Language: UR
خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده امام جماعت احمدیه عالمگیر حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز $2015 جلد 13
بسم اللہ الرحمان الرحیم عرض ناشر حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد فرمودہ خطبات جمعہ سال ۲۰۱۵ء بصورت خطبات مسرور جلد ۱۳ پیش خدمت ہیں.یہ خطبات الفضل انٹرنیشنل میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں اور وہاں سے اخذ کر کے ان کو کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.” خدا تعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانہ کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے.....اسے اپنی صفات بخشتا ہے.(الفرقان مئی، جون ۱۹۶۷ صفحہ ۳۷) ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی اور اس کا سراسر فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا ، ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے درد رکھتا ہے، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے ، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے ، اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کو سنیں، اس کی ہدایات کو سنیں اور اس پر عمل کریں کیونکہ اس کی آواز کوسننا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا کی بھلائی کا موجب ہے.اس کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے، زمانے کی ضرورت کے مطابق یہ الہی بندے بولتے ہیں.خدائی تقدیروں کے اشاروں کو دیکھتے ہوئے وہ رہنمائی کرتے ہیں.الہی تائیدات ونصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے.خدائی صفات ان کے اندر جلوہ گر ہوتی ہیں.خطبات مسرور کی اس جلد میں ہمارے پیارے آقا اور امام ہمام کی قیمتی اور زریں نصائح ہم ملا حظہ کر سکیں گے.گھروں کے مسائل ہوں یا معاشرتی ، ان سب کی بابت ایسی نصائح
ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہیں ،اپنی زندگیوں میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں اور معاشرے میں ایک حسین انقلاب پیدا کر سکتے ہیں.دنیا بھر میں جو نفسانفسی کا عالم ہے اور جو انسانیت کو ایک تیسری عالمگیر جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کئے ہوئے ہے.انسان اپنے ربّ ، اپنے خالق اور مالک سے منہ موڑے ہوئے اس کی ایسی ناراضگی کا مورد بنا ہوا ہے کہ آئے دن طرح طرح کی آفات و مصائب کے عذاب کا شکار ہو رہا ہے.ان سب سے بچنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ہمدردی اور شفقت کے جذبات پر مشتمل نصائح کی جھلک بھی آپ ان خطبات میں پائیں گے.ان قیمتی اور مفید نصائح کو ذہن میں ہر دم مستحضر رکھ کر ان پر عمل پیرا ہونے کی اللہ تعالیٰ ہر ایک کو توفیق بخشے اور دعا اور عبادات اور ہمدردی خلق کے لئے ایک جوش اور جذ بہ عطا فرمائے تاوہ روحانی انقلاب برپا ہو اور دنیا میں امن اور سلامتی کی راہیں ہموار ہوں.آمین
خطبات مسرور جلد ۱۳ i خلاصہ خطبہ خلاص خطبات 2015ء خلاصہ خطبہ خطبه فرموده صفحه نئے سال کا پہلا جمعہ.آپ سب کو بھی یہ نیا سال ہر لحاظ سے مبارک ہو.ایک دوسرے کو 02 جنوری مبارکباد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہو گا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بیان فرمودہ شرائط بیعت کے حوالہ سے افراد جماعت کو نہایت اہم نصائح.آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہی وہ جماعت ہے جو اللہ تعالی کی رضا حاصل 09 جنوری کرنے کے لئے، مختلف النوع کام ہیں جو حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں جو آج دنیا کے نقشے پر حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق صرف جماعت احمدیہ ہی کر رہی ہے.وقف جدید کے نئے سال کا اعلان.جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط الزامات لگاتے ہیں اور ہنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ 16 جنوری بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں.اور اس زمانے میں تو اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے عاشق صادق کو بھیج کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں.درود شریف کی اہمیت، فوائد و برکات، درود کی حکمت اور درود پڑھنے کے صحیح طریق کا تذکرہ.درود شریف کو کثرت سے پڑھنا آج ہر احمدی کے لئے ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی 23 جنوری غیرت ایمانی اور آپ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے.حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات کا تذکرہ جس طرح دنیا کے کاموں کے لئے کوشش ہوتی ہے اس سے بڑھ کر دین کے کام کے لئے 30 جنوری کوشش ہونی چاہئے.ہمارے مربیان و مبلغین اور صاحب علم لوگ کہ اللہ تعالیٰ نے جو اُن کی استعدادوں کو بڑھایا ہوا ہے تو وہ ان کا صحیح استعمال بھی کریں.عہدیداروں کا بھی یہ فرض ہے کہ جماعت کی علمی اور دینی ترقی کے معیاروں کو اونچا کرنے کی کوشش کریں.مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت نماز با جماعت کا التزام، معاندین و 06 فروری مخالفین کی مخالفتوں کا انجام، افواہوں کے پھیلانے سے باز رہنے، وقت کے ضیاع سے 1 20 36 54 69 82 نمبر 1 2 3 4 5 6
خلاصہ خطبہ نمبر خلاصہ خطبہ ii بچنے ، سیر کی باقاعدگی وغیرہ متفرق امور سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و فرمودات سے متعلق حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ مختلف واقعات کا دلچسپ اور ایمان افروز تذکرہ خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه 7 نقائص اور کمزوریاں ہمیشہ دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک فردی کمزوریاں اور نقائص اور 13 فروری ایک قومی کمزوریاں اور نقائص.اسی طرح خوبیاں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک فردی خوبیاں اور دوسرے قومی خوبیاں.مغربی معاشرہ تو آزادی کے نام پر ایک تباہی کی طرف جا ہی رہا ہے اور یہ قومی بدی ہے لیکن اس کی لپیٹ میں بعض احمدی بھی آ رہے ہیں.پس جماعت احمدیہ کے نظام کے تمام حصے اس بات پر غور کرنے کے لئے سر جوڑیں.باوجود توجہ دلانے کے، بار بار کی تلقین کے باجماعت نماز کے لئے ایک بڑی تعداد کو ذوق و شوق نہیں ہے.اس زمانے میں ایم ٹی اے اور جماعت کی ویب سائٹ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں مہیا فرمائی ہیں ان سے منسلک رہنا بھی بہت ضروری ہے.8 9 10 10 11 12 99 99 پیشگوئی مصلح موعود کے بارہ میں حضرت مصلح موعود کے ارشادات کے حوالہ سے مختلف 20 فروری 113 پہلوؤں کا ایمان افروز تذکرہ.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے 27 فروری 137 والے حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ بعض واقعات کا نہایت دلچسپ اور ایمان افروز تذکرہ اور اس کی روشنی میں احباب کو اہم نصائح.مومن کے لئے یہ بہت بڑا فکر کا مقام ہے کہ اپنے کل کی فکر کریں جہاں اعمال کا حساب 06 مارچ ہونا ہے.یہ بات یقینی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کو بھلاتے ہیں وہ آخر کار ایسی حالت کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کا اخلاقی انحطاط بھی ہوتا ہے اور روحانی تنزل بھی ہوتا ہے اور آخر کار ذہنی سکون بھی جاتا رہتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت سے تعلق رکھنے والے حضرت مصلح 13 مارچ موعود کے بیان فرمودہ بعض واقعات کا تذکرہ اور ان کی روشنی میں احباب جماعت کو نصائح آج یہاں سورج گرہن تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر خاص طور پر 20 مارچ دعاؤں، استغفار، صدقہ خیرات اور نماز پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے.مسیح موعود کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی چاند اور سورج گرہن کی جو پیشگوئی تھی.اس کے بارہ 155 166 181
خلاصہ خطبہ نمبر 13 14 خلاصہ خطبہ iii خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے اقتباسات اور اس نشان کے نتیجہ میں سلسلہ میں شامل ہونے والے صحابہ کے ایمان افروز واقعات کا روح پرور تذکرہ تین چار سال پہلے میں نے جماعتوں کو کہا تھا کہ ورقہ دو ورقہ بنا کر تبلیغ کا کام کریں اور 27 مارچ اس کا ٹارگٹ بھی دیا تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں ہونا چاہئے جس سے اسلام کی خوبصورت 197 تعلیم کا بھی دنیا کو پتا لگے.دنیا کو یہ پیغام ملے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے.آج تک مخالفین اپنا زور لگاتے چلے جا رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 103 پریل 214 بڑھتا چلا جا رہا ہے.دنیا کے کسی بھی حصے میں جہاں بھی مخالفین نے احمدیوں کو دبانے یا ختم کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان ملکوں میں جہاں احمدیوں کی قربانیوں کے معیار بڑھائے وہاں دنیا کے دوسرے ممالک میں خود ہی جماعت کی ترقی کے لئے ایسے راستے کھولے کہ اگر ہم صرف اپنی کوشش سے کھولنے کی کوشش کرتے تو کبھی کامیاب نہ ہو سکتے.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیت اللہ تعالی کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق پھلنا پھولنا اور بڑھنا ہے انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ اپنے نشانات دکھا رہا ہے.لوگوں کی خوابوں کے ذریعہ رہنمائی فرما رہا ہے.15 آیات قرآنی قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ کی حضرت اقدس مسیح 10 اپریل 229 16 موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے نہایت پر معارف تفسیر.ہر حقیقی مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے نماز شروع کرنے اور ختم کرنے میں ایک واضح فرق ہو.مسمریزم یا علم توجہ محض چند کھیلوں کا نام ہے.لیکن دعا وہ ہتھیار ہے جو زمین و آسمان کو بدل 17 اپریل 239 دیتا ہے.مسمریزم کی قوت ارادی ایمان کی قوت ارادی کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دینی غیرت.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے خدا تعالیٰ نے اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ جن کا شمار نہیں ہو سکتا.حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ مختلف واقعات کے حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کا ایمان افروز تذکرہ 17 مذہب کے مخالفین کی طرف سے آج کل بڑی شدت سے ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر 24 اپریل 254 مذہب کو مانے بغیر ہی اخلاق اچھے ہوں تو پھر مذہب کو ماننے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس اعتراض کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ ہم اخلاق کی درستی، مادی ترقی اور مذہب کے تعلق کو سمجھنے
خلاصہ خطبہ نمبر خلاصہ خطبہ iv خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه کی کوشش کریں.اس موضوع پر حضرت مصلح موعود کے ایک خطبہ کے حوالہ سے قرآن مجید اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی روشنی میں احباب کی رہنمائی.18 رب العالمین کا مظہر بننے کے لئے اپنے ہاتھ سے نہ صرف اپنوں کی بلکہ غیروں کی بھی خدمت یکم مئی کرنے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت سے مخلوق خدا کی خدمت، توکل علی اللہ ، قبولیت دعا اپنی سچائی پر کامل یقین اور قادیان کی ترقی وغیرہ موضوعات سے متعلق حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ متفرق روح پرور واقعات کا تذکرہ 19 قادیان کی وسعت، جماعت احمدیہ کی ترقی اور وسعت صرف رقبہ کے لحاظ سے اور تعداد کے لحاظ 08 مئی سے ہی نہیں ہے بلکہ اس وسعت کا اظہار ہمارے گھروں کی آبادی کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کے گھر کی آبادی پر بھی ہے.قادیان کی ترقی سے متعلق حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ روایات کا ایمان افروز تذکرہ کسی قسم کا مشرکانہ فعل قبروں پر جا کر نہیں کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی نہیں کرتے.20 پنجاب حکومت نے جماعت کے بعض جرائد اور کتب پر پابندی لگائی ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ 15 مئی 21 میں ان نام نہاد علماء کے کہنے پر اسی طرح کی حرکتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں.ان حرکتوں سے نہ پہلے کبھی جماعت کو نقصان پہنچا اور نہ انشاء اللہ تعالی آئندہ کبھی پہنچے گا.نہ ہی یہ پہنچا سکتے ہیں.نہ ہی کسی ماں نے وہ بچہ جنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدائی مشن کو ان باتوں سے روک سکے.کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ دیکھیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح بیان فرمایا ہے اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں یہ سب کچھ کس خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے.ایک پنجاب کی حکومت کی روک سے تو کیا تمام دنیا کی حکومتوں کی روکوں سے بھی یہ کام نہیں رک سکتا.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور کتب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.ایم ٹی اے پر بھی میں نے اب سوچا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس پہلے سے زیادہ وقت بڑھا کر دیا جائے گا اور اس طرح پاکستان کے ایک صوبے کے قانون کی وجہ سے دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا فائدہ ہو جائے گا.ہر جو روک ہوتی ہے، مخالفت ہوتی ہے ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے.حمد الہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان، آپ کے خلق عظیم، آپ کے احسانات، مقام ختم نبوت و شفاعت سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پر شوکت تحریروں سے نمونہ چند روح پرور اقتباسات کا تذکرہ.جماعت کے آغاز میں مالی دقت اور بعد میں کشائش کے عطا ہونے، لنگر خانہ کے اخراجات پورا 22 مئی 267 281 298 314
خلاصہ خطبہ نمبر خلاصہ خطبہ V خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و تائید صحابہ کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے والہانہ محبت، حضور علیہ السلام کی قادیان سے محبت اور دوسرے متفرق امور سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کا حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ واقعات کے حوالہ سے ایمان افروز تذکرہ 22 ہم احمدی یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے 29 مئی وعدے کے مطابق مسیح موعود اور مہدی معہود کے ذریعہ خلافت علی منہاج نبوت کو قائم فرمایا.آپ کو جہاں اتنی نبی ہونے کا مقام عطا فرمایا وہاں خاتم الخلفاء کے مقام سے بھی نوازا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ خلافت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور خاتم الخلفاء کے ذریعہ سے ہی جاری ہونا ہے.آج دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام خلافت احمدیہ کے نظام کے تحت ہی ہو رہا ہے.اسلام کی خوبصورت تصویر جماعت احمدیہ ہی دکھا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ خود بھی خلافت احمدیہ کی سچائی دنیا پر ثابت کر رہا ہے.اگر خدمت دین کا اللہ تعالیٰ نے موقع دے دیا ہے تو اپنے دینی علم کو بھی بڑھائیں اور اپنے اخلاص اور وفا کو بھی بڑھائیں، اپنے تقویٰ کو بھی بڑھائیں اور خلافت کے ساتھ اپنے تعلق کو بھی بڑھائیں.اپنے عمل کو بھی خلیفہ وقت کے تابع کریں اور دوسروں کو بھی نصیحت کریں.جب خلیفہ جماعت کی اصلاح کے لئے کچھ کہے تو اسے لیں اور افراد جماعت کے سامنے اسے دہرائیں اور دہرائیں اور دہرائیں حتی کہ کند ذہن سے کند ذہن آدمی بھی سمجھ جائے اور دین پر صحیح طور پر چلنے کے 23 24 24 لئے رستہ پالے جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ.دنیا کے اکثر ممالک میں جہاں جماعت احمد یہ قائم ہے 05 جون یہ جلسے منعقد ہونا جماعت احمدیہ کے اہم پروگراموں کا ایک اہم حصہ ہے.جلسے پر شمولیت ہمیں ہماری کمزوریوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ہمارے اندر انقلاب لانے والی ہو.اس بات پر نظر رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے انعقاد کے مقاصد کے لئے بیان فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے تو ہم روز دیکھتے ہیں لیکن جب کہیں سفر پر جاتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کئی گنا زیادہ بڑھ کر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پروگراموں میں برکت ڈالتا ہے اور تبلیغ اور اسلام کا حقیقی پیغام بھی بڑی کثرت سے لوگوں کو پہنچتا ہے اور پھر لوگوں پر اس کا اثر بھی ہوتا ہے.ممالک سے آنے والے مہمانوں کے جلسہ سالانہ اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ.سے ملاقات اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطابات کے بارہ میں نہایت خوشکن اور گہرے اثرات پر مشتمل تاثرات کا 12 جون 329 342 354
خلاصہ خطبہ 25 26 27 خلاصہ خطبہ vi اجمالی تذکرہ.مساجد کے افتتاح کے حوالہ سے الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں وسیع کوریج.خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه 368 آج جمعہ کا بابرکت دن ہے اور رمضان کے بابرکت مہینے کا پہلا روزہ ہے.اللہ تعالیٰ کی 19 جون رحمت اس مہینے میں خاص جوش میں آتی ہے اور مومنوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی بارش ہوتی ہے.ان دنوں سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے.ان دنوں میں بہت دعائیں کریں.اپنے لئے بھی، ایک دوسرے کے لئے بھی اور جماعت کی ترقی کے لئے بھی اور دشمن کی ناکامیوں اور نامرادیوں کے لئے بھی.اللہ تعالیٰ کے جلال اور شان کے ظہور کے لئے بھی.رمضان کے اس خاص ماحول میں ہمیں یہ جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالی کے حکموں کو کس حد تک اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رہے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کے حکموں کو قبول کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار حکم دیتے ہیں ہمیں ہمیشہ ان حکموں کو سامنے لاتے رہنا چاہئے تا کہ اصلاح نفس کی طرف ہماری توجہ رہے.عاجزی اختیار کرنے اور تکبر سے بیچنے کے لئے قرآن وحدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے تاکیدی نصائح.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی نظام میں ایک مرکزی نظام کے علاوہ ذیلی تنظیموں کا بھی نظام ہے اور 03 جولائی 391 پھر جماعتی مرکزی نظام میں بھی اور ذیلی تنظیموں کے نظام میں بھی ملکی سطح سے لے کر مقامی محلے کی سطح تک عہدیدار مقرر ہیں اور ہر عہدیدار سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خلافت کا دست و بازو بن کر ان فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کرے جو وسیع تر پھیلاؤ کے ساتھ خلافت کی ذمہ داری ہے.پس اگر اس بات کو تمام مربیان اور عہدیدار سمجھ لیں تو ایک انقلابی تبدیلی جماعت میں پیدا ہو سکتی ہے.کسی بھی عہدیدار کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ نصیحت کرنا میرا کام نہیں.رمضان کا مہینہ بندے کی اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہے.خلافت سے وابستگی اور اطاعت یہ بھی ضروری ہے.قرآن مجید، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے امانتوں کی ادائیگی اور خیانت سے بچنے اور غصہ کو دبانے اور اعلیٰ اخلاق دکھانے سے متعلق تاکیدی نصائح.جماعت کی ترقی اور دشمنوں کے خطرناک منصوبوں سے بچنے اور غلبہ اسلام کے لئے بہت دعائیں کرنے کی نصیحت 26 جون 379 28 ہم رمضان کے آخری عشرہ میں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے 10 جولائی 405 مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کے عشروں میں سے گزرتے ہوئے جہنم سے 29 نجات دلانے والے عشرہ میں سے گزر رہے ہیں.یہ دن بیشک رحمت مغفرت اور جہنم سے نجات کے دن ہیں لیکن کیا ہم نے ان دنوں کے فیض سے فیض بھی پایا ہے؟ رمضان کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے.اب یہ دعا اور کوشش ہونی چاہئے کہ یہ فیض، یہ 17 جولائی 418
خلاصہ خطبہ نمبر خلاصہ خطبہ vii برکات، یہ نئے روحانی تجربات ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے والے ہمارے قدم اب یہاں رُک نہ جائیں.غیر احمدیوں میں اگر جمعۃ الوداع کا کوئی تصور ہو تو ہو، جماعت احمدیہ میں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق جمعہ الوداع کا نہ کوئی تصور ہے، نہ کوئی ہونا چاہئے.قرآن مجید و احادیث نبویہ کے حوالہ سے جمعۃ المبارک کی اہمیت و برکات کا تذکرہ اور ان سے استفادہ کی تاکید.خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه 30 مامور کی باتوں پر عمل کرنا مومنوں کا فرض ہے.اور اس کو سمجھنا چاہئے اور اپنی توجیہیں کرنے کی 24 جولائی 430 بجائے لفظاً عمل کیا جائے تو ایمان ضائع نہیں ہوتا کسی بھی بات کے متعلق رائے قائم کرنی ہو تو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور حضرت منشی اروڑے خانصاحب کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ عشق و محبت کا ایمان افروز تذکرہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مخالفین کی سب و شتم اور ایذا رسانیوں پر بے نظیر صبر اور آپ کے اخلاق عالیہ کا بیان.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے حضرت مصلح موعود کے بیان فرمودہ متفرق واقعات کا دلچسپ تذکرہ.31 اگر قرآن پڑھانا ہے تو ایسے طریقے سے پڑھانا چاہئے جس سے شوق اور محبت پیدا ہو.قرآن 31 جولائی کریم پڑھانے والے استادوں کو اس طریق سے پڑھانا چاہئے کہ قرآن کریم پڑھنے کا شوق پیدا ہو.اصل چیز قاری کی طرح قراءت نہیں.قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے.تلاوت کی طرف روزانہ ہر احمدی کی توجہ ہونی چاہئے.یہ کوشش ضرور ہونی چاہئے کہ اصل کے جتنا قریب ترین ہو کر آسانی سے الفاظ کی ادائیگی ہو سکے، کی جائے اور پھر اس میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جائے.جماعت کی تاریخ میں دار البیعت لدھیانہ کی اہمیت کا تذکرہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے صحابہ کی آپ سے بے پناہ محبت اور اطاعت کے روح پرور واقعات کا بیان 32 صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیک فطرت، ان کی صداقت کی پہچان کے لئے 07 اگست نترپ، ان کی جان مال قربان کرنے کے لئے تڑپ اور کوشش اور ان کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے عشق و محبت کے اپنے اپنے ذوق کے مطابق معیار اور اس کے اظہار سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ واقعات کا تذکرہ اور اس حوالہ سے احباب کو اہم نصائح 33 جماعت احمدیہ برطانیہ جلسے کی.مہمان نوازی سے متعلق اسلامی تعلیم، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم 14 اگست کے اسوۂ حسنہ اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل کے حوالہ سے جلسہ سالانہ کے کارکنان اور میزبانوں کے لئے اہم نصائح.آج 14 / اگست بھی ہے جو پاکستان کا یوم آزادی ہے.اس لحاظ سے بھی دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اللہ تعالی پاکستان کو حقیقی آزادی نصیب کرے.اس ملک کی بقا اور سالمیت کی ضمانت انصاف اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں 447 463 478
خلاصہ خطبہ نمبر 34 خلاصہ خطبہ viii ہے.ملک کی بقا اور سالمیت کو باہر سے زیادہ اندر کے دشمنوں سے خطرہ ہے، خود غرض اور مفاد.خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه پرست لیڈروں اور علماء سے ہے.پاکستانی احمدیوں کو اپنے ملک کے لئے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالی پاکستانی احمدیوں کو بھی حقیقی آزادی نصیب فرمائے اور یہ ملک قائم رہے.ہمارے جلسوں کا ایک بہت بڑا مقصد تو یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 21 اگست نے بیان فرمایا اور بیعت کی غرض بھی یہ بیان فرمائی کہ اپنے موٹی کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے.دل پر محبت تو اس وقت غالب آ سکتی ہے جب ہم آپ پر دل کی گہرائی سے درود بھیجیں.اسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.ہمیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس بات پر شکر گزاری کے اظہار میں 28 اگست ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والا ہونا چاہئے کہ یہ شکر گزاری ہمیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مزید انعامات اور ترقیات سے نوازے گی.یہ شکر گزاری کا مضمون جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کا راستہ دکھاتا ہے وہاں بندوں کی شکر گزاری کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے.جلسہ سالانہ کے رضاکاران کی انتھک محنت اور پر خلوص خدمات پر خراج تحسین اور دعا.جلسہ سالانہ کے متعلق مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کے نہایت دلچسپ اور ایمان افروز تاثرات کا تذکرہ.36 مجھے سینکڑوں خط آتے ہیں جن میں اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری 04 ستمبر اولادوں میں تقویٰ پیدا کرے.یہ تبدیلی یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے اور اپنا عہد بیعت نبھانے کے احساس کی وجہ سے ہے.اس خواہش نے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کی خشیت اور خوف نے انہیں دنیا کی چیزوں سے بے پرواہ تو کیا ہے لیکن دنیا کی نعمتوں سے وہ محروم نہیں رہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی حیات طیبہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ اس زمانے میں حقیقی ایمان کو دلوں میں قائم کرنے اور حقیقی اسلام کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کی طرف منسوب ہونے کے بعد یہی ہماری ذمہ داری ہے کہ حقیقی ایمان کو قائم کرتے ہوئے اور اسلام کا صحیح نمونہ بنتے ہوئے اس کام میں آپ کے ممد و معاون بنیں.ہر احمدی کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا نمونہ بنائے.اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسے شدت پسند اور دہشتگرد مذہب کے طور پر پیش کرنے میں میڈیا کا بھی ہاتھ ہے.میڈیا انصاف سے کام نہیں لیتا.اس وقت میں ایسے چند لوگوں کی مثالیں پیش کرتا ہوں جنہوں نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھا اور ان کے دلوں پر اثر ہوا جنہوں نے اسلام کی خوبصورت تصویر کو دیکھ کر اسلام قبول کیا.اسلام مخالف طاقتیں چاہے جتنا بھی 37 11 ستمبر 494 508 527 543
خلاصہ خطبہ نمبر 38 خلاصہ خطبہ ix اسلام کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کریں لیکن اسلام نے ہی دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھانے ہیں اور امن اور سلامتی مہیا کرنی ہے.آج نہیں تو کل دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام ہی دنیا کے امن اور سلامتی کی ضمانت ہے.خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی 18 ستمبر غلامی میں تجدید دین کے لئے بھیجا ہے.آپ نے ہمیں دین کی اصل کو، اس کی بنیاد کو، اس کی حقیقی تعلیم کو خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور بدعات اور غلط روایات کو دور کرنے کی نصیحت فرمائی.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ہمارے بزرگ آباء اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں روایات پہنچائیں.حضرت مصلح موعودؓ کے وقت میں بہت سے صحابہ موجود تھے اس لئے آپ نے صحابہ کو ان دنوں میں توجہ بھی دلائی، نصیحت بھی کی یا ان کے رشتہ داروں کو توجہ دلائی کہ یہ روایات جمع کریں کیونکہ یہی چیزیں آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے نصیحت اور حقیقی تعلیم اور بعض مسائل کا حل پیش کرنے والی ہوں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت سے متعلق حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ بعض روایات اور ان سے لطیف استنباط کا تذکرہ اور اس حوالہ سے احباب جماعت کو نصائح.جب میں نے صحابہ کا ذکر شروع کیا تھا تو کچھ لوگوں نے جو صحابہ کی اولاد میں سے ہیں خاندانی طور پر ان کے خاندانوں میں جو روایات چل رہی ہیں وہ بھجوائی تھیں تو ان کو چاہئے کہ یہ روایات با قاعدہ لکھ کر دفتر ایڈیشنل وکالت تصنیف میں بھجوا دیں.عبادت میں ذوق و شوق خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ملتا ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ 25 ستمبر پر ایمان اور مستقل مزاجی سے کوشش اور دعائیں ضروری ہیں.شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے استغفار بہت ضروری ہے.40 مومنین کو کبھی تو ذاتی طور پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھی جماعتی طور پر نقصان ہوتا ہے لیکن 02 اکتوبر حقیقی مومن ہر طرح کے نقصان سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے کامیاب ہو کر نکلتا ہے.اس مضمون پر قرآنی آیات اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی مختلف تحریرات و ارشادات کے حوالہ سے بصیرت افروز رہنمائی اور احباب کو اہم نصائح.مسجد بیت الفتوح سے متصل دو ہالوں میں آگ لگنے کے واقعہ پر غیر احمدی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مختلف رد عمل اور میڈیا میں اس کی تشہیر کے حوالہ سے تذکرہ.39 41 ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو احمدیت کی طرف منسوب کرتا ہے تو ہمیشہ نظام 09 اکتوبر جماعت سے مضبوط تعلق رکھنا اور خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کا تعلق رکھنا اس پر فرض ہے.المیرا (ہالینڈ) میں مسجد کے سنگ بنیاد کے موقع پر افراد جماعت کو کی گئی نصائح کے حوالہ سے اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی طرف خصوصی توجہ کی تاکید.ہر ایک کو ضرورت ہے کہ ایم ٹی اے 558 575 577 591
خلاصہ خطبہ نمبر خلاصہ خطبہ سے اپنا تعلق جوڑیں تا کہ اس اکائی کا حصہ بن سکیں.X خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه 42 ہر ابتلا چاہے وہ احمدی پر احمدیت کی وجہ سے ذاتی ہو یا بعض جگہ پوری جماعت اس تکلیف میں 16 اکتوبر سے یا ابتلا میں سے گزر رہی ہو تو ایسا ہر ابتلا پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور جلوے دکھاتا ہے.جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے زمانے میں اللہ تعالیٰ خوابوں کے ذریعہ آپ کی سچائی کی طرف لوگوں کی رہنمائی فرماتا تھا آج بھی بیشمار لوگ ہیں جن کی اس طرح رہنمائی ہوئی اور ہو رہی ہے.بعض کا نہایت ایمان افروز تذکرہ.آپ کے بعد جاری نظام خلافت بھی اللہ تعالی کی طرف سے تائید یافتہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو جاری رکھنے والا ہے خلفاء کو بھی خواب میں دکھا کر رہنمائی فرما دیتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں جو وہ کر رہا ہے.اللہ تعالی کے جو حقوق ہیں وہ بہر حال ادا کرنے فرض ہیں.نمازیں جو ہیں بہر حال ادا کرنی ضروری ہیں اور سمجھ کر ادا کرنی ضروری ہیں.پس یہ نہ ہو کہ ہماری نسلیں بہت پیچھے چلی جائیں اور نئے آنے والے ان انعامات کے وارث بن کر جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اپنے مقام کو ہم سے بہت بلند کر لیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ ہر سفر میں اپنی تائید و قدرت کے نشانات دکھاتا ہے.ہالینڈ اور 123 اکتوبر جرمنی کے سفر کے دوران مختلف پروگراموں کے نہایت کامیاب و بابرکت انعقاد اور ان کے غیروں پر گہرے نیک اثرات اور ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی کے ذریعہ وسیع پیمانے پر اسلام احمدیت کے پیغام کی تشہیر اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ایمان افروز نظاروں کا تذکرہ.جرمنی میں مساجد کا سنگ بنیاد اور 43 پریس میڈیا کوریج.جامعہ احمدیہ جرمنی سے شاہد کا امتحان پاس کرنے والی پہلی کلاس کے مبلغین کی کانووکیشن کی تقریب افراد جماعت کو اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے.دینی علم رکھنے والے حالات حاضرہ سے بھی 30اکتوبر واقفیت رکھیں اور تاریخ سے بھی واقفیت رکھیں.خاص طور پر وہ جن کے سپرد تبلیغ کا کام پر توجہ دیں.ہمارا یہی اصول ہونا چاہئے کہ ہم کسی کے لئے بددعا نہ کریں بلکہ ہمیں اپنے مخالفین کے لئے دعا کرنی چاہئے.جماعت احمدیہ کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ہر ابتلا ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے سامان لے کر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پر روشنی ڈالنے والے واقعات یا آپ علیہ السلام کی بیان فرمودہ حکایات کا حضرت مصلح موعود کی تقاریر کے حوالہ سے تذکرہ 45 خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربانی کرو.اس چیز کی قربانی کرو جو تمہیں بہت زیادہ عزیز 06 نومبر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو جماعت پیدا کی اس نے صرف یہ نہیں کیا کہ ان باتوں کو صرف سن لیا اور منہ دوسری طرف کر لیا اور توجہ پھیر لی بلکہ ان باتوں کو سننے کے بعد قربانیوں کے معیار بھی قائم کئے.دنیا کے مختلف ممالک میں اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے احمدیوں 602 618 634 648
خلاصہ خطبہ ند خلاصہ خطبہ xi کی مالی قربانی کے نہایت ایمان افروز واقعات کا روح پرور بیان.تحریک جدید کے 82 ویں مالی سال کے آغاز کا اعلان.خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه 46 حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو جو عشق اور محبت کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھا 13 نومبر اسے ہر وہ احمدی جس نے آپ کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھا ہو یا سنا ہو جانتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محض اللہ عقد اخوت اور محبت کی کوئی مثال اگر دی جا سکتی ہے تو وہ حضرت مولانا حکیم نور الدین کی مثال ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے محبت و اطاعت، اخلاص و وفا، عجز وانکسار، فہم و فراست ، سادگی اور توکل جیسے اخلاق فاضلہ کا حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ روایات کے حوالہ سے ایمان افروز تذکرہ.آج ماریشس کا جلسہ سالانہ بھی ہو رہا ہے اور ماریشس میں جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے ایک سو سال ہو چکے ہیں.47 الحمد للہ آج جماعت احمد یہ جاپان کو اپنی پہلی مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے.اللہ تعالیٰ اس کی تعمیر کو 20 نومبر ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.پچھلے دنوں میں پیرس میں جو واقعہ ہوا انتہائی ظالمانہ فعل تھا.یہ لوگ یہ عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو نہیں بلکہ اس کی ناراضگی کو مول لے رہے ہیں.پس اس لحاظ سے بھی آج احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جہاں اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں وہاں اسلام کی خوبصورت تعلیم کے ساتھ دوسروں کو تبلیغ کریں.احمدی کو تو دین سیکھنے اور اصلاح کے لئے اور وحدت قائم کرنے کے لئے خلیفہ وقت کے پروگراموں کے ساتھ جڑنا بے انتہا ضروری ہے.عہدیدار بھی چاہے وہ صدر جماعت ہیں یا دوسرے عہدیدار ہیں محبت اور پیار سے لوگوں کی تربیت کریں.محبت اور پیار کو فروغ دیں.جاپانی احمدیوں سے بھی میں کہوں گا کہ دین سیکھیں اور اپنے ایمان و ایقان میں ترقی کریں.48 گزشتہ دنوں میں جاپان کی پہلی مسجد کے افتتاح کے لئے وہاں گیا تھا.اسلام کا پیغام اس 27 نومبر ملک میں پہنچانے کا پہلا مرکز قائم ہو گیا.اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف ایک مرکز یا مسجد تمام ملک میں اسلام کی تعلیم پھیلانے کے مقصد کو پورا نہیں کر سکتے لیکن یہ بات ہے کہ اس کے ساتھ جاپان میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے.مسجد کے افتتاح اور استقبالیہ تقریبات میں شامل ہونے والے غیر مسلم جاپانی معزز مہمانوں کے اسلام احمدیت کے متعلق مثبت تاثرات اور ان کے خیالات میں نمایاں تبدیلی کے اظہار کا ایمان افروز بیان.چپ بورڈ فیکٹری جہلم کو آگ لگانے کے واقعہ اور دو مساجد پر حملے کی تفصیلات کا ذکر.احمدیوں کے ثبات قدم کا تذکرہ.49 جس تباہی کی طرف دنیا تیزی سے جا رہی ہے اس کے لئے احباب جماعت کو بہت زیادہ 04 دسمبر 664 678 692 711
خلاصہ خطبہ نمبر 50 خلاصہ خطبہ xii دعا کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور بعید نہیں کہ جنگ شروع ہو جائے.اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہی سے بچائے.اس کے علاوہ احتیاطی تدابیر کے لئے بھی میں نے گزشتہ سالوں میں جماعت کو توجہ دلائی تھی اس طرف بھی توجہ دیں.اللہ تعالیٰ حکومتوں اور طاقتوں کو عقل دے کہ دنیا کو تباہی کی طرف اور بربادی کی طرف نہ لے کر جائیں.خطبات مسرور جلد ۱۳ خطبه فرموده صفحه اس زمانہ میں اسلام پر میڈیا اور تحریر و تقریر کے ذریعہ سے جو حملے ہو رہے ہیں ان کا توڑ کرنے 11 دسمبر کے لئے اس شخص کے ساتھ رشتہ جوڑ کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کی عظمت سے ان مخالفین کا منہ بند کریں جو اسلام پر دہشت گردی اور شدت پسندی کا الزام لگاتے ہیں.51 مخالفین احمدیت یا نام نہاد علماء حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اور آپ کی 18 دسمبر 52 جماعت پر سب سے بڑا الزام جو مسلمانوں کے جذبات بھڑ کانے اور انہیں انگیخت کرنے کے لئے لگاتے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑا سمجھتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی تصنیف سے لے کر آخری تصنیف تک متعدد کتب میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع شان اور بلند مقام سے متعلق غیر معمولی جذب و تاثیر رکھنے والی پر معارف تحریرات کا انتخاب اللہ تعالیٰ ان مفاد پرستوں کے چنگل سے اُمت مسلمہ کو بچائے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے والے ہوں اور یہی ایک طریقہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جو اُمت مسلمہ کی ساکھ کو دوبارہ قائم کر سکتا ہے.آسٹریلیا / امریکہ میں جلسہ سالانہ - حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ روایات کے حوالہ سے 25 دسمبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانے کے جلسوں کا اور اللہ تعالیٰ کے بعض الہامات کا تذکرہ جو اُن دنوں میں پورے ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں اور بعض آئندہ زمانوں میں پورے ہونے والے تھے.ربوہ کے رہنے والے بھی ان دنوں بے چین ہوں گے تو انہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے.انشاء اللہ تعالیٰ وہاں بھی حالات بدلیں گے.یہ حسد اور مخالفت احمدیت کی ترقی دیکھ کر بڑھتی چلی جارہی ہے اور دنیا میں پھیلتی چلی جارہی ہے اور یہ بڑھے گی.لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اس نے ہی غالب آتا ہے.انشاء اللہ تعالی.جماعت ترقی کر رہی ہے اور انشاء اللہ کرتی جائے گی.726 741 757
خطبات مسرور جلد 13 1 1 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015 ء بمطابق 02 صلح 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نئے سال کی مبارکباد آج کا جمعہ اس نئے سال 2015 ء کا پہلا جمعہ ہے.مجھے مختلف لوگوں کے نئے سال کے مبارکباد کے پیغام آ رہے ہیں.فیکسیں بھی اور زبانی بھی لوگ کہتے ہیں.آپ سب کو بھی یہ نیا سال ہر لحاظ سے مبارک ہو.لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہو گا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لئے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لئے کتنی کوشش کریں گے.پس ہمیں اس جمعہ سے آئندہ کے لئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو نئے سال میں ہمارے لئے اس حق کی ادائیگی کے لئے چستی اور محنت کا سامان پیدا کرتے رہیں.شرائط بیعت اور ذمہ داریاں یہ تو ظاہر ہے کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے اس کا حق نیکیوں کے بجالانے سے ہی ادا ہو گا لیکن ان نیکیوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں.تو واضح ہو کہ ہر اس شخص کے لئے جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے اور احمدی ہے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود مہیا فرما دیئے ہیں، بیان فرما دیئے ہیں اور اب تو نئے وسائل اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے ہر شخص کم از کم سال میں ایک دفعہ خلیفہ وقت کے ہاتھ پر یہ عہد کرتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ معیاروں کو
خطبات مسرور جلد 13 2 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء حاصل کرنے کے لئے بھر پور کوشش کرے گا.اور ہمارے لئے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں کھول کر بیان فرما دیئے ہیں.کہنے کو تو یہ دس شرائط بیعت ہیں لیکن ان میں ایک احمدی ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں ہیں ان کی تعداد موٹے طور پر بھی لیں تو تیس سے زیادہ بنتی ہے.پس اگر ہم نے اپنے سالوں کی خوشیوں کو حقیقی رنگ میں منانا ہے تو ان باتوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.ورنہ جو شخص احمدی کہلا کر اس بات پر خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے وفات مسیح کے مسئلے کو مان لیا یا آنے والا مسیح جس کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کو مان لیا اور اس پر ایمان لے آیا تو یہ کافی نہیں ہے.بیشک یہ پہلا قدم ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم نیکیوں کی گہرائی میں جا کر انہیں سمجھ کر ان پر عمل کریں اور برائیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائیں جیسے ایک خونخوار درندے کو دیکھ کر انسان اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے.اور جب یہ ہوگا تو تب ہم نہ صرف اپنی حالتوں میں انقلاب لانے والے ہوں گے بلکہ دنیا کو بدلنے اور خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا ذریعہ بن سکیں گے.شرک سے بچنے کا عہد بہر حال ان باتوں کی تھوڑی سی تفصیل یاد دہانی کے طور پر آج میں بیان کروں گا.یہ یاد دہانی انتہائی ضروری ہے.ہماری بیعت کا مقصد ہمارے سامنے آتا رہنا چاہئے.پہلی بات جو آپ نے ہمیں فرمائی ہے وہ شرک سے بچنے کا عہد ہے.ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563) ایک مومن جو خدا پر ایمان لانے والا ہو اور خدا پر ایمان کی وجہ سے ہی خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں زمانے کے امام کی بیعت کر رہا ہو.ایسے شخص کا اور شرک کا تو دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مشرک اللہ تعالیٰ کی بات مانے.لیکن نہیں جس بار یک شرک کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو جہ دلا رہے ہیں وہ کوئی ظاہری شرک نہیں ہے بلکہ مخفی شرک ہے جو ایک مومن کے ایمان کو کمزور کر دیتا ہے.اس کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لا إلهَ إِلَّا اللہ کہیں اور دل میں ہزاروں بت جمع ہوں.بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر ایسا بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے.ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے.بت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا
خطبات مسرور جلد 13 3 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگہ میں بت ہے.“ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 349) پس آج ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال میں ہم نے جن تدبیروں اور حیلوں پر انحصار کیا، انہی کو سب کچھ سمجھایا یہ چیزیں صرف ہم نے تدبیر کے طور پر استعمال کیں اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر ان تدبیروں سے اللہ تعالیٰ کی خیر اور برکت چاہی.اپنے آپ کا انصاف کی نظر سے جائزہ خود ہمیں اپنے عہد کی حقیقت بتادے گا.جھوٹ نہیں بولوں گا پھر آپ علیہ السلام نے ہم سے یہ عہد لیا کہ جھوٹ نہیں بولوں گا.کون (ماخوذاز ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563) ن عقلمند انسان ہے جو کہے کہ جھوٹ اچھی چیز ہے یا جھوٹ بولنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محرک نہ ہو جھوٹ بولنا نہیں چاہتا.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 360) پس نفسانی غرض ہو، کوئی مفاد ہو تبھی انسان جھوٹ کی طرف مائل ہوتا ہے.لیکن اعلیٰ اخلاق یہ ہیں کہ جان مال یا آبرو کو خطرہ ہو پھر بھی جھوٹ نہ بولے اور بیچ کا دامن کبھی نہ چھوڑے.جھوٹے اور بچے کا تو پتا ہی اس وقت چلتا ہے جب کوئی ابتلا در پیش ہو.ذاتی مفاد متاثر ہونے کا خطرہ ہو لیکن پھر بھی اس میں سے سرخرو ہوکر نکلے.اپنے ذاتی مفادات کو سچائی پر قربان کر دے.آجکل یہاں اور یورپین ممالک میں بھی اسائلم کے لئے لوگ آتے ہیں لیکن باوجود میرے بار بار سمجھانے کے ان وکیلوں کے کہنے پر جھوٹ بول دیتے ہیں.جھوٹ پر مبنی کہانی لکھواتے ہیں اور پھر بھی بعضوں کے بلکہ بہت ساروں کے کیس reject ہو جاتے ہیں.باقی دنیا میں بھی اور یہاں بھی جماعتی طور پروکیلوں کی ایک مرکزی ٹیم ہے.وہ اسائلم لینے والوں کی مدد کرتی ہے.ان کو وکیلوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے یا انہیں بعض ایسی ضروری باتیں بتاتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں جو اُن کے کیس کے لئے مفید ہوں.کئی مرتبہ ہوا ہے کہ مجھے کمیٹی کے صدر نے کہا کہ فلاں کا کیس اس لئے reject ہوا ہے کہ بے انتہا جھوٹ تھا.
خطبات مسرور جلد 13 4 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء صرف ایک دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ جھوٹ اور شرک کو اللہ تعالیٰ نے اکٹھا کر کے بیان فرمایا ہے.پھر اسی طرح بعض benefits لینے کے لئے غلط بیانی کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر یہ بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 361) پس اس باریکی سے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.پھر فرمایا یہ عہد کرو کہ زنا سے بچو گے.ٹی وی انٹرنیٹ کے منفی پہلو (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: "زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے ( اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 342) وقوع کا اندیشہ ہو.“ اب آجکل ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے اس پر ایسی بیہودہ فلمیں چلتی ہیں یا کھولنے سے نکل آتی ہیں جو نظر کا بھی زنا ہے، خیالات کا بھی زنا ہے، پھر برائیوں میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بھی ہے.گھروں کے ٹوٹنے کی وجہ ہے.کئی عورتیں اور لڑکیاں اپنے خاوندوں کے بارے میں لکھتی ہیں کہ سارا دن انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں اور بیٹھ کر گندی فلمیں دیکھتے ہیں.بعض مرد بھی اپنی بیویوں کے بارے میں لکھتے ہیں.اور پھر نتیجہ خلع اور طلاق تک نوبت آ جاتی ہے.یا انہی فلموں کی وجہ سے جانوروں سے بھی زیادہ بدترین بن جاتے ہیں.احمدی معاشرہ عموماً تو اس سے بچا ہوا ہے.شاذ و نادر کے سوا کوئی ایسے واقعات نہیں ہوتے لیکن اگر اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس گند سے اپنے آپ کو بچانے کی بھر پور کوشش نہ کی تو پھر کسی پاکیزگی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی.پس اس بارے میں بھی بہت فکر سے جائزے لینے کی ضرورت ہے.پھر ایک عہد ہم سے یہ لیا کہ بدنظری سے بچوں گا.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563) اس لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں غض بصر کا حکم دیا ہے تا کہ بدنظری کا موقع ہی پیدا نہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے.(سنن الدارمی، کتاب الجهاد ، باب في الذي يسهر...الخ حدیث 2404 صفحه 773 مطبوعه دار المعرفة بيروت 2000ء)
خطبات مسرور جلد 13 5 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں فرماتے ہیں : ” ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں.سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 343) آپ نے فرمایا کہ: ” اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کئے ہیں.پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے نغض بصر کا.“ ( ملفوظات جلد 10 صفحہ 346) اس بات پر بھی ہمیں غور کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کس حد تک ہم اس پر عمل کرتے ہیں.پھر آپ نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہر ایک فسق و فجور سے بچوں گا.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563) اللہ تعالیٰ کے احکامات سے باہر نکلنا فسق ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ گالی گلوچ کر نافسق ہے.“ (سنن ابن ماجه باب اجتناب البدع والجدل حدیث (46) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ : ” قرآن سے تو ثابت ہوتا ہے کہ کافر ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 367) سے پہلے فاسق کو سزا دینی چاہئے.“ فرمایا: ” جب یہ ( یعنی مسلمان ) فسق و فجور میں حد سے نکلنے لگے اور خدا کے احکام کی ہتک اور شعائر اللہ سے نفرت ان میں آگئی اور دنیا اور اس کی زیب وزینت میں ہی گم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اسی طرح ہلا کو چنگیز خان وغیرہ سے برباد کرایا.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 133 ) آجکل بھی دنیا کا مسلمانوں کا یہی حال ہے.پھر ایک عہد بیعت کرنے والے سے یہ لیا گیا ہے کہ ظلم نہیں کرے گا.ظلم اور خیانت ایک گناہ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563) ظلم ایک انتہائی بڑا گناہ ہے.کسی کا حق غلط طریق سے دبانا بہت بڑا ظلم ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات مسرور جلد 13 6 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء سے جب پوچھا گیا کہ کونسا ظلم سب سے بڑا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دبالے.فرمایا اس زمین کا ایک کنکر بھی جو اس نے از راہ ظلم لیا ہوگا تو اس کے نیچے کی زمین کے جملہ طبقات کا طوق بن کر قیامت کے روز اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا.(مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحه 61 مسند عبد الله بن مسعود حدیث 3772 مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت 1998ء) یعنی اس زمین کے نیچے گہرائی تک جتنی زمین ہے ، اللہ جانتا ہے کتنی زمین ہے ) اس کا ایک طوق بنے گا اور اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا.پس بڑے خوف کا مقام ہے.وہ لوگ جو مقدمات میں اناؤں کی وجہ سے یا ذاتی مفادات کو حاصل کرنے کی وجہ سے لوگوں کے حق مارتے ہیں ان کو سوچنا چاہئے.پھر ایک عہد ہم سے یہ لیا گیا ہے کہ خیانت نہیں کریں گے.ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563) اور خیانت نہ کرنے کا معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا پیش فرمایا؟ فرمایا اس شخص سے بھی خیانت سے پیش نہ آؤ جو تم سے خیانت سے پیش آچکا ہے.(سنن ابی داؤد کتاب البیوع باب في الرجل ياخذ حقه من تحت يده حدیث 3535) پس یہ معیار ہیں جو ہمیں حاصل کرتے ہیں.کوئی عذر نہیں کہ فلاں کی امانت میں نے اس لئے قبضے میں کرلی یا اس کی چیز دبالی کہ اس نے فلاں وقت میرے ساتھ خیانت کا معاملہ کیا تھا.اپنے حقوق کے لئے قضا یا اگر دوسرا فریق غیر از جماعت ہے تو عدالت میں جاؤ.اگر جماعت کہتی ہے تو عدالت میں جائیں لیکن خیانت کا تصور ہی مومن کے ایمان کی بنیاد ہلا دیتا ہے.فساد سے بچیں پھر یہ عہد ہے کہ ہر قسم کے فساد سے بچوں گا.(ماخوذاز ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) اپنوں کے ساتھ جھگڑوں اور فساد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.غیروں سے جو ہمیں تکلیفیں پہنچا رہے ہیں ان سے بھی سلوک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے وہ کیا ہے؟ فرمایا: ” وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے ان سے دنگا یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو.فرمایا: ” دیکھو میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد وو
خطبات مسرور جلد 13 7 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو.بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو فرمایا: ”جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے.اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا.اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جود نیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے.“ لملفوظات جلد 7 صفحہ 203-204 پس نہ اپنوں سے ( جھگڑیں) نہ غیروں سے.ہم میں سے وہ لوگ جو ( لڑائی جھگڑا کرنے والے ہیں ) اگر بیویوں کے ساتھ سلوک میں یا اپنے بھائیوں کے ساتھ تعلقات میں یا اپنے ماحول کے لوگوں کے ساتھ سلوک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو سامنے رکھیں تو تھوڑے بہت معاملات بھی جو ان شکایات کے سامنے آتے ہیں یہ بھی نہ آئیں.یا کم از کم ان میں غیر معمولی کمی واقع ہو جائے.پھر ایک عہد ہم سے یہ لیا کہ بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہوں گا.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) یہ باغیانہ رویہ چاہے نظام جماعت کے کسی ادنیٰ کارکن کے خلاف ہے یا حکومت وقت کے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے رویوں سے بھی بچنے کی ہدایت فرمائی ہے جن سے بغاوت کی بو آتی ہے.دین میں دخل اندازی کے علاوہ حکومت وقت کے باقی احکامات کے خلاف ایسے رویے دکھا نا جو خود کو قانون شکن بنا رہے ہوں یا دوسروں کو قانون کے خلاف بھڑکا سکتے ہوں یہ اسلامی طریق نہیں ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہونے کا بھی عہد کرو.ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) پہلے بھی میں نے بتایا کہ آجکل ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے نفسانی جوشوں سے مغلوب ہونے کے بہت سے مواقع ہیں.پھر لڑائی جھگڑے، دنگا فساد بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان نفسانی جوشوں سے مغلوب ہوتا ہے.پس چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جو کسی بھی طرح نفسانی جوشوں کو ابھارنے والی یا ان سے مغلوب کرنے والی ہے ان سے بچنے کی بھر پور کوشش کرنا ایک احمدی کا فرض ہے.نمازوں کی پابندی پھر فرمایا کہ احمدیت میں داخل ہو کر اس بات کا بھی عہد کرو کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی
خطبات مسرور جلد 13 8 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء پابندی کرنی ہے کہ نمازوں کو پانچ وقت اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) دس سال کے عمر کے بچے پر بھی نماز فرض ہے.پس والدین کو اس کی نگرانی کی ضرورت ہے اور اس نگرانی کا حق تبھی ادا ہو گا جب خود والدین نمازوں میں نمونہ ہوں گے.بہت ساری شکایتیں میرے پاس آتی ہیں.بعض بچے بھی کہتے ہیں کہ ہمارے والدین نماز نہیں پڑھتے یا بیویاں کہتی ہیں کہ خاوند نماز نہیں پڑھتے.بچے کیا نمونہ دیکھ رہے ہوں گے؟ مردوں کے لئے پانچ وقت کی نماز شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا مطلب ہے کہ مسجد جا کر باجماعت نماز ادا کریں سوائے بیماری یا کسی بھی خاص جائز عذر کے.اگر اس پر عمل شروع ہو جائے تو ہماری مسجد میں نمازیوں سے بھر جائیں.صرف عہدیداران ہی اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو بہت فرق پڑ سکتا ہے.اس بارے میں میں وقتا فوقتا کہتارہتا ہوں لیکن ابھی بھی بہت کمی ہے اور کوشش کی ضرورت ہے.جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کو اس بارے میں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 254) اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا؟“ پھر اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں.پس اس طرف ہراحمدی کو بہت بڑھ کر کوشش کر نے کی ضرورت ہے.پھر یہ عہد ہم سے لیا کہ نماز تہجد کا بھی التزام کریں گے.ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں نماز تہجد کا التزام کرنا چاہئے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریق رہا ہے اور قرب الہی کا ذریعہ ہے.یہ عادت گناہوں سے روکتی ہے اور برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے.(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 112 حدیث 3549) تہجد روحانی اور جسمانی علاج پس نہ صرف روحانی علاج ہے بلکہ جسمانی علاج بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ”ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کولازم کر لیں.جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا.اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 245)
خطبات مسرور جلد 13 درود اور استغفار کی برکت 9 پس اس طرف بھی ہمیں تو جہ دینے کی ضرورت ہے.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء پھر آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا ہم سے عہد لیا.ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا.(صحیح مسلم کتاب الصلوة باب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه...حديث 849) پس بڑی اہمیت ہے درود کی اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی درود انتہائی ضروری ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تو اپنے نبی پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی اوپر نہیں جاتا.(سنن الترمذى كتاب الصلوة باب ماجاء في فضل الصلوة على النبي و العلم حدیث (486) پھر بیعت میں ایک عہد ہم یہ کرتے ہیں کہ استغفار میں باقاعدگی اختیار کریں گے.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے یعنی بہت زیادہ استغفار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کی ہر مشکل سے اس کے لئے کشائش کی راہ پیدا کر دیتا ہے اور ان راہوں سے رزق دیتا ہے جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا.سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب فی الاستغفار حدیث (1518) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : "بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا خواہ اسے علم ہو یانہ ہو...استغفار کرتار ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 275) خدا کی حمد اور احسانوں کو یا درکھنا پس اس اہمیت کو بھی ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.پھر ہم سے یہ عہد لیا کہ خدا تعالیٰ کے (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) احسانوں کو ہم یادرکھیں گے.
خطبات مسرور جلد 13 10 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے سب سے بڑا احسان تو یہی ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.اگر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان یا در ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خالص تعلق جوڑنے کی کوشش بھی ہر وقت رہے گی اور آپ کی باتوں پر عمل کرنے کی طرف توجہ رہے گی.پھر یہ عہد ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا رہوں گا.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اہم کام اگر اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ بے برکت اور بے اثر ہوتا ہے.(سنن ابن ماجه ابواب النکاح باب خطبة النكاح حديث نمبر 1894) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا اور جولوگوں کا شکر یہ ادانہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر یہ ادا نہیں کر پاتا.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحه 297 مسند نعمان بن بشیر حدیث 18640 مطبوعه بيروت 1998ء) پس اللہ تعالیٰ کی حمد کو اس طرح کریں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی ممنون احسان رہیں.پھر ایک عہد ہم نے یہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عام مخلوق کو تکلیف نہیں دیں گے.ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) پھر یہ عہد ہے کہ مسلمانوں کو خاص طور پر اپنے نفسانی جوشوں سے ناجائز تکلیف نہیں دیں گے.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) جس حد تک عفو کا سلوک ہوسکتا ہے کرنا ہے.لیکن اگر مجبوری سے کسی کے حد سے زیادہ تکلیف دہ رویے کی وجہ سے اصلاح کی خاطر ، ذاتی عناد کی وجہ سے نہیں ، غصے کی وجہ سے نہیں بلکہ اصلاح کی خاطر کسی کو سزا دینی ضروری ہے تو پھر اپنے ہاتھ میں معاملہ نہیں لینا بلکہ حکام تک بات پہنچانی ہے.جو اصلاح بھی کرنی ہے صاحب اختیار نے کرنی ہے.ہر ایک کا کام نہیں کہ اصلاح کرتا پھرے.خود کسی سے بدلے نہیں لینے.عاجزی اور انکساری کو اپنا شعار بنانا ہے.پھر یہ عہد ہے کہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کا وفادار رہنا ہے.خوشی اور تکلیف ہر حالت میں خدا تعالیٰ ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) کا دامن ہی پکڑے رکھنا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 11 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کا کام بھی عجیب ہے.اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں.یہ فضل صرف مومن کے لئے ہی خاص ہے.اگر اس کو کوئی خوشی اور مسرت اور فراخی نصیب ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے اور اس کی شکر گزاری اس کے لئے مزید خیر و برکت کا موجب بنتی ہے اور اگر اس کو کوئی دکھ، رنج تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے.اس کا یہ طرز عمل بھی اس کے لئے خیر و برکت کا ہی باعث بن جاتا ہے کیونکہ وہ صبر کے ثواب کو حاصل کرتا ہے.(صحیح مسلم کتاب الزهد والرقاق باب المؤمن امره کله خیر حدیث 7500) پس ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی دوڑنا ایک مومن کا کام ہے.اور جب یہ ہو گا تو اس عہد کو بھی ہم پورا کرنے والے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر ذلّت اور دکھ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں اور کبھی کسی مصیبت کے وارد ہونے پر منہ نہیں پھیریں گے.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے.نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے“.رسم و رواج (انوارالاسلام،روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 24) پس ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بن کر رہنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی ہے انشاء اللہ اور دکھ اور ذلت بھی دیئے جائیں تو کبھی اس کی پرواہ نہیں کرنی یہ ہمارا عہد ہے.پھر یہ عہد ہے کہ رسم ورواج کے پیچھے نہیں چلیں گے.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دین کے معاملے میں کوئی ایسی رسم پیدا کرتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے.(صحیح البخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علی صلح جور...حدیث (2697) پس اس بارے میں ہر وقت ہمیں بہت ہوشیار رہنا چاہئے.آجکل شادی بیاہ کے معاملے میں غلط قسم کے رسوم و رواج پیدا ہو گئے ہیں.احمدیوں کو اس سے بچنا چاہئے.اپنے دائیں بائیں دیکھ کر،
خطبات مسرور جلد 13 12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء دوسروں کو دیکھ کر ان رسوم میں نہیں پڑنا چاہئے.اس بارے میں تفصیل سے بھی ایک دفعہ میں بتا چکا ہوں.سیکرٹریان تربیت اور لجنہ کو چاہئے کہ وہ وقتاً فوقتاً جماعت کے سامنے یہ باتیں رکھتے رہیں تا کہ غیر مقبول فعل سے افراد جماعت بچتے رہیں.پھر یہ عہد ہے کہ کبھی ہوا و ہوس کے پیچھے نہیں چلوں گا.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”جو کوئی اپنے رب کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو روکتا ہے تو جنت اس کا مقام ہے.ہوائے نفس کو روکنا یہی فنافی اللہ ہونا ہے اور اس سے انسان خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر کے اسی جہان میں مقام جنت کو پہنچ سکتا ہے.( ملفوظات جلد 7 صفحہ 413 تا 414) پھر یہ عہد ہے کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کروں گا.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” سو تم ہو شیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے“.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26) پھر یہ عہد ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان کو ہم اپنے لئے مشعل راہ بنائیں گے.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ”ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 125) پس اس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے.پھر یہ عہد ہے تکبر اور نخوت کو مکمل طور پر (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) چھوڑ دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد
خطبات مسرور جلد 13 13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں.یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رُسوا کرتی ہے“.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 598) پس بڑے خوف کا مقام ہے.پھر فرمایا: ”میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے“.پھر یہ عہد لیا گیا ہے کہ فروتنی اور عاجزی اختیار کروں گا.نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 402) ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر عاجزی اور انکساری اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا، اس کو بلند کر دے گا اور یہاں تک کہ اس کو علیین میں جگہ دے گا.الله (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه 191 مسند ابی سعید الخدری ﷺ حدیث نمبر 11747 مطبوعه بيروت 1998ء) عاجزی انکساری اختیار کرنے سے ایک درجہ بلند ہوتا جائے گا.اگر یہ مسلسل رہے تو یہاں تک بلند ہوتا جائے گا کہ جنتوں کے جو اعلیٰ ترین معیار ہیں ان میں جگہ دے دے گا.پھر یہ عہد ہے کہ ہم ہمیشہ خوش خلقی اپنا شیوہ بنا ئیں گے.سمجھوں گا.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) اس کو بھی ہر ایک کو سامنے رکھنا چاہئے.پھر یہ عہد ہے کہ علیمی اور مسکینی سے اپنی زندگی بسر کریں گے.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو.( ملفوظات جلد 6 صفحہ 54) پھر یہ عہد لیا کہ دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان مال عزت اور اولاد سے زیادہ عزیز (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) پھر یہ عہد لیا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمیشہ ہمدردی کروں گا.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یا درکھو اللہ تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا
خطبات مسر در جلد 13 14 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے..پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یا درکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 285-284) پھر یہ عہد لیا کہ خدا داد طاقتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤں گا.(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طرق کی راہ سے قسامِ ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے ان تمام امور میں محض اللہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہوسکتی ہے ان کو نفع پہنچاوے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خدا دا د قوت سے مدد دے اور ان کی دنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگا وے“.( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 61-62) پس دنیا کی روحانی ترقی کے لئے کوشش بھی بنی نوع کو فائدہ پہنچانے میں داخل ہے اور مادی اور روحانی فائدہ پہنچانا ہمارا فرض ہے.پس جہاں ظاہری ہمدردی اور مدد پہنچانی ہے، انہیں فائدہ پہنچانا ہے، خدمت خلق کرنی ہے، وہاں تبلیغ بھی بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ایک احمدی کا فرض ہے.پھر یہ عہد آپ نے لیا کہ آپ سے ایک ایسا قریبی رشتہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہم نے قائم کرنا ہے جس میں اطاعت کا وہ مقام حاصل ہو جو نہ کسی رشتے میں پایا جاتا ہے نہ کسی خادمانہ حالت میں پایا جاتا ہے.ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) ان تمام باتوں کی اطاعت کرنی ہے جو آپ ہماری دینی، علمی، روحانی اور عملی تربیت کے لئے ہمیں فرما گئے ہیں یا آپ کے بعد خلافت احمدیہ کے ذریعہ سے جماعت کے افراد تک وہ پہنچتی ہیں جو شریعت کے قیام کے لئے ہیں.جو قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوۂ حسنہ کے مطابق ہیں کہ اس کے بغیر نہ ہی ہماری ترقی ہو سکتی ہے، نہ ہماری اکائی قائم رہ سکتی ہے.پس ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے عہد کو کس حد تک نبھایا اور اگر کمیاں ہیں تو اس سال ہم نے کس طرح انہیں پورا کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری
خطبات مسرور جلد 13 15 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے.اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 439) اللہ تعالیٰ ہم سے صرف نظر فرماتے ہوئے ہماری گزشتہ سال کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور اس سال میں ہمیں زیادہ سے زیادہ بھر پور کوشش کے ساتھ اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے.آج نمازوں کے بعد میں دو غائب جنازے بھی پڑھاؤں گا.ایک جنازہ تو ہمارے شہید بھائی مکرم لقمان شہزاد صاحب ابن مکرم اللہ دیتہ صاحب کا ہے.آپ کو بھڑی شاہ رحمان ضلع گوجرانوالہ میں مخالفین احمدیت نے مؤرخہ 27 دسمبر کو صبح بعد نماز فجر فائرنگ کر کے شہید کر دیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ لقمان شہزاد صاحب کو اپنے خاندان میں اکیلے ہی بیعت کا شرف حاصل ہوا تھا.شہید مرحوم نے 27 نومبر 2007ء کو بیعت کر کے نظام جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی.بیعت سے قبل شہید مرحوم کا علاقے کے احمدی احباب کے ساتھ کافی ملنا جلنا تھا.بھڑی شاہ رحمان کے صدر جماعت مکرم سلطان احمد صاحب کو گاؤں کے لوگوں کے ساتھ مذاکرے کرتے دیکھ کر اور جماعت کی کامیابی دیکھ کر اور دلائل سن کر ان کا صدر صاحب کے ساتھ تعلق مزید گہرا ہو گیا.اس کے بعد ایم ٹی اے کے پروگرام بالعموم سنا کرتے تھے اور میرے خطبات خاص طور پر سننا شروع کئے.یہی عمل آپ کی قبولیت احمدیت کا سبب بنا.احمدیت کی قبولیت کے بعد آپ کو شدید مخالفانہ حالات کا سامنا کرنا پڑا.مخالفین نے احمدیت سے دستبردار کر وانے کی کوشش میں کوئی کسر نہ چھوڑی.شہید مرحوم کو تشدد اور دھمکیوں کے علاوہ بہت سے مولویوں سے ملایا گیا.لیکن بفضلہ تعالیٰ کوئی مولوی آپ کے سامنے ٹیک نہ سکا.ایک مرتبہ آپ کے پھوپھاز بر دستی آپ کو مقامی مسجد میں لے گئے جہاں چند مولوی بیٹھے ہوئے تھے.ان کے احمدیت سے دستبرداری کے اصرار پر شہید مرحوم نے کہا کہ اگر یہ لوگ دلائل سے ثابت کر دیں کہ جماعت احمد یہ جھوٹی ہے تو میں انکار کر دوں گا.جس پر مولوی نے کہا کہ اب بحث کا وقت ختم ہو گیا.تم صرف جماعت سے انکار کا اعلان کرو.کوئی بحث نہیں ہم نے کرنی.دلیل کوئی نہیں.شہید مرحوم کے نہ ماننے پر ان کے پھوپھا اور وہاں موجود مولویوں اور دیگر لوگوں نے ڈنڈوں وغیرہ سے مارنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے آپ کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید چوٹ آئی اور شدید زخمی ہو گئے.مخالفین مارتے مارتے آپ کو ایک گاڑی میں ڈال کر آپ کے چچا کے پاس لے گئے اور جانوروں کے باڑے میں بند کر دیا.ان کی والدہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو ان کے چچا کے ڈیرے پر
خطبات مسرور جلد 13 16 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء پہنچیں اور اپنے بیٹے کی واپسی کا مطالبہ کیا.پہلے تو انہوں نے انکار کیا.ان کی والدہ کو بھی تھپڑ مارا حالانکہ وہ غیر احمدی تھیں.والدہ کے بار بار اصرار پر شہید مرحوم کو ان کی والدہ کے حوالے کر دیا گیا اور ساتھ ہی کہا کہ آج کے بعد ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے.شہید مرحوم کی بیعت کے ایک سال بعد رشتہ داروں نے ان کو زبردستی ان کے والد کے پاس سعودی عرب بھجوا دیا تا کہ احمدیت سے دستبردار کیا جا سکے.سعودی عرب میں بھی آپ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا کیونکہ رشتہ داروں کی طرف سے آپ کے سعودی عرب پہنچنے سے پہلے ہی آپ کے احمدی ہونے کی اطلاع دے دی گئی تھی.شہید مرحوم نے سعودی عرب میں بھی جماعت کی تلاش جاری رکھی.کئی ماہ کی کوششوں کے بعد ایک انڈین احمدی دوست کے توسط سے جماعت سے رابطہ ہوا.شہید مرحوم اس بات پر بہت خوش ہوئے اور وہاں قیام کے دوران مرحوم کو حج کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.تین سال کے بعد شہید سعودی عرب سے واپس آگئے.اپنا زمیندارہ شروع کر دیا.26 نومبر 2014ء کو بھڑی شاہ رحمان میں مخالفین جماعت نے ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر سے نام نہاد مولویوں نے شرکت کی.اس کا نفرنس میں مولویوں نے احباب جماعت کے خلاف واجب القتل ہونے کے فتوے دیئے اور لقمان شہزاد صاحب کے خلاف بالخصوص لوگوں کو بھڑ کا یا.اس کا نفرنس کے بعد آپ کو مخالفین کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کا سامنا تھا.بالآخر 27 دسمبر کو جب آپ فجر کی نماز ادا کر کے اپنے ڈیرہ پر جارہے تھے تو مخالفین نے تعاقب کر کے پیچھے سے سر میں گولی ماری جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے.ہسپتال لے جایا جارہا تھا کہ راستے میں جام شہادت نوش فرمائی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مرحوم 5 را پریل 1989ء (eighty nine) کو پیدا ہوئے.مرحوم نہایت ایماندار، نیک دل، نیک سیرت، شریف النفس، ملنسار شخصیت کے مالک تھے.نہایت مخلص اور فدائی نوجوان تھے.اس وقت جماعت احمد یہ بھڑی شاہ رحمان میں سیکرٹری مال کے عہدے پر خدمت کی توفیق پارہے تھے.بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتے تھے.مرحوم کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.آپ احمدی دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ میرا تو وہ دوست ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرے.شہید مرحوم کہا کرتے تھے کہ مجھے اس وقت سکون آئے گا جب اپنے سارے گھر والوں کو جماعت میں شامل کر لوں گا.آپ کی وفات پر ہمسایوں کی ایک مخالف خاتون نے کہا کہ میں نے اس
خطبات مسرور جلد 13 17 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء لڑکے میں احمدی ہونے کے بعد بڑی تبدیلی دیکھی ہے.جب سے یہ احمدی ہوا تھا اس نے تہجد شروع کر دی تھی.باقاعدگی سے صبح تین بجے اس کے کمرے کی لائٹ جل جاتی تھی اور جب میں اس کو احمدیت کی وجہ سے برا بھلا کہتی تھی تو شہید مرحوم کی والدہ بھی جوابا ناراضگی کا اظہار کرتی تھیں.اس پر شہید مرحوم اپنی والدہ سے کہا کرتے تھے کہ یہ باتیں تو اب ہمیں سننا پڑیں گی.ابھی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے سنا کہ مخالفین تمہیں جو کہیں تم نے صبر کرنا ہے اور شہید نے یہی بات حالانکہ والدہ غیر احمدی تھیں ان کو کہی کہ میری وجہ سے تم کو یہ باتیں سنی پڑیں گی.اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.ان کے خاندان کو بھی احمدیت کے نور سے فیضیاب ہونے کی توفیق دے.رفیع بٹ صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شہادت سے ایک ہفتہ قبل ربوہ میں میرے پاس آئے اور پورا وقت جماعت کی خوشحالی اور ترقی کی باتیں کرتے رہے.ان کے اندر دعوت الی اللہ کا جنون تھا.میں انہیں محلہ باب الابواب میں ایک دوست کے پاس لے گیا.وہاں حوالہ جات کی کاپیاں وغیرہ دیکھ کر ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اپنے موبائل میں کافی حوالہ جات کی تصویریں لیں اور کہا کہ میں جلد واپس آؤں گا اور ان کے پاس جو قیمتی خزانہ ہے اس سے فائدہ اٹھاؤں گا.لقمان شہزاد صاحب کی خاص بات یہ تھی کہ وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی روحانیت بہت ترقی کر گئی تھی.ان کی مجلس میں بیٹھنے کے بعد ہر فرد ایک نیا جوش و جذبہ لے کر اٹھتا تھا.الماس محمود ناصر صاحب مربی سلسلہ کہتے ہیں کہ لقمان صاحب اس گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں خاکسار بعد تکمیل تعلیم جامعہ پہلی مرتبہ تعینات ہوا.لقمان صاحب خاکسار کے پاس دیر تک بیٹھے رہتے حالانکہ انہوں نے ابھی بیعت بھی نہیں کی تھی.علمی مسائل پوچھنے کے ساتھ ساتھ وہ جماعت سے اس قدر قریب ہو چکے تھے کہ دوران گفتگو خود کو جماعت احمدیہ کا فرد ہی سمجھتے اور احمدی اور غیر احمدی کے فرق پر بات کے دوران وہ اپنا ذ کر بطور احمدی کرتے.بوقت بیعت کم عمری کے باوجود بہت ہی بلند حوصلہ نوجوان تھے.ماریں بھی کھائیں جیسا کہ بتایا گیا اور ان پر بڑا دباؤ ڈالا گیا.لکھتے ہیں کہ جب ان کو مسجد میں مارا گیا تو ڈنڈوں سے اور جور ملیں ہوتی ہیں، جن پر قرآن شریف رکھ کر پڑھا جاتا ہے ان سے بھی مارا گیا.گن پوائنٹ پر اغوا بھی کیا گیا جہاں وہ ڈیرے
خطبات مسرور جلد 13 18 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء پر گئے اور وہاں سے ان کی والدہ لے کے آئیں اور اس وقت ڈاکٹر بھی کوئی نہیں تھا.ان کے دوست غیر احمدی ڈاکٹر نے ہی چھپ کے ان کو اس وقت ابتدائی طبی امداد دی.لکھتے ہیں کہ خاکسار نے جو بات شدت سے محسوس کی وہ یہ تھی کہ لقمان احمد صاحب کا پہاڑ جیسا عزم و استقلال تھا.تمام تر ظلم و بربریت پر ذرہ بھر بھی پریشان نہ تھے اور نہ ان کے قدم ڈگمگائے بلکہ بہت ہی حوصلہ اور غیر معمولی صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحابہ کا سانمونہ پیش کیا.را نارؤوف صاحب سعودی عرب سے لکھتے ہیں کہ جماعت سے با قاعدہ اور مستقل رابطہ رکھا لیکن کفیل کی وجہ سے ہمیشہ پریشان رہے.کفیل کو ان کے رشتہ داروں اور کام کرنے والوں نے ان کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ کافر ہے مگر ان کے کفیل نے کہا کہ یہ لڑکا ہمیشہ فارغ وقت میں قرآن پڑھتارہتا ہے اور نمازیں وقت پر ادا کرتا ہے.یہ کیسا کا فر ہے جبکہ تم لوگ نہ نمازیں پڑھتے ہو اور نہ قرآن پڑھتے ہو.خصوصی طور پر روزگار کی مشکلات اور احمدی ہونے کی وجہ سے رشتے داروں کی طرف سے مخالفت کا سامنا رہا.سعودی عرب میں مقیم ان کے گاؤں کے ایک احمدی دوست امتیاز صاحب نے ایک واقعہ بتایا کہ جب یہ نئے نئے احمدی ہوئے تو ان کے نھیال میں کسی کی وفات ہوگئی.اس موقع پر ان کے ماموؤں نے غیر احمدی مولویوں کو جمع کیا اور لقمان احمد کو وہاں لے گئے.لقمان صاحب اپنی جیب میں احمدیہ پاکٹ بک رکھتے تھے.غیر احمدی مولوی ان سے طرح طرح کے سوال اور بحث کرتے رہے اور یہ ان کو دلیل سے جواب دیتے رہے.بعد میں مولویوں نے شور مچانا شروع کر دیا تو ان کے غیر احمدی بزرگ نے ان مولویوں سے کہا کہ ایک لڑکے نے تم سب کا منہ بند کر دیا ہے.یہ انتہائی ادب اور دلیل کے ساتھ بات کر رہا ہے.اس لئے تم لوگ بھی شور نہ مچاؤ بلکہ ایک ایک کر کے اس کی بات کا جواب دو.لیکن کوئی جواب ہو تو دیں.جلسه سالا نہ سعودی عرب میں پہلی دفعہ شامل ہوئے تو کہتے ہیں خواب میں یہ نظارہ میں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا.دوسرا جنازہ غائب ہوگا مکرمہ شہزادے ستانوسکا (Scherher Zada Destanouska) صاحبہ.یہ مقدونیہ کی رہنے والی ہیں.یہ 19 نومبر 2014ء کو 49 سال کی عمر میں وفات پاگئیں.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - 1996ء میں اپنے میاں کے احمدیت قبول کرنے کے چند ماہ بعد ان کو بیعت کرنے کی سعادت ملی تھی.مارچ اپریل 1995ء میں شریف در وسکی صاحب اور شاہد احمد صاحب تبلیغی سفر
خطبات مسرور جلد 13 19 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 جنوری 2015ء پر جرمنی سے بردود (Berove) گئے جہاں شریف در وسکی صاحب نے مرحومہ کے میاں اور اپنے عزیز مکرم جعفر صاحب کو احمدیت کا پیغام پہنچایا جو انہوں نے قبول کر لیا.مرحومہ کے شوہر نے بتایا کہ ان کی شادی کو گیارہ بارہ سال ہوچکے تھے اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی.شاہد صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع” کی خدمت میں ان کے لئے دعا کا خط لکھا.اس سے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹا عطا فرمایا.ابتدا میں یہاں احمدیوں کو مخالفت اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر آپ صبر اور ثابت قدمی سے اپنے ایمان پر قائم رہیں.قبول احمدیت سے قبل آپ کو نماز نہیں آتی تھی اور احمدی ہو کر آپ نے نماز سیکھی.مقامی لجنہ میں فعال ممبر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی.مخلص احمدی خاتون تھیں.نماز سینٹر سے با قاعدہ رابطہ تھا.جماعتی پروگراموں میں ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں.مبلغین کو اپنے گھروں میں بلاتیں.لوکل زبان میں شائع ہونے والی کتب کا مطالعہ کرتی رہتیں.مقدونیہ میں ہمارا سینہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کی وفات پر غیر احمدیوں کی مسجد میں نہلانے کے لئے لے گئے تو انہوں نے نعش پر قبضہ کر لیا اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے اور پھر جنازہ بھی انہوں نے پڑھا اور احمدیوں کو جنازہ نہیں دیا.احمدیوں نے بعد میں جنازہ غائب پڑھا ہے.لیکن بہر حال ان کے خاوند نے بڑی ہمت اور حوصلہ دکھایا ہے.لڑائی نہیں کی.وہاں فساد پیدا ہو سکتا تھا.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے.مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچے اور خاوند کو بھی جماعت کے ساتھ اخلاص اور وفا میں بڑھاتا چلا جائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 جنوری 2015 ء تا 29 جنوری 2015 ، جلد 22 شماره 04 صفحه 05-09)
خطبات مسرور جلد 13 2 20 20 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 09 /جنوری 2015ء بمطابق 09 صلح 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات (التغابن: 17-18) کی تلاوت فرمائی: فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَاَطِيْعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لَّا نُفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُعَ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ - پس اللہ کا تقوی اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہو گا.اور جو نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں تو یہی ہیں وہ لوگ جو کامیاب ہونے والے ہیں.اگر تم اللہ کو قرضہ حسنہ دو گے تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت قدر شناس اور بردبار ہے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور جماعت احمدیہ جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے.اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور کامل اطاعت سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کرو.اور اللہ تعالیٰ کے جو بیشمارا حکامات ہیں ان میں سے ایک اہم حکم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ہے.پس مومن کو مالی قربانی کے وقت کبھی تر داور ہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ یہ مالی قربانی جو مومنین کرتے ہیں ایک نیک مقصد کے لئے ہوتی ہے.آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہی وہ جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے
خطبات مسرور جلد 13 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء لئے ، اس کی خاطر نیک مقاصد کی ترقی کے لئے خرچ کرتی ہے اور خرچ کرنے کی خواہشمند ہے.اسلام کی تبلیغ ہے.مبلغین کی تیاری اور ان کو میدان عمل میں بھیجنا ہے.لٹریچر کی اشاعت ہے.قرآن کریم کی اشاعت ہے.مساجد کی تعمیر ہے.مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے.سکولوں کا قیام ہے.ریڈیو اسٹیشنوں کا مختلف ممالک میں اجراء ہے جہاں سے دین کی تعلیم پھیلائی جاتی ہے.ہسپتالوں کا قیام ہے.دوسرے انسانی خدمت کے کام ہیں.غرض کہ اسی طرح کے مختلف النوع کام ہیں جو حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں جو آج دنیا کے نقشے پر حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق صرف جماعت احمدیہ ہی کر رہی ہے.یہ اس لئے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان کر ان کاموں کی روح کو سمجھا ہے.ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے نفس کی کنجوسی سے بچتے ہوئے ان لوگوں میں شامل ہونے کا ادراک حاصل کیا ہے جن کا شمار مُفْلِحُون میں ہے.صرف کامیابی اس کے معنی نہیں ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو کشائش پانے والے ہیں.اس کے معنی میں وسعت ہے.کامیابیوں سے بہت بڑھ کے اس کی تفصیل ہے.وہ لوگ جو کشائش پانے والے ہیں جو کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں.اپنی نیک خواہشات کی تکمیل کرنے والے ہیں.وہ لوگ ہیں جو خوشگوار زندگی کو حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے ہیں.ایسی خوشگوار زندگی جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو.جن کی زندگیاں خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آ جاتی ہیں.جن کی کشائش کو دوام حاصل ہوتا ہے.جو مستقل رہتی ہیں.جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اطمینان حاصل کرنے والے ہیں.جن پر اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل ہمیشہ نازل ہوتے رہتے ہیں.مالی قربانی کرنے والوں کی عظمت پس جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کامیابیاں پاتے ہیں ان کی کامیابیاں محدود نہیں ہوتیں بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ان کامیابیوں کی بے انتہا وسعت ہے.پس کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس قسم کی کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان سے صرف خرچ کا مطالبہ نہیں کیا جارہا بلکہ یہ جو خرچ کرنے والے ہیں یہ تم لوگ ہو.اور یہ جو خرچ ہے یہ خرچ کرنے والوں کی فلاح کا ایک ذریعہ ہے.خدا تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا.تمہاری مالی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ اس طرح پیار کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کی اس طرح قدر کرتا ہے جیسے تم نے خدا تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دیا ہو اور جب قرض کی واپسی کا وقت آتا ہے تو خدا تعالیٰ بڑھا کر دیتا ہے اور صرف یہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری اس قربانی کی وجہ سے تمہارے گناہ بخش دے گا اور نہ صرف گناہ بخش دے گا
خطبات مسرور جلد 13 22 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء بلکہ تمہیں مزید نیکیوں کی توفیق بخشے گا.پس تم اللہ تعالیٰ کی قدر شناسی کا اندازہ کر ہی نہیں سکتے.اس قدرشناسی کی کچھ تفصیل مفلحون کے لفظ کی وضاحت میں بیان ہوگئی ہے.پس کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے فیض سے اس طرح فیض پاتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا آج اس دنیا میں احمدی ہی ہیں جنہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ادراک ہے اور اس وجہ سے احمدی ہی ہیں جو اس فیض سے فیضیاب ہورہے ہیں.اور یہ صرف کوئی زبانی باتیں ہی نہیں ہیں ایسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں مثالیں ہیں جو میرے سامنے وقتا فوقتا آتی رہتی ہیں.جو لوگ مالی قربانیاں کرتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں ، اور لکھتے ہیں.وہ ایک تڑپ کے ساتھ یہ قربانیاں کر رہے ہوتے ہیں.اگر مالی قربانی یا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ادراک نہ ہو تو کون اس طرح تڑپ کے ساتھ مالی قربانی کر سکتا ہے؟ اور پھر یہی نہیں ایسے بھی بہت سے ہیں جو اس مالی قربانی کے بعد فوری طور پر اس تجربے سے بھی گزرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کس طرح بڑھا کر واپس کرتا ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ کے اس پیار کے سلوک کا ان پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھے ہوئے مال کو پھر اسی کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں اور یوں وہ مالی لحاظ سے بھی فضلوں کے حاصل کرنے والے بنتے چلے جاتے ہیں اور جو دوسرے مفادات ہیں، جو دوسرے فیض ہیں وہ بھی ان کو پہنچتے چلے جاتے ہیں.ایسے بہت سارے واقعات ہیں جو بڑے جذباتی انداز میں احمدی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.کس طرح ان کو قربانی کی توفیق ملی اور ان کی امیدوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ حصہ پانے والے بنے.ایسے چند واقعات اس وقت میں آپ کے سامنے پیش کروں گا.بینن سے ہمارے مبلغ سلسلہ نے لکھا کہ کو تو نو شہر سے ایک معمر احمدی سلمان صاحب ہیں.مالی لحاظ سے بہت کمزور.دسمبر میں جلسہ سالانہ بیٹن میں شرکت کے لئے ان کے پاس اتنی حیثیت بھی نہیں تھی کہ خود آنے جانے کا پندرہ سوسیفا کر یہ لگتا ہے وہ دے سکتے.جلسے میں شرکت کے لئے جب انہیں کہا گیا، زور دیا گیا تو بہر حال کوشش کر کے ایک طرف کا کرایہ خرچ کر کے جلسہ گاہ تو پہنچ گئے مگر واپس جانے کا کرایہ نہیں تھا.پھر ان کا انتظام کرنا پڑا.جلسے کے بعد گھر پہنچے.چار پانچ دن کے بعد جو وقف جدید کے محصلین ہیں وہ چندہ لینے ان کے گھر گئے تو بتایا آپ کے چندہ وقف جدید کی ادائیگی ابھی رہتی ہے جو آپ نے وعدہ کیا ہوا ہے.سلمان صاحب نے بڑی بشاشت سے ان کا گھر پر استقبال کیا اور وقف جدید کے چندہ کاسن کے گھر کے اندر گئے اور چھ ہزار فرانک سیفا لا کے دے دیا.یہ لکھنے والے لکھتے ہیں ان کی حیثیت کے
خطبات مسرور جلد 13 23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء مطابق یہ بہت بڑی رقم تھی.اس پر محصل راجی شھو دصاحب پہلے تو جذباتی ہو گئے.پھر انہوں نے ان کو کہا کہ آپ بیشک تھوڑی رقم دیں.اتنی بڑی رقم نہ دیں.بچوں کے لئے بھی رکھیں کیونکہ یہ آپ کی حیثیت سے زیادہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جب خدا نے مجھے یہ رقم دی ہے تو میں اس کی راہ میں کیوں نہ دوں.یہ میری رقم نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے.میرے پاس تو جلسہ جانے کے لئے کوئی رقم نہیں تھی.بڑی مشکل سے ایک طرف کا کرایہ خرچ کر کے گیا تھا.واپسی پر اللہ تعالیٰ نے اس قدر نوازا ہے کہ میں یہ رقم خوشی سے اس کی راہ میں دینے کو تیار ہوں.اور نیز کہنے لگے کہ دو دن کے بعد دوبارہ آئیں.میں پھر رقم دوں گا اور دو دن کے بعد انہوں نے دو ہزارسیفا مزید ادائیگی کی.پھر تنزانیہ کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ وہاں کے ایک ریجن کے احمد منیو پے صاحب نو مبائع ہیں.دو سال پہلے احمدی ہوئے ہیں.انہوں نے بار بار اس بات کا ذکر کیا ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ جو بھی ہم وقف جدید اور تحریک جدید میں دیتے ہیں ہمیں خدا تعالیٰ زیادہ کر کے واپس کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے سے پہلے ہمیں پتا نہیں لگتا تھا کہ پیسہ کہاں جاتا تھا لیکن جب سے جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور چندہ دینا شروع کیا ہے تو ایک دلی تسکین ملتی ہے اور ہمارے معاشی حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں.پھر برونڈی کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں وہاں ایک ابوبکر صاحب ہیں.بہت غریب نواحمدی ہیں.معمولی تنخواہ پر اپنا گزارہ کرتے ہیں.اپنے والدین کی بھی مدد کرتے ہیں تو کہتے ہیں جب میں ان کے پاس چندہ وقف جدید کے لئے گیا تو فوراً کچھ ادا کیا اور کہا کہ ان کے والد صاحب کے پاؤں میں زخم ہونے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ بیمار ہیں.تین ماہ سے ہسپتال میں بھی کافی علاج کرواچکے ہیں.دیسی علاج بھی کروا چکے ہیں.اب ڈاکٹر ان کا پاؤں کاٹنے کا سوچ رہے ہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں.مبلغ لکھتے ہیں کہ دو ہفتے بعد ابوبکر صاحب جمعہ پر آئے اور سب سے پہلے تو اپنا بقایا چندہ وقف جدید ادا کیا اور بڑے درد بھرے الفاظ میں شکریہ ادا کرنا شروع کیا اور بتایا کہ جب چندہ وقف جدید کی معمولی رقم ادا کی تھی کچھ تم انہوں نے پہلے دے دی تھی ) تو اس کا یہ فضل ہوا کہ جہاں میں کام کرتا تھا میرے مالک نے میری تنخواہ میں اضافہ کر دیا اور اس سے بڑھ کر یہ فضل ہوا کہ میرے والد صاحب بھی ٹھیک ہونا شروع ہو گئے.پہلے وہ سوٹی کے سہارے، چھڑی کے سہارے چلتے تھے، اب بغیر سہارے کے چلنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ سب چندہ دینے کی برکت ہے.اور پھر انہوں نے کہا کہ مجھے آمد کے مطابق چندہ عام کا حساب بھی بتا ئیں تا کہ میں با قاعدگی سے چندہ دینا شروع کروں.پھر تنزانیہ کے ایک لنڈی ریجن کے سلیمانی صاحب لکھتے ہیں کہ میں دکاندار ہوں.پچھلے سال
خطبات مسرور جلد 13 24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء میرے کاروبار میں خسارہ ہوالیکن میں نے تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدہ جات میں کمی نہیں ہونے دی اور رمضان المبارک میں ہی اپنے وعدے سے بہت زیادہ ادائیگی کی تا کہ خلیفتہ اسیح کی دعا کا حصہ بن سکوں اور اس خسارے سے نکلوں.خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اس وقت میری ایک دکان تھی وہ بھی خسارے میں تھی.اللہ تعالیٰ نے میرے چندے میں اتنی برکت ڈالی کہ اب میری دود کا نیں ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ رکھتا نہیں ہے.کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے.پھر تنزانیہ سے ہی بٹوار ا ریجن کے ایک نو مبائع بھا نگوے زبیری صاحب ہیں.کہتے ہیں کہ میں جماعت میں شامل ہوا تھا پھر میں نے جماعت چھوڑ دی.پھر میں مقامی معلم کی کوششوں سے واپس دوبارہ جماعت میں آیا.جب میں جماعت کے نظام سے باہر تھا تب میرا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا.چھوٹا سا کاروبار تھا.ہر روز خسارے میں رہتا تھا.میرے پاس ایک سائیکل تھی جس پر برتن رکھ کر بیچنے جاتا تھا اور کبھی پورے دن میں کچھ بھی نہیں سکتا تھا لیکن جب سے جماعت کے نظام میں شامل ہوا ہوں.تحریکات میں چندہ دینا شروع کر دیا ہے، تھوڑے ہی عرصے بعد میری معاشی حالت تبدیل ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے چندہ دینے سے اتنی برکت ڈالی ہے کہ اب سائیکل کے بجائے میں نے موٹر سائیکل لے لی ہے اور اپنے سابقہ حال سے کئی گنا بہتر حال میں ہوں.پھر کانگو برازاویل سے مبلغ لکھتے ہیں ایک غریب احمدی دوست آلیپا صاحب مزدوری کرتے ہیں.ہر ماہ چندہ باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں.جب ہم نے وقف جدید کے چندے کا اعلان کیا تو یہ جو غریب احمدی ہیں کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف دو ہزار فرانک سیفا تھا اور کہیں کام بھی نہیں مل رہا تھا.میں نے مسجد میں جا کر دو نوافل ادا کئے اور صدر صاحب کو جا کر جو دو ہزار فرانک موجود تھے وہ چندہ دے دیا.شام کو کہتے ہیں کہ مجھے ایک شخص نے ہیں ہزار فرانک سیفا بھیجوا دیا.وہ رقم وہ تھی جو ایک عرصہ پہلے میں نے مزدوری کی تھی لیکن اس نے مجھے ادا ئیگی نہیں کی تھی.کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ چندے کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اسے مجبور کیا کہ وہ مجھے میری رقم ادا کر دے اور اس طرح دس گنا بڑھا کے اللہ تعالیٰ نے رقم ادا کروادی.پھر بینن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک وہاں کے احمدی کا ٹینڈے(Kainjnide) صاحب ہیں.ان کا تعلق گوگورو ( Gogoro) جماعت سے ہے.انہوں نے حال ہی میں بیعت کی ہے اور ساتھ ہی چندہ جات کی ادائیگی بھی شروع کر دی.یہ اپنے اندر غیر معمولی تبدیلی محسوس کرتے ہیں.جب ان سے اس
خطبات مسرور جلد 13 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء بار وقف جدید کا چندہ لیا گیا تو بڑے شوق سے دیتے ہوئے کہنے لگے کہ جب سے میں نے چندہ دینا شروع کیا ہے میرا کاروبار بفضلہ تعالیٰ بڑھتا جا رہا ہے اور میرے کاموں میں غیر معمولی برکت پڑ رہی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ احمدیت میں داخل ہونے اور چندہ دینے کی برکت سے ہے.پھر سیرالیون کینما ریجن کے مبلغ ہیں وہ حاجی شیخو صاحب کے بارے میں کہتے ہیں.انہوں نے کہا کہ پہلے میں اپنے بچوں کی طرف سے چندہ وقف جدید خود دیا کرتا تھا مگر اس دفعہ میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ اپنا وعدہ خود لکھوائے اور اس کی ادائیگی بھی خودا اپنی جیب سے کرے.جب سیکرٹری صاحب وقف جدید ، وقف جدید کا وعدہ لینے کی غرض سے گئے تو ڈاکٹر حاجی شیخو صاحب نے بیٹی سے کہا کہ وعدہ لکھواؤ تو بیٹی نے کہا کہ وہ دس ہزار لیون دے گی.ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ شاید تین چار ہزار لکھوائے گی.جب بیٹی نے دس ہزار کہا تو اس کی والدہ نے کہا کہ اتنے پیسے کہاں سے ادا کرو گی.ڈاکٹر صاحب نے اہلیہ کو منع کیا کہ چپ رہوا اپنی مرضی سے لکھوایا ہے لکھنے دو.چند دن گزرے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کے کچھ عزیزان سے ملنے آئے اور جاتے وقت انہوں نے بیٹی کو پندرہ ہزار لیون دیئے.بیٹی نے اسی وقت ڈاکٹر صاحب کو دس ہزار لیون دیئے اور کہا کہ یہ میرا چندہ ہے جو میں نے وعدہ کیا تھا.چندوں کی اہمیت سمجھنے والے تو ان دور دراز علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کو بھی اور احمدیوں کے بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے انتہا اخلاص دیا ہوا ہے اور وہ چندوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں.کون ہے جو ان کے دلوں میں تحریک پیدا کرتا ہے؟ یقیناً خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا.پھر بھی دنیا کے اندھوں کو نظر نہیں آتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں.یہ بھی یاد رکھیں کہ نئے آنے والے اخلاص و وفا میں بڑی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں.نیکیوں میں آگے بڑھنے کی جو روح ہے اس طرف پرانے احمدیوں کو ، پرانے خاندانوں کو بھی توجہ دینی چاہئے اور بڑی فکر سے توجہ دینی چاہئے.پھر ہمارے کنشاسا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ وہاں کے احمدی ابراہیم صاحب ہیں.بھیڑ بکریوں کی خرید وفروخت کا کام کرتے ہیں.احمدیت قبول کرنے سے پہلے ان کے کاروبار کی حالت کافی خراب تھی اور کوئی منافع نہیں ہوتا تھا.قبول احمدیت کے بعد انہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ ادا کرنا شروع کیا.چندے کی برکت سے ان کے کاروبار کی حالت بہتر ہو گئی.موصوف اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب اس مالی قربانی کا نتیجہ ہے جو انہوں نے جماعت میں داخل ہونے کے بعد کی ہے.
خطبات مسرور جلد 13 26 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء کانگو کنشاسا کے ہی مبلغ لکھتے ہیں کہ صوبہ با کونگو سے مبانزا گنگو (Mbanza Ngungu) جماعت کے رہائشی مصطفی صاحب ہیں.اس سال رمضان میں انہوں نے بیعت کی.اس دوران ان کی بہن جو کہ عیسائی تھی بہت بیمار رہنے لگی اور ایک بڑی رقم ان کے علاج کے لئے صرف ہونے لگی.چنانچہ اسی ماہ جب انہوں نے مسجد میں مالی قربانی کی تحریک سنی تو چندہ ادا کیا اور اپنی بہن کی طرف سے بھی صحت کی دعا کرتے ہوئے چندہ ادا کر دیا.چنانچہ اس کے بعد ان کی بہن صحت یاب ہو گئیں.خود کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ مالی قربانی کی برکت ہے جو خدا کی راہ میں کی.پھر مالی کے امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہاں کے ایک احمدی محمد جارا صاحب جماعتی چندہ دینے سے پہلے بہت غریب تھے مگر جب سے انہوں نے جماعتی چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے ان کی غربت دُور ہونا شروع ہوگئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی میں اب بعض احباب بہت نمایاں مالی قربانی کرنے لگے ہیں.کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان دا ؤ سالف Dao Salif صاحب جو غریب مستری ہیں انہوں نے شروع میں ایک ہزار فرانک سیفا ہفتہ وار چندہ دینا شروع کیا اور ان کے کام میں اور اخلاص میں اتنی برکت ہوئی کہ کچھ دن پہلے انہوں نے ایک لاکھ ترپین ہزار فرانک چندہ دیا جو کہ دوسو دو پاؤنڈ کے برابر بنتا ہے.نو مبائعین میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے چندے کا رجحان اب ترقی کر رہا ہے اور بڑے اخلاص سے وہ چندہ دیتے ہیں.اسی طرح جماعت کے ایک اور مخلص فوفانہ صاحب ہیں.ہر ماہ ایک لاکھ پچاس ہزار فرانک، تقریباًدوسو پاؤنڈ ادا کرتے ہیں.یہ ان غریب ممالک میں بڑی بڑی رقمیں ہیں.اس کے علاوہ انہوں نے دو لاکھ پچاس ہزار فرانک تقریباً تین سو تیس پاؤنڈ زکوۃ کی بھی ادائیگی کی.اور اللہ کے فضل سے ایمان اور ایقان میں ترقی کر رہے ہیں.ہندوستان کے کشمیر کے انسپکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں صوبہ کشمیر میں جو سیلاب آیا تھا اس سے شہر سرینگر کے تقریباً تمام احمدی گھر متاثر ہوئے تھے.ستمبر میں سیلاب آیا.پانی اس قدر تھا کہ دو منزلہ مکان تک پانی میں ڈوب گئے تھے.کہتے ہیں جب میں دورے پر جماعت سرینگر پہنچا تو پریشان تھا کہ اب سرینگر جماعت کے چندوں کی سو فیصد وصولی نہیں ہو سکے گی کیونکہ لوگ اپنے مکانوں کی چھتوں پر رہنے پر مجبور ہیں.ان کے پورے گھروں میں کیچڑ وغیرہ بھر گیا تھا.اور سارے مکان بُری حالت میں تھے.انسپکٹر صاحب کہتے ہیں جب کسی بھی گھر جاتا تو یہ کہنے کی ہمت نہیں پاتا تھا کہ چندوں کی وصولی کے
خطبات مسرور جلد 13 27 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء لئے آیا ہوں.لیکن کہتے ہیں لوگ خود ہی مجھے دیکھ کر چندے کے بارے میں پوچھتے اور میں حیران رہ گیا کہ لوگ بڑی خوشی سے اپنے بقایا چندے ادا کر رہے ہیں اور ان کے چہروں پر اتنی تکلیف کے باوجود کوئی شکن تک نہیں تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سرینگر کا بجٹ مکمل ہو گیا.یہ نظارہ دیکھ کر آنکھیں بھر آتی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی یاد آتی تھی جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا مگر قربانیوں میں سبقت لے جایا کرتے تھے.حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری جماعت کو دیکھ کر ایمان میں اضافہ ہوتا ہے.بین سے ہمارے معلم لکھتے ہیں.ایک نو مبائع با قاعدگی سے اس نیت کے ساتھ چندہ ادا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی فیملی کو احمدی بنادے.وہ احمدی ہو گئے.فیملی احمدی نہیں تھی.وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے چندے دینے کی برکت سے میری ساری فیملی احمدی ہو گئی ہے.اس خواب سے مجھے انہیں تبلیغ کرنے کی تحریک پیدا ہوئی.پہلے تبلیغ نہیں کرتے تھے.لیکن خواب کی وجہ سے پھر انہیں تبلیغ بھی کرنی شروع کر دی.کہتے ہیں چنانچہ میں نے انہیں تبلیغ کی اور اس مقصد کے لئے بھی خاص طور پر چندہ دینا شروع کر دیا اور آج میں یہ بتانے میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ میری ساری فیملی احمدی ہو چکی ہے.محض دین کی راہ میں مالی قربانی کی برکت سے ہوا.بینن سے گوگورو (Gogoro) گاؤں کی ایک خاتون شابی لیما تا (Chabi Limita) صاحبہ ہیں.وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ سال میری یہ حالت تھی کہ میں جو کام یا کاروبار شروع کرتی ، خسارہ اٹھاتی اور کوئی بھی کام سرے نہ چڑھتا.ایک دن معلم صاحب نے مجھے دیانتداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے اور با قاعدگی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی تو میں نے سوچا کہ چلو یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ صحیح طرح ایمانداری سے جو آمد ہے اس پر چندہ دوں تو کیا فائدہ ہوتا ہے.کہتی ہیں جب سے میں نے با قاعدہ چندہ دینا شروع کیا ہے میرا کاروبار چلنے لگا ہے.گھر میں مالی فراخی ہے.میرے سارے کام درست ہونے لگے ہیں.خدا کا وعدہ سچا ہے کہ وہ خرچ کرنے والوں کو بہت دیتا ہے.پھر انڈیا سے ہی قمر الدین صاحب انسپکٹر کہتے ہیں کیرالہ کے صوبہ میں مالی سال کے شروع میں وقف جدید کا بجٹ بنانے کے سلسلے میں ایک جماعت میں پہنچا جہاں ایک چھبیس سالہ نوجوان سے ملاقات ہوئی.موصوف نے کہا کہ میں نے انٹیریئر (interior) ڈیزائننگ میں پڑھائی مکمل کی ہے اور اپنے والد صاحب کے ساتھ کاروبار شروع کرنے لگا ہوں.چندہ وقف جدید کی اہمیت کے بارے میں ان
خطبات مسرور جلد 13 28 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء کو بتایا تو اسی وقت موصوف نوجوان نے دولاکھ روپیہ اپنا بجٹ لکھوایا اور کہا کہ اب کام شروع کیا ہے.خدا جانے وعدہ کہاں سے پورا ہوگا.پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بھی خط لکھا.انسپکٹر صاحب نے ان کو تحریک کی کہ دعا کے لئے مجھے لکھیں اور وہ خود بھی لکھیں گے.انسپکٹر صاحب کہتے ہیں چنانچہ جب دوبارہ وصولی کے سلسلے میں وہاں گیا تو انہوں نے خوشی سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً کئی بنکوں سے مجھے انٹیریئر (interior) ڈیزائننگ کا کام ملا اور جس سے آمدنی میں بہت برکت ملی ہے اور اسی وقت انہوں نے اپنا وعدہ جو دولاکھ روپیہ تھا مکمل طور پرا دا کر دیا.پھر انڈیا سے ہی نائب ناظم مال وقف جدید لکھتے ہیں کہ صوبہ اتر پردیش کے مالی دورے کے دوران محمد فرید انور صاحب سیکرٹری مال کا نپور سے ملاقات ہوئی.انہوں نے اپنا وعدہ وقف جدید کی مکمل ادائیگی کر دی اور ساتھ ہی شام اپنے گھر آنے کی دعوت دی.چنانچہ شام کو گھر پہنچا تو موصوف نے بتایا کہ ان کی آٹھ سالہ بیٹی دو دن سے خاکسار کا انتظار کر رہی تھی.بچی کا نام سجیلہ ہے.چنانچہ سجیلہ خاموشی سے اندر کمرے میں گئی.اور تھوڑی دیر بعد جب باہر آئی تو ہاتھ میں اس کے غلہ تھا اور خاکسار کو دیتے ہوئے کہا کہ میں نے پورے سال میں اس میں چندے دینے کے لئے رقم جمع کی ہے.آپ اس سے ساری رقم نکال لیں اور رسید دے دیں.اس میں سات سو پینتیس (735) روپے تھے.کہتے ہیں مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک آٹھ سال کی بچی ہے اور اللہ کے فضل سے وقف نو کی تحریک میں بھی شامل ہے.اپنا وعدہ وقف جدید خود لکھوا کر اس کی ادائیگی اپنے وعدے سے زیادہ کرتی ہے.میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ روح جو بچوں میں پیدا ہو رہی ہے یہ کون کر سکتا ہے؟ صرف اور صرف خدا تعالیٰ ہے جو بچوں کے دل میں ڈالتا ہے.لیکن والدین کا بھی کام ہے کہ گھر کے ماحول کو دینی رکھیں اور باقی نیکیوں کے ساتھ ، عبادتوں کے ساتھ چندوں کی اہمیت کے بارے میں بھی وقتاً فوقتاً بچوں کے دلوں میں ڈالتے رہیں.ایسے بھی واقعات ہیں کہ بچے جب چندہ لے کر آئے اور انہیں کہا گیا کہ آپ کے والد نے آپ کی طرف سے چندہ دے دیا ہے تو کہنے لگے کہ جو والد صاحب نے دیا ہے اس کا ثواب تو والد صاحب کو ہو گا ہم تو اپنے جیب خرچ میں سے خود ادا کریں گے.فرانس کے امیر صاحب کہتے ہیں کہ ایک دوست کو جب چندہ وقف جدید کے بارے میں بتایا گیا تو کہتے ہیں کہ میرے پاس اس وقت جو بھی رقم تھی وہ ساری چندے میں دے دی.گھر والوں نے کہا کچھ تو رکھ لو.گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟ کہتے ہیں میں نے کہا کہ وقف جدید کے چندہ کا میں نے وعدہ کیا ہوا
خطبات مسرور جلد 13 29 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء ہے یہ تو میں نے دینا ہی دینا ہے.گھر کا اللہ تعالیٰ خود انتظام کرے گا.وہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے ماہ حکومت کے صحت کے ادارے کی طرف سے انہیں خط موصول ہوا کہ آپ کی میڈیکل کی رپورٹ دیکھتے ہوئے ہم نے آپ کو دو سال کا خرچ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں تین ماہ کی ادائیگی بھی ساتھ ہی ارسال کر دی.جب اس رقم کو دیکھا تو یہ اس رقم سے سو گنا زیادہ تھی جو انہوں نے وقف جدید میں دی تھی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے مالی قربانی کا پھل ایک ماہ کے اندر عطا کر دیا.لجنہ یوکے (UK) کی جو سیکرٹری تحریک جدید ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ یہاں کی ایک حلقے کی سیکرٹری وقف جدید نے انہیں کہا کہ ایک خاتون مالی لحاظ سے بہت کمزور ہیں.چندہ نہیں ادا کر سکتی تھیں تاہم پھر بھی جتنا کم از کم ممکن ہو سکتا تھا انہوں نے وعدہ لکھوا دیا.تو وہ خاتون کہتی ہیں کہ وعدہ لکھوانے کے بعد انہوں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس وعدے کو پورا کرنے کی توفیق دے.یہ خاتون سلائی کرنا جانتی تھیں.چنانچہ چند ہی دنوں بعد انہیں سلائی کے آرڈر ملنے شروع ہوئے اور اس کے بعد نہ صرف وہ اپنا وعدہ ادا کرنے کے قابل ہو گئیں بلکہ اس سے کافی زیادہ آمد ہو گئی.لہذا انہوں نے اپنا وعدہ بھی بڑھا دیا.یہاں یہ بھی بتادوں کہ تحریک جدید میں بھی اور وقف جدید میں بھی یو کے کی لجنہ نے ماشاء اللہ بہت محنت اور ہمت سے صرف ٹارگٹ نہیں پورے کئے بلکہ ٹارگٹ سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رقم ادا کی ہے.امیر صاحب بیٹن لکھتے ہیں کہ بین کے نارتھ اور سینٹر میں بڑی تعداد میں فولانی قبیلہ آباد ہے.گزشتہ سالوں میں اس قبیلے میں بھی بیعتیں ہوئیں تھیں.اس قبیلے کے تین گاؤں اس علاقے کے مولویوں کی مخالفت اور شدید دباؤ کی وجہ سے بیعت کے کچھ عرصے بعد پیچھے ہٹ گئے تھے.بورکینا فاسو سے فولانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک معلم کو بینن بھیجا گیا تا کہ وہ اس علاقے میں رابطہ کر کے ان لوگوں کی غلط فہمیاں دور کریں.چنانچہ انہوں نے ایک ماہ اس علاقے میں کام کیا اور یہ تینوں گاؤں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ جماعت میں داخل ہوئے اور ان کے ایمان میں بڑی ترقی ہوئی.یہ تینوں گاؤں ٹرانسپورٹ کے لئے بسوں پہ ایک بڑی رقم خرچ کر کے خود بینن کے جلسے میں شامل ہوئے اور جلسہ کے بعد واپس اپنے گاؤں پہنچے تو کچھ ہی دنوں بعد جماعت کے معلم ان کے گاؤں گئے اور میری طرف سے ان کو یہ بتایا کہ میں نے کہا ہے کہ نو مبائعین کو مالی قربانی میں شامل کریں، چاہے تھوڑا ہی دیں.اب یہ دسمبر کا مہینہ ہے اور چندہ وقف جدید کی ادائیگی کا آخری مہینہ ہے تو کہتے ہیں کہ اس کے باوجود کہ انہوں نے جلسے کے لئے ٹرانسپورٹ کی بڑی رقم خرچ کی تھی اور مالی تنگی بھی تھی لیکن ایمان میں اس قدر جوش تھا کہ یہ بات سن کر فوراً انہوں نے ،
خطبات مسرور جلد 13 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء تینوں گاؤں کے تمام افراد نے وقف جدید کے چندے میں بھی شمولیت اختیار کی.اس طرح اس قبیلے میں اس دوران کم و بیش ایک ہزار نئی بیعتیں بھی حاصل ہوئیں.تو یہ مالی قربانیوں کے چند واقعات ہیں کہ کس طرح تڑپ سے یہ لوگ چندوں کی ادائیگی کرتے ہیں.بہت سے واقعات میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ بڑھا کر لوٹاتا بھی ہے.پس خدا تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے.ان واقعات کو دیکھ کر جہاں خدا تعالیٰ کے کلام کی سچائی ظاہر ہوتی ہے اور خود ہمیں بھی تجربہ ہوتا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ساتھ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہو اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے بھی نظر آتے ہیں.وقف جدید کی وسعت میں پہلے بھی گزشتہ سالوں میں بتا چکا ہوں کہ وقف جدید کی تحریک بیرون از پاکستان ممالک میں خاص طور پر افریقہ و بھارت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے شروع کی تھی.پہلے پاکستان سے باہر خاص طور پر یورپ کے ممالک میں یا امیر ممالک جو ہیں ان میں اتناز ور نہیں دیا جاتا تھا تو ان ملکوں کی یہ رقم اب افریقہ میں خرچ ہوتی ہے.اس وقت تھوڑا سا آپ کو جائزہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ کے اٹھارہ ممالک میں 95 مساجد زیر تعمیر ہیں اور بعض بڑی بڑی مساجد بھی بن رہی ہیں کیونکہ وہاں تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور تبلیغ کے نئے میدان بھی کھل رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس طرف خاص توجہ دلائی ہے کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو تبلیغ کرنی ہو تو مسجد بنا دو.(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحه (119) افریقہ کے علاوہ بھی دنیا میں یہ کام ہو رہے ہیں.اس وقت افریقہ سمیت قریباً پچیس ممالک ہیں، سات ممالک دوسرے بھی ہیں، جہاں اس سال میں 204 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں.اسی طرح 184 مشن ہاؤسر تعمیر ہوئے ہیں.یورپ اور مغربی ممالک کے چندہ وقف جدید کا تقریباً اسی فیصد افریقن ممالک میں خرچ ہوتا ہے.باوجود اس کے کہ افریقن احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی مالی قربانی دیتے ہیں لیکن ان کی ضروریات اور وہاں بیعتوں کی تعداد بڑھنے کے باوجود نو مبائعین چونکہ غریب ہیں اس لئے پوری طرح اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکتے.ان کو بہر حال مدد کی ضرورت ہے.جیسا کہ واقعات میں بھی بیان ہوا ہے کہ کس طرح وہ قربانیاں کر رہے ہیں لیکن یہاں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ مخالفین نئے بیعت کرنے والوں کو مختلف دباؤ ڈال کر دُور ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں.کمز ور لوگ بھی ہوتے ہیں جو پھر پیچھے
خطبات مسرور جلد 13 31 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء ہٹ جاتے ہیں.میں نے دو واقعات ایسے بھی بتائے ہیں لیکن بہت سے ایمان میں مضبوطی والے ایسے بھی ہیں جو کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے.بہر حال ان کو اس طرف توجہ دلانے کے لئے جماعتوں کو میں نے یہی کہا تھا کہ بیعتیں کروانے کے بعد مسلسل رابطے رکھیں اور ہمیشہ رابطوں کو مضبوط کرتے چلے جائیں.وہاں بار بار جائیں تا کہ تربیتی پہلو بھی سامنے آتے رہیں اور تربیت ہوتی رہے.اب افریقن ممالک میں بہت سارے ایسے علاقے ہیں جو بہت دُور دراز علاقے ہیں جہاں جنگلوں میں سے گزر کے جانا پڑتا ہے، وہاں رابطے بھی مضبوط نہیں رہتے یا بڑی دقت کے ساتھ وہاں رابطے ہوتے ہیں.اس کی وجہ سے بڑا لمبا عرصہ ان جماعتوں سے یانئے احمدیوں سے تعلق نہیں رہتا.پھر مبلغین اور معلمین کی بھی کمی ہے کہ وہ بھی بار بار جا ئیں تو رابطے ہو سکیں.تکلیف اٹھا کے ہی چلے جائیں لیکن اس کمی کی وجہ سے وہاں جا بھی نہیں سکتے.اس لئے بہت سی بیعتیں ہیں جیسا کہ میں نے کہا ضائع بھی ہو جاتی ہیں.تو جماعتوں کو ، خاص طور پر ان ملکوں کی جماعتوں کو اس بات کا انتظام کرنا چاہئے کہ کم از کم شروع میں ایک سال خاص طور پر بہت توجہ دیں.اس لئے میں نے خلافت کے پہلے سال میں ہی جماعتوں کو کہا تھا کہ بے شمار بیعتیں ضائع ہورہی ہیں.جو پرانی ہوئی ہوئی بیعتیں ہیں ان کا کم از کم ستر فیصد رابطے کر کے واپس لائیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجے میں جماعتوں نے خاص طور پر افریقہ میں کوششیں بھی کیں اور پھر جب رابطے ہوئے تو ان لوگوں نے شکوے کئے کہ تم بیعت کروا کر ہمیں چھوڑ کے چلے گئے تھے.دل سے احمدی ہیں.بہت سارے ایسے تھے جو دل سے احمدی تھے لیکن آگے احمدیت کی تعلیم کا نہیں پتا تھا.تربیت کی کمی تھی.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی تعداد میں نئے رابطے ہوئے اور وہ لوگ واپس آئے اور اب تربیت کے لئے فعال نظام شروع ہے.اس میں مزید مضبوطی کی ضرورت ہے.رابطوں کی بحالی میں سب سے زیادہ کوشش گھانا نے کی ہے.پھر نائیجیریا کا دوسرا نمبر آتا ہے.اور اس طرح باقی افریقن ممالک ہیں.تنزانیہ میں بہت زیادہ کمی ہے ان کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے رابطے زیادہ فعال کریں کیونکہ وہاں بھی کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں بڑی بیعتیں ہوئی تھیں.ان ساروں کو تلاش کریں.یورپ میں بیس سال پہلے یا اس سے زیادہ عرصہ پہلے جب بوسنیا کے حالات خراب ہوئے ہیں تو جرمنی میں بہت بوسنین لوگ آئے تھے.کہا جاتا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں بوسنین تھے جنہوں نے بیعت کی تھی.لیکن جب وہ اپنے ملکوں میں واپس گئے.رابطے ختم ہوئے تو ان کا پتا نہیں لگا کہ وہ کہاں ہیں.اس لحاظ
خطبات مسرور جلد 13 32 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء سے تو ان ملکوں میں بھی رابطوں کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.اسی طرح ہندوستان میں رابطے ہیں.مغربی بنگال میں کہتے ہیں بیعتیں ہوئی تھیں تو وہاں احمدی تلاش کرنے کی ضرورت ہے.اگر نو مبا تعین کو چندوں کے نظام میں لایا جائے تو پھر ہی مضبوط رابطہ بھی رہتا ہے اور ایمان میں مضبوطی کے ساتھ نظام جماعت سے بھی تعلق قائم ہوتا ہے.اسی لئے میں نے یہ کہا تھا کہ تحریک جدید اور وقف جدید میں نئے آنے والوں کو بھی شامل کریں.پرانوں کو بھی ان کا احساس دلائیں.بعض جماعتیں تو اس سلسلے میں بہت فعال ہیں اور کام کر رہی ہیں لیکن بہت جگہ مستی بھی ہے.میں نے تو یہ کہا تھا کہ چاہے کوئی سال میں قربانی کا دس پینس (pence) دیتا ہے تو وہ بھی اس سے لے لیں.کم از کم اس کا ایک تعلق تو قائم ہوگا.ہر ایک کو پتا ہونا چاہئے کہ ہم نے مالی قربانی کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ تو ہوتا ہے لیکن جتنا ہونا چاہئے اتنا نہیں ہے.مثلاً اس سال وقف جدید میں پچاسی ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور الحمد للہ یہ جماعت کی ترقی کا معیار ہے کہ مالی قربانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن اگر کوشش کرتے اور اس سال کے بیعت کرنے والوں میں سے بیس فیصد بڑوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کرتے تو بیعتوں کے لحاظ سے ہی ایک لاکھ دس ہزار سے اوپر اضافہ ہونا چاہئے تھا.پس ترقی بیشک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہی ہے لیکن اس میں مزید گنجائش ہے.آئندہ سال نئے سرے سے جماعتوں کو افراد کو شامل کرنے کا ٹارگٹ وکالت مال کے ذریعہ سے ملے گا اس طرف بھر پور توجہ دیں.مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخراجات کی فکر نہیں کہ وہ کس طرح پورے ہوں گے.اللہ تعالیٰ وہ انشاء اللہ پورے کرے گا.یہ اس کا وعدہ ہے.ہمیں اپنے اندر قربانیوں کی روح پیدا کرنے والے زیادہ سے زیادہ چاہئیں اور اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے.اس کے لئے عہد یداران دعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں اور دوسرے عام احمدی بھی رابطوں کی مہم جاری رکھیں.جو نیک فطرت ہیں اور جن کو خدا تعالیٰ بچانا چاہتا ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ واپس آئیں گے اور کمزور اگر دُور ہٹ گئے ہیں تو ہمیں ان سے ہمدردی ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعام کو حاصل کر کے پھر گنوا بیٹھے لیکن اپنی تعداد کی کمی کی ہمیں کوئی فکر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تعداد سے زیادہ اخلاص و وفا اور ایمان میں بڑھے ہوئے مخلصین کے بارے میں زور دیا کہ وہ جماعت میں پیدا ہونے چاہئیں.پس نو مبائعین اور پرانے احمدیوں کے بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو مالی قربانیوں میں اضافے کے معیار بڑھنے کی وجہ سے ان کے اخلاص کا پتا دیتے ہیں.اس سے ان کے اخلاص کے معیاروں کا پتا لگتا ہے.لیکن جماعتی نظام کو بھی ضائع ہونے والوں کا پتا لگانے کی بھر پور کوشش کرنی
خطبات مسرور جلد 13 33 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء چاہئے.ہندوستان میں بھی جیسا کہ میں نے کہا بنگال کے علاقے میں بیعتیں ہوئی تھیں.جائزہ لینے کے لئے پروگرام بنانے چاہئیں تا کہ رابطوں کے ٹوٹنے یا پیچھے ہٹنے والوں کی وجوہات کا پتا چلے اور آئندہ کے لئے ان کمیوں کو سامنے رکھتے ہوئے پھر تبلیغ اور تربیت کی جامع منصوبہ بندی ہو.اسی طرح باقی دنیا میں بھی اس نہج پر کام کرنا چاہئے کہ جو جماعت میں شامل ہوتا ہے اس سے ہم کس طرح مسلسل رابطہ رکھیں چاہے وہ کتنا ہی دور دراز علاقے میں رہتا ہو.رابطہ انتہائی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ اس کام کو کرنے کی جماعتوں کو توفیق عطا فرمائے.اب میں جیسا کہ طریق ہے جنوری کے پہلے یا دوسرے جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے، اس کا اعلان کرتا ہوں اور گزشتہ سال کے کچھ کو الف بھی سامنے رکھتا ہوں.وقف جدید کا ستاونواں (57) سال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے 31 دسمبر کوختم ہوا اور اٹھاونواں (58) سال یکم جنوری سے شروع ہو گیا.جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کو اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں باسٹھلا کھ نو ہزار پاؤنڈ کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی جو گزشتہ سال سے سات لاکھ اکتیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.الحمدللہ.پاکستان سرفہرست ہی ہے.گزشتہ سال برطانیہ او پر آیا تھا.اس کے بعد برطانیہ.پھر امریکہ.پھر جرمنی.پھر کینیڈا.پھر ہندوستان.پھر آسٹریلیا.آسٹریلیا میں بھی ماشاء اللہ تعداد بڑھانے کے لحاظ سے بھی اور وصولی کے لحاظ سے بھی بہت کام ہوا ہے.آسٹریلیا کے بعد انڈونیشیا ہے.پھر دینی بیلجیئم اور پھر ایک عرب ملک ہے.کرنسی کے حساب سے جو اضافہ کیا ہے، وہ جیسا کہ میں نے کہا آسٹریلیا نے نمایاں اضافہ کیا ہے.انہوں نے ایک سو تیس فیصد اضافہ کیا ہے.کینیڈا نے اکیس فیصد.اس کے بعد انڈیا کا سولہ فیصد یا تقریباً سترہ فیصد.فی کس ادا ئیگی کے لحاظ سے امریکہ نمبر ایک پر ہے.ستر پاؤنڈ فی کس انہوں نے ادا ئیگی کی ہے.سوئٹزر لینڈ کی انسٹھ پاؤنڈ ہے.آسٹریلیا چھپن.یو کے (UK) کی اکاون پاؤنڈ.پھر یھیم.پھر فرانس.پھر کینیڈا.پھر جرمنی.ان بڑی جماعتوں میں سے جرمنی کی سب سے آخر میں ہے.شاملین کی تعداد: وقف جدید کے شاملین کی تعداد گیارہ لاکھ انتیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور تعداد میں اضافے کے اعتبار سے مالی بین ، نائیجر ، بورکینا فاسو، گیمبیا اور کیمرون کی جماعتیں قابل ذکر ہیں.مجموعی وصولی کے لحاظ سے افریقہ میں غانا سب سے اول ہے.پھر نائیجیریا.پھر ماریشیس ہے.بالغان میں پاکستان کی پہلی تین جماعتوں میں اول لا ہور ہے.دوم ربوہ.سوم کراچی.وہاں
خطبات مسرور جلد 13 34 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء بالغان اور اطفال کا علیحدہ علیحدہ ( دفتر ) ہوتا ہے.اور اضلاع کی پوزیشن اس طرح ہے.راولپنڈی نمبر ایک پر.پھر فیصل آباد.سرگودھا، گوجرانوالہ، گجرات، عمرکوٹ ، ملتان، حیدرآباد، بہاولپور، پشاور ہیں.اطفال کی تین بڑی جماعتیں جو ہیں وہ ( اول ) لاہور ، دوم کراچی اور سوم ربوہ.اور اطفال کے لحاظ سے اضلاع کی پوزیشن ہے سیالکوٹ، راولپنڈی، فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ، نارووال، گجرات، عمرکوٹ ،حیدرآباد، ڈیرہ غازی خان.مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں برمنگھم ویسٹ، رینز پارک،مسجد فضل، جلنگھم ، ووسٹر پارک، برمنگھم سینٹرل، ومبلڈن پارک، نیومولڈن، ونسلو نارتھ اور چیم ہیں.ا، ریجن جو ہیں ان کی پوزیشن یہ ہے.لندن ریجن نمبر ایک ہے.پھر مڈلینڈز.پھر مڈل سیکس.اسلام آباد.نارتھ ایسٹ اور ساؤتھ ریجن.چھوٹی جماعتیں پانچ یہ ہیں.سپن ویلی ہیمنگٹن سپا، برامے اینڈ لیوشم سکنتھو رپ اور ولور ہیمپٹن.وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی دس جماعتیں ہیں.سلیکون ویلی نمبر ایک.پھر ڈیٹرائٹ.پھر سیکل.پھر یارک ہیرس برگ.پھر لاس اینجلس ایسٹ.پھر بوسٹن.پھر سنٹرل ورجینیا.پھر ڈیلس.پھر ہیوسٹن اور فلاڈلفیا.جرمنی کی پانچ لوکل امارات یہ ہیں.نمبر ایک پر ہیمبرگ.پھر فرینکفرٹ.پھر گروس گراؤ.پھر ڈامسٹڈ.پھر ویز با دن.اور وصولی کے لحاظ سے جو دس جماعتیں ہیں وہ روڈر مارک ، نوٹس، نڈا، فلورز ہائم ، کولون، فریڈ برگ کوبلنز ،مہدی آباد، فلڈا،ھنوور ہیں.وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی بڑی جماعتیں یہ ہیں.ایڈمنٹن، ڈرھم ہلٹن جارج ٹاؤن، سکاٹون ساؤتھ ، سکاٹون نارتھ.وصولی کے لحاظ سے بھارت کے جو صوبہ جات ہیں اس میں پہلی دس جماعتیں یہ ہیں.کیرالہ نمبر ایک پر ہے، جموں وکشمیر، تامل ناڈو، آندھرا پردیش، ویسٹ بنگال، اڑیسہ، کرناٹکا، قادیان پنجاب، اتر پردیش، مہاراشٹرا، بہار، لکشد یپ اور راجھستان.وصولی کے لحاظ سے بھارت کی جماعتیں کیرولائی، کالی کٹ، حیدر آباد، کلکتہ، قادیان، کانور ٹاؤن، سُولُور، پینگاڑی، چنائی ، بنگلور ہیں.آخر میں تین جماعتیں ہیں کرونہ گا پلی ، پاتھا پر یام اور کیرانگ.
خطبات مسرور جلد 13 35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 جنوری 2015ء آسٹریلیا کی دس جماعتیں یہ ہیں.نمبر ایک پر بلیک ٹاؤن، ملبرن، ماؤنٹ ڈرائٹ، ایڈیلیڈ، مارسیڈن پارک، برسبن ، کیمبرا، پرتھ ، تسمانیہ، ڈارون.اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.آخر میں اس دعا کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعا کریں.ربوہ میں بھی چند روز سے مخالفین اور معاندین کی طرف سے حالات خراب کرنے کی کافی کوشش کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہر احمدی کو بچائے اور ان کے شر انہی پر الٹائے اور ربوہ میں امن وامان کی صورتحال قائم رہے.انتظامیہ اور حکومت کو بھی اللہ تعالیٰ عقل دے کہ وہ صیح طرح اس معاملے کو سنبھال سکیں.اسی طرح مسلمان دنیا اور یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں.فرانس میں جو ایک ظالمانہ واقعہ ہوا ہے اور اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قانون ہاتھ میں لے کر کیسی کو اس طرح مار نا قتل کرنا جس کا اسلام کی تعلیم سے دُور کا بھی واسطہ نہیں.ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم سے اس کا واسطہ نہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ تعلیم سے واسطہ نہیں.لیکن پھر بھی نام نہاد مسلمان اور یہ مسلمان تنظیمیں اپنی حرکتوں سے اور ان ظلموں سے باز نہیں آتے.اس کے نتیجہ میں یہاں مسلمانوں کو بھی جو یورپین ملکوں میں رہتے ہیں یا مغرب میں رہتے ہیں ان ملکوں کے مقامی لوگوں کے غلط رد عمل کا سامنا ہو سکتا ہے.اور صرف یہی نہیں کہ اس رد عمل میں یہ اخبار جس کے خلاف کارروائی ہوئی ہے، جس کے ایڈیٹر کو اور لوگوں کو ظلم کر کے مارا ہے یہ اخبار بھی اور یہاں کے لوگ بھی اور یہاں کا پریس بھی غلط رد عمل دکھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر غلط حملے کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ یہاں کی حکومتوں کو بھی توفیق دے کہ اس غلط رد عمل کو روکنے کی کوشش کریں.جو مجرم ہیں انہیں پکڑیں اور قانون کے مطابق سزا دیں.لیکن اگر غلط رد عمل ہوئے تو مسلمان جن کو سمجھانے والا کوئی نہیں وہ بھی پھر رد عمل دکھلائیں گے اور یوں فتنہ و فساد کا سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا.اس کے زیادہ ہونے کا خطرہ ہے.آج جماعت احمدیہ کے افراد کا ہی یہ کام ہے کہ دونوں طرفوں کو ظلموں سے بچانے کے لئے دعا کریں.اسی طرح درود شریف ان دنوں میں کثرت سے پڑھنے کی طرف توجہ دیں اور جو اپنے دائرے میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لئے عملی کوشش کر سکتے ہیں ان کو کوشش بھی کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ دنیا کو فساد کی صورت سے نجات دے اور فساد کی یہ جو صورت ہے وہ جلد امن میں بدل جائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 30 جنوری 2015 ء تا 05 فروری 2015ء جلد 22 شماره 05 صفحه 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 36 96 3 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرز مسروراحمد خلیفہ المسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء بمطابق 16 صلح 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی : إِنَّ اللهَ وَمَلئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب:57) یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو.آنحضرت ﷺ کے مقام کو کوئی دنیاوی کوشش نقصان نہیں پہنچا سکتی یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اپنی رحمتیں نازل فرما رہا ہے.اس کے فرشتے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعائیں دے رہے ہیں، اس کے لئے رحمت مانگ رہے ہیں.پس جب یہ صورتحال ہے تو وہ لوگ جو مختلف حیلے اور ہتھکنڈے استعمال کر کے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کو روکنا یا کم کرنا چاہتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط الزامات لگاتے ہیں اور جنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں.ان کی یہ سازشیں اور کوششیں اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتیں.جس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے اس کا حصول اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا چلا جائے گا اور اس زمانے میں تو اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے عاشق صادق کو بھیج کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں.
خطبات مسرور جلد 13 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے اور ہر قوم کے لئے نبی بنا کر بھیجا ہے اس کی مدد کے سامان بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل سے خود فرمارہا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نہ پہلے کبھی کامیاب ہو سکے، نہ اب کامیاب ہو سکتے ہیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے.اس لئے اس کی تو ایک حقیقی مسلمان کو فکر ہی نہیں ہونی چاہئے کہ اسلام کو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کوئی دنیاوی کوشش نقصان پہنچا سکتی ہے.ہاں جو کام اللہ تعالیٰ نے حقیقی مسلمان کے ذمہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح وہ اور اس کے فرشتے اس نبی کے مقام کو اونچا کرنے کے لئے اس پر رحمت بھیج رہے ہیں تم اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے پیارے، کامل مکمل اور آخری نبی پر بیشمار درود اور سلام بھیجو.پس یہ فرض ہے جو ایک حقیقی مسلمان کا ہے.اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو ترقی دیتے چلے جانے والوں میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی بات کے پیچھے چلتے ہوئے بیشمار درود اور سلام ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجیں.درود شریف پڑھنے کی تحریک گزشتہ دنوں فرانس میں جو حالات ہوئے اور مسلمان کہلانے والوں نے ایک اخبار کے دفتر پر حملہ کر کے جو بارہ آدمیوں کو ماردیا اس کے بارے میں گزشتہ جمعہ میں مختصر ذکر کر کے میں نے احمدیوں کو ، افراد جماعت کو درود پڑھنے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ قتل وغارت گری سے اسلام کی فتح نہیں ہو گی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں گے.نیز اس فکر کا بھی میں نے اظہار کیا تھا کہ اس حملے کے بدلے میں غلط رد عمل دکھایا جا سکتا ہے یا دکھایا جائے گا اور یہی ان لوگوں سے امید کی جا سکتی تھی.غلط رد عمل دکھا کر ان لوگوں نے بھی دوبارہ خاکے شائع کئے جو پھر ہمارے لئے مزید تکلیف کا باعث بنے اور ہر حقیقی مسلمان کے لئے تکلیف کا باعث بننے چاہئے تھے.اس دہشتگردی کا کیا فائدہ ہوا.دوتین سال پہلے جوان اخبار والوں نے حرکت کی اور جو دب گئی تھی اس غلط حرکت کو پھر مسلمان کہلانے والوں کے غلط عمل نے ہوا دے دی.جو کچھ یہ اخبار پہلے کرتا رہا اس پر مغربی دنیا کے بہت سے لیڈرز نے سخت رد عمل دکھایا.اس کو سختی سے رد کیا اور کی حکومتوں نے کہا کہ ہم کبھی اپنے اخباروں کو اجازت نہیں دیں گے.لیکن گزشتہ ہفتے کے واقعہ کے بعد بہت سے بظاہر عقل رکھنے والے اور ذمہ داروں لوگوں نے اور لیڈروں نے اس بیہودہ اخبار کی حمایت کا اعلان کر دیا.اور مختلف جگہوں سے انہیں کئی ملینز (millions) ڈالر کی امدادمانی شروع ہوگئی.اس اخبار کی اشاعت جو صرف ساٹھ ہزار تھی اور کہا جارہا تھا کہ شاید یہ اپنی موت آپ مرنے والا ہے، بالکل ختم ہونے والا ہے اور ختم ہو جائے گا.مسلمان کہلانے والوں کے غلط عمل نے ایک دن کے اندراندر، ایک ہفتے کے
خطبات مسرور جلد 13 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء اندر اندر اس کی اشاعت کو پانچ ملین سے اوپر پہنچادیا.اور اب بعض اندازے لگانے والے یہ کہتے ہیں کہ شاید اس اخبار کو دس بارہ سال اور مل گئے ہیں جو شاید چھ مہینے بھی نہ چلتا.پس اس عمل نے دنیا کے بہت سے ممالک میں نہ صرف اسلام کی تعلیم کے غلط تصور کو ہوا دی ہے بلکہ مرتے دشمن کو زندہ کرنے کا کردار بھی ادا کیا ہے.کاش کہ مسلمان تنظیمیں جو اسلام کے نام پر ظلم کرتی ہیں سمجھیں کہ اسلام کی پیار و محبت کی تعلیم زیادہ جلدی دنیا کو اسلام کی آغوش میں لاسکتی ہے.اسلام جس طرح صبر اور حوصلے کی تعلیم دیتا ہے اس کا کوئی دوسرا مذہب مقابلہ ہی نہیں کر سکتا.یہ دنیا دار تو وہ لوگ ہیں جن کی دین کی آنکھ اندھی ہے، جو اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی بات تو ایک طرف خود خدا تعالیٰ کا استہزاء کرنے سے بھی باز نہیں آتے.ان جاہلوں کے عمل پر اگر ہماری طرف سے بھی جاہلانہ رد عمل ہو تو یہ ضد میں آکر مزید جہالت کی باتیں کریں گے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے منہ لگنے کے بجائے ان لغویات سے پرلوگوں سے اعراض کرتے ہوئے علیحدہ ہو جاؤ.صرف ان کی مجلس میں بیٹھنا یا ان کی ہاں میں ہاں ملانا ہی گناہ نہیں ہے یا گنہگار نہیں بناتا بلکہ جب غلط کام کرنے والوں کو اس طرح الٹا کر جواب دیا جائے اور پھر وہ الٹا کر خدا تعالیٰ کا استہزاء کریں یا برا بھلا کہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کریں یا کسی بھی رنگ میں اظہار کریں تو تب بھی ہم میں سے جولوگ ایسا کرنے والے ہیں اس گناہ میں شامل ہورہے ہوں گے.پس ایک حقیقی مسلمان کو اس سے بچنا چاہئے.معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ نا چاہئے.خدا تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ جب میرے پاس کوٹنا ہے تب ان کی حرکتوں کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہو گا.آخر ایک دن اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے تب اللہ تعالیٰ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں.آجکل دشمن اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے کے بجائے ایسے ہی گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کر کے اسلام کو، اسلام کی تعلیم کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت بھیجتے ہیں ایک اصولی بات بتادی ہے کہ یہ حرکتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتیں.تمہارا کام ان لغویات میں پڑنے کے بجائے ، اسی طرح جہالت سے جواب دینے کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجنا ہے.یہ ایک حقیقی مسلمان کا کام ہے.اس کا حق ادا کرو تو سمجھو کہ تم نے وہ فرض ادا کر دیا.جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ وہ لوگ جو اس بیہودہ رسالے کے خلاف تھے اس حملے کے بعد ان میں سے بہت
خطبات مسرور جلد 13 39 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء سے اس کے حق میں بھی ہو گئے کہ آزادی رائے کا ہر ایک کو حق ہے.لیکن اس کے باوجود ان لوگوں میں ایسے انصاف پسند اور عقلمند بھی ہیں جنہوں نے اس رسالے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیہودہ اظہار کو نا پسند کیا ہے اور نا پسند کرتے ہوئے اس کی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے.مثلاً اس رسالے جس کا نام چارلی ایبڈو (Charlie Hebdo) ہے اس کے ابتدائی ممبر جن کا نام ہنری رسل ( Henri Roussel) ہے وہ کہتے ہیں کہ جو خاکے اس اخبار نے بنائے تھے وہ بھڑ کانے والے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس غیر ذمہ دارانہ فعل کی وجہ سے ایڈیٹر نے اپنی ٹیم کوموت کے منہ میں دھکیل دیا اور کہتے ہیں کہ اس قسم کی باتیں ہماری بنیادی پالیسی کے خلاف تھیں جو یہ گزشتہ کئی سالوں سے کر رہے ہیں.آزادی رائے کی کوئی حد ہونی چاہئے اسی طرح پوپ نے بڑا اچھا بیان دیا ہے کہ آزادی رائے کی کوئی حد ہونی چاہئے.آزادی رائے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بالکل چھوٹ دے دی جائے.انہوں نے کہا کہ ہر مذہب کا ایک وقار ہے اور اس کا احترام ضروری ہے اور کسی بھی مذہب کی عزت پر حملہ نہیں کرنا چاہئے.اپنی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے قریبی دوست (جو اُن کے دوروں کو آرگنا ئز کرتے ہیں ) اگر وہ بھی میری ماں پر لعنت ڈالیں یا برا بھلا کہیں تو میر ارد عمل یہی ہو گا کہ میں اس کے منہ پر مکا ماروں گا اور ان کو مجھ سے اس رد عمل کی توقع رکھنی چاہئے کہ مکا ماروں گا.بہر حال ان کا کسی کے جذبات کو بھڑ کا نا غلط ہے اور انہوں نے جذبات کو بھڑ کا یا ہے اس لئے قصور ان کا ہے.پوپ نے بڑا حقیقی بیان دیا ہے.مسلمانوں کو بھی اب عقل کرنی چاہئے اور اس کے بعد پھر غلط رد عمل نہیں دکھانا چاہئے.آجکل میڈ یا دنیا پر چھایا ہوا ہے اور کہیں بھی آگ لگانے یا آگ بجھانے ، فساد پیدا کرنے یا فساد روکنے میں یہ بڑا کر دار ادا کرتا ہے.اس مرتبہ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اس واقعے کے بعد یو کے(UK) اور دنیا کے مختلف میڈیا نے جماعت سے بھی ہمارا رد عمل یا موقف اس بارے میں پوچھا جس میں ہم نے اس قتل کے واقعے کے بارے میں بتایا کہ یہ غیر اسلامی فعل ہے اور ہم اس پر افسوس کرتے ہیں لیکن آزادی رائے کی بھی کچھ حدود ہونی چاہئیں ورنہ دنیا میں فساد پیدا کرنے کے ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو دوسروں کے جذبات کو انگیخت کرتے ہیں.بہر حال اس کے علاوہ کچھ تفصیلی باتیں پریس میں بیان ہوئی ہیں.یوکے(UK) میں سکائی نیوز (Sky News) ، نیوز فائیو (News Five) ، بی بی سی ریڈیو (BBC Radio)، ایل بی سی (LBC)، بی بی سی لیڈز (BBC Leeds) اور لنڈن لائیو (London Live)، پھر
خطبات مسرور جلد 13 40 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء باہر کے ٹی وی ہیں، فاکس ٹی وی (Fox TV) ہے ہی این این (CNN) ہے، کینیڈا کے اخبارات ہیں، اسی طرح یونان ، آئرلینڈ ، فرانس، امریکہ کے مختلف اخبارات ہیں.انہوں نے ہمارا موقف بیان کیا.ان کے سٹوڈیو میں جا کر بھی انٹر ویو ہوئے ہیں اور اس ذریعے سے کئی ملین لوگوں تک اسلام کا حقیقی مؤقف اور تعلیم پہنچی ہے.اس میں یہاں امیر صاحب کا بھی انٹرویو ایک ٹی وی نے لیا تھا اور امام مسجد فضل عطاء المجیب راشد صاحب کا بھی انٹرو یولیا تھا.اسی طرح امریکہ، کینیڈا، فرانس میں ہماری ٹیمیں ہیں، نمائندے ہیں.ان کے ٹیموں کے نمائندے شامل ہوئے.پریس کی ٹیم ہے اور ان کو سٹوڈیو میں بلا کر ان کے انٹرویو لئے گئے یا سوال کئے گئے.اخباروں نے ہمارے مضمون چھاپے، آرٹیکل چھاپے یا اس حوالے سے خبر دی.تو بہر حال اس ٹیم نے بھی ہر جگہ دنیا میں یو کے (UK) میں بھی اور امریکہ اور کینیڈا میں بھی حقیقی تعلیم پہنچانے کا اچھا حق ادا کیا ہے.کینیڈا کی ٹیم کے پریس کے رابطے اور خبروں پر وہاں کے ایک جرنلسٹ نے لکھا ہے کہ میں یہ سوال پوچھتا ہوں کہ احمدیہ مسلم جماعت مسلمانوں میں ایک چھوٹا سا فرقہ ہے لیکن اس کے باوجود اتنی زیادہ ان کی طرف سے میڈیا میں کوریج ہوئی ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ اور انہوں نے صحیح پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے.تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ اسلام کی تعلیم کا صحیح رخ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی جماعت نے دنیا کو بتانا ہے جو آپ سے سیکھا.پس جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بھی کہا تھا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے حلقے میں دنیا کو یہ پیغام دیں اور سمجھا ئیں کہ غلط رد عمل صرف فساد کو جنم دیں گے، اور کچھ نہیں ہو گا.اور جو موجودہ حالات ہیں دنیا کے ان میں پھر بھڑک کر ایک آگ لگ جائے گی اور یہ آگ پھر چاروں طرف پھیلنے والی آگ بن جائے گی جس کی دنیا اس وقت متحمل نہیں ہوسکتی.پس غلط رد عمل سے نہ لوگوں کو انگیخت کرو، نہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دو.خدا تعالیٰ دنیا کو عقل دے.لیکن اس کے ساتھ ایک احمدی کا ایک بہت بڑا کام اس طریق پر چلنا بھی ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس نبی پر درود اور سلام ایک جوش کے ساتھ بھیجو.گو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر ایک مومن کو حتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور کیوں یا کس لئے کا سوال نہیں اٹھانا چاہئے.ظاہر ہے عموماً اٹھاتا بھی نہیں.جوں جوں کسی کا ایمان اور دینی معاملات کا علم اور دعاؤں کا فہم بڑھتا ہے حکم کی حکمت اور فوائد بھی نظر آنے.
خطبات مسرور جلد 13 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء لگ جاتے ہیں یا سمجھ آ جاتے ہیں.لیکن کچھ علم حاصل کر کے سیکھنا بھی اسلامی تعلیم کا ایک خوبصورت حصہ ہے.اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ علم حاصل کرو اور سیکھو بھی اور یہ فہم اور ادراک حاصل کرنے کی کوشش بھی کرو.اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بھی بڑھاؤ.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ یہ سیکھو تا کہ حکمت جلد سے جلد سمجھ آ جائے.نہ کہ اس انتظار میں رہو کہ آہستہ آہستہ سیکھیں گے.اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا فہم اور ادراک بھی حاصل ہو جائے اور پھر یہ فہم اور ادراک حاصل ہونے کی وجہ سے بہتر رنگ میں اس پر عمل ہو سکے.درود شریف کی اہمیت پس اس حوالے سے اس وقت میں بعض احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات پیش کروں گا جو درود شریف کی اہمیت اور اس کے فوائد کو بھی واضح کرتے ہیں.ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی کرتے ہیں اور اس محبت کے تقاضے کی وجہ سے ہمارے دل اُس وقت چھلنی ہوتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی نازیبا الفاظ کہے جائیں یا کسی بھی طرح غلط رنگ میں آپ کی طرف کوئی بات منسوب کی جائے.لیکن اس محبت کا حقیقی اظہار اور اس کا فائدہ کس طرح ہوگا، اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو اُن میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا.(سنن الترمذى كتاب الصلوة ابواب الوتر باب ما جاء في فضل الصلوة...حديث نمبر (484) پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کا اظہار جس کے نتیجے میں آپ کا قرب ملے درود شریف پڑھنے سے ہی ہے.پھر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز اس دن کے خطرات سے اور ہولناک مواقع سے تم میں سے سب سے زیادہ محفوظ اور نجات یافتہ وہ شخص ہوگا جو دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا.فرمایا کہ میرے لئے تو اللہ تعالیٰ کا اور اس کے فرشتوں کا درود ہی کافی تھا.یہ تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ثواب پانے کا ایک موقع بخشا ہے کہ تم درود بھیجو.(کنز العمال جزء اول صفحه 254 كتاب الاذكار / قسم الاقوال حدیث نمبر 2225 دار الكتب العلمية بيروت 2004ء) پھر دعا کرنے کے صحیح طریق کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت فضالہ بن عبید
خطبات مسرور جلد 13 42 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء روایت کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور دعا کرتے ہوئے کہا.اللّهُمَّ اغْفِرْلِی وَارْحَمنِی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے تو نے جلدی کی.چاہئے کہ جب تو نماز پڑھے اور بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور ثنا کرے.پھر مجھ پر درود بھیجے.پھر جو بھی دعا وہ چاہتا ہے مانگے.راوی کہتے ہیں پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَيُّهَا الْمُصَلِّي أَدْعُ تُجب کہ اے نماز پڑھنے والے دعا کر ، قبول کی جائے گی.(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء في جامع الصلوات عن النبى ال العلم حدیث نمبر 3476) پھر حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے، انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم موذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے.پھر مجھ پر درود بھیجو.جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا.پھر فرمایا میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو یہ جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندے کو ملے گا.اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا.جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہو جائے گی.(صحیح مسلم کتاب الصلوة باب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه ثم يصلى على النبی ﷺ حدیث نمبر (849) پس یہ درود جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں اضافہ کرتا ہے وہاں قبولیت دعا کے لئے بھی ضروری ہے اور اپنی بخشش کے لئے بھی ضروری ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تم درود نہ بھیجو اس میں سے کوئی حصہ بھی خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے اوپر نہیں جاتا.(سنن الترمذى كتاب الصلوة ابواب الوتر باب ما جاء في فضل الصلوة على النبی ﷺ حدیث نمبر (486) درود پڑھنے کے لئے کس طرح کوشش ہونی چاہیئے ؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مرید کو لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کہ کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم سلام کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ
خطبات مسرور جلد 13 43 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء وہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سال یا ہم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درودشریف میں مذکور ہیں...اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو ( ذاتی غرض کوئی نہ ہو ).اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں.“ ( مکتوبات احمد جلد 1 صفحہ 534-535 مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر 18 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ) پھر درود کی حکمت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: وو اگر چه آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں.“ (جیسا کہ حدیث میں بھی آپ نے فرمایا کہ میرے لئے تو اللہ اور اس کے فرشتوں کا درود کافی ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : ) لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے.جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ باعث علاقہ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جزو ہو جاتا ہے“ ( جو ذاتی محبت کی وجہ سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ اس ذاتی محبت کے تعلق کی وجہ سے اس وجود کے چاہنے والے کے جسم کا ایک حصہ بن جاتا ہے ) فرمایا کہ: ” پس جو فیضان شخص مذعولہ پر ہوتا ہے وہی فیضان اس پر ہو جاتا ہے.(اللہ تعالیٰ کا جو فیض جس شخص کے لئے دعا کی جا رہی ہے اس پر ہوتا ہے دعا کرنے والے پر بھی وہی فیض ہو جاتا ہے.)’اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے.“ ( مکتوبات احمد جلد 1 صفحہ 535 مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر 18 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ) پس ہمیں چاہئے کہ یہ ذاتی جوش پیدا کرنے کی کوشش کریں.پھر درود شریف پڑھنے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ: ”ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھئے.آپ نے ہر قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا.طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی.یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلیما.اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رسول پر
خطبات مسرور جلد 13 44 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو تم درود و سلام بھیجو نبی پر فرمایا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا.( ان کو محدود کرنے کے لئے کوئی خاص لفظ نہیں فرمایا.) ”لفظ تومل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے.یعنی آپ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی.( کہ اس کی کوئی حد مقرر کی جائے.اس سے وہ باہر تھی.اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح میں وہ صدق وصفا تھا اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 3 صفحہ 730، تحفہ سالا نہ یار پورٹ جلسہ سالانہ 1897 صفحہ 50-51 ملفوظات جلد اول صفحہ 37-38) پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ درود شریف حصول استقامت اور قبولیت دعا کا ذریعہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی ازدیاد اور تجدید کے لئے ( یعنی محبت میں بڑھنے کے لئے اور اس کی تجدید کرنے کے لئے ) ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہو گیا.تا کہ اس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے..درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو.مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان کو مد نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیر میں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا.“ ریویو آف ریجنز جنوری 1904 ء جلد 3 نمبر 1 صفحہ 14-15) یہ مدارج وغیرہ کی ترقی کیسے ہوتی ہے؟ یہ بھی بتاؤں گا آگے جا کے.پھر آپ فرماتے ہیں: 66 یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے اُن دنوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط باتیں کی جاتی تھیں جب آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ان پر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا.میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک درد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس زمانہ سے بڑھ کر اسلام پر گزرا ہے جس میں اس قدر سب و شتم اور توہین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی ہو اور قرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو؟ پھر
خطبات مسرور جلد 13 45 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بیقرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حسن بھی باقی نہیں رہی کہ اس بے عزتی کومحسوس کر لیں.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سب وشتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا.اللہ تعالیٰ کو کچھ بھی عزت منظور نہ تھی جو اس قدر سب وشتم پر وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تم اٹھو اور بندوقیں پکڑ اور ڈنڈے لو اور قتل و غارت شروع کر دو بلکہ اس عزت کے قائم کرنے کے لئے آسمانی سلسلے کا قیام ضروری تھا اور فرمایا کہ ) اور ان مخالفین اسلام کے منہ بند کر کے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا‘ دلیل سے، آپ کی خوبصورت تعلیم سے ان کے منہ بند کرتا نہ کہ گولی چلا کر.جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو اس تو ہین کے وقت اس صلوۃ کا اظہار کس قدرضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی صورت میں کیا ہے ( یعنی جماعت احمدیہ کی صورت میں.پس ہمارا یہ اور بھی زیادہ فرض بن جاتا ہے کہ پہلے سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں.پس آپ نے یہ فرمایا کہ : '' مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں.“ ( اس کے آگے یہ بھی آپ نے فرمایا اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں.“ 66 ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 13-14) پس درود شریف کو کثرت سے پڑھنا آج ہر احمدی کے لئے ضروری ہے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو بھی ہم پورا کرنے والے ہوں.خدا تعالیٰ کی آواز پر ہم لبیک کہنے والے ہوں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے دعوے پر پورے اترنے والے ہوں.صرف نعروں اور جلوسوں سے یہ محبت کا حق ادا نہیں ہو گا جو غیر از جماعت مسلمان کرتے رہتے ہیں.اس محبت کا حق ادا کرنے کے لئے آج ہر احمدی کروڑوں کروڑ درود اور سلام اپنے دل کے درد کے ساتھ ملا کر عرش پر پہنچائے.یہ درود بندوقوں کی گولیوں سے زیادہ دشمن کے خاتمے میں کام آئے گا.درود پڑھنے کا طریق پھر مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ درود پڑھنے کا طریق کیا ہے آپ اپنے ایک خط میں جو آپ نے اپنے ایک مرید کولکھا، فرماتے ہیں کہ : ” یہ لحاظ بدرجہ غایت رکھیں کہ ہر ایک عمل رسم اور عادت کی آلودگی سے بکلی پاک ہو جائے.“ ( جو عمل بھی ہے صرف رسم نہ ہو اور عادت نہ ہو ) اور دلی محبت کے پاک
خطبات مسرور جلد 13 46 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء فوارہ سے جوش مارے.“ ( اس کا رسم اور عادت کا گند جو ہے رسم اور عادت کا اس سے پاک کریں اور دل سے نکلنے والی محبت جو ہے وہ فوارے کی طرح پھوٹ رہی ہو.فرمایا ) ” مثلاً درود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں.نہ ان کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور تام سے اپنے رسول مقبول کے لئے برکات الہی مانگتے ہیں، فرمایا کہ: ”بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہر گز ا پنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتدائے زمانہ سے انتہا تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا.(یہ محبت ایسی ہو کہ بہت سوچنے کے بعد بھی کبھی دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو سکے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ایسا تھا جس سے ایسی محبت پیدا ہو سکے، نہ کبھی آئندہ پیدا ہو سکتا ہے جس سے اس شدت سے محبت کی جا سکے یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا ) اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ محبان صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے وہ سب کچھ اٹھانے کے لئے دلی صدق سے حاضر ہو.“ ( یہ صورت کس طرح پیدا ہوگی کہ جو کچھ مصیبتیں پہلے اٹھائی جاسکتی ہیں یا کوئی عقل تجویز کرسکتی ہے کہ یہ شکلیں پیدا ہوسکتی ہیں دلی سچائی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں وہ مشکلات اور مصیبتیں اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے.فرمایا) اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوت واہمہ پیش نہ کر سکے کہ جس کے اٹھانے سے دل رک جائے.اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کر سکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو.اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو.اور جب یہ مذہب قائم ہو گیا.“ (اس طرح ایمان ترقی کر گیا ) ” تو درود شریف جیسا کہ میں نے زبانی بھی سمجھایا ہے ( آپ اس مرید کو لکھ رہے ہیں ) اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کا بناوے اور اس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اس عائم اور اُس عالم میں ظاہر کرے.یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہئے.“ (بڑے دل کی گہرائی سے ہونی چاہئے ، توجہ سے ہونی چاہئے ) جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا
خطبات مسرور جلد 13 47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے مجھ کو یہ ثواب ہوگا یا یہ درجہ ملے گا.‘ (اس سوچ میں نہیں درود بھیجنا، نہ دعا کرنی ہے کہ مجھے کوئی ثواب ہوگا یا درجہ ملے گا بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کا ملہ الہیہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں اور اس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت چاہئے اور دن رات دوام توجہ چاہئے.یہاں تک کہ کوئی مراد اپنے دل میں اس سے زیادہ نہ ہو.“ ( مستقل مزاجی سے کام کریں.) پس جب اس طور پر یہ درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلا شبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے.اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو اور یہاں تک یہ توجه رگ وریشہ میں تا خیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جاوے.“ ( مکتوبات احمد جلد 1 صفحہ 522-523 مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر 10 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ) پھر دعاؤں اور درود کے لئے کوشش کے بارے میں اپنے ایک مرید کو ایک خط میں آپ فرماتے ہیں کہ : ” نماز تہجد اور اؤ رادِ معمولہ میں آپ مشغول رہیں.تہجد میں بہت سے برکات ہیں.بیکاری کچھ چیز نہیں.بریکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا.“ پھر فرمایا ”وَقَالَ اللہ تعالیٰ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت : 70 ) ( کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو میرے رستے میں جہاد کرے گا اس کو ہم اپنے رستوں کی ہدایت دیں گے.فرمایا کہ ) درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد.فرمایا: ” جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں ان میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے.پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پرہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے.اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں ( یعنی یہ درود شریف کے الفاظ جو ابھی پڑھے گئے ہیں ) وہ کس قدر متبرک ہوں گے.غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے.یہی اس عاجز کا ورد ہے.“ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہی اس عاجز کا ورد ہے ) اور کسی تعداد کی پابندی ضرور نہیں.اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک
خطبات مسرور جلد 13 48 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء حالت رقت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جاوے.“ ( مکتوبات احمد جلد 1 صفحہ 526 مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر 13 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ) اللہ تعالیٰ یہ روح ہم سب میں پیدا کرے.ہمارے دل سے ایسا درود نکلے جو عرش پر پہنچے اور ہمیں بھی اس سے سیراب کرے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو درود پڑھتے ہیں اور بڑے درد سے پڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اس کے فیض کے نظارے بھی دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ اس طرح درود پڑھنے والوں کی جماعت میں تعداد بڑھتی چلی جائے جس کا فائدہ جماعتی طور پر بھی ہوگا، جماعتی ترقی میں بھی ہو گا.حضرت مصلح موعودؓ کا ایک درود کا انداز مجھے بہت اچھا لگتا ہے.گو ہم میں سے بعض اس کے قریب قریب پڑھتے ہیں لیکن یہ ایسا انداز ہے جو میں آپ کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں جس سے درود کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذاتی محبت میں ایک نئے رنگ میں اضافہ ہوتا ہے اور جماعتی ترقی کے لئے بھی دعا کا ادراک پیدا ہوتا ہے.آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ: ” جب ہم دوسرے کے لئے دعا کرتے ہیں تو یہ دعا ایک رنگ میں ہمارے لئے بھی بلندی درجات کا موجب بنتی ہے چنانچہ ہم جب درود پڑھتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجات بلند ہوتے ہیں وہاں ہمارے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اُن کو انعام مل کر پھر اُن کے واسطے سے ہم تک پہنچتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے چھلنی میں کوئی چیز ڈالوتو وہ اس میں سے نکل کر نیچے جو کپڑا پڑا ہو اس میں بھی آ گرتی ہے.66 اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اس اُمت کے لئے بطور چھلنی بنایا ہے.پہلے خدا اُن کو اپنی برکات سے حصہ دیتا ہے اور پھر وہ برکات ان کے توسط اور ان کے طفیل سے ہمیں ملتی ہیں.جب ہم درود پڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج کو بلند فرماتا ہے تو لازماً خدا تعالیٰ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ تحفہ فلاں مومن کی طرف سے آیا ہے.( یہ درود کا تحفہ جو دل سے پڑھا گیا ہے یہ فلاں مومن کی طرف سے آیا ہے ) اس پر ان کے دل میں ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ) ہمارے متعلق دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا کی وجہ سے ہمیں اپنی برکات سے حصہ دے دیتا ہے.فرمایا کہ میں اپنے متعلق بتاتا ہوں کہ جب بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر دعا کرنے کے لئے آتا ہوں میں نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ پہلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا
خطبات مسرور جلد 13 49 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء کیا کرتا ہوں.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعا کرتا ہوں.اور دعا یہ کرتا ہوں کہ یا اللہ ! میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو میں اپنے ان بزرگوں کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کرسکوں.میرے پاس جو چیزیں ہیں وہ انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں.البتہ تیرے پاس سب کچھ ہے اس لئے میں تجھ سے دعا اور التجا کرتا ہوں کہ تو مجھ پر احسان فرما کر میری طرف سے انہیں جنت میں کوئی ایسا تحفہ عطا فرما جو اس سے پہلے انہیں جنت میں نہ ملا ہو.تو وہ ضرور پوچھتے ہیں کہ یا اللہ! یہ تحفہ کس کی طرف سے آیا ؟ (جب اللہ تعالیٰ تحفہ دے گا تو وہ ضرور پوچھیں گے کہ یہ تحفہ کس کی طرف سے آیا ) ” اور جب خدا انہیں بتاتا ہے کہ کس کی طرف سے آیا ) تو وہ اس کے لئے دعا کرتے ہیں اور اس طرح دعا کرنے والے کے مدارج بھی بلند ہوتے ہیں اور یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے.اسلام کا مسلمہ اصل ہے اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ دعائیں مرنے والے کو ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں.قرآن کریم نے بھی حیوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا (النساء : 87) کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تمہیں کوئی شخص متحفہ پیش کرے تو تم اس سے بہتر تحفہ اسے دو.ورنہ کم از کم اتنا تحفہ تو ضرور دو جتنا اس نے دیا.قرآن کریم کی اس آیت کے مطابق جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعا کریں گے اور ان پر درود اور سلام بھیجیں گے تو خدا تعالیٰ ہماری طرف سے اس دعا کے نتیجہ میں انہیں کوئی تحفہ پیش کر دے گا.ہم نہیں جانتے کہ جنت میں کیا کیا نعمتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو ان نعمتوں کو خوب جانتا ہے اس لئے جب ہم دعا کریں گے کہ الہی ! تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ایسا تحفہ دے جو اس سے پہلے انہیں نہ ملا ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ جب وہ تحفہ انہیں دیا جاتا ہو گا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی بتایا جاتا ہوگا کہ یہ فلاں شخص کی طرف سے تحفہ ہے.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس علم کے بعد وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں اور تحفہ بھجوانے والے کے لئے دعا نہ کریں.ایسے موقع پر بے اختیار ان کی روح اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائے گی اور کہے گی کہ اے خدا! اب تو ہماری طرف سے اس کو بہتر جزاء عطا فرما.اس طرح فحيوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا.کے مطابق وہ دعا پھر درود بھیجنے والے کی طرف لوٹ آئے گی اور اس کے درجہ کی بلندی کا باعث ہوگی.پس یہ ذریعہ ہے جس سے بغیر اس کے کہ کوئی مشرکانہ حرکت ہو ہم خود بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور قوم بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے.گویا قومی اور فردی دونوں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.“ مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت ،انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 190 تا 192)
خطبات مسرور جلد 13 50 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء اس طرح درود پڑھنے اور جواب دینے سے.پس یہ طریق ایسا ہے اور جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اس سے جماعتی ترقی کے بھی راستے کھلتے ہیں اور جب جماعت ترقی کرے گی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے والوں کی تعداد بڑھے گی تو مخالفین کی تعداد بھی گھٹتی چلی جائے گی.اس کے علاوہ ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں.بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ اور اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ علیحدہ علیحدہ کیوں ہیں؟ تو اس بارے میں لغت میں اس طرح وضاحت ہے کہ لغوی اعتبار سے الصَّلوة کا مطلب التَّعظیم بھی ہے.اس بناء پر اللهُمَّ صَلِّ عَلَى محمد کی دعا کے یہ معنی ہوں گے کہ اے اللہ ! تو مد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں تو ان کا ذکر بلند کر کے اور ان کے پیغام کو کامیابی اور غلبہ عطا فرما کر اور ان کی شریعت کے لئے بقاء اور دوام مقدر کر کے عظمت عطا فرما جبکہ آخرت میں ان کی امت کے حق میں شفاعت کو قبول فرما کے اور ان کے اجر و ثواب کو کئی گنا بڑھا کر دینے کے ذریعہ سے انہیں عظمت سے ہمکنار فرما.اس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات میں بھی بعض فقروں میں ان کا تفصیلی ذکر اس طرح آچکا ہے لیکن لغت کے معنی سے نہیں.پھر آگے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کے متعلق حدیث میں بَارِك عَلَى مُحمدٍ وَعَلَى ال محمد کے الفاظ آئے ہیں.(صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قوله ان تبدوا شيئًا اوتخفوه...حدیث نمبر 4797) اس کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ ! تو نے جو بھی عزت و عظمت اور عظیم شان اور بزرگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقدر فرمائی ہوئی ہے اس کو ان کے لئے قائم فرما دے اور اس کو پیشگی اور دوام بخش.ہمیشہ قائم رہنے والی ہو.پس خلاصہ یہ ہے کہ اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ میں آپ کی شریعت کے غلبے اور ہمیشہ قائم رہنے اور امت کے حق میں آپ کی شفاعت سے فیض پانے کی دعا ہے اور اللهُمَّ بَارك میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت اور شان اور بزرگی کے ہمیشہ قائم رہنے کے لئے دعا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں درود پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس درود کی وجہ سے ہم جہاں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہوں وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ہمیشہ ترقی کرتے چلے جانے والے بھی ہوں اور آپ کی شریعت کے پھیلانے کے کام میں اپنی صلاحیتیوں کو صرف کرنے
خطبات مسرور جلد 13 51 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء والے ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق دنیا سے فتنہ و فساد کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت میں دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا.پہلا ہے مکرم مولوی عبد القادر صاحب دہلوی درویش قادیان کا جو 10 جنوری 2015ء کو 97 سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون - مرحوم محترم ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے.مدرسہ احمدیہ سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.قادیان میں حسب ذیل عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی.شعبہ درویشی میں آپ قادیان کے محلہ احمدیہ میں جنرل سیکرٹری رہے.پھر لمبا عرصہ نائب ناظر دعوت وتبلیغ اور معاون ناظر اعلیٰ رہے.اس کے علاوہ ناظم جائیداد، قاضی سلسلہ، آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ، سیکرٹری بہشتی مقبرہ، نائب صدر انصاراللہ ر ہے.مولوی صاحب مرحوم کا ایک مضمون جو داستان درویش بزبان درویش کے نام سے ”رسالہ مشکوۃ“ کے شمارہ میں نومبر 2003ء میں شائع ہوا تھا اس میں موصوف نے بیان کیا کہ حضرت میر محمد اسحق صاحب جو ہمیں مدرسہ احمدیہ میں اوپر کی کلاس میں حدیث شریف پڑھاتے تھے اور مجھ سے بہت محبت کرتے تھے انہوں نے کہا کہ مصر جا کر تعلیم حاصل کرنے کی درخواست دے دو.انتظامیہ کو میں نے درخواست دے دی تو جواب آیا کہ پاسپورٹ بنوانے کے لئے جس کے پاس پیسے نہیں وہ مصر کیا لینے جائے گا.یہ بات میں نے حضرت میر صاحب کو بتادی.کہتے ہیں دو دن کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہیں اور کہتے ہیں ”عبد القادر مصر“.یہ خواب بھی میں نے حضرت میر صاحب کو سنادی.اتفاق یہ ہوا کہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا اور جماعت احمدیہ کی طرف سے نوجوان بھرتی کرائے جارہے تھے.میں جماعت کی طرف سے چلا گیا اور فوج میں محکمہ سپلائی میں بھرتی ہو گیا.فوجیوں کو آرام کی خاطر ہفتہ عشرہ کی چھٹیاں بھی ملتی تھیں.اس طرح فوج میں جا کے یہ وہاں مصر بھی پہنچ گئے.تو کہتے ہیں بہر حال خاکسار نے چھٹیاں گزارنے کے لئے بجائے ہندوستان آنے کے وہاں سے روم جانا پسند کیا.وہاں گرجا گھر کے ساتھ ہی دائیں طرف ایک وسیع ہال بنا ہوا تھا.میرے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ ہفتے میں ایک دفعہ سوموار کے دن یہاں پوپ صاحب خطاب کرتے ہیں اور معتقدین ان کا درشن کرتے ہیں.پوپ وہاں روم میں آتے ہیں.کہتے ہیں سوموار کا دن تھا میں بھی ہال میں چلا گیا.وہاں لوگ ہال میں دائرہ
خطبات مسرور جلد 13 52 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء بنائے کھڑے تھے.جنگ کے زمانے کی وجہ سے پوپ صاحب نے امن عالم کی بابت خطاب دیا اور پھر حاضرین کے قریب سے گزرتے ہوئے واپس تشریف لے جا رہے تھے تو کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قریب سے گزرتے ہوئے ان کی جانب اپنے دونوں ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھا دیئے.پوپ صاحب نے بھی اپنے ہاتھ میرے ہاتھوں میں دے دیئے اور رک گئے.میں نے ان کا ہاتھ تھام کر اسلام کا پیغام دیا.حضرت مسیح کی آمد ثانی کی بابت بتایا کہ وہ ظاہر ہو چکے ہیں اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.میں نے انہیں قبول کیا ہے اور آپ کو بھی قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں.تو پوپ کو یہ پیغام انہوں نے پہنچا دیا.کہتے ہیں انہوں نے میری باتیں سن کر خوشی کا اظہار کیا.بعد میں تمام زائرین امریکن اور یورپین میرے گرد جمع ہو گئے اور میری جرات کی داد دینے لگے.میں نے انہیں بھی تبلیغ کی اور پوپ صاحب سے ملاقات کی تفصیل حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں تحریر کر دی.پوپ کی تبلیغ اسلام کا ذکر تاریخ احمدیت جلد دہم میں حضرت خلیفہ ثانی کے عہد میں ”پوپ کو تبلیغ اسلام کے نام سے مذکور ہے.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 10 صفحہ 549-550 مع حاشیہ ) آپ نے اس مضمون میں اپنی قبولیت دعا اور الہی تصرف کے تین ایمان افروز واقعات بھی بیان کئے ہیں.آپ کو 1969ء میں حج کی توفیق بھی ملی.مرحوم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں.سب کو ہی باوجود معاشی تنگی کے اعلی تعلیم دلائی.سبھی بیرونی ممالک میں مقیم ہیں.بڑے بیٹے اسماعیل نوری صاحب کو جرمنی میں مختلف جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی.دور درویشی میں یہ پیدا ہوئے.پہلے بیٹے تھے.یہ لکھا ہے کہ ان کی اہلیہ کئی سال پہلے وفات پاگئی تھیں.خود اکیلے رہتے تھے.اس لئے بیٹیوں نے ان کو جرمنی آنے کے لئے کہا.آپ نے کہا کہ آئندہ ایسی بات مجھ سے نہ کرنا.سالہا سال اکیلے ہی قادیان میں زندگی گزاری اور آخری دم تک عہد درویشی کو نبھانے کی سعادت پائی.مرحوم موصی تھے.قادیان بہشتی مقبرہ میں قطعہ درویشاں میں تدفین عمل میں آئی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولا دکو بھی ان کے نقش قدم پر چلائے.دوسرا جنازہ مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب حافظ آبادی مرحوم کا ہے جو درویش قادیان تھے.3 جنوری 2015ء کو 83 سال کی عمر میں وفات پاگئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.آپ کے والد مکرم شفیع احمد صاحب مرحوم مودھا (یوپی) کے صدر جماعت تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کہ 1947ء کے بعد تقسیم ملک کے حالات کی وجہ سے پاکستان میں شادیاں کروانا مشکل ہورہا
خطبات مسرور جلد 13 53 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 جنوری 2015ء ہے اس لئے درویشان ہندوستان میں شادیاں کروالیں.اس کی تعمیل میں مکرم بشیر احمد صاحب حافظ آبادی کو یوپی (UP) سے یہ رشتہ 1951ء میں ملا.مرحومہ مبارکہ بیگم صاحبہ صوم وصلوۃ کی بہت پابند تھیں ، نیک اور مخلص خاتون تھیں.جماعتی تحریک پر اپنا زیور چندہ میں ادا کر دیا.لمبے صبر آزما در ویشی دور میں اپنے خاوند کے ساتھ نہایت صبر اور شکر کے ساتھ گزارا کیا.ہر قسم کے حالات میں ان کا ساتھ دیا.اب تو اللہ کے فضل سے حالات بڑے بہتر ہیں.شروع زمانہ درویشوں کا بہت تنگی کا زمانہ تھا.خلافت سے گہری وابستگی تھی اور مرحومہ کے ایک بیٹے مکرم منیر احمد صاحب حافظ آبادی وکیل اعلی تحریک جدید قادیان ہیں اور صدر مینجمنٹ کمیٹی فضل عمر پریس کے ہیں.واقف زندگی ہیں.دوسرے بیٹے میڈیکل پریکٹس کرتے ہیں.تین بیٹیاں پاکستان میں ہیں.دو بیٹیاں ان کے پاس وفات کے وقت موجود تھیں.مرحومہ موصیہ تھیں.بہشتی مقبرے میں ان کی تدفین ہوئی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی اولاد میں نسل میں بھی احمدیت نہ صرف جاری رہے بلکہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہوں ، ایمان وایقان میں ترقی کرنے والے ہوں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 06 فروری 2015 ء تا 12 فروری 2015 ، جلد 22 شماره 06 صفحه 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 54 4 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015 ء بمطابق 23 صلح 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وہ واقعات پیش کروں گا جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں بیان فرمائے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور احترام اور آپ کا اس بارے میں معیار کیا تھا اور ردعمل کس طرح ہوتا تھا اس بارے میں حضرت مصلح موعود لیکھرام کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ لا ہور یا امرتسر کے سٹیشن پر تھے کہ پنڈت لیکھرام بھی وہاں آیا اور اس نے آپ کو آ کر سلام کیا.چونکہ پنڈت لیکھرام آریہ سماج میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اس لئے جولوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ بہت خوش ہوئے کہ لیکھرام آپ کو سلام کرنے آیا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی طرف ذرا بھی توجہ نہ کی.اور جب یہ سمجھ کر کہ شاید آپ نے دیکھا نہیں کہ پنڈت لیکھر ام صاحب سلام کر رہے ہیں آپ کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو آپ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ اسے شرم نہیں آتی کہ میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے آکر سلام کرتا ہے.گویا آپ نے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ لیکھرام آیا ہے.لیکن عام لوگوں کے نزدیک یہی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ کسی بڑے رئیس یا لیڈر سے ان کو ملنے کا اتفاق ہو جائے.چنانچہ جب کوئی ایسا شخص ان کے پاس آتا ہے وہ بڑی تو جہ سے اس سے ملتے ہیں لیکن اگر کوئی غریب آ جائے تو پر واہ بھی نہیں کرتے.“ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحه 161)
خطبات مسرور جلد 13 55 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپ نے اس طرح بھی فرمایا کہ آریوں میں لیکھرام کی جو عزت تھی اس کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنا اپنی عزت سمجھتے تھے.لیکن حضرت مرزا صاحب کی غیرت دیکھئے کہ پنڈت صاحب خود ملنے کے لئے آتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں کہ میرے آقا کو گالیاں دینا چھوڑ دے تب ملوں گا.“ (ماخوذ از تقریر سیالکوٹ.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 114) حضرت مسیح موعود کی محبت رسول صلی الیوم یہاں اس واقعہ میں جہاں غیرت رسول کا پتا چلتا ہے وہاں یہ بھی سبق ہے کہ صرف بڑے لوگوں کو اس وجہ سے سلام کر دینا کہ وہ بڑے ہیں اور ہماری عزت قائم ہوگی کافی نہیں بلکہ غریب کی عزت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور اصل چیز غیرت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے.اگر بڑا آدمی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط الفاظ میں کچھ کہتا ہے تو چاہے وہ کتنا بڑا ہو اس کو اہمیت دینے کی کوئی ضرورت نہیں.بہر حال اس کے مختلف زاویے ہیں.پھر اسی طرح ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کا سلوک اپنی اولاد سے ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ قطعاً خیال نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ کبھی ناراض بھی ہو سکتے ہیں.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ہم چھوٹے ہوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ حضرت صاحب کبھی غصے ہوتے ہی نہیں.اولا د سے محبت کا معیار اس قدر بلند تھا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ سے ہی بیان کیا کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک دفعہ کہا کہ میری پسلی میں درد ہے جہاں ٹکور کی گئی لیکن آرام نہ ہوا.آخر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ کی جیب میں اینٹ کا ایک روڑا پڑا تھا جس کی وجہ سے پہلی میں درد ہو گیا.پوچھا گیا کہ حضور! یہ کس طرح آپ کی جیب میں پڑ گیا.فرما یامحمود نے مجھے یہ اینٹ کا ٹکڑا دیا تھا کہ سنبھال کر رکھنا.میں نے جیب میں ڈال لیا کہ جب مانگے گا نکال دوں گا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کہتے ہیں میں نے کہا کہ مجھے دے دیں میں اپنے پاس رکھ لیتا ہوں.فرمایا نہیں، میں اپنے پاس ہی رکھوں گا.تو آپ کو اولاد سے ایسی محبت تھی.اور حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ہم سب سے بہت پیار اور محبت کرتے تھے اور خاص طور پر ہمارے سب سے چھوٹے بھائی مرزا مبارک احمد جو تھے ان سے بہت محبت تھی.اور ہم سمجھتے تھے کہ اس سے زیادہ آپ کسی سے محبت نہیں کر سکتے.لیکن یہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر غالب نہیں آئی.جب اس لاڈلے بچے نے ایک دفعہ بچپن کی
خطبات مسرور جلد 13 56 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء ناسمجھی کی وجہ سے منہ سے کوئی ایسی بات نکال دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف تھی تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے زور سے اسے جسم پہ مارا.(ماخوذ از تقریر سیالکوٹ.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 114-115) پھر ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لاہور میں آریوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں شامل ہونے کی دعوت حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو بھی دی گئی اور بانیان جلسہ نے اقرار کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی برا الفظ استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن جلسے میں سخت گالیاں دی گئیں.ہماری جماعت کے بھی کچھ لوگ وہاں گئے تھے جن میں مولوی نور الدین صاحب بھی تھے جن کی حضرت مرزا صاحب خاص عزت کیا کرتے تھے.جب آپ نے سنا کہ جلسے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئیں ہیں تو مولوی صاحب کو کہا کہ وہاں بیٹھا رہنا آپ کی غیرت نے کس طرح گوارا کیا؟ کیوں نہ آپ اٹھ کر چلے آئے؟ اس وقت آپ علیہ السلام ایسے جوش میں تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ مولوی صاحب سے بالکل ناراض ہو جائیں گے.مولوی صاحب نے کہا حضور ! غلطی ہوگئی.آپ نے فرمایا یہ کیا غلطی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جائیں اور آپ وہاں بیٹھے رہیں.(ماخوذ از تقریر سیالکوٹ.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 114-115) پھر آپ نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول کے ساتھ میں بھی گیا ہوا تھا اور مجھے بھی بڑی سختی سے ڈانٹا کہ تم وہاں بیٹھے کیوں رہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 298) پس آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ لوگ جو الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں.کیا یہ لوگ ان جذبات کا ، اس اظہار کا مقابلہ کر سکتے ہیں.کاش یہ الزام لگانے والے آپ کے عشق محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں.پھر جو عبداللہ آتھم سے ایک مباحثہ ہوا تھا اس کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے.کہتے ہیں’کتاب جنگ مقدس جس میں آتھم کا مباحثہ چھپا ہے یہ حضرت مسیح موعود کا مباحثہ اس وقت ہوا جبکہ آپ نے مسیح موعود ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور مولوی آپ کے کافر ہونے کا اعلان کر چکے تھے اور فتوے دے چکے تھے کہ آپ واجب القتل ہیں.وہ امن جو اس زمانے میں جب آپ 1923ء میں یہ بات فرما رہے تھے ) آب جماعت کو حاصل ہے اس وقت ایسا بھی نہ تھا بلکہ اب جیسے ان مقامات پر جہاں تھوڑے احمدی ہیں اور ان کا جو حال ہے ایسا ساری جماعت کا حال تھا اور ہر جگہ یہی حالت تھی.ایسے موقع
خطبات مسرور جلد 13 57 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء پر ( جنڈیالہ کے ایک غیر احمدی کا عیسائی سے مقابلہ ہوتا ہے ( کیونکہ وہ مقابلہ غیر احمد یوں کا تھا اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعوت دی تھی کہ آپ ہماری طرف سے یہ مباحثہ کریں، مقابلہ کریں.کہتے ہیں کہ ایک غیر احمدی کا عیسائی سے مقابلہ ہوتا ہے ) اس نے حضرت صاحب سے درخواست کی تھی کہ آپ مقابلہ کریں.اس پر آپ جھٹ کھڑے ہو گئے.آپ نے اس وقت یہ نہ کہا کہ عیسائی ہمارے ایسے دشمن نہیں ہیں جیسے غیر احمدی ہیں ( کیونکہ عیسائیوں نے تو قتل کا فتویٰ نہیں دیا ہوا تھا لیکن ان غیر احمدیوں نے ، مولویوں نے قتل کا فتوی دیا ہوا تھا.لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنے کے لئے ، اسلام کی عزت قائم کرنے کے لئے ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کے لئے مطالبہ ہوتا ہے، خواہ وہ غیر احمدیوں کی طرف سے ہی ہو تو پھر ) ” آپ مباحثے کے لئے چلے گئے اور قادیان سے باہر چلے گئے.“ الفضل 22 مارچ 1923 ء صفحہ 5 جلد 10 نمبر 73) یہ آپ کی غیرت ایمانی تھی جس کے لئے آپ نے کچھ بھی پرواہ نہ کی.آتھم کی پیشگوئی بہر حال یہ ایک لمبا مباحثہ تھا اور 15 دن کے لئے چلا.اس کے آخر میں آپ نے دعا کی اور ایک معیار مقرر کیا اور پیشگوئی فرمائی.اس پیشگوئی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اس نے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے.وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اور جو شخص سچ پر ہے اور کچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی.“ 66 جنگ مقدس روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 291-292) کچے خدا کو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ماننے والے تھے.عیسائیوں نے تو یسوع کو خدا بنایا ہوا تھا اور اس پر بحث کر رہے تھے.بہر حال یہ ایک لمبی بحث ہے جیسا کہ میں نے کہا اس کا انجام بھی دنیا نے دیکھا.اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دو واقعات بیان کئے
خطبات مسرور جلد 13 ہیں وہ پیش کرتا ہوں.58 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء ایک جگہ یہ ذکر کرتے ہوئے آپ نے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کا ذکر کیا ہے کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جوانذاری پیشگوئی فرمائی تھی (جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے.میں پڑھ چکا ہوں) جب اس کی میعاد گزرگئی اور آنظم نہ مرا.( پندرہ ماہ کی میعاد تھی.) تو ظاہر بین لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی.ایک دفعہ نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی بعض لوگوں نے ہنسی اڑانی شروع کر دی کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور آتھم ابھی تک زندہ ہے.اس وقت دربار میں خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی بیٹھے ہوئے تھے جن کے نواب صاحب مرید تھے.باتوں باتوں میں نواب صاحب کے منہ سے بھی یہ فقرہ نکل گیا کہ ہاں مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اس پر خواجہ غلام فرید صاحب جوش میں آگئے اور انہوں نے بڑے جلال سے فرمایا کہ کون کہتا ہے آتھم زندہ ہے.مجھے تو اس کی لاش نظر آ رہی ہے.اس پر نواب صاحب خاموش ہو گئے.یہ واقعہ بیان کر کے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ " بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر زندہ معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتا مردہ ہوتے ہیں اور بعض مردہ نظر آتے ہیں لیکن حقیقتا زندہ ہوتے ہیں.جو لوگ خدا کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ در حقیقت زندہ ہوتے ہیں.اور جو لوگ زندہ ہوتے ہیں ان میں سے ہزاروں روحانی نگاہ رکھنے والوں کو مردہ دکھائی دیتے ہیں.( جو زندہ لوگ ہیں وہ روحانی نگاہ رکھنے والوں کو مردہ دکھائی دیتے ہیں.کسی بزرگ کے متعلق یہ لکھا ہے کہ وہ قبرستان میں رہتے تھے.ایک دفعہ کسی نے ان سے کہا کہ آپ زندوں کو چھوڑ کر قبرستان میں کیوں آگئے ہیں؟ انہوں نے کہا مجھے تو شہر میں سب مردے ہی مردے نظر آتے ہیں اور یہاں مجھے زندہ لوگ دکھائی دیتے ہیں.پس روحانی مُردوں اور روحانی زندوں کو پہچان ہر ایک کا کام نہیں ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 292) اس کو پہچاننے کی حقیقی مومن کو کوشش کرنی چاہئے.لیکن روحانی نظر ہو تو پھر ہی زندوں کا اور 66 مُردوں کا فرق نظر آتا ہے اور یہ ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.عبداللہ آتھم کے بارے میں یہ بھی بتادوں کہ صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی موت بھی اس کو آ گئی تھی اور پیشگوئی کے مطابق ہوئی تھی.ہاں تھوڑا سا اس میں وقفہ پڑا تھا اور اس کی بھی وجوہات تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بیان فرمائی ہیں.پھر اسی آتھم کی پیشگوئی کے بارے میں ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمایا ہے
خطبات مسرور جلد 13 59 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء کہ مومن کا کام اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا ہوتا ہے.کام تو خدا تعالیٰ کرتا ہے لیکن ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم وہی کچھ کریں، ہم وہی کچھ سوچیں اور ہم وہی کچھ کہیں جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے.( ہم وہ کریں ، وہ سوچیں اور وہ کہیں جو خدا تعالیٰ کہتا ہے.) حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی اور پیشگوئی کی میعاد گزرگئی.میں اس وقت چھ سات سال کی عمر کا تھا.مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جس جگہ قادیان میں بک ڈپو ہوا کرتا تھا اور اس کے ساتھ والے کمرے میں موٹر کھڑی ہوتی تھی.اس کے مغرب والے کمرے میں خلیفتہ اسیح الاوّل پہلے درس دیا کرتے تھے یا مطب کیا کرتے تھے.آخری ایام میں مولوی قطب الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں مطب کرتے رہے ہیں.اس کے ساتھ پھر ایک کوٹھڑی تھی جگہ بھی بتارہے ہیں ) اس میں کتا میں رکھی ہوئی تھیں.اس وقت وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پریس ہوتا تھا اور اس کمرے میں جہاں حضرت خلیفتہ امسیح الاول مطب فرمایا کرتے تھے فرمہ بندی ہوتی تھی اور پھر وہاں سے کوٹھڑی میں کتا میں رکھ دی جاتی تھیں.بہر حال حضرت خلیفہ اسی الاول کے بعض شاگر د بھی وہاں رہا کرتے تھے.ان دنوں میں بہت کم لوگ ہوا کرتے تھے.اس لئے عام طور پر جولوگ وہاں آتے تھے حضرت خلیفہ اسیح الاول کے شاگرد بن جاتے تھے.یہی مدرسہ تھا اور حضرت خلیفہ اول ہی پڑھایا کرتے تھے.اس کے علاوہ اور کوئی مدرسہ نہیں تھا.وہ لوگ آپ کے شاگر د بھی ہوتے تھے اور سلسلے کے خادم بھی ہوتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ میں چھوٹا سا تھا کہ جب آتھم کی پیشگوئی کا وقت پورا ہوا.غالباً یہ چورانوے کے آخر یا پچانوے کے شروع کی بات ہے.میں اس وقت ساڑھے پانچ یا چھ سال کا تھا ابھی تک وہ نظارہ مجھے یاد ہے.اس وقت تو میں اسے نہیں سمجھتا تھا کیونکہ میری عمر بہت چھوٹی تھی لیکن اب واقعات سے میں سمجھتا ہوں کہ جس دن آتھم کی پیشگوئی پوری ہونے کا آخری دن تھا یعنی پندرہ مہینے ختم ہونے تھے اس دن اتنا قہر مچا ہوا تھا کہ لوگ رورو کر چینیں مار رہے تھے اور دعا کرتے تھے کہ خدایا آتھم مر جائے.یہ عصر کے بعد اور مغرب سے پہلے کی بات ہے.پھر نماز کا وقت ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد آپ مجلس میں بیٹھ گئے.گو اس عمر میں میں باقاعدہ مجلس میں حاضر نہیں ہوتا تھا لیکن کبھی کبھی مجلس میں بیٹھ جاتا تھا.اس دن میں بھی مجلس میں بیٹھ گیا.اس دن جولوگ رو رو کر دعائیں کر رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے اس فعل پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کیا خدا تعالیٰ سے بھی بڑھ کر کسی انسان کو اس کے کلام کے لئے غیرت ہو سکتی ہے.خدا تعالیٰ نے جب یہ بات کہی ہے کہ ایسا ہوگا تو پھر ہمیں ایمان رکھنا چاہئے کہ ایسا ضرور ہوگا اور اگر ہم نے خدا تعالیٰ کی بات کو غلط سمجھا
خطبات مسرور جلد 13 60 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء ہے تو خدا تعالیٰ اس بات کا پابند نہیں ہوسکتا کہ وہ ہماری غلطی کے مطابق فیصلہ کرے.(اگر ہم نے بات کو غلط سمجھ لیا تو خدا تعالیٰ اس بات کا پابند نہیں کہ فیصلہ اسی طرح کرے جس طرح ہم نے سمجھا ہے.ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ جب ہم نے ایک شخص کو راستباز مان لیا ہے تو اس کی باتوں پر یقین رکھیں.غرض مومن کا کام یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر توکل کرے.خدا تعالیٰ کی بات بہر حال پوری ہو کر رہتی ہے.“ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 30 صفحہ 109-110 ) اور جیسا کہ میں نے کہا یہ پیشگوئی پوری ہوئی تھی.بڑی شان سے پوری ہوئی.ہاں وقی طور پر ید اللہ آتھم کی تو بہ کی وجہ سے بیٹل گئی لیکن آخر وہ اس پکڑ میں آ گیا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے.ایک دو جگہ کا ذکر میں کر دیتا ہوں.آپ نے آتھم کی پیشگوئی کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ہماری جماعت کو یہ مسائل مستحضر ہونے چاہئیں.( ہمیشہ یادرکھنے چاہئیں) آتھم کے رجوع کے متعلق یادر ہے کہ پیشگوئی سنتے ہی اس نے اپنی زبان نکالی اور کانوں پر ہاتھ رکھا اور کانپا اور زرد ہو گیا.ایک جماعت کثیر کے سامنے (اور بڑی جماعت کے سامنے ) اس کا یہ رجوع دیکھا گیا.پھر اس پر خوف غالب ہوا اور وہ شہر بشہر بھاگتا پھرا.اس نے اپنی مخالفت کو چھوڑ دیا اور کبھی اسلام کے مخالف کوئی تحریر شائع نہ کی.جب انعامی اشتہار دے کر قسم کے لئے بلایا گیا تو وہ قسم کھانے کو نہ آیا.اخفائے شہادت حقہ کی پاداش میں اس پیشگوئی کے موافق جو اس کے حق میں کی گئی تھی وہ ہلاک ہو گیا.(آخر گواہی کو چھپانے کے نتیجہ میں گودیر سے ہلاک ہوا لیکن ہلاک ہو گیا.یہ باتیں اگر عیسائی منصف مزاج کے سامنے پیش کی جاویں تو اس کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا.غرض اس طرح پر مسائل کو یا درکھنا ایک فرض ہے اور کتابوں کا دیکھنا ایک ضروری (امر ) ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 442) اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھیں تو پھر ہی پتا لگتا ہے.پھر ایک جگہ آپ نے اس طرح فرمایا کہ یہ پیشگوئی مشروط تھی.وہ سراسیمہ رہا.شہر بشہر پھرتا رہا.اگر اس کو خداوند مسیح پر پورا یقین اور بھروسہ ہوتا پھر اس قدر گھبراہٹ کے کیا معنی؟ لیکن ساتھ ہی جب اس نے اخفاء حق کیا اور ایک دنیا کو گمراہ کرنا چاہا کیونکہ اخفاء حق بعض ناواقفوں کی راہ میں ٹھوکر کا پتھر ہوسکتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے صادق وعدہ کے موافق ہمارے آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر اس کو دنیا سے اٹھالیا اور جس موت سے وہ ڈرتا اور بھاگتا پھرتا تھا اس نے اس کو آلیا.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آٹھم
خطبات مسرور جلد 13 61 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء کے معاملہ میں لوگوں کو کیا مشکل پیش آ سکتی ہے.اس قدر قوی قرائن موجود ہیں اور پھر انکار !!!.قرائن قویہ سے تو عدالتیں مجرموں کو پھانسی دے دیتی ہیں.غرض یہ آتھم کا ایک بڑا نشان تھا اور براہین احمدیہ میں اس فتنہ کی طرف صاف اور واضح لفظوں میں الہام درج ہو چکا ہے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 109 ) پھر ایک جگہ ایک موقع پر اس کا ذکر کرتے ہوئے پیشگوئی کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ وہاں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.یہ تو نہیں لکھا کہ بشر طیکہ مسلمان ہو جاوے.اس سے پہلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( نعوذ باللہ ) دجال لکھ چکا تھا اور یہی وجہ مباحثہ کی تھی.پھر جب میں نے پیشگوئی سنائی تو اس نے اسی وقت کانوں پر ہاتھ دھرے اور کہا کہ تو بہ تو بہ.میں تو دجال نہیں کہتا.یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ صرف عیسائی ہونا یا بُت پرست ہونا اس امر کا موجب نہیں ہوتا کہ دنیا میں عذاب آوے.“ (عیسائی ہونا یا بت پرست ہونا اس امر کا موجب نہیں ہوتا کہ دنیا میں عذاب آوے.) ایسے عذابوں کے لئے تو قیامت کا دن مقرر ہے.عذاب ہمیشہ شوخیوں پر آتا ہے.اگر ابو جہل وغیرہ شرارتیں نہ کرتے تو عذاب نازل نہ ہوتا.نرا باطل مذہب پر پابند ہونے پر نہ کوئی عذاب آتا ہے نہ کوئی پیشگوئی ( کی جاتی ہے).ہمیشہ زیادہ شوخیوں پر پیشگوئیاں ہوتی ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ انسان کیسے ہی بت پرست یا انسان پرست کیوں نہ ہو مگر جب تک شرارت نہ کرے عذاب نہیں آتا.اگر ان باتوں پر بھی عذاب دنیا ہی میں آ جائے تو پھر قیامت کو کیا ہوگا..، پھر آپ نے فرمایا.”کافروں کے لئے اصل زندان ( قید خانہ) تو قیامت ہی ہے.“ (جہاں فیصلے ہونے ہیں وہ تو قیامت ہی ہے.) اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر دنیا میں کیوں عذاب آتا ہے (اس کا مختصر جواب آپ نے دیا.تو جواب یہی ہے کہ شوخیوں کی وجہ سے آتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 158 ) دنیا میں جو عذاب آتے ہیں وہ شوخیوں کی وجہ سے آتے ہیں.جب بحث ہو رہی تھی تو اس بحث کے دوران عیسائی مشنریوں نے ایک چال چل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے خیال میں نیچا دکھانے کی کوشش کی اور خیال کیا کہ ایک ایسا طریقہ آزمایا جائے جس سے آپ کی لوگوں کے سامنے سبکی ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا شمران پر الٹادیا اور وہ گھبراہٹ ان پر طاری ہوئی کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ان کی ایسی گھبراہٹ دیکھنے والی تھی.اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت خلیفہ امسیح الاول کے
خطبات مسرور جلد 13 62 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء حوالے سے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے (مصلح موعود کہتے ہیں کہ میں تو ابھی بچہ تھا اس وقت چھوٹا تھا.کہ آتھم کے مباحثے میں میں نے جو نظارہ دیکھا اس سے پہلے تو ہماری عقلیں دنگ ہوگئیں اور پھر ہمارے دماغ آسمانوں پر پہنچ گئے.فرماتے تھے کہ جب عیسائی تنگ آگئے اور انہوں نے دیکھا کہ ہمارا کوئی داؤ نہیں چلا تو چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر انہوں نے ہنسی کرنے کے لئے یہ شرارت کی کہ کچھ اندھے، کچھ بہرے اور کچھ لولے اور کچھ لنگڑے بلا لئے اور انہیں مباحثے سے پہلے ایک طرف بٹھا دیا.ب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تو جھٹ انہوں نے اندھوں، بہروں اور لولوں لنگڑوں کو آپ کے سامنے پیش کر دیا اور کہا کہ باتوں سے جھگڑے طے نہیں ہوتے.( بہت بحث ہو چکی اب تو.) آپ کہتے ہیں کہ میں مسیح ناصری کا مثیل ہوں اور مسیح ناصری اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے، بہروں کو کان بخشا کرتے تھے اور لولوں لنگڑوں کے ہاتھ پاؤں درست کیا کرتے تھے.ہم نے آپ کو تکلیف سے بچانے کے لئے اس وقت چند اندھے، بہرے اور لولے لنگڑے اکٹھے کر دیئے ہیں.اگر آپ فی الواقع مثیل مسیح ہیں تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجئے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ ہم لوگوں کے دل ان کی اس بات کو سن کر بیٹھ گئے.(بڑے پریشان ہوئے ) اور گو ہم سمجھتے تھے کہ یہ بات یوں ہی ہے مگر اس بات سے گھبرا گئے کہ آج ان لوگوں کو ہنسی مذاق اور ٹھٹھے کا موقع مل جائے گا.مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرے کو دیکھا تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی یا گھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے.جب وہ (عیسائی).بات ختم کر چکے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دیکھئے پادری صاحب! میں جس مسیح کے مثیل ہونے کا دعوی کرتا ہوں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ اس قسم کے اندھوں ، بہروں اور لولوں لنگڑوں کو اچھا نہیں کیا کرتا تھا مگر آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح جسمانی اندھوں، جسمانی بہروں،جسمانی لنگڑوں لولوں کو اچھا کیا کرتا تھا اور آپ کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے بائبل میں ہے کہ اگر تم میں ایک ذرہ بھر بھی ایمان ہو اور تم پہاڑوں سے کہو کہ وہ چل پڑیں تو وہ چل پڑیں گے اور جو معجزے میں دکھاتا ہوں ( یعنی عیسی مسیح ) وہ سب تم (اس کے ماننے والے) بھی دکھا سکو گے.پس یہ سوال مجھ سے نہیں ہوسکتا.میں تو وہ معجزے دکھا سکتا ہوں جو میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے.آپ ان معجزوں کا مطالبہ کریں تو میں دکھانے کے لئے تیار ہوں.باقی رہے اس قسم کے معجزات سو آپ کی کتاب نے بتا دیا ہے کہ ہر وہ عیسائی جس کے اندر ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے ویسے ہی معجزے دکھا سکتا ہے جیسے مسیح ناصری نے دکھائے.
خطبات مسرور جلد 13 63 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء سو آپ نے بڑی اچھی بات کی جو ہمیں تکلیف سے بچا لیا اور ان اندھوں، بہروں ، لولوں اور لنگڑوں کو اکٹھا کر دیا.اب یہ اندھے، بہرے اور لولے لنگڑے موجود ہیں.اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان موجود ہے تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجئے.آپ فرماتے تھے کہ اس جواب سے پادریوں کو ایسی حیرت ہوئی کہ بڑے پادری ان لولوں اور لنگڑوں کو کھینچ کھینچ کر الگ کرنے لگے.تو اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو ہر موقع پر عزت بخشتا ہے اور ان کو ایسے ایسے جواب سمجھاتا ہے جن کے بعد دشمن بالکل ہکا بکا رہ جاتا ہے.66 (ماخوذ از خطبات محمو دجلد 23 صفحہ 88-89) ایک صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے معتقد تھے اور بعد میں پھر مرتد ہو گئے.بگڑ گئے.ان کے بارے میں حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ لدھیانہ میں ایک شخص میر عباس علی (صاحب) تھے وہ حضرت صاحب سے بہت خلوص رکھتے تھے حتی کہ ان کی موجودہ حالت کے متعلق حضرت صاحب کو الہام بھی ہوا تھا.لدھیانہ میں جب حضرت مسیح موعود اور ( مولوی ) محمد حسین ( بٹالوی) کا مباحثہ ہوا تو میر عباس علی حضرت صاحب کا کوئی پیغام لے کر گئے.ان کے مولوی محمد حسین وغیرہ مولویوں نے بڑے احترام اور عزت سے ہاتھ چومے (اور ) کہا آپ آلِ رسول ہیں.آپ کی تو ہم بھی بیعت کر لیں لیکن یہ مغل کہاں سے آ گیا.اگر کوئی مامور آتا تو سادات میں سے آنا چاہئے تھا.پھر کچھ تصوّف وصوفیاء کا ذکر شروع کر دیا.میر صاحب کو ( چونکہ ) صوفیاء سے بہت اعتقاد تھا.مولویوں نے (مختلف قسم کے واقعات بیان کئے ) کچھ اِدھر اُدھر کے قصے بیان کر کے کہا کہ صوفیاء تو اس قسم کے عجوبے دکھایا کرتے تھے.اگر مرز اصاحب میں بھی کچھ ہے تو کوئی عجوبہ دکھلا ئیں.ہم آج ہی ان کو مان لیں گے.مثلاً وہ کوئی سانپ پکڑ کر دکھا ئیں یا اور کوئی اسی قسم کی بات کریں.میر عباس علی کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور جب حضرت صاحب کے پاس آئے تو کہا کہ حضور اگر کوئی کرامت دکھا ئیں تو سب مولوی مان لیں گے.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جب کرامت کا لفظ ان ( میر صاحب) کی زبان سے نکلا تو اسی وقت مجھے یقین ہو گیا کہ بس میر صاحب کو مولویوں نے پھندے میں پھنسا لیا ہے.اس پر حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود ) نے ان کو بہت سمجھا یا مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا.“ الفضل 5 نومبر 1918ء صفحہ 9 جلد 6 نمبر 34) اور پھر نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا ایمان ضائع ہوا اور وہ اعتقاد و اخلاص جو تھا وہ سب جاتا رہا.پھر میر عباس علی صاحب کے اسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ
خطبات مسرور جلد 13 66 64 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو میر عباس علی لدھیانوی کے متعلق ایک وقت علم دیا گیا کہ وہ نیک ہے (جیسا کہ بتایا تھا کہ الہام بھی ہوا ) تو آپ اس کی تعریف فرمانے لگے مگر چونکہ اس وقت آپ کو اس کے انجام کا علم نہیں تھا اس لئے آپ کو پتا نہ لگا کہ ایک دن وہ مرتد ہو جائے گا.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا علم دے دیا.غرض انسانی علم بہت محدود ہے.صرف خدا تعالیٰ ہی کامل علم رکھتا ہے جو سب پر حاوی ہے اور کوئی شخص اس کے علوم کا احاطہ نہیں کر سکتا.“ ( تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 583) اللہ تعالیٰ نبیوں کو بھی جتنا بتا تا ہے وہ آگے بھی اتنا ہی آگے بتاتے ہیں.انہی میر صاحب کا مزید ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے متعلق الہام ہوا تھا ” جو آپ سے نہایت گہری ارادت ظاہر کرتا تھا ایک دفعہ ایک الہام ہوا جس میں اس کی روحانی طاقتوں کی بہت بڑی تعریف کی گئی تھی مگر بعد میں وہ مرتد ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس کے متعلق تو الہام الہی میں تعریف آچکی تھی پھر یہ کیوں مرتد ہو گیا.تو آپ نے فرمایا ( کہ ) بیشک الہام میں اس کی تعریف موجود تھی اور اللہ تعالیٰ کا کلام بتا رہا تھا کہ وہ اعلیٰ روحانی طاقتیں رکھتا تھا لیکن جب اس نے ان طاقتوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس میں کبر اور غرور پیدا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہو گیا اور وہ مرتد ہو گیا.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) تو سورۃ فاتحہ کی دعا بھی ہمیں بتاتی ہے کہ نفاق اور کفر یہ دو چیزیں انسان کے ساتھ ہر وقت لگی ہوئی ہیں اور یہ دونوں مرضیں منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے بعد (خطبات محمود جلد 18 صفحہ 385 ) انسان پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں.“ ہمیشہ اس دعا کو یا درکھنا چاہئے اس گروہ میں جن پر اللہ تعالیٰ انعام کرتا ہے، شامل ہونے کے بعد حملہ آور ہوتی ہیں.اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں جو یہودیوں اور عیسائیوں کا ذکر ہے تو وہ حالت ان پر ان کے انعام کے بعد طاری ہوئی ہے.اگر منعم علیہ اپنے اصل مقام کو نہ پہچانیں تو پھر تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں مغضوب علیہم میں شامل کر دیتا ہے اور یا پھر ضالین میں شامل کر دیتا ہے.پس اس نکتہ کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ سورۃ فاتحہ کے آخر میں برائیوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے اور پھر ہمیشہ اس دعا کو یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں انعام یافتہ لوگوں میں ہی شامل رکھے اور اس کے جو بداثرات ہیں وہ کبھی پیدا نہ ہوں.پھر ظاہری علم پر بزرگی کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی اس کے بارے میں ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ اگر ظاہری علم پر ہی فضیلت اور بزرگی کی بنیاد رکھی جائے تو نعوذ باللہ دنیا کے سارے انبیاء کو جھوٹا کہنا پڑے گا
خطبات مسرور جلد 13 65 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے والے علماء ہی ہوتے ہیں.(نبیوں کا مقابلہ کرنے والے ظاہری علماء ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی انہی لوگوں نے مقابلہ کیا جو اپنے آپ کو ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت بڑا عالم سمجھا کرتے تھے یہاں تک کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نہایت حقارت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو منشی غلام احمد “ لکھا کرتے تھے گویا آپ نعوذباللہ صرف منشی ہیں کہ دو چار سطریں لکھ لیتے ہیں، عالم نہیں ہیں اور وہ اس بات پر بہت خوش ہوتے کہ میں نے انہیں ” منشی“ لکھا ہے.(پھر آپ نے بیان فرمایا کہ ) میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کہ معلوم ہوئی تھی اور آج بھی بری محسوس ہوتی ہے.مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے کسی مجلس میں بیان کیا کہ مولوی محمد حسین (صاحب) بٹالوی نے میری نسبت تو یہ لکھا ہے کہ یہ مولوی ہے مگر حضرت مسیح موعود کے متعلق انہوں نے یہ لکھا کہ وہ منشی ہیں.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میں چھوٹا تھا مگر مجھے اس وقت بھی ان کی یہ بات بری لگی تھی کہ مجلس میں کیوں بیان کی ہے اور اب بھی بری لگتی ہے.“ (خطبات محمود جلد 18 صفحہ 389) بہر حال ایک تو الفاظ کا چناؤ کبھی اچھا کرنا چاہئے یا بعض واقعات کو اس طرح بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.حضرت مسیح موعود کی راستبازی سچائی کے بارے میں واقعہ ہم سنتے ہیں.حضرت مصلح موعود کی زبانی بھی سن لیتے ہیں.کہتے ہیں کہ حضرت صاحب کا ہی واقعہ ہے.آپ نے ایک پیکٹ میں خط ڈال دیا.اس کا ڈالنا ڈاکخانے کے قواعد کی رو سے منع تھا مگر آپ کو اس کا علم نہ تھا.ڈاکخانہ والوں نے آپ پر نالش کر دی اور اس کی پیروی کے لئے ایک خاص افسر مقرر کیا کہ آپ کو سزا ہو جائے اور اس پر بڑاز ور دیا اور کہا کہ ضرور سزاملنی چاہئے تا کہ دوسرے لوگ ہوشیار ہو جائیں.حضرت صاحب کے وکیل نے آپ کو کہا کہ بات بالکل آسان ہے.آپ کا پیکٹ گواہوں کے سامنے تو کھولا نہیں گیا.آپ کہ دیں کہ میں نے خط الگ بھیجا تھا.شرارت اور دشمنی سے کہا جاتا ہے کہ پیکٹ میں ڈالا تھا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جھوٹ ہوگا.وکیل نے کہا کہ اس کے سوا تو آپ بچ نہیں سکتے.آپ نے فرمایا کہ خواہ کچھ ہو میں جھوٹ تو نہیں بول سکتا.چنانچہ عدالت میں جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے پیکٹ میں خط ڈالا تھا تو آپ نے فرمایا ہاں میں نے ڈالا تھا مگر مجھے ڈاکخانہ کے اس قاعدہ کا علم نہ تھا.اس پر استغاثہ کی طرف سے لمبی چوڑی تقریر کی گئی اور کہا گیا کہ سزا ضرور دینی چاہئے تا دوسرے لوگوں کو عبرت ہو.حضرت صاحب فرماتے ہیں تقریر چونکہ انگریزی میں
خطبات مسرور جلد 13 66 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء تھی اس لئے میں اور تو کچھ نہ سمجھتا لیکن جب حاکم تقریر کے متعلق NO-NO ( نو نو ) کہتا تو اس لفظ کو سمجھتا.آخر تقریر ختم ہوئی تو حاکم نے کہہ دیا بری“.اور کہا کہ جب اس نے اس طرح سچ سچ کہ دیا تو میں بری ہی کرتا ہوں.“ (اصلاح نفس.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 434-435) تو یہ واقعہ ہم میں سے بہت سوں نے بہت دفعہ سنا ہے، پڑھا ہے.میں بھی کئی جگہ بیان کر چکا ہوں لیکن ہم صرف سن کر لطف اٹھا لیتے ہیں.یہ سچائی کے معیار کا ایک چھوٹاسانمونہ ہے جو آپ نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.لیکن جو لوگ اپنے مفاد کے لئے سچائی کے معیار سے نیچے گرتے ہیں انہیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.ان ملکوں میں حکومت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ، اسائلم کے لئے، انشورنس کمپنیوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے غلط طریقے استعمال کئے جاتے ہیں.ایسے احمدیوں کو جو اس قسم کی حرکت کرتے ہیں سوچنا چاہئے کہ غلط طریق سے جو یہ دنیاوی فائدے اٹھانا ہے، یہ ایک احمدی کو زیب نہیں دیتا.ٹونے ٹوٹکے کرنا جائز ہے کہ نہیں.بعض دفعہ لوگ یہ بھی بہت زیادہ کرتے ہیں.آپ نے لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابوھریرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں تفقہ کا مادہ دوسرے صحابہ سے کم تھا.مولویوں نے اس پر شور مچایا.مگر جو صحیح بات ہو وہ صحیح ہی ہوتی ہے.آجکل جس قدر عیسائیوں کے مفید مطلب احادیث ملتی ہیں ( یعنی جو عیسائیوں کو سپورٹ کر رہی ہیں ) وہ سب حضرت ابوھریرۃ" سے ہی مروی ہیں.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سیاق و سباق کو نہ دیکھتے اور گفتگو کے بعض ٹکڑے بغیر پوری طرح سمجھے آگے بیان کر دیتے مگر باقی صحابہ سیاق و سباق کو سمجھ کر روایت کرتے.اسی طرح اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق روایتیں چھپنی شروع ہوئی ہیں جن میں سے کئی ایسے لوگوں کی طرف سے بیان کی جاتی ہیں جنہیں تفقہ حاصل نہیں ہوتا اور اس وجہ سے ایسی روایتیں چھپ جاتی ہیں جن پر لوگ ہمارے سامنے اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ یہ روایت چھپ گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے جب آتھم کی میعاد میں سے صرف ایک دن باقی رہ گیا تو بعض لوگوں سے کہا کہ وہ اتنے چنوں پر اتنی بار فلاں سورۃ کا وظیفہ پڑھ کر آپ کے پاس لائیں.جب وہ وظیفہ پڑھ کر چنے آپ کے پاس (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس) لائے تو آپ انہیں قادیان سے باہر لے گئے اور ایک غیر آباد کنوئیں میں پھینک کر جلدی سے منہ پھیر کر واپس لوٹ آئے.“ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میرے سامنے جب اس کے متعلق اعتراض پیش ہوا تو میں نے روایت درج
خطبات مسرور جلد 13 67 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء کرنے والوں سے پوچھا کہ یہ روایت آپ نے کیوں درج کر دی.یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صریح عمل کے خلاف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بھی نعوذ باللہ ٹو نے (ٹوٹکے) وغیرہ کیا کرتے تھے.اس پر جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے ایسا خواب دیکھا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب اس خواب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اسے ظاہری شکل میں ہی پورا کر دو.اب خواب کو پورا کرنے کے لئے ایک کام کرنا بالکل اور بات ہے اور ارادہ ایسا فعل کرنا اور بات ہے.اور ظاہر میں خواب کو بعض دفعہ اس لئے پورا کر دیا جاتا ہے کہ تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کا مضر پہلو اپنے حقیقی معنوں میں ظاہر نہ ہو.چنانچہ معتبرین (جو خوابوں کی تعبیر کرتے ہیں) نے لکھا ہے کہ اگر منذر خواب کو ظاہری طور پورا کر دیا جائے تو وہ وقوع میں نہیں آتی.اور خدا تعالیٰ اس کے ظاہر میں پورا ہو جانے کو ہی کافی سمجھ لیتا ہے.اس کی مثال بھی ہمیں احادیث سے نظر آتی ہے.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں کسری کے سونے کے کنگن ہیں.اس رویا میں اگر ایک طرف اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ ایران فتح ہوگا.( عموماً ہم یہی مراد لیتے ہیں کہ ایران فتح ہوگا ) تو دوسری طرف یہ بھی اشارہ تھا کہ ایران کی فتح کے بعد ایرانیوں کی طرف سے بعض مصائب و مشکلات کا آنا بھی مقدر ہے کیونکہ خواب میں اگر سونا دیکھا جائے تو اس کے معنی غم اور مصیبت کے ہوتے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رویا کے اس مفہوم کو سمجھا اور سراقہ کو بلا کر کہا کہ پہن کڑے ورنہ میں تجھے کوڑے ماروں گا.(سونے کے کڑے پہننا مردوں کو منع ہے.یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے بھی کیا کہ اگر کوئی مضر پہلو اس میں ہے تو وہ بھی مل جائے.اس لئے حضرت عمرؓ نے کڑے پہنائے.چنانچہ اسے سونے کے کڑے پہنائے گئے اور اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس رؤیا کے غم اور فکر کے پہلوکوڈ ورکرنا چاہا.“ ( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 41-42) تو بعض باتیں جو سیاق و سباق کے بغیر کی جائیں مسائل پیدا کرتی ہیں.ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خطبہ بیان فرمایا.یہ 1931ء کی بات ہے.اور اس میں آپ نے جماعت کے افراد کو یہ تلقین کی کہ جھگڑوں اور فسادوں سے بچو کہ جماعت اب بلوغت کو پہنچ چکی ہے اور ہمیں اپنے آپ کو ، اپنے ایمان کو ، اپنے دینی علم کو اس کے مطابق صحیح کرنا چاہئے.اپنے عمل کو اس کے مطابق کرنا چاہئے جو علم ہے.دین ہمیں جس کی تلقین کرتا ہے.اور یہ بیان کرنے کے بعد خطبے میں ایک تخت
خطبات مسرور جلد 13 68 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 جنوری 2015ء کے متعلق بتایا کہ اس کا اس وجہ سے اب اخراج بھی ہوا ہے.خطبے کے بعد جب خطبہ ثانیہ شروع ہوا تو اس خطبے کے دوران ہی ایک صاحب کھڑے ہو کر حضرت خلیفہ ثانی سے پوچھنے لگے کہ حضور ! جس شخص کا اخراج کا اعلان ہوا ہے اس کا نام کیا ہے؟ اس پر ایک دوسرے صاحب بولے.خطبے میں بولنا نہیں چاہئے.حضرت مصلح موعود مسکرائے اور پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ مجلس میں اپنی تلاشی کا واقعہ سنارہے تھے.یہ تلاشی پنڈت لیکھرام کے واقعہ کے قتل کے سلسلے میں سپر نٹنڈنٹ پولیس گورداسپور نے لی تھی.آپ نے فرمایا سپرنٹنڈنٹ پولیس ایک چھوٹے دروازے میں سے گزرنے لگا تو اس کے سر کو سخت چوٹ آئی.دروازے کی چوگاٹ سے ٹکرا گیا اور سر چکرا گیا.ہم نے اسے دودھ پینے کو کہا لیکن اس نے انکار کیا کہ اس وقت میں تلاشی کے لئے آیا ہوں اور یہ میرے فرض منصبی کے مخالف ہو گا.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے یہی جواب دیا.حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ اس پر یہی صاحب جواب بولے ہیں جھٹ بولے ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہوں نے سوال کیا کہ حضور! اس کے سر میں سے خون بھی نکلا تھایا نہیں؟ حضرت صاحب ہنسے اورفرمایا میں نے اس کی ٹوپی اتار کر نہیں دیکھی تھی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 13 صفحه 110 ) تو بعض لوگوں کو اسی طرح بلا وجہ بولنے کی عادت ہوتی ہے.بہر حال خطبے میں بولنا منع ہے لیکن دوسرے صاحب نے بول کر جو نصیحت کی تھی کہ خطبے میں بولنا منع ہے ان کا بھی عمل غلط تھا.اشارہ کیا جاتا ہے یا بعد میں کہا جاتا ہے.اس پر حضرت مصلح موعود نے ایک اور لطیفہ سنایا کہ ایک شخص مسجد میں آیا.نماز با جماعت ہو رہی تھی.اُس نے اونچا سلام کیا تو نمازیوں میں سے ایک نے وعلیکم السلام اسی طرح اونچا کہہ دیا.تو اس کے ساتھ جو دوسرا نمازی کھڑا تھا اس کو کہنے لگا تمہیں پتا نہیں نماز میں بولا نہیں کرتے.تم نے جواب کیوں دیا؟ بہر حال یاد رکھنا چاہئے کہ خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے اس لئے خطبے میں بھی بولنا منع ہے.سوائے اس کے کہ اگر کہیں بولنا ہو، کسی کو روکنا ہو تو امام جو خطبہ دے رہا ہے وہ بول سکتا ہے.نماز میں تو امام بھی نہیں بول سکتا.گھروں میں بھی خاص طور پر بچوں کی ابھی سے اس بات کی تربیت کرنی چاہئے کہ جس طرح نماز میں بولنا منع ہے اسی طرح خطبے میں بھی بولنا منع ہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 13 فروری 2015 ء تا 19 فروری 2015ء جلد 22 شماره 07 صفحه 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 69 10 5 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء بمطابق 30 صلح 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: 287) یعنی اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالتا.پس اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ وہ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو انسانی طاقت سے باہر ہو، اس کی استعدادوں سے باہر ہو، اس کی قابلیت سے باہر ہو.پس جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے احکام آتے ہیں جن پر عمل انسانی طاقت سے باہر نہیں تو پھر ان پر عمل کی ذمہ داری انسان پر عائد ہوتی ہے.ایک حقیقی مومن یہ عذر نہیں کر سکتا کہ فلاں حکم میری طاقت سے باہر ہے.اگر خدا تعالیٰ پر ایمان ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی اس بات پر بھی ایمان لازمی ہے کہ اس کے تمام احکام ہماری استعدادوں کے مطابق ہیں اور ہمیں ان پر اپنی تمام تر استعدادوں کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ حکم ہے تم اس پر عمل کر کے اس کے اعلیٰ ترین معیاروں کو ضرور حاصل کرنا ورنہ اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے تم سزا کے مستحق ٹھہرو گے.بلکہ یہ فرمایا کہ ہر حکم پرعمل تمہاری استعدادوں کے مطابق ضروری ہے.اور جب ہم انسانی فطرت کا، انسان کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر انسان کی حالت مختلف ہے.اس کی دماغی حالت، اس کی جسمانی ساخت، اس کا علم ، ذہانت وغیرہ مختلف ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی کمزوریوں، اس کی حالت اور اس کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے احکامات میں ایسی لچک رکھ دی ہے جس کے کم سے کم معیار بھی ہیں اور زیادہ سے زیادہ معیار
خطبات مسرور جلد 13 70 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء بھی مقرر ہیں.اسلامی تعلیم فطرت انسانی کے مطابق ہے جب ایسی لچک ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم میرے احکامات پر دیانتداری سے عمل کرو.پس یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے جو انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے دی گئی ہے.کسی کو اس اعتراض کی گنجائش نہیں رہنے دی کہ اے اللہ! تو نے میری فطرت تو ایسی بنائی ہے، میری حالت تو ایسی بنائی ہے اور احکامات اس سے مطابقت نہ رکھنے والے دیئے ہیں.حکم تو تو مجھے یہ دے رہا ہے کہ اعلیٰ ترین معیار تیرے احکامات پر عمل کر کے قائم کروں اور میری جسمانی حالت یہ ہے کہ میں اس پر عمل اس معیار کے مطابق کر ہی نہیں سکتا یا میری ذہنی حالت نہیں یا میری اور کمزوریاں ہیں جو ان معیاروں کو حاصل کرنے میں روک ہیں، میں کس طرح اس پر عمل کر سکتا ہوں.لیکن اللہ تعالیٰ نے لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کہہ کر تمام عذر ختم کر دیئے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیشک اپنے احکامات، اپنی تعلیم پر عمل کا مکلف ٹھہرایا ہے.اس کو کہا ہے کہ تم ضرور کرومگر اس کا چھوٹے سے چھوٹا معیار رکھ کر اس پر عمل نہ کر کے مؤاخذہ سے بچنے والوں کا عذر نہیں رہنے دیا.فرما دیا کہ یہ معیار تمہاری حالت کے مطابق ہیں ان پر تو بہر حال چلنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : کوئی آدمی بھی خلاف عقل باتوں کے ماننے پر مجبور نہیں ہوسکتا.قومی کی برداشت اور حوصلہ سے بڑھ کر کسی قسم کی شرعی تکلیف نہیں اٹھوائی گئی.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.اس آیت سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام ایسے نہیں جن کی بجا آوری کوئی کر ہی نہ سکے.اور نہ شرائع واحکام خدائے تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے نازل کئے کہ اپنی بڑی فصاحت و بلاغت اور ایجادی قانونی طاقت اور چیستان طرازی کا فخر انسان پر ظاہر کرے.( پہیلیاں بوجھوانی شروع کر دے.مشکل باتیں بیان کر کے انسان پر یہ فخر ظاہر کرے.فرمایا: فخر انسان پر ظاہر کرے اور یوں پہلے ہی سے اپنی جگہ ٹھان رکھا تھا کہ کہاں بیہودہ ضعیف انسان اور کہاں کا ان حکموں پر عمل درآمد؟ خدا تعالیٰ اس سے برتر اور پاک ہے کہ ایسا لغو فعل کرے.“ پس اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جو اعضاء دیے ہوئے ہیں، جو طاقتیں دی ہوئی ہیں اس کے قومی کی برداشت اور طاقت کے مطابق اپنے احکامات پر عمل کرنے کی انسان سے توقع کی ہے.اللہ تعالیٰ کوئی ہماری طرح نہیں ہے کہ اپنا رعب قائم کرنے کے لئے حکم دے دیئے.ان افسروں کی طرح جو اپنے ( ملفوظات جلد 1 صفحه 61-62
خطبات مسرور جلد 13 71 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء ماتحتوں کو تنگ کرنے کے لئے بعض حکم دیتے ہیں اور نہ عمل کرنے کی وجہ سے ان کو ذلیل ورسوا کرتے رہتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رحمت تو اپنے بندوں پر بیشمار ہے.انسان عمل کرے جن باتوں کے عمل کرنے کا حکم دیا ہے تو کئی گنا اجر دیتا ہے اور ہر ایک کی صلاحیت کے مطابق اس سے عمل کی توقع رکھتا ہے اور بیشمار اجر دیتا ہے.پس کیا ایسا خدا جو اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہو اس کی باتوں پر عمل کرنے کی انسان کو اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش نہیں کرنی چاہئے؟ یقینا ایک حقیقی مومن اس کے لئے کوشش کرے گا اور کرنی چاہئے.پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لا يُكلّف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” شریعت کا مدار نرمی پر ہے.سختی پر نہیں“.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 404) یعنی ہر ایک سے اس کی استعدادوں کے مطابق معاملہ کیا جائے گا.شریعت نرمی اور آسانی دیتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے استعدادوں کے مطابق عمل کا کہہ کر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کی حد مقرر کر دی.یہ حد بندی کر دی.ہر ایک کی اپنی ذہنی اور علمی حالت کے مطابق انسانی عقلوں کی بھی حد بندی کر دی.کاموں کی بھی حد بندی کر دی سوائے اس کے کہ انسان ذہنی بیمار ہو یا پاگل ہو.چھوٹی سے چھوٹی عقل رکھنے والے کے لئے بھی اس کے مطابق عمل کا کہا ہے جو اس کی صلاحیتیں ہیں، جو اس کی استعدادیں ہیں.اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ہر انسان ایمان حاصل کرے.اس لئے اس نے چھوٹی سے چھوٹی عقل کا بھی معیار قائم کیا کہ جو جس کی صلاحیت ہے اس کے مطابق اس کو ایمان تو بہرحال حاصل کرنا چاہئے.اگر وہ چھوٹی سے چھوٹی عقل کا بھی معیار مقرر نہ کرتا پھر سب لوگ ایمان لانے کے مکلف نہ ہوتے.ان پر لازمی نہ ہوتا کہ ضرور ایمان لائیں.صرف وہی اس کے مکلف ہوتے جو عقل کے اونچے معیار کے ہیں جن کی صلاحیتیں اور استعداد میں بہت زیادہ ہیں.اگر کسی شخص کو کوئی بات سمجھ نہ آئے تو پھر اس پر عمل نہ کرنے کا الزام عائد نہیں ہوتا.اس لئے خدا تعالیٰ نے ادنی عقل سے لے کر اعلیٰ عقل تک مختلف درجوں کے لحاظ سے معیار رکھے ہیں.کوئی بڑا عقلمند ہے.کوئی کم عقلمند ہے.کسی میں زیادہ صلاحیتیں استعدادیں ہیں.کسی میں کم ہیں.دنیا داری کے معاملات میں بھی ہم دیکھتے ہیں.اسی دماغی رجحان اور حالت کے مطابق کوئی اعلیٰ کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ صلاحیت رکھتے ہوئے بہت آگے نکل جاتا ہے.کوئی درمیان میں رہتا ہے.کوئی بہت پیچھے رہ جاتا ہے.پھر پیشوں کے لحاظ سے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی کسی پیشے میں آگے نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہے کوئی کسی پیشے میں تعلیم کے لحاظ سے کسی کا رجحان کسی مضمون کی طرف ہوتا ہے، کسی کا کسی طرف.تو یہ ایک فطری چیز ہے کہ رجحان مختلف کاموں کے کرنے اور
خطبات مسرور جلد 13 72 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء ان میں کامیابی حاصل کرنے کی طرف لے جاتے ہیں.بہر حال کوئی انسان برابر نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ نے برابر پیدا ہی نہیں کیا، نہ حالات اس کو برابر رکھ سکتے ہیں.انسانوں کی صلاحیتوں میں فرق ہوتا ہے.برابر مواقع بھی دیئے جائیں تو تب بھی کوئی آگے نکل جاتا ہے کوئی پیچھے رہ جاتا ہے.عقل کے علاوہ بھی بعض عوامل کارفرما ہوتے ہیں.یہی حالت ایمان کی بھی ہے.جس طرح ظاہری طور پر ہوتا ہے اس طرح ایمان میں بھی یہی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کی بھی یہی حالت ہے.اپنی اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق کوئی آگے نکل جاتا ہے، کوئی پیچھے رہ جاتا ہے.ہم یہ امید تو سب سے کر سکتے ہیں کہ سب ایمان لے آئیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا ہے نہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ سب کا ایمان اور عمل کا معیار ایک جیسا ہو جائے.اللہ تعالیٰ یہ تو فرماتا ہے کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے.قرآن کریم میں بھی ذکر ہے.کیوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں.لیکن یہ مطالبہ قرآن کریم میں نہیں ہے کہ ہر ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مومن کیوں نہیں بنتے.ایک روایت میں آتا ہے ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام کے متعلق پوچھا.آپ نے فرما یا دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا فرض ہے.اس نے پوچھا اس کے علاوہ بھی کوئی نماز فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں.اگر نفل پڑھنا چاہو تو پڑھ سکتے ہو.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ماہ کے روزے رکھنا فرض ہے.اس نے پوچھا اس کے علاوہ بھی کوئی روزے فرض ہیں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں.ہاں نفلی روزے رکھنا چاہو تو رکھ سکتے ہو.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوۃ کا بھی ذکر فرمایا.اس پر اس نے پوچھا.اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی زکوۃ ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں.ہاں ثواب کی خاطر تم نفلی صدقہ دینا چاہو تو دے سکتے ہو.یہ باتیں سن کر وہ شخص یہ کہتے ہوئے واپس چلا گیا کہ خدا کی قسم ! نہ اس سے زیادہ کروں گا نہ کم.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ سچ کہتا ہے تو اس کو کامیاب سمجھو.(صحیح البخاری کتاب الايمان باب الزكاة من الاسلام حدیث نمبر 46) آپ نے اس کو فلاح پانے والا کہا اور یہ کہہ کر جنت کی بشارت دی.پس اس بات سے پتا چلتا ہے کہ اسلام نے ہر ایک سے حضرت عمررؓ اور حضرت ابو بکر جیسے ایمان کا مطالبہ نہیں کیا.ہر ایک کے مختلف درجے ہیں.ہر ایک کی طاقتیں ہیں.ہر ایک کے ایمان کے معیار ہیں.حضرت ابوبکر زکوۃ کے علاوہ بھی گھر کا اپنا سارا مال اٹھا کے لے آتے ہیں.حضرت عمر سمجھتے ہیں آج میں آگے نکل جاؤں گا اور آدھا مال گھر کا لے آتے ہیں.لیکن جب دیکھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام
73 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء خطبات مسرور جلد 13 لے کر آئے ہوئے تھے.(سنن الترمذی ابواب المناقب باب نمبر 43 حدیث نمبر (3675 تو یہاں بھی ہر ایک کے معیار ہیں.ہاں یہ بیشک ہے کہ ایسے اعلیٰ معیار کا مطالبہ ہر ایک سے نہیں ہو سکتا.لیکن تحریص ودلائی گئی ہے.بتایا گیا ہے کہ نوافل کا ثواب ہے.بلکہ یہ بھی کہا کہ نوافل فرائض کی کمی کو بھی پورا کرتے ہیں.ایمان ویقین میں اضافہ کرتے ہیں.لیکن یہ حکم نہیں دیا گیا کہ ضرور ہر ایک کے لئے فرض ہے چاہے اس کی حالت ہے کہ نہیں کہ نفل ادا کرے.یعنی جو بھی فرائض میں داخل ہے صرف نفل نمازوں کے ( معاملہ میں ) نہیں بلکہ مالی قربانی کے لئے بھی ، وقت کے لئے بھی.کیونکہ اعلیٰ درجوں پر عمل جو ہے اسلام میں قابلیتوں کی بنا پر ہے.اس لئے ہر ایک کے لئے فرض نہیں ہے اور چونکہ قابلیتیں مختلف ہوتی ہیں اس لئے کم سے کم قابلیت اور عقل جو سب میں ہوتی ہے اس کے مطابق مطالبہ کیا گیا ہے.ایمان کے اعلیٰ مدارج کا ہر ایک سے مطالبہ نہیں کیا گیا.جو ( مدارج) کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ ایمان رکھنے والے کے اپنے اعلیٰ معیار کے مطابق ہوں، کم سے کم ایمان رکھنے والے کا جو اعلیٰ ترین معیار ہے اس کو وہاں تک پہنچنے کے لئے نہیں کہا گیا.پس یہ فرق ہے جو صلاحیتوں اور قابلیتوں کے مطابق رکھا گیا ہے اور کسی کو تکلیف میں نہیں ڈالا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ: ” خدا تعالیٰ انسانی نفوس کو ان کی وسعت علمی سے زیادہ کسی بات کو قبول کرنے کے لئے تکلیف نہیں دیتا اور وہی عقیدے پیش کرتا ہے جن کا سمجھنا انسان کی حد استعداد میں داخل ہے تا اس کے حکم تکلیف مالا يطاق میں داخل نہ ہوں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 432) پس ہر ایک کے عمل اور سمجھ کی جو استعداد کی حد ہے وہی اس کی نیکی کا معیار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ طاقت سے بڑھ کر کسی کو تکلیف میں نہیں ڈالتا.یہاں یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر ہمارے دل کی پا تال تک ہے، گہرائی تک ہے.کسی بھی قسم کا بہانہ اپنی کم علمی یاکم عقلی یا استعدادوں کی کمی کا اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں چل سکتا.اس لئے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے پھر اپنی استعدادوں کے جائزہ لے کر اپنے ایمان اور عمل کو پرکھنا چاہئے.یہی نہیں کہ تھوڑے سے تھوڑا معیار ہے تو بس ہمیں چھٹی مل گئی.کم از کم معیار بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوفر ما یا وہ یہ تھا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں.اور ایک مرد کے لئے پانچ نمازیں باجماعت فرض ہیں.روزے فرض ہیں اور اگر مال پر قربانی یا ز کو لگتی ہے تو وہ بھی فرض ہے.پس یہ کم از کم معیار ہیں.پس ان معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے جائزے لے کر ہر ایک کو پرکھنا چاہئے.
