخص کو اس کا پڑھنا کوئی مٹھاس، کوئی خوشبو میسر نہیں کرسکتی.کوئی فائدہ اس کو نہیں پہنچے گا.اور پھر وہ شخص جو نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ اس پر عمل کرتا ہے، اس میں تو فرمایا کہ ایسی منافقت بھر گئی ہے کہ جس میں نہ خوشبو ہے اور نہ مزا ہے.نہ وہ خود فیض پاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اس سے فیض پا سکتا ہے.اللہ تعالی ہر احمدی کو ایسا بننے سے محفوظ ر کھے.نہ ایک روایت میں آتا ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ اہل اللہ ہوتے ہیں.راوی کہتے ہیں اس پر آپ سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ! خدا کے اہل کون ہوتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن والے اہل اللہ اور اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 128 مطبوعه بیروت) اہل اللہ بننے کے لئے جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے.قرآن کریم کو

Page 697

خطبات مسرور 692 پڑھنے والے بھی بنیں اور اس پر عمل کرنے والے بھی بنیں.$2004 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں.قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال " امر ہے.(الحكم 31/ اکتوبر 1901ء) پس ہر احمدی کو اپنی کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لئے یہ نسخہ آزمانا چاہئے.دین بھی سنور جائے گا اور دنیاوی مسائل بھی حل ہو جائیں گے.آج دیکھ لیں مسلمانوں میں جولڑائی جھگڑے اور دنیا کے سامنے ذلت کی حالت ہے وہ اسی لئے ہے کہ نہ قرآن پڑھتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں.جو پڑھتے ہیں وہ عمل نہیں کرتے ، سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو ظاہر ہے پھر قرآن کو چھوڑنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکل رہا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”یا د رکھو قرآن کریم حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن کریم پر عمل نہیں کرتے عمل نہ کرنے والوں میں ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقادی نہیں.اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں.لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے، اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں بھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لا پرواہ ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفی اور شیریں اور منگ ہے اور اس کا پانی بہت سے امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے.یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور با وجود پیاسا ہونے

Page 698

$2004 693 خطبات مسرور اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے.اسے تو چاہئے تھا کہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا.مگر باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ساری کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے ،مگر نہیں.اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی.فرمایا کہ: ”مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں.اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے.کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے.اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں“.(ملفوظات جلد چهارم صفحه 140-141 الحكم 24 ستمبر 1904 | جب یہ دوسروں کے لئے نصیحت ہے تو یہ ہمارے لئے تو اور بھی زیادہ بڑھ کر ہے.ایسے لوگوں کے لئے جو عمل نہیں کرتے ، قرآن کریم میں آیا ہے کہ وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : ۱۳).اور رسول کہے گا اے میرے رب یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.پس احمدیوں کو

Page 699

$2004 694 خطبات مسرور ہمیشہ فکر کرنی چاہئے کیونکہ ماحول کا بھی اثر ہو جاتا ہے.دنیا داری بھی غالب آ جاتی ہے.کوئی احمدی کبھی بھی ایسا نہ رہے جو کہ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت نہ کرتا ہو، کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اس کے احکام پر عمل نہ کرتا ہو.اللہ نہ کرے کہ کبھی کوئی احمدی اس آیت کے نیچے آ جائے کہ اس نے قرآن کریم کو متروک چھوڑ دیا ہو.پس اس کے لئے توجہ دینے کی ضرورت ہے.جو کمیاں ہیں ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہمارے اندر کوئی کمی تو نہیں.ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ تو نہیں دیا.تلاوت با قاعدگی سے ہو رہی ہے یا نہیں.ترجمہ پڑھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں.تفسیر سمجھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں.متروک چھوڑنے کا مطلب یہی ہے کہ اس کے حکموں پر عمل نہیں کر رہیض نہ اللہ کے حقوق ادا کر رہے ہیں نہ بندوں کے حقوق ادا کر رہے ہیں.ایسی صورت میں جب ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو ہر ایک کو اپنا علم ہو جائے گا کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں رہے گی.ایک روایت میں آتا ہے حضرت صہیب سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے قرآن کریم کے محرمات کو عملاً حلال سمجھ لیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں.یعنی جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی قرآن کریم کے جو احکامات ہیں ان پر عمل نہ کیا.تو ایسا شخص لاکھ کہتا رہے کہ الحمد للہ میں مسلمان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتا ہے کہ نہیں تمہارا کوئی ایمان نہیں ہے.کیونکہ تم قرآن کریم کے حکموں پر عمل نہیں کر رہے.پس ایسے لوگوں کو جولوگوں کے حق مارتے ہیں ان کے حقوق غصب کر رہے ہیں اس حدیث کو سننے کے بعد سوچنا چاہئے کہ میرا ایمان جا رہا ہے، کس طرح اس کو واپس لے کے آنا ہے.پھر ایک روایت میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 700

$2004 695 خطبات مسرور کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا کہ عنقریب بہت سے فتنے پیدا ہوں گے دریافت کیا گیا کہ ان فتنوں سے خلاصی کی کیا صورت ہوگی اے جبرائیل! فرمایا کہ فتنوں سے خلاصی کی صورت کتاب اللہ ہے.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف توجہ دیں اس کو پڑھیں ، اس کی تلاوت کریں.اس کے مطالب کی طرف بھی توجہ دیں اور جیسا کہ پہلے حدیث بیان ہو چکی ہے، اس کا مزا بھی لیں اور اس کی خوشبو بھی پھیلائیں.ایک روایت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم کو ظاہر کر کے پڑھنے والا، ظاہری طور پر صدقہ دینے والے کی طرح ہے اور قرآن کریم کو چھپا کر پڑھنے والا خفیہ طور پر چندہ دینے والے کی طرح ہے.پس جیسا کہ روایت میں ہے کہ صدقہ بلاؤں، خطرات اور فتنوں کو دور کرتا ہے، ان کو ٹالتا ہے.قرآن کریم کا پڑھنا اور اس طرح پڑھنا کہ اس کی سمجھ بھی آ رہی ہو صدقے کے طور پر قبول ہوگا.اور اس کی برکت سے تمام فتنوں سے بھی بچا جاسکتا ہے تمام برائیوں سے بھی بچا جا سکے گا اور ابتلاؤں سے بھی بچا جا سکے گا.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف دو آدمی ایسے ہیں جن کے بارے میں حسد ( یعنی رشک جائز ہے.یعنی ایسا حسد جو نقصان پہنچانے کے لئے نہیں بلکہ تعریفی رنگ میں ہو ).ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہو.اور اس پر رشک کرنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی ایسی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی ہے تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے.اور دوسرا شخص وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو جس کو وہ وہاں خرچ کرتا ہے جہاں

Page 701

$2004 696 خطبات مسرور خرچ کرنے کا حق ہے اور اس پر رشک کرنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی ایسی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی تو میں بھی ویسے ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے.(بخاری کتاب التمنّی) قرآن کریم کے پڑھنے کے بھی کچھ آداب ہیں اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے.حضرت عبداللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے تین دن سے کم عرصے میں قرآن کریم کو ختم کیا اس نے قرآن کریم کا کچھ نہیں سمجھا.(ترمذی ابواب القراءة ).بعض لوگوں کو بڑا فخر ہوتا ہے کہ ہم نے اتنے دن میں، ایک دن میں یا دو دن میں سارا قرآن کریم ختم کر لیا.یا ہم نے اتنے منٹ میں سیپارے ختم کر دیئے یا اتنا سیپارہ ختم کر دیا.بلکہ رمضان کے دنوں میں تو پاکستان میں (اور جگہوں پر بھی ہوگا ) غیروں کی مسجدوں میں مقابلہ ہوتا ہے کہ کون جلدی تراویح پڑھاتا ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہماری یونیورسٹی کا کارکن تھا.بڑا نمازی غیر از جماعت، وہ بتا تا تھا کہ میں آج فلاں مسجد میں گیا وہاں فلاں مولوی بڑا اچھا ہے اس نے تو تین منٹ میں دورکعت نماز پڑ ھادی اور آٹھ رکعتوں میں قرآن کریم کا ایک پارہ ختم کر دیا.تو جب اسے پوچھو کہ کچھ سمجھ بھی آئی ؟ سمجھ آئی یا نہ آئی اس نے بہر حال قرآن کریم پڑھ دیا تھا.وہ ہی ہمارے لئے کافی ہے.حالانکہ حکم یہ ہے کہ قرآن کریم غور سے اور سمجھ کر پڑھو بھہر ٹھہر کر پڑھو.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قرآن کریم خوش الحانی سے اور سنوار کر نہیں پڑھتا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں..(ابوداؤد.كتاب الـصــلوة باب كيف يستحب الترتيل في القراءة).تو یہ مزید کھل گیا کہ ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ مجھ کر پڑھنا چاہئے.

Page 702

$2004 697 خطبات مسرور اور کس طرح پڑھنا چاہیئے ؟ اس کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے.جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے.اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے.اور ان بداعمالیوں سے بچے جن کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی.بلا مد دوحی کے ایک بالائی منصوبہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے وہ اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے، اور ایسی راے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہو وہ محدثات میں داخل ہوگی.رسم اور بدعات سے پر ہیز بہتر ہے.اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے.بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے مدبر میں لگاوے.دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے.جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الہی میرے بھی شامل حال ہو.قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے پھر آگے چل کر ایک اور قسم کا پھول چنتا ہے.پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھاوے.اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے.ورنہ پھر سوال ہو گا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی.خدا تعالی کے سوا اور کس کی طاقت ہے کہ کہے فلاں راہ سے اگر سورۃ یاسین پڑھو گے تو برکت ہوگی ورنہ نہیں.(ملفوظات جلد ۳ صفحه ۹۱۵ جدید ایڈیشن ) یہ باتیں ہوتی ہیں کہ اس طرح سورۃ یاسین پڑھی جائے تو برکت ہوگی اور اگر اس طرح ہو گی تو نہیں ہوگی.پس ہر ایک کو اس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے ، دلوں کو پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس طرح غور اور تدبر سے پڑھنا چاہئے جیسا کہ آپ نے فرمایا.پھر ہر ایک

Page 703

$2004 698 خطبات مسرور جائزہ لے کہ کتنے حکم ہیں جن پر میں عمل کرتا ہوں.تو اگر روزانہ تلاوت کی عادت ہو اور پھر اس طرح روزانہ جائزہ ہو تو کیا دل کے اندر کوئی برائی رہ سکتی ہے.کبھی نہیں.تو یہ بھی ایک پاک کرنے کا ذریعہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ” قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے پیروکو اپنی طرف کھینچتا ہے.اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جوٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے.وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے“.(چشمه معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۹،۳۰۸) اللہ کرے کہ ہم خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانے والے ہوں اور اپنے دلوں کو منور کرنے والے ہوں اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے والے ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ انصار اللہ کے ذمہ خلافت ثالثہ میں یہ لگایا گیا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کریں ، قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ دیں.گھروں کو بھی اس نور سے منور کریں لیکن ابھی بھی جہاں تک میرا اندازہ ہے انصار اللہ میں بھی 100 فیصد قرآن کی تلاوت کرنے والے نہیں ہیں.اگر جائزہ لیں تو یہی صورتحال سامنے آئے گی.اور پھر یہ کہ اس کا ترجمہ پڑھنے والے ہوں آج انصار اللہ کا اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے یہ بھی ان کے پروگرام میں ہونا چاہئے کہ اپنے گھروں میں خود بھی پڑھیں اور اپنے بیوی بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی اس پر عمل کرنے والے ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور کچی

Page 704

$2004 699 خطبات مسرور تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے.(روحانی خزائن جلد 11، ضمیمه انجام آتهم صفحه (61) پھر آپ فرماتے ہیں: ” قرآن شریف پر تدبر کرو اس میں سب کچھ ہے.نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے.اور آئندہ زمانے کی خبریں ہیں وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں.انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا.اس کی تعلیم اس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو، لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہر گز نہیں.یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قوی کی تربیت فرمائی ہے.اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے.اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو.(ملفوظات جلد پنجم صفحه 102 الحکم 17 جنوری 1907) پھر آپ فرماتے ہیں: " قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے بھی نا امید نہ ہو.مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا.یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں.ہمارا خدا عَلَى كُلّ شَيْء قَدِير خدا ہے.قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو.اپنی زبان میں بھی دعا ئیں کر لو.قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو“.(ملفوظات جلد دوم صفحه 191 الحكم (17 جون (1902 اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآن کریم کے مقام کو پہچانیں اور اپنی زندگیاں بھی سنوار نے والے ہوں اور اپنی نسلوں کی زندگیاں بھی سنوارنے والے ہوں.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ہمیں نصائح فرمائی ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں.

Page 705

$2004 700 خطبات مسرور

Page 706

$2004 701 40 خطبات مسرور برمنگھم میں جماعت احمدیہ کی مسجد کا بابرکت افتتاح اس مسجد کے افتتاح کے دن سے یہ بھی عہد کریں کہ آپس میں بھی پیار اور محبت سے رہیں گے یکم را کتوبر ۲۰۰۴ء بمطابق یکم را خاء ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد دارالبرکات برمنگھم (برطانیہ) ☆ ☆ مالی قربانیاں ، تمام تر عبادتیں محض اللہ کی خاطر ہوں.اگر اپنے گھروں سے نیکیوں کو پھیلانے اور نمازوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر کامیابی ہوگی.یاد رکھو یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی.

Page 707

خطبات مسرور $2004 702 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: الَّذِيْنَ اِنْ مَّكْتَهُمْ فِى الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُ الزَّكُوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ.وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ﴾ (سورة الحج آيت :42) الحمد للہ کہ آج جماعت احمد یہ برطانیہ کی یہ مسجد جسے برمنگھم کی جماعت نے بہت بڑا حصہ قربانی کا دے کر تعمیر کیا ہے، اس کی تکمیل ہونے پر افتتاح ہو رہا ہے.اس مسجد کی اور برمنگھم جماعت کی بیک گراؤنڈ (Back ground) کے بارے میں مختصر تاریخ ، چند ایک پوائنٹ بتادیتا ہوں.یہاں 1960ء میں جماعت قائم ہوئی تھی جو صرف پانچ افراد پر مشتمل تھی.پھر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے وقت میں 1980ء میں یہاں پہلامشن ہاؤس خریدا گیا اور اس کا نام حضور رحمہ اللہ نے بیت البرکات تجویز فرمایا اور پھر اس کے بعد اللہ کے فضل سے جماعت بڑھنی شروع ہوئی تو 1993ء میں مسجد کے لئے نئی جگہ کی تلاش بھی شروع ہوئی اور 1994 ء میں برمنگھم کونسل نے یہ جگہ مارکیٹ میں فروخت کے لئے رکھی تو جماعت نے رابطہ کیا اور اکتوبر میں بڑی برائے نام قیمت پر یہ جگہ مل گئی.( حضور انور نے مکرم امیر صاحب برطانیہ کو مخاطب کر کے استفسار فرمایا کہ یہ جگہ برائے نام قیمت پر ہی ملی تھی ؟ ) اور یہ ایک خستہ حال سکول کی عمارت تھی.گورنمنٹ کے کاغذات میں ویسے لسٹڈ (Listed) بلڈنگ تھی ، خود چاہے لسٹڈ بلڈنگ کا حال برا کر دیں لیکن جب کوئی لے

Page 708

$2004 703 خطبات مسرور لے تو کہتے ہیں کہ اس کو پوری طرح Maintain کیا جائے.بہر حال شرط انہوں نے یہی لگائی تھی کہ اس کو خوبصورت بنایا جائے گا.یہ جو میں نے برائے نام قیمت بتائی ہے یہ 200 پاؤنڈ تھی.پھر حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1996ء میں یہاں آ کر اس جگہ کا معائنہ کیا، یہ جگہ پسند آئی.یہ تقریباً پونے دو ایکڑ یعنی 11.75 ایکڑ ز (31 ہزار مربع فٹ ) اس کا رقبہ ہے بہت سارا خرچ والنٹیئر ز نے وقار عمل کر کے بچایا ہے، میرا اندازہ ہے کہ جتنا خرچ ہوا ہے اس سے تقریباً ڈیوڑھا اور ہوگا.یہ خرچ تقریباً 1.6 ملین ( 16 لاکھ پاؤنڈ خرچ ہوا ہے.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ برمنگھم جماعت کو اس مسجد کے بنانے میں مالی قربانی کا بہت بڑا حصہ ادا کرنے کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور عمومی طور پر یو کے کی جماعت نے بھی کافی مدد کی ہے اللہ ان سب کو جزا دے.اس کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر فاروق صاحب اور ناصر خان صاحب نائب امیر نے بڑی محنت سے کام کیا.اسی طرح وہی ٹیم جو بیت الفتوح میں کام کرتی رہی، والینٹیئر ز کی اور ورکرز کی بھی انہوں نے بھی یہاں آ کر کام کیا.اللہ سب کو جزا دے.یہ سب لوگ جنہوں نے مالی قربانیاں بھی کیں، وقت بھی دیا، انہوں نے جماعتی روایات کو قائم رکھا ، زندہ رکھا، خدا کرے کہ یہ آئندہ بھی ان روایات کو زندہ رکھنے والے رہیں.لیکن یاد رکھیں کہ یہ سب جنہوں نے قربانیاں کیں ، جس قربانی کے جذبے سے آپ نے یہ مسجد تعمیر کی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے جس جذبے کے تحت آپ نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا ہے وہ جذ بہ ماند نہیں پڑ جانا چاہئے ختم نہیں ہو جانا چاہئے.آپ کا اصل جذبہ اس عمارت کی تعمیر کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے آنے والوں کے لئے ، اکٹھے ہو کر اس کی عبادت کرنے والوں کے لئے ایک جگہ بنانا تھا جو اللہ تعالیٰ کا گھر کہلائے.اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں تھا کہ لوگ ایک ایسی جگہ میں اکٹھے ہوں اور وہاں اکٹھے ہو کر با جماعت نمازیں ادا کرنے والے ہوں ، عبادت کرنے والے ہوں، ایک امام کی آواز کے ساتھ کھڑے ہوں اور بیٹھنے والے

Page 709

$2004 704 خطبات مسرور ہوں ، رکوع کریں اور سجدہ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا جو نعرہ لگاتے ہیں اپنے عملوں سے بھی اس کا اظہار کریں کہ اے اللہ ! ہم ایک ہیں.مسجد بنا کر نماز پڑھتے وقت بھی ہم ایک ہیں.اور ہم ایک ہیں مسجدوں سے باہر آ کر بھی.اس لئے کہ تیرا حکم ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں.ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اے اللہ ! تیری وحدانیت کو قائم کرنے کے لئے آنے والے تیرے امام کو بھی پہچانا ہے.اور پھر تو نے اے اللہ ! اپنے وعدوں کے مطابق ہمیں اس امام الزمان کے بعد خلافت کے ذریعہ سے مضبوط کیا ہے، ہمیں ایک رکھا ہے اور ہمیں تمکنت عطا فرمائی ہے، ہمیں مضبوطی عطا فرمائی ہے.ہم یہ دعا کرتے ہیں اور تجھ سے تیر افضل مانگتے ہوئے ، تجھ سے اس بات کے طالب ہیں کہ یہ انعام جو تو نے ہم پر کیا ہے اسے ہمیشہ قائم رکھ.اور اے اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ تیرے شکر گزار اور عبادت گزار بندے بنے رہیں.اور تیری وحدانیت کو قائم کرنے کے لئے اور تیری عبادت کرنے کے لئے جو مسجد ہم نے بنائی ہے اسے ہم ہمیشہ آباد رکھیں ہمیں ہمیشہ اسے آبا در کھنے کی توفیق دے.تو جب اس طرح دعا ئیں اور عمل ہو رہے ہوں گے تو پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح آپ کے خوف کو ہمیشہ امن میں بدلتا چلا جائے گا.پس اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے اور ملا ہے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ملا ہے.اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ،اس کی عبادت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور نیکیوں کو دنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ جب تمہیں تمکنت مل گئی پھر تمہاری ترجیحات بدل نہیں جانی چاہئیں.( میں ترجمہ نہیں کر رہا مفہوم بیان کر رہا ہوں وضاحت سے) بلکہ تمہیں نمازوں کی طرف بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوگی

Page 710

$2004 705 خطبات مسرور تا کہ اللہ کے عبادت گزار بندے بنو اور اس کے فضلوں کو مزید حاصل کرو.اور تمہاری نسلیں بھی ان فضلوں کو حاصل کریں تا کہ تمہاری یہ مضبوطی، یہ تمکنت قائم رہے.ایک خدا کے آگے جھکنے والے، اس کی وحدانیت قائم کرنے والے بنے رہیں.سورۃ نور میں، آیت استخلاف جسے ہم کہتے ہیں، اس میں بھی یہی مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ خلافت عطا فرمائی تا کہ تم میں مضبوطی قائم رہے.آئندہ بھی یہ انعام ملتا رہے گا انشاء اللہ لیکن ان کو ملتا رہے گا جو میری عبادت کریں گے.فرمایا یعبد و منی لا يشركون بى شيا ( النور : 55 ) یعنی یہ انعام میری اس طرح عبادت کرنے والوں کے لئے ہے جو عبادت کا حق ہے کسی بھی لحاظ سے شرک کرنے والے نہ ہوں، چھپا ہوا شرک بھی ان میں نہ پایا جاتا ہو.ایسے عبادت کرنے والوں کو انعام ملتا رہے گا.جب نماز کا وقت ہو تو تمام کاروبار بند کر کے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو.تمہارے کاروبار، تمہاری خواہشات تمہاری ذمہ داریاں تمہیں اس شرک پر آمادہ نہ کریں.یہ بھی چھپا ہوا ایک شرک ہے.تمہیں یہ خیال نہ آ جائے کہ اس وقت تو کام کا وقت ہے.اس وقت تو کاروبار کا وقت ہے.اگر میں نے تھوڑی دیر کے لئے بھی چھٹی کی تو میرا نقصان ہو گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ تو اپنے کاروباروں کو میرے مقابلے میں بت بنا کے بیٹھے ہوئے ہیں ان میں کس طرح مضبوطی آ سکتی ہے.پھر کسی نے اولا دکو بت بنایا ہوا ہے.پھر اور اس طرح بے شمار چیزیں ہیں.تو یہ سب بت توڑنے ہوں گے.ہلکے سے ہلکے شرک سے بھی بچنا ہو گا.تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی ہو گی.مسجد کو نمازیوں سے بھرنے کی کوشش کرو گے تو آج جو تم ایک مسجد پر خوش ہورہے ہو، اللہ تعالیٰ ایسی ہزاروں مسجد میں تمہیں عطا فرمائے گا.لیکن شرط یہی ہے کہ مسجدوں کو نمازیوں سے بھر و.آیت استخلاف سے اگلی آیت میں بھی یہی حکم ہے کہ نماز قائم کرو، نماز با جماعت پڑھو.غرض مومن وہی ہے، اللہ تعالیٰ کے انعام پانے والے وہی ہیں ، خلافت سے وابستہ رہنے والے وہی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی

Page 711

$2004 706 خطبات مسرور وحدانیت کو قائم رکھنے والے وہی ہیں جو مسجدوں کو آبادرکھیں.پھر میں نے جو آیت تلاوت کی ہے اس میں یہ بھی حکم ہے کہ تمہاری یہ مضبوطی جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اس وقت تک قائم رہے گی اور بڑھتی چلی جائے گی جب تک کہ تم زکوۃ دینے والے بھی ہو گے، مالی قربانی کرنے والے بھی ہو گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یہ خصوصیت من حیث الجماعت بہت ہے.اس کے نظارے ہم روز دیکھتے ہیں.پھر فرمایا کہ اچھی باتوں کا حکم دینے والے ان کو پھیلانے والے اور بری باتوں سے روکنے والے ہو.تو جن میں یہ سہ خصوصیات ہوں گی اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی ہوگی ، اس کے حقوق بھی ادا ہور ہے ہوں گے اور بندوں کے حق ادا کرنے کی بھی کوشش ہو رہی ہوگی اور نیکیوں کو قائم کرنے اور برائیوں کو روکنے کی کوشش بھی ہو رہی ہوگی تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پھر انعامات کی بارش بھی ہوتی رہے گی.پھر فرمایا کہ یا درکھو کہ ہر بات کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس لئے اللہ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومن کو قرآن کریم میں جو بے شمار مرتبہ نماز قائم کرنے کے لئے حکم دیا ہے، نماز با جماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس پر مستقل عمل کرتے چلے جانا اور دوسری نیکیاں بھی ساتھ ساتھ بجالا نا.تو پھر ان انعاموں کے وارث ٹھہرو گے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کئے ہیں.پس ہر احمدی ہر وقت اپنے دل کو ٹولتا رہے کہ اس کے دل میں کو ئی مخفی شرک تو نہیں پیدا ہو رہا؟ ، اس کی مالی قربانیاں بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہی تھیں اور کسی نام ونمود کے لئے تو نہیں تھیں؟، اس کی عبادتیں بھی خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے ہی تھیں اور ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی خاطر ہیں اور اس کے خوف اور خشیت کی وجہ سے ہیں تو پھر یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نمازوں میں مسجدوں میں حاضری کم ہو.اگر ظہر عصر کی حاضری کم ہے اپنے اپنے کاموں میں دور ہونے کی وجہ سے مسجد میں اکٹھے نہیں ہو سکتے تو مغرب عشاء اور فجر کی حاضری تو انتہا تک پہنچنی چاہئے.امیر

Page 712

$2004 707 خطبات مسرور صاحب کہہ رہے تھے کہ ہمارا خیال ہے اگلے دس پندرہ سال کے لئے یہ مسجد ہمارے لئے کافی ہے.میں نے ان کو کہا ایک تو اگر سارے نمازی آنے شروع ہوں تو یہ مسجد کافی نہیں ہے.دوسرے کیا خیال ہے آپ کا دس پندرہ سال تک آپ نے دعوت الی اللہ نہیں کرنی ؟ اپنی تعداد کو نہیں بڑھانا ؟ پھر یہ بھی ذکر کر دوں جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس آیت میں آیا ہے کہ نیک باتوں کا حکم دیں گے.اس لئے اس مسجد کے افتتاح کے دن سے یہ بھی عہد کریں کہ آپس میں بھی پیار اور محبت سے رہیں گے، تمام رنجشیں دور کریں گے.اور اس مسجد سے ہمیشہ امن اور سلامتی کا پیغام دنیا کو پہنچاتے رہیں گے.اور پھر اس نیت سے مسجد میں آکر دعا بھی کریں گے تو اللہ تعالی ذاتی دعائیں بھی قبول فرمائے گا اور جماعتی مضبوطی بھی عطا فرمائے گا انشاء اللہ.پھر صرف یہی نہیں کہ خود ہی مسجد میں آنا ہے بلکہ اپنی اولادوں کو بھی مسجد میں لانا ہے اور ان کا بھی مسجد سے تعلق پیدا کرنا ہے.ان کو بھی ایک خدا کی عبادت کی طرف توجہ پیدا کروانی ہے.ان کی بھی اس نہج پر تربیت کرنی ہے کہ ان کو بھی احساس ہو کہ ان کا اوڑھنا بچھونا نمازوں میں ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں ہے.اس معاشرے میں جہاں وہ رہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان کی تربیت کرنی ہوگی، ان کو برے بھلے کی تمیز سکھانی ہوگی.اگر اپنے گھر سے ہی نیکیوں کو پھیلانے اور نمازوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر تو کامیابی ہوگی.اگر نہیں کریں گے تو اس کا باہر بھی کوئی اثر نہیں ہوگا.کوئی دعوت الی اللہ بھی کارگر نہیں ہوگی.اگر ہر عہدیدار خواہ وہ جماعتی عہدیدار ہو یا ذیلی تنظیموں انصار، خدام الجنہ کے عہد یدار ہوں.ان نیکیوں اور عبادتوں کو اپنے گھروں میں رائج نہیں کریں گے تو باہر بھی کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا.انقلاب لانے والے پہلے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں.وہی قوم ترقی کرتی ہے جن کے لیڈروں کے اپنے نمونے اعلیٰ ہوں، جن کے عہدیدار خود مثالیں قائم کرنے والے بنیں.پس یہ

Page 713

708 $2004 خطبات مسرور بہت بڑی ذمہ داری ہے جماعت کے ہر فرد پر، ہر بچے پر ، ہر بڑے پر، ہر عہدیدار پر کہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر کرتے ہوئے پاک نمونے دکھا ئیں.عبادتوں کے معیار قائم رکھیں تا کہ سب سے بڑی نعمت جو خلافت کی نعمت ہے وہ آپ میں ہمیشہ قائم رہے.نمازوں کی اہمیت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر تا کید فرمائی ہے اور ڈرا کر بھی اور جزا کے لالچ کے ساتھ بھی اس طرف توجہ دلائی ہے، اس کے بارے میں چند روایات سناتا ہوں.حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز ترک نماز ہے.(ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء في ترك الصلوة دیکھیں کس قدر سخت ارشاد ہے کہ مومن وہ ہے، ایمان لانے والا وہ ہے جو نمازوں میں با قاعدہ ہے ورنہ اس میں اور کافر میں کوئی فرق نہیں.اللہ تعالیٰ نے تو اپنے بندوں سے نرمی کے سلوک کرنے کے لئے کئی سہولتیں دی ہوئی ہیں اگر پھر بھی کوئی توجہ نہیں دیتا تو پھر یہ بدقسمتی ہے اور انتہائی بھیانک انجام ہے جو اس حدیث میں بتایا گیا.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس سلسلے میں کبھی کبھار اگر کوئی غلطی ہوتی ہے تو درگز رفرمانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب عزوجل فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے کہ میرے بندے کی نما ز کو دیکھو کیا اس نے اس کو مکمل طور پر ادا کیا تھا یا نامکمل چھوڑ دیا تھا.پس اگر اس کی نماز مکمل ہوگی تو اس کے نامہ اعمال میں مکمل نماز لکھی جائے گی.اور اگر اس نماز میں کچھ کمی رہ گئی ہو گی تو فرمائے گا دیکھیں کیا میرے بندے نے کوئی نفلی عبادت کی ہوئی ہے.پس اگر اس نے کوئی نفلی عبادت کی ہوگی تو فرمائے گا کہ میرے بندے کی فرض نماز میں جو کمی رہ گئی تھی وہ اس کے نفل سے پوری کر دو.پھر تمام اعمال کا

Page 714

خطبات مسرور اسی طرح مواخذہ کیا جائے گا.709 $2004 ( ابوداؤد كتاب الصلواة باب قول النبي عل الله لكل صلواة لا يتمها صاحبها تتم من تطوعه) اللہ تعالیٰ کی نظر میں نماز پڑھنے والے کی کتنی قدر ہے.ظاہر ہے جو با قاعدہ نمازی ہوں گے انہیں ہی نفلوں کی طرف توجہ ہو گی، وہی نفل پڑھنے والے بھی ہوں گے.تو فرمایا کہ اگر ایسے لوگوں کی فرض نمازوں میں کوئی کمی رہ جائے تو یہ نفلوں سے پوری کر دو.کیونکہ جسے نفلوں کی عادت ہے وہ فرض یقیناً جان بوجھ کر نہیں چھوڑسکتا.کوئی عذر ہوگا تو وہ نماز میں نہیں آسکے گا.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ذرا غور کریں کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزرتی ہو وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی رہ جائے گی ؟ صحابہ نے عرض کی اس کی میل میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے.(بخاری کتاب مواقيت الصلوة باب الصلوات الخمس كفارة) | اب یہ حدیث عموماً بہت سارے لوگوں نے سنی ہوگی، ذہن میں ہوتی ہے.اگر کہیں حوالہ دینا ہو تو پیش بھی کر دیتے ہیں لیکن اس پر عمل بہت کم ہورہا ہوتا ہے.اس لئے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے ، ان کو دوہراتے رہنا چاہئے.اب کون ہے دنیا میں جسے ذرا سا بھی خدا کا خوف ہو اور وہ یہ کہے کہ میں خطا کار نہیں ہوں یا میرے اندر کمزوریاں نہیں ہیں.تو مومن کے لئے خوشخبری ہے کہ تمہاری یہ ساری خطائیں ، کمزوریاں، غلطیاں معاف ہوسکتی ہیں، دور ہوسکتی ہیں بشرطیکہ نمازیں با قاعدہ ادا کرنے والے ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”نماز اصل میں دعا ہے.نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے.اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لئے تیار

Page 715

$2004 710 خطبات مسرور رہے.کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے.ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اٹھاتا ہوں ( یعنی آواز دے رہا ہے ) مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں.میں بہت رحم کرتا ہوں، بے کسوں کی امداد کرتا ہوں.لیکن ایک شخص جو مشکل میں مبتلا ہے اس کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی ندا کی پروا نہیں کرتا، نہ اپنی مشکل کا بیان کر کے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا.یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے.قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے“.(ملفوظات جلد 4 صفحه 54 جدید ایڈیشن) ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.باجماعت نماز پڑھنا کسی شخص کے اکیلے نماز پڑھنے سے 25 گنا زیادہ ثواب کا موجب ہے.اور مزید فرمایا اور رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے نماز فجر پر جمع ہوتے ہیں.ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ 27 گنا زیادہ افضل ہے.(مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلواة باب فضل صلواة الجماعة) بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت کے پیش نظر با جماعت نماز پڑھنے کو بہر حال فوقیت دی ہے، افضل ٹھہرایا ہے.اور پھر آگے فجر کی نماز کی اہمیت بھی واضح فرمائی کہ اس پر جب تم نیند سے اٹھ کر نماز پڑھنے آؤ گے تو استقبال کرنے والے تمہارے لئے دعائیں کرنے والے فرشتوں کی تعداد بھی وہاں دوسری نمازوں کی نسبت زیادہ ہوگی.جانے والے فرشتے بھی یہ کہ رہے ہوں گے کہ اس کی نیکیاں شمار کرتا جاؤں کہ نماز میں آ رہا ہے اور آنے والے بھی یہ کہتے ہیں کہ نیکیاں شمار کر لو کہ نماز میں آیا ہے.تو فجر کی نماز کا تو کئی گنا زیادہ ثواب ہے.

Page 716

$2004 711 خطبات مسرور پھر ایک روایت ہے حضرت جریر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت ان شرائط پر کی کہ میں نماز قائم کروں گا ، زکوۃ ادا کروں گا ، ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا اور یہ کہ مشرکوں سے تعلقات نہ رکھوں گا.( سنن نسائی كتاب البيعة - باب البيعة على فراق المشرك) اب یہ مشرکوں سے تعلقات نہ رکھنے کی شرط بھی اس لئے ہے کہ زیادہ دوستیاں ایسے لوگوں سے جن کو خدائے واحد پر یقین نہ ہو، کم علم والے میں، خدا سے دوری کا باعث بن سکتی ہیں.ایسی باتیں اس کی عبادت سے دور لے جاسکتی ہیں.خاص طور پر نو جوانوں کو اپنے ماحول کا جائزہ لینا چاہئے ، اپنے دوستوں کا جائزہ لینا چاہئے ، کہیں کوئی خاموشی سے غیر محسوس طریقے سے آپ کو اپنے زیر اثر تو نہیں کر رہا.خدا کی عبادت کا جو مقصد ہے اس سے دور تو نہیں کر رہا.اور آپ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کا جو مقصد ہے اس سے دور تو نہیں کر رہا.وہ یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قریب لایا جائے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے معاذ! اللہ کی قسم یقینا میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں.پھر آپ نے فرمایا اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تم ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا، اللحم اعتی علی ذکرک و شکرِک وَ حُسنِ عِبَادَ تک.کہ اے اللہ تو مجھے تو فیق عطا کر کہ میں تیرا ذ کر ، تیرا شکر اور اچھے انداز میں تیری عبادت کر سکوں.(سنن ابی داؤد.کتاب الوتر.باب في الاستغفار ) دیکھیں کیا پیارا انداز ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دلانے کا.اور پھر جب انسان خدا سے اس طرح دعا مانگ رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی عبادت کی توفیق بھی بڑھا دیتا ہے.پھر زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رات کو دیر تک عبادت کرتے یہاں تک کہ جب رات کا آخری وقت ہوتا تو اپنے اہل وعیال کو الصلوۃ الصلوۃ یعنی نماز کا

Page 717

$2004 712 خطبات مسرور وقت ہو گیا کہتے ہوئے جگاتے اور قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرماتے ﴿ وَأمُرُ أَهْلَكَ بِالصَّلوة وَاصْطَ عَلَيْهَا لَا تَتَلكَ رِزْقاً نحن اَز رُقَكَ وَالْعَاقبة للتقوى ﴾ (سورۃ طہ : 133) یعنی تو اپنے اہل کونماز کی تاکید کرتارہ اور تو خود بھی اس پر قائم رہ اور ہم تجھ سے رزق نہیں مانگتے.کیونکہ ہم تجھے رزق دے رہے ہیں.اور انجام تقویٰ کا ہی بہتر ہے.(مؤطا امام مالک کتاب الصلوة باب ما جاء في صلوة الليل) اس طرح ہر احمدی کو اپنے بیوی بچوں کو نماز کی تلقین کرتے رہنا چاہئے ، اس کے لئے اٹھاتے رہنا چاہئے ،نمازوں پہ لاتے رہنا چاہئے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ انعامات اس وقت تک نازل فرما تارہے گا جب تک کہ خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی عبادت کی طرف مائل رکھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نمازوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”یاد رکھنا چاہئے کہ نماز ہی وہ شے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہو جاتے ہیں اور سب بلائیں دور ہوتی ہیں.مگر نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانہ احدیت پر گر کر ایسامحو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے.(ملفوظات جلد پنجم صفحه 402 الحكم 10 جنوري (1908 یا درکھو کہ یہ نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی.لیکن اکثر لوگ جو نماز پڑھتے ہیں تو وہ نماز ان پر لعنت بھیجتی ہے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴾ (الماعون: (65) یعنی لعنت ہے ان نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں.نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بد عملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے.مگر جیسے کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی.اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگا رہے اس طرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہوسکتا.اس

Page 718

خطبات مسرور 713 لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو.$2004 (ملفوظات جلد 5 صفحه 403 الحكم 10 جنوري 1908 | خدا کرے کہ کسی احمدی کی نماز بھی بے خبری کی نماز نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والی نماز نہ ہو.بلکہ اس کے انعاموں کو حاصل کرنے والی نماز ہو.ہر احمدی کی نماز اس کی ذات پر اور اس کے خاندان پر بھی انعامات لانے والی ہو.اور جماعتی طور پر بھی یہ دعا ئیں اکٹھی ہو کر جماعت میں مضبوطی پیدا کرنے والی ہوں.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار ، دوسرے میں سرایت کر سکیں.وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے.یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے.پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عید گاہ میں جمع ہوں اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں ، ان تمام احکام کی غرض 66 وہی وحدت ہے.( لیکچر لدهیانه روحانی خزائن جلد 20 صفحه 281-282 ) اس ضمن میں یہ بھی عرض کر دوں کہ مردوں اور بچوں کو تو عموماً عادت پڑ جاتی ہے لیکن عورتوں کی طرف سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کی صفیں نہ سیدھی ہوتی ہیں نہ ایک صف میں کھڑی ہوتی ہیں.جس کو جہاں جگہ ملے کھڑی ہو جاتی ہیں، بیچ میں بعض دفعہ کئی کئی صفیں خالی ہوتی ہیں.اس لئے لجنہ اماءاللہ کی جو تنظیم ہے ان کے جو عہدیدار ہیں ان کی سیکرٹری تربیت ہیں، صدر ہیں وہ اپنی

Page 719

$2004 714 خطبات مسرور لجنات کو اس طرف توجہ دلائیں کہ جب مسجدوں میں آئیں تو پہلے پہلی صف مکمل کریں، پھر دوسری صف اور جو بچوں والی خواتین ہیں وہ آخر میں جا کے بچوں کو علیحدہ لے کے بیٹھیں.اوّل تو بچوں کے ساتھ آنے کی ضرورت نہیں ہے.ان پہ اتنا فرض ہی نہیں لیکن عیدوں اور جمعوں پہ جہاں علیحدہ انتظام ہوتا ہے، وہاں بیٹھنا چاہئے اور صفیں بہر حال تسلسل سے بنی چاہئیں اور قائم رہنی چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے استغفار ہے، درودشریف.تمام وظائف اور اوراد 66 کا مجموعہ یہی نماز ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 310-311 الحکم 31مئی 1903) میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ بعض لوگ خط لکھتے ہیں کہ کوئی خاص دعا، کوئی خاص وظیفے بتائیں ، ملاقات میں بھی بعض عورتیں اور مرد اس بات کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب پوچھو تو پتہ لگتا ہے کہ بعض خواتین بھی مرد بھی نمازیں بھی پوری نہیں پڑھ رہے ہوتے اور وظیفے کی تلاش میں ہوتے ہیں.حالانکہ پہلے بنیادی حکموں پر تو عمل کریں اور جب اس پر عمل کریں گے تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تمام باتیں ، وظیفے ، ذکر اسی میں آجائیں گے.نماز کو ہی اگر سنوار کر پڑھا جائے تو اسی میں تسلی ہو جاتی ہے.ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ! نماز کے متعلق ہمیں کیا حکم ہے فرمایا: ”نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں.یہ کاروباری لوگوں کے لئے ہے ذرا نوٹ کرلیں) مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے.تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں ہے تو ہے ہی کیا؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.

Page 720

$2004 715 مسرور نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں گر جانا.اس سے اپنی حاجات کا مانگنا، یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے.اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اس کی رحمت کو جنبش دلانا ، پھر اس سے مانگنا.پس جس دین میں یہ نہیں ، وہ دین ہی کیا ہے.انسان ہر وقت محتاج ہے.اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتار ہے اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگار ہو.کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جا سکتا ہے.اے خدا ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تیری رضا پر کار بند ہو کر تجھے راضی کر لیں.خدا تعالیٰ کی محبت ، اسی اس کا خوف اس کی یاد میں دل لگارہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے.(ملفوظات جلد 3 صفحه 188 189 الحكم (31 مارچ 1903 | پس وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ بعض مجبوریوں اور بعض کاموں کی وجہ سے نماز وقت پر نہیں پڑھ سکتے ان کو یہ ارشاد اور یہ حدیث اپنے سامنے رکھنی چاہئے.کپڑے گندے ہونے کا بہانہ نہ ہی کوئی اور بہانہ ہی سہی لیکن بات یہی ہے کہ کسی بہانے سے نماز کو ٹالا جا سکے.پس یہ بنیادی ستون ہے اس کی طرف ہر احمدی کو بہت توجہ دینی چاہئے اور ٹالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پھر آپ فرماتے ہیں : ”جہاں تک ہو سکے پاک اور صاف ہوکر اور نفی خطرات کر کے نماز ادا کریں اور کوشش کریں کہ نماز ایک گری ہوئی حالت میں نہ رہے اور اس کے جس قدر ارکان حمد وثنا حضرت عزت اور توبہ واستغفار اور دعا اور درود ہیں وہ دلی جوش سے صادر ہوں.لیکن یہ تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ ایک فوق العادت محبت ذاتی اور خشوع ذاتی اور محویت سے بھرا ہوا ذوق و شوق

Page 721

$2004 716 خطبات مسرور اور ہر ایک کدورت سے خالی حضور اس کی نماز میں پیدا ہو جائے“.یعنی ہر ایک کے لئے آسان نہیں ہے کہ اس طرح کی جو کیفیت ہے وہ پیدا ہو جائے یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے.فرمایا کہ : ” گویا وہ خدا کو دیکھ لے اور ظاہر ہے کہ جب تک نماز میں یہ کیفیت پیدا نہ ہو وہ نقصان سے خالی نہیں.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ متقی وہ ہیں جو نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور کھڑی وہی چیز کی جاتی ہے جو گرنے کے لئے مستعد ہے.پس آیت یقیمون الصلوۃ کے یہ معانی ہیں کہ جہاں تک ان سے ہوسکتا ہے نماز کو قائم کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور تکلف اور مجاہدات سے کام لیتے ہیں.مگر انسانی کوششیں بغیر خدا تعالیٰ کے فضل کے بیکار ہیں.( حقيقة الوحى روحانی خزائن جلد 22 صفحه 13-139 ) یہ ساری چیز میں فرمایا کہ اس طرح پیدا نہیں ہو سکتیں.اس کے لئے بہر حال کوشش کرنی ہو گی.اور پھر اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگنا ہو گا.ورنہ تو اس کے بغیر یہ سب چیزیں بیکار ہیں.پھر جب یہ نمازیں پڑھنے والے ہو جائیں تو پھر نفلوں سے اپنی عبادتیں سجانے کا بھی حکم ہے.اور یہی بھی ممکن ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ فرائض کی طرف توجہ ہو، نماز قائم کرنے کی طرف توجہ ہو.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب رات کا آخری پہر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سماء دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں.یعنی رات کے آخری پہر میں اللہ تعالیٰ نیچے آتا ہے اور کہتا ہے کوئی ہے جو دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں.کوئی ہے جو مغفرت طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں.کوئی ہے جو مجھ سے رزق طلب کرے میں اسے رزق عطا کروں.کوئی ہے جو مجھ سے اپنی تکلیف دور کرنے کے لئے دعا کرے تو میں اس کی تکلیف دور کروں.اللہ تعالیٰ یونہی فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو جاتی ہے.(مسنداحمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 521 مطبوعہ بیروت) پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ابدی بنانے کے لئے ، ہمیشہ کے لئے قائم رکھنے

Page 722

717 : $2004 خطبات مسرور کے لئے ہنمازوں کے قیام کے لئے مسجدوں کو بھی آباد رکھیں اور نفلی عبادتوں کی طرف بھی توجہ دیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”جو خدا تعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہو کر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لے گا.اس لئے ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں.جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا.اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ بچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں.جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہوسکتا ہے.پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں لیکن اگر اٹھنے میں سنتی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیونکہ نیز تو غم کو دور کر دیتی ہے.لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درداور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے.پھر ایک اور بات بھی ضروری ہے جو ہماری جماعت کو اختیار کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ زبان کو فضول گوئیوں سے پاک رکھا جاوے.زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خدا تعالیٰ وجود کی ڈیوڑھی میں آجاتا ہے.جب خدا تعالیٰ ڈیوڑھی میں آ گیا پھر اندر آنا کیا تعجب ہے.پھر یاد رکھو کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں دانستہ ہرگز غفلت نہ کی جاوے.جوان امور کو مد نظر رکھ کر دعاؤں سے کام لے گا یا یوں کہو کہ جسے دعا کی توفیق دی جاوے گی ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا“.(ملفوظات جلد دوم صفحه 182 الحكم (31 مارچ (1902 پھر آپ نے فرمایا: ”اے وے تمام لوگو! (اے وہ تمام لوگو ) جو اپنے تئیں میری جماعت میں شمار کرتے ہو ( جو اپنے آپ کو میری جماعت میں شمار کرتے ہو ) آسمان پر تم اس وقت میری

Page 723

$2004 718 خطبات مسرور جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو زکوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.یقیناً یا درکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے.ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے.جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا “.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں حقیقت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے.ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں، ہماری قربانیاں، ہمارا نیکیوں پر قائم رہنا، اپنی نسلوں میں انہیں رائج کرنا اور ان کو پھیلانے کی تمام کوششیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو جائیں تا کہ ہم اس کے انعاموں کے وارث ٹھہر ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق تمكنت حاصل کریں اور تمکنت حاصل کرنے والوں میں شمار کئے جانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ نے تو اپنے دین کو پھیلانا ہے.مومنین کے گروہ کو تمکنت اور مضبوطی عطا فرمانی ہے.ہر ایک کو یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ میں بھی ان میں شامل ہو کر اس سے حصہ پانے والا بنوں.کہیں دھتکارا نہ جاؤں.اور یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اس وقت ہو گا جب اس کے خوف اور خشیت کی وجہ سے مسجدوں کو آباد کرو گے، مسجدوں میں آؤ گے، باجماعت نمازوں کی طرف توجہ دو گے ، عبادالرحمن بنو گے.پس ہماری یہ مسجد بھی اور ہماری تمام مساجد بھی اگر اس جذبے سے نمازیوں سے بھری رہیں تو پھر کوئی طاقت بھی آپ کی مضبوطی میں کبھی رخنہ نہیں ڈال سکتی.کبھی کمزور نہیں کر سکتی.آپ کی تمکنت کو چھین نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ معیار قائم رکھنے کی تو فیق عطا فرمائے.

Page 724

$2004 719 41 خطبات مسرور دعوت الی اللہ ایک احمدی کا بنیادی کام ہے.دعوت الی اللہ میں تسلسل مستقل مزاجی ، حکمت اور دعاؤں سے کام لیں.۱۸اکتوبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۸ خا ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الرحمن.گلاسگو، (سکاٹ لینڈ.برطانیہ ) دعوت الی اللہ اور نصیحت کرنے کے پر حکمت طریق و عاؤں پر زور دیں اپنی کوشش پر بھی انحصار نہ کریں.داعی الی اللہ کے لئے اپنے پاک نمونے بھی قائم کرنا بہت ضروری ہے.ہمارے غالب آنے کے ہتھیار.استغفار، تو بہ..پانچ وقت کی نمازیں ادا کرنا ہیں.

Page 725

خطبات مسرور $2004 720 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ادْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ﴾ (سورة النحل آیت نمبر: 126) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو.یقیناً تیرا رب ہی اسے جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو سب سے زیادہ جانتا ہے اور ہدایت پانے والوں پر بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے.اس آیت سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس مضمون پر میں کچھ کہنے والا ہوں.چند ماہ پہلے بھی اسی مضمون یعنی دعوت الی اللہ پر تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ تو ایک احمدی کا بنیادی کام ہے اور اس کی طرف جتنی بھی توجہ دلائی جائے کم ہے.لندن سے چلتے وقت میرے ذہن میں تھا کہ ملک کے اس حصے میں جماعت کی تعداد بہت کم ہے اور اس طرف جماعت کو توجہ دلانی چاہئے.اب کچھ اسائکم (assylum) لینے والے لوگ بھی یہاں آ رہے ہیں.اور اس وقت کافی آچکے ہیں.یعنی جو پرانی تعداد تھی اس سے گزشتہ چارسالوں میں دگنی سے زیادہ ہو گئی ہے.اگر آپ سب لوگ صحیح طریق پر اس طرف توجہ دیں اور دعوت الی اللہ کریں تو دنیا کمانے

Page 726

$2004 721 خطبات مسرور کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی حاصل کرنے والے ہوں گے.گو کہ تمام برطانیہ میں بلکہ تمام مغربی ممالک میں ہی یہ کمی ہے کہ جس طرح دعوت الی اللہ ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہو رہی.جس طرح پیغام پہنچانا چاہئے اس طرح نہیں پہنچایا جا رہا.لیکن بہر حال مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ سکاٹ لینڈ والوں کو اس طرف توجہ دلانی چاہئے ، یہاں رہنے والے احمدیوں کو اس میدان میں آگے آنے کے بارے میں کچھ کہنا چاہئے.پھر مجھے امیر صاحب نے سفر کے دوران ہی بتایا کہ یو.کے.میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے فرائیڈے دی ٹین تھ (Friday the 10th) کا جو پہلا خطبہ دیا تھا وہ یہاں اس جگہ پر دیا تھا.جب آپ یہاں اس (مسجد) کے افتتاح کے لئے تشریف لائے تھے.تو مجھے یہ خیال آیا کہ اُس خطبے کو بھی دیکھنا چاہئے کہ آپ نے یہاں کی جماعت کو اُس وقت، آج سے 19 سال پہلے، کیا نصیحت فرمائی تھی.یہ خطبہ 10 مئی 1985 ء کا تھا.جب میں نے دیکھا تو اس میں آپ نے تفصیل سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کیا اور یہ کہ کس طرح مختلف حالات سے گزرتے ہوئے امید اور ناامیدی کی حالت سے گزرتے ہوئے یہ مشن ہاؤس خریدا گیا تھا.پھر آپ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے سورۃ فاتحہ کے حوالے سے بتایا کہ ایک بیج ہے جو ہم نے ڈالا ہے اور اس نے پھلنا ہے اور پھولنا ہے، انشاء اللہ.آپ نے فرمایا کہ اس افتتاح سے ہم ایک بنیادی اینٹ رکھ رہے ہیں اور اس اینٹ پر آئندہ چل کر وہ عظیم الشان محل تعمیر ہونے ہیں جن پر دنیا بسیرا کرے گی.اور پھر آخر میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج اس جمعہ میں تمام احمدی یہ عہد کریں کہ ہم نے خدا کی مرضی کے مطابق زندہ رہنا ہے اور مرنا ہے اور دین اسلام کا پیغام تمام دنیا میں پھیلانا ہے اور ہم پھیلائیں گے.اور فرمایا کہ یہ دعاؤں کے ذریعے سے ہی انجام پائے گا اور اپنے اوپر جنونی کیفیت طاری کرنے سے ہی انجام پائے گا.پھر آپ نے سکاٹ لینڈ کی جماعت کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ سب نے اپنے آپ کو اشاعت دین کے لئے وقف کرنا ہے اور اپنے

Page 727

$2004 722 خطبات مسرور آپ کو اس میں جھونک دینا ہے.آج آپ یہ فیصلہ کر کے اٹھیں کہ آپ سکاٹ لینڈ کو خدا اور اس کے دین کے لئے فتح کر کے چھوڑیں گے.تو حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے بھی یہاں آ کر اسی مضمون پر خطبہ دینے کا دیکھ کر اور پھر مجھے بھی چلنے سے پہلے اس مضمون پر خطبہ دینے کا خیال آنے سے، میں اس بات پر اور بھی زیادہ مضبوط ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس ملک کے اس حصے میں دعوت الی اللہ میں تیزی پیدا کریں.کوشش کریں گے اور دعا کریں گے اور جنون کی کیفیت پیدا کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا.ابھی تک یہاں کی مقامی جماعت میں صرف بارہ احمدی ہیں اور آخری بیعت اسی سال مارچ 2004ء میں ہوئی تھی جس میں ایک خاتون اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ جماعت میں شامل ہوئی تھیں.گویا اس سے پہلے صرف آٹھ مقامی احمدی تھے.لیکن میں جو مختلف جگہوں پر گیا ہوں ان لوگوں کی شرافت دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اگر صحیح طور پر پیغام پہنچایا جائے تو یہاں احمدیت کافی پھیل سکتی ہے.اب آپ کی تعداد بھی 1985ء کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر آپ کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کے بہتر نتائج پیدا نہ فرمائے.سچے دل سے کی گئی کوشش کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا.آپ لوگوں کو صرف حکمت کے ساتھ چلنے کے طریقے اختیار کرنے پڑیں گے.اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت الی اللہ کرو.نئے راستے نکالو تو تمہیں کامیابیاں ملیں گی.اب یہاں عموماً لوگ سادہ ہیں اور سب سے اچھی بات ہے کہ نسبتا باقی ملک سے زیادہ مذہب سے دلچسپی رکھنے والے ہیں.جب یہ لوگ آپ کو ایک مذہب کے ماننے والے کی حیثیت سے جانیں گے تو پھر یقیناً بعض سوال بھی ان کے دلوں میں پیدا ہوں گے.آج کل ملاں نے اور جنونیوں نے جو اسلام کے نام پر اسلام کی بھیا نک تصویر دنیا میں قائم کر دی ہے، یا اپنی حرکتوں سے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا اسلام

Page 728

$2004 723 خطبات مسرور اور اس کی تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے.تو جب آپ ذاتی رابطوں سے آہستہ آہستہ اس بھیانک تصویر کو ان لوگوں کے ذہنوں سے زائل کریں گے تو یہ آپ کے قریب ہوتے چلے جائیں گے.آپ کو دوسروں سے مختلف سمجھیں گے.اور یہ رابطے کرنے کے لئے جو بہت سے اسائکم لینے والے یہاں آئے ہوئے ہیں انہیں کام وغیرہ کرنے کی بجائے ، خاص وقت سے زیادہ تو کام کرنے کی اجازت نہیں.اگر یہاں بھی وہی قانون ہے تو ، وہ یہاں بوڑھوں سے بھی رابطے کریں، ان کے لئے تھے لے کر جائیں، ان کے پاس بیٹھیں، ان سے ہمدردی کریں.یہ بھی مغرب کا بڑا محروم طبقہ ہے.ان کے اپنے عزیز رشتے دار، بچے ان کو بوڑھوں کے گھروں میں چھوڑ جاتے ہیں Old people House جسے یہ کہتے ہیں.بعضوں کو تو سنا ہے بعض ملکوں میں کئی کئی ہفتے کوئی عزیز رشتے دار نہیں پوچھتا.ان بوڑھوں سے جب آپ تعلقات پیدا کریں گے تو ان کی ہمدردی کے ساتھ ساتھ بہت سارے لوگ ہیں جن کو زبان بھی صحیح طریق سے نہیں آتی ، آپ اپنی زبان بھی بہتر کر رہے ہوں گے.غیر محسوس طریقے پر آپ ان کے پاس بیٹھ کے زبان بھی سیکھ جائیں گے.ہوسکتا ہے کہ آپ کے اس جذ بہ ہمدردی اور خدمت خلق سے ان کے بعض عزیز بھی آپ کے قریب آجائیں.تو یہ رابطے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے.اس طرح اور بھی بہت سارے مختلف راستے ہیں.کوشش ہو تو آدمی تلاش کر سکتا ہے جو آپ کو حالات کے مطابق نکالنے ہوں گے.ہمسایوں سے حسن سلوک ہے، ان کی مدد ہے، ان کے تہواروں پر عیدوں وغیرہ پر ( کچھ لوگ تو یہ کرتے بھی ہیں لیکن سارے نہیں کرتے ) ان کے لئے تحفے وغیرہ لے کر جائیں ان کو بلائیں ، دعوت دیں.ہماری عموماً یہ عادت ہے کہ ایک مہم کی صورت میں، مہینے میں ایک دفعہ یا دو مہینے میں ایک دفعہ ایک تبلیغ ڈے منا لیتے ہیں.یا سال میں ایک دو دفعہ ہفتہ منا کر اس میں کچھ حد تک لٹریچر تقسیم کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کر دیا.یہ طریق میرے نزدیک ایک حد تک تو ٹھیک ہے لیکن صرف اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا.ان کو جب بھی کوئی معلومات یا تعارف آپ پمفلٹ کی صورت میں دیتے ہیں تو پھر اس کی مدد سے آگے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے.ورنہ تو پیسہ خرچ کرنے والی بات

Page 729

724 $2004 خطبات مسرور ہے.پھر ایک تسلسل سے یہ چھوٹے پمفلٹ ، ان لوگوں تک جن کو دلچسپی ہے ان تک پہنچنے چاہئیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ آجکل ملاں نے اسلام کا جو تصور قائم کیا ہوا ہے، اس کے رد کے لئے صحیح تعلیم کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان میں یہ پمفلٹ پہنچنے چاہئیں، یہ پیغام پہنچنا چاہئے.ایک ورقہ یا دو ورقہ ان لوگوں تک پہنچے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ وغیرہ ہو.اور جیسا کہ میں نے کہا بتسلسل سے یہ پیغام پہنچتے رہنا چاہئے.حالات کے مطابق ، حکمت سے، پمفلٹ تقسیم کئے جائیں جو عموماً دیئے بھی جاتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا بعض جگہوں پر کوشش ہوتی ہے لیکن وہی بات ہے کہ تسلسل قائم نہیں رہتا، رابطے قائم نہیں رہتے اور آپ کی اچھی نصیحت کا حکمت کے ساتھ پھینکا ہوا ایک قطرہ لوگوں پر گرتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے وہیں وہ قطرہ خشک بھی ہو جاتا ہے.اور تسلسل سے گرتے رہنے کی وجہ سے پانی کا جو بہاؤ ہوتا ہے وہ بہاؤ نہیں رہتا.اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنے کی شاذ ہی نوبت آتی ہے کہ ایسی دلیل کے ساتھ بحث کرو جو بہترین ہو.اس لئے قرآن کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کریں.حکمت سے کریں، ایک تسلسل سے کریں، مستقل مزاجی سے کریں، اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ ،مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے چلے جائیں.دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھیں اور دلیل کے لئے ہمیشہ قرآن کریم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں سے حوالے نکالیں.پھر ہر علم عقل اور طبقے کے آدمی کے لئے اس کے مطابق بات کریں.خدا کے نام پر جب آپ نیک نیتی سے بات کر رہے ہوں گے تو اگلے کے بھی جذبات اور ہوتے ہیں.نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی گئی بات اثر کرتی ہے.ایک تکلیف سے ایک درد سے جب بات کی جاتی ہے تو وہ اثر کرتی ہے.تمام انبیاء بھی اسی اصول کے تحت اپنے پیغام پہنچاتے رہے.اور ہر ایک نے اپنی قوم کو یہی کہا ہے کہ میں تمہیں اللہ

Page 730

725 $2004 خطبات مسرور کی طرف بلاتا ہوں، نیک باتوں کی طرف بلاتا ہوں اور اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا.یہی ہمیں قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے.اس آیت کے آخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم انتہائی محنت، انتہائی ہمت اور تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے یہ کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو تمہارے ساتھ ملاتا چلا جائے گا.انشاء اللہ.کیونکہ اس کے علم میں ہے کہ کس نے ہدایت کا راستہ اختیار کرنا ہے اور کون ہے جو چکنا گھڑا ہے جو بھی پانی پھینکو گے وہ نیچے بہہ جائے گا.جو بدفطرت ہے اس پر کوئی اثر نہیں ہونا.جو آ جکل کے مُلاں کی طرح ہیں کہ علم ہوتے ہوئے بھی میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھیں گے.لیکن تمہارا کام یہ ہے کہ اتمام حجت کرو، اپنا پورا زور لگاؤ پھر معاملہ خدا پر چھوڑو تمہارا کام یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کرتے رہو.جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا ہے تو حکمت اور دانائی سے کرتے رہو اور ان تمام شرائط کے ساتھ کرتے رہو جو اللہ تعالیٰ نے مختلف مواقع پر بیان فرمائی ہیں جن کا میں نے مختصر ذکر بھی کیا ہے.تو فرمایا کہ تبھی تم کہہ سکتے ہو کہ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ یعنی میں کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.ورنہ یہ فرمانبرداری کے دعوے کیسے ہیں.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے دعوے کیسے ہیں.بہر حال اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.جو ہو چکا وہ ہو گیا، جو گزر گیا وہ گزر گیا لیکن آئندہ کے لئے ہمیں نئے عہد کرنے ہوں گے اور جیسا کہ میں نے کہا حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھنے کے لئے قرآن پڑھنے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھنے جو قرآن و حدیث کی تشریح اور مزید وضاحتیں ہیں، ان کی طرف توجہ دینی ہوگی اس کے بارے میں میں تفصیلی خطبات پہلے بھی دے چکا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : " جسے نصیحت کرنی ہوا سے زبان سے کرو.ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرا یہ میں ادا کرنے

Page 731

$2004 726 خطبات مسرور سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرا یہ میں دوست بنادیتی ہے.پس جَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِيَ أَحْسَنُ کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو.اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ﴾ (البقرة: 270) (الحكم جلد 7 نمبر 9 مورخه 10 مارچ 1903ء صفحہ 8 | تو یہ حکمت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ، ہم سب کو اختیار کرنی ہو گی.اپنے دوستوں کا حلقہ وسیع کرنا ہوگا.پھر ایک تعارف سے دوسرے تعارف نکلتے چلے جائیں گے.اور جب لوگ آپ کو ایک امن پسند اور ٹھنڈے مزاج کا آدمی سمجھتے ہوئے تعارف حاصل کریں تو یقیناً یہ تعارف مزید مضبوط رابطوں میں تبدیل ہوں گے اور پھل لانے والے ثابت ہوں گے.لیکن ایک بات یادرکھیں کہ حکمت اور بزدلی میں فرق ہے.حکمت دکھانی ہے اپنے دین کی غیرت رکھتے ہوئے.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: آیت جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَن کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر رنرمی کریں کہ مداہنہ کر کے خلاف واقعہ بات کی تصدیق کرلیں.(تریاق ) ترياق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحه 305 حاشیه) یعنی حکمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بزدلی دکھائی جائے ، یہ نہیں ہے کہ اپنے قریب لانے کے لئے جو ہماری تعلیم نہیں ہے اس میں بھی ہاں میں ہاں ملائی جائے.اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں تو اس وقت چپ ہو جائیں کہ اس کو حکمت سے قریب لانا ہے.یہ تو پھر شرک کے مددگار بننے والی بات ہو جائے گی.اور بہت سارے طریقے اور جواب ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں.وہ دل

Page 732

$2004 727 خطبات مسرور حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے.گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں.جو اس طرح سخت کلامی کرتا ہے اس کے منہ سے پھر اچھی باتیں نہیں نکلتیں." غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے.جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے.اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دیئے جاتے.غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بڑھتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے.(ملفوظات جلد 3 صفحه 104 الحكم 10مارچ 1903) اب ہمارے خلاف یہی غصہ اسی لئے جنون کی حد اختیار کر گیا ہے.حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ دلوں کی کچھ خواہشیں اور میلان ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی وقت بات سننے کے لئے تیار رہتے ہیں اور کسی وقت اس کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے تحت داخل ہوا کرو اور اسی وقت اپنی بات کہا کرو جبکہ وہ سننے کے لئے تیار ہوں.اس لئے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیا جائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے،( یعنی بات قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے).(کتاب الخراج.ابویوسف) تو یہ ہے حکمت کہ جب بعض حالات ایسے ہوتے ہیں ، بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ اس وقت بات کرنی چاہئے جب دل بات سننے کی طرف مائل ہو.اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ اپنے رابطے بڑھائیں.مستقل مزاجی ہو، ایک تسلسل ہو تو جب ہی پتہ لگے گا کہ کس وقت کسی کے دل کی کیا کیفیت ہے.پھر ایم ٹی اے پہ لایا جا سکتا ہے، مختلف پروگرام دکھائے جائیں مختلف وقتوں میں آتے ہیں کسی وقت کسی کو کوئی پروگرام پسند آ سکتا ہے اور یہ نہیں ہے کہ یہاں کے لوگوں کو ہمارے پروگراموں سے کوئی دلچسپی نہیں.سکنتھو رپ (Scunthorp) میں گیا ہوں تو وہاں ڈاکٹر مظفر صاحب ہیں.انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا ایک انگریز وہاں واقف ہے جو تقریباً

Page 733

$2004 728 خطبات مسرور با قاعدہ جمعے کے خطبہ سنتا ہے، اور شام کو دوبارہ ریکارڈنگ آتی ہے تو گھر والوں کو یا اس کی جب بیوی پوچھے تو کہتا ہے کہ میں فرائیڈے سرمن (Friday Sermon) سن رہا ہوں.وہ عیسائی ہے اور باتوں کا اثر لیتا ہے.ڈاکٹر صاحب سے اس نے بعض خطبات کے مضمون بیان کئے کہ یہ بڑی اچھی وقت کی ضرورت ہے.جو خطبات بھی آتے ہیں وہ صرف جماعت کے لئے وقت کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کے لئے وہ فائدہ مند ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کا مزید سینہ کھولے اور اس کو احمد بیت قبول کرنے کی بھی توفیق ملے.تو بہر حال ایم ٹی اے بھی آجکل تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جو آج سے 18-19 سال پہلے آپ کے پاس نہیں تھا.یہ اسی وقت سنا جائے گا جب آپ لوگوں کے قریبی رابطے ہوں گے.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” چاہئے کہ جب کلام کرے تو سوچ کر اور مختصر کام کی بات کرے.بہت بحثیں کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.پس چھوٹا سا چٹکلہ کسی وقت چھوڑ دیا جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے.پھر کبھی اتفاق ہو تو پھر سہی‘.اب اس انگریز کی جو میں بات کر رہا تھا اس نے جو خطبہ سنا اور جس کی وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس بہت تعریف کر رہا تھا وہ لین دین کے معاملات میں جو باتیں کی تھیں ان پر تھا.اسی سے وہ بڑا متاثر تھا کہ یہ آجکل کے وقت کی بہت ضرورت ہے.تو فرمایا کہ ایسا چٹکلہ چھوڑ دیا جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے.پھر کبھی اتفاق ہوتو پھر سہی.غرض آہستہ آہستہ پیغام حق پہنچاتا رہے اور تھکے نہیں کیونکہ آج کل خدا کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق کو لوگ دیوانگی سمجھتے ہیں.اگر صحابہ اس زمانے میں ہوتے تو لوگ انہیں سودائی کہتے اور وہ انہیں کافر کہتے.دن رات بیہودہ باتوں اور طرح طرح کی غفلتوں اور دنیاوی فکروں سے دل سخت ہو جاتا ہے.بات کا اثر دیر سے ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی مثال دے رہے ہیں کہ ایک شخص علی گڑھی غائب تحصیلدار تھا.آپ لوگ تو سارے جانتے ہیں کہ تحصیلدار کیا ہوتا

Page 734

$2004 729 خطبات مسرور ہے.فرمایا کہ ایک تحصیلدار تھا.میں نے اس کو کچھ نصیحت کی.وہ مجھ سے ٹھٹھا کرنے لگا.“ مذاق کرنے لگا.”میں نے دل میں کہا میں بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑنے کا.آخر با تیں کرتے کرتے اس پر وہ وقت آگیا کہ وہ یا تو مجھ پر تمسخر کر رہا تھا یا چیچنیں مار مار کر رونے لگا.بعض اوقات سعید آدمی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شقی ہے.یعنی بعضوں کی اچھی فطرت بھی ہوتی ہے لیکن لگتا اس طرح ہی ہے جس طرح یہ لوگ سخت دل کے ہیں.یاد رکھو ہر قفل کے لئے ایک کلید ہے.بات کے لئے بھی ایک چابی ہے.وہ مناسب طرز ہے.جس طرح دواؤں کی نسبت میں نے ابھی کہا ہے کہ کوئی کسی کے لئے مفید اور کوئی کسی کے لئے مفید ہے.یہ پیرا میں نے لیا ہے اس سے پہلے دواؤں کا بیان چل رہا ہو گا فرماتے ہیں: ”ایسے ہی ہر ایک بات ایک خاص پیرائے میں خاص شخص کے لئے مفید ہوسکتی ہے.یہ نہیں کہ سب سے یکساں بات کی جائے.ہے.بیان کرنے والے کو چاہئے کہ کسی کے برا کہنے کو برا نہ منائے بلکہ اپنا کام کئے جائے اور تھکے نہیں.امراء کا مزاج بہت نازک ہوتا ہے اور وہ دنیا سے غافل بھی ہوتے ہیں.بہت باتیں سن بھی نہیں سکتے.انہیں کسی موقع پر کسی پیرائے میں نہایت نرمی سے نصیحت کرنا چاہئے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 441 بدر (13 فروری (1908 پھر آپ نے فرمایا کہ : ” دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں.عوام، متوسط درجے کے امراء.فرمایا کہ : ”عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں.تھوڑی عقل والے ہوتے ہیں.ان کی سمجھ موٹی ہوتی ہے.اس لئے ان کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے.جو بالکل ان پڑھ ہو یہاں تو اللہ کے فضل سے آپ کو ایسے لوگ نہیں ملتے.لیکن ہمارے ملکوں میں ایسے ہوتے ہیں.امراء کے لئے سمجھانا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبرا جاتے ہیں اور ان کا تکبر اور تعلی اور بھی سد راہ ہوتی ہے.اس لئے ان کے ساتھ گفتگو کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ان کی طرز کے موافق ان سے کلام کرے.یعنی مختصر مگر پورے مطلب کو ادا کرنے والی تقریر ہو.فرمایا کہ عوام کو تبلیغ کرنے کے

Page 735

$2004 730 خطبات مسرور لئے تقریرہ بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہئے اور اوسط درجہ کے لوگ فرمایا کہ زیادہ تر یہ گروہ اس قابل ہوتا ہے کہ ان کو تبلیغ کی جاوے.وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کے مزاج میں وہ تعلی اور تکبر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو امراء کے مزاج میں ہوتی ہے.اس لئے ان کو سمجھانا بہت مشکل نہیں ہوتا“.(ملفوظات جلد دوم صفحه 161-162 الحكم 24 مارچ 1902 | حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جب حضرت قاضی محمدعبد اللہ صاحب کو لندن بھجوایا تو اسی اصول کے تحت یہ بھی نصیحت فرمائی کہ گاؤں کے لوگ حق کو مضبوطی سے قبول کیا کرتے ہیں.آپ نے فرمایا لندن سے دور کسی چھوٹے سے گاؤں میں جا کر ر ہیں.یعنی کچھ وقت گزاریں ، دعائیں کریں اور دعوت کریں اور پھر دیکھیں کہ دعوت الی اللہ کا کتنا اثر ہوتا ہے.لیکن ساتھ یہ بھی نصیحت کر دی کہ یا درکھیں کہ یہ لوگ سختی بھی کریں گے لیکن سمجھیں گے بھی.اس لئے سختی سے گھبرانا نہیں.ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” جس قدر زور سے باطل حق کی مخالفت کرتا ہے اسی قدر حق کی قوت اور طاقت تیز ہوتی ہے.یعنی جھوٹ سچ کی جتنا مخالفت کرتا ہے اتنی ہی سچ کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.”زمینداروں میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ جتنا جیٹھ ہاڑ تپتا ہے اسی قدر ساون میں بارش زیادہ ہوتی ہے.یعنی جتنی زیادہ گرمی ہو اتنا بارش زیادہ آجاتی ہے، بارشوں کے موسم میں.یہ ایک قدرتی نظارہ ہے.حق کی جس قدر زور سے مخالفت ہو اسی قدر وہ چمکتا اور اپنی شوکت دکھاتا ہے.ہم نے خود آزما کر دیکھا ہے.جہاں جہاں ہماری نسبت زیادہ شور وغل ہوا ہے وہاں ایک جماعت تیار ہوگئی اور جہاں لوگ اس بات کو سن کر خاموش ہو جاتے ہیں وہاں زیادہ ترقی نہیں ہوتی “.( ملفوظات جلد 3 صفحه 226 الحکم (24 اپریل (1903 آپ بھی ، جو لوگ باہر نکل سکتے ہیں باہر نکلیں ، دعائیں کرتے ہوئے یہاں کی جو چھوٹی جگہیں ہیں ان میں رابطے بڑھائیں.اور ان لوگوں میں نسبتاً سادگی زیادہ ہوتی ہے.یہاں بھی

Page 736

$2004 731 خطبات مسرور چھوٹے قصبوں میں سادگی زیادہ ہے.تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ ایک موقع ایسا آئے گا کہ باہر سے ہمارا پیغام اندر بڑے شہروں میں آنا شروع ہوگا پہنچنا شروع ہو گا.کیونکہ مقامی لوگ ہی اس کو پھیلائیں گے اور یہ میں نے مختلف ملکوں میں بھی دیکھا ہے کہ جہاں بھی احمدی چھوٹی جگہوں پر ایکٹو (active) ہیں.ان کے رابطے بڑی جگہوں کی نسبت زیادہ ہیں.اور وہاں مقامی لحاظ سے جو بڑے لوگ ہیں، رابطوں میں ان کو بھی وہ لے آتے ہیں، عوام کو بھی لے آتے ہیں، اوسط درجے کے لوگوں کو بھی لے آتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہماری کوشش اور رابطوں میں اور دعاؤں میں بہت کمی ہے.یہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینی ہوگی.حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت قاضی عبداللہ صاحب کو ایک یہ نصیحت بھی فرمائی تھی کہ دعاؤں پر بہت زور دینا ہے.اور صرف اپنی کوشش پہ کبھی انحصار نہیں کرنا.اور پھر ایک یہ نصیحت فرمائی تھی کہ قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا غور سے مطالعہ کریں تو اس سے بھی انشاء اللہ علم میں اضافہ ہوتا ہے.اور پھر یہ فرمایا کہ اپنی سوچ اونچی رکھیں.دل میں یہ رکھیں کہ آپ نے یورپ کو فتح کرنا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے تو ماننا نہیں.ان میں سے بھی سعید فطرت لوگ پیدا ہو سکتے ہیں اور انشاء اللہ ہوں گے اور ہورہے ہیں.میں پھر یہی کہتا ہوں کہ سوچ اونچی رکھیں جس طرح حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا.اور مستقل مزاجی سے کام کرتے رہیں اور صرف دنیا کمانے کی طرف ہی توجہ نہ دیں بلکہ احمدیت کا پیغام پہنچانے کی طرف بھی توجہ دیں.جب آپ احمدیت کے نام پر یہاں اسائکم لیتے ہیں تو احمدیت کی خدمت کا بھی حق ادا کر یں اور پیغام پہنچائیں نہ کہ یہاں کی رنگینیوں میں گم ہو جائیں.تو اگر اس طرح اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اور کوشش سے پیغام پہنچا ئیں گے تو خدا تعالیٰ انشاء اللہ برکت ڈالے گا.اللہ کرے کہ آپ سنجیدگی سے اس بارے میں کوشش کریں.

Page 737

$2004 732 مسرور لیکن یہ بھی یادرکھیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ دعوت الی اللہ کرو وہاں یہ بھی شرط ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا نیک اعمال بجالانے والا ہو.اور وہی داعی الی اللہ فرمانبرداروں میں سے ہے جو نیک عمل بھی کر رہا ہے.یہ نہیں کہ دوسروں کو تبلیغ ہواور خود نمازوں کی بھی کوئی پابندی نہ ہو، لوگوں کے حق ادا کرنے والے نہ ہوں، عزیزوں رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنے والے نہ ہوں.کیونکہ برکت بھی اسی داعی الی اللہ کے کام میں پڑے گی جس کے اپنے عمل بھی ایسے ہوں گے کہ جو دینی تعلیم سے مطابقت رکھتے ہوں گے.یہاں کے لوگ بڑے ہوشیار ہیں.آپ کی ذراسی کوئی غلطی کو پکڑ کر وہ آپ کو بتائیں گے.اور یہ ہر جگہ ہوتا ہے.اس لئے قانون کی پابندی کرنا بھی ہمارا فرض ہے.اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا بھی ہمارا فرض ہے.اور پھر اس کے ساتھ ساتھ عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنا بھی ہمارا فرض ہے.کیونکہ یہی اسلام کی تعلیم ہے کہ تبلیغ اس بات کی کرو یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ بات کہو جس پر سو فیصد خود بھی عمل کر رہے ہو.برکت تبھی پڑے گی ور نہ تو تم خود بھی ہو سکتا ہے کہ کہہ کچھ رہے ہو اور کر کچھ رہے ہو اور تمہارا گناہ گاروں میں بھی شمار ہوسکتا ہے.جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.﴿يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ.كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ (الصف : (43) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں.اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو کہ جو تم کرتے نہیں.تو داعی الی اللہ کے لئے اپنے پاک نمونے بھی قائم کرنا بہت ضروری ہے اور یہ ہر ایک کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ چاہے کوئی دعوت الی اللہ کرتا ہے یا نہیں کرتا.ہر احمدی کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ وہ جب احمدیت کی طرف منسوب ہوتا ہے تو لوگوں کی اس پر نظر رہتی ہے.اس کا کوئی بھی غلط کام ، غلط حرکت، احمدیت کو جھٹلاتے ہیں.اور ایک احمدی کی کوئی بھی غلط حرکت ایک اچھے دعوت الی اللہ کرنے والے کے کام پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.اس لئے اگر خود دعوت الی اللہ نہیں کر

Page 738

$2004 733 خطبات مسرور سکتے تو کم از کم اپنے اعمال اتنے درست ہوں کہ دوسرے داعیان الی اللہ کی مدد ہو سکے.کبھی کوئی انگلی آپ پر یہ کہتے ہوئے نہ اٹھے کہ پہلے اپنوں کو تو سنبھالو، پہلے اپنے لوگوں کی حالت تو درست کرو.اس لئے ہر احمدی اپنی اصلاح کی طرف ہمیشہ کوشش کرے، توجہ دیتا رہے.اپنے آپ کو اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے منسوب رکھنا ہے تو اپنی اصلاح بھی ہمیں کرنی ہوگی تاکہ کوئی بھی شخص جماعت کا، اسلام کا پیغام پہنچانے میں روک نہ بنے.بہر حال دعوت الی اللہ کے لئے عمل صالح بھی بہت ضروری ہے اور جب اپنے عمل نیک ہوں گے تو آپ دوسروں کو کہنے میں بھی حق بجانب ہوں گے.ورنہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہتے کچھ ہو اور کرتے کچھ ہو.اس طرح تو تم گناہ گار بن رہے ہو.ثواب لینا تو علیحدہ رہا، گناہ میں حصہ لے رہے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لئے سب سے اول تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ.اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ“.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 615 الحكم (31 جنوری 1906) آپ نے یہاں دو باتیں بیان فرمائیں اور اسی قرآنی حکم کے تحت بیان فرما ئیں.کہ پہلے اپنے نمونے درست کرو، اپنی حالت درست کرو، اپنے اعمال درست کو، پھر دعوت الی اللہ کر تبلیغ کرو، اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا.انشاء اللہ پھر آپ فرماتے ہیں: ”آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینے کی کیا حالت ہوگئی تھی.ہر ایک حالت میں تبدیلی ہے.پس اس تبدیلی کو مدنظر رکھو اور آخری وقت کو ہمیشہ یادرکھو.آنے والی نسلیں آپ لوگوں کا منہ دیکھیں گی.اور اس نمونہ کو دیکھیں گی.اگر تم پورے طور پر اپنے

Page 739

خطبات مسرور 734 آپ کو اس تعلیم کا عامل نہ بناؤ گے تو گویا آنے والی نسلوں کو تباہ کرو گئے.$2004 پھر دعوت الی اللہ تو ہے ہی جو ہمارا کام ہے اگر اپنے نمونے نیک نہیں ہوں گے تو اپنی نسلوں کو بگاڑنے والے ہوں گے.کیونکہ وہ بھی آپ کا نمونہ دیکھ رہی ہوں گی.”انسان کی فطرت میں نمونہ پرستی ہے.وہ نمونہ سے بہت جلد سبق لیتا ہے.ایک شرابی اگر کہے کہ شراب نہ پیو، یا ایک زانی کہے کہ زنانہ کرو، ایک چور دوسرے کو کہے کہ چوری نہ کرو تو ان کی نصیحتوں سے دوسرے کیا فائدہ اٹھائیں گے.بلکہ وہ تو کہیں گے کہ بڑا ہی خبیث ہے.وہ جو خود کرتا ہے اور دوسروں کو اس سے منع کرتا ہے.جو لوگ خود ایک بدی میں مبتلا ہو کر اس کا وعظ کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں.دوسروں کو نصیحت کرنے والے اور خود عمل نہ کرنے والے بے ایمان ہوتے ہیں اور اپنے واقعات کو چھوڑ جاتے ہیں.ایسے واعظوں سے دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحه 518 الحكم (31 جنوری 1904 | خدا کرے کہ ہم دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دینے والے بھی ہوں اور عمل صالح کرنے والے بھی ہوں.تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں احمدیت میں شمولیت کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کرنے کی وجہ سے جو انعام دیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور شکر گزار بندے بنتے ہیں اور شکر گزار ہونے کی کوشش کرتے ہیں.اور جب یہ شکر گزاری قائم رہے گی اور عمل بھی قائم رہیں گے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے تو تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبرداروں میں شمار ہوں گے.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ گزشتہ کوتاہیوں پر خدا تعالیٰ سے معافی مانگیں اور مغفرت طلب کریں اور آئندہ ایک جوش اور ایک ولولے اور جذبے کے ساتھ احمدیت کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے آگے بڑھیں.ابھی دنیا کے بلکہ اس صوبہ کے سکاٹ لینڈ کے بہت سے

Page 740

$2004 735 خطبات مسرور حصے ایسے ہیں جہاں احمدیت کا پیغام نہیں پہنچا، کسی کو احمدیت کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہے.پس بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے، دعاؤں کی بھی ضرورت ہے تبھی ہم اس دعوے میں سچے ہو سکتے ہیں کہ ہم تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آئیں گے انشاء اللہ.اور اسی لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی ہے اور آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اور یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ والسلام نے جو نسخہ ہمیں دیا ہے وہ یہ ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: ”ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، تو بہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مد نظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں.نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے.جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک کی بدی سے خواہ وہ حقوق الہی سے متعلق ہو، خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو بچو.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 303 البدر 24 اپریل 1903) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے.☆

Page 741

Page 742

$2004 737 42 خطبات مسرور روزہ صرف یہی نہیں ہے کہ کچھ عرہ کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیا جائے.15 اکتو بر۲۰۰۴ء بمطابق 15 را خاء ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن.لندن ) رمضان کی برکتوں اور عظمتوں کا تذکرہ روزوں کا فائدہ تب ہوگا جب جسمانی خوراک کم کر کے روحانی خوراک میں اضافہ کرو گے قرآن کریم کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے ہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو امت خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو.