خطبات مسرور جلد 13 74 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء جیسا کہ میں نے کہا اس حدیث میں اس شخص نے کہا تھا کہ نہ اس سے زیادہ کروں گا نہ کم تو وہ کم از کم معیار تھا جس کا اس نے اعلان کیا تھا.ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو نماز بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ادا نہیں کرتے جو فرض ہے جیسا کہ میں نے کہا مردوں کو باجماعت نماز فرض ہے.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ خدا تعالی کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.جس طرح دنیا کے کاموں کے لئے کوشش ہوتی ہے اس سے بڑھ کر دین کے کام کے لئے کوشش ہونی چاہئے اور استعدادوں کو بڑھانے کی بھی کوشش ہونی چاہئے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کمزور لوگ ہمیشہ اپنے لئے سہارے کی تلاش کرتے ہیں لیکن کیونکہ صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں اس لئے بعض لوگ جن میں کچھ قابلیت ہو آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن بعض مزید سہارے کو چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ وہ تھک کر اس لئے بیٹھ جائیں کہ ان کی صلاحیت ہی اتنی تھی.دنیاوی قانون میں توممکن ہو سکتا ہے کہ صلاحیت سے زیادہ کا وزن کسی پر ڈالا جارہا ہولیکن دین کے معاملات میں یہ نہیں ہے.جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ کم از کم معیار کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا کہ صلاحیت سے زیادہ کا بوجھ کسی پر لادا جارہا ہو.ہاں بعض باتوں کو سمجھنے کے لئے بعض سہاروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے.جیسا کہ دنیاوی معاملات میں پڑتی ہے.ان سہاروں کی طرف کمزور مومنوں کو رجوع کرنا چاہیئے اُسی طرح جس طرح ایک کمزور طالب علم استاد سے بار بار کوئی سبق سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور استاد کی کوشش سے ان کے معیار بہتر ہو جاتے ہیں لیکن استاد مدد نہ کرے تو بالکل پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن ایسے استاد جو مدد نہ کریں ان کے رویے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ استاد صحیح طور پر اپنے فرائض اور اپنا حق ادا نہیں کر رہے بلکہ اپنے کام سے خیانت کرنے والے استاد ہیں.مربیان اور مبلغین کیلئے ایک ضروری نصیحت یہاں میں دین کے لئے جو استاد مقرر ہیں ان کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں یعنی ہمارے مربیان و مبلغین اور صاحب علم لوگ کہ اللہ تعالیٰ نے جو ان کی استعدادوں کو بڑھایا ہوا ہے تو وہ ان کا صحیح استعمال بھی کریں اور اپنی استعدادوں سے کمزوروں کی استعدادوں کو علمی لحاظ سے بڑھانے کی کوشش کریں کیونکہ یہ آپ کی طرف سے خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا شکرانہ ہوگا.اگر اللہ تعالیٰ کی حقیقی رنگ میں شکر گزاری نہ ہو تو انسان گنہگار بن جاتا ہے.پس مرتبیان اور مبلغین اور دوسرے واقفین زندگی جن کو دین کا علم ہے خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ کریں کہ لوگوں کی استعدادوں کو سہارے دے کر اوپر لائیں.کم از کم درجے سے اوپر کے
خطبات مسرور جلد 13 75 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء درجوں کی طرف استعدادوں کو بڑھانے میں مدد دیں یا جن درجوں پر ہیں ان کے بھی جو مختلف معیار ہیں ان کو بھی بڑھانے کی کوشش کریں.یہ بات جہاں ترقی کرنے والے افراد کے ایمان ویقین میں اضافہ کرنے والی ہوگی وہاں جماعتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گی.مبلغین اور مربیان کوتو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ تمہارے علم کی وجہ سے تمہاری استعداد میں بڑھائی گئی ہیں ان کو اپنے بھائیوں کی استعدادیں بڑھانے کے لئے استعمال کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ - ( آل عمران : 105) اور تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جس کا کام صرف یہ ہو کہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے.آجکل اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے کئی جامعات چل رہے ہیں جہاں سے دینی تعلیم حاصل کر کے مرتبیان اور مبلغین نکل رہے ہیں.ان کا کام یہ ہے کہ جماعت کی تربیت کی طرف بھی پوری توجہ دیں.دینی علم انہوں نے صرف خاص موقعوں اور تقریروں یا مناظروں یا صرف چند افراد کو تبلیغ کرنے کے لئے نہیں سیکھا بلکہ مسلسل اپنے آپ کو اس کام میں مصروف رکھنا ہے.یہ ان کے فرائض میں داخل ہے.اپنوں کی تربیت بھی کرنی ہے.ان کے ایمان و ایقان میں اضافے کے طریق بھی انہیں سکھانے ہیں.ان کی استعدادوں کو بڑھانے کی بھی کوشش کرنی ہے اور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کے نئے سے نئے راستے اور طریق بھی ایجاد کرنے ہیں.بعض زیادہ تجربہ کار ہو جاتے ہیں.یہ کہہ دیتے ہیں کہ کام نہیں ہے.جو کام دیا جاتا ہے ہم اسے فوری طور پر بجالاتے ہیں.لیکن یہ چیز غلط ہے.صرف یہ بہانے ہوتے ہیں.بعض اپنے کام کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنی گھر یلو ذمہ داریوں کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہوتے ہیں.بعض اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے والے ہوتے ہیں چاہے وہ چند ایک ہی ہوں.لیکن اگر ایسے نظر آتے ہیں تو چھوٹی سی جماعت میں بہت ابھر کر سامنے آجاتے ہیں.ہفتہ میں تین دن سٹوروں میں پھرتے رہتے ہیں.میں صرف نئے آنے والوں کی بات نہیں کر رہا.ان میں سے بہت سے اللہ کے فضل سے ایسے ہیں جو قربانی کے جذبے سے سرشار ہیں اور ابھی تک وہ ایک جذبے سے کام کر رہے ہیں اور اللہ کرے کہ وہ کام کرتے رہیں.اکثریت اپنے وقت کا احساس بھی رکھتے ہیں.جو پہلے جیسا کہ میں نے کہا تجربہ کار ہیں ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دینی علم کی جو استعداد میں بڑھائی ہیں ان کے فرائض جو اُن پر عائد کئے ہیں ان کا اپنے طور پر بھی صحیح استعمال کریں اور افراد جماعت کی استعدادیں بڑھانے میں ایک اچھے استاد کی طرح ان کا استعمال کریں.دنیا میں کوئی بھی نظام ہو، اللہ تعالیٰ کو تو پتا تھا کہ نظام کو چلانے کے لئے مختلف قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے.اس
خطبات مسرور جلد 13 76 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں جو اپنے ایمان اور دینی علم کی استعداد میں بڑھا کر پھر دنیا کی بھلائی کے لئے اسے استعمال کریں اور واقفین زندگی نے اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کیا ہے.پس یہ علم اور یہ پیشکش اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس کا حق ادا کریں.یہ میچ ہے کہ اس علم کے سیکھنے اور سکھانے میں بھی سب برابر نہیں ہو سکتے.ہر ایک کی اپنی اپنی صلاحیتیں ہیں.جیسا کہ ہر ایک ایک جیسا نفع دوسروں کو نہیں پہنچا سکتا.دوسروں کی صلاحیتوں کو اجا گر نہیں کر سکتا.ہر ایک کی اپنی انفرادی صلاحیت دین کا علم سیکھنے اور سکھانے میں مختلف ہوتی ہے.لیکن جتنی صلاحیت ہے، جتنی استعداد ہے اس کے استعمال کے تو اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور جب ہر ایک اس طرح سنجیدگی سے کوشش کرے گا تو وہ جہاں اپنے کمزور بھائیوں کے لئے فائدہ مند ہوں گے وہاں جماعت کے معیار بھی بلند کرنے والے ہوں گے.پس واقفین زندگی اور خاص طور پر مرتبان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور افراد جماعت کی استعدادوں کے معیار بلند کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں.اسی طرح عہدیدار ہیں.افراد جماعت انہیں اس لئے عہد یدار بناتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جن افراد کوہم کوئی عہدہ دینا چاہتے ہیں ان کی استعداد ہیں، ان کا علم ان کی عقل ہم سے بہتر ہے.میں سمجھتا ہوں کہ منتخب کرنے والوں کی یہ سوچ ہونی چاہئے اور یہ سوچ رکھنا فرض کی ادائیگی کا کم ازکم معیار ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنی امانت کا حق ادا نہیں کرتے.اگر یہ کم از کم معیار عہدیدار منتخب کرتے وقت سامنے ہو تو بھی کوئی ایسا عہدیدار منتخب نہ ہو جوصرف عہدے کے لئے منتخب کیا گیا ہو.بہر حال عہدیداروں کا بھی یہ فرض ہے کہ جماعت کی علمی اور دینی ترقی کے معیاروں کو اونچا کرنے کی کوشش کریں ان کی استعدادوں کو بڑھانے کی کوشش کریں تا کہ اپنے اپنے لحاظ سے ہر ایک شخص کی استعدادوں میں اضافہ ہوتا رہے.تربیت کا معاملہ ہے تو سیکرٹری تربیت اور صدر جماعت کے ساتھ باقی عاملہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے نمونے کے ساتھ دوسروں کی تربیت کی طرف بھی توجہ دیں.مثلاً خطبات سننا ہے، درس سننا ہے، جماعتی پروگراموں میں شامل ہونا ہے تا کہ دینی اورعلمی اور روحانی ترقی ہو.ان فنکشنز (functions) پر لانا اور پھر ان خطبات وغیرہ اور جلسوں وغیرہ سے فائدہ اٹھا کر مستقل افراد جماعت کو یاددہانی کرواتے رہنا یہ عہدیداروں کا کام ہے.جہاں یہ مربیان کا فرض ہے وہاں عہد یداروں کا بھی کام ہے.عاملہ کے تمام ممبران کا فرض ہے.یاددہانی ضروری ہے بعض مرتبیان جو ہیں بڑے اعلیٰ رنگ میں اس کام کو سر انجام دیتے ہیں.میرے خطبے کے نوٹس بھی لیتے ہیں.پھر اپنے درسوں میں، اپنی مجلسوں میں سارا ہفتہ کسی نہ کسی بات کو لے کر تلقین کرتے ہیں جس
خطبات مسرور جلد 13 77 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء کا افراد جماعت پر بھی نیک اثر پڑتا ہے.کئی لوگ مجھے اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں کہ درس سن کے ہمارے دینی علم میں اضافہ ہوا.فلاں عمل کو ہمیں صحیح طور پر کرنے کا طریق پتا چلا.ہماری ستیاں دُور ہوئیں.لیکن اگر اس بات کو لے کر عہدیدار بھی اور جو بھی دوسرے ذمہ دار ہیں بیٹھے رہیں کہ ہم نے اپنے درس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس سنا دیا.یا لوگ خلیفہ وقت کا خطبہ سن لیتے ہیں اس لئے بار بار ذاتی طور پر بھی اور مختلف مجالس میں بھی ان باتوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، یاددہانی کرانے کی ضرورت نہیں ہے تو وہ غلط ہیں.چاہے اس نیت سے بھی نصیحت سے رکیں کہ اگر خلیفہ وقت کی نصیحت کا اثر نہیں ہوا تو ہماری نصیحت کا کیا اثر ہو گا تب بھی غلط ہے.یاد دہانی بہر حال ضروری ہے.پہلی بات تو یہ کہ بعض باتیں بعض لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتیں.میں خود بھی کوشش کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کے الفاظ کو اپنے الفاظ میں بھی آسان رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کروں.لیکن پھر بھی میں نے جائزہ لیا ہے بعض لوگ کہتے ہیں ہمیں سمجھ نہیں آئی.یا جو وہ سمجھے وہ صحیح نہیں تھا.اس لئے اگر وقتاً فوقتاً آسان انداز میں ہلکے پھلکے طور پر مجالس میں سمجھایا جاتا ہے تو کم استعدا دوالوں کو بھی سمجھ آ جاتی ہے.مساجد میں حاضری کیلئے کوشش کا ایک طریق پس سہاروں کی بہر حال ضرورت پڑتی ہے اور ذمہ دار لوگوں کا یہ کام ہے کہ کمزوروں کا سہارا بنیں.بعض لوگ تو خود بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.کئی لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ ہم نے خطبہ دو مرتبہ یا تین مرتبہ سناتو ہمیں مضمون سمجھ آیا.لیکن ہر ایک خود تو جہ نہیں دیتا.اس لئے وہ لوگ جنہوں نے دین کی خدمت کے لئے وقف کیا ہے اور وہ لوگ جن پر یہ ذمہ داری ہے کہ کمزوروں کا سہارا بنے کی کوشش کریں ان کو بہر حال اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.ابھی نماز با جماعت کی بات ہوئی ہے کہ مردوں پر فرض ہے.اکثر میں اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں.اس میں بھی اگر باقاعدہ آنے والے سہارا بننے کی کوشش کریں تو بہتری آسکتی ہے.ضروری نہیں کہ عہد یدار ہی ہوں، عام آدمی بھی سہارا بن سکتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا کہ ایک دن میں عشاء کی نماز پر مسجد میں آیا تو میں نے دیکھا کہ صرف دو صفیں تھیں.قادیان کی بات ہے.تو میں نے کہا کہ لوگ نماز پر آتے ہوئے ہمسایوں کو بھی ساتھ لے آیا کریں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اگلے دن تعداد بڑھنی شروع ہو گئی.اب جو نئے آنے والے تھے ان کو پتا ہے کہ نماز ضروری ہے.یہ تو ہر ایک کو پتا ہے فرائض میں داخل ہے.لیکن اس استعداد کی کمی تھی کہ اس اہمیت کو یا درکھ سکیں یاستی نے استعدادوں کو کم کر دیا تھا.تو
خطبات مسرور جلد 13 78 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء یاد دہانیاں بھی استعدادوں کو چمکا دیتی ہیں یا ان کو بہتر کرنے کا موجب بنتی ہیں.نمازوں میں حاضری بڑھنا بتاتا ہے کہ طاقت سے بڑھ کر تکلیف کی وجہ سے مسجد میں آنا روک نہیں تھا بلکہ ستی نے استعداد یا اہمیت کا اندازہ نہ ہونے دیا اور اس وجہ سے پھر استعداد کو زنگ لگ گیا اور آہستہ آہستہ وہ مسجد میں آنے میں ست ہو گئے.پس ذراسی کوشش سے ست لوگ اپنی غفلت دُور کر سکتے ہیں.اس لئے گزشتہ دنوں جب میں نے خاص طور پر بعض تربیتی کاموں کی طرف امام صاحب، عطاء المجیب راشد صاحب کو توجہ دلائی تو یہ بھی کہا تھا کہ یہ بھی افراد جماعت کو کہیں کہ ایک دوسرے کو مسجد میں لانے میں مدد کریں.یہاں اگر فاصلے زیادہ ہیں تو ہمسائے اپنی سواری بدل بدل کر استعمال کر سکتے ہیں تا کہ کسی پر پٹرول کے خرچ کا بوجھ بھی نہ پڑے.بعض لوگ پہلے بھی اس طرح کرتے ہیں.مسلم کے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ صبح فجر کی نماز پر ان کے دوست جلنگھم دس منٹ پہلے فون کر دیتے ہیں کہ میں اتنے منٹ بعد پہنچ رہا ہوں.فجر کی نماز کے لئے تیار رہیں.اگر اس طرح آپس میں ایک دوسرے کو کہہ دیں تو مسجد کی حاضری کافی بہتر ہوسکتی ہے.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہر بات سے ہر ایک یکساں فائدہ نہیں اٹھاتا.یاددہانی کی ضرورت رہتی ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہر ایک اپنی اپنی استعداد کے مطابق بات جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے.بعض خود کوشش کرتے ہیں.بعض سہارے تلاش کر کے بہتر ہونے کی کوشش کرتے ہیں.بعض کے لئے خود سہارا بنا پڑتا ہے تا کہ جو افراد کی استعدادوں کی ترقی ہے وہ بھی حاصل ہو اور جماعتی معیاروں کی ترقی بھی حاصل ہو.اس لئے بہر حال نظام جماعت کو بھی اور افراد کو بھی جو بہتر ہیں، اپنا حق ادا کرنا چاہئے.توجہ کی بات ہو رہی ہے تو پھر خطبات میں بھی تو جہ قائم رکھنی چاہئے.خطبوں کے دوران بعض دفعہ میں نے بھی دیکھا ہے، بعض خود بھی محسوس کرتے ہوں گے کہ بعض دفعہ لوگ اونگھ جاتے ہیں اور صرف اونگھ نہیں جاتے بلکہ اتنی گہری نیند میں چلے جاتے ہیں کہ جھٹکا کھا کر ساتھ والے پہ گرتے ہیں.اس بیچارے کو پھر ٹھوکر لگانی پڑتی ہے.تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں.پھر بعض ایسے بھی ہیں جن کی شنوائی کم ہوتی ہے.صحیح طرح سن نہیں سکتے.مطلب نہیں اخذ کر سکتے.بعض اپنی سوچوں میں گم ہو جاتے ہیں.تو ایسے مختلف قسموں کے لوگ جو ہیں ان کے لئے صرف فرض کر لینا کہ انہوں نے خطبہ سن لیا یا تقریر سن لی اس میں کیا اثر ہو سکتا ہے.بہر حال ان کے لئے یاددہانی اور توجہ کی ضرورت ہے جیسا کہ میں نے کہا جو بعد میں کرائی جاتی رہنی چاہئے.جلسوں کے دوران تو شاید بعض لوگ اس لئے بھی نعرہ لگا دیتے ہیں کہ ارد گرد بیٹھے ہوؤں کو اونگھتا ہوا دیکھتے ہیں یا اپنی نیند مٹانی چاہتے ہیں تو بہر حال تقریر سننا، خطبہ سننا،توجہ سے سننا، اسے جذب کرنا ، اس پر عمل کرنا یہ سب باتیں ہر ایک کی اپنی اپنی استعدادوں پر منحصر ہیں
خطبات مسرور جلد 13 79 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء اور اگر یاددہانیاں ہوتی رہیں تو استعدادیں بہتر ہوتی جاتی ہیں.پھر اسلام ہر مومن کے لئے یہ بھی ضروری قرار دیتا ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کرے.صرف مربیان یا عہدیداروں کا کام ہی نہیں ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا.نماز کے لئے لانے کی طرف یہ توجہ ضروری نہیں کہ دُور سے ہی لانا ہے.ہماری مسجدوں کے ارد گرد جو قریب قریب ہمسائے رہتے ہیں وہ قریب رہنے والے بھی کوشش کریں.مسجد فضل کے نزدیک یا اس بیت الفتوح کے نزدیک جولوگ ہیں وہ اگر ہمسایوں کو توجہ دلاتے رہیں تو حاضریاں بڑھ سکتی ہیں.اسی طرح باقی مساجد میں.اور یہ حقیقی اسلامی مؤاخات بھی ہے.ایک دوسرے سے بھائی چارہ اور محبت بھی ہے کہ ان کا خیال رکھا جائے.ان کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی جائے.اللہ تعالیٰ نے یہ بھی مومنوں پر فرض کیا ہے کہ وہ جب آگے بڑھیں تو اپنے بھائیوں کو بھی بلائیں کہ آؤ ا سے حاصل کرو.جو کمزور ہیں انہیں کھینچ کر اوپر لائیں.یہ کام کہ دوسروں کو ھیچکر اوپر لانا یہ خود بھی انسان کو اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بنائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خیر کی طرف لے جانے والا ثواب کا ویسا ہی مستحق ہوتا ہے جیسا کہ نیکی کرنے والا.(سنن الترمذی ابواب العلم باب ماجاء الدال على الخير كفاعله حدیث نمبر (2670 پس با جماعت نماز پڑھنے والے کو جہاں اپنی باجماعت نماز پڑھنے کا ستائیس گنا ثواب ملے گا وہاں وہ اپنے ساتھ لانے والے جتنے افراد ہوں گے ان کا بھی ثواب کمارہا ہو گا.مثلاً اگر ایک شخص اپنے ساتھ تین اشخاص کو لے کر آتا ہے تو اس نماز میں اس کا ثواب ستائیس گنا کی بجائے ایک سوآ ٹھ گنا ہو جائے گا.اور اللہ تعالیٰ کے بھی دیکھیں اپنے بندوں کو نوازنے کے کیا کیا انداز ہیں.پس ہم میں سے ہر ایک جہاں خود دین کے کام میں چست ہو وہاں دوسروں کو بھی چست کرنے کی کوشش کرے.اگر ہر ایک اس سوچ کے ساتھ کام کرے تو ہم نہ صرف دوسروں کی استعداد میں بڑھانے میں حصہ دار بن رہے ہوں گے بلکہ اپنی استعدادیں بھی اس سوچ کے ساتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ میں نے بھی ایک جگہ کھڑے نہیں رہنا، ترقی کرنی ہے.اور پھر دوسروں کو خیر مہیا کر کے اللہ تعالیٰ کے کئی گنا فضلوں کے بھی مستحق بن رہے ہوں گے جیسا کہ میں نے حدیث سے بتایا.اور یہ سوچ جماعت کی عمومی ترقی میں بھی ایک تغیر پیدا کرنے والی بن جائے گی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی استعدادوں کو بڑھاتے چلے جانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے چلے جانے والے ہوں.آج بھی میں نمازوں کے بعد دو جنازہ غائب پڑھاؤں گا.ایک محتر مہ جنان العنانی صاحبہ کا ہے جو
خطبات مسرور جلد 13 80 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء شام کی رہنے والی ہیں اور آجکل ترکی میں تھیں.23 جنوری 2015ء کو 57 سال کی عمر میں وفات پا گئیں.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - 11 جنوری 1958ء کو پیدا ہوئیں.احمدیت سے قبل یہ سوچ کر کہ دنیا تو فانی ہے اس لئے خدا کی قربتیں تلاش کرنی چاہئیں انہوں نے بہت سے فرقوں کا مطالعہ کیا لیکن کہیں سکون نہ پایا.ہمیشہ بڑے درد سے خدا سے ہدایت کی دعا کرتی رہیں.آخر 1994ء میں ایم ٹی اے سے تعارف ہوا تو پروگرام لقاء مع العرب میں ان کا دل اٹک گیا.ان پروگرامز کو دیکھنے کے بعد پہلی مرتبہ انہیں سکون نصیب ہوا.پھر انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں سوالات بھیجے جن کے جوابات لقاء مع العرب میں دیئے گئے.لقاء مع العرب میں حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کے جوابات سے یہ بہت متاثر ہوئیں اور 1995ء میں اپنے خاوند کے سامنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا.اس فیصلہ میں ان کی بیٹی بھی ان کے ساتھ تھیں.گو انہیں اپنے والد کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کی نیکی، تقویٰ، حسن اخلاق ، حسن اعمال کو دیکھ کر ان کے خاوند اور دیگر بچے بھی احمدیت کی آغوش میں آگئے.مرحومہ بڑی سادہ طبیعت کی خوش اخلاق ،مخلص، نماز تہجد کی پابند، رقیق القلب انسان تھیں.سب کی مدد کرتیں اور چھوٹوں بڑوں سے شفقت اور محبت سے پیش آتیں.مرحومہ نے شام اور ترکی میں لجنہ اماء اللہ اور بچوں کی تربیت کی اور انہیں نظام جماعت سکھانے اور خلافت کی محبت اور اس سے جڑے رہنے کی اہمیت ان کے دلوں میں راسخ کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا.ایک لمبے عرصے تک وہاں کے ایک شہر کی صدر لجنہ اماء اللہ رہی ہیں پھر جب ترکی میں آئیں تو وہاں بھی انہیں صدر لجنہ سکندرون مقرر کیا گیا اور تا دم آخر یہ اس فرض کو باحسن نبھاتی رہیں.اپنے پیچھے خاوند کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے.سب کے سب بفضلہ تعالیٰ مخلص احمدی ہیں.مرحومہ موصیہ بھی تھیں.وصیت انہوں نے کی تھی لیکن شام کے حالات کی وجہ سے ان کا ریکارڈ گم گیا.بہر حال وصیت ان کی زیر کارروائی ہے.کار پرداز اس کی کارروائی کر لے اور وصیت منظور کر دے.مرحومہ کے بیٹے علی جبر صاحب کہتے ہیں کہ والدہ صاحبہ خود بھی نماز تہجد کا با قاعدگی سے التزام کرتیں اور تمام اہل خانہ کو بھی اس کی تلقین کرتیں.ہمیشہ کہتی تھیں کہ نیند کی لذت کو تہجد کے لئے جاگنے کے شوق سے بدل دو تا تم ثابت کر سکو کہ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی اور اہم لذت خدا کی عبادت ہے.نیز فرماتیں کہ خدا سے محبت کے اظہار کا یہ طریق بھی اختیار کرو کہ وضو کر کے تیار ہو کر اذان کے انتظار میں بیٹھو جیسے تم کسی بہت ہی پیارے سے ملاقات کے لئے بے چینی سے انتظار کرتے ہو.محمد شریف صاحب ترکی سے لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود اور خلیفہ اور
خطبات مسرور جلد 13 81 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 جنوری 2015ء خلافت سے محبت کی پر خلوص باتوں کا ضرور اثر ہوتا.ان کے پاس اگر کوئی بیٹھتا تو ہر وقت یہی باتیں کرتیں.بہت خواہشمند تھیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توقعات پر پورا اتریں.دوران گفتگوان کی بات کی تان ہمیشہ قرآنی آیت یا حدیث نبوی یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام پر ٹوٹتی تھی.فاطمہ جمعہ صاحب لکھتی ہیں کہ جب سے میں نے بیعت کی ہے مرحومہ نے ہمیشہ میرا خیال رکھا اور مجھے کبھی نہیں چھوڑا.جب کسی بچے کو قرآن کریم کی تلاوت کرتے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قصیدہ ھتے سنتیں تو تحفہ دے کر اس کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں.فاطمہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ آخری بار جب ہم ملنے گئے تو مجھے کہا: میں تم لوگوں کو وصیت کرتی ہوں کہ تم ہر حال میں ہمیشہ خلیفہ وقت کی بات ماننا.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولا د اور نسل کو بھی ہمیشہ جماعت سے وابستہ رکھے.اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والے بنائے جیسا کہ ان کی خواہش تھی کہ ان کی نسل میں ہمیشہ حقیقی اسلام قائم رہے.دوسرا جنازہ مکرمہ حبیبہ صاحبہ میکسیکو کا ہے جو 19 جنوری 2015ء کوسوسال سے زائد عمر میں وفات پاگئیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.آپ نے جون 2014ء میں احمدیت قبول کی تھی.مرحومہ نے ضعیف العمری میں اسلام قبول کیا مگر اس عمر میں بھی انہوں نے نماز سیکھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمازوں کی پابند تھیں.دعا گو، عبادت گزار، بکثرت ذکر الہی کرنے والی ، خوش مزاج اور نیک خاتون تھیں.وفات سے قبل نماز ظہر ادا کی.زبان پر ذکر الہی جاری تھا تو اس دوران ہی ان کی وفات ہوگئی.آپ کی ولادت میکسیکو کی چیا پہ (Chiapa) سٹیٹ کے ایک گاؤں زکز و (Zaktzu) میں کیتھولک مذہبی گھرانے میں ہوئی.ان کے والد اپنے علاقے کے معروف پادری تھے جنہوں نے کیتھولک چرچ سے علیحدگی اختیار کر کے پروٹسٹنٹ فرقہ اختیار کیا.1981ء میں مذہبی مخالفت کی بنا پر قتل کر دیئے گئے.مرحومہ کے خاوند ان کی جگہ اس فرقہ کے پادری مقرر ہوئے.1996ء میں مرحومہ کے پوتے امام ابراہیم صاحب نے اسلام قبول کیا اور ان کی تبلیغ سے مرحومہ کے خاوند اور خاندان کے اکثر افراد نے احمدیت کو قبول کر لیا اور اب ان کے سب پوتے اور پوتیاں اور بچگان احمدی مسلمان ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو ہمیشہ جماعت احمد یہ مسلمہ سے منسلک رکھے اور مرحومہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 20 فروری 2015 ء تا 26 فروری 2015 ءجلد 22 شماره 08 صفحه 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 82 6 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرز مسرور احمد خلیفة المس الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وراحمدخلیفة فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015 ء بمطابق 06 تبلیغ 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے پڑھنے کے منفی اور مثبت اثرات جس طرح جس سوچ کے ساتھ انسان پڑھتا ہے اسی طرح کے اثرات قائم ہوتے ہیں.اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں.کہتے ہیں کہ ” مجھے ایک واقعہ یاد ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے.آپ بیان فرما رہے تھے کہ ڈیبیٹنگ سوسائٹیز (debating societies) جوڈیبیٹ (debate) کرتی ہیں اور بلا وجہ ایک مقررحق میں بولتا ہے ، دوسرا خلاف بولتا ہے.اس سے بعض دفعہ سوچوں میں فرق پڑ جاتا ہے.کیونکہ جو بھی بولنے والے ہیں وہ وہ نہیں کہہ رہے ہوتے جو ان کے دل میں ہوتا ہے بلکہ ایک مقابلے کی صورت ہوتی ہے جس میں بولنا ہوتا ہے.تو بہر حال اس کا بیان فرماتے ہوئے کہ یہ باتیں بعض دفعہ ایمان میں خرابی کا باعث بن جاتی ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا کہ مولوی بشیر احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مؤید تھے اور کہتے ہیں کہ میں بہت مخالف تھا.( یعنی مولوی محمد احسن صاحب بہت مخالف تھے.) مولوی بشیر صاحب ہمیشہ دوسروں کو براہین احمدیہ پڑھنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص مجدد ہے جس نے یہ کتاب لکھی ہے.کہتے ہیں کہ آخر میں نے ان سے کہا ( مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی بشیر صاحب کو کہا ) کہ آؤ مباحثہ کر لیتے ہیں کہ آیا یہ مجدد ہیں کہ نہیں.لیکن مباحثے کی صورت کیا ہو گی؟ آپ تو چونکہ مؤید ہیں
خطبات مسرور جلد 13 83 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء تائید کرنے والے ہیں آپ مخالفانہ نقطۂ نگاہ سے کتابیں پڑھیں اور میں مخالف ہوں اس لئے میں موافقانہ نقطہ نگاہ سے پڑھوں گا.اور سات آٹھ دن کتابوں کے مطالعہ کے لئے مقرر ہو گئے اور دونوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ میں جو مخالف تھا (مولوی محمد احسن صاحب کہتے ہیں کہ میں جو مخالف تھا) احمدی ہو گیا اور وہ جو قریب تھے بالکل ڈور چلے گئے.مولوی احسن صاحب کی سمجھ میں بات آگئی اور بشیر صاحب کے دل سے ایمان جا تا رہا.اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ علم النفس کے رو سے ڈیلیٹس (debates) کرنا سخت مضر ہے اور بعض اوقات سخت نقصان کا موجب ہو جاتا ہے.یہ ایسے بار یک مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی ہر مدرس اہلیت نہیں رکھتا.(ماخوذ از الفضل 11 مارچ 1939 صفحہ 8 نمبر 58 جلد 27) پس اچھی بات میں بھی اگر تنقید کی نظر سے ، اعتراض کی نظر سے مطلب نکالنے کی کوشش کریں تو وہی ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر بہت سے لوگ اس لئے اعتراض کرتے ہیں کہ وہ پڑھتے ہی اعتراض کرنے کے لئے ہیں اور پھر سیاق وسباق سے بھی نہیں ملاتے کہ ہم نے پڑھا یہ لکھا ہوا ہے اور وہ لکھا ہوا ہے.تو یہ کچھ نئی چیز نہیں ہے.اعتراض کرنے والے تو خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی اعتراض نکال لیتے ہیں.اس لئے قرآن کریم کے بارے میں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ یہ مومنوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے لیکن اعتراض کرنے والے جو ہیں ، ظالم لوگ جو ہیں ان کو یہ خسارے میں ڈالتا ہے، نقصان پہنچاتا ہے.وہ اس سے دور ہٹتے چلے جاتے ہیں اور مزید اعتراض خدا تعالیٰ کی ذات پر کرنا شروع کر دیتے ہیں، اسلام پر کرنا شروع کر دیتے ہیں، مذہب کی ضرورت پر کرنا شروع کر دیتے ہیں.پس چاہے خدا تعالیٰ کا کلام ہی کیوں نہ ہو اس وقت تک فائدہ نہیں دیتا جب تک پاک دل ہو کر پڑھنے کی کوشش نہ کی جائے.نماز کی اہمیت پھر نماز کی اہمیت کے بارے میں حضرت مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپ مقدمے کی پیروی کے لئے گئے اور مقدمے کے پیش ہونے میں دیر ہوگئی.نماز کا وقت آ گیا.آپ باوجود لوگوں کے منع کرنے کے نماز کے لئے چلے گئے اور جانے کے بعد ہی مقدمہ کی پیروی کے لئے بلائے گئے مگر آپ عبادت میں مشغول رہے.اس سے فارغ ہوئے تو عدالت میں آئے.حسب قاعدہ جو حکومت کا قاعدہ ہے، عدالت کا جو قاعدہ ہے چاہئے تو یہ تھا کہ مجسٹریٹ
خطبات مسرور جلد 13 84 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء آپ کے خلاف یکطرفہ ڈگری کر دیتا.مگر اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجسٹریٹ کی توجہ اس طرف کروائی کہ یہ نماز پڑھ رہے ہیں عبادت کر رہے ہیں اور اس نے آپ کی غیر حاضری کو نظر انداز کر کے فیصلہ آپ کے حق میں یا آپ کے والد صاحب کے حق میں کر دیا.(ماخوذ از دعوۃ الامیر.انوار العلوم جلد 7 صفحہ 575) اپنے تو مقدمے ہوتے نہیں تھے.جائیدادوں کے مقدمے تھے.اگر کبھی مجبوری سے جانا پڑے تو والد صاحب کی وجہ سے ہی جایا کرتے تھے.پھر ایک جگہ نماز با جماعت کی مزید اہمیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.کس طرح ہمیں نماز با جماعت کی عادت ڈالنی چاہئے.نماز با جماعت کی یہ ترکیب ہے کہ بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جماعت کرالی جائے.تو عادت نہ ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز کی قیمت لوگوں کے دلوں میں نہیں رہی.کیونکہ باجماعت نماز کی عادت نہیں ہے اس لئے یہ اندازہ ہی نہیں رہا کہ باجماعت نماز کی کس قدر قیمت ہے.اس عادت کو ترک کر کے یعنی جو علیحدہ نماز پڑھنے کی عادت ہے اس کو ترک کر کے نماز با جماعت کی عادت ڈالنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مواقع پر جب نماز کے لئے مسجد میں نہ جا سکتے تھے تو گھر میں ہی جماعت کرالیا کرتے تھے اور شاذ ہی کسی مجبوری کے ماتحت الگ نماز پڑھتے تھے.اکثر ہماری والدہ کو ساتھ ملا کر جماعت کرالیتے تھے.والدہ کے ساتھ دوسری مستورات بھی شامل ہو جاتی تھیں.پس اوّل تو ہر جگہ دوستوں کو جماعت کے ساتھ مل کر نماز ادا کرنی چاہئے اور جس کو یہ موقع نہ ہواسے چاہئے کہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی مل کر نماز با جماعت کرالیا کرے.ہر جگہ دوستوں کو نماز با جماعت کا انتظام کرنا چاہئے.جہاں شہر بڑا ہو.اور دوست دور دور رہتے ہوں.وہاں محلہ دار “ جو ہیں ان کو ” جماعت کا انتظام کرنا چاہئے.جہاں مساجد نہیں ہیں وہاں مساجد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.“ بعض اہم اور ضروری امور.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 493) بہر حال نماز با جماعت کی اہمیت یہ ہے کہ اگر گھروں میں بھی ہوں تو بچوں کو ساتھ ملا کر نماز پڑھا کریں تا کہ بچوں میں بھی نماز با جماعت کا احساس رہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی بڑی تلقین فرمائی کہ نماز اپنی تمام تر شرائط کے (ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 433) ساتھ پڑھا کریں.حضرت مصلح موعود نے اس بارے میں فرمایا کہ : تمام قیود اور پابندیوں کے ساتھ نماز
خطبات مسرور جلد 13 85 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء پڑھنا ایک انتہا درجہ کی خوبصورت چیز ہے مگر جب ہم اپنی غفلت اور نادانی کی وجہ سے اس کو چھانٹتے چلے جائیں تو وہ بے فائدہ اور لغو چیز بن جاتی ہے.( نماز کی خوبصورتی اس کو سنوار کر پڑھنے میں ہے لیکن اگر سنوار کر نہ پڑھیں تو پھر وہ لغو چیز ہو جاتی ہے ) اور ایسی نماز کبھی با برکت نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ لوگ نماز اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح مرغ ٹھونگے مار کر دانے چگتے ہیں.ایسی نماز یقیناً کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ بعض دفعہ ایسی نماز (ماخوذ از الفضل 20 مئی 1939 صفحہ 4 جلد 27 نمبر 115 ) لعنت کا موجب بن جاتی ہے.عہدیداران کیلئے ایک ضروری نصیحت ایک دفعہ کسی نے حضرت مصلح موعودؓ کو شکایت کی کہ ماتحت ہمیں سلام نہیں کرتے یا چھوٹے جو ہیں وہ بڑوں کو سلام نہیں کرتے.اس پر آپ نے یہ نصیحت فرمائی کہ سلام کرنے کا حکم دونوں کے لئے یکساں ہے.ایک جیسا ہے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شعر سنا ہوا ہے کہ:.وہ نہ آئے تو تو ہی چل اے میر تیری کیا اس میں شان گھٹتی ہے 66 فرماتے ہیں کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم ایک بھائی نہیں مانتا تو کیوں نہ ہم خود اس پر عمل کرلیں.پس اگر شکایت درست ہے تو یہ فعل عقل کے خلاف اور اخلاق سے گرا ہوا ہے.یہ کہیں حکم نہیں کہ سلام صرف چھوٹا کرے، بڑا نہ کرے.اگر ماتحت نے نہیں کیا تو افسر خود پہلے کر دے.‘فرماتے ہیں کہ ”میرا اپنا یہ طریق ہے کہ جب خیال ہوتا ہے تو میں خود پہلے سلام کہہ دیتا ہوں.بعض دفعہ خیال نہیں ہوتا تو دوسرا کہہ دیتا ہے“.فرماتے ہیں ایسی باتوں میں ناظروں کو اعتراض کرنے کی بجائے خود نمونہ بنا چاہئے.“ (خطبات محمود جلد 22 صفحہ 173 ) پس ہمارے ہر عہدیدار کو چاہیے وہ جس بھی سطح کے عہدیدار ہیں، چاہئے کہ اپنے نمونے قائم کریں.سلام کرنے میں پہل کریں.ضروری نہیں ہے کہ انتظار کریں کہ چھوٹا یاما تحت مجھے سلام کرے.بعض بڑے یا عہدیدار ایسے بھی ہیں جو سلام کا جواب بھی مشکل سے دیتے ہیں ایسی بھی شکایتیں میرے پاس آتی ہیں.تو افسروں کو اگر شکوہ ہے تو لوگوں کو بھی شکوہ ہوتا ہے کہ سلام کا جواب نہیں دیتے یا اتنی ہلکی ( آواز سے) منہ میں دیتے ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آتی یا ایسی بے اعتنائی سے دے
خطبات مسرور جلد 13 86 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء رہے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کیا مصیبت پڑ گئی.بہر حال جماعت کے اندر ہر طبقے کو سلام کو رواج دینا چاہئے.یہ حدیث بھی ہے.(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بيان انه لايدخل الجنة الا المومنون...حديث نمبر 194) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت آپ کے زمانے میں کس طرح لوگ کیا کرتے تھے اس کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ بیان فرماتے ہیں کہ اکتوبر 1897ء میں آپ کو ایک شہادت پر ملتان جانا پڑا.وہاں سے شہادت دے کر جب واپس تشریف لائے تو کچھ دنوں کے لئے لاہور بھی ٹھہرے.یہاں جن جن گلیوں سے آپ گزرتے ان میں لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکار پکار کر برے الفاظ آپ کی شان میں نکالتے.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی اور میں بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا.میں اس مخالفت کی جو لوگ آپ سے کرتے تھے وجہ تو نہیں سمجھ سکتا تھا اس لئے یہ دیکھ کر مجھے سخت تعجب آتا کہ جہاں سے بھی آپ گزرتے ہیں لوگ آپ کے پیچھے کیوں تالیاں پیٹتے ہیں، سیٹیاں بجاتے ہیں.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹنڈ اشخص جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور بقیہ ہاتھ پر کپڑا بندھا ہوا تھا.نہیں معلوم ہاتھ کے کٹنے کا ہی زخم باقی تھا یا کوئی نیا زخم تھا.بہر حال وہ زخمی ہاتھ تھا.وہ بھی لوگوں میں شامل ہو کر غالباً مسجد وزیر خان کی سیڑھیوں پر کھڑا تالیاں پیٹتا تھا اور اپنا کٹا ہوا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا اور دوسروں کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا کہ ہائے ہائے مرزائٹھ گیا.یعنی میدان مقابلہ سے فرار ہو گئے.نعوذ باللہ.اور میں اس نظارے کو دیکھ کر سخت حیران تھا خصوصاً اس شخص پر جس کا ہاتھ ہی نہیں ہے اور وہ تالیاں بجانے کی کوشش کر رہا ہے اور دیر تک گاڑی سے سر نکال کر اس شخص کو دیکھتا رہا.لاہور سے پھر حضرت مسیح موعود قادیان تشریف لے آئے.(ماخوذ از سیرت مسیح موعود.انوار العلوم جلد 3 صفحہ 360) مقدمات میں آپ کا صبر و استقلال ایک مقدمے میں مجسٹریٹ کی یہ پکی نیت تھی بلکہ اس سے عہد لیا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوضرور سزا دینی ہے.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے ایک جگہ فرمایا.آپ نے پہلے تمہید باندھی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو ان کی تعداد سات سو تھی.صحابہ نے خیال کیا کہ شاید آپ ﷺ نے اس واسطے مردم شماری کرائی ہے کہ آپ کو خیال ہے
خطبات مسرور جلد 13 87 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء کہ دشمن ہمیں تباہ نہ کر دے.اور انہوں نے کہا یا رسول ما تم اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں.کیا اب بھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ہمیں تباہ کر سکے گا.یہ کیا شاندا را ایمان تھا کہ وہ سات سو ہوتے ہوئے یہ خیال تک بھی نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن انہیں تباہ کر سکے گا.(آپ نے واقعہ کو بیان کر کے فرمایا کہ ایمان کی طاقت بہت بڑی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ آپ گورداسپور میں تھے.میں ( یعنی حضرت مصلح موعود ) وہاں تو تھا لیکن اس مجلس میں نہ تھا جس میں یہ واقعہ ہوا.مجھے ایک دوست نے جو اس مجلس میں تھے سنایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور بعض دوسرے احمدی بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے لا ہور گیا تھا.آریوں نے اس پر بہت زور دیا کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں ان کو ضرور سزا دے دو خواہ ایک ہی دن کی کیوں نہ ہو، یہ تمہاری قومی خدمت ہوگی اور وہ ان سے وعدہ کر کے آیا ہے کہ میں ضرور سزا دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو آپ لیٹے ہوئے تھے.یہ سن کر آپ کہنی کے بل ایک پہلو پر ہو گئے اور فرمایا خواجہ صاحب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں.کیا کوئی خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مجسٹریٹ کو یہ سزا دی کہ پہلے تو اس کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا.پھر اس کا تنزل ہو گیا.یعنی وہ ای اے سی سے منصف بنادیا گیا اور فیصلہ دوسرے مجسٹریٹ نے آ کر کیا.تو ایمان کی طاقت بڑی زبردست ہوتی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.پس جماعت میں نئے لوگوں کے شامل ہونے کا اس صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے کہ شامل ہونے والوں کے اندر ایمان اور اخلاص ہو.صرف تعداد میں اضافہ کوئی خوشی کی بات نہیں.اگر کسی کے گھر میں دس سیر دودھ ہو تو اس میں دس سیر پانی ملا کر وہ خوش نہیں ہو سکتا کہ اب اس کا دودھ میں سیر ہو گیا ہے.کوئی خوشی کی بات نہیں خوشی کی بات یہی ہے کہ دودھ ہی بڑھایا جائے اور دودھ ڈال کے دودھ بڑھانے میں ہی فائدہ ہے.“ بعض اہم اور ضروری امور.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 293-294) پس چاہے وہ نئے ہیں یا پرانے ہمیں اپنے ایمانوں میں ترقی کرنے کی طرف کوشش کرنی چاہئے.اگر وہ سات سو کا ایمان ایسا تھا کہ ان کا خیال تھا کہ دنیا کا کوئی (دشمن ) ہمیں شکست نہیں دے سکتا اور دنیا نے دیکھا کہ نہیں دی.اسی مقدمے کے بارے میں ایک جگہ آپ مزید فرماتے ہیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ بہت لمبی بات کرتے تھے.انہوں نے کہا حضور ! مجسٹریٹ ضرور قید کر دے گا اور سزا دے
خطبات مسرور جلد 13 88 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء گا.بہتر ہے کہ فریق ثانی سے صلح کر لی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہنیوں پر سہارا لے کر بیٹھ کر فرمایا.خواجہ صاحب خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان بات نہیں.میں خدا تعالیٰ کا شیر ہوں.وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.دو مجسٹریٹوں میں سے جو اس مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر تھے ایک کا لڑکا پاگل ہو گیا.اس کی بیوی نے اسے لکھا ( گو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا مامور تو نہیں مانتی تھی لیکن اس نے لکھا) کہ تم نے ایک مسلمان فقیر کی ہتک کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایک لڑکا پاگل ہو گیا ہے.اب دوسرے کے لئے ہشیار ہو جاؤ.وہ مجسٹریٹ چونکہ پڑھا لکھا تھا اس نے کہا کیا جاہلانہ باتیں میری بیوی کر رہی ہے.اسے ایسی باتوں پر یقین نہیں ہوتا تھا.اس نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی تو نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا دوسرا لڑ کا دریا میں ڈوب کر مر گیا.وہ دریائے راوی پر گیا تھا وہاں نہا رہا تھا کہ مگر مچھ نے اس کی ٹانگ پکڑ لی.اس طرح وہ بھی ختم ہو گیا.اس مجسٹریٹ کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو تنگ کرنے کی انتہا یہ تھی ، اس قدر تنگ کیا کرتا تھا کہ مقدمے کے دوران سارا وقت آپ کو کھڑا رکھتا.اگر پانی کی ضرورت محسوس ہوتی تو پانی پینے کی اجازت نہ دیتا.ایک دفعہ خواجہ صاحب نے پانی پینے کی اجازت بھی مانگی مگر اس نے اجازت نہ دی.(ماخوذ از خطبات محمود - جلد 1 صفحہ 428-429) ایک دوسرا مجسٹریٹ بھی تھا جو اس کے بعد گیا، وہ بھی معطل ہو گیا جیسا کہ ذکر آیا ہے.بہر حال یہ دونوں لوگ جو تھے وہ بڑے سخت ظلم پر آمادہ تھے اور پھر انہوں نے اپنا انجام بھی دیکھا.اس مجسٹریٹ کے انجام کی حالت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں دہلی جا رہا تھا کہ وہ لدھیانہ کے اسٹیشن پر مجھے ملائے وہ مجسٹریٹ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یہ سلوک کیا تھالدھیانے کے اسٹیشن پر حضرت مصلح موعود کو ملا اور بڑے الحاج سے بڑے درد سے ” کہنے لگا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے صبر کی توفیق دے.مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میری حالت ایسی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ میں کہیں پاگل نہ ہو جاؤں.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ آیات بینات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتا رہتا ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 359-360) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے
خطبات مسرور جلد 13 89 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء کہ ایک دفعہ رستم کے گھر چور آ گیا.رستم بیشک بہت بہادر تھا مگر اس کی شہرت فنونِ جنگ میں تو تھی.وہ جنگ کرنے میں تو ماہر تھا.تلوار چلانی خوب جانتا تھا لیکن ضروری نہیں ہے کہ جو جنگ کا ماہر ہو وہ گشتی کرنے میں بھی ماہر ہو.بہر حال چور آ گیا اس نے چور کو پکڑنے کی کوشش کی.چور کشتی لڑنا جانتا تھا.اس نے رستم کو نیچے گرا دیا.جب رستم نے دیکھا کہ اب تو میں مارا جاؤں گا تو اس نے کہا آ گیا رستم.چور نے جب یہ آواز سنی تو فوراً اسے چھوڑ کر بھا گا.غرض چور رستم کے ساتھ تو لڑ تا رہا بلکہ اسے نیچے گرا لیا مگر رستم کے نام سے ڈر کر بھاگا.اس حوالے سے آپ نے یہ بھی نصیحت فرمائی کہ بعض دفعہ بعض لوگ ایسی افواہیں پھیلا دیتے ہیں جس سے لوگوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اگر کسی آدمی کے گھر میں آگ لگی ہو تو ٹھیک ہے وہ بجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس پر اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا یہ خبر سن کر ہوتا ہے کہ اس کے گھر کو آگ لگ گئی اور وہ وہاں موجود نہیں تھا.(ماخوذ از بعض اہم اور ضروری امور.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 277) پھر آپ نے فرمایا کہ کسی جگہ بموں کا پڑنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا یہ شور پڑ جانا کہ بم پڑ رہے ہیں.تو غلط افواہیں جو ہیں بعض دفعہ بزدلی پیدا کر دیتی ہیں.پس اپنی بہادری اور جرات کو قائم کرنے کے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ غلط افواہوں کو پھیلنے سے روکا جائے اور اس کا مقابلہ کیا جائے.(ماخوذ از بعض اہم اور ضروری امور.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 276) رستم کو چور نے قابو کر لیا لیکن اس کے نام کا خوف تھا تو اس نام سے دوڑ گیا.اسی طرح بعض دفعہ افواہیں جو ہیں غلط رنگ میں ماحول کو خوفزدہ کر دیتی ہیں اس لئے ہمیشہ افواہوں سے بھی بچنا چاہئے اور ایسے حالات میں جرات کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے.یہ جو مقدمہ کرم دین تھا.اس کے بارے میں بھی فرماتے ہیں.1902ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لئے آپ کے نام سمن جاری ہوا.چنانچہ آپ جنوری 1903ء میں وہاں تشریف لے گئے.یہ سفر آپ کی کامیابی کے شروع ہونے کا پہلا نشان تھا کہ گویا آپ ایک فوجداری مقدمے کی جوابدہی کے لئے جارہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہوسکتا.جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اترے ہیں اس وقت وہاں اس قدر نبوہ کثیر تھا کہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہونے کی جگہ نہ رہی بلکہ سٹیشن کے باہر بھی دورویہ سڑکوں پر لوگوں کی اتنی بھیڑ تھی کہ گاڑی کا گزرنا مشکل ہو گیا تھا.
خطبات مسرور جلد 13 90 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء حتی کہ افسران ضلع کو انتظام کے لئے خاص اہتمام کرنا پڑا اور غلام حیدر صاحب تحصیلدار اس اسپیشل ڈیوٹی پر لگائے گئے.آپ حضرت صاحب کے ساتھ نہایت مشکل سے راستہ کراتے ہوئے گاڑی کو لے گئے کیونکہ شہر تک برابر ہجوم خلائق کے سبب راستہ نہ ملتا تھا.اہل شہر کے علاوہ ہزاروں آدمی دیہات سے بھی آپ کی زیارت کے لئے آئے تھے.قریباً ایک ہزار آدمی نے اس جگہ بیعت کی اور جب آپ عدالت میں حاضر ہونے کے لئے گئے تو اس قدر مخلوق کا رروائی مقدمہ سننے کے لئے موجود تھی کہ عدالت کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا.دور میدان تک لوگ پھیلے ہوئے تھے.(بہر حال) پہلی پیشی میں آپ بری کئے گئے اور مع الخیر واپس تشریف لے آئے.(ماخوذ از سیرت مسیح موعود.انوار العلوم جلد 3 صفحہ 366) بہر حال اس کے بعد جس طرح کہ آپ نے ذکر کیا تعداد بھی بڑھنی شروع ہوگئی.1903ء سے آپ کی ترقی حیرت انگیز طریق سے شروع ہوگئی اور بعض دفعہ ایک ایک دن میں پانچ پانچ سو آدمی بیعت کے خطوط لکھتے تھے اور آپ کے پیرو اپنی تعداد میں ہزاروں لاکھوں تک پہنچ گئے.ہر قسم کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہ سلسلہ بڑے زور سے پھیلنا شروع ہو گیا اور آپ کی زندگی میں ہی یہ پنجاب سے نکل کر دوسرے صوبوں اور پھر دوسرے ملکوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا.سیرت مسیح موعود.انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 367-366) اللہ تعالی گستاخی کی سزا کس طرح دیتا ہے.ایک تو مجسٹریٹ کا واقعہ سنا.ایک اور واقعہ آپ بیان فرماتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ لکھنو گئے وہاں ایک سرحدی مولوی عبد الکریم تھا جو ہماری جماعت کا شدید مخالف تھا.اس نے ہمارے آنے کے بعد ایک تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک واقعہ کو اس نے نہایت تحقیر کے طور پر بیان کیا.وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام دتی گئے.وہاں ہمارے ایک رشتے کے ماموں مرزا حیرت دہلوی تھے.انہیں ایک دن شرارت سوجھی اور وہ جعلی انسپکٹر پولیس بن کر آگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ڈرانے کے لئے کہنے لگے کہ میں انسپکٹر پولیس ہوں اور مجھے حکومت کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں آپ کو نوٹس دوں کہ آپ یہاں سے فوراً چلے جائیں ورنہ آپ کو نقصان ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اس کی طرف توجہ نہ دی مگر بعض دوستوں نے تحقیق کرنی چاہی کہ یہ کون شخص ہے تو وہ وہاں سے بھاگ گئے.اس واقعہ کو مولوی عبدالکریم سرحدی نے جو غیر احمدی مولوی تھا اس رنگ میں بیان کیا کہ دیکھو وہ خدا کا نبی بنا پھرتا ہے مگر وہ
خطبات مسرور جلد 13 91 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء دلی گیا تو مرزا حیرت انسپکٹر پولیس بن کر اس کے پاس چلا گیا.وہ کوٹھے پر بیٹھا ہوا تھا ( حالانکہ یہ بھی بات بالکل جھوٹ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت نیچے دالان میں، گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے.) مولوی عبدالکریم حضرت مسیح موعود کے بارے میں کہتا ہے کہ جب اس نے سنا کہ انسپکٹر پولیس آیا ہے تو ایسا گھبرایا کہ سیڑھیوں سے اترتے وقت اس کا پیر پھسلا اور وہ منہ کے بل زمین پر آ گرا.لوگوں نے یہ تقریرسن کر بڑے قہقہے لگائے اور بڑے ہنستے رہے لیکن اس بات کے بعد واقعہ کیا ہوا.اللہ تعالی پکڑ کس طرح کرتا ہے.اسی رات مولوی عبدالکریم کو خدا تعالیٰ نے پکڑ لیا.وہ اپنے مکان کی چھت پر سو یا ہوا تھا.رات کو کسی کام کے لئے اٹھا اور چونکہ اس چھت کی کوئی منڈیر نہیں تھی اور نیند سے اس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں اس کا ایک پاؤں چھت سے باہر جا پڑا اور وہ دھڑام سے نیچے آ گرا اور گرتے ہی مر گیا.آپ فرماتے ہیں کہ دیکھو اگر اس کو غیب کا پردہ نہ ہونے کی صورت میں پتا ہوتا کہ مجھے گستاخی کی یہ سزا ملے گی تو کبھی گستاخی نہ کرتا بلکہ آپ پر ایمان لے آتا گو ایسا ایمان اس کے کسی کام نہ آتا کیونکہ جب غیب ہی نہ رہا تو ایمان کا کیا فائدہ.ایمان تو اسی وقت آتا ہے جب کچھ غیب پر بھی ایمان لایا جائے.ایمان تو وہی کارآمد ہوسکتا ہے جو غیب کی حالت میں ہو.ثواب یا عذر سامنے نظر آنے پر تو ہر کوئی ایمان لاسکتا ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحه 23) انبیاء سے تمسخر کا نتیجہ بہر حال اس سے یہ بات بھی اس کا انجام دیکھنے والوں پر ظاہر ہوگئی کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ تمسخر کا نتیجہ کیا ہوتا ہے.آج جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمسخرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں یا بیہودہ گوئیاں کرتے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی ہیں.کیا آپ کے بارے میں لوگوں کی بیہودہ گوئیوں کو اللہ تعالیٰ یونہی جانے دے گا؟ نہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ ایسوں کو دنیا میں بھی عبرت کا نشان بناتا ہے.پس ایسے لوگوں کا علاج مسلمانوں کو ہاتھ سے نہیں یا بندوق سے نہیں کرنا بلکہ دعاؤں کے ذریعہ سے کرنا چاہئے.لیکن اس کا بھی حقیقی ادراک احمدیوں کو ہی ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں اپنے دردوں کو دعاؤں میں ڈھالنا چاہئے اور ان دنوں میں خاص طور پر دعا کرنی چاہئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا جو پہلے مولوی کا بیان ہو چکا ہے، ذکر کرتے ہوئے آگے مزید فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایسے تھے جو کہتے تھے کہ مرزا صاحب کو کوڑھ ہو جائے گا.خدا نے انہیں ہی کوڑھ میں مبتلا کر دیا.بہت کہتے تھے کہ مرزا صاحب کو طاعون ہو جائے گا.خدا نے یہ کہنے
خطبات مسرور جلد 13 92 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء والوں کو طاعون سے ہلاک کیا.جب ہزاروں مثالیں اس قسم کی موجود ہیں تو ہم کہاں تک انہیں اتفاقات پر محمول کریں.پس اپنے اندر ایسی پاک تبدیلی پیدا کرو کہ دنیا اسے محسوس کرے.تمہاری حالت یہ ہو کہ تمہارے تقوی وطہارت تمہاری دعاؤں کی قبولیت اور تمہارے تعلق باللہ کو دیکھ کر لوگ اس طرف کھنچے چلے آویں.یادرکھو کہ احمدیت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ سے ہوگی اور آپ لوگ اس مقام پر یا اس کے قریب تک پہنچ جائیں گے تو پھر اگر آپ باہر بھی قدم نہ نکالیں گے بلکہ کسی پوشیدہ گوشے میں بھی جا بیٹھیں گے تو وہاں بھی لوگ آپ کے گرد جمع ہو جا ئیں گے.(ماخوذ از جماعت احمد یہ دہلی کے ایڈریس کا جواب.انوار العلوم جلد 12 صفحہ 86) اور انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت میں داخل ہوں گے.ایک واقعہ کا ذکر آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں گئے تو مولویوں نے فتویٰ دیا کہ جو اُن کے لیکچر میں جائے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا لیکن چونکہ حضرت مرزا صاحب کی کشش ایسی تھی کہ لوگوں نے اس فتوے کی بھی کوئی پرواہ نہ کی.راستوں پر پہرے لگا دیئے گئے تاکہ لوگوں کو جانے سے روکیں.سڑکوں پر پتھر جمع کر لئے گئے کہ جو نہ رکے گا اسے ماریں گے.پھر جلسہ گاہ سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لے جاتے تھے کہ لیکچر نہ سنیں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک بیٹی صاحب تھے جو اس وقت سیالکوٹ میں سٹی انسپکٹر تھے اور پھر سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی ہو گئے تھے.وہاں پر امن قائم کرنے کے لئے یا نگرانی کرنے کے لئے ان کا انتظام تھا.بہر حال فرماتے ہیں جب لوگوں نے بہت شور مچایا اور ساد کرنا چاہا تو چونکہ حضرت صاحب کی تقریر انہوں نے یعنی بی ٹی صاحب نے ، انسپکٹر پولیس نے بھی سنی تھی.وہ حیران ہو گئے کہ اس تقریر میں حملہ تو آریوں اور عیسائیوں پر کیا گیا ہے اور جو کچھ مرزا صاحب نے کہا ہے اگر وہ مولویوں کے خیالات کے خلاف بھی ہو تو بھی اس سے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا.اور اگر وہ باتیں سچی ہیں تو اسلام کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے.پھر مسلمانوں کے فساد کرنے کی کیا وجہ ہے؟ پھر فرماتے ہیں کہ اگر چہ وہ سرکاری افسر تھا مگر وہ جلسے میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ تو یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا خدا مر گیا اس پر اے مسلمانو! تم کیوں غصہ کرتے ہو؟ (ماخوذ از تحریک شدھی ملکانہ.انوارالعلوم جلد 7 صفحہ 192) حضرت مولوی برہان الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت ہی مخلص صحابی گزرے ہیں.ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ احمدیت سے پہلے وہ وہابیوں کے مشہور عالم تھے اور ان میں انہیں بڑی عزت حاصل تھی.جب احمدی ہوئے تو باوجود اس کے کہ ان کے گزارے میں تنگی آگئی پھر بھی انہوں نے پرواہ نہ کی اور اسی غربت میں دن گزار دیئے.بہت ہی مستغنی المزاج آدمی تھے.انہیں
خطبات مسرور جلد 13 93 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء دیکھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ کوئی عالم ہیں بلکہ بظاہر انسان یہی سمجھتا تھا کہ یہ کوئی بہت ہی مزدور پیشہ یا تھی ہیں.بہت ہی منکسر طبیعت کے آدمی تھے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے ان کا ایک لطیفہ ہمیشہ یاد رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے اور وہاں سخت مخالفت ہوئی تو اس کے بعد جب آپ واپس آئے تو مخالفوں کو جس جس شخص کے متعلق پتا لگا کہ یہ احمدی ہے اسے سخت تکلیفیں دینی شروع کر دیں.مولوی برہان الدین صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ٹرین پر سوار کرا کے اسٹیشن سے واپس جا رہے تھے کہ لوگوں نے ان پر گو بر اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کر دیا اور ایک نے تو گوبر آپ کے منہ میں ڈال دیا.مگر وہ بڑی خوشی سے اس تکلیف کو برداشت کرتے گئے اور جب بھی ان پر گوبر پھینکا جاتا تو بڑے مزے سے کہتے کہ ایہہ دن کتھوں، اے خوشیاں کتھوں“.اور بتانے والے نے بتایا کہ ذرا بھی ان کی پیشانی پر بل نہ آتا.غرض اس کے مختلف ورژن ہیں.مختلف بیان ہیں.لیکن بہر حال اصل الفاظ یہ نہ بھی ہوں تو مطلب یہی ہے کہ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا.ان کے ماتھے پر کوئی بل نہیں آیا اور اس کو یہ سمجھا کہ اس مخالفت کی وجہ سے جو مجھ پر ہو رہا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.بہر حال فرماتے ہیں کہ غرض بہت ہی مخلص انسان تھے.وہ اپنے احمدی ہونے کا موجب ایک عجیب واقعہ سنایا کرتے تھے.احمدی گو وہ کچھ عرصہ بعد میں ہوئے ہیں مگر انہوں نے دعویٰ سے بہت ہی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کر لیا تھا.درمیان میں کچھ وقفہ پڑ گیا.انہوں نے ابتدا میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا تو پیدل قادیان آئے.یہاں آ کر پتا لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور تشریف لے گئے ہیں.شاید کسی مقدمے میں پیشی تھی یا کوئی اور وجہ تھی.مجھے صحیح معلوم نہیں.آپ فوراً گورداسپور پہنچے.وہاں انہیں حضرت حافظ حامد علی صاحب مرحوم ملے.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دیرینہ خادم اور دعویٰ سے پہلے آپ کے ساتھ رہنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذیل گھر میں یا کہیں اور ٹھہرے ہوئے تھے اور جس کمرے میں آپ مقیم تھے اس کے دروازے پر چک پڑی ہوئی تھی.مولوی برہان الدین صاحب کے دریافت کرنے پر حافظ حامد علی صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرے میں کام کر رہے ہیں.انہوں نے (مولوی برہان الدین صاحب نے ) کہا میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں.حافظ صاحب نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصروفیت کی وجہ سے منع کیا ہے اور حکم دے رکھا ہے کہ آپ کو نہ بلایا جائے.مولوی صاحب نے منتیں کیں.کسی طرح ملاقات کروا دو.مگر حافظ صاحب نے کہا میں کس طرح عرض کر سکتا ہوں جبکہ آپ نے ملنے سے منع کیا ہوا ہے.لیکن آخر بہت
خطبات مسرور جلد 13 94 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء سی منتوں کے بعد انہوں نے حافظ صاحب سے اتنی اجازت لے لی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چک سے جھانک کر زیارت کر لیں.یا یہ کہ ان کی نظر بچا کر انہوں نے دیکھ لیا.بہر حال حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں اس وقت مجھے تفصیل یاد نہیں.وہ اس کمرے کی طرف گئے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور چک اٹھا کر جھانکا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہل رہے ہیں.اس وقت آپ کی دروازے کی طرف پشت تھی اور بڑی تیزی سے دیوار کی دوسری طرف جا رہے تھے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی جب آپ کتاب، اشتہار یا کوئی مضمون لکھتے تو بسا اوقات ٹہلتے ہوئے لکھتے جاتے اور آہستہ آواز سے اسے ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جاتے.اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی مضمون لکھ رہے تھے اور بڑی تیزی سے ٹہلتے جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے.دیوار کے قریب پہنچ کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس مڑنے لگے تو مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں کہ میں وہاں سے بھاگا تا آپ کہیں مجھے دیکھ نہ لیں.حافظ حامد علی صاحب نے یا کسی اور نے پوچھا کہ کیا ہوا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کر لی.وہ کہنے لگے بس پتا لگ گیا اور پنجابی میں کہنے لگے کہ جیڑا کمرے وچ ایناں تیز تیز چلدا اے اس نے کسی دور جگہ ہی جانا ہے.یعنی جو کمرے میں اس قدر تیز چل رہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ منزل مقصود بہت دور ہے اور اسی وقت آپ کے دل میں یہ بات جم گئی کہ آپ دنیا میں کوئی عظیم الشان کام کر کے رہیں گے.اے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں یہ ایک نکتہ ہے مگر اس کو نظر آ سکتا ہے جسے روحانی آنکھیں حاصل ہوں.وہ اس وقت بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بات کئے چلے گئے.مگر چونکہ یہ بات دل میں جم چکی تھی اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی اور پھر اس قدرا خلاص بخشا کہ انہیں کسی کی مخالفت کی پرواہ ہی نہ رہی.کاموں میں تیزی پیدا کریں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ تیزی کے ساتھ کام کرنے سے اوقات میں بڑا فرق پڑ جاتا ہے.اور پھر آپ نے فرمایا کہ بچوں کو جلدی کام کرنے اور جلدی سوچنے کی عادت ڈالی جائے.مگر جلدی دیگر مستند تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس وقت ہوشیار پور میں تشریف فرما تھے.خطبات محمود میں گورداسپورلکھا ہوا ہے جو کہ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.خطبات محمود جلد 2 ص 383 میں یہی واقعہ بیان ہوا ہے وہاں ہوشیار پور ہی لکھا ہوا ہے.مرتب سید مبشر احمد ایاز
خطبات مسرور جلد 13 95 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء سے مراد جلد بازی نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر تیزی سے کام کرنا ہے.جلد باز شیطان ہے.لیکن سوچ سمجھ کر جلدی کام کرنے والا خدا تعالیٰ کا سپاہی ہے.یہ ستی بہت سوں میں پیدا ہوتی ہے کہ آرام کر لیں ، بعد میں کام کرلیں گے تو پھر ہمیشہ کام لیٹ ہوتا چلا جاتا ہے.پس صرف بچوں کی بات نہیں ہے.بڑوں اور عہد یداروں کو بھی اپنے کاموں میں تیزی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اس مسیح کے ماننے والے ہیں جنہوں نے وقت کو بڑی قدر کرتے ہوئے استعمال کیا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے الہانا بھی فرمایا کہ ان کا وقت ضائع نہیں کیا جاتا.پس ہمیں اس طرف توجہ رکھنی چاہئے.پھر حضرت مسیح موعود کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے دیکھا ہے کہ آپ دن بھر گھر کے اندر کام کرتے لیکن روزانہ ایک دفعہ سیر کے لئے ضرور جاتے.(تحریر، تقریر، ملاقاتیں یہ سارے کام ہوتے لیکن سیر کے لئے ضرور جاتے.) اور چوہتر پچہتر برس کی عمر کے باوجو دسیر پر اس قدر با قاعدگی رکھتے.(اب آپ نے عمر یہاں اندازاً ( بیان فرمائی ہے.اس میں بحث کی ضرورت نہیں ہے.بعض لوگوں کو عادت پڑ جاتی ہے کہ یہاں حوالہ سن لیا تو پھر بحث شروع ہو جائے گی یہ تہتر سال تھی یا چوہتر سال تھی یا پچہتر سال تھی انداز حضرت مصلح موعود بیان فرما رہے ہیں تو بہر حال فرماتے ہیں کہ اتنی عمر کے باوجود سیر پر اس قدر با قاعدگی رکھتے ) کہ آج وہ ہم سے نہیں ہوسکتی.ہم بعض دفعہ سیر پر جانے سے رہ جاتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ضرور سیر کے لئے تشریف لے جاتے.(آپ نے فرمایا) کھلی ہوا کے اندر چلنا پھرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا دماغ کے لئے مفید ہوتا ہے اور جب تحریک جدید کے بورڈر ، ( بورڈ رز کو یہ نصیحت فرمارہے ہیں) کھلی ہوا میں رہ کر مشقت کا کام کریں گے تو جہاں ان کی صحت اچھی رہے گی وہاں ان کا دماغ بھی ترقی کرے گا اور وہ دنیا کے لئے مفید وجود بن جائیں گے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 836 تا 839) پس آجکل کھلی فضا میں کھیلنے کی طرف بھی بچوں اور نو جوانوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور توجہ دلانے کی ضرورت بھی ہے اور جامعات کے طلباء کے لئے تو خاص طور پر کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ باہر کھیلنا لا زمی قرار دیا جانا چاہئے.آجکل ٹی وی اور اس سے متعلقہ کھیلوں نے جو باہر کی ورزشیں ہیں ان کو بالکل بند کر دیا ہے.اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو بہر حال سیر اور کھیلیں ہونی چاہئیں.اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ موت سے ڈرنے والوں کو دشمن ڈراتا ہے، آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس واقعہ کو جو مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کا ہے اُسے اس رنگ میں
خطبات مسرور جلد 13 96 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء بیان فرمایا ہے کہ ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو مولویوں نے فتوی دے دیا کہ جو شخص مرزا صاحب کے پاس جائے گا یا ان کی تقریروں میں شامل ہوگا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا.یہ کافر اور دجال ہیں.ان سے بولنا، ان کی باتیں سننا اور ان کی کتابیں پڑھنا بالکل حرام ہے بلکہ ان کو مارنا اور قتل کرنا ثواب کا موجب ہے.( تو مولویوں کی یہ بات کوئی نئی نہیں ہمیشہ سے چلی آرہی ہے.مگر آپ کی موجودگی میں انہیں فساد کی جرات نہ ہوئی ( کیونکہ اس وقت وہاں پولیس کا بھی پہرا تھا اور سرکاری افسر بھی تھے اور لوگ بھی کافی تھے اس لئے اس وقت تو فساد کی جرات نہ ہوئی ) کیونکہ چاروں طرف سے احمدی جمع تھے.انہوں نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ ان کے جانے کے بعد فساد کیا جائے.(حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے روانہ ہوئے اور گاڑی میں سوار ہوئے تو دور تک آدمی کھڑے تھے جنہوں نے پتھر مارنے شروع کر دیئے مگر چلتی گاڑی پر پتھر کس طرح لگ سکتے تھے.شاذ و نادر ہی ہماری گاڑی کو کوئی پتھر لگتا.وہ مارتے تو ہم کو تھے اور لگتا ان کے کسی اپنے آدمی کو جا کے تھا.پس ان کا یہ منصوبہ تو پورا نہ ہو سکا.باقی احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے وہاں جمع تھے ان میں سے کچھ تو ارد گرد کے دیہات کے رہنے والے تھے جو آپ کی واپسی کے بعد ادھر ادھر پھیل گئے اور جو تھوڑے سے مقامی احمدی رہ گئے یا باہر کی جماعتوں کے مہمان تھے ان پر مخالفین نے سٹیشن پر ہی حملے شروع کر دیئے.ان لوگوں میں سے جن پر حملہ ہوا ایک مولوی برہان الدین صاحب بھی تھے.(ان کا ذکر پہلے آ چکا ہے.) مخالفوں نے ان کا تعاقب کیا.پتھر مارے اور برا بھلا کہا (اور پھر وہی واقعہ ایک دکان میں لے جا کے ان کے منہ میں گوبر ڈالا گیا.تو یہ بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں تو جب مولوی صاحب کے ساتھ یہ زیادتی ہو رہی تھی ظلم ہو رہا تھا ) تو بجائے اس کے کہ مولوی صاحب گالیاں دیتے یا شور مچاتے.جنہوں نے وہ نظارہ دیکھا ہے بیان کرتے ہیں کہ وہ بڑے اطمینان اور خوشی سے یہ کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ یہ دن کسے نصیب ہوتا ہے.یہ دن تو اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے آنے پر ہی نصیب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے جس نے مجھے یہ دن دکھایا.(آپ فرماتے ہیں کہ ) نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی دیر میں جولوگ حملہ کر رہے تھے ان کے نفس نے ملامت کی اور وہ شرمندگی اور ذلت سے آپ کو چھوڑ کے چلے گئے.تو بات یہ ہے کہ جب دشمن دیکھتا
خطبات مسرور جلد 13 97 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء ہے کہ یہ لوگ موت سے ڈرتے ہیں تو کہتا ہے آؤ ہم انہیں ڈرا ئیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ شیطان اپنے اولیا ء کو ڈراتا ہے.پس جب کوئی شخص ڈرتا ہے تو دشمن سمجھتے ہیں کہ یہ شیطانی آدمی ہے.لیکن اگر وہ ڈرتا نہیں بلکہ ان حملوں اور تکلیفوں کو خدا تعالی کا انعام سمجھتا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے یہ عزت کا مقام عطا فرمایا اور اس نے مجھ پر احسان کیا ہے کہ میں اس کی خاطر ماریں کھا رہا ہوں تو دشمن مرعوب ہو جاتا ہے اور آخر اس میں ندامت پیدا ہو جاتی ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحه 582-583) مومن کا کام ہے اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھے مولوی برہان الدین صاحب کے تعلق میں ایک اور واقعہ بھی ہے.”مولوی برہان الدین صاحب (جیسا کہ بتایا گیا) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مخلص صحابی تھے.نہایت خوش مذاق آدمی تھے.انہی کی وفات اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی وفات کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مدرسہ احمدیہ کے قیام کا خیال پیدا ہوا تھا ( جو بعد میں پھر جامعہ احمدیہ بن گیا.تو فرماتے ہیں کہ ) وہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اور ذکر کیا کہ میں نے خواب میں اپنی فوت شدہ ہمشیرہ کو دیکھا ہے.وہ مجھے ملی ہے.میں نے اسے پوچھا کہ بہن بتا ؤ وہاں تمہارا کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگی خدا نے بڑا فضل کیا ہے مجھے اس نے بخش دیا اور اب میں جنت میں آرام سے رہتی ہوں.میں نے پوچھا کہ بہن وہاں کرتی کیا ہو؟ وہ کہنے لگی یہ بھی لطیفہ ہے.کہنے لگی بیر بچتی ہوں.مولوی برہان الدین صاحب کہنے لگے میں نے خواب میں ہی کہا.بہن ساڈھی قسمت وی عجیب اے، سانوں جنت دے وچ وی بیرامی و بیچنے پیٹے.ان کے خاندان میں چونکہ غربت تھی اس لئے خواب میں بھی ان کا خیال ادھر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ رویا سن کر فرمایا مولوی صاحب ! اس کی تعبیر تو اور ہے مگر خواب میں بھی آپ کو تمسخر ہی سوجھا اور آپ کو مذاق کرنا نہ بھولا.( کیونکہ مذاق کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بیر در حقیقت جنتی پھل ہے اور اس سے مراد ایسی کامل محبت ہوتی ہے جو لا زوال ہو.کیونکہ سدرۃا لا زوال الہی محبت کا مقام ہے.پس اس کی تعبیر یہ تھی کہ میں اللہ تعالیٰ کی لازوال محبت لوگوں میں تقسیم کرتی ہوں تو بہن کا مطلب یہ تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی لازوال محبت لوگوں میں تقسیم کرتی ہوں.( پھر آپ وضاحت میں فرماتے ہیں)
خطبات مسرور جلد 13 98 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 فروری 2015ء غرض مومن تو کسی جگہ رہے اسے کام کرنا پڑے گا یعنی یہ نہیں کہ مرنے کے بعد جنت میں چلے گئے تو صرف آرام ہی آرام ہے.کام کرنا پڑے گا جیسا کہ ان کی ہمشیرہ نے انہیں بتایا کہ میں کیا کام کرتی ہوں اور اگر کسی وقت کسی کے ذہن میں یہ آیا کہ اب آرام کا وقت ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس نے اپنے ایمان کو کھو دیا کیونکہ جس بات کو اسلام نے ایمان اور آرام قرار دیا ہے وہ تو کام کرنا ہے.اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلى رَبَّكَ فَارْغَبُ (الانشراح:8-9) کہ جب تم فارغ ہو جاؤ تو اور زیادہ محنت کرو اور اپنے رب کی طرف دوڑ پڑو.یہ نکتہ ہے جسے ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.تمہارے لئے ان معنوں میں کوئی آرام نہیں جسے دنیا کے لوگ آرام کہتے ہیں.لیکن جن معنوں میں قرآن کریم آرام کا وعدہ کرتا ہے اسے تم آسانی سے حاصل کر سکتے ہو.دنیا جن معنوں میں آرام کا مطلب لیتی ہے وہ یقیناً غلط ہے اور ان معنوں سے جس شخص نے آرام کی تلاش کی وہ اس جہان میں بھی اندھا رہے گا اور آخرت میں بھی اندھا اٹھے گا“.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 612-613) پس مومن کا کام ہے کہ اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھے.ایک ہدف کو حاصل کر کے دوسرے ٹارگٹ کی تلاش کے لئے کمر بستہ ہو جائے.اور یہی انفرادی اور قومی ترقی کا نسخہ ہے اور راز ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27 فروری 2015 ء تا05 مارچ 2015 ، جلد 22 شماره 09 صفحه 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 99 7 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015 ء بمطابق 13 تبلیغ 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قومی نقائص اور وجوہات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ قومی نقائص اور کمزوریوں کے بارے میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس میں ان کمزوریوں کی وجوہات اور جماعت کو ان سے بچنے کی طرف توجہ دلائی تھی.اس مضمون کی آج بھی ضرورت ہے اس لئے میں نے اس سے استفادہ کرتے ہوئے آج اس مضمون کو لیا ہے.نقائص اور کمزوریاں ہمیشہ دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک فردی کمزوریاں اور نقائص اور ایک قومی کمزوریاں اور نقائص.اسی طرح خوبیاں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک فردی خوبیاں اور دوسرے قومی خوبیاں.فردی نقائص وہ ہیں جو افراد میں تو ہوتے ہیں لیکن من حیث القوم، قوم میں نہیں ہوتے.اسی طرح خوبیاں ہیں.بعض خوبیاں افراد میں تو ہوتی ہیں لیکن من حیث القوم، قوم میں نہیں ہوتیں.افراد اپنے علم اور اپنی کوشش سے بعض خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں.اسی طرح نقائص کی وجوہات اور اسباب ہر شخص کے اپنے حالات اور ماحول کی وجہ سے ہوتے ہیں.بدی اور نیکی کے بارے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ نیکی اور بدی یا نقص اور خوبی اپنے ماحول کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.اس کی مثال اسی طرح ہے جیسے کوئی بیج زمین کے بغیر نہیں اگ سکتا یا آجکل نئے ذریعہ کاشت میں ایک خاص قسم کی مٹی بنائی جاتی ہے جس میں پانی جذب کرنے اور بیچ کو پروان چڑھانے کی صلاحیت ہوتی ہے.
خطبات مسرور جلد 13 100 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء بڑے بڑے برتنوں میں اس کو رکھا جاتا ہے اور بڑے بڑے ہالوں کے اندر اس کی کاشت ہوتی ہے لیکن بہر حال اس کے بغیر بیچ نہیں اُگ سکتا.کسی بھی بیچ سے صحیح استفادہ کے لئے ، اس سے اس کے اگانے کا مقصد حاصل کرنے کے لئے اس کو زمین یا زمین جیسے ماحول کے میٹر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بغیر بیج اگر اُگے گا بھی تو تھوڑے عرصے میں مرجائے گا، ختم ہو جائے گا.اسی طرح بدی یا نیکی جو نقائص یا خوبی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے وہ ماحول کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.پس برائیوں یا نیکیوں کے بڑھنے میں ماحول ایک لازمی جزو ہے.اردگرد کے اثرات جب تک کسی نیکی یا بدی کے لئے خاص زمین تیار نہ کر دیں اس وقت تک وہ بدی یا نیکی نشو و نما نہیں پاسکتی.لیکن ماحول بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ضروری نہیں کہ ایک قسم کا ماحول ہر ایک پر ایک جیسا اثر انداز ہو جائے.ایک قسم کا ماحول صرف افراد پر اثر ڈالتا ہے اور من حیث القوم وہ ہر ایک کو متاثر نہیں کرتا.اس کی مثال ایسی زمین کی ہے جس میں خاص فصلیں اگ سکیں.مثلاً حضرت مصلح موعودؓ نے مثال دی ہے کہ زعفران ہے، ہندوستان میں پیدا ہوتا ہے تو یہ تمام ہندوستان میں نہیں ہوتا ہے بلکہ خطہ کشمیر میں ہوتا ہے اور وہاں بھی ایک خاص علاقہ ہے جس میں خاص قسم کا زعفران پیدا ہوتا ہے جو اعلیٰ قسم کا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 13 صفحہ 74-75) پاکستانی زمیندار بھی جانتے ہیں بلکہ چاول کا کاروبار کرنے والے بہت سارے لوگ جانتے ہیں که خوشبودار باسمتی جیسا کہ کالر کے علاقے میں ہوتا ہے وہاں پاکستان کے اور کسی علاقے میں نہیں ہوتا.زراعت کے ماہرین نے بڑی کوشش بھی کی ہے لیکن اس جیسی خوشبو پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے.بہر حال خاص حالات خاص بیجوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے قانون قدرت میں مہیا کر دیئے ہیں یا مقرر کر دیئے ہیں اس کے بغیر وہ خاصیت اور وہ صفت پیدا نہیں ہوتی.پھر زمین ہے یا دوسرے موسمی اثرات ہیں یہ سارے اثر انداز ہوتے ہیں.اس کے مقابلے پر بعض فصلیں ایسی ہیں مثلاً گندم ہے یا خاص قسم کے باغات ہیں وہ ایک ملک میں تمام جگہ ہو جاتے ہیں.پیداوار میں کمی و بیشی کا فرق ہو تو ہولیکن ہو جاتے ہیں.پس اسی طرح نیکیاں اور بدیاں بھی بعض اثرات کے تحت قومی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں اور پوری قوم کی ترقی یا زوال کا ذریعہ بن جاتی ہیں.افراد کی بدیاں تو افراد کی کوشش سے ٹھیک ہوسکتی ہیں اور اگر کوشش کریں تو نہ صرف بدیاں دُور ہو جائیں گی بلکہ افراد میں اگر وہ کوشش کریں تو فردی خوبیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں.لیکن جو قومی اثرات کے تحت بدیاں یا نیکیاں ہوں ان کے لئے کسی ایک فرد کی کوشش کارآمد ثابت
خطبات مسرور جلد 13 101 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء نہیں ہوسکتی کیونکہ فرد جزو ہے.گل کا حصہ ہے اور جو خرابی گل میں ہو وہ جزو کی اصلاح سے ٹھیک نہیں ہوسکتی بلکہ گل کی خرابی اگر ہو تو اس سے فرد بھی متاثر ہوتا ہے.اگر ایک علاقے میں ماحول ہی خراب ہے تو اس ماحول کی وجہ سے وہاں رہنے والے تمام لوگ متاثر ہوں گے.مثلاً اگر کوئی شخص زہر کھا لے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ زہر ہاتھ پاؤں اور دماغ یا دوسرے اعضاء پر اثر نہ کرے.یہ تمام جسم پر اثر کرے گا.اسی طرح ہمارا کھانا ہے.گوشت پھل وغیرہ ہم کھاتے ہیں اور مختلف چیزیں ہم کھاتے ہیں ان سے جسم کا ہر حصہ فائدہ اٹھائے گا کیونکہ یہ تمام اعضاء گل کے یعنی جسم کے افراد ہیں.اس لئے وہ زہر میں بھی حصہ لیتے ہیں اور اچھی خوراک میں بھی حصہ لیتے ہیں.اسی طرح جو نیکی یا بدی قومی طور پر پیدا ہو وہ تمام قوم پر اثر ڈالتی ہے.پس جوقومی بدیاں یا نیکیاں ہوں ان کا مقابلہ کوئی خاص حصہ جم یا فرد نہیں کرسکتا یاکسی خاص فرد کی اصلاح سے قومی اصلاح نہیں ہو سکتی ، نہ بدیوں کو دور کیا جاسکتا ہے.اسی طرح نہ ہی نیکیوں کو پھیلا یا جاسکتا ہے.کیونکہ کل کا اثر جز و پر ضرور پڑتا ہے.بہر حال یہی قاعدہ ہے کہ اگر کل کو فائدہ ہوتو جز وکوبھی فائدہ ہوگا اور اگر کل کو نقصان پہنچے تو جز و کوبھی نقصان پہنچے گا.پس افراد کی بدیاں تو ان کی تشخیص کر کے پھر ان کا علاج کر کے دُور کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے اور کسی کو اگر خود احساس ہو جائے تو وہ خود بھی کوشش کر کے اپنی بدیاں دُور کر سکتا ہے لیکن قومی بدیوں کو دور کرنے کے لئے تمام قوم کو غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.اگر بحیثیت قوم وہ بدیوں کو دور کرنے کے لئے کھڑی نہ ہو ، کوشش نہ کرے یا بحیثیت قوم علاج کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو بحیثیت قوم وہ بدیاں اور نقائص اس قوم میں پیدا ہو جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب وہ قوم کو ہلاک کرنے کا باعث بن جاتے ہیں.پس جہاں یہ ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے نفس کی کمزوریوں کو دیکھے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی کمزوریوں کو دیکھیں اور ان کی نشاندہی کریں اور پھر بحیثیت قوم ان کا علاج اور تدارک کریں اور اس علاج میں ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ بغیر مشتر کہ کوشش کے اور مشترکہ طور پر علاج کے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.دنیاوی قانون کو بھی اگر دیکھیں مثلاً قدرتی آفات ہیں ،سیلاب ہے تو کوئی زمیندارا اپنی زمین کو بند باندھ کر سیلاب سے نہیں بچا سکتا.بند باندھنا، اس کی منصوبہ بندی کرنا یہ حکومت کا کام ہے.مشترکہ کوشش حکومت کی طرف سے ہوتی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 13 صفحه 75-76) حکومت نام ہے لوگوں کے جمع ہونے کا اور جہاں حکومتیں ہی لکھی ہوں وہاں پوری قوم کو نقصان
خطبات مسرور جلد 13 102 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء ہوتا ہے.جیسا کہ پاکستان میں گزشتہ دنوں جب گرمیوں میں سیلاب آیا تو اس میں ہم نے دیکھا اور ہمیشہ دیکھتے ہیں.بعض قدرتی آفات سے بچا جا سکتا ہے بیشک قدرتی آفات ایسی ہیں کہ جب آئیں تو ان سے بچنا مشکل ہے لیکن ایسی بھی ہیں جن سے بچا جا سکتا ہے.بعض آفات کے آنے سے پہلے ان سے ہوشیار کرنے کے سامان ہو جاتے ہیں لیکن انسان اپنی لا پرواہی کی وجہ سے توجہ نہیں دیتا اور نقصان اٹھاتا ہے.بہر حال اگر قوم کو یا حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ رہے تو نقصان کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور یہ عموماً دنیا میں ہم دیکھتے ہیں.پس قومی احساس اصلاح کے لئے ضروری ہے.اس بارے میں جماعت احمدیہ کے حوالے سے حضرت مصلح موعود نے توجہ دلاتے ہوئے کہ ہمیں ان قومی بدیوں کو کس طرح دیکھنا چاہئے اور ان پر کس طرح غور کرنا چاہئے یہ فرمایا کہ اگر جماعت بعض پہلوؤں سے اس پر غور کرے اور اس کا علاج کرے تو فائدہ ہوسکتا ہے.اس کے مختلف ذرائع ہیں، کیونکہ یہ ذرائع جو ہیں وہ قومی امراض کی تشخیص کر سکتے ہیں اور جب تشخیص ہو جائے تو پھر یہ علاج بھی ہو سکتا ہے.پہلا ذریعہ وہ تعلیمات ہیں جوکسی قوم میں جاری ہوں اور جن پر عمل کرنا ہر شخص اپنا فرض سمجھتا ہو.اگر وہ بری باتیں ہیں یا اس تعلیم کے بدنتائج ہیں یا اس تعلیم سے بدنتائج نکل سکتے ہوں جیسا کہ بعض مذاہب میں ہیں تو اس کی وجہ سے پھر اس میں برائیاں پیدا ہوتی ہیں.یا بدعات پیدا ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے پھر برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اگر کسی مذہب میں غلط عقائد اور باتیں ہیں تو اس سے ہر وہ شخص متاثر ہو گا جو بھی اس مذہب کو ماننے والا ہے اور تمدنی اور معاشرتی زندگی میں بھی اس سے برے نتائج پیدا ہوں گے.صرف مذہبی طور پر نہیں بلکہ معاشرتی زندگی میں بھی، تمدنی زندگی میں بھی برے نتائج پیدا ہوں گے.لیکن ہم جو مسلمان ہیں قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس تعلیم میں کوئی نقص نہیں اور اس کے برے نتائج کبھی نہیں نکل سکتے یا یہ ہوہی نہیں سکتا کہ اس سے کوئی بدی پیدا ہو کیونکہ تعلیم بے عیب ہے اس لئے ظاہر ہے رانتیجہ نکل نہیں سکتا.پس مسلمانوں نے یہ سوچ لیا کہ برائی آ ہی نہیں سکتی لیکن کیا سب مسلمان برائیوں سے پاک ہیں؟ جب ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیتے ہیں.مسلمانوں کی عمومی حالت دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اکثریت تو برائیوں میں مبتلا ہے.پس اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قرآن میں تو کوئی نقص نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے خود اس میں یہ اعلان فرما دیا کہ اس میں کوئی نقص نہیں ہے.کامل اور مکمل شریعت ہے.اگر قرآن کریم کی بیشمار
خطبات مسرور جلد 13 103 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء پیشگوئیاں اور باتیں پوری ہوئی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ پوری ہو رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان بھی یقیناً سچا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ہر عیب سے پاک ہے اور کامل اور مکمل تعلیم ہے.پس اس بات کو ہم یقینا سچا سمجھتے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ پھر کی کہاں ہے.اس کا جواب یہی ہونا چاہئے کہ پھر اس کے سمجھنے میں غلطی ہے.اس پر عمل میں غلطی ہے.پس اگر قرآن کریم میں کوئی نقص نہیں ہے تو یقیناً ہمارے سمجھنے اور عمل کرنے میں غلطی ہے اور یقیناً قرآن کریم میں نقص نہیں ہے تو پھر اس کے معنی سمجھنے میں غلطی کی وجہ سے قوم متاثر ہوئی ہے.یہ غلطیاں قوم کے پہلے علماء کے قرآن کریم کو غلط سمجھنے کی وجہ سے ہوسکتی ہیں اور موجودہ علماء کے غلط سمجھنے کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں.بہر حال نتیجہ ظاہر ہے جو ہمیں نظر آ رہا ہے.اب علماء یا مفسرین بیشک اپنے نظریات رکھتے تھے یا رکھتے ہیں اور یہ انفرادی نظریات ہیں لیکن قوم یہ نہیں کہتی کہ علماء کے ذاتی نظریات ہیں قوم ان علماء کی طرف دیکھتی ہے.اس لئے ان کے پیچھے چلنے والے غلط نظریات کی وجہ سے یا تفسیروں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے باوجود فائدہ اٹھانے والے نہیں بن سکے بلکہ نقصان اٹھار ہے ہیں اور اس وجہ سے قوم میں برائیاں پیدا ہو گئیں.بعض غلط نظریات رواج پاگئے جن کا اسلام کی تعلیم سے واسطہ ہی نہیں ہے.ماحول کا اثر ہو گیا.دوسرے مذاہب کا اثر ہو گیا.تمدن کا اثر ہو گیا جس کو غلط رنگ میں مذہب کا حصہ سمجھ لیا گیا.تو بہر حال نقائص پیدا ہوئے.تفسیر و تشریح کا ایک بنیادی اصول اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہیں اور ان پرانی روایات یا حکمت سے عاری روایات یا تفاسیر کا ہم پر اثر نہیں ہوسکتا اور نہیں ہونا چاہئے لیکن پھر بھی ہم پورے طور پر محفوظ اس لئے نہیں کہ اپنے نظریات کو رکھنے والے لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں جو بعض مواقع پر بعض معاملات میں شکوک وشبہات میں پڑ جاتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ اس بات کی اس طرح بھی تشریح کرنے میں کوئی حرج نہیں اور بعض دفعہ بعض نئے آنے والے علماء ہی اپنی سوچ کے مطابق تفسیر کر دیتے ہیں گو کہ منع نہیں ہے، ہونی چاہئے لیکن اس کے لئے کچھ اصول ہیں.بہر حال اس غلطی کی وجہ سے پھر ایک غلط نظریہ پیدا ہو سکتا ہے، اس لئے اس برائی سے بچنے کے لئے علماء کو بھی خلافت اور جماعتی نظام کے تحت ہی اپنے نظریات کا اظہار کرنا چاہئے.بیشک ہم غلط نظریات سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر پاک ہیں لیکن اپنے آپ کو غلطیوں سے پاک رکھنے کی ضرورت مستقل طور پر ہے اور اس کا طریقہ یہی
خطبات مسرور جلد 13 104 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء ہے کہ ہم غیر احمدیوں کی غلطیوں پر ہمیشہ نظر رکھیں کیونکہ نظر رکھ کر ہی ہم اپنے اندر ان غلطیوں کو داخل ہونے سے روک سکتے ہیں اور قومی نقائص سے بچ سکتے ہیں.پھر اس چیز پر بھی ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہمارے ارد گرد جو دوسرے مذاہب یا کسی بھی طرح کے لوگ بستے ہیں چاہے کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے ، کسی مذہب پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے ، خدا کو مانتے ہیں یا نہیں مانتے اُن میں کون کون سے قومی نقائص ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 13 صفحہ 76-77) ماحول کے بھیانک اثرات اور نظام جماعت کا فرض اس دائرے کو ساتھ کے ملکوں کے قومی نقائص تک بھی وسعت دینی چاہئے بلکہ اب تو دنیا اس قدر قریب ہو گئی ہے کہ تمام دنیا کے رہنے والے ایک دوسرے کی ہمسائیگی کی شکل اختیار کر گئے ہیں.یعنی وہ فاصلوں کی دُوری رہی نہیں اور پھر اس کے علاوہ میڈیا نے بھی دوریاں ختم کر دی ہیں.ان کی خوبیاں اور خامیاں سب ہمیں نظر آ جاتی ہیں اور ہمسایہ ملکوں کے اثر ایک دوسرے پر پڑتے رہتے ہیں.بچے جس : ماحول میں رہتے ہیں اس ماحول کے ہمسایوں کا اثر بھی ان بچوں پر ہو رہا ہوتا ہے.ماں باپ چاہے بچوں کو سکھاتے رہیں لیکن جہاں بھی کمزوری ہوتی ہے اس سکھانے کے باوجود بھی ماحول کا اثر ہو جاتا ہے.پھر یہ بھی ہے کہ بچوں نے زیادہ وقت سکول میں اور اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ کھیلنے میں گزارنا ہے یا گھروں میں خود ہی اس زمانے میں ایسے دوست مل جاتے ہیں جوٹی وی کے ذریعے سے داخل ہو گئے ہیں جو بچوں اور بڑوں سب پر یکساں اثر انداز ہورہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی بات سنتا نہیں چاہتے اور ماں باپ اپنی مصروفیات کی وجہ سے یا اور وجوہات کی وجہ سے خود بھی بچوں سے فاصلے پیدا کرتے چلے جارہے ہیں اور پھر ایسے بھی ہیں جو گھروں میں ان ذریعوں سے ٹی وی وغیرہ کے ذریعہ سے خود ہی اپنے ماحول کو خراب کر رہے ہیں اور پھر بہر حال نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے اور نکل رہا ہے کہ ماں باپ بچوں پر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں اور بچے ماں باپ کی عزت و احترام نہیں کرتے.کہہ دیتے ہیں کہ اس ماحول میں ایسے ہی رہنا ہے اگر یہاں آئے ہو تو اس طرح گزارا کرنا پڑے گا.اور یہ پھر فردی برائیاں نہیں رہتیں.یہ قومی برائیاں بنتی چلی جارہی ہیں.گھر برباد ہور ہے ہیں.ماں باپ بچوں کا روحانی قتل بھی کر رہے ہیں اور جسمانی قتل بھی کر رہے ہیں.مغربی معاشرہ تو آزادی کے نام پر ایک تباہی کی طرف جاہی رہا ہے اور یہ قومی بدی ہے لیکن اس کی لپیٹ میں بعض احمدی بھی آ رہے ہیں.اس سے پہلے کہ یہ قومی برائی بنے اور وسیع طور
خطبات مسرور جلد 13 105 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء پر پھیل جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد ہم پھر جہالت میں واپس چلے جائیں ہمیں قوم کی حیثیت سے ان باتوں سے بچنے کے لئے کوشش کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے.پس جماعت احمدیہ کے نظام کے تمام حصے اس بات پر غور کرنے کے لئے سر جوڑیں.منصوبہ بندی کریں.اور اگر کوئی بھی برائی ہے تو اس سے پہلے کہ خدا نہ کرے ہم میں بحیثیت قوم مغربی ملکوں کی بیماریاں داخل ہو جائیں اس کا ابھی سے خاتمہ کرنے کی کوشش کریں.ہم نے دنیا کے علاج کا بیڑا اٹھایا ہے.ہم نے یہ وعدہ کیا ہے، یہ اعلان کیا ہے کہ ہم دنیا کا علاج کریں گے.اگر علاج کرنے والے ہی مریض بن گئے تو دنیا سے فردی اور قومی برائیاں اور بدیاں کون دور کرے گا؟ مسجد کی آبادی پھر اس بات کو بھی سامنے رکھ کر غور کرنا چاہئے کہ کسی قوم میں اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے بعض نیکیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں اور بعض کمزوریاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں.اس کی مثال حضرت مصلح موعود نے یہ دی ہے کہ ہماری جماعت اللہ کے فضل سے ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ دُور دُور کے لوگوں کے دلوں کو فتح کر رہا ہے.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی وسعت مل چکی ہے.اور ساتھ ہی ہماری جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ کبھی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے کیونکہ غیر احمدی امام نے اُس امام کو نہیں مانا جس کو خدا تعالیٰ نے زمانے کا امام بنا کر بھیجا ہے اور نہ صرف مانا ہی نہیں بلکہ انتہائی غلیظ زبان بھی استعمال کرتے ہیں.پس ہم خدا کے مقرر کردہ امام پر بندوں کے مقرر کردہ امام کوترجیح نہیں دے سکتے.اس لئے ہم ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.اب عموماً تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے سینٹر بھی ہیں اور مساجد بھی ہیں جہاں احمدی با جماعت نماز پڑھ سکتے ہیں یا پڑھتے ہیں لیکن ابھی بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں ایک ایک دو دو گھر احمدیوں کے ہیں.اس لئے وہ گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں.بجائے اس کے کہ اکٹھے ہو کر نماز پڑھیں ، ہر ایک اپنی اپنی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے.اس طرف میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ گھروں میں بھی باجماعت نماز ادا کر لیا کریں تو کوئی حرج نہیں.یا بعض اس بات پر کہ مصروفیت ہے اپنی نماز علیحدہ پڑھ لیتے ہیں.بعض کام کی مصروفیت کی وجہ سے نمازیں جمع کر لیتے ہیں تو یہ ساری وجوہات اس لئے ہیں کہ مسجد جانے کی طرف توجہ نہیں یا بعض علاقوں میں مسجد قریب نہیں اور قریب کی جو غیر احمدیوں کی مسجد ہے اس میں ہمیں جانے کی اجازت نہیں یا بعض اور دوسری وجوہات ہیں.اس کی وجہ سے نماز تو بہر حال پڑھ ہی لیتے ہیں لیکن گھر میں پڑھتے ہیں اور نماز با جماعت کی طرف عموماً توجہ نہیں ہے یا یہ بھی ہے کہ
خطبات مسرور جلد 13 106 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء نمازیں جمع کرنے کی طرف بلا وجہ زیادہ توجہ ہو گئی ہے.باوجود توجہ دلانے کے، بار بار کی تلقین کے باجماعت نماز کے لئے ایک بڑی تعداد کو ذوق و شوق نہیں ہے گویا یہ ایک قومی بیماری بن رہی ہے.اس لئے اس کے علاج کی بہت زیادہ شدت سے ضرورت ہے.یه فردی نقص نہیں ہے کہ فلاں شخص مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے نہیں آیا.جس طرح عدم توجہی کا اظہار ہو رہا ہے یہ چیز قومی بیماری اور نقص کی شکل اختیار کر گئی ہے.حالات کی وجہ سے سہولت نے نماز باجماعت کی اہمیت کو کم کر دیا ہے.بیشک احمدی نمازیں گھروں میں پڑھتے ہیں اور ان میں ایسے بھی ہیں، بہت سے ایسے ہیں جو بڑے گریہ وزاری سے گڑ گڑا کر نمازیں پڑھتے ہیں جبکہ دوسرے مسلمانوں کی اکثریت ایسی توجہ سے شاید نماز نہ پڑھتے ہوں لیکن پھر بھی وہ جو نمازیں پڑھنے والے ہیں چاہے ظاہر داری کے لئے سہی مسجد میں جا کر نماز ضرور پڑھتے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 13 صفحہ 78-79) اور اب تو پاکستان سے بھی یہی خبریں آتی ہیں کہ غیر احمد یوں میں مسجد جانے کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے.جہاں یہ تو نہیں پتا کہ نماز میں توجہ سے پڑھتے ہیں کہ نہیں لیکن جاتے ضرور ہیں اور پھر وہاں جماعت کے خلاف غلط اور بیہودہ باتیں بھی سنتے ہیں.ان کی وجہ سے ان میں نفرتیں بھی پیدا ہو رہی ہیں.تو برائیاں تو بہر حال ان میں پیدا ہورہی ہیں لیکن ایک چیز ہے کہ مسجد میں جاتے ہیں.ہم نے مسجد میں اگر جانا ہے تو برائیوں کو دور کرنے کے لئے جانا ہے.اس لئے ہمارے جانے میں اور ان کے جانے میں بہت فرق ہے.لیکن ان کو اس طرف توجہ ہو چکی ہے اور ہماری اس طرف توجہ میں بہت کمی ہے.پس ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ مسجدوں کو آباد تو حقیقی مومنوں نے کرنا ہے اور حقیقی مومن وہی ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے، نہ کہ عبادت کے نام پر فتنہ وفساد کر نے والوں نے.من حیث القوم مسجد میں جا کر نماز نہ پڑھنے یا نمازیں جمع کرنے کا نقص مزید بڑھنے کا خطرہ اور امکان اس وقت بڑھ جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بچوں کے ذہنوں میں اس کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے اور بعض بچے اپنے ماں باپ کی حالت دیکھ کر یہ کہنے بھی لگ گئے ہیں کہ دن میں تین نمازیں ہوتی ہیں.جب کہو کہ پانچ ہوتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے ماں باپ کو تین نمازیں ہی پڑھتے دیکھا ہے.پس اس بارے میں ہر جگہ غور اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے.نہیں تو اگلی نسل میں یہ قومی بدی بن جائے گی.اپنے ماحول پر نظر ڈال کر جیسا کہ میں نے کہا ہمیں وسیع تر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے.آج دنیا کی جو حالت ہے کہ خدا سے اور دین سے دُور ہٹ رہے ہیں اگر ہم نے شدت کے ساتھ کوشش نہ کی تو مختلف قسم کی بدیاں
خطبات مسرور جلد 13 107 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء ہمارے اندر داخل ہونا شروع ہو جائیں گی.ایک بدی کے بعد پھر دوسری بدی بھی آتی ہے.نام کا دین رہ جائے گا.روح نہیں رہے گی.اگر کسی علاقے میں کوئی وبا پھوٹے ،کوئی بیماری کی صورت ہو تو ہم فوراً فکرمند ہو جاتے ہیں اور اس کے حفظ ماتقدم کے طور پر احتیاطی تدابیر شروع کر دیتے ہیں تو اس معاشرے میں رہتے ہوئے روحانی بیماریوں کے خطرے کو دور کرنے کے لئے ہمیں کس قدر کوشش کرنی چاہئے.بلکہ جیسا کہ میں نے کہا اب تو دنیا ایک ہو گئی ہے اور بدیوں اور برائیوں کی متعدی مرض کے دور کرنے کے لئے تو پھر اور بھی زیادہ کوشش کی ضرورت ہے.جو حفظ ما تقدم کرتے ہیں ، علاج کراتے ہیں، بچاؤ کے ٹیکے لگواتے ہیں وہ ظاہری بیماریوں سے دوسروں کی نسبت زیادہ محفوظ رہتے ہیں.پس اپنے آپ کو روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہر سطح پر قومی سوچ کے ساتھ حفظ ما تقدم کی ضرورت ہے.ان غلط عقائد اور عملوں کی تبدیلی کی وجہ سے جو علماء نے امت میں پیدا کر دیئے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا حصہ باوجود کامل تعلیم کے گمراہ ہو گیا ہے.اب ہمیں اپنی اصلاح کے بعد مستقل طور پر گمراہی سے بچنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے.چند مثالیں میں نے دی ہیں.ہمیں غور کرتے رہنا چاہئے کہ کہاں کہاں دوسرے مسلمانوں میں نقائص پیدا ہوئے اور وہ گمراہ ہوئے اور ہم نے کس طرح ان سے بچنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر پھر آپ کی تعلیم کو جاننا اور اس پر عمل کرنا بھی بہت ضروری ہے.حالات کے ساتھ اپنے آپ کو اس دھارے میں بہانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حالات کو اپنی تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہمارا کام ہے.خلافت کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کی ضرورت خلافت کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کی ضرورت ہے.اس زمانے میں ایم ٹی اے اور جماعت کی ویب سائٹ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں مہیا فرمائی ہیں ان سے منسلک رہنا بھی بہت ضروری ہے بجائے اس کے کہ اوٹ پٹانگ چیزیں دیکھیں کہ اس ذریعہ سے حقیقی قرآنی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم و عرفان کا ہمیں پتا چلتا ہے.ان ذریعوں سے یہ حقیقی اسلامی تعلیم ہمیں ملتی ہے.پس اس کے ساتھ ہمیں جڑے رہنے کی ضرورت ہے.یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ مسلمانوں کو قرآن کریم جیسی کتاب ملی جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ان میں ایسی غلطیاں پیدا ہو گئیں جن کی وجہ سے ان میں مخصوص امراض کا پیدا ہو جا نالازمی تھا.چنانچہ جو سب سے بڑی بات ان میں قومی بدی پیدا کرنے کا باعث بنی وہ مسلمانوں کا یہ یقین تھا کہ قرآن کریم نہایت مکمل کتاب ہے اور اس میں تمام باتوں کا ذکر موجود ہے اور
خطبات مسرور جلد 13 108 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء اول سے آخر تک انسانوں کی ہدایت کا موجب ہے.پس ان باتوں سے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کی خوبی کو عیب بتایا جارہا ہے.کیونکہ اس کے باوجود مسلمانوں میں غلط اثر قائم ہوا.مگر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دراصل یہ ہے تو خوبی مگر اس کو غلط طور پر سمجھنے کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت بڑا عیب پیدا ہو گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم مکمل کتاب ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ قیامت تک کے لئے ہدایات نامہ ہے جس میں تمام اعلی علیمیں جمع کر دی گئی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو انسانی دماغ کا خالق ہے وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دماغ کی یہ خاصیت ہے کہ اگر اسے سوچنے کی عادت نہ ڈالی جائے تو یہ مردہ ہو جاتا ہے اور اس میں ترقی کرنے والی کیفیت باقی نہیں رہتی.اس لئے گو قرآن کو اس نے کامل بنا یا مگر ہر حکم جو اس نے دیا اس کا ایک حصہ انسان کے دماغ کے لئے چھوڑ دیا.کچھ اصول بنائے جو واضح اور ظاہری ہیں اور کچھ ایسی باتیں ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ انسان خود تلاش کرے تا کہ انسان کا دماغ ناکارہ نہ ہو جائے.اس لئے قرآن کریم ایسے الفاظ اور عبارت میں نازل کیا گیا ہے کہ ان پر غور کر کے معارف پر اطلاع ہوتی ہے، اس کی گہرائی کا پتا چلتا ہے ورنہ اگر سب کو یکساں فائدہ پہنچانا منظر ہوتا تو قرآن کریم میں یہ مضمون ایسا کھلا کھلا ہوتا کہ ہر شخص خواہ غور کرتا یا نہ کر ت ان مضامین سے آگاہ ہو جاتا.اس سے الہی منشاء یہی ہے کہ انسانی دماغ معطل اور بریکار نہ ہو اور اس کے نہ سوچنے کی وجہ سے نشو ونما رک نہ جائے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 13 صفحہ 80) لیکن یہ بھی واضح ہو کہ اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے اور اس زمانے میں ان کی رہنمائی کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت سے اصول بتا دیئے ہیں، خود واضح تفسیر کر کے بتادی ہے جن کو ہمیں سامنے رکھنا چاہئے اور اس کے مطابق قرآن کریم میں سے نئے نئے نکات تلاش کرنے چاہئیں.دوسرے مسلمانوں کی طرح اگر صرف پرانی تفسیروں سے ہم چھٹے رہیں تو وہ معارف اور راستے بھی نہیں کھلیں گے جن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رہنمائی فرمائی ہے.آجکل تو غیر احمدیوں میں بھی جو مفتر بنتے ہیں، بڑے ڈاکٹر ہیں ، علماء ہیں وہ بھی جماعتی لٹریچر اور تفسیریں پڑھ کر اپنے درس دیتے ہیں بلکہ بعض ایسے بھی علماء ہیں جو تفسیر کبیر پڑھ رہے ہوتے ہیں.بہر حال قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.اس میں کوئی شک نہیں اس میں سب کچھ ہے.لیکن اس کو پڑھ کر غور کرنے والے اور اس کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے کو ہی ہدایت نصیب ہوتی ہے.صرف ایک بات کو لے کر کہ دینا کہ ہدایت مل گئی یہ کافی نہیں ہے بلکہ ہر بات پر عمل کرنا ضروری ہے.اس سے قومی اور فردی برائیوں اور خوبیوں کا پتا چلتا ہے.اس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے آخرین
خطبات مسرور جلد 13 109 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء کی تعلیم کے لئے اور ان کی سوچوں کو وسیع کرنے اور روشنی دکھانے اور قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے اپنا ایک فرستادہ بھیجنے کا بھی اعلان فرمایا.لیکن جو غور کرنے والے نہیں، علماء کہلا کر بھی جاہل ہیں اور خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے انکاری ہیں.وہ اس وجہ سے قرآن کریم کے علوم کی وسعت سے محروم ہیں اور جہالت میں ڈوب کر اسلام کی غلط تشریح کر کے اسلام کی خوبیاں دکھانے کی بجائے اسے بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.پس ان مسلمانوں کے یہ عمل ہمیں مزید اس طرف غور کرنے والے اور متوجہ کرنے والے ہونے چاہئیں کہ ہم صرف ظاہر پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ اسلام کی تعلیم کی روح کو سمجھتے ہوئے ہر برائی کو قومی برائی بننے سے پہلے دور کرنے والے ہوں اور ہر نیکی کو قومی نیکی بنا کر پوری جماعت میں اس کو رائج اور لاگو کرنے والے ہوں.ہمیشہ ایسا ماحول میسر رکھنے والے ہوں اور اس کو آگے اپنی نسلوں میں منتقل کرنے والے ہوں جس سے بدیاں نہ پھیلیں بلکہ خوبیاں اور نیکیاں پیدا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آج نماز کے بعد میں دو حاضر جنازے پڑھاؤں گا اور دو جنازہ غائب ہوں گے.حاضر جنازوں میں سے مکرمہ رضیہ مسرت خان صاحبہ اہلیہ مکرم عبد اللطیف خان صاحب ( ہونسلو ) کا جنازہ ہے.لطیف خان صاحب سیکرٹری رشتہ ناطہ ہیں.11 فروری 2015 ء کو اُناسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - آپ حضرت محمد ظہور خان صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو اور صو بیدار کرم بخش صاحب کی بیٹی تھیں.1962ء میں انگلستان آئیں.1975ء میں دو سال صدر لجنہ ہونسلو اور پھر لمبا عرصہ ہونسلو میں لجنہ کی سیکرٹری ضیافت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.مہمانوں کے علاوہ جماعتی پروگرام کے مواقع پر اپنی ٹیم کے ہمراہ نہایت خوشدلی سے مہمان نوازی کیا کرتی تھیں.ہونسلو میں احمدی بچے بچیوں کے علاوہ غیر از جماعت احباب کے بچوں کو بھی قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کی توفیق پائی.آپ انتہائی خوش اخلاق، ملنسار، مہمان نواز ، نیک، مخلص خاتون تھیں.خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق تھا.بچوں کی اچھی تربیت کی.کسی نہ کسی رنگ میں آپ کے بچے دین کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں.آپ کے شوہر کے علاوہ دو بیٹیاں اور چار بیٹے آپ کی یادگار ہیں.آپ کے ایک بیٹے ظہیر خان صاحب صدر جماعت ہو نسلو ہیں اور نائب افسر جلسہ گاہ کی حیثیت سے بھی کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.دوسرا جنازه عزیزم عامر شیر از صاحب ابن مکرم شاہد محمود صاحب (مورڈن ساؤتھ ) کا ہے.12 فروری 2015ء کو بعارضہ کینسر 29 سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.
خطبات مسرور جلد 13 110 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مستری حسن دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرحوم ان کے پڑدادا اور حکیم جلال الدین صاحب رضی اللہ عنہ ان کے والد کے پڑ نانا تھے.اپنے حلقے میں خدمت کے علاوہ جلسہ سالانہ پر خدمت خلق کی اور سکیورٹی کی ڈیوٹی بڑے شوق سے دیا کرتے تھے.بڑے خوش اخلاق، ملنسار اور مخلص نوجوان تھے.پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ اور اڑھائی سالہ بچی یادگار چھوڑی ہیں.عزیز مرحوم کو کینسر تھا اور بڑا لمبا عرصہ بڑی تکلیف دہ بیماری کو انہوں نے بڑے ہنستے ہوئے گزارا ہے.میرے پاس بھی انتہائی بیماری کی حالت میں آئے.جب بھی آتے تھے تو مسکرا رہے ہوتے تھے.بہت پیارے بچے تھے.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور پیار کا سلوک فرمائے.اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے.ان کی بیوی اور بیٹی کو بھی اپنی حفظ وامان میں رکھے اور صبر عطا فرمائے.ان کے والدین کو بھی صبر و حوصلہ عطا فرمائے.جنازہ غائب میں پہلے مکرم الحاج رشید احمد صاحب کا جنازہ ہے جن کی وفات ملوا کی امریکہ میں 7 فروری 2015ء کو ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.ان کی عمر وفات کے وقت 91 سال تھی.مرحوم امریکہ کے شہر سینٹ لوئس میں 1923ء میں پیدا ہوئے.1947ء میں بیعت کر کے اسلام احمدیت میں داخل ہوئے.بیعت کرنے کے دو سال بعد 1949ء میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ چلے گئے جہاں خود حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا ریلوے سٹیشن جا کر استقبال کیا.انہوں نے جامعہ احمدیہ میں پانچ سال تعلیم حاصل کی پھر باقاعدہ مبلغ بنے.پاکستان میں قیام کے دوران اردو اور پنجابی زبان پر عبور حاصل کیا.امریکہ سے سب سے پہلے جامعہ احمدیہ میں بطور طالبعلم داخل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.اسی طرح ربوہ میں پانچ سال قیام کے دوران آپ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خاص رفاقت بھی نصیب ہوئی.حضور رضی اللہ عنہ نے آپ کا رشتہ مبلغ احمدیت حاجی ابراہیم خلیل صاحب کی صاحبزادی مکر مہ سارہ قدسیہ صاحبہ سے کروا دیا جن کے بطن سے آپ کے ہاں تین بچے ہوئے.ایک بیٹے کی وفات ہو چکی ہے.ایک بیٹا اور ایک بیٹی آپ کی اس پہلی شادی سے حیات ہیں.امریکہ میں رہتے ہیں.1955ء میں جامعہ احمدیہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو امریکہ میں بطور مبلغ بھجوایا گیا.حضرت مصلح موعود نے آپ کی ربوہ سے روانگی کے وقت اپنے دست مبارک سے آپ کو ایک نصیحت فرمائی اور ایک پگڑی کا گلاہ جس میں حضرت مسیح موعود کے کپڑے کا ایک ٹکڑا سلا ہوا تھا آپ کو بطور تحفہ عطا فر ما یا جو ابھی تک آپ کے پاس موجود تھا.اب آپ کے بچوں کے پاس ہے.جماعت احمد یہ امریکہ کے سب سے پہلے مقامی امریکن مشنری تھے.آپ نے امریکہ میں شکاگو، سینٹ لوئس اور دوسرے شہروں میں بطور مشنری کے علاوہ امیر جماعت امریکہ کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں.اس کے علاوہ آپ ایک لمبا
خطبات مسرور جلد 13 111 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء عرصہ صدر ملوا کی جماعت اور مختلف مرکزی عہدوں پر خدمت کی توفیق پاتے رہے.دوسری شادی آپ کی سینٹ لوئس کے سابق صدر جماعت مکرم خالد عثمان صاحب کی بیٹی عزیزہ احمد سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.آپ کو تبلیغ کا جنون کی حد تک شوق تھا.کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.آپ کے دور صدارت میں جماعت ملوا کی کی امریکن احمدیوں پر مشتمل ایک بڑی جماعت کی بنیاد پڑی جو امریکہ کی دوسری جماعتوں کے مقابل پر اکثریت میں ہے.1998ء میں انہیں حج کی سعادت حاصل ہوئی.ملوا کی میں جماعت کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں میں بھی مقبول تھے.20 سال سے ٹی وی کے ایک پروگرام، اسلام لائیو، پر باقاعدہ آ رہے تھے.آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک جماعت کے ہفتہ وار تبلیغی سٹال پر باقاعدگی سے جانا اختیار کئے رکھا.وفات سے قبل جب تک ہوش میں تھے آپ نرسوں کو بھی تبلیغ احمدیت کرتے رہے.1985-86ء میں انہوں نے شہر کی مشہور یو نیورسٹی ” یو نیورسٹی آف وسکانسن (University of Wisconsin) میں عام مسلمانوں کے لئے ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا.موصوف نے یونیورسٹی آف وسکانسن کے نوجوانوں کے ساتھ بھی رابطہ رکھا ہوا تھا.باقاعدگی سے کیمپس میں تقاریر کیا کرتے تھے.ہزاروں کی تعداد میں طلباء کو اسلام کی پرامن تعلیم سے آگاہ کیا.مرحوم با قاعدگی سے متعد دلوکل اور سٹیسٹ لیڈرز کے ساتھ بھی رابطہ رکھتے تھے.اتوار کے روز عام لوگوں کے لئے میٹنگ رکھتے جن میں احمدی احباب کے علاوہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے دوسرے احباب بھی آتے اور ان کی باتوں سے مستفیض ہوتے.دوستوں کے اظہار پر اور مرکز کی اجازت سے آپ نے اپنی یادداشتوں کو جن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفاقت خاص میں پاکستان کے مختلف مقامات کے سفروں پر جانے اور سوال و جواب کی مجالس میں بیٹھنے اور باقاعدہ طور پر نوٹ بک میں نوٹس کو درج کرنا شامل تھا اس کو کتابی صورت میں طبع کروانا تھا.اس غرض کے لئے کئی سالوں کی محنت کے بعد یہ کتاب تیار ہوئی اور اب مرکز کی منظوری سے شائع ہونے والی ہے.مربی سلسلہ ملک فاران ربانی لکھتے ہیں کہ نو ماہ قبل بطور مبلغ یہاں میری آپ سے پہلی ملاقات ہوئی.میری عمر کم ہونے کے باوجود آپ نہایت محبت سے ملے.پھر جب میں نے آپ سے جماعت ملوا کی میں بعض پروگراموں کے متعلق مشورہ کرنا چاہا تو اردو میں مجھے مخاطب ہوکر کہا ”مولا نا صاحب ! آپ خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں آپ جو کہیں گے ہم نے صرف اطاعت کرنی ہے اور بڑا اطاعت کا جذبہ ان میں تھا.شمشاد صاحب بھی لکھتے ہیں کہ امریکہ آیا تو ہمیشہ میں نے انہیں حضرت مصلح موعود کی باتیں سناتے ہوئے پایا.اپنی زندگی کو بھی انہوں نے حضرت مصلح موعود کے ارشادات کے مطابق ڈھالا ہوا تھا.گزشتہ
خطبات مسرور جلد 13 112 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 فروری 2015ء جلسہ سالانہ پر ان کی تقریر بھی حضرت مصلح موعود کی یادوں کے بارے میں تھی اور یہ کہ آئندہ اور موجودہ نسلوں کو ان یادوں کے ذریعہ کیا پیغام دیں گے.اسلام احمدیت اور خلافت کے دفاع میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ آپ ہمیشہ احمدیت کی تبلیغ ، دفاع اور خلافت کے لئے ایک نگی تلوار تھے.آپ ہمیشہ احمدیت کی تبلیغ میں سرگرم رہتے تھے.بڑھاپے کی عمر میں بھی جبکہ جسم ناتواں اور نحیف تھا آپ اکیلے ہی تبلیغ کیا کرتے تھے اور مسٹر تبلیغ کے نام سے مشہور تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں کافی لوگ ان کے جنازے میں شامل ہوئے.اور یہ جنازہ غائب حسن عبداللہ صاحب آف ڈیٹرائٹ کا ہے.یہ بھی امریکن ہیں.30 جنوری 2015 ء کو ان کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.26 ستمبر 1929ء کو ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے.ان کا پیدائش کا نام ولیم ہنری تھا.1970ء کی دہائی میں ایک احمدی برادرم مکرم وہاب صاحب جو کہ ان کے کلاس فیلو تھے ان کے ذریعے انہوں نے اسلام احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی.قبول اسلام کے بعد ان کا نام حسن عبداللہ رکھا گیا.مرحوم بہت خوبیوں کے مالک ایک فدائی احمدی تھے.قرآن کریم سے بہت محبت تھی.روزانہ تلاوت کرنا ان کا معمول تھا.بتا یا کرتے تھے کہ وہ سورۃ کہف کی پہلی اور آخری دس آیات مستقل تلاوت کیا کرتے ہیں.نماز جمعہ با قاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے.سب سے پہلے مسجد آ کر اپنی خوبصورت آواز میں اذان دیتے.نماز جمعہ کے لئے بہت پہلے آ کر نوافل اور تلاوت قرآن کریم کرتے.بہت صاف ستھرا لباس زیب تن کیا کرتے تھے.ایک دفعہ بیمار ہو گئے تو گھر جانے کی بجائے ہسپتال سے ہی سیدھے جمعہ کے لئے یہ مسجد میں آگئے.ڈیٹرائٹ میں مسجد کو آگ لگ گئی تھی اور دوبارہ تعمیر کی گئی تو اس دوران انہوں نے نہایت اخلاص سے افراد جماعت کے لئے اپنا گھر پیش کئے رکھا تا کہ وہ نماز جمعہ ان کے گھر میں ادا کرتے رہیں.سلسلہ کی کتب و رسائل بہت شوق.پڑھتے.آپ ان خاص لوگوں میں سے تھے جن کی روحوں میں سچائی کے لئے ایک تڑپ تھی اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو قبول کرنے کی توفیق پائی اور آخری لمحے تک اپنے عہد بیعت کو نبھایا.ان کی اہلیہ وفات پاچکی ہیں.بچے تو ان کے احمدی نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ سب مرحومین سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے.ان کے درجات بلند فرمائے.( الفضل انٹرنیشنل مورخہ 06 مارچ 2015 ء تا12 مارچ 2015 ءجلد 22 شماره 10 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 8 113 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015 ء بمطابق 20 تبلیغ 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج 20 فروری کا دن ہے اور یہ دن جماعت احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے جانا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے نشان مانگا تھا کیونکہ غیر مسلموں کے اسلام پر حملے انتہا تک پہنچ چکے تھے اس لئے آپ علیہ السلام نے چلہ کشی فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی نشان کی قبولیت دعا کے نتیجے میں آپ کو خبر دی.اس کی تفصیلات کا تو میں اس وقت ذکر نہیں کروں گا.اس بارے میں پہلے کئی خطبات دے چکا ہوں.پھر ہر سال جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے جلسے بھی منعقد ہوتے ہیں.ان میں بھی علماء اور مقررین اس بارے میں بیان کرتے ہیں.یہ جماعت کے سامنے آتی رہتی ہے.اس سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ آئے گی.آجکل جلسے ہورہے ہیں.پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر آج میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے الفاظ میں، پیشگوئی کے بارے میں جو تفصیل تو آپ نے مختلف مواقع پر فرمایا، وہ آپ کے سامنے رکھوں گا.تمام پہلوؤں کا تو احاطہ نہیں کیا جاسکتا.چند ایک باتیں، چند ایک حوالے پیش کروں گا.1944 ء میں پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ آج سے پورے اٹھاون سال پہلے جس کو انسٹھ واں سال شروع ہو رہا ہے 20 فروری کے دن 1886ء میں ( یہ ہوشیار پور کی تقریر ہے ) اس شہر ہوشیار پور میں اس مکان میں جو کہ میری انگلی کے سامنے ہے
خطبات مسرور جلد 13 114 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء (جہاں آپ تقریر فرمارہے تھے.میدان کے سامنے ہی مکان تھا.ایک ایسا مکان تھا جو اُس وقت طویلہ کہلاتا تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رہائش کا اصلی مقام نہیں تھا بلکہ ایک رئیس کے زائد مکانوں میں سے وہ ایک مکان تھا جس میں شاید اتفاقی طور پر کوئی مہمان ٹھہر جاتا ہو یا وہاں انہوں نے سٹور بنارکھا ہو یا حسب ضرورت جانور باندھے جاتے ہوں قادیان کا ایک گمنام شخص جس کو خود قادیان کے لوگ بھی پوری طرح نہیں جاتے تھے لوگوں کی اس مخالفت کو دیکھ کر جو اسلام اور بانی اسلام سے وہ رکھتے تھے اپنے خدا کے حضور علیحدگی میں عبادت کرنے اور اس کی نصرت اور تائید کا نشان طلب کرنے کے لئے آیا اور چالیس دن لوگوں سے علیحدہ رہ کر اس نے اپنے خدا سے دعائیں مانگیں.چالیس دن کی دعاؤں کے بعد خدا نے اس کو ایک نشان دیا.وہ نشان یہ تھا کہ میں نہ صرف ان وعدوں کو جو میں نے تمہارے ساتھ کئے ہیں پورا کروں گا اور تمہارے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا بلکہ اس وعدے کو زیادہ شان کے ساتھ پورا کرنے کے لئے میں تمہیں ایک بیٹا دوں گا جو بعض خاص صفات سے متصف ہوگا.وہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا.کلام الہی کے معارف لوگوں کو سمجھائے گا.رحمت اور فضل کا نشان ہوگا اور وہ دینی اور دنیوی علوم جو اسلام کی اشاعت کے لئے ضروری ہیں اسے عطا کئے جائیں گے.اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کو لمبی عمر عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا.(ماخوذ از دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 146-147) پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ دشمنان سلسلہ یہ اعتراضات کرتے رہتے ہیں کہ جب یہ اشتہار شائع ہوا.پیشگوئی کا پورا حوالہ نہیں دیا گیا.الفاظ نہیں پڑھے گئے کچھ باتیں بیان ہوئی ہیں.پہلے تو آپ نے فرمایا کہ جب یہ اشتہار شائع ہوا تو دشمنوں نے اس پر بھی اعتراضات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا.تب 22 / مارچ 1886ء کو آپ نے ایک اور اشتہار شائع فرمایا.دشمنوں نے اعتراض یہ کیا تھا کہ ایسی پیشگوئی کا کیا اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا.کیا ہمیشہ لوگوں کے ہاں لڑکے پیدا نہیں ہوا کرتے؟ شاذ و نادر کے طور پر ہی کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جس کا کوئی لڑکا نہ ہو یا جس کے ہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں ورنہ عام طور پر لوگوں کے ہاں لڑکے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کبھی ان کی پیدائش کو کوئی خاص نشان نہیں قرار دیا جاتا.پس اگر آپ کے ہاں بھی کوئی لڑکا پیدا ہو جائے تو اس سے یہ کیونکر ثابت ہو گیا کہ دنیا میں اس ذریعے سے خدا تعالیٰ کا کوئی خاص نشان ظاہر ہوا ہے.آپ نے لوگوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے 22 / مارچ کے اشتہار میں تحریر فرمایا کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان
خطبات مسرور جلد 13 115 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤوف و رحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا.پھر اسی اشتہار میں آپ نے تحریر فرمایا کہ بفضلہ تعالیٰ واحسانہ و ببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی با برکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.بات یہ ہے کہ اگر آپ اپنے ہاں محض ایک بیٹا ہونے کی خبر دیتے تب بھی یہ خبر اپنی ذات میں ایک پیشگوئی ہوتی کیونکہ دنیا میں ایک حصہ خواہ وہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو بہر حال ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوتی.اور دوسرے آپ نے جب یہ اعلان کیا اس وقت آپ کی عمر پچاس سال سے اوپر تھی اور ہزاروں ہزار لوگ دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں جن کے ہاں پچاس سال کے بعد اولاد کی پیدائش کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے.اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں.اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں لڑکے تو پیدا ہوتے ہیں مگر پیدا ہونے کے تھوڑے عرصے کے بعد مر جاتے ہیں.اور یہ سارے شبہات اس جگہ موجود تھے.پس اول تو کسی لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہوسکتا لیکن آپ بطور تنزیل اس اعتراض کو تسلیم کر کے فرماتے ہیں کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ محض کسی لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا پیشگوئی نہیں کہلا سکتا تو سوال یہ ہے کہ میں نے محض ایک لڑکے کی پیدائش کی کب خبر دی ہے؟ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری دعاؤں کو قبول فرما کر ایک ایسی با برکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری اور باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.(ماخوذ از الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 529-530) مصلح موعود کون ہے پس یہ اس الہام کا خلاصہ تھا کہ کس طرح حضرت مصلح موعود کی برکتیں ، یہ ساری باتیں پھیلیں.میں اس کی تفصیل میں نہیں جارہا.آگے کچھ بیان بھی ہوگا.پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں، اُس زمانے میں بھی یہ اعتراض تھے کہ آپ مصلح موعود نہیں بلکہ بعد میں کہیں تین چار سو سال بعد یا سوسال یا دوسوسال بعد مصلح موعود پیدا ہوگا.آپ فرماتے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی آئندہ نسل سے تین چارسوسال کے بعد آئے گا موجودہ زمانے میں نہیں آسکتا.مگر ان میں سے کوئی شخص خدا کا خوف نہیں کرتا کہ وہ پیشگوئی کے الفاظ کو دیکھے اور ان پر غور کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو لکھتے ہیں اس وقت
خطبات مسرور جلد 13 116 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اندر نشان نمائی کی کوئی طاقت نہیں رکھتا.چنانچہ پنڈت لیکھرام اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے.اندر من اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے.آپ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! تو ایسا نشان دکھا جو ان نشان طلب کرنے والوں کو اسلام کا قائل کر دے.تو ایسا نشان دکھانا تھا جو اندر من مراد آبادی وغیرہ کو اسلام کا قائل کر دے.اور یہ معترض ہمیں بتاتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی تو خدا نے آپ کو یہ خبر دی کہ آج سے تین سو سال کے بعد ہم تمہیں ایک بیٹا عطا فرمائیں گے جو اسلام کی صداقت کا نشان ہوگا.کیا دنیا میں کوئی بھی شخص ہے جو اس بات کو معقول قرار دے سکتا ہے؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص سخت پیاسا ہو اور کسی شخص کے دروازے پر جائے اور کہے بھائی مجھے سخت پیاس لگی ہوئی ہے، خدا کے لئے مجھے پانی پلاؤ.اور وہ آگے سے یہ جواب دے کہ صاحب آپ گھبرائیں نہیں.میں نے امریکہ خط لکھا ہوا ہے.وہاں سے اسی سال کے آخر تک ایک اعلیٰ درجے کا ایسنس (essence)آ جائے گا اور اگلے سال آپ کو شربت بنا کر پلا دیا جائے گا.کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات نہیں کر سکتا.کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات خدا اور اس کے رسول کی طرف منسوب نہیں کر سکتا.پنڈت لیکھرام منشی اندر من مراد آبادی اور قادیان کے ہندو یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کہ اس کا خدا دنیا کو نشان دکھانے کی طاقت رکھتا ہے ایک جھوٹا اور بے بنیاد دعوئی ہے.اگر اس دعوے میں کوئی حقیقت ہے تو ہمیں نشان دکھایا جائے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو مجھے رحمت کا نشان دکھا تو مجھے قدرت اور قربت کا نشان عطا فرما.پس یہ نشان تو ایسے قریب ترین عرصے میں ظاہر ہونا چاہئے تھا جبکہ وہ لوگ زندہ موجود ہوتے جنہوں نے یہ نشان طلب کیا تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.1889ء میں جب میری پیدائش اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی تو وہ لوگ زندہ موجود تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نشان مانگا تھا.پھر جوں جوں میں بڑھا اللہ تعالیٰ کے نشانات زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتے چلے گئے.(ماخوذ از دیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں“.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 222-223) حضرت مصلح موعودؓ کا ایک رویا اپنی ایک رؤیا کا ذکر فرماتے ہوئے کہ کس طرح یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی مصلح موعود پر منطبق ہوتی ہے، حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ”میں ان مشابہتوں کو بیان کرتا ہوں
خطبات مسرور جلد 13 117 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے ساتھ میری رؤیا کو ہیں.(ایک رؤیا آپ نے دیکھی تھی جیسا کہ میں نے کہا.فرماتے ہیں کہ ) رویا میں میں نے دیکھا کہ میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہوا کہ آنا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَخَلِيفَتُه - ان الفاظ کا میری زبان پر جاری ہونا میرے لئے اس قدر عجوبہ تھا.(ظاہر میں تو یہ حیرت انگیز عجوبہ ہو ہی سکتا ہے لیکن خواب میں ہی میری ایسی کیفیت ہو گئی ) کہ قریب تھا اس تہلکہ سے میں جاگ اٹھتا کہ میرے منہ سے یہ کیا الفاظ انکل گئے ہیں.بعد میں بعض دوستوں نے توجہ دلائی کہ مسیحی نفس ہونے کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشتہار مؤرخہ 20 فروری 1886ء میں بھی آتا ہے.گواُس روز میں یہ اشتہار پڑھ کر آیا تھا لیکن جب میں خطبہ پڑھ رہا تھا اس وقت اشتہار کے یہ الفاظ میرے ذہن میں نہ تھے.خطبے کے بعد غالباً دوسرے دن مولوی سید سرور شاہ صاحب نے یہ توجہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اشتہار میں بھی لکھا ہے کہ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.اس پیشگوئی میں بھی مسیح کا لفظ استعمال ہوا ہے.دوسرے میں نے رؤیا دیکھا کہ میں نے بت تڑوائے ہیں.اس کا اشارہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ میں پایا جاتا ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.فرماتے ہیں کہ روح الحق توحید کی روح کو کہا جاتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اصل چیز خدا تعالیٰ کا وجود ہی ہے، باقی سب چیزیں اظلال اور سائے ہیں.پس روح الحق سے مراد توحید کی روح ہے جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ اس کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.تیسرے میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں بھاگ رہا ہوں.چنانچہ خطبہ میں میں نے ذکر کیا تھا کہ رویا میں یہی نہیں کہ میں تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں اور زمین میرے قدموں کے تلے سمٹتی چلی جاتی ہے.پسر موعود کی پیشگوئی میں بھی یہ الفاظ ہیں کہ وہ جلد جلد بڑھے گا.اسی طرح رویا میں میں نے دیکھا کہ میں بعض غیر ملکوں کی طرف گیا ہوں اور پھر وہاں بھی میں نے اپنے کام کو ختم نہیں کیا بلکہ میں اور آگے جانے کا ارادہ کر رہا ہوں.جیسے میں نے کہا اے عبدالشکور ! اب میں آگے جاؤں گا اور جب اس سفر سے واپس آؤں گا تو دیکھوں گا کہ اس عرصے میں تو نے تو حید کو قائم کر دیا ہے، شرک کو مٹا دیا ہے اور اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کو لوگوں کے دلوں میں راسخ کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اللہ تعالیٰ نے جو کلام نازل فرمایا اس میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے.چنانچہ لکھا ہے وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.یہ الفاظ بھی اس کے دُور دُور جانے اور چلتے چلے جانے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.
خطبات مسرور جلد 13 118 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء پھر یہ پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.اس کی طرف بھی میری رویا میں اشارہ کیا گیا ہے.چنانچہ خواب میں میں بڑے زور سے کہہ رہا ہوں کہ میں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے.پھر لکھا تھا وہ جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.اس کے متعلق بھی رؤیا میں وضاحت پائی جاتی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ رویا میں میری زبان پر تصرف کیا گیا اور میری زبان سے خدا تعالیٰ نے بولنا شروع کر دیا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے میری زبان سے کلام فرمایا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور آپ نے میری زبان سے بولنا شروع کر دیا.یہ جلال الہی کا ایک عجیب ظہور تھا جس کا پیشگوئی میں بھی ذکر پایا جاتا تھا.پس یہ بھی ان دونوں میں ایک مشابہت پائی جاتی ہے.پھر لکھا تھا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا اور یہ الفاظ ہیں پیشگوئی کے اور رویا میں بھی یہ دکھا یا گیا کہ ایک قوم ہے جس میں میں ایک شخص کو لیڈر مقرر کرتا ہوں اور ان الفاظ میں جیسے ایک طاقتور بادشاہ اپنے ماتحت کو کہہ رہا ہوا سے کہتا ہوں کہ اے عبدالشکور ! تم میرے سامنے اس بات کے ذمہ دار ہو گے کہ تمہارا ملک قریب ترین عرصے میں توحید پر ایمان لے آئے.شرک کو ترک کر دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو اپنے مدنظر رکھے.یہ صاحب شکوہ اور عظمت کے ہی کلمات ہو سکتے ہیں جو رویا میں میری زبان پر جاری کئے گئے.اور یہ جو پیشگوئی میں ذکر آتا ہے کہ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس پر کلام الہی نازل ہوگا اور رویا میں اس کا بھی ذکر آتا ہے.چنانچہ الہبی تصرف کے تحت رؤیا میں میں سمجھتا ہوں کہ اب میں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جارہی ہیں.پس اس حصے میں پیشگوئی کے انہی الفاظ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے.پھر رؤیا کا یہ حصہ بھی پیشگوئی کے ان الفاظ کی تصدیق کرتا ہے کہ رویا میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر قدم جو میں اٹھارہا ہوں وہ کسی پہلی وحی کے مطابق اٹھا رہا ہوں.اب میں خیال کرتا ہوں کہ یہ جو میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ میں جو سفر کروں گا وہ ایک سابق وحی کے مطابق ہوگا.اس سے اشارہ مصلح موعود والی پیشگوئی ہی کی طرف تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ میری زندگی اس پیشگوئی کا نقشہ ہے اور الہی تصرف کے ماتحت ہے.اب میں سمجھتا ہوں کہ پہلی پیشگوئی کے متعلق جو یہ ابہام رکھا گیا کہ یہ کس کی پیشگوئی ہے اس میں یہ حکمت تھی تا
خطبات مسرور جلد 13 119 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء مصلح موعود کی پیشگوئی کی طرف توجہ دلا کر اس ذہنی علم کا رویا میں دخل نہ ہو جائے جو مجھے اس پیشگوئی کی نسبت حاصل تھا.اس قسم کی تدابیر رویا اور الہام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ اختیار کی جاتی ہیں اور اسرار سماویہ میں سے ایک ستر ہیں.یہ وہ مشابہتیں ہیں جو میری رؤیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں پائی جاتی ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 25 صفحہ 69 تا 71.خطبہ جمعہ 4 فروری 1944ء) 1936ء کی شوری سے خطاب کرتے ہوئے جب صحابہ کی بھی بڑی تعداد موجود تھی اور تابعین کی بھی کثرت تھی ، حضرت مصلح موعود نے فرمایا.اب یہ 1936ء میں کافی عرصہ پہلے ، قریباً آٹھ سال پہلے کا ذکر تھا جب آپ نے پیشگوئی مصلح موعود کے مطابق یہ اعلان فرما یا کہ میں ہی مصلح موعود ہوں.آٹھ سال پہلے آپ یہ فرما رہے ہیں کہ اس وقت ہماری جماعت کے لئے تو خلافت کا ہی سوال نہیں.دو اور سوال بھی ہیں.ایک تو قرب زمانہ نبوت کا سوال اور دوسرا موعود خلافت کا سوال.یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو ہر خلیفہ کے ماننے والے کو نہیں مل سکتیں.اس کا مختصر ذکر میں پہلے بھی ایک دفعہ گزشتہ سال شاید کسی خطبے میں کر چکا ہوں.فرمایا کہ آج سے سود و سو سال بعد بیعت کرنے والوں کو یہ باتیں حاصل نہیں ہو سکیں گی.اس زمانے کے عوام تو الگ رہے خلفاء بھی اس بات کے محتاج ہوں گے کہ ہمارے قول ، ہمارے عمل اور ہمارے ارشاد سے ہدایت حاصل کریں.ہماری بات تو الگ رہی وہ اس بات کے محتاج ہوں گے کہ آپ لوگوں کے قول، آپ لوگوں کے عمل اور آپ لوگوں کے ارشاد سے ہدایت حاصل کریں.(اس وقت جو صحابہ موجود تھے ان سے یہ ذکر ہورہا ہے.) فرماتے ہیں کہ وہ خلفاء ہوں گے مگر کہیں گے زید نے فلاں خلافت کے زمانے میں یوں کہا تھا، یوں کیا تھا.ہمیں بھی اس پر عمل کرنا چاہئے.حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت ایک موعود خلافت پس یہ صرف خلافت اور نظام کا ہی سوال نہیں بلکہ ایسا سوال ہے جو مذہب کا سوال ہے.پھر صرف خلافت کا سوال نہیں ، ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے.الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے.ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کرواتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں ہے.آپ نے اپنی خلافت کے بارے میں فرمایا کہ یہ ویسی خلافت نہیں.یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا.
خطبات مسرور جلد 13 120 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی.گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ اس کو رائیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائے.جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز نہیں آتے.پھر یہ کہنے کا موقع کہ فلاں بات ہم سے پچیس تیس سال پہلے خدا تعالیٰ کے نبی نے یوں کہی یہ بھی روز روز میٹر نہیں آتا.جو روحانیت اور قرب کا احساس اس شخص کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ آج سے تیس سال پہلے خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل نے یہ فرمایا تھا اس شخص کے دل میں کیونکر پیدا ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ آج سے دو سو سال پہلے خدا تعالیٰ کے فرستادے نے فلاں بات یوں کہی تھی کیونکہ دوسو سال بعد کہنے والا اس کی تصدیق نہیں کر سکتا لیکن ہیں تیس سال بعد کہنے والا اس کی تصدیق کر سکتا ہے.(ماخوذ از خطابات شوری جلد 2 صفحہ 18-19 ) مصلح موعود کا دعویٰ کیوں نہ کیا اور اس لحاظ سے آپ نے فرمایا کہ اس زمانے کے لوگوں کی جو باتیں ہیں وہ آئندہ خلفاء ان سے سبق لے کر بیان کیا کریں گے.پھر لوگوں کے یہ کہنے پر کہ اگر آپ مصلح موعود ہیں تو پھر اعلان کیوں نہیں کرتے کیونکہ اعلان تو آپ نے 1944ء میں کیا تھا.اس پر آپ نے فرمایا کہ لوگوں نے کوشش بھی کی ہے کہ مجھ سے دعوی کرا ئیں کہ میں مصلح موعود ہوں مگر میں نے کبھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی.مخالف کہتے ہیں کہ آپ کے مرید آپ کو مصلح موعود کہتے ہیں مگر آپ خود دعوی نہیں کرتے.مگر میں کہتا ہوں کہ مجھے دعویٰ کی ضرورت کیا ہے.اگر میں مصلح موعود ہوں تو میرے دعوی نہ کرنے سے میری پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آ سکتا.جب میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیشگوئی غیر مامور کے متعلق ہو اس کے لئے دعوی کرنا ضروری نہیں.فرمایا کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیشگوئی غیر مامور کے متعلق ہو اس کے لئے دعوی کرنا ضروری نہیں اور مجد دبھی غیر مامور ہوتا ہے تو پھر ایسے دعوی کی مجھے کیا ضرورت ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریل کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی.کیا یہ ضروری ہے کہ ریل دعوی کرے.دجال کی پیشگوئی موجود ہے مگر کیا دجال کا دعویٰ کرناضروری ہے ؟ ہاں مامور کی پیشگوئی میں دعویٰ کی ضرورت ہوتی ہے.باقی غیر مامورکوتو خواہ پتا بھی نہ ہو کہ وہ پیشگوئی اس کی ذات میں پوری ہو گئی کوئی حرج کی بات نہیں.امت مسلمہ میں مجددین کی جو فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھانے کے بعد شائع ہوئی ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا.میں
خطبات مسرور جلد 13 121 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے تو اور نگزیب بھی اپنے زمانے کا مجد دنظر آتا ہے.مگر کیا اس نے کوئی دعویٰ کیا؟ عمر بن عبد العزیز کو مجدد کہا جاتا ہے.کیا ان کا کوئی دعوئی ہے؟ پس غیر مامور کے لئے دعویٰ ضروری نہیں.دعویٰ صرف مامورین کے متعلق پیشگوئیوں میں ضروری ہے.غیر مامور کے صرف کام کو دیکھنا چاہئے.اگر کام پورا ہوتا نظر آ جائے تو پھر اس کے دعویٰ کی کیا ضرورت ہے.اس صورت میں تو وہ انکار بھی کرتا جائے تو ہم کہیں گے کہ وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے.اگر عمر بن عبدالعزیز مجدد ہونے سے انکار بھی کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے زمانے کے مجدد ہیں کیونکہ مجدد کے لئے کسی دعوی کی ضرورت نہیں.دعویٰ صرف ان مجددین کے لئے ضروری ہے جو مامور ہوں.ہاں جو غیر مامور اپنے زمانے میں گرتے ہوئے اسلام کو کھڑا کر دے، دشمن کے حملوں کو توڑ دے، اسے چاہے پتا بھی نہ ہو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجدد ہے.( مجددکا کام اسلام میں کیا ہے؟ یہی کہ جو اسلام کی گرتی ہوئی ساکھ کو تعلیم کو کھڑا کر دے، اس کے دشمن کے حملوں کو اسلام کے خلاف توڑ دے وہ مجدد ہے.فرمایا کہ ) ہاں مامور محجبد دوہی ہو سکتا ہے جو دعوی کرے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے.پس میری طرف سے مصلح موعود ہونے کے دعویٰ کی کوئی ضرورت نہیں اور مخالفوں کی ایسی باتوں سے گھبراہٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں.اس میں کوئی بہتک کی بات نہیں.اصل عزت وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے چاہے دنیا کی نظروں میں انسان ذلیل سمجھا جائے.اگر وہ خدا تعالیٰ کے رستے پر چلے تو اس کی درگاہ میں وہ ضرور معزز ہوگا.اور اگر کوئی شخص جھوٹ سے کام لے کر اپنے غلط دعوے کو ثابت بھی کر دے اور اپنی چستی یا چالاکی سے لوگوں میں غلبہ بھی حاصل کرلے تو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں وہ عزت حاصل نہیں کر سکتا.اور جسے خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت حاصل نہیں وہ خواہ ظاہری لحاظ سے کتنا معزز کیوں نہ سمجھا جائے اس نے کچھ کھویا ہی ہے، حاصل نہیں کیا.اور آخر ایک دن وہ ذلیل ہوکر رہے گا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 21 صفحه 59-60) پھر 1944ء میں جب آپ نے دعویٰ کیا اور حضرت مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا تو آپ نے فرمایا: ہماری جماعت کے دوستوں نے یہ اور اسی قسم کی دوسری پیشگوئیاں بار بار میرے سامنے رکھیں اور اصرار کیا کہ میں ان کا اپنے آپ کو مصداق ظاہر کروں.( جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ) مگر میں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا کہ پیشگوئی اپنے مصداق کو آپ ظاہر کرتی ہے.اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں تو زمانہ خود بخود گواہی دے دے گا کہ ان پیشگوئیوں کا میں مصداق ہوں اور اگر میرے متعلق نہیں تو زمانے کی گواہی میرے خلاف ہوگی.دونوں صورتوں میں مجھے کہنے کی ضرورت نہیں ہے.اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق
خطبات مسرور جلد 13 122 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء نہیں تو میں یہ کہہ کر کیوں گناہگار بنوں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں.اور اگر میرے ہی متعلق ہیں تو مجھے جلد بازی کی کیا ضرورت ہے، وقت خود بخود ظاہر کر دے گا.غرض جیسے الہام الہی میں کہا گیا تھا انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں.دنیا نے یہ سوال اتنی دفعہ کیا، اتنی دفعہ کیا کہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا.اس لئے لمبے عرصے کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں خبر موجود ہے.مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق حضرت یوسف کے بھائیوں نے یہ کہا تھا کہ تو اسی طرح یوسف کی باتیں کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب المرگ ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا.اور یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا.اسی طرح یہ الہام ہونا کہ یوسف کی خوشبو مجھے آ رہی ہے بتا تا تھا کہ خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت یہ چیز ایک لمبے عرصے کے بعد ظاہر ہوگی.میں اب بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر ان پیشگوئیوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کے قریب وقت تک یہ علم نہ دیا جاتا کہ یہ میرے متعلق ہیں بلکہ موت تک مجھے علم نہ دیا جاتا اور واقعات خود بخود ظاہر کر دیتے کہ چونکہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانے میں اور میرے ہاتھ سے پوری ہوئی ہیں اس لئے میں ہی ان کا مصداق ہوں تو اس میں کوئی حرج نہ تھا.کسی کشف کا الہام کا تائیدی طور پر ہونا ایک زائد امر ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت اگر اس امر کو ظاہر کر دیا اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں.چنانچہ آج میں نے پہلی دفعہ وہ تمام پیشگوئیاں منگوا کر اس نیت کے ساتھ دیکھیں کہ میں ان پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھوں اور دیکھوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں کیا کچھ بیان فرمایا ہے.ہماری جماعت کے دوست چونکہ میری طرف ان پیشگوئیوں کو منسوب کیا کرتے تھے اس لئے میں ہمیشہ ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھنے سے بچتا تھا اور ڈرتا تھا کہ کوئی غلط خیال قائم نہ ہو جائے.مگر آج پہلی دفعہ میں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 25 صفحه 59 تا 61) یا تو وہ وقت تھا کہ جب آپ نے فرمایا کہ مجھے ضرورت نہیں کہ کسی قسم کا اعلان کروں اور پھر وہ وقت بھی آیا جب آپ پر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا اور کھول دیا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں اس لئے اعلان کریں تو اس وقت آپ نے معترضین اور نہ ماننے والوں کو کھلا چیلنج دیا.آپ نے فرمایا کہ میں کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے ان
خطبات مسرور جلد 13 123 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائیں.جو شخص سمجھتا ہے کہ میں نے افتراء سے کام لیا ہے یا اس بارے میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اس معاملے میں میرے ساتھ مباہلہ کرلے اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی مؤکد بعذاب قسم کھا کر اعلان کر دے کہ اسے خدا نے کہا ہے کہ میں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں.پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرمادے گا کہ کون کا ذب ہے اور کون صادق.(ماخوذ از الموعود.انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 645) پیشگوئی مصلح موعود کے کچھ حصے پھر پیشگوئی کے جو بعض حصے تھے ان میں سے کچھ حصے بیان کرتا ہوں.مثلاً پیشگوئی کا ایک حصہ یہ ہے کہ وہ علوم ظاہری سے پر کیا جائے گا.علوم ظاہری کا ایک حصہ حضرت مصلح موعود نے لیا ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ علوم ظاہری سیکھے گا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے.یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ علوم ظاہری میں خوب مہارت رکھتا ہوگا بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ وہ علوم ظاہری سے پر کیا جائے گا.جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اور طاقت اسے یہ علوم ظاہری سکھائے گی اس کی اپنی کوشش اور محنت اور جدوجہد کا اس میں دخل نہیں ہوگا.یہاں علوم ظاہری سے مراد حساب اور سائنس وغیرہ علوم نہیں ہو سکتے کیونکہ یہاں پر کیا جائے گا کے الفاظ ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے یہ علوم سکھائے جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سائنس اور حساب اور جغرافیہ وغیرہ علوم نہیں سکھائے جاتے بلکہ دین اور قرآن سکھایا جاتا ہے.پس پیشنگوئیوں کے ان الفاظ کا کہ وہ علوم ظاہری سے پر کیا جائے گا یہ مطلب ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم دینیہ اور قرآنیہ سکھلائے جائیں گے اور خدا خود اس کا معلم ہوگا.فرمایا میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ اپنی ذات میں ظاہر کرتی ہے کہ انسانی ہاتھ میری تعلیم میں نہیں تھا.میرے اساتذہ میں سے بعض زندہ ہیں اور بعض فوت ہو چکے ہیں.میری تعلیم کے سلسلے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفتہ اسیح الا ول کا ہے.(ماخوذ از الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 565-566) پھر آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے کے ذریعے مجھے قرآن کریم کا علم طافرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے.جس طرح کسی کو خزانے کی کنجی مل جاتی ہے اسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے.دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی
خطبات مسرور جلد 13 124 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء افضلیت اس پر ظاہر نہ کرسکوں.لاہور میں آپ لیکچر دے رہے تھے.فرمایا کہ یہ لا ہور شہر ہے.یہاں یو نیورسٹی موجود ہے.کئی کالج یہاں کھلے ہوئے ہیں.بڑے بڑے علوم کے ماہر اس جگہ پر پائے جاتے ہیں.ان سب سے کہتا ہوں کہ دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے.دنیا کا کوئی پروفیسر میرے سامنے آ جائے.دنیا کا کوئی سائنسدان میرے سامنے آ جائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے.میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اس کے اعتراض کا رڈ ہو گیا ہے اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ میں خدا کے کلام سے اس کو جواب دوں گا اور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو ر ڈ کر کے دکھا دوں گا.(ماخوذ از ”میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں“.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 227) آپ نے ایک مضمون ”احمدیت کا پیغام لکھا تھا جس میں احمدیت کے بارے میں سوال کرنے والوں کے لئے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ وضاحت فرمائی تھی.اس مضمون میں ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ خود راقم الحروف نے کئی علوم فرشتوں سے سیکھے ہیں.مجھے ایک دفعہ ایک فرشتے نے سورہ فاتحہ کی تفسیر پڑھائی اور اُس وقت سے لے کر اس وقت تک سورہ فاتحہ کے اس قدر مطالب مجھ پر کھلے ہیں کہ ان کی حد ہی کوئی نہیں ہے.اور میرا دعویٰ ہے کہ کسی مذہب و ملت کا آدمی روحانی علوم میں سے کسی مضمون کے متعلق بھی جو کچھ اپنی ساری کتاب میں سے نکال سکتا ہے اس سے بڑھ کر مضامین خدا تعالیٰ کے فضل سے میں صرف سورۃ فاتحہ میں سے نکال سکتا ہوں.مدتوں سے میں دنیا کو یہ چیلنج دے رہا ہوں مگر آج تک کسی نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا.ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت، توحید الہی کا ثبوت ، رسالت اور اس کی ضرورت ، شریعت کا ملہ کی علامات اور بنی نوع انسان کے لئے اس کی ضرورت، دعا، تقدیر، حشر ونشر ، جنت و دوزخ ان تمام مضامین پر سورۃ فاتحہ سے ایسی روشنی پڑتی ہے کہ دوسری کتب کے سینکڑوں صفحات بھی اتنی روشنی انسان کو نہیں پہنچاتے.(ماخوذ از احمدیت کا پیغام.انوار العلوم جلد 20 صفحہ 567) پھر آپ نے فرمایا کہ عہدۂ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت سے کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور ان سے فائدہ اٹھائے.وہ کون سا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا.
خطبات مسرور جلد 13 125 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء مسئله نبوت ، مسئله کفر، مسئله خلافت، مسئلہ تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف،اسلامی اقتصادیات، اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا.مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے ہی اس مضمون کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جس کو آج دوست اور دشمن سب نقل کر رہے ہیں.مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے، مجھے لاکھ برا بھلا کہے، جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا اسے میرا خوشہ چیں ہونا پڑے گا.مجھ سے بہر حال مدد لینی پڑے گی اور میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جاسکے گا چاہے پیغامی ہوں یا مصری.ان کی اولادیں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہوں گی کہ میری کتابوں کو پڑھیں اور ان سے فائدہ اٹھا ئیں بلکہ میں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارے میں سب سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوا ہے اور ہو رہا ہے.پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں ، خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ سے ہی اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ اے نادانو ! تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوا ہے وہ تم نے اسی سے لیا ہے.پھر اس کی مخالفت تم کس منہ سے کر رہے ہو؟ (ماخوذاز ” خلافت راشدہ.انوار العلوم جلد 15 صفحہ 587-588) پھر ایک خطبے میں آپ نے فرمایا کہ ہمارے ایک استاد تھے.استاد کا قصہ یہ ہے کہ وہ حضرت مصلح موعود کے درس میں شامل ہوتے تھے لیکن اپنے اور باقی ساتھیوں کے درس میں شامل نہیں ہوتے تھے کہ وہاں مجھے نکات نہیں ملتے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 22 صفحہ 472) بہر حال یہ خلاصہ ہے.پھر ایک جگہ فرماتے ہیں کہ 1907ء میں سب سے پہلی دفعہ میں نے پبلک تقریر کی.جلسے کا موقع تھا بہت سے لوگ جمع تھے.حضرت خلیفہ المسیح الاول بھی موجود تھے.میں نے سورۃ لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اس کی تفسیر بیان کی.میری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب میں کھڑا ہوا تو چونکہ اس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اور میری عمر بھی اس وقت صرف اٹھارہ سال کی تھی.پھر اس وقت حضرت خلیفہ اول بھی موجود تھے انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اور دوست بھی آئے ہوئے تھے.اس لئے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا.اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں.تقریر آدھ گھنٹے یا پون گھنٹے جاری رہی.جب میں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے کھڑے ہو کر فرمایا.میاں ! میں تم کو مبارکباد دیتا
خطبات مسرور جلد 13 126 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی.میں تمہیں خوش کرنے کے لئے یہ نہیں کہہ رہا.میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں بہت پڑھنے والا ہوں اور میں نے بڑی بڑی تفسیریں پڑھی ہیں مگر میں نے بھی آج تمہاری تقریر میں قرآن کریم کے وہ مطالب سنے ہیں جو پہلی تفسیروں میں ہی نہیں بلکہ مجھے بھی پہلے معلوم نہیں تھے.اب یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک نہ میرا مطالعہ وسیع تھا اور نہ قرآن کریم پر لمبے غور کا کوئی زمانہ گزرا تھا.پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر اس وقت ایسے معارف جاری کر دیئے جو پہلے بیان نہیں ہوئے تھے“.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 22 صفحہ 473) وہ علوم باطنی سے پر کیا جائے گا.اس کے بارے میں بتا تا ہوں.پہلے ظاہری علوم سے پر ہونے کا ذکر تھا.اب باطنی علوم سے پر کیا جائے گا.آپ فرماتے ہیں کہ باطنی علوم سے مراد وہ علوم مخصوصہ ہیں جو خدا تعالیٰ سے خاص ہیں.جیسے علم غیب ہے جسے وہ اپنے ایسے بندوں پر ظاہر کرتا ہے جن کو وہ دنیا میں کوئی خاص خدمت سپر د کرتا ہے تاکہ خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق ظاہر ہو اور وہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان کو تازہ کر سکیں.سو اس شق میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص عنایت فرمائی ہے اور سینکڑوں خوا ہیں اور الہام مجھے ہوئے ہیں جو علوم غیب پر مشتمل ہیں.فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی جبکہ خلافت کا کوئی سوال بھی ذہن میں پیدا نہیں ہو سکتا تھا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ ان الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ یعنی وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائیں گے ان لوگوں پر جو تیرے مخالف ہوں گے قیامت تک غالب رہیں گے.یہ الہام میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوسنایا اور آپ نے اسے لکھ لیا.یہ وہی آیت ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آتی ہے مگر وہاں الفاظ یہ ہیں کہ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ (آل عمران : 56) کہ میں تیرے منکروں پر تیرے مومنوں کو قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں.مگر مجھے جو الہام ہوا وہ یہ ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ جو پہلے سے زیادہ تاکیدی ہے.یعنی میں اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یقینا تیرے ماننے والوں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دوں گا.یہ الہام جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا اور آپ نے اسے لکھ لیا.میں عرصہ دراز سے یہ الہام دوستوں کو سناتا چلا آ رہا ہوں.اس کے نتیجے میں دیکھو کہ کس کس طرح
خطبات مسرور جلد 13 127 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء میری مخالفت ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح دی.غیر مبائعین نے حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں یہ کہہ کہہ کر کہ ایک بچہ ہے جس کی خاطر جماعت کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے پروپیگنڈہ کیا مگر بالکل بے اثر ثابت ہوا.میں ان باتوں سے اس وقت اتنا نا واقف تھا کہ ایک دن صبح کی نماز کے وقت میں حضرت اماں جان کے کمرے میں جو مسجد کے بالکل ساتھ ہے نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھا کہ مسجد میں سے مجھے لوگوں کی اونچی اونچی آواز میں آنی شروع ہو گئیں جیسے کسی بات پر جھگڑ رہے ہوں.ان میں سے ایک آواز جسے میں نے پہچانا وہ شیخ رحمت اللہ صاحب کی تھی.میں نے سنا کہ وہ بڑے جوش سے یہ کہہ رہے ہیں کہ تقویٰ کرنا چاہئے.خدا کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنا چاہئے.ایک بچے کو آگے کر کے جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے.ایک بچہ کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جارہا ہے.میں اس وقت ان باتوں سے اس قدر نا واقف تھا کہ مجھے ان کی یہ بات سن کر سخت حیرت ہوئی کہ وہ بچہ ہے کون جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جارہے ہیں.چنانچہ میں نے باہر نکل کر غالباً شیخ یعقوب علی صاحب سے پوچھا کہ آج مسجد میں یہ کیسا شور تھا اور شیخ رحمت اللہ صاحب یہ کیا کہ رہے تھے کہ ایک بچے کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جا رہا ہے.وہ بچہ ہے کون جس کی طرف شیخ صاحب اشارہ کر رہے تھے.وہ مجھ سے ہنس کر کہنے لگے کہ وہ بچہ تم ہی ہو اور کون ہے.گویا میری اور ان کی مثال ایسی تھی جیسی کہتے ہیں کہ ایک نابینا اور بینا دونوں کھانا کھانے بیٹھے.نابینے نے سمجھا کہ مجھے تو نظر نہیں آتا اور اسے سب کچھ نظر آتا ہے.لازماًیہ مجھ سے زیادہ کھا رہا ہوگا.چنانچہ یہ خیال آتے ہی اس نے جلدی جلدی کھانا کھانا شروع کر دیا.پھر اسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اس نے دیکھ لی ہو گی اور اب یہ بھی جلدی جلدی کھانے لگ گیا ہو گا تو میں کیا کروں.چنانچہ اس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا.پھر سمجھا کہ اب یہ بھی اس نے دیکھ لیا ہوگا اور اس نے بھی دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا ہوگا.میں اب کس طرح زیادہ کھاؤں.اس خیال کے آنے پر اس نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کیا اور دوسرے ہاتھ سے چاول اپنی جھولی میں ڈالنے شروع کر دیئے.پھر اسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اس نے دیکھ لی ہوگی اور اس نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیا ہوگا.یہ خیال آنے پر اس نے تھالی اٹھائی (جو بڑا ڈش تھا.کہنے لگا کہ اب میرا حصہ رہ گیا ہے تم اپنا حصہ لے چکے ہو.اور جو دوسرا آدمی تھا اس بیچارے کی یہ حالت تھی کہ اس نے ایک لقمہ بھی نہیں کھا یا تھا.وہ اس نابینا کی حرکت دیکھ دیکھ کر ہی دل میں ہنس رہا تھا کہ یہ کر کیا رہا ہے.(فرماتے ہیں کہ ) یہی میرا اور ان کا حال ہے.یہ بھی اس نابینا کی طرح ہمیشہ سوچتے رہتے ہیں کہ اب یہ یوں کر رہا ہو گا.اب یہ اس طرح جماعت کو ورغلانے کی کوشش کر رہا
خطبات مسرور جلد 13 128 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء ہوگا.اور مجھے کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ میرے خلاف کیا کچھ ہو رہا ہے.میں سوائے خدا تعالیٰ کی ذات پر تو گل رکھنے کے اور کچھ بھی نہیں کرتا تھا اور حالات سے ایسا نا واقف تھا کہ سمجھتا تھا کہ کوئی اور بچہ ہے جس کا یہ ذکر ہو رہا ہے.مگر باوجود اس کے کہ یہ لوگ اس وقت بڑا رسوخ رکھتے تھے اور جماعت پر ان کا خاص طور پر اثر تھا اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام پروپیگینڈے کو بے اثر کیا اور مجھے اس نے فتح اور کامرانی عطا فرمائی.(ماخوذاز الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 579 تا 581) پھر تین کو چار کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ بھی صحیح نہیں کہ تین کو چار کرنے والے کی علامت مجھ پر چسپاں نہیں ہوتی.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی رنگ میں تین کو چار کرنے والا ہوں.اوّل اس طرح کہ مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب، مرز افضل احمد صاحب اور بشیر اول پیدا ہوئے اور چوتھا میں ہوا.دوسرے اس طرح کہ میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے اور اس طرح میں نے ان تین کو چار کر دیا یعنی مرزا مبارک احمد ، مرزا شریف احمد اور مرزا بشیر احمد اور چوتھا میں.تیسرے اس طرح بھی میں تین کو چار کرنے والا ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندہ اولاد میں سے ہم صرف تین بھائی یعنی میں ، مرزا بشیر احمد صاحب اور مرزا شریف احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھنے کے لحاظ سے آپ کے روحانی بیٹوں میں شامل تھے.مرز اسلطان احمد صاحب آپ کی روحانی ذریت میں شامل نہیں تھے.انہیں حضرت خلیفہ اول پر بڑا اعتقاد تھا مگر باوجود اعتقاد کے آپ کے زمانے میں وہ احمدی نہ ہوئے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک رویا سے معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالی نے آپ کے لئے ہدایت مقدر کی ہوئی ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر حضرت خلیفتہ اسی الاول کے زمانے میں وہ احمدیت میں داخل نہ ہوئے.جب میرا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ وہ میرے ذریعہ سے احمدیت میں داخل ہو گئے.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی حالانکہ وہ میرے بڑے بھائی تھے اور بڑے بھائی کے لئے اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.چنانچہ بیعت کے بعد انہوں نے خود بتایا کہ میں ایک عرصے تک اس وجہ سے بیعت کرنے سے رکتا رہا کہ اگر میں بیعت کرتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرتا یا حضرت خلیفہ اول کی کرتا جن پر مجھے بڑا اعتقاد تھا.اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کرلوں.مگر کہنے لگے ( یعنی مرزا سلطان احمد صاحب نے کہا کہ آخر میں نے (اپنے دل میں ) کہا کہ یہ پیالہ مجھے پینا ہی پڑے گا.چنانچہ انہوں نے
خطبات مسرور جلد 13 129 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء میرے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے تین کو چار کرنے والا بنادیا کیونکہ پہلے روحانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت میں ہم صرف تین بھائی تھے مگر پھر تین سے چار ہو گئے.پھر اس لحاظ سے بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوں کہ میں الہام کے چوتھے سال پیدا ہوا.1886ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ پیشگوئی کی تھی.(فرماتے ہیں کہ) پھر اس لحاظ سے بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوں کہ میں الہام کے چوتھے سال پیدا ہوا.1886ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ پیشگوئی کی تھی اور 1889ء میں میری پیدائش ہوئی.1886ءایک، 1887ء دو، 1888ء تین اور 1889ء چار.گویا تین کو چار کرنے والی پیشگوئی میں یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ میری پیدائش پیشگوئی سے چوتھے سال ہوگی اور اس طرح میں تین کو چار کرنے والا ہوں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کے مطابق میری ولادت ہوئی.ماخوذاز الموعود - انوار العلوم جلد 17 صفحه 635 تا 637) جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا“.فرماتے ہیں کہ پانچویں خبر یہ دی گئی تھی کہ اس کا نزول جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.یہ خبر بھی میرے زمانے میں پوری ہوئی.چنانچہ میرے خلافت پر متمکن ہوتے ہی پہلی جنگ ہوئی اور اب دوسری جنگ شروع ہے جس سے جلال الہی کا دنیا میں ظہور ہورہا ہے.شاید کوئی شخص کہہ دے کہ اس وقت لاکھوں کروڑوں لوگ زندہ ہیں اگر ان لڑائیوں کو تم اپنی صداقت میں پیش کر سکتے ہو تو اس طرح ہر زندہ شخص ان کو اپنی تائید میں پیش کر سکتا ہے اور کہ سکتا ہے کہ یہ نگیں میری صداقت کی علامت ہیں.اس کے متعلق میرا جواب یہ ہے کہ اگر ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کو جو اس وقت زندہ ہیں ان جنگوں کی خبریں دی گئی ہیں تو پھر یہ زندہ شخص کی علامت بن سکتی ہے.اور اگر اُن کو ان لڑائیوں کی خبریں نہیں دی گئیں تو پھر جس کو ان جنگوں کی تفصیل بتائی گئی ہے اس کے متعلق جلال الہی کا یہ ظہور کہا جائے گا.(ماخوذ از الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 627) وہ جلد جلد بڑھے گا“.(فرماتے ہیں) جب میں خلیفہ ہوا اس وقت ہمارے خزانے میں صرف چودہ آنے کے پیسے تھے اور اٹھارہ ہزار کا قرض تھا.یہاں تک کہ میں نے اپنے زمانہ خلافت میں جو پہلا اشتہار لکھا اور جس کا عنوان تھا ”کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اس کو چھپوانے کے لئے بھی میرے پاس کوئی روپیہ نہ تھا.اس وقت ہمارے نانا جان کے پاس کچھ چندہ تھا جو انہوں نے مسجد کے لئے لوگوں
خطبات مسرور جلد 13 130 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء سے جمع کیا تھا.انہوں نے اس چندے میں سے دو سو روپیہ اس اشتہار کے چھپوانے کے لئے دیا اور کہا کہ جب خزانہ میں روپیہ آنا شروع ہو جائے گا تو یہ دوسور و پیدا دا ہو جائے گا.غرض وہ روپیہ ان سے قرض لے کر یہ اشتہار شائع کیا گیا.مگر اس وقت جب جماعت کے سرکردہ لوگ میرے مخالف تھے.جب جماعت کے لیڈر میرے مخالف تھے.جب جماعت کا خزانہ خالی تھا.جب صرف چودہ آنے کے پیسے اس میں موجود تھے.( چودہ آنے کا مطلب ہے ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے ہیں.پورا ایک روپیہ نہیں تھا.آجکل کے حساب سے ستاسی اٹھاسی پیسے.) اور جب اٹھارہ ہزار کا انجمن پر قرض تھا.جب انجمن کی اکثریت میرے مخالف تھی.جب انجمن کا سیکرٹری میر امخالف تھا.جب مدرسے کا ہیڈ ماسٹر میر امخالف تھا.میرے یہ الفاظ ہیں جو میں نے خدا کے منشاء کے ماتحت اس اشتہار میں شائع کئے کہ خدا چاہتا ہے کہ جماعت کا اتحاد میرے ہی ہاتھ پر ہو اور خدا کے اس ارادے کو اب کوئی نہیں روک سکتا.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے صرف دو ہی راہ کھلے ہیں یا تو وہ میری بیعت کر کے جماعت میں تفرقہ کرنے سے باز رہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اس پاک باغ کو جسے پاک لوگوں نے خون کے آنسوؤں سے سینچا تھا اکھاڑ کر پھینک دیں.جو کچھ ہو چکا ہو چکا مگر اب اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق سے ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا.فرمایا کہ پھر میں نے لکھا کہ اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہوسکتی اور سب کے سب خدا نخواستہ مجھے ترک کر دیں تو بھی میری خلافت میں فرق نہیں آ سکتا.جیسے نبی اکیلا ہی نبی ہوتا ہے اسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے.پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلے کو قبول کرے.خدا تعالیٰ نے جو بوجھ مجھ پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اس کی مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں کچھ نہیں کرسکتا.لیکن مجھے اس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گی.غرض طرح طرح کی مخالفتیں ہوئیں.سیاسی بھی اور مذہبی بھی.اندرونی بھی اور بیرونی بھی مگر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں جماعت کو اور زیادہ ترقی کی طرف لے جاؤں.وو (ماخوذ از میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں“.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 219 تا 221) وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا“.ایک پیشگوئی یہ بھی کی گئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو میرے ذریعہ سے پورا کیا.اول تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ان قوموں کو ہدایت دی جن کی طرف مسلمانوں کو کوئی توجہ نہیں تھی اور وہ نہایت ذلیل اور
خطبات مسرور جلد 13 131 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء پست حالت میں تھیں.وہ اسیروں کی سی زندگی بسر کرتی تھیں.نہ ان میں تعلیم پائی جاتی تھی.نہ ان کا تمدن اعلیٰ درجے کا تھا.نہ ان کی تربیت کا کوئی سامان تھا.جیسے افریقن علاقے ہیں کہ ان کو دنیا نے الگ پھینکا ہوا تھا اور وہ صرف بیگار اور خدمت کے کام آتے تھے.ابھی مغربی افریقہ کا ایک نمائندہ (وہاں آپ جلسے میں تقریر فرمارہے ہیں.اس جلسے میں مغربی افریقہ کے ایک نمائندے نے تقریر بھی کی تھی.اس کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ) آپ لوگوں کے سامنے پیش ہو چکے ہیں.اس ملک کے بعض لوگ تعلیم یافتہ ہیں لیکن اندرون ملک میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کپڑے تک نہیں پہنتے اور ننگے پھرا کرتے تھے اور ایسے وحشی لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ ہزار ہا لوگ اسلام میں داخل ہوئے.وہاں کثرت سے عیسائیت کی تعلیم پھیل رہی تھی اور اب بھی بعض علاقوں میں عیسائیوں کا غلبہ ہے لیکن میری ہدایت کے ماتحت ان علاقوں میں ہمارے مبلغ گئے اور انہوں نے ہزاروں لوگ مشرکوں میں سے مسلمان کئے اور ہزاروں لوگ عیسائیت میں سے کھینچ کر اسلام کی طرف لے آئے.اس کا عیسائیوں پر اس قدر اثر ہے کہ انگلستان میں پادریوں کی ایک بہت بڑی انجمن ہے جو شاہی اختیارات رکھتی ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے عیسائیت کی تبلیغ اور اس کی نگرانی کے لئے مقرر ہے.اس نے ایک کمیشن اس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ اس امر کے متعلق رپورٹ کرے کہ مغربی افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رک گئی ہے.اس کمیشن نے اپنی انجمن کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اس میں درجن سے زیادہ جگہ احمدیت کا ذکر آتا ہے اور لکھا ہے کہ اس جماعت نے عیسائیت کی ترقی کو روک دیا ہے.غرض مغربی افریقہ اور امریکہ دونوں ملکوں میں حبشی قو میں کثرت سے اسلام لا رہی ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان قوموں میں تبلیغ کا موقع عطا فرما کر مجھے ان اسیروں کا رستگار بنایا ہے اور ان کی زندگی کا معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.پھر فرمایا کہ اسیروں کی رستگاری کے لحاظ سے کشمیر کا واقعہ بھی اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے اور ہر شخص جو ان واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے ہی کشمیریوں کی رستگاری کے سامان پیدا کئے اور ان کے دشمنوں کو شکست دی.(ماخوذ از الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 614-615) آپ فرماتے ہیں یہ جو پیشگوئی ہے اس کے دو بہت بڑے اور اہم حصے ہیں.پہلا حصہ اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ میں
خطبات مسرور جلد 13 132 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اب خالی بیٹا ہونے سے آپ کا نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ایسے کام آپ سے ظاہر نہ ہوتے جن سے ساری دنیا میں آپ مشہور ہو جاتے.بعض بڑے بڑے مصنف ہوتے ہیں وہ ساری عمر تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ہیں اس وجہ سے ان کا نام مشہور ہو جاتا ہے.بعض برے کام کرتے ہیں اور اس وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں.بعض بڑے بڑے چوروں اور ڈاکوؤں کے نام سے بھی لوگ آشنا ہوتے ہیں.لیکن بہر حال ان کی اچھی یا بری شہرت ساری دنیا تک نہیں ہوتی.کسی ایک علاقے یا ایک حصہ ملک میں ان کی شہرت ہوتی ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خبر دی تھی کہ وہ آپ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا.پس یہ پیشگوئی اسی صورت میں عظیم الشان پیشگوئی کہلاسکتی تھی جب آپ کی شہرت غیر معمولی حالات میں ہوتی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ہی ہوا.جب میں پیدا ہوا تو اس کے دو اڑھائی ماہ کے بعد آپ نے لوگوں سے بیعت لی اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کی بنیاد دنیا میں قائم ہو گئی.(ماخوذ از " میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں“.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 207) فرماتے ہیں کہ میں نے دنیا کے مختلف اطراف میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کے لئے مشن قائم کر دیئے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فوت ہوئے اس وقت صرف ہندوستان اور کسی قدر افغانستان میں جماعت احمدیہ قائم تھی باقی کسی جگہ احمد یہ مشن قائم نہیں تھا.مگر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں بتایا تھا وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مختلف ممالک میں احمد یہ مشن قائم کروں.چنانچہ میں نے اپنی خلافت کی ابتدا میں ہی انگلستان، سیلون اور ماریشس میں احمدیہ مشن قائم کئے.پھر یہ سلسلہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا.چنانچہ ایران میں، روس میں ، عراق میں ، مصر میں، شام میں فلسطین میں لیگوس نائیجیریا میں ، گولڈ کوسٹ میں ( گولڈ کوسٹ آجکل گھانا کہلاتا ہے ) ، سیرالیون میں، ایسٹ افریقہ میں، یورپ میں.پھر انگلستان کے علاوہ سپین میں، اٹلی میں ، چیکوسلواکیہ میں ، ہنگری میں، پولینڈ میں ، یوگوسلاویہ میں، البانیہ میں، جرمنی میں، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں، ارجنٹائن میں، چین میں، جاپان میں، ملایا میں ،سٹریٹ منٹس میں سماٹرا میں، جاوا میں، سُرا بایا میں ، کاشغر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مشن قائم ہوئے.ان میں سے بعض مبلغ اس وقت دشمن کے ہاتھوں میں قید ہیں.بعض کام کر رہے ہیں.اور بعض مشن جنگ ( یعنی جو دوسری جنگ عظیم تھی ) کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر دیئے گئے ہیں.غرض دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو آج سلسلہ احمدیہ سے واقف نہ ہو.دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو سیٹلمنٹ
خطبات مسرور جلد 13 133 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء یہ محسوس نہ کرتی ہو کہ احمدیت ایک بڑھتا ہوا سیلاب ہے جو ان کے ملکوں کی طرف آ رہا ہے.حکومتیں اس کے اثر کو محسوس کر رہی ہیں بلکہ بعض حکومتیں اس کو دبانے کی بھی کوشش کرتی ہیں.(اور یہ صرف اُس زمانے کی بات نہیں آجکل بھی یہ باتیں سامنے آرہی ہیں ).چنانچہ روس میں جب ہمارا مبلغ گیا تو اسے مارا بھی گیا، پیٹا بھی گیا اور ایک لمبے عرصے تک قید رکھا گیا.لیکن چونکہ خدا کا وعدہ تھا کہ وہ اس سلسلے کو پھیلائے گا اور میرے ذریعے سے اس کو دنیا کے کناروں تک شہرت دے گا اس لئے اس نے اپنے فضل وکرم سے ان تمام مقامات میں احمدیت کو پہنچایا بلکہ بعض مقامات پر بڑی بڑی جماعتیں قائم کر دیں.(ماخوذ از دعوی مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 155 - 156 ) پیشگوئی کے تو مختلف حصے ہیں جو آپ میں بڑی شان سے پورے ہوئے اور کئی مرتبہ پورے ہوئے.مختلف جگہوں پر پورے ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو ظاہر کرتے رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی شان کو بڑھاتے رہے.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمت ہمیشہ برساتا رہے اور ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم مولا نا محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری ( مبلغ سلسلہ) کا ہے.یہ مکرم میاں کرم دین صاحب کے بیٹے تھے اور مورخہ 15 فروری 2015ء کو 87 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.آپ کو مختلف ممالک میں اور مرکز سلسلہ میں مختلف حیثیتوں سے ساٹھ سال تک خدمات سلسلہ بجالانے کی توفیق ملی.آپ کی ساری زندگی خدمات دینیہ مسلسل جد و جہد، دعوت الی اللہ اور اطاعت خلافت سے معمور ہے.جب تک صحت نے اجازت دی آپ دینی امور میں ہمہ تن مصروف رہے.کچھ عرصہ قبل آپ کو فالج ہوا جس کی وجہ سے آپ صاحب فراش ہو گئے تھے.31 راکتو بر 1928 کو لودھی نگل تحصیل بٹالہ میں آپ پیدا ہوئے.ان کے.ان والد میاں کرم دین صاحب کو اللہ تعالیٰ نے 1914ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی تھی.مولا نا صدیق صاحب نے پرائمری پاس کرنے کے بعد 1940ء میں قادیان آ کر مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہشیار طلباء میں سے تھے.اول دوم پوزیشن آیا کرتی تھی.1947ء میں مدرسہ احمدیہ پاس کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا.1949ء میں جامعہ احمدیہ کے دوران ہی مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.1950ء میں جامعتہ المبشرین کی پہلی مربیان کلاس میں داخلہ لیا اور
خطبات مسرور جلد 13 134 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء 1952ء میں شاہد پاس کر لیا.اس کے بعد دعوت الی اللہ کے سلسلے میں آپ ربوہ سے پہلی مرتبہ سیرالیون مغربی افریقہ تشریف لے گئے.23 را کتوبر 1952 ء کو آپ کراچی سے بذریعہ بحری جہاز لندن کے لئے روانہ ہوئے.یہاں ایک ماہ قیام کے بعد دسمبر میں بحری جہاز کے ذریعہ سے سیرالیون پہنچے.وہاں چارسال فریضہ دعوت الی اللہ ادا کرنے کے بعد 19 اکتوبر 1956ء کو واپس پاکستان پہنچے.تین سال مرکز میں مختلف فرائض ادا کرتے رہے.دسمبر 1959ء کو دوبارہ سیرالیون کے امیر اور مشنری انچارج بنا کر بھیجے گئے.1962 ء تک یہ خدمات بجالاتے رہے.پھر 15 جنوری 1966 ء کوا کرا ( Accra) گھانا پہنچے اور سالٹ پانڈ میں تقریباً دو سال تک پرنسپل احمد یہ مشنری ٹریننگ کالج کے فرائض انجام دیئے.جولائی 1968ء کو تیسری مرتبہ سیرالیون میں متعین ہوئے اور 24 رمئی 1972ء تک امیر اور مشنری انچارج کے فرائض ادا کرتے رہے.31 جولائی 1973ء کو امریکہ تشریف لے گئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار سال تک امریکہ میں خدمات کی توفیق عطا فرمائی.سیرالیون میں جب آپ امیر تھے تو وہاں اس زمانے میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا افریقہ کا پہلا دورہ ہوا تھا.آپ اس وقت وہیں تھے.پاکستان میں متعدد شعبہ جات میں خدمات بجالاتے رہے.بہت منکسر المزاج، بے نفس، بے ریا محنتی اور خاموش خدمتگار تھے.طبیعت میں سادگی تھی.گہرا علم اور تحریر کا ذوق تھا.اپنے علم اور تجربات و مشاہدات کے ذریعے روز نامہ الفضل کے ذریعہ احباب جماعت کو مستفید کرتے رہتے.آپ کے مضامین وقتا فوقتا الفضل کی زینت بنتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جب مغربی افریقہ کا دورہ کیا تو حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے بعض مبلغین کے متعلق فرمایا کہ یہ مقام نعیم پر فائز ہیں اور ان میں سے ایک نام آپ کا بھی لیا.آپ کی شادی محترم خلیل احمد صاحب آف گولبازار کی بیٹی امتہ المجید صاحبہ سے ہوئی جنہوں نے اپنے شوہر کا ساتھ وقف کی روح کے ساتھ نبھایا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازاجو صاحب اولاد ہیں.ایک بیٹی مبلغ سلسلہ مقصود احمد قمر صاحب کے ساتھ بیاہی گئی ہیں اور آپ کے ایک بیٹے سعید خالد صاحب امریکہ میں مربی سلسلہ ہیں.سعید خالد صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار کے والد بزرگوار فدائی خادم سلسلہ، منکسر المزاج، عابد و زاہد اور متوکل وجود تھے.کہتے ہیں جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے آپ کی سیرت کے دو پہلو نمایاں مشاہدہ کئے ہیں.اول عبادت میں شغف یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی اور دوم دین کی خدمت اور سلسلہ و نظام
خطبات مسرور جلد 13 135 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء جماعت کے ساتھ اخلاص و وفا.نماز ہر حال میں مسجد جا کر ادا کرتے تھے.زندگی کے آخری سالوں میں گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے مسجد میں چل کر یا سائیکل پر نہیں جاسکتے تھے تو خاکسار کی یہ ڈیوٹی تھی کہ اتا جان کو گاڑی پر مسجد نصرت جہاں لے کر جاتا.اگر کسی کام سے لیٹ ہو جا تا تو ناراض ہوتے کہ میری نماز ضائع ہو گئی.فرض نماز کی طرح نماز تہجد کا بھی ہمیشہ التزام رہا.اس میں بھی ناغہ نہ کرتے تھے.کبھی سفر سے تھکے ہوئے پہنچتے تو تب بھی نماز تہجد کبھی ضائع نہیں کی اور کہتے ہیں کہ ہنڈ یا ابلنے والی کیفیت میں نے ان کی نمازوں میں یعنی تہجد کی نمازوں میں مشاہدہ کی ہے.اپنی اولاد کی نمازوں کی بھی فکر رہتی تھی اور اولاد کے ساتھ اگر کبھی سختی رکھی تو وہ نماز با جماعت کی ادائیگی کے لئے ہی سختی تھی.ہمارے مبلغ سعید خالد صاحب جو ہیں یہ لکھتے ہیں کہ 2010ء میں ان کا تقر را مریکہ میں ہوا تو کیونکہ اپنے والد کی خدمت کیا کرتے تھے تو کہا کہ مجھے فکر ہے میں خلیفہ وقت کو عذر پیش کر دیتا ہوں.انہوں نے کہا کہ بالکل نہیں کرنا.تم وقف زندگی ہو فو ر آ جاؤ.پھر یہ کہتے ہیں کہ خلافت کے ساتھ والہانہ عشق تھا.خطبات امام میں بیان شدہ ایک ایک ہدایت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے اور ہمیں بھی اس کی تلقین کرتے تھے.بڑے متوکل تھے.کہتے ہیں ایک دفعہ میرے بڑے بھائی امریکہ سے آئے تو ان کو معلوم ہوا کہ گھر کی کوئی ضرورت رقم نہ ہونے کی وجہ سے پوری نہ ہو سکی.بھائی نے ابا جان سے کہا کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا تو آپ نے بھائی کو پاس بٹھایا اور فرمایا کہ اگر میں نے پیسے مانگنے ہی ہیں تو کیوں نہ اپنے خدا سے مانگوں.اس لئے تم سے پیسے نہیں مانگوں گا.تم اپنی توفیق کے مطابق جو خدمت کرنا چاہتے ہو کر و.ان کے ایک بیٹے امریکہ میں انجنیئر ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے لاہور سے انجنیئر نگ کی اور امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں ایڈمشن (admission) کے لئے اپلائی کیا.ایڈمشن ہونے پر سٹڈی ویزہ کے لئے اپلائی کیا مگر اس میں کچھ مشکلات تھیں.امریکہ میں کلاسز شروع ہونے والی تھیں.پریشانی بھی تھی.والد صاحب افریقہ میں تھے.دعا کے لئے آپ کو لکھا کہ یہ بات ہے.ابھی لاہور میں ہی تھا کہ ایک روز صبح اٹھا تو ذہن میں آیا کہ امیریکن قونصلیٹ جانا چاہئے.میں وہاں چلا گیا.امریکن قونصلیٹ نے کہا کہ ابھی تو تم نے ٹیسٹ پاس نہیں کیا تو یہاں کیسے آگئے ہو.میں نے ساری تفصیل بتائی.ایڈمشن کا بتایا کہ کلاسیں شروع ہونے والی ہیں.اس کو کہا کہ اگر میرا معیار نہ ہوتا تو مجھے یونیورسٹی ایڈمشن نہ دیتی.اس پر امریکن قونصلیٹ نے کہا کہ بیٹھو اور آدھے گھنٹے کے بعد پھر ویزہ دے دیا.جب میں ربوہ واپس آیا
خطبات مسرور جلد 13 136 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 فروری 2015ء تو والد صاحب کا خط آیا ہوا تھا جو کہ افریقہ سے دس بارہ دن پہلے لکھا گیا تھا.اس میں لکھا تھا کہ میں نے خدا سے دعا کی ہے.خدا نے مجھے بتایا ہے کہ تمہیں ویزہ ہل گیا ہے.ان کے داماد جو مربی ہیں لکھتے ہیں کہ دعا پر یقین تھا.جب آپ سیرالیون سے واپس آ رہے تھے اور چارج خلیل احمد مبشر صاحب کو دے دیا تو خلیل صاحب نے پوچھا کہ نازک حالات میں مجھے کیا کرنا چاہئے اور جماعت کو کیسے سنبھالوں اور آپ کیسے سنبھالتے تھے تو انہوں نے ایک ہی بات کہی کہ جب بھی مشکل حالات پیدا ہو جاتے تو دروازہ بند کر لیتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ پھر میں ہوتا ہوں اور خدا ہوتا ہے.یہی نسخہ ہر مشکل سے نکلنے کا علاج ہے.مجید سیالکوٹی صاحب بھی لکھتے ہیں کہ مربیوں سے اگر سنتی ہوتی تو سختی بڑی کرتے لیکن خیال بھی بہت رکھا کرتے تھے.پیار بھی بہت کیا کرتے تھے.اپنے کھانے پینے کے اخراجات سفر میں بھی ہوتے تو ہمیشہ خود برداشت کرتے چاہے سوکھی مونگ پھلی کھا لیں یا سوکھی مچھلی کھالیں.جماعت پر اخراجات کا بوجھ نہیں ڈالتے تھے.حنیف قمر صاحب مربی ہیں.کہتے ہیں کہ جب میں سیرالیون گیا تو میں پرانے مبلغین کے حالات کا جائزہ لیتا تھا.وہاں ہمارے ایک افریقن احمدی بھائی پاسلمان ماتسرے صاحب تھے.ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی.مولوی صاحب کے بارے میں جب ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ تو فرشتہ تھے.ہمارے اس افریقن بھائی کا تبصرہ یقیناً بہت سچا ہے اور بہت ساری صفات میں وہ فرشتہ صفت بھی تھے.اللہ تعالیٰ ایسے واقفین زندگی جماعت کو ہمیشہ عطا فرماتا رہے.بڑے متوکل اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اپنے پیاروں کے قرب سے نوازے.ان کے بچوں میں بھی ہمیشہ جماعت اور خلافت کے ساتھ وفا پیدا کرے اور خاص طور پر ان کے داماد اور بیٹے جو واقف زندگی ہیں انہیں مکرم مولا نا صاحب کی خواہش کے مطابق وفا سے اپنے وقف نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 13 مارچ 2015 ء تا 19 مارچ 2015ء جلد 22 شماره 11 صفحہ 05تا10)
خطبات مسرور جلد 13 137 9 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015 ء بمطابق 27 تبلیغ 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت میر حسام الدین صاحب جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑا تعلق تھا ، آپ ان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں.ان کے بیٹے میر حامد شاہ صاحب کے بیٹے کے نکاح کے موقع پر یہ بیان کیا.کہتے ہیں کہ : ” میر حامد شاہ صاحب کے جماعت میں خصوصیت رکھنے کے علاوہ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.) ان کے والد حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس وقت سے واقفیت تھی جبکہ آپ اپنے والد کے بار بار کے تقاضے سے تنگ آ کر ملازمت کے لئے سیالکوٹ تشریف لے گئے.میر حسام الدین صاحب سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تو آپ سے تعلق پیدا ہوا.فرماتے ہیں کہ وہاں کچہری کی چھوٹی سی ملازمت پر کئی سال تک ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) رہے.انہی ایام میں حکیم حسام الدین صاحب سے تعلقات ہوئے اور آخر وقت تک تعلقات قائم رہے.یہ تعلقات صرف انہی کے ساتھ نہ رہے بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ بھی رہے.ان کے بعد میر حامد شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ میں خاص لوگوں میں شمار ہوتے رہے.ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں حضرت میر حامد شاہ صاحب کے بارے میں ذکر ہوا تو آپ نے 66 فرمایا کہ شاہ صاحب ایک درویش مزاج آدمی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتا ہے.بہر حال حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ” تاہم حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ جو ابتدا کے
خطبات مسرور جلد 13 138 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء تعلقات تھے.اس مثال سے ان کی خصوصیت نظر آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعوی کے بعد سیالکوٹ تشریف لے گئے.حکیم حسام الدین صاحب کو آپ کے تشریف لانے کی بہت خوشی ہوئی.انہوں نے ایک مکان میں (آپ کے ) ٹھہرانے کا انتظام کیا.لیکن جس مکان میں آپ کو ٹھہرایا گیا اس کے متعلق جب معلوم ہوا کہ اس کی چھت پر منڈیر کافی نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیالکوٹ سے واپسی کا ارادہ فرمالیا.“ (خطبات محمود جلد 3 صفحہ 326-327) منڈیر کے بارے میں بھی یہ یاد رکھنا چاہئے.حدیث میں بھی آیا ہے کہ ایسی چھتیں جن کی منڈیر نہ ہوان چھتوں کے او پرسونانہیں چاہئے.(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فى النوم على سطح غير محجر حدیث نمبر (5041 اور اس زمانے میں گرمیوں میں لوگ چھتوں پر سویا کرتے تھے کیونکہ پنکھے وغیرہ کا تو انتظام نہیں ہوتا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دیکھا کہ چھت کی منڈیر نہیں ہے تو آپ نے فرمایا یہ گھر تو صحیح نہیں ہے.آپ نے واپسی کا ارادہ فرما لیا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) ” اور اس وقت میرے ذریعے سے ہی باہر مردوں کو لکھ دیا کہ کل ہم واپس قادیان چلے جائیں گے.نیز یہ بھی بتلا دیا کہ یہ مکان ٹھیک نہیں کیونکہ اس کی چھت پر منڈیر نہیں.اس خبر کے سنے پر احباب جن میں مولوی عبد الکریم صاحب وغیرہ تھے راضی بقضاء معلوم دیتے تھے لیکن جو نہی حکیم حسام الدین صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کس طرح واپس جاتے ہیں.چلے تو جائیں اور فور از نانہ دروازے پر حاضر ہوئے اور اطلاع کرائی کہ حکیم حسام الدین حضرت صاحب سے ملنے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوراً باہر تشریف لے آئے.حکیم صاحب نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضور اس لئے واپس تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ یہ مکان مناسب نہیں.( مکان کے متعلق انہوں نے عرض کیا کہ ) مکان کے متعلق تو یہ ہے کہ تمام شہر میں سے جو مکان بھی پسند ہو اسی کا انتظام ہو سکتا ہے.رہا واپس جانا تو کیا آپ اس لئے یہاں آئے تھے کہ فوراوا پس چلے جائیں اور لوگوں میں میری ناک کٹ جائے.اس بات کو ایسے لب و لہجے میں انہوں نے کہا اور اس زور کے ساتھ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالکل خاموش ہو گئے اور آخر میں کہا اچھا ہم نہیں جاتے.“ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 327 خطبہ نکاح بیان فرموده 19 اکتوبر 1933ء) ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا.اس نے کہا کہ میں آپ کا بہت مداح ہوں لیکن ایک بہت بڑی غلطی آپ سے ہوئی ہے.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہنے لگا
خطبات مسرور جلد 13 139 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء کہ) آپ جانتے ہیں کہ علماء کسی کی بات نہیں مانا کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر مان لی تو ہمارے لئے موجب ہتک ہوگی.لوگ کہیں گے یہ بات فلاں کو سو بھی اور انہیں نہ سوجھی.اس لئے ان سے منوانے کا یہ طریق ہے کہ ان کے منہ سے ہی بات نکلوائی جائے.( یعنی علماء بات نہیں مانتے.علماء سے یا مولویوں سے بات منوانے کا طریقہ یہ ہے کہ انہی کے منہ سے بات نکلوائی جائے اور جو طریقہ اُس شخص نے پیش کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے آیا تھا یہ تھا کہ ) جب آپ کو وفات مسیح کا مسئلہ معلوم ہوا تھا تو آپ کو چاہئے تھا کہ چیدہ چیدہ علماء کی دعوت کرتے اور ایک میٹنگ کر کے یہ بات ان کے سامنے پیش کرتے کہ عیسائیوں کو حیات مسیح کے عقیدے سے بہت مدد ملتی ہے اور وہ اعتراض کر کے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ تمہارا نبی فوت ہو گیا اور ہمارے مذہب کا بانی آسمان پر ہے.اس لئے وہ افضل بلکہ خود خدا ہے.اس کا کیا جواب دیا جائے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام علماء کو اکٹھا کر کے یہ پوچھیں کہ یہ بات ہے بتاؤ اس کا کیا جواب دیا جائے.تو وہ شخص کہنے لگا کہ ) اس وقت علماء یہی کہتے کہ آپ ہی فرمائیے اس کا کیا جواب ہے.آپ کہتے کہ رائے تو دراصل آپ لوگوں کی ہی صائب ہوسکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ تجویز پیش کر رہا ہے کہ آپ یہ کہتے کہ ) فلاں آیت سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہوسکتی ہے.علماء فوراً کہہ دیتے کہ یہ بات ٹھیک ہے.بسم اللہ کر کے اعلان کیجئے.ہم تائید کے لئے تیار ہیں.پھر اسی طرح یہ مسئلہ پیش ہو جاتا کہ حدیثوں میں مسیح کی دوبارہ آمد کا ذکر ہے مگر جب مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے تو اس کا کیا مطلب سمجھا جائے گا.اس پر کوئی عالم آپ کے متعلق کہہ دیتا (کہ) آپ ہی مسیح ہیں اور تمام علماء نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دینی تھی.یہ تجویز سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میرا دعویٰ انسانی چال سے ہوتا تو بیشک ایسا ہی کرتا مگر یہ خدا کے حکم سے تھا.خدا نے جس طرح سمجھا یا اسی طرح میں نے کیا.تو (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) چالیں اور فریب انسانی چالوں کے مقابل پر ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی جماعتیں ان سے ہر گز نہیں ڈرسکتیں.یہ ہمارا کام نہیں خود خدا تعالیٰ کا کام ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 12 صفحہ 196 - 197 - خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1929ء) حضرت مسیح موعود کا مقام اور آجکل بھی اسی طرح بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یوں نہ کیا جائے ، یوں دعویٰ کیا جائے ، نبی نہ مانا جائے صرف مجدد کہا جائے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں.خود میرے سے بھی یہاں ایک شخص مسلمان رسالے کے انٹرویو لینے آئے تھے.کہتے ہیں اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی نہ مانیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟
خطبات مسرور جلد 13 140 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء پھر علماء آپ کے خلاف نہیں رہیں گے.تو اس کو میں نے بڑا سمجھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جواہ دیا کہ جو اللہ نے کہا ہے وہ مانا جائے یا تمہارے علماء کی بات مانی جائے لیکن بہر حال ان کو سمجھ نہیں آتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام ( ملفوظات جلد 4 صفحہ (211) بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے 1903ء میں جب ایک شخص عبدالغفور نے جو اسلام سے مرتد ہو کر آریہ ہو گیا تھا اور اس نے اپنا نام دھر مپال رکھ لیا تھا.” ترک اسلام“ نام کی کتاب لکھی تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا جواب لکھا جو نور الدین“ کے نام سے شائع ہوا.یہ کتاب روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنائی جاتی تھی.جب دھرم پال کا یہ اعتراض آیا کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی ہوئی تھی تو دوسروں کے لئے کیوں نہیں ہوتی اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا یہ جواب سنایا گیا کہ اس جگہ نار سے ظاہری آگ مراد نہیں بلکہ مخالفت کی آگ مراد ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس تاویل کی کیا ضرورت ہے.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے.اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں کہ آیا میں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتا ہوں یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب ”نورالدین میں یہی جواب لکھا اور تحریر فرمایا کہ تم ہمارے امام کو آگ میں ڈال کر دیکھ لو.یقیناً خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق اسے اس آگ سے اسی طرح محفوظ رکھے گا جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ رکھا تھا.(نورالدین صفحہ 146 ) ( تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 614) ایک موقعہ پر آپ نے اس کی مزید تفصیل بھی بیان کی نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے معجزات کا بھی ذکر کیا.آپ نے فرمایا کہ جس کتاب کا ذکر ہو چکا ہے جب حضرت خلیفہ اول یہ کتاب نور الدین لکھ رہے تھے تو اس میں آپ نے لکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا جو ذکر ہے اس سے مراد لڑائی کی آگ ہے.آپ نے خیال کیا کہ آگ میں پڑ کر زندہ بچنا تو مشکل ہے اس لئے آگ سے مرا دلڑائی کی آگ لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں بسر اواں کی طرف سیر کے لئے جایا کرتے تھے.( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں) مجھے یاد ہے (کہ) میں بھی ساتھ تھا.کسی نے چلتے ہوئے کہا کہ حضور بڑے مولوی صاحب نے بڑا لطیف نکتہ بیان کیا ہے.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں
خطبات مسرور جلد 13 141 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء کہ جو لوگ عام طور پر عقلی باتوں کی طرف زیادہ راغب ہوں وہ ایسی باتوں کو ، اس طرح کی تاویلیں اور نکتے بہت پسند کرتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً ساری سیر میں اس بات کا رڈ کرتے رہے اور فرمایا کہ ہمیں الہام ہوا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اگر اللہ تعالیٰ نے ایسا سلوک کیا تو کیا بعید ہے ( کہ آگ میں ڈالا ہو ).کیا طاعون آگ سے کم ہے اور دیکھ لو کیا یہ کم مجزہ ہے کہ چاروں طرف طاعون آئی مگر ہمارے مکان کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ رکھا.پس اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے بچالیا ہو تو کیا بعید ہے.ہماری طرف سے مولوی صاحب کو کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں.چنانچہ جیسا پہلے ذکر ہو چکا ہے انہوں نے کاٹ دیا اور پھر نئے فقرات لکھے.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) معجزات کے بارے میں انبیاء ہی کی رائے صحیح سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ وہ اُن کی دیکھی ہوئی باتیں ہوتی ہیں.جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ آدھ آدھ گھنٹہ باتیں کرتا ہے، سوال کرتا اور جواب پاتا ہے اس کی باتوں تک تو خواص بھی نہیں پہنچ سکتے کجا یہ کہ عوام الناس جنہوں نے کبھی خواب ہی نہیں دیکھا اور اگر دیکھا ہو تو ایک دو سے زیادہ نہیں اور پھر اگر زیادہ بھی دیکھیں تو دل میں تر ڈ درہتا ہے کہ شاید یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا نفس کا ہی خیال ہے.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ) مگر جو یہ کہتے ہیں کہ ادھر ہم نے سونے کے لئے تکیے پر سر رکھا اُدھر یہ آواز آنی شروع ہوئی کہ دن میں تمہیں بہت گالیاں لوگوں نے دی ہیں.یعنی سارا دن تمہیں بہت گالیاں ملی ہیں مگر فکر نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں.اور تکیے پر سر رکھنے سے لے کر اٹھنے تک اللہ تعالیٰ اسی طرح تسلی دیتا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بعض دفعہ ساری ساری رات یہی الہام ہوتارہتا ہے کہ إِنِّي مَعَ الرَّسُوْلِ أَقْوْمُ.میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں.(حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) دوسرے لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے.ہاں اللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ ایک حد تک سمجھ سکتے ہیں مگر اس حد تک نہیں جس حد تک نبی سمجھ سکتا ہے.نبی نبی ہی ہے.اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کلام ایسے رنگ میں ہوتا ہے جس کی مثال دوسری جگہ نہیں مل سکتی.( حضرت مصلح موعود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ) میرے اپنے الہام اور خواب اس وقت تک ہزار کی تعداد میں پہنچ چکے ہوں گے مگر اس شخص کی ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ) ایک رات کے الہامات کے برابر بھی یہ نہیں ہو سکتے جسے شام سے لے کر صبح تک انىٰ مَعَ الرَّسُوْلِ أَقْوم کا الہام ہوتا رہا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 142 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء (پھر آپ نے فرمایا) پھر ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی عزت کریں لیکن جب ہم ان کو انبیاء کے مقابلے پر کھڑا کرتے ہیں تو گویا خواہ مخواہ ان کی ہتک کراتے ہیں.ہر شخص کا اپنا اپنا مذاق ہوتا ہے.مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زندگی میں عام طور پر یہ چر چارہتا تھا کہ آپ کو زیادہ پیارا کون ہے.بعض لوگ کہتے تھے کہ بڑے مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض چھوٹے مولوی صاحب یعنی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا نام لیتے تھے.ہم اس پارٹی میں تھے جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو زیادہ محبوب بجھتی تھی.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دو پہر کے قریب کا وقت تھا.کیا موقع تھا؟ یہ یاد نہیں.(آپ فرماتے ہیں) پہلے بھی کبھی شاید یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں اور ممکن ہے اس وقت موقع بیان کیا ہومگر اس وقت یاد نہیں ہے.(فرماتے ہیں کہ ) میں گھر میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے یا حضرت اماں جان جو شاید وہیں تھیں ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو احسانات ہیں ان میں سے ایک حکیم صاحب کا وجود ہے.آپ بالعموم حضرت خلیفہ اول کو حکیم صاحب کہا کرتے تھے کبھی بڑے مولوی صاحب اور کبھی مولوی نور الدین صاحب بھی کہا کرتے تھے.آپ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور (حضرت خلیفہ اول کے بارے میں ) فرمایا کہ ان کی ذات بھی اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان ہے.اور یہ ہمارا نا شکر اپن ہوگا اگر اس کو تسلیم نہ کریں.اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایک ایسا عالم دیا ہے جو سارا دن درس دیتا ہے.پھر طب بھی کرتا ہے اور جس کے ذریعہ ہزاروں جانیں بچ جاتی ہیں.یہ تو پہلے بات ہوئی جو حضرت مصلح موعود کے سامنے ہوئی.پھر آگے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ اسی طرح میرے ساتھ چلتے ہیں جس طرح انسان کی نبض چلتی ہے.پس ایسے شخص کا کوئی حوالہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں پیش کیا جائے.(اس موقع پر یہ بات آپ نے کہی جب یہ مقابلہ ہورہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے اور حضرت خلیفہ اول نے یہ فرمایا ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں باوجود ان ساری تعریفوں کے اگر ایسے شخص کا کوئی حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں پیش کیا جائے.پھر اپنا ذکر فرمایا کہ ) یا مثلاً اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے پر میرا نام دے دیا جائے تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہم کو گالیاں دلوائی جائیں.(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں حضرت خلیفہ اول کا ایک اعلیٰ مقام ہونے کے باوجود، ان کے الفاظ ان کے بارے میں جو بیان ہوئے اس کے باوجود اگر مقابلہ پر حوالہ پیش کیا جائے تو آپ نے فرمایا یہ ایسا ہی ہے جیسے گالیاں دلوائی جائیں.پھر
خطبات مسرور جلد 13 143 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء آپ نے فرمایا کہ ) خلفاء کی عزت اسی میں ہوتی ہے کہ متبوع کی پیروی کریں.(یعنی جس کی اتباع کی ہے، جس کی بیعت کی ہے اس کی پیروی کریں.خلفاء کی عزت اسی طرح قائم رہتی ہے.) اور اگر عدم علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے (یعنی خلفاء سے بھی اگر عدم علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے ) تو جسے اس کا علم ہو اسے چاہئے کہ بتائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو.خلیفہ کو دوسروں سے زیادہ علم دیا جاتا پھر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) نقد کا علم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے.( یعنی کسی بات کو سمجھنے کا ، اس کی گہرائی میں جانے کا ، اس کو پر کھنے کا ، اچھی طرح چھان پھٹک کرنے کا علم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کا جو علم ہے.فرماتے ہیں.وہ خلفاء کو ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے ) اور مامورین کی باتوں کو سمجھنے کی دوسروں سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں.پھر اس بات پر غور کر کے ہم دیکھیں گے کہ کیا اس کے معنی وہی ہیں جو لوگ لیتے ہیں اور یقیناً نقد کے بعد ہم اس کو حل کر لیں گے ( یعنی اس کو پر کھنے کے بعد ہم حل کر لیں گے ) اور وہ حل ننانوے فیصدی صحیح ہوگا.لیکن اس کو حل کرنے کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ہم آپ کے مقابل پر ہوں گے اور آپ کے ارشادات کے مقابلے میں نام لے کر ہماری بات پیش کی جائے.کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ پیش کرے اور آگے سے دوسرا میر انام لے دے تو اس کے معنے سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہتک کرائی جائے.پس خواہ حضرت خلیفہ اول ہوں یا میں ہوں یا کوئی بعد میں آنے والا خلیفہ، جب یہ بات پیش کر دی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے تو آگے سے یہ کہنا کہ فلاں خلیفہ نے یوں کہا ہے غلطی ہے.جو اگر عدم علم کی وجہ سے ہے تو سند نہیں ہوسکتی.(اگر علم نہیں ہے تو اس کی کوئی سند نہیں.اور اگر علم کی وجہ سے ہے تو گویا خلیفہ کو اس کے متبوع کے مقابل پر کھڑا کرنا ہے.ہاں یہ درست ہے کہ اگر متبوع کے کسی حوالے کی تشریح خلیفہ نے کی ہے تو یہ کہا جائے کہ آپ اس کے معنی یہ کرتے ہیں لیکن فلاں خلیفہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں.اس طرح خلیفہ نبی کے مقابل پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کے مقابلے پر کھڑا ہوتا ہے جو نبی کے کلام کی تشریح کر رہا ہے.( حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ) یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ضروری نہیں کہ خلفاء کو سب باتیں معلوم ہوں.کیا حضرت ابوبکر اور عمر کو ساری احادیث یاد تھیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی
خطبات مسرور جلد 13 144 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو ہم کو یاد نہیں اور دوسرے آکر بتاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں جن کے پاس یہ باتیں ہیں وہ اگر سنائیں تو بڑا احسان ہے.(فرمایا کہ) یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ سب باتوں سے واقف ہو.اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول ( اس زمانے میں صحابہ موجود تھے، انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہوا تھا اس لئے آپ ان کو فرما رہے ہیں کہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ خلیفہ اول) کتابیں بہت کم پڑھا کرتے تھے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو تازہ تازہ کتابیں شائع ہوتی تھیں ان میں سے بہت کم پڑھتے تھے.حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ ) میرے سامنے یہ واقعہ ہوا کہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ آپ مولوی صاحب کو ( یہ کتابیں) پروف پڑھنے کے لئے کیوں بھیجتے ہیں.وہ تو اس کے ماہر نہیں ہیں اور ان کو پروف دیکھنے کی کوئی مشق نہیں (ہے).بعض لوگ اس کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) میں خطبہ دیکھتا ہوں مگر اس میں پھر بھی بیسیوں غلطیاں چھپ جاتی ہیں ( اور ایک مثال آپ نے دی کہ ) آج ہی جو خطبہ چھپا ہے اس میں ایک سخت غلطی ہو گئی.میں نے اصلاح تو کی تھی لیکن اصلاح کرتے وقت پہلے فقرے کا جو مفہوم میرے ذہن میں تھا وہ دراصل نہ تھا اور اس کی وجہ سے غلطی ہوگئی.کہنا تو یہ تھا کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں آسکتا بلکہ غیر شرعی نبی آسکتا ہے.اور میں نے اس کے بعد کے فقرے کو جس میں کچھ غلطی رہ گئی تھی یوں درست کر دیا کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنا دے.مگر چھپنے کے بعد (فرماتے ہیں ) جب میں نے پڑھا تو پہلا فقرہ بالکل اس کے الٹ تھا جو میں نے سمجھا تھا اور الفضل میں یہ فقرہ پڑھ کر میں بڑا حیران ہو گیا.( تو اصل میں لکھنا یہ چاہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں آ سکتا بلکہ غیر شرعی نبی آ سکتا ہے جو اسی نبوت کو آگے جاری رکھ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی نبوت کو قائم کرتا ہے.تو بہر حال جو فقرہ لکھا گیا اس سے الٹ یہ پڑھا گیا جس طرح کہ کوئی شرعی نبی کے رستے مسدود نہیں ہیں.بہر حال آپ نے اس کی تفسیر فرمائی.پھر آپ فرماتے ہیں ) تو بعض لوگ پروف دیکھنے کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے تو کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ مولوی صاحب تو اس کے ماہر نہیں ہیں آپ ان کو پروف کیوں دکھاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے اور وہ بیمار وغیرہ دیکھتے رہتے ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پروف ہی پڑھ لیا کریں تا ہمارے خیالات سے واقفیت رہے.(اور پھر باوجود اس کے کہ
خطبات مسرور جلد 13 145 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اندھا اعتقادتھا.لیکن بعض دفعہ عدم علم ہوتا ہے اس لئے الٹ بات ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اس لئے میں پروف پڑھنے کے لئے بھیجتا ہوں کہ کتابیں پڑھنے کی ان کو فرصت نہیں ہوتی تو پروف پڑھنے سے ہمارے خیالات سے ان کو واقفیت ہو جائے.اور پھر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) پڑھنے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ ہر بات یاد بھی ہو.مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق حوالے میں نہیں نکال سکا اور مولوی محمد اسماعیل صاحب کو کہلا بھیجا کہ نکال دیں.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) میرا حافظہ اس قسم کا ہے کہ قرآن کریم کی وہ سورتیں بھی جو روز پڑھتا ہوں ان میں سے کسی کی آیت نہیں نکال سکتا لیکن دلیل کے ساتھ جس کا تعلق ہو وہ خواہ کتنا عرصہ گزر جائے مجھے یاد رہتی ہے.جن باتوں کا یا درکھنا میرے کام سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ مجھے یاد نہیں رہتیں.حوالے میں سمجھتا ہوں کہ دوسروں سے نکلوالوں گا اس لئے یاد نہیں رکھ سکتا.(ماخوذ از الفضل 10 ستمبر 1938 ، صفحہ 6، 7 جلد 26 نمبر 209) تو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہوگئی کہ خلفاء اگر کوئی ایسی تشریح کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تشریح سے الٹ ہے تو اس کے بارے میں اطلاع کر دینی چاہئے اور اگر خلیفہ وقت سمجھے کہ یہ جو تشریح کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے اس کی یہ تشریح ہوسکتی تھی تو پھر وہی تسلیم ہوگی اور اگر نہیں تو پھر وہ اپنی بات کو درست کر لے گا.لیکن بہر حال یہ سمجھنا کہ اس نے یہ کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا.آپس میں تضاد کیوں ہے؟ یہ باتیں غلط ہیں.تضاد کوئی نہیں ہوتا ، ہاں بعض دفعہ عدم علم ضرور ہوتا ہے.پھر ایک چاند اور سورج گرہن کے واقعہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کا یہ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مخالف مولوی جو غالباً گجرات کا رہنے والا تھا ہمیشہ لوگوں سے کہتا رہتا تھا کہ مرزا صاحب کے دعوے سے بالکل دھو کہ نہ کھانا.حدیثوں میں صاف لکھا ہے کہ مہدی کی علامت یہ ہے کہ اس کے زمانے میں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں گرہن لگے گا.جب تک یہ پیشگوئی پوری نہ ہو اور سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں گرہن نہ لگے ان کے دعوے کو ہر گز سچا نہیں سمجھا جاسکتا.اتفاق کی بات کہ وہ ( مولوی ) ابھی زندہ ہی تھا کہ سورج اور چاند کے گرہن کی پیشگوئی پوری ہوگئی.( گرہن لگ گیا تو ) اس (مولوی) کے ہمسائے میں ایک احمدی رہتا تھا اس نے سنایا کہ جب سورج کو گرہن لگا تو اس مولوی نے
خطبات مسرور جلد 13 146 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء گھبراہٹ میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر ٹہلنا شروع کر دیا.وہ ٹہلتا جاتا تھا اور کہتا جا تا تھا مہن لوگ گمراہ ہون گے.پُہن لوگ گمراہ ہون گے یعنی اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے.اس نے یہ نہ سمجھا کہ جب پیشگوئی پوری ہوگئی ہے تو لوگ حضرت مرزا صاحب کو مان کر ہدایت پائیں گے.گمراہ نہیں ہوں گے.آپ فرماتے ہیں کہ عیسائی بھی ایک طرف تو یہ مانتے تھے کہ وہ تمام علامتیں پوری ہوگئی ہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں مگر دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی سن کر وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اس وقت اتفاقی طور پر ایک جھوٹے نے دعوی کر دیا.جیسے مسلمان کہتے ہیں علامتیں تو پوری ہوگئیں مگر اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس وقت ایک جھوٹے نے دعویٰ کر دیا ہے.مگر عجیب بات یہ ہے کہ ایسا اتفاق ایک جھوٹے کو ہی نصیب ہوتا ہے (اور ) سچے کو نصیب نہیں ہوتا.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحه 56) جھوٹے کے حق میں تو تائیدات ظاہر ہوتی ہیں اور سچوں کے حق میں آجکل کچھ نہیں ہو رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عفو اور درگذر کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ جس جس رنگ میں دشمنوں نے آپ کا مقابلہ کیا دوست جانتے ہیں.دشمنوں نے گمہا روں کو آپ کے برتن بنانے سے ،سقوں کو پانی دینے سے بند کر دیا.لیکن پھر جب کبھی وہ معافی کے لئے آئے تو حضرت صاحب معاف ہی فرما دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے کچھ مخالف پکڑے گئے تو مجسٹریٹ نے کہا کہ میں اس شرط پر مقدمہ چلاؤں گا کہ مرزا صاحب کی طرف سے سفارش نہ آئے کیونکہ اگر انہوں نے بعد میں معاف کر دیا تو پھر مجھے خواہ مخواہ ان کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہے.مگر دوسرے دوستوں نے کہا کہ نہیں اب انہیں سز ا ضرور ہی ملنی چاہئے.جب مجرموں نے سمجھ لیا کہ اب سز ا ضرور ملے گی تو انہوں نے حضرت صاحب کے پاس آ کر معافی چاہی تو حضرت صاحب نے کام کرنے والوں کو بلا کر فرمایا کہ ان کو معاف کر دو.انہوں نے کہا ہم تو اب وعدہ کر چکے ہیں کہ ہم کسی قسم کی سفارش نہیں کریں گے.حضرت اقدس فرمانے لگے کہ وہ جو معافی کے لئے کہتے ہیں تو ہم کیا کریں.مجسٹریٹ نے کہا دیکھا وہی بات ہوئی جو میں پہلے کہتا تھا.مرزا صاحب نے معاف کر ہی دیا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 10 صفحہ 277.خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر 1926ء) یہ جو واقعات ہیں، ہمیں ان سے صرف محظوظ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے اوپر لاگو بھی کرنے
خطبات مسرور جلد 13 147 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء چاہئیں.معافی اور درگزر کی طرف کافی توجہ کی ضرورت ہے.پھر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”میں ان لوگوں میں سے ہوں جو نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا کرتے ہیں.میں نے اپنے کانوں سے مخالفین کی گالیاں سنیں اور اپنے سامنے بٹھا کرسنیں مگر باوجود اس کے تہذیب اور متانت کے ساتھ ایسے لوگوں سے باتیں کرتا رہا.(فرماتے ہیں کہ ) میں نے پتھر بھی کھائے.اس وقت بھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر امرتسر میں پتھر پھینکے گئے.اس وقت میں بچہ تھا مگر اس وقت بھی خدا تعالیٰ نے مجھے حصہ دے دیا.لوگ بڑی کثرت سے اس گاڑی پر پتھر مار رہے تھے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے.میری اس وقت چودہ پندرہ سال کی عمر ہو گی.گاڑی کی ایک کھڑ کی کھلی تھی.میں نے وہ کھڑ کی بند کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ اس زور سے پتھر مار رہے تھے کہ کھڑ کی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور پتھر میرے ہاتھ پر لگے.پھر جب سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پتھر پھینکے گئے اس وقت بھی مجھے لگے.پھر جب تھوڑا عرصہ ہوا میں سیالکوٹ گیا تو باوجود اس کے کہ جماعت کے لوگوں نے میرے اردگرد حلقہ بنالیا تھا مجھے چار پتھر لگے.“ حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 508) پھر آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالفین کو تحریک کی کہ ایسے جلسے منعقد کئے جائیں جن میں ہر شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے.آپ نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اس لئے باقی سب لوگ اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ بند کر دیں.آپ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ باقی لوگوں کو بھی تبلیغ کا ویسا ہی حق ہے جیسا مجھے.اس لئے آپ نے فرمایا کہ تم اپنی بات پیش کرو، میں اپنی بات پیش کرتا ہوں اور جب تک یہ طریق نہ پیش کیا جائے امن کبھی نہیں ہوسکتا اور حق نہیں پھیل سکتا.دنیا میں کون ہے جو اپنے آپ کو حق پر نہیں سمجھتا لیکن جب خیالات میں اختلاف ہو تو ضروری ہے کہ اسے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے.“ 66 ( خطبات محمود جلد 12 صفحہ 418 - خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مئی 1930 ء) یہی بات اگر حکومت پاکستان سمجھ لے یا عرب دنیا میں لوگ سمجھ لیں تو پھر تبلیغ کے بڑے رستے وسیع ہو جائیں اور ان کو خود پتا لگ جائے کہ کون حق پر ہے اور کون غلط.پھر ملکہ کو تبلیغ کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ” پہلے زمانوں میں کیا مجال تھی کہ کوئی بادشاہ کو تبلیغ
خطبات مسرور جلد 13 148 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء تو کر سکے.یہ بہت بڑی گستاخی اور بے ادبی سمجھی جاتی تھی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو ایک خط لکھا جس میں اسے اسلام کی طرف بلایا اور کہا کہ اگر اسے قبول کر لو گی تو آپ کا بھلا ہوگا.یہ سن کر بجائے اس کے کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا جاتا اس چھٹی کے متعلق اس طرح شکر یہ ادا کیا گیا کہ ہم کو آپ کی چھٹی مل گئی ہے جسے پڑھ کر خوشی ہوئی.“ الفضل 19 اگست 1916 ء صفحہ 7 جلد 4 نمبر 13 ) تو آج جو ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں وہ تو آج بھی کبھی ان لیڈروں کو اسلام کی تبلیغ نہیں کر سکتے.ایک ترک سفیر ایک دفعہ قادیان آیا.اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”آج سے کئی سال پہلے جب بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ تھے ایک ترکی سفیر یہاں آیا.ترکی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے اس نے مسلمانوں سے بہت سا چندہ لیا اور جب اس نے جماعت احمدیہ کا ذکر سنا تو قادیان بھی آیا.حسین کامی اس کا نام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کی گفتگو ہوئی.اس کا خیال تھا کہ مجھے یہاں سے زیادہ مدد ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا وہ احترام کیا جو ایک مہمان کا کرنا چاہئے.پھر مذہبی گفتگو بھی ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کچھ نصائح کیں کہ دیانت وامانت پر قائم رہنا چاہئے.لوگوں پر ظلم نہیں کرنا چاہئے.( یہی آجکل مسلمان لیڈروں کے لئے مسلمان ملکوں میں ضروری ہے) اور فرمایا کہ رومی سلطنت ایسے ہی لوگوں کی شامت اعمال سے خطرے میں ہے کیونکہ وہ لوگ جو سلطنت کی اہم خدمات پر مامور ہیں اپنی خدمات کو دیانت سے ادا نہیں کرتے اور سلطنت کے سچے خیر خواہ نہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اسلامی سلطنت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں.اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سلطان روم ( جوتر کی کا بادشاہ تھا یا اس وقت خلافت کہلاتی تھی ) کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازے میں ایسے دھاگے ہیں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری کی سرشت ظاہر کرنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ صیحتیں کیں تو اس سفیر کو بہت بری لگیں کیونکہ وہ اس خیال کے ماتحت آیا تھا کہ میں سفیر ہوں اور یہ لوگ میرے ہاتھ چومیں گے اور میری کسی بات کا انکار نہیں کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اس سے یہ کڑوی کڑوی باتیں کیں کہ تم حکومت سے
خطبات مسرور جلد 13 149 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء بڑی بڑی تنخواہیں وصول کر کے اس کی غداری کرتے ہو.تمہیں تقویٰ وطہارت سے کام لے کر اسلامی حکومت کو مضبوط کرنا چاہئے تو وہ یہاں سے بڑے غصے میں گیا اور اس نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ اسلامی حکومت کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ ترکی حکومت میں بعض کچے دھاگے ہیں.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) مسلمان عام طور پر دین سے محبت رکھتے ہیں مگر افسوس کہ مولوی انہیں کسی بات پر صحیح طرح غور کرنے نہیں دیتے.یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عوام الناس اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھتے اور سچائی سے پیار کرتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ مولوی انہیں کسی بات پر غور کرنے نہیں دیتے اور جھٹ اشتعال دلا دیتے ہیں.اس موقع پر بھی مولویوں نے عام شور مچا دیا کہ ترکی کی حکومت جو محافظ حرمین شریفین ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی ہتک کی ہے.جب یہ شور بلند ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں لکھا کہ تم یہ کہتے ہو کہ ترکی کی حکومت مکہ اور مدینہ کی حفاظت کرتی ہے.مگر میں سمجھتا ہوں کہ ترکی کی حکومت چیز ہی کیا ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کی حفاظت کرے.مکہ اور مدینہ تو خود ترکی کی حکومت کی حفاظت کر رہے ہیں.مقامات مقدسہ کیلئے غیرت ( یہ بیان کر کے پھر آپ نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے متعلق اتنی غیرت ہو اس کے ماننے والوں کے متعلق کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بج جائے تو وہ خوش ہوں.ہم تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ تسلیم کیا جائے کہ حقیقی طور پر مکہ اور مدینہ کی کو ئی حکومت حفاظت کر رہی ہے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ عرش سے خدا مکہ اور مدینہ کی حفاظت کر رہا ہے.کوئی انسان ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا.ہاں ظاہری طور پر ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی دشمن ان مقدس مقامات پر حملہ کرے تو اس وقت انسانی ہاتھ کو بھی حفاظت کے لئے بڑھایا جائے لیکن اگر خدانخواستہ کبھی ایسا موقع آئے تو اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حفاظت کے متعلق جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے انسانوں پر عائد کی ہے اس کے ماتحت جماعت احمد یہ کس طرح سب لوگوں سے زیادہ قربانی کرتی ہے.ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات سمجھتے ہیں.ہم ان مقامات کو خدا تعالیٰ کے جلال کے ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو ان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جوشخص ترچھی نگاہ سے مکہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھے گا خدا اس شخص کو اندھا کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ نے کبھی یہ کام انسانوں سے لیا تو جو ہاتھ اس بد میں آنکھ پھوڑنے کے لئے آگے
خطبات مسرور جلد 13 150 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء بڑھیں گے ان میں ہمارا ہاتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سے آگے ہوگا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 547 تا 549 - خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اگست 1935 ء) اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی ہر احمدی کے دل میں مقامات مقدسہ کے بارے میں یہی جذبات ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان اور یقین میں بھی ہمیشہ اضافہ کرتا رہے اور ہمیشہ ہمیں قربانی کرنے والوں کی صف اول میں رکھے.نمازوں کے بعد میں دو جنازے غائب پڑھاؤں گا.ایک مکرم سمیر بخو طہ صاحب کا ہے جو 24 فروری 2015ء کی صبح جرمنی میں وفات پاگئے.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ بڑے عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے لیکن اس تکلیف کے باوجود آپ مسلسل خدمت دین میں مصروف رہے.ان کی 58 سال عمر تھی.11 مئی 1957ء کو الجزائر میں پیدا ہوئے اور 1991ء میں انہوں نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ہاتھ پر بیعت کی.امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے اس کثرت سے خواب دیکھے ہیں کہ میرے لئے کوئی گنجائش نہیں رہی کہ میں احمدیت قبول نہ کرتا.1993 سے 94 ء تک جرمنی کی جماعت کامل (Kassel) کے صدر کے طور پر خدمت کرتے رہے.1994ء سے 99 ء تک بطور لوکل امیر کاسل (Kassel) خدمت کی توفیق پائی.99 ء سے 2003 ء تک ریجن ہیسن (Hessen) نارتھ کے ریجنل امیر کی حیثیت سے خدمت بجالانے کی توفیق پائی.امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ 1998ء کے جلسہ سالانہ فرانس میں شامل ہوئے.خاکسار کی ان سے پہلی ملاقات تھی.گفتگو کے دوران کہنے لگے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو دو دیوانوں کا ذکر فرمایا ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ ان دیوانوں میں سے ایک میں ہوں.اور اس کے بعد پھر انہوں نے واقعی دیوانوں کی طرح تبلیغ کا حق ادا کرنے کی کوشش کی.2006ء میں انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ میں بحیثیت معلم خدمت دین کے لئے وقف کرتا ہوں.پہلے بھی خدمت کرتے تھے.تو بہر حال اس کے بعد سے لے کر تا دم آخر انہوں نے بڑے احسن رنگ میں خدمت سر انجام دی.امیر صاحب فرانس ہی لکھتے ہیں کہ عاجز نے سمیر بخو طہ صاحب کو گزشتہ 16 سال سے تبلیغ میں دیوانوں کی طرح کام کرتے دیکھا ہے.کیا فرانس کی گلیاں اور کیا مراکش، تیونس یا الجزائر یا کری باس(Caraibes) کے جزائرگلی گلی گھر گھر پیدل جانا پڑا تو کبھی یہ نہیں کہا کہ گاڑی نہیں ہے یا فاصلہ
خطبات مسرور جلد 13 151 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء زیادہ ہے.پیدل ہی چل پڑے اور کئی کئی میل پیدل چلتے ہوئے لٹریچر تقسیم کرتے ،تبلیغ کرتے اور سوالوں کے جواب دیتے.خلافت سے ان کو عشق تھا اور ہر خط جن کا جواب میری طرف سے موصول ہوتا تھا اس کو بڑا سنبھال کر رکھتے تھے اور بڑا احترام کرتے تھے.الجزائر کے بہت سے دورے کئے اور وہاں جماعتوں کو آرگنائز کیا.صدر صاحب الجزائر نے بتایا کہ سخت گرمی کے باوجود ایسے علاقوں میں جہاں پہنچنا مشکل تھا گاؤں گاؤں پیدل گئے اور باوجود شوگر کی تکلیف کے مسلسل کام کرتے رہے.امیر صاحب فرانس کے ساتھ مراکش کے دورے کئے.ایک دفعہ عید الفطر بھی وہیں گزاری اور رمضان بھی وہیں گزارا.احمدیوں کے گھر گھر جاتے ، انہیں اکٹھا کرتے ، نظام جماعت کے بارے میں بتاتے.بڑی مستقل مزاجی سے انہوں نے خدمت کی ہے.نہ صرف تبلیغ کی بلکہ جن کو تبلیغ کرتے تھے ان کی تربیت بھی کی اور جماعتوں کو آرگنا ئز بھی کیا.تیونس میں تبلیغی سفر کے دوران ایک دفعہ پولیس نے پکڑ لیا.حراست میں بھی رہے.اس کے بعد پھر یورپین پاسپورٹ کی وجہ سے ان کو چھوڑ دیا گیا.امیر صاحب فرانس کہتے ہیں کہ اگر میں یہ بات کہوں کہ وہ ایک جن کی طرح تبلیغ کرتے تھے تو غلط نہ ہو گا.آخری وقت میں بھی احباب کو تبلیغ کرنے کی اور جماعت کے کام کرنے کی نصیحت کرتے رہے.اور جو اس وقت کامل (Kassel) میں ہمارے مربی ہیں ان کو انہوں نے وفات کے وقت یہی کہا جو مجھے پیغام بھجوایا کہ اگر کام کرنے میں مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے انتہائی وفا کے ساتھ نہ صرف اپنے عہد بیعت کو نبھایا بلکہ دین کی خدمت کا بھی جو عہد کیا تھا اس کو بھی اس کی جو انتہا ہوسکتی تھی اس تک پہنچانے کی کوشش کی.خدمت دین ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور خلافت کی اطاعت اس طرح تھی کہ انسان تصور نہیں کر سکتا کہ نیا احمدی ہؤا ہوا اس حد تک اطاعت کے جذبے سے سرشار ہو گا.وہاں کا سل (Kassel) کے جو مربی سفیر الرحمن ہیں، لکھتے ہیں کہ گزشتہ جمعہ کے روز ہسپتال کی انتظامیہ سے بڑی مشکل سے جمعہ پڑھنے کی اجازت لے کر آئے اور مسجد میں تشریف لائے اور تصاویر کھنچوائیں اور کہتے تھے کہ میرا یہ آخری جمعہ ہے.یہ ان کو پتا تھا.آخری ایام میں بھی ان کا یہی مطالبہ تھا کہ مربی صاحب کو کہتے ہیں کہ انہیں جلد از جلد حضرت مصلح موعود کی تصنیف ذکر الہی کی دو عدد کا پیاں دی جائیں.یہ انہوں نے اپنے زیر تبلیغ ڈاکٹرز کو پہنچانی تھیں.اور مربی صاحب کہتے ہیں جیسے ہی میں نے ہسپتال میں یہ تصنیف پہنچائی تو سمیر صاحب نے اہلیہ سے کہا کہ جلدی سے ڈاکٹر ز کو دے آؤ اور وہ ڈاکٹر صاحب بھی سمیر
خطبات مسرور جلد 13 152 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء بخوطہ صاحب کے رویے اور ان کے اخلاق سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے بار بار اس کا اظہار بھی کیا کہ ہم نے آج تک اس سے زیادہ صبر والا اور خدا تعالیٰ پر توکل کرنے والا مریض نہیں دیکھا.مربی صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میٹنگ تھی اور اس میں فیصلہ ہونا تھا کہ مہمان نوازی کے لئے جولوگوں نے آنا ہے ان کے لئے کتنے لوگوں کا کھانا تیار کیا جائے، کتنی چیزیں بنائی جائیں اور لمبی بحث چلنی شروع ہوگئی کہ اتنی تعداد میں بنائی جائے یا اتنی تعداد میں بنائی جائے.سمیر بخو طہ صاحب بھی بحیثیت نمائندہ وہاں موجود تھے.اس پر انہوں نے بڑی ناراضگی کا اظہار کیا.کہنے لگے کہ ہم کوئی چھوٹے بچے نہیں ہیں کہ ہمیں قواعد نئے سرے سے سکھائے جائیں اور نہ ہی یہ جماعت ہمارے لئے کوئی نئی چیز ہے.ہمارے پاس ایک نظام ہے اور وہ نظام یہ ہے کہ خلیفہ وقت کے نمائندے ہم میں موجود ہیں ، یعنی مربی موجود ہیں، وہ جو بھی ہمیں کہیں ہم نے بس اس کی اطاعت کرنی ہے.اس لئے اتنی تعداد میں بنائی جائے یا اتنی بنائی جائے اس کو چھوڑو اور جس طرح یہ کہتے ہیں ، فیصلہ کرتے ہیں اس کے مطابق عمل کرو.پس یہ روح ہے جب پیدا ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں میں اتفاق بھی ہوتا ہے، اتحاد بھی ہوتا ہے اور ترقی بھی ہوتی ہے.ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہر مقام پر جہاں بھی ہمیں موقع ملے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچائیں ، آگے ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.کہا کرتے تھے کہ تبلیغ میرا آکسیجن ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کاسل (Kassel) میں کافی غیر پاکستانی احمدی ہیں اور یہ سب انہی کی بدولت اور انہی کی محنت سے احمدیت میں شامل ہوئے ہیں.اپنے پیچھے انہوں نے اہلیہ مریم بخوطہ صاحبہ کے علاوہ تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.بڑے بیٹے نور الدین شادی شدہ ہیں اور دوسرے عبد الحکیم اور منیر احمد ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.ان کے پاس ایک بیگ ہوا کرتا تھا، ہمیشہ جب بھی سفر پر جاتے تو بیگ رکھا کرتے تھے بلکہ اب بھی انہوں نے الجزائر جانے کے لئے سیٹیں بک کروائی ہوئی تھیں لیکن زندگی نے ساتھ نہیں دیا.امیر صاحب فرانس کہتے ہیں ان کی وفات کے بعد یہ بیگ ان کی اہلیہ کے سپر دکیا گیا تو دیکھا تو اس میں دو قمیصیں، ایک پاجامہ اور ایک گرم کوٹ ہے.اس کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی چار عربی کتب اور جو میری طرف سے خط ان کو گئے ہوئے تھے وہ خط انہوں نے رکھے ہوئے تھے اور عربی زبان کے سو (100) بیعت فارم اس بیگ میں تھے.یہ گل سفر کا ان کا بیگ ہوتا تھا جس کو ہر وقت وہ ساتھ رکھتے تھے.
خطبات مسرور جلد 13 153 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء صدر جماعت الجزائر ہیں فالی محمد صاحب وہ کہتے ہیں کہ بہت با اخلاق انسان اور خلیفہ وقت کی بہترین نمائندگی کرنے والے تھے.کہتے ہیں میری پہلی ملاقات ان سے 2007ء میں ہوئی.اس کے بعد مرحوم نے خلیفہ وقت کی ہدایات کے مطابق یہاں جماعت قائم کی.بیماری کے باوجود دورے کرتے.کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا.ہمیشہ اعلائے کلمتہ الحق کی خاطر صبر سکھایا.بڑی خواہش تھی کہ الجزائر میں اپنی مسجد اور اس میں نماز ادا کریں.الجزائر کے ہی اعمراش حمید صاحب کہتے ہیں کہ بڑی مؤثر شخصیت کے مالک تھے اور تعارف کے بعد سے ہی آپ کے لئے جذبات محبت پیدا ہو گئے تھے.مرحوم سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ اس علاقے میں ہماری اپنی کوئی مسجد ہوسکتی ہے؟ مسکرا کر کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ یقینا سچا ہے.اگر اس دن جب یہاں مسجد بنے میں حاضر نہ ہوں تو مجھے بھول نہ جانا اور دعاؤں میں یاد رکھنا.ایک دن بخوطہ صاحب نے بتایا کہ افریقہ کے دورے کے دوران ایک بوڑھے شخص نے آپ کو ہاتھ پکڑ کر پوچھا کہ کیا آپ کو ایک خزانہ دکھاؤں؟ پھر اپنی جیب سے بیعت کی قبولیت کا خط ایک پلاسٹک کور میں محفوظ کیا ہوا دکھایا کہ یہ خزانہ ہے جس کی حفاظت ضروری ہے.تو یہ لوگ ہیں جو احمدی ہوئے اور اپنے اخلاص و وفا میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.جرمنی سے عبد الکریم صاحب لکھتے ہیں کہ خلفائے احمدیت سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے، حکام بالا کی اطاعت کرنے والے تبلیغ کے جذبے سے سرشار، مخلص اور فدائی احمدی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جن کتب کا بھی ترجمہ ہو چکا تھا یا جو عربی میں تھیں ان کو تین مرتبہ پڑھا اور بہت سا حصہ زبانی یاد کیا.جب آپ کاسل (Kassel) کے امیر تھے تو آپ کی تبلیغ سے 18 مختلف قومیتوں کے افراد احمدی ہوئے.آپ نے ان کی تربیت بھی کی اور انہیں جماعت کا فعال حصہ بنایا.کاسل (Kassel) کے نماز سینٹر میں ستر سے نوے عرب احمدیوں کی کلاس لگاتے تھے جن میں عرب دوست اپنے غیر احمدی دوستوں کو بھی ساتھ لاتے تھے.کاسل (Kassel) کی جماعت کے لئے ایک فرشتہ تھے.مسجد حاصل کرنے میں بھی آپ کا بہت بڑا کردار ہے.عربی فرنچ اور جرمن میں ان کو کافی عبور تھا.سمیع قریشی صاحب کہتے ہیں جب میرے ذریعہ سے انہوں نے بیعت کی اور حضرت خلیفہ رابع کو جب یہ بیعت فارم بھجوایا گیا، بیعت کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام يَنْصُرُكَ رِجَالُ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاء - کے مصداق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ثابت بھی کیا.
خطبات مسرور جلد 13 154 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 فروری 2015ء دوسرا جنازہ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب کا ہے جو چوہدری محمد ابراہیم صاحب کے بیٹے تھے.شیخو پورہ کے رہنے والے تھے.77-78ء میں انہوں نے خود بیعت کی توفیق پائی.بعد میں ان کی فیملی بھی اور دو بھائیوں نے بھی بیعت کر لی.رچنا ٹاؤن میں قیام کے دوران بحیثیت سیکرٹری اصلاح وارشاد اور سیکرٹری امور عامہ خدمت کی توفیق پائی.علاقہ میں معروف اور نمایاں حیثیت کے مالک تھے.7 ستمبر 2011ءکور چنا ٹاؤن میں مخالفین جماعت نے بشیر صاحب پر ان کے گھر کے قریب قاتلانہ حملہ کیا.حملہ کے نتیجہ میں ان کو تین گولیاں لگیں.ایک گولی گردن میں لگی اور آر پار ہو گئی جبکہ دو گولیاں پیٹ میں لگیں جنہوں نے بڑی آنت کو شدید نقصان پہنچایا.وقوعہ کے بعد پھر ان کا ایک ہفتہ لاہور میں علاج ہوا اس کے بعد فضل عمر ہسپتال منتقل کر دیا گیا.اللہ کے فضل سے صحتیاب ہوئے.اور ان پر قاتلانہ حملہ کے مدعی ان کے ایک غیر احمدی بھانجے زاہد احمد صاحب بنے.اور یہ گروہ تو کیونکہ پورا مافیا ہوتے ہیں نتیجہ قاتلوں نے 5 / مارچ 2012ء کو فائر کر کے ان کے بھانجے کو بھی شہید کر دیا جو غیر از جماعت تھے.ان حالات میں چوہدری صاحب نے پھر اپنی فیملی کے ساتھ وہاں سے شفٹ ہونے کا سوچا اور ربوہ چلے گئے.کچھ عرصہ قبل ان کو کینس تشخیص ہوا تھا.زیر علاج رہے لیکن تقدیر غالب آئی اور ان کی وفات ہوگئی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ بڑے نرم مزاج تھے.نمازوں کی طرف توجہ دینے والے تھے.والدین کی خدمت کرتے ہوئے ان کو دیکھا.بہت صابر اور سادہ تھے.رحمدل اور ہر کسی سے مخلص تھے.خود اپنے آپ کو نقصان کروا لیتے تھے لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچنے دیتے تھے.کسی ضرورتمند کو اکیلا نہیں چھوڑتے تھے.ہمیشہ سب کی مدد کرتے تھے چاہے وہ احمدی ہو یا غیر احمدی.تہجد گزار اور ہمیشہ مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے والے اور یتیم بچوں اور بیواؤں کی پرورش کرتے تھے.مخالفین کا بھی ذکر ہوتا تو ہمیشہ کہتے بس یہ دعا کرو اللہ ان کو ہدایت دے.جب ان پر حملہ ہوا ہے اس وقت بھی تیمارداری کے لئے جو لوگ گئے انہوں نے کہا کہ ان ظالموں کو اللہ تعالیٰ پکڑے تو آپ نے فرمایا یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے.اللہ کے فضل سے موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں ان کی تدفین ہوئی ہے.وفات کے وقت ان کی عمر 63 سال تھی.پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو صبرعطا فرمائے اور مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.مرحوم کے درجات بلند فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 20 مارچ 2015 ء تا 26 مارچ 2015 ، جلد 22 شماره 12 صفحہ 05-09)
خطبات مسرور جلد 13 155 10 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 06 / مارچ 2015 ء بمطابق 06 امان 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی : ايها الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَهُمْ أَنْفُسَهُمْ أَوْلَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (الحشر: 19-20) یہ سورہ حشر کی دو آیات ہیں جن کا ترجمہ اس طرح پر ہے کہ اے وہ لو گو جوایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے.اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا.یہی بدکردار لوگ ہیں.عموماً دیکھا جاتا ہے کہ ہر برائی اور گناہ کی جڑان برائیوں اور گناہوں کو معمولی سمجھتے ہوئے ان سے بچنے کی کوشش نہ کرنا ہے یا ان پر توجہ نہ دینا ہے لیکن یہی بے احتیاطی پھر انسان کو بڑے گناہوں میں مبتلا کر دیتی ہے کیونکہ پھر انسان آہستہ آہستہ نیکیوں کو بھول جاتا ہے نیکی کے ان معیاروں کو بھول جاتا ہے جو ایک مومن کو حاصل کرنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ کا خوف کم ہو جاتا ہے.تقویٰ سے دوری ہو جاتی ہے.مرنے کے بعد کی زندگی پر کامل ایمان نہیں رہتا.گویا کہ ایک ایمان کا دعویٰ کرنے والا عملاً ایمان کی شرائط سے دُور ہٹتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں پھر مومن نہیں رہتا.ان آیات
خطبات مسرور جلد 13 156 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015ء میں اللہ تعالیٰ نے اسی طرف مومنوں کی توجہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بڑا زور دے کر فرمایا کہ صرف آج کی اور اس دنیا کی لہو ولعب کی دلچسپیوں کی ، آراموں اور آسائشوں کی یا عزیزوں رشتہ داروں اور دوستوں سے تعلقات کی فکر نہ کرو بلکہ جو فکر کرنے والی چیز ہے وہ تمہاری کل ہے.تمہارا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا معیار اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا تمہاری اصل ترجیح اور فکر ہونی چاہئے.تمہارا مرنے کے بعد کی زندگی اور حساب کتاب پر ایمان تمہاری فکر کا مرکز ہونا چاہئے.اور اگر یہ ہو گا تو تبھی تمہاری حقیقی اخلاقی ترقی بھی ہوگی جو صرف سطحی اخلاق نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کا مقصود لئے ہوئے ہوں گے.تمہاری روحانی ترقی اور یہ دعویٰ کہ میں مومن ہوں اسی وقت حقیقی ہو گا جب کل پر نظر ہوگی.تمہارا یقینی ، بے غرض اور سچائی پر مبنی خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان بھی اُس وقت اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقیقی ہو گا جب اپنے کل کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرو گے اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرو گے.جو پہلی آیت میں نے تلاوت کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: ”اے ایمان والو خدا سے ڈرتے رہو اور ہر ایک تم میں سے دیکھتا رہے کہ میں نے اگلے جہان میں کونسا مال بھیجا ہے اور اس خدا سے ڈرو جو خبیر اور علیم ہے اور تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے.یعنی وہ خوب جاننے والا اور پر کھنے والا ہے.اس لئے وہ تمہارے کھوٹے اعمال ہرگز قبول نہیں کرے گا.“ اپنے اعمال پر نظر رکھیں ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 225-226) پس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہم میں سے ہر ایک کو بڑے غور اور کوشش سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں.ان باتوں پر نظر رکھیں جو ہماری کل سنوار نے والی ہیں.اللہ تعالیٰ جو ہمارے دلوں کی پاتال تک نظر رکھنے والا ہے اور اسے ہمارا سب علم ہے اس کو صرف ان باتوں سے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا جو سطحی باتیں ہیں بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ کھوٹے کھرے کی تمیز کرتا ہے.کھوٹے اعمال وہ قبول نہیں کرے گا.پس ایک مومن کے لئے یہ بہت بڑا فکر کا مقام ہے کہ اپنے کل کی فکر کریں جہاں اعمال کا حساب ہونا ہے.غیر مومنوں کی طرح ہم صرف اس دنیا ہی کو سب کچھ نہ مجھ لیں بلکہ حقیقی کامیابیوں کوحاصل کرنے کے لئے تقویٰ پر چلیں.حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : دنیا عقبی میں کامیابی کا ایک گر اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 13 157 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015 ء نے بتایا ہے کہ انسان کل کی فکر آج کرے.اس سے دنیا میں بھی سنوار پیدا ہوگا اور آخرت کی زندگی میں بھی سنوار پیدا ہوگا.پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن پاک کی تعلیم وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ پر عمل کرنے سے انسان نہ صرف دنیا میں کامران ہوتا ہے بلکہ عقبی میں بھی خدا کے فضل سے سرخرو ہو گا.ہم کبھی آخرت کے لئے سرمایہ نجات جمع نہیں کر سکتے جب تک آج ہی سے اس دار القرار کے لئے تیاری نہ شروع کر دیں.“ ( حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 67) خطبہ نکاح کی آیات اور اہمیت اس حوالے سے میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ آیت نکاح کے خطبے میں بھی ہم پڑھتے ہیں.یہ نکاح کے خطبے میں پڑھی جانے والی آیات میں سے سب سے آخری آیت ہے.اللہ تعالیٰ نے نکاح کے خطبہ میں پڑھی جانے والی آیات میں مختلف امور کی طرف توجہ دلا کر کہ اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو.اس بندھن کے ساتھ جو ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں ان کا بھی خیال رکھو.سچائی اختیار کرو.سچائی پر قائم رہو گے تو اس کے ذریعہ سے نیک اعمال کی اور رشتے نبھانے کی توفیق ملتی رہے گی.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر چلو اس میں تمہاری کامیاب زندگی ہے.پھر مزید زور دیا کہ اگر کل پر نظر رکھو گے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر بھی نظر رہے گی.اب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بیشمار احکامات ہیں جو عائلی معاملات کو خوبصورت بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں.اگر انسان غور کرے تو اس کا فائدہ انسان کو ہی ہے.جیسا کہ حضرت خلیفہ اول نے یہ فرمایا کہ دنیا بھی سنور جائے گی اور عقبی بھی سنور جائے گی.اس دنیا میں گھر یلو زندگی بھی جنت نظیر بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے سے آخرت کے انعامات بھی ملیں گے.پھر صرف اپنی ذات تک ہی نہیں بلکہ اس وجہ سے اولاد بھی نیکیوں پر چلنے والی ہوگی.گویا صرف اپنی کل نہیں سنوار رہے ہوں گے بلکہ اگلی نسل کی کل کی بھی ایک حقیقی مومن ضمانت بننے کی کوشش کرے گا.بلکہ ضمانت بن جاتا ہے کہ عموماً پھر آئندہ نسل بھی نیکیوں پر قدم مارنے والی ہوگی.پس اگر وہ گھر یاوہ خاندان جو اپنے گھروں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بر باد کر رہے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر غور کرنے والے اور ان پر عمل کرنے والے بن جائیں تو نہ صرف اپنے گھروں کے سکون کے ضامن ہو جا ئیں گے، اپنے بچوں کی صحیح تربیت اور ان کو تقویٰ پر چلنے کی طرف رہنمائی کرنے والے بھی بن جائیں گے اور ان کی زندگیاں سنوار نے والے بھی بن جائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حاصل کرنے والے بن جائیں گے.پس ایسے گھروں کو جو چھوٹی چھوٹی باتوں
خطبات مسرور جلد 13 158 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015ء پر صرف دنیا داری کی خاطر اپنے گھروں کو برباد کر رہے ہیں سوچنا اور غور کرنا چاہئے.اگلی نسلیں صرف آپ ہی کی اولاد نہیں ہیں بلکہ جماعت اور قوم کا بھی سرمایہ ہیں.ان کو صحیح راستے دکھا ناماں باپ کا کام ہے اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب ماں باپ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق چلانے کی کوشش کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ تو ایک پہلو ہے جس کی طرف ہر مومن کو اللہ تعالیٰ نے کوشش کرنے کی طرف اور عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے تا کہ اپنی اور بچوں کی دنیا و آخرت سنوار سکیں.ہماری زندگی میں بیشمار ایسے مواقع آتے ہیں جب ہم تقویٰ سے کام نہیں لیتے.آخرت پر نظر نہیں رکھتے.اس دنیا کے وسائل اور ضروریات کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں.دنیا کے سہاروں کو اللہ تعالیٰ کے سہاروں پر لاشعوری طور پر ترجیح دیتے ہیں.پھر اپنی کمزوریوں کی وجہ سے، نا اہلیوں کی وجہ سے سستیوں کی وجہ سے اس دنیا کے مستقبل کو بھی برباد کر تے ہیں.اس دنیا میں جو اپنی کل ہے اس کو بھی برباد کر تے ہیں اور اگلے جہان کی کل کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں.یہ نہیں سوچتے کہ اس کے کتنے بھیا نک نتائج نکل سکتے ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح الاول نے ایک دفعہ مختصر الفاظ میں یوں توجہ دلائی کہ ” مومن کو چاہئے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا“.فرماتے ہیں کہ انسان غضب کے وقت قتل کر دینا چاہتا ہے.گالی نکالتا ہے.مگر سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا.اس اصل کو مدنظر رکھے تو تقویٰ کے طریق پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی.( حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 67) اگر ہم دیکھیں تو تمام برائیاں اور تمام گناہ اس لئے سرزد ہوتے ہیں کہ ان کے کرتے وقت ہمارے دماغ میں ایک خناس سمایا ہوتا ہے،شیطان گھسا ہوتا ہے.نتائج سے بے پرواہ ہو کر کام ہوتا ہے.بہت شاذ ایسا ہوتا ہے کہ قتل و غارتگری کرنے والے یا گناہ کرنے والے اقرار کر کے خود اپنے آپ کو اس کے نتائج بھگتنے کے لئے پیش کر دیں.ایسے لوگوں کے جنون کی کیفیت جو خود ہی پیش کرتے ہیں تقریباً مستقل کیفیت ہوتی ہے.باقی ہر عقل والا ، عام عقل والا انسان جب اس جنونی کیفیت سے باہر آتا ہے تو اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے.عادی مجرموں کا معاملہ تو اور ہے وہ اس کے علاوہ ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی بات نہیں فرمارہا جو عادی لوگ ہیں یا بالکل پاگل ہیں بلکہ ایمان کا دعوی کرنے والوں کو فرماتا ہے کہ مومن کی نشانی کل پر نظر رکھنا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 159 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015ء حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ نتائج پر یا کل پر نظر رکھنے کا خیال کس طرح پیدا ہو، کس طرح نظر رکھی جائے.اس کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ اس بات پر ایمان رکھے کہ واللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.جو کام تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے.انسان اگر یہ یقین کرے کہ کوئی خبیر وعظیم بادشاہ ہے جو ہر قسم کی بدکاری، دغا، فریب، سستی اور کا ہلی کو دیکھتا ہے اور اس کا بدلہ دے گا تو وہ بیچ سکتا ہے.آپ نے فرمایا ایسا ایمان پیدا کرو.بہت سے لوگ ہیں جو اپنے فرائض نوکری حرفہ مزدوری وغیرہ میں سستی کرتے ہیں.ایسا کرنے سے رزق حلال نہیں رہتا.( حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 67-68) اپنے کل کو برباد نہ کریں یعنی دنیاوی معاملات میں بھی جو سستی کرتے ہیں اور ان کا حق ادا نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے بھی اپنی کل کو برباد کر لیا اور اپنا رزق جوانہوں نے حاصل کیا وہ بھی حلال نہیں رہا.یہ دھو کے کا رزق ہے.پس یہ آیت جو اپنے کل پر نظر رکھنے کی طرف توجہ دلا رہی ہے بڑی وسعت رکھتی ہے اور ہر قدم پر ایک حقیقی مومن کے پاؤں پکڑ کر کسی بھی معمولی کمزوری اور گناہ کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے.پس یہ یقین ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس یقین پر ہم قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور پھر اس بات پر بھی یقین کہ وہ ہمارے ہر قسم کے دھوکے، فریب چاہے وہ ہم معمولی سمجھ کر تھوڑ اسا منافع کمانے کے لئے کر رہے ہیں یا اپنے کام میں سستی دکھا رہے ہیں یا معاہدے کے مطابق اس نیت سے جان بوجھ کر کام ختم نہیں کر رہے کہ شاید کسی کو دباؤ میں لا کر مزید مفاد اٹھا سکیں تو یاد رکھیں ایسی باتیں خدا تعالیٰ کو پسند نہیں.اور جب خدا تعالیٰ کو پسند نہیں تو پھر جیسا کہ حضرت خلیفہ اول نے بھی فرمایا کہ اس کا بدلہ ہوگا اور اس کا بدلہ پھر سزا کی صورت میں ہی ہے.پس مومن کو کل پر نظر رکھنے کا کہہ کر اپنے معمولی گھریلو معاملات سے لے کر اپنے معاشرتی، کاروباری ہلکی ، بین الاقوامی تمام معاملات میں تقویٰ پر چلنے کی طرف توجہ دلا دی اور جو تقویٰ پر نہیں چلتا وہ پھر اس بات کو بھی ذہن میں رکھے کہ ایسا انسان خدا کی پکڑ میں آئے گا.انسان کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ دنیاوی معاملات کا دین سے کوئی تعلق نہیں.مومن کے لئے تقویٰ پر چلنے کا حکم ہے اور تقویٰ میں تمام دینی اور دنیاوی کاموں کو خدا تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق بجالانا ضروری ہے.انسان بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ
خطبات مسرور جلد 13 160 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015ء دنیاوی نقصان کے ابتلا سے بچنے کی کوشش کروں.مالی منفعت حاصل کر لوں چاہے جو بھی ذریعہ اپنایا جائے.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی ایسا طریق جس سے دھوکہ دے کر فائدہ حاصل کیا جائے دین سے اور ایمان سے دور لے جانے والا ہے اور یہ بظاہر دنیاوی معاملہ دینی ابتلا بن جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ آہستہ آہستہ دین اور خدا سے دور لے جاتا ہے.اس لئے ایک مومن کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ایمان کا ابتلا دنیاوی ابتلاؤں سے بہت زیادہ ہے جس کے نتیجہ میں دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو جاتی ہیں.پس ہمیں اس سوچ کے ساتھ اپنے دلوں کو ٹو لتے رہنا چاہئے اور ہر کام کے انجام پر نظر رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی میرے ہر کام پر نظر ہے.یہ سوچ جب پیدا ہو جائے تو مومن ایک حقیقی مومن بن جاتا ہے یا بننے کی طرف قدم بڑھا رہا ہوتا ہے.اس معیار کو دیکھنے کے لئے کسی جماعتی یا ذیلی تنظیم کے رپورٹ فارم کو دیکھنے اور اس پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے.ہر ایک شخص خود اپنے جائزے لے سکتا ہے کہ کیا یہ اس کے معیار ہیں کہ ہر کام کرنے سے پہلے اسے یہ خیال آئے کہ خدا تعالیٰ میرے اس کام کو دیکھ رہا ہے.اگر میں نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ کام کر رہا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا کئی گنا جزا کا بھی وعدہ ہے، اجر کا بھی وعدہ ہے.اور اگر نیت بد ہے تو پھر انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں بھی آسکتا ہوں.جب ہم میں سے ہر ایک ایسی سوچ کے ساتھ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرے گا اور اس کے لئے کوشش کرے گا تو جماعت کے جو تقویٰ کے عمومی معیار ہیں وہ بھی بلند ہوں گے اور یہ تقویٰ کا معیار بلند ہوتا ہوا جماعتی طور پر بھی خود بخود نظر آنا شروع ہو جائے گا.نہ تربیت کے شعبے کے لئے مشکلات اور مسائل ہوں گے، نہ امور عامہ اور قضاء کے شعبے کے لئے مسائل، نہ ہی دوسرے شعبوں کو یاددہانیوں کی ضرورت اور فکر پڑے گی.پس اپنے دلوں کو ہر وقت صبح شام ٹٹولتے رہنا چاہئے اور شیطان کے حملوں سے نفس کو بچانے کی انتہائی کوشش کی ضرورت ہے.اگر نہیں خیال آتے تو یہ شیطان کی وجہ سے ہی نہیں آتے.اس بات کو بھلانے میں شیطان ہی کردار ادا کرتا ہے.خدا تعالیٰ کو بھلایا جائے تو شیطان ہی ہے جو کردار ادا کرتا ہے.کل کی اگر فکر نہ ہو تو وہ شیطان ہی ہے جو بھلاتا ہے.یہ شیطان ہی ہے جو یہ کہتا ہے اس بات کو بھول جاؤ کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے.اگر ہم جائزہ لیں کہ اکثر اس بات کو نہیں سوچتے کہ میرے کام کو خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے خون کے ساتھ اس کے جسم میں چلتا ہے.(صحيح البخاری کتاب الاعتكاف باب زيارة المرأة زوجها فى اعتکافه حدیث نمبر 2038)
خطبات مسرور جلد 13 161 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015ء بہت سی بیماریاں انسان کو اس لئے نقصان پہنچاتی ہیں کہ وہ خون میں گردش کر رہی ہوتی ہیں.آہستہ آہستہ بڑھتی ہیں اور ایک وقت میں آ کر جسم پر بہت زیادہ اثر ڈالنا شروع کر دیتی ہیں.کسی وجہ سے انفیکشن ہو جاتا ہے اور اس کا اثر ہو جاتا ہے تو انسان کو شروع میں پتا نہیں چلتا کہ بیماری نے حملہ کر دیا ہے.بلکہ بہت ہی کوئی محتاط ہو، ذراسی کسل مندی کے بعد وہ ڈاکٹر کے پاس جائے بھی تو ابتدائی حالت میں بعض ڈاکٹروں کو بھی پتا نہیں چلتا کہ بیماری اندر ہے، خون میں گردش کر رہی ہے.اور یہ بیماریاں آتی ہیں جیسا کہ میں نے کہا فضا میں بعض دفعہ جراثیم ہوتے ہیں ایک دوسرے سے بیماریاں لگتی ہیں اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں بہت ساری وبائیں پھیلی ہوئی ہیں جن کا شروع میں پتا نہیں لگتا.آہستہ آہستہ جب پھیل جاتی ہیں تب پتا لگتا ہے.لیکن آجکل کے زمانے میں جو سب سے خطرناک چیز ہے وہ اس زمانے میں روحانی بیماریاں ہیں.اور روحانی بیماریوں کی تو فضا میں بھر مار ہوئی ہوئی ہے اور انسان کو پتا نہیں لگتا کہ کس وقت شیطان ہمارے خون میں چلا گیا ہے اور روحانی بیماری کو بڑھانا شروع کر دیا ہے.لیکن شیطان کے خون میں گردش کرنے سے جو بیماری آتی ہے وہ جسمانی بیماری کی نسبت اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہے کہ جسمانی بیماری سے جسم پر اثرات پڑنے شروع ہوتے ہیں.جسم ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے.کسل مندی کی کیفیت ہو جاتی ہے پھر آہستہ آہستہ مزید تکلیف بڑھتی ہے.انسان خود محسوس کرتا ہے اور ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے کہ میں بیمار ہوں مجھے دوائی دو.لیکن روحانی بیماری خطرناک اس وجہ سے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے انسان دُور ہوتا ہے اور شیطان کے حملے کے نیچے آجاتا ہے تو تب بھی خود کو بیمار محسوس نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ کو اچھا ہی سمجھتا ہے.لیکن جب اس کے دوستوں، اس کے ہمدردوں کو پتا چلتا ہے کہ یہ بیمار ہے تو وہ اس کو سمجھاتے ہیں.جو بیماری کی انتہا کو پہنچ جائیں وہ دوستوں کے کہنے پر بھی خود کو بالکل ٹھیک سمجھتے ہیں اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو غلط سمجھتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ میرے دوست مجھے غلط کہہ رہے ہیں.پس شیطان کا حملہ یا روحانی بیماری جو ہے جسمانی بیماری سے بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بسا اوقات اس کے علاج کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا.دوسرے تو جہ بھی دلائیں کہ علاج کروالو تو اس طرف توجہ نہیں ہوتی.پس ایک مومن کو اس سے پہلے کہ بیماری حملہ کرے اپنے جائزے لیتے ہوئے حفظ ماتقدم کے عمل کو شروع کر دینا چاہئے اور اس معاشرے میں جیسا کہ میں نے کہا کہ روحانی بیماریاں مستقل فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اس لئے اپنے آپ کو بچانے کے لئے مستقل عمل کی بھی ضرورت ہے یا مستقل علاج کی بھی ضرورت ہے.حفظ ما تقدم کی ضرورت ہے اور یہی ایک حقیقی مومن کے لئے ضروری ہے اور اس کو چاہئے کہ
خطبات مسرور جلد 13 162 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015 ء وہ اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتا رہے.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مومن کبھی اللہ تعالیٰ کی خشیت اور خوف سے خالی نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ آپ جب بھی رات کو اٹھتے تو نہایت عجز اور انکسار سے دعائیں کرتے.ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کی اسی حالت کو دیکھ کر عرض کیا کہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے سب کچھ معاف کر دیا ہے.آپ کو اتنے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے.اتنی خشیت سے اپنے لئے دعائیں کیوں کرتے ہیں؟ اپنے لئے اتنی خشیت کیوں ہے؟ (صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب ليغفر لك ما تقدم من ذنبک و ماتأخر...حديث نمبر 4837) بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ بھی فرمایا تھا جیسا کہ میں نے کہا کہ انسان کے خون میں شیطان ہے تو آپ نے فرمایا تھا کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے.(صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین و احكامهم باب تحريش الشيطان وبعثه...حدیث نمبر 7108) یعنی کسی روحانی بیماری کے حملہ آور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.لیکن آپ نے فرمایا کہ میری نجات بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے.مجھے بھی ہر وقت اس کی طرف جھکے رہنے کی ضرورت ہے.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سب کے باوجود اس قدر خشیت کا اظہار کرتے ہیں تو پھر اور کون ہے جو کہہ سکے کہ مجھے ہر وقت ہر کام میں کل پر نظر رکھنے کی ضرورت نہیں اور کام کر کے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں.پس ہر وقت ہشیار رہنے کی ضرورت ہے.ہر وقت تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے کاموں اور اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے.ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اس کا رحم مانگنے کی ضرورت ہے.ہر وقت یہ خیال دل میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ میں نے اپنے ایمان کو کس طرح بچانا ہے.اور اس کی طرف جو اگلی آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا کیونکہ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اپنے آپ سے غافل کر دے گا.جیسا کہ میں نے مثال دی ہے کہ روحانی بیماری والے اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھتے بلکہ ان کے ہمدرد جب ان کو بیمار سمجھ کر ان کا علاج کروانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ الٹا ان ہمدردوں کو بیمار اور پاگل سمجھنے لگ جاتے ہیں.گویا روحانی بیماری ان کو اپنے نفس کی حالتوں کو دیکھنے سے بالکل لا پرواہ کر دیتی ہے اور پھر نتیجہ سوائے تباہی اور بربادی کے اور کچھ نہیں نکلتا.یادرکھنا چاہئے کہ عموماً انسان خدا تعالیٰ کو تین طریقوں سے بھلاتا ہے یا یہ تین قسم کے لوگ ہیں جو ہمیں عموماً دنیا میں نظر آتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے دُور
خطبات مسرور جلد 13 163 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015ء ہیں یا دُور ہوتے ہیں.ایک تو وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے وجود کے انکاری ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کوئی چیز نہیں ہے.جیسا کہ آج کل کی بہت بڑی تعداد اسی نظریے پر قائم ہے جو اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہتے ہیں.اپنی تعلیم پر بڑا زعم ہے اور یہ لوگ میڈیا اور انٹر نیٹ اور مختلف طریقوں سے نو جوانوں اور کچے ذہنوں کو اپنے خیالات سے زہر آلود کر تے رہتے ہیں.دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو حقیقی اور سچا ایمان تمام طاقتوں والے خدا پر نہیں ہے جس کے سامنے انہیں ایک دن پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے.باوجود اس کے کہ یہ ایمان ہے یا اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک خدا ہے جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے اور اس کے تابع ایک نظام چل رہا ہے لیکن پھر بھی اس کے کہنے پر عمل نہیں ہے.تیسرے وہ لوگ ہیں جو دنیا وی بکھیڑوں میں اس قدر ڈوب گئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہیں.کبھی خیال آ جائے تو نماز بھی پڑھ لیں گے، دعا بھی کر لیں گے لیکن کوئی باقاعدگی نہیں ہے.اس طرف توجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے پانچ نمازیں فرض کی ہیں.بہر حال یہ بات یقینی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کو بھلاتے ہیں وہ آخر کا رایسی حالت کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کا اخلاقی انحطاط بھی ہوتا ہے اور روحانی تنزل بھی ہوتا ہے اور آخر کار ذہنی سکون بھی جاتا رہتا ہے.وہ سمجھتے تو یہ ہیں کہ دنیا کے کاموں میں ان کے فوائد ہیں.اس لئے یہ تو پہلے کرو.خدا تعالیٰ کے حق بعد میں ادا ہوتے رہیں گے.کیونکہ دنیاوی منفعت میں بظاہر انہیں فوری آرام اور آسائش نظر آ رہے ہوتے ہیں.لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ ایسا سلوک کرتا ہے کہ فَأَنْسَهُمْ أَنْفُسَهُمْ - اللہ تعالیٰ نے خود انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا اور ایسے لوگ کبھی ذہنی سکون نہیں پاتے.پس مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر حقیقی تقویٰ تمہارے اندر ہے اور تم مومن ہو، خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین رکھتے ہو، اس کی وحدانیت پر ایمان ویقین ہے تو پھر ان شرائط کے مطابق اپنی زندگی بسر کرو جن کے مطابق زندگی بسر کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ اپنے ہر کام کے انجام کو دیکھو اور اس یقین پر قائم ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ تمہارے ہر عمل اور فعل کو دیکھ رہا ہے اور جب انسان کی ایسی سوچ ہو تو پھر ہر کام کرنے کا انداز ہی بدل جاتا ہے اور انسان خود محسوس کرتا ہے کہ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل بھی مجھ پر بڑھ رہے ہیں.
خطبات مسرور جلد 13 164 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015ء ہر کام کرنے سے پہلے سوچ لوک...مجھے یاد ہے جب میں کینیا میں دورے پر گیا ہوں تو وہاں کے ایک پرانے سیاستدان تھے جو ایک reception میں وہاں ملے.کہنے لگے کہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی ملا ہوں.انہوں نے مجھے ایک نصیحت کی تھی جس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا ہے اور وہ نصیحت یہ تھی کہ تم ہر کام کرنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور اس کے پاس تمہاری تمام باتوں کا ریکارڈ بھی ہے.اب مجھے یاد نہیں کہ مسلمان تھے یا عیسائی، غالباً عیسائی تھے.اگر ان کو فائدہ ہو سکتا ہے تو ایک حقیقی مومن جس کو خاص طور پر خدا تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اس کو کس قدر فائدہ ہوگا کہ اپنے کام کے انجام پر نظر ر کھے اور ہمیشہ یہ یادر کھے کہ علیم وقدیر خدا میرے ہر کام اور ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور اسی وجہ سے میں نے اپنے ہر کام کو اس کی رضا کے لئے کرنا ہے.اگر یہ سوچ نہیں ہوگی ، خدا تعالیٰ کو بھول جاؤ گے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاسقوں میں شمار ہو گے.پس اللہ تعالیٰ نے یہاں فاسق کہ کر ایمان کا دعوی کرنے والوں کو واضح کر دیا کہ اگر تقویٰ پر نہیں چلتے.اپنے کل کی فکر نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نہیں چلتے تو پھر فاسقوں میں شمار ہوگا اور فاسق وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو توڑنے والے ہیں.جو گناہوں میں مبتلا رہنے والے ہیں.جو اطاعت سے نکلنے والے ہیں.جو سچائی سے دُور ہٹنے والے ہیں.پس اگر ہم اپنے جائزے نہیں لیتے ، اپنے کاموں کو اللہ تعالی کے بتائے ہوئے معیار پر پرکھنے کی کوش نہیں کرتے تو بڑے خوف کا مقام ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاول اس حصہ کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: " ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جن کی نسبت فرمایا که نَسُوا اللهَ فَأَنْسُهُمْ انْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ.یعنی جنہوں نے اس رحمت اور پاکی کے سرچشمہ قدوس خدا کو چھوڑ دیا اور اپنی شرارتوں ، چالا کیوں، ناعاقبت اندیشیوں، غرض قسم قسم کے حیلہ سازیوں اور رُوبہ بازیوں سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں.“ ( روبہ بازیوں کا مطلب ہے جو لومڑیوں کی طرح چالاکیاں کرتے ہیں.اردو میں محاورہ ہے لومڑی کی طرح بڑا چالاک ہے.) 66 پھر آپ فرماتے ہیں کہ ” مشکلات انسان پر آتی ہیں.بہت سی ضرورتیں انسان کو لاحق ہیں.کھانے پینے کا محتاج ہوتا ہے.دوست بھی ہوتے ہیں.دشمن بھی ہوتے ہیں مگر ان تمام حالتوں میں متقی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ خیال اور لحاظ رکھتا ہے کہ خدا سے بگاڑ نہ ہو (یعنی خدا تعالیٰ کو ہر وقت یا درکھتا ہے اور وہ اسے دوستوں پر بھی اور فائدہ مند چیزوں پر بھی مقدم رہتا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 165 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 مارچ 2015ء پھر فرمایا ' دوست پر بھروسہ ہو.ممکن ہے وہ دوست مصیبت سے پیشتر دنیا سے اٹھ جاوے یا اور مشکلات میں پھنس کر اس قابل نہ رہے ( کہ کام آئے.پھر ) حاکم پر بھروسہ ہوتو ممکن ہے کہ حاکم کی تبدیلی ہو جاوے اور وہ فائدہ اس سے نہ پہنچ سکے اور ان احباب اور رشتہ داروں کو جن سے امید اور کامل بھروسہ ہو کہ وہ رنج اور تکلیف میں امداد دیں گے اللہ تعالیٰ اس ضرورت کے وقت ان کو اس قدر ڈور ڈال دے کہ وہ کام نہ آسکیں.“ فرمایا کہ ” پس ہر آن خدا ( تعالی) سے تعلق نہ چھوڑنا چاہئے جو زندگی ، موت کسی حالت میں ہم سے جدا نہیں ہوسکتا.( زندگی اور موت میں خدا تعالیٰ کا ہی ساتھ ہے.) فرما یا کہ ” پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کر لیا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم دکھوں سے محفوظ نہ رہ سکو گے اور سکھ نہ پاؤ گے بلکہ ہر طرف سے ذلت کی مار ہوگی اور ممکن ہے کہ وہ ذلّت تم کو دوستوں ہی کی طرف سے آ جاوے.ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرتے ہیں وہ کون ہوتے ہیں؟ وہ فاسق ، فاجر ہوتے ہیں ! ان میں سچا اخلاص اور ایمان نہیں ہوتا! یہی نہیں کہ وہ ایمان کے کچے ہیں.نہیں.ان میں شفقت علی خلق اللہ بھی نہیں ہوتی ! ( حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 68) اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے شفقت بھی نہیں کرتے.یعنی نہ خدا کے حقوق ادا کرتے ہیں نہ بندوں کے حقوق ادا کرتے ہیں.پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اپنے عارضی فائدوں کی بجائے اپنے کل پر نظر رکھیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27 مارچ 2015 ء تا 102 پریل 2015 ءجلد 22 شماره 13 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 166 11 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 / مارچ 2015 ء بمطابق 13 امان 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان فرمودہ بعض باتیں بیان کروں گا جن کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے.ان سے بہت سی سبق آموز باتیں سامنے آتی ہیں جن سے آجکل بھی اپنے راستے متعین کرنے کی طرف رہنمائی ملتی ہے.پہلا واقعہ یا پہلا بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبلیغ کے بارے میں جوش اور کس طرح جماعت کو دیکھنا چاہتے تھے کے متعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تبلیغ اسلام کے لئے جو جوش اور درد تھا جس کا اثر وہ اپنے جماعت کے افراد پر بھی دیکھنا چاہتے تھے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تبلیغ سلسلہ کے لئے عجیب عجیب خیال آتے تھے اور وہ رات دن اسی فکر میں رہتے تھے کہ یہ پیغام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ جائے.ایک مرتبہ آپ نے تجویز کی کہ ہماری جماعت کا لباس ہی الگ ہوتا کہ ہر شخص بجائے خود ایک تبلیغ ہو سکے.اس پر مختلف تجویزیں ہوئیں.(ماخوذ از الفضل جلد 10 نمبر 1 صفحہ 16) یعنی یہ پہچان ہو جائے کہ یہ احمدی ہے.اب صرف ایک علیحدہ پہچان تو کوئی چیز نہیں ہے.یقیناً آپ کی یہی خواہش ہوگی کہ اس طرح جہاں ایک لباس دیکھ کر اور پھر عملی اور اعتقادی حالت دیکھ کر غیروں کی توجہ ہوگی وہاں خود بھی احساس رہے گا کہ میں ایک احمدی کی حیثیت سے پہچانا جاؤں گا.اس لئے میں نے اپنی عملی اور اعتقادی حالت کو درست بھی رکھنا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 167 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015 ء پس آج بھی ہمیں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ لباس کوئی چیز نہیں لیکن کم از کم ہماری حالتیں ایسی ہوں کہ ہر ایک ہمیں دیکھ کے پہچان سکے کہ یہ احمدی ہے اور یہ دوسروں سے منفرد ہے.لباس،صفائی اور سادگی لباس کا ذکر ہو رہا تھا.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ایک مبلغ یا دین کے کام کرنے والے کی شکل کس طرح کی ہونی چاہئے.آپ فرماتے ہیں کہ تبلیغ کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ مبلغ کی شکل مومنانہ ہو.خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ پس میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہونی چاہئے اور انہیں اپنی داڑھیوں میں، بالوں میں اور لباس میں سادگی اختیار کرنی چاہئے.اسلام تمہیں صاف اور نظیف لباس پہنے سے نہیں روکتا.(صاف لباس ہو.نفاست ہو.اس سے نہیں روکتا.بلکہ وہ خود حکم دیتا ہے کہ تم ظاہری صفائی کوملحوظ رکھو اور گندگی کے قریب بھی نہ جاؤ مگر لباس میں تکلف اختیار کرنا منع ہے.اسی طرح ( بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے اپنے کپڑوں کو دیکھتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد کوٹ کے کالر کو دیکھنا کہ اس پر گرد تو نہیں پڑ گئی.یہ ایک لغو بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بعض لوگ اچھے اچھے کپڑے لاتے تھے اور آپ ان کپڑوں کو استعمال بھی کرتے تھے مگر کبھی لباس کی طرف ایسی توجہ نہیں فرماتے تھے کہ ہر وقت برش کروا رہے ہوں اور دل میں یہ خیال ہو کہ لباس پر کہیں گرد نہ پڑ جائے.(آپ کہتے ہیں کہ کپڑوں پر ) برش کروانا منع نہیں مگر اس پر زیادہ زور دینا اپنے وقت کا بیشتر حصہ ان باتوں پر صرف کر دینا پسندیدہ نہیں سمجھا جاسکتا.آپ کہتے ہیں) بعض لوگوں کو لباس کا اتنا کمپلیکس ہوتا ہے کہ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ دعوت کے موقع پر رونی شکل بنا لیتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں ہے یا فلاں قسم کا لباس نہیں ہے.انسان کے پاس جس قسم کا بھی لباس ہو اس قسم کے لباس میں اسے دوسروں سے بڑے اعتماد سے ملنے چلے جانا چاہئے.اصل چیز توننگ ڈھانکنا ہے.( نفاست ہے.نظافت ہے.صفائی ہے.) جب نگ ڈھانکنے کا لباس موجود ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی شخص کی ملاقات سے اس لئے محروم ہو جاتا ہے کہ میرے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں یا فلاں قسم کا کر یہ نہیں تو یہ دین نہیں بلکہ دنیا ہے.(ماخوذ از خدام الاحمدیہ سے خطاب.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 442،441) پس واقفین زندگی کے لئے خاص طور پر مبلغین کے لئے اور عام طور پر عمومی جماعت کے افراد کے لئے بھی اس میں نصیحت ہے کہ ظاہری رکھ رکھاؤ کی طرف اتنی توجہ نہ دیں کہ اصل مقصد پیچھے چلا جائے.
خطبات مسرور جلد 13 168 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء یا بعض ایسے ہیں جو نظافت کا خیال بھی نہیں رکھتے انہیں بھی یا درکھنا چاہئے کہ نظافت ایمان کا حصہ ہے.پس ہر معاملہ میں اعتدال ہونا چاہئے.نہ ادھر جھکاؤ ہو نہ اُدھر جھکاؤ ہو.تبلیغ کے حوالے سے آپ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں.فرماتے ہیں کہ تبلیغ پر خاص طور پر زور دیا جائے.( دہلی آپ گئے تو کہتے ہیں ) اس دفعہ یہاں دہلی میں میرے لئے ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اب دلّی والوں نے کج بحثی کو چھوڑ دیا ہے ورنہ اس سے پہلے جب کبھی مجھے یہاں آنے کا موقع ملا یا ) اتفاق ہوا دہلی کے ہر قسم کے لوگ مجھ سے ملنے کے لئے آیا کرتے تھے اور عجیب عجیب قسم کی بحث شروع کر دیا کرتے تھے اور کسی نے بھی کبھی معقول بات نہ کی تھی.(فرماتے ہیں کہ ) مجھے یاد ہے میں اس وقت چھوٹا سا تھا.میں یہاں آیا اور اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا.حیدر آباد کے ایک رشتے کے بھائی بھی ہماری رشتے کی اس نانی کے پاس ملنے آئے تھے جن کے پاس حضرت آتاں جان ٹھہری ہوئی تھیں.انہوں نے میری طرف اشارہ کر کے پوچھا ( اس رشتے کے بھائی نے ) کہ یہ لڑکا کون ہے؟ نانی نے کہا کہ فلاں کا لڑکا ہے.یعنی حضرت اماں جان کا نام لیا.حضرت اماں جان کا نام سن کر وہ مجھے کہنے لگے کہ تمہارے ابا نے کیا شور مچا رکھا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے خلاف کئی قسم کی باتیں کرتے ہیں.( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ) اس وقت میری عمر چھوٹی تھی مگر بجائے اس کے کہ میں گھبراؤں کیونکہ مجھے وفات مسیح کی بحث اچھی طرح یاد تھی میں نے وفات مسیح کے متعلق بات شروع کر دی.میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو صرف یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اس زمانے میں جو مسیح موعود اور مہدی معہود آنے والا ہے وہ اس امت میں سے آئے گا.(حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) مجھے قرآن کریم کی ان آیات میں سے جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى (آل عمران : 56) والی آیت یاد تھی تو میں نے اس کے متعلق سارے مضمون کو اچھی طرح کھول کر بیان کیا تو وہ بڑے حیران ہو کر کہنے لگے کہ واقعی اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں مگر یہ مولوی لوگ کیوں شور مچاتے ہیں؟ تو میں نے انہیں کہا کہ یہ بات تو پھر ان مولویوں سے پوچھئے.لیکن نانی کا رد عمل کیا ہوا.فرماتے ہیں کہ ہماری نانی نے شور مچا دیا کہ تو بہ کر وہ تو بہ کرو.اس بچے کا دماغ پہلے ہی ان باتوں کو سن کر خراب ہو اہو ا تھا تم نے تصدیق کر کے اسے کفر پر پکا کر دیا.(ماخوذ از ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے.انوارالعلوم جلد 18 صفحہ 454،453)
خطبات مسرور جلد 13 تبلیغ کے طریق 169 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء پھر تبلیغ کے حوالے سے ہی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی کے تبلیغ کے طریق کو بیان فرماتے ہیں کہ میاں شیر محمد صاحب ان پڑھ آدمی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے.وہ فنافی الدین قسم کے آدمیوں میں سے تھے.یکہ چلاتے تھے.غالباً پھلور سے ( یہ جگہ کا نام ہے ) سواریاں لے کر بنگہ جاتے تھے.ان کا طریق تھا کہ سواری کو یکے میں بٹھا لیتے اور یکہ چلاتے جاتے اور سواریوں سے گفتگو شروع کر لیتے.اخبار الحکم منگواتے تھے.جیب سے اخبار نکال لیتے اور سواریوں سے پوچھتے آپ میں سے کوئی پڑھا ہوا ہے؟ اگر کوئی پڑھا ہوا ہوتا، اسے کہتے کہ یہ اخبار میرے نام آئی ہے.ذرا اس کو نا تو دیجئے.یکہ میں بیٹھا ہوا آدمی جھٹکے کھا تا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے کوئی شغل مل جائے.وہ خوشی سے پڑھ کر سنانا شروع کر دیتا ہے.جب وہ اخبار پڑھنا شروع کرتا تو وہ ( یعنی یہ خود میاں شیر محمد صاحب) جرح شروع کر دیتے کہ یہ کیا لکھا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ اور اس طرح جرح کرتے کہ اس کے ذہن ( یعنی پڑھنے والے کے ذہن کو جو احمدی نہیں ہوتا تھا ) سوچ کر جواب دینا پڑتا اور بات اچھی طرح اس کے ذہن نشین ہو جاتی.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ انہوں نے مجھے سنایا تھا تو اس وقت تک (صرف الفضل یا الحکم پڑھانے کے ذریعہ سے ) ان کے ذریعے درجن سے زیادہ احمدی ہو چکے تھے.اس کے بعد بھی وہ کئی سال تک زندہ رہے.نامعلوم کتنے آدمی ان کے ذریعہ اسی طریق پر احمدیت میں داخل ہوئے.غرض ضروری نہیں کہ ہمیں کام شروع کرنے کے لئے بڑے عالم آدمیوں کی ضرورت ہے بلکہ ایسے علاقوں میں جہاں کوئی پڑھا ہوا آدمی نہیں مل سکتا اگر ان پڑھ احمدی مل جائے تو ان پڑھ ہی ہمارے پاس بھجوا دیا جائے اس کو زبانی مسائل سمجھائے جا سکتے ہیں.( بعض جو چھوٹی جماعتیں ہیں ، دُور کی جماعتیں ہیں ان کے لئے خاص ہدایت ہے تا کام شروع ہو جائے.) اگر ہم اس انتظار میں رہیں کہ عالم آدمی ملیں تو نامعلوم ان کے آنے تک کتنا زمانہ گزر جائے گا؟ ابھی بھی باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعات میں بڑی خاصی تعداد مرتبیان کی آ رہی ہے لیکن پھر بھی مستقبل قریب میں ضرورت پوری نہیں ہوسکتی.) کیونکہ علماء کو مذہب کی باریکیوں میں جانا پڑتا ہے اس لئے ان کو علم حاصل کرنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ مذہب میں باریکیاں ہوتی ہیں ان کو سیکھنے کے لئے ایک لمبے عرصے کی ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے متعلق فرمایا.آپ فرماتے ہیں کہ الدین پسر کہ دین آسانی کا نام ہے.(ماخوذ از الفضل قادیان مورخہ 7 نومبر 1945 صفحہ 3 جلد 33 نمبر 261)
خطبات مسرور جلد 13 170 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء پس دعوت الی اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ علمی بحثوں اور بڑے بڑے سیمیناروں اور فن رفنکشنوں کا سہارالیا جائے.حالات کے مطابق طریق نکالنے چاہئیں.اس زمانے میں بھی بہت سے احمدی ایسے ہیں جو اپنے طور پر تبلیغ کے طریقے نکالتے ہیں اور اللہ کے فضل سے بڑے کامیاب ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے ایک مشترک دوست کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ ہے.آپ کے ایک دوست تھے جو مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھی دوست تھے.ان کا نام نظام الدین تھا.انہوں نے سات حج کئے تھے.بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے.چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مولوی محمد حسین بٹالوی دونوں سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے.اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے دعوی کا موریت کیا اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا تو ان کے دل کو بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیکی پر بہت یقین تھا.وہ لدھیانہ میں رہا کرتے تھے اور مخالف لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف کچھ کہتے تو وہ ان سے جھگڑ پڑتے اور کہتے کہ تم پہلے حضرت مرزا صاحب کی حالت کو تو جا کر دیکھو.وہ تو بہت ہی نیک آدمی ہیں اور میں نے ان کے پاس رہ کر دیکھا ہے کہ اگر انہیں ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ) قرآن شریف سے کوئی بات سمجھادی جائے تو وہ فورا ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.وہ فریب ہر گز نہیں کرتے.اگر انہیں قرآن سے سمجھا دیا جائے کہ ان کا دعوی غلط ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ فور مان جائیں گے.بہت دفعہ وہ لوگوں کے ساتھ اس امر پر جھگڑتے اور کہا کرتے کہ جب میں قادیان جاؤں گا تو دیکھوں گا کہ وہ کس طرح اپنے دعوی سے تو بہ نہیں کرتے.( یہ کہنے لگے کہ ) میں قرآن کھول کر ان کے سامنے رکھ دوں گا (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے ) اور جس وقت قرآن کی کوئی آیت حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کے متعلق بتاؤں گا وہ فورا مان جائیں گے.میں خوب جانتا ہوں کہ وہ قرآن کی بات سن کر پھر کچھ نہیں کہا کرتے.آخر ایک دن انہیں خیال آیا اور لدھیانہ سے قادیان پہنچے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ نے اسلام چھوڑ دیا ہے اور قرآن سے انکار کر دیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ کس طرح ہوسکتا ہے قرآن کو تو میں مانتا ہوں اور اسلام میرا مذ ہب ہے.کہنے لگے الحمد للہ میں لوگوں سے یہی کہتا رہتا ہوں کہ وہ قرآن کو چھوڑ ہی نہیں سکتے.پھر کہنے لگے اچھا اگر میں قرآن مجید سے سینکڑوں آیتیں اس امر کے ثبوت میں دکھا دوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام
خطبات مسرور جلد 13 171 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015 ء آسمان پر زندہ چلے گئے ہیں تو کیا آپ مان جائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ سینکڑوں آیات کا تو ذکر کیا اگر آپ ایک ہی آیت مجھے ایسی دکھا دیں تو میں مان لوں گا.کہنے لگے الحمد للہ.میں لوگوں سے یہی بخشیں کرتا آیا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب سے منوانا تو مشکل بات نہیں یونہی لوگ شور مچا رہے ہیں.پھر کہنے لگے اچھا سینکڑوں نہ سہی میں اگر ایک سو آیتیں ہی حیات مسیح کے ثبوت میں پیش کر دوں تو کیا آپ مان لیں گے؟ آپ نے فرمایا میں نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر آپ ایک ہی آیت ایسی پیش کر دیں گے تو میں مان لوں گا.قرآن مجید کی جس طرح سو آیتوں پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کے ایک ایک لفظ پر عمل کرنا ضروری ہے.ایک یا سو آیتوں کا سوال ہی نہیں ہے.کہنے لگے اچھا.سونہ سہی پچاس آیتیں اگر میں پیش کر دوں تو کیا آپ کا وعدہ رہا کہ آپ اپنی باتیں چھوڑ دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں کہ آپ ایک ہی آیت پیش کریں میں ماننے کے لئے تیار ہوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جوں جوں اس امر پر پختگی کا اظہار کرتے جائیں انہیں شبہ ہوتا جائے کہ شاید اتنی آیتیں قرآن کریم میں نہ ہوں.آخر کہنے لگے کہ اچھا دس آیتیں اگر میں پیش کر دوں تو پھر تو آپ ضرور مان جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا میں تو اپنی پہلی بات پر ہی قائم ہوں.آپ ایک آیت ہی ایسی پیش کریں.کہنے لگے اچھا میں اب جا تا ہوں.چار پانچ دنوں تک آؤں گا اور آپ کو قرآن سے ایسی آیتیں دکھلا دوں گا.ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لاہور میں تھے اور حضرت خلیفہ اول بھی وہیں تھے اور مولوی محمد حسین بٹالوی سے اس وقت مباحثے کے لئے شرائط کا تصفیہ ہو رہا تھا.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ مباحثہ ہونا تھا اس کا تصفیہ حضرت خلیفہ اول اور مولوی محمد حسین کے درمیان ہو رہا تھا ) جس کے لئے آپس میں خط و کتابت بھی ہو رہی تھی.مباحثے کا موضوع وفات مسیح تھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ کہتے تھے کہ چونکہ قرآن مجید کی مفتر حدیث ہے اس لئے جب حدیثوں سے کوئی بات ثابت ہو جائے تو وہ قرآن مجید کی ہی بات سمجھی جائے گی اس لئے حدیثوں کی رُو سے وفات وحیات مسیح پر بحث ہونی چاہئے.اور حضرت مولوی صاحب فرماتے (یعنی خلیفہ اول) کہ قرآن مجید حدیث پر مقدم ہے اس لئے بہر صورت قرآن سے اپنے مدعا کو ثابت کرنا ہو گا.اس پر بہت دنوں تک بحث رہی اور بحث کو مختصر کرنے کے لئے اور اس لئے کہ تاکسی نہ کسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی سے مباحثہ ہو جائے حضرت خلیفہ اول اس کی بہت سی باتوں کو تسلیم کرتے چلے گئے.اور مولوی محمد حسین صاحب بہت خوش تھے کہ جو شرائط میں منوانا
خطبات مسرور جلد 13 172 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء چاہتا ہوں وہ مان رہے ہیں.اس دوران میں میاں نظام الدین صاحب وہاں پہنچے اور کہنے لگے تمام بخشیں بند کر دو.میں اب حضرت مرزا صاحب سے مل کر آیا ہوں اور وہ بالکل تو بہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.میں چونکہ آپ کا بھی دوست ہوں اور حضرت مرزا صاحب کا بھی اس لئے مجھے اس اختلاف سے بہت تکلیف ہوئی ہے.میں یہ بھی جانتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کی طبیعت میں نیکی ہے.اس لئے میں ان کے پاس گیا اور ان سے یہ وعدہ لے کر آیا ہوں کہ قرآن سے دس آیتیں حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے متعلق دکھا دی جائیں تو وہ حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہو جائیں گے.آپ مجھے ایسی دس آیتیں بتلا دیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طبیعت میں بڑا غصہ تھا.جلد باز تھے.کہنے لگے کمبخت تو نے میرا سارا کام خراب کر دیا.میں دو مہینے سے بحث کر کے ان کو حدیث کی طرف لایا تھا اب تو پھر قرآن کی طرف لے گیا ہے.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے اچھا تو دس آیتیں بھی آپ کی تائید میں نہیں.وہ کہنے لگے تو جاہل آدمی ہے تجھے کیا پتا کہ قرآن کا کیا مطلب ہے.وہ کہنے لگے اچھا تو پھر جدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں بھی ہوں.یہ کہہ کر وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی.قرآن جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ دیکھو قرآن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکس قدرا عتماد تھا اور آپ کتنے وثوق سے فرماتے تھے کہ قرآن آپ کے خلاف نہیں ہو سکتا.اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ قرآن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کوئی خاص رشتہ ہے یا اس کا جماعت احمدیہ سے کوئی خاص تعلق ہے.قرآن تو سچائی کی راہ دکھائے گا اور جو فریق سچ پر ہو گا اس کی حمایت کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چونکہ یقین تھا کہ آپ حق پر ہیں اس لئے قرآن بھی آپ کے ساتھ تھا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرا کوئی دعویٰ قرآن کے مطابق نہ ہو تو میں اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں.اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعوی کے متعلق کوئی شک تھا بلکہ یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھا کہ قرآن میری تصدیق ہی کرے گا.یہ امید ہے جس نے دنیا میں آپ کو کامیاب کر دیا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 13 صفحہ 416 تا 418 خطبہ جمعہ فرمودہ 8 را پریل 1932ء) پس ہر احمدی کو ہمیشہ پر اعتما در ہنا چاہئے کہ قرآن کریم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے.اور یہ قرآن کریم کی تائید ہی ہے جو ہر روز جماعت کی تعداد کو پاک فطرت لوگوں کے
خطبات مسرور جلد 13 173 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء سینے روشن کر کے بڑھا رہی ہے.مخالفت سے ترقی ہوتی ہے پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ مخالفت بھی ہدایت کا موجب ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ”جب مخالفت ترقی کرتی ہے تو جماعت کو بھی ترقی حاصل ہوتی ہے اور جب مخالفت بڑھتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائیدات اور نصرتیں بھی بڑھ جاتی ہیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں جب کوئی دوست یہ ذکر کرتے کہ ہمارے ہاں بڑی مخالفت ہے تو آپ فرماتے یہ تمہاری ترقی کی علامت ہے.جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں جماعت بھی بڑھتی ہے کیونکہ مخالفت کے نتیجے میں کئی ناواقف لوگوں کو بھی سلسلے سے واقفیت ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ان کے دل میں سلسلے کی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور جب وہ کتابیں پڑھتے ہیں تو صداقت ان کے دلوں کو موہ لیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی خدمت میں ایک دفعہ ایک دوست حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی بیعت کی.بیعت لینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کس نے تبلیغ کی تھی.وہ بے ساختہ کہنے لگے مجھے تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے تبلیغ کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حیرت سے فرما یا وہ کس طرح؟ وہ کہنے لگے کہ میں مولوی صاحب کا اخبار اور ان کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور میں ہمیشہ دیکھتا کہ ان میں جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت ہوتی تھی.ایک دن مجھے خیال آیا کہ میں خود بھی تو اس سلسلے کی کتابیں دیکھوں کہ ان میں کیا لکھا ہے.اور جب میں نے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو میرا سینہ کھل گیا اور میں بیعت کے لئے تیار ہو گیا.تو مخالفت کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے الہی سلسلہ کو ترقی حاصل ہوتی ہے اور کئی لوگوں کو ہدایت میسر آ جاتی ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 487) آج بھی مخالفین کی مخالفتیں لوگوں کے سینے کھولنے کا باعث بن رہی ہیں.اکثر مبلغین کی رپورٹوں میں بھی یہ ذکر ہوتا ہے اور کئی خط مجھے براہ راست بھی آتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے جماعت سے تعارف حاصل کیا.حضرت مصلح موعودؓ یہ بیان فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ احمدی ہونے کے بعد ایک ان پڑھ کو بھی کس طرح عقل دے دیتا ہے اور وہ حاضر جواب ہو جاتا ہے ، ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ لدھیانہ کے علاقے کے ایک شخص میاں نور محمد صاحب تھے.انہوں نے ادنی اقوام میں تبلیغ اسلام کا بیڑہ اٹھایا ہوا تھا.وہ خاکروبوں میں ( صفائی کرنے والوں میں جن میں سے اکثریت عیسائی بھی تھی تبلیغ کیا کرتے تھے.اور
خطبات مسرور جلد 13 174 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء سینکڑوں خاکروب ان کے مرید ہو گئے تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کے بعض مرید بعض دفعہ یہاں بھی آجایا کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ہمارے پیر کے پیر ہیں.یہاں ہمارے ایک رشتے میں چچانے محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت اور آپ کے دعوے کا تمسخر اڑانے کے لئے اپنے آپ کو چوہڑوں کا پیر مشہور کیا ہوا تھا.(اور کچھ تو نہیں کر سکے چوہڑوں کا پیر مشہور کر دیا اور ان کا دعویٰ تھا کہ میں لال بیگ ہوں ( یعنی خاکروبوں کا پیشوا ہوں ).ایک دفعہ بعض وہ لوگ جو خاکروب سے مسلمان ہو چکے تھے یہاں آئے ہوئے تھے.انہیں محقہ کی عادت تھی.(ان صاحب کی مجلس میں یعنی یہ جو اپنے آپ کو خاکروبوں کا پیر کہتے تھے ویسے مغل تھے.) ان صاحب کی مجلس میں ) جو انہوں نے حقہ دیکھا تو حقہ کی خاطر ان کے پاس جا بیٹھے.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) ہمارے (ان رشتے کے ) چچا نے ان سے مذہبی گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ تم مرزا صاحب کے پاس کیوں آئے ہو؟ تم تو دراصل میرے مرید ہو.مرزا صاحب نے تمہیں کیا دیا ہے.وہ لوگ ان پڑھ تھے جیسے خاکروب عام طور پر ہوتے ہیں.“ (اس زمانے کی بات ہے جب بیان کر رہے ہیں.وہ بھی آج سے ستر سال پہلے کی.) تو آپ فرماتے ہیں کہ آجکل تو پھر بھی خاکروب کچھ ہوشیار ہو گئے ہیں لیکن یہ آج سے چالیس سال پہلے کی بات ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی) اس وقت یہ قوم بالکل ہی جاہل تھی.لیکن جب ان سے ہمارے چچانے سوال کیا کہ مرزا صاحب نے تم کو کیا دیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اور تو کچھ نہیں جانتے لیکن اتنی بات پھر بھی سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ پہلے ہم کو چوہڑے کہتے تھے لیکن مرزا صاحب سے تعلق کی وجہ سے اب ہمیں مرزائی کہتے ہیں.گویا ہم چوہڑے تھے اب ان کے طفیل مرزا بن گئے.لیکن آپ پہلے مرزا تھے اور مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے چوہڑے بن گئے.“ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ”اب یہ باتیں ہیں تو بظاہر لطائف مگران کے اندر معرفت کا فلسفہ بھی موجود ہے.ان ان پڑھ لوگوں نے اپنی زبان سے اس مفہوم کو ادا کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے مخالفوں کو تباہ کر دیتا ہے اور ماننے والوں کو ترقی دیتا ہے.پس سچی بات یہ ہے کہ احمدی ہوتے ہی انسان کی عقل مذہبی امور میں تیز ہو جاتی ہے اور وہ علماء پر بھی بھاری ہوتا ہے.لیکن اس امر کو نظر انداز کر دو تو بھی کونسا ایسا احمدی ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ اس کے طبقہ کے لوگ دنیا میں موجود نہیں بلکہ ہر احمدی اپنی عقل اور سمجھ میں کم 66 سے کم اپنے طبقہ کے ہر عیسائی، ہندو، سکھ اور غیر احمدی سے زیادہ ہوشیار ہوگا ( یعنی مذہبی امور میں ).خطبات محمود جلد 16 صفحہ 797 - 798 - خطبہ جمعہ فرمودہ 13 دسمبر 1935ء)
خطبات مسرور جلد 13 175 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء احمدیوں کے اخلاص کے انوکھے انداز احمدیوں کے اخلاص کے انوکھے انداز اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کو پورا کرنے کی خواہش اور پھر احمدیت کی وجہ سے دشمنی کا سامنا اور احمدیت کی وجہ سے ہی دشمنی کا محبت میں بدل جانے کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ” مجھے اپنے بچپن کے زمانے میں ضلع گجرات کے لوگوں کا یہاں آنا یاد ہے ( یعنی قادیان آنا.اس وقت سیالکوٹ اور گجرات سلسلہ کے مرکز سمجھے جاتے تھے.گورداسپور بہت پیچھے تھا کیونکہ قاعدہ ہے کہ نبی کی اپنے وطن میں زیادہ قدر نہیں ہوتی.اس زمانے میں سیالکوٹ اول نمبر پر تھا اور گجرات دوسرے نمبر پر.مجھے گجرات کے بہت سے آدمیوں کی شکلیں اب تک یاد ہیں.مجھے یاد ہے کہ بہت سے اس اخلاص کی وجہ سے کہ تاوہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ علیہ السلام کے اس الہام کو پورا کرنے والے بنیں کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَج عمیق.نہ اس وجہ سے کہ انہیں مالی تنگی ہوتی ، پیدل چل کر قادیان آتے.(مالی تنگی کی وجہ سے نہیں بلکہ الہام پورا کرنے کے لئے سیالکوٹ اور گجرات سے پیدل چل کر قادیان آتے تھے.ان میں بڑے بڑے مخلص تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قرب رکھتے.یہ بھی ضلع گجرات کے لوگوں کا ہی واقعہ ہے جو حافظ روشن علی صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے اور میں بھی اس کا ذکر کر چکا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک جماعت ایک طرف سے آ رہی تھی اور دوسری دوسری طرف سے ( پیدل چل کے آ رہے تھے ).حافظ صاحب کہتے ہیں میں نے دیکھا وہ دونوں گروہ (جو ایک طرف سے آ رہا تھا، ایک دوسری طرف سے آ رہا تھا وہ دونوں گروہ) ایک دوسرے سے ملے اور رونے لگ گئے.میں نے پوچھا تم کیوں روتے ہو؟ وہ کہنے لگے ایک حصہ ہم میں سے وہ ہے جو پہلے ایمان لایا.(ان آنے والے دو گروپوں میں سے ایک حصہ وہ تھا جو پہلے ایمان لایا ) اور اس وجہ سے دوسرے حصے کی طرف سے اسے اس قدر دکھ دیا گیا.(اسی علاقے کے رہنے والے تھے ) اور اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ آخر وہ گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو گیا.پھر ہمیں ان کی کوئی خبر نہ تھی کہ کہاں چلے گئے.کچھ عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا نور ہم میں بھی پھیلایا اور ہم جو احمد یوں کو اپنے گھروں سے نکالنے والے تھے ( مخالفین تھے ) خود احمدی ہو گئے.( پہلے بیعت کرنے والوں کو نکالنے کے بعد وہ بھی جو مخالفین تھے پھر احمدی ہو گئے.کہتے ہیں اب ہم یہاں جو پہنچے تو اتفاقاً اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہمارے وہ بھائی جنہیں ہم نے اپنے گھروں سے نکالا تھا دوسری طرف آنکلے.جب ہم نے ان کو آتے دیکھا تو ہمارے دل اس درد کے جذبے سے پُر ہو گئے کہ یہ لوگ ہمیں ہدایت
خطبات مسرور جلد 13 176 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015 ء کی طرف کھینچتے تھے مگر ہم ان سے دشمنی اور عداوت کرتے تھے یہاں تک کہ ہم نے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا.آج خدا نے اپنے فضل سے ہم سب کو اکٹھا کر دیا.“ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف.انوار العلوم جلد 13 صفحہ 87،86) پس اس وجہ سے ہم جذباتی ہو کے رورہے تھے.پس یہ احمدیت کی برکات ہیں کہ بچھڑے ہوؤں کو اکٹھا کرتی ہے.شیطان جن کے بیچ میں رخنہ ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پھر ان کو ملا دیتی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اب بھی ایسے نظارے ہوں گے.مولویوں نے جو یہ غلط تاثر عامتہ المسلمین کو دیا ہوا ہے کہ حضرت مسیح ہاتھ سے پرندے بناتے تھے اور پھر ان میں جان ڈالتے تھے اور وہ عام پرندوں کی طرح اڑنے لگ جاتے تھے یہ قرآن کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے.اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ روحانی قابلیت کے لوگوں کو تربیت دے کر اس قابل بنا دیتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف روحانی پرواز کرنے لگ جائیں.بہر حال ایک ایسے نظریہ رکھنے والے مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو کر رہے تھے.تو حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ ایک مولوی سے پوچھا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ حضرت مسیح پرندے پیدا کیا کرتے تھے تو جو پرندے ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں ان میں سے کچھ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہوں گے اور کچھ مسیح کے.کیا آپ ان دونوں میں کوئی امتیازی بات بتا سکتے ہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ کون سے خدا کے پیدا کردہ ہیں اور کون سے صیح کے.اس پر وہ مولوی صاحب پنجابی میں بولے.ایہہ تے بہن مشکل اے اوہ دونوں رل مل گئے نیں.یعنی یہ کام تو اب مشکل ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ اور مسیح کے پیدا کئے ہوئے پرندے آپس میں مل جل گئے ہیں.اب ان دونوں میں امتیاز مشکل ہے.( تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 96) عیسائیوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے کا اعتراض پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ نے عیسائیوں کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو حقیقت کچھ اور ہے.آپ نے خود کبھی پہل نہیں کی تھی.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر کسی حد تک ان باتوں کا جواب بھی دینا پڑتا ہے.عیسائی ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ سلم پر حملے کیا کرتے تھے اور مسلمان چونکہ ان کے حملوں کا جواب نہیں دیا کرتے تھے.اس لئے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے بانی میں عیب ہی عیب ہیں.اگر کسی میں عیب نہیں تو وہ یسوع کی ذات ہے.وہ مسلمانوں کی شرافت
خطبات مسرور جلد 13 177 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء کے غلط معنی لیتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم گند اچھالتے ہیں اور یہ نہیں اچھالتے اس لئے معلوم ہوا کہ واقعہ میں ان کے سردار میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ دنوں کے بعد دن گزرے، ہفتوں کے بعد ہفتے ،سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں.سات آٹھ سو سال تک عیسائی متواتر ( مسلمانوں پر یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ) گندا چھالتے رہے اور مسلمان انہیں معاف کرتے رہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ اب ذرا تم بھی ہاتھ دکھا ؤ اور انہیں بتاؤ کہ ہمیں تم میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے یسوع کو مخاطب کرتے ہوئے وہ باتیں لکھنی شروع کیں جو یہودی آپ کے متعلق کہا کرتے تھے یا خود مسیحیوں کی کتابوں میں لکھی تھیں.ابھی اس قسم کی دو چار کتابیں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھی تھیں کہ ساری عیسائی دنیا میں شور مچ گیا کہ یہ طریق اچھا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا کہ ہم نے تم کو کہا تھا کہ تمہارا طریق اچھا نہیں مگر تم ہماری بات کو سمجھا نہ کرتے تھے.آخر جب خود تم پر زد پڑنے لگی تو تمہیں ہوش آ گیا اور تم کہنے لگ گئے کہ یہ طریق درست نہیں.“ (الفضل قادیان مورخہ 8 دسمبر 1938 صفحہ 7،6 جلد 26 نمبر 283) بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو سخت الفاظ استعمال کئے ہیں تو جواب میں کئے ہیں نہ کہ پہل کی ہے.پنجاب کے ایک بڑے مشہور طبیب جن کی حضرت خلیفہ اول بھی بڑی قدر کرتے تھے، ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ طبیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑی عقیدت رکھتے تھے لیکن اس عقیدت کے باوجود آپ کے دعوے کو نہیں مانتے تھے.ان کا ایک دلچسپ واقعہ ہے.حکیم صاحب کے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو وفات مسیح کا اعلان ہے اس کی وجہ کچھ اور تھی.بہر حال حضرت مصلح موعود نے شروع اس طرح کیا کہ حضرت شعیب جولوگوں سے کہتے کہ تم دوسروں کا مال نہ لوٹو.اپنے مال کو ناجائز کاموں میں صرف نہ کرو تو آپ کی باتوں سے آپ کی قوم حیران ہوتی تھی اور کہتی تھی کہ شعیب پاگل ہو گیا ہے اور دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے.(آپ فرماتے ہیں کہ ) اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لوگوں نے (نعوذ باللہ ) پاگل کہا.جب آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ دنیا کے سامنے پیش کیا تو مسلمان سمجھ ہی نہ سکے کہ جب 1300 سال سے یہ مسئلہ امت محمدیہ کے اکا بر پیش کرتے چلے آ رہے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو وہ فوت کس طرح ہو گئے.لوگوں کو اس مسئلہ کے متعلق جس قدر یقین اور وثوق تھا وہ اس واقعہ سے
خطبات مسرور جلد 13 178 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء ( حکیم صاحب کا واقعہ بیان کرتے ہیں ) اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ کتنا یقین اور وثوق تھا کہ کبھی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت عیسی وفات پاگئے ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ پنجاب کے ایک مشہور طبیب جن کی طبی عظمت کے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے طبیب بھی قائل تھے اور جن کا نام حکیم اللہ دین تھا.اور بھیرہ کے رہنے والے تھے.ایک دفعہ ان کے پاس مولوی فضل دین صاحب بھیروی جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے گہرے دوست اور نہایت مخلص احمدی تھے گئے اور انہیں (حکیم صاحب کو ) کچھ تبلیغ کی.وہ صاحب باتیں سن کر کہنے لگے.میاں تم مجھے کیا تبلیغ کرتے ہو تم بھلا جانتے ہی کیا ہوا اور مجھے تم نے کیا سمجھانا ہے.مرزا صاحب کے متعلق تو جو مجھے عقیدت ہے اس کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی تمہیں ان سے عقیدت نہیں ہوگی.مولوی فضل دین صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ دل میں احمدی ہیں.اس لئے انہوں نے کہا اس بات کو سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو حضرت مرزا صاحب سے عقیدت ہے اور میں خوش ہوں گا اگر آپ کے خیالات سلسلہ کے متعلق کچھ اور بھی سنوں.وہ کہنے لگے آجکل کے جاہل نو جوان بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے اور یونہی تبلیغ کرنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں.اب تم آ گئے ہو مجھے وفات مسیح کا مسئلہ سمجھانے حالانکہ تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ مرزا صاحب کی اس مسئلہ کو پیش کرنے میں حکمت کیا ہے؟ وہ کہنے لگے آپ ہی فرمائیے.انہوں نے کہا سنو! اصل بات یہ ہے کہ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی.تیرہ سو سال میں بھلا کوئی مسلمان کا بچہ تھا جس نے ایسی کتاب لکھی ہو.مرزا صاحب نے اس میں ایسے ایسے علوم بھر دیئے کہ کسی مسلمان کی کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.وہ اسلام کے لئے ایک دیوار تھی جس نے اسے دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچا لیا لیکن مولوی ایسے احمق اور بے وقوف نکلے کہ بجائے اس کے کہ وہ آپ کا شکریہ ادا کرتے اور زانوئے ادب تہہ کر کے آپ سے کہتے کہ آئندہ ہم آپ کے بتائے ہوئے دلائل ہی استعمال کیا کریں گے انہوں نے الٹا آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور اسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت دیکھنے کے باوجود جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیرہ سو سال میں اور کسی نے نہ کی یہ (مولوی ) آپ کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے اور اپنی علمیت جتانے لگ گئے اور سمجھنے لگے کہ ہم بڑے آدمی ہیں.اس پر مرزا صاحب کو غصہ آنا چاہئے تھا اور آیا.( یہ حکیم صاحب فرماتے ہیں.اب یہاں سے حکیم صاحب اپنی دلیل شروع کر رہے ہیں.چنانچہ انہوں نے مولویوں سے کہا کہ اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو.اگر تمہیں اپنی علمیت پر ایسا ہی گھمنڈ ہے تو دیکھ لو کہ حیات مسیح کا عقیدہ قرآن سے اتنا ثابت ہے اتنا ثابت ہے کہ اس کے خلاف حضرت مسیح کی وفات ثابت کرنا ناممکن نظر آتا ہے لیکن میں قرآن سے ہی حضرت مسیح کی وفات ثابت کر کے دکھاتا ہوں.اگر تم میں ہمت ہے تو اس کا رڈ کرو.چنانچہ
خطبات مسرور جلد 13 179 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015 ء انہوں نے مولویوں کو ان کی بیوقوفی جتانے کے لئے وفات مسیح کا مسئلہ پیش کر دیا اور قرآن سے اس کے متعلق ثبوت دینے لگ گئے.(حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ ) اب مولوی چاہے سارا زور لگا لیں، چاہے ان کی زبانیں گھس جائیں اور قلمیں ٹوٹ جائیں، سارے ہندوستان کے مولوی مل کر بھی مرزا صاحب کے دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے.مرزا صاحب نے انہیں ایسا پکڑا ہے کہ ان میں سر اٹھانے کی تاب نہیں رہی.حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ ) اب اس کا ایک ہی علاج ہے.(ویسے تو وفات مسیح کا مسئلہ کوئی نہیں.حیات مسیح قائم ہے لیکن مولویوں کو ٹھیک کرنے کا یعنی اس مسئلے ، جھگڑے کو دُور کر نے کا ایک ہی علاج ہے ) اور وہ یہ کہ سارے مولوی مل کر ایک وفد کی صورت میں حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ ہم سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگانے میں بے ادبی ہوگئی ہے.ہمیں معاف کیا جائے.پھر دیکھیں مرزا صاحب قرآن سے ہی حیات مسیح ثابت کر کے دکھاتے ہیں یا نہیں.( تفسیر کبیر جلد 7 صفحه 108،107) یہ بھی انہوں نے خوب من پسند تشریح کی ہے.اب دیکھیں کہ باوجود عقیدت ہونے کے ان میں حیات مسیح کا مسئلہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں نہیں آ سکے لیکن عقیدت رکھتے تھے.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس پر ہو کہ اس کو زمانے کے امام کو حقیقت میں ماننے کی بھی توفیق ملتی ہے.ہمیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وفات مسیح کا مسئلہ کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ تو حید کے قیام کے لئے انتہائی ضروری ہے اور حضرت مسیح موعود نے آکر اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا تھا.چنانچہ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ”حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کو ثابت کر کے توحید کامل کے رستہ میں جو روک تھی اسے دور کر دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ اس مسئلہ پر بہت زور دیتے تھے.رات دن یہی ذکر فرماتے رہتے تھے.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) مجھے یاد ہے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ حضور اس مسئلہ کو اب چھوڑ بھی دیں.تو حضور کو جلال آ گیا اور فرمایا کہ مجھے تو بعض اوقات اس کے متعلق اتنا جوش پیدا ہوتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں شاید جنون نہ ہو جائے.اس مسئلے نے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور ہم جب تک اسے پیس نہ ڈالیں گے آرام کا سانس نہیں لے سکتے.اب بھی بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیا مسئلہ ہے.مگر یہ احدیت کے رستے میں روکیں ہیں جنہیں دُور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قدر جوش تھا.اور یہی وہ جوش تھا جس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچا اور صداقت کے لئے بنیاد قائم کر دی.اور ہم میں سے ہر ایک جسے اسلام سے محبت ہے سمجھ سکتا ہے کہ یہ محض ایک چنگاری ہے اس آگ کی جو حضرت مسیح
خطبات مسرور جلد 13 180 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 مارچ 2015ء موعود علیہ السلام کے دل میں تھی.اگر کوئی محسوس کرتا ہے کہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اسلام کو پھیلانے کی تڑپ ہے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ محض ایک چنگاری ہے اس آگ کی جو حضور علیہ السلام کے دل میں تھی.پس ہماری تمام کوششیں اسی نقطہ پر گھومنی چاہئیں اور اس میں محصور ہونی چاہئیں.لیکن اگر ہم اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تو جو کام ہم کریں گے وہ گو بظا ہر تو حید ہوگا مگر دراصل وہ کسی شرک کا پیش خیمہ ہوگا.الفضل قادیان مورخہ 18 مئی 1943 ، صفحہ 3 جلد 31 نمبر 117 ) تو حید بھی ہو لیکن شرک کا پیش خیمہ بھی ہو، یہ کس طرح ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے ایک واقعہ پیش فرمایا.فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک صاحب یہاں پڑھا کرتے تھے.وہ روزانہ یہ بحث کیا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب تھے.ان کے سر پر رومی ٹوپی تھی.ایک دن ایک شخص نے اسے بلایا اور کہا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکا علم ہوا.اس شخص نے بغیر کوئی شرم محسوس کئے ہوئے کہہ دیا ہاں ضرور ہوا.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ وحدانیت تک جاتے ہیں احدیت تک نہیں ہتے.(اب یہ دو چیزیں سمجھنے والی ہیں.وحدانیت اور احدیت.کہ وحدانیت تک تو جاتے ہیں اور احدیت تک نہیں پہنچتے ) جس پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک انسان بھی ایک حد تک خالق ہے، رازق ہے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ الگ ہے اور مخلوق الگ ہے.دونوں میں کوئی اتحاد ذاتی ہرگز نہیں.“ نہ ہوسکتا ہے.( الفضل قادیان مورخہ 18 مئی 1943 ء صفحہ 3 جلد 31 نمبر 117 ) واحد اور اُحد کی لغت کے حوالے سے مختصر وضاحت کر دیتا ہوں تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو جائے.اللہ تعالیٰ واحد بھی ہے اور احد بھی ہے.وحدانیت سے مراد صفات میں واحد ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک حد تک انسان پر تو ہو سکتا ہے اور اس کی اعلیٰ ترین مثال جو کسی انسان میں آ سکتی ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.لیکن صفات میں کامل تو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے.اور احد سے مراد اللہ تعالیٰ کا اکیلا ہونا ہے اور احد کے مقابلے پر دوسری کسی چیز کا تصور بھی پیدا نہیں ہوسکتا.پس جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ حقیقی تو حید اس وقت قائم ہوگی جب احدیت کی حقیقت کو ہم سمجھیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد کو پورا کرتے ہوئے حقیقی توحید کے قائم کرنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 103 اپریل 2015 ء تا 109 پریل 2015 ءجلد 22 شمارہ 14 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 181 12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا سرور احمد خلف المسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وراحمدخلیفة خلیفته فرمودہ مورخہ 20 / مارچ 2015 ء بمطابق 20 امان 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج یہاں سورج گرہن تھا.اسی طرح بعض اور ممالک میں بھی گرہن لگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر خاص طور پر دعاؤں، استغفار، صدقہ خیرات اور نماز پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے.(صحیح البخاری کتاب الکسوف باب الصلوة في كسوف الشمس حدیث : 1044، صحیح مسلم كتاب الكسوف وصلاته باب ذكر النداء بصلاة الكسوف...حديث : 2117) کسوف و خسوف کا ایک اہم نشان اس لحاظ سے جماعت کو جہاں جہاں بھی گرہن لگنے کی خبر تھی ہدایت کی گئی تھی کہ نماز کسوف ادا کریں.ہم نے بھی یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق یہ نماز ادا کی.احادیث میں اللہ تعالیٰ کے خاص نشانوں میں سے ایک نشان سورج اور چاند گرہن کو قرار دیا گیا ہے.(صحيح البخارى كتاب الكسوف باب صلاة النساء مع الرجال في الكسوف حديث: 1053) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسیح موعود کی آمد کی نشانیوں میں سے ایک بڑی زبردست نشانی سورج اور چاند گرہن تھا جواللہ تعالیٰ کے فضل سے مشرق اور مغرب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں پورا ہوا.پس اس لحاظ سے گرہن کی نشانی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت سے ایک خاص تعلق ہے.آج کا یہ گرہن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے نشان کے طور پر تو نہیں کہا جا سکتا.جو
خطبات مسرور جلد 13 182 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء گرہن لگتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے نشان ہے مخصوص تو نہیں کیا جا سکتا.لیکن یہ گرہن اُس طرف توجہ ضرور پھیرتا ہے جو گر بہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعثت کی نشانی کے طور پر ظاہر ہوا.اور پھر آج اس دن کا گرہن اس لحاظ سے بھی اُس نشان کی طرف توجہ پھیر نے کا باعث ہے کہ آج جمعہ کا دن ہے اور جمعہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے بھی ایک خاص نسبت ہے.پھر مارچ کا مہینہ ہونے کی وجہ سے بھی توجہ ہوتی ہے کیونکہ تین دن بعد اسی مہینہ کو 23 مارچ کو یوم مسیح موعود بھی ہے.دعویٰ بھی ہوا.گویا یہ مہینہ، یہ دن اور یہ گرہن مختلف پہلوؤں سے جماعت کی تاریخ کو یاد کروانے والے ہیں.اس لئے میں نے جب نماز کسوف کے خطبے کے لئے حوالے لئے تو خیال آیا کہ جمعہ کے خطبے میں بھی گرہن کے حوالے سے ہی بات کروں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چاند سورج گرہن کی پیشگوئی (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی) کے بارے میں آپ کے اقتباسات پیش کروں یا ایک آدھ اقتباس پیش کروں.اور اسی طرح صحابہ کے چند واقعات بھی جنہوں نے اس گرہن کو دیکھ کر سلسلے میں شمولیت اختیار کی اور اپنے ایمان کو صیقل کیا.جیسا کہ میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گرہنوں کو خاص طور پر بڑی اہمیت دی ہے.اسی لئے جب ایک دفعہ آپ کی زندگی میں گرہن لگا تو اس حوالے سے بہت سی احادیث ہیں.تو پہلے ایک حدیث میں سامنے رکھتا ہوں.حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جب سورج گرہن ہوا تو میں حضرت عائشہ کے پاس آئی تو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہی ہیں.میں نے کہا لوگوں کو کیا ہوا ہے اس وقت کھڑے نماز پڑھ رہے تھے.حضرت عائشہ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور سبحان اللہ کہا.میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشان ہے؟ انہوں نے سر ہلا کر اشارے سے کہا: ہاں.اسماء کہتی ہیں کہ میں بھی کھڑی ہوگئی یہاں تک کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی.( یعنی نماز اتنی لمبی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی.) کہتی ہیں مجھے غشی طاری ہونے لگی تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کوئی بھی ایسی چیز نہیں کہ جسے میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا مگر اپنی اس جگہ پر کھڑے کھڑے اسے دیکھ لیا.یہاں تک کہ جنت اور آگ کو بھی.اور مجھے وجی کی گئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب.پھر فرمایا تم میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا.اس سے پوچھا جائے گا کہ اس شخص
خطبات مسرور جلد 13 183 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015 ء یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تجھے کیا علم ہے؟ تو مومن یا یقین رکھنے والا جو ہے، (اسماء کہتی ہیں دونوں میں سے کوئی ایک لفظ استعمال ہوا) کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں.آپ ہمارے پاس نشانات اور ہدایت لے کر آئے ہم نے آپ کو قبول کیا اور ایمان لائے اور آپ کی پیروی کی.اسے کہا جائے گا تو عمدہ نیند سو جا.ہمیں پتا ہے کہ تو یقیناً ایمان رکھنے والا تھا.اور جو شخص منافق یا شبہ رکھنے والا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارے میں کہے گا میں نہیں جانتا ، کیا ہیں.میں نے تو لوگوں کو سناوہ ایک بات کہتے تھے میں نے بھی ہاں کہہ دی.(صحیح البخاری کتاب الكسوف باب صلاة النساء مع الرجل حديث: 1053) اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.اس کا کسی کی زندگی اور موت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس میں دعا کرنی چاہئے.استغفار کرنا چاہئے.(صحیح مسلم کتاب الکسوف وصلاته باب ذكر النداء بصلاة الكسوف...حدیث: 2117) اب میں چاند سورج گرہن کی پیشگوئی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : حضرت مسیح موعود کی تائید میں نشان پرنشان ” مجھے بڑا تعجب ہے کہ باوجودیکہ نشان پر نشان ظاہر ہوتے جاتے ہیں مگر پھر بھی مولویوں کو سچائی کے قبول کرنے کی طرف توجہ نہیں.وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہر میدان میں خدا تعالیٰ ان کو شکست دیتا ہے اور وہ بہت ہی چاہتے ہیں کہ کسی قسم کی تائید الہی ان کی نسبت بھی ثابت ہومگر بجائے تائید کے دن بدن ان کا خذلان اور ان کا نامراد ہونا ثابت ہوتا جاتا ہے.( یعنی ان کی بدنصیبی اور نامرادی ثابت ہوتی ہے.مثلاً جن دنوں میں جنتریوں کے ذریعہ سے یہ مشہور ہوا تھا کہ حال کے رمضان میں سورج اور چاند دونوں کو گرہن لگے گا اور لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ یہ امام موعود کے ظہور کا نشان ہے تو اس وقت مولویوں کے دلوں میں یہ دھڑ کا شروع ہو گیا تھا کہ مہدی اور مسیح ہونے کا مدعی تو یہی ایک شخص میدان میں کھڑا ہے.ایسا نہ ہو کہ لوگ اس کی طرف جھک جائیں.تب اس نشان کے چھپانے کے لئے اوّل تو بعض نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس رمضان میں ہر گز کسوف خسوف نہیں ہوگا بلکہ اس وقت ہوگا کہ جب ان کے امام مہدی ظہور فرما ہوں گے.اور جب رمضان میں خسوف کسوف ہو چکا تو پھر یہ بہانہ پیش کیا کہ یہ کسوف خسوف حدیث کے لفظوں کے مطابق نہیں کیونکہ حدیث میں یہ ہے کہ چاند کو گرہن اول رات میں لگے گا اور سورج
خطبات مسرور جلد 13 184 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء کو گرہن درمیان کی تاریخ میں لگے گا“.فرمایا ” حالانکہ اس کسوف خسوف میں چاند کو گرہن تیرھویں رات میں لگا اور سورج کو گرہن اٹھائیس تاریخ کو لگا.اور جب ان کو سمجھایا گیا کہ حدیث میں مہینے کی پہلی تاریخ مراد نہیں اور پہلی تاریخ کے چاند کو تم نہیں کہہ سکتے اس کا نام تو ہلال ہے اور حدیث میں قمر کا لفظ ہے نہ ہلال کا لفظ.سو حدیث کے معنی یہ ہیں کہ چاند کو اس پہلی رات میں گرہن لگے گا جو اُس کے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات ہے.یعنی مہینے کی تیرھویں رات.اور سورج کو درمیان کے دن میں گرہن لگے گا یعنی اٹھائیں تاریخ جو اس کے گرہن کے دنوں میں سے درمیانی دن ہے.تب یہ نادان مولوی اس صحیح معنے کو سن کر بہت شر مندہ ہوئے اور پھر بڑی جانکا ہی سے یہ دوسرا عذر بنایا کہ حدیث کے رجال میں سے ایک راوی اچھا آدمی نہیں ہے.( یعنی جو روایت کرنے والے تھے ان میں سے ایک راوی اچھا نہیں تھا.) تب ان کو کہا گیا کہ جبکہ حدیث کی پیشگوئی پوری ہوگئی تو وہ جرح جس کی بناء شک پر ہے اس یقینی واقعہ کے مقابل پر جو حدیث کی صحت پر ایک قوی دلیل ہے کچھ چیز ہی نہیں.یعنی پیشگوئی کا پورا ہونا یہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ صادق کا کلام ہے اور اب یہ کہنا کہ وہ صادق نہیں بلکہ کا ذب ہے بدیہیات کے انکار کے حکم میں ہے اور ہمیشہ سے یہی اصول محمد ثین کا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ شک یقین کو رفع نہیں کر سکتا.پیشگوئی کا اپنے مفہوم کے مطابق ایک مدعی مہدویت کے زمانہ میں پوری ہو جانا اس بات پر یقینی گواہی ہے کہ جس کے منہ سے یہ کلمات نکلے تھے اس نے سچ بولا ہے.لیکن یہ کہنا اس کی چال چلن میں ہمیں کلام ہے.( یعنی مدعی کے ) یہ ایک شکی امر ہے اور کبھی کاذب بھی سچ بولتا ہے ( یعنی کبھی جھوٹا بھی سچ بول سکتا ہے.ماسوا اس کے یہ پیشگوئی اور طرق سے بھی ثابت ہے اور حنفیوں کے بعض اکابر نے بھی اس کو لکھا ہے تو پھر انکار شرط انصاف نہیں ہے بلکہ سراسر ہٹ دھرمی ہے.اور اس دندان شکن جواب کے بعد انہیں یہ کہنا پڑا کہ یہ حدیث تو صحیح ہے اور اس سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ عنقریب امام موعود ظاہر ہو گا مگر یہ شخص امام موعود نہیں ہے ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) بلکہ وہ اور ہو گا جو بعد اس کے عنقریب ظاہر ہو گا.مگر یہ ان کا جواب بھی بودا اور باطل ثابت ہوا کیونکہ اگر کوئی اور امام ہوتا تو جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے وہ امام صدی کے سر پر آنا چاہئے تھا مگر صدی سے بھی پندرہ برس گزر گئے اور کوئی امام ان کا ظاہر نہ ہوا.اب ان لوگوں کی طرف سے آخری جواب یہ ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں.ان کی کتابیں مت دیکھو.ان سے ملاپ مت رکھو.ان کی بات مت سنو کہ ان کی باتیں دلوں میں اثر کرتی ہیں.لیکن کس قدر عبرت کی جگہ ہے کہ آسمان بھی ان کے مخالف ہو گیا اور زمین کی حالت موجودہ بھی مخالف ہو گئی.یہ کس قدر ان کی ذلت ہے کہ ایک طرف آسمان ان کے مخالف گواہی دے رہا ہے اور ایک طرف
خطبات مسرور جلد 13 185 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء زمین صلیبی غلبہ کی وجہ سے گواہی دے رہی ہے.“ ( ضرورة الامام ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 507 تا509) اور ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ : ”ہمارے لئے کسوف خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور صد ہا آدمی اس کو دیکھ کر ہماری جماعت میں داخل ہوئے اور اس کسوف خسوف سے ہم کو خوشی پہنچی اور مخالفوں کو ذلّت.کیا وہ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ ایسے موقع پر جو ہم مہدی موعود کا دعوی کر رہے ہیں کسوف خسوف ہو جائے اور بلا د عرب میں اس کا نام ونشان نہ ہو اور پھر جبکہ خلاف مرضی ظاہر ہو گیا تو بیشک ان کے دل دکھے ہوں گے اور اس میں اپنی ذلت دیکھتے ہوں گے.“ انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 33) اس کے بعد اب میں بعض صحابہ کے واقعات بیان کرتا ہوں.حضرت غلام محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ”خاکسار کے گاؤں میں پہلے پہل ایک صاحب مولوی بدرالدین صاحب نامی تھے.ان دنوں میں فدوی کی عمر قریباً پندرہ برس کی ہوگی.بندہ مولوی بدرالدین صاحب کے گھر کے سامنے ان کے ہمراہ کھڑا تھا کہ دن میں سورج کو گرہن لگا اور مولوی صاحب نے فرمایا : سبحان اللہ ! مہدی صاحب کے علامات ظہور میں آگئے اور ان کی آمد کا وقت آ پہنچا.بعد کچھ عرصہ گزرنے کے مولوی صاحب احمدی ہو گئے.مولوی صاحب بہت ہی مخلص اور نیک فطرت اور پرا خلاص تھے.انہوں نے اپنے والدین اور بیوی کو ایک سال تک کوشش کر کے احمدی کیا.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ، جلد 6 صفحہ 305، 306 روایت حضرت غلام محمد صاحب ولد علی بخش صاحب سکنه قادر آباد ضلع امرتسر ) پھر حافظ محمد حیات صاحب آف لالیاں نے ایک مضمون لکھا تھا لالیاں میں احمدیت“.وہ لکھتے ہیں.نشان کسوف و خسوف سے دلوں میں تحریک پیدا ہوئی.کہتے ہیں: اسی طرح 1894ء میں سورج اور چاند گرہن کے نشان کے پورا ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کے دلوں میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اور قیامت قریب ہے.روایات سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں گھبراہٹ کا عالم طاری تھا کہ اب کیا ہوگا.قیامت آ پہنچی ہے.اسی زمانے میں ان نشانات کا اکثر تذکرۃ تھا.چنانچہ حافظ محد لکھو کے نے اپنی احوال الآخرۃ میں امام مہدی کے ظہور کے نشانات کا اپنے پنجابی کلام میں ذکر کیا تھا.اسی طرح لالیاں کے ایک سجادہ نشین اور صوفی شاعر میاں محمد صدیق لالی نے بھی انہی نشانات کا اپنے کلام میں ذکر کیا.( یعنی ان نشانیوں کے بارے میں اس میں لکھا تھا.) تیرھویں چن اور چاند کو اور
خطبات مسر در جلد 13 186 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء ستائیسویں سورج کو گرہن لگے گا.ستائیسویں لکھا گیا اٹھائیسویں سورج ہونا چاہئے.یہ پنجابی کے ان شعروں کا ترجمہ ہے.بہر حال کہتے ہیں ان نشانیوں کے بارے میں گھر گھر تذکرہ ہوتا تھا اور عام لوگوں میں امام وقت کی جستجو تھی.ان حالات میں مولانا تاج محمود صاحب اور دیگر چند بزرگوں نے باہمی مشورہ کیا اور ایک وفد تشکیل دیا جو قادیان جا کر مہدی علیہ السلام کو دیکھیں اور تمام نشانات جو مہدی موعود کے متعلق مختلف روایات میں ہیں ان کے پورا ہونے کا بغور جائزہ لیں اور اگر وہ نشانات پورے ہوں تو ان کی بیعت کر لی جائے.اس وفد میں جن اشخاص کا انتخاب ہوا اُن میں سر فہرست تین اشخاص تھے.شیخ امیر الدین صاحب، میاں صاحب دین صاحب اور میاں محمد یا ر صاحب.یہ وفد پیدل روانہ ہوا.زادِ راہ کے طور پر ان دونوں کے پاس اس وقت کی رائج کرنسی کے مطابق صرف ڈیڑھ روپیہ تھا.( بعض روایات میں ہے دو آدمیوں کا وفد گیا تھا.صرف میاں صاحب دین اور شیخ امیر الدین تو بہر حال یہ کہتے ہیں ان دونوں آدمیوں کے پاس صرف ڈیڑھ روپیہ تھا) اور مارچ کا مہینہ تھا.گندم پکنے کے قریب تھی.یہ لوگ پیدل ہی روزانہ دس بارہ میل کا سفر کرتے تھے.جب بھوک لگتی تھی تو وہاں زمینداروں کی جو گندم پکی ہوئی ہوتی تھی ان سے سٹے لے لئے اور سٹے بھون کے کھاتے تھے اور گزارہ کرتے تھے.اگر کوئی آبادی یا ڈیرہ قریب ہوتا تو وہاں رات بسر کرتے.بہر حال سینکڑوں کوس کی مسافت طے کرتے ہوئے ( تقریبا ڈیڑھ پونے دو سو میل کے قریب تو سفر بنتا ہوگا ) جب یہ دونوں ساتھی، (بعض روایتوں کے مطابق تینوں ساتھی ) بٹالہ کے قریب پہنچے تو وہاں پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے شاگردوں نے آلیا.ان سے قادیان کا راستہ دریافت کیا گیا.انہوں نے قادیان جانے کی وجہ پوچھی.مقصد معلوم ہونے پر ان کے شاگردوں نے قادیان جانے سے منع کیا اور کہا کہ جس شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہوا ہے وہ تو نعوذ باللہ جھوٹا ہے کیونکہ اس نے ایک نہیں سات دعوے کئے ہوئے ہیں.تم کس کس دعوے پر ایمان لاؤ گے.لہذا یہیں سے واپس چلے جاؤ.یہ سن کر شیخ امیر الدین صاحب نے جواب دیا ( پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن جواب بڑا دیا.کہنے لگے ) کہ اگر اس نے سات مختلف دعوے کئے ہیں تو بھی وہ سچا ہے.اس نے تو ابھی اور بھی دعوے کرنے ہیں.اور دلیل انہوں نے اپنے مطابق یہ دی کہ مثلاً یہاں پر تم سب سات آدمی ہو اور میں اکیلا ہوں.تم سب میرے ساتھ مقابلہ کرو اور کشتی کرو.اگر میں تم سب کو پچھاڑ دوں تو پھر میں ایک ہوا یا سات.یعنی سات پر بھاری ہو گیا اور فرمایا کہ امام الزماں نے تو ساری دنیا کے مختلف مذاہب کا مقابلہ کرنا ہے.اس لئے ان کے اور بھی دعوے ہوں
خطبات مسرور جلد 13 187 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء گے.اس پر وہ سب لا جواب ہو گئے اور کہا میاں تم اپنی راہ لولیکن راستہ پھر بھی نہیں بتایا.کہتے ہیں تھوڑی دور آگے ہم گئے.کسی سکھ کا چائے کا کھوکھا تھا.اس سکھ نے چائے وغیرہ بنادی.بسکٹ وغیرہ پیش کئے.شیخ صاحب نے بٹالوی صاحب کے شاگردوں کا واقعہ اور رویہ سکھ سے بیان کیا جس پر اس نے افسوس کا اظہار کیا.سکھ نے کہا کہ میں تمہیں راستہ بتا تا ہوں.آپ ضرور قادیان جائیں.معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے.(حضرت مسیح موعود کے بارے میں فرمایا.) پھر کہنے لگا کہ ہم مرزا صاحب کو جانتے ہیں.چنانچہ وہ سکھ دُور تک ساتھ گیا اور راستے پر چھوڑا جو سیدھا قادیان جاتا تھا.اس وقت قادیان کا کوئی پختہ راستہ نہیں تھا.جب یہ دونوں ساتھی قادیان پہنچے تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے.مجلس لگی تھی.چند غیر از جماعت علماء اور گدی نشین اس مجلس میں بیٹھے تھے جن سے حضرت اقدس مکالمہ مخاطبہ فرما رہے تھے اور ان کے سوالات کے جوابات ارشاد فرمارہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ تحریر میں بھی مصروف تھے.یہ بھی ایک نشان تھا کہ آپ ایک طرف تحریر فرمارہے تھے اور قلم چل رہا تھا جیسے کوئی غیب سے مضمون دل میں اتر رہا ہے اور دوسری طرف مجلس میں بیٹھے لوگوں سے گفتگو فرمارہے ہیں.قلم میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی تھی.ان ساتھیوں کا تعارف حضور سے کروایا گیا.شیخ صاحب نے عرض کیا کہ حضور ہم لالیاں سے آئے ہیں.حضور نے پوچھا کہ لالیاں کہاں ہے؟ (اکثر لوگ تو جانتے ہوں گے.جو نہیں جانتے ان کی اطلاع کے لئے بتادوں کہ لالیاں ربوہ سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلے پر اب ایک قصبہ بلکہ شہر بن چکا ہے.بہر حال یہ اس زمانے میں یہاں سے گئے تھے.) اس وقت مجلس میں حضرت حکیم مولا نا نور الدین صاحب بیٹھے ہوئے تھے جن کا تعلق بھیرہ سے تھا.اس لئے لالیاں کے بارے میں وہ جانتے تھے.انہوں نے عرض کیا حضور ! لالیاں کڑانہ اور لک بار کے پاس ہے.جس پر حضور نے فرمایا کہ ہاں ہاں وہ لک اور لالی.( کیونکہ لالی کا شعر سن چکے تھے.شاید اس لئے علم میں ہو.) حضرت مولا نا حکیم نورالدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہ ہمارے پڑوسی ہیں.چونکہ شیخ صاحب اور صاحب دین صاحب ان پڑھ تھے اس لئے وہ بولے ہاں حضور ہم بھی پنجابی میں کہنے لگے ) ان کے گوانڈھی ہیں.پھر سفر کے تمام حالات اور واقعات حضور کے سامنے عرض کئے.جب حضور نے بٹالوی صاحب کے شاگردوں کا واقعہ سنا تو حضور نے فرمایا.دیکھو یہ کیسا آن پڑھ شخص ہے.اس نے کیسا جواب دیا.لا جواب کر دیا.اس کو کس نے سکھایا.اس کو خدا نے سکھایا.یہ الفاظ حضور نے تین مرتبہ دہرائے.حضور نے پھر ان کو ارشاد فرمایا کہ آپ
خطبات مسرور جلد 13 188 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015 ء چند دن ہمارے پاس رہیں.تین دن تک یہ حضور کی مجلس میں رہے.حضور کے ساتھ سیر پر بھی جاتے رہے.وہ نشانیاں جولالیاں کے علماء نے بتائی تھیں ان کا جائزہ بھی لیا.اپنی آنکھوں سے ان نشانیوں کو پورا ہوتے دیکھا.آخر کا ر وا پسی سے پہلے مسجد میں حاضر ہو کے حضور کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام ( جو اپنے مہدی کو پہنچانے کی تاکید فرمائی تھی ) عرض کیا اور بیعت کی درخواست کی.اس پر حضور نے فرمایا ابھی کچھ دن اور ہمارے پاس رہیں.یہ سن کر شیخ صاحب آبدیدہ ہو گئے اور اپنے پاؤں آگے کر کے حضور کو دکھائے اور عرض کی کہ حضور اتنی لمبی مسافت سے ہمارے پاؤں سوج گئے ہیں.اتنی تکلیف ہم نے برداشت کی ہے اور ہم نے آپ کو سچا مہدی پایا ہے.نہ جانے زندگی ساتھ دے یا نہ دے.ہماری بیعت قبول فرمائیں.چنانچہ پھر وہاں مسجد مبارک میں ان کی دستی بیعت ہوئی.(ماخوذ از ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جون 1995 صفحہ 32 تا34) اسد اللہ قریشی صاحب حضرت قاضی محمد اکبر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت قاضی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حلقہ بگوش احمدیت ہونے سے قبل اہلحدیث تھے.حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی سے مراسم تھے.اپنے علاقے کے امام تھے.علاقے کے لوگوں کی دینی تعلیم اور تدریس میں مشغول تھے کہ کسوف خسوف کا نشان آسمان پر ظاہر ہوا.آپ اس امر سے پہلے ہی آگاہ تھے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ قریب ہے.کسوف خسوف کے عظیم الشان نشان کے ظاہر ہونے پر اپنے طلباء اور حلقہ احباب میں تذکرہ ہونے لگا.بشیر احمد صاحب جو اُن کے پوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بیان میاں منگا صاحب سے سنا ہے کہ ہم قاضی صاحب سے پڑھتے تھے کہ سورج اور چاند گرہن کا نشان رمضان میں ظاہر ہوا تو قاضی صاحب نے فرمایا کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا نشان تو ظاہر ہو گیا ہے ہمیں ان کی تلاش کرنی چاہئے.ان ایام میں چارکوٹ کے لوگ سودا سلف کے لئے جہلم جایا کرتے تھے.قاضی صاحب نے جہلم آنے والے احباب کے سپرد یہ کام کیا کہ حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کریں.ان سے پوچھ کر آئیں کہ سورج چاند گرہن کا یہ نشان تو ظاہر ہو گیا آپ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں.چنانچہ وہ لوگ حضرت مولوی صاحب سے ملے.حضرت مولوی صاحب نے چند کتب اور ایک خط حضرت قاضی صاحب کی طرف بھیجا.خط اور کتب کی وصولی سے قبل آپ نے رویا میں دیکھا.کسی نے آپ کو تین کتابیں پڑھنے کے لئے دی ہیں.ان میں سے پہلی کتاب پڑھنے کے لئے آپ نے کھولی تو اس کے اندر گند بھرا ہوا تھا اور
خطبات مسرور جلد 13 189 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015 ء بد بو آ رہی تھی.اس پر آپ نے وہ کتاب پھینک دی.پھر دو کتابوں کو دیکھا کہ ان سے نور کے شعلے نکل رہے ہیں.حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی بھجوائی ہوئی کتب کی وصولی پر آپ کا رؤیا اس طرح پورا ہو گیا کہ حضرت مولوی صاحب نے جو کتب آپ کو بھجوائیں ان میں ایک کتاب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی تردید کے متعلق تھی.آپ نے پہلے اسی کو پڑھنا شروع کیا.جب اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دل آزار الفاظ دیکھے تو اس کو پڑھنا ترک کر دیا اور پرے پھینک دیا اور دوسری دو کتب اور خط پڑھے تو انہیں اپنی رؤیا کے عین مطابق پایا اور آپ کو تحقیقات کی مزید تحریک ہوئی.چنانچہ آپ نے تحقیقات کے لئے تین افراد پر مشتمل وفد قادیان بھجوایا اور ان تینوں نے قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی.اور یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے جس طرح کہ روایات میں آتا ہے اور ہر جگہ ہر ایک کے ساتھ ہی ہوتا ہے کہ جب یہ وفد بٹالہ پہنچا تو مولوی محمد حسین بٹالوی نے انہیں بھی روک لیا.کچھ خاطر مدارات بھی کی اور کہا آپ لوگ خوامخواہ کئی دنوں کے پیدل سفر کی تکالیف برداشت کر کے قادیان جاتے ہیں.آپ چونکہ دور دراز علاقے کے رہنے والے ہیں اس لئے آپ کو علم نہیں.مرزا صاحب کا سارا کاروبار جھوٹا ہے.اس لئے آپ لوگ واپس چلے جائیں.چنانچہ مولوی صاحب نے انہیں نہ صرف یہ کہا بلکہ واپس شہر کے کنارے تک، باہر تک چھوڑ کر گئے.مگر ان سے رخصت ہونے کے بعد یہ تینوں پھر بجائے واپس جانے کے قادیان پہنچ گئے اور وہاں آ کر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر لی.اس کے بعد قاضی صاحب نے پہلے تحریری بیعت کی اور پھر قادیان پہنچ کر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جموں وکشمیر مرتبہ اسد اللہ قریشی صاحب صفحہ 57 تا 59) پھر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے دادا قاضی مولا بخش صاحب تحصیل نواں شہر ضلع جالندھر کے معروف اہلحدیث خطیب تھے.جب نشان کسوف و خسوف ظاہر ہوا تو انہوں نے ایک خطبے میں رمضان المبارک کی تیرہ اور اٹھائیس تاریخ کو بالترتیب چاند گرہن اور پھر سورج گرہن کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ امام مہدی کے ظہور کا نشان ہے.اب ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ امام موعود کب اور کہاں سے ظاہر ہوتا ہے؟ اس خطبے کا خاطر خواہ اثر ہوا.چنانچہ محترم قاضی صاحب کو ( یعنی قاضی مولا بخش صاحب کو جو مولانا ابوالعطاء جالندھری کے دادا تھے ) اگر چہ خود قبول کرنے کی صورت
خطبات مسرور جلد 13 190 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء پیدا نہ ہوئی مگر ان کے بڑے بیٹے یعنی مولانا ابوالعطاء صاحب کے والد حضرت میاں امام الدین صاحب کو مدعی کا علم ہوا اور کچھ مطالعہ اور غور و فکر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصدیق اور بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.(ماخوذ از ماہنامہ الفرقان اکتوبر 1967 صفحہ 43.بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ ربوہ مئی 1994 صفحہ 84) در ششمین کا اثر حضرت غلام مجتبی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ 1901ء میں در خمین میری نظر سے گزری جبکہ میں ہانگ کانگ میں ملازم تھا.چونکہ زمانہ تقاضا کر رہا تھا کہ مصلح دنیا میں ظاہر ہو کیونکہ اختلافات اس قسم کے علمائے زمانہ میں پائے جاتے تھے کہ ہر ایک عقل سلیم رکھنے والا ان اختلافات سے بیزار ہو کر مصلح کی تلاش میں تھا.در ثمین کے اشعار پڑھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگر یہ شخص سچا ہے تو ز ہے قسمت ورنہ اس شخص نے جھوٹ میں کمال ہی کر دیا ہے.(ایسی اعلیٰ کتاب ہے.) اسی دوران ازالہ اوہام میری نظر سے گزرا مگر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کس نے یہ کتابیں ہانگ کانگ میں پہنچائیں.میں نے ازالہ اوہام کو تمام کا تمام پڑھا اور پھر میں اس طریق پر امام مسجد ہانگ کانگ سے بحث و مباحثہ کرتا رہا.امام مسجد ہانگ کانگ کے پاس قصیدہ نعمت اللہ ولی اللہ کا فارسی میں تھا اس کے پڑھنے سے ہمیں بہت سی مدد ملتی کہ زمانہ تو عنقریب ہے کہ مہدی کا ظہور ہو بلکہ یہی زمانہ ہے.نیز میرے والد صاحب مرحوم فقیہی تھے جب سورج کو گرہن رمضان میں لگا اور چاند کو بھی تو میرے والد صاحب نے فرمایا کہ مہدی علیہ السلام پیدا ہو گیا ہے.(ماخوذ از جسوروایات صحابه غیرمطبوع، جلد 1 صفحه 1 روایت حضرت غلام مجتبی صاحب کند رسول پورتحصیل کھاریاں ضلع گجرات) مولا نا ابراہیم صاحب بقا پوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ دو شخص جو باپ بیٹے تھے مولوی عبد الجبار کے پاس آ کر کہنے لگے کہ وہ حدیث جس میں کسوف و خسوف کا ذکر امام مہدی کے ظہور کے لئے آیا ہے صحیح ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ حدیث تو صحیح ہے مگر مرزا صاحب کے پھندے میں نہ پھنس جانا کیونکہ وہ اس کو اپنے دعوے کی تصدیق میں پیش کرتے ہیں اور یہ حدیث امام مہدی کی پیدائش کے متعلق ہے نہ کہ دعوے کی دلیل کے لئے ہے.باپ نے کہا مولوی صاحب ! جو بات میں نے آپ سے پوچھی اس کا جواب آپ نے دے دیا ہے.باقی رہا یہ کہ وہ کس پر چسپاں ہوتی ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ میری ساری عمر مقدمہ جات میں گزری ہے مگر مجھے سرکار نے کبھی گواہ لانے کے لئے نہیں کہا تھا جبتک کہ میں پہلے دعوی نہ کرتا.یہی حال مرزا صاحب کا ہے کہ ان کا دعویٰ تو پہلے سے ہی ہے اور اب یہ کسوف و
خطبات مسرور جلد 13 191 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015 ء خسوف ان کے دعوے کی دلیل کے طور پر ہیں.اس پر مولوی صاحب خاموش ہو گئے اور دونوں باپ بیٹا اپنے گاؤں چلے گئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ ،جلد 8 صفحہ 4 روایت حضرت مولانا ابراہیم صاحب بقا پوری ) اللہ تعالیٰ نے ان کو قبولیت کی توفیق دی.اور دلیلیں بھی اللہ تعالیٰ فورا سکھاتا ہے.سید نذیر حسین شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب سورج اور چاند کو گرہن لگا تو اس وقت میں اپنے گھر تھا.میرے والد صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ یہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا نشان ہے.اس بات کا بھی مجھ پر اثر ہوا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ، جلد 10 صفحه 237 روایت حضرت سید نذیر حسین شاہ صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ ) چنانچہ قبولیت کی توفیق بھی ملی.سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں اس بات کا عام چر چا تھا کہ مسلمان برباد ہو چکے ہیں اور تیرھویں صدی کا آخر ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرت امام مہدی تشریف لائیں گے اور ان کے بعد حضرت عیسیٰ بھی تشریف لائیں گے.چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ اس مہدی اور عیسی کی آمد کا ذکر بڑی خوشی سے کیا کرتی تھیں کہ وہ زمانہ قریب آ رہا ہے اور یہ بھی ذکر کیا کرتی تھیں کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کا ہونا بھی حضرت مہدی کے 66 زمانے کے لئے مخصوص تھا اور وہ ہو چکا ہے.رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ، جلد 11 صفحہ 142 ، 143 روایت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب سکنہ سہالہ ضلع راولپنڈی) بہر حال اللہ تعالیٰ نے پھر سارے خاندان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب فرماتے تھے کہ رمضان کے مہینے میں چاند اور سورج گرہن لگنے کی پیشگوئی دار قطنی وغیرہ احادیث میں بطور علامت مہدی بیان ہوئی.مارچ 1894ء میں پہلے چاند ماہ رمضان میں گہنایا.جب اسی رمضان میں سورج کو گرہن لگنے کے دن قریب آئے تو دونوں بھائی اس ارادے سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یہ نشان دیکھیں اور کسوف کی نماز ادا کریں، ہفتے کی شام کو لاہور سے روانہ ہو کر قریبا گیارہ بجے رات بٹالہ پہنچے.اگلے دن علی الصبح گرہن لگنا تھا.(اب ان نو جوانوں کا بھی شوق دیکھیں کتنا ہے.آندھی چل رہی تھی بادل گرجتے اور بجلی چمکتی تھی.ہوا مخالف تھی اور
خطبات مسرور جلد 13 192 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015 ء مٹی آنکھوں میں پڑتی تھی.(بٹالہ سے قادیان پیدل جا رہے تھے.) قدم اچھی طرح نہیں اٹھتے تھے.اور راستہ صرف بجلی کے چمکنے سے نظر آتا تھا.ساتھ آپ کے اہل وطن دوست مولوی عبدالعلی صاحب بھی تھے.(گل تین آدمی تھے.سب نے ارادہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو راتوں رات قادیان پہنچنا ہے.(احمدیت تو قبول کر چکے تھے.نماز کسوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ادا کرنا چاہتے تھے.) چنانچہ تینوں نے راستے میں کھڑے ہو کر نہایت تضرع سے دعا کی کہ اے اللہ ! جو زمین و آسمان کا قادر مطلق خدا ہے ہم تیرے عاجز بندے ہیں.تیرے مسیح کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور ہم پیدل سفر کر رہے ہیں.سردی ہے.تو ہی ہم پر رحم فرما.ہمارے لئے راستہ آسان کر دے اور اس باد مخالف کو ( یعنی جو الٹی ہوا چل رہی تھی اس کو ) دُور کر.( کہتے ہیں کہ ) ابھی آخری لفظ دعا کا منہ میں ہی تھا کہ ہوانے رُخ بدلا اور بجائے سامنے کے پشت کی طرف سے چلنے لگی اور ممد سفر بن گئی.( یعنی پیچھے سے اتنی تیز چل رہی تھی کہ ان کا سفر آسان ہو گیا.قدم بڑے ہلکے اٹھنے لگے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہوا میں اڑے جا رہے ہیں.تھوڑی ہی دیر میں نہر پر پہنچ گئے.اس جگہ کچھ بوندا باندی شروع ہوئی.نہر کے ( پانی کے ) پاس ایک کوٹھا تھا اس میں داخل ہو گئے.ان ایام میں گورداسپور کے ضلع کے اکثر سٹرکوں پر ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی تھیں.دیا سلائی جلا کر دیکھا تو کوٹھا خالی تھا اور اس میں دو او پہلے اور ایک موٹی اینٹ پڑی تھی.ہر ایک نے ایک ایک سرہانے رکھی اور زمین پر سو گئے.کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو ستارے نکلے ہوئے تھے آسمان صاف تھا اور بادل اور آندھی کا نام ونشان نہ تھا.چنانچہ پھر روانہ ہوئے اور سحری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستر خوان پر کھائی.(رمضان کا مہینہ تھا ناں یہ ) صبح حضرت اقدس کے ساتھ کسوف کی نماز پڑھی جو کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی.قریباً تین گھنٹے یہ نماز وغیرہ جاری رہی.( نماز خطبہ وغیرہ.) کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے.ابھی خفیف سی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی (یعنی سورج کا حلقہ ساشروع ہوا تھا) کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی نے کہا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے.آپ نے اس شیشے میں سے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی یعنی ابھی ہلکا سا گرہن لگنا شروع ہوا تھا.حضور نے فرمایا کہ اس گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا ہے مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گا اور اس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہو جائے گا.حضور علیہ السلام نے کئی بار اس کا ذکر کیا.لیکن تھوڑی دیر بعد ہی سورج پہ جو سیا ہی تھی ، گرہن
خطبات مسرور جلد 13 193 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء تھا وہ بڑھنا شروع ہوا حتی کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہو گیا.تب حضور نے فرمایا کہ ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا اس کی تعبیر غم ہوتی ہے.سو شروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے تھوڑا ہلکا ساغم ہوالیکن اللہ تعالیٰ نے خوشی دکھائی.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 1 صفحه 92 تا 94 روایت حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب) گرہن کا نشان اور علماء کی پریشانی حضرت مولوی غلام رسول صاحب بیان فرماتے ہیں کہ 1894ء میں جب سورج گرہن اور چاند گرہن ہوا اس وقت میں لاہور میں مولوی حافظ عبدالمنان صاحب سے ترمذی شریف پڑھتا تھا.علماء کی پریشانی اور گھبراہٹ نے میرے دل پر اثر کیا.گو علماء لوگوں کو طفل تسلیاں دے رہے تھے مگر دل میں سخت خائف تھے کہ اس سچے نشان کی وجہ سے لوگوں کا بڑی تیزی سے حضرت اقدس کی طرف رجوع ہو گا.ان دنوں حافظ محمد صاحب لکھو کے والے پتھری کا آپریشن کروانے کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے.میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا.ان سے جب عوام نے دریافت کیا کہ یہ نشان آپ نے اپنی کتاب احوال الاخرۃ میں واضح طور پر لکھا ہے اور مدعی حضرت مرزا صاحب بھی موجود ہیں اور اس نشان کو اپنا مؤید قرار دے رہے ہیں.آپ اس بارے میں کیا مسلک اختیار فرماتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں بیمار اور سخت کمزور ہوں.صحت کی درستی کے بعد کچھ کہہ سکوں گا.البتہ اپنے لڑ کے عبدالرحمن محی الدین کو حضرت مرزا صاحب کی مخالفت سے روکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے راز عجیب ہوتے ہیں.لیکن ( بہر حال ) وہ زندہ نہ رہ سکے اور جلد ہی راہی ملک عدم ہو گئے.( یہ لکھنے والے کہتے ہیں ) ان باتوں سے گو میرا دل حضرت اقدس کی سچائی کے بارے میں مطمئن ہو چکا تھا لیکن علم حدیث کی تکمیل کی خاطر امرتسر چلا گیا اور وہاں دو تین سال رہ کر دورہ حدیث سے فراغت حاصل کر کے میں دارالامان میں حاضر ہو کر حضرت اقدس کی بیعت سے مشرف ہوا.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 10 صفحہ 178 روایت حضرت مولوی غلام رسول صاحب) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بیان فرماتے ہیں کہ 1894ء کے رمضان المبارک میں مہدی آخرالزمان کے ظہور کی مشہور علامت کسوف و خسوف پوری ہو گئی.وہ نظارہ آج تک میری آنکھوں کے سامنے ہے اور وہ الفاظ میرے کانوں میں گونجتے سنائی دیتے ہیں جو ہمارے ہیڈ ماسٹر مولوی جمال الدین صاحب نے اس علامت کے پورا ہونے پر مدرسے کے کمرے کے اندر ساری جماعت کے سامنے ( یعنی کلاس کے سامنے ) کہے تھے کہ مہدی آخر الزمان کی اب تلاش کرنی چاہئے.وہ ضرور کسی غار
خطبات مسرور جلد 13 194 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء میں پیدا ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے ظہور کی بڑی علامت آج پوری ہو چکی ہے.کہتے ہیں میں بھی جماعت میں موجود تھا.وہ کمرہ ، وہ مقام اور لڑکوں کا حلقہ اب تک میری نظروں کے سامنے ہے.وہ کرسی جس پر بیٹھے ہوئے مولانا نے یہ الفاظ کہے تھے، وہ میز جس پر ہاتھ مار کر لڑکوں کو یہ خبر سنائی تھی خدا کے حضور ضرور اس بات کی شہادت دیں گے کہ مولوی صاحب موصوف پر اتمام حجت ہو چکی.باوجود اس نشان کا اعلان کرنے کے خود قبول مہدی آخر الزماں سے محروم ہی چلے گئے.( بھائی عبد الرحمن صاحب یہ کہتے ہیں کہ ) ' مہدی آخر الزمان، میرے کان ابھی تک اس نام سے نا آشنا تھے.ان کا کسی غار میں پیدا ہونا ” ان کے ظہور کی بڑی علامت ، یہ الفاظ میرے واسطے اور بھی اچنبھا تھے.میں مڈل میں تعلیم پاتا تھا.طبیعت میں ٹوہ کی خواہش پیدا ہوئی.استاد سے بوجہ حجاب اور ادب نہ پوچھ سکا.آخر ہم جماعتوں سے (اپنے کلاس فیلوز سے ) اس معمے کا حل چاہا جنہوں نے اپنے مروجہ عقیدہ اور خیال کے مطابق سارا قصہ کہہ سنایا.میرے دل میں جو تاثرات ان قصوں کو سن کر پیدا ہوئے اور جنہوں نے میری روحانیت میں اور اضافہ کیا وہ یہ تھے.(آٹھویں کلاس کے طالبعلم کا ذہن دیکھیں کتنا زرخیز ہے.فرمایا کہ ) نمبر ایک یہ کہ تیرہ سوسال قبل ایک واقعہ کی خبر دینا جو دوست دشمن میں مشہور ہو چکی ہو اور پھر اس کا عین وقت کے مطابق پورا ہو جانا.دوسری بات یہ ذہن میں آئی کہ وہ واقعہ انسانی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ آسمان پر ہوا جہاں انسان کی پہنچ نہیں اور نہ ہی انسان کا کسی قسم کا اس میں دخل ہے.تیسری بات یہ آئی کہ مہدی آخر الزمان کی شخصیت، اس کا کفر کو مٹانا ، اسلام کو بڑھانا اور اسلامی لشکر تیار کر کے کافروں کو تلوار کے گھاٹ اتارنا اور مسلمانوں کی فتوحات کے خیالات.چوتھی بات یہ کہ دعا اور اس کی حقیقت.خدا کا بندوں کی دعاؤں کوسنا اور قبول کرنا کیونکہ اولیائے امت محمدیہ مہدی آخر الزمان کے لئے دعائیں کرتے رہے ہیں.آخر وہ قبول ہوئیں.پانچویں یہ کہ یہ باتیں اسلام کی صداقت کی واضح اور بین دلیل ہیں اور اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو خدا کو پیارا اور خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ہے.کہتے ہیں یہ پنجگانہ امور اپنی مجمل سی کیفیت کے ساتھ میرے دل پر اثر انداز ہوئے اور اس واقعہ نے میرے ایمان میں ترقی و تازگی اور روحانیت میں اضافہ کر دیا اور میں بھی مہدی آخرالزمان کو پانے کے لئے بیتاب ہونے لگا جس کے حصول کے لئے مجھے دعاؤں کی عادت ہوگئی.میں راتوں کو بھی جاگتا اور دن میں بھی بیقرار رہتا اور مہدی آخر الزمان کی تلاش کا خیال بعض اوقات ایسا غلبہ پا تا کہ باوجود
خطبات مسرور جلد 13 195 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء کم سنی کے، چھوٹی عمر کے میں دیوانہ وار ان بھیا نک کھنڈرات میں نکل جایا کرتا اور پکار پکار کر اور بعض اوقات رورو کر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اس مقدس وجود کے پانے کے لئے التجا ئیں کیا کرتا تھا.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 9 صفحہ 11 تا 13 روایت حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی) آخر اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کو قبول کیا اور قبولیت کی توفیق پائی.ابھی اور بھی واقعات ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی جن کا نام حضرت شیخ نصیر الدین صاحب ہے ؟ 1858ء میں مکند پور ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے.ایک خواب کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے.اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے لیکن سکون قلب حاصل نہ تھا.مسجدوں میں علماء سے احوال آخرت پیشگوئیوں کی مشہور کتاب سنتے تو دل گواہی دیتا کہ آنے والے کا وقت تو یہی معلوم ہوتا ہے لیکن امام مہدی کا ظہور کیوں نہیں ہو رہا.اسی طرح ایک دن ایک مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے.ایک مولوی صاحب بڑی پریشانی کے عالم میں اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر سورج اور چاند گرہن کا ذکر کر کر کے کہہ رہے تھے کہ اب تو لوگوں نے مرزا صاحب کو مان لینا ہے کیونکہ پیشگوئی کے مطابق گرہن تو لگ چکا ہے.آپ کے ( یعنی مولوی شیخ نصیر الدین صاحب کے ) کان میں یہ آواز پڑی تو پریشانی اور بڑھی کہ مولوی صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ اگر پیشگوئی پوری ہوگئی ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے.چنانچہ آپ نے بڑی آہ وزاری سے دعائیں شروع کر دیں کہ مولیٰ کریم تو ہی میری رہنمائی فرما.اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی.آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑی بلا آپ پر حملہ کرتی ہے لیکن آپ نے بندوق سے اس پر فائر کیا اور وہ دھوئیں کی طرح غائب ہو گئی.پھر آپ ایک اونچی جگہ مسجد میں نماز با جماعت میں شامل ہو گئے.یہ خواب آپ نے ایک مولوی صاحب سے بیان کی.اس نے تعبیر بتائی کہ آپ اپنے شیطان پر غلبہ حاصل کر لیں گے اور ایک صالح جماعت میں شامل ہو جائیں گے.اسی دوران آپ نے حضرت مسیح موعود کے دعوے کے بارے میں سنا اور قادیان پہنچ کر اپنے خواب کی طرح صورتحال دیکھ کر بلا چون و چرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لی.اس طرح سورج چاند گرہن کی پیشگوئی (اور مولوی کی وہ باتیں ) آپ کی رہنمائی کے لئے اہم محرک ثابت ہوئیں.(ماخوذ از تاریخ احمدیت ضلع راولپنڈی.مرتبہ خواجہ منظور صادق صاحب صفحہ 163 ، 164) اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی اور آجکل کے جو مسلمان ہیں ان کو بھی عقل دے اور بجائے زمانے کے امام کی مخالفت کرنے کے آپ کو ان کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات مسرور جلد 13 196 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 مارچ 2015ء نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.یہ عزیزم احمد یحیی باجوہ ابن مکرم نعیم احمد باجوہ صاحب جرمنی کا ہے.یہ جامعہ احمدیہ کے طالبعلم تھے.11 مارچ 2015 ء کو ایک حادثے میں 27 سال کی عمر میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ جامعہ میں پہلے داخل ہوئے پھر کچھ بیماری کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ دی اور چلے گئے.پھر دو سال بعد دوبارہ انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ میں نے داخل ہونا ہے.اس لئے زیادہ عمر کے باوجود بھی ان کو داخلہ دے دیا گیا.اب یہ رابعہ میں تھے اور بڑے ہونہار اور عاجز اور وقف کی حقیقی روح رکھنے والے طالبعلم تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا پیارا وجود تھے.اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھانے کا ان کا بڑا اچھا انداز تھا.ان کے جواکثر کلاس فیلو ہیں، نئے پرانے سب کے مجھے خط آئے ہیں ہر ایک نے ان کی تعریف کی ہے اور یہی مشترک چیز ہے کہ انتہائی عاجزی.کبھی کسی سے لڑائی نہیں کرنی.لڑرہے ہوں تو ان کو سمجھانا، اصلاح کی کوشش کرنا بلکہ جامعہ کے ایک سٹاف ممبر ( جو دوسرے کارکن تھے.ٹیچنگ سٹاف نہیں.اساتذہ میں سے نہیں بلکہ عام جو عملہ تھا اس میں سے ایک صاحب) کو سگریٹ نوشی کی عادت تھی.ایسے انداز سے انہوں نے ان سے بات کی کہ ان کی کوشش سے انہوں نے سگریٹ نوشی ترک کر دی.اور یہ ہر لحاظ سے بڑے پیار سے سمجھانے والے تھے.اور ہر ایک سے ان کا ایک پیار اور محبت کا تعلق تھا.بڑی دوستی کا تعلق تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا ابھی میں انشاء اللہ ان کا نماز جنازہ پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 10 اپریل 2015 ء تا 16 اپریل 2015 ، جلد 22 شماره 15 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 197 13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27 / مارچ 2015 ء بمطابق 27 امان 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی آمد کے مقصد کی جن پانچ شاخوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے ایک شاخ اشتہارات کی اشاعت بھی ہے.یعنی تبلیغ اور اتمام حجت کے لئے اشتہارات کی اشاعت.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں.”آج میں نے اتمام حجت کے لئے یہ ارادہ کیا ہے کہ مخالفین اور منکرین کی دعوت میں چالیس اشتہار شائع کروں تا قیامت کو میری طرف سے حضرت احدیت میں یہ حجت ہو کہ میں جس امر کے لئے بھیجا اربعین نمبر 1 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 343) گیا تھا اس کو میں نے پورا کیا.“ اشتہارات مذہبی دنیا کا ایک خزانہ اور پھر یہ چند اشتہار نہیں یا ایک مرتبہ نہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو اپنے دعویٰ سے پہلے سے لے کر وصال تک بیشمار اشتہارات آپ نے شائع فرمائے.یہ سب مذہبی دنیا کا ایک خزانہ ہیں.آپ کی ایک تڑپ تھی کہ مسلمانوں کو بھی ، عیسائیوں کو بھی اور دوسرے مذہب والوں کو بھی تباہ ہونے سے بچائیں.آپ اکیلے یہ کام کرتے تھے اور اس کے لئے سخت محنت کرتے ہیں.بڑی بڑی تصنیفات تو آپ کی ہیں ہی.آپ کی ہمدردی خلق کی تڑپ چھوٹے اشتہارات کے ذریعہ سے بھی دنیا کی اصلاح کا درد ظاہر کرتی ہے.دنیا کی اصلاح کے اس درد کو قائم رکھنا اور آگے چلانا یہ آپ کی جماعت کے افراد کا بھی فرض ہے.اس لئے اس طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے.
خطبات مسرور جلد 13 198 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015ء اشتہار تبلیغ کا ایک اہم ذریعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد اور اس کے لئے غیر معمولی محنت کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : " حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے.باوجود بیماری کے آپ رات دن لگے رہتے تھے اور اشتہار پر اشتہار دیتے رہتے تھے.لوگ آپ کے کام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے.ایک اشتہار دیتے تھے اس کا اثر دُور نہیں ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے مخالفت میں جو جوش پیدا ہوتا تھا وہ ابھی کم نہ ہوتا تھا کہ دوسرا اشتہار آپ شائع کر دیتے تھے.حتی کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ ایسے موقع پر کوئی اشتہار دینا طبائع پر برا اثر ڈالے گا مگر آپ اس کی پروانہ کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ لوہا گرم ہی کوٹا جاسکتا ہے.اور ذرا جوش ٹھنڈا ہونے لگتا تو فوراً دوسرا اشتہار شائع فرما دیتے تھے اس کی وجہ سے پھر مخالفت کا شور بپا ہوجا تا.آپ نے رات دن اسی طرح کام کیا اور یہی ذریعہ کامیابی کا ہے.اگر یہ ذریعہ ہم اختیار کریں تو کامیاب ہو سکتے ہیں.اس بات کا خیال نہ کرنا چاہئے کہ مخالفت کم ہونے دی جائے.“ (روز نامه الفضل قادیان مؤرخہ 9 نومبر 1943 ، صفحہ 2 جلد 31 نمبر 263) مخالفت ہوتی رہے تو ساتھ ساتھ اشتہار بھی آتے رہیں تب ہی اثر بھی ہوتا ہے.پھر حضرت مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا ہی ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام کے زمانے میں تبلیغ اشتہارات کے ذریعے ہوتی تھی.وہ اشتہارات دو چار صفحات پر مشتمل ہوتے تھے اور ان سے ملک میں تہلکہ مچا دیا جاتا تھا.ان کی کثرت سے اشاعت کی جاتی تھی.اس زمانہ کے لحاظ سے کثرت کے معنی ایک دو ہزار کی تعداد کے ہوتے تھے.بعض اوقات دس دس ہزار کی تعداد میں بھی اشتہارات شائع کئے جاتے تھے لیکن اب ہماری جماعت بیسیوں گنے زیادہ ہے.اب اشتہاری پروپیگنڈا یہ ہوگا کہ اشتہارات پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھ لاکھ کی تعداد میں شائع ہوں.پھر دیکھو کہ یہ اشتہارات کس طرح لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں.اگر اشتہارات پہلے سال میں بارہ دفعہ شائع ہوتے تھے اور اب خواہ سال میں تین دفعہ کر دیا جائے اور صفحات دو چار پر لے آئیں لیکن وہ لاکھ لاکھ دو دولاکھ کی تعداد میں شائع ہوں تو پتا لگ جائے گا کہ انہوں نے کس طرح حرکت پیدا کی ہے.“ ( خطبات محمود جلد 33 صفحہ 6-5 الفضل 11 جنوری 1952ء) تین چار سال پہلے میں نے جماعتوں کو کہا تھا کہ ورقہ دو ورقہ بنا کر تبلیغ کا کام کریں اور اس کا
خطبات مسرور جلد 13 199 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015ء ٹارگٹ بھی دیا تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں ہونا چاہئے جس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بھی دنیا کو پتا لگے.دنیا کو یہ پیغام ملے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے.دنیا کو پیغام ملے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر پھر سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ فرمائی ہے اور حقیقی تعلیم کو جاری فرمایا ہے.یہ دنیا کو پتا لگے کہ اب بھی خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو شیطان سے بچانے کے لئے اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے.بہر حال جن جماعتوں نے اس سلسلے میں کام کیا وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مثبت نتائج نکلے ہیں.سپین میں جامعہ کے طلباء کو میں نے بھیجا تھا انہوں نے وہاں بڑا کام کیا اور تقریباً تین لاکھ کے قریب مختلف پمفلٹ تقسیم کئے.اسی طرح اب جامعہ کینیڈا کے طلباء نے سپینش ممالک میں اور میکسیکو میں جا کر یہ اشتہارات تقسیم کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے تبلیغ کے میدان بھی بڑے وسیع ہوئے ہیں اور بیعتیں بھی ہوئی ہیں.پس اس کے لئے ایک کے بعد دوسرا دو ورقہ شائع ہوتے رہنا چاہئے اور اس کو تقسیم کرتے چلے جانا چاہئے بجائے اس کے کہ بڑی بڑی کتا بیں تقسیم کی جائیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اشتہارات کی اشاعت کے بارے میں ہی کہ کس طرح ہونی چاہئے ، اظہار خیال فرماتے ہوئے ایک جگہ ضمنا یہ بھی فرمایا کہ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ خود ہی اشتہار شائع کریں.اُس زمانے میں بھی چاہتے تھے.اب بھی گو اس تعداد میں تو نہیں کر سکتے لیکن بہر حال اپنے طور پر کچھ نہ کچھ لوگ چاہتے ہیں.اس بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ : چاہئے یہ کہ جو اشتہارات مرکز سے شائع کئے جائیں انہیں تقسیم کیا جائے اور ان کی اشاعت بڑھائی جائے.خود اشتہارات شائع کرنے میں بعض اوقات خود پسندی بھی آ جاتی ہے کہ میرا نام بھی نکلے اور یہ ایسا سخت مرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے متعلق ایک قصہ بیان فرما یا کرتے تھے ( یعنی خود پسندی یا اپنا اظہار کرنے کا ، اپنی پروجیکشن (projection) کا بعض لوگوں کو شوق ہوتا ہے.اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک قصہ بیان فرماتے تھے کہ ) ایک عورت تھی اس نے انگوٹھی بنوائی مگر کسی عورت نے اس کی تعریف نہ کی.ایک دن اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی اور جب لوگ اکٹھے ہوئے تو کہنے لگی صرف یہ انگوٹھی بچی ہے اور کچھ نہیں بچا.کسی نے پوچھا یہ کب بنوائی ہے؟ کہنے لگی اگر یہ کوئی پہلے پوچھ لیتا تو میرا گھر ہی کیوں جلتا.غرض شہرت پسندی ایسا مرض ہے کہ جس کو لگ جائے اسے گھن کی طرح کھا جاتا ہے اور ایسے انسان کو پتا ہی نہیں لگتا.“ اہم اور ضروری امور، انوارالعلوم جلد 13 صفحہ 340)
خطبات مسرور جلد 13 200 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015 ء یہ صرف اشتہاروں کی بات نہیں ہے.باقی معاملات میں بھی جب خود پسندی اور شہرت کی بات دماغ میں سما جائے اور انسان اس کے لئے کوشش کرے تو پھر اس کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا بلکہ نقصانات زیادہ ہوتے ہیں.اب تو تبلیغ کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی وسعت پیدا ہو چکی ہے کہ اگر کوئی انفرادی طور پر پمفلٹ شائع کرے تو وہ بہت معمولی ہو گا لیکن بہر حال اپنے حلقے میں ہی خود پسندی کا تھوڑا بہت اظہار ہو جاتا ہے لیکن اگر نیک نیتی سے ہو، یہ بھی نہیں کہ ہر کوئی صرف خود پسندی کی خاطر کر رہا ہوتا ہے بعض نیک نیت بھی ہوتے ہیں تو جہاں خود شائع کر رہے ہوں اگر ان کے خیال میں وہ اچھی چیز ہے تو پھر اسے وسعت بھی دینی چاہئے ، پھیلانا چاہئے.اس لئے اگر کوئی فائدہ مند خیال کسی کے دل میں آتا ہے جس سے اشتہار بہتر طور پر بن سکے اور جاذب نظر بھی ہو.لوگوں کی توجہ کھینچنے والا بھی ہو، مضمون بھی اس میں اچھا ہو تو وہ جماعتی نظام کو پھر دے دینا چاہئے.اگر اس قابل ہو تو پھر جماعتی نظام اس کو شائع کرتا ہے.اب حضرت مصلح موعود کے حوالے سے بعض متفرق قسم کی باتیں جو صحابہ کے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہیں وہ پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود کا چہرہ / تصویر دیکھ کر ہی کہنا کہ یہ جھوٹوں کا چہرہ نہیں ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ”جب شہدائے افغانستان پر پتھر پڑتے تھے تو وہ گھبراتے نہیں تھے بلکہ استقامت اور دلیری کے ساتھ ان کو قبول کرتے تھے اور جب بہت زیادہ ان پر پتھر پڑے تو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید، نعمت اللہ خان (صاحب) اور دوسرے شہداء نے یہی کہا کہ یا الہی ! ان لوگوں پر رحم کر اور انہیں ہدایت دے.بات یہ ہے کہ جب عشق کا جذبہ انسان کے اندر ہو تو اس کا رنگ ہی بدل جاتا ہے، اس کی بات میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے چہرے کی نورانی شعاعیں لوگوں کو کھینچ لیتی ہیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ” مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں یہاں ( یعنی قادیان میں ) ہزاروں لوگ آئے اور انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تو یہی کہا کہ یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہوسکتا.انہوں نے ایک لفظ بھی آپ کے منہ سے نہ سنا اور ایمان لے آئے.“ ( اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف،انوار العلوم جلد 13 صفحہ 96) یہ مثالیں تو آجکل بھی ہمیں نظر آتی ہیں.مجھے کئی خطوط آتے ہیں جن میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو دیکھ کر ہی یہ کہا کہ یہ منہ جھوٹے کا نہیں ہوسکتا اور بیعت کر لی.
خطبات مسرور جلد 13 201 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015ء پھر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ تین قسم کے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہیں.فرماتے ہیں کہ ”میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بار ہا سنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں.ایک تو وہ ہیں جو میرے دعوے کو سمجھ کر اور سوچ کر احمدی ہوئے ہیں.(اس زمانے میں اسلام کی حالت کافی خراب تھی اور مسلمانوں کا شیرازہ بالکل بکھرا ہوا تھا اس لئے مختلف قسم کی طبائع پیدا ہو چکی تھیں اور ان مختلف طبائع نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو سنا اور جماعت کو بنتا دیکھا تو قبول کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان لوگوں کی حالتوں کا ذکر فرما رہے ہیں کہ یہ تین قسم کے لوگ ہیں.یعنی پہلی قسم تو وہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو میرے دعوے کو سمجھ کر اور سوچ کر احمدی ہوئے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ میری بعثت کی کیا غرض ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جس رنگ میں پہلے انبیاء کی جماعتوں نے قربانیاں کی ہیں اسی رنگ میں ہمیں بھی قربانیاں کرنی چاہئیں.مگر ایک اور جماعت ایسی ہے جو صرف حضرت مولوی نورالدین صاحب کی وجہ سے ہمارے سلسلے میں داخل ہوئی ہے.( ان کو بعثت کی غرض نہیں پتا لیکن وہ صرف اس لئے داخل ہوئے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.فرماتے ہیں کہ ) وہ ان کے استاد تھے.انہیں معزز اور عقلمند سمجھتے تھے.انہوں نے کہا کہ جب مولوی صاحب احمدی ہو گئے ہیں تو آؤ ہم بھی احمدی ہو جائیں.پس ان کا تعلق ہمارے سلسلہ سے مولوی صاحب کی وجہ سے ہے.سلسلے کی غرض اور میری بعثت کی حکمت اور غایت کو انہوں نے نہیں سمجھا.وو وو اس کے علاوہ ایک تیسری جماعت بعض نوجوانوں کی ہے جن کے دل میں گو مسلمانوں کا درد تھا مگر قومی طور پر نہ کہ مذہبی طور پر وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا کوئی جتھا ہو“.(یعنی مذہبی طور پر کوئی درد نہیں تھا لیکن مسلمانوں کی حالت دیکھ کر چاہتے تھے کہ کوئی جتھا ہو، ایک اکٹھ ہو.تو ایسے لوگ بھی جماعت میں شامل ہوئے اور پھر بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ مذہب پر زیادہ زور ہے تو ان میں سے بہت سارے پھر مختلف وقتوں میں علیحدہ بھی ہو گئے.خلافت ثانیہ میں ان میں سے بہت سے علیحدہ ہوئے.آجکل بھی جو مسلمانوں میں، نوجوانوں میں جوش ہے جو غلط طور پر جا کر بعض دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ قومی طور پر ہمارا ایک جتھا ہونا چاہئے یا ایک ایسا گروہ ہونا چاہئے جس سے مسلمانوں کی قومیت کا احساس پیدا ہو اور مذہبی طور پر وہ کچھ بھی نہیں جانتے.اور بعض
خطبات مسرور جلد 13 202 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015ء رپورٹس جو وہاں سے، عراق اور سیریا سے آتی ہیں ان میں یہی ہے کہ بہت سارے کام ان کے ایسے ہیں جب ان سے پوچھو کہ یہ قرآن اور حدیث کے مطابق نہیں ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ہمیں اس کا نہیں پتا.ہمیں تو جو کچھ بتایا گیا ہے اور یہ جو ہماری ایک انفرادیت قائم ہو رہی ہے اس کو ہم نے اسلام کے نام پر قائم کرنا ہے تو اس طرح کے لوگ بھی ہوتے ہیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قومی طور پر وہ چاہتے ہیں کہ ہم اکٹھے ہوں.ان میں کچھ تنظیم ہو، ان میں انجمنیں قائم ہوں اور مدر سے جاری ہوں.( بعض قومی طور پر یہ نیک کام کرنا چاہتے ہیں.مگر چونکہ عام مسلمانوں کا کوئی جتھا بنانا ان کے لئے ناممکن تھا اس لئے جب انہوں نے ہماری طرف ایک جتھا دیکھا تو وہ ہم میں آئے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ مدر سے قائم کریں اور لوگ ڈگریاں حاصل کریں.اسی وجہ سے وہ ہمارے سلسلے کو ایک انجمن سمجھتے ہیں، مذہب نہیں سمجھتے.تو دنیا میں ترقیات کے جو ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اور ہیں اور دین میں جو ترقی کے ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اور ہیں.انجمنیں اور طرح ترقی کرتی ہیں اور دین اور طرح.دین کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اخلاق کی درستگی کی جائے ، ( دین کی ترقی کے لئے ضروری چیز ہے کہ اخلاق درست ہوں.اعلیٰ اخلاق ہوں.” قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کیا جائے.نمازیں پڑھی جائیں تاکہ روحانیت میں ترقی ہو.روزے رکھے جائیں، اللہ تعالیٰ پر توکل پیدا کیا جائے ، اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا جائے.اگر ہم یہ تمام باتیں کریں تو گودنیا کی نگاہوں میں ہم پاگل قرار پائیں گے مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہم سے زیادہ عقلمند اور کوئی نہیں ہوگا.قرآن کریم میں آتا ہے کہ مسلمان جب مالی قربانیاں کرتے تو منافق کہا کرتے کہ یہ مسلمان تو احمق ہیں.بس روپیہ برباد کئے چلے جار ہے ہیں.انہیں کچھ ہوش نہیں کہ اپنے روپیہ کو کسی اچھے کام پر لگا ئیں.اسی طرح جب وہ اوقات کی قربانی کرتے تو پھر وہ کہتے کہ یہ تو پاگل ہیں.اپنا وقت برباد کر رہے ہیں.انہوں نے ترقی خاک کرنی ہے.گویا مسلمانوں کو یا وہ احمق قرار دیتے یا ان کا نام مجنون رکھتے.یہی دو نام انہوں نے مسلمانوں کے رکھے ہوئے تھے.مگر دیکھو پھر وہی احمق اور مجنوں دنیا کے عقلمندوں کے استاد قرار پائے.پس ہماری جماعت جب تک وہی احمقانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق احمقانہ قرار دیتے تھے اور ہماری جماعت جب تک وہی مجنونانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق مجنونانہ رویہ قرار دیتے تھے اس وقت تک اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر جھوٹ بھی بول لیا کرو، اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر دھوکہ فریب کر بھی
خطبات مسرور جلد 13 203 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015ء لیا کرو، اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر چالبازی سے بھی کام لے لیا کرو، اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر غیبت اور چغلی سے بھی کبھی کبھی فائدہ اٹھا لیا کرو اور پھر یہ امید رکھو کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو جائے تو یا درکھو تمہیں ہرگز وہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام سے فرمایا ہے.یہ چیزیں دنیا کی انجمنوں میں بیشک کام آیا کرتی ہیں.“ ( دھو کہ بھی ، فریب بھی ، غیبت بھی، چغلی بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا بھی ) ”مگر دین میں ان کی وجہ سے برکت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی لعنت اترا کرتی ہے.“ خطبات محمود جلد 19 صفحہ 688-686_الفضل 27 ستمبر 1938 ء صفحہ 3) اس لئے تمام اعلیٰ اخلاق، روحانیت میں ترقی، یہ چیزیں دینی جماعتوں میں ہونی چاہئیں.پس ہر احمدی کو اپنے ایمانداری کے معیاروں کو ، روحانیت کے معیاروں کو بہت بلند کرنے کی ضرورت ہے.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قیام کا پس منظر پھر ایک واقعہ آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قیام کا پس منظر اور ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک وہ زمانہ تھا جب تعلیم الاسلام کالج کا آغاز ہوا.اس وقت یہ سوچ ہورہی تھی کہ اتنے لاکھ روپیہ میں فوری طور پر چاہئے اور اتنے لاکھ سالانہ آمد چاہئے تا کہ کالج جاری رکھا جائے اور بڑے بڑے منصوبے لاکھوں میں بن رہے تھے.تو اس وقت آپ فرماتے ہیں کہ : ” ایک وہ زمانہ تھا کہ ہمارے لئے ہائی کلاسز کو جاری کرنا بھی مشکل تھا.یہاں ( قادیان میں ) آریوں کا مڈل سکول ہوا کرتا تھا.شروع شروع میں اس میں ہمارے لڑکے جانے شروع ہوئے تو آریہ ماسٹروں نے ان کے سامنے لیکچر دینے شروع کئے کہ تم کو گوشت نہیں کھانا چاہئے.(ہندو گوشت نہیں کھاتے.) ” گوشت کھانا ظلم ہے.وہ اس قسم کے اعتراضات کرتے جو کہ اسلام پر حملہ تھے.لڑکے سکول سے آتے اور یہ اعتراضات بتلاتے.“ ( فرماتے ہیں کہ ) ”یہاں ( قادیان میں ) ایک پرائمری سکول تھا اس میں بھی اکثر آریہ مدرس ( ٹیچر ) آیا کرتے اور یہی باتیں سکھلایا کرتے تھے.پہلے دن جب میں سرکاری پرائمری سکول میں پڑھنے گیا ( یعنی حضرت مصلح موعود اپنا بیان فرمارہے ہیں کہ جب میں اس سرکاری پرائمری سکول میں پڑھنے گیا) اور دوپہر کو میرا کھانا آیا تو میں سکول سے باہر نکل کر ایک درخت کے نیچے جو پاس ہی تھا کھانا کھانے کے لئے جا بیٹھا.مجھے خوب یاد ہے کہ اس روز کلیجی پکی تھی اور وہی میرے کھانے میں بھجوائی گئی.اس وقت میاں عمر دین صاحب مرحو
خطبات مسرور جلد 13 204 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015 ء جو میاں عبداللہ صاحب حجام کے والد تھے وہ بھی اسی سکول میں پڑھا کرتے تھے لیکن وہ بڑی جماعت میں تھے اور میں پہلی جماعت میں تھا.میں کھانا کھانے بیٹھا تو وہ بھی آ پہنچے اور دیکھ کر کہنے لگے.” ہیں ماس کھاندے او ماس“.حالانکہ وہ مسلمان تھے.اس کی یہی وجہ تھی کہ آریہ ماسٹر سکھلاتے تھے کہ گوشت خوری ظلم ہے اور بہت بری چیز ہے.ماس کا لفظ میں نے پہلی دفعہ ان سے سنا تھا.اس لئے میں سمجھ نہ سکا کہ ماس سے مراد گوشت ہے.چنانچہ میں نے کہا یہ ماس تو نہیں کلیجی ہے.انہوں نے بتایا کہ ماس گوشت کو ہی کہتے ہیں.پس میں نے ماس کا لفظ پہلی دفعہ ان کی زبان سے سنا اور ایسی شکل میں سنا کہ گویا ماس خوری بری ہوتی ہے اور اس سے بچنا چاہئے.غرض آریہ مدرس اس قسم کے اعتراضات کرتے رہتے اور لڑ کے گھروں میں آ آکر بتاتے کہ وہ یہ اعتراض کرتے ہیں.آخر یہ معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جس طرح بھی ہو سکے جماعت کو قربانی کر کے ایک پرائمری سکول قائم کر دینا چاہئے.چنانچہ پرائمری سکول کھل گیا اور یہ سمجھا گیا کہ ہماری جماعت نے انتہائی مقصد حاصل کر لیا.اس عرصہ میں ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب مرحوم مغفور ہجرت کر کے قادیان آگئے.انہیں سکولوں کا بڑا شوق تھا.چنانچہ انہوں نے مالیر کوٹلہ میں بھی ایک مڈل سکول قائم کیا ہوا تھا.انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس ( سکول ) کو مڈل کر دیا جائے ( یعنی قادیان والے کو ).” میں وہاں سکول کو بند کر دوں گا اور وہ امداد یہاں دے دیا کروں گا.چنانچہ قادیان میں مڈل سکول ہو گیا.پھر بعد میں کچھ نواب محمد علی صاحب اور کچھ حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شوق کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ یہاں ہائی سکول کھولا جائے.چنانچہ پھر یہاں ہائی سکول کھول دیا گیا.لیکن یہ ہائی سکول پہلے نام کا تھا کیونکہ اکثر پڑھانے والے انٹرنس (Entrance) پاس تھے اور بعض شاید انٹرنس فیل بھی لیکن بہر حال ہائی سکول کا نام ہو گیا.زیادہ خرچ کرنے کی جماعت میں طاقت نہ تھی اور نہ ہی یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا مگر آخر وہ وقت بھی آگیا کہ گورنمنٹ نے اس بات پر خاص زورد بینا شروع کیا کہ سکول اور بورڈنگ بنائے جائیں نیز یہ کہ سکول اور بورڈنگ بنانے والوں کو امداد دی جائے گی.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت میں یہ سکول بھی بنا اور بورڈنگ بھی.پھر آہستہ آہستہ عملہ میں اصلاح شروع ہوئی اور طلباء بڑھنے لگے.پہلے ڈیڑھ سو تھے، پھر تین چار سو ہوئے ، پھر سات آٹھ سو ہو گئے اور مدتوں تک یہ تعداد رہی.اب تین چار سالوں میں آٹھ سو سے ایک دم ترقی کر کے سکول کے لڑکوں کی تعدا د سترہ سو ہو گئی ہے اور میں نے سنا ہے کہ ہزار سے اوپر لڑکیاں ہو گئی ہیں.گویا لڑکے اور لڑکیاں کی تعداد ملا کر قریباً تین ہزار بن
خطبات مسرور جلد 13 205 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015 ء جاتی ہیں.پھر مدرسہ احمدیہ بھی قائم ہوا اور کالج بھی.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے مدرسہ احمدیہ میں بھی میری گزشتہ تحریک کے ماتحت طلباء بڑھنے شروع ہو گئے ہیں اور پچیس تیس طلباء ہر سال آنے شروع ہو گئے ہیں.اگر یہ سلسلہ بڑھتا رہا تو مدرسہ احمدیہ اور کالج کے طلباء کی تعداد بھی چھ سات سو تک یا اس سے زیادہ تک پہنچ جائے گی اور اس طرح ہمیں سو مبلغ ہر سال مل جائے گا.جب تک ہم اتنے مبلغین ہر سال حاصل نہ کریں ہم دنیا میں صحیح طور پر کام نہیں کر سکتے.یعنی یہ کم از کم تھا.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں میں ہورہے ہیں.) 1944ء میں میں نے کالج کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ اب وقت آ گیا تھا کہ ہماری آئندہ نسل کی اعلیٰ تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہو.ایک زمانہ وہ تھا کہ ہماری جماعت میں بہت چھوٹے عہدوں اور بہت چھوٹی آمد نیوں والے لوگ شامل تھے.“ ( بیشک اس سے جماعت کی تاریخ کا بھی پتا لگتا ہے کہ ”بیشک کچھ لوگ کالجوں میں سے احمدی ہو کر جماعت میں شامل ہوئے لیکن وہ حادثہ کے طور پر سمجھے جاتے تھے ورنہ اعلیٰ مرتبوں والے اور اعلیٰ آمدنیوں والے لوگ ہماری جماعت میں نہیں تھے سوائے چند محدود لوگوں کے.ایک تاجر سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب مدراسی تھے لیکن ان کی تجارت ٹوٹ گئی.ان کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب ہوئے.ان کے سوا کوئی بھی بڑا تاجر ہماری جماعت میں نہیں تھا اور نہ کوئی بڑا عہدیدار ہماری جماعت میں شامل تھا یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول ایک دفعہ مجھے فرمانے لگے.دیکھو میاں! قرآن کریم اور احادیث سے پتا لگتا ہے کہ انبیاء پر ابتداء میں بڑے لوگ ایمان نہیں لائے.چنانچہ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی شامل نہیں.چنانچہ کوئی ای.اے سی ہماری جماعت میں داخل نہیں.گویا اس وقت کے لحاظ سے ای.اے سی ( یہ گورنمنٹ سروس کے جو اسسٹنٹ کمشنر ہیں ان کو شاید کہتے ہیں.) بہت بڑا آدمی ہوتا تھا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں مگر دیکھو اب کئی ای.اے.سی یہاں گلیوں میں پھرتے ہیں اور ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا.لیکن ایک وقت میں اعلیٰ طبقے کے لوگوں کا ہماری جماعت میں اس قدر فقدان تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی داخل نہیں.چنانچہ کوئی ای اے سی ہماری جماعت میں داخل نہیں.گویا اس وقت کے لحاظ سے ہماری جماعت ای.اے سی کو بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی.“ خطبات محمود جلد 27 صفحہ 150 تا 153) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں سینکڑوں سکول اور کالج جماعت کے چل رہے ہیں اور آج دنیا کے مختلف ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے ماہرین اور افسران بھی جماعت میں شامل ہیں.ملکی پارلیمنٹوں کے ممبر احمدی ہیں اور اخلاص میں بھی بڑھے ہوئے ہیں.یہ نہیں کہ صرف دنیا داری ان 66
خطبات مسرور جلد 13 206 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015ء میں آئی ہوئی ہے بلکہ افریقہ میں تو بعض ملکوں میں بعض اہم وزارتوں پر بھی احمدی فائز ہیں تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ایک فضل ہے.کس طرح اللہ تعالیٰ ترقی دے رہا ہے.ابتدائی احمدیوں پر سختیوں اور پھر بہت ابتدائی زمانے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : ” یہ وہ زمانہ تھا جبکہ احمدی جماعت پر چاروں طرف سے سختی کی جاتی تھی.”مولویوں نے فتویٰ دے دیا کہ احمدیوں کو قتل کر دینا، ان کے گھروں کولوٹ لینا، ان کی جائیدادوں کو چھین لینا، ان کی عورتوں کا پلا طلاق دوسری جگہ پر نکاح کر دینا جائز ہی نہیں موجب ثواب ہے.“ (اور یہ چیز تو آج بھی ہے لیکن اس زمانے میں تو بہت غریب لوگ تھے اور بڑی سختی کی جاتی تھی تو یہ رویہ تو مولویوں میں ہمیشہ سے رہا ہے اور آج تک قائم ہے لیکن بہر حال اس زمانے میں سختی کی شدت بھی بہت تھی کیونکہ جماعت بہت تھوڑی تھی.فرماتے ہیں کہ ”اور شریر اور بدمعاش لوگوں نے جوا پنی طمع اور حرص کے اظہار کے لئے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اس فتوے پر عمل کرنا شروع کر دیا ( کہ بغیر نکاح کے عورتوں کو جائز کر لیا.یعنی احمدیوں سے طلاق دلوا کر اپنے سے نکاح کروالیا.آپ فرماتے ہیں کہ ) احمدی گھروں سے نکالے اور ملا زمتوں سے برطرف کئے جا رہے تھے.(احمدی گھروں سے نکالے جا رہے تھے اور ملازمتوں سے برطرف کئے جا رہے تھے.ان کی جائدادوں پر جبراً قبضہ کیا جاتا تھا اور کئی لوگ ان مخمصوں سے خلاصی کی کوئی صورت نہ پا کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور چونکہ ہجرت کی جگہ ان کے لئے قادیان ہی تھی ، ان کے قادیان آنے پر مہمان داری کے اخراجات اور بھی ترقی کر گئے تھے ، (بڑھ گئے تھے.اس وقت جماعت ایک دو ہزار آدمیوں تک ترقی کر چکی تھی مگر ان میں سے ہر ایک دشمنوں کے حملوں کا شکار ہو رہا تھا.(جماعت کی تعداد ایک دو ہزار تک پہنچ گئی تھی لیکن ہر ایک دشمن کے حملوں کا شکار تھا.ایک دو ہزار آدمی جو ہر وقت اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنی جائیداد اور اپنے مال کی حفاظت کی فکر میں لگے ہوئے ہوں اور رات دن لوگوں کے ساتھ مباحثوں اور جھگڑوں میں مشغول ہوں ان کا تمام دنیا میں اشاعت اسلام کے لئے روپیہ بہم پہنچانا اور دین سیکھنے کی غرض سے قادیان آنے والوں کی مہمان داری کا بوجھ اٹھانا اور پھر اپنے مظلوم مہاجر بھائیوں کے اخراجات برداشت کرنا ایک حیرت انگیز بات ہے.( یہ تاریخ بھی ہمیں پتا ہونی چاہئے.کوئی معمولی بات نہیں ہے.) سینکڑوں آدمی دونوں وقت جماعت کے دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے اور بعض غرباء کی دوسری ضروریات کا بھی انتظام کرنا پڑتا تھا.ہجرت کر کے آنے والوں کی کثرت اور مہمانوں کی زیادتی سے مہمان خانے کے علاوہ ہر ایک گھر
خطبات مسرور جلد 13 207 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015ء ( قادیان میں ) مہمان خانہ بنا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی ہر ایک کوٹھڑی ایک مستقل مکان تھا.“ (یعنی ہر کمرہ جو تھا اس میں خاندان آباد تھے.یعنی ایک ایک کمرہ جو تھا ایک ایک خاندان کو ملا ہوا تھا اور مکان بن گیا تھا جس میں کوئی نہ کوئی مہمان یا مہاجر خاندان رہتا تھا.غرض بوجھ انسانی طاقتِ برداشت سے بہت بڑھا ہوا تھا.ہر صبح جو چڑھتی اپنے ساتھ تازہ تازہ ابتلاء اور تازہ ذمہ داریاں لاتی اور ہر شام جو پڑتی اپنے ساتھ ساتھ تازہ ابتلاء اور تازہ ذمہ داریاں لاتی مگر اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَةً کی نیم سب فکروں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر پھینک دیتی اور وہ بادل جو ابتداء سلسلہ کی عمارت کی بنیادوں کو اکھاڑ کر پھینک دینے کی دھمکی دیتے تھے تھوڑی ہی دیر میں رحمت اور فضل کے بادل ہو جاتے اور ان کی ایک ایک بوند کے گرتے وقت اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدہ کی ہمت افزا آواز پیدا ہوتی.“ 66 ( دعوۃ الامیر، انوار العلوم جلد 7 صفحہ 566-565) یعنی اتنی سختی تھی لیکن پھر بھی یہ یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے اور انشاء اللہ حالات بدلیں گے.آج بھی گو پاکستان میں خاص طور پر اور بعض دوسرے ممالک میں مسلمانوں میں کچھ شدت ہے.پاکستان میں تو زیادہ ہے، باقی ممالک میں کچھ حد تک احمدیوں کے حالات تنگ ہیں لیکن اس کے باوجود کسمپرسی کی وہ حالت نہیں ہے.مالی لحاظ سے بھی بہتر ہیں اور باقی انتظامات بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بہت بہتر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کر رہے ہیں.دنیا کے کونے کونے میں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پہنچ چکی ہے.ہجرت کر کے صرف ایک جگہ نہیں اکٹھے ہوتے بلکہ احمدی دنیا میں نکل چکے ہیں.اگر تنگی ہے تو باہر نکل گئے ہیں اور باہر اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزید کشائش پیدا ہو رہی ہے اور اگر بعض مشکلات ہوتی بھی ہیں تو الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کی آواز آج بھی ہمارا سہارا بنتی ہے.دنیا کے کونے کونے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر قائم ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ، اگر ہم اس کے ساتھ چھٹے رہیں تو نہ کبھی ہمیں چھوڑا ہے، نہ کبھی چھوڑے گا.انشاء اللہ.قربانیاں بیشک دینی پڑتی ہیں اور احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیتے ہیں لیکن ہر قربانی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو لئے ہوئے ایک نیا رستہ ہمیں دکھاتی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے دینے میں کبھی کمی نہیں کرتا.حفاظت الہی کا معجزہ پھر حضرت مصلح موعودؓ حفاظت الہی کے معجزہ کے بارے میں ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ: ایک مثال حفاظت الہی کی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں سے پیش کرتا
خطبات مسرور جلد 13 208 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015 ء ہوں.کنورسین صاحب جو لاء کالج لاہور کے پرنسپل ہیں ان کے والد صاحب سے حضرت صاحب کو بڑا تعلق تھا حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی روپیہ کی ضرورت ہوتی تو بعض دفعہ ان سے قرض بھی لے لیا کرتے تھے.( یہ کنورسین صاحب ہندو تھے.ان کو بھی حضرت صاحب سے بڑا اخلاص تھا.جہلم کے مقدمے میں انہوں نے اپنے بیٹے کو تار دی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے وکالت کریں.اس اخلاص کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایام جوانی میں جب وہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع چند اور دوستوں کے سیالکوٹ میں اکٹھے رہتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی نشانات دیکھے تھے.چنانچہ ان نشانات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک رات آپ دوستوں سمیت سورہے تھے کہ آپ کی (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ) آنکھ کھلی.اور دل میں ڈالا گیا کہ مکان خطرے میں ہے.آپ نے ان سب دوستوں کو جگایا اور کہا کہ مکان خطرے میں ہے اس میں سے نکل چلنا چاہئے.سب دوستوں نے نیند کی وجہ سے پرواہ نہ کی اور یہ کہہ کر سو گئے کہ آپ کو وہم ہو گیا ہے.مگر آپ کا احساس برابر ترقی کرتا چلا گیا.آخر آپ نے پھر ان کو جگایا اور توجہ دلائی کہ چھت میں سے چڑ چڑا ہٹ کی آواز آتی ہے.مکان خالی کر دینا چاہئے.انہوں نے کہا معمولی بات ہے ایسی آواز بعض جگہ لکڑی میں کیڑا لگنے سے آیا ہی کرتی ہیں.آپ ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اصرار کیا کہ اچھا آپ لوگ میری بات مان کر ہی نکل چلیں.آخر مجبور ہوکر لوگ نکلنے پر رضامند ہوئے.حضرت صاحب کو چونکہ یقین تھا کہ خدا میری حفاظت کے لئے مکان (کے ) گرنے کو روکے ہوئے ہے.میری حفاظت کی وجہ سے مکان کے گرنے کو روکے ہوئے ہے اس لئے آپ نے انہیں کہا کہ پہلے آپ نکلو پیچھے میں نکلوں گا.جب وہ نکل گئے اور بعد میں حضرت صاحب نکلے تو آپ نے ابھی ایک ہی قدم سیڑھی پر رکھا تھا کہ چھت گر گئی.دیکھو آپ انجینئر نہ تھے کہ چھت کی حالت کو دیکھ کر سمجھ لیا ہو کہ گرنے کو تیار ہے.علاوہ ازیں جب تک آپ اصرار کر کے لوگوں کو اٹھاتے رہے اس وقت تک چھت اپنی جگہ پر قائم رہی اور جب تک آپ نہ نکل گئے تب تک بھی نہ گری.مگر جو نہی کہ آپ نے پاؤں اٹھا یا چھت زمین پر آگری.یہ امر ثابت کرتا ہے کہ یہ بات کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اس مکان کو حفیظ ہستی اس وقت تک رو کے رہی جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی حفاظت اس حفیظ کے مد نظر تھی اس مکان سے نہ نکل آئے.پس صفت حفیظ کا وجود ایک بالا رادہ ہستی پر شاہد ہے اور اس کا ایک زندہ گواہ ہے.“ (ماخوذ از جمستی باری تعالیٰ ، انوار العلوم جلد 6 صفحہ 325-324)
خطبات مسرور جلد 13 209 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015 ء پھر اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سلوک کا ایک اور واقعہ بیان.فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں امرتسر سے یکے پر سوار ہوکر روانہ ہوا.ایک بہت موٹا تازہ ہندو بھی میرے ساتھ ہی یگے پر سوار ہوا.وہ مجھ سے پہلے یکے کے اندر بیٹھ گیا اور اپنے آرام کی خاطر اپنی ٹانگوں کو اچھی طرح پھیلا لیا حتی کہ اگلی سیٹ جہاں میں نے بیٹھنا تھا وہ بھی بند کر دی.(اس میں بھی روک ڈال دی.چنانچہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ) میں تھوڑی سی جگہ میں ہی بیٹھ رہا.ان دنوں دھوپ بہت سخت پڑتی تھی کہ انسان کے ہوش باختہ ہو جاتے تھے.مجھے دھوپ سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ( کیا انتظام کیا کہ ایک بدلی بھیجی جو ہمارے یکے کے ساتھ ساتھ سایہ کرتی ہوئی بٹالے تک آئی.یہ نظارہ دیکھ کر وہ ہندو کہنے لگا کہ آپ تو خدا تعالیٰ کے بڑے بزرگ معلوم ہوتے ہیں.خطبات محمود جلد 17 صفحہ 535-534) پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسا سلوک کرتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے مگر عبودیت شرط ہے اور ایسے انسان کا انجام ضرور بخیر ہو گا بظاہر وہ دنیا کی ظاہر بین نظروں میں ذلیل ہوتا نظر آ رہا ہو گا لیکن انجام کار اس کو عزت حاصل ہوگی.بظاہر وہ بد نام بھی ہو رہا ہو گا لیکن انجام کار نیک نامی اسی کو حاصل ہوگی.گویا اس شخص کی ابتدا عبودیت سے اور انجام استعانت پر ختم ہوگا.یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا صحیح عابد بن کر اس کی عبادت کی جائے ، اس کی بندگی اختیار کی جائے تو اللہ تعالیٰ کی مدد پھر شامل حال رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر شر کے خلاف پھر مددفرماتا ہے.ایک عام پیر اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے کے نیک اثر ڈالنے اور نیکیاں بانٹنے اور اپنے مریدوں کی اصلاح کرنے اور انسانیت کے لئے درد میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اس کی ایک مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ” حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانہ والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے پہلے ہی وفات پاگئے تھے مگر ان کی روحانی بینائی اتنی تیز تھی کہ انہوں نے دعوی سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کولکھا کہ ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے انہوں نے ( یعنی منشی احمد جان صاحب) نے اپنی اولاد کو نصیحت کی تھی کہ میں تو اب مر رہا ہوں مگر اس بات کو اچھی طرح یا درکھنا کہ مرزا صاحب نے ضرور ایک دعوی کرنا ہے اور میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ مرزا صاحب کو قبول کر لینا.غرض اس پائے کے وہ روحانی آدمی تھے.انہوں نے اپنی جوانی میں بارہ سال تک وہ چٹکی جس میں بیل جو تا جاتا ہے اپنے پیر کی خدمت کرنے کے لئے چلائی.( پیر صاحب نے جو
خطبات مسرور جلد 13 210 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015 ء 66 بیل لگتا ہے اس کی جگہ ان کو ایک چھٹی پر لگادیا تھا تا کہ وہ چکی چلے ) اور بارہ سال تک اس کے لئے آٹا پیتے رہے.تب انہوں نے روحانیت کے سبق ان کو سکھائے.“ (یعنی بارہ سال تک جب وہ بیل کی طرح چگی پیتے رہے تب پیر صاحب نے ان کو روحانیت کے کچھ سبق دیئے.) فرماتے ہیں تو وہ لوگ جو روحانی کہلاتے تھے (اس زمانے میں جو پیر تھے، جو لوگ روحانی کہلاتے تھے ) وہ بھی لوگوں کو روحانی باتیں بتانے میں سخت بخل سے کام لیا کرتے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ صرف وہ ساری باتیں دنیا کو بتا دیں بلکہ ان سے ہزاروں گنا زیادہ اور باتیں بھی ایسی بتائیں جو پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھیں اور اس طرح علوم کو آپ نے ساری دنیا میں بکھیر دیا.مگر جیسا کہ حدیثوں میں خبر دی گئی تھی دنیا نے اس کی قدر نہ کی.“ خطبات محمود جلد 25 صفحہ 24-23) پس بظاہر روحانی لوگ اس شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتے جس کو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے مامور کیا ہو کہ دنیا کی اصلاح کرنی ہے، اس کی روحانیت میں اضافہ کرنا ہے، اسے خدا تعالیٰ کے قریب لانا ہے جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں.پھر آپ نے فرمایا کہ ”دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں.اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں.“ فرمایا: ” اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی تو حید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جواب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں.“ 66 (لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180 ) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہوں.دینی سچائیوں کو پہچان کر ان پر عمل کرنے والے ہوں.روحانیت میں ترقی کرنے والے ہوں اور توحید کی حقیقی چمک سے حصہ پانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی اس پہچان کی توفیق عطا فرمائے اور خاص طور پر مسلم امہ کو یہ توفیق دے کہ وہ مسیح اور مہدی معہود علیہ السلام کے درد کو سمجھتے ہوئے اس کی بیعت میں آنے کی توفیق پائیں.نمازوں کے بعد میں دو جنازہ غائب پڑھاؤں گا.ایک تو مکرم نعمان احمد نجم صاحب ابن مکرم چوہدری مقصود احمد صاحب ملیر رفاہ عام سوسائٹی کراچی کا ہے.مکرم نعمان احمد صاحب نجم کو کراچی میں
خطبات مسرور جلد 13 211 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015 ء مخالفین احمدیت نے مؤرخہ 21 مارچ 2015ء کو شام تقریباً پونے آٹھ بجے ان کی دکان پر آ کر فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اس روز شام پونے آٹھ بجے شہید مرحوم اپنے سٹور تھے.دو مسلح افراد نے سٹور پر آ کر فائرنگ کردی.ایک گولی سینے میں لگی اور دل کو چھوتی ہوئی آر پار ہو گئی.قریبی دکانداروں نے ان کے بھائی مکرم عثمان احمد صاحب کو فون کر کے اطلاع دی.پھر ریسکیو والوں کو بھی اطلاع دی.وہ فوری طور پر دکان پر آئے.نعمان صاحب کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جارہے تھے لیکن راستے میں ہی وہ شہید ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذان کے دادا مکرم چوہدری منظور احمد صاحب ابن مکرم چوہدری کریم الدین صاحب کے ذریعے ہوا تھا جنہوں نے خلافت ثانیہ کے دور میں بیعت کی تھی.چوہدری منظور احمد صاحب کے والدین چھوٹی عمر میں وفات پاگئے تھے.والدین کی وفات کے بعد چوہدری منظور صاحب قادیان چلے گئے جہاں بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.ابتدائی تعلیم بھی قادیان میں حاصل کی.وہیں پر محترمہ صفیہ صادقہ صاحبہ بنت مکرم مبارک علی صاحب کے ساتھ شادی ہوئی.پھر قیام پاکستان کے بعد ہر پہ ساہیوال میں آگئے.شہید مرحوم کے والد مکرم مقصود احمد صاحب ربوہ میں ہی پیدا ہوئے.پھر یہ وہاں ربوہ سے بھی شفٹ کر گئے.شہید مرحوم کے دادا نے گوجرانوالہ میں ملازمت کی وجہ سے 1968ء میں مع فیملی رہائش اختیار کرلی.1974ء میں جب گوجرانوالہ میں ہنگامے ہوئے تو احمد یہ بیت الذکر کی حفاظت کرتے ہوئے شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری منظور احمد صاحب، چچا مکرم محمود احمد صاحب اور پھوپھا مکرم سعید احمد صاحب بھی شہید ہو گئے.ان سے پہلے اس خاندان میں یہ تین شہداء تھے.ان حالات کی بناء پر یہ خاندان 1976ء میں کراچی شفٹ ہو گیا.نعمان احمد نجم صاحب 26 جنوری 1985ء کو کراچی میں پیدا ہوئے.آپ کی تعلیم ایم بی اے تھی.اس کے بعد انہوں نے 2008ء میں اپنے کمپیوٹر ہارڈ ویئر کا بزنس شروع کر دیا.مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.نہایت ایماندار، نیک دل، نیک سیرت، شریف النفس اور ملنسار تھے.نہایت مخلص اور فدائی نوجوان تھے.ملازمین کو بھی چھوٹے بھائیوں کی طرح رکھا ہوا تھا.نگر پارکر مٹھی میں جماعت کے زیر انتظام قائم شدہ کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ اور مشن ہاؤس کے لئے کچھ کمپیوٹر اور متعلقہ سامان تحفے کے طور پر پیش کیا.وہاں سسٹم خود انسٹال (install) کر کے آئے.شہید مرحوم کی خواہش تھی کہ اپنے دادا مکرم چوہدری منظور احمد صاحب شہید کے نام سے ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ بنائیں تا کہ ان کے شہید دادا کا نام ہمیشہ زندہ رہے اور اسی لئے انہوں نے مٹھی میں کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کو کچھ سامان اور کمپوٹر وغیرہ تحفہ بھی دیئے تھے.بڑی ہر دلعزیز شخصیت تھے.غیر از
خطبات مسرور جلد 13 212 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015 ء جماعت لوگ بھی کہتے تھے کہ یہ ایک فرشتہ ہے.اس وقت رفاہِ عام سوسائٹی میں بحیثیت قائد مجلس خدمت کی توفیق پارہے تھے.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے والے تھے.مخالفین کی طرف سے ان کو دھمکیاں ملتی رہتی تھیں لیکن اپنے چھوٹے بھائیوں کو ہمیشہ محتاط رہنے کی تلقین کرتے تھے.چھ ماہ قبل شہید مرحوم اپنا کاروباری سامان لے کر آ رہے تھے کہ اس وقت ان کو نامعلوم افراد نے روک کر سامان بھی لے لیا اور رقم بھی لوٹ لی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم آئے تو تم کو مارنے تھے مگر چونکہ رقم مل گئی ہے اس لئے چھوڑ رہے ہیں.شہید مرحوم کے پسماندگان میں والد مکرم چوہدری مقصود احمد صاحب، والدہ محترمہ صفیہ صادقہ صاحبہ اور دو بھائی ذیشان محمود اور عثمان احمد ہیں.اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند کرے اور ان کے لواحقین کو ، والدین کو ، بھائیوں کو حوصلہ دے.خرم احمد صاحب معلم سلسلہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ شہید بڑے نرم گو تھے.محبت کرنے والے تھے.جماعتی خدمت کا جذبہ رکھنے والے نوجوان تھے اور بڑی محنت سے انہوں نے وہاں انسٹال کیا جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے.کئی دفعہ وہاں نگر پارکر میں آتے تھے جو سندھ کا بڑا دور دراز علاقہ ہے.کئی بارجب وہاں پہنچتے تو ان کو کہا جاتا کہ آپ تھکے ہوئے ہیں آرام کر لیں، پھر کام کریں لیکن ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ہم مجاہد ہیں.ہمیں شہری دیکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ ہم نازک مزاج ہیں.اور ہمیشہ خدمت کے لئے تیار رہتے.سابق قائد علاقہ منصور صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ بارہ سال کے تھے اور اطفال میں تھے.ہمیشہ بڑے شوق اور جوش اور ولولے سے جماعتی کاموں میں، مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے.ہمیشہ پوزیشن لیتے تھے اور کہتے تھے میری پوزیشن ہمیشہ اول ہی آتی ہے.اسی کے لئے کوشش کرتے.کبھی دوم اور سوم پوزیشن پر راضی نہیں ہوتے تھے.سکول کے بعد اپنے والد صاحب کی دوکان پر ان کا ہاتھ بٹاتے لیکن ساتھ ہی جماعتی ذمہ داریوں کو بھی انجام دے رہے ہوتے اور یوں لگتا تھا کہ وہ اپنے گھر یا ذاتی کاموں کو اتنا وقت نہیں دیتے جتنا وقت وہ جماعت کو دیا کرتے تھے.اور نو جوانوں کی طرح کبھی اپنے وقت کو انہوں نے ضائع نہیں کیا.انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ بات کرنے والے تھے.ٹومی کالون صاحب کے بھی رشتے دار ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان نے کوشش کی کہ وہ پاکستان سے باہر آجائیں بڑا اصرار کیا لیکن وہ پاکستان چھوڑنے پر راضی نہیں تھے.عمران طاہر صاحب مربی سلسلہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ میرے عزیز بھی تھے.بیس سال کے عرصہ میں میں نے انہیں ایک دفعہ بھی کسی پر چلاتے نہیں دیکھا.سختی سے بات کرتے نہیں دیکھا.عاجزی ،مسکینی اور حلم کی تصویر تھے.نہایت با ادب اور محبت کرنے والے انسان تھے.کینیڈا میں ان کی ایک خالہ زاد
خطبات مسرور جلد 13 213 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 مارچ 2015ء عزیزہ ہیں وہ کہتی ہیں (جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا) کراچی کے حالات کے پیش نظر ان سے ہجرت کرنے کے لئے کہا جاتا لیکن انہوں نے ہمیشہ ہر قسم کے حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان رہنا ہی پسند کیا.اپنی والدہ کی ہر خواہش اور ضرورت کا خیال رکھنے والے تھے.مشہودحسن خالد صاحب مربی ہیں کہتے ہیں کہ ایک دن خاکسار شہید مرحوم کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ شہید مرحوم نے کہا کہ وہ کون خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو شہید ہوتے ہیں.شاید ان کی یہ تمنا ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مقام دیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.دوسرا جنازہ مکرم انجینئر فاروق احمد خان صاحب نائب امیر جماعت ضلع پشاور کا ہے.فاروق احمد خان صاحب مکرم محمود احمد خان صاحب کے بیٹے تھے.یہ شوریٰ کے بعد ربوہ سے پشاور جا رہے تھے.گاڑی کا ٹائر برسٹ (burst) ہو گیا جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا اور چکوال کے قریب گاڑی سے باہر سڑک پر آگرے جس کی وجہ سے زیادہ چوٹیں آئیں.ہائی وے پولیس نے ان کو فوری طور پر چکوال ہسپتال پہنچایا لیکن جانبر نہ ہو سکے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - فاروق صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم احمد گل صاحب کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے حضرت خلیفہ اسی الاول کے ہاتھ پر بیعت کی تھی لیکن خلافت ثانیہ میں پھر یہ غیر مبائعین میں چلے گئے.بعد میں فاروق خان صاحب نے خود 1989ء(Eighty nine) میں بیعت کی اور جماعت احمدیہ مبائعین میں شامل ہوئے.پھر اس کے بعد ان کے دو بھائیوں نے بھی بیعت کر لی.1954ء میں یہ پیدا ہوئے تھے.مائننگ انجینئر نگ کی تعلیم مکمل کی.پھر حکومت کے مائننگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے رہے.1985ء میں ایک احمدی خاندان میں ان کی شادی ہوئی اور بڑے ملنسار، نیک سیرت ، شریف النفس تھے.جماعت احمد یہ پشاور کے سیکرٹری اصلاح و ارشاد کی حیثیت سے بھی انہوں نے کام کیا.مرحوم خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے پسماندگان کو بھی اللہ تعالیٰ صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.ان کی اہلیہ دو بیٹے بھمر 25 سال اور 17 سال اور ایک بیٹی سوگوار ہیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 17 اپریل 2015 ء تا 23 اپریل 2015 ، جلد 22 شماره 16 صفحہ 05-09)
خطبات مسرور جلد 13 214 14 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 پریل 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 03 اپریل 2015ء بمطابق 03 شہادت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک روز اپنے احباب کے ساتھ باہر سیر کے لئے تشریف لے گئے.راستے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور تائیدات کا ذکر ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق کے چمکانے اور ہمارے اس سلسلہ کی تائید میں اس قدر کثرت کے ساتھ زور دے رہا ہے پھر بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں.آپ نے فرمایا کہ ایک مخالف نے ایک دفعہ مجھے خط لکھا کہ آپ کی مخالفت میں لوگوں نے کچھ کمی نہیں کی مگر ایک بات کا جواب ہمیں نہیں آتا کہ باوجود اس مخالفت کے آ پ ہر بات میں کامیاب ہی ہوتے جاتے ہیں.یہ سلسلہ اللہ کے فضل سے بڑھتا چلا جائے گا ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 239-238) پس یہ اللہ تعالیٰ کے آپ سے وعدے تھے جس کے نتیجے اُس وقت بھی ظاہر ہوئے اور صرف اُسی وقت ہی نہیں بلکہ آج تک مخالفین اپنا زور لگاتے چلے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتا چلا جارہا ہے.دنیا کے کسی بھی حصے میں جہاں بھی مخالفین نے احمدیوں کو دبانے یا ختم کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان ملکوں میں جہاں احمدیوں کی قربانیوں کے معیار بڑھائے وہاں دنیا کے دوسرے ممالک میں خود ہی جماعت کی ترقی کے لئے ایسے راستے کھولے کہ اگر ہم صرف اپنی کوشش سے کھولنے کی کوشش کرتے تو کبھی کامیاب نہ ہو سکتے.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا لگا یا ہوا پودا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق پھلنا پھولنا اور بڑھنا ہے.انشاء اللہ.
خطبات مسرور جلد 13 اللہ کے فضلوں کے کچھ واقعات 215 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 پریل 2015ء اس وقت میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے کچھ واقعات پیش کرتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کس طرح فضل فرماتا ہے.کس طرح لوگوں کے دلوں کو کھولتا ہے.کس طرح ان تک احمدیت کا پیغام پہنچتا ہے.ہمارے نائیجر کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ایک تبلیغی دورے کے دوران ایک کچا راستہ پکڑا اور اس پر تبلیغ کرتے ہوئے آگے روانہ رہے.تین دن کے بعد اسی راستے سے واپسی پر ایک جگہ، ایک گاؤں گڈاں عیدی (Gidan Idee) ہے وہاں سے گزر رہے تھے تو لوگوں نے ہمیں روک لیا اور کہا کہ ہم سب آپ کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے.آپ ابھی امام صاحب کے پاس چلیں.جب ہم امام کے پاس گئے تو انہوں نے بتایا کہ آپ ہمیں ابھی بیعت فارم دیں.ہم سب بیعت کرنا چاہتے ہیں.کہتے ہیں میں نے انہیں سمجھایا کہ بیعت کے لئے جلدی نہ کریں.امام صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری تسلی کرا دی ہے.اس لئے ہمیں جماعت کی سچائی میں اب کوئی شک نہیں رہا.تسلی کس طرح اللہ تعالیٰ نے کرائی ؟ اس کا واقعہ انہوں نے یہ سنایا کہ یہاں سے جب آپ گزرے تھے تو آپ کے جانے کے بعد مارا دی شہر کے وہابیوں کے بڑے امام صاحب اپنے قافلے کے ساتھ یہاں آئے اور یہ کہتے رہے کہ احمدی تو کافر ہیں اور تم لوگوں نے کا فروں کو اپنی مسجد میں گھنے دیا اور تبلیغ کی اجازت دی.ایسا کیوں کیا.جس پر گاؤں کے امام صاحب نے ان سے کہا کہ یہی فرق ہے آپ میں اور احمدیوں میں.آپ جب سے یہاں آئے ہیں آپ نے کافر کے سوا کوئی بات نہیں کی اور وہ یعنی احمدی جب تک یہاں رہے انہوں نے قرآن کریم اور حدیث کے سوا کوئی بات نہیں کی.اگر احمدیوں کی یہی بات کفر ہے تو ہمیں ان کا یہ کفر پسند ہے اور ہم ایسے ہی کافر بننا چاہتے ہیں.اس پر وہابیوں کا یہ بڑا مولوی نامراد ہو کر وہاں سے واپس چلا گیا اور گاؤں والوں کا ہمارے مربی کو، مبلغ کو اصرار تھا کہ بیعت فارم دے کے جائیں جو اس وقت تو نہیں تھے.بہر حال وہاں بیعتیں ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑی جماعت قائم ہوگئی.پھر تنزانیہ سے ٹیورا کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ یہاں ایک بڑی جماعت کا قیام عمل میں آیا.یہ جماعت طبو را شہر سے پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے.اس جگہ جماعت کا قیام ایک احمدی دوست سلیمان جمعہ صاحب کے ذریعہ سے ہوا.موصوف وہاں تبلیغ کے لئے جاتے تھے اور پمفلٹ تقسیم کرتے تھے.پھر اس پر کچھ افراد نے بیعت کر لی.اس کے بعد معلم سلسلہ نے بار بار اور مسلسل وہاں دورہ کر کے تبلیغ کی جس پر کچھ اور افراد نے بیعت کی اور اللہ کے فضل سے اب وہاں تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے.افراد جماعت
خطبات مسرور جلد 13 216 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 اپریل 2015ء غریب ہیں لیکن ایمان کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت گاؤں کے مناسب حال انہوں نے وہاں ایک کچی مسجد بھی بنادی ہے اور چندہ کے نظام میں بھی سب شامل ہیں.اسی طرح مالی کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ تیجانیہ فرقہ کے ایک بڑے امام آدم تھنگا را صاحب نے بیعت کی.انہوں نے بیعت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک لمبے عرصے سے جماعت کی کیسٹس اور ریڈیو سن رہے تھے.مالی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کافی ریڈیو اسٹیشن ہیں.اور ان کا دائرہ ستر اشی میل تک ہے.ایف ایم ریڈیو اسٹیشن ہے.اللہ کے فضل سے کافی پھیلا ہوا ہے، وسیع پیمانے پر تبلیغ ہوتی ہے.کہتے ہیں کہ ان کے ( یعنی جو آدم صاحب تھے، والد مرحوم فرقہ تیجانیہ کے بڑے امام تھے اور انہوں نے اس علاقے کے 93 مشرک دیہاتوں کو مسلمان کیا تھا.ایک رات ان آدم صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ان کے والد کہتے ہیں کہ احمدیت ہی سچا راستہ ہے اور وہ ( یعنی ان کا بیٹا ) احمدیت کے پیغام کو پھیلانے کے لئے بہت زیادہ کوشش کرے.تو اس کے بعد یہ ہمارے معلم کو ملے.معلم صاحب کے ساتھ تبلیغ کے لئے ایک گاؤں میں گئے.اس گاؤں کے لوگ پہلے مشرک تھے اور ان کے والد صاحب کے ذریعہ مسلمان ہوئے تھے.چنانچہ اس گاؤں کے امام جن کی عمر اس وقت ستاسی سال ہے وہ آدم صاحب کے والد صاحب کے گہرے دوست تھے.جب ان سے ملے تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے ریڈیو پر جماعت کی تبلیغ سنی ہے.یقیناً احمدیت ہی سچا راستہ ہے.نیز انہوں نے آدم تنگارا صاحب کو نصیحت کی کہ وہ اس پیغام کو پھیلانے کے لئے بہت زیادہ کوشش کریں اور اس امام نے بھی وہی الفاظ کہے جو ان کے والد نے خواب میں کہے تھے یعنی والد کے دوست کے ذریعہ سے وہی الفاظ ان کو کہلوا دیئے گئے.اس رات انہوں نے تبلیغ کی ور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین ہزار چارسو بیعتیں وہاں ہو گئیں.پھر ایک اور گاؤں سگر الہ ڈاکا (Sagrala Daka) میں تبلیغ کے لئے گئے.وہاں لوگ جمع ہو گئے تو انہیں تبلیغ کی.کچھ دیر کے بعد کچھ لوگ اٹھ کر گئے.ان کا خیال تھا کہ وہاں کوئی احمدی نہیں لیکن ہوا یہ کہ کچھ لوگ اٹھ کے گئے اور گھر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور میری کچھ تصویریں لے کر آئے اور کچھ پمفلٹ لے کر آئے اور انہیں بتایا کہ جب آپ نے تبلیغ شروع کی تو ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ وہی جماعت ہے جس کا ذکر ہمارے مرحوم بھائی کیا کرتے تھے.انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک بھائی گاؤسو فوفانا(Gaousso Fofana) صاحب گھانا میں گئے تھے.انہوں نے احمدیت قبول کی.بعد میں پھر وہ وہیں برکینا فاسو کے شہر بو بوجلا سو میں سیٹ ہو گئے.2010ء میں وہ ہمیں ملنے کے لئے آئے تو ان
خطبات مسرور جلد 13 217 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 اپریل 2015ء کے پاس یہ تصاویر اور کتب تھیں.وہ یہاں بیمار ہوئے اور یہیں فوت ہو گئے.آج اللہ تعالیٰ اس جماعت کو ہمارے پاس لے آیا جس کی تبلیغ ہمارا بھائی کیا کرتا تھا.ہم سب گاؤں والے بیعت کرتے ہیں.اس دن اللہ کے فضل سے ایک ہزار کے قریب لوگ جماعت میں شامل ہوئے.بارش کا نشان پھر مالی کے ریجن جیما (Djema) سے وہاں کے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن ہمارے ریجن کے ایک احمدی عبد السلام تر اوڑے صاحب اپنے قریبی گاؤں میں گئے تو وہاں موجود گاؤں والوں نے ان سے کہا کہ کافی عرصے سے یہاں بارش نہیں ہو رہی.اگر آپ کی جماعت سچی جماعت ہے تو آپ دعا کریں کہ بارش ہو اور اگر بارش ہوگئی تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی آپ کی جماعت سچی جماعت ہے اور خدا کی مدد آپ کے ساتھ ہے.اس پر مکرم عبد السلام نے نوافل پڑھے.گڑ گڑا کر دعا کی کہ اے اللہ ! اپنے مہدی کی سچائی کے لئے آج ہی یہاں بارش نازل فرما.یہ جو معلم ہیں یہ وہیں مالی کے مقامی رہنے والے ہیں.انہوں نے دعا کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا نشان دکھا.اور کہتے ہیں کہ اس دعا کے بعد وہاں بادل جمع ہونا شروع ہوئے اور اس قدر شدید بارش ہوئی کہ ہر طرف پانی جمع ہو گیا.اس کے کچھ دیر بعد لوگ عبد السلام صاحب کے پاس آئے اور بتایا کہ ہمیں پتا لگ گیا ہے کہ جماعت احمد یہ واقعی سچی اور خدائی جماعت ہے اور اس طرح سارا گاؤں بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گیا.دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لئے نشان دکھاتا ہے.ضروری نہیں کہ ہر جگہ نشان دکھائے جائیں لیکن ان لوگوں کی نیک فطرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ان کو ہدایت دے.اس لئے وہ نشان ظاہر بھی ہو گئے.فانا کے مبلغ ہمارے یوسف ایڈ وسئی صاحب لوکل مشنری تھے ، وہ وفات پاگئے ہیں.انہوں نے اپنا ایک واقعہ لکھا کہ لامبونا (Lambuna) ایک جگہ ہے ، وہاں کے مقامی لوگوں نے ہمارے ایک داعی الی اللہ عبداللہ صاحب کو تبلیغ کے دوران بارش کے لئے دعا کرنے کے لئے کہا.جس پر انہوں نے اعلان کیا کہ کیونکہ وہ امام مہدی کے پیغام کو پہنچانے کے لئے تبلیغ کر رہے ہیں اس لئے ان کی دعا قبول ہوگی اور رات کو بارش ہوگی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی رات ایک بجے اس علاقے میں موسلا دھار بارش ہوئی اور قبولیت دعا کے اس نشان کو دیکھتے ہوئے اس علاقے سے ایک بڑی تعداد کو قبول احمدیت کی توفیق ملی.پھر آئیوری کوسٹ کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائعہ فاطمہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد انہیں حقیقی اطمینان اور راحت نصیب ہوئی ہے.احمدیت نے انہیں حقیقی اسلام
خطبات مسرور جلد 13 218 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 اپریل 2015ء سے روشناس کرایا ہے.اسلام پر عمل کرنا نہایت آسان ہو گیا ہے.ساری بدعات چھٹ گئی ہیں کیونکہ احمدیت کی تعلیم ہی حقیقی اسلام کی تعلیم ہے.یہ ہر قسم کی بدعات ، مشکلات اور پیچیدگیوں سے پاک ہے اور انہوں نے کہا کہ میں عہد کرتی ہوں کہ مرتے دم تک احمدیت پر قائم رہوں گی.پس حقیقی اسلامی تعلیم کو اپنایا جائے.صرف منہ سے بیعت کرنا یا احمدی کہلانا کوئی چیز نہیں ہے.تمام قسم کی بدعات سے بچنا اور صحیح اسلامی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنا یہ حقیقی بیعت ہے.جو نئے احمدی ہونے والے ہیں یہ جس روح سے احمدیت قبول کرتے ہیں پرانے احمدیوں کو بھی اگر چہ بعض دفعہ ان سے ستیاں ہو جاتی ہیں یہ چاہئے کہ اس روح کو اپنے اندر پیدا کریں اور جاری رکھیں.نہیں تو جو نئے آنے والے ہیں یہ کل آپ کے استاد نہ بن جائیں.آئیوری کوسٹ سے ایک نو مبائع دوست طورے الولی صاحب لکھتے ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد ان کی روحانیت میں ترقی ہوئی.نمازوں میں ذوق و شوق اور سرور آنے لگا.عملی حالت بھی بہتر ہوئی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر عمل کرنا آسان ہو گیا.کہتے ہیں اس کے علاوہ احمدیت کے علم کلام کے ذریعہ علم و عرفان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.تو یہ دور دراز بیٹھے ہوئے لوگ جب احمدیت قبول کرتے ہیں تو کس طرح ان میں تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں، عملی تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں.اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہورہا ہے.اور یہی چیز ہر احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.پھر مبلغ انچارج گئی کنا کری لکھتے ہیں کہ ایک دوست سیلا (Sylla) صاحب اس غرض سے مشن ہاؤس آئے کہ اپنے گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ سے مدد لی جائے.تو کہتے ہیں میں نے انہیں جماعت کا تعارف کروایا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بتا یا.ایک بڑی لمبی نشست کے بعد یہ اتنے خوش تھے کہ کہنے لگے آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں.اور کہنے لگے کہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے گاؤں چلیں تا کہ یہ پیغام سب لوگوں تک پہنچ جائے.چنانچہ پروگرام کے تحت ان کے گاؤں گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارا گاؤں اور قریب کے پانچ گاؤں بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے.یہ دوست ، سیلا صاحب کہتے ہیں کہ جب سے میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے اس وقت سے مجھ میں ایک روحانی تبدیلی پیدا ہوئی ہے جسے میں نے کبھی پہلے محسوس نہیں کیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اپنے دو بچوں کو وقف کر دیا ہے جس میں ایک بچہ ان کا اس سال جامعہ احمدیہ سیرالیون جائے گا اور دوسرا اگلے سال.کہتے ہیں مجھے وہ روحانی
خطبات مسرور جلد 13 219 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 پریل 2015ء سکون ملا ہے جس کی برسوں سے مجھے تلاش تھی.بینن تینکو ریجن کے مبلغ کہتے ہیں کہ کافی عرصہ پہلے جب یہاں مسجد تعمیر ہو رہی تھی تو وہاں سے ایک عیسائی پادری کا گزر ہوا.خوبصورت مسجد کی تعمیر دیکھ کر تعریف کی اور پوچھا کہ یہ کس کی مسجد ہے تو وہاں موجود معلم اسحاق صاحب نے کہا کہ احمدیوں کی مسجد بن رہی ہے اور ہم سب احمدی ہیں.عیسائی پادری نے کہا کہ میں سوائو (Savalou) شہر میں کافی عرصہ رہا ہوں.وہاں احمدیوں کی تبلیغ سننے کا موقع ملا ہے اور یہ بچے لوگ ہیں.آپ لوگوں نے صحیح مذہب چنا ہے اور اب اس کی بہترین رنگ میں پیروی کریں.اس پر ہمارے معلم نے پوچھا کہ اگر آپ کے نزدیک یہ بچے ہیں تو پھر آپ ان میں شامل کیوں نہیں ہو جاتے ؟ اس پر پادری نے کہا کہ احمدیت یعنی اسلام یقیناً سچا مذہب ہے.آپ اس مذہب میں رہیں اور میں جس جگہ ہوں مجبوریوں کی وجہ سے ہوں.لیکن حقیقت یہی ہے کہ تم لوگ درست ہو.لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کو دنیا کا خوف نہیں ، مجبوریاں نہیں اور پھر خدا تعالیٰ ان کے دل بھی کھولتا ہے.کانگو کے ایک عیسائی پادری نے احمدیت قبول کی اور ان میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی.وہ کہنے لگے کہ میں نے سالہا سال بطور پادری کام کیا ہے اور لوگوں کو مذہبی تعلیم دی ہے لیکن جو دل کو تسلی اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا احساس احمدیت میں ہوا ہے اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا.اب احمدیت ہی میرا سب کچھ ہے.جماعتی ماحول میں بچوں کو لا نا بہت ضروری ہے الجزائر کے ایک دوست اپنے خاندان کے احمدیت میں داخل ہونے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ ان کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شیخ ان کے گھر آئے ہیں اور ان کے بچوں کو اسلام کی نیک تعلیم دے رہے ہیں جس سے ان کے گھر میں بہت نیک اثر پڑا ہے اور گھر میں اس شخص کی بہت عقیدت پیدا ہوگئی ہے.ان کی والدہ لکھتی ہیں کہ ایک دن ان کی بیٹی ٹی وی دیکھ رہی تھی اور مختلف سٹیشنز تبدیل کر رہی تھی کہ اچانک ایم ٹی اے پر جا کر رک گئی.کہتی ہیں اس وقت وہاں ایم ٹی اے پر میری تصویر آ رہی تھی تو وہ تصویر دیکھ کر خوشی سے اچھلی اور کہنے لگی کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں نے خواب میں دیکھا.اس کے بعد انہوں نے باقاعدگی سے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا جس سے انہیں معلوم ہوا کہ امام مہدی جس کا زمانہ منتظر ہے تشریف لا چکے ہیں اور اس طرح انہوں نے نومبر 2013ء میں بیعت کی اور جماعت میں داخل ہو گئے.بیعت کے بعد وہ لکھتی ہیں کہ وہ تمام دکھ اور پریشانیاں جو مجھے تھیں احمدیت میں داخل ہونے کی وجہ سے خوشیوں میں بدل گئیں.اس غلط معاشرے کی وجہ سے جو اولاد کی تربیت کا ڈر تھا جماعتی ماحول اور
خطبات مسرور جلد 13 220 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 پریل 2015ء جماعتی تربیت سے وہ دُور ہو گیا.تو جماعتی ماحول میں اپنے بچوں کو لانا بھی بڑا ضروری ہے.نئے آنے والے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.ہمیں بھی ، پرانوں کو بھی ہر ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جماعتی ماحول میں اگر بچوں کو رکھیں گے تو صحیح تربیت ہو سکے گی اور جب آپ اپنے صحیح نمونے دکھا ئیں گے تربیت ہو سکے گی.یہ جو کہتی ہیں میری پریشانیاں دور ہوئیں اور خوشیوں میں بدل گئیں تو اس لئے کہ عملاً اپنے آپ میں انہوں نے تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی.پھر ہمارے کانگو کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ صوبہ با کونگو کے ایک شہر کنز اؤٹے (Kinzauete) کے مقامی رہائشی احد ٹوٹو (Toutou) صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ اس نے اپنی نماز پڑھنے کی جگہ یعنی قبلے کو مختلف سمت میں پایا ہے.باقی لوگ پرانے قبلے کی طرف نماز پڑھ رہے ہیں لیکن وہ اور بعض اور لوگوں نے اپنا قبلہ تبدیل کر لیا ہے.اس خواب کی ان کو سمجھ نہیں آئی.اس کے بعد کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کسی طریقے سے یہاں جماعتی پمفلٹ پہنچے تو ان میں سے ایک آدمی 260 کلومیٹر کا سفر کر کے جماعتی صوبائی ہیڈ کوارٹر میں مزید تحقیق کے لئے آیا.تحقیق کے بعد جب یہ وہاں آیا تو اس کے کہنے پر معلم کو وہاں بھجوایا گیا.جب ہمارے معلم صاحب وہاں پہنچے اور حقیقی اسلام کا پیغام دیا تو انہوں نے ، گاؤں والوں نے قبول کر لیا اور نہ صرف اس شخص نے قبول کر لیا بلکہ ان کے کچھ عزیزوں نے بھی اور باقی لوگوں کو بتایا کہ میں نے تو پہلے ہی آپ کو اس بارے میں خواب سنایا تھا تو یہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف اشارہ ہے.اس طرح مزیدسترہ لوگوں نے بیعت کی.اور پھر اس کے بعد وہاں مزید تبلیغی کیمپ بھی لگائے گئے.میڈیکل کیمپ بھی لگائے گئے.وہاں کے میڈیکل کے ایک طالبعلم نے اسی روز جماعت قبول کر کے مسجد کے لئے اپنا پلاٹ پیش کر دیا اور الحمد للہ وہاں کی جماعت بڑھتی چلی جارہی ہے اور مزید بیعتیں ہو رہی ہیں.یہاں جو قبلہ تبدیل کرنے کی بات ہے تو قبلہ تو ہر مسلمان کا وہی ہے.جو غیر احمدیوں کا وہی احمدیوں کا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ظاہری قبلہ کی طرف منہ نہیں کیا بلکہ دلوں کا قبلہ بدلنا ضروری ہے اور خالص خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہونا ضروری ہے.پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ صرف قبلے کی طرف منہ کر کے عبادت نہیں ہو جاتی بلکہ دل اس طرف مائل ہونا چاہئے کہ میں اس قبلے کی طرف اس لئے منہ کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت خالص ہو کر کرنی ہے اور خدائے واحد کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرنی ہے.پھر مبلغ انچارج گئی کنا کری لکھتے ہیں کہ کنا کری کیپٹل (capital) سے دوسوکلومیٹر دور سومبو یادی (Sou Bouyade) ایک بہت بڑا گاؤں ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال یہاں
خطبات مسرور جلد 13 221 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 اپریل 2015ء مسلسل رابطے کے نتیجے میں سارا گاؤں اور مزید دیہات بھی احمدی ہو گئے.کہتے ہیں اتنی بڑی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارا خیال تھا کہ یہاں باقاعدہ جماعت کا قیام کیا جائے.ہم جماعتی نظام کے قیام کے لئے وہاں پہنچے تو احباب جماعت پہلے سے ہمارے منتظر تھے جن میں وہاں کی جامع مسجد کے امام بھی تھے جو کہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکے تھے.جب ہم نے انہیں بتایا کہ اب ہم یہاں با قاعدہ جماعت کا قیام کرنا چاہتے ہیں تو گاؤں کے چیف نے کہا ہمارا مال و اسباب اور سب کچھ حاضر ہے اور یہ بڑی مسجد آپ کی ہے بلکہ سارا گاؤں آپ کا ہے اور کہنے لگے ہم تو اتنے خوش ہیں کہ احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کر کے ہم نے اپنی زندگی میں اس نعمت کو پالیا ہے جو انتہائی قیمتی ہے اور اب ہماری آنکھیں کھلی ہیں اور ہمیں حقیقی اسلام کا چہرہ نظر آیا ہے.کانگو کے امیر صاحب بھی لکھتے ہیں کہ ایک دور دراز علاقے کو بوتو (Lubutu) میں جماعت کا پیغام ایک پمفلٹ کے ذریعہ پہنچا.ان لوگوں نے پمفلٹ پر دیئے گئے ای میل ایڈریس کے ذریعہ جماعتی مرکز سے رابطہ کیا.چنانچہ لوکل مبلغ مصطفی محمود صاحب کو ان کے پاس بھجوایا گیا.انہوں نے وہاں تین ماہ قیام کر کے جماعت کا پیغام دیا.اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں.ان کو جماعت کا پیغام دیا.سنی مسلمانوں اور عیسائیوں سے کئی روز مجالس سوال و جواب ہوئیں.وہ کہتے ہیں الحمد للہ کہ اللہ کے فضل سے وہاں جماعت قائم ہو چکی ہے اور ساٹھ سے زائد افراد احمدیت میں داخل ہو گئے.اس جماعت کے بعض لوگ اخلاص میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ جماعت کے ایک فرد جون 2014ء میں جلسے کے لئے آئے اور کشتی پر چھ سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے شامل ہوئے.اب یہاں یورپ میں رہنے والوں، ترقی یافتہ ملکوں میں رہنے والوں کو اندازہ نہیں کہ چھ سوکلو میٹر کا سفر کتنا مشکل ہوتا ہے.وہ کہہ دیں گے کہ چھ گھنٹے میں طے ہو گیا.جہاں سڑکیں نہ ہوں،سواری نہ ہو وہاں انتہائی مشکل ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ یہاں کانگو میں تو دریاؤں کی زیادتی کی وجہ سے بہت جگہوں پر سڑکیں ہی نہیں ہیں.کشتیوں پر سفر کرنا پڑتا ہے.تو تین سوکلومیٹر کا سفر انہوں نے کشتی کے ذریعے سے کیا اور پھر باقی تین سوکلومیٹر کا سفر جو خشکی کا تھا اس کے لئے ان کے پاس کرائے کی رقم نہیں تھی.ان کا کوئی دوست مل گیا.اس سے انہوں نے سائیکل ادھاری لی اور ایک ٹوٹی سائیکل پر یہ انتہائی تکلیف دہ سفر انہوں نے کیا جس کا تصور بھی یورپ میں رہنے والوں کو ہلا کے رکھ دے.شاید آپ لوگوں میں تصور پیدا ہی نہیں ہوسکتا.مبلغ کہتے ہیں اگر اس سائیکل کی حالت دیکھی جائے تو یقین کرنا مشکل ہے کہ اس نے کس طرح ٹوٹی پھوٹی سائیکل پے اتنا لمبا
خطبات مسرور جلد 13 222 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 اپریل 2015ء سفراختیار کیا.یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو نو مبائعین کے ایمانوں کو اس حد تک ترقی دے رہا ہے.پھر ہمارے ایک مبلغ سلسلہ لنگی سے لکھتے ہیں کہ لنگی ریجن میں پچھلے سال ایک گاؤں کے افراد کو تبلیغ کی جس کے نتیجے میں ان افراد نے جماعت احمدیہ کو قبول کرنا چاہا لیکن ایک غیر از جماعت امام جو سعودی عرب سے پڑھ کر آئے تھے اور علاقے میں بڑی شہرت رکھتے ہیں انہوں نے لوگوں کے پاس جا کر جماعت کے خلاف باتیں کیں جس کی وجہ سے اس گاؤں کے لوگوں نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا.کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ سیرالیون پر ان کو بلایا گیا تو اس امام کو بھی جلسے میں شمولیت کی دعوت دی گئی.یہ امام صاحب جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے.جلسے کی کارروائی دیکھتے رہے.جلسے کے دوسرے دن رات کے وقت اپنے علاقے کے چند لوگوں کے ساتھ یہ مبلغ کے پاس آئے اور سب کی موجودگی میں کہنے لگے کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ سچی ہے اور اب میں کبھی بھی جماعت کی مخالفت نہیں کروں گا بلکہ ان لوگوں کو جو بیعت کرنا چاہتے ہیں کہوں گا کہ بیعت کر لیں.تو ایسے بھی بعض صاف فطرت، نیک فطرت علماء ہیں.صرف وہی نہیں ہیں جو لوگوں کے ایمانوں کو بگاڑنے والے ہوں.ہمارے حافظ محمد صاحب اٹلی کے ہیں.انہوں نے کہا بیر سے ایم ٹی اے پر لائیو نشر ہونے والے جو پروگرام ہوتے ہیں ان کو دیکھنے کے بعد کہا کہ میں عرصہ چھ ماہ سے اپنے دل میں بیعت کر چکا ہوں.خدا تعالیٰ اس پر گواہ ہے لیکن ابھی تک فارم بھر کر نہیں بھیج سکا.میں تن تنہا ر ہتا ہوں.میری خوشی کا کوئی انتہا نہیں کہ میں نے حق کو پہچان لیا.امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کے لئے میں بذات خود ایک نشان ہوں.وہ اس طرح ہے کہ سال 2008ء میں پہلی بار اچانک میں نے ایم ٹی اے دیکھا جس میں ناسخ منسوخ کے او پر گفتگو چل رہی تھی اس وقت مجھے آپ لوگوں کے بارے میں یا امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا.پروگرام اچھا لگا اور دیکھتا چلا گیا.اس کے بعد جنوں کی حقیقت کے موضوع پر الحوار المباشر کا پروگرام دیکھا.اس پروگرام کے ذریعہ سے میں نے اس جماعت کی صداقت پر اعتراف کرلیا اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا اور کہتے ہیں اس کے بعد چھ مہینے قبل 2013ء میں حضرت مسیح کی صلیبی موت سے رہائی اور ان کی وفات کے اوپر پروگرام دیکھ کر اس قدر تسلی ہوئی کہ بیعت کئے بغیر رہ نہیں سکا اور اب اس پروگرام کے ذریعہ اپنی بیعت کا اعلان کرتا ہوں.پھرالجزائر سے عبدالحکیم صاحب کہتے ہیں.میں نوے کی دہائی میں سول ڈیفنس اسکواڈ میں شامل ہوا کیونکہ ملک میں مذہبی جماعتیں اسلام کے نام پر ملک میں دہشتگردی پھیلا رہی تھیں اور لوگوں کو قتل کر کے
خطبات مسرور جلد 13 223 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 اپریل 2015 ء اموال کو لوٹ رہی تھیں.( یہی حال سبھی دہشت گرد تنظیموں کا ہے جو اسلام کے نام پر کام کر رہی ہیں.کہتے ہیں اور ہمارا کام ایسے لوگوں سے ان کے اموال کو بچانا تھا.ہم اسلام سے کوسوں دور تھے مگر میں دعا کیا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حالت سے نکالے.مجھے اس بات پر سب سے زیادہ حیرت ہوتی تھی کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے اور وہ بھی جہاد اور اسلام کے نام پر ؟ کیا امام مہدی جب آئیں گے تو وہ بھی ایسے ہی قتل کا حکم دیں گے؟ مسلمان اپنے تمام تر اختلافات اور کفر کے فتووں کے باوجود ان کے ہاتھ پر کیسے اکٹھے ہو جائیں گے؟ کہتے ہیں.میرے ایک پرانے دوست عباس صاحب جو اس وقت احمدی ہو چکے تھے مگر مجھے علم نہیں تھا وہ ایک مرتبہ مجھے ملے اور مختلف امور پر بات کی.انہوں نے قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کی جو پہلے کبھی نہ سنی تھی اور عقل کے عین مطابق تھی.دل اس کو سن کر مطمئن ہوا.انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک صدی پہلے امام مہدی کو ہندوستان میں مبعوث فرما دیا ہے اور انہیں قلم اور علم ومعرفت کا ہتھیار دے کر بھیجا ہے جس کے ذریعے انہوں نے بڑے بڑے پادریوں کو شکست فاش سے دو چار کیا اور اب ان کی جماعت اسی راہ پر گامزن ہے.یہ سن کر مجھے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعاؤں کو قبول فرمالیا ہے.چنانچہ میں نے اسی وقت بیعت فارم پر کیا اور اس پیاری جماعت میں شامل ہو گیا.کہتے ہیں اس کے چند دن بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک اندھیرے میدان میں رات کو چل رہا ہوں.پھر ایک بزرگ نظر آتے ہیں جو میرا ہاتھ تھام کر چل پڑتے ہیں.ہم سمندر کے کنارے پہنچتے ہیں تو وہاں ایک کشتی ہوتی ہے جس کے پاس ایک اور صاحب کھڑے نظر آتے ہیں جو ایسے لگتا ہے ہمارا ہی انتظار کر رہے ہوتے ہیں.ہم تینوں اس میں سوار ہو جاتے ہیں.میں دل میں سوچتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں تو جو بزرگ مجھے ساتھ لائے تھے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور یہ امام مہدی اور مسیح موعود مرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں.اس کے بعد یہ کشتی چلتے چلتے ایک بحری جہاز کے پاس پہنچ جاتی ہے تو وہ دونوں مجھ سے فرماتے ہیں اس بحری جہاز میں سوار ہو جاؤ اور اس جہاز کے سواروں کے ساتھ جا ملو وہ تمہارے حقیقی اہل خانہ ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام بھی کس طرح دلوں پر اثر ڈالتا ہے.(اس کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.) مراکش کے عبدالعزیز صاحب ہیں.وہ کہتے ہیں : میں تاریخ اور جغرافیہ کا استاد ہوں اور باوجود یکہ خدا تعالیٰ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے میری ترقی بھی ہوگئی.مکان بھی ہے.لیکن میں نفس کی
خطبات مسرور جلد 13 224 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 اپریل 2015ء ضلالتوں میں پڑا رہا اور گناہوں میں گھرتا گیا حتی کہ خدا تعالیٰ نے بیعت کی توفیق دی اور میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ شروع کیا تو احساس ہوا کہ یہ میرے زخموں کا مرہم اور میری روح کا علاج ہیں اور مجھے اپنے تزکیۂ نفس کی فکر پیدا ہوئی اور حضور انور کی خدمت میں اس غرض سے ت میں اس فرض سے لکھنے کا احساس بیدار ہوا کہ خدا تعالیٰ مجھے صادقین میں لکھ لے.شہادتوں کا پھل پھر جماعت میں جو شہادتیں ہوتی ہیں اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کس طرح تائید و نصرت فرماتا ہے.اس بارہ میں جاپان سے ہمارے صدر جماعت لکھتے ہیں کہ شیخو پورہ میں جوخلیل احمد صاحب شہید ہوئے.جب میں نے خطبہ میں ان کا ذکر کیا تو ایک جاپانی دوست جن کا چھ ماہ سے جماعت کے ساتھ اس لحاظ سے تعلق تھا کہ تبلیغ ان کو کیا کرتے تھے ان کا فون آیا کہ میں احمدی ہونا چاہتا ہوں تو میں نے انہیں مسجد میں بلالیا اور بیعت کی کارروائی ہوئی اور انہوں نے شہادت کے متعلق ان کا ذکر سن کے اس کے بعد بیعت کی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کے نظام میں شامل ہیں.یاد گیر کے امیر صاحب ضلع لکھتے ہیں کہ شہر یاد گیر کے ایک نو جوان منجو ناتھ جن کا تعلق ہندو مذہب سے تھا وہ بی ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے.ان کے ساتھ ہی ہمارے ایک خادم بھی پڑھائی کر رہے تھے.ایک دن ان کو نوٹس لکھنے کے لئے نوٹ بک کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ہمارے خادم کی نوٹ بک لے لی جس پر انسانیت زندہ باد اور محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں لکھا ہوا تھا.یہ پڑھ کر ان کے دل میں کافی اثر ہوا کہ اس زمانے میں جہاں اس قدر بدامنی پھیلی ہوئی ہے اس سے زیادہ پیارا پیغام دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا.اس نعرہ نے ان کے دل پر بہت پیارا اثر چھوڑا اور مزید معلومات کے لئے موصوف نے ہمارے خادم سے احمدیت کے بارے میں پوچھا.ان کو جماعت کا لٹریچر مہیا کر دیا گیا.گہرے مطالعہ کے بعد ان کو اس بات کا علم ہوا کہ جماعت احمد یہ ایک منظم اور سچی جماعت ہے جو قیام امن کے لئے اور خدمت انسانیت کے لئے انتہا کی کوشش کر رہی ہے.جماعت کے بارے میں کافی کچھ جاننے کے بعد ان کے دل کو تسلی ہو گئی اور موصوف نے مارچ 2014ء میں بیعت کر لی.پس احمدیوں کے صرف نعرے نہیں بلکہ عملی حالتیں بھی ایسی ہونی چاہئیں کیونکہ یہ بھی تبلیغ کا ذریعہ بنتی ہیں.کئی دفعہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں.اس لئے صرف اپنی تعلیم کو بتانے سے اثر نہیں ہو گا لیکن حقیقت میں جب لوگ عمل بھی دیکھیں گے تو پھر ہی تو جہ پیدا ہوگی.اس لئے یہ بہت بڑی ذمہ داری ہر احمدی پر پڑتی ہے.