Page 743

خطبات مسرور $2004 738 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ أَيَّامًا مَّعْدُودَات فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيْضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ اُخَرَ وَعَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ.وَأَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيْدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلى مَا هَدَكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ.(سورة البقره آیات (184 تا 186 ان آیات کا یہ ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.گنتی کے چند دن ہیں.پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے.اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے.پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لئے بہت اچھا ہے.اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و

Page 744

$2004 739 خطبات مسرور باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.پس جو بھی تم میں سے اس مہینہ کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا.اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تم کو عطا کی تا کہ تم شکر کرو.کل سے انشاء اللہ تعالیٰ رمضان شروع ہورہا ہے، بعض جگہ شروع ہو چکا ہے، میں نے سنا ہے یہاں بھی بعض لوگوں نے روزے رکھنے شروع کر دیئے ہیں.بہر حال یہ مہینہ جہاں مومنوں کے لئے ، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والوں کے لئے بے شمار برکتیں لے کر آتا ہے وہاں شیطان کے لئے یا شیطان صفت لوگوں کے لئے تکلیف کا مہینہ بھی بن جاتا ہے کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ شیطان کو اس مہینہ میں جکڑ دیا جاتا ہے.کیونکہ جب مومن اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے اور شیطان کے حملے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو یہی چیز اس کے لئے تکلیف کا باعث بنتی ہے.اور شیطان کو جکڑنے کا یہ مطلب ہے کہ ایک اللہ کا بندہ اللہ کی خاطر جب جائز چیزوں سے بھی اپنے آپ کو روک رہا ہوتا ہے تو نا جائز باتوں سے جن کے بارے میں شیطان وقتاً فوقتاً اس کے دل میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے پھر اس سے کس قدر بچنے کی کوشش کرے گا.ورنہ تو جو مضبوط ایمان والے نہیں ہیں، جن کے دل میں رمضان میں بھی رمضان کا احترام پیدا نہیں ہوتا وہ تو رمضان میں بھی مکمل طور پر شیطان کے قبضے میں ہوتے ہیں.وہ تو رمضان میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہوتے ہیں.وہ تو رمضان میں بھی لوگوں کے حق مارنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور موقع ملے تو حق مارتے ہیں تکلیفیں پہنچاتے ہیں.غرض رمضان برکتوں والا مہینہ ہے ان لوگوں کے لئے جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں.یہ برکتوں والا مہینہ ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ہر اس نیکی کو بجالانے کی کوشش کرتے ہیں اور بجالا رہے ہوتے ہیں

Page 745

740 $2004 خطبات مسرور جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اور ہر اس برائی کو چھوڑ رہے ہوتے ہیں جس کو چھوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.بلکہ بعض جائز چیزوں کو بھی ایک خاص وقت کے لئے اس لئے چھوڑ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے چھوڑنے کا حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ روزوں کی فرضیت اور بعض چیزوں سے بھی پر ہیز اس لئے ہے تا کہ تم تقویٰ میں ترقی کرو.اور تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ گناہوں سے بچو، گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو اور اس طرح بچو جس طرح کسی ڈھال کے پیچھے چھپ کے بچا جاتا ہے.اور انسان جب کسی چیز کے پیچھے چھپ کر بچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں ایک خوف بھی ہوتا ہے.جس حملے سے بیچ رہا ہوتا ہے اس کے خوف کی وجہ سے وہ پیچھے چھپتا ہے.تو فرمایا کہ روزے رکھو اور روزے رکھنے کا جو حق ہے اس کو ادا کرتے ہوئے رکھو تو تقویٰ میں ترقی کرو گے.ورنہ ایک روایت میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو تمہیں بھوکا رکھنے کا کوئی شوق نہیں ہے، کوئی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم نے جو غلطیاں اور گناہ کئے ہیں ان کے بدنتائج سے بچنے کے لئے میں نے ایک راستہ تمہارے لئے بنایا ہے تاکہ تم خالص ہو کر دوبارہ میری طرف آؤ.اور ان روزوں میں ، رمضان میں روزہ رکھنے کا حق ادا کرتے ہوئے میری خاطر تم جائز باتوں سے بھی پر ہیز کر رہے ہوتے ہو اور تمہاری اس کوشش کی وجہ سے میں بھی تم پر رحمت کی نظر ڈالتا ہوں اور شیطان کو جکڑ دیتا ہوں.تا کہ تم جس خوف کی وجہ سے روزہ رکھتے ہو اور روزہ رکھتے ہوئے اس ڈھال کے پیچھے آتے ہو، تقویٰ اختیار کرتے ہوتا کہ اس میں تم محفوظ رہو، اور تمہیں شیطان کوئی نقصان نہ پہنچا سکے.تو فرمایا کہ یہ تقوی جو ہے، یہ ڈھال جو ہے، یہ شیطان کے حملوں سے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش جو ہے، یہ تمہارے روزے رکھنے کی وجہ سے تمہاری حفاظت کر رہی ہے.اس لئے ایک مجاہدہ کر کے جب تم اس حفاظت کے حصار میں آگئے ہو تو اب اس میں رہنے کی کوشش بھی کرنی ہے.اب اس حصار کو، اس تقویٰ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہے.اور جو پہلے ہی نیکیوں پر قائم ہوتے ہیں وہ روزوں

Page 746

741 $2004 خطبات مسرور کی وجہ سے تقویٰ کے اور بھی اعلیٰ معیار حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور ترقی کرتے کرتے اللہ تعالیٰ کے انتہائی قرب پانے والے بنتے چلے جاتے ہیں.یہ یا درکھنا چاہئے کہ روزہ صرف اتنا نہیں ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیا تو تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم ہو جائیں گے.جیسا کہ میں نے کہا کہ روزے کے ساتھ بہت ساری برائیوں کو بھی چھوڑ نا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی پہلے سے بڑھ کر کرنی ہو گی تبھی تقویٰ بھی حاصل ہوگا اور اس میں ترقی بھی ہوگی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں.اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے.روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربے سے معلوم ہوتا ہے.انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اس قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قو تیں بڑھتی ہیں.خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا ر ہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو.یعنی خدا تعالیٰ سے لو لگانے کی طرف توجہ پیدا ہو اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہو، دنیا کو چھوڑنے کی طرف توجہ ہو.پس روزہ سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو جسم کی پرورش کرتی ہے، دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے.اور جولوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں، یعنی حد بھی کریں اور تسبیح بھی کریں اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بھی بیان کریں اور اسی کو سب کچھ سمجھنے والے ہوں ”جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے“.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ۱۷،۱۰۲ جنوری ۱۹۰۷)

Page 747

742 $2004 خطبات مسرور تو فرمایا کہ روزوں کا تمہیں اس وقت فائدہ ہوگا جب جسمانی خوراک کم کر کے روحانی خوراک میں اضافہ کرو گے.صرف دنیا کی بے انتہا مصروفیتوں کے پیچھے نہ پڑے رہو.روزہ رکھ کے بھی سوائے یہ کہ صبح سحری کھالی اور پھر دنیاوی کاموں اور دھندوں میں مصروف ہو گئے.ورنہ تو دنیادار بھی صحت کے خیال سے یا فیشن کے طور پر خوراک کم کر دیتے ہیں.تمہاری خوراک کی کمی جسم کی خوبصورتی یا صحت کے پیش نظر نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو.اور یہ رضا تبھی حاصل ہوگی جب اللہ تعالیٰ سے تعلق پہلے کی نسبت زیادہ ہو گا.اس کی تسبیح اور اس کو تمام قدرتوں کا مالک سمجھتے ہوئے اس کی طرف زیادہ جھکو گے.تبھی روزہ شیطان سے بھی بچا کر رکھے گا اور تقوی میں بھی بڑھائے گا.ورنہ جیسا کہ میں نے کہا، بے شمار لوگ ایسے ہیں، مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کے شیطان کھلے پھرتے ہیں، ان کو جکڑا نہیں جاتا اس لئے کہ وہ تقویٰ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہوتے اور ان کو کوئی خوف اور ڈر نہیں ہوتا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقویٰ کے معیار حاصل کرنے کے لئے ، نیکیوں میں بڑھنے کے لئے اور شیطان سے بچنے کے لئے ، جو یہ ٹریننگ کورس ہے یہ کوئی اتنے لمبے عرصے کے لئے نہیں ہے کہ تم پریشان ہو جاؤ کہ اتنے دن ہم بھوکے پیاسے کس طرح رہیں گے.فرمایا کہ سال کے چند دن ہی تو ہیں.سال کے 365 دنوں میں سے صرف 29 یا 30 دن ہی تو ہیں.اتنی تو قربانی تمہیں کرنی ہو گی اگر تم شیطان سے محفوظ رہنا چاہتے ہو.اور نہ صرف شیطان سے محفوظ رہو بلکہ اللہ فرماتا ہے کہ میری رضا بھی حاصل کرو.اگر تم چاہتے ہو اور یہ خواہش ہے کہ میری رضا حاصل کرو، میرا قرب پانے والے بنو.فرمایا کہ جو لوگ مریض ہوں یا سفر پر ہوں، کیونکہ بیماری بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے، مجبوری کے سفر بھی کرنے پڑ جاتے ہیں تو پھر جو روزے چھوٹ جائیں ان کو بعد میں پورا کرو.تو یہ سہولت بھی اللہ تعالیٰ نے اس لئے دی کہ فرمایا کیونکہ تم میری طرف آنے کے لئے ، میرے سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ایک کوشش کر رہے ہو ، ایک مجاہدہ کر رہے ہو ، اس لئے میں نے تمہاری

Page 748

$2004 743 خطبات مسرور بعض فطری اور ہنگامی مجبوریوں کی وجہ سے تمہیں یہ چھوٹ دے دی ہے کہ سال کے دوران جو چھٹے ہو ئے روزے ہوں وہ کسی اور وقت پورے کر لو.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں یہ چھوٹ تمہیں تمہاری اس کوشش کی قدر کرتے ہوئے دے رہا ہوں جو تم باقی دنوں میں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتے ہوئے میرا قرب پانے کے لئے میری خاطر کر رہے ہو.فرمایا کیونکہ یہ سب تمہارا عمل میری خاطر ہو رہا ہے اس لئے اگر تم عارضی طور پر بیمار ہو یا بعض سفروں اور مجبوری کی وجہ سے کافی روزے چھوٹ رہے ہیں اور مالی لحاظ سے اچھے بھی ہو تو فدیہ بھی دے دو یہ زائدہ نیکی ہے.اور بعد میں سال کے دوران روزے بھی پورے کر لو.اور جو مستقل بیمار ہیں یا عورتیں ہیں مثلاً دودھ پلانے والی ہیں یا جن کے پیدائش ہونے والی ہے وہ کیونکہ روزے نہیں رکھ سکتیں اس لئے ایسے مریضوں کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق فدیہ دینا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ : ” صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے.ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پاکے روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں.صرف فدیہ کا خیال اباحت کا دروازہ کھول دیتا ہے.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ٣٢٢ - ٢٤ اکتوبر ١٩٠٧) 66 یعنی ایک ایسا اجازت کا رستہ کھل جائے گا اور ہر کوئی اپنی مرضی سے تشریح کرنی شروع کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو صرف کا لفظ استعمال کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بعد میں روزے کی طاقت رکھتے ہوں اگر وہ فدیہ دے دیں تو یہ زائد نیکی ہے.بعد میں روزے بھی پورے کر لئے اور فدیہ بھی دے دیا.اور جو رکھ ہی نہیں سکتے اور رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ان کے لئے فدیہ ہے.کیونکہ اس بارے میں کہ فدیہ کس طرح ہے اس میں مختلف مفسرین نے مختلف تشــــريـحیں کی ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو طاقت رکھتے ہیں وہ بہر حال فدیہ دے دیں اور جو عارضی مریض ہیں وہ بھی.

Page 749

$2004 744 مسرور پھر آپ فرماتے ہیں: ﴿ وَعَلَى الَّذِيْنَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْن ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے؟ تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تا کہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو.خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو تو فیق عطا کرتی ہے.اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے.تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان ) دعا کرے کہ الہی ! یہ تیرا مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ، یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ.اور اُس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا“.(ملفوظات جلد دوم صفحه ٥٦٣ البدر ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ تو فرمایا جن کو روزہ رکھنے میں عارضی روکیں پیدا ہورہی ہیں اگر وہ فدیہ دیں تو اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے ہی توفیق بھی دے سکتا ہے.فدیہ بھی دیں اور ساتھ دعا بھی کریں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے.خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت ( روزے) رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے.میں نے پڑھا ہے کہ اکثرا کا براس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے.یعنی گناہ ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، نہ اپنی مرضی.اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے.جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے.یعنی اس کی تشریحیں نہ کی جائیں.اس نے تو یہی حکم دیا ہے کہ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيْضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ (سورۃ البقرہ آیت 185).اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو“ فرمایا کہ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں.چنانچہ

Page 750

$2004 745 خطبات مسرور آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا.“ اس پر (ملفوظات جلد پنجم صفحه ٦٧، ٦٨ ـ الحكم ٣١ جنوری ١٩٠٧) پھر آپ فرماتے ہیں : ” جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ رمضان میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے.خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہئے.کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یالمباہو بلکہ حکم عام ہے اور پر عمل کرنا چاہئے.مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتوی لازم آئے گا.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحه ۳۲۱ ، بدر ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷) بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورت سے زیادہ بختی اپنے اوپر وارد کرتے ہیں یا وارد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کل کا سفر کوئی سفر نہیں ہے اس لئے روزہ رکھنا جائز ہے.آپ نے یہی وضاحت فرمائی ہے کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ زبردستی اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کی جائے اور اپنی طرف سے تاویلیں اور تشریحیں نہ بنائی جائیں.جو واضح حکم ہیں ان پر عمل کرنا چاہئے.اور یہ بڑا واضح حکم ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.تو برکت اسی میں ہے کہ تعمیل کی جائے نہ کہ زبر دستی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے.ایک روایت میں آتا ہے: ”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے رمضان کے مہینے میں سفر کی حالت میں روزہ اور نماز کے بارے میں دریافت کیا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھو.اس پر اس شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا انتَ اقولی اَمِ الله؟ یعنی تو زیادہ طاقتور ہے یا اللہ؟ یقینا اللہ تعالی نے میری امت

Page 751

746 $2004 خطبات مسرور کے مریضوں اور مسافروں کے لئے رمضان میں سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کو بطور صدقہ ایک رعایت قرار دیا ہے.کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ تم میں سے کسی کو کوئی چیز صدقہ دے پھر وہ اس چیز کو صدقہ دینے والے کو واپس لوٹا دے.(المصنف للحافظ الكبير ابي ابكر عبدالرزاق بن همام الصنعاني الجزء الثاني صفحه 565 باب الصيام في السفر تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ مل رہا ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ہدایت دی کہ قرآن جو کہ ایک کامل اور مکمل شرعی کتاب ہے ، اس مہینے میں اتاری گئی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سال جتنا قرآن نازل ہوا ہوتا تھار مضان میں اس کی دوہرائی کرواتے تھے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے جو رمضان تھا اس میں دو دفعہ دوہرائی کروائی گئی.تو بتایا کہ اس میں ایک عظیم ہدایت ہے اس لئے تم بھی اس مہینے میں اس کو غور سے پڑھا کرو.ویسے تو پڑھنا ہی ہے لیکن اس مہینے میں خاص طور پر.اس طرف توجہ دو، اس کی تلاوت کرو، اس کا ترجمہ پڑھو.اور جہاں جہاں درس کا انتظام ہے وہاں لوگ درس بھی سنیں.کیونکہ بعض باتوں کا ہر ایک کو پتہ نہیں لگ رہا ہوتا.تو تمہیں اس کا گہرا فہم ، ادراک اور سمجھ بوجھ حاصل ہو گی.اور تمام امور اور تمام احکامات کی وضاحت ہو گی جن کو تم اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکتے ہو.دوسری آیت میں بھی دوبارہ تاکید کی گئی ہے کہ روزے رکھو اور مسافر اور مریض ان دنوں میں روزے نہ رکھیں اور بعد میں پورے کریں.اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اور جو تم پر اس کے انعامات ہیں ان کا شکر ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکو،اس کے شکر گزار بندے بنو یہ شکر گزاری بھی تمہیں نیکیوں میں بڑھائے گی اور تقویٰ میں بڑھائے گی.اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ ﴾ (البقرة : 186) سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے.صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے.کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں.صلوۃ تزکیہ نفس کرتی

Page 752

747 $2004 خطبات مسرور ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے.تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جائے نفس امارہ بدی کی طرف مائل کرنے والا نفس ہے.اس سے دوری حاصل ہو جاتی ہے.اور جلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کودیکھ لے.“ (ملفوظات جلد دوم صفحه ٥٦٢،٥٦١ البدر ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ فرمایا: پس روزہ رکھنے اور قرآن پڑھنے اور عبادت کرنے سے دل روشن ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سے قریبی تعلق پیدا ہوتا ہے.نمازیں جو ہیں وہ نفس کو پاک کرتی ہیں.ان دنوں میں نمازوں پر بھی خاص طور پر زور دو تا کہ نفس مزید پاک ہوں.اور روزے سے دل کو روشنی ملتی ہے.اور دلوں کی روشنی یہ ہے ( آپ نے فرمایا) کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا قریبی تعلق پیدا ہو جاتا ہے گویا کہ خدا کو دیکھ رہا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریر کا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے.پس روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا.اور روزے ڈھال ہیں.اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر اس کو کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں.اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے روزہ داروں کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیب ہے.روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں.ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے.اور دوسرے جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہو گا.“ ہوگا (بخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم تو اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے.تو جو کام اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا جائے اس میں دنیا کی ملونی ہو نہیں سکتی.اور جو کام اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا جائے اس کا اظہار لوگوں کے سامنے یا ان سے تعریف کروانے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ کوشش ہوتی ہے کہ نیکی چھپی رہے.اور جب وہ لوگوں سے چھپ کر نیکی کر رہا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

Page 753

$2004 748 خطبات مسرور کہ میں اس کی جزا ہو جاتا ہوں.پھر فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے.حفاظت کا ایک ایسا مضبوط ذریعہ ہے جس کے پیچھے چھپ کر تم اپنے آپ کو شیطان کے حملوں سے محفوظ کر سکتے ہو اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ روزے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرو اور برائیوں سے اور لڑائی جھگڑوں سے بھی بچو.یہاں تک کہ اگر کوئی تمہیں گالی بھی دے تو غصے میں نہ آؤ طیش میں نہ آؤ بلکہ کہو کہ میں روزہ دار ہوں.رمضان میں ہر احمدی اگر یہ عہد کرے کہ ہر لیول (Level) پر گھروں میں بھی، ماحول میں بھی ، باہر بھی اور دوستوں میں بھی اس کے مطابق عمل کرنا ہے تو اسی ایک بات سے کہ گالی کا جواب نہیں دینا لڑنا جھگڑنا نہیں میں سمجھتا ہوں کہ آدھے سے زیادہ جھگڑے ہمارے معاشرے کے ختم ہو سکتے ہیں.تو ایسے لوگوں کو جو خوشیاں ملنی ہیں ان کے ساتھ سب سے بڑی یہ خوشی ہے.فرمایا کہ وہ اس روزے کی وجہ سے اپنے رب کا قرب حاصل کرے گا.تو یہ بھی واضح ہو گیا کہ روزے کے بعد یہ عمل جاری رہیں گے تو اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوگا اور ہوتا رہے گا ورنہ تو یہ عارضی چیز ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ تو نہیں کہا کہ روزے میں ، رمضان میں میرا قرب حاصل کرو اس کے بعد جو مرضی کرتے رہو بلکہ جونیکیاں اختیار کروان کو پھر مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنالو.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال کی کیفیت اللہ تعالیٰ کے حضور سات طرح ہے.دو عمل ایسے ہیں جن کے کرنے سے دو چیزیں واجب ہو جاتی ہیں اور دو عمل ایسے ہیں جن کا ان کے برابر ہی اجر ہوتا ہے.اور ایک عمل ایسا ہے جس کا دس گنا اجر ہوتا ہے.اور ایک عمل ایسا ہے جس کا سات سو گنا اجر ہوتا ہے.اور ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس کو بجالانے کا اجر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں“.وہ عمل جن سے دو چیزیں واجب ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتا ہو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو تو اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی.اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے کہ وہ اس کا شریک ٹھہراتا ہو تو اس

Page 754

$2004 749 خطبات مسرور کے لئے جہنم واجب ہو جائے گی.اور جو بر اعمل کرے گا اس کو اتنی ہی سزا ملے گی.اور جس نے نیکی کرنے کا ارادہ کیا مگر وہ اسے کر نہ سکا تو اسے نیکی کرنے والے کے برابر اجر ملے گا.اور جو کوئی نیکی بجا لایا تو اسے دس گنا اجر ملے گا.اور جس نے اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا اس کے خرچ کردہ در ہم اور دینا ر سات سو گنا بڑھا دیئے جائیں گے.اور فرمایا کہ روزہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ عز وجل کی خاطر کیا جاتا ہے اور روزہ رکھنے والے کا اجر صرف اللہ عز وجل کو ہی معلوم ہے.(الترغيب و الترهيب - كتاب الصوم الترغيب في الصوم مطلقا.......تو جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا اس کی جزا میں خود ہوں جتنا چاہے اللہ تعالیٰ بڑھا دے.سات سو گنا بتا کر یہ بتادیا کہ اس سے بھی زیادہ جزا ہو سکتی ہے.کیونکہ روزہ دار اپنے اندر ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس پر جب قائم رہنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر یہ سلسلہ ہے جو جزا کا چلتا چلا جاتا ہے.حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ لیکن ہوا چاہتا ہے.اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں.اور اس کی راتوں کو قیام کرنا نفل ٹھہرایا ہے.هُوَ شَهْرٌ اَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَاخِرُهُ عِتْقَ مِّنَ النَّارِ.کہ وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے.اور جس نے اس میں کسی روزہ دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے کبھی پیاس نہ لگے گی.(صحیح ابن خزیمه کتاب الصيام ـ باب فضائل شهر رمضان.تو یہاں اس بات کی مزید وضاحت بھی ہو گئی کہ اس مہینے کے روزے ایک تو فرض ہیں اس لئے بہانے بازی کوئی نہیں اور دوسرے صرف بھوکے نہیں رہنا بلکہ عبادتوں میں بڑھنا ہے.راتوں کو

Page 755

750 $2004 خطبات مسرور بھی عبادت کے لئے کھڑے ہونا ہے.تبھی ان اجروں کے وارث بنیں گے، ان کو حاصل کرنے والے ہوں گے اور اس جنت میں داخل ہونے والے ہوں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے شعبان کے آخری روز خطاب فرمایا اور فرمایا ( یہ اسی روایت میں مزید باتیں شامل کی ہوئی ہیں اور ان میں زائد باتیں یہ ہیں ) جو شخص کسی بھی اچھی خصلت کو رمضان میں اپنا تا ہے وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو اس کے علاوہ جملہ فرائض کو ادا کر چکا ہو.اور جس شخص نے ایک فریضہ اس مقدس مہینے میں ادا کیا وہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے ستر فرائض رمضان کے علاوہ ادا کئے.اور رمضان کا مہینہ صبر کرنے کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے اور یہ مواساة اور اخوت کا مہینہ ہے.اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کو برکت دی جاتی ہے یعنی بھائی چارے ، محبت، ہمدردی ، غم خواری کا مہینہ ہے.تو صبر ہر لحاظ سے ہونا ضروری ہے.یہ صبر کرنے کا مہینہ ہے.تو صبر کس طرح ہوا.روزہ رکھ کے ہم خوراک کے لحاظ سے بھی صبر کرتے ہیں.نفسانی خواہشات کے لحاظ سے بھی صبر کرتے ہیں.لوگوں کے رویوں پر خاموش رہنے کے لحاظ سے بھی صبر کرتے ہیں.اپنے حق کے مارے جانے پر خاموش رہنے پر بھی صبر کرتے ہیں.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ لڑنا جھگڑنا نہیں ہے.اور اس میں یہ حکم ہے کہ لوگوں سے ہمدردی، غمخواری اور درگز رکا سلوک کرنا ہے تو تبھی اس سے فائدہ اٹھایا جائے گا، تبھی اس سے برکتیں حاصل ہوں گی.اور اس وجہ سے اس صبر اور ہمدردی کی وجہ سے ظلم پر خاموش رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جہاں روحانی ترقی عطا فرمائے گا وہاں فرمایا کہ دنیاوی رزق میں بھی برکت ڈالے گا.جو اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی کام کرتا ہے اللہ تعالی ضرور خود اس کا کفیل ہو جاتا ہے.حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان کے شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو میری امت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو“.اس پر بنو خزاعہ کے

Page 756

751 $2004 خطبات مسرور ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی! ہمیں رمضان کے فضائل سے آگاہ کریں.چنانچہ آپ نے فرمایا ”یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں.“ (الترغيب و الترهيب، كتاب الصوم، الترغيب في صيام رمضان --- حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کے مہینے کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف دیکھتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی طرف دیکھتا ہے تو پھر اسے کبھی بھی عذاب نہیں دیتا.اور اللہ تعالیٰ ہر روز ہزاروں لاکھوں افراد کو جہنم سے نجات دیتا ہے.پس جب رمضان کی 29 ویں رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ رمضان کی گزشتہ 28 راتوں کے برابر لوگوں کو بخش دیتا ہے.( الترغيب والترهيب - كتاب الصوم الترغيب في صيام رمضان ) یہاں اس حدیث میں ہے وَإِذَا نَظَرَ اللَّهُ إِلَى عَبْدِ لَمْ يُعَذِّبْهُ أَبَدًا.تو یہاں عَبْدِ کا لفظ استعمال ہوا ہے.یعنی جو کامل فرمانبردار ہو، اس کی طرف جھکنے والا ہو، اس کی عبادت کر نے والا ہو.فرمایا کہ جب میرے ایسے بندے ہوں گے، جب ایک دفعہ میں ان کو اپنی پیار کی چادر میں لپیٹ لوں گا تو پھر انہیں کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا.اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں جنتوں کا وارث ٹھہرائے گا.اللہ تعالیٰ سب کو حقیقی عبد بننے کی توفیق عطا فرمائے.طبرانی الاوسط میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے : رمضان آ گیا ہے اور اس میں جنت کے روازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے مقفل کر دیئے جاتے ہیں.اور شیاطین کو اس میں زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے.ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس نے رمضان کو پایا اور اس.بخشا نہ گیا.اور وہ رمضان میں نہیں بخشا گیا تو پھر کب بخشا جائے گا.(الترغيب والترهيب - كتاب الصوم الترغيب في صيام رمضان)

Page 757

خطبات مسرور 752 $2004 تو اس سے پہلی حدیث کی بھی مزید وضاحت ہو گئی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام تر ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں جن سے ایک انسان اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بھی بن سکے پھر بھی اگر وہ عبد نہیں بنتا، رمضان سے فیض نہیں اٹھاتا، اس کی عبادت کرنے والا ، اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ، نیکیوں کو پھیلانے والا نہیں بنتا، تو فرمایا کہ پھر اس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے.بلکہ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ اس پر ہلاکت ہے کہ ان تمام سامانوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باوجود بھی اپنے آپ کو نہ بخشوا سکا.پس اس بخشش کے حصول کے لئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیار قائم کرنے ہوں گے، ان کو ادا کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے.اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس 66 بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو.“ (الجامع الصحيح مسند الامام الربيع بن حبيب، كتاب الصوم باب في فضل رمضان ) جو پہلی حدیث میں فرمایا تھا کہ ہزاروں اور لاکھوں کو بخش دے گا اس کی یہاں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ روزے ایمان کی حالت میں اگر ہوں گے.روزے بھی رکھ رہے ہو گے اور ایمان کی حالت میں رکھ رہے ہو گے، جور رکھنے کا حق ہے وہ ادا کر رہے ہو گے، اپنے نفس کا محاسبہ بھی کر رہے ہو گے، اپنے آپ کو بھی دیکھ رہے ہو گے، یہ نہیں کہ صرف دوسروں کی برائیوں پر نظر ہو بلکہ اپنا بھی جائزہ لے رہے ہو گے، اللہ تعالیٰ کے خاص بندے بننے والے ہو گے تو پھر برکتوں سے فیض پانے والے ہو گے.نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے کہا کہ آپ مجھے ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ

Page 758

$2004 753 خطبات مسرور علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو.ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے کہا کہ ہاں مجھے سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان کے روزے رکھنا تم پر فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیا ہے.پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے اس میں روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو ، یعنی بالکل معصوم بچے کی طرح.(سنن نسائی.کتاب الصیام باب ذکر اختلاف یحی بن ابی کثير و النضر بن شيبان فيه.”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ ایک ڈھال اور آگ سے بچانے والا ایک مضبوط قلعہ ہے.“ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 402 مطبوعه (بيروت) یہ قلعہ تو ہے لیکن اس ڈھال کے پیچھے اور اس قلعہ کے اندر کب تک اس قلعے میں حفاظت ہوتی رہے گی، کب تک محفوظ رہو گے اس کی وضاحت ایک اور روایت میں کر دی کہ جب تک اس کو جھوٹ یا غیبت کے ذریعے سے پھاڑ نہیں دیتے.تو رمضان میں روزوں کی جو برکتیں ہیں اسی وقت حاصل ہوں گی جب یہ چھوٹی چھوٹی برائیاں بھی جو بعض بظاہر چھوٹی لگ رہی ہوتی ہیں، آدمی معمولی سمجھ رہا ہوتا ہے ہر قسم کی برائیاں بھی ختم نہیں کرتے.ان میں بہت بڑی برائی جو ہے جس کو آدمی محسوس نہیں کرتا وہ جھوٹ ہے.اگر جھوٹ بول رہے ہو تو اس ڈھال کو پھاڑ دیتے ہو.لوگوں کی غیبت کر رہے ہو چغلیاں کر رہے ہو، پیچھے بیٹھ کے ان کی باتیں کر رہے ہو تو یہ بھی تمہارے روزے کی ڈھال کو پھاڑنے والی ہیں.تو روزہ اگر تمام لوازمات کے ساتھ رکھا جائے تو ڈھال بنے گا.ورنہ دوسری جگہ فرمایا پھر تو یہ روزہ صرف بھوک اور پیاس ہی ہے جو آدمی برداشت کر رہا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کو تمام شرائط کے ساتھ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور خالصہ اللہ تعالیٰ کی خاطر روزے رکھنے والے ہوں نہ کہ دنیا کے دکھاوے کے لئے.کوئی نفس کا بہانہ ہمارے روزے رکھنے میں حائل نہ ہو اور اس مہینے میں اپنی عبادتوں کو بھی زندہ کرنے والے ہوں.اللہ تو فیق دے.

Page 759

$2004 754 خطبات مسرور اور جب نیکیوں کے راستے پر اس رمضان میں چلیں یہ بھی اس رمضان میں دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ نیکیاں رمضان کے ختم ہونے کے ساتھ ختم نہ ہو جائیں بلکہ ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنی رہیں.اور ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شامل ہو، اس کا پیار حاصل کرنے والا ہو اور ہمیشہ اس کی پیار کی نظر ہم پر پڑتی رہے.اور یہ رمضان ہمارے لئے ، جماعت کے لئے غیر معمولی فتوحات لانے والا ہو.اللہ کرے ایسا ہی ہو.اب میں یو.کے.کی جماعت کے لئے چند باتیں مختصراً کہنا چاہتا ہوں.گزشتہ دنوں میں میں نے چند شہروں کا دورہ کیا تھا جس میں برمنگھم کی مسجد کا افتتاح بھی ہوا.بریڈ فورڈ کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا، یہ پلاٹ انہوں نے بڑی اچھی جگہ لیا ہے پہاڑی کی چوٹی پہ ہے، نیچے سارا شہر نظر آتا ہے.پلاٹ اتنا بڑا نہیں ہے لیکن امید ہے تعمیر کے بعد اس میں کافی نمازیوں کی گنجائش ہو جائے گی.Covered امر یا یہ زیادہ کر لیں گے.پھر ہارٹلے پول کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا، یہ بھی اچھی خوبصورت جگہ ہے لیکن یہاں جماعت چھوٹی ہے اور اب کچھ تعداد میں اضافہ ہوا ہے.بڑے عرصے سے تو چند مقامی لوگ تھے.اسائکم لینے ولے بھی اب وہاں گئے ہیں لیکن ان لوگوں کی ابھی کوئی خاص آمدنی نہیں ہے.اور انہوں نے انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بنانی ہے.مسجد کا نقشہ بنیا دی پلان بڑا خوبصورت ہے.ڈاکٹر حمید خان صاحب مرحوم نے اس بارے میں کافی کوشش کی تھی کہ وہاں مسجد بنے.پلاٹ وغیرہ لینے میں ان کی کافی ہمت اور مددر ہی آخر دم تک وہ اس کے لئے کوشش کرتے رہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور درجات بلند فرمائے.اب جب میں نے وہاں پوچھا کہ مسجد بنا رہے ہیں تو رقم کی وجہ سے وہ اس کا نقشہ کچھ چھوٹا کرنا چاہتے تھے.میں نے انہیں کہا ہے کہ رقم کی وجہ سے نقشہ چھوٹا نہیں کرنا.اللہ تعالی مددفرمائے گا انشاء اللہ تعالی.لیکن مجھے امیر صاحب نے سفر میں بتایا کہ کسی وقت میں انصار اللہ یو.کے.نے (یادداشت سے ہی بتایا تھا کوئی معین نہیں تھا.اب پتہ نہیں ابھی تک معین کیا ہے کہ نہیں ).حضرت

Page 760

$2004 755 خطبات مسرور خلیفہ امسیح الرابع سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہارٹلے پول میں ہم انصار اللہ مسجد بنائیں گے.اگر کیا تھا تو ٹھیک ہے اس کو پورا کریں.اور اگر نہیں بھی کیا تو اب میں یہ کام انصار اللہ یو.کے.کے سپر د کر رہا ہوں کہ انہوں نے وہاں انشاء اللہ مقامی لوگوں کی جس حد تک مدد ہو سکے کرنی ہے اور یہ جو اصل بنیادی نقشہ ہے اس کے مطابق مسجد بنانی ہے.اس مسجد پہ تقریبا پانچ لاکھ پونڈ کا اندازہ خرچ ہے.تو انصار اللہ نے کس طرح پورا کرنا ہے وہ اپنا پلان کر لیں اور کمر ہمت کس لیں.بہر حال ان کو مدد کرنی ہوگی.وہاں جماعت بہت چھوٹی سی ہے.اور پھر بریڈ فورڈ میں تقریباً جوان کا اندازہ ہے 1.6 ملین یا 16لاکھ پاؤنڈ کا (اگر میں صحیح ہوں اور یادداشت ٹھیک ہے ) تو وہاں کافی بڑی مسجد بن جائے گی.گو کہ وہاں کا روباری لوگ کافی ہیں اور مجھے امید ہے وہ اپنے ذرائع سے کافی حد تک جلدی اکٹھے کر کے مسجد مکمل کر لیں گے لیکن ہو سکتا ہے کچھ ستی ہو جائے.بعض وعدے کرتے ہیں پورے نہیں کر سکتے.بعض مجبوریاں پیدا ہو جاتی ہیں.تو ان کی مدد کے لئے خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ یوں کے.کے ذمہ میں ڈالتا ہوں کہ یہ بھی ان کی مددکریں اور یہ اس علاقے میں ایک بڑا اچھا وسیع جماعت کا منصوبہ ہے جو مجھے امید ہے جماعت کی وسعت کا باعث بنے گا.وہاں اس کے لئے وہ بھی ان میں کچھ حصہ ڈالیں.اور لجنہ ہمیشہ قربانیاں کرتی رہی ہے.یہاں بیت الفضل ہے اس کے لئے بھی لجنہ نے ہی رقم اکٹھی کی تھی جو پہلے برلن مسجد کے لئے تھی پھر بعد میں بیت الفضل میں استعمال ہوئی.تو یو.کے.کی لجنہ کو اس بارے میں کوشش کرنی چاہئے.کیونکہ میری خواہش ہے کہ یہ دونوں مساجد ایک سال کے اندر اندر مکمل ہو جائیں، انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس رمضان میں دعاؤں اور قربانی کے جذبے کے ساتھ اس طرف بھی توجہ دیں اور کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.

Page 761

$2004 756 43 خطبات مسرور اپنی عبادتوں کو زندہ کریں.22 اکتوبر ۲۰۰۴ء بمطابق 22 را خاء ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن.لندن ) باجماعت نمازوں کی طرف ابھی بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک احمدی نے جو عہد کیا ہے ان کو پورا کرے.مستقل مزاجی سے اس کی عبادت بجالائیں

Page 762

خطبات مسرور $2004 757 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ (سورة البقره :.۷۸۱) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں.رمضان کے شروع ہوتے ہی یہ خیال دل میں فوراً پیدا ہو جاتا ہے کہ کیونکہ یہ برکتوں والا مہینہ ہے اور اس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں اس لئے عموماً لوگ مسجدوں کی طرف بھی زیادہ رخ کرتے ہیں.مسجدوں کی حاضری بھی بڑھتی ہے.فجر کی نماز کی حاضری بھی بعض دنوں سے زیادہ ہو جاتی ہے، جتنی عام دنوں میں مغرب یا عشا کی نماز پر.بلکہ مجھے کسی نے لکھا تھا، پہلے یا دوسرے روزے کی بات ہے کہ آج مسجد فضل میں فجر کی حاضری اتنی تھی کہ ہال بھرنے کے بعد بھی لوگ ادھر اُدھر نماز کے لئے جگہ تلاش کرتے پھر رہے تھے.دنیا کے اور شہروں اور ملکوں سے بھی یہی اطلاعیں آ رہی ہیں کہ ماشاء اللہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آجکل بڑی رونق دکھا رہی ہیں.دل خوش ہوتا ہے کہ لوگوں کو خیال آیا اور دنیاوی دھندے چھوڑ کر ، آرام دہ بستروں کو چھوڑ کر صبح اٹھنے، تہجد پڑھنے ، روزہ رکھنے اور پھر مسجد میں نماز کے لئے آنے ، ایک خدا کی عبادت کرنے ، اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں اور گنا ہوں کو بخشوانے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے.یہ توجہ اللہ تعالیٰ رمضان میں اپنے بندوں پر فضل

Page 763

$2004 758 خطبات مسرور کرتے ہوئے بخشش کے جو دروازے کھولتا ہے اس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائے.خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.( بخارى كتاب الصوم باب فضل من قام (رمضان) انسان کیونکہ غلطیوں کا پتلا ہے دن میں بھی روزانہ کئی غلطیاں ہو جاتی ہیں.کئی گناہ سرزد ہو جاتے ہیں.اس لئے ہر ایک کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو موقع دیا ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کی جائے.لیکن یاد رکھیں کہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے نماز پڑھتا ہے.اب دیکھیں ایمان کا تقاضا کیا ہے.ایمان کیا تقاضا کرتا ہے.کیا یہ کہ گیارہ مہینے عبادت کی طرف نمازوں کی طرف حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ نہ ہو اور بارہویں مہینے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تا کہ گزشتہ گناہ بخشے جائیں.نہیں ، ایمان کا تقاضا ہے کہ جو عہد تم نے اللہ سے کیا ہے، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے ایک احمدی نے جو عہد کیا ہے ان کو پورا کرے.جو تبد یلیاں ایک رمضان میں پیدا کی ہیں ان تبدیلیوں کو اب اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے.اللہ اور اس کے رسول کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنا ہے.اور یہ عہد بھی کرنا ہے کہ آئندہ اب ان برائیوں کو ہم نے اپنے اندر پیدا نہیں ہونے دینا.پھر خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑے گی اور گزشتہ گناہ بخشے جائیں گے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے یہ رمضان سے، روزے سے متعلق جو احکامات ہیں قرآن کریم میں ان آیات کے بیچ میں رکھی گئی ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دنوں اپنے بندوں پر پیار کی نظر ڈالنا چاہتا ہے.بھولے بھٹکوں کو واپس لانا چاہتا ہے.ان کی عبادتوں کے معیار اونچے کرنا چاہتا ہے تا کہ اس کے صحیح عبد دنیا میں پیدا ہوتے رہیں.اس میں اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے

Page 764

$2004 759 خطبات مسرور کہ میرے بندے سے یہاں مراد عاشقانِ الہی ہیں، اللہ تعالیٰ کے عاشق ہیں.اب دیکھیں عاشق کون ہوتے ہیں.بچے عاشق تو اپنے محبوب کی ہر بات مانتے ہیں.دنیاوی محبوبوں میں تو بری بھلی ہر قسم کی بات ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات تو ایسی ہے جس میں سوائے نفع کے اور ہے ہی کچھ نہیں.نفع ہی نفع ہے.فائدہ ہی فائدہ ہے.ہر خیر کا وہ سر چشمہ ہے اور ہر برائی سے وہ بچانے والا ہے.ہر تکلیف سے وہ نجات دینے والا ہے.وہ کہتا ہے مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا کا جواب دوں گا.اب سچا عاشق کیا مانگتا ہے.سچا عاشق محبوب سے اس کا قرب مانگتا ہے.اور جب قرب حاصل ہو جائے ، ایک دوسرے پر یقین پیدا ہو جائے تو ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے.یہاں تو یہ بھی یکطرفہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا قرب ملنا ہے تو فائدہ بھی صرف ہمیں ہونا ہے اور پھر یہ جو ہے کہ صرف فائدہ اٹھانے تک بات نہیں رہتی بلکہ یہ کہ جب تم اس کا قرب پالو گے تو پھر کچھ قربانیاں کرنی پڑیں گی ، ان کے لئے تیار ہونا پڑے گا.آگے اللہ تعالیٰ مزید کھول کے فرماتا ہے کہ کون میرے بندے ہیں جن کو میں جواب دیتا ہوں.فرمایا وہ میرے بندے ہیں، وہ میرے عاشق ہیں جو میری بات پر لبیک کہتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ نے جو باتیں کی ہیں جن پر لبیک کہنا ہے وہ کیا ہیں.وہ حقوق اللہ ہیں، وہ حقوق العباد ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں، وہ بندوں کے حقوق ہیں.مستقل مزاجی سے اس کی عبادت بجالائیں.جن باتوں سے روکا ہے ان سے رک جائیں.جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے ان کی ادائیگی کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں سات سو حکم ہیں.جب رمضان میں قرآن کریم کا مطالعہ کریں گے، گہرائی سے مطالعہ کریں گے ، ترجمہ پڑھیں گے تو ان احکامات کا بھی پتہ لگ جائے گا.جب پتہ لگ جائے گا تو ان احکامات پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرنی ہے.اور نیک نیتی سے کی گئی کوشش پھر نیکیوں میں بڑھاتی بھی ہے.تو یہی سچے عاشق کی نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر لبیک کہنا، ان پر عمل کرنا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنا.

Page 765

760 $2004 خطبات مسرور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے جو ہر عاشق سے ایک جیسے معیار قربانی کا مطالبہ کرے.بلکہ ہر ایک کی استعداد کے مطابق ، ہر ایک کی طاقت کے مطابق قربانی کا حکم ہے، یا احکامات پر عمل کرنے کا حکم ہے.لیکن شرط یہی ہے کہ مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کی باتوں پر عمل کرنے اور ان میں ترقی کرنے کی کوشش کرنی ہے.پھر فرمایا کہ مجھ پر ایمان لائیں تا کہ ہدایت پائیں.اب کامل ایمان بھی یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی سچی اطاعت کی جائے.پھر یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ ایسی چیزیں ہیں جو ساتھ ساتھ چلتے ہیں.اس لئے اس آیت میں جو یہ لکھا ہے کہ میری بات پر لبیک کہیں وہ باتیں یہی ہیں کہ اعمال صالحہ بجالائیں، نیک اعمال بجالائیں.نیکیوں پر قائم ہوں اور پھر عبادت کرتے ہوئے دعائیں مانگیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے قریب ہوں.فرمایا کہ پھر میں تمہارا دوست بنوں گا.جیسا کہ فرماتا ہے.اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا﴾ (البقرة:258) که الله تعالیٰ ان لوگوں کا دوست ہوتا ہے جو ایمان لاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی یہ دوستی اور ایمان تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرے گا.اور پھر یہ کہ قرب عطا کرتا چلا جائے گا ، اس میں ترقی ہوتی چلی جائے گی.یہ قرب ایسا نہیں کہ ایک جگہ رکنے والا ہے.وہ دعاؤں کو بھی سنے گا.لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قرب اس کی قربت اور دعاؤں کی قبولیت کچھ شرائط کے ساتھ ہے.پہلی تو یہی کہ اس کا عبد بن کے رہنا ہے.خالص اس کا ہونا ہے.خالص ہو کر اس کی عبادت کرنی ہو گی.اس کو سب طاقتوں کا سر چشمہ سمجھنا ہوگا.پھر یہ کہ جب بھی مانگنا ہے اس سے مانگنا ہے.یہ نہیں کہ دل میں چھوٹے چھوٹے خدا بنائے ہوں.جس سے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہو اس کی جھوٹی سچی تعریفیں بھی شروع کر دیں.بعضوں کو افسروں سے فائدہ پہنچتا ہے تو وہ ان کو یا ان کے بچوں کو خوش کرنے کے لئے بعض دفعہ نماز میں تک ضائع کر دیتے ہیں اور ان کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں.تو فرمایا کہ یہ باتیں قرب حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں کہ جب بھی

Page 766

761 $2004 خطبات مسرور تم کوئی کام کر رہے ہو، دنیا داری کا بھی کام کر رہے ہو تو تمہاری یہ دنیا داری یہ تمہاری نمازوں میں روک نہ بنے ، تمہاری عبادتوں میں روک نہ بنے.تمہاری کا روباری مصروفیات تمہیں عبادتوں سے غافل کرنے والی نہ ہوں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ ان کی ملکہ سے کوئی میٹنگ تھی، گئے ہوئے تھے، تو کچھ دیر کے بعد انہوں نے بڑی بے چینی سے اپنی گھڑی دیکھنی شروع کر دی.آخر ملکہ کو پتہ لگا اس نے پوچھا.آپ نے کہا ایک خدا ہے جس کی میں عبادت کرتا ہوں، اور اب میرا اس کی عبادت کا وقت ہے.تو یہ جرات ہونی چاہئے کہ کوئی بڑے سے بڑا افسر یا بادشاہ بھی ہو، اس کے سامنے بالکل نہیں جھجکنا.اللہ تعالیٰ کی ہستی کے سامنے کوئی بھی ہستی نہیں ہے.یہ تو سب دنیاوی چیزیں ہیں.آخر اس کو اپنے عملہ کو بھی کہنا پڑا کہ آئندہ یہ خیال رکھنا کہ ان کے نمازوں کے وقت اگر آ ئیں تو خود ہی بتا دیا کرو.تو یہ جرات ہر احمدی کو دکھانی چاہئے.پھر یہ بھی شرط ہے کہ رسول کی اطاعت کرنی ہے، جو احکامات دیئے ہیں جو ارشادات فرمائے ہیں جس طرح ہمیں نصیحت کی ہے جو ہم سے توقعات رکھی ہیں جس طرح کام کر کے دکھائے ہیں اس طرح کرنا ہے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اس پر عمل کرنا ہوگا.پھر یہ بھی یقین رکھنا ہوگا اور ایک مومن کو یہ یقین ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ دعائیں سنتا ہے، اور سننے کی طاقت رکھتا ہے.اور اگر اپنے جذبات میں اور دعاؤں میں شدت پیدا ہونے کے باوجود دعا قبول نہیں ہوتی تو پھر یا تو ہمارے دعا مانگنے کے طریق میں کوئی کمی ہے یا ہماری دوسری کمزوریاں اور حقوق کی عدم ادائیگی آڑے آ گئی ہے.حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے،لوگوں کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے روکیں پڑ رہی ہیں.یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ کام یا مقصد جس کے لئے ہم دعا کر رہے ہیں ہمارے لئے فائدہ مند نہیں ہے.تو

Page 767

$2004 762 خطبات مسرور یہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ خود بھی فیصلہ کرتا ہے.یا اگر دو آدمیوں کے حق کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کون زیادہ حقدار ہے اس لئے بہتر حقدار کو حق مل جاتا ہے.لیکن نیک نیتی سے اور خالص ہو کر مانگی گئی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا.وہ کسی اور وقت کام آجاتی ہیں اس دنیا میں یا اگلے جہان میں.اس لئے دعائیں مانگنے میں کبھی تھکنا نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ کی مددصبر اور دعا کے ساتھ ہی ہے.اس لئے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے مانگتے چلے جانا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی دعائیں سنتا ہے جو بے صبری نہیں دکھاتے اور یہ نہیں کہتے کہ میں نے بہت دعائیں کر لیں اور اللہ تعالیٰ تو سنتا ہی نہیں.یہ کفر ہے، ایمان سے دور لے جانے والی باتیں ہیں.ایک مومن کو ہمیشہ اس سے بچنا چاہئے ایک احمدی کو ہمیشہ ان چیزوں سے بچنا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے دعاؤں کے قبول کرنے یا اس رنگ میں قبول نہ کرنے کے بارے میں جس طرح بندہ مانگتا ہے، فرمایا یہ تو دو دوستوں کی طرح کا معاملہ ہے.کبھی دوست اپنے دوست کی مان لیتا ہے کبھی دوست سے اپنی منواتا ہے.اسی طرح خدا معاملہ کرتا ہے.لیکن بظاہر جو ایک مومن کی دعا خدا رڈ کرتا ہے یہ بھی اصل میں اس کے فائدے کے لئے کر رہا ہوتا ہے.( یہ الفاظ میرے ہیں شاید آگے پیچھے اصل الفاظ ہوں ) بہر حال یہی مفہوم ہے.تو اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ: ” یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ میں بہت نزدیک ہوں.یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں.میرا وجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آسکتا ہے.اور نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہے“.بڑا آسان طریقہ ہے مجھے سمجھنے کا اور دلیل حاصل کرنے کا.” اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی سنتا ہوں اور اپنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتا ا

Page 768

$2004 763 خطبات مسرور ہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتا ہے بلکہ میرا قادر ہونا بھی بپایہ یقین تک پہنچتا ہے.جب اللہ تعالی سنتا ہے تو جواب بھی دیتا ہے نہ صرف اپنی ہستی کا یقین دلواتا ہے بلکہ یہ بھی یقین دلاتا ہے کہ وہ سب قدرتوں کا مالک ہے.لیکن شرط ہے کہ چاہئے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ میں ان کی آواز سنوں.اب یہ خدا ترسی اور تقویٰ کی حالت وہ اللہ تعالیٰ کو آواز سنوانے کے لئے پیدا کرنی ہو گی.نیز چاہئے کہ وہ مجھ پر ایمان لاویں اور قبل اس کے جو ان کو معرفت تامہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے.کیونکہ جو شخص ایمان لاتا ہے اس کو عرفان دیا جاتا ہے.66 (ايام الصلح صفحه 31 بحواله تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام جلد اول صفحه (649) | تو فرمایا تقویٰ ہو، خدا ترسی ہو اور اللہ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہو اور اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آواز سنوں گا.پھر یہ کہ ایمان ہو.میرے پہ ایسا ایمان ہو، یہ یقین ہو کہ خدا ہے اور خدا کی ذات کا یہ یقین پہلے دل میں ہونا چاہئے.معرفت تامہ سے یعنی گہرائی میں جا کر تجربہ سے خدا تعالیٰ کی ہر صفت کی پہچان ہونے سے پہلے یہ یقین ہو کہ خدا ہے.وہ جو آیا ہے کہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کہ غیب پر ایمان ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ غیب بھی خدا کا نام ہے.تو فرمایا کہ ہر تجربہ سے پہلے یہ یقین ہو کہ خدا ہے اور وہ بے انتہا صفات کا حامل ہے، سب قدرتیں اور طاقتیں رکھتا ہے.جب اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھو گے، اس کے آگے جھکو گے، اس سے دعائیں مانگو گے تو پھر تمہیں اللہ تعالیٰ کی مکمل پہچان ہوگی ، عرفان حاصل ہوگا، تجربہ ہوگا، قبولیت دعا کے نشانات دیکھو گے.تو یہ چیزیں اور معیار ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائے اور جو آپ اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے تھے.اس یقین کے ساتھ جب ہم دعائیں مانگیں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ سنے گا.یہ نہیں کہ منہ سے تو کہہ دیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین ہے اور ایمان ہے لیکن جو اس کے احکامات ہیں ان پر عمل نہ ہو.نمازیں سال کے سال صرف رمضان میں پڑھنے کی کوشش کی جارہی ہو یا کی

Page 769

$2004 764 خطبات مسرور جائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، بہت فضل ہے جماعت پر کہ دوسروں کے مقابلے میں جماعت کی ایک بڑی تعداد نمازیں ادا کرنے والی ہے، نمازیں پڑھنے والی ہے.لیکن باجماعت نمازوں کی طرف ابھی بہت زیادہ ضرورت ہے.اس میں ابھی بہت کمی ہے.تو یہ رمضان ہمیں ایک دفعہ پھر موقع دے رہا ہے کہ ہم خدا کے آگے جھکیں جس طرح جھکنے کا حق ہے.اس کی عبادت کریں، جس طرح عبادت کرنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کا یقیناً جواب دے گا.اور یہ عہد کریں کہ آئندہ ہم ان عبادتوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے.اگر یہ ہو جائے تو اس سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی سالوں میں ہونے والی ترقیات کو دنوں میں واقع ہوتے دیکھیں گے.اس لئے میں پھر یہی کہوں گا کہ اپنی عبادتوں کو زندہ کریں.دوسروں کے پاس دعائیں کروانے کی بجائے ( بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ اپنا اپنا ایک حلقہ بنایا ہوا ہے، وہاں دعائیں کروانے کے لئے جاتے ہیں، اور خود توجہ نہیں ہوتی ).خود اللہ تعالیٰ کی ذات کی قدرتوں کا تجربہ حاصل کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ : ” پیر بنیں.پیر پرست نہ بنیں“.یہاں یہ بھی بتا دوں کہ بعض رپورٹیں ایسی آتی ہیں، اطلاعیں ملتی رہتی ہیں، پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی بعض جگہ ربوہ میں بھی کہ بعض احمد یوں نے اپنے دعا گو بزرگ بنائے ہوئے ہیں.اور وہ بزرگ بھی میرے نزدیک نام نہاد ہیں جو پیسے لے کر یا ویسے تعویذ وغیرہ دیتے ہیں یا دعا کرتے ہیں کہ 20 دن کی دوائی لے جاؤ ، 20 دن کا پانی لے جاؤ یا تعویذ لے جاؤ.یہ سب فضولیات اور لغویات ہیں.میرے نزدیک تو وہ احمدی نہیں ہیں جو اس طرح تعویذ وغیرہ کرتے ہیں.ایسے لوگوں سے دعا کروانے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں جو مرضی کرتا رہوں ،لوگوں کے حق مارتا رہوں ، میں نے اپنے بزرگ سے دعا کر والی ہے اس لئے بخشا گیا، یا میرے کام ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ مومن کہلانا ہے تو میری عبادت کرو، اور تم کہتے ہو کہ پیر صاحب کی دعا ئیں ہمارے لئے کافی

Page 770

$2004 765 خطبات مسرور ہیں.یہ سب شیطانی خیالات ہیں ان سے بچیں.عورتوں میں خاص طور پر یہ بیماری زیادہ ہوتی ہے، جہاں جہاں بھی ہیں ہمارے ایشین (Asian) ملکوں میں اس طرح کا زیادہ ہوتا ہے یا جہاں جہاں بھی Asians اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہاں بھی بعض دفعہ ہو جاتا ہے.اس لئے ذیلی تنظیمیں اس بات کا جائزہ لیں اور ایسے جو بدعات پھیلانے والے ہیں اس کا سد باب کرنے کی کوشش کریں.اگر چند ایک بھی ایسی سوچ والے لوگ ہیں تو پھر اپنے ماحول پر اثر ڈالتے رہیں گے.نہ صرف ذیلی تنظیمیں بلکہ جماعتی نظام بھی جائزہ لے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ چند ایک بھی اگر لوگ ہوں گے تو اپنا اثر ڈالتے رہیں گے.اور شیطان تو حملے کی تاک میں رہتا ہے.اللہ تعالیٰ کی بات ماننے والے بننے کی بجائے اس طرح بعض شرک میں پڑنے والے ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے.لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ یہ بیماری چاہے چند ایک میں ہی ہو، جماعت کے اندر برداشت نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ تو یہ دعا سکھاتا ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک یہ دعا کرے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا.خلیفہ وقت بھی یہ دعا کرتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا.اور یہ پیر پرست طبقہ کہتا ہے کہ ہم جو مرضی عمل کریں ہمارے پیر صاحب کی دعاؤں سے ہم بخشے جائیں گے.انا للہ.یہ تو نعوذ باللہ عیسائیوں کے کفارہ والا معاملہ ہی آہستہ آہستہ بن جائے گا.وہی نظریہ پیدا ہوتا جائے گا.پس اس طرف چاہے یہ چھوٹے ماحول میں ہی ہو، بہت توجہ کی ضرورت ہے.ابھی سے اس کو دبانا ہوگا.اور ہر احمدی یہ عہد کرے کہ اس رمضان میں اپنے اندر انشاء اللہ تعالی انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.ہر احمدی یہ کوشش کرے اور ہر احمدی خودان دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے مزے چکھے بجائے اس کے کہ دوسروں کے پیچھے جائے.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا تو گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے.اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے

Page 771

$2004 766 خطبات مسرور زیادہ اس سے عافیت مطلوب کرنا محبوب ہے.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دعا اس ابتلا کے مقابلے پر جو آپکا ہے اور اس کے مقابلہ پر بھی جو ابھی نہ آیا ہو، نفع دیتی ہے.اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو.(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء في عقد التسبيح بالله.فرمایا کہ سب سے محبوب عافیت ہے.یعنی نیکی، پارسائی، بری باتوں سے رکنا.یہی چیزیں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہیں.اور دعاؤں میں جب ان نیکی کی راہوں کو اللہ تعالیٰ سے مانگو گے تو گزشتہ ابتلاؤں سے بھی حفاظت میں آنے کے سامان کرو گے اور آئندہ کے ابتلاؤں سے بھی بچتے رہو گے.پس یہ دعائیں کرنا بھی ایک مستقل عمل ہے جس سے رحمت کے دروازے کھلتے رہیں گے.اور ہم گزشتہ اور آئندہ آنے والی ابتلاؤں سے بھی محفوظ رہیں گے.رحمت اور فضل کے دروازوں کا مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آنے والوں سے بھی تعلق ہے.اس لئے مسجد میں آنے اور جانے کی دعا سکھائی گئی ہے جس میں فضل اور رحمت کے دروازے کھولنے کے لئے دعا مانگی گئی ہے تاکہ مسجدوں کے اندر بھی اور باہر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور برکتوں کا سایہ رہے.اور ہمارا کوئی فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے خلاف نہ ہو.اپنے دنیاوی دھندوں میں بھی یا دنیاوی کاروبار بھی کوئی آدمی کر رہا ہو گا تو خدا تعالیٰ اس کے عافیت طلب کرنے کی وجہ سے اس پر رحمت برسا رہا ہوگا.اس کی نمازوں کی وجہ سے اس کی دعاؤں کی وجہ سے ، اس پر رحمت برسا رہا ہوگا.اور یہ رحمت کے دروازے ہر وقت کھلے رہیں گے کیونکہ وہ دنیاوی کاموں میں بھی نیکی کو رائج کرنے والا ہوگا، نیک باتوں کو پھیلانے والا ہوگا اور اس کے لئے کوشش کر رہا ہوگا.تو یہی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا باعث بنتی ہیں.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے.جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کو جواب دوں ؟.کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو دوں؟ ،کون

Page 772

$2004 767 خطبات مسرور ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں.(ترمذى كتاب الدعوات باب ما جاء في عقد التسبيح بالله ) سیہ رمضان کے ساتھ کوئی شرط نہیں ہے یہاں تو رمضان کے علاوہ بات ہو رہی ہے کہ جب بھی کوئی بندہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو بخشتا بھی ہوں، میں اس کو دیتا بھی ہوں، اس کی باتوں کا جواب بھی دیتا ہوں.تو یہ رمضان تو اللہ تعالیٰ نے ایک موقع دیا ہے عبادتوں کی عادت ڈالنے کا.اس لئے اب ہر احمدی کو یہ عادت مستقل ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ہمیشہ ہم پر پڑتی رہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی تکالیف کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ فراخی اور آرام کے وقت بکثرت دعا کرے.(ترمذی کتاب الدعوات باب دعوة المسلم مستجابة ) پس یہ جومیں نے کہا کہ مستقل مزاجی سے عام حالات میں بھی توجہ پیدا ہونی چاہئے یہ حدیث بھی ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ صرف تکلیف اور ضرورت کے وقت ہی اللہ تعالیٰ کو نہیں پکارنا بلکہ مستقل اس کے آگے جھکے رہنا ہے.اس کو پکارتے رہو.اس کے احکامات پر عمل کرتے رہو تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتا تمہاری اس حالت میں تمہیں دیکھ کے تمہاری تکلیف دور کرنے کے لئے تمہاری طرف دوڑتا ہوا آئے گا.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں.جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس وقت اس کے ساتھ ہوں.اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا.اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے گا تو میں اس بندے کا ذکر اس سے بہتر محفل میں کروں گا.اگر وہ میری جانب ا یک بالشت بھر آئے گا تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا.اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا

Page 773

$2004 768 خطبات مسرور تو میں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا.اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا.(ترمذى كتاب الدعوات باب فى حسن الظن بالله عز وجل) پس ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تر رکھیں اور یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا ہر فعل اور ہر عمل اور اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے والا ہر قدم ایسا ہو جس سے اللہ تعالیٰ دوڑ کر ہمارے پاس آئے اور ہمیں اپنے پیار کی چادر میں لپیٹ لے.حضرت ابراہیم بن سعد ا اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذوالنون یعنی حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں جو دعا کی وہ یہ ہے کہ لا إله إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِيْنَ اس دعا کو جو بھی مسلمان کسی ابتلاء کے وقت کرے گا.اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول فرمائے گا.(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء في عقد التسبيح بالله ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات ( یہ جو حضرت یونس کی قوم کا واقعہ ہوا تھا یہ اس بارے میں ہے) فرد قرارداد جرم کو بھی رڈی کر دیتے ہیں.(ملفوظات جلد اول صفحه ۱۵۵ الحکم ۶ ارچ (۱۸۹۸ یعنی اگر کوئی فیصلہ ہو بھی گیا ہو تب بھی وہ بدلا جاتا ہے.پس صدقہ خیرات اور دعا بلاؤں کو دور کر دیتا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ: میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جولوگ قبل از نزول بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن پر رحم کرتا ہے اور عذاب الہی سے ان کو بچالیتا ہے.میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو.میں نُصْحَا لِلہ کہتا ہوں اپنے حالات پر غور کرو اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دعا میں لگ جانے کے لئے کہو.استغفار، عذاب الہی اور مصائب شدیدہ کے لئے سپر کا کام دیتا ہے.( یعنی ڈھال کا کام دیتا ہے ).قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ

Page 774

$2004 769 خطبات مسرور فرماتا ہے کہ مَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ﴾.اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الہی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو.( ملفوظات جلد اول صفحه ۱۳۴ الحكم ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ء) اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کر رہے ہیں.پھر ایک روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے.بڑا کریم اور رخی ہے جب بندہ اس کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے.تو وہ ان کو خالی اور نا کام واپس کرنے سے شرماتا ہے.یعنی صدق دل سے مانگی گئی جو دعا ہے اس کو رد نہیں کرتا اس کو قبول کر لیتا ہے.صلى الله.(ترمذی کتاب الدعوات باب في دعاء النبي ) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جو مانگیں صدق دل سے مانگنا چاہئے.گزشتہ گناہوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جائے اور آئندہ کے لئے نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے.اور پھر اس کے لئے کوشش بھی کی جائے تو اللہ تعالی مدد کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”جس طرح خدا تعالیٰ کی کتابوں میں نیک انسان اور بد انسان میں فرق کیا گیا ہے اور ان کے جدا جدا مقام ٹھہرائے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں ان دو انسانوں میں بھی فرق ہے جن میں سے ایک خدا تعالیٰ کو چشمہ فیض سمجھ کر بذریعہ حالی و قالی دعاؤں کے اس سے قوت اور امداد مانگتا اور دوسر اصرف اپنی تدبیر اور قوت پر بھروسہ کر کے دعا کو قابل مضحکہ سمجھتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے بے نیاز اور متکبرانہ حالت میں رہتا ہے.جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا اور اس سے حل مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچاوے“.یہاں شرط یہ لگائی کہ دعا کو کمال تک پہنچا دے.” خدا تعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے.اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اور قسم کی تسلی اور سکینت خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے“.اگر دعا قبول نہیں بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینت عطا ہو جاتی ہے.گو کام اس طرح نہیں ہوتا جس طرح اس کی خواہش ہو.” اور وہ ہرگز

Page 775

770 $2004 خطبات مسرور ہرگز نا مراد نہیں رہتا.اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے.ايام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحه 236-237) ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مجلس سے اٹھتے تو آپ دعا کرتے ( یہ بڑی جامع دعا ہے) اے میرے اللہ ! تو ہمیں اپنا خوف عطا کر، جسے تو ہمارے اور گناہوں کے درمیان روک بنا دے اور ہم سے تیری نافرمانی سرزد نہ ہو.اور ہمیں اطاعت کا وہ مقام عطا کر جس کی وجہ سے تو ہمیں جنت میں پہنچا دے اور اتنا یقین بخش جس سے دنیا کے مصائب تو ہم پر آسان کر دے.اے میرے اللہ ! ہمیں اپنے کانوں، اپنی آنکھوں ، اور اپنی طاقتوں سے زندگی بھر صحیح صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیں اس بھلائی کا وارث بنا.اور جو ہم پر ظلم کرے اس سے تو ہمارا انتقام لے.اور جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اس کے برخلاف ہماری مددفرما.اور دین میں کسی بھی ابتلاء کے آنے سے بچا.اور ایسا کر کہ دنیا ہمارا سب سے بڑا غم اور فکر نہ ہو اور نہ ہی دنیا ہمارا مبلغ علم ہو.( یعنی ہمارے علم کی پہنچ صرف دنیا تک ہی نہ رہے ) اور ایسے شخص کو ہم پر مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے اور مہربانی سے پیش نہ آئے.(ترمذى كتاب الدعوات باب في جامع الدعوات) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”حصول فضل کا اقرب طریق دعا ہے.اور دعا کے کامل لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رقت ہو ، اضطراب ہو اور گدازش ہو.جو دعا عاجزی اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے.اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.اور پھر اس کا علاج یہی ہے کہ دعا کرتار ہے، خواہ کیسی ہی بے دلی اور بے ذوقی ہولیکن یہ سیر نہ ہو.تکلف اور تصنع سے کرتا ہی رہے.اصلی اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے.بہت سے لوگ دعا کرتے ہیں اور ان کا دل سیر ہو جاتا ہے.اور وہ کہ اٹھتے ہیں کہ کچھ نہیں بنتا.مگر ہماری نصیحت یہ ہے کہ اس خاک پیزی میں ہی برکت ہے.یعنی خاک چھاننے میں برکت ہے.ایسی کوشش کرنے

Page 776

$2004 771 خطبات مسرور میں برکت ہے.” کیونکہ آخر گوہر مقصود اسی سے نکل آتا ہے.اور ایک دن آ جاتا ہے کہ جب اس کا وہ دل زبان کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے.اور پھر خود ہی وہ عاجزی اور رقت جو دعا کے لوازمات ہیں، پیدا ہو جاتے ہیں.جو رات کو اٹھتا ہے خواہ کتنی ہی عدم حضوری اور بے صبری ہو لیکن اگر وہ اس حالت میں بھی دعا کرتا ہے کہ الہی دل تیرے ہی قبضہ اور تصرف میں ہے تو اس کو صاف کر دے اور عین قبض کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے بسط چاہے تو اس قبض میں سے بسط نکل آئے گی اور رقت پیدا ہو جائے گی.یعنی دل کی جو گھٹی ہوئی کیفیت ہے وہ کھل جائے گی اور دعا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی.اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جو قبولیت کی گھڑی کہلاتا ہے.وہ دیکھے گا کہ اس وقت روح آستانہ الوہیت پر بہتی ہے.گویا ایک قطرہ ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے“.(الحكم جلد نمبر 7 نمبر 31 مورخه 24 اگست 1903ء صفحه 3 پھر آپ فرماتے ہیں: ” وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے.وہ فنا کرنے والی چیز ہے.وہ گداز کرنے والی آگ ہے.وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے.وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے.وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے“.(یعنی پانی کا طوفان ہے جو کشتی بن جاتا ہے جو بچانے والی ہے ).”ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے.اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے.مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں تھکتے نہیں.کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے.مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں ست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے.مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے.مبارک تم جبکہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پکھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینے میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے.اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنادیتی

Page 777

$2004 772 خطبات مسرور ہے.کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم ، حیا والا ، صادق و فادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے.پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا.دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو.خدا کے لئے ہار اختیار کر لو.اور شکست کو قبول کر لوتا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ.چھوٹی چھوٹی دنیاوی باتوں اور جھگڑوں سے بچو جو روز مرہ ہر ایک کے ساتھ لگے ہوتے ہیں.دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا.اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی.دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے.اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی.گویاوہ اور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں.مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے.تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا یہی وہ خوارق ہے“.توجب تبدیلی پیدا کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی نئی شان دکھاتا ہے.فرمایا خدا تو وہی ہے جو پہلے خدا ہے.خدا اب نہیں بدلا بلکہ تم لوگوں کی تبدیلی کی وجہ سے تمہارے ساتھ اس کا سلوک بدل گیا ہے.فرمایا: ” غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے.اور وہ ایک پانی ہے جواندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے.اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھائی ہے“.(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحه 222-228) | تو آخر میں نتیجہ یہ نکالا کہ یہ تمام دعائیں جو ہیں یہ اسی وقت دعاؤں کا رنگ رکھیں گی جب تم

Page 778

خطبات مسرور 773 نمازوں کی پابندی بھی کرو گے کیونکہ نماز میں یہ ساری باتیں آجاتی ہیں.$2004 اللہ کرے کہ ہمیں وہ عرفان حاصل ہو جو کہ خدا کے قریب تر کرنے والا ہو.اور ہماری دعاؤں میں وہ کیفیت پیدا ہو جس سے ہماری روح پکھل کر اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر بہہ جائے اور بہتی رہے.ہم نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرنے والے ہوں اور ہماری مسجد میں ہمیشہ نمازیوں سے بھری رہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دنوں میں بھری ہوئی ہیں تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پیار کو ہمیشہ جذب کرتے چلے جائیں.اب کچھ میں اس بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو میں نے گزشتہ جمعہ کو تحریک کی تھی یعنی یہاں کی مساجد کے بارے میں.ہارٹلے پول اور بریڈ فورڈ کی مساجد کے لئے یو.کے کی ذیلی تنظیموں کو توجہ دلائی تھی.الحمد للہ کہ انصار اللہ نے سب سے پہلے اطلاع دی کہ انہوں نے اتنے وعدے اکٹھے کر لئے ہیں اور آخری رپورٹ جو انہوں نے کل بھجوائی ہے اس کے مطابق تقریباً تین لاکھ پونڈ کے ان کے وعدے ہیں.اور سب سے پہلے مجلس انصار اللہ کی طرف سے وعدے اور وصولیوں کی رپورٹ بھی آئی ہے.انہوں نے کچھ وصولیاں بھی کی ہیں اور وہ بھی اچھی تعداد میں ہیں.ماشاء اللہ.الحمد للہ.انصار نے یہ ثابت کر دیا ہے ( باقی تنظیموں کو میں کہہ رہا ہوں ) کہ انہیں بوڑھا نہ سمجھیں، وہ جوانوں کے جوان ہیں.اور میرا خیال تھا کہ جمعہ پر توجہ دلاؤں گا کیونکہ کل تک باقی تنظیموں کی طرف سے رپورٹ نہیں تھی تو کل خدام الاحمدیہ کی طرف سے بھی رپورٹ ملی ہے.انہوں نے بھی 5لاکھ کا وعدہ کیا ہے.لیکن جس تفصیل سے انصار اللہ نے وعدے لینے کی کوشش کی ہے اس طرح نہیں بلکہ انہوں نے شاید اپنے لئے ایک ٹارگٹ مقرر کر لیا ہے اور وہ کہتے ہیں اتنی ہم وصولی کریں گے انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے.لیکن لجنہ کی طرف سے ابھی تک کوئی اطلاع نہیں آئی حالانکہ ہمیشہ یہ طریق رہا ہے کہ لجنہ تو چھلانگ مار کر آگے آنے والی ہیں.مجھے جو انفرادی طور پر، یہاں سے جب میں دفتر گیا ہوں تو

Page 779

$2004 774 خطبات مسرور وہاں ، جو وعدے ملے وہ سب سے پہلے خواتین کے وعدے ہی تھے اور عورتیں اپنے زیور بھی آکر انفرادی طور پر پیش کر رہی ہیں.لیکن بحیثیت تنظیم، لجنہ کی طرف سے ابھی تک کوئی وعدہ نہیں آیا اس لئے وہ بھی آگے بڑھیں ، چھلانگ لگا ئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ کبھی بھی مالی قربانیوں میں پیچھے نہیں رہی.اور مجھے امید ہے کہ اب بھی نہیں رہے گی.لگتا یہ ہے کہ زیادہ تفصیلی رپورٹ بنانے کی کوشش میں پڑی ہوئی ہیں.ابتدائی اطلاع کم از کم ان کو کرنی چاہئے تھی جو انہوں نے ابھی تک نہیں کی.میں نے پچھلی دفعہ بھی بتایا تھا کہ مسجد فضل بھی ہندوستان کی غریب خواتین کے چندے سے ہی بنی تھی تو اب تو آپ بہت بہتر پوزیشن میں ہیں.میرا تو خیال یہ ہے کہ یہاں یو.کے.کی لجنہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کسی بھی ایک اچھی مسجد کا خرچ خود بھی برداشت کر سکتی ہے.اللہ ان کو توفیق دے.لیکن یہ جو اتنی ساری رقمیں آ رہی ہیں.اس کو سن کر خاص طور پر میں بریڈ فورڈ والوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اب یہ نہ سمجھ لیں کہ ہمیں کافی مددمل گئی ہے اس لئے ریلیکس (Relax) ہو جائیں اور خود جو جماعت، ریجن یا شہر نے اپنی جو کوشش کرنی تھی جو انہوں نے اصول مقرر کیا تھا اس کے مطابق وہ کوشش بہر حال جاری رہنی چاہئے.اگر زائد رقم ہو بھی جاتی ہے تو آئندہ انشاء اللہ کسی اور مسجد کے کام آجائے گی.مسجد میں تو اب انشا اللہ تعالیٰ بنانی ہیں.ایک دفعہ مسجدیں بنانے کا کام شروع کیا ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ جاری رہے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہر شہر میں یہاں ہم مسجد بنا دیں.اور ایک اچھی مسجد بنادیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ یہ اظہار فرمایا تھا کہ اگر یورپ میں ہماری اڑھائی ہزار مسجدیں ہوں تو ہماری ترقی کی رفتار کئی گنا ہو سکتی ہے.تو اللہ کرے کہ جماعت کو جلد ایسی توفیق ملے کہ ہم اس تعداد میں مسجد میں یہاں بنائیں.رمضان میں ان سب لوگوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں جنہوں نے مساجد کے لئے قربانیاں کیں اور کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی تو فیقوں کو بڑھاتا چلا جائے.

Page 780

$2004 775 44 خطبات مسرور رمضان کا درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے 29 /اکتوبر ۲۰۰۴ء بمطابق 29 را خا ۱۳۸۳۰ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن.لندن ) اللہ تعالیٰ رمضان میں اپنی طرف بڑھنے والوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹتا ہے.....استغفار تو بہ سے بڑھ کر ہے ہ استغفار مد داور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے.

Page 781

خطبات مسرور $2004 776 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان کا تقریباً نصف گزر چکا ہے.اگلی جمعرات سے انشاء اللہ تعالیٰ آخری عشرہ شروع ہو جائے گا.اور اس آخری عشرے میں عموماً مساجد کی رونق زیادہ ہو جاتی ہے.لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، ہم ایک ترقی کرنے والی قوم ہیں ہماری خوشیاں اسی وقت دائمی خوشیاں کہلاسکتی ہیں، یا ہمیں اسی وقت کسی نیکی کو دیکھ کر دلی خوشی پہنچ سکتی ہے جب یہ نیکی دائمی ہو، ہمیشہ رہنے والی ہو.جو جوش و خروش آج کل نظر آتا ہے یہ ہمیشہ نظر آنے لگ جائے.تو بہر حال میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگلے جمعہ سے انشاء اللہ تعالیٰ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو جائے گا، بلکہ جمعرات سے ہی.اور اس میں عموماً مساجد میں گہما گہمی اور رونق اور حاضری مزید بڑھ جاتی ہے.اور اس کی کئی وجوہات بھی ہیں.ایک تو یہ کہ آخری عشرے میں ہر ایک کو خیال ہوتا ہے کہ آخری عشرہ ہے دعائیں کر کے فائدہ اٹھا لو اور اس لئے بھی کہ اس آخری عشرے میں آنحضرت مو نے لیلۃ القدر کی خوشخبری دی ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے ، اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے عموماً لوگ کیونکہ رمضان میں ہر ایک اٹھ رہا ہوتا ہے ان دنوں میں خاص طور پر روزہ کے لئے تو اٹھتے ہیں ، ساتھ تہجد کے لئے اٹھتے ہیں.نوافل کی ادائیگی بھی کرتے ہیں.اور پھر اسی برکت کی وجہ سے مسجدوں کا رخ بھی کرتے ہیں.پھر ان دنوں میں بڑی مساجد میں رونق بڑھنے کی ایک وجہ اس آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھنا بھی ہوتا ہے.غرض رمضان میں عموماً مسجدں میں کم نظر آنے والے

Page 782

$2004 777 خطبات مسرور جولوگ ہیں، جمعوں پر آنے والے یا عیدوں پر آنے والے، ان میں سے بھی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو بڑے ذوق شوق سے ان دنوں میں مسجد میں آرہے ہوتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ مومنوں کی جماعت کی نیکیوں میں بڑھنے کی دوڑ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش عارضی نہیں ہونی چاہئے.ان نیکیوں کو اور ان کوششوں کو اب انشاء اللہ تعالیٰ سب کو جاری رکھنے کی کوشش اور دعا کرنی چاہئے.جن کو اس رمضان میں یہ نیکیاں کرنے کی توفیق ملی.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے مہینہ کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے.(صحیح ابن خزيمة كتاب الصيام باب فضل شهر رمضان) رحمت حاصل کرنے کے پہلے دس دن بھی گزر گئے اور دوسرا عشرہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا عشرہ قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس میں اپنی طرف بڑھنے والوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹتا ہے.اس لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی اس مغفرت کی چادر میں ان دنوں میں لیٹے اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت ہوئی ہے، ہمیں موقع ملا ہے کہ اس سال پھر رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھا سکیں.اور یہ اسی کا فضل اور اسی کی رحمت ہے اور اسی کا انعام ہے کہ ہم اب دوسرے عشرے سے گزر رہے ہیں.اس میں جتنی زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے اس کے آگے جھک کر ، اس سے بخشش مانگتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی کوشش کریں گے ، اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں گے، اتنی زیادہ اس کی مغفرت ہمیں اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جائے گی.اتنے زیادہ اس کی رحمت کے دروازے ہم پر وا ہوتے چلے جائیں گے، ہم پر کھلتے چلے جائیں گے.جتنے زیادہ ہم نیکیوں پر قائم ہوتے چلے جائیں گے، اتنا ہی زیادہ ہمیں نیکیوں پر قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرماتا چلا جائے گا.اور جتنی زیادہ ہمیں نیکیوں پر قائم ہونے کی طاقت پیدا ہوتی چلی جائے گی اور پھر جب اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہوئے اس کی مغفرت طلب کرتے ہوئے آخری عشرے میں ہم داخل ہوں گے تو فرمایا یہ تمہیں آگ سے نجات دلانے کا

Page 783

778 $2004 خطبات مسرور باعث بن جائے گا.تم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو جاؤ گے.اور اس وجہ سے آئندہ نیکیوں میں ترقی کرنے والے ہو جاؤ گے اور بدیوں کو ترک کرنے والے ہو جاؤ گے.لیکن شرط یہ ہے کہ نیک نیتی سے استغفار کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”استغفار اور تو بہ دو چیزیں ہیں.ایک وجہ سے استغفار کو تو بہ پر تقدم حاصل ہے.یعنی استغفار تو بہ سے بڑھ کر ہے کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے.اور تو بہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے.عادت اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا.اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی.جس کا نام تُوبُوا إِلَيْهِ ہے اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے.غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمد ادچا ہے.سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا کیا کر سکے گا.توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے.اگر استغفارنہ ہو تو یقیناً یا درکھو کہ تو بہ کی قوت مرجاتی ہے.پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر تو بہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہوگا يُمَتِّعُكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى اَجَلٍ مُّسَمًّى (هود: 3) یعنی ایک مدت تک تمہیں اللہ تعالیٰ بہترین سامان معیشت عطا کرتا رہے گا." سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور تو بہ کرو گے تو اپنے مراتب پالو گے.ہر ایک حس کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ.مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے".(ملفوظات جلد دوم صفحه 69-68) تو یہ ہے استغفار کی اصل حقیقت جو ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے سمجھائی.پس حدیث میں جو آیا ہے کہ درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے ، یہ مغفرت تبھی ہوگی جب اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں گے.اور جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت مل گئی ، بخشش کے سامان ہونے شروع ہو گئے، وہ راضی ہو گیا تو وہ مرتبے بھی مل جائیں گے،

Page 784

$2004 779 مسرور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی ہر ایک کو اس کی استعدادوں کے مطابق مل جائے گا.کیونکہ ہر ایک میں کوئی چیز پانے کی کوئی چیز حاصل کرنے کی ایک طاقت ہوتی ہے تو ہر ایک کو اس کے مطابق ہی ترقی ملتی ہے اور استغفار کرنے سے وہ ترقی مل جاتی ہے.بہر حال اس کے لئے ہر ایک کو کوشش کرتے رہنا چاہئے.اور جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ مومنوں کی عبادات میں تیزی رمضان کے آخری عشرے میں لیلۃ القدر پانے کے لئے بھی آتی ہے.اور جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے، آخری عشرہ جہنم سے نجات کا بھی باعث بنتا ہے.اس لئے بھی عبادات کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.اور پھر ان کے حصول کے لئے ہر کوئی اپنی اپنی طاقتوں اور استعدادوں کے مطابق کوشش بھی کرتا رہتا ہے.لیلۃ القدر کا مضمون ایک بڑا گہرا اور وسیع مضمون ہے.اس کے بارے میں بھی کچھ وضاحت کروں گا.لیکن اس سے پہلے کیونکہ آخری عشرے میں اعتکاف بھی بیٹھا جاتا ہے، اس لئے اعتکاف کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.اعتکاف کے ضمن میں کچھ باتیں اس کے مسائل کے بارے میں اور کچھ باتیں انتظامی لحاظ سے ہیں.کچھ بیٹھنے والوں کے لئے ہیں اور کچھ دوسرے لوگوں کے لئے ہیں جن کا ہر احمدی کو خیال رکھنا چاہئے.پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ اعتکاف رمضان کی ایک نفلی عبادت ہے.اس لئے جگہ کی مناسبت سے، اس کی گنجائش کے مطابق جو مرکزی مساجد ہیں ان میں یا جو بھی اپنے شہر کی مسجد ہو اس میں بھی حالات کے مطابق اعتکاف بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے.بعض لوگوں کا زور ہوتا ہے کہ ہم نے ضرور اعتکاف بیٹھنا ہے اور فلاں مسجد میں ہی ضرور بیٹھنا ہے.مثلاً ربوہ میں مسجد مبارک میں یا مسجد اقصیٰ میں بیٹھنا ہے یا یہاں مسجد فضل میں بیٹھنا ہے یا مسجد بیت الفتوح میں بیٹھنا ہے.اور پھر اس کے لئے زور بھی دیا جاتا ہے، خط پہ خط لکھے جاتے ہیں اور سفارش کرنے کی درخواستیں کی جاتی ہیں.تو یہ طریق غلط ہے.دعا کی قبولیت تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو کہیں بھی ہو سکتی ہے.یہ تو نہیں فرمایا کہ جو اعتکاف بیٹھیں گے ان کو لیلۃ القدر حاصل ہوگی اور باقیوں کو نہیں ہوگی.کسی خاص جگہ سے تو

Page 785

$2004 780 خطبات مسرور مخصوص نہیں ہے ہاں بعض جگہوں کی ایک اہمیت ہے اور ان کے قرب کی وجہ سے بعض دفعہ جذبات میں خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.لیکن یہ سوچ بہر حال غلط ہے کہ ہم نے فلاں جگہ ضرور بیٹھنا ہے.بعض دفعہ لوگوں کو صرف یہ خیال ہوتا ہے کہ پچھلے سال فلاں بیٹھا تھا اس لئے اس سال ہمیں باری دی جائے.یا اس سال ہم نے ضرور بیٹھنا ہے.یہ دیکھا دیکھی والی بات ہو جاتی ہے.نیکیوں میں بڑھنے والی بات نہیں رہتی.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ہر رمضان میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، ایک رمضان میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد آپ اپنے خیمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ نے اعتکاف بیٹھنے کی اجازت مانگی تو آپ نے ان کو اجازت دے دی.انہوں نے بھی اعتکاف کے لئے خیمہ لگالیا حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ کے اعتکاف کرنے کا سنا تو انہوں نے بھی اعتکاف کے لئے خیمہ لگا لیا.حضرت زینب نے یہ خبر سنی تو انہوں نے بھی اعتکاف کے لئے خیمہ لگا لیا.رسول اللہ اللہ نے جب اگلی صبح دیکھا تو چار خیمے لگے ہوئے تھے.اس پر آپ ﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ اس پر آپ کو امہات المومنین کا حال بتایا گیا کہ ہر ایک نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی خیمہ لگا لیا ہے، اس لحاظ سے کہ آنحضرت ﷺ کا قرب حاصل ہو جائے گا ) اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ ان کو ایسا کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا ہے.کیا نیکی نے؟ ان خیموں کو اٹھا لومیں ان کو نہ دیکھوں.چنانچہ وہ خیمے اکھاڑ دیئے گئے ، پھر آنحضورﷺ نے اس رمضان میں اعتکاف نہ کیا.اپنا خیمہ بھی اٹھا لیا.البتہ اس سال ) آپ نے ( روایت کے مطابق آخری عشرہ شوال میں اعتکاف کیا.(بخاری کتاب الاعتكاف ـ باب اعتکاف فی شوال ) یہ دیکھا دیکھی والی نیکیاں بدعات بن جاتی ہیں.آپ برداشت نہ کر سکتے تھے کہ بدعات پھیلیں.نیکیوں کی خواہش تو دل سے پھوٹنی چاہئے.اس کا اظہار اس طرح ہو کہ لگے کہ نیکی کی خواہش دل سے نکل رہی ہے.یہ نہ ہو کہ لگ رہا ہو دیکھا دیکھی سب کام ہو رہے ہیں.امہات

Page 786

$2004 781 خطبات مسرور المومنین بھی یقینا نیکی کی وجہ سے ہی اعتکاف بیٹھی ہوں گی کہ آنحضرت ﷺ کے قرب میں ان.برکات سے ہم بھی حصہ لے لیں جو ان دنوں میں ہونی ہیں.لیکن آپ ﷺ کو یہ برداشت نہ تھا کہ کسی نیکی سے دکھاوے کا ذرا سا بھی اظہار ہوتا ہو.ذرا سا بھی شبہ ہوتا ہو.چنانچہ آپ نے سب کے خیمے اکھڑ وادیئے.پھر آپ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اعتکاف کس طرح بیٹھنا چاہئے ، بیٹھنے والوں اور دوسروں کے لئے کیا کیا پابندیاں ہیں روایت میں آتا ہے کہ ”آپ نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا ، آپ کے لئے کھجور کی خشک شاخوں کا حجرہ بنایا گیا، ایک دن آپ نے باہر جھانکتے ہوئے فرمایا، نمازی اپنے رب سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سنانے کے لئے قراءت بالجبر نہ کرو.“ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحه 67- مطبوعه بيروت.یعنی مسجد میں اور بھی لوگ اعتکاف بیٹھے ہوں گے اس لئے فرمایا معتکف اپنے اللہ سے رازو نیا ز کر رہا ہوتا ہے، دعائیں کر رہا ہوتا ہے.قرآن شریف بھی اگر تم نماز میں پڑھ رہے ہو یا ویسے تلاوت کر رہے ہو تو اونچی آواز میں نہ کرو تا کہ دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں.ہلکی آواز میں تلاوت کرنی چاہئے.سوائے اس کے کہ اب مثلاً جماعتی نظام کے تحت بعض مساجد میں خاص وقت کے لئے درسوں کا انتظام ہوتا ہے.وہ ایک جماعتی نظام کے تحت ہے اس کے علاوہ ہر ایک معتکف کو نہیں چاہئے کہ اونچی آواز میں تلاوت بھی کرے یا نماز ہی پڑھے.کیونکہ اس طرح دوسرے ڈسٹرب ہوتے ہیں.تو یہ ہیں احتیاطیں جو آنحضرت ﷺ نے فرما ئیں.کہاں یہ احتیاطیں اور کہاں اب یہ حال ہے کہ بعض دفعہ پہلے ربوہ میں بھی ہوتا تھا لیکن دوسرے شہروں میں ابھی بھی باہر ہوتا ہے.شاید یہاں بھی یہی صورت حال ہو.معتکف کے لئے بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے.کہ وہ اپنی عبادت میں مصروف ہوتا ہے پردہ کے لئے ایک چادر ہی ٹانگی ہوتی ہے نا.پردہ کے پیچھے سے ایک

Page 787

$2004 782 خطبات مسرور ہاتھ اندر داخل ہوتا ہے جس میں مٹھائی اور ساتھ پر چی ہوتی ہے کہ میرے لئے دعا کرو یا نمازی سجدے میں پڑا ہوا ہے اوپر سے پر دہ خالی ہوتا ہے تو اوپر سے کاغذ آ کر اس کے اوپر گر جاتا ہے (ساتھ نام ہوتا ہے ) کہ میرے لئے دعا کرو.یا ایک پر اسرار آواز پردے کے پیچھے سے آتی ہے آہستہ سے کہ میں فلاں ہوں میرے لئے دعا کرو.یہ سب غلط طریقے ہیں.پھر شام کو افطاریوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.افطاریاں بڑی بڑی آتی ہیں ٹرے لگ کے ، بھر کے، جو معتکف تو کھا نہیں سکتا لیکن مسجد میں ایک شور بھی پڑ جاتا ہے اور گند بھی ہورہا ہوتا ہے.اور پھر جولوگ افطاریاں بھیج رہے ہوتے ہیں.بعض بڑے فخر سے بتاتے بھی ہیں کہ آج میں نے افطاری کا انتظام کیا ہوا تھا، کیسی تھی؟ کیا تھا؟ یاد دوسروں کو بتارہے ہیں کہ یہ کچھ تھا.میری افطاری بڑی پسند کی گئی.پھر اگلے دن دوسرا شخص اس سے بڑھ کر افطاری کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہے.تو یہ سب فخر و مباہات کے زمرے میں چیزیں آتی ہیں.بجائے اس کے کہ خدمت کی جائے یہ دکھاوے کی چیزیں بن جاتی ہیں.اس لئے یا تو اعتکاف بیٹھنے والا ، اپنے گھر سے سحری اور افطاری منگوائے یا جماعتی نظام کے تحت مہیا ہو.ناموں کے ساتھ ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ افطاریاں آنی غلط طریق کار ہے.یہ کہیں بھی جماعت کی مساجد میں نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ اس سے آگے اور بدعتیں بھی پھیلتی چلی جائیں گی.ربوہ میں بھی دارالضیافت سے، جو مرکزی مساجد میں بیٹھے ہوتے ہیں ان کے لئے اور میرا خیال ہے دوسری جگہوں پر بھی.(اگر نہیں ہے تو جانی چاہئیں ) افطاری وسحری وہیں سے تیار ہو کر جاتی ہے اور سارے ایک جگہ بیٹھ کے کھا لیتے ہیں.پھر بعض لوگ اعتکاف بیٹھ کر بھی کچھ وقت کے لئے دنیا داری کے کام کر لیتے ہیں.مثلاً بیٹے کو کہ دیا، یا اپنے کام کرنے والے کارندے کو کہہ دیا کہ کام کی رپورٹ فلاں وقت مجھ کو دے جایا کرو.کاروباری مشورے لینے ہوں تو فلاں وقت آجایا کرو کا روباری مشورے دیا کروں گا.یہ طریق بھی غلط ہے.سوائے اشد مجبوری کے یہ کام نہیں ہونا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 788

$2004 783 خطبات مسرور والسلام سے اس بارے میں سوال ہوا کہ آدمی جب اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کا روبار سے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں ؟.آپ نے فرمایا کہ سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لئے اور حوائج ضروریہ کے واسطے باہر جاسکتا ہے.فرمایا کہ سخت ضرورت کے تحت.یہ نہیں ہے کہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ روزانہ کوئی وقت مقرر کر لیا، فلاں وقت آجایا کرو اور بیٹھ کر کاروباری باتیں ہو جایا کریں گی.اگر اتفاق سے کوئی ایسی صورت پیش آگئی ہے کسی سرکاری کاغذ پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا کسی ضروری معاہدے پر دستخط کرنے ہیں ، تاریخ گزر رہی ہے یا اور کوئی ضروری کاغذ ہے، ایسے کام تو ہو سکتے ہیں.لیکن ہر وقت ، روزانہ نہیں.(بدر 21/ فروری 1907ء صفحہ5) یہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بیمار کی عیادت کے لئے جاسکتے ہیں.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نہیں نکلنا چاہئے.یہ بھی عین آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے مطابق ہے.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیمار پرسی کے لئے جاتے اور آپ اعتکاف میں ہوتے.پس آپ قیام کئے بغیر اس کا حال پوچھتے.“ (ابو داؤد ـ كتاب الصيام باب المعتكف يعود المريض.پھر اسی طرح ابن عیسی کی ایک ایسی ہی روایت ہے.تو تیمار داری جائز ہے لیکن کھڑے کھڑے گئے اور آگئے.یہ نہیں کہ وہاں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنا شروع کر دیا یا باتیں بھی شروع ہو گئیں.اور یہ بھی اس صورت میں ہے (وہاں مدینے میں بڑے قریب قریب گھر بھی تھے ) کہ قریب گھر ہوں اور کسی خاص بیمار کو آپ نے پوچھنا ہو، اگر ہر بیمار کے لئے اور ہر قریبی کے لئے ، بہت سارے تعلق والے ہوتے ہیں آپ جانے لگ جائیں تو پھر مشکل ہو جائے گا اور یہاں فاصلے بھی دور ہیں، مثلاً جائیں تو آنے جانے میں ہمیں دو گھنٹے لگ جائیں.اور اگر ٹریفک میں پھنس جائیں تو اور زیادہ دیر لگ جائے گی.یہ قریب کے گھروں میں پیدل جہاں تک جاسکیں اس کی اجازت ہے، ویسے بھی جانے کے لئے جو جماعتی نظام ہے وہاں سے اجازت لینی ضروری ہے.