خطبات مسرور جلد 13 225 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 پریل 2015ء مصر سے ایک دوست محمود صاحب لکھتے ہیں کہ خدا کی قسم! خدا کی قسم !! آپ لوگ حق پر ہیں اور کاش کہ تمام دنیا آپ کے صبح کی پیروی کرنے لگ جائے.الحمد للہ کہ ہمارے والد صاحب نے بیعت کی.پھر میرے بھائی نے ، پھر والدہ نے اور پھر میں نے اور پھر میرے کزن نے اور میرے والد صاحب کے کزن نے بھی بیعت کر لی ہے.پھر بوسنیا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ میں نے گزشتہ سال عملی اصلاح کے جو خطبات دیئے تھے ان کے نتیجے میں خصوصاً نماز فجر کی حاضری میں غیر متوقع طور پر افراد شامل ہورہے ہیں جبکہ اس ملک میں برفباری کی وجہ سے کافی سردی بھی ہوتی ہے.بعض نئے نئے احمدی لوگ بڑی بڑی دور سے چالیس چالیس میل سے سفر کر کے آتے ہیں.اور بعض دس کلو میٹر سے سفر کر کے آتے ہیں جبکہ ان کے گھر پہاڑی علاقے میں ہونے کی وجہ سے رستہ بھی بہت مشکل ہے لیکن نمازوں میں خود بھی آتے ہیں اور دوستوں کو بھی ساتھ لے کر آتے ہیں.احمدیت میں شامل ہونے سے تبدیلیاں بھی کس طرح پیدا ہوتی ہیں.ایک تو نمازوں کی طرف توجہ ہے کہ موسم کی شدت کا بھی احساس نہیں کرنا، مسجدوں کو آباد کرنا ہے.دوسرے ایک اور مثال دیتا ہوں.میسیڈونیا سے احمدی دوست کہتے ہیں کہ میری اہلیہ کا نام رضا ہے.جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئیں اس سے پہلے وہ پردہ نہیں کرتی تھیں تو وہ مجھے لکھتے ہیں کہ میں آپ کا بڑا مشکور ہوں کہ جب لجنہ میں خطاب سنا تو انہوں نے حجاب لینا شروع کر دیا اور اب با قاعدہ پردہ کرتی ہیں اور احمدیت پر ثابت قدم ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں بھی ترقی کر رہی ہیں.تو ایسی نئی آنے والیاں جو اسلام کی تعلیم سے پیچھے ہٹ گئی تھیں وہ عور تیں بھی جب احمدیت قبول کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحیح اسلامی تعلیم کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں.اس لئے ہماری بچیوں کو ، نو جوان بچیوں کو بھی عورتوں کو بھی اس طرف دھیان دینا چاہئے کہ جو اسلامی شعار ہیں ان کی پابندی کریں.جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو کرنا ضروری ہے اور پردہ بھی ان میں سے ایک اہم حکم ہے.بہر حال یہ ان بیشمار واقعات میں سے چند ایک ہیں جن کو میں اکثر اپنی رپورٹس میں سے دیکھتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے نشانات دکھا رہا ہے.کس طرح لوگوں کی خوابوں کے ذریعہ رہنمائی فرمارہا ہے.کس طرح مخالفین کی مخالفتیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف نیک فطرت لوگوں کے دل پھیر رہی ہیں.کس طرح عیسائی پادری بھی اسلام کی حقانیت کا اعتراف کر رہے ہیں.کس طرح مسیح موعود کو مان
خطبات مسرور جلد 13 226 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 اپریل 2015ء کر لوگ علم و عرفان میں ترقی کر رہے ہیں.کس طرح اپنی عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.پس کیا یہ سب باتیں کسی انسان کی کوششوں کا نتیجہ ہیں.نہیں بلکہ یقینا یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں خدا تعالیٰ کی تائیدات و نصرت کا پتا دیتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جو آخری زمانے میں امام آیا اس کی سچائی ثابت کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی برتری ثابت کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ کے سچے دین کی جستجو کرنے والوں کی رہنمائی کا پتا دے کر آج بھی خدا تعالیٰ کے وجود کا فہم و ادراک پیدا کر رہی ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ خدا کہاں ہے اور خدا ہے بھی کہ نہیں.جو نیک لوگ ہیں، نیک فطرت ہیں وہ دکھاتے ہیں کہ خدا ہے.لیکن افسوس ہے ان لوگوں پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پر باوجود مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے ایمان نہیں لاتے ، جو اپنے نام نہاد علماء کی باتوں میں آ کر سچائی کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں.ایک عیسائی کو، ایک لامذہب کو، ایک ہندو کو تو اس بات کا ادراک ہو جاتا ہے کہ یہ نشانات اسلام کے سچا ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی دلیل ہیں لیکن مسلمان ہو کر خدا کو رہنما بنانے کی بجائے، اس سے ہدایت کا راستہ پوچھنے کی بجائے، اکثریت ان علماء سے راستہ پوچھتی ہے جن کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس زمانے کے فتنہ وفساد کی جڑ یہ لوگ ہیں.پس ہمیں نئے آنے والوں کے واقعات سن کر جہاں اپنے اور ان کے ایمانوں میں ترقی کی دعا کرنی چاہئے وہاں مسلم اللہ کے متعلق بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور یہ زمانے کے امام کو مان کر اپنی دنیا وعاقبت سنوارنے والے بن سکیں.اس وقت مسلم دنیا کی حالت قابل رحم ہے.لیڈ ر عوام پر ظلم کر رہے ہیں.عوام انصاف اور رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے لیڈروں کے خلاف لڑ رہے ہیں.ہر مفاد پرست لیڈر بن کر اپنا گروہ بنا کر بیٹھا ہوا ہے.مختلف فرقے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں.پہلے اگر شیعہ سنی فساد ہوتے تھے تو حکومتیں کنٹرول کر کے امن قائم کرنے کی کوشش کرتی تھیں.اب حکومتیں ہی فرقہ واریت کی جنگ میں ملوث ہو گئی ہیں.عراق، شام، لیبیا کے حالات تو گزشتہ سالوں سے بد سے بدتر ہو ہی رہے ہیں اب سعودی عرب اور یمن کے جو حالات ہیں وہ بھی بگڑتے جا رہے ہیں.سعودی عرب یمن کی مدد کے بہانے جنگ میں کود پڑا ہے اور یہ حالات بھی بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور اب پتا نہیں کہاں جا کے یہ رکیں گے.اس جنگ کے وسیع تر ہونے کا بہت بڑا خطرہ ہے.طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کو جس طرح کمزور کرنا چاہتی
خطبات مسرور جلد 13 227 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 اپریل 2015ء ہیں وہ اس میں کامیاب ہو رہی ہیں.پہلے یہ تھا کہ براہ راست حملے ہوتے تھے اب بجائے براہ راست حملوں کے یہ طاقتیں آپس میں لڑا کر اپنے مقصد کو حاصل کر رہی ہیں اور مسلمان دنیا کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا کر رہے ہیں.یہ سوچتے نہیں کہ اس کی کیا وجوہات ہیں.اس کے نتائج کیا نکلیں گے.یہ بھی نہیں سوچتے کہ کیوں اللہ تعالیٰ کے اس آخری نبی کے ماننے والوں میں اتنا فتنہ وفساد ہے.کیوں ترقی کے عروج پر پہنچ کر زوال کی پستیوں میں تقریباً تمام مسلمان ملک گر رہے ہیں.اس زوال سے بچنے اور ترقی کی منزل پر دوبارہ چلنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ وہ ہے جو خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس مسیح موعود کو مانو جس نے آخرین کو پہلوں سے ملانا ہے.فرقہ بندیوں کی بجائے ایک امت بن کر مسیح موعود اور مہدی موعود کے ہاتھ پر جمع ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے.اس کے لئے ہمیں بہت دعائیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دعاؤں کی توفیق دے اور انہیں قبول بھی فرمائے.نماز جمعہ کے بعد میں دو جنازے پڑھاؤں گا.ایک جنازہ حاضر ہے جو مکرم انتصار احمد ایاز صاحب ابن مکرم ڈاکٹر افتخار احمد ایاز صاحب کا ہے جو 28 / مارچ 2015ء کو پچاس سال کی عمر میں بوسٹن امریکہ میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلهِ وإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب لکھتے ہیں کہ عزیزم انتصار تنزانیہ میں پیدا ہوئے تھے.یہ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری خالد احمدیت کے نواسے اور مختار احمد ایاز صاحب کے پوتے تھے.نیک ، قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے، تہجد پڑھنے والے.لندن یونیورسٹی سے انہوں نے کیمیکل انجنیئر نگ میں بی ایس سی اور بعد ازاں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹر کیا.نظام جماعت اور نظام خلافت کی کامل اطاعت کرتے تھے.طوالو کے پہلے صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھی مقرر ہوئے.لندن میں شعبہ اطفال الاحمدیہ میں پہلےسیکرٹری رہے اور پھر مجلس کے قائد بھی رہے.کافی عرصے تک اپنی مقامی جماعت کے سیکرٹری مال بھی رہے.ایک پر جوش داعی الی اللہ بھی تھے.ان کے ذریعہ سے بیعتیں بھی ہوئیں.چندوں کی ادائیگی میں بہت با قاعدہ تھے اور گزشتہ تین سالوں سے اپنے شعبہ میں مزید مہارت کے لئے امریکہ میں رہائش پذیر تھے.وہاں شدید بیمار ہو گئے اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا.ان کے لنگز (lungs) پر اثر ہو گیا یا شائد لیور (lever) پر اثر ہوا.بہر حال ایک اچھے مثالی بیٹے ، بھائی ،شوہر، اور باپ تھے.اپنے بیٹے کی تربیت کا بھی انہیں خیال تھا.ان کے لواحقین میں والدین اور بہنوں کے علاوہ ان کی اہلیہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اور نو سالہ بیٹا افنان ایاز شامل ہیں.یہ عطاء المجیب راشد صاحب کے بھانجے بھی
خطبات مسرور جلد 13 228 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 103 پریل 2015ء تھے.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر اور سکون عطا فرمائے.دوسرا جنازہ غائب ہے جو عزیزم وسیم احمد طالبعلم جامعہ احمدیہ قادیان کا ہے جو 25 / مارچ 2015ء کو دریائے بیاس میں ڈوب کر وفات پاگئے.انا للہ وانا إِلَيْهِ رَاجِعُون.چار دن کی مسلسل کوشش اور تلاش کے بعد ڈوبنے کی جگہ سے تقریباً دو کلو میٹر دور جا کر مرحوم کی نعش الٹی پڑی ہوئی ملی.مرحوم کے جسم پر کی قسم کا نشان نہیں تھا اور نہی نعش پھولی ہوئی تھی اور نہ کسی قسم کی بد بو تھی.پوسٹ مارٹم اور قانونی کارروائی کے بعد نعش کو بذریعہ ایمبولینس قادیان لایا گیا اور وہیں نماز ظہر سے قبل دو دن پہلے ان کا جنازہ پڑھا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.مرحوم 23 راگست 1995ء کو پیدا ہوئے.صوبہ تلنگانہ سے ان کا تعلق تھا.پیدائشی احمدی تھے.ان کے دادا د یسی باشو میاں صاحب کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دور خلافت میں حضرت سیٹھ حسن احمد صاحب صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.عزیزم وسیم احمد مرحوم 2013ء میں جامعہ قادیان میں تعلیم کی غرض سے وقف کر کے آئے اور اللہ کے فضل سے اچھے پڑھنے والے اور ہوشیار بچوں میں سے تھے.انتہائی خوش مزاج اور دین کی خدمت کا جذ بہ رکھنے والے تھے.جب یہ موسمی تعطیلات میں واپس اپنے گھر گئے تو غیر احمدی بچوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا ہو گیا.ان کے والد فوت ہو چکے ہیں ، والدہ بڑی پریشان ہوئیں کہ وہ اس کو ورغلانہ دیں.اس پر وسیم احمد نے اپنی والدہ کو کہا کہ اب میں قادیان میں ایک سال تعلیم حاصل کر کے آیا ہوں.میں اب ان غیر احمدی دوستوں کو جماعت کی تبلیغ کر رہا ہوں.یہ میرے ہم عمر ہونے کی وجہ سے بات بھی سن رہے ہیں.آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں احمدیت کے قبول کرنے کی توفیق دے.باقی طلباء کہتے ہیں کہ ہمیشہ ہم نے دیکھا کہ ان کو تہجد کے لئے جب جگانے جاؤ تو یہ پہلے ہی تہجد پڑھ رہے ہوتے تھے.ہمیشہ مسکرا کر بات کرنے والے.مرحوم نے اپنے پیچھے اپنی والدہ محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ جو کہ کافی ضعیف ہیں اور اکثر بیمار رہتی ہیں اور دو بڑے بھائی چھوڑے ہیں جن میں سے ایک واقف زندگی ہیں اور بطور معلم کام کر رہے ہیں.اور ان کی دو بہنیں ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان کی والدہ کو اور باقی لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 24 اپریل 2015 ء تا 30 اپریل 2015ء جلد 22 شماره 17 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 229 15 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10 ر ا پریل 2015 ء بمطابق 10 شہادت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِيْنَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُوْنَ ایک حقیقی مومن کی نماز اور عبادت (المؤمنون :2-3) یقیناً مومن کامیاب ہو گئے.وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں.ان آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ققَد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ کہہ کر مومنوں کی کامیابی کی یقینی خوشخبری عطا فرمائی ہے.لیکن کو نسے مومن؟ ان کی بہت سی شرائط اگلی آیتوں میں بیان فرمائی ہیں کہ ان شرائط کے ساتھ زندگی گزارنے والے مومن ہی فلاح پانے والے ہیں اور ان شرائط میں سے یا اُن اوصاف میں سے جن سے ایک مومن کو متصف ہونا چاہئے ، پہلی خصوصیت یا حالت یہ ہے کہ وہ فِي صَلَاتِهِمْ خُشِعُونَ.اپنی نمازوں میں خشوع دکھانے والے ہیں.خاشع “ کے عام معنی یہی کئے جاتے ہیں کہ نماز میں گریہ وزاری کرنے والے.لیکن اس کے اور بھی معنی ہیں اور جب تک سب معنی پورے نہ ہوں ایک مومن کی حقیقی معیار کی حالت پیدا نہیں ہوتی.اور لغات کے مطابق خشوع کے یہ معنی ہیں کہ انتہائی عاجزی اختیار کرنا.اپنے آپ کو بہت نیچے کرنا.اپنے نفس کو مٹا دینا.تذلل اختیار کرنا.اپنے آپ کو کمتر بنانے کے لئے کوشش کرنا.نظریں نیچی رکھنا.آواز کو دھیما اور نیچا رکھنا.پس دیکھیں اس ایک لفظ میں ایک حقیقی مومن کی نماز اور عبادت کا کیسا وسیع نقشہ کھینچا گیا ہے اور
خطبات مسرور جلد 13 230 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015 ء جو انسان خدا تعالیٰ کے آگے اپنی عبادتوں کے یہ معیار حاصل کرنے کے لئے جھکے گا ، اپنی عاجزی کو انتہا پر پہنچانے والا ہو گا، اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مٹانے والا ہو گا اور جو دوسری خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان کو اپنانے والا ہو گا تو پھر وہ جہاں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا ہو گا وہاں وہ اس طرف بھی توجہ دے گا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مخلوق کا بھی حق ادا کرنا ہے اور پھر یہ نمازیں اس کے دنیاوی معاملات سلجھانے والی بھی بن جائیں گی.پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 18 ) کی تصویر بنے کی کوشش کرے گا اور یہ تصویر بننے کی کوشش کرتے ہوئے ، اپنی انا اور نفس کی بڑائی کے چنگلوں سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے دنیاوی معاملات بھی سلجھائے گا یا سلجھانے کی کوشش کرے گا.اپنی نظروں کو حیا کی وجہ سے نیچے رکھتے ہوئے صرف نماز کی حالت میں ہی نہیں بلکہ عام روز مرہ زندگی میں بھی اس پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی بیشمار برائیوں سے بچے گا یا بچنے کی کوشش کرے گا.اپنی آواز کو نیچا رکھنے والا جہاں عبادت کے تعلق سے اس کا ادراک حاصل کرے گا وہاں اپنے روز مرہ معمولات میں بھی چیخنے چلانے اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رہے گا یا رہنے کی کوشش کرے گا.پس کئی برائیوں کا جن کا روزانہ کے معمولات سے تعلق ہے ایک مومن اپنی نمازوں اور عبادتوں کی وجہ سے ان کا بھی خاتمہ کر لیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسی نمازوں اور ایسے اثر اپنے پر قائم کرنے والے جولوگ ہیں وہ فلاح پاگئے.ایک ترجمہ تو فلاح پانے کا کیا گیا ہے جیسا کہ میں نے آیت میں ترجمہ کیا تھا کہ کامیاب ہو گئے.لیکن اس کامیابی کی بڑی وسعت ہے کہ کس طرح کامیابی حاصل کی.لغت میں اس کے معنی ہیں آسانیاں پیدا ہونا.کشائش ہونا.خوش قسمتی کا ملنا.خواہش کا پورا ہونا.تحفظ ملنا.اچھائی اور خوشی کا مستقل رہنا.زندگی کی نعمتوں کا ملنا.پس نیکیاں بجالانے والے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نیکیاں کرتے ہیں کس کس رنگ میں فائدہ اٹھانے والے ہیں یا اللہ تعالیٰ کس کس رنگ میں ان پر فضل کرتا ہے.یہ سب انسانی تصور سے بھی باہر ہے اور ان فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے پہلا قدم اور انتہائی اہم قدم
خطبات مسرور جلد 13 231 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015ء نمازوں میں خشوع پیدا کر نا رکھا ہے.ان باتوں کے حصول کے لئے عبادت کر نا رکھا ہے.عاجزی تو بعض دنیا دار بھی بعض دفعہ دکھا دیتے ہیں بلکہ صرف اگر گریہ وزاری کا سوال ہے تو بعض دنیا دار ذرا ذراسی بات پر ایسی گریہ وزاری کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.ایسی جگہوں پر جہاں ان کے دنیاوی مفاد متاثر ہو رہے ہوں وہ ذلیل ترین ہونے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں.یا عارضی طور پر جذبات کا اظہار بھی بعضوں سے ہوتا ہے.بعض حالات دیکھ کر بعض لوگوں کی حالتیں دیکھ کر رحم بھی پیدا ہو جاتا ہے اور درد ناک حالت دیکھ کر ان میں انتہائی جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.لیکن یہ سب یا تو اپنے مفادات کے لئے یا دنیا دکھاوے کے لئے یا ایک عارضی اور وقتی جذبے کے تحت ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ سب کچھ نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا تو ان ظاہری باتوں سے بہت دُور ہوتا ہے.دنیا داروں کی جذباتی حالت کے بارے میں یا ظاہری اور وقتی طور پر گریہ وزاری کا اظہار کرنے والوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ بیان فرمایا کہ: بہت سے ایسے فقیر میں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی درد ناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے ان کے آنسو گرنے شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کو رات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ہونے کے اندر لے جاسکیں ( یعنی جس طرح بارش ایک دم آ جاتی ہے اس طرح ایک دم ان کے آنسو بہنے لگ جاتے ہیں.پھر فرمایا) لیکن میں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص میں نے بڑے مگار بلکہ دنیا داروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں اور بعض کو میں نے ایسے خبیث طبع اور بددیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے ان کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع خضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے کہ کسی مجلس میں ایسی رقت اور سوز و گداز ظاہر کروں.“ - (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 194) پس ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے بعض نظارے دیکھ کر آنسو گرنے میں دیر نہیں لگتی لیکن یہ ایک وقتی جذ بہ ہوتا ہے.جب اپنے مفادات ہوں تو پھر اس شخص میں کبھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوگی.اگر ایک وقت میں ایک حالت کو دیکھے جہاں جذبات نہ ہوں، اپنے اپنے مفادات نہ ہوں تو وہ کیفیت پیدا ہوسکتی ہے لیکن جب اپنے مفادات ہوں تو کبھی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ ظلم بھی کر دیتا ہے اور کبھی رحم نہیں
خطبات مسرور جلد 13 232 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015ء آتا.یا بعض اور ایسی برائیاں ہوتی ہیں جو خدا کو نا پسند ہیں یا ان کی نمازیں اور عبادتیں صرف دکھاوے کے لئے ہوتی ہیں.ض پس جب یہ صورتحال ہو تو قَد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ کے زمرے میں کس طرح ایسے لوگ آ سکتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے کئی سال تک باقاعدہ مسجد میں نمازیں پڑھیں تا کہ لوگ ان کی تعریف کریں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی کسی گزشتہ نیکی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق یہ بات ڈال دی کہ سب لوگ انہیں منافق کہتے تھے.( خواہش ان کی یہ تھی کہ لوگ تعریف کریں لیکن لوگ انہیں منافق کہتے تھے.آخر ایک دن ان بزرگ کو خیال آیا کہ اتنی عمر ضائع ہوگئی.کسی نے بھی مجھے نیک نہیں کہا.اگر خدا کے لئے عبادت کرتا تو خدا تعالیٰ تو راضی ہو جاتا.یہ خیال ان کے دل میں اتنے زور سے آیا کہ وہ اسی وقت جنگل میں چلے گئے.روئے اور دعائیں کیں اور توبہ کی اور عہد کیا کہ خدا یا اب میں صرف تیری رضا کے لئے عبادت کیا کروں گا.جب واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہ شخص ہے تو بہت ہی نیک مگر معلوم نہیں لوگوں نے اسے کیوں بدنام کر رکھا ہے اور بچے اور بوڑھے سب اس کی تعریف کرنے لگے.اس بزرگ نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدا یا صرف ایک دن میں نے تیری رضا کی خاطر نماز پڑھی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے میری تعریف شروع کر دی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 705) اب دیکھیں احساس پیدا ہوتے ہی جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی عبادتوں کو ڈھالا یا خالص ہو کے عبادت کی جو اس کی خاطر کی جارہی تھی تو اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو گیا.لیکن اب یہ کوئی خواہش نہیں رہی تھی کہ لوگ میری تعریف کریں مجھے بڑا بزرگ سمجھیں اور اب خواہش کے نہ ہونے کے باوجود لوگوں نے انہیں وہی کچھ کہنا شروع کر دیا جس کی وہ پہلے خواہش رکھتے تھے.لوگ تعریف کرنے لگ گئے.پہلے خواہش رکھتے تھے اور باوجود چاہنے کے کامیاب نہیں ہوئے تھے.لیکن اب بالکل اور صورتحال ہو گئی اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا.دوسرے اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض پرانی نیکیوں کی قدر کرتے ہوئے کسی کی اصلاح کے سامان پیدا فرما دیتا ہے.یہ جو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی پرانی نیکی پسند آ گئی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نیکی کی وجہ سے ان کو لوگوں کے کہنے پر یہ احساس پیدا ہوا اور لوگوں کا انہیں پہلے منافق کہنا ان کی
خطبات مسرور جلد 13 233 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015ء اصلاح کا باعث بن گیا اور یہ یونہی نہیں ہو گیا بلکہ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی گزشتہ نیکی پسند آئی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ ان کی عبادت اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گئی.اللہ تعالیٰ کیونکہ خود اصلاح کرنا چاہتا تھا اس لئے لوگوں کے کہنے پر ان کو احساس پیدا ہو گیا اور اگر دوسرےلوگوں کے دلوں میں پہلے یہی ڈالے رکھا کہ یہ منافق ہے.تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ ان کی تعریف کریں اور اس وجہ سے غلط طور پر ان میں خود پسندی کی عادت پیدا ہو جائے اور وہ مزید گناہوں میں ڈوبتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ کسی پرانی نیکی کی وجہ سے اصلاح چاہتا تھا تو ان کی اصلاح کے سامان پیدا کر دیئے اور فلاح پانے والوں میں وہ شامل ہو گئے.پس کسی پہلے وقت کی کی گئی بعض نیکیاں بھی باوجود بعد کی غلطیوں اور گناہوں کے سرزد ہونے کے انسان کو بدانجام سے بچانے کا موجب بن جاتی ہیں اور انسان فلاح پانے والوں میں شمار ہونے والا بن سکتا ہے.اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت پر منحصر ہے.اللہ تعالیٰ کسی کی اصلاح کرنا چاہے تو اس طرح بھی کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں ان مومنوں کو یقینی فلاح کی ضمانت دی ہے جو اس کی رحیمیت سے فیض پانے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کی پہلی شرط نمازوں اور عبادتوں میں خشوع ہے.جو اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر خشوع کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے مومن کی اس حالت کو انسان کی پیدائش کے مختلف ادوار سے تشبیہ دیتے ہوئے جو بیان فرمایا ہے اس کے صرف پہلے حصے یعنی الَّذِينَ هُمْ في صَلَاتِهِمْ خُشِعُونَ کو میں پیش کرتا ہوں جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کوئی نیکی اس وقت تک نیکی نہیں رہتی ، نہ عبادتیں اس وقت تک مستقل بنیادوں پر عبادتیں رہتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ساتھ انسان چمٹا رہنے کی کوشش نہ کرے یا اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور اپنی عبادتوں کو صرف ایک ایسی کوشش سمجھے جو اسے اللہ تعالیٰ سے چمٹائے رکھنے کا اس کے فضل سے ہی ذریعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اول مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقت اور سوز وگداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الہی میں مومن کو میسر آتی ہے.یعنی گدازش اور رقت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا.اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کر کے خدائے عزوجل کی طرف دل کو جھکانا جیسا کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے قد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي
خطبات مسرور جلد 13 234 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015ء صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ.یعنی وہ مومن مراد پاگئے جو اپنی نمازوں میں اور ہر ایک طور کی یاد الہی میں صرف نماز ہی نہیں بلکہ ہر ایک طور کی یاد الہی میں فروتنی اور عجز و نیاز اختیار کرتے ہیں.اور رقت اور سوز و گداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 188) پس نماز میں گداز رہنے والا ، خشوع کرنے والا ، دوسری قسم کی یاد الہی میں بھی یہی نقشہ اپنے پر طاری رکھتا ہے جو نماز میں ہوتا ہے.جس کی وضاحت میں پہلے لغوی معنوں میں کر آیا ہوں جو خشوع کے لغوی معنے بیان کئے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر ایک طور کی یاد الہی میں فروتنی اختیار کرتے ہیں اور آدمی چلتے پھرتے بھی یاد الہی کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت بھی عاجزی ہوتی ہے.اور جب ہر ایک طور کی یاد الہی ہو تو ہر عمل چاہے وہ روز مرہ کے معاملات کا ہو خدا تعالیٰ کی یاد کوسامنے رکھتے ہوئے ،اس کے احکام کی یاد دلاتے ہوئے عجز اور خوف کی حالت پیدا کئے رکھتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نماز میں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لئے ایک نطفہ ہے اور نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قومی اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 189 ) یہاں جیسا کہ میں نے کہا تھا انسانی پیدائش کے دوروں سے مثال دی ہے تو یہ اب اس کی مثال بیان ہو رہی ہے.جس طرح نطفہ رحم میں جا کر بچہ بن کر پیدا ہوتا ہے اور پھر تمام خصوصیات والا ایک کامل انسان بن جاتا ہے.اسی طرح خشوع روحانی ترقی کے مدارج طے کرواتا ہوا روحانی لحاظ سے انسان کو مکمل کر دیتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : اور جیسا کہ نطفہ اُس وقت تک معرض خطر میں ہے جب تک کہ رحم سے تعلق نہ پکڑے.“ (یعنی اس وقت تک ضائع ہونے کا خطرہ ہے جب تک رحم میں چلا نہیں جاتا جہاں آگے اس کی اللہ تعالیٰ کی قانون قدرت کے مطابق بڑھوتری ہوئی ہے.فرمایا: ”ایسا ہی روحانی وجود کی یہ ابتدائی حالت یعنی خشوع کی حالت اُس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑ لے.یادر ہے کہ جب خدا
خطبات مسرور جلد 13 235 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015ء تعالیٰ کا فیضان بغیر توسط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے ہوتا ہے.جیسا کہ جو کچھ خدا نے زمین و آسمان وغیرہ انسان کے لئے بنائے یا خود انسان کو بنایا یہ سب فیض رحمانیت سے ظہور میں آیا.لیکن جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے.“ فرما یا کہ دیہی سنت اللہ بنی آدم کے لئے جاری ہے.پس جبکہ انسان نماز اور یاد الہی میں خشوع کی حالت اختیار کر تا ہے تب اپنے تئیں رحیمیت کے فیضان کے لئے مستعد بناتا ہے.سونطفہ میں اور روحانی وجود کے پہلے مرتبہ میں جو حالت خشوع ہے صرف فرق یہ ہے کہ نطفہ رحم کی کشش کا محتاج ہوتا ہے اور یہ (رحیم خدا کی یعنی ) رحیم کی کشش کی طرف احتیاج رکھتا ہے.اور جیسا کہ نطفہ کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحم کی کشش سے پہلے ہی ضائع ہو جائے ایسا ہی روحانی وجود کے پہلے مرتبہ کے لئے یعنی حالت خشوع کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحیم کی کشش اور تعلق سے پہلے ہی برباد ہو جائے.“ (پس بعض عبادتیں جو دکھاوے کی عبادتیں ہوتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے، رحیم خدا سے تعلق پیدا کرنے سے پہلے ہی برباد ہو جاتی ہیں.فرمایا ”جیسا کہ بہت سے لوگ ابتدائی حالت میں اپنی نمازوں میں روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور خدا کی محبت میں طرح طرح کی دیوانگی ظاہر کرتے ہیں اور طرح طرح کی عاشقانہ حالت دکھلاتے ہیں اور چونکہ اس ذات ذوالفضل سے جس کا نام رحیم ہے کوئی تعلق پیدا نہیں ہوتا“.( یہ ساری چیزیں کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو رحیم ہے اس سے وہ تعلق پیدا نہیں ہوتا جو ہونا چاہئے ) اور نہ اس کی خاص تجلی کے جذبہ سے اس کی طرف کھنچے جاتے ہیں اس لئے ان کا وہ تمام سوز و گداز اور تمام وہ حالت خشوع بے بنیاد ہوتی ہے اور بسا اوقات ان کا قدم پھسل جاتا ہے یہاں تک کہ پہلی حالت سے بھی بدتر حالت میں جا پڑتے ہیں“.(اب نبیوں کی بیعت میں آ کر پھر مرتد ہونے والے کئی ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی بعض تھے.ڈاکٹر عبدالحکیم کا بھی ذکر آتا ہے.سب کچھ ہونے کے باوجود، اپنی نیکیوں پر پہنچنے کے باوجود اگر پھسلا تو بالکل ہی دین سے بھی گیا.) فرمایا ”پس یہ عجیب دلچسپ مطابقت ہے کہ جیسا کہ نطفہ جسمانی وجود کا اول مرتبہ ہے اور جب تک رحم کی کشش اس کی دستگیری نہ کرے وہ کچھ چیز ہی نہیں.ایسا ہی حالتِ خشوع روحانی وجود کا اول مرتبہ ہے اور جب تک رحیم خدا کی کشش اُس کی دستگیری نہ کرے وہ حالت خشوع کچھ بھی چیز نہیں“.اللہ تعالیٰ کی مدد ہو گی ، اس تک پہنچے گا، رحیم خدا سے تعلق پیدا ہوگا تو وہ خشوع کامیاب رہے گا.نہیں تو صرف ظاہری رونا ہے.بعض کہتے ہیں کہ جی ہم بڑے روئے، بڑے چلائے ، دعائیں قبول نہیں ہوتیں.لیکن اپنی حالتوں کا
خطبات مسرور جلد 13 236 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015ء جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ باقی چیزیں بھی پوری ہو رہی ہیں کہ نہیں.فرمایا کہ اسی لئے ہزار ہا ایسے لوگوں کو پاؤ گے کہ اپنی عمر کے کسی حصہ میں یاد الہی اور نماز میں حالت خشوع سے لذت اٹھاتے اور وجد کرتے اور روتے تھے اور پھر کسی ایسی لعنت نے اُن کو پکڑ لیا کہ یک مرتبہ نفسانی امور کی طرف گر گئے اور دنیا اور دنیا کی خواہشوں کے جذبات سے وہ تمام حالت کھو بیٹھے.یہ نہایت خوف کا مقام ہے کہ اکثر وہ حالت خشوع رحیمیت کے تعلق سے پہلے ہی ضائع ہو جاتی ہے اور قبل اس کے کہ رحیم خدا کی کشش اس میں کچھ کام کرے وہ حالت بر باد اور نابود ہو جاتی ہے“.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 189-190) پس کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کی عبادتیں خشوع کے اعلیٰ معیار پر پہنچ گئی ہیں.خشوع جیسا کہ میں نے پہلے بھی وضاحت کی ہے ان تمام جزئیات پر مشتمل ہے جو اس کے مضمون میں، معنی میں میں وضاحت سے بیان کر چکا ہوں.جب یہ جزئیات تمام تر عاجزی اور انکسار سے ادا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رحیمیت پھر انہیں پھل لگاتی ہے.یہ مثال جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے اس میں انسان کو نہیں پتا کہ رحیم خدا کی رحیمیت نے کب اس کو قبول کر کے پھل لگانا ہے.پس ایک مسلسل کوشش کی ضرورت ہے.جس طرح ظاہری طور پر پتا نہیں ہوتا کہ کب fertilization ہونی ہے اور کب بچہ پیدا ہونا ہے.بچے نے بننا شروع ہونا ہے اور پھر جس طرح بعض دفعہ رحم میں جا کر بھی نطفے میں بعض نقائص پیدا ہو جاتے ہیں، نطفہ ان کا حامل ہو جاتا ہے.اس موقع پر مسجد کے اندر کسی کے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی جس پر حضور انور نے فرمایا : جس کا فون چل رہا ہے اپنا فون بند کریں اور مسجد میں بند کر کے آیا کریں.جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا اور نطفے کی جو مثال دی تھی کہ جس طرح نطفہ رحم میں جا کر نقائص کا حامل ہو جاتا ہے ایسا ہی بعض دفعہ انسان کا ایک دفعہ کا خشوع اس کو اگر پھل لگا بھی دے گا اور یا پھل لگا دیتا ہے تو پھر اس میں بعض دفعہ خناس پیدا ہو جاتا ہے، اپنی بڑائی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ انبیاء کو قبول کر کے پھر چھوڑ دینے والوں کی حالت ہوتی ہے.تو یہ بڑائی اور تکبر ہی ہوتا ہے جو پھر ان کو ان نیکیوں سے چھڑوا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق اس وقت تک رہتا ہے جب تک خدا تعالیٰ کے فرستادے سے تعلق رہے اور جہاں وہ تعلق چھوڑ اوہاں ذلت کے اور گمراہی کے کنوئیں میں گر گئے.پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا خوف پیش نظر رہنا چاہئے.اس کی رحیمیت کے حصول کے لئے کوشش رہنی چاہئے.اس کے فضلوں کو طلب کرتے رہنا
خطبات مسرور جلد 13 237 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015ء چاہئے.اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنی ذراسی کوششوں یا ایک آدھ دعا کے قبول ہونے یا چند سچی خوابیں دیکھنے پر نازاں نہیں ہو جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تمہاری ایک آدھ دعا کا قبول ہو جانا یا چند سچی خوابیں دیکھ لینا تمہیں فلاح پانے والوں میں شمار کر لے گا.اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے اور فلاح والے اپنی عاجزی انکساری کی انتہا کو پہنچنے کے باوجود، لغویات سے پر ہیز کرنے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے باوجود، اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنے کے باوجود، اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے باوجود، اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے کے باوجود، اپنی نمازوں کے حق ادا کرنے کے باوجود اور ان کی حفاظت کرنے کے باوجود پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں اپنے فضلوں کی چادر میں ڈھانپ لے کہ اس کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں.پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو انسان کی مسلسل کوشش کو جو وہ اس کی رحیمیت کو جذب کرنے کے لئے کرتا ہے قبولیت کا درجہ دیتا ہے.یعنی رحیمیت کو جذب کرنے کی کوشش جو ہے وہ مسلسل رہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے انسان قبول کیا جاتا ہے اور انجام اس کا بہترین نکلتا ہے.پس اس نکتے کو ایک حقیقی مومن کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے بیشک یہ فرما دیا کہ مؤمن فلاح پاگئے جو یہ یہ کام کرتے ہیں لیکن اس فلاح کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے ہر ترقی اور ہر فضل جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں اسے اپنی کسی کوشش کا نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ ہر ترقی کے بعد سمجھے کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا.اگر یہ مادہ پیدا ہو جائے تو ترقی ہوتی چلی جائے گی ورنہ اس نطفے کی طرح جو رحم میں جا کر مکمل پرورش نہیں پاتا اور چند ہفتوں کے بعد نکل کر ضائع ہو جاتا ہے، ہمارا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو عارضی طور پر جذب کرنے کے بعد اپنے کسی بد عمل سے ناکارہ ہوکر ضائع ہوسکتا ہے اور ہوجاتا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا ہمیں اپنے انجام کی طرف توجہ رکھنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی رحیمیت کو جذب کرتے ہوئے ہمارے ہر عمل سے وہ بچہ پیدا ہو جو ہر لحاظ سے مکمل ہو.ان لوگوں میں ہم شمار ہوں جو بجوں جوں عبادت میں ترقی کرنے والے ہوں تو تذلل بھی ان کا بڑھتا چلا جائے.عاجزی اور انکساری بھی ان کی بڑھتی چلی جائے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عبادتوں کی خوبصورتی اور خشوع کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے یہ فرماتے ہیں کہ میں بھی جنت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جاؤں گا (صحيح البخارى كتاب الطب باب تمنى المريض الموت حدیث نمبر 5673 دار الكتاب العربي بيروت 2004ء
خطبات مسرور جلد 13 238 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اپریل 2015ء تو پھر کسی اور کا صرف عمل اسے کس طرح جنت میں لے جاسکتا ہے یا اللہ تعالیٰ اس سے راضی رہ سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام باتوں کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ضمانت دی ہوئی تھی اور انہوں نے دنیا کی اصلاح کرنی تھی ، اسی کے لئے آئے تھے اور آپ کے عمل جیسا عمل تو کسی کا نہیں ہو سکتا وہ بھی اپنے خشوع و خضوع کو اس طرح بڑھاتے ہیں کہ نوافل میں یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ میرے پاؤں بھی متورم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے مسلسل عاجزی اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہے جو ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.ہر حقیقی مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے نماز شروع کرنے اور ختم کرنے میں ایک واضح فرق ہو.اگر نماز شروع کرنے سے پہلے اس میں کوئی انا یا تکبر کا حصہ تھا بھی تو نماز ختم کرتے وقت اس کا دل ان چیزوں سے پاک ہونا چاہئے.اسی طرح باقی عبادتیں ہیں.ہر عبادت کا خاتمہ اس کے تکبر کا خاتمہ اور تذلل کا اختیار کرنا ہو.اپنے روزمرہ معاملات میں ایک دوسرے سے سلوک اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے دل میں عاجزی کی حالت لئے ہوئے ہو.پس عبادتیں ہمیں جھکائے چلی جانے والی ہونی چاہئیں تا کہ خدا تعالیٰ کی رحیمیت اس کو ہر وقت تازہ اور صحت مند پھلنے پھولنے والے پھل لگاتی رہے.ہر دن ہمیں اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرواتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضل کو بڑھانے والا بنائے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ استغفار کرتے رہنے والا بنائے.ہماری ہر نیکی اگر خدا تعالیٰ کی نظر میں نیکی ہے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہو.ہم میں سے ہر ایک ان لوگوں میں شامل ہو جائے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں فلاح پانے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 01 مئی 2015 ء تا 07 مئی 2015 ءجلد 22 شمارہ 18 صفحہ 05 تا08 )
خطبات مسرور جلد 13 239 16 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015 ء بمطابق 17 شہادت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: دعا کی اہمیت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک موقع پر دعا کی اہمیت بیان فرما رہے تھے کہ کس طرح دعا سے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے جاسکتے ہیں.اس کی تفصیل بتاتے ہوئے آپ نے علم توجہ یعنی مسمریزم کے متعلق بھی بیان فرمایا کہ جو لوگ مسمرائز کرنے کے ماہر ہوتے ہیں وہ بھی اس علم کے ذریعہ سے لوگوں میں بعض تبدیلیاں پیدا کر دیتے ہیں مگر یہ عارضی اور انفرادی ہوتی ہیں اور پھر ایسی بھی نہیں ہوتیں جس سے کوئی انقلابی فوائد حاصل ہو رہے ہوں جبکہ دعا ئیں اگر تو اس کا حق ادا کرتے ہوئے کی جائیں تو قوموں کی بگڑی بنادیتی ہیں.اس تفصیل میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا جو حضرت صوفی احمد جان صاحب سے متعلق ہے.حضرت صوفی احمد جان صاحب سے متعلق میں نے تین جمعہ پہلے بھی بیان کیا تھا کہ کس طرح انہوں نے ایک پیر صاحب کے ساتھ رہ کر مجاہدہ کیا تھا لیکن بعد میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی انہیں عقیدت پیدا ہوگئی تھی اور دعوئی سے پہلے ہی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو پہچان لیا تھا.بہر حال اب میں حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں اس کی تفصیل بیان کرتا ہوں جس سے پتا چلتا ہے کہ علم تو جہ سے دوسرے پر اثر ڈالنے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا حیثیت دیتے تھے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ علم توجہ کیا ہے؟ محض چند کھیلوں کا نام ہے لیکن دعا وہ ہتھیار
خطبات مسرور جلد 13 240 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء ہے جو زمین و آسمان کو بدل دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعوی نہیں کیا تھا صرف براہین احمد یہ کبھی تھی کہ اس کی صوفیاء اور علماء میں بہت شہرت ہوئی.پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد صوفی احمد جان صاحب اس زمانے کے نہایت ہی خدار سیدہ بزرگوں میں سے تھے.جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار پڑھا تو آپ سے خط و کتابت شروع کر دی اور خواہش ظاہر کی کہ اگر کبھی لدھیانہ تشریف لائیں تو مجھے پہلے سے اطلاع دیں.اتفاقاً انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ جانے کا موقع ملا.صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی.دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے گھر سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ صوفی احمد جان صاحب بھی ساتھ چل پڑے.وہ ( صوفی احمد جان صاحب) رتر چھتر والوں کے مرید تھے.اور ماضی قریب میں (یعنی اس زمانے کی جب آپ بات کر رہے ہیں ) رتر چھتر والے ہندوستان کے صوفیاء میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اور تمام علاقے میں مشہور تھے.علاوہ زہد و انتقا کے انہیں علم تو جہ میں اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ جب وہ ( پیر صاحب) نماز پڑھتے تھے تو ان کے دائیں بائیں بہت سے مریض صف باندھ کر بیٹھ جاتے تھے اور نماز کے بعد جب وہ سلام پھیرتے تھے تو سلام پھیرنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پھونک بھی مار دیتے تھے ( اور اس کا اثر تھا کیونکہ علم توجہ کا اثر بھی زیادہ ہوتا تھا ) جس سے مریض شفایاب بھی ہو جاتے تھے.جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں میں بیان کر چکا ہوں کہ صوفی احمد جان صاحب نے بارہ سال ان پیر صاحب کی شاگردی کی اور وہ چنگی ان سے پواتے رہے.تو بہر حال راستے میں صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں نے اتنے سال رتر چھتر والوں کی خدمت کی ہے اور اس کے بعد مجھے وہاں سے اس قدر طاقت حاصل ہوئی ہے کہ دیکھئے میرے پیچھے جو شخص آ رہا ہے اگر میں اس پر توجہ کروں ( یعنی مسمرائز کر کے) تو وہ ابھی گر جائے اور تڑپنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے اور اپنی سوٹی کی نوک سے زمین پر نشان بناتے ہوئے فرمایا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب آپ پر خاص جوش کی حالت طاری ہوتی تھی تو آہستگی سے اپنی سوٹی کے سر کو اس طرح زمین پر آہستہ آہستہ رگڑتے تھے جس طرح کوئی چیز کرید کر نکالی جاتی ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور سوٹی سے اس طرح زمین کریدنی شروع کی.فرمایا: صوفی صاحب ! اگر وہ گر جائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا اور اس کو کیا فائدہ ہوگا ؟
خطبات مسرور جلد 13 241 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء وہ (صوفی صاحب) چونکہ واقعہ میں اہل اللہ میں سے تھے.خدا تعالیٰ نے ان کو دُور بین نگاہ دی ہوئی تھی اس لئے یہ بات سنتے ہی ان پر محویت کا عالم طاری ہو گیا اور کہنے لگے میں آج سے اس علم سے تو بہ کرتا ہوں.مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ دنیوی بات ہے، دینی بات نہیں.چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ایک اشتہار دیا جس میں یہ لکھا کہ یہ علم اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں.چنانچہ کوئی ہندو یا عیسائی بھی اس علم میں ماہر ہونا چاہے تو ہوسکتا ہے.اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مریدا سے اسلام کا جز و سمجھ کر نہ کرے.ہاں دنیوی علم سمجھ کر کر نا چاہے تو کرسکتا ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ جو میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے انہیں دُور بین نگاہ دی ہوئی تھی اس کا ہمارے پاس ایک حیرت انگیز ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی براہین احمدیہ ہی لکھی تھی کہ وہ سمجھ گئے کہ یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے حالانکہ اس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہ انکشاف نہیں ہوا تھا کہ آپ کوئی دعوی کرنے والے ہیں.چنانچہ انہی دنوں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط میں یہ شعر لکھا.پہلے بھی میں شعر کا ذکر کر چکا ہوں کہ ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لئے تو حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ امر بتاتا ہے کہ وہ صاحب کشف تھے اور خدا تعالیٰ نے انہیں بتادیا تھا کہ یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پہلے فوت ہو گئے مگر وہ اپنی اولاد کو وصیت کر گئے کہ حضرت مرزا صاحب دعوی کریں گے انہیں مانے میں دیر نہ کرنا.اور ان کے بارے میں تعارف مزید یہ بھی ہے کہ حضرت مصلح موعود نے لکھا ہے کہ حضرت خلیفۃ اسیح الاول کی شادی بھی ان کے ہاں ہوئی تھی.(ماخوذ از خطبات محمود.جلد 17 صفحہ 101 تا 103 ) حضرت خلیفۃ اسیح الاول ان کے داماد تھے.پھر مسمریزم سے متعلق ایک واقعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ہوا حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادہ پر مسمریزم کرنے والے کو نہ صرف ناکام و نامراد کیا بلکہ نشان دکھایا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ : مسمریزم والوں کی قوت ارادی ایمان کی قوت ارادی کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے.مسمریزم کی قوت ارادی ایمان کی قوت ارادی کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتی.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوت ارادی اور انسان کی قوت ارادی میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے.جس مسجد میں آپ یہ خطبہ دے رہے تھے آپ نے فرمایا کہ ) اسی مسجد مبارک میں نچلی چھت پر
خطبات مسرور جلد 13 242 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجلس میں بیٹھا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک ہندو جولا ہور کے کسی دفتر میں اکا ؤنٹنٹ تھا اور مسمریزم کا بڑا ماہر تھاوہ کسی بارات کے ساتھ قادیان اس ارادہ سے آیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کروں گا اور وہ مجلس میں بیٹھے ناچنے لگ جائیں گے (نعوذ باللہ ) اور لوگوں کے سامنے ان کی سبکی ہوگی.یہ واقعہ اس ہندو نے خود ایک احمدی دوست کو سنا یا تھا.وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لاہور کے اس احمدی کے ہاتھ اپنی ایک کتاب روانہ فرمائی اور کہا یہ کتاب فلاں ہندو کو دے دینا.اس احمدی دوست نے اس کو کتاب پہنچائی اور اس سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے آپ کو اپنی کتاب کیوں بھجوائی ہے اور آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس پر اس ہندو نے اپنا واقعہ بتایا کہ مجھے مسمریزم کے علم میں اتنی مہارت ہے کہ اگر میں تانگے میں بیٹھے ہوئے کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ شخص جس پر میں نے توجہ ڈالی ہوگی وہ بھی تانگے کے پیچھے بھا گا آئے گا حالانکہ نہ وہ میرا واقف ہوگا اور نہ میں اس کو جانتا ہوں گا.تو کہنے لگا کہ میں نے آریوں اور ہندوؤں سے مرزا صاحب کی باتیں سنی تھیں کہ انہوں نے آریہ مت کے خلاف بہت سی کتابیں لکھیں.میں نے ارادہ کیا کہ مرزا صاحب پر مسمریزم کے ذریعہ اثر ڈالوں گا اور جب وہ مجلس میں بیٹھے ہوں گے تو ان پر توجہ ڈال کر ان کے مریدوں کے سامنے ان کی سبکی کروں گا.چنانچہ میں ایک شادی کے موقع پر قادیان گیا.مجلس منعقد تھی اور میں نے دروازے میں بیٹھ کر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی.وہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کچھ وعظ ونصیحت کی باتیں کر رہے تھے.کہتا ہے کہ میں نے توجہ ڈالی تو کچھ بھی اثر نہ ہوا.میں نے سمجھا ان کی قوت ارادی ذرا قوی ہے اس لئے میں نے پہلے سے زیادہ توجہ ڈالنی شروع کی مگر پھر بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور وہ اسی طرح باتوں میں مشغول رہے.میں نے سمجھا کہ ان کی قوت ارادی اور بھی مضبوط ہے.اس لئے میں نے جو کچھ میرے علم میں تھا اس سے کام لیا اور اپنی ساری قوت صرف کر دی لیکن جب میں ساری قوت لگا بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک شیر میرے سامنے بیٹھا ہے اور مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے.(یہ بھی ایک جگہ بیان فرمایا کہ ہر مرتبہ شیر نظر آتا تھا لیکن آخری مرتبہ وہ شیر حملے کے لئے تیار نظر آیا.بہر حال کہنے لگا شیر کو دیکھ کر ) میں ڈر کر اور اپنی جوتی اٹھا کر وہاں سے بھاگا.جب میں دروازے پر پہنچا تو مرزا صاحب نے اپنے مریدوں سے کہا دیکھنا یہ کون شخص ہے؟ چنانچہ ایک شخص میرے پیچھے سیڑھیوں سے نیچے اترا اور اس نے مسجد کے ساتھ والے چوک میں مجھے پکڑ لیا.میں چونکہ اس قوت سخت حواس باختہ تھا اس لئے میں نے پکڑنے والے سے کہا.اس
خطبات مسرور جلد 13 243 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015 ء وقت مجھے چھوڑ دو، میرے حواس درست نہیں ہیں.میں بعد میں یہ سارا واقعہ مرزا صاحب کو لکھ دوں گا.چنانچہ اسے چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ تمام واقعہ لکھا اور کہا کہ مجھ سے گستاخی ہوئی.میں آپ کے مرتبے کو پہچان نہ سکا.اس لئے آپ مجھے معاف فرما دیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میاں عبدالعزیز صاحب مغل لاہور والے سنایا کرتے تھے (ان کے خاندان کے بہت سے افراد یہاں بھی ہیں ) کہ میں نے اس ہندو سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں نہ سمجھا کہ مرزا صاحب مسمریزم کو جانتے ہیں اور اس علم میں تم سے بڑھ کر ہیں.اس نے کہا یہ بات نہیں ہوسکتی کیونکہ مسمریزم کے لئے توجہ کا ہونا ضروری ہے اور یہ عمل کامل سکون اور خاموشی چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو باتوں میں لگے ہوئے تھے.اس لئے میں نے سمجھ لیا کہ ان کی قوت ارادی زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ پس جو قوت ارادی خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دی جاتی ہے اور جو کامل ایمان کے بعد پیدا ہوتی ہے اس میں اور انسانی قوت ارادی میں بُعد المشرقین ہے.جس شخص کو خدا تعالیٰ قوت ارادی عطا فرماتا ہے اس کے سامنے انسانی قوت ارادی تو بچوں کا ساکھیل ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے سامنے جادو گروں کے سانپ مات ہو گئے تھے.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کے پیاروں کی قوت ارادی ظاہر ہوتی ہے تو اس قسم کی قوت ارادی رکھنے والے لوگ جو دنیاوی طور پر قوت ارادی رکھتے ہیں بیچ ہو جاتے ہیں.قومی ترقی کیلئے سچائی کی ضرورت واہمیت پھر ایک موقع پر یہ بات بیان فرماتے ہوئے کہ قومی ترقی کے لئے کیا کچھ ضروری ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دینی معاملات میں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام میں کس حد تک غیرت تھی.آپ بیان فرماتے ہیں کہ : قومی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام سچائیوں کو اپنے اندر جذب کر لیا جائے.مسائل کے بارے میں بھی، عقائد کے بارے میں بھی انتہائی ضروری چیز ہے کہ سچائیاں اپنے اندر جذب کی جائیں ).یہ نہیں کہ صرف وفات مسیح کو مان لیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ بس ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے بلکہ وفات مسیح کے مسئلہ کو سامنے رکھ کر اس پر غور کیا جائے کہ وفات مسیح کا ماننا کیوں ضروری ہے؟ ہمیں جو چیز حیات مسیح کے عقیدہ سے پچھتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو حیات مسیح کے عقیدہ سے حضرت عیسیٰ کی فضیلت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت ہوتی ہے حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان
خطبات مسرور جلد 13 244 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء کا کوئی نبی ہوا ہے نہ ہوگا اور حیات مسیح ماننے سے محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے ساری دنیا کی حقیقی اصلاح کی ہمسیح کی فوقیت ثابت ہوتی ہے اور یہ اسلامی عقائد کے خلاف ہے.ہم تو ایک لمحے کے لئے یہ خیال بھی اپنے دل میں نہیں لا سکتے کہ مسیح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے اور یہ ماننے سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو زیر زمین مدفون ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام چوتھے آسمان پر بیٹھے ہیں اسلام کی سخت تو ہین ہوتی ہے.دوسری بات جو اس حیات مسیح کے عقیدہ کے ماننے سے ہمیں پچھتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے توحید الہی میں فرق آتا ہے.یہ دو چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہمیں وفات مسیح کے مسئلے پر زور دینا پڑتا ہے.اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو مسیح خواہ آسمان پر ہوتے یا زمین پر ہمیں اس سے کیا واسطہ ہوتا.مگر جب ان کا آسمان پر چڑھنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی توہین کا موجب بنتا ہے اور توحید کے منافی ہے تو ہم اس عقیدہ کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں.ہم تو یہ بات سننا بھی گوارا نہیں کر سکتے کہ مسیح، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے کجا یہ کہ اس عقیدہ کو مان لیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ عام احمدی جب وفات مسیح کے مسئلے پر بحث کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دلائل پیش کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے اندر جوش پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس طرح اس مسئلے کو بیان کرتے ہیں جس طرح عام گفتگو کی جاتی ہے.مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ جب آپ وفات مسیح کا مسئلہ چھیڑتے تھے تو اس وقت آپ جوش کی وجہ سے کانپ رہے ہوتے تھے اور آپ کی آواز میں اتنا جلال ہوتا تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ حیات مسیح کے عقیدہ کا قیمہ کر رہے ہیں.آپ کی حالت اس وقت بالکل متغیر ہو جایا کرتی تھی اور آپ نہایت جوش کے ساتھ یہ بات پیش کرتے تھے کہ دنیا کی ترقی کے راستے میں ایک بڑا بھاری پتھر پڑا تھا جس کو اٹھا کر میں دُور پھینک رہا ہوں.دنیا تاریکی کے گڑھے میں گر رہی تھی مگر میں اس کو نور کے میدان کی طرف لے جا رہا ہوں.آپ جس وقت یہ تقریر کر رہے ہوتے تھے آپ کی آواز میں ایک خاص جوش نظر آتا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت پر مسیح بیٹھ گئے ہیں جس نے ان کی عزت اور آبرو چھین لی ہے اور آپ اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تخت واپس لینا چاہتے ہیں.(ماخوذ از قومی ترقی کے دو اہم اصول.انوار العلوم جلد 19 صفحہ 92 تا 95) پس یہ تھی غیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لیکن آج کل کے علماء پر بھی حیرت ہے کہ
خطبات مسرور جلد 13 245 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015 ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اتنی غیرت اور جوش رکھنے والے کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچا درجہ دیا ہوا ہے یا احمدیت کو اونچا درجہ سمجھتے ہیں.پھر ایک واقعہ یہ ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کو کسی اعلیٰ مقام پر کھڑا کرتا ہے تو اس کی لوگوں کے بارے میں کس طرح راہنمائی کر دیتا ہے.یہ واقعہ نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان ہے کہ کس طرح رہنمائی کرتا ہے اور کس طرح لوگوں کا اندرونہ بھی ان پر ظاہر کر دیتا ہے.اس بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ : جب انسان ایسے مقام پر کھڑا ہو جائے (یعنی جس کو اللہ تعالیٰ نے خود بلند مقام پر کھڑا کیا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود بخو درہنمائی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کو ایسی مخفی ہدایت ملتی ہے جسے الہام بھی نہیں کہہ سکتے اور جس کے متعلق ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ الہام سے جُدا امر ہے.الہام تو ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ لفظی الہام نہیں ہوتا اور عدم الہام ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ عملی الہام ہوتا ہے اور انسانی قلب پر اللہ تعالیٰ کا نور نازل ہوکر بتا دیتا ہے کہ معاملہ یوں ہے حالانکہ لفظوں میں یہ بات نہیں بتائی جاتی.فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ جب اس سے بھی واضح رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات بتائی جاتی ہے تو اسے کشف کہ دیتے ہیں.( کشف بھی ہو جاتا ہے جب واضح طور پر ہو جائے.) جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بہت سے آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو ان کے اندر سے مجھے ایسی شعائیں نکلتی معلوم دیتی ہیں جن سے مجھے پتا لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ یہ عیب ہے یا یہ یہ خوبی ہے، مگر یہ اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں اس عیب سے مطلع کیا جائے..اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب تک انسان اپنی فطرت کو آپ ظاہر نہیں کر دیتا وہ اسے مجرم قرار نہیں دیتا.اس لئے اس سنت کے ماتحت انبیاء اور ان کے اظلال کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ اس وقت تک کسی شخص کے اندرونی عیب کا کسی سے ذکر نہیں کرتے جب تک وہ اپنے عیب کو آپ ظاہر نہ کر دے.(ماخوذ از الفضل 9 مارچ 1938 صفحہ 3 نمبر 55 جلد 26) اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کس طرح غیروں کو بھی نشان دکھاتا ہے.اس بارے میں ایک واقعہ جو ایک غیر احمدی کے ساتھ ہوا، بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ خیال کہ کسی انسان کے جسم سے ایسی شعائیں کس طرح نکل سکتی ہیں جو دوسروں کو بھی نظر آ جائیں صرف اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اس نشان کو ظاہر پر محمول کر لیتے ہیں.اگر وہ سمجھتے کہ یہ کشفی واقعہ
خطبات مسرور جلد 13 246 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء ہے تو اس قسم کے وساوس بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتے.موسیٰ کا زمانہ تو بہت دُور کی بات ہے ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض ایسے نشان دکھائے ہیں جن میں کشفی نگاہ رکھنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو ظاہری شکل میں بھی متمثل دیکھا اور اس کے روحانی کیف سے لطف اندوز ہوئے.چنانچہ 1904ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لا ہور تشریف لے گئے تو وہاں ایک جلسے میں آپ نے تقریر فرمائی.ایک غیر احمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل بھی اس تقریب میں موجود تھے.وہ کہتے ہیں کہ دوران تقریر میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سر سے نور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جا رہا تھا.اس وقت میرے ساتھ ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے میں نے انہیں کہا دیکھو وہ کیا چیز ہے؟ انہوں نے دیکھا تو فوراً دوسرے دوست نے بھی کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے جو حضرت مرزا صاحب کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے.اس نظارے کا شیخ رحمت اللہ صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحه 120، 121) یہ ایسے نشانات ہیں جن کو دیکھ کر لوگوں نے ایمان حاصل کیا.اور پھر یہی نہیں بلکہ نشانات کی مختلف صورتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ لوگوں پر اب بھی ظاہر فرماتا چلا جا رہا ہے.جیسا کہ گزشتہ ایک جمعہ پہلے میں نے خطبے میں بعض تازہ واقعات بھی بیان کئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک مجلس کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جن آتے ہیں.(عام طور پر ہمارے ہاں بھی اور عربوں میں بھی یہ تصور ہے کہ جن چمٹ جاتے ہیں اور جنوں کو نکالنے کے لئے پھر جس بیچارے پے جن چھٹے ہوتے ہیں اس پر ظلم بڑا کیا جاتا ہے.بعض لوگ تو جن نکالنے کے لئے اس شخص کو جس کو جن چمٹا ہو جان سے مار دیتے ہیں.بہر حال کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عرض کی کہ میری ہمشیرہ کے پاس جن آتے ہیں اور وہ جن ایسے ہیں کہ ) وہ کہتے ہیں ہم آپ پر ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ) ایمان لانے کو تیار ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں خط لکھا کہ آپ ان جنوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کو کیوں ستاتے ہو؟ اگر ستانا ہی ہے تو مولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ صاحب کو جا کر ستائیں.ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ایسے جن کوئی نہیں ہوتے جن کو
خطبات مسرور جلد 13 247 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء عام لوگ مانتے ہیں.بیشک کئی ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنی انگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اس امر کے قائل ہوں کہ جن کوئی نہیں ہوتے لیکن مومن کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس کی عقل کیا کہتی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے؟ ( مومن کو اس طرح سوچنا چاہئے.) اگر قرآن کہتا ہے کہ جن ہوتے ہیں جس طرح کہ جنوں کا تصور عام لوگوں نے پیدا کیا ہوا ہے تو اُمَنَّا وَ صَدِّقْنَا اور اگر قرآن سے ثابت ہو کہ انسانوں کے علاوہ جن کو ئی مخلوق نہیں تو پھر ہمیں یہ بات ماننی پڑتی ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحه 363) بہر حال مومن نے ہر صورت میں قرآن کی بات کو ماننا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی عزت اور وقار قائم رکھنے کے لئے مجذوبوں اور پاگلوں پر بھی کس طرح بعض تصرف فرماتا ہے اس کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ( پہلے بھی ہم کئی دفعہ سن چکے ہیں) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ لاہور تشریف لے گئے.بعض دوستوں نے تحریک ( کی ) کہ شاہدرہ میں ایک مجذوب رہتا ہے اس کے پاس جانا چاہئے مگر بعض دوسرے دوستوں نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ نہایت گندی گالیاں بکتا ہے اس کے پاس نہیں جانا چاہئے.مگر جو جانے کے حق میں تھے انہوں نے کہا کہ آپ کو الہام ہوتا ہے.دیکھنا چاہئے وہ کیا کہتا ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کو جانچنے کے لئے ان کو ایک ہی معیار نظر آیا کہ اس کے پاس جایا جائے.تو ) آپ خود بھی انکار کرتے رہے مگر دوست اصرار کر کے ایک دفعہ لے گئے.آپ نے فرمایا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ شخص گالیاں دیتے دیتے یکدم خاموش ہو گیا.اس کے پاس ایک خربوزہ رکھا تھا.اسے اٹھا کر میرے پیش کیا اور کہنے لگا یہ آپ کی نذر ہے.تو بعض دیکھنے والے جو ظاہری باتوں کو دیکھتے ہیں وہ تو اس کے اور بھی معتقد ہو گئے.مگر آپ نے فرمایا کہ وہ پاگل تھا.تو بعض اوقات پاگل کو بھی ایسی باتیں نظر آ جاتی ہیں جو عقلمند نہیں دیکھ سکتے.وہ چونکہ دنیا سے منقطع ہو چکا ہوتا ہے اس لحاظ سے اسے کسی وقت غیب کی باتیں نظر آ جاتی ہیں.(ماخوذ از الفضل 28 جولا ئی 1938 ء صفحہ 4 جلد 26 نمبر 171) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات اور معجزات کے حوالے سے حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا ہے.ان میں سے چند حوالے پیش کرتا ہوں.ایک مشہور واقعہ پاگل کتے کے کاٹنے کا اور مریض کے شفا یاب ہونے کا ہے.اس کو حضرت مصلح موعود نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے سارے واقعات چونکہ محفوظ نہیں اس لئے اس قسم کی زیادہ مثالیں
خطبات مسرور جلد 13 248 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء اب نہیں مل سکتیں ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ سینکڑوں ہزاروں مثالیں آپ کی زندگی میں مل سکتی ہوں گی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جبکہ دہریت کا بہت زور ہے اور اس کو توڑنے کے لئے آسمانی نشانوں کی حد درجے کی ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے بہت سے نشانات اس قسم کے دکھائے ہیں جن پر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات کا قیاس کر سکتے ہیں.مثال کے طور پر میں ایک صاحب عبدالکریم نامی کا واقعہ پیش کرتا ہوں.وہ قادیان میں سکول میں پڑھا کرتے تھے.انہیں اتفاقاً باؤلے کتے نے کاٹ کھایا.اس پر انہیں علاج کے لئے کسولی بھیجا گیا اور علاج ان کا بظاہر کامیاب رہا.لیکن واپس آنے کے کچھ دن کے بعد انہیں بیماری کا دورہ ہو گیا جس پر کسولی تار دی گئی کہ کوئی علاج بتا یا جائے مگر جواب آیا کہ.Nothing can be done for Abdul Karim یعنی افسوس ہے کہ عبد الکریم کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی بیماری کی اطلاع دی گئی.چونکہ سلسلے کی ابتدا تھی.(ابھی نیانیا شروع ہوا تھا.جماعت احمدیہ کی ابتدا تھی) اور یہ صاحب دور دراز سے علاقہ حیدر آباد دکن کے ایک گاؤں سے بغرض تعلیم آئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت ہمدردی پیدا ہوئی اور آپ نے ان کی شفا کے لئے خاص طور پر دعا فرمائی اور فرمایا کہ اس قدر دور سے یہ آئے ہیں، جی نہیں چاہتا کہ اس طرح ان کی موت ہو.ایک جگہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کی ماں نے بڑے شوق سے اور جذبے سے اسے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اتنے دور دراز علاقے سے بھیجا ہے، اس لئے بھی میرے اندر ایک درد پیدا ہوا کہ اس کے لئے دعا کروں.بہر حال اس دعا کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دورہ ہو جانے کے بعد ان کو شفا دے دی حالانکہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے (اس وقت کی میڈیکل ہسٹری یہی کہتی تھی کہ ) اس قسم کے مریض کو کبھی شفا نہیں ہوئی.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میرے ایک عزیز ڈاکٹر ہیں بلکہ اب بھی ڈاکٹری کرتے ہیں.انہوں نے اپنے زمانہ طالبعلمی کا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ ہستی باری تعالیٰ پر ایک دوسرے طالبعلم سے گفتگو کر رہے تھے.دورانِ گفتگو انہوں نے یہ واقعہ بطور شہادت کے پیش کیا کہ خدا تعالیٰ ہے اور اس طرح دعائیں سنتا ہے اور اس طرح ایک علاج ہو گیا.اس طالبعلم نے کہا یعنی جو دوسرا تھا جو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہیں تھا اس نے کہا کہ ایسے مریض بچ سکتے ہیں یہ کوئی ایسی عجیب بات نہیں ہے.وہ کہتے ہیں کہ اتفاقاً اسی دن کالج میں پروفیسر کا لیکچر سگ گزیدہ کی حالت پر تھا.یعنی جس کو کتے نے کاٹا ہو اس کی حالت پر تھا.جب پروفیسر لیکچر کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے اس امر پر زور دینا شروع کیا کہ اس مرض کا علاج دورہ
خطبات مسرور جلد 13 249 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء ہونے سے پہلے کرنا چاہئے اور بہت جلد اس طرف توجہ کرنی چاہئے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس بات کو واضح کرانے کے لئے کہا کہ جناب بعض لوگ کہتے ہیں کہ دورہ پڑ جانے کے بعد بھی مریض اچھا ہو سکتا ہے.اس پر پروفیسر نے جھڑک کر کہا کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا.جو کہتا ہے وہ بیوقوف ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ غرض یہ ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا تھا اور نہ کبھی ہوا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے میاں عبدالکریم کو شفا دی اور وہ خدا کے فضل سے اب تک زندہ ہیں.(اس وقت جب آپ یہ بیان فرما ر ہے تھے.) پس ثابت ہوا کہ اس طبعی قانون کے اوپر ایک ہستی حاکم ہے جس کے ہاتھ میں شفا کی طاقت ہے.(ماخوذ از جستی باری تعالی.انوار العلوم جلد 6 صفحہ 328-329) پھر آپ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ امریکہ سے دو مرد اور ایک عورت آئی.ایک مرد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے دعوی کے متعلق گفتگو کی.دورانِ گفتگو میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا ذکر آ گیا.اس شخص نے کہا کہ وہ تو خدا تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ان کے خدا ہونے کا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟ اس نے کہا کہ انہوں نے معجزے دکھائے ہیں.آپ نے فرمایا کہ معجزے تو ہم بھی دکھلاتے ہیں.اس نے کہا مجھے کوئی معجزہ دکھلائیں؟ آپ نے فرمایا تم خود میر امعجزہ ہو ( یعنی وہ امریکن جس نے سوال کیا تھا اسے فرمایا کہ تم میرا معجزہ ہو.یہ سن کر وہ حیران سا ہو گیا.اور کہنے لگا میں کس طرح معجزہ ہوں.آپ نے فرمایا کہ قادیان ایک بہت چھوٹا سا اور غیر معروف گاؤں تھا.معمولی سے معمولی کھانے کی چیزیں بھی یہاں سے نہیں مل سکتی تھیں حتی کہ ایک روپے کا آٹا بھی نہیں مل سکتا تھا اور اگر کسی کو ضرورت ہوتی تھی تو گیہوں لے کر پسوا تا تھا.اُس وقت مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ میں تیرے نام کو دنیا میں بلند کروں گا اور تمام دنیا میں تمہاری شہرت ہو جائے گی.چاروں طرف سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ان کی آسائش اور آرام کے سامان بھی یہیں آجائیں گے.يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ اور ہر قسم اور ہر ملک کے لوگ تیرے پاس آئیں گے.يَأْتِيَكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.اور اس قدر آئیں گے کہ جن راستوں سے آئیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے.( گہرے ہو جائیں گے.) اب دیکھ لو کہ راستے کس قدر عمیق ہو گئے ہیں.بٹالے سے قادیان تک جو سٹرک آتی ہے اس پر پچھلے ہی سال گورنمنٹ نے دو ہزار روپے کی مٹی ڈلوائی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے فرمایا کہ تم میرے پاس امریکہ سے آئے ہو.تمہارا مجھ سے کیا تعلق تھا.جب تک میں
خطبات مسرور جلد 13 250 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015 ء نے دعوئی نہ کیا تھا مجھے کون جانتا تھا.مگر آج تم اتنی دور سے میرے پاس چل کر آئے ہو یہی میری صداقت کا نشان ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے کہ جس وقت یہ گفتگو ہورہی تھی اور اس شخص نے کہا تھا کہ آپ مجھے اپنا کوئی معجزہ دکھا ئیں تو سب لوگ حیران تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا کیا جواب دیں گے؟ سب نے یہی خیال کیا کہ آپ کوئی ایسی تقریر کریں گے جس میں معجزات کے متعلق بتائیں گے کہ کس طرح ظاہر ہوتے ہیں.لیکن جونہی اس نے اپنی بات کو ختم کیا اور آپ کو انگریزی سے اردو ترجمہ کر کے سنائی گئی تو آپ نے فوراً یہی جواب دیا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن ہر ایک انسان کی عقل اس تک نہیں پہنچ سکتی.اب بھی ہر ایک وہ انسان جو عقل سے کام نہیں لے گا کہے گا کہ یہ کیا معجزہ ہے؟ مگر جن کی آنکھیں کھلی ہوئی اور عقل اور سمجھ رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا معجزہ ہے اور حق کے قبول کرنے والے کے لئے یہی کافی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میری صداقت میں لاکھوں نشانات دکھلائے گئے.لیکن میں تو کہتا ہوں کہ اتنے نشانات دکھلائے گئے ہیں جو گنے بھی نہیں جاسکتے مگر پھر بھی بہت سے نادان ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اتنے تو مرزا صاحب کے الہام بھی نہیں.پھر نشانات کس طرح اس قدر ہو گئے ؟ لیکن عقل اور سمجھ رکھنے والے انسان خوب جانتے ہیں کہ لاکھوں نشانات تو ایک الہام سے بھی ظاہر ہو سکتے ہیں.ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی شخص تھا اس نے اپنے بھتیجوں سے کہا کہ کل میں تم کو ایک ایسا لڈو کھلاؤں گا جو کئی ہزاروں، لاکھوں آدمیوں نے بنایا ہوگا.دوسرے دن جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو انہوں نے لڈو کھانے کی امید پر کچھ نہ کھایا اور چچا کو کہا کہ وہ لڈور کیجئے.اس نے ایک معمولی لڈو نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ یہ ہے وہ لڈو جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا.اس کو دیکھ کر وہ سخت حیران ہوئے کہ یہ کس طرح کئی لاکھ آدمیوں کا بنایا ہوا ہے؟ چچا نے کہا کہ تم کا غذ اور قلم لے کر لکھنا شروع کر دو.میں تمہیں بتا تا ہوں کہ واقعہ میں اس لڈو کو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے.دیکھو ایک حلوائی نے اسے بنایا.اس کے بنانے میں جو چیزیں استعمال ہوئیں ان کو حلوائی نے کئی آدمیوں سے خریدا.پھر ان میں سے ہر ایک چیز کو ہزاروں آدمیوں نے بنایا.مثلاً شکر کو ہی لے لو اس کی تیاری پر کتنے آدمیوں کی محنت خرچ ہوئی ہے.کوئی اس کو ملنے والے ہیں.کوئی رس نکالنے والے ہیں.کوئی ئیشکر کھیت سے لانے والے کوئی ہل جو تنے والے.پانی دینے والے.پھر ہل میں جو لو ہا اور لکڑی خرچ ہوئی ہے اس کے بنانے والے.اسی طرح سب کا حساب لگاؤ تو کس قدر آدمی بنتے ہیں؟ پھر شکر کے سوا اس میں آٹا ہے.اس کے تیار کرنے والے کا اندازہ لگاؤ.کیا اس طرح اتنی تعداد نہیں بن جاتی ؟
خطبات مسرور جلد 13 251 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء بھتیجوں نے یہ سن کر کہا کہ ہاں ٹھیک ہے.یہ بات ان بچوں کی سمجھ میں تو نہ آئی لیکن وہ شخص چونکہ عقلمند تھا اس لئے وہ دیکھ رہا تھا کہ ایک لڈو کے تیار ہونے میں لاکھوں آدمیوں کی محنت خرچ ہوتی ہے.یہ تو اس نے دنیاوی رنگ میں نصیحت کی تھی مگر جو روحانی بزرگ ہوتے ہیں انہوں نے بھی ایسا ہی کیا ہے.(پھر آپ نے مرزا مظہر جان جاناں کا واقعہ بیان کیا کہ انہوں نے بٹالے کے ایک شخص غلام نبی کو دو لڈو دیئے.اس نے منہ میں ڈال لئے اور کھا گیا.تھوڑی دیر کے بعد اس سے انہوں نے پوچھا کہ تم نے ان لڈوؤں کا کیا کیا؟ اس نے کہا کھالئے.یہ سن کر انہوں نے نہایت تعجب انگیز لہجے میں پوچھا کہ ہیں! کھالئے؟ اس نے کہا جی ہاں کھالئے.اسی طرح وہ بار بار ان سے پوچھتے رہے اور تعجب کرتے رہے.اتنی جلدی تم نے کھالئے.اس کو خیال ہوا کہ انہیں دیکھنا چاہئے کہ یہ کس طرح کھاتے ہیں.ایک دن کوئی شخص ان کے پاس کچھ لڈولا یا.ان میں سے آپ نے ایک لڈو اٹھا کر رومال پر رکھ لیا اور اس میں سے ایک ریزہ تو ڑ کر آپ نے تقریر شروع کر دی کہ میں ایک ناچیز ہستی، میرے لئے خدا تعالیٰ نے یہ اتنی بڑی نعمت بھیجی ہے.اس میں کیا کیا چیزیں پڑی ہیں.پھر ان کو کتنے آدمیوں نے بنایا ہوگا.کیا مجھے نا چیز کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ نعمت بھیجی ہے؟ اس طرح تقریر کرتے رہے اور ادھر اپنی عاجزی اور فروتنی بیان کرتے رہے اور اُدھر خدا تعالیٰ کی حمد اور تعریف کرتے رہے.اسی طرح ظہر سے کرتے کرتے ابھی پہلا ہی دانہ جو منہ میں ڈالا تھا وہی کھایا تھا کہ عصر کی اذان ہو گئی اور اسے چھوڑ کر وضو کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ کیا بات تھی؟ یہی کہ اس لڈو میں انہیں خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشانات نظر آتے تھے.یوں کھانے والا تو چار پانچ دس میں لڈو بھی جھٹ پٹ کھا سکتا ہے مگر مظہر جان جاناں کے لئے ایک ہی لڑوا تنا بوجھل ہو گیا کہ اس کے کھانے سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے ان کی کمر ٹوٹی جاتی تھی.تو عقل ہی ایک چھوٹی سی چیز کو بڑا بنا دیتی ہے اور نادانی نظر آنے والی بڑی چیز کو بھی چھوٹا ظاہر کر دیتی ہے.اسی طرح عقل ایک بڑی نظر آنے والی چیز کو چھوٹا دکھا دیتی ہے اور نادانی ایک معمولی چیز کو بڑا دکھا دیتی ہے.تو عقلمند انسان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی خدا کے بڑے بڑے نشان دیکھ لیتا ہے اور نادان بڑی بڑی اہم باتوں میں بھی کچھ نہیں دیکھتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ میری صداقت کے خدا تعالیٰ نے لاکھوں نشانات دکھلائے ہیں.یہ بالکل درست ہے اور (اس میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) میں تو کہتا ہوں کہ آپ کی صداقت کے خدا تعالیٰ نے اس قدر نشانات دکھلائے ہیں کہ جن کا شمار بھی نہیں ہوسکتا.
خطبات مسرور جلد 13 252 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء مگر کن کے لئے؟ ( یہ نشان جو دکھلائے ہیں کن کے لئے ہیں؟) انہیں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں.اگر کوئی شخص آپ کی صداقت کے نشانات دیکھنے کے لئے یہاں آئے تو یہ جس قدر بھی عمارتیں ہیں جو سامنے نظر آ رہی ہیں.( یہ قادیان میں فرما رہے ہیں.مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہو کر ) ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب آپ کے نشان ہیں.پھر احمد یہ بازار سے آگے کے جس قدر مکانات بنے ہوئے ہیں ان کے لئے جو زمین تیار کی گئی ہے، اس میں ڈالا ہوا مٹی کا ایک ایک بورا نشان ہے.یہاں ایک اتنا بڑا گڑھا تھا کہ اس میں ہاتھی غرق ہو سکتا تھا ( مٹی ڈال ڈال کے وہ بھرا اور پھر آبادی ہوئی.) پھر قادیان سے باہر شمال کی طرف نکل جائیں وہاں جو اونچی اور بلند عمارتیں نظر آئیں گی ان کی ہر ایک اینٹ اور چونے کا ایک ایک ذرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا نشان ہے.پھر قادیان میں چلتے پھرتے جس قدر انسان نظر آتے ہیں خواہ وہ ہندو ہوں یا سکھ یا غیر احمدی ہیں یا احمدی سب کے سب آپ ہی کی صداقت کے نشان ہیں.احمدی تو اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو دیکھ کر اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں کے ہو رہے اور غیر احمدی اور دوسرے مذاہب والے اس لئے کہ ان کی طرز رہائش، لباس وغیرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے پہلے وہ نہ تھے جو اب ہیں.ان کی پگڑی ، ان کا کرتہ، ان کا پاجامہ، ان کی عمارتیں ، ان کا مال ، ان کی دولت وہ نہ تھی جو اب ہے.آج بھی قادیان کی ترقی اس بات کا ثبوت ہے.آج بھی لوگ قادیان جاتے ہیں تو اس لئے جاتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بستی ہے.اس لئے نہیں جاتے کہ ایک شہر ہے اور عام شہروں کی طرح اس کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ترقی کر رہا ہے یا شہر پھیل گیا ہے.وہاں کے کاروباری لوگ آج بھی اس امید پر بیٹھے ہوتے ہیں کہ یہاں جلسہ ہو گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جاری کردہ ہے تو ہمارے کاروبار بھی چمکیں گے.تو مالی لحاظ سے بھی غیروں کی یہ ترقیاں آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے اس شہر میں ہو رہی ہیں.بہر حال ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کرنے پر لوگ آپ کے پاس آئے اور ان لوگوں نے بھی فائدہ اٹھا لیا اور لَا يَشْقَى جَلِیسُهُمْ کی وجہ سے ان کو بھی نعمت مل گئی تو یہ سب آپ کی صداقت کے نشانات ہیں.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) دُور جانے کی ضرورت نہیں ہے.اس مسجد ( جہاں آپ یہ خطبہ دے رہے تھے اس) کی یہ عمارت یہ لکڑی یہ کھمبا یہ سب نشانات ہیں کیونکہ یہ پہلے نہیں تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا تو پھر بنے.پس لاکھوں نشانات تو یہاں ہی مل سکتے ہیں.پھر سالانہ جلسے پر جس قدر لوگ آتے ہیں ان میں سے ہر ایک آنے والا
خطبات مسرور جلد 13 253 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اپریل 2015ء ایک نشان ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ ہر سال ظاہر کرتا ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کرتا رہے گا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے نشانات کا یہ بہت کم اندازہ لگایا کہ وہ لاکھوں ہیں.میں تو کہتا ہوں کہ وہ اس قدر ہیں کہ کوئی انسانی طاقت ان کو گن ہی نہیں سکتی.صرف خدا تعالیٰ ہی کے اندازے میں آ سکتے ہیں.لیکن جہاں یہ نشانات ہمارے لئے تقویت ایمان کا موجب ہوتے ہیں وہاں اس آیت کے ماتحت یہ بھی بتاتے ہیں کہ اول ہر ایک آنے والا انسان آنکھیں کھول کے دیکھے کہ یہاں کس قدر نشانات ہیں اور پھر وہ خود بھی ایک نشان ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ 354 تا 357) اور آج دنیا میں پھیلے ہوئے احمدی اور جماعت احمدیہ کی مساجد ، مشن ہاؤسز ، جامعات، سکول، ہسپتال، مقامی باشندوں کا آپ کے ساتھ عقیدت اور احترام کا اظہار یہ سب نشانات ہیں.جس کی روحانی نظر ہو اسی کو نظر آ سکتا ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مولوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا میں آپ کا کوئی نشان دیکھنے آیا ہوں.آپ ہنس پڑے اور فرمایا میاں تم میری کتاب حقیقۃ الوحی دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے میری تائید میں کس قدر نشانات دکھائے ہیں.تم نے ان سے کیا فائدہ اٹھایا ہے کہ اور نشان دیکھنے آئے ہو؟ پس اگر اس شخص نے دومنٹ یا پانچ منٹ میں پوری ہونے والی دو چار پیشگوئیاں پیش کی ہوتیں تو ہم دو سال کیا اس کی دو سو سال والی پیشگوئی بھی مان لیتے اور کہتے کہ جب ہم نے دو تین یا پانچ منٹ میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں دیکھی ہیں تو یہ لمبے عرصے والی پیشگوئیاں بھی ضرور پوری ہوں گی.لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کی پیشگوئیاں دکھائے بغیر لمبے عرصے والی پیشگوئیاں کرے تو ہم کہیں گے کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے.(ماخوذ از الفضل 14 اگست 1956 صفحہ 4 جلد 45 / 10 نمبر 189 ) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں تو آپ کی زندگی میں پوری ہوئیں اور آج تک ہو رہی ہیں جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعت کی روزانہ ترقی اس کی دلیل ہے، اس کا ثبوت ہے.اللہ تعالیٰ ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر جس طرح ہو رہی ہیں ان کو نظر نہ آنے والوں کو بھی بصارت عطا فرمائے کہ وہ ان کو دیکھیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہرلمحہ اپنے ایمان میں مضبوط تر کرتا چلا جائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 08 مئی 2015 ء تا 14 مئی 2015 ، جلد 22 شماره 19 صفحہ 05-09)
خطبات مسرور جلد 13 254 17 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24 را پریل 2015 ء بمطابق 24 شہادت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مذہب کی ضرورت ایک سوال آجکل پہلے سے زیادہ شدت سے نوجوانوں کے ذہنوں میں خاص طور پر اور معاشرے میں عموماً ان لوگوں کی طرف سے کثرت سے پھیلایا جاتا ہے جو مذہب کے خلاف ہیں.یا صحیح رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہب بلکہ خدا سے بھی دُور ہٹ گئے ہیں.سوال یہ ہے کہ اگر اچھے اخلاق ہوں یا اگر دنیاوی تعلیم اچھے اخلاق کی طرف لے جاتی ہے تو پھر مذہب کے ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ مذہب بھی تو یہی دعویٰ کرتا ہے یا مذہب کے ماننے والے یہ کہتے ہیں کہ وہ تمہیں اچھے اخلاق سکھاتا ہے.تو اخلاق تو ہمارے اندر بغیر مذہب کے پیدا ہو گئے.بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا داروں کی اکثریت کے اخلاق مذہب کے ماننے والوں کے اخلاق سے زیادہ بہتر ہیں اور خاص طور پر اسلام کو اس حوالے سے نشانہ بنایا جاتا ہے.دوسرے مذاہب کی اکثریت تو مذہب کے معاملے میں تقریباًلا تعلق ہو چکی ہے صرف اسلام ایسا مذہب ہے جس کی طرف منسوب ہونے والی اکثریت اپنے دین کے ماننے کا اظہار کرتی ہے یا بے عمل مسلمانوں کی اکثریت بھی اپنے آپ کو کھل کر مسلمان کہتی ہے ، مذہب کی طرف منسوب کرتی ہے.اسی لئے اصل حملہ اسلام پر ہی ہے اور دین سے ہٹانے کی کوشش میں مختلف طریق سے مختلف نکات پیش کر کے ہمارے بچوں اور نو جوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.خاص طور پر مغربی ممالک
خطبات مسرور جلد 13 255 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2015ء میں جوطرز تعلیم ہے اس میں جستجو کی طرف تحقیق کی طرف زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے اور یہ بڑی اچھی بات ہے اس طرف توجہ ہونی چاہئے لیکن اس کے صحیح طریق بھی ہونے چاہئیں.بہر حال جب نوجوان یا نوجوانی میں قدم رکھنے والے لڑکے لڑکیاں اپنے گھر والوں میں اپنے ماں باپ اور بڑوں کی طرف ذہنوں میں پیدا کئے گئے اور پیدا ہونے والے مختلف سوالوں کے حل کی تلاش کے لئے جاتے ہیں تو یا تو ماں باپ کے پاس اپنے معاشی اور معاشرتی ضروریات اور مصروفیات کی وجہ سے جواب دینے کا وقت نہیں ہوتا یا علم نہیں ہوتا اور اس وجہ سے ان کے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے انہیں بسا اوقات دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے نو جوانی میں قدم رکھنے والے بچے بھی سمجھتے ہیں کہ مذہب چاہے وہ اسلام ہی کیوں نہ ہو اس کا دعویٰ تو ہے کہ سچا ہے اور تمام مسائل کا حل ہے لیکن زمانے کے لحاظ سے عملی حل نہیں ہے یا جواب نہیں ہے یا پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ بڑوں کے عمل اور بچوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے اس میں تفاوت ہوتا ہے.بچے ایک وقت تک تو تعلیم کی باتیں سن کر چپ رہتے ہیں لیکن جب آزادی ملتی ہے تو دین سے دُور ہٹ جاتے ہیں اور پھر مذہب سے دور لے جانے والوں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ باوجود اسلام کی خوبصورت تعلیم اور زندہ مذہب ہونے کے اب مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو مذہب اور خدا کے انکاری ہیں.پس ایسے حالات میں ہم میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو بھی ہم دین پر عمل کرنے والا بنائیں اور اپنی نسلوں کو بھی کس طرح ہم سنبھالیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے اور اس نے مختلف مسائل کے حل بتائے ہیں.قرآن کریم ایک مکمل اور کامل کتاب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کامل اُسوہ ہمارے سامنے پیش فرماتے ہیں اور اس اُسوہ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی.انہوں نے مذہب کو بھی سمجھا اور اخلاق کو بھی سمجھا بلکہ مادی ترقی بھی حاصل کی.لیکن ہر چیز کو اپنی جگہ رکھنے کا ادراک بھی حاصل کیا کہ مذہب کہاں رکھنا ہے؟ اخلاق کہاں ہیں؟ مادی ترقی کیا ہے؟ پس ہمارے نوجوانوں کو، نوجوانی میں قدم رکھنے والے بچوں بلکہ خاص طور پر بڑوں کو یاد رکھنا چاہئے کیونکہ اگلی نسلوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بڑوں کی ہے کہ ہم اخلاق کی درستی، مادی ترقی اور مذہب کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں.بڑے اس نکتے کو سمجھیں گے تو اگلی نسلوں کو بھی سنبھال سکیں گے.نوجوان اس نکتے کو سمجھیں گے تو دینی اور دنیاوی ترقی کی راہیں ان پر کھلیں
خطبات مسرور جلد 13 256 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2015 ء گی اور ان کو پتا لگے گا کہ اسلام کی تعلیم کتنی خو بصورت تعلیم ہے اور اس کے خلاف بولنے والے جھوٹے ہیں.یہ مسئلہ جو آج زیادہ شدت سے لامذہبوں یا مذہب مخالف لوگوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.پہلے بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے سوال اٹھتے رہے ہیں.ہمیشہ سے مذہب پر اعتراض کرنے والے اس مسئلے کو ، اسی طرح کی دوسری باتوں کو اٹھاتے رہے ہیں جن سے مذہب پر اعتراض ثابت ہو کیونکہ مذہب کو انہوں نے کبھی بھی صحیح رنگ میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور نام نہاد مذہبی علماء نے خود ساختہ غلط حل نکال کر یا صحیح رنگ میں اس مذہب کو نہ سمجھ کر تعلیم یافتہ طبقے کو مزید الجھن میں ڈال دیا ہے.اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے کہ ان مسائل کی الجھنوں کو دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے.آپ علیہ السلام نے ان کو سمجھنے کا ادراک ہم میں پیدا فرمایا اور یہ مسائل سمجھنے اور ان کے حل نکالنے ہم پر آسان ہوئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ اس کی روشنی میں ایک خطبہ دیا اور اس میں اخلاق کی درستی ، مادی ترقی اور مذہب کا کیا تعلق ہے اور اسلام اس کو کس طرح دیکھتا ہے؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنے عمل سے اور اپنے عملی نمونے سے ہمیں سمجھایا کہ اس کی کیا حقیقت ہے؟ تو جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ نے خطبے میں اس بارے میں بیان کیا اور مختصر روشنی ڈالی تھی.اس سے استفادہ کرتے ہوئے آج میں اس مضمون کو آپ کے سامنے پیش کروں گا.اسلام دین فطرت ہے ہم دنیا کو یہ کہتے ہیں اور یقینا سچ ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ نے عین انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے تجویز فرمایا یا نازل فرمایا.اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اسلام دین فطرت ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : مذہب اور اخلاق اور انسان کی وہ ضروریات جو اس کے جسم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ایسی مشترک ہیں کہ ان میں فرق کرنا مشکل ہے.یعنی جو شخص مذہب پر یقین رکھتا ہے وہ اخلاق کو مذہب سے جدا نہیں کر سکتا.نہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ مذہب نے مجھے دنیا سے بے پرواہ اور غنی کر دیا اس لئے یہ میری ضروریات نہیں ہیں.اگر یہ سوچ ہو کہ مجھے اب کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے تو انسانی ترقی یعنی مادی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے.گویا کہ یہ ساری چیزیں آپس میں ملی ہوئی ہیں.مذہب بھی ، اخلاق بھی اور مادی ترقی بھی لیکن اس کے باوجود ان میں فرق بھی ہے.مذہب پر یقین نہ رکھنے والے تو یہ کہہ کر آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہیں
خطبات مسرور جلد 13 257 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 124 اپریل 2015ء کہ اچھے اخلاق اور مادی ترقی انسان کی ضرورت ہے.لیکن ایک حقیقی مسلمان کہے گا کہ مذہب کی بھی ضرورت ہے کہ وہ خدا تک پہنچانے کا راستہ دکھاتا ہے.پس یہ سوچ کا فرق ہے کہ ہم نے ان چیزوں کو کس طرح دیکھنا ہے اور ان کا آپس کا تعلق کس طرح جوڑنا ہے.باقی مذاہب تو مردہ ہو رہے ہیں.اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو ان کا آپس کا جوڑ ثابت کرتا ہے.لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے مذہب کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے غلط رنگ میں اخلاقیات سے تعلق رکھنے والی چیزوں اور مادیات سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو مذہب سے اس طرح جوڑا ہے کہ غلو کی حد تک جا کر بجائے مذہب کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے اور اس کے طرف کھینچنے کے مذاہب سے دور کرنے والے بن رہے ہیں.نماز روزے سے اتر کر اخلاق اور دنیوی ضروریات خواہ کسی انجمن کا قیام ہو یا جلسے کا انعقاد، عموماً علماء یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ اسلام کا حصہ ہیں اور اس میں شامل نہ ہونے والا کافر اور مرتد ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 462-463) اب ہم یہی اسلامی دنیا میں دیکھتے ہیں.پھر کافر اور مرتد سے بڑھ کر جنگیں شروع ہو جاتی ہیں.ہر فرقے کے فتوے ہیں اور پھر یہی وجہ ہے کہ مختلف شدت پسند گروہ اپنے اسلام کو نافذ کرنے کے لئے اپنا ضابطہ اخلاق یا نام نہاد قانون بنا کر قتل و غارت گری کر رہے ہیں.شام میں ،عراق میں، افغانستان میں، پاکستان میں مذہب کے نام پر اپنے خود ساختہ قوانین ہی خون کر رہے ہیں.شام کی یا عراق اور شام میں جو نام نہاد اسلامی حکومت قائم ہوئی ہے وہاں سے ایک فرینچ جرنلسٹ رہا ہو کر آیا، پہلے بھی میں نے بتایا تھا، اس نے وہاں بعض ایسی باتیں دیکھیں ، ان کے عمل دیکھے، ان کے قوانین دیکھے تو جتنا اس کو اسلام کا علم تھا یا قرآن کریم اس نے پڑھا تھا یا حدیث کا علم تھا اس کے مطابق اس نے وہاں بعض لوگوں سے پوچھا کہ تم جو بعض حرکتیں کر رہے ہو یہ تو قرآن اور حدیث کے مطابق نہیں تو اس نام نہاد اسلامی حکومت کے کارندوں کا یا ان اہلکاروں کا جن سے اس کا واسطہ تھا یا ان افسران کا یہ جواب تھا کہ ہمیں نہیں پتا کہ قرآن اور حدیث میں کیا ہے.ہمارا یہ قانون ہے اور ہم اس کے مطابق کر رہے ہیں.تو اس طرح اسلام کی تعلیم میں انہوں نے بگاڑ پیدا کر دیا ہے.یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ اپنی پسند کے فتووں کو مذہب کا نام دے کر معصوموں پر ہوائی حملے کئے جارہے ہیں.ٹھیک ہے ایک فریق بھی غلط ہے دوسرا فریق بھی غلط ہے لیکن اس کا حل یہ نہیں کہ بلا وجہ معصوموں کو بھی مارا جائے.بلکہ اگر ہم دیکھیں تو اسلامی تاریخ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے
خطبات مسرور جلد 13 258 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2015ء اور آج تک یہی ہو رہا ہے کہ فلاں مولانا کا یہ مذہب ہے اور فلاں عالم کا یہ مذہب ہے.یعنی ہر عالم اور مولانا نے بھی اپنا مذہب بنالیا ہے.اس طرح اسلام میں یعنی ان لوگوں کے اسلام میں جس پر یہ عمل کر رہے ہیں کوئی حقیقت باقی نہیں رہی اور اسی وجہ سے ان علماء اور فتویٰ دینے والوں کے پیچھے چل کر مسلمانوں کی اکثریت بھی اسلام سے دُور جا پڑی ہے.روحانیت اور مذہب کے نام پر پتا نہیں کیا کچھ ہورہا ہے.اس کے مقابل پر مذہب سے دور اور مغربی ترقی یافتہ لوگ جو ہیں وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ روحانیات اور اخلاقیات کو مادی دنیا کا حصہ بنا دیں.بالفرض اگر الہام پر غور کر بھی لیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ انسانی افعال کا جزو ہے.وہ اخلاق پر غور کریں گے تو اس نکتہ نگاہ سے کہ اس سے انسان کو دنیوی فائدہ ہوگا.اخلاق بھی دنیوی فائدے کے لئے ہیں اور اگر مذہب پر غور کریں گے تو یہی کہیں گے کہ یہ ادنی قسم کے غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ جو لوگ ہیں مذہب کے نام سے کچھ حد تک جرائم سے بچ جاتے ہیں.یعنی مذہب کے نام پر اگر کوئی فائدہ ان لوگوں کو پہنچ سکتا ہے تو وہ صرف اتنا ہے کہ اس میں کچھ حد تک اخلاقی بہتری ہو جاتی ہے کہ ان کو مذہب کا خوف ہے.وہ بھی اگر صحیح مذہب اپنا یا جائے.لیکن ان کا یہ کہنا ہے کہ جن میں پہلے ہی اخلاق ہیں ان کو مذہب کی کیا ضرورت ہے.لیکن غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ مادیات، اخلاق اور مذہب اس قدر قریب ہیں کہ عام آدمی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے ایک حد شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے.اس کو سمجھنے کے لئے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر غور کرتے ہیں، اس کو دیکھتے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے مادی مصلح بھی ہیں ، اخلاقی مصلح بھی ہیں اور روحانی مصلح بھی ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ تمام کی جامع ہے.اگر ایک طرف آپ حکم فرماتے ہیں کہ الدُّعَاء مَخُ الْعِبَادَةِ تو دوسری طرف روحانیت کی تکمیل کے متعلق زور بھی دیتے ہیں.صرف یہی نہیں کہ نماز پڑھ لی اور مسئلہ حل ہو گیا بلکہ اس کے مدارج بھی طے کرنے ہیں، روحانیت کو بڑھانا بھی ہے.دعا کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایسا ہے جیسے بچے اور ماں کا تعلق ہوتا ہے.دعا کے معنی پکارنے کے ہیں.پکارنے والا تب پکارتا ہے جب یقین ہو کہ کوئی میری مدد کرے گا.کوئی اپنے دشمن کو تو مدد کے لئے نہیں پکارتا.جب ہم دعا کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں تو کس طرح اس کو ہمیں دیکھنا چاہئے.دعا میں حضرت مصلح موعود کے نزدیک تین چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے.اول یہ کہ دل میں یقین کرے کہ میری بات قبول کی جائے گی.دوسرے یہ اعتما در کھے کہ جس کو میں پکارتا ہوں اس میں مدد کرنے کی طاقت ہے.تیسرے ایک فطری لگاؤ ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف یا
خطبات مسرور جلد 13 259 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2015 ء جس کسی سے محبت ہو اس کی طرف) جو انسان کو باقی ہر قسم کے لگاؤ سے پھیر کر اسی کی طرف لے جاتا ہے.پہلے دو تو عقلی نکتے ہیں کیونکہ اگر یقین نہیں کہ جو پکار میں کر رہا ہوں وہ سنی جائے گی اور یہ اعتماد نہیں کہ جس کو میں پکار رہا ہوں اس میں مدد کی طاقت ہے تو پھر یہ بیوقوفی ہے کہ اسے مدد کے لئے پکارا جائے.پھر دعا فضول چیز ہے.تیسری بات فطری لگاؤ یا فطرتی محبت ہے جو ہر دوسری چیز کی طرف سے آنکھ بند کر کے صرف محبوب کی طرف لے جاتی ہے.اس کے لئے بچے کی اور ماں کی مثال ہے جیسا کہ پہلے بھی دی گئی.بچے کا ماں سے فطرتی تعلق ہے قطع نظر اس کے کہ ماں بچے کی مدد کر سکے یا نہ کر سکے وہ اسے ہی پکارتا ہے یہاں تک کہ ایک سمندر میں ڈوبنے والا بچہ جسے علم ہو کہ میری ماں کو تیر نا نہیں آتا پھر بھی اگر ماں اس کے قریب ہوگی تو وہ ماں کو ہی مدد کے لئے پکارے گا کسی دوسرے کو آواز نہیں دیتا.یہ ایک جذباتی تعلق ہے اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.الدُّعَاء مَخُ الْعِبَادَةِ.یعنی بغیر دعا کے انسان کے ایمان کو کامل نہیں کیا جا سکتا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو بچے اور ماں کا تعلق قرار دیا ہے کہ آنکھ بند کر کے اس کی طرف بھا گو، اس کی طرف جاؤ.پھر دوسری چیز اخلاق ہیں جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے بار یک دربار یک اخلاقی پہلو ہیں کہ بار یک نگاہ سے دیکھنے والا بھی نہیں دیکھ سکتا.ان تک جا نہیں سکتا جب تک آپ کی رہنمائی نہ ہو.اب بیویوں سے حسن سلوک ہے اور محبت کا اظہار ہے.گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے یہ بہت ضروری بھی ہے.یہ بنیادی اخلاق میں سے ایک چیز ہے.بیویوں کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس حد تک باریکی سے خیال رکھتے تھے.آپ کے متعلق آتا ہے کہ جب آپ کی کوئی بیوی برتن میں پانی پیتی تو آپ نے جب پانی پینا ہوتا تو آپ اس جگہ منہ لگا کر پیتے جہاں سے اس نے پیا تھا.یہ بڑی چھوٹی سی بات ہے مگر کیسا باریک نکتہ ہے کہ انسانی محبت صرف بڑی بڑی باتوں سے نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ظاہر ہوتی ہے.پھر یہی نہیں آپ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اخلاق کے بڑے بڑے معاملات میں بھی آپ نے ایسی تعلیم دی ہے اور ایسا اُسوہ دکھایا ہے کہ یہ دیکھنے سے لگتا ہے کہ آپ تمام عمر صرف اخلاقیات کا ہی مطالعہ کرتے رہے اور اس کا درس دیتے رہے.بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات، رشتے داروں کے باہمی تعلقات، انسان کے اپنے ذاتی کیریکٹر کی تفصیلات، جھوٹ خیانت بدگمانی سے پر ہیز ، تمام امور ایسے ہیں جن میں آپ کا اُسوہ اور تعلیم کامل اور مکمل ہے اور کوئی شخص بیبیوں زندگیاں بھی پا
خطبات مسرور جلد 13 260 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 124 اپریل 2015ء کر ایسا نمونہ نہیں دکھا سکتا جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دکھایا ہے.پھر تیسری چیز مادیات ہے.اس میں ہم دیکھتے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اس طرف بھی ہمیں رہنمائی کرتی ہے.مثلاً ایک شہری زندگی کے لئے سڑکوں کو کھلا رکھنا ہے.پانی کی صفائی کا انتظام ہے.شہر بسائے جاتے ہیں یا نئی آبادیاں قائم کی جاتی ہیں تو ان کی طرف بڑے بڑے انجنیئر اور سوچنے والے سوچتے ہیں، اس طرف توجہ دیتے ہیں.آپ نے اس طرف ہمیں توجہ دلائی.راستوں کی صفائی کا تعلق ہے تو آپ نے اس طرف توجہ دلائی.مکانوں کو کھلے اور ہوادار بنانے کا تعلق ہے تو آپ نے اس طرف توجہ دلائی.تمام مادی چیزوں اور دنیاوی چیزوں کی طرف بھی آپ نے توجہ دلائی ، چاہے وہ حکومتی معاملات ہیں یا تمدن ہے یا تجارت ہے یا صنعت ہے.ہر چیز کو اپنے اپنے موقع پر آپ نے بیان فرمایا اور اس کی بڑی تفصیلات آپ کی سیرت سے ہمیں ملتی ہیں.لیکن اس کے باوجود آجکل کے مذہبی رہنماؤں کی طرح ہر چیز کو آپ نے مذہب کا حصہ قرار نہیں دیا.مثلاً ایک واقعہ آپ کے متعلق آتا ہے کہ کچھ زمیندار اپنے کھجور کے باغ میں نر کا مادہ جو ہے، بور جو ہے وہ مادہ میں ڈال رہے تھے.( کھجور کے پودے نر اور مادہ علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں.) آپ کا وہاں سے گزر ہوا.آپ نے فرمایا کہ کیا حرج ہے کہ اگر اس کو اس طرح نہ ملاؤ.ہوا کے ذریعہ سے یہ نر اور مادہ خود بھی مل سکتا ہے.لوگوں نے اسے ملا نا چھوڑ دیا.اس سال یا اگلے سال اس پر عمل نہیں ہوا تو پھل بہت کم آیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے ہی منع فرمایا تھا.آپ نے فرمایا میں نے حکم نہیں دیا تھا.ان دنیاوی باتوں کو آپ لوگ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہاں اب گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مادیات کو مذہب سے جدا کر دیا.وہ زبان بھی خدا کے رسول کی زبان تھی جس نے یہ کہا تھا کہ کیا ضرورت ہے ملانے کی اور وہی زبان ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکامات بھی بتاتی تھی مگر باوجود اس کے کہ وہ خدا کے رسول کی زبان تھی آپ نے مادیات کو مادیات قرار دے کر فرمایا کہ تم ان باتوں کو زیادہ جانتے ہو.مگر آجکل کے مولوی خواہ ان کے منہ سے انہونی بات ہی نکلے اس کے نہ ماننے سے اسلام کے دائرے سے خارج اور کافر اور مرتد کا سوال پیدا ہو جاتا ہے.دوسری طرف یہ مغربی یا نام نہاد ترقی یافتہ گروہ ہے.ان کے نزدیک نہ مذہب پر ایمان لانا ضروری ہے، نہ مذہب کی تعلیم کی عزت ہے.نہ اخلاق کی حرمت ہے.وہ ہر شئے کو مادی قرار دیتے ہیں
خطبات مسرور جلد 13 261 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 124 اپریل 2015ء یہاں تک کہ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ ان کے فلاسفروں نے اس زمانے میں کہا کہ سوال یہ نہیں کہ خدا نے دنیا کو کس طرح پیدا کیا بلکہ یہ ہے کہ انسان نے خدا کو کس طرح پیدا کیا.نعوذ باللہ.ان کے نزدیک خدا کا سوال انسانی ارتقاء کا نتیجہ ہے.اگر خدا کا وجود ایک حقیقت بھی ہے تو پھر بھی وہ دماغی ترقی کی انتہائی کڑی ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں.ان کے نزدیک انسان نے ایک اچھا نمونہ تلاش کرنا چاہا.جب وہ انسانوں میں ایک عمدہ نمونہ تلاش نہ کر سکے تو انہوں نے انسانوں سے باہر ایک ذہنی نقشہ قائم کیا.تصورات میں ایک نقشہ قائم کیا.اس نقشہ کو قائم کرنے میں انسان کی پہلی کوشش ایسی کامیاب نہ تھی مگر جوں جوں وہ زیادہ غور کرتا گیا، زیادہ ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ اس نے ایک کامل نقشہ تیار کر لیا اور اس کا نام خدا ہے.یہ اس زمانے کے فلاسفروں کے نزدیک خدا کا تصور ہے اور اب بھی بعض یہ کہتے ہیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اس طرح ان لوگوں نے خدا کو بھی مادیات کا حصہ قرار دے دیا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 463 تا 466) اس زمانے کے فلاسفروں نے یہ خود ساختہ خدا بنایا تھا اور بہت سے ان میں سے ایسے بھی تھے جو اس خود ساختہ خدا پر یقین بھی رکھتے تھے لیکن پھر بعد کے آنے والے جو فلاسفر ہیں یا ترقی یافتہ کہلانے والے ہیں اس طرح کے مادی خدا بنانے کی وجہ سے آہستہ آہستہ پھر مذہب سے دور ہٹتے گئے اور آجکل اس خیال کی وجہ سے کہ خدا ایک خود ساختہ چیز ہے موجودہ فلاسفر دہریت کی طرف چلے گئے ہیں.بلکہ تعلیم اور روشن خیالی کے نام پر مغربی ممالک میں رہنے والوں کی اکثریت خدا کے وجود سے ہی انکاری ہو چکی ہے اور صرف اخلاق اور مادی ترقی کو سب کچھ سمجھتے ہیں.اور ان دہریت پسند لوگوں کے جو نظریات ہیں ان کو آجکل کے مولوی مزید ہوا دیتے ہیں جنہوں نے اپنی ہر چیز اور اپنے ہر نظریے کو مذہب کا حصہ ٹھہرا کر عجیب جہالت پھیلا دی ہے.پس اس لحاظ سے ہم دیکھیں تو آجکل کے علماء بھی غلطی خوردہ ہیں اور مذہب کو مادیت سمجھنے والے اور اس کا انکار کرنے والے بھی غلطی خوردہ ہیں.ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان چیزوں سے بچا کر ایسی رہنمائی فرمائی ہے کہ اصل حقیقت جاننے کے لئے فرمایا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ ہر معاملے میں اعتدال اور اس کا حق ادا کرنا ہے.یہ حقیقی دین ہے.آپ نے فرمایا کہ بیشک عبادت انتہائی ضروری ہے.پیدائش کا مقصد ہے لیکن وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَق وَلِجَارِكَ عَلَيْكَ حَق کہ تیرے نفس کا بھی تجھ
خطبات مسرور جلد 13 262 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2015ء پر حق ہے.تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے ہمسائے کا بھی تجھ پر حق ہے.اور ان کے حصول کے لئے ہمیں تین قسم کے ذرائع کا استعمال کرنا ضروری ہے.پہلی بات تو دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا اور عبادت ہے.دوسرے نفس پر قابو پانا، جذبات کو دبانا، انسانی نفسیات پر غور کرنا.تیسرے اپنے کام اور اپنے پیشے میں دیانت سے کام لینا اور دنیاوی اور سائنس کا علم حاصل کرنا ضروری ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 466-467) اگر ہم غور کریں تو نفس کے حق کے لئے دعا اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ضروری چیز ہے.جذبات پر قابو پانا ہے یہ بھی ضروری چیز ہے.جذبات ہی بعض دفعہ بے لگام ہو کر اپنے نفس کے حقوق سے بھی محروم کر دیتے ہیں یا ظلم کرنے پر آمادہ کر دیتے ہیں.اپنے علم میں اضافہ کر کے، اپنے کام میں دیانت سے کام لے کرا اپنی زندگی کی روحانی حالت اور اخلاقی حالت اور مالی حالت کو ہم سنوار سکتے ہیں.اسی طرح اپنے اہل و عیال کے حق کی ادائیگی کے لئے بھی دعا ہے، جذبات پر کنٹرول ہے اور مادی ضروریات کا پورا کرنا ہے.اسی طرح فرمایا کہ تمہارے ہمسائے کا بھی تم پر حق ہے.یعنی معاشرے کے حق کی ادائیگی بھی اس وقت ہو گی جب ہم اس کے لئے دعا بھی کریں گے.ان کے حق ادا کریں گے.ان کی نفسیات کو سمجھیں گے اور اس کے مطابق جو دین کا پیغام پہنچانا ہے وہ پہنچائیں گے.یہ بھی ان کا حق ہے کہ ان کو دین سے آگاہ کیا جائے اور پھر اپنے علم میں ترقی اور کام میں محنت سے مجموعی طور پر ملک کی ترقی میں بھی ہم حصہ دار بنیں گے.یہ بھی ہمسائے کے حقوق میں اور معاشرے کے حقوق میں آ جاتا ہے.اور جب معاشرے میں اس سوچ کے ساتھ ہر ایک کوشش کر رہا ہوگا تو وہ معاشرہ روحانی، اخلاقی اور مادی ہر طرح کی ترقی کا بہترین نمونہ ہوگا.مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے خدا کو ، خدا کے مذہب کو مقدم کر کے ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جو ابھی میں نے بیان کی ہیں بلکہ اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب رکھ لیا ہے.جو اللہ تعالیٰ نے مذہب اتارا تھا اس کو مقدم نہیں کیا بلکہ اگر وہ مقدم رکھتے تو باقی باتوں کا بھی خیال رکھتے.اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب رکھ کر اس پر عمل کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دوسروں کو اسلام کی خوبیاں کیا بتانی تھیں خود اس خود ساختہ نفسانی مذہب کی پیروی کر کے مسلمان مسلمان کی گردن زدنی کر رہا ہے.نہ ان کو دین ملا، نہ دنیا ملی.سوائے اس کے کہ دنیا داروں کے سامنے اپنے ہر مسئلے کے لئے ہاتھ پھیلا رہے ہیں.یہی آجکل ہمیں مسلمان دنیا میں نظر آتا ہے.مغربی قوموں نے چاہے دین کو دنیا
خطبات مسرور جلد 13 263 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2015 ء کے تابع کر دیا.ان کے خیال میں دین کوئی چیز نہیں ہے دنیا ہی ہر چیز ہے.بیشک یہ لوگ بھی بھٹکے ہوئے ہیں لیکن جو مقصد یہ سمجھتے تھے اسے تو حاصل کر لیا چاہے غلط طریق ہی ہے.انہوں نے دنیا تو حاصل کرلی لیکن مسلمانوں کو تو نہ دین ملا، نہ دنیا ملی.بہر حال ان دونوں طرح کے لوگوں کی اصلاح کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں ہی اپنے ماموروں کو بھیجتا ہے جو صحیح رہنمائی کر کے مذہب کو مذہب کی جگہ اور اخلاق کو اخلاق کی جگہ اور دنیا کو دنیا کی جگہ رکھتے ہیں.بظاہر وہ روحانی پیغام لے کر آتے ہیں مگر ان تینوں چیزوں کا گہرا تعلق ہے اور روحانیت میں کمال سے اخلاق کا درست ہونا لازمی ہے اور اخلاق کی نگہداشت سے مادیت کی درستی بھی لازمی ہے.مگر یہ نہیں ہو سکتا یا یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کی دنیا درست ہو اس کو دنیا میں سب کچھ مل جائے.جو وہاں ترقی کر رہا ہو اس کے اخلاق بھی درست ہوں.اور جس کے اخلاق درست ہوں اس کا مذہب بھی درست ہو.اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء انسان کو اپنی طرف لانے کا ہے.یہی اس کا مقصد پیدائش ہے.پس اس نے اخلاق کی درستی اور مادی ترقی کو مذہب کے تابع کر دیا ہے تا کہ جو اس کی طرف توجہ کرے اسے باقی سب کچھ آپ ہی آپ مل جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کامل مومن کو سب ترقیات حاصل ہوتی ہیں لیکن جو صرف دنیا دار ہوں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيا (الكهف: 105 ).ان کی سب کوششیں دنیا میں ہی غائب ہو جاتی ہیں.حضرت مصلح موعود اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ گویا روحانیت کے قبول کرنے والے کے لئے یعنی اوپر سے نیچے آنے والے کے لئے سیڑھی موجود ہے مگر نیچے سے اوپر جانے والے کے لئے سیڑھی موجود نہیں ہے.پس معلوم ہوا کہ دنیا میں ان تینوں امور کے حصول کے لئے الگ الگ ذرائع ہیں لیکن ایک ذریعہ مشترک بھی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنا ہے.اخلاق کے لئے کوشش کرنے سے اخلاق مل جائیں گے.مادیات کے لئے کوشش کرنے سے مادیات حاصل ہو جائیں گی، دنیاوی ترقی حاصل ہو جائے گی.مگر ہر ایک کوشش کا نتیجہ اس دائرے کے اندر محدود رہے گا، اس سے باہر نہیں نکلے گا.مگر روحانیت کی درستی کرنے والوں کو ساری چیزیں مل جائیں گی.صحابہ رضوان اللہ علیہم بیعت کرتے وقت اس بات کی بیعت نہیں کرتے تھے کہ گلیاں چوڑی رکھیں گے یا صفائی کریں گے یا دوسری مادی چیزوں کا خیال رکھیں گے بلکہ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھتے تھے.اس سے اخلاق بھی درست ہوتے
خطبات مسرور جلد 13 264 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 124 اپریل 2015ء تھے اور اخلاق کی درستی سے یقینا دنیا درست ہوتی تھی.مسلمان کے اس زمانے میں سچ کے معیار ایک نمونہ تھے.تجارت میں دیانتداری کی وجہ سے مسلمانوں کے سپر د دنیا والے بے دھڑک اپنی تجارتیں کر دیا کرتے تھے.رعایا سے انصاف دیکھ کر لوگ چاہتے تھے کہ مسلمان ہمارے حکمران ہوں.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک موقع پر شام سے مسلمانوں کو نکلنا پڑا کیونکہ اس وقت رومی فوجوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے مقابلہ مشکل تھا لیکن اس وقت شامی لوگ جو رعا یا تھی وہ روتے تھے اور اصرار کرتے تھے کہ آپ لوگ یہاں سے نہ جائیں ہم آپ کی مدد کرتے ہیں.ہم آپ کے ساتھ دفاع کریں گے.حالانکہ شامی لوگ بھی عیسائی تھی اور رومی بھی عیسائی تھے.مگر یہ اعلیٰ اخلاق اور حکومت کا حسن انتظام تھا جس نے شامی عیسائیوں کو عیسائی حکومت کے مقابلے پر مسلمانوں کی مدد پر آمادہ کر دیا.پس گو بادشاہت دنیوی چیز ہے لیکن مسلمانوں کی بادشاہت دنیوی نہیں تھی.یہ بادشاہت انہیں مذہب کے طفیل ملی تھی اس لئے مذہب کے پیچھے چلتی تھی اور اسی وجہ سے اس میں ایسی خوبیاں تھیں کہ مذہبی اختلاف کے باوجود رعایا چاہتی تھی کہ مسلمانوں کی بادشاہت قائم رہے، ان کی حکومت قائم رہے.گو مسلمانوں کو بادشاہت لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے طفیل ملی تھی لیکن صرف زبانی دعوی نہیں تھا بلکہ حقیقی ایمان کے طفیل ملی تھی کیونکہ زبانی دعوے والا تو دنیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے مگر جس کو سچا مذہب مل جائے اس کے اخلاق بھی درست ہو جاتے ہیں اور دنیا بھی.کاش کہ آج کے مسلمان حکمران اس نکتے کو سمجھیں اور اپنی حکومتوں کو اس نہج پر چلا ئیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک تاجر کی مثال بیان فرمایا کرتے تھے کہ اس نے ایک بڑی رقم اپنے شہر کے قاضی کو امانت کے طور پر رکھوائی.وہ سفر پر جا رہا تھا کہ سفر سے واپسی پر لے لوں گا.جب واپس آیا اورا اپنی رقم کی تھیلی مانگی تو قاضی صاحب نے صاف انکار کر دیا کہ میں نے کوئی امانت نہیں رکھی اور نہ میں امانتیں رکھا کرتا ہوں.کیسی تھیلی اور کیسی امانت؟ تاجر نے بہت سی نشانیاں بتائیں لیکن قاضی انکاری تھا کہ میں نے تو کہہ دیا کہ امانتیں رکھا ہی نہیں کرتا.اس پر تاجر پریشان ہوا.آخر اسے کسی نے بتایا کہ بادشاہ فلاں دن اپنا در بار لگاتا ہے اور ہر شخص کی پہنچ اس تک ہوتی ہے.تم بھی جا کر اپنا معاملہ پیش کرو.اس نے ایسا ہی کیا.مگر کیونکہ اس کے پاس ثبوت کوئی نہیں تھا اس لئے بادشاہ نے کہا کہ بغیر ثبوت کے تو قاضی کو پکڑا نہیں جاسکتا.ہاں بادشاہ نے خود ہی ایک صورت بتائی کہ فلاں دن میری سواری اور جلوس نکلے گا، شہر میں جائے گا تم اس دن قاضی کے قریب
خطبات مسرور جلد 13 265 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2015ء کھڑے ہو جانا کیونکہ سڑک پے بڑے بڑے لوگ استقبال کے لئے موجود ہوتے ہیں.میں جب آؤں گا تو تم سے بے تکلفی سے باتیں کروں گا.تم بھی ایسے ظاہر کرنا جیسے میرے دوست ہو.ڈرنا نہیں کہ میں بادشاہ ہوں ، کچھ ہو جائے گا.تم سے میں پوچھوں گا کہ بڑے عرصے سے ملے نہیں.تو تم بتانا کہ پہلے تو میں سفر پہ گیا ہوا تھا پھر واپس آیا تو ایک شخص کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی اس کا جھگڑا چل رہا ہے.وصولی کی کوشش میں ہوں.بادشاہ نے کہا کہ اس پر میں تمہیں وہیں قاضی کے سامنے ہی کہوں گا کہ اس جھگڑے کے حل کے لئے میرے پاس تم آجاتے.پھر تم کہنا کہ اچھا اگر حل نہ نکلا تو میں آپ کے پاس آؤں گا.چنانچہ اس دن جب بادشاہ آیا.اس تاجر نے ایسا ہی کیا.سوال جواب ہوئے.قاضی بھی جو بادشاہ کے استقبال کے لئے موجود تھا کھڑا یہ باتیں سن رہا تھا.جب بادشاہ کی سواری آگے چلی گئی تو قاضی صاحب تاجر کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم ایک دن میرے پاس آئے تھے اور کسی امانت کا ذکر کیا تھا.میرا حافظہ کمزور ہے.کچھ نشانیاں بتاؤ تو تاجر نے وہی نشانیاں جو پہلے بتائی تھیں دوبارہ بتادیں.قاضی اب چونکہ بادشاہ کا رویہ اور سلوک دیکھ چکا تھا تو فوراً بولا یہ نشانیاں پہلے کیوں نہیں بتائیں.امانت میرے پاس محفوظ ہے.ابھی لا کر دیتا ہوں.جب ایک دنیوی بادشاہ جس کو محدود طاقت ہے اس کی دوستی انسان کو یہ مقام دے سکتی ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس سے ڈرتے ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی دوستی کسی کو حاصل ہو اور دنیا اس کے قدموں پر نہ گر جائے.پس سچا مذہب حاصل کر کے انسان تمام دنیا کو حاصل کر سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ باتیں جو صحابہ کو میں انہوں نے دنیاوی طور پر حاصل نہیں کی تھیں بلکہ جو دنیا انہیں ملی وہ مذہب کے تابع ہو کر ملی.مگر اس کے لئے ایمان کی ضرورت ہے.ایسا ایمان ہونا چاہئے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو جذب کرے.ایک شخص جسے کامل ایمان حاصل ہو وہ کس طرح اعلیٰ اخلاق کو چھوڑ سکتا ہے.اگر اخلاق کے سارے شعبے انسان اختیار کرے اور ان پر عمل کرے تو سچائی، دیانت، امانت، تقویٰ اور طہارت سبھی کچھ اسے حاصل ہو جائے گا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ علم، ہنر ، ہوشیاری ، لیاقت اور محنت اس کو حاصل ہو گی.اس پر عمل کرنے والا ہوگا اور نتیجہ پھر دنیا بھی حاصل ہوگی.پس مومن کو سب سے زیادہ توجہ روحانی تعلق کی طرف کرنی چاہئے.ان لوگوں کی طرح نہیں جو سمجھتے ہیں کہ منہ سے اقرار کافی ہے.خدا تعالیٰ کی محبت زبان سے نہیں ہو سکتی بلکہ دل سے ہی ہوسکتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو پھر انسان ہر شئے پر قبضہ کر لیتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمودجلد 17 صفحه 467 تا470) جب تک کوئی انسان کمال حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا.مذہب میں داخل ہونے سے بھی
خطبات مسرور جلد 13 266 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اپریل 2015ء کمال ہی فائدہ دیتا ہے اس کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ آجکل ہم سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو گہرا تعلق رکھتے ہیں.یا تو پوری مخالفت کرنے والے مثلاً مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ انہیں کو فائدہ ہو رہا ہے.دوسرے چھوٹے چھوٹے مولویوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.یا کامل اخلاص رکھنے والے.ادنی تعلق فائدہ نہیں دیتا.اگر انسان خدا تعالیٰ کی طرف چل پڑے تو جیسا پہلوں کے ساتھ معاملہ ہوا اس کے ساتھ بھی ہو گا.اس زمانے میں بھی یہ ہو سکتا ہے.اگر انسان حقیقت میں اس کی کوشش کرے تبھی یہ ہو گا.خدا تعالیٰ کی کسی سے دشمنی نہیں ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کامل طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے ڈال دیں.اس کے آستانے پر اپنے آپ کو گرا دیں تو آپ ہی آپ سب کچھ حاصل ہو جائے گا.اور جوترقی ہمارے لئے ضروری ہے آپ ہی آپ ہمیں مل بھی جائے گی.ایک عام مثال ہے کہ آگ کے پاس بیٹھنے سے انسان کے سب اعضاء جو ہیں وہ گرم ہو جاتے ہیں.تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان سب کچھ چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے پاس آئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ حصہ نہ لے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 470-471) پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ خدا کو حاصل کریں.خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مذہب کی حقیقت کو سمجھیں.خدا تعالیٰ کی محبت کو ایک ایسی شئے بنا ئیں جو طبعی چیز بن جائے اور یہی چیز ہمارے اخلاق کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والی ہو گی اور دنیاوی ترقیات بھی ہم حاصل کرتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ کے نور سے اگر ہم حصہ لینے کی کوشش کریں تو تبھی ہم حقیقت میں فیض پاسکتے ہیں.جب ہم ایک لگن کے ساتھ اس نور سے حصہ لینے کی کوشش کریں گے تو جھوٹ جو اندھیرا ہے وہ بھی ہم سے خود بخو دا لگ ہو جائے گا.سستی ، فریب اور دغا اور جو دوسری برائیاں ہیں، دوسروں کے حق مارنا یہ سب ظلمات ہیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے نور کی وجہ سے خود بخود دور ہو جائیں گی.ہمارے اخلاق بھی بلند ہوتے چلے جائیں گے اور دنیاوی ترقیات بھی ملتی رہیں گی.پس اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی نسلوں کو اگر دنیا داری کے بداثرات سے بچانا ہے، مذہب اور اخلاق کا جوڑ انہیں سمجھانا ہے، دنیاوی ترقی کو بھی حقیقی مذہب کے تابع ثابت کر کے انہیں یعنی ان کی نسلوں کو مذہب سے جوڑنا ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق جوڑنے کی خود بھی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 15 مئی 2015 ء تا 21 مئی 2015 ءجلد 22 شمارہ 20 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 267 18 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015 ء بمطابق 01 ہجرت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے واقعات بیان فرماتے ہیں تو بڑی باریکی سے ان میں سے وہ نتائج اخذ کرتے ہیں جو ایمان کے صحیح راستوں کی طرف نشاندہی کر کے ایک مومن کو اسے خدا تعالیٰ اور دین کی حقیقی شناخت کرنے والا اور اس کا ادراک پانے والا بنائے.ایک دفعہ آپ اپنی ایک تقریر میں آیت الکرسی کی تفسیر فرمارہے تھے تو اس کے اس حصے کہ لۂ ما في السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ(البقرة:256) کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب بتاؤ کہ جب تمہارا ایسا آتا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کچھ اسی کا ہے تو اس کے مقابلے میں اور کسی کو تم کس طرح اپنا آقا بنا سکتے ہو.لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے سوا کسی کو نہیں پوجتے اور غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے.البتہ ان کی نیازیں دیتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں اور وہ ہماری شفاعت خدا تعالیٰ کے حضور کریں گے.آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے حکم کے بغیر تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا.اس زمانے میں مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر کس نے بڑا انسان ہونا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ جب نواب صاحب کے ( نواب محمد علی خان صاحب کے ) لڑکے عبدالرحیم خان کے لئے جبکہ وہ بیمار تھا دعا کی تو الہام ہوا کہ یہ بچتا نہیں.آپ کو خیال آیا کہ نواب صاحب اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان آ رہے
خطبات مسرور جلد 13 268 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015 ء ہیں.ان کا لڑکا فوت ہو گیا تو انہیں ابتلا نہ آ جائے.اس لئے آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ الہی میں اس لڑکے کی صحت کے لئے شفاعت کرتا ہوں.اس پر الہام ہوا مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا باذنہ.تم کون ہو کہ میری اجازت کے بغیر شفاعت کرتے ہو.دیکھو مسیح موعود علیہ السلام کتنابڑا انسان تھا.تیرہ سوسال سے اس کی دنیا کو انتظار تھی مگر وہ بھی جب سفارش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہوتے کون ہو کہ بلا اجازت سفارش کرو.حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جب مجھے یہ الہام ہوا تو میں گر پڑا اور بدن پر رعشہ شروع ہو گیا.قریب تھا کہ میری جان نکل جاتی.لیکن جب یہ حالت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے نے فرمایا کہ اچھا ہم شفاعت کی اجازت دیتے ہیں.شفاعت کرو.چنانچہ آپ نے شفاعت کی اور عبدالرحیم خان اچھے ہو گئے.صحتیاب ہو گئے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا مگر یہ دعا قبول ہوئی.شفاعت کی اجازت ملی.مگر مسیح موعود جیسے انسان کو جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم کون ہو جو سفارش کرو تو اور لوگ جو بڑے بنے پھرتے ہیں ان کی کیا حیثیت کہ کسی کی سفارش کر سکیں.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اذن ہوگا تب آپ سفارش کریں گے.پس کیسا نادان ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ میری سفارش دوسرا کر سکے گا.(ماخوذ از برکات خلاف، انوار العلوم جلد 2 صفحہ (241) اس غلط تصور نے ہمارے ملکوں کے لوگوں میں، ہمارے معاشرہ میں قبر پرستی کی برائی بھی ڈال دی ہے.اس میں مبتلا ہو چکے ہیں اور شرک کرتے ہیں، پیروں کو پوجتے ہیں.پس اس بات کو ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی ہی فرمایا ہے کہ جب اذن ہوگا اسی کی سفارش ہوگی.(صحیح البخاری کتاب التوحید باب کلام رب عزوجل يوم القيامة مع الانبياء وغيرهم حديث 7510) پھر اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کس طرح اپنی قدرت کے عجائبات دکھایا کرتا تھا.اس کی ایک مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کو کھانسی کی شکایت تھی.مبارک احمد ( جو آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ) کے علاج میں آپ ساری ساری رات جاگتے تھے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ان دنوں بارہ بجے کے قریب میں سویا کرتا تھا اور جلدی ہی اٹھ بیٹھتا.لیکن جب میں سوتا اس وقت حضرت صاحب کو ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ) جاگتے دیکھتا اور جب اٹھتا
خطبات مسرور جلد 13 269 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء تو تب بھی جاگتے دیکھتا.اس محنت کی وجہ سے آپ کو کھانسی ہوگئی.طبیعت خراب رہنے لگی.(ماخوذ از تقدیر الہی ، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 579) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میرے سپر د آپ کی دوائی وغیرہ پلانے کی خدمت تھی اور قدرتی طور پر جس کے سپر د کوئی کام کیا جائے وہ اس میں دخل دینا بھی اپنا حق سمجھنے لگتا ہے.میں بھی اپنی کمپاؤڈری کا یہ حق سمجھتا تھا کہ کچھ نہ کچھ دخل آپ کے کھانے پینے میں دوں.چنانچہ مشورہ کے طور پر عرض بھی کر دیا کرتا تھا کہ یہ نہ کھائیں وہ نہ کھائیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے بھی تیار ہو کر استعمال ہوتے تھے اور انگریزی دوائیاں بھی مگر کھانسی بڑھتی ہی جاتی تھی.یہ 1907ء کا واقعہ ہے اور عبد الحکیم مرتد نے آپ کی کھانسی کی تکلیف کا پڑھ کر لکھا تھا کہ مرزا صاحب سل کی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہوں گے اس لئے ہمیں کچھ یہ بھی خیال تھا کہ غلط طور پر بھی اسے خوشی کا کوئی بہانہ نہ مل سکے.مگر آپ کو کھانسی کی تکلیف بہت زیادہ تھی اور بعض دفعہ ایسا لمبا اُ چھو آتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ سانس رک جائے گا.ایسی حالت میں باہر سے کوئی دوست آئے.(یعنی جب یہ حالت تھی تو باہر سے کوئی دوست تشریف لائے ) اور تحفے کے طور پر کچھ پھل لے کے آئے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں نے وہ حضور کے سامنے پیش کر دیئے.آپ نے انہیں دیکھا اور فرمایا کہ انہیں ( دوست کو) کہہ دو کہ جزاك الله اور پھر ان میں سے کوئی چیز جو غالباً کیلا تھا اٹھایا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں چونکہ دوائی وغیرہ پلایا کرتا تھا اس لئے یا شاید مجھے سبق دینے کے لئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ یہ کھانسی میں کیسا ہوتا ہے.میں نے کہا اچھا تو نہیں ہوتا.مگر آپ مسکرا پڑے اور چھیل کر کھانے لگے.میں نے پھر عرض کیا کہ کھانسی بہت سخت ہے اور یہ چیز کھانے میں اچھی نہیں.آپ پھر مسکرائے اور کھاتے رہے.میں نے اپنی نادانی سے پھر اصرار کیا کہ نہیں کھانا چاہئے.اس پر آپ پھر مسکرائے اور فرمایا مجھے ابھی الہام ہوا ہے کہ کھانسی دور ہوگئی.چنانچہ کھانسی اسی وقت جاتی رہی.حالانکہ اس وقت نہ کوئی دوا استعمال کی اور نہ کوئی پر ہیز کیا بلکہ بد پرہیزی کی اور کھانسی پھر بھی دور ہو گئی.اگر چہ اس سے پہلے ایک مہینہ علاج ہوتا رہا تھا اور کھانسی دور نہ ہوئی تھی.تو یہ الہی تصرف ہے.آپ فرماتے ہیں کہ یوں تو بد پر ہیزی سے بیماریاں بھی ہوتی ہیں اور علاج سے صحت بھی ہوتی ہے مگر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو دخل بھی دے دیتا ہے اور دعا کا ہتھیار اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھایا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ حضور جا کر کہے کہ میں آزادی نہیں چاہتا.میں اپنے حالات سے تنگ آ گیا ہوں.آپ مہربانی کر کے
خطبات مسرور جلد 13 270 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء میرے معاملات میں دخل دیں اور اللہ تعالیٰ بھی دیکھتا ہے کہ یہ بندہ متوکل ہو گیا ہے اور چاہتا ہے کہ میں اس کے معاملات میں دخل دوں تو وہ دیتا ہے اور پھر اپنی قدرت کا نمونہ دکھاتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 23 صفحہ 274-275) حضرت مصلح موعود نے اس واقعہ کی مثال کے بعد ایک مثال دی جو ایمان کو تازہ کرتی ہے اور جو یکھرام سے تعلق رکھتی ہے کہ لیکھرام کا واقعہ بھی اس امر کی مثال میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ چاہے تو صحت کے تمام سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی بیماری پیدا ہو جاتی ہے.(اب لیکھرام کے معاملے میں) خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا تھا ، ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا ) کہ عید کے دوسرے دن اس کی موت ہوگی اور چھ سال کے اندر اندر.اب چھ سال میں دو تین روز کے لئے حفاظت کے خاص طور پر سامان کر لینا کوئی مشکل امر نہیں ہے اور یہ اس کے اختیار میں تھا کہ ان دنوں حفاظت کے خاص سامان مہیا کر لیتا مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کو پورا کر دیا حالانکہ ظاہری سامان اس کے خلاف تھے.16 مارچ اس کی موت مقدر تھی.یکم مارچ کو لیکھرام کو سبھا کی طرف سے ملتان پہنچنے کا حکم ہوا.( یہ ان کی کمیٹی تھی.وہاں 4 / مارچ تک اس نے چار لیکچر دیئے.پھر سبھا نے اسے سکھر جانے کے لئے تار دیا مگر وہاں پلیگ ہونے کی وجہ سے ملتان کے آریہ سماجیوں نے وہاں جانے سے روک دیا.پھر پنڈت لیکھرام مظفر گڑھ جانے کے لئے تیار ہوئے مگر یہ نہیں معلوم کہ پھر وہ سیدھے لاہور کیوں لوٹ پڑے اور 6 مارچ دو پہر کو یہاں پہنچ گئے.اگر وہ اسی روز واپس نہ آتا تو یہ پیشگوئی پوری نہ ہوتی لیکن باوجود اس کے باہر رہنے کا موقع پیدا ہو گیا.پھر بھی وہ لاہور پہنچ گیا اور وقت مقررہ پر قتل بھی ہو گیا.یہ مثال اس امر کی ہے کہ صحت اور حفاظت کے سامانوں کے باوجود بھی انسان ہلاک ہوسکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ انسان کے کاموں میں دخل دیتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے اپنی قدرت دکھاتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 23 صفحہ 273) صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا بھی ذکر ہوا جن کی تیمار داری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی صحت پر بھی بڑا برا اثر پڑا اور آپ کو اپنے اس لڑکے سے محبت بھی تھی.اس کا ذکر حضرت مصلح موعود ایک واقعہ میں یوں فرماتے ہیں کہ ہمارا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کا نام مبارک احمد تھا.اس کی قبر بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے مشرق کی طرف موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ بہت ہی پیارا تھا.مجھے یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق پیدا ہوا.(محبت
خطبات مسرور جلد 13 271 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء کا یہ اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس حد تک تھا اور کس طرح ان کا خیال رکھا کرتے تھے.کہتے ہیں ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق تھا.) کچھ مرغیاں میں نے رکھیں.کچھ میر اسحق صاحب مرحوم نے رکھیں.کچھ میاں بشیر احمد صاحب نے رکھیں اور بچپن کے شوق کے مطابق صبح ہی صبح ہم جاتے ، مرغیوں کے ڈربے کھولتے ، انڈے گنتے اور پھر فخر کے طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے کہ میری مرغی نے اتنے انڈے دیئے ہیں اور میری نے اتنے.ہمارے اس شوق میں مبارک احمد مرحوم بھی شامل ہو جاتا.اتفاقاً ایک دن وہ بیمار ہو گیا.اس کی خبر گیری سیالکوٹ کی ایک خاتون کرتی تھیں جن کا عرف دادی پڑا ہوا تھا.ہم بھی اسے دادی ہی کہتے اور دوسرے سب لوگ بھی.حضرت خلیفہ اول اسے دادی کہنے پر بہت چڑا کرتے تھے مگر اس لفظ کے سوا شناخت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا.اس لئے آپ (حضرت خلیفہ اوّل) بجائے دادی کے اسے جگ دادی کہا کرتے تھے.جب مبارک احمد مرحوم بیمار ہوا تو دادی نے کہہ دیا کہ یہ بیمار اس لئے ہوا ہے کہ مرغیوں کے پیچھے بہت جاتا ہے.( وہاں مستقل رہتا ہے اور گندی جگہ ہے ).جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو حضرت اماں جان سے فرما یا کہ مرغیاں گنوا کر ( یعنی کتنی مرغیاں ہیں گن لو ) ان بچوں کو اس کی قیمت دے دی جائے اور مرغیاں ذبح کر کے کھالی جائیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبارک احمد بہت پیارا تھا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 581-582) لیکن یہی بیٹا جس کی آپ نے اتنی تیمارداری کی جس کواتنا پیار کیا، لاڈ کیا.جب وفات پا گیا تو اس وقت کے حالات کا نقشہ حضرت مصلح موعود نے مختلف جگہوں پر کھینچا ہے کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا کیفیت ہوئی تھی.فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بہت محبت تھی.جب وہ بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتنی محنت اور اتنی توجہ سے اس کا علاج کیا کہ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ اگر مبارک احمد فوت ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ پہنچے گا.حضرت خلیفہ اول بڑے حوصلہ والے اور بہادر انسان تھے.جس روز مبارک احمد مرحوم فوت ہوا اس روز صبح کی نماز پڑھا کر آپ مبارک احمد کو دیکھنے کے لئے تشریف لائے.میرے سپر داس وقت مبارک احمد کو دوائیاں دینے اور اس کی نگہداشت وغیرہ کا کام تھا.میں ہی نماز کے بعد حضرت خلیفہ اول کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا.میں تھا ، حضرت خلیفہ اول تھے ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے اور شاید ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی تھے.جب حضرت خلیفہ اول مبارک احمد کو دیکھنے کے لئے پہنچے تو
خطبات مسرور جلد 13 272 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حالت اچھی معلوم ہوتی ہے.بچہ سو گیا ہے.مگر در حقیقت وہ آخری وقت تھا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ”جب میں حضرت خلیفہ اول کو لے کر آیا اس وقت مبارک احمد کا شمال کی طرف سر اور جنوب کی طرف پاؤں تھے.حضرت خلیفہ اول بائیں طرف کھڑے ہوئے اور انہوں نے نبض پر ہاتھ رکھا مگر نبض آپ کو محسوس نہ ہوئی.اس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ حضور مشک لائیں اور خود ہاتھ کہنی کے قریب رکھ کر نبض محسوس کرنی شروع کی کہ شاید وہاں نبض محسوس ہوتی ہو.مگر وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا کہ حضور جلدی مشک لائیں اور خود بغل کے قریب اپنا ہاتھ لے گئے اور نبض محسوس کرنی شروع کی اور جب وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو گھبرا کر کہا حضور جلد مشک لائیں.اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چابیوں کے گچھے سے کنجی تلاش کر کے ٹرنک کا تالہ کھول رہے تھے.جب آخری دفعہ حضرت مولوی صاحب نے گھبراہٹ سے کہا کہ حضور مشک جلدی لائیں اور اس خیال سے کہ مبارک احمد کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت صدمہ ہوگا، باوجود بہت دلیر ہونے کے آپ کے (حضرت خلیفہ اول کے ) پاؤں کانپ گئے اور حضرت خلیفہ اول کھڑے نہ رہ سکے اور زمین پر بیٹھ گئے.ان کا خیال تھا کہ شاید نبض دل کے قریب چل رہی ہو اور مشک سے قوت کو بحال کیا جا سکتا ہومگر ان کی آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ امید موہوم تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی آواز کے تر نعش کو محسوس کیا تو آپ سمجھ گئے کہ مبارک احمد کا آخری وقت ہے اور آپ نے ٹرنک کھولنا بند کر دیا اور فرمایا کہ مولوی صاحب شاید لڑ کا فوت ہو گیا ہے.آپ اتنے گھبرا کیوں گئے ہیں.یہ اللہ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہمیں دی تھی.اب وہ اپنی امانت لے گیا ہے تو ہمیں اس پر کیا شکوہ ہو سکتا ہے.پھر فرمایا آپ کو شاید یہ خیال ہو کہ میں نے چونکہ اس کی بہت خدمت کی ہے اس لئے مجھے زیادہ صدمہ ہوگا.خدمت کرنا تو میرا فرض تھا جو میں نے ادا کر دیا اور اب جبکہ وہ فوت ہو گیا ہے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر پوری طرح راضی ہیں.چنانچہ اسی وقت آپ نے بیٹھ کر دوستوں کو خطوط لکھنے شروع کر دیئے.الفضل 14 مارچ 1944 ء صفحہ 4 جلد 32 نمبر 61) (ایک جگہ حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ وہیں جہاں یہ دوائیاں پڑی تھیں وہاں کارڈ بھی پڑے ہوئے تھے جو پوسٹ کارڈ ہوتے ہیں.آپ نے بجائے دوائی نکالنے کے پھر کارڈ وہاں سے نکالے قلم
خطبات مسرور جلد 13 273 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء نکالا اور دوستوں کو خط لکھنے شروع کئے جو قریبی تھے ) کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ (232) وہ اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہم سے لے لی.تو مومن کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو وہ جہاں تک ہو سکتا ہے دوسرے کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کو اپنے لئے ثواب کا موجب سمجھتا ہے مگر دوسری طرف جب اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوتی ہے تو وہ کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتا.وہ سمجھتا ہے کہ خدمت کا ثواب مجھے مل گیا لیکن جو جزع فزع کرنے والے ہوتے ہیں وہ دنیا کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں اور آخرت کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں اور اس سے زیادہ بد بخت اور کون ہو سکتا ہے جو دوہری مصیبت اٹھائے.اس جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے اور اگلے جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے.(ماخوذ از الفضل 14 مارچ 1944 ، صفحہ 4 جلد 32 نمبر (61) پھر حضرت مصلح موعود ایک جگہ اسی بارے میں قادیان کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”یہاں رہنے والے لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ مولوی عبد الکریم صاحب اور مبارک احمد کی بیماری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علاج معالجہ کا کس قدر خیال ہوتا تھا.دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ اپنے سلسلہ کی ترقی انہی کی زندگی پر سمجھتے تھے.ان ایام میں سوائے اس کے اور کوئی ذکر ہی نہ ہوتا تھا کہ کس طرح علاج ہو اور کیا علاج کیا جائے.لیکن ان کی وفات کے وقت کیا ہوا.یہی کہ یک لخت آپ کی ایسی حالت بدلی کہ حیرت ہی ہو گئی.یا تو اتنا جوش کہ صبح سے لے کر شام تک ( مولوی عبد الکریم صاحب کا وقت جب آیا تھا اس وقت بھی اور عزیزم مبارک احمد کا یا صاحبزادہ مبارک احمد کا آیا اس وقت بھی) انہی کے علاج معالجہ کا ذکر یا آپ اس بات پر ہنس ہنس کر اور نہایت بشاش چہرہ سے تقریر فرما رہے ہیں کہ ان کی وفات کے متعلق خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے بتا دیا ہوا تھا.“ (خطبات محمود جلد 5 صفحہ 231) پھر آپ نے اس واقعہ کا ایک جگہ اس طرح بھی ذکر فرمایا ہے کہ مبارک احمد کی وفات کے بعد جب آپ گھر سے باہر تشریف لائے.( باہر لوگ تھے.اس لئے باہر تشریف لے گئے ) تو بیٹھتے ہی آپ نے جو تقریر کی اس میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلا ہے اور ہماری جماعت کو اس قسم کے ابتلاؤں پر غم نہیں کرنا چاہئے.پھر فرمایا مبارک احمد کے متعلق فلاں وقت مجھے الہام ہوا تھا کہ یہ چھوٹی عمر میں اٹھالیا جائے گا.اس لئے یہ تو خوشی کا موجب ہے کہ خدا تعالیٰ کا نشان پورا ہوا.
خطبات مسرور جلد 13 274 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015 ء حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: کہ پس ہمارا اپنا بھائی بیٹا یا کوئی اور عزیز رشتے دار اگر مر جائے اور اس کی وفات کے متعلق خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ہو تو رنج کے ساتھ اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہمیں خوشی بھی ہو گی.خوشی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں غیر سمجھتے ہیں.ہم تو انہیں اپنا ہی سمجھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو ان سے بھی زیادہ اپنا سمجھتے ہیں اور یہ ہمارے لئے ناممکن ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے کسی نشان کو چھپائیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا پر اپنی دونوں خوبیوں کو ظاہر کر دیں.ایک طرف خدا تعالیٰ کے اس عظیم الشان قہری نشان کو ہم دنیا میں پھیلائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ظہور پذیر ہوا اور دوسری طرف مصیبت زدگان اور مجروحین کی امداد کریں.( مطلب یہ ہے کہ جو مختلف آفات میں مرتے ہیں وہ بھی ہمارے اپنے ہی ہیں.وہ بعض قہری نشانوں کی وجہ سے مر رہے ہیں جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود نے فرمائی.تو ہمیں دوسروں کو یہ بتانا چاہئے ایک وجہ تو یہ ہے.پھر فرمایا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ظہور پذیر ہوا اور دوسری طرف مصیبت زدگان اور مجروحین کی امداد کریں.اب یہ نہیں ہے کہ اسی بات پر ہم خوش ہو جائیں کہ یہ لوگ نشان کے طور پر مر گئے بلکہ جو زخمی ہیں، جو مصیبت زدگان ہیں، جو آفت زدہ ہیں، جن کو تکلیفیں پہنچی ہیں اس نشان کے واقعہ ہونے کی وجہ سے ان کی امداد بھی کریں) تا دنیا سمجھے کہ ہم جہاں خدا تعالیٰ کا نشان ظاہر ہونے کے بعد اس کی اشاعت میں کسی مصیبت اور ملامت کی پرواہ نہیں کرتے وہاں ہم سے زیادہ ان کا خیر خواہ بھی کوئی نہیں ہے.(اور اسی لئے جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ ان مصیبت زدوں کی امداد کرتی بھی ہے.) اگر ہم اپنی ان دونوں خوبیوں کو ظاہر کریں گے تو اس وقت خدا کی بھی دونوں قدرتیں ہمارے لئے ظاہر ہوں گی.وہ قدرت بھی جو آسمان سے اترتی ہے اور وہ قدرت بھی جو زمین سے ظاہر ہوتی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 338-339 خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جون 1935 ء) پس یہ واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں.بچے کی خدمت، اس کے علاج کی فکر ، اپنے قریبی ساتھی کی فکر ، اس کے علاج کی طرف توجہ، پھر نشانات پورے ہونے پر خوشی کا بھی اظہار لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آ گئی تو پھر ایسا اظہار کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور احباب جماعت کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے بھر پور کوشش کرنے کی تلقین کہ اصل مقصد خدا تعالیٰ کی رضا ہے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور جو اس نے خبریں دی ہیں ان کے پورا ہونے پر جہاں ایک طرف اطمینان ہے وہاں دوسری طرف انسانیت کو جہاں خدمت
خطبات مسرور جلد 13 275 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء کی ضرورت ہے وہاں پورے زور سے اور پوری توجہ سے خدمت بھی کرنی ہے.صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی ذہانت اور ذکاوت کے متعلق حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں احساس اور بے حسی کو مثال کے ذریعہ سمجھاتا ہوں جنہوں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت صاحب کو مبارک احمد سے کس قدر محبت تھی.اس محبت کی کئی وجہیں تھیں.اول یہ کہ وہ کمزور تھا اور کچھ نہ کچھ بیمار رہتا تھا.اس لئے اس کی طرف خاص توجہ رکھتے تھے اور یہ لازمی بات ہے کہ جس کی طرف خاص توجہ ہو اس سے محبت ہو جاتی ہے.دوسرے اگر چہ وہ ہم سے چھوٹا تھا اور اس کی عمر بھی بہت تھوڑی تھی مگر بہت ذہین اور ذکی تھا.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کی ایک یہ بھی وجہ تھی کہ وہ بہت ذہین اور ذ کی تھا.) اس کی عمر سات سال کی تھی اور وہ اسی عمر میں شعر کہ لیتا تھا اور عام طور پر اس کے شعر کا وزن درست ہوتا تھا.(اتنی چھوٹی عمر میں بھی شعر کہتے تھے اور وزن بھی درست ہوتا تھا.) اس کی ذہانت اور حافظے کی مثال یہ ہے کہ جب حضرت صاحب نے وہ بڑی نظم جس کی ردیف ” یہی ہے ، لکھی تو ہم سب کو فرمایا کہ تم قافیہ تلاش کرو.اس نے ( یعنی صاحبزادہ مبارک احمد نے ) ہم سب سے زیادہ قافیہ بتلائے جن میں بہت سے عمدہ قافیہ تھے.(خطبات محمود جلد اوّل صفحہ 77-78 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 1920ء) رب العالمین کا مظہر بنے کیلئے مخلوق کی خدمت کی اہمیت پھر حضرت مصلح موعود ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس کا تعلق اس بات سے ہے کہ مخلوق کی جسمانی خدمت بھی کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اظہار ہو سکے.فرماتے ہیں کہ مجھے ایک نظارہ کبھی نہیں بھولتا.میں اس وقت چھوٹا سا تھا.سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ اس وقت ہماری ایک چھوٹی ہمشیرہ جو چند ماہ کی تھی فوت ہوگئی اور اس کو دفن کرنے کے لئے اسی مقبرے میں لے گئے جس کے متعلق احرار کہتے ہیں کہ احمدی اس میں دفن نہیں ہو سکتے.جنازے کے بعد نعش حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں پر اٹھالی.اس وقت مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم جو یہاں دودھ کی دکان کیا کرتے تھے آگے بڑھے اور کہنے لگے حضور بانش مجھے دے دیجئے.میں اٹھا لیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مڑکر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا یہ میری بیٹی ہے“.یعنی بیٹی ہونے کے لحاظ سے اس کی ایک جسمانی خدمت جو اس کی آخری خدمت ہے یہی ہوسکتی ہے کہ میں خود اس کو اٹھا کر لے جاؤں.حضرت مصلح موعود اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ رب العالمین کا مظہر بنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے بھی ضروری ہے کہ مخلوق کی جسمانی خدمات بجالاؤ.اگر تم خدمت دین میں اپنی ساری جائیداد میں دے دیتے ہو.اپنی کل آمد اسلام کی
خطبات مسرور جلد 13 276 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015 ء اشاعت کے لئے خرچ کر دیتے ہو تو تم ملکیت کے مظہر تو بن جاؤ گے.(مالکیت کے مظہر تو بن جاؤ گے) مگر رب العالمین کے مظہر نہیں بنو گے کیونکہ رب العالمین کا مظہر بننے کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو اور غرباء کی خدمت پر کمر بستہ رہو.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 579-580 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1937ء) پس یہ خوبصورت وضاحت ہے کہ رب العالمین کا مظہر بننے کے لئے اپنے ہاتھ سے نہ صرف اپنوں کی بلکہ غیروں کی بھی خدمت کرنے کی کوشش کریں.اگر غور کریں تو اس کے بڑے وسیع نتائج ہیں جو قوم کو آپس میں مضبوطی سے جوڑ دیتے ہیں.اور معاشرے کا ہر حصہ اگر اس پر عمل کرے تو ایک دوسرے کی خدمت کرنے سے ایک خوشگوار معاشرہ بن جاتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تو گل، قبولیت دعا ، اپنی سچائی پر کامل یقین ہونے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ کپورتھلہ کے احمدیوں اور غیر احمدیوں کا وہاں کی ایک مسجد کے متعلق مقدمہ ہو گیا.جس حج کے پاس یہ مقدمہ تھا اس نے مخالفانہ رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا.اس پر کپورتھلہ کی جماعت نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دعا کے لئے لکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں انہیں تحریر فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کو مل جائے گی.مگر دوسری طرف جج نے اپنی مخالفت بدستور جاری رکھی اور آخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا.مگر دوسرے دن جب وہ فیصلہ سنانے کے لئے عدالت میں جانے کی تیاری کرنے لگا تو اس نے نوکر سے کہا کہ مجھے بوٹ پہنا دو.نوکر نے ایک بوٹ پہنایا اور دوسرا ابھی پہنا ہی رہا تھا کہ گھٹ کی آواز آئی.اس نے اوپر دیکھا تو حج کا ہارٹ فیل ہو چکا تھا.اس کے مرنے کے بعد دوسرے حج کو مقرر کیا گیا اور اس نے پہلے فیصلے کو بدل کر ہماری جماعت کے حق میں فیصلہ کر دیا جو دوستوں کے لئے ایک بہت بڑا نشان ثابت ہوا اور ان کے ایمان آسمان تک پہنچے.غرض اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے ذریعہ متواتر غیب کی خبریں دیتا ہے جن کے پورا ہونے پر مومنوں کے ایمان اور بھی ترقی کر جاتے ہیں.یہ غیب کی خبروں کا ہی نتیجہ تھا کہ جو لوگ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کے دل اس قدر مضبوط ہو گئے کہ اور لوگ تو موت کو دیکھ کر روتے ہیں مگر صحابہ میں سے کسی کو جب خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کا موقع ملتا تو وہ خوشی سے اچھل پڑتا اور کہتا : فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ _ کہ رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحه 27-28)
خطبات مسرور جلد 13 277 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف کے چند منٹ میں پورا ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ کبھی بیداری میں ایک نظارہ دیکھایا جاتا ہے مگر وہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بلکہ فلق اصبح کی طرح اسی رنگ میں ظاہر ہو جاتا ہے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ انسان کو نظارہ دکھاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کشوف میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشفی حالت میں دیکھا کہ مبارک احمد چٹائی کے پاس گرا پڑا ہے اور اسے سخت چوٹ آئی ہے.ابھی اس کشف پر تین منٹ سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ مبارک احمد جو چٹائی کے پاس کھڑا تھا اس کا پیر پھسل گیا.اسے سخت چوٹ آئی اور اس کے کپڑے خون سے بھر گئے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحه 447) پھر قادیان کی ابتدائی حالت کا نقشہ اور پھر قادیان کی ترقی اور جماعت کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کوئی آدمی نہ تھا.پھر وہ وقت آیا جب آپ کے ساتھ ہزاروں آدمی تھے اور اب تو لاکھوں تک پہنچ گئے ہیں.پھر کسی زمانے میں پنجاب میں بھی کوئی شخص آپ کا معتقد نہ تھا اور اب نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے تمام براعظموں میں احمدی پھیل گئے ہیں.اگر یہ سچ بات ہے کہ دنیا نہیں مانتی تو پھر اتنے لوگ کہاں سے آگئے؟ ( اگر ہمیں جماعت احمدیہ کو، حضرت مسیح موعود کو دنیا نہیں مانتی تو اتنے لوگ کہاں سے آگئے اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملکوں کے ملک احمدی ہو رہے ہیں یا وہاں احمدیت پھیل رہی ہے.آپ فرماتے ہیں ) یہیں دیکھ لو.اچھے لوگ اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانے میں آپ پر ایمان لائے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس مجمع میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل دیکھی.زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی تصویر دیکھی.پھر کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے شکل تو دیکھی مگر آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا انہیں موقع نہ ملا اور بہت قلیل ایسے ہیں جو غالباً در جنوں سے بڑھ کر نہیں ہو سکتے جنہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا انہیں موقع ملا مگر آخر یہ لوگ کہاں سے آئے.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) میری پیدائش اور بیعت قریباً ایک ہی وقت سے چلتی ہے.( ساتھ ساتھ چلتی ہیں ) اور جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا.اس وقت کئی سال تبلیغ پر گزر چکے تھے لیکن مجھے اپنے ہوش کے زمانے میں یہ بات یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیر کے لئے نکلتے تو صرف حافظ حامد علی صاحب ساتھ
خطبات مسرور جلد 13 278 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء ہوتے.( یعنی صرف دو آدمی ہوتے.) ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اسی طرف سیر کے لئے آنا ہوا ( قادیان کے ایک علاقے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ اس طرف سیر کے لئے آنا ہوا) میں اس وقت چونکہ چھوٹا بچہ تھا اس لئے میں نے اصرار کیا کہ میں بھی سیر کے لئے چلوں گا.اس زمانے میں یہاں جھاؤ کے پودے ہوا کرتے تھے.( جھاڑیاں ہوتی تھیں وہ جس علاقے کی طرف آپ اشارہ فرمارہے ہیں وہاں جھاڑیاں ہوتی تھیں) اور یہ تمام علاقہ جہاں اب تعلیم الاسلام ہائی سکول، بورڈنگ اور مسجد وغیرہ ہیں ایک جنگل تھا اور اس میں جھاؤ کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوا کرتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی طرف سیر کے لئے تشریف لائے اور میرے اصرار پر مجھے بھی ساتھ لے لیا.مگر تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میں تھک گیا ہوں.اس پر کبھی مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اٹھاتے اور کبھی حافظ حامد علی صاحب اور یہ نظارہ مجھے آج تک یاد ہے.تو وہ ایسا زمانہ تھا کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ تھا مگر آپ کو ماننے والے بہت قلیل لوگ تھے اور قادیان میں آنے والا تو کوئی کوئی تھا لیکن آج یہ زمانہ ہے ( یہ 1937ء کی بات ہے جس زمانہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے یہ فرمایا ہے ) کہ ہمیں بار بار یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ قادیان میں ہجرت کر کے آنے سے پیشتر لوگوں کو چاہئے کہ وہ اجازت لے لیں اور اگر کوئی بغیر اجازت کے یہاں ہجرت کر کے آئے تو اسے واپس جانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 659-660 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 دسمبر 1937ء) پس یہ واقعات یقیناً ایمان اور یقین میں اضافہ کرنے والے ہیں.خدا تعالیٰ ہم سب کو ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے اور ہم سب جماعت کے مفید وجود بننے والے ہوں.نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جومکر مہ محترمہ نیم محمود صاحبہ اہلیہ سید محمود احمد شاہ صاحب کراچی کا ہے.27 اپریل 2015ء کو بعمر 58 سال کراچی میں کینسر کی وجہ سے ان کی وفات ہو گئی.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مرحومہ کے والد نے 1953ء کے پرآشوب دور میں ایک واقعہ کے بعد ذاتی مطالعہ کر کے جماعت کو قبول کیا تھا.مخالفتیں بھی بڑے رستے کھولتی ہیں.واقعہ یوں تھا کہ مکرم ملک محمد رفیق صاحب پاکستان ایئر فورس میں ملازم تھے.لاہور سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے تو رائے ونڈ سے مولویوں کا ایک مجمع ٹرین میں سوار ہوا.یہ 53 ء کے زمانے کی بات ہے جب پاکستان میں احمدیوں کے خلاف پہلا فساد ہوا.رائے ونڈ سے مولویوں کا مجمع ٹرین میں سوار ہوا کہ ہم جہاد پر جارہے ہیں اور جہاد کیا ہے کہ قادیانیت کو اس ملک سے مٹا کر دم لیں گے.کہتے ہیں کہ ٹکٹ چیکر کے آنے پر سوائے
خطبات مسرور جلد 13 279 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015ء ملک محمد رفیق صاحب اور ان کے ساتھی آفیسر کے کسی مولوی سے ٹکٹ برآمد نہ ہونے پر انہوں نے سوچا.( بغیر ٹکٹ کے گاڑی میں سفر کر رہے تھے ) کہ اگر یہ مولوی سچے ہوتے اور ان کا جہاد حقیقی ہوتا تو یہ بغیر ٹکٹ سفر کر کے ملکی خزانے کو نقصان نہ پہنچا رہے ہوتے.اب آجکل تو یہ اور بھی زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں.بہر حال اس واقعہ کے بعد جب آپ اپنی ملازمت پر کراچی پہنچے تو آ فیسر انچارج سے دریافت کیا کہ کیا ہماری یونٹ میں کوئی قادیانی ہے تو معلوم ہونے پر ایک احمدی سے گفتگو اور پھر معلومات حاصل کر کے آخر بیعت کر لی اور احمدیت میں شامل ہو گئے.بہر حال ان کے والد نے اس طرح احمدیت قبول کی اور ان کے خاندان میں احمدیت آئی.مرحومہ 1987ء سے اب تک کراچی میں ہی ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ رہیں.خدا تعالیٰ نے مرحومہ کو 1997 ء سے وفات تک جماعتی خدمات کی بھر پور توفیق عطا فرمائی.1997ء سے 2005ء تک آٹھ سال پھر 2007 ء سے 2013ء تک چھ سال بحیثیت لوکل صدر لجنہ دو دفعہ خدمت کی توفیق پائی.پھر آپ کو قیادتوں کے نگران کی حیثیت سے مقرر کیا گیا.ضلع کراچی کی عاملہ کی ممبر رہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت کی توفیق پاتی رہیں.مرحومہ موصیہ بھی تھیں.ان کے پسماندگان میں ان کے خاوند مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار ہیں.آپ کے دونوں بیٹے مبلغ سلسلہ ہیں حافظ سید شاہد احمد صاحب جو نائیجیریا میں ہیں اور دوسرے بیٹے مکرم حافظ سید مشہود احمد صاحب جو جامعہ احمد یہ یو کے میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں.یہ والدہ کے جنازے پر جا بھی نہیں سکے.یہی حافظ سید مشہود احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار کے والدین نے اپنے دونوں بیٹوں کو قرآن پاک حفظ کروا کر خدا کی راہ میں پیش کرنے کی توفیق پائی.دونوں کو حافظ قرآن بنا یا پھر جامعہ میں داخل کروایا.والدہ محترمہ نے ہر معاملے میں دین کو دنیا پر مقدم رکھا اور بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ کی کہ ہم نے صرف جماعت کی خدمت کرنی ہے.کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی رات کو سوتے ہوئے ادعیہ ماثورہ یاد کروانے کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے دعائیں کرنا ان کا معمول تھا.بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی اولاد کے حق میں لکھی ہوئی منظوم دعا ”میرے مولیٰ میری اک دعا ہے“ کے اشعار ترنم اور انتہائی درد کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں.نیز ہمیشہ فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے بڑے بھائی نے مربی بنا ہے اور تم نے قرآن پاک حفظ کرنے کے لئے کراچی سے ربوہ جانا ہے.بعد میں پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ دونوں بھائیوں نے قرآن مجید بھی حفظ کیا اور پھر زندگی وقف کر کے جامعہ میں
خطبات مسرور جلد 13 280 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 01 مئی 2015 ء تعلیم بھی حاصل کی اور مبلغ بن کے خدمت انجام دے رہے ہیں.یہ کہتے ہیں کہ مدرسۃ الحفظ میں ہمارے قیام کے دوران ہماری امی جان کراچی سے ربوہ کا تقریباً ہر ماہ سفر کرتیں اور اس دور میں ریل کا نظام بھی بڑا خستہ اور تکلیف دہ تھا.آپ ہم سے مل کر ہمارا حفظ شدہ حصہ خود بھی سنتیں.ہمارے کپڑے دھونے ، استری کرنے اور ایک دن خدمت کرنے کے بعد اگلے روز پھر واپس کراچی جا کر ( کیونکہ تدریس کے شعبہ سے منسلک تھیں) اپنے سکول میں جا کے تدریسی ذمہ داریاں ادا کرتیں.گزشتہ دنوں یہ وہاں گئے ہوئے تھے.اس وقت وہ بیمار تھیں.جنازے پر تو نہیں جا سکے لیکن بیماری میں جا کر ایک دفعہ مل آئے تھے.کہتے ہیں جب وہاں گیا تو مجھے فرمانے لگیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا کرتی ہوں کہ اے میرے مالک مجھے میرے واقفین زندگی بیٹوں کے لئے ابتلا نہ بنانا.آپ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ اپنوں غیروں کی بچیوں کی شادیوں کے مسائل اور رشتے کے مسائل حل کرنے میں بہت مدد کیا کرتی تھیں، بڑی تڑپ رکھتی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اور افراد جماعت کے ساتھ محض اللہ ہمدردی کا جو تعلق تھا وہ بھی نرالا اور بڑی شان والا تھا.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے اور ان کی دعاؤں کا وارث بنائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 22 مئی 2015 ء تا 28 مئی 2015 ءجلد 22 شماره 21 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 281 19 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء بمطابق 08 ہجرت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ جمعہ کو میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے واقعات میں قادیان کے ابتدائی واقعات کا ذکر کیا تھا.کس طرح اس وقت قادیان کے ارد گر د علاقے کی حالت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ سیر کے وقت بھی ایک آدھ آدمی ساتھ ہوتا تھا اور راستہ بھی جھاڑیوں کے بیچ میں سے گزرتا ہوا چھوٹا سا راستہ تھا اور اب قادیان کس طرح ترقی کر رہا ہے اور یہ ترقی عام آبادیوں کی ترقی کی طرح نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا دیا تھا کہ یہ ترقی ہوگی.بڑی شاہرا ہوں اور سڑکوں کے قریب جو آبادیاں ہوتی ہیں وہ تو ترقی کرتی ہیں لیکن قادیان تو ایک کونے میں تھا، سڑک بھی نہیں تھی پھر بھی ترقی کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی اور پھر ترقی ہوئی اور آجکل کے قادیان کو دیکھنے کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں بلکہ قادیان کا وہ حصہ جو جماعت کے زیر تصرف ہے اس میں تو اب عمارتوں کی وسعت اور خوبصورتی کی وجہ سے سرکاری اداروں کی طرف سے بھی بعض فنکشن پر انہیں استعمال کرنے کے لئے درخواست کی جاتی ہے.بہر حال اس ترقی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے ترقی کے اس نشان کی بعض جگہ اور تفصیل بیان کی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں کتنا عظیم الشان نشان دکھایا ہے.گو تم نے اس زمانے کو نہیں پایا مگر ہم نے اسے پایا اور دیکھا ہے.پس اس قدر قریب زمانے کے نشانات کو اپنے خیال کی آنکھوں سے دیکھنا تمہارے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں.اور
خطبات مسرور جلد 13 282 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء نشانات جانے دو.مسجد مبارک کو ہی دیکھو.مسجد مبارک میں ایک ستون مغرب سے مشرق کی طرف کھڑا ہے اس کے شمال میں جو حصہ مسجد کا ہے یہ اس زمانے کی مسجد تھی اور اس میں نماز کے وقت کبھی ایک اور کبھی دو سطریں ہوتی تھیں.( یعنی صفیں ہوتی تھیں.) اس ٹکڑے میں تین دیوار میں ہوتی تھیں.ایک تو دوکھڑ کیوں والی جگہ اور اس حصے میں امام کھڑا ہوا کرتا تھا.پھر جہاں ( آپ اس وقت بیان کر رہے تھے.وہاں پرانا حصہ بھی محفوظ ہے ) اب ستون ہے وہاں ایک اور دیوار تھی اور ایک دروازہ تھا.اس حصے میں صرف دو قطار میں نماز کی کھڑی ہو سکتی تھیں اور فی قطار ( یعنی فی صف ) غالباً پانچ سات آدمی کھڑے ہو سکتے تھے.اس حصے میں کبھی ایک قطار نمازیوں کی ہوتی اور کبھی دو ہوتی تھیں.(آپ فرماتے ہیں کہ ) مجھے یاد ہے جب اس حصہ مسجد سے نمازی بڑھے اور آخری یعنی تیسرے حصے میں نمازی کھڑے ہوئے تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی.گویا جب پندرہواں یا سولہواں نمازی آیا تو ہم حیران ہو کر کہنے لگے کہ اب تو بہت لوگ نماز میں آتے ہیں.(آپ فرماتے ہیں کہ) تم نے غالباً غور کر کے وہ جگہ نہیں دیکھی ہوگی ( بلکہ اب، آجکل بھی قادیان کے رہنے والوں نے غور نہیں کیا ہو گا ) مگر وہ ابھی تک موجود ہے.جاؤ اور دیکھو.(وہاں کے رہنے والے بھی اس بات پر غور کریں اور جو جلسہ پر جاتے ہیں یا ویسے سال کے دوران جاتے ہیں.اب تو جاتے رہتے ہیں، وہ بھی وہاں جا کر کھڑے ہوں اور تصور میں وہ پرانا زمانہ لے کر آئیں تو ایمان میں یقیناً تازگی پیدا ہوتی ہے.) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں صحابہ کا طریق تھا کہ وہ پرانی باتوں کو کبھی کبھی عملی رنگ میں قائم کر کے بھی دیکھا کرتے تھے اس لئے تم بھی جا کر دیکھو.اس حصے کو الگ کر دو جہاں امام کھڑا ہوتا تھا اور پھر وہاں فرضی دیوار میں قائم کرو اور پھر جو باقی جگہ بچے اس میں جو سطر میں ہوں گی ان کا تصور کرو اور اس میں تیسری سطر قائم ہونے پر ہمیں جو حیرت ہوئی کہ کتنی بڑی کامیابی ہے اس کا قیاس کرو اور پھر سوچو کہ خدا تعالیٰ کے فضل جب نازل ہوں تو کیا سے کیا کر دیتے ہیں.پھر اس تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے جو اپنوں میں بھی ہوئی.یعنی کہ جو عزیز رشتے دار تھے ان میں بھی پھر بعد میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں.پہلے مخالف تھے اور پھر وہ جماعت میں بھی شامل ہوئے.آپ فرماتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ ہمارا ایک کچا کوٹھا ہوتا تھا اور بچپن میں کبھی کبھی کھیلنے کے لئے بھی ہم اس پر چڑھ
خطبات مسرور جلد 13 283 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء جایا کرتے تھے.اس پر چڑھنے کے لئے جن سیڑھیوں پر ہمیں چڑھنا پڑتا تھا وہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے پاس سے چڑھتی تھیں.اس وقت ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں آ کر احمدی بھی ہوگئیں مجھے دیکھ کر کہا کرتی تھیں کہ جیو جیا کاں اوہو جئی کو کو.میں بوجہ اس کے کہ میری والدہ ہندوستانی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ بچپن میں زیادہ علم نہیں ہوتا اس پنجابی فقرے کے معنی نہیں سمجھ سکتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جیسا کوا ہوتا ہے ویسے ہی اس کے بچے ہوتے ہیں.کوے سے مراد ( نعوذ باللہ ) تمہارے ابا ہیں اور کوکو سے مراد تم ہو.(آپ فرماتے ہیں کہ دیکھو ) مگر پھر میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا کہ وہی تائی صاحبہ ( جو یہ سب کچھ کہا کرتی تھیں) اگر کبھی میں ان کے ہاں جاتا تو بہت عزت سے پیش آتیں.میرے لئے گدا بچھا تیں اور احترام سے بٹھاتیں اور ادب سے متوجہ ہوتیں اور اگر میں کہتا کہ آپ کمزور ہیں، ضعیف ہیں، ہلیں نہیں یا کوئی تکلیف نہ کریں تو وہ کہتیں کہ آپ میرے پیر ہیں.گویا وہ زمانہ بھی دیکھا جب میں کوکو تھا اور وہ بھی جب میں پیر بنا.اور ان ساری چیزوں کو دیکھ کر تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ جب دنیا کو بدلنا چاہتا ہے تو کس طرح بدل دیتا ہے.پس ان انسانوں کو دیکھو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کرو کہ جو تمہیں خدا تعالیٰ کا محبوب بنادے اور تم حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ.(ماخوذ از الفضل 13 اپریل 1938ء صفحہ 9 جلد 26 نمبر 85) قادیان کی ترقی اور اس کی پیشگوئی پس جیسا کہ میں نے کہا یہ واقعات جو ایمان میں تازگی اور ترقی پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں.یہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے والے ہونے چاہئیں.یہ ہمیں بتانے والے ہونے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہیں ہم نے بھی ان سے حصہ لینا ہے.اور قادیان کے رہنے والے احمدیوں کو بھی خاص طور پر اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.ہم میں سے بہت سے اس بات کو جانتے ہیں اور اس بات کا ذکر بھی ہوتا رہتا ہے.گزشتہ کچھ خطبوں میں میں نے واقعات بھی بیان کئے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ قادیان ترقی کرے گا.اور اس کا پھیلاؤ دریائے بیاس تک ہو جائے گا.یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک رؤیا کی بنیاد پر کی تھی.اب مسجد مبارک کی حالت کا اور نمازیوں کی تعداد کا یہ نقشہ جو حضرت مصلح
خطبات مسرور جلد 13 284 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء موعود نے کھینچا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد ایک عام کمرے کے سائز سے زیادہ کی نہیں ہوگی اور پھر جماعت کی تعداد کا بڑھنا مسجدوں میں وسعت پیدا ہونا اور یہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قادیان کی ترقی اور پھیلاؤ کے بارے میں پیشگوئی کرنا آپ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.گوا بھی قادیان کا پھیلاؤ اس حد تک نہیں ہوا لیکن جب ہم بہت سے نشانوں کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں تو یقینا ایک وقت آئے گا جب یہ نشان بھی پورا ہوتا ہوا دنیا دیکھے گی.اور جیسا کہ میں نے بتایا آج کا قادیان اس زمانے کے قادیان سے بہت زیادہ وسعت اختیار کر چکا ہے.بہر حال حضرت مصلح موعود نے اس پیشگوئی کو کہ قادیان کی آبادی بڑھتے بڑھتے بیاس تک پہنچ جائے گی ، اس کو مختلف زاویوں سے بیان فرماتے ہوئے جماعت کے افراد کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور یہ ذمہ داری صرف قادیان کے رہنے والوں کی ہی نہیں بلکہ ہر فرد جماعت کو اس کو سامنے رکھنا چاہئے.ایک تو آپ نے اس حوالے سے ہمیں نمازوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.یہ عجیب بات لگتی ہے کہ آبادی کے بڑھنے کا نمازوں سے کیا تعلق ہے.لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتوں میں یہی خوبصورتی ہے کہ ایک بات کے مختلف پہلو بیان فرما کر اس کی اہمیت کو مزید اجاگر فرما دیتے ہیں.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے جو میں نے بیاس تک پہنچنے کا کہا آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ قادیان کی آبادی بیاس تک پھیل گئی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میں اس رویا سے یہ سمجھتا ہوں کہ قادیان کی آبادی دس بارہ لاکھ ضرور ہوگی.( اور اس وقت آبادی کے بڑھنے کے یہی اندازے لگائے جاتے تھے.ہوسکتا ہے اس سے بھی بڑھ جائے.) اور اگر دس بارہ لاکھ کی آبادی ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ چار لاکھ لوگ جمعہ پڑھنے کے لئے آیا کریں گے.( پس آپ فرماتے ہیں کہ) میرے نزدیک یہ مسجد ( یعنی مسجد اقصیٰ) بہت بڑھے گی بلکہ ہمیں اس قدر بڑھانی پڑے گی کہ چار لاکھ نمازی اس میں آسکیں.( اب ایک مسجد میں چار لاکھ نمازی آنا تو بہت مشکل ہے.مسجد اقصیٰ کی توسیع بھی ہوگئی ، اگر اور بھی زیادہ توسیع کی جائے اور ارد گرد کے مکانوں کو بھی گرایا جائے تب بھی اتنی تعداد تو وہاں نماز نہیں پڑھ سکتی.جتنی حد تک توسیع ہو سکتی تھی وہ کی گئی.دار مسیح کا جو علاقہ تھا یا جو گھر تھے ان کو محفوظ رکھنا بھی اس لئے ضروری تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی بعض تاریخی عمارتیں ہیں.اس لئے یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ تمام گھر گرا دیئے جائیں.اور سب اگر مسجد میں شامل کر بھی لئے جائیں تو جیسا کہ میں نے کہا پھر بھی تین چار لاکھ نمازی نماز نہیں پڑھ سکتے.ہاں یہ عین ممکن ہے کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ
خطبات مسرور جلد 13 285 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015ء ایک وقت ایسا آئے کہ قادیان میں ایک وسیع مسجد بنائی جائے جس میں تین چار لاکھ نمازی نماز پڑھ سکیں.بہر حال اُس وقت آپ کے سامنے یہ مسجد اقصیٰ ہی تھی اس کے مطابق بیان فرمایا.پھر آپ اسی مسجد اقصیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہمیں اس قدر بڑھانی پڑے گی کہ چار لاکھ نمازی اس میں آ سکیں.) اس غرض کے لئے اسے چاروں طرف بڑھایا جا سکتا ہے.اس وقت بھی جس جگہ کھڑے ہو کر (آپ فرما رہے ہیں) میں خطبہ پڑھ رہا ہوں یہ اس حصے سے باہر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں تھا.وہ مسجد اس موجودہ مسجد کا غالباً دسواں حصہ ہوگی.تو دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہے کہ لوگوں کی مسجد میں خالی پڑی رہتی ہیں اور ہم اپنی مساجد کو بڑھاتے ہیں تو وہ اور تنگ ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جگہ نہیں ملتی.پھر آپ نے اپنا وہ واقعہ سنایا.پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ ایک دفعہ ایک فعل مجھ سے ایسا ہوا جس سے میں سخت ڈرا اور اس میں میری ہی غلطی تھی.(آپ فرماتے ہیں ) میں فوری طور پر پکڑا بھی گیا.لیکن اس پر یہ بھی فرمایا کہ ) میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جلد ہی میری بریت ہوگئی (اور وہ واقعہ ہے جب آپ جمعہ کے لئے تشریف لے جا رہے تھے.کہتے ہیں ) میری عمر پندرہ سولہ سال تھی.جب گھر سے نکلا تو ایک شخص مسجد سے واپس آرہا تھا تو اس نے کہا کہ مسجد میں تو نماز پڑھنے کی کوئی جگہ نہیں ہے.اس لئے اس کی یہ بات سنی اور میں بھی واپس آ گیا.فرماتے ہیں کہ میں نے ظہر کی نماز پڑھ لی.آپ فرماتے ہیں کہ میری شامت کہ مجھے تحقیق کر لینی چاہئے تھی کہ مسجد بھری ہوئی ہے بھی یا نہیں.یا وہاں بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی جگہ ہے بھی یا نہیں.تو بہر حال آپ فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں چھوٹی عمر سے ہی نمازوں کا پابند ہوں اور میں نے آج تک ایک نماز بھی کبھی ضائع نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھ سے کبھی یہ دریافت نہیں فرماتے تھے کہ تم نے نماز پڑھی ہے یا نہیں.آپ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جب میں گیارھویں سال میں تھا تو ایک دن میں نے ضحی یا اشراق کی نماز کے وقت وضو کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوٹ پہنا اور خدا تعالیٰ کے حضور میں خوب رویا اور میں نے عہد کیا کہ میں آئندہ نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس عہد اور اقرار کے بعد میں نے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی لیکن پھر بھی چونکہ میں بچہ تھا اور بچپن میں کھیل کود کی وجہ سے بعض دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں ستی ہو جاتی ہے.اس لئے ایک دفعہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس میری شکایت کی کہ آپ اسے سمجھائیں.یہ نماز با جماعت پوری پابندی سے ادا کیا کرے.آپ
خطبات مسرور جلد 13 286 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015ء فرماتے ہیں کہ میر محمد احق صاحب مجھ سے دو سال چھوٹے ہیں اور بچپن میں چونکہ ہم اکٹھے کھیلا کرتے تھے اور ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب کی طبیعت بہت تیز تھی.اس لئے وہ میر محمد اسحق صاحب کو ناراض ہؤا کرتے تھے اور سختی سے ان کونماز پڑھنے کے لئے کہا کرتے تھے اور اس بات کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی علم تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کسی نے میرے متعلق یہ شکایت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک تو میر صاحب کی نماز پڑھتا ہے.( یعنی حضرت میر اسحق صاحب کے بارے میں فرمایا کہ وہ تو اپنے ابا کی نماز پڑھتا ہے ) اب میں نہیں چاہتا کہ دوسرا میری نماز پڑھے.میں یہی چاہتا ہوں کہ وہ خدا کی نماز پڑھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے کبھی نماز کے متعلق نہیں کہا.میں خود ہی تمام نمازیں پڑھ لیا کرتا تھا.اس سے بچے یہ مطلب بھی نہ لیں کہ ماں باپ ہمیں نماز کے لئے نہ کہیں یا ماں باپ یہ سمجھ لیں کہ بچوں کو نماز کی طرف توجہ دلانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے.حضرت مصلح موعود کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت کچھ حسن ظن تھا.نیز حضرت مسیح موعود کو یہ بھی پتا تھا کہ یہی مصلح موعود کا مصداق ہونے والا ہے.اس لئے یہ بھی یقین تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی نماز پڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود ہی اس کی اصلاح بھی فرماتارہے گا.پھر حضرت مصلح موعود کا اپنا یہ فعل کہ گیارہ سال کی عمر میں نماز کے لئے بڑی رقت سے دعا کرنا اس بات کا گواہ ہے کہ آپ کو نمازوں کی طرف توجہ تھی.بہر حال اس کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ لیکن اس دن شاید میری غفلت کو اللہ تعالیٰ دُور کرنا چاہتا تھا کہ جو تھوڑی بہت سستی ہے بھی ، بعض دفعہ نماز باجماعت رہ جاتی ہے اس کو دور کرنا چاہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے دیکھ کر کہا (جب میں واپس آ گیا اور جمعہ نہیں پڑھا ) کہ محمود ادھر آؤ.میں گیا تو آپ نے فرمایا تم جمعہ پڑھنے نہیں گئے.میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن معلوم ہوا کہ مسجد بھری ہوئی ہے وہاں نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں.میں نے کہنے کو تو یہ کہہ دیا.آپ فرماتے ہیں دل میں سخت ڈرا کہ دوسرے کی بات پر اعتبار کیوں کیا.معلوم نہیں اس نے جھوٹ کہا تھا یا سچ کہا تھا.اگر سچ بولا تب تو خیر لیکن اگر اس نے جھوٹ بولا ہے تو چونکہ اسی کی بات میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بیان کر دی ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھ سے ناراض ہوں گے کہ تم نے جھوٹ کیوں بولا ہے.بہر حال کہتے ہیں میں اپنے دل میں سخت خائف ہوا کہ آج نامعلوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں.اتنے میں نماز پڑھ کر مولوی عبد الکریم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عیادت کے لئے آئے.آپ کو اُس وقت
خطبات مسرور جلد 13 287 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء گردہ کی درد تھی.اس لئے جمعہ پر نہیں گئے تھے.تو میں قریب ہی ادھر اُدھر منڈلا رہا تھا کہ دیکھوں آج کیا بنتا ہے.ان کے آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے سوال کیا کہ آج جمعہ میں لوگ زیادہ آئے تھے اور مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے گنجائش نہیں رہی تھی.آپ کہتے ہیں کہ میرا تو یہ بات سنتے ہی دل بیٹھنے لگا کہ خبر نہیں کہ اس شخص نے مجھ سے سچ کہا تھا یا جھوٹ کہا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے میری عزت رکھ لی.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم میں خدا تعالیٰ کے احسانات پر شکر کرنے کا مادہ بہت تھا.انہوں نے یہ سنا تو کہا کہ حضور اللہ کا بڑا احسان تھا مسجد خوب لوگوں سے بھری ہوئی تھی.اس میں بیٹھنے کے لئے ذرا بھی گنجائش نہیں تھی.تب میں نے سمجھا کہ اس احمدی نے جو کچھ کہا سچ کہا تھا.تو اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کا یہی ذریعہ رکھا ہے کہ ہماری مسجدیں بڑھتی جائیں اور لوگوں سے ہر وقت آبادر ہیں.جب تک تم مسجدوں کو آباد رکھو گے اس وقت تک تم بھی آباد در ہو گے اور جب تم مسجدوں کو چھوڑ دو گے اس وقت خدا تعالیٰ تمہیں بھی چھوڑ دے گا.(ماخوذ از الفضل 14 مارچ 1944 صفحہ 10 جلد 33 نمبر 61) پس قادیان کی وسعت، جماعت احمدیہ کی ترقی اور وسعت صرف رقبہ کے لحاظ سے اور تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں ہے بلکہ اس وسعت کا اظہار ہمارے گھروں کی آبادی کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کے گھر کی آبادی پر بھی ہے.پس ہر احمدی چاہے وہ قادیان کا رہنے والا ہے جس نے قادیان کی ترقی دیکھنی ہے یار بوہ کا رہنے والا ہے جس نے ربوہ کی ترقی دیکھنی ہے یا کسی بھی ملک کا رہنے والا ہے جس نے جماعت کی ترقی کا حصہ بننا ہے اور جماعت کی ترقی دیکھنی ہے تو اپنی آبادیوں کے ساتھ مسجدوں کو آباد رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ یہ ترقیاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہیں اور خدا تعالیٰ کا فضل اس کے گھر کی آبادی کا حق ادا کرنے سے بڑھتا ہے.پس آج ہم جب مسجدوں کی تعمیر کی باتیں کرتے ہیں تو ہر جگہ مسجد کے چھوٹے ہونے کی بھی ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ خالص تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کبھی ہمیں نہ چھوڑے اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر پیشگوئی کو خود بھی بڑی شان سے پورا ہوتا ہوا دیکھیں.پھر حضرت مصلح موعود نے اس پیشگوئی کے حوالے سے جب یہ پیشگوئی کی گئی قادیان کی حالت کا مزید نقشہ کھینچا کہ قادیان کے حالات کیا تھے.فرماتے ہیں کہ میں اس پیشگوئی کا ذکر کرتا ہوں جو قادیان کی ترقی کے متعلق ہے.پھر فرمایا کہ وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس کو بتایا گیا کہ قادیان کا گاؤں ترقی کرتے کرتے ایک بہت بڑا شہر ہو جائے گا جیسا کہ بمبئی اور کلکتہ کا شہر ہے.گویا نو دس لاکھ کی آبادی تک پہنچ جائے گا ( جیسا
خطبات مسرور جلد 13 288 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء کہ میں نے کہا یہ اس وقت کے اندازے کے مطابق آپ نے بات کی ) اور اس کی آبادی شمالاً اور شرقاً پھیلتے ہوئے بیاس تک پہنچ جائے گی جو قادیان سے نومیل کے فاصلے پر بہنے والے ایک دریا کا نام ہے.یہ پیشگوئی جب شائع ہوئی اس وقت قادیان کی حالت یہ تھی کہ اس کی آبادی دو ہزار کے قریب تھی.سوائے چند ایک پختہ مکانات کے باقی سب مکانات کچے تھے.مکانوں کا کرایہ اتنا گرا ہوا تھا کہ چار پانچ آنے ماہوار پر مکان کرائے پر مل جاتا تھا.مکانوں کی زمین اس قدر ارزاں تھی کہ دس بارہ روپیہ کو قابل سکونت مکان بنانے کے لئے زمین مل جایا کرتی تھی.بازار کا یہ حال تھا کہ دو تین روپے کا آٹا ایک وقت میں نہیں مل سکتا تھا کیونکہ لوگ زمیندار طبقے کے تھے اور خود ہی بجائے اس کے کہ آٹا رکھیں، گندم رکھا کرتے تھے اور دانے پیس کر روٹی پکاتے تھے.چکیاں تھیں.تعلیم کے لئے ایک مدرسہ سر کاری تھا جو پرائمری تک تھا.اس کا مدرس کچھ الاؤنس لے کر ڈاکخانے کا کام بھی کر دیا کرتا تھا.ڈاک ہفتے میں ایک دفعہ آتی تھی.تمام عمارتیں فصیل قصبہ کے اندر تھیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے ظاہری کوئی سامان نہ تھے کیونکہ قادیان ریل سے گیارہ میل کے فاصلے پر تھا.( یعنی ریلوے لائن گیارہ میل پر تھی ) اور اس کی سڑک بالکل کچی ہے.اور جن ملکوں میں ریل ہو ان میں اس کے کناروں پر جوشہر واقعہ ہوں انہی کی آبادی بڑھتی ہے (یا سڑکیں ہوں یا ریل ہو.کوئی کارخانہ قادیان میں نہ تھا کہ اس کی وجہ سے مزدوروں کی آبادی کے ساتھ شہر کی ترقی ہو جائے.کوئی سرکاری محکمہ قادیان میں نہ تھا کہ اس کی وجہ سے قادیان کی ترقی ہو.نہ ضلع کا مقام تھا، نہ تحصیل کا حتی کہ پولیس کی چو کی بھی نہ تھی.قادیان میں کوئی منڈی بھی نہ تھی جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی ترقی کرتی.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مرید بھی چند سو سے زیادہ نہ تھے کہ ان کو حکماً لا کر یہاں بسا دیا جاتا تو شہر بڑھ جاتا.(ماخوذ از دعوت الامیر ، انوارالعلوم جلد 7 صفحہ 560-561) اب اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عقلمند شخص جو اس پیشگوئی پر غور کرے اور آج کے قادیان کو بھی دیکھے جو ابھی گو بیاس تک تو نہیں پھیلا لیکن اللہ کے فضل سے ترقی کر رہا ہے تو پھر بھی آج کے قادیان کو دیکھ کر ہی اس بات کو نشان قرار دے گا بشرطیکہ عقل بھی اور انصاف کی نظر بھی ہو.پس جیسا کہ میں نے کہا ایک احمدی کے لئے تو یہ باتیں یقیناً ایمان کا باعث بنتی ہیں لیکن غیروں کی بھی اس طرف توجہ پیدا کرتی ہیں اور کئی ریسرچ کرنے والے یہاں سے جاتے ہیں.اسلام کے مضمون پر ایک بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں، پروفیسر ہیں وہ احمدیت پر بھی ریسرچ کرنے کے لئے اور دیکھنے کے لئے
خطبات مسرور جلد 13 289 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء کہ احمدیت جو حقیقی اسلام پیش کرتی ہے وہ کیا ہے، یہاں سے قادیان گئے اور اس کے بعد انہوں نے اپنے تأثرات لکھے اور وہ تاثرات ایسے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے کس طرح غیر بھی بعض باریکیوں میں جا کر نکات نکالتے ہیں.بہر حال ان کا جو مضمون ہے وہ شائع ہو جائے گا.پھر ایک موقع پر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ نظارہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کے متعلق دیکھا اس کے متعلق یہ ضروری نہیں کہ قادیان کی ترقی کا سارا نظارہ آپ کو دکھا دیا گیا ہو.ہاں یہ ضروری ہے کہ اس سے کم قادیان کی ترقی نہ ہو.اگر زیادہ ہو جائے تو وہ اس پیشگوئی میں کوئی حارج نہیں ہوگی بلکہ اس کی شان اور عظمت کو بڑھانے والی ہوگی.پس یہ خواب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا اس کے یہ معنی نہیں کہ اس سے آگے قادیان نہیں بڑھے گا.ممکن ہے کہ کسی وقت قادیان اتنا ترقی کر جائے کہ دریائے بیاس قادیان کے اندر بہنے والا ایک نالہ بن جائے اور قادیان کی آبادی دریائے بیاس سے آگے ہوشیار پور کے ضلع کی طرف نکل جائے.“ ( خطبات محمود جلد 28 صفحہ 35 الفضل 11 فروری 1947 ء صفحہ 2) قادیان میں اب جہاں جماعتی عمارات میں اضافہ ہورہا ہے ، دفاتر کے علاوہ کارکنان کے رہائشی کوارٹرز اور فلیٹس بھی بن رہے ہیں.دوسری عمارتیں بن رہی ہیں.وہاں قادیان کے اپنے رہائشیوں کو بھی اللہ تعالیٰ ان کے حالات بہتر کر کے توفیق دے رہا ہے کہ وہ اپنے بڑے اور وسیع گھر بنا ئیں.اس کے علاوہ ہندوستان کے صاحب حیثیت احمدی بھی اپنی عمارتیں اور گھر بنارہے ہیں.پھر دنیا میں بسنے والے احمدیوں کی بھی اس طرف توجہ ہے.لیکن بنیادی چیز وہی ہے جسے ہر احمدی کو سامنے رکھنا چاہئے کہ سب ترقیوں کا راز یا ترقی کا حصہ بنے کا راز خدا تعالیٰ کے گھروں کو آباد کر نے اور اس سے تعلق جوڑنے سے ہے.جہاں کسی نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ ا وہاں خدا تعالیٰ بھی چھوڑ دیتا ہے.اور یہ اب صرف قادیان کی ترقی سے وابستہ نہیں بلکہ جماعت کی مجموعی ترقی بھی اس سے وابستہ ہے کہ اپنی مسجدوں کو چھوٹا کرتے چلے جائیں اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کی امید رکھیں.ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ صرف قادیان کی ترقی ہی نہیں بلکہ جماعت کی ہر طرح کی ترقی کا خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.جب ایک نشان ہم پورا ہوتا دیکھتے ہیں تو دوسرے نشان کے پورے ہونے کے بارے میں بھی یقین بڑھتا ہے.بعض دفعہ بعض حالات میں بعض لوگوں کے دل میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.خود ہی بعض اندازے لگا کر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہ کام فلاں پیشگوئی کے مطابق اب ہو جائے گا.بعض
خطبات مسرور جلد 13 290 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء تنگ حالات اور مشکلات کو دیکھ کر پریشان بھی ہوتے ہیں.پاکستان میں تو پریشانی ہے آج ہی پاکستان سے خبر آئی کہ پنجاب حکومت نے اپنے خیال میں فرقہ واریت کے خاتمہ کے نام پر مختلف طبقہ فکر کی اور مختلف گروپوں کی ، گروہوں کی بعض کتب بین (Ban) کی ہیں جس میں بعض جماعتی کتب بھی ہیں جن کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں ہے.الفضل ہے، روحانی خزائن ہے، حکومت نے ان پر ان پڑھ مولویوں کے کہنے پر بین لگا دیا ہے.مولوی جو کہتے ہیں وہ حکومت مان لیتی ہے.کبھی پڑھ کر یہ غور نہیں کریں گے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں اسلام کی حقیقی تعلیم کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے اور ہمیشہ اسلام کا دفاع کیا ہے اور مولویوں کو ، مسلمانوں کو اور دوسرے مذاہب کو صحیح راستہ دیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے.بہر حال جیسے بھی حالات ہوں ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے اور نہ اس کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتیگ بَغْتَه‘ کہ خدا تعالیٰ کی مدد اچانک آئے گی.حضرت مصلح موعود اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ تم آج قیاس نہیں کر سکتے کہ وہ مرد کب آئے گی.تم کل قیاس نہیں کر سکتے کہ وہ مدد کب آئے گی.تم تہجد کے لئے اٹھو گے تو تم خیال کر رہے ہو گے کہ ابھی منزل باقی ہے پتا نہیں کتنی دور اور جانا ہے.صبح کی نماز پڑھ رہے ہو گے تو مصائب پر مصائب نظر آ رہے ہوں گے مگر جونہی سورج نظر آیا خدا تعالیٰ کی نصرت تمہارے پاس پہنچ جائے گی اور تمہارے دشمن کے لئے ہر طرف مصائب ہی مصائب ہوں گے.(ماخوذ از الفضل 30 جنوری 1949 صفحہ 6 جلد 3 نمبر 23) پس اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں.خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑے رکھیں اور اپنے ایمانوں کی مضبوطی کے لئے دعا بھی کرتے رہیں.سورج طلوع ہوگا اور ضرور ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ اور خدا تعالیٰ کی مدد آئے گی اور ضرور آئے گی.اب بعض متفرق حوالے بھی پیش کرتا ہوں.وقف ٹو کی کلاس میں ایک بچی نے سوال کیا کہ قبر پر پھولوں کی چادر چڑھانے یا پھول رکھنے میں کیا حرج ہے؟ یہ جائز ہے کہ نہیں؟ بہر حال اس کو میں نے جواب دے دیا تھا کہ یہ فضولیات ہیں، بدعات ہیں.ان سے بچنا چاہئے اور ان کا فائدہ بھی کوئی نہیں.لوگ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر بھی بعض دفعہ ایسی حرکات کرتے تھے.پہلے بھی کرتے تھے، بعد میں بھی کرنے لگے.اس لئے اب وہاں جنگلہ لگا کر اس علاقے کو بند بھی کر دیا گیا ہے تا کہ یہ بدعات نہ پھیلیں.اس پر ایسا ہی واقعہ جب حضرت مصلح موعود کے علم میں آیا تو آپ نے ایک مرتبہ فرمایا.کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار سے تبرک کے طور پر مٹی لے
خطبات مسرور جلد 13 291 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015ء جاتے ہیں.بعض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر پھول چڑھا جاتے ہیں.یہ سب لغو باتیں ہیں.ان سے فائدہ کچھ نہیں ہوتا اور ایمان ضائع چلا جاتا ہے.بھلا قبر پر پھول چڑھانے سے مُردے کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ ان کی روحیں تو اس قبر میں نہیں ہوتیں وہ تو اور مقام پر ہوتی ہیں.ہاں اس میں شبہ نہیں کہ روح کو اس ظاہری قبر کے ساتھ ایک لگاؤ اور تعلق ضرور ہوتا ہے.( یہ مسئلہ بھی سمجھنا چاہئے ) اور گومر نے والے کی روحیں کسی بھی جہان میں ہوں اللہ تعالیٰ ان ظاہری قبروں سے بھی ان کی ایک رنگ میں وا بستگی پیدا کر دیتا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ایک بزرگ کی قبر پر دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا جب میں دعا کر رہا تھا تو صاحب قبر اپنی قبر سے نکل کر میرے سامنے دوزانو ہوکر بیٹھ گیا.مگر اس سے مراد بھی یہ نہیں کہ ان کی روح اس مٹی سے باہر نکلی بلکہ ظاہری تعلق کی وجہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مٹی کی قبر پر کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کو اپنی اصلی قبر سے آپ تک آنے کی اجازت دے دی.وہی قبر جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ثُمَّ آمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ یعنی پھر اسے ماردیا، پھر اسے قبر میں رکھا.اس قبر میں مرنے کے بعد انسان کی روح رکھی جاتی ہے 66 مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت،انوار العلوم جلد 17 صفحہ 188-189) یعنی اس قبر سے اس کا تعلق ہوتا ہے اور اس تعلق کے حوالے سے اس کے لئے دعا ہوتی ہے.جو ظاہری قبر ہے اس سے بھی اس روح کا تعلق رہتا ہے اور اس حوالے سے اس کے لئے دعا ہوتی ہے ورنہ پھول وغیرہ چڑھانا کوئی حیثیت نہیں رکھتے.ان بزرگ کے لئے بھی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں دعا کا ایک جوش پیدا ہوا ہو گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کو اس کی روح کی اصل جگہ سے اس قبر تک بھیجا اور وہ اس قبر کے اوپر آ گیا جس کو آپ نے کشفی حالت میں دیکھا.بعض روایتوں میں آتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہاں کے پرانے لوگوں سے اس بزرگ کا حلیہ پوچھا جو روایتاً چلتا آرہا تھا تو وہ آنکھوں وغیرہ کے نقش اور چہرے کے نقش وغیرہ بالکل وہی تھا جو آپ نے دیکھا تھا.بہر حال پھول وغیرہ قبروں کو یا روح کو کوئی فائدہ نہیں دیتے.ہاں دعائیں فائدہ دیتی ہیں جو کرنی چاہئیں.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ دفن ہوتے ہیں تو مٹی بن جاتے ہیں.یہ قانون قدرت ہے اور جب ایسی حالت ہو تو ظاہری پھولوں کی خوشبوؤں نے کسی کو کیا دینا ہے.روحوں کی جزا سزا کے لئے بھی تو روحیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں اور ہوتی ہیں اور اس روح کے ثواب کے لئے اب دعا کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ ان سے رحمت کا سلوک کرے.کسی قسم کا مشرکانہ فعل قبروں پر جا کر نہیں کرنا چاہئے
خطبات مسرور جلد 13 292 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی نہیں کرتے.لیکن بعض دفعہ ایسی باتیں آتی ہیں کہ یہاں بھی بعض لوگ پھول وغیرہ چڑھاتے ہیں اور یہ بے مقصد فعل ہیں.ہماری قبروں پہ ایسا نہیں ہونا چاہئے.ایک اور واقعہ جس کا حضرت مصلح موعود نے ذکر فرمایا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کے لکھے جانے اور پڑھے جانے سے متعلق ہے وہ بھی عجیب واقعہ ہے اور اس سے بعض ٹیڑھے لوگوں کی فطرت کا پتا لگتا ہے.یہ نہیں کہ بعد میں ٹیڑھے ہوتے ہیں شروع سے ہی ٹیڑھے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے انجام بھی پھر صحیح نہیں رکھتا.آپ فرماتے ہیں کہ 1897ء میں جب لاہور میں جلسہ اعظم کی بنیاد پڑی اور حضرت مسیح موعود کو بھی اس میں مضمون لکھنے کے لئے کہا گیا تو خواجہ صاحب ہی یہ پیغام لے کر آئے تھے.حضرت مسیح موعود کو ان دنوں میں اسہال کی تکلیف تھی.باوجود اس تکلیف کے آپ نے مضمون لکھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ختم کیا.مضمون جب خواجہ صاحب کو حضرت مسیح موعود نے دیا تو انہوں نے اس پر بہت کچھ ناامیدی کا اظہار کیا اور خیال ظاہر کیا کہ یہ مضمون قدر کی نگاہوں سے نہ دیکھا جاوے گا اور خوامخواہ ہنسی کا موجب ہو گا.مگر حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مضمون بالا رہا“.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے قبل از وقت اس الہام کے متعلق اشتہار لکھ کر لاہور میں شائع کرنا مناسب سمجھا اور اشتہار لکھ کر خواجہ صاحب کو دیا کہ اسے تمام لاہور میں شائع اور چسپاں کیا جائے اور خواجہ صاحب کو بہت کچھ تسلی اور تشفی بھی دلائی.مگر خواجہ صاحب چونکہ فیصلہ کئے بیٹھے تھے کہ مضمون نعوذ باللہ لغو اور بیہودہ ہے انہوں نے نہ خود اشتہار شائع کیا نہ لوگوں کو شائع کرنے دیا.آخر حضرت مسیح موعود کا حکم بتا کر جب بعض لوگوں نے خاص زور دیا تو رات کے وقت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر چند اشتہار دیواروں پر اونچے کر کے لگا دیئے گئے تاکہ لوگ ان کو پڑھ نہ سکیں اور حضرت مسیح موعود کوبھی کہا جا سکے کہ ان کے حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے کیونکہ خواجہ صاحب کے خیال میں وہ مضمون جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ بالا رہا اس قابل نہ تھا کہ اسے ایسے بڑے بڑے محققین کی مجلس میں پیش کیا جائے.آخر وہ دن آیا جس دن اس مضمون کو سنایا جانا تھا.مضمون جب سنایا جانا شروع ہوا تو ابھی چند منٹ نہ گزرے تھے.( ہم سب جانتے ہیں کہ جس طرح تاریخ میں ذکر آتا ہے ) لوگ بت بن گئے اور ایسا ہوا گو یا ان پر سحر کیا ہوا ہے.وقت مقررہ گزر گیا.مگر لوگوں کی دلچسپی میں کچھ کمی نہ آئی اور وقت بڑھایا گیا مگر وہ بھی کافی نہ ہوا.آخرلوگوں کے اصرار سے جلسہ کا ایک دن اور بڑھایا گیا اور اس دن بقیہ لیکچر حضرت مسیح موعود
خطبات مسرور جلد 13 293 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء کا ختم کیا گیا.مخالف اور موافق سب نے بالا تفاق کہا کہ حضرت مسیح موعود کا لیکچر سب سے بالا رہا اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات پوری ہوئی.مگر اس زبر دست پیشگوئی کو خواجہ صاحب کی کمزوری ایمان نے پوشیدہ کر دیا.اب ہم ان واقعات کو سناتے ہیں مگر کجا ہمارے سنانے کا اثر اور کجاوہ اثر جو اس اشتہار کے قبل از وقت شائع کر دینے سے ہوتا.اس صورت میں اس پیشگوئی کو جواہمیت حاصل ہوتی ہر ایک شخص بخوبی ذہن میں لاسکتا ہے.آئینہ صداقت، انوارالعلوم جلد 6صفحہ 181–182) کہتے ہیں خواجہ صاحب بڑے پڑھے لکھے تھے ، وکیل تھے لیکن جب تکبر پیدا ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی بات کے آگے انسان اپنی عقل کو کچھ سمجھنے لگے تو انسان کی عقل پہ ایسا پردہ پڑتا ہے جو انسان کو بالکل بے عقل کر دیتا ہے اور کسی کام کا نہیں رہنے دیتا.یہ مضمون تو ایسا ہے کہ آج بھی جب ہم پڑھے لکھے غیروں کو یہ دیتے ہیں تو اس کو پڑھ کے وہ اس کی علمی حیثیت اور اسلام کی تعلیم سے متاثر ہو جاتے ہیں بلکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ جب ان سے پوچھتا ہوں کس طرح احمدیت قبول کی؟ تو وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھ کے احمدیت قبول کی.لیکن خواجہ صاحب کے نزدیک یہ استہزاء کا موجب بن سکتا تھا اور پھر ڈھٹائی اتنی کہ ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں ہونے کا دعویٰ لیکن ساتھ ہی آپ کے حکم پر عمل بھی نہیں ہو رہا لیکن بعد میں لوگوں نے جو اس کی تعریف کی تو اللہ تعالیٰ کے فعل نے خود ہی ان کے منہ پر ایک طمانچہ لگا دیا.پھر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ احمدیوں میں کس قسم کی دینی غیرت ہونی چاہئے؟ حضرت مصلح موعود نے ایک واقعہ بیان کیا.آپ کو کوئی رپورٹ پہنچی تھی کہ بعض لوگ ایسی جگہ گئے ہیں جہاں جماعت کو، بزرگوں کو غیر علماء گالیاں دے رہے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ اول تو یہ سوال کہ جہاں گالیاں دی جاتی ہیں وہاں انسان جائے ہی کیوں.جہاں مخالف لوگ تقریریں کرتے ہیں اور بعض احمدی سننے چلے جاتے ہیں.ان کا وہاں جانا ہی بتاتا ہے کہ وہ حقیقی غیرت کے مقام پر نہیں ہیں کیونکہ کبھی کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ فلاں مقام پر میرے باپ کو گالیاں دی جارہی ہیں میں جا کرسن آؤں؟ یا کوئی کسی کو اطلاع دے کہ فلاں جگہ تمہاری ماں کو گالیاں دی جارہی ہیں اور وہ جھٹ جوتا ہاتھ میں پکڑ کر بھاگ اٹھے کہ سنوں کیسی چٹخارے دار گالیاں دی جاتی ہیں؟ اگر تمہارے اندر حقیقی غیرت ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا اپنے امام اور دوسرے بزرگوں کے متعلق گالیاں سننے کے لئے جاتے
خطبات مسرور جلد 13 294 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء ہی کیوں ہو.تمہارا وہاں جانا بتا تا ہے کہ تمہارے اندر غیرت نہیں یا ادنیٰ درجہ کی غیرت ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں آریوں نے لاہور میں ایک جلسہ کیا اور آپ سے خواہش کی کہ آپ بھی مضمون لکھیں جو وہاں پڑھا جائے.آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ان لوگوں کی عادت کو جانتے ہیں یہ ضرور گالیاں دیں گے.اس لئے ہم ان کے کسی جلسہ میں حصہ نہیں لیتے.مگر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور لاہور کے بعض دوسرے لوگ جن کی خوشامد وغیرہ کر کے آریوں نے انہیں آمادہ کر لیا ہوا تھا کہنے لگے کہ اب چونکہ ملک میں سیاسی تحریک شروع ہوئی ہے اس لئے آریوں کا رنگ بدل گیا ہے.آپ ضرور مضمون لکھیں اس سے اسلام کو بہت فائدہ ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کراہت کے باوجودان کی بات مان لی اور مضمون رقم فرمایا اور حضرت خلیفہ اُسیح الاول کو پڑھنے کے لئے لاہور بھیجا.آپ فرماتے ہیں میں بھی ساتھ گیا اور بھی بعض دوست گئے.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون پڑھا گیا جس میں سب باتیں محبت اور پیار کی تھیں.اس کے بعد ایک آریہ نے مضمون پڑھا جس میں شدید گالیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تھیں اور وہ تمام گندے اعتراضات کئے گئے تھے جو عیسائی اور آریہ کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ مجھے آج تک اپنی اس غفلت پر افسوس ہے.میرے ساتھ ایک اور صاحب بیٹھے تھے ٹھیک یاد نہیں کون تھے.جب آریہ لیکچرر نے سخت کلامی شروع کی تو میں اٹھا اور میں نے کہا میں یہ نہیں سن سکتا اور جاتا ہوں.مگر اس شخص نے جو میرے پاس بیٹھا تھا کہا کہ حضرت مولوی صاحب اور دیگر علمائے سلسلہ بیٹھے ہیں.اگر اٹھنا مناسب ہوتا تو وہ نہ اٹھتے.میں نے کہا ان کے دل میں جو ہو گا وہ جانتے ہوں گے مگر میں نہیں بیٹھ سکتا.مگر اس نے کہا راستے سب بند ہیں.دروازوں میں لوگ کھڑے ہیں.آپ درمیان سے اٹھ کر گئے تو شور ہوگا اور فساد پیدا ہوگا.چپکے سے بیٹھے رہو.میں ان کی باتوں میں آ گیا اور بیٹھا رہا.مگر مجھے آج تک افسوس ہے کہ جب ایک نیک تحریک میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی تھی تو میں کیوں نہ اٹھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ سنا کہ جلسے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئی ہیں تو آپ سخت ناراض ہوئے اور حضرت خلیفہ اول پر بھی بڑے ناراض ہوئے کہ کیوں نہ آپ لوگ پروٹسٹ کرتے ہوئے ، احتجاج کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر آ گئے.کسی طرح آپ کو یہ گوارا نہیں کرنا چاہئے تھا.تو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار بار ناراضگی کا اظہار فرمارہے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ مولوی محمد احسن صاحب جلسے میں نہیں گئے تھے مجھے یاد ہے کہ چلتے چلتے وہ حضرت مسیح موعود
خطبات مسرور جلد 13 295 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں کی تصدیق بھی کرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ ذہول ہو گیا.آپ فرماتے ہیں کہ ذہول کا لفظ میں نے ان سے اسی وقت پہلی دفعہ سنا تھا اور وہ یہ بات بار بار اس طرح کہتے کہ جس سے ہنسی آتی.( ذہول کا مطلب ہوتا ہے غلطی ہو گئی یا غفلت ہو گئی.افسوس کا اظہار بھی کرتے چلے جاتے تھے اور پھر ساتھ کہتے بھی جاتے تھے کہ ذہول ہو گیا.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تھوڑی دیر بعد معاف کر دیا.تو آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ موجود ہے.پس ہمیشہ اس بات کی احتیاط کرنی چاہئے لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ان گالیوں کو بعد میں ہم کتاب کی صورت میں شائع کر دیں کیونکہ یہ گالیاں پڑنا بھی سلسلہ کی تائید کا ایک حصہ ہیں.یہ ہر ایک کا کام نہیں کہ وہاں جائے اور لوگ جو کرتے ہیں یا جو وہ سنتے ہیں اسے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر لیں لیکن اس وقت اس مجلس میں جانا یا بیٹھنا اس مجلس کے اعزاز کو بڑھانا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ جو مخالفین ہمارے بارے میں لکھتے ہیں ہم یہ لکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو ان باتوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے مگر مجلس میں جا کر بیٹھنے سے نہ آئندہ نسلوں کو کوئی فائدہ ہے اور نہ موجودہ زمانے کے لوگوں کو.اور جوایسی مجلس میں جاتے ہیں وہ غیرت کو پامال کرتے ہیں.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس سے احتیاط کریں ، ایسی مجالس میں کوئی نہ جائے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 298 تا300) پس یہ بات ہمارے بڑوں کو بھی اور نو جوانوں کو بھی آج بھی یاد رکھنی چاہئے اور ایسی مجالس سے قرآنی حکم کے مطابق بھی اٹھ کر آ جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں صحیح فیصلے کرنے اور صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.ضمنا میں پچھلے خطبہ کے حوالے سے ایک بات اور بھی کہہ دوں.گزشتہ خطبہ میں میں نے کھانسی دور ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان کیا تھا.اس کے بعد ایک صاحب نے لکھا کہ میں نے خطبہ میں یہ پڑھا ہے کہ وہاں کیلے کا ذکر نہیں سیب کا ذکر ہے.بہر حال الہام پورا ہونا تھاوہ ہو گیا لیکن یہ دونوں ذکر آتے ہیں اور اس سیب کے ذکر میں بھی آپ نے یہ فرمایا کہ پہلے آپ نے کیلا کھایا.کھا رہے تھے کہ میں نے روکا تو رک گئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد سیب کھانا شروع کر دیا جو حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب لے کر آئے تھے اور اتنا کھٹا سیب تھا کہ اچھے بھلے انسان کو اس سے کھانسی ہو سکتی ہے.لیکن آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ کھانسی دور ہوگئی.اس
خطبات مسرور جلد 13 296 لئے میں نے باوجود نہ چاہتے ہوئے اس کھٹے سیب کو کھالیا.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015ء (ماخوذ از تقدیر الہی ، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 579) تو بہر حال اصل چیز یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دعا سے اس کا علاج ہو چکا ہے اب کوئی چیز اثر نہیں کرے گی اور اس نے نہیں کیا.یہ میں آپ کو اس لئے بتا رہا ہوں کہ ایک خط تو مجھے آچکا ہے اور لوگ کہیں اور واقعہ پڑھیں تو مزید بھی شاید آ جائیں.یہ واقعہ گزشتہ ہفتے بھی میرے پاس تھا لیکن میں نے پڑھا نہیں تھا.تو بہر حال کیلا اور سیب دونوں کا ذکر آتا ہے اور دونوں میں نے بیان کر دیئے.اب نماز جمعہ کے بعد ایک نماز جنازہ غائب بھی میں پڑھاؤں گا جو ہمارے ایک درویش حاجی منظور احمد صاحب کا ہے.ان کی یکم مئی کو 85 سال کی عمر میں قادیان میں وفات ہوئی.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ چانگریاں ضلع سیالکوٹ میں 1929 میں پیدا ہوئے.آپ کے والد حضرت نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور والدہ بھی آپ کی صحابی تھیں.ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے بھائیوں کے ساتھ آپ نے فرنیچر بنانے کا کام سیکھا.1947ء میں جب تحریک ہوئی کہ حالات کی سنگینی کی وجہ سے قادیان میں خدام کو بلایا گیا ہے تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک پر آپ حفاظت مرکز کے لئے پچیس میل سے زائد پیدل سفر کر کے گہرے پانیوں میں سے گزر کر رتن باغ لاہور میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے پاس پہنچے.وہاں سے بڑے مشکل حالات میں ستمبر یا اکتوبر 1947ء کو قادیان پہنچے.ابتدائی درویشان میں شامل ہو کر مخالف حالات میں بڑی بہادری اور جانفشانی سے خدمت کی.ابتدائی دنوں میں جبکہ بارشوں کی وجہ سے بعض چھتیں اور دیوار میں گر گئیں تو آپ کو کیونکہ یہ ہنر آتا تھا آپ ان کی مرمت کر کے ٹھیک کیا کرتے تھے.اس طرح آپ کو بعض اہم خدمات بھی سپرد کی جاتی رہیں.جو کام بھی آپ کے سپر د ہوا آپ نے انتہائی خوش اسلوبی اور محنت کے ساتھ انجام دیا جس میں بہشتی مقبرہ کی دیوار بنانا، لائبریریوں کی کتب کی حفاظت کا سامان کرنا وغیرہ شامل تھا.قادیان کے ماحول کو سازگار کرنے میں آپ نے غیر مسلموں سے رابطے کئے اور اپنے حسن سلوک سے ان کو اپنا گرویدہ کر لیا.آپ ایک نہایت اچھے کاریگر تھے.صدر انجمن احمدیہ کی تعمیرات کے لئے راج مستری کے علاوہ لکڑی کا ہر قسم کا کام کر لیا کرتے تھے.ضرورت کے مطابق اپنی ذہنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے کام کے لئے اچھا ڈھنگ نکال
خطبات مسرور جلد 13 297 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 08 مئی 2015 ء لیتے.آپ کو منارۃ اُسیح پر ماربل لگانے کی سعادت بھی ملی.ماربل کی بڑی بھاری سلیں اوپر چڑھانے کے لئے آپ نے لکڑی کا سٹینڈ اور دیسی قسم کی مشین بنائی کیونکہ اوپر چڑھانے کا اور کوئی طریقہ نہ تھا.اس کے ذریعہ پورے منارے پر سلیں لگائیں.اوپر کا گنبد بنانا بہت مشکل تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ کام کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائی.اسی طرح سرینگر ، جموں ،مسکر اور ساندھن کی مساجد اور دہلی کی مسجد اور مشن ہاؤس میں غیر معمولی تعمیراتی کام بڑی حکمت سے کرنے کی سعادت پائی.سالہا سال تک جلسہ سالانہ کے موقع پر پنڈال لگانے کا کام بھی کرتے رہے.جماعتی اموال کا بہت درد تھا اور ہمیشہ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے کم خرچ میں تعمیراتی کام کیا کرتے تھے.1992ء میں حج بیت اللہ کی سعادت پائی.آخری وقت تک جماعت کے ہر پروگرام میں شامل ہوتے رہے.آپ کی شادی بڑی سادگی سے بڑے معجزانہ رنگ میں ہوئی.اہلیہ نے بھی بڑی تنگدستی کے حالات میں صبر و شکر سے ان کے ساتھ گزارا کیا اور آپ کا ساتھ دیا.آپ کے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.سب شادی شدہ ہیں اور صاحب اولاد ہیں.دو بیٹے جواں سالی کی عمر میں وفات پا گئے جن کا صدمہ نہایت صبر سے برداشت کیا.آپ کی اہلیہ وفات پا چکی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا نماز کے بعد جنازہ غائب پڑھاؤں گا.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 29 مئی 2015 ء تا 04 جون 2015 ، جلد 22 شماره 22 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 298 20 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء بمطابق 15 ہجرت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ جمعہ میں میں نے بتایا تھا کہ پنجاب حکومت نے جماعت کے بعض جرائد اور کتب پر پابندی لگائی ہے کہ ان کی اشاعت نہیں ہو سکتی یا ڈسپلے (display ) وغیر ہ نہیں ہوسکتا اور اس بات کی وہاں کی بعض اخبارات نے خبریں بھی دیں.آجکل فون پر ہی تصویری عکس میسجز (messages) اور مختلف قسم کے پیغام بھیجنے کے جو طریقے ہیں ان کے ذریعہ سے منٹوں میں خبریں دنیا میں گردش کر جاتی ہیں.یہ سن کے، دیکھ کے مجھے بھی لوگ خط لکھتے ہیں.فیکس وغیرہ کے ذریعہ سے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں.ہمیں یہ یادرکھنا چاہئے کہ یہ باتیں کوئی نئی چیز نہیں ہیں.جماعت احمدیہ کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ان نام نہاد علما کے کہنے پر اسی طرح کی حرکتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں.اور ابتدا سے ہی جب سے کہ جماعت احمد یہ قائم ہے اس قسم کی حرکتیں یہ لوگ کرتے چلے آرہے ہیں اور کرتے رہیں گے.ان حرکتوں سے نہ پہلے کبھی جماعت کو نقصان پہنچا اورنہ انشاء اللہ تعالی آئندہ بھی پہنچے گا.نہ ہی یہ پہنچا سکتے ہیں.نہ ہی کسی ماں نے وہ بچہ جنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خدائی مشن کو ان باتوں سے روک سکے.ان علماء نام نہاد علماء اور ان کی طرف دیکھنے والی حکومتوں کو احمدیت کی ترقی دیکھ کر حسد کے اظہار کا کوئی بہانہ چاہئے.اس حسد میں یہ اتنے اندھے ہیں کہ ان کی عقل پر بالکل پردے پڑ جاتے ہیں.بظاہر پڑھے لکھے لوگ جاہلوں سے بڑھ کر اپنی حالتوں کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 13 299 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء آنحضرت سلیم کی شان اور مقام کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ دیکھیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح بیان فرمایا ہے اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں یہ سب کچھ کس خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے.انصاف پسند مسلمان جو ہیں، عربوں میں سے بھی اور دوسری قوموں میں سے بھی جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے، جب جماعت کا لٹریچر دیکھتے ہیں، کتب دیکھتے ہیں اور پھر پتا لگتا ہے کہ حقیقت کیا ہے تو حیران ہوتے ہیں کہ ان نام نہاد علماء نے جو اپنے آپ کو اسلام کا علمبر دار سمجھتے ہیں کس طرح جھوٹ اور فریب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات کو تعلیمات کو ، آپ کی تحریرات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور کرتے چلے جارہے ہیں.یہ دیکھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کی شان کو کس طرح بیان فرمایا ہے ہمارے ایم ٹی اے کے جولائیوٹی وی پروگرام ہوتے ہیں ان میں بھی اور خطوط کے ذریعہ سے بھی اکثر لوگ اس بات کا اظہار کرتے ہیں جو ابھی احمدی نہیں ہوئے کہ ہمیں اس مقام اور اس شان کا اب پتا لگا ہے.نہیں تو ان علماء نے تو ہمیں جہالت کے پردے میں رکھا ہوا تھا.لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ احمدیت کی دشمنی میں یہ لوگ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے نام پر حرف لانے کا باعث بن رہے ہیں.بہر حال ان علماء کا تو دین ہی دشمنی اور فساد ہے.اس لئے کبھی یہ کوشش نہیں کریں گے کہ ہم حقیقت معلوم کریں چاہے اس کی وجہ سے سادہ لوح مسلمانوں میں جتنا بھی بگاڑ پیدا ہو جائے.بہر حال یہ تو ان کے کام ہیں یہ کرتے رہیں گے اور کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ان کو دین سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات پیارے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح ان مخالفین کے یہ عمل ہمارے ایمانوں میں جلاء پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق میں بڑھنے کے لئے کھاد کا کام دینے والے ہونے چاہئیں.اگر ہماری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ کم تھی تو اب زیادہ توجہ پیدا ہونی چاہئے.ایک پنجاب کی حکومت کی روک سے تو کیا تمام دنیا کی حکومتوں کی روکوں سے بھی یہ کام نہیں رک سکتا کیونکہ یہ انسانی کوششوں سے کئے جانے والے کام نہیں.یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم و معرفت کے خزانوں کے ساتھ بھیجا ہے اور کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے.ہمیشہ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ بڑی بڑی روکوں اور مخالفتوں کے بعد جماعت کی ترقی زیادہ ابھر کر
خطبات مسرور جلد 13 300 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015ء سامنے آئی ہے.اپنے زعم میں ہمارے خلاف جو یہ قدم اٹھایا گیا ہے یہ تو ایک معمولی سی روک ہے.ہمیں تو جتنا دبایا جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کو بڑھاتا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اب بھی بہتر ہوگا.اس لئے کوئی فکر کی بات نہیں ہے.اس لئے زیادہ فکر اور پریشانی کی ضرورت نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اب تو دنیا کے اور ممالک میں بھی چھپ رہی ہیں.ویب سائٹ پر بھی میسر ہیں.آڈیو میں بھی بعض کتب میسر ہیں اور باقی بھی انشاء اللہ تعالیٰ جلدی مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی.ایک زمانہ تھا جب یہ فکر تھی کہ اشاعت پر پابندی سے نقصان ہو سکتا ہے.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ علم و معرفت کے جو خزانے ہیں یہ فضاؤں میں پھیلے ہوئے ہیں جو ایک بٹن دبانے سے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور کتب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.ایم ٹی اے پر بھی میں نے اب سوچا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس پہلے سے زیادہ وقت بڑھا کر دیا جائے گا اور اس طرح پاکستان کے ایک صوبے کے قانون کی وجہ سے دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا فائدہ ہو جائے گا.ہر جو روک ہوتی ہے، مخالفت ہوتی ہے ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے.نئے راستوں اور ذرائع کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.اور پھر یہ بھی ہوگا انشاء اللہ تعالی کہ اس سے نہ صرف اصل زبان میں کتابیں چھپیں گی یا درس ہوں گے بلکہ بہت ساری قوموں کی مقامی زبانوں میں بھی یہ مواد میسر آ جائے گا.پس جن کے دلوں میں کسی بھی قسم کی پریشانی ہے کیونکہ لوگ لکھتے ہیں اس لئے مجھے کہنا پڑ رہا ہے وہ اپنے دلوں سے نکال دیں.ہمارے لٹریچر کے خلاف یہ جو ساری کارروائی کی گئی ہے اس سے ایک بات بہر حال واضح ہے اور یہ بڑی ابھر کر سامنے آ گئی ہے، پہلے بھی ہمیشہ آتی ہے کہ یہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت بڑھے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے یہ بہت بڑے علمبر دار ہیں اور اس وجہ سے یہ ہماری مخالفت کرتے ہیں انہوں نے انصاف کی نظر سے نہ کبھی جماعت کے لٹریچر کو پڑھا ہے، نہ پڑھنے کی کوشش کی ہے.ویسے تو عموماً ہماری طرف سے ان کے دعوے کی حقیقت اور ان کا اصل چہرہ ان کو دکھایا جاتا رہتا ہے لیکن میں نے سوچا ہے کہ آج بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کے حوالے سے جن میں ہمارے مخالفین کے خیال میں نعوذ باللہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے خلاف باتیں کی گئی ہیں، شان کے خلاف باتیں کی گئی ہیں، تعلیمات کے خلاف باتیں کی گئی ہیں، یا ان میں نفرت اور دل آزاری کا مواد ہے.یہ سارے مضامین تو بڑے وسیع ہیں اس میں سے
خطبات مسرور جلد 13 301 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء چند وہ حوالے پیش کروں، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کے ہمیں دکھائے ہیں.حیرت ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرنے والا کوئی شخص ان کو سننے اور پڑھنے سے اپنے کان اور آنکھیں بند کر سکتا ہے؟؟ بہر حال ان نام نہاد علماء سے ہمیں کوئی غرض نہیں لیکن ایسے ہزاروں وہ لوگ جو ہماری باتیں ایم ٹی اے کے ذریعہ سنتے ہیں ان کے دلوں کو مزید کھولنے کے لئے اور احمدیوں کے دل و دماغ میں مزید جلاء پیدا کرنے کے لئے ، اس کا صحیح ادراک پیدا کرنے کے لئے میں کچھ حوالے پیش کروں گا.آنحضرت مصلی یہ تم پر درود کا پیارا انداز پہلا مثلاً حمد الہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا پیارا انداز جو حضرت مسیح موعود علیہ - الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : الہی تیرا ہزار ہزار شکر کہ تو نے ہم کو اپنی پہچان کا آپ راہ بتایا اور اپنی پاک کتابوں کو نازل کر کے فکر اور عقل کی غلطیوں اور خطاؤں سے بچایا اور درود اور سلام حضرت سید الرسل محمد مصطفی اور ان کی آل و اصحاب پر کہ جس سے خدا نے ایک عالم گم گشتہ کو سیدھی راہ پر چلا یا.وہ مربی اور نفع رسان کہ جو بھولی ہوئی خلقت کو پھر راہ راست پر لایا.وہ محسن اور صاحب احسان کہ جس نے لوگوں کو شرک اور بتوں کی بلا سے چھڑایا.وہ نور اور نور افشان کہ جس نے توحید کی روشنی کو دنیا میں پھیلا یا.وہ حکیم اور معالج زمان کہ جس نے بگڑے ہوئے دلوں کا راستی پر قدم جمایا.وہ کریم اور کرامت نشان کہ جس نے مردوں کو زندگی کا پانی پلایا.وہ رحیم اور مہربان کہ جس نے امت کے لئے غم کھایا اور درد اٹھایا.وہ شجاع اور پہلوان جو ہم کوموت کے منہ سے نکال کر لایا.وہ حلیم اور بے نفس انسان کہ جس نے بندگی میں سر جھکا یا اور اپنی ہستی کو خاک سے ملایا.وہ کامل موحد اور بحر عرفان کہ جس کو صرف خدا کا جلال بھایا اور غیر کو اپنی نظر سے گرایا.وہ معجزہ قدرت رحمن کہ جواُقی ہو کر سب پر علوم حقانی میں غالب آیا اور ہر یک قوم کو غلطیوں اور خطاؤں کا ملزم ٹھہرایا.“ (براہین احمدیہ حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 17 ) پھر کسی بھی شخص کے اعلیٰ اخلاق کا یا اس کے تکالیف میں مبتلا ہونے سے پتا چلتا ہے یا کشائش میں اور طاقت میں جب اس کو حاصل ہوتی ہے تب پتا چلتا ہے.اور اس کا سب سے بڑھ کر اظہار اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے خاص مقربوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے.اور اس میں بھی سب سے بڑھ کر جو اعلیٰ مقام ہے اس کا اظہار ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق
خطبات مسرور جلد 13 302 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء ایام مصائب اور زمانہ فتوحات میں کیا تھے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : انبیاء اور اولیاء کا وجود اس لئے ہوتا ہے کہ تا لوگ جمیع اخلاق میں ان کی پیروی کریں اور جن امور پر خدا نے ان کو استقامت بخشی ہے اس جادہ استقامت پر سب حق کے طالب قدم ماریں ( یعنی اس پر چلنے کی کوشش کریں ) اور یہ بات نہایت بدیہی ہے (صاف ظاہر ہے ) کہ اخلاق فاضلہ کسی انسان کے اس وقت بہ پایہ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوں ( ہر اخلاق کا ایک وقت ہوتا ہے جب اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوں تو وہیں پتا لگتا ہے کہ وہ ثابت ہورہے ہیں) اور اسی وقت دلوں پر ان کی تاثیر میں بھی ہوتی ہیں.مثلاً عفووہ معتبر اور قابل تعریف ہے کہ جو قدرت انتقام کے وقت میں ہو.( جب کسی میں انتقام لینے کی طاقت ہواس وقت معاف کرنا یہی قابل تعریف ہے ) اور پرہیز گاری وہ قابل اعتبار ہے کہ جو نفس پروری کی قدرت موجود ہوتے ہوئے پھر پرہیز گاری قائم رہے.غرض خدائے تعالیٰ کا ارادہ انبیاء اور اولیاء کی نسبت یہ ہوتا ہے کہ ان کے ہر ایک قسم کے اخلاق ظاہر ہوں اور یہ پایہ ثبوت پہنچ جائیں.سوخدائے تعالیٰ اسی ارادہ کو پورے کرنے کی غرض سے ان کی نورانی عمر کو دو حصہ پر منقسم کر دیتا ہے.(دو حصے آتے ہیں) ایک حصہ تنگیوں اور مصیبتوں میں گزرتا ہے اور ہر طرح سے دکھ دیئے جاتے ہیں اور ستائے جاتے ہیں تاوہ اعلیٰ اخلاق ان کے ظاہر ہو جائیں کہ جو بجر سخت تر مصیبتوں کے ہرگز ظاہر اور ثابت نہیں ہو سکتے.اگر ان پر وہ سخت تر مصیبتیں نازل نہ ہوں تو یہ کیونکر ثابت ہو کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ مصیبتوں کے پڑنے سے اپنے مولیٰ سے بے وفائی نہیں کرتے بلکہ اور بھی آگے قدم بڑھاتے ہیں اور خداوند کریم کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے سب کو چھوڑ کر انہیں پر نظر عنایت کی اور انہیں کو اس لائق سمجھا کہ اس کے لئے اور اس کی راہ میں ستائے جائیں.سوخدائے تعالیٰ ان پر مصیبتیں نازل کرتا ہے تا ان کا صبر، ان کا صدق قدم، ان کی مردی ، ان کی استقامت، ان کی وفاداری، ان کی فتوت شعاری ( یعنی جوانمردی ) لوگوں پر ظاہر کر کے الْإِسْتِقَامَةُ فَوْقَ الْكِرَامَةِ کا مصداق ان کو ٹھہر اوے.کیونکہ کامل صبر بجز کامل مصیبتوں کے ظاہر نہیں ہوسکتا اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور ثابت قدمی بجز اعلیٰ درجہ کے زلزلے کے معلوم نہیں ہو سکتی اور یہ مصائب حقیقت میں انبیاء اور اولیاء کے لئے روحانی نعمتیں ہیں جن سے دنیا میں ان کے اخلاق فاضلہ جن میں وہ بے مثل اور مانند ہیں ظاہر ہوتے ہیں اور آخرت میں ان کے درجات کی ترقی ہوتی ہے.اگر خدا ان پر یہ صیبتیں نازل نہ کرتا تو یہ عمتیں بھی ان کو حاصل نہ ہو تیں اور نہ عوام پر ان کے شمائل حسنہ کماحقہ کھلتے بلکہ دوسرے لوگوں کی طرح اور ان کے مساوی ٹھہرتے (پھر تو سارے ایک جیسے ہو جاتے ) اور گوا اپنی چند روزہ
خطبات مسرور جلد 13 303 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء عمر کو کیسے ہی عشرت اور راحت میں بسر کرتے پر آخر ایک دن اس دار فانی سے گزر جاتے اور اس صورت میں نہ وہ عیش اور عشرت ان کی باقی رہتی نہ آخرت کے درجات عالیہ حاصل ہوتے.نہ دنیا میں ان کی وہ فتوت اور جوانمردی اور وفاداری اور شجاعت شہرہ آفاق ہوتی جس سے وہ ایسے ارجمند ٹھہرے جن کا کوئی مانند نہیں.اور ایسے لگا نہ ٹھہرے جن کا کوئی ہم جنس نہیں اور ایسے فرد الفرد ٹھہرے جن کا کوئی ثانی نہیں اور ایسے غیب الغیب ٹھہرے جن تک کسی ادراک کی رسائی نہیں اور ایسے کامل اور بہادر ٹھہرے کہ گویا ہزارہا شیر ایک قالب میں ہیں اور ہزار ہا پلنگ ( مطلب چیتے ) ایک بدن میں جن کی قوت اور طاقت سب کی نظروں سے بلند تر ہوگئی اور جو تقرب کے اعلیٰ درجات تک پہنچ گئی.( یہ ساری چیزیں ہیں جو ظاہر ہوتی ہیں.پھر اللہ تعالیٰ کے قرب کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جاتی ہیں.) اور دوسرا حصہ انبیا اور اولیاء کی عمر کا فتح میں، اقبال میں، دولت میں بمرتبہ کمال ہوتا ہے تا وہ اخلاق ان کے ظاہر ہو جائیں کہ جن کے ظہور کے لئے فتح مند ہونا، صاحب اقبال ہونا، صاحب دولت ہونا ، صاحب اختیار ہونا ، صاحب اقتدار ہونا ،صاحب طاقت ہونا ضروری ہے.کیونکہ اپنے دکھ دینے والوں کے گناہ بخشا اور اپنے ستانے والوں سے در گزر کرنا اور اپنے دشمنوں سے پیار کرنا اور اپنے بداندیشوں کی خیر خواہی بجالا نا.دولت سے دل نہ لگانا، دولت سے مغرور نہ ہونا، دولتمندی میں امساک اور بخل اختیار نہ کرنا اور کرم اور مجود اور بخشش کا دروازہ کھولنا اور دولت کو ذریعہ نفس پروری نہ ٹھہرانا اور حکومت کو آلہ ظلم و تعدی نہ بنانا.(اگر حکومت، طاقت ہاتھ میں آجائے تو اس کی وجہ سے ظلم نہ کرنا یہ سب اخلاق ایسے ہیں کہ جن کے ثبوت کے لئے صاحب دولت اور صاحب طاقت ہونا شرط ہے.اور اسی وقت یہ پایہ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب انسان کے لئے دولت اور اقتدار دونوں میسر ہوں.پس چونکہ بجز زمانه مصیبت واد باروز مانه دولت و اقتدار ( کمزوری اور مصیبت کا زمانہ اور دولت اور اقتدار کا زمانہ) یہ دونوں قسم کے اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے.( یعنی یہ چیزیں، ایسے اخلاق جو ہیں کمزوری کی حالت میں بھی اور فتح کی حالت میں بھی اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب انسان مصیبت کا زمانہ بھی دیکھے اور دولت اور اقتدار کا زمانہ بھی دیکھے ) پھر فرمایا کہ اس لئے حکمت کا ملہ ایزدی نے تقاضا کیا کہ انبیاء اور اولیاء کو ان دونوں طور کی حالتوں سے کہ جو ہزار ہا نعمتوں پر مشتمل ہیں متمتع کرے.لیکن ان دونوں حالتوں کا زمانہ وقوع ہر ایک کے لئے ایک ترتیب پر نہیں ہوتا.(دونوں حالتیں ہوتی ہیں لیکن ایک ترتیب نہیں ہوتی ) بلکہ حکمت الہیہ بعض کے لئے زمانہ امن و آسائش پہلے حصہ عمر میں میسر کر دیتی ہے اور زمانہ تکالیف پیچھے سے اور بعض پر پہلے وقتوں میں تکالیف وارد ہوتی ہیں اور پھر آخر کا رنصرت الہی شامل ہو جاتی ہے اور
خطبات مسرور جلد 13 304 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء بعض میں یہ دونوں حالتیں مخفی ہوتی ہیں اور بعض میں کامل درجہ پر ظهور و بروز پکڑتی ہیں (انتہائی طور پر ظاہری ہو جاتی ہیں اور فرمایا کہ ) اور اس بارے میں سب سے اوّل قدم حضرت خاتم الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال وضاحت سے یہ دونوں حالتیں وارد ہو گئیں ( یعنی تنگی کے حالات بھی ہوئے اور فتح اور نصرت کے حالات بھی ہوئے ) اور ایسی ترتیب سے آئیں کہ جس سے تمام اخلاق فاضلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثل آفتاب کے روشن ہو گئے اور مضمون إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:5) کا یہ پایہ ثابت پہنچ گیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور پر علی وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے ( آپ کے اخلاق کا کمال تک پہنچنا صرف آپ کے اخلاق کو نہیں بلکہ تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے.کس طرح ؟.فرمایا) کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا ( ان کی تصدیق کی ) اور ان کا مقرب اللہ ہونا ظاہر کر دیا ہے.پس اس تحقیق سے یہ اعتراض بھی بالکل دور ہو گیا کہ جو مسیح کے اخلاق کی نسبت دلوں میں گزرسکتا ہے یعنی یہ کہ اخلاق حضرت مسیح علیہ السلام دونوں قسم مذکورہ بالا پر علی وجہ الکمال ثابت نہیں ہو سکتے بلکہ ایک قسم کے رو سے بھی ثابت نہیں ہیں.کیونکہ مسیح نے جو زمانہ مصیبتوں میں صبر کیا تو کمالیت اور صحت اس صبر کی تب به پایه صداقت پہنچ سکتی تھی کہ جب مسیح اپنے تکلیف دہندوں پر اقتدار اور غلبہ پاکراپنے موذیوں کے گناہ دلی صفائی سے بخش دیتا ( جنہوں نے آپ کو تکلیفیں پہنچائی تھیں ان کے گناہ دلی صفائی سے بخش دیتا ) جیسا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پا کر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا.اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) قطعی حکم وارد ہو چکا تھا.اور بجز ان از لی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پا کر سب کو لا تقریب عَلَيْكُمُ الْيَوْم کہا.اور اسے عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے.“ (یعنی ایسا عفو د کھا یا جو مخالفوں کو اپنے گناہوں کی وجہ سے، اپنی غلطیوں کی وجہ سے لگتا تھا کہ بڑا مشکل ہے ہمیں معاف نہیں کیا جائے گا.جب وہ اپنی شرارتوں کو دیکھتے تھے تو سمجھتے تھے کہ اب ہماری سزا اصرف یہی ہے کہ ہمیں قتل کیا جائے گا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف کر دیا.فرماتے ہیں کہ ) ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کرلیا (اسی وجہ سے ) اور حقانی صبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ جو ایک زمانہ دراز تک آنجناب نے ان
خطبات مسرور جلد 13 305 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015ء کی سخت سخت ایذاؤں پر کیا تھا.آفتاب کی طرح ان کے سامنے روشن ہو گیا (ایسا صبر تھا جو آفتاب کی طرح ان کے سامنے روشن ہو گیا) اور چونکہ فطر نا یہ بات انسان کی عادت میں داخل ہے کہ اسی شخص کے صبر کی عظمت اور بزرگی انسان پر کامل طور پر روشن ہوتی ہے کہ جو بعد زمانہ آزارکشی کے اپنے آزار دہندہ پر قدرت انتقام پا کر اس کے گناہ کو بخش دے.“ (یعنی کہ ایک لمبے زمانے تک آپ کو تکلیفیں دی گئیں لیکن فرما یا کہ اس وقت اس کا اظہار ہو سکتا ہے صحیح صبر کا حقیقی صبر کا جب جس کو تکلیفیں دی جائیں اس کو جب بدلہ لینے پر، انتقام لینے پر قدرت حاصل ہو جائے ، طاقت حاصل ہو جائے تب وہ ساروں کے گناہ بخش دے.تو یہ ہے اصل حقیقی صبر اور یہ نمونہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا) فرمایا کہ اس وجہ سے مسیح کے اخلاق کہ جو صبر اور حلم اور برداشت کے متعلق تھے بخوبی ثابت نہ ہوئے اور یہ امرا چھی طرح نہ کھلا کہ مسیح کا صبر اور حلم اختیاری تھا یا اضطراری تھا کیونکہ مسیح نے اقتدار اور طاقت کا زمانہ نہیں پایا تا دیکھا جاتا کہ اس نے اپنے موذیوں کے گناہ کو عفو کیا یا انتقام لیا.برخلاف اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ وہ صد با مواقع میں اچھی طرح کھل گئے اور امتحان کئے گئے اور ان کی صداقت آفتاب کی طرح روشن ہو گئی.اور جو اخلاق کرم، اور جود اور سخاوت اور ایثار اور فتوت اور شجاعت اور زہد اور قناعت اور اعراض عن الدنیا ( دنیا سے بے رغبتی ) کے متعلق تھے، وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں ایسے روشن اور تاباں اور درخشاں ہوئے کہ مسیح کیا بلکہ دنیا میں آنحضرت سے پہلے کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس کے اخلاق ایسی وضاحت تامہ سے روشن ہو گئے ہوں کیونکہ خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دیئے.سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک جبہ بھی خرچ نہ ہوا.(اپنے آرام پر ایک پائی بھی خرچ نہیں کی) نہ کوئی عمارت بنائی نہ کوئی بارگاہ تیار ہوئی.بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کو ٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی اپنی ساری عمر بسر کی.بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جو دل آزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی.سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا.اور کھانے کے لئے نان جو یا فاقہ اختیار کیا.دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا.اور ہمیشہ فقر کو تونگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا اور اس دن سے جو ظہور فرمایا تا اس دن تک جو اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے (یعنی کہ ابتدائی زندگی سے لے کر آخر تک وصال تک ) بجز
خطبات مسرور جلد 13 306 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015ء اپنے مولیٰ کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا.اور ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پر معرکہ جنگ میں کہ جہاں قتل کیا جانا یقینی امر تھا.(سخت مشکل جگہ ہوتی تھی ) خالصا خدا کے لئے کھڑے ہو کر اپنی شجاعت اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھلائی.غرض جود اور سخاوت اور زہد اور قناعت اور مردی اور شجاعت اور محبت الہیہ کے متعلق جو جو اخلاق فاضلہ ہیں وہ بھی خداوند کریم نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے ظاہر کئے کہ جن کی مثل نہ کبھی دنیا میں ظاہر ہوئی اور نہ آئندہ ظاہر ہوگی.آپ فرماتے ہیں اور خدا نے اس ذات مقدس پر انہیں معنوں کر کے وحی اور رسالت کو ختم کیا کہ سب کمالات اس وجود بالجود پر ختم ہو گئے.وَهَذَا فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ “ ( براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 276 تا 292 حاشیہ نمبر 11) پھر ایک عیسائی کے سوال پر وضاحت فرماتے ہوئے کہ روشنی اور نور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.سوال یہ تھا کہ مسیح نے اپنی نسبت یہ کلمات کہے میرے پاس آؤ تم جو تھکے اور ماندے ہو کہ میں تمہیں آرام دوں گا اور یہ کہ میں روشنی ہوں اور میں راہ ہوں.میں زندگی اور راستی ہوں.کیا بانی اسلام نے یہ کلمات یا ایسے کلمات کسی جگہ اپنی طرف منسوب کئے ہیں“.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: قرآن شریف میں صاف فرمایا گیا ہے.قُل اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ( الخ (آل عمران : 32) یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے.“ ( فرمایا کہ ”یہ وعدہ کہ میری پیروی سے انسان خدا کا پیارا بن جاتا ہے مسیح کے گزشتہ اقوال پر غالب ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں کہ انسان خدا کا پیارا ہو جائے.پس جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوب الہی بنا دیتا ہے اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے.اسی لئے اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور رکھا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے قَدْ جَاءَ كُم مِّنَ اللهِ نُور (المائدة: 16 ).یعنی تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے.“ ( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 372) پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتی ہے، آپ مزید فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اس بات سے
خطبات مسرور جلد 13 307 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے.اللہ تعالیٰ نے کسی کے ساتھ اپنا پیار کرنا اس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے.یعنی شرط یہ لگائی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرو گے تو میرا پیار حاصل ہوگا ) چنانچہ فرماتے ہیں کہ ” میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے.اس طرح پر کہ خود اس کے دل میں محبت الہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے.تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا اُنس وشوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبت الہی کی ایک خاص تجلی اس پر پڑتی ہے اور اس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قومی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.تب جذبات نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 67تا68) پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ سب سے کامل انسان اور کامل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں فرماتے ہیں کہ: وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قومی کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علما وعملاً وصدقاً وشباٹا دکھلا یا اور انسان کامل کہلایا،.وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا، وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملا کی اور یحی اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگر چہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے.یہ اس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے.اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمُ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ 66 اتمام الحجبة ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308)
خطبات مسرور جلد 13 308 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015ء پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض احسانات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : ”اس نے ہمارے لئے ایک ایسا رسول صلی السلام بھیجا جو کریم ہے.تمام امور خیر میں صاحب کمال ہے.کمالات کے تمام انواع میں، ہر رنگ میں سبقت لے جانے والا ہے.تمام رسولوں اور نبیوں کا خاتم ہے.اُم القریٰ میں آنے والا موعود نبی جو سچ سے محمد صلی ا یہ اہم ہے کیونکہ اس کے فیضیابوں کی زبانیں ہر وقت اس کی ستائش سے تر رہتی ہیں اور وہ اس رُو سے بھی کامل ستائش کا مستحق ہے کہ اس نے امت کی خاطر انتہائی مشقت و محنت اپنے اوپر لی اور دین کی عمارت کو بلند کیا اور اس لئے بھی کہ وہ ہمارے لئے ایک روشن اور تاباں کتاب لایا اور اس لئے بھی کہ اسے اپنے خداوند رب العالمین کے پیغاموں کے پہنچانے میں ہمارے لئے طرح طرح کی ایذاؤں کا نشانہ بننا پڑا.پھر اس لئے بھی کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں نا تمام اور ناقص رہا تھا اسے آپ ﷺ نے کامل کیا اور ہمیں افراط اور تفریط سے اور دیگر عیوب ونقائص سے پاک شریعت عطا کی اور اخلاق کو کمال تک پہنچایا اور جو جو کچھ ناقص تھا اسے کامل کیا اور تمام اقوام عالم کو اپنا ممنون احسان کیا اور چوٹی کے فصیح و بلیغ بیانوں اور نہایت روشن وحی کے ذریعہ سے رُشد کی راہیں بتائیں اور مخلوق کو گمراہی سے بچایا اور اپنے نمونے کے ذریعہ سے کنارہ کش بنایا اور بہائم و انعام کو گو یا کر دیا ( یعنی ایسے لوگ جو جانوروں کی طرح رہنے والے تھے ، ان پڑھ جاہل تھے، اجڈ تھے ان کو بھی زبانیں دیں اور ان کی زبانوں کو شائستہ کر دیا.ان کے اخلاق کو بلند کیا ) اور ان میں ہدایت کی روح پھونک دی اور تمام مرسلین کے وارث بنا دیا اور انہیں ایسا پاک وصاف کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا میں فنا ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے لئے انہوں نے پانی کی طرح اپنے خون بہا دیئے اور کامل اطاعت کے ساتھ اپنے آپ کو بکلی اللہ تعالیٰ کے سپر د کر دیا.پھر دوسری طرف آپ نے اچھوتے اور مخفی در مخفی لطائف و معارف اور نا در نکات کی تعلیم دے کر ہمارے جیسے آپ کے دستر خوان کا پس خوردہ کھانے والوں کو حقیقی فضیلت کے مقام پر پہنچا دیا.(اخلاق میں بھی اعلیٰ کر دیا علم و معرفت میں بھی اعلیٰ کر دیا ) اور آپ کی رہنمائی کے طفیل حق تعالیٰ تک پہنچنے کی راہیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.( روحانیت میں بھی اوپر لے گئے ) اور ہم فلک بریں پر جا پہنچے ، بعد اس کے کہ ہم زمین میں دھنس چکے تھے.پس اے اللہ ! روز جزا تک اور ابد الآباد تک آپ اصلی اینم پر درود اور سلام بھیج.نیز آپ سال سیستم کی آل پاک طاہرین طبیبین پر اور آپ کے صحابہ کرام پر جو آپ سلام کے ناصر بھی بنے اور منصور بھی جو اللہ تعالیٰ کی چیدہ اور برگزیدہ جماعت ہے جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنی عزتوں اور اپنی
خطبات مسرور جلد 13 309 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء آبروؤں اور اپنے اموال اور اولاد پر اللہ تعالیٰ کو مقدم کیا.رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ.( البلاغ.روحانی خزائن جلد 13 صفحه 433-434- ترجمه عربی عبارت از کتاب محامد خاتم النبیین سرور انبیاء حبیب خداصلی اللہ علیہ وسلم سمی به در یتیم از تحریرات از مرزا غلام احمد قادیانی شائع کردہ 31 جنوری 1936 صفحہ نمبر : 302) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ”ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تمام ادیان سے بہتر ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.آپ کے بعد وہی نبی آ سکتا ہے جس کی تربیت آپ کے فیضان سے ہوئی ہو اور آپ کی پیشگوئی کے ماتحت آیا ہو اور کوئی نبی نہیں آسکتا.اور ختم نبوت سے مراد نبوت کے کمالات کا ہمارے نبی افضل الرسل والانبیاء پر ختم ہونا ہے.اور ہم اعتقادر کھتے ہیں کہ آپ کے بعد وہی نبی آ سکتا ہے جو آپ کی امت میں سے اور آپ کے کامل تر پیروؤں میں سے ہو جس نے تمام کا تمام فیضان آپ ہی کی روحانیت سے پایا ہو اور آپ ہی کے نور سے منور ہوا ہو.اور کوئی نبی نہیں آ سکتا.....اور یہی بات حق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات پر گواہ ہے اور لوگوں کو آپ کا حسن آپ کے بچے پیروؤں کے لباس میں جو کامل محبت اور اخلاص کے ساتھ آپ میں فنا ہوں دکھلاتی ہے اور اس کے خلاف بحث کرنا جہالت ہے بلکہ یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ابترنہ ہونے کا ثبوت ہے اور اہل تدبر کے لئے اس کی تفصیل کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی لحاظ سے تو کسی مرد کے باپ نہیں تھے لیکن آپ روحانیت کے رو سے کمال یافتہ شخص پر اپنی فیضان رسالت کے لحاظ سے باپ ہیں اور آپ تمام انبیاء کے خاتم اور تمام مقبولوں کے سردار ہیں اور سوائے اس شخص کے جس کے پاس آپ کی مہر کا نقش ہو اور آپ کی سنت کا پیرو ہو کوئی شخص خدا تعالیٰ کی درگاہ میں کبھی رسائی نہیں پا سکتا اور کوئی عمل اور کوئی عبادت آپ کی رسالت کے اقرار اور آپ کے دین اور آپ کی ملت پر پختگی کے ساتھ قائم ہوئے بغیر قبول نہیں ہوسکتی.اور جس نے آپ کو چھوڑا اور اپنی طاقت اور مقدور بھر آپ کی تمام سنن کی پیروی نہ کی وہ ہلاک ہوا اور آپ کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آسکتی اور کوئی چیز آپ کی کتاب اور آپ کے احکام کو منسوخ کرنے والی یا آپ کی پاک باتوں کو تبدیل کر دینے والی نہیں ہو سکتی اور کوئی بارش آپ کی بارش جیسی نہیں ہو سکتی.اور جو شخص قرآن کی پیروی سے ایک ذرہ بھر باہر نکلا وہ دائرہ ایمان سے نکل گیا.اور کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا اور نجات نہیں پاسکتا جب تک وہ ان تمام باتوں کی
خطبات مسرور جلد 13 310 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء پیروی نہ کرے جو ہمارے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور جو شخص آپ کے احکام میں سے ایک ذرہ بھر بھی چھوڑتا ہے وہ تباہی کے گڑھے میں گرتا ہے اور جو شخص اس امت میں سے کہلا کر بھی دعویٰ نبوت کے ساتھ یہ اعتقاد نہیں رکھتا کہ اس کی تربیت خیر البرایا سید نامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے ہوئی ہے اور آپ کے نمونے کی پیروی کے بغیر وہ کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا اور یہ کہ قرآن شریف خاتم الشریعت ہے تو ایسا شخص ہلاک شدہ اور پکا کافر وفاجر ہے.اور جو شخص نبوت کا دعوی کرے اور یہ عقیدہ نہ رکھتا ہو کہ وہ آپ کی امت میں سے ہے اور جو کچھ اس نے پایا ہے آپ کے فیضان سے پایا ہے اور یہ کہ وہ آپ کے باغ کا ایک پھل ، آپ کی بارش کا ایک قطرہ آپ کے انوار کی ایک جھلک ہے تو ایسا شخص ملعون ہے اور ایسے شخص پر اور اس کے مددگاروں اور پیروؤں اور ساتھیوں پر سب پر خدا کی لعنت ہے.اب آسمان کے نیچے ہمارے نبی مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی شخص جو آپ کا غیر ہونبی نہیں اور نہ ہی قرآن کریم کے سوا ہماری کوئی اور کتاب ہے اور جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ اپنے آپ کو آپ دوزخ میں ڈالتا ہے.“ مواهب الرحمان.روحانی خزائن جلد 19 صفحه 285 تا 287 - ترجمه عربی عبارت از کتاب محامد خاتم النبیین سرور انبیاء حبیب خداصلی اللہ علیہ وسلم سمی به در یتیم از تحریرات از مرزا غلام احمدقادیانی شائع کردہ 31 جنوری 1936 صفحہ نمبر :319_320) پھر آپ بیان فرماتے ہیں کہ اب شفیع صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.فرمایا: نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یا درکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے ( خدا سچ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق اور خدا کے درمیان شفیع ہیں ) اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.موسیٰ نے وہ متاع پائی جس کو قرون اولی کھو چکے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ متاع پائی جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھو چکا تھا.اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے مگرشان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر.مثیل موسیٰ ، موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ، ابن مریم سے بڑھ کر.“ کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 14-13)
خطبات مسرور جلد 13 311 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء پس یہ چند اقتباسات ہیں جو میں نے ان بے شمار اقتباسات میں سے لئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کے بارے میں تحریر فرمائے ہیں.اسی طرح اسلام کی مختلف تعلیمات کی وضاحت کے بارے میں بھی ایک خزانہ ہے جو آپ نے پیش فرمایا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے زیادہ سے زیادہ فیض اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام کے نام نہاد علمبرداروں کو بھی عقل دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی عاشق صادق کی باتوں کو سنیں اور یہ عامتہ المسلمین کی صحیح رہنمائی کرنے والے بنیں.نماز کے بعد میں دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا.پہلا ہے مکرم محمد موسیٰ صاحب درویش قادیان کا جو 10 مئی 2015ء کو پچانوے سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مرحوم آخری عمر تک چلتے پھرتے رہے.وفات سے چار روز قبل احمد یہ چوک میں ایک سڑک پر حادثے میں گرنے کی وجہ سے کنپٹی پر چوٹ لگی جس کی وجہ سے چار روز امرتسر ہسپتال میں داخل رہے اور اس کے بعد نور ہسپتال میں وفات ہو گئی.مرحوم موصی تھے.آپ کے خاندان کو خلافت اولی کے زمانے میں بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی.مرحوم ضلع شیخو پورہ کے گاؤں سید والا کے رہنے والے تھے.1946ء میں جب آپ نے فوج کی ملازمت چھوڑ کر قادیان میں رہائش اختیار کی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ کیا کام کر رہے ہیں تو مرحوم نے بتایا کہ فوج کی سروس چھوڑ کر ذاتی کام شروع کرنے لگا ہوں.اس پر حضور نے فرمایا کہ مجھے آپ کی خدمت کی ضرورت ہے ہجرت کر کے آپ نے پاکستان میں نہیں جانا.قادیان میں ہی قیام رکھیں.یہ 47ء کی بات ہے اور اس وقت حالات پارٹیشن کے بھی ہو رہے تھے.چنانچہ آپ قادیان میں ہی ٹھہرے اور اس طرح آپ 313 درویشان قادیان میں شامل ہو گئے اور بڑی سعادتمندی سے درویشی کے دن گزارے.آپ کو سالہا سال صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں بالخصوص دار مسیح میں خدمت کی توفیق ملی.مرحوم کو 2006 ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں درویشوں کے نمائندے کے طور پر شرکت کی توفیق ملی اور عالمی بیعت میں بھی آپ کو ہندوستان کے نمائندہ ہونے کی توفیق ملی اور آپ سب سے آگے بیٹھے ہوئے تھے.پسماندگان میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.آپ کے بیٹے مکرم لطیف صاحب سلسلہ کی خدمت سے ریٹائر ہوئے ہیں.آپ کی اہلیہ کی وفات 30 رمئی 2014ء کو ہوئی تھی.انہوں نے اپنے درویش شوہر کا ساتھ دیتے ہوئے بڑی درویشانہ زندگی بڑے صبر کے ساتھ بسر کی.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے رہیں.
خطبات مسرور جلد 13 312 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015 ء دوسرا جنازہ صاحبزادی سیدہ امتۃ الرفیق صاحبہ کا ہے جو حضرت سید میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں.6 مئی 2015ء کو 80 سال کی عمر میں وفات پاگئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے دو شادیاں کی تھیں.پہلی شادی سے اولاد نہیں تھی.دوسری شادی مکرمہ حضرت امتہ اللطیف بیگم صاحبہ سے 1917ء میں ہوئی اور ان سے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات بیٹیاں اور تین بیٹے عطا فرمائے.صاحبزادی امتہ الرفیق کا نمبر آٹھواں تھا.بڑی علمی شخصیت تھیں.خاموش طبیعت تھی.ان کے بیٹے حمید اللہ نصرت اللہ پاشا فضل عمر ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ میرے والد حضرت اللہ پاشا صاحب نے 1953ء میں امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران احمدیت قبول کی تھی.1960ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے والد صاحب کو میری والدہ سے رشتہ سے متعلق تجویز دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے دو ماموں تھے.بڑے ماموں بہت بڑے صوفی تھے یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو حضرت اماں جان کے بھائی تھے اور چھوٹے ماموں بہت بڑے عالم تھے یعنی حضرت میر الحق صاحب.میاں بشیر احمد صاحب نے فرمایا کہ آپ کے لئے اپنے بڑے ماموں کی صاحبزادی امتہ الرفیق کا رشتہ تجویز کرتا ہوں تو ان کے والد نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے کہا کہ میرے رشتے دار سارے غیر احمدی ہیں تو میں رشتہ کس طرح کروں ، بات کس طرح کروں؟ آپ نے فرمایا کہ آپ کے سر پرست کے طور پر میں رشتہ کی بات کرتا ہوں.چنانچہ 5 رنومبر 1961ء کو آپ کا نکاح ہوا اور اسی روز رخصتی ہو گئی اور حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے ڈاکٹر نصرت پاشا کو سنایا کہ تمہاری امی کی شادی جب ہوئی اس وقت حضرت مصلح موعود بیمار تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے شادی کی دعا کرائی اور نمائندگی میں شامل ہوئے.اس کے بعد حضرت مصلح موعود کو جب ملنے آئے اور جب مل کے نکلنے لگے تو حضرت مصلح موعود نے پیغام دیا کہ حضرت اللہ پاشا جن سے امتہ الرفیق صاحبہ کی شادی ہوئی تھی ان کو کہہ دو کہ آپ کو میں نے اپنی بیٹی دی ہے.ان کے بچے حمید اللہ نصرت پاشا صاحب جیسا کہ میں نے کہا واقف زندگی ہیں.فضل عمر ہسپتال میں ڈینٹل سرجن ہیں.دوسرے بیٹے خضر پاشا دوبئی میں ہیں اور بیٹی ان کی ایک فرحانہ پاشا ڈاکٹر غلام احمد فرخ صاحب واقف زندگی کی اہلیہ ہیں.یہ فرخ صاحب بھی ربوہ میں کمپیوٹر سیکشن میں کام کرتے ہیں.امتہ الرفیق صاحبہ کو ایک لمبا عرصہ نائب صدر لجنہ کراچی کے طور پر خدمت کی توفیق ملی اور باوجود گھٹنوں کی تکلیف کے آپ ہر جگہ پہنچتیں.دفاتر اونچی منزل میں تھے وہاں جاتیں اس کی وجہ سے
خطبات مسرور جلد 13 313 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مئی 2015ء آپ کو تکلیف زیادہ بڑھ گئی لیکن بہر حال انہوں نے اپنے فرائض نہیں چھوڑے.بڑی غریب پرور تھیں اور غریبوں کی غیر معمولی مددکیا کرتی تھیں اور اخفاء میں رکھتی تھیں.خلافت سے اس قدر عقیدت کا تعلق تھا کہ کوئی بات آپ برداشت نہیں کر سکتی تھیں.1974ء میں جو حالات ہوئے اس کے بعد کچھ مہمان ان کے گھر آئے اور کھانے کی میز پر کسی نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی کے دوران حضور کو یعنی خلیفہ ثالث کو اس طرح نہیں بلکہ اس طرح کہنا چاہئے تھا تو آپ نے اسی وقت انگلی کے اشارہ سے سختی سے منع کیا اور فرمایا کہ بس اس سے آگے ایک لفظ نہیں سنوں گی.فوراً و ہیں بات ختم کر دی.خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا.الرّازِقِينَ پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا.یہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی ریٹائرمنٹ ہو گئی تو صرف پنشن پے گزارا تھا.حالات ذرا تنگ تھے تو ایک دن والدہ صاحبہ نے ( یعنی امتۃ الرفیق صاحبہ نے ) میری موجودگی میں والد صاحب سے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وَاللهُ خَيْرُ کی بشارت ہوئی ہے.اور اس کے بعد ان کے میاں کو ورلڈ بینک نے ایڈوائزر کے طور پر رکھا اور کنسلٹنسی (consultancy) کی فیس بھی آنے لگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آمد بڑھ گئی.دنیا سے کوئی لگاؤ نہیں تھا.ان کی بیٹی فرحانہ پاشا نے لکھا ہے کہ میری امی کا جو سامان لپیٹا ہے تو سب کچھ لپیٹنے میں پندرہ منٹ لگے.ان کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ ان کا سارا سسرال غیر احمدی تھا.حضرت مصلح موعود نے ان کو نصیحت کی تھی کہ غیر احمدی رشتہ داروں کا ہمیشہ خیال رکھنا اور کہتی ہیں کہ امی نے ساری زندگی اس نصیحت پر خوب عمل کیا اور ابا کے ساتھ غیر احمدی رشتہ دار جو صرف رشتہ دار ہی نہیں تھے بلکہ مختلف انداز میں مخالفت کا بھی اظہار کرتے تھے ان کی مخالفت کے باوجود ساری زندگی ان سے حسن سلوک رکھا اور آخر وفات کے وقت ان میں سے بعضوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان جیسا ہمارا ہمدرد اور خیر خواہ کوئی نہیں تھا.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 05 جون 2015 ء تا 11 جون 2015 ، جلد 22 شماره 23 صفحہ 05 09)
خطبات مسرور جلد 13 314 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015 ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 22 رمئی 2015 ء بمطابق 22 ہجرت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ: يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ (الحجرات:13) إِنَّ بَعْضَ الظَّنِ اثْمُ کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہوظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو، بچا کرو.یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.بدظنی کے بھیانک نتائج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ اس بارے میں فرمایا کہ: "فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنون فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے.اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے.جب پہلی ہی منزل پر خطا کی تو پھر منزل مقصود پر پہنچنا مشکل ہے“.فرمایا: ”بدظنی بہت بری چیز ہے.انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتی ہے اور پھر چڑھتے چڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 107 ) ہے کہ انسان خدا پر بدظنی شروع کر دیتا ہے“.پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ: دوسرے کے باطن میں ہم تصرف نہیں کر سکتے ( یعنی کسی کے دل تک ہماری پہنچ نہیں ہوسکتی ) ” اور اس طرح کا تصرف کرنا گناہ ہے.انسان ایک آدمی کو بد خیال کرتا ہے اور پھر آپ اس سے بدتر ہو جاتا ہے.سو وطن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا.( بدظنی میں جلدی کرنا اچھا نہیں ہوتا ).” تصرف فی العباد ایک نازک امر ہے.(یعنی یہ خیال کرنا کہ ہماری لوگوں کے دلوں تک پہنچ ہے یہ بہت حساس
خطبات مسرور جلد 13 315 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015 ء معاملہ ہے بہت نازک چیز ہے.کیوں نازک اور حساس ہے؟ فرمایا اس لئے کہ ) اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا کہ انہوں نے انبیاء اور ان کے اہل بیت پر بدظنیاں کیں.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 266 265) اور پھر جیسا کہ پہلے فرمایا پھر خدا تعالیٰ پر بھی بدظنی شروع ہو جاتی ہے.ایسے ہی بدظنی کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض واقعات بیان فرما رہے ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگوں نے انبیاء اور اہل بیت پر بدظنیاں کیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے زمانے میں اس کا سب سے بڑا زیادہ سامنا کرنا پڑا.چنانچہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : مجھے اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور اسی نے اپنی تائید اور نصرت کو ہمیشہ میرے شامل حال رکھا ہے اور سوائے ایک نابینا اور مادرزاد اندھے کے اور کوئی نہیں جو اس بات سے انکار کر سکے کہ خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری مدد کے لئے فرشتے نازل کئے.اعتراض کرنے والوں کو فرما رہے ہیں کہ پس تم اب بھی اعتراض کر کے دیکھ لو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان اعتراضات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے.اس قسم کے اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی کئے گئے.چنانچہ ایک دفعہ جب کسی نے ایسا ہی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا ( یعنی چندہ دینے کے بارے میں ) کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ سلسلے کے لئے ایک کتبہ بھی بھیجو پھر دیکھو کہ خدا کے سلسلے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.فرمایا : میں بھی ان لوگوں کو اسی طریق پر کہتا ہوں کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ ایک پیسہ بھی سلسلہ کی مدد کے لئے دو.( جو اعتراض کرتے ہیں کہ غلط رنگ میں پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور خلیفہ وقت اس کو غلط خرچ کرتا ہے.ان کو فرمایا کہ ) گومیری عادت نہیں کہ میں سخت لفظ استعمال کروں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر تم میں ذرہ بھی شرافت باقی ہو تو اس کے بعد ایک دمری تک سلسلہ کے لئے نہ دو اور پھر دیکھو سلسلہ کا کام چلتا ہے یا نہیں چلتا.اللہ تعالیٰ غیب سے میری نصرت کا سامان پیدا فرمائے گا اور غیب سے ایسے لوگوں کو الہام کرے گا جو مخلص ہوں گے اور جو سلسلہ کے لئے اپنے اموال قربان کرنا باعث فخر سمجھیں گے.آپ فرماتے ہیں: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے اسی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے.(یعنی اپنی اولاد کے بارے میں جو آپ کے پانچ بچے ہیں حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے) کہ مقبرے میں دفن ہونے کے بارے میں میرے اہل وعیال کی نسبت خدا تعالیٰ نے استثناء رکھا ہے.(حضرت ام المومنین اور آپ کے پانچ بچے ) اور وہ وصیت کے بغیر بہشتی مقبرے میں داخل ہوں گے اور جو شخص اس پر اعتراض کرے گا وہ منافق ہوگا.فرماتے ہیں اگر ہم لوگوں کا
خطبات مسرور جلد 13 316 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015 ء روپیہ کھانے والے ہوتے تو امتیازی نشان کیوں قائم فرماتا اور بغیر وصیت کے ہمیں مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کی کیوں اجازت دیتا.پس جو ہم پر حملہ کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے وہ خدا پر حملہ کرتا ہے.مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ باغ میں گئے اور فرمایا مجھے یہاں چاندی کی بنی ہوئی قبر میں دکھلائی گئی ہیں اور ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ یہ تیری اور تیرے اہل وعیال کی قبریں ہیں اور اسی وجہ سے وہ قطعہ آپ کے خاندان کے لئے مخصوص کیا گیا ہے.گو یہ خواب اس طرح چھپی ہوئی نہیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ خواب اس طرح چھپی ہوئی نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اسی طرح ذکر فر ما یا.پس خدا نے ہماری قبریں بھی چاندی کی کر کے دکھا دیں اور لوگوں کو بتادیا کہ تم تو کہتے ہو یہ اپنی زندگی میں لوگوں کا روپیہ کھاتے ہیں اور ہم تو ان کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو ان کے ذریعہ سے فیض پہنچائیں گے.یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم فیض پہنچا ئیں گے.پس اللہ تعالیٰ ہماری مٹی کو بھی چاندی بنا رہا ہے اور تم اعتراضات سے اپنی چاندی کو بھی مٹی بنا رہے ہو.فرماتے ہیں کہ چونکہ منافق عام طور پر پوشیدہ باتیں کرنے کا عادی ہوتا ہے اس لئے میں نے کھلے طور پر ان باتوں پر روشنی ڈال دی ہے ورنہ مجھے اس بات سے سخت شرم آتی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے لئے کچھ چندہ دوں اور پھر کہتا پھروں کہ میں نے اتنا چندہ دیا ہے.مگر چونکہ آپ کے زمانے میں یہ ایک سوال اٹھایا گیا جیسا کہ میں نے کہا آپ کو سب سے زیادہ مخالفین اور منافقین کا سامنا کرنا پڑا تھا.گو اکا دُکا اب بھی سوال اٹھاتے رہتے ہیں لیکن اس زمانے میں بہت شدت تھی.فرمایا کہ چونکہ ایک سوال اٹھایا گیا تھا اس لئے مجھے مجبوراً بتانا پڑا کہ اگر اپنے تمام خاندان کا چندہ ملا لیا جائے تو اس رقم سے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں نے کھالی پانچ گنا زیادہ رقم ہم چندے میں دے چکے ہیں اور جو رقم صرف میرے اہل و عیال کی طرف سے خزانے میں داخل ہوئی ہے وہ بھی اس سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عظمند یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ ہم نے پانچ گنا زیادہ رقم اس لئے خرچ کی تا اس کا پانچواں حصہ کسی طرح کھا جائیں.پس ان لوگوں کو جو یہ اعتراض کرتے ہیں خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے اور اس وقت سے پیشتر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے جبکہ ان کا ایمان اڑ جائے اور وہ دہریہ اور مرتد ہوکرمریں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 189-188 ) بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ایسے لوگ ہر زمانے میں ہوتے ہیں لیکن آپ کو بہت زیادہ سامنا
خطبات مسرور جلد 13 317 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015ء کرنا پڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوا.اس بارے میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو ہم سے علیحدہ ہو گئے ہیں ان میں اپنے بھائیوں پر بدظنی کرنے کی عادت تھی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حضرت صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کی نسبت کہہ گزرے کہ آپ جماعت کا رو پیدا اپنے ذاتی مصارف پر خرچ کر لیتے ہیں.حضرت صاحب کو آخری وقت میں یہ بات معلوم ہو گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے آخری زندگی کے دنوں میں یہ بات معلوم ہوگئی تھی اور آپ نے مجھے فرمایا ( یعنی حضرت مصلح موعود کو ) کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ لنگر کے لئے جو روپیہ آتا ہے اسے میں اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کر لیتا ہوں مگر ان کو معلوم نہیں کہ لوگ جو میرے لئے نذروں کا روپیہ لاتے ہیں ( یعنی اس بات کے لئے لاتے ہیں کہ آپ نے ذاتی طور پر خرچ کرنی ہے) میں تو اس میں سے بھی لنگر کے لئے خرچ کرتا ہوں.چنانچہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں میں آپ کے منی آرڈرلا یا کرتا تھا اور مجھے خوب معلوم ہے کہ لنگر کا روپیہ بہت تھوڑا آیا کرتا تھا اور اتنا تھوڑا آیا کرتا تھا کہ اس سے خرچ نہ چل سکتا تھا.حضرت صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ اگر میں لنگر کا انتظام ان لوگوں کے سپر د کر دوں ( یعنی جو اعتراض کرنے والے ہیں یا اپنے آپ کو انجمن کے سرکردہ سمجھتے ہیں ) تو یہ کبھی اس کے اخراجات کو پورا نہ کرسکیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک بدظنی کا خمیازہ بھگتا جارہا ہے کہ لنگر کا فنڈ ہمیشہ مقروض رہتا ہے.(ماخوذ از الحکم جوبلی نمبر 28 دسمبر 1939 ، صفحہ 13 جلد 42 نمبر 31 تا40) ایک لمبا عرصہ اس بدظنی کا خمیازہ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ ہم بڑا اچھا انتظام چلا سکتے ہیں وہ بھگتتے رہے اور انجمن بھی مقروض رہی.لیکن کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ئیں بھی جماعت کے ساتھ تھیں.اب جو جماعت کو کشائش ہے یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا نتیجہ ہے.یہ کسی کی ذاتی کوشش نہیں ہے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کالنگر بھی دنیا کے ہر ملک میں چل رہا ہے.پھر ایک واقعہ جس کا تعلق روحانیت کے ساتھ ہے.انبیاء کی زندگی اور ان کے بعد کی زندگی، انبیاء کے زمانے میں جماعت کی حالت اور ان کے بعد جماعت کی حالت سے جس کا تعلق ہے وہ بھی بیان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ اپنے نبی دنیا میں اس لئے بھیجتا ہے کہ دنیا میں جو روحانی انحطاط شروع ہو چکا ہے اس کی اصلاح کرے.جو روحانی طور پر گراوٹ لوگوں میں آگئی ہے اس کی اصلاح کرے.انبیاء اس لئے
خطبات مسرور جلد 13 318 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015ء آتے ہیں اور لوگوں کو روحانی ترقیات تک لے کر جاتے ہیں.گوجب انبیاء کے ماننے والوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے تو ان کے ماننے والوں کو روحانی ترقیات کے ساتھ ساتھ مادی ترقیات بھی ملتی ہیں لیکن مادی اور دنیاوی ترقیات کے معیار نبی کی زندگی کے بعد بہت بڑھ جاتے ہیں.یہی ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انبیاء کی زندگی میں بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں بھی.تاہم روحانی ترقی کے لحاظ سے نبی کا زمانہ جو اپنا مقام رکھتا ہے وہ بعد میں آنے والا زمانہ نہیں رکھ سکتا.روحانی ترقی نبی کے زمانے میں بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور مادی ترقی بہت کم.بعد میں دنیاوی ترقی ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ملتی ہے لیکن روحانیت میں کمی ہو جاتی ہے.اس بات کی ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضاحت فرمائی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا.فرماتے ہیں کہ نبی کی وفات کے معا بعد سے روحانی لحاظ سے رات کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے نبی کی وفات طلوع فجر پر دلالت کرتی ہے اور معاً بعد سے طلوع آفتاب یعنی ظاہری کامیابیوں کا نظارہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے.ایسا ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا.ایسا ہی مسیح ناصری اور موسیٰ کے زمانے میں ہوا اور ایسا ہی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ہوا.آپ کے زمانے میں جو آخری جلسہ ہوا اس میں سات سو آدمی جمع ہوئے تھے.(اور اس وقت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرما یا وہ سننے کے قابل ہے.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے آپ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے تو ریتی چھلہ میں جہاں بڑ کا درخت ہے وہاں لوگوں کی کثرت اور ان کے اثر دہام کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کام ختم ہو چکا ہے کیونکہ اب غلبے اور کامیابی کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں.پھر آپ بار بار احمدیت کی ترقی کا ذکر کرتے اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو کس قدر ترقی بخشی ہے.اب تو ہمارے جلسے میں سات سو آدمی شامل ہونے کے لئے آ گئے ہیں.( یعنی اس وقت آپ نے فرمایا کہ اتنے آدمی آگئے ہیں لگتا ہے اب میرا کام ختم ہو گیا.) یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا تھا وہ پورا ہو چکا ہے اب احمدیت کو کوئی مٹا نہیں سکتا.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9 صفحه 340) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں یہ تھا آپ کا توکل اور اللہ تعالیٰ پر یقین.جب سات سو آدمی جلسے پر آگئے تو آپ نے فرما دیا کہ اب اتنی تعداد ہو گئی کہ احمدیت کو
خطبات مسرور جلد 13 319 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015 ء کوئی مٹا نہیں سکتا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں احمدیت پہنچی ہوئی ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جب لنگر خانے کا خرچہ بڑھا اور کثرت سے قادیان میں مہمان آنے شروع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاص طور پر یہ فکر پیدا ہو گیا کہ اب ان اخراجات کے پورا ہونے کی کیا صورت ہو گی.مگر اب یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ایک احمدی لنگر خانے کا سارا خرچ دے سکتا ہے.(اب یہ حضرت مصلح موعود کے زمانے کی بات ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزید وسعت پیدا ہو چکی ہے.) فرماتے ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلے کے متعلق اپنی پیشگوئیوں کی اشاعت فرمائی تو قادیان میں کثرت سے احمدی دوست آگئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی دوستوں سمیت باغ میں تشریف لے گئے اور وہاں خیموں میں رہائش شروع کر دی.چونکہ ان دنوں قادیان میں زیادہ کثرت سے مہمان آنے لگ گئے تھے.ایک دن آپ نے ہماری والدہ سے فرمایا کہ اب تو روپے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.(بہت زیادہ اخراجات شروع ہو گئے ہیں.) میرا خیال ہے کہ کسی سے قرض لے لیا جائے.( یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کیونکہ اب اخراجات کے لئے کوئی روپیہ پاس نہیں رہا.تھوڑی دیر کے بعد آپ ظہر کی نماز کے لئے تشریف لے گئے.جب واپس آئے تو اس وقت مسکرا رہے تھے.واپس آنے کے بعد پہلے آپ کمرے میں تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے اور والدہ سے فرمایا کہ انسان باوجود خدا تعالیٰ کے متواتر نشانات دیکھنے کے بعض دفعہ بدظنی سے کام لیتا ہے.میں نے خیال کیا تھا کہ لنگر کے لئے روپیہ نہیں.اب کہیں سے قرض لینا پڑے گا مگر جب میں نماز کے لئے گیا تو ایک شخص جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ آگے بڑھا اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی.میں نے اس کی حالت دیکھ کر سمجھا کہ اس میں کچھ پیسے ہوں گے.(بھاری تھی اس لئے coins کی وجہ سے سکوں کی وجہ سے اس میں وزن آ گیا اور چند پیسے ہوں گے ) مگر جب گھر آ کر اسے کھولا تو اس میں سے کئی سو روپیہ نکل آیا.اب دیکھو وہ روپیہ آج کل کے چندوں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا تھا.آج اگر کسی کو کہا جائے کہ تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا ایک دن نصیب کیا جاتا ہے بشرطیکہ تم لنگر کا ایک دن کا خرچ دے دو تو وہ کہے گا ایک دن کا خرچ نہیں تم مجھ سے سارے سال کا خرچ لے لولیکن خدا کے لئے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا ایک دن دیکھنے دو.مگر آج کسی کو وہ بات کہاں نصیب ہو سکتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں قربانی
خطبات مسرور جلد 13 کرنے والوں کو نصیب ہوئی.320 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015ء (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9 صفحه 341) بیشک قربانیاں بڑھ گئیں لیکن اس زمانے کا ایک اپنا مقام تھا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے قرآن پر ایک چھوٹا سا نوٹ تحریر کیا جو ان قلبی کیفیات کو خوب ظاہر کرتا ہے جو نبی کے زمانے دیکھنے والوں کے اندر پائی جاتی ہیں.میں نے سلام پر نوٹ لکھا ہے.یعنی اس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے.سورۃ القدر کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آہ! مسیح موعود کا وقت.اس وقت تھوڑے تھے.( یہ نوٹ لکھا ہوا تھا) آہ! مسیح موعود کا وقت.اس وقت تھوڑے تھے مگر امن تھا.بعد میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی ترقیات دی ہیں مگر یہ ترقیات اس زمانے کا کہاں مقابلہ کر سکتی ہیں جو مسیح موعود کا زمانہ تھا.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 9 صفحه 340) بیشک آج دنیوی لحاظ سے لوگ ہماری بات زیادہ سنتے ہیں.زیادہ لوگوں تک ہماری پہنچ ہے.بڑے بڑے سیاستدانوں تک اور حکومتوں تک کو بھی ہم بات سنا دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے لحاظ سے مالی طور پر بھی جماعت زیادہ مضبوط ہے.آج ایک ایک آدمی جتنا چندہ دیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں سال بلکہ دو سال میں بھی اتنا چندہ نہیں آتا تھا مگر اس کے باوجود یہ کوئی نہیں کہ سکتا کہ یہ زمانہ اس زمانے سے بہتر ہے.لیکن اس کے باوجود ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بن سکتے ہیں.گو وہ زمانہ تو نہیں دیکھ سکتے.اگر ہمارے اندر یہ جذ بہ اور جوش پیدا ہو جائے کہ ہم نے آپ کے مشن کی تکمیل میں اسی طرح اخلاص اور وفا سے کام کرنا ہے.جو آپ روح پھونکنا چاہتے تھے اور اس روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش کرنی ہے جو آپ نے اپنے صحابہ میں پیدا کی.حضرت مصلح موعود کے بعض اور حوالے بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور آپ کے زمانے سے ہی متعلق ہیں وہ پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کا جو عشق تھا اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا.آپ کے دیکھنے والوں کو آپ سے جو محبت تھی اس کا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو بعد میں آئے یا جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں عمر چھوٹی تھی.( آپ کے زمانہ میں تھے لیکن عمر چھوٹی تھی ،اتنا شعور نہیں تھا.فرمایا مگر مجھے خدا تعالیٰ نے ایسا دل دیا تھا کہ میں بچپن سے ہی ان باتوں کی طرف متوجہ تھا.میں نے ان لوگوں کی
خطبات مسرور جلد 13 321 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کا اندازہ لگایا ہے جو آپ کی صحبت میں رہے.میں نے سالہا سال ان کے متعلق دیکھا ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جدائی کی وجہ سے اپنی زندگی میں کوئی لطف محسوس نہ ہوتا تھا اور ( حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ) دنیا میں کوئی رونق نظر نہ آتی تھی.فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول جن کے حوصلے کے متعلق جو لوگ واقف ہیں جانتے ہیں کہ کتنا مضبوط اور قوی تھا.وہ اپنے غموں اور فکروں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے مگر انہوں نے کئی دفعہ جبکہ آپ اکیلے ہوتے اور کوئی پاس نہ ہوتا مجھے کہا میاں! جب سے حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں مجھے اپنا جسم خالی معلوم ہوتا ہے اور دنیا خالی خالی نظر آتی ہے.میں لوگوں میں چلتا پھرتا اور کام کرتا ہوں مگر پھر بھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز باقی نہیں رہی.آپ کے علاوہ کئی اور لوگوں کو بھی میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہے.ان کی محبت اور عشق ایسا بڑھا ہوا تھا کہ کوئی چیز انہیں لطف نہ دیتی اور وہ چاہتے کہ کاش ہماری جان نکل جائے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جاملیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 1 صفحہ 145-144) پھر ایک جگہ جماعتی کارکن جو ہیں خاص طور پر ایسے ممالک میں جہاں مہنگائی بھی بہت ہے اور غربت بھی بہت ہے ، ان کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا خدا سے مانگیں بجائے اس کے کہ انجمن پر کسی کی نظر ہو.اور اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک چھوٹی سی بات کی مثال حضرت مصلح موعود نے دی.فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بہت سردی محسوس ہوتی تھی اس لئے آپ مشک کھایا کرتے تھے.( یہ دیسی حکیموں کا نسخہ ہے.مشک کھانے سے سردی دور ہوتی ہے ) شیشی بھر کے جیب میں رکھ لیا کرتے تھے اور ضرورت کے وقت استعمال کر لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ایک شیشی (چھوٹی سی شیشی جیب میں آجاتی ہے ).دو دو سال تک چلتی ہے.لیکن جب خیال آتا ہے کہ مشک تھوڑی رہ گئی ہے اور شیشی دیکھتا ہوں تو وہ ختم ہو جاتی ہے.(جب تک دیکھا نہیں جاتا ، کھاتے رہتے ہیں اور اس میں برکت پڑتی رہتی ہے.فرمایا کہ جب میں دیکھتا ہوں تو کچھ عرصہ بعد ختم ہو جاتی ہے.حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب سے رزق بھیجتا ہے اور اس کے رزق بھیجنے کے طریقے نرالے ہیں.پس تم اس ذات سے مانگو جس کا خزانہ خالی نہیں ہوتا.انجمن سے کیوں مانگتے ہو جس کے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ وہ تمہارے گزارے بڑھا سکے.پس تم خدا پرست بن جاؤ.( خدا تعالیٰ کی عبادت کرو.) خدا تعالیٰ غیب سے تمہیں رزق بھیج دے گا.(اُس سے مانگو.) صدر انجمن
خطبات مسرور جلد 13 322 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015 ء احمدیہ کے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ وہ تمہیں زیادہ گزارہ دے سکے.آخر اس کے پاس جو روپیہ آتا ہے وہ جماعت کے چندوں سے ہی آتا ہے اور وہ اس قدر زیادہ نہیں ہوتا.(ماخوذ از الفضل 18 فروری 1956 ، صفحہ 5 جلد 45 / 10 نمبر (42) کارکنان کو خدا کا شکر اور توکل کی نصیحت ان ملکوں میں جیسا کہ میں نے کہا مہنگائی زیادہ ہے بعض دفعہ بعض لوگوں کے ایسے حالات ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا گزارہ نہیں ہوتا اور بعض مجھے خطوں میں لکھتے بھی ہیں.مجھے علم ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستان ہندوستان وغیرہ میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور کارکنوں کے جو الاؤنس ہیں ان سے گزارے مشکل سے ہوتے ہیں.لیکن جو زیادہ سے زیادہ گنجائش کے مطابق سہولت دی جا سکتی ہے وہ دی جاتی ہے.ایسے لوگوں کو ان لوگوں کی طرف بھی دیکھنا چاہئے جو انتہائی غربت میں گرفتار ہیں.بیماری کی صورت میں بچوں کے اور اپنے علاج کی بھی توفیق نہیں.پس اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہئے اور اس پر تو گل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور اس کی طرف اپنی ضروریات کے لئے جھکنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ ادھر اُدھر دیکھا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے ذکر میں ایک پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ سینکڑوں پیشگوئیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد میں پوری ہوئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا بین ثبوت بنیں.مثلاً میرے متعلق ہی آپ کی یہ پیشگوئی تھی کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.اب آپ لوگ دیکھ لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی زندگی میں آپ کی کس قدر جائداد تھی.آپ نے مخالفین کو انعامی چیلنج کرتے ہوئے لکھا کہ میں اپنی جائداد جو دس ہزار روپیہ مالیت کی ہے پیش کرتا ہوں.گویا اس وقت آپ کی جائداد صرف دس ہزار روپیہ کی تھی لیکن اب وہ لاکھوں روپے کی ہو چکی ہے.یہ دولت کہاں سے آئی ہے؟ یہ سب خدا تعالیٰ کا فضل ہے.ورنہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جب نانا جان (حضرت میر ناصر نواب صاحب ) نے ہماری زمینوں سے تعلق رکھنے والے کاغذات واپس کئے.(پہلے حضرت مسیح موعود کے زمانے میں ان کے سپرد انتظام تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعود کو کاغذ واپس کر دیئے.) تو میں اپنے آپ کو اتنا بے بس محسوس کرتا کہ میں حیران تھا کہ کیا کروں.اتفاق سے شیخ نوراحمد صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو ایک ملازم کی ضرورت ہے.آپ مجھے رکھ لیں.(زمین کا
خطبات مسرور جلد 13 323 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015 ء انتظام سنبھالنے کے لئے مینجر کی ضرورت ہے.میں نے کہا میں تنخواہ کہاں سے دوں گا؟ میرے پاس تو نہ کوئی رقم ہے جس سے تنخواہ دے سکوں اور نہ جائداد سے اتنی آمد کی توقع ہے.انہوں نے کہا آپ جو چھوٹی سے چھوٹی تنخواہ دینا چاہتے ہیں وہ دے دیں.اور پھر انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ آپ مجھے دس روپیہ ماہوار ہی دے دیں.چنانچہ میں نے انہیں ملازم رکھ لیا اور یہ خیال کیا کہ چلو اس قدر تو آمد ہو ہی جائے گی.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ جوں جوں شہر ترقی کرتا گیا اس جائداد کی قیمت بھی بڑھتی چلی گئی.جب قرآن کریم کے پہلے ترجمے کے چھپوانے کا سوال پیدا ہوا.( کچھ لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ پیسہ کہاں خرچ کیا یا کہاں سے آیا تو اس کا جواب بھی اس میں آ گیا.فرماتے ہیں کہ جب قرآن کریم کے پہلے ترجمے کے چھپوانے کا سوال پیدا ہوا تو میں نے چاہا کہ اس ترجمے کی اشاعت کا سارا خرچ ہمارا خاندان ہی برداشت کرے.(یعنی آپ اور آپ کے بھائی بہن.) میں نے اس وقت شیخ نور احمد صاحب کو بلوایا اور ان سے کہا کہ اس وقت مجھے دو ہزار روپے کی ضرورت ہے.کیا اس قدر روپیہ مہیا ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ زمین کا کچھ حصہ مکانات کے لئے فروخت کرنے کی اجازت دے دیں تو پھر جتنا چاہیں روپیہ آ جائے گا.چنانچہ میں نے کچھ زمین فروخت کرنے کی اجازت دے دی.یہ زمین پچاس کنال کے قریب تھی اور اس جگہ واقع تھی جہاں بعد میں محلہ دارالفضل آباد ہوا.تھوڑی دیر کے بعد شیخ صاحب آئے اور ان کے ہاتھ میں روپوں کی تھیلی تھی.انہوں نے کہا یہ دو ہزار روپیہ ہے اور اگر آپ کو دس ہزار کی بھی ضرورت ہو تو وہ بھی مل سکتا ہے.میں نے کہا مجھے اس وقت اتنے ہی روپے کی ضرورت تھی ( کیونکہ قرآن کریم کی اشاعت کے لئے روپیہ چاہئے تھا) زیادہ کی ضرورت نہیں.چنانچہ قادیان کا جو محلہ دارالفضل ہے اس کے بارے میں آپ فرمارہے ہیں کہ اس طرح اس محلے کی بنیاد پڑی اور وہ رو پیدا شاعت قرآن میں دے دیا گیا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 682-681) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قادیان سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محبت تھی اور کس طرح آپ دیکھا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ جن مقاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے متبرک بنادیئے جاتے ہیں.قادیان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے.یہاں خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ مبعوث ہوا اور اس نے یہاں ہی اپنی ساری عمر گزاری اور اس جگہ سے وہ محبت رکھتا تھا.چنانچہ اس موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور گئے ہوئے تھے.( جب حضرت مسیح موعود آخری بیماری کے دنوں میں یا آخری دنوں میں لاہور گئے
خطبات مسرور جلد 13 324 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015 ء ہیں وہیں وفات ہوئی ہے) اور آپ کا وصال ہو گیا ہے.ایک دن آپ نے مجھے ایک مکان میں بلا کر فرمایا کہ محموددیکھو یہ دھوپ کیسی زردی معلوم ہوتی ہے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں مجھے تو ویسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسی ہر روز دیکھتا تھا تو میں نے کہا کہ نہیں اسی طرح کی ہے جس طرح ہر روز ہوا کرتی ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا نہیں یہاں کی دھوپ کچھ زرد اور مدھم سی ہے.قادیان کی دھوپ بہت صاف اور عمدہ ہوتی ہے.چونکہ آپ نے قادیان میں ہی دفن ہونا تھا اس لئے آپ نے یہ ایک ایسی بات فرمائی جس سے قادیان سے آپ کی محبت اور الفت کا پتا لگتا ہے.(ماخوذ از انوار خلافت، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 175) پھر ایک اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں جو گھڑ سواری سے تعلق رکھتا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سائیکل چلانے اور گھڑ سواری کے مقابلے کا موازنہ کس طرح کیا.فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک گھوڑی خرید کر دی.در حقیقت وہ خرید تو نہ کی گئی تھی بلکہ تحفہ بھیجی گئی تھی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے لڑکوں کو سائیکل پر سواری کرتے ہوئے دیکھا تو میرے دل میں بھی سائیکل کی سواری کا شوق پیدا ہوا.میں نے اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں کیا.آپ نے فرمایا مجھے سائیکل کی سواری تو پسند نہیں، میں تو گھوڑے کی سواری کو مردانہ سواری سمجھتا ہوں.میں نے کہا اچھا آپ مجھے گھوڑا ہی لے دیں.آپ نے فرما یا پھر مجھے گھوڑا بھی وہ پسند ہے جو مضبوط اور طاقتور ہو.اس سے غالباً آپ کا منشاء یہ تھا کہ میں اچھا سوار بن جاؤں گا.تو آپ نے کپور تھلے والے عبدالمجید خان صاحب کو لکھا کہ اچھا گھوڑا خرید کر بھجوا دیں.خانصاحب کو اس لئے لکھا کہ ان کے والد صاحب ریاست کے اصطبل کے انچارج تھے اور ان کا خاندان گھوڑوں سے اچھا واقف تھا.انہوں نے ایک گھوڑی خرید کر تحفہ بھجوا دی اور قیمت نہ لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات کا اثر لازمی طور پر ہمارے اخراجات پر بھی پڑنا تھا اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اس گھوڑی کو فروخت کر دیا جائے.( پہلے حصے میں یہ آ گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سواری کی preference پھر آگے حضرت مصلح موعود نے اپنے حالات کا بھی ذکر کیا اور وہ واقعہ اب پورا ہی بیان کر دیتا ہوں کہ اس گھوڑی کو فروخت کر دیا جائے تا کہ اس کے اخراجات کا بوجھ والدہ صاحبہ پر نہ پڑے ( کیونکہ اس کے بعد آمد کے ذرائع کم تھے اور حضرت اماں جان اُم المومنین پر بوجھ پڑتا تھا.) -
خطبات مسرور جلد 13 325 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015ء فرمایا کہ مجھے ایک دوست نے جن کو میرا یہ ارادہ معلوم ہو گیا تھا اور جو اب بھی زندہ ہیں کہلا بھیجا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحفہ ہے اسے آپ بالکل فروخت نہ کریں.اس وقت میری عمر انیس سال کی تھی.وہ جگہ جہاں یہ بات کہی گئی تھی اب تک یاد ہے.میں اس وقت ڈھاب کے کنارے تشخیذ الا ذہان کے دفتر سے جنوب مشرق کی طرف کھڑا تھا.جب مجھے یہ کہا گیا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود کا تحفہ ہے اس لئے اسے فروخت نہ کرنا چاہئے تو بغیر سوچے سمجھے معا میرے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے کہ بیشک یہ تحفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے مگر اس سے بھی بڑا تحفہ ام المومنین ہیں.میں گھوڑی کی خاطر حضرت اُم المومنین کو تکلیف دینا نہیں چاہتا.چنانچہ میں نے گھوڑی فروخت کر دی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 29 صفحہ 32-31) اس سے جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجاہدانہ رجحان کا بھی پتا چلتا ہے کہ آپ نے گھوڑے کی سواری کو پسند کیا ، باقی چیزوں پر ترجیح دی اور حضرت مصلح موعود کے حضرت اُم المومنین کے لئے جو جذبات اور احساسات تھے ان کا بھی پتا لگتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود کی وفات اور اپنی حالت کا ذکر کرتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو یہ سمجھا گیا کہ آپ اچانک فوت ہو گئے ہیں.لیکن مجھے پہلے سے اس کے متعلق کچھ ایسی باتیں معلوم ہو گئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بڑا انقلاب آنے والا ہے.مثلاً میں نے رویا میں دیکھا کہ میں بہشتی مقبرہ سے ایک کشتی پر آ رہا ہوں.رستے میں پانی اس زور شور کا تھا کہ تخت بھنور پڑنے لگا اور کشتی خطرے میں پڑ گئی جس سے سب لوگ جو کشتی میں بیٹھے تھے ڈرنے لگے.جب ان کی یہ حالت مایوسی تک پہنچ گئی تو پانی میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک تحریر تھی جس میں لکھا تھا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے ان سے درخواست کرو تو کشتی نکل جائے گی.میں نے کہا یہ تو شرک ہے خواہ ہماری جان چلی جائے ہم اس طرح نہیں کریں گے.اتنے میں خطرہ اور بھی بڑھ گیا اور ساتھ والوں میں سے بعض نے کہا کہ کیا حرج ہے ایسا کر دیا جائے.اور انہوں نے پیر صاحب کو چھٹی لکھ کر بغیر میرے علم کے پانی میں ڈال دی.( خواب میں یہ نظارہ نظر آ رہا ہے.) جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے اس چھٹی کو کود کر نکال لیا.( فوراً پانی میں چھلانگ لگائی اور اس خط کو نکال لیا) اور جونہی میں نے ایسا کیا وہ کشتی چلنے لگ گئی اور کوئی خطرہ نہیں رہا.سب خطرہ جاتا رہا.فرماتے ہیں کہ جب حضرت صاحب فوت ہوئے اس وقت خدا تعالیٰ نے میرا دل نہایت مضبوط کر دیا اور فوراً میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ اب ہم پر بہت
خطبات مسرور جلد 13 326 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015ء بڑی ذمہ داری آپڑی ہے اور میں نے اسی وقت عہد کیا کہ الہی میں تیرے مسیح موعود کی لاش پر کھڑا ہو کر اقرار کرتا ہوں کہ خواہ اس کام کے کرنے کے لئے دنیا میں ایک بھی انسان نہ رہے پھر بھی میں کرتا رہوں گا.اس وقت مجھ میں ایک ایسی قوت آ گئی کہ میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.(ماخوذ از خطاب جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1919 ء ، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 524-523) پھر اس کی ایک جگہ ذرا تفصیل بیان کرتے ہوئے اور جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ تکالیف اور مصائب سے گھبرانا نہیں چاہئے.فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو میں نے لوگوں کی طرف سے اس قسم کی آوازیں سنیں کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے.ایسا کہنے والے یہ تو نہیں کہتے تھے کہ نعوذ باللہ آپ جھوٹے ہیں مگر یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح نہیں پہنچایا اور پھر آپ کی بعض پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں.میری عمر اُس وقت (جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ) انیس سال تھی.میں نے جب اس قسم کے فقرات سنے تو میں آپ کی لاش کے سرہانے جا کر کھڑا ہو گیا.میں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی کہ اے خدا یہ تیرا محبوب تھا.جب تک یہ زندہ رہا اس نے تیرے دین کے قیام کے لئے بے انتہا قربانیاں کیں.اب جبکہ تو نے اسے اپنے پاس بلا لیا ہے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کی وفات بے وقت ہوئی ہے.ممکن ہے ایسا کہنے والوں یا ان کے باقی ساتھیوں کے لئے اس قسم کی باتیں ٹھوکر کا موجب ہوں اور جماعت کا شیرازہ بکھر جائے.اس لئے اے خدا میں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی تیرے دین سے پھر جائے تو میں اس کے لئے اپنی جان لڑا دوں گا.اُس وقت میں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے اور یہی ایک چیز تھی جس نے انیس سال کی عمر میں ہی میرے دل کے اندر ایک ایسی آگ بھر دی کہ میں نے اپنی ساری زندگی دین کی خدمت پر لگا دی اور باقی تمام مقاصد کو چھوڑ کر صرف یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس کام کے لئے تشریف لائے تھے وہ اب میں نے ہی کرنا ہے.وہ عزم جو اس وقت میرے دل کے اندر پیدا ہوا تھا آج تک میں اس کو نت نئی چاشنی کے ساتھ اپنے اندر پاتا ہوں اور وہ عہد جو اُس وقت میں نے آپ کی لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا وہ خضر راہ بن کر مجھے ساتھ لئے جاتا ہے.میرا وہی عہد تھا جس نے آج تک مجھے اس مضبوطی کے ساتھ اپنے ارادے پر قائم رکھا کہ مخالفت کے سینکڑوں طوفان میرے خلاف اٹھے مگر وہ اس چٹان کے ساتھ ٹکرا کر اپنا ہی سر پھوڑ گئے جس پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا تھا اور مخالفین کی ہر کوشش ہر منصو بہ اور ہر شرارت جو انہوں نے میرے
خطبات مسرور جلد 13 327 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015 ء خلاف کی وہ خود انہی کے آگے آتی گئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ساتھ مجھے ہر موقع پر کامیابیوں کا منہ دکھایا یہاں تک کہ وہی لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے، آپ کے مشن کی کامیابیوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں.پس جو شخص یہ عہد کر لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ یہ کام میں نے ہی سرانجام دینا ہے اس کے رستے میں ہزاروں مشکلات پیدا ہوں، ہزاروں روکیں واقع ہوں، ہزاروں بنداس کے راستے میں حائل ہوں وہ ان سب کو عبور کرتا ہے اور اس میدان میں جا پہنچتا ہے جہاں کامیابی اس کے استقبال کے لئے کھڑی ہوتی ہے.(اب جماعت کے افراد کے لئے سنے والی نصیحت ہے ) پس ہماری جماعت کے ہر شخص کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ دین کا کام میں نے ہی کرنا ہے.اس عہد کے بعد ان کے اندر بیداری پیدا ہو جائے گی اور ہر مشکل ان پر آسان ہوتی جائے گی اور ہر عُسر اُن کے لئے ٹیسر بن جائے گی.( ہر تنگی ان کے لئے آسائش بن جائے گی.) ان کو بیشک بعض تکالیف اور مصائب اور آلام سے بھی دو چار ہونا پڑے گا مگر وہ اس میں عین راحت محسوس کریں گے.قرآن میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ دین کی تکمیل کے لئے صرف تم ہی میرے مخاطب ہو.تمہارے صحابہ اس کام میں حصہ لیں یا نہ لیں لیکن تم سے بہر حال میں نے کام لینا ہے.یہی وجہ تھی کہ آپ رات دن اسی کام میں لگے رہتے تھے اور آپ کی ہر حرکت اور آپ کا ہر سکون اور آپ کا ہر قول اور ہر فعل اس بات کے لئے وقف تھا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کیا جائے اور آپ اس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ اصل میں میرا ہی کام ہے، کسی اور کا نہیں.(ماخوذ از قومی ترقی کے دو اہم اصول، انوار العلوم جلد 19 صفحہ 75-74) اور یہی سنت ہے جس کو ہمیں اپنا نا ہوگا.پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور جماعت کی ترقی اور ہمارے فرائض کے بارے میں آپ نے اس طرح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے محض اپنے فضل سے مجھے اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی (جس کا ذکر ہو چکا ہے ) اور میں نے آپ علیہ السلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی تمام زندگی وقف کر دی جس کا نتیجہ آج ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں.ہزاروں لوگ جو اس سے پہلے شرک میں مبتلا تھے یا عیسائیت کا شکار ہو چکے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجنے لگ گئے ہیں.لیکن ان تمام نتائج کے باوجود یہ حقیقت ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا کی اس وقت سات ارب کے قریب آبادی ہے اور سب کو خدائے واحد کا پیغام پہنچانا اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ
خطبات مسرور جلد 13 328 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مئی 2015ء بگوشوں میں شامل کرنا جماعت احمدیہ کا فرض ہے.پس ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور بڑا بھاری بوجھ ہے جو ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا گیا ہے.اتنے اہم کام میں اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید اور نصرت کے سوا ہماری کامیابی کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی.ہم اس کے عاجز اور حقیر بندے ہیں اور ہمارا کوئی کام اس کے فضل کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا.(ماخوذ از الفضل 2 جنوری 1963 ، صفحہ 1 جلد 17/52 نمبر 2) پس اس کے فضلوں کو جذب کرنے کی ہمیں حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے.اس عہد کا حوالہ دیتے ہوئے جو آپ نے حضرت مسیح موعود کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا اور جو ہم سب کا عہد ہونا چاہئے کیونکہ اسی سے ترقیات ہوتی ہیں اور اسی میں ہم جماعت کا فعال حصہ بن سکتے ہیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اصل میں یہ خدا تعالیٰ سے ہے.حضرت مصلح موعود نے ایک جگہ فرمایا کہ جب ہم ایک انسان سے ایسا اقرار کر سکتے ہیں (جیسا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا) تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں ایسا اقرار نہیں کر سکتے کہ یا اللہ اگر تمام دنیا بھی تجھے چھوڑ دے مگر ہم تجھے کبھی نہیں چھوڑیں گے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 12 صفحہ 151.خطبہ جمعہ 19 جولائی 1929ء) پس یہ عہد ہے جو ہمیں ہر ایک کو کرنے کی ضرورت ہے.آج جبکہ دنیا میں دہریت کا بڑا زور ہے ہمیں اس عہد کو نئے سرے سے کرنے کی ضرورت ہے اور پر جوش طریقے سے نبھانے کی ضرورت ہے اور اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے.ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم شرک سے بھی دور رہیں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کی بھی بھر پور کوشش کریں گے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ جو ہم نے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو لہرانے کا عہد کیا ہے اسے بھی پورا کریں گے انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 12 جون 2015ء تا 18 جون 2015 ءجلد 22 شماره 24 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 329 22 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 29 رمئی 2015 ء بمطابق 29 ہجرت 1394 ہجری شمسی بمقام فرینکفرٹ جرمنی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی اس وقت تک جب تک اللہ تعالیٰ چاہے.پھر اس کے بعد خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.وہ خلافت قائم ہوگی جو نبی کے طریق پر چلنے والی ہوگی.اس کے ذاتی مفادات نہیں ہوں گے.وہ نبی کے کام کو آگے بڑھانے والی ہوگی.لیکن ایک عرصے کے بعد یہ خلافت جو راشد خلافت ہے ختم ہو جائے گی.یہ نعمت تم سے چھینی جائے گی.پھر ایسی بادشاہت قائم ہو جائے گی جس سے لوگ تنگی محسوس کریں گے.پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت ہو گی.پھر اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحه 285 مسند النعمان بن بشیر حدیث: 18596 عالم الكتب بيروت 1998ء) ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اسلام کی تاریخ میں مختلف ادوار میں آنے والے مسلمان سر براہان حکومت اپنے آپ کو خلفاء کہلاتے رہے.یہ بتاتے رہے کہ ان کا مقام خلیفہ کا مقام ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے جو پہلے چار خلفاء ہیں ان کو ہی خلفائے راشدین کا مقام دیتی ہے.انہی کا دور خلافت راشدہ کا دور کہلا تا ہے.یعنی وہ دور جو ہدایت یافتہ اور ہدایت پھیلانے والا دور تھا جو اپنے نظام کو اس طرح چلاتے رہے جس طرح انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چلاتے دیکھا.قرآنی تعلیمات کے مطابق اس نظام کو چلایا.خاندانی بادشاہت نہیں رہی بلکہ مومنین کی جماعت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کی رداء انہیں پہنائی.لیکن ان کے علاوہ باقی خلفاء خاندانی بادشاہت کو ہی قائم رکھتے رہے اور حرف بہ حرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات مسرور جلد 13 330 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی.جب پہلی دو باتوں میں یہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی تو جو آخری بات آپ نے بیان فرمائی اس میں بھی ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول نے ہی پورا ہونا تھا کہ اس دنیا داری اور مسلمانوں کے بگڑے ہوئے حالات کو دیکھ کر وہ خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تا قیامت قائم رہنے والی شریعت کے ساتھ بھیجا تھا اس کا رحم جوش مارتا اور خلافت علی مہاج نبوت کو دنیا میں دوبارہ قائم فرماتا.اور ہم احمدی یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے وعدے کے مطابق اپنے رحم کو جوش دلایا.اس کا رحم جوش میں آیا اور ہمارے آقا و مولیٰ کی بات کو پورا فرماتے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود کے ذریعہ خلافت علی منہاج نبوت کو قائم فرمایا.آپ کو جہاں اتنی نبی ہونے کا مقام عطا فر ما یا وہاں خاتم الخلفاء کے مقام سے بھی نوازا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلۂ خلافت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور خاتم الخلفاء کے ذریعہ سے ہی جاری ہونا ہے.پس ہم خوش قسمت ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوشخبری سے حصہ پانے والوں میں شامل ہیں جو آپ نے خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کی ہمیں عطا فرمائی تھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ جمعہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة: 4) کی وضاحت میں جن بعد میں آنے والوں کو پہلوں سے ملایا تھا ان میں ہم شامل ہوئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جس پیارے کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ ایمان ثریا سے زمین پر لے کر آئے گا.(صحیح البخاری کتاب التفسير سورة الجمعه باب قوله وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ 4897) ہمیں اس کے ماننے والوں میں شامل فرمایا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مسیح و مہدی کو اپنا سلام پہنچانے کے لئے کہا تھا (مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 182 مسند ابى هريرة حديث : 7957 عالم الكتب بيروت (1998ء) ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ یہ فرض ادا کرنے والوں میں شامل ہوں اور پھر جماعت احمد یہ مبائعین پر یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کے بعد جاری سلسلۂ خلافت کی بیعت میں بھی شامل فرمایا.پس اللہ تعالیٰ کے یہ تمام فضل ہر احمدی سے تقاضا کرتے ہیں کہ اس کا شکر گزار بنتے ہوئے اپنی حالتوں میں وہ تبدیلی لائیں جو اللہ تعالیٰ کے اس فرستادہ کے ماننے والوں کا فرض ہے.تبھی اس بیعت کا حق ادا کر سکیں گے.مسیح موعود اور مہدی معہود نے ایمان کو ثریا سے زمین پر لانا تھا اور اپنے ماننے والوں کے دلوں کو اس سے بھر نا تھا اور ہر احمدی یقینا اس بات کا گواہ ہے کہ آپ نے یہ کام کر کے دکھایا.لیکن اس
خطبات مسرور جلد 13 331 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء ایمان کا قائم کرنا صرف آپ کی زندگی تک محدود نہیں تھا یا چند دہائیوں تک محدود نہیں تھا بلکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت علی منہاج نبوت کی خوشخبری دے کر خاموشی اختیار کی تو پھر اس کا مطلب تھا کہ اس ایمان کو تاقیامت زمین پر اپنی شان و شوکت سے قائم رہنا ہے اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شمار کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ اس ایمان کو اپنے دلوں میں بٹھا کر اس پر ہمیشہ قائم رہے.یہ ان ماننے والوں کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کے طریق پر چلنے والے نظام خلافت کے ساتھ مجھڑ کر اس ایمان کے مظہر بنتے ہوئے اسے دنیا کے کونے کونے میں پھیلائیں اور تو حید کو دنیا میں قائم کریں.اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا اور اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے غلام صادق کو بھیجا ہے.اور اسی کام کی سرانجام دہی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے تاقیامت رہنے کی پیشگوئی فرمائی تھی.اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو اپنے اس دنیا سے جانے کی غمناک خبر کے ساتھ یہ خوشخبری بھی دی تھی اور فرمایا تھا کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوئے فرمایا ” کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا“.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305) پس ایمان کو زمین پر قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اس دوسری قدرت کو جاری فرمایا.اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ مخالفین دین خوش ہوں کہ دین دوبارہ دنیا سے ختم ہو گیا.اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ شیطان دندناتا پھرے.اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی جھوٹی خوشیوں کو پامال کرنا ہے.اس لئے اس نے ایمان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد جاری نظام خلافت کی مدد کرتے ہوئے دنیا میں قائم رکھنا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا بھی فرض قرار دیا ہے جو اس نظام سے جڑنے کا دعوی کرتے ہیں کہ اس ایمان کو دنیا میں قائم رکھنے کے لئے خلافت کے مددگار بنیں اور اپنے عہد بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تم ارادہ کریں کہ ہم نے اپنے ایمان کی بھی حفاظت کرنی ہے اور دوسروں کو بھی ایمان کی روشنی سے آشکار کرنا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے سنت ہے کہ وہ دو قدرتیں دکھلاتا ہے اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دوسری قدرت نظام خلافت
خطبات مسرور جلد 13 332 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015ء ہے.پس نظام خلافت کا دینی ترقی کے ساتھ ایک اہم تعلق ہے اور شریعت اسلامیہ کا یہ ایک اہم حصہ ہے.دینی ترقی بغیر خلافت کے ہو ہی نہیں سکتی.جماعت کی وحدت خلافت کے بغیر قائم رہ ہی نہیں سکتی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے ہر ایک جو خلافت سے وابستہ ہے اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ خلافت کا جماعت میں جاری رہنا ایمان کا حصہ ہے اور اس بات کو وہ لوگ بھی جانتے تھے جو جماعت میں حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر فتنہ اٹھانے والوں کی باتوں کو رد کر کے خلافت سے وابستہ رہنا چاہتے تھے.ان کو پتا تھا کہ ہمارا ایمان قائم رہ ہی نہیں سکتا اگر ہم میں نظام خلافت نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان لوگوں کی قربانیوں کی وجہ سے ان لوگوں کے ایمان میں پختگی کی وجہ سے آج ہم میں سے بہت سے جو ان بزرگوں کی نسلوں میں سے ہیں نظام خلافت کے فیض سے فیضیاب ہور ہے ہیں.اس سلسلے میں سب سے زیادہ کوشش اور قربانی حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے کی.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی پر الزام لگانے والوں نے بڑے بڑے الزام لگائے لیکن جو آپ کے دل کی کیفیت نظام خلافت کو بچانے کے لئے تھی اس کی ایک جھلک میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے الفاظ میں ہی آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اور فتنوں سے بچنے کے لئے ہمیں تاریخ پر بھی نظر رکھنی چاہئے.اسی طرح ایمان میں مضبوطی کے لئے بھی یہ ضروری ہے.یہ مضبوطی کا ذریعہ بنتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ جہاں حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے وفات پائی تھی یعنی اس گھر میں جس گھر میں اس کے ایک کمرے میں میں نے مولوی محمد علی صاحب کو بلا کر کہا کہ خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا پیش نہ کریں کہ ہونی چاہئے یا نہ ہونی چاہئے اور اپنے خیالات کو صرف اس حد تک محدود رکھیں کہ ایسا خلیفہ منتخب ہو جس کے ہاتھ میں جماعت کے مفاد محفوظ ہوں اور جو اسلام کی ترقی کی کوشش کر سکے.چونکہ صلح ایسے ہی امور میں ہوسکتی ہے جن میں قربانی ممکن ہو.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ میں نے مولوی صاحب سے کہا جہاں تک ذاتیات کا سوال ہے میں اپنے جذبات کو آپ کی خاطر قربان کر سکتا ہوں لیکن اگر اصول کا سوال آیا تو مجبوری ہوگی کیونکہ اصول کا ترک کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں.ہمارے اور آپ کے درمیان یہی فرق ہے کہ ہم خلافت کو ایک مذہبی مسئلہ سمجھتے ہیں اور خلافت کے وجود کو ضروری قرار دیتے ہیں.مگر آپ خلافت کے وجود کو نا جائز قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ابھی ابھی ایک خلیفہ کی بیعت سے آپ کو آزادی ملی ہے.یعنی مرا تھی کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول کی بیعت تو آپ لوگوں نے کی تھی اور اب ان کی وفات ہوئی ہے.آپ کو اس سے آزادی ملی ہے یعنی کہ حضرت خلیفہ اسی الاول کے بعد
خطبات مسرور جلد 13 333 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء اب آپ کہتے ہیں کہ ہمیں خلافت نہیں چاہئے اور ہم خلافت سے آزاد ہو گئے.حضرت مصلح موعود نے انہیں کہا کہ چھ سال تک آپ نے بیعت کئے رکھی اور جو چیز چھ سال تک جائز تھی وہ آئندہ بھی حرام نہیں ہو سکتی اور وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ کا حکم ہو وہ تو بالکل بھی نہیں ہوسکتی.آپ کی اور ہماری پوزیشن میں یہ ایک فرق ہے کہ آپ اگر اپنی بات کو چھوڑ دیں تو آپ کو وہی چیز اختیار کرنی پڑے گی جسے آپ نے اب تک اختیار کئے رکھا.یعنی خلیفتہ مسیح الاول کی بیعت کئے رکھی.لیکن ہم اگر اپنی بات چھوڑیں تو وہ چھوڑنی پڑے گی جسے چھوڑ نا ہمارے عقیدہ اور مذہب کے خلاف ہے اور جس کے خلاف ہم نے کبھی عمل نہیں کیا.پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ آپ وہ راہ اختیار کر لیں جو آپ نے آج تک اختیار کئے رکھی تھی اور ہمیں ہمارے مذہب اور اصول کے خلاف مجبور نہ کریں.باقی رہا یہ سوال کہ جماعت کی ترقی اور اسلام کے قیام کے لئے کون مفید ہوسکتا ہے سو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے حضرت مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ جس شخص پر آپ متفق ہوں گے اسے ہم خلیفہ مان لیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی اکثریت یہ چاہتی تھی کہ نظام خلافت قائم ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا واضح ارشاد جماعت کے سامنے تھا.جب یہ میٹنگ زیادہ لمبی ہو گئی.مولوی محمدعلی صاحب ضد کرتے چلے گئے تو لوگوں نے دروازے پیٹنے شروع کر دیئے اور شور مچایا کہ جلدی فیصلہ کریں اور ہماری بیعت لیں.بہر حال حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو میں نے کہا کہ آپ کے خدشات میں نے دُور کر دیئے ہیں اس لئے آپ کے سامنے اب یہ سوال ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو.یہ نہیں کہ خلیفہ ہونا نہیں چاہئے.اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ میں جانتا ہوں اس لئے آپ زور دے رہے ہیں کہ آپ کو پتا ہے کہ خلیفہ کون ہوگا.حضرت مصلح موعود نے کہا لیکن میں نے ان سے کہا کہ مجھے تو نہیں پتا کہ کون ہوگا.خلیفہ ثانی نے فرمایا کہ میں اس کی بیعت کرلوں گا جسے آپ یعنی مولوی محمد علی صاحب چنیں گے جب میں آپ کے منتخب کردہ کی بیعت کرلوں گا تو پھر کیونکہ خلافت کے مؤید یعنی خلافت کی تائید کرنے والے میری بات مانتے ہیں مخالفت کا خدشہ پیدا ہی نہیں ہوسکتا.لیکن مولوی صاحب نے نہ ماننا تھا نہ مانے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں.میں نے انہیں کہا کہ آپ جو بدظنیاں کرتے رہتے ہیں میرے پے.میں اپنا دل چیر کر آپ کو کس طرح دکھاؤں.میں تو جو قربانی میرے امکان میں ہے کرنے کو تیار ہوں اور پھر تھوڑی دیر بعد جب یہ دروازہ کھولا گیا باہر نکلے تو مولوی محمد احسن امروہی صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام پیش کیا اور جماعت نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ بیعت لیں.آپ نے
خطبات مسرور جلد 13 334 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء بڑا کہا کہ مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں.مولوی سرور شاہ صاحب نے غالباً کہا کہ میں پڑھتا جاتا ہوں اور یوں اس دوسری قدرت کے قائم ہونے میں یہ جو فتنہ پردازوں نے فتنہ ڈالنے کی کوشش کی تھی اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو پورا کرتے ہوئے ناکام و نامراد کر دیا اور خلافت علی منہاج نبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد دوسری مرتبہ پھر قائم فرما دی.اور جو خلافت سے دور ہٹے ہوئے تھے وہ بڑے دینی عالم بھی تھے، دنیاوی عالم بھی تھے، پڑھے لکھے بھی تھے، تجربہ کاربھی تھے، صاحب ثروت و حیثیت بھی تھے، انجمن کے تمام خزانے کو بھی اپنے قبضے میں کئے ہوئے تھے لیکن وہ لوگ ناکام و نامراد ہی ہوتے گئے.مولوی صاحب خلافت ثانیہ کے انتخاب کے بعد نہ صرف وہاں سے، قادیان سے چلے گئے بلکہ ان غیر مبائعین نے نظام خلافت کو ختم کرنے کے لئے بعد میں بھی بڑی فتنہ پردازیاں جاری رکھیں.لیکن ہمیشہ نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا.کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ خلافت کے نظام کو جاری رکھنے کا تھا.جب یہ لوگ ہر طرح سے ناکام ہو کر قادیان چھوڑ کر جارہے تھے اور خزانہ بھی بالکل خالی کر گئے تھے.جاتے ہوئے تعلیم الاسلام سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہے تھے کہ دس سال نہیں گزریں گے کہ ان عمارتوں پر آریوں اور عیسائیوں کا قبضہ ہوگا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 72 تا 75) خلافت کی برکت اور ترقیات لیکن دیکھیں اللہ تعالیٰ کس شان سے اپنے وعدے پورے فرماتا ہے.کس طرح اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرتا ہے.کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دی گئی خوشخبری کو نہ صرف پورا فرما تا ہے بلکہ آج تک ہر روز ایک نئی شان سے پورا فرما تا چلا جارہا ہے.وہ دس سال کی بات کرتے تھے کہ اس سے پہلے ہی آریہ اور عیسائی یہاں قبضہ کر لیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے کاموں کی اپنی شان ہے.وہ دس سال بھی گزر گئے اور اس کے بعد بھی کئی دہائیاں گزرگئیں اور آج اس بات کو 101 سال ہو گئے ہیں لیکن نہ صرف انتہائی نامساعد حالات کے باوجود قادیان ترقی کر رہا ہے جس میں پارٹیشن کا واقعہ بھی شامل ہے جب جماعت کو وہاں سے نکلنا پڑا اور صرف چند سو درویشوں کو وہاں درویشی کی زندگی گزارنے کے لئے چھوڑ دیا گیا.اور اب تو قادیان میں نئی سے نئی جدید عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں.ایک سکول پر قبضہ کرنے کی بات کرتے تھے.کئی کروڑ روپے کی لاگت سے نئے سکول بن رہے ہیں.تبلیغ کے کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بہت وسعت اختیار کر چکے ہیں اور پھر قادیان ہی نہیں دنیا کے بہت سے ممالک
خطبات مسرور جلد 13 335 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء میں خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ جماعت کی کئی کئی منزلہ عمارتیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ثبوت دے رہی ہیں.دنیا کے ہر مذہب کے افراد تک اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچ رہی ہے.پس یہ تائید ہے اللہ تعالیٰ کی خلافت احمدیہ کے ساتھ جس کے نظارے ہم روز دیکھ رہے ہیں.جرمنی بھی ان فیوض سے خالی نہیں ہے جو خلافت احمدیہ سے جڑنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ پہنچا رہا ہے.ابھی چند دن پہلے جماعت جرمنی کی دوذیلی تنظیموں انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ نے مل کر پانچ منزلہ عمارت خریدی جو ایک اعشاریہ سات ملین یاسترہ لاکھ یورو کی خریدی گئی.وہ خزانہ جس میں خلافت کے مخالفین نے ایک روپے سے بھی کم رقم چھوڑی تھی اور ہنتے تھے کہ دیکھیں اب کس طرح نظام چلے گا.اس خلافت سے وابستہ ایک ملک کی دو ذیلی تنظیموں نے آج ایک پانچ منزلہ وسیع عمارت تقریباً انیس کروڑ روپے سے بھی زیادہ مالیت خرچ کر کے خریدی ہے.اب یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلافت احمدیہ کی تائید نہیں تو اور کیا ہے.جو خلافت سے علیحدہ ہوئے ان کا مرکزی نظام بھی درہم برہم ہو گیا.ان کے نیک فطرت اس وقت بھی جب ان کو احساس ہوا اور آج بھی جب ان کو یا ان کی نسلوں کو احساس ہوتا ہے تو ان میں سے بھی جماعت احمد یہ مبائعین میں شامل ہو رہے ہیں اور خلافت کے جھنڈے تلے آ رہے ہیں.پھر آج دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام خلافت احمدیہ کے نظام کے تحت ہی ہو رہا ہے.جب دنیا میں اسلام کا نام بدنام کیا جا رہا ہے تو اسلام کی خوبصورت تصویر جماعت احمد یہ ہی دکھا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ خود بھی خلافت احمدیہ کی سچائی دنیا پر ثابت کر رہا ہے.بعض واقعات حیرت انگیز ہوتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو جماعت کی سچائی کے ساتھ خلافت کے ساتھ اپنی تائید و نصرت کے بارے میں بھی بتا تا ہے.صرف جماعت احمدیہ کی سچائی ہی نہیں بلکہ خلافت کے ساتھ بھی جو تائید ونصرت اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے وہ بھی غیروں کو دکھاتا ہے اور یوں سعید فطرتوں کے سینے کھولتا ہے.ایک دو باتوں کا ، واقعات کا میں یہاں ذکر کر دیتا ہوں.نائیجر افریقہ کا ایک ملک ہے وہاں کے ہمارے مبلغ نے لکھا کہ نو مبائعین کی ٹریننگ کلاس میں دس امام حضرات کے ساتھ ساتھ ایک گاؤں دو گونہ (Ougna) کے چیف بھی حاضر ہو گئے.جب ان سے پوچھا گیا کہ امام صاحب کے بجائے آپ خود کیوں آگئے ہیں؟ یہ کلاس تو امام حضرات کی ٹرینینگ کے لئے ہے تو انہوں نے بتایا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ اماموں کی کلاس ہے لیکن کل رات جب میں نے امام صاحب کو کلاس میں شامل ہونے کا پیغام دیا تو اس نے انکار کر دیا اور بتایا کہ مجھے شہر کے سنی علماء جو
خطبات مسرور جلد 13 336 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء وہابی تھے انہوں نے بتایا ہے کہ احمدی کا فر ہیں.یہ چیف کہتے ہیں کہ مجھے بڑی حیرانی ہوئی اور دکھ بھی ہوا کہ احمدی کا فر کیسے ہو سکتے ہیں اور یہ کہ اگر یہ کافر ہیں تو ان کو گاؤں میں تبلیغ کرنے کی اجازت تو بحیثیت چیف میں نے دی ہے.اس لئے میں تو دو گنا کافر ہو گیا.اس لئے میں نے رات کو بہت دعا کی.لوگ کہتے ہیں کہ افریقہ کے رہنے والے ان پڑھ لوگ ہیں، عقل نہیں.گاؤں میں رہنے والے یہ چیف زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کا خوف تھا سعید فطرت ہیں.کہتے ہیں میں نے رات بہت دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کرتے کرتے سو گیا.اس بات کی بڑے بڑے علماء کوسمجھ نہیں آتی.پھر انہوں نے حلفیہ بیان دیا کہ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر میں پہلے آسمان سے ستارے اتر آئے ہیں اور پھر ان کے پیچھے پیچھے چاند.میں ان کو پاس سے دیکھ رہا ہوں مگر ان میں روشنی نہیں ہے اور پھر اچانک آسمان سے ایک سفید کپڑوں میں ملبوس شخصیت میرے گھر میں اترتی ہے اور اس گھر میں داخل ہوتے ہی یعنی اس شخص کے داخل ہوتے ہی ستارے اور چاند حیرت انگیز طور پر روشن ہو گئے اور سارا گھر روشنیوں سے جگمگا اٹھا اور میرے دل میں یہ بات زور سے داخل ہو گئی کہ یہ تو احمد یوں کی کوئی شخصیت ہے اور میں آگے بڑھ کر اسے سوال کرتا ہوں کہ آپ احمدیوں کے مربی ہیں یا خلیفہ.اور میری آنکھ کھل گئی.مربی صاحب نے ان کو تصویر میں دکھا ئیں.البم دکھا یا تو انہوں نے فوری طور پر ا پنی انگلی میری تصویر پہ رکھ کر کہا اور بار بار قسمیں کھا کر کہا کہ انہی کو میں نے اپنے گھر میں آسمان سے اترتے دیکھا تھا اور انہی کی آمد سے میرا گھر روشن ہو گیا تھا.پھر گیمبیا سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ سامباباین (Samba Mbayen) ایک گاؤں ہے.جب وہاں تبلیغ کی گئی تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بتایا گیا اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے شرائط بیعت پڑھ کر سنائی گئیں تو گاؤں کے امام اور گاؤں کی ترقیاتی کمیٹی کے چیئر مین نے برجستہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی کی آمد کی پیشگوئی فرمائی تھی اور آج وہ پہلی مرتبہ امام مہدی کی آمد کا سن رہے ہیں اور جب سے احمدیت کو دیکھا ہے بہت متاثر ہیں.پھر کہنے لگے کہ صرف احمدی ہی حقیقی مسلمان ہیں کیونکہ ان کے پاس خلافت کی طاقت ہے جو سب کو ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے.اور جب ان کو میرے بارے میں انہوں نے بتایا، تصویر دکھائی تو کہنے لگے کہ ہم اسے دیکھتے ہیں اور اس شخص کو میں روز ٹی وی پر دیکھتا ہوں اور پھر سارے افراد نے جو تقریباً تین سو پچاس کے قریب تھے بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کر لی.جب انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ تین مقامی
خطبات مسرور جلد 13 337 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء زبانوں میں دیکھا تو کہا کہ احمدیت ہی سچا اسلام ہے.کسی اور فرقے کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی جیسا کہ احمدی کر رہے ہیں اور آخر پر کہا کہ وہ انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت پر قائم رہیں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ سچا اسلام تو یہی ہے اور دوسرے مولوی ہمیں دھوکہ دیتے ہیں.پھر اب اسی دورے میں آخن (Aachen) کی اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر اور ہناؤ (Hanau) کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر مقامی لوگوں نے جو مختلف طبقات کے تھے، سیاستدان بھی تھے ، کاروباری بھی تھے، ٹیچر بھی تھے اور دوسرے پڑھے ہوئے لوگ بھی تھے.مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں.ان میں سے بہت سوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ایک نے کہا کہ میری بہت سے احمدیوں سے واقفیت ہے اور احمدیت کے بارے میں میں سمجھتی تھی کہ بہت سمجھتی ہوں اور مجھے اس واقفیت کی وجہ سے بہت کچھ پتا ہے لیکن کہنے والے کو انہوں نے کہا کہ جو تمہارے خلیفہ کی باتیں سن کر مجھ پر اثر ہوا ہے وہ پہلے نہیں ہوا.مجھے اسلام کے متعلق حقیقت اب صحیح طور پر پتا چلی ہے جو دل میں اتری ہے.تو یہ فضل ہیں اللہ تعالیٰ کے جو خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں.میں تو ایک عاجز انسان ہوں.اپنی حالت کا مجھے علم ہے میری کوئی خوبی نہیں ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے خلافت سے تائید کا وعدہ فرمایا ہے، نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اور خدا تعالیٰ یقینا سچے وعدوں والا ہے وہ ہمیشہ خلافت کی تائید و نصرت فرماتا رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی فرماتا رہے گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے.یہ دوسری قدرت خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اور اس کی تائید کے اظہار ہم دیکھتے رہتے ہیں.پس جو اپنے ایمان میں مضبوط رہیں گے وہ نشانات اور تائیدات دیکھتے رہیں گے.پس اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے رہیں.خلافت احمد یہ سے اپنے تعلق کو جوڑیں اور اس حق کی ادائیگی کی طرف توجہ بھی دیں جس کا خدا تعالیٰ نے خلافت کا انعام حاصل کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے.خلافت کی نعمت اسلام کے اول دور میں اُس وقت چھن گئی تھی جب دنیا داری زیادہ آگئی تھی.اب انشاء اللہ تعالیٰ یہ فیض تو خدا تعالیٰ جاری رکھے گا لیکن اس فیض سے وہ لوگ محروم ہو جائیں گے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا نہیں کریں گے.اگر ان شرائط پر عمل نہیں کریں گے جو خلافت کے انعام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں تو وہ محروم ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ذریعہ خوف کو امن میں بدلنے کا وعدہ فرمایا ہے لیکن ان لوگوں سے جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہوں اور پہلا حق یہ ہے کہ يَعْبُدُونَنی.وہ میری عبادت کریں گے.پس اگر اس نعمت سے فائدہ
خطبات مسرور جلد 13 338 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء اٹھانا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کریں.پانچ وقت اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور احسن رنگ میں ادائیگی کی طرف توجہ دیں.پھر فرمایا لا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا.کسی چیز کومیرا شریک نہیں بنائیں گے.پس اس دنیا میں جہاں انسان کی مختلف ترجیحات ہیں اور خاص طور پر ان ترقی یافتہ ممالک میں جہاں مادیت کی دوڑ لگی ہوئی ہے.ان مادیت کی چیزوں کو بعض لوگوں نے خدا تعالیٰ کے احکامات پر ترجیح دینی شروع کر دی ہے یا دیتے ہیں.دنیاوی فائدہ کے اٹھانے کے لئے غلط بیانی اور جھوٹ سے بھی کام لیتے ہیں.یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے.پس ایسے لوگ خلافت سے صحیح فیضیاب نہیں ہو سکتے.یہاں جرمنی سے مجھے کسی نے خط لکھا کہ ان کا ایک زیر تبلیغ دوست تھا وہ سب مسائل اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائل ہو گیا.جب اس شخص نے اپنے دوست کو یہ کہا کہ پھر بیعت کر کے جماعت میں آ جاؤ تو کہنے لگا کہ میں بہت سے احمدیوں کو جانتا ہوں بعض میرے ارد گرد جو میرے قریبی ہیں جو ٹیکس چوری بھی کرتے ہیں.جو جھوٹ سے بھی کام لیتے ہیں، جو اور بھی غلط کاموں میں ملوث ہیں.تو میں تو بہر حال یہ سب غلط کام نہیں کرتا.میں ٹیکس بھی پورا ادا کرتا ہوں.اگر ٹیکسی چلاتا ہوں تو اس کے بھی پیسے پورے دیتا ہوں تو پھر میں کس طرح ان میں آ جاؤں.اس لئے ان سے بہتر ہوں باوجود اس کے کہ باقی تمہارے عقائد مان لیتا ہوں.گو اس کا یہ جواب غلط ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کو نہ مان کر وہ خود ملزم بن گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے تو اسے یہی کہنا ہے کہ تمہارے سامنے جو حقیقت آگئی تو تم نے چند لوگوں کو دیکھ کر اس کا انکار کیوں کیا.تمہیں جو میر احکم تھا تم نے وہ کیوں نہ مانا.لیکن ایسے احمدی اپنے غلط رویوں سے دوہرے گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں.خود بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم رہیں گے اور ہور ہے ہیں اور دوسروں کو بھی دُور ہٹا رہے ہیں اور ایسے لوگوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ ہماری طرف منسوب ہو کر ہمیں بد نام کرنے والے ہیں.خدمت دین بھی صرف خلافت سے وابستگی میں ہے پس جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کو بدنام کرنے والے ہیں تو انہوں نے پھر آپ کی جاری خلافت کے فیض سے کیا حصہ لینا ہے.پس ایسے لوگوں کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.اسی طرح کام کرنے والوں اور عہدیداروں سے بھی میں یہی کہتا ہوں کہ یہ برکت جو آپ کے کام میں ہے یا جو آپ کو اللہ تعالیٰ کام کی توفیق دے رہا ہے یہ صرف اور صرف خلافت سے وابستگی میں ہے.اس سے علیحدہ ہو کر کوئی ایک کوڑی کا بھی کام نہیں کر سکتا.اگر کوئی بعض کاموں کے اچھے نتائج کو دنیاوی علم
خطبات مسر در جلد 13 339 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء اور عقل اور محنت کی وجہ سمجھتا ہے تو یہ محض اس کی خوش فہمی ہے.دین کے نام پر کئے جانے والے کام میں خلافت سے علیحدہ ہو کر ایک ذرہ کی بھی برکت نہیں پڑے گی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ علیحدہ ہونے والوں نے نتیجہ دیکھ لیا.روز بروز ان کی تعداد کم ہو رہی ہے.ان کی مرکزیت ختم ہورہی ہے.ان کا نظام بے سہارا ہو رہا ہے.پس یہ خلافت کے ساتھ محبت اور اطاعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر رہی ہے اور بہتر نتائج نکل رہے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ نظام ہے اس لئے دین کی ترقی کے لئے ہر کوشش کو اس نے خلافت سے وابستہ کر دیا.خلیفہ وقت کی باتوں کو سنو پس اگر کسی عہدیدار کے دل میں کبھی میں آئے یا خود پسندی پیدا ہو تو اسے استغفار کی طرف توجہ کرنی چاہئے.پس جماعت احمدیہ کی ترقی میں نہ علماء کی علمیت کام دے رہی ہے، نہ عقلمند کی عقل کام دے رہی ہے، نہ دنیاوی علم رکھنے والے کا علم و ہنر کام دے رہا ہے.اگر کسی دینی علم رکھنے والے، اگر کسی عقلمند کی عقل، اگر کسی دنیاوی علم والے کی علمیت، اگر ماہرین کے ہنر جماعت کے کاموں میں غیر معمولی نتائج پیدا کر رہے ہیں تو یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے ہے کیونکہ اس وابستگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ان نتائج کا وعدہ ہے اور اس لئے وہ عطا فرما رہا ہے.دنیا داروں میں یا دنیا داری میں بیشک علم عقل اور ہنر کام دے سکتا ہے لیکن جماعت میں رہنے والے کو بہر حال بہترین نتائج کے لئے جماعتی کاموں میں خاص طور پر اپنے آپ کو خلافت کا تابع فرمان کرنا ہوگا.اسی طرح علماء کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے یعنی نئے ماننے والے اور نئے نوجوان اور بچے جنہیں خلافت کے ساتھ حقیقی تعلق کا ادراک نہیں ہے تو وہ انہیں اس سے آگاہ کریں، اس بارے میں بتائیں.اسی طرح عہد یدار بھی ذمہ دار ہیں.بعض عہد یدار ایسے ہیں جو منتخب ہو کر عہد یدار تو بن جاتے ہیں لیکن دین کا انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا.وہ اپنے عہدے کو بھی دنیاوی عہدے کی طرح سمجھتے ہیں.میرے سامنے جب بعض لوگ کہتے ہیں کہ میرے پاس فلاں عہدہ ہے تو میں انہیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ عہدہ نہ کہو خدمت کہو اور اگر خدمت دین کا اللہ تعالیٰ نے موقع دے دیا ہے تو اپنے دینی علم کو بھی بڑھائیں اور اپنے اخلاص اور وفا کو بھی بڑھائیں ، اپنے تقوی کو بھی بڑھائیں اور خلافت کے ساتھ اپنے تعلق کو بھی بڑھا ئیں.ایسے عہدیدار بھی ہیں یا ہوتے ہیں جو اپنی اہمیت کی طرف تو توجہ دلانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ ہم عہدیدار ہیں لیکن خلافت کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ سال
خطبات مسرور جلد 13 340 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015ء میں ایک یوم خلافت منا کر ہم نے فرض ادا کر دیا.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتا یا تھا حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے کہ جتنا زور جماعت کو خلافت سے تعلق کے بارے میں دیا جانا چاہئے اتنا نہیں دیا جاتا.اب میرے کہنے پر بعد میں جلسوں میں تقاریر تو شروع ہوگئی ہیں لیکن اس بات کو راسخ کرنے کی بہت ضرورت ہے کہ خلیفہ وقت کی باتوں کو سنو اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو.اپنا خلافت سے تعلق بڑھاؤ.جو لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں وہ اپنی حالتوں میں بھی غیر معمولی تبدیلی محسوس کرتے ہیں.گزشتہ دنوں کینیڈا سے تقریباً سو سے اوپر خدام اور امریکہ سے دوسو سے او پر خدام مختلف عمروں کے مجھے لندن ملنے کے لئے آئے.ان میں نئے بیعت کرنے والے بھی شامل تھے.تین دن رہے ہیں.اس کے بعد ان کے تاثرات بالکل مختلف تھے.عجیب اخلاص اور وفا کا اظہار ان سے ہو رہا تھا جس کو دیکھ اور سن کر حیرت ہوتی ہے اور بعد میں جا کر بھی انہوں نے ان باتوں کا اظہار کیا اور اپنی ان حالتوں کی تبدیلی کا اظہار کیا.یہ عہد کیا کہ ہم نمازوں میں با قاعدگی رکھیں گے.یہ عہد کیا کہ جماعت کے ساتھ وابستگی میں با قاعدگی رکھیں گے.یہ عہد کیا کہ خلافت سے اپنے تعلق کو بڑھاتے چلے جائیں گے.اس سے پہلے نہ ان کو خلافت کے تعلق کے بارے میں اتنا بتایا گیا تھا، نہ ان کو تجربہ تھا.بیشک ذاتی ملاقات سے دونوں طرف سے ایک تعلق اور محبت کا خاص رنگ پیدا ہوتا ہے لیکن مختلف واقعات کے ذریعہ علماء اور عہد یدار خلافت کی اہمیت کو جماعت میں وقتاً فوقتاً بیان کرتے رہیں تو ایمانوں میں مضبوطی اور مزید جلاء پیدا ہوتی ہے.عہد یدار خلافت کے نمائندے کے نام پر اپنی اہمیت تو واضح کرنا چاہتے ہیں.جہاں کہیں عہد یدار کھڑا ہوگا وہ کہے گا میں خلافت کا نمائندہ ہوں اور ان عہدیداروں میں مرد بھی شامل ہیں اور لجنہ کی صدرات بھی شامل ہیں اور عہدیدار بھی شامل ہیں لیکن خلافت سے تعلق کو اس طرح انہوں نے ذہنوں میں نہیں ڈالا جس طرح ڈالنا چاہئے.اگر یہ عہد یدار خلافت کی اہمیت اور تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے تو ان عہد یداروں کی اہمیت خود بخود بڑھ جائے گی.پس یہ علماء کی ذمہ داری ہے.اس میں سب لوگ شامل ہیں چاہے وہ مربیان ہیں ، عہد یداران ہیں یا دین کا علم رکھنے والے ہیں کہ خلیفہ وقت کا دست و بازو بنیں.اپنے عمل کو بھی خلیفہ وقت کے تابع کریں اور دوسروں کو بھی نصیحت کریں.یہ تصور غلط ہے کہ ایک دفعہ کہہ دیا تو بات ختم ہوگئی.یہ نصیحت اور تعلق کے اظہار کا بار بار ذکر ہونا چاہئے..ایک خطبہ میں اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مربیان اور علماء کو ایک بڑی اہم نصیحت فرمائی تھی.انہوں نے فرمایا کہ ہر مومن جو دین کا درد اور سلسلہ سے اخلاص رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے
خطبات مسرور جلد 13 341 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مئی 2015 ء کہ خدا تعالیٰ کا سلسلہ نیک نامی کے ساتھ دنیا میں قائم رہے اور اسلام کو وہی عزت پھر حاصل ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئی تھی اور اس کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوششیں باطل اور رائیگاں نہ جائیں تو اس کا فرض ہے کہ خلیفہ کے ساتھ دن رات تعاون کر کے اس کام میں لگ جائے کہ ذہنی طور پر بھی جماعت کی اصلاح ہو جائے.ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ جس طرح شادی کے موقع پر لوگ اپنی جھولیاں پھیلا دیتے ہیں ( بعض جگہوں پہ رواج ہوتا ہے چھوارے بانٹے جاتے ہیں اور لوگ اپنی جھولیاں پھیلا دیتے ہیں ) کہ اس میں چھوارے گریں.اسی طرح جب خلیفہ جماعت کی اصلاح کے لئے کچھ کہے تو اسے لیں اور افراد جماعت کے سامنے اسے دہرائیں اور دہرائیں اور دہرائیں حتی کہ کند ذہن سے کند ذہن آدمی بھی سمجھ جائے اور دین پر صحیح طور پر چلنے کے لئے رستہ پالے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 215-214) اللہ تعالیٰ افراد جماعت کو بھی اور علماء اور عہدیداران کو بھی یہ توفیق دے کہ خلافت کی باتوں کو نہ صرف سننے والے ہوں بلکہ عمل کرنے والے بھی ہوں.یہ لوگ یوم خلافت پر صرف وفا کا اظہار کر دینا یا وفا کا اظہار کر کے یوم خلافت کی مبارکباد دے کر اپنے آپ کو فرض ادا کرنے والے نہ سمجھیں.اللہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہم خلافت کے انعام کو سنبھالنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 19 جون 2015 ء تا 25 جون 2015 ، جلد 22 شماره 25 صفحه 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 342 23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 05 جون 2015 ء بمطابق 05 احسان 1394 ہجری شمسی بمقام کا لسروئے جرمنی تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جماعت احمد یہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.دنیا کے اکثر ممالک میں جہاں جماعت احمد یہ قائم ہے یہ جلسے منعقد ہونا جماعت احمدیہ کے اہم پروگراموں کا ایک اہم حصہ ہے.ایک زمانہ تھا کہ جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے ہندوستان کے رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی قادیان جلسے کے لئے آنا کرایوں وغیرہ کے اخراجات کی وجہ سے بہت مشکل تھا بلکہ بعض کے لئے ممکن نہیں تھا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کو تحریک فرمائی کہ سال بھر اس مقصد کے لئے کچھ نہ کچھ جوڑتے رہیں تا کہ جلسہ سالانہ کے لئے زادِراہ میسر آجائے.(ماخوذ از آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 352) جلسوں میں شمولیت اور اس کی اہمیت لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی یافتہ ممالک میں بلکہ بعض ایسے ممالک بھی جہاں جماعتیں بڑھی ہیں جو جلسے منعقد ہوتے ہیں ان میں شامل ہونے والوں کی اپنی سواریوں اور کاروں کی تعداد ہی اتنی ہوتی ہے کہ انتظامیہ کو کار پارکنگ کے لئے جو انتظام کرنا پڑتا ہے وہ بھی ایک محنت طلب کام ہے اور خاص طور پر کرنا پڑتا ہے.آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جن کے آباؤ اجداد جلسے میں اپنے پر تنگی وارد کر کے اور تکلیف اٹھا کر جاتے ہوں گے.بعض حسرت اور خواہش رکھنے کے باوجود کہ ہر سال جلسے میں شامل ہوں لیکن ان کے لئے ممکن نہ ہو سکتا ہوگا.لیکن کبھی آپ میں سے کسی نے یہ بھی سوچا ہے کہ اتنی آسانیاں میسر آنے کے بعد، کشائش پیدا ہونے کے بعد جو آپ کو سفر کی سہولتیں اور توفیق ملتی ہے
خطبات مسرور جلد 13 343 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء کیا یہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنانے اور ایمان میں بڑھانے کا باعث بنی ہیں؟ کیا جو ایمان ہمارے بڑوں کا تھا اور جو تعلق خدا تعالیٰ سے ان کا تھا اس معیار پر ہم بھی پہنچے ہیں.بعض اس زمانے کے بزرگوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ پانے کے باوجود، آپ کو ماننے کے باوجود، خواہش کے باوجود جیسا کہ میں نے کہا ہے مالی روکوں کی وجہ سے سفر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک نہ پہنچ سکے.لیکن آج جن ممالک کے جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک غلام اور خلیفہ شامل ہوتا ہے اس میں شمولیت کے لئے لوگ دوسرے ممالک سے خرچ کر کے بھی پہنچ جاتے ہیں.میرے سامنے بھی کئی بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت جاننے کے لئے ایسے لوگ بھی دوسرے ممالک سے شامل ہونے کے لئے آ جاتے ہیں جو ابھی آپ پر ایمان نہیں لائے.پس یہ بات جہاں اس لحاظ سے خوش کن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حالات بدل دیئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے وہاں ان بزرگوں کی اولادوں کے لئے اپنے جائزے لینے کی طرف متوجہ ہونے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم اپنے تعلق باللہ ، اپنے ایمان اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے کی پابندی کرنے کے لحاظ سے کس مقام تک پہنچے ہیں.اگر ہمارے خاندانوں میں ہمارے بزرگوں کے نیکی کے معیاروں کے مقابلے میں تیزی سے تنزل ہو رہا ہے تو ہماری حالت قابل فکر ہے.ہماری کشائش اور ہماری گھل بے فائدہ ہے.ہم دنیا تو کمار ہے ہیں لیکن ہمارا دین کا خانہ خالی ہورہا ہے اور ایسے حالات میں پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان دنیا کے دھندوں میں غرق ہو کر خدا تعالیٰ سے بالکل ہی تعلق ختم کر دیتا ہے اور یوں خدا تعالیٰ کی نظر سے گر کر شیطان کی جھولی میں جا گرتا ہے.پھر ایسے لوگوں کا جلسہ پر آنا صرف ایک رسم بن جاتا ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جلسے پر شمولیت ہمیں ہماری کمزوریوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ہمارے اندر انقلاب لانے والی ہو.ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بنانے والی ہو.ہماری کشائش ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہو.ہم ہمیشہ یہ دعا اور کوشش کرتے رہنے والے ہوں کہ ہم یا ہماری نسلیں کبھی خدا تعالیٰ کے غضب کا مورد نہ بنیں.ہم اپنے بزرگوں کی خواہشات اور دعاؤں کا وارث بننے والے ہوں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو جماعت کو وسعت مل رہی ہے.جماعت دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے، اللہ تعالیٰ جو لوگوں کے دلوں کو کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی شمال سے بھی ، جنوب سے بھی ، مشرق سے اور مغرب سے بھی لوگوں کو توفیق
خطبات مسرور جلد 13 344 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء دے رہا ہے، جو لوگ جماعت میں اپنے ایمانوں میں جلاء پیدا کرنے کے لئے شامل ہو رہے ہیں ، اپنے تعلق باللہ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں وہ اس جلسہ میں شامل ہونے کے مقصد کو پورا کرنے والے بھی بنیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کے دل کھلیں مزید کھلتے چلے جائیں.اس بات پر نظر رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے انعقاد کے مقاصد کے لئے بیان فرمائی ہے.یعنی خدا تعالیٰ سے تعلق اور اپنی زندگیوں کو اس کے حکم کے مطابق ڈھالنا.اپنے بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشش.یہ تمام باتیں اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ڈھالنے اور ایک قربانی کا مطالبہ کرتی ہیں.پس یہ جلسہ نہ کوئی دنیاوی میلہ ہے نہ دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ ہے.یہاں آنے والوں کو ایک تو ذکر الہی کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے.اور دوسرے یہ ہر وقت ذہن میں رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان نیکیوں کو حاصل کرنے اور اپنانے والے بنیں اور پھر انہیں مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے بنیں جن کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.ذکر الہی کے ضمن میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ مجالس میں بیٹھنے والوں کا ذکر چاہے اپنے اپنے رنگ میں ہو رہا ہو الگ الگ انفرادی طور پر ہر کوئی کر رہا ہو جماعتی رنگ رکھتا ہے اور جہاں انسان کی ذات کو اس سے فائدہ ہو رہا ہوتا ہے وہاں جماعتی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے.پس جلسے کی کارروائی سنتے ہوئے ، چلتے پھرتے ان دنوں کو ذکر الہی میں گزار ہیں اور پھر یہ بھی فائدہ ہے کہ جب انسان ذکر کر رہا ہوتا ہے، ایسی مجلس ہوتی ہے تو دوسروں کو بھی توجہ پیدا ہوتی ہے.ایک دوسرے کو دیکھ کر وہ بھی اپنے ان دنوں کو با مقصد بنانے کے لئے کوشش کرتے ہیں.بجائے اس کے کہ بے مقصد مجالس لگائی جائیں بے مقصد گفتگو کی جائے ان دنوں کو ہر ایک کو بامقصد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.ان دنوں کی عادت کا اثر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعد میں بھی کچھ عرصے تک تو رہتا ہے اور اگر انسان کی توجہ رہے تو پھر لمبا عرصہ رہتا ہے.پس یہ جلسہ سالانہ کی برکات میں سے ہے کہ ایک شخص کی دعائیں اسے خود بھی فائدہ پہنچارہی ہوتی ہیں اور جماعت کی مجموعی ترقی کا بھی باعث بن رہی ہوتی ہیں اور اسی طرح دوسروں کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے اور جلسے کے مقاصد کو حاصل کرنے کا باعث بنا رہی ہوتی ہیں.پس اپنے ان دنوں کو ہر
خطبات مسرور جلد 13 345 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء شامل ہونے والے کو اس طریق پر گزارنا چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتایا اور ہم سے توقع رکھی.اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کریں اور دوسرے اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی محبت سے بھریں.اپنے بھائیوں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھیں.یہاں جلسے پر آ کر اگر کسی میں نجشیں بھی ہیں تو ان کو دور کرنے کی کوشش کریں.جب ہم اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کریں گے اور اس کی مخلوق سے ہمدردی کریں گے تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے پیغام کو حقیقی رنگ میں دنیا کو پہنچانے کا حق ادا کرنے والے بن سکیں گے.لیکن ان تمام راستوں سے گزرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے.محنت شرط ہے.یہ جلسے اسی لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ روحانی ماحول سے، نیکی کی باتیں سننے سے، ذکر الہی کرنے سے ہم میں وہ عادتیں مستقل پیدا ہو جائیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایسا مقام ہے کہ آخر فنا ہے.اندر ہی اندر اس فنا کا سامان لگاہوا ہے.وہ اپنا کام کر رہا ہے مگر خبر نہیں ہوتی.اس لئے خدا شناسی کی طرف قدم جلد اٹھانا چاہئے.خدا تعالیٰ کا مزا اُسے آتا ہے جو اُ سے شناخت کرے.اور جو اس کی طرف صدق و وفا سے قدم نہیں اٹھا تا اُس کی دعا کھلے طور پر قبول نہیں ہوتی اور کوئی نہ کوئی حصہ تاریکی کا اسے لگا ہی رہتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی طرف ذراسی حرکت کرو گے تو وہ اس سے زیادہ تمہاری طرف حرکت کرے گا.لیکن اول تمہاری طرف سے حرکت کا ہونا ضروری ہے.“ پھر فرمایا: ”بعض لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے سب نیکیاں کیں.نماز بھی پڑھی، روزے بھی رکھے ، صدقہ خیرات بھی دیا، مجاہدہ بھی کیا مگر ہمیں وصول کچھ نہیں ہوا.تو ایسے لوگ شقی از لی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ انہوں نے سب اعمال خدا تعالیٰ کے لئے کئے ہوتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کے لئے کوئی فعل کیا جاوے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ضائع ہو اور خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی زندگی میں نہ دیوے.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 230-220) پس اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ہمیں خالص ہو کر اس کی عبادت بھی کرنی ہوگی اور اس کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا.ہمارا کام اگر خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گا تو ہم اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنیں گے.ہمیں دنیا وی تاریکی سے نکل کر خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ وہ ہماری اصلاح کے لئے اپنے فرستادے، اپنے پیارے بھیجتا
خطبات مسرور جلد 13 346 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء رہتا ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے بھی اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو مانا جنہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دین کی محبت کے اسلوب سکھائے اور ان پر چلنے کی طرف توجہ دلائی ہے.جنہوں نے ہمیں مخلوق کے حق اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی.جنہوں نے ہمیں فردی اور اجتماعی برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ دلائی.قومی برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ دلائی.انفرادی برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ دلائی.عملی اور اعتقادی حالتوں کو درست کرنے کی طرف توجہ دلائی.پس اگر ہم آپ کی بیعت میں آکر پھر بھی ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے تو ہم اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے.انبیاء آتے ہیں اپنے ماننے والوں میں انقلاب پیدا کرنے کے لئے.ان کی حالتوں کو بالکل مختلف صورت دینے کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے کشفاً دکھایا کہ آپ نے نئی زمین اور نیا آسمان بنایا ہے.پھر آپ نے کہا کہ آؤ انسان کو پیدا کریں.(ماخوذ از تذکرہ صفحہ 154 ایڈیشن چہارم 2004 ء بحوالہ چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 376-375 حاشیہ ) یہ نئی زمین اور نیا آسمان بنانا اور انسان پیدا کرنا وہ انقلاب ہے جو آپ نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا تھا.نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کا سب سے بڑھ کر اور کامل اور مکمل اظہار تو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آتا ہے.آپ نے کس طرح نئی زمین اور نیا آسمان بنا یا کہ توحید کے دشمنوں کو توحید پر قائم کر دیا.وہی جو بتوں کو پوجنے والے تھے اور ایک خدا کے انکاری تھے وہ احد احد کہہ کر ہر طرح کے ظلم سہتے رہے.جو تو حید کے قیام کے لئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن توحید سے انکار نہیں کیا.جن کو خدا تعالیٰ کا تصور ہی نہیں تھا ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اس طرح اترا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الہی مادی کھانے سے زیادہ ان کی غذا بن گئی.انہوں نے دن کو روزوں اور راتوں کو نوافل میں گزارنا شروع کر دیا.ان کی عورتوں نے بھی عبادت کے شوق اور خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کے لئے رات کی اپنی نیندوں کو حرام کر دیا اور عبادت کی خاطر اپنی نیندوں کو دور کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرنے کی کوشش کی.ایک صحابیہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے ایک رسی چھت سے لٹکائی ہوئی تھی جس کو پکڑ
خطبات مسرور جلد 13 347 لیتی تھیں یا جس کے جھٹکے سے آپ ہوشیار ہو جاتی تھیں.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء (صحیح بخاری کتاب التهجد باب ما يكره من التشديد في العبادة حديث 1150) ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا معیار یہ تھا کہ اپنی جائیدادیں تک اپنے بھائیوں کو دینے کے لئے تیار تھے بلکہ پیش کیں.لیکن دوسری طرف جن کو پیش کی گئی تھیں ان میں بھی ایک انقلاب آچکا تھا.انہوں نے شکریہ کہ کر یہ کہا کہ یہ تمہاری چیز تمہیں مبارک ہوں.ہمیں بازار کا رستہ بتا دو.(صحیح بخاری کتاب البیوع باب ماجاء فی قول الله عز وجل حديث 2049) کسی کے محتاج ہونے سے بہتر ہے کہ خود کما کر کھاؤں.سچائی اور ایمانداری کے معیار یہ قائم ہوئے کہ ایک مسلمان سودینار کا ایک گھوڑا دیہات سے خرید کر لایا.جب وہ گھوڑا فروخت کے لئے بازار میں آیا تو دوسرے مسلمان نے کہا کہ یہ گھوڑا بہت اچھا ہے اس کی میرے نزدیک قیمت دوسو یا تین سود بنار ہے.مالک کہتا ہے کہ اس گھوڑے کی قیمت سود بنا رہے میں زیادہ رقم کس طرح لے سکتا ہوں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 318) وہ لوگ جو مال سے محبت کرتے تھے اور زیادہ کمانے کے لئے دھو کے سے بھی مال وصول کر لیا کرتے تھے وہ لوگ سچائی کے اس معیار تک پہنچے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ میں اتنے پیسے کس طرح لے سکتا ہوں.تو یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ایسے اعلیٰ معیار پیش کئے.یہ وہ تغیر اور تبدیلی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کی.پھر عورت کو حقوق دلائے.اس کو عزت دلائی.اس کی عزت قائم کی.اسے معاشرے میں ایک مقام دلایا.ایسے معاشرے میں جہاں عورت کی کوئی عزت نہیں تھی یہ بہت بڑی بات تھی بلکہ اب تک ہے.مسیح موعود کی بعثت کی ضرورت اور اہمیت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ اس بارے میں آج کے معاشرہ اور پہلے معاشرہ کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک حقیقت بیان فرمائی ہے.آج کا مرد معاشرہ بڑا نعرہ لگاتا ہے کہ ہم نے عورت کو حقوق دیئے اور یہ حقیقت ہے کہ پہلے معاشرے میں مرد عورت کوستا تا تھا، مارتا پیٹتا تھا اور سمجھتا تھا کہ مار پیٹ جائز ہے اور آج بھی حسب سابق مرد عورت کو ستاتا اور پیٹتا ہے.یورپ میں بھی ایسا ہوتا ہے اور دوسرے ممالک جو عورت کی آزادی کے بڑے نعرے لگاتے ہیں ان میں بھی ایسا ہوتا ہے.بعض وکیل میرے سامنے بیٹھے ہوں گے ان کو پتا ہے کہ ایسے کیس آتے ہیں.لیکن فرق یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اب مرد یہ کہتا ہے کہ عورت کو ستانا اور پیٹنا جائز نہیں.پہلے ستا تا بھی تھا، پیٹتا بھی تھا،
خطبات مسرور جلد 13 348 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء مارتا بھی تھا، حقوق غصب کرتا تھا لیکن جائز سمجھ کر.اب یہ سب کچھ کرتا ہے اور ساتھ نعرہ لگاتا ہے کہ یہ جائز نہیں.عمل وہی ہے لیکن ظاہری اقرار بدل گئے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 317-316) تو ہر میدان میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک انقلاب پیدا ہوا ہوا نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ جانوروں سے بدتر انسانوں کو انسان بنایا.پھر تعلیم یافتہ انسان بنایا.پھر با خدا انسان بنایا.(ماخوذ از لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 206) تو یہ ایک عظیم معجزہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آیا.ان باخدا انسانوں نے ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنا شروع کر دیا.پس یہی نئی زمینیں اور نیا آسمان تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے بنا اور اس زمانے میں آپ کے غلام صادق کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ نئی زمین اور نیا آسمان بناؤ.کیا جو حالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کے تھے یا جو حالت روحانی اور اخلاقی ان کی تھی وہی حالت اب ہے؟ نہیں.بلکہ جو آپ کے آنے سے پہلے جہالت تھی وہ جہالت یہاں نئے سرے سے پیدا ہو چکی ہے.تبھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مسیح موعود اور مہدی موعود کو بھیجا تھا.ایک زمانہ تھا جب مسلمانوں نے توحید کی خاطر جانیں دیں.ہر قسم کی قربانیاں دیں.اسلام کو پھیلا یا اور دنیا میں ایک نمایاں تغیر پیدا ہو گیا.لیکن اب مسلمان توحید کے بجائے قبروں کو سجدے کرتے ہیں.مردوں سے مرادیں مانگتے ہیں.شرک میں مبتلا ہیں.لَا إِلهَ إِلَّا اللہ تو اب بھی ہے لیکن اب وہ کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے جاننے والے یا ماننے والے اس کا مطلب اور مفہوم نہیں جانتے.ان کا مسلمان ہونا برائے نام ہے.ایسے بھی ہیں جو بیشک پانچ دفعہ عبودیت کا ظاہری اقرار کرتے ہیں.نماز اور اذان میں توحید کی شہادت دیتے ہیں.لیکن حرکتیں مشرکانہ ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 315) اچھے بھلے بعض پڑھے لکھے لوگ ہیں بلکہ پاکستان میں تو کئی پڑھے لکھے ہیں وزیر سفیر بھی ہیں جو پیروں کے پاس جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ایسا سلوک ہے جس طرح پوجا کی جاتی ہے.اکثریت تو نماز ہی نہیں پڑھتی.صرف سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کو کافر کہنے اور مولوی کے پیچھے چلنے سے ان کے مسلمان ہونے کے حق ادا ہو جائیں گے.پھر اسلام کے نام پر شدت پسند تنظیمیں ہیں جو صرف ایک لفظ جہاد کو جانتی ہیں اور
خطبات مسرور جلد 13 349 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء وہ بھی غلط مطلب کے ساتھ ، جس نے توحید پر تو کسی کو کیا قائم کرنا ہے یہ لوگ دنیا کو مذہب سے اور اسلام سے متنفر کرنے پر تلے ہوئے ہیں.پس ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آنا ضروری تھا تا کہ وہ ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنائیں اور آپ نے ایک انقلاب پیدا کر کے دکھا بھی دیا.ایک مشہور ڈاکو تھا اور دوسرے چھوٹے ڈاکو اور چور وغیرہ اس کو بھتہ دیا کرتے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ان سے لوگ پوچھتے تھے کہ تم مرزا صاحب کی صداقت کا نشان بتاؤ.کوئی نشان تم نے دیکھا؟ تو انہوں نے کہا تم اور کیا نشان پوچھتے ہو میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہوں اور یہ ثبوت ہوں کہ میری کا یا پلٹ کر رکھ دی ہے.چوروں سے تعلق کٹ گیا اور ڈا کے ختم ہو گئے اور عبادات میں مشغول ہو گیا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 319) پس آپ نے بھی اس زمانے میں نئی زمین اور نیا آسمان بنایا اور لاکھوں انسانوں کی کایا پلٹ کر بتایا کہ یوں نئی زمین اور نئے آسمان بنتے ہیں.آپ علیہ السلام نے تو نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کر کے دکھا دیا اور بہت سارے نمونے ہم نے دیکھے.ہم نشانات دیکھتے بھی ہیں، سنتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں.اپنے بزرگوں کی حالتوں کو دیکھ کر، ان سے سن کر مزید ایمانوں میں تازگی بھی پیدا ہوتی ہے.لیکن اس کشف میں نئی زمین اور نئے آسمان بنانے میں آپ علیہ السلام کی جماعت کو بھی توجہ دلائی گئی ہے.اس لئے اب یہ دیکھنا ہے کہ آپ کی جماعت کا حصہ بن کر آپ علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہم کیا کوشش کر رہے ہیں کہ ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان پیدا کریں.کیا صحابہ نے جو اسلام کی حقیقی تعلیم اپنائی اور اس کا اظہار کر کے نئی زمین اور نیا آسمان بنا یا وہ معیار ہم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے نفسوں میں اتنا تغیر اور تبدیلی پیدا ہو گئے ہیں کہ لوگ کہہ اٹھیں کہ یہ تو بالکل بدل گئے ہیں.انہوں نے نیا آسمان اور نئی زمین بنا ڈالی ہے.پس ہم نے اگر اس بات کی دلیل دینی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح نئی زمینیں اور نیا آسمان بنایا تو اس کا سب سے بڑا ثبوت ہماری ذات ہونی چاہئے.توحید کا قیام ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے میں ہماری کوشش ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی ہمیں بھر پور کوشش کرنی چاہئے.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف ہماری توجہ رہنی چاہئے.ہم
خطبات مسرور جلد 13 350 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء صرف اعتقادی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے نہ ہوں بلکہ عملی تبدیلیاں بھی ہمارے اندر نظر آئیں اور جیسا کہ میں نے کہا لوگ کہیں کہ یہ تو کوئی بالکل اور انسان ہو گیا.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس کی خوبصورت وضاحت فرمائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو قسم کے نشانات ہیں.ایک تو وہ جن کا پورا کر نا خدا تعالیٰ کا کام ہے.دوسرے وہ جن کے پورا ہونے میں ہمارا بھی دخل ہے اور جو ہمارے ذریعہ سے یا ہمارے واسطے سے پورے ہونے ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لئے ہمیں بھر پور کوشش کرنی چاہئے.کئی علوم ایسے ہوتے ہیں جن کو نبی سمجھ سکتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو نبی کی ضرورت ہی کیوں ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چودہ سو سال بعد ایسی باتیں بتائیں جو موجود تھیں لیکن مسلمانوں کو ان کا علم نہ تھا یا صحیح فہم نہ تھا مثلاً تمام مذاہب کی صداقت.آپ نے بتایا کہ وہ پیشوا جس کے لاکھوں کروڑوں پیرو ہوں اور پھر ایک لمبا عرصہ ماننے والے اس پیشوا سے ہدایت حاصل کرتے رہے ہوں اس کے پاس ضرور صداقت ہوتی ہے.بیشک بعد میں ان کی تعلیم میں تحریف ہو گئی اور وہ مذہب اپنی اصلی حالت میں نہ رہا جس طرح بدھ ہیں، زرتشت ہیں، کرشن ہیں.اپنے اپنے زمانے کے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور صداقت کے حامل تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے بڑے بڑے بزرگ بھی اگر دوسری قوموں کے بزرگوں کو ، ان کے مذہبوں کے سربراہوں کو برانہیں کہتے تھے تو مشتبہ ضرور تھے.تسلی بہر حال نہیں تھی کہ پتا نہیں اصل حقیقت کیا ہے.لیکن بہر حال جو لوگ اپنے پیشواؤں کی صحیح تعلیم کو مانتے ہیں دوسروں کی نسبت ان کی حالت بہتر ہے.اگر ان کی تعلیم پر عمل کیا جائے تو دنیا بڑی پر امن ہوسکتی ہے اور ایک نمایاں تبدیلی یہاں نظر آ سکتی ہے.لیکن اس کے برعکس جس تعلیم سے اگر برے نتائج نکل رہے ہوں تو وہ بری ہوتی ہے.ان تمام پہلے انبیاء کی تعلیم شیطان کے خلاف تھی اور اگر یہ شیطان کی تعلیم ہوتی تو کوئی ان کی پیروی نہ کرتا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.یہ نکتہ قرآن کریم میں موجود تھا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہو سکا یا اس طرح وضاحت نہیں کر سکا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرما یا.آج اس کے باوجود کہ مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے خلاف ہیں لیکن یہی کہتے ہیں اور اس بات کو مانتے ہیں کہ تمام مذاہب کی بنیاد صداقت پر ہے.مسلمانوں کا ایک بڑا تعلیمیافتہ طبقہ جو ہے
خطبات مسرور جلد 13 351 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء دوسرے مذاہب والوں کو کہتا ہے کہ دیکھو ہمارا مذہب کتنا اچھا ہے کہ آپ کے بزرگوں کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مانتا ہے.پھر حضرت عیسیٰ کے آسمان پر چڑھ جانے کا عقیدہ ہے وہ بھی اکثر مسلمانوں میں یا تعلیمیافتہ کہلانے والوں میں نہیں رہا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 318-317) بلکہ اب تو پاکستان میں تو علماء بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ مسئلہ ختم ہو گیا ہے.کوئی نہیں آنا اور کوئی نہیں چڑھا.سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے جو غیروں کے نظریات بدلے ہیں تو یہ بھی نئی زمین اور نیا آسمان بننے کی دلیل ہیں.یہ نشان تو ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پورے ہوئے.لیکن نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کی جو دوسری صورت ہے کہ عملاً بھی نئی زمین اور نیا آسمان بنے اسے ہم نے پورا کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں نے پورا کرنا ہے.ایک نیا آسمان بنا کر ہم نے اپنے عقیدے میں نہ صرف تبدیلی پیدا کی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آگئے.لیکن دوسری صورت جونئی زمین بنانے کی ہے اس میں ہماری کوششوں کا دخل ہے.صرف اچھا آسمان ہونا کچھ فائدہ نہیں دے سکتا جب تک زمین بھی نئی نہ ہو اور بہتر نہ ہو اور اچھی زمین کا ہونا ضروری ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مومن کا دل زمین کی طرح ہوتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 319) پس اپنے دلوں کو عقیدے کے لحاظ سے نہیں بلکہ عملوں کے لحاظ سے بھی فائدہ مند بنانا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہمارے اعمال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے نیک بنائے اور ہمارے ہاتھوں سے زمین کو درست کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں طریق بتا دیئے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں ایک مصالحہ دے گئے اسے کام میں لانا ہمارا کام ہے.اب ہم نے دیکھنا ہے کیا واقعی ہم یہ کام کر رہے ہیں؟ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 319-318) پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا اگر ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے اور بندوں کا حق ادا کرنے کا کام کر رہے ہیں، اگر ہمارے معاملات خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے ساتھ صاف ہیں اور اس میں امتیازی شان رکھتے ہیں تو یقیناً ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نئی زمین اور نیا آسمان بنانے میں آپ کا ہاتھ بٹا
خطبات مسرور جلد 13 352 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء رہے ہیں.پس اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.بعض باتوں کی طرف میں توجہ بھی دلاتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتائی ہیں.ایک بات تو بنیادی ہے کہ قرآن کریم کا ہر حکم ہمارے اندر تبدیلی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے وہ ایک نئی زمین اور نیا آسمان ہمارے اندر بنانے والا ہے اور پھر اس کو اختیار کر کے اس پر عمل کر کے ہم میں سے ہر ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنا سکتا ہے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ وہ تدبیریں تو کرتے ہیں مگر دعا سے غفلت کی جاتی ہے بلکہ اسباب پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تدابیر دنیا ہی کو خدا بنالیا گیا ہے اور دعا پر جنسی کی جاتی ہے اور اس کو ایک فضول شئے قرار دیا جاتا ہے.یہ خطرناک زہر ہے جو دنیا میں پھیل رہا ہے.مگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زہر کو دور کرے.چنانچہ یہ سلسلہ اس نے اسی غرض کے لئے قائم کیا ہے تا دنیا کو خدا تعالیٰ کی معرفت ہو اور دعا کی حقیقت اور اس کے اثر سے اطلاع ملے.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 269) ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 25) پس اس غرض کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تعلق باللہ کو بڑھانے کی ضرورت ہے.پھر آپ نے فرمایا.یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا ہے.شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے.شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خدا تعالیٰ نے اس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.“ پس اس روحانی لڑائی کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی روحانیت کے نئے زمین و آسمان پیدا نہ کریں.آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ شیطان کو شکست دینے کے لئے اس سلسلے کو قائم کیا ہے.اپنے ہر ماننے والے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ روحانیت میں ترقی کر کے شیطان کا مقابلہ کرے اور پھر حقوق العباد کے معیاروں کو حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دوحکم ہیں.اول یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو.نہ اس کی ذات میں، نہ صفات میں ، نہ عبادات میں.اور دوسرے نوع انسان سے
خطبات مسرور جلد 13 353 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 جون 2015ء ہمدردی کرو.اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو.آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو.مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے.وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو“ ( یعنی اپنے بدلے خود لینے کی کوشش نہ کرو.جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدر تم سے خوش ہو گا.اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو“ ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 165-164) وہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنے تمام حقوق ادا کرنے والے ہوں.ہم اعتقادی اور عملی لحاظ سے بنہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں بنانا چاہتے ہیں.ہماری زمین بھی نئی بن جائے اور ہمارا آسمان بھی نیا بن جائے اور ہم وہ انسان بن جائیں جو نئی زمین اور نئے آسمان بنانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاون و مددگار ہوں.اللہ تعالیٰ اس جلسے کو بھی ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور یہاں آنے والے بے شمار فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں.جلسے کے پروگراموں کو آپ لوگ توجہ سے سنیں اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں.ہر تقریر ہر پروگرام بڑا اچھا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 26 جون 2015 ء تا 02 جولائی 2015 ءجلد 22 شمارہ 26 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 354 24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ امسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 12 جون 2015 ء بمطابق 12 احسان 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : وو یا درکھو کہ انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور دوسرے آقا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيثُ (الضحی: (11 ).پر عمل کرے.فرمایا: خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی چاہئے.اس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اور اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے ایک جوش پیدا ہوتا ہے.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 4 صفحہ 649 بحوالہ الحکم 10 اپریل 1903 صفحہ 2-1 جلد 7 نمبر 13 ) خلیفہ وقت کے دورہ جات اور سفروں میں افضال الہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے تو ہم روز دیکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور نعمتوں کی طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں اضافہ کرنے والے بھی ہونے چاہئیں.لیکن جب میں سفر پر جاتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کئی گنا زیادہ بڑھ کر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پروگراموں میں برکت ڈالتا ہے اور تبلیغ اور اسلام کا حقیقی پیغام بھی بڑی کثرت سے لوگوں کو پہنچتا ہے اور پھر لوگوں پر اس کا اثر بھی ہوتا ہے.گزشتہ دنوں جب جرمنی کے دورے پر گیا ہوں تو اصل مقصد تو جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت تھی لیکن اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ خود ہی ایسے پروگرام بھی کروا دیتا ہے جو اسلام کے حقیقی تعارف اور تعلیم کو لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
خطبات مسرور جلد 13 355 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء فرمایا کہ انسان کو ہر حالت میں دعا کا طالب رہنا چاہئے.یقیناً اس کے بغیر تو ہمارا ایک قدم بھی اٹھانا محال ہے.اللہ تعالیٰ سے خالص ہو کر دعا مانگنی چاہئے اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بھی دیتا رہے.اور پھر فرمایا کہ دعا کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ کے فضل ہوں یا اللہ تعالیٰ خود ہی اپنی صفات کے جلوے دکھاتے ہوئے اپنے فضلوں کو اس سے کئی گنا بڑھ کر عطا کر رہا ہو جتنی ہماری دعا اور کوشش ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہلے سے بڑھ کر یاد کرنا اور ان کا ذکر کرنا ضروری ہے.اور یہی چیز پھر مومنین کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتی ہے.اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ایک جوش پیدا ہوتا ہے تا کہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور انعامات مزید بڑھیں.پس جس طرح جرمنی کے جلسے اور دوسرے پروگراموں میں اللہ تعالیٰ کے فضل ہوئے اور جس طرح اسلام احمدیت کا پیغام ان دنوں میں وسیع پیمانے پر ملک کے وسیع حصے میں پھیلا ہے یا اس تک پہنچا ہے یہ ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا ذکر کیا جائے اور خاص طور پر جرمنی جماعت کو بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے اور اسے ان فضلوں پر شکر گزاری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل بڑھتے چلے جائیں.دلوں تک پہنچا تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بغیر ممکن نہیں.کوئی انسان کسی کے دل تک نہیں پہنچ سکتا اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو.انسان چاہے لاکھ کوشش کرے اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو کوئی پیغام اثر نہیں کرتا.بعض دفعہ پر جوش مقررین کی تقریریں بھی اثر نہیں کرتیں لیکن ایک سادہ اور عام فہم انداز میں بات اثر کر جاتی ہے.پس اس کے نظارے ہمیں جلسے پر نظر آئے.وہاں جو غیر مہمان آئے ہوئے تھے ان کے تاثرات میں اس کا اظہار ہوا.ان کا مختصر ذکر میں اس وقت آپ کے سامنے کروں گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی میں مشرقی یورپ اور ہمسایہ ممالک سے بہت سے لوگ جلسے میں شمولیت کے لئے آئے تھے.بہت سے غیر از جماعت اور غیر مسلم ہوتے ہیں جو احمدیوں کے تعلقات کی وجہ سے حقیقت جاننے کے لئے آ جاتے ہیں اور پھر ان پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ زمانے کے امام کے غلاموں میں شامل ہو جاتے ہیں، بیعت کر لیتے ہیں.اس سال بھی جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت کے لئے میسیڈونیا، بوسنیا، کوسووو ، مونٹی نیگرو، بلغاریہ، البانیا، لیٹویا، رشیا ، ہنگری ہلتھوینیا، کروشیا اور سلوینیا کے ممالک سے وفود آئے تھے.اسی طرح ہمسایہ یورپی
خطبات مسرور جلد 13 356 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء ملک جو ہیں تیجیم ، ہالینڈ ، فرانس ، سویڈن، سپین، اٹلی یہاں سے بھی نو مبائعین اور غیر از جماعت مہمان آئے.اسی طرح جرمنی میں آباد رشین ممالک کے احمدی اور غیر از جماعت احباب اور اسی طرح ترکی کے احمدی اور غیر از جماعت احباب بھی بڑی تعداد میں شامل ہوئے.ان سب کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوئیں، سوال جواب بھی ہوئے.چند ایک کے تاثرات میں پیش کرتا ہوں.البانیا سے سولہ افراد آئے ہوئے تھے.دو نے جلسے کی کارروائی دیکھ کر بیعت بھی کر لی.ایک دوست ایڈوین جیپا (Ervin Xepa) صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ جلسہ میں شامل ہوئے.یہ دونوں قانون کے شعبے سے منسلک ہیں.یہ خود تو احمدی ہیں لیکن ان کی اہلیہ نے جلسے میں شمولیت سے پہلے بیعت نہیں کی تھی لیکن الحمد للہ کہ جلسے میں شامل ہو کر اور بعد میں ملاقات کر کے انہوں نے بھی بیعت کر لی اور یہ کہنے لگیں کہ جلسے کے تجربات نہایت غیر معمولی تھے جس سے محبت ، اخلاص اور بے لوث خدمت کا مظاہرہ انہوں نے دیکھا.کہتی ہیں اس کا میرے دل پر بڑا غیر معمولی اثر ہوا.یہ بھی قانون دان ہیں، یہ بھی وکیل ہیں.کہتی ہیں کہ میرے خاوند نے مجھے بہت تبلیغ کی تھی اور کافی عرصے سے احمدیت کی خوبصورتی میرے دل میں بیٹھ چکی تھی لیکن آج کامل یقین سے جماعت احمدیہ کوقبول کرتی ہوں.اور ملاقات کے دوران بھی وہ مستقل روتی رہیں.یہ بھی نہیں کہ بڑی عمر کی ہیں.نوجوان ہیں اور نو جوانوں میں بھی حقیقی اسلام پہچاننے کی طرف بہت توجہ پیدا ہو رہی ہے.اسی طرح ایک دوست ابراہیم شوشلا (Ibrahim Turshilla) صاحب ہیں.ملاقات کے دوران انہوں نے اعلان کیا کہ میں بھی احمدی ہوتا ہوں اور بیعت کر کے شامل ہو گئے.کہتے ہیں میں نے یہ فیصلہ کرنے میں بڑی دیر کی ہے لیکن پھر بھی آج پورے یقین سے شامل ہوتا ہوں اور میرا یہ فیصلہ بڑا صحیح ہے.کوسووو سے آنے والے ایک دوست اگرون (Agron) صاحب ہیں.کہتے ہیں میں پچھلے سال بھی آیا تھا لیکن گزشتہ سال کے مقابلے پر جلسے کے انتظامات میں غیر معمولی وسعت اور نمایاں تبدیلی محسوس کی ہے.پس یہ وسعت اور تبدیلی اور بہتری اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہے.اور اس بات کو انتظامیہ کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنانے میں مزید کردار ادا کرنا چاہئے اور ان کی شکر گزاری بڑھنی چاہئے.میسیڈونیا سے بھی 162 افراد پر مشتمل وفد آیا تھا جن میں سے چودہ عیسائی تھے.ستائیس غیر احمدی مسلمان تھے اور یہ تقریب دو ہزارکلو میٹر کا طویل سفر کر کے 36 گھنٹے کے سفر کے بعد پہنچا تھا.ان میں دوٹی
خطبات مسرور جلد 13 357 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء وی چینلز کے دو صحافی بھی تھے اور مختلف مناظر بھی فلماتے رہے.انہوں نے مختلف لوگوں کے انٹرویو بھی لئے اور کہتے ہیں کہ وہاں جا کے ہم ایک ٹی وی پروگرام بنا ئیں گے اور اس میں یہ دکھا ئیں گے.میسیڈونیا سے آنے والے ایک مہمان نے کہا کہ جلسے میں شامل ہو کر اس کی یادوں کے ساتھ واپس جا رہا ہوں.جلسے کے انتظامات کا کام ایسا ہے کہ کوئی بھی ادارہ مشکل سے سرانجام دے سکتا ہے بلکہ میں کہوں گا کہ ایک بڑا ملک بھی اس معیار کا پروگرام منعقد نہیں کر سکتا.پھر میسیڈونیا کے ایک صاحب ہیں وہ کہتے ہیں زندگی میں پہلی دفعہ اتنے اچھے لوگوں سے ملا ہوں.مجھے سب سے زیادہ متاثر اسلام کے پیغام نے کیا ہے جو مجھے اب یہاں سے ملا.آپ کے پاس دیواروں پر جو پیغام لکھا ہوا ہے وہ صرف الفاظ نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں آپ لوگ اس پر عمل کرتے ہیں.ان باتوں نے میرے دل پر بڑا گہرا اثر کیا ہے.پھر میسیڈونیا سے ہی ایک مہمان ٹونی (Toni) صاحب ہیں.کہتے ہیں بطور صحافی میں دنیا کے مختلف پروگراموں میں شامل ہوا ہوں لیکن یہ سب سے اچھا پروگرام تھا.سب کچھ اچھے طریقے سے آرگنائز کیا گیا تھا.یہاں ڈسپلن تھا.مجھے اس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا کہ سب لوگ خدا کے نزدیک برابر ہیں.سب افراد میں برداشت ہے.مذہب، قوم، زبان کی وجہ سے آپس میں اختلافات نہیں ہیں.ایک غیر مسلم کی حیثیت سے یہ بات میرے لئے بہت اہم ہے.پھر میسیڈونیا سے آنے والے ایک مہمان کہتے ہیں کہ جلسے پر پہلی بار شامل ہو ا ہوں اور میرے لئے سب کچھ نیا تھا.میں نہیں جانتا تھا کہ اسلام میں ایسی جماعت بھی موجود ہے.اس جلسے میں شامل ہونے کے بعد اب اپنے آپ کو علمی طور پر بہتر محسوس کر رہا ہوں.مجھے احمدیت کے بارے میں زیادہ علم حاصل ہوا ہے اور تجربہ بھی.مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میں اس جماعت کا ہی حصہ ہوں.اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا اکٹھا ہونا اور سب کی ضروریات کا خیال رکھنا یہ بہت بڑا کام ہے.پھر ان کی مجھ سے ملاقات بھی ہوئی.اس کے بعد یہ کہنے لگے کہ جو کچھ میں نے آپ سے سنا ہے اس کے بارے میں غور کروں گا کہ ہمارے اور احمدیوں کے درمیان کیا فرق ہے.ان کا سوال یہی تھا کہ احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ کہتے ہیں جو کچھ میں نے آپ سے سنا مجھے بہت اچھا لگا ہے.میرا پیغام جماعت کو یہ ہے کہ میرے ملک اور دیگر ممالک جہاں بھی جماعت قائم نہیں ہے وہاں احمدیت کے مشنری بھجوائے جائیں جو وہاں لوگوں کو بتائیں کہ احمدیت کیا ہے.اور یہ مطالبے اکا دُکا نہیں ، بہت ساری جگہوں سے آتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 13 358 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء میسیڈونیا کے وفد کے ایک مہمان دراگان (Dragan) صاحب تھے.کہتے ہیں میرا مسلمانوں سے پہلی مرتبہ اس طرح اتنا قریبی تعارف ہوا ہے اور ایسی تقاریر سنی ہیں جو اسلامی تعلیم کے بارے میں تھیں.یہاں مسلمانوں نے ہمارا استقبال ایسے کیا جیسے وہ ہمیشہ سے ہمیں جانتے ہوں.بوسنیا کے ایک صاحب کہتے ہیں.پہلے ان کا جماعت کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق نہیں تھا لیکن امام جماعت احمدیہ سے ملاقات کے بعد ان میں ایک غیر معمولی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور جماعت اور خصوصاً خلیفہ اسیح کے لئے ان کے دل میں احترام بہت زیادہ ہو گیا ہے.سویڈن سے ایک رشین فیملی آئی تھی.ان کے ایک اور دوست آئی تو رے صاحب تھے.اپنی فیملی کے ساتھ جلسے میں شامل ہوئے.انہوں نے 2013ء میں احمدیت قبول کی تھی مگر مجھ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی.مجھ سے ملاقات کے بعد بڑے جذباتی تھے اور بڑے پر جوش تھے اور بار بار اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ میرا خیال نہیں تھا کہ مصروفیت کی وجہ سے ملاقات ہوگی لیکن موقع پیدا ہو گیا.مربی صاحب نے لکھا کہ آتے ہوئے تو ہر دو گھنٹے بعد رکنے کا کہتے تھے تا کہ پھر کے اپنی ٹانگ تھوڑی سی strech کر کے درست کر سکیں لیکن واپسی پر سترہ گھنٹے کا سفر انہوں نے بغیر ڑ کے کیا.اور جب ان سے گھر پہنچ کے پوچھا کہ اس دفعہ آپ رستے میں رکے نہیں.کہنے لگے کہ جلسے کی برکات ہیں.مجھے تو احساس ہی نہیں رہا کہ میری ٹانگ میں کوئی تکلیف تھی.پھر کروشین وفد تھا.اس کی ایک رکن یا سیپا (Josipa) صاحبہ نے کہا کہ جلسہ سالانہ پر آنے سے قبل میں نے جماعت کے موجودہ سربراہ کی کتاب World crisis and the pathway to peace کا مطالعہ کیا.اس طرح سال 2014 ء اور 15 ء میں امن کے بارے میں سمپوزیم میں خلیفہ المسیح کے دونوں خطابات کا بھی مطالعہ کیا.میرے ذہن میں یہ تاثر تھا کہ جماعت کے سر براہ بعض معاملات میں سخت موقف رکھتے ہوتے ہیں اور سخت مزاج ہوں گے تاہم یہ تاثر ملاقات کے بعد زائل ہو گیا اور اس کے بعد انہوں نے مزید تحقیق جماعت کے بارے میں کرنی شروع کی.ہنگری کے ایک دوست مے زے ای (Mezei) صاحب جلسے میں شامل ہوئے.پولیس کے محکمے میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں.اب ہنگری کے ایک انقلابی وزیر اعظم کے نام پر ایک فنڈ قائم ہوا ہے اس کے ذریعے یہ انسانیت کی خدمت کے کام کرتے ہیں.یہ مذہباً عیسائی ہیں.وہ اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ چھوٹا بڑا ہر کوئی ایک دوسرے کو سلام
خطبات مسرور جلد 13 359 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء کر رہا تھا.پیار سے مل رہا تھا.مجھے ان لوگوں کی زبان تو سمجھ نہیں آئی لیکن ان کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ یہ لوگ پیار بانٹ رہے ہیں.میں نے دنیا دیکھی ہے اور مشرق سے لے کر مغرب تک اس قسم کا نظارہ نہیں دیکھا.مجھ پر اس جلسے کا عجیب اثر ہوا ہے.یقیناً میں اپنے دوستوں کو ، جاننے والوں کو بھی جماعت احمدیہ کے جلسے کے متعلق بتاؤں گا.پھر ہنگری کے ہی ایک گابور پیٹر (Gabor Peter ) صاحب ہیں.یہ مذہبا یہودی ہیں.ہمارے جو مبلغ ہیں انہوں نے بتایا کہ جلسے میں شامل ہونے سے پہلے جب ان سے اسلام اور یہودیت کے حوالے سے بات ہوتی تھی تو بسا اوقات کی بھٹی بھی کرتے لیکن جب ان کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو کہنے لگے کہ آپ لوگ Love for all, hatred for none پر صرف ایمان نہیں لاتے بلکہ میں نے خود دیکھ لیا ہے کہ آپ لوگ اس ماٹو پر عمل کرتے ہیں اور اب انہوں نے کہا ہے کہ جماعت کو ہنگری میں کسی بھی قسم کے معاملے میں کوئی بھی ضرورت ہو تو وہ تعاون کریں گے.پس یہ تبدیلیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ پیدا فرماتا ہے.ہنگری سے آنے والے وفد میں ایک دوست اسماعیل صاحب شامل تھے.ان کا تعلق ویسے برکینا فاسو سے ہے لیکن ہنگری میں مقیم ہیں.ان کی اہلیہ ہنگیرین ہیں.وہاں کچھ عرصہ پہلے بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے.ان کی دو بچیاں ہیں ان کے ساتھ آنا چاہتے تھے.لیکن اہلیہ نے کہا کہ بچیوں کو علیحدہ میں نہیں جانے دوں گی.پتا نہیں کن مسلمانوں میں تم جار ہے ہو.اس لئے بچیوں کی نانی ساتھ آئی تھی اور یہاں آ کے ان پہ تو جو اثر ہونا تھا ہوا.پہلے تو جلسے کی مختلف کارروائی دیکھی.One comunity,one leader جو ویڈیو ہے وہ بھی دکھائی گئی.اس کا بھی ان پر خاص اثر ہوا اور جلسہ گاہ پہنچنے سے پہلے کہنے لگیں کہ میں سر ڈھانکنے کے لئے کچھ نہیں لائی.بہر حال پھر ساتھ والی عورتوں سے دو پٹہ مانگا، سکارف مانگا اور سر ڈھانکا اور ملاقات کے دوران بھی بڑی جذباتی تھیں کہ یہ بالکل اور دنیا ہے جو میں دیکھ رہی ہوں.ہمارے جو تحفظات تھے بالکل دُور ہو گئے ہیں.پھر جرمنی میں ایک دوست سلیمان صاحب ہیں.سینٹرل ریپبلک آف افریقہ سے ان کا تعلق ہے.کہتے ہیں مجھے جلسے کی دعوت ملی تو میرا خیال تھا کہ پچاس یا سولوگوں کی تبلیغی نشست ہوگی جس میں تھوڑی بہت باتیں ہوں گی اور کھانا پینا ہو گا.پھر سارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے.لیکن یہاں آنے کے بعد تو میرا نظریہ یکسر بدل گیا ہے.ہزاروں کی تعداد میں افراد جمع تھے.میں تو جلسے کے
خطبات مسرور جلد 13 360 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء نظارے کے اس سحر سے باہر نہیں نکل سکا.یہاں کی ہر چیز ہی مسحور کن ہے اور آپ کا تبلیغ کرنے کا انداز ہی نرالا ہے.اگر اسی طرز پر تبلیغ کی جائے تو کوئی بدقسمت ہی ہو گا جو انکار کرے.مونٹینیگر و سے آنے والے ایک صاحب راغب هپتانی (Ragip Shaptafi ) صاحب کہتے ہیں کہ میں نے تقاریر سنیں ، انتظامات دیکھے، غیر معمولی چیزیں تھیں.اسی طرح راغب صاحب نے بتایا کہ مونٹینیگرو میں مسلمانوں کے نزدیک عموماً یہی مشہور ہے کہ جماعت احمد یہ نعوذ باللہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہیں کرتی لیکن جو شخص جماعت کو قریب سے دیکھتا ہے تو اس پر فی الفور واضح ہو جاتا ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے جو مولویوں نے پھیلا یا ہوا ہے.پھر مراکش کے ایک دوست جو بیلجیم میں رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ اپنے جذبات کو بیان نہیں کر سکتا.ایسا روحانی نظارہ ہے جس نے میری روح کی گہرائی تک اثر کیا ہے.اسلام کی صحیح تصویر مجھے یہاں نظر آئی ہے.کہتے ہیں خلیفہ وقت کو دیکھ کر اور آپ کی تقاریر سن کر میر انظریہ احمدیت کے بارے میں تبدیل ہو گیا ہے اور اللہ تعالیٰ مجھے ایسی بیعت کی توفیق دے کہ میں دین کا خادم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے والا بنوں.ایک جرمن دوست ہیکو فرینکل (Heiko Fahnicke) صاحب کہتے ہیں.یہ میرا پہلا موقع تھا کہ میں احمدیت کے بارے میں کچھ جان سکوں.پھر میرے بارے میں انہوں نے کہا کہ جو بھی انہوں نے کہا سچ کہا.اگر تمام انسان اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو پوری دنیا میں امن پھیل جائے.میں نے اپنی تو قعات سے بڑھ کر اسلام کے بارے میں یہاں سے سیکھا ہے اور مجھے بہت مزا آیا ہے.فرانس کے ایک نو مبائع آن کی آنفان (Anly Anfane) صاحب جزائر کموروز کے رہنے والے ہیں.تین ہفتے پہلے ہی انہوں نے بیعت کی تھی.کہتے ہیں میں مسلمان تو تھا مگر استقامت نہیں ملتی تھی.کل جب خلیفتہ اسیح کے پیچھے جمعہ پڑھا تو مجھے بہت مزا آیا اور زندگی میں پہلی بار نماز میں رونا آیا.جماعت میں داخل ہونے سے قبل میرے سارے کام پھنسے ہوئے تھے لیکن جب سے احمدی ہؤا ہوں میرے سارے کام آسان ہو گئے ہیں اور روزانہ خدا تعالیٰ کے نشان نظر آ رہے ہیں.ایک طالبعلم ایڈ گروس (Edgaras) کہتے ہیں کہ یہاں آنے سے قبل میرے ذہن میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ اسلام کے بارے میں بہت غلط تصور قائم تھا.لیکن خطابات سن کر جلسے کے پروگرام دیکھ کر سب کچھ مختلف لگا.لوگوں کا رویہ بہت مثبت تھا اور آج حقیقی اسلام کو
خطبات مسرور جلد 13 361 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء آپ لوگوں کی صورت میں دیکھ رہا ہوں.اسی طرح بہت سارے لوگوں کے تاثرات ہیں.لتھوینیا سے آنے والے ایک وکیل نے کہا کہ میں جلسے میں شامل ہو کر بہت متاثر ہوا ہوں.میں نے آپ کے خلیفہ کے خطابات سنے.اسلام کے بارے میں یہ میرے لئے نیا تجربہ ہے.یہاں آ کر مجھے اسلام کی حقیقی تعلیم کا علم ہوا ہے.میں آپ کا شکرگزار ہوں اور ایک وکیل ہونے کی حیثیت سے اب لتھوینیا میں آپ کی جماعت کی ایکٹویٹیز (activities) میں قانونی طور پر پوری مدداور کوشش کروں گا اور آپ کا ساتھ دوں گا.بوسنیا سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے کہا کہ خلیفہ اسیح نے ایک زندہ خدا کے بارے میں تصور پیش کیا.اس وقت صرف جماعت احمد یہ ایک ایسی جماعت ہے جو یہ دعویٰ کرتی ہے اور دکھاتی بھی ہے کہ خدا تعالیٰ آج بھی زندہ ہے.اور یہ بات ہمیں آپ نے بڑے آسان الفاظ میں مگر عمدہ رنگ میں بیان کر کے سکھائی.پھر ایک صاحب ہیں جو جرمنی اور نجیم کے بارڈر پر رہتے ہیں.پہلے سے مسلمان ہیں.کہتے ہیں جلسہ جرمنی پر آنے سے پہلے تک میں مذہب اور جماعت کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا لیکن جلسے میں شامل ہو کر میرے جذبات کی کایا پلٹ گئی ہے.جس جماعت کو میں سنجیدہ نہیں لیتا تھا اسی جماعت نے میری زندگی کے بہترین دن مجھے جلسہ سالانہ کی شکل میں دکھائے.پھر انہوں نے اپنی ایک لمبی خواب کا بھی ذکر کیا ہوا ہے.اسی طرح ایک جرمن نو احمدی پیٹرک (Patrick) صاحب کہتے ہیں کہ مجھے آج بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے اور اس کی وجہ خلیفہ اسیح کا جرمن مہمانوں سے خطاب تھا ( جو انگلش میں ہوتا ہے ).مجھے احمد یہ مسلم جماعت میں خلافت کے ذریعے سچی محبت نظر آئی ہے.میرا دل محبت اور نور سے پُر ہے.عبداللہ صاحب ایک سیرین ہیں.ان کے والد کئی سالوں سے احمدی تھے.یہ اپنے والد کے ساتھ رشیا میں رہتے تھے لیکن اب پڑھائی کے سلسلے میں ہالینڈ میں مقیم ہیں.ان کے والد صاحب کے ذریعے انہیں تبلیغ تو ہوتی رہی لیکن ابھی انہوں نے بیعت نہیں کی تھی.جلسے میں شرکت کے بعد باوجود اس کے کہ جلسے سے پہلے مبلغ صاحب کے ساتھ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں ان کے روز سوال و جواب ہوتے تھے اور یہ نہیں مان رہے تھے.پھر آخر مبلغ نے ان کو کہا کہ پھر یہی ہے کہ آپ دعا کریں.کہتے ہیں میں دعا بھی کرتا ہوں.تو ان کو بتایا کہ آپ درد سے اور الحاح سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 13 362 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء آپ کی رہنمائی کرے.جلسے کے دوسرے روز جو میرا خطاب تھا اور اس کے بعد تبلیغی مہمانوں کے ساتھ میٹنگ تھی.پتا نہیں یہ اس میں شامل تھے کہ نہیں بہر حال خطاب والے روز ہی کہتے ہیں ہمارے مبلغ سے کہا کہ مجھے قرآن کریم سے مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی صرف ایک دلیل دے دیں.ہمارے مبلغ نے ان کو دلیل دی اور بعض پیشگوئیاں اور جماعت کی ترقی کے بارے میں بھی بات کی.کہنے لگے میں بیعت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نشان دکھا دیا ہے.کہنے لگے کہ رات میں نے اللہ تعالیٰ سے بڑے تضرع اور الحاج سے دعا کی اور رات کو جب سویا تو خواب میں دیکھا کہ بڑی سی دیوار پر جلی حروف میں اَلْاَحْمَدِيَة لکھا ہوا ہے اور اس میں غیر معمولی نور پھوٹ رہا ہے.اور اسی طرح جب میں جرمن سے خطاب کر رہا تھا تو کہتے ہیں کہ اس دوران ہی میں نے دل میں نشان ما نگا تھا.تو کہتے ہیں کہ اس دوران ہی میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش خلیفہ امسیح کے ساتھ اور آپ کے قرب میں کھڑے ہونے کا موقع ہوتا یا اس وقت مجھے موقع مل جائے تو کہتے ہیں کچھ دیر کے بعد ایسے محسوس ہوا جیسے ایک لمحے کے لئے مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی ہے اور میں نے دیکھا کہ میں سٹیج میں خلیفہ ایسیح کے پہلو میں کھڑا ہوں اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ حق میرے پر کھل گیا.کہتے ہیں قرآن شریف کی دلیل تو میں نے محض انشراح، اطمینان کے لئے مانگی تھی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ دعا کے بعد اور اس خواب کے بعد میری تسلی ہو گئی تھی.چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی.اسی طرح الجزائر کے ایک دوست ہیں.کہتے ہیں کہ ہر بار جلسے میں شرکت میرے ایمان میں غیر معمولی اضافے کا سبب بنتی ہے اور ہر بار خدا تعالیٰ کی بے بہا نصرتوں کے نظارے دیکھتا ہوں.جلسے میں مجھے محسوس ہوا جیسے میں جنت میں ہوں.یہاں زبانوں اور طبیعتوں اور قوموں کے اختلاف کے باوجود ہر طرف سے السلام علیکم کی آواز اہل جنت کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کا قول ہے تَحِيَّتُهُم فيها سلام.اس کی یاد دلاتی ہے.اٹلی سے آنے والے ایک عیسائی مہمان تھے.یہ اٹلی کی ایک تنظیم ہے Religion for peace ،اس کے جنرل سیکرٹری ہیں اور ویٹیکن سٹی میں کافی اثر ورسوخ رکھتے ہیں.اس کے علاوہ کیتھولک تھیالوجی کے بارے میں مختلف کتب بھی لکھ چکے ہیں.یہ بڑا اچھا اثر لے کر گئے بلکہ انہوں نے واپس اٹلی جا کر مضمون لکھا.ان کا ایک اپنا رسالہ ہے جسے ہزاروں کی تعداد میں لوگ پڑھتے ہیں.مضمون میں انہوں نے تحریر کیا کہ مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ جلسہ سالانہ کا منظر نہایت حیران کن تھا.انسان کی نظر جب بڑے
خطبات مسرور جلد 13 363 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء بڑے حروف میں لکھے پیغام محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں، پر پڑتی ہے تو پہلا سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا یہ لوگ واقعی مسلمان ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ واقعی مسلمان ہیں.وہاں کا ماحول عجیب محبت اور یگانگت سے پُر ہوا ہوا تھا.میں نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے جوان، بوڑھے، بچے اور فیملیاں ایک نہایت منظم جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں.اس بات نے بھی مجھے بہت متائثر کیا کہ وہاں پر سینکڑوں لوگ بغیر کسی معاوضہ کے رضا کارانہ طور پر کام کر رہے ہیں بلکہ جو شخص مجھے کار میں ہوٹل سے جلسہ گاہ لے کر جاتا اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی ملازمت سے اس جلسے کے لئے بغیر تنخواہ کے دو ہفتے کی رخصت لی ہے.پھر میرے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کی تقاریر سے بڑا متأثر ہوا ہوں.سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والی تھیں.ان الفاظ میں پیار، بھائی چارہ، اتحاد اور یگانگت ملی.تو یہ ایک تفصیلی مضمون بھی انہوں نے وہاں شائع کر دیا.ایک سیرین ڈاکٹر جو جلسے میں شامل تھے کہتے ہیں کہ ایسی منظم تنظیم میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی.ہم تو چھ بندوں کو نہیں سنبھال سکتے اور یہاں چالیس ہزار کے قریب لوگ جمع ہیں اور کوئی دھکم پیل نہیں.میں کہ دل سے حضرت مرزا صاحب اور آپ کے خلیفہ کا احترام اور عزت کرتا ہوں.کہتے ہیں میں نے براہین احمدیہ مکمل پڑھی ہے.خدا کی قسم انیسویں صدی میں ، نہ عرب میں اور نہ کسی اور ملک میں اسلام کے دفاع میں ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی.اللہ تعالیٰ ان کا سینہ بھی کھولے اور قبولیت کی توفیق بھی عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسے کی برکات غیر معمولی ہوتی ہیں.غیر معمولی اثرات ہوتے ہیں.بہت کم میں نے بیان کئے ہیں اور جو بیان کئے ہیں ان کو بھی خلاصہ بیان کیا ہے.اسی طرح بعض مہمانوں نے اپنے بعض تحفظات کا بھی ڈرتے ڈرتے ذکر کیا.خوبیاں تو بیان کرتے ہیں لیکن جو بعض باتیں توجہ دلانے والی ہوتی ہیں اس طرف مہمان عموماً شرم کی وجہ سے توجہ نہیں دلاتا.لیکن یہاں دو خواتین ایسی بھی تھیں جن میں ایک البانیا کی ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ عورتوں میں میں نے دیکھا کہ سالن اور روٹی کا ضیاع بہت ہورہا تھا.تو جہاں بہت ساری خوبیاں ہیں اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.جرمنی کی جو انتظامیہ ہے خاص طور پر لجنہ ان کو چاہئے کہ کھانے والیوں کو توجہ دلاتی رہیں کہ کھانا اور روٹی ضائع نہ کیا کریں.اسی طرح میسیڈونیا سے آنے والی ایک خاتون نے رہائش کے بارے میں کہا کہ رہائش بہت
خطبات مسرور جلد 13 364 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء دور تھی اور ہمیں بڑا سفر کر کے آنا پڑتا تھا.اس کی وجہ سے تھکاوٹ ہو جاتی تھی تو ایسے لوگوں کے لئے بھی جرمنی کی انتظامیہ کو قریب انتظام کرنا چاہئے.اسی طرح افسر جلسہ سالانہ نے بھی بعض باتیں نوٹ کی ہیں اور اپنی باتیں خود نوٹ کرنا ہی اصل میں بہتری کی طرف لے جاتا ہے.اس طرف بھی آئندہ توجہ دینی چاہئے.ایک تو لوگوں کا گند پھینکنا ، صفائی کا خیال نہ رکھنا، اس طرف آئندہ لوگوں کو خیال رکھنا چاہئے اور ہر ایک کو ایک دوسرے کو صفائی کی طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئے.پھر کھانے کے بارے میں بھی بعضوں نے کہا.جبکہ لنگر خانوں میں جو کھانا پکتا ہے وہ ایک طرح کا ہی پک سکتا ہے.بعضوں کو اعتراض پیدا ہوا کہ پاستہ(Pasta) وغیرہ نہیں ہے، وہ ہونا چاہئے.یہاں اصل چیز تو روحانی غذا ہے جو کھانے کے لئے احمدی آتے ہیں.اس لئے احمدیوں کو اس قسم کی بات نہیں کرنی چاہئے.جو بھی کھانا ملتا ہے وہ کھا لینا چاہئے.اور اسی طرح ہوگا کہ ایک ہی کھانا پکے گا.پھر بعض دفعہ بعض کا رکن بعض معاملات میں سخت ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے تو یہ دیکھ لیا کریں کہ اگر کوئی ضرورتمند ہے اور اس کی ضرورت جائز ہے تو قواعد سے ہٹ کر بھی اگر اس کی کوئی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے تو کر دینی چاہئے.کارکنوں کو ہمیشہ نرمی اور سہولت کا سلوک کرنا چاہئے.بہر حال مجموعی طور پر اس دفعہ جلسہ سالانہ کے انتظامات بڑے اچھے تھے.افسر جلسہ سالانہ اور ان کی ٹیم نے گزشتہ سالوں کی نسبت بہت بہتر کام کیا ہے.بعض چھوٹی چھوٹی کمیاں بڑے انتظام میں رہ جاتی ہیں ان پر بھی نظر رکھیں تو آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ مزید بہتری پیدا ہوگی.اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو جزا دے جنہوں نے بڑی محنت سے کام کیا.باوجود اس کے کہ توقع سے زیادہ مہمان آ گئے تھے ان کے لئے بستر بھی مہیا کر دیئے گئے.پہلے ایک رات مسئلہ پڑا تھا لیکن اگلے دن ٹھیک ہو گیا اور بڑے اچھے طریقے سے حل ہو گیا.باقی پچھلے سال میں آواز وغیرہ کے معاملے میں جو کمزوریاں تھیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُور ہو گئیں.بہر حال جیسا کہ میں کارکنان کا شکریہ ادا کیا کرتا ہوں ان سب کا شکریہ.اس کے علاوہ دورہ کے دوران بعض مساجد کے افتتاح بھی ہوئے.ان کا بھی میں مختصر ذکر کر دیتا ہوں.آخن میں مسجد کا افتتاح ہوا تو وہاں آخن شہر کے ایک رہائشی اس تقریب میں شامل ہوئے.کہنے لگے دو تین سال پہلے میں نے یورپین پارلیمنٹ میں بھی خلیفہ اسیح کا خطاب سنا تھا.آج میں درحقیقت اس غرض سے آیا تھا تا کہ یہ دیکھوں اور موازنہ کروں کہ کیا آپ کے خلیفہ صرف بڑی شخصیات کے سامنے اور
خطبات مسرور جلد 13 365 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء اہم پلیٹ فارم پر ہی امن کی تعلیم پیش کرتے ہیں یا پھر دوسرے چھوٹے پروگراموں میں بھی جہاں کم اقتدار رکھنے والے لوگ شامل ہوں وہاں بھی امن کی بات ہی پیش کرتے ہیں.یہ دیکھنے لگے تھے کہ دوغلی پالیسی تو نہیں ہو رہی.چنانچہ آج میں نے خلیفہ کا خطاب سنا ہے.آپ نے وہی تعلیم پیش کی ہے جو یورپین پارلیمنٹ میں کی تھی.آپ نے سب کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے ، رواداری اختیار کرنے ،صبر کا برتاؤ کرنے اور حوصلہ دکھانے اور آپس میں نیکی سے پیش آنے کی تلقین کی ہے.ان سب باتوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے.اسی طرح شہر کے میئر صاحب اور دوسرے لوگ تھے سب نے اظہار کیا.وہاں صوبہ بیسن (Hessen) میں ہناؤ میں بھی مسجد بیت الواحد کا افتتاح ہوا تھا.وہاں کے ضلعی کمشنر جو ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں انہوں نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا.کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کی تقریر نے ہم پر بہت اچھا اثر چھوڑا ہے.آپ غیر مسلمان شہریوں سے براہ راست مخاطب ہوئے اور تمام انسانوں کو توجہ دلائی کہ وہ ایک خدا کی طرف سے ہیں اس لئے ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور مسائل کو امن کی راہوں پر چلتے ہوئے حل کریں.وہ کہتے ہیں کہ اس تقریر کو انٹرنیٹ پر بھی مہیا کرنا چاہئے.وہاں انہوں نے سکرپٹ (script) کا فوری مطالبہ بھی کیا.پھر جرمنی کی ایک خاتون ممبر پارلیمنٹ تھیں.کہتی ہیں کہ آج مجھے بہت خوشی ہے کہ اس مسجد کے افتتاح میں شامل ہو رہی ہوں.اس سے قبل میں فلورس ہائم شہر کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر بھی موجود تھی.آج کل جب کہ اسلام کی تعلیم کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں تو پھر یہ ضروری ہے کہ ہم سب مل کر امن کا پیغام دیں اور آج یہاں جماعت احمدیہ کی مسجد کی تعمیر بتاتی ہے کہ ہم سب مل کر امن اور محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور یہ مسجد اس بات کا بھی واضح اظہار ہے کہ یہ احمدیوں کا وطن ہے.پھر بہت سارے اور تاثرات بھی ہیں.ایک مہمان نے کہا کہ میرے لئے بہت مشکل تھا کہ اسلام کے بارے میں کوئی اچھی رائے بناؤں.مگر آج خلیفہ اسیح نے جو اسلام پیش کیا ہے اس اسلام کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ اسلام امن اور رحم کی تعلیم دینے والا مذہب ہے اور اسلام کا یہ تصور قرآن کے مفہوم کے عین مطابق ہے.ایک انجنیئر نے مسجد کی تعمیر میں کام بھی کیا ہے وہ میرے متعلق کہتے ہیں کہ انہوں نے جتنی بھی
خطبات مسرور جلد 13 366 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء باتیں کیں میں ان سب سے مکمل اتفاق کرتا ہوں.ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا خیال تھا کہ یہ تقریب چرچ کی تقریبوں کی طرح ہوگی جن میں زیادہ دکھاوا ہوتا ہے لیکن ایک سادہ اور بہت اچھی تقریب تھی.الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ سے ان سارے پروگراموں کی کوریج بھی بہت ہوئی ہے.مجموعی طور پر مختلف اخبارات میں تقریباً اٹھاسی خبریں شائع ہوئیں.اسی طرح آٹھ مختلف ریڈیو سٹیشن اور چار مختلف ٹی وی چینلز پر خبریں نشر ہوئیں.ان اخبارات ، ریڈیو سٹیشن اور ٹی وی چینلز کے ذریعہ سے کل ایک سوچھ یا ایک سوسات ملین لوگوں تک پیغام پہنچا.جلسہ سالانہ جرمنی کے حوالے سے مختلف اخبارات میں کل چھتیں خبریں شائع ہوئیں اور ان اخبارات کی ریڈرشپ (readership) کل بتیس ملین کے قریب بتائی جاتی ہے.تین مختلف ریڈیوسٹیشنوں نے بھی جلسہ کے حوالے سے خبر نشر کی.ان کے ریڈیو سٹیشن کافی مشہور ہیں.اسی طرح چار مختلف ٹی وی چینل نے بھی جلسہ سالانہ کے حوالے سے خبریں نشر کیں.اس کے علاوہ جلسے کے آخری دن ایک خاتون صحافی نے میرا ایک انٹرو یولیا تھا وہ دوحصوں میں بطور فلم شائع ہونا ہے.یہ جرمنی کا سب سے بڑا آن لائن اخبار ہے.ان کی اشاعت ساڑھے ستر ملین سے زیادہ ہے.گو یادونوں خبروں کی مجموعی اشاعت چونتیس ملین ہوگی.پھر مساجد کے افتتاح کے حوالے سے مختلف اخبارات میں پچاس کے قریب خبریں آئیں.ان اخبارات کی ریڈر شپ کی کل تعداد باسٹھ ملین کے قریب بنتی ہے.دور یڈیو سٹیشنوں نے بھی بیت الواحد بناؤ کی مسجد کے افتتاح کے حوالے سے خبر نشر کی.اس کے علاوہ جرمنی کے مشہور ٹی وی چینل آرٹی ایل (RTL) نے بھی افتتاحی تقریب کے موقع پر ایک انٹرو یولیا تھا اور اسی روز شام کو دومنٹ اور تیس سیکنڈ کی خبر دی.پھر آخن کی مسجد کے بارہ میں تین اخبارات میں خبر چھپی جو وہاں لوکل اخبارات ہیں.تقریباً ایک لاکھ سولہ ہزار ان کے پڑھنے والے ہیں.پھر ایک مسجد کا سنگ بنیاد تھا وہاں کے اخبارات نے جو خبریں شائع کیں ان کے پڑھنے والوں کی تعداد چھ لین بتائی جاتی ہے.فیشا (Vechta) میں مسجد کا افتتاح تھا.اخبارات میں چار خبریں شائع ہوئیں.ان اخبارات کی کل ریڈرشپ (readership) قریباً چھبیس لاکھ ہے.وہاں ایک اخبار دی سائٹ ( Die Zeit) ہے.اس میں میرا ایک انٹرویو شائع ہوا.اور یہ ہفت روزہ اخبار ہے جو 1946 ء سے ہر جمعرات کو شائع ہوتا ہے.اوسطاً پانچ لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوتا ہے اور اس کے پڑھنے والوں کی تعداد ڈیڑھ ملین تک بتائی جاتی ہے.اسی طرح اس اخبار کے آن لائن ایڈیشن کو انٹرنیٹ پر دیکھنے والوں کی تعداد پانچ ملین کے قریب ہے.یہ احمدی صحافی ہیں جنہوں نے انٹرویو لیا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی بھی اب میڈیا
خطبات مسرور جلد 13 367 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جون 2015ء میں آ رہے ہیں اور اسلام کا حقیقی پیغام اب اس ذریعہ سے پہنچا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے علم وفراست میں اور برکت عطا فرمائے.پس جلسہ سالانہ جہاں اپنوں کے لئے روحانی اور تربیتی ترقی کا باعث بنتا ہے جس کا اظہا را حباب و خواتین مجھے اپنے خطوں میں کرتے رہتے ہیں وہاں غیروں کو بھی اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کا باعث بنتا ہے اور اس طرح سے بیعتیں بھی ہوتی ہیں.کئی لوگ جو انتظامیہ کے علم کے مطابق پہلے بیعت کے لئے تیار نہیں تھے، میرے سے ملاقات اور چند سوال پوچھنے کے بعد بیعت کے لئے تیار ہو گئے.پس کس کس فضل اور احسان کا انسان شکر ادا کرے.کس کس انعام کا شکر ادا کرے جو اللہ تعالیٰ ہم پر فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ اب جماعتیں ان فضلوں کو سنبھالنے والی بھی ہوں اور یہ نئی بیعتیں کرنے والے جو لوگ ہیں ان کو بھی صحیح رنگ میں اپنے اندر سموسکیں اور جلسے کی یہ برکات وسیع تر پھیلتی چلی جائیں.اللہ تعالیٰ تمام افراد جو شامل ہوئے ان کو بھی ان برکات سے مستقل فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو حقیقی شکر گزار بنائے.نماز کے بعد ایک جنازہ غائب بھی پڑھوں گا جو مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد دین صاحب بدر درویش قادیان کا ہے.یکم جون 2015ء کو 77 سال کی عمر میں بقضائے الہی وفات پا گئیں.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کا تعلق دیودرگ کرناٹک سے تھا.آپ کی شادی مکرم محمد دین صاحب بدر سے ہوئی جو تین سو تیرہ قدیمی درویشان میں سے تھے.مرحومہ اپنے بچوں کو ہمیشہ نیکی، تقومی سے زندگی بسر کرنے اور خلافت سے وابستہ رہنے کی نصائح کیا کرتی تھیں.درویشانہ تنگ دستی اور کثیر عیال کے باوجودصبر اور رضائے الہی پر ہمیشہ قائم رہیں.آپ نے چار بیٹے اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں.آپ کے بیٹے سلسلے کی خدمت میں مصروف ہیں.مکرم مبشر احمد صاحب بدر نائب صدر عمومی اور لوکل مربی اور مکرم طاہر احمد صاحب بدر نائب ناظر بیت المال خرچ مقرر ہیں جبکہ ایک داماد مکرم منیر احمد صاحب حافظ آبادی وکیل اعلیٰ تحریک جدید ہیں اور دوسرے داماد مکرم شمس الدین صاحب معلم کے طور پر خدمت بجالا رہے ہیں.مرحومہ موصیہ تھیں.بہشتی مقبرہ قادیان میں ان کی تدفین ہوئی.اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے ، اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے.اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی خوبیوں کو زندہ رکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.دو الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 03 جولائی 2015 ء تا 09 جولائی 2015 ، جلد 22 شمارہ 27 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 368 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 19 جون 2015 ء بمطابق 19 احسان 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج جمعہ کا بابرکت دن ہے اور رمضان کے بابرکت مہینے کا پہلا روزہ ہے.پس آج کا دن بے شمار برکتوں سے شروع ہونے والا دن ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے بابرکت دن ہونے کی اہمیت کے بارے میں یہ خبر دی اور ہمیشہ کے لئے یہ خبر ہے کہ اس دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں مومن اپنے رب کے حضور جو دعا کرے وہ قبول کی جاتی ہے.(صحيح البخارى كتاب الجمعة باب الساعة التي في يوم الجمعة حديث 935) رمضان کی برکات اور پھر رمضان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں.(سنن الترمذى كتاب الصوم باب ما جاء في فضل شهر رمضان حدیث (682) پس اللہ تعالیٰ کی رحمت اس مہینے میں خاص جوش میں آتی ہے اور مومنوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی بارش ہوتی ہے.لیکن ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فضلوں کو جذب کرنے کے لئے بعض شرائط بیان فرمائیں کہ نہ ہی ان دنوں میں بیہودہ باتیں ہوں ، نہ شور وشر ہو، نہ ہی گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا ہو.ہر برائی کے جواب میں روزہ دار کا یہ جواب ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں.(صحيح البخارى كتاب الصوم، باب فضل الصوم حديث (1894
خطبات مسرور جلد 13 369 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء اور میں خدا تعالیٰ کی خاطر ان تمام شرور سے بچتا ہوں اور جب یہ حالت ہو گی تو حقیقی رنگ میں روزہ ہوگا کہ انسان خدا تعالیٰ کی خاطر کوشش سے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اپنی زندگی گزارے.پھر اس بات کو کہ رمضان کے مہینے کی کیا اہمیت ہے؟ کن پر روزے فرض ہیں؟ کس طرح رکھنے چاہئیں؟ کیا پابندیاں ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس کو قبولیت دعا کے مضمون کے ساتھ اس طرح باندھا ہے کہ فرمایا کہ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 187 ) کہ جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو بتادے کہ میں ان کے پاس ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں.سو چاہئے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.پس فرمایا کہ رمضان کے دن اس قدر مبارک ہیں کہ ان دنوں کی عبادتوں کے بعد جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دے میں بالکل قریب ہوں.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جب پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.پس رمضان کے مہینے میں جو جمعے آتے ہیں ان کی اہمیت دوگنی ہو جاتی ہے.دن بھی قبولیت دعا کے دن ہیں اور راتیں بھی قبولیت دعا کی راتیں ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں نہیں پتا کہ کون سی گھڑی قبولیت دعا کی گھڑی ہے اس لئے دن بھی اور راتیں بھی دعاؤں میں گزارو.پس ان دنوں سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے.ایک تو رمضان میں عموماً کہ اس میں شیطان کو باندھ کر خدا تعالیٰ نے جنت کے دروازے کھول دیئے ہیں اور بندوں کے قریب آ گیا ہے اور پھر رمضان کے جمعوں سے بھی بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے لیکن سب سے اہم دعا جو ان دنوں میں کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انتہائی عاجزی سے اور خالص ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے انسان یہ دعا کرے کہ اے اللہ مجھے صرف رمضان میں ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی ان لوگوں میں شامل کر لے جن کی دعائیں رات کو بھی قبول ہوتی ہیں اور دن کو بھی قبول ہوتی ہیں تا کہ رمضان ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے والا ہو.تقویٰ پر چلانے والا ہو.میں مستقل ہدایت پانے والوں میں شامل ہو جاؤں.جو آیت میں نے پڑھی ہے اس سے پہلی آیات میں جب اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فضیلت کا ذکر فرمایا کہ روزہ پہلی قوموں پر بھی فرض کیا گیا ہے اس طرح تم پر بھی فرض کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ
خطبات مسرور جلد 13 370 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء کیونکہ پہلی قومیں روزہ رکھتی تھیں اس لئے تم بھی رکھو.بلکہ (مطلب) یہ ہے جو اس آیت کے آخر میں کہا گیا کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچو.پھر اس جگہ اس آیت کے آخر میں جو میں نے پڑھی ، فرمایا کہ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.تا کہ رشد حاصل کرو.رُشد کا مطلب ہے صحیح اور سیدھا راستہ صحیح عمل اور رہنمائی کا راستہ صحیح اخلاق.عقل و ذہانت کی بلوغت اور صحیح راستے پر اس کا استعمال اور اپنی اس حالت میں ہمیشگی اور پختگی حاصل کرنا.پس جب انسان خدا تعالیٰ کے آگے خالص ہو کر جھکتا ہے تو جہاں دعاؤں کی قبولیت کا نظارہ کرتا ہے وہاں تقویٰ اور نیکی پر قائم رہتے ہوئے اپنے ایمان وایقان میں بھی مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بنتا ہے.پس رمضان بے شمار برکتوں کا مہینہ ہے لیکن یہ برکتیں انہیں ملتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو قبول کریں اور ایمان میں بڑھیں.اگر صرف یہی نیت ہے کہ رمضان کے جمعوں پر با قاعدگی اختیار کرلو اور بعد میں چاہے عبادتوں کی طرف توجہ ہو یا نہ ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو قبول نہ کرنا ہے اور ایمان میں کمزوری دکھانا ہے.اور اگر اس طرح کی کمزور حالت ہے تو پھر ہمیں خدا تعالیٰ سے یہ شکوہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں.پس ایک حقیقی بندہ کو جو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے لئے بے چین ہے انتہائی عاجزی اور انکساری سے اور اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے یہ دن دعاؤں میں گزارنے چاہئیں.رمضان کے مہینے میں یہ جمعوں پر حاضری اور نمازوں پر حاضری عارضی نہ ہو.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان دنوں میں قریب آ جاتا ہوں اس لئے ان دنوں کی عبادت ہی کافی ہے.یہ اپنے نفس کو دھوکے میں ڈالنے والی بات ہے.پس اس سے ہمیں بچنا چاہئے.کامل عاجزی سے خدا تعالیٰ کا عبد بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ تو کبھی بھی دور نہیں وہ تو ہر جگہ اور ہر وقت ہے لیکن بندے کی اپنی حالت سے اس قربت کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب وہ خالص ہو کر غیر اللہ کو چھوڑ کر صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے آگے ہی جھکتا ہے.اور جب یہ حالت ہوگی پھر ہماری دعائیں بھی قبول ہوں گی اور ہمیں وہ سب کچھ ملے گا جو اللہ تعالیٰ سے ہم مانگتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہمارے لئے بہترین ہے.پس ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ نیکی اور تقویٰ پر قائم ہوکر ہی ہم اپنے مقصود کو پاسکتے ہیں اور ذاتی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی ہمیں وہ پھل ملیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کئے ہوئے
خطبات مسرور جلد 13 371 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء ہیں.انشاء اللہ.اور جیسا کہ میں نے کہا ہم عاجزی اور انکساری دکھا ئیں گے، اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کو پانے کی کوشش کریں گے تو پھر پھل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے لگیں گے.انسان میں غلطیاں بھی ہوں.گناہگار بھی ہو ، وہ قصور وار بھی ہو مگر جب تک اس کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف رہے،غلطیوں کا اعتراف کرتا رہے، تقویٰ دل میں ہو تو اللہ تعالی گناہوں کو ڈھانپتا چلا جاتا ہے اور آخر کار ایک دن اسے تو بہ کی توفیق دے دیتا ہے.پس سب سے زیادہ ان دنوں میں اپنے لئے، اپنے رشتہ داروں کے لئے، افراد جماعت کے لئے یہ دعا ہمیں کرنی چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ نصیب ہو.ایک دوسرے کے لئے جب ہم درد سے دعائیں کریں گے تو فرشتے بھی ہمارے لئے دعاؤں میں شامل ہو جائیں گے اور رمضان کی برکات کے حقیقی اور مستقل نظارے بھی ہم دیکھنے والے ہوں گے.تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ خدا تعالیٰ کی خشیت اور خوف ہے اور جب تک ہم میں خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت رہے گی ہماری کمزوریوں اور گناہوں کی بھی خدا تعالیٰ پردہ پوشی فرماتا رہے گا اور ہم اس کی حفاظت میں رہیں گے سوائے اس کے کہ ہم گناہوں پر اتنے دلیر ہو جائیں ( خدا نہ کرے کوئی ہم میں سے ہو ) کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہمارے دلوں سے مٹ جائے یا کسی کے دل سے بھی مٹ جائے.لیکن اگر ہماری کمزوری کی وجہ سے گناہ سرزد ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے اور خشیت پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے.اللہ تعالیٰ کی خشیت کے معنی ہی خدا تعالیٰ کی محبت کے ہیں.پس جب تک ہم اس محبت کے اظہار کرتے رہیں گے یا اگر اپنے دل میں بھی ہم یہ محبت رکھتے ہوں گے تو تباہی سے بچے رہیں گے.لیکن شرط یہ ہے کہ سچی محبت ہو، دھو کہ نہ ہو.اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے اسے دھو کہ نہیں دیا جا سکتا.اگر دل میں بھی محبت ہے تو کبھی نہ کبھی اس کا اظہار ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا خوف بعض چیزوں سے روکے رکھتا ہے.اس محبت کی وجہ سے گرتے پڑتے اس کے حکموں پر ہم عمل کرتے رہیں گے تو خدا تعالیٰ جو اپنے بندوں کی محبت کی غیرت رکھتا ہے وہ بندے کو پھر ضائع نہیں ہونے دیتا اور اسے تو بہ کی توفیق دے دیتا ہے.لیکن اگر انسان جیسا کہ میں نے کہا بالکل ہی گناہوں پر دلیر ہو جائے اور تقویٰ کا بیچ بالکل اپنے دل سے نکال کر ضائع کر دے تو پھر سزا ملتی ہے.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا.آپ نے بار بار جماعت کے افراد کو تقومی پر قائم رہنے کی نصیحت فرمائی ہے.پھر ایسا روحانی نظام اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فر ما یا جو تقویٰ کے بیج کو قائم رکھنے کے لئے توجہ دلاتا رہتا ہے.پھر رمضان کا مہینہ ہر
372 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء خطبات مسرور جلد 13 سال میں اس پیج کے پنپنے کے لئے، پہننے کے سامان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرما دیا اور پھر ہمیں اس پیج کے نشو ونما کے طریق بتاتے ہوئے اسے پھلدار بنانے کی خوشخبری بھی دے دی.پس اس مہینے کی برکات سے فیض اٹھانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کی کوشش کرنی چاہیئے.اگر ہماری نا اہلیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو کچھ دیر کے لئے ٹالتا بھی ہے تو اس مہربان ماں کی طرح جو بچے سے اس کی اصلاح کی خاطر تھوڑی دیر کے لئے روٹھ جاتی ہے اور اس میں پھر سخت غصہ نہیں ہوتا.لیکن جب بچہ ماں کی محبت کی وجہ سے اس کی طرف جاتا ہے تو ماں گلے بھی لگا لیتی ہے بلکہ اس سے پہلے کئی دفعہ سنکھیوں سے دیکھتی بھی رہتی ہے کہ بچہ کس قسم کی حرکت کر رہا ہے، میرے پاس آتا بھی ہے کہ نہیں.بہر حال جب بچہ جاتا ہے تو ناراضگی دور ہو جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ جو ماؤں سے بھی زیادہ بخشنے والا ہے وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کب میرے بندے میری طرف تو بہ کرتے ہوئے آئیں اور میں انہیں معاف کروں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ بندے کی تو بہ پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنا خوش و شخص بھی نہیں ہوتا جسے جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اونٹی مل گئی.(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب التوبة حديث 6309) پس یہ رمضان کا مہینہ بھی اس لئے ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں رکھتے ہوئے اگر سارے سال کی کمزوریوں اور غلطیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف اس نیت سے آئے کہ وہ اس کی تو بہ قبول کرے تو اللہ تعالیٰ دوڑ کر اس کو گلے لگاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے میں اس سے گز بھر ہوتا ہوں.اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دو ہا تھ قریب ہوتا ہوں.اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں.(صحيح البخارى كتاب التوحيد باب قول الله تعالى ويحذركم الله نفسه حدیث 7405) پس ایسا خدا جو ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے اور جس نے تو بہ قبول کرنے اور اپنے بندے سے خوش ہونے کے مختلف سامان کئے ہوئے ہیں اگر بندہ ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو پھر یہ بندے کی بدقسمتی ہے اور اس کی سخت دلی ہے.اللہ تعالیٰ کی بندے سے محبت کا نقشہ گوان مثالوں سے کھینچا گیا ہے لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا نقشہ ان مثالوں سے بہت عظیم ہے.اللہ تعالیٰ جس پیار اور محبت سے بندے کی طرف دیکھتا ہے اس کا نقشہ ہم کھینچ ہی نہیں سکتے.ان حدیثوں سے بھی واضح ہے کہ مثال دینے
خطبات مسرور جلد 13 373 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء کے باوجود کہ حقیقت میں یہ مثالیں گو محبت کا ایک بلند ترین تصور قائم کرتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی بندے سے محبت اس دنیاوی مثال کے تمہارے تصور سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے اور اس کا احاطہ کرنا حقیقتاً مشکل ہے.انسان تو بہت کمزور اور محدود علم کا حامل ہے.اللہ تعالیٰ تو بہت بلند و بالا ہستی ہے.ہم تو اپنے جیسے بندوں کی بھی دلی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے.کسی کے ظاہری اعمال پر ہم اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں لیکن کسی کے دل میں کسی کی محبت کی کیا کیفیت ہے یا اس کے دل میں کیا ہے یہ بیان کرنا اور جاننا بہت مشکل ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نکتے کو کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی کیفیت کو سمجھنے کی انسان میں کتنی صلاحیت ہے بڑے خوبصورت انداز میں اس طرح پیش فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ جس کے افعال کو بھی ہم نہیں سمجھ سکتے اس کی کیفیت محبت کو ہم کہاں سمجھ سکتے ہیں.اس کی ظاہری چیزوں کو بھی نہیں سمجھ سکتے تو محبت کی جو کیفیت ہے اس کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اس کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے مگر پھر بھی مثالوں سے اس کی حقیقت کو قریب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو مثالوں سے سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے.پہلی دو مثالیں میں دے چکا ہوں.اس محبت کی ایک اور مثال پیش کرتا ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی.بدر کی جنگ میں جب دشمن شکست کھا چکا تھا اور جنگ تقریباً ختم تھی اور کفار کے بڑے بڑے بہادر سپاہی اپنی سواریوں پر بیٹھ کر انہیں کوڑے مار کر جلد سے جلد میدان جنگ سے بھاگنے اور مسلمانوں سے دور پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس وقت ایک عورت میدان جنگ میں بغیر کسی خوف کے پھر رہی تھی اور اس پر ایک جوش اور جنون طاری تھا اور کبھی ایک بچے کو اٹھاتی اور کبھی دوسرے کو.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دیکھا تو صحابہ سے فرمایا کہ اس عورت کا بچہ گم گیا ہے اور یہ اسے تلاش کر رہی ہے اور ماں کی محبت اس قدر غالب ہے کہ اس کو کوئی فکر نہیں کہ یہ میدان جنگ میں ہے اور یہاں ہر طرف تباہی مچی ہوئی ہے.وہ عورت اس طرح دیوانہ وار پھرتی رہی.جس بچے کو دیکھتی اسے گلے لگا لیتی لیکن جب غور کرتی تو اس کا بچہ نہ ہوتا.پھر اسے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی.آخر کار اسے اپنا بچہ مل گیا.اس نے اسے گلے لگایا، اپنے ساتھ چھٹایا، پیار کیا اور پھر دنیا جہاں سے غافل ہو کر وہیں اسے لے کر بیٹھ گئی.نہ اس کو یہ فکر تھی کہ یہ میدان جنگ ہے.نہ اسے یہ فکر تھی کہ یہاں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی ہیں.اس کو یہ خیال بھی نہ آیا کہ ابھی پوری طرح جنگ ختم نہیں ہوئی اور اسے بھی نقصان پہنچ سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے دیکھا
خطبات مسرور جلد 13 374 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء کہ جب اس کو اپنا بچپل گیا تو کس طرح اطمینان سے بیٹھ گئی.لیکن اس سے پہلے جب بچے کی تلاش میں تھی تو کس طرح اضطراب کا اظہار ہورہا تھا اور بے قرار ہو ہو کر دوڑ رہی تھی.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی مثال اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت کی ہے بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے.جو بندہ اپنے گناہوں اور غلطیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو کھو دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کو اس کا ایسا دکھ ہوتا ہے جیسا اس عورت کو اپنے بچے کے کھوئے جانے کا اور پھر جب بندہ تو بہ کر کے واپس آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ خوشی پہنچتی ہے جتنی اس عورت کو اپنے بچے کے ملنے سے پہنچی.تو ہمارا خدا ہمیشہ بخشنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ ہم بھی اس کی بخشش کو ڈھونڈھنے کے لئے تیار ہوں اور نکلیں.وہ دیکھ رہا ہے کہ ہم کب اس کی طرف بڑھتے ہیں.اگر کوئی دیر ہے تو ہماری طرف سے ہے.کو تا ہیاں صرف ہماری طرف سے ہیں.جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے، اس کے حضور توبہ کرتے ہوئے جاتا ہے، اس سے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی مغفرت اسے ڈھانپ لیتی ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس ضمن میں ایک جگہ یہ اہم بات بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش نہ صرف انسان کے گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے بلکہ اس کے گناہوں کو بھول جاتی ہے بلکہ صرف خود نہیں بھول جاتی ہے بلکہ دوسروں کو بھی بھلوادیتی ہے.تبھی خدا تعالیٰ کا نام ساتر نہیں بلکہ ستار ہے اور ستاروہ ہوتا ہے جس میں صفت ستر کی تکرار اور شدت پائی جاتی ہے.بار بار جس میں بہت زیادہ شدت سے ستاری کی کیفیت پائی جائے.دنیا صرف ساتھ ہو سکتی ہے.یعنی یہ ہو سکتا ہے کہ اگر کسی کو کسی کے گناہ کا علم ہو تو وہ اسے بیان نہ کرے.پردہ پوشی کرے مگر دوسروں کے ذہن سے کوئی کسی کے گناہ کا علم نہیں نکال سکتا.لیکن خدا تعالیٰ کیونکہ تمام صفات کا جامع ہے اس لئے اس نے اپنی اس صفت کے بارے میں بھی کہا کہ میں ساتر نہیں بلکہ ستارہوں.یعنی صرف یہ نہیں کہ بندوں کے گناہ معاف کر دیتا ہوں بلکہ میں لوگوں کے ذہنوں سے بھی ان گناہوں کی یاد کو نکال دیتا ہوں اور انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ فلاں نے کبھی فلاں گناہ کیا تھا.اگر خدا تعالیٰ ستار نہ ہوتا تو گناہگار کے لئے جنت میں بھی امن نہ ہوتا.وہ ہر شخص کی طرف دیکھتا اور کہتا کہ اس کو میرے گناہ کا علم ہے.پس خدا تعالیٰ ستار ہے.وہ فرماتا ہے میں نہ صرف لوگوں کے گناہ معاف کرتا ہوں بلکہ لوگوں کے حافظوں پر بھی تصرف رکھتا ہوں اور جب اللہ تعالیٰ کسی کی ستاری فرمانا چاہتا ہے تو دوسروں کو کسی کا گناہ یا د ہی نہیں رہتا.اور اس کو لوگ ہمیشہ سے ہی نیک اور پاک صاف خیال کرتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ ستاری
خطبات مسرور جلد 13 375 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء فرما دے.پس ہمارا خداستار العیوب ہے اور غفار الذنوب بھی خدا ہے.وہ نہ صرف ہمیں بخشنے والا ہے بلکہ ہماری کھوئی ہوئی عزت واپس دینے والا بھی ہے اور اس دنیا میں عزت کو قائم کرنے والا بھی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 513 تا 515) پس جب ایسا پیارا ہمارا خدا ہے تو کس قدر ہمیں قربانی کر کے اس کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے.کس قدر اس کا عبد بننے کی ضرورت ہے.پس اس بابرکت مہینے میں ہمیں اس ستارالعیوب اور غفار الذنوب خدا کی طرف دوڑنے کی ضرورت ہے.اس کے آگے جھکنے کی بھر پور کوشش کرنے کی ضرورت ہے.شیطان ہر کونے پر کھڑا ہمیں اپنے لالچوں میں گرفتار کرنے کی کوشش میں لگا ہؤا ہے لیکن ہم نے اس سے مقابلہ کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ کی کوشش کرتے ہوئے اس کے ہر حملے سے بچنا ہے اور اسے نا کام کرنا ہے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنانا ہے.تبھی ہم رمضان سے حقیقی رنگ میں فیضیاب ہو سکیں گے.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس سے ہمیں جہاں ذاتی فوائد حاصل ہوں گے وہاں جماعتی ثمرات بھی ملیں گے.افراد جماعت کی اصلاح اور نیکیاں اور تقویٰ ہی جماعتی ترقیات پر منتج ہوتا ہے.جتنا زیادہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہوں گے اتنے زیادہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے جماعتی ترقی میں بھی کردار ادا کرنے والے ہوں گے.یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میری ترقی اور فتوحات دعاؤں کے ذریعہ سے ہوں گی.ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 58) پس جماعتی ترقیات مانگتے ہوئے بھی ہمیں خدا تعالیٰ کے آگے بہت زیادہ جھکنا چاہئے اور ان دعاؤں کے دنوں میں اس کے لئے بھی بھر پور طور پر دعائیں کرنی چاہئیں.ہم اپنی دعاؤں کو صرف اپنی ذات یا اپنے قریبیوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کو بہت زیادہ وسعت دینے کی ضرورت ہے تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں.تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے شکر گزار ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل فرما کر کیا ہے.ہمارا کام اپنے آپ کو اس جماعت میں شامل کر کے ختم نہیں ہو گیا.احمدی بننے کے بعد یہی کافی نہیں کہ ہم احمدی ہو گئے اور بیعت کر لی بلکہ بہت بڑی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے تا کہ جماعتی ترقی میں ہم معاون و مددگار بن سکیں.ہم عاجز ہیں، کمزور ہیں ، اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 13 376 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء اپنی نا اہلیوں کا بھی اعتراف کرتے ہیں.لیکن اس سب کے باوجود ہم وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان مقصد کے حصول کی ذمہ داری ڈالی ہے اور یہ ذمہ داری بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کئے ادا نہیں ہو سکتی.پس ہمیں دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس مضمون کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے یا سمجھایا ہے کہ اگر واقعہ میں کمزور اور نا تواں ہیں اور اگر واقعہ میں جو کام ہمارے سپر دکیا گیا ہے نہایت ہی اہم اور مشکل ہے تو سوال یہ ہے کہ ایسا کام ہم سے کس طرح سرانجام دیا جا سکتا ہے اور ادھر یہ کام اپنے اتمام کے لئے یعنی اس کو پورا کرنے کے لئے ایک بہت بڑی طاقت چاہتا ہے اور ادھر ہم کمزور اور ناتواں ہیں.پس دو باتوں میں سے ہمیں ایک تسلیم کرنی پڑے گی.یا تو ہم یہ مانیں کہ ہمارے ان دو دعووں میں سے ایک دعویٰ غلط ہے یعنی یا ہمارا انکسار کا دعویٰ غلط ہے ہم اتنے عاجز تو نہیں ہیں یا کام مشکل ہونے کا دعویٰ غلط ہے.اور اگر یہ دونوں صحیح ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری کوششوں کے سوا بھی کوئی ذرائع مقرر فرمائے ہیں.یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ یہ کام جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے اس نے ضرور ہو کر رہنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس مقصد کے لئے آئے یقیناً اس مقصد کو پورا کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے پورا کروا کر رہنا ہے.اسلام اور احمدیت کا غلبہ دنیا پر ہوکر رہنا ہے انشاء اللہ اور اس میں ہمیں ذرہ بھر بھی شک نہیں.پس اس کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کا طریقہ سکھایا ہے کہ دعا کرو کہ اے اللہ ! ہمارے ہاتھوں سے یعنی ہماری کوششوں سے تو یہ مقصد پورا ہونے والا نہیں ہے.ہم تو کمزور بھی ہیں، عاجز بھی ہیں، کام بہت بڑا ہے اور صرف ہماری کوششیں تو پورا نہیں کر سکتیں.ہاں ہم تیرے حکم کے ماتحت ہر قربانی کے لئے تیار ہیں.لیکن تو بھی اپنے فضل سے ان مخفی ذرائع کو ظاہر کر اور ہماری تائید میں لگا دے جو تو نے اس مقصد کے پورا کرنے کے لئے مقرر فرمائے ہیں تا کہ یہ ناممکن کام ممکن ہو جائے.حقیقت بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ظاہری آلہ بنایا ہے ورنہ اصل آلۂ کا رجس نے دنیا کو فتح کرنا ہے وہ کوئی اور آلہ ہے لیکن ایک دردان فتوحات کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے دلوں میں بہر حال ہونا چاہئے اور وہ درد دعاؤں کی صورت میں ہمارے دلوں سے نکلنا چاہئے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مثال دی کہ ہماری مثال وہی ہے جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر اٹھا کر بدر کے دن پھینکے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ
خطبات مسرور جلد 13 377 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء رلی (الانفال: 18) کہ تمہارا کنکر پھینکنا تمہارا کنکر پھینکنا نہیں تھا بلکہ خدا تعالیٰ کا کنکر پھینکنا تھا.تمہارے پھینکے ہوئے کنکر تو تھوڑی دور جا کر گر پڑتے.مگر یہ تم نے نہیں پھینکے بلکہ ہم نے پھینکے تھے.ادھر کنکر پھینکنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ چلا ادھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آندھی کو چلا دیا اور اس وجہ سے آندھی نے کروڑوں اور ار بوں کنکر اٹھا کر کفار کی آنکھوں میں ڈال دیئے.نتیجہ ان کی آنکھیں بند ہوگئیں اور وہ حملہ میں نا کام ہوئے.غرض ان مٹھی بھر کنکروں کے پیچھے اصل طاقت خدا تعالیٰ کی قدرت تھی.پس ہماری حیثیت بھی بدر کے ان کنکروں کی سی ہے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں لیا تھا اور کفار کی طرف پھینکا تھا.اُن کنکروں نے کفار کو اندھا نہیں کیا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھینکے تھے بلکہ ان کنکروں نے اندھا کیا تھا جو آندھی کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اڑائے تھے.پس ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے سوا کوئی آلہ ہے جس نے یہ بڑا کام کرنا ہے اور اس کا بہترین نتیجہ نکالنا ہے اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس بہترین نتیجے کے لئے کوئی دوسرے سامان پیدا کئے گئے ہیں جنہوں نے اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنا ہے اور وہ آلہ اور وہ ہتھیار جن سے اسلام کو دنیا پر غالب کیا جا سکتا ہے بندے کی وہ دعائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی چیز ہے جس پر ہماری کامیابی مقدر ہے.پس دعاؤں کے یہ دن جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مہیا فرمائے ہیں ان میں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور التزام سے یہ دعا کرنی چاہئے کہ وہ اسلام اور احمدیت کی فتح کے جلد سامان پیدا فرمائے.ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مٹھی کے وہ کنکر بن جائیں جن کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے کروڑوں کنکروں کی آندھی چلا دی تھی اور کفار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا.اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دُور کر کے ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے چشم پوشی فرمائے اور اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ ہم اپنا مقصود پانے والے ہوں.اور ہماری کمزوریوں اور غفلتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا جلال پوشیدہ نہ ہو.ہماری کوتاہیاں غیروں کو خوشی کے مواقع فراہم کرنے والی نہ ہوں.بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے جلال اور اپنی عزت کے ظہور کے لئے ہمارے کمزور ہاتھوں میں وہ طاقت پیدا کر دے جو اس کام کو سر انجام دینے کے لئے ضروری ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحہ 509 تا511) پس ان دنوں میں بہت دعائیں کریں.اپنے لئے بھی ، ایک دوسرے کے لئے بھی اور جماعت
خطبات مسرور جلد 13 378 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جون 2015ء کی ترقی کے لئے بھی اور دشمن کی ناکامیوں اور نامرادیوں کے لئے بھی.اللہ تعالیٰ کے جلال اور شان کے ظہور کے لئے بھی.دنیا خدا تعالیٰ کے وجود سے انکاری ہوتی جارہی ہے، خدا کرے کہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے والی بنے.اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف فرمائے اور ہمارے اندر بھی ایسی طاقت پیدا کر دے جس سے کام لیتے ہوئے ہم اسلام کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کر سکیں اور ہم میں سے ہر ایک اسلام کا سچا خادم بن جائے اور دنیا کی خواہشات ہمارے لئے ثانوی حیثیت اختیار کر لیں.ہمارے دل اس جذبے سے لبریز ہوں کہ ہم نے دین کو بلند کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال اور صلاحیتوں میں ایسی طاقت اور قوت پیدا فرما دے کہ دشمن کی طاقت اور قوت ہمارے مقابلہ میں بیچ اور ذلیل ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں کو نہ صرف معاف کرے بلکہ ہمارے دلوں میں گناہوں سے ایسی نفرت پیدا کر دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو کبھی توڑنے والے نہ ہوں.ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لوگ بھی میرے حکموں پر عمل کرو، مجھ پر ایمان کامل کرو.نیکیوں اور بھلائیوں سے ہمیں محبت پیدا ہو جائے.تقویٰ ہمارے دلوں میں مضبوطی سے قائم ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق ہماری غذا بن جائے.ہمارا ہر عمل اور ہمارا ہر قول وفعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو جائے اور جب ہم اس کے حضور حاضر ہوں تو وہ اپنی رضا کا پروانہ ہمیں دینے والا ہو.اللہ تعالیٰ کرے کہ رمضان ہمیں حقیقت میں یہ سب کچھ حاصل کرنے والا بنا دے.الفضل انٹرنیشنل مؤرخہ 10 جولائی 2015 ء تا 16 جولائی 2015 ء جلد 22 شماره 28 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 379 26 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء بمطابق 26 احسان 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کو قیل و قال پر محدود نہیں ہونا چاہئے.یہ اصل مقصد نہیں.تزکیہ نفس اور اصلاح ضروری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے.( ملفوظات جلد 8 صفحہ 70) پس آپ چاہتے ہیں کہ جماعت میں عملی تبدیلی پیدا ہو.جب آپ نے فرمایا کہ قیل وقال پر محدود نہیں ہونا چاہئے تو اس کا مطلب ہے کہ صرف باتوں تک ہی نہ رہو.یہ نہ ہو کہ جہاں اپنا مفاد دیکھو وہاں اپنی بات کو بدل لو.اپنے اخلاق کے معیاروں کو قائم نہ رکھ سکو.بلکہ ایمان اور اللہ تعالیٰ کی باتوں پر عمل اور اپنے نفس کی اصلاح اور اسے ہمیشہ پاک رکھنا اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لو اور جب یہ ہوگا تب ہی آپ کی بیعت میں آنے کا حق ادا ہو گا اور اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے.پس ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف نظر رکھنے کی ضرورت ہے ، ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیشہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارے پیش نظر ہو.گزشتہ خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنا چاہتے ہو تو فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي (البقرة: 187 ).میرے حکموں کو قبول کرو.یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو قبول کرنا کیا ہے؟ یہ ہماری تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہے.اپنی
خطبات مسرور جلد 13 380 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء زندگیوں کو خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق گزارنا ہے.پس رمضان کے اس خاص ماحول میں ہمیں یہ جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو کس حد تک اپنی زندگیوں کا حصہ بنارہے ہیں.اگر یہ نہیں تو ہمارے یہ زبانی دعوے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو قبول کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار حکم دیئے ہیں ہمیں ہمیشہ ان حکموں کو سامنے لاتے رہنا چاہئے تا کہ اصلاح نفس کی طرف ہماری تو جد ر ہے.عباد الرحمان اور احمدی کا معیار اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیئے ہیں اس وقت میں ان میں سے بعض باتیں پیش کرتا ہوں جو جہاں ہمارے نفس کے تزکیہ میں کردار ادا کرتے ہیں وہاں معاشرے میں پیار، محبت اور امن کی فضا پیدا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (الفرقان: 64) اور رحمان کے سچے بندے وہ ہوتے ہیں جوزمین پر آرام سے چلتے ہیں.نرمی سے، وقار سے چلتے ہیں.تکبر نہیں کرتے.اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ لڑتے نہیں بلکہ کہتے ہیں ہم تو تمہارے لئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں.پس مختصر طور پر اس عظیم اخلاقی اور روحانی انقلاب کی تعلیم کا نقشہ کھینچ دیا جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اور آپ کے ماننے والوں نے ، آپ کے صحابہ نے ان اخلاق کو اپنے اندر پیدا کیا.وہ زمانہ کہ جب دنیا اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی اور شیطان کے پنجے میں جکڑی ہوئی تھی.آنا اور خود پسندی اور تکبر اور فتنہ و فساد نے دنیا کو تباہی کے گڑھے میں پھینکا ہوا تھا.اس وقت انسان کو اعلیٰ اخلاق اور عاجزی اور انکساری کا نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درس دیا بلکہ ایسے انسان پیدا ہو گئے جو اس آیت کی عملی تصویر تھے.آج بھی دنیا کی یہی حالت ہے اور اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو بھیج کر آپ کو ایسے عباد الرحمن لوگوں کی جماعت بنانے پر مامور کیا ہے.پس آپ کی جماعت کی طرف منسوب ہونے والے ہر شخص کو اس معیار کو اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.عبادالرحمان کے بارے میں جیسا کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ ھونا.کہ زمین پر آرام سے، وقار سے، عاجزی اور تکبر کے بغیر چلتے ہیں.پس ایک حقیقی عبد رحمان کو اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس میں عاجزی بھی ہو، وقار بھی ہو اور تکبر سے پاک بھی ہو.جب ایسی حالت ہو تو پھر ایسے لوگ معاشرے میں محبت پھیلانے والے اور اس کے امن کی ضمانت بن جاتے ہیں.ان کا یہ وقار اور عاجزی جاہلوں کے غلط عمل اور فساد پیدا کرنے کی کوشش پر ان سے یہ جواب کہلواتا
خطبات مسرور جلد 13 381 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء ہے کہ سلاما تم ہمارے سے جھگڑے اور فساد کرتے ہولیکن ہم تمہارے سے جھگڑنے کی بجائے تمہارے لئے سلامتی اور امن کی دعا کرتے ہیں اور خاص طور پر جب اختیار ہاتھ میں ہو ، طاقت ہو اور پھر انسان جب ایسا رویہ دکھائے تو یہ ایسا بلند خلق ہے جو بندے کو حقیقی عبد بنا تا ہے.یعنی جب انسان رحمان کا بندہ بننے کے لئے یہ خلق دکھا رہا ہو، اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لئے دکھا رہا ہو تو پھر ایسے بندے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جاتے ہیں اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور یہ لوگ ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کا تزکیہ نفس ہوتا ہے.وہ پاک نفس ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی حکومت اس دنیا میں قائم کرنے والوں میں شامل ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا میں پیار، محبت اور بھائی چارہ اور عاجزی پھیلے.ہر قسم کی نیکیاں دنیا میں پھیلیں.تمام برائیوں کا خاتمہ ہو.شیطان کے پنجے سے انسانوں کو نجات ملے.اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے اس دنیا کو بھی انسان امن ، سکون اور جنت کا گہوارہ بنا دے اور اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء کو دنیا میں بھیجتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس تعلیم کے ساتھ ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تا کہ دنیا کو حقیقی عبد رحمان بننے کے اسلوب سکھائیں، تا کہ دنیا میں رہنے والے انسانوں کو یہ بتائیں کہ ابدی جنت کا ادراک پیدا کرنا ہے اور اسے حاصل کرنا ہے تو پہلے اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھال کر اس دنیا کو بھی جنت بناؤ.اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ( الفجر : 30-31) یعنی آ اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور آ اور میری جنت میں داخل ہو جا.پس رمضان جس میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ اس میں دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.(سنن الترمذى كتاب الصوم باب ما جاء في فضل شهر رمضان حدیث نمبر (682) اور اللہ تعالیٰ بھی بندوں کے قریب تر آجاتا ہے.اللہ تعالیٰ تو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے.اللہ تعالیٰ کے نچلے آسمان پر آنے سے مراد ہے کہ نیک عملوں کی بڑھ کر جزا دیتا ہے.دعاؤں کو قبول کرتا ہے.پس ہر ایمان کا دعوی کرنے والے کو ، ہر احمدی کو جو حقیقی مسلمان ہے جس نے عبد رحمان بننے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت کی ہے اپنے جائزے لیتے ہوئے، عاجزی
خطبات مسرور جلد 13 382 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء دکھاتے ہوئے، تکبر کو ختم کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں، اپنے گھر میں اپنے ماحول میں جھگڑوں اور فسادوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امن اور سلامتی کو پھیلانا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں اپنا اُسوہ ہمارے سامنے قائم فرما کے دکھایا اور مختلف مواقع پر نصائح بھی فرمائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ اس حد تک انکساری اختیار کرو کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے.(صحیح مسلم کتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا...حدیث نمبر 7210) اس معیار کو جانچنے کے لئے کوئی بیرونی آلہ یا طریقہ نہیں ہے.ہر ایک شخص اگر وہ حقیقت میں ایمان کا دعوی کرتا ہے تو پھر اس کو اپنا محاسبہ خود ہی کرنا چاہئے.وہی صحیح بتا سکتا ہے کہ کیا ہم فخر سے بالکل پاک ہیں؟ ہمیں اپنے کسی اعلیٰ خاندان ہونے پر فخر تو نہیں ہے.ہمیں اپنی مالی حالت دوسروں سے بہتر ہونے پر فخر تو نہیں ہے.ہمیں اپنی اولاد کے تعلیم یافتہ ہونے پر فخر تو نہیں.ہمیں اپنی علمی قابلیت پر فخر تو نہیں.ہمیں اپنی کسی نیکی پر فخر تو نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کس عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ہے اور نہ بجھی کو عربی پر ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحه 760 حدیث رجل من اصحاب النبی حدیث 23885 مطبوعه بيروت 1998ء) یہ اس کے لئے کوئی فخر کا مقام نہیں ہے.اصل بنیاد تقویٰ ہے اور جس میں تقویٰ ہو اس کے ذہن میں کبھی کسی قسم کا فخر ہی نہیں سکتا.بعض دفعہ علم کا فخر اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ انسان پھر دین سے بھی دور ہٹ جاتا ہے.دیکھیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی کی کیا انتہا تھی جب آپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان فرماتے ہیں کہ اَنَا سَیدُ وَلدِ آدَم کہ میں تمام بنی آدم کا سردار ہوں.یہ ایک ایسا بڑا اعزاز ہے جو صرف اور صرف ہمارے آقا کو حاصل ہے.لیکن اس بلندی کو پانے کے بعد کہ جس بلندی تک دوسرا کوئی پہنچ نہیں سکتا ہمارے آقا ایک اور بلندی کی معراج کا اعلان کرتے ہوئے ان الفاظ میں یہ اعلان کرتے ہیں وَلَا فَخَرَ.اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں.(سنن ابن ماجه کتاب الزهد باب ذكر الشفاعة حديث 4308) معاشرے کے فساد کو ختم کرنے کے لئے امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے لئے آپ کے عظیم اُسوہ کی ایک اور مثال دیتا ہوں.ایک مرتبہ ایک یہودی نے حضرت موسیٰ کی فوقیت ثابت کرنے کی کوشش کی تو مسلمان نے سختی سے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سب سے بلند ہے.اس پر وہ یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کرتا ہے کہ اس سے میری دل آزاری ہوئی ہے.تو تمام
خطبات مسرور جلد 13 383 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء نبیوں کے سردار نے فرمایا کہ مجھے موسیٰ پر فوقیت نہ دو.(صحیح بخاری کتاب الخصومات باب ما يذكر في الاشخاص والخصومة...حديث (2411) یہ ہے وہ عظیم اُسوہ جس سے معاشرے کا امن قائم ہوتا ہے.پس یہ جواب ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو اس امن ، آشتی اور صلح کے بادشاہ پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے دنیا کا امن برباد ہو رہا ہے.اور یہ ان لوگوں کے لئے بھی اُسوہ ہے اور سبق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ظلم اور بربریت کی وارداتیں کر رہے ہیں.لیکن ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں اس وقت اس عملی دنیا میں ان الزام لگانے والوں کے الزاموں کو رڈ کرنے کی ذمہ داری ہمارے سپرد ہے.اگر ہمارا دعویٰ حقیقی مسلمان ہونے کا ہے تو اس حقیقی تعلیم کا نمونہ بھی ہمیں بنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کو ماننے کا ہم دعویٰ کرتے ہیں اور یہ باتیں جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوں گی وہاں ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے والے بن کر دنیا کے رہبر بن سکیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے لئے اس طرح عاجزی اختیار کی اور یہ فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تھیلی کو زمین پر لگا دیا، تو اس کو میں اتنا بلند کروں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتنا بلند کروں گا.اور یہ بیان کرتے ہوئے آپ نے اپنی ہتھیلی کو اونچا کیا اور بہت اونچا کر دیا.(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحه 170 مسند عمر بن الخطاب حدیث 309 مطبوعه بيروت 1998ء) پس جو خدا تعالیٰ کی خاطر عاجزی دکھائے، جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تکبر سے نفرت کرے، جو خدا تعالیٰ کی خاطر معاشرے سے نفرتوں کے بیچ ختم کرنے کی کوشش کرے تا کہ امن اور سلامتی قائم ہوا سے خدا تعالیٰ وہ بلندیاں عطا فرماتا ہے جو انسان کے وہم و گمان سے بھی باہر ہیں.یہ دن ہمیں خدا تعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لئے مہیا فرمائے ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا ان دنوں میں ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.اپنے گھروں کے جھگڑوں کو خدا تعالیٰ کی خاطر ختم کر کے سلامتی اور امن کی فضا ہر احمدی کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اپنے بھائیوں سے جھگڑوں کو ختم کر کے جن کی بنیادا کثر آنا اور تکبر ہی ہوتی ہے معاشرے میں سلامتی پھیلانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے.مخالفین کی باتوں پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہدایت کے لئے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کا فساد بھی ختم ہو.ہم امن اور سلامتی اور محبت کو دنیا میں قائم کرنے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن حقیقت اس وقت سامنے آتی
خطبات مسرور جلد 13 384 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء ہے جب ہم خود اس معاملے میں ملوث ہوں اور خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی دے کر اس امن اور پیار کو قائم کرنے کی کوشش کریں جس کا اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سنا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہوتا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل وعیال سمیت نجات پاؤ.خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو ( یعنی خدا سے کرو.جس قدر دنیا میں انسان کسی سے محبت کر سکتا ہے یا محبت ممکن ہے تم اس سے کرو) اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈرسکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو.( نزول مسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 402-403) پس یہ وہ حالت ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.ان دنوں میں ایک کوشش کے ساتھ اپنے ہر قسم کے تکبر کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.سلامتی پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے.پھر آپ علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ: خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہر گز نہیں ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے وہ اسے خائب و خاسر کرے اور ذلت کی موت دیوے.جو اس کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھا اور پھر وہ نامرادر ہا“.( پس یہ سچا تعلق ضروری شرط ہے.” خدا تعالیٰ بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش اس کے حضور پیش نہ کرے“.(صرف ذاتی خواہشات نہ ہوں اور کوئی مقصد نہ ہو کہ مقصد ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.بلکہ فرمایا کہ ) اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے“.( نفسانی خواہش پیش نہ کرے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے.) ” جو اس طرح جھکتا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور ہر ایک مشکل سے خود بخود اس کے واسطے راہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فرماتا ہے مَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 3-4) اس جگہ رزق سے مراد روٹی وغیرہ نہیں بلکہ عزت، علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کو ضرورت ہے اس میں داخل ہیں.خدا تعالیٰ سے جو ذرہ بھر
خطبات مسرور جلد 13 بھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا“.پھر آپ فرماتے ہیں: 385 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 301-30) انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامت اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے.کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے.اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکارا نہیں پاسکتا.(آپ فرماتے ہیں : ) کبیر نے سچ کہا ہے بھلا ہوا ہم بیچ بھنے ہر کو کیا سلام جے ہوتے گھر اُونچ کے ملتا کہاں بھگوان یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے.اگر عالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدا نہ ملتا.جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی ( کم ) ذات....پر نظر کر کے شکر کرتا.پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا بیچ ہوں.میری کیا ہستی ہے.ہرایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نسج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو، تمام کا ئنات سے اپنے آپ کو ضرور بالضرور نا قابل و پیچ جان لے گا.‘ ( پس آنکھیں رکھنا شرط ہے.اپنے اندر کا جائزہ لینا شرط ہے.اپنے آپ کو پہچاننا شرط ہے.پھر کوئی فخر نہیں پیدا ہو سکتا.فرمایا کہ انسان جب تک ایک غریب و بیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جو ایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا برتنے چاہئیں اور ہر ایک طرح کے غرور و رعونت و کبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 437 تا 438) پس یہ وہ معیار ہے جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.دنیا میں خدا کی بادشاہت اس کے دین کو پھیلا کر قائم کرنے کا ہمارا دعوی ہے تو پھر اگر یہ دعوئی صحیح ہے تو ہمیں اپنی حالتوں کو بھی ایسا بنانا چاہئے کہ پہلے خود خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر یہ تکبر وغیرہ ہے اور اپنی حالت کی طرف جائزہ نہیں لے رہے اور کسی بھی طرح اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہو، کسی بھی قسم کا تکبر تمہارے اندر پایا جاتا ہے تو وہ ہر گز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں شامل نہیں ہوسکتا.پس یہ دن جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاک تبدیلیوں کے پیدا کرنے اور قبولیت دعا کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں میسر فرمائے ہیں ان میں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.جس جس کو جس جس بات پر فخر ہے یا جو چیز ہمیں ہماری عاجزی اور انکساری میں بڑھانے میں روک ہے یا جو چیز بھی ہمارے
خطبات مسرور جلد 13 386 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء ماحول میں ہماری وجہ سے بے چینی اور فتنے کا باعث بن سکتی ہے اسے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہمارا وجود ہر جگہ سلامتی پھیلانے والا وجود بن جائے نہ کہ بے چینی اور فساد پھیلانے کا ذریعہ.اللہ تعالیٰ نے حقوق کی ادائیگی ، سلامتی پھیلانے کی وسعت اور تکبر سے بچنے کے لئے دوسری جگہ ان الفاظ میں حکم فرمایا ہے.فرمایا کہ وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَى وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُختَالًا فَخُورًا (النساء: 37) اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.یقینا اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہو.اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور شرک سے روکنے کے بعد بعض حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.رمضان جہاں عبادتوں کی طرف توجہ دلانے کا مہینہ ہے وہاں معاشرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے کا مہینہ ہے.پس ان دنوں میں ان حقوق کی ادائیگی بھی ایک مومن کا فرض ہے اور اصل میں یہ حقوق کی ادائیگی تو ہمیشہ کے لئے ہے جو انسان کو کرنی چاہئے.لیکن یہ مہینہ ایسا ہے جس میں ہم عادت ڈال سکتے ہیں.اگر یہ ادا ئیگی نہیں تو صرف عبادتیں مومن کو ان تمام مقاصد کا حامل نہیں بناتیں جو رمضان کا مقصد ہے.ان دنوں میں اگر عادت پڑ جائے تو اصل مقصد یہ ہے کہ یہ پاک تبدیلیاں جو ہم پیدا کریں ان کو زندگی کا حصہ بھی بنا ئیں.ایک تو عبادتیں ہیں اور جب ہم اس مہینے میں عبادتیں کریں تو پھر مستقل زندگی کا حصہ بنائیں.پھر حقوق کی ادائیگی ہے ان کی طرف ہم اس مہینے میں توجہ کریں تو پھر مستقل اپنی زندگی کا حصہ بنا ئیں.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کے حقوق کے لئے ، غریبوں مسکینوں کی مدد کے لئے ان دنوں میں خاص طور پر اپنے ہاتھوں کو اس قدر کھولتے تھے کہ روایات میں آتا ہے کہ آپ کی سخاوت تیز آندھی سے بھی بڑھ جاتی ہے.(صحيح البخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبى الله يكون في رمضان 1902) عام حالات میں بھی آپ کی سخاوت کا معیار اس قدر بلند تھا کہ کوئی دوسرا ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا تو پھر رمضان میں اس سخاوت کی مثال دینے کے لئے تیز آندھی کی جو مثال دی گئی ہے اس سے بہتر کوئی
خطبات مسرور جلد 13 387 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء مثال نہیں ہو سکتی.بہر حال یہ ضرورتمندوں کے حقوق کی ادائیگی ہے جس کا آپ نے اعلیٰ ترین اسوہ قائم فرمایا جو مالی مدد کی صورت میں ہے.اس کے علاوہ ان کے جذبات کا خیال رکھنا، ان کے احساسات کا خیال رکھنا، ان کی دوسری ضروریات کا خیال رکھنا یہ چیزیں بھی ساتھ ہیں.اور پھر آپ نے مومنین کو بھی یہ نصیحت فرمائی کہ اس طرف خاص توجہ کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے.گو کہ یہ حکم سارے سال کے لئے ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا کہ رمضان میں نیکیوں کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے یا ہونی چاہئے اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر ان حقوق کی ادائیگی کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے اور ان دنوں کی نیکیوں کی عادت پھر مستقل نیکیاں بجالانے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے بنیادی مقصد عبادت کی طرف توجہ دلانے کے بعد کہ عبادت جہاں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والا بناتی ہے وہاں ایک حقیقی عابد اور عبد رحمان کو بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے والی ہوتی ہے اور ہونی چاہئے.اگر یہ دونوں قسم کے حق ادا نہیں ہور ہے تو ایسا شخص مومن نہیں بلکہ ان لوگوں میں شامل ہے جو متکبر اور شیخی بگھارنے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ ہر عابد سے ان اعلیٰ اخلاق کی توقع رکھتا ہے اور اس کا حکم دیتا ہے جو عاجز ہو کر ایک مومن کو ادا کرنے چاہئیں.ان حقوق کی ادائیگی کوئی یہ نہ سمجھے کہ کوئی بہت بڑی بڑائی ہے.حقوق کی ادائیگی بڑائی نہیں بلکہ ہر مومن کا فرض ہے اور ان حقوق کی ادائیگی سے ہی عبادتیں بھی قبول ہوتی ہیں.جیسا کہ آیت میں واضح ہے ان حقوق میں والدین کے حقوق ہیں.رشتہ داروں کے حقوق ہیں.یتیموں کے حقوق ہیں.مسکین لوگوں کے حقوق ہیں.رشتہ دار قریبی ہمسایوں کے حقوق ہیں.غیر رشتہ دار ہمسایوں کے حقوق ہیں.مختلف موقعوں پر ساتھ رہنے والے اٹھنے بیٹھنے والے لوگوں کے حقوق ہیں.مسافروں کے بھی حقوق ہیں اور جو ہمارے زیر نگیں ہیں، جو ہمارے پر انحصار کرنے والے ہیں ان کے بھی حقوق ہیں.گویا کہ اس ایک آیت میں تمام انسانیت کا خیال رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کا احاطہ کر کے ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دلا دی بلکہ حکم دے دیا.والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن کریم میں اور جگہ بھی ذکر ہے.بڑھاپے میں ان کی خدمت کرنا ان کا خیال رکھنا اولاد کا فرض ہے اور یہ کوئی احسان نہیں ہے.رشتہ داروں کے حقوق ہیں اس بارے میں اگر خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے حق ادا کریں، سسرالیوں کے حق ادا کرتے رہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ اپنے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو تو گھروں کے بہت
خطبات مسرور جلد 13 388 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء سے جھگڑے ختم ہو جائیں اور پیار اور محبت کی فضا پیدا ہو جائے.بہت سارے معاملات آتے ہیں جن جن گھروں میں ایسی ناچاقیاں ہیں انہیں ان دنوں میں خاص طور پرغور کرنا چاہئے اور بجائے ضد اور انا کے اپنے گھروں کو بسانے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر یتیموں کی خبر گیری بھی ایک بہت اہم فریضہ ہے.ان کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.ان کے حق کی ادائیگی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اہمیت دی ہے کہ فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے جس طرح دوانگلیاں اکٹھی ہیں.(صحیح مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الاحسان الى الارملة والمسكين واليتيم حديث 2983) یعنی ہمارا بہت قریب کا ساتھ ہوگا.پس اس اہمیت کو جماعت کے افراد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور یتامی کی خبر گیری کے لئے خرچ کرنا چاہئے.جماعتی طور پر بھی اس کا انتظام موجود ہے.پھر ضرورتمندوں اور مسکینوں کے حقوق ہیں جس میں تعلیم کے اخراجات ہیں.علاج معالجہ کے اخراجات ہیں.شادی بیاہ کے اخراجات ہیں.جماعت میں ان سب اخراجات کے پورے کرنے کے لئے علیحدہ فنڈ بھی جاری ہیں.ان میں بھی صاحب حیثیت لوگوں کو جن کو توفیق ہے جماعتی نظام کے تحت خرچ کرنا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رشتہ دار اور قریہی ہمسایوں کے حقوق ادا کرو.پس اس میں وہ ہمسائے بھی آ جاتے ہیں جو قریبی رشتہ دار ہیں، جو قریب رہنے والے ہیں اور وہ بھی جن کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات ہیں.اور پھر فرمایا کہ ایسے ہمسایوں کا بھی خیال رکھو جن کو تم اچھی طرح جانتے نہیں.ان میں وہ ہمسائے بھی آ جاتے ہیں جو ہمارے قریبی ہمسائے نہیں، دُور کے ہمسائے ہیں اور وہ ضرورتمند ہمسائے بھی آجاتے ہیں جن کے تمہارے ساتھ اچھے تعلقات نہیں.پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جو محبت اور پیار کو پھیلاتی ہے.صلح اور آشتی کی بنیاد ڈالتی ہے.ماحول میں امن اور سلامتی پیدا کرتی ہے.پھر ہم جلیسوں اور مسافروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے.ان الفاظ میں حقوق کی ادائیگی کو میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی پر بھی حاوی کر دیا اور اپنے دوستوں،ساتھیوں،ساتھ کام کرنے والوں پر بھی پھیلا دیا اور افسروں اور ماتحتوں کا بھی اس میں احاطہ کر لیا.پھر وَمَا مَلَكَتْ ایمانکم.کہہ کر ہر قسم کے ماتحتوں اور زیرنگیں افراد کے حق کی طرف توجہ دلا دی اور یہ سارے حقوق ادا کر کے فرمایا کہ اگر یہ حق ادا نہیں کر رہے تو تمہارے میں تکبر اور فخر پایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے.پس دنیا میں امن قائم کرنے ، سلامتی پھیلانے اور ہر قسم کے طبقے کے حقوق قائم کرنے کے لئے
خطبات مسرور جلد 13 389 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے.پس یہ دن جو ہمیں میسر آئے ہیں جو ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے دن ہیں بلکہ خدا تعالیٰ خود ان دنوں میں ہمارے قریب آ گیا ہے اور ان لوگوں کو نواز نا چاہتا ہے جو اس کے بھی حق ادا کریں، جو عبادت کا بھی حق ادا کریں اور اس کے بندوں کا بھی حق ادا کریں.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہمیں عاجزی اختیار کرتے ہوئے ان تمام قسم کے حقوق کو ادا کرنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.رمضان کے یہ دن ایک خاص ماحول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں اور دوسری نیکیاں بجالانے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں.ان سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر ہم نے اپنی عبادتوں کو مقبول کروانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی.تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو.تم سچ سچ اُس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جائے“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12 تا 13 ) آپ نے ایک جگہ فرمایا: ” جوکوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچا وے“.( ملفوظات جلد 6 صفحہ 91) اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عبادتوں کے ساتھ تمام دوسرے حقوق جو حقوق العباد ہیں وہ بھی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم حقیقی رنگ میں رحمان خدا کے بندے بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو اس رمضان میں پہلے سے بڑھ کر پانے والے ہوں اور پھر مستقل زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں.نماز کے بعد میں دو جنازہ غائب پڑھاؤں گا.ایک جنازہ مکرمہ ہدایت بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم عمر احمد صاحب مرحوم درویش کالا افغاناں قادیان کا ہے جو 4 جون 2015ء کو چند دنوں کی علالت کے بعد وفات پاگئیں.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ نے درویشی کا دور بہت صبر اور شکر سے گزارا.صوم و صلوۃ کی پابند، تہجد گزار، قرآن کریم سے بہت محبت کرنے والی، مہمان نواز ، نیک اور مخلص خاتون تھیں.آپ کو بہت سے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی.مرحومہ موصیہ تھیں.پسماندگان میں ایک بیٹی اور دو بیٹے یاد گار چھوڑے ہیں.آپ کے بڑے بیٹے سلسلہ کی خدمت
خطبات مسرور جلد 13 390 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جون 2015ء سے ریٹائر ہو چکے ہیں.دوسرے بیٹے خدمت سلسلہ بجالا رہے ہیں.آپ کی بیٹی ربوہ میں مقیم ہیں.دوسرا جنازہ مکرم مولوی محمد احمد ثاقب صاحب واقف زندگی، سابق استاد جامعہ احمد یہ ربوہ کا ہے جو 18 مئی 2015ء کو مختصر علالت کے بعد 98 سال کی عمر میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.آپ حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور حضرت حکیم محمد عبد العزیز صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے.مڈل تک اپنے آبائی گاؤں بھینی شرقپور ضلع شیخو پورہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد قادیان چلے گئے اور جامعہ احمدیہ قادیان سے مولوی فاضل کیا.1939ء میں زندگی وقف کی تو حضرت مصلح موعود نے محترم ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم کے ساتھ آپ کو دہلی کے ایک مشہور مدرسہ میں فقہ اور حدیث میں تدریس کی ٹریننگ کے لئے بھجوا دیا.اس کے بعد دیو بند، سہارنپور اور لاہور سے بھی فقہ کی تعلیم حاصل کی.پارٹیشن سے قبل آپ کو کچھ عرصہ تک دفتر امور عامہ اور پھر دفتر وصیت میں خدمت کی توفیق ملی.پاکستان میں جامعہ احمدیہ قائم کیا گیا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو اس میں استاد مقرر فرما یا جہاں چالیس سال تک آپ کو فقہ اور حدیث کے مضامین پڑھانے کی توفیق ملی.آپ نے فقہ کی مشہور کتاب ”بدایۃ المجتہد کے ایک حصہ کا اردو ترجمہ کیا جو ہدایۃ المقتصد“ کے نام سے جماعت کی طرف سے شائع ہوا.اسی طرح آپ کو دارالقضاء ربوہ میں قاضی اور ایک سال ناظم دارالقضاء کی حیثیت سے بھی خدمت کا موقع ملا.آپ دعا گو، منکسر المزاج اور دھیمی طبیعت والے ایک نیک اور مخلص انسان تھے.آپ کے بیبیوں شاگر دا کناف عالم میں مختلف اعلیٰ حیثیتوں سے جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں.مرحوم موصی تھے.پسماندگان میں سات بیٹیاں اور چار بیٹے یاد گار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ ان دونوں کے درجات بلند فرمائے ، مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 17 جولائی 2015 ء تا 23 جولائی 2015 ، جلد 22 شماره 29 صفحه 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 13 391 27 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015 ء بمطابق 03 وفا 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عہد یداران اور مربیان کے فرائض اور توقعات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں جو احکامات دیئے ہیں ان کو یا درکھنا، ان کو دہراتے رہنا، انہیں دوسرے جن لوگوں کی یاد دلانے کی ذمہ داری ہے کو بھی یاد دلانا، مومنین کی جماعت کا کام ہے.یہ جو میں نے کہا کہ ان احکامات کو دوسروں کو یاد دلانا، یا دلاتے رہنا جن کی یاد دلانے کی ذمہ داری ہے اس میں ہم میں سے وہ سب شامل ہیں جو یا مرتبیان ہیں یا عہدیداران.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی نظام میں ایک مرکزی نظام کے علاوہ ذیلی تنظیموں کا بھی نظام ہے اور پھر جماعتی مرکزی نظام میں بھی اور ذیلی تنظیموں کے نظام میں بھی ملکی سطح سے لے کر مقامی محلے کی سطح تک عہد یدار مقرر ہیں اور ہر عہدیدار سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خلافت کا دست و بازو بن کر ان فرائض کو ادا کرنے کی کوشش کرے جو وسیع تر پھیلاؤ کے ساتھ خلافت کی ذمہ داری ہے.پس اگر اس بات کو تمام مربیان اور عہد یدار سمجھ لیں تو ایک انقلابی تبدیلی جماعت میں پیدا ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات کو دوسروں کو یاد دلانا یا یہ احساس پیدا ہونا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے طوعی طور پر یا مکمل طور پر وقف زندگی کر کے جو جماعتی خدمت کی توفیق دی ہے تو میں سب سے پہلے اپنے جائزے لوں کہ کس حد تک میں خود اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کر کے وہ نمونہ بننے کی کوشش کر رہا ہوں جو ایک خدمت کرنے والے کی ذمہ داری ہے تا کہ میں دوسروں کو ان احکامات کی یاد دلا سکوں.اگر میں صرف دوسروں کو یاد دلا رہا ہوں اور میرا اپنا عمل
خطبات مسرور جلد 13 392 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء اس کے خلاف ہے یا اس سے دُور ہے تو پھر بڑے خوف کا مقام ہے اور استغفار کی ضرورت ہے.ویسے بھی استغفار کرنا چاہئے لیکن اس حوالے سے بہت زیادہ استغفار کی ضرورت پڑ جاتی ہے.یہاں ہم میں سے ہر ایک پر یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ کسی بھی عہد یدار کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ نصیحت کرنا میرا کام نہیں.یہ تو صرف امیر جماعت یا صدر جماعت یا سیکرٹری یا مربی یا ایک دو دوسرے سیکرٹریان کا کام ہے یا اسی طرح صدر انصار اللہ یا ان کے تربیتی شعبہ کا کام ہے یا صدر خدام الاحمدیہ یا ان کے تربیتی شعبہ کا کام ہے یا لجنہ کی صدر اور ان کے تربیتی شعبہ کا کام ہے.نہیں، بلکہ ہر سیکرٹری چاہے وہ سیکرٹری ضیافت ہے یا ذیلی تنظیموں میں خدمت خلق یا کھیلوں کا نگران ہے، کوئی بھی ہے اگر وہ کسی بھی صورت میں خدمت انجام دے رہا ہے تو اس کا کام ہے کہ اپنے نمونے قائم کرے.اور اگر یہ ہو جائے تو پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ پچاس فیصد سے زیادہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والی بن سکتی ہے.چاہے وہ مسجدوں میں نمازوں کی حاضری ہو یا دوسری قربانیوں اور حقوق العباد کا معاملہ ہو.پس ہر سطح پر جماعت کی خدمت کرنے والا پہلے تو اپنے اندر دیکھے کہ ان احکامات کی کس حد تک میں پابندی کر رہا ہوں.ان کی جگالی کر کے اپنی حالت بہتر بنائے اور پھر دوسرے کو بتائے.اس طرح ہر احمدی کا بھی فرض ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو دیکھے اور دہرائے اور بار بار سامنے لائے.اگر ہم اس طرح کرنا شروع کر دیں تو ایک عظیم انقلاب ہے جو ہم لا سکتے ہیں اور نہ صرف اپنی اصلاح کرنے والے ہو سکتے بلکہ دنیا کو حقیقی اخلاق کے معیاروں کا پتا دے سکتے ہیں.پس اس طرف ہمیں خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کر کے ان پر عمل کرنا چاہئے.گزشتہ خطبہ میں میں نے بعض باتوں کا ذکر کیا تھا جو ایک مومن کا خاصہ ہونی چاہئیں.آج بھی میں بعض باتیں پیش کروں گا.رمضان کا مہینہ بندے کی اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہے.یہ مہینہ جہاں ہمیں ہماری عبادتوں کی طرف توجہ دلانے کا مہینہ ہے وہاں ہماری کمزوریوں کی طرف توجہ دلانے اور ان کی اصلاح کا بھی مہینہ ہے.پس اس مہینے میں ہمیں اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی جگالی کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے.اگر ہم بھر پور طور پر اس کے لئے کوشش نہیں کر رہے تو رمضان کی سحریوں اور افطاریوں سے ہی استفادہ کر رہے ہوں گے، کوئی عملی اثر
خطبات مسرور جلد 13 393 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء ہم پر نہیں ہو رہا ہو گا جو ہمارے روحانی اور تربیتی معیاروں کو بلند کر رہا ہو.اسی طرح ہوں گے جس طرح بعض لوگوں کے بارے میں لطیفے مشہور ہیں کہ روزے رکھنے کا پوچھو تو عذر ہو جاتا ہے.نفل اور تراویح کا پوچھو تو عذر پیش کرتے ہیں.نمازیں پڑھنے کے بارے میں کہا جائے باجماعت پڑھو تو عذر ہوتا ہے.اور جب افطاری کے بارے میں کہو تو پھر کہیں گے ہاں ہاں ضرور ہم نے کرنی ہے.ہم بالکل ہی کا فر تونہیں ہو گئے.تو ہمیں ایسے مومن نہیں بنا چاہئے.پھر یہی لوگ ہیں جو دین کو مذاق بناتے ہیں اور یہ لطیفے سے زیادہ مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ ہے.اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والوں کے معیار بہت بلند اور بہت اونچے ہونے چاہئیں.بغیر کسی جائز عذر کے روزے بھی نہیں چھوٹنے چاہئیں اور اسی طرح رمضان کا جو عبادت کا مقصد ہے وہ بہترین رنگ میں پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اسی طرح رمضان کے ساتھ قرآن کریم کا زیادہ پڑھنا بھی مسنون ہے اور جبرئیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر رمضان میں قرآن کریم کا دور کرواتے تھے.(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله...حديث (6) پس خاص طور پر قرآن کریم کی تلاوت کی طرف ہمیں ہر ایک کو توجہ دینی چاہئے اور اس میں سے پھر احکامات کی تلاش کر کے ان کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.تراویح کی جو نماز ہوتی ہے، یہ بیشک فرض نہیں ہے.یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس لئے شروع ہوئی تھی کہ جو لوگ تہجد نہیں پڑھ سکتے ان کی نفلی عبادت بھی ہو جائے.نفل نماز بھی ادا ہو جائے اور قاری کے ذریعہ سے وہ قرآن کریم بھی سن لیں.لیکن جو تہجد پر اٹھ سکتے ہیں ان کو تجد بھی پڑھنی چاہئے.آجکل کیونکہ وقت تھوڑا ہوتا ہے اس لئے چاہے تھوڑی ہی پڑھیں لیکن پڑھنی چاہئے.جو بھی روزہ رکھنے کے لئے جاگے گا یا اس وقت جاگتا ہے تو ادھر ادھر کی باتیں کرنے کی بجائے پہلے نفل پڑھنے چاہئیں.تراویح روزے کے ساتھ کوئی لازمی شرط نہیں ہے اور تہجد بھی گولا زمی شرط نہیں ہے لیکن نوافل بہر حال ادا کرنے چاہئیں.مومنین کو تہجد پڑھنے کا عام حالات میں بھی حکم ہے یا تلقین کی گئی ہے.سیہ وضاحت میں نے اس لئے کر دی ہے کہ کسی نے مجھے کہا تھا کہ شاید روزہ رکھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم آٹھ رکعت یا تراویح پڑھے یا تہجد پڑھے.تو یہ واضح کر دوں کہ تہجد یا تراویح روزے کے لئے کوئی شرط نہیں ہے.ہاں عبادتیں ضروری ہیں.نوافل پڑھنے چاہئیں جب وقت ملے.اور روزے
خطبات مسرور جلد 13 394 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء کے ساتھ جو اصل چیز ہے وہ قرآن کریم پڑھنا ہے جو مسنون ہے.پس زیادہ سے زیادہ قرآن کریم پڑھنے کی طرف ہر ایک کی توجہ ہونی چاہئے اور جیسا کہ میں نے کہا نمازیں اور عبادت تو ہر مومن کا ویسے بھی ایک فرض ہے.ہاں رمضان میں ہمیں ان عبادتوں میں نمازوں میں مزید خوبصورتی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی طرح زیادہ سے زیادہ اپنی زبانوں کو ذکر الہی سے بھی تر رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.پس اس ماحول میں جو رمضان کا مہینہ ہے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اگر ہمارے اندر نمازوں اور عبادت میں پہلے کوئی کمزوری تھی تو ہم اسے دور کر کے اس طرف اس نیت سے توجہ کریں کہ اس اہم حکم کو ہم نے با قاعدہ اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے.صرف رمضان میں ہی اس حکم کو اپنے اوپر لاگو نہیں کرنا یا رمضان کے لئے ہی خاص مخصوص حکم نہیں ہے بلکہ ایک مومن کو تو ہمیشہ ہی یہی حکم ہے.پس اس بات کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا چاہئے کہ نماز اور عبادت اللہ تعالیٰ کے بنیادی حکموں میں سے حکم ہے.جس طرح آجکل ہم میں سے اکثر کو عبادتوں کی طرف اس لئے توجہ پیدا ہوئی ہے کہ رمضان کا مہینہ برکتوں کا مہینہ ہے اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے، اس لئے ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بنیں اور اس رمضان کے مہینے سے فائدہ اٹھا لیں.اس بارے میں ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر ہمارے دل کی گہرائیوں تک ہے.وہ ہماری نیتوں کو جانتا ہے اور ہمارے اعمال کو ہماری نیتوں کے مطابق دیکھتا ہے تو پھر ہمیں اس نیت سے مسجدوں کی آبادی اور عبادت کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں اور اس مہینے کی عبادتوں کو پھر زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کریں.اگر تہجد کی عادت پڑ گئی یا دن کے نوافل ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گئی تو پھر اس عادت کو مستقل اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة : 22) اے لوگو! تم اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ضمن میں ایک جگہ فرمایا کہ: ”اے لوگو! تم اس خدا کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا“.(حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 340) فرمایا کہ : ” عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا.یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے اس سے دل لگاؤ.پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے اور دوسری سب چیزوں کو اس کے
خطبات مسرور جلد 13 66 مقابلہ میں بیج سمجھا جائے.“ 395 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء ( ملفوظات جلد 10 صفحہ (331) جہاں تک علمی اور اعتقادی سوچ کا تعلق ہے ہم سب جانتے ہیں کہ خدا ہی ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے.خدا ہی ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور زندہ خدا ہے.دعاؤں کو سنتا ہے اور اس سے دل لگانا چاہئے.لیکن اس کے باوجود ہم میں سے اکثر لوگ جو ہیں وہ خدا تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے جو پیدا کرنے کی ضرورت ہے.وہ تعلق جو دوسرے ہر تعلق کو ہماری نظر میں پیج بنا دے.رمضان میں ایک ماحول کے زیر اثر اس طرف قدم بڑھنے شروع ہوتے ہیں اور پھر رمضان کے بعد ا کثر کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ہوتے ہوتے یہ قدم پھر بالکل رک جاتے ہیں.پس اپنے عمل سے ہمیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز بیچ ہے اور اس بات کو سمجھنے کے لئے دلوں کا تقویٰ پیدا کرنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تا کہ تمہارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ پیدا ہو.عبادت کا مقصد صرف خدا کو پہچانا نہیں بلکہ تقویٰ پیدا کر کے اپنی روحانی بلندیوں کو حاصل کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک حاصل کرنا ہے.اور جب صفات کا ادراک پیدا ہو تبھی ہر چیز اس کے مقابل پر بیچ بن سکتی ہے یا ہو سکتی ہے.اب مثلاً اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرو.رب اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جو پرورش کرتی ہے جو پیدا کرتی ہے.اور پھر اس کو آہستہ آہستہ بڑھاتی ہے.اسے ترقی دیتی ہے.پس یہاں جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے رب کی عبادت کرو تو فرمایا کہ تمہاری ہر قسم کی مستقبل کی ترقیات تمہارے رب کے ساتھ منسلک ہیں.اسی کے ساتھ وابستہ ہیں.اور جب تم خاص ہوکر صرف اپنے رب کی عبادت کر رہے ہو گے تو جہاں صفت ربوبیت کے عمومی فیض سے دنیاوی اور مادی پرورش ہو رہی ہوگی وہاں تمہاری روحانی صلاحیتوں کی ترقی اور پرورش بھی ہورہی ہوگی.پس اس میں یہ بھی ہمیں نصیحت ہے کہ اگر ہماری روحانی حالت میں ترقی نہیں ہے یا نہیں ہو رہی تو ہم اپنی عبادتوں کا حق ادا نہیں کر رہے اور نتیجہ اپنے رب کی روحانی پرورش کے فیض سے فیضیاب نہیں ہو رہے.جب ہم اپنے رب کی عبادت کا حق ادا کر کے اس کی اس صفت سے روحانی لحاظ سے فیض پائیں گے تو تقویٰ میں بڑھیں گے اور جب تقویٰ میں بڑھیں گے تو پھر ہماری عبادتیں صرف رمضان تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ سارے سال اور ساری عمر پر محیط ہوں گی.پس اس سوچ کے ساتھ ہمیں
خطبات مسرور جلد 13 396 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے“.یعنی پیدائش کا مقصد یہی ہے.فرمایا ” جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت بجھی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنا ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 65-64) دے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.“ پھر فرمایا : ” پس کس قدر ضرورت ہے کہ تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ.دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو.“ فرمایا کہ میں اس لئے بار بار اس ایک امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 184 183 ) پس اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.مجھے جب بعض کارکنان اور عہدیداروں کے بارے میں یہ شکایت ملتی ہے کہ وہ نمازوں میں سست ہیں.مسجد میں نہیں آتے یا بعض ایسے ہیں کہ گھروں میں بھی نہیں پڑھتے اور ان کی بیویاں شکایت کر رہی ہوتی ہیں تو اس بات پر بڑی شرمندگی ہوتی ہے.پس ہمیں اپنی عبادتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے.اس کے بغیر تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتا.اور جب تقویٰ نہ ہو تو پھر انسان نہ خدا تعالیٰ کے حق ادا کر سکتا ہے، نہ ہی اس کی مخلوق کے حق ادا کر سکتا ہے، نہ ہی جماعت کے لئے کوئی کارآمد وجود بن سکتا ہے، نہ ہی اس کے کام میں برکت پڑسکتی ہے.پس ہمیں ہر وقت ہوشیار رہ کر اپنی عبادتوں کی نگرانی اور حفاظت کی ضرورت ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے چلے جائیں اور روحانی ترقیات بھی حاصل کرنے والے ہوں.پھر اللہ تعالیٰ کا ہمیں ایک حکم ہے فرمایا کہ يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا آمَنَتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الانفال : 28) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول سے خیانت نہ کرو ورنہ تم اس کے نتیجہ میں خود اپنی امانتوں سے خیانت کرنے لگو گے جبکہ تم اس خیانت کو جانتے ہو گے.پس یہ بہت توجہ طلب اور اہم حکم ہے.خیانت صرف بڑی باتوں یا بڑے کاموں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور کاموں سے لے کر بڑی بڑی باتوں اور کاموں سب پر حاوی ہے.