Page 789

خطبات مسرور 784 یہ میں باتیں اس لئے کر رہا ہوں کہ بعض لوگ اس قسم کے سوال بھیجتے ہیں.$2004 ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں تھے.میں ان کی ملاقات کو رات کے وقت گئی.اور میں نے آپ سے باتیں کیں جب میں اٹھی اور لوٹی تو آپ سبھی میرے ساتھ اٹھے.حضرت صفیہ کا گھر ان دنوں اسامہ بن زید کے مکانوں میں تھا.راستے میں انصاری راہ میں ملے.انہوں نے جب آپ کو دیکھا تو تیز تیز چلنے لگے.آپ نے ان انصاریوں کو ) فرمایا کہ اپنی چال سے چلو.یہ صفیہ بنت حیی ہے.ان دونوں نے یہ سن کر کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ ! ہمارا ہرگز ایسا گمان آپ کے بارے میں نہیں ہوسکتا.آپ نے فرمایا: نہیں ، شیطان خون کی طرح آدمی کی ہر رگ میں حرکت کرتا ہے.مجھے خوف ہوا کہیں شیطان تمہارے دل میں بری بات نہ ڈال دے.(ابو داؤد کتاب الصيام باب المعتكف يدخل البيت لحاجته) تو ایک تو آپ نے اس میں شیطانی وسوسے کو دور کرنے کی کوشش فرمائی.بتا دیا کہ یہ حضرت صفیہ ہیں، ازواج مطہرات میں سے ہیں.دوسرے یہ کہ اعتکاف کی حالت میں مسجد سے باہر کچھ دور تک چلے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے.بلکہ اگر مسجد میں حوائج ضروریہ کا انتظام نہیں ہے، غسل خانوں وغیرہ کی سہولت نہیں ہے تو اگر گھر قریب ہے تو وہاں بھی جایا جا سکتا ہے.آج کل تو ہر مسجد کے ساتھ انتظام موجود ہے اس لئے کوئی ایسی دقت نہیں ہے.لیکن پھر بھی کچھ وقت کے لئے مسجد کے صحن میں یا باہر ٹہلنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجلس میں بیٹھے تھے، خواجہ کمال دین صاحب اور ڈاکٹر عباداللہ صاحب ان دنوں میں اعتکاف بیٹھے تھے تو آپ نے ان کو فرمایا کہ: اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ ( مسجد کی ) چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں.کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے.وہاں تو ہیٹنگ (Heating) کا سسٹم نہیں ہوتا تھا.سردیوں میں لوگ دھوپ میں بیٹھتے ہیں، پتہ ہے ہر ایک کو اور

Page 790

$2004 785 خطبات مسرور ضروری بات کر سکتے ہیں.ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے.اور یوں تو ہر ایک کام ( مومن کا ) عبادت ہی ہوتا ہے." (ملفوظات جلد دوم صفحه 588,587 - الحكم 2 جنوری (1903) تو مومن بن کے رہیں تو کوئی ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا.الله حضرت عائشہؓ سے مروی کہ رسول اللہ ہے جب اعتکاف فرماتے تو آپ سر میرے قریب کر دیتے تو میں آپ کو کنگھی کر دیتی اور آپ گھر صرف حوائج ضروریہ کے لئے آتے.“ (ابو دائود كتاب الصيام - باب المعتكف يدخل البيت لحاجته ) تو بعض لوگ اتنے سخت ہوتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ اعتکاف میں اگر عورت کا ، بیوی کا ہاتھ بھی لگ جائے تو پتہ نہیں کتنا بڑا گناہ ہو جائے گا.اور دوسرے یہ کہ حالت ایسی بنالی جائے ، ایسا بگڑا ہوا حلیہ ہو کہ چہرے پر جب تک سنجیدگی طاری نہ ہو، حالت بھی بُری نہ ہو اس وقت تک لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ دوسروں کو پتہ نہیں لگ سکتا کہ یہ آدمی عبادت کر رہا ہے.تو یہ غلط طریق کار ہے.تو یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اعتکاف میں اپنی حالت بھی سنوار کے رکھنی چاہئے اور تیار ہو کے رہنا چاہئے.اور دوسرے یہ کہ بیوی یا کسی محرم رشتے دار سے اگر آپ سر پر تیل لگوا لیتے ہیں یا کنگھی کروا لیتے ہیں اس وقت جب وہ مسجد میں آیا ہو تو کوئی ایسی بات نہیں ہے.رمضان کے آخری عشرے میں آنحضرت مے کی عبادتوں کے کیا نظارے ہوتے تھے.آپ کی تو عام دنوں کی عبادتیں بھی ایسی ہوتی تھیں کہ خیال آتا ہے کہ اس میں اور زیادہ کیا اضافہ ہوتا ہو گا.لیکن آپ رمضان کے آخری عشرے میں اس میں بھی انتہا کر دیا کرتے تھے.حضرت عائشہ صلى الله سے مروی ہے کہ جب رمضان میں سے ایک عشرہ باقی رہ جاتا تو آنحضور ﷺے کمر کس لیتے اور اپنے اہل سے ان دنوں میں بالکل علیحدہ ہو جاتے اور مسجد میں چلے جاتے اور چوبیس گھنٹے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے.تو یہ آخری عشرہ چند دن تک ہمارے پر بھی اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آنے والا ہے

Page 791

$2004 786 مسرور انشاء اللہ.ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ان دنوں میں اپنی عبادتوں کو مزید سجائیں اور ان کو ترقی دیں.استغفار اور عبادات کی طرف توجہ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں.اس آخری عشرے میں جو لیلۃ القدر آتی ہے اس کو پانے والے ہوں اور یہ عہد کریں کہ جن عبادتوں کی عادت ان دنوں میں ہمیں پڑ گئی ہے اس کو ہم ہمیشہ قائم رکھنے والے ہوں گے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ " جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر کی رات قیام کیا اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے.“ (بخارى كتاب فضل ليلة القدر ـ باب فضل ليلة القدر ) اب یہاں دیکھیں روزے رکھنا ، اور لیلۃ القدر کی رات کا قیام یعنی لیلۃ القدر والی رات میں عبادت.ان دونوں کے ساتھ شرط ہے کہ ایک تو ایمان کی حالت میں ہو اور مومن ہوا اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے ہو.مومن وہ ہے جو ایمان کی تمام شرائط پوری کرتا ہے.صرف زبان کا اقرار نہیں ہے.اب شرائط کیا ہیں؟.قرآن کریم میں متعدد شرائط کا ذکر ہے.سب سے بڑی بات اللہ پر ایمان ہے.مومن تو وہی ہے جو اللہ پر ایمان لائے.اس کی مثال دے دیتے ہیں.یہی فرمایا کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ.(الانفال: 3) یعنی مومن تو صرف وہی ہیں جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں.تو جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا وہ کبھی دوسرے کا حق مارنے کا سوچے گا بھی نہیں.وہ کبھی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سوچے گا بھی نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے معاشرے میں ہر ایک سے بنا کے سنوار کے رکھو.ہمسایہ سے حسن سلوک کرو، اپنے وعدے پورے کرو، دوسروں کے لئے قربانی دو، اور اس طرح

Page 792

$2004 787 خطبات مسرور کے بے شمار حکم ہیں.تو جب یہ چیزیں ہوں گی تبھی ایمان کی حالت ہوگی اور تبھی اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دل میں ہوگا.یا اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے یہ سب کام ہورہے ہوں گے.تو عبادتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اپنا محاسبہ کرنے، صبح شام یہ جائزہ لینے کہ میں نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا ہے یا نہیں ، اور تقویٰ سے رات بسر کی ہے یا نہیں ، جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.جب ایسی حالت ہوگی تو فرمایا کہ ایسے لوگوں کے روزے بھی قبول ہوں گے اور لیلتہ القدر کی برکتیں بھی حاصل ہوں گی.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ یہ لوگ ہیں جو اجر عظیم حاصل کرنے والے ہیں.پھر ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ پستہ لگے کہ لیلۃ القدر کی راتیں ہیں کون سی؟ کون سی وہ راتیں ہیں جب ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے حصہ پاسکتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے.ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو.(بخاری کتاب فضل ليلة القدر باب تحرى ليلة القدر في الوتر من العشر الاواخر) یعنی تئیسویں، پچیسویں ستائیسویں وغیرہ راتوں میں تلاش کرو.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے متعد دصحابہ کرام کو رویا میں رمضان کی آخری سات راتوں میں لیلتہ القدر دکھائی گئی.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.میں دیکھتا ہوں تمہاری خوابوں میں رمضان کی آخری سات راتوں میں لیلۃ القدر کے ہونے میں موافقت پائی جاتی ہے.یعنی ان سب میں تقریباً یہی بات نظر آ رہی ہے پس تم میں سے جو بھی اس کو تلاش کرنا چاہے وہ اسے رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرے“.(بخارى كتاب فضل ليلة القدر ـ باب فضل ليلة القدر ) تو بہر حال آخری عشرہ یا سات راتیں مختلف روایتوں میں آیا ہے.پھر ایک روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک بار میں نے

Page 793

788 $2004 خطبات مسرور عرض کی.اے اللہ کے نبی اگر مجھے لیلۃ القدر میسر آ جائے تو میں کیا دعا مانگوں.آپ نے فرمایا لیلتہ القدر نصیب ہونے پر یہ دعا کرنا کہ اللّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.یعنی اے اللہ تو بہت زیادہ درگزر کرنے والا ہے اور درگز کو پسند کرتا ہے.پس مجھ سے درگز رفرما.“ (مسند احمد بن حنبل باقی مسند الانصار ) تو یہ دعا آنحضرت ﷺ نے سکھائی ہے.لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اور دعا ئیں نہیں کرنی چاہئیں.وہ بھی کریں لیکن اگر اس حدیث کو اوپر جو میں نے پہلے حدیث بیان کی ہے اس کے ساتھ ملائیں تو مزید بات کھلتی ہے کہ ایمان اور محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر ملے تو گناہ بخشے گئے.اب جب ایک مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہے کہ اے خدا! اس سارے رمضان میں اپنے گناہوں اور زیادتیوں کا میں جائزہ لیتا رہا ہوں اور اب میں عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کوشش کروں گا کہ یہ غلطیاں اور زیادتیاں مجھ سے نہ ہوں.تو معاف کرنے والا ہے.تو درگز رکو، معاف کرنے کو بخشش کو پسند کرتا ہے، میرے گناہ بخش اور میری زیادتیوں سے درگزر فرما.تو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ استغفار اور گنا ہوں سے معافی جو ہے تو بہ قبول ہونے میں مددگار ہوتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے انسان پھر ایسا نیکیوں پر قائم ہونے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کی مددفرماتا ہے.تو وہ لوگ جو اس طرح دعا مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے معیار بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.تبھی تو عفو اور درگزر کا واسطہ دے کے اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کی نیک نیتی سے مانگی ہوئی دعاؤں کو اپنے وعدوں کے مطابق قبول بھی کرتا ہے.اسے نیکیوں میں بڑھاتا بھی ہے.تو یہ ساری چیزیں جو عفو، درگزر ہے یا معاف کرنا ہے، استغفار ہے، یہ کوئی چھوٹی دعا نہیں ہے، بہت بڑی دعا ہے.اگر آدمی اپنا پورا محاسبہ کرتے ہوئے مانگے تو ، بہت ساری برائیوں کو چھوڑے گا تو اللہ کے پاس بھی جائے گا تاکہ بخشش کے سامان پیدا.

Page 794

789 $2004 خطبات مسرور ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس احساس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر اس سے عفو اور بخشش کے طلبگار ہوں.پھر جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور ہمیں یہ علم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا ہے لیلۃ القدر کے صرف اتنے ہی معنے نہیں ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں چند راتوں میں سے ایک رات آگئی اور اس میں دعائیں کرلی جائیں اور بس.بلکہ اس کے اور بھی بہت وسیع معنے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ ایک لیلۃ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصہ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالی تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو میں اس کو قبول کروں لیکن ایک معنے اس کے اور ہیں جس سے بدقسمتی سے علماء مخالف اور منکر ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو ایسی رات میں اتارا ہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ ایک مستعد مصلح کی خواہاں تھی.خدا تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جبکہ اس نے فرمایا مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنَ ﴾ (الذاریات: (57) پھر جب انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ تاریکی ہی میں پڑا رہے.ایسے زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیدا ہوس إِنَّا أَنزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ (الـقـدر :2) اس زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت ﷺ کی ایک اور دلیل ہے.(الحكم جلد 10 نمبر 27 مورخه 31 جولائی 1906ء صفحه (4) فرمایا کہ لیلۃ القدر یہی نہیں ہے جو آخری عشرہ رمضان میں ایک رات آتی ہے.بلکہ اس کے اور بھی معنے ہیں اور وہ یہ کہ جب زمانہ دنیا داری کے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے اور شرک انتہا کو پہنچ جاتا ہے.بہت سے لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسی حالت میں اپنی مخلوق کو اس گند سے نکالنے کے لئے کسی مصلح نبی ، یارسول کو بھیجتا ہے.اور یہ جو برائیوں میں ڈوبنے کا زمانہ ہے یہ بھی فرمایا کہ تاریک رات کی طرح ہی ہے تو فرمایا کہ وہ بھی ایک تاریک زمانہ تھا جب شرک عام تھا لوگ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے تھے اس وقت پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا اور دنیا کو اس کی

Page 795

$2004 790 خطبات مسرور تاریکی اور اندھیرے سے نکالنے کے لئے اپنی پاک کتاب قرآن کریم آنحضرت ﷺ پر نازل فرمائی.جو آخری شرعی کتاب ہے.آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک اور تاریک زمانہ آنا تھا.ایک ہزار سال کا عرصہ جس کے بارے میں جو نیک مفکر مسلمان تھے کہ اسلام کا نام ہی باقی رہ گیا ہے اور کوئی عمل باقی نہیں رہا.پھر اللہ تعالیٰ کی سنت اور وعدوں کے مطابق جس کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی حضرت مسیح موعود کا ظہور ہونا تھا اور ہوا.اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کو مانے کی توفیق بھی دی.تو جب ہم نے مان لیا تو اب جماعت احمد یہ ہی اس وقت دنیا میں وہ واحد جماعت ہے جس نے مسیح موعود کی جماعت ہونے کی حیثیت سے دنیا سے تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے.اب جماعت احمد یہ ہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مامور کیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: نائب رسول اللہ ﷺ کے نزول کے وقت جولیلۃ القدر مقرر کی گئی ہے وہ در حقیقت اس لیلۃ القدر کی ایک شاخ ہے.یا یوں کہو کہ اس کا ایک ظل ہے جو آنحضرت ﷺ کو ملی ہے.خدا تعالیٰ نے اس لیلتہ القدر کی نہایت درجہ کی شان بلند کی ہے.جیسا کہ اس کے حق میں یہ آیت کریمہ ہے کہ فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (الدخان : 4) یعنی اس لیلۃ القدر کے زمانے میں جو قیامت تک ممتد ہے ہر ایک حکمت اور معرفت کی باتیں دنیا میں شائع کر دی جائیں گی.اور انواع واقسام کے علوم غریبہ اور فنون نادرہ و صنعات عجیبہ صفحہ عالم میں پھیلا دیئے جائیں گے نئی نئی ترقیات جو ہوں گی اور علم ہوں گے، نئی نئی صنعتیں پیدا ہوں گی ، نئی نئی چیزیں پیدا ہوں گی.یہ سب اس زمانے میں پھیلا دیئے جائیں گے." اور انسانی قومی میں ان کی موافق استعدادوں اور مختلف قسم کے امکان بسطت علم اور عقل کے جو کچھ لیاقتیں مخفی ہیں یا جہاں تک وہ ترقی کر سکتے ہیں سب کچھ بمنصہ ظہور لایا جائے گا“.تو جہاں تک انسانی قوتیں ہیں فرمایا ہر ایک مخفی چیزیں ظاہر ہو جائیں گی.پھر فرماتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ان

Page 796

$2004 791 خطبات مسرور دنوں میں پر زور تحریکوں سے ہوتا رہے گا کہ جب کوئی نائب رسول اللہ ﷺ دنیا میں پیدا ہوگا اور در حقیقت اسی آیت کو سورۃ الزلزال میں مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے.کیونکہ سورۃ الزلزال سے پہلے سورۃ القدر نازل کر کے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام لیلۃ القدر میں ہی نازل ہوتا ہے اور اس کا نبی لیلۃ القدر میں ہی اس دنیا میں نزول فرماتا ہے.اور لیلہ القدر میں ہی وہ فرشتے اترتے ہیں جن کے ذریعہ سے دنیا میں نیکی کی طرف تحریکیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ضلالت کی پر ظلمت رات سے شروع کر کے طلوع صبح صداقت تک اس کام میں لگے رہتے ہیں کہ مستعد دلوں کو سچائی کی طرف کھینچتے رہیں.(ازاله اوهام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 159-160 ) چنانچہ دیکھ لیں کہ اب اس زمانے میں، حضرت مسیح موعود کے زمانے میں یہ ساری چیزیں ظاہر ہو رہی ہیں.جس طرح میں نے بتایا ہے.اور نئی نئی حیرت انگیز قسم کی ایجادات بھی ہو رہی ہیں.جن کا حضرت مسیح موعود کی بعثت سے پہلے تصور بھی نہیں تھا.اور پھر ان میں ترقی بھی روز بروز ہو رہی ہے.1904ء میں آج سے 100 سال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو بھی الہام ہوا تھا آپ فرماتے ہیں کہ ایک نظارہ دکھایا گیا کہ کوئی امر پیش کیا گیا ہے ( کوئی معاملہ پیش کیا گیا ہے ) پھر الہام ہوا "إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ.إِنَّا أَنْزَلْنَهُ لِلْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ».یعنی هم نے اسے لیلۃ القدر میں اتارا ہے ہم نے اسے مسیح موعود کے لئے اتارا ہے.تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے ہو سکتا ہے یہ الہام شاید ایجادات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہو.جو حضرت مسیح موعود کی آمد کی تائید میں ہو رہی ہیں.لیکن یہ بات ہمیں اس طرف بھی توجہ دلا رہی ہے کہ اپنی دعاؤں پر بہت زور دیں اور یہ تاریکی کو دور کرنے کا کام جو حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو کر ہم نے اب اپنے اوپر لے لیا ہے اس کو احسن طریق پر ادا کرسکیں.اس روشنی کے آنے کے باوجو د دنیا تاریکی کی طرف دوڑ رہی ہے.ان کو سمجھائیں، ان کو بتائیں کہ اب بھی وقت ہے بچنے کی کوشش کرو اور بچو ور نہ تباہی کے گڑھے میں گر جاؤ گے.دعا بھی کریں اور بہت دعا کریں اور خاص طور پر مسلم امہ کے

Page 797

792 $2004 خطبات مسرور لئے ، تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آج ہم پر عائد ہوتی ہے.پس ان دنوں میں اس دعا کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کریں.اور کچھ سجدے امت مسلمہ اور جماعت کے لئے وقف کر دیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک اقتباس ہے بڑا از بر دست قسم کا ، میرے نزدیک.فرماتے ہیں کہ : ” پھر میں کہتا ہوں کہ ایک اور لیلۃ القدر اسلام نے بیان کی ہے اور وہ ، وہ لیلۃ القدر ہے کہ جو برکتوں کے لحاظ سے اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ رمضان کی لیلتہ القدر کی برکتیں بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.یہ لیلۃ القدروہ ہے جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے.اِنَّ الله يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُلَهَا دِيْنَهَا.یہ لیلۃ القدر اس مجدد کے زمانے میں جو صدی کے سر پر آتا ہے آتی ہے.مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور لیلۃ القدر ہے جو 1300 سال کے بعد آئی اور وہ حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے.یہ لیلۃ القدران تیرہ سولیلۃ القدروں سے جو رمضان میں آئیں اور ان گیارہ لیلۃ القدروں سے جو مجددوں کے زمانے کی صورت میں ہر صدی کے سر پر نمودار ہوئیں بڑھ چڑھ کر ہے.پس وہ زمانہ جس میں حضرت مسیح موعود مبعوث ہوئے سب سے بڑی لیلۃ القدر ہے.نادان ہیں وہ جو حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں غزالی اور بخاری اور رازی کو پیش کرتے ہیں ( جو ائمہ ہیں) وہ آپ کی شان سے ناواقف ہیں.کیونکہ آپ وہ امام ہیں جو نہ صرف کسی ایک مجدد سے بلکہ ان تمام مجددوں سے جو 1300 سال میں گزرے بڑھ کر ہیں.اسی لئے آپ کی لیلۃ القدر اوروں کی لیلۃ القدروں سے بڑھ کر ہے.کیونکہ اس کی لیلتہ القدر کا زمانہ نبوت والی لیلۃ القدر کے زمانے سے شروع ہوتا ہے اور یہ آنحضرت ﷺ کے بعد دوسری لیلۃ القدر ہے.پس لیلۃ القدر کیا ہے؟.ایک نبی کا زمانہ ہے اور ایک نبی کی بعثت کا وقت ہے.تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا کا قرب حاصل کرو.یہاں سے غور سے سنیں اس لیلۃ القدر میں خدا کے فرستادہ ایک بیج بو جاتے ہیں جو بعد میں نشو و نما پاتا اور بڑھتا ہے یہی وہ رات ہوتی ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوْحُ.کہا جاتا ہے قرآن میں حضرت عیسی کو روح کہا

Page 798

$2004 793 خطبات مسرور گیا ہے.لیکن میں کہتا ہوں کہ روح کلام اللہ کو بھی کہا گیا ہے اور مسجد دکو بھی کیونکہ وہ کلام الہی کا حامل ہوتا ہے.پس وہ مجد د جو روح کہلاتا ہے تمہاری ہدایت کے لئے کھڑا کیا گیا ہے.اور یہ زمانہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں فرشتوں کا بھی نزول ہوا ہے.اور یہ رات امن اور سلامتی کی رات ہے جس میں ملائکہ کا نزول صبح تک ہوتا رہتا ہے.پس اب چونکہ صبح ہونے کو ہے اور طلوع آفتاب نزدیک ہے اور وہ دن چڑھنے والا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں حکومت دی جائے تم لوگوں پر حاکم بنائے جاؤ.لوگ تمہارے محکوم ہوں.تم لوگوں کے حقوق ادا کرو اور وہ تم سے ان حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کر یں.تم اس وقت حاکم ہو گے، مظلوم نہ ہو گے لیکن وہ برکات جو تم کو اس وقت ملتی ہیں نہ ملیں گی محکوم ہونے سے جو برکات مل رہی ہیں حاکم بننے کے بعد نہیں ملیں گی کیونکہ وہ دن ہو گا جو اختلافوں اور اجتہادوں سے بھرا ہوا ہو گا.اسی طرح شاید دوبارہ فساد پیدا ہونے لگ جائے.اس سے بچنے کا ایک ہی طریقے ہے کہ ”پس فجر ہونے سے پہلے ہوشیار ہو جاؤ.کیونکہ فجر ہونے والی ہے.تم اس وقت سے فائدہ اٹھا لو اور اپنی روحانی اصلاح کر لو.خدا تعالیٰ تمہیں (اس کی) توفیق دے“.آمین ( خطبات محمود جلد 8 صفحہ 387-388)

Page 799

$2004 794 45 خطبات مسرور دفتر اول کے مجاہدین کے کھاتوں کو زندہ کرنے کی تحریک کی یاد دہانی 5 نومبر ۲۰۰۴ء بمطابق 5 رنبوت ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن لندن) تحریک جدید اور دیگر مالی قربانیاں کرنے والے ابتدائی جاں نثار احمد یوں کا تذکرہ اپنے ان بزرگوں کی قربانیوں کی طرف توجہ کریں اور آگے بڑھیں انفاق فی سبیل اللہ کی عظمت اور برکات ☆

Page 800

خطبات مسرور $2004 795 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيْمٌ (آل عمران: 93) اس کا ترجمہ ہے کہ تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکو گے.یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے.یکم نومبر سے ہر سال تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے.اور عموماً پہلے یا دوسرے جمعہ میں اس کا اعلان ہوتا ہے.نئے آنے والوں اور شعور کی عمرکو پہنچنے والے بچوں اور بعض نو جوانوں کو شاید تحریک جدید کی تاریخ کا صحیح طور پر علم نہ ہو اس لئے مختصر یہاں اس کے بارے میں کچھ بتاؤں گا.تحریک جدید کا آغاز 1934ء میں ہوا جب جماعت کے خلاف ایک فتنہ اٹھا، احرار نے بڑا شور مچایا.مخالفت کا ایک طوفان تھا کہ احمدیت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے.قادیان کا نام ونشان مٹانے کی باتیں ہوتی تھیں.اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں ہوتی تھیں.بہشتی مقبرہ جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مزار ہے اور دوسرے مقدس مقامات کی بے حرمتی کے پروگرام تھے اور پھر حکومت کی طرف سے بھی بجائے تعاون کے مخالفین کی زیادہ حمایت نظر آتی تھی.ان کی طرفداری تھی.تو اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو تحریک کی

Page 801

$2004 796 خطبات مسرور کہ ایک فنڈ مہیا کریں، کچھ چندہ اکٹھا کریں، رقم اکٹھی کریں.اس سوچ کے ساتھ یہ تحریک کی کہ مخالفین کی ریشہ دوانیاں، یہ شور شرابہ اس لئے ہے کہ جو تبلیغ کا حق ہمیں ادا کرنا چاہئے وہ ہم نے پوری طرح ادا نہیں کیا.اس کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا، احمدیت کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے جو کوشش ہونی چاہئے تھی وہ اس طرح نہیں کی گئی جوحق تھا.اس لئے آپ نے فرمایا کہ جماعت کو اب اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے.اور احمدیت کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا چاہئے.اور اس کے لئے آپ نے جماعت کو مالی قربانی کی تحریک کی.فرمایا کہ تین سال میں کم از کم 27 ہزار روپیہ جمع کریں.لیکن یہ بات دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ مسیح موعود کی اس پیاری جماعت نے تین سال میں 27 ہزار جمع کرنے کی بجائے پہلے سال ہی ایک لاکھ روپیہ پیش کر دیا.( یہ ستائیس ہزار روپیہ تین سال میں جمع ہونا تھا) اور تین سال میں چار لاکھ روپے سے زیادہ کی قربانی کی.آج ہم اس رقم کا تصور بھی نہیں کر سکتے.ایک تو روپے کی قیمت آج کل کے لحاظ سے بہت بہتر تھی.آج تو پاؤنڈ ایک سو دس روپے میں آجاتا ہے.اس لئے تصور نہیں ہے.پھر جماعت کے افراد کی مالی حالت بھی ایسی نہیں تھی کہ کہہ سکیں کہ صاحب ثروت اور امیر لوگوں نے قربانی کر دی ہوگی نہیں، بلکہ دو آنے چار آنے ، روپیہ، دو روپیہ پیش کرنے والے لوگ تھے اور انہیں کی تعداد تھی جو اکثریت میں تھی.اپنے پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو سوکھی روٹی کھا کر یہ قربانیاں کی گئی تھیں کہ خدا کے خلیفہ نے ہمیں آج پکارا ہے کہ میرے انصار بن کر آؤ اپنی زندگیوں میں مزید سادگی پیدا کرو اور اس مال میں سے جس کی تمہیں ضرورت ہے خرچ کرو، اللہ کی راہ میں قربان کرو، اللہ کی خاطر اس کو دو.کیونکہ آج دشمن اس سوچ میں ہے کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دے، احمدیت کو جڑ سے ختم کر دے، مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کرے.

Page 802

797 $2004 خطبات مسرور تو یہ تھے وہ حالات جن میں اُس زمانے کے احمدیوں نے ، اُس وقت کے احمدیوں نے بڑھ چڑھ کر قربانیاں دیں.اور جو مطالبہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا تھا اس سے کوئی 15,14 گنا زیادہ رقم اکٹھی کر کے خلیفہ وقت کے قدموں میں لا کے رکھ دی اس لئے کہ دین کی مدد کر کے ہم بھی خدا کو راضی کریں.وہ خدا جو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے وہ کیا کہے گا کہ جو کچھ میں نے تمہیں دیا تھا جب میرے دین کے لئے ضرورت پڑی ہے تو تم چھپانے لگ گئے ہو.حالانکہ میرے علم میں ہے کہ کس کے پاس کیا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ اکثر نے اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر یہ قربانیاں خدا کو راضی کرنے کے لئے دیں.کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ اسی میں ہماری بقا ہے کہ آج جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے چاہے وہ کم ہے لیکن ان کے لئے تو وہی بہترین حصہ تھا ، وہ اللہ کی راہ میں پیش کر دیا جائے.کیونکہ اسی وجہ سے انہوں نے سوچا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں شمار ہو سکتے ہیں جن کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کے لئے دوڑا چلا آتا ہے جن کی اللہ تعالیٰ کی راہ میں کی گئی قربانیاں کبھی ضائع نہیں ہوتیں.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اس تعلیم کا جو قرآن ہی کی تعلیم ہے اس کا مکمل ادراک اور سمجھ تھی.آپ نے فرمایا کہ تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہرگز نہیں پاسکتے بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں“.(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه (۳۸ غرض یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مالی وسائل کم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کیا.پھر زندگیاں وقف کیں جن کے ذریعہ سے ہندوستان سے باہر احمدیت کا پیغام زیادہ منتظم ہوکر پھیلنا شروع ہوا.ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے دوسرے ملکوں میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں (قید بھی ہوئے ).غرض اشاعت دین کے لئے یہ تحریک جو حضرت مصلح

Page 803

$2004 798 خطبات مسرور موعودؓ نے شروع کی تھی اس کے لئے اس زمانے کے لوگوں نے بے انتہا قربانیاں دیں.اور آپ نے شروع میں فرمایا تھا کہ یہ تحریک دس سال کے لئے ہو گی.پھر جب دس سال ختم ہو گئے تو آپ نے اس کو مزید بڑھا دیا اور پھر اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق یہ مستقل تحریک بن گئی.اور آج ہم جو دنیا کے مختلف ممالک میں احمدیت کی ترقی کے نظارے دیکھ رہے ہیں یہ ان پہلے لوگوں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے.جماعتی ترقی کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انفرادی طور پر بھی اُن لوگوں کی قربانیوں کو ضائع نہیں کیا.اُن لوگوں نے اُس وقت جو چند آنوں اور روپوں کی قربانیاں دی تھیں ان میں سے اکثر کی اولادیں آج بڑی آسودہ حال اور بہتر حالات میں ہیں لاکھوں کما رہی ہیں.مالی لحاظ سے بڑی اچھی حالت میں ہیں.بعض ان میں سے شاید ایسے بھی ہوں گے جو تحریک جدید کے اس وقت کے بجٹ کے مطابق شاید آج کل انفرادی طور پر بھی چندہ دے دیتے ہوں.لیکن ان لوگوں کی قربانیاں بھلائی نہیں جاسکتیں.اسی لئے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اظہار کیا تھا کہ تحریک جدید کے جو شروع کی قربانی کرنے والے ہیں ان کے کھاتوں کو تا قیامت زندہ رکھا جائے ، ہمیشہ جاری رکھا جائے اور ان کی اولادیں یہ کام اپنے سپر د لیں ، اس ذمہ داری کو اٹھائیں اور ان کے کھاتے کبھی مرنے نہ دیں.وہ پانچ ہزار مجاہدین جو تھے ان کے کھاتے کبھی نہ مریں.شروع میں وہ پانچ ہزار تھے اس کے لئے دو دفعہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے تحریک کی کہ ایسے لوگوں کی اولادیں کچھ ہوش کریں اور آگے آئیں اور اپنے بزرگوں کے کھاتے جو فوت ہو گئے ، جنہوں نے قربانیاں دیں، ان کھاتوں کو دوبارہ زندہ کریں.ان کے نام رجسٹروں میں رہنے چاہئیں.ان کے نام کا چندہ جاری رہنا چاہئے.چند روپے ہی تھے وہ لیکن ان کا نام بہر حال رہنا چاہئے.اور یہ تا قیامت رہنا چاہئے.آپ نے فرمایا تھا کہ اس وقت ان میں سے اکثریت یہ لوگ پانچ دس روپے ہی دینے والے تھے.ایسا مشکل کام نہیں ہے کہ یہ کھاتے دوبارہ زندہ نہ کئے جا

Page 804

$2004 799 خطبات مسرور و سکیں.ان کے نام کے چندے دوبارہ جاری نہ کئے جاسکیں.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ بہتوں کے حالات اب ایسے ہیں کہ ان کے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ اپنے بزرگوں کے چندے دوبارہ ینا شروع کر دیں.بہر حال دفتر تحریک جدید نے بھی حضور کے توجہ دلانے پر کوشش کی تھی اور ان پانچ ہزاری مجاہدین میں سے چونتیس سو کے کھاتے دوبارہ جاری ہو گئے تھے، ان کے نام کے چندے دیئے جانے لگ گئے تھے.لیکن پھر لوگوں کی عدم توجہ کی وجہ سے یا کچھ لوگوں کے باہر نکل جانے کی وجہ سے یا اور کچھ وجوہات سے پھر اس طرف توجہ کم ہوگئی.ہوسکتا ہے کہ باہر آ کے کچھ لوگ چندے اپنے بزرگوں کے نام پر دیتے بھی ہوں لیکن باہر کے ملکوں میں یہ ادائیگیاں ان کے بزرگوں کے نام میں شمار نہیں ہوتیں.اور اگر ہوتی بھی ہیں تو مرکز میں کیونکہ ریکارڈ ہے وہاں درج نہیں ہوتیں.اور ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے بزرگوں کے نام پر ادائیگی کر رہے ہوں اور آپ کے نام پر یہ ادائیگی شامل کی جا رہی ہو.تو جیسا کہ میں نے کہا کیونکہ ریکارڈ مرکز میں ہے اس لئے ایسے بزرگوں کی اولادیں اپنے بزرگوں کے کھاتے اگر زندہ کرنا چاہتی ہیں تو وہ سہولت اسی میں ہے کہ مرکز ربوہ سے رابطہ کریں کہ ان کی کیا کیا رقم تھی یا وعدے تھے اور وہیں ادائیگی کی کوشش کریں تا کہ ریکارڈ درست رہے.کیونکہ اب جیسا کہ میں نے کہا یہ چونتیس سو جو کھاتے تھے ان میں سے بھی توجہ کم ہوتی چلی گئی ہے اور پھر یہ اب اکیس سو کے قریب رہ گئے ہیں.اس لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جن بزرگوں کے کھاتے کوئی زندہ نہیں کرتا ان کے حساب میں کوئی چندہ نہیں دیتا، ان کے اس وقت کے مطابق جو چند روپوں میں ادائیگی ہوتی تھی، (پانچ دس روپے میں ) یا ویسے بھی ان کا نام زندہ رکھنے کے لئے ٹوکن کی صورت میں ہو سکتی ہے.فرمایا تھا کہ پانچ روپے کے حساب سے ایک ہزار کی میں ذمہ واری اٹھا تا ہوں.میں اپنے ذمے لیتا ہوں اگر ان کی اولادیں ان کے نام کے ساتھ چندہ نہیں دے سکتیں.آپ نے یہ

Page 805

$2004 800 خطبات مسرور بھی فرمایا تھا کہ اور اس طرح لوگ آگے آئیں اور ذمہ داری اٹھا ئیں.اور اپنے بارے میں یہ فرمایا کہ میرے بعد میری اولا دامید کرتا ہوں اس کام کو جاری رکھے گی.تو بہر حال آپ کو بھی دفتر نے توجہ نہیں دلائی یار ریکارڈ درست نہیں رکھا، ہو سکتا ہے کہ اپنے چندوں میں شامل کر کے آپ ان لوگوں کے لئے چندے دیتے رہے ہوں لیکن بہر حال ریکارڈ میں یہ بات نظر نہیں آ رہی کہ آپ کا وعدہ تھا.اس لئے ان کی اس خواہش کی تکمیل میں ان کا جو اکیس سالہ دور خلافت تھا جس حساب سے بھی حضرت خلیفتہ مسیح الرابع نے فرمایا تھا، اپنے خطبے میں ذکر کیا تھا.اب دفتر تحریک جدید کومیں کہتا ہوں کہ یہ ا حساب مجھے بھجوا دیں.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی اولاد اس کی ادائیگی کر دے گی.جو بھی ان کا حساب بنتا ہے، ان ایک ہزار بزرگوں کا.بہر حال اگر اولا د نہیں بھی کرے گی تو میں ذمہ واری لیتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ ادا کر دوں گا.اور اسی حساب سے دفتر ایسے تمام لوگوں کے کھاتوں کے بارے میں مجھے بتائے جن کے کھاتے ابھی تک جاری نہیں ہوئے تاکہ ان کی اولادوں کو توجہ دلائی جاتی رہے.لیکن جب تک ان کی اولادوں کی اس طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی ، اسی حساب سے جو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ کھاتے ٹوکن کے طور پر زندہ رکھنے چاہئیں، ان لوگوں کی ادائیگی میں اپنے ذمے لیتا ہوں، انشاء اللہ تعالیٰ میں ادا کروں گا.اور جب تک زندگی ہے اللہ تعالیٰ توفیق دے ادا کرتا رہوں گا اس کے بعد اللہ میری اولا د کو توفیق دے.لیکن یہ لوگ جن کی قربانیوں کے ہم پھل کھا رہے ہیں.ان کے نام بہر حال زندہ رہنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ان سب کی اولا دوں کو تو فیق دے.یا درکھیں کہ یہ فیض، فضل، جیسا کہ میں نے کہا ان لوگوں کی قربانیوں کی ہی وجہ سے ہے جو آج ہم پر ہے.اور آج آپ کی اس قربانی کی وجہ سے اسی طرح بڑھ کر یہ فیض اور فضل آپ کی نسلوں میں ، آپ کی اولادوں میں جاری ہو جائے گا.

Page 806

$2004 801 مسرور ایک روایت میں آتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی اور اللہ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے تو اللہ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا جائے گا.یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہو جائے گی.جیسے تم میں کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اور بڑا جانور بنادیتا ہے.(بخاری كتاب الزكواة - باب لا يقبل الله صدقة من غلول) تو یہ ہے اللہ کے رسول کا وعدہ اور یہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہے کہ میں بڑھاتا ہوں اور اتنا بڑھاتا ہوں کہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ.پس اس بات پر خوفزدہ نہ ہوں کہ اتنے لمبے عرصے کے کھاتے کس طرح زندہ کئے جائیں.جتنا زیادہ سے زیادہ پیچھے جا کر اپنی توفیق کے مطابق کھاتے زندہ کر سکتے ہیں، وہ کریں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی دیکھیں.اور پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ فضل بڑھاتا چلا جائے گا آپ کی توفیق بھی بڑھتی جائے گی.پھر یہ بھی خواہش ہوگی کہ میں وہ تسلسل قائم رکھوں اور کوئی بیچ میں سال ایسا نہ ہو کہ خالی گیا ہو.اگر ایسے لوگ کچھ دیتے ہیں تو دفتر بھی یہ خیال رکھے صرف تسلسل کے پیچھے نہ پڑھائیں، قواعد کی زیادہ پیچید گیوں میں، اگر کوئی کھاتے زندہ کرنا چاہتا ہے تو کھاتے زندہ کر دیں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر صبح دوفرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ ! خرچ کرنے والے سخی کو اور دے.اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.دوسرا کہتا ہے اے اللہ ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلا کت دے اور اس کا مال و متاع بر باد کر.(بخاری کتاب الزكواة باب قول الله فاما.من اعطى واتقى......) تو یہ ایک اور ترغیب ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اپنے والدین کی قربانیوں کی طرف توجہ نہیں کی.اپنے لئے بھی اور اپنے والدین کی قربانیوں کی طرف بھی توجہ کر یں.پس جلدی سے

Page 807

$2004 802 خطبات مسرور آگے بڑھیں اور فرشتوں کی دعائیں لینے والے بنیں تا کہ آپ کی اولادیں بھی اس قربانی سے فیض پاتی رہیں.یہی سب سے بڑا خزانہ ہوگا جو آپ اپنی اولادوں کے لئے ان دعاؤں کا چھوڑ کر جائیں گے.ایک روایت میں آتا ہے.ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا.دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے ، ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اس کو راہ حق میں خرچ کر دیا.دوسرے وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ، دانائی اور علم و حکمت دی جس کی مدد سے وہ لوگوں کے فیصلے کرتا اور لوگوں کو سکھاتا ہے.(بخاری کتاب الزكواة باب انفاق المال في حقه پرانے بزرگوں کے کھاتوں کے علاوہ تو ماشاء اللہ اس وقت جو بعض جگہوں پر قربانی کا معیار ہے.جماعت میں بہت اعلیٰ معیاری قربانیاں ہیں.جماعت قابل رشک نمونے دکھاتی ہے اور دکھا رہی ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر سال یہ سلسلہ آگے ہی بڑھتا چلا جارہا ہے لیکن ان معیاروں کو قائم رکھنے کے لئے اپنی آئندہ نسلوں کو بھی تلقین کرتے رہیں.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے گھر کی کھانوں کی چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے، بشرطیکہ بگاڑ کی نیت نہ ہو تو اس عورت کو بھی ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا کہ اس کے خاوند کو اس مال کے کمانے کی وجہ سے ملا.( بخاری، کتاب الزكواة، باب اجر المرءة اذا تصدقت من بيت زوجها.......کیونکہ رقم خاوند کی ہے.اگر وہ خرچ کرتی ہے تو دونوں کو اس کا ثواب مل رہا ہے.جماعت پر بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ ہماری جماعت کی خواتین اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت آگے بڑھ جاتی ہیں.اور اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں.پھر بعض عورتوں کے ہاتھوں میں اتنا سگھڑ پن ہوتا ہے کہ عام طور پر گھر والوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا اور اسی طرح گھر کا نظام چل رہا ہوتا ہے، گھر کا وہی معیار قائم رہتا ہے اور اس میں سے بچت کر کے وہ

Page 808

$2004 803 خطبات مسرور چندوں میں دے رہی ہوتی ہیں.اگر ایسی عورتیں ہیں جو اچھے طور پر گھر چلا رہی ہیں، خاوندوں کو بھی ان کی ٹوہ میں نہیں رہنا چاہئے کہ چندہ فلاں جگہ سے تم نے کس طرح دے دیا.جو دے دیا وہ دے دیا.اس حدیث کے مطابق ثواب عورت کو بھی مل رہا ہے، آپ کو بھی مل رہا ہے.اور جن عورتوں کو بچت کی عادت نہیں ہے ان کو بھی بچت کی عادت ڈالنی چاہئے.بعضوں کو فضول خرچی کی بہت زیادہ عادت ہوتی ہے ان کو اپنے اخراجات کو کم کرنا چاہئے.دکھاوے کے لئے بلاوجہ گھروں پر خرچ کر رہی ہوتی ہیں.بعض جیسا کہ میں نے کہا کہ گھروں میں بھی خرچ کرتی ہیں لیکن بچت کر کے کرتی ہیں.تو چندوں کے ساتھ ساتھ اگر وہ اپنے گھروں میں بھی خرچ کر لیں تو کوئی حرج نہیں ہے.لیکن فضول خرچی کر کر کے صرف گھر پر خرچ کئے جانا اور کہہ دینا ہمیں چندے دینے کی توفیق نہیں، یہ غلط ہے.اور جن ماؤں کو سادگی کی عادت ہوتی ہے اور چندے دینے کی عادت ہوتی ہے تو ان کی اولادوں میں بھی یہ چیز پیدا ہو جاتی ہے.اور جب وہ اولادیں عملی زندگی میں آتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح برکت پیدا کر دیتا ہے.ان کو بھی بہترین انداز میں بہترین رنگ میں گھر چلانے کے ساتھ ساتھ چندے دینے کی توفیق ملتی رہتی ہے.لیکن یہ بھی ہے یہاں میں بتا دوں کہ بعض گھروں میں کشائش آنے کے ساتھ ساتھ حالات بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ جیسا کہ میں نے کہا فضول خرچی کی عادت پڑ جاتی ہے اور دکھاوے کے لئے خرچ کرنے کا رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے.تو ان لوگوں کو پھر میں کہتا ہوں کہ توجہ کرنی چاہئے.اپنے اخراجات کم کریں اور سادگی کو اپنا ئیں.اور پھر اس سادگی کہ وجہ سے مالی قربانیاں کرنے کی توفیق پائیں.ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابو بکر کونصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو.ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دیا کرے گا.اپنی روپوں کی تھیلی کا منہ بند کر کے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا.

Page 809

خطبات مسرور جتنی طاقت ہے کھول کر خرچ کیا کرو.804 $2004 ( بخاری، کتاب الزكواة باب الصدقة من كسب (طيب) جیسا کہ میں نے کہا جماعت میں بہت تعداد ہے جو دل کھول کر چندہ دینے والی ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتی ہے.لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو اچھی بھلی آمد ہوتی ہے تو حیلے بہانے تلاش کر رہے ہوتے ہیں.بہت سارے اپنے اخراجات شامل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اصل آمد تو ہماری یہ ہے.اس پہ ہم چندہ دیں گے.یا اس کے مطابق ہم چندہ دیں گے.ہماری آمد کوئی نہیں ، حالات بڑے خراب ہیں.تو ان کو بھی سوچنا چاہئے ، ناشکری نہیں کرنی چاہئے.اس ناشکری کی وجہ سے جو اچھے بھلے حالات ٹھیک ہیں وہ خراب بھی ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.اللہ تعالیٰ تو یہی کہتا ہے کہ میری راہ میں وہی مال خرچ کرو جو تمہیں زیادہ محبوب ہے.اپنی ضروریات کو پیچھے ڈالو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے.لیکن اگر تم تلخی اٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آ جاؤ گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں.اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں لیکن اگر تم اپنے نفس سے در حقیقت مر جاؤ گے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے.اور خدا تمہارے ساتھ ہوگا.اور وہ گھر با برکت ہوگا جس میں تم رہتے ہو گے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت گے.نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں اور وہ شہر بابرکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا“.(رساله الوصيت روحانی خزائن جلد 20 صفحه (307-308 پھر آپ نے فرمایا کہ : " قوم کو چاہئے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجالا وے.مالی

Page 810

$2004 805 خطبات مسرور طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کوتا ہی نہیں چاہئے.دیکھود نیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا.رسول کریم ع ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے.پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے.اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے.ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تو اسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے.پھر فرمایا کہ : ” انسان اگر بازار جاتا ہے تو بچے کی کھیلنے والی چیزوں پر ہی کئی کئی پیسے خرچ کر دیتا ہے.تو پھر یہاں اگر ایک ایک پیسہ دے دیوے تو کیا حرج ہے؟ خوراک کے لئے خرچ ہوتا ہے ، لباس کے لئے خرچ ہوتا ہے، اور ضرورتوں پر خرچ ہوتا ہے، تو کیا دین کے لئے ہی مال خرچ کرنا گراں گزرتا ہے.دیکھا گیا ہے کہ ان چند دنوں میں صد ہا آدمیوں نے بیعت کی ہے مگر افسوس ہے کہ کسی نے ان کو کہا بھی نہیں کہ یہاں چندوں کی ضرورت ہے.خدمت کرنی بہت مفید ہوتی ہے.جس قدر کوئی خدمت کرتا ہے اسی قدر وہ راسخ الایمان ہو جاتا ہے.اور جو کبھی خدمت نہیں کرتے ہمیں تو ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے.چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس عہد کرے کہ میں اتنا چندہ دیا کروں گا کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے عہد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے“.پھر آپ نے فرمایا: ” بہت لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ چندہ بھی جمع ہوتا ہے.ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا اور ناواقف لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاوے کہ وہ پوری تابعداری کریں.اگر وہ اتنا عہد بھی نہیں کر سکتے تو پھر جماعت میں شامل ہونے کا کیا فائدہ.نہایت درجہ کا بخیل ( کنجوس ) اگر ایک کوڑی بھی روزانہ اپنے مال میں سے چندے کے لئے الگ کرے تو وہ بھی بہت کچھ دے سکتا

Page 811

$2004 806 خطبات مسرور ہے.ایک ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے.اگر کوئی چار روٹی کھاتا ہے تو اسے چاہئے کہ ایک روٹی کی مقدار اس میں سے سلسلہ کے لئے بھی الگ کر رکھے اور نفس کو عادت ڈالے کہ ایسے کاموں کے لئے اسی طرح سے نکالا کرے.چندے کی ابتدا اس سلسلہ سے ہی نہیں ہے بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانوں میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے.(ملفوظات جلد 3 صفحه ٣٦٠ البدر ۱۷ جولائی ۱۹۰۳ پس جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بچوں، کھلونوں وغیرہ پر خرچ کر دیتے ہیں تو دین کے لئے کیوں نہیں کئے جاتے.تو اس وقت بھی جب بچوں پہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں اگر بچوں کو سمجھایا جاوے اور کہا جائے کہ تمہیں بھی مالی قربانی کرنی چاہئے اور اس لئے کہ جماعت میں بچوں کے لئے بھی، جو نہیں کماتے ان کے لئے بھی ایک نظام ہے.تحریک جدید ہے، وقف جدید ہے.تو اس لحاظ سے بچوں کو بھی مالی قربانی کی عادت ڈالنے کے لئے ان تحریکوں میں حصہ لینا چاہئے.اس کے لئے کہنا چاہئے ، اس کی تلقین کرنی چاہئے.جب بھی بچوں کو کھانے پینے کے لئے یا کھیلنے کے لئے رقم دیں تو ساتھ یہ بھی کہیں کہ تم احمدی بچے ہو اور احمدی بچے کو اللہ تعالی کی خاطر بھی اپنے جیب خرچ میں سے کچھ بچا کر اللہ کی خاطر، اللہ کی راہ میں دینا چاہئے.اب عید آ رہی ہے.بچوں کو عیدی بھی ملتی ہے تھے بھی ملتے ہیں.نقدی کی صورت میں بھی.اس میں سے بھی بچوں کو کہیں کہ اپنا چندہ دیں.اس سے پھر چندہ ادا کرنے کی اہمیت کا بھی احساس ہوتا ہے اور ذمہ داری کا بھی احساس ہوتا ہے.بچہ پھر یہ سوچتا ہے اور بڑے ہوکر یہ سوچ پکی ہو جاتی ہے کہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر خرچ کروں، قربانیاں دوں.پھر نو مبائعین کے بارے میں فرمایا کہ بیعت کرتے ہیں اور وہ چندہ نہیں دیتے.ان کو بھی اگر شروع میں یہ عادت ڈال دی جائے کہ چندہ دینا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے دین کی

Page 812

$2004 807 خطبات مسرور خاطر قربانی کی جائے تو اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو ان کو بھی عادت پڑ جاتی ہے.بہت سے نومبائعین کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ انہوں نے کوئی مالی قربانی کرنی بھی ہے کہ نہیں.تو یہ بات بتانا بھی انتہائی ضروری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا پھر ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے جو مالی قربانیاں نہیں کرتے.اب اگر ہندوستان میں ، انڈیا میں اور افریقن ممالک میں یہ عادت ڈالی جاتی تو چندے بھی کہیں کے کہیں پہنچ جاتے اور تعداد بھی کئی گنازیادہ ہو سکتی تھی.اب میں دوبارہ تحریک جدید کے نئے مالی سال کی طرف، جو شروع ہونا ہے، آتا ہوں.لیکن اس سال کے شروع میں جہاں مالی پوزیشن بتائی جاتی ہے چندوں کی تعداد بھی بتائی جاتی ہے وہاں ساتھ ہی نئے سال کا اعلان بھی کیا جاتا ہے.تو اعلان کرنے سے پہلے اس کا جو تھوڑ اسا تاریخی حصہ رہ گیا تھاوہ میں بتا دیتا ہوں.تحریک جدید جیسا کہ میں نے بتایا، پہلا دور دس سال کا تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے شروع کیا تو اس وقت آپ نے اس دور کو دفتر کہا.1934 ء میں جب شروع کیا تو وہ دس سال کے لئے تھا وہ دفتر اول کہلاتا تھا.اس میں جیسا کہ میں نے بتایا پانچ ہزار مجاہدین شامل تھے.پھر کام کی نوعیت کے لحاظ سے اور اس کی اہمیت کے پیش نظر جیسا کہ میں نے کہا آپ نے اس کو مزید آگے بڑھا دیا، دس سال سے زائد کر دیا.اور اس دوسرے دور کو دفتر دوم کا نام دیا گیا.شروع میں تو دفتر دوم کا کوئی معین عرصہ نہیں تھا، جہاں تک میں نے دیکھا ہے، لیکن بعد میں آپ کا ایک ارشاد ملتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آئندہ یہ دفتر قائم ہوتے چلے جائیں گے اور ہر دور، ہر دفتر 19 سال کا ہو گا.لیکن دفتر دوم حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی لمبی بیماری کی وجہ سے بند نہ ہوا اور اس وقت، 1964ء میں دفتر سو جاری ہونا چاہئے تھا.لیکن دفتر سوم اس وقت جاری نہ ہو سکا.اور 1966ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نئے آنے والوں کے لئے دفتر سوم کا اجراء فرمایا اور فرمایا کہ کیونکہ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہونا چاہئے تھا اس لئے

Page 813

$2004 808 خطبات مسرور میں اس کو یکم نومبر 1965 ء سے شروع کرتا ہوں.تو اس طرح سے یہ دفتر حضرت مصلح موعودؓ کے دور خلافت سے منسوب ہو جائے گا.کیونکہ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات 9نومبر 1965ء کو ہوئی تھی.لیکن حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے فرمایا کہ کیونکہ اعلان میں کر رہا ہوں اس لئے اس کا ثواب مجھے بھی مل جائے گا.تو بہر حال اس دفتر سوم کا اعلان خلافت ثالثہ میں ہوا تھا.اور پھر دفتر چہارم کا آغاز 19 سال بعد 1985ء میں خلافت رابعہ میں ہوا.اور اس اصول کے تحت کہ (وہ جو حضرت مصلح موعود نے اصول رکھا تھا کہ 19 سالہ دور ہو گا ) آج 19 سال پورے ہونے پر دفتر چہارم کو بھی 19 سال پورے ہو گئے ہیں اس لئے آج سے دفتر پنجم کا آغاز ہوتا ہے انشاءاللہ تعالیٰ.اب آئندہ سے جتنے بھی نئے مجاہدین تحریک جدید کی مالی قربانی میں شامل ہوں گے وہ دفتر پنجم میں شامل ہوں گے.ایک تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ نئے بیعت میں شامل ہونے والوں کو احمدیت میں شامل ہونے والوں کو مالی قربانی کی عادت ڈالنی چاہئے.ایسے تمام لوگوں کو ، اب میں اس ذریعہ سے دفتر کو ہدایت کر رہا ہوں کہ چاہے جو گزشتہ سالوں میں احمدی ہوئے ہیں لیکن تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے ان سب کو اب تحریک جدید میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور ان کا شمار اب دفتر پنجم میں ہوگا.جیسا کہ میں نے پہلے کہا اگر ان کو بتایا جائے کہ مالی قربانی دینی ضروری ہے اور ان کو بتائیں کہ تمہارے پاس جو یہ احمدیت کا پیغام پہنچا ہے یہ تحریک جدید میں مالی قربانی کرنے والوں کی وجہ سے ہی پہنچا ہے.اس لئے اس میں شامل ہوں تا کہ تم اپنی زندگیوں کو بھی سنوارنے والے بنو اور اس پیغام کو آگے پہنچانے والوں میں بھی شامل ہو جاؤ حصہ دار بن جاؤ.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے میرے علم میں ہے کہ ہندوستان میں بھی اور افریقہ میں بھی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کو مالی قربانی میں شامل نہیں کیا گیا ان کو مالی قربانی میں شامل کریں.پھر اس دفتر پنجم میں نئے پیدا ہونے والے بھی یعنی جواب احمدی بچے پیدا ہوں گے.وہ دفتر پنجم میں شامل

Page 814

$2004 809 خطبات مسرور ہوں گے.تو بہر حال افریقہ میں جہاں بہت بڑی تعداد احمدیت میں شامل ہوئی ہے یہ ہماری سستی ہے کہ ان کو ہم مالی نظام میں شامل نہیں کر سکے.ایک تو اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ بیعتیں کروانے کے بعد رابطہ صحیح نہیں رکھا پھر ان لوگوں کو مالی قربانی کی اہمیت سے صحیح طرح آگاہ نہیں کیا گیا، واقفیت نہیں کروائی گئی.اور اب جب میں نے جماعتوں کو توجہ دلائی کہ افریقہ میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کے ساتھ رابطے نہیں ان سے رابطے پیدا کریں اسی طرح ہندوستان میں بھی.جب ان لوگوں سے رابطے کئے گئے تو انہوں نے شکوہ کیا کہ تم ہماری بیعت کروا کے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے اور بعض لوگوں نے بڑی ناراضگی کا اظہار کیا.بعض ملکوں کے جب میں دورے پر گیا ہوں ، بعضوں نے یہ بھی اظہار کیا کہ ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی گئی ہم ملنے کے لئے آجاتے ، وہ نہیں آسکے.انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم احمدیت پر قائم ہیں لیکن جو تم لوگوں نے رویہ رکھا ہے اگر کچھ عرصہ اور تم نہ آتے اور ہم سے رابطے نہ کرتے تو پھر ہم انہیں اندھیروں میں چلے جاتے جن میں پہلے پڑے ہوئے تھے.تو جماعتوں کو میں دوبارہ آج پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ان رابطوں کو قائم کریں اور وسیع کریں اور تربیت کی طرف توجہ دیں.اپنی سستیاں دور کریں اور ان نئے لوگوں کو بھی مالی قربانیوں میں شامل کریں چاہے وہ ٹوکن کے طور پر ہی تھوڑا بہت دے رہے ہوں.اس طرح جیسا کہ میں نے کہا جو نئے بچے ہیں ان کو بھی ماں باپ شامل کرنے کی کوشش کریں.اس مالی قربانی میں شامل کریں.اور خاص طور پر واقفین نو بچے تو ضرور، بلکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس میں شامل ہونا چاہئے.بلکہ بعض احمد یوں کا ایمان تو اس سے بھی تازہ ہوتا ہے کہ کسی کے اولاد نہیں ہوتی تھی تو انہوں نے تحریک جدید میں اپنے بچوں کے نام پر بھی چندہ دینا شروع کر دیا.100 روپے بچے کے حساب سے 400 روپے دینے شروع کر دیئے (پاکستان کی بات ہے ) اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ کچھ عرصے بعد ان کے ہاں اولاد کی امید پیدا ہوئی اور اب چار بچے ہو گئے.جتنے بچوں کا چندہ دیتے تھے اتنے بچے اللہ تعالیٰ

Page 815

$2004 810 خطبات مسرور نے دے دیئے.اللہ تعالیٰ بعض دفعہ فوری طور پر نظارے دکھا دیتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے چاہے بچوں کی طرف سے معمولی رقم ہی دیں لیکن اخلاص سے دی ہوئی یہ معمولی رقم بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑا اجر پانے والی ہوتی ہے.اور جماعت میں اللہ تعالیٰ بہت سوں کو یہ نظارے دکھاتا ہے.اور پھر اسی چندے کی وجہ سے ، ان برکتوں کی وجہ سے پھر آپ کے گھر برکتوں سے بھر تے چلے جائیں گے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک وقت فرمایا تھا کہ تحریک جدید کا جو نظام ہے، تحریک ہے، یہ نظام وصیت کے لئے ارہا ہے کے طور پر ہے یعنی اس کی وجہ سے نظام وصیت بھی مضبوط ہو گا.یہ مالی قربانیوں کی عادت ڈالنے کی بنیاد ہوگی.یہ پیشرو ہے، یہ آگے چلنے والی چیز ہے، اطلاع دینے والا جو ایک دستہ ہوتا ہے اس طرح ہے.لوگوں کو اطلاع دیتا چلا جائے گا کہ ایک عظیم نظام اس کے پیچھے آ رہا ہے یہ نظام وصیت کہلائے گا.اور جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ نظام وصیت کے ساتھ نظام خلافت کا بھی بڑا گہرا تعلق ہے.اب اس نظام وصیت کے ساتھ ہی قربانیوں کے معیار بھی بڑھنے ہیں.تو پہلے قربانیوں کی عادت ڈالنے کے لئے تحریک جدید کا نظام ہی ہے.اور پھر ان قربانیوں کے معیار بڑھنے سے حقوق العباد کے ادا کرنے کے معیار بھی بڑھیں گے.پس جماعتیں اس طرف بھر پور توجہ دیں، خاص طور پر توجہ دیں تا کہ آئندہ نظام وصیت بھی مضبوط بنیادوں پر اس قربانی کی وجہ سے قائم ہو.اب کچھ اعداد و شمار کے ساتھ میں دفتر اول کے 71 ویں سال کا، دفتر دوم کے 61 ویں سال، دفتر سوم کے 40 ویں سال کا دفتر چہارم کے 20 ویں سال کا اور دفتر پنجم کے پہلے سال کا اعلان کروں گا.اور اس خواہش کا دوبارہ اعادہ کرتا ہوں، دوبارہ دوہراتا ہوں کہ دفتر دوم، سوم اور چہارم میں جو شامل لوگ ہیں وہ اپنے دفتر اول کے بزرگوں کے کھاتے دوبارہ زندہ کرنے کی

Page 816

$2004 811 خطبات مسرور کوشش کریں.بہر حال جیسا کہ جماعت کے ساتھ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا سلوک رہا ہے کہ ہر سال گزشتہ سال سے آگے بڑھنے والا ہوتا ہے، جماعت کو قربانیوں کی توفیق ملتی ہے.اس سال بھی خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اور جماعت کو غیر معمولی قربانی کی توفیق ملی ہے.اور اللہ کے فضل سے اس وقت تک 127 ممالک تحریک جدید میں شمولیت کی توفیق پاچکے ہیں اور رپورٹوں کے مطابق مجموعی طور پر جو تحریک جدید کی مالی قربانی ہے وہ 31لاکھ 60 ہزار پونڈ ہے.جو گزشتہ سال سے 3لاکھ 48 ہزار پونڈ زیادہ ہے.اور پوزیشنز کے لحاظ سے باوجود غربت کے پاکستان نے اپنی پہلی پوزیشن قائم رکھی ہے.اور امریکہ نے بھی اپنی گزشتہ سال کی طرح دوسری پوزیشن قائم رکھی ہے.لیکن اوسط فیصد ادائیگی کے لحاظ سے جو فی احمدی ادائیگی ہے اس لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پہ ہے.اور آپ لوگوں کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے کہ اس سال جو ایک جگہ آپ نکے ہوئے تھے اس سے قدم آگے بڑھایا ہے اور برطانیہ تیسرے نمبر پر آ گیا ہے.اور 35 فیصد زائد ادا ئیگی ہوئی ہے.یہ کفرٹوٹا تو نہیں ہو سکتا قسم ٹوٹی خدا خدا کر کے ہوسکتا ہے.ماشاء اللہ جماعت برطانیہ بھی مالی قربانی میں بہت بڑھ رہی ہے.مساجد کے لئے بھی بڑی رقوم پیش کر رہی ہے.مساجد بھی تعمیر ہورہی ہیں اور تحریکات بھی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزا دے بلکہ تمام دنیا کے تمام چندہ دینے والوں کو جزا دے اور ان کے مال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.مجموعی قربانی کے لحاظ سے ملکوں میں پہلے نمبر پر پاکستان، دوسرے پہ امریکہ، تیسرے پہ برطانیہ، چوتھے پہ جرمنی پانچویں پر کینیڈا.ویسے جرمنی والوں کو بھی کوشش کرنی چاہئے.اسی طرح کینیڈا کو بھی، چھٹے پہ انڈونیشیا، ساتواں ہندوستان، آٹھویں پرہ، بلجیم، نویں پر سوئٹزر لینڈ، دسویں پر آسٹریلیا اور ماریشس.اور مڈل ایسٹ کی جماعتوں میں سعودی عرب، ابوظہبی اور افریقہ میں غانا نے

Page 817

$2004 812 خطبات مسرور قابل ذکر ترقی کی ہے.اللہ سب کو جزا دے.اور تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کے افراد کی جو تعداد ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال کافی اچھا اضافہ ہوا ہے.4لاکھ 18 ہزار سے زیادہ تعداد ہو چکی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے پہ 34 ہزار زائد ہے.اس میں غانا، انڈونیشیا، برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا کی جماعتوں نے نمایاں کام کیا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اگر مزید توجہ کی جائے نو مبائعین کو بھی چندے کی عادت ڈالنے کے لئے اس میں شامل کرنے کی کوشش کریں، ایک مہم چلائیں تو انشاء اللہ میرے خیال میں یہ اضافہ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہوسکتا ہے صرف توجہ کی ضرورت ہے.پاکستان کا کیونکہ اپنا ایک علیحدہ بھی مقابلہ چل رہا ہوتا ہے اس لئے ان کو اس بات کی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ پتہ لگے کہ کون کون کس پوزیشن پر آیا ہے.تو اس میں اوّل لاہور ہے، دوم کراچی ہے، سوم ربوہ ہے، اور اس کے بعد راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، ملتان، کوئٹہ، سرگودھا، گوجرانوالہ، شیخو پورہ ، ڈیرہ غازی خان، نواب شاہ اور اوکاڑہ ہیں.اور ضلعی طور پر سیالکوٹ ، میر پور خاص، بہاولنگر، پشاور، بہاولپور، نارووال، بدین، جہلم ، سانگھڑ اور وہاڑی.تو یہ ہیں ساری پوزیشنیں.پاکستان اور بنگلہ دیش کی جماعتوں کے لئے بھی میں خاص طور پر دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں.یہ دونوں ملک ایسے ہیں جہاں شر پسند بڑی شدت سے آج کل مخالفت پر تلے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو ہر شر سے محفوظ رکھے.خاص طور پر بنگلہ دیش میں ان دنوں میں زیادہ ہی شر پھیل رہا ہے.ابھی تک تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش کی حکومت بڑی عقل سے چل رہی ہے.آج بھی ڈھا کہ میں ایک مسجد میں مخالفین کے حملے کا ارادہ تھا.بلکہ ارادہ کیا تھا! حملہ کرنے کے لئے آئے تھے کافی بڑی یعنی ہزاروں کی تعداد میں لیکن پولیس نے کارروائی کی تو سب کو بھگا دیا.پولیس بھی حکومت نے کافی تعداد میں بھیجی تھی.ان لوگوں کی ہمت تو اتنی ہے کہ قربانی کے نام پہ جنت لینے کے لئے

Page 818

$2004 813 خطبات مسرور آتے ہیں اور پولیس دیکھ کے دوڑ جاتے ہیں.لیکن اس میں بھی لوگ مُلاں کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتے ہیں.ملاں ہمیشہ دوسروں کو آگے کرتا ہے مرنے کے لئے ، آپ کبھی قربانی کے لئے پیش نہیں ہوتا.تو بہر حال اللہ تعالیٰ بنگلہ دیش کی حکومت کو ثابت قدم رکھے اور ان کو ان مولویوں کے جال میں نہ آنے دے.ابھی تک تو بڑی حکمت سے یہ لوگ سارے کام چلا رہے ہیں.ہمیں تو خیر ، جماعت کے لوگوں کو گالیاں سننے اور ماریں کھانے کی عادت بھی ہے لیکن اگر کسی حکومت نے اپنی کرسی بچانے کے لئے احمدیوں کو تکلیف پہنچائی ہے یا تکلیف پہنچانے والوں کا ساتھ دیا ہے تو پھر تجربہ یہی ہے اور آئندہ بھی یہی ہوگا انشاء اللہ کہ پھر وہ حکومت بھی اللہ تعالیٰ نے رہنے نہیں دی.اس لئے ان کو اس طرف ہمیشہ نظر رکھنی چاہئے.خدا کرے کہ اسی نیک نیتی سے بنگلہ دیش کی حکومت اپنے فرائض نبھاتی رہے.اور اللہ تعالیٰ پاکستان کی حکومت کو بھی عقل اور سمجھ دے.وہ بھی اپنا کوئی سبق سیکھیں جو کچھ ان کے ساتھ ماضی میں ہو چکا.کہ مذہب اور سیاست کو علیحدہ رکھنا ہے.پس اس رمضان میں، اس آخری عشرے میں، خاص طور پر دعائیں کرتے رہیں اور جن جن ملکوں میں احمدیت کے خلاف منافرت اور شر پھیلایا جا رہا ہے ان کے لئے بھی دعائیں کریں.اور ان لوگوں کے لئے بھی دعائیں کریں جنہوں نے مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے.دفتر پنجم کا بھی اللہ تعالیٰ نے آغاز رمضان میں بلکہ اس آخری عشرے میں کروایا ہے اس میں بھی بے انتہا برکت ڈالے اور جیسا کہ میری خواہش ہے کہ اس میں لاکھوں پہلے سال ہی شامل ہو جائیں تا کہ قربانیاں کرنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک کچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے.اس معرفت

Page 819

$2004 814 خطبات مسرور کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سو میں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے.اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں.(ازاله اوهام روحانی خزائن جلد 3 صفحه (516) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مشن کو ہمیشہ جاری رکھنے والے ہوں.

Page 820

$2004 815 46 خطبات مسرور احمدیوں کو جمعہ کی حاضری اور اس کی حفاظت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.12 نومبر ۲۰۰۴ء بمطابق 12 / نبوت ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن.لندن ) نماز جمعہ کی اہمیت اور عظمت اور اس کے آداب نماز جمعہ اور درود شریف، جمعہ والے دن خصوصی طور پر درود شریف زیادہ پڑھیں.

Page 821

خطبات مسرور $2004 816 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا يا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَ ذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورة الجمعه آیت نمبر (11,10 ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن کے ایک حصے میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.رمضان کا آج آخری جمعہ ہے اور کل انشاء اللہ آخری روزہ ہے گویا آج کا روزہ تو آدھے سے زیادہ گزر گیا صرف ایک روزہ رہ گیا ہے یوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آیا ما معْدُودَات یہ گنتی کے چند دن گزر گئے اور پتہ بھی نہیں چلا الحمد لله عموماً رمضان کے اس آخری جمعہ میں حاضری عام جمعوں کی نسبت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ سال بھی کہا تھا، اور انشاء اللہ کہتا رہوں گا جب تک اللہ چاہے گا، کہ جو لوگ جمعوں پر باقاعدہ نہیں آتے اب ان کو یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ یہ جمعہ رمضان کا جو آخری جمعہ ہے اس پر ضرور جانا چاہئے

Page 822

$2004 817 خطبات مسرور اورشامل ہونا چاہئے ، اس کی برکات سے فائدہ اٹھانا چاہئے تو ایسے لوگوں کو اب یہ کوشش کرنی چاہئے کہ یہ جمود جواب ٹوٹا ہے کہ وہ مسجد میں جمعہ پڑھنے آئیں اور جمعہ پڑھنے آئے ہیں ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ یہ برف جو ان کے ذہنوں اور دلوں پر جمی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کو جمعہ کی اہمیت کا احساس نہیں تھا اس برف کو رمضان کی گرمی نے پگھلا دیا ہے، اس ماحول نے پگھلا دیا ہے جو رمضان کے مہینے میں ہر گھر میں ایک ماحول بن جاتا ہے.اور چھوٹے بڑے سست یا عبادت بجالانے والے سب کوشش کرتے ہیں کہ اپنی اپنی توفیق کے مطابق رمضان کی برکتوں کو سمیٹ لیں.تو اب ایسے حالات ہوئے ہیں کہ ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی آواز پر اس کے حضور مسجد میں آ کر عبادت کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے جمعہ پر یا رمضان کے جمعوں پر آنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے.ان لوگوں کو اب مستقل یہ بات اپنی زندگیوں کا حصہ بنالینی چاہئے کہ جو توجہ ہم میں ایک دفعہ پیدا ہوگئی ہے یہ اب قائم رہنی چاہئے.اگر یہ سوچ قائم رہی تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنا قرب پانے والے بندوں پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں یہ سورہ جمعہ کی آیات میں سے دو آیتیں ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی اہمیت کا بتایا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ وہ خاص جمعہ جو رمضان کے مہینے کا آخری جمعہ ہے اس میں مسلمان یہ طریق اختیار کریں جس کی ہدایت فرمائی گئی ہے.بلکہ بغیر کسی تخصیص کے، بغیر کسی جمعہ کے فرق کے ہر جمعہ کے بارے میں بتایا کہ جو بھی جمعہ ہے وہ برابر ہے اور اس میں ایمان والوں کو جمعہ کی اہمیت کے پیش نظر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس میں با قاعدہ حاضر ہوں اور اس میں کچھ ہدایات دی ہیں.وہ باتیں کیا ہیں وہ ہدایات کیا ہیں جن کا ایک مومن کو خیال رکھنا چاہئے.وہ یہ ہیں کہ جب جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے لئے بلایا جائے تو بغیر کسی بہانے کے، بغیر کسی کا روباری مصروفیت کی اہمیت کا دل میں خیال لائے سب کام چھوڑ کر فوراً مسجد کی طرف جانا شروع کر دو اور اس کام میں دیر نہیں ہونی چاہئے.کیونکہ جمعہ کی ایک اہمیت ہے اور وہ اہمیت ہمیشہ تمہارے پیش نظر رہنی چاہئے.اگر تمہیں علم

Page 823

$2004 818 خطبات مسرور ہو جائے اس اہمیت کا اور یہ پتہ چل جائے کہ جمعہ کی عبادت تمہیں کیا سے کیا بنا سکتی ہے اگر تمہیں پتہ ہو کہ جمعہ میں کی گئی دعائیں کتنا درجہ پاتی ہیں تمہیں پتہ ہو کہ جمعہ کے دن تم شیطان کے چنگل سے بھی بچ سکتے ہو اور کس طرح بچ سکتے ہو جس کی وجہ سے تم ہمیشہ نیکیوں پر قائم رہتے چلے جاؤ گے اور ہمیشہ نیکیوں پر قائم رہنے کی صلاحیت تم میں پیدا ہو جائے گی تو کبھی جمعہ نہ چھوڑو پھر تمہیں یہ خیال نہ آئے کہ کوئی بات نہیں جمعہ تو پڑھا ہی جائے گا کاروبار کر دیا دوستوں کے ساتھ سیر کے لئے چلے جاؤ یا اسی طرح اور بہانے تراشنے لگو بلکہ اس آیت کے مطابق جمعہ پر آنے کے لئے جلدی کرو گے.اس اہمیت کو آنحضرت ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دنوں میں بہترین دن جن میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے.اس میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں وہ جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن حبوط آدم ہوا.یعنی جنت سے نکلے بھی.اور اس میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں مسلمان بندہ جو بھی اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کر دیتا ہے.(ترمذى كتاب الجمعة باب في الساعة التي ترجى فى يوم الجمعة تو یہ اہمیت ہے اس دن کی کہ دنوں میں سے بہترین دن ہے اس لئے کہ آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اس دن وہ جنت میں بھی داخل کئے گئے اور انہیں جنت سے نکالا بھی گیا.اب جنت میں داخل بھی کیا گیا اور نکالا بھی گیا دونوں باتیں ایک ساتھ ملا دی گئی ہیں.مختصراً اس بارے میں بتاتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جن اور انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت ہے کہ وہ عبادت کریں.اب جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اس کے احکامات پر عمل کریں گے تو آدم کی یہی اولاد جنت کی وارث بھی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والی بھی ہوگی اور قبولیت دعا کے نشان دیکھنے والی بھی ہوگی.اور جو لوگ عبادت کرنے والے نہیں ہوں گے، احکامات پر عمل کرنے والے نہیں ہوں گے، شیطان کے بہکاوے میں آنے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کو اور اس کی عبادت کو جو خاص اہمیت رکھی ہے اس کو نظر انداز کرنے والے ہوں گے، اپنی مصروفیات اور

Page 824

$2004 819 خطبات مسرور کاروبار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے اس خاص دن کی عبادت سے غافل ہوں گے وہ پھر جنت کے وارث نہیں بن سکتے.بلکہ جس طرح آدم کو اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیئے تھے ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا تھا تو تم بھی یہ نہ سمجھو کہ مسلمان کہلا کر جنت کے وارث کہلا ؤ گے بلکہ احکامات پر عمل کر کے جنت مل سکتی ہے.اس لئے اپنے باپ آدم کے تجربے سے فائدہ اٹھاؤ اور شیطان سے بچنے کی کوشش کرتے رہو.اس سے مقابلہ کرو اور ہر جمعہ کو جو تمہیں خدا تعالیٰ نے اکٹھے ہونے کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرو اور اس دن کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے یہ سہولت بھی دے دی ہے یا یہ انعام بھی تمہیں دے دیا ہے کہ اس میں ایک ایسا وقت رکھ دیا ہے کہ جب عبادت کے دوران تمہاری دعا کو قبولیت کا شرف اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے.اس لئے سال کے بعد نہیں بلکہ ہر ساتویں دن ایک اہتمام کے ساتھ اس کی عبادت کی طرف توجہ دو تو جنت سے نکلنے کی بجائے ، نیک اعمال اور عبادت کی وجہ سے اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جنتوں کے وارث ٹھہرو گے.اب دیکھیں جنت سے نکلنے کے ساتھ ہی یہ دو قسمیں بنائی ہیں شیطان سے مقابلہ کی طاقت بھی دے دی ہے اور فرمایا یہ مقابلہ اور شیطان کے خلاف جہاد پھر تمہیں جنت میں داخل کر دے گا.بلکہ تمہارے لئے دو جنتیں مقرر ہو گئیں اس دنیا کی جنت بھی اور اگلے جہان کی بھی.پھر عام طور پر کسی اچھی یاد کا یا کسی کی سالگرہ منانی ہو تو سال کے بعد ایک دن آتا ہے یا اگر کسی شیطان صفت سے نجات ملی ہو تو پھر بھی سال گزرنے پر اس دن کا ذکر ہوتا ہے.لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے سات دن کے بعد یہ ایک دن رکھ دیا ہے یہ یاد کرانے کے لئے کہ میں نے جس دن آدم کو جنت میں داخل کیا تھا تم اس دن کو یاد کرو، اکٹھے ہو کر دعائیں کرو، میرے نبی ﷺ پر درود بھیجو، میرے احکامات کی تعمیل کرو تو ہمیشہ جنت میں رہو گے.لیکن یہ یاد رکھو کہ اگر یہ نیک کام نہیں کرو گے تو آدم کی طرح جنت سے نکالے بھی جاؤ گے اس لئے ہوش کرو.اور ساتھ یہ بھی خوشخبری دے دی اس ہدایت کے ساتھ کہ اس میں تمہاری دعائیں تمہاری گریہ وزاری جو تم کرو گے وہ بھی قبول ہو گی ، ایک وقت ایسا آئے گا جو قبولیت کا درجہ پائے گی تا کہ تم جنت سے فائدہ اٹھاتے رہو.یہ زمین بھی تمہارے لئے جنت بن جائے یہ دنیا بھی

Page 825

$2004 820 خطبات مسرور تمہارے لئے جنت بن جائے اور آئندہ بھی ، موت کے بعد بھی دائی جنت کے تم وارث ٹھہرو.گویا شیطان سے بچنے کے لئے ہمیں ہتھیار بھی مہیا فرما دیا اور اس ہتھیار کے کارگر ہونے کی ضمانت بھی عطا فرما دی.لیکن کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا شیطان بھی اس دن بڑی تیزی دکھا رہا ہوتا ہے کیونکہ شیطان نے اس دن بہکا یا تھا اس لئے تمہیں بھی اپنی عبادتوں میں ایک خاص مقام پیدا کرنا ہوگا اور جب یہ خاص مقام حاصل ہو جائے گا تو تبھی شیطان کے اور حملوں سے بچ سکو گے، جیسا کہ میں پہلے کہہ آیا ہوں.ایک روایت میں قبولیت دعا کے بارے میں اس طرح آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جمعہ کے ذکر میں فرمایا کہ اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جب مسلمان کو ایک ایسی گھڑی ملے اور وہ کھڑا انماز پڑھ رہا ہو تو جو دعا مانگے وہ قبول کی جاتی ہے.آپ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا لیکن یہ گھڑی بہت مختصر ہوتی ہے.(مسلم کتاب الجمعة باب فى الساعة التي في يوم الجمعة) اب یہ دیکھیں یہاں بھی جمعہ کی ہی بات کی گئی ہے کہ گھڑی آتی ہے.یہ نہیں بتایا گیا کہ جمعۃ الوداع میں خاص گھڑی آتی ہے.پھر اگلی آیت میں یہ فرمایا کہ خاص وقت میں مصروفیت کے باوجود جب تم نماز کے لئے اکٹھے ہوتے ہو اور جب نماز پڑھ لی تو پھر تمہیں اجازت ہے کہ اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو.یعنی تمہارے دنیاوی کام کاج اگر کوئی ہیں ،مصروفیات اگر ہیں تو جمعہ کی نماز کے بعد ان کو بجالاؤ.لیکن یاد رکھو کہ تمہارا مقصد پیدائش جو ہے وہ ہمیشہ تمہارے پیش نظر رہنا چاہئے.یہ نہیں کہ جمعہ کی نماز کے بعد اب عصر کی نماز یا قضاء کر کے پڑھو یا بھول جاؤ کہ پڑھنی بھی تھی کہ نہیں نہیں، بلکہ جمعہ پڑھنے کے بعد بھی اگر تمہیں دنیاوی کام کرنے کی مجبوری ہے تو ضرور کرو.حضرت مصلح موعودؓ نے تو یہ لکھا ہے کہ اگر مجبوری ہے تو کرو ورنہ ذکر الہی میں وہ وقت گزارو.لیکن اس کام کے دوران بھی ذکر الہی کرتے رہو اور پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ باقی نمازیں بھی وقت پر ادا کرنی ہیں.یہ غلط نہی جو بعض میں ہوتی ہے کہ جمعہ نماز پڑھ لی باقی دیکھی جائے گی اس کی بھی اصلاح فرما دی کہ ذکر الہی ہر وقت رکھو اور جب دل میں ذکر الہی کر رہے ہو گے تو لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پھر

Page 826

821 $2004 خطبات مسرور نماز کا بھی خیال رہے گا اور نمازیں وقت پر پڑھو گے اور جب نمازیں وقت پر پڑھو گے تو شیطان سے بھی بچتے رہو گے اور برائیوں سے بھی بچتے رہو گے.جیسا کہ فرماتا ہے کہ ﴿إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾ (العنکبوت: 46) نما ز نا پسندیدہ اور بری باتوں سے روکتی رہتی ہے اور اس وجہ سے پھر جنت سے نکلنے کی بجائے ، جنت میں داخل ہونے والے بن جاؤ گے.اور جو انذار ہے اس دن کا اس دن سے بچ جاؤ گے، برائیوں سے بچ جاؤ گے.تو عبادت کرنے کا ایک تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا پھر شیطان سے بچنے کے لئے عبادت کرو جمعے کا خاص خیال رکھو اور پھر عبادت کے آگے کچھ طریقے بھی آنحضرت ﷺ نے ہمیں بتائے ہیں.اب ہر کوئی ہم میں سے یہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ صرف اور صرف آنحضرت ﷺ کے واسطہ سے ہی ہے.اس وقت اگر کوئی زندہ مذہب ہے تو اسلام ہے.اس وقت اگر کوئی مذہب بندے کا خدا سے براہ راست تعلق پیدا کرسکتا ہے تو وہ اسلام ہے.لیکن یہ براہ راست اس طرح ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کوذ ریعہ بنائے.جو آپ کی پیروی نہیں کرتا وہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا.جو آپ پر درود نہیں بھیجتا اس کی دعائیں بھی وہ قبولیت کا درجہ نہیں پاتیں.اس لئے ہمیں حکم ہے کہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجتے رہو.اور اس ذریعے سے خدا کا قرب پانے والے بن جاؤ لیکن جمعہ کے دن اس درود کی بھی ایک خاص اہمیت ہے.الله ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ: دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن مجھ پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے.(ابوداؤد كتاب الصلواة باب تفريع ابواب الجمعة) تو دیکھیں یہاں بھی جمعہ کی اہمیت درود کے حوالے سے بتائی گئی ہے اور درود آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفاعت کا حق عطا فرمایا ہے.پھر یہ جمعہ کا درود ہی ہے اگر ہم بھیجیں گے تو آپ کو پیش ہو کر ہمارے کھاتے میں جمع ہوتا چلا جائے گا.بلکہ ہر وقت درود بھیجنا چاہئے اور جمعہ پر خاص طور پر.تو یہ جمعہ کے دن کی اہمیت بتانے کے لئے ہے.یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ جمعۃ الوداع کے دن جو تم درود بھیجو گے وہ خاص طور پر میرے سامنے پیش ہوگا بلکہ ہر جمعہ کے دن جو درود ہے وہ پیش ہو گا.یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ جمعتہ الوداع کی کوئی اپنی خاص اہمیت نہیں کوئی

Page 827

$2004 822 خطبات مسرور حیثیت نہیں.کہیں قرآن وحدیث سے اس کا پتہ نہیں لگتا.یہ سب بعد کی اختر ائیں ہیں، بعد کی باتیں ہیں جو بعض مفاد پرست علماء یا نام نہاد فقہاء نے اپنے مطلب حاصل کرنے کے لئے بنالی ہیں.پھر اس کے ذریعہ سے عوام الناس کو بھی گمراہ کیا جاتا ہے تو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ شیطان بھی خاص طور پر اس دن کے حملے زیادہ زور دار طریقے سے کرتا ہے اور زیادہ منصوبے بنا کے کرتا ہے.اس لئے اس کو یہ تکلیف ہے اور تھی کہ آج کے دن آدم کو پیدا کیا گیا ہے؟ میرے مقابلے پر لایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے نیچے دکھایا ہے کم تر حیثیت میری ہو گئی ہے تو اصل میں تو شیطان کی لڑائی اللہ تعالیٰ سے تھی.لیکن اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے بندوں کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اس کے لئے اس کو چھٹی بھی ملی ہوئی ہے کہ ٹھیک ہے کرو جو تمہارے قابو میں آئیں گے وہ جہنم میں جائیں گے.جو نیکیوں پر قائم رہیں گے وہ جنت میں جائیں گے.وہ تو اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ رحمن کے بندے کم سے کم دنیا میں ہوں لیکن آج احمدی کا یہ کام ہے کہ جمعہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمیشہ جمعہ کی حاضری کو لازمی اور یقینی بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور آنحضرت ﷺ پر درود کی وجہ سے رحمان کے بندے بننے کی کوشش کریں.اور جب رحمان کے بندے بننے کی کوشش کر رہے ہوں گے تو صرف جمعوں کی حاضری کی فکر ہی نہیں ہوگی ہمیں، بلکہ پھر نمازوں کی حاضری کی بھی فکر ہو گی.اور مسجدوں کی آبادی کی بھی فکر ہوگی.اپنی غلطیوں ، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی بھی فکر ہوگی.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.حضرت ابو ہریرہ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک، اور رمضان اگلے رمضان تک ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں.جب تک کہ وہ بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے.(صحیح مسلم - كتاب الطهارة تو یہاں بات بالکل کھول دی کہ پانچ نمازیں کفارہ بنتی ہیں یعنی جب انسان کو ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی فکر رہے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش بھی کرتا رہے اور پھر نمازیں بھی ادا کرے پھر ایک جمعہ اگلے جمعہ تک کا کفارہ بنتا ہے.ان سات دنوں میں نماز کی ادائیگی کی وجہ سے اور