خطبات مسرور جلد 13 397 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو ایک پاک جماعت کے قیام کے لئے آئے تھے آپ نے اپنی شرائط بیعت میں دوسری شرط میں خاص طور پر خیانت نہ کرنے اور اس سے بچنے کا ہم سے عہد لیا ہے.(ماخوذ ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564-563) ہر برائی چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی وہ برائی ہے لیکن بعض برائیاں ایسی ہیں جو دوسری برائیوں کو بھی جنم دیتی چلی جاتی ہیں اور خیانت بھی ان میں سے ایک ایسی برائی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خیانت کی عادت پھرا اپنی امانتوں اور فرائض کی ادائیگی سے بھی خیانت کرواتی ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خائن نہ ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حقوق ادا کرنے والا ہو سکتا ہے ، نہ ہی بندوں کے حقوق ادا کرنے والا.ایک خائن شخص لاکھ کہتا پھرے کہ میں نمازیں پڑھنے والا ہوں عبادت کرنے والا ہوں لیکن جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ عبادت کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے اور تقویٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا.حقوق کی ادائیگی میں خیانت جو ہے وہ تقویٰ سے دور لے جاتی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آدمی خائن بھی ہو اور تقویٰ پر چلنے والا بھی ہو اور حقوق ادا کرنے والا بھی ہو.نتیجہ ایسے شخص کی عبادتیں بھی اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا.عابد بننا تو بہت بڑی بات ہے، ایک خائن تو ایمان لانے والا بھی نہیں کہلا سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر نیز صدق اور کذب اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی امانت اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 320 مسندابی هریرة حدیث نمبر 8577مطبوعه بيروت 1998ء) پس ایمان کی نشانی سچائی ہے اور امانت کی ادائیگی ہے.اس لئے ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن میں جھوٹ اور خیانت کے علاوہ بری عادتیں ہوسکتی ہیں لیکن ایک مومن میں یہ دو عادتیں نہیں ہو سکتیں.جو جھوٹ بولنے والا اور خیانت کرنے والا ہے وہ مومن ہے ہی نہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحه 397 مسندابو امامة الباهلی حدیث نمبر 22523 مطبوعه بيروت 1998ء) امانتوں کا حق ادا کرنے اور خیانت سے بچنے کا مضمون بڑا وسیع مضمون ہے اور ایک مومن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کی اہمیت اور وسعت کو سمجھے.اور اس کو سمجھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بڑی وضاحت سے روشنی ڈالتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین باتوں کے بارے میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا.نمبر ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی خاطر کام میں خلوص نیت.دوسرا یہ کہ ہر
خطبات مسرور جلد 13 398 مسلمان کے لئے خیر خواہی.تیسرے یہ کہ جماعت کے ساتھ مل کر رہنا.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء سنن الدارمي المقدمه باب الاقتداء بالعلماء حدیث نمبر 236 مطبوعه بيروت لبنان 2000ء) پس اس میں اللہ تعالیٰ کا حق بھی ہے.بندوں کے حق بھی ہیں اور جماعت سے وفا کا حق بھی ہے.یہ تینوں چیزیں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے میں عبادت کے علاوہ وہ تمام ذمہ داریاں بھی ہیں جو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے والوں پر ڈالی جاتی ہیں.عہد یداروں کے سپردان کی جو امانتیں کی گئی ہیں اپنی ان امانتوں کا حق ادا کرنے کا جائزہ اگر ہر انسان خود لے، ہر خدمت کرنے والا خود لے اور خدا تعالیٰ کا تقویٰ سامنے رکھتے ہوئے یہ جائزہ لے تو پھر خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ کس حد تک اس امانت کا وہ حق ادا کر رہا ہے جو اس کے سپرد کی گئی ہے.پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ کے رسول نے فرمایا کہ اگر تم اپنے بھائیوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو یہ بھی خیانت ہے.تمہاری زبان اور ہاتھ سے دوسروں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے جو تمہاری ذمہ داری ہے تم اس کا حق ادا نہیں کر رہے اور حق ادا نہ کر کے خیانت کے مرتکب ہورہے ہو.(سنن الترمذى كتاب البر والصلة باب ما جاء فى شفقة المسلم حدیث 1927) بلکہ ایک روایت میں یہاں تک ہے کہ ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان بھی محفوظ رہیں.(سنن الترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فى ان المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده حدیث نمبر (2627 پس ہر انسان کے حقوق کی ادائیگی ایک مسلمان پر فرض ہے اور اس حق کی ادائیگی نہ کرنا اسے خائن بنادیتا ہے.پھر ایک احمدی کے لئے جماعتی نظام کی پابندی اور اپنے عہد بیعت کو نبھانا ضروری ہے.جماعت کا ہر فرد اپنے اپنے اجتماعوں میں یہ عہد دہراتا ہے کہ وہ نظام جماعت کا پابندرہے گا.پس یہ عہد بھی ایک امانت ہے اور اس کا ادا کرنا ضروری ہے.اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اسے پورا کرنا ضروری ہے.خلافت سے وابستگی اور اطاعت بھی ضروری ہے.یہ عہد میں دہرائی جاتی ہے.امانتوں کے حق ادا کرنے میں گھر یلو باتوں میں سے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لڑکا لڑکی جب شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو ایک دوسرے کے لئے ان کے کچھ حقوق ہیں اور ان حقوق کی ادا ئیگی ایک امانت ہے.اور ان میں خاوند کے ذمہ جو امانت ہے اس میں مثلاً عورت کا حق مہر ہے جوا سے ادا کرنا چاہئے.بہت سارے معاملات آتے ہیں کہ جب جھگڑے پڑ جائیں تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ حق
خطبات مسرور جلد 13 399 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء مہر ادا نہ کئے جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں یہاں تک فرمایا ہے کہ جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت یہ کی کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے اور جس نے کسی سے اس نیت سے قرض لیا کہ وہ اسے ادا نہیں کرے گا تو وہ چور ہے.(کنز العمال جلد 8 جزء 16 صفحه 137 كتاب النكاح الفصل الثالث في الصداق حدیث نمبر 44719 مطبوعه بيروت 2004ء) پھر دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے امانت کے معیار کو کہاں تک لے جانے کی توقع رکھی ہے اور تاکید فرمائی ہے.فرمایا کہ جس سے اس کے مسلمان بھائی نے کوئی مشورہ طلب کیا اور اس نے بغیر رشد کے مشورہ دیا تو اس نے اس سے خیانت کی.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 244 مسندابی هریرة حدیث نمبر 8249 مطبوعه بيروت 1998ء) یعنی اگر تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح رنگ میں مشورہ نہیں دیا تو یہ خیانت ہے.پس بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب دوسرے ان پر اعتبار کرتے ہیں ، ان سے مشورہ طلب کرتے ہیں تو ان کو صحیح مشورے نہیں دیتے.امانت کا حق تو یہ ہے کہ اگر واضح طور پر کسی بات کا علم نہیں تو معذرت کر لیں اور اگر کسی بہتر مشورہ دینے والے کا پتا ہو تو اس کا پتہ بتا دیا جائے ، اس طرف رہنمائی کر دی جائے.بعض وکلاء میں نے دیکھے ہیں یہاں اسائلم پر آنے والے لوگوں کو غلط مشورے دیتے ہیں یا پوری دلچسپی سے مشورے نہیں دیتے جبکہ اپنی فیس پوری لے رہے ہوتے ہیں تو وہ ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں.اسی طرح دوسرے معاملات بھی ہیں.پس ایسے لوگوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ ایک شخص جب اعتبار کر کے آپ کے پاس آتا ہے تو اس کی صحیح رہنمائی کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے فیصلہ کے مطابق وہ خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں.پس ان معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں امانت کی ادائیگی اور خیانت سے بچنے کے کیا معیار دیکھنا چاہتے ہیں؟ آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ: جو شخص.....بدنظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“.فرمایا: ” ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19-18 )
خطبات مسرور جلد 13 400 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء پھر آپ نے فرمایا کہ : ” خدا کے واحد ماننے کے ساتھ یہ لازم ہے کہ اس کی مخلوق کی حق تلفی نہ کی جاوے.جو شخص اپنے بھائی کا حق تلف کرتا ہے اور اس کی خیانت کرتا ہے وہ لا ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 106 حاشیه ) إِلَهَ إِلَّا اللہ کا قائل نہیں“.پھر آپ نے فرمایا کہ: ” خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے.چنانچہ لباس التقوی، قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدورکار بند ہو جائے“.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 210) پس امانتوں کے دقیق اور باریک پہلو تلاش کر کے ان پر عمل کرنا ہمیں امانت کی ادائیگی کرنے والا بناتا ہے جس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے.تمام حقوق جو ہمارے ذمہ ہیں یہ ایک امانت ہیں.تمام فرائض جو ہمارے ذمہ لگائے گئے ہیں یہ ایک امانت ہیں اور ان کی ادائیگی ہم پر فرض ہے.اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں تو یہ فرض ادا کرنا ضروری ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کو اس پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے.پھر اللہ تعالیٰ کا ایک اور حکم میں نے آج بیان کرنے کے لئے لیا ہے جو معاشرے کے حسن اور خوبصورتی کو نکھارنے والا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ( آل عمران : 135 ) یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ حقوق کی ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقوق کی ادائیگی کے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ بلکہ اس سے بھی آگے جا کر ہمیں یہ نصیحت فرمائی کہ معاشرے کی خوبصورتی حقوق کی ادائیگی سے بھی آگے جا کر قربانی کرنے سے پیدا ہوتی ہے.صرف حق نہیں ادا کرنے بلکہ حق ادا کرنے کے لئے بعض دفعہ قربانی بھی کرنی پڑتی ہے.جس معاشرے میں ہر انسان نہ صرف ایک دوسرے کے حق ادا کر رہا ہو بلکہ قربانی کر کے حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہو وہ
خطبات مسرور جلد 13 401 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء معاشرہ حقیقی طور پر اس معیار تک پہنچتا ہے جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنت نظیر معاشرہ ہے.اس کا نظارہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں نظر آتا ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے بھی فرما یا کہا ور با وجود غریب ہونے کے دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے.پس جب ایسی سوچ اور ایسے عمل ہوتے ہیں تو پھر قربانیوں کی روح پیدا ہوتی ہے.اپنے نفس کے جذبات کو بھی انسان دباتا ہے.دوسروں کے لئے بھلائی چاہتا ہے اور احسان کا سلوک بھی کرتا ہے.اس کردار کی عظمت کی اعلیٰ ترین مثال تو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ میں نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے اپنی بیٹی کے قاتل کو بھی معاف فرما دیا.ع (السيرة الحلبية جزء 3 باب ذكر مغازيه والال له صفحه 132 - 131 مطبوعه بيروت 2002ء) اور بے شمار اور مثالیں ہیں.پھر آپ نے اپنے صحابہ کو غصہ دبانے اور اعلیٰ اخلاق دکھانے کی کس طرح تلقین فرمائی اور تربیت کی.اس بارہ میں مشہور روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں برا بھلا کہنا شروع کر دیا.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش رہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھے ہوئے تھے اس شخص کی باتیں سن کر مسکراتے رہے.جب اس شخص کی زیادتی کی انتہا ہو گئی تو حضرت ابوبکر نے اس کی کچھ باتوں کا کچھ سختی سے جواب دیا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ناگواری کے آثار آئے اور آپ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور بعد میں حضرت ابوبکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ وہ شخص آپ کی موجودگی میں برا بھلا کہ رہا تھا اور آپ بیٹھے رہے اور جب میں نے اس کی کچھ باتوں کا جواب دیا تو آپ غصے میں وہاں سے تشریف لے گئے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ گالی دے رہا تھا اور تم خاموش تھے تو خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا.لیکن جب تم نے الٹ کر جواب دیا تو فرشتہ چلا گیا اور شیطان آ گیا.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 547-546 مسندابی هریرة حدیث نمبر 9622 مطبوعه بيروت 1998ء) اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں تھا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح صحابہ کی تربیت فرمائی کہ ان کے جائز غصوں کو بھی عفو میں بدل دیا
خطبات مسرور جلد 13 402 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء بلکہ ان کو احسان کرنے کے اسلوب سکھائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی حالت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا.(صحیح بخارى كتاب المناقب باب صفة النبي مال العلم حديث (3560) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں.بہت بُری طرح ستایا گیا مگر ان کو آغرِضْ عَنِ الْجهلِينَ (الاعراف :200 ) کا ہی خطاب ہوا.خود اس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں ، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا.ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 103 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام صادق کا اپنا نمونہ کیا ہے.اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے اقدام قتل والے مقدمے میں مولوی محمد حسین بٹالوی عیسائیوں کی طرف سے گواہ کے طور پر پیش ہوئے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل مولوی فضل دین صاحب جو ایک غیر احمدی لیکن شریف الطبع انسان تھے ، وہ مولوی محمد حسین کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے عدالت میں ان سے یعنی مولوی صاحب سے بعض ایسے سوال کرنے لگے جو ان کے حسب نسب کے بارے میں طعن آمیز تھے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے وکیل کو فوری روک دیا کہ میں مولوی صاحب پر ایسے سوال کرنے کی آپ کو اجازت نہیں دیتا اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنا ہاتھ فوری طور پر مولوی فضل دین صاحب وکیل کے منہ پر رکھ دیا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 543 حاشیہ)
خطبات مسرور جلد 13 403 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء تو یہ ہے وہ اعلیٰ خلق کہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر آپ نے اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی.مولوی فضل دین صاحب ہمیشہ اس واقعہ کا تذکرہ کیا کرتے تھے کہ مرزا صاحب عجیب اخلاق کے انسان ہیں کہ ایک شخص ان کی عزت بلکہ جان پر حملہ کرتا ہے اور اس پر اس کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے بعض سوال کئے جاتے ہیں تو آپ فوراً روک دیتے ہیں کہ میں ایسے سوال کی اجازت نہیں دیتا.(ماخوذ از سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 229-228 روایت نمبر 248) تو یہ ہے وہ مقام جو غیظ کو گھٹانے اور عفو بلکہ احسان کی بھی مثال ہے جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی سیرت میں ہمیں نظر آتا ہے.دو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران : 135 ) یعنی مومن وہی ہیں جو غصہ کو کھا جاتے ہیں اور یاوہ گو اور ظالم طبع لوگوں کے حملوں کو معاف کر دیتے ہیں اور بیہودگی کا بیہودگی سے جواب نہیں دیتے.( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 460 اشتہار نمبر 129 بعنوان لایق توجہ گورنمنٹ، حاشیہ) آپ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ : ”اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان ، کان ، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے.تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو.اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو“.فرمایا کہ ”میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے.تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں.ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے.ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے.چاہئے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے.جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے.جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو
خطبات مسرور جلد 13 404 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جولائی 2015ء اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے.پس جب تک تبدیلی نہ ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں.خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو.اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے“.( ملفوظات جلد 7 صفحہ 128-127) اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان میں جہاں اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے اور انہیں مستقل رکھنے کی توفیق عطا فرمائے وہاں ہمیں دوسرے اخلاق اور حقوق کی ادائیگی کے معیار بھی قائم کرنے اور انہیں مستقل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جیسا کہ میں نے کہا ہمارے کسی بھی رنگ میں جو جماعت کا کام کرنے والے ہیں ان کو گھروں میں بھی اور باہر بھی سب سے پہلے اپنے نمونے پیش کرنے چاہئیں.دعاؤں کی طرف میں دوبارہ توجہ دلاتا ہوں.رمضان کا جو پہلا خطبہ تھا اس میں بھی کہا تھا.مختصراً دوبارہ کہہ دوں کہ آجکل جماعت کی ترقی اور دشمنوں کے خطرناک منصوبوں سے بچنے کے لئے بہت دعائیں کریں اور آپ جہاں اپنے لئے دعا کر رہے ہوں گے غلبہ اسلام کے لئے بھی بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 24 جولائی 2015 ء تا 30 جولائی 2015 ءجلد 22 شمارہ 30 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 405 28 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015 ء بمطابق 10 وفا 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بائیس روزے گزر گئے یا بائیسواں روزہ گزر رہا ہے اور یوں ہم رمضان کے آخری عشرہ میں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کے عشروں میں سے گزرتے ہوئے جہنم سے نجات دلانے والے عشرہ میں سے گزر رہے ہیں.(الجامع لشعب الايمان کتاب الصیام باب فضائل شهر رمضان جلد 5 صفحه 224 مكتبة الرشد طبع 2004ء حدیث نمبر 3336) پس یہ اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ موقع نصیب فرمایا.لیکن ایک مومن جس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھرا ہوا ہے، وہ صرف اس بات پر خوش نہیں ہو سکتا کہ یہ دن یا عشرے جو اللہ تعالیٰ نے میسر فرمائے میری نجات کا سامان بن گئے.یہ دن بیشک رحمت مغفرت اور جہنم سے نجات کے دن ہیں لیکن کیا ہم نے ان دنوں کے فیض سے فیض بھی پایا ہے؟ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات بغیر کسی شرط کے نہیں ہوا کرتے.ان کے ساتھ بعض شرائط ہوتی ہیں.پس ان دنوں کی رحمت سے فیض پانے کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں اور ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے حصہ لینے کی بھی کچھ شرائط ہیں اور جہنم سے نجات کے لئے بھی کچھ شرائط کا پابند ہونا ضروری ہے.پس ہمیں ان چیزوں سے فیض پانے کے لئے ان باتوں کی تلاش کی ضرورت ہے جن سے ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہوئے اس کے فضلوں کے مورد بنیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں بعض مفترین دو قسمیں بیان کرتے ہیں.ایک قسم تو رحمت کی یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور احسان
خطبات مسرور جلد 13 406 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء کے ہوتی ہے.انسان اس کو حاصل کرنے کے لئے کوئی خاص تر ڈ دیا کوشش نہیں کر رہا ہوتا.اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ہے کہ رحمتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: 157 ).کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے تمام لوگ حصہ لے رہے ہیں.بغیر کسی عمل کے ان کو اس رحمت سے حصہ مل رہا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بارے میں یوں فرمایا ہے کہ : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے اور غضب یعنی صفت عدل بعد کسی خصوصیت کے پیدا ہوتی ہے.یعنی یہ مفت قانون الہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے اور اس کے لئے ضرور ہے کہ اوّل قانون الہی ہو اور قانون الہی کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا ہو اور پھر یہ صفت ظہور میں آتی ہے اور اپنا تقاضا پورا کرنا چاہتی ہے.جنگ مقدس روحانی خزائن جلد 6 صفحه 207) پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے ان پر رحم کرتا ہے لیکن جب قانون الہی سے تجاوز کرنے پر انسان غضب یا سزا کا مورد بنتا ہے.چھوٹی موٹی غلطیوں کو تو اللہ تعالیٰ معاف کرتا چلا جاتا ہے لیکن جب انتہائی حد سے بڑھنا شروع کر دے تب پھر خدا تعالیٰ کی عدل کی صفت یا جو دوسری صفت ہے وہ کام کرتی ہے لیکن عموماً اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے.بعض دفعہ عدل کا یا قانون الہی کو توڑنے کا تقاضا ہوتا ہے کہ سزا ملے لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی رحم کرتے ہوئے بخش دیتا ہے.یادرکھنا چاہئے کہ یہ کیفیت مومنوں کے لئے نہیں ہے.جو حقیقی مومن ہیں ان کا مقام کچھ اور ہے.ایمان کا تقاضا توان ایمانی حالتوں کو درست رکھنا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی حتی المقدور کوشش کرنا ہے.اور سب کوششوں کے باوجود کسی بشری کمزوری کی وجہ سے گناہ سرزد ہو جائے تو پھر اگر حقیقی ایمان ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس گناہ کو ڈھانک لیتی ہے نہ کہ جیسا کہ میں نے پچھلے کسی خطبے میں کہا تھا کہ انسان گناہوں پر دلیر ہوتا چلا جائے اور یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع ہے، کوئی پرواہ نہیں.تو یہ باتیں خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کانے والی ہیں.اس بات کو واضح فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کس طرح اس کے غضب کو ڈھانک لیتی ہے.ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: و عید میں دراصل کوئی وعدہ نہیں ہوتا.صرف اس قدر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدوسیت کی وجہ سے تقاضافرماتا ہے کہ شخص مجرم کو سزا دے اور بسا اوقات اس تقاضا سے اپنے ملہمین کو اطلاع بھی دے دیتا ہے.یعنی اپنے فرستادوں کو، انبیاء کو جن پر الہام کرتا ہے ان کو بتا دیتا ہے کہ فلاں شخص دلیر ہوتا جا رہا ہے
خطبات مسرور جلد 13 66 407 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء اس کو میں سزا دینے والا ہوں لیکن پھر کیا صورت ہوتی ہے.” پھر جب شخص مجرم تو بہ اور استغفار اور تضرع اور زاری سے اس تقاضا کا حق پورا کر دیتا ہے تو رحمت الہی کا تقاضا غضب کے تقاضا پر سبقت لے جاتا ہے.بعض دفعہ اطلاع بھی ہو جاتی ہے، سزا بھی مل جاتی ہے، مقدر ہو جاتی ہے، فیصلہ ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ شخص جس کے بارے میں فیصلہ ہوا ہے تو بہ کر رہا ہے، استغفار کر رہا ہے تو پھر سزا سے بچ بھی سکتا ہے.تو فرمایا کہ تو رحمت الہی کا تقاضا غضب کے تقاضا پر سبقت لے جاتا ہے اور اس غضب کو اپنے اندر محجوب و مستور کر دیتا ہے.اسے چھپا دیتا ہے.اس پر پردہ ڈال دیتا ہے.اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.” یہی معنی ہیں اس آیت کے کہ عَذَابِي أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شيئي (الاعراف: 157 ).یعنی رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِى - تحفه غزنویہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 537) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ) میری رحمت غضب پر حاوی ہو گئی.پس مجرموں کو بھی ان کے تو بہ استغفار سے اللہ تعالیٰ بخشتا ہے.جو بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں ان کے لئے سزا مقدر ہو جاتی ہے ان کو بھی بخش دیتا ہے.آپ نے فرمایا کہ ایسے مجرموں کو بھی جن پر عذاب لازم ہو گیا جب وہ زاری کریں تو اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے بلکہ بعض پر عذاب کی اپنے فرستادوں کو خبر بھی دے دیتا ہے (جیسا کہ میں نے کہا) لیکن پھر مجرم کی زاری جو ہے، اس کا تضرع ہے، اس کا رونا پیٹنا ہے، استغفار کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کھینچ لیتا ہے.تو بہر حال مومن کا یہ مقام نہیں ہے کہ پہلے قانون الہی سے بغاوت کرے اور پھر آہ وزاری کرے اور پھر رحمت تلاش کرے.مومنوں کے بارے میں دوسری مثال ہے.اور دوسری قسم کی رحمت اعمال کے ساتھ مشروط ہے اور اس کا وعدہ نیک کام کرنے والوں اور تقویٰ پر چلنے والوں کے ساتھ مشروط ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ (الاعراف:57).یعنی یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت محسنوں کے قریب ہے.محسن کے معنی ہیں جو دوسروں سے نیک سلوک کرے.تقویٰ پر چلنے والا ہو.علم رکھنے والا ہو.تمام شرائط کے ساتھ اس کام کو پورا کرنے والا ہو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان لوگوں کے قریب ہے جو جان بوجھ کر گناہ کرنے والے نہیں ہیں.جو اللہ تعالیٰ کو اپنے گناہوں کی سزا کے خوف سے ہمیشہ پکارتے رہتے ہیں اور اپنے گناہوں کی سزا
خطبات مسرور جلد 13 408 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء کے خوف سے اس کی یاد دل میں رکھتے ہیں.وہ لوگ جو جان بوجھ کر گناہ کرنے والے نہیں ہیں بلکہ انجانے میں اگر کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے پکارتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پر نازل ہوتی ہے.ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ وہ دعائیں قبول فرماتا ہے.اس پر کوئی زبردستی نہیں ہے، نہ کوئی کر سکتا ہے کہ ضرور بالضرور اس نے ہماری دعائیں قبول کرنی ہیں.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رحم محسنین کے ساتھ ہے.ان لوگوں کے ساتھ ہے، ان پر ہوتا ہے جو تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں.ان لوگوں کے ساتھ ہے جو دوسروں سے نیکیاں کرنے والے اور ان کے حق ادا کرنے والے ہوں.پس اگر دعائیں قبول کروانی ہیں تو پھر محسن بننا ضروری ہے اور محسن کے ان معنوں کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے محسن بننا ضروری ہے.پس یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.عام نیکیاں کر کے انسان محسن نہیں بن سکتا بلکہ یہ مقام حاصل کرنے کے لئے اپنے اعمال کو اعلیٰ معیاروں تک لے جانا ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو محسن کی تعریف فرمائی ہے اس کو اگر انسان دیکھے تو خوف سے پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا ہماری عبادتوں کی یہ حالت ہوتی ہے.ہر کام کرتے ہوئے جو بھی کام ہم کر رہے ہیں ہماری یہ حالت ہوتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف فرمائی ہے.اور وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ محسن وہ ہے جو ہر نیک کام کرتے ہوئے یہ دیکھے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.یہ بات سامنے رکھے.یا کم از کم خدا تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے.(صحیح البخاری کتاب الایمان باب سؤال جبریل النبی اله عن الایمان والاسلام والاحسان، وعلم الساعة حديث نمبر 50) اب یہ حالت ہماری عبادتوں کی بھی ہو اور ہمارے دوسرے کام سرانجام دیتے وقت بھی ہو تو کبھی غلط کام ہو ہی نہیں سکتا.کبھی تقوی سے ہم ادھر ادھر ہو ہی نہیں سکتے.کبھی کسی کے ساتھ براسلوک کر ہی نہیں سکتے.کبھی کسی کا حق مار ہی نہیں سکتے بلکہ کسی کو نقصان پہنچانے اور اس کا حق مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے.پس اسلام کے احکامات تو ایسے ہیں کہ کسی طرف سے بھی ان پر عمل شروع کریں یا اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو پکڑیں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی حکم کو دیکھیں یا ارشاد کو دیکھیں تو وہ سب کو گھیر کر اکٹھا کر کے ہمیں جس طرف لے کے جائیں گے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے.ہم خواہش تو بہت کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں بھی قبول ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بھی وارث ہوں اور اس کے مورد
خطبات مسرور جلد 13 409 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء بنیں لیکن ان کے حصول کے لئے ہم اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے یا اکثریت ہم میں سے نہیں کرتی یا باقاعدگی سے ہم کوشش نہیں کرتے جو ایک مومن کو کرنی چاہئے.ہم اس بات پر تو خوش ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے عشرے میں سے ہم گزرے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس رحمت کے حصول کے لئے ہم نے کیا کیا یا ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا.کیا ہم ان گناہگاروں اور جرائم پیشہ کی طرح رہے جو وقتی آہ وزاری کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کر کے اس سزا سے بچ گئے جو کسی کو کسی خاص جرم کی وجہ سے ملنی تھی یا بعض جرائم کی وجہ سے ملنی تھی.یا ہم محسنین میں شمار ہو کر اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالنے والے بننے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمیشہ تقویٰ پر قائم رہنے کا عہد کرتے ہیں، جو ہمیشہ دوسروں کے ساتھ نیکیاں بجالانے کا عہد کرتے ہیں، جو رمضان کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا مستقل ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور بناتے ہیں.پس ہمیں اس رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے اور کوشش کرنی چاہئے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے نہ کہ عارضی اور وقتی طور پر سزا سے بچالے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ہم پہلی حالت میں آجائیں.اس ایک لفظ رحمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری زندگی کے لئے لائحہ عمل کا ایک خزانہ عطا فرما دیا کہ رمضان کے پہلے دس دن میں اس رحمت کی تلاش کرو اور جب یہ رحمت تلاش کر لو تو پھر یہ عہد کرو کہ اس کو ہم نے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے.ایک مومن کے لئے دس دن کی تربیت پھر اگلے راستے دکھائے گی.لیکن کیونکہ شیطان ہر وقت ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے جو اپنے کاموں میں مصروف ہے، ورغلانے کے کام میں مصروف ہے، نیکیوں سے ہٹانے کے کام میں مصروف ہے اس لئے اس رحمت کو حاصل کرنے کے بعد اس پر قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے اور یہ مدد حاصل کرنے کے لئے ہم نے کیا طریق اختیار کرنا ہے.فرمایا کہ اگلے دس دن پھر اللہ تعالیٰ کی اس مدد اور طاقت کو تلاش کروتا کہ تمہارے عمل مستقل عمل بن جائیں اور وہ طاقت ہے استغفار.آپ نے فرمایا کہ دوسرا عشرہ مغفرت کا عشرہ ہے.جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ آہ وزاری کرنے والے کے گناہ بخشتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے اور ان پر رحمت اور فضل کرتا ہے.لیکن مومن وہ ہے جو اس ستاری اور رحمت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے جس کا اظہاراس کی عبادتوں سے بھی ہو اور دوسرے اعمال سے بھی ہو اور مستقل استغفار کرتے ہوئے ہو.اپنے اعمال لمر ڈالتے ہوئے ہو.اور جب یہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت ہمیں اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جائے گی.
خطبات مسرور جلد 13 410 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء اس کی رحمت کے دروازے ہم پر کھلتے چلے جائیں گے.اور جب یہ ہوگا تو پھر ہمیں نیکیوں پر قائم رہنے کی ہوگا تو فیق بھی اللہ تعالیٰ دیتا چلا جائے گا.استغفار کی حقیقت ایک مومن کے لئے مغفرت کی حقیقت کیا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کرنا چاہئے اور کس طرح استغفار کرنی چاہئے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے.یہ لفظ غَفْر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں.سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستَغفِر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لئے.جو استغفار کرنے والا ہے اس کی جو فطرتی کمزوریاں ہیں ان کو ڈھانک لے اور مستقل استغفار سے پھر اللہ تعالیٰ ڈھانک بھی لیتا ہے.فرمایا کہ ”لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قومی اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے.یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا اور جس طرح بنایا اس کو اپنے خاص سہارے سے محفوظ رکھنے والا بھی ہے.وہ قیوم بھی ہے.پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا.اس لئے انسان کے لئے لازم ہے جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قیومیت کے ذریعہ بگڑنے سے بچاوے“.( عصمت انبیا ء روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 671) 66 پس انسان کے لئے ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے.اس بگڑنے سے بچانے کے لئے ، اللہ تعالیٰ کی قیومیت سے حصہ لینے کے لئے اپنی روحانی حالتوں کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ استغفار کرو.پس رمضان میں جو ہمیں مغفرت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو اس روح کو سامنے رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس کی رحمت سے اگر مستقل حصہ لینا ہے تو استغفار کرو.اللہ تعالیٰ کی مغفرت طلب
خطبات مسرور جلد 13 411 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء کرو.خدا تعالیٰ جو ان دنوں میں اپنے بندوں پر خاص مہربان ہوتا ہے اس کی رحمت کے دونوں فیض جاری ہیں.ایک عام فیض جس سے مومن اور غیر مومن سب حصہ لیتے ہیں اور ایک خاص فیض جو محسنین کے ساتھ مخصوص ہے اس سے بھی ہم حصہ پانے والے ہوں کہ اس فیض سے حصہ لینے کے لئے جو محسنین سے مخصوص ہے جہاں ایک مومن نیکیوں کے بجالانے کے لئے طاقت پکڑنے کی کوشش کرے وہاں استغفار سے اللہ تعالیٰ کی روشنی سے روشنی لے اور اللہ تعالیٰ کی طاقت سے طاقت پکڑے تا کہ کبھی اللہ تعالیٰ کی روشنی سے محروم ہو کر اندھیروں میں نہ بھٹکنے لگے یا اللہ تعالیٰ کی طاقت سے بے فیض ہو کر شیطان کی جھولی میں نہ جا گرے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی طاقت ساتھ نہ ہو تو شیطان کے حملے بڑے سخت ہیں.وہ فوراً اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.اس لئے استغفار کرنا بہت ضروری ہے تا کہ انسان اللہ تعالیٰ سے طاقت پکڑے اور شیطان سے ہمیشہ بچار ہے.پس فرمایا کہ انسان فطرتا کمزور ہے اور اس کمزوری سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی طاقت سے طاقت لینے کے لئے استغفار ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان کو اپنی نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو اپنے اوپر ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سہارے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے اور اللہ تعالیٰ نے اپنا نام قیوم رکھ کر اس طرف ہمیں توجہ دلائی ہے.اس کی یہ صفت ہے کہ نیکیوں کو جاری رکھنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے ہمیشہ حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سہارے کی ضرورت ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی صفت قیومیت ہی بتا رہی ہے کہ تم نے اگر ہمیشہ کسی چیز کو جاری رکھنا، قائم رکھنا ہے تو تمہیں بہر حال میرے سہارے کی ضرورت ہے.میری طرف آؤ.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سہارے کو کبھی نہ چھوڑو جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.اللہ تعالیٰ جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے، قائم کرتا ہے اور سب سے مضبوط سہارا ہے.پس ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ درمیانی عشرہ کے مغفرت کا عشرہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں جتنی استغفار کرنی ہے کر لو اور تم نے اتنا کرنے سے اپنے مقصود کو پالیا.بلکہ اس طرف ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی ہے کہ رمضان آیا، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہوا.تمہاری توجہ بھی روزوں اور دعاؤں کی طرف ہوئی تو اب اپنی نیکیوں کو جاری رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے مستقل حصہ لینے کے لئے اپنی فطری کمزوریوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے
خطبات مسرور جلد 13 412 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء ہوئے اس کی پناہ میں آؤ اور یہ کوشش کرو کہ یہ حالت مستقل ہو جائے.اللہ کرے کہ ہم میں سے اکثر اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مغفرت طلب کرتے ہوئے دوسرے عشرے میں سے گزر رہے ہوں یا گزرے ہوں.عشرہ تو ختم ہو گیا.اور اب اس سوچ کے ساتھ تیسرے عشرے میں بھی داخل ہور ہے ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کی ہوئی روشنی اور طاقت ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں لے جانے والی ہوگی انشاء اللہ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ آخری عشرہ جہنم سے بچانے کا عشرہ ہے تو جب انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں بھی لپٹ جائے ، اس کی مغفرت سے روشنی اور طاقت پکڑ کر اس پر قائم بھی ہو جائے ، اس کی روشنی سے حصہ لے لے اور اس کی طاقت پکڑ کر اس پر قائم بھی ہو جائے تو ظاہر ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کسی کو بغیر اجر کے تو نہیں چھوڑتا.بڑا د یا لو ہے.بڑا دینے والا ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے نیکیاں بجالا رہا ہو یا بجالانے کی کوشش کر رہا ہوتو اللہ تعالیٰ صرف اتنا نہیں فرماتا کہ اچھا میں تمہیں جہنم میں نہیں ڈالوں گا.جہنم سے تم بچ گئے بلکہ جہنم سے بچانے کا عشرہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں ہمیں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے عمل کرنے والوں سے راضی ہو کر اپنی جنت کی خوشخبری دیتا ہے.جو دوزخ کے دروازے رمضان کے آنے پر بند کئے گئے تھے.(سنن الترمذى كتاب الصوم باب ما جاء في فضل شهر رمضان حدیث نمبر (682) اگر مستقل اس کی مغفرت طلب کرتے رہو گے، استغفار کرتے رہو گے، نیکیوں پر دوام حاصل کرنے کے لئے اور ان پر قائم رہنے کے لئے مستقل اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے رہو گے تو جہنم کے دروازے صرف رمضان میں ہی نہیں بلکہ ان تیس دنوں کی عبادات اور عہد اور حقوق کی ادائیگی اور تو بہ اور استغفار کی مستقل عادت جہنم کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دے گی.جنت اور جہنم کی حقیقت جنت اور جہنم کی حقیقت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ”مذہب سے غرض کیا ہے!! بس یہی کہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات کا ملہ پر یقینی طور پر ایمان حاصل ہو کر نفسانی جذبات سے انسان نجات پا جاوے اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا ہو.کیونکہ درحقیقت وہی بہشت ہے جو عالم آخرت میں طرح طرح کے پیرایوں میں ظاہر ہوگا.اور حقیقی خدا سے بے
خطبات مسرور جلد 13 413 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء خبر رہنا اور اس سے دور رہنا اور سچی محبت اس سے نہ رکھنا درحقیقت یہی جہنم ہے جو عالم آخرت میں انواع و اقسام کے رنگوں میں ظاہر ہوگا.چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 352) پس اس نکتے کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہنم سے نجات بھی اس دنیا سے شروع ہوتی ہے اور جنت کا ملنا بھی اس دنیا میں ہوتا ہے اور ان دونوں کے جو وسیع اثرات ہیں، جو مختلف حالتوں اور رنگوں میں انسان کو ملنے ہیں یا ملتے ہیں وہ اگلے جہان میں ملتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق ، توبہ استغفار انسان کو اس دنیا میں بھی جنت دکھا دیتا ہے جس کے وسیع تر انعامات جیسا کہ میں نے کہا اگلے جہان میں ملیں گے.اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق اور محبت اور اس کی رحمت اور بخشش ہر وقت طلب نہ کرتے رہنا اس کے احکامات کو جان بوجھ کر توڑنا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے حوالے سے اس طرح کھول کر بیان فرمایا.فرمایا کہ قرآن شریف نے بہشت اور دوزخ کی جو حقیقت بیان کی ہے کسی دوسری کتاب نے بیان نہیں کی.اس نے صاف طور پر ظاہر کر دیا کہ اسی دنیا سے یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے.چنانچہ فرما یا لِمَن خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتن (الرحمن : 47) یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے واسطے دو بہشت ہیں“.( دو جنتیں ہیں.یعنی ایک بہشت تو اسی دنیا میں مل جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اس کو برائیوں سے روکتا ہے.(برائیوں سے رکنے سے بہشت ملتا ہے ) اور بدیوں کی طرف دوڑ نا دل میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے جو بجائے خود ایک خطرناک جہنم ہے“.اللہ تعالیٰ کا خوف برائیوں سے روکتا ہے اور انسان جب برائیوں سے رکتا ہے تو اس دنیا میں بھی جہنم سے بچ گیا اور جو بدیوں کی طرف دوڑنا ہے، بدیاں کرنا ہے، اس سے کوئی بدی کرنے والا سکون نہیں پاتا.کہیں نہ کہیں اس کو اضطراب رہتا ہے، کوئی بے چینی رہتی ہے اور انسان کی بدیاں کرنے کے بعد جو یہ حالت ہے یہ خود ایک جہنم ہے.فرمایا لیکن جو شخص خدا کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پر ہیز کر کے اس عذاب اور درد سے تو دم نقد بیچ جاتا ہے“.(وہ تو فوری طور پر بچ گیا جو خدا تعالیٰ کا خوف کرنے والا ہے.)’” جو شہوات اور جذبات نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے.یعنی جذبات شہوانی سے اور جذبات نفسانی سے انسان جو نفسانی جذبات کی غلامی میں آ جاتا ہے یا شہوات کا اسیر بن جاتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا خوف ہو تو اپنے ان جذبات کو دبانے سے وہ اس سے بچ جاتا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 414 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء 66 پھر فرمایا کہ اور وہ وفاداری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے ( پھر انسان جب ان چیزوں سے بچے گا تو خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے میں ترقی کرے گا ) ''جس سے ایک لذت اور سرور اسے دیا جاتا ہے اور یوں بہشتی زندگی اسی دنیا سے اس کے لئے شروع ہو جاتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 156-155) پس اس دنیا کی بہشتی زندگی یا اگلے جہان کی بہشت کے حصول کی کوشش اور جہنم سے بچنا کس طرح ہے اور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق جہنم سے بچنا اور جنت کا حصول صرف اخروی جنت اور جہنم نہیں ہے بلکہ اس دنیا کی بھی جنت اور جہنم ہے اور اس صورت میں اس سے بچنا اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان خدا تعالیٰ سے ڈرے.جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حقیقی محسن وہ ہے جو ہر وقت یہ خیال رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے.اور جب یہ احساس ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تب خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے.اور تبھی انسان برائیوں سے بچتا ہے.اور جو برائیوں سے بچتا ہے وہ دل کی بے چینیوں سے بھی بچتا ہے.اب ایک چور ہے یا کسی بھی طریقے سے کوئی بھی غلط کام کرنے والا ہے، اسے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں میں پکڑا نہ جاؤں یا اور کسی قسم کی بدنامی نہ ہو اور آپ نے فرما یا کہ یہ خوف ہی اس دنیا میں اسے جہنم میں مبتلا کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا اس دنیا اور اگلے جہان میں جنت کما رہا ہوتا ہے اور برائیوں اور شہوات نفسانی میں مبتلا اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جہنم کما رہا ہوتا ہے.فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا اس سے وفا رکھنا ہی جنت ہے اور اس سے دور جانا جہنم ہے.پس یہ جہنم سے نجات کی بات بھی و ہیں آکر ٹھہری کہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل اور اس کے خوف اور تقویٰ کو ہر وقت سامنے رکھنا.پس اس چھوٹی سی حدیث میں تین باتوں کا ذکر فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف توجہ دلائی وہاں اس پر قائم رہنے کے لئے استغفار کی طرف بھی توجہ دلائی اور پھر اس پر قائم رہنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا اگر انسان اس بات کو حاصل کر لے تو اس کا ہر قول و فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے ہو جاتا ہے.برائیوں سے نفرت اور نیکیاں بجالانے کی طرف رغبت پیدا ہو جاتی ہے.رمضان کا مستقل فیض اس کی زندگی میں جاری ہو جاتا ہے اور وہ جہنم سے دور کر دیا جاتا ہے اور دنیا و آخرت میں وہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنت سے فیض پاتا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 415 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء لیلۃ القدر کی عظمت پس ہمیں اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے اور اس کے مطابق سوچنا چاہئے.رمضان کے آخری عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور ایمان کو ہمیشہ سلامت رکھنے کے لئے اور تقویٰ پر قائم رہنے کے لئے ایک اور بات بھی ، ایک اور چیز بھی یا ایک اور امر کی طرف بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی بلکہ ایک خوشخبری عطا فرمائی اور وہ یہ ہے کہ ان دنوں میں آخری عشرہ میں لیلتہ القدر ہے.ایک روایت میں آتا ہے جو حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے،اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے.اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلتہ القدر کی رات قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے.(صحیح البخاری کتاب فضل ليلة القدر باب فضل ليلة القدر حدیث نمبر 2014) لیلتہ القدر کی بڑی اہمیت ہے لیکن رمضان کے روزے بھی وہی اہمیت رکھتے ہیں.ٹھیک ہے کہ ایک رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں لیکن گزشتہ عمل بھی سامنے ہیں اور رمضان میں تیس دنوں میں بھی یہی عمل ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ شرائط ہیں جو ضروری ہیں.ایمان اور نفس کا محاسبہ.یعنی رمضان کے روزے بھی اور لیلۃ القدر کا پانا اور گناہ بخشوانا بھی.اگر پہلے دنوں میں کوئی کمزوری رہ گئی تھی تو آخری دنوں میں اسے دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف لیلۃ القدر جس کو ملے گی اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے بلکہ ہر شخص جو روزوں سے اور لیلۃ القدر سے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے گزر رہا ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی بخشش کی امید رکھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے.مومن کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات اور شرائط رکھی ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی یہ شرائط رکھی ہیں وہاں بہت ساری جگہوں پر ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ بھی جوڑا ہے.اللہ تعالیٰ پر ایمان اور ساتھ ہی نیک اعمال.پس اس طرف بھی ہماری توجہ رہنی چاہئے کہ ایمان کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کے لئے بہت سی نشانیاں بتائی ہیں.مثلاً ایک نشانی یہ بتائی کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (الانفال : 3 ).یعنی مومن تو صرف وہی ہیں جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں.مومن کی یہ نشانی ہے کہ
خطبات مسرور جلد 13 416 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء ہر وقت اس احساس میں رہے کہ خدا کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیئے ہیں.جب بھی اسے اللہ تعالیٰ کے حوالے سے کوئی چیز یاد کرائی جائے تو وہ فوراً ڈر جائے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے.پس جب متعدد جگہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے اعمال صالحہ بجالانے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو اس کو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.جب خدا تعالیٰ کے حوالے سے ان کی ادائیگی کا کہا جائے اور پھر انسان ان کی ادائیگی کی طرف توجہ نہ دے تو کیا وہ اس آیت کے تحت مومن کے زمرہ میں آتا ہے؟ یا اگر ہم تو جہ نہیں دیتے تو ہم (اس زمرہ میں ) آتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اور اپنے ایمان کی حالت کو دیکھتے ہوئے روزے رکھے یا لیلتہ القدر سے گزرے تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے.پس رمضان اور لیلتہ القدر کی برکتیں مشروط ہیں.جیسا کہ میں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول کے احکامات مشروط ہوتے ہیں.اگر انسان کے ایمان میں کمزوری ہے اور دوسروں کے حقوق غصب کر رہا ہے اور پھر بھی وہ اگر کہتا ہے کہ اس نے لیلتہ القدر کا نظارہ کیا.اگر دعا کی خاص کیفیت اس میں پیدا ہو کر اسے اپنی حالت میں مکمل انقلاب لانے والا بناتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت نے اسے نوازا ہے جس کا تقاضا اب یہ ہے کہ اس پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرے.اگر یہ حالت نہیں تو ہو سکتا ہے کہ جس کو وہ لیلۃ القدر سمجھا ہو وہ نفس کا دھوکہ ہو.آپ نے تو یہی فرمایا ہے.ایمان بھی کامل ہونفس کا محاسبہ بھی ہو.پس اس نکتہ کو ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر صرف وہ خاص رات ہی نہیں.لیلۃ القدر کی تین صورتیں ہوتی ہیں.ایک وہ رات جو رمضان میں آتی ہے.ایک وہ زمانہ جو نبی کا زمانہ ہے.اور ایک یہ ہے کہ انسان کے لئے ، ہر شخص کے لئے اس کی لیلتہ القدر وہ ہے جب وہ پاک اور صاف ہو گیا.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 336) دنیا کے تمام گندوں اور میلوں سے پاک ہو گیا.اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم ہو گیا.اپنا محاسبہ کرتے ہوئے تمام برائیوں کو اپنے سے دور کر دیا.پس یہ وہ لیلتہ القدر ہے جو اگر ہمیں میسر آ جائے اور ہم خالص اللہ تعالیٰ کے ہو جائیں اور اس کے حکموں پر عمل کرنے والے بن جائیں، اپنی عبادتوں کے
خطبات مسرور جلد 13 417 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جولائی 2015ء معیاروں کو بلند کرنے والے بن جائیں تو یہ ہمارا وہ مقصد ہے جس کو حاصل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے.اگر ہم نے یہ مقام حاصل کر لیا یا ہم یہ کر لیں تو ہر دن اور ہر رات ہمارے لئے قبولیت دعا کی گھڑی بن جاتی ہے.ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے والے ہیں ہمیں اپنی حالتوں میں انقلاب پیدا کرتے ہوئے اپنے ایمانوں کو اس مقام تک لے جانے کی ضرورت ہے جہاں ہمارا ہر قول اور فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو جائے.ہم اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار نے والے بن جائیں اور رمضان کی برکات ہمیشہ ہمارے اندر قائم رہیں.اللہ کرے ہمارے میں سے بہت سے اس لیلتہ القدر کو بھی پانے والے ہوں جو قبولیت دعا کا خاص موقع ہے اور جو ان آخری دنوں میں ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس کو پانا ہمیں نیکیوں اور تقویٰ پر چلانے والا اور اس میں مزید بڑھانے والا ہو.ہمارے گزشتہ تمام گناہ بھی بخشے جائیں اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے ہم میں قوت اور طاقت پیدا فرمادے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 31 جولائی 2015 ء تا 06 اگست 2015 ، جلد 22 شماره 31 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 418 29 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء بمطابق 17 وفا 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَ ذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الجمعة: 10-11) رمضان کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے.آج شاید بعض جگہ آخری روزہ ہو بعض جگہ کل آخری روزہ ہے.اور یوں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق گنتی کے چند دن گزر گئے.ہم میں سے بہت سوں نے ان دنوں کے فیض سے فیض اٹھایا ہوگا.بعض کو ان دنوں میں نئے تجربات ہوئے ہوں گے.اب یہ دعا اور کوشش ہونی چاہئے کہ یہ فیض، یہ برکات، یہ نئے روحانی تجربات ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے والے ہمارے قدم اب یہاں رک نہ جائیں بلکہ ہمیشہ بڑھتے رہنے والے قدم ہوں اور ہر قدم بیشمار برکات کو سمیٹنے والا قدم ہو.جمعۃ الوداع کا ایک غلط تصور آج رمضان کا آخری جمعہ بھی ہے.ہم میں سے اکثریت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے اہتمام کے ساتھ جمعہ پڑھنے والی ہے لیکن بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو آج رمضان کے اس آخری جمعہ کو بڑی
خطبات مسرور جلد 13 419 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء اہمیت دیتے ہیں اور اہمیت دے رہے ہوں گے.دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعتیں بڑی پھیل چکی ہیں.مختلف طبقات سے لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں.ان پہ پرانی تربیت کا اثر بھی ہے اور بعض ایسے بھی ہوں گے جو عموماً سارا سال جمعہ کو اتنی اہمیت نہیں دیتے لیکن رمضان کے آخری جمعہ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور مسلمانوں میں رائج عام تصور کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ اس جمعہ میں شامل ہونا جو جمعتہ الوداع کے نام سے عام مسلمانوں میں مشہور ہے انہیں گزشتہ سال کی تمام برائیوں اور کمزوریوں سے نجات دلانے والا ہو گا اور تمام سال کی عبادتوں کا حق اب شاید اس جمعہ میں شامل ہونے سے ادا ہو جائے گا.پس ایسے لوگ چاہے چند ہی ہوں میں انہیں یہ یاد کروانا چاہتا ہوں اور انہیں یا درکھنا چاہئے کہ اس جمعہ میں شامل ہونے سے ہماری زندگی کے مقصد کا حق ادا نہیں ہو جاتا.اللہ تعالیٰ کے کلام سے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے یہ بات ثابت ہے کہ صرف رمضان کا آخری جمعہ پڑھ لینا نجات کا ذریعہ نہیں بن جاتا.اس لئے اگر انسان نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو صرف اسی میں شامل ہو جائے تو انسان کی دنیا وعاقبت سنور جاتی ہے، یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا.پس ہمارے نوجوانوں کو بھی اور ہم میں سے جمعہ کی ادائیگی کے بارے میں سستی کرنے والوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غیر احمدیوں میں اگر جمعتہ الوداع کا کوئی تصور ہو تو ہو، جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق جمعتہ الوداع کا نہ کوئی تصور ہے، نہ کوئی ہونا چاہئے.ہاں اگر آج جمعہ میں اہتمام سے شامل ہونے والے کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے یا یہ خیال آ جاتا ہے کہ آج سے میں عہد کرتا ہوں کہ اپنی کمزوری کو دور کروں گا جو جمعوں میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سے ہوتی رہی اور آئندہ ہمیشہ جمعوں پر خاص اہتمام سے شامل ہوں گا تو پھر یقیناً اس جمعہ کی اہمیت ہے بلکہ اس دن کی اہمیت ہے اور صرف جمعہ ہی اس کے لئے بابرکت نہیں بلکہ اس پاک تبدیلی کی وجہ سے ایسے شخص کے لئے یہ لمحہ جس میں اس کے اندر پاک تبدیلی پیدا ہوئی اور اس کا خیال آیا اور اس خیال نے ایک پکا ارادہ دل میں پیدا کر دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اب اہمیت دوں گا، ان پر قائم رہوں گا تو پھر اس کے لئے یہ دن اور یہ لمحہ لیلۃ القدر بن جائے گا.ایک اندھیری رات کے بعد اس میں روحانی روشنی کے سامان پیدا ہو جائیں گے.اور جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان کے لئے ایک لیلتہ القدر اس کا وقت اصفی بھی ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 336) یعنی جب وہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے، اس کے
خطبات مسرور جلد 13 420 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء احکامات پر عمل کا عہد کرتا ہے اور اس پر قائم ہو جاتا ہے.جمعہ کی اہمیت جمعوں کی اہمیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا ارشاد فرمایا ہے.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : اے وہ لوگو جوایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ پس جب نماز ادا کی جا چکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.پس واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ پر آنے اور تمام دنیاوی معاملات کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں پیدا کرتے ہوئے اس میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں رمضان کے جمعوں یا رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہونے کا ارشاد اور حکم نہیں فرما یا بلکہ بلا تخصیص نماز جمعہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے.فرمایا کہ ہر جمعہ بہت اہم ہے.اس لئے اگر تم مومن ہو، اگر تم ایمان لانے کا دعوی کرتے ہو تو پھر جمعہ کا خاص دن جو تمہارے لئے عام دنوں سے بڑھ کر ہے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص کیا گیا ہے.خاص طور پر اس میں اپنے کاروبارا اپنی تجارتیں اپنی مصروفیات چھوڑ کر شامل ہوں.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کہہ کر اس بات پر زور دیا کہ ایمان کے لئے ضروری شرط جمعہ کی ادائیگی ہے اور اس کے لئے ہر جمعہ میں شامل ہونا ضروری شرط ہے.پس بغیر عذر کے نہ شامل ہونے والے کو اپنے ایمان کی حالت کی بھی فکر کرنی چاہئے.ان لوگوں کو بھی سوچنا چاہئے جو جمعہ پر دیر سے آتے ہیں.اپنے کاموں کو اگر سمیٹنا ہے تو وقت سے پہلے سمیٹیں.یہاں جو جمعہ پر آنے والے ہیں ہر ایک کو علم ہے کہ ایک بجے جمعہ کا وقت ہے یا مختلف ممالک میں مختلف جگہوں پر جو جو بھی اس کے اوقات ہیں وہ مقرر کئے ہوتے ہیں.یہاں خاص طور پر یورپ میں سفر کا جو مارجن (margin) ہے وہ بھی رکھیں اور اس مارجن (margin) کو رکھ کر پھر تیاری کرنی چاہئے.ان ملکوں میں تو ٹریفک اور پارکنگ وغیرہ کا بھی خیال رکھنا چاہئے.اس سے بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں اور خاص طور پر جب رش ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے لئے بلایا جائے تو ان تمام چیز وں کوملحوظ رکھنا چاہئے اور جمعہ کے دن اور وقت کا اندازہ کر کے نکلنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ پر پہلے آنے والے کو بڑے ثواب کا مستحق ٹھہرایا.آپ صلی
خطبات مسرور جلد 13 421 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ مسجد میں پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور اسی طرح مسجد میں آنے والوں کی فہرست تیار کرتے جاتے ہیں یہاں تک کہ امام اپنا خطبہ ختم کر لیتا ہے تو وہ فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں.(صحيح البخارى كتاب الجمعة باب الاستماع الى الخطبة 929) پس ہر آنے والے کو مسجد میں آنے اور جمعہ والے دن ذکر الہی کرنے کا خاص ثواب ہے.امام کے انتظار میں اور خطبہ کے دوران بھی وہ اس ثواب سے حصہ لے رہے ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو اہمیت نہ دینے والوں کو بڑی تنبیہ فرمائی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر تین جمعے چھوڑ دیئے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے.(سنن الترمذی ابواب الجمعة باب ما جاء في ترك الجمعة من غير عذر (500) پس اس اہمیت کو ہم سب کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.خدا تعالیٰ نے نہ ہی قرآن کریم میں اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ رمضان کا آخری جمعہ بہت اہمیت کا حامل ہے بلکہ تمام جمعوں کو ہی اہم بتایا ہے.بلکہ ایک حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانو ! جمعہ کے دن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عید بنایا ہے.پس اس روز خاص اہتمام سے نہا دھو کر تیار ہوا کرو.(المعجم الصغير للطبرانى باب الحاء من اسمه الحسن صفحه (129) پس یہ ہر جمعہ کی اہمیت ہے جو ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہر جمعہ کو ہی اہتمام کریں اور تمام مصروفیات کو ہم ترک کریں.تمام کاموں اور کاروباروں سے وقفہ لیں اور مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے آئیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح کھول کر اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے.پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ مومن کے ایمان کے معیار کو اونچا کرنے کے لئے ہر مومن پر جمعہ کی ادائیگی فرض ہے.اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کا منفی پہلو اور انذار بھی بیان فرما دیا کہ جان بوجھ کر جمعہ چھوڑنے والے کا دل نیکیوں کے بجالانے کے لئے بالکل بند ہو جاتا ہے.پس بڑے خوف کا مقام ہے.سستیاں کرنے والوں کو اپنے جائزے لینے چاہئیں اور بغیر عذر کے بلا وجہ کی مستیاں ترک کرنی چاہئیں.اسلام صرف سختیاں ہی نہیں کرتا.اسلام ایک سمویا ہوا مذہب ہے اس میں صرف انذار ہی نہیں اور سختیاں ہی نہیں ہیں.یہی نہیں کہہ دیا کہ جمعہ پر نہیں آؤ گے تو ڈرا دیا بلکہ جیسا کہ میں نے کہا اگر جائز عذر ہے تو ٹھیک ہے.اگر جائز عذر کے بغیر کوئی نہیں آتا تو وہ پکڑ میں
خطبات مسرور جلد 13 422 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء آتا ہے.بغیر جائز عذر کے جمعہ چھوڑ نا منع ہے.ان جائز عذروں کی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی.کون کون لوگ ہیں جن کے عذر ہو سکتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا فرض ہے سوائے چار استثناء کے اور وہ چار لوگ جن کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہیں غلام ، عورت، بچہ اور مریض.(سنن ابی داؤ د كتاب الصلوة باب الجمعة للمملوك والمرأة 1067) پس یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ مجبوروں اور جائز عذر رکھنے والوں کو چھوٹ دی.یہ نہیں کہ ہر عورت، بچہ اور مریض اور وہ غلام جو اپنے مالک کی سختیوں کی وجہ سے مجبور ہیں اگر جمعہ پر نہیں آتے تو ان کا دل سیاہ ہو جائے گا.یہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں.ان کے لئے نہیں کہا گیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگ جائے گی.عورتیں اگر آ جائیں تو ٹھیک ہے.نماز باجماعت، جمعہ کے علاوہ جو پانچ نمازیں ہیں وہ مسجد میں آنا اور با جماعت ادا کر نا صرف مردوں پر فرض ہے.ضروری نہیں کہ عورتیں ضرور مسجد میں آئیں لیکن جمعہ پر اگر عورتیں آجاتی ہیں تو یہ مستحسن ہے.اگر نہیں آتیں تو کوئی حرج نہیں.لیکن بعض عورتیں جو آتی ہیں ان کے چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں تو وہ جب آتی ہیں تو بعض دفعہ ڈسٹرب بھی کر رہی ہوتی ہیں.پھر بعض عورتوں کی دوسری گھر یلو مصروفیات بھی ہوتی ہیں اس لئے انہیں گھروں میں رہنے کی اجازت ہے.بلکہ چھوٹے بچوں والی عورتوں کو جیسا کہ میں نے کہا کہ ڈسٹرب کرتی ہیں.چاہے وہ آ بھی سکتی ہوں ان کے لئے آسانی بھی ہو تو انہیں آنا بھی نہیں چاہئے، کیونکہ پھر اس سے بعض دفعہ بچوں کی وجہ سے باقی نمازیوں کی نماز اور خطبے میں خلل پڑتا ہے.صرف عید کی نماز پر آنا ہر عورت پر فرض ہے.اگر نماز نہ بھی پڑھنی ہو تو خطبہ سن لے.اسی طرح غلام ہیں وہ اپنے مالک کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں لیکن آجکل تو کوئی غلام نہیں ہے.پرانے زمانے میں غلاموں کا جو تصور تھا اس زمانے میں تو نہیں پایا جا تا.ملازم پیشہ لوگ تو لوگ ہیں لیکن وہ غلاموں کے زمرہ میں نہیں آتے.اس لئے ان کو بھی اپنے آپ کو اس چھوٹ کی وجہ سے غلاموں کے زمرہ میں شامل نہیں کرنا چاہئے سوائے اس کے کہ کوئی انتہائی مجبوری ہو اور مالک بڑا سخت ہو اور وہ رخصت نہ دے اور کوئی ذریعہ آمد نہ ہو اور پھر فاقے اور بھوک اور افلاس کی نوبت کے آنے کا خطرہ ہو تو اس صورت میں استثناء ہوسکتا ہے.یہ اضطراری حالت ہے اور اضطراری حالت میں تو حرام کھانے کی بعض دفعہ اجازت ہو جاتی ہے.لیکن یہ اضطراری حالت بھی اگر مالکان کو احساس دلایا جائے تو عموما نہیں ہوتی.چاہے وہ عیسائی بھی ہوں تو کچھ نہ کچھ وقت کی یا ایک جمعہ چھوڑ کر ایک جمعہ کی اجازت دے دیتے ہیں بلکہ ایسے بھی
خطبات مسرور جلد 13 423 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء بہت سے احمدی ہیں جنہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے جمعہ کی چھٹی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی نوکری چھوڑی تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بہتر انتظام کر دیا.پس یہ بات اگر ہم پیش نظر رکھیں کہ ہم نے جمعہ کو اہمیت دینی ہے اور پھر دعا بھی کریں کہ اگر بعض سخت حالات ہیں اور جمعہ ضائع ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا فرمائے تو اللہ تعالی در ددل سے کی گئی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے انتظام بھی فرما دیتا ہے اور آسانیاں بھی پیدا فرما دیتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا عورتوں کا پہلے ذکر ہو چکا ہے.اسی طرح چھوٹے بچوں کو بھی جمعہ پر نہیں لانا چاہئے کیونکہ اس سے دوسرے نمازیوں کی نماز ڈسٹرب ہوتی ہے.بعض مرد لے آتے ہیں انہیں بھی احتیاط کرنی چاہئے کہ نہ لائیں یا پھر اگر لے آئے ہیں تو پھر ان کو بچوں کے حصے میں بٹھا ئیں یا خود بچوں کے حصے میں بیٹھیں.بہر حال یہ چار استثناء ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں.ان کے علاوہ ہر ایک پر جمعہ کی نماز پر آنا فرض ہے اور جمعہ والے دن خاص اہتمام کرنا فرض ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری کامل اور مکمل شریعت لے کر آئے تھے وہ تعلیم لے کر آئے تھے جو بندے کو خدا تعالیٰ سے ملاتی ہے.آپ اپنے ماننے والوں کے بہت بلند روحانی معیار دیکھنا چاہتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ انسان کو کس طرح اپنے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.کس طرح خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہئے.کس طرح اپنی نیکیوں کو مستقل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.کس طرح اپنے مقصد پیدائش کا حق ادا کرنا چاہئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعے تک اور رمضان اگلے رمضان تک ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جبتک کہ انسان بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے.(صحیح مسلم کتاب الطهارة باب الصلوات الخمس والجمعة الى الجمعة ورمضان الى رمضان مكفرات...551) پس یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارے لئے رہنمائی جو نہ صرف گناہوں سے بچاتی ہے بلکہ ان کی بخشش اور سامان بنتی ہے بلکہ روحانیت میں بھی بڑھاتی ہے.جو شخص حقیقی رنگ میں ایک نماز کے بعد اگلی نماز کی فکر کرے گا تو کوئی گناہگار ظالم، دوسروں کے حقوق غصب کرنے والا تو یہ فکر نہیں کرے گا کہ میں نے اگلی نماز پر جانا ہے اور اگلی نماز کی تیاری کرنی ہے کہ نماز پڑھ کے آئے اور پھر گناہوں میں مبتلا ہو گئے یا لوگوں کے حقوق غصب کرنے لگ گئے یا دوسروں پر ظلم کرنے لگ گئے اور اگر کوئی ایسا ہے جو اس طرح کرتا ہے تو اس کی نماز، نماز نہیں اور پھر وہ گناہ کبیر کا مرتکب ہو رہا ہے.غاصب اگر کوئی ہے تو پھر اس کی
خطبات مسرور جلد 13 424 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء نماز خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہے اپنے گناہوں کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں ہے.کوئی ایسے نمازی ہیں تو وہ ان نمازیوں میں شامل ہو جاتے ہیں جن کی نمازیں ان کے لئے ہلاکت کا موجب بن جاتی ہیں اور قرآن شریف کے مطابق ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ نمازیں فرما کر اس طرف بھی توجہ دلا دی کہ یہ پانچ نمازیں تم پر فرض ہیں اور ان کو ان تمام لوازمات کے ساتھ ادا کر نا تم پر فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں.اسی طرح جمعہ کی طرف توجہ دلائی کہ جمعہ میں شامل ہو کر جن برکات سے اور امام کے خطبہ سے تمہارے اندر جو نیکی کا احساس پیدا ہوا ہے اس کو اگلے جمعہ تک قائم رکھنا ہے.جو باتیں اس میں ہوئیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے.اور اگر یہ ہوگا تو پھر ایک جمعہ سے اگلا جمعہ تمہیں برائیوں سے نجات دے گا.تمہارے گناہوں کی بخشش کے سامان کرے گا.یہاں بھی ایک جمعہ سے اگلا جمعہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جمعہ کی فرضیت اور اہمیت واضح فرما دی.پھر اسی طرح رمضان کی اہمیت بیان فرمائی.تو نیکی پر قائم رہنا اور ایک تسلسل سے قائم رہنا ہی انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے.پس نمازوں کے حق ادا کرنا بھی ضروری ہے.جمعوں کی ادائیگی باقاعدگی سے کرنا بھی ضروری ہے.اور رمضان سے بھی ان شرائط کے ساتھ فیض پانا گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اور نیکیوں میں بڑھاتا ہے جو شرائط اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کے لئے رکھی ہیں.اگر حقیقی تقویٰ پر چلنا ہے تو ان چیزوں کی بہر حال پابندی کرنی ہوگی.خدا تعالیٰ کا قرب اگر حاصل کرنا ہے تو ان کا پابند ہونا ہوگا.گناہوں کی بخشش کے سامان کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو رستہ بتا یا اس کے مطابق عمل کرنا ہوگا.ان چیزوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک روزانہ کا لائحہ عمل بھی دے دیا.ایک ہفتہ وار لائحہ عمل بھی دے دیا اور ایک سالا نہ لائحہ عمل بھی بتا دیا جو انسان کی روحانی اصلاح کے لئے ضروری ہے.اور جو ان درجوں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے گا وہ خدا تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش کا حامل ہوگا.پس ان باتوں سے مزید روشن ہو کر واضح ہو گیا کہ جمعہ کی کیا اہمیت ہے.سال کے بعد روحانی بہتری کے پروگرام میں خدا تعالیٰ نے رمضان کا مہینہ رکھا ہے، جمعتہ الوداع نہیں رکھا کہ سال کے بعد رمضان کا ایک جمعہ پڑھ لو بلکہ رمضان کا پورا مہینہ رکھا ہے.جمعہ کی برکات سے فیض پانے کے لئے یا فیض اٹھانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سات دن کے بعد آنے والے جمعہ کو ہی اہم اور بخشش کا ذریعہ قرار دیا.پس ہر آنے والا جمعہ ہمارے لئے یہ گواہی دینے والا ہونا چاہئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے یہ دن گزارے اور کوئی ایسا عمل نہیں کیا
خطبات مسرور جلد 13 425 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015 ء جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہو یا جان بوجھ کر ایسا عمل نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنائے تو پھر اللہ تعالیٰ چھوٹی موٹی غلطیوں اور کوتاہیوں کو کمیوں کو معاف فرما دیتا ہے.ہر جمعہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ گواہی دیتا ہے کہ اس بندے نے عموماً ڈرتے ڈرتے یہ دن گزارنے کی کوشش کی ہے.اسی طرح روزانہ کی نمازیں ہیں جو اگر خدا تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے ادا کی جائیں گی تو ہمارے حق میں گواہی دیں گی اور یہی حال رمضان کے روزوں کا ہے.کفارہ کا مطلب یہی ہے کہ ان عبادتوں کی گواہیاں ہمارے حق میں ہو کر ہمارے لئے بخشش کے سامان بن جائیں گی.جمعہ اور درود شریف پھر جمعہ کی اہمیت اور اس کی خوبصورتی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ یوں فرمایا کہ دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن مجھے پر زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے.(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب تفريع ابواب الجمعة 1047) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ کا حکم ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے.تو یہ درود آپ کے سامنے پیش کیا جانا بھی ہمیشہ کے لئے ہے.یہ نہیں کہ جب آپ نے فرمایا تو آپ کی زندگی کے لئے تھا.پس یہ جمعہ کی ایک اور جاری برکت ہے.کہیں نہیں آیا کہ جمعتہ الوداع کو درود پیش کیا جائے گا بلکہ ہر جمعہ کو یہ پیش کیا جاتا ہے.ہم میں سے خوش قسمت ہیں وہ جو اس فیض سے فیض اٹھاتے ہیں اور ان درود بھیجنے والوں میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ پس یہ جمعوں کی برکات ہیں جن کے حصول کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ بھی بڑا نواز نے والا ہے.وہ فرماتا ہے کہ جب تم جمعہ کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا حق ادا کرلو، اپنے کاروباروں اور اپنی مصروفیات کو جمعہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے پس پشت ڈال دو تو تم روحانی طور پر تو ترقیات حاصل کرنے والے بنو گے لیکن مادی فضلوں سے بھی محروم نہیں رہو گے.جمعے کی نماز کے بعد اپنے کاروباروں کی طرف جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو تلاش کرو.جو
خطبات مسرور جلد 13 426 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء دوسری آیت ہے اس میں یہی فرمایا.اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں میں برکت ڈالے گا.پس یہ بھی ضمانت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی کام میں برکت پڑتی ہے.اگر اس کی خاطر جمعہ کے تھوڑے سے وقت کے لئے قربانی کرو گے تو کاروباروں میں برکت پڑے گی اور اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنو گے اور جب خدا تعالیٰ کی خاطر کچھ دیر کے لئے اپنے کام کا حرج کرو گے تو اللہ تعالیٰ سب کا موں کو سنوار نے والا اور سب طاقتوں کا مالک ہے.وہ تمہارے جو دنیاوی اور مادی نقصانات ہیں ان کو بھی پورا کرنے والا ہے اور ان کا روباروں میں برکت ڈال کر اپنے فضلوں سے نواز نے والا ہے.گویا یہ بھی فرما دیا کہ ایک مومن کا دنیا کمانا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ہے.اللہ تعالیٰ دنیا کمانے سے منع نہیں کرتا لیکن جو معین جگہ ہے، اور کسی کام کے کرنے کا جو معین وقت ہے اس پر اس کو کرنے اور انجام دینے کی طرف توجہ دلاتا ہے.پس ان فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے تم نے جو محنت اور کوشش کرنی ہے جمعہ کی نماز کے بعد کرو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں سے حصہ لو.لیکن یادر ہے کہ دنیا داری کے ان کاموں کے باوجود خدا تعالیٰ کو نہ بھولنا.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا.بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھو.دنیاوی کاروبار بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء اور احکامات کے مطابق ہوں.کوئی دھوکہ فریب ، جھوٹ، ستی ، کا ہلی نہ ہو.اگر یہ چیزیں کاروباروں اور کاموں میں تمہارے ساتھ ہیں تو تب بھی گناہگار ہورہے ہو.اللہ تعالیٰ کی یاد کو بھلا رہے ہو.اللہ تعالیٰ کا ذکر تمہیں ان چیزوں سے بچانے والا ہونا چاہئے.جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں بھی ذکر ہوا تھا کہ ہر کام کرتے وقت یہ خیال رہے کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور جب یہ خیال رہے گا تو خدا تعالیٰ کے ذکر کا بھی حق ادا ہو گا اور جو اپنی ذمہ داریاں ہیں ان کا بھی حق انسان صحیح طرح ادا کر سکے گا.پس آج کا یہ دن اگر اہم بنانا ہے تو اس لحاظ سے اہم بنانے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم آج یا کل ایک سال کے لئے رمضان کی عبادت سے تو نکل رہے ہیں لیکن جمعہ کی عبادت سے ایک سال کے لئے نہیں نکل رہے بلکہ اگلا جمعہ بھی اسی طرح ہمارے لئے اہم ہے جس طرح آج کا جمعہ.اور جو کمزوریاں اور کمیاں ہمارے اندر ماضی میں تھیں آئندہ کے لئے ان کو دُور کرنے کا ہم عہد کرتے ہیں.اگر یہ سوچ ہوگی تو ہم جمعہ کو وداع نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی برائیوں ، اپنی کمزوریوں ، اپنی کوتاہیوں اور اپنی سستیوں کو وداع کرتے ہوئے ان سے ہمیشہ کے لئے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کی پناہ
خطبات مسرور جلد 13 427 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء میں آنے کی کوشش کر رہے ہوں گے.اور رمضان کی برکات سے بھی فائدہ اٹھانا یہی ہے کہ جن نیکیوں کی ہمیں رمضان میں توفیق ملی ہے ان میں سے اگر اضافہ کرتے ہوئے نہیں تو کم از کم ان پر قائم رہتے ہوئے ہم اگلے رمضان کا استقبال کریں.پس نہ ہم یہ سوچ رکھنے والے ہوں کہ ہم نے جمعہ کو وداع کیا، نہ ہم یہ سوچ رکھنے والے ہوں کہ ہم نے رمضان کو وداع کیا ، نہ ہمیں یہ خیال آئے کہ ہم نے اپنی عبادتوں کو وداع کیا جن کا لطف رمضان کے دوران ہم نے اٹھایا.اگر کبھی یہ سوچ کسی کے دل میں پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے مقصد پیدائش سے دور چلا جاتا ہے اور جو مقصد پیدائش سے دور ہے وہ تقویٰ سے دور ہے اور جو تقویٰ سے دور ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا نہیں ہوسکتا.گو یا رمضان میں جو کچھ ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اسے خود ہی ہم نے ضائع بھی کر دیا اور جس کامیابی اور اخلاص کا، جس کا میابی اور فلاح کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اس سے ہم محروم ہو گئے.روزے کے بارے میں جو آیات ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے روزے کے حکم اور روزے کے دوسرے احکامات کے بجالانے کا نتیجہ تقویٰ بتایا ہے.پس ہمیں آج اس کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے اس نتیجے کو حاصل کر لیا ہے یا نہیں؟ یا کم از کم ہم نے اس کوشش میں کچھ قدم بڑھائے ہیں کہ نہیں.اور کیا یہ عہد کیا ہے کہ ہم نے رمضان میں جو حاصل کیا ہے اس پر ثابت قدم رہنے اور اسے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تقویٰ اور اس کی باریکیوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے سمجھایا ہے.ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ 'بار بار قرآن شریف کو پڑھو اور تمہیں چاہئے کہ برے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ“.قرآن کریم نے جن کاموں کو بُرا کہا ہے ان کی تفصیل لکھتے جاؤ.اور پھر خدا تعالیٰ سے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو.یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہوگا“.- ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 376 برائیوں سے بچنا تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہوگا.پس رمضان کے دنوں میں ہم نے درس بھی سنے.اور ہم میں سے بہت سوں نے خود بھی قرآن کریم پڑھنے کی کوشش کی اور سمجھنے کی کوشش کی.بدیوں کا بھی پتا لگا.نیکیوں کا بھی پتا چلا اور ابھی نیکیوں کے کرنے کا مرحلہ تو بعد کی بات ہے آپ فرما رہے ہیں کہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی برائیوں کی فہرست بنا کر ان سے بچنے کی کوشش کرو.اور
خطبات مسرور جلد 13 428 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء برائیوں سے بچنے کی یہ کوشش اور ان سے بچنا انسان کو تقویٰ کے پہلے مرحلے میں لاتا ہے.فرمایا کہ بیشک برائیوں سے بچنا اچھی بات ہے لیکن یہ نیکی کا پہلا حصہ ہے.یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہے.نیکی اس پر ختم نہیں ہو جاتی.آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتنی سی بات نہیں جس سے وہ راضی ہو جاوے.بدیوں سے بچنا چاہئے اور اس کے مقابل نیکی کرنی چاہئے.اس کے بغیر مخلصی نہیں.(اگر نہیں کرو گے تو یہ نہ سمجھ لو کہ بدیوں سے بچ کر میں نے تقویٰ حاصل کر لیا.اس لئے اگر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے تو نیکیاں بجالائے بغیر جان نہیں چھوٹے گی.بہر حال کرنی پڑیں گی.فرمایا کہ ) جو اس پر مغرور ہے کہ وہ بدی نہیں کرتا.( بعض لوگوں کو بڑا فخر ہے کہ ہم بدی نہیں کرتے ) وہ نادان ہے.اسلام انسان کو اس حد تک نہیں پہنچا تا اور چھوڑتا بلکہ وہ دونوں شقیں پوری کرانا چاہتا ہے.یعنی بدیوں کو تمام کمال چھوڑ دو.( اپنی بدیوں اور برائیوں کو مکمل طور پر چھوڑ دو.) اور نیکیوں کو پورے اخلاص سے کرو.( بدیوں کو مکمل طور پر چھوڑو اور نیکیوں کو پورے اخلاص سے کرو.فرمایا کہ ) جب تک یہ دونوں باتیں نہ ہوں نجات نہیں ہوسکتی.(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 377-378) پس یہ رمضان بھی اور جمعہ بھی اور ہماری عبادتیں بھی ہمیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئیں کہ ہم نے جہاں تقویٰ کے پہلے مرحلے میں بدیوں کو مکمل طور پر چھوڑنا ہے یا چھوڑا ہے وہاں تقویٰ کے اگلے مرحلے پر چلتے ہوئے تمام نیکیوں کو پورے اخلاص سے ادا کرنا ہے.آپ نے ایک جگہ فرما یا یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ نمازوں کی مثلاً مجھے عادت پڑ گئی اور نماز پڑھنے کے بعد وہیں مسجد میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی برائیاں شروع کر دیں یا ایسی باتیں کرنے لگ گئے جن کا نیکیوں سے کوئی تعلق نہیں.تو یہ تو تم نے پہلا مرحلہ بھی طے نہیں کیا.(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحه (376) پس جمعہ کے دن جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق قبولیت دعا کی ایک گھڑی ہوتی ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جب قبولیت دعا ہوتی ہے.(صحیح البخارى كتاب الجمعة باب الساعة التي في يوم الجمعة 935)
خطبات مسرور جلد 13 429 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جولائی 2015ء پہلے میں اس کے بارے میں بتا چکا ہوں.یہ دعا بھی خاص طور پر ہمیں کرنی چاہئے کہ رمضان ہماری بدیوں سے ہمیں مکمل طور پر نجات دلا تا ہوا اور ہمیں نیکیوں کو پورے اخلاص کے بجالانے کی توفیق دیتا ہوا ہمیں چھوڑے اور ہم حقیقی تقویٰ پر چلنے والے ہوں.ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں اور اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر اس خوبصورت تعلیم کو دنیا کو بتائیں کہ یہی دین ہے جو بندے کو زندہ خدا سے ملاتا ہے اور یہی دین ہے جو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بہترین رنگ میں ہدایت فرماتا ہے اور توجہ دلاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مشکلات میں گھرے ہوئے تمام احمدیوں کو بھی ان کی مشکلات سے نکالے اور جو کسی بھی رنگ میں پریشانیوں میں مبتلا ہیں ان کی پریشانیاں ختم ہوں.اسی طرح اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو بھی توفیق دے کہ وہ زمانے کے امام کو مان کر دکھوں اور پریشانیوں سے باہر نکلیں.ایک دوسرے پر جو ظلم کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ان ظلموں سے روکے اور اسلام اپنی حقیقی شان کے ساتھ ہر مسلمان ملک سے دنیا پر ظاہر ہو.الفضل انٹرنیشنل مورخه 07 اگست 2015 ء تا 13 اگست 2015 ، جلد 22 شماره 32 صفحه 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 430 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء بمطابق 24 وفا 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان فرمودہ بعض واقعات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ سے متعلق ہیں بیان کروں گا.تذکرہ میں 9 فروری 1908ء کی تاریخ کے تحت ایک الہام لکھا ہوا ہے.اس دن کے آٹھ الہامات ہیں.ایک الہام یہ ہے.لَا تَقْتُلُوا زَيْنَبَ “.(تذکرۃ صفحہ 635 ایڈ یشن چہارم 2004ء) اس کی واقعاتی وضاحت بعض حالات کے مطابق ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ 1908ء کے شروع میں حافظ احمد اللہ خان صاحب مرحوم کی دولڑ کیوں کی شادی کی تجویز ہوئی جن میں سے بڑی کا نام زینب اور چھوٹی کا نام کلثوم تھا.زینب کے متعلق اور بھی بعض لوگوں کی خواہش تھی.(ان کا ایک رشتہ شیخ عبدالرحمن مصری سے بھی آیا ہوا تھا.) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی شادی مصری صاحب سے ناپسند کی (کہ زینب کی شادی اس سے نہ ہو.) لیکن آپ کی عادت یہ نہیں تھی کہ بہت زیادہ زور دیں.آپ نے زور نہیں دیا.انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا کہ لا تَقْتُلُوا زینب.کہ زینب کو ہلاک مت کرو.حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم نے دوسرے شخص کو کسی نہ کسی وجہ سے نا پسند کیا اور یہ خیال کیا کہ اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشورہ غلط ہے وہاں شادی نہ کی جائے بلکہ مصری صاحب سے شادی کی جائے اور خیال کیا کہ حضرت مسیح
خطبات مسرور جلد 13 431 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء موعود علیہ السلام کی رائے کو الہام نے رڈ کر دیا ہے.( یعنی یہ جو الہام تھا لَا تَقْتُلُوا زَيْنَب.اس کا مطلب یہ تھا کہ جو مشورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے وہ اللہ کو پسند نہیں آیا بلکہ دوسرا رشتہ جو اس کے خلاف تھا وہ پسند آیا.بہر حال انہوں نے اپنی اس بیٹی کی شادی مصری صاحب سے کر دی.) چنانچہ یہ الہام 9 رفروری 1908ء کو ہوا اور 17 فروری 1908ء کو شیخ مصری صاحب کا نکاح زینب سے کر دیا گیا.( حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ) یہ تاریخ اس طرح محفوظ رہی کہ مصری صاحب کا نکاح دو اور نکاحوں سمیت اسی دن ہوا تھا جس دن کہ ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح ہوا تھا اور وہ 17 فروری تھی.گویا اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان لو اور مصری صاحب سے نکاح نہ کرو ورنہ یہ نکاح اسے منافق بنانے کا نتیجہ پیدا کر دے گا ( یا ہلاکت کا نتیجہ پیدا کر دے گا یا قتل کرنے والی بات ہوگی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو شاید اس زینب کے متعلق اسے سمجھا ہی نہیں اور لڑکی کے باپ نے الٹ نتیجہ نکالا.حالانکہ خدا تعالیٰ کا منشاء اس الہام سے یہ تھا کہ اس شخص سے ایک بھاری فتنہ پیدا ہونے والا ہے ( کیونکہ بعد میں مصری صاحب سے فتنہ پیدا ہوا.) اس سے زینب کی شادی نہ کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان لو.پھر اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ احمد اللہ صاحب کو یہی مشورہ دیا تھا.چنانچہ جب مصری صاحب جماعت سے علیحدہ ہوئے ہیں تو ( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ) پیر منظور محمد صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ حمداللہ صاحب کو کہا تھا کہ شیخ عبدالرحمن صاحب سے شادی نہ کی جائے.مگر جب حافظ صاحب نے اس بات کو نہ مانا اور اسی جگہ لڑکی کی شادی کر دی تو مجھے سخت غصہ آیا.( یہ بیان کیا پیر منظور محمد صاحب نے ) اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ حضور خدا تعالیٰ کے مامور ہیں اور خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب مامورا ایک بات کہہ دے تو تمام مومنوں کو چاہئے کہ اس پر عمل کریں مگر حافظ احمد اللہ صاحب نے حضور کی نافرمانی کی ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.بات تو آپ نے جو کہی ہے یہ ٹھیک ہے مگر ایسے معاملات میں میں دخل نہیں دیا کرتا.( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں) جب یہ روایت مجھے پہنچی تو گو اس روایت میں مجھے کوئی شبہ نہیں ہوسکتا تھا مگر چونکہ یہ اکیلی روایت تھی اس لئے اس بات کا فکر ہوا کہ کوئی اور گواہ بھی ہونا چاہئے.ان کے جماعت چھوڑنے کی اور اس فتنے کی جو ساری background تھی اس کی وجہ سے آپ چاہتے تھے کہ اس کا ٹھوس ثبوت ملے.تو بہر حال کہتے ہیں ) خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ دوسرے دن کی ڈاک میں
خطبات مسرور جلد 13 432 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء مجھے ایک خط ملا جو نشی قدرت اللہ صاحب سنوری کی طرف سے تھا.اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ 1915ء میں جب میں قادیان آیا تو اس وقت مجھے کسی دوست سے قرآن پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی.چنانچہ میں نے حافظ احمد اللہ صاحب سے قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا.ایک دن باتوں باتوں میں انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اپنی لڑکی زینب کا رشتہ کسی اور شخص سے کرنے کا کہا تھا مگر انہی دنوں آپ پر یہ الہام نازل ہوا کہ لَا تَقْتُلُوا زینب جس سے میں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رائے صحیح نہیں اور میں نے شیخ مصری صاحب سے رشتہ کر دیا.مگر اب شیخ مصری مجھے بہت سخت تنگ کرتا ہے.( یہ ان کے سسر نے کہا ) اور اس نے مجھے بڑی بڑی تکلیفیں پہنچانی شروع کر دی ہیں جس سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم نہ ماننے کا نتیجہ ہے.چنانچہ ( حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں) مجھے بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں شیخ مصری صاحب نے بازار میں اپنے خسر کو مارا جس پر حضرت خلیفہ اول مصری صاحب سے سخت ناراض ہو گئے اور میں نے کئی دن آپ کی منتیں کر کے انہیں معاف کروایا.پس اس الہام کے یہ معنی تھے کہ تم زینب کی شیخ مصری سے شادی مت کرو ورنہ اس کا ایمان بھی برباد ہو جائے گا.چنانچہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس شادی سے اس کا ایمان بھی ضائع ہو گیا.(ماخوذ از مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر.انوار العلوم جلد 14 صفحہ 579 تا 581) مصری صاحب کے بارے میں بہت سوں کو نہیں پتا ہوگا کہ یہ کون تھے اور ان کا کیا قصہ ہے.یہ تاریخ کا بھی ایک حصہ ہے اس لئے تھوڑی سی وضاحت کر دیتا ہوں.شیخ عبد الرحمن مصری صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی جیسا کہ ظاہر ہے.پڑھے لکھے تھے.پھر یہ مصر گئے اور ان کو مصر بھیجنے کا خرچ بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چوہدری نصر اللہ خان صاحب نے دیا.مصر جانا جہاں ان کے لئے دوسرے فوائد کا باعث بنا وہاں مصر جانے کی وجہ سے شیخ مصری کہلانے کا بھی ذریعہ بنا.اس وجہ سے ان کو شیخ مصری کہا جاتا تھا.(ماخوذ از مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر.انوار العلوم جلد 14 صفحہ 579) بہر حال ایک ایسا وقت آیا جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہوں نے اختلاف کیا اور اختلاف کی وجہ سے آپ کے خلاف بہت کچھ کہنے لگے.جماعت میں فتنے کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاں جماعت کو وسیع پیمانے پر فتنے سے محفوظ
خطبات مسرور جلد 13 433 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء رکھا.وہاں بعض احباب کو انفرادی طور پر بھی ان کی حالت کے بارے میں رویا میں بتادیا کہ ان کی حالت کیسی ہے.مصری صاحب کے جماعت میں مقام کا اندازہ اس سے لگا ئیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود بیان فرمایا ہے کہ ایک دوست نے افریقہ سے مجھے خط لکھا کہ مصری صاحب کے جماعت سے علیحدہ ہونے پر مجھے سخت گھبراہٹ ہے.لکھتے ہیں کہ جب اتنے بڑے بڑے آدمیوں کا ایمان ضائع ہو گیا تو ہمارا ایمان کیا حقیقت رکھتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں اس پر میں نے ان کو لکھا کہ بڑائی کا فیصلہ کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے.آپ کا نہیں ہے.جب خدا تعالیٰ نے اپنے عمل سے انہیں جماعت سے علیحدہ کر دیا ہے جن کو آپ بڑا سمجھتے تھے اور آپ کو جماعت میں رکھا تو ثابت ہوا کہ بڑے آپ ہیں ، وہ نہیں.(ماخوذ از مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر.انوار العلوم جلد 14 صفحہ 564) بہر حال جبتک مصری صاحب جماعت میں تھے بڑے اہم سمجھے جاتے تھے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے.اس اختلاف کے دوران یا جماعت سے نکلنے کے بعد مصری صاحب نے خودہی لَا تَقْتُلُوا زینب کا الہام بتا کر اپنی اہمیت ظاہر کرنا چاہی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رشتہ کے متعلق یہ الہام ہوا تھا اور اس کا مطلب یہی تھا کہ میرے بارے میں ہے.لیکن جب اس الہام کی باقی الہاموں کے ساتھ جوڑ کے حضرت مصلح موعود نے حقیقت کھولی اور جماعت کے افراد نے بھی بتانا شروع کیا تو پھر مصری صاحب نے خود ہی کہنا شروع کر دیا کہ میری بیوی زینب کو اس معاملے میں کیوں کھینچا جا رہا ہے.تو اس الہام کی وضاحت کرنے کی یہ وجہ ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی ہے کہ کس طرح وہ الہام پورا ہوا.حضرت مصلح موعودؓ مزید فرماتے ہیں کہ اب دیکھو یہ کیسی زبر دست پیشگوئی ہے جس کی طرف خود مصری صاحب نے توجہ دلائی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بیوی کو یہ یاد تھا کہ ایسا الہام ہوا تھا اور ( بیوی کہتی ہے کہ ) میرے والد نے اسے میرے متعلق سمجھا.اس طرح ان کا ذہن اس طرف گیا اور ( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) اس طرح ان کا (مصری صاحب کا بھی ) ذہن اس طرف گیا اور شاید جو کام ہم سے دیر میں ہوسکتا وہ خود انہوں نے کر دیا.( حضرت مصلح موعود مثال دیتے ہیں کہ اس کی مثال ) بالکل اسی طرح (ہے) جس طرح بکری نے چھری نکالی تھی.کہتے ہیں کہ کوئی شخص تھا جس نے بکری ذبح کرنے کے لئے چھری نکالی مگر پھر کہیں رکھ کر بھول گیا اور اس پر بچوں نے کھیلتے ہوئے مٹی ڈال دی اور وہ مٹی کے نیچے چھپ گئی.اس نے چھری کو
خطبات مسرور جلد 13 434 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء بہتیرا تلاش کیا مگر نہ ملی.وہ حیران سا کھڑا تھا کہ بکری نے پیر مارنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مٹی ہٹ گئی اور اسے چھری نظر آگئی جس سے اس نے فورا اسے ذبح کر دیا.تو اُس وقت سے عرب میں یہ مثل مشہور ہو گئی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کرتا ہے تو کہتے ہیں اس نے بالکل ایسا ہی کیا جس طرح بکری نے چھری نکال لی تھی.(ماخوذ از مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر.انوار العلوم جلد 14 صفحہ (581) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی نتیجہ نکالا اور یہ نتیجہ بڑا ظاہر نکلتا ہے کہ حافظ صاحب اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان کر اپنی بیٹی زینب مصری صاحب کے نکاح میں نہ دیتے تو اس کا ایمان ضائع نہ ہوتا.پس مامور کی باتوں پر عمل کرنا مومنوں کا فرض ہے.اور اس کو سمجھنا چاہئے اور اپنی تو جیہیں کرنے کی بجائے لفظا عمل کیا جائے تو ایمان ضائع نہیں ہوتا.حضرت مصلح موعود پھر ایک اور واقعہ بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مولوی محمد احسن صاحب کی طبیعت ایسی تھی کہ ان کی طبیعت میں بڑی جلد بازی تھی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بسر اواں کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے (سیر کے دوران ) فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اور بندے کے کلام میں بڑا فرق ہوتا ہے.آپ علیہ السلام نے اپنا ایک الہام سنایا اور فرمایا دیکھ لو یہ بھی ایک الہام ہے اور اس کے مقابل پر حریری کا بھی کلام موجود ہے.( یہ ایک لکھنے والا تھا.) مولوی محمد احسن صاحب نے بات کا آخری حصہ غور سے نہ سنا اور الہام کے متعلق خیال کر لیا کہ یہ حریری کا کلام ہے.اور کہنے لگے بالکل لغو ہے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ تو خدا تعالیٰ کا الہام ہے تو مولوی صاحب فورا کہنے لگے سبحان اللہ ! کیا ہی عمدہ کلام ہے.(ماخوذ از الفضل 30 مئی 1959، صفحہ 4 نمبر 127 جلد 48/13) پس کسی بھی بات کے متعلق رائے قائم کرنی ہو تو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے.پھر اس بات کا ذکر فرماتے ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج دنیا کے کونے کونے اور ہر ملک میں جانا جاتا ہے ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سکھ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے تایا مرزا غلام قادر صاحب تو بہت مشہور تھے اور ایک بڑے عہدے پر فائز تھے لیکن مرزا غلام احمد صاحب غیر معروف تھے انہیں کوئی نہیں جانتا تھا.وہ سکھ کہنے لگا کہ میرے والد ایک دفعہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے پاس گئے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد کے پاس.) اور کہنے لگے سنا ہے آپ
خطبات مسرور جلد 13 435 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء کا ایک اور بیٹا بھی ہے وہ کہاں ہے.انہوں نے کہا وہ تو سارا دن مسجد میں پڑا رہتا ہے اور قرآن پڑھتا رہتا ہے.مجھے اس کا بڑا فکر ہے وہ کھائے گا کہاں سے تم اس کے پاس جاؤ اور اس کو کہو کہ دنیا کا بھی کچھ فکر کرو.میں چاہتا ہوں کہ وہ کوئی نوکری کر لے.لیکن جب میں اس کے لئے کسی نوکری کا انتظام کرتا ہوں وہ انکار کر دیتا ہے.چنانچہ میرے والد گئے (اس سکھ کے والد گئے ) اور بڑے مرزا صاحب کی بات ان کو پہنچائی.وہ کہنے لگے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہنے لگے ) کہ میرے والد صاحب کو تو یونہی فکر لگی ہوئی ہے.میں نے دنیا کی نوکریوں کا کیا کرنا ہے.آپ ان کے پاس جائیں (میرے والد کے پاس) اور کہیں کہ میں نے جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا ہوں.مجھے آدمیوں کی نوکریوں کی ضرورت نہیں ہے.( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ) اس سکھ پر اس بات کا اتنا اثر تھا کہ وہ جب بھی آپ کا ذکر کرتا اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) ایک دفعہ وہ چھوٹی مسجد میں میرے پاس آیا اور چیخیں مار کر رونے لگ گیا.میں نے کہا کیا بات ہوئی ہے.وہ کہنے لگا کہ آج مجھ پر بڑا ظلم ہوا ہے.میں آج بہشتی مقبرہ گیا تھا.جب میں مرزا صاحب کے مزار پر سجدہ کرنے لگا تو ایک احمدی نے مجھے اس سے منع کر دیا حالانکہ اس کا مذہب اور ہے اور میرا مذہب اور ہے.اگر احمدی قبروں کو سجدہ نہیں کرتے تو نہ کریں.میں تو سکھ ہوں ہم سجدہ کر لیتے ہیں.پھر اس احمدی نے مجھے منع کیوں کیا.اس پر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ غرض آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) بالکل خلوت نشین تھے اور جو لوگ آپ کے واقف تھے ان پر آپ کی عبادت اور زہد کا اتنا اثر تھا کہ غیر مسلم ہونے کے باوجود یہ لوگ آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی آپ کے مزار پر آتے تھے.(ماخوذ از الفضل 30 مئی 1959 ، صفحہ 4 نمبر 127 جلد 48/13) حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست تھے.آپ کے دعوے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا ہے اور اب میں ہی گراؤں گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے یعنی مولوی محمد حسین کے نام کو تو مٹا دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کو دنیا میں پھیلا دیا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کا ، مولوی محمد حسین صاحب کا ایک بیٹا آریہ ہو گیا اور حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے اسے قادیان بلا یا اور اسے دوبارہ مسلمان کیا.مولوی محمد حسین صاحب نے اس بات پر مجھے شکریہ کا خط بھی لکھا.پھر حضرت مصلح موعودؓ نے خلافت ثانیہ کے دور میں اندرونی اور بیرونی مخالفتوں کا ذکر کر کے فرمایا
خطبات مسرور جلد 13 436 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے مخالفت چل رہی ہے لیکن جماعت ترقی کر رہی ہے بلکہ آج تک بھی ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف سازشوں اور مخالفتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن اللہ کے فضل سے جماعت ترقی کر رہی ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ جماعت کانٹوں پر گزرتی ہوئی اپنی حیثیت کو پہنچی ہے اور یہ بات بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ جماعت کے شامل حال رہا ہے.لیکن اس فضل کو دائی کرنے کے لئے جماعت کو ہمیشہ دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے.(ماخوذ از الفضل 30 مئی 1959 ء صفحہ 4 نمبر 127 جلد 48/13) اگر ہم دعاؤں کا حق ادا کرتے رہے تو انشاء اللہ تعالیٰ موجودہ بھی اور آئندہ بھی ہونے والی سب مخالفتیں خود اپنی موت مر جائیں گی.ایک موقع پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیمثال قربانی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک اعلیٰ درجے کی ملازمت عطا فرمائی تھی.وہ چھوٹی (ختم ہوئی ) تو آپ نے اپنے وطن میں پریکٹس شروع کی.وہاں آپ کی بہت شہرت تھی.آپ کا وطن بھیرہ سرگودھا کے ضلع میں ہے جہاں بڑے بڑے زمیندار ہیں اور ان میں سے اکثر آپ کے بڑے معتقد تھے.پس وہاں کام چلنے کا خوب امکان تھا.لیکن آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے قادیان آئے.چند روز بعد جب واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دنیا کا آپ بہت کچھ دیکھ چکے اب یہیں آ بیٹھئے.آپ نے اس ارشاد پر ایسا عمل کیا کہ خود سامان لینے بھی واپس نہ گئے بلکہ دوسرے آدمی کو بھیج کر سامان منگوایا.اس زمانے میں یہاں پریکٹس چلنے کی کوئی امید ہی نہ تھی بلکہ یہاں تو ایک پیسہ دینے کی حیثیت والا بھی کوئی نہ تھا مگر آپ نے کسی بات کی پرواہ نہیں کی.پھر بھی آپ کی شہرت ایسی تھی کہ باہر سے مریض آپ کے پاس پہنچ جاتے تھے اور اس طرح کوئی نہ کوئی صورت آمد کی پیدا ہو جاتی تھی.مگر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی قربانی ایسے رنگ کی تھی کہ کوئی آمد کا احتمال بھی نہ تھا.نہ کہیں سے کسی فیس کی امید تھی، نہ کوئی تنخواہ تھی اور نہ وظیفہ کسی طرف سے کسی آمد کا کوئی ذریعہ نہ تھا.مگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سیکرٹری کے طور پر کام کرتے تھے.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) اس وقت جتنے کام تمام محکمے ( جماعتی ادارے) کر رہے ہیں یہ سب وہ اکیلے (کیا) کرتے تھے حالانکہ گزارے کی کوئی صورت نہ تھی اور یہ بھی وادی غیر ذی زرع میں
خطبات مسرور جلد 13 جان قربان کرنے والی بات ہے.437 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015 ء (ماخوذ از خطبات محمود جلد 2 صفحہ 261-260) پس یہ نمونے ہیں ہمارے بزرگوں کے جن کو ہم واقفین زندگی کو بھی وقتاً فوقتاً اپنے سامنے رکھتے رض ہوئے ان پر غور کرنا چاہئے.پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا آپ علیہ السلام سے جو عشق تھا اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مولوی عبد الکریم صاحب کو خاص عشق تھا اور ایسا عشق تھا کہ اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس زمانے کو دیکھا.دوسرے لوگ اس کا قیاس بھی نہیں کر سکتے.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) وہ ایسے وقت میں فوت ہوئے جب میری عمر سولہ سترہ سال تھی اور جس زمانے میں میں نے ان کی محبت کو شناخت کیا ہے اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی.یعنی بچپن کی عمر تھی لیکن باوجود اس کے مجھ پر ایک ایسا گہرا نقش ہے کہ مولوی صاحب کی دو چیزیں مجھے کبھی نہیں بھولتیں.ایک تو ان کا پانی پینا اور ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کی محبت.آپ ٹھنڈا پانی بہت پسند کرتے تھے اور اسے بہت شوق سے پیتے تھے اور پیتے وقت ٹکٹ ٹکٹ کی ایسی آواز آیا کرتی تھی کہ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کی نعمتوں کو جمع کر کے بھیج دیا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 122-121 ) چند گھونٹ لینے کے بعد الحمد للہ الحمد للہ کرتے تھے.(ماخوذ از خطبات محمودجلد 24 صفحہ 158) ( حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ ) اس زمانے میں اس مسجد اقصیٰ کے کنوئیں کا پانی بہت مشہور تھا.اب تو معلوم نہیں لوگ کیوں اس کا نام نہیں لیتے.آپ کا طریق یہ تھا کہ کہتے بھائی کوئی ثواب کماؤ اور پانی لاؤ.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود مجلس میں موجود ہوتے تو اور بات تھی ورنہ آپ سیڑھیوں پر آ کر انتظار میں کھڑے ہو جاتے اور پانی لانے والے سے لوٹا لے کر منہ سے لگا لیتے.دوسری بات جو تھی آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھے ہوتے تو یوں معلوم ہوتا کہ آپ کی آنکھیں حضور کے جسم میں سے کوئی چیز لے کر کھا رہی ہیں.اس وقت گویا آپ کے چہرے پر بشاشت اور شگفتگی کا ایک باغ لہرا رہا ہوتا تھا اور آپ کے چہرے کا ذرہ ذرہ مسرت کی لہر پھینک رہا ہوتا تھا.جس طرح مسکرا مسکرا کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنتے اور جس طرح پہلو بدل بدل کر داد دیتے وہ قابل دید نظارہ ہوتا.اگر اس کا تھوڑا سا رنگ میں نے کسی اور میں دیکھا تو وہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے.غرض مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خاص عشق تھا اور
خطبات مسرور جلد 13 438 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی آپ سے ویسی ہی محبت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طریق تھا کہ مغرب کی نماز کے بعد ہمیشہ بیٹھ کر باتیں کرتے.لیکن مولوی صاحب کی وفات کے بعد آپ نے ایسا کرنا چھوڑ دیا.کسی نے عرض کیا کہ حضور اب بیٹھتے نہیں؟ تو فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب کی جگہ کو خالی دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے.حالانکہ کون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے زیادہ اللہ تعالیٰ کوئی اور دوبارہ زندگی دینے والا یقین کرتا ہو.پس یہ یکطرفہ عشق نہیں تھا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 122) آپ علیہ السلام کو اپنے صحابہ سے بہت محبت تھی.ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک شخص نے کچھ بیجا الفاظ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے متعلق کہے.لوگوں نے اسے مارنا شروع کر دیا.وہ شخص ضدی تھا.لوگ اسے مارتے جاتے مگر وہ یہی کہتا جاتا کہ میں تو یہی کہوں گا.لوگ اسے پھر مارنا شروع کر دیتے اور یہ جھگڑا بڑھ گیا.( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں) ہم اس وقت چھوٹی عمر کے تھے.ہمارے لئے ایک تماشا بن گیا.وہ مارکھا تا جا تا اور کہتا جاتا کہ میں تو یہی کہوں گا.لوگ اسے مارتے یہاں تک کہ وہ اسے مار مار کر تھک گئے.ان دنوں ایک غیر احمدی پہلوان حضرت خلیفہ اسی الاول کے پاس علاج کے لئے آیا ہوا تھا.خلافت سے پہلے حضرت مسیح موعود کے زمانے میں.) اس نے جب یہ شور سنا تو (وہ سمجھا کہ یہ بھی کوئی ثواب کا کام ہے.اس نے ) خیال کیا کہ میں کیوں اس ثواب سے محروم رہوں، مجھے بھی اس میں حصہ لینا چاہئے.چنانچہ وہ بھی گیا اور اس شخص کو بات کا پتا نہ تھا.اس نے اس کو اٹھایا اور جھمپیری کی طرح گھما کے زمین پے دے مارا.لیکن وہ بھی بڑا ضدی شخص تھا.وہ گر کے پھر یہی کہتا تھا میں تو یہی کہوں گا.تو حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ہمارے لئے ایک تماشا بن گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب معلوم ہوا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ کیا ہماری یہی تعلیم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ دیکھو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں لیکن ہمارا اس سے کیا بگڑ جاتا ہے.اگر اس نے کچھ بیجا الفاظ مولوی عبد الکریم صاحب کے متعلق بھی استعمال کر دیئے تو کیا ہو گیا؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اور تو اور ہمارے نانا میر ناصر نواب صاحب نے جب یہ دیکھا تو آپ وہاں گئے اور لوگوں سے کہا.تم لوگ یہ کیا لغو بات کر رہے ہو؟.کیوں تم اس شخص کو مارنے لگ گئے ہو؟ مگر ابھی آپ لوگوں کو یہ نصیحت کر ہی رہے تھے کہ اس شخص نے مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق پھر وہی
خطبات مسرور جلد 13 439 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء الفاظ دہرا دیئے تو اس پر میر صاحب نے خود بھی اسے دو چار تھپڑ لگا دیئے.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ) بسا اوقات انسان اس قسم کے بھی کام کر لیتا ہے جو لغو ہوتے ہیں.دراصل رو چلنے کی دیر ہوتی ہے.جب رو چل جائے تو لوگ خود بخود اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.(ماخوذ از الفضل 5 جون 1948 ء صفحہ 6 نمبر 127 جلد 2) لیکن پھر بھی ہمیں اپنے جذبات پر کنٹرول کی عادت ہونی چاہئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اور صحابی حضرت منشی اروڑے خان صاحب کے آپ سے عشق کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ منشی اروڑے خان صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق تھا.وہ کپورتھلہ میں رہتے تھے اور کپورتھلہ کی جماعت کی اخلاص کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس قدر تعریف فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے انہیں ایک تحریر بھی لکھ دی تھی جو انہوں نے ( یعنی جماعت نے) رکھی ہوئی ہے کہ اس جماعت نے ایسا اخلاص دکھایا ہے کہ یہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بار بار درخواست کرتے کہ حضور کبھی کپورتھلہ تشریف لائیں.آپ نے بھی وعدہ کیا ہوا تھا.جب موقع ہوا آئیں گے.ایک بار جو فرصت ملی تو اطلاع دینے کا وقت نہیں تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بغیر اطلاع کے چل پڑے اور کپورتھلہ کے اسٹیشن پر جب اترے تو ایک شدید مخالف نے آپ کو دیکھا جو آپ کو پہچانتا تھا.اگر چہ وہ مخالف تھا مگر بڑے آدمیوں کا ایک اثر ہوتا ہے.منشی اروڑ ا صاحب سناتے ہیں کہ ہم ایک دکان پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا کہ تمہارے مرزا صاحب آئے ہیں.یہ سن کر جوتی اور پگڑی وہیں پڑی رہی اور میں ننگے پاؤں اور ننگے سرسٹیشن کی طرف بھاگا.مگر پھر تھوڑی دور جا کر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے ہاں تشریف لائیں.اطلاع دینے والا مخالف ہے اس نے محول کیا ہوگا.مذاق کیا ہوگا.اس پر میں نے کھڑے ہو کر اسے ڈانٹنا شروع کر دیا.منشی صاحب کہتے ہیں میں نے اس شخص کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تو جھوٹ بولتا ہے مذاق اڑاتا ہے.مگر پھر خیال آیا کہ شاید آ ہی گئے ہوں اس لئے پھر بھا گا.پھر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت نہیں ہو سکتی اور پھر ا سے کو سنے لگا.وہ کہے مجھے برا بھلا نہ کہو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.اس پر پھر چل پڑے.غرضیکہ میں کبھی دوڑ تا اور کبھی کھڑا ہو جا تا اسی حالت میں جار ہا تھا کہ سامنے کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا رہے ہیں.تو یہ جنون ہونے والا عشق ہے اور ان کے معشوق
خطبات مسرور جلد 13 440 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء ہونے کا خیال آتا تو دل کہتا کہ وہ ہمارے پاس کہاں آ سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے ہیں تو کچھ عرصے بعد منشی اروڑے خان صاحب قادیان آگئے تھے.ایک دفعہ آپ نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ملنا چاہتا ہوں.میں جب ان سے ملنے کے لئے باہر آیا تو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں دو یا تین اشرفیاں تھیں جو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے دیں کہ اتاں جان کو دے دیں.مجھے اس وقت یاد نہیں کہ وہ کیا کہا کرتے تھے، اماں جان یا اماں جی مگر بہر حال ماں کے مفہوم کا لفظ ضرور تھا.اس کے بعد انہوں نے رونا شروع کیا اور چیخیں مار مار کر اس شدت کے ساتھ رونے لگے کہ ان کا تمام جسم کانپ رہا تھا.اگر چہ مجھے یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد نہیں رلا رہی ہے مگر وہ کچھ اس بے اختیاری سے رو رہے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس میں کسی اور بات کا بھی دخل ہے.غرضیکہ وہ دیر تک کوئی پندرہ بیس منٹ بلکہ آدھا گھنٹہ تک روتے رہے.میں پوچھتا رہا کہ کیا بات ہے.وہ جواب دینا چاہتے مگر رفت کی وجہ سے جواب نہ دیتے.آخر جب ان کی طبیعت سنبھلی تو انہوں نے کہا کہ میں نے جب بیعت کی اس وقت میری تنخواہ سات روپیہ تھی اور اپنے اخراجات میں ہر طرح سے تنگی کر کے اس کے لئے کچھ نہ کچھ بچاتا کہ خود قادیان جا کر حضور کی خدمت میں پیش کروں اور بہت سارستہ میں پیدل طے کرتا تا کہ کم سے کم خرچ کر کے قادیان پہنچ سکوں.پھر ترقی ہو گئی اور ساتھ اس کے یہ حرص بھی بڑھتی گئی یعنی دینے کی.آخر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں حضور کی خدمت میں سونا نذر کروں.جو تھوڑی سی تنخواہ میں سے علاوہ چندہ کے پیش کرنا چاہتا تھا لیکن جب تھوڑا تھوڑا کر کے کچھ جمع کر لیتا تو پھر گھبراہٹ سی پیدا ہوتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھے اتنی مدت ہوگئی ہے اس لئے قبل اس کے کہ سونا حاصل کرنے کے لئے رقم جمع ہو قادیان چلا آتا اور جو کچھ پاس ہو تا حضور کی خدمت میں پیش کر دیتا.آخر یہ تین پاؤنڈ جمع کئے تھے اور ارادہ تھا کہ خود حاضر ہو کر پیش کروں گا کہ آپ کی وفات ہو گئی.گویا ان کے تیس سال اس حسرت میں گزر گئے.انہوں نے اس کے لئے محنت بھی کی لیکن جس وقت اس کی توفیق ملی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو چکے تھے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحہ 178 تا180) یہ تھا ان لوگوں کا اخلاص اور وفا اور قربانی.عربی کے بعض حروف ایسے ہیں جن کی خاص ادا ئیگی ہے
خطبات مسرور جلد 13 441 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء اور غیر عرب اس کا صحیح تلفظ ادا نہیں کر سکتے.ایک دفعہ ایک عرب نے یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی گفتگو کے دوران کیا کہ آپ صیحیح ادا ئیگی نہیں کر سکتے.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا.آپ نے اسے تبلیغ کرنی شروع کی تو باتوں باتوں میں آپ نے فرمایا کہ قرآن میں یوں آتا ہے.پنجابی لہجے میں چونکہ ق اور ق اچھی طرح ادا نہیں ہوسکتا اور عام طور پر لوگ قرآن کہتے ہوئے قاریوں کی طرح ق کی آواز گلے سے نہیں نکالتے بلکہ ایسی آواز ہوتی ہے جو ”ق“ اور ”ک“ کے درمیان درمیان ہوتی ہے.آپ نے بھی قرآن کا لفظ اس وقت معمولی طور پر ادا کر دیا.اس پر وہ شخص کہنے لگا کہ بڑے نبی بنے پھرتے ہیں.قرآن کا لفظ تو کہنا آتا نہیں اس کی تفسیر آپ نے کیا کرنی ہے.جو نہی اس نے یہ فقرہ کہا اس مجلس میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے اسے تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معا ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسری طرف مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بیٹھے تھے.دوسرا ہاتھ انہوں نے پکڑ لیا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اسے تبلیغ کرنی شروع کر دی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ صاحب سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس یہی ہتھیار ہے اگر ان ہتھیاروں سے بھی یہ کام نہ لیں تو بتلائیں یہ اور کیا کریں.اگر آپ یہی امید رکھتے ہیں کہ یہ بھی دلائل سے بات کریں اور صداقت کی باتیں ان کے منہ سے نکلیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو مجھے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی.اس کا مجھے بھیجنا ہی بتا رہا ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کا مجھے بھیجنا ہی بتا رہا ہے ) کہ ان لوگوں کے پاس صداقت نہیں رہی.یہی اوچھے ہتھیار ان کے پاس ہیں اور صاحبزادہ صاحب کو فرمایا کہ ) آپ چاہتے ہیں کہ یہ ان ہتھیاروں کو بھی استعمال نہ کریں.(ماخوذ الفضل 9 مارچ 1938 ء صفحہ 7 نمبر 55 جلد 26 ) ایک جگہ ”ض کی ادائیگی کا بھی ذکر ملتا ہے اور یہ بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے، اور جگہ بھی ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک ہی موقع پر ”ق“ اور ”ض“ دونوں کی ادائیگی کے بارے میں اس نے کہا ہو کیونکہ دونوں جگہ پے حوالے تقریباً ایک طرح کے ہی ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے ض“ کے حوالے سے واقعہ بیان کرتے ہوئے خود لکھا ہے کہ عرب کہتے ہیں کہ ”ض لفظ ہماری طرح کوئی ادا نہیں کر سکتا جب پتا ہے کہ کوئی اور نہیں کر سکتا تو پھر اعتراض کیسا؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پنجابیوں میں سب سے قریب ترین ض“ کو میرا خیال ہے میں
خطبات مسرور جلد 13 442 ادا کرتا ہوں لیکن آپ نے فرمایا کہ میرا تلفظ بھی صحیح نہیں ہوتا.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء (ماخوذاز الفضل 11 اکتوبر 1961، صفحہ 3 نمبر 235 جلد 50/15) تو میں نے دونوں چیزوں کی یہ وضاحت اس لئے کر دی ہے کہ ”ق“ اور ”ض“ دونوں کے واقعات ملتے ہیں اور ”ض عام طور پر جماعت میں شاید زیادہ جانا جاتا ہے.اس لئے لوگ پھر مجھے لکھنا بھی شروع کر دیں گے کہ یہ ”ق“ کا واقعہ نہیں تھا ض“ کا واقعہ تھا.اس لئے وضاحت کر دی ہے کیونکہ پھر بلا وجہ ڈاک بڑھ جائے گی اور ڈاک کی ٹیم پہلے ہی پریشان رہتی ہے کہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.پھر صبر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آپ کے صبر کی کیا حالت تھی.آپ فرماتے ہیں کہ دشمنان احمدیت کے ایسے ایسے گندے خطوط میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پڑھتے ہیں کہ انہیں پڑھ کر جسم کا خون کھولنے لگتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ رکھے ہوئے تھے صبر سے کام لیتے تھے اور فرماتے ہیں کہ پھر یہ خطوط ایسی کثرت سے آپ کو پہنچتے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اتنی کثرت سے میرے نام بھی نہیں آتے.میری طرف سال میں صرف چار پانچ خطوط ایسے آتے ہیں علاوہ ان کے جو بیرنگ آتے ہیں اور واپس کر دیئے جاتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ہر ہفتے میں دو تین خط ایسے ضرور پہنچ جاتے تھے اور وہ اتنے گندے اور گالیوں سے پُر ہوا کرتے تھے کہ انسان دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اتفاقاً ان خطوط کو ایک دفعہ پڑھنا شروع کیا تو ابھی ایک دو خط ہی پڑھے تھے کہ میرے جسم کا خون کھولنے لگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو آپ فوراً تشریف لائے اور آپ نے خطوط کا وہ تھیلا میرے ہاتھ سے لے لیا اور فرمایا انہیں مت پڑھو.اس قسم کے خطوط کے کئی تھیلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جمع تھے.لکڑی کا ایک بکس تھا جس میں آپ یہ تمام خطوط رکھتے چلے جاتے کئی دفعہ آپ نے یہ خطوط جلائے بھی مگر پھر بہت سے جمع ہو جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی تھیلوں کے متعلق اپنی کتب میں لکھا ہے کہ میرے پاس دشمنوں کی گالیوں کے کئی تھیلے جمع ہیں.پھر صرف ان میں گالیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ واقعات کے طور پر جھوٹے اتہامات اور ناجائز تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.پس ایسی باتوں سے گھبرانا بہت نادانی ہے.یہ باتیں تو ہمارے تقوی کو مکمل کرنے کے لئے ظاہر ہوتی ہیں.ان میں ناراضگی اور جوش کی کون سی بات ہے.آخر برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہی اس میں سے ٹپکتا ہے.دشمن کے دل میں
خطبات مسرور جلد 13 443 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015 ء چونکہ گند ہے اس لئے گند ہی اس سے ظاہر ہوتا ہے.لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی اور تقویٰ پر زیادہ سے زیادہ قائم ہوتے چلے جائیں اور اپنے اخلاق کو درست رکھیں.اگر دشمن کسی مجلس میں ہنسی اور تمسخر سے پیش آتا ہے تو پھر تم اس مجلس سے اٹھ کر چلے آؤ.یہی خدا کا حکم ہے.(ماخوذ از الفضل 9 مارچ 1938 ء صفحہ 7 نمبر 55 جلد 26) ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نشان نمائی کے لئے نبیوں سے تعلق رکھنے والی ہر چیز میں برکت رکھ دیتا ہے اور لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کریں.پس ان برکات سے انکار نہیں کیا جاسکتا.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عمل سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے.اخبار بدر میں بھی چھپا ہوا موجود ہے اور مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ والسلام ایک دفعہ دہلی تشریف لے گئے تو آپ مختلف اولیاء کی قبروں پر دعا کرنے کے لئے گئے.چنانچہ خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت قطب صاحب، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء، شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب اور نصیر الدین صاحب چراغ کے مزارات پر بھی آپ نے دعا فرمائی.اس وقت آپ نے جو کچھ فرمایا تو جہاں تک مجھے یاد ہے گوڈائری اس طرح چھپی ہوئی نہیں ، یہ ہے کہ دلّی والوں کے دل مردہ ہو چکے ہیں.ہم نے چاہا کہ ان وفات یافتہ اولیاء کی قبروں پر جا کر ان کے لئے ، ان کی اولادوں کے لئے اور خود دہلی والوں کے لئے دعائیں کریں تا کہ ان کی روحوں میں جوش پیدا ہو اور وہ بھی ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دعائیں کریں.ڈائری میں صرف اس قدر چھپا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہم نے قبروں پر ان کے لئے بھی دعا کی اور اپنے لئے بھی دعا کی ہے اور بعض امور کے لئے بھی دعا کی ہے.( بدر 8 نومبر 1905ء) اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خالی ان لوگوں کے لئے دعا نہیں کی.جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قبر پر جا کر صرف مرنے والے کے لئے ہی دعا کرنی چاہئے ، اس کا اس ڈائری سے رڈ ہوتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ہم نے ان کے لئے بھی دعا کی اور اپنے لئے بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے اور اور کئی امور کے لئے بھی.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ڈائری ہے جو بدر میں چھپی ہوئی موجود ہے.
خطبات مسرور جلد 13 444 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام تذکرۃ الشہادتین میں تحریر فرماتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا کہ گورداسپور ایک مقدمے پر جانے سے پیشتر اس کتاب کو ( تذکرۃ الشہادتین کو ) مکمل کر لوں اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤں مگر مجھے شدید درد گردہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ کام نہیں ہو سکے گا.اس وقت میں نے اپنے گھر والوں یعنی حضرت اُم المومنین سے یہ کہا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہتی جا ئیں.چنانچہ اس وقت میں نے صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کی روح کو سامنے رکھ کر دعا کی کہ الہی اس شخص نے تیرے لئے قربانی کی ہے اور میں اس کی عزت کے لئے یہ کتاب لکھنا چاہتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے صحت عطا فرما.چنانچہ آپ فرماتے ہیں قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 72-73) اب دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمے پر جارہے تھے.آپ چاہتے تھے کہ اس سے پیشتر کتاب مکمل ہو جائے مگر آپ سخت بیمار ہو گئے.اس پر آپ نے حضرت شہید مرحوم کی روح کو جو آپ کے خادموں میں سے ایک خادم تھے اپنے سامنے رکھ کر دعا کی کہ الہی اس کی خدمت اور قربانی کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ کتاب لکھنی چاہی تھی.تو مجھے اپنے فضل سے صحت عطا فرما.اور پھر خدا نے آپ کی اس دعا کو قبول فرمایا.چنانچہ آپ نے اس واقعہ کا ہیڈنگ ہی یہ رکھا ہے کہ ایک جدید کرامت مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی صلحاء و اتقیاء کے طریق سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس رنگ میں کئی بار دعا فرمائی.جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ مردہ کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ وہ ہمیں کوئی چیز دے گا.یہ امر صریح نا جائز ہے اور اسلام اسے حرام قرار دیتا ہے.باقی رہا اس کا یہ حصہ کہ ایسے مقامات پر جانے سے رفت پیدا ہوتی ہے یا یہ حصہ کہ انسان ان وعدوں کو یاد دلا کر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کئے ہوں دعا کرے کہ الہی اب ہمارے وجود میں تو ان وعدوں کو پورا فرما.یہ نہ صرف ناجائز نہیں بلکہ ایک روحانی حقیقت ہے اور مومن کا فرض ہے کہ وہ برکت کے ایسے مقامات سے فائدہ اٹھائے.مثلاً جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر دعا کے لئے جائیں تو ہم اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ الہی یہ وہ شخص ہے
خطبات مسرور جلد 13 445 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015ء جس کے ساتھ تیرا یہ وعدہ تھا کہ میں اس کے ذریعہ اسلام کو زندہ کروں گا.تیرا وعدہ تھا کہ میں اس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.پس اس کو تو پورا فرما.(ماخوذ از الفضل 14 مارچ 1944 ، صفحہ 7 جلد 32 نمبر (61) اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا حصہ بنتے ہوئے آپ علیہ السلام کے مشن کی تکمیل میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے والے ہوں اور اسلام کی حقیقی شکل اور غلبے کو دنیا کو دکھانے والے بھی ہوں اور دیکھنے والے بھی ہوں.نماز کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھوں گا جو کہ مولوی محمد یوسف صاحب درویش مرحوم ( قادیان) کا ہے.22 جولائی 2015ء کو 94 سال کی عمر میں یہ وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے.آپ کو لمبا عرصہ مدرسہ احمدیہ میں قرآن کریم اور حدیث پڑھانے کا موقع ملا.بہت سادہ منکسر المزاج اور احساس ذمہ داری کے ساتھ خدمت بجالانے والے مخلص اور باوفا انسان تھے.آپ کا تعلق قصبہ موکل تحصیل چونیاں ضلع لاہور اور حال ضلع قصور سے تھا.آپ نے بچپن کی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی.اس کے بعد 1939ء میں لاہور کی ایک اہلحدیث درسگاہ سے حدیث کی ابتدائی کتب پڑھنے کا موقع ملا.وہاں ان کی ملاقات ایک احمدی سے ہوئی جن سے احمدیت کا علم ہوا.بعد میں تحقیق حق کے لئے متعدد مرتبہ قادیان آتے رہے.کتب کا مطالعہ کرتے رہے..آخر 1944ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.پھر دینی تعلیم کے حصول کے لئے قادیان آگئے اور اپریل 1947 ء میں آپ کا داخلہ مبلغین کلاس میں ہوا.پڑھائی کے دوران ہی تقسیم ملک اور قادیان سے ہجرت کا سانحہ پیش آیا مگر انہوں نے ہر حال میں قادیان میں رہنے کو ترجیح دی اور درویشانہ زندگی اختیار کر لی.1949ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد پر کہ قادیان میں علماء کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مبلغین کلاس میں سے بعض کو منتخب کر کے مزید تعلیم دلوائی جائے ، آپ کو بھی مزید تعلیم کے لئے منتخب کیا گیا جس کا عرصہ چار سال تھا.اس تعلیم کے مکمل ہونے پر آپ کو مئی 1955 ء میں قادیان کے مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد مقرر کیا گیا.نومبر 1958ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.ایک لمبا
خطبات مسرور جلد 13 446 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جولائی 2015 ء عرصہ مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے.پھر سینئر شاہد گریڈ حاصل کرتے ہوئے ریٹائر ہوئے لیکن اس کے بعد بھی لمبا عرصہ مدرسہ احمدیہ میں خدمت بجالاتے رہے.صوم وصلوٰۃ کے پابند عالم باعمل وجود تھے.اپنے شاگردوں سے والد کی طرح محبت کرتے تھے.مدرسہ احمدیہ میں سالہا سال طلباء کو علم حدیث سے روشناس کرواتے رہے.احادیث کی کتب کا گہرا مطالعہ تھا اور حسن بیان ایسا تھا کہ درس طلباء کے ذہن نشین ہو جاتا تھا.تاریخ احمدیت جلد نمبر 11 میں درویشان کی جو فہرست طبع شدہ ہے اس میں آپ کا نمبر 153 ہے.آپ نے درویشی کا طویل عرصہ باوجود مشکلات کے انتہائی صبر وشکر سے بسر کیا.مرحوم موصی تھے.پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک ربیب اور ایک بیٹا یاد گار چھوڑے ہیں یعنی ایک سوتیلا بیٹا ہے.آپ کے بیٹے مکرم جمیل احمد صاحب ناصر ایڈووکیٹ مشیر قانونی اور ناظم تشخیص جائیداد موصیان ہیں اور ربیب مکرم بدر الدین مہتاب صاحب بطور اسسٹنٹ مینیجر فضل عمر پریس میں کام کر رہے ہیں.بیٹی عائشہ بیگم صاحبہ ڈاکٹرنصیر احمد صاحب حافظ آبادی کی اہلیہ ہیں اور اس وقت نصرت ویمن کالج کی پرنسپل کے طور پر خدمت سر انجام دے رہی ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولا د کو بھی ان کی نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 14 اگست 2015ء تا 20 اگست 2015 ءجلد 22 شماره 33 صفحه 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 447 31 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء بمطابق 31 وفا 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تلاوت قرآن کی ضرورت اور....گزشتہ دنوں کسی نے ایک چھوٹی سی ویڈیو دکھائی کہ ایک افریقن مولوی بڑی عمر کے لوگوں کو قرآن پڑھا رہا ہے اور ذراسی غلطی پر سوٹیوں سے مار مار کر ان کا برا حال کیا ہوا تھا.اب جس کی ایک تو زبان نہ ہو اور پھر سترہ اٹھارہ سال یا اس سے بھی زیادہ بڑی عمر ہو جائے تو وہ کس طرح قاریوں کی طرح ہر حرف کی صحیح ادا ئیگی کر سکتا ہے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ قرآن پڑھنے سے ہی بھاگتے ہیں اور یہی وجہ ہے مسلمانوں میں سے جو غیر عرب لوگ ہیں، بہت سوں کو قرآن کریم پڑھنا بھی نہیں آتا.پس اگر قرآن پڑھانا ہے تو ایسے طریقے سے پڑھانا چاہئے جس سے شوق اور محبت پیدا ہو.گزشتہ دنوں ایک جاپانی خاتون جو یہاں رہتی ہیں ملنے آئیں.انہوں نے کچھ عرصہ پہلے بیعت کی.انہوں نے بتایا کہ تین سال میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن شریف مکمل کر لیا ختم کر لیا، اور وہ کچھ سنانا بھی چاہتی تھیں.میں نے کہا ٹھیک ہے سنائیں.تو انہوں نے آیتہ الکرسی اس طرح ڈوب کر پڑھی کہ حیرت ہوتی تھی.تو اصل چیز یہی ہے کہ قرآن کریم سے ایسی محبت ہو کہ اس میں ڈوب کر اسے پڑھا جائے.صرف دکھاوے کے لئے قاریوں کی طرح گلے سے آوازیں نکال لینا تو مقصد نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ترتیل سے پڑھنے کا حکم دیا ہے.ٹھہر ٹھہر کر اور جس حد تک بہترین تلفظ ادا ہوسکتا ہے ادا کر کے پڑھا جائے.اگر ہم کہیں کہ ہم عربوں کی طرح الفاظ کی ادائیگی کر سکتے ہیں تو یہ مشکل ہے.بعض حروف کی صحیح
خطبات مسرور جلد 13 448 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء ادا ئیگی غیر عرب کرہی نہیں سکتے.سوائے اس کے کہ عربوں میں پلے بڑھے ہوں.جاپانی قوم ہے وہ بھی بعض حروف کی ادائیگی نہیں کر سکتے.مثلاً یہ جو پڑھنے والی تھیں وہ بھی 'خ' کو جس طرح ادا کر رہی تھیں اس میں زیادہ ابھر کر سامنے آتی تھی.'خ' اور 'ح' کا فرق نہیں تھا.ان جاپانی خاتون سے سن کر مجھے یہ تاثر ملا ہے کہ اگر تمام جاپانی نہیں تو ان خاتون کی طرح بہت سے ایسے ہوں گے جن کے لئے بعض حروف کی ادا ئیگی مشکل ہوگی.لیکن بہر حال اصل چیز تو خدا تعالیٰ کے کلام سے محبت ہے.اسے حتی الوسع صحیح رنگ میں ادا کرنا چاہئے.اس کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ صرف قاری بنا اور دکھاوے کے لئے مقابلوں میں حصہ لینا.حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اَشْهَدُ کے بجائے اَسهَدُ کہنے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو پیار کی نظر تھی اس کا کوئی قاری یا عرب مقابلہ نہیں کرسکتا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 470) پس جماعت میں غیر مسلموں سے بھی لوگ شامل ہو رہے ہیں، اسلام لا رہے ہیں.مسلمانوں کی اکثریت جیسا کہ میں نے کہا قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتی.افریقہ میں ہمارے مبلغین کو بہت سے ایسے مواقع پیش آتے ہیں جہاں نئے سرے سے قرآن کریم پڑھانا پڑتا ہے.نئے سرے سے قرآن کریم کیا بلکہ ابتدا سے قاعدہ پڑھانا پڑتا ہے.تو ان لوگوں کو بھی قرآن کریم پڑھانا ہے.اس لئے قرآن کریم پڑھانے والے استادوں کو اس طریق سے پڑھانا چاہئے کہ قرآن کریم پڑھنے کا شوق پیدا ہو.اللہ تعالیٰ اس پاکستانی خاتون کو بھی اجر دے جنہوں نے ان جاپانی خاتون کو نہ صرف قرآن کریم پڑھایا بلکہ لگتا تھا کہ قرآن کریم کی محبت بھی پیدا کی ہے.پس اصل چیز قاری کی طرح قراءت نہیں اور یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اگر اس طرح الفاظ ادا نہ کر سکیں تو قرآن کریم پڑھنا ہی چھوڑ دیں.قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے اس میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہئے.لیکن صرف اس بات پر کہ بعض الفاظ ہم ادا نہیں کر سکتے یا مشکل ہیں ، قرآن کریم کو پڑھنا ہی نہیں چھوڑ دینا چاہئے بلکہ تلاوت کی طرف روزانہ ہر احمدی کی توجہ ہونی چاہئے.ہاں یہ کوشش ضرور ہونی چاہئے جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل کے جتنا قریب ترین ہو کر آسانی سے الفاظ کی ادائیگی ہو سکے ، کی جائے اور پھر اس میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جائے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ یہ کوشش کہ ہم قاری کی طرح ہی ہر لفظ کو ادا کریں درست نہیں کیونکہ اس کی طاقت خدا تعالیٰ نے ہمیں نہیں بخشی جو غیر عرب ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ میری مرحومہ بیوی اُمّم طاہر بیان کرتی تھیں کہ ان کے والد صاحب کو قرآن پڑھنے
خطبات مسرور جلد 13 449 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء پڑھانے کا بہت شوق تھا.انہوں نے لڑکوں (اپنے بچوں) کو پڑھانے کے لئے استاد ر کھے ہوئے تھے اور لڑکی کو بھی قرآن پڑھانے کے لئے اسی کے سپرد کیا ہوا تھا.اُمم طاہر بتاتی ہیں کہ وہ استاد بہت مارا کرتے تھے اور ہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال کر ، ( درخت کی چھوٹی ٹہنیاں پنسل کی طرح لے کر بعض لوگ پنسلیں بھی ڈالتے تھے، استاد شاخیں انگلیوں میں ڈال کر ) انہیں دباتے تھے.مارتے تھے.پیٹتے تھے اس لئے کہ ہم صحیح طور پر تلفظ کیوں ادا نہیں کرتے.ہم پنجابی لوگوں کا لہجہ بھی ایسا ہی ہے کہ ہم عربوں کی طرح عربی کے الفاظ ادا نہیں کر سکتے.(ماخوذ از الفضل 11 اکتوبر 1961 ، صفحہ 3-2 جلد 50/15 نمبر 235) حضرت مصلح موعودؓ نے پھر اس عرب کا بھی واقعہ بیان کیا جس کو میں گزشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے آیا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو تین دفعہ ض کا استعمال کیا تو کہنے لگا آپ کس طرح مسیح موعود ہو سکتے ہیں آپ کو تو ضاد بھی کہنا نہیں آتا.اس عرب نے یہ بڑی لغو حرکت کی تھی.ہر ملک کا اپنا لہجہ ہوتا ہے.عرب خود کہتے ہیں کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں.ہندوستانی اسے ادا نہیں کر سکتے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہندوستانی لوگ اسے یا تو دواڈ کر کے پڑھتے ہیں یا ضاڈ کر کے پڑھتے ہیں لیکن اس کے مخارج اور ہیں.پس جب عرب خود کہتے ہیں کہ ہم ناطقين بالضاد ہیں اور کوئی صحیح طور پر اسے ادا نہیں کر سکتا تو پھر اعتراض کرنے کی بات ہی کیا ہوئی؟ (ماخوذاز الفضل 11 اکتوبر 1961 ، صفحہ 3 جلد 50/15 نمبر 235) پس عرب احمد یوں کو بھی اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے.عموماً اکثریت تو اس بات کو بجھتی ہے لیکن بعض کی طبیعتوں میں کچھ فخر کی حالت بھی ہوتی ہے.ایک پاکستانی عورت ایک عرب سے بیاہی ہوئی ہے وہ بھی اپنی طرف سے حلق سے آواز نکال کر سمجھتی ہے کہ میں نے صحیح تلفظ ادا کر دیا حالانکہ وہ صحیح نہیں ہوتا.اگر اس کی ذات تک ہی بات ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی اور مجھے کہنے کی ضرورت نہیں تھی.لیکن مجھے پتا چلا ہے کہ بعض مجالس میں بیٹھ کر استہزاء کے رنگ میں یہ بات کرتی ہے کہ بعض حروف کی ادائیگی پاکستانیوں کو نہیں آتی ، قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا.عربی کے الفاظ صحیح ادا نہیں کر سکتے اور عرب بیٹھ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ عربوں میں سے ہر ایک ایسا ہو گا جو مذاق اڑاتا ہو.ہو سکتا ہے جن عربوں میں یہ بیاہی ہوئی ہیں وہ مذاق اڑاتے ہوں.اسلام میں تو ہر قوم کے دل جیت کر انہیں اللہ تعالیٰ کے کلام سے نہ صرف آشنا کروانا ہے بلکہ اسے پڑھنے کے لئے ان کے دلوں میں محبت بھی پیدا کرنی ہے اور ہر ایک
خطبات مسرور جلد 13 450 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء کا الگ الگ لہجہ ہے.ہر ایک قرآن کریم کی محبت کی وجہ سے اسے بہترین رنگ میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور کرنی بھی چاہئے اور یقیناً ترتیل کا خیال رکھنا چاہئے.اور جو اس بارے میں نئے مسلمان ہونے والوں کی مدد کر سکتے ہیں اور جنہیں صحیح طرح تلفظ کے ساتھ پڑھنا آتا ہو.انہیں مدد بھی کرنی چاہئے لیکن مذاق اڑانے کی اجازت نہیں ہو سکتی.پس جن کو صحیح تلفظ اگر آتا بھی ہے تو ان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مختلف قومیں ہیں مختلف لوگ ہیں، ہر ایک کا اپنا اپنا لہجہ ہے اور عربی کے ہر لفظ کی ادائیگی ہر ایک سے نہیں ہوسکتی.اب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بعض اور واقعات بھی بیان کرتا ہوں.آپ مسلمانوں کی حالت کے بارے میں کہ کیا حالت ہو رہی ہے.ایک جگہ ایک مثال سے بیان فرماتے ہیں کہ مثل مشہور ہے کہ کوئی بزدل آدمی تھا اسے وہم ہو گیا کہ وہ بہت بہادر ہے.وہ گودنے والوں کے پاس گیا.(Tattoo جو کرتے ہیں.) پرانے زمانے میں یہ رواج تھا کہ بہادر اور پہلوان لوگ اپنے بازو پر اپنے کیریکٹر اور اخلاق کے مطابق نشان کھدوا لیتے تھے.( یہاں یورپ میں بھی اس کا بڑا رواج ہے.یہ بھی (بہر حال) گودنے والے کے پاس گیا.گودنے والے نے پوچھا تم کیا گدوانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا میں شیر گدوانا چاہتا ہوں.جب وہ شیر گود نے لگا ، جسم پر اس کی شکل بنانے لگا تو اس نے سوئی چھوٹی.سوئی چبھونے سے درد تو ہونا ہی تھا.وہ دلیر تو تھا نہیں.(خیال تھا کہ میں بہت بہادر ہوں.اس نے کہا یہ کیا کرنے لگے ہو؟ گودنے والے نے کہا کہ شیر گود نے لگا ہوں.اس نے پوچھا شیر کا کونسا حصہ گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا دُم گود نے لگا ہوں.اس آدمی نے کہا کہ اگر شیر کی دُم کٹ جائے تو کیا وہ شیر نہیں رہتا ؟ گودنے والے نے کہا شیر تو رہتا ہے.کہنے لگا اچھا پھر دُم چھوڑ دو، دوسرا کام کرو.اس نے پھر سوئی ماری تو بولنے لگا اب کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے کہا کہ اب دایاں بازو گود نے لگا ہوں.اس آدمی نے کہا کہ شیر کا لڑائی یا مقابلہ کرتے وقت دایاں بازو کٹ جائے تو کیا وہ شیر نہیں رہتا.اس نے کہا شیر تو رہتا ہے.کہنے لگا پھر اسے بھی چھوڑ دو اور آگے چلو.اس طرح وہ بایاں بازو گود نے لگا تو اس نے اسے بھی رہنے دیا کہ کیا اس کے بغیر شیر نہیں رہتا.پھر ٹانگ گودنی چاہی تو پھر اس نے یہی کہا.آخر وہ گودنے والا جو تھا وہ بیٹھ گیا.اس آدمی نے جو گودوانے گیا تھا اور سمجھتا تھا میں بڑا بہادر ہوں کہا کہ کام کیوں نہیں کرتے.گودنے والے نے کہا اب کچھ رہ نہیں گیا.میں کروں کیا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہی آجکل اسلام کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے.خاص طور
خطبات مسرور جلد 13 451 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء پر مسلمان علماء اور لیڈروں کا یہی کام ہے.یہ نعرے تو بہت لگاتے ہیں اور عمل کچھ نہیں ہے اور جس بات کی دوسروں کو تلقین کرتے ہیں اس کا اسلام کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں.یہ بھی چھوڑ دو، یہ بھی چھوڑ دو، وہ بھی چھوڑ دو.اپنے لئے تو ہر ایک چیز وہ چھڑواتے چلے جاتے ہیں.اس تعلق میں آپ ایک اور مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب فرمایا کرتے تھے کہ چھوٹی عمر میں میری طبیعت بہت چلبلی سی تھی.آپ میر درد کے نواسے تھے اور دہلی کے رہنے والے تھے.وہاں آم بھی ہوتے ہیں.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب والدہ والد صاحب اور بہن بھائی صبح کے وقت آموں کے موسم میں آم چوسنے لگتے تو میں جو میٹھا آم ہوتا تھا اس کو کھٹا کھٹا کہہ کر الگ رکھ لیتا تھا اور باقی آم ان کے ساتھ مل کر کھا لیتا تھا.آم چوسنے کے لئے پہلے ایک دفعہ تو چکھنا پڑتا ہے ناں تو چکھتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ کھتا ہے حالانکہ وہ میٹھا ہوتا تھا.جب آم ختم ہو جاتے تو پھر میں کہتا کہ میرا تو پیٹ نہیں بھرا.اچھا میں یہ کھٹے آم ہی کھا لیتا ہوں اور سارے آم کھا لیتا تھا.ایک دن میرے بڑے بھائی جو بعد میں میر درد کے گدی نشین ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا بھی پیٹ نہیں بھرا.میں بھی آج کھٹے آم چوس لیتا ہوں.فرماتے تھے کہ میں نے انہیں بہتیرا زور لگایا مگر وہ باز نہ آئے.آخر انہوں نے آم چو سے اور کہا آم تو بڑے میٹھے ہیں تم یونہی کہتے تھے کھتے ہیں.جس طرح وہ آم چوستے وقت میٹھے آم الگ کر لیا کرتے تھے اور باقی دوسروں کے ساتھ مل کر چوس لیتے تھے اور بعد میں کھتے کہہ کر وہ بھی چوس لیتے تھے ، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہی حال آجکل کے مسلمانوں کا ہے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کو نافذ کیا جائے ان کا اگر یہ حال ہو تو ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اسلام کو جانتے ہی نہیں.اسلام کی شریعت نافذ کرنے والے بھی اسی طرح کرتے ہیں کہ دھوکہ دہی سے اپنے لئے علیحدہ چیزیں رکھتے چلے جاتے ہیں.یہ تو ان کا بچپنا تھا.لیکن یہاں جان بوجھ کر غلط باتیں کی جاتی ہیں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ دوسرے لوگ جو اسلام کو نہیں جانتے وہ تو پھر ہڈیاں اور بوٹی (ماخوذ از الفضل 11 اکتوبر 1961 ، صفحہ 3 جلد 15/50 نمبر 235) کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے.اسلام کا ایک بہت بڑا المیہ ہر چیز کو اسی طرح کھا جائیں گے چاہے وہ غلط بھی ہو.پس آجکل بھی علماء اپنے لئے جو جواز پیدا کر کے اس طرح کی لوٹ مار کر رہے ہیں اور جو ہر طرف ہمیں نظر آتی ہے تو اس زمانے میں یہی اسلام کے لئے ایک بہت بڑا المیہ ہے.اور ان علماء کی وجہ سے باقیوں نے بھی اسلام کے نام پر لوٹ مار مچائی ہوئی
خطبات مسرور جلد 13 452 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء ہے.انہی علماء کی وجہ سے مختلف تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جنہوں نے ظلم و تعدی کے بازار گرم کئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے.پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ کس طرح ہمیں اپنی حالتوں کو درست کرتے ہوئے اپنے ایمان میں اضافہ کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہئے ، حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ اگر آپ لوگ تقویٰ و طہارت اپنے اندر پیدا کریں اور دعاؤں اور ذکر الہی کی عادت ڈالیں اور تہجد اور درود پر التزام رکھیں تو اللہ تعالیٰ یقیناً آپ لوگوں کو بھی رویائے صادقہ اور کشوف سے حصہ دے گا اور اپنے الہام اور کلام سے مشرف کرے گا.اور زندہ معجزہ در حقیقت وہی ہوتا ہے جو انسان کی اپنی ذات میں ظاہر ہو.بیشک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں مگر جہاں تک انسان کی اپنی ذات کا سوال ہوتا ہے اس کے لئے وہی معجزہ بڑا ہوتا ہے جس کا وہ اپنی ذات میں مشاہدہ کرتا ہے.“ ( آجکل بھی لوگ یہی سوال کرتے ہیں.اگر معجزے دیکھنے ہیں تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا بھی ضروری ہے..ایمان میں زیادتی اور ذاتی نشان کی مثال دیتے ہوئے آپ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ) '' صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کو دیکھ لو.انہوں نے جب احمدیت قبول کی اور وہ قادیان میں کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد کا بل واپس گئے تو وہاں کے گورنر نے انہیں بلایا اور کہا کہ تو بہ کرلو.انہوں نے کہا میں تو بہ کس طرح کروں.جب میں قادیان سے چلا تھا تو اسی وقت میں نے رویاء میں دیکھا تھا کہ مجھے ہتھکڑیاں پڑی ہوئی ہیں.پس جب مجھے خدا نے کہا تھا کہ تمہیں اس راہ میں ہتھکڑیاں پہنی پڑیں گی تو اب میں ان ہتھکڑیوں کو اتر وانے کی کس طرح کوشش کروں.یہ ہتھکڑیاں میرے ہاتھوں میں پڑی رہنی چاہئیں تا کہ میرے رب کی بات پوری ہو.اب دیکھو انہیں یہ وثوق اور یقین اس لئے حاصل ہوا کہ انہوں نے خود ایک خواب دیکھا تھا.اسی طرح خواہ کوئی کتنا ہی قلیل علم رکھتا ہوا گر وہ کوئی خواب دیکھ لے تو بزدلی کی وجہ سے وہ اس کو چھپالے تو اور بات ہے ورنہ اپنی جھوٹی خواب پر بھی اسے اس سے زیادہ یقین ہوتا ہے.“ الفضل 22 جولائی 1956ء صفحہ 5 جلد 45/10 نمبر 169 ) پس اگر انسان کا ایمان مضبوط ہو اور خدا تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر انسان دنیا داروں سے نہیں ڈرتا.اس کی ایک اور مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ حضرت صوفی احمد جان صاحب
خطبات مسرور جلد 13 453 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء لدھیانوی بہت بڑے بزرگ تھے اور اپنے زمانے کے نیک لوگوں میں سے تھے.ایک دفعہ مہاراجہ جموں نے ان کو دعوت دی کہ آپ جموں آ کر میرے لئے دعا کریں.مگر آپ نے انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ اگر آپ دعا کرانا چاہتے ہیں تو میرے پاس یہاں آئیں.(ماخوذ از الفضل 30-27 مارچ 1928 ، صفحہ 9 جلد 15 نمبر 77-76) میں آپ کے پاس کیوں چل کر جاؤں.پس اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو جتنا مرضی کوئی بڑا آدمی ہوانسان اس سے نہیں ڈرتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے لوگوں کی پہلے کس قدر عقیدت تھی اس کا اور پھر آپ کے دعوے کے بعد کیا حالت ہوگئی ، اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کیا کہ دیکھو برا بین احمدیہ کی شہرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاکھوں آدمی آپ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے.ایک کی تو شہادت بھی موجود ہے جو دعوے سے پہلے ہی وفات پاگئے.یعنی حضرت صوفی احمد جان صاحب ( جن کا ابھی پہلے ذکر ہوا ہے جنہوں نے راجہ کو کہا تھا کہ دعا کروانی ہے تو یہاں آؤ.صوفی احمد جان صاحب) لدھیانوی نے دعویٰ سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے.پہلے بھی ہم کئی دفعہ سن چکے ہیں.آپ کا ایک شعر ہے کہ ) سب مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے یہ تو ایک دور بین ولی اللہ کی نظر تھی.(صوفی احمد جان صاحب تو ایک ولی اللہ تھے.ان کی ایک دور بین نظر تھی جنہوں نے دیکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی مسیح موعود ہیں.چاہے دعوئی ہے یا نہیں.مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن کی نگاہ اتنی دور بین نہ تھی وہ بھی سمجھتے تھے کہ اسلام کی نجات آپ سے وابستہ ہے.مگر جب وہ ہتھیار آپ کو دیا گیا ( یعنی وہ ہتھیار جس نے اسلام کو فتح کرنا تھا) جس سے دشمن پامال ہو سکتا تھا.وہ آب حیات دیا گیا جس سے مسلمانوں کی زندگی مقدر تھی تو بڑے بڑے مخلص آپ سے متنفر ہو گئے اور کہنے لگے جسے ہم سونا سمجھتے تھے افسوس وہ تو پیتل نکلا.ایسے لاکھوں انسان یکدم بدظن ہو گئے.حتی کہ جب آپ نے بیعت کا اعلان کیا تو پہلے روز صرف چالیس اشخاص نے بیعت کی.یا تو لاکھوں لوگ اخلاص رکھتے تھے اور ( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ) پرانے لوگ سناتے ہیں کہ کس طرح بڑے بڑے علماء کہتے تھے کہ اسلام کی خدمت اسی شخص سے ہو سکتی ہے اور خود لوگوں کو آپ کے پاس بھیجتے تھے حتی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ براہین کے شائع ہونے پر میں مرزا صاحب کی زیارت کے لئے پیدل چل کر قادیان گیا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جنہوں نے آخر میں اپنا سارا زور مخالفت میں
خطبات مسرور جلد 13 454 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء صرف کر دیا انہوں نے بھی لکھا کہ تیرہ سوسال کے عرصے میں کسی نے اسلام کی اتنی خدمت نہیں کی جتنی اس شخص نے کی ہے.(ماخوذ از الفضل 15 مارچ 1934 صفحہ 6 جلد 21 نمبر 110 ) آجکل بھی مختلف نام نہاد اسلامی ٹی وی چینل اسی حوالے سے بڑی باتیں کرتے ہیں کہ اُس وقت خدمت کی ضرورت تھی.لیکن بعد میں نعوذ باللہ بگڑ گئے.لیکن اصل میں تو یہ لوگ وہ ہیں جو دلوں کے اندھے ہیں اور جس کو خدا تعالیٰ نے سونا بنایا ہے اسے یہ لوگ پیتل سمجھتے ہیں.خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کی طرف دیکھنے کی بجائے یہ لوگ اپنے نفسوں کے اندھیروں میں ڈوب گئے ہیں اور کم علم رکھنے والے مسلمانوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو عقل دے.دار البیعت لدھیانہ کی اہمیت ایک دفعہ جب 1931ء کی شوریٰ میں دار البیعت لدھیانہ کا ذکر ہوا.تو حضرت مصلح موعود نے وہاں نمائندگان کو کہا کہ ” میرے نزدیک یہ ( یعنی دار البیعت لدھیانہ کا معاملہ ) نہایت اہم معاملہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خصوصیت سے اس کا ذکر کیا ہے بلکہ لدھانہ کو باب لد قرار دیا ہے جہاں دجال کے قتل کی پیشگوئی ہے.(وہ جگہ جہاں دشمنوں کا خاتمہ ہوگا، دجال کا خاتمہ ہوگا ) ایسے مقام کے لئے جہاں قادیان سے بیعت لینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے گئے جماعت میں ( اس جگہ کا ) خاص احساس ہونا چاہئے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جب آپ سے بیعت لینے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا یہاں نہیں بیعت لی جائے گی.( یعنی قادیان میں نہیں لی جائے گی ) پھر لدھیانہ میں بیعت لی.وہاں کے پیر احمد جان صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پہلے ہی فوت ہو گئے وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو خدا نے دعوئی سے پہلے ہی آپ پر ایمان لانے کی توفیق دی ( جیسے پہلے ذکر ہو چکا ہے.انہوں نے اپنی وفات کے وقت اپنے سب خاندان کو جمع کیا اور کہا کہ حضرت مرزا صاحب مسیحیت کا دعویٰ کریں گے تم سب ایمان لے آنا.چنانچہ یہ سب خاندان ایمان لے آیا.پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب آپ کے لڑکے ہیں اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ان کی لڑکی ہیں.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) میرا ارادہ ہے کہ اس مقام کا خاص طور پر نقشہ بنایا جائے اور بیعت کے مقام پر ایک علیحدہ جگہ تجویز کی جائے اور نشان لگا دیا جائے اور اس موقع پر وہاں جلسہ کیا جائے.چالیس آدمیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ بیعت لی
خطبات مسرور جلد 13 66 تھی ان سب کے نام اس جگہ لکھ دیئے جائیں.“ 455 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء رپورٹ مجلس مشاورت 1931 ، صفحہ 107-106 ) لدھیانہ کا گھر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پاس ہے وہاں جماعت نے کس حد تک اس پر عمل کیا ہے ، اس پر کیا ہورہا ہے، اس کا ریکارڈ اس وقت میرے پاس نہیں ہے بہر حال پتا لگ جائے گا.تو اس کو یادگار بنانے کی کوشش بہر حال کی جارہی ہے.پیشگوئی مصلح موعود کی اہمیت پھر لدھیانہ اور پیشگوئی مصلح موعود کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ کے سامنے جنت کے انگوروں کا ایک خوشہ لایا گیا ہے اور پھر آپ کو بتایا گیا کہ یہ ابوجہل کے لئے ہے.اس کی تعبیر یہ تھی کہ اس کے بیٹے عکرمہ کو جنت ملے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.پھر آپ نے واقعہ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کے لڑکے کو ایسا نیک کیا کہ اس نے دین کے لئے شاندار قربانیاں کیں.ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا.عیسائی تیرانداز تاک تاک کر مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر مارتے تھے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم شہید ہوتے جاتے تھے.عکرمہ نے کہا مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا.( یہ ابو جہل کے بیٹے تھے.) اور اپنی فوج کے افسر سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ان پر حملہ کروں اور ساٹھ بہادروں کو ساتھ لے کر دشمن کے لشکر کے قلب پر (مرکز میں جاکے ) حملہ کر دیا اور ایسا شدید حملہ کیا کہ اس کے کمانڈر کو جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا جس سے شمن کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی.یہ جان باز ایسی بہادری سے لڑے کہ جب اسلامی لشکر وہاں پہنچا تو تمام کے تمام یا تو شہید ہو چکے تھے یا سخت زخمی پڑے تھے.حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی سخت زخمی تھے.ایک افسر پانی لے کر زخمیوں کے پاس آیا اور اس نے پہلے عکرمہ کو پانی دینا چاہا.مگر آپ نے دیکھا کہ حضرت سہیل بن عمر پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں.آپ نے اس افسر کو کہا کہ پہلے سہیل کو پانی پلاؤ پھر میں پیوں گا.میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرا بھائی پیاس کی حالت میں پاس پڑار ہے اور میں پانی پی لوں.وہ سہیل کے پاس پانی لے کر پہنچا تو اس کے پاس حارث بن ہشام زخمی پڑے تھے.سہیل نے کہا کہ پہلے حارث کو پانی پلاؤ.وہ حارث کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے.پھر وہ واپس سہیل کے پاس آیا تو وہ بھی وفات پاچکے تھے اور جب وہ مکرمہ کے
خطبات مسرور جلد 13 456 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء پاس پہنچا تو ان کی روح بھی پرواز کر چکی تھی.تو یہ مکرمہ ابو جہل کے لڑکے تھے.پس اگر کوئی شخص شریر ہو، بے دین ہو اور جھوٹا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی ضرور اس بیٹا بھی جیسا ہی ہوگا.مگر خدا تعالیٰ کے کلام میں ایسی شہادتیں ہوتی ہیں جو اس کی صداقت کو واضح کر دیتی ہیں اور جس میں شہادت نہ ہو وہ ماننے کے قابل ہی نہیں ہوتا.اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو پیشگوئیاں ہوتی ہیں وہ کس طرح پوری ہوتی ہیں حالانکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب دیکھی، رؤیا دیکھا تو آپ بڑے پریشان ہوئے تھے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ابوجہل جنت میں ہو اور میں اس کو انگوروں کا خوشہ دے رہا ہوں.تو اس سے مراد اصل میں یہی تھی کہ ان کے بیٹے ایمان لے آئیں گے اور اسلام کی خاطر غیر معمولی قربانی کریں گے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی میں بھی (یعنی مصلح موعود والی پیشگوئی میں بھی) دوسری پیشگوئیوں کی طرح بہت سی شہادتیں موجود ہیں.آپ نے ایسے وقت میں جب قادیان کے لوگ بھی آپ کو نہ جانتے تھے یہ پیشگوئی فرمائی.قادیان کے کئی بوڑھے لوگوں نے سنایا ہے کہ ہم آپ کو جانتے ہی نہ تھے.ہم سمجھا کرتے تھے کہ غلام مرتضیٰ صاحب کا ایک ہی لڑکا ہے جس کا نام مرز اغلام قادر ہے.تو ایسا شخص جو خود گمنام ہو، جسے اس کے گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے ہوں، یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اولاد دے گا جو زندہ بھی رہے گی اور اس کے لڑکوں میں سے ایک لڑکا ایسا ہو گا جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اس کے ذریعہ اس کی تبلیغ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچے گی.کون ہے جو اپنے پاس سے ایسی بات کہہ سکے.پھر آپ نے فرمایا کہ وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہو گا.اس کے یہ معنی بھی تھے کہ وہ اس پیشگوئی سے چوتھے سال میں پیدا ہوگا.چنانچہ آپ نے یہ پیشگوئی 1886ء میں کی اور ( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) میری پیدائش 12 جنوری 1889ء (eighteen eighty-nine) میں ہوئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 23 مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں پہلی بیعت لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کا ہماری جماعت میں بھی اور باہر بھی بہت چرچا ہے.عموماً یہ سوال کیا جاتا تھا کہ وہ لڑکا کون ہے؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پیشگوئی میں اس لڑکے کا نام محمود بھی بتایا گیا تھا اس لئے بطور تفاؤل کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرا نام محمود بھی رکھا.اور چونکہ اس کا نام بشیر ثانی بھی تھا اس لئے میرا پورا نام بشیر الدین محموداحمد رکھا.
خطبات مسرور جلد 13 457 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء جہاں تک اولا د ہونے اور اس کے زندہ رہنے کا تعلق تھا یہ پیشگوئی تو پوری ہوئی اور ایک بیٹے کا نام محمو درکھنے کی توفیق بھی آپ کو ملی.مگر دنیا انتظار کر رہی تھی کہ پیشگوئی کس لڑکے کے متعلق ہے؟ چنانچہ آج میں یہی بتانے کے لئے لدھیانہ آیا ہوں (آپ لدھیانہ گئے تھے ).آپ فرماتے ہیں کہ لدھیانہ کے ساتھ جماعت احمدیہ کا کئی رنگ میں تعلق ہے.لدھیانہ کی جو اہمیت جماعت کی تاریخ کے ساتھ ہے اس کے کئی پہلو ہیں.فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت اسی شہر میں لی.(ایک تعلق ) آپ کے بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب آپ کے پہلے خلیفہ ہوئے اور ان کی شادی لدھیانہ میں ہی حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم کے ہاں ہوئی تھی ( یہ دوسرا تعلق ) اور اس پیشگوئی میں جس لڑکے کا تعلق ہے وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بیوی کے بطن سے پیدا ہوا جولدھیانہ میں بھی رہی ہیں.( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کچھ عرصہ میں یہاں بھی رہا ہوں.میں اس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے کوئی خاص باتیں تو اس زمانے کی یاد نہیں ہیں کیونکہ اس وقت میری عمر دو اڑھائی سال کی تھی.(اب دیکھیں اس عمر میں بھی بعض باتیں جو یاد ہیں عموماً یاد نہیں رہتیں لیکن آپ وہ باتیں بھی بیان کر رہے ہیں.فرماتے ہیں کہ ) صرف ایک واقعہ یاد ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جس مکان میں رہتے تھے وہ سڑک کے سر پر تھا اور سیدھی سڑک تھی.میں اپنے مکان سے باہر آیا تو ایک چھوٹا سا لڑکا دوسری طرف سے آرہا تھا.اس نے میرے پاس آکر ایک مری ہوئی چھپکلی مجھ پر پھینکی.میں اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ روتا ہو اگھر کی طرف بھاگا.اس بازار کا نقشہ مجھے یاد ہے.وہ سیدھا بازار ہے گواب میں نہیں جانتا کہ وہ کونسا تھا.ہمارا مکان ایک سرے پر تھا.تو میں نے کئی ماہ اپنے بچپن کی عمر کے یہاں گزارے ہیں.پس اس شہر کا کئی رنگ میں احمدیت کے ساتھ تعلق.ہے.(ماخوذ از اہالیان لدھیانہ سے خطاب.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 257 تا 259) حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس شہر کی بڑی خصوصیت ہے جیسا کہ بیان کی ہوئی باتوں سے ظاہر ہے.لیکن فرماتے ہیں کہ میں سوچ رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جن باتوں کا اعلان کیا جاتا ہے ان کی مخالفت لوگ ضرور کرتے ہیں اور پیشگوئی مصلح موعود کا اعلان کیا گیا تھا.لاہور میں لدھیانہ سے پہلے جلسہ ہو گیا تھا، ہوشیار پور میں ہو گیا تھا لیکن مخالفت نہیں ہوئی تھی.تو فرماتے ہیں کہ باوجود میرے اس اعلان کے بعد کہ یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے، میرے پر مخالفت نہیں ہوئی تھی.معلوم نہیں کسی نے مخالفت کیوں نہیں کی.لیکن لدھیا نہ آئے.کہتے ہیں یہاں آ کر جب میں شہر میں سے گز رر ہا تھا تو لوگوں کا جلوس نعرے لگا تا ہوا
خطبات مسرور جلد 13 458 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء گزر رہا تھا کہ نعوذ باللہ مرزا مر گیا، مرزا مر گیا.تو بہر حال ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھلانے کی وجہ سے یہ استہزاء کیا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری چمک کے ساتھ پوری ہوئی ہے.آگے حضرت مصلح موعودؓ نے یہ دعا بھی کی ہے کہ اللہ کرے کہ لدھیانہ کے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق بھی عطا ہو اور آج جو مخالفت میں نعرے لگارہے ہیں کل حق میں نعرے لگانے والے ہوں.(ماخوذ از اہالیان لدھیانہ سے خطاب.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 260) آپ کے ایک صحابی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی کے عشق اور تعلق کا ذکر کرتے ہوئے آپ ( حضرت مصلح موعود ) بیان فرماتے ہیں کہ میاں عبد اللہ صاحب سنوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے اندر ایسا ہی عشق رکھتے تھے.ایک دفعہ وہ قادیان میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان سے کوئی کام لے رہے تھے.اس لئے جب میاں عبداللہ صاحب سنوری کی چھٹی ختم ہو گئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جانے کے لئے اجازت طلب کی تو حضور نے فرمایا ابھی ٹھہر جاؤ.چنانچہ انہوں نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھجوادی مگر محکمے کی طرف سے جواب آیا کہ اور چھٹی نہیں مل سکتی.انہوں نے اس امر کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا تو آپ نے پھر فرمایا کہ ابھی ٹھہرو.چنانچہ انہوں نے لکھ دیا کہ میں ابھی نہیں آسکتا.اس پر محکمے والوں نے انہیں dismiss کر دیا.(سرکاری محکمہ تھا) چار یا چھ مہینے جتنا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں رہنے کے لئے کہا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے.پھر جب واپس آ گئے تو محکمے نے یہ سوال اٹھا دیا کہ جس افسر نے انہیں dismiss کیا تھا اس افسر کا یہ حق ہی نہیں تھا کہ وہ انہیں dismiss کرتا.چنانچہ وہ پھر اپنی جگہ پر بحال کئے گئے اور پچھلے مہینوں کی جو قادیان میں گزار گئے تھے تنخواہ بھی مل گئی.اسی طرح ایک اور مثال آپ نے دی.منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے ساتھ واقعہ پیش آیا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں ڈلہوزی کا سفر کر رہا تھا.کل رستے میں مجھے میاں عطاء اللہ صاحب وکیل نے یہ سنایا.یہ واقعہ الحکم میں بھی 1934ء میں پہلے چھپ چکا ہے.(حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ) اس لئے میں منشی صاحب کے اپنے الفاظ میں اسے بیان کر دیتا ہوں.کہتے ہیں کہ میں جب سررشتہ دار ہو گیا اور پیشی میں کام کرتا تھا تو ایک دفعہ مسلیں وغیرہ بند کر کے قادیان چلا آیا.
خطبات مسرور جلد 13 459 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء تیسرے دن میں نے اجازت چاہی تو ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ابھی ٹھہریں.پھر عرض کرنا مناسب نہ سمجھا کہ آپ ہی فرمائیں گے.اس پر ایک مہینہ گزر گیا.ادھر مسلیں میرے گھر میں تھیں.کام بند ہو گیا اور سخت خطوط آنے لگے.مگر یہاں یہ حالت تھی کہ ان خطوط کے متعلق و ہم بھی نہ آتا تھا.( کہتے ہیں میں سب کچھ بھول گیا.خطوط آتے ہیں آتے رہیں.) حضور کی صحبت میں ایک ایسا لطف اور محویت تھی کہ نہ نوکری کے جانے کا خیال تھا اور نہ ہی کسی باز پرسی کا اندیشہ.آخر ایک نہایت ہی سخت خط وہاں سے آیا.کہتے ہیں میں نے وہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے رکھ دیا.آپ نے پڑھا اور فرما یا لکھ دو ہمارا آنا نہیں ہوتا.( ہم نہیں ابھی آسکتے.) میں نے وہی فقرہ لکھ دیا.اس پر ایک مہینہ اور گزر گیا تو ایک دن فرما یا کتنے دن ہو گئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ ہی گننے لگے اور فرمایا اچھا آپ چلے جائیں.میں چلا گیا اور کپورتھلہ پہنچ کر لالہ ہر چند داس مجسٹریٹ کے مکان پر گیا.( مجسٹریٹ کی عدالت میں ہی ملازمت تھی ) تا کہ معلوم کروں کہ کیا فیصلہ ہوتا ہے.( نوکری میں رکھنا ہے، نکال دیا ہے، جرمانہ کرنا ہے، کیا ہوا؟ جب ان کے گھر گیا تو ) انہوں نے کہا منشی جی آپ کو مرزا صاحب نے نہیں آنے دیا ہوگا.( یہی بات مجسٹریٹ نے کی ) میں نے کہا ہاں.تو مجسٹریٹ صاحب کہنے لگے ان کا حکم مقدم ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا.) تو حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میاں عطاء اللہ صاحب کی روایت میں اس قدر زیادہ ہے کہ منشی صاحب مرحوم نے فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لکھ دو کہ ہم نہیں آ سکتے تو میں نے وہی الفاظ لکھ کر مجسٹریٹ کو بھجوا دیئے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایک گروہ تھا جس نے عشق کا ایسا اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھایا کہ ہماری آنکھیں اپنی پچھلی جماعتوں کے آگے نیچی نہیں ہوسکتیں.ہماری جماعت کے دوستوں میں کتنی ہی کمزوریاں ہوں، کتنی ہی غفلتیں ہوں لیکن اگر حضرت موسیٰ کے صحابی ہمارے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں تو ہم ان کے سامنے اس گروہ کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں.اسی طرح عیسی کے صحابی اگر قیامت کے دن اپنے اعلیٰ کارنامے پیش کریں تو ہم فخر کے ساتھ ان کے سامنے اپنے ان صحابہ کو پیش کر سکتے ہیں.اور یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میری امت اور مہدی کی امت میں کیا فرق ہے تو در حقیقت ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے فرمایا ہے.یہ وہ لوگ تھے جو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خطبات مسرور جلد 13 460 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی طرح ہر قسم کی قربانیاں کرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی دیکھ لو.ان کو خدا نے چونکہ خود جماعت میں ایک ممتاز مقام بخش دیا ہے اس لئے میں نے ان کا نام نہیں لیاور نہ ان کی قربانیوں کے واقعات بھی حیرت انگیز ہیں.آپ جب قادیان میں آئے تو اس وقت بھیرہ میں آپ کی پریکٹس جاری تھی ، مطب کھلا تھا اور کام بڑے وسیع پیمانے پر جاری تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب آپ نے واپس جانے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا کیا جانا ہے، آپ اسی جگہ رہیں.پھر حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود اسباب لینے کے لئے بھی نہیں گئے.(اپنا سامان لینے نہیں گئے ) بلکہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر بھیرہ سے اپنا اسباب منگوایا.یہی وہ قربانیاں ہیں جو جماعتوں کو خدا تعالیٰ کے حضور ممتاز کیا کرتی ہیں اور یہی وہ مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر شخص کو جدو جہد کرنی چاہئے.خالی فلسفیانہ ایمان انسان کے کسی کام نہیں آسکتا.انسان کے کام آنے والا وہی ایمان ہے جس میں عشق اور محبت کی چاشنی ہو.فلسفی اپنی محبت کے کتنے ہی دعوے کرے ایک دلیل بازی سے زیادہ ان کی وقعت نہیں ہوتی کیونکہ اس نے صداقت کو دل کی آنکھ سے نہیں بلکہ محض عقل کی آنکھ سے دیکھا ہوتا ہے.مگر وہ جو عقل کی آنکھ سے نہیں بلکہ دل کی نگاہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی صداقت اور شعائر اللہ کو پہچان لیتا ہے اسے کوئی شخص دھو کہ نہیں دے سکتا.اس لئے کہ دماغ کی طرف سے فلسفہ کا ہاتھ اٹھتا ہے اور دل کی طرف سے عشق کا ہاتھ اٹھتا ہے.(ماخوذاز الفضل 28 اگست 1941 ء صفحہ 7-6 جلد 29 نمبر 196 ) اللہ تعالیٰ ہمیں دل کی آنکھ سے زمانے کے امام کو پہچاننے اور اس پر ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیشہ ہم شعائر اللہ کو پہچاننے والے ہوں اور کبھی شیطان ہمیں دھوکہ نہ دے سکے.نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ایک ہمارے درویش بھائی کا ہے.مکرم مولوی خورشید احمد صاحب پر بھا کر ابن مکرم چوہدری نواب الدین صاحب.28 جولائی 2015 ء کو 94 سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ لائلپور کے ( یہ آجکل فیصل آباد کہلاتا ہے ) اس کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے.پیدائشی احمدی تھے.1936ء میں پندرہ سال کی عمر میں پہلی بار قادیان کی زیارت کے لئے آئے اور مسجد مبارک کی چھت پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ
خطبات مسرور جلد 13 461 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء تعالیٰ عنہ کی ایک مجلس سوال و جواب میں شامل ہوئے.واپسی کا کرایہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے قادیان سے امرتسر اور وہاں سے لاہور تک قریباً 95 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل کیا.19 سال کی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہو گئے.1937ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ تحریک جدید کی شمولیت کی میعاد دسمبر 1936ء میں ختم ہو چکی ہے.میں اُس وقت طالبعلم تھا.اب مجھے کچھ آمد ہے.مجھے بھی استثنائی طور پر تحریک جدید میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو اور ان تمام بیروز گار طلباء کو جو برسر روزگار ہو گئے تھے اجازت مرحمت فرمائی.پھر مولوی خورشید احمد صاحب پر بھا کر نے سندھ میں بھی جماعتی زمینوں پر کام کیا.1947 ء کے شروع میں زندگی وقف کر کے قادیان پہنچ گئے.اسی سال ہندوستان تقسیم ہوا جس کے نتیجہ میں درویشی کی سعادت نصیب ہوئی.دور درویشی کو انتہائی صبر اور شکر اور وفا کے ساتھ نبھایا.دیہاتی مبلغ کے طور پر بھارت کے صوبہ یوپی میں دعوت و تبلیغ کا کام بہت اچھے رنگ میں کیا.میدان تبلیغ سے واپس قادیان آنے کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمد یہ قادیان میں بطور استاد خدمت کی توفیق پائی.نظارت دعوت تبلیغ کے تحت تین سال تک ہندی کی تعلیم حاصل کی اور رتن، بھوشن اور پر بھا کر ہندی کی تین ڈگریاں حاصل کیں.وید ، بائبل، گیتا، گرو گرنتھ صاحب کا اچھا مطالعہ رکھتے تھے.ہندوازم ،سکھ ازم اور عیسائی ازم پر تحقیقی مضامین لکھتے رہے اور قرآن کریم کا ہندی ترجمہ کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی.ہفت روزہ اخبار بدر قادیان میں آپ کے مضامین اس وقت سے طبع ہونے شروع ہوئے جب 1952ء میں تقسیم ملک کے بعد اخبار دوبارہ جاری ہوا اور یہ سلسلہ 2013 ء تک جاری رہا.گویا یہ سلسلہ مضامین ساٹھ سال پر محیط ہے.اس کے علاوہ سلسلے کے دیگر رسائل جن میں مشکوۃ ، راہ ایمان شامل ہیں ان میں بھی وقتاً فوقتاً آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے.نیز دیگر ملکی اخبارات میں بھی آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے جن میں روز نامہ ہند سماچار، ملاپ اور کشمیر کے اخبارات شامل ہیں.مرحوم کا ایک کتا بچہ حکومت وقت اور احمدی مسلمان 1963ء میں نظارت دعوت و تبلیغ کے تحت شائع ہوا اور بہت مقبول ہوا.آپ کے مضامین اور نظمیں بڑی اعلیٰ پائے کی ہوتی تھیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” نے بھی ان کی بڑی تعریف کی اور واقعی پڑھنے میں پتا لگتا تھا کہ دل سے نکل رہی ہے.علمی مضامین ہوتے تھے.آپ بہت خود دار انسان تھے.کبھی کسی کا محتاج بننا پسند
خطبات مسرور جلد 13 462 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جولائی 2015ء نہیں کیا.اپنا کام خود کرتے رہے.علمی کاموں کے ساتھ ساتھ بچوں کو ساتھ لے کر زمینداری اور مویشیوں کے پالنے کا کام بھی جاری رکھا اور صاحب جائیداد ہوکر بچوں کے لئے ذاتی رہائش کا انتظام کر کے جماعتی مکان انجمن کو واپس کر دیا.یہ ان کا بہت بڑا نمونہ ہے.سخت بیماری کے ایام میں بھی با قاعدگی سے مسجد میں نماز ادا کرتے رہے.موصوف کو سچی خوا ہیں آتی تھیں جو آپ خلفاء کرام کو لکھتے اور بھیجتے رہے.وفات سے ایک ماہ قبل اپنے چھوٹے بیٹے ابراہیم کو اپنی وفات کا بتا دیا تھا اور پھر ایک ہفتہ قبل یاددہانی بھی کروائی.آپ کی دو شادیاں ہوئیں.پہلی شادی محترمہ عالم بی بی صاحبہ سے 1944ء میں ہوئی جن سے آپ کا ایک بیٹا منیر احمد پاکستان میں ہے.دوسری شادی 1956ء میں عائشہ بیگم صاحبہ بنت عبدالرزاق صاحب آف ہیلی کرناٹک سے ہوئی جن سے اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں.ان کے بیٹوں میں اسرائیل احمد ، کرشن احمد، ابراہیم احمد اور داماد شکیل احمد اور محمود احمد صاحب سلسلے کی خدمت کی توفیق پارہے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولادوں کو اور نسلوں کو بھی خلافت سے اور جماعت سے وابستہ رہنے کی ہمیشہ تو فیق عطا فرما تار ہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 21 اگست 2015ء تا 03 ستمبر 2015 ، جلد 22 شماره 34-35 صفحه 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 463 32 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء وراحمد خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفتہ السیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده مورخه 07 اگست 2015 ء بمطابق 07 ظہور 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے واقعات پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو ان کی نیک فطرت، ان کی صداقت کی پہچان کے لئے تڑپ، ان کی جان مال قربان کرنے کے لئے تڑپ اور کوشش اور ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق و محبت کے اپنے اپنے ذوق اور سمجھ کے مطابق معیار اور اس کا اظہار نظر آتا ہے.غرضیکہ یہ وہ آخرین تھے جو پہلوں سے ملنے کے لئے اپنے اپنے رنگ میں حق ادا کرنے والے بننے کے لئے کوشش کرنے والے تھے.ہر ایک کا اپنا انداز تھا اور ان کو دیکھنے والوں اور ان سے قریبی تعلق والوں نے بھی ان صحابہ کے ہر انداز اور اخلاق وکردار سے اپنے اپنے رنگ میں نصیحت حاصل کی یا بعض باتوں سے نتائج اخذ کئے.صحابہ حضرت مسیح موعود کا آپ سے عشق و محبت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو خود بھی صحابہ میں سے تھے اور تقریباً تمام صحابہ سے یا جن کے واقعات آپ بیان فرماتے ہیں ان سے آپ کا ذاتی تعلق بھی تھا.آپ جب صحابہ کے حوالے سے بات کر کے ان سے نتائج اخذ کر کے نصیحت کرتے ہیں تو ان نصائح کا دل پر ایک خاص اثر بھی ہوتا ہے.بعض دفعہ ہم کسی واقعہ سے ایک پہلو لیتے ہیں لیکن جب غور کریں تو مختلف پہلو سامنے نظر آتے ہیں اور ایک ہی واقعہ مختلف رنگ میں نصیحت بن جاتا ہے.مثلاً مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کا واقعہ ہے.ان کی بیعت کا جو واقعہ تھا اس کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے رنگ میں بیان فرمایا ہے.مولوی برہان الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو پہلی دفعہ ملاقات کی ہے وہ بھی
خطبات مسرور جلد 13 464 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ایک لطیفہ ہی ہے.کہتے تھے کہ میں قادیان میں آیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے اس لئے وہاں گیا.جس مکان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرے ہوئے تھے اس کے ایک طرف باغ تھا.حامد علی ( مرحوم ) دروازے پر بیٹھا تھا.( یہ وہ بیان کرتے ہیں ) تو اس نے مجھے ( یعنی مولوی صاحب کو اندر جانے کی اجازت نہ دی.مگر وہ کہتے ہیں کہ میں چُھپ کر دروازے تک پہنچ گیا.آہستگی سے دروازہ کھول کر جو دیکھا تو حضرت صاحب ٹہل رہے تھے اور جلدی جلدی لمبے لمبے قدم اٹھاتے تھے.(یہ واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ ہم سن چکے ہیں.حضرت مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ) میں جھٹ پیچھے کو مڑا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص صادق ہے جو جلدی جلدی ٹہل رہا ہے ضرور اس نے کسی دُور کی منزل پر ہی پہنچنا ہے تبھی تو یہ جلدی جلدی چل رہا ہے.1 ( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) وہابی ہوکر ( حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی وہابی تھے ) مولوی صاحب کا اس قسم کا خیال کرنا عجیب ہی بات ہے ورنہ عموماً یہ لوگ خشک ہوتے ہیں.( یعنی وہابی لوگ عموماً خشک ہوتے ہیں.شدت پسند ہی ہوتے ہیں.) (ماخوذ از الفضل 17 را پریل 1922 ءصفحہ 6 جلد 9 نمبر 81 ) اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی صاحب کو صداقت کی پہچان کروانی تھی تو نہ ان کو کسی قرآنی دلیل کے سمجھنے کا خیال آیا، نہ کسی حدیث کی دلیل کے سمجھنے کا ، نہ کسی اور قسم کی دلیل کا خیال آیا.وہابی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بڑی شدت سے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ وحی و الہام کے دروازے بند ہو گئے ہیں.پھر ایسے خیالات بھی ہیں کہ نعوذ باللہ نبی یا ولی کو ہم پر کیا فضیلت ہے.جس طرح ہم ہیں، جس طرح باقی لوگ ہیں اسی طرح نبی بھی انسان ہے، ولی بھی انسان ہے.میں مختصر بیان بھی کر دوں شاید بعضوں کو نہ پتا ہو.ان کے اس غلط تصور کورڈ کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ”انبیاء علیہم السلام کا وجود بھی ایک بارش ہوتی ہے.وہ اعلیٰ درجہ کا روشن وجود ہوتا ہے.خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے.دنیا کے لئے اس میں برکات ہوتے ہیں.اپنے جیسا سمجھ لینا ( یعنی وہابیوں کا یہ خیال کہ وہ ہمارے جیسے ہی ہوتے ہیں.انسان ہیں) ظلم ہے.اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے.(ملفوظات جلد 5 صفحہ 213 حاشیہ ) اب یہ خاص چیز ہے کہ انبیاء اور اولیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے.بہر حال دیگر مستند تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس وقت ہوشیار پور میں تشریف فرما تھے.خطبات محمود میں گورداسپورلکھا ہوا ہے جو کہ ہو کتابت معلوم ہوتا ہے.خطبات محمود جلد 2 ص 383 میں یہی واقعہ بیان ہوا ہے وہاں ہوشیار پور ہی لکھا ہوا ہے.مرتب سید مبشر احمد ایاز 66
خطبات مسرور جلد 13 465 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء حضرت مولوی برہان الدین صاحب کی نیک فطرت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تیز چلنے کو ہی صداقت کا نشان سمجھ لیا.اللہ تعالیٰ کے خاص پیار کی نظر تھی جو حضرت مولوی صاحب پر پڑی ور نہ تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دلائل سن کر ، نشان دیکھ کر پھر بھی نہیں مانتے.یہ بھی درست نہیں کہ ہم یہ کہہ دیں کہ سارے وہابی سخت دل ہو گئے ہیں یا ہوتے ہیں.افریقہ میں ہزاروں ایسے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے قائل ہوئے اور آپ کی بیعت میں آئے.وحی والہام کی ہر وقت ضرورت کا ان لوگوں کو احساس ہوا اور یہ بھی پتا چلا کہ اولیاء اور انبیاء بارش کی طرح ہیں جن کے آنے سے زمین سرسبز و شاداب ہوتی ہے.پس روحانی سرسبزی کے لئے الہام کا جاری رہنا بھی ضروری ہے.پھر آپ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جو حضرت سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کے اخلاص اور قربانی کا ہے.سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں احمدی ہوئے.ان میں بڑا اخلاص تھا اور خوب تبلیغ کرنے والے تھے.ان کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بڑے درد سے سنایا کرتے تھے.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) اور مجھے بھی جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو ان کے لئے دعا کی تحریک ہوتی ہے.ابتداء میں ان کی مالی حالت بڑی اچھی تھی اور اس وقت وہ دین کے لئے بڑی قربانی کرتے تھے.تین سو، چارسو، پانچ سوروپیہ تک ماہوار چندہ بھیجتے تھے.خدا کی قدرت وہ بعض کام غلط کر بیٹھے ( یعنی تجارتی لحاظ سے انہوں نے غلط کام کئے.اور جو فیصلے تھے وہ غلط کئے ) اور اس وجہ سے ان کی تجارت بالکل تباہ ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام انہیں کے متعلق ہوا تھا کہ قادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے بنا بنا یا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے جب یہ الہام ہوا تو پہلے مصرعہ کی طرف ہی خیال گیا اور قادر ہے وہ بارگاہ جوٹوٹا کام بناوے سے یہ سمجھا گیا کہ سیٹھ صاحب کا کاروبار پھر درست ہو جائے گا اور دوسرے مصرعہ بنا بنایا تو ڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے، کی طرف (کسی کا) ذہن نہ گیا کہ پہلے کام بن کر اور پھر بگڑ بھی جائے گا.بلکہ اسے ایک عام اصول سمجھا گیا.سیٹھ صاحب کے کاروبار کو دھکا لگنے کے بعد دو تین سال حالت اچھی ہوگئی.( جب یہ الہام ہوا اس کے بعد کاروبار پھر چمک اٹھا.حالت اچھی ہو گئی مگر پھر (دوبارہ ) خراب ہو گئی اور یہاں تک حالت پہنچ گئی کہ بعض
خطبات مسرور جلد 13 466 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء اوقات کھانے پینے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ نہ ہوتا.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عجیب محبت کے رنگ میں ان کا ذکر کیا.فرمایا سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب کا اخلاص کتنا بڑھا ہوا تھا.پانچ سو روپے کی رقم تھی جو انہوں نے اس موقع پر بھیجی تھی.کوئی رقم آئی تھی اس کو دیکھ کر ذکر ہوا تھا ) کسی دوست نے ان کی مشکلات کو دیکھ کر دو تین ہزار روپیہ انہیں دیا کہ کوئی تجارتی کام شروع کر دیں یا برتنوں کی دکان کھولیں.اس میں سے پانچ سو روپیہا انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوبھجوادیا اور لکھا کہ مدت سے میں چندہ نہیں بھیج سکا.اب میری غیرت نے برداشت نہ کیا کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے ایک رقم بھجوائی ہے تو میں اس میں سے دین کے لئے کچھ نہ دوں.غرض خدمت دین کے لئے ان کا اخلاص بہت بڑھا ہوا تھا.“ (خطبات محمود جلد 3 صفحہ 542) پھر ان کے بارے میں مزید ایک جگہ تفصیل بیان کرتے ہوئے کہ ان کو اپنی مالی قربانی کا دردکس قدر تھا یعنی کس قدر درد سے قربانی کیا کرتے تھے اور نہ کرنے پر کس قدر بے چین ہوتے تھے.ان کی کیا حالت ہوتی تھی؟ اور اس کا اظہار وہ دوسرے سے بھی کس طرح کیا کرتے تھے ؟ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ جب ان کی مالی حالت بہت خراب ہو گئی جیسا کہ ذکر ہوا کہ بعض دفعہ کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور بعض دوست ان کی مدد کرتے تھے.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ایک غیر احمدی کا منی آرڈر آیا جس نے لکھا تھا کہ سیٹھ عبدالرحمن میرے بڑے دوست تھے مجھے ان پر بہت حسن ظنی ہے اور ان کو بزرگ سمجھتا ہوں اور ان کا عقیدت مند ہوں.( یہ غیر احمدی لکھتے ہیں کہ) ایک روز میں نے ان کو بہت افسردہ دیکھا ( سیٹھ صاحب کو) اور اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ جب میرے پاس روپیہ تھا تو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں دین کے لئے بھیجا کرتا تھا مگر اب نہیں بھیج سکتا.( یہ غیر احمدی کہتے ہیں کہ ) ان کی اس بات کا میری طبیعت پر بڑا اثر ہوا اور میں نے نذر مانی ہے کہ میں آپ کو دو یا تین سور و پیہ ماہوار بھیجا کروں گا.چنانچہ اس غیر احمدی نے آپ کو روپیہ بھیجنا شروع کر دیا.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ) ایک دفعہ سیٹھ صاحب کی طرف سے ایک منی آرڈر آیا جو شاید تین یا چارسوکا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو فرمایا.یہ منی آرڈر سیٹھ صاحب کا ہے ان کی مالی حالت تو بڑی خطرناک ہے.(پھر کس طرح بھیج دیا ہے؟ بعد میں ان کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ مجھ پر کچھ قرض ہو گیا تھا جسے اتارنے کے لئے میں نے اپنے دوست سے کچھ روپیہ لیا.پھر مجھے خیال آیا
خطبات مسرور جلد 13 467 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء کہ کچھ آپ کو بھی بھیج دوں.چنانچہ کچھ تو قرض اتار دیا اور کچھ آپ کو بھیج رہا ہوں“.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 23 صفحہ 402) تو یہ ان کا اخلاص اور وفا اور قربانی کا جذبہ تھا.پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہ کس طرح آپ کے دعوے کے بعد کہ آپ مسیح موعود ہیں اور اس لحاظ سے نبی اور رسول بھی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کو یہ مقام ملا ہے، نہ کہ اپنی کسی قابلیت کی وجہ سے پھر بھی مسلمانوں کی اکثریت آپ کے خلاف ہو گئی.اب تک ہم یہی نظارہ دیکھتے ہیں.پھر حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ آپ نے تمام مذاہب کو جو چیلنج کیا تو اس کی وجہ سے عیسائی بھی اور ہندو بھی آپ کے خلاف ہو گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تذلیل کی بڑی کوششیں کی گئیں.آپ پر مقدمات قائم کئے گئے حتی کہ متواتر تین ماہ تک عام سرکاری رخصتوں کے علاوہ برابر روزانہ کئی کئی گھنٹے آپ کو عدالت میں کھڑا رہنا پڑتا.ایک دن مجسٹریٹ نے اپنی دشمنی کی وجہ سے آپ کو پانی تک پینے کی اجازت نہیں دی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم آج ان باتوں کو بھول گئے ہیں مگر اس زمانے کے مخلصین کے لئے یہ ایک بہت بڑا ابتلاء تھا.وہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ سنتے تھے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور تیرے نہ ماننے والے دنیا میں ادنی اقوام کی طرح رہ جائیں گے.مگر دوسری طرف دیکھتے تھے کہ ایک معمولی چار پانچ سو تنخواہ لینے والا ہندو مجسٹریٹ آپ کو کھڑا رکھتا ہے اور پانی تک پینے کی اجازت نہیں دیتا.حتی کہ آپ کا کھڑے کھڑے سر چکرا جاتا اور پاؤں تھک جاتے.کمزور ایمان والے حیران ہوتے ہوں گے کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے اس قدر وعدے ہیں.غرضیکہ یہ بھی ابتلاء تھے.بعض کے لئے اس لحاظ سے کہ یہ کتنی بیچارگی ہے اور بعض کے لئے اس لحاظ سے کہ وہ اپنے ایمان کا یہی اقتضاء سمجھتے تھے.ان کے ایمان کا تقاضا یہی تھا کہ ایسے مخالفین کو مار ہی ڈالیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے وہ نظارہ یاد ہے جس دن ایک کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا کہ ہماری جماعت میں ایک دوست تھے جن کو پروفیسر کہا جاتا تھا.پہلے جب وہ احمدی نہیں تھے تو تاش وغیرہ کے کھیل بڑے اعلیٰ پیمانے پر کھیلا کرتے تھے یعنی جو کھیلتے تھے.اچھے ہو شیار آدمی تھے اور اسی طرح تاش کے کھیل سے چار پانچ سو روپیہ ماہوار کما لیتے تھے.مگر احمدی ہونے پر انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا.( یہ بھی احمدیوں کے لئے ایک
خطبات مسرور جلد 13 468 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء نصیحت ہے.اگر پہلے جوا کی عادت تھی تو احمدی ہونے پر یہ کام چھوڑ دیا) اور معمولی دکان کر لی تھی.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق تھا اور اس وجہ سے غربت کو بڑے اخلاص سے برداشت کرتے تھے.ان کے اخلاص کی ایک مثال حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں میں سناتا ہوں کہ انہوں نے لاہور میں جا کر کوئی دکان کی.جو گا ہک آتے انہیں تبلیغ کرتے ہوئے لڑ پڑتے.اگر گاہک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کوئی ایسی بات کر دیتا تولڑ پڑتے.ایک دن خواجہ کمال الدین صاحب نے آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شکایت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محبت سے انہیں کہا کہ پروفیسر صاحب ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ نرمی اختیار کرو.خدا تعالیٰ کی یہی تعلیم.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھاتے جاتے تھے اور پروفیسر صاحب کا چہرہ سرخ ہوتا جاتا تھا.ادب کی وجہ سے وہ بیچ میں تو نہ بولے مگر سب کچھ سن کر یہ کہنے لگے کہ میں اس نصیحت کو نہیں مان سکتا.پھر کہنے لگے کہ آپ کے پیر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی ایک لفظ بھی کہے تو آپ مباہلے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور کتابیں لکھ دیتے ہیں مگر ہمیں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پیر کو اگر گالیاں دیں تو چپ رہیں.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) بظاہر یہ بے ادبی تھی مگر اس سے ان کے عشق کا پتا ضرور لگ سکتا ہے.( بہر حال مقدمے کا ذکر ہو رہا تھا جس دن مجسٹریٹ نے فیصلہ سنانا تھا ) جب فیصلہ سنانے کا وقت آیا تو لوگوں کو یقین تھا کہ مجسٹریٹ ضرور سزا دے دے گا اور بعید نہیں کہ قید کی ہی سزا دے.ادھر جو احمدی مخلصین تھے ان کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا.اس دن عدالت کی طرف سے بھی زیادہ احتیاط کی گئی تھی.پہرہ بھی زیادہ تھا ( یعنی پولیس بہت زیادہ تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( عدالت کے ) اندر تشریف لے گئے تو دوستوں نے پروفیسر صاحب کو باہر روک لیا کیونکہ ان کی طبیعت تیز تھی.پروفیسر صاحب نے ایک بڑا سا پتھر ایک درخت کے نیچے چھپا کر رکھا ہوا تھا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک دیوانہ چیخ مارتا ہے زار زار روتے ہوئے دفعتہ وہ درخت کی طرف بھاگے اور وہاں سے پتھر اٹھا کر بے تحاشا عدالت کی طرف دوڑے اور اگر جماعت کے لوگ راستہ میں نہ روکتے تو وہ مجسٹریٹ کا سر پھوڑ دیتے.انہوں نے خیال کر لیا کہ مجسٹریٹ ضرور سزا دے دے گا اور اسی خیال کے اثر کے ماتحت وہ اسے مارنے کے لئے آمادہ ہو گئے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 66-67)
خطبات مسرور جلد 13 469 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء پس ایسے حالات میں بعض لوگوں کے ایسے رد عمل ہوتے ہیں.کمزور ایمان والے مرتد ہو جاتے ہیں.(جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ ایسی ہی حالت تھی اور مخلصین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے لیکن بہت زیادہ جذباتی رنگ رکھنے والے جیسا کہ پروفیسر صاحب تھے تھوڑے سے جذباتی بھی اور غصیلے بھی اور وہ ایسی سوچ رکھنے والے خود بدلہ لینے کی بھی سوچ لیتے ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو تعلیم ہے اور تربیت ہے جو ہمارے لئے اسوہ ہے اور ایک لائحہ عمل ہے اسے ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے ہمیشہ صبر اور حو صلے سے کام لینا ہے.آج بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں.انجام کار تو انشاء اللہ تعالیٰ وہی ہوتا ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور صبر اور دعا سے کام لینے والے انشاء اللہ اس کے نظارے بھی دیکھیں گے.بعض دنوں کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ کوئی دن اچھا ہے کوئی منحوس ہے.کسی دن سفر کرو کسی میں نہ کرو.بعض لوگ سوال کرتے رہتے ہیں، مجھ سے بھی پوچھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ بھی بعض دفعہ پیش کر دیا جاتا ہے یا حضرت ا تاں جان" کا حوالہ پیش کر دیا جاتا ہے.حضرت اماں جان کا حوالہ یہ تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا کہ منگل والے دن یا بعض اور دنوں میں انہوں نے مجھے سفر کرنے سے روکا.ان کی کوئی خواب تھی یا وہم تھا تو وہ اس کا تقاضا تھا جس کی وجہ سے حضرت مصلح موعود نے لکھا ہے.اصل میں تو دن کی کوئی اہمیت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بھی آپ نے اس کی ایک وضاحت فرمائی ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے کسی نے کہا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے کسی دن کو منحوس کہا ہے.کہنے والے نے حضرت مصلح موعودؓ کو کہا کہ آپ ہی نے تو کسی تقریب میں کہا تھا کہ منگل کے دن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شاید کوئی الہام ہوا تھا یا کوئی اور وجہ تھی کہ آپ اسے ناپسند فرمایا کرتے تھے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے تو ایک روایت کی تشریح کی تھی یہ تو نہیں کہا تھا کہ منگل کا دن منحوس ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ایک ایسی روایت منسوب کی جاتی ہے.اس لئے میں نے بتایا تھا کہ اگر اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے کہ شاید منگل کے دن سے آپ کو اس لئے تخویف کرائی گئی ہو کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی.مگر بعض لوگوں نے اس مخصوص بات کو جو محض آپ کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی وسیع کر کے اسے ایک قانون بنالیا اور منگل کی نحوست کے قائل ہو گئے.حالانکہ جو چیز خدا کی طرف سے ہواس کو نحوست قرار دینا بڑی بھاری نادانی ہوتی ہے.
خطبات مسرور جلد 13 470 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء باقی رہی وہ روایت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کی جاتی ہے اگر وہ درست ہے تو اس نحوست سے مراد صرف وہ نحوست تھی کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی ورنہ جب خدا تعالیٰ نے خود تمام دنوں کو بابرکت کیا ہے اور تمام دنوں میں اپنی صفات کا اظہار کیا ہے تو اس کی موجودگی میں اگر کوئی روایت اس کے خلاف ہمارے سامنے آئے گی تو ہم کہیں گے کہ یہ روایت بیان کرنے والے کو غلطی لگی ہے.ہم ایسی روایت کو تسلیم نہیں کر سکتے اور یا پھر ہم یہ کہیں گے کہ ہر ایک انسان کو بشریت کی وجہ سے بعض دفعہ کسی بات میں وہم ہو جاتا ہے ممکن ہے کہ ایسا ہی کوئی وہم منگل کی کسی دہشت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ہو گیا ہو.مگر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ دن منحوس ہے.ہم اس روایت میں یا تو راوی کو جھوٹا کہیں گے یا پھر یہ کہیں گے کہ شاید بشریت کے تقاضے کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو اس دن کے بارے میں اپنے لئے بیان فرمایا.ورنہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں مسئلے کے طور پر یہی حقیقت ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ سارے کے سارے دن با برکت ہوتے ہیں مگر مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے ایک ایک کر کے دنوں کو منحوس کرنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کامل طور پر نحوست اور ادبار کے نیچے آگئے.(ماخوذاز الفضل 21 ستمبر 1960 ، صفحہ 3-2 جلد 49/14 نمبر 217) بعض لوگ اپنی عاجزی میں ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں.اس کا بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے اور بعض اپنی نظریات کی سختی میں زیادہ شدت اختیار کر لیتے ہیں.یہ مزاج رکھنے والے دو اشخاص تھے جو ا کٹھے ہو گئے.ان کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک شخص حافظ محمد صاحب پشاور کے رہنے والے تھے.قرآن کریم کے حافظ تھے اور سخت جو شیلے احمدی تھے.میرا خیال ہے کہ وہ اہلحدیث میں رہ چکے تھے کیونکہ ان کے خیالات میں بہت زیادہ سختی پائی جاتی تھی.وہ ایک دفعہ جلسے پر آئے ہوئے تھے اور قادیان سے واپس جا رہے تھے کہ راستے میں خدا تعالیٰ کی خشیت کے بارے میں باتیں شروع ہو گئیں.کسی شخص نے کہا کہ اللہ کی شان تو بہت بڑی ہے.ہم لوگ تو بالکل ذلیل اور حقیر ہیں.پتا نہیں کہ خدا ہماری نماز بھی قبول کرتا ہے یا نہیں.ہمارے روزے بھی قبول کرتا ہے یا نہیں.ہماری زکوۃ اور حج بھی قبول کرتا ہے یا نہیں.اس پر ایک دوسرا شخص بولا کہ اللہ تعالیٰ کی بڑی شان ہے.میں تو کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ میں مومن
خطبات مسرور جلد 13 471 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء بھی ہوں یا نہیں.پشاور کے رہنے والے یہ حافظ محمد صاحب ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے.وہ یہ باتیں سنتے ہی اس شخص سے مخاطب ہوئے جس نے یہ کہا تھا پتا نہیں میں مومن بھی ہوں یا نہیں.اور کہنے لگے تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو.کیا یہ سمجھتے ہو کہ تم مومن ہو یا نہیں.اس نے کہا میں تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں مومن ہوں یا نہیں.حافظ صاحب کہنے لگے کہ اچھا اگر یہ بات ہے تو میں نے آج سے تمہارے پیچھے نماز ہی نہیں پڑھنی.باقیوں نے کہا کہ حافظ صاحب اس کی بات ٹھیک ہے ایمان کا مقام تو بہت بلند ہے.کہنے لگے اچھا پھر آج سے تم سب کے پیچھے میری نماز بند.جب تم اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے تو تمہارے پیچھے نماز کس طرح ہو سکتی ہے.غرض دوست پشاور پہنچے اور حافظ صاحب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چھوڑ دی.جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ تم تو اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے.میں تمہارے پیچھے نماز کس طرح پڑھوں.آخر جب فساد زیادہ بڑھ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حافظ صاحب ٹھیک کہتے ہیں (جو انہوں نے کہا تھا ناں کہ تم کہتے ہو میں مومن نہیں ).مگر صرف یہی نہیں کہ ٹھیک کہتے ہیں تو نماز نہیں پڑھنی.فرما یا مگر یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی ہی چھوڑ دی کیونکہ انہوں نے کفر نہیں کیا تھا لیکن بات ٹھیک ہے.ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے آپ پر حسن ظنی کرتے.جہاں تک کوشش کا سوال ہے انسان کو فرض ہے کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھے اور نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرے.( حضرت مسیح موعود نے فرمایا ) مگر یہ کہ مومن ہونے سے انکار کر دے یہ غلط طریق ہے.(ماخوذ از تعلق باللہ.انوار العلوم جلد 23 صفحہ 145-144) آجکل گرمیوں میں تو یورپ میں ننگ ہی ننگ نظر آتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو لباس کو زینت بھی قرار دیا ہے اور ہم آجکل معاشرے میں دیکھتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا عریانی کو ہی فیشن سمجھ لیا گیا ہے.اب انتہا یہاں تک ہو گئی ہے کہ گزشتہ دنوں یہ خبر تھی کہ کسی جگہ مسلمان لڑکیوں کا گروپ سائیکل چلا رہا تھا.سائیکل چلاتے ہوئے گرمی محسوس کی تو انہوں نے کپڑے ہی اتار دیئے.گویا اب وہ زمانہ بھی آگیا ہے جب جسم کے بعض حصے اخلاقاً اور طبعاً ننگے رکھنا مسلمانوں کے لئے بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا.کیا کبھی تو وہ زمانہ تھا کہ کم از کم اور خاص طور پر مسلمانوں میں اخلاقا اور طبعاً ایک بہت بڑا طبقہ اس چیز کو معیوب سمجھتا تھا.
خطبات مسرور جلد 13 472 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تو شاید عریانی آج کی نسبت ستر فیصد، اسی فیصد سے بھی کم ہو گی.لیکن اس وقت کے ایک مصور جو تصویریں بناتا تھا، پینٹنگ کرتا تھا اس کا بیان حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ ایک مشہور انگریز مصور نے مضمون لکھا ہے جس میں اس نے عورتوں کو مخاطب کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ آجکل یورپ کی عورتوں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم کو زیادہ سے زیادہ نگا کرتی چلی جاتی ہیں.بہر حال وہ مشہور مصور لکھتا ہے کہ میں ایک مصور کی حیثیت سے عورتوں اور مردوں کے ننگے جسم دیکھنے کا اس قدر عادی ہوں کہ کسی دوسرے کو اس قدر دیکھنے کا کم موقع ملتا ہے.اس لئے میں ایک ماہر فن کی حیثیت سے مشورہ دیتا ہوں کہ ننگا جسم خوبصورتی پیدا نہیں کرتا بلکہ بسا اوقات ایسی عورت مرد کی نگاہ میں بدصورت سمجھی جاتی ہے.اس لئے عورتیں اگر اپنے جسموں کو اس لئے نگا رکھتی ہیں کہ حسن کی تعریف ہو تو بعض دفعہ تعریف کے بجائے نفرت پیدا ہوتی ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایک ماہرفن کی رائے ہے جو یورپ کا رہنے والا ہے اور یہ رائے جو ہے بڑی وزن دار ہے اور بڑی معقول ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 152-153) اسی طرح مرد بھی اپنے عجیب و غریب حلیے بنا لیتے ہیں اور لباس پہنتے ہیں جن سے ان کا وقار بھی ضائع ہوتا ہے اور بدصورتی بھی نمایاں ہوتی ہے.لیکن آجکل تو آزادی کے نام پر چار آدمی اگر جمع ہو کر کوئی اظہار کر دیں تو اس بیہودہ اظہار کو اہمیت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ مجموعی طور سے بداخلاقی اور گراوٹ کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے.آج سے ستر برس پہلے یا اسی برس پہلے یہ ایک مصور کا حق کا اظہار تھا.آج کا مصوّر بھی شاید اپنے اس اظہار کا اظہار نہ کر سکے.ایماندارانہ رائے اور مشورہ نہ دے اور نہ کہ مصور بلکہ کسی میں بھی جرات نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اخلاقی طور پر انحطاط ہوتا چلا جا رہا ہے.خوبصورتی کی پہچان عریانی بنتی جارہی ہے.پس یا درکھنا چاہئے کہ خوبصورتی کی پہچان عریانی یا ظاہری حالت نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہے.اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو صحابہ کی ایک بحث کا ذکر کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے درمیان آپس میں اس بات پر بحث چھڑ گئی.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ خوبصورتی کا پہچاننا آسان نہیں ہے.ہر شخص کی نگاہ حسن کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتی.یہ صرف طبیب ہی
خطبات مسرور جلد 13 473 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء پہچان سکتا ہے کہ کون خوبصورت ہے اور کون بدصورت.مگر مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے تھے کہ یہ کون سی مشکل بات ہے.ہر آنکھ انسانی خوبصورتی کو پہچان سکتی ہے.ظاہری طور پر جب دیکھ لو تو پہچان سکتی ہے.حضرت خلیفہ اول کا نقطۂ نگاہ یہ تھا کہ بیشک ہر نگاہ حسن کو اپنے طور پر پہچان لیتی ہے مگر اس شناخت میں بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور طبیب ہی سمجھ سکتا ہے کہ کون واقعہ میں خوبصورت ہے اور کون محض اوپر سے خوبصورت نظر آ رہا ہے.اسی گفتگو میں حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ کیا آپ کے نزدیک یہاں کوئی مرد خوبصورت بھی ہے.انہوں نے (مولوی عبد الکریم صاحب نے ) ایک نوجوان کا نام لیا جو اتفاقاً اس وقت سامنے آ گیا جب وہ بحث ہو رہی تھی.کہنے لگے میرے خیال میں یہ خوبصورت ہے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ آپ کی نگاہ میں تو یہ خوبصورت ہے مگر دراصل اس کی ہڈیوں میں نقص ہے.شکل دیکھ کے پہچان لیا.پھر آپ نے (حضرت خلیفہ اول نے ) اسے قریب بلایا اور فرمایا میاں ذرا قمیص تو اٹھانا.اس نے قمیص جو اٹھائی تو ٹیڑھی ہڈیوں کی ایک ایسی بھیانک شکل نظر آئی کہ مولوی عبد الکریم صاحب کہنے لگے کہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ اس کے جسم کی بناوٹ میں یہ نقص ہے.میں تو اس کا چہرہ دیکھ کر اسے خوبصورت سمجھتا تھا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 154-155) پس ظاہری حسن بعض دفعہ نظر آتا ہے جو اندر سے حسن نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ نے اگر بعض برائیوں کو ڈھانپنے کے لئے لباس کا حکم دیا ہے تو وہ اس لئے کہ کچھ نہ کچھ انسان کی زینت بنی رہے.اور انسان اسی سے دُور ہٹتا چلا جا رہا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جن کا سحری کے اوقات کے بارے میں اپنا ایک نظریہ تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی کس طرح رہنمائی فرمائی وہ بھی عجیب ہے.فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت میں ایک شخص ہو ا کرتے تھے جسے لوگ فلاسفر کہتے تھے.اب وہ فوت ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے.(فرماتے ہیں کہ ) اسے بات بات میں لطیفے سو جھتے تھے جن میں سے بعض بڑے اچھے ہوا کرتے تھے.فلاسفر ا سے اسی لئے کہتے تھے کہ وہ ہر بات میں ایک نیا نکتہ نکال لیتا تھا.ایک دفعہ روزوں کا ذکر چل پڑا.کہنے لگا کہ انہوں نے ( یعنی مولویوں نے یا فقہ کے ماہرین نے ) یہ محض ایک ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ سحری ذرا دیر سے کھاؤ تو روزہ نہیں ہوتا.بھلا جس نے بارہ گھنٹے فاقہ کیا اس نے پانچ منٹ بعد سحری کھالی تو کیا حرج ہوا.مولوی جھٹ سے فتویٰ
خطبات مسرور جلد 13 474 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء دیتے ہیں کہ اس کا روزہ ضائع ہو گیا.غرض اس نے اس پر خوب بحث کی.صبح وہ گھبرایا ہوا حضرت خلیفہ اول کے پاس آیا.زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی بات ہے مگر چونکہ حضرت خلیفہ اول ہی درس وغیرہ دیا کرتے تھے اس لئے آپ کی مجلس میں بھی لوگ کثرت سے آ جایا کرتے تھے.آتے ہی کہنے لگا کہ آج رات تو مجھے بڑی ڈانٹ پڑی.آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ کہنے لگا کہ رات کو میں بحث کرتا رہا کہ مولویوں نے ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ روزہ دار ذرا سحری دیر سے کھائے تو اس کا روزہ نہیں ہوتا.میں کہتا تھا کہ جس شخص نے بارہ گھنٹے یا چودہ گھنٹے فاقہ کیا ہو وہ اگر پانچ منٹ دیر سے سحری کھاتا ہے تو کیا حرج ہے.اس بحث کے بعد میں سو گیا تو میں نے رویا میں دیکھا کہ ہم نے تانی لگائی ہوئی ہے.فلاسفر جولاہا تھا.اس لئے خواب میں بھی اسے اپنے پیشہ کے مطابق یاد آئی.( رشی، دھا گہ جو کپڑا بنانے کے لئے کھینچتے ہیں تو کہتے ہیں) دونوں طرف میں نے کیلئے گاڑ دیئے اور تانی کو پہلے ایک کیلے سے باندھا اور پھر میں اسے دوسرے کیلے سے باندھنے کے لئے لے چلا.جب کیلے کے قریب پہنچا تو دوانگی ورے سے تانی ختم ہو گئی.میں بار بار کھینچتا کہ کسی طرح اسے کیلے سے باندھ لوں مگر کامیاب نہ ہوسکا اور میں نے سمجھا کہ میرا سارا سوت مٹی میں گر کر تباہ ہو گیا.چنانچہ میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میری مدد کے لئے آؤ.دو انگلیوں کی خاطر میری تانی چلی.(وہ دھاگہ جو تھا خراب ہورہا ہے.اور یہی شور مچاتے مچاتے میری آنکھ کھل گئی.جب میں جا گا تو میں سمجھا کہ اس رؤیا کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھے مسئلہ سمجھایا ہے کہ دو انگلیوں جتنا فاصلہ رہ جانے سے اگر تانی خراب ہو جاتی ہے تو روزے میں تو پانچ منٹ کا فاصلہ کہ رہے ہو.اس کے ہوتے ہوئے کس طرح روزہ قائم رہ سکتا ہے.(ماخوذ از تعلق باللہ.انوار العلوم جلد 23 صفحہ 178-177) انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا.اس نے کہیں نہ کہیں اپنا تعلق جوڑ نا ہوتا ہے.اس کی وضاحت ایک جگہ حضرت مصلح موعود اس طرح فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مجلس میں یہ ذکر ہو رہا تھا کہ کیا کسی نے گندم کی روٹی کھائی ہے ان دنوں لوگ زیادہ تر باجرہ ، جوار اور جو کھاتے تھے.گندم شاذ ہی ملتی تھی اور اگر یہ پتا لگ جاتا کہ کسی کے پاس گندم ہے تو سکھ اس سے چھین لیتے.تمام لوگوں نے کہا ہم نے گندم کی روٹی نہیں کھائی.صرف ایک شخص نے کہا کہ گندم کی روٹی بڑی مزیدار ہوتی ہے.
خطبات مسرور جلد 13 475 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء دوسروں نے پوچھا کیا تم نے گندم کی روٹی کھائی ہے اس نے کہا میں نے کھائی تو نہیں لیکن گندم کی روٹی ایک شخص کو کھاتے دیکھا ہے.کھانے والے چٹخارے لے لے کر کھاتا ہے جس سے میں سمجھا کہ گندم کی روٹی بڑی مزیدار ہوتی ہے.“ الفضل 17 فروری 1955 صفحہ 3 جلد 44/9 نمبر 41) تو ابھی تو یہ ذکر فرما رہے ہیں کہ کھانے کا بعض لوگوں کو بڑا شوق ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ ) بعض لوگ مرغا کھانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی میرے بچپن کے دوست ہیں.انہیں مرغے کی ٹانگ بڑی پسند تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بڑی پسند تھی.اور ایک دوست جو فوت ہو گئے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو ساری عمر مرغے کی ٹانگ ملتی رہے تو اسے اور کیا چاہئے.لیکن بہر حال حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) مجھے پسند نہیں (اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ دانتوں میں کوئی تکلیف تھی.فرمایا کہ) بہر حال بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں کو بہت مرغوب ہوتی ہیں اگر وہ چیزیں انہیں مل جائیں تو وہ بڑے خوش قسمت ہیں.لیکن وہ چیزیں بہت ادنی اور معمولی ہوتی ہیں اور پھر ان چیزوں کے حصول کے لئے بھی اور ہزاروں چیزوں کی احتیاج انسان کو باقی رہتی ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر خدا تعالیٰ پر ہمیں یقین ہوا اور اگر خدا تعالیٰ ہمیں مل سکتا ہو تو پھر قطعی اور یقینی طور پر انسان کہہ سکتا ہے کہ اس کے بعد مجھے کسی اور کی کیا ضرورت ہے.(ماخوذ از تعلق باللہ.انوار العلوم جلد 23 صفحہ 127) خدا تعالیٰ کے ملنے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکثر کسی صوفی کا قول پنجابی میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ یا تو کسی کے دامن سے چمٹ جایا کوئی دامن تجھے ڈھانپ لے.یعنی اس دنیا کی زندگی ایسی طرز پر ہے کہ اس میں سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ یا توتم کسی کے بن جاؤ یا کوئی تمہارا بن جائے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہی طنین “ سے پیدا کرنے کا مفہوم ہے ( کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے جس میں وہ اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے.یعنی انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ یا تو وہ کسی کا ہوکر رہنا چاہتا ہے یا کسی کو اپنا بنا کر رکھنا چاہتا ہے.دیکھ لو بچہ ابھی پوری طرح ہوش بھی نہیں سنبھالتا کہ کسی کے ہو جانے کا شوق اس کے دل میں گدگدیاں پیدا کرنے لگتا ہے.بلوغت تو کئی سالوں کے بعد 66 آتی ہے لیکن چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو دیکھ لو ہ کھیلتی ہیں تو کہتی ہیں کہ میرا گڈا میری گڑیا ، تیری گڑیا.
خطبات مسرور جلد 13 476 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء پھر ان کا آپس میں تعلق، ہمارے معاشرے میں گڈا گڈی کا بیاہ بھی بچے کرتے ہیں.پھر وہ لڑکیاں ماؤں کی نقل کر کے گڑیوں کو اپنی گود میں اٹھائے پھرتی ہیں.انہیں پیار کرتی ہیں جس طرح مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں اور جس طرح وہ ان کو اپنے سینے سے لگائے رکھتی ہیں تو یہ تو ہر معاشرے میں نظر آتا ہے.کیونکہ ان کا دل چاہتا ہے کہ ہم کسی کی ہو جائیں یا کوئی ہمارا ہو جائے.اسی طرح لڑکوں کو دیکھ لو.جب تک ان کا بیاہ نہیں ہوتا ہر وقت ماں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں.بیاہ ہو جاتا ہے تو پھر بیوی.تو اللہ تعالیٰ اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.کہ انسان کی فطرت میں ہم نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی کا ہوکر رہنا چاہتا ہے.(ماخوذ از تعلق باللہ.انوار العلوم جلد 23 صفحہ 137-136 ) اس کے بغیر اس کے دل کو تسلی نہیں ہوتی اور سب سے بہترین طریقہ کسی کا ہونے کا یہ ہے جس سے دین و دنیا دونوں ملتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا ہو جائے اور اس کے لئے کوشش کرے.پھر حضرت مصلح موعود عشق کے معیار اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ گومثال تو ایک پاگل کی ہے پھر ایسے پاگل کی جواب فوت ہو چکا ہے اور گووہ ایک ایسے پاگل کی مثال ہے جو میرا استاد بھی تھا مگر بہر حال اس سے عشق کی حالت نہایت واضح ہو جاتی ہے.ایک میرے استاد تھے جو سکول میں پڑھایا کرتے تھے بعد میں وہ نبوت کے مدعی بھی بن گئے.ان کا نام مولوی یار محمد صاحب تھا.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایسی محبت تھی کہ اس کے نتیجے میں ہی ان پر جنون کا رنگ غالب آ گیا.ممکن ہے پہلے بھی ان کے دماغ میں کوئی نقص ہو مگر ہم نے تو یہی دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت بڑھتے بڑھتے انہیں جنون ہو گیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر پیشگوئی کو اپنی طرف منسوب کرنے لگے.پھر ان کا یہ جنون یہاں تک بڑھ گیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قریب ہونے کی خواہش میں بعض دفعہ ایسی حرکات بھی کر بیٹھتے جو ناجائز اور نادرست ہوتیں.مثلاً وہ نماز میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم پر اپنا ہاتھ پھیرنے کی کوشش کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی اس حالت کو دیکھ کر بعض آدمی مقرر کئے ہوئے تھے تا کہ جن ایام میں انہیں دورہ ہو وہ خیال رکھیں کہ کہیں وہ آپ کے پیچھے آکر نہ بیٹھ جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب آپ گفتگو فرماتے یا لیکچر دیتے تو اپنے ہاتھ کو رانوں کی طرف اس طرح لاتے جس طرح کوئی آہستہ
خطبات مسرور جلد 13 477 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 اگست 2015ء سے ہاتھ مارتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اس طرح ہاتھ ہلاتے تو مولوی یار محمد صاحب محبت کے جوش میں فوراً کود کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچ جاتے.اور جب کسی نے پوچھنا کہ مولوی صاحب یہ کیا؟ ( آپ نے یہ کیا کیا؟) تو وہ کہتے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے اشارہ سے بلا یا تھا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 531-532) تو حضرت مصلح موعودؓ نے یہ مثال دے کر فرمایا کہ یہ دیوانگی اور عشق کی حالت ہے کہ جب نہیں بھی تو جہ دی جارہی ( تو ایک انسان جو جنونی ہو جاتا ہے وہ) تب بھی محبوب کے غیر ارادی طور پر ہلنے والے ہاتھ کو اپنے قریب بلانے کا اشارہ سمجھتا ہے.لیکن ہم خدا تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس کی طرف سے واضح اعلان کے باوجود کہ نماز کی طرف آؤ اور فلاح کی طرف آؤ نہ نمازوں کی طرف دوڑ کر جاتے ہیں نہ جمعوں پر بڑے اہتمام سے باقاعدگی سے جاتے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 532-531) پس اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے واضح بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے اس مجذوب یا عاشق کی طرح پھلانگ کر آگے آنا چاہئے اور مسجدوں کو آباد کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.ابھی تو چھٹیاں ہیں بچے بھی اپنے ماں باپ کو لے آتے ہیں.لیکن اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ حاضری کم ہونی شروع ہو جاتی ہے.اس لئے یاد دہانی بھی کروا رہا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری نمازوں کی حفاظت اور ادائیگی کے حق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرماتا رہے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 21 اگست 2015ء تا 03 ستمبر 2015 ، جلد 22 شماره 35-34 صفحہ 25 تا28)
خطبات مسرور جلد 13 478 33 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة المسح لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 14 / اگست 2015ء بمطابق 14 ظہور 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگلے جمعہ سے جماعت احمد یہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے انشاء اللہ.جلسے کی تیاری کے لئے چند ہفتوں سے رضا کار کارکنان حدیقۃ المہدی جا رہے ہیں اور گزشتہ ہفتہ عشرے سے تو خدام الاحمدیہ اور باقی کارکنان بھر پور طور پر کام کر رہے ہیں.جنگل میں جلسے کے انعقاد کے لئے تمام انتظامات کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.لیکن ہمارے ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے، برطانیہ کے مختلف حصوں سے آنے والے خدام اور رضا کارایسی مہارت سے یہ کام کرتے ہیں کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتی اور کسی بھی تنظیم میں ہم یہ نہیں دیکھ سکتے.جلسہ سالانہ کیلئے کام کرنے والے رضا کاران کا جوش و جذبہ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ جذبہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نوجوانوں اور کام کرنے والوں میں پیدا کیا ہے.بارش ہو یا دھوپ ہو یہ نوجوان ان باتوں سے بے پرواہ ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جاری کردہ اس جلسے کے لئے ہر وقت بے نفس ہو کر کام کر رہے ہیں اور تیاری کر رہے ہیں اور پھر جلسے کے دنوں میں مزید ہزاروں کارکنان مہمانوں کی خدمت اور جلسے کے نظام کو احسن رنگ میں چلانے کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے آجائیں گے اور پھر اس کے بعد اس کام کو سمیٹنے کے لئے اور سارے سامان کو محفوظ کرنے کے لئے بھی کافی عرصہ کام کرنا پڑتا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 479 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء ان کام کرنے والوں میں انشاء اللہ مرد بھی ہیں ، عورتیں بھی ہیں، لڑکے بھی ہیں، لڑکیاں بھی ہیں.بچے اور بوڑھے بھی ہیں جو آئیں گے یا کر رہے ہیں.پس یہ غیر معمولی جذبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کا ہے جو ہمیں آج سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت کے اور کہیں نظر نہیں آتا.ان مغربی ممالک میں جہاں دنیا کمانا اور دنیاوی باتوں میں پڑنا ہر ایک کی عموماً الا ماشاء اللہ اوّلین ترجیح ہے وہاں احمدی نوجوان عاجزی سے رضا کارانہ خدمت کر رہے ہوتے ہیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم مسلسل ان کارکنان کے لئے دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جہاں احسن رنگ میں خدمت کی توفیق دیتا رہے وہاں ان کو ہمیشہ ہر شر اور پریشانی اور تکلیف سے محفوظ رکھے.جلسہ سالانہ اور مہمان نوازی اب میں حسب روایت اور یہ ضروری بھی ہے مہمان نوازی کے حوالے سے کارکنان کے لئے کچھ باتیں کہوں گا.اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام کارکنان جیسا کہ میں نے کہا اپنی تمام تر کوشش اور توجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں لیکن بعض نئے شامل ہونے والے اور وہ بچے جو پہلی دفعہ اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں نیز پرانے کارکنان جو ہیں ان کو یاد دہانی کے طور پر بھی ضروری ہے کہ مہمان نوازی سے متعلق اسلامی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور آپ کے غلام صادق کے اپنے عمل اور آپ کی نصائح کو بھی ہم سامنے رکھیں اور دہراتے رہیں تا کہ مہمان نوازی کے بہتر سے بہتر معیار ہم قائم کرسکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں مہمان نوازی کی اہمیت بتاتے ہوئے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا ذکر فرماتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس مہمان آئے تو پہلا اور فوری ردّ عمل خوش آمدید کہنے اور سلامتی کی دعاؤں کے بعد جو انہوں نے دکھا یا وہ یہ تھا کہ ان کے لئے فوری طور پر کھانا تیار کروایا.اور پھر حضرت لوط کے مہمانوں کے لئے جو اُن کی فکر تھی اس کا ذکر ہے کہ میری قوم کے لوگ انہیں تکلیف نہ دیں اور مہمانوں کی حفاظت کی فکر آپ کو دامنگیر ہوئی.پس مہمان کی تکلیف کی فکر رہنی چاہئے اور مہمان کی تکلیف میزبان کی رسوائی کا باعث بھی بنتی ہے.یہ بھی اس سے سبق ملتا ہے.پس یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مہمان کی تکلیف کوئی ایسی معمولی چیز نہیں جس سے صرف نظر کیا جائے.جس سے بلکہ کسی بھی رنگ میں مہمان کو کوئی تکلیف پہنچے تو یہ میزبان کے لئے شرمندگی اور رسوائی کا
خطبات مسرور جلد 13 480 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء باعث ہے.اسلام نے اس لئے اکرام ضیف کی بہت تلقین کی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو غیر معمولی خوبیاں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نظر آئیں اور جن کا ذکر حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی وحی کے بعد آپ کی گھبراہٹ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور عرض کیا کہ ان خوبیوں کے حامل کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کر سکتا.ان میں سے ایک خوبی یہ بھی بیان کی کہ خدا تعالی کس طرح آپ کو ضائع کر سکتا ہے ( جبکہ ) آپ میں تو مہمان نوازی کا وصف بھی انتہا کو پہنچا ہوا ہے.(صحیح البخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صلی الله علیه و سلم حدیث نمبر (3) اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک دو، پانچ دس نہیں سینکڑوں بلکہ اس سے بھی زیادہ مثالیں ہیں ایسے واقعات ہیں جو آپ کے اکرام ضیف اور مہمان نوازی کے اعلیٰ ترین معیاروں کو چھور ہے ہیں اور پھر اپنے صحابہ اور اپنی امت کو بھی آپ نے یہ اسلوب سکھائے.صحابہ کے بھی ایسے واقعات ہیں جن کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح غیر معمولی قربانی کر کے وہ مہمان نوازی کرتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کی مہمان نوازی میں کس طرح برکت ڈالتا تھا اور سراہتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ جب زیادہ مہمان آتے تو ہر ایک کو کچھ مہمان تقسیم کر دیتے اور اپنے حصے کے مہمان بھی رکھتے اور پھر خود ان کی مہمان نوازی بھی فرماتے.ایسے ہی ایک موقع پر جب آپ نے مہمانوں کو تقسیم کر دیا تو جب زیادہ مہمان آگئے تو اپنے حصے کے مہمان بھی رکھے.ایک صحابی عبداللہ بن طیفہ کہتے ہیں کہ ایک موقع پر میں ان مہمانوں میں سے تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئے.آپ ہمیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ گھر میں کچھ کھانے کو ہے.انہوں نے عرض کیا کہ کچھ تھوڑ اسا حریر ہے جو میں نے آپ کے لئے رکھا ہوا تھا.اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے بھی تھے.یہ تھوڑا سا کھانا آپ کی افطاری کے لئے تھا.بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت عائشہ وہ برتن میں ڈال کر لائیں.آپ نے اس میں سے تھوڑا سالیا شاید ایک آدھ گھونٹ لیا یا لقمہ کھایا اور مہمانوں کو کہا کہ بسم اللہ پڑھ کرکھا ئیں.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اسے اس طرح کھا رہے تھے کہ اسے دیکھ نہیں رہے تھے اور سب سیر ہو گئے.پھر آپ نے پوچھا پینے کو کچھ ہے تو وہ پینے کے لئے کچھ مشروب لائیں.آپ نے اس میں سے تھوڑ اسا پیا اور پھر فرمایا کہ بسم اللہ کر کے پئیں.پھر ہم نے اسے پیا اور اسی طرح پیا کہ اسے دیکھ نہیں رہے تھے اور پھر ہم اچھی طرح سیر ہو گئے.(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحه 95 - 794 حدیث طهفه الغفاری حدیث نمبر 24015 عالم الكتب بيروت 1998ء)
خطبات مسرور جلد 13 481 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء تو یہ تھی آپ کی مہمان نوازی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے پہلے اس لئے کھایا تھا یا چکھا تھا بلکہ کھایا نہیں کہنا چاہئے ، دعا کے لئے ہی منہ سے لگایا ہوگا کہ آپ کی دعا کی برکت سے وہ سب کو پورا ہو جائے اور وہ پورا ہو گیا.اسی طرح دعا سے کھانے میں برکت پڑنے کے اور بھی درجنوں واقعات ہیں جس سے پتا لگتا ہے کہ کس طرح آپ کے باقی کھانے پے تھوڑے سے کھانے پے اور لوگ سیر ہوئے.پھر بعض دفعہ مہمان بعض تکلیف دہ صورتحال بھی پیدا کر دیتے ہیں اور میزبان کا صبر کا جو دامن ہے وہ چھوٹ جاتا ہے.ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.لیکن ایسی صورت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا عظیم اور عجیب نمونہ تھا کہ ایک شخص رات مہمان رہتا ہے، پھر پیٹ کی خرابی کی وجہ سے یادشمنی کی وجہ سے جان بوجھ کر بستر گندا کر دیتا ہے اور صبح صبح اٹھ کر چلا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی بجائے اسے کچھ کہنے کے، کچھ اعتراض کے فوری طور پر خود ہی اس کے بستر کو دھونے لگ جاتے ہیں.غرض کہ جس حد تک جا کر مہمان کا حق ادا کرنا ہو سکتا ہے وہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں نظر آتا ہے، آپ کی سیرت میں نظر آتا ہے.جب آپ نے اپنا یہ اسوہ دکھایا تو اسی کا نتیجہ ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم کی زندگی میں بھی ہمیں مہمانوں کی خاطر قربانیوں کے نمونے نظر آتے ہیں.وہ واقعہ بھی اپنی مثال آپ ہے جس کو جب بھی پڑھو ایک نیا لطف آتا ہے کہ جب ایک صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کے لئے اپنے بچوں کو تو بہلا پھسلا کر بھو کا سلا دیتے ہیں اور خود بھی بھوکے رہتے ہیں لیکن مہمان کو کسی قسم کا احساس نہیں ہونے دیتے.ایک انصاری کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہمان میرے سپر د کیا تو میں نے گھر آ کر بیوی سے پوچھا کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا بس تھوڑا سا کھانا ہے جو بچوں کے لئے رکھا ہوا ہے.دونوں نے مشورہ کیا کہ بچوں کو تو کسی طرح سلا دیا جائے.پھر مہمان کے سامنے کھانا لاؤ اور کسی بہانے سے چراغ بجھا دو.چنانچہ مہمان کے سامنے کھانا لا یا گیا اور اسی طرح اپنی چادر ہلا کر گھر والی نے اس چراغ کو بجھا دیا اور پھر یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ہم اس طرح ظاہر کریں گے کہ ہم بھی اس اندھیرے میں کھانا کھا رہے ہیں کیونکہ اگر اس طرح نہ کیا تو ہو سکتا ہے مہمان کا ہاتھ بھی رک جائے اور وہ صحیح طرح نہ کھا سکے.کھانا تھوڑا سا تھا.بہر حال اس تدبیر سے انہوں نے مہمان کو کھانا کھلایا.مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا.اگلے دن جب یہ انصاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہارا اس تدبیر سے مہمان کو کھانا کھلانا ایسا تھا
خطبات مسرور جلد 13 482 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء کہ خدا تعالیٰ بھی اس پر ہنسا.(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب قول الله و يؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة حديث نمبر (3798 پس یہ مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی اطلاع دی.یہ صحابہ اپنی ذات پر بلکہ اپنے بچوں پر بھی مہمانوں کو ترجیح دینے والے تھے.یقیناً ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے دونوں جہان کی نعمتوں کے وارث بنتے ہیں.یہ جذ بہ صحابہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اسوہ کو دیکھ کر پیدا ہوا اور آپ کی تعلیم سے پیدا ہوا.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے.اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے.(المعجم الكبير للطبراني جلد 5 صفحه 233 باب الزاى عبد الرحمن بن ابی عمرة عن زيد بن خالد حدیث نمبر 5187داراحیاء التراث العربي 2002ء) پس یہ معیار ہیں ایک مومن ہونے کے لئے.جب ایمان کامل ہونے کی طرف قدم بڑھیں گے تو خدا تعالیٰ کی رضا بھی شامل حال ہوگی اور جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے تبھی دونوں جہاں کی نعمتوں سے انسان فیضیاب ہوسکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مہمان سپر د کر تے تھے تو پھر مہمانوں سے دریافت بھی فرمایا کرتے تھے کہ کیسی مہمان نوازی ہوئی.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ عبدالقیس کے مہمانوں کا وفد حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا.چنانچہ انصار ان کو اپنے ساتھ لے گئے.صبح جب وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ رات تمہارے میز بانوں نے تمہاری کیسی خدمت کی ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ بڑے اچھے لوگ ہیں.انہوں نے ہمارے لئے نرم بستر بچھائے.ہمارے آرام کا خیال رکھا.ہمیں عمدہ کھانے کھلائے اور پھر کتاب وسنت کی تعلیم بھی دیتے رہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحه 119 - 118 حدیث و فدعبدالقیس حدیث نمبر 17985 عالم الكتب بيروت 1998ء)
خطبات مسرور جلد 13 483 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء ان کی مجلسیں بھی لگیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی مجلسیں لگیں.پس یہ ہیں میز بانوں کے فرائض.جن کے گھروں میں مہمان آ رہے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ رات کو فضول باتوں میں وقت گزارنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ وقت ان دنوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذکر میں گزارا جائے.نیکی کی باتیں کی جائیں اور نیکی کی باتیں سکھائی جائیں.ان میں بچے بھی ہوتے ہیں نوجوان بھی ہوتے ہیں.ہمارے جلسوں پر علاوہ احمدیوں کے اب غیر از جماعت مہمان بھی کافی تعداد میں آتے ہیں.مختلف جگہوں پر وہ ٹھہرتے ہیں اور ہر جگہ مہمان نوازی کی ٹیم ہے.ان ٹیم ممبران کو یا کارکنان کو جو بھی خدمت کرنے والے ہیں ان کو چاہئے کہ ہر قیامگاہ میں اپنے نمونے بھی ایسے دکھا ئیں کہ آنے والوں کو احساس ہو کہ وہ کسی دینی جلسے میں شرکت کے لئے آئے ہیں نہ کہ دنیاوی میلے میں اور اپنے رویے ، اپنے اخلاق کو اعلیٰ معیاروں پر پہنچا ئیں ، رات کو یادن کے کسی حصے میں بھی جب فارغ ہوں تو فارغ بیٹھے ہوئے ادھر اُدھر کی گپیں لگانے کی بجائے دین کی باتیں کریں.اس کا اثر بھی مہمانوں پر ہوگا.ان پر واضح ہو گا کہ یہ لوگ ان دنوں میں دنیا سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو کر خالصہ اللہ جمع ہوئے ہیں اور اس جذبے سے خدمت بھی کر رہے ہیں اور اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے مہمانوں کو بھی اپنے دین کی باتیں سکھا رہے ہیں.پس کارکنان کی طرف سے یہ تبلیغ بھی ہوتی ہے اور بچوں اور نو جوانوں کی تربیت بھی ہو رہی ہوتی ہے.ہم نے ، جماعت احمدیہ نے ابھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی دُور کا سفر طے کرنا ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اس بات کو سمجھا تو جہاں انہوں نے مہمان نوازی کا حق آئے ہوئے وفد کو جس کی مثال میں نے دی ہے بہترین رہائش مہیا کر کے ، اس کا بندو بست کر کے انہیں بہترین کھانا کھلا کر مہیا کیا وہاں ان کی روحانی دینی اور علمی ضرورت کا حق ادا کرنے کی بھی کوشش کی تاکہ جب وہ اپنے گھر وا میں جائیں تو بہترین رنگ میں اپنوں کی تربیت بھی کر سکیں اور احسن رنگ میں اسلام کا پیغام بھی اپنے علاقے کے لوگوں کو پہنچاسکیں.ہمارے نظام میں بھی تربیت اور تبلیغ کے شعبے ہیں.جلسے کے دنوں میں اس کی ٹیمیں بھی بنتی ہیں.رات کو مختلف قوموں کے ساتھ ، طبقوں کے ساتھ بعض اجلا سات بھی ہوتے ہیں.پس اپنوں اور غیروں کو یہ روحانی مائدہ کھلانا بھی ڈیوٹی دینے والوں کی ذمہ داری ہے.اس کے انتظام بھی احسن رنگ میں کئے جائیں.پس ڈیوٹی والوں کو اس بات کو بھی اپنے سامنے رکھنا چاہئے.وہ یہ بات یادرکھیں کہ ان کے اپنے
خطبات مسرور جلد 13 484 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء عملی نمونے بھی اور ان کی باتیں بھی مہمان نوازی کا حصہ ہیں.صرف خدمت کرنا ہی نہیں.اس کی طرف بھی ان دنوں میں توجہ دینی چاہئے.اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں مہمان نوازی کے کس طرح کے نمونے دکھائے اور کس طرح تربیت فرمائی اس کی بھی چند مثالیں پیش کرتا ہوں.مہمان کی عزت اور احترام کا ایک واقعہ ہے.ایک دفعہ قادیان میں آئے ہوئے ایک مہمان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں بھی تھے.ایک مریدی کا رشتہ بھی تھا اور اس مریدی کے جذبے کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاؤں دبانے لگ گئے.اسی دوران میں کمرے کی کھڑکی یا دروازے پر ایک ہندو دوست نے آکر دستک دی.یہ صحابی کہتے ہیں میں اٹھ کر کھڑ کی کھولنے لگا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی تیزی سے اٹھے اور جا کر دروازہ کھول دیا اور فرمایا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے.(ماخوذ از سیرت المہدی جلد اول صفحه 66-65 روایت نمبر 89 بیان فرمودہ میاں عبداللہ صاحب سنوری) اب دیکھیں یہاں دو صورتیں ہیں ایک مرید کی جس کے تحت اس کی خواہش پر دبانے کی اجازت دے دی اور دوسری مہمان کی تو مہمان کے حق کی ادائیگی کے لئے فوراً اپنے آقا و مطاع کے ارشاد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آئے ہوئے مہمان کی بھی عزت کی اور آنے والے کا احترام کرتے ہوئے خود اس کے لئے دروازہ بھی کھولا.ایک واقعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک بہت شریف اور غریب مزاج احمد ی سیٹھی غلام نبی صاحب جو پنڈی میں دکان کیا کرتے تھے.حضرت میاں صاحب کہتے ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لئے قادیان آیا.سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی.میں شام کے وقت قادیان پہنچا.رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گزرگئی تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی.میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سامنے کھڑے دیکھا.آپ کے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی.میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا.مگر حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا.کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں.آپ یہ دودھ پی لیں.آپ کو شاید دودھ کی عادت ہو گی.سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں
خطبات مسرور جلد 13 485 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء میں آنسو امڈ آئے.سبحان اللہ ! کیا اخلاق ہیں.خدا کا برگزیدہ صیح اپنے خادموں تک کی خدمت میں کتنی لذت پا رہا ہے اور تکلیف اٹھا رہا ہے.(ماخوذ از سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 70-69) بعض خاص علاقے کے لوگوں کے لئے آپ ان کے مزاج کے مطابق کھانا بھی تیار کروایا کرتے تھے.گو جلسے کے دنوں میں انتظامی وجوہ کی بناء پر آپ ایک کھانا تیار کرواتے تھے تا کہ زیادہ وقتیں پیدا نہ ہوں.لیکن آجکل تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی جماعت انتظامی لحاظ سے بھی بہت تربیت یافتہ ہو چکی ہے اور والنٹیئر میسر ہیں.وسائل بھی ہیں اور بڑے بڑے انتظامات بھی آسانی سے کر سکتی ہے.اس لئے جلسے کے انتظامات کے تحت بھی ایک تو عمومی لنگر کا انتظام ہوتا ہے اور دوسرے غیر از جماعت اور خاص علاقے کے لوگوں یا مریضوں کے لئے بھی کھانا بنتا ہے اور اس میں کوئی دقت بھی نہیں ہے اور حرج بھی نہیں، نہ حرج ہونا چاہئے.بعض لوگ بلا وجہ اس قسم کے سوال اٹھا دیتے ہیں کہ کیوں علیحدہ کھانا پک رہا ہے.فلاں کے لئے علیحدہ کیوں ہے؟ ان لوگوں کو بھی حوصلہ دکھانا چاہئے.ہاں ان خاص غیر ملکی ) مہمانوں کے لئے جو عموماً تبشیر کے مہمان کہلاتے ہیں ان کو بھی یہ بتانے کے لئے کہ عمومی طور پر جلسے میں شامل ہونے والے کیا کھاتے ہیں لنگر کا کھانا بھی ان کے سامنے رکھنا چاہئے اور بعض لوگ شوق سے یہ کھانا کھاتے بھی ہیں.بہر حال اصل چیز یہ ہے کہ تکلف نہ ہو.پہلے انتظام نہیں ہوسکتا تھا تو علیحدہ انتظام نہیں کیا جاتا تھا.اب ہوسکتا ہے تو اکرام ضیف کا تقاضا ہے کہ غیر ملکی ) مہمانوں کے لئے انتظام کیا جائے.ربوہ میں بھی جب جلسے ہوتے تھے تو ایک پر ہیزی لنگر بھی ہوتا تھا اور غیر ملکیوں کے لئے بھی علیحدہ کھانا پکتا تھا.پس یہاں بھی اگر ایسا انتظام ہوتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے.لیکن عموماً احمد یوں کو عمومی انتظام کے تحت جو کچھ پکا ہوا سے ہی کھانا چاہئے اور اسی طرح عہد یداروں کو بھی عام لنگر کا کھانا کھانا چاہئے.جو بھی کارکن ہیں ، ڈیوٹی والے ہیں ،عہد یدار ہیں سوائے اس کے کہ کسی کو کوئی خاص تکلیف ہو یا کسی وقت وہ کسی خاص مہمان کے ساتھ ڈیوٹی پر ہو تو اس وقت ان کے ساتھ کھانا کھالیا.لیکن عمومی طور پر ہر ایک کو اپنا نمونہ یہی دکھانا چاہئے کہ جو عام کھانا ہے وہی عہدیدار بھی کھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو بھی بڑا پسند فرمایا ہے اور انتظامیہ کے تکلف کا اظہار بالکل نہیں ہونا چاہئے یہ آپ نے پسند فرمایا.اور یہ بھی آپ نے پسند فرمایا کہ بغیر تکلف کے خاص مہمانوں
خطبات مسرور جلد 13 486 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء کو اگر غیر معمولی طور پر treat کرنا پڑے تو کیا جانا چاہئے.نا پھر ایک دفعہ آپ کے زمانے میں بعض مہمانوں کو صحیح طرح کھانا نہیں ملا اور انتظامیہ کی غلطی کی وجہ سے ان کا خیال نہیں رکھا گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس واقعے کی اطلاع دی کہ بعض مہمانوں کا خیال نہیں رکھا گیا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ رات مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ لنگر خانے میں رات کو ریاء کیا گیا ہے.دکھاوا کیا گیا ہے.اس بناء پر یا صحیح طرح خیال نہیں رکھا گیا بعضوں کو کھانا دے دیا جو اپنے تھے اور بعضوں کو نہیں دیا گیا.صحیح طرح خدمت نہیں کی گئی.اس بناء پر آپ نے لنگر خانے میں کام کرنے والوں کو چھ ماہ کے لئے نکالنے کا بھی ارشاد فرمایا.باوجود آپ کی طبیعت کی نرمی کے سزا بھی دی.آپ کو مہمانوں کی مہمان نوازی میں ریاء اور کمی برداشت نہیں ہوئی اور آپ نے ان کام کرنے والوں کو سزا دی اور پھر لنگر خانے میں کھانے کا انتظام اپنے سامنے کروایا.(ماخوذ از تذکرۃ صفحہ 689 ایڈ یشن چہارم 2004ء) پس شعبہ مہمان نوازی کو بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے.کہیں بھی کسی کو بھی ، کسی بھی رنگ میں تکلیف نہ ہو.شعبہ مہمان نوازی جلسے کے انتظامات کا ایک بہت اہم شعبہ ہے.اس شعبے کے صحیح رنگ میں اور وقت پر کام باقی پروگراموں کو بھی صحیح رنگ میں چلاتے ہیں.مہمان نوازی صرف کھانا کھلانا یا نگر کا انتظام کرنا ہی نہیں ہے.اس میں لنگر کا انتظام بھی ہے.کھانا کھلانے کا انتظام بھی ہے.سٹوریج اور سپلائی کا انتظام بھی ہے.اگر سپلائی وغیرہ میں ذرا سا بھی فرق پڑ جائے تو کھانا پکانے کا انتظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے.کھانا وقت پر نہیں بنایا جا سکتا اور پھر اس وجہ سے جلسے کے پروگرام بھی بعض دفعہ وقت پر شروع نہیں ہوتے.پھر مہمان نوازی میں رہائش کا انتظام بھی ہے.بستر مہیا کرنا بھی ذمہ داری ہے.جو جماعتی قیام گاہوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں انہیں صحیح طرح مہیا کیا جائے.پھر صفائی کا انتظام بھی ہے.اس میں عمومی صفائی بھی ہے اور غسل خانوں کی صفائی بھی ہے.پھر پارکنگ کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا انتظام بھی ہے.یہ بھی مہمان نوازی میں آتا ہے.پارکنگ میں اگر مشکل ہو اور افراتفری ہو پھر جہاں مہمانوں کو دقت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں جلسے کے پروگرام بھی ڈسٹرب ہوتے ہیں.پھر بارشوں کی وجہ سے راستوں کی تکلیف دور
خطبات مسرور جلد 13 487 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء کرنے کا انتظام ہے یہ بھی مہمان نوازی ہے کہ راستوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں.پھر بوڑھوں معذوروں کے لئے بگھیوں کا انتظام ہے.پھر جو دور دس پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو پر پارکنگ کی جگہیں لی گئی ہیں وہاں سے جلسہ گاہ تک لانے کے لئے شٹل سروس کا انتظام ہے.یہ بھی مہمان نوازی ہے.اس کا بھی صحیح انتظام ہونا چاہئے.غرضیکہ بہت سے انتظامات ہیں جو مہمان نوازی کے تحت ہی ہیں اور اگر مہمان نوازی کے انتظامات ٹھیک ہوں تو باقی انتظامات تو معمولی ہیں خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں.مہمانوں کو طبی امداد مہیا کرنا یہ بھی مہمان نوازی ہے.پس اسی فیصد میں سمجھتا ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ تر جلسے کے کام تو براہ راست مہمان نوازی میں آ جاتے ہیں.پس ہر کارکن کو یاد رکھنا چاہئے کہ صرف شعبہ مہمان نوازی کا کام انہی کا نہیں جن کے مہمان نوازی کے بیج لگے ہوئے ہیں بلکہ تقریباً ہر شعبہ ہی مہمان نوازی کا شعبہ ہے اور مہمان کے لئے سہولت مہیا کرنا اور اس کی عزت اور احترام کرنا اور اسے ہر تکلیف سے بچانا ہر کارکن کا فرض ہے.اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو احسن رنگ میں یہ ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جلسہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر لحاظ سے بابرکت ہو.آج 14 اگست بھی ہے جو پاکستان کا یوم آزادی ہے.اس لحاظ سے بھی دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ پاکستان کو حقیقی آزادی نصیب کرے اور خود غرض لیڈروں اور مفاد پرست مذہبی رہنماؤں کے عملوں سے ملک کو محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ عوام الناس کو عقل اور سمجھ بھی عطا کرے کہ وہ ایسے رہنما منتخب کریں جو ایماندار ہوں.اپنی امانت کا حق ادا کرنے والے ہوں.ان سب کو اس بات کی حقیقت سمجھنے کی بھی تو فیق عطا فرمائے کہ اس ملک کی بقا اور سالمیت کی ضمانت انصاف اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں ہے.ظلموں سے بچنے میں اس ملک کی بقا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے میں ہی اس ملک کی بقا ہے.کہنے کو تو یہ خدا تعالیٰ کا نام لیتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ ہم خدا کی خاطر کر رہے ہیں لیکن رب العالمین اور رحمان اور رحیم خدا کے نام پر ہر طرف ظلم کے بازار گرم ہیں.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمت للعالمین ہیں ان کے نام پر ظلم کئے جارہے ہیں.احمدی جنہوں نے ملک کے بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، قربانیاں دی ہیں ان پر ظلم کئے جار ہے ہیں لیکن بہر حال پاکستانی احمدیوں نے جہاں بھی وہ ہوں ملک سے وفا کا اظہار ہی کرنا ہے اور اسی
خطبات مسرور جلد 13 488 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء لئے دعا بھی کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو سلامت رکھے اور ظالموں اور مفاد پرستوں سے اس ملک کو نجات دے.ملک کی بقاء اور سالمیت کو خطرہ باہر سے زیادہ اندر کے دشمنوں سے ہے.خود غرض اور مفاد پرست لیڈروں اور علماء سے ہے.اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ملک کو چلائیں تو کوئی بیرونی طاقت ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتی.بہر حال پاکستانی احمدیوں کو اپنے ملک کے لئے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستانی احمدیوں کو بھی حقیقی آزادی نصیب فرمائے اور یہ ملک قائم رہے.نماز کے بعد میں کچھ جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جن میں سے ایک جنازہ مکرم کمال آفتاب صاحب ابن مکرم رفیق آفتاب صاحب ہڈرزفیلڈ یو کے کا ہے جو 7 اگست 2015ء کو لیڈز ہسپتال میں لیکومیا کے مرض کی وجہ سے 33 سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.ان کو مختلف رنگ میں جماعتی خدمت کی توفیق ملی.وفات کے وقت بھی ریجنل قائد خدام الاحمدیہ یارک شائر اور سیکرٹری تربیت جماعت ہڈرزفیلڈ ساؤتھ کے طور پر خدمت کر رہے تھے.بیماری کے آخری ایام میں ہسپتال میں اپنے کمرے سے ہی لیکومیا ریسرچ کے لئے پچاس ہزار پاؤنڈ ا کٹھے کرنے کی مہم چلا رہے تھے.زندگی کے آخری سانس تک بے نفس ہو کر مختلف پراجیکٹس میں انسانیت کی خدمت اور تبلیغ میں مصروف رہے.خلافت سے نہایت اخلاص اور وفا کا تعلق تھا.بیماری اور کمزوری کے باوجود خدام الاحمدیہ کا جب اجتماع ہوا ہے تو اس موقع پر ہسپتال میں ہی اہتمام کر کے انہوں نے ٹی وی لگوایا اور وہاں سے میرا جو Live ایڈریس تھا اس کو سنا.ملکی اخبار جو گارڈین (Guardian) ہے اس نے انہیں 2014ء کے Volunteer of the Year کا اعزاز دیا.وفات سے چند دن پہلے مجھے ملنے بھی آئے تھے اور باوجود بیماری کی شدت کے بڑے حوصلے سے اور خوش مزاجی سے وقت گزار رہے تھے.یہ کوئی نہیں تھا کہ تکلیف میں ہیں حالانکہ اس وقت بھی ان کی تکلیف کافی تھی.ان کا ہمیشہ خلافت سے بڑا وفا کا اظہار اور تعلق تھا.ان کے بھائی فاروق صاحب لکھتے ہیں کہ آپ حضرت سیٹھ اللہ دتہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑپوتے تھے.1953ء اور 74ء کے حالات میں کمال آفتاب صاحب کے دادا مکرم جمال الدین صاحب کے گھر پر حملہ کی ناکام کوشش کی گئی.ان کے دادا جمال الدین صاحب چھ ماہ تک اسیر راہ مولیٰ بھی رہے.
خطبات مسرور جلد 13 489 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء کمال صاحب بہت ملنسار، خوش اخلاق، بلند حوصلہ، دوسروں کی مدد کرنے والے ہر دلعزیز انسان تھے.احمدیوں کے ساتھ غیر احمدی بھی ان کے معترف تھے اور ان کے بارہ میں کبھی کسی سے تعریف کے علاوہ اور کچھ نہیں سنا گیا.بڑوں اور چھوٹوں سب میں یہ یکساں مقبول تھے.سب سے دوستی کا تعلق تھا.والدین کی خدمت کرنے والے اور بہن بھائیوں کا خیال رکھنے والے.نمازوں کا با قاعدہ التزام کرنے والے.خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش.ہیومینٹی فرسٹ کے پروگرام گفٹ آف سائٹ (gift of sight) کے پروجیکٹ لیڈر تھے.ایسٹ افریقہ میں آنکھوں کا کلینک بنانے کے منصوبے پر کام کرتے رہے.بڑے فعال داعی الی اللہ تھے.تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.ہسپتال میں اپنے علاج کے دوران بھی ڈاکٹروں اور دیکھ بھال کرنے والوں کا جماعت سے تعارف کروایا بلکہ مجھے خودانہوں نے بتایا تھا کہ میں نے اپنے ہاں ٹی وی لگا لیا ہے.ایم ٹی اے کو لگا یا ہوا ہے اور پروگرام دکھاتا ہوں.ان پروگراموں کے حوالے سے پھر تبلیغ کے رستے بھی کھلتے ہیں.مجلس انصار سلطان القلم کے بھی متحرک ممبر تھے.ٹی وی، ریڈیو اور اخباروں کوسو سے زائد انٹرویوز کے ذریعہ لاکھوں لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا.ایک بھائی ان کے یوسف صاحب ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت سے کمزور تعلق رکھنے والے خدام و اطفال کو ہمیشہ ذاتی کوششوں اور تعلق کے ذریعہ جماعت کے قریب کرنے کی کوشش کرتے اور ان کے دلوں میں خلافت کے لئے محبت پیدا کرتے.بسا اوقات خدام کو لے کر لندن آتے تاکہ مسجد فضل میں نماز پڑھیں اور خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق پیدا ہو.خدام کو عمومی طور پر اور عاملہ اور ممبران کو خصوصاً نمازوں کی طرف نہ صرف توجہ دلاتے بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات بھی کرتے بلکہ نماز فجر کے لئے بعض خدام کو گھروں سے لے کر آتے.بیماری کے متعلق ڈاکٹر حفیظ صاحب کہتے ہیں کہ جب ان کو بیماری کا پتا لگا تو کمال آفتاب نے مجھے بتایا کہ جو خدا کو منظور ہے ٹھیک ہے.مجھے کوئی پریشانی نہیں.سو بیماری کی تشخیص کے بعد جوان کو سب سے زیادہ فکر تھی وہ یہ تھی کہ انہوں نے مجھے کہا کہ نیپال کے زلزلے کے بعد ہیومینٹی فرسٹ کے لئے جو کچھ انٹرویوز تیار کئے جارہے تھے وہ انٹرویوضرور آن لائن ہونے چاہئیں تا کہ دنیا کو جماعت کی خدمت انسانیت کا علم ہو.
خطبات مسرور جلد 13 490 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء میہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میڈیکل نقطہ نظر سے بھی یہ تکلیف دہ صورتحال ہے لیکن ہمیشہ بیماری میں مسکراتے رہے ہسپتال میں بھی قیام کے دوران مجھے کہا کہ ہمیں تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ اگر آپ کو انگریزی زبان آتی تو آپ کس قدر تبلیغ کے سامان کرتے.عابد وحید ہمارے پریس کے انچارج ہیں وہ کہتے ہیں کہ کمال صاحب نے دیگر جماعتی خدمات کے علاوہ ہمارے دفتر کے لئے بھی میڈیا میں بہت سے نئے رابطے پیدا کئے.بیماری کے باوجود ہسپتال سے فون اور ای میلز کے ذریعہ صحافیوں کو جلسے میں شرکت پر آمادہ کر رہے تھے.مرکزی میڈیا ٹیم کے قیام کے بعد اکثر فون کر کے ہمارے ایک احمدی آدم واکر ہیں جو ٹیم کے ممبر ہیں ان کی کوششوں کے متعلق دریافت کرتے اور اگر کبھی دیکھتے کہ کمی ہو رہی ہے تو بڑے جذباتی ہو کر کہتے کہ ہمیں کام کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے.یہ کہتے ہیں کہ جلسے کی ڈیوٹیوں کے دوران نیند پوری نہ ہونے کے باوجود جب بھی وہ دفتر میں آتے تو ہم سب لوگوں سے زیادہ تازہ دم نظر آ رہے ہوتے تھے اور ان کی مثبت سوچ اور اس طبیعت کا سب پر اچھا اثر پڑتا.رابطے بنانے میں بے تکلف تھے.بلا جھجک بغیر کسی خوف کے رابطے کر لیتے تھے.پھر یہ کہتے ہیں کہ اپنی وفات سے بھی احمدیت کا پیغام میڈیا تک پہنچانے کا ذریعہ بنے.بی بی سی، آئی ٹی وی اور بلفاسٹ ٹیلیگراف وغیرہ نے ان کی وفات پر آرٹیکل شائع کئے.معروف شخصیات نے سوشل میڈیا پر کمال صاحب کو خراج تحسین پیش کیا.جماعت کے کاموں کو سراہا.مثلاً آئی ٹی وی کی جرنلسٹ Heather کلارک کہتی ہیں کہ بطور صحافی مجھے الفاظ کی کمی نہیں ہونی چاہئے لیکن کمال صاحب کی وفات پر دلی افسوس ہے کہ اچھے لوگ دنیا سے اتنی جلدی رخصت ہو جاتے ہیں.اب ہمیں ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنا چاہئے.اسی طرح آئی ٹی وی نیوز یارک شائر کی ہیڈ مارگریٹ کہتی ہیں کہ بہت اچھے مہربان انسان تھے.ان کود یکھ کر لگتا تھا کہ انہوں نے خوشی سے بھر پور زندگی گزاری.ہم ان کو اپنے ٹی وی پر Tribute دیں گے.صدر جماعت ہڈرزفیلڈ کہتے ہیں انتہائی اطاعت گزار تھے.جماعت اور خلافت کے ساتھ جنون کی حد تک عشق تھا جس کو دیکھ کر آپ پر رشک آتا تھا.نمازوں میں اور خصوصاً فجر کے بےحد پابند تھے.خدمت خلق کا بیحد جذبہ تھا، شوق تھا اور کبھی رپورٹ میں دیر بھی ہو جاتی اور میں پوچھتا تو فوری طور پر معافی مانگتے.ان کے چیریٹی ورک کی بھی غیر از جماعت بڑی تعریف کرتے ہیں.یہ تو سارے ہی لکھ رہے ہیں
خطبات مسرور جلد 13 491 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء کر تبلیغ کا بڑا شوق تھا اور جب بھی موقع ملتا تبلیغ کرتے.ہارٹلے پول سے محمد علی صاحب کہتے ہیں کہ گزشتہ سال دسمبر میں ہمیں وقف عارضی پر آئرلینڈ جانے کی توفیق ملی.آپ ریجنل قائد تھے اور میں قائد مجلس تھا لیکن آپ نے امیر قافلہ مجھے مقرر کر دیا اور پورے سفر کے دوران میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ کمال صاحب نے خاکسار کی عزت اور احترام اور اطاعت کرنے میں کوئی کمی دکھائی ہو.نماز تہجد کا خاص اہتمام کرتے اور جوش اور جذبے سے تبلیغ کرتے.آئرلینڈ کے ہمارے مبلغ ابراہیم نون صاحب ہیں.ان سے پوچھتے کہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو کس طرح تبلیغ کرنی چاہئے اور کہتے ہیں دوران سفر ایک خادم جو ہمارے ساتھ تھے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ دلائی اور بعد میں امتحان بھی لیا.اسی طرح خدام الاحمدیہ کے جو باقی خدمت کرنے والے ہیں وہ سب بھی ان کی تعریف کر رہے ہیں.ہڈرز فیلڈ کے ایک سابق صدر ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ میں ان کو بچپن سے جانتا تھا.دوسرے بچوں سے مختلف طبیعت تھی.نہ لڑتے جھگڑتے تھے اور نہ ہی شوخ مزاج تھے.بڑوں کا احترام بچپن سے ہی کرتے تھے.جماعتی خدمت کا جنون کی حد تک شوق تھا.یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ حقیقی طور پر اپنے عہد کا پاس کرنے والے تھے.بطور داعی الی اللہ کامیاب مبلغ تھے.جہاں بھی موقع ملتا تبلیغ شروع کر دیتے.اپنے کام آنے والے لوگوں کو کثرت سے جماعتی لٹریچر دیتے اور جماعتی فنکشنوں پر آنے کی دعوت دیتے.ان کا بڑا وسیع حلقہ تھا اور ہر جگہ ان کا پیغام پہنچتا.ایک خادم لکھتے ہیں کہ دھیمے مزاج کے مالک تھے اور ہر وقت خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے اور یہ نہیں کہ آگے آگے آئیں بلکہ پیچھے رہ کر کام کرنے کا انہیں زیادہ لطف آتا تھا.کبھی اس نیت سے کام نہیں کرتے تھے کہ کوئی آپ کی تعریف کرے.خدا تعالیٰ سے تعلق کے متعلق دوسروں کو نصیحت کرتے رہتے.قرآن وحدیث سے گہرا لگاؤ تھا.مطالعہ کا بہت شوق تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ ذوق شوق سے کرتے.جب بھی کوئی کتاب انگریزی میں ملتی فور دوسروں کو اس کے متعلق آگاہ کرتے کہ فلاں کتاب کا ترجمہ اب انگریزی میں میسر ہے اسے پڑھو.غرض کہ بیشمار خوبیوں کے مالک تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بوڑھے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.ان کی تسکین اور تسلی کے سامان پیدا فرمائے.ان کے جو باقی بھائی وغیرہ ہیں، عزیز ہیں، قریبی ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ صبر و حوصلہ دے.
خطبات مسرور جلد 13 492 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء دوسرا جنازہ مکرم محمد نعیم اعوان صاحب کا ہے جو مشتاق اعوان صاحب جرمنی کے بیٹے تھے.36 سال کی عمر میں وہاں جرمنی میں دریائے رائن میں ڈوب کر ان کی وفات ہوئی.ساتھ ہی ان کا بارہ سال کا ایک بیٹا تھا وہ بھی ڈوب گیا.دونوں باپ بیٹا کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.نعیم اعوان صاحب 31 / جولائی کو جرمنی گئے تھے.آجکل یہاں رہتے تھے.اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ والدین کو ملنے گئے اور وہیں تفریح کرتے ہوئے رائن کے ریتلے کنارے کے قریب ہلکے پانی میں بچوں کے ساتھ نہا رہے تھے کہ دو بڑی کشتیاں فیری (ferry) وہاں سے گزریں تو اچانک پانی کی اونچی لہریں آئیں اور اونچی لہروں کا جور یلا تھا اس کی وجہ سے ان کی فیملی کے پانچ افراد اس ریلے کی زد میں آگئے اور پانی نے اپنے اندر کھینچ لیا.لیکن موقع پر موجود ایک جرمن شخص نے تین افراد کو تو کوشش کر کے نکال لیا تاہم جب نعیم صاحب نے اپنے بیٹے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تو اس کی جان بچانے کے لئے آپ نے چھلانگ لگائی یا آگے بڑھے، میرا خیال ہے شاید پانی میں پہلے ہی تھے لیکن دونوں باپ بیٹا پانی کی تیز لہروں میں بہہ گئے.اگلے دن ان کے بیٹے کی نفش ملی.ان کی نعش تو اس دن رات کو مل گئی تھی.لیکن بیٹے کی اگلے دن ملی.مرحوم مولوی محمد اسحاق صاحب آف قصور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑنوا سے اور مکرم مبارک علی اعوان شہید لاہور کے بھتیجے تھے.جرمنی کی جماعت اوز بینگن (Usingen) میں بطور قائد مجلس کے خدمت کی توفیق ملی.بیت الہدی او زینگن (Usingen) کی تعمیر کے دوران وقار عمل میں غیر معمولی وقت دیا.جنوری 2005ء میں اپنی فیملی سمیت یو کے آگئے.یہاں بھی آپ مجلس خدام الاحمدیہ کے فعال رکن تھے.باقاعدگی سے مسجد میں نمازوں کے لئے آنا، سکیورٹی کی ڈیوٹی دینا اور اس کے علاوہ وقار عمل میں بھر پور حصہ لینا.ان کو عمرہ کی سعادت بھی 2012ء میں ملی.بڑے خوش اخلاق، ملنسار انسان تھے.پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں عزیزہ راضیہ اعوان دس سال اور عزیزہ نتاشہ اعوان چودہ سال اور والدین اور تین چھوٹے بھائی اور بہن چھوڑے ہیں.فاروق آفتاب جو خدام الاحمدیہ کے معتمد ہیں میں نے جو پہلے کمال آفتاب کے جنازے کا بتایا تھا ان کے بھائی ہیں.یہ بھی کہتے ہیں کہ نعیم اعوان صاحب کو میں کئی سالوں سے جانتا تھا.بہت خوش اخلاق، نیک اور دوسروں کی مدد کر نے والے انسان تھے.کچھ عرصہ پہلے تک انہیں کافی مسائل کا سامنا تھا لیکن انہوں
خطبات مسرور جلد 13 493 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 اگست 2015ء نے کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا اور نہ کبھی کوئی مدد لی.اس لحاظ سے بھی ایک نمونہ تھے.مسجد فضل لندن کے قائد حلقہ جو ہیں وہ کہتے ہیں کہ دوسروں کی مدد بہت آگے بڑھ کر کرتے لیکن خود کسی پر بوجھ بنا پسند نہیں کرتے تھے.کسی کو اپنی مشکلات نہیں بتاتے تھے.اسی طرح باد ہمبرگ (Bad Homburg) جرمنی کے ایک صدر جماعت ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت میں 3 اگست سوموار کو جرمن احباب کے ساتھ ایک تبلیغی نشست ہونا تھی.کہتے ہیں میں نماز سینٹر میں کام کا جائزہ لینے پہنچا تو وہاں نعیم اعوان صاحب جو اپنے بہن بھائیوں کو ملنے، والدین کو ملنے گئے ہوئے تھے ان کو بھی دیکھا کام کر رہے ہیں.مجھے انہیں دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی.انہوں نے پوچھا کہ آپ یہاں کس طرح آگئے تو انہوں نے کہا اپنے بھائی کے ساتھ آگیا ہوں تا کہ میں بھی اس خدمت میں حصہ لے سکوں اور اس تبلیغی نشست میں میرا بھی کچھ حصہ ہو جائے.یوکے میں ہر جلسے میں خدمت دین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.ان کے ایک دوست عاصم صاحب لکھتے ہیں جلسے سے تقریباً ایک ماہ قبل چھٹی لے کر پورا مہینہ روزانہ صبح سے لے کر شام تک حدیقۃ المہدی میں وقار عمل میں حصہ لیتے.بہت محنت اور ایمانداری سے فرائض انجام دیتے.بڑے سخت جان قسم کے تھے اور بڑی محنت سے کام کیا کرتے تھے.ہر قسم کے بھاری کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.ان کی بچیوں کا بھی خود کفیل ہو.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 04 ستمبر 2015 ء تا 10 ستمبر 2015 ، جلد 22 شماره 36 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 494 34 خطبه جمعه فرموده مورخه 21 اگست 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احمدخلیفة فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء بمطابق 21 ظہور 1394 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کا با قاعدہ آغاز ہوگا یعنی جلسے کے پروگرام کے مطابق جو پہلاسیشن شروع ہونا ہے لیکن یہ بات بھی یا درکھنی چاہئے کہ جمعے کی بھی ایک اہمیت ہے.اس لئے اس اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور آج جلسے کی وجہ سے اس حق کی ادائیگی کے لئے یا اس حق کی ادائیگی کے دوران جو دعائیں کریں اس میں جلسے کے بابرکت ہونے کی دعائیں بھی کرتے رہیں.درود شریف کی اہمیت جمعہ کی اہمیت کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن مجھ پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے.(سنن ابی داؤد کتاب الصلوة باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة 1047) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جب مومن اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے جو دعا مانگے وہ قبول کی جاتی ہے اور آپ نے فرمایا کہ یہ بہت چھوٹی سی گھڑی ہے.(صحیح البخارى كتاب الجمعة باب الساعة التي في يوم الجمعة 935) پس یہ اہمیت ہے جمعہ کی اور اگر ہم آج کے دن آج کی عبادت اور خطبہ سننے کے دوران کیونکہ خطہ بھی جمعہ کی عبادت کا ایک حصہ ہے، اس میں درود پڑھیں.سب دعاؤں سے زیادہ اہم جو
خطبات مسرور جلد 13 495 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء دعا ہے وہ یہ ہے کہ درود پڑھیں.غور کر کے درود پڑھیں.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ کہہ رہے ہوں تو اس فہم اور ادراک اور سوچ کے ساتھ کہہ رہے ہوں کہ اے اللہ ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کر کے ، آپ کے خوبصورت پیغام اور تعلیم کو کامیابی اور غلبہ عطا فرما کر ، آپ کی لائی ہوئی شریعت کو حقیقی رنگ میں قائم فرما کر اس کی عظمت اور برتری دنیا پر ثابت کر دے اور ہمیں اس کے پھیلانے میں مددگار بننے کی توفیق عطا فرما کر آپ کی امت کے لئے مقدر انعاموں میں سے حصہ دار بنادے.اور جب ہم اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلیٰ مُحَمَّدِ کہہ رہے ہوں تو اس سوچ کے ساتھ کہ اے اللہ ہماری یہ بھی دعا ہے کہ تو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوبھی عزت و عظمت اور عظیم شان اور بزرگی مقدر فرمائی ہوئی ہے اس کو قائم فرما کر اور دشمن کو خائب و خاسر کر کے ہمیں بھی اسے دیکھنے اور اس کا حصہ بننے کی توفیق عطا فرما کہ جب ہم یہ نظارے کامیابی کے دیکھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قائم کیا جانے والا ہر مکر اور کوشش دشمن پر پڑے.اور آج جب ہم جمع ہو کر یہ دعا مجموعی طور پر کر رہے ہوں گے تو یہ ایسی دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں یقیناً پیار اور قبولیت کی نظر پاتی ہے اور دیکھی جاتی ہے اور ہم اس کی قبولیت سے فیض بھی پاتے ہیں اور پھر اس کے جاری فیض سے ہم حصہ دار بھی بنتے چلے جاتے ہیں.آپ کو جب آپ کے ماننے والوں کی یہ دعائیں پیش کی جاتی ہیں، آپ پر درود پیش کیا جاتا ہے تو پھر آپ کی دعاؤں کے فیض بھی ہمیں ملتے ہیں اور یوں برکات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے.ہمارے جلسوں کا ایک بہت بڑا مقصد تو یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا اور بیعت کی غرض بھی یہ بیان فرمائی کہ اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے.آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351) دل پر محبت تو اس وقت غالب آ سکتی ہے جب ہم آپ پر دل کی گہرائی سے درود بھیجیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ حکم ہے اور پھر اپنی حالتوں کو بھی اس کے مطابق ڈھالیں اور ڈھالنے کی کوشش کریں جس کا اسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.آپ کی محبت کی وجہ سے آپ پر درود اور آپ کی اتباع پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کو بھی حاصل کرنے والا بنائے گی.پس جمعہ کے دوران بھی، جمعہ کے بعد بھی خاص طور پر اور باقی دو دنوں میں بھی ایک توجہ کے ساتھ درود اور ذکر الہی میں ہر ایک کو وقت گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہتعالیٰ ہم پر رحم فرماتے ہوئے ہمارے مخالفین کے تمام منصوبوں کو ان پر الٹائے.
خطبات مسرور جلد 13 496 خطبه جمعه فرموده مورخه 21 اگست 2015ء پھر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں حقوق العباد کے بھی عظیم الشان نمونے نظر آتے ہیں.اس کے لئے بھی ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اسے اپنے اوپر لاگو کریں.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ آپس میں محبت پیار اور رحم کے جذبات رکھتے ہوئے زندگی گزارنے والے ہوں اور اس میں بھی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ نظر آتا ہے اور جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے بھی کھینچا ہے کہ عَزِیز عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ (التوبة: 128) کہ تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے.پس آپ کو مومنین کے لئے جو محبت تھی اس کی وجہ سے آپ کو برداشت نہیں تھا کہ ان کو ذراسی بھی تکلیف پہنچے.مومنوں کو پہنچنے والی ذراسی تکلیف بھی آپ کو بے چین کر دیتی تھی.پس یہ اُسوہ ہے جو ہمارے سامنے رکھا گیا کہ ایک دوسرے کی تکلیف تمہیں بے چین کرنے والی ہونی چاہئے اور یہ اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب حقیقی رنگ میں ایک دوسرے کے لئے رحم اور محبت کے جذبات ہوں.تعلقات اخوت، جلسہ کا ایک مقصد جلسے کے منعقد کرنے کے مقاصد میں سے ایک مقصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی بیان فرمایا کہ جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 281 اشتہار نمبر 91) اور تعلقات اخوت تبھی مضبوط ہوتے ہیں جب بے نفس ہو کر ایک دوسرے کی خاطر انسان قربانی کرتا ہے.ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا ہے.شروع کے جلسوں میں، ابتدائی جلسوں میں جب ابھی تربیت کے وہ معیار حاصل نہیں ہوئے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں اور قربانی کا وہ جذ بہ نہیں تھا بیشک عقیدے کے لحاظ سے مضبوطی پیدا ہو گئی تھی لیکن ماحول کے زیراثر حقوق العباد اور محبت اور بھائی چارے کے وہ معیار عملی طور پر پیدا نہیں ہوئے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے تھے.تو آپ نے جب یہ شکایات سنیں کہ ایک دوسرے کا جلسے میں خیال نہیں رکھا گیا.ہر شخص نے یا بعض لوگوں نے اپنے آرام کو دوسرے کے آرام پر ترجیح دی ہے.آپ اس بات پر بڑے سخت ناراض ہوئے اور اس ناراضگی کی وجہ سے پھر ایک سال جلسہ بھی منعقد نہیں ہوا.آپ نے بڑی سختی سے فرمایا کہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہر اوے.“ ( شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395 )
خطبات مسرور جلد 13 497 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء پس یہ دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلی جذبات اپنی جماعت کے افراد میں بھائی چارہ اور محبت اور پیار دیکھنے کے لئے.آپ اس بات پر بے چین ہو جاتے ہیں کہ کیوں میرے ماننے والے ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس نہیں کرتے.پس جلسے پر آنے والوں کو جہاں جلسے کا مقصد پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنی ہے وہاں آپس کی محبت اور پیار اور بھائی چارے کے جذبات کو بھی بڑھانا ہے.اپنے دینی علم میں بھی اضافہ کرنا ہے.آپ نے ایک جگہ اس کیفیت کا جو جلسے کا مقصد ہے اور جو جلسے میں شامل ہونے والوں میں پیدا ہوگی یا ہونی چاہئے اس طرح نقشہ کھینچا ہے اور بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : د و حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئے.اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں.اور نیز اُن دوستوں کے لئے خاص دعا ئیں اور خاص توجہ ہو گی.اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا.تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے (اور ) ان کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جلشانہ کوشش کی جائے گی.اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گئے“.آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 352-351) پس ہم میں سے ہر ایک کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نے یہاں ان دنوں میں جلسے کے مقاصد کو پورا کرنا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ دنیاوی میلوں کی طرح میلہ نہیں سمجھنا.(ماخوذ از شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحه 395) اور جیسا کہ اس اقتباس سے ظاہر ہے ہماری توجہ ان دنوں میں ربانی باتوں کے سننے کی طرف رہنی چاہئے.آپس کی مجلسوں اور خوش گپیوں میں وقت نہیں گزارنا چاہئے.نہ ہی اپنے وقت کا زیادہ حصہ
خطبات مسرور جلد 13 498 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء بازاروں میں گزار کر وقت ضائع کریں.کچھ عرصے کے لئے جانا ہے تو جائیں لیکن بعضوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ مستقل باہر پھرتے رہیں گے یا ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہیں گے.جلسے میں شامل ہونے والوں کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ جلسے کے پروگراموں کے علاوہ بعد میں بھی یعنی یہ جو جلسے کے مین سیشن ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی بعض پروگرام ہوتے ہیں.جلسے کے پروگراموں کے علاوہ جو وقت باقی بچے اپنا وہ وقت دینی باتوں یا ذکر الہی میں گزاریں یا جو دوسرے پروگرام ہیں ان کو دیکھیں.پھر بعض ایسی چیزیں ہیں کہ بجائے ادھر ادھر پھرنے کے وقت گزارنے کے یا بازاروں میں پھرنے کے جماعتی طور پر یہاں بعض انتظامات کئے گئے ہیں جس سے انسان کے ایمان اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے.مثلاً مخزن تصاویر ہے انہوں نے یہاں نمائش لگائی ہوئی ہے.جماعت کی ایک تاریخ ہے اسے دیکھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کریں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو اور آپ سے کئے گئے وعدوں کو پورا فرما رہا ہے اور کس طرح جماعت کا تعارف اور تبلیغ دنیا کے کناروں تک پھیل رہی ہے؟ پھر وہاں شہدائے احمدیت کی تصاویر ہیں ان کو دیکھ کر ان کے درجات کی بلندی اور اپنے ایمانوں کی مضبوطی اور ان کے خاندانوں اور جماعت کے افراد کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ ہر جگہ جماعت کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے.پھر اشاعت کی طرف سے ایک سٹال ہوتا ہے.ان کی بھی ایک مار کی ہے وہاں جا کر اس سال چھپنے والی جو کتب اور لٹریچر ہے اس کو دیکھیں.جو خرید سکتے ہیں خریدیں.پھر پہلا لٹریچر جن کے پاس نہیں ہے یہ بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں.ریویو آف ریلیجنز نے بھی اس سال ان کا جو یہاں سٹال ہے یا جو جگہ ہے اس کو وسعت دی ہے اور کفن عیسی کے بارے میں اس دفعہ وہاں بڑی معلومات ہیں.اس کو بھی دیکھیں اور ان چیزوں کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو سچائی اور صداقت مزید ظاہر ہوتی ہے اس سے اپنے ایمان میں اضافہ کریں.اسی طرح جلسے کے مین پروگرام کے علاوہ مختلف زبانوں میں جو باقی پروگرام ہوتے ہیں ان سے بھی جو استفادہ کر سکتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں انہیں استفادہ کرنا چاہئے.جلسے کے مین پروگرام کے بعد آپس میں تعارف وغیرہ حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کو ملیں.جلسے کے بعد کئی نئے آنے والے احمدی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری زبان مختلف ہونے کے باوجود جب ہم مختلف قوموں کے
خطبات مسرور جلد 13 499 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء احمدیوں کو ملتے ہیں تو اشاروں کی زبان سے ہی جو محبت اور پیار کے جذبات پیدا ہو رہے ہوتے ہیں اور بڑھتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہو اور روحانی طور پر سب بھائی ایک ہوں اور خشکی اور اجنبیت اور نفاق اٹھا دینے کے لئے کوشش ہو اور اس کے لئے دعا بھی ہو تو بے غرض تعلق کا اظہار اور ایک دوسرے کے لئے دعا ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں جس کی مثال صرف ہمارے انہی جلسوں میں نظر آتی ہے.پس ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس تعلق اور تعارف کو حاصل کرے اور بڑھائے اور محض اللہ یہ تعلق ہو.اسی طرح یہ بھی ہر ایک کو کوشش اور دعا کرنی چاہئے کہ وہ تمام روحانی فوائد جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عمومی طور پر ذکر فرمایا ہے کہ اور بھی بہت سے روحانی فوائد اور منافع ہوں گئے جن تک ہماری سوچ جاسکتی ہے یا نہیں یا جو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تھے کہ میرے ماننے والوں کو یہ روحانی فوائد ہوں، ان سب سے ہم حصہ لینے والے ہوں.یہ بھی دعا کرنی چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.پس ان دنوں میں اس کے لئے ، جیسا کہ میں نے کہا، دعا بھی کریں اور کوشش بھی کریں.ہر ایک کو اپنی استعداد کے مطابق اس میں حصہ لینا چاہئے.جلسے کے پروگراموں کو سننے اور اس غرض سے سننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اس پر ہم نے عمل بھی کرنا ہے.اس بارے میں نصیحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے“.(جب باتیں کی جائیں، تقریریں کی جائیں.) اور پورے غور اور فکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے.اس میں غفلت ، سستی اور عدم توجہ بہت بُرے نتیجے پیدا کرتی ہے.جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جاوے تو غور سے اس کو نہیں سنتے ہیں ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا“.اگر وہ غور سے نہیں سنو گے تو جیسا مرضی بیان ہو کوئی فائدہ نہیں دے گا.فرمایا کہ: ”ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں.دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں.پس یا د رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑی غور سے سنو کیونکہ جو تو جہ سے نہیں سنتا وہ خواہ
خطبات مسرور جلد 13 500 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 143-142) پس ان پروگراموں کو بھی توجہ سے سنیں اور اس نیت سے سنیں کہ ان باتوں سے ہم نے صرف علمی حظ نہیں اٹھانا بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ہے.اسے اپنے ایمان اور ایقان میں اضافہ اور فائدہ کا ذریعہ بھی بنانا ہے.آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ : میں اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہوں کہ صرف مقرر کی لفاظی اور خطابت کو ہی دیکھا جائے.آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں ادبار اور زوال اور ذلت صرف اس لئے ہوئی ہے کہ مغز کو نہیں دیکھا جاتا.جو اصل چیز ہے اس کو نہیں دیکھا جاتا.صرف ظاہری خوبصورتی اور کھو کھلے پن کو دیکھا جاتا ہے.نفس مضمون کو نہیں دیکھا جاتا.جو باتیں ہوتی ہیں ان پر غور نہیں کیا جاتا، ان پر عمل کرنے کے لئے کوشش نہیں کی جاتی.صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ فلاں مقرر بہت اچھا بولا ، فلاں اس طرح مجمع پر چھا گیا.آپ نے فرمایا کہ یہ سب باتیں ایسی ہیں جو بے فائدہ ہیں اور بے مقصد ہیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 398 تا 401) آپ نے اپنے ماننے والوں کو نصیحت کی کہ تم ان مجلسوں میں آنے والوں اور بولنے والوں کی طرح نہ بنو بلکہ اخلاص پیدا کرو.ایسے نہ بنو جو فائدہ نہیں اٹھاتے.مسلمانوں کی عمومی طور پر ترقی کے بجائے تنزلی کی یہی وجہ ہے کہ مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے.بڑی بڑی مجلسیں ہوتی ہیں لیکن وہاں اخلاص نہیں ہوتے.ظاہری باتیں ہوتی ہیں.پس ہم میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اخلاص کے ساتھ ان سارے پروگراموں کو سنیں ورنہ آپ لوگوں کا اتنا خرچ کر کے یہاں آنا اور پھر جماعت کا بھی اس بڑے وسیع انتظام کے لئے اتنا زیادہ خرچ کرنا بے فائدہ ہے.پس آنے والے مہمان تمام شامین جلسہ اپنے جلسے میں شامل ہونے کے مقصد کو سامنے رکھیں اور زیادہ سے زیادہ فیض اٹھانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.نیز انتظامی لحاظ سے بھی چند باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں.انتظامیہ جہاں آپ کی خدمت کے لئے ہے وہاں آپ کے فائدے کے لئے ہے اور اگر تعاون ہوگا تو صحیح انتظام چلیں گے.چاہے وہ مردوں کے لئے بھی اور عورتوں کے لئے بھی، بچوں والی ماؤں کے لئے بھی جلسہ گاہ میں بیٹھنے کی ہدایات ہیں یا کھانا کھانے کی مارکیوں میں کھانے کے اوقات میں جانے اور ایک نظام کے
خطبات مسرور جلد 13 501 خطبه جمعه فرموده مورخه 21 اگست 2015ء تحت کھانا کھانے کی ہدایات ہیں، ان پر عمل کریں.لیکن کھانا کھلانے کی انتظامیہ جو ہے ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ بعض لوگوں کو اپنی بیماری کی وجہ سے یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے بعض دفعہ دیر سے آنے کی وجہ سے اور بعض بچوں والی عورتوں کو کسی وجہ سے کھانے کے اوقات کے علاوہ بھی کھانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے یا مارکی میں جانا پڑتا ہے اس لئے وہاں کچھ نہ کچھ انتظام ہر وقت بھی رہنا اہئے کیونکہ بازار تو پھر بند ہوتے ہیں.لیکن عام طور پر آپ کو، مہمانوں کو یہ خیال رکھنا چاہیئے اور ہر ایک شخص جو ہے وہ جلسے کے اوقات میں اس بات کا خیال رکھے کہ اس نے جلسے سے فائدہ اٹھانا ہے.یہ نہ سمجھیں کہ تھوڑی سی اجازت ہے تو انتظامیہ کو بلا وجہ تنگ بھی کرنا شروع کر دیں.عمومی کوشش کریں کہ بچوں والی مائیں اپنے بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ کھانا ساتھ لے کر آئیں اور علیحدہ ہو کر پھر ان کو کھلا دیں.ان کی مارکیاں بھی علیحدہ ہیں.اسی طرح ٹریفک کی انتظامیہ سے بھی بھر پور تعاون کریں.ٹریفک کی وجہ سے بہت دفعہ پروگرام لیٹ ہو جاتے ہیں.جہاں پارکنگ کے لئے کہا جائے وہاں اپنی گاڑیاں کھڑی کریں.سکینگ(scanning) کی صورت زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اگر وقت پر کوئی دقت بھی ہو تو برداشت کریں اور وہاں بھی گھٹیوں میں داخل ہونے سے پہلے انتظامیہ سے بھر پور تعاون کریں.یہ سیکیورٹی کے لئے بھی ضروری ہے اور آپ کی آسانی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس طرح تعاون کی وجہ سے پھر جلدی سے جلدی گزرسکیں گے.اسی طرح سیکیورٹی کے عمومی انتظام سے بھی بھر پور تعاون کریں اور خود بھی ہوشیاری سے ہر ایک کو، ہر احمدی کو اپنے دائیں بائیں نظر رکھنی چاہئے.یہ بھی ہمارا سیکیورٹی کا بہت بڑا نظام ہے.دنیا کے حالات بھی ایسے ہیں اور جماعت کی ترقی سے حاسدین کی شرارتوں میں بھی تیزی آئی ہے اور اضافہ بھی ہو رہا ہے.پس اس لئے اس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر تو حاسدوں کے حسد اور شریروں کے شر سے بچنے کے لئے ان دنوں میں بہت دعائیں کریں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہہ دیا ہے.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے جلسے کو بابرکت فرمائے.جلسے کے پروگرام بھی ہر ایک کو دیئے جاتے ہیں اس پر باقی ہدایات لکھی ہوئی ہیں ان کو غور سے پڑھیں اور عمل کریں.نمازوں کے بعد میں کچھ غائب جنازے بھی پڑھاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے تعلق میں ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ جو بھائی اس عرصے میں سرائے فانی سے انتقال کر جاتے ہیں ان کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی.(ماخوذ از آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 352)
خطبات مسرور جلد 13 502 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء تو میں اس وقت دو جنازہ غائب پڑھاؤں گا جن میں سے ایک ہمارے ایک شہید نوجوان کا جنازہ ہے اور ایک دیرینہ اور بہت پرانے خادم سلسلہ کا جنازہ ہے.ان کے ساتھ عمومی طور پر اس سال رخصت ہونے والوں کو بھی شامل رکھیں.عام طور پر تو دعاؤں میں رخصت ہونے والوں کو شامل کیا جاتا ہے لیکن کیونکہ آج جنازے ہورہے ہیں اس لئے یہ بھی شامل رکھیں.پہلا جنازہ جیسا کہ میں نے کہا شہید کا ہے.مکرم اکرام اللہ صاحب شہید ابن مکرم کریم اللہ صاحب، یہ تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان کے تھے.ان کو مخالفین نے مؤرخہ 19 /اگست 2015ء کو بعد نماز مغرب ان کے میڈیکل سٹور پر آ کر فائرنگ کر کے شہید کر دیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.وقوعہ کے روز 19 اگست 2015ء کو شہید مرحوم اپنے میڈیکل سٹور پر تھے کہ دو موٹر سائیکلوں پر چار مسلح افراد نے سٹور پر آ کر فائرنگ کر دی اور فرار ہو گئے.حملہ آور جاتے ہوئے ہوائی فائرنگ بھی کرتے رہے اور اللہ اکبر کے نعرے بھی لگاتے رہے اور کہتے رہے کہ ہم نے کا فر کو مار دیا.شہید مرحوم کو جسم کے مختلف حصوں پر گیارہ گولیاں لگیں.ایک گولی آنکھ پر لگی اور آر پار ہوگئی جس سے موقع پر ہی شہادت ہوگئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذان کے دادا مکرم سردار فیض اللہ خان صاحب نیکانی کی ہمشیرہ محترمہ سردار بیگم صاحبہ کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہلے تحریری بیعت بھجوائی اور بعد ازاں 1905ء میں اپنے خاوند کے ہمراہ قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.محترمہ سردار بیگم صاحبہ کے بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد مکرم سردار فیض اللہ صاحب نے بھی بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی تھی.مکرم سردار فیض اللہ صاحب امیر ضلع ڈیرہ غازی خان رہ چکے ہیں.دس سال قبل یہ تونسہ کے قریب ایک جگہ ہے وہاں سے تونسہ شفٹ ہوئے تھے.اکرام اللہ صاحب 1978ء میں رکھ مور جھنگی ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے.شہید مرحوم نے گرایجویشن کی ، ڈسپنسر کا کورس کیا اور تعلیم کے بعد اپنی ڈسپنسری کھول لی.اور پھر نو سال قبل تونسہ شریف میں اپنا میڈیکل سٹور بنایا.اور کچھ عرصہ انہوں نے ملازمت بھی کی تھی.2009ء میں ان کی شادی ہوئی.انتہائی ایماندار نیک دل، نیک سیرت ، شریف النفس اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے.نہایت مخلص اور فدائی نوجوان تھے.سیلاب کی وجہ سے پورا علاقہ متاثر ہوا جس کی بناء پر ان کو نمایاں خدمت کا موقع ملا.شہید مرحوم اکثر غریبوں کو مفت ادویات دیا کرتے تھے.خدمت
خطبات مسرور جلد 13 503 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء کے جذبے سے سرشار تھے.پیچھے رہ کر خدمت کا جذ بہ نمایاں تھا.والدین کی بھر پور خدمت کرنے والے تھے.شہید مرحوم خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور اس وقت بحیثیت سیکرٹری امور عامه تونسہ شریف خدمت کی توفیق پا رہے تھے اور اس کے علاوہ خدام الاحمدیہ میں بھی مختلف جگہوں پر ان کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملی.11 جولائی 2015ء کو وہاں کچھ لوگوں نے تونسہ شریف کی جماعت کی مسجد پر حملہ کیا تھا اور فائرنگ کر کے وہ لوگ فرار ہو گئے تھے.تو یہ اس کیس کی بھی پیروی کر رہے تھے.ان کو مستقل دھمکیاں دی جارہی تھیں.جماعت کے خلاف بھی ، ان کے خلاف بھی مخالفانہ اشتہارات آویزاں کئے جا رہے تھے.لیکن بہر حال اس کے باوجود یہ بڑی جرات، بہادری سے سب کا سامنا کر رہے تھے.سماجی لحاظ سے بھی نمایاں اثر و رسوخ کے مالک تھے اور علاقے میں صاحب اثر تھے.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بلا توقف آجائیں.شہید مرحوم نے پسماندگان میں بھائی بہنوں کے علاوہ والدہ محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ، اہلیہ (فوزیہ یاسمین صاحبہ ) اور دو بچیاں ایک بیٹی رافعہ مریم عمر چار سال اور بیٹا عزیزم کا شف عمر دو سال چھوڑے ہیں.دونوں بچے وقف تو تنظیم میں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ شہید بھائی کے درجات بلند فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے.دوسرا جنازہ مکرم و محترم پروفیسر چوہدری محمدعلی صاحب ایم اے کا ہے جو آجکل وکیل التصنیف تحریک جدید تھے.14 اگست 2015ء کو ان کی وفات ہوئی.تعلیمی ریکارڈ کے مطابق ان کی پیدائش 1917ء کی ہے.چھوٹی عمر میں ان کو احمدیت سے تعارف ہوا.زمانہ طالبعلمی میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب مربی بخارا کے اسلام کے دفاع میں ایک پنڈت سے کئے گئے مناظرہ سے آپ پر احمدیت کا اچھا اثر پڑا.گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران محترم قاضی محمد اسلم صاحب جو وہاں پروفیسر تھے، صدر شعبہ فلاسفی بھی تھے ان کی شخصیت اور اوصاف حمیدہ اور دعوت الی اللہ کی وجہ سے 1941ء میں آپ کو نوجوانی میں احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق ملی.پھر آخری دم تک سلسلے کی خدمت میں مصروف رہے.آپ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے گاؤں میں بھی اکیلے احمدی تھے.بڑی جوانمردی سے آپ نے ان تمام حالات کا مقابلہ کیا.گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے فلاسفی کیا.پھر آپ نے 9 را پریل 1944ء کو وقف زندگی کی
خطبات مسرور جلد 13 504 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء درخواست حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں پیش کی.اور حضرت مصلح موعودؓ نے درخواست کو از راہ شفقت منظور فرمایا.اس کے بعد تعلیم الاسلام کالج قادیان میں فلاسفی کے لیکچرر کے طور پر آپ کی تقرری ہوئی تقسیم ہند کے بعد آپ پہلے لاہور میں اور پھر ربوہ میں اسی کالج سے وابستہ رہے.اس طرح آپ تعلیم الاسلام کالج کے بانی اساتذہ میں شامل ہوتے ہیں.کالج میں آپ فلسفہ، نفسیات، ادب اور انگریزی زبان پڑھاتے رہے.جون 1967ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.اسی طرح یہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورہ افریقہ اور یورپ کے دوران بھی آپ کے ساتھ تھے.ان کو معیت کا شرف حاصل ہوا.1984ء میں آپ کا تقرر جامعہ احمدیہ میں بطور انگریزی کے پروفیسر کے ہوا جہاں آپ نے شعبہ انگریزی کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دیں.اسی طرح اس دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے تراجم کی سعادت بھی آپ کوہلی.جب وکالت وقف نو کا قیام ہوا تو چوہدری محمدعلی صاحب کو حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے پہلا وکیل وقف نو مقرر فرمایا.پھر 1998ء میں تراجم کے کام کی وسعت کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” کی طرف سے آپ کو وکیل التصنیف مقرر فرمایا گیا.اور آخر دم تک آپ اس خدمت پر مامور رہے.آپ نے سلسلے کی بہت سی کتب کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی توفیق پائی.اس طرح آپ کو تقریباً 71 سال سلسلہ کی خدمات کی توفیق ملی.ایک طویل عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ اکیڈیمک کونسل اور بورڈ آف سٹڈیز کے ممبر رہے.یہ بہت ہی بڑا اعزاز ہے.آپ اردو ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے.اردو اور پنجابی زبان کے بلند پایہ قادر الکلام شاعر تھے.بڑے محنتی منتظم تھے.ہمدرد استاد تھے.مشفق نگران تھے.خلافت کے سچے مطیع اور فرمانبردار تھے.نظام جماعت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے والے بزرگ تھے.ریا کاری سے پاک ،نرم خو، نرم زبان، انسانیت کے ہمدرد اور نیک انسان تھے.اور یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن میں کوئی مبالغہ نہیں ہے.13 اگست کو بھی آپ دفتر تشریف لائے اور تمام وقت دفتری امور کی انجام دہی کے بعد گھر گئے جہاں ان کو ہارٹ اٹیک ہوا.فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور 13 اور 14 راگست 2015 ء کی درمیانی شب اپنے خالق حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون پسماندگان میں ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں.مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ کہتے ہیں کہ میں چھوٹا تھا.قادیان میں چھٹی ساتویں کا
خطبات مسرور جلد 13 505 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء طالبعلم تھا.اس وقت فضل عمر ہوٹل کی بنیاد رکھی جانی تھی اور یہ خبر مشہور ہوئی کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی بنیادرکھنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں.بہر حال حضرت خلیفہ اسیح الثانی وہاں تشریف لائے اور ہوسٹل کے صحن میں کھڑے کھڑے تقریر فرمائی.کہتے ہیں میں چھوٹا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ حضور نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب بھی جالندھر سے تعلق رکھتے تھے.یعنی وہ مولوی محمد علی صاحب جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بیعت کی تھی اور پھر بعد میں خلافت سے علیحدہ ہو گئے تھے.حضرت خلیفہ ثانی نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب بھی جالندھر سے تعلق رکھتے تھے اور چوہدری محمد علی صاحب جن کو اب میں ہوسٹل کا وارڈن مقر ر کر رہا ہوں یہ بھی جالندھر سے تعلق رکھتے ہیں.نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب بھی آرائیں قوم سے تعلق رکھتے تھے اور چوہدری محمد علی صاحب بھی آرائیں قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور پھر بعض نیک توقعات چوہدری محمد علی صاحب سے وابستہ کیں اور یہ حضرت مصلح موعودؓ کی دعا ئیں اور نیک تو قعات تھیں جن کی وجہ سے چوہدری محمد علی صاحب کو مولوی محمد علی صاحب سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ کرنے کی توفیق ملی اور پھر ترجمہ بھی بڑا اعلیٰ معیار کا آپ نے کیا.بڑی گہرائی میں بغیر کسی لفظ یا فقرے اور مضمون کو چھوڑے اس حق کو ادا کرنے کی آپ نے کوشش کی جو ترجمے کا حق ہوتا ہے.مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ 1939 ء کے جلسے میں آپ چھپ کر شامل ہوئے اور 1940ء میں حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی.( یہ 1941ء ہے ویسے.) آگے لکھتے ہیں کہ روز اول سے ہی خلافت کے عاشق تھے.حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ اے جانِ حسنِ مطلق اے حسنِ آسمانی اے مست رو محبت ،اے تیز رو جوانی کہتے ہیں کہ ان کی یہ مست رو محبت ہر خلافت کے ساتھ ایک تیز روطغیانی کی شکل اختیار کر گئی.اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں.کہتے ہیں کہ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی اور ان سے نشست خواہ کتنی ہی مختصر ہوتی ان کی صحبت میں بیٹھنے والا خلافت کی محبت سے سرشار ہو کر اٹھتا.اور بلا استثناء اس بات کا ہر ایک نے اظہار کیا ہے.ریاض احمد ڈوگر صاحب مبلغ سلسلہ ہیں.وہ کہتے ہیں خاکسار کو جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا.آپ کہنے کو تو انگلش کے استاد تھے لیکن آپ نے ہمیں انگلش ہی نہیں وقف کی اہمیت، اخلاقیات، خلافت سے وفا، بزرگوں کا احترام ، سلسلے کا وقار، سب کچھ سکھانے کی بھر پور
خطبات مسرور جلد 13 506 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء کوشش کی.کہتے ہیں جب میں جامعہ سے فارغ ہو کر میدان عمل میں جانے لگا تو جامعہ سے باہر نکلا تو دیکھا کہ آپ ایک درخت کے سائے تلے کھڑے ہیں.آپ نے مجھے آواز دے کر بلایا اور بٹھا کر کہنے لگے.کیا کر رہے ہو ، میدان عمل میں جارہے ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں جی.کہنے لگے کہ میری دو باتیں یادرکھنا.اور یہ ہر مبلغ کے لئے ، ہر مربی کے لئے بڑی ضروری ہیں.کہ تم فیلڈ میں جار ہے ہو چوہدری صاحب نے انہیں کہا کہ وہاں ریاض ڈوگر کو کوئی نہیں جانتا.احباب جماعت تمہارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمائندہ سمجھ کر آئیں گے اور حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَا تَسْتَمْ مِنَ النَّاسِ.کہ لوگوں.اکتانا نہیں.ایسا ہو گا کہ تم تھکے ہو گے تمہارا سر درد کر رہا ہو گا تمہارا سونے کو دل چاہ رہا ہو گا.ایک آدمی کو نیند نہیں آ رہی ہوگی وہ تمہارے پاس آ جائے گا.اس کے سامنے بھی اکتاہٹ کا اظہار نہیں کرنا یعنی تمہاری جیسی مرضی حالت ہو اگر کوئی شخص بھی آتا ہے وہ کسی وجہ اور پریشانی کی وجہ سے آتا ہے یا جس وجہ سے بھی آتا ہے کبھی تم نے اکتاہٹ کا اظہار نہیں کرنا.پھر کہنے لگے کہ دوسری بات یاد رکھو.تم جماعتوں میں جاؤ گے بعض لوگ تمہاری کمزوریوں کی نشاندہی کریں گے اور نشاندہی کریں تو بشاشت کے ساتھ قبول کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کریں.بعض لوگ مقامی عہدیداروں پر تنقید کریں گے.کہنے لگے یہ بہت بری بات ہے.نہیں ہونی چاہئے.لیکن سنی جا سکتی ہے.سن لینا برداشت کر لینا.آگے کہنے لگے لیکن اگر کوئی خلافت یا خلیفہ اسیح پر اعتراض کرے تو تمہاری برداشت کی تمام حدیں ختم ہو جانی چاہئیں.پھر کوئی برداشت نہیں کرنی.کہنے لگے میری یہ دو باتیں یا درکھنا انشاء اللہ میدان عمل میں سارے کام آسان ہو جائیں گے.ڈاکٹر نوری صاحب کہتے ہیں کہ چوہدری محمد علی صاحب کو جب یہ جان لیوا ہارٹ اٹیک ہوا اور آپ کو ہسپتال لے جایا گیا تو اس دوران آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور مسلسل خدا تعالیٰ کی حمد میں مصروف رہے.طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں جب شروع ہوا ہے تو اس وقت آپ رجسٹر ہونے والے پہلے مریض تھے.ان کو پرانی دل کی بیماری تھی.کئی دفعہ ہسپتال داخل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا دی جس کے بعد آپ پھر خدمت میں مصروف ہو جاتے.ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس اہم کام کو سر انجام دینے کی توفیق دے اور ہمت دے جو خلیفہ وقت نے میرے سپر د کیا ہے.یہ کہتے ہوئے آپ کی آواز بھتر اجاتی اور آنکھوں میں آنسو آ جاتے.ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہ بخش ے.میری کمزوریاں بخش دے.ساری خطائیں معاف کر دے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت
خطبات مسرور جلد 13 507 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 اگست 2015ء اور اس کا قرب مجھے عطا ہو.مظفر درانی صاحب مربی لکھتے ہیں کہ جب میں آنے لگا تو ملنے گیا.انہوں نے پوچھا تو بھرائی ہوئی آواز میں انہوں نے مجھے سلام پہنچانے کے لئے کہا.کہتے ہیں آپ کو خلافت سے سچی اور حقیقی محبت تھی.جس خلیفہ کا بھی تذکرہ کرتے تو نہایت محبت سے ذکر کرتے اور ذاتی تعلقات کے واقعات بیان کرتے چلے جاتے.جس خلیفہ کا بھی ذکر شروع ہو جا تا تو ایسے لگتا کہ آپ اسی کے عاشق ہیں.لکھتے ہیں کہ خاکسار آپ کی ملاقاتوں اور صحبت کے نتیجے میں عرض کرتا ہے کہ آپ خلافت کے بچے فدائی تھے اور تمام خلفاء کے عاشق تھے اور یہی ایک حقیقی مومن اور حقیقی احمدی کی نشانی ہے.پروفیسر ثناء اللہ صاحب کہتے ہیں کہ چوہدری محمد علی صاحب خلافت احمدیہ کی ایک زندہ تاریخ تھے جن کی زندگی کا واحد مقصد خلافت کی جاں شاری تھا اور جن کا فخر یہ شعر تھا کریں نہ کریں وہ تمہیں قتل مضطر جھکا دینا تم اپنا سر احتیاطاً مبارک صدیقی صاحب کہتے ہیں ایک دفعہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا.دو تین دفعہ یہ موقع ملا تھا اور ان کو کہا کہ انتخاب سخن پروگرام میں آپ کی فلاں فلاں نظموں کی لوگ بڑی فرمائش کرتے ہیں.اس بات پر آپ کہنے لگے میرے کلام کا کوئی ہنر نہیں ہے.یہ سب خلافت کی برکات ہیں.میں تو صرف احمدیوں کے دلوں کی ترجمانی کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو اچھا لگتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان جیسے مخلص اور فدائی خلافت کے شیدائی اللہ تعالیٰ جماعت کو ہمیشہ عطا کرتا چلا جائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 11 ستمبر 2015ء تا 17 ستمبر 2015 ءجلد 22 شماره 37 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 508 35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28 راگست 2015 ء بمطابق 28 ظہور 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جلسہ سالانہ برطانیہ کا ختتام اور اظہار تشکر آجکل مجھے دنیا کے مختلف ممالک سے خطوط اور فیکسز آ رہی ہیں جن میں جلسہ سالانہ برطانیہ کے کامیاب انعقاد پر مبارکبادیں بھی ہوتی ہیں اور اس بات کا اظہار بھی کہ ہم نے ایم ٹی اے کے ذریعہ براہ راست جلسہ دیکھا اور فائدہ اٹھایا.لیکن حقیقی فائدہ اور فیض تو تبھی پہنچتا ہے جب ہم اس بات کی بھی بھر پور کوشش کریں کہ جو کچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے اسے اپنی زندگی سنوارنے کا ذریعہ بنا ئیں.کوئی سیاسی باتیں یہاں نہیں ہوتیں.کوئی دنیاوی باتیں نہیں کی گئیں بلکہ غیر مسلموں یا غیر احمدیوں کا بھی جو دنیا دار طبقہ ہمارے جلسہ پر مہمان کے طور پر آتا ہے ان میں سے بعض خاص مہمانوں کو دو تین منٹ کے لئے کچھ کہنے کا موقع دیا جاتا ہے تو ان میں سے بھی تقریباً سبھی اس دینی ماحول سے متاثر ہو کر زیادہ تر انہی باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو جماعت کی تعلیم کا حصہ ہیں اور اعلیٰ اخلاقی معیاروں کی طرف لے جانے والی ہیں.بہر حال اس جلسے کا فائدہ تبھی ہے جب ہم اپنی حالتوں کو اپنی تعلیم کے مطابق بنائیں اور جو کچھ سنا ہے اسے اپنے پر لاگو کریں ورنہ ان مہمانوں کے سامنے جو کچھ ہم نے پیش کیا، جو کچھ ہم نے سنا اور جس کی عموماً ہمارے مہمان تعریف کرتے ہیں وہ صرف ظاہری چمک ہوگی.ہمارے اندرونے کا اظہار نہیں ہوگا.ایک مومن کو اندر اور باہر سے ایک جیسا ہونا چاہئے.آجکل کی جو دنیا ہے اس کی بہت زیادہ نظر ہم پہ ہوگئی ہے اور اب دنیا ہمارے جلسوں میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شامل ہوتی ہے.احمدی دنیا بھی اور بعض
خطبات مسرور جلد 13 509 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء دوسرے بھی سنتے ہیں.خاص طور پر برطانیہ کے جلسے کو بہت گہری نظر سے دیکھا جاتا ہے.ہم لاکھوں پاؤنڈ ایم ٹی اے کے لئے خرچ کرتے ہیں.ایم ٹی اے کے ذریعہ پیغام پہنچانے کے لئے صرف اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ ہمارا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد اپنی زندگی کے مقصد کو پانے والا ہو.اس تک ایک وقت میں پیغام پہنچ رہا ہو.پس ہماری خوشی اور مبارکبا د صرف جلسے کے کامیاب انعقاد کی مبارکبادوں تک محدود نہ رہے بلکہ یہاں شامل ہونے والے بھی اور دنیا میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے سننے والے بھی جو انہوں نے سنا ہے، دیکھا ہے اس کی جگالی کرتے رہیں.اپنی زندگی کا حصہ بنا ئیں.اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس نے اس مادی دور میں ایک دنیاوی مادی ایجاد کو ہماری اصلاح کے لئے، ہماری علمی عملی اور اعتقادی ترقی کے لئے ، بہتری کے لئے ذریعہ بنا دیا ہے.ٹیلیویژن، انٹرنیٹ، اخبار اور دوسرے اشاعت کے ذرائع جب ہمارے لئے کام کر رہے ہوں تو ایک مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سوسال پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی کہ اس زمانے میں ایسی ایجادیں ہوں گی جو دین کی اشاعت کے لئے ممد و معاون ہوں گی اور ہر روز ہم اس پیشگوئی کو بہتر سے بہتر رنگ میں پورا ہوتے دیکھتے ہیں.میں آگے کچھ ذکر کروں گا، پریس کی بھی رپورٹ دوں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ یہ پیغام پہنچاتا ہے.پس ہمیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس بات پر شکر گزاری کے اظہار میں ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والا ہونا چاہئے کہ یہ شکر گزاری ہمیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مزید انعامات اور ترقیات سے نوازے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم: 8) - کہ اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا اور بھی زیادہ بڑھاؤں گا.شکر گزاری کا یہ مضمون جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کا راستہ دکھاتا ہے وہاں بندوں کی شکرگزاری کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا.(سنن الترمذى ابواب البر والصلة باب ما جاء فى الشكر لمن احسن الیک حدیث نمبر 1955) بہت سارے والنٹیئر تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کام کرنے والوں کو تو فیق دی کہ انہوں نے جلسے کے انتظامات کو بہترین شکل دینے کی کوشش کی.ٹرانسپورٹ ہے.رہائش ہے.کھانا پکانا ہے.جلسہ گاہ ہے.مختلف پروگرام ہیں.صفائی کا کام ہے.گرمی میں پانی پلانے کا انتظام ہے.آواز پہنچانے کا انتظام ہے اور دنیا تک پھر آواز اور یہاں کے نظارے پہنچانے کا انتظام جو ایم ٹی اے نے کیا ہے.غرض کہ اگر
خطبات مسرور جلد 13 510 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء نام لئے جائیں تو بیشمار شعبے ایسے بنتے ہیں جن میں مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی ، بوڑھوں نے بھی، جوانوں نے بھی ، بچوں نے بھی بچیوں نے بھی خدمت کی ہے اور جلسے کے تمام انتظامات کو اپنی استعدادں اور صلاحیتوں کے مطابق بہترین رنگ میں انجام دینے کے لئے بھر پور کوشش کی ہے.تمام والنٹیئر زجو مختلف شعبوں کے ہوتے ہیں ان میں کوئی اپنے اپنے کاموں میں کسی کمپنی میں ڈائر یکٹر ہے تو کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی انجنیئر ہے، کوئی سائنٹسٹ ہے، کاروباری لوگ ہیں.پھر اپنے کام کرنے والے ہیں، مزدوری کرنے والے ہیں.لیکن سب ایک ہو کر کام کرتے ہیں.لنگر خانے میں قطع نظر اس کے کہ کوئی کیا ہے آگ کے سامنے کھڑا ہے جہاں سو دوسو بڑے دیگچے آگ پر رکھے ہوئے ہیں اور گرمی کی بھی انتہا ہے اور بڑی خوشی سے یہ لوگ دیگوں میں چھے ہلا رہے ہیں، کھانے پکا ر ہے ہیں.بوڑھے نو جو ان سب اس کوشش میں ہیں کہ بہترین قسم کا سالن مہمانوں کے لئے تیار ہو کر ان تک پہنچے.کسی کو بھی پرواہ نہیں کہ گرمی ہے یا نہیں ہے حتی کہ چودہ، پندرہ سولہ سال تک کے بچے بھی کھانا پکانے اور روٹی پلانٹ پر بڑی بشاشت سے ڈیوٹی دیتے ہیں.پھر پانی کی فراہمی کے لئے ان والنٹیئر ز کا ایک گروپ کام کر رہا ہے.اور پھر مردوں اور عورتوں کا ایک گروپ بے نفس ہو کر کسی چیز کی پرواہ کئے بغیر مہمانوں کے لئے ان کے غسل خانوں کی صفائی کر رہا ہے.کہیں اردگرد پھیلے ہوئے کوڑا کرکٹ کو اٹھانے والے کام کر رہے ہیں.کوئی ٹریفک کنٹرول کر رہا ہے.کچھ مرد اور عورتیں بگھیوں میں معذوروں اور بیماروں کو لانے لے جانے کا کام کر رہی ہیں.گرمی کی شدت میں بچے اور بچیاں مہمانوں کو بڑے جذبے سے پانی پلاتے ہیں.اس کو لوگ بڑا سراہتے ہیں.کچھ مرد اور عورتیں مہمانوں کو کھانا کھلانے کی ڈیوٹی پر متعین ہیں.پھر سیکیورٹی کا انتظام ہے.یہ بھی بڑا وسیع انتظام ہے اور بڑا اہم نظام ہے.غرض کہ اور بھی بہت سارے شعبہ جات ہیں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا جن میں ہر کار کن قطع نظر اس کے کہ وہ یہ کام جانتا ہے یا نہیں اپنی بھر پور صلاحیت اور جذبے کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے.پھر وائنڈ آپ کا کام ہے.جلسے کے بعد بارشیں شروع ہو گئیں.بڑی دقت سے سامان کو سمیٹا جا رہا ہے.بارش کی وجہ سے کچھ سامان بیڈ نگ وغیرہ گیلا بھی ہوا اور ان میں نقصان بھی ہوا.میٹرسوں کو وسیع پیمانے پر اب سکھانے کا بھی مسئلہ ہو گا لیکن بہر حال خدام یہ کر رہے ہیں.یہ خدام جلسے سے پہلے بھی سب انتظامات مکمل کرنے آئے تھے اور اب سمیٹنے کے لئے بھی مختلف ٹیمیں کام کر رہی ہیں.وائنڈ آپ کا کام بھی بہت بڑا کام ہوتا ہے کیونکہ
خطبات مسرور جلد 13 511 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء کونسل نے معین دن دیئے ہوتے ہیں کہ ان میں یہ سارا کچھ سمیٹنا ہے.اگر یہ کام معینہ وقت میں نہ کیا جائے ، نہ سمیٹا جائے تو آئندہ سال کے لئے جلسے کی اجازت میں مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے.غرضیکہ ہر کام ہی ہے.غرضیکہ بہت اہم کام ہے.اس سال کینیڈا کے خدام کی ایک ٹیم نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا کہ ہم جلسے پر کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں وائنڈ آپ کی ٹیم میں رکھا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بھی بھر پور مدد کی.یوکے کے علاوہ باقی جگہوں پر اتنا وسیع انتظام نہیں کرنا پڑتا اس لئے ان کینیڈا سے آئے ہوؤں کے لئے نیا تجربہ تھا لیکن پھر کافی پر جوش طریقے پر اور بڑی محنت سے انہوں نے کام کیا.یو کے کی خدام الاحمدیہ کی ٹیموں کے ساتھ ہمیں کینیڈا کے اس گروپ کا بھی ، خدام کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے ہماری مدد کی.بہر حال یہ سب لوگ چاہے مرد ہیں یا عورتیں ہیں ہم سب ان کے شکر گزار ہیں اور یہ شکر گزاری کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.کارکنوں کی طرف سے میں ان سب مہمانوں کا شکر یہ بھی ادا کر دیتا ہوں جنہوں نے تعاون کیا.چند ایک کے علاوہ عمومی طور پر کوئی شکایت نہیں آئی.اکا دُکا تو شکایات آتی ہیں.مہمانوں کے تاثرات اس وقت میں اسی شکر گزاری کے مضمون کے سلسلے میں مہمانوں کے تاثرات بیان کرتا ہوں جو دوسرے ممالک سے آئے.ان میں سیاستدان بھی تھے.ان میں کچھ ملکوں کے وزراء بھی تھے.بڑے عہدیدار بھی تھے.انسان جب ان کی باتیں سنتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی شکر گزاری میں مزید ڈوب جاتا ہے.اتنے بڑے انتظام میں بعض کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اور یہ بہر حال قدرتی بات ہے لیکن اللہ تعالیٰ کس طرح ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے کہ مہمانوں کو صرف اچھائیاں نظر آتی ہیں اور کمزوریاں پردے میں چلی جاتی ہیں.یو گنڈا سے مسٹر ولسن مورولی (Wilson Muruli) صاحب جو کہ منسٹر آف Gender ہیں جلسے میں شامل ہوئے تھے.کہتے ہیں کہ مہمان نوازی ،سیکیورٹی نظم وضبط کے انتظامات دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ کس طرح لوگ رضا کارانہ طور پر اتنی قربانی کر رہے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ میں ایک ایسے جلسے میں شامل ہونے جارہا ہوں جہاں انسان نہیں بلکہ فرشتے کام کرتے نظر آئیں گے.میں نے نہ رات کو لوگوں کو سوتے دیکھا، نہ دن کو.ہر وقت خدمت کے لئے تیار کھڑے ہیں.نہ تھکتے ہیں نہ اکتاتے ہیں.ہمیں دفعہ بھی کوئی چیز مانگو تو مسکرا کر پیش کر دیتے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے یہاں ریویو آف ریلیجنز اور مختلف تصاویر کی نمائش بھی دیکھی.ومینٹی فرسٹ کے سٹال پر بھی گئے.وہ کہنے لگے کہ جس نہج پر جماعت احمد یہ کام کر رہی ہے اس سے
خطبات مسرور جلد 13 512 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء لگتا ہے کہ جماعت اگلے چند سال میں دنیا پر غالب آ جائے گی.انشاء اللہ.پھر کہتے ہیں امن عالم کے لئے نہایت مدبرانہ کوششیں ہو رہی ہیں.نصائح اور تجاویز دنیا کے سامنے رکھی جاتی ہیں.اگر لوگ ان نصائح پر عمل کریں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے.پھر انہوں نے کہا کہ اگر جلسہ سالانہ کو میں خلاصہ بیان کروں تو سب سے بڑی بات یہی ہے کہ جماعت احمد یہ انسانیت کے لئے امن محبت اور بھائی چارے کا ایک عظیم نمونہ ہے.فریچ گیانا سے ایک مہمان جیک برتھول (Jacques Bertholle) جلسہ میں شامل ہوئے تھے.موصوف فرنچ گیانا کی کورٹ کے حج ہیں اور ملک کے بشپ کی نمائندگی میں آئے تھے.یہ کہتے ہیں کہ جب میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے فرنچ گیانا سے روانہ ہوا تو میری ٹانگ میں درد تھا لیکن جلسہ میں شامل ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں شفا دی اور پورا جلسه درد کا نام و نشان نہیں رہا.تو اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ جلسے کی جو برکات احمد یوں کو پہنچتی ہیں اس سے غیر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں.کہتے ہیں کہ جہاں تک جلسے کے انتظامات کا تعلق ہے تو میں ایک لمبا عرصہ work inspector رہا ہوں اور ہر کام کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہوں مگر جس طریق پر جماعت احمدیہ کے والنٹیئر ز کام کر رہے تھے وہ قابل تعریف ہے.ہر ایک اپنا کام احسن رنگ میں کر رہا تھا.خاص طور پر اتنے بڑے مجمع کی سیکیورٹی کا انتظام کرنا کوئی آسان کام نہیں.اسی طرح اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کے لئے کھانا تیار کرنا اور پھر انہیں وقت پر کھلانا معمولی کام نہیں.پھر نائیجیریا کے ایک مشہور ٹیلیویژن ایم آئی ٹی وی (MIT) کے چیئر مین مرہی بساری (Murhi Busari) صاحب یہاں آئے تھے.یہ الحاج ہیں، انہوں نے حج کیا ہوا ہے.یہ کہتے ہیں جلسہ سالانہ میں شرکت کر کے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں عرفات کے مقام پر ہوں اور ہر طرف پیار محبت اور خوشی بکھر رہی ہے.ایسا نظارہ میں نے دنیا میں کبھی نہیں دیکھا اور خدام بڑی عمدگی سے ڈیوٹی دے رہے تھے.اطاعت کے جذبے سے سرشار تھے.اطاعت امام کا جو نظارہ میں نے جماعت احمدیہ کے خلیفہ اور اس کی جماعت میں دیکھا ہے وہ کہیں نہیں دیکھا.اسلام کے اسی پیغام کی دنیا کو آج ضرورت ہے کونگو کنسا شا سے جسٹس نول کی لومبا ، Noel Kilomba Ngo Mala) صاحب آئے ہوئے تھے جو کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے جج ہیں.انہوں نے کہا کہ بحیثیت حج خدا تعالیٰ نے مجھے اتنی
خطبات مسرور جلد 13 513 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء فراست دی ہے کہ دیکھ سکوں کہ کہاں حقیقت کو چھپایا جا رہا ہے اور کہاں اظہار حق کیا جا رہا ہے.جماعت احمدیہ کی طرف سے جس اسلام کا مجھے تعارف کروایا گیا تھا اس کا عملی نمونہ میں نے جلسے میں شامل ہو کر دیکھ لیا ہے.میرے دل میں اگر کوئی شک تھا تو اب دُور ہو گیا ہے.دراصل حقیقی اسلام یہی ہے جو جماعت احمدیہ پیش کر رہی ہے.اسلام کے اسی پیغام کی آج دنیا کو ضرورت ہے.میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا مستقبل اسی پیغام سے وابستہ ہے.اسی اسلام کی ہمیں ضرورت ہے.ہمیں دہشت گردوں کا اسلام نہیں چاہئے.سیرالیون کے وائس پریذیڈنٹ بھی جلسے میں شامل ہوئے تھے.وہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ بہت عظیم الشان ہے اور ساری قوموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا واحد ذریعہ ہے.مجھے جلسے میں شامل ہو کر بہت محبت ملی ہے.مکینی سیرالیون کا شہر ہے وہاں کے میئر شامل ہوئے.کہتے ہیں تینوں دن روحانیت سے بھر پور تھے اور میری زندگی میں عظیم انقلاب پیدا کرنے کا موجب بنے ہیں.میں نے کبھی لوگوں کو اس طرح ایک دوسرے سے پیار کرتے نہیں دیکھا.سیرالیون سے ڈپٹی منسٹر آف سپورٹس آئے ہوئے تھے.کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں شمولیت میری زندگی کا انوکھا تجربہ تھا.چھوٹے، بڑے اور بوڑھے سب لوگ آگے بڑھ بڑھ کر مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور ایک دوسرے سے بڑھ کر مہمانوں کی خدمت کر رہے تھے.میں نے آج تک کسی بھی مذہبی یا سیاسی جلسے میں اس قدر مہمانوں کی عزت اور محبت نہیں دیکھی.ببین کے نیشنل اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ایرک ہندے (Eric Houndete) صاحب آئے ہوئے تھے کہتے ہیں کہ سب سے بڑی بات جو میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کے افراد اپنے خلیفہ سے بہت محبت کرتے ہیں.یہ چیز کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملے گی.کہتے ہیں میں نے اس جلسے میں شامل ہو کر اپنی زندگی کے بہترین لمحات گزارے ہیں.میں نے تمام انتظامات کا جائزہ لیا ہے.ہر چیز میں مجھے حسن انتظام ہی نظر آیا.پینتیس ہزار سے زائد افراد کے جلسے میں ٹرانسپورٹ کا بہترین انتظام تھا اور ٹریفک کو بڑی مہارت سے گائیڈ کیا جا رہا تھا.اتنی بڑی تعداد کے باوجود صفائی کا معیار بھی اچھا تھا.کہیں گندگی نظر نہیں آئی.ان تمام انتظامات پر پانچ ہزار سے زائد جماعت احمدیہ کے لوگ رضا کارانہ طور پر کام کر رہے تھے اور ان رضا کاروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل تھے ، بوڑھے بھی شامل تھے، جوان بھی شامل تھے، مرد عورتیں اور کم عمر بچے بھی شامل تھے.کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر معمولی بات ہے جو کسی بھی مذہبی
خطبات مسرور جلد 13 514 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء یا دنیاوی تنظیم میں نظر نہیں آئے گی.ارجنٹائن سے ایک احمدی آئے تھے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے سچے مذہب کی تلاش میں دس سال گزارے ہیں اور بال آخر جماعت میں شامل ہو کر مجھے سچا مذہب مل گیا.جلسہ سالانہ کی آرگنائزیشن سے میں بہت متاثر ہوا ہوں.سب سے زیادہ جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ جلسہ میں نوجوان نسل کی موجودگی تھی.میں نے آج تک کسی دوسرے مذہب میں نوجوان نسل کی کسی مذہبی فنکشن میں اس قدر involvement نہیں دیکھی جس طرح جماعت احمدیہ میں ہے.کہتے ہیں عالمی بیعت میں شمولیت میری زندگی کے خوش ترین لمحات تھے.بیعت کے دوران میرا دل اور جسم لرز رہا تھا.دس شرائط بیعت در اصل قرآن کریم ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ ہیں.میرے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں کہ میں ارجنٹائن کا پہلا مسلمان ہوں جسے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی اور اب انشاء اللہ اپنے ملک میں جا کر میں احمدیت کی تبلیغ بھر پورانداز میں کروں گا.جاپان سے ایک مہمان یوشیو اوامورا (Yoshio Iwamura) صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے.کہتے ہیں کہ مہمان نوازی کی روایات اور کارکنان کا محبت و شفقت کا رویہ ہم سب کے لئے ایک نا قابل فراموش یاد ہے.جلسہ سالانہ برطانیہ اقوام متحدہ کا حقیقی نمونہ پیش کر رہا تھا جہاں ہر رنگ ونسل اور قوم کے افراد ایک خاندان کی طرح نظر آ رہے تھے.اس روحانی ماحول نے میرے دل پر ایک خاص اثر کیا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی کے ذریعہ روحانی انقلاب جاپان سے ایک دوست ڈاکٹر جیوانی موٹے (Giovanni Monte) بھی آئے ہوئے تھے.یہ موصوف جو ہیں یہ میڈیکل سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں اور ٹوکیو انٹرنیشنل بک فیئر کے موقع پر ان کا جماعت سے رابطہ ہوا تھا.یہ کہتے ہیں کہ دس سال سے مختلف مذاہب اور معاشروں کی تحقیق کر رہا تھا.عیسائیت سے متنفر ہو چکا تھا.حق کی تلاش میں تھا.بک فیئر کے پہلے دن جب انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی، دی گئی تو یہ لکھنے والے ہمارے مشنری لکھتے ہیں کہ اگلے دن دوبارہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ رات کو اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ شروع کیا اور میرے لئے مشکل تھا کہ اس کتاب کو پڑھے بغیر سو جاتا.صبح تک جب اس کتاب کا مطالعہ مکمل کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام ایک سچا مذ ہب اور
خطبات مسرور جلد 13 515 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء حق و صداقت کا راستہ ہے.کہتے ہیں ایک سال کے دوران میں نے پچاس بار اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی ہے.اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کردہ فلسفہ غیر معمولی کشش رکھتا ہے.چنانچہ موصوف جلسہ دیکھ کر کہنے لگے کہ میں حق کی تلاش میں تھا اور مجھے حق مل گیا ہے.اسلام احمدیت سے بہتر کوئی طرز زندگی نہیں ہے.چنانچہ موصوف نے پہلے دن تو بیعت نہیں کی تھی جلسے کے فوراً بعد اگلے روز یہ میرے پاس آئے کہ انہوں نے بیعت کرنی ہے اور پھر ان کی وہاں مسجد میں بیعت ہوئی تھی.جاپان سے ایک غیر احمدی دوست ماسا یو کی آ کو تو سو (Masayuki Akutsu) صاحب جوٹو کیو یو نیورسٹی کے پروفیسر ہیں جلسہ میں شامل ہوئے.جماعت احمدیہ کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں اور اس غرض سے یہ ربوہ کا سفر بھی کر چکے ہیں.موصوف نے بتایا کہ ربوہ کے دورے کے دوران واپسی پر ہمارے معزز میزبان اور گاڑی کے ڈرائیور نے مجھے کہا کہ مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو معاف کر دیں.اس کیفیت نے میرے دل پر بے انتہا اثر کیا اور آج یہاں جلسے پر آیا ہوں تو ایسی اعلیٰ روایات یہاں بھی دیکھنے کوملی ہیں.اس کا مطلب ہے کہ جماعت احمدیہ کی تعلیم اور عمل جو ہے وہ ایک ہے.ہر جگہ یہ نمونے نظر آتے ہیں.سپین سے نیشنل اسمبلی کے دو نمبران پارلیمنٹ آئے ہوئے تھے.جوس ماریہ (Jose Maria) صاحب تھے.کہتے ہیں کہ جلسے کے انتظامات دیکھ کر یہی سوچتا رہا کہ ہمیں اس طرح کا انتظام کرنا پڑے تو ہم کیسے کریں گے.اس وقت دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں.یہ تینوں دن جلسے کے پروگرام میں شرکت کرتے رہے اور متعدد باراس بات کا اظہار کیا کہ ایسے منظم کام ہماری حکومتیں نہیں کر سکتیں جو یہاں پر رضا کار کر رہے ہیں.میں اس جلسے پر بہت کچھ سیکھ کر جارہا ہوں.پس یہ جو رضا کاروں کے، والنٹیئر ز کے، کارکنان کے کام ہیں یہ بھی ان کی ایک خاموش تبلیغ ہے جو یہ کر رہے ہوتے ہیں.پھر خاتون پارلیمنٹ ممبر جو تھیں کہتی ہیں کہ جماعت احمد یہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے بڑی انتھک محنت کر رہی ہے.کہتی ہیں کہ میرا سپین کے مشہور تاریخی شہر ٹولیڈ و سے تعلق ہے جہاں کسی دور میں مختلف تہذیبیں جن میں مسلمان، یہودی اور عیسائی شامل ہیں باہم متحد ہو کر امن کے ساتھ رہتے رہے ہیں.ہمیں اس دور پر فخر ہے اور سپین کی تاریخ کا وہ ایک سنہری دور تھا.موصوفہ نے کہا کہ ہزار سال قبل بنوامیہ خاندان سے عبدالرحمن اول سپین آئے اور انہوں نے کہا کہ وہ اس ملک کو اپنا گھر سمجھتے
خطبات مسرور جلد 13 516 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء ہیں.کہتی ہیں آج ہم آپ کے خلیفہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ آپ لوگ جب ہمارے ملک میں آئیں تو اسے اپنا گھر سمجھیں.فرانس کے امیر صاحب کہتے ہیں کہ اس سال ایک ہی خاندان کے پینتیس افراد یہاں جلسے پہ شامل تھے جن میں اٹھائیں تو احمدیت قبول کر چکے تھے مگر ان کے والد اور والدہ اور ان کی ایک بیٹی اور اس کے تین بچوں نے ابھی احمدیت قبول نہیں کی تھی.والد کافی بڑی عمر کے ہیں.جمعہ کی نماز سے پہلے کہنے لگے کہ میں ماحول کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں.پھر بیان کرتے ہیں کہ یہاں اس جلسے میں شامل ہو کر اور جلسے کا ماحول دیکھ کر پتا چلا ہے کہ میرے بچے کیوں احمدی ہوئے ہیں اور جب سے احمدی ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی حالت ہی بدل گئی ہے.اسلامی تعلیم پر ایسا عمل ہے کہ خدا کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے اور یہ سب احمدیت کی وجہ سے ہوا ہے.کہتے ہیں میں جب جوان تھا تو ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک عجیب سی جگہ ہے جہاں بہت سے لوگ ہیں.اب جلسے پر آ کے وہ خواب یاد آئی ہے.جلسے کے دوسرے دن انہوں نے بتایا کہ آج میں نے پانچ مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.چنانچہ وہ اور ان کی اہلیہ اتوار کی جو عالمی بیعت ہوئی ہے اس میں شامل ہوئے اور بیعت کر کے اب جماعت میں شامل ہو گئے.کہتے ہیں کہ بیعت کے وقت ان کا سارا خاندان وہاں موجود تھا جو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا.پھر ان کی تین بچوں والی بیٹی کے بارے میں بھی امیر صاحب لکھتے ہیں پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ان کا جماعت سے پرانا تعلق ہے لیکن بیعت نہیں کی تھی اور اتوار کی صبح فجر کی نماز کے بعد وہ کہتے ہیں میرے پاس خاوند اور بیٹی آئے.کہنے لگے کہ آپ سے ایک بات کرنی ہے اور ساتھ ہی رونے لگ گئے.میرے پوچھنے پر بتایا کہ میں اس لئے بیعت نہیں کر رہا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لے کر بیعت کروں.اب جب جلسے میں شامل ہوا تو میرا بہت دل کر رہا تھا کہ بیعت کر لوں لیکن میری شدید خواہش تھی کہ میری بیوی بھی میرے ساتھ بیعت کرے.چنانچہ آج صبح فجر کی نماز میں میں نے بہت دعا کی.نماز کے بعد میری اہلیہ مجھے کہنے لگیں کہ میں نے آپ سے کچھ کہنا ہے.اس پر میں نے اسے کہا کہ میں نے بھی تم سے کچھ کہنا ہے.چنانچہ میری اہلیہ نے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتی ہوں.جب میں نے اسے بتایا کہ میں بھی یہی بات کہنے والا تھا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں اور میں دعا کر رہا تھا کہ ہم اکٹھے بیعت کریں اور آج اللہ تعالیٰ نے میری دعا سن لی تو
خطبات مسرور جلد 13 517 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء وہ بولی میں بھی یہی دعا کر رہی تھی.اس طرح اس فیملی کی حالت بڑی جذباتی تھی.یونان کے وفد کے تأثرات.یونان سے بھی وفد آیا ہوا تھا.ڈاکٹر اکرم شریف داماد وغلو صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کبھی کسی مسلمان جماعت کو اتنا منظم نہیں دیکھا جس طرح منظم جماعت احمدیہ ہے.ہر کوئی آپ سے نہایت محبت اور اخوت کے جذبے سے ملتا ہے خواہ وہ آپ کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو.تین افراد پر مشتمل سلوینین وفد بھی تھا.وہاں کے ایک دوست زما گو پاؤچ ( Zmago Pavlicic) جو کہ بطور ترجمان کے کام کرتے ہیں کچھ عرصہ سے جماعتی لٹریچر کے ترجمہ پر بھی کام کر رہے ہیں.موصوف کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے سے پہلے میرا جماعت کے متعلق تعارف صرف پڑھنے تک محدود تھا لیکن جلسے میں شامل ہو کر اور جلسے کا ماحول دیکھ کر اب یقین ہو گیا ہے کہ جو کچھ میں نے جماعت کے بارے میں پڑھا تھا وہ ایک حقیقت ہے.مثال کے طور پر محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا قول میں نے پہلے پڑھا تھا یا سنا تھا لیکن جلسے میں آکر اور مختلف لوگوں سے مل کر ، جلسے کے ماحول کو دیکھ کر ، اس قول کی عملی حالت بھی دیکھ لی کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد اس قول پر عمل کرنے والا ہے.جہاں لوگوں کے تاثرات آپ سنتے ہیں وہاں ہر ایک کو اپنے اپنے جائزے بھی لیتے رہنا چاہئے کہ دوسروں پر یہ جواثر قائم ہوا ہے ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اس کو ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرے.سلوینین وفد میں یو نیورسٹی کی ایک پروفیسر آندرے یا بورچ صاحبہ بھی شامل تھیں.یہ صاحبہ خاتون ہیں.عورت ہیں.کہتی ہیں میں پہلی مرتبہ کسی اسلامی پروگرام میں شامل ہوئی اور پہلی مرتبہ مجھے اسلام کے بارے میں مثبت تعارف حاصل ہوا.جماعت حقیقت میں انسانیت کی خدمت کر رہی ہے.پھر کہتی ہیں کہ ڈائننگ ہال میں بچے کھانا serve کر رہے تھے اور ہم سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ اگر ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہمیں بتا ئیں.اس طرح چھوٹے چھوٹے بچے جلسہ گاہ میں پانی پلا رہے تھے.میں سمجھتی ہوں کہ ساری چیزیں بچوں کی تربیت اور ان کی پرورش کے لئے بہت ضروری ہیں.سویڈن کے ایک پولیس افسر آئے ہوئے تھے.وہ کہتے ہیں کہ آپ جو پیغام دے رہے ہیں اس کا میں نے عملی مشاہدہ بھی دیکھا ہے.کاش کہ یہ پیغام دنیا کے تمام ممالک تک پہنچ جائے.یہ پولیس آفیسر ہیں.کہتے ہیں اگر یہ پیغام سویڈن میں بھی پہنچ جائے تو میں اپنی نوکری سے استعفیٰ دے دوں کیونکہ پولیس کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور اگر ہمارا معاشرہ پر امن اور ایک دوسرے سے محبت
خطبات مسرور جلد 13 518 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء کرنے والا ہو جائے گا تو جو پیسے پولیس والوں کی تنخواہ میں دیتے ہیں وہی غریبوں بوڑھوں کی ضروریات پوری کرنے کے کام آئیں گے.پس یہ چیزیں ہر احمدی کو جہاں شکر گزار بناتی ہیں وہاں جن میں چھوٹی موٹی کمزوریاں ہیں ان کو ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے.سوئٹزرلینڈ سے پریس اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے مہمان برانسولا و بیلی صاحب Branislav Beli) شامل ہوئے.کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے آخری دن شامل ہوا.میں دنیا کے مختلف events میں شامل ہوتا رہتا ہوں لیکن اس طرح کا event پہلے کبھی نہیں دیکھا.ایک عجیب نظارہ تھا.جب لوگوں کو رکنے کا کہا جاتا تو خاموشی سے رک جاتے اور جب ان کو مرنے کو کہتے تو اسی طرف وہ مڑ جاتے.کسی نے اس بات پر غصے کا اظہار نہیں کیا کہ کیوں ان کو روکا جا رہا ہے.مجھے نظر نہیں آیا کہ کوئی کارکن یا کوئی بھی جلسے میں شامل ہونے والا غصے سے بات کر رہا ہے.میں نے کافی ملک دیکھے ہیں مگر اس طرح کا پرسکون اور اعلی نظام کہیں نہیں دیکھا.ایک غیر احمدی سوئس غیر مسلم مائیکل شیرن برگ (Michael Scharrenberg) شامل ہوئے.سوئٹزر لینڈ کے ہی ہیں وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑھ کر عالمی بیعت کا نظارہ تھا کہ کس طرح لوگ اپنے عقیدے اور خلیفہ کے ساتھ وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں.ایک نواحمدی دوست مائیٹا کیلاف واسرو ہیں.مائیکرونیشیا سے آئے ہوئے تھے اور یہ وہاں گیارہ سال تک میئر بھی رہے ہیں.کہتے ہیں یہ سارا کچھ دیکھنے کے بعد اب میں مصمم ارادہ لے کر جا رہا ہوں کہ اپنے خاندان اور کو سرائے (جو اُن کا شہر ہے) کے لوگوں کے اسلام کے بارے میں غلط تاثرات کو ختم کرنے کی کوشش کروں گا.پس جلسہ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن جاتا ہے.جمیکا سے ایک جرنلسٹ آئی ہوئی تھیں.ان کے ساتھ ایک کیمرہ مین بھی تھا.کہتی ہیں کیمرہ مین شروع میں کسی مسلمان مجمع میں شامل ہونے سے ہچکچا رہا تھا لیکن انہوں نے جب دیکھا کہ ہر ایک ان کے ساتھ محبت سے پیش آ رہا ہے اور ان کا خیال رکھا جا رہا ہے تو پوچھنے لگے کہ کیا ان لوگوں کے دلوں میں واقعی ہمارے لئے پیار ہے یا یہ صرف دکھاوا کر رہے ہیں؟ اس پر ہمارے مبلغ نے انہیں جواب دیا کہ اخوت اور بھائی چارہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے.آپ سارا جلسہ گزاریں آپ کو خود ہی پتا چل جائے گا کہ لوگ دکھاوا کر رہے ہیں یا نہیں.
خطبات مسرور جلد 13 519 خطبه جمعه فرموده مورخہ 28 اگست 2015ء چنانچہ جب جلسہ ختم ہوا تو یہ کیمرہ مین کہنے لگے کہ کوئی شک نہیں کہ جس محبت اور اخوت اور ایک دوسرے کے لئے محبت کا جلسے پر مظاہرہ ہو رہا تھا وہ محض دکھاوا نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی.پھر جرنلسٹ جو تھیں انہوں نے میرا انٹرویو بھی لیا تھا.کہتی تھیں وہاں جا کے میں لکھوں گی یا ڈاکومنٹری بناؤں گی.تو اس سے مزید تبلیغ کے راستے کھلتے ہیں.کہتی ہیں کہ میں وعدہ کرتی ہوں کہ جماعت احمدیہ کی ان تعلیمات کو جمیکا میں پھیلانے کے لئے سخت محنت کروں گی.اب یہ عیسائی ہیں اور ہماری تبلیغ کا ذریعہ بن رہی ہیں.پانامہ سے ایک دوست رونالڈو کو چز صاحب آئے ہوئے تھے.کہتے ہیں اس طرح کی پرامن فضا کی مثال آج کے دور میں ملنا ممکن نہیں.ہمارے ملک میں بھی کثیر تعداد میں مسلمان رہتے ہیں لیکن لوگ ان کے بارے میں اچھا تاثر نہیں رکھتے بلکہ ان سے نفرت کرتے ہیں.مجھے بھی جب مسلمانوں کے جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت ملی تو مجھے لگا یہ لوگ بھی پانامہ کے مسلمانوں کی طرح ہی ہوں گے لیکن جب میں یہاں پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی.میں نے یہاں محبت ، پیار اور امن کی ایسی فضا دیکھی جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا.کہتے ہیں آج کے بعد اگر کوئی شخص اسلام کے بارے میں غلط نظریہ پیش کرے گا تو میں اس کا بھر پور دفاع کروں گا کہ سارے مسلمان ایک جیسے نہیں ہوتے.قازخستان سے تاناشیواما صاحبہ ہیں.سٹیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں اور نیو یارک کی اکیڈمی کی ممبر بھی ہیں.سن 2000ء میں ان کو لیڈی آف ورلڈ کے طور پر منتخب کیا گیا تھا.اپنے تاثرات میں بیان کرتی ہیں کہ اپنی 75 سالہ زندگی میں دنیا کی بہت سی جگہیں دیکھ چکی ہوں لیکن انسانیت سے محبت اور انسانیت کی حقیقی معنوں میں مدد کرنا میں نے صرف یہاں ہی دیکھا ہے.بہت شاندار منظر تھا کہ سب کی موجودگی میں مختلف فیلڈز کے طلباء نے کارکردگی کی بنا پر میڈل حاصل کئے.یہ بات اور یہ اعزاز ہمیشہ ان کے دلوں میں پختہ رہے گا اور ان کو مستقبل میں بھی اپنی زندگی کو اسی اصول کے مطابق ڈھالنے میں ممد و معاون ہوگا.کہتی ہیں میں بھی اس جلسے کی بدولت اپنے اندر ایک روحانی تازگی اور قوت محسوس کرتی ہوں.ایک طالبہ گوئٹے مالا سے آئی تھیں.کہتی ہیں جلسے میں شامل ہونا میرے لئے انتہائی خوش کن تجربہ تھا.اس جلسے کے روحانی ماحول نے میری آئندہ زندگی کو سنوارنے کی طرف رہنمائی کی ہے.کروشیا سے اٹھائیس افراد کا وفد آیا ہوا تھا اور کروشین قومی اسمبلی کے ممبر پارلیمنٹ پانڈک درازن صاحب بھی اس میں شامل تھے.کہتے ہیں میرا کسی بھی مسلمان تنظیم کے اجتماع میں شرکت کا پہلا موقع تھا اور کافی متاثر تھے.آخری تقریر بھی انہوں نے سنی.کہتے ہیں اگر ان نصیحتوں پر عمل کریں
خطبات مسرور جلد 13 520 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے.سیرالیون کے نیشنل ٹی وی SLBC کے جرنلسٹ بھی شامل ہوئے.یہ کہتے ہیں آپ نے جلسے میں مجھے دعوت دے کر بڑا احسان کیا اور کہتے ہیں جلسے کے دوران ہی میں نے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا.چنانچہ موصوف نے عالمی بیعت کے دن بیعت بھی کر لی.پال سینگر ڈیوس (Paul Sanger Davies) جو برٹش رائل ایئر فورس میں گروپ کیپٹن ہیں، کہتے ہیں میں لازماً اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اب تک میں نے سینکڑوں ایسے پروگرام دیکھے ہیں لیکن ایسا منظم پروگرام کبھی نہیں دیکھا.خاص کر ایسے امور پر بات چیت کر کے بہت اچھا لگا کہ ہم آجکل بہت سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں اور ان خطرات سے نکلنے کا کیا حل ہے اور اس حوالے سے بہت سی اچھی باتیں سننے کو ملیں.آئیوری کوسٹ سے دو ممبر پارلیمنٹ آئے ہوئے تھے.کو آکو کو آکووا ترا ( Kouakou Kouakou Ouattara) صاحب ان میں سے ایک تھے.کہتے ہیں یہ میری زندگی کے اہم لمحات میں سے ہے.میں کئی سالوں سے احمدی ہوں مگر اس طرح کا روحانی ماحول پہلی دفعہ دیکھا ہے.میں احمدی تو پہلے سے ہی تھا مگر جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر میرا ایمان اور بھی مضبوط ہو گیا ہے.برٹش سوسائٹی آف دی ٹیورن شراؤڈ نیوز لیٹر کے ایڈیٹر Hugh Farey صاحب تھے.یہ بھی ٹیورن شراؤڈ (Turin Shroud) کے ماہرین میں سے ہیں.کہتے ہیں کہ میں نے آج تک جتنے فورمز پر کفن مسیح کے حوالے سے بات چیت کی ہے ان میں سب سے زیادہ بہترین فورم یہ تھا.کہتے ہیں یہ تین دن علمی لحاظ سے میرے لئے غیر معمولی تھے.نہ صرف شراؤڈ کے بارے میں بلکہ احمد یہ جماعت کے بارے میں بہت کچھ جانے کا موقع ملا ہے.میرا اس بارے علم نہ ہونے کے برابر تھا.اس سے میرے لئے تحقیق کی نئی راہیں کھلی ہیں.اور ٹیورن شراؤڈ پر تحقیق کرنے والی بعض دوسری شخصیات بھی تھیں وہ بھی شامل ہوئیں.ان میں ایک صاحب بیری شارٹس Barrier Schwartz) ہیں جو کہ ٹیورن شراؤڈ کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ مستند سمجھے جاتے ہیں.ان کی تقریر تو آپ لوگ سن چکے ہیں.بہت ساری باتوں کے علاوہ جو ایک خاص بات تھی وہ کہتے ہیں کہ میرا یہاں آنے کا مقصد آپ لوگوں کوشراؤڈ آف ٹیورن کے بارے میں آگاہی دینا تھا.لیکن مجھے یہ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ جس قدر میں آپ کو اس حوالے سے علم دے سکتا ہوں ان چند دنوں میں اس سے کئی گنا میں نے آپ لوگوں سے علم سیکھا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 521 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء جلسہ کی عالمگیر کوریج پریس اور میڈیا کی میں نے بات کی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال پریس میڈیا کے ذریعہ سے جلسے کا بہت وسیع پیمانے پر تعارف ہوا ہے.اور اس کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح پیغام پہنچایا.جلسہ کی خبر اور ویڈیوکلپس (video clips) ٹیلیویژن اور آن لائن ویڈیو کے سات مختلف پروگرامز کے ذریعہ کل تین اعشاریہ تین ملین افراد تک خبر پہنچی ہے.ریڈیو کے 34 پروگرامز کے ذریعہ 79.2 ملین افراد تک پیغام پہنچے.پرنٹ اور آن لائن میڈیا کے چودہ مختلف فورمز کے ذریعہ 7.7 ملین افراد تک پیغام پہنچا اور سوشل میڈیا میں گیارہ سو پچانوے شاملین کے ذریعہ جلسے کا پیغام پانچ ملین افراد تک پہنچا.اس طرح مندرجہ بالا فورمز کے ذریعہ کل 79.18 ملین افراد تک جلسے کی کارروائی اور خبر اور پیغام اور تصاویر اور ویڈیو کلپس پہنچے اور افریقہ کے علاوہ ایسے ممالک جہاں جلسے کے حوالے سے میڈیا کو کوریج ملی ہے ان میں برطانیہ، سکاٹ لینڈ، ویلز ، آئرلینڈ، یوایس اے، کینیڈا، پاکستان، انڈیا، فرانس، جمیکا، بولیویا، یونان اور بیلیز شامل ہیں.سب سے اہم چینلز میں بی بی سی نیوز 24 شامل ہے جس پر جلسے کی خبر تین مرتبہ نشر ہوئی.یہ بھی پہلی دفعہ ہی ہوا ہے.ابتدائی طور پر اس چینل پر ایک مرتبہ خبر نشر کرنے کی اجازت دی گئی تھی تاہم بعد میں مزید خبر نشر کرنے کی اجازت دی گئی.انٹرنیشنل نیوز ایجنسی فرانس اے ایف پی نے بھی جلسے کی خبر نشر کی.AFP نے ویڈیور پورٹ بھی جاری کی جو کہ بعد ازاں یوایس اے ، یو کے اور انڈیا میں درجنوں خبروں کی ویب سائٹس پر نشر کی گئی.ان میں MSN News، MBC News Yahoo News شامل ہیں.پھر ریڈیو کوریج ، 34 ریڈیوانٹرویوز بی بی سی کے تین نیشنل ریڈیو سٹیشنز ، 24 ریجنل ریڈیو سٹیشنز اور دولوکل ریڈیو سٹیشنز پر نشر ہوئے.ان میں 4 BBC Radio بھی شامل ہے جو کہ برطانیہ کا سب سے زیادہ سنا جانے والا ریڈیو اسٹیشن ہے.اس پر 20 منٹ کا طویل انٹرویو نشر کیا گیا.اس کے علاوہ بی بی سی ریڈیوسکاٹ لینڈ (BBC Scotland) اور بی بی سی ریڈیو ایشین نیٹ ورک (BBC Radio Asian Network) شامل ہیں.بی بی سی ریڈیو سٹیشن نیٹ ورک پر ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کا انٹرویو شائع کیا گیا.
خطبات مسرور جلد 13 522 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء 34 ریڈیو سٹیشنز کے ذریعہ کل 79.2 ملین افراد تک پیغام پہنچا.ان میں سے کم از کم دو انٹرویوز کا جو آغاز تھا وہ بی بی سی کی ایک جرنلسٹ کیرولائن وائٹ (Caroline Wyatt) تھیں.انہوں نے میرے سے انٹرویو لیا تھا اس کو انہوں نے نشر کیا جس پہ اب یہاں کی مسلمان تنظیموں کے فورم پر بہت شور پڑا ہے کہ ہمیں اکٹھا ہو جانا چاہئے.یہ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کر رہا ہم اکٹھے ہوکر مسلمانوں کی نمائندگی کریں گے.ہفنگٹن دو ایشین اور کیتھولک ہیرالڈ (Catholic Herald) نے خبر اور آرٹیکل چھاپے.پوسٹ (Huffington Post) نے بھی دو آرٹیکل شائع کئے.اسی طرح اور بہت سے ہیں.سوشل میڈیا، ٹوئٹر وغیرہ کے ذریعہ یہ پیغام پہنچتا رہا.یہ جو ہے مرکزی رپورٹ ہے.اس کے علاوہ یو کے کے پریس میڈیا کے ذریعہ سے میرا خیال ہے دو تین ملین تک تو ضرور پیغام پہنچا ہو گا.افریقن ممالک میں ملکی ٹی وی جلسہ سالانہ کی لائیو کوریج دیتے رہے جن میں گھانا، نائیجیریا، سیرالیون، یوگنڈا اور کونگو کنشاسا شامل ہیں.حدیقۃ المہدی سے براہ راست لا ئیو نشریات کیں.گھانا کے ایک دوست نانا اوسٹی آکوٹو (Nana Osei Akoto) صاحب نے فون کر کے بتایا کہ میں مذہباً عیسائی ہوں لیکن آپ کے جلسہ کی لائیو نشریات دیکھ کر مجھ پر جذباتی کیفیت طاری ہے.میرے لئے آنسو روکنا مشکل ہو گیا تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت اسلام کی نمائندگی میں جماعت احمد یہ سب سے آگے ہے.میری دعا ہے کہ میں آپ کی جماعت کا مبلغ بن کر جماعت احمدیہ کا پیغام پھیلاؤں.عمالے گھانا سے ایک خاتون بما ادا اڈائو (Humada ldatu) صاحبہ نے کہا کہ میں نے گھانا ٹی وی کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا جلسہ دیکھا ہے اور یہ جلسہ دیکھ کر میں بہت متاثر ہوئی ہوں.میں مسلمان تو ہوں لیکن جلسہ سالانہ کی نشریات دیکھ کر میں احمدی مسلمان ہونا چاہتی ہوں.یوگنڈا سے ایک دوست نے فون کر کے بتایا کہ میں نے جلسہ کی نشریات ٹی وی پر دیکھی ہیں.میں آپ کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں.چنانچہ موصوف مشن ہاؤس آئے اور بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے.گھانا سے ایک کالر نے فون کر کے کہا کہ آج جماعت احمد یہ ہی ہے جو اسلام کی حقیقی نمائندگی کر رہی ہے.میں اسلام کے متعلق کوئی بات نہیں سنتا تھا کیونکہ مسلمان اسلام کے نام پر ظلم کر رہے ہیں.لیکن آپ لوگ جس اسلامی تعلیم کو پیش کر رہے ہیں وہ سن کر میرا ذ ہن تبدیل ہو گیا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 523 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء ایک احمدی خاتون نے گھانا سے لکھا کہ آج اپنے کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی پر جلسہ سالانہ کی نشریات دیکھ رہی ہوں اور مجھے لگ رہا ہے جیسے میں بھی جلسے میں شامل ہوں.میرا دل خوشی سے بھرا ہوا ہے اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں.سیرالیون میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیرالیون کے نیشنل ٹی وی SLBC پر جلسہ سالانہ کی 36 گھنٹے لائیو نشریات دکھائی گئیں.سیرالیون سے بہت سے لوگوں نے فری ٹیلیفون لائن پر بات کر کے نیک خواہشات کا اظہار کیا.ایک صاحب جبرائیل صاحب کہتے ہیں میں ان تمام لوگوں کا شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کی کوششوں سے آج ہم یہ جلسہ دیکھ رہے ہیں.ہمیں ایسا لگ رہا ہے جیسے خلیفہ کے ساتھ یو کے میں بیٹھے ہیں.یہ احمدی ہیں اور اپنے گھر میں بیٹھے جلسے کی برکات سے مستفیض ہو رہے ہیں.کونگو کنشاسا میں بھی چار بڑے بڑے شہروں میں جلسے کی نشریات دکھائی گئیں.ان شہروں میں سے دو میں میرا آخری خطاب نشر کیا گیا جبکہ دو شہروں میں جلسے کی تمام کارروائی لائیو نشر کی گئی.جب آخری خطاب ہو رہا تھا تو کنشاسا میں ہم نے ان سے دو گھنٹے کا وقت لیا تھا.جب دو گھنٹے ختم ہو گئے تو ابھی میرا خطاب جاری تھا اور ختم نہیں ہوا تھا.اس پر ٹیلیویژن کے عملے سے درخواست کی گئی کہ کچھ مزید وقت دے دیں تا کہ خطاب مکمل نشر ہو جائے.انہوں نے کہا ہمارے پروگرام تو پہلے سے ہی شیڈیول ہوتے ہیں اور اس طرح وقت نہیں بڑھایا جا سکتا لیکن چونکہ آپ کے خلیفہ کی تقریر جاری ہے اور اس تقریر کا ہم پر اس قدر اثر ہے کہ ہم آپ کو مزید وقت دے رہے ہیں اس طرح مکمل خطاب کی کوریج دکھائی گئی اور اس کا اچھا فیڈ بیک (Feed back) بھی آنا شروع ہو گیا.ایک شخص نے فون کر کے بتایا کہ میں مسلمان ہوں لیکن آج تک میں نے ایسی باتیں کسی کے منہ سے نہیں سنیں میں فوراً جماعت احمدیہ میں شامل ہونا چاہتا ہوں.اور کونگو کے ایک شہر بکانگو میں جی کے وی (GKV) ٹی وی پر جلسہ نشر کیا گیا.اس ٹی وی کے سر براہ جوس (Jose) صاحب نے کہا کہ میں اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسلام کا جو تصور میرے ذہن میں تھا وہ یکسر تبدیل ہو گیا اور مجھے خلیفہ اسیح کے خطابات سن کر معلوم ہوا کہ اسلام ایک بہت ہی خوبصورت اور دل کو موہ لینے والا مذہب ہے.کہتے ہیں کہ اکثر گھروں میں ایم ٹی اے کے پروگرام اور خاص طور پہ آخری خطاب چلنے کی آواز میں آرہی تھیں.ایک دوست نے کہا کہ ٹی وی پر آپ کا جلسہ دیکھا اور بہت خوشی ہوئی کہ دنیا میں ایک ایسا وجود
خطبات مسرور جلد 13 524 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء بھی ہے جو اتنی پیاری تعلیمات دے رہا ہے.افریقن ممالک میں ریڈیوز پر جلسہ سالانہ کی جو کوریج ہوئی ہے.اس میں مالی میں جماعت کے پندرہ ریڈیو سٹیشنز کے ذریعہ سے جلسہ سالانہ کی تینوں دن کی کارروائی لائیو نشر ہوئی.اس طرح وہاں قریباً دس ملین لوگوں نے جلسہ سالانہ یو کے کی لائیو کا رروائی اپنی زبانوں میں سنی.اسی طرح برکینا فاسو میں چار ریڈیو اسٹیشنز پر جلسہ سالانہ کی تین دن کی مکمل کارروائی نشر ہوئی.اس کو بھی بڑا وسیع سننے والے ہیں.اسی طرح سیرالیون میں کارروائی نشر ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دفعہ جلسے کا یہ پیغام ملینز لوگوں تک مختلف بر اعظموں میں پہنچا.اللہ کے فضل سے پریس میڈیا ٹیم نے بھی بڑا اچھا کام کیا اور ایم ٹی اے نے بھی اس کے لئے بہت کام کیا.خاص طور پر وہ جو افریقہ کے انچارج بنائے گئے ہیں انہوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے.پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جلسے کے ذریعہ جماعت کا بہت وسیع تعارف ہوا ہے اور ان میں جیسا کہ میں نے کہا ایم ٹی اے کے بھی اور پریس سیکشن کے بھی بہت سے کام کرنے والے شامل ہیں.اور پریس سیکشن میں بھی کام کرنے والے یو کے کے ہی نوجوان ہیں جو کام کر رہے ہیں اور اپنا کر دار ادا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی صلاحیتوں کو مزید بڑھائے اور اجا گر کرے.بعض انتظامی باتیں بھی ہیں جو انتظامیہ اور مہمانوں کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں.مثلاً ایک شکایت میرے سامنے یہ آئی کہ مین مارکی میں بیٹھنے کے لئے کرسیاں کم تھیں اور بیماروں اور معذوروں کو نہیں ملیں اور بظاہر چھوٹی عمر کے اور نوجوان بیٹھے ہوئے تھے اور عذر یہ پیش کیا گیا کہ ان کو کیونکہ کارڈ ایشو ہو چکے ہیں اس لئے ہم ان کو اٹھا بھی نہیں سکتے.ایک تو کارڈ کرسیوں کے مطابق ہونے چاہئیں یا پھر جگہ بڑھا ئیں یا اگر وہاں جگہ نہیں ہوتی تو معذوروں اور بیماروں کے لئے ، ایک علیحدہ مار کی کرسیوں کے لئے ساتھ لگائی جا سکتی ہے اس طرف بھی اگلے سال غور کرنا چاہئے.اور دوسرا یہ بھی ہے کہ ٹی وی سکرین ایک کم ہے، ایک سے زیادہ ہونی چاہئیں.عمومی طور پر تو غسل خانوں کا ٹوائلٹس کا انتظام صحیح رہا ہے لیکن بعض دفعہ شکایات آتی تھیں کہ پانی اور ٹشو پیپر وغیرہ کی کمی تھی.
خطبات مسرور جلد 13 525 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء بازار میں جانے والے پاکستانی مہمانوں کی بھی غیر پاکستانیوں نے شکایت کی ہے کہ وہاں بعض دفعہ اگر کوئی چیز خریدنی ہو اور لائن میں لگنا پڑے تو پاکستانی صبر کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے، اور دھکم پیل کرتے تھے.ان کو اپنے نمونے دکھانے چاہئیں کیونکہ جلسے کا مقصد تو یہ ہے ہی نہیں.پہلے دن بھی میں نے کہا تھا کہ صبر اور برداشت کریں اور دوسرے کا حق زیادہ دینے کی کوشش کریں.ٹرانسپورٹ کے انتظام کی عموماً اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تعریف کی گئی ہے.اس سال بعض کارکنوں نے بعض مہمانوں کی شکایت کی ہے.چاہے وہ چند ایک یا ایک آدھ ہی تھا لیکن غلط اثر ڈالنے والا تھا.کارکنوں تک ہی رہا تو ٹھیک ہے.شکر ہے ایسے مہمانوں تک نہیں پہنچا جو ہمیں دیکھ رہے تھے.کارکنان کی بات ماننا ہر آئے ہوئے مہمان کا فرض ہے چاہے وہ کوئی ہو، کسی عہدیدار کا قریبی ہے یا کوئی بڑا ہے.کسی خاندان کا ہے چاہے میرا رشتہ دار بھی ہے.بجائے اس کے کہ آپ بات مانیں اور ماحول کو اچھا بنا ئیں ، بعضوں نے غلط رویے دکھائے جو صحیح نہیں ہیں.اسی طرح وہ نوجوان جو ڈیوٹی پر تھے اور اس بات پر زیادہ جذباتی ہو گئے کہ اگر یہ ہماری بات نہیں مانتے تو ہم ڈیوٹی نہیں دیتے یہ بھی غلط سوچ ہے.ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.مختلف طبائع ہوتی ہیں.اس لئے کارکنوں کو بھی صبر اور حوصلہ دکھانا چاہئے اور اگر کوئی غلط چیز دیکھیں تو اپنے بالا افسر کو شکایت کریں پھر وہ آپ ہی سنبھال لیں گے.بہر حال عمومی طور پر جلسہ سالانہ بہت سے فضلوں کو لانے والا بنا.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو، ہر اس شخص کو جس نے شمولیت کر کے پاٹی وی کے ذریعہ سے اسے دیکھا اور سنا اپنے اندر تبدیلی لانے والا بنائے اور جو میڈیا کے ذریعہ سے اسلام کا حقیقی پیغام دنیا کو پہنچا ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اس کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکیں اور اس حقیقی پیغام کو قبول کریں.نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جوسیدہ فریدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مرزا رفیق احمد صاحب کا ہے.آپ مکرم سید جلیل شاہ صاحب کی بیٹی تھیں اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہو تھیں.حضرت میر حامد شاہ صاحب کی پوتی اور میر حسام الدین صاحب کی پڑپوتی تھیں.تین دن پہلے ان کی وفات ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ حضرت سید حبیب اللہ شاہ صاحب کی نواسی تھیں اور حضرت ڈاکٹر عبدالستارشاہ صاحب کی پڑ نواسی.یعنی حضرت ام طاہر کی بھتیجی کی بیٹی تھیں.میر حسام الدین شاہ صاحب کی پڑپوتی تھیں.میر حسام الدین شاہ صاحب وہ ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص تعلق تھا اور جب شروع میں
خطبات مسرور جلد 13 526 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 اگست 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد نے آپ کو سیالکوٹ بھیجا ہے تو انہی کے گھر میں رہے تھے.اور حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ذکر کیا کہ ان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک خاص تعلق تھا.ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 326-327) اسی طرح سید حبیب اللہ شاہ صاحب حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ماموں تھے.یہ فریدہ بیگم صاحبہ ان کی بیٹی کی بیٹی تھیں.جب فریدہ بیگم کی والدہ رضیہ بیگم صاحبہ کا نکاح ہوا ہے تو حضرت مصلح موعود نے لکھا کہ اس خاندان کے خاص تعلق کی وجہ سے میں بیماری کے باوجود نکاح پڑھانے کے لئے باہر آ گیا ہوں.اور اسی طرح لڑکی کی طرف سے ولی بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود بنے تھے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 326 و 328) اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.ان کی بہو نے لکھا ہے کہ خاص طور پر دینی لحاظ سے بھی آخری عمر میں تو انہوں نے بہت زیادہ مطالعہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب پڑھیں بلکہ تین دفعہ پڑھیں.ملفوظات پڑھی.تفسیر کبیر مکمل کی.خطبات باقاعدگی سے سنے والی تھیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو.ان کا ایک پوتا جامعہ احمدیہ ربوہ میں اور ایک نواسہ ان کا جامعہ احمدیہ کینیڈا میں پڑھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی صحیح رنگ میں جماعت کا خادم بنائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 18 ستمبر 2015 ء تا 24 ستمبر 2015 ءجلد 22 شماره 38 صفحہ 05 تا 10 )
خطبات مسرور جلد 13 527 36 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرز امرو احمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015 ء بمطابق 04 تبوک 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایک دنیا دار شخص کو جب یہ کہا جائے کہ اگر کسی میں حقیقی تقویٰ پیدا ہو جائے تو اسے دنیا جہان کی سب نعمتیں مل جاتی ہیں تو وہ یقیناً یہ کہے گا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں اور مذہب کے نام پر اپنے اردگرد لوگوں کو جمع کرنے کے لئے لوگ یہ باتیں کرتے ہیں.ہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ آجکل مذہب کے نام پر بعض لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں اور ان کے ذاتی مفاد ہوتے ہیں لیکن نہ تو ان میں خود تقویٰ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پیچھے چلنے والوں میں تقویٰ ہوتا ہے.لیکن اس کے مقابلے پر ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء اور ان کی جماعتیں، حقیقی تعلیم پر چلنے والے یہ لوگ تقویٰ کا ادراک رکھتے ہیں.اس دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے کاروباروں میں لگے ہونے کے باوجود تقویٰ کی تلاش کرتے ہیں اور تقویٰ پر چلتے ہیں.شکت کے نتیجہ میں بے حساب افضال مجھے سینکڑوں خط آتے ہیں جن میں اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری اولادوں میں تقویٰ پیدا کرے.یہ تبدیلی یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے اور اپنا عہد بیعت نبھانے کے احساس کی وجہ سے ہے.اس خواہش نے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کی خشیت اور خوف نے انہیں دنیا کی چیزوں سے بے پرواہ تو کیا ہے لیکن دنیا کی نعمتوں سے وہ محروم نہیں رہے.اللہ تعالیٰ انبیاء کو بھی اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے اور ان کے حقیقی ماننے والوں اور تعلیم پر چلنے والوں کو بھی ان دنیاوی نعمتوں سے نوازتا ہے.بعض دفعہ بعض عارضی تنگیاں ہوتی ہیں لیکن پھر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے ہیں اور حالات بہتر ہو
خطبات مسرور جلد 13 528 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء جاتے ہیں.اسی طرح متقی میں قناعت بھی ہوتی ہے اور قناعت کی وجہ سے وہ معمولی تنگیوں کو برداشت بھی کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہوتے ہیں ، جو نعمت ملتی ہے اس پر اظہار بھی کرتا ہے.پھر جو اللہ تعالیٰ اس کو دیتا ہے اس کے تھوڑے پر بھی متقی کو خدا تعالیٰ کے شکر کی عادت پیدا ہوتی ہے اور جب خدا تعالیٰ کے شکر کی عادت پیدا ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ مزید فضل فرماتا ہے اور انہی فضلوں کو دیکھتے ہوئے ایک حقیقی مومن پھر قربانیوں کے لئے تیار بھی رہتا ہے اور کرتا بھی ہے.آج اس زمانے میں اس مضمون کا حقیقی ادراک ہم احمدیوں کو ہے جن کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی ہے اور آپ کے غلام صادق کا زمانہ اور اسوہ بھی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے سب کچھ چھین لیا اور اسی طرح صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بھی چھین لیا مگر خدا تعالیٰ کے مقابلے میں انہوں نے کسی بات کی پرواہ نہ کی.آخر خدا تعالیٰ نے ان کو سب کچھ دیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی خدا تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑا اور باوجود اس کے کہ اپنے خاندان میں (جائیداد کے ) نصف حصے کے مالک تھے آپ کی بھاوج جنہیں خدا تعالیٰ نے بعد میں احمدی ہونے کی توفیق دی، مجھتی تھیں کہ آپ مفت خورے ہیں.(اور بڑی تنگیاں ہوتی تھیں) مگر ( پھر بھی ) خدا تعالیٰ نے آپ کو سب کچھ دیا.اس حالت کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کھینچا ہے کہ لْفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِى کہ ایک زمانہ تھا جب میں دوسروں کے ٹکڑوں پر بسر اوقات کرتا تھا مگر اب خدا نے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ ہزاروں لوگ میرے دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 11 صفحہ 313-314) آج ہم احمدیوں کا ایمان یقیناً اس بات سے بڑھتا ہے جب ہم آپ کے ابتدائی زمانے اور بعد کے زمانے کو دیکھتے ہیں.اس حالت کا مزید نقشہ کھینچتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بھی بیان فرمایا کہ : " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب پیدا ہوئے تو آپ کے ماں باپ نے آپ کی
خطبات مسرور جلد 13 529 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء پیدائش پر خوشی کی ہوگی مگر جب آپ کی عمر بڑی ہوگئی اور آپ کے اندر دنیا سے بے رغبتی پیدا ہو گئی تو آپ کے والد آپ کی اس حالت کو دیکھ کر آہیں بھرا کرتے تھے کہ ہمارا بیٹا کسی کام کے قابل نہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک واقعہ سنایا.اس کا پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں کہ ایک سکھ نے آپ کو بتایا تھا کہ ہم دو بھائی تھے.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے پاس جایا کرتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے ہمارے والد صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ ان کے پاس آپ جاتے آتے رہتے ہیں انہیں سمجھا ئیں.تو یہ کہتے ہیں کہ جب میں مرزا غلام احمد صاحب کے پاس گیا اور ان کو کہا کہ آپ کے والد صاحب کو اس خیال سے بہت دکھ ہوتا ہے کہ ان کا چھوٹا لڑکا اپنے بڑے بھائی کی روٹیوں پر پہلے گا، (کوئی کام نہیں کرتا.) اسے کہو کہ میری زندگی میں کوئی کام کر لے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ اچھی نوکری مل جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب نے کہا کہ میں اگر مر گیا تو پھر سارے ذرائع بند ہو جائیں گے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس سکھ نے بتایا کہ جب ہم حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے پاس گئے اور آپ کے والد صاحب کے خیال کا اظہار آپ کے سامنے کیا کہ آپ کی حالت دیکھ کے انہیں بہت دکھ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے کہا کہ اگر میں مر گیا تو غلام احمد کا کیا بنے گا؟ تو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا کہ آپ اپنے والد کی بات کیوں نہیں مان لیتے ؟ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد کپورتھلہ کی ریاست میں کوشش کر رہے تھے اور کپور تھلے کی ریاست نے آپ کو ریاست کا افسر تعلیم مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا.افسر تعلیم مقرر کرنے کی ایک آفر بھی آگئی تھی.وہ سکھ کہنے لگے کہ جب ہم نے یہ بات کہی کہ آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مانتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواب دیا کہ میرے والد صاحب تو یونہی غم کرتے رہتے ہیں، انہیں میرے مستقبل کی کیوں فکر ہے.میں نے تو جس کی نوکری کرنی تھی کر لی ہے.کہتے ہیں ہم واپس آگئے اور مرزا غلام مرتضی صاحب سے آ کر یہ ساری بات کہہ دی.مرز اصاحب نے کہا کہ اگر اس نے یہ بات کہی ہے تو ٹھیک کہا ہے کیونکہ وہ جھوٹ نہیں بولا کرتا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدا تھی اور پھر ابھی انتہا نہیں ہوئی لیکن جو عارضی انتہا نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی وفات کے وقت ہزاروں ہزار آدمی آپ پر قربان ہونے والا موجود تھا اور پھر اس شعر کا ذکر کیا جو پہلے بھی میں نے پڑھا ہے کہ
خطبات مسرور جلد 13 530 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِيْ وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِئ کہ ایک ایسا زمانہ تھا جب بچے ہوئے ٹکڑے مجھے ملا کرتے تھے اور آج میرا یہ حال ہے کہ میں سینکڑوں خاندانوں کو پال رہا ہوں.حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ آپ کی ابتدا کتنی چھوٹی تھی مگر آپ کی انتہا ایسی ہوئی کہ علاوہ ان لوگوں کے جو خدمت کرتے تھے لنگر میں روزانہ دواڑھائی سو آدمی کھانا کھاتے تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ اپنے والد کی جائداد میں اپنے بھائی کے برابر کے شریک تھے لیکن زمینداروں میں یہ عام دستور ہے، اس زمانے میں یہ زیادہ تھا کہ جو کام کرے وہ تو جائیداد میں شریک سمجھا جاتا تھا اور جو کام نہیں کرتا وہ جائداد میں شریک نہیں سمجھا جاتا تھا.لوگ عموماً کہہ دیتے ہیں کہ جو کام نہیں کرتا اس کا جائداد میں کیا حصہ ہو سکتا ہے.شروع زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جب کوئی ملاقاتی آتا اور اپنی بھا وجہ کو کھانے کے لئے کہلا بھیجتے تو وہ آگے سے کہہ دیتیں کہ وہ یونہی کھا پی رہا ہے.کام کاج تو کوئی کرتا نہیں.اس پر آپ اپنا کھانا اس مہمان کو کھلا دیتے اور خود فاقہ کر لیتے یا تھوڑے سے چنے چبا کر گزارا کر لیتے.حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ خدا کی قدرت ہے وہی بھاوجہ جو اس وقت آپ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھی بعد میں میرے ہاتھ پر احمدیت میں داخل ہوئیں.غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی کام شروع کیا جاتا ہے تو اس کی ابتدا بڑی نظر نہیں آیا کرتی لیکن اس کی انتہا پر دنیا حیران ہو جاتی ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحه 102-101) آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ قادیان ہی نہیں بلکہ قادیان سے باہر بھی دنیا کے کئی ممالک میں آپ کا لنگر چل رہا ہے.اُس وقت تو شاید دو تین تنوروں پر روٹی پکتی ہو اور لنگر چل رہا تھا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے لنگروں میں روٹی کے پلانٹ لگے ہوئے ہیں.قادیان میں بھی، ربوہ میں اور یہاں لنگر میں بھی لاکھوں روٹیاں ایک وقت میں پکتی ہیں.اللہ کے فضل سے یہاں جلسہ پر جو انتظامات ہیں ان میں بڑا وسیع لنگر کا انتظام ہے.جیسا کہ میں پہلے پچھلے جمعہ ذکر کر چکا ہوں، اس دفعہ بہت سارے جرنلسٹ بھی آئے ہوئے تھے.اخباری نمائندے آئے ہوئے تھے.وہ لنگر کے انتظام کو دیکھ کے، کھانا پکتے دیکھ کے، روٹی پلانٹ کو دیکھ کے بڑے متاثر ہوئے ہیں.مشین کی روٹی ساروں کو پسند آئی.ایک جرنلسٹ جو دیکھ رہے تھے انہوں نے وہاں کھڑے کھڑے کھانے کی خواہش کی.انہیں روٹی دی گئی تو ان کو بڑی پسند آئی اور کھا
خطبات مسرور جلد 13 531 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء گئے.پھر انہوں نے کہا اور کھا سکتا ہوں؟ تو احمدی نے جو اُن کے ساتھ تھے کہا کہ بیشک کھائیں، جتنی مرضی کھائیں کیونکہ یہ مسیح کا لنگر ہے یہاں کوئی کمی نہیں ہے.پس کیا وہ زمانہ تھا کہ ایک مہمان آتا تھا تو آپ اپنا کھانا اسے دے دیتے تھے اور خود فاقہ کرتے تھے اور کہاں آج کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں لوگ آپ کے دستر خوان سے کھانا کھا رہے ہیں اور یہ بھی انتہا نہیں ہے.ابھی تو ان لنگروں نے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلنا ہے.انشاء اللہ.لاکھوں لوگوں نے ، کروڑوں لوگوں نے آپ کے دستر خوان سے کھانا کھانا ہے.اسی طرح لاکھوں اور کروڑوں نے آپ کو ماننے کے بعد تقویٰ میں بھی بڑھنا ہے.آج ہمیں دنیا کمانے والے احمدیوں میں قربانی کے جو معیار نظر آتے ہیں یہ بھی کوئی انتہا نہیں ہے.اس میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ اضافہ ہوتا چلا جانا ہے.پس اگر کوئی غور کرنے والا ایک لنگر کے نظام کو ہی دیکھ لے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی حالات کو ، زمانے کو سامنے رکھے تو یہی آپ کی صداقت کا ایک نشان بن جاتا ہے.بہت بڑا نشان ہے اور ہمارے ایمانوں میں تو یقیناً یہ اضافے کا باعث بنتا ہے.اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر اس سارے نظام کو چلانے کے لئے مالی قربانی کی روح افراد جماعت میں پیدا ہوئی ہے تو یہ بھی اسی تقویٰ کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مجھ کر ہم میں پیدا ہوا.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو حقیقی تقوی پیدا کرنے کی طرف مزید توجہ پیدا کرنے کی توفیق دے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں اور بعض واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں، ان کو بیان کرتے ہیں اور جس طرح بیان کرتے ہیں اور بعض دفعہ آپ جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ بھی آپ کا ایک خاصہ ہے.ایک عام آدمی کسی واقعے کی ظاہری حالت سے لطف تو اٹھا سکتا ہے اور لطف اٹھا کر گزر جاتا ہے لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ اس میں سے جس طرح بڑے باریک نکات نکالتے ہیں وہ بھی ہمارے ایمان میں زیادتی کا باعث بنتا ہے اور معرفت میں ترقی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کے انداز اور ڈھنگ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کا ڈھنگ بالکل نرالا تھا.میں نے کسی اور کو اس طرح کھاتے نہیں دیکھا.آپ پھلکے سے پہلے ایک ٹکڑا علیحدہ کرتے (یعنی باریک روٹی، چپاتی جو ہوتی ہے.) پھر لقمہ بنانے سے پہلے آپ انگلیوں سے اس کے ریزے بناتے جاتے اور منہ سے سبحان اللہ سبحان اللہ
خطبات مسرور جلد 13 532 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء کہتے جاتے اور پھر ان میں سے ایک چھوٹا سا ریزہ لے کر سالن سے چُھو کر منہ میں ڈالتے.یہ آپ کی عادت ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ دیکھنے والے تعجب کرتے اور بعض لوگ تو خیال کرتے کہ شاید آپ روٹی میں سے حلال ذرے تلاش کر رہے ہیں.لیکن دراصل اس کی وجہ یہی جذ بہ ہوتا تھا کہ ہم کھانا کھا رہے ہیں اور خدا کا دین مصائب سے تڑپ رہا ہے.ہر لقمہ آپ کے گلے میں پھنستا تھا اور سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ کر آپ گو یا اللہ تعالیٰ کے حضور معذرت کرتے تھے کہ تو نے یہ چیز ( یعنی کھانا کھانا ) ہمارے ساتھ لگادی ہے (اور خوراک انسان کی ضرورت ہے ).ورنہ دین کی مصیبت کے وقت ہمارے لئے یہ ہرگز جائز نہ تھا.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں وہ غذا بھی (جو آپ کی تھی ) ایک مجاہدہ معلوم ہوتا تھا.یہ ایک لڑائی ہوتی تھی ان لطیف اور نفیس جذبات کے درمیان جو اسلام اور دین کی تائید کے لئے اٹھ رہے ہوتے تھے اور ان مطالبات کے درمیان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے قانون قدرت کے پورا کرنے کے لئے قائم کئے گئے تھے.“ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 270-269) یعنی جو جذبات دین کی تائید کے لئے آپ کے دل میں تھے ان کے درمیان اور جو انسانی ضروریات ہیں ، کھانا کھانا انسان کی ضرورت ہے، پینا انسان کی ضرورت ہے، ان کے درمیان ایک لڑائی چل رہی ہوتی تھی.آپ کا کھانا کھانا بھی ایک مجبوری تھی.اصل فکر آپ کو دین کی تائید کی تھی ، اسلام کی ترقی کی تھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جب استعمال کریں تو اس کا شکر کریں.ایک تو اس کی تسبیح کریں تو ساتھ ہی دین کی حالت کے درد کو بھی محسوس کریں.اس کے لئے کوشش کریں کہ کس طرح ہم نے اشاعت دین اور تبلیغ دین میں حصہ ڈالنا ہے.پھر کھانے کے اس انداز سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا تسبیح کے مضمون کی مزید وضاحت فرمائی اور قرآن کریم کے اس حصہ آیت سے کہ يُسَبِّحُ لِلّهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (التغابن:2) زمین و آسمان کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے یہ نکتہ نکالا ہے.فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کھانا کھایا کرتے تھے جیسا کہ پہلے بھی ذکر آیا ہے کہ بمشکل ایک پھل کا آپ کھاتے تھے اور جب اٹھتے تو روٹی کے ٹکڑوں کا بہت سا چورا آپ کے سامنے سے نکلتا.آپ کی عادت تھی جس طرح پہلے بتایا کہ روٹی کے ٹکڑے کرتے جاتے پھر کوئی ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیتے اور باقی ٹکڑے دستر خوان پر رکھے رہتے.
خطبات مسرور جلد 13 533 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء فرماتے ہیں کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسا کیوں کرتے تھے مگر کئی دوست کہا کرتے تھے کہ حضرت صاحب یہ تلاش کرتے ہیں کہ ان روٹی کے ٹکڑوں میں سے کون سا تسبیح کرنے والا ہے اور کون سا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس قسم کی بات سنی مجھے اس وقت یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ لوگ یہی کہا کرتے تھے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُسبّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لَه زمین و آسمان میں سے تسبیحوں کی آواز اٹھ رہی ہے.اب کیوں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے جبکہ ہم اس تسبیح کی آواز کو سن ہی نہیں سکتے.اور جس چیز کو ہم سن نہیں سکتے اس کے بتانے کی ہمیں ضرورت کوئی نہیں تھی کہ کر رہی ہے.جس کو ہم سن نہیں سکتے تو ہمیں کیا پتا.اس لئے اللہ تعالیٰ کے بتانے کا مقصد کیا تھا.کیا قرآن کریم میں کہیں یہ لکھا ہے کہ جنت میں فلاں شخص مثلاً عبدالرشید نامی دس ہزار سال سے بیٹھا ہوا ہے.چونکہ ہمارے لئے اس کے ذکر سے کوئی فائدہ نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی باتیں نہیں بتا ئیں.پھر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ که زمين و آسمان کی ہر چیز تنیج کر رہی ہے تو اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ اے لوگو تم اس تسبیح کو سنو.جب ہم کہتے ہیں کہ چاند نکل آیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ لوگ آئیں اور دیکھیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص گارہا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ چلو اور اس کا راگ سنو.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِله مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ.کہ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس تسبیح کو سنو.پس معلوم ہوا کہ یہ تیح ایسی ہے جسے ہم سن بھی سکتے ہیں.ایک سنا تو ادنی درجے کا ہے اور نکھیں ایک اعلیٰ درجے کا.مگر اعلیٰ درجے کا سننا انہی لوگوں کو میسر آ سکتا ہے جن کے ویسے ہی کان اور آ ہوں.اسی لئے مومن کو یہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ کھانا شروع کرے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے.کھانا ختم کرے تو الحمد للہ کہے.کپڑا پہنے یا کوئی اور نظارہ دیکھے تو اسی کے مطابق تسبیح کرے.گویا مومن کا تسبیح کرنا کیا ہے؟ وہ ان چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرنا ہے.وہ کپڑے کی تسبیح اور کھانے کی تسبیح اور دوسری چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرتا ہے.جب انسان کھانا کھاتے ہوئے بسم اللہ پڑھتا ہے.کھانا ختم کر کے الحمد للہ پڑھتا ہے.کپڑا پہنتے ہوئے دعا کرتا ہے اور اللہ کو یادرکھتا ہے تو یہ چیزیں جو انسان خود کر رہا ہوتا ہے یہی اصل میں تسبیح ہے جو ان چیزوں کی طرف سے ہو رہی ہوتی ہے.ان کو دیکھ کے جب انسان شکر گزاری کرتا ہے تو یہی تسبیح
خطبات مسرور جلد 13 534 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء ان چیزوں کی طرف سے بھی ہو رہی ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں اور کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں.وہ رات دن کھاتے اور پیتے ہیں.پہاڑوں پر سے گزرتے ہیں، دریاؤں کو دیکھتے ہیں ، سبزہ زاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں، درختوں اور کھیتوں کو لہلہاتے ہوئے دیکھتے ہیں، پرندوں کو چہچہاتے ہوئے سنتے ہیں ،مگر ان کے دلوں پر کیا اثر ہوتا ہے.کیا ان کے دلوں میں بھی ان چیزوں کے مقابلے میں تسبیح پیدا ہوتی ہے.اگر نہیں پیدا ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کی تسبیح کو نہیں سنا.مگر تم کہو گے کہ ہمارے کانوں میں تسبیح کی آواز نہیں آتی.میں اس کے لئے تمہیں بتا تا ہوں کہ کئی آوازیں کان سے نہیں بلکہ اندر سے آتی ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 16 صفحہ 150-149) پس ہر شکرگزاری جو ہے جب وہ انسان کسی چیز کی کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دیکھتا ہے تو سبحان اللہ پڑھتا ہے تو انسان کی جو نبیح ہے وہ اصل میں ان چیزوں کی جو تسبیح ہے اس کا اظہار انسان کے منہ سے ہورہا ہوتا ہے.اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے.پس تسبیح کے اس انداز کو بھی ہمیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ تقویٰ تو یہی ہے کہ اس قسم کی تسبیح ہمارا معمول بن جائے.حضرت مسیح موعود کی بعثت اسلام کے دفاع کیلئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام پر حملہ کرنے والوں کے منہ بند کرنے کے لئے اور اسلام کی خوبصورتی ظاہر کرنے کے لئے بھیجا ہے.اس تعلق میں بھی ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ : ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عیسائی آیا اور اس نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی زبان اُم الالسنتہ ہے حالانکہ میکس مولر (Max Muller) وغیرہ نے لکھا ہے کہ جو زبان اتم الالسنۃ ہوتی ہے وہ مختصر ہوتی ہے.پھر آہستہ آہستہ لوگ اس کو پھیلا دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.ہم تو میکس مولر کے اس فارمولے کو نہیں مانتے کہ ام الالسنہ مختصر ہوتی ہے مگر چلو بحث کو چھوٹا کرنے کے لئے ہم اس فارمولے کو مان لیتے ہیں.( بحث ختم کرنے کے لئے ہم اس فارمولے کو مان لیتے ہیں ) اور عربی زبان کو دیکھتے ہیں کہ آیا وہ اس معیار پر پوری اترتی ہے یا نہیں.اس شخص نے یہ بھی کہا تھا کہ انگریزی زبان عربی زبان کے مقابلے میں نہایت اعلیٰ ہے.