Page 828

$2004 823 خطبات مسرور بڑے بڑے گنا ہوں سے بچنے کی وجہ سے اور اس سوچ کی وجہ سے کہ میں نے گزشتہ جمعہ میں یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ فلاں فلاں برائی نہیں کرنی اور اس وجہ سے خدا سے معافی کا طلبگار ہوا تھا تو پھر یقیناوہ انسان برائی سے بچنے کی کوشش بھی کرتا رہے گا.کیونکہ یہ احساس رہے گا کہ میں بھی گزشتہ جمعہ میں خدا سے فلاں برائی کو چھوڑنے اور فلاں چیز کے حصول کا طلبگار ہوا تھا.اگر میں نے دوبارہ یہی برائی کی تو کس منہ سے اگلے جمعہ اس کے سامنے حاضر ہوں گا.تو اس طرح یہ کفارہ بن جاتا ہے.اگلا جمعہ گواہی دیتا ہے کہ یہ بڑے گنا ہوں سے بچتا رہا.اور اگر سال کے بعد ہی جمعہ پڑھنا ہے تو سال کے بعد تو انسان ویسے بھی بھول جاتا ہے بہت ساری باتیں، بہت سارے وعدے، بہت سارے عہد کئے ہوئے ہیں یا نہیں کئے ہوئے.پھر فرمایا کہ رمضان کفارہ بن جاتا ہے.اگر نمازوں اور جمعوں کی ادا ئیگی ہو رہی ہوگی اور نیکیاں قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو ظاہر ہے رمضان نے بھی اس کا کفارہ بنا ہے.تو کفارے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نماز میں یہ جمعے یہ رمضان اس بات کی گواہی کے لئے کھڑے ہو جائیں گے کہ بعض چھوٹی چھوٹی غلطیاں جو اس شخص سے ہوئی ہیں یا بعض بیوقوفیوں کی وجہ سے جو غلطیاں ہوئی ہیں یہ عبادتیں کہیں گی کہ اے اللہ تیرے خوف کی وجہ سے اور تجھ سے محبت کی وجہ سے یہ انسان یہ مومن بندہ تیرے حضور پانچ وقت حاضر ہوتا رہا، تیرے سے ان برائیوں کی معافی بھی مانگتا رہا ہے اور بڑے گناہوں سے بھی بچتا رہا ہے.جمعہ کہے گا کہ ان سات دنوں میں اس شخص نے بڑے بڑے گناہوں اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کی اور محفوظ رہا لیکن بعض چھوٹی غلطیاں ہو بھی گئی ہیں تو معاف کر دے.یہ بہر حال اپنا عہد نبھانے کی کوشش کرتا رہا ہے رمضان کہے گا کہ جو رمضان کا حق تھا اس طرح اس مومن بندے نے روزے بھی رکھے اور آئندہ رمضان کے انتظار میں بھی رہا اور عموماً برائیوں سے بچتا رہا چھوٹی موٹی غلطیاں کو تا ہیاں اگر ہوگئی ہیں تو اس کو معاف کر دے.تو جب یہ عبادتیں جو ہیں یہ اس مومن بندے کا اس طرح ساتھ دے رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہورہی ہوں گی تو ان عبادتوں کی وجہ سے بشرطیکہ وہ نیک نیتی سے کی گئی ہوں ، دکھاوے کے لئے نہ ہوں کیونکہ دکھاوے کی عبادتیں منہ پہ ماری جاتی ہیں تو نیک نیتی سے کی

Page 829

824 $2004 خطبات مسرور گئیں عبادتیں اس کو نیکیوں میں اور بڑھاتی چلی جائیں گی اور وہ نیکیوں کے اعلیٰ معیار قائم دور ہو کرتا چلا جائے گا.اور ایک وقت آئے گا کہ جب چھوٹی چھوٹی برائیاں بھی جائیں گی.تو یہ ہے عبادتوں کا کفارہ ادا کرنے کا مطلب.پھر جمعہ کے دن قبولیت دعا کے بارے میں ایک روایت اس طرح آتی ہے.پھر ایک روایت ہے ابو جعد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے متواتر تین جمعے جان بوجھ کر چھوڑ دیئے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے.(ترمذی كتاب الجمعة باب ما جاء في ترك الجمعة تو جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ کوئی روایت نہیں ملتی جس سے جمعتہ الوداع کا پتہ لگتا ہو کہ اس کی کوئی خاص اہمیت ہے اس دن پڑھ لو تو بس سب کچھ معاف ہو گیا.لیکن ہر جمعہ کی اہمیت کا روایت میں بہر حال ذکر ہے.اب اس روایت میں بھی یہی فرمایا کہ جان بوجھ کر جمعہ چھوڑنے والے کے دل پر مہر لگ جاتی ہے.اور جن کے دلوں پر مہر لگ جائے وہ دین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ جب خدا کو بھی بھول جاتے ہیں.بڑا سخت انذار ہے.ہراحمدی کو اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے.اب جو لوگ سال کے بعد جمعہ پڑھتے ہیں یا عید پڑھتے ہیں ان کو یا درکھنا چاہئے کہ جمعہ بھی ایک طرح کی عید ہی ہے.پہلی حدیث سے واضح ہو گیا تین جمعے سے زیادہ چھوڑو تو پھر داغ لگ جاتا ہے.پھر جو عید کو اہمیت دیتے ہیں جمعے کو اہمیت نہیں دیتے اس بارے میں آنحضرت مہ نے ایک جمعے کے خطبے کے دوران ہی فرمایا کہ اے مسلمانو! اس دن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عید بنایا ہے.اس روز نہایا کرو اور مسواک ضرور کیا کرو.(المعجم الصغير للطبراني - باب الحاء من اسمه الحسن) یعنی اس روز نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کے اچھے کپڑے پہن کے جس طرح عید کی خوشی مناتے ہیں اس طرح خوشی مناؤ.اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ایک جگہ اکٹھے ہو.تو بعض لوگ میں نے دیکھا ہے شائد اس وجہ سے جمعہ والے دن اپنی توفیق کے مطابق خاص طور پر کھانا بھی بڑے

Page 830

825 $2004 خطبات مسرور اہتمام سے پکاتے ہیں.تو اگر یہ اہتمام اس سوچ کی وجہ سے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ عید سمجھ کے مناؤ تو کھانے کے ساتھ ساتھ پھر ثواب ملتا چلا جائے گا.پھر جمعہ پر آنے والوں کو آپ ﷺ نے ایک اور پیارے انداز میں ترغیب بھی دلائی ہے.روایت میں آتا ہے ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابو عبدالله آغر نے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب جمعہ کا دن ہوتا ہے مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے ہوتے ہیں وہ مسجد میں پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور اس طرح وہ آنے والوں کی فہرست تیار کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب امام خطبہ دے کر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور ذکر الہی سننے میں لگ جاتے ہیں.(مسلم کتاب الجمعة ـ باب فضل التهجير يوم الجمعة) تو پہلے آنا بھی ثواب کا کام ہے کہ جلدی آنے کا حکم ہے اللہ تعالیٰ کا کہ جلدی نماز کی طرف آیا کرو.کیونکہ شیطان تو اسی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ کسی طرح رو کے اور اگر اس کی کوششوں کے باوجود مسجد میں آنے کی طرف توجہ رہتی ہے، جمعہ پڑھنے کی طرف توجہ رہتی ہے جو اس زمانے میں اور بہت سی مصروفیات کی وجہ سے اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے، تو آنے کی وجہ سے ہی وہ ثواب کا حق دار ٹھہر رہا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے بہت سارا ثواب کا حصہ لے رہا ہوتا ہے.اس جلدی آنے کے بارے میں ایک اور روایت میں اس طرح آتا ہے.عَلْقَمَه روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ہمراہ جمعہ کے لئے گیا.انہوں نے دیکھا کہ ان سے پہلے تین آدمی مسجد پہنچ چکے تھے.انہوں نے کہا چوتھا میں ہوں.پھر کہا خیر چوتھا ہونے میں کوئی دوری نہیں.پھر کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور جمعوں میں آنے کے حساب سے بیٹھے ہوں گے یعنی پہلا ، دوسرا، تیسرا پھر انہوں نے کہا چوتھا اور چوتھا بھی اللہ تعالیٰ کے دربار میں بیٹھنے کے لحاظ سے کوئی دور نہیں ہے.(سنن ابن ماجه - کتاب اقامة الصلواة والسنة فيها ـ باب ما جاء فى التهجير الى الجمعة) تو جمعہ پر جلدی آنے کے لئے صحابہ کی یہی کوشش ہوتی تھی اور یہ شوق ہوتا تھا.احمدیوں کو

Page 831

$2004 826 خطبات مسرور بھی اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے کیونکہ یہ سورہ جمعہ ہی ہے جس میں آخرین کا، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا پہلوں سے یعنی صحابہ سے ملنے کا ذکر ہے.تو یہ ملنا تو سبھی ملنا ہو گا جب ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں گے.پس جیسا کہ میں نے کہا ہے احمدیوں کو جمعہ کی حاضری اور اس کی حفاظت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.کیونکہ ایک تو اپنی ذات میں جمعہ کی ایک خاص اہمیت ہے.جو باتیں میں نے ابھی بتائی ہیں قرآن وحدیث سے بڑا واضح ہے.دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد جو ایک ہاتھ پر جمع ہو کر اپنے اوپر ہم نے ایک اور زیادہ ذمہ واری ڈال لی ہے کہ اکٹھے ہو کر دعائیں کرتے ہوئے ہم نے تمام دنیا کو ایک ہاتھ پہ جمع بھی کرنا ہے.تمام دنیا کو آنحضرت ﷺ کے غلام کی جماعت میں شامل بھی کرنا ہے.اس ذمہ داری کو نبھانا ہے اس کے لئے کوششیں بھی بہت زیادہ کرنی ہوں گی.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ احمدیوں میں تو نہیں ہوتا لیکن بعض غیروں میں ہوتا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے، نظریہ ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن قضاء عمری پڑھ لو تو پچھلی تمام زندگی کی چھوڑی ہوئی نمازیں ادا ہو جاتی ہیں اور ان دورکعتوں میں سب کچھ پورا ہو گیا.اللہ کا شکر ہے کہ احمدی اس بدعت سے پاک ہیں.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کسی نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ: ” جو شخص عمد ا سال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضاء عمری والے دن ادا کر لوں گا وہ گنہگار ہے.اور جو شخص نادم ہو کر تو بہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں.ہم تو اس معاملے میں حضرت علی ہی کا جواب دیتے ہیں“.حضرت علی کا جواب ایک اور روایت میں آپ نے اس طرح فرمایا ہے کہ : ” ایک دفعہ ایک شخص بے وقت نماز پڑھ رہا تھا کسی شخص نے حضرت علی کو کہا کہ آپ خلیفہ وقت ہیں آپ اسے منع کیوں نہیں کرتے.فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بنایا جاؤں.کہ ارَعَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى (العلق : 10-11) ہاں اگر کسی شخص نے عمد أنماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضاء عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیا ہے“.پھر آپ فرماتے

Page 832

$2004 827 خطبات مسرور ہیں کہ : ”ہاں اگر کسی شخص نے عمد انماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضاء عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیا ہے.اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے، یعنی اگر شرمندگی بھی ہے یہ کہتا ہے کہ تو بہ تائب کرنا چاہتا ہے تو پڑھنے دو اس کو کیوں منع کرتے ہو.آخر دعا ہی کرتا ہے“.فرمایا کہ اس میں پست ہمتی ضرور ہے اور ہمارے لئے فرمایا بعض لوگ اعتراض بھی کر دیتے ہیں کہ دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچے نہ آجاؤ“.(الحکم مورخه 24 اپریل 1903ء صفحه 12 کالم نمبر (3) تو یتھی جمعہ کی اہمیت لیکن ان ساری باتوں کے باوجود بعض لوگ خطبہ سنیں گے کچھ اپنے پر سختی طاری کر لیں گے، کچھ دوسروں کے لئے سخت ہو جائیں گے.کچھ لوگوں کے لئے جمعہ پہ چھوٹ بھی ہے اس کا بھی میں ذکر کر دیتا ہوں.طارق بن شہاب روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا ایسا حق ہے جو واجب ہے.یعنی فرض ہے.سوائے چار قسم کے افراد کے یعنی غلام، عورت، بچہ اور مریض.(ابو داؤد.کتاب الصلواة ـ باب الجمعة للمملوك والمرأة) تو ان چار کو چھوٹ دی گئی ہے.خاص طور پر بچوں والی عورتیں جن کے بالکل چھوٹے بچے ہیں جن کے رونے یا شور کرنے سے دوسرے ڈسٹرب ہو رہے ہوں ان کی نما ز خراب ہو رہی ہو خطبہ سننے میں دقت پیدا ہورہی ہو ان کے لئے تو بہتر یہی ہے کہ وہ گھر میں ہی رہیں ، گھر میں ہی نماز ادا کر لیا کریں.یہ جو چھوٹ دی گئی ہے یہ اپنی تکلیف یا مجبوری کے علاوہ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لئے بھی ہے.اور پہلے یہاں ذکر ہے غلام کا غلام تو اس زمانے میں رہے نہیں لیکن بعض دفعہ شیطان نفس میں ڈال دیتا ہے ملازم پیشہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم اس کی کیٹگری میں آگئے.وہ اس میں نہیں ہیں، میں واضح کر دوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ چھوٹے بچوں والی عورتوں کو تو جمعہ پڑھانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے.خدا کے نبی ﷺ نے یہ چھوٹ دی ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں اور جمعہ کے آداب کے لحاظ سے بھی ضروری ہے.جمعہ کا خطبہ جو ہے وہ بھی جمعہ کا حصہ ہے.اس لئے اس میں بھی خاموش بیٹھنا ضروری ہے.بچوں کے بولنے کی وجہ سے ماں باپ ان کو چپ کرواتے ہیں

Page 833

828 $2004 خطبات مسرور چاہے وہ آہستہ آواز میں چپ کروا ر ہے ہوں تو ساتھ بیٹھے ہوئے کو پھر بھی تکلیف ہوتی ہے، خاص طور پر عورتوں کی طرف سے کافی شکایتیں آتی ہیں.اس لئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ چھوٹے بچے اور ان کی مائیں گھر پر ہی رہیں.ہاں عید پر آنے کا حکم ہے اس پر ضرور آیا کریں.کیونکہ پرسوں عید بھی ہے یہ نہ ہو کہ سمجھیں کہ عید بھی معاف ہو گئی.اور بچوں کے لئے علیحدہ جگہ جہاں بنی ہو وہاں بیٹھنا چاہئے ، عام جو نماز کا ہال ہے وہاں نہ بیٹھیں.یہاں بیت الفتوح میں تو اللہ کے فضل سے ویسے بھی ایک علیحدہ جگہ بنی ہوئی ہے بچوں کے لئے.لیکن شاید رش کی وجہ سے وہ علاقہ بھی مردوں کو مل جائے مجھے نہیں پتہ کیا پروگرام ہے ان کا.لیکن بہر حال بچوں والی عورتیں ایک طرف ہو کر بیٹھیں ، دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں.آنحضرت ﷺ نے تو جائز وجہ سے بھی خطبے کے دوران بولنے کو نا پسند فرمایا ہے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جمعے کے روز جب امام خطبہ دے رہا ہوا اگر تم اپنے قریبی ساتھی کو اگر وہ بول رہا ہے تو اس کو کہو خاموش ہو جاؤ تو تمہارا یہ کہنا بھی لغوفعل ہے.(ترمذى كتاب الجمعة باب ما جاء في كراهية الكلام والامام يخطب) تو یہ دیکھیں یوں خاموش کروانا، بول کے خاموش کروانے کی بھی پابندی ہے اس کو بھی لغو قرار دیا گیا ہے.کسی کو بھی چپ کروانا ہو چاہے چھوٹے بچوں کو یا بڑوں کو تو ہاتھ کے اشارے سے چپ کروانا چاہئے.تو یہ جمعہ سے متعلق چند باتیں ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمعہ کی اہمیت کو سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور اپنی ذمہ داریوں کو اس سلسلے میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ رمضان جس کا کل یہاں آخری روزہ ہے باقی دنیا میں بھی کل یا پرسوں ختم ہو جائے گا اس رمضان میں جو برکات ہم نے حاصل کی ہیں اور اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ اس کوشش کو یا ان کوششوں کو دائمی بنادے، ہماری زندگیوں کا حصہ بنادے.اور جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے سارا سال ہمیں گناہوں سے بچنے اور عبادتوں کے معیار قائم کرنے کی توفیق ملتی رہے تا کہ آئندہ رمضان بھی جو آئے اور اس کے علاوہ جتنے رمضان بھی ہماری زندگیوں میں آنے مقدر ہیں ہمارے لئے کفارہ بن جائیں.جو آج جمعتہ الوداع میں شامل ہوئے ہیں، جمعہ میں شامل ہوئے ہیں جمعتہ الوداع سمجھ کر وہ اس عہد کے ساتھ اٹھیں اور وہ لوگ بھی جو کبھی

Page 834

$2004 829 خطبات مسرور کبھار جمعوں پہ آتے ہیں تین چار جمعے Miss کرنے کے بعد ایک جمعہ پڑھ لیاوہ بھی اس عہد کے ساتھ اٹھیں کہ یہ جمعہ جو ہے، جمعۃ الوداع نہیں ہے.بلکہ جس طرح دوڑ شروع ہونے سے پہلے ایک لائن بنائی جاتی ہے جس پر دوڑنے والے دوڑ شروع ہونے سے پہلے کھڑے ہوتے ہیں یہ جمعہ جو ہے یہ اس لائن کی طرح ہو اور دل میں یہ عہد ہو کہ آج اس پوائنٹ سے ہم نے یا اس لائن سے ہم نے اپنی نیکیوں کی دوڑ شروع کر دینی ہے.اور نہ کوئی نماز قضاء کرنی ہے اور نہ کوئی جمعہ چھوڑنا ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے خاص کوشش ہمیشہ کرتے رہنا ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں.اپنے لئے بھی دعائیں کرنی ہیں، اپنے بھائیوں کے لئے بھی دعائیں کرنی ہیں.اور یہ رمضان کا جو ڈیڑھ دن رہ گیا ہے اس میں خاص طور پر توجہ دیں اور دعائیں کرتے رہیں.کوئی لمحہ بھی قبولیت دعا کالمحہ ہو سکتا ہے.ا س میں بھی جتنے دن جتنا عرصہ رہ گیا ہے چاہے چند گھنٹے ہوں اس میں بھی اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.دعا کی ایک درخواست یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش میں اور پاکستان میں بھی حالات کافی خراب ہیں.بنگلہ دیش میں احمدیوں کے لحاظ سے، پاکستان میں عمومی طور پر لیکن احمدیوں کے علیحدہ بھی.تو ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.عالم اسلام کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.مسلمانوں پر آج کل بڑا شد ید ظلم ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور مسلمانوں کو بھی عقل اور سمجھ دے جو اس زمانے کے امام کو پہچانیں.

Page 835

$2004 830 خطبات مسرور

Page 836

$2004 831 47 خطبات مسرور ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ کسی کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا تو دور کی بات ہے اگر کوئی کسی کی غلطی غیر ارادی طور پر بھی علم میں آجائے تو اس کی ستاری کرے.19 نومبر ۲۰۰۴ء بمطابق 19 / نبوت ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن.لندن ) ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کی ستاری کرے ے انفرادی اور اجتماعی سطح پر دوسروں کی کمزوریوں کو تلاش کرنا اور لوہ میں لگے رہنا یہ سب لغو اور بے حودہ حرکتیں ہیں.اور اس کے خطر ناک نقصان اگر کسی سے ہمدردی ہے تو اس کو سمجھاؤ اور دعا کرو پردہ پوشی اور خطائیں بخشنے کی تعلیم اور فوائد

Page 837

خطبات مسرور $2004 832 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا اسلام نے ہمیں (مسلمانوں کو آپس میں گھل مل کر رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ معاشرے میں اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے پر بہت زور دیا ہے.مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو، آپس میں محبت اور پیار سے رہو، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو اور انسان سے کیونکہ غلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں، اس لئے اپنے ساتھیوں، اپنے بھائیوں، اپنے ہمسایوں یا اپنے ماحول کے لوگوں کے لئے ان کی غلطیاں تلاش کرنے کے لئے ہر وقت ٹوہ میں نہ لگے رہو، تجس میں نہ لگے رہو کہ کسی طرح میں کسی کی غلطی پکڑوں اور پھر اس کو لے کر آگے چلوں.یہ بڑی لغو اور بیہودہ حرکت ہے.یہ غلطیاں پکڑنے والے یا پکڑنے کا شوق رکھنے والے لوگ عموماً یا تو کوئی غلطی پکڑ کر جس کی غلطی پکڑی ہو اس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے کوئی کام لینے کوشش کرتے ہیں، کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں انفرادی طور سے لے کر ملکوں کی سطح تک یہ حرکتیں کی جاتی ہیں.اس کے لئے بڑے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں.اور اس طرح بعض لوگوں کو ان کے اپنے ملکوں کے خلاف بھی استعمال کر لیا جاتا ہے ، جب ملکی سطح پر یہ کام ہور ہے ہوں.پھر انفرادی طور پر برادریوں میں بعض لوگوں کو ایک دوسرے کی کمزوریاں تلاش کرنے کی عادت ہوتی ہے تاکہ ان کی بدنامی کی جائے.بعض ظالم تو اس طرح بعضوں کی کمزوریاں تلاش

Page 838

833 $2004 خطبات مسرور کر کے یا نہ بھی کمزوری ہو تو باتیں پھیلا کر بچیوں کے رشتے تڑوانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ، اس سے بھی باز نہیں آتے.دوسرے فریق کو جا کر بعض دفعہ جہاں رشتے کی بات چل رہی ہو اس طرح غلط بات کہہ دیتے ہیں کہ اگلا پھر فکر میں پڑ جاتا ہے کہ میں رشتہ کروں بھی کہ نہ.مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح لڑکی والوں کو تکلیف میں ڈالا جائے.بعض لوگ صرف عادتاً زبان کا مزہ لینے کے لئے ہنسی ٹھیٹھے کے رنگ میں کسی کی کمزوری کو لے کر اچھالتے ہیں.اور آج کل کے معاشرے میں یہ تکلیف دہ صورتحال کچھ زیادہ ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے.شاید اس لئے کہ آپس کے رابطے آسان ہو گئے ہیں.تو بہر حال کوئی خاص فائدہ اٹھانے کے لئے یا کسی کو بدنام کرنے کے لئے یا زبان کا مزہ لینے کے لئے دوسروں کی کمزوریوں اور غلطیوں کو اچھالا جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ ایسا موقع پیدا کیا جاتا ہے کہ کوئی غلطی کسی سے کروائی جائے اور پھر اس کو پکڑ کر فائدہ اٹھایا جائے.تو ان حالات میں جیسا کہ میں نے کہا صرف اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ کہتا ہے کہ ان بیہودگیوں اور ان لغویات سے بچو، اور اس زمانے میں، آج کل حقیقی اسلام کا نمونہ دکھانے والا اگر کوئی ہے یا ہونا چاہئے تو وہ احمدی ہے.اس لئے ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ کسی کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا تو دور کی بات ہے اگر کوئی کسی کی غلطی غیر ارادی طور پر بھی علم میں آجائے تو اس کی ستاری کرنا بھی ضروری ہے.کیونکہ ہر ایک کی ایک عزت نفس ہوتی ہے.اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے.دوسرے اگر کوئی برائی ہے، حقیقت میں کوئی ہے تو اس کے اظہار سے ایک تو اس کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہوں گے دوسرے دوسروں کو بھی اس برائی کا احساس مٹ جاتا ہے، جب آہستہ آہستہ برائیوں کا ذکر ہونا شروع ہو جائے.اور آہستہ آہستہ معاشرے کے اور لوگ بھی اس برائی میں ملوث ہو جاتے ہیں.اس لئے ہمیں واضح حکم ہے کہ جو باتیں معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی ہوں یا بگاڑ پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہوں، ان کی تشہیر نہیں کرنی، ان کو پھیلانا نہیں ہے.دعا کرو اور ان برائیوں سے ایک طرف ہو جاؤ.اور اگر کسی سے ہمدردی ہے تو دعا اور ذاتی طور پر سمجھا کر اس برائی کو دور کرنے کی کوشش

Page 839

$2004 834 خطبات مسرور کرنا ہی سب سے بڑا علاج ہے.سوائے اس کے کہ ایسی صورت ہو کہ جس میں جماعتی خبر ہو یا جماعت کے خلاف کوئی بات سنیں، جماعتی نقصان کا احتمال ہو اور کوئی ایسی بات پتہ لگے جیسا کہ میں نے کہا ، جس سے جماعتی نقصان ہونے کا خدشہ ہو تو پھر متعلقہ عہد یداروں کو، یا مجھے تک یہ بات پہنچائی جاسکتی ہے.ادھر ادھر باتیں کرنے کا پھر بھی کوئی حق نہیں اور کوئی ضرورت نہیں.اس سے برائی پھیلتی ہے.اگر مثلاً اس غلطی کرنے والے شخص کی اصلاح کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی یا جھوٹ بول کر غلط بیانی کر کے وقتی طور پر اس نے اپنی جان بچالی تو دوسرے بھی جن کی طبیعت میں کمزوری ہے وہ بھی بعض دفعہ ایسی باتیں کر جائیں گے، اپنی کمزوریاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے.کیونکہ ان کے ذہنوں میں بھی یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی غلطی پکڑ کے اس عہدیدار نے یا اس شخص نے کیا کر لیا جو ہمارے خلاف ہو جائے گا.اس شخص کا کیا بگڑ گیا ہے.زبان کا مزہ لینے کے لئے بعض باتیں کر لو بعد میں دیکھی جائے گی.اس قسم کی باتیں برائیاں پھیلاتی ہیں، حجاب اٹھ جاتے ہیں.تو بہر حال یہ تو ایسے لوگوں کی سوچ کا قصور ہے، تقویٰ کی کمی ہے لیکن جس شخص کو نظام کے خلاف کوئی بات پتہ چلے، اس کا بہر حال یہ فرض بنتا ہے کہ ایسی بات صرف نظام جماعت کو ہی بتائے اور ادھر ادھر نہ کرے.کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ سننے والے کو کوئی غلطی لگ جاتی ہے.بعض دفعہ بات کرنے والا با وجود جماعتی اخلاص کے وقتی جوش میں کوئی ایسی بات کہہ جاتا ہے جس پر بعد میں اسے بھی شرمندگی ہوتی ہے اور ایک دفعہ بات سن کے آگے پھیلا دینا مزید شرمندگی کا باعث بنتا ہے.بعض دفعہ صحیح الفاظ کسی نے ادا نہیں کئے ہوتے تو اس وجہ سے اس بات کی بہت زیادہ بھیانک شکل نظر آنے لگ جاتی ہے.تو بہر حال کوئی بھی ایسی کمزوری ہو یا تو اس کو علیحدگی میں سمجھا دیا جائے یا جماعتی عہد یدار کو بتا دیا جائے کہ اس طرح کی بات میں نے سنی ہے آپ تحقیق کر لیں.لیکن کسی کی کسی قسم کی بات کو کبھی بھی پھیلانا نہیں چاہئے جس سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہو.ہوسکتا ہے کسی وقت یہی غلطی آپ سے بھی ہو جائے اور پھر اس طرح چرچا ہونے لگے، بدنامی ہو تو کتنی

Page 840

خطبات مسرور 835 $2004 تکلیف پہنچتی ہے.ہر ایک کو اس سوچ کے ساتھ اگلے کی بات کرنی چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے اور مسلمانوں نے جس خدا کو مانا ہے وہ رحیم ، کریم حلیم ، تو اب اور غفار ہے.جو شخص سچی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے.اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے.لیکن دنیا میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصور دیکھ لیتا ہے پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آ جاوے مگر اسے عیبی ہی سمجھتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کیسا کریم ہے کہ انسان ہزاروں عیب کر کے بھی رجوع کرتا ہے تو بخش دیتا ہے.دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے ( جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے بلکہ عام طور پر تو یہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے " خدا داند بپوشد و همسایه نداند و بخروشد “ کہ خدا تعالیٰ تو جانتے ہوئے بھی پردہ پوشی کرتا ہے لیکن ہمسایہ تھوڑ اعلم ہونے کے باوجود اس کی مشہوری کرتا ہے.فرمایا: ” پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم الشان صفت ہے.یہ بالکل سچ ہے کہ اگر وہ مواخذہ پر آئے تو سب کو تباہ کر دے.لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے“.(ملفوظات جلد 4 صفحه 138 137 الحكم 24 ستمبر (1904 تو دیکھیں کس طرح آپ نے دوسروں کی ستاری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے، اور اس رحم کی صفت کی وجہ سے اپنے بندوں کو بخش دیتا ہے.بہت دیالو ہے، بہت دینے والا ہے.حلیم ہے، تو بہ قبول کرتا ہے اس لئے بندے کو کیا پتہ کہ کس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کرنا ہے.سعدی کا قول آپ نے بتایا ہے ، جیسا کہ میں نے بتایا، کہ اللہ تعالیٰ تو بعض نقائص کا علم ہونے کے باوجود بندے کی پردہ پوشی کرتا ہے اور ہمسایہ جس کو شاید پوری بات کا علم نہ ہو کوئی ایک پوائنٹ لے کے، کوئی ایک بات لے کے، کوئی ایک فقرہ لے کے بعض دفعہ کوئی لفظ لے کر ہی کسی کو

Page 841

836 $2004 خطبات مسرور بد نام کرنے کے لئے وہ شور مچاتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں ہوتی.اس لئے ہر ایک کو استغفار کرتے رہنا چاہئے.کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ حساب لینے لگے تو فرمایا کہ شاید سب یہیں پکڑے جائیں لیکن اس کا رحم اور کرم ہے جو ہم سب ابھی تک بچے ہوئے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے.کہ آنحضرت ﷺ نے راز اور سرگوشی کے انداز میں فرمایا کہ: تم میں سے کوئی اپنے رب کے قریب ہو گا.یہاں تک کہ وہ اپنا سایہ رحمت اس پر ڈالے گا، پھر فرمائے گا تو نے فلاں فلاں کام کیا تھا ! وہ کہے گا ہاں میرے رب ! پھر کہے گا فلاں فلاں کام بھی کیا تھا ؟ وہ اقرار کرے گا.اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا.میں نے اس دنیا میں تیری کمزوریوں کی پردہ پوشی کی آج قیامت کے دن بھی پردہ پوشی کرتا ہوں اور انہیں معاف کرتا ہوں“.یہ پچھلی حدیث کی وضاحت ہی ہے ) (بخاری کتاب الادب باب ستر المومن على نفسه پھر ایک اور روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے.کہ آنحضور نے فرمایا: ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے.وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے یکا و تنہا چھوڑتا ہے.جوشخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی حاجات پوری کرتا جاتا ہے.اور جس نے کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مصائب میں سے ایک مصیبت کم کر دے گا اور جو کسی مسلمان کی ستاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ستاری فرمائے گا.(ریاض الصالحین.باب فی قضاء حوائج المسلمين ) تو دیکھیں یہ اللہ تعالیٰ کی ستاری ہی ہے جس سے گناہ بخشے جاتے ہیں.ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب تک اپنے بھائی کی مدد کرنے کے لئے کوشاں رہے گا، کوشش بھی کرتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا چلا جائے گا.اس سے ملتی جلتی ایک اور روایت بھی ہے لیکن اس میں ایک انذار بھی ہے، ڈرایا بھی گیا ہے پردہ پوشی نہ کرنے والے کو.حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: ”جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کے کسی عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے عیب کو ڈھانپ

Page 842

$2004 837 خطبات مسرور دے گا اور ستاری فرمائے گا.اور جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ دری کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب اور نگ کو اس طرح ظاہر کرے گا کہ اس کے گھر میں اس کو رسوا کر دے گا“.(سنن ابن ماجه كتاب الحدود باب الستر على المو من دفع الحدود........پس دیکھیں کس قدر انذار ہے.کمزوریاں تو سب میں ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ جب جنگ ظاہر کر کے رسوا کرنے لگے تو پھر آدمی کی کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی.کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہوتی.اس لئے ہمیشہ دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے ہر ایک کو اپنے پر نظر رکھنی چاہئے.پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ” کوئی بندہ کسی بندے کی اس دنیا میں پردہ پوشی نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائے گا“.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والاداب باب بشارة من ستر الله له یعنی پردہ پوشی کواللہ تعالیٰ بغیر اجر کے نہیں چھوڑے گا.اور قیامت کے دن اس کا اجر دے گا.برائی کے اظہار سے برائی پھیلنے کا اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینے کا خطرہ ہوتا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا.اس لئے برائی کا اظہار بھی نہیں کرنا چاہئے.اس سے برائی پھیلتی ہے.اور یہ تجربے میں بات آئی ہے کہ دیکھا دیکھی بہت سی برائیاں پھیلتی ہیں.اور اسی بارے میں آنحضرت صلى الله نے ہمیں بڑی تاکید فرمائی ہے.آپ نے فرمایا کہ: ”اگر تو لوگوں کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا تو انہیں بگاڑ دے گا ، یا ان میں بگاڑ کی راہ پیدا کر دے گا“.(سنن ابی داود كتاب الادب باب ما في النهي عن التجسس کمزوریوں کے پیچھے پڑ کے پھر ان کو اچھالنے کا ، لوگوں پر ظاہر کرنے کا ، پھیلانے کا مقصد ہوتا ہے یا کوئی بھی برائی جب اس کو پھیلایا جائے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے.اس میں ان لوگوں کے لئے جو تجسس کر کے دوسروں کے عیب تلاش کرتے ہیں یا ان کے عیبوں اور کمزوریوں کو پھیلاتے ہیں، سمجھایا گیا ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ اس طرح تم شاید کوئی اصلاحی کام کر رہے ہو بلکہ بگاڑ پیدا کر رہے ہو.

Page 843

$2004 838 خطبات مسرور دنیا میں مختلف قسم کی طبیعتیں ہوتی ہیں.بعض دفعہ اپنے خلاف بات سن کر رد عمل کے طور پر بھی، ایسے لوگ جن کی برائیوں کا اظہار باہر ہو جائے اور زیادہ ڈھیٹ ہو کر وہ برائی کرنا شروع کر دیتے ہیں، کہ اب تو پتہ لگ ہی گیا ہے.جو ایک حجاب تھا وہ تو ختم ہو گیا.تو اس سے اصلاح کا پہلو بالکل ہی ختم ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے.دوسرے اگر کسی کا یہ عیب اور کمزوری اس میں بعض عہد یداروں کو بھی محتاط رہنا چاہئے ، بعض دفعہ بات کر جاتے ہیں.کسی عہد یدار یا اس کے کسی قریبی کی طرف سے یا اس کے حوالے سے کسی کی بات باہر نکلے تو نظام کے خلاف بھی ردعمل ظاہر ہو جاتا ہے.فرمایا پھر اس کا ذمہ دار پردہ دری کرنے والا ہے.وہ شخص ہے جس نے یہ باتیں باہر نکالیں.اور پردہ دری کا انذار تو آپ پہلی حدیث میں سن ہی چکے ہیں.ایک برائی کو ظاہر کرنے سے اس کی اہمیت نہیں رہتی اور آہستہ آہستہ اگر وہ مستقلاً برائیاں ظاہر ہونی شروع ہو جائیں تو معاشرے میں پھر برائیوں کی اہمیت نہیں رہتی اور یہ تجربے سے ثابت ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حجاب ختم ہو جائے تو پھر برائی کا احساس ہی باقی نہیں رہتا.مثلاً یہی دیکھ لیں کہ آجکل جو فلمیں اور ڈرامے ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں.اور جب سے ایسے ڈرامے آنے لگے ہیں جس میں قتل و غارت ہو، اغوا ہو، نشہ اور ڈرگز کی باتیں ہورہی ہوں اس وقت سے یہ برائیاں زیادہ پھیل گئی ہیں.اور ٹی وی وغیرہ نے ، میڈیا نے اس کو پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے.اپنی طرف سے اصلاحی ڈرامے بناتے ہیں کہ آخر میں نتیجہ نکالیں گے کہ دیکھو مجرم پکڑے گئے.لیکن اس میں پتہ نہیں آخر میں اصلاح کی کسی کو سمجھ آتی ہے کہ نہیں لیکن برائی ضرور پھیل جاتی ہے.بچوں کے خیالات ٹی وی ڈرامے دیکھ دیکھ کے ہی بگڑتے ہیں.اور جب بڑے ہوتے ہیں اور نو جوانی میں قدم رکھتے ہیں تو غریب ملکوں میں ضرورت کے لئے اور امیر ملکوں میں تفریح کے لئے وہ حرکتیں شروع ہو جاتی ہیں.پھر یہ دیکھ لیں یہاں اس مغربی معاشرے میں آزادی کے نام پر بہت سی بے حیائیاں اور الله برائیاں پیدا ہو رہی ہیں.آپ ﷺ نے جو یہ فرمایا تھا کہ ان برائیوں کے اظہار سے تم اور بگاڑ پیدا کرو گے تو آجکل اگر جائزہ لیں، جیسا کہ میں نے کہا، ان برائیوں کے اظہار کی وجہ سے ہی یہ

Page 844

خطبات مسرور 839 برائیاں پیدا ہو رہی ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو بھی ان برائیوں سے محفوظ رکھے.$2004 پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ” یقینا اللہ تعالیٰ حیا اور ستر کو پسند فرماتا ہے (مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحه 224) یہ دیکھیں یہ بھی پہلی حدیث سے ملتی ہے کہ اگر آج یہ بے حیائیاں پھیلی ہوئی ہیں.میڈیا جو بے حیائیاں پھیلا رہا ہے، حیا اور ستر قائم ہو جائے تو آدھے سے زیادہ برائیاں بگاڑ اور خاندانوں کے مسائل اور جرائم ختم ہو جائیں گے اور معاشرے کے گند اور برائیاں ختم ہو جائیں گی.کیونکہ اخباروں اور ٹی وی نے حیا کا احساس مٹا دیا ہے.پارکوں میں سرعام بیہودگیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ حیا کے فقدان کی وجہ سے ہے.مغرب میں تو حیا اور ستر کے معیار بالکل بدل ہی گئے ہیں.پس ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے دوسروں کے عیب تلاش کرنے کی بجائے ہمیں اپنے لئے اور اپنی اولا دوں کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے محفوظ رکھے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بہت فضیلت والی آیت یہ ہے ( آپ نے ما اصابکم والی آیت پڑھی ) کہ جو بھی تمہیں مصیبت پہنچتی ہے یہ تمہارے اپنے کئے کی سزا ہے.اور اللہ بہت سے قصوروں کو تو معاف ہی کر دیتا ہے اور درگزر فرماتا ہے.اور ما اصابکم کی تفسیر یہ بیان فرمائی کہ سزا اور دوسری دنیاوی مصیبتیں ہیں جو انسان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کرم اس بات سے مانع ہے کہ آخرت میں دوبارہ وہ ان غلطیوں پر گرفت فرمائے.اور جن غلطیوں کو اس نے دنیا میں معاف فرما دیا ہے اور کوئی گرفت نہیں فرمائی.اس کا حلم اس میں مانع ہو گا کہ عفو اور درگزر کے بعد پھر گرفت فرمائے.(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحه (85 ان حدیثوں سے اللہ تعالیٰ کا بندے سے عفو اور مغفرت کے سلوک کا اظہار ہوتا ہے.اس لئے بندے کا بھی حق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی پردہ دری کرتا پھرے.بلکہ دوسروں کے لئے بھی دعا

Page 845

840 $2004 خطبات مسرور کرنی چاہئے اور اپنے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ستاری کا سلوک ہی کرتار ہے.اور اس کے لئے آنحضرت ﷺ نے ہمیں دعا بھی سکھائی ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ”اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا طلبگار ہوں.مولیٰ میں تجھ سے دین و دنیا، مال اور گھر بار میں عفو اور عافیت کا خواستگار ہوں.اے اللہ ! میری کمزوریاں ڈھانپ دے اور مجھے میرے خوفوں سے امن دے.اے اللہ ! آگے پیچھے، دائیں بائیں اور اوپر سے خود میری حفاظت فرما.اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں نیچے سے کسی مخفی مصیبت کا شکار ہوں“.(ابو داود كتاب الادب باب ما يقول اذا اصبح.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس سلسلے میں کیا مثال تھی اور کیا دل کا حال تھا وہ میں پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : " قتل کے مقدمہ میں ہمارے ایک مخالف گواہ کی وقعت کو عدالت میں کم کرنے کی نیت سے جو اس کا زور تھا اس کو توڑنے کی نیت سے ”ہمارے وکیل نے چاہا کہ اس کی ماں کا نام دریافت کرے مگر میں نے اسے روکا اور کہا کہ ایسا سوال نہ کرو جس کا جواب وہ مطلق دے ہی نہ سکے اور ایسا داغ ہر گز نہ لگاؤ جس سے اسے مفر نہ ہو.حالانکہ ان ہی لوگوں نے مجھ پر جھوٹے الزام لگائے.جھوٹا مقدمہ بنایا.افتراء باند ھے اور قتل اور قید میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا.میری عزت پر کیا کیا حملے کر چکے ہوئے تھے.اب بتلاؤ کہ میرے پر کون سا خوف ایسا طاری تھا کہ میں نے اپنے وکیل کو ایسا سوال کرنے سے روک دیا.صرف بات یہ تھی کہ میں اس بات پر قائم ہوں کہ کسی پر ایسا حملہ نہ ہو کہ واقعی طور پر اس کے دل کو صدمہ دے اور اسے کوئی راہ مفر کی نہ ہو.یعنی کوئی اور اس کے لئے بچنے کا رستہ نہ ہو.جب یہ آپ نے فرمایا تو وہاں بیٹھے ہوئے کسی شخص نے عرض کیا کہ حضور! میرا دل تو اب بھی خفا ہوتا ہے“.یعنی مجھے اچھا نہیں لگا کہ یہ سوال کیوں نہیں کیا.یہ سوال اس کو نیچا کرنے کے لئے ہونا چاہئے تھا.تو آپ نے فرمایا کہ ” میرے دل نے گوارا نہ کیا.اس نے لگتا ہے بہت ہی زیادہ غصے میں تھا پھر کہا کہ یہ سوال ضرور ہونا چاہئے تھا.تو

Page 846

$2004 841 خطبات مسرور آپ نے فرمایا ” خدا نے دل ہی ایسا بنایا ہے تو بتلاؤ میں کیا کروں“.(ملفوظات جلد سوم صفحه ٥٩ البدر ٦ مارچ ۱۹۰۳ ) اور ایسا ہی دل آپ جماعت کے ہر فرد کا بنانا چاہتے تھے.اور یہی آپ نے ہمیں تعلیم دی ہے.جو اسلام کی صحیح تصویر ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ ” میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عہد دوستی باند ھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا.ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لا چار ہیں.ورنہ ہمارا مذ ہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو تو ہم بلاخوف لومتہ لائم لوگوں کی ملامت کے بغیر کسی خوف کے بغیر اسے اٹھا کر لے آئیں گے“.فرمایا عہد دوستی بڑا قیمتی جو ہر ہے اس کو آسانی سے ضائع نہیں کر دینا چاہئے اور دوستوں کی طرف سے کیسی ہی نا گوار بات پیش آئے اس پر اغماض اور حمل کا طریق اختیار کرنا چاہئے.(چشم پوشی کرنی چاہئے ، درگزر کرنی چاہئے ).(سيرة طيّبه صفحه (56 حضرت مولوی شیر علی صاحب نے یہ بھی آگے فرمایا انہوں نے اپنی روایت میں لکھا ہے کہ آگے یہ بھی آپ نے فرمایا تھا کہ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کریں گے اور جب وہ ہوش میں آنے لگے تو اس کے پاس سے اٹھ کر چلے جائیں گے تا کہ وہ ہمیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو.اور آپ نے جماعت کو یہ نصیحت کی ہے کہ جماعت کے فرد بھی ایک خاندان کی طرح ہیں.تمہارے بھائی ہیں، آپس میں بھائی بن کر رہو اور ایک دوسرے کے عیبوں کو چھپاؤ.(سيرة طيبه صفحه (56 ایک بار حضرت مسیح موعود کی مجلس میں کسی کی کمزوریوں کا کسی نے ذکر کیا.آپ نے سنا تو اس شخص کو مخاطب ہو کر فرمایا عیبش گفته ای ،ہنرش نیز بگو یعنی اس کے نقائص اور

Page 847

$2004 842 خطبات مسرور کمزوریاں تو گنوائی ہیں اس کی خوبیوں کا بھی ذکر کیا ہوتا ہے.(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب - صفحه (57) خوبیاں بیان کرنے سے نیکیاں پھیلتی ہیں.کسی نے مالی قربانی کی کسی نے اور کسی قسم کی قربانی کی ، ان قربانیوں کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو دوسروں میں بھی جوش پیدا ہوتا ہے.لیکن اگر برائیاں ہی معاشرے میں ذکر کی جاتی رہیں تو پھر برائیاں ہی پھیلتی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے پھر وہ معیار ختم ہو جاتے ہیں.حجاب ختم ہو جاتے ہیں.دوسرے یہ کہ کسی کی برائیاں بیان کر کے اس کے لئے شرمندگی یا غصے کے سامان کر رہے ہوتے ہیں.اگر خوبیاں بیان کی جائیں تو اس سے بھی بچت ہو جاتی ہے.معاشرہ مزید بگاڑ سے بچ جاتا ہے اور پھر یہ دوسروں کی برائیاں بیان کر کے انسان خود بھی گناہگار بن رہا ہوتا ہے اگر صرف لوگوں کی اچھائیاں اور خوبیاں ہی بیان کی جائیں تو اس سے بھی اپنے آپ کو محفوظ کر لیتا ہے.تو ایک پردہ پوشی اور کئی نیکیوں کو جنم دیتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل میں انسان کی خدا تعالیٰ پردہ پوشی کرتا ہے کیونکہ وہ ستار ہے اور بہت سے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ستاری نے ہی نیک بنارکھا ہے ور نہ اگر خدا تعالیٰ ستاری نہ فرمائے تو پتہ لگ جاوے کہ انسان میں کیا کیا گند پوشیدہ ہیں.پھر فرمایا کہ انسان کے ایمان کا بھی کمال یہی ہے کہ تخلق باخلاق اللہ کرے.یعنی جوا خلاق فاضلہ خدا میں ہیں اور صفات ہیں ان کی حتی المقدور اتباع کرے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرے.مثلاً خدا تعالیٰ میں عفو ہے انسان بھی عفو کرے، رحم ہے، حلم ہے، کرم ہے، انسان بھی رحم کرے، حلم کرے لوگوں سے کرم کرے.خدا تعالیٰ ستار ہے، انسان کو بھی ستاری کی شان سے حصہ لینا چاہئے.اور اپنے بھائیوں کے عیوب اور معاصی کی پردہ پوشی کرنی چاہئے“.عیبوں اور گناہوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی کرنی چاہئے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی کی بدی یا نقص دیکھتے ہیں، جب تک اس کی اچھی طرح سے تشہیر نہ کر لیں ان کا کھانا ہضم

Page 848

843 $2004 خطبات مسرور نہیں ہوتا.فرمایا حدیث میں آیا ہے کہ جو اپنے بھائی کے عیب چھپاتا ہے خدا تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرتا ہے انسان کو چاہئے کہ شوخ نہ ہو، بے حیائی نہ کرے، مخلوق سے بدسلوکی نہ کرے، محبت اور نیکی سے پیش آوے“.(ملفوظات جلد 5 صفحه ٦٠٩٠٦٠٨ الحكم ١٨ مئى ١٩٠٨ء پھر آپ نے فرمایا ، یہ شروع زمانہ کی بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے بعض میں کچھ طاقت آ گئی ہے.پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے.اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضا و قدر کا معاملہ سمجھے.جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سر دست جوش نہ دکھلایا جاوے.ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے.قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے.بلکہ لکھا ہے الْقُطْبُ قَدْ يَزْنِی کہ قطب سے بھی زنا ہو جاتا ہے.بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے.جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے.کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے پوری کوشش کرتا ہے.ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے.قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلا ؤ.اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو.بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْ بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد: 18 ) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے.دعا میں بڑی تاثیر ہے.اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو.سعدی کا قول لکھا ہے کہ خدا داند بپوشد و همسایه نداند و خرو شد که خدا تعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے مگر ہمسایہ

Page 849

$2004 844 خطبات مسرور وو کو علم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے.خدا تعالیٰ کا نام ستا رہے.تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ الله بنو.ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آ گیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے آپ نے واقعہ بیان فرمایا ر شیخ سعدی کے دوشاگرد تھے.ایک ان میں سے حقائق اور معارف بیان کیا کرتا تھا.زیادہ لائق تھا ، اس کو زیادہ سمجھ آتی تھی اور دوسرے کو اتنی سمجھ نہیں تھی، تو وہ دوسرا جلا بھنا کرتا تھا.آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے.شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا.وہ حسد کر کے دوزخ میں چلا گیا اور تو نے غیبت کی.وہ حسد کر کے دوزخ میں جا رہا ہے اور تم غیبت کر کے دوزخ میں جارہے ہو.غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم، دعا، ستاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو.“ (ملفوظات جلد 4 صفحه ٦١،٦٠ البدر ٨ جولائى (١٩٠٤ پھر آپ نے فرمایا : ” ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں.لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں.کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دور نہیں ہوسکتا.اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کر نی چاہئے“.(ملفوظات جلد ٤ صفحه ٦٠ البدر ٨ جولائی (١٩٠٤ پس یہ حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت کی دیکھنا چاہتے ہیں.اور یہ حالت ہے جو ہم نے اپنے اندر پیدا کرنی ہے انشاء اللہ.باوجود اس کے کہ جماعت بعض قربانی کے معیاروں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت آگے نکل چکی ہے.وفا اور اخلاص میں بھی بہت زیادہ ہے الحمدللہ.لیکن بعض چھوٹی چھوٹی برائیاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ دوسرے کی کمزوریوں کو لے کر اس کی تشہیر کرنا اور دوسروں کو بتانا.تو ان چیزوں کی طرف توجہ دینے کی بہت

Page 850

$2004 845 خطبات مسرور ضرورت ہے کیونکہ جب نبی کے زمانے سے دوری ہوتی جاتی ہے اور پھر نبی سے براہ راست تربیت پانے والے بھی آہستہ آہستہ کم ہوتے جاتے ہیں.اور اب تو سارے ہی چلے گئے ہیں پھر ان تربیت یافتہ صحابہ سے فیض پانے والوں کی بھی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور پھر جماعت میں نئے آنے والوں کا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو دعا اور استغفار کے ساتھ ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت پڑ جاتی ہے.پس ان باتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ دین کے ہر حکم کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو کم سمجھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا چاہئے اور اس کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.☆☆

Page 851

$2004 846 خطبات مسرور

Page 852

$2004 847 48 خطبات مسرور دعاؤں اور صدقات کا آپس میں گہرا تعلق ہے.جب اللہ تعالیٰ کا بندہ خالص ہو کر اس کے سامنے جھکتا ہے اور اس سے بخشش اور معافی طلب کرتا ہے تو وہ بھی اس پر رحم اور فضل کی نظر ڈالتا ہے.26 نومبر ۲۰۰۴ء بمطابق 26 رنبوت ۱۳۸۳ ہجری کشی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن.لندن) صدقہ و خیرات اور دعا کے متعلق احادیث اور ارشادات صدقہ وخیرات کے ساتھ بلائل جاتی ہے بعض لوگ دعا کے واسطے مجھے اس طرح سے کہتے ہیں کہ گویا میں خدا کا ایجنٹ ہوں......میں اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں.جہ قبولیت دعا اور اس کے لئے بعض بنیادی احکام و آداب محترمہ مجیدہ شاہنواز صاحبہ کا ذکر خیر

Page 853

خطبات مسرور $2004 848 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا الَمْ يَعْلَمُوْا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَتِ وَاَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (سورة التوبه آيت :104) کیا انہیں علم نہیں ہوا پس اللہ ہی اپنے بندوں کی تو بہ منظور کرتا ہے اور صدقات قبول کرتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.چند جمعے پہلے جب میں نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا تھا تو اس میں یہ مثال بھی دی تھی کہ بعض خواتین نے جن کے اولاد نہیں ہوتی تھی ، بچوں کی طرف سے بھی چندہ دینا شروع کر دیا مثلاً اگر دو تین چار بچوں کی طرف سے چندہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اتنے بچے عطا فرما دیئے.اس پر بعض خط آئے ، ملتے جلتے قسم کے، کہ آپ نے کہا تھا کہ جن کے اولاد نہیں ہوتی اگر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کر دیں تو ضرور اولاد ہو جائے گی.اور پھر یہ کہ ہمارے بچوں کے نام بھی رکھ دیں تا کہ ہم ان کی طرف سے چندہ دینا شروع کر دیں کیونکہ بغیر نام کے چندہ نہیں دیا جا سکتا.تو پہلی بات تو یہ کہ میں نے یہ بالکل نہیں کہا تھا کہ ضرور اولا د ہو گی.میں نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ دعا اور صدقات اور چندے کی برکت سے فوری نظارے دکھا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا احمدیوں کے ساتھ یہ سلوک بھی ہے.میں وہ بات کس طرح کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق نہیں پہنچتا.جس کا اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرمایا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ میں لوگوں کو بیٹے

Page 854

849 $2004 خطبات مسرور بھی دیتا ہوں ، بیٹیاں بھی دیتا ہوں، بعض کو دونوں جنسیں دیتا ہوں اور بعض بانجھ ہوتے ہیں ان کے ہاں کچھ بھی اولاد نہیں ہوتی.اس لئے وہ بات میری طرف منسوب نہ کریں جو میں نے کہی نہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کے خلاف ہے.اس لئے ایک تو غور سے بات کو سننا چاہئے اور پھر سوچ سمجھ کر تصدیق کروا کر اگر لکھنا ہو تو خط میں لکھا کریں.پھر یہ کہ چندہ دینے کے لئے نام رکھ دیں، یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے.جو اپنی خوشی سے اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا چاہتے ہیں وہ از طرف بچگان لکھ کر چندہ دے سکتے ہیں.اور یہ جو بات ہے یہ بھی خاص صرف تحریک جدید ، وقف جدید یا کسی خاص قسم کے چندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل اور سلوک نہیں ہے.مختلف لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مختلف سلوک ہے.کچھ دن ہوئے مجھے کسی نے لکھا کہ ہمارے ہاں اولا د نہیں ہو رہی تھی تو علاج کروانے کی کوشش کی.جو علاج تھا وہ کافی مہنگا تھا، ہزاروں یورو (Euro) کا خرچ اس پہ آرہا تھا تو خاوند نے کہا میں اتنی بڑی رقم علاج پر خرچ نہیں کروں گا، بہتر ہے کہ مسجد کے لئے چندہ دے دیں تو اللہ تعالیٰ شاید اس کی برکت سے ہی ہمیں اولا د دیدے.تو انہوں نے (دونوں میاں بیوی نے ) یہ رقم مسجد کے لئے دے دی.اور اب اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی سالوں کے بعد اولاد کی خوشخبری سے نوازا ہے.اور پھر ایک نہیں اب ٹونز (Twins) کی امید ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ سلوک ہے.اللہ تعالیٰ خیریت سے ان کو بچے عطا فرمائے.یہ جو اپنے بندوں سے خدا تعالیٰ کا سلوک ہے، کسی کی کوئی ادا اسے پسند آ جاتی ہے اور فضل فرماتا ہے، کسی کی کوئی بات پسند آ جاتی ہے.کبھی شرط لگا کر اس پر پکے نہیں ہو جانا چاہئے.کیونکہ بعض دفعہ یہ بھی ایمان کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتا ہے.اب ان لوگوں کا ایمان بھی دیکھیں، یہ جو میاں بیوی تھے.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم مسجد کا چندہ دیں گے تو ہمارے ہاں ضرور اولا د ہو جائے گی.بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ چندہ دو اگر اللہ تعالیٰ نے اولا د دینی ہوگی تو ویسے بھی بغیر علاج کے دیدے گا.

Page 855

850 $2004 خطبات مسرور پس جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ تو ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے اس لئے کبھی بھی چندہ یا صدقہ دے کر پھر اس بات پر سو فیصد قائم نہیں ہو جانا چاہئے کہ ضرور اللہ تعالیٰ اب ہماری خواہش کے مطابق ہماری یہ دعا اور مرضی قبول فرمالے گا.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے میں دعاؤں کو ، صدقات کو قبول کرتا ہوں لیکن ان بندوں کی جو اس کی طرف جھکتے ہیں، اپنی کمزوریوں اور اپنی نالائقیوں سے آئندہ بچنے کی کوشش کرنے کا عہد کرتے ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں کو جو ایسی کوشش کر رہے ہوں ، اس کی طرف آنے کی کوشش کر رہے ہوں، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ اگر ایک قدم چل کے آتا ہے تو اللہ میاں دو قدم چلتا ہے اور زیادہ تیز چلتا ہے تو دوڑ کر آتا ہے، تو بہر حال جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ بندہ اس کی طرف آ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ تو بہت رحم کرنے والا ہے.وہ تو جب بندہ خالص ہو کر اس کی طرف جھکتا ہے فوراً اپنے رحم کو جوش میں لے آتا ہے کیونکہ وہ تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب میرا بندہ دعا اور صدقات سے میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا، یہ ضروری نہیں کہ خواہش کے مطابق کام ہو جائے.اللہ تعالیٰ تو اگر فوری طور پر خواہش کے مطابق یعنی جو بندے کی خواہش ہے نتیجہ نہ بھی ظاہر فرمائے تو بھی بندے کی دعا اور صدقہ قبول کر لیتا ہے اور اور ذرائع سے اور وقتوں میں پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ میری دعا کا اثر ہے.اللہ تعالیٰ کے مختلف رنگوں میں فضل ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں.پس ہمارا کام یہ ہے کہ بغیر کسی شرط کے خالص ہو کر اس کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جائیں.اور جس طرح اس نے فرمایا ہے کہ صدقہ و خیرات اور توبہ کرتے رہیں.دعاؤں پر زور دیں.اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں.ہمارا کام صرف یہ ہو کہ اس کی رضا کو حاصل کرنا ہے.صدقہ و خیرات اور چندے دینے کے بعد بھی کبھی بھی کسی قسم کا تکبر، غرور یا دکھاوا ہم میں ظاہر نہیں ہونا چاہئے بلکہ عاجزی سے ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا حیا والا ہے.بڑا کریم ہے بنی ہے.جب

Page 856

851 $2004 خطبات مسرور بندہ اس کے حضور اپنے ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے.(ابو داؤد ابواب الوتر باب الدعاء ) تو جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دعا کرتا ہے اور صدقہ و خیرات دیتا ہے، اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے،صرف اس لئے کہ اللہ کا قرب پائے ، اس کی رضا حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی بعض صفات میں رنگین ہونے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ تو اپنی تمام صفات میں کامل ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ بندے کو اس کی خاطر کئے گئے کسی کام پر اجر نہ دے.اس کی دعاؤں کو قبول نہ کرے.لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہماری مرضی کے مطابق ہی وہ اجر ملے.اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم کبھی بھی یہ تصور نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ بندے کے ہاتھ خالی واپس لوٹائے گا.جب تم خالص ہو کر اس سے دعا مانگو گے تو وہ کبھی رد نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ خالص ہو کر اس کے حضور جھکنے والے ہوں، اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں اور اس کی خاطر قربانی کرنے والے ہوں.اور کسی شرط کے ساتھ اپنے چندے یا اپنا صدقہ و خیرات پیش کرنے والے نہ ہوں.صدقہ و خیرات اور دعا کے ضمن میں چند احادیث پیش کرتا ہوں.سعید بن ابی بردہ نے والد اور اپنے دادا کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا فرض ہے.اس پر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جس کے پاس کچھ نہیں وہ کیا کرے.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص اپنے ہاتھ سے کام کرے، اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے.انہوں نے عرض کیا اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو.تو آنحضور نے فرمایا وہ اپنے کسی ضرورتمند قریبی عزیز کی مدد کرے.صحابہ نے عرض کی اگر کوئی شخص اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو.تو اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ معروف باتوں پر عمل کرے، ان پر عمل پیرا ہو اور بری باتوں سے رکے، یہی اس کے لئے صدقہ ہے.(بخاری کتاب الزكواة باب على كل مسلم صدقة فمن لم يجد فليعمل بالمعروف)

Page 857

852 $2004 خطبات مسرور تو یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ قربانی کا جذبہ ابھرے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش ہو.صحابہ کا اس میں کیا رنگ ہوا کرتا تھا، ان کے بھی عجیب نظارے نظر آتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے کہا میں ضرور صدقہ کروں گا.چنانچہ وہ اپنے صدقے کا مال لے کر گھر سے نکلا اور ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا (رات کو اس کو پتہ نہیں لگا اور چور کے ہاتھ پر رکھ دیا.لوگ صبح اس طرح کی آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا ہے.اس پر اس شخص نے کہا: اے اللہ ! سب تعریف کا تو ہی مستحق ہے.میں ضرور صدقہ کروں گا.چنانچہ وہ اپنے صدقہ کا مال لے کر نکلا اور پھر اس رات بھی ایک عورت کو دیکھا جو بد کار عورت تھی ، اس کو وہ صدقہ دے دیا.لوگوں نے صبح پھر اس طرح کی باتیں کیں.کہ آج رات ایک زانیہ عورت کوصدقہ دیا گیا.اس پر اس شخص نے کہا اے اللہ ! سب تعریف کا تو ہی مستحق ہے، کیا میں نے ایک زانیہ کو صدقہ دے دیا ہے، اب میں دوبارہ ضرور صدقہ کروں گا.پس وہ صدقہ کا مال لے کر نکلا اور اب کی دفعہ پھر غلط آدمی تک پہنچ گیا اور ایک اچھے بھلے امیر آدمی ، مالدار آدمی ، کھاتے پیتے آدمی کو صدقہ دے دیا.لوگ پھر صبح اس طرح کی باتیں آپس میں کر رہے تھے کہ آج رات ایک مالدار شخص کو صدقہ دیا گیا ہے.اس پر اس شخص نے کہا سب تعریف کا تو ہی مستحق ہے، پہلے تو میں نے ایک چور کو صدقہ دیا، پھر ایک زانیہ کو اور پھر مالدار شخص کو.وہ اس بات پر بہت فکر مند تھا اور افسوس کر رہا تھا تو اس کے پاس ایک شخص آیا اور اس کو کہا گیا کہ جہاں تک تیرے چور کو صدقہ کرنے کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ وہ صدقہ لینے کے بعد چوری سے باز آ جائے اور جہاں تک زانیہ کا تعلق ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے.اور جہاں تک غنی کا تعلق ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ تیرے اس فعل سے عبرت حاصل کرے اور اس مال میں سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہے خرچ کرنے لگ جائے.(بخاری کكتاب الزكواة باب اذا تصدق على غنى وهولا يعلم)

Page 858

853 $2004 خطبات مسرور تو یہ آنحضرت ﷺ کی بات سن کر کہ صدقہ ضرور دینا چاہئے ، صحابہ اس کوشش میں رہا کرتے تھے اور بعض دفعہ غلط لوگوں کو بھی صدقے دے دیا کرتے تھے.ان کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ ہم نے اس سے کچھ حاصل کرنا ہے.فکر یہ ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے.رات کو بھی اس لئے نکلتے تھے تاکہ کسی کو پتہ نہ لگے اور یہ احساس نہ ہو کہ صدقہ یا مال خرچ دکھاوے کے لئے کیا جا رہا ہے.بلکہ خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ کام کرنا چاہتے تھے.تو اس کی یہ پریشانی دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے اس کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ اگر تمہارا صدقہ صحیح لوگوں تک نہیں پہنچا تو تم کو اس کا اجر نہیں ملے گا.بلکہ اس کا بھی اجر ہے.کیونکہ ہوسکتا ہے اس وجہ سے جن لوگوں کے پاس تمہارا صدقہ گیا ہے ان کی اصلاح ہو جائے.تو اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی کام کو بھی بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کتا دیکھا جو شدت پیاس سے مٹی چاٹ رہا تھا، اس شخص نے اپنا موزا (جراب ) اتارا اور اس سے اس کے سامنے پانی انڈیلنے لگا.یہاں تک کہ اس نے اس کو سیر کر دیا.اس کی اچھی طرح پیاس بجھا دی.اس پر خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کی قدر دانی کی تو اس کو جنت میں داخل کر دیا.(مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحه 521- مطبوعه (بيروت) طمع اور لالچ کے بغیر ضرورت اور رحم کے جذبات کے پیش نظر جب کتے کو بھی پانی پلایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی اجر دیا.اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے رحم کے نظارے ہیں.جیسا بندہ اس کی مخلوق سے کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی وہی سلوک کرتا ہے.پھر صدقات کے بارے میں ہی ازواج مطہرات کے بارے میں ایک بڑی پیاری روایت الله آتی ہے.ان کو بھی کسی طرح خواہش ہوتی تھی کہ آنحضرت ﷺ کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کیا جائے اور پھر یہ بھی خواہش تھی کہ اگر آنحضرت ﷺ کی وفات ان سے پہلے ہو جائے تو ہم بھی جلدی

Page 859

$2004 854 خطبات مسرور جلدی ان کو جا کے ملیں.اس کے لئے ایک دفعہ انہوں نے نبی ہی سے دریافت کیا کہ ہم میں سے سب سے پہلے آپ سے کون ملے گا.اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے لمبے ہاتھوں والی.پھر ان ازواج مطہرات نے اپنے ہاتھ ناپنے شروع کر دیئے.حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبے ہاتھوں والی تھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں اس بات کا بعد میں علم ہوا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد کیا تھی.اس سے مراد یہ تھی کہ کون کثرت سے زیادہ صدقہ دیتا ہے.کیونکہ وہی صدقہ دیا کرتی تھیں اور صدقے کو پسند کرتی تھیں.اور وہی ازواج میں سب سے پہلے آنحضور ﷺ سے جاملیں.صلى الله (بخاری کتاب الزكوة باب فضل صدقة الشحيح الصحيح) تو آپ نے کھل کے یہ نہیں بتایا کہ صدقہ و خیرات کرنے والی سب سے پہلے مجھ سے ملے گی بلکہ اشارہ بتا دیا کیونکہ جو فطرتاً زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی ہے اسی نے آگے ملنا ہے.یہ ہر ایک کی اپنی اپنی فطرت ہوتی ہے.بعض کم کرتے ہیں بعض زیادہ کرتے ہیں.گو کہ ازواج مطہرات بہت زیادہ صدقہ کرنے والی تھیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور برائی کی موت کو دور کرتا ہے.(ترمذی کتاب الزكواة باب ما جاء فی فضل الصدقة) تو کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ گناہوں کی پکڑ سے بچنے کے لئے بھی صدقہ و خیرات بہت ضروری ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی ہی استطاعت ہو.(بخاری کتاب الزكـوـة بـا ب اتقوا النار ولو بشق تمرة) یعنی معمولی سا صدقہ بھی ہو وہ بھی دو تا کہ اللہ میاں تمہارے گناہ بخشے.اور صدقہ اسی طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر اس کی رضا کی خاطر دینا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” تمام مذاہب کے درمیان یہ

Page 860

855 $2004 خطبات مسرور امر متفق ہے کہ صدقہ خیرات کے ساتھ بلائل جاتی ہے.اور بلا کے آنے کے متعلق اگر خدا تعالیٰ پہلے سے خبر دے تو وہ وعید کی پیشگوئی ہے.پس صدقہ و خیرات سے اور تو بہ کرنے اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے وعید کی پیشگوئی بھی ٹل سکتی ہے.یعنی جو انبیاء کی طرف سے ایسی پیشگوئیاں ہوں جن میں انذار بھی ہو وہ بھی ٹل جاتی ہیں.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس بات کے قائل ہیں کہ صدقات سے بلائل جاتی ہے.ہندو بھی مصیبت کے وقت صدقہ و خیرات دیتے ہیں ، یعنی جن کا اللہ تعالی پر اتنا یقین نہیں بھی ہے وہ بھی دیتے ہیں.اگر بلا ایسی شے ہے کہ وہ ٹل نہیں سکتی تو پھر صدقہ خیرات سب عبث ہو جاتے ہیں“.(ملفوظات جلد 5 صفحه 176-177 بدر 21 مارچ (1907) | یہاں آپ یہ بیان فرما رہے ہیں کہ صدقہ و خیرات سے مشکلیں دور ہوتی ہیں.تو تو بہ، دعاء صدقہ و خیرات سے، جیسا کہ میں نے کہا، مشکلات دور ہوتی ہیں.بلکہ فرمایا کہ اگر انبیاء کی طرف سے بھی کسی قوم کا حال دیکھ کر اس کی بربادی کی پیشگوئی کی جائے ،اس کو انذار کیا جائے تو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہوتی ہے جو آگے نبی پہنچاتا ہے اگر قوم دعا اور صدقہ و خیرات کرے یا اس کی طرف مائل ہو تو وہ پیشگوئیاں بھی ٹل جاتی ہیں.پس جب نبی کی پیشگوئیاں مل سکتی ہیں جو براہ راست اللہ سے خبر پا کے پیشگوئی کرتا ہے تو عام معاملات میں جو مشکلات انسان کو پیدا ہوتی رہتی ہیں وہ تو صدقہ و خیرات سے اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ضرور ٹالتا ہے.دعاؤں اور صدقات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے.جب اللہ تعالیٰ کا بندہ خالص ہو کر اس کے سامنے جھکتا ہے اور اس سے بخشش اور معافی طلب کرتا ہے تو وہ بھی اس پر رحم اور فضل کی نظر ڈالتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ اگر کوئی شخص تو به ، استغفار یا دعا کرے یا صدقہ خیرات دے تو بلا رد کی جائے گی.جب دعاؤں کے ساتھ صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دیں یا صدقہ و خیرات کے ساتھ

Page 861

$2004 856 خطبات مسرور دعاؤں کی طرف توجہ دیں کیونکہ بعض لوگ صرف صدقہ کر دیتے ہیں وہ ان کو آسان لگتا ہے، نمازوں اور دعاؤں کی طرف توجہ کم ہوتی ہے، دونوں چیزیں اگر ملائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل بہت تیزی سے فرماتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض لوگ صدقہ و خیرات تو کر دیتے ہیں لیکن یہ ایک حصہ ہے اس حکم کا.ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ مالک ہے، وہ اپنے بندے کو کسی بھی طرح نواز سکتا ہے، بخش سکتا ہے لیکن یہ بھی اس کا حکم ہے کہ میرے سارے احکام پر عمل کرتے ہوئے میرے سامنے جھکو اور میرے سے دعا مانگو کیوں کہ میں لوگوں کی دعائیں سنتا ہوں.جیسا کہ وہ فرماتا ہے اجيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ (البقرة 187) کہ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے.لیکن بندے کا بھی یہ کام ہے کہ اس پکار کے ساتھ اُس طرح کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَلْيَسْتَجِيْبُوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي ﴾ (البقرة 187) چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں اور پھر اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴾ (البقرة 187) کہ وہ ہدایت پا جائیں گے.پس اللہ تعالیٰ سے اس دعا کے رابطے کو قائم رکھنے کے لئے ، اور ہدایت پر قائم رہنے کے لئے ، اس کے فضلوں کو ہمیشہ سمیٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.جب اس طرح دعاؤں کے ساتھ احکامات پر عمل کرتے ہوئے ،صدقہ و خیرات پیش کر رہے ہوں گے، چندے دے رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ہماری دعائیں سنے گا بھی اور ان قربانیوں کو قبول بھی فرمائے گا.لیکن بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہوتا ہے.میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ خود تو بعض لوگوں کی دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہوتی ، ایسے بھی کچھ ہوتے ہیں.باقی احکامات بھی کبھی مانیں یا نہ مانیں ، صدقہ و خیرات یا چندوں وغیرہ کی ادائیگی بھی کبھی کی تو بڑی بے دلی سے کی.لیکن مشکل کے وقت بزرگوں کو یا خلیفہ وقت کو دعا کے لئے لکھ کر پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا یہ کام اب ضرور ہو جانا

Page 862

$2004 857 خطبات مسرور چاہئے.گویا کہ یہ ذمہ داری ہم نے ان پر ڈال دی ہے اب ان کا کام ہے جس طرح بھی مانگیں اور ہمارا کام کرائیں.بعض ایسے بھی سر پھرے ہوتے ہیں ، ایسے خط آ جاتے ہیں جن میں با قاعدہ میری جواب طلبی ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی نہ کوئی حوالہ اس میں لکھ کر اس کی اپنے طور پر تشریح کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو اتنا عرصہ ہو گیا دعا کے لئے لکھ رہا ہوں اور ابھی تک میرا کام نہیں ہوا.آپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ میرے لئے دعا کریں اور اپنی ذمہ داری کی طرف آپ کو توجہ دینی چاہئے.باقاعدہ ڈانٹ ہوتی ہے.حضرت خلیفہ المسح الاول کا مجھے ایک حوالہ ملا.جس سے مجھے پتہ لگا کہ یہ سر پھرے صرف آج کل ہی نہیں ہیں ،فکر کی کوئی بات نہیں بلکہ ہر زمانے میں ہوتے ہیں.یہ بڑا اچھا حوالہ ہے کیونکہ لگتا ہے کسی وقت آپ کے ساتھ بھی کسی ایسے نے ہی کوئی ایسی باتیں کی تھیں جس پر آپ نے خطبے میں یہ فرمایا.حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ : ” بعض لوگ دعا کے واسطے مجھے اس طرح سے کہتے ہیں کہ گویا میں خدا کا ایجنٹ ہوں اور بہر حال ان کا کام کر دوں گا.خوب یادرکھو میں ایجنٹ نہیں ہوں، میں اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں.حضرت خلیفہ اول کا جواب میں اسی لئے پڑھ رہا ہوں کہ وہی جواب ان کو میری طرف سے بھی ہے.ہاں! اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی کرنا میرا کام ہے“.پھر فرمایا: ”مگر جماعت کے بعض لوگ دعا کرانے کی درخواست میں بھی شرک کی حد تک پہنچ جاتے ہیں.یا د رکھو کہا للہ تعالیٰ کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، کوئی تمہارا کار ساز نہیں.میں علم غیب نہیں جانتا.نہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میرے اندر فرشتہ بولتا ہے.اللہ ہی تمہارا معبود ہے.اسی کے تم ہم سب محتاج ہیں، کیا مخفی اور کیا ظاہر رنگ میں.اس کی طاقت بہت وسیع ہے اور اس کا تصرف بہت بڑا ہے.وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے.پھر آپ نے فرمایا: ” خدا ہی کا علم کامل ہے.اس کا تصرف کامل ہے.اس کے آگے سجدہ کرو.اسی سے دعا مانگو.روزہ ، نماز، دعا، وظیفہ، طواف، سجدہ ، قربانی، اللہ کے سوا دوسرے کے لئے

Page 863

$2004 858 خطبات مسرور جائز نہیں.پھر بعض لوگ جو اللہ کے فضل سے جماعت میں تو نہیں لیکن بعض دفعہ بعض شکایتیں ایسی آتی ہیں کہ بعض عورتیں کمزوریاں دکھا جاتی ہیں.بالکل ہی بعض دعا کرانے والوں پر اتنا اعتقاد ہوتا ہے کہ مجھتی ہیں کہ بس ان کے واسطے سے ہی اوپر دعا جانی ہے.اگر دعا کا کوئی واسطہ ہے تو صرف آنحضرت ﷺ کا واسطہ ہے، اس کے علاوہ تو کوئی واسطہ نہیں ہے.اس لئے درود بھیجنا چاہئے.فرمایا کہ: ” بے ایمان شریروں نے لوگوں کے اندر شرک کی باتیں گھسادی ہیں.کہتے ہیں ނ کہ قبروں پر جاؤ اور قبر والے سے کہو کہ تو ہمارے لئے خدا کے آگے عرض کرے.اللہ تعالیٰ کے فضل.جماعت میں قبروں والوں کے پاس تو نہیں جاتے لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض زندوں کے پاس جاتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ بس اس کے علاوہ ہمارا کام نہیں ہونا.میں اس بارے میں پہلے ایک دفعہ کھل کے بتا چکا ہوں.فرمایا کہ : ” اسلام نے ہم کو اس طرح کی دعا نہیں سکھائی“.خطبات نور صفحه (506) تو یا درکھیں کہ پہلی بات تو یہ کہ جس سے دعا کرائی جائے ٹھیک ہے اس پر یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا سنتا ہے.لیکن اس سے پہلے اپنے آپ پر بھی غور کرنا ہوگا ، اپنی حالت بھی بدلنی ہو گی کیونکہ اس طرح دعا کرنے والے کو، جس سے دعا کروائی جا رہی ہے امتحان میں نہ ڈالیں.خود بھی اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہو گا.تبھی جب یہ دونوں دعائیں اکٹھی ہو کر، یعنی دعا کروانے والے کی اور دعا کرنے والے کی دعا جب اکٹھی ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش میں لائے گی.اور بعض دفعہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا اللہ تعالیٰ کسی اور رنگ میں دعا قبول کر لیتا ہے.ضروری نہیں ہے کہ اسی طرح مانے جس طرح بندہ مانگ رہا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” قضاء وقدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے.دعا کے ساتھ معلق تقدیرئیل جاتی ہے.جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دعا ضرور اثر کرتی ہے.جو لوگ دعا سے منکر ہیں ان کو ایک دھو کہ لگا ہوا ہے.قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو

Page 864

$2004 859 خطبات مسرور بیان کئے ہیں.ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الحَوْفِ وَالْجُوعِ ﴾ (البقرة:156) “.میں تو اپنا حق رکھا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں خوف اور بھوک سے آزماؤں گا.فرمایا کہ اس ” میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے.اور نون ثقیلہ کے ذریعے جو اظہار تاکید کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے.تو اس کا علاج ان لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (البقرة: 157) ہی ہے“.اور دوسرا وقت جب اللہ تعالیٰ منوانا چاہتا ہے تو پھر یہی اس کا علاج ہے.پھر اس کی رضا پر راضی ہوں.اور فرمایا کہ : ” دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے.وہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن (61) میں ظاہر کیا ہے.کہ مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا.تو دو باتیں ہیں.ایک یہ کہ خود منواتا ہے، خود قرآن شریف نے فرمایا ہے دوسرا یہ کہ کبھی بندے میں جوش پیدا کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم میرے سے دعا مانگو میں ضرور قبول کروں گا.فرمایا: ” پس مومن کو ان دونوں مقامات کا پورا علم ہونا چاہئے.صوفی کہتے ہیں کہ فقر کامل نہیں ہوتا جب تک محل اور موقع کی شناخت حاصل نہ ہو بلکہ کہتے ہیں کہ صوفی دعا نہیں کرتا جب تک کہ وقت کو شناخت نہ کرے“.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی وہ مان لیتا ہے.یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے.ہمارے نبی کریم ﷺ کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں.کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائیں قبول فرمائی ہیں.اور بڑے عظیم الشان قبولیت دعا کے نظارے ہیں.بعض ایسے بھی ہیں جہاں تکالیف پہنچیں لیکن آپ نے بڑے صبر سے اس کو برداشت کیا اور خوشی سے ان کو تسلیم کیا.پھر فرماتے ہیں کہ : ”جو لوگ فقراء اور اہل اللہ کے پاس آتے ہیں.اکثر ان میں سے محض آزمائش اور امتحان کے لئے آتے ہیں.وہ دعا کی حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں.ان کو اصل میں

Page 865

860 $2004 خطبات مسرور وہ آزمانا چاہتے ہیں.ان کو دعا کی حقیقت کا نہیں پتہ ہوتا.جس طرح ایک صاحب لکھتے ہیں کہ اب کیوں نہیں کرتے.اس لئے پورا فائدہ نہیں ہوتا.عقلمند انسان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.جو لوگ دعا کے منافع سے محروم ہیں.ان کو دھوکہ ہی لگا ہوا ہے کہ وہ دعا کی تقسیم سے ناواقف ہیں.(ملفوظات جلد دوم صفحه 167-168 الحكم 28 فروری 1902) یعنی اس چیز سے ناواقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی مانتا ہے کبھی نہیں مانتا.جب نہیں بھی مانتا تو اپنے بندے کے لئے کوئی اور سامان پیدا فرما دیتا ہے.الله ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا تو گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے.اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ اسے عافیت طلب کرنا محبوب ہے.اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ دعا اس ابتلاء کے مقابلہ پر جوآ چکا ہو، اور اس کے مقابلے پر بھی جوا بھی نہ آیا ہو، نفع دیتی ہے.اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو.صلى الله.(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب دعا النبي علعل الله پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوسری روایت میں کہ نیکی کے علاوہ اور کوئی چیز عمر نہیں بڑھاتی.اور دعا کے علاوہ تقدیر الہی کو کوئی چیز ٹال نہیں سکتی.اور انسان یقیناً اپنی خطاؤں ہی کی وجہ سے جو وہ کر چکا ہوتا ہے رزق سے محروم کیا جاتا ہے.(سنن ابن ماجه مقدمه باب في القدر) ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ : ” اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ قابل عزت اور کوئی چیز نہیں ہے“.(ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء في فضل الدعاء) تو جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ضرور پھر پکا رسنتا ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ جو بندے میری باتوں پر بھی عمل کریں.تو اگر

Page 866

$2004 861 خطبات مسرور جائزہ لیں اور اگر ہم سارے جائزہ لیتے رہیں تو پتہ لگ جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کتنی باتوں پر عمل کرنے والے ہیں.خود بخود اس جائزے کے ساتھ ہی دعا کی قبولیت کے نہ ہونے کے شکوے دور ہو جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل عزت دعا کرنے والا اس لئے ہے کہ وہ خالص ہو کر اس کے آگے جھکتا ہے اس کے آگے، اس کے سامنے حاضر ہوتا ہے، اس سے فریاد کرتا ہے، اس میں کوئی دکھاوا نہیں ہوتا.وہی صاحب عزت ہے جو اس کی رضا کی خاطر کر رہا ہے اور یہ چھپ کر بھی ہوتا ہے اور ظاہر بھی ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” گناہ ایک ایسا کیڑا ہے جو انسان کے خون میں ملا ہوا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہوسکتا ہے.استغفار کیا ہے؟ یہی کہ جو گناہ صادر ہو چکے ہیں.ان کے بد ثمرات سے خدا تعالیٰ محفوظ رکھے.جوا بھی صادر نہیں ہوئے اور جو بالقوۃ انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا وقت ہی نہ آوے“.انسان کے اندر موجود ہوں لیکن انسان وہ کبھی نہ کرے.اس لئے استغفار کرنی چاہئے.” اور اندر ہی اندر جل بھن کر راکھ ہو جاویں“.استغفار کی وجہ سے وہ وہیں ختم ہو جائیں.فرمایا کہ : ” یہ وقت بڑے خوف کا ہے.اس لئے تو بہ اور استغفار میں مصروف رہو اور اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہو، ہر مذہب وملت کے لوگ اور اہل کتاب مانتے ہیں کہ صدقات و خیرات سے عذاب ٹل جاتا ہے.مگر قبل از نزول عذاب.مگر جب نازل ہو جاتا ہے تو ہر گز نہیں ملتا.جو دنیا کے حالات ہیں، ان کے لئے بھی ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور استغفار کرنی چاہئے.ہر احمدی اس سے محفوظ رہے.” پس تم ابھی سے استغفار کرو اور تو بہ میں لگ جاؤ تا تمہاری باری ہی نہ آوے اور اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے“.(ملفوظات جلد سوم صفحه 218البدر 24 اپریل (1903) اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا حاصل کرنے اپنا قرب حاصل کرنے کے لئے صدقہ اور مالی قربانیوں کو کرنے کی اور دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرما تار ہے.ایک افسوسناک اطلاع بھی ہے کہ سلسلہ کی ایک بزرگ، مخیر خاتون محتر مہ مجیدہ شاہنواز

Page 867

$2004 862 خطبات مسرور صاحبہ کل وفات پاگئی ہیں.انا للہ وانا اليه راجعون.آپ حضرت نواب محمد دین صاحب کی صاحبزادی تھیں جنہوں نے ربوہ کی زمین لینے کے لئے اس کے حصول کے لئے اور پھر بعد میں پلانگ وغیرہ کی منظوری کے لئے بہت کام کیا ہوا ہے.اور حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں ان کے اس کام کی وجہ سے بڑا زبر دست خراج تحسین پیش کیا تھا.محترمہ مجیدہ بیگم صاحبہ خود بھی مالی قربانیوں میں ہمیشہ صف اول میں رہی ہیں.اور جماعتی خدمات کے لحاظ سے جور پورٹ مجھے ملی ہے، لجنہ اس کو ویری فائی (Verify) کرلے گی، کہ دہلی، کراچی اور لندن میں صدر لجنہ کے طور پر کام کرتی رہی ہیں.آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیبہ بھی تھیں اور 1/3 حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی اور اپنی زندگی میں ہی تمام حصہ وصیت جائیداد وغیرہ ہر چیز کا ادا بھی کر دیا تھا.اور اس کے علاوہ بھی جو متفرق مالی قربانیوں کی تحریک خلفاء کی طرف سے ہوتی رہی اس میں بھی آپ نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اور ایک خاص بات یہ ہے کہ خلافت رابعہ کے ابتداء میں ان کے خاوند چوہدری شاہنواز صاحب مرحوم نے ذہین طلبہ کی پڑھائی کے لئے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ للہ تعالی کی خدمت میں باہر ہی ایک بڑی رقم پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا جو وہ پیش کرتے رہے.اور ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ محترمہ مجیدہ شاہنواز صاحبہ نے بھی اس کو اپنے اور اپنے خاوند کی طرف سے جاری رکھا.نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس رقم میں اضافہ بھی فرما دیا.اور اب تک اس خطیر رقم سے اس کی ادائیگی ہو رہی ہے اور کافی طلبہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا یہ فنڈ تعلیمی قائم کیا گیا تھا، دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں طلبہ اور امریکہ یا یورپ میں اگر اعلیٰ تعلیم اس فنڈ سے حاصل کر چکے ہیں.اور اس کے علاوہ بھی کئی غریب طلبہ کو بھی ہر سال وقتی امداد یا وظائف دیئے جاتے ہیں.اس کے علاوہ ان کا جو فنڈ جاری تھا اس سے ہندوستان، نیپال اور افریقہ کے بعض سکولوں کو چلانے کے لئے گرانٹ بھی دی جاتی ہے.تو ایک جاری صدقہ تھا جو ان کی طرف سے تھا.

Page 868

863 $2004 خطبات مسرور اور ہزاروں طلبہ نے ان سے فیض اٹھایا.اللہ تعالیٰ ان کا یہ صدقہ جاریہ ہمیشہ جاری رکھے اور یہ صدقہ ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنتا رہے.آپ غریبوں سے بے انتہا ہمدردی کرنے والی اور کافی غیر محسوس طریقے پر بھی مدد کرنے والی تھیں.اور اپنے عزیزوں رشتہ داروں میں ہر دلعزیز تھیں ، بہت پسند کی جاتی تھیں.اور انہیں اکٹھا رکھنے میں بھی انہوں نے بعض جگہوں پہ بہت اہم کردار ادا کیا کیونکہ ان کے جو بھی عزیز مجھے ملے ہیں انہوں نے ہمیشہ ان کی تعریف ہی کی ہے.خلافت احمد یہ سے بھی ان کا ایک خاص اور بے انتہا پیارا خلاص وفا کا تعلق تھا.اسی طرح خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی بہت محبت کرنے والی اور ہر چھوٹے بڑے کا بے حد احترام کرنے والی تھیں.جتنے زیادہ اللہ تعالیٰ نے مالی لحاظ سے ان پر فضل فرمائے اتنی زیادہ ان میں عاجزی پیدا ہوتی گئی.اور یہ نظارے ہمیں آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہی نظر آتے ہیں.لوگوں کے پاس پیسہ آ جائے تو عاجزی آنے کی بجائے دماغ خراب ہو جاتے ہیں.مالی وسعت نے انہیں صدقہ و خیرات اور جماعت کی خاطر مالی قربانیوں میں اور بڑھایا.اور یہ جومیں نے مالی قربانی، دعا اور صدقے کا جو مضمون بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ سب کچھ کرو تو اس میں ان کی بھی ایک اعلیٰ مثال تھی.ماشاء اللہ.اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو اور نسلوں کو بھی انہیں کی طرح اللہ کی مخلوق کا بھی خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت کی خاطر مالی قربانیوں میں بھی صف اول میں شامل رہنے کی توفیق دیتا چلا جائے اور ان کی تمام نیکیوں کو ہمیشہ ان کی اولا دکو قائم رکھنے کی توفیق دے.