خطبات مسرور جلد 13 535 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے فرمایا اچھا آپ بتائیں کہ انگریزی میں ” میرے پانی کو کیا کہتے ہیں.اس نے کہا مائی واٹر (my water).آپ نے فرما یا عربی میں تو صرف مائي کہنے سے ہی یہ مفہوم ادا ہو جاتا ہے.اب آپ بتائیں کہ مائی واٹر (my water) زیادہ مختصر ہے یا مائی.اب اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی زبان پر ایسے الفاظ جاری کر دیئے کہ معترض آپ ہی پھنس گیا اور وہ سخت شرمندہ اور لا جواب ہو گیا اور کہنے لگا کہ پھر تو عربی زبان ہی مختصر ہوئی.یہی حال قرآن کریم کا ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ آپ کو دشمنوں کے حملوں سے بچائے گا یعنی ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتارہے گا جو قرآن کریم کو پڑھنے والے ہوں گے.اس سے سچا عشق رکھتے ہوں گے اور اس کی تفسیر کرنے والے ہوں گے.وہ دشمنوں کو ان کے حملوں کا ایسا جواب دیں گے کہ ان کا منہ بند ہو جائے گا.دوسرے اس نے قرآن کریم کے اندر ایسا مادہ رکھ دیا ہے کہ معترض جو بھی اعتراض کریں اس کا جواب اس کے اندر موجود ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود کا علم کلام حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ سرسید احمد خاں نے بھی اپنے زمانے میں عیسائیوں کے اعتراضات کے جواب دیئے.پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کر دیا جنہوں نے اتنے لمبے عرصے تک دشمن کا مقابلہ کیا کہ آپ کی وفات پر دشمنوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ نے اسلام کا دفاع ایسے شاندار رنگ میں کیا ہے کہ آپ سے پہلے کسی مسلمان عالم نے اس طرح اسلام کا دفاع نہیں کیا.یہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة: 68) کا ہی کرشمہ تھا.اللہ تعالیٰ کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تھا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہر حال بچانا ہے.جب دشمن نے تلوار سے حملہ کیا تو اس نے اس کی تلوار کو کند کر دیا.(دشمن کی تلوار میں ٹوٹ گئیں.اور جب اس نے تاریخ سے حملہ کیا تو خدا تعالیٰ نے ایسے مسلمان کھڑے کر دیئے جنہوں نے تاریخی کتب کی چھان بین کر کے دشمن کے اعتراضات کورڈ کر دیا اور خود مخالفین کے بزرگوں کی کتابیں کھول کر بتایا کہ وہ جو اعتراضات اسلام پر کر رہے ہیں وہ ان کے اپنے مذہب پر بھی پڑتے ہیں.اور جو حصہ قرآن کریم اور احادیث سے تعلق رکھتا تھا اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صاف کر دیا.(ماخوذ از الفضل 22 نومبر 1956 ء صفحہ 2.4 جلد 45/10 نمبر 274)
خطبات مسرور جلد 13 536 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء پس آج بھی جو لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم کلام جو ہے اسی سے ہم ان کا منہ بند کر سکتے ہیں.اس لئے اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ اپنے دین کی تائید میں خود ہی نشانات بھی دکھاتا ہے اور دلائل بھی بتاتا ہے.بعض لوگ جو علمی ذوق رکھتے ہیں ان کے سینے بھی مزید کھولتا ہے.لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کم علمی کے باوجود عالم بننے کے شوق میں غیر ضروری باتیں کر جاتے ہیں اور جن سے بعض دفعہ مشکلات پیدا ہوتی ہیں بلکہ مخالفین کو استہزاء کا موقع ملتا ہے.ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ لوگ نئے نئے مسائل مذہب میں داخل کر رہے ہیں اور انہیں یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کتنی شرم کی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک دوست تھے وہ بٹالہ کے رہنے والے تھے.بعد میں تو نہایت مخلص احمدی ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مسئلہ بیان کیا تھا ( پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے ) کہ عربی زبان جو ہے وہ اُم الالسنتہ ہے یعنی سب زبانیں اسی سے نکلی ہیں.تو یہ صاحب جو تھے انہوں نے اس مسئلے کو لے لیا اور اسی کام میں مشغول ہو گئے کہ ہم ہر لفظ کا عربی زبان سے نکلا ہوا ثابت کریں.(لیکن زیادہ علم نہیں تھا.عربی کی زیادہ شدھ بدھ نہیں تھی تو وہ اسی کوشش میں لگ گئے.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو لغت کے واقف تھے.صرف ونحو کے واقف تھے.زبان کے واقف تھے.آپ جو مسئلہ نکالتے تھے علم کی بناء پر نکالتے تھے.جب آپ نے یہ کہا کہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے تو اس سے آپ کی یہ مراد تو نہیں تھی کہ قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ بڑھئی کا کام کس طرح کیا جائے یا اس میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ کھیتی باڑی کے کیا اصول ہیں.سب کچھ سے مراد یہ تھا کہ تمام ضروریات دینیہ قرآن کریم میں موجود ہیں.لیکن ان صاحب نے خیال کر لیا کہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے.چنانچہ جب بہت زیادہ شور مچانے لگ گئے.ہر جگہ ہر طبقے میں بیٹھ کے یہ باتیں کرنے لگ گئے کہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے تو کسی سر پھرے نے یہ کہہ دیا کہ آلو اور مرچوں کا قرآن کریم میں کہیں ذکر نہیں.اب انہوں نے بھی اپنی دلیل تو دینی تھی.کہنے لگے کہ اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانِ (اس کے معنی اصل میں تو موتی اور مونگے کے ہیں ) اس کا مطلب آلو اور مرچیں ہی ہیں.پس ( حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ) ایک طرف تو اتنا اندھیر ہے کہ بعض کے نزدیک خدا تعالیٰ کے قول کی طرح فقہاء
خطبات مسرور جلد 13 537 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء کا قول بھی نہیں بدلتا.( بعض لوگ فقہاء کے قول کو بہت ترجیح دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو ایک فیصلہ ہو گیا، کسی فقیہ نے فیصلہ کر دیا وہ آخری فیصلہ ہے اور اس کو بدلہ نہیں جاسکتا ) اور دوسری طرف لوگ تغیر و تبدل کرتے رہتے ہیں اور اندھیر مچادیتے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 33 صفحه 310-309) اس سے مجھے یاد آ گیا، فیصل آباد میں ایک دفعہ جب چوہتر (1974ء) کے فسادات ہو رہے تھے تو ایک مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے اور قُلْ هُوَ الله احد کی تشریح فرما رہے تھے کہ قُلْ هُوَ الله احد قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ احمدی کافر ہیں.اس سے انہوں نے یہ استدلال کر لیا.بہر حال حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ جو ہیں دونوں طرف افراط و تفریط کرتے ہیں.کوئی اصول اور قاعدہ نہیں ہوتا.حالانکہ اصل طریق وسطی ہے.انسان کو تغیر قبول کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے لیکن تغیر پیدا کرنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہتا ہے تغیر پیدا کرتا ہے اور جب وہ تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے تو پھر دنیا اسے تغیر سے روک نہیں سکتی.پھر بعض لوگوں کی غلط سوچیں جو ہیں ان کے بارے میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کیا.کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص قادیان آیا.اس نے کہا کہ اگر مرزا صاحب کو کہا جاتا ہے کہ آپ ابراھیم ہیں ، نوح ہیں ، موسیٰ ہیں ، عیسی ہیں، محمد ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ( وہ کہنے لگا کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ ہر وقت کہتا ہے کہ تو محمد ہے.لوگ اسے سمجھانے لگے تو اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ کی آواز مجھے آتی ہے.وہ خود مجھے کہتا ہے کہ تو محمد ہے.تمہاری دلیلیں مجھ پر کیا اثر کرسکتی ہیں.(کوئی اثر نہیں ہوگا ) جب لوگ سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے تو انہوں نے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا جائے.چنانچہ انہوں نے حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کر کے وقت لے دیں.حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا.آپ نے فرمایا اچھا اس شخص کو بلا لو.چنانچہ وہ شخص حضور کی خدمت میں لا یا گیا اور اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر وقت یہ کہتا ہے کہ تم محمد ہو.آپ نے فرمایا مجھے تو خدا تعالیٰ ہر وقت یہ نہیں کہتا کہ میں ابراہیم ہوں ، میں موسیٰ ہوں ، عیسی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا لیکن جب وہ مجھے کہتا ہے کہ تم عیسی ہو تو عیسی والی
خطبات مسرور جلد 13 538 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء صفات مجھے دیتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ تم موسیٰ ہو تو موسیٰ والے نشانات مجھے دیتا ہے اور اگر آپ کو اللہ تعالیٰ ہر وقت محمد کہتا ہے تو کیا وہ آپ کو قرآن کریم کے معارف اور لطائف اور حقائق بھی دیتا ہے یا نہیں.اس نے کہا دیتا تو کچھ نہیں.تو آپ نے فرمایا دیکھو سچے اور جھوٹے میں یہی فرق ہوتا ہے.اگر کوئی شخص بچے طور پر کسی کو مہمان بناتا ہے تو وہ اسے کھانے کو دیتا ہے لیکن اگر کوئی کسی سے مذاق کرتا ہے تو وہ یونہی اسے بلا کر اس کے سامنے کھانے کے خالی برتن رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے یہ پلاؤ ہے، یہ زردہ ہے.خدا تعالیٰ مذاق نہیں کرتا.شیطان مذاق کرتا ہے.اگر آپ کو محد کہا جاتا ہے اور پھر قرآن کریم کے معارف اور لطائف اور حقائق نہیں دیئے جاتے تو ایسا کہنے والا شیطان ہے، خدا نہیں ہے.خدا تعالیٰ اگر کچھ کہتا ہے تو اس کے مطابق چیز بھی انسان کے آگے رکھ دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ کے سامنے کوئی چیز نہیں رکھی جاتی تو آپ یقین کر لیں کہ آپ کو محمد کہنے والا خدا نہیں ،شیطان ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ تغیر خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 33 صفحہ 311-310) پس وہ لوگ جو بعض دفعہ بعض خوابوں کی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کرنے لگ جاتے ہیں وہ اصل میں شیطان کے زیر اثر ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ تو جب کسی کو کچھ دیتا ہے تو اس کی چمک بھی دکھاتا ہے.اپنی تائیدات کا اظہار بھی کرتا ہے.نشانات ظاہر ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اس کے ساتھ کام کر رہی ہوتی ہے.یہی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دیکھا اور یہی آپ کی پیشگوئی دربارہ مصلح موعود جو تھی اسے خلیفتہ امسیح الثانی کے حق میں پورے ہوتے دیکھا اور یہی خلافت احمدیہ کے قیام کی جو خوشخبری آپ نے دی تھی اس میں اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت سے اس کو ہم نے پورا ہوتے دیکھا.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کے ایمان وایقان میں ترقی عطا فرمائے اور وہ ان باتوں کو سمجھنے والا ہو.نماز کے بعد میں ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ کا ہے.31 اگست اور یکم ستمبر 2015ء کی درمیان رات کو 87 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.اِنَّا لِلهِ وَانا إِلَيْهِ رَاجِعُون مکر مہ امتہ الباری بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی، حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی بیٹی اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی نواسی تھیں.اور سیدۃ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور نواب عبداللہ خان صاحب کی بہو تھیں.ان کے میاں مکرم عباس احمد خان صاحب مرحوم تھے.اور وہ میری
خطبات مسرور جلد 13 539 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء پھوپھی بھی تھیں.17 اکتوبر 1928ء کو قادیان میں ان کی پیدائش ہوئی تھی.29 دسمبر 1944ء کو جب میاں عباس احمد خان صاحب کے ساتھ ان کا نکاح ہوا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جمعہ کے دن جمعہ کا خطبہ شروع کرنے سے پہلے چند نکاحوں کا اعلان کیا.آپ نے فرمایا کہ چند نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں اور میں یہ بات کئی دفعہ ظاہر کر چکا ہوں کہ کچھ عرصے تک میں ایسے لوگوں کے نکاح پڑھا سکوں گا جو یا تو میرے عزیز ہوں یا ان سے میرے تعلقات عزیزوں کی طرح ہوں مثلاً دین کے لئے وہ زندگی وقف کر چکے ہوں.اس کے علاوہ کسی دوسرے کا نکاح اس صورت میں پڑھا سکوں گا جبکہ ایسے موقع پر وہ درخواستیں پیش کی جائیں گی جب ایسے عزیزوں کا نکاح ہو.بہر حال آپ نے فرمایا کہ آج میں عزیزم عباس احمد خان کے نکاح کا اعلان کرنا چاہتا ہوں جو میری چھوٹی بہن اور میاں عبداللہ خان صاحب کے لڑکے ہیں اور لڑکی عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی ہے.گو یالڑ کا میرا بھانجا ہے اور لڑ کی میری بھیجی ہے.پھر آپ نے مختلف نصائح فرما ئیں اور وقف زندگی کا ذکر کیا اور اس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا نام لیا کہ اس وقت خاندان کے لڑکوں میں سے جو سب سے زیادہ اس وقف کے لئے پیش کر چکے ہیں ان کا نام لیا کہ آپ ہیں اور اوروں کو بھی تو جہ دلائی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج سے ساٹھ ستر سال پہلے یہ الہام شائع فرمایا تھا کہ تری نَسْلاً بَعِيدًا.اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نشان کو ایسے رنگ میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز نشان کی اہمیت اور عظمت بڑھتی چلی جاتی ہے.بعض نشان اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جس وقت وہ شائع کئے جاتے ہیں تو بڑے ہوتے ہیں اور ان کی عظمت زیادہ ہوتی ہے مگر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اس نشان کی عظمت میں آہستہ آہستہ کمی ہوتی چلی جاتی ہے.لیکن بعض نشان اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ابتدا میں چھوٹے ہوتے ہیں مگر زمانے کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ہوتے چلے جاتے ہیں.جوں جوں زمانہ گزرتا ہے انکی عظمت بڑھتی چلی جاتی ہے.چنانچہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا کہ تَرى نَسْلاً بَعِيدًا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صرف دو بیٹے تھے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے ہاں کچھ اور بیٹے بیٹیاں پیدا ہو ئیں اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کو وسیع کیا اور اب ان بیٹوں اور بیٹیوں کی نسلیں الہام الہی کے ماتحت شادیاں کر رہی ہیں اور تری نَسْلاً بَعِيدًا کے نئے نئے ثبوت مہیا کر رہی ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ دنیا میں نسلیں تو پیدا ہوتی رہتی ہیں.ایک معترض کہ سکتا ہے کہ یہ کونسا نشان ہے
خطبات مسرور جلد 13 540 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء نسلیں تو دنیا میں اکثر آدمیوں کی چلتی ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے آدمیوں کی نسلیں ہیں جو ان کی طرف منسوب بھی ہوتی ہوں اور منسوب ہونے میں فخر محسوس کرتی ہوں.اکثر آدمیوں کی نسلیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ تمہارے پردادا کا کیا نام تھا تو ان کو پتا نہیں ہوتا مگر تری نَسْلاً بَعِيدًا کا الہام بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل آپ کی طرف منسوب ہوتی چلی جائے گی اور لوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل آپ کی پیشگوئیوں کے ماتحت آپ کی صداقت کا نشان ہے.پس تری نسلاً بَعِيدًا میں صرف یہی پیشگوئی نہیں کہ آپ کی نسل کثرت سے ہوگی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظمت شان کا بھی اس جگہ اس رنگ میں اس پیشگوئی میں ذکر ہے کہ آپ کا مرتبہ اتنا بلند اور آپ کی شان اتنی ارفع ہے.آپ کی نسل ایک منٹ کے لئے بھی آپ کی طرف منسوب نہ ہونا برداشت نہیں کرے گی اور آپ کی طرف منسوب ہونے میں ہی ان کی شان اور ان کی عظمت بڑھے گی.پس اس پیشگوئی میں خالی اس بات کا ذکر نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولا د کثرت سے ہوگی بلکہ یہ بھی ذکر ہے کہ روز بروز بڑھے گی اور وہ خواہ کتنے ہی اعلیٰ مقام اور اعلیٰ مرتبے تک جا پہنچے اور خواہ ان کو بادشاہت بھی حاصل ہو جائے پھر بھی وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کرنے میں ہی فخر محسوس کرے گی.پس تری نسلاً بَعِيدًا کے یہی معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری نسل تجھے کبھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں کرے گی اور تیری نسل کبھی اپنے دادا کو بھلانے کی کوشش نہیں کرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غموں کا ایک دن اور چار شادی.جس کے یہ معنی ہیں کہ بیشک آپ کی نسل میں سے بعض لوگ مریں گے بھی جیسا کہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے مگر آپ کی نسل کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی.اگر ایک مرے گا تو چار پیدا ہوں گے اور جہاں ایک مرے گا اور چار پیدا ہوں گے لازمی بات ہے کہ وہ نسل بڑھتی چلی جائے گی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظمت اور آپ کے درجے کی بلندی کا ہمیشہ نشان رہے گی اور ہمیشہ اپنے آپ کو آپ کی طرف منسوب کرنے میں فخر محسوس کرے گی اور جب وہ آپ کی طرف منسوب کرنے میں فخر محسوس کرے گی تو دوسرے لفظوں میں اس کے معنی ہیں کہ وہ اولا د اپنے دادا کی بڑائی اور عظمت کا اقرار کرتی ہے اور دنیا اس اقرار کی عظمت کو تسلیم کرتی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 605 تا608)
خطبات مسرور جلد 13 541 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء تفصیلی ذکر میں نے اس لئے کر دیا کہ یہ بات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد پر بھی بہت بڑی ذمہ داری ڈالتی ہے کہ اپنی اس ذمہ داری کو بھی سمجھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد بھی ہمیشہ ہر وقت سامنے رکھیں کہ ہماری طرف منسوب ہو کر پھر ہمیں بدنام نہ کرو.ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ (188) پس صرف نسل ہونا ہی بڑائی نہیں بلکہ آپ کی تعلیم پر عمل کرنا اور آپ کے ساتھ منسوب ہو کر آپ کی عزت واحترام اور جو مقام ہے اس کو قائم کرنا بھی سب کا فرض ہے.اللہ تعالیٰ اس خاندان کو اس کی بھی توفیق عطا فرمائے ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے.جب تقسیم ہند ہوئی ہے، پاکستان بنا ہے اس وقت آپ کو اسی بس میں سفر کرنے کا اعزاز ملا جس میں حضرت اماں جان اور خاندان کی بعض دوسری خواتین سفر کر رہی تھیں اور پھر لاہور پہنچ کر ابتدائی دنوں میں رتن باغ میں ان کا قیام رہا جہاں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قیام تھا.اس کے بعد بھی آپ ہمیشہ لاہور ہی رہیں.آپ کی بہت بڑی خصوصیت غریب پروری اور مہمان نوازی تھی اور بڑی بے تکلف طبیعت کی مالک تھیں.ان کا گھر جو تھا اکثر مہمانوں سے ہر وقت بھرا رہتا تھا.کسی بھی قسم کا کوئی مہمان آجائے چاہے وہ عزیز رشتے دار ہو، کوئی دوست ہو، غیر ہو، غریب ہو، بہترین طریقے سے اس کی مہمان نوازی کیا کرتی تھیں اور یہ ان میں بہت بڑا وصف تھا اور بڑی عزت و احترام سے پیش آیا کرتی تھیں.پھر اسی طرح آپ کا حلقہ بڑا وسیع تھا.خاندان کے علاوہ بھی لوگوں سے، جماعت کے ہر فرد سے بڑے وسیع تعلقات تھے.جن جن سے ان کا واسطہ پڑا وہ ان کا گرویدہ ہو گیا.پھر اسی طرح مالیر کوٹلہ کے جو غیر احمدی رشتے دار تھے ان سے بھی آپ نے ہمیشہ تعلق رکھا اور نبھایا.بعض تو عارضی مہمان آتے ہیں.پھر مستقل مہمان بھی ، خاندان کے افراد بھی ، نوجوان لڑکے لڑکیاں جب لاہور میں کالج میں، یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے اور اسی طرح بہت سارے دوسرے بھی میں نے دیکھا ہے آپ کے گھر رہتے تھے اور آپ کی مہمان نوازی با قاعدہ ان کے لئے بھی بڑے کھلے دل کے ساتھ چلتی تھی.اور یہ نہیں کہ کوئی (خاص) وقت ہے جب بھی پہنچ جاؤ فوری طور پر مہمان نوازی کے لئے تیار ہوتی تھیں.اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کے بہت سارے تاریخی واقعات بھی آپ کے علم میں تھے جو آپ اپنے عزیزوں کو سناتی تھیں اور یہ محفوظ ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو کشائش عطا فرمائی تو اس کو آپ نے ہمیشہ غریبوں کی خدمت میں غریبوں کے لئے استعمال کیا.بہت سارے بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کئے.شادیوں پہ بڑے کھلے دل سے دیا کرتی تھیں.اسی طرح اپنے میاں عباس احمد
خطبات مسرور جلد 13 542 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 ستمبر 2015ء خان صاحب کی وفات کے بعد نظارت تعلیم کی وساطت سے ان کے نام پر ایک مستقل وظیفے کا اجراء آپ نے کیا.آپ گر گئی تھیں جس کی وجہ سے ٹانگ میں فریکچر تھا اور اس کی وجہ سے دو تین آپریشن بھی ہوئے.کچھ عرصے سے بڑی تکلیف میں تھیں.لیکن بڑے صبر اور حوصلے سے برداشت کرتی رہیں.اور آخر 131 اگست کو اور یکم ستمبر کی درمیانی رات دل کا دورہ پڑا اور اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں.انا للہ وانا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.چندوں میں بہترین معیاری چندے دینے والی تھیں.اپنا حصہ جائداد، حصہ آمد، حصہ وصیت وغیرہ سارا کچھ اپنی زندگی میں ادا کیا.1958ء سے لے کر 94 ء تک ضلع لا ہور میں لجنہ کی مختلف حیثیتوں میں آپ کا رکن رہیں، سیکرٹری رہیں، خدمت کرتی رہیں.ایک زمانے میں لجنہ لاہور کی جنرل سیکرٹری بھی رہی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا ہے غریبوں سے بڑی ہمدردی کرنے والی ، ان کا خیال رکھنے والی تھیں.اور جس طرح میں نے ان کو ہر ایک کے خوشی غم میں اپنا سمجھ کر شریک ہوتے ہوئے دیکھا ہے چاہے وہ غیر ہو، اپنا ہو، کسی اور کو نہیں دیکھا.پھر اگر کسی نے کوئی ایسی بات کی جو ان کو پسند آئی یا ان کی کسی طرح کسی رنگ میں بھی خدمت کی ہے تو اس کو اجر دیتی تھیں.منیر حافظ آبادی صاحب قادیان کے ہیں، لکھتے ہیں کہ یہ 1989ء کے جو بلی جلسے میں قادیان آئی تھیں تو منیر حافظ آبادی صاحب کو کچھ خدمت کا موقع ملا تو انہیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پگڑی کے کپڑے کا تبرک دیا.اسی طرح اس دفعہ لوگوں نے ، افراد جماعت نے دیکھا ہوگا کہ عالمی بیعت کے وقت میں نے ایک مختلف رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا.یہ سبز نہیں تھا ذرا دوسرے رنگ کا تھا.یہ کوٹ بھی مجھے انہوں نے بھجوایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوٹ تھا جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے پاس تھا.پھر ان کے حصے میں آیا تو انہوں نے مجھے بھیج دیا کہ یہ میں تمہیں دیتی ہوں.پھر یہ ہے کہ خلافت سے تعلق انتہا کا تھا اور بڑا عزت اور احترام کا تعلق تھا.ہمیشہ مجھے فون کرتی تھیں.اس بات کی بڑی خواہش ظاہر کیا کرتی تھیں کہ بات ہو جائے.پھر ہمیشہ ان کو یہ فکر تھی کہ میری اولا د کو بھی اللہ تعالیٰ نیکیوں کی تو فیق دے اور آپس میں ایک ہو کے رہیں.اللہ کرے کہ ان کی اولاد ہمیشہ ان کی نیکیوں کو بھی جاری رکھنے والی ہو اور آپس میں بھی مل جل کر رہنے والی ہو.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور مغفرت کا سلوک فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا کہ نماز کے بعد میں ان کا جنازہ غائب ادا کروں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 25 ستمبر 2015 ء تا 101اکتوبر 2015 ءجلد 22 شمارہ 39 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 543 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015 ء بمطابق 11 تبوک 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایک شخص جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کے مسلمان ہونے کی خوبصورتی تبھی ظاہر ہوگی جب وہ ایمان میں مضبوط ہو اور اسلام کی حقیقت کو سمجھتا ہو.ایمان یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے سپر د کر دے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو اور اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو بھی ہر شر سے بچا کر رکھے اور دوسروں کے لئے بھی سلامتی کے سامان کرے.دنیا میں پائیدار امن کا ذریعہ پس یہ خلاصہ ہے ایمان اور اسلام کا.اگر مسلم دنیا اس چیز کو سمجھ لے، اس بات کو سمجھ لے تو دنیا میں پائیدار امن اور سلامتی قائم کرنے اور بکھیرنے کے ایسے نظارے نظر آئیں جو دنیا کو جنت بنا دیں.اس زمانے میں اس حقیقی ایمان کو دلوں میں قائم کرنے اور حقیقی اسلام کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کی طرف منسوب ہونے کے بعد یہی ہماری ذمہ داری ہے کہ حقیقی ایمان کو قائم کرتے ہوئے اور اسلام کا صیح نمونہ بنے ہوئے اس کام میں آپ کے ممد و معاون بنیں.دنیا کو ایمان کی حقیقت بتا ئیں اور سلامتی پھیلانے والے بنیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ اپنے نظام کے ذریعہ سے دنیا میں ہر جگہ یہ کام تو کر ہی رہی ہے لیکن ہر احمدی کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا نمونہ بنائے تاکہ ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری ادا کر نے والا بنے.آجکل مسلمان دنیا میں بدقسمتی سے جو فساد برپا ہے اس نے اسلام کے نام کو بدنام کیا ہوا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 544 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء کاش کہ مسلمان ممالک اس بات کو سمجھیں کہ ان کے ذاتی مفادات نے اسلام کو کس قدر زد پہنچائی ہے اور شدت پسند گروہ اور تنظیمیں بھی اس وجہ سے ابھری ہیں کہ ہر سطح پر مفاد پرستی زور پکڑ رہی ہے.ملکوں کے امن برباد ہورہے ہیں.نہ خود امن میں ہیں، نہ دوسروں کو سلامتی پہنچارہے ہیں.نہ حکومت رعایا کے ساتھ انصاف کر رہی ہے، نہ رعایا حکومت کے حق ادا کر رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ ان دونوں کی بے اعتدالیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : ” جب تک یہ دونوں پہلو ( یعنی حکومت کے فرائض اور رعایا کے فرائض ) اعتدال سے چلتے ہیں تب تک اُس ملک میں امن رہتا ہے اور جب کوئی بے اعتدالی رعایا کی طرف سے یا بادشاہوں کی طرف سے ظہور میں آتی ہے تبھی ملک میں سے امن اٹھ جاتا ہے.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 33) بد قسمتی سے یہی کچھ ہم آجکل اکثر مسلمان ممالک میں دیکھ رہے ہیں اور پھر اسلام دشمن قوتیں بھی اس سے اپنے مفادات حاصل کر رہی ہیں.ایک طرف تو دونوں کی جھگڑے بڑھانے میں مدد کی جاتی ہے تو دوسری طرف شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں کو شہرت دے کر پریس اور میڈیا بے انتہا کو ریج دیتا ہے اور یہ کوریج دے کر اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے.اسلام کے خلاف میڈیا کا ایک کردار میں نے بعض انٹرویوز جو میڈیا کو دیئے ان میں ایک بات یہ بھی انہیں کہی تھی کہ اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسے شدت پسند اور دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کرنے میں تم جو میڈیا والے ہو تمہارا بھی ہاتھ ہے.میڈ یا انصاف سے کام نہیں لیتا.کسی گروہ کے یا ملک کے حکمرانوں کے، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، سیاسی عزائم کو تم مذہب کا نام دے کر پھر اسلام کی تعلیم کو بدنام کرتے ہو.اور پھر اس کو اتنی شہرت دیتے ہو کہ تم نے دنیا میں رہنے والے لوگوں کی اسلام کے متعلق سوچیں ہی بدل دی ہیں.یا جو اسلام کو جانتے نہیں ان کے ذہنوں میں اسلام کا ایسا تصور پیدا کر دیا ہے، ایسا ہوا کھڑا کر دیا ہے کہ ان کے چہرے اسلام کا نام سن کر ہی متغیر ہو جاتے ہیں.اور جہاں تمہارے اپنے مفادات ہوں وہاں خبریں دبا بھی دیتے ہو.مثلاً کچھ عرصہ پہلے آئرلینڈ میں جب شدت پسندی کے واقعات علیحدگی پسندوں کی طرف سے ہوئے تو پریس نے فیصلہ کر لیا کہ خبریں نہیں دینی یا پریس کو مجبور کیا گیا کہ خبریں نہیں دینی اور نتیجہ وہیں مقامی سطح پر ہی تھوڑا سا ابال اٹھا اور حکومت نے اسے دبا دیا.یہ ٹھیک ہے کہ مسلمان ممالک میں حکومت
خطبات مسرور جلد 13 545 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء مخالف گروہوں کی کارروائیاں زیادہ سخت ہوں، جو مسلمان ممالک میں علیحدگی پسند گروہ ہیں یا شدت پسند گروہ ہیں ان کی کارروائیاں ان کی نسبت شاید زیادہ سخت ہوں لیکن ان کو تسلسل سے یہ کارروائیاں کرنے کی کس طرح تو فیق مل رہی ہے یا کس طرح وہ یہ انجام دے رہے ہیں.ان کو اسلحہ کی صورت میں جو ایندھن ہے وہ تو باہر سے ہی مہیا کیا جاتا ہے.میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ حالات سے تنگ اور بے چین لوگ جب شدت پسند گروہوں میں شامل ہوتے ہیں تو اس کا بے انتہا پرو پیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اتنے لوگ یہاں سے چلے گئے ، اتنے لوگ وہاں سے چلے گئے اور پھر اسلام کو بھی کسی نہ کسی طریق سے نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے مزید بے چینی پیدا ہوتی ہے اور ردعمل ظاہر ہوتا ہے.لیکن ہزاروں لاکھوں مسلمان جو امن کی بات کرتے ہیں ان کا ذکر میڈیا نہیں کرتا یا انہیں وہ پذیرائی نہیں ملتی جو منفی رویے دکھانے والوں کو ملتی ہے.اور سب سے بڑھ کر تو جماعت احمد یہ ہے جو محبت اور پیار کی اسلامی تعلیم پھیلاتی ہے اور تمام دنیا میں ایک لگن سے اس کام پر لگی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں امن کے جھنڈے تلے امن پھیلانے اور سلامتی بکھیر نے کے لئے لاکھوں لوگ ہر سال جماعت میں شامل ہوتے ہیں.ان کے بارے میں ہم تمہیں بتا ئیں بھی تو تم اتنی توجہ نہیں دیتے بلکہ بالکل بھی توجہ نہیں دیتے.کہیں ذکر نہیں ہوتا.اور دنیا کے سامنے بعض مسلمانوں کے یا مسلمان گروہوں کے عمل کی غلط تصویر ہی پیش کی جاتی ہے، منفی تصویر پیش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی غیر مسلم آبادی سمجھتی ہے کہ اسلام کا صرف ایک ہی رخ ہے اور اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ شدت پسندی ہے اور نا انصافی ہے اور یہی اسلام کا حقیقی چہرہ ہے.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا دنیا میں، غیر مسلموں میں اسلام سے نفرت بڑھتی جاتی ہے.اسلام کا خوبصورت پیغام آگے پھیلائیں بہر حال پریس بھی کیونکہ اب ایک کاروباری چیز ہے ان کا کاروبار ہے اور مسالے دار خبریں لگانا ان کا کام ہے جو وہ اس لئے لگاتے ہیں کہ ان کو مالی فوائد حاصل ہوں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ لاکھوں لوگ امن اور سلامتی کے جھنڈے تلے ہر سال جمع ہوتے ہیں.جلسے کی رپورٹ میں بھی ان کا ذکر ہوتا ہے، میں نے کیا تھا.بعض مثالیں میں نے جلسے میں دوسرے دن پیش کی تھیں.تو اس وقت میں ایسے ہی چند لوگوں کی مثالیں پیش کرتا ہوں جنہوں نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھا اور ان کے دلوں پر اثر ہوا.ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں اور مسلمان بھی شامل ہیں اور پھر بہت سے ایسے ہیں جنہوں
خطبات مسرور جلد 13 546 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء نے اسلام کی خوبصورت تصویر کو دیکھ کر اسلام قبول کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ عہد کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی اور صحیح اسلامی تعلیم کے اظہار کی حتی المقدور کوشش کریں گے اور یہ پیغام آگے پھیلائیں گے جو اسلام کا خوبصورت پیغام ہے، جو امن اور سلامتی کا پیغام ہے اور بعض نے یہ بھی اظہار کیا کہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کی دنیا کو ضرورت ہے اور میڈیا نے اسلام کے بارے میں منفی تاثر دے کر ہماری سوچوں پر تالے لگا دیے تھے.جماعت احمدیہ کی جو یہ کوششیں ہیں انہوں نے پھر ان کی ان غلط سوچوں کو دور کیا.ایک عیسائی پادری نے ایک جگہ بر ملا اس بات کا اظہار کیا.بین میں ایک چھوٹی سی جماعت چیز ئیمان ہے وہاں مسجد کا افتتاح تھا تو اپا سلملک (Apostalic ) چرچ کے پادری نے کہا کہ آج کا دن میری زندگی کا ایک عجیب دن ہے.آج مسلمان اور مسیحی ایک جگہ بیٹھے ہیں.میں پہلے بھی مسلمانوں کے علاقے میں کام کر چکا ہوں لیکن کبھی کوئی ایسی تقریب نہیں دیکھی جس میں مسلمان اور عیسائی اکٹھے ہوں.کوئی شک نہیں کہ جماعت احمدیہ نے ہم سب کو اکٹھا کیا ہے.میں احمدیت کو سلام پیش کرتا ہوں.پھر انصاف پسند سیاستدان جو ہیں ان پر بھی جماعت کے ان کاموں کا بڑا اثر ہے.یہاں جلسے کے دنوں میں بھی آپ کے سامنے بعضوں نے اظہار کیا ہو گا.دنیا میں ہر جگہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ جو اسلامی تعلیم پیش کرتی ہے اور جو کام کر رہی ہے، جو عملی تصویر ہے اس کو سراہا جاتا ہے.جماعت کی خدمات کو لوگ پسند کرتے ہیں اور اظہار کرتے ہیں کہ کیسی خوبصورت تعلیم ہے.بینن کے ہی گاؤں گان زُوگو (Ganzougo) میں مسجد کا افتتاح تھا.اس میں ایک مہمان آئے ہوئے تھے جو وہاں منسٹر آف ٹرانسپورٹ ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جماعت احمد یہ ہمارے لئے کوئی نئی جماعت نہیں اور ان کی خدمات انسانی کسی سے چھپی ہوئی نہیں.ہم گورنمنٹ کے نمائندے ہر ایک تنظیم اور گروپ کی تحقیق کرتے ہیں اور ان کے منشور، مقاصد اور مشن پر گہری نظر رکھنا ہمارا کام ہے.اور احمدیت کی انسانی خدمات جو ببینن میں ہیں اور جو امن کی اور محبت کی کوشش جماعت احمدیہ نے کی ہے وہ ملک بینن میں اول نمبر پر ہے.میں امن اور محبت کی کاوشوں میں احمدیت کی خدمات کو سلام کرتا ہوں اور یہ محبت ہی مجھے یہاں کھینچ لائی ہے.پھر یہ کہتے ہیں کہ اس جگہ کے چیف سے لے کر تمام حکومتی مشینری آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے کیونکہ آپ کا جو نعرہ ہے محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں، اور جو اسلامی تعلیم آپ پیش کرتے ہیں وہ ایسی چیز ہے کہ ہم مجبور ہیں کہ آپ کا ساتھ دیں.
خطبات مسرور جلد 13 547 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء پھر میڈیا کا کردار ایک طرف تو اتنا زیادہ ہے کہ بڑے تو بڑے بچوں کو بھی اسلام سے خوفزدہ کیا جاتا ہے.بعض جگہ سکولوں میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ بعض دفعہ غیر مسلم بچے مسلمانوں بچوں سے ایسا سلوک کر رہے ہوتے ہیں جس سے لگ رہا ہوتا ہے کہ نفرتیں بڑھ رہی ہیں.دوسری طرف جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کے اس اثر کو زائل کرتا ہے اس کا ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کرتا ہوں.کیا بیر میں ہماری مسجد ہے.وہاں جماعت ہے.وہاں کے مشنری لکھتے ہیں کہ چند دن قبل ہماری مسجد کے سامنے ایک یہودی ٹیچر اپنے سکول کے بچوں کو لے کر جماعت کا تعارف کرارہے تھے.وہ ٹیچر غالباً عربی بھی جانتے تھے.ہماری مسجد کے دروازے پر لکھا ہوا ہے کہ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا.وہ ٹیچر ان الفاظ کا لفظی ترجمہ کر کے بچوں کو سمجھا رہے تھے کہ اس جملے کا مطلب ہے کہ جو اس میں داخل ہوگا وہ امن میں رہے گا.کہنے لگا یہ الفاظ تو سارے مسلمان ادا کرتے ہیں، پڑھتے ہیں، قرآن شریف میں ہے.بچوں کو کہتا ہے کہ مگر آپ کو پتا ہونا چاہیئے کہ اس جملے کا عملی نمونہ صرف احمدیوں کی مسجد میں ہی دیکھنے کو ملے گا.پھر اللہ تعالیٰ کس طرح لوگوں کی توجہ جماعت کی طرف پھیرتا ہے.برکینا فاسو افریقہ کا ایک ملک ہے فرنچ علاقہ ہے.وہاں ایک جگہ کا لمبا گو (Kalambago) میں مسجد تعمیر ہوئی.مسجد کے افتتاح کے موقع پر ایک دوست نے کہا کہ میرا جماعت احمدیہ سے دس سال قبل تعارف ہوا تھا لیکن میں جماعت احمدیہ کو مسلمانوں کی ایک عام سی تنظیم سمجھتا تھا.اس لئے نہ میں نے احمدیت قبول کی اور نہ ہی اپنے اس علاقے میں اس کا ذکر کیا مگر آج جماعت احمدیہ کی یہاں اپنے گاؤں میں مسجد دیکھ کر مجھے علم ہوا ہے کہ جس جماعت کو میں نے مسلمانوں کی عام تنظیم سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا وہی جماعت اسلام کی حقیقی خدمت کر رہی ہے اور آج میرے گاؤں میں بھی اس جماعت نے مسجد بنادی ہے.آج مجھ پر واضح ہو گیا کہ یہ جماعت یقیناً کچی ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی تائید ہے.پھر موٹیوں (Mougnoun) ایک جگہ بینن میں ہے جہاں مشرکین آباد ہیں.سب مشرکین ہیں.ہمارے مشنری وہاں تبلیغ کے لئے گئے.جماعت کا تعارف کرانے کے بعد انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے ذہن میں کوئی سوال ہے تو کرے.اس پر ایک بزرگ کہنے لگے کہ میں تو اسلام کے بارے میں بڑے خیالات رکھتا تھا.آپ کو دیکھ کر میں سمجھا تھا کہ بوکوحرام ہم میں داخل ہو گئے ہیں.( بوکوحرام ایک شدت پسند ، دہشت گرد تنظیم ہے جن کا آجکل نائیجیریا میں خاص طور پر بڑا زور ہے.لیکن جب میں نے آپ کی تقریر سنی تو میرے اسلام کے بارے میں تمام خدشات دور ہو گئے اور میں پہلا شخص ہوں جو ان مشرکین
خطبات مسرور جلد 13 548 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء میں سے اسلام اور احمدیت کو قبول کرتا ہوں.پھر اس کے بعد اس گاؤں سے چالیس افراد اسلام احمدیت میں داخل ہوئے اور یہاں مشرکین کے گاؤں میں، اس جگہ میں ایک نئی جماعت قائم ہوگئی.پھر ان کی کچھ روایات ہیں.جب آدمی فوت ہوتا ہے تو اس کے لئے بڑا اہتمام کیا جاتا ہے.جب تک پورا اہتمام نہ ہو جائے ، لاکھوں فرانک خرچ نہ کئے جائیں اس وقت تک اس کو دفنایا نہیں جاتا.بڑے اہتمام سے دفنایا جاتا ہے.بڑا فنکشن ہوتا ہے اور چاہے مہینہ رکھنا پڑے مارچری میں رکھا جاتا ہے.لیکن جب یہ احمدی ہوئے تو اس بزرگ نے اعلان کیا کہ میں جب مرجاؤں تو مجھے اس طرح نہ دفنانا بلکہ جو مسلمانوں کا طریقہ ہے اس کے مطابق میری تدفین ہو.یہ رسم و رواج اب آئندہ سے ختم ہوں تو فوری تبدیلی ان میں یہ پیدا ہوئی کہ رسم ورواج کو بھی انہوں نے فوری طور پر چھوڑ دیا.پھر ایک دن ہمارے معلم کو کہنے لگے کہ احمدی ہونے کے بعد میرے جسم میں ایک نئی روح آ گئی ہے.میں جہاں بھی ہوں چاہے اپنے فارم پہ کام کر رہا ہوں، میری روح میرے ضمیر کو جگاتی ہے اور کہتی ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے.تو یہ پابندی ان لوگوں میں نماز کے لئے بھی پیدا ہو چکی ہے اور کہتے ہیں کہ اس طرح میں نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور میری روح کو سکون اور جسم کو راحت ملتی ہے.کہتے ہیں اب میں اپنے اندر بڑی تبدیلی محسوس کرنے لگ گیا ہوں.پس ہم میں سے بھی جو نماز میں سست ہیں ان کو یا د رکھنا چاہئے کہ نئے آنے والے عبادتوں کی طرف بھی رجحان رکھنے والے ہیں اور بڑی توجہ سے نمازیں پڑھتے ہیں.آج اسلام کی حقیقی تعلیم جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہی دنیا کو پہنچ سکتی ہے.اس کا ذکر اکثر رپورٹس میں ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے اور کس طرح لوگوں پہ اثر ہوتا ہے.ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.یہ نئی کنا کسری ملک کا ہے وہاں کا ایک شہر فارانا (Farana) ہے جو وہاں کے کیپیٹل سے تقریباً پانچ سوکلومیٹر دور ہے.وہاں ہمارے لوگ جب تبلیغ کے لئے پہنچے تو وہاں پر موجود ہمارے ایک احمدی دوست ابوبکر صاحب نے تبلیغی نشستوں کا اہتمام کیا.یہ مربی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام ان لوگوں کو پہنچایا.ابھی تبلیغ کا سلسلہ جاری تھا کہ وہاں ایک مولوی شر پھیلانے کے لئے پہنچ گیا.کچھ دیر تو خاموشی سے باتیں سنتا رہا.اس کے بعد بڑے غصے میں کہا کہ تمہیں یہاں تبلیغ کی اجازت نہیں ہے اور میں تمہیں پولیس کے ذریعہ سے ابھی یہاں بند ( گرفتار کرواتا ہوں.وہاں کے نوجوان کھڑے ہو گئے اور اس مولوی کو بڑے غصے سے کہا کہ تم تنے عرصے سے یہاں ہو تم نے تو کبھی یہ باتیں نہیں بتائیں جو باتیں آج ہمیں سننے کومل رہی ہیں اور یہی
خطبات مسرور جلد 13 549 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہے جو ہمارے دل پر اثر کر رہا ہے.اسلام کی تعلیم کو خوبصورتی سے پیش کرنے کا یہ انداز ہے جو ہمارے دلوں کو گھائل کر رہا ہے اور ہمیں اس سے سکون مل رہا ہے.تم تو ابھی تک ہمیں گمراہ کرتے چلے آئے ہو.اس لئے فوراً یہاں سے چلے جاؤ.چنانچہ وہ مولوی بڑا شرمندہ ہوکر وہاں سے گیا اور وہاں جو مجلس لگی تھی اس کے نتیجہ میں پندرہ افراد جماعت میں شامل ہو گئے.پھر گنی کنا کری کا ہی ایک واقعہ ہے.دارالحکومت سے کوئی دوسوکلومیٹر دور ایک قصبے میں تبلیغ کے لئے جب گئے تو وہاں ایک شخص نے کہا کہ آپ سے پہلے بھی تبلیغی جماعت کے لوگ یہاں آئے تھے لیکن ان کے رویے کیا تھے.وہ لوگ آئے تو تبلیغ کرنے تھے.انہوں نے بھی اللہ اور رسول کی باتیں کی تھیں لیکن پھر انہوں نے اس گاؤں میں کچھ ایسی بیہودگیاں کی ہیں کہ ہم بیان نہیں کر سکتے.تم لوگ بھی وہی کچھ کرنے آئے ہو.اس لئے بہتر ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ اس سے پہلے کہ ہم تمہیں مار مار کر نکال دیں.انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ کہنے دو.وہاں کے ایک بزرگ نے بھی لوگوں کو سمجھایا کہ یہ لوگ مجھے ان لوگوں سے کچھ مختلف لگتے ہیں، ذرا ان کی باتیں تو سن لو.چنانچہ کہتے ہیں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد بیان کیا اور آپ کی آمد کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانے کی یہ علامات ہوں گی اور اس میں مسیح موعود ظاہر ہوں گے.بہر حال لوگوں پر اس بات کا غیر معمولی اثر ہوا.لوکل مشنری کو وہاں چھوڑ آئے جنہوں نے تبلیغ جاری رکھی اور کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ہفتے میں نہ صرف وہ گاؤں اپنے امام اور مسجد سمیت احمدیت میں داخل ہوا بلکہ قریب کے چار پانچ گاؤں بھی بیعت کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور مزید را بطے جاری ہیں.اور کہتے ہیں کہ مسلسل ہمیں پیغام مل رہے ہیں کہ لوگ بے چینی سے حقیقی اسلام میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں.سلمان علماء اور لیڈروں کا منفی کردار بدقسمتی سے مسلمان علماء اور لیڈروں نے بھی جیسا کہ میں نے مثال بھی دی ہے اسلام سے دور کرنے میں بہت کردار ادا کیا ہے.اور اسی وجہ سے ہر جگہ جو غیر مسلم ہیں ان کو بھی جرات پیدا ہوئی کہ اسلام کو بد نام کریں.جماعت احمد یہ کس طرح کوشش کر کے بگڑے ہوئے مسلمانوں یا ان مسلمانوں کو جن کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے واپس دین کی طرف لاتی ہے اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں.
خطبات مسرور جلد 13 550 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء افریقہ میں ایک جگہ ایک بک سٹال لگایا گیا.قرآن کریم کی نمائش تھی.پورتونو و و بین کا شہر ہے وہاں سے دو مسلمان نوجوان آئے.انہیں جب احمدیت کا تعارف کروایا گیا اور بتایا گیا کہ امام مہدی علیہ السلام آچکے ہیں اور وہی اس زمانے کے امام ہیں تو وہ فوراً بولے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبیین ہیں.کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کوئی آئے گا.اس پر انہیں فرنچ زبان میں کتاب صداقت مسیح موعود علیہ السلام پڑھنے کے لئے دی گئی اور آخری زمانے میں مسلمانوں کی جو حالت زار ہے اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پیش کی گئیں.مسیح کی آمد ثانی کا ذکر کیا گیا.احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے بارے میں بتایا گیا کہ اسلام کیا ہے.یعنی وہ حقیقی اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے.جس میں محبت ہے، امن ہے اور آشتی کی تعلیم ہے.آج تو مسلمانوں نے اس کی شکل بگاڑ دی ہے.اس پر وہ دونوں نوجوان کہنے لگے کہ ہم عقیدے کے اعتبار سے مسلمان تو ضرور ہیں لیکن مسلمانوں کی بربریت اور دہشت گردی سے اتنے تنگ آگئے تھے کہ ہم تو عیسائی ہونے لگے تھے.لیکن اب جماعت احمدیہ کی باتیں سن کر تسلی ہوئی ہے کہ اسلام ایسا نہیں جیسا یہ ملاں لوگ پیش کرتے ہیں.مبلغ لکھتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا شکر یہ ادا کیا کہ آپ نے ہمیں عیسائی ہونے سے بچا لیا، اسلام چھوڑنے سے بچالیا.غیر مسلموں کے دلوں میں بھی حقیقی اسلام کو دیکھ کر اس پیغام کو پھیلانے کا شوق پیدا ہوتا ہے وہ بھی ہمارا ساتھ دینے لگ جاتے ہیں.جاپان کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک بدھسٹ جاپانی ہمارے سٹال پر آئے اور کہنے لگے کہ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات بہت کم ہیں.جب انہیں اسلام کا تعارف کروایا گیا اور دیگر مذاہب کے بارے میں اسلامی تعلیم کے نمونے قرآن کریم کی آیات سے دکھائے تو انہوں نے نہ صرف ہمارا شکر یہ ادا کیا بلکہ کہنے لگے کہ یہ خوبصورت تعلیم اس لائق ہے کہ دنیا کو بتائی جائے اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کیا جائے.موصوف کہنے لگے کہ اگر مجھے اجازت دیں تو میں بھی ایک دن آپ لوگوں کے ساتھ مل کر امن کا پیغام تقسیم کرنا چاہتا ہوں.ہمارے مبلغ لکھتے ہیں چنانچہ حسب وعدہ ایک دن وہ ہمارے سٹال پر آئے اور صبح دس بجے سے شام چار بجے تک باوجود اس کے کہ وہ بدھسٹ تھے بلند آواز سے یہ اعلان کرتے رہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور لوگوں میں فولڈر تقسیم کرتے رہے.اسی طرح انڈیا میں صوبہ کرناٹک میں ایک جگہ گرک میں ایک بک سٹال لگایا گیا.اس بکسٹال پر ایک غیر مسلم دوست آئے اور بعد میں کہنے لگے کہ ہم نے اس سے قبل بھی بہت سے بک سٹال دیکھے ہیں لیکن امن اور شانتی کا پیغام دینے والے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو لوگوں تک پہنچانے والے ایسے
خطبات مسرور جلد 13 551 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء لوگ میں نے آج تک نہیں دیکھے.وہ بہت متاثر ہوئے اور ہمارے اس بک سٹال سے بہت ساری کتابیں خرید کر لے گئے.لکسمبرگ کے ایک شہر میں نمائش کے موقع پر جماعت کی طرف سے بک سٹال کا انعقاد کیا گیا.شہر کے میئر بھی سٹینڈ پر آئے اور مختلف کتابیں دیکھیں.اس کے بعد لکسمبرگ جماعت کے صدر نے انہیں جماعت کا مختصر تعارف کروایا.ان کو ایک کتاب بھی تحفہ دی.اس پر میئر نے کہا کہ آپ کی کمیونٹی بہت اچھا کام کر رہی ہے.آپ کو چاہئے کہ اسلام کی اس خوبصورت تصویر کو جلد از جلد دنیا میں پھیلائیں.ایک دل شکستہ نو مسلم کا واقعہ پیش کرتا ہوں.امیر صاحب ہالینڈ نے لکھا ہے بلال صاحب ایک ڈچ مسلمان ہیں.مسلمانوں کی حالت زار سے بہت دل شکستہ ہو گئے تھے.ایک مرتبہ وہ اپنے بچے کے لئے تحفہ خریدنے کی نیت سے بازار گئے تو راستے میں ایک بک سٹال پر رک گئے.یہ جماعت احمدیہ کا بک سٹال تھا.انہوں نے جماعت کا شائع شدہ قرآن کریم پہلی مرتبہ دیکھا.سٹال پر موجود احمدی خادم سے بات چیت بھی کی اور جماعت کا کچھ لٹریچر اپنے ساتھ گھر لے گئے.کچھ عرصے بعد جب ان سے دوبارہ رابطہ ہوا تو کہنے لگے کہ میں جماعت احمدیہ کی تعلیمات سے بہت متاثر ہوا ہوں.میں نے جب خوشی خوشی اپنے سنی مسلمان دوستوں سے جماعت کا ذکر کیا اور انہیں بتایا کہ میرے پاس جماعت احمدیہ کا لٹریچر بھی ہے تو اس پر بہت غصے ہوئے اور لڑنے پر اتر آئے.کہتے ہیں کہ میری بیوی جو کہ مراکش کی ہیں وہ بھی بہت غصہ میں آ گئیں.گھر میں احمدیت کا ذکر کرنا بھی ناممکن ہو گیا.بہر حال کہتے ہیں میں نے فیصلہ کیا کہ میں چھپ کر احمدیت کے بارے میں تحقیق کروں گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری دوبارہ اس نوجوان کے ساتھ ملاقات کروادی جو مجھے بک سٹال پر ملا تھا.اس نے مجھے جلسہ سالانہ ہالینڈ میں شامل ہونے کی دعوت دی.میں دو دن جلسے میں شامل رہا.اس دوران مجھے یوٹیوب پر بھی ڈچ زبان میں کچھ ویڈیو دیکھنے کومل گئیں جس کی وجہ سے مجھے بہت فائدہ ہوا بلکہ میری بیوی نے بھی ان ویڈیوز کو دیکھ کر احمدیت کے بارے میں اپنی رائے بدل لی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احمدیت کی صداقت ظاہر کی اور مجھے بیعت کرنے کی توفیق ملی.اب میں جماعتی پروگرام میں شامل ہوتا ہوں اور روحانی طور پر ترقی محسوس کرتا ہوں.جو پہلے بے چینی تھی وہ بھی ختم ہورہی ہے.پھر قرآن کریم کی تعلیم کا غیروں پر کس طرح اثر ہوتا ہے.کینیڈا سے ہمارے ایک داعی الی اللہ دوست لکھتے ہیں کہ ہم نے ایک تبلیغی بک سٹال لگایا.ایک انگریز کینیڈین میاں بیوی ہمارے سٹال پر آئے اور
خطبات مسرور جلد 13 552 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء قرآن مجید دیکھ کر کہنے لگے مجھے بتائیں کہ اس کتاب کی کیا خصوصیات ہیں؟ کہتے ہیں میں نے انہیں قرآن مجید کا مختصر تعارف کروایا.اس کے بعد وہ صاحب قرآن کریم خریدنے لگے.لیکن بیوی بڑی کٹر عیسائی تھی.وہ اس بات پر بضد رہی اور خاوند کو کہتی رہی کہ قرآن کریم نہیں خریدنا.بہر حال وہ صاحب کہنے لگے کہ میری بیوی جو ہے اس کو قرآن کریم کی کوئی ایسی بات بتائیں کہ وہ قرآن کریم لینے پر آمادہ ہو جائے.خودتو خریدنا چاہتے تھے لیکن مجبوری بھی تھی ، لڑائی نہ پڑ جائے گھر میں.ہمارے وہ احمدی کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ قرآن مجید میں ایک سورۃ ہے جس میں حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر ہے.ان کے بارے میں ایسی تفصیل ہے جو آپ کو بائبل میں نہیں ملے گی اور وہ جگہ نکال کر ان کے آگے رکھ دی.ترجمہ تھا.ان کی اہلیہ پڑھنے لگیں.کچھ دیر پڑھنے کے بعد کہنے لگیں کہ واقعی بہت دلچسپ کتاب ہے.ہم نے تو پریس میں پڑھا تھا یعنی میڈیا نے ہمیں یہ بتایا ہوا تھا، اخباروں نے ہمیں یہ بتایا ہوا تھا کہ قرآن نفرت سے بھرا ہوا ہے لیکن اس میں تو عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ کا بہت محبت سے ذکر کیا گیا ہے.چنانچہ انہوں نے قرآن کریم خرید لیا.چند ہفتوں کے بعد وہ دوبارہ ہمارے سٹال پر سے گزرے تو شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نے قرآن کریم پڑھا ہے.میڈیا میں اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو نفرت پھیلائی جا رہی ہے اگر کوئی قرآن کریم پڑھے یا اس پر سرسری نگاہ ہی ڈال لے تو اس کی ساری غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے.کہتے ہیں میں تو اپنے بہت سارے عیسائی دوستوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کا کہتا ہوں.بینن میں ایک بک سٹال کے موقع پر گورنمنٹ کے ایک سکول ٹیچر آئے اور جماعت کی محبت اور امن کی تعلیم پڑھی تو کہنے لگے مجھے اپنے طالبعلموں کے لئے بھی لٹریچر دیں.میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی اس لٹریچر کا مطالعہ کریں اور معاشرہ امن اور محبت سے بھر جائے.امن اور محبت سے بھرنے کے لئے معاشرے کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ جماعت احمدیہ کا لٹریچر ہے.چنانچہ وہ لٹریچر لے گئے اور جا کر اپنے طالبعلموں کو دیا اور بعد میں سکول کے کچھ سٹوڈنٹس آئے اور انہوں نے کہا کہ یہ لٹریچر ہمیں ٹیچر سے مل چکا ہے.نیک فطرت مسلمانوں پر بھی جماعت احمدیہ کے نظام کو دیکھ کر جو عین اسلامی نظام ہے اثر ہوتا ہے.اور یہی بات پھر ان کے لئے ہدایت کا باعث بن جاتی ہے.برکینا فاسو کے مربی کہتے ہیں کہ ایک جگہ ہے سلا بو بو (Silaboubo) وہاں تبلیغ کے لئے گئے.لوگوں نے بڑا اچھا استقبال کیا.سارے مرد عور تیں تبلیغ سننے کے لئے جمع ہو گئے اور رات دو بجے تک سوال و جواب ہوتے رہے.آخر پر کہتے ہیں کہ
خطبات مسرور جلد 13 553 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء میں نے انہیں بتایا کہ ہماری جماعت ایک ہاتھ پر اکٹھی ہے اور ہمارے چندے کا بھی ایک نظام ہے جو با قاعدہ عالمی شکل اختیار کر چکا ہے.جماعت کا ایک بیت المال ہے جو خلیفہ وقت کے تحت ہے.اسی بیت المال میں چندہ جاتا ہے اور اسی میں سے نکل کر خرچ ہوتا ہے.کہتے ہیں صبح نماز کے بعد ایک دوست زکریا صاحب آئے اور کہنے لگے کہ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خواب دیکھی تھی کہ میں چندہ دے رہا ہوں اور ایک آواز آتی ہے کہ چندہ ایسے اسلامی گروپ کو دو جس کا ایک بیت المال ہو.میں کافی عرصے سے یہ اسلامی گروپ ڈھونڈ رہا تھا لیکن رات کو جب مربی صاحب نے جماعت کے مالی نظام کے بارے میں بتایا تو مجھے ان الفاظ کی تعبیر مل گئی جو میں نے خواب میں سنے تھے.چنانچہ موصوف نے اسی وقت دس ہزار فرانک سیفہ نکال کر ادا کئے.رسید بک بھی ہمارے پاس تھی.کہتے ہیں اسی وقت ہم نے رسید بک نکال کر رسید کاٹ دی.جب لوگوں نے اس خواب کے بارے میں سنا اور یہ بھی دیکھا کہ با قاعدہ چندے کی ایک رسید بک ہوتی ہے جس پر سارا ریکارڈ رکھا جاتا ہے تو بڑے متاثر ہوئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد اس گاؤں میں 282 افراد نے بیعت کر لی اور با قاعدہ یہ سب لوگ جماعت کے چندے کے نظام میں شامل ہیں.گوئٹے مالا ساؤتھ امریکہ کا ملک ہے.وہاں فلائر کی تقسیم کے دوران ایک نوجوان یوسف سے رابطہ ہوا.مشن ہاؤس آئے.احمدیت قبول کی.انہوں نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا تھا.کہتے ہیں کہ غیر از جماعت مسجد میں جا کر دلی سکون نہیں ملا.لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کینہ اور بغض رکھتے ہیں.ایک دن جب میں دعا کر کے سویا تو خواب میں ایک بزرگ دیکھے جو نہایت روحانی شکل وصورت کے مالک تھے.ایک راستہ ہے جس پر راکھ ہی راکھ ہے.یہ بزرگ میرے سامنے چلنے لگ جاتے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ میرے پیچھے چلو.اس بزرگ کے چلنے سے راکھ والا راستہ صاف ہوتا جا رہا ہے.کہتے ہیں خواب میں صرف یہ بات ہی سمجھ لگتی ہے کہ یہ سبق کل تک یاد رکھو.اگلے دن آپ لوگوں کو اسلام احمدیت کا پیغام لوگوں میں تقسیم کرتے دیکھا.میں نے پڑھا تو دل کو یوں محسوس ہوا کہ یہی اصل اسلام ہے اور میں ویب سائٹ پر تمام معلومات حاصل کر کے باقاعدہ بیعت کی غرض سے اب یہاں آیا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہی وہ بزرگ تھے جو انہیں خواب میں راستہ دکھا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات نے ان کو ایمان میں اور بھی مضبوط کر دیا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 554 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء فرانس کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع دوست کمال صاحب نے بتایا کہ میں کئی سال سے روایتی مسلمان تھا اور علماء کی طرف سے قرآن کریم کی جو تشریحات کی جاتیں ان پر مطمئن نہیں تھا.میں دو مختلف انتہاؤں میں زندگی گزار رہا تھا.ایک طرف وہ چیز جس پر میرا ایمان تھا لیکن دوسری طرف میرا دماغ جو بعض باتوں کو رڈ کرتا تھا اور دلیل مانگتا تھا.اس کی وجہ سے عجیب کشمکش میں تھا.لیکن اچانک میری اندھیری روحانی زندگی میں ایک شمع نمودار ہوئی جس نے مجھے جہالت کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف نیا راستہ دکھا دیا.کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے بہنوئی کے ساتھ کسی مذہبی موضوع پر گفتگو کر رہا تھا تو انہوں نے جماعت احمدیہ کا ذکر کیا اور مجھے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر پڑھنے کو کہا.میں نے جب تفسیر پڑھی تو میں دنگ رہ گیا کہ اتنی سادہ اور شفاف تفسیر چودہ سو سال میں کسی اور نے کیوں نہیں لکھی.اس کے بعد میرے بہنوئی نے مجھے ایم ٹی اے کے بارے میں بتایا.انٹرنیٹ کا لنک دیا جس پر میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی کتب پڑھیں اور کئی پروگرامز دیکھے.جو لوگ بھی یہ پروگرام کرتے تھے میں نے ان کو مخلص اور دلیل سے بات کرنے والا پایا.مجھے ایسا لگا کہ میرے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہے اور میری روح کو آزادی مل گئی ہے.میرے تمام وساوس دور ہو گئے اور حقیقی اسلام کو جان لیا چنانچہ بیعت کر لی.دنیا کے مختلف حصوں میں جب جماعت کے ذریعہ سے اسلام کا پیغام پہنچتا ہے جو محبت اور امن اور سلامتی کا پیغام ہے تو نیک فطرت اسے قبول کرتے ہیں.ابھی میں نے فرانس کا واقعہ کا بیان کیا ہے تو ایک واقعہ ساؤتھ امریکہ کا بھی ہے کہ کس طرح لوگوں نے اسلام قبول کیا.مبلغ انچارج گوئٹے مالا لکھتے ہیں کہ لیف لیٹس کی تقسیم کے نتیجے میں 191افراد کو قبول اسلام کی توفیق ملی.احمدیت قبول کرنے والوں میں ایک پادری ہیں جو 33 سال تک کیتھولک چرچ اور پانچ سال پروٹسٹنٹ فرقے سے منسلک رہے.اسی طرح ایک اور ڈومنگو (Domingo) صاحب ہیں جو میونسپلٹی میں بطور جج کے فرائض سرانجام دیتے ہیں.جامعہ کینیڈا کے فارغ التحصیل جو طلباء تھے ان کو ایک ماہ کے لئے وہاں بھجوایا گیا تھا جنہوں نے گوئٹے مالا میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ لیف لیٹس تقسیم کئے، پمفلٹ تقسیم کئے مختلف علاقوں میں گئے.یہ جو حج تھے ان کو بھی ایک فولڈر ملا.چنانچہ مشن ہاؤس آئے اور مشنری انچارج سے دو تین گھنٹے ان کی اسلام کے بارے میں گفتگو ہوئی.انہوں نے معلومات حاصل کیں اور بڑے متاثر ہوئے اور دوتین سوفولڈرز اپنے ہمراہ بھی لے گئے اور کہا کہ میں اپنے علاقے میں تقسیم کروں گا.پھر کچھ عرصے بعد اپنے
خطبات مسرور جلد 13 555 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء علاقے سے سات افراد پر مشتمل ایک وفد لے کر آئے اور پھر قریبا دس دن مشن ہاؤس میں قیام کیا.اسلام اور عیسائیت کا موازنہ، تثلیث اور کفارہ کے مسئلے زیر بحث آئے.نیز اسلام کی تعلیمات کی خوبصورتی اور برتری سے آگاہ کر کے جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈومنگو صاحب اور ان کی اہلیہ نے بیعت فارم پُر کر کے احمدیت قبول کر لی اور اپنے علاقے میں واپس جا کر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ شروع کر دی.یہاں اپنے علاقے میں جولائی میں تبلیغی پروگرام بھی انہوں نے بنایا.کہتے ہیں میں پہنچا تو سکول کے ہال میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا.اردگرد کے دیہاتوں کے لوگوں کو مدعو کیا ہوا تھا.بڑی تفصیل سے وہاں اسلامی تعلیم بیان کی گئی.احمدیت کی تبلیغ کی گئی.گوئٹے مالا کے احمدیوں نے اپنی قبول احمدیت کے واقعات سنائے.سوال و جواب ہوئے.کہتے ہیں یہ مجلس سات گھنٹے جاری رہی.مجلس کے اختتام سے قبل جملہ حاضرین نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا جن کی تعداد 89 تھی.ان میں مرد عورتیں سب شامل تھے.یہاں یورپ سوئٹزر لینڈ سے غالباً ایک صاحب نے لکھا کہ آپ کا فلائر مجھے بہت اچھا لگا.آپ جو کام کر رہے ہیں یہ خزاں کے موسم کو بہار میں بدلنے کے مترادف ہے.کبھی نہ کبھی تو ضرور بہار آئے گی.یہ غیروں کے تاثر ہیں.اسی طرح ایک سوئس باشندے نے کہا کہ جو لیف لیٹ میرے لیٹر بکس میں ڈالا گیا اس کا مضمون مجھے بہت پسند آیا.میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں.میری بڑے عرصے سے یہ خواہش تھی کہ کاش مسلمانوں میں سے بھی کوئی ایسا ہو جو اس طرح امن کی مہم چلائے.آپ لوگوں نے میری خواہش پوری کر دی ہے.پھر سوئٹزرلینڈ کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ زیورخ ایک چرچ میں جیکب (Jakob) صاحب ہیں.جماعت کی خدمات کے بڑے معترف ہیں اور جماعت کو پسند کرتے ہیں.اس چرچ نے جماعت کے ماٹو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں، کو لیا ہوا ہے اور سال 2015 ء کا 33 واں ہفتہ اس حوالہ سے منانے کا فیصلہ کیا ہے.اس کے لئے جو معلوماتی لیف لیٹ انہوں نے شائع کیا ہے اس میں انہوں نے بڑے اچھے انداز میں جماعت احمدیہ کا ذکر کیا اور لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے دو بنیادی اصول ہیں.ایک یہ فقرہ کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں اور دوسرا یہ فقرہ کہ دین میں کوئی جبر نہیں.کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ان دونوں اصولوں پر چلنے سے امن قائم ہوسکتا ہے.سوئٹزرلینڈ میں اسلام کے خلاف بہت کچھ کہا جاتا ہے.وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی ہوا ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خود کھڑا کر رہا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 556 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء اسلامی تعلیم کا شکریہ غیر لوگ کس طرح ادا کرتے ہیں.کونگو کنشاسا سے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہمارے ریڈیو پروگراموں کو سن کر آرتھوڈوکس چرچ کے ایک پادری نے کہا کہ میں آپ کے انداز تبلیغ اور اسلامی تعلیمات سے بہت متاثر ہوں.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اسلام میں داخل ہو جاؤں گا اور سب سے پہلے اپنے بچے کو اسلام احمدیت میں داخل کروں گا.چنانچہ ان کا بیٹا مقامی جماعت میں بیعت کر کے اسلام احمدیت میں داخل ہو چکا ہے.باندوند و (Bandundu) کونگو سے ہی ایک مربی لکھتے ہیں کہ ریڈیو باند وند وایف ایم کے ڈائریکٹر نے جماعت احمدیہ کے ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگراموں کے متعلق کہا کہ ہمارے ریڈیو پر عیسائی پادری بھی تبلیغ کرتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کا تبلیغ کرنے کا طریقہ سب سے نرالا ہے.آپ کے پروگراموں میں کسی پر کیچڑ نہیں اچھالا جاتا.آپ لوگ اسلامی تعلیم کے محاسن پر گفتگو کرتے ہیں اور انسان کو معاشرے کا مفید حصہ بنانے کی تعلیم دیتے ہیں.نائیجیریا کے ایک استاد جو مسلمان ہیں کہتے ہیں کہ آپ کی ساری جماعت میں پرامن اسلام کی عمدہ خوبیاں ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ آپ کو ملاتی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے خلیفہ کی دعا ئیں اسلام کے حق میں قبول فرمائے.پھر بین سے ہمارے مربی لکھتے ہیں کہ ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر کنگ آف داسو ( King of Dasso) بھی وہاں آئے ہوئے تھے.کہتے ہیں میں تو سب کو کہوں گا کہ احمدی ہو جاؤ.یہی سچے لوگ ہیں اور ٹھوں زبان کے ایک شاعر جو وہاں کی ایک مقامی زبان ہے انہوں نے اس موقع پر چند شعر بھی کہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کا لگایا ہوا پودا اگر پانی نہ ملے تو جل جاتا ہے لیکن خدا کے لگائے ہوئے پودے کو اس کی حاجت نہیں.احمدیت خدا کا گایا ہوا پودا ہے اور اس مسجد کی تعمیر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے.اور میرا گھر اس مسجد کے قریب ہے تو میں کیوں عبادت کے لئے دور کسی چرچ میں جاؤں.کیوں نہ مسجد میں جاؤں.پس یہ پودا اسلام کا پودا ہے.اللہ تعالیٰ کا لگایا ہوا پودا ہے اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس کی آبیاری کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور تا قیامت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پاتے ہوئے ، آپ کے فیض کے طفیل اللہ تعالیٰ اس کو پانی مہیا کرتا بھی رہے گا روحانی طور پر بھی جو پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مہیا کیا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ اور ہمیشہ یہ پودا انشاء اللہ سرسبز و شاداب رہے گا.
خطبات مسرور جلد 13 557 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 ستمبر 2015ء دنیا کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلانے کے لئے اور سلامتی اور محبت بکھیرنے کے لئے ہزاروں واقعات میں سے یہ چند واقعات میں نے پیش کئے ہیں جو سامنے آتے رہتے ہیں اور ہمارے ایمان کو تقویت بخشتے ہیں.کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے سینے کھولتا ہے.کس طرح غیروں کے منہ سے ہمارے حق میں باتیں نکلواتا ہے.کوئی افریقہ کا رہنے والا ہے تو کوئی عرب کا.کوئی یورپ کا کوئی ساؤتھ امریکہ کا.لیکن اثر سب پر یکساں ہے.اس لئے کہ عالمگیر تعلیم صرف ایک ہی ہے اور وہ اسلام کی تعلیم ہے.ہر انصاف پسند چاہے وہ فوری طور پر اسلام کو قبول کرے یا نہ کرے لیکن اس بات کے کہنے پر مجبور ہے کہ دنیا کے امن کی اسلام ہی ضمانت ہے.کوئی انصاف پسند، خود غرض مسلمان لیڈروں یا مفاد پرست شر پسند گروہوں کے عمل کو اسلام کی تعلیم کا حصہ نہیں مانتا.وہی کہے گا جس میں انصاف نہیں ہے.اسلام مخالف طاقتیں چاہے جتنا بھی اسلام کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کریں لیکن اسلام نے ہی دنیا کواللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھانے ہیں اور امن اور سلامتی مہیا کرنی ہے.آج نہیں تو کل دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام ہی دنیا کے امن اور سلامتی کی ضمانت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس کا میابی کا حصہ بننے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کئی گنا بڑھ کر دیکھنے والے ہوں اور اپنے عملوں کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 102اکتوبر 2015 ء تا 108 اکتوبر 2015 ، جلد 22 شماره 40 صفحه 05 تا 09)
خطبات مسرور جلد 13 558 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015 ء بمطابق 18 تبوک 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آنحضرت کی غلامی میں حضرت مسیح موعود کی بعثت اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں تجدید دین کے لئے بھیجا ہے.آپ نے ہمیں دین کی اصل کو، اس کی بنیاد کو، اس کی حقیقی تعلیم کو خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور بدعات اور غلط روایات کو دُور کرنے کی نصیحت فرمائی.پس اس زمانے میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اُسوہ حسنہ کا حقیقی نمونہ ہیں اور اس لحاظ سے ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ بھی مشعل راہ ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ہمارے بزرگ آباء اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں روایات پہنچا ئیں.پرانے احمدیوں میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنے بزرگوں سے بعض واقعات اور روایات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں براہ راست سنی ہوں گی.جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور آپ علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہوئے.تو بہر حال ان روایات کی اہمیت ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کی ہے اور اپنے انداز کے مطابق ان باتوں سے جو بظاہر چھوٹی چھوٹی ہیں بہت سی نصیحت کی اور اسلام کی بنیادی تعلیم کی باتیں اخذ کی ہیں وہ اس وقت میں پیش کروں گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت میں بہت سے صحابہ موجود تھے اس لئے آپ نے صحابہ کو ان دنوں میں توجہ بھی دلائی، نصیحت بھی کی یا ان کے رشتہ داروں کو توجہ دلائی کہ یہ روایات جمع کریں کیونکہ یہی چیزیں آئندہ
خطبات مسرور جلد 13 559 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء آنے والی نسلوں کے لئے نصیحت اور حقیقی تعلیم اور بعض مسائل کا حل پیش کرنے والی ہوں گی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :.حضرت مسیح موعود کے حالات جمع کرنے کی تحریک ایک بات جس کی طرف میں نے اس سال جماعت کو خصوصیت سے توجہ دلائی ہے.( جب یہ بات آپ فرما رہے ہیں ) اور وہ اتنی اہم ہے (اس کی ساری بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ ایک زمانے میں جماعت میں فتنہ اٹھا اس فتنے کو آپ بیان فرما رہے ہیں کہ کس طرح ہمیں روکنا چاہئے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہمیں پہنچتی ہے وہ ہمارے لئے مددگار ہوتی ہے ہمیں بہت سارے فتنوں سے بچانے والی ہوتی ہے اور بہت سی برائیوں سے روکنے والی ہوتی ہے.تو بہر حال آپ فرماتے ہیں ) کہ جتنی بار اس کی اہمیت کی طرف جماعت کو متوجہ کیا جائے کم ہے اور وہ بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات اور آپ کے کلمات صحابہ سے جمع کرائے جائیں.فرماتے ہیں کہ ہر شخص جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک چھوٹی سے چھوٹی بات بھی یاد ہو اس کا اس بات کو چھپا کر رکھنا اور دوسرے کو نہ بتانا یہ ایک قومی خیانت ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض باتیں چھوٹی ہوتی ہیں مگر کئی چھوٹی باتیں نتائج کے لحاظ سے بہت اہم ہوتی ہیں.آپ فرماتے ہیں اب یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے جو حدیثوں میں آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک دفعہ کڈ ورپکا.( تر کاری جو کڈو کی ہے.تو آپ نے بہت شوق سے اس سالن میں سے کدو کے ٹکڑے نکال نکال کے کھانے شروع کئے یہاں تک کہ شور بے میں کدو کا کوئی ٹکڑا نہ رہا اور آپ نے فرمایا کہ کدو بڑی اعلی چیز ہے.آپ فرماتے ہیں کہ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے.ممکن ہے کئی احمدی بھی سن کر یہ کہہ دیں کہ کڈو کے ذکر کی کیا ضرورت تھی اور آجکل بعض پڑھے لکھے بھی زیادہ بنتے ہیں ان کو ان باتوں کی طرف توجہ نہیں ہوتی یا وہ سمجھتے ہیں کہ معمولی بات ہے ) مگر اس چھوٹی سی بات سے اسلام کو کتنا بڑا فائدہ پہنچا.مسلمانوں پر حمدن کے اثرات ہم آج اپنے زمانے میں ان خرابیوں کا اندازہ نہیں کر سکتے جو مسلمانوں میں رائج ہوئیں مگر ایک زمانہ اسلام پر ایسا آیا ہے جب ہندوستان میں ہندو تمدن نے مسلمانوں پر اثر ڈالا اور اس اثر کی وجہ سے وہ اس خیال میں مبتلا ہو گئے کہ نیک لوگ وہ ہوتے ہیں جو گندی چیزیں کھائیں.( جو اچھی چیز نہ کھائیں، جو اعلیٰ قسم کی غذا نہ کھائیں، نیکی کا معیار یہ ہے.کیونکہ یہی فقیروں اور جوگیوں کا شیوہ ہے.) اور جب بھی وہ
خطبات مسرور جلد 13 560 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء کسی کو عمدہ کھانا کھاتے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ بزرگ کس طرح کہلا سکتا ہے.( یعنی کہ تصور ہی نہیں کہ کوئی بزرگ کہلائے اور پھر اچھا کھانا بھی کھا سکے.) آپ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ امسیح الاول مسجد اقصیٰ میں درس دے کر واپس اپنے گھر تشریف لے جارہے تھے کہ جب آپ وہاں پہنچے (اُس زمانے میں جو اُس وقت کا قادیان ہے ) جہاں نظارتوں کے دفاتر ہوتے تھے تو کہتے ہیں وہاں حضرت خلیفہ اول کو وہاں کے رہنے والے ایک ڈپٹی صاحب ملے جو ریٹائرڈ تھے اور ہندو تھے.انہوں نے کسی سے سن لیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پلاؤ کھاتے ہیں اور بادام روغن استعمال کرتے ہیں.یعنی مستقل نہیں جب بھی مل جائے، میٹر ہو ، جب پکا ہو تو کھاتے ہیں اور بادام روغن استعمال کرتے ہیں.وہ ہندو اس وقت اپنے مکان کے باہر بیٹھا تھا.حضرت خلیفہ اول کو دیکھ کر کہنے لگا کہ مولوی صاحب! ایک بات پوچھنی ہے.مولوی صاحب نے (حضرت خلیفہ اول نے) فرمایا کہ فرماؤ کیا ہے؟ وہ کہنے لگا جی بادام روغن اور پلاؤ کھانا جائز ہے ؟ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ ہمارے مذہب میں یہ چیزیں کھانی جائز ہیں.( ہمیں تو کوئی روک نہیں.) وہ پنجابی میں کہنے لگا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ یہ فقراں نوں بھی کھانی جائز اے.یعنی فقرے جو ہیں، فقیر لوگ جو ہیں، اللہ کی طرف کو لگانے والے لوگ ہیں ان کے لئے بھی کھانی جائز ہے؟ جو بزرگ ہوتے ہیں کیا ان کے لئے بھی یا جن کو بزرگ کہا جاتا ہے ان کے لئے بھی کھانی جائز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہمارے مذہب میں تو فقیروں کے لئے ان سب کے لئے جائز ہے جو بھی بزرگ کہلانے والے ہیں.کہنے لگا اچھا جی.اور یہ کہہ کر خاموش ہو گیا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں دیکھو اس شخص کو بڑا اعتراض یہی سوجھا کہ حضرت مرزا صاحب مسیح اور مہدی کس طرح ہو سکتے ہیں جب وہ پلاؤ کھاتے ہیں اور بادام روغن استعمال کرتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اگر صحابہ کا بھی ویسا ہی علمی مذاق ہوتا جیسے آجکل احمدیوں کا ہے اور وہ کتر و کا ذکر حدیثوں میں نہ کرتے تو کتنی اہم بات ہاتھ سے جاتی رہتی.حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جمعہ کے دن اچھا سا بجبہ پہن کر مسجد میں آئے.اب اگر کوئی شخص ایسا پیدا ہو جو یہ کہے کہ اچھے کپڑے نہ پہننا فقیروں کی علامت ہے ، ( بزرگوں کی علامت ہے ، نیکوں کی علامت ہے ) تو ہم اسے اس حدیث کا حوالہ دے کر بتا سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نہایت تعہد سے صفائی کرتے اور اعلیٰ اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے تھے بلکہ آپ صفائی کا اتنا تعہد رکھتے ، (اتنی پابندی فرماتے ) کہ بعض صوفیاء نے جیسے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی گزرے ہیں یہ
خطبات مسرور جلد 13 561 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء طریق اختیار کیا ہوا تھا کہ وہ ہر روز نیا جوڑا کپڑوں کا پہنتے تھے خواہ وہ دُھلا ہوا ہوتا اور خواہ بالکل نیا ہوتا.اب آپ حضرت خلیفہ اسیح الاول کا یہ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول کی طبیعت میں بہت سادگی تھی ، ( بہت ساری باتوں کا ان کو خیال نہیں رہتا تھا ) اور کام کی کثرت بھی رہتی تھی.اس لئے بعض دفعہ جمعہ کے دن آپ کپڑے بدلنا اور غسل کرنا بھول جاتے تھے اور انہی کپڑوں میں جو آپ نے پہنے ہوئے ہوتے تھے جمعہ پڑھنے چلے جاتے تھے.(اب یہ سادگی تھی.یہ کوئی اظہار نہیں تھا کہ ضرور فقیروں کا لباس ہونا چاہئے یا بزرگ کہلانے کے لئے ضروری ہے کہ لباس نہ بدلا جائے بلکہ کام کی زیادتی کی وجہ سے خیال نہیں رہتا تھا تو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) میں نے جب آپ سے بخاری پڑھنی شروع کی تو ایک دن جبکہ میں بخاری پڑھنے کے لئے آپ کی طرف جارہا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھ لیا اور فرمایا کہاں جاتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے جا رہا ہوں.آپ نے فرمایا کہ ایک سوال میری طرف سے بھی مولوی صاحب سے کر دینا اور پوچھنا کہ کہیں بخاری میں یہ بھی آیا ہے کہ جمعہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نسل فرماتے اور نئے کپڑے پہنتے تھے.لیکن اب ہمارے زمانے میں صوفیت کے یہ معنی کر لئے گئے ہیں کہ انسان پر ا گندہ رہے.( حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ) اس بات کا اگر وزن بنایا جائے تو یوں بنے گا کہ جتنا گندہ اتنا ہی خدا کا بندہ.حالانکہ انسان جتنا پراگندہ ہو اتنا ہی خدا تعالیٰ سے دُور ہوتا ہے.اسی لئے ہماری شریعت نے بہت سے مواقع پر غسل واجب کیا ہے اور خوشبو لگانے کی ہدایت کی ہے اور بدبودار چیزیں کھا کر مجالس میں آنے کی ممانعت کی ہے.( مسجد میں آنے کی ممانعت ہے.) غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی سے دنیا فائدہ اٹھاتی چلی آئی اور اٹھاتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات سے بھی دنیا فائدہ اٹھائے گی اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو جمع کر دیں.حضرت مسیح موعود کے بارہ میں روایات محفوظ کرنے کی ضرورت اور اہمیت حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صحابی ہوں مگر مجھے سوائے اس کے اور کوئی بات یاد نہیں کہ ایک دن جبکہ میں چھوٹا سا تھا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ سے مصافحہ کیا اور تھوڑی دیر تک میں آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے برابر کھڑا رہا.کچھ دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہاتھ چھڑا کر کسی اور کام میں مشغول ہو گئے.اب بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے مگر بعد میں انہی چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے اہم
خطبات مسرور جلد 13 562 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء نتائج اخذ کئے جائیں گے.مثلاً یہی واقعہ لے لو.اس سے ایک بات یہ ثابت ہو گی کہ چھوٹے بچوں کو بھی بزرگوں کی مجالس میں لانا چاہئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں لوگ اپنے بچوں کو بھی آپ کی مجالس میں لاتے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ آئندہ کسی زمانے میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو جائیں جو کہیں کہ بچوں کو بزرگوں کی مجالس میں لانے کا کیا فائدہ ہے.ان مجالس میں صرف بڑوں کو شامل ہونا چاہئے.کیونکہ جب فلسفہ آتا ہے تو ایسی بہت سی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ کہنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ بچوں نے کیا کرنا ہے.پس جب بھی ایسا خیال پیدا ہو گا یہ روایت ان کے خیال کو باطل کر دے گی.اور پھر اس کی مزید تائید اس طرح ہو جائے گی کہ حدیثوں میں لکھا ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں بھی صحابہ اپنے بچوں کو لاتے تھے.اسی طرح اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی کام ہو تو اپنا ہاتھ چھڑا کر کام میں مشغول ہو جانا چاہئے کیونکہ اس میں یہ ذکر ہے کہ جب اس بچے نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور تھوڑی دیر تک پکڑے رکھا تو آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ کر الگ کر لیا.آج یہ بات معمولی دکھائی دیتی ہے لیکن ممکن ہے کسی زمانے میں لوگ سمجھنے لگ جائیں کہ بزرگ وہ ہوتا ہے جس کا ہاتھ اگر کوئی پکڑے تو پھر وہ چھڑائے نہیں بلکہ جب تک دوسرا اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ لئے رکھے وہ خاموش کھڑا ر ہے.ایسے زمانے میں یہ روایت لوگوں کے خیال کی تردید کر سکتی ہے اور بتا سکتی ہے کہ یہ لغو کام ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی کام کرنا ہو تو اگر کسی نے پکڑا ہوا ہے چاہے وہ بچہ ہی ہو تو محبت سے دوسرے کا ہاتھ الگ کر دینا چاہئے.اس قسم کے کئی مسائل ہیں جو ان روایات سے پیدا ہو سکتے ہیں.آج ہم ان باتوں کی اہمیت نہیں سمجھتے ( یہ اس زمانے کی بات ہے جب صحابہ زندہ تھے اس وقت آپ ان کو فرما رہے ہیں ) مگر جب احمدی فقہ، احمدی تصوف اور احمدی فلسفہ بنے گا تو اس وقت یہ معمولی نظر آنے والی باتیں اہم حوالے قرار پائیں گی اور آج بھی ان کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے.اور بڑے بڑے فلسفی جب ان واقعات کو پڑھیں گے تو کود پڑیں گے ( یعنی حیرانی اور خوشی سے اچھل پڑیں گے ) اور کہیں گے کہ خدا اس روایت کو بیان کرنے والے کو جزائے خیر دے کہ اس نے ہماری ایک پیچیدہ گتھی سلجھا دی.( جب ایسے مسائل سامنے آئیں گے، ایسے واقعات سامنے آئیں گے جن سے مسائل حل ہوتے ہوں تو وہ فلسفی جن کو دین سے تعلق ہے، وہ بجائے ادھر اُدھر دیکھنے کے اس روایت بیان کرنے والے کو دعا دیں گے.پھر آپ فرماتے ہیں.) یہ ایسا ہی واقعہ ہے جیسے اب ہم حدیثوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ سجدے میں گئے تو
خطبات مسرور جلد 13 563 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس وقت چھوٹے بچے تھے آپ کی گردن پر لاتیں لڑکا کر بیٹھ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک سر نہ اٹھایا جب تک کہ وہ خود بخو دالگ نہ ہو گئے.اب اگر کوئی اس قسم کی حرکت کرے تو ممکن ہے بعض لوگ اسے بے دین قرار دے دیں اور کہیں کہ اسے خدا کی عبادت کا خیال نہیں ، اپنے بچے کے احساسات کا خیال ہے.مگر ایسا شخص جب بھی یہ واقعہ پڑھے گا اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کا خیال غلط ہے اور وہ چپ کر جائے گا ( کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال سامنے ہے.) گوا ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو پھر بھی خاموش نہ رہ سکیں.چنانچہ ایک پٹھان کا قصہ ہے.کہتے ہیں کہ اس نے قدوری میں یہ پڑھا ( یہ واقعات کی ایک کتاب ہے ) کہ حرکت صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ( یہ جو اس قسم کی حرکتیں ہوتی ہیں.کوئی چھوٹی حرکت بھی ہو تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ) اس کے بعد وہ حدیث پڑھنے لگا.( یہ واقعہ پڑھنے کے بعد پھر اس نے حدیث پڑھی اور اس میں یہ حدیث آ گئی ) کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ جب نماز پڑھی تو اپنے ایک بچے کو اٹھا لیا.جب رکوع اور سجدہ میں جاتے تو اسے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اٹھا لیتے.وہ یہ حدیث پڑھتے ہی کہنے لگا.اس طرح تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ٹوٹ گئی.کیونکہ قدوری میں لکھا ہے کہ حرکت صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.گویا ان کے نزدیک شریعت بنانے والا کنز ( مراد کنز العمال) یا قدوری کا مصنف تھا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تھے.تو ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں کہ باوجود واضح مسئلے کے اسے ماننے سے انکار کر دیں مگر ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں.پس اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں کرنی چاہئے.( نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ) کہ تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس بات کا علم ہے وہ چھوٹی سی ہے بلکہ خواہ کس قدر چھوٹی بات ہو بتا دینی چاہئے.خواہ اتنی ہی بات ہو کہ میں نے دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام چلتے چلتے گھاس پر بیٹھ گئے کیونکہ ان باتوں سے بھی بعد میں اہم نتائج اخذ کئے جائیں گے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ بعض دوستوں سمیت باغ میں گئے اور آپ نے فرمایا آؤ بے دانہ کھائیں (جو شہتوت کی ایک قسم ہے) چنانچہ بعض دوستوں نے چادر بچھائی اور آپ نے درخت جھڑوائے اور پھر سب ایک جگہ بیٹھ گئے اور انہوں نے بے دانہ کھایا.اب کئی لوگ بعد میں ایسے آئیں گے جو کہیں گے کہ نیکی اور تصوف یہی ہے کہ طیب چیزیں نہ کھائی جائیں.ایسے آدمیوں کو ہم بتا سکتے ہیں کہ تمہاری یہ بات بالکل غلط ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو بے دانہ جھڑوا کر کھایا تھا.یا بعد میں جب بڑے بڑے متکبر حاکم آئیں گے اور وہ دوسروں کے ساتھ
خطبات مسرور جلد 13 564 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء اکٹھے بیٹھ کر کچھ کھانے میں ہتک محسوس کریں گے تو ان کے سامنے ہم یہ پیش کر سکیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو بے تکلفی کے ساتھ اپنے دوستوں سے مل کر کھایا پیا کرتے تھے.تم کون ہو جو اس میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہو.تو بعض باتیں گو چھوٹی ہوتی ہیں مگر ان سے آئندہ زمانوں میں بڑے اہم مذہبی، سیاسی اور تمدنی مسائل حل ہوتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ پس جن دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل دیکھنے یا آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ہوا نہیں چاہئے کہ وہ ہر بات خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی لکھ کر (خوب) محفوظ کر دیں.مثلاً اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لباس کی طر زیاد ہے تو وہ بھی لکھ کر بھیج د.(ماخوذ از مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 552تا556) رجسٹر روایات صحابہ پر ہونے والا کام آپ نے اس زمانے میں فرمایا اور اس کے بعد پھر صحابہ نے اپنی روایات جمع بھی کرنی شروع کیں، لکھوائی شروع کیں اور صحابہؓ کی روایات، واقعات کے بہت سارے رجسٹر بن چکے ہیں.ان کو ایک دفعہ میں بیان بھی کر چکا ہوں.پہلے تو یہ ہاتھ سے لکھے گئے تھے اب نئے سرے سے کمپوز کئے جارہے ہیں تا کہ اگر کتابی صورت میں شائع کرنے ہوں تو شائع بھی ہو جائیں.اور بہت سارے ایسے ہیں کہ اگر تضاد نہیں تو دوسرے حوالوں سے بعض دفعہ پوری طرح ملتے نہیں.یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض اور روایات ان کی روایات کی نسبت زیادہ واضح ہیں تو ان کو نئے کمپوز کرتے وقت چھوڑ ابھی گیا ہے.لیکن چھوٹی چھوٹی باتیں بہت ساری سامنے آ جاتی ہیں.بعض کمپوز کرنے والے ہمارے علماء بھی ایسے ہیں جو بعض باتوں کی سفارش کر کے بھجوادیتے ہیں کہ ان کو رکھنے کی ضرورت نہیں ، اس سے تو یہ اثر پڑ سکتا ہے اور وہ اثر پڑ سکتا ہے.جب میں خود ان کو پڑھتا ہوں تو کئی روایات میں نے دیکھی ہیں کہ ان علماء کی بلا وجہ کی احتیاط ہے.ان روایات کو آنا چاہئے.بہر حال یہ روایات جمع ہو رہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے سامنے کسی وقت میں پیش بھی ہو جائیں گی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ان روایات سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اگر آئندہ کسی زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہو جا ئیں جو کہیں (مثلاً ایک اور چھوٹی سی بات ہے ) کہ ننگے سر رہنا چاہئے تو ان کے خیالات کا ازالہ ہو سکے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں موجود ہیں.(اب ننگے سر رہنا بھی ایک چھوٹی سی بات ہے.عام لوگ بعض دفعہ نمازیں وغیرہ ننگے سر پڑھ لیتے ہیں تو ان
خطبات مسرور جلد 13 565 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء روایات سے اس طرف بھی توجہ ہو جاتی ہے کیونکہ بہت سارے واقعات ایسے بھی ہیں جس میں مسجد کے آداب، نماز کے آداب، بڑی مجالس میں بیٹھنے کے آداب کا ذکر ہوتا ہے.تو آپ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں موجود ہیں ) اور آپ ہی شارع نبی ہیں.(یعنی شریعت جاری کرنے والے آپ ہی ہیں.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ قریب کے مامور کی باتیں شارع نبی کی باتوں کی مصدق سمجھی جاتی ہیں.ان کی تصدیق کرنے والی ہوتی ہیں.) آجکل یہ کہا جاتا ہے کہ جن فقہ کی باتوں پر امام ابوحنیفہ نے عمل کیا ہے وہ زیادہ صحیح ہیں.اسی طرح آئندہ زمانے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جن حدیثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل سے سچا قرار دیا ہے انہی کو لوگ سچی حدیثیں سمجھیں گے اور جن حدیثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضعی قرار دیا ہے ( یعنی خود بنائی گئی ہیں یا ان کی صحت نہیں ہے ) ان حدیثوں کو لوگ بھی جھوٹا سمجھیں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ باتیں بھی ایسی ہی اہم ہیں جیسی حدیثیں کیونکہ یہ باتیں حدیثوں کا صدق یا کذب معلوم کرنے کا ایک معیار ہوں گی.پھر آپ نے فرمایا کہ ان روایات میں بیشک بعض ایسی باتیں بھی ہو سکتی ہیں جنہیں اس زمانے میں ( یعنی ان کا جو دور تھا حضرت مصلح موعود کے وقت میں یا اس وقت ) شائع کرنا مناسب نہ ہو مگر انہیں بہر حال محفوظ کر لیا جائے یا بعض ایسی روایات ہیں جنہیں آج بھی شاید پرنٹ نہ کیا جائے ، شائع نہ کیا جائے لیکن جو روایات صحابہ سے ہمیں مل رہی ہیں محفوظ بہر حال ہونی چاہئیں اور بعد میں جب مناسب موقع ہوا نہیں شائع کر دیا جائے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ ”سلطنت برطانیہ تا ہشت سال.بعد ازاں ایام ضعف و اختلال“.آپ فرماتے ہیں کہ مگر یہ الہام اس وقت شائع نہ کیا گیا بلکہ ایک عرصے کے بعد شائع کیا گیا.اب بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں ملکہ وکٹوریہ کی وفات کے بعد کا ذکر ہے.اس کے بعض اور پہلو بھی لئے جاسکتے ہیں.دنیا میں سلطنت برطانیہ جس طرح پھیلی ہوئی تھی وہ پھر آہستہ آہستہ کمزور بھی ہوتی چلی گئی اور یہ نہیں کہ ایک دم ہو گئی بلکہ اس کمزوری کو ایک وقت اور عرصہ لگتا ہے تو اس کے آثار شروع ہو گئے.بہر حال جو بھی تھا یہ ایک الہام تھا اس کی مختلف توجیہیں کی جاسکتی ہیں.تو آپ فرماتے ہیں کہ ایسے واقعات کو ریکارڈ میں لے آیا جائے مگر شائع اس وقت کیا جائے جب خطرے کا وقت گزر جائے.آپ فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے کہ اس کام کو مکمل کر لیا جائے.اور اللہ کے فضل سے جیسا کہ میں نے کہا ان روایات کو صحیح رنگ میں مکمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.
خطبات مسرور جلد 13 566 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء اسی ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ امام بخاری کی آج دنیا میں کتنی بڑی عزت ہے مگر یہ عزت اس لئے ہے کہ انہوں نے دوسروں سے روایات جمع کی ہیں.(اس لئے جو صحابہ کی اولاد ہے اگر ان کے پاس روایات ہوں تو انہیں ان کو بھی آگے دینا چاہئے.اگر ان کی صحت باقی روایات سے ثابت ہوگئی تو ان کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے.ہو سکتا ہے کہ بعض روایات رجسٹر میں مکمل نہ آئی ہوں اور صحابہ کے خاندانوں میں یہ روایات چل رہی ہوں تو وہ لکھ کے بھجوا سکتے ہیں.کیونکہ آپ نے یہ بھی فرمایا اور یہ صیح بھی ہے، حقیقت ہے کہ یہ روایات بیان کرنے والوں کے لئے ایک زمانے میں دعائیں کی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے کیونکہ انہوں نے بہت سارے مسائل حل کر دیئے.) آپ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ قدرتی طور پر ایسے مواقع پر از خود دعا کے لئے جوش پیدا ہو جاتا ہے.حضرت مصلح موعود اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ میں کل ہی کلید قرآن سے ایک حوالہ نکالنے لگا.(آیت نکالنی تھی) تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ آیت دیر سے ملے گی.مگر اس کلید قرآن سے مجھے فورا آیت مل گئی.کہتے ہیں جس پر میں نے دیکھا کہ لاشعوری طور پر میں دو تین منٹ نہایت خلوص سے اس کے مرتب کرنے والے کے لئے دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اس کے مدارج بلند کرے کہ اس کی محنت کی وجہ سے آج مجھے یہ آیت اتنی جلدی مل گئی ہے.(ماخوذ از مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 556تا558) اب یہ چیزیں بڑی آسان ہو گئی ہیں.اب تو لٹریچر کمپیوٹر میں مل جاتا ہے.آجکل تو اور بھی زیادہ آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں.تو جنہوں نے ان پروگراموں کو بنا کر کمپیوٹر میں ڈالا ہے ان کے لئے بھی دعا ئیں ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تو ہر بات ہی علمی پہلو لئے ہوئے ہے جو ہمارے لئے ضروری ہے اور عملی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اس میں تربیت کے بہت سارے پہلونکل آتے ہیں.قرآن کریم کی آیات کی وضاحت ہو جاتی ہے، احادیث کی وضاحت ہو جاتی ہے اور اس سے ہمیں پھر فائدہ پہنچتا ہے.جو بھی احمدی اسے سنے گا، کسی کے ذریعہ سنے گا وہ فائدہ اٹھائے گا اور پھر یقیناً ان کو جمع کرنے والوں کے لئے دعائیں بھی کرے گا.پس یہ ایک بڑی اہم چیز ہے لیکن بعض دفعہ انسان اس پر پوری توجہ نہیں دیتا.مجھے یاد ہے جب میں نے صحابہ کا ذکر شروع کیا تھا تو کچھ لوگوں نے جو صحابہؓ کی اولاد میں سے ہیں خاندانی طور پر ان کے خاندانوں میں جو روایات چل رہی ہیں وہ بھجوائی تھیں.ان کو چاہئے کہ یہ روایات با قاعدہ لکھ کر دفتر ایڈیشنل وکالت تصنیف میں بھجوا دیں.پھر اگر انہوں نے بھیجنی ہوں گی تو
خطبات مسرور جلد 13 567 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء روایات کی جو متعلقہ کمیٹی بنی ہوئی ہے وہ ان کو بھجوا دیں گے.نمازوں کا اہتمام ایک اور واقعہ میں اس وقت بیان کرتا ہوں جو آج بھی بعض سوال اٹھانے والوں کا جواب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتدا سے ہی اسلام کی ترقی کی ایک تڑپ تھی اور چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی عملی حالت درست کریں اور عملی حالت درست کرنے کے لئے سب سے ضروری چیز جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دینا ہے، نمازیں پڑھنا ہے.اس لئے آپ نے قادیان کے رہنے والے جو مسلمان تھے ان کے لئے ایک انتظام فرمایا کہ وہ مسجد میں آ کر نماز پڑھا کریں.اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ غیر احمد یوں کو جواب دیتے ہوئے جو یہ کہا کرتے تھے، اُس وقت بھی الزام لگاتے تھے اور آج بھی الزام لگاتے ہیں کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں.نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نئی شریعت لے آئے تو ان کو حضرت مصلح موعود جواب دے رہے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب یعنی مسیح موعود علیہ السلام نے سلسلہ احمدیہ کے قیام سے پہلے یہاں کے لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ نماز کی طرف توجہ نہیں کرتے خود آدمی بھیج بھیج کر ان کو مسجد میں بلوا نا شروع کیا.(اب مسلمانوں میں اعتراض کرنے والے تو ہیں لیکن آج بھی اور ہمیشہ سے یہ اکثریت کی حالت ہے کہ نماز کی طرف توجہ کم ہے تو آدمی بھیج کر لوگوں کو بلوانا شروع کیا.) تو لوگوں نے یہ عذر کرنا شروع کر دیا ( کیونکہ زیادہ تر زمیندار پیشہ تھے، غریب لوگ تھے ) کہ نمازیں پڑھنا امراء کا کام ہے.(امیروں کا کام ہے، ہمارا نہیں.) ہم غریب لوگ کمائیں یا نمازیں پڑھیں.( مزدوری کریں یا پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے رہیں گے.کہتے ہیں کہ اگر نہ کریں گے تو بھو کے رہیں گے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ انتظام کیا کہ ٹھیک ہے تم نماز پڑھنے آیا کرو ایک وقت کا کھانا تمہیں مل جایا کرے گا.چنانچہ اس اعلان کے بعد چند دن کھانے کی خاطر پچیس تیس آدمی مسجد میں نماز کے لئے آجایا کرتے تھے مگر آخر میں ست ہو گئے اور صرف مغرب کے وقت جس وقت کھانا تقسیم ہوتا تھا، اس وقت آ جاتے تھے.آخر پھر یہ سلسلہ بند کرنا پڑا.آپ فرماتے ہیں کہ اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ شوق تھا.کس لئے؟ کہ تا کہ اسلام کی حقیقی تصویر نظر آئے اور آپ کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے آپ کی مراد پوری کر دی اور اس وقت ( جب آپ یہ ذکر کر رہے ہیں فرماتے ہیں کہ ) قادیان میں اب چار مسجد میں ہیں اور دو تو
خطبات مسرور جلد 13 568 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء بہت عالیشان مساجد ہیں اور پانچوں وقت یہاں نماز ہوتی ہے اور نماز سے پر رہتی ہیں.(ماخوذ از قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام پیغام، انوار العلوم جلد 4 صفحہ 76) پس اس بات کو ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تڑپ تھی کہ اپنے دعویٰ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ نمازوں کی طرف آؤ.باجماعت نمازیں پڑھو.مسجدیں آباد کرو.مسجدیں تو اب ہماری اللہ کے فضل سے دنیا میں ہر جگہ بن رہی ہیں لیکن ان کی آبادی کی طرف جس طرح توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہے.بعض جگہ سے شکایات آتی ہیں.بلکہ ربوہ میں ، قادیان میں، پاکستان کی مختلف مساجد میں وہاں کے رہنے والے جو احمدی ہیں ان کو چاہئے کہ اپنی مساجد کو آباد کریں.اسی طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں جو احمدی ہیں اپنی مساجد کو آباد کرنے کی کوشش کریں.دوسرے اس اعتراض کا بھی جواب یہاں مل جاتا ہے، بعض لوگ کہہ دیتے ہیں، مجھے بھی لکھتے ہیں کہ مساجد میں نو جوانوں کو لانے کے لئے وہاں انہوں نے کھیلوں کا انتظام کر دیا ہے کہ لڑکے شام کو آئیں اور کھیلیں اور گویا کہ کھیل کا لالچ دے کر نماز پڑھائی جاتی ہے.تو یہ تو کوئی ایسی بات نہیں.اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ بعض فنکشنز پر کھانے کے انتظامات ہوتے ہیں تو لوگ اس لئے فنکشنز پر آتے ہیں یا نمازیں پڑھنے کے لئے آتے ہیں کہ کھانا کھاتے ہیں.یہ تو ایک بدظنی ہے جو بعض لوگ کرتے ہیں.لیکن بہر حال مساجد کے ساتھ جہاں ہال بنائے گئے یا بعض مربیان، مبلغین جو خود نو جوان ہیں اور کھیلنے والے ہیں انہوں نے گراؤنڈز میں کھیلنا شروع کیا، نوجوانوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا.تو اس سے ایک فائدہ بہر حال ہو رہا ہے کہ اس وقت سے مساجد کم از کم ایک دو نمازوں کے لئے مساجد آباد ہوتی ہیں.اور اس سے نوجوانوں کی توجہ بھی پیدا ہوتی ہے اس لئے یہ کہنا کہ یہ کوئی جرم ہے کہ مساجد کے ساتھ کھیلوں کے ہال کیوں بنالئے گئے یا مساجد میں لانے کے لئے اور بعض فنکشنوں پہ لانے کے لئے کھانے کے انتظام کیوں کئے گئے یہ غلط اعتراض ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل سے ثابت ہے کہ اس طرح ہوسکتا ہے اور ہونے میں کوئی حرج نہیں.اب نمازوں کے بعد میں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ایک الحاج یعقوب باؤ بنگ صاحب آف غانا کا ہے جو 30 اگست 2015ء کو انتقال کر گئے.اِنَّا لِله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ایک اندازے کے مطابق ان کی عمر سو سال سے زیادہ تھی.ان کا تعلق گھانا کے وسطی ریجن سے تھا اور آپ کے دادا جو تھے یہ عیسائی تھے لیکن انہوں نے دوسری شادی کر لی.جب دوسری شادی کر لی تو پرسبیٹر بین چرچ
خطبات مسرور جلد 13 569 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء Presbyterian Church) نے ان کو چرچ سے نکال دیا.اس بات پہ پھر انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور موحد بن کے اللہ تعالیٰ کی عبادت شروع کر دی.بعد میں یہ احمدی بھی ہو گئے.پھر الحاج یعقوب صاحب کے دادا نے ، ان کا نام ابراہیم و دو پوتھا ، حج پر جانے کے لئے پیسے جمع کئے.اس زمانے میں جب پیسے جمع کئے تو یہ احمدی تھے.جب وہ سالٹ پانڈ (Saltpond) پہنچے تو وہاں مشنری انچارج نے انہیں تحریک کی کہ آجکل ہیڈ کوارٹر کی تعمیر ہورہی ہے اس کے لئے ہم چندہ جمع کر رہے ہیں تو انہوں نے وہ رقم جو جمع کی تھی وہ مسجد کی تعمیر اور ہیڈ کوارٹر کی تعمیر کے لئے دے دی.اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی زندگی دی کہ لمبے عرصے کے بعد پھر انہوں نے اپنے پوتے کو اپنے خرچ پر حج کروایا.الحاج یعقوب صاحب بھی بہت مخلص اور محنتی اور قربانی کی روح رکھنے والے تھے.جب مولوی عبدالوہاب آدم صاحب گھانا کے امیر منتخب ہوئے ہیں اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ان کو وہاں بھیجوایا تو آپ نے گھانا مشن کی تبلیغ کو تیز کرنے کی ہدایت بھی فرمائی تھی.الحاج یعقوب صاحب نے اس وقت داعیان الی اللہ کے لئے ایک گاڑی پیش کی جس کے اوپر لکھا ہوا ہوتا تھا.Ahmadiyya Muslim Preacher Association.اور پھر انہوں نے اس کے ذریعہ سے بہت سارے تبلیغی پروگرام کئے.پھر ان کی یہ بھی خوبی تھی کہ جہاں ایک جماعت بنتی ،نو مبایعین جمع ہو جاتے تو آپ وہاں اپنے خرچ پر مسجد بنواتے.اور واقفین اور مبلغین کی بہبود کا بڑا خیال رکھنے والے تھے.آپ کے دو بیٹے بھی وقف زندگی ہیں.ایک مرکزی مبلغ ہیں ابراہیم بن یعقوب صاحب جور مینیڈاڈ میں ہمارے مشنری انچارج اور امیر ہیں اور دوسرے وہاں کے لوکل مشنری ہیں نور الدین باؤ بنگ صاحب جو اس وقت شمالی علاقے میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں.الحاج باؤ بنگ صاحب ربوہ بھی گئے تھے.موصی بھی تھے.اور اللہ کے فضل سے تمام جائدا داور آمد کا حساب ان کا صاف تھا.جب میں گھانا میں تھا اس وقت میں نے دیکھا ہے بڑے پر جوش داعی الی اللہ تھے اور ہر وقت تیار رہتے تھے اور خوش مزاجی بھی ان میں تھی اور اس کے ساتھ ہی عاجزی بھی بے انتہا تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولا دوں کو بھی اور ان کی نسلوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.دوسرا جنازہ مکرم مولانا فضل الہی بشیر صاحب کا ہوگا.یہ ہمارے دیرینہ خادم سلسلہ ہیں.دفتری غلط فہمی کی وجہ سے ان کا جنازہ پہلے نہیں پڑھا جا سکا تھا.3 ستمبر کو 97 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی
خطبات مسرور جلد 13 570 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء تھی.انا للهِ وَانَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ.1918ء میں یہ مکرم چوہدری کرم الہی صاحب چیمہ کے گھر میں پیدا ہوئے.مولوی صاحب نے 24 نومبر 1944ء کو زندگی وقف کی.3 جون 1946ء میں قادیان پہنچے اور ان کی باقاعدہ ریٹائر منٹ 1978ء میں ہوئی لیکن 1993 ء تک آپ ری ایمپلائی(re employ) ہوتے رہے.جماعتی خدمات با قاعدہ کارکن کی حیثیت سے انجام دیتے رہے.لیکن اس کے بعد بھی تادم آخر انہوں نے رضا کارانہ طور پر جماعت کا بہت سارا کام خاص طور پر پروف ریڈنگ وغیرہ کا کام کیا.لکھتے ہیں کہ ان کے والد کرم الہی صاحب نے 1898ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور پھر ایک سال کے بعد ان کے دادا چوہدری جلال دین صاحب نے بیعت کی.ان کے والد کا جماعت سے، خلافت سے بڑا مضبوط تعلق تھا اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی رہنمائی فرماتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ اول کی فوری طور پر انہوں نے بیعت کی اور حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد فوری طور پر انہوں نے خلافت ثانیہ کی بیعت کی بلکہ ان کو خواب میں دکھایا گیا تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی آئندہ خلیفہ ہیں.ان کی وصیت تھی اور انہوں نے 8/1 کی وصیت کی ہوئی تھی.مولوی صاحب خود ہی اپنے وقف ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ ان کی والدہ صاحبہ نے بیان کیا ہے کہ میں ابھی گود میں تھا.غالباً جلسہ سالانہ قادیان 1919 ء یا1920 ء کا تھا کہ زنانہ جلسہ گاہ میں حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے مستورات میں تقریر کی کہ بیبیو! ہم تو بوڑھے ہو رہے ہیں، اب دین کی خدمت کے لئے قائمقاموں کی ضرورت ہے.تم اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرو.ان کو قادیان دینی تعلیم کے لئے بھیجو.اس تقریر کے دوران والدہ صاحبہ نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا اور دعا کی کہ یہ بچہ فضل الہی خدا کی راہ میں وقف کروں گی.چنانچہ 1931ء میں جب آپ مڈل میں داخل ہوئے تو آپ کے والد صاحب نے آپ کو والدہ کے اس عہد کے متعلق بتایا اور کہا کہ اگر تم دنیاوی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہو تو میں تمہیں بعد میں جب تعلیم حاصل کر لو تو اتنی میری پوزیشن ہے کہ تحصیلدار لگواسکتا ہوں جو اس زمانے میں بڑا اعزاز تھا.لیکن آپ نے فوراً کہا کہ میں وقف کر کے قادیان دارالامان جاؤں گا.23 فروری 1947ء کو آپ دیگر مربیان کے ہمراہ مشرقی افریقہ میں ممباسہ کی بندرگاہ پر پہنچے.ان مربیان میں میر ضیاء اللہ صاحب ، مولوی جلال الدین صاحب قمر، سید ولی اللہ شاہ صاحب، حکیم محمد ابراہیم صاحب اور مولوی عنایت اللہ صاحب شامل تھے اور مشرقی افریقہ میں رئیس التبلیغ شیخ مبارک احمد صاحب تھے.ایک لمبا عرصہ ان کو کینیا میں، سورینام میں،
خطبات مسرور جلد 13 571 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء یانا میں، ایران میں مبلغ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی.پھر اس کے بعد مرکزی دفاتر میں انجمن میں اور تحریک جدید میں خدمات انجام دیتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جب قواعد وصیت پر غور کے لئے کمیٹی بنائی تو حضرت مولوی صاحب بھی اس کے ممبر تھے.آپ نے عربی ، انگریزی اور فریج میں تقریباً گیارہ کتابیں لکھیں.ان کی دو شادیاں تھیں.پہلی تو چوہدری محمد دین صاحب کی بیٹی کے ساتھ تھی جو سیالکوٹ کے ساہی تھے.دوسری شادی ان کی ماریشس میں ہوئی.قبولیت دعا کا اپنا بچپن کا ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ایک دفعہ جب آپ کی عمر دس بارہ سال تھی آپ کی والدہ شدید بیمار ہو گئیں اور بچنے کی امید نہیں رہی تو آپ کہتے ہیں اس تصور سے کہ والدہ فوت ہو جائیں گی میرا دل بیٹھ گیا.میں نے دعا کی کہ اے میرے خدا! کیا اسی عمر میں مجھے ماں کے سائے سے محروم کر دے گا.کہتے ہیں ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ والد صاحب گھر سے نکل کر میری طرف آتے دکھائی دیئے اور آتے ہی کہا کہ فضل الہی ! تیری والدہ ٹھیک ہو گئی.کیا بیر، فلسطین میں بھی یہ رہے ہیں.شریف عودہ صاحب لکھتے ہیں کہ آپ فلسطین میں 1966ء تا68ء اور 77ء تا 81ء رہے.کبابیر میں قیام کے دوران تبلیغ اور تربیت کے کام بہت محنت اور لگن سے کیا کرتے تھے.لوگوں کے گھروں میں جا کر دین کے درس اور تفسیر القرآن کے درس دیتے تھے.احمدیہ سکول کبا بیر کے انتظامی معاملات کو بہت بہتر کیا.اسی طرح کثرت سے تبلیغی دورے کیا کرتے تھے اور مختلف جگہوں پر جا کر جماعتی لیف لیٹس تقسیم کیا کرتے تھے.کہتے ہیں میں چھوٹا تھا لیکن ان کے ساتھ تبلیغی دوروں پر جایا کرتا تھا اور ان سے بہت کچھ سیکھا.مرحوم بہت محنت کرنے والے اور دین کی خدمت کرنے کی ایک مثال تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام أَنتَ الشَّيْخُ الْمَسِيحُ الَّذِي لَا يُضَاعَ وَقْتَدَ و ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے اور کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتے تھے.وہاں ایک مجلہ بھی آپ نے ”البشری شائع کیا اور خود ہی اس پر کام کرتے تھے.خود ہی اس کی کمپوزنگ کرنا اور لکھنا، چھاپنا یہ سارا کچھ آپ کے سپر د تھا اور کہا بیر کی جو مسجد ہے اس کی ابتدا بھی آپ نے ہی کی تھی اور بنیادی اینٹ بھی آپ نے رکھی تھی.ایک دفعہ آپ نے بتایا کہ 1940ء میں آپ کے والد حضرت کرم الہی صاحب جب ریٹائر ہو گئے تو گھر میں بہت تنگی کا سامنا ہوا.یہاں تک کہ جب قادیان میں پڑھتے تھے.تو وہاں مدرسہ احمدیہ کو فیس بھی نہ ادا کر سکتے تھے.ایک دن پرنسپل صاحب ( ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ ) کی طرف سے نوٹس ملا کہ سات یوم کے اندر فیس ادا کر دور نہ مدرسے سے نکال دیئے جاؤ گے.اس پر آپ نے مدرسہ جانا چھوڑ دیا.کچھ
خطبات مسرور جلد 13 572 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء دن کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب " ( حضرت خلیفہ اسیح الثالث) نے بلایا کہ مدرسہ کیوں نہیں آ رہے؟ تو انہوں نے کہا کہ فیس نہ تھی اور شرمندگی کی وجہ سے آنا چھوڑ دیا ہے.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے کہا کہ فیس کا انتظام میں کر دیتا ہوں.آپ نے کہا کہ صدقہ میں نے نہیں لینا.قرضہ حسنہ دے دیں.اس طرح آپ نے اپنی تعلیم جاری رکھی.مگر 1940ء سے 1942ء تک حالات نہایت غربت کے تھے.فاقہ کشی کی کیفیت رہی.کہتے ہیں ایک دفعہ تو یہ حالت تھی کہ چھپن گھنٹے تک کچھ کھانے کو نہ ملا مگر کسی سے ذکر تک نہ کیا اور چھپن گھنٹے کے بعد ایک دوست نے کہا کہ آج آپ میرے ساتھ کھانا کھا ئیں.اس طرح چھپن گھنٹے کے بعد ایک روٹی خدا تعالیٰ نے آپ کو کھلائی اور اس ایک روٹی کے بعد پھر 48 گھنٹے فاقہ رہا.کہتے ہیں کہ یہ فاقہ کشی جو تھی یہ شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے برداشت کی ٹریننگ تھی.تبلیغ کی مشکلات میں یہ ہمیشہ میرے کام آیا.تبلیغ کی مشکلات کا کئی دفعہ ذکر کیا.افریقی دوستوں کے ساتھ تبلیغی دورے پر جاتے تھے تو فاقے کرنے پڑتے تھے.کبھی اچھا کھا نا مل جاتا تھا اور جو کچھ میسر ہوتا کھا لیتے اور کبھی یہ دل میں خیال نہیں آیا کہ ہم دین کی بڑی خدمت کر رہے ہیں.پس یہ بات آج کے واقفین زندگی کو سامنے رکھنی چاہئے.آجکل اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ ہی حالات تو بہت بہتر ہیں اور کبھی ایسی نوبت نہیں آتی کہ کسی کو فاقہ کرنا پڑے.آپ نے ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی.میٹرک کے بعد وقف کیا اور اپنی آخری سانس تک اس عہد کو پورا کیا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.ان کی پوتی نے یہ لکھا ہے کہ دادا جی بہت کم اپنے حالات کا ذکر کرتے تھے جو ان کو تبلیغ کے راستے میں پیش آئے ہیں.لیکن ایک بات انہوں نے بتائی کہ جب تبلیغ کے لئے جاتے تو صبح دو روٹیاں بنا لیتے.ایک صبح کھا لیتے اور دوسری ساتھ باندھ لیتے.راستے میں کہیں بھی پانی یا چائے کے ساتھ کھا لیتے اور اس کی تصدیق جب افریقہ میں رہے ہیں تو وہاں کے لوگوں نے بھی کی کہ اس طرح دو روٹیاں بناتے تھے اور تبلیغ کے سفر پر نکل پڑتے تھے.سورینام کے مبلغ لکھتے ہیں کہ 1970ء تا 72ء میں ان کو مبلغ سلسلہ گیانا کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی اور آپ نے سورینام کے مختلف جگہوں کے متعدد دورے کئے.25 /اپریل 1971ء کو جماعت کی پہلی مسجد کے افتتاح کی تاریخی سعادت حاصل کی.موصوف نے انتہائی نامساعد حالات میں بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ یہاں وقت گزارا.غیر مبائعین کی مخالفت کے علاوہ وہاں غیر مبائعین بھی بہت زیادہ ہیں ) اُس وقت جماعت کے اندر خواجہ اسماعیل کا ایک گروہ پیدا ہو چکا تھا جنہوں نے آپ کے
خطبات مسرور جلد 13 573 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء لئے بہت مشکلات پیدا کیں اور ہر ممکن کوشش کی کہ مسجد کی زمین جماعت کے نام نہ ہومگر آپ نے بڑے حوصلے کے ساتھ ان مشکلات کا سامنا کیا اور پوری تندہی کے ساتھ خدمات سلسلہ میں مصروف رہے.پیغام حق پہنچانے کے ساتھ مرکز کو بھی تفصیلی طور پر جماعتی حالات سے آگاہ رکھا اور پھر انہوں نے 1972ء میں خلیفہ اسیح الثالث کولکھا کہ سرینام میں مسجد اور مشن ہاؤس سے جماعت کو ایک مرکز میسر آ گیا ہے مگر گیا نا میں اب تک کسی قسم کا مرکز نہیں ہے.وہ مرکز سے محروم ہے اور بارہ سال سے وہاں مبلغ سلسلہ ہے جس کی وجہ سے میرے دل میں بڑی تڑپ ہوتی ہے کہ وہاں بھی مسجد بنے.ماریشس میں جب رہے ہیں تو وہاں کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ بڑے خاص حالات میں ان کی وہاں تقرری ہوئی تھی.1954ء میں جب مکرم بشیر الدین عبیداللہ صاحب کی بعض لوگوں نے بات ماننے سے انکار کر دیا اور جماعت وہاں دوحصوں میں بٹ گئی.ایک حصہ اطاعت سے باہر جانے لگا اور انہوں نے اپنی علیحدہ ایسوسی ایشن بنالی.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کو جو (اس وقت) فلسطین میں تھے پیغام دیا کہ فوری طور پر ماریشس پہنچیں.آپ ماریشس پہنچے تو آپ کے خلاف امیگریشن میں شکایت کر دی گئی.لیکن ان کے پاس کیونکہ برٹش نیشنیلٹی تھی اس لئے حکومت کو بہر حال ان کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینی پڑی.انہوں نے بڑی حکمت سے حالات کا جائزہ لیا اور پھر مسجد پہ جو منافقین نے قبضہ کیا ہوا تھا یا مرتدین نے قبضہ کیا ہوا تھا اس کو بڑی حکمت سے بڑے طریقے سے ختم کرایا ) آپ مسجد میں گئے اور وہاں نمازیں پڑھانی شروع کیں اور آہستہ آہستہ جو مبائع جماعت تھی اس کو دوبارہ مسجد میں جمع کرنا شروع کیا اور یہیں اس دوران میں ماریشس میں ان کی دوسری شادی بھی ہوئی تھی.یہاں انہوں نے فرنچ میں بعض کتابیں بھی لکھیں جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے اور انہوں نے اللہ کے فضل سے جماعت کو وہاں اس فتنے سے بچایا اور نئے سرے سے جماعت کو جمع کر دیا.ایک ہاتھ پہ اکٹھا کر دیا.مسجد مبارک میں جمعہ پڑھنے کی بڑی خواہش ہوتی تھی اور جس شخص سے انہوں نے جمعہ پر جانے کے لئے کہا ہوا تھا کہ مجھے اپنی کار پہ لے جایا کرو، بڑھاپے میں بھی اس کا انتظار کرتے تھے اور اس لئے کہ اس کو تکلیف نہ ہو اور انتظار نہ کرنا پڑے اپنے گھر کے دروازے کے باہر ہی کرسی بچھا کر بیٹھ جاتے تھے تا کہ جب بھی وہ آئیں فوری طور پر ان کے ساتھ جاسکیں.غریبوں کی مدد کرتے تھے جو بھی ان کی تو فیق تھی.ایک دفعہ ایک غریب نے لکھا کہ آپ میرے بچے کا تعلیمی خرچ بھجواتے ہیں اس دفعہ اس کو کچھ زیادہ رقم کی ضرورت ہے تو زیادہ پیسے کا منی آرڈر بھجوا دیں.کبھی گھر میں کسی سے ذکر نہیں کیا.اتفاق سے ان کی بہو کے
خطبات مسرور جلد 13 574 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 ستمبر 2015ء ہاتھ ایک خط لگا تو اس سے پتا لگا کہ یہ چھپ کے خاموشی سے غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے.ان کی بہو کہتی ہیں ایک دفعہ میں نے ان سے کہا باہر تبلیغ کا کوئی واقعہ سنا ئیں.تو کہتے ہیں ایک واقعہ میں تمہیں آج سنادیتا ہوں.کہنے لگے کہ میرا یہ معمول تھا کہ ہر روز نماز فجر کے بعد تھوڑا تھوڑا اندھیرا ہوتا تھا کہ میں تبلیغ کے لئے نکل جاتا تھا اور شام کو واپس آتا تھا.ایک دن جب میں شام کو گھر واپس آیا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ میرے گھر کے باہر جمع ہیں.میں پریشان ہوا کہ اللہ خیر کرے یہ لوگ میرے انتظار میں کیوں کھڑے ہیں.اتنے میں دُور سے ہی انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مولانا صاحب مبارک ہو، مبارک ہو.میں نے پوچھا کس بات کی مبارک.لوگوں نے بتایا کہ آج صبح جب آپ گئے ہیں تو ایک شیر اور آپ اکٹھے پیدل چل رہے تھے.یا تو شیر آپ کے آگے آگے چلتا تھا اور آپ شیر کے پیچھے ہوتے تھے یا پھر آپ آگے آگے چل رہے ہوتے تھے اور شیر آپ کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوتا تھا لیکن خدا نے آپ کو سلامت رکھا.اس بات کی ہم مبارکباد دے رہے ہیں.کہتے ہیں بہت سارے لوگوں نے جنگل میں اپنے کام کرتے ہوئے اس طرح دیکھا.بڑے تہجد گزار تھے.بڑی رقت سے نمازیں پڑھنے والے.بہت سارے مبلغین نے، دوسروں نے ان کے بارے میں حالات لکھے ہیں.اور حقیقت میں یہ بڑے متوکل انسان ، بڑے باہمت، صابر اور دین کا درد رکھنے والے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے تھے.جو بھی چند ایک واقعات بیان ہوئے ان میں کوئی مبالغہ نہیں ہے.خلافت سے بھی ان کا بے انتہا تعلق تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولا د کو بھی نیکیوں پر قائم رکھے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 109اکتوبر 2015 ء تا 15 اکتوبر 2015 ءجلد 22 شماره 41 صفحہ 05-09)
خطبات مسرور جلد 13 575 39 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 ستمبر 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سروراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 25 ستمبر 2015 ء بمطابق 25 تبوک 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفضل_لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ عبادت میں شوق کس طرح پیدا ہو؟ ہم کوشش کرتے ہیں تب بھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی.تو یاد رکھنا چاہئے کہ بندہ کا کام یہ ہے کہ مستقل مزاجی سے کوشش کرتا رہے.اس ایمان پر قائم ہو کہ جو کچھ ملنا ہے خدا تعالیٰ سے ہی ملنا ہے ، تب ہی وہ کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور پھر عبادت کے شوق کو بڑھاتی ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی کسی نے پوچھا کہ عبادت میں شوق کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: "اعمال صالحہ اور عبادت میں ذوق وشوق اپنی طرف سے نہیں ہو سکتا.خود انسان کہے کہ میرے اندر پیدا ہو جائے.میں خود اپنی کوشش سے پیدا کرلوں، یہ نہیں ہوسکتا.یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور توفیق پر ملتا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان گھبرائے نہیں اور خدا تعالیٰ سے اس کی توفیق اور فضل کے واسطے دعائیں کرتا رہے.تھک کے بیٹھ نہ جائے بلکہ مستقل دعائیں کرتا رہے اور ان دعاؤں میں تھک نہ جاوے.آپ نے فرمایا ان دعاؤں میں تھک نہ جاوے.”جب انسان اس طرح پر مستقل مزاج ہوکر لگا رہتا ہے تو آخر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے وہ بات پیدا کر دیتا ہے جس کے لئے اس کے دل میں تڑپ اور بیقراری ہوتی ہے.یعنی عبادت کے لئے ایک ذوق وشوق اور حلاوت پیدا ہونے لگتی ہے.عبادت کی ایک مٹھاس جسے کہتے ہیں وہ اسے حاصل ہونی شروع ہو جاتی ہے، ایک مزہ آنے لگ جاتا ہے.فرمایا کہ لیکن اگر کوئی شخص مجاہدہ اور سعی نہ کرے اور وہ یہ سمجھے کہ پھونک مار کر کوئی کر دے“.اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے گا یا عبادت کا شوق پیدا ہو جائے گا یا کسی کے قریب چلا جائے تو وہ
576 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 ستمبر 2015ء خطبات مسرور جلد 13 انسان اسے پھونک مار کر عابد بنا دے گا، یہ نہیں ہو سکتا.فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور سنت نہیں“.فرمایا کہ اس طریق پر جو شخص اللہ تعالیٰ کو آزماتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے ہنسی کرتا ہے اور مارا جاتا ہے“.آخر نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ مارا جاتا ہے، خدا سے دُور ہو جاتا ہے.فرمایا کہ خوب یاد رکھو کہ دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.اس کا فضل نہ ہوتو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے“.اسلام سے ہٹ جائے یا کسی اور بے دینی میں مبتلا ہو جاوے.دین سے دور چلا جائے.اس لئے ہر وقت اس کے فضل کے لئے دعا کرتے رہو اور اس کی استعانت چاہوں“.اس سے مدد مانگو تا کہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے.جو شخص خدا تعالیٰ سے بے نیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہو جاتا ہے.جہاں اللہ تعالیٰ سے بے نیاز ہوئے ، اللہ تعالیٰ کو چھوڑا ، اللہ تعالیٰ کو بھولے، وہیں سے شیطان نے حملہ کیا اور شیطان ہو گئے.فرمایا کہ ”اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تا کہ وہ زہر اور جوش پیدا نہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے“.استغفار اس کا علاج ہے کہ استغفار کرو تا کہ اس زہر سے بچو جو شیطان کے قریب کرتا ہے اور انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.( ملفوظات جلد 8 صفحه 155-154) پس مستقل مزاجی شرط ہے اور یہ ایمان کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں.جب سب راستے بند کر کے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے تبھی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جو عبادت کا شوق بھی دلاتی ہے.مستقل اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا پڑتا ہے.مستقل اس سے مدد مانگنی پڑتی ہے.شیطان کیونکہ ہر وقت حملے کے لئے تیار ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ ذوق وشوق پیدا کرنے کے لئے استغفار کرنا بھی ضروری ہے.شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے استغفار کرنا بہت ضروری ہے.انسان استغفار کر کے جب شیطان کو اپنے سے دور بھگائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے لئے تڑپ کر دعا بھی کرے گا.استغفار بھی تڑپ کر ہو رہی ہوگی اور مزید ترقی کرنے کے لئے اس کے قرب کے راستے تلاش کرنے کی دعا بھی ہو رہی ہو گی.جب ایسی حالت انسان کی ہو جائے ، یہ کیفیت طاری ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عبد بننے اور نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 16 اکتوبر 2015ء تا 22 اکتوبر 2015، جلد 22 شماره 42 صفحه 05) یہ خطبہ جمعہ عید الاضحیہ کے دن ہوا تھا.حضور انور نے نماز عید بیت الفتوح میں پڑھائی اور خطبہ جمعہ بیت الفضل میں.مرتب سید مبشر احمد ایاز
خطبات مسرور جلد 13 577 40 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015 ء بمطابق 02 اخاء 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَ نُفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - (البقرة: 156-157) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے.ان لوگوں کو جن پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقیناً اُسی کی طرف کوٹ کر جانے والے ہیں.ان آیات میں مومنوں کی ان خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ مشکلات اور مصائب یا کسی بھی قسم کے نقصان کے ہونے پر دکھاتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک حقیقی مومن کا اسی وقت پتا چلتا ہے جب وہ ان خصوصیات کا حامل بنے.مومنین کو بھی تو ذاتی طور پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھی جماعتی طور پر نقصان ہوتا ہے لیکن حقیقی مومن ہر طرح کے نقصان سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے کامیاب ہو کر نکلتا ہے اور اسے نکلنا چاہئے.اس مضمون پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف تحریرات اور ارشادات میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.مختلف زاویوں سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے.اس وقت میں اس تعلق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دو حوالے پیش کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان آیات کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : مصیبتوں کو برا نہیں ماننا چاہئے کیونکہ مصیبتوں کو برا سمجھنے والا مومن نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ فرماتا
خطبات مسرور جلد 13 578 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء ب وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَ نُفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وبشر الصبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ فرمایا کہ ” یہی تکالیف جب رسولوں پر آتی ہیں تو ان کو انعام کی خوشخبری دیتی ہیں اور جب یہی تکالیف بدوں پر آتی ہیں تو ان کو تباہ کر دیتی ہیں.غرض مصیبت کے وقت قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنا چاہئے کہ تکالیف کے وقت خدا تعالیٰ کی رضا طلب کرئے“.فرمایا کہ مومن کی زندگی کے دو حصے ہیں.”جو نیک کام مومن کرتا ہے اس کے لئے اجر مقرر ہوتا ہے.مگر صبر ایک ایسی چیز ہے جس کا ثواب بے حد و بے شمار ہے“.( نیکی کا اجر ہے لیکن صبر کا ثواب بہت زیادہ ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی لوگ صابر ہیں یہی لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو سمجھ لیا.خدا تعالیٰ ان لوگوں کی زندگی کے دو حصے کرتا ہے جو صبر کے معنی سمجھ لیتے ہیں.اوّل جب وہ دعا کرتا ہے ( یعنی صبر کرنے والا ) تو خدا تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے جیسا کہ فرمایا اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: 61) أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَان (البقرة: 187) دوم بعض دفعہ اللہ تعالٰی مومن کی دعا کو بعض مصلحت کی وجہ سے قبول نہیں کرتا تو اس وقت مومن خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے سر تسلیم خم کر دیتا ہے.تنزل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن سے دوست کا واسطہ رکھتا ہے.جیسا کہ دو دوست ہوں ان میں سے ایک دوسرے کی بات تو کبھی مانتا ہے اور کبھی اس سے منواتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس تعلق کی مثال ہے جو وہ مومن سے رکھتا ہے.کبھی وہ مومن کی دعا کو قبول کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: 61) اور کبھی وہ مومن سے اپنی باتیں منوانی چاہتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ پس اس بات کو سمجھنا ایمانداری ہے کہ ایک طرف زور نہ دے“.فرمایا ” مومن کو مصیبت کے وقت میں غمگین نہیں ہونا چاہئے.وہ نبی سے بڑھ کر نہیں ہوتا.اصل بات یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ایک محبت کا سر چشمہ جاری ہو جاتا ہے.مومن کو کوئی مصیبت نہیں ہوتی جس سے اس کو ہزار ہا قسم لذت نہیں پہنچتی.پھر آپ نے فرمایا کہ ”خدا تعالیٰ کے پیاروں کو گناہ سے مصائب نہیں پہنچتے “.( یعنی گناہ کی وجہ سے مصیبتیں نہیں آتیں) آپ فرماتے ہیں کہ ”مومن کے جو ہر بھی مصائب سے کھلتے ہیں.چنانچہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھوں اور نصرت کے زمانے پر آپ کے اخلاق کو کس طرح ظاہر کیا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف نہ پہنچتے تو اب ہم ان کے اخلاق کے متعلق کیا بیان کرتے.مومن کی
579 خطبات مسرور جلد 13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء تکالیف کو دوسرے بیشک تکالیف سمجھتے ہیں مگر مومن اس کو تکالیف نہیں خیال کرتا “.فرمایا کہ یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنی سچی توبہ پر قائم رہے اور یہ سمجھے کہ تو بہ سے اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے.اور اگر تو بہ کے ثمرات چاہتے ہو تو عمل کے ساتھ توبہ کی تکمیل کرو.دیکھو جب مالی بوٹا لگا تا ہے پھر اس کو پانی دیتا ہے اور اس سے اس کی تکمیل کرتا ہے اسی طرح ایمان ایک بوٹا ہے اور اس کی آبپاشی عمل سے ہوتی ہے اس لئے ایمان کی تکمیل کے لئے عمل کی از حد ضرورت ہے.اگر ایمان کے ساتھ عمل نہیں ہوں گے تو بوٹے خشک ہو جائیں گے اور وہ خائب و خاسر رہ جائیں گئے.( بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 1 صفحہ 604-603 و البدر 20 مارچ1903ء نمبر 9 جلد 2 صفحہ 67) ابتلاؤں کی اہمیت اور برکات پھر آپ فرماتے ہیں: " تم مومن ہونے کی حالت میں ابتلا کو برا نہ جانو اور برا وہی جانے گا جو مومن کامل نہیں ہے.قرآن شریف فرماتا ہے کہ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَ نُفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرة: 157-156) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کبھی تم کو مال سے یا جان سے یا اولا د سے یا کھیتوں وغیرہ کے نقصان سے آزمایا کریں گے مگر جو ایسے وقتوں میں صبر کرتے اور شاکر رہتے ہیں تو ان لوگوں کو بشارت دو کہ ان کے واسطے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کشادہ اور ان پر خدا کی برکتیں ہوں گی جو ایسے وقتوں میں کہتے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ یعنی ہم اور ہمارے متعلق گل اشیاء یہ سب خدا ہی کی طرف سے ہیں اور پھر آخر کاران کا لوٹنا خدا ہی کی طرف ہے.کسی قسم کے نقصان کا غم ان کے دل کو نہیں کھاتا اور وہ لوگ مقام رضا میں بودو باش رکھتے ہیں.ایسے لوگ صابر ہوتے ہیں اور صابروں کے واسطے خدا نے بے حساب اجر رکھے ہوئے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں: ” بعض لوگ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہماری دعا کو قبول نہیں کرتا یا اولیاء لوگوں پر طعن کرتے ہیں ( یعنی جو اولیاء اللہ ہوتے ہیں ان پر لوگ طعن کرتے ہیں ، ان کو طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں ) کہ ان کی فلاں دعا قبول نہیں ہوئی.فرمایا کہ اصل میں وہ نادان اس قانون الہی سے نا آشنا محض ہوتے ہیں.جس انسان کو خدا سے ایسا معاملہ پڑا ہو گا وہ خوب اس قاعدہ سے آگاہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے مان لینے کے اور منوانے کے دو نمونے پیش کئے ہیں انہی کو مان لینا ایمان ہے.تم ایسے نہ بنو کہ ایک ہی پہلو پر زور دو.ایسا نہ ہو کہ تم خدا کی مخالفت کر کے اس کے مقررہ قانون کو
خطبات مسرور جلد 13 توڑنے کی کوشش کرنے والے بنو“.580 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 199-198 ) آپ نے فرمایا کہ انسان کے واسطے ترقی کرنے کے دو ہی طریق ہیں.اوّل تو انسان تشریعی احکام یعنی نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج وغیرہ تکالیف شرعیہ کی پابندی سے جو کہ خدا کے حکم کے موجب خود بجالا کر کرتا ہے مگر یہ امور چونکہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں اس لئے کبھی ان میں ستی اور تساہل بھی کر بیٹھتا ہے اور کبھی ان میں کوئی آسانی اور آرام کی صورت ہی پیدا کر لیتا ہے.لہذا دوسرا وہ طریق ہے جو براہ راست خدا کی طرف سے انسان پر وارد ہوتا ہے اور یہی انسان کی اصلی ترقی کا باعث ہوتا ہے کیونکہ تکالیف شرعیہ میں انسان کوئی نہ کوئی راہ بچاؤ یا آرام و آسائش کی نکال ہی لیتا ہے.دیکھو کسی کے ہاتھ میں تازیانہ دے کر اگر اسے کہا جاوے کہ اپنے بدن پر مارو تو قاعدہ کی بات ہے کہ آخر اپنے بدن کی محبت دل میں آہی جاتی ہے.کون ہے جو اپنے آپ کو دکھ میں ڈالنا چاہتا ہے؟ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے انسانی تکمیل کے واسطے ایک دوسری راہ رکھ دی اور فرما ا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَ نَفْسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.(البقرة : 157-156 ).ہم آزماتے رہیں گے تم کو بھی کسی قدر خوف بھیج کر کبھی فاقہ سے کبھی مال، جان اور پھلوں پر نقصان وارد کرنے سے.مگر ان مصائب شدائد اور فقر وفاقہ پر صبر کر کے اتَاللهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہنے والے کو بشارت دے دو کہ ان کے واسطے بڑے بڑے اجر، خدا کی رحمتیں اور اس کے خاص انعامات مقرر ہیں.دیکھو ایک کسان کسی محنت اور جانفشانی سے قلبہ رانی کر کے زمین کو درست کرتا، پھر تخم ریزی کرتا ، آبپاشی کی مشکلات جھیلتا ہے.آخر جب طرح طرح کی مشکلات، محنتوں اور حفاظتوں کے بعد کھیتی تیار ہوتی ہے تو بعض اوقات خدا کی بار یک در بار یک حکمتوں سے ژالہ باری ہو جاتی یا کبھی خشک سالی ہی کی وجہ سے کھیتی تباہ و برباد ہو جاتی ہے.غرض یہ ایک مثال ہے ان مشکلات کی جن کا نام تکالیف قضا و قدر ہے.ایسی حالت میں مسلمانوں کو جو پاک تعلیم دی گئی ہے وہ کیسی رضا بالقضا کا سچا نمونہ اور سبق ہے اور یہ بھی صرف مسلمانوں ہی کا حصہ ہے.( ملفوظات جلد 10 صفحہ 414-413) پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ نہ ہمارے اپنے دل میں کبھی یہ خیال آئے کہ خدا تعالیٰ کیوں بڑے بڑے نقصانوں اور ابتلاؤں سے ہمیں گزارتا ہے اور نہ ہی کسی مخالف کے ہنسی ٹھٹھا کرنے یا یہ کہنے پر ہم پریشان ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تو پھر تمہارا نقصان کیوں ہوتا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 581 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء ان اقتباسات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے جو باتیں بیان فرمائی ہیں ان کے بعض اہم نکات میں پھر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ یا درکھو کہ جب تکالیف اور مشکلات رسولوں پر یا اللہ تعالیٰ کے پیاروں پر آتی ہیں اور اس حوالے سے انبیاء کی جماعتوں پر بھی آتی ہیں جو ان کی صحیح تعلیم پر چلنے والے ہوں تو بہر حال جب اللہ تعالیٰ کے پیارے ان تکالیف سے گزرتے ہیں تو خدا تعالیٰ انہیں کسی مشکل، مصیبت میں ڈالنے کے لئے یا سزا دینے کے لئے تکالیف میں سے نہیں گزارتا بلکہ ان کو انعامات کی خوشخبری دیتا ہے.اور جب اس قسم کی تکالیف خدا تعالیٰ کے رسولوں اور ان کی جماعت کے مخالفین پر آتی ہیں اور بدوں پر آتی ہیں تو وہ ان کی تباہی بن کر آتی ہیں اور انہیں تباہ کر دیتی ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ مشکلات پر صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کے بے حد و حساب ثواب کے وارث بنتے ہیں.پس ایک مومن کو مبر کے معنی سمجھنے کی ضرورت ہے.صبر کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کسی نقصان پر افسوس نہ کرے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نقصان کسی تکلیف کو اپنے اوپر اتنا وارد نہ کر لے کہ ہوش و حواس کھو بیٹھے اور مایوس ہو کر بیٹھ جائے اور اپنی عملی طاقتوں کو استعمال میں نہ لاوے.پس ایک حد تک کسی نقصان پر افسوس بھی ٹھیک ہے، کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی ایک نئے عزم کے ساتھ اگلی منزلوں پر قدم مارنے کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کا عزم اور عمل ضروری ہے.ھر یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہر کرنے والے کوہی دعا کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کبھی اللہتعالیٰ دعا فوری قبول کر لیتا ہے تو کبھی اللہ تعالیٰ کسی مصلحت کی وجہ سے دعا قبول نہیں کرتا.لیکن مومن کا کام ہے کہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور اللہ تعالیٰ کے کسی فعل پر شکوہ نہ کرے.یہی حقیقی صبر ہے اور جب ایسی صبر کی حالت ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب نوازتا ہے، انعامات دیتا ہے.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے مشکلات کے وقت میں بھی لذت اٹھا ر ہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کو نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ان مشکلات کے پیچھے بھی اللہ تعالیٰ کے بیشمار انعامات اور فضل چلے آرہے ہیں.پس آپ نے فرمایا کہ مومن کو مصائب اور مشکلات ان کے گناہوں کی وجہ سے نہیں پہنچتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہوتا ہے تا کہ دنیا کو بھی پتا چل جائے کہ خدا تعالیٰ کے بندے ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیارا وجود اللہ تعالیٰ کو جو ہے یا تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی لیکن آپ کو بھی بیشمار تکالیف پہنچیں بلکہ ذاتی تکالیف بھی پہنچیں اور جماعتی تکالیف بھی پہنچیں اور یہ تکالیف جتنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی ہیں کسی اور کو نہیں پہنچیں.لیکن
خطبات مسرور جلد 13 582 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء ہر طرح کی تکلیف میں آپ کے صبر اور راضی برضا ر ہنے کا نمونہ دنیا میں ہمیں کہیں اور نظر بھی نہیں آتا اور یہی وہ اعلیٰ خلق ہے جو تمام مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں بھی سچی توبہ کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بھی تمہاری کامیابیوں اور امتحانوں میں سے سرخرو ہو کر نکلنے کے لئے انتہائی ضروری ہے.پس مومن کا کام ہے کہ عمل کے ساتھ ساتھ تو بہ کی طرف بھی تو جہ دے.یعنی ہر مشکل اور امتحان کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرے اور پھر نیک اعمال سے اپنی اصلاح کے تسلسل کو جاری رکھے.آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک مالی پودا لگا کر پھر اسے پانی دیتا ہے، اسے پالتا ہے، اسے سینچتا ہے اسی طرح مومنوں کو بھی چاہئے کہ ایمان کے پودے کو نیک اعمال کا پانی لگائیں.اگر یہ کرو گے تو یہی ایک مومن کی کامیابی کا ذریعہ بن جاتا ہے.آپ نے فرمایا کہ لوگوں کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں.بہت سارے لوگ باتیں کرتے ہیں.لوگ تو اولیاء اللہ پر بھی اعتراض کرتے آئے ہیں کہ ان کی فلاں دعا قبول نہیں ہوئی ، فلاں قبول نہیں ہوئی.آپ نے فرمایا کہ ایسے اعتراض کرنے والے دراصل قانون الہی سے ہی لاعلم ہیں.ایک مومن تو جانتا ہے کہ اللہ تعالی بھی تو مان لیتا ہے اور کبھی منواتا ہے.یہی اس کا قانون ہے.آپ نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ تم ایسے نہ بنو جو اس قانون کو توڑنے والے ہوتے ہیں.بیت الفتوح میں ہولناک آتشزدگی اور حضور انور کی رہنمائی یہ جو یہاں آگ لگنے کا ہی واقعہ ہو رہا تھا اس وقت ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ان کے ایک غیر احمدی دوست کہنے لگے کہ اگر تم لوگوں کی اتنی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو یہ آگ لگی کیوں؟ یہ مشکل تمہارے پر آئی کیوں؟ خیر اس نے اس کو دلیل دی.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مشکلات نہیں آئی تھیں یا مومنین پر نہیں آتیں.لیکن بہر حال یہ اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ تم ایسے نہ بنو جو قانون کو توڑنے والے ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ مومنین کے لئے مصائب اور مشکلات ہمیشہ نہیں رہتے.آتے ہیں، چلے جاتے ہیں.پس صبر اور دعا اور اپنے عملوں سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنو اور جب بھی مشکلات میں سے گز رو، جب بھی مصائب آئیں تو اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنے والوں میں شامل ہو جاؤ.یہ وہ لوگ ہیں جن کو پھر اللہ تعالیٰ بشارت دیتا ہے.جب انسان انا للہ کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں.پس جب ہم مصائب یا نقصان دیکھ کر انا للہ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جب اللہ تعالیٰ کے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی تباہ و برباد نہیں کرے گا.اگر کوئی مشکل آئی ہے تو شاید اللہ تعالیٰ ہمیں پہلے سے بڑھ کر انعام دینے
خطبات مسرور جلد 13 583 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء کے لئے تیار کرنا چاہتا ہے اور اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہہ کر پھر ہم اللہ تعالیٰ کے آگے جھک کر یہ کہتے ہیں کہ آئندہ کے بڑے انعام میں ہماری وجہ سے پھر کوئی روک نہ پیدا ہو بلکہ اے اللہ ! ہم تیری طرف جھکتے ہوئے یہ انعام مانگتے ہیں اور ہمیشہ تیرے فضلوں کے ہی طلب گار ہیں.پس ہمیں صابر بھی بنا اور ہمیں اپنے عملوں کو بہتر کرنے والا بھی بنا اور ہمیں اپنی طرف ہمیشہ جھکا رہنے والا بھی بنا اور جب ہم یہ حالت پیدا کریں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ ترقیات بھی ہوں گی اور پہلے سے بڑھ کر جماعتی ترقیات ہمیں نظر آئیں گی.دشمن کی دشمنی اور ان کا ہنسی ٹھٹھا ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اگر ہمارا اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق ہے حقیقی تعلق ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا گزشتہ دنوں یہاں مسجد کے متصل دو ہالوں میں آگ کی وجہ سے بڑا نقصان ہوا.بڑی خوفناک آگ تھی.اس پر جب مختلف ٹی وی چینلز اور دوسرے میڈیا نے خبر دی ہے تو بعض بغض و کینہ میں بڑھے ہوئے لوگوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا.ایک مثال میں نے پہلے بھی دی کہ اچھا ہوا یہ مسجد جل رہی ہے.بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ہے ہی نہیں کیونکہ یہ مسلمان نہیں اس لئے ان کی جو بھی عبادت کی جگہ ہے وہ جل رہی ہے.ان لوگوں نے پہلے تو خوشی منائی پھر افسوس کا جواظہار کیا وہ اس بات پر نہیں کہ کیوں حصہ جلا بلکہ اس بات پر افسوس کیا کہ ان کے صرف دو ہال جلے ہیں، مسجد کیوں نہیں جلی.اس بات پر ہمیں بڑا افسوس ہے.تو یہ آجکل کے بعض مسلمانوں کا حال ہے.لیکن سارے ایسے نہیں ہیں.بعض علاقوں سے مسلمانوں نے ہمارے سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے.ایک علاقے کے مسلمانوں کی طرف سے یہ ہمدردی کا پیغام بھی آیا کہ ہمیں افسوس ہے کہ آپ کی مسجد کا کچھ حصہ جلا یا اس کا ہال جلا.انہوں نے کہا کہ چند مہینے پہلے ہماری مسجد بھی جلی تھی.وہاں آگ لگ گئی تھی اور کئی مہینے سے یہ مسجد بند تھی.اب چند دن پہلے کھلی ہے.بعض لاعلم مقامی انگریزوں نے بھی یہ اظہار کیا کہ اچھا ہوا کیونکہ مسلمانوں کے خلاف ویسے ہی بعض جگہوں پر نفرت پھیلی ہوئی ہے.لیکن ہمارے ہمسائے اور وہ لوگ جو جماعت کو جانتے ہیں انہوں نے ہی ان غیر مسلموں کو بھی اور غیر احمدیوں کو بھی خود ہی جواب دیا اور کہا کہ تم لوگوں کو شرم آنی چاہئے یہ تو ایسی جماعت ہے جو صحیح اسلامی تعلیم پر عمل کرتی ہے.اور پھر دنیا میں مختلف چینلز نے اور دوسرے ذرائع نے بھی اس خبر کو دیا.یہ خبر دی کہ اس طرح یورپ کی سب سے بڑی مسجد میں آگ لگنے کا واقعہ ہوا ہے.پھر اس پر تبصرے بھی ہوتے رہے کہ یہ کیسی جماعت ہے، یہ کون لوگ ہیں.گویا اس واقعہ نے دنیا میں جماعت کا ایک وسیع تعارف بھی کروا دیا.گو ہمیں تو افسوس ہوا، ہم نے صبر بھی دکھایا اور انا للہ بھی پڑھا
خطبات مسرور جلد 13 584 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نقصان اور امتحان میں بھی جماعت کے حق میں لوگوں کو کھڑا کر کے دنیا کو بتا دیا کہ میں ان کے ساتھ ہوں.آگ کی وجہ کیا ہوئی؟ یہ تو پولیس کو ابھی تک واضح نہیں ہوا.انہوں نے کچھ نہیں بتایا.لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ آگ کچن کے ساتھ سٹور سے شروع ہوئی تھی جہاں پلاسٹک کا سامان تھا اور بعض دوسری چیزیں پڑی ہوئی تھیں جس سے جلد آگ بھڑک اٹھی اور پھر چھتوں کی لکڑیوں کے ذریعہ یا اے سی (AC) کی ڈکٹ (Duct) کے ذریعہ سے آگے چلتی چلی گئی.بہر حال جو بھی وجہ ہوئی یہ بات ہمارے یہاں مسجد کا جو اسٹاف ہے، عملہ ہے اور انتظامیہ ہے اس کی کمزوری کی طرف بھی نشاندہی کرتی ہے اور ان کو بھی استغفار کی ضرورت ہے.ان کو بہت زیادہ استغفار کرنی چاہئے.جس طرح آگ بھڑ کی تھی نقصان اس سے بہت زیادہ ہو سکتا تھا.فائر بریگیڈ والے بھی یہی کہتے ہیں کہ تمہاری بہت بچت ہو گئی ہے کیونکہ ایسی آگ اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا ہوا تپش اور ٹمپریچر اس میں بہت نقصان ہو سکتا تھا.اس کے مقابلے میں کچھ بھی نقصان نہیں ہوا.میں ذکر کر رہا تھا کہ غیروں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح جماعت کا اثر قائم کیا یا کس طرح غیروں کے ذریعہ جماعت کا اثر ڈالتا ہے.پریس کو بھی بڑھا چڑھا کر خبریں لگانے اور سنسنی پھیلانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ ایسی خبریں تلاش کر رہے ہوتے ہیں.اسی دوران جب یہ واقعہ ہو رہا تھا ایک پریس کا نمائندہ یہاں آیا اور ہمارے سیکرٹری اشاعت سے باہر سڑک پر کھڑے ہو کے انٹرویو لینے لگا.اندر آنے کی تو اجازت نہیں تھی.اس نے اس سے یہ سوال کیا کہ آپ کے ہمسایوں سے کیسے تعلقات ہیں اور ان کے کیا تاثرات ہیں؟ ابھی یہ سوال کر رہا تھا کہ اسی دوران ایک کار آ کے رکی اور اس میں سے ایک انگریز خاتون اتریں اور قریب آ کر یہ کہا کہ میں آپ کی ہمسائی ہوں.یہیں مسجد کے ساتھ ہی رہتی ہوں اور پھر اپنی مدد کی پیشکش کی.اسی طرح بہت سے اور لوگ آئے ، چرچ کے نمائندے آئے، تو بہر حال ہمسایوں کے یہ تاثرات براہ راست سن کر وہ نمائندہ کہنے لگا کہ مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے.مجھے اب آپ سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں.تو ایک طرف تو یہ رویہ ہے اُس اکثریت کا جو مسلمان بھی نہیں ہے اور ایک طرف بعض مسلمانوں کا یہ رویہ کہ خوشی منارہے ہیں اور سبحان اللہ پڑھ رہے ہیں.ٹھیک ہے آج یہ سبحان اللہ استہزاء کے رنگ میں اور اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑ کانے کے لئے پڑھ رہے ہیں تو پڑھیں لیکن انشاء اللہ جلد ہی اس سے بہتر اور خوبصورت تعمیر کر کے ہم حقیقی سبحان اللہ پڑھیں گے اور ماشاء اللہ بھی پڑھیں گے.جیسا کہ میں نے کہا آزمایا جانا تو اللہ تعالیٰ کی سنت ہے.یہ بھی کہا ابھی یہ تو نہیں پتا کہ اس کی وجہ
خطبات مسرور جلد 13 585 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء کیا بنی اور کس طرح یہ سب کچھ ہوا.اگر یہ کوئی سازش اور شرارت تھی تو ان باتوں سے جماعت کی ترقی نہیں رک سکتی.ہاں جیسا کہ میں نے کہا ہے انتظامیہ کو اپنی کمزوریاں دیکھنے اور ان پر غور کرنے کے لئے اس واقعہ کو ہوشیار کرنے والا ہونا چاہئے.جیسا کہ میں نے عید کے خطبے میں کہا تھا کہ نقصان پہنچانے اور آگیں بھڑ کانے کا مقصد جماعت کو یانبی کے مقاصد کو ختم کرنا ہوتا ہے اس میں تو یہ کامیاب نہیں ہو سکتے.اگر کسی کا بدارادہ تھا بھی تو اس سے معمولی نقصان تو ہو جاتا ہے.اگر کوئی معمولی نقصان پہنچتا ہے تو اللہ صبر کرنے والوں کو بشارت کا وعدہ بھی کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے سے ہی آپ کے خلاف سازشیں اور آگیں لگانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن کیا ہورہا ہے، کیا نتیجہ نکل رہا ہے.جماعت کی ترقی ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے.ایک آگ تو ظاہری آگ ہے لیکن ایک آگ انسان کے اندر کی حسد، کینہ اور بغض کی آگ بھی ہے.گو بظاہر تو ہماری مسجد سے متصل ایک حصے کو آگ لگی لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہمارا تو یہ نقصان انشاء اللہ تعالیٰ پورا ہو جائے گا اور انشاء اللہ ہم اللہ تعالیٰ کی بشارتوں سے حصہ بھی لینے والے ہوں گے اور یہ صبر اور دعا ہمیں اللہ تعالیٰ کی ٹھنڈک اور ٹھنڈی چھاؤں کی آغوش میں لے لے گا لیکن اس ظاہری آگ سے بھی مخالفین کی حسد کی آگیں بھی بھڑک رہی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا بہت سے لوگ آگ لگنے پر خوش ہیں لیکن پھر اس بارے میں افسوس کرنے لگ گئے کہ ان کی مسجد کیوں نہیں جلی، ان کا اتنا تھوڑا نقصان کیوں ہوا ہے، اس سے بہت زیادہ نقصان ہونا چاہئے تھا.گویا جو ظاہری آگ ہمارے خلاف بھڑکائی تھی وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین کو جلا رہی ہے حسد کی صورت میں، کینہ کی صورت میں بغض کی صورت میں.جماعت احمدیہ کے کام تو اُس وقت بھی نہیں رکے تھے جب آگ لگنے کا واقعہ ہو رہا تھا.لندن سے باہر یا یوکے(UK) سے باہر کی بات نہیں ہے بلکہ یہاں لندن میں ہم اپنے کام کئے جارہے تھے.بعض ہمارے ورکر پریشان ضرور تھے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا کہ افسوس تو نقصان پر ہوتا ہے، ایک فطری امر ہے لیکن افسوس سر پر سوار نہیں کر لیا جاتا.ایم ٹی اے کے انتظام کا ایک حصہ بھی یہیں ہے بلکہ بہت بڑا حصہ یہاں ہے.اُس دن راہِ ہدی کا لائیو پروگرام تھا تو پروگرام والوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب ایم ٹی اے سٹوڈیو تک ہماری پہنچ نہیں ہے اور پتا نہیں وہاں کیا حالات ہیں ، اُس میں جایا بھی نہیں جا سکتا اس لئے آج ریکارڈنگ دکھا دیں گے، ٹرانسمشن میں لائیو پروگرام نہیں کریں گے.جب مجھے پتا چلا تو میں نے کہا مسجد فضل سے لائیو پروگرام ہوگا.کوئی اس میں روک کی بات نہیں.اور ایسے فیصلے مجھ سے پوچھے بغیر ان کو
خطبات مسرور جلد 13 586 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء خود کرنے بھی نہیں چاہئیں.ان کو چاہئے تھا کہ فوراً مجھ سے پوچھتے کہ اس لائیو پروگرام کے لئے اب کیا کیا جائے.بند کرنے کا جو ان کا ارادہ تھا یا مایوسی تھی یا وہ فوری فیصلہ نہیں کر سکے تو اگر لائیو پروگرام نہ ہوتا تو یہ احمدیوں کو بھی اور دنیا کو بھی یہ پیغام دے رہے ہوتے کہ ہمارا سارا نظام اس واقعہ سے درہم برہم ہو گیا، جو نہیں ہوا.چنانچہ فوری طور پر مسجد فضل کے سٹوڈیو سے راہ ہدی کا لائیو پروگرام ہوا.لوگوں کی کالیں آئیں، ان کے جواب بھی دیئے گئے ، اس سے ان کی تسلی تشفی بھی ہوئی.تو ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ نقصان پر مایوس ہو کر بیٹھ جائیں یا اپنی جگہیں چھوڑ کر صرف تماشا دیکھنے کے لئے وہاں جا کر کھڑے ہو جا ئیں.بہت سارے لوگ یہاں کھڑے تھے حالانکہ ان کو اپنے اپنے کاموں پر جانا چاہئے تھا بلکہ فوری طور پر ہرممکن متبادل کوشش ہونی چاہئے تھی اور کرنی چاہئے اور پھر باقی اللہ تعالیٰ پر چھوڑ نا چاہئے.میر محمود احمد صاحب اُن دنوں میں یہاں تھے انہوں نے بتایا کہ جب ہجرت کے بعد ر بوہ آئے ہیں اور اس کی آبادکاری شروع ہوئی تو اس وقت جماعت کی مالی حالت بھی بہت کمز ور تھی اور ایک نیا شہر بنانے کا چیلنج تھا.جماعتی عمارات کی تعمیرات کرنی تھیں، مساجد بنائی تھیں.بہر حال ایک بیابان جگہ پر ایک شہر ہی بسانا تھا.سب کچھ نئے سرے سے تعمیر کرنا تھا.اُس وقت جب مسجد مبارک تیار ہوئی تو یہ مشہور ہو گیا کہ مسجد کی تعمیر صحیح طور پر نہیں ہوئی.غالباً چھت کے بارے میں یہ تھا کہ صحیح میٹیریل(material) استعمال نہیں ہوا اور یہ گر جائے گی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کے لئے تشریف لائے.آپ دروازے کے اندرکھڑے ہوئے، دیکھا اور پھر فرمایا کہ کہا یہ جارہا ہے کہ یہ گر سکتی ہے.اس کا جائزہ لیں.اگر تو یہ بات صحیح ہے کہ اتنی کمزور عمارت ہے یا چھت ہے کہ یہ گرسکتی ہے اور دوبارہ بنانی پڑے گی تو پھر ٹھیک ہے جہاں اور آزمائشیں ہیں ایک یہ بھی سہی.اس زمانے میں پارٹیشن کے بعد تو بڑی آزمائشیں تھیں.اس وقت جماعت کی مالی حالت کا اندازہ جن کو ہے وہی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ آج کے اور اُس وقت کے حالات میں بڑا فرق ہے.تو بہر حال ان باتوں سے ہمیں کبھی گھبراہٹ نہیں ہوئی اور نہ ہونی چاہئے.اگر یہ واقعہ بھی آزمائش ہے تو ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے اور پھر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ہم دعائیں کرتے ہوئے اس آزمائش سے بھی کامیاب گزریں گے.مالی لحاظ سے بھی اب جماعت پر اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل ہے.انشاء اللہ اس نقصان کی بہتر رنگ میں تلافی ہوگی.یہ نقصان چاہے کسی طرح بھی پہنچا ہے، کسی نے بھی پہنچایا ہے.ہماری نااہلی کی وجہ سے ہوا ہے، بے احتیاطی کی وجہ سے ہوا ہے یا حادثاتی طور پر یہ واقعہ ہوا ہے.جو بھی اس کی وجہ ہے، انشاء اللہ اس کو ہم نے ہی اللہ تعالیٰ کے
خطبات مسرور جلد 13 587 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء فضل سے دوبارہ خوبصورت شکل میں واپس لانا ہے.فی الحال مجھے اس کے لئے جماعت کو کسی علیحدہ تحریک کے لئے کہنے کی ضرورت نہیں.لیکن لوگوں نے بغیر کہے، از خود اس کے لئے رقم بھیجنی شروع کر دی ہے.بچوں نے خاص طور پر اس کے لئے چندہ دینا شروع کیا ہوا ہے.بغیر کہے خود بچے اپنی جو بگھیاں ہیں وہ پیش کر رہے ہیں بلکہ سالم بگھیاں ہی بھیج دی ہیں جن میں جتنے سکے جمع تھے سب دے دیئے.سات آٹھ سال کی ایک بچی نے اپنے باپ کو کہا جب اس نے تفصیل پوچھی کہ ان ہالوں میں تو ہم جا کے کھانا بھی کھایا کرتے تھے.کھیلتے بھی تھے، فنکشن بھی کرتے تھے تو ہمیں اس کو دوبارہ بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے.اس لئے میرے پاس جو پیسے جمع ہیں میں دیتی ہوں اور اپنی بگھی اٹھا کر لے آئی.یہ بچی کے جذبات ہیں.پس جب قوم کے بچے بھی ایسا عزم رکھتے ہوں تو پھر ان کو کون مایوس کر سکتا ہے، یہ معمولی نقصان کیا کہہ سکتے ہیں.پھر ہمارے اپنے ہمسائے ہیں وہ بھی اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.امیر صاحب نے بتایا کہ یہاں سکول کے ہیڈ ماسٹر کا پیغام آیا کہ سکول کے بچے اس عمارت کی دوبارہ تعمیر کے لئے کچھ رقم اکٹھی کر کے چندہ دینا چاہتے ہیں.یہ اعلیٰ اخلاق جو مسلمانوں کو دکھانے چاہئیں، یہ غیر مسلم دکھا رہے ہیں.چاہے ہم لیں یا نہ لیں بہر حال انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ہمیں ان کے جذبات کی قدر کرنی چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا کہ آگ کی شدت بہت زیادہ تھی.بعض لوہے کے گارڈر اور فریم اس طرح خچر مر ہو گئے ہیں جس طرح تنکوں کو مروڑا جاتا ہے.لیکن اس کے باوجود بعض دفاتر بیچ بھی گئے ہیں.ان کے ریکارڈ بھی محفوظ ہیں.وصیت کا دفتر ہے، قضا کا دفتر ہے یا اور دفاتر ہیں.اسی طرح ایم ٹی اے کا تمام حصہ بچ گیا.وہاں بڑا قیمتی سامان بھی تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب آج وہاں کام شروع بھی ہو گیا ہے.کیونکہ یہ حصہ ان بالوں کے بالکل ساتھ جڑا ہوا تھا اس لئے جب مجھے اطلاع ملی تو فکر بھی پیدا ہوئی بلکہ دعا بھی حقیقت میں اس کے لئے ہی شروع ہوئی، اس کے بعد ہی شروع ہوئی کیونکہ یہاں آگ پہنچنے کا مطلب تھا کہ اب اصل مسجد کی طرف بھی آگ بڑھ سکتی تھی.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ان کی لائبریری کو نقصان تو پہنچا ہے لیکن اس کا بھی ستر فیصد حصہ ہم نے دوسری جگہ محفوظ کر لیا ہوا تھا.اسی طرح لائبریری کا ٹرانسلیشن والا حصہ جو تھا وہ بھی تقریباً سو فیصد محفوظ ہے.میرے نزدیک جو بعض تفصیلی ٹیپوں (tapes) کا نقصان ہوا ہے جن میں دوروں وغیرہ کی تفصیلات تھیں وہ ایسا نقصان نہیں ہے جسے کہا جائے کہ ہماری تاریخ اس سے ضائع ہو گئی کیونکہ اس کے بھی چنیدہ حصے محفوظ ہیں.ایم ٹی اے کے حصے کا بچنا بھی ایک معجزہ ہی ہے کیونکہ ساتھ کی چھت کو جلا کر ہی آگ واپس ہوئی ہے یا بجھانے والوں کو اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 13 588 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء نے موقع دیا کہ وہ اس پر قابو پالیں.اسی طرح طاہر ہال اور مسجد کا حصہ بھی بالکل محفوظ رہا جیسا کہ میں نے بتا دیا.آپ دیکھ بھی رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جانی نقصان سے بھی محفوظ رکھا.ایک صاحب لائبریری میں بیٹھے ہوئے کام کر رہے تھے اور ان کو پتا نہیں چلا کہ باہر کیا ہو رہا ہے.کہتے ہیں اپنا کام ختم کر کے جب میں دروازہ کھول کے باہر نکلا تو ایک کالے دھوئیں کا بگولہ اندر داخل ہوا ہے.میں پریشان ہو گیا.باہر نکلا.بھاگنے کی کوشش کی تو اندھیرا اور بالکل کالا سیاہ دھو آں تھا.سب کچھ بند تھا اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور میر اسانس رکنا شروع ہو گیا.کہتے ہیں خیر مشکلوں سے اس وقت میں نے گلی کی دیوار کوٹولا اور اس کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کیا اور ساتھ ساتھ دعا بھی مانگتا جارہا تھا کیونکہ ہمت جواب دیتی جا رہی تھی ، دھوئیں کی وجہ سے سانس رک رہا تھا.یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا ہے کہ آگ تیرے غلاموں کی غلام ہے تو میں بھی غلام ہوں تو بچالے.کہتے ہیں اسی طرح دو تین مواقع ایسے آئے کہ جب لگتا تھا کہ نیچے گر جاؤں گا اور اگر چند سیکنڈ کے لئے بھی یہ نیچے گرتے تو تپش اتنی زیادہ تھی کہ جلا کے بالکل بھون کے رکھ دینا تھا.لیکن بہر حال ہمت کرتے ہوئے اس اندھیرے دھوئیں میں سے نکلتے چلے گئے اور باہر جب دروازے پر پہنچے ہیں، روشنی نظر آئی.کہتے ہیں جب میں نے گلی کی ہے اور صفائی کی ہے کو تو منہ میں سے بھی کلی کرنے سے اس طرح کالے رنگ کا پانی نکلا ہے جس طرح سیاہی بھری ہوتی ہے.تو یہ ان کا حال تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر انہیں بچا لیا.ان کے لئے تو یہ بھی بڑا معجزہ ہے.چند سیکنڈ کی دیر بھی ان کو جلا کے رکھ سکتی تھی.بہر حال اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا ہے.حاسدوں کے حسد تو اور بڑھیں گے اس لئے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دیں.رَبِّ كُلُّ شَيئ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِئ وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِی کی دعا اور اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ کی دعا پڑھیں اور رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وقِنَا عَذَابَ النَّار کی دعا پڑھنی چاہئے.اگر یہ واقعہ میں ہماری نا اہلی اور کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے تو استغفار بھی بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ہمیں اپنی ذمہ داریاں صحیح رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کمزوریوں کو دور فرمائے.اور اگر یہ آزمائش ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سے بھی کامیابی سے گزارے اور اپنے انعامات پہلے سے بڑھ کر عطا فرمائے اور ان صابرین میں ہمارا شمار فرمائے جن کو خوشخبریاں عطا فرماتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر ہم ترقیات دیکھیں.نماز کے بعد میں کچھ غائب جنازے پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ جو ہے وہ مکرم چوہدری محمود احمد
خطبات مسرور جلد 13 589 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء صاحب مبشر مرحوم درویش قادیان کا ہے جو حضرت چوہدری غلام محمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے.18 ستمبر کو تقریباً 97 سال کی عمر میں قادیان میں ان کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُون.سرگودھا کے رہنے والے تھے.پھر یہ 1934ء میں قادیان مدرسہ احمدیہ میں آئے.194ء میں فوج میں بھرتی ہوئے.وہاں سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد انہوں نے زندگی وقف کی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان آگئے اور قادیان میں آپ مختلف ادارہ جات میں کام کرتے رہے.قائمقام آڈیٹر اور نائب آڈیٹر کی خدمت بجالاتے رہے.شاہجہاں پور میں انجمن کے مختار عام کے طور پر بھی کام کیا.قادیان کے دفتر جائیداد میں زمینوں کی نگرانی بھی کرتے رہے.خدمت کی ان کو کافی توفیق ملی.قاضی سلسلہ بھی تھے.دفتر دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت میں بھی خدمت کرتے رہے اور پھر وہیں سے یہ انجمن کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے.شاعری بھی کیا کرتے تھے.لوگوں کے جذبات کا اپنے شعروں میں اظہار کرتے تھے.بڑے ہنس مکھ اور ملنسار تھے.مہمان نوازی کا بڑا شوق تھا.قادیان میں غیر مسلم طبقے میں اپنے حسن معاشرت کی وجہ سے بہت مقبول تھے.کافی تعداد میں ان کے جنازے میں غیر مسلم بھی شامل ہوئے ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائی تھیں.دو بیٹے قادیان میں ہیں جبکہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں پاکستان میں ہیں.جو بھی مہمان قادیان آتا اس کی بڑی خدمت کرتے چاہے واقف ہو یا نا واقف ہو.درویشی کا عرصہ بھی انہوں نے بڑے صبر اور حوصلے سے گزارا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی اولا د کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے.دوسرا جنازہ مکرم خالد سلیم عباس ابوراجی صاحب ( سیر یا ) کا ہے جن کی 27 راگست 2015ء کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات ہوئی.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.آپ سیریا کے پرانے مخلص احمدیوں میں شامل تھے.منیر الحصنی صاحب کی تبلیغ کے نتیجہ میں 1927ء میں آپ نے احمدیت کو قبول کیا.صوم وصلوٰۃ کے بڑے پابند، سادہ مزاج، نہایت صاف گو، مہمان نواز، محنتی، دیانتدار، اطاعت گزار، نیک اور مخلص انسان تھے.پیشے کے لحاظ سے نجار تھے.خلافت کے عاشق تھے.نظام جماعت اور مربیان کرام کا بہت احترام کرتے تھے.ہر ایک سے عزت اور محبت سے پیش آتے تھے.نماز جمعہ کی ادائیگی میں بہت با قاعدہ تھے اور باوجود اس کے کہ ان کا گھر جمعہ پر آنے والوں میں سب سے دُور تھا پھر بھی بالعموم سب سے پہلے آیا کرتے تھے اور اذان دینے کا ان کو بہت شوق تھا.عمر رسیدہ ہونے کے باوجود
590 خطبات مسرور جلد 13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 اکتوبر 2015ء بڑے جوان ہمت تھے اور خود چل کر پرانے احمدیوں سے ملنے جایا کرتے تھے.خطبات اور خطابات با قاعدگی سے سنتے ، لوگوں تک پہنچاتے.آخر دم تک اپنے عہد بیعت کو نبھایا.اور اخلاص و وفا کے ساتھ نبھا یا.جلسہ سالا نہ ربوہ اور یو کے میں بھی شامل ہو چکے ہیں.تمام مربیان جو بھی ان کے ساتھ رہے، اور جو لوگ بھی رہے انہوں نے ان کے غیر معمولی اخلاص اور مربیان سے حسن سلوک کی بڑی تعریف کی ہے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.ان کی شاید صرف ایک بیٹی احمدی ہے باقی بچے احمدی نہیں.اس بات کا ان کو بڑا افسوس تھا.اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی دعاؤں اور نیک خواہشات کو ان کی اولاد کے حق میں پورا فرمائے.ان کے احمدیت قبول کرنے کا واقعہ بھی اسی طرح ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص ایک مولوی کے ساتھ بحث کر رہا ہے.اس کو اللہ اور رسول کا واسطہ دے کر کچھ بتا رہا ہے اور مولوی اس کو کافر کافر کہے جا رہا ہے.آخر پتا لگا کہ جس کو کا فر کہا جارہا ہے وہ شخص احمدی تھا تو ان کو یہ خیال آیا کہ ایک شخص اللہ اور رسول کی بات کر رہا ہے اور اس کو یہ کا فر کہہ رہا ہے تو اس بات سے پھر انہوں نے آخر اسی سے رابطہ کر کے جماعت کے بارے میں معلومات لیں اور پھر آہستہ آہستہ علم حاصل کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.اس وقت تیسرا جنازہ ایک سیرین احمدی دوست کا ہی ہے.ان کا نام مکرم احمد الرحال صاحب تھا.آجکل جو وہاں جنگی حالات ہیں اس میں ان کو بم کے ٹکڑے لگے جس کی وجہ سے شہید ہو گئے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.اور سیریا کے حالات کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ وہاں بھی بہتری پیدا فرمائے.تمام مسلمان ممالک کو ہی عقل اور سمجھ دے اور وہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کی بجائے حقیقی مسلمان بنیں اور آپس میں رحم ان میں پیدا ہو اور زمانے کے امام کو ماننے کی اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 اکتوبر 2015 ء تا 29 اکتوبر 2015 ، جلد 22 شماره 43 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 591 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 09 اکتوبر 2015 ء بمطابق 09ا خاء 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت النور بن سپیٹ ، ہالینڈ تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہاں احمدیوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو پیدائشی احمدی ہیں یا وہ لوگ جن کے گھر میں انتہائی بچپن میں احمدیت آئی اور ان کی پروان احمدی ماحول میں چڑھی اور ان میں سے بھی اکثریت پاکستانیوں کی ہے جن کو اس ملک میں اس لئے رہنے اور یہاں کا شہری بننے کی اجازت ملی کہ آپ نے یہاں آکر اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان میں آپ کو آزادانہ طور پر اپنے مذہب کے مطابق، اسلامی تعلیمات کے مطابق اظہار اور عمل کی اجازت نہیں تھی یا نہیں ہے.کچھ ایسے بھی ہوں گے جن پر براہ راست مقدمات بھی بنے ہوں.پس اس اکثریت کو یہاں رہنے کی اجازت یا یہاں کی حکومت کی شفقت اس وجہ سے ہے کہ آپ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں.پس یہ احمدی ہونے کا اعلان آپ پر کچھ ذمہ داری ڈالتا ہے اور اس ذمہ داری سے وہ احمدی بھی باہر نہیں ہیں جو اپنی تعلیمی یا کسی اور قسم کی ماہرانہ صلاحیت کی وجہ سے اس ملک میں آئے اور یہاں آ کر اپنی تعلیمی صلاحیتوں اور مہارت کو مزید نکھارنے کے موقع ملے اور اپنے آپ کو جماعت احمدیہ سے منسوب بھی کرتے ہیں.اسی طرح نو مبائعین ہیں وہ جب بیعت کرتے ہیں اور جماعت میں اس لئے شامل ہوتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کی سچائی پر انہیں یقین ہے تو بیعت کے بعد ان پر بھی اس بیعت کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.خدا تعالیٰ ان کو بھی اس وجہ سے اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کر دے گا کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم نے پیدائشی احمدیوں کو یا پرانے احمدیوں کو جس طرح کرتے دیکھا اس طرح کیا.
خطبات مسرور جلد 13 592 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء اس زمانے میں ہماری تربیت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قرآن وسنت کے بارے میں تفسیروں، تشریحات کو ، تحریرات کو سمجھنا بھی ضروری ہے.ان کو دیکھنا اور پڑھنا ضروری ہے اور یہ چیز میں ہمارے سامنے موجود ہیں.پس کسی کے لئے بھی کوئی عذر نہیں ہے.لیکن پرانے احمدیوں کو میں یہ بھی کہوں گا کہ آپ کے نمونے دیکھ کر اگر کسی کو ٹھو کرلگتی ہے تو آپ اس غلطی اور گناہ میں حصہ دار ضرور بنتے ہیں.پس پرانے احمدی جن پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ ان کے باپ دادا احمدی ہوئے یا انہیں بچپن میں ہی احمدیت مل گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے یہاں آ کر انہیں بہتر حالات میسر آئے انہیں بھولنا نہیں چاہئے کہ وہ جماعت کے زیرا احسان ہیں اور اس احسان کے شکرانے کے طور پر انہیں اپنی حالتوں میں غیر معمولی پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنی اولادوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے اس احسان کے بارے میں بتاتے رہنا چاہئے اور یہ بھی کہ ان کی کیا ذمہ داری ہے اور یہ کہ آپ کے باپ دادا نے جماعت میں شامل ہو کر جو عہد بیعت کیا تھا اسے کس طرح ہم نے ہر وقت سامنے رکھتے ہوئے نبھانے کی کوشش کرتے رہنا ہے.یہاں آ کر معاشی بہتری جو پیدا ہوئی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتے ہوئے ہم نے اپنی نسلوں میں بھی اس تعلیم کو جاری رکھنا ہے.بچوں کو بتانا ہے کہ تمہیں اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو بہتر طور پر نکھارنے کے جو مواقع ملے ہیں اس پر خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے ہوئے ہمیشہ نظام جماعت سے مضبوط تعلق رکھنا ہے.خلافت احمدیہ سے ہمیشہ وفا اور اطاعت کا تعلق رکھنا ہے.نظام جماعت اور خلافت سے وفا اور اطاعت کا تعلق اسی طرح ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو احمدیت کی طرف منسوب کرتا ہے تو ہمیشہ نظام جماعت سے مضبوط تعلق رکھے اور خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کا تعلق رکھنا اس پر فرض ہے کیونکہ یہی بیعت کرتے ہوئے عہد کیا تھا.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ نئے شامل ہونے والے، خاص طور پر وہ جنہوں نے پورے یقین کے ساتھ علی وجہ البصیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو سمجھ کر قبول کیا وہ اپنے عہد بیعت اور اس کی شرائط پر غور بھی کرتے رہتے ہیں.بہت سارے لوگ مجھے خطوط بھی لکھتے رہتے ہیں.لیکن بہت سے وہ جو پیدائشی احمدی ہیں یا جن کے ماں باپ نے ان کے بچپن میں احمدیت کو قبول کیا اور جو یہاں آکر دنیاوی معاملات میں زیادہ لگ گئے ہیں وہ نہ ہی عموماً شرائط بیعت پر غور کرتے ہیں ، نہ بیعت
خطبات مسرور جلد 13 593 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء کے عہد کو سمجھتے ہیں، نہ احمدیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد رکھتے ہیں.باوجود اس کے کہ اب تو ہر جگہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بیعت کی کارروائی بھی دیکھی جاتی ہے اور سنی جاتی ہے اس طرف توجہ کر کے بیعت کی حقیقت کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے.اسی طرح خلافت سے اپنے تعلق کو اس طرح جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے جو اس کا حق ہے.اس میں صرف ان ملکوں میں اسائلم لے کر آنے والے ہی نہیں ہیں بلکہ ہر قسم کے احمدی ہیں.میں نے اسائلم والوں کی مثال اس لئے دی ہے کہ اس وقت میرے سامنے اکثریت اسائلم والوں کی بیٹھی ہے اور آج ان کی بہتر حالت جماعت کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ ایسے لوگ ہر جگہ اور ہر طبقے میں موجود ہیں.پس ہر ایک جب اپنا جائزہ لے گا تو خود بخو دا سے پتا چل جائے گا کہ وہ کہاں کھڑا ہے.اس وقت میں اس جائزے کے لئے صرف ایک شرط بیعت سامنے رکھتا ہوں.اس کو صرف سرسری طور پر نہ دیکھیں بلکہ غور کریں اور پھر اپنا جائزہ لیں.اگر تو اس جائزے کا جواب اثبات میں ہے، ہاں میں ہے تو وہ خوش قسمت ہیں اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہیں.اگر کمزوری ہے تو اصلاح کی کوشش کریں.بیعت کی دسویں شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے.اس کے الفاظ یہ ہیں کہ یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض اللہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجے کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564) پس یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمیں آپ علیہ السلام سے بے غرض اور بے انتہا محبت اور تعلق قائم کرنے کی ذمہ داری ڈال رہے ہیں.آپ ہم سے عہد لے رہے ہیں.کیا عہد لے رہے ہیں؟ کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر مجھ سے محبت تعلق اور بھائی چارے کے اعلیٰ معیار قائم کرو.یہ عہد لے رہے ہیں کہ یہ اقرار کرو کہ آپ کے ہر معروف فیصلے کو مانوں گا.یعنی ہر وہ بات جس کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو مامور فرمایا ہے.ہر وہ بات جس کی اسلام کی تعلیم کی روشنی میں آپ ہمیں ہدایت فرمائیں گے.اور پھر صرف اس کا ماننا ہی نہیں ہے، اس کی کامل اطاعت ہی نہیں ہے بلکہ مرتے دم تک اس پر قائم رہنے کی کوشش کروں گا اور عمل کروں گا.اور یہ عہد بھی کہ جو تعلق اور محبت کا رشتہ قائم ہو گا اس کا معیار ایسا اعلیٰ درجے کا ہوگا کہ جس کی مثال دنیوی رشتوں اور تعلقوں میں نہ ملتی ہوگی.نہ ہی اس تعلق کی مثال اس حالت میں ملتی ہوگی جب انسان کسی سے وفا کی وجہ
خطبات مسرور جلد 13 594 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء سے خالص ہو کر تعلق رکھتا ہے.نہ اس کی مثال اس صورت میں ملے جب انسان کسی کے زیر احسان ہو کر اپنے آپ کو اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے.پس اس دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اعلیٰ معیار کی محبت اگر کسی سے ہوسکتی ہے تو وہ آپ کے غلام صادق سے ہو.پس یہ معیار ہیں جو ہمیں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے بعد آپ سے تعلق کیسا ہونا چاہیئے ؟ ان باتوں کی روشنی میں ہر ایک اپنا جائزہ خود لے سکتا ہے کہ کیا ہمارے یہ معیار ہیں؟ یا جب دنیاوی معاملات ہمارے سامنے ہوں ، دنیاوی منفعتیں ہمارے سامنے ہوں ، دنیاوی فوائد ہمارے سامنے ہوں تو ہم یہ باتیں بھول جاتے ہیں ، دنیاوی تعلقات اور دنیاوی اغراض اس محبت کے تعلق اور اطاعت پر حاوی ہو جاتے ہیں؟ انسان کسی بھی کام کو یا تو اپنے فائدے اور مفاد کے لئے کرتا ہے یا اگر مرضی کا کام نہیں ہے تو بعض دفعہ بلکہ اکثر دفعہ خوف کی وجہ سے بھی کرتا ہے کہ مجبوری ہے.نہ کیا تو پوچھا بھی جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ سزا بھی مل جائے.یا محبت اور اخلاص اور وفا کے جذبے کے تحت کرتا ہے.اگر دین کا صحیح فہم و ادراک ہو تو دین کے کام انسان محبت اور اخلاص و وفا کے جذبے کے تحت ہی کرے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے یہ توقع رکھی ہے کہ آپ کی بیعت میں آ کر اس جذبے کو بڑھائیں.جب تک یہ اطاعت اور خلوص کا جذبہ اور اخلاص کا تعلق اگر پیدا نہیں ہوگا تو جو نصائح کی جاتی ہیں ان کا بھی اثر نہیں ہو گا.ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی نہیں ہوگی.پس اگر نصائح پر عمل کرنا ہے، آپ کی باتوں کو ماننا ہے، اپنے عہد بیعت کو نبھانا ہے تو اپنے اطاعت اور اخلاص اور وفا کے معیاروں کو بھی بڑھانا ضروری ہے.کیا کوئی احمدی کبھی یہ تصور کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی بات قرآن وسنت کے منافی کی ہوگی ؟ یقینا نہیں.پس جب نہیں تو پھر ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ معروف اطاعت کا مطلب ہے کہ محبت و اخلاص کو انتہا پر پہنچا کر کامل اطاعت کرنا اور کامل اطاعت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جب جس کی اطاعت کی جارہی ہے اس کے ہر حکم کی تلاش اور جستجو بھی ہو.پس ہم پر فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے جو تو قعات رکھی ہیں، جو حکم دیئے ہیں ان کو تلاش کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں ورنہ تو صرف دعویٰ ہوگا کہ ہم ہر بات مانتے ہیں.باتوں کا ہمیں پتا ہی نہیں کہ کیا ہیں اور کس کو مانا جاتا ہے تو مانی کیا ہیں.پس احمدی ہونے کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اپنے علم میں اضافہ کیا
خطبات مسرور جلد 13 595 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء جائے.اللہ تعالیٰ کی خاطر جس تعلق کو قائم کیا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بڑھایا جائے اور خالص ہو کر اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو جو نصائح فرمائی ہیں، جماعت کے افراد سے جو تو قعات رکھی ہیں وہ آپ کی مختلف کتب اور ارشادات میں موجود ہیں.اس وقت ان میں سے چند ایک میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہئے کہ نری لفاظی پر نہ رہے“.ظاہر پر نہ رہیں ، صرف باتیں ہی نہ ہوں.’ بلکہ بیعت کے سچے منشا کو پورا کرنے والی ہو.سچا منشاء کیا ہے؟ فرمایا: ” اندرونی تبدیلی کرنی چاہئے.صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے.اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں.آپ نے فرمایا کہ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے بوجھ کو اٹھائے اور اپنے وعدے کو پورا کرے“." پس صرف اعتقادی طور پر اپنے آپ کو درست کر لینا، بیعت کر لینا ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو مان لینا، مسائل اور بحث میں دوسروں کے منہ بند کر دینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا اگر عملی تبدیلی نہیں ہے، عملی حالتیں اگر بہتر نہیں ہور ہیں.آپ نے فرمایا کہ اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو.( کوشش کرو ).نماز میں دعائیں مانگو.صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا (العنکبوت :70 ).میں شامل ہو جاؤ.( ملفوظات جلد 8 صفحہ 188 ) وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا کیا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ان کو کیا ہوتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا (العنکبوت :70) کہ ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے.اس کی ایک جگہ مزید وضاحت فرمائی.آپ نے فرمایا کہ ”بھلا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جو شخص نہایت لا پروائی سے ستی کر رہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفیض ہو جائے“.جوسستی کر رہا ہے وہ مستفیض نہیں ہوسکتا.فرمایا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ سستی کرنے والا خدا کے فیض سے مستفیض ہو جائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کو ڈھونڈتا ہے.( براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 566 حاشیہ نمبر 11 )
خطبات مسرور جلد 13 596 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء پس جب آپ ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ میری مانو اور میرے پیچھے چلو اور مجھ سے اطاعت کا تعلق رکھو تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈھنے کی راہیں ہمیں دکھا ئیں ، ہمیں بتائیں کہ تم کس طرح اللہ تعالیٰ کو پا سکتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے فیض سے ہمیں حصہ لینے والا بنا ئیں.اپنی نمازوں کو وقت پر اور صحیح رنگ میں ادا کرنے والے بنیں.اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے صدقہ و خیرات کی طرف بھی توجہ دیں.گویا کہ آپ سے تعلق اور اطاعت کا رشتہ ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھا رہا ہے.پھر آپ نے ایک جگہ یہ نصیحت فرمائی کہ تم دو باتوں کا خیال رکھو.پہلی بات یہ کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ اور دوسری بات یہ کہ اس کی یعنی اسلام کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلا ؤ.(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحه (323) تبلیغ کرو.یہ پیغام پہنچاؤ.جب ہمارا اپنا علم کمزور ہو گا، جب ہماری اپنی عملی حالتیں قابل فکر ہوں گی تو ہم سچے مسلمان کا کیا نمونہ بنیں گے؟ ہم اسلام کے پیغام اور اس کے کمالات کو دنیا کو کیا بتا ئیں گے اور پھیلائیں گے؟ پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ ہماری جماعت یہ غم گل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 35) ہمارا سب سے بڑا غم یہ ہونا چاہیئے.پس اس کے لئے کسی لمبی چوڑی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے.ہر ایک خود اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ دنیا کا غم اسے زیادہ ہے یا دین کی بہتری کا غم اور یہ غم نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی ہے یا نہیں ہے.خدا تعالیٰ کا خوف اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف توجہ ہے یا نہیں ہے.یا جب دنیاوی معاملات ہوں تو خدا تعالیٰ کی رضا پیچھے چلی جاتی ہے.آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ روز مرہ کے معاملات میں بھی ناجائز غضب اور غصے سے بچنا تقویٰ کی ایک شاخ ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 36 جولوگ ذرا ذراسی بات پر غصے میں آجاتے ہیں انہیں خود ہی اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے کہ وہ بھی تقوی سے دور ہو رہے ہیں.
خطبات مسرور جلد 13 597 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء یہ چند ایک نصائح میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں فرمائی ہیں.یہی باتیں ہیں جب ہم غور کریں تو ہمیں آپ علیہ السلام سے تعلق اور محبت میں یہ چیزیں بڑھاتی ہیں.کس طرح اور کس درد کے ساتھ آپ کو ہماری دنیا و عاقبت کی فکر ہے.ایک باپ سے زیادہ آپ ہمارے لئے فکر مند ہیں.ایک ماں سے زیادہ آپ ہمارے لئے بے چین ہیں.بار بار ہمیں نصیحت فرماتے ہیں اس لئے کہ کسی طرح ہمیں غلط راستوں سے نکال کر خدا تعالیٰ کی رضا کے راستوں پر ڈال دیں.اس فکر اور پیار کے اظہار کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہر احمدی کہلانے والا بھی آپ سے تعلق واطاعت کے اعلیٰ معیار نہ قائم کرے تا کہ اپنی دنیاو عاقبت سنوار سکے.پھر اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت کو ہم میں قائم کیا اور خلافت کے نظام نے بھی اسی کام کو آگے بڑھانا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سپر د اللہ تعالیٰ نے کیا تھا.اس حوالے سے خلافت کے ساتھ بھی اخلاص اور اطاعت کے تعلق کو جوڑ کر ہم اپنی منزلوں کی طرف سفر جاری رکھ سکتے ہیں.جو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا سچے مسلمان کا نمونہ بننا اور اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہے.خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بھی ہر احمدی عہد بیعت باندھتا ہے.پس اس عہد کو پورا کرنا بھی ضروری ہے اور اس کے لئے خلافت کی طرف سے جو ہدایات آتی ہیں، جو نصائح کی جاتی ہیں ، جو پروگرام دیئے جاتے ہیں ان پر عمل کر کے ہی اس عہد کو پورا کیا جا سکتا ہے.بیعت کے وقت ہر احمدی یہ عہد کرتا ہے کہ ان شرائط کی پابندی کرے گا جو بیعت کی شرائط ہیں اور خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ کریں گے اس کی پابندی کرے گا اور جیسا کہ میں نے کہا خلیفہ وقت کا کام بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام اور آپ کی نصائح کو آگے پھیلا نا ہے.اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے پہ پھیلانا ہے.پس جب ہر احمدی اس سوچ کے مطابق اپنے آپ کو بنائے گا تب ہی حقیقی اطاعت کے معیار قائم ہوں گے.تب ہی جماعت کی اکائی قائم ہوگی.تب ہی تبلیغ کے میدان کھلیں گے.اگر ہر ایک یہ کہہ کر کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق اخوت اور عقیدت ہے اور میں آپ کی اطاعت کرتا ہوں اپنے اپنے راستے متعین کرنے لگ جائے تو کبھی ترقی نہیں ہوسکتی.جماعت احمدیہ کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس میں نظام خلافت قائم ہے اور جو تعلق ہر احمدی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس وجہ سے ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہیں تو
خطبات مسرور جلد 13 598 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء اس تعلق کو آگے خلافت کے لئے بھی رکھنا ضروری ہے.پرسوں المیرے (Almere) میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے.وہاں جو میں نے مختصراً مسجد کے حوالے سے باتیں کیں.اسلام کی تعلیم ، مسجد کی اہمیت اور احمدیوں کی ذمہ داریوں کے متعلق بتایا تو اس پر ایک لوکل مہمان عورت نے اس بات کا اظہار کیا کہ خلیفہ کی باتیں تو بڑی اچھی ہیں لیکن اب دیکھتے ہیں کہ یہاں رہنے والے احمدی ان پر کس حد تک عمل کرتے ہیں اور امن اور پیار اور محبت کی فضا پیدا کرتے ہیں.پس لوگوں کی بھی آپ پر نظر ہے.اس لئے اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے.لوگ خلافت کے حوالے سے زیادہ نظر رکھیں گے.اس لئے صرف عہد بیعت کافی نہیں ہے.اپنی اصلاح کے لئے بھی اور تبلیغ کے لئے بھی عمل کی ضرورت ہے.ہر جگہ اور ہر سطح پر اپنی اکائی کو قائم رکھنے اور ایک ہاتھ پر اٹھنے اور بیٹھنے کے لئے خلافت کی اطاعت کی بھی ضرورت ہے.ایم ٹی اے کا اہم کردار اس زمانے میں احمدی خوش قسمت ہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے جدید سہولتیں اور ایجادات پیدا فرمائیں وہاں احمدیوں کو بھی ان سے نوازا.دین کی اشاعت کے لئے جماعت کو بھی یہ سہولت مہیا فرمائی.ٹی وی ، انٹرنیٹ اور ویب سائٹس وغیرہ پر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام آج موجود ہے جس پر ہم جب چاہیں پہنچ سکتے ہیں.مختلف بڑی زبانوں میں ان کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور سن بھی سکتے ہیں وہاں خلیفہ وقت کے نصائح اور خطابات بھی وہاں سن پڑھ سکتے ہیں جو قرآن، حدیث ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام پر ہی مشتمل ہوتے ہیں.اور انہی پر بنیاد ہے اس کی جو دنیا میں آج ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہر جگہ پہنچ رہا ہے.جس نے جماعت کو اکائی بننے کا ایک نیا انداز دیا ہے.پس آپ میں سے ہر ایک کو اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے اور اس کی ہر ایک کو ضرورت ہے کہ ایم ٹی اے سے اپنا تعلق جوڑیں تا کہ اس اکائی کا حصہ بن سکیں.ہر ہفتہ کم از کم خطبہ سننے کی طرف خاص توجہ دیں.ہر گھر اپنے گھروں کے جائزے لے کہ کیا گھر کے ہر فرد نے یہ سنا ہے یا نہیں.اگر بیوی سنتی ہے اور خاوند نہیں تو تب بھی فائدہ نہیں اگر باپ سنتا ہے اور ماں اور بچے نہیں سن رہے تب بھی کوئی فائدہ نہیں.یہ انتظام جو اللہ تعالیٰ نے ایک اکائی بننے کے لئے پیدا فرمایا ہے اس کے لئے ایک وقت میں دنیا کے ہر کونے میں خلیفہ وقت کی آواز پہنچ جاتی ہے اس کا حصہ بنے کی ہر احمدی کو ضرورت ہے.پس اس طرف توجہ کریں.اگر یہ پتا نہیں کہ کیا کہا جارہا ہے تو اطاعت کس طرح ہو گی.باتیں سنیں گے تو اطاعت
خطبات مسرور جلد 13 599 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء کے قابل ہوں گے.پس ان باتوں کی تلاش کریں جن کی اطاعت کرنی ہے ورنہ تو یہ صرف دعوی ہے اور صرف ظاہری اعلان ہے کہ آپ جو بھی معروف فیصلہ کریں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا یا عورت ہے تو ضروری سمجھوں گی.یا اجتماعوں پر کھڑے ہو کر یا بیعت کے وقت یہ اعلان کر دیں کہ خلافت احمدیہ کے استحکام کی ہم کوشش کرتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر گھر اس طرف توجہ دینے والا ہو اور اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لئے جو سہولت مہیا فرمائی ہے ہم اس سے بھر پور استفادہ کرنے والے ہوں.اور صرف تربیت ہی نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کو پھیلانے میں بھی یہ (MTA) بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے.اگر کسی وجہ سے لائیو نہیں بھی سن سکتے تو ریکارڈنگ سنی جاسکتی ہے.انٹرنیٹ پر یہ پروگرام موجود ہے.اور خاص طور پر اس میں خطبات اور بہت سارے اور بھی خاص خاص پروگرام ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ جہاں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص تعلق جوڑنے والے ہوں وہاں آپ کے بعد جاری نظام خلافت سے بھی پختہ تعلق ہو اور اطاعت کے نمونے دکھانے والے ہوں اور یہی تعلق اور اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے گزارتے ہوئے خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا اور اس کی رضا حاصل کرنے والا بناتی ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 49 مسند ابی هریرة حدیث نمبر 7330 عالم الكتب بيروت مطبوعه 1998ء) نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے مربی سلسلہ مکرم حافظ محمد اقبال وڑائچ صاحب کا ہے.آپ 2 را اکتوبر کو ایک حادثے میں 49 سال کی عمر میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُون - 2 اکتوبر کو یہ صبح اکیلے اپنے آبائی گاؤں چک پنیارا اپنے چچا کو ملنے کار پر جارہے تھے.بھلوال کے نزدیک ریلوے پھاٹک پر کر اس کرتے ہوئے انہوں نے شاید دیکھا نہیں ، ٹرین آئی اور ٹرین کی زد میں آگئے.کار گھسیٹتی چلی گئی.بہر حال ظاہری طور پر تو ان کو چوٹیں نہیں تھیں.پولیس بھی پہنچ گئی.پولیس نے ایمبولینس منگوائی یا گاڑی منگوائی اس میں بٹھا کر ہسپتال پہنچایا لیکن ہسپتال جا کر جانبر نہ ہو سکے.حافظ محمد اقبال صاحب کے دادا کا نام چوہدی فضل احمد صاحب تھا.آپ کے پڑدادا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے جن کا نام چوہدری اللہ بخش صاحب تھا.1901ء میں ان کے پڑدادا نے بیعت کی تھی.ان کے پڑدادا کا نام پہلے رسول بخش تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بدل کے اللہ بخش رکھ دیا تھا.ان
خطبات مسرور جلد 13 600 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 اکتوبر 2015ء کے والد چوہدری محمد ظفر اللہ وڑائچ صاحب بھی ریٹائرمنٹ کے بعد وقف کر کے بڑا لمبا عرصہ ربوہ میں مختلف دفاتر میں کام کرتے رہے.حافظ صاحب، مربی صاحب کی ابتدائی تعلیم ربوہ کی ہے.اس کے بعد آپ نے حفظ کیا.سکول کی تعلیم حاصل کی پھر جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اس کے علاوہ انہوں نے عربی فاضل اور اردو فاضل بھی کیا.مختلف جگہوں پر پاکستان میں تعینات رہے.اس وقت بطور سیکرٹری کفالت یکصد یتامی خدمت سر انجام دے رہے تھے.ان کے پانچ بچے ہیں.تین بیٹیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں.دو بچے ابھی چھوٹے ہیں.سترہ سال اور دس سال.ان کے بھائی مکرم طاہر مهدی امتیاز صاحب بھی مربی سلسلہ ہیں اور اس وقت ضیاء الاسلام پریس ربوہ کے مینجر ہیں لیکن الفضل پر جو پابندیاں لگی ہیں تو ان پر بھی مقدمہ قائم ہوا اور کافی مہینوں سے یہ جیل میں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے کیونکہ عدالتیں ہی بڑی بزدل ہیں.جج نے پہلے ضمانت دی اور پھر مولویوں کے ڈر سے کینسل کر دی.اللہ تعالیٰ ان کو بھی انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور معصوموں کو ، احمدیوں کو جو اندر بند کیا ہوا ہے اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے.سعد اللہ پور کے ایک صدر جماعت محبوب احمد راجیکی صاحب ہیں.یہ کہتے ہیں کہ 2003ء میں سعد اللہ پور میں جب جماعتی حالات بہت خراب ہوئے تو یہاں حافظ اقبال صاحب کی مربی کے طور پر پوسٹنگ ہوئی.انہوں نے غیر احمدی مخالفین سے تعلقات بڑھائے اور اس کی وجہ سے نہ صرف مخالفین مخالفت سے باز آئے بلکہ ایک بہت بڑے مخالف نے جو سر کردہ تھا احمدیت کی مخالفت پر معافی بھی مانگی.تو اس لحاظ سے بھی بڑے تعلق رکھنے والے اور اپنے تعلقات کو بڑھانے والے تھے.یہ اور بات ہے کہ پاکستان میں خوف کی وجہ سے ملاں کے خوف کی وجہ سے، معاشرے کے خوف کی وجہ سے بہت بڑا طبقہ باوجود اس کے کہ احمدیت کو پسند کرتا ہے یا کم از کم اس کے خلاف جو پروپیگینڈہ ہے اس کو غلط سمجھتا ہے لیکن کھل کر کہہ نہیں سکتا.بہر حال اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے علاقے میں ایسے سامان پیدا فرماتا رہتا ہے کہ جہاں لوگ کھل کر بھی بات کر جاتے ہیں.اس وقت جہاں کام کر رہے تھے ، جس دفتر میں خدمت سرانجام دے رہے تھے وہاں کے ایک کارکن مجید صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ حافظ صاحب جہاں جہاں بطور مربی سلسلہ رہے وہاں کے افراد سے وفات تک رابطے میں رہے.لوگ ان سے ملنے آتے رہے اور مشورے لیتے تھے.ان کی مدد بھی کیا کرتے تھے.ان کی یہ بھی بڑی خوبی تھی بڑی کوشش یہ ہوتی تھی کہ مرکز کا پیسہ صحیح جگہ خرچ ہو اور بیوگان کے مکان
خطبات مسرور جلد 13 601 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 109اکتوبر 2015ء بنانے کے لئے حتی الوسع جو کوشش ہو سکتی تھی کرتے تھے اور یہ بھی کوشش کہ کم پیسوں میں مکان بن جائیں.پھر بعض دفعہ جب تعمیر ہو رہی ہوتی تھی اور یہ وہاں پہنچے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ خود جا کر کام کرنے والوں کے ساتھ لگ جاتے تھے.لندن کے ہمارے رشین ڈیسک کے خالد صاحب کہتے ہیں کہ یہ ان کے کلاس فیلو تھے اور بڑے مہمان نواز اور مخلص تھے.کہتے ہیں ایک خاص بات جو میرے تجربے میں آئی وہ یہ کہ تبلیغ کا ان کو بہت شوق تھا اور ایک لگن تھی.وہ غالباً جب صادق آباد یا سعد اللہ پور میں متعین تھے تو وہاں ایک رشین کمپنی کسی پراجیکٹ پر کام کر رہی تھی.باوجود اس کے کہ رشین زبان سے نا آشنا تھے پھر بھی آپ ان کو تبلیغ کرتے تھے اور خالد صاحب نے کیونکہ رشیا میں رہ کر زبان سیکھی ہوئی ہے اس لئے جب یہ پاکستان گئے تو ان کے پیچھے پڑ کے آپ نے کچھ الفاظ سیکھے.پھر خود ہی انہوں نے رشین زبان کے کچھ الفاظ اردو رسم الخط میں اس لئے لکھے ہوئے تھے کہ تبلیغ کر سکیں.تو یہ ان کا تبلیغ کا جوش تھا.اللہ تعالیٰ سب مرتبیان کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ جیسے بھی ماحول ہوں اور حالات ہوں تبلیغ کے نئے نئے رستے تلاش کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ مرحوم حافظ صاحب سے مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے.ان کے درجات بلند فرمائے.ان کے بیوی بچوں کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں اپنانے کی توفیق دے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 30 اکتوبر 2015 ء تا05 نومبر 2015 ، جلد 22 شماره 44 صفحہ 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 13 602 42 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015 ء بمطابق 16 اخاء 1394 ہجری شمسی بمقام بیت العافیت ، فرینکفرٹ جرمنی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ دنوں میں ہالینڈ میں تھا.وہاں ایک جرنلسٹ، جور یجنل اخبار میں لکھنے والے ہیں اور نیشنل اخبار بھی ان سے آرٹیکل لیتے ہیں، مجھے کہنے لگے کہ کیا جماعت احمد یہ دنیا میں سب سے زیادہ بڑھنے والی جماعت ہے.میں نے انہیں کہا کہ اگر ایک بین الاقوامی جماعت کی حیثیت سے دیکھیں تو یقیناً جماعت احمد یہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی جماعت ہے اور اب تو یہ بات ہمارے غیر بھی مانتے ہیں جن کی جماعت پر نظر ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے اٹھنے والی آواز آج دنیا کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں گونج رہی ہے.اور پھر اس کی امتیازی شان اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے، زیادہ روشن ہو کر ابھرتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت جب ایک عام آدمی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ جماعت احمد یہ دنیا میں جانی جائے گی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے وثوق سے اپنی تحریرات اور اپنے ارشادات میں اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر یہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک وقت آئے گا کہ جماعت احمد یہ دنیا میں جانی جائے گی اور اس کا پھیلاؤ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا نشان ہو گا.چنانچہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو پھیلا رہا ہے اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اس سلسلہ کو دنیا میں پھیلائے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 176) بلکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ اس سلسلہ کو ایسا پھیلا دے گا کہ یہ سب پر غالب ہوں گئے اور فرمایا کہ اور آجکل کے موجودہ ابتلا سب دور ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ ہر ایک کام بتدریج ہو.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 176 حاشیہ)
خطبات مسرور جلد 13 603 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء آپ نے فرمایا کہ " کوئی درخت اتنی جلدی پھل نہیں لاتا جس قدر جلدی ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے.یہ خدا کا فعل ہے اور عجیب.یہ خدا کا نشان اور اعجاز ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 176) پس ہم تو اس ایمان پر قائم ہیں اور یقیناً ہر احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سچا ایمان رکھتا ہے اس بات پر قائم ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے صرف 125 سال پہلے ایک چھوٹے سے دور دراز علاقے سے اٹھی ہوئی آواز کو دنیا کے کونے کونے میں نہ صرف پھیلا دیا بلکہ مخلصین کی جماعتیں بھی قائم فرماتا چلا جا رہا ہے جو آپ سے اخلاص و وفا اور ایمان میں بڑھ رہی ہیں تو وہ خدا اپنے فضل.انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی یہ بات بھی پوری فرمائے گا کہ ابتلا دور ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ سب پر غالب ہوگا.آجکل ہم اس دور میں سے گزر رہے ہیں جب یہ سلسلہ دنیا میں پھیل رہا ہے اور یہ تدریجی ترقی دنیا کو اب نظر بھی آ رہی ہے تبھی تو اس جرنلسٹ نے مجھے پوچھا تھا کہ کیا یہ جماعت اب دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والی جماعت ہے.اور کئی اور جگہ بھی غیر یہ سوال کرتے ہیں اور اعتراف بھی کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ بڑی تیزی سے ترقی کرنے والی جماعت ہے.گوا بتلا بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں لیکن اگر دشمن کی نیت اور کوشش کو دیکھیں تو یہ ابتلا کچھ بھی نہیں اور پھر ہرا بتلا چاہے وہ احمدی پر احمدیت کی وجہ سے ذاتی ہو یا بعض جگہ پوری جماعت اس تکلیف میں سے یا ابتلا میں سے گزر رہی ہو تو ایسا ہر ابتلا پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور جلوے دکھاتا ہے.ہر احمدی جو پاکستان سے ان مغربی ممالک میں آیا ہے اگر اس کے اندر شکر گزاری کا احساس ہے تو اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ حالات کی وجہ سے اپنے ملک سے ہجرت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے کس قدر فضل فرمائے اور پھر صرف یہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے جو ر پورٹس آتی ہیں جن میں بیعتوں کا ذکر اور بیعت کرنے والوں کے واقعات ہوتے ہیں انہیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کہاں کہاں پہنچی ہوئی ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ تائیدات کے نظارے بھی کیسے کیسے دکھا رہا ہے.اگر یہ کسی انسان کا کام ہوتا ، انسان کی بنائی ہوئی جماعت ہوتی تو جتنی مخالفت جماعت کے قیام سے اور ابتدا سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہوئی ہے اور اب تک ہو رہی ہے اور آپ کے ماننے والوں کے ساتھ بھی ہر دن یہی سلوک دنیا میں مختلف جگہ ہورہا ہے، اس مخالفت کی وجہ سے یہ سلسلہ اب تک
خطبات مسرور جلد 13 " 66 604 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 186 ) ختم ہو جانا چاہئے تھا اور اس کے جھوٹ کا پول کھل جانا چاہئے تھا.لیکن یہ ختم ہونے کا سوال نہیں ہے، یہاں تو اللہ تعالیٰ ترقیات دکھا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک مجلس میں فرمایا کہ مخالفوں نے ہر طرح مخالفت کی مگر خدا نے ترقی دی.یہ سچائی کی دلیل ہے کہ دنیا ٹوٹ کر زور لگا دے اور حق پھیل جاوے فرمایا کہ اب ہمارے مقابل کو نسا دقیقہ مخالفت کا چھوڑا گیا مگر آخران کو ناکامی ہی ہوئی ہے.یہ خدا کا نشان ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا مخالفین زور لگاتے رہے اور لگا رہے ہیں مگر آج بھی مخالفین کا با وجود ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے، بڑے بڑے علماء کی ہمارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں کرنے کے بلکہ حکومتوں کی احمدیت کی مخالفت میں پرزور کاروائیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات ہی پوری ہو رہی ہے کہ مخالفین ناکام ہوئے اور یہ خدا کا نشان ہے.پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح نشان دکھاتا ہے، کس طرح پکڑ پکڑ کر لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں لاتا ہے تو حیرت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ایک دفعہ ذکر ہوا کہ لاہور سے ایک شخص کا خط آیا کہ اسے خواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت بتایا گیا ہے کہ آپ بچے ہیں.وہ ایک فقیر کا مرید تھا جودا تا گنج بخش کے مقبرے کے پاس رہا کرتا تھا.اس شخص نے اس فقیر سے ذکر کیا تو اس فقیر نے کہا کہ مرزا صاحب کی اتنے عرصے سے ترقی ہونا ان کی سچائی کی دلیل ہے.پھر ایک اور مست فقیر وہاں تھا.درباروں میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی وہاں آ گیا.اس نے کہا بابا ہمیں بھی پوچھ لینے دو.یعنی خدا تعالیٰ سے ہمیں بھی پوچھ لینے دو کہ سچائی کیا ہے؟ دوسرے دن اس نے بتلایا کہ خدا نے کہا کہ مرز ا مولیٰ ہے.پہلے فقیر نے اس پر کہا کہ مولانا کہا ہوگا.وہ تیرا اور میرا ہم جیسے سب کا مولیٰ ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ آجکل خواب اور رویا بہت ہوتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگوں کو خوابوں کے ذریعہ اطلاع دے.خدا تعالیٰ کے فرشتے اس طرح پھرتے ہیں جیسے آسمان میں ٹڈی ہوتی ہے.وہ دلوں میں ڈالتے پھرتے ہیں کہ مان لو، مان لو.پھر ایک اور شخص کا حال بیان کیا جس نے حضور علیہ السلام کے رد میں کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تو رد لکھتا ہے اور اصل میں مرزا صاحب سچے ہیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 188 )
خطبات مسرور جلد 13 605 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء خوابوں کے ذریعہ قبول احمدیت پس یہ خدا تعالیٰ کی رہنمائی ہے جو وہ سعید فطرت لوگوں کی کرتا ہے.آج جب تبلیغ کے وسائل اس وقت کی نسبت بہت زیادہ ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں تھے لیکن پھر بھی جو رہنمائی اللہ تعالیٰ لوگوں کی رؤیا اور خوابوں کے ذریعہ فرماتا ہے اس کا دلوں کو کھولنے میں بہت بڑا حصہ ہے.بیشک تبلیغ بھی اس پر اثر کرتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ چاہے لیکن اللہ تعالیٰ براہ راست رہنمائی کے سامان بھی کرتا ہے اور آج بھی بیشمار لوگ ہیں جن کی اس طرح رہنمائی ہوئی اور ہو رہی ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو مانتے ہیں، آپ کی بیعت میں شامل ہوتے ہیں.اس وقت میں گزشتہ سال میں ہونے والے بعض ایسے واقعات کی مثالیں پیش کرتا ہوں.بہت سارے واقعات میں سے چند ایک لئے ہیں جن کی خوابوں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی.حیرت ہوتی ہے ان لوگوں کی باتیں سن کر کہ قادیان سے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو ایسے علاقوں میں ہیں جہاں کسی طرح کا نظامِ رسل و رسائل اور مواصلات بھی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی فرما رہا ہے.ایک چھوٹا سا آئی لینڈ ہے ماریشس کے پاس مایوٹے (Mayote).وہاں مبلغ دورے پر گئے تو کہتے ہیں کہ ایک غیر احمدی دوست نے خواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا.کچھ عرصے بعد انہیں ایم ٹی اے دیکھنے کا موقع ملا تو ایم ٹی اے پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر فوراً کہنے لگے کہ یہی تو وہ بزرگ ہیں جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا.اس طرح ان کو یقین ہو گیا کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے.چنانچہ جب ان کو اس کے اور احمدیت کے بارے میں بتایا گیا تو وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے.اسی طرح گئی کنا کری افریقہ کا ایک اور دور دراز بالکل دوسری طرف ملک ہے.یہاں شہر میں ایک یو نیورسٹی کے طالبعلم سلیمان صاحب تھے.لمبے عرصہ سے زیر تبلیغ تھے لیکن بیعت نہیں کر رہے تھے.ایک دن وہ آئے اور کہا کہ اب میں مطمئن ہوں اور بیعت کرنا چاہتا ہوں.جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کس طرح مطمئن ہوئے تو انہوں نے اپنی خواب بیان کی کہ میں ایک کشتی میں سوار ہوں اور ہماری کشتی کے قریب ایک دوسری کشتی ڈوب رہی ہے اور اس کے مسافر ہمیں مدد کے لئے پکار رہے ہیں.ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور وہ ہماری کشتی میں سوار ہو جاتے ہیں.ہم جس میز کے گرد بیٹھے ہیں وہاں امام مہدی علیہ السلام
خطبات مسرور جلد 13 سکتا 606 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء بھی موجود ہیں.خواب میں یہ دیکھتے ہیں کہ ایک میز کے گرد بیٹھے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام موجود ہیں اور پینے کے لئے دودھ کا پیالہ دیتے ہیں.کہتے ہیں میں نے وہ پیالہ لیا اور خوب پیٹ بھر کر دودھ پیا جس کا ذائقہ نہایت عمدہ تھا.اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں سمجھ گیا کہ یہ زندگی بخش جام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کشتی میں سوار ہونے اور آپ کی بیعت کرنے کے نتیجہ میں ہی حاصل ہو ہے.چنانچہ انہوں نے بیعت کی.اسی طرح ایک ملک آئیوری کوسٹ ہے.یہاں کے ایک رہائشی اللسان (Alassane) صاحب ہیں.انہوں نے ایک خواب بیان کی کہ میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا مجمع ہے.میرا ایک ساتھی مجھے کہتا ہے کہ اس مجمع میں امام مہدی بھی ہیں.تجس کی وجہ سے میں امام مہدی سے ملنے کا ارادہ کرتا ہوں.میرا ساتھی مجھے کہتا ہے کہ امام مہدی سے ملنے سے پہلے احمدیت قبول کر لو.چنانچہ میں خواب میں ہی بیعت کر لیتا ہوں.اس کے بعد جب میں مجمع کے قریب ہوتا ہوں تو واقعی اس میں امام مہدی علیہ السلام کو دیکھتا ہوں کہ آپ تبلیغ کر رہے ہیں.اس خواب کے بعد اللسان تر اؤرے صاحب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.پھر ہندوستان، ساؤتھ انڈیا کا جو کیرالہ کا علاقہ ہے ، اس میں ایک نو مبائع دوست کو ایم ٹی اے اور خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.یہ لکھنے والے وہاں کے صدر جماعت ہیں.پانچ ماہ قبل جب انہوں نے رپورٹ بھیجی تو لکھتے ہیں کہ موصوف اپنے گھر میں کیبل کے ذریعہ ٹی وی دیکھا کرتے تھے.اچانک ان کو ایم ٹی اے دیکھنے کا موقع ملا.ان کی دلچسپی بڑھتی گئی.یہ دوست عبدالحمید صاحب تھے جو احمدی ہوئے.یہ طریقت مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور ایک پیر صاحب کی بیعت کی ہوئی تھی.کہتے ہیں ایم ٹی اے دیکھتے ہوئے ابھی ایک دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کر رہے ہیں.وہاں انہوں نے اپنے پیر صاحب کو بھی زیارت کرتے ہوئے دیکھا جو فوت ہو چکے ہیں.اس خواب کے بعد یہ کہتے ہیں کہ جماعت کا پتا کرتے ہوئے صدر جماعت کے پاس آئے.بیعت کے لئے اصرار کیا.انہوں نے مزید مطالعہ کا کہا.پھر امیر ضلع کے پاس گئے.انہوں نے بھی مزید مطالعہ کا کہا.پھر یہ قادیان بھی پہنچ گئے اور وہاں جا کے بیعت کر لی.اسی طرح تیونس جو نارتھ افریقہ کا ملک ہے، یہاں کے ایک دوست قادر صاحب ہیں.وہ کہتے ہیں کہ میں جماعت سے متاثر تو تھا لیکن بیعت کی طرف میرا دل نہیں جاتا تھا.تسلی نہیں تھی کہ بیعت کروں.کیوں؟ اس لئے کہ امام مہدی کو نبی کے طور پر ماننے کے لئے تیار نہیں تھا اور یہی چیز بنیادی چیز ہے.اگر
خطبات مسرور جلد 13 607 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء مسلمانوں کو خاص طور پہ یہ سمجھ آ جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ایک غیر شرعی نبی کا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی آپ نے جو کچھ پایا ہے وہ پایا ہے اور آپ کے طفیل آپ سے محبت اور پیار کی وجہ سے نبی آ سکتا ہے اور آپ کے طفیل اللہ تعالیٰ فضل فرما سکتا ہے اور مسیح نے جو آنا تھا وہ نبی کے مقام کے ساتھ ہی آنا تھا.تو بہر حال یہ ماننے کو تیار نہیں تھے.پھر کہتے ہیں میں نے فیصلہ کیا کہ اسی صورت میں بیعت کروں گا کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے بتا دے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہی امام مہدی ہیں.اس دوران کہتے ہیں میری گفتگو ایک احمدی دوست سے ہوئی تو اس نے مجھے ایک حدیث کا حوالہ دیا کہ جو امام مہدی کو پہچاننے کے باوجود بیعت نہیں کرے گا وہ جہالت کی موت مرے گا.تو کہتے ہیں کہ اس بات کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا.چنانچہ میں نے رات کو استخارہ کیا اور خواب میں دیکھا کہ میں قرآن کریم پڑھ رہا ہوں اور ایک ایسے مقام پر رکا جہاں لکھا تھا.اِنِّی أَنْصُرُكَ يَا أَحْمَد کہتے ہیں کہ یہ خواب دیکھ کے میں نے فوراً بیعت کر لی.پھر ایک اور ملک مالی ہے.وہاں کے مبلغ کہتے ہیں کہ یہاں کے ایک چھوٹے سے قصبے کے رہنے والے ایک معمر شخص کو لی بالی صاحب ہیں.بڑی عمر کے شخص تھے.دسمبر 2014ء میں انہیں بیعت کی توفیق ملی.وہ کہتے ہیں کہ 1964ء میں جب وہ آئیوری کوسٹ میں تھے انہوں نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ دوسفید رنگ کے آدمی ان کے پاس آتے ہیں جنہوں نے کہا کہ امام مہدی آ چکے ہیں ان کی بیعت کرو.اس خواب کے بعد وقت گزر گیا انہوں نے آرمی جوائن کر لی.خواب بھی بھول گئی.لیکن 2014ء میں ایک روز ریڈیو tune کر رہے تھے تو احمد یہ ریڈیومل گیا.وہاں ہمارے ریڈیو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی چل رہے ہیں.جب اس کو سننا شروع کیا اور امام مہدی کی آمد کا سنا تو کہتے ہیں میری دل کی کیفیت بدل گئی اور خواب بھی یاد آ گئی.وہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ وفات سے قبل ان کو امام مہدی کی بیعت میں آنے کی توفیق ملی جس کی اطلاع ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے پچاس سال پہلے دے دی گئی تھی.تو نیک فطرتوں کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا اور ایک عرصہ لمبا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی.پھر ایک اور ملک سوازی لینڈ ہے.وہاں ایک احمدی نوجوان طاہر صاحب ہیں.انہوں نے کچھ عرصہ قبل بیعت کی ہے.اس سال رمضان میں ستائیسویں کی رات خواب میں انہوں نے دیکھا کہ چاند اپنی پوری روشنی کے ساتھ چمک رہا ہے گویا کہ ایک دن کا سماں ہے.خواب میں ہی آواز آئی کہ یہ وہ روشنی
خطبات مسرور جلد 13 608 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء ہے جسے تم نے پالیا ہے.اسے مضبوطی سے پکڑے رکھو.یہ آہستہ آہستہ پورے سوازی لینڈ میں پھیل جائے گی.خواب میں مجھے سمجھایا گیا کہ اس روشنی سے مراد احمدیت ہے جو آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیل جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.اس خواب کے بعد اس نو احمدی کو غیر معمولی طور پر ثبات قدم عطا ہوا ہے.پھر مالی کا ایک اور واقعہ ہے.ایک جماعت ناندرے بوغو میں ایک بزرگ سعید صاحب ہیں.احمدیت کے بارے میں انہوں نے سنا تھا لیکن وہ احمدیت کے بارے میں اپنی تسلی کرنا چاہتے تھے.اس کے لئے انہوں نے چالیس راتوں کا چلہ کیا.وہ کہتے ہیں کہ اکیسویں رات انہوں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ساتھ مجھے بھی دیکھا کہ دونوں ان کے گھر میں آتے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ آسمان پر لے جاتے ہیں.وہ بیان کرتے ہیں یہ خواب دیکھ کر ان کی تسلی ہوگئی ہے اور انہوں نے احمدیت قبول کر لی.لوگ سمجھتے ہیں کہ افریقن لوگ یونہی احمدیت قبول کر لیتے ہیں لیکن چونکہ ان میں حق قبول کرنے کی جستجو ہے اس لئے سنتے ہیں اور پر کھتے ہیں.ڈھٹائی نہیں دکھاتے اور کیونکہ فطرت نیک ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی بھی فرماتا ہے.دین کے لئے ان کے دل میں ایک درد تھا.تبھی تو چالیس دن انہوں نے چلہ کرنے کا سوچا.مالی کے ہی ایک اور صاحب ماما الجوبا Mama Sajoba) ہیں.انہوں نے جماعت احمدیہ کے بارے میں سنا لیکن انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آیا جماعت سچی ہے یا نہیں.اس پر انہوں نے استخارہ کیا.استخارے کے تیسرے دن انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک کشتی میں سفر کر رہے ہیں.یہ کشتی عین پانی کے درمیان میں الٹ جاتی ہے اور تمام لوگ ڈوبنے لگتے ہیں.اتنے میں پانی سے ایک بچہ نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تم بچنا چاہتے ہو تو احمدیت قبول کر لو.اس پر انہوں نے خواب میں ہی احمدیت قبول کر لی جس سے وہ بچ جاتے ہیں جبکہ دیگر تمام افراد ڈوب جاتے ہیں.چنانچہ خواب کے بعد انہوں نے بیعت کر لی.پھر سیرالیون سے عبدل صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب تو احمدی تھے.(بعض دین سے دور ہٹے ہوؤں کو ، بگڑے ہوؤں کو بھی اللہ تعالیٰ والدین کی دعا کی وجہ سے یا اپنی اور نیکیوں کی وجہ سے بھی رہنمائی فرماتا ہے) کہتے ہیں میرے والد صاحب احمدی تھے لیکن میں بعض وجوہات کی بنا پر جماعت سے دُور ہوتا گیا اور تبلیغی جماعت میں شامل ہو کر تبلیغ کے لئے جانے لگ گیا.تبلیغی جماعت والے افریقہ میں بھی پاکستان سے بھی جاتے ہیں، ہندوستان سے بھی جاتے ہیں تو کہتے ہیں بہر حال مبلغ نے اور
خطبات مسرور جلد 13 609 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء میرے والد صاحب نے مجھے کافی سمجھا یا مگر مجھے کوئی اثر نہیں ہوا.یہ خود لکھتے ہیں کہ کچھ عرصے کے بعد ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑی اور خوبصورت تصویر آسمان پر ہے جو مسیح الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی ہے.اگلے ہی دن میں نے تبلیغی جماعت کو چھوڑا اور احمدیت اور حقیقی اسلام میں دوبارہ شامل ہو گیا اور الحمد للہ کہ سارے پروگراموں میں شریک ہوتا ہوں.خلیفہ اسیح کو خواب میں دکھائے جانے سے قبول احمدیت پھر اللہ تعالیٰ یہ بتانے کے لئے کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادے ہیں اور بھیجے ہوئے ہیں.مسیح اور مہدی ہیں.بلکہ آپ کے بعد جاری نظام خلافت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو جاری رکھنے والا ہے خلفاء کو بھی خواب میں دکھا کر رہنمائی فرما دیتا ہے.چنانچہ نائیجیریا سے ایک معلم لکھتے ہیں کہ محمد نامی ایک شخص نے اپنا خواب بیان کیا کہ وہ بحری جہاز پر سوار تھا.جب بحری جہاز سمندر کے وسط میں پہنچا تو اچانک طوفان آ گیا اور جہاز ڈوبنے لگ گیا اور زندگی کے آثار ختم ہونے لگے.اس وقت اچانک ایک انسان نے ہاتھ پھیلائے اور مجھے کنارے پر لے آیا.مجھے نہیں علم تھا کہ یہ خدا کا بندہ کون ہے.کچھ عرصے بعد اس محمد نامی شخص کا رابطہ ہمارے ایک داعی الی اللہ اور معلم سے ہوا.داعی الی اللہ نے اس شخص کو ایم ٹی اے دکھایا تو ایم ٹی اے پر جب اس نے میری شکل دیکھی تو یکدم کہنے لگا کہ یہی وہ خدا کا بندہ تھا جس نے مجھے بچایا تھا.چنانچہ وہ اپنے سارے خاندان کے ساتھ جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیا.اسی طرح سوڈان سے ( سوڈان کے لوگ مذہب کے معاملے میں بڑے کٹر ہیں) وہاں کے احمد صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں ڈاکٹر امیر صاحب ہیں انہوں نے فون کر کے انہیں بتایا کہ وہ بیعت کرنا چاہتے ہیں اور پھر اگلے روز جمعہ تھاوہ جمعہ پر آ گئے اور جمعہ ہمارے ساتھ ادا کیا.بیعت کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی اہلیہ نے اپنے میاں کو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ خواب میں دیکھا کہ حضور ان سے پوچھتے ہیں کہ ابھی تک آپ نے بیعت کیوں نہیں کی.اس پر انہوں نے ہاتھ بلند کئے اور کہا کہ میں بیعت کے لئے تیار ہوں.اسی طرح ان کی بیٹی نے بتایا کہ انہوں نے مجھے حضرت عمر بن عبد العزیز کے ساتھ دیکھا.کہتے ہیں اس سے امیر صاحب کو یقین ہو گیا کہ جماعت سچی ہے کیونکہ بیوی نے ایک خلیفہ کو دیکھا اور بیٹی نے دوسرے خلیفہ کو دیکھا تو یہ یقین ہو گیا کہ جماعت سچی ہے اور خلافت کا نظام سچا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 610 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء موصوف کا تعلق صوفی خاندان سے ہے.انہوں نے بتایا کہ وہاں کے ایک بزرگ مجذوب ابراہیم صاحب ہیں جن کی رؤیا و کشوف پورے ہوتے ہیں.ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے ان مجذوب کو فون کر کے جماعت کے بارے میں پوچھا کہ امام مہدی ظاہر ہو گئے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں وہ ظاہر ہوکر فوت بھی ہو گئے ہیں.آپ کو اس کی اطلاع نہیں ہوئی.اس پر ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ اس وقت امام مہدی کے پانچویں خلیفہ ہیں.کیا مجھے ان کی بیعت کرنی چاہئے تو مجذوب صاحب نے کہا کہ بیعت کرلیں.اس کے بعد جس طرح وہ واقعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہوا جو داتا گنج بخش کے پاس فقیر بیٹھے ہوئے ہیں.مجذوب ہیں اور وہ رہنمائی لے کے ایک شخص کو بتا رہے ہیں اسی طرح ان کو بھی 120 سال کے بعد رہنمائی اس ایک اور مجذوب سے ہو رہی ہے.کہتے ہیں اس کے بعد انہوں نے فون اپنی اہلیہ کو دیا اور انہوں نے مجذوب سے پوچھا کہ بیعت بہتر ہے یا راہ طریقت سے چمٹے رہنا.مجذوب نے کہا کہ جب انسان بیعت کر لیتا ہے تو خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا.اسی طرح بینن کا ایک واقعہ ہے.وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ کو تو نو شہر میں ایک سال قبل بیلو (Bello) نامی ایک نائیجیرین دوست کا روبار کے سلسلہ میں آئے.نماز پڑھنے کے لئے گھر سے نکلے تو محلے میں دو مساجد دیکھ کر اس سوچ میں پڑ گئے کہ کس مسجد میں جاؤں.چنانچہ یہاں اب اللہ تعالیٰ خواب کے ذریعہ سے مسجد دکھا کر ایک اور رہنمائی فرما رہا ہے.کہتے ہیں کہ وہ غیر احمدیوں کی مسجد میں گئے اور دوسرے جمعہ پر پھر وہ احمدیوں کی مسجد میں آگئے.کہتے ہیں پھر میں نے دونوں مسجدوں کے متعلق معلومات اکٹھی کرنی شروع کیں تو لوگوں نے احمدیوں کے متعلق برا بھلا کہا.لوگوں کی باتوں سے میں سوچ میں پڑ گیا کہ صفائی اور سلیقے کے لحاظ سے تو احمدیوں کی مسجد منظم ہے.مگر کہتے ہیں کہ احمدی اسلام کے خلاف ہیں.ان کا نبی اور ہے.لیکن مجھے سکون ان کی مسجد سے ہی ملا ہے.چنانچہ میں دعا میں لگ گیا کہ اے خدا! تو ہی میری مدداور رہنمائی کر.میں یہاں اس علاقے میں نیا ہوں.احمدیوں کی مسجد میں جا تا ہوں تو سکون ملتا ہے مگر لوگ کہتے ہیں کہ احمدی برے ہیں، کافر ہیں.دوسری مسجد میں دل نہیں لگتا.اس صورتحال میں گھر میں ہی نماز پڑھتا رہا.نہ ادھر جانا شروع کیا نہ اُدھر گیا.دونوں طرف ہی جانا چھوڑ دیا تو کہتے ہیں تین چار دن بعد مجھے خواب میں میرے گھر کے دو صابن دکھائے گئے.دو صابن پڑے تھے ایک نیلے رنگ کا صابن جو کہ جرمن صابن تھا جبکہ دوسرا لوکل صابن تھا.کہتے ہیں مجھے نیم بیداری میں تعبیر سمجھائی گئی کہ نیلے رنگ سے مراد نیلے رنگ کی صفیں ہیں.بیدار ہو کر میں نے سوچا کہ جمعہ والے دن احمدیوں کی مسجد میں تو
خطبات مسرور جلد 13 611 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء سرخ رنگ کا قالین تھا اور سبز صفیں تھیں.لیکن خواب دیکھنے کے بعد دوبارہ میں نے دونوں مساجد کا جائزہ لیا تو احمد یہ مسجد میں مجھے نیلے رنگ کی صفیں ملیں.پھر میں نے احمد یہ مسجد میں ہی نمازیں پڑھنی شروع کر دیں اور مزید دعاؤں میں لگا رہا.کہتے ہیں ایک دن خواب میں دیکھا کہ امام نے مجھے ایک کتاب دی ہے اور اس میں بہت ہی خوبصورت ایک تصویر ہے.چنانچہ اگلے جمعہ نماز کے بعد احمد یہ مسجد کے امام سے ملا اور کہا کہ میں اسلام احمدیت کے بارے میں پڑھنا چاہتا ہوں.میری اتنی سی بات سن کر کہتے ہیں کہ میں آپ کو ایک دو دن میں کتاب بھجوا دیتا ہوں.چنانچہ مجھے جو کتاب بھجوائی گئی بجائے اس کے کہ کوئی مسائل کی کتاب ہوتی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بارے میں کوئی کتاب ہوتی ، کوئی حدیثوں سے حوالے دیئے جاتے، انہوں نے جو کتاب بھیجوائی وہ World Crisis and the Pathway to Peace تھی.کہتے ہیں اسے میں نے کھولا تو پہلے صفحے پر وہی تصویر تھی جو میں نے خواب میں دیکھی تھی.کہتے ہیں اس سے میرا ایمان اور بڑھ گیا.پھر مجھے ایک مرتبہ قرآن کریم دکھایا گیا.جو قرآن میرے پاس گھر میں تھا وہ نہ تھا بلکہ ایک اور قرآن تھا.چند دن کے بعد وہ فرنیچ ترجمہ قرآن میں نے مسجد میں دیکھا جو خواب میں دکھا یا گیا تھا.( جماعت کا چھپا ہوا فرنچ ترجمہ وہ مسجد میں دیکھا.) اس طرح اللہ تعالیٰ میری رہنمائی کرتا گیا گویا کہ وہ خود میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے چلا رہا ہے.پھر موصوف کہتے ہیں کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے مجھے نیم خوابی کی حالت میں بتایا کہ دس احکام ہیں انہیں پڑھو اور پھر خواب میں ہی مجھے وہ دس احکام پڑھ کر سنائے گئے.مجھے ان کے الفاظ تو یاد نہ تھے مگر ہر ایک مضمون میرے دل میں راسخ ہوتا جارہا تھا گڑتا جارہا تھا.کہتے ہیں عین تین چار دن کے بعد میں مسجد کے مربی صاحب سے باتیں کرنے لگا اور ابھی اس طرف نہیں آیا تھا کہ کیسے بیعت کرنی ہے کہ مربی صاحب نے ایک ورق دیا کہ اسلام پر عمل کرنے کے لئے یہ دس شرائط ہیں ان کو پڑھو اور سمجھو.(یعنی جماعت احمدیہ کی اگر حقیقت معلوم کرنی ہے تو ) جب میں نے دس شرائط بیعت پڑھیں تو بہت رویا کہ میرے خدا نے کس طرح مجھے ہدایت دی ہے.چنانچہ میں نے بیعت کر لی اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور کہتے ہیں اب بیعت کے بعد تو ہر روز مجھے ایک نیا لطف آ رہا ہے اور مزہ آ رہا ہے.پھر مصر کے ایک صاحب ہیں.وہ کہتے ہیں میں نے 2004ء میں خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع " ایک جگہ آرام کر رہے ہیں.میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوں اور وہ مجھے دیکھ کر فرماتے ہیں کہ تمہیں اس معاملے میں تحقیق کرنی چاہئے.مجھے اس وقت سمجھ نہیں آئی اور کہتے ہیں میں نے
خطبات مسرور جلد 13 612 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء اس سے پہلے کبھی حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کو دیکھا بھی نہیں تھا.خواب کے چارسال بعد میں نے ایم ٹی اے دیکھا اور تحقیق کرنے لگا اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی.کہتے ہیں نومبر 2014ء میں میں نے بیعت کرنے سے پہلے خواب دیکھا کہ میں ایک مسجد میں داخل ہوا ہوں جو نمازیوں سے بھری ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلوہ نشین ہیں اور میری طرف دیکھ رہے ہیں.میں حضور کے قریب ہوتا ہوں اور ان کی جگہ پھر حضرت خلیفہ اول ہوتے ہیں.ایک آواز کہتی ہے کہ یہ ابو بکر صدیق ہیں.میں اور قریب ہوتا ہوں اور حضرت خلیفہ اسیح الاول کی جگہ خلیفہ اسیح الخامس ہوتے ہیں.آپ مجھے دیکھتے ہی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور میں بھی دعا میں شامل ہو جاتا ہوں.کہتے ہیں کہ میں نے اس خواب کی تعبیر یوں کی کہ دعاؤں کی قبولیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی اتباع کی برکت سے ہوتی ہے.پس یہ حق کو سمجھنے والے خوش قسمت لوگ ہیں.ان کے دل کی کیفیت دیکھ کر خدا تعالیٰ ان کی رہنمائی فرماتا رہا یا فرماتا ہے اور جیسا کہ بعض لوگوں کی خوابوں سے ظاہر ہے ایسے بھی لوگ ہیں کہ ان کی ایسی واضح رہنمائی فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور وہ جو اپنے آپ کو دین کا عالم سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی اس رہنمائی سے محروم رہ جاتے ہیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نو مبائعین کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ علیہ السلام نے ان نو مبائعین سے اظہار محبت کرتے ہوئے فرمایا کہ ”آپ بڑے خوش قسمت ہیں کہ جو بڑے بڑے مولوی تھے ان کے لئے خدا تعالیٰ نے دروازے بند کر دیئے اور آپ کے لئے کھول دیئے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 191) خدا تعالیٰ کا یہ آپ لوگوں پر بھی بڑا احسان ہے جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور جو جماعت احمد یہ کے ممبران ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.پس جیسا کہ میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یادرکھنا چاہئے اور اس کا شکر گزار ہونا چاہئے.ہوسکتا ہے آپ میں سے بھی بعض ایسے ہوں جن کے آباؤ اجداد، ان کے بزرگ دادا پڑ دادا اس مجلس میں شامل ہوں یا اس مجلس کے شاملین میں سے ہوں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے اور پھر آپ لوگوں کو ان بزرگوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یا درکھا اور اپنی نسلوں میں احمدیت کو جاری رکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت میں شامل ہونے والوں کے بارے میں فرمایا کرتے تھے
خطبات مسرور جلد 13 613 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء کہ ”ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو یہ سب کی سب ہمارے مخالفوں سے ہی نکل کر بنی ہے اور ہر روز جو بیعت کرتے ہیں یہ ان میں ہی سے آتے ہیں.ان میں صلاحیت اور سعادت نہ ہوتی تو یہ کس طرح نکل کر آتے.آپ نے فرمایا کہ ” بہت سے خطوط اس قسم کی بیعت کرنے والوں کے آتے ہیں کہ پہلے میں گالیاں دیا کرتا تھا مگر اب میں تو بہ کرتا ہوں مجھے معاف کیا جاوے“.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 125-126 ) آج بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے یہی مخالفت کے رویے تھے لیکن اب وہ اخلاص میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.بیعت کی اور بیعت کے بعد اخلاص و وفا میں بڑھے.چنانچہ مالی کے ایک مبلغ صاحب نے لکھا کہ ہمارے ایک ممبر جماعت سلیمان صاحب ہیں.بیعت کے بعد ان کی اہلیہ ان کے بھائی دیام تپیلے (Diam Tapily) کے پاس چلی گئیں اور عرض کیا کہ تمہارا بھائی اب مسلمان نہیں رہا.یہ مسلمان خاندان تھا.بیوی اپنے خاوند کے بھائی کے پاس گئی اور خاوند کے بھائی کو کہا کہ تمہارا بھائی احمدی ہو گیا ہے.اب مسلمان نہیں رہا.وہ احمدی ہو گیا ہے تم جا کر اس کو سمجھاؤ.اس پر ان کے بھائی کو بہت غصہ آیا.وہ سلیمان صاحب کے پاس آئے اور احمدیت چھوڑنے کو کہا اور کہا کہ اگر وہ احمدیت نہیں چھوڑیں گے تو پھر اس کا بھائی اور ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا حتی کہ تمہارا جنازہ بھی میں نہیں پڑھوں گا، احمدی ہی پڑھیں گے.لیکن سلیمان صاحب نے بھائی کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ثابت قدم رہے.ان کے مخالف بھائی نے بھی کچھ عرصہ بعد ریڈیو احمد یہ اس غرض سے سننا شروع کیا کہ احمدیت سے اپنے بھائی کو بچائیں گے.سنیں گے اور اس پر اعتراض کریں گے اور بچائیں گے.مگر کچھ عرصے بعد