Page 869

$2004 864 مسرور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ ہر ایک عمل انسان کا جو اس کے مرنے کے بعد اس کے آثار دنیا میں قائم رہیں وہ اس کے واسطے موجب ثواب ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ ہر ایک عمل جو نیک نیتی کے ساتھ ایسے طور سے کیا جائے کہ اس کے بعد قائم رہے وہ اس کے واسطے صدقہ جاریہ ہے.جیسا کہ میں نے کہا کئی سکول بھی ان سے چل رہے ہیں.یہ تو ایک صدقہ جاریہ ہے اور خدا کرے جاری بھی رہے اور اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی اس کی توفیق دے.ماشاء اللہ ان کی اولاد بھی اور آگے نسلیں بھی ان کی تربیت کی وجہ سے جماعت اور خلافت کے ساتھ ان کا ایک خاص تعلق ہے اور بڑا اچھا تعلق نبھا رہی ہیں.اللہ تعالی آئندہ بھی ان کو توفیق دیتار ہے.یہ انہی قربانیوں کو جاری رکھیں جو ان کے والدین نے کیں اور یہی قربانیاں ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنتی رہیں.

Page 870

$2004 865 49 خطبات مسرور انسان جس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جھکے.3 دسمبر ۲۰۰۴ء بمطابق 3 فتح ۱۳۸۳ هجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن.لندن) ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری کہ جو عبادات اور خدا کی ہستی سے ہیں ان نوجوانوں کو قریب لائیں......عبادت کی ضرورت اور اہمیت ی کیا خدا کو بندے کی عبادت کی ضرورت ہے.مختلف اعتراض اور ان کا جواب مسلمان اور ایک احمدی کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرنے والا ہو.

Page 871

خطبات مسرور $2004 866 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ﴾ (الذاریات: 57).اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں.گزشتہ دنوں مجھے کسی نے امریکہ سے لکھا کہ بعض لوگ جو آجکل اس مغربی معاشرے سے متاثر لگتے ہیں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے یوں لگتا ہے گویا ( نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ کو بھی دنیا داروں کی طرح اپنے ماننے والوں یا اپنے احکامات پر عمل کرنے والوں کی ضرورت ہے یا ایسے لوگ چاہئیں جو ہر وقت اس کا نام جپتے رہیں اس کے آگے جھکے رہیں، یہ تو خط میں واضح نہیں تھا کہ یہ خیالات رکھنے والے احمدی ہیں، غیر احمدی ہیں یا اس ماحول کے لڑکے ہیں یا کوئی اور.بہر حال مجھے اس سے یہ تاثر ملا تھا کہ شاید کچھ احمدی لڑکے بھی ہوں یا ان میں کچھ احمدی لوگ بھی ہوں ، صرف نوجوان ہی نہیں بڑی عمر کے بھی بعض اوقات ہو جاتے ہیں جو بعض دفعہ لامذہبوں یا دوسروں سے متاثر ہو کر ایسی باتیں کر جاتے ہیں یا متاثر ہور ہے ہوتے ہیں.تو تاثر یہی تھا کہ یہ جو پانچ وقت کی نمازیں ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یہ جیسے کہ زائد بوجھ ہیں اور ان کی اس طرح پابندی کرنی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہے اور آجکل کے مصروف زمانے میں یہ بہت مشکل کام ہے بہر حال دہر بیت اور عیسائیت دونوں سے متاثر ہو کر ایسے لوگ ایسی باتیں کر سکتے ہیں.اور ان پر یہ باتیں اثر انداز ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ مغرب میں رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 872

$2004 867 خطبات مسرور إِلَّا مَا شَاءَ اللہ عموماً احمدی یہ تو ہو سکتا ہے کہ عبادت میں نمازوں میں ستی کر جائیں لیکن اس قسم کے نظریات نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی.یا یہ زمانہ جو سائنس کا اور مشینی زمانہ ہے اس میں اس طرح عبادات نہیں ہو سکتیں، پابندیاں نہیں ہوسکتیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ عموماً تو نہیں ہوتے لیکن اگر چند ایک بھی ایسے احمدی ہوں جن کا جماعت سے اتنا زیادہ تعلق نہ ہو.تعلق سے میری مراد ہے جماعتی پروگراموں میں حصہ نہ لیتے ہوں یا جلسوں وغیرہ پر نہ آتے ہوں یا جن کا دینی علم نہ ہو، ایسے لوگ اپنے آپ کو بڑا پڑھا لکھا بھی سمجھتے ہیں، یہ لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں.اپنے ماحول میں اس قسم کی باتوں سے برائی کا بیج بو سکتے ہیں.یا بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ جو لا مذہب قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی ماحول پر اثر انداز ہور ہے ہوتے ہیں.اور کیونکہ برائی کے جال میں انسان بڑی جلدی پھنستا ہے اس لئے بہر حال فکر بھی پیدا ہوتی ہے کہ ایسے مغربی معاشرے میں جہاں مادیت زیادہ ہو، اس قسم کی باتیں کہیں اور وں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں.اس وجہ سے میں نے اس موضوع کو لیا ہے.لیکن کچھ کہنے سے پہلے ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے ماحول میں جائزہ لیتے رہیں.عموماً جو احمدی کہلانے والے ہیں عموماً ان تک ان کی پہنچ ہونی چاہئے.جو نو جوان دُور ہٹے ہوتے ہیں ان کو قریب لانا چاہئے تا کہ اس قسم کی ذہنیت یا اس قسم کی باتیں ان کے ذہنوں سے نکلیں.میں نے ابھی جس آیت کی تلاوت کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا.اس میں اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر یہی فرمایا ہے کہ میں نے جن وانس کو عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے.لیکن یہاں پابندی نہیں ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی مخلوق پیدا کی ہے وہ ضرور پیدائش کے وقت سے ہی اپنے ماحول میں بڑے ہوں تو ضرور عبادت کرنے والے ہوں.ماحول کا اثر لینے کی ان کو اجازت دی گئی ہے.باوجود اس کے کہ پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ عبادت کرنے والا ہو اور

Page 873

$2004 868 خطبات مسرور عبادت کی جائے لیکن ساتھ ہی ، جیسا کہ میں نے کہا، شیطان کو بھی کھلی چھٹی دے دی، ماحول کو بھی کھلی چھٹی دے دی کہ وہ بھی اثر انداز ہوسکتا ہے.فرمایا کہ جو میرے بندے بننا چاہیں گے، میرا قرب پانا چاہیں گے وہ بہر حال اپنے ذہن میں یہ مقصد رکھیں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق عبادت کرنی ہے.اور اب کیونکہ ایک مسلمان کے لئے وہی عبادت کے طریق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائے ہیں.اسی شریعت پہ ہمیں چلنا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کے آئے ہیں.جس طرح انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھتے ہوئے عبادت کے طریق سکھائے ہیں اسی طرح عبادت بھی کرنی ہے.اور جو اوقات بتائے ہیں ان اوقات میں عبادت کرنی ہے.اگر نہیں تو پھر مسلمان کہلانے کا بھی حق نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے بندے کہلانے کا بھی حق نہیں ہے.پھر تو شیطان کے بندے کہلانے والے ہوں گے.لیکن ایسے ہی خیالات والے لوگ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوں تو مسلمان گھرانوں کے ماحول کا اثر ہوتا ہے.احمدی ہوں تو اور زیادہ مضبوط ایمان والے گھر کا اثر ہوتا ہے جو اسلام پر عمل کرنے والے ہوں.اور اسی ماحول میں کیونکہ پلے بڑھے ہوتے ہیں اس لئے جب بھی ان کو کوئی مشکل پڑتی ہے، جب بھی کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو دعا کی طرف ان کی توجہ بھی پیدا ہوتی ہے اور پھر دعا کے لئے کہتے بھی ہیں.باوجود اس کے کہ اعتراض کرتے ہیں کہ عبادت کا جو اسلام میں طریق کار ہے وہ بہت مشکل ہے.گویا ذہن میں عبادت کا تصور بھی ہے اور یہ خیال بھی ہے کہ کسی مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا بھی ہے.لیکن پانچ وقت نمازیں پڑھنا کیونکہ بوجھلگتی ہیں اس لئے عبادت کی تشریح اپنی مرضی کی کرنا چاہتے ہیں، اس سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر احمدی کہلاتے ہیں، مسلمان کہلاتے ہیں تو عبادت کی وہی تشریح ہے جس کے نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے ہیں اور پھر اس زمانے میں احمدی کے لئے خاص طور پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان نمونوں کو

Page 874

خطبات مسرور 869 اور قرآن کریم کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کی تفسیر ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے.$2004 اس لئے ہمیں اس زمانے میں ان احکامات کو سمجھنے کے لئے اور ان پر پابندی اختیار کرنے کے لئے اُسی طرح عمل کرنا ہوگا اور انہیں لائنوں پر چلنا ہو گا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں سمجھائی ہیں.اور انہیں رستوں پر چل کے ہم نیکیوں اور عبادت کے طریقوں پر قائم بھی رہ سکتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : "چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ﴾ (الذاريات (57) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصل غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو.مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر پروانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سور ہنا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں اور خدا تعالی کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی.وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوں “.یعنی اللہ تعالی کی ذمہ داری بھی اس وقت ہے جب اس کے احکامات پر عمل کرو گے اور اس کی عبادت کرو گے.66 فرمایا کہ وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالأَنسَ اللَّا لیغبُدُون پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے.موت کا اعتبار نہیں ہے تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو.میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو، بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام

Page 875

$2004 870 خطبات مسرور اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں.اسلام تو انسان کو چست، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے،اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار و جد و جہد سے کرو.حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تردد نہ کرے تو اس سے مواخذہ ہوگا.پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے.نہیں، اصل بات یہ ہے کہ سب کا روبار جو تم کرتے ہواس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادے سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا.(الحکم مورخہ 10 راگست 1901ء صفحہ 2) آپ نے بڑی وضاحت سے فرمایا کہ تمہارا اصل مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہونا چاہئے کیونکہ فطرت صحیحہ یہی ہے جو انسان کی فطرت جس پر وہ پیدا کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جھکے.لیکن اگر اس کی عبادت نہیں کرتے ، اس کے آگے نہیں جھکتے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی پابند نہیں کہ مشکلات میں یا تکلیف میں ضرور ان کی مدد کو آئے اور ان پر اپنا فضل فرمائے جو اس کی عبادت نہیں کرتے.پس اگر اس کا فضل حاصل کرنا ہے تو اس کی عبادت بھی کرنی ہو گی.فرمایا تمہارے دنیاوی کام کاج ہیں، ان کو بھی کرو ، ملازمتیں بھی کرو، کاروبار بھی کروزمیندار ہو تو زمینداری بھی کرو.لیکن تمہارا مقصد بہر حال اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اس کی عبادت میں ہے.عام دنیاوی معاملات میں بھی جب انسان کسی چیز کا مالک ہو تو اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتا ہے.ملازم بھی رکھتا ہے تو اس کو یہی حکم ہوتا ہے کہ تم نے میرے بتائے ہوئے طریق پر کام کرنا ہے اور کسی دوسرے کی بات نہیں مانی تو اللہ تعالیٰ جو رب بھی ہے، مالک بھی ہے ، معبود بھی ہے، اس کی بات ماننے سے ہمیں کیونکر اعتراض پیدا ہوتا ہے.اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کچھ وضاحت کی ہے.یہ ان لوگوں کا اعتراض جو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لئے بنایا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں ، اس کی یہ خواہش ہے اس میں اس اعتراض کا بھی جواب دیا ہے.

Page 876

$2004 871 مسرور آپ فرماتے ہیں کہ : ” بظاہر یہ تعلیم کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندہ کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے خود غرضانہ معلوم دیتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گو یا اللہ تعالیٰ بندے کی عبادت کا محتاج ہے.لیکن اگر قرآن پر غور کیا جائے تو حقیقت بالکل مختلف نظر آتی ہے.کیونکہ قرآن کریم بوضاحت بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی عبادت کا محتاج نہیں ہے.چنانچہ سورہ عنکبوت رکوع اول میں ہے کہ ﴿وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ ﴾ (العنكبوت : 7) یعنی جو شخص کسی قسم کی جدو جہد روحانی ترقیات کے لئے کرتا ہے وہ خود اپنے نفس کے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات اور ان کے ہر قسم کے افعال سے غنی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے کہ بندہ کیا کرتا ہے، کیا نہیں کرتا.آگے اس بارے میں ایک تفصیلی حدیث بھی میں بیان کروں گا.جو کچھ کرتا ہے انسان اپنے فائدے کے لئے کرتا ہے.اسی طرح سورۃ حجرات میں فرماتا ہے کہ قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدكُمْ (الحجرات: 18) یعنی مذہب اسلام کو قبول کر کے رسول کریم ﷺ پر احسان نہیں نہ خدا تعالیٰ پر ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے وہ طریق بتایا جولوگوں کی ترقی اور کامیابی کا موجب ہے.پس عبادت قرآن کریم کے رو سے خود بندے کے فائدے کے لئے ہے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ عبادت چند ظاہری حرکات کا نام نہیں ہے بلکہ ان تمام ظاہری اور باطنی کوششوں کا نام ہے جو انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنادیتی ہے.کیونکہ عبد کے معنی اصل میں کسی نقش کے قبول کرنے اور پورے طور پر اس کے منشاء کے ماتحت چلنے کے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جو شخص کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی منشا کے ماتحت چلے گا الہی صفات کو اپنے اندر پیدا کر لے گا اور ترقی کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کر لے گا.تو یہ امر خود اس کے لئے نفع رساں ہوگا نہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے.بائیبل میں جو یہ لکھا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شکل پر پیدا کیا ( پیدائـــــش بــاب 1 آيــت 27)تو در حقیقت اس میں بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ

Page 877

خطبات مسرور 872 کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر سکے ورنہ اللہ تعالیٰ تمام شکلوں میں پاک ہے.$2004 پس عبادت پر زور دینے کے محض یہ معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے وجود کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو کیونکہ کامل تصویر بھی کھینچی جا سکتی ہے جب اس وجود کا نقشہ ذہن میں موجود ہو جس کی تصویر لینی ہو اور عبادت اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنے اور ان کا نقش اپنے ذہن پر جمانے کا ہی نام ہے جس میں انسان کا فائدہ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا“.پھر فرماتے ہیں کہ اس مضمون کی طرف ایک حدیث میں بھی اشارہ ہے جس میں بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ اما الإِحْسَان ؟ کامل عبادت کیا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ ان تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهِ.تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ گو یا معنوی طور پر وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ تیرے سامنے کھڑا ہو جائے.(تفسیر کبیر جلد نمبر 3 صفحه (143) | پھر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نواز نے کے لئے ہی عبادت کا حکم دیتا ہے اور ان کے فائدے کے لئے ہی دیتا ہے.اس بارے میں اس مضمون کو ایک اور جگہ بیان فرماتا ہے کہ آمنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ - عالمٌ مَّعَ اللهِ - قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴾ (سورة النمل آیت : 63 یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا کو قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے.اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.تو جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر آیا ہوں ایسے لوگ عبادت کے خلاف ہوتے ہیں یا بلا وجہ کا اعتراض اٹھا رہے ہوتے ہیں ان کو بھی تکلیف کے وقت دُعا یاد آ جاتی ہے.وہ ان لوگوں کی طرح ہیں جن کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ جب ان کو طوفان گھیر لیتا ہے تو رونا پیٹنا دعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں.اور جب وہ طوفان ٹل جاتا ہے اور خشکی پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر منکر ہو جاتے ہیں.تو فرمایا

Page 878

873 $2004 خطبات مسرور یہ اللہ ہے جو اس طرح بے قراروں کی دعائیں سنتا ہے.اور تکلیفیں دور کرتا ہے اور ہم یہ نظارے ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں.انہی دعائیں کرنے والوں نے دنیا پر حکومت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو زمین کا وارث بنایا.اس لئے تمہارے لئے بھی یہی حکم ہے کہ اگر عبادتیں کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے بھی حصہ پاتے رہو گے.دیکھ لیں جب عبادتوں کے معیار کم ہونے شروع ہو گئے تو آہستہ آہستہ مسلمانوں کا رعب بھی ختم ہوتا رہا.آج ہر طاقتور قوم ان سے جو سلوک کرنا چاہے کرتی ہے اور اب تو ساری دنیا دیکھ رہی ہے.تو یا درکھو کہ یہ انعام انہی عبادتوں کی وجہ سے تھے جو ہمارے آباء واجداد نے کیس یا کرتے رہے، جو صحابہ نے کیں، ان کی وجہ سے فتوحات حاصل کیں.اور یہ انعام اب بھی مل سکتے ہیں اور ملتے رہیں گے اگر عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہی.اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس مادی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کر کے تم اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کرلو گے، تو یہ وہم ہے.لیکن مشکل یہ ہے کہ دنیا داری اور نفس پرستی نے اور دنیا کی چکا چوند نے اتنا زیادہ اپنے آپ میں منہمک کر دیا ہے کہ تمہیں یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ یہ ہو کیا رہا ہے اور تم اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے.جن مسلمان ملکوں اور لیڈروں کے پاس حکومتیں ہیں ان کو اس طرف سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے نہ ہی سوچنا چاہتے ہیں.اور یہ سب جیسا کہ میں نے کہا یہ دنیا داری ہی ہے، یہ عبادتوں میں کمی ہی ہے جس نے امت مسلمہ کی یہ حالت کر دی ہے، یہاں تک پہنچا دیا ہے.پس یہ سوال اٹھانے کی بجائے کہ اللہ کو عبادتوں کی کیا ضرورت ہے اور عبادت مشکل ہے اور اس زمانے میں اس طرح ادائیگیاں نہیں ہوسکتیں، ہر احمدی مسلمان ہر دوسرے مسلمان کو یہ سمجھائے ، ہر دوسرے کو سمجھائے کہ یہ کھوئی ہوئی شان اگر دوبارہ حاصل کرنی ہے تو پھر عبادتوں کی طرف توجہ دو.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرو کیونکہ مسلمان کہلا کر پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کر کے ہم اس کے انعاموں کے وارث نہیں بن سکتے.یا درکھو یہی مسلمان کی شان ہے اور یہی ایک احمدی کی بھی شان اور پہچان ہونی چاہئے اور

Page 879

$2004 874 خطبات مسرور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہو.اور یہی عبادتیں ہیں جو اسے عاجزی میں بھی بڑھائیں گی اور یہی عاجزی ہے جو پھر اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا موقع بھی مہیا کرے گی.اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قرب میں جگہ دے گا اور اسے انعام بھی ملیں گے.پس عقل کرو.یہ بھی یاد رکھو کہ یہ انعام عاجز ہو کر عبادت کرنے والے کو ہی ملتے ہیں.اور پھر یہ کہ عبادتیں کرنے والے عبادتوں میں تھکتے بھی نہیں، بے صبرے بھی نہیں ہو جاتے.یہ سوال بھی نہیں اٹھاتے کہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھنی مشکل ہیں.بلکہ اپنی پیدائش کے مقصد کو پہچانتے ہوئے خدا تعالیٰ کے سامنے جھکے رہتے ہیں.جیسے کہ فرماتا ہے وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ - وَمَنْ عِنْدَهُ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴾ (الانبیاء: (20).اور اسی کا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے حضور رہتے ہیں اس کی عبادت کرنے میں استکبار سے کام نہیں لیتے اور نہ کبھی تھکتے ہیں.تو جب آسمانوں اور زمین میں ہر چیز اسی کی ہے تو پھر اس سے زیادہ کون اہم ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.ہر عقلمند انسان اس طرف زیادہ راغب ہو گا جہاں اس کو زیادہ فائدہ نظر آ تا ہوگا.دنیاوی معاملات میں تو ہر کوئی فائدہ دیکھتا ہے لیکن اللہ کے معاملے میں اس طرف نظر نہیں جاتی.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر فرمایا ہے کہ تمام فائدے تمہیں مجھ سے ہی ملنے ہیں.اور میری طرف ہی جھکو.عبادت کرو، تکبر کو چھوڑو.اور کیوں یہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں یہ نہیں ہوتا ؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے چھوٹ دی ہوئی ہے.اکثر دفعہ اپنی عبادت نہ کرنے والے یا شریک ٹھہرانے والوں کی فوری طور پر پکڑ نہیں کرتا، کیونکہ کھلی چھٹی دی ہوئی ہے کہ چاہے تو میری طرف آؤ، چاہے تو شیطان کی طرف جاؤ.لیکن یہ بھی فرما دیا کہ شیطان کی طرف جا کر میرے انعاموں سے بھی محروم رہو گے اور دنیا میں بھی بعض دفعہ پکڑ ہوسکتی ہے اور بہر حال آخرت میں تو یقینی پکڑ ہے اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کرنے والے ہو گے.تو بہر حال مالک کو حق ہوتا ہے کہ جو اصول وضع کئے گئے ہیں ان پر عمل نہ کرنے والوں کو سزا دے.لیکن اللہ تعالیٰ کے معاملے میں بعض عنظمند بننے والے یہ کہتے ہیں کہ سزا کا

Page 880

$2004 875 خطبات مسرور بھی حق نہیں ہونا چاہئے ، اور عبادت بھی جو مرضی کرے جو نہ کرے، چھوٹ ہونی چاہئے.چھوٹ تو ہے لیکن بہر حال پھر مالک ہونے کی حیثیت سے اس کو سزا کا بھی حق ہے اس کو پکڑ کا بھی حق ہے.اس پر اعتراض ہو جاتا ہے کہ انسان کو عبادت کے لئے پیدا کرنے کا جو اصول بنایا ہے یہ بڑا غلط ہے اللہ تعالیٰ اپنی عبادت زبر دستی کروانا چاہتا ہے.جبکہ اللہ تعالیٰ تو یہ سب کچھ کروا کر انعامات سے نواز رہا ہے.جابر حکمران کی طرح یہ نہیں کہہ رہا کہ بس ہر صورت میں یہ کرو جس طرح بیگار لی جاتی ہے.بلکہ نہ صرف انعامات سے نوازتا ہے جہاں آسانی کی ضرورت ہے عبادتوں میں آسانی بھی پیدا فرماتا ہے.جیسا کہ سفر میں ، بیماری میں کافی سہولتیں مہیا ہیں.روزے دار کے لئے بھی نماز پڑھنے والے کے لئے بھی.تو اس پر تو بجائے زبردستی کا تصور قائم کرنے کے انسان جتنا سوچے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تصور ابھرتا ہے.اور پھر اس کی حمد اور اس کی عبادت کی طرف مزید توجہ پیدا ہوتی ہے.لیکن اگر پھر بھی کوئی یہی رٹ لگائے رکھتا ہے کہ عبادت بڑی مشکل ہے اور عبادت کس لئے کی جاتی ہے، اور عبادت کی طرف نہیں آتا اور بے عقلوں کی طرح صرف دلیلیں دیئے چلا جاتا ہے اور وہ بھی اوٹ پٹانگ دلیلیں.تو اللہ تعالیٰ جس نے نواز نے کے لئے بندے کو عبادت کا حکم دیا ہے، بندے کے اپنے فائدے کے لئے عبادت کا حکم دیا ہے فرماتا ہے کہ اگر تم پھر بھی نہیں مانتے ، انکار پر مصر ہو، اس پہ اصرار کئے جارہے ہو تو پھر خدا کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں.اسے کوئی شوق نہیں ہے کہ تمہارے جیسے نافرمان اپنے اردگر دا اکٹھا کرے.جیسا کہ فرماتا ہے ﴿ قُلْ مَايَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا﴾ (سورة الفرقان آیت : 78) تو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا.پس تم اسے جھٹلا چکے ہو، ضرور اس کا وبال تم سے چمٹ جانے والا ہے.پس واضح ہو گیا کہ دعاؤں اور عبادت کی اللہ کو ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں ضرورت ہے.پس اگر تم انکار پر تلے بیٹھے ہو تو خدا تعالیٰ کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہے.اب سزا کے لئے تیار ہو

Page 881

$2004 876 خطبات مسرور جاؤ یہ بہر حال اس کا حق ہے، وہ مالک ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” کامل عابد وہی ہوسکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے اور وہ آیت یہ ہے ﴿قُلْ مَا يَعْبَوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ یعنی ان لوگوں کو کہ دو کہ اگر تم لوگ رب کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے.یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پرواہ کرتا ہے“.(الحکم جلد 6 نمبر 24 مورخه /10 جولائی 1902 ، صفحہ 4).جو عبادت کرنے والا ہے اس کی بات مانتا ہے اس کے لئے کھڑا ہوتا ہے.دشمن سے اس کو محفوظ رکھتا ہے.اپنی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : ”انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادت الہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کر کے بریکار کر لیتا ہے.یعنی عبادت کی غرض تو یہی ہے لیکن اگر ماحول کا اثر اس پر پڑ گیا اور اللہ میاں نے جو اس کی فطرت میں چیز رکھی تھی اس کو بیکار کر لیا اور ضائع کر دیا ” تو خدا تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ.میں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ میں ایک جنگل میں کھڑا ہوں.شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے اس نالی پر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیڑ پہ مسلط ہے ہر ایک بھیڑ کے اوپر ایک قصائی کھڑا ہے.ہاتھ میں چھری ہے جو انہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہوا ہے کہ ان کے بارے میں کیا حکم ہے.میں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں.میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں.تو میں نے یہی آیت پڑھی قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ﴾ (سورة الفرقان آیت :78) یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفور چھریاں چلا دیں.یعنی ان کی گردنوں پر چھریاں پھیر دیں، ذبح کر دیا.اور یہ کہا کہ تم ہو کیا ؟ آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو“.گند کھانے والی بھیڑیں ہی ہونا.

Page 882

$2004 877 مسرور فرمایا: " غرض خدا تعالیٰ متقی کی زندگی کی پرواہ کرتا ہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے.اور جو اس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے.اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے.جیسے کلورا فارم نیند لاتا ہے اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کر دیتا ہے.(الحكم جلد 5 نمبر 30 مورخه 17/ اگست (1901ء صفحه 1 تو یہاں جو آپ کو رویا میں دکھایا گیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے اور ان کی حیثیت جانوروں کی طرح کی ہے.اور ان کو نقصان پہنچتا ہے تو ان کی کوئی بھی پرواہ نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ ان کی بالکل بھی حفاظت نہیں فرما تا بلکہ آپ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں ڈالتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اے نے فرمایا کہ دعا ہی در اصل عبادت ہے.پھر آنحضور ﷺ نے یہ آیت فرمائی ﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِي أَسْتَجِبْلَكُمْ إِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ (المومن : (61) اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا.یقینا وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے اپنے تئیں بالا سمجھتے ہیں ضرور جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے.(ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء في فضل الدعاء).تو بالا تو وہی سمجھتے ہیں جن میں تکبر پایا جاتا ہے یا جن کے اندر شیطان گھسا ہوا ہے.اس لئے شیطان ذہنوں میں ایسے خیالات پیدا کرتا رہتا ہے کیونکہ شیطان ہے اور شیطان کسی وقت بھی اثر انداز ہوسکتا ہے.اس لئے چاہے جن پر اثر ہے یا نہیں ہے، اس لئے اپنے ماحول میں جیسا دنیا میں ماحول میسر ہے استغفار کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ جہنم کے عذاب سے بچے رہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ باتیں جو نبی نے اپنے اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے

Page 883

$2004 878 خطبات مسرور فرمایا اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے آپ پر حرام کیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے.پس اے میرے بندو! تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.( یہ لمبی حدیث ہے اس میں مختلف قسم کے احکامات ہیں) تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں.پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت عطا کروں گا.پھر فرمایا اے میرے بندو ! تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں.پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھلاؤں گا.اے میرے بندو! تم میں سے ہر ایک نگا ہے سوائے اس کے جسے میں کپڑے پہناؤں.پس تم مجھ سے لباس طلب کرو، میں تمہیں لباس عطا کروں گا.اور پھر فرمایا اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہواور میں تمام گناہ بخشتا ہوں.پس تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں تمہیں تمہارے گناہ بخش دوں گا.اے میرے بندو! ( یہاں عبادت کی طرف توجہ دلائی ہے ) تم اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے کہ مجھے نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی تم ایسی حیثیت رکھتے ہو کہ مجھے نفع پہنچاؤ.تو بندے کوکوئی اختیار ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کر کے یا نہ کر کے نقصان یا نفع پہنچا سکے.اس کی آگے پھر وضاحت فرمائی کہ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے عوام اور تمہارے خواص تم میں سے ایک انتہائی متقی دل رکھنے والے شخص کی طرح ہو جائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ بھی اضافہ نہ کر سکے گا.اوراے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے تمہارے عوام اور تمہارے خواص تم میں سے انتہائی فاجر دل رکھنے والے کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی.اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے، تمہارے عوام اور تمہارے خواص ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر شخص کو اس کی مطلوبہ اشیاء عطا کر دوں تو بھی جو کچھ میرے پاس ہے.اس میں سے کچھ بھی کمی کرنے کا باعث نہ ہوگا سوائے اس کے جتنا سوئی کو سمندر میں ڈال کر نکالنے سے کمی واقع ہوتی ہے.اور اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جو میں تمہاری خاطر شمار کرتا ہوں.پھر میں پوری پوری جزا تم کو عطا کرتا ہوں.مجھے کوئی شمار کرنے کی

Page 884

$2004 879 خطبات مسرور ضرورت نہیں ہے.تمہیں جزا دینے کے لئے شمار کرتا ہوں.پس تم میں سے جو شخص خیر پائے (اکثر یہ ہوتا ہے کہ شمار کے بجائے بے حساب جانے دیتا ہے ایسی بھی روایات ہیں ) پس تم میں سے جوشخص خیر پائے اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرے.اور جو اس کے سوا پائے اسے چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے.سعید کہتے ہیں کہ جب راوی یہ حدیث بیان کرتے تھے تو گھٹنوں کے بل گر جاتے تھے.پس یہاں جو فرمایا کہ حمد کرے تو یہ حمد عبادت ہی سے ہے جتنی زیادہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ پیدا ہو گی اتنی ہی زیادہ عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوگی.فرمایا کہ اگر نہیں کرو گے مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سب دنیا کے بندے، موجود بھی، پہلے بھی اور نئے آئندہ بھی جو دنیا میں آنے والے ہیں وہ بھی اگر متقی بن جائیں اور ایک متقی شخص کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری حکومت اور ملکیت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا.مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا.ادنی سا بھی فرق نہیں پڑے گا اتنی بھی کمی نہیں ہو گی.اگر سب برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہو جائیں تو بھی میری سلطنت اور بادشاہت میں کمی نہیں ہوگی.اتنی کمی بھی نہیں ہوتی جتنی سمندر میں ایک سوئی کو ڈبونے سے اس کے نکے میں جو پانی کا قطرہ چمٹ جاتا ہے اس پانی کے نکلنے سے کمی ہوتی ہو.یہ سب چیزیں تو تمہارے فائدے کے لئے ہیں.اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنے کے لئے تم یہ عبادت کرتے ہوا گر تم میرے سامنے جھکتے ہو.پھر ایک روایت میں آتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ”انسان اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو اس لئے سجدے میں بہت دعا کرو“.(مسلم كتاب الصلواة ما يقال في الركوع والسجود) یہ عبادت کے طریق ہیں.نماز کی طرف توجہ ہے.جو نماز پڑھے گا تو سجدے میں بھی جائے گا.تو نمازوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.پھر نمازوں میں سجدے میں سب سے زیادہ دعا

Page 885

$2004 880 خطبات مسرور کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.کیونکہ ایک جگہ فرمایا کہ نماز ہی عبادت کا مغز ہے.نمازوں میں بھی جیسا کہ میں نے کہا جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے اچھا موقع ہے وہ سجدے کی حالت میں ہے.جب انسان نہایت عاجزی سے اپنا سر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر رکھتا ہے آگے جھکتا ہے، اس سے التجا کرتا ہے، اس سے مانگتا ہے.یہی حالت ہے جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بہت قریب انسان ہوتا ہے.اس لئے اس وقت بہت زیادہ مانگنا چاہئے.اور اس وقت مانگو تا کہ اللہ تعالی کے فضل کو بھی جوش میں لاؤ ، اور رحم کو بھی جوش میں لاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” غرض کہ ہر آن اور پل میں اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے اور مومن کا گزارا تو ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کا دھیان ہر وقت اس کی طرف لگا نہ رہے.اگر کوئی ان باتوں پر غور نہیں کرتا اور ایک دینی نظر سے ان کو وقعت نہیں دیتا تو وہ اپنے دنیوی معاملات پر ہی نظر ڈال کر دیکھے کہ خدا کی تائید اور فضل کے سوا کوئی کام اس کا چل سکتا ہے؟.اور کوئی منفعت دنیا کی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.دین ہو یا دنیا ہر ایک امر میں اسے خدا کی ذات کی بڑی ضرورت ہے.اور ہر وقت اس کی طرف احتیاج لگی ہوئی ہے.جو اس کا منکر ہے سخت غلطی پر ہے.خدا تعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھویا نہ.وہ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ ﴾ (سورة الفرقان آیت :78) کہ اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہوگا.انسان جس قدر اپنے وجود کو مفید اور کارآمد ثابت کرے گا اسی قدر اس کے انعامات کو حاصل کرے گا.دیکھو کوئی بیل کسی زمیندار کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہومگر جب وہ اس کے کسی کام بھی نہ آوے گا نہ گاڑی میں جتے گا، نہ زراعت کرے گا، نہ کنویں میں لگے گا تو آخر سوائے ذبح کے اور کسی کام نہ آوے گا.یہاں بھی اب جانور جو ہیں جو کسی کام کے نہیں ہوتے وہ ذبح کئے جاتے ہیں.یا علاوہ ان کے خاص طور پر اس لئے پالے جاتے ہوں.پھر فرمایا: ” ایک نہ ایک دن مالک اسے قصاب کے حوالے کر دے گا“.(بیل کی مثال دے ر ہے ہیں ) تو ایسے ہی جو انسان خدا کی راہ میں مفید ثابت نہ ہوگا تو خدا اس کی حفاظت کا ہرگز ذمہ دار

Page 886

881 $2004 خطبات مسرور نہ ہو گا.ایک پھل اور سایہ دار درخت کی طرح اپنے وجود کو بنانا چاہئے تا کہ مالک بھی خبر گیری کرتا رہے.لیکن اگر اس درخت کی مانند ہوگا کہ جو نہ پھل لاتا ہے اور نہ پتے رکھتا ہے کہ لوگ سائے میں آ بیٹھیں تو سوائے اس کے کہ کاٹا جاوے اور آگ میں ڈالا جاوے اور کس کام آ سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ﴾ (الذاريات: 57).جو اس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خریدلوں ، فلاں مکان بنالوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے.تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلالے اور کیا سلوک کیا جاوے.انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شے ہو جاوے گا.اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ مہلت اس لئے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حکم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اسے وہ کیا کرے.پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے.سب عبادتوں کا مرکز دل ہے.اگر عبادت تو بجالاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی.اس لئے دل کا رجوع نام اس کی طرف ہونا ضروری ہے.(ملفوظات جلد 4 صفحه -221-222 - البدر 20 جنوری (1905 یعنی مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف دل لگا رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ شیطانی وسوسوں اور خیالات سے بچا کر رکھے.ہمارے دلوں میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کا کہہ کر ہمیں کسی مشکل میں ڈال دیا ہے.بلکہ ہم بھی اپنے آقاومتاع کی پیروی میں اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نمازوں اور عبادتوں میں تلاش کرنے والے ہوں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 887

$2004 882 خطبات مسرور

Page 888

$2004 883 50 خطبات مسرور ہر احمدی کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی پہلے سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرے اور آپ پر درود و سلام بھیجے.10 / دسمبر 2004ء بمطابق 10 فتح 1383 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن.لندن) قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں ان میں سے ایک درود شریف کثرت سے پڑھیں.آنحضرت ﷺ کی بلندشان اور مقام ارفع کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضرت ﷺ سے والہانہ عشق اسیران راہِ مولا اور خدا تعالیٰ کا ان سے پیار کا سلوک اور احمدیوں کے خلاف ظالمانہ فیصلے کرنے والوں کو انتباہ کہ خدائی پکڑ سے بچیں.

Page 889

خطبات مسرور $2004 884 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (آل عمران: 32) إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا (الاحزاب:57) یہ پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ تو کہدے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اور دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو.یہ دو آیات ایک آل عمران کی ہے اور دوسری سورۃ احزاب کی.جیسے کہ ترجمے سے آپ نے سن لیا آل عمران کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کو آنحضرت ﷺ کے ذریعے سے یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اب تمام گزشتہ اور آئندہ نمونے ختم ہو گئے اب اگر کوئی پیروی کے قابل نمونہ ہے تو آنحضرت ﷺ کا نمونہ ہے اور یہ پیروی کے نمونے کس طرح قائم ہوں گے.اس طرح قائم ہوں گے جس طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی پسند اور نا پسند کو اپنی پسند اور ناپسند

Page 890

$2004 885 خطبات مسرور صلى الله بناتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس طرح تم آنحضرت ﷺ کی پیروی کرو گے تو پھر ہی میں تمہارے گناہ بھی بخشوں گا اور تمہارے سے محبت کا سلوک بھی کروں گا.تمہاری دینی اور دنیاوی بھلائیوں کے سامان بھی پیدا کروں گا.تو گویا اب اللہ تعالیٰ تک پہنچے کے تمام راستے بند ہو گئے اور اگر کوئی راستہ کھلا ہے تو آنحضرت مے کی کامل اتباع کر کے آپ کے پیچھے چل کر ہی خدا تعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے، یہی ایک راستہ ہے جو کھلا ہے.پھر اس اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنے کے لئے اور آپ ملے کی محبت دل میں بڑھانے کا طریق جو اگلی آیت میں نے تلاوت کی ہے سورۃ احزاب کی اُس میں بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نبی کوئی معمولی نبی نہیں ہے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا وجود ہے.زمین و آسمان اس کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی اسی کام پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ کے اس پیارے نبی پر رحمت بھیجتے رہیں اور دعائیں کرتے رہیں.پس اے لوگو جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو تمہارا بھی یہ کام ہے کہ اس نبی سے محبت پیدا کرو.اس پر درود بھیجو اور بہت زیادہ سلامتی بھیجو.جب تم اس طرح اس نبی پر درودوسلام بھیجو گے تو تم پر اس کی پیروی کے راستے بھی کھلتے چلے جائیں گے اور جیسے جیسے یہ راستے کھلیں گے جس طرح تم اس کی پیروی کرتے چلے جاؤ گے اتنی ہی زیادہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والے بھی بنتے چلے جاؤ گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ : ” قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں.اول وإِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي (آل عمران: 32).دوم.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب:57).اور تیسرا موہبت الی“.(حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئله وحدت الوجود پر ایک خط صفحه 23 یعنی دعائیں قبول کروانا چاہتے ہو تو جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس کی پیروی کرو، آپ سے محبت کرو اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرو.پھر رسول اللہ پر درود بھیجو تا کہ اس محبت میں خود بھی بڑھو اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی حاصل کرو.اور

Page 891

886 $2004 خطبات مسرور پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو، اس سے بخشش طلب کرو، اس کی عبادت کرو.سب غیر اللہ کو چھوڑ دو.تو یہ تین چیزیں ہیں اگر پیدا ہو جائیں گی تو سمجھو کہ تم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے.اور دنیا اور آخرت سنور جائے گی.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ : ” ان کو کہ دواس بارہ میں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الہی بن جاؤ اور تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو.فرمایا کہ ".میری پیروی ایک ایسی شئے ہے جو رحمت الہی سے نا امید ہونے نہیں دیتی.گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنادیتی ہے“.یعنی جو حقیقی پیروی کرنے والے ہوں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے.ان میں ایک یقین کی کیفیت ہوتی ہے کہ اس پہلو سے ہم نے یقینا اللہ تعالیٰ کا قرب پالینا ہے اور اس کی محبت حاصل کر لینی ہے تو فرمایا کہ میری پیروی گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہوگا کہ تم میری پیروی کرو“.پھر فرمایا کہ اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرز ریاضت اور مشقت اور جپ تپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قرب الہی کا حقدار نہیں بن سکتا.انوار و برکات الہیہ کسی پر نازل نہیں ہوسکتیں جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں کھویا نہ جاوے.اور جو شخص آنحضرت ﷺ کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے یعنی یہ پیروی اور محبت مومن بندے کو اتنی زیادہ ہونی چاہئے کہ اس کو باقی سب چیزوں سے بے نیاز کر دے، کسی غیر کے آگے جھکنے والے نہ ہوں.جیسے بھی حالات ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے آستانے پر ہی جھکنے والے ہوں.اب یہی شان ہے جو ایک احمدی کی ہونی چاہئے.

Page 892

$2004 887 خطبات مسرور فرمایا کہ آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وار د کر لے اس کو وہ نور ایمان، محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلا دیتا ہے اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کا موجب ہوتا ہے.اسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتا ہے.اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِی یعنی میں مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.(الحکم جلد 5 نمبر 3 مورخه 24 جنوری 1901 صفحه 2) پھر آپ فرماتے ہیں کہ دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے.لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57).اُن قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا.صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے.جیسے حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد، حضرت عیسی علیہم السلام اور دوسرے انبیاء.سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گزشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا.یعنی اگر قرآن شریف کی تعلیم سامنے نہ ہوتی اور جس طرح قرآن کریم نے ہمیں ان انبیاء کا بتایا وہ ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیتے.یہ آنکھوں سے دیکھنے والی ہی بات ہے جس طرح تفصیل سے قرآن کریم میں ذکر ہے تو تمام گزشتہ انبیاء کی جو سچائی ہے وہ اس طرح ہم پر ظاہر نہ ہوتی جس طرح قرآن کریم کے پڑھنے سے ہم پر ظاہر ہوئی ہے.فرمایا کہ ” کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صیح نہ ہوں.اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں.کیونکہ اب ان کا نام و

Page 893

$2004 888 خطبات مسرور نشان نہیں بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا.اور یقینا نہیں سمجھ سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے.اب نہ ہم قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ اب یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ تجربے سے یہ باتیں ہمارے سامنے ظاہر ہوگئیں.اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الہیہ کیا چیز ہوتا ہے.“ یہ صرف قصے نہیں رہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی سے ہی پتہ لگ گیا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ہمکلام ہوتا ہے کس طرح بات کرتا ہے کس طرح سنتا ہے اور کس طرح سناتا ہے.اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت ﷺ کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قو میں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا.پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے.کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے محمد عربی بادشاہ ہر دو سرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں.کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی.ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج“.یعنی جو سعید فطرت لوگ ہیں ان کی روح کو تازگی دینے کے لئے ، ان کو نور پہنچانے کے لئے ایک سورج ہے.جیسے ہمارے جسم کی صحت کے لئے ایک سورج ہے.وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا.وہ نہ تھکا، نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا.وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے.اور اس کی کچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو.کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا

Page 894

889 $2004 خطبات مسرور مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا.لیکن افسوس کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نوران کے اندر داخل ہو“.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 301-302-303) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بتانے کے بعد یہ فرمایا کہ کون ہے جو بچے دل سے ہمارے پاس آیا کہ اسے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا پتہ نہ لگا.یعنی اس غرض سے آیا کہ اس نور کو دیکھے اور اس کو نہ دکھایا ہو.کیونکہ اب اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کا نور دیکھنے کے لئے مسیح موعود کے پاس ہی آنا ہو گا.یہ بھی آنحضرت ﷺ کا ہی ارشاد ہے کہ چودہ سو سال کے بعد جب مسیح و مہدی آئے گا وہ میرے نور سے ہی منور ہوگا، میری روشنی ہی پھیلائے گا.پس آنحضرت ﷺ کی پیروی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ کی اس بات کی بھی پیروی کی جائے کہ چودھویں صدی میں جس مسیح ومہدی کا ظہور ہونا ہے اس کو بھی مانا جائے.یہ نہیں ہے کہ جیسے مسلمانوں کا آج کل یہی شیوہ ہے کہ جو مرضی کی باتیں ہوں وہ مان لیں اور کچھ نہ مانی.تو فرمایا کہ یہ تو گھٹیا اور گندی زندگی کو پسند کرنے والی باتیں ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنے بارے میں کیا ارشادفرمایا ہے کہ مجھ سے کسی طرح محبت کرو.ایک روایت میں آتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا جب تک میں اسے اپنے والد اور اولاد سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں.(بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلى الله عليه وسلم من الايمان) تو یہ معیار بتایا ہے دنیا وی رشتوں کی مثال دے کر کہ صرف پیروی کا دعوی ہی نہیں کرنا بلکہ یہ جو دنیاوی رشتے ہیں، والدین اور بچے ، ان سب سے زیادہ میں تمہارا پیارا بنوں.مجھے تم سب سے زیادہ پیار کرنے والے بنو.صحابہ نے جن میں بچے بھی تھے بوڑھے بھی تھے جوان بھی تھے انہوں نے اسی طرح قربانیاں دی ہیں اور اسی طرح پیار کیا ہے.بچوں نے اپنے والدین کو چھوڑ نا گوارا کر لیا مگر آپ کا در نہ چھوڑا.پس آج ہمیں بھی وہی مثالیں قائم کرنی ہیں، انشاء اللہ.جس طرح آپ نے

Page 895

$2004 890 خطبات مسرور فرمایا، جو اسلام کی تعلیم ہے ، اس کو مانا ہے، اس پر عمل کرنا ہے اور دنیا کوئی پرواہ نہیں کرنی.آپ کے لئے جو غیرت اور محبت اور عشق ہمارے دلوں میں ہونا چاہئے اس کے مقابلے میں ہر دوسری چیز اور ہر دوسرا رشتہ اور ہر قسم کی غیرت جو بھی ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کی اتنی غیرت تھی کہ آپ معمولی سی زیادتی بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.آپ کو ایسی باتیں سن کر جس قد رغم اور تکلیف پہنچتی تھی وہ صلى الله نا قابل بیان ہے.آپ ایسے شخص کی شکل بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے جس نے آنحضرت ملے کے متعلق کوئی نازیبا بات کی ہو.اور جب عیسائی مشنریوں نے آنحضرت ﷺ کے خلاف بعض بہتان گھڑے اس زمانے میں تو آپ کی انتہائی کرب اور تکلیف کی کیفیت ہوتی تھی.آپ خود بھی اس کیفیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ: ”عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں.اور اپنے اس دجل کے ذریعے ایک خلق کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے.میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھے نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک کی شان میں کرتے رہتے ہیں ان کے دلآ زار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے.خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد، اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں.پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلا سے نجات بخش.(آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحه 15)

Page 896

$2004 891 مسرور پس یہ ہے وہ غیرت جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں تھی اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت اور آپ کی محبت کے وہ معیار ہیں جو آپ اپنی جماعت کے ہر فرد میں دیکھنا چاہتے تھے.اور اس تعلیم کا ہی اثر ہے کہ یہ محبت جماعت کے دلوں میں پیدا ہوئی اور پھر جماعت اس محبت کے زیر اثر ہی آج دنیا کے کونے کونے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچانے کے لئے کوشاں ہے اور آج دنیا کے کونے کونے میں اس غیرت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام جماعت کے ذریعہ پہنچایا جارہا ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ پہنچایا جاتا رہے گا.یہ پیغام پہنچانے کے طریق اور دنیا کو چیلنج دینے کی جرات جیسے کہ میں پہلے بھی کہہ چک ہوں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی ہے.آپ کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو عشق تھا اور آپ کے لئے جو غیرت تھی اس کا اظہار اس سے پہلے کے اقتباس سے ہو چکا ہے جو الفاظ میں نے پڑھے ہیں.آپ نے دنیا کو واضح الفاظ میں یہ چیلنج دیا ہے کہ تمہارا جو کچھ بھی مذہب ہو، تمہاری جتنی بھی طاقت اور وسائل ہوں تم جتنا مرضی ہنسی ٹھٹھا کرلو لیکن یا درکھو کہ اب دنیا میں غالب آنے والا مذ ہب صرف اور صرف اسلام ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: ”اے تمام وہ لوگ جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو! جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذ ہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں.(ترياق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحه (141) لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج اس مسیح محمدی کی جماعت زندہ خدا اور زندہ مذہب اور

Page 897

$2004 892 خطبات مسرور جاہ جلال کے نبی کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی جو کوشش کر رہی ہے، یہ جماعت، جماعت احمد یہ اس کی راہ میں مسلمان کہلانے والے رکاوٹیں اور مشکلیں ڈال رہے ہیں ، ان کے خلاف الزام تراشیاں کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے.آنحضرت ﷺ سے عشق و محبت اور آپ پر درود بھیجنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو محبت کی اور جس طرح نوازا اس ذکر کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.پھر بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَم النبيين.اور درود بھیج محمد اور آل محمد پر جوسردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اُسی کے طفیل سے ہیں اور اُسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے.سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں.یعنی آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا اونچا مرتبہ ہے.” اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے.پھر فرماتے ہیں.فارسی کے کچھ شعر ہیں.بیچ محبوبے نماند ہیچو یار دلبرم مهر و ماه را نیست قدری در دیار دلبرم آں کجا روئے کہ دارد همچو رویش آب و تاب واں کجا باغ که می دارد بهار دلبرم یعنی میرے دوست کے مقابلے میں ، میرے محبوب کے مقابلے میں کوئی بھی محبوب نہیں ہے.میرے دوست کے مقابلے میں تو چاند اور سورج کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ چہرہ کہاں

Page 898

$2004 893 خطبات مسرور ہے جو اس کے چہرہ کی طرح چمک دمک رکھتا ہو اور وہ باغ کہاں ہے جس میں میرے دوست کی طرح بہار آئی ہو.فرمایا کہ: ” اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اُسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں.صلی اللہ علیہ وسلم.اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے.لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محی کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی.اس لئے وہ اختلاف میں ہے یعنی اللہ تعالیٰ دین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے جوش میں ہے لیکن وہ جو زندہ کرنے والا ہے اس کا تعین نہیں ہوا کہ وہ کون ہو گا اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محی کی تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارے سے اس نے کہا صلى الله که هذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُوْلَ اللهِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتا ہے.جس نے دوبارہ دین کا احیاء کرنا ہے یہ وہ شخص ہے.جو آنحضرت ﷺ سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ اور کوئی محبت نہیں کرتا.اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے، یعنی احیاء دین کے لئے جو شرط ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں ہو.” تو وہ اس شخص میں متحقق ہے.اور اسی شخص میں پائی جاتی ہے.اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سر ہے کہ افاضئہ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے جو فیض ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہونی چاہئے.اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہی طیبین ، طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے.اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک

Page 899

$2004 894 خطبات مسرور تھوڑی سی غیبت جس سے جو خفیف سے نشا سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا.یعنی بیداری کے عالم میں اونگھ کی سی کیفیت تھی.اس میں اس طرح ہوا کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی جیسی بہ سرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے.پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہم اجمعین.اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.اب اس پر بھی بعض مخالفین کو اعتراض شروع ہو جاتا ہے کہ سر ران پر رکھنے سے.اپنی ذہنی حالت کا دراصل وہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں.کہ اتنا غلط مطلب نکالتے ہیں کہ شرم آتی ہے.کوئی مسلمان کہلانے والا ایسی باتیں نہیں کر سکتا.آپ فرما رہے ہیں کہ ” مادر مہربان کی طرح.اب ماں کے مقام کی جو مثال ہے اس کے بارے میں بھی جو غلط سوچ رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے حال پر رحم کرے اور کیا کہا جا سکتا ہے.اور پھر یہ ہے کہ یہ فرمایا ہے کہ سامنے آ کر کھڑے ہو گئے جس طرح بچہ کو ساتھ چمٹا لیتے ہیں.چمٹا لیا ساتھ تو فرمایا کہ مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سراپنی ران پر رکھ لیا.پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا ہے.اور اب علی وہ تفسیر تجھ کودیتا ہے.الحمدللہ علی ذالک“.( براهین احمدیه هر چهار حصص - روحانی خزائن جلد 1 صفحه 597-599 حاشیه در حاشیه نمبر ۳) پس دیکھیں اس عاشق صادق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کی محبت جو آپ کو اپنے آقا اور محبوب سے تھی کہ بے انتہا درود بھیجا کرتے تھے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے نوازا جیسا کہ اس سے ظاہر ہے.پس آج ہمیں بھی اس محبت کے نمونے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ دنیا کو جلد سے جلد اس آقا کی غلامی میں لاسکیں جو تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوا ہے تا کہ دنیا میں امن اور محبت کی فضا پیدا ہو.

Page 900

$2004 895 مسرور اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور آپ کے لئے غیرت کی چند اور مثالیں جو روایات ہیں بچوں کی اور دوسری پیش کرتا ہوں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جو آپ کے منجھلے بیٹے ، دوسرے بیٹے تھے فرماتے ہیں کہ : ” یہ خاکسار حضرت مسیح موعود کے گھر میں پیدا ہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لئے میری زبان میں طاقت نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں.مگر میں نے ایک دن مر کر خدا کو جان دینی ہے میں آسمانی آقا کو حاضر وناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے دیکھنے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر بلکہ محض نام لینے پر ہی حضرت مسیح موعود کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھتی نہ آ گئی ہو.آپ کے دل و دماغ بلکہ سارے جسم کا رواں روواں اپنے آقا حضرت سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے معمور تھا.سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحه 26-27) پھر ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ : ” ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مکان کے ساتھ والی چھوٹی سی مسجد میں جو مسجد مبارک کہلاتی ہے اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہتی چلی جا رہی تھی.اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آ کر سنا تو آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت حسان بن ثابت کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِكْ فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدِكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ یعنی اے خدا کے پیارے رسول تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے

Page 901

896 $2004 خطبات مسرور اندھی ہوگئی ہے اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہوگئی.راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس طرح روتے دیکھا اور اس وقت آپ مسجد میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کوکونسا صدمہ پہنچا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں اس وقت حسان بن ثابت کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہورہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا“.رض (سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم-اے - صفحه 27-28 تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت آپ کو.یہ کھو کھلے نعرے، دعوے اور تحریریں نہیں تھیں.آج مخالف اٹھ کے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کم رہے ہیں.آج اگر اس مقام کو کسی نے پہچانا ہے اور اس کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی غیرت رکھی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی غیرت کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ میری عمر اس وقت 17 سال کی تھی کہ کسی جلسہ میں بھیجا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک وفد کی صورت میں.فرمایا میری عمر اس وقت 17 سال کی تھی مگر وہاں مخالفین نے کچھ باتیں کیں.فرمایا کہ میں اس بد گوئی کو سن کر برداشت نہ کر سکا اور اور میں نے کہا کہ میں تو ایک منٹ کے لئے بھی اس جلسہ میں نہیں بیٹھ سکتا، میں یہاں سے جاتا ہوں.اکبر شاہ صاحب نجیب آبادی مجھے کہنے لگے کہ مولوی صاحب تو یہاں بیٹھے ہیں اور آپ اٹھ کر باہر جا رہے ہیں.اگر یہ غیرت کا مقام ہوتا تو کیا مولوی صاحب کو غیرت نہ آتی.میں نے کہا کچھ ہو مجھ سے تو یہاں بیٹھا نہیں جاتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ سخت کلامی مجھ سے برداشت نہیں ہوسکتی.وہ کہنے لگے کہ آپ کو کم سے کم نظام کی اتباع تو کرنی چاہئے.مولوی صاحب اس وقت ہمارے لیڈر ہیں اس لئے جب تک وہ بیٹھے ہیں اس وقت تک نظام کی پابندی کے لحاظ سے آپ کو اٹھ کر باہر نہیں جانا چاہئے.ان کی یہ بات اس

Page 902

$2004 897 خطبات مسرور وقت کے لحاظ سے مجھے معقول معلوم ہوئی اور میں بیٹھ گیا.جب یہ وفد واپس قادیان پہنچا اور حضرت اقدس کی خدمت میں اس جلسہ کی رپورٹ پیش کی تو حضور کو اس قدر رنج پہنچا کہ الفاظ میں اسے بیان کرنا مشکل ہے.جو صحابہ اس موقع پر موجود تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس کی زبان فیض ترجمان سے بار بار یہ الفاظ نکلتے تھے کہ تمہاری غیرت نے یہ کیسے برداشت کیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گالیاں سنتے رہے.تم لوگ اس مجلس سے فوراً اٹھ کر باہر کیوں نہ آ گئے.(حیات نور صفحه 308) تو یہ ہے آپ کی تعلیم ، آپ کے دلی جذبات اور آپ کا عملی نمونہ آنحضرت ﷺ کی محبت میں سرشار ہونے کا اور آپ کی خاطر غیرت دکھانے کا.یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں ورنہ بے شمار مثالیں ہیں.اور یہی نمونے قائم کرنے کی آپ نے اپنی جماعت سے امید رکھی ہے.اور نصیحت فرمائی ہے.آج مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک عزت کے مرتکب ہو رہے ہیں.ان مخالفین کو اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ تمہاری عقلوں اور آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اس لئے تمہیں کچھ نظر نہیں آ رہا.آج تمہارے پاس طاقت ہے تو تم جو چاہو کرنے یا کہنے کی کوشش کرو، کرتے رہو، کہتے رہو.مولوی کی آنکھ پر پردے تو پڑے ہوئے تھے ہی اور ہیں ہی.ان کا کام تو صرف فساد اور نفرتیں پھیلانا ہی ہے افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی باوجود جاننے کے اور ذاتی مجالس میں اس کے اظہار کے پھر بھی کھلے عام یہ اعتراف نہیں کرتے کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والی ہے اور آپ کی تعلیم کی پیروی کرنے والی ہے.اتکا د گا آپ کو ملیں گے، آپ کے دوست ہوں گے، یہی اعتراف کریں گے.لیکن اس علم کے باوجود کبھی کھل کے نہیں کہہ سکتے.اور جیسا کہ میں کہا، بعض دفعہ اظہا ر ہو چکا ہے،اور اس اظہار کے باوجود، 1974ء میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا جو قانون پاس کیا تھا اس کے بارہ میں بھی اظہار ہوتا ہے کہ یہ غلط تھا.اور اس وقت مُلاں کو خوش کرنے کے لئے یا جو بھی مقاصد تھے اس

Page 903

898 $2004 خطبات مسرور زمانے کی حکومت کے ان کو پورا کرنے کے لئے جو قدم اٹھایا گیا تھا اس سے سوائے ملک میں بدامنی اور بے چینی کے ملک کو کچھ اور نہیں ملا، بے چینی اور بدامنی ضرور ملی ہے.یہ اظہار کرتے ہیں غیر بھی.پھر بھی ملاں کے پیچھے چلتے ہیں.بہر حال اس وقت تو میں اس کی تفصیل نہیں بتارہا.ایک قانون کا ذکر یہاں کرنا ہے جو چند سال سے بنا ہوا ہے پاکستان میں.ہتک رسول کا قانون ہے.اور ملاں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح احمدیوں کو اس قانون کے تحت پھنسایا جائے اور الزام لگایا جائے اور بعض بظاہر جو بڑے پڑھے لکھے کہلاتے ہیں.پڑھے لکھے سے مراد ہے بظاہر پڑھے لکھے.ہیں تو پڑھے لکھے ہی قانون دان ہیں، حکومتوں کے حج ہیں.یہ مولوی کے ڈر سے یا اللہ کے خوف کی کمی کی وجہ سے یا جو بھی وجہ ہو احمدیوں کو اس ہتک رسول کے الزام کے تحت سزا دے دیتے ہیں، بغیر تحقیق کے کہ حقائق کیا ہیں.باوجود یہ پتہ ہونے کے کہ مولوی جھوٹ بھی بولتا ہے اور جھوٹی گواہیاں بھی دلواتا ہے احمدی کے خلاف فیصلہ سنادیتے ہیں.ابھی گزشتہ دنوں ہی ایک احمدی کو جنہوں نے چند سال ہوئے بیعت کی تھی ، نوجوان آدمی تھا اس کے خلاف گاؤں کے ایک مولوی نے ایف آئی آر کٹوائی کہ یہ میرے پاس مسجد میں آیا تھا اور ایک دوسوالوں کے بعد کہا کہ تمہارا نبی جھوٹا ہے.نعوذ باللہ.اور الفاظ بھی کیسے لکھتے ہیں ایف آئی آر اس وقت میرے پاس ہے ان کی حالت دیکھیں.کہ میں فلاں جگہ کا مولوی ہوں اور میرے پاس فلاں فلاں آدمی موجود تھے کہ اقبال ولد فقیر محمد قوم فلاں جو احمدی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے اچانک میرے پاس آیا اور مجھے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ آپ کا کیا مذہب ہے تو میں نے اسے جواب دیا کہ اللہ پاک کی وحدانیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے اور ان کے علاوہ پیروں فقیروں کو بھی ماننے والا ہوں.ان کو تو کم مانتے ہیں پیروں فقیروں کو زیادہ مانتے ہیں.تو دوبارہ اس نے سوال کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں جتلائیں.تو میں نے اسے کہا کہ تم کسی عالم دین کے پاس چلے جاؤ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہے وہ آپ کو مسئلہ حل کر دیں گے تو اقبال مذکور اس احمدی نے کہا کہ آپ کا نبی جھوٹا ہے اور یہ فلاں فلاں نے بات سنی

Page 904

$2004 899 مسرور اور وہ دوڑ گیا.یعنی کوئی سر پیر نہیں ہوتا ان کی باتوں کا کہ خود جا کے کہا کہ مجھے مارو.اتنے بے وقوف نہیں ہیں احمدی.ایک تو محبت کا تقاضا ہے ایسی بات کہہ نہیں سکتے.اگر دنیا داری کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی پاگل ہی ہو گا جو ایسی بات کہے گا.تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ہے حج صاحب نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اس بے چارے کو عمر قید کی سزا سنا دی اور دس ہزار روپے جرمانہ.تو جیل میں ہے آج کل.ایسے لوگوں سے انصاف کی کیا توقع کی جاسکتی ہے.ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے اسی سے مانگنا ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد کو آئے گا اور جو ہمارے اسیران ہیں ان کو خود احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح جیل میں مددفرما رہا ہوتا ہے.باوجود تنگی کے کبھی احساس نہیں ہو رہا ہوتا ایسے ایسے فضل ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے.لیکن اللہ تعالیٰ نے تو مد دکو انشاء اللہ آنا ہے اور آئے گا.جوں کو بھی جو فیصلے سنانے والے ہیں ان کو بھی یادرکھنا چاہئے کہ ان کے اوپر ایک احکم الحاکمین ہے جو بغیر کسی جنبہ داری کے انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے.تم لوگ کسی مظلوم کو سزا تو دے سکتے ہو.لیکن ٹھیک ہے اس کے پاس اختیار نہیں ہے، کچھ نہیں کر سکتا لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بہر حال نہیں بچ سکتے.اب بعض مولوی بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑا حوصلہ دکھاتے ہوئے احمدیوں کو کہتے ہیں، بعض اخباروں میں بھی آ جاتا ہے، تقریریں بھی کرتے ہیں کہ اگر تم احمد بیت سے منحرف ہو جاؤ ، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو چھوڑ دو تو ہم تمہیں سب سے بڑا عاشق رسول سمجھیں گے اور اپنے سینے سے لگائیں گے.ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ تمہیں کیا پتہ کہ عشق رسول کیا ہوتا ہے.جس شخص کو تم چھوڑنے کے لئے کہہ رہے ہو اسی سے تو ہم نے عشق رسول کے اسلوب سیکھے ہیں.عشق رسول کی پہچان تو ہمیں آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وجہ سے ملی ہے.ان کو چھوڑ کر ہم تمہارے پاس آئیں جن کے پاس سوائے گالیوں کے اور غلیظ ذہنیتوں کے اور ہے ہی کچھ نہیں.جماعت احمدیہ کی تاریخ ان باتوں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی عشق رسول کے اظہار اور غیرت دکھانے کا معاملہ آیا احمدی ہمیشہ صف اول میں رہا ، اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہے گا.

Page 905

$2004 900 خطبات مسرور پرانے زمانے میں مذہبی اختلاف کے باوجود کچھ شرافت تھی، کچھ قدریں تھیں.جماعت احمدیہ کی طرف سے اگر اسلام کے دفاع کے لئے ، آنحضرت ملنے کے لئے غیرت دکھانے کے لئے کوئی کام ہوا تو غیروں نے بھی اس کا برملا اظہار کیا.جماعت کی خدمات کی توصیف و تعریف کی.آجکل کے اخباروں کی طرح لوگوں کی طرح خوف زدہ ہو کر نہیں بیٹھ گئے کہ پتہ نہیں کیا مصیبت آ جائے گی ہم پر اگر ہم نے کچھ کہہ دیا.یہ جرات پاکستان میں تو نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش میں ظاہر ہو رہی ہے.ان کے عوام نے بھی دکھائی ہے.ان کے سیاسی لیڈروں نے بھی دکھائی ہے ان کے اخباروں نے بھی دکھائی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے جو اس جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں.اس وقت جو واقعہ میں بتا رہا ہوں یہ 1927ء میں ایک رسالہ ورتمان نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے متعلق بڑی بیہودہ گوئیاں کی تھیں.فضول باتیں گندی غلیظ قسم کی.تو اس وقت مسلمانوں میں جوش اور غیض غضب بھی تھا لیکن اس کو صحیح راستے پر چلانے والا کوئی نہیں تھا.اس وقت تمام مسلمانوں کو توجہ دلانے اور مسلمان لیڈروں کو اکٹھا کر کے اس سلسلہ میں کوشش کرنے کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے انتھک محنت کی ، اور مشورے دیئے.مسلمانوں کو بتایا کہ جلسہ سے یا تقریروں سے یا بائیکاٹوں سے یا جلوسوں سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ عملی ٹھوس قدم اٹھانے ہوں گے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئے.بہر حال یہ ایک لمبی تفصیل ہے.آپ کی کوششوں سے بہت سے عملی اقدامات ہوئے.عدالت میں پیش ہونے کے لئے عدالت میں یہ کیس بھی چلا اور پیش ہونے کے لئے چوٹی کے مسلمان وکلاء کی جو کمیٹی تھی انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو اگر کوئی احسن طریق پر اچھے رنگ میں عدالت میں پیش کر سکتا ہے تو وہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ہی ہیں.چنانچہ وہ پیش ہوئے اور ان کی کوششوں کو بڑا سراہا گیا اخباروں میں بھی.اور اخباروں نے اس کا اظہار بھی کیا.تو اس ساری کوشش کا ذکر اس وقت 23 ستمبر 1927ء کی مشرق اخبار نے اس طرح لکھا کہ :

Page 906

$2004 901 مسرور وو یہ واقعہ ہے اس پر کوئی پردہ نہیں ڈال سکتا کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے صرف احمدی جماعت ہی اس بات کا دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس نے فتنہ ارتداد کا مقابلہ بر حیثیت اچھا کیا اور خوب کیا اور اس سے زیادہ بہتر اور صحیح طریق پر ناموس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے جہاد کبر بھی کسی دوسری جماعت نے نہیں کیا.فرداً من الافراد کا ذکر نہیں.کیونکہ حضرت خواجہ حسن نظامی اپنی ذات خاص سے کیا کچھ نہیں کرتے ہیں.ان کا ذکر چھوڑو، چند ایک نے اگر کیا تو.کہتا ہے کہ یورپ اور افریقہ اور امریکہ میں جو خدمات اسلام یہ جماعتیں کر رہی ہیں ان کا ذکر بے سود ہے.ہندوستان میں بھی جو کام ہو رہا ہے اور جیسا ایثار اور ہمت بلکہ اولوالعزمی یہ لوگ دکھا رہے ہیں باعث صد ہزار ممنونیت قوم مسلمہ ہے.حال میں صوبہ متوسط کے دارالصدر ناگپور میں اس جماعت کے ایک فرد واحد نے جو ثبوت اپنی ہمت و ایثار کا دیا ہے اس کی مفصل کیفیت الفضل قادیان نے 17 اگست کو لکھی ہے.ایک صاحب ایثار کی کوششیں اور ہمت کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلسہ ہوا اور بارش بہت زور شور سے ہوتی رہی.پانی میں سب بھیگتے رہے.جن کے پاس چھتریاں تھیں چھتریاں اتار دیں اور ریزولیوشن پیش کئے ، پاس کئے، تقریریں کیں اور ثابت کر دیا کہ مسلمان اپنے پیشوا اور اپنے امام جماعت کے حکم کی تعمیل میں سب کچھ کر سکتا ہے.اور اس موقعہ پر قابل تحسین تمام فرقوں کے مسلمان ہیں جنہوں نے اختلاف کو چھوڑ کر خدا کے حکم پر تمسک کیا ، یعنی اکھٹے ہو گئے اور رہنمائے اسلام امین کامل صادق پاکباز حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ناموس کی حفاظت کے لئے ایک مرکز پر جمع ہو گئے اور یہی خدا کا حکم ہے.قرآن پاک میں برابر اس کی تاکید مسلمانوں کو ہے کہ تفرقہ نہ پیدا کرو.فرقہ بندی کو چھوڑ دو اور سب ایک ہو جاؤ گے تو غیر مسلم فرقے تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن آج کل اس کے بالکل الٹ کرتے ہیں سارے.پھر آگے لکھتا ہے کہ ”ہم جماعت احمدیہ کو مبارک باد دیتے ہیں کہ وہ سچا کام خدمت اسلام کا انجام دے رہی ہے اور اس وقت ہندوستان میں کوئی جماعت اتنا اچھا اور ٹھوس کام نہیں کرتی کہ وہ ہر

Page 907

$2004 902 خطبات مسرور موقع پر مسلمانوں کو حفاظت اسلام اور بقائے اسلام کے لئے توجہ دلاتی رہتی ہو.باوجود اختلاف عقائد کے ہمارے دل پر اس جماعت کی خدمات کا گہرا اثر ہے.اور آج سے نہیں جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے زمانہ سے اس وقت تک ہم نے کبھی اس کے خلاف کوئی حرف زبان اور قلم سے نہیں نکالا.“ (اخبار مشرق یکم ستمبر 1927ء بحواله جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحه 57-58 بحواله تاریخ احمدیت جلد 4 صفحه (608 تو ہی تھی ان لوگوں کی شرافت لیکن آج کل کی شرافت گونگی ہے.گھروں میں بیٹھ کے بات کر لیں گے باہر نکل کے نہیں کر سکتے.تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور آپ کے لئے غیرت کی ایک مثال ہے جو اسی تعلیم کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دی ہے جو غیروں کو بھی نظر آ رہی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ صرف بات یہ ہے کہ اب اکثر سے شرافت اٹھ گئی ہے.اگر شرافت ہو تو آج بھی جو خدمات اسلام اور جو کوشش آنحضرت ﷺ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کر رہی ہے اس کو سمجھتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے کی بجائے ، احمدی پر ہتک رسول کا الزام لگانے کی بجائے ، ان خدمات کو سرا ہیں.ان کی تعریف کریں.بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی وہ مثال قائم کریں جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب مسیح و مہدی کی آمد کی خبر سنو تو اس کو میرا سلام پہنچاؤ.اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور اس قوم کو مولویوں کے چنگل سے نکالے جن کا کام ہی صرف فساد ہے اور خدا کرے کہ حقیقت کو سمجھنے والے بنیں اور حقیقت کے اظہار کی جرات ان میں پیدا ہو.لیکن احمدی کا بھی یہ کام ہے کہ پہلے سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی مثالیں قائم کرے اور آپ پر درود بھیجے.عشق و محبت کی جو تعلیم اور جو مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام قائم کر گئے ہیں ان کا کوئی مقابلہ کرہی نہیں سکتا.اور نہ ہی احمدی کے علاوہ اس کا کوئی اظہار کرسکتا ہے.

Page 908

خطبات مسرور 903 $2004 پس یہ آج احمدی کا ہی کام ہے کہ اس کا اظہار کریں اور بتائیں دنیا کو.افریقہ کے دورے کے دوران ایک ملک میں ایک ایرانی ایمبیسی کے افسر آئے ہوئے تھے بہت شریف النفس انسان تھے بعد میں ایئر پورٹ بھی مجھے چھوڑنے آئے.اور کافی دیر بیٹھے رہے.باتیں ہوتی رہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق پر بھی بات ہوئی.تو اس حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شعر فارسی کا انہیں سنایا کہ : جان و دلم فدائے جمال محمداً ست خاکم نثار کوچه " آل محمد است تو فوراً بڑی دیر تک اس کو دہراتے رہے وہ کہ ایسا شعر تو میں نے کبھی سنا ہی نہیں.پھر میں نے کہا.اس کے باوجود الزام یہی ہے کہ عشق رسول نہیں.تو میں نے کہا ایک شعر اور بھی سن لیں.آپ نے فرمایا.بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم یہ شعر بھی ان کو بڑا پسند آیا.پہلے شعر کا مطلب یہ ہے کہ میری جان و دل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن پر فدا ہیں.اور میری تو خاک بھی آپ کی آل کے کوچہ پر شار ہے.اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے عشق کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ہی ہے.اگر یہ عشق کرنا کفر ہے تو میں سب سے بڑا کا فر ہوں.تو مولوی کو کیا پتہ ان عشق کی باتوں کا.بہر حال وہ شریف النفس تھے.انہوں نے کہا یہ شعر کہاں ہیں مجھے کتاب دی جائے.فارسی کی درزمین ان کو پہنچادی تھی.تو بہر حال شرفاء میں لیکن اگر عقل نہیں آتی سمجھ نہیں آتی تو مولوی کو نہیں آئے گی.خدا کرے کہ قوم کے لوگوں کو بھی سمجھ آجائے کہ مولوی نے سوائے فتنہ وفساد کے اور کچھ نہیں پیدا کرنا.آج بھی ،میں پھر کہتا ہوں کہ ہر احمدی کا یہی

Page 909

$2004 904 خطبات مسرور جواب ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا' گر کفر ایں بود بخدا سخت کا فرم.کہ اگر تم اس کو کفر سمجھتے ہو تو پھر ٹھیک ہے ہم کا فر ہی ہیں.بے شک تم ہتک رسول میں اپنی مرضی سے اسے اندر کر دو.لیکن خدا کو پتہ ہے کہ اصل میں یہ تک رسول میں سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ عشق رسول میں سلاخوں کے پیچھے ہیں.لیکن تم لوگ مسیح موعود کو نہ مان کر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے باہر نکل رہے ہو اور ہتک رسول کے اصل میں مرتکب تم لوگ ہورہے ہو.میں پھر کہتا ہوں کہ خدا کا خوف کرو.اللہ تعالیٰ کی لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے.جب اللہ تعالیٰ بدلے لینے پہ آتا ہے پھر بہت خطرناک حالات ہوتے ہیں.پھر یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کون بچ گیا اور کون مر گیا.بہر حال ان لوگوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ہر ملک میں ہر احمدی کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھے.لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہر احمدی کا بھی یہ فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے اور پہلے سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرے اور آپ پر درود وسلام بھیجے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے.

Page 910

$2004 905 51 خطبات مسرور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے.17 دسمبر 2004ء بمطابق 17 / فتح 1383 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن - لندن) ک کمزوروں اور بے سہارا لوگوں کی مدد، آنحضرت ﷺ کی سیرت کی روشنی ☆ میں عاجزوں اور مسکینوں کا آپ کی نظر میں مقام غلاموں اور خادموں سے حسنِ سلوک اور اس کی نصیحت کمزوروں کے حقوق کے بارے ارشاد نبوی اگر اللہ تعالی کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو حضرت مسیح موعودا اپنے آقا کے نقش قدم پر

Page 911

خطبات مسرور $2004 906 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُوْلِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾ (سورة الاحزاب: 22) اس آیت کا ترجمہ ہے، یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے.ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کسی پوچھنے والے کو جواب دیا کہ تم جو آنحضرت ﷺ کے اخلاق عالیہ کے بارے مجھ سے پوچھ رہے ہو، کیا قرآن کریم میں نہیں پڑھا اس زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کی گواہی کافی نہیں ہے ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِیم کہ اے رسول ! تو یقیناً اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر ہے.تو نمو نے تو وہی بنا کرتے ہیں جو کسی چیز کے اعلیٰ مقام پر ہوں.جنہوں نے اعلیٰ ترین معیار قائم کئے ہوں.دنیا میں تو کسی ایک یا دو باتوں یا چیزوں میں کوئی اچھا معیار حاصل کر لے تو اس کی مثال دی جاتی ہے اور وہ معیار بھی ایسے نہیں ہوتے جس کو کہہ سکیں کہ اس کی انتہا ہو گئی ہے.آنحضرت ﷺ کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نبی ہر معاملے میں اعلیٰ نمونہ ہے.چاہے وہ گھریلو معاملات ہوں یا قومی اور ملی معاملات ہوں یا اعلیٰ روحانی معاملات ہوں، اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کی باتیں ہوں.یہی ایک نمونہ ہے جو تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے.اس لئے ہر وہ شخص جس کو اللہ کی ذات پر یقین ہے، اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ آخرت کا

Page 912

$2004 907 خطبات مسرور ایک دن مقرر ہے جہاں اس کا حساب کتاب ہوگا اور اس کی تیاری کے لئے وہ کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، اس کی عبادت کرتا ہے تو اس کو پھر ان راستوں پر چلنا ہو گا جن پر آنحضرت ﷺ نے ہمیں چل کر دکھایا ہے.تبھی اللہ تمہاری ان دعاؤں اور اس کا قرب پانے کی امیدوں پر بھی نظر کرے گا.اس لئے ان راستوں کو بھی تلاش کرو.ان کی تلاش میں رہا کرو کہ وہ کون کون سے راستے ہیں جن پر اللہ کا یہ پیارا نبی چلا کرتا تھا.آنحضرت ﷺ کا جو بلند مقام ہے، جو اعلیٰ نمونے آپ نے قائم کئے ہیں ان کو تو کبھی بھی مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا.لیکن ان نمونوں پر چلنے کی کچھ مثالیں عموماً پیش کی جاتی ہیں.ان میں سے چند مثالیں اس وقت میں لوں گا.لیکن ان مثالوں میں بھی صرف ایک خلق کے بارے میں میں اس وقت بیان کروں گا کہ کمزوروں اور بےسہاروں سے آپ کا کیسا سلوک ہوا کرتا تھا.لیکن جو باتیں، جیسا کہ میں نے کہا ہے، روایات کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں شاید اصل کا کروڑواں حصہ بھی نہ ہوں.لیکن بہر حال چند روایات میں پیش کرتا ہوں.لیکن اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کروں گا.کیونکہ آپ ہی ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے،اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ عِلْمًا وَ عَمَلًا، صِدْقًا وَ ثَبَاتًا دکھلایا اور انسان کامل کہلایا.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر انبين جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اتمام الحجة، روحانی خزائن جلد 8 صفحه 308 ) تو دیکھیں یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام.کس خوبصورتی سے اپنے آقا کی خوبیاں بیان فرمائی ہیں.اس کے بعد بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 913

908 $2004 خطبات مسرور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو نہیں پہچانا تو اس کو سوائے عقل کا اندھا ہونے کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اور عین اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق فرمایا کہ صفات کے لحاظ سے بھی اور قول اور فعل اور عمل اور سب طاقتوں کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہی ہے جس کی پیروی کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.اور وہی اعلیٰ معیار ہیں جن سے بڑھ کر کوئی اور معیار نہیں ہوسکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا بھی انسانی طاقت کے لحاظ سے اگر کسی انسان سے اعلیٰ ترین اظہار ہو سکتا ہے، تو وہ بھی صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے یعنی اسے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے.اور اس میں یہ اہلیت اور استعداد رکھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو ظلی طور پر اپنا سکے.تو جیسا کہ میں نے کہا، سب سے اعلیٰ معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں.یہ اہلیت اور استعداد سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں رکھی ہے.اور اگر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا کامل نمونہ دکھا سکتا ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے.یعنی میں اچھے اور اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں.تو تکمیل وہی کرتا ہے جو خودان صفات اور اخلاق میں مکمل ہو.پس اس کامل انسان کی امت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہر شخص کا یہ فرض بنتا ہے کہ ان اخلاق کو اختیار کر کے آپ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرے.اور آج یہ فرض سب سے بڑھ کر جماعت احمدیہ کے ہر فرد پر عائد ہوتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خُلق جو کمزوروں اور مسکینوں کے بارے میں ہے،اس میں سے چند روایات پیش کروں گا.وہ یہ ہیں جن سے آپ کے دل میں اس مجبور اور کمزور طبقے کی

Page 914

$2004 909 خطبات مسرور محبت کے جذبات کی جھلکیاں نظر آتی ہیں.حضرت عبداللہ بن ابی اوفی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تکبر نام کوبھی نہ تھا.نہ آپ ناک چڑھاتے تھے.نہ اس بات سے برا مناتے اور بچتے کہ آپ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ چلیں اور ان کے کام آئیں اور ان کی مدد کریں.(مقدمہ سنن الدارمی، باب فی تواضع رسول اللہ ﷺ یعنی بے سہارا عورتوں اور مسکینوں اور غریبوں کی مدد کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے.اور یہ صرف ابتدائی زمانے کی بات نہیں ہے بلکہ جب فتوحات پر فتوحات ہو رہی تھیں تب بھی آپ کے اخلاق کے یہی اعلیٰ نمونے تھے.یہی طریق تھے.پھر عاجزوں اور مسکینوں کا آپ کی نظر میں کیا مقام تھا.اس بارے میں حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ : "اے اللہ! مجھے حالت مسکینی میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں موت دے.اور مجھے قیامت کے روز زُمرہ مساکین میں اٹھا.اس پر حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ کیوں یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ مساکین اغنیاء سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے“.یعنی ان میں تکبر اور غرور اتنا نہیں ہوتا.عاجزی اور انکساری ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بڑھاتا ہے.”اے عائشہ! کسی مسکین کو نہ دھتکارنا خواہ تجھے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ دینا پڑے.اے عائشہ! مساکین کو اپنا محبوب رکھنا اور انہیں اپنے قرب سے نوازنا.خدا تعالیٰ کے قیامت کے دن تجھے اپنے قرب سے نوازے گا.(ترمذى كتاب الزهد باب ما جاء ان فقراء المهاجرين يدخلون الجنة قبل اغنيائهم) تو دیکھیں معاشرے کے بظاہر کمزور طبقے کے لئے کس قدر محبت اور درد کے جذبات ہیں.لیکن یہ دعا کے الفاظ کہہ کر دنیا کی نظر میں اس کمزور طبقے کو کتنا اونچا مقام دلوا دیا ہے.پھر دیکھیں یہ صرف دعایا اپنے گھر والوں کو نصیحت ہی نہیں تھی بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا.اور صحابہ کو یہ عمل، یہ نمونے نظر بھی آتے تھے.حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ہی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکبر نہ کرتے

Page 915

910 $2004 خطبات مسرور اور بیوگان اور مساکین کے ساتھ چلنے میں اور ان کے کام کرنے میں عار محسوس نہ کرتے.تو یہ جو چیزیں تھیں، جو باتیں تھیں، یہ نظر بھی آیا کرتی تھیں اور پھر انہیں عملی نمونوں کا اثر تھا کہ صحابہ بھی پھر ان پر چلنے کی کوشش کیا کرتے تھے.پھر ملازموں سے شفقت ہے.خادموں سے شفقت ہے جو ایک اور مجبور طبقہ ہے.اس بارے میں حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور دس سال تک مجھے حضور کی خدمت کا موقعہ ملا.اور میں اس طرح کام نہیں کیا کرتا تھا جس طرح حضور کی خواہش ہوتی تھی اکثر یہ ہوتا تھا.لیکن آپ نے کبھی مجھے آج تک کام کے بارے میں کچھ نہیں کہا، اُف تک نہیں کہی.یا یہ کبھی نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا ہے یا تم نے یہ کیوں نہیں کیا یا اس طرح کیوں نہیں کیا.کبھی آپ نے کچھ نہیں کہا.(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب في الحلم واخلاق النبي) حضرت انس ہی ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے اچھے اخلاق کے مالک تھے.ایک بار آپ نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا.میں نے کہا میں نہیں جاؤں گا.لیکن میرے دل میں تھا کہ کرلوں گا کام، ابھی کر کے آتا ہوں کیونکہ حضور" کا حکم ہے.بہر حال کہتے ہیں کہ میں چل پڑا، بچہ تھا تو بازار میں بچوں کے پاس سے گزرا.بچے کھیل رہے تھے میں کھڑا ہو گیا اور ان کو دیکھنے لگ گیا.تھوڑی دیر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پیچھے سے میری گردن پکڑ لی ، گردن پر ہاتھ رکھا.میں نے مڑ کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے.فرمایا: آئیس ! ( مذاق میں کہا) جس کام کی طرف میں نے تجھے بھیجا تھا وہاں گئے ؟ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! ابھی جاتا ہوں.انس کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں نے کو سال تک حضور کی خدمت کی ہے.مجھے علم نہیں کہ آپ نے کبھی فرمایا ہو کہ تو نے یہ کام کیوں کیا ہے یا کوئی کام نہ کیا تو آپ نے فرمایا ہو کہ کیوں نہیں کیا.صلى الله.(مسلم کتاب الفضائل باب حسن.خلقه علي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادموں اور ملازموں سے جوحسن سلوک کیا اس کا ذکر

Page 916

$2004 911 خطبات مسرور کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ بہت رحیم وکریم ہے.وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا ہے اور اس پر رحم کرتا ہے.اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مُرسلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہل دنیا کو گناہ آلو د زندگی سے نجات دیں.پھر فرماتے ہیں : ” مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے.ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے.اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وصف تھا.آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپ کا کیا معاملہ ہے.اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ میری خدمت کرتے ہیں.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ.فرمایا کہ: ” یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا.اور یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گرد و پیش رہتے ہیں اس لئے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے.فرمایا کہ آج کل کیا ہوتا ہے.بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمتگار سے ذرا کوئی کام بگڑا.مثلاً چائے میں نقص ہوا تو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کر دیا.یعنی کوئی چیز دے کے مارنا شروع کر دیا.ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا بس بیچارے خدمت گاروں کی آفت آئی.(ملفوظات جلد نمبر 4 صفحه 437 الحكم 10 نومبر 1905 ).اگر کبھی کسی غریب یا خادم پر ظلم ہوتا آپ دیکھ لیتے تو آپ کا دل تڑپ جایا کرتا تھا.اس زمانے میں تو غلام خریدے جاتے تھے اور مالکانہ حقوق اور مالکیت اس کی ہوتی تھی.اور اس کی ذات پر مکمل حق اور تصرف سمجھا جاتا تھا.اور رواج کے مطابق جو چاہے سلوک بھی کر لو اس کو بُرا بھی نہیں سمجھا جاتا تھا.اور اسلام سے پہلے تو غلاموں کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے رکھا جاتا تھا.بلکہ بعض دفعہ تو جانوروں سے بھی زیادہ بدتر سلوک کیا جاتا تھا.غلاموں کو بھی بحیثیت انسان جو شرف اور مقام دلوایا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دلوایا ہے.

Page 917

$2004 912 مسرور اس بارے میں ایک روایت آتی ہے.ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا.( کسی بات پر کوئی غلطی کی ہوگی.) میں نے اپنے پیچھے سے آنے والی ایک آواز سنی جو یہ تھی کہ ابن مسعود جان لو کہ اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی تم اس غلام پر رکھتے ہو.میں نے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ یہ فرمانے والے رسول اللہ لیتے تھے.چنانچہ میں نے کہایا رسول اللہ !میں اسے اللہ کی خاطر آزاد کرتا ہوں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اسے آزادانہ کرتے تو تمہیں دوزخ کا عذاب پہنچتا.(مسلم کتاب الايمان باب صحبة المماليك وكفارة مَنْ لَطَمَ عَبْدَه) تو دیکھیں ایک غلام کو مارکھا تا دیکھ کر آپ کا دل کس طرح تڑپا ہے.آپ نے یہ نہیں کہا کہ دیکھوں کہ اس غلام کا قصور کیا ہے جس کو مار پڑ رہی ہے.مار جائز پڑ رہی ہے یا نا جائز پڑ رہی ہے.بلکہ غلام کو مارکھا تا دیکھ کر آپ برداشت نہ کر سکے.صحابہ بھی آپ کے مزاج کو سمجھتے تھے اس لئے ابو مسعودؓ نے فوراً کہا کہ میں اس کو آزاد کرتا ہوں.سمجھ گئے کہ اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے بچنے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ اس غلام کو آزاد کر دیا جائے.تو اس طرح آپ غلاموں سے سلوک کرتے اور ان کو آزدای دلواتے تھے.ان کا شرف قائم کرتے تھے، ان کی عزت نفس قائم کرتے تھے.پھر غیروں کے بچوں سے آپ کا حسن سلوک ہے.عام طور پر اپنے بچوں کو تو آدمی پیار کر ہی لیتا ہے لیکن دوسروں کے بچوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے.لیکن آپ تو قوم کے ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھتے تھے.جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر آپ اپنے گھر والوں کی طرف چل پڑے.میں بھی آپ کے ہمراہ ہولیا.پس آپ کا استقبال بچوں نے کیا.چنانچہ آپ ان بچوں میں سے ہر ایک کے کلوں پر باری باری پیار کرنے لگے.جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کلوں پر بھی

Page 918

$2004 913 خطبات مسرور شفقت سے ہاتھ پھیرا.میں نے آپ کے ہاتھوں کی ٹھنڈک اور خوشبو اس طرح محسوس کی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو عطار کے عطر دان سے نکالا ہو.(مسلم کتاب الفضائل باب طيب ريحه صلى الله ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ اسامہ بن زید دروازے سے ٹکرا گئے جس کی وجہ سے ان کی پیشانی پہ زخم آ گیا.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اس کا زخم صاف کر کے اس کی تکلیف دور کرو.چنانچہ میں نے اس کا زخم صاف کیا اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بہلاتے ہوئے شفقت اور محبت کا اظہار فرماتے رہے.اور فرمایا کہ اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اسے عمدہ عمدہ کپڑے پہناتا اور اسے زیور پہناتا یہاں تک کہ میں اس پر مال کثیر خرچ کرتا.(مسند احمد بن حنبل باقی مسند الانصار حدیث سید عائشه رضی الله عنها صفحه (53 تو اس کو بہلاتے رہے اور اس کی دلجوئی فرماتے رہے.آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ غلام زادہ ہے.غلام کا بیٹا ہے یا کسی امیر آدمی کا بچہ ہے بلکہ غریبوں سے زیادہ بڑھ کرحسن سلوک اور پیار کا سلوک فرمایا کرتے تھے.پھر حضرت اسامہ بن زیڈ سے ہی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پکڑ کر اپنے ایک زانو پر بٹھا لیتے اور دوسرے پر حسن کو.یعنی جب بیٹھے ہوتے تو ران پہ ایک طرف حضرت حسن کو بٹھا لیتے اور دوسرے پر مجھے پھر ہم دونوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیتے اور فرماتے : " اللهم ارْحَمْهُمَا فَإِنِّى أَرْحَمْهُمَا اے اللہ ان دونوں پر رحم فرمانا.میں ان دونوں سے شفقت رکھتا ہوں.(بخاری کتاب الادب باب وضع الصبى على الفخذ).اپنے لاڈلے نواسے اور اسامہ میں کوئی تخصیص نہیں کی.یہ نہیں دیکھا کہ یہ غلام کا بیٹا ہے.ایک غریب آدمی کے بچے کو بھی وہی مقام دیا جو اپنے نواسے کو.پھر دونوں کے لئے دعا بھی ایک طرح کے جذبات کے ساتھ کی.ظاہری طور پر ایک طرح کا سلوک بعض لوگ کر لیتے ہیں لیکن اگر دعا میں فرق بھی ہو جائے تو کوئی

Page 919

$2004 914 خطبات مسرور اعتراض کی گنجائش نہیں ہوتی.لیکن آپ تو اسوہ کامل تھے اور جو اسوہ کامل ہو، وہی اتنی گہرائی میں جا کر دوسروں کا خیال رکھ سکتا ہے کہ دعا تک میں فرق نہیں کرتا.پھر دیکھیں کہ دیہات سے آنے والے غریب اور معمولی شکل وصورت کے شخص کے ساتھ آپ کا کتنا پیار اور محبت اور اس کی عزت نفس رکھنے کا سلوک تھا.ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ زاھر نامی ایک بدوی شخص جو دیہات میں رہنے والا تھا.نبی کریم ﷺ کو دیہات کے تحفے پیش کیا کرتا تھا.جب وہ واپس جانے کا ارادہ کرتا تو نبی نے بھی اسے تحائف دیا کرتے تھے.تو نبی ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا زاھر ہمارا بدوی دوست ہے اور ہم اس کے شہری دوست ہیں.نبی کریم ہے اس سے محبت کیا کرتے تھے حالانکہ وہ بظاہر معمولی شکل کا تھا.کہتے ہیں کہ ایک روز یوں ہوا کہ وہ بازار میں اپنا سامان فروخت کر رہا تھا.تو نبی ہے اس کے پیچھے سے آئے اور چپکے سے آکر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا.اس نے رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھا.چنانچہ وہ کہنے لگا کون ہے مجھے چھوڑ دو.بہر حال ہاتھ سے پہچان بھی لیا ہو گا کہ اور کس نے ہاتھ رکھنا ہے، آپ ہی ہو سکتے ہیں.پھر وہ آپ سے لپٹ گیا.اسے پتہ لگ گیا کہ یہ آپ ہی ہیں.چنانچہ اس نے اپنی پشت کو نبی کریم ﷺ کے سینے کے ساتھ خوب رگڑا.اور بی یہ فرمانے لگے اس غلام کو کون خریدے گا.اس پر اس نے کہا یا رسول اللہ ! پھر تو آپ مجھے بڑا ستا پائیں گے.مجھ جیسے معمولی شکل والے شخص کو.اس پر نبی ﷺ نے فرمایا مگر تم اللہ کے نزدیک سستے تو نہیں ہو یا فرمایا کہ تم اللہ کے نزدیک بہت قیمتی ہو.(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ١٦١ ) تو دیکھیں کم شکل وصورت کے دیہاتی کی بھی کس طرح دلداری فرمائی.پہلی بات تو یہ کہ بازار میں کھڑے ہو کر اس سے اس طرح سلوک فرما کر سب کو یہ بتا دیا کہ غربت یا امارت ، خوبصورتی یا بدصورتی کم علمی یا زیادہ علم والا ہونا، کوئی معیار نہیں ہے.اب اگر معیار قائم ہوں گے تو نیکی اور تقویٰ پر قائم ہوں گے، عاجزی اور مسکینی پر قائم ہوں گے.پھر اس شخص کو بھی سبق دے دیا کہ اپنی کم شکل یا غربت کا احساس نہ کرو تمہاری نیکی اور مسکینی ہی تمہیں اللہ کے نزدیک انتہائی قیمتی وجود بنا رہی ہے.

Page 920

$2004 915 خطبات مسرور پھر دیکھیں وہ بظاہر ان پڑھ بدوی تھا لیکن آپ کے نور سے منور ہونے کے بعد آپ کی تعلیم سے حصہ پانے کے بعد اس کی عقل میں بھی تیزی آ گئی اور کہاں تک پہنچ گئی.اس نے یہ پہچان لیا کہ یہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اس لئے فوراً اپنا جسم آپ کے جسم سے رگڑنا شروع کر دیا کہ آج جتنی برکتیں سمیٹنی ہیں سمیٹ لو.ذرا تصور کریں اس وقت بازار میں کھڑے بڑے بڑے لوگ بھی کس حسرت سے اس دیہاتی آدمی کو دیکھ رہے ہوں گے کہ کاش اس وقت یہ برکتیں ہم حاصل کر رہے ہوتے.پھر آپ کی غریب لوگوں سے بردباری کی ایک مثال ہے.یہ شروع کی بات ہی ہو گی دیہات والوں کو اسلام کی تعلیم کا پورا علم نہیں تھا، فہم و ادراک نہیں تھا تو بعض دفعہ بعض غلط حرکتیں بھی کر جایا کرتے تھے.تو صحابہ کو جو شہر کے رہنے والے تھے ان کی لمبا عرصہ تربیت ہو گئی تھی ان کو ان باتوں پر غصہ بھی آیا کرتا تھا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ایسے معاملے میں بڑی نرم دلی سے اور بردباری سے یہ مسئلہ حل کر دیا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک بدوی مسجد کے ایک پہلو میں آیا اور مسجد کے سائیڈ پر ہو کے اس نے پیشاب کر دیا.اس پر لوگوں نے اس پر چلا نا شروع کر دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا اسے چھوڑ دو.پھر جب وہ فارغ ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے کچھ ڈول کچھ بالٹیاں پانی کی منگوائیں اور اس جگہ پانی بہایا گیا.تا کہ جگہ صاف ہو جائے.(مسلم) كتاب الطهارة باب وجوب غسل البول) - تو دیکھیں آپ نے اسے اس حالت میں روکنا بھی مناسب نہیں سمجھا.لیکن فورا ہی اپنے عمل سے لوگوں کو بھی کہہ دیا آرام سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور اس کو بھی سمجھا دیا کہ مسجد ایسی جگہ نہیں جہاں گند کیا جائے.یہ ہمیشہ پاک صاف رہنے والی جگہ ہے اور فور پانی بہا کر اس کے سامنے اسے صاف کر دیا.تو یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی ، آپ کے حسن سلوک کی، جو معاشرے کے کمزور طبقے کے ساتھ آپ کا تھا.یہ نمونے جو آپ نے قائم کئے ہیں یہ اس

Page 921

$2004 916 خطبات مسرور لئے تھے کہ امت کے لوگ بھی ، آپ کو ماننے والے بھی اپنے معیاروں کو بلند کر کے ان نمونوں پر عمل کر کے حسن اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کریں تبھی تو آپ نے فرمایا ہے کہ میری بعثت کا مقصد ان اعلیٰ اخلاق کی تکمیل ہے.آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی امت کا کوئی بھی شخص اللہ تعالیٰ کا ناپسندیدہ بنے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہیں.پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کی عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے.یعنی اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے.کمزوروں کے حقوق کے بارے میں آپ نے اپنی امت کے لوگوں کو جو نصائح فرمائی ہیں اب اس کی بھی چند مثالیں پیش کرتا ہوں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن سخت باز پرس کروں گا.ایک وہ جس نے میرے نام پر کسی کو امان دی اور اس سے غداری کی.دوسرا وہ جس نے ایک آزاد کو فروخت کر کے اس کی قیمت کھالی یعنی کسی کو پکڑ کر غلام بنایا اور فروخت کیا اور تیسرا شخص وہ جس نے کسی کو مزدوری پر رکھا اور اس سے پورا پورا کام لیا اور پھر اسے پوری مزدوری نہ دی.یعنی مزدور کی مزدوری کی اجرت نہ دی.کام کی اجرت نہ دی.(بخاری کتاب البیوع باب اثم من باع حرا).تو یہ عادت اب بھی ہمارے معاشرے میں بعض لوگوں کو ہوتی ہے.یا تو کام کروانے سے پہلے یہ شرط رکھنی چاہئے کہ اگر کام اس معیار کا نہ ہوا اور یہ یہ چیزیں نہ ہوئیں تو میں اتنی کم قیمت دوں گا.اور اگر نہیں تو پھر کام ہو جانے کے بعد کسی کی مزدوری مارنے کے لئے بہانے تلاش نہیں کرنے چاہئیں.کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ضرور ایسے شخص سے باز پرس کروں گا.پس اللہ کی باز پرس سے ڈرنا چاہئے.پھر ایک روایت میں آتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا

Page 922

917 $2004 خطبات مسرور ہے.تم اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا.رحم کا لفظ رحمن سے ہے جو صلہ رحمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ساتھ ملالے گا.اور جو قطع رحمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے قطع تعلقی کر لے گا.(ترمذی كتاب البر والصلة باب ماجاء في رحمة الناس ایک روایت میں آتا ہے.آپ نے فرمایا کہ اس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو چھوٹے پر رحم نہیں کرتا اور بڑے کا شرف نہیں پہچانتا.یعنی بڑے کی عزت نہیں کرتا.پھر ایسے لوگوں کو جو کمزوروں، غریبوں، مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے ، انذار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں ، حارثہ بن وھب سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کیا جنت میں بسنے والوں کے متعلق میں تمہیں کچھ بتاؤں.ہر وہ کمزور جس کو لوگ کمزور سمجھتے ہیں مگر جب وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کے نام کی قسم کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم کو پورا کر دیتا ہے اور جیسا وہ چاہتا ہے ویسا ہی کر دیتا ہے.پھر فرمایا کہ کیا میں تمہیں دوزخ میں رہنے والوں کے متعلق نہ بتاؤں.ہر سرکش، خود پسند ، شعله مزاج یعنی تیز مزاج والا، متکبر دوزخ کا ایندھن بنے گا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق نے آپ کے نور کامل سے روشنی حاصل کر کے کس طرح ہمیں اس پہلو سے نصیحت فرمائی ہے اور کیا عمل کر کے دکھائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا.اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں.اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو میرے پاس آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے.بلکہ سوال یہ ہو گا کہ تمہارا عمل کیا ہے.اسی طرح پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ ! خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا اگر تم کوئی برا کام کروگی تو خدا تعالیٰ اس واسطے درگزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو.(ملفوظات جلد.سوم صفحه 370 الحكم 17 جولائی 1903)

Page 923

$2004 918 مسرور پھر آپ فرماتے ہیں : ” اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں.یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں نا جائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے.بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے.عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے“.یعنی غرور تکبر وغیرہ سب غصے سے پیدا ہوتے ہیں اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے“.اور اگر دل میں تکبر وغیرہ ہوتو پھر بھی ہر ایک کو غصہ ہوتا ہے اپنے آپ کو آدمی بڑا سمجھتا ہے.چھوٹے پر غصہ اتارنا شروع کر دیتا ہے.” کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں، کسی کو کم نظر سے دیکھیں.”خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے.یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندر حقارت ہے.ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جائے.بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں.لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے اس کی دلجوئی کرے، اس کی بات کی عزت کرے.کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الْإِسْمُ الْفُسُوْقِ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ ﴾ (الحجرات : 12) تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو.یہ فعل فستاق وفجار کا ہے.جو شخص کسی کو چڑا تا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہوگا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو.جب ایک ہی چشمہ سے گل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے.﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ (الحجرات: 14)“.(ملفوظات جلد اول صفحه 2232232 رپورٹ جلسه سالانه 1897) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 924

919 $2004 خطبات مسرور نے عاجزی کے اور غریبوں کا خیال رکھنے کے جو معیار قائم کئے ہیں اب وہ ہم دیکھتے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک کی چھت پہ بیٹھے ہوئے تھے.کچھ لوگ ساتھ تھے.اور کھانے کے لئے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک احمدی میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ جو بہت غریب تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے، بری حالت میں تھے، حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلے پر بیٹھے تھے کہتے ہیں کہ اتنے میں کئی اور لوگ آتے گئے اور وہ لوگ جو بعد میں جماعت کو چھوڑ بھی گئے تھے یا پیغامی ہو گئے تھے ان میں سے اکثر تھے.حضور کے قریب بیٹھتے گئے جس کی وجہ سے میاں نظام دین پرے ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ پیچھے جو تیوں میں جا کے بیٹھ گئے.اتنے میں کھانا آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک سالن کا پیالہ لیا کچھ روٹیاں لیں اور میاں نظام الدین کو کہا کہ آؤ ہم اندر بیٹھ کر کھانا کھا ئیں اور جومسجد کے ساتھ چھوٹا کمرہ تھا اس میں چلے گئے اور وہاں بیٹھ کے ان کے ساتھ کھانا کھایا اور اس وقت حضرت منشی ظفر احمد صاحب جو روایت بیان کرنے والے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ جولوگ ان کو پیچھے ہٹاتے چلے جارہے تھے ان لوگوں کے چہروں کی حالت اور شرمندگی سے ان کی شکلیں دیکھنے والی تھیں.روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی صفحه 99-100 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خادموں میں سے ایک پیرا پہاڑ یہ تھا.مزدور آدمی تھا جو پہاڑی علاقے سے آیا ہوا تھا.بالکل جاہل اور اجڈ آدمی تھا.لیکن بہت سی غلطیاں کرنے کے باوجود کبھی یہ نہیں ہوا کہ حضرت مسیح موعود نے کبھی اسے جھڑ کا ہو.ایک دفعہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اچانک بیمار ہو گئے گرمی کا موسم ہونے کے باوجود ایک دم ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو گئے اور مسجد کی چھت پر ہی مغرب کی نماز کے بیٹھے ہوئے تھے تو اس وقت جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان کو فوراً فکر ہوئی ، تدبیریں ہونی شروع ہوئیں کہ کیا کرنا ہے.یہی جو پیرا تھا ، ان کو بھی خبر پہنچی ، وہ گارے مٹی کا کوئی کام کر رہے تھے، یہ کہتے ہیں کہ اسی حالت میں اندر آگئے اور یہ نہیں دیکھا

Page 925

$2004 920 خطبات مسرور کہ دری بچھی ہوئی ہے یا کیا ہے تو اسی فرش پر نشان بھی پڑنے شروع ہو گئے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاؤں دبانے شروع کر دیئے.تو لوگوں نے ذرا ان کو گھورنا شروع کیا، ڈانٹنا شروع کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: ” اس کو کیا خبر ہے جو کرتا ہے کرنے دو کچھ حرج نہیں.(سیرت حضرت مسیح موعود مرتبه حضرت یعقوب على صاحب عرفانی صفحه 350) حضرت مسیح موعود کے پرانے خادموں میں سے ایک حضرت حافظ حامد علی صاحب مرحوم تھے.وہ لمبے عرصے تک حضور کی خدمت کرتے رہے.راوی بیان کرتے ہیں کہ ان کی طبیعت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اخلاق کا جو اثر تھا وہ اتنا زیادہ تھا کہ اس کا بار بار ذکر کیا کرتے تھے کہ میں نے کبھی ایسا انسان نہیں دیکھا کہ بلکہ زندگی بھر حضرت صاحب کے بعد بھی کوئی انسان اخلاق کی اس شان کا نظر نہیں آتا تھا.حافظ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ساری عمر کبھی حضرت مسیح موعود نے نہ جھڑ کا اور نہ بختی سے خطاب کیا.بلکہ میں بڑا ہی ست تھا اور اکثر آپ کے ارشادات کی تعمیل میں دیر بھی کر دیا کرتا تھا.اس کے باوجود سفر میں مجھے ساتھ رکھتے تھے.(سیرت حضرت مسیح.مرتبه حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه 349- 350) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب تک یہ معمول تھا کہ آپ باہر اپنے دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے کبھی آپ نے یہ فرق نہیں کیا، یہ امتیاز نہیں کیا کہ کون آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے.کسی کو محض اس وجہ سے اٹھانے کو نا جائز سمجھتے تھے کہ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں یا وہ ان پڑھ زمیندار ہے یا کسی اور قوم کا آدمی ہے.آپ کے دستر خوان پر جو شخص آزادی سے جہاں چاہتا تھا بیٹھ جاتا تھا.ایک شخص خا کی شاہ نامی تھا ، گاؤں کا رہنے والا.کہتے ہیں کہ اس کی عادت تھی کہ جب کھانالا یا جا تا تو وہ کو د کرلوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے آکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب بیٹھ جاتا تھا.تو اگر جگہ تنگ ہوتی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود ہی ایک طرف ہو کے کھل جاتے تھے اور اس کو بیٹھنے کی جگہ دے دیتے تھے اور کہتے ہیں کہ وہ دنیاوی لحاظ سے اتنا معمولی آدمی تھا کہ کوئی اس کا درجہ نہیں تھا.

Page 926

$2004 921 مسرور پھر مہر حامد قادیان کے آرائیوں میں سے تھے جو اپنے خاندان میں پہلے تھے جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں داخل ہوئے.تو بیمار ہو گئے ، اپنے ڈیرے پر.جہاں ڈیرہ ہوتا ہے ایشیا میں پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں اکثر جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں وہ جانتے ہی ہیں وہاں بھینسیں بندھی ہوتی ہیں.وہیں گھر ہوتا ہے وہیں سب کچھ ہوتا ہے گند بھی ان کا ہوتا ہے.تو جب بیمار ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کو پوچھنے جایا کرتے تھے اور وہاں ایک طرف گوبر اور گند وغیرہ اکٹھا ہوا ہوتا تھا.اس کی بوبھی بڑی ہوتی تھی.آپ کی طبیعت میں بڑی نفاست تھی.لیکن اس کے باوجود کبھی اشارہ بھی یہ اظہار نہیں کیا کہ بو آ رہی ہے.بلکہ باقاعدگی سے اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تھے.اور اس سے بڑی محبت اور دلجوئی کی باتیں کرتے تھے.اور بہت دیر تک بیماری سے متعلق دریافت کرتے رہتے تھے.پھر دوائیاں بتاتے تھے اور دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے تھے.تھاوہ بہت معمولی زمیندار بلکہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی جو زمینداری تھی وہاں اس کے لحاظ سے تو وہ گویا آپ کی رعایا میں داخل تھا.مگر کبھی آپ نے فخر نہیں کیا.جس کے پاس جاتے اس کو اپنا عزیز بھائی سمجھتے.تو یہ تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نمونے اپنے آقا کی اقتدا میں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزور مخلوق کی دلداری کے لئے جونمو نے قائم کئے ہیں اور آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان پر چل کر دکھایا ہے، یہ نمونے کبھی پرانے ہونے والے نہیں.بلکہ آج بھی اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنا ہے اور اس کی رضا حاصل کرنی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کے دعوے کو سچا ثابت کر کے دکھانا ہے تو ان نمونوں پر چلنا ہوگا.آج ہر احمدی کا دوسرے مسلمانوں کی نسبت زیادہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول صلى الله میں ان کمزوروں اور بے سہاروں کو تلاش کریں.اور ان سے حسن سلوک کریں اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ عشق کے دعوے کو سچا کر کے دکھا ئیں اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے.

Page 927

$2004 922 خطبات مسرور

Page 928

$2004 923 52 خطبات مسرور معاشرہ کا کام ہے کہ شادی کے قابل بیواؤں اور لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں کروانے کی طرف توجہ دے.احمدی لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں آپس میں کی جائیں تا کہ آئندہ نسلیں دین پر قائم رہنے والی نسلیں ہوں.24 دسمبر 2004 ء بمطابق 24 فتح 1383 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت السلام.پیرس.فرانس ) رشتہ ناطہ کے مسائل اور ان کی طرف قرآنی احکام اور ارشادات کی روشنی میں راہنمائی ہی بیوہ کے نکاح کا حکم اس طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم بچیوں کی شادی اور والدین کے حقوق و فرائض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رشتہ ناطہ کے معاملات کے لئے باقاعدہ کتاب بنانا

Page 929

خطبات مسرور $2004 924 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا وَانْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُوْنُوْا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ.وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ.(سورة النور آیت 33 ) آجکل شادی بیاہ کے بہت سے مسائل سامنے آتے ہیں.روزانہ خطوں میں ان کا ذکر ہوتا ہے.لڑکیوں کی طرف سے عورتوں کی طرف سے بچیوں کے رشتوں کے مسائل ہیں.جو کم مالی حیثیت رکھنے والے ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں لڑکا ہو یا لڑکی.بیواؤں کے رشتوں کے مسائل ہیں.ایسی بعض بیوائیں ہوتی ہیں جو شادی کی عمر کے قابل ہوتی ہیں یا بعض ایسی جو اپنے تحفظ کے لئے شادی کروانا چاہتی ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں.لیکن ایسی بیوائیں بعض دفعہ معاشرے کی نظروں کی وجہ سے ڈر جاتی ہیں اور باوجود یہ سمجھنے کے کہ ہمیں شادی کی ضرورت ہے، وہ شادی نہیں کرواتیں.تو بہر حال مختلف طبقوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں ہمارے بعض مشرقی ممالک میں ، بیواؤں کے ضمن میں بات کروں گا، اس بات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت اگر بیوہ ہو جائے تو دوسری شادی کرے.اور بعض بیچاری عورتیں جو اپنے حالات کی وجہ سے شادی کرنا چاہتی ہیں ان کے بعض دفعہ رشتے بھی طے ہو جاتے ہیں لیکن ان کے عزیز رشتہ دار اس بات کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا.اور اس طرح ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور بیچاری عورت کو اتنا عاجز کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے ہی بیزار ہو جاتی ہے.

Page 930

925 $2004 خطبات مسرور اور حیرت اس بات کی ہے کہ یہاں یورپ میں آکر جہاں اور دوسرے معاملات میں روشن خیالی کا نام دے کر بہت سارے معاملات میں ملوث ہو جاتے ہیں جن میں سے بعض کی اسلام اجازت بھی نہیں دیتا لیکن یہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بیواؤں کی شادی کرو اس بارے میں بڑی غیرت دکھا رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.یہ جو میں نے آیت تلاوت کی ہے کہ تمہارے درمیان جو بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کراؤ.اور اسی طرح تمہارے درمیان جو تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک چلن ہوں ان کی بھی شادیاں کراؤ.اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی بنادے گا.اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.یہ ہے اللہ تعالی کا حکم جس پر ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ تو بڑا واضح طور پر کھل کر فرماتا ہے کہ معاشرے میں اگر نیکیوں کو فروغ دینا ہے تو معاشرے میں جو شادیوں کے قابل بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کرانے کی کوشش کرو بلکہ یہاں تک کہ اُس زمانے میں جو غلام تھے اور لونڈیاں تھیں ان میں سے بھی جو نیک فطرت ہیں ان کی بھی شادیاں کروا دو تا کہ برائی نہ پھیلے.یہ قوم بھی جو غریب لوگ ہیں یہ بھی مایوسی کا شکار نہ ہوں.تو یہ حکم شادی کی پابندی کا ہے.اس زمانے میں غلام تو نہیں ہیں لیکن بہت سے ممالک میں غربت ہے اور غربت کی وجہ سے شادی نہیں ہوتی تو جماعت ان لوگوں کی مدد بھی کرتی ہے.اس لئے انفرادی طور پر بعض لوگ مدد کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہئے.تو فرمایا یہ نہ سمجھو کہ ان کی غربت ہے اس لئے شادی نہ کراؤ.اگر مرد کام نہیں کرتا یا ملا زمت اس کے پاس نہیں ہے یا کوئی کمائی کا ایسا بڑا ذریعہ نہیں ہے تو ان کی شادیاں بھی کروا ؤ اور پھر جماعت میں جو ایک نظام رائج ہے ایسے لوگوں کی ملازمت یا کاروبار کی کوشش بھی کی جاتی ہے اور کرنی بھی چاہئے.تو الا ماشاء اللہ جب ایسی کوشش ہوتی ہے تو سوائے چند ایک کے شادی کے بعد احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو سنبھالنا ہے اس لئے کوئی کام کریں، کوئی کاروبار کریں، کوئی نوکری کریں، کوئی ملازمت کریں.پھر ا کثر بیوی بھی اپنے خاوند کے لئے کوئی کام کرنے کے لئے یا ملا زمت حاصل کرنے کے لئے ترغیب دلانے کا باعث بن جاتی ہے.بیوی بھی اس پر دباؤ ڈالتی ہے تو اس سے بھی توجہ پیدا

Page 931

926 $2004 خطبات مسرور ہوتی ہے.اور کئی مثالیں ایسی ہیں کہ شادی کے بعد ایسے غریبوں کے حالات بہتر ہو گئے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.وہ علم رکھتا ہے کہ کس کے کیا حالات ہونے ہیں.معاشرے کا یہ کام ہے کہ چاہے وہ بیوائیں ہوں ، چاہے وہ غریب لوگ ہوں ان کی شادیاں کروانے کی کوشش کرو.اس طرح معاشرہ بہت سی قباحتوں سے پاک ہو جائے گا، محفوظ ہو جائے گا.بیواؤں میں سے بھی اکثر جوایسی ہیں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ شادی کرانے کی خواہش رکھتی ہوں ، ضرورت مند ہوں اور ان میں سے ایسی بھی بہت ساری تعداد ہوتی ہے جو خاوند کی وفات کے بعد معاشی مسائل سے دو چار ہو جاتی ہے.معاشرے کے بعض مسائل ہیں جن سے دو چار ہوتی ہے تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو کوئی ٹھکانہ ملے.ان کو تحفظ ملے بجائے اس کے کہ وہ مستقل تکلیف اٹھاتی رہے.اس لئے فرمایا کہ پاک معاشرہ کے لئے بھی اور ان کے ذاتی مسائل کے حل کے لئے بھی پوری کوشش کرو کہ ان کی شادیاں کروا دو.تو یہ ہے حکم اللہ تعالیٰ کا جبکہ جیسا کہ میں نے کہا بعض معاشرے اس کو نا پسند کرتے ہیں.اسلامی اور احمدی معاشرہ کہلاتے ہوئے بعض لوگ نا پسند کرتے ہیں.تو ہر احمدی کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں ہماری روایات یعنی وہ جھوٹی روایات جو دوسرے مذاہب یا غیر مسلموں کے بگڑے ہوئے مذہب کا حصہ بن کر ہمارے اندر جڑ پکڑ رہی ہیں، ہمارے اندر داخل ہو رہی ہیں ان کو نکالنا چاہئے.اللہ تعالیٰ تو بیوگان کو یہ اجازت دیتا ہے کہ بیوہ ہونے کے بعد اگر کسی کا خاوند فوت ہو جائے تو اس کے بعد جو عدت کا عرصہ ہے، چار مہینے دس دن کا ، وہ پورا کر کے اگر تم اپنی مرضی سے کوئی رشتہ کرلواور شادی کر لو تو کوئی حرج نہیں ہے.کوئی ضرورت نہیں ہے کسی سے فیصلہ لینے کی یا کسی بڑے سے پوچھنے کی.لیکن شرط یہ ہے کہ معروف کے مطابق رشتے طے کرو.معاشرے کو پتہ ہو کہ یہ شادی ہو رہی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں.تو بیواؤں کو تو اپنے متعلق اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا خود اختیار دے دیا گیا ہے یا اجازت ہے اور لوگوں کو یہ کہا ہے کہ تم بلا وجہ اس میں روکیں ڈالنے کی کوشش نہ کرو اور اپنے رشتوں کا حوالہ دینے کی کوشش نہ کرو.اگر یہ بیواؤں کے رشتے جائز اور معروف طور پر

Page 932

$2004 927 خطبات مسرور ہورہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی اجازت دیتا ہے.تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہے.تم اپنے آپ کو خاندان کا بڑا سمجھ کر یا بڑے رشتے کا حوالہ دے کر روک نہ ڈالو کہ یہ رشتہ ٹھیک نہیں ہے، نہیں ہونا چاہئے یا مناسب نہیں ہے.بیوہ کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہے.تم کسی بھی قسم کی ذمہ داری سے آزاد ہو.اللہ تمہارے دل کا بھی حال جانتا ہے.اگر تم کسی وجہ سے نیک نیتی سے یہ روک ڈالنے یا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہو کہ یہ رشتہ نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ جو تمہارے دل میں ہے ظاہر کر دو اس کو بتادو اور اس کے بعد پیچھے ہٹ جاؤ اور فیصلے کا اختیار اس بیوہ کے پاس رہنے دو.اللہ تعالیٰ تمہارے دل کا حال جانتا ہے اس کو تمہاری نیت کا پتہ ہے تمہارے سے بہر حال باز پرس نہیں ہوگی.اگر نیک نیت ہے تو نیک نیتی کا ثواب مل جائے گا.اس بارے میں فرماتا ہے ﴿وَالَّذِيْنَ يَتَوَفُونَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ أَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ - ﴾ (البقرة: 235) یعنی تم میں سے وہ لوگ جو وفات دیئے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار مہینے اور دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں.پس جب وہ اپنی مقررہ مدت کو پہنچ جائیں تو پھر وہ عورتیں اپنے متعلق معروف کے مطابق جو بھی کریں اس بارے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : ”بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے.چونکہ بعض قو میں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے.اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے.لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے.نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے.بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں.بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں.مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق ہے کہ وہ

Page 933

$2004 928 خطبات مسرور قابل نکاح ہی نہیں یا ایک کافی اولا د اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کرسکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے.ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جائے.ہاں اس بد رسم کو مٹادینا چاہئے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبر رکھا جاتا ہے.(ملفوظات جلد.پنجم صفحه 320 بدر 10 اکتوبر 1907 | آپ نے اس کی وضاحت فرما دی ، مزید کھول کر بیان فرما دیا کہ پہلی بات تو معاشرے اور عزیز رشتے داروں کو یہ حکم ہے کہ اگر کوئی شادی کی عمر میں بیوہ ہو جاتی ہے تو تم لوگ اس کے رشتے کی بھی اسی طرح کوشش کرو جیسے باکرہ یا کنواری لڑکی نوجوان لڑکی کے رشتے کے لئے کوشش کرتے ہو.یہ تمہاری بے عزتی نہیں ہے بلکہ تمہاری عزت اسی میں ہے.دوسری بات کہ اگر کوئی عمر کی زیادتی کی وجہ سے یا بچوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے یا اپنے بعض اور حالات کی وجہ سے یا کسی بیماری کی وجہ سے شادی نہ کرنا چاہے تو یہ فیصلہ کرنا بھی اس کا اپنا کام ہے.تم ایک تجویز دے کے اس کے بعد پیچھے ہٹ جاؤ.رشتہ کروانے کے لئے ، نہ کہ رشتہ روکنے کے لئے.رشتہ کرنا یا نہ کرنا یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوگا.اس کا اپنا حق ہے اس کو بہر حال مجبور نہ کیا جائے.پھر یہ کہ معاشرے کو رشتہ داروں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ زبر دستی کسی بیوہ کو ساری عمر بیوہ ہی رکھیں یا اس کو کہیں کہ تم ساری عمر بیوہ رہو.اگر خود اپنی مرضی سے کوئی شادی کرنا چاہتی ہے تو قرآنی حکم کے مطابق اسے شادی کرنے دو.کسی بیوہ کو شادی سے روکنا بھی بڑی بیہودہ اور گندی رسم ہے اور اس کو اپنے اندر سے ختم کرو.ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو تین مرتبہ فرمایا.اے علی ! جب نماز کا وقت ہو جائے تو دیر نہ کرو.اور اسی طرح جب جنازہ حاضر ہو یا عورت بیوہ ہو اور اس کا ہم کفول جائے تو اس میں بھی دیر نہ کرو.(ترمذی.کتاب الصلواة ـ باب فى الوقت الاوّل ) تو اس میں آپ نے دو باتوں کو جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں عبادت کے ساتھ رکھا ہے.نماز جو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے اس کی عبادت کرنا ایک فرض ہے اور عبادت کی غرض سے ہی

Page 934

$2004 929 خطبات مسرور انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کو وقت پر ادا کرنے کا حکم ہے اور جب وقت آجائے تو اس میں دیر نہیں ہونی چاہئے اسی میں ہماری بھلائی ہے.اور پاک معاشرے کے قیام کی ضمانت بھی اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عبادت کے وقت مقرر کئے ہیں اس وقت میں ادائیگی کی جائے.تو اس کے بعد فرمایا کہ جنازہ ہے اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس کو دفنانے میں بھی جلدی کرنی چاہئے.وفات شدہ کی عزت بھی اسی میں ہے.پھر بعض خاندانوں میں دیر تک جنازہ رکھنے سے بعض مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں اس لئے جلدی دفتنا دو.پھر فرمایا کہ عورت اگر بیوہ ہو جائے اور شادی کے قابل ہو اور اس کا ہم کفو مل جائے ، مناسب رشتہ مل جائے ، معاشرے میں جو اس عورت کا مقام ہے اس کے مطابق ہو خاندانی لحاظ سے اپنے رہن سہن کے لحاظ سے ہم مزاج ہو عورت کو پسند بھی ہو تو پھر رشتہ دار اس سلسلہ میں روکیں نہ ڈالیں بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس کو جلد از جلد بیاہ دو.اس سے بھی پاک معاشرے کا قیام ہوگا.اور عورت بھی بہت سی باتوں سے جو بیوہ ہونے کی وجہ سے اس کو معاشرے کی سہنی پڑتی ہیں بچ جائے گی.پھر بیوہ کو خود بھی اختیار دیا گیا ہے کہ خود بھی وہ جائز طور پر رشتہ کر سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے.یہ بھی اس لئے ہے کہ وہ اپنے آپ کو تحفظ دے سکے.اس اختیار کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ ایک روایت میں آتا ہے.ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شادی کے معاملہ میں بیوہ اپنے بارے میں فیصلہ کرنے میں اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے.اور کنواری سے اجازت لی جائے گی اور اس کا خاموش رہنا اجازت تصور کیا جائے گا.(سنن الدارمى - كتاب النكاح - باب استثمار البكر والثيب ) تو وضاحت ہوگئی کہ بیوہ کا حق بہر حال فائق ہے لیکن کنواری لڑکی کے بارے میں یہ شرط ہے کہ اس کا ولی اس کے بارے میں فیصلہ کرے اور وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات تو اصل میں معاشرے میں بھلائی اور امن پیدا کرنے کے لئے ہیں.تو بیوہ کیونکہ دنیا کے تجربے سے گزرچکی ہوتی

Page 935

$2004 930 خطبات مسرور ہے دنیا کی اونچ نیچ دیکھ چکی ہوتی ہے اور الا ماشاء اللہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرسکتی ہے اس لئے اس کو یہ اختیار دے دیا.لیکن کنواری لڑکی بعض دفعہ بھول پنے میں غلط فیصلے بھی کر لیتی ہے اس لئے اس کے رشتے کا اختیار اس کے ولی کو دیا گیا ہے.لیکن پھر بھی اس کو یہ حق دیا گیا کہ اگر وہ اپنے ولی یا باپ کے فیصلے سے اختلاف رکھتی ہو، اس پر راضی نہ ہو تو نظام جماعت کو بتائے اور فیصلے کروالے لیکن خود عملی قدم اٹھانے کی اجازت نہیں ہے.اس سے بھی معاشرے میں نیکی اور بھلائی کی بجائے فتنہ اور فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بعض لڑکیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کی کہ باپ فلاں رشتہ کرنا چاہتا ہے اور آپ نے لڑکیوں کے حق میں فیصلہ دیا.بعض دفعہ یہ ہوا کہ لڑکی نے کہا میں نہیں چاہتی.چنانچہ ایک دفعہ اسی طرح ایک لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ ہم عورتوں کو رشتوں کے معاملہ میں کوئی حق نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا بالکل ہے.تو اس نے کہا کہ میرا باپ میرا رشتہ فلاں بوڑھے شخص سے کرنا چاہتا ہے، یا کر رہا ہے یا کر دیا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ تمہیں اجازت ہے.لیکن اس نیک فطرت بچی نے کہا کہ میں صرف عورت کا حق قائم کرنا چاہتی تھی اپنے باپ کا دل تو ڑنا نہیں چاہتی.مجھے اپنے باپ سے بہت پیار ہے.میں اس رشتے پر بھی راضی ہوں لیکن حق بہر حال عورت کا قائم ہونا چاہئے ا س کے لئے میں حاضر ہوئی تھی.پھر ایک دفعہ آپ نے ایک لڑکی کے باپ کا طے کیا ہوا رشتہ ( جولڑ کی کی مرضی کے خلاف تھا) نڑوا دیا.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت کا خاوند فوت ہو گیا.اس کا اس سے ایک بچہ بھی تھا.بچے کے چچا نے عورت کے والد سے اس بیوہ کا رشتہ مانگا.عورت نے بھی رضامندی کا اظہار کیا.لیکن لڑکی کے والد نے اس کا رشتہ اس کی رضا مندی کے بغیر کسی اور جگہ کر دیا.اس پر وہ لڑکی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور شکایت کی.حضور نے اس کے والد کو بلا کر دریافت کیا.اس کے والد نے کہا اس کے دیور سے بہتر آدمی کے ساتھ میں نے اس کا

Page 936

$2004 931 خطبات مسرور رشتہ کیا ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کے کئے ہوئے رشتے کو تو ڑ کر بچے کے چا یعنی عورت کے دیور سے اس کا رشتہ کر دیا.(مسند الامام الاعظم - كتاب النكاح عدم جواز النكاح بغير رضا المرءة) اب یہاں بیوہ کا حق فائق تھا اور دوسرے عورت (لڑکی ) کی مرضی بھی دیکھنی تھی.لیکن یہ جماعت احمدیہ میں بہر حال دیکھا جائے گا کہ لڑکی جہاں رشتہ کر رہی ہے یا جہاں رشتے کی خواہش رکھتی ہے وہ لڑکا بہر حال احمدی ہو.کیونکہ ان تمام باتوں کا مقصد پاک معاشرے کا قیام ہے.نیکیوں کو قائم کرنا ہے اور نیک اولاد کا حصول ہے.اگر احمدی لڑکے احمدی لڑکیوں کو چھوڑ کر اور احمدی لڑکیاں احمدی لڑکوں کو چھوڑ کر دوسروں سے شادی کریں گے تو معاشرے میں ، خاندان میں فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوگا.نئی نسل کے دین سے ہٹنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا.اس لئے دین کا کفود یکھنا بھی اس طرح ضروری ہے جس طرح دنیا کا.ہمارے لڑکوں اور لڑکیوں کو بعضوں کو بڑا رجحان ہوتا ہے غیروں میں رشتے کرنے کا.اس طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے.خاص طور پر اس آزاد معاشرے میں.نظام کی بھی فکر اس لئے بڑھ گئی ہے کہ ایسے معاملات اب کافی زیادہ ہونے لگ گئے ہیں کہ اپنی مرضی سے غیروں میں ، دوسرے مذاہب میں رشتے کرنے لگ جاتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو حاتم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کوئی ایسا شخص کوئی رشتہ لے کر آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اسے رشتہ دے دیا کرو.اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ وفساد پیدا ہو گا.سوال کرنے والے نے سوال کرنا چاہا لیکن آپ نے تین دفعہ یہی فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کوئی شخص رشتہ لے کر آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اسے رشتہ دے دیا کرو.(ترمذی.کتاب النکاح باب ماجاء جاء كم من ترضون دينه.تو آپ نے اس طرف توجہ دلائی کہ دیندار لڑکے سے رشتہ کرلیا کرو.مالی کمزوری بھی اگر ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ دین پر قائم ہے تو اللہ تعالی مالی حالات بھی درست فرما دے گا.اس لئے

Page 937

$2004 932 خطبات مسرور جب بچیوں کے رشتے آتے ہیں تو زیادہ لٹکانا نہیں چاہئے بلکہ اگر دینداری کی تسلی ہو گئی ہے تو رشتہ کر دینا چاہئے.اس طرح لڑکوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ رشتے کرتے وقت لڑکی کی ظاہری اور دنیاوی حالت کو نہ دیکھو.اس حیثیت کو نہ دیکھا کرو بلکہ یہ دیکھو کہ اس میں نیکی کتنی ہے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں.یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اس کے خاندان کی وجہ سے یا اس کے حسن و جمال کی وجہ سے یا اس کی دینداری کی وجہ سے.لیکن تو دیندار عورت کو ترجیح دے.اللہ تیرا بھلا کرے اور تجھے دیندار عورت حاصل ہو.(بخاری.کتاب النکاح باب الاكفاء في الدين ) تو اس طرف توجہ دلا کر آئندہ نسلوں کے دیندار ہونے کے ظاہری سامان کی طرف اصل میں توجہ دلائی ہے.اپنے گھریلو ماحول کو پر سکون بنانے کی طرف توجہ دلائی ہے.کیونکہ اگر ماں نیک اور دیندار ہوگی تو عموماً ولا بھی دیندار ہوتی ہے.اور نیک اور دیندار اولا د سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہے جو انسان کو سکون پہنچا سکے.ایک مومن کے لئے معاشرے میں عزت کا باعث نیک اور دیندار اولا دہی بن سکتی ہے.تو اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے.یہ شکایتیں اب بڑی عام ہونے لگ گئی ہیں کہ بچی نیک ہے ، شریف ہے ، با اخلاق ہے، پڑھی لکھی ہے، جماعتی کاموں میں حصہ بھی لیتی ہے، لیکن شکل ذرا کم ہے یا قد اس کا دیکھنے والوں کے معیار کے مطابق نہیں ہے.تو لوگ آتے ہیں دیکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں.اس بارے میں پہلے بھی ایک دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ شکل اور قد کاٹھے تو تصویر اور معلومات کے ذریعہ سے بھی پتہ لگ سکتا ہے.پھر گھر جا کر بچیوں کو دیکھنا اور ان کو تنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے.اس لئے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان چیزوں کو نہ دیکھو، دینداری کو دیکھو.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنی نسلوں کو سنبھالنا ہے تو دینداری دیکھا کرو.اگر

Page 938

933 $2004 خطبات مسرور بچیوں کی دینداری دیکھیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے وارث بھی بنیں گے اور اپنی نسل کو بھی دین پر چلتا ہوادیکھنے والے ہوں گے.بعض لوگ تو رشتے کے وقت لڑکیوں کو اس طرح ٹول کر دیکھ رہے ہوتے ہیں جس طرح قربانی کے بکرے کو ٹولا جاتا ہے.شادی تو ایک معاہدہ ہے.ایک فریق کی قربانی کا نام نہیں ہے.بلکہ دونوں فریقوں کی ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا نام ہے.یہ ایسا بندھن ہے.حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ دنیا تو سامان زیست ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر اور کو ئی سامان زیست نہیں ہے.(ابن ماجه ابواب النكاح - باب افضل النساء ) پس ان لوگوں کے لئے جو ہر چیز کو دنیا کے پیمانے سے ناپتے ہیں.ان کو بھی یہ حدیث ذہن میں رکھنی چاہئے کہ نیک عورت سے بڑھ کر تمہارے لئے کوئی زندگی کا اور دنیاوی سامان نہیں ہے.نیک عورت تمہارے گھر کو بھی سنبھال کے رکھے گی اور تمہاری اولاد کی بھی اعلیٰ تربیت کرے گی.نتیجتا تم دین و دنیا کی بھلائیاں حاصل کرنے والے ہو گے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.صالح مرد اور صالح عورتوں کی شادی کروایا کرو.(سنن الدارمی ـ کتاب النکاح باب في النكاح الصالحين.تو اس میں بھی نیک لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کی طرف اشارہ ہے.اور یہ نیک کام معاشرے کو فساد سے بچانے کا ذریعہ ہے.اس لئے اس میں جلدی بھی کرنی چاہئے.لیکن آج کل تو بعض دفعہ دیکھا ہے ایسے لوگ کافی تعداد میں ہیں ماں باپ کے ساتھ لڑ کے آتے ہیں 34-35 سال کی عمر ہوتی ہے لیکن ان کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھا ہوا ہے.ان کی ابھی تک شادیاں نہیں کروائیں.شادی کی طرف توجہ نہیں دیتے.بعض لوگ ایسے ہیں جو بیٹیوں کی کمائی کھانے کے لئے اس طرح کر رہے ہوتے ہیں.

Page 939

$2004 934 خطبات مسرور بعض بیٹوں کی کمائی کھانے کے لئے اس طرح کر رہے ہوتے ہیں.اور جو بیٹیوں کی کمائی کھانے والے ہیں وہ صرف اس لئے کہ گھر کے جولڑ کے ہیں وہ نکھے ہیں، کوئی کام نہیں کر رہے پڑھے لکھے نہیں اس لئے گھر بیٹیوں کی کمائی پر چل رہا ہے اور اگر شادی کر بھی دی تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ داماد، گھر داماد بن کر رہے، گھر میں ہی موجود رہے جو اکثر ناممکن ہوتا ہے.جس سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.اس لئے شادی کرنے کے بعد اگر میاں بیوی علیحدہ رہنا چاہتے ہیں اور ان کو توفیق ہے اور والدین عمر کے اس آخری حصے میں نہیں پہنچے ہوتے جہاں ان کو کسی کی مدد کی ضرورت ہو اور کوئی بچہ ان ہواور.کے پاس نہ ہو ، پھر تو ایک اور بات ہے قربانی کرنی پڑتی ہے.وہ بھی لڑکوں کا کام ہے.اگر کسی کے لڑکا نہ ہو تو پھر لڑکی کی مجبوری ہے.لیکن عموماً لڑکی بیاہ کر جب دوسرے گھر میں بھیج دی تو اس کو اپنا گھر بسانے دینا چاہئے.اور اس طرف جماعتی نظام کے ساتھ ہماری تینوں ذیلی تنظیمیں لجنہ ، خدام ، انصار، ان کو بھی توجہ دینی چاہئے.ان کو بھی اپنے طور پر تربیت کے تحت سمجھاتے رہنا چاہئے.انصار والدین کو سمجھائیں، لجنہ والدین کو لڑکیوں کو اور خدام لڑکوں کو سمجھائیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک جگہ منگنی کا پیغام دیا تو آپ نے فرمایا کہ اس لڑکی کو دیکھ لو کیونکہ اس طرح دیکھنے سے تمہارے اور اس کے درمیان موافقت اور الفت کا امکان زیادہ ہے.(ترمذی کتاب النکاح باب في النظر الى المخطوبة ) اس اجازت کو بھی آج کل کے معاشرے میں بعض لوگوں نے غلط سمجھ لیا ہے.اور یہ مطلب لے لیا ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے ہر وقت علیحدہ بیٹھے رہیں، علیحدہ سیریں کرتے رہیں.دوسرے شہروں میں چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں، گھروں میں بھی گھنٹوں علیحدہ بیٹھے رہیں تو یہ چیز بھی غلط ہے.مطلب یہ ہے کہ آمنے سامنے آکر شکل دیکھ کر ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے.بعض حرکات کا باتیں کرتے ہوئے پتہ لگ جاتا ہے.پھر آجکل کے زمانے میں گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے.کھانا کھاتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی

Page 940

$2004 935 خطبات مسرور بہت سی حرکات و عادات ظاہر ہو جاتی ہیں.اور اگر کوئی بات ناپسندیدہ لگے تو بہتر ہے کہ پہلے پتہ لگ جائے اور بعد میں جھگڑے نہ ہوں.اور اگر اچھی باتیں ہیں تو موافقت اور الفت اس رشتے کے ساتھ اور بھی پیدا ہو جاتی ہے.یا رشتے کے پیغام کے ساتھ.تو ایک تعلق شادی سے پہلے ہو جائے گا.دوسرے لوگ بعض دفعہ ان کا کردار یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کا رشتہ ہو گیا ہے تو اس کو تڑ وانے کی کوشش کریں.ان کو آمنے سامنے ملنے سے موقع نہیں ملے گا.ایک دوسرے کی حرکات دیکھنے سے کیونکہ ایک دوسرے کو جانتے ہوں گے.لیکن بعض لوگ دوسری طرف بھی انتہا کو چلے گئے ہیں ان کو یہ بھی برداشت نہیں کہ لڑکا لڑکی شادی سے پہلے یا پیغام کے وقت ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ بھی سکیں اس کو غیرت کا نام دیا جاتا ہے.تو اسلام کی تعلیم ایک سموئی ہو ئی تعلیم ہے.نہ افراط نہ تفریط.نہ ایک انتہا نہ دوسری انتہا.اور اسی پر عمل ہونا چاہئے.اسی سے معاشرہ امن میں رہے گا اور معاشرے سے فساد دور ہوگا.پھر ایک روایت ہے حضرت معقل بن بیمار بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ایسی عورتوں سے شادی کرو جو محبت کرنا جانتی ہوں اور جن سے زیادہ اولاد پیدا ہوتا کہ میں کثرت افراد کی وجہ سے سابقہ امتوں پر فخر کر سکوں.(ابو داؤد كتاب النكاح باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء) تو زیادہ بچوں والی عورت کو آپ نے یہ بھی مقام دیا کہ ان کا بچوں کی کثرت کی وجہ سے ایک مقام ہے.کیونکہ یہ میری امت میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں.یہاں آپ کی مراد صرف یہ نہیں ہے کہ گنتی بڑھا لو، افراد زیادہ ہو جائیں.بلکہ ایسی اولا د ہو جو نیکیوں میں بڑھنے والی بھی ہو.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی بھی ہو تبھی وہ آپ کے لئے باعث فخر ہے.پس اس میں عورتوں پر یہ ذمہ داری بھی ڈالی ہے کہ صرف اولاد پر فخر نہ کریں بلکہ نیکیوں پر چلنے والی اولا د بنانے کی کوشش کریں.جو آپ کی امت کہلانے میں فخر محسوس کرے اور آپ سجس طرح فرما رہے ہیں کہ مجھے بھی ان عورتوں پر فخر ہوگا جن کی اولاد میں زیادہ ہوں گی اور نیکیوں پر قائم بھی ہوں گی.

Page 941

خطبات مسرو 936 $2004 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی صحابہ کو شادی کی اکثر تلقین فرماتے رہتے تھے بلکہ بار بار توجہ دلاتے رہتے تھے.اور بعض دفعہ جب کسی کا رشتہ طے کرواتے تو خود بھی بڑی دلچسپی لے کر ذاتی طور پر انتظامات فرماتے.اسی طرح کی ایک روایت حضرت ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے.(لمبی روایت ہے ) مسند احمد بن حنبل میں آئی ہے.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ (حضرت ربیعہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتے تھے ایک دفعہ رسول کریم نے فرمایا ربیعہ ! شادی نہیں کرو گے.تو انہوں نے عرض کی نہیں پھر کچھ عرصے بعد آپ نے فرمایا ربیعہ اشادی نہیں کرو گے تو انہوں نے کہا نہیں.ربیعہ نے خود ہی سوچا کہ میرا برا بھلا چاہنے والے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ جانتے ہیں کہ کیا بھلا ہے کیا برا ہے.اگر اب مجھ سے پوچھا تو میں ہاں میں جواب دوں گا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ پوچھا تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ ! اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے فلاں خاندان کی طرف جاؤ اور ان کو میرا پیغام دو کہ فلاں لڑکی سے تمہاری شادی کر دیں.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام پر اس نے فور التسلیم کر لیا اور ان کی شادی اس لڑکی سے ہو گئی.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ولیمہ کا انتظام بھی سارا خود فرمایا اور خود ولیمے میں شامل بھی ہوئے اور دعا بھی کروائی.(مسند احمد بن حنبل.جلد ۴ صفحہ ۵۸) ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جب کسی شخص کے پاس کوئی یتیم لڑکی ہوتی تو وہ اس پر ایک کپڑا ڈال دیتا تھا.جب وہ کپڑا ڈال دیتا تھا تو کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ کوئی اس لڑکی سے نکاح کر سکے.اگر تو وہ خوبصورت اور صاحب مال ہوتی تو وہ خود اس سے نکاح کر لیتا اور اس کا مال کھا جاتا.اور شکل وصورت زیادہ اچھی نہ ہوتی اور مالدار ہوتی تو وہ شخص اس کو ساری عمر اپنے پاس روک لیتا یہاں تک کہ وہ مرجاتی.جب وہ مرجاتی تو اس کے مال ومتاع کا وہ مالک بن جاتا.

Page 942

937 $2004 خطبات مسرور تو عرب کے یہ حالات تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیواؤں اور یتیموں کی شادیوں کی طرف توجہ دلائی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خاص دلچسپی لے کر اپنے صحابہ اور صحابیات کی شادیاں کروائیں اور اس حکم پر عمل کروایا اور تلقین فرمائی کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر عورت و مرد کی شادی کر دو.بیوائیں بھی اگر جوانی کی عمر میں ہیں یا شادی کی خواہش مند ہیں تو ان کی شادیاں کرو.اور صرف ذاتی دنیاوی فائدے اٹھانے کے لئے گھروں میں لڑکیوں کو بٹھائے نہ رکھو.اور نہ ہی لڑکوں کی اس لئے شادیوں میں تاخیر کرو.تو یہ اب پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ قابل شادی لوگوں کی شادیاں کروانے کی طرف توجہ دے.اس زمانے میں بڑی فکر کے ساتھ قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوشش فرمائی ہے.اور خاص طور پر یہ کوشش اور توجہ فرمائی کہ احمدی لڑکیوں اور لڑکوں کے رشتے جماعت میں ہی ہوں تا کہ آئندہ نسلیں دین پر قائم رہنے والی نسلیں ہوں.آپ نے جماعت میں رشتے کرنے کے بارے میں آپس میں بڑی تلقین فرمائی ہے.ان لوگوں کے لئے جو غیروں میں رشتے کرتے ہیں.یہ ان کے لئے ہے.آپ فرماتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم اس کی بزرگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہو رہی ہے اور اب ہزاروں تک اس کی نوبت پہنچ گئی اور عنقریب بفضلہ تعالیٰ لاکھوں تک پہنچنے والی ہے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کروڑوں تک پہنچی ہوئی ہے." اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان کے باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لئے اور نیز ان کو اہل اقارب کے بداثر اور بدنتائج سے بچانے کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاح کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے.یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہوکر متعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیر ممکن ہو گئے ہیں جب تک کہ وہ تو بہ کر کے اسی جماعت میں داخل نہ ہوں.اور اب یہ جماعت کسی بات میں

Page 943

$2004 938 خطبات مسرور ان کی محتاج نہیں.مال میں ، دولت میں علم میں ، فضیلت میں، خاندان میں، پر ہیز گاری میں ، خدا ترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں.اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نے تعلق پیدا کرے جو ہمیں کافر کہتے ہیں اور ہمارا نام دجال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثنا خوان اور تابع ہیں.یعنی اگر خود نہیں کہتے لیکن جو لوگ کہنے والے ہیں ان کی تعریف کرتے ہیں.اور یادر ہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہماری جماعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں.جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑے گا اور ایک باپ بیٹے سے علیحدہ نہیں ہو گا تب تک وہ ہم میں سے نہیں.سو تمام جماعت توجہ سے سن لے کہ راست باز کے لئے ان شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے.اس لئے میں نے انتظام کیا ہے کہ آئندہ خاص میرے ہاتھ میں مستور اور مخفی طور پر یعنی Confidential ہوگا’ ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں.اور اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لڑکا نہ پاویں جو اپنی جماعت کے لوگوں میں سے ہوا اور نیک چلن اور نیز ان کے اطمینان کے موافق لائق ہو.ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں ان پر لازم ہوگا کہ وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں.اور ہر ایک کو تسلی رکھنی چاہئے کہ ہم والدین کے سچے ہمدرد اور غمخوار کی طرح تلاش کریں گے اور حتی الوسع یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی جو تلاش کئے جائیں اہل رشتہ کے ہم قوم ہوں.اور یا اگر یہ نہیں تو ایسی قوم میں سے ہوں جو عرف عام کے لحاظ سے با ہم رشتہ داریاں کر لیتے ہوں.اور سب سے زیادہ یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی نیک چلن اور لائق بھی ہوں اور نیک بختی کے آثار ظاہر ہوں.یہ کتاب پوشیدہ طور پر رکھی جائے گی اور وقتا فوقتا جیسی صورتیں پیش آئیں گی اطلاع دی جائے گی اور کسی لڑکے یا لڑکی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کی جائے گی جب تک اس کی لیاقت اور نیک چلنی ثابت نہ ہو جائے.بعض لوگ ویسے بھی پوچھ لیتے ہیں

Page 944

$2004 939 خطبات مسرور آکے پہلے بتاؤ.اس لئے ہمارے مخلصوں پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کی ایک فہرست اسماء ( ناموں کی ایک فہرست) بقید عمرو قومیت بھیج دیں تا وہ کتاب میں درج ہو جائے.(مجموعه اشتهارات جلد سوم - صفحه 51,50 یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے ایک اعلان تھا.اسی کے تحت اب یہ شعبہ رشتہ ناطہ مرکز میں بھی قائم ہے، تمام دنیا میں بھی قائم ہے ، بعض انفرادی طور پر بھی لوگ دلچسپی رکھتے ہیں.ان کے سپر د بھی یہ کام جماعتی طور پر کیا گیا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے رشتے طے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بعض مشکلات ہیں.اللہ تعالیٰ وہ بھی دور فرمائے لیکن اس میں ان لوگوں کا تسلی بخش جواب بھی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ باہر ہمیں رشتے کرنے کی اجازت ہونی چاہئے.فرمایا کہ اگر خود ایسے لوگ کا فرنہیں کہتے یا فتوے نہیں لگاتے لیکن ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، ان کی ہاں میں ہاں ملا تے ہیں.خوف کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتے ان کی مسجدوں میں جاتے ہیں ان کی باتیں سنتے ہیں تو وہ انہی لوگوں میں شامل ہیں اور ایسے لوگوں سے رشتہ داریاں نہیں کرنی چاہئیں.پھر آپ نے فرمایا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے نام بھیجیں.اب ہمارا یہ شعبہ رشتہ ناطہ ہے جیسا کہ میں نے کہا جماعت میں ہر جگہ قائم ہے ان کے خلاف عموماً یہ شکایات ہوتی ہیں کہ لڑکیوں کے رشتے نہیں کرواتے.اس کی ایک تو یہ وقت ہے کہ ماں باپ لڑکیوں کے نام بھجوا دیتے ہیں لیکن لڑکوں کے نام نہیں بھجواتے.اگر لڑ کے بھی فہرست میں ہوں تو پھر ہی رشتے کروانے میں سہولت بھی ہوگی.عموماً لڑکیوں کی تعداد نسبتا لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے.ٹھیک ہے.لیکن نسبت اتنی زیادہ ہی ہے کہ اگر 51-52 لڑکیاں ہیں تو 48 ،49 لڑکے ہوں گے.لیکن جو جماعت کے پاس کوائف آتے ہیں اس میں اگر 7-8 لڑکیوں کے کوائف ہوتے ہیں تو ایک لڑکے کے کوائف ہوتے ہیں.اس طرح تو پھر رشتے ملانے بہت مشکل ہو جاتے ہیں.اگر دونوں طرف کے مکمل کوائف آئیں تو رشتے کروانے میں سہولت ہوگی.لڑکوں کے رشتے بعض دفعہ ماں باپ دونوں ہی بلکہ اکثر خود کروانے کی کوشش کرتے ہیں.سوائے قریبی

Page 945

940 $2004 خطبات مسرور رشتہ داریوں کے یا عزیز داریوں کے لڑکوں کے رشتوں کے لئے بھی نام اور فہرست اور کوائف نظام جماعت کو مہیا ہونے چاہئیں.تبھی پھر لڑکیوں کے رشتے بھی ہو سکتے ہیں تا کہ آپس میں دیکھ کے طے کئے جاسکیں.اس لئے والدین کے علاوہ لڑکوں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ایک تو جماعت کے اندرلڑکیوں کا رشتہ طے کرنے کی کوشش کریں اور اگر اپنے عزیز رشتہ داروں میں نہیں ملتا تو جماعتی نظام کے تحت طے کرنے کی کوشش کریں.اور پھر بعض لوگ خاندانوں اور ذاتوں اور شکلوں وغیرہ کے مسئلے میں الجھ جاتے ہیں.تھوڑا سا میں نے پہلے بھی بتایا تھا اور پھر انکار کر دیتے ہیں.پھر ان مسئلوں میں اس طرح الجھتے ہیں تو پھر لڑکیوں کے رشتے طے کرنے میں دقت پیش آتی ہے.تو یہ ذاتیں وغیرہ بھی اب چھوڑنی چاہئیں.اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ جو مختلف ذاتیں ہیں یہ کوئی وجہ شرافت نہیں.خدا تعالیٰ نے محض عرف کے لئے یہ ذاتیں بنائی ہیں اور آجکل تو صرف بعد چار پشتوں کے حقیقی پتہ لگانا ہی مشکل ہے.متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے.جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ میرے نزدیک ذات کی کوئی سند نہیں.حقیقی مکرمت اور عظمت کا باعث فقط تقویٰ ہے تو پھر ان چیزوں کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ پر چلتے ہوئے رشتے قائم کرنے کی توفیق دے.بچوں کے رشتے کروانے کی توفیق دے اور قرآنی حکم کے مطابق یتیموں، بیواؤں ہر ایک کے رشتے کروانے کی توفیق دے نظام جماعت کو بھی اور لوگوں کو بھی معاشرے کو بھی.اور سب بچیاں جن کے والدین پریشان ہیں ان سب کی پریشانیاں دور فرمائے.آمین

Page 946

$2004 941 53 خطبات مسرور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں ، جماعتی عہد یدار بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنے رویوں میں ایک تبدیلی پیدا کریں 31 دسمبر 2004ء بمطابق 31 دسمبر 1383 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت السلام.پیرس.فرانس ) تمام جماعت کا نظام ، نظام خلافت کے گرد گھومتا ہے یعنی ہر ایک کا خلیفہ وقت سے رابطہ ہوتا ہے عہدیداران کے انتخاب کے لئے بنیادی ہدایات منتخب عہدیداران کے فرائض اور ان کو نصائح عہد یداران کا احباب جماعت سے کس قسم کا رویہ سلوک ہونا چاہئے ہ جماعت کے اخلاص وفا میں اللہ کے فضل سے مسلسل ترقی ہو رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں حاسدوں کی جلن میں اضافہ.

Page 947

خطبات مسرور $2004 942 تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا إنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ.إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيْعًا بَصِيْرًا.(سورة النساء آیت : 59) یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت جماعت میں جاری فرمایا اور اس نظام خلافت کے گرد جماعت کا محلہ کی سطح یا کسی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر شہری اور ملکی سطح تک کا نظام گھومتا ہے.یعنی کسی چھوٹی سے چھوٹی جماعت کے صدر سے لے کر ملکی امیر تک کا بلا واسطہ یا بالواسطہ خلیفہ وقت سے رابطہ ہوتا ہے.پھر ہر شخص انفرادی طور پر بھی رابطہ کر سکتا ہے.ہر فرد جماعت خلیفہ وقت سے رابطہ رکھتا ہے.لیکن اگر کسی جماعتی عہدیدار سے کوئی شکوہ ہو یا شکایت ہو اور خلیفہ وقت تک پہنچانی ہو تو ہر ایک کے انفرادی رابطے کے باوجود اس کو یہ شکایت امیر کے ذریعے ہی پہنچانی چاہئے اور امیر ملک کا کام ہے کہ چاہے اس کے خلاف ہی شکایت ہو وہ اسے آگے پہنچائے اور اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہے تو وضاحت کر دے تاکہ مزید خط و کتابت میں وقت ضائع نہ ہو.لیکن شکایت کرنے والے کا بھی کام ہے کہ اپنی کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی عہدیدار کے خلاف شکایت کرتے ہوئے اسے جماعتی رنگ نہ دے.تقویٰ سے کام لینا چاہئے.بعض دفعہ بعض کم علم یا جن میں دنیا کی مادیت نے اپنا اثر ڈالا ہوتا ہے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جماعت کے وقار اور روایات کے خلاف ہوتی ہیں اس لئے ایسے کمزوروں یا

Page 948

943 $2004 خطبات مسرور کم علم رکھنے والوں کو سمجھانے کے لئے میں یہ بتا رہا ہوں کہ ایسی باتوں سے پر ہیز کرنا چاہئے.عہدیداروں کا چناؤ آپ انتخاب کے ذریعے سے کرتے ہیں.عموماً اسی طرح ہوتا ہے، سوائے اس کے کہ بعض خاص حالات میں بعض جگہ نامزدگی کر دی جائے اور یہ جو نامزدگی ہے یہ بھی مرکز یا خلیفہ وقت کی منظوری سے ہوتی ہے.تو بہر حال جب یہ انتخاب اکثریت کی خواہش کے مطابق ہو جاتا ہے تو پھر جس نے منتخب عہدیدار کو ووٹ نہیں بھی دیا اس کا بھی کام ہے کہ مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ عہدیدار کے ساتھ رہے.پھر تمام جماعت اگر اس طرح رہے گی تو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بن کے رہے گی ، بنیان مرصوص کی طرح بن کے رہے گی.یہ تمام باتیں میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ خدانخواستہ کہیں سے کوئی بغاوت کی بو آ رہی ہے یا کہیں کوئی مسئلہ کھڑا ہوا ہے.یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ بعض دنیا دار جیسا کہ میں نے کہا اپنی کم علمی یا بے وقوفی یا دنیا داری کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں.اور بعض دفعہ جماعت میں نئے شامل ہونے والے ایسی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں.اور اس کے علاوہ یہ نومبائعین کی اپنی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو نظام جماعت کے بارے میں، عہدیداروں کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا جائے.کیونکہ نئے آنے والوں کے ذہنوں میں سوال اٹھتے رہتے ہیں.بہر حال الہی وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں یہ نظام، نظام خلافت کے ساتھ قائم رہنا ہے اور اب یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے.کوئی مخالف یا کوئی دشمن اب اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا انشاء اللہ.لیکن ہمیں اپنے ذہنوں میں بعض باتیں تازہ رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً ان باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے.تا کہ جو پرانے احمدی ہیں ان کے ذہنوں میں بھی یہ باتیں تازہ رہیں اور اس کے ساتھ ہی نو مبائعین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں.اور کبھی کسی کے ذہن میں کسی قسم کی بے چینی پیدا نہ ہو.ب سے پہلے تو ہم قرآن کریم سے رہنمائی لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا فرمایا ہے یا

Page 949

$2004 944 خطبات مسرور کیا فرماتا ہے کہ اپنے عہدیداروں کا چناؤ کس طرح کرو.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو.یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے یقینا اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے.پہلی بات تو یہ کہ عہدیدار چننے والوں کو فرمایا کہ عہدے اُن کو دو، اُن لوگوں کو منتخب کرو جو اس کے اہل ہوں.اس قابل ہوں کہ جس کام کے لئے انہیں منتخب کر رہے ہو وہ اس کو کر سکیں ، وقت دے سکیں.یہ نہیں کہ چونکہ تمہارے تعلقات ہیں، اس لئے ضرور اس عہدے کے لئے اسی کو منتخب کرنا ہے یا ضرور اسی کو اس عہدے کے لئے ووٹ دینا ہے.اس میں ایک بہت بڑی ذمہ داری چناؤ کرنے والوں پر منتخب کرنے والوں پر ڈالی گئی ہے.اس لئے جو ووٹ دینے کے جماعتی قواعد کے تحت حقدار ہیں، ہرممبر تو ووٹ نہیں دیتا.جو بھی ووٹ دینے کا حقدار ہے ان کو ہمیشہ دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہئے کہ جو بہتر ہو اس کو ووٹ دے سکے.یہاں ضمناً یہ بھی بتادوں کہ بعض دفعہ بعض افراد پر کسی وجہ سے پابندی لگی ہوتی ہے کہ وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے.اس لئے اس بارے میں ضد نہیں کرنی چاہئے کہ کیونکہ ہمارے نزد یک فلاں شخص ہی اس کام کے لئے موزوں تھا یا موزوں ہے اس لئے اسی کو ہم نے ووٹ دینا تھا اور اس کی اجازت دی جائے ورنہ ہم انتخاب میں شامل نہیں ہوتے.یہ غلط طریق ہے.اطاعت کا تقاضا یہ ہے اور نظام جماعت کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کوئی فیصلہ ہو گیا ہے کہ کسی شخص کو حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے تو پھر اس بارے میں اصرار نہیں کرنا چاہئے.یہاں ضمناً یہ بتا دوں، آپ لوگ پریشان ہو رہے ہوں گے.بعض لوگ دنیا میں بھی اندازے لگانے شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہ خطبہ فرانس میں دیا جا رہا ہے اس لئے شاید یہاں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے.تو واضح کر دوں کہ یہاں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 950

$2004 945 خطبات مسرور بڑی مخلص جماعت ہے اور یورپ میں میرے علم کے مطابق یہ واحد جماعت ہے جس میں پاکستانی اور غیر پاکستانی کی نسبت شاید 40:60 کی ہوگی اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں دوسرے شامل ہورہے ہیں بعید نہیں کہ چند سالوں میں پاکستانی تھوڑے رہ جائیں اور غیر پاکستانی اور دوسری قوموں کے لوگ زیادہ ہو جائیں.اور جو بھی اس وقت تک احمدی ہوئے ہیں.غیر ملکیوں میں سے (غیر ملکیوں سے مراد ہے کہ فرانس میں بھی دوسرے ملکوں کے لوگ احمدی ہوئے ہیں ) یہ لوگ صرف نام کے احمدی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح نظام جماعت کا حصہ ہیں اور جلسہ سالانہ پر بھی بڑی ذمہ داری کے ساتھ بڑے شوق کے ساتھ اپنی ڈیوٹیاں دی ہیں.جماعتی ترقی کے لئے انتہائی جذبات رکھنے والے لوگ ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو ایمان اور اخلاص میں اور بھی بڑھاتا چلا جائے.تو بہر حال میں یہ بتا رہا تھا کہ فرانس میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی.کسی اور مغربی ملک کے ایک شہر میں ایسے بعض سوال اٹھے تھے.اور ترقی کرنے والی قو میں کیونکہ اپنی کمزوریوں سے آنکھیں بند نہیں کر لیا کرتیں اس لئے میں نے آج اس مضمون کو لیا ہے تاکہ کمزوروں کی اصلاح بھی ہو جائے اور نو مبائعین کی تربیت بھی ہو جائے اور ساتھ ہی ان کمزور لوگوں کے لئے جماعت کے لوگ دعا بھی کر سکیں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمانوں میں مضبوطی عطا فرمائے.تو بہر حال میں یہ بتا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام احباب جماعت پر جن کو حسب قواعد چناؤ کا انتخابات میں حق دیا گیا ہے یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ سوچ سمجھ کر اہل کو منتخب کرو.اور یہ بھی ذہن میں رہے، منتخب کرنے والوں کے اور جو منتخب ہورہے ہیں ان کے بھی، بعض دفعہ لمبا عرصہ کر کے بعض ذہنوں میں باتیں آ جاتی ہیں کہ کوئی عہدہ جماعت میں کسی کا پیدائشی حق نہیں ہے، کوئی مستقل حق نہیں ہے.اس لئے جو خدمت کا موقع ملتا ہے وہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا فضل ہو تو اللہ تعالیٰ خود ہی خدمت کا موقع دے دیتا ہے.خود کبھی خواہش نہیں کرنی.اس لئے اشارۃ بھی کبھی کسی قسم کا یہ اظہار نہیں ہونا چاہئے کہ مجھے عہدیدار بناؤ.نہ کسی کے دوست یا عزیز کو یہ حق

Page 951

$2004 946 خطبات مسرور حاصل ہے کہ کسی شخص کے حق میں ہلکا سا بھی اشارہ یا کنایۂ اظہار کرے کہ اس کو ووٹ دیا جائے.اگر نظام جماعت کو پتہ چل جاتا ہے تو پھر جس کے حق میں پہلے پراپیگنڈہ کیا گیا ہے اس کو بھی اور جو پراپیگنڈہ کرنے والا ہے یا جس نے کوئی بات کسی کے لئے کہی ہو انتخابات سے پہلے، اس کو بھی انتخابات میں شامل ہونے سے روکا جاسکتا ہے.اس حق سے محروم کیا جا سکتا ہے اور کر بھی دیا جاتا ہے.اس لئے یہ جو جماعت کے انتخاب ہیں ان کو خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے خدمت گزاروں کی ٹیم چننے والا تصور کر کے انتخاب کرنا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ نے منتخب عہدیداران کی ذمہ داری بھی لگائی ہے کہ تمہیں جب منتخب کر لیا جائے تو پھر اس کو قومی امانت سمجھو.اس امانت کا حق ادا کر و.اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھاؤ.اپنے وقت میں سے بھی اس ذمہ داری کے لئے وقت دو.جماعتی ترقی کے لئے نئے نئے راستے تلاش کرو.اور تمہارے فیصلے انصاف اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہونے چاہئیں.کبھی تمہاری ذاتی انا، رشتہ داریوں یا دوستیوں کا پاس انصاف سے دور لے جانے والا نہ ہو.کبھی کسی عہدیدار کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ فلاں شخص نے مجھے ووٹ نہیں دیا تھا.یا فلاں کا نام میرے مقابلے کے لئے پیش ہوا تھا اس لئے مجھے کبھی موقع ملا، کبھی کسی معاملے میں تو اس کو بھی تنگ کروں گا.یہ مومنانہ شان نہیں ہے بلکہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی ہے یہ ایسی نصیحت ہے کہ تم دونوں، ووٹ دے کر منتخب کرنے والو اور عہدیدار و دونوں، کے لئے بڑی اعلیٰ نصیحت ہے کہ ووٹ دینے والا سوچ سمجھ کر ووٹ دے اور جو شخص منتخب ہو جائے وہ بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرے.اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے.اللہ تعالیٰ ہر عہدیدار کو چاہے وہ جماعتی عہد یدار ہوں یا ذیلی تنظیموں کے عہد یدار ہوں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا افراد جماعت کو بھی اور عہدیداران کو بھی یہ توجہ دلائی ہے

Page 952

$2004 947 خطبات مسرور کہ اس کے بعد بھی دعاؤں میں لگے رہو.ہر عہدیدار انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ سے دعا مانگے کہ وہ اسے ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر فرد جماعت یہ دعا کرے کہ جو عہد یدار منتخب ہوئے ہیں وہ ہمیشہ اس امانت کے ادا کرنے کے حق کو اس کے مطابق ادا کرتے رہیں.اور کبھی کوئی مشکل نہ آئے ، کبھی کوئی ابتلاء نہ آئے جو عہد یدار اور افراد جماعت کے لئے کسی بھی قسم کی ٹھوکر کا باعث بنے.اگر اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ یہ عہد یدار جو انہوں نے منتخب کیا ہے وہ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہا تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایسے انتظامات فرمائے کہ اسے بدل دے تا کہ کبھی نظام جماعت پر بھی کوئی حرف نہ آئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس طرح دونوں مل کر دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت سے کی گئی دعاؤں کو سنے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کے لئے اور دین کی خدمت کرنے والوں پر بڑی گہری نظر ہوتی ہے.وہ بڑی گہری نظر رکھتا ہے.وہ دیکھ رہا ہے، وہ دلوں کا حال جانتا ہے.وہ اس درد کی وجہ سے جو تمہارے دل میں ہے ہمیشہ بہتری کے سامان پیدا فرما تا رہے گا اور ہمیشہ تمہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط رکھے گا.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر قسم کی ٹھوکر سے بچائے.اب میں ذرا وضاحت سے عہدیداران کا احباب جماعت سے کس قسم کا رویہ یا سلوک ہونا چاہئے اس کے بارے میں کچھ بتاؤں گا.اور پھر احباب جماعت ،افراد جماعت عہد یداروں سے کیسا رویہ رکھیں.عہدیداروں کو تو ایک اصولی ہدایت قرآن نے دے دی ہے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے ہیں.اگر کوئی غور کرے اور سوچے کہ انصاف کے کیا کیا تقاضے ہیں تو اس کے بعد کچھ بات رہ نہیں جاتی.لیکن ہر کوئی اس طرح گہری نظر سے سوچتا نہیں.اس طرح سوچا جائے جس طرح ایک تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والا سوچتا ہے تو پھر تو اس کی یہ سوچ کر ہی روح فنا ہو جاتی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں.لیکن نصیحت کیونکہ فائدہ دیتی ہے جیسا کہ میں نے کہا باتوں سے اور جگالی کرتے رہنے سے یاد دہانی ہوتی رہتی ہے.بعض باتوں کی وضاحت ہو جاتی

Page 953

خطبات مسرور 948 ہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ مزید ذرا وضاحت کھول کر کر دی جائے.$2004 پہلی بات تو یہ ہے کہ عہدیدار اس بات کو یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ حکم فرمایا ہے کہ وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: 135 ) یعنی غصہ دیا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوں.تو اس کے سب سے زیادہ مخاطب عہدیداروں کو اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے.کیونکہ ان کی جماعت میں جو پوزیشن ہے جوان کا نمونہ جماعت کے سامنے ہونا چاہئے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو عاجز بنا ئیں.اگر اصلاح کی خاطر کبھی غصے کا اظہار کرنے کی ضرورت پیش بھی آ جائے تو علیحدگی میں جس کی اصلاح کرنی مقصود ہو، جس کا سمجھانا مقصود ہو اس کو سمجھا دینا چاہئے.تمام لوگوں کے سامنے کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہئے اور ہر وقت چڑ چڑے پن کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے.یا کسی بھی قسم کے تکبر کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے.اصلاح کبھی چڑنے سے نہیں ہوتی بلکہ مستقل مزاجی سے در در کھتے ہوئے اور دعا کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جانے سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے.اور ایک آدھ دفعہ کی جو غلطی ہے، اگر کوئی عادی نہیں ہے تو اصلاح کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ عفو سے کام لیا جائے.معاف کر دیا جائے ، درگزر کر دیا جائے.اس لئے یہاں بھی (مراد فرانس میں ) اور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں، جماعتی عہدیدار بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنے رویوں میں ایک تبدیلی پیدا کریں.لوگوں سے پیار اور محبت کا سلوک کیا کریں.خاص طور پر بعض جگہ لجنہ کی طرف سے شکایات زیادہ ہوتی ہیں اور ان میں بھی خاص طور پر بچیوں یا نو جوان بچیوں اور نئے آنے والیوں جنہوں نے نظام کو پوری طرح سمجھا نہیں ہوتا، ان کے لئے تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اس لئے ان کے لئے بہت خیال رکھنا چاہئے.کیونکہ تربیت کرنے کی جیسی آپ چھاپ لگا دیں گے بچوں پر بھی اور نئے آنے والوں پر بھی.آئندہ نمونہ بھی ویسے ہی نکلیں گے، آئندہ عہدیدار بھی ویسے ہی بنیں گے.تو

Page 954

$2004 949 خطبات مسرور خلاصہ یہ کہ غصے کو دبانا ہے اور عفو سے کام لینا ہے درگزر سے کام لینا ہے.لیکن یہ نرمی بھی اس حد تک نہ ہو کہ جماعت میں بگاڑ پیدا ہو جائے.ایسی صورت میں بہر حال اصلاح کی کوشش بھی کرنی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ جو عادی نہیں ہیں ان کو تو معاف کر کے بھی اصلاح ہو سکتی ہے لیکن اگر جماعت میں فتنے کا خطرہ ہو تو پھر معافی کی کوئی صورت نہیں ہوتی.اور پھر یہ ہے کہ اگر ایسی بات ہو تو نہ صرف مقامی طور پر اس کی اصلاح کرنی ہے بلکہ اس کی مرکز کو بھی اصلاح کرنی چاہئے.لیکن سختی ایسی نہ ہو، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جن کی اصلاح نرمی سے ہو سکتی ہے کہ وہ نو جوان اور نئے آنے والے دین سے ہی متنفر ہو جائیں.پھر عہدیداروں میں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر اپنے خلاف ہی شکایت ہو تو سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے.ہمیشہ سچی بات کہنے سننے کرنے کی عادت ڈالیں.چاہے جتنا بھی کوئی عزیز یا قریبی دوست ہو اگر اس کی صحیح شکایت پہنچتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے.اگر یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ معذرت کر دیں کہ فلاں وجہ سے میں اس کام سے معذرت چاہتا ہوں.کیونکہ کسی ایک شخص کا کسی خدمت سے محروم ہونا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ پوری جماعت میں یا جماعت کے ایک حصے میں بے چینی پیدا کی جائے.یادرکھیں جو عہدہ بھی ملا ہے چاہے وہ جماعتی عہدہ ہو یا ذیلی تنظیموں کا عہدہ ہو اس کو ایک فضل الہی سمجھیں.پہلے بھی بتا آیا ہوں اس کو اپنا حق نہ سمجھیں.یہ خدمت کا موقع ملا ہے تو حکم یہی ہے کہ جو لیڈر بنایا گیا ہے وہ قوم کا خادم بن کر خدمت کرے.صرف منہ سے کہنے کی حد تک نہیں.چار آدمی کھڑے ہوں تو کہہ دیا جی میں تو خادم ہوں بلکہ عملاً ہر بات سے ہر فعل سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ واقعی خدمت کرنے والے ہیں اور اگر اس نظریے سے بات نہیں کہہ رہے تو یقیناً پوچھے جائیں گے.جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو پوری طرح ادانہ کرنے کی وجہ سے یقیناً جواب طلبی ہوگی.ایک روایت میں آتا ہے حضرت معقل بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی

Page 955

950 $2004 خطبات مسرور اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی اور اپنے فرائض کی ادائیگی اور ان کی خیر خواہی میں کوتا ہی کرتا ہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالی اس کے لئے جنت حرام کر دے گا.اور اسے بہشت نصیب نہیں کرے گا.(مسلم کتاب الايمان ـ باب استحقاق الوالى الغاش لرعية النار) اب دیکھیں اس انذار کے بعد کون ہے جو بڑھ بڑھ کر اختیارات کو حاصل کرنے کی خواہش کرے یا عہدے کو حاصل کرنے کی خواہش کرے.یہ تو ایسا خوف کا مقام ہے کہ اگر صحیح فہم اور ادراک ہو تو انسان ایک کونے میں لگ کے بیٹھ جائے.پس عہد یدار اس فضل الہی کی قدر کریں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کریں.اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں.اللہ تعالیٰ کا غضب لینے کی بجائے اس کی محبت حاصل کرنے والے بنیں.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور اس کے زیادہ قریب انصاف پسند حا کم ہوگا اور سخت ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہوگا.(ترمذی ابواب الاحكام باب فى الامام العادل پس سب کو چاہئے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے محبوب بنیں.اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے وہ طریقے اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کے رسول نے بتائے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ عمر و بن مرہ نے حضرت معاویہؓ سے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو امام حاجتمندوں، ناداروں غریبوں کے لئے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات وغیرہ کے لئے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے.حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کو سننے کے بعد حضرت معاویہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کا مداوا کیا کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے.(ترمذى كتاب الاحكام باب في امام الرعية)

Page 956

$2004 951 مسرور پس لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کریں، اپنے بھائیوں سے، بہنوں سے اس لئے پیار اور محبت کا سلوک کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اس کا محبوب بننا ہے.اور یا درکھیں امراء بھی ، صدران بھی اور عہدیداران بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداران بھی کہ وہ خلیفہ وقت کے مقرر کردہ انتظامی نظام کا ایک حصہ ہیں اور اس لحاظ سے خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.اس لئے ان کی سوچ اپنے کاموں کو اپنے فرائض کو انجام دینے کے لئے اسی طرح چلنی چاہئے جس طرح خلیفہ وقت کی.اور انہیں ہدایات پر عمل ہونا چاہئے جو مرکزی طور پر دی جاتی ہیں.اگر اس طرح نہیں کرتے تو پھر اپنے عہدے کا حق ادا نہیں کر رہے.جو اس کے انصاف کے تقاضے ہیں وہ پورے نہیں کر رہے.پھر عہدے کی خواہش کرنا ہے پہلے بھی میں نے کہا کہ یہ ایک ایسی بات ہے جو جماعت میں بڑی معیوب سمجھی جاتی ہے اور ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جو اس بارے میں کوشش کرتا ہے.اس بارے میں ایک حدیث میں اس طرح آتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن سمرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے عبدالرحمن ! تو امارت اور حکومت نہ مانگ.اگر تجھے بغیر مانگے یہ عہدہ ملے تو اس ذمہ داری کے بارے میں تیری مدد کی جائے گی.یعنی خواہش نہ ہو اور پھر عہدہ مل جائے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے اور اپنے بندے کی مدد کرتا ہے.اور اگر تیرے مانگنے پر تجھے یہ عہدہ دیا گیا ہے تو تو پھر اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہوگا.ذراسی بھی غلطی ہوگی تو پکڑ بہت زیادہ ہوگی.اور جب تو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق قسم کھائے اور پھر اس قسم سے برعکس تجھے بہتر بات نظر آئے تو وہ بہتر بات کر اور اپنی قسم کو توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کر دے.(بخاری کتاب الاحکام ).یہی ہے کہ عہدیداران کو بھی بعض دفعہ قسم تو نہیں کھاتے لیکن بعض ضد میں ہوتی ہیں کہ یہ کام اس طرح نہیں ہونا چاہئے تو اگر جماعت کے مفاد میں ہو تو پھر تمہاری ضدیں یا تمہاری قسمیں زیادہ اہم نہیں ہیں.ان کو ختم کرو.یہ جماعت کے مفاد میں حائل نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اس طرح کام ہونا

Page 957

$2004 952 خطبات مسرور چاہئے جس طرح جماعت کے حق میں بہترین ہو.پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو.اور اچھی خبر ہی دیا کرو اور لوگوں کو بد کا یا نہ کرو.(صحیح البخاری کتاب العلم باب ما كان النبي يتخولهم بالموعظة والعلم كي لا ينفروا) تو اصولی قواعد بھی اس لئے ہیں کہ صحیح سمت میں چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر پر چلتے ہوئے لوگوں کے لئے بہتری اور آسانی پیدا کی جائے.تمہاری ضدیں، تمہاری قسمیں تمہاری انا ئیں کبھی بھی کسی بات میں حائل نہ ہوں جس سے لوگ تنگ ہوں.اگر کوئی قاعدہ بن بھی گیا ہے یا کوئی فیصلہ ہو بھی گیا ہے اگر اس سے لوگ تنگ ہو رہے ہیں تو بدلا جا سکتا ہے.انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ لوگ ہمیشہ تمہارے پاس خوشی کی خبروں اور محبت اور پیار کے پیغاموں کے لئے اکٹھے ہوا کریں.نہ کہ تنگ ہونے کے لئے دور بھاگتے چلے جائیں.پھر دنیا میں ہر جگہ جماعتی عہدیداروں کی ایک یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مبلغین یا جتنے واقفین زندگی ہیں ان کا ادب اور احترام اپنے دل میں بھی پیدا کیا جائے اور لوگوں کے دلوں میں بھی.ان کی عزت کرنا اور کروانا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا، حسب گنجائش اور توفیق ان کے لئے سہولتیں مہیا کرنا، یہ جماعت کا اور عہدیداران کا کام ہے تاکہ ان کے کام میں یکسوئی رہے.وہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے کر سکیں.وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے فرائض کی ادائیگی کر سکیں.اگر مربیان کو عزت کا مقام نہیں دیں گے تو آئندہ نسلوں میں پھر آپ کو واقفین زندگی اور مربیان تلاش کرنے بھی مشکل ہو جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی جاری کردہ واقفین نو کی تحریک کے تحت بہت سے واقفین نو بچے وقف کے میدان میں آ رہے ہیں.لیکن جتنا جائزہ میں نے لیا ہے میرے خیال میں جتنے مبلغین کی ضرورت ہے اتنے اس میدان میں نہیں آ رہے دوسری فیلڈز (Fields) میں جا رہے ہیں.بہر حال جب مربی کو مقام دیا جائے گا، گھروں میں ان کا نام عزت واحترام سے لیا جائے گا، ان کی خدمات کو سراہا جائے گا تو یقیناً ان ذکروں سے

Page 958

953 $2004 خطبات مسرور گھر میں بچوں میں بھی شوق پیدا ہو گا کہ ہم وقف کر کے مربی بنیں.تو اس لحاظ سے بھی عہد یداران کو خیال کرنا چاہئے.چھوٹے موٹے اختلافات کو ایشو (Issue) نہیں بنا لینا چاہئے جس سے دونوں طرف بے چینی پھیلنے کا اندیشہ ہو.لیکن واقفین زندگی اور مربیان سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا چاہے آپ کے مقام کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن اللہ کی راہ میں قربانی کا جو آپ نے عہد کیا ہے اور پھر اس کو نیک نیتی سے خدا کی خاطر نبھا رہے ہیں تو دنیا کے لوگوں کی ذرا بھی پرواہ نہ کریں.چاہے اپنوں کے چر کے ہوں یا غیروں کے چر کے ہوں جو بھی لگتے ہیں ان پر خدا کے آگے جھکیں.آپ جماعتی نظام میں تعلیم و تربیت کے لئے ، دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ، خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.یہ آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.خلیفہ وقت نے بہت سی ایسی باتوں پر آپ پر انحصار کیا ہوتا ہے جن پر بعض فیصلے ہوتے ہیں.اس لئے اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہر دنیاوی اونچ نیچ کو دل سے نکال دیں اور یکسوئی سے وہ کام سر انجام دیں جو آپ کے سپرد کئے گئے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کی خاطر یہ چر کے برداشت کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کی سہولت کیلئے سامان بھی پیدا فرما تار ہے گا.ذہنی کوفت کو دور کرنے کے لئے سامان بھی فرماتا رہے گا.مربیان کے گھروں میں بھی عہدیداروں کے رویوں کے متعلق بچوں کے سامنے کبھی باتیں نہیں ہونی چاہئیں.اپنی بیویوں کو بھی سمجھا ئیں کہ واقف زندگی کی بیوی بھی وقف زندگی کی طرح ہی ہوتی ہے یا ہونی چاہئے یا یہ سوچ رکھنی چاہئے.اس لئے ہر بات صبر اور حوصلے سے برداشت کرنی ہے.اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑانا ہے،ا س کے حضور جھکنا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا.اب عہدیداروں کو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ لوگوں کے لئے پیار اور محبت کے پر پھیلائیں.خلیفہ وقت نے آپ پر اعتماد کیا ہے.اور آپ پر اعتماد کرتے ہوئے اس پیاری جماعت کو آپ کی کمرانی میں دیا ہے.ان کا خیال رکھیں.ہر ایک احمدی کو یہ احساس ہو کہ ہم محفوظ پروں کے نیچے

Page 959

$2004 954 خطبات مسرور ہیں.ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملیں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو.بعض عہد یدار میں نے دیکھا ہے بڑی سخت شکل بنا کر دفتر میں بیٹھے ہوتے ہیں یا ملتے ہیں.ان کو ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ پر عمل کرنا چاہئے جس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ملاقات سے منع نہیں فرمایا اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے تھے.(بخاری کتاب الأدب باب التبسم والضحك).تو کوئی پابندی نہیں تھی جب بھی ملتے مسکرا کر ملتے.بعض عہد یداروں کے متعلق شکوہ ہے کہ لوگ کسی کام کے لئے عہد یداروں کے پاس اپنے کام کا حرج کر کے جاتے ہیں تو بعض عہدیدار امراء، بعض دفعہ مہینہ مہینہ نہیں ملتے.ہو سکتا ہے اس میں کچھ مبالغہ بھی ہو کیونکہ شکایت کرنے والے بعض دفعہ مبالغہ بھی کر جاتے ہیں لیکن دنوں بھی کسی سے کیوں چکر لگوائے جائیں.اس لئے امراء کو چاہئے کہ وقت مقرر کریں کہ اس وقت دفتر ضرور حاضر ہوں گے اور پھر اس وقت میں لوگوں کی ضروریات پوری کریں.بعض امراء یہ کرتے ہیں کہ اپنے نمائندے بٹھا دیتے ہیں اور ان نمائندوں کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ فلاں فیصلہ بھی کرنا ہے.اب اگر اس فیصلے کے لئے جانا پڑے تو پھر ان کو انتظار کرنا پڑتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ امراء خود جائیں یا پھر اپنے نمائندے کو پورے اختیار دیں کہ جو تم نے کرنا ہے کرو.سیاہ وسفید کے مالک ہو.پھر امیر بننے کی ضرورت ہی نہیں ہے پھر تو اسی کو امیر بنا دینا چاہئے.پھر مسکراتے ہوئے اور خوش دلی سے ملیں.جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا معیار بڑا اونچا ہے.ہر احمدی، اگر امیر مسکرا کر ملتا ہے تو اس کی مسکراہٹ پر ہی خوش ہو جاتا ہے، چاہے کام ہو یا نہ ہو.اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا.معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو.اگر چہ اپنے بھائی.ނ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی نیکی ہو.(مسلم کتاب البر والصلة باب استحباب طلاقة

Page 960

955 $2004 خطبات مسرور الوجه عند اللقاء).تو مسکرا کر ملنا اور بھائی کے جذبات کا خیال رکھنا بھی نیکی ہے.تو نیکیوں کا پلڑا تو جتنا بھی بھاری کیا جائے اتنا ہی کم ہے.اس لئے عہدیداران کو ، امراء کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے.اب میں افراد جماعت کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا نظام جماعت میں کیا کردار ہونا چاہئے.پہلی بات یاد رکھیں کہ جتنے زیادہ افراد جماعت کے معیار اعلیٰ ہوں گے اتنے زیادہ عہد یداران کے معیار بھی اعلیٰ ہوں گے.پس ہر کوئی اپنے آپ کو دیکھے اور ان معیاروں کو اونچا کرنے کی کوشش کرے اور اپنے فرائض یعنی ایک فرد جماعت کے عہدیدار کے لئے کہ اطاعت کرنی ہے اس کے بھی اعلیٰ نمونے دکھائیں.یہ نمونے جب آپ دکھا رہے ہوں گے تو اپنی نسلوں کو بھی بچا رہے ہوں گے.انہی نمونوں کو دیکھتے ہوئے آپ کی اگلی نسل نے بھی چلنا ہے اور انہیں نمونوں پر جو نسلیں قائم ہوں گی وہ آئندہ جب عہد یدار بنیں گی تو وہ وہی نمونے دکھا رہی ہوں گی جو اعلیٰ اخلاق کے نمونے ہوتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی.جس نے حاکم وقت کی اطاعت کی ، اس نے میری اطاعت کی ،اور جو حاکم وقت کا نافرمان ہے وہ میرا نا فرمان ہے.(صحیح مسلم كتاب الامارة - باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية وتحريمها في المعصية امیر کی اور نظام جماعت کی اطاعت کے بارے میں یہ حکم ہے.لوگ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم خلیفہ کی اطاعت سے باہر نہیں ہیں ہمکمل طور پر اطاعت میں ہیں ، ہر حکم مانے کو تیار ہیں.لیکن فلاں عہد یدار یا فلاں امیر میں فلاں فلاں نقص ہے اس کی اطاعت ہم نہیں کر سکتے.تو خلیفہ وقت کی اطاعت اسی صورت میں ہے جب نظام کے ہر عہدیدار کی اطاعت ہے.اور تب ہی اللہ کے رسول کی اور اللہ کی اطاعت ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنگدستی اور خوشحالی ، خوشی

Page 961

$2004 956 خطبات مسرور اور نا خوشی حق تلفی اور ترجیحی سلوک غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ) فرمایا کہ جو حالات بھی ہوں تمہاری حق تلفی بھی ہو رہی ہو ، تمہارے سے زیادتی بھی ہو رہی ہو تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہ بھی ہو اور دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک ہو رہا ہو، تب بھی تم نے کہنا ماننا ہے.سامنے لڑائی جھگڑے کے لئے کھڑے نہیں ہو جانا.کسی بات سے انکار نہیں کر دینا.بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ اطاعت کرو.یہ بہر حال نظام جماعت میں بھی حق ہے کہ اگر کوئی غلط بات دیکھیں تو خلیفہ وقت کو اطلاع کر دیں اور پھر خاموش ہو جائیں، پیچھے نہیں پڑ جانا کہ کیا ہوا، کیا نہیں ہوا.اطلاع کر دی ، بس ٹھیک ہے.حضرت عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت کے وقت عہد لیا کہ تنگی ہو یا آسائش، خوشی ہو یا نا خوشی ، ہر حال میں آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے.نیز ہم ان لوگوں سے جو کام کے اہل اور صاحب اقتدار ہیں، مقابلہ نہیں کریں گے سوائے اس کے کہ ہم کھلا کھلا کفر دیکھیں اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی برہان آجائے کہ حکام غلطی پر ہیں.نیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے بارے میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے اور حق بات کہیں گے.(صحیح مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء تو مطلب یہی ہے کہ اطاعت کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ حق بات کہنی ہے.سوائے شریعت کے واضح حکم کی کوئی خلاف ورزی کر رہا ہو تو پھر اطاعت نہ کریں جس طرح حکومت پاکستان نے احمدیوں پر پابندی لگا دی ہے کہ نمازیں نہیں پڑھنیں.تو یہ تو ہمارا ایک حق ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کرنا.اور شریعت کے قانون پر تو کوئی قانون بالا نہیں ہے اس لئے احمدی نمازیں پڑھتا ہے.اس کے علاوہ ہر ملکی قانون کی ہر طرح پابندی کی جاتی ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو.یہ جو دوالفاظ ہیں ان کو اپنا شعار بناؤ، یہی

Page 962

$2004 957 خطبات مسرور تمہارا طریق ہونا چاہئے.خواہ ایک حبشی غلام کو ہی کیوں نہ تمہارا افسر مقرر کر دیا جائے.کسی کو حقیر اور کمزور سمجھتے ہوا گر وہ بھی تمہارا امام ہے تو اطاعت کرو.( صحیح بخاری کتاب الاحكام باب السمع والطاعة للامام مالم تكن معصية) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی اپنے امیر میں کوئی بظاہر نا گوار یا کوئی بری بات دیکھے تو وہ صبر کرے اور کیونکہ جو شخص تھوڑا سا بھی جماعت سے الگ ہو جاتا ہے اور تعلق تو ڑلیتا ہے وہ جہالت کی موت مرتا ہے.(صحیح مسلم كتاب الامارة باب الامر بلزوم الجماعة عند ظهور الفتن وتحذير الدعاة الى الكفر) تو صبر سے مراد یہ ہے کہ امیر کی بری بات دیکھ کے یہ نہیں کہ پورے نظام کے خلاف ہو جاؤ.نظام سے وابستہ رہو اور وہ بات آگے پہنچا دو اور اس کے بعد صبر کرو.جماعت سے تعلق نہیں ٹوٹنا چاہئے.اگر تمہارا جماعت سے تعلق ٹوٹتا ہے تو یہ جہالت کی موت ہے.تو جن لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم برداشت نہیں کر سکتے اس لئے ہم ایک طرف ہو گئے نمازوں اور جمعوں پر بھی بعض نے آنا چھوڑ دیا تو فرمایا کہ یہ ایسی حرکتیں ہیں، یہ جہالت کی حرکتیں ہیں.انکا د کا کوئی واقعات ہوتے ہیں.اللہ کے فضل سے عموماً ایسا جماعت میں نہیں ہوتا.یہ جہالت کی حرکتیں جو ہیں ان سے ہمیشہ بچنا چاہئے.تمہارا کام یہ ہے کہ صبر کرو اور دعا کرو.جیسا کہ میں نے شروع میں بھی کہا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری یہ نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں کو قبول میں کروں گا.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عوف بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لئے دعا کرتے ہوا اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں.تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں.تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں.راوی کہتا ہے کہ اس پر ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم ایسے سرداروں کو ان سے جنگ کر کے ہٹا کیوں نہ دیں.آپ نے فرمایا نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے ہیں اس وقت تک کوئی ایسی بات نہیں کرنی.(صحیح مسلم کتاب الامارة باب وجوب الانكار على الامراء فيما يخالف الشرع)

Page 963

$2004 958 مسرور یعنی دینی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے.تو آنحضرت نے یہ حکم واضح طور پر دے دیا کہ اگر کوئی اس قسم کے بھی لوگ ہوں جو اتنا تنگ کر دیں کہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے لگ جاؤ تب بھی ان سے بغاوت نہیں کرنی.اللہ نہ کرے کہ کبھی جماعت کی یہ صورتحال ہو.لیکن یہ ایک انتہائی مثال ہے ایسی صورتحال ہو بھی جائے جیسا کہ بتایا گیا ہے تب بھی تم نے فرمانبرداری دکھانی ہے.دعا کرتے رہیں اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے جماعت اور نظام جماعت کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے.اگر افراد جماعت بھی اور عہدیدار بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، جماعتی وقار کی خاطر ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر اپنے خاص فضلوں کی بارش برسا تارہے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے.آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا.پس آج یہ ہر احمدی کا کام ہے کہ خدا کی عظمت اور جلال کو قائم کرے اور اللہ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے پیار و محبت شفقت اور فرمانبرداری کے نمونے دکھائے.تاکہ اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت میں جگہ پائے.اللہ تعالیٰ اس کی سب کو تو فیق عطا فرمائے.آمین جماعت کی جب ترقی ہوتی ہے تو حاسدوں کے حسد بھی بڑھ جاتے ہیں.وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف حیلوں بہانوں سے جماعت میں بے چینی پیدا ہو، ہمدرد بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں.حالانکہ یہ لوگ مخالفین کے آلہ کار بنے ہوئے ہوتے ہیں.بعض دفعہ کسی عہد یدار کے متعلق کوئی بات کر کے بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بعض دفعہ فرد جماعت کے دل میں کسی عہدیدار کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.بعض دفعہ مرکزی عہدیداران کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور بعض دفعہ مجھے ایسے خط لکھ دیں گے اور عموماً ایسے خط بغیر نام اور پتے کے ہوتے ہیں کہ گویا جماعت میں اخلاص و وفا کے نمونے نہیں رہے، نعوذ باللہ تمام عہد یدار

Page 964

$2004 959 خطبات مسرور بھی اور اکثریت جماعت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے دور ہٹ گئی ہے.یہ سب ان کے دلوں کی خواہش ہوتی ہے.ایک صاحب نے مجھے لکھا اور ایسا بھیا نک نقشہ کھینچا کہ گویا اب جماعت نام کی رہ گئی ہے، عمل ختم ہو گئے ہیں، کوئی چیز باقی نہیں رہی ، اخلاص ختم ہو گیا ہے.اور پھر لکھتے ہیں اور آپ ہی اس کا جواب بھی دے دیا کہ مجھے پتہ ہے آپ یہی جواب دیں گے جو حضرت علیؓ نے دیا تھا کہ پہلے خلفاء کے ماننے والے میرے جیسے لوگ تھے اور مجھے ماننے والےتم جیسے لوگ ہو.لیکن سن لیں میرا جواب یہ نہیں ہے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ نے ہمیشہ قائم رہنا ہے اور وفا قائم کرنے والے اس میں ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے.میرا جواب یہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں لاکھوں، کروڑوں ایسے ہیں جو حضرت علی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخلاص و وفا کے نمونے قائم کرنا جانتے ہیں.نظام جماعت اور نظام خلافت کے لئے قربانیاں کرنا جانتے ہیں.یہ خوف دلانا ہے تو کسی دنیا دار کو دلاؤ.میں تو روزانہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتا ہوں.لوگوں کے اخلاص و وفا کے نظارے دیکھتا ہوں.مجھے تو یہ باتیں ڈرانے والی نہیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے ہیں وہ انہیں پورا ہوتا ہمیں دکھا بھی رہا ہے اور ہمیشہ دکھاتا بھی رہے گا اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری نسلوں کو بھی دکھاتا رہے.جماعت کو میں یہ کہتا ہوں کہ دعاؤں کے ساتھ ہر سطح پر اخلاص و وفا کے نمونے دکھاتے ہوئے اس اسلامی تعلیم پر عمل کرتے چلے جائیں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتائی ہے.عاجزی اور وفا دکھاتے ہوئے اگر آپ چلتے رہیں گے تو کوئی خطرہ نہیں ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جماعت سے چھٹے رہیں تو کوئی خطرہ نہیں ہے.اُن لوگوں کو خطرہ ہے جو ٹھوکر کھا کر شیطان کے بہکاوے میں آکر جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ کو یا جماعت کے ساتھ چمٹے رہنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں.اُن کی دنیا و آخرت دونوں سنوری ہوئی ہیں اور انشاء اللہ سنوری رہیں گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا

Page 965

960 $2004 خطبات مسرور ہوں.آپ اپنی جماعت سے کیا امیدرکھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کے مطابق سب کو چلنے کی توفیق دے.فرمایا کہ : ” میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ..تمہاری مجلسوں میں کوئی نا پا کی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو.اور نیک دل، اور پاک طبع اور پاک خیال ہوکر زمین پر چلو اور یا درکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں.اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگز ر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر نا جائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو.پھر فرمایا کہ اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ“.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو.سواپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنسی کا نمونہ ہے.جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پر ہیز گاری اور علم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے.کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے.اور یقیناوہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا.سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ.تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا“.(مجموعه اشتهارات جلد نمبر صفحه ۴۷، ۴۸) تو یہ جو مجھے نصیحتیں کرنے والے ہیں ان کو سوچنا چاہئے کہ وہ جماعت میں نہیں رہ سکتے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ جماعت کے ساتھ چمٹارہ کر نظام جماعت کی اطاعت کر کے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھ کر ان فضلوں کے وارث بنیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہے.اللہ سب کو توفیق دے.آمین

Page 966

اشاریہ مرتبہ: سید مبشر احمد ایاز.نائب ناظر اشاعت) آیات قرآنیہ احادیث نبویہ مضامین اسماء مقامات 1 6 23 51 60 66

Page 967

1 آیات قرآنیہ اهدنا الصراط المستقيم (الفاتحة : 6) 17 | يا ايها الذين امنوا اذا تداينتم......(البقره: 283) فان امن بعضكم بعضا....(البقره:286) 112 فاستبقوا الخيرات.اور تفسیر 564 فاذكروني اذكركم.......(البقره: 153) 555 حضرت مصلح موعود (البقرہ:149) 651 | ياايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر 226 والصلوة......(البقره: 154) 120 التوابين ويحــ الذين ينقضون عهد الله مـن بـعـد 260'494 يايها الناس اعبدوا......(البقره: 22) ان المتطهرين.......(البقره: 233) فان خير الزاد التقوى (البقره: 198) وماتنفقوا من خير يوف اليكم (البقره: 273) 428 ميثاقه.....(البقره: 28) 164 والكاظمين الغيظ......( آل عمران : 135) 948 153 25 والذين يتوفون منكم ويذرون ازواجا...(البقره: 235) 972 ولنبلونكم بشيء من الخوف.....(البقره: 156) 859 لن تنالوا البر حتى تنفقوا......(آل عمران: 93) 116 356 24 795 فاتبعـوانــي يحببكم الله......( آل عمران (32) 235 ومايفعلوا من خير.......(آل عمران: (116) 221 اجيب دعوة الداع......(البقره:187) 856 ذلك الكتاب لا ريب فيه....(البقره: 6823 زين للناس حب الشهوات.....( آل عمران: 15) 278 ولكل وجهة هو موليها......(البقره: 149) 644 الله ولى الذين آمنوا...(البقره: 258) 760 وشاورهم فى الامر.....( آل عمران: 160) واذا سالك عبادي.قريب.......(البقره: 187) 196 757 | قل ان کنتم تحبون الله......( آل عمران: 32) پايها الذين آمنوا کتب علیکم 884 الصيام......(البقره: 184) 738 | ربنا لا تزغ قلوبنا.....آل عمران: 9) 675

Page 968

2 بلی من اوفى بعهده.....(آل عمران : 77) | الصلحت.......(المائده: 94) الذي والضراء 208 158 | لكل جعلنا منكم شرعة....( المائده: 49) السراء 661 آل عمران 135 138 ولاتزال تطلع على خائنة منهم.....( المائده : 3) وعاشروهن بالمعروف......(النساء: 20) 457 الرجال قوامون على النساء.....( النساء: 35) سلم 234 ومن احسن دیناه رجه......(النساء : 126) واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا......(النساء: 37) 64 مل سوءا اوي نفسه.....(النساء: 111) 316 114 وان اقيموا الصلوة واتقوه ه......(الانعام: 73) 229 205 ولا رطب ولا يابس.......(الانعام: 60) اعرض عن الجاهلين(الاعراف: 200) 151 خـذ الـعـفـو وامر بالعرف.......(الاعراف: 200) 140 يـــــا ايـهــــا الذين آمنوا کونوا قوامین بالقسط.......(المائده : 9) 179 176 ان الله يامركم أن تؤدوا الامانات الى اهلها......(النساء : 59) ان الصلوة كـ المومنين.......(النساء: 104) 942 648 786 ما المؤمنون اذا ذكر اللـه وجـلـت قلوبهم......(الانفال : 3) اطيعوا الله ورسوله (الانفال: 47) 608 يا ايها الذين امنوا لاتخونوا.......(الانفال : 82) 104 كونوا مع الصادقين (التوبه (120) 492392 الم يعلموا ان الله يقبل التوبة عن عباده وياخذ ياايها الذين آمنوا اطيعوا الله واطيعوا الصدقات......(التوبه: 104) 848 604 يــمتـعـكـم متـــاعـــا.ا الى اجل الرسول.......(النساء: 60) ان الـــلــــه لا يــحـــب مـــن كـــــان خـــوانــــا......(هود: 3) مسمى اثيما......(النساء: 108) 778 106 والذين ينقضون عهد الله......(الرعد: 26) 165 خلق الانسان ضعيفا...( النساء: 29) 102 لئن شكرتم لأزيدنكم (ابراهيم (8) |.....ليس على الذين آمنوا وعملوا 551`555

Page 969

3 انا نحن نزلنا الذكر.....(الحجر:) 688 | راعون.....(المومنون: 9) ادع الى سبيل ربك......(النحل (126 وليعفوا وليصفحوا.....( النور : 23) 720379 وليمكنن لهم دينهم......( النور : 56) 112 151 339 336 امن يجيب المضطر.......(النمل: 63) 872 | وعد الله الذين آمنوا.......(النور: 56) واوفوا بعهد الله......(النحل : 92) 161 وانكحوا الايامى منكم......( النور : 33) 924 ان الله يامركم بالعدل......(النحل : 91) 113 | واقيموا الصلوة واتوا الزكوة.....(النور: 57) ان هذا القرآن يهدى للتى هى اقوم (بنی اسرائیل : 10) وقضى ربك الا تعبدوا الا اياه.(بنی اسرائیل: (24) 648 273 | يعبدوننی لایشرکون بي شيئا......(النور: 55) 705 46 | يا ايها الذين آمنوا لاتدخلوا بيوتا......( النور : 28) كل يعمل على شاكلته......(بنی اسرائیل : 85) 155 | قـل 624 ن المال والبنون زينة الحيوة - ابصارهم (النور: 31) الدنيا......(الكهف : 47) وقل رب زدنی علما (طه: 115) 84 298 | والذين يقولون ربنا هب لنا.....(الفرقان : 75) 406 444 وامر اهلك بالصلوة......(طه: 133) 712 | يـــويــــلتــــــى ليتـــنــــــــى لــــــم اتــــخــــذ وله من فى السموات والارض.....( الانبياء: (20) فلانا خليلا (الفرقان: 30 29) 394 874 | وعباد الرحمن الذين يمشون على الارض الذين ان مكنهم في الارض اقاموا هونا....(الفرقان: 64) الصلوة.....(الحج: 42) 702 | قله ـايـعبـ 4 ادعوني استجب لكم (المومن (61) 877 | لولا دعاؤكم (الفرقان (78) قد افلح المؤمنون (المومنون (212) والذين هم 875 876 880 582 | وقال الرسول يارب ان قومي اتخذوا هذا القرآن مهجورا (الفرقان: 13) 693

Page 970

4 رب اني لما انزلت من خير وامرهم شورى بينهم......(الشورى: 39) فقير (القصص: 25) 430 192 ا هذه الحيـ ة الدنيا الا | جزاء سيئة سيئة مثلها......(الشورى: 14) نكبوت: 65) ومن جــاهـ لنفسه......(العنكبوت: 7) الفحشاء.......(العنكبوت : 46) 141 280 | سبحان الذي سخر لنا هذا.....(الزخرف: 14) اهد 871 فيها يفرق كل امر حکیم (الدخان: 4) ان الـــصـــلـــوة تنهى عن ان الذين يبايعونك......(الفتح : 11) 821 | ولـ ظهر الفساد في البر والبحر.....(الروم (42) اليهم.....(الحجرات: 6) 431 790 163 خرج 122 668 | يا ايها الناس انـــا خـلـقـنـــاكـم مـن واصبر على ما اصابك...(لقمان: (18) ذكر.....(الحجرات : 14) 122 | ان اكره ـكـم عـ تتجافى جنوبهم.......(السجدة: 17) 657 | اتقاكم.......(الحجرات : 14) 218 918 لقد كان لكم في رسول الله اسوة ولا تنابزوا بالالقاب......(الحجرات: 12) حسنة......(الاحزاب : 22) 906 918 ان اللـــــه ومــلائـكتــــه يـصــلــون عـلـى | قل لا تمنوا على اسلامكم.....(الحجرات : 18 النبي......(الاحزاب : 57) 887 884 یا ایهالناس ان وعد الله حق فلا تغرنكم الحيوة وان طائفتان......(الحجرات: 10) الدنيا......(فاطر: 6) 871 666 301 | وماخلقت الجن والانس.......(الذاريت: 57) 227 17 881 866 789 413 | ولقد يسرنا القرآن للذكر......(القمر: 18) انما يخشى الله من عباده العلماء(فاطر: 29) وما انا من المتكلفين.......(ص : 87) 517 684 ومن احسن قولا حم السجده : 34 | كتب الله لاغلبن انا ورسلى......(المجادلة: 22) 242 372

Page 971

5 تفسحوا فـي الـمـجـالــس.......(المجادلة : 12 فاصبر لحكم ربك......( الدهر : 25) 125 496 | تواصوا بالصبر...(البلد: 18) 130 843 وا اذا قد افلح من زكها (الشمس: 10) 404 تناجيتم.....(المجادلة: 10) 482 | ارايت الذى ينهى......(العلق: 11-10) 826 789 والذين تبوؤ الدار.......(الحشر : 10) 504 انا انزلنه في ليلة القدر......(القدر : 2) ياايها الذين آمنوالم تقولون مالا اولئك هم خير البرية (البيئة: 8) 661644 تفعلون.......(الصف:3-2) 386372 | فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره(الزلزال : 8) ياايها الذين آمنوا اذا نودي للصلوة من يوم الجمعة......( الجمعه : 10-11) و آخرين منهم.....(الجمعه) 230 816 ومن يعمل مثقال ذرة شرايره (الزلزال : 9) 338 ومن يتق الله يجعل له مخرجا (الطلاق: (34) وانه لحب الخير لشديد (العاديات : 9) 230 الهاكم التكاثر......(التكاثر : 2-6) وانك لعلى خلق عظيم (القلم: 5) 906 | فويل للمصلين......(الماعون : 5) ويطعمون الطعام على حبه.......(الدهر : 9) المستشار مؤتمن اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں 56 من عادى لي وليا فقد اذنته بالحرب 331 25 301 712 195 205

Page 972

6 انا سيد ولد آدم ولا فخر احادیث نبویہ 6 حضرت ابو ہریرہ کا رونا.....کہ ہمارے دل کی حالت بدلتی 167 اذا تواضع العبد رفعه الله الى السماء السابعة 16 رہتی ہے.آنحضرت کا فرمانا اگر یہ حالت ہمیشہ رہے تو اطلبوا العلم من المهد الى اللحد 406 فرشتے تم سے مصافحہ کریں اللهم ارحمهما....حسن اور اسامہ کیلئے دعا 913 اگر کوئی اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور پورا کرنے کی نیت ان الله يبعث لهذه الامة على راس كل.....792 | ہومگر پورا نہ کر سکے تو کوئی گناہ نہیں ہوگا انهم قوم لا يشقى جليسهم الطهور شطر الإيمان 168 492 آپ کا فرمانا کہ کون مجھ سے عہد باندھتا ہے...عہد کرو 261 کہ کبھی کسی سے نہیں مانگو گے....چابک بھی گر جاتا تو نہ آنحضرت کی دعا اللهم آت نفسي تقواها......مانگتے 220 294 304 449 457 458 من تشبه بقوم فهو منهم ان لكل امة فتنة وفتنة امتى مال خيركم خيركم لاهله..اعوذ بكلمات الله التامات 5 38 169 مومن میں جھوٹ اور خیانت کے سوا تمام بری عادتیں ہو سکتی ہیں 108 کسی کے دل میں ایمان اور کفر اور صدق اور کذب اور امانت اور خیانت اکٹھے نہیں ہو سکتے 108 من حسن اسلام المرء تركه مالا يعنيه 598 امانت عند الطلب لوٹا دو اور جس نے تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ میری امت کو ضلالت اور گمراہی پر جمع نہیں گا خیانت کی ہو اس کے ساتھ بھی خیانت نہ کرو من شذ شذ في النار 613 اے معاذ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا اللهم اعنى على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك 711 108 مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے.وہ نہ اس کی خیانت کرتا ہے.تقویٰ یہاں ہے 109 تین امور میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا...109 قیامت کے روز سب سے بڑی خیانت یہ شمار ہوگی کہ کوئی واذا نظر الله الى عبد لم يعذبه ابدا 751 165 اپنی بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے جو عہد کا پاس نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں اپنے بھائی سے جھگڑے کی طرح نہ ڈالو اور ایسا عہد نہ کرو جسے پورا نہ کرسکو 110 166 جس نے مہر مقرر کیا لیکن دینے کی نیت نہ کی تو وہ زانی ہے

Page 973

7 اور جس نے کسی سے قرض اس نیت سے لیا کہ نہ دے گا وہ کہ صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا.صبر کے نتیجہ میں عزت ملتی 111 ہے.سوال فقر اورمحتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے 126 چور ہے آنحضرت مقروض کی نماز جنازہ نہ پڑھتے 113 | محنت کر کے کما کر کھانا بھی فرض ہے 127 منافق کی چار علامات جس نے میری طرف جھوٹی بات منسوب کی وہ جہنمی اور کرنے سے بچے اللہ اس سے عفو کا سلوک فرمائے گا 128 115 جس نے فقر میں اہل ثروت کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا 115 آنحضور کا انصار کو اموال تقسیم کرنا اور فرمانا کہ جو سوال بغیر رشد کے مشورہ دینے والا خائن ہے آنحضرت کی دعا کہ میں بھوک سے پناہ مانگتا ہوں اور وہ رسوا ہو گا اور جس نے فقر میں صبر سے کام لیا اللہ اسے خیانت سے......115 | جنت میں جگہ دے گا 128 جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا کوئی ایمان نہیں 117 جو بیٹیوں سے آزمایا گیا تو اس کی بیٹیاں اس کے آگ اللہ سے بڑھ کر کوئی بھی صبر کرنے والا نہیں اور اللہ کا صبریہ سے پردے یا ڈھال کا باعث ہوں گی 123 ہوں گے 129 129 ہے کہ لوگ اس کے شریک مقرر کرتے ہیں اور اس کے جس نے یتیم کو پناہ دی وہ اور میں جنت میں ساتھ ساتھ باوجود وہ انہیں رزق دیتا ہے مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے.اس کا تمام معاملہ خیر پر جس نے اپنے امیر میں ایسی بات دیکھی جسے وہ ناپسند کرتا 123 ہے تو صبر کرے.جس نے جماعت سے ایک بالشت بھی مومن کو کوئی بھی تکلیف ملے تو اللہ اس کی خطائیں معاف بھی انحراف کیا وہ جاہلیت کی موت مرا 130-131 مشتمل ہے کر دیتا ہے...یہاں تک کہ کانٹا بھی چھے تو 124 آنحضرت کا تین لوگوں کو دعا مانگتے ہوئے سننا.ایک کا اللہ کی راہ میں بہنے والا خون کا قطرہ اور تہجد کے وقت نعمت کی انتہاء کی دعا کرنا، دوسرے کا یا ذالجلال والاکرام خشیت کے نتیجہ میں آنکھ کا قطرہ اور غم کا گھونٹ جو صبر کے کا واسطہ دے کر مانگنا اور تیسرے کا صبر مانگا...131 ساتھ ہے سب سے زیادہ محبوب حضرت عائشہؓ کا سوال کرنا کہ جنگ احد میں سخت دن بھی 5 2 1 آپ پر آیا.فرمایا طائف کا.132-133 پڑوسی کی شکایت پر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنا سامان سب سے بڑی فضیلت یہ کہ قطع تعلق کرنے والوں سے سڑک پر رکھ لے اور لوگوں کو بتا کہ یوں کیوں کر رہے تعلق قائم رکھو ہو.143 125 اللہ اپنی خاطر معاف کرنے والے کی عزت پہلے سے زیادہ تین چیزوں کے بارے میں آنحضرت کا قسم کھا کر کہنا قائم کرے گا 143

Page 974

8 اللہ کی راہ میں خرچ سے مال کم نہیں ہوتے اور اللہ کا بندہ آنحضور کا ایک عورت کی سفارش پر فرمانا کہ اگر میری بیٹی جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا 106 144 آنحضرت کا ایک صحابی کو قرض کی ادائیگی کی تاکید کرنا اور 182 اپنے غلام سے روزانہ ستر بار درگزر کیا کرو 144 | ان کا اپنی چادر فروخت کر کے ادائیگی کرنا حضرت ابوبکر کا کسی سے تکرار اور آنحضرت کا نصیحت انصاف کرنے والے خدائے رحمان کے داہنے ہاتھ نور 144 کے منبروں پر ہوں گے 184 آموز طریق توریت میں رسول اللہ کی بیان فرمودہ علامت کہ وہ تندخو مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا شخص وہ ہے جوان 145 میں سب سے بہتر اخلاق کا مالک ہے اور تم میں سے اور سخت دل نہ ہوگا.آپ نے کبھی بھی اپنی ذات کی خاطر کسی زیادتی کا انتقام بہترین وہ ہیں جو اپنی بیویوں سے بہتر سلوک کرنے نہیں لیا 145 والے ہیں 185 185 آنحضرت کا مخنث سے بھی پردے کا حکم 87 عورتوں کے حقوق شادی سے پہلے لڑکے لڑکی کو دیکھنے کی اجازت 90 اپنی اولاد سے انصاف اور مساوات کا سلوک کرو.جو تحفہ دو آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ کی راہ میں بیدار رہی یا دوسرے بچوں کو بھی دو 95 مجھے اس ہبہ کا گواہ نہ بناؤ، 187 187 خوف الہی سے آنسو بہائے آگ اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو ہر عضو کے لئے صدقہ دینا چاہئے اور جو عدل کے مطابق دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے اور اس پر بھی جو اللہ کی راہ فیصلہ کرتا ہے وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے 187 میں پھوڑ دی گئی ہو 95 جو قضا کے عہدے پر فائز ہو، اسے چاہئے کہ عدل کے راستوں میں مجلس لگانے سے بچو یا اس کا حق ادا کرو 96 ساتھ فیصلہ کرے نابینا سے پردے کا حکم اچانک نظر پڑ جائے تو اپنی نگاہ ہٹا لو 188 96 جس نے عدل سے کام نہ لیا ہوگا اللہ اس پر جنت حرام کر 96 | دے گا 188 189 جب کسی مسلمان کی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑے اور وہ ابن مریم حکم اور عدل بن کر ضرور نازل ہوگا غض بصر کرے تو اللہ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے اگر دنیا کی زندگی کا ایک دن بھی باقی ہوگا تو اللہ تعالیٰ ضرور 97 میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا جس سے وہ حلاوت محسوس کرتا ہے آنحضرت کی وصیت پاکدامنی اور سچائی کی بابت 99 189

Page 975

9 325 بغیر رشد کے مشورہ دینے والا خائن ہے 195 | ان سب کو بخش دینا آنحضرت سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ جب انسان روروکر دعا کرتا ہے تو خدا بخش دیتا ہے 328 196 خلافت على منهاج النبوۃ قائم رہنے کی پیشگوئی 337 کرتے نہیں دیکھا کوئی ایسا امر سامنے آئے جو قرآن و سنت سے واضح نہ ہو میری امت ایک مبارک امت ہے یہ نہیں معلوم کہ اس کا 199 اول زمانہ بہتر ہے یا آخری تو مشورہ کرنا 337 بحرین کے اموال کا آنا اور آنحضرت کا فرمانا خدا کی قسم اے آدم کے بیٹے تو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کر کے 310 مطمئن ہو جا 25 مجھے تمہارے فقر کا ڈر نہیں مجھے..رسول کریم کے ساتھ ہم اس حال میں رہے کہ پتوں انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے پر اللہ کا سایہ ہوگا 27 کے سوا کھانے کو کچھ نہیں تھا اور اب ہم سب علاقوں کے مجھے موسیٰ پر فضیلت مت دو گورنر ہیں..4 311 اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ انکساری اختیار اللہ تعالیٰ رات کو ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ دن کے وقت گناہ کرو کرنے والوں کی توبہ قبول کرے 318 جس نے میرے لئے تواضع اختیار کی....5 6 میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتا ہوں 318 جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ اس کا گناہ سے تو بہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ ایک درجہ رفع کرے گا 322 جوانکساری کی وجہ سے عمدہ لباس ترک کرتا ہے 7 7 8 کیا ہی نہیں تو بہ کی علامت ندامت ہے 320 قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا سرکاٹ دے گا جس نے استغفار سے اللہ تعالیٰ غم سے نجات اور ایسی جگہ سے رزق دنیا میں ( تکبر سے ) سر بلند کیا...دیتا ہے کہ جس کا گمان نہ کر سکے اللہ اپنے بندوں کی تو بہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش اپنے بھائی کا جوٹھا پینے سے درجات میں بلندی ہوتا ہے جسے اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے 322 کسی کے اعمال جنت میں لے کر نہیں جائیں گے 10 کسی کا خدا کی قسم کھانا کہ وہ فلاں کو نہیں بخشے گا اس پر اللہ آنحضرت کو جب بھیکسی نے بلایا آپ نے فرمایا میں نے فرمایا کہ کون ہے جو مجھ پر پابندی لگائے 323 | حاضر ہوں جس نے نناوے قتل کئے اور بخشش اور توبہ کی تلاش میں اے میری پھوپھی ! میں تم کو اللہ کے عذاب سے ہرگز نہیں نکل پڑا 323 بچا سکتا.....10 10 فرشتوں کا ذکر کی مجالس کی تلاش میں رہنا.اور اللہ کا میں ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا

Page 976

10 کرتی تھی 11 | اونٹوں کے مل جانے سے بہتر ہے 374 مدینہ کی ایک پاگل عورت اور آنحضور کا اس کے کام کے جو کسی کو نیک کام کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا لئے ساتھ جانا صحابہ کا محنت مزدروی کر کے صدقہ کرنا 12 ہے.377 29 ذکر الہی کی مجالس کا فرشتوں کو ڈھونڈتے ہونا....جو بھی ایک صحابی کا اپنی والدہ کو پیٹھ پر بٹھا کر حج کروانا اور پوچھنا اس میں ہے ان کو بخش دینا کہ کیا اپنی ماں کا حق ادا کر دیا ہے 49 انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے کیا میں اپنی مشرک والدہ سے صلہ رحمی کروں.فرمایا ہاں نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال 49 ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم حاصل کرے والدین کی وفات کے بعد ان کے لئے نیکی یہ ہے کہ ان کے عزیز واقارب سے حسن سلوک کیا جائے 399 395 397 410 50 اے لوگو! اگر کسی کو علم کی بات معلوم ہو تو بتادینی میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے.فرمایا چاہئے تیری ماں اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے 411 53 علم حاصل کر وہ علم حاصل کرنے کے لئے وقار اور سکینت کو 53 اپناؤ.جس سے علم سیکھو اس کی تعظیم کرو 411 جس کو لمبی عمر اور رزق بڑھانے کی خواہش ہو وہ والدین مسجد میں دو گروہوں کا بیٹھنا.ایک قرآن پڑھ رہا تھا اور سے حسن سلوک اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے 54 دوسرا پڑھنے پڑھانے میں مصروف.حضور نے فرمایا خدا دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں.ایک جس نے رمضان پایا نے مجھے معلم بنا کر بھیجا ہے اور پڑھنے والے گروہ میں بیٹھ اور گناہ بخشے نہ گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا...اصل میں علم وہی ہے جس کے ساتھ تقویٰ ہو میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں ایسے ہوں گے جنت کے باغوں میں سے گزرو تو خوب چرو..جیسے یہ دو انگلیاں ہیں 65 مجالس علمی 412 413 414 بڑے بھائی کا چھوٹے بھائی پر حق ایسے ہے جیسے باپ کا علم اس لئے نہ سیکھو کہ جہلاء میں اپنی بڑائی دکھ سکو...بچوں پر رب کی رضا باپ کی رضا میں ہے.69 416 53 علم کی تلاش کے لئے نکلے والے کے لئے فرشتوں کا پر اے علی تیرے ذریعہ ایک آدمی کا ہدایت پا جانا سوسرخ بچھانا 417

Page 977

11 434 435 حضرت زید بن ثابت کو سریانی سیکھنے کا حکم...418 سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے ایک صحابی کا آنحضرت سے سفر پر جانے کے لئے دعا کی کسی مکان یا پڑاؤ میں قیام کے وقت دعا...430 431 - تین دعائیں جو قبولیت کا شرف پاتی ہیں.مظلوم کی دعا، درخواست کرنا | 435 436 ہر روز دو فرشتوں کا آنا اور دعا کرنا کہ خرچ کرنے والے کو مسافر کی دعا، باپ کی بیٹے کے بارے دعا اور دے اور کنجوس کو ہلاکت دے 357801 دوران سفر آنحضور کی رات کی دعا بادل سے آواز کا سننا کہ فلاں آدمی کے کھیت کو سیراب کر سفر کے لئے روانہ ہونے کے لئے سورج کے غروب 359 ہونے سے رات کی سیاہی کے دور ہونے تک اپنے | جب حضور مالی تحریک کا اعلان کرتے تو صحابہ محنت جانوروں کو نہ کھولو مزدوری کر کے ادائیگی کرتے.437 363 اے اللہ میری امت کے صبح کے سفروں میں برکت رکھ دنیا سے بے رغبتی زہد نہیں بلکہ زہد یہ ہے کہ خدا کے انعام ور بخشش پر اعتماد ہو گن گن کر خرچ نہ کیا کرو دے 437 363 میری امت کی سیر و سیاحت اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد 364 ہے 439 قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی بندہ اگر چل کر اللہ کی طرف آتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوڑ کر اس سبیل اللہ کرنے والے اپنے مال کے سائے میں رہیں کی طرف آتا ہے.....گے 476 365 تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا گویا اس کے آنحضور کا ایک عورت کو فرمانا کہ کیا تجھے پسند ہے کہ اللہ لئے رحمت کے دروازے کھولے گئے تعالی قیامت کے دن آگ کے کنگھن پہنائے.....765 اللہ تعالیٰ کا رات کے آخری حصہ میں اترنا.....766 367 جو چاہتا ہے کہ اللہ تعالی تکالیف کے وقت اس کی دعاؤں کو جو تم اپنے لئے پسند کرو وہ دوسرے کے لئے پسند کر و 373 قبول کرے تو اسے چاہئے کہ فراخی اور آرام کے وقت سفر پر جانے کے لئے دعائیں.سبحــــان الذي بکثرت دعا کرے سخر لنا........767 431 میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں......اگر جب تین آدمی سفر پر جائیں تو امیر مقرر کر لیں 433 وہ میری طرف ایک بالشت آئے گا تو میں ایک ہاتھ آؤں آنحضرت جب سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں گا جاتے 767 433 حضرت یونس نے جو مچھلی کے پیٹ میں دعا کی وہ یہ ہے

Page 978

12 لا اله الا انت.جو بھی کسی ابتلاء کے وقت یہ دعا کرے گا ایک کھجور بھی خدا قبول کرتا ہے اور اسی طرح بڑھاتا ہے 768...پہاڑ جتنی ہو جائے 801 اللہ ضرور قبول کرے گا اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے بڑا کریم اور سخی ہے..769 دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہ کرو.ایک وہ جو خدا کی راہ آنحضرت مجلس سے اٹھتے وقت دعا کرتے 770 میں مال خرچ کرے اور ایک وہ جس کو خدا دانائی اور حکمت رمضان کا ابتدائی عشرہ رحمت اور درمیانی عشرہ مغفرت اور دے اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرے 802 آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے 777 جو عورت اپنے گھر کے کھانے کی چیزوں میں سے خرچ آنحضرت کا ہر سال اعتکاف بیٹھنا اور ایک سال جب کرے اس کو بھی ویسا ہی ثواب ہوگا.امہات المومنین نے خیمے لگا لئے تو آپ نے اعتکاف نہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کرو کیا 802 803 780 دنوں میں سے بہترین دن جمعہ اس میں آدم پیدا کئے گئے 818 781 جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول کی دروان اعتکاف فرمایا کہ ایک دوسرے کو سنانے کے لئے اونچی آواز سے تلاوت نہ کرو دوران اعتکاف آنحضرت کا عیادت کے لئے جانا جاتی ہے 820 783 پانچ نمازیں ، جمعہ اگلے جمعہ تک، رمضان اگلے رمضان آنحضرت کا دوران اعتکاف حضرت صفیہ کو گھر چھوڑنے تک....کفارہ 822 جانا اور راستہ میں دو آدمیوں کو کہنا کہ یہ صفیہ ہے.جس نے متواتر تین جمعے جان بوجھ کر چھوڑ دئے اللہ اس 784 کے دل پر مہر کر دیتا ہے 824 دوران اعتکاف حضرت عائشہ کا آنحضرت کے کنگھی کرنا جمعہ کے دن مجھ پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو...821 785 جمعہ کو بھی عید بنایا گیا ہے.اس روز نہایا کرو....جس نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے 824'493 ہوئے لیلتہ القدر میں قیام کیا اور روزے رکھے تو اس کے مسجد کے دروازے پر فرشتوں کا جمعہ والے دن پہلے آنے 786 والوں کی فہرست لکھنا 825 تمام گناہ بخش دئے لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں قیامت کے روز اللہ کے حضور جمعوں میں آنے کے حساب تلاش کرو 786 سے بیٹھے ہوں گے 825 لیلۃ القدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کرو 787 ہر مسلمان پر جمعہ فرض ہے سوائے غلام ، عورت، بچہ اور

Page 979

13 مریض 827 کتے کی پیاس بجھانے پر جنت میں داخل کر دیا 853 دوران خطبہ اگر کسی کو خاموش رہنے کا کہا جائے تو وہ بھی لغو ازواج مطہرات کا پوچھنا کہ سب سے پہلے آپ سے کون 828 ملے گا.فرمایا جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے...854 فعل ہوگا اللہ تعالیٰ کا قیامت والے دن اپنے بندے سے گناہوں کا صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور برائی کی موت کو اقرار کروانا اور پھر فرمانا کہ میں نے دنیا میں پردہ پوشی کی دور کرتا ہے تھی اب بھی کرتا ہوں 854 836 صدقہ دے کر آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے.وہ اس پر ظلم نہیں کرتا.جو توفیق ہو 854 کسی مسلمان کی ستاری کرتا ہے اللہ قیامت والے دن اس جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا گویا اس کے لئے رحمت 836 کے دروازے کھولے گئے 860 کی ستاری کرے گا جس نے اپنے بھائی کی پردہ پوشی کی اللہ قیامت والے دن نیکی کے علاوہ کوئی چیز عمر نہیں بڑھاتی اور دعا کے علاوہ اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جس نے پردہ دری کی اللہ اس تقدیر الہی کو کوئی چیز ٹال نہیں سکتی کے گھر میں اس کو رسوا کر دے گا 860 837 اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ قابل عزت اور کوئی چیز نہیں اگر تو لوگوں کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا تو انہیں بگاڑ دے گا اللہ تعالیٰ حیا اور ستر کو پسند فرماتا ہے 837 دعا ہی اصل عبادت ہے 860 877 839 اے میرے بندو تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس اللہ کی کتاب میں بہت فضیلت والی آیت یہ ہے کے جس کو میں ہدایت دوں ما اصابكم........878 839 انسان اپنے رب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے آنحضرت کی ایک دعا کمزوریوں کو ڈھانپنے والی جب وہ سجدے میں ہو....979 840 تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے بڑا کریم ہے سخی ہے..850 اپنے والد اور اولاد سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں 889 ہر مسلمان پر صدقہ کرنا فرض ہے جو طاقت نہیں اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے یعنی اسے اپنی 851 صفات کا مظہر بنایا ہے 908 آنحضرت کا بیان فرمانا کہ ایک شخص صدقہ کرنے کی نیت اخلاق حسنہ کی تکمیل کیلئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے 908 سے گھر سے نکلا اور چور کے ہاتھ پر صدقہ رکھ دیا 852 آنحضرت میں تکبر نام کو بھی نہ تھا.آپ اس بات سے نہ

Page 980

14 بچتے کہ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ چلیں 909 اگر تمہارے پاس کوئی رشتہ لے کر آئے جس کی دینداری مساکین اغنیاء سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو رشتہ دے دیا کرو 931 909 کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار بنیادیں ہو.ہوسکتی گے آنحضرت کی دعا اے اللہ ! مجھے حالت مسکینی میں زندہ ہیں تو دیندار عورت کو ترجیح دے رکھ 932 909 نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامان زیست نہیں 933 اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں عمدہ کپڑے پہناتا اور زیور صالح مرد اور صالح عورت کی شادی کروایا کرو 933 913 آنحضرت کا فرمانا کہ لڑکی کو ایک نظر دیکھ لو ( منگنی کے پہناتا..زاہر نامی بدوی صحابی سے آنحضور کا اظہار محبت 914 لئے ) ایک بدو کا مسجد میں پیشاب کرنا.934 915 | ایسی عورتوں سے شادی کرو جو محبت کرنا جانتی ہوں اور 916 | زیادہ اولاد پیدا کرنے والی ہوں 935 936 تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اللہ تعالیٰ تین بندوں سے قیامت کے دن سخت باز پرس آنحضرت کا ایک صحابی کی خود شادی کروانا اور ولیمہ کرے گا جس نے میرے نام پر امان دی اور غداری کی.کرانا...جس نے آزاد کو غلام بنا کر بیچا اور جس نے کسی کو مزدوری جو لوگوں کا نگران بنایا گیا اس سے کوتا ہی کی صورت میں پر رکھا اور مزدوری پوری نہ دی 916 اللہ تعالیٰ اسے بہشت نصیب نہ کرے گا تم اہل زمین پر رحم کرو وہ آسمان والا تم پر رحم کرے گا 917 قیامت کے دن سب سے زیادہ محبوب انصاف پسند حاکم 950 950 اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو چھوٹے پر رحم نہیں کرتا اور سخت ناپسندیدہ بہت دور ظالم حاکم ہوگا اور بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا کیا جنت والوں کے متعلق نہ بتاؤں وہ کمزور سمجھا جانے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر آسمان....والا جب اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے تو اللہ اس کی قسم پوری اے عبد الرحمن ! تو امارت اور حکومت نہ مانگ 951 917 | آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو 917 جو امام حاجتمندوں اور ناداروں کے لئے اپنا دروازہ بند 950 952 کر دیتا ہے جب نماز کا وقت ہو جائے تو دیر نہ کرو، جنازہ حاضر ہو یا میں نے آنحضرت کو مسکراتے ہوئے دیکھا....954 عورت بیوہ ہواور اس کا کفومل جائے تو دیر نہ کرو 928 معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو اگر چہ خندہ پیشانی سے..شادی کے معاملہ میں بیوہ اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے 954 929 جس نے حاکم وقت کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت

Page 981

15 کی 955 اور ایک دن کی خوراک اس کے پاس ہو اس نے گویا 285 تنگدستی اور خوشی ، ہر حالت میں حاکم کی اطاعت کرو 956 ساری دنیا جیت لی.....سنو اور اطاعت کرو خواہ ایک حبشی غلام کو امیر مقرر کیا جائے اے آدم کے بیٹے ضرورت سے زائد مال خدا کے محتاج 956 بندوں اور دین کے کاموں پر لگا تا تو بہتر ہوتا...286 اگر کوئی اپنے امیر میں کوئی بظاہر نا گوار یا کوئی بری بات آنحضرت کے بارے پوچھا گیا کہ گھر میں کیسے رہتے 957 تھے فرمایا عام انسانوں کی طرح اور گھریلو کاموں میں مدد دیکھے تو صبر کرے تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو فرماتے...اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.286 957 آنحضرت کے پاس اتنی مقدار میں کھجور بھی نہ ہوتی کہ اللہ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنی بھوک مٹالیں 287 میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے آنحضرت نے زندگی بھر چھنا ہوا کا آٹا نہیں دیکھا 287 محبت کرتے تھے تواضع انسان کو بلندی میں بڑھاتی ہے 958 آنحضرت کا ناشتہ کے لئے استفسار کرنا.جواب ملنا کہ حضرت عائشہ کا فرمانا حضرت خدیجہ کے بارے کہ اس صرف روٹی اور سرکہ ہے.فرمایا سرکہ کتنا عمدہ سالن ہے 286 بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں ہر انسان کا سر دو زنجیروں میں ہے ایک آسمان تک اور آنحضرت کا فرمانا کہ میں بعض اوقات مال تقسیم کرتا 7 ہوں اور کسی کو دیتا ہوں کسی کو نہیں..452 آنحضور کا روٹی اور کھجور کے ساتھ کھانا کھانا....288 291 ایک زمین تک......اے عائشہ عاجزی اختیار کر اللہ تعالیٰ عاجزی اختیار کرنے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچ کر گزارا چلانا بھیک والوں کو پسند کرتا ہے خیر البریہ! وہ ابراہیم ہے 7 مانگنے سے ہزار درجہ بہتر ہے 292 ابن آدم کے پاس سونے کی وادی ہو تب بھی وہ دوسری 283 فلاح پا گیا جس نے فرمانبرداری اختیار کی جبکہ اس کا رزق چاہتا ہے صرف اس قدر ہو کہ اس میں بمشکل گزارا ہو 283 راستہ کو روکنا یا اس میں تکلیف دہ چیز کا پیدا کرنا خدا تعالیٰ کو کسی بندے کے اندر خدا کے رستہ کا غبار اور جہنم کا دھواں ناپسند ہے 264 جمع نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایمان اور حرص....285 اللہ جب کسی پر انعام کرتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت جس نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی کا اثر بندے پر دیکھے 265 558

Page 982

16 اس کے فضل اور احسان کا اثر ونشان تمہارے جسم پر ظاہر داڑھی درست کرنا، مسواک کرنا، ناک صاف کرنا، ناخن 265 تراشنا، انگلیوں کے پورے صاف کرنا، بغلوں کے بال ہونا چاہئے پراگندہ حال اور بالوں والے کے متعلق فرمایا کہ کیا بال لینا، زیر ناف بال کاٹنا، استنجاء، طہارت کرنا...271 بنانے کے لئے کوئی چیز میسر نہیں کیا کپڑے دھونے کے دھونی وغیرہ دے کر ہوا کو بھی صاف رکھا جائے لئے پانی میسر نہیں سر اور داڑھی کے بال درست کرو 266 272 273 266 اجتماع کے موقعہ پر بد بودار چیزیں کھا کر مسجد میں نہ آئیں اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے آنحضرت کا خوشبو کو پسند فرمانا 273 267 قناعت کرو سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے 281 268 | قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے 282 آنحضرت کے ہاتھ کی خوشبو کا بیان 268 اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے آنحضرت کسی راستہ پر سے گزرتے تو آپ کی مخصوص خوشبو سے پتا چل جاتا کہ یہاں سے گزرے ہیں 268 پاکیزگی اختیار کرنا نصف ایمان ہے 282 261 جمعہ کے دن غسل کرنا، خوشبو لگانا اور نماز کے لئے جانا اگلے آنحضرت کا سڑکوں اور راستوں کی صفائی کے بارے جمعے تک کے تمام گناہ بخش دئے جانے کا باعث 269 فرمانا کہ خدا اس پر خوش ہوتا ہے مسواک سے منہ کی صفائی اور خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی حضرت جبریل کا پوچھنا کہ اسلام اور ایمان اور احسان کیا ہے 269 ہے 264 210 اگر مجھے اپنی امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں حکم دیتا ایسے نہ کہو کہ لوگ ہم سے حسن سلوک کریں گے تو ہم کہ ہر نماز سے پہلے مسواک کریں 269 | کرینگے 212 رسول کریم رات کو بیدار ہوتے تو مسواک سے اپنا منہ احسان کرنے والے کو جزاك الله : کہنا..صاف کرتے 269 212 کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا اور کلی کرنا تین باتیں جن سے جنت مل سکتی ہے کمزوروں پر رحم 270 والدین سے محبت اور خادموں اور نوکروں سے احسان کا دائیں ہاتھ سے کھانے کا حکم 270 | سلوک 213 دس باتیں فطرت انسانی میں داخل ہیں.مونچھیں تراشنا، گھروں میں سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور

Page 983

17 اس سے حسن سلوک ہو اور بد ترین گھر...213 ایسا عمل جس سے اللہ محبت کرنے لگے اور لوگ اسے 213 چاہنے لگیں فرمایا دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ یتیم بچے سے شفقت کا اجر اور فضیلت تم جہاں بھی رہو اللہ کا تقوی اختیار کرو بدی کے بعد نیکی 305 کرو نیکی بدی کے اثر کو مٹا دے گی 222 زہد یہ نہیں کہ آدمی اپنے اوپر کسی حلال کو حرام کر لے بلکہ یہ جنت میں کثرت سے لوگوں کو داخل کرنے کا موجب اللہ کا ہے کہ اپنے مال سے زیادہ خدا کے انعام اور بخشش پر اعتماد تقویٰ اور حسن اخلاق نماز عبادت کا مغز ہے 222 ہو 305 229 اگر دنیا اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی پر.انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین قسم حیثیت رکھتی ہوتی تو کافر اس میں سے پانی کے ایک کے اعمال جاری رہتے ہیں صدقہ جاریہ ، ایسا علم جس سے گھونٹ کے برابر بھی حصہ نہ پاتا فائدہ اٹھایا جائے نیک لڑکا...306 230 دنیا کی آخرت کے مقابلہ میں اتنی حقیقت ہے جتنی کہ....اچھی تربیت سے بڑھ کر بہترین اعلیٰ تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولا د کو دے سکتا ہے 307 231460 اچھا مال نیک آدمی کے لئے بہت اچھی چیز ہے 308 اولاد کی اچھی تربیت کرنا اس کے لئے صدقہ دینے سے تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جسے دنیا سے بے رغبتی اور قلت زیادہ بہتر ہے 1 23 کلام کی صفات عطا ہوئی ہوں تو اس کی مجلس کا قصد کرو پاکیزہ خواراک وہ ہے جو تم خود کما کر کھاؤ اور تمہاری اولاد 308 بھی تمہاری عمدہ کمائی میں شامل ہے تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کریم سیکھتا اور دوسروں کو سوا ہر چیز بے کار اور بے سود ہے 231 لبید سے زیادہ سچی بات کسی اور شاعر نے نہیں کی.اللہ کے سکھاتا ہے 308 237 جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اس شخص کی طرح ہو جو قرآن پڑھو کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے دنیا کو چھوڑ کر جانے والا ہو اور اپنی زبان سے....لئے بطور شفیع آئے گا 237 اور لوگوں کے مال سے بے نیاز ہو جاؤ جس کو قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی یاد نہیں وہ ویران گھر کی تم میں سے ہر ایک نگران ہے طرح ہے 308 445 238 ایک صحابی کے بکثرت روزے اور رات کے قیام پر فرمانا قرآن اللہ کی طرف دعوت ہے جس قدر ہو سکے اس دعوت کہ تمہارے بدن تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے...447 238 سے فائدہ اٹھاؤ

Page 984

18 آنحضرت کے گھر میں معمول....اور نماز کے وقت مسجد کرے گا چلے جانا 447 | اپنے بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آؤ 459 461 تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن جس کو لڑکیوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا گیا اور وہ ان سلوک میں بہتر ہے 7 44 سے بہتر سلوک کرتا ہے..462 آنحضرت نے عمر بھر اپنی کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا 448 آنحضرت کا نماز تہجد کے لئے حضرت عائشہ کو اٹھانا میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنی 462 چاہئیں....آنحضرت کا حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کا خیال رکھنا کرنے کی نصائح پڑوسی سے اچھا سلوک اور کم بننے کی 450 حضرت ابو ہریرہ کو تقوی ، پرہیز گاری اور قناعت اختیار 451 | نصیحت 470 آنحضرت رات کو دیر سے لوٹتے تو خود ہی کھانا تناول فرما حرام اور حلال اشیاء واضح ہیں اور کچھ مشتبہ امور ہیں..لیتے.453 آنحضرت کا حضرت صفیہ کو اپنے گھٹنے پر اونٹ پر نیکی وہ ہے جس پر تیرا دل مطمئن ہو...سوار کرانا 471 472 454 نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ جو تیرے دل میں آنحضرت کا اپنے اہل وعیال کے نان و نفقہ کا خیال رکھنا کھٹکے 472 454 حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کا حرام وہ ہے...ارشاد 455 شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو 473 473 عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اس بھلائی سے پیش آیا انسانی وساوس اور شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے آخری کرو تین سورتیں پڑھنے کا ارشاد 474 456 آنحضرت کا بیماری میں آخری دوسورتیں پڑھ کر جسم پر ملنا ابرار اس لئے کہا کہ اپنے والدین اور بچوں سے حسن سلوک کیا 465 459 جو وشخص قرآن کریم خوش الحانی سے نہیں پڑھتا اس کا ایک شخص کا اپنے بچہ کو اپنے ساتھ چمٹانا حضور نے فرمایا کہ ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں 696 تو اس پر رحم کرتا ہے فرمایا اللہ تجھ پر اس سے بہت زیادہ رحم کونسا اسلام بہتر ہے فرمایا ضرورت مند کو کھانا کھلانا اور ہر

Page 985

19 ایک کو سلام کرنا نعمت شکر کے ساتھ وابستہ ہے 539 ادائیگی قرض کرنے والے کا ٹال مٹول اس کی آبرو اور سزا 553 کو حلال کر دیتا ہے 576 چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مجھ سے مانگوحتی کہ جوتی کا تسمہ جو ادا کرنے کی نیت سے قرض لیتا ہے خدا اس کی طرف بھی.554 سے ادا ئیگی کرے گا اور جو تلف کرنے کی نیت سے تو خدا جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا.جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا اسے تلف کر دے گا پرش وہ اللہ کا بھی..577 554 آنحضرت کا کفر اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگنا 578 590 جب اللہ کسی قوم کو خیر و برکت عطا کرنا چاہتا ہے تو ان کی منافق کی تین علامتیں عمریں بڑھاتا ہے اور شکر بجالا ناسکھا دیتا ہے 556 صدق فرمانبرداری کی طرف رہنمائی کرتا ہے 591 آنحضور رات کو اتنا لمبا قیام فرماتے کہ پاؤں سوجھ جاتے میری امت میں حقیقی مفلس وہ ہیں جو قیامت کے دن مقروض کو مہلت دینا اس کے لئے صدقہ ہوگا 556 572 نیکیاں لے کر آئیں گے لیکن ان کی نیکیاں دوسروں کے حساب میں ڈال دی جائیں گی جن سے ظلم کیا ہوگا 591 صدقہ کی جزاء دس گنا اور قرض دینے کی جزاء اٹھارہ کسی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس بات کو ترک کر گنا..572 جو چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول اور اس کی تکلیف دور ہو جائے اسے چاہئے کہ تنگدست مقروض کو سہولت دے...572 دے جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں 592 ہم نے رسول کریم کی بیعت اس شرط پر کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے..609 آنحضرت کی اس کے لئے دعا جو قرض کی واپسی کے جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری 574 اطاعت کی...610 تقاضا میں نرمی کرتا ہے ایسا شخص جنت میں داخل کیا گیا جو خرید وفروخت اور قرض جو حاکم کی نا پسندیدہ بات دیکھ کر صبر کرے جو نظام سے 574 بالشت بھر بھی جدا ہوا اس کی موت جاہلیت کی موت کے تقاضے میں آسانی پیدا کرتا تھا ایک تاجر سے اللہ نے صرف نظر فرمائی کہ وہ قرضدار سے ایسا کرتا تھا 574 عہدیداران بھی پوچھے جائیں گے 611 615 قرض کی ادائیگی میں بہترین انداز...575 اے لوگو! پگڈنڈیوں پر نہ چلنا بلکہ جماعت اور عـــامة دولت مند کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے المسلمین کے ساتھ رہو 615 576 جو چاہتا ہے جنت کے وسط میں گھر ہو جماعت سے چمٹا

Page 986

20 رہے 616 مجالس ایسی ہوں من ذكـر كـم الله رؤيته.....489 ایک صحابی کا آنحضور کے گھر جا کر دستک دینا اور کہنا کہ جب کوئی قوم تلاوت یا تدریس میں مصروف ہو تو رحمت میں..627 باری انکوڈھانپ لیتی ہے 490 اے میرے بیٹے جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو جو کسی مجلس میں بیٹھے ہو اور ذکر الہی نہ کرتے ہوں تو اس 628 مجلس کو قیامت کے روز حسرت سے دیکھیں گے 490 سلام کہو جس نے تین دفعہ اجازت لی اور نہ ملے تو واپس لوٹ آئے جو لوگ اکٹھے ہوں اور بغیر اللہ کا ذکر کئے الگ ہو جائیں تو 629 ان کا حال ایسا ہے جیسے مردہ گدھے کے پاس سے واپس 630 | آرہے ہوں 490 افشوا السلام بينكم تم سے پہلی امتوں کی بیماری عداوت اور حسد تمہارے اند نیک اور برے ساتھی کی مثال ان دو شخصوں سے جن بھی گھس آئے گی....اور آپس میں سلام کا حکم 631 میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو....ایک شخص کا سلام کہنا اور آپ کا فرمانا کہ دس نیکیاں...مومن آدمی کے سوا کسی کے ساتھ نہ بیٹھو اے لوگو سلام کو رواج دو..491 491 632 حکمت کی بات سن کر پھر شرانگیز بات کی پیروی کرنے 634 والے کی مثال اس کی سی ہے جو ریوڑ سے بکری کی بجائے آنحضرت کا مصافحہ کرنا اور معانقہ کرنا 737 کتا پکڑے...492 آنحضرت مصافحہ سے ہاتھ خود نہ چھڑاتے سوار شخص پیدل کو سلام کرے اور پیدل بیٹھے ہوئے کو آئے جس سے تکلیف ہو 637 | آنحضور ناپسند فرتے تھے کہ آپ کے وجود سے ایسی بو..493 639 اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے آپس میں سلام کرے اگر درمیان میں دیوار بھی حال ہو جائے تو ملنے پر پھر سلام کرے 494 639 رستوں میں بیٹھنے سے بچو.راستے کے حقوق ادا کرو.....ایک مشتر کہ مجلس جس میں مسلمان اور یہودی تھے سب کو سلام کہا 495 639 | مجلس میں دو افراد اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر آپس میں اگر تم ایسی مجلس میں جاؤ جن کی باتیں تمہیں ناپسند ہوں تو گھسر پھسر نہ کریں اس مجلس کو چھوڑ دیا کرو 488 بہترین مجالس وہ ہیں جو کشادہ ہوں 495 496 مجالس تین قسم کی ہوتی ہیں...489 تم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اس لئے نہ

Page 987

21 اٹھائے کہ خود وہاں بیٹھے 497 میں نے بیعت اس شرط پر کی کہ نماز قائم کروں گا زکوۃ دوسرے بھائی کو مجلس میں جگہ دینی چاہئے اور آنحضور کا دوں گا.اپنا طریق 711 498 رات کے آخری پہر خدا کا آسمان سے نیچے آنا 716 جب کوئی آدمی جلسہ گاہ یا مسجد میں اپنی جگہ سے اٹھے تو شیطان کو رمضان میں جکڑ دیا جاتا ہے واپس آنے پر وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے 739 498 حالت سفر میں روزہ نہ رکھو انت اقوى ام الله 745 کوئی بھی بغیر اجازت کے مجلس میں دو افراد کے درمیان نہ ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لئے ہے سوائے بیٹھے 499 | روزے کے...747 مجلس کی ہر بات امانت ہوتی ہے سوائے تین قسم کی مجالس اللہ کے حضور اعمال کی کیفیت سات طرح ہے....روزہ کا کے 500 اجر صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے 748 آنحضرت مجلس سے اٹھتے تو دعا کرتے.500 آنحضرت کا شعبان کے آخری روز خطاب اے لوگو! تم جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ پڑوسی کا احترام پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ ممکن ہوا چاہتا ہے.....اور مہمان کا احترام کرے ایک صحابی جوڑے کی مہمان نوازی...کہ خدا بھی ہنسا اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو میری امت اس 508 بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو 750 506 515 دینا....., 749 751 751 سلام کو رواج دوکھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کرو 512 جنت کو رمضان کے لئے مزین کیا جاتا ہے جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار یا معزز آدمی آئے تو رمضان میں اللہ تعالیٰ کا لاکھوں افراد کو جہنم سے نجات اس کی عزت و تکریم کرو کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز 708 رمضان میں جنت کے دروازوں کو کھول دیا جانا اور جہنم کے اللہ فرمائے گا میرے بندے کی نماز دیکھو اگر کوئی کمی ہوگی دروازوں کا بند کر دیا جانا اور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ تو نفل عبادت سے پوری کی جائے گی دیا جاتا 0 8 751 جس نے رمضان کے روزے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزرتی ہو.یہیں ہوئے رکھے اس کے گناہ معاف...مثال پانچ نمازوں کی ہے 752 709 اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم نماز با جماعت 25 گنا زیادہ ثواب کا موجب ہے 710 ضرور اس بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی

Page 988

22 رمضان ہو 752 سے بھی جائے گا فرمایا تم ان خوش نصیبوں میں سے ہو جس نے رمضان کے روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکلتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا 659 753 سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ اس حالت میں صدقہ کرے 660 جو شخص ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز کہ تندرست ہو اور مال کی ضرورت رکھتا ہو پڑھتا ہے اس کے گزشتہ گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں 758 لوگوں کے ہر عضو پر صدقہ ہے، اگر دو بندوں کے درمیان اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں سنتا ہے جو بے صبری نہیں عدل کرتا ہے تو صدقہ ہے..دکھاتے.کھاتے.......672 762 کسی مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین اے لوگو جہنم کی آگ سے بچو اگر چہ کھجور کا آدھا ٹکڑا ہی دن سے زیادہ قطع تعلق کرے 674 28 سب سے ناپسندیدہ وہ شخص ہے جو زیادہ جھگڑالو ہو 674 دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے.28 قرآن کریم پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کی مثال ایک کھجور بھی خدا کی راہ میں دی جائے تو خدا تعالیٰ اس 28 | قرآن والے اہل اللہ کہلاتے ہیں 689 691 694 کو بڑھا کر پہاڑ جتنا کر دے گا بہترین نیکی وہ ہے جس پر استقلال سے قائم رہے 654 جس نے قرآن کے محرمات کو حلال سمجھ لیا اس کا قرآن پر مجھے کوئی ایسا گر بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے.آپ کوئی ایمان نہیں نے فرمایا کہ عبادت کرو.نماز باجماعت پڑھو ز کوۃ دو ، صلہ قرآن کو ظاہر کر کے پڑھنے والا ظاہری طور پر صدقہ دینے رحمی کرو اور ہمسایہ سے حسن سلوک کرو مجھے جنت کی طرف لے جانے والا کام بتائیے فرمایا عبادت بہت سے فتنے ہوں گے اور ان سے خلاصی کی صورت کر شریک نہ ٹھہرانماز زکوة..ایک مسلمان کے دوسرے پر پانچ حق ہیں.سلام کا جواب صرف دو آدمی ایسے ہیں جن کے بارے میں حسد جائز ہے 655 والے کی طرح ہے 656 کتاب اللہ ہوگی عیادت، تعزیت ، دعوت قبول کرنا ، چھینک مارے تو جواب جو تلاوت کرتا ہو اور جو مال خرچ کرتا ہو دینا....سلام کہنا، مشورہ بھلائی کا دینا 695 695 695 658 جس نے تین دن سے کم عرصہ میں قرآن ختم کیا اس نے جنت کے مختلف دروازے ہر ایک نیکی کرنے والا اس میں قرآن کا کچھ نہیں سمجھا سے...حضرت ابوبکر کا پوچھنا کہ کیا کوئی ہر ایک دروازے 696

Page 989

955 640 33 1 331 15 29 23 آنکھ مضامین افرادا جماعت کو کچھ نصائح آنکھ کی خیانت اور مردوں کی ذمہ داری 105 آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ شعائر اسلام کو اتنا آداب رواج دے کہ یہ احمدی کی پہچان بن جائے.عام میل ملاقات اور گھروں میں جانے کے ہم احمدیوں کو خاص طور پر دعاؤں اور استغفار کی بارے اسلامی تعلیمات اور آداب اور سلام طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت کی بابت احکامات اجتماعات 624 تا 642 دین کو بچانے کے لئے احمدیوں پر بہت بڑی اجتماعات میں حاضری اور شمولیت کی فضیلت 325 جماعت احمدیہ کی اجتماعی یا انفرادی ترقی کا راز ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اجتماعات سے استفادہ کی ضرورت اور برکت 414 عاجزی دکھانے میں اور عاجز رہنے میں ہے احسان جماعت میں ایسے مخلصین ہیں جو بخل کو کبھی اپنے اوپر احسان کے متعلق اسلامی تعلیمات اور ارشادات 215208 حاوی نہیں ہونے دیتے ہر احمدی کو احسان کے اعلیٰ ترین خلق کو دنیا میں محنت کر کے اور مرغی کے انڈے بیچ کر خلیفہ وقت رائج کرنا چاہئے 210 کی تحریک پر عمل کرنے کے شائق احمدی احسان کی مختلف حالتیں اور شکلیں 210 جماعت احمدیہ کے خلاف پاکستان میں احمدیت قانون سازی اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور مخالفین کے جماعت ختم ہونے کے جھوٹے دعاوی دشمن کی ناکامی و نامرادی 30 243 یہ سلسلہ پھلے گا اور بڑھے گا.یاد رکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے وہ آج بھی اپنے کا اظہار کرنے والا ملک براعظم افریقہ پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے فرانکوفون افریقی ممالک میں احمدیت کے وسیع وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑیگا 354 پھیلاؤ کی خوشخبری 480 احمدیت کو قبول کرنے میں بہت ہی زیادہ جوش و جذ بہ احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدل وانصاف قائم کرے...احمدیت نصیب ہونا خدا کا احسان ہے اس کا 189 شکر یہ ہے کہ نیک تبدیلی 243 244 235

Page 990

24 احمدیوں کو رعب دجال سے بچنے کی تلقین 294 اگر کسی عزیز رشتہ دار کی مصیبت پڑ جائے تو استغفار بہت احمدی عفو و درگذر کا خلق اپنائے ایک احمدی کو انسانیت اور خصوصی طور پر 140 پڑھو.خدا تعالیٰ تمہیں بچالے گا اسلام مسلمانوں سے ہمدردی ہونی چاہئے 374 زندہ مذہب اور بندے کا خدا سے تعلق احمدیت کی نعمت اور اس پر جتنا بھی شکر کریں کم ہے 373 پیدا کرنے والا اخلاق خدا تعالیٰ کا احسان کہ ہمیں اس کی تعلیم پر ایمان بنیادی اخلاق کے متعلق حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ نصیب ہوا.اسلام کی صحیح تعلیم کی وضاحت کا خطبات دینا اسلام نے ہمیں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی توجہ دلائی ہے.اردو 208 832 حضرت مسیح موعود کے ذریعہ 107 821 234 اسلام کی خدمت کرنے والے اور نام لینے والے ملکوں کی ناکامی و نامرادی اور اس کا سبب 646 اسلام کی بھیانک تصویر پیش کرنے والے جنونی ملاں 722 اردو زبان میں حضور انور کا غانا میں خطبہ اور اس کی وجہ ازواج مطہرات کا صدقات دینے کی خواہش اور آنحضرت سے محبت کا عالم کہ وفات کے بعد جلد ملنے کی تمنا اساتذہ کی عزت کا حکم استغفار استغفار کی فلاسفی و حکمت اور فضیلت 215 اصلاح اصلاح کی خاطر صرف معاف کرنا ، یہ نہیں سزا اور تعزیز بھی اس کا حصہ ہے اطاعت 141 853 اطاعت کی اہمیت اور برکات اور نظام جماعت میں اس کی ضرورت 6 2 1 6 0 4 410 ہمیشہ یادرکھیں کہ اطاعت میں ہی برکت اور اطاعت میں ہی کامیابی ہے 326 خلیفہ وقت کی اطاعت اسی صورت میں ہے استغفار کی ضرورت اور اہمیت و فضیلت 316 جب نظام کے ہر عہد یدار کی اطاعت ہے استغفار کے فضائل اور اہمیت 778 احمدی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اطاعت کے ہر احمدی کو استغفار کرنا چاہیئے اور یہ دعا پڑھنی چاہئے اعلیٰ معیار قائم کریں ربنا لا تزغ قلوبنا.....675 حکومت اور ملکی قانون کی اطاعت اور پابندی قرض سے نجات اور اولاد کے حصول کا ذریعہ 326 | ضروری ہے 609 955 607 606

Page 991

25 کسی عہدیدار کی طرف سے زیادتی بھی ہو جائے اس کی طرف آتا ہے وہ ہرگز ضائع نہیں ہوتا 230 تو صبر کریں.خلیفہ وقت تک اس کی شکایت پہنچا اللہ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت ہے دیں لیکن اپنی اطاعت میں فرق نہ آنے دیں ہمیشہ یادرکھوکہ تمہارا مطمح نظر تمہارا مقصدِ حیات اعتراض نظام پر اعتراض کرنا بھی خیانت ہے 110 866 صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی مرضی ہونا چاہئے 611 اعتراض کرنا آہستہ آہستہ عہدے داروں سے بڑھ کر نظام الہام ” مولی بس“ والی انگوٹھی جو کہ اب حضور انور اور پھر خلافت تک اعتراض چلے جاتے ہیں 110 کے پاس ہے الہام 352 عیسائیوں کا اعتراض کہ آنحضرت نے جھوٹ بولنے کی یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے اجازت دی ہے تو حضرت مسیح موعود کا جواب 176 لیڈر عبدالکریم کو....خذوا الرفق اعتکاف تیری عاجزانہ را ہیں اسے پسند آئیں اعتکاف کے مسائل اور برکات اور تقاضے 778 ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں.456 25 893 892 آنحضرت کا ایک مرتبہ رمضان کی بجائے شوال صلّ على محمد و آل محمد میں اعتکاف کرنا دوران اعتکاف مساجد میں دعاؤں کے لئے افطاریوں کا سلسلہ نا پسندیدہ ہے 780 | انا انزلنه في ليلة القدر انا انزلنه للمسيح الموعود 780 آپ کے متفرق الہامات فتح و ظفر وغیرہ 791 642 السلام علیکم کے الفاظ میں بھی حضرت مسیح موعود آپ کا فرمانا کہ رات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کو خوشخبری دیا جانا 642 جھڑک آئی ہے کہ میرا لنگر ذرا بھی منظور نہیں ہوا 522 الکوحل ملی اشیاء یا سور کی چیزوں سے بڑی احتیاط کرنے کی السلام علیکم تلقین الله 467 نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ امام مهدی رمسیح موعود 642 609 اللہ تعالیٰ کے فیض حاصل کرنے کے لئے آنحضرت اور امام مہدی کا زمانہ عدل اور امن و صلح کا زمانہ ہوگا 189 آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہونا چاہئے 893 امام مہدی کی بعثت اور اس کی بابت احادیث 189 خدا کی یہ عادت نہیں کہ جو اس کے حضور عاجزی امانت سے گر پڑے وہ اسے خائب و خاسر کرے....جو امانت کی ادائیگی کی اہمیت 105

Page 992

26 عہد یداران کے پاس ہر فرد جماعت کی بات امانت انصار اللہ کے ذمہ قرآن کریم کے درس و تدریس 688 اور راز ہے امت مسلمہ 361 انصار اللہ یو کے کا ہارٹلے پول مسجد بنانے کا وعدہ 755 انصاف امت مسلمہ کے لئے دعا کی تحریک 791 انصاف کے متعلق جماعتی عہد یداران کو نصائح 187 میں پھر کہتا ہوں کہ خدا کا خوف کرو اللہ تعالیٰ کی انفاق فی سبیل اللہ لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے...امت مسلمہ کا خطرات سے دوچار رہنا باعث ہے انفاق فی سبیل اللہ اور صحابہ کی قربانیاں 403 انفاق فی سبیل اللہ کے لئے پاک مال ہو اور کسی 904 انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور برکات 25 356 کہ مسیح موعود کو نہیں مانا امن امن کے قیام کے لئے زیادہ تنظیمیں UNO وغیرہ اور ان کی ناکامی اور اس کے اسباب اموال کو خبر بھی نہ ہو......انگوٹھی 645 حضرت مسیح موعود کی تین انگوٹھیاں اور مولی بس خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا جہاد جس کی طرف اولاد 34`29 27 352 والی انگوٹھی کا حضور انور کے پاس آنا بلایا جا رہا ہے 375 اولاد کی نیک تربیت اور حصول اولاد کی اصل مراد 223 اولاد کی تربیت کی ضرورت اور ارشاد نبوی 231 سفر پر نکلیں تو امیر مقرر کر لیں 433 اہل بیت انٹرنیٹ اہلِ بیت سے محبت اور اس کی افادیت 893 انٹرنیٹ کے بھیانک نقائص 92 | ایجادات انٹرنیٹ کا غلط استعمال اور ایک بہت بڑی لغو چیز 593 نئی نئی ترقیات اور صنعتوں کے قیام کا زمانہ حضرت مسیح انصار الله موعود کا زمانہ جو کہ انصار اللہ کی ذمہ داری اور فریضہ قرآن کریم کی ایم ٹی اے ترویج کی طرف توجہ 698 | ایم ٹی اے خدام الاحمدیہ انصار اللہ اور اگر لڑکیوں کا فنکشن ایم ٹی اے کی اہمیت ہو تو لڑکیاں کام کریں 790 215 376 88 ایم ٹی اے کا بابرکت اجراء اور اس کی اہمیت 350

Page 993

27 ایم ٹی اے تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ 728 | بدعت ایم ٹی اے کی اہمیت اور منفرد مقام نیز اس کے بدعات سے پاکیز گی جماعت احمدیہ میں شامل ایک اور چینل کا آغاز ایم ٹی اے کے دس سال پورے ہونے پر والنٹیئرز کی قربانیوں کا ذکر.وفاؤں کے پتلے اور پیارے لوگ ایم ٹی اے کے لئے مختلف ممالک کو پروگرام بنانے کی تلقین و تحریک ایم ٹی اے کے پروگرام اور ان سے استفادہ کی اہمیت وضرورت ایم ٹی اے کے لئے مختلف پروگرامز بنانے کی طرف توجہ جس میں حضرت مسیح موعود کی کتب وغیرہ شامل ہوں باپ کی ذمہ داری 55 ہو کر ہی ہو سکتی ہے برائیاں برائیوں کے اظہار سے روکنا اور اس کے 40 | نقصانات بزرگ 1 4 بعض نام نہاد دعا گو بزرگ اور ان کے شیطانی خیالات سے بچنے کی تلقین 2 3 4 8 37 764 402 بسکٹ ولایتی بسکٹ کی بابت حضرت مسیح موعود کا فتویٰ 467 بیٹی 402 بیٹیوں کے حقوق کی نسبت حق تلفی کرنے والے لوگوں کو تنبیہہ 128 بچہ کی تربیت کے لحاظ سے..بچے اولاد 460 بیعت بیعت کے نتیجہ میں عائد ہونے والی ذمہ داریاں بچوں کو مارنا شرک میں داخل ہے...460 اور تبدیلیاں بچوں کے حقوق کی ادائیگی کے متعلق ارشادات 186 بیعت کی خالص اغراض بیوه ، بیوی 529'528 223 بخشش بخشش صرف خدا کا کام ہے اپنی نیکیوں کے بیوہ کی شادی کے متعلق حضرت مسیح موعود کا ارشاد 927 زعم میں فتوے لگانا بندوں کا کام نہیں 323 بیواؤں کی شادی کی بابت تعلیمات بخل بیواؤں کے متعلق ارشادات بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے 29 بیویوں سے زیادتی اور ان کی حق تلفی بخل کی مذمت اور اس کے نقصانات 29 کرنے والے خاوند......924 186 185 453 452

Page 994

28 پاک اور نیک تبدیلی کی ضرورت 235 236 | انفردی اور ملکی سطح پر پاکدامن تحریک 832 پاکدامن رہنے کے علاج اور اس کی اہمیت 99 100 خلیفہ وقت کی تحریکات پر عمل کرنے کے لئے احمدیوں ظاہری پاکیزگی کے بارے حضرت مسیح موعود کا محنت کر کے مرغی کے انڈے بیچ کر شامل ہونا 30 493 امت مسلمہ اور عام مسلمانوں کیلئے دعا کی تحریک 792 کا ارشاد پرده پردہ کی غیر معمولی اہمیت اور اسلامی تعلیمات پردہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی تفصیل اور طریق 85 10 1 پردے کی بابت حضرت مسیح موعود کے ارشادات 97 تحریک جدید تحریک جدید کا قیام تحریک جدید کی مختصر تاریخ و پس منظر 3 4 4 795 تحریک جدید کی ابتدائی قربانی کرنے والوں کو بھلانا نہیں ان کے کھاتوں کو تا قیامت زندہ رکھیں 798 احمدیت اور اس کی ترقی اسی کے ساتھ وابستہ ہے 85 تحریک جدید نظام وصیت کے لئے ارہاص ہے 810 مردوں کے لئے غض بصر کا حکم اور اس کا فائدہ 86 پردے کی رعایت اور شرائط عورتیں عورتوں سے بھی پردہ کریں اس کی حکمت اور تشریح پردے کے احکام ہمارے ہی فائدہ کیلئے ہیں 92 89 92 98 تحریک جدید میں نئے بچوں اور خصوصاً واقفین کو کو شامل کریں.....809 تبلیغ اور دعوت الی اللہ کی اہمیت اور فرضیت اور برکات تبلیغ ڈے ہی صرف کافی نہیں 389 372 جن کی اولاد نہ تھی تحریک جدید کا چندہ ان بچوں کے نام پر دینے کی برکت سے اولاد کا ہونا تحریک جدید کے سال نو کا اعلان اور مالی قربانیاں کرنے والوں کا ذکر خیر تحریک جدید کے دفتر پنجم میں لاکھوں افراد کی 723 شمولیت کی خواہش تحریک وقف جدید 809 745 813 2 4 نماز تراویح میں جلدی قرآن ختم کرنے کی رسم 696 تجارت تجارت کے ساتھ ساتھ اللہ کا خوف اور خشیت بھی رہے تجسس 313 تربیت شعبہ تربیت کے لئے کچھ ہدایات 402 تجسس اور بلیک میل کرنے کی مذموم حرکات اعلیٰ اخلاق کی تربیت ہمیشہ بچپن سے ہوتی ہے 169

Page 995

221 694 688 29 20 نزیکین تلاوت قرآن تزئین کمیٹی ربوہ کی بہتر کارکردگی پر حضور انور ہر احمدی کو ہر حال میں روزانہ کرنی چاہئے 262 کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو کہ روزانہ قرآن کریم کا اظہار خوش نودی کی تلاوت نہ کرتا ہو ہر گھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہئے 469 تغییر سورۃ الناس کی تفسیر بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علامه رازی کا کہنا کہ زید بن اسلم کو خواب میں دنیاوی تنظیموں کے مقاصد اور ان میں نا کامی 645 بتایا گیا کہ ھون سے مراد وہ لوگ ہیں جو زمین ذیلی تنظیموں کا قیام ایک دور رس نظر کی سوچ میں فساد نہیں چاہتے تقوی تقویٰ کا لفظ قرآن میں بے شمار مرتبہ آیا اور اس کی اہمیت ارشادات 5 218 2 19 223 218 173 117 تمام ذیلی تنظیموں کو قرآن کریم کے درس و تدریس کی کوشش کرنی چاہئے ما تنظ ذیلی سیمیں اور نظام جماعت ان نام نہاد دعا گو بزرگوں....ایسے بدعات J......پھیلانے والوں کا سد باب کریں ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری کہ احمدی نوجوانوں کو جو دُور ہٹ رہے ہیں ان کو قریب لائیں گھروں کو بسانے کے متعلق تربیت کے تحت سمجھانے کا کام کریں تقویٰ کے معانی تقویٰ کی اہمیت اور فضیلت کے متعلق تقویٰ کو لباس کہنے کی حکمت شادی بیاہ کے موقعہ پر تقویٰ کی آیات کا ذکر اور اس کی حکمت اولا دوں اور نسلوں میں بھی جاری رکھنے کی کوشش کریں تکبر تکبر سے بچو شرک کے بعد تکبر جیسی کوئی بلانہیں 218 توبہ تو بہ کی اہمیت اور فضیلت تہجد 223 تہجد کی عادت ڈالو ٹیوشن 18 ٹیوشن کی وبا پاکستان میں.احمدی اساتذہ کو اس سے پر ہیز کرنا چاہئے 344 6 8 8 765 867 9 34 320 636`635 4 10

Page 996

50 30 پاکستان میں احمدیوں کو غیر منصفانہ طور پر سزائیں دینے والوں کو انتباہ جلسه سالانه جلسہ سالانہ کے آداب اور تقاضے جمعه جمعہ کی اہمیت اور فضیلت 326 899 جمعہ کی اہمیت و فرضیت اور برکات 16 8 تا 828 490 جمعہ بھی ایک طرح کی عید ہی ہے جمعۃ الوداع جلسہ سالانہ کے لئے بنیادی ہدایات اور نصائح 464 جمعۃ الوداع کی کوئی خاص الگ اہمیت یا جلسہ کی کاروائی سنے کی ضرورت 533 532 جلسہ سالانہ کے مقاصد اور آداب 528 تا 547 جلسہ کے فوائد اور برکات اور نصائح جلسہ کے لئے متفرق ہدایات یہ جماعتی جلسہ ہے اس کو میلہ نہ سمجھیں 601 5470539 545 جلسہ اور اجتماعات کے لئے آنے والوں کا مقام اور اس کے آداب و تقاضے جلسہ سالانہ برطانیہ کی اہمیت اور حیثیت اور جماعت انگلستان کی ذمہ داری کو نبھانا جلسہ سالانہ برطانیہ کے لئے ہدایات اور رہنمائی 427 505 حیثیت نہیں ہے جوٹھا 824 824 822 821 اپنے بھائی کا جوٹھا پانی پینے سے ستر درجات کا اضافه ستر گناہ معاف........جوئے جوئے کی فضولیات سے بچنے کی تلقین جہاد جہاد سے مرا نفس کے خلاف جہاد اس زمانے میں حضرت مسیح موعود کے ماننے والوں کا سب سے بڑا جہاد دعوت الی اللہ ہے 9 598 657 440 آپ کے زمانہ کا جہاد اموال اور وقت کی قربانی 375 505 تا 525 آپس میں لڑائی جھگڑے اور ایک احمدی کی شان 307 لڑائی جھگڑوں کے نقصانات اور اسلام کی خلیفہ وقت کی موجودگی کی وجہ سے جلسوں کی حیثیت اور کیفیت جماعت احمدیہ جماعت احمد یہ ہی ہے جو سب سے زیادہ آنحضرت سے محبت کرنے والی ہے جماعت احمدیہ پر آنے والے ابتلاء اور کامیاب اور مظفر و منصور خلافت کے ادوار 4 50 خوبصورت تعلیم عہد عہد کی اور وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کا 897 باعث جھگڑوں کی بناء جھوٹ 343 جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ 6800667 159 590

Page 997

31 جهیز حضرت فاطمہ کو ملنے والا جہیز اور آجکل شادی بیاہ میں فضول خرچی..چندہ جات چندوں کی رقوم اپنے استعمال میں نہ لائ...110 چندوں کی ادائیگی کی تحریک اور اس میں 289 حصہ لینے والوں کے لئے دعا اور ان کی اہمیت 34 چندہ دینے میں سستی کرنے والوں کو تنبیہہ چندہ جات کا نظام جماعت اور اس کی فرضیت 655 چندہ جات کی ادائیگی میں قابل تقلید احمدی جو چندہ جات کی بابت حضرت مسیح موعود کے 804 358 قرض لے کر بھی چندہ ادا کرتے ہیں اگر ہم اپنی نسلوں کو بھی دینی اور دنیاوی لحاظ سے خوشحال ارشادات ماہوار چندہ کی شرح خلافت ثانیہ میں چندوں کی ادائیگی کی اہمیت.یہ خدا کے ساتھ ایک معاہدہ ہے اس کے بر خلاف کرنا خیانت ہوا کرتی ہے 367 368 116 چندہ جات کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنے کی تلقین خصوصاً موصی احباب کو 359 358 دیکھنا چاہتے ہیں تو قربانیوں کے معیار قائم رکھیں 34 بچوں کو چندے دینے کی عادت ڈالیں ایک بے اولاد جوڑے کا علاج کروانے کے لئے خطیر رقم بجائے علاج کے مسجد کے چندہ میں دینا اور خدا کا اولا د دے دینا چندوں کی برکت سے اولاد کا ہونا اور ایک غلطی کا ازالہ.چندہ جات کی ادائیگی میں با قاعدگی اور ادائیگی کی برکات و چندہ جات کے باوجود زکوۃ کی ادائیگی بھی فضیلت 3 6 2 3 58 فرض ہے چندہ ادا کرنے والوں کو عاقبت کی فکر سے آزادی چھری کانٹے سے کھائیں لیکن اسلامی تعلیمات 365 کے مطابق اور رعب دجال میں آنے کی کی خوشخبری انبیاء نے چندوں کی تحریکات کی ہیں...اور چندوں ضرورت نہیں 804 805 | چیمپینیزی کی اہمیت و فرضیت چندوں کی ادائیگی کی تلقین از حضرت مسیح موعود 35 چیمینیزی کا اپنے غول کی حفاظت کرنا چندہ جات اور دیگر مالی تحریکات میں اخلاص کا مظاہرہ کرنے والے حافظه 806 849 848 367 294 482 286 حافظہ ایک بزرگ کا بڑی عمر میں قرآن حفظ کرنا 409 چندہ جات کو پوری شرح سے اور پوری خوشی سے ادا کرنے حرص کی نصیحت اور برکات 281 حرص سے بچنے کی تلقین اور اس کے تقصانات 283

Page 998

32 حقوق کو رہنے نہیں دے گا 8 1 3 کمزوروں کے حقوق کی بابت آنحضرت کے اگر دنیا کی حکومتیں بھی نکرلیں گی تو پاش پاش ہو جائیں گی ارشادات 916 ہمسایوں اور بہن بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی پاکستانی حکومت 813 12 کا خیال رکھنا چاہئے 2 3 3 خدام الاحمدیہ حقوق العباد شادیوں پر Serve کرنے کے لئے خدام حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت 64 اور اطفال کی ٹیم بنائیں 88 حقوق العباد کی اہمیت 650 وقار عمل کے ذریعہ دنیا بھر میں جماعتی عمارات اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم 105 کی صفائی کا خاص خیال رکھیں ایک دوسرے کے ہمسائے میاں بیوی کے خدام الاحمدیہ جرمنی ) کا مالی قربانی میں نمونہ 263 364 حقوق کا خیال رکھو حق مہر 388 خط پر وعید حدیث کی رو سے معاشرتی حقوق حسن معاشرت ایک شخص کا حضورانور کو خط لکھنا کہ پہلے جیسے جماعت دکھاوے کی خاطر مہر مقرر کرنا اور ادائیگی نہ کرنے میں اخلاص ووفا کے نمونے نہیں رہے اور 161 توقع کرنا....اور حضور کی عارفانہ شان تو کل 483 482 960`959 خطبه حسن معاشرت کے بارے ارشادات 464448 غانا میں حضور انور کا اردو زبان میں خطبہ دینا اور بیوی کے تعلقات اور آپس کی باتیں باہر اس کی حکمت کہ پاکستان میں احمدیوں کو کرنے کے نقصانات........110 111 خلیفہ وقت کی آواز سے محروم کیا گیا تھا 215 خلیفہ وقت کے خطبات کی اہمیت اور افادیت جو کہ صرف حکمت حکمت اور بزدلی میں فرق ہے 726 جماعت ہی کے لئے نہیں عام لوگوں کے لئے بھی حکومت فائدہ مند ہے کسی حکومت نے بھی اپنی کرسی کو بچانے کے لئے احمدیوں خلافت،خلیفہ، خلفاء راشدین کو تکلیف پہنچائی تو خدا اس کی حکومت خلفاء راشدین کے عدم احترام کی پاداش میں 7 28

Page 999

33 خلافت کی نعمت چھن جانا خلیفہ کا مقام و مرتبہ مجلس شوریٰ میں صدر اور راہنما کا ہے 336 | خلافت خامسه 345 خلافت خامسہ کے انتخاب پر بعض غیروں 200 کی آراء 351 350 خلافت کے ذریعہ الہی سلسلہ کی فتوحات اور غلبہ 244 سے کوئی لفظ نکلے سب سکیموں سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے...خلافت سے لوگوں کا والہانہ پیار اور عقیدت خلیفہ کے مقام ومرتبہ کے بارے ارشادات خوب یا درکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے 352 351 351 خلافت کی نعمت کا مسلمانوں سے چھن جانا اور اس کا سبب 336 559 نظام خلافت اور نظام وصیت کا گہرا تعلق خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ آنے والے خلیفہ کوخلیفہ ثانی کی بشارت اگر دنیا کی حکومتیں 346 بھی اس سے ٹکر لیں گی......34 6 خلافت کے منکرین کی غلط سوچیں اور خلیفہ اول کے استحکام خلافت کے کارنامے 3 4 1 کا اظہار 353 حضرت مسیح موعود کا قدرت ثانیہ کے ظہور کی بشارت دینا خلافت احمد یہ ایک دائمی سلسلہ نعمت ہے 338 337 خلافت کے خلاف ایک خطرناک منصوبہ بندی پاکستانی حکومت کی ) اور اس میں نا کامی خلیفہ وقت کی آواز سے محروم کرنے کا ظالمانہ قانون پاکستان میں تد بیر...349 اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ نے خلیفہ اسیح کی دعاؤں کے ثمرات 215 3 4 7 ہمیشہ قائم رہنا ہے.959 خلیفہ وقت سے دعا کروانے کے آداب.خلافت کی نعمت کے قیام کے لئے عبادات میں خدا کا ایجنٹ نہیں.عاجز بندہ ہوں 857 کا قیام ضروری ہے 708 | خلوص خلافت کے مختلف ادوار میں جماعتی اپنے کاموں اور عہدوں میں خلوص اور نیک نیتی ترقیات 109 24 7 661 341 354 سے کام کرو.....خلافت ثانیہ کا کامیاب دور ایک نظر 344 غانین احمدی خواتین کا خلیفہ سے والہانہ محبت ترقیات پر ایک نظر 347 اور خلوص کا اظہار خلافت رابعہ میں ترقیات پر ایک نظر 349 خواب، رویا ر کشف خلافت رابعہ میں غیر معمولی جماعتی ترقی 244 سچی خوابیں دیکھنا کوئی نیکی نہیں

Page 1000

34 حضرت مسیح موعود کا کثرت سے درود شریف پڑھنا اور ۲.درود شریف.۳.موہبت الہی دیکھنا کہ لوگ ایک تھی کی تلاش میں ہیں 893 دعا کشف حضرت مسیح موعود جس میں آنحضرت اور حضرت حضرت مسیح موعود کا دعاؤں میں علی اور حسنین و فاطمہ کو دیکھا خیانت 894 التزام اور طریق دعا کروانے کے آداب.ایسے لوگ جو خلیفہ وقت 885 463 خیانت کی مذمت اور اس کے نقائص 105 104 کو دعا کا خط لکھتے ہیں اور اوپر گویا جواب طلبی کر رہے خیانت کی بابت حضرت مسیح موعود کے ارشادات ہوتے ہیں کہ کیوں دعا قبول نہیں ہوئی..115 117 آنحضرت کی چند دعائیں خیانت بھی جھوٹ کی طرح برائی ہے 108 آنحضرت کی ایک دعا جو داعیان الی اللہ کو خائن اللہ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا 115 پڑھ کر نکلنا چاہئے نظام پر اعتراض کرنا بھی خیانت ہے 110 آنحضرت کی ایک دعا جس میں آپ نے اپنی مسکینی کا اظہار......دانت دانت کی صفائی کی بابت ارشادات نبوی 269 رمضان کا مہینہ اور دعاؤں اور ان کی قبولیت کی شرائط 856 14 14 1 3 7746757 حضور انور سے کسی کا سوال کہ آپ کسی کو دعا کے لئے درس مساجد میں درس اور اجتماعات میں حاضری کی اہمیت 325 نہیں کہتے قرآن کریم کے درس کا جماعتوں میں رواج دیں 633 دعا گو بزرگ اور ان کے شیطانی خیالات...764 221 "يا ذالجلال و الاکرام کا واسطہ دے کر مانگنا کتب حضرت مسیح موعود کے درسوں کا انتظام اور قبولیت دعا کی ضمانت ہے 131 ایسے درسوں میں بیٹھنا چاہئے درود شریف 401 | دعوت الی اللہ دعوت الی اللہ کی اہمیت وضرورت اور اس کی قبولیت دعا کا ذریعہ درود کا حکم اور بالخصوص جمعہ کے دن 885 فضیلت....دنیاوی نظر سے کوئی مقابلہ نہیں 375 821 دعوت الی اللہ کی اہمیت اور فرائض و آداب قبولیت دعا کے تین ذرائع_ا.ان کنتم تحبون الله 735-720

Page 1001

314-298 3 7 4 396 347 35 دعوت الی اللہ کے طریق 3 38 | اسلامی تعلیمات دعوت الی اللہ ایک مستقل کام ہے تھکنا نہیں 385 دنیا تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اپنے اوپر فرض کر لیں اور سال میں ایک یا دو دفعہ کے لئے اور اس سے بچانے کا طریق بچوں کے دوستوں کا بھی والدین کو پتہ 377 کم از کم وقف کریں..اپنے اپنے طبقے کے لوگوں کو احمدی بنا ئیں...ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے کہ طوفانِ نوح ہونا چاہئے.بھی اس کے سامنے مات ہوگا 387 ڈاکٹرز اس زمانے میں سب سے بڑا جہاد واقفین زندگی ڈاکٹرز کی خدمات اور ان کے دعوت الی اللہ ہے 440 پیچھے خلیفہ وقت کی دعاؤں کا بھی حصہ ہے الک کا بھی حصہ ہے حضرت مسیح موعود کا دعوت الی اللہ کے لئے جوش.ڈانس ہمارے اختیار میں ہو تو فقیروں کی طرح گھر بہ گھر ناچ یا ڈانس، نظام کو حرکت میں آنا چاہئے اور پھر کر.......375 ان کے خلاف کارروائی دعوت الی اللہ کرنے والے کے لئے نصیحت 380 | ڈرامہ داعی الی اللہ کو اپنا نمونہ بھی نیک بنانا ہوگا 732 بے ہودہ اور لچر ڈراموں اور فلموں سے احتیاط دعوت الی اللہ کے لئے اپنا نمونہ بھی بہت ضروری ہے داعیان الی اللہ کے لئے آنحضرت کی ایک دعا جو انہیں پڑھ کر نکلنا چاہئے دفتر کی ضرورت 94 100 2 23 بے ہودہ گانے اور فلموں سے احتیاط کی ضرورت 99 940 ذات 14 ذاتیں کوئی وجہ شرافت نہیں....خدا تعالیٰ ذات قوم یا خاندان کا نہیں پوچھے گا.11 تحریک جدید کے دفاتر کا تعارف اور یہ کہ ہر دفتر ۱۹ سال کا رزق ہوگا دنیا 807 بسا اوقات انسان اپنی خطا کی وجہ سے رزق سے محروم کیا جاتا ہے دنیا کی حیثیت خدا کی نگاہ میں 306 307 | رشتہ ناطہ دنیا سے بے رغبتی اور زہد کے متعلق رشتہ ناطہ وغیرہ امور کے متعلق تفصیلی 860

Page 1002

36 اسلامی احکامات.حضرت مسیح موعود کا جماعت میں آپس میں رشتے کروانے میں دلچسپی اور اقدامات 924 تا 940 ایک پادری کا افریقہ کی ایک چھوٹے سے قبیلے کی زبان سیکھنا تا کہ بائبل کا اس زبان میں ترجمہ کر سکے ایک کتاب بنانا..937 | زکوة شعبہ رشتہ ناطہ کا مرکزی دفتر اور مقاصد زکوۃ کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنے کی تلقین احباب جماعت کی ذمہ داری رمضان، روزه عورتیں زکوۃ ادا کرنے کی طرف توجہ کریں تو 939 نصاب اور شرح کے مطابق ادا کریں 4 19 365 رمضان کی اہمیت اور برکات 738 تا 754 زکوۃ کی رقم میں اضافہ کافی ہو سکتا ہے 367 | رمضان کے آخری عشرہ کی برکات و فضائل اور عبادات کا تذکرہ زہر 776 تا 793 زہد اور بے رغبتی مال کی بابت حضرت مسیح موعود روزوں کی اہمیت کے متعلق حضرت مسیح موعود کے کے ارشادات ارشادات رمضان میں قرآن کی تلاوت ترجمہ اور درس کا خصوصی اہتمام 741 | زیور احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر زکوۃ ادا 746 کر دیا کریں قرآن کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقوی ہے 744 سادگی 31 3 366 جو مریض / مسافر روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ دکھاوے اور فضول خرچی کی بجائے سادگی کے حکم کی صریح نا فرنامی کرتا ہے 745 کو اپنا ئیں 803 روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے ایک دعا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سادگی اور الہی یہ تیرا مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے قناعت کا نمونہ محروم رہا جاتا ہوں......744 سال نو کی مبارکباد 292 22 ریڈیو ستاری اور پردہ پوشی بور کینا فاسو میں احمد یہ ریڈیو کا قیام اور اس کی اہمیت 23 1 زبان ستاری اور پردہ پوشی کی ضرورت اور اس کی افادیت 8450833 ستاری اور پردہ پوشی کی بابت حضرت مسیح موعود واقفین نو کو زبانیں سیکھنے کی تلقین 418 کے ارشادات 844-835

Page 1003

37 حضرت مسیح موعود کا اپنے وکیل کو اپنے فریق مخالف کی تعلیمی مساعی ذات کی بابت سوالات کرنے سے روک دینا 840 سگریٹ سچائی سچائی کی تعلیم جس قدرقرآن میں ہے انجیل میں نہیں سگریٹ بھی لغو اور بے ہودہ کے زمرے میں لغو چیزوں سے بچنے کے ارشادات 177 سگریٹ نوشی سے بچنے کے لئے بچوں پر نظر رکھنے حالات جیسے بھی ہو جائیں انصاف اور امن کا دامن ہاتھ کی ضرورت ہے سے نہیں چھوڑنا اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا سرکہ جس گھر میں سرکہ ہے وہ محتاج نہیں.حدیث بچوں کو سزا دینے کے بارے ارشاد سفر 176 28 460 سلام 34 7 588 597 3 32 سلام کرنے کی اہمیت اور فوائد.اس عادت کو رواج دینے کی ضرورت سلام کو رواج دینے کی تلقین 6410627 5 39 حضرت خلیفہ امسیح الرابع در حضور انور کا السلام علیکم 633 59 57 5 511 3 104 259 277 443 آنحضرت کے سفر کے بتائے ہوئے آداب وطریق 431 سفر کے آداب اور اسلامی تعلیمات اور مسیح موعود کا نمونہ 4410426 رات کے سفر میں زیادہ احتیاط کرنا ضروری ہے 437 ورحمۃ اللہ کہنا اور بر کا نہ نہ کہنے کی حکمت آنحضرت کا اولیں اور مسیح کو سلام کہنا سود سود کی شرعی تعریف سونا ایسے سفر جو خدا کی خاطر کئے جائیں ان کے تقاضے سونے کا طریق کہ سید ھے اور دائیں کروٹ سوئیں 428 426 دورانِ سفر نماز کی بجائے یا گھر سے نماز پڑھ کر نکلیں سیرت النبی 438 عجز و انکساری یارک کر راستہ میں پڑھیں سفارش امانت و دیانت غلط سفارش سے بچنے کا حکم 106 | نظافت وصفائی سکول قناعت و سادگی جماعت کے تحت چلنے والے سکول اور ان کی سربراہ خاندان

Page 1004

38 غریبوں، مسکینوں اور غلاموں، خادموں سے حسن سلوک اے کرم خاک چھوڑ دے کبر و غرور کو سور 906 تا 917 | محمد عربی بادشاہ ہر دوسرا 21 کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی 888 سور کے گوشت پر مشتمل ریسٹورنٹ چلانے یا اس میں کام بھلا ہوا ہم پیچ بھلے ہر کو کیا سلام کرنے کی ممانعت اور ایک صاحب کا خط 466 یا رب انی ناشد محمدا شادی 172 شادی بیاہ کے موقعہ پر تقویٰ کی آیات کے ذکر كنت السواد لناظري میں حکمت شادی بیاہ کے موقعہ پر بے جا اسرافات اور غیر ضروری اخراجات کی مذمت 218 جان و دلم فدائے جمال محمد است 8 سنانا اور اس کا متاثر ہونا حضرت انور کا یہ شعر ایک ایرانی ایمبیسی کے آفیسر کو لڑکیوں کو پسند کرنے والوں کے لئے حضور انور کی بنیادی پیچ محبو بے نماند ہمچو یا ر دلبرم ہدایات 932 933 مهروماه را نیست قدری در دیار دلبرم 18 895 903 892 دین کا کفود یکھنا بھی ضروری ہے اور لڑکے اور لڑکی احمدی شک و شبہات اور حلال وحرام کے متعلق اسلامی تعلیمات ہوں جو شادی کریں کنواری لڑکی کا ولی..لیکن لڑکی کو اختیار دیا گیا کہ اور آنحضرت کا طریق کار 31 9 اور نصائح شکایت 4 7 5 4 6 6 عہد یداران کی شکایت کرنا اور اپنا نام نہ لکھنا بے نام شکایت کرنے والا خود تقویٰ سے عاری اختلاف کرے اور نظام جماعت کو بتائے..930 | یہ منافقت ہے شادی بیاہ پر غیر محرم لڑکوں کو Serve کرنے کے لئے بلانا اور اس کی برائیاں 35288 اور خائن ہے مجھ کو بس ہے میرا مولا.میرا مولا مجھے کو بس ساتھ میرے ہے تائید رب الوری جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا 352 114 115 114 نظام جماعت میں شکایت کا درست طریق کار 942 42 شکر کی اہمیت اور برکات 5620551 16 شکر کی بابت حضرت مسیح موعود کے ارشادات 5620554 16 کون کہتا ہے کہ نالائق نہیں ہوتا قبول

Page 1005

39 شکر ادا کرنے کا طریق جزاك الله خيرا 212 اور دورنگی سے دور تھے شوری صحابہ آنحضرت کا تبلیغ کے لئے دور دراز ملکوں شوری کی اہمیت اور اس کی بابت اصولی ارشادات میں جانا اور چین بھی پہنچنا اور نصائح 192 صحابہ کرام کا نیکیوں میں بڑھنے کا جذبہ نظام خلافت کے بعد دوسرا اہم اور مقدس ادارہ 196 صحبت صادقین مجلس شوری اصولی کاموں میں خلیفہ کی جانشین ہے صحبت صادقین کی اہمیت اور برکت اور ارشادات شوری کی کارروائی کی صدارت کرنے والا 200 غلط صحبت کے نقصانات خلیفہ وقت کا نمائندہ ہوتا ہے 200 صدر انجمن 167 295 648 404t392 595 شوری سفارش کرتی ہے فیصلہ نہیں 198 صدر انجمن کی ترتیب و تنظیم اور اس کا قیام وحیثیت 344 مجلس شوری کا نمائندہ پورے سال تک نمائندہ صدر مملکت غانا کا حضور انور کو دعا کا کہنا ہی رہتا ہے.اور اس کی ذمہ داریاں 200 | صدقات و خیرات نمائندگان شوری کی ذمہ داریاں صبر 202 صدقات و خیرات اور دعا کے برکات و فضائل 247 8640850 صبر کی اہمیت اور اس کی بابت اسلامی تعلیمات 120 صدقات و خیرات کے متعلق حضرت مسیح موعود کے اللہ سے بڑھ کر کوئی صبر کرنے والا نہیں اور اس کا ارشادات صبر یہ ہے.لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں اس کے صدقہ کی مختلف اقسام با وجود وہ انہیں رزق اور عافیت عطا فرماتا ہے صبر کی اقسام 123 صحابہ کا صدقہ اور مالی تحریکات میں شمولیت 122 کے لئے محنت و مزدوری کرنا.صبر کی حقیقت کہ خاموش رہے نہ کہ جگہ جگہ باتیں صدقہ جار یہ علم کا سکھانا کرتا پھرے......1 1 6 صحابہ کا صدقہ کے لئے محنت مزدوری کرنا اور صبر کی دعا مانگنے سے مراد ابتلاء مانگنا ہے 131 صدقہ ادا کرنا صحابہ کرام صدقہ دیتے ہوئے یہ نہ دیکھو کہ کس کو صدقہ صحابہ کرام کی نیک فطرت کہ وہ کس طرح نفاق دیا جا رہا ہے 8 54 672 363 4 10 29 853`852

Page 1006

40 دعاؤں اور صدقات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے عبادت کی اہمیت اور ضرورت صفائی صفائی کی بابت حضرت مسیح موعود کا تفصیلی ارشاد 855 عبادت کی اہمیت اور فرضیت وفضیلت عبادت کے متعلق حضرت مسیح موعود کے ارشادات 275 273 372 226 230*227'869 اللہ تعالیٰ کو عبادت کی کیا ضرورت ہے 866 تا 881 871 کیا خدا بندے کی عبادت کا محتاج ہے؟ احمدیوں کو صفائی کا خاص خیال رکھنے کی تلقین..262 عجز و انکسار جماعتی عمارتوں کی صفائی کا خاص خیال رکھنے کی نصیحت کہ عجز وانکسار کی اہمیت اور برکات کے متعلق وقار عمل کے ذریعہ خدام الاحمدیہ اور لجنہ کو مساجد و غیره...272 ربوہ میں تزئین کمیٹی کے تحت صفائی کا بہتر معیار 262 صلح را صلاح اصلاح معاشرہ کی بابت تعلیمات مومن کو صلح جلدی کرنا چاہئے حضرت مسیح موعود کی صلح اور امن کی خواہش ظاہر ہومیو پیتھک 6800667 674 674 احادیث وارشادات 4 تا 22 عاجزی اختیار کرنے والے کو ذلت کی موت نہیں آتی 19 عجز و انکسار کے خُلق سے لوگ گرویدہ ہو جاتے ہیں 4 تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ عاجزی اگر کسی میں نظر آتی ہے تو وہ آنحضرت کی ذات ہے بلند مقام عاجزی سے ہی ملتا ہے عجز و انکسار اور فروتنی.ماموروں کا خاصہ عجز و انکساری کے طریق جو آنحضرت نے ہمیں سکھائے..4 6 11 14 طاہر ہومیو پیتھک کمپلیکس کا غانا میں قیام اور خدمات عاجزی و انکساری کے سلیقے جو حضرت اقدس مسیح موعود 248 نے ہمیں سکھائے.آپ کے نسخوں پر عمل کر کے ہم اس خلق کو حاصل کر سکتے ہیں طلباء کو حضور انور کی مختلف ہدایات 410 412 | عدل وانصاف عالم اسلام عالم اسلام کو دعاؤں میں یاد رکھنے کی تحریک 829 عبادت انسان کی پیدائش کی اصل غرض اور عبادت کا مفہوم 227 عدل و انصاف کی بابت اسلامی تعلیم اور ارشادات 17 190 176 عدل و انصاف کے محتاط تقاضے اور کاروباری معاملات 182 181

Page 1007

41 عدل کا اعلیٰ ترین مقام اور معیار جس پر ہر احمدی کو عمل پہنچنا چاہئے 208 اللہ کی جنتوں کے وارث بنانے کے لئے اعمال جب بھی عشق رسول کے اظہار اور غیرت دکھانے کا معاملہ کی درجہ بندی آیا احمدی ہمیشہ صف اول میں رہا اور انشاء اللہ ہمیشہ رہے گا عفو عفو کی اہمیت اور اس کی فضیلت علم سیکھنے اور سکھانے..طالبعلم اور استاد کے عورتیں 5 8 3 9 89 عورتوں کے حقوق کے متعلق آنحضرت کے ارشادات 185 140 عورتوں سے حسن سلوک کی بابت ارشادات 213 عورتوں سے حسن سلوک کے متعلق حضرت مسیح موعود کے ارشادات حقوق فرائض کے بارے ارشادات 406 تا 423 عورتوں اور مردوں کو دینی علم کے حصول کی علم کے حصول کا مقصد رعب ڈالنا نہ ہو 416 417 ترغیب اور اس کی اہمیت 410 455 423 422 عورتوں کی مالی قربانی کا جذبہ اور اس کا نیک اثر 82 علم حاصل کرنا اور سکھانا ایک صدقہ جاریہ علم حاصل کرنے کے لئے عمر کی کوئی قید یا حد نہیں 408 چھوٹے بچوں والی عورتوں کو تو جمعہ پڑھنے کی آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ بالکل ضرورت نہیں عورت کو سرزنش کرنے کی قرآنی اجازت کا غلط 827 ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں 407 استعمال..اگر علم سے اللہ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو وہ علم وعدہ اعہد نہیں..علماء 448 413 وعدہ اور عہد کی بابت اسلامی تعلیمات 173158 صحابہ کے عہد کا پاس.ایک صحابی نے عہد کیا کہ امتِ مسلمہ کے نام نہاد علماء جن کا کام فساد پیدا کرنا ہے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا، تو اگر چابک بھی غمر عمر بڑھانے کا نسخہ کہ دین کے واسطے اپنی عمر وقف کرتے 376 | گر جاتا تو نہ مانگتے.وعید کے طور پر کیا گیا عہد توڑنا حسن اخلاق میں داخل ہے 169 170 378 بیعت کرتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد 162

Page 1008

42 کی ادائیگی کا عہد اور اس کی اہمیت 163 خلیفہ رابع کا تمام احمدیوں سے عہد لینا کہ خدا عیب تب بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس کی مرضی کے لئے جینا مرنا ہوگا اور دین اسلام کا پیغام تمام دنیا میں پہنچانا ہوگا دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو 721 غربت 843 130 عہد دوستی کی بابت حضرت مسیح موعود کی تعلیمات 841 غربت ختم کرنے اور غریب ملکوں کی مدد کے لئے منصوبہ بندی کرنے والے ایک وزیر کی حضور سے عہدہ ، عہدیداران عہدیداران کے فرائض اور نصائح 615 614 ملاقات عہد یداران جماعت کو نصائح، میل ملاقات وغیرہ ظاہری رکھ رکھاؤ اور خدا کی نعمتوں کے وقت 650 کے متعلق عہد یداران خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں 638 951 عہدیداران مسکراتے ہوئے ملیں اور خوشدلی سے ملیں غریبوں کا بھی خیال رکھنا اور خلیفہ وقت کی مرزا مظفر احمد صاحب کو نصیحت غصہ کو دبانا اور عفو کرنا بہت بڑا خُلق خود ملیں.ملنے کے لئے لمبے چکر نہ لگانے پڑیں 954 غض بصر عہد یداران جماعت کو نصیحت کہ ہر فرد جماعت کی کوئی بات بھی ہر عہد یدار کے پاس ایک راز ہے 361 عہدیدار کے انتخاب کے لئے بنیادی ہدایات 944 عہدیداران امانت اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے خدمت کریں 947`946 عہدیداران کا احباب جماعت سے کس قسم کا غضِ بصر سے مراد اور اس کا طریق غض بصر کا غیر معمولی مقام اور اہمیت ہمارے غالب آنے کے ہتھیار فتویٰ 267 139 86 95 389 735 حضرت مسیح موعود کا فتویٰ ایسے سکٹ یا دودھ وغیرہ 947 کے استعمال کی بابت جو بند ڈبی میں آتا ہے یا جن سلوک ہونا چاہئے جماعتی عہدوں کی خواہش نہ کرو اور خلوص اور میں سور کی چربی ہو نیک نیتی سے بجالا و.....عہدے کی خواہش کرنا معیوب امر ہے عہد یدار خود مثالی ہوں اور اعلیٰ نمونے والے ہوں 707 فدیہ صرف بوڑھوں کے لئے..109 ریسٹورنٹس 951 فدیه 467 744 743

Page 1009

43 فرائی ڈے دی ٹین تھ فرائی ڈے دی شیفتھ کا خطبہ حضور نے گلاسگو کی بیت الرحمن سے دیا حقیقی فقیہہ کی تعریف کہ جو رحمت الہی سے نا امید نہیں کرتا فیشن سوچ سمجھ کر قرض لینا چاہئے اور ادا کرنے کی نیت سے 111 قرض کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود کا نمونہ 579 721 قرض کی ادائیگی کے لئے خلیفہ اول کا نسخہ 589 قرض کی واپسی کی تاکید اور ایک صحابی کا اپنی چادر فروخت کر کے ادا ئیگی کرنا 413 قرض سے نجات کے لئے حضور علیہ السلام کا فرمانا کہ استغفار بہت پڑھو فیشن کے طور پر نا مناسب لباس سے اعراض کرنا قرض کو بڑھا کر یا بہتر انداز میں واپس کرنا قربانی صفحہ 43 سے 66 مالی قربانی نیز دیکھیں انفاق فی سبیل اللہ چند " مالی قربانی کے فضائل اور اہمیت مالی قربانی کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود کی خواہش اور برکات قرض 356 8 14 سنت رسول......182 326 57 5 قرض کو مارنے والے صدقہ کھانے والوں کی مانند ہیں 576 مقروض کا آنحضور جنازہ نہیں پڑھایا کرتے تھے 577 غلط قسمیں کھانے کی ممانعت اور اس سے مراد 162 قضاء اُدھار اور قرض کے آداب اور فرائض 111 112 قضاء کے فیصلوں کی اہمیت اور نظام جماعت 669 قرض وغیرہ کے متعلق اسلامی تعلیمات اور احکام قضاء کے فیصلوں کی پابندی کرنے کی اہمیت اور 5800565 برکت لین دین کے متعلق اسلامی تعلیمات اور ارشادات حضرت عمرؓ کا قاضی کو نصائح کرنا 614 1 8 8 564 580 قضاء عمری کی بابت حضرت مسیح موعود کا ارشاد 826 قرض کی بابت حضرت مسیح موعود کے ارشادات قناعت 112 113 | قناعت اختیار کرنے کی نصیحت قرض بھی امانت ہے اور امانت کو عند الطلب لوٹانا ضروری قناعت اور سادگی کی بابت اسلامی تعلیمات 470 2960278 112 ہے

Page 1010

44 قناعت اور سادگی کو اپنانے کی نصیحت اور اس کے فوائد گواہی 279 انصاف کے مطابق دینے کا حکم 177 176 قناعت اور ترک مراد کی بابت حضرت مسیح موعود سچی گواہی اور حضرت مسیح موعود کا اسوہ 285 گھریلو زندگیوں کے بارے ارشادات اور تعلیمات 177 کا اقتباس قومی اسمبلی قومی اسمبلی کا 74ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا غلط تھا اور اس کا انجام لاٹری 464t444 897 لاٹری اور دیگر گیمز اور سگریٹ سب بے ہودہ اور لغو 588 خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء الله کتب حضرت مسیح موعود کو پڑھنے کی اہمیت خدام الاحمدیہ اور لجنہ کی ذمہ داری کہ دور اور ضرورت 407 408 | رہنے والے نوجوانوں کی تربیت کتب حضرت مسیح موعود کو پڑھنے کی طرف آج کل کے لجنہ ماء اللہ نگرانی کرے عورتوں کی کہ مسجدوں میں زمانے میں توجہ دینی.یہ بھی قرآن کریم کی تشریح و تفسیر ہے صفیں سیدھی رکھیں اور بچوں کو آخر پر....414 415 لجنہ ماء اللہ کی مالی قربانی کا ذکر کہ مساجد کی تعمیر میں قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینا 1 73 لغويات عادت ڈالیں کتب حضرت مسیح موعود پڑھنے کی طرف توجہ کریں 725 لغویات کی تفصیل اور ان کے نقائص اور خطرات..کتب حضرت مسیح موعود پڑھنے کی طر توجہ دینی چاہئے یہ بات بھی صحبت صادقین کے زمرے میں آتی ہے 394 لغو کی تفسیر و توضیح اگر قرآن یا حدیث کو سمجھنا ہے تو مسیح موعود کی کتب کی لغو کاموں سے مراد اور حضرت مسیح موعود کی طرف توجہ کرنی چاہئے...حضور کو اپنی تالیفات اور ان علوم اور برکات 401 تفسیر لنگر خانه 867 714 755 602*582 کو ایشیا اور یورپ میں پھیلانے کی تڑپ 81435 لنگر خانہ کا اہتمام حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں اور حضرت اماں جان کے زیور اس کے مصارف کے کہانی پرندے کی مہمان نوازی کا قصہ 514 لئے فروخت کرنا 584 586 523

Page 1011

45 لنگر کے بارے اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ لنگر منظور نہیں....ان مبلغین کے لئے دعا کی تحریک جو احمدیت کا پیغام لیکر 522 افریقہ میں گئے لنگر خانہ کی بابت حضرت مسیح موعود کو بتایا جانا کہ بورکینا فاسو میں مبلغین کی قربانیاں رات کو لنگر خانے میں ریاء کیا گیا ہے 522 مجالس لیلة القدر لیلۃ القدر کی اہمیت اور فضائل مجالس کے حقوق و فرائض آداب مجالس 786 مجالس کے آداب اور حقوق 215 249 484 5010485 لیلة القدر اور حضرت مسیح موعود کی تشریحات 789 دوستوں کی باتیں بعد میں مجالس میں بیان کرنے 788 | والے خیانت کرنے والے ہیں لیلۃ القدر کی دعا نائب رسول کریم کی بعثت کا زمانہ جس میں نئی نئی ترقیات مجالس امانت ہوتی ہیں....دفتر کی باتیں بھی اور صنعتوں کا قیام ہوگا لیلۃ القدر کی تشریح حضرت مسیح موعود کی کے قلم سے یکھئے لین دین نیز دیکھیں ” قرض“ 790 باہر نہیں کرنی چاہئے مجددین 792 مجددین اور مفسرین کا امت میں مقام احمدیوں کو چاہئے کہ زمانے کے رواج کو چھوڑیں عزت اور وقار اسی میں ہے کہ محنت کر کے کمایا جو خدا کا حکم ہے اس کے مطابق لین دین کی کارروائی کریں جائے 569 مخالفت لین دین کے معاملہ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب مخالفت کے مقابلہ میں الہی سلسلہ کے ساتھ کا قابلِ تقلید نمونہ مال 570 تائید و نصرت اور فتوحات کے نظارے مرد 116 499 605 127 242 مال سے بے رغبتی کے بارے احادیث 303 مردوں کی اہلی ذمہ داریاں اور اس کے تقاضے 184 آنحضرت کے زمانہ میں بحرین کے اموال کا آنا مرد کی گھریلو ذمہ داریاں بحیثیت سر براہ خاندان کے.....اور آپ کا..مبلغین مبلغین اور واقفین زندگی کا ادب اور احترام اپنے 3 1 0 445 مرد کی ذمہ داریاں اور فرائض عورت سے زیادہ ہیں.....دل میں پید کریں...اور اس کی افادیت 952 | ایک مرد میں پائی جانے والی خوبیاں جو پاک 444

Page 1012

46 معاشرت کے لئے ضروری ہیں مریم شادی فنڈ 451 سبب عبادات کی کمی مشوره مریم شادی فنڈ کا اجراء اور بعض لوگوں کا یہ کہنا مشورہ دینے والے کی بھاری ذمہ داری کہ تھوڑی رقم ہے ان کو جواب مسجد 873 195 290 بعد ضرورت مشورہ دینے سے بچنا چاہئے یہ بھی لغویات ہر احمدی کا فرض ہے کہ مساجد کو آباد کریں اور پانچ وقت جان بوجھ کر غلط مشورہ دینے والا خیانت کا کے لئے مسجدوں میں آئیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی مساجد مرتکب ہوتا ہے میں نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں مساجد کے ماحول کی صفائی کی بابت ارشاد 229 | مصافحه 272 مرد و عورت کے مصافحہ سے احتراز کرنا چاہئے (جرمنی) میں سو مساجد کی تحریک اور خدام الاحمدیہ اور دیگر اس میں کمپلیس کا شکار نہ ہوں 364 معاشرت احباب کی قربانی حضرت مصلح موعود کی یورپ میں ڈھائی ہزار مساجد بیوی بچوں کی نگرانی کی ذمہ داری اور اس کی اہمیت کی خواہش برطانیہ میں مساجد کا افتتاح مسکین حضرت مسیح موعود کا کمزوروں اور مسکینوں سے حسن سلوک 774 593 115 638 185 184 754 بگڑے ہوئے معاشرے کو بچانے کی ذمہ داری 9210917 مسکینوں کی بابت حضرت مسیح موعود کا حسن سلوک احمدی پر ہے معاف نہ کرنے کا موقعہ اور اس کے بداثرات معوذتین 917 تا 921 معوذتین کی فضیلت اگر خدا کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دلوں کے پاس مفسرین تلاش کرو لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا اور مسکین سے مراد 66 ملازمین مسلمان 139 139 138 12 مفسرین اور مجددین کا امت میں مقام ملازمین اور ماتحتوں پر سختی کرنے والوں کے لئے 475 605 مسلمانوں کی حالت زار اور اس کا سبب 374 آنحضرت کا ارشاد که ستر بار روزانه در گزر کر و 144 مسلمانوں کی قوت اور رعب ختم ہونے کا

Page 1013

47 ملازم پیشہ غلام کی کیٹگری میں نہیں آتے کہ جمعہ چھوڑ دیں ملنگ 827 افیون شراب کی فضولیات سے اجتناب 588 589 نصاری گندے کپڑوں میں ملبوس جنہیں رسول اکرم نے نصاری کے طعام کی حلت کی بابت شیطان سے تشبیہہ دی ہے منافق منافق کی علامات منافق کی تین علامات 266 نصرت جہاں سیکیم نصرت جہاں سکیم کا اجراء 115 پیر بنیں پیر پرست نہ بنیں 166 نظافت نظافت اور پاکیزگی کے متعلق اسلامی تعلیمات منافق صرف وہی نہیں جو زبان سے اخلاص ظاہر کرے اور دل میں کفر ہے بلکہ وہ بھی جس کی فطرت میں دورنگی نظام 468 347 764 275t260 مهمان نوازی مہمان نوازی کے آداب اور حقوق و فرائض ایک ہندو مہمان کی مہمان نوازی عبد القیس قبیلہ کی بہترین مہمان نوازی تاچ عورتوں کا عورتوں میں ناچنا بھی معیوب ہے نبی انبیاء کی مخالفت اور توکل علی اللہ 166 5250505 نظام پر اعتراضات کرنا بھی خیانت ہے جماعتی زندگی میں انسان کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے زیادہ سے زیادہ شکایت کرو لیکن اطاعت میں فرق نہ آئے 566 اگر کوئی نقص دیکھو تو امیر یا خلیفہ وقت کو اطلاع 507 94 دیں اور بس نظام جماعت کی برکات اور اطاعت کی اہمیت کی 110 130 485 بابت ارشادات اور اسلامی احکامات 621604 نظام جماعت اور عہدیداران کے متعلق نصائح 242 | اور ذمہ داریاں انبیاء کی بعثت کا مقصد کہ بندوں کو نیکی پر قائم رکھیں 372 نظام جماعت کے ساتھ ہمیشہ چھٹے رہو اور نسل نظام کی پوری پابندی کرو 9600942 110 اپنی زندگی اور اپنی نسلوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نظام جماعت سے ٹکر لے کر کئے گئے کاموں پر خلیفہ وقت چلانے کی کوشش کرو 222 خوش نہیں ہوتا..617

Page 1014

48 برکت ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے ساتھ نماز با جماعت کی فرضیت وابستہ رہنے میں ہے......614 نماز سے سب مشکلات آسان ہو جاتے ہیں نظام جماعت کی بابت شکوہ اور شکوک اور نکتہ چینی اور اس کا نماز سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں تقاضا 229 712 714 616 نماز کا روبار اور کپڑوں کی صفائی کا بہانہ بنا کر معاف نہیں نظام خلافت کے گرد سارا نظام جماعت گھومتا ہے 942 ہوتی اب اللہ کے فضل سے مضبوط بنیادوں پر قائم چھوٹی باتوں یا افسروں کی خوشامد میں نمازوں کا خیال نہ رکھنا حضرت ظفر اللہ خان صاحب کا ہو گیا ہے کوئی مخالف یا دشمن اب اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا 943 | قابل تقلید نمونه نظام وصیت نماز فجر کی اہمیت 714 761 710 220 705 نظام وصیت میں شامل ہونے کی برکات اور ضرورت نمازوں میں دعا ئیں اور خاص طور پر یہ دعا کرنا 559557 اَللّهُمَّ اتِ نَفْسِى تَقُوهَا..نظام وصیت کا نظام خلافت سے بڑا گہرا تعلق ہے 810 مسجدوں کو نمازیوں سے بھر دو دورانِ سفر راستہ میں گاڑی روک کر نماز پڑھیں نعرے نعرے لگانے کے متعلق ہدایات 540 یا نماز پڑھ کر نکلیں نمونه نعمت کی ایک انتہاء نماز مسائعين 438 131 ہر ایک احمدی کو ایک نمونہ بنے کی کوشش کرنا چاہئے 386 نمازوں کی اہمیت اور اس کی پابندی کی ضرورت 647 نو مبائعین کو چندے دینے کی عادت ڈالیں نمازوں کی اہمیت اور توجہ دینے کی ضرورت 704 نیکی نمازوں کے التزام کی بابت احکام 708 تا 718 | نیکیوں پر قائم رہنا اور ان میں بڑھنا یہ ہم احمدیوں کو اپنی نمازوں کی ادائیگی میں ہمیشہ احسان" کا پر فرض ہے..اصول سامنے رکھنا ہوگا 211 والدین 806 6640644 نمازوں میں با قاعدگی اور دعاؤں کی ضرورت 462 والدین سے حسن سلوک کی بابت اسلامی تعلیمات | کی 62'46 709 نماز کی بابت حضرت مسیح موعود کے ارشادات

Page 1015

377 38 797 295 953 421 49 والدین کو اپنے بچوں کی نگرانی رکھنی چاہئے لیکن سال میں کم از کم ایک یا دو ہفتے دعوت الی اللہ سختی سے نہیں بچوں سے بے تکلف ہوں 395 کے لئے وقف کریں والدین کے احسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی بابت ارشادات وقف جدید 214 وقف جدید کی مالی قربانی کا جائزہ اور نئے سال وقف زندگی 60 وقف زندگی کے ذریعہ قربانی کرنے والے والدین کی خدمت کی اہمیت لیکن اس کو بہانہ بنا کر جماعتی کا اعلان کاموں سے کنارہ کرنا درست نہیں آنحضور کا اپنے رضاعی والدہ اور والد سے حسن سلوک 51 وسوسہ کا پیدا ہونا اور اس سے بچنے کا طریق 474 واقفین زندگی کے لئے ضروری نصائح واقفین زندگی اور مربیان اپنے مقام کو سمجھیں اور اپنے عہد کو نبھاتے چلے جائیں کہ آپ خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں وقف کو وصیت کے نظام میں شامل ہونے کی تحریک اور جماعت کا شعبہ وقف نو کے لئے ہدایات لبیک کہنا 557 وصیت اچھی عمر اور حالت میں کرنے کی تلقین 660 کی کونسلنگ ( صحیح راہنمائی ) کریں واقفین نو کے والدین کے لئے نصیحت کہ بچوں 420 فوت ہونے والے موصی والدین کا حصہ وصیت وقفین نو کے لئے شعبہ جات جن میں ان کی ضرورت ہے 50 مبلغین، ڈاکٹر، ٹیچر کمپیوٹر سائنس وکیل انجینئیر ، زبان کے ادا کرنے کی تلقین وطن (ملک) ماہر احمدیوں کا اپنے ملک پاکستان سے وفا کا تعلق 132 وقف نو کی کلاس میں شمولیت کے لئے ایک بچہ کو وعدہ دیکھیں ”عہد“ وقار عمل باپ کی سرزنش جو کہ نا مناسب تھی 419 461 واقفین نو میں سے مبلعین اتنے نہیں آ رہے جتنی ضرورت وقار عمل کے ذریعہ خدام الاحمدیہ جماعتی عمارات ہے اور اس کے لئے ایک طریق 952 418 946 263 واقفین نو کو زبانیں سیکھنے کی تلقین ووٹ 378 ووٹ دینے والے کے لئے بنیادی ہدایت کی صفائی کا خاص خیال رکھیں عمر بڑھانے کا نسخہ

Page 1016

ہجرت 50 ہنسنا خلیفہ اسیح الرابع کی باعزت اور خدائی تائید سے بھر پور ہجرت ہڑتال کم بننے کی نصیحت 348 350 ہومیو پیتھی ہڑتال ایک غلط اور گھٹیا طریق ہے اور غیر اسلامی اس میں کبھی حصہ نہ لیں جرمنی میں یہ نظام اور حضور انور کا ارشاد ہیومنٹی فرسہ 470 617 411 412 ہیومنٹی فرسٹ کا جماعتی رجسٹر ڈ ادارہ.اس کی مساعی.ایک سکھ طالبعلم کا حضرت مسیح موعود کو لکھنا کہ مجھے جرمنی میں اس کا فعال نہ ہونا اور تنظیم نو ہستی باری پر شک پیدا ہو رہا ہے تو فرمایا کہ اپنی جگہ یتیم بدل او ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار توبہ دینی علوم کی واقفیت خدا کی عظمت، پانچوں نمازیں ادا کرنا ہمدردی 618 395 یتیم کی پرورش اور اس کے حقوق اور اس کی اہمیت 65 یتامی کی نگہداشت کے لئے جماعتی نظام اور تمام دنیا میں ان کی نگہداشت کی تحریک 735388 یتیم لڑکی کی بابت عرب میں رواج یتیم کو پناہ دینے والے کا ساتھ آنحضرت کے احمدی کو انسانیت اور آنحضرت کی طرف منسوب ساتھ جنت میں ہوگا ہونے والوں سے ہمدردی ہونا چاہئے بنی نوع انسان سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے 66 936 213 129 374 قتیموں کی نگہداشت کی اہمیت اور غانا میں اس پر عمل کئے جانے کا تذکرہ UNO | 190 213 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غیروں اور ہندؤں UNO کا قیام اور اس کی ناکامی کے عوامل سے بھی ہمدردی کا حکم اور حضور کا اپنا اسوہ 13 | یہودی ہمسائے ایک یہودی کا آنحضرت کے عجز وانکسار پر یقین ہمسائے کے حقوق اور احترم کی نصیحت 507 اور اپنا معاملہ آنحضرت کے پاس لانا ہمسائیوں کے حقوق کی ادائیگی کی اہمیت 67'66 645

Page 1017

آدم 51 اسماء ( حروف تہجی کے اعتبار سے ) 818 حضرت ابو بکر صدیق 150 146 144 167 حضرت ابراہیم حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی ابراہیم بن سعد ابن مكتوم ابن شہاب حضرت ابن عباس ابن عبده 235 9 16 57,409 506 حضرت ابو جندل 768 حضرت ابو حاتم * 96 حضرت ابو درداء 197 70 27 659 673 171 931 312 417 109 825 72,132 | حضرت ابو ذر غفاری 222363637877954 129 130 322`9`14 ابوریحانه 611694929936 | حضرت ابوسلام 499 | ابوسفیان 95 237 171 170 148*99*98 حضرت ابن عمر '188745748765 حضرت ابو سعید خدری 95 128 124 110 ابن عیسی حضرت ابن مسعود ابواسید الساعدی ابوالا حوص مولوی ابوالکلام آزاد 787 836 860`459 475 323 6 433`578`950 783 ابوسعید صاحب المعروف عرب صاحب 28802 ابو سلمہ بن عبد الرحمان 50 حضرت ابوطفیل 265 حضرت ابو عباس سہل 524 ابو عبدالله الاخر ابوالنصر آہ کا قادیان آنا اور مشاہدات بیان کرنا 524 ابو عبیدہ بن الجراح 237439'213'10897 ابوقتاده حضرت ابو امامه با بلی حضرت ابوایوب حضرت ابو برزہ اسلمی 169 | ابو عزیز بن عمیر 655 ابو مالک اشعری 580 | حضرت ابو مسعود 467 753 752 51 673 825 310 513 573 578 261 195 11 29

Page 1018

52 حضرت ابو مسعود انصاری 912 750 362 | حضرت ام سعد رض معد حضرت ابو موسی اشعری 629 261317392 | حضرت ام سلمہ رض 491689 حضرت ام مکتوم بنت عتبہ بن ابی معیط حضرت ابو ہریرة 108 167 52 166 | حضرت ام ناصر "168285265 144 125 111115 109 امتہ الباقی عائشہ 287 96 671 33 441 "213222308185187 281 269 حضرت انس بن مالک 628 910691 909 430 12 7 8 910 165 117 283`461 320 54 637 751 854 956 187 189 195 196 311 318`324` 324 338 27 53 357 410`398`395 490 470'359411430434456459 | حضرت اویس قرنی 506508574575590591592630 | حضرت ایوب 638658659660672695709710 | حضرت ایوب بن بشیر "716747751752753766786 | حضرت امام بخاریؒ 801818822825837852853 | بنو ہوازن 932955 بنوبکر ابویوسف حضرت منشی اروڑا صاحب 727 بنو خزاعہ 31 حضرت براء بن عازب حضرت اسامہ بن زید 212913936784 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اسماعیل، ڈرائیور 249 59 231 459 637 195 5 3 171 171 128 153'519 521 895`896 حضرت اسماء بنت ابوبکر 49 864 803 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب حضرت اسود خان اکبر خان المصل 447 المصلح الموعود، خلیفة المسیح الثانی 268 299 92 90 89 180 161 142 121 112`94` 152 193 200 201 342 24 16 32 33 387 896 اکبر شاہ نجیب آبادی 394 626 730 654 792 797'795`798` 898 اقبال ولد فقیر محمد 807 810 820 862 870 896'900 357 293 673 919 کرنیل الطاف علی میاں اللہ دتا صاحب سہرانی میاں اللہ دین 522 حضرت بلال 293 | پیرا پہاڑ یہ

Page 1019

53 حضرت ثوبان 169 حضرت جابر بن سمرہ 268'912 خالد بن عمیر ڈاکٹر مرزا خالد تسلیم صاحب حضرت خدیجه حضرت جابر بن عبد الله 573'437 266416 حضرت خولہ بنت حکیم 212 627 حضرت داؤد علیہ السلام 310 441 506 51 450 435 538 جبریل حضرت جریر 210694 133 امام رازی 711954 96 حضرت ربیعہ بن اسلمی حضرت جندب 323 چوہدری رستم علی صاحب 887 159'5'792 936 32 حارثہ بن وهب 917 ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.آپ کی غیر معمولی قربانی حافظ حامد علی جاتے حضرت سید حبیب اللہ 520920 پر حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ آئندہ آپ کو قربانی کی مہر حامد.ایک مسکین جس کے گھر حضور عیادت کے لئے ضرورت نہیں 3 3 921 زاہر نامی دیہاتی صحابی سے آنحضور کا محبت کا اظہار 914 518 حضرت زبیر حضرت حذیفہ 211337 269 | حضرت زھیر حضرت حسان 895896 | حضرت زید حضرت حسن بن علی 473 حضرت زید بن ارقم حضرت حسن 913'25 188 125 | زید بن اسلم 292 184 237 167 خواجہ حسن نظامی حسنین رض حضرت حفصہ 901 زید بن ثابت 894 حضرت زینب 780 | سعدی حضرت حلیمہ.آنحضرت کی رضاعی والدہ 5153 | سعید بن ابی برده حضرت حمزه ڈاکٹر حمید خان صاحب حیی بن اخطب 148 حضرت سعید بن عاص 754 حضرت سلمان 454 خا کی شاہ.معمولی آدمی اور حضرت مسیح موعود کا خیال رکھنا 920 حضرت سلیمان بن عمرو بن احواص خالد بن ولید 455 185 345 5 711 418 146 780 843 844 851 69 749 750 312

Page 1020

54 حضرت سلمان فارسی 473'269 | آپ کی باعزت ہجرت 349 حضرت سلمیٰ بن اکوع 577 آپ کا ان ریسٹورنٹس میں کام کرنے سے منع فرمانا جہاں سمیع اللہ قمر 81 شراب بیچی جاتی ہے......حضرت سوده 854 آپ کا سلام میں ”وبرکاتہ“ نہ کہنے کی حکمت 400 633 حضرت سہل حضرت سہل بن سعد چوہدری شاہنواز صاحب علامہ شبلی نعمانی لاله شرمیت 114 518 305 آپ کا یہ عہد لینا کہ تمام احمدی یہ کریں کہ ہم نے خدا کی مرضی 287306374 کے مطابق زندہ رہنا اور مرنا ہے اور اسلام کا پیغام 721 862 حضرت خلیفہ رابع کا تحریک جدید کے پانچ ہزار مجاہدین میں سے ایک ہزار کے ناموں کو زندہ کرنے کا ذمہ خود لینا 799 حضرت مرزا شریف احمد صاحب 352 | علامه طبری 86 293'31'520' 523'919 477` 900'761 441 حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا لین دین کے معاملہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب میں ایک قابل تقلید نمونہ 570 حضرت مولوی شیر علی صاحب 98841 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حضرت محمر غامدی حضرت صفیہ صفیہ بنت عبدالمطلب 437 90454784 | ظفر نذیر صاحب 10 حضرت عائشہ 556 578 674 780 783 785 787 294 579 802 854 906 909 913 933 510 511 112 123 694 493 70 10 7 171 475 462 452 448 231 487 271 269 129 132 145 286 150 151 827 288 287,311,447,453 784 609 956 951 477 517 ملک صلاح الدین ایم اے حضرت صہیب رومی حضرت ضرغامہ طارق بن شہاب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.خلیفہ المسیح الرا الرابع 505703'952382488862798755 | حضرت ڈاکٹر عباداللہ صاحب 290 حضرت عبادہ بن صامت آپ کی جاری کردہ سکیم مریم فنڈ آپ کا مساجد کی صفائی کی بابت خطبہ 272 حضرت عبدالرحمن بن سمرة آپ کی لنڈن ہجرت اور خدا کی تائید 243 ڈاکٹر عبدالسلام آپ کی ایک خواب بورکینا فاسو کے بارے میں 249 | عبدالصمد

Page 1021

285 188 310 147 148 237 188`345 574 132 288 266 27 825 55 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی حضرت عبید اللہ 15129345658520 | عبید اللہ بن زیاد عبدالکریم.پٹواری مولانا عبدالقادر سوداگرمل حضرت عبد الله 13 حضرت عقبہ بن عدوان 580 حضرت عثمان بن عفان 282 238 474 591 حضرت عبداللہ بن ابی حداد $ عبد اللہ بن ابی بن سلول حضرت عبداللہ بن اونی حضرت عبداللہ بن زبیر رض 2 18 | حضرت عروہ 149 حضرت عطاء بن سیار 909 حضرت عقبہ بن عامر 631 | حضرت علقمہ حضرت عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح حضرت عبد اللہ بن سلام حضرت عبداللہ بن طیفہ 147 | حضرت علی 289189199374826 634 288 512 894 928 959 510 حضرت علی کا قول کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے میلانات حضرت عبد اللہ بن عباس 17097 166 کے تحت داخل ہو کر اپنی بات کہا کرو 381727 414489930 حضرت علی کا فرمانا کہ حقیقی فقیہہ وہ ہے جولوگوں کو اللہ کی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ 11514444553 | رحمت سے مایوس ہونے نہیں دیتا 413 613515 436 حضرت علی کا فرمانا کہ نعمت شکر کے ساتھ وابستہ ہے 553 حضرت عبد اللہ بن عمرو 145283412539 حضرت عمر بن خطاب 28711459345309 933 حضرت عمرؓ کا قول لا خلافۃ الا عن مشورة" حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص حضرت عبداللہ بن قیس 199 44629 حضرت عمر کا دیر تک عبادت کرنا اور رات کے آخری وقت 123 اہل و عیال کو ” الصلوۃ الصلوۃ“ کہنا 711 632 310 291 171 558 367 307 حضرت عبداللہ بن مسعود 411825 269 169 حضرت عمران بن حصین حضرت عبد اللہ بن موہب حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب 188 حضرت عمر بن عوف عبدالماجد طاہر صاحب عبدالوہاب بن آدم 730 حضرت عمر و بن تغاب 249 عمر و بن سالم 216 | حضرت عمرو بن شعیب عبدیالیل بن کلال 133 حضرت عمرو بن عاص

Page 1022

56 حضرت عمر و بن مرة حضرت عوف بن مالک حضرت عیاض بن حمار 950 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معمولات سفر 438 957 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس زمانہ میں مقام حکم و 5 | عدل 605 حضرت عیسی علیہ السلام 887898 792805 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلام کے ضمن میں اسوہ امام غزالی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی 792 641 640 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی 525`514 523 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 1513116 97 99 100 101 86115112 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو کل 166172 163 162 133151 130 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تبلیغ کا جنون 729 728 902 183 | حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعلی وارفع مقام ومرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عفو و درگزر کی مثالیں 151 792 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی کہ ایک سال گوشت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے وکیل کو فریق کی ستاری 288 کی غرض سے سوالات کرنے سے روک دینا نہیں کھایا...اچار کے ساتھ روٹی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی سعادت کی اہمیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رویا اور اظہار تشکر آپ کا بدعتوں سے نجات..840 876 227 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت کی غیرت 890 234 حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنہوں نے سب سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سچی گواہی کے متعلق اسوہ آنحضرت کو پہچانا 177 حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشورہ کرنے میں اسوہ 199 سیٹھی غلام نبی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا 36 | ڈاکٹر فاروق صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دی ہوئی تعلیم کی اہمیت حضرت فاطمہ 907 438 519 703 917 106 10`894 376 حضرت فاطمہ کا چکی پیستے ہاتھ زخمی ہو جانا اور غلام مانگنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آکر ملنے اور صحبت کے لئے نصیحت 414 حضرت فاطمہ کو ملنے والا جہیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے صحبت اب یہ ہے کہ کا آپکی کتب کو علامہ فخر الدین رازی پڑھا جائے 415 فضل بن عباس 289 289 585 97

Page 1023

57 مولوی فضل دین صاحب 153 | آنحضرت کے عفوودرگزر کی مثالیں 146 حکیم فضل الرحمن صاحب حضرت کبشہ انماری كبير حضرت کعب بن ایار 246 | آنحضرت کا اعتکاف میں حضرت صفیہ کو چھوڑے جانا اور 126 راستہ میں دو افراد کو چہرہ دکھانا 90 18 آنحضرت کا چٹائی پر لیٹنا اور نشان پڑ جانا اور حضرت عمر کا 304 | فرمانا.309 کعب بن زہیر کا آنحضور کی خدمت میں قصیدہ پیش کرنا آنحضرت کا صاحب جائداد اور اموال ہونا لیکن ساتھ ہی کعب بن مالک خواجہ کمال الدین صاحب 149 بے نیازی اور سادگی کا نمونہ 433 آنحضرت کے عدل و انصاف کا اعلی معیار 309 180 784 آنحضرت کا اپنی بیویوں اور ان کی سہیلیوں سے حسن لبید کے شعر کی تعریف آنحضرت نے فرمائی 308 | سلوک ڈاکٹر مارٹن کلارک 153 آنحضرت کا صحابہ کی رائے کا احترام حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا ذکر خیر مرزا مجیب احمد صاحب مجیدہ شاہنواز صاحبہ کا ذکر خیر 451 197 171'9 440 تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ عاجزی اگر کسی میں نظر 441 آتی ہے تو وہ آنحضرت کی ذات ہے 4 861862 آنحضرت کا ایک لونڈی کی سفارش کرنا اور اس کے گمشدہ 1 1 حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم در ہم ادا کرنا آنحضرت کا بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ بتانا جس آنحضرت کی ایک دعا جس میں اپنے عجز وانکسار اور مسکینی نے قرض لیا اور مقررہ وقت پر ادا نہ کر سکا تو کس طرح اس کا اظہار کی مدد ہوئی 1 3 168 ایک یہودی کا اپنا معاملہ آپ کے پاس لانا اور آپ کا آنحضرت کا عہدوں کی پابندی کی تعلیم دینا اور خود عمل کرنا فرمانا کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو 170 | آنحضرت کی مہمان نوازی کا خلق 4 506 آنحضرت کا طائف والوں کے سلوک پر کمال صبر کا مظاہرہ آنحضرت کی قوت قدسی نے صادقین کی ایک فوج تیار کی 132 393 آنحضرت کا صبر واستقامت کا مظاہرہ 133 آنحضرت کا بنی عمرو بن عوف کے درمیان صلح کروانے جانا آنحضرت کا عفو درگزر اور ساری زندگی اس بات کی گواہ اور نماز ابو بکر کا پڑھانا 673 145 آنحضرت کی آخری عشرہ کی عبادات کا نظارہ 785

Page 1024

58 آنحضرت کا عظیم الشان مقام 884 حضور انور سے کسی کا سوال کرنا کہ آپ کسی کو دعا کا کیوں خدا سے محبت کا دعوی تبھی مکمل ہو گا جب آنحضرت کی نہیں اور اس کا جواب پیروی ہوگی 886 حضرت مسروق ہم نے سب سے بہتر اور اعلیٰ اور خوب تر اس مرد خدا کو پایا ڈاکٹر مظفر صاحب 633 411 727 7 8 8 صاحبزادہ مرزا مظفراحمد کو حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی آنحضرت کا اعلیٰ مقام و مرتبہ اور حضرت مسیح موعود کا عشق نصیحت کہ تمہارے گھر کا صوفہ یا ڈرائنگ روم کسی غریب 84 تا 4 0 9 آدمی کے لئے روک نہ بنے رسول آنحضرت کا بچوں سے پیار 913912 | حضرت معاو آنحضرت ذاتی دلچسپی لے کر صحابہ کی شادیاں کرواتے حضرت معاذ بن انس 936 حضرت معاذ بن جبل 267 656 143 711 131 146 آپ کا مقام و مرتبہ 907 حضرت معاذ بن رفاعه حافظ محمد ابراہیم 640 حضرت معاویہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب 291 حضرت معقل بن سیار محمد بن سیرین 99 حضرت مغیرہ مولوی محمد حسین بٹالوی 152 | لالہ ملاوامل حضرت مفتی محمد صادق صاحب 199514842 | حضرت مرزا منصور احمد صاحب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب سے حضرت مسیح موعود حضرت موسیٰ علیہ السلام محمد علیہ السلام کا قرض لینا اور احتیاط کا تقاضا حضرت نواب محمد علی خان حضرت قاضی محمد یوسف صاحب 579 525 524 640 حضرت میمونه 950 949 188 935 934 518 352 805`887 96 حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احد صاحب خلیفه لمسیح الثالت 33 40 637 702 807 352 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا ربوہ کے بارے ارشاد کہ | حضرت میر محمود احمد ( ناصر ) کا ایک شعر حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس دلہن کی طرح سجا کے رکھو حضور انور کے دورہ افریقہ کے ایمان افروز تاثرات 244 ناصر خان صاحب حضور انور کا عجز وانکسار اور میر محمود صاحب کا ایک شعر حضرت میر ناصر نواب صاحب 352 حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب حضور انور کا سلام میں برکاتہ نہ کہنے کی حکمت 633 حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ 263 703 523 517 246 5 8

Page 1025

59 حضرت ام المومنین کو مہمان نوازی کی ترغیب دلاتے حضرت خلفیہ اول کی لغو کی تفسیر ہوئے کہانی سنانا 586 514 حضرت خلیفہ اول کا قرض کی ادائیگی کے لئے نسخہ 580 حضرت اماں جان کا زیور پر زکوۃ دینا 366 | آپ کا فدائیت کا اظہار نضر بن شیبان میاں نظام دین صاحب 752 ڈاکٹر نوری صاحب 521 حضرت وابصہ بن معبد میاں نظام الدین صاحب کے ساتھ مسیح موعود کا کھانا کھانا حضرت وائل بن حجر 919 | حضرت وہب حضرت نعمان بن بشیر 187554 471 287 ہالہ.حضرت خدیجہ کی بہن حضرت نواب محمد دین صاحب 877 حبار بن الاسود دجیسے ظالم کو معاف کر دینا 862 | ہرقل حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفہ امسح الاول حضرت ہشام بن عروہ 486496181341`475 474 107 | ہند بنت عتبہ 2567351 | حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی حضرت خلیفہ اول کا ایسے لوگوں کو جواب دینا کہ بعض لوگ دعا کے واسطے مجھے اس طرح سے کہتے ہیں کہ گویا کہ حضرت یونس 768 میں خدا کا ایجنٹ ہوں..857 30 350 472 147 312 451 146 170 99 98 49 148 516 292 438 519 520 525`920

Page 1026

60 60 مقامات ( حروف تہجی کے اعتبار سے ) آسٹریلیا ابوظہبی 811 اسلام آباد 40812 | انڈونیشیا اسلام آباد.ٹلفورڈیو کے 527 انگلستان 377 427 811`862`866 901 461 811 39 255 479 501 39 812 811 184 39 419 540 افریقہ 255219 انگلستان کے جلسہ کا آغاز اور اغراض و مقاصد 528 809808811862901903468 | اوکاڑہ 504347377 | ایشیا افریقہ وہ خوش قسمت ترین براعظم جس نے احمدیت کو باد کروز ناخ.جرمنی 812 243 255 41 814 921 335 قبول کرنے میں سب سے زیادہ جوش اور جذبے کا بحرین کے اموال آنحضرت کے زمانے میں آنا اور مظاہرہ کیا 243 | آنحضرت کا نصیحت فرمانا افریقہ میں احمدیت کی غیر معمولی ترقی اور پرخلوص وفا بدین کے نظارے 254 برطانیہ 310 812 702 701 812 811 افریقہ میں مبلغین کا معمولی غذا کھا کر گزارہ کرنا 296 برطانیہ کے جلسہ کی مرکزی حیثیت 518-504 دورہ افریقہ کے لئے حضور کا دعا کی تحریک 206 برطانیہ کی خدام الاحمدیہ اور لجنہ کے ذمہ بریڈ فولڈ کی مسجد افریقہ میں عیسائی پادریوں کا طرز تبلیغ 382 | بنانے کا ذمہ 755 افریقہ کے لوگوں کا خلافت سے پیار اور والہانہ عقیدت کا برطانیہ کی مساجد کے لئے ذیلی تنظیموں کو مالی تحریک اور 773 755 703 702 701 754 773 اخبار 353 والہانہ لبیک اکرا 246 برلن امرتسر 292 برمنگھم (لندن) امریکہ 2812432553942 | بریڈ فورڈ

Page 1027

61 بریڈ فورڈ کی مسجد کا افتتاح اور مختصر تعارف 754 | بہاولنگر لبستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خاں بشیر سٹریٹ بصره بنگلہ دیش 522 بیت الرشید “ ہمبرگ جرمنی 477 بیت الفضل کی تعمیر میں لجنہ کا حصہ 310 بیت الاسلام کینیڈا 40'812 603 755 476 82962255 900 | بیت السلام پیرس بنگلہ دیش میں جماعت کے خلاف مخالفت اور رد عمل اور بیت السلام برسلز یتیم احمدیوں کے لئے صبر کا انعام 43`376 بیجیم بنگلہ دیش حکومت کو انتباہ کہ ” ہمسایوں سے سبق لیں، کسی پارا کو (بنین) کے مذہب میں دخل اندازی نہ کریں اللہ کی پکڑ سے ڈرنا پاکستان چاہئے.43 923 941 643 39 377 811 251 289 267 273 272 281 243 255 344 348 24 39 40 بنگلہ دیش کے لئے خصوصی دعا کی تحریک جماعتی مشکلات | 809829812811`410358436 900 921 576 628 505 666 125 813 812 127 139 88 92 بنگلہ دیش میں احمدیوں کے خلاف کارروائیاں لیکن احمدی ہمیشہ اپنے ملک کے وفادار رہیں گے.بنین 132 پاکستان میں جماعت پر آنے والے ابتلاء اور احمدیوں کا 23-251233244 اپنے ملک سے وفا رکھنا.132 بنین کی لجنہ اماءاللہ کی ڈیوٹی دینے والی ٹیم کی تعریف پاکستان جہاں احمدیوں کے سلام کرنے پر بھی پابندی اور بو بوجلاسو ( بورکینا فاسو ) 254 | مقدمات 636 225250 پاکستان میں احمدیوں کے امتیازی ناروا سلوک پر مبنی بورکینا فاسو 244 377225-217250 | قوانین 607 بورکینا فاسو کے بارے حضور انور کے دورہ کے تاثرات پاکستان میں ہتک رسول کا قانون اور احمد یوں کو اس میں 248 ملوث کرنے کی مذموم کوشش 898 بورکینا فاسو میں مبلغین کی قربانیاں 249 پاکستان کی حکومت کو بھی انتباہ کہ عقل کرے اور مذہب اور بھارت بہاولپور 25539 سیاست کو علیحدہ رکھے..812 پاکستان سے ہجرت کرنے والوں کو نصیحت 813 426

Page 1028

62 پاکستان میں بسنے والے گندے بالوں والے ملنگ.....266 | دیلی پاکستان میں صفائی کا کمزور معیار 262 | ڈوری پاکستان میں احمدیوں کی بابت ظالمانہ قانون 215 ڈیرہ غازی خان | پاکستان میں جماعت کے خلاف منصوبے اور تائید راولپنڈی ایزدی........343 ربوه 862 249 812 40 812 519 40 263 409 441 812 پاکستان میں جماعت پر سختیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے 77978178294`764'570'557 348 349 ربوہ میں صفائی کا بڑھتا ہوا بہتر معیار اور تزئین کمیٹی ربوہ ملنے والے افضال پیشاور پیرس 812 کی تعریف.262 923941 ربوہ کی صفائی کے متعلق اہالیان کو حضور کی تلقین..اور Peace Village کینیڈا.ایک چھوٹا ر بوه 476 خلیفہ ثالث کا ارشاد 248 ربوہ ( چھوٹار بوہ پیس ویلج ) 263 476 478476 ربوہ کے بچوں کو سلام کا رواج دینے کی نصیحت 636 ٹمالے ٹورانٹو جرمنی 377'18433339 ربوہ والوں کا جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کرنے کا 81281154360193 | جذبه جرمنی کی سو مساجد اور بعض کی طرف سے شکوہ وغیرہ اور رنگون حضور کی وضاحت..616 | زیورک سوئٹزرلینڈ جرمنی میں ہو میو پیتھی کے بارے اور ہیومینٹی فرسٹ کے سالٹ پانڈ بارے ارشاد اور تنظیم نو 618617 | سانگھڑ جرمنی کا احمدیوں پر احسان اور اس کا بدلہ اتارتے ہوئے سرگودھا سلامتی کا پیغام دیں.جعرانہ 641 | سعودی عرب 51 سکاٹ لینڈ 812 سکاٹ لینڈ کو فتح کر لینے کا عہد 508 507 476 623 246 812 40`812 811 721-719 734 722 چکوال 519 سکاٹ لینڈ کے احمدیوں کی خصوصی ذمہ داری چین.صحابہ آنحضرت کا تبلیغ کے لئے چین جانا 295 دعوت الی اللہ کے حوالے سے.722'721

Page 1029

63 ینتھورپ(Scunthorp) سوئٹزرلینڈ سیالکوٹ 727 گھانا کا ایک علاقہ جہاں حضور خود بھی رہے ہیں وہاں کے 811 39 ایک انگریز پادری کا چھوٹے سے قبیلے کی زبان 40812 سیکھنا.سیرالیون کی ایک خاتون کا حضور سے ملنا اور بتانا کہ اسلام فرانس 419 948-944-941'377'923 اور احمدیت کا پتہ ہی آپ کے سکول میں تعلیم حاصل فرانس کی جماعت کے اخلاص کا اظہار 944 945 348 فرانکونون.افریقی ممالک میں احمدیت کے وسیع پھیلاؤ کرنے سے ہوا.سینٹ کیتھرین 478 کی خوشخبری جو خلیفتہ امسیح الرابع کو دی گئی.Silican Valley امریکہ 39 فیصل آباد شیخوپوره 40812 | قادیان صحارا ڈیزرٹ 249 244 40`812 291 344 33 514 519 520`524 طائف طاہر سٹریٹ عرفات 132 قادیان کی صفائی کے بارے حضور انور کا احمدیوں کو نصیحت 477 | فرمانا 263 49 قادیان سے چھ ماہ کے لئے لنگر خانہ کے کارکنان کو نکال عرفات کے مقام پر کی جانے والی آنحضرت کی دیا جانا دعا..13 | قادیان کو مٹانے کے دعا دی.علی گڑھ کے ایک تحصیلدار کو حضرت مسیح موعود کی قرن الثعالب تبليغ..گھانا غانا 728 | کپورتھلہ 244 245 246 247 248-250 کراچی کشمہ 522 795 133 31 349 40 812 862 504482216347812811377 | کماسی خانا کے سکول اور مشن ہاؤسز وغیرہ کی ترقی اور وسعت 246 کوتر نو و (بنين) غانا میں بہن بھائیوں اور یتیموں کی اچھی نگہداشت کا ذکر کوئٹہ 3 1 517 247 251'233 812 2 کینیڈا کے دورے کے تاثرات کا بیان اور ایمان افروز غانا کےصدرمملکت اور حکومت کا شکریہ 215 | تذکره 480-476

Page 1030

کینیڈا 64 39377812811 مسجد دار البرکات ( برمنگھم ) میں کام کرنے والے کا ذکر 443 441 427 461 479 504 508 کینیڈا اور امریکہ کی جماعت کے اخلاص و وفا کا تذکرہ مسجد فضل 476 | مسجد مبارک 703 779 895 919'520'779`152 425 443 478 171 180 350146 51 148 149 812 کینیڈا کے جلسہ کے اعلیٰ انتظامات کا ذکر 478 مسی ساگا کینیڈا 40 | مکہ 355 | ملتان گجرات گروس گراؤ.جرمنی گلاسگو (لندن) گوجرانوالہ گورداسپور لاس اینجلس 719 | منی 40812 | میر پور خاص 33 میری لینڈ 39 مئی مارکیٹ منہائم.جرمنی 40٬812 | نارووال لاہور لدھیانہ 31919521520 | ناصر سٹریٹ لندن نیز دیکھیں انگلستان برطانیہ یو کے 243 | ناگپور 720 350862 24942 | نائیجیریا لندن ماریشس مدار ضلع جالندھر مدینہ 255811 نن سپیسٹ.ہالینڈ 32 | نواب شاہ 146149 387 12 180 | نورسٹریٹ 49 40'812 40 581 40'812 477 901 244 254 253 505 371 812 477 478 862 250`217 812 773 754 مزدلفه 49 | نیا گرافال مسجد اقصیٰ ربوه 350 | نیپال مسجد اقصیٰ 779 | وا گاڈوگو ( بورکینا فاسو ) مسجد بیت الرحمٰن.گلاسگو مسجد بیت الفتوح 719 | وہاڑی 779 | ہارٹلے پول مسجد دار البرکات (برمنگھم ) کا افتتاح اور تعارف 701 ہارٹلے پول میں مسجد کا افتتاح

Page 1031

723 65 333377 یورپ میں دعوت الی اللہ کا ایک اور طریق ہالینڈ ہملٹن کینیڈا ہندوستان 478 یورپ کے ایک سیاستدان کا حضور سے ملنا اور غربت ختم 650 24 344 272 289 | کرنے کی پلاننگ کا ذکر اور حضور کا سوال.468'797808811862901921 یورپ میں اڑھائی ہزار مساجد کی حضرت مصلح موعودؓ کی یمن یورپ 125 628 | خواہش 4959 | یو.کے 774 429 243*281*89270 یو کے جلسہ کے کامیاب اختتام پر شکر کے جذبات 551`550 255 263 184 345 347 41 377 437 814 862 901 925 543 628 139

Page 1032

66 844 98 211 230186* 19'36'401 489 491 749 751' 28 170 311 411 414 533 692 688 662-661 آسمانی فیصلہ آئینہ کمالات اسلام ابن ماجہ سنن ( حروف تہجی کے اعتبار سے ) 531-528 | البدر 890 637493515 | الترغيب والترهيب 825 860-837 287 572 195 11 410 412 416281213305308461470' | الحکم 827 789 771 769 726`887`877` 876 870 860 261`58`380`400` 399`398 166 115 459 195`53 172 149 147*148* 513'148 12 342`352 901 200 346*32*387 `473 637 639 437 436 ابوداؤد سنن 433 490 711 709 501`500`496` `785784*821*827*840837 495 | الادب المفرد 110 125 147 78369626596 | السيرت الحلبيه 1689358519103673957069 | السيرة النبويه لا بن ھشام 50322576266 51 52 | الشفالقاضی عیاض اتمام الحجة اربعین 907 الفرقان.خلافت نمبر 457 الفضل قادیان 129 746 824 261 804 559 341 49 79181435 | اجمع الاوسط 497 | المصنف عبدالرزاق الحجم الصغير ازالہ اوہام اسلامی اصول کی فلاسفی 678-676 101 265 238 `179`34` اصحاب احمد انجاز المتاح اقرب الموارد 57932 النجم الكبير 20 | الوصیت 121 | الوعی

Page 1033

67 498 902 269 15 642 الوفاء باحوال المصطفى انجام آتھم انجیل انوار العلوم ایام الصلح بائبل 10 بیہقی فی شعب الایمان 243 | تاریخ احمدیت 177 | تاريخ الكبير 33351 | تذکره 763664770275 | ترندی بائبل کا ترجمہ کرنے کے لئے ایک پادری کا زبان سیکھنا 129 854 950 934 931 928 917 363 417 418 430 490 473 460 455 447 435 431`558 495`696` 652 635 632`613`592`574`877` 860 828 818`770`768`767'766` 708 108 109 131 96 283 285` 212 231 238185 186 188`286* 871 419 28 792 957 954` بخاری 952 951 932 322 357 363 364` 411 456 455 451 447 445`433` 304 306 307`8`14` 726 891 378`380 574 556 539 509 497 475 471` '591`622`629`639`659 660 462 | تریاق القلوب '590578576787786780758 | تفسیر طبری 696689674916913 709 747 | تفسیر کبیر 86 872 112 122 143 162 89 91 300-302`16`56`395` 409*357` 889 854 852 851 804`802`801` 133 287 269 270 273 211 237' 310311312 10289292309 | تفسیر کبیر رازی 159'585` "128"145 146 150 166 31897 تفسیر حضرت مسیح موعود پر بہت بڑا علم کا خزانہ ہے 687 '53'49'16930 170 187171 124 | تفسیر حضرت مسیح موعود بدر اخبار 25 783 108 475 181 153 151 163 894 | جامع الصغير للسيوطى براہین احمدیہ بیہقی 261'613'620' 320 587 " جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کتاب 282 چشمه معرفت 173 172 166 902 640 662 698`889*

Page 1034

68 حديقة الصالحين 21433169 | سیرت المہدی 289 سیرت المہدی حصہ چہارم 640`519` 524 516 519 520 525`920'152 حضرت اقدس کی ایک تحریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر ایک سیرت حضرت مسیح موعود از عرفانی صاحب خط.885 حقائق الفرقان "586'108474 486 سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبدالکریم صاحب 181`342 25 520'293' 71625762 سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت طیبہ حقیقۃ الوحی حیات نور 897`580` خطبات محمود "654793346 | سیر الصحابه خطبات نور 858 | شحنه حق خلافت حقہ اسلامیہ 346 شمائل ترندی سنن دارقطنی 99 شہادت القرآن دار می سنن 95°238188413 909933 | صحیح ابن خزیمہ 519 521 841 596 595 153 573 190 448 536 در نمین فارسی 903 ضمیمہ انجام آتھم دیباچہ تفسیر القرآن 181 | ضمیمہ براہین احمدیہ ذكر حبيب 313"842 514 | ضمیمہ تحفہ گولڑویہ رپورٹ جلسہ سالانہ 663 | طبرانی رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب 998698 طبرانی الاوسط رجسٹر روایات صحابہ رسالہ قشیریہ 522 طبقات ابن سعد 282'320 فتح اسلام 749'777 699 118 117 457 25 751 54'51' 797`368 روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب“ 294 قرآن کریم ہر احمدی خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی ریاض الصالحین 836306 | قرآن کی تلاوت کی طرف توجہ دیں.ریویو آف ریلیچز 101370 قرآن کریم کیسے پڑھنا چاہئے.....سیرت ابن هشام 172 قرآن کریم کی تلاوت کے آداب 687 697 696

Page 1035

957 956 955 954 915 913 912` 910 115 123 131 144 145`287` 267 268 271 261 264 220`308` 184 10 52 53` 69 قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے کے متعلق ارشادات 6990682 قرآن میں پاکدامنی کی بابت تعلیم کی اہمیت اور خصوصیت 100 قرآن سیکھنا اور پڑھنا چاہئے اس کا ترجمہ سیکھیں اور اس کے درس کو رواج دیں قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق ارشادات 221 قرآن کریم اور دینی علوم سیکھنے کی اہمیت و ضرورت 337 365 453`507` مسند احمد 493 492 489 488 472 716`578` 572 554 512 511 914 913`853 839 788 781 753 936 108`117`96 284 265 268 213 222 143 144 145 240'237 407 727 کتاب الخراج کشتی نوح 165 169 183 27 6 74 10 9'16'54` 752 116 115 718674 مسند الامام الربيع بن حبیب '31353‘239459601 155 مسند امام الاعظم 931 16 5535561997°9° مشرق اخبار کا جماعت احمدیہ کو خراج تحسین ناموس کنزل العمال 189 "679 | رسالت کے موضوع پر گورنمنٹ انگریزی اور جہاد 772 مشکوۃ المصابیح "680333 مصنف ابن ابی شیبه 713 مکتوبات احمدیہ لیکچر سیالکوٹ لیکچر لاہور لیکچرلدھیانہ مجمع الزوائد مجموعہ اشتہارات 14 12 111128 ملفوظات 902`900 308 264 273 125 314 688 693 697`699` 710 712 734 733 730 729'727` 717 714 713 769`768`747`745` 744 743 741 735 855 844 843` 841 835 806 785 778`928`918` 917 911 881 861 860 600`598* 597 596 575 679 675 612'320' 939 960 154 29 34 38 370 323 324 325 452 450 435 434 397 377 374 360`609'591` 538 506 498 491 472 453`879` 837 825 822 820 710 630 611'610`

Page 1036

70 415 378375456450422416 | منصب خلافت "402389494492487468 404 | مؤطا امام مالک 296 313 314 316 318 17 18 19 11 12 13 29 37 56 57 59 60 61` 202 712'266 243`18` 753 711 115 285 474 574 326 321 326 327 333 332`331`330` 329 328 387 386 384 383`382` 463 460 459`458`562`558`555` نزول المسیح 113'501167'554534518517 | سنن نسائی 102 154 155 134 135 118 116 | نور القرآن 228 292224229 98286288 ورتمان رسالہ کا آنحضرت کی توہین پر مضمون لکھنا اور 206 190 "184 295 240 236 237 جماعت کا غیرت مندانہ اور جراتمندانہ رد عمل 900 "184"295"240"236 کا اور

Page 1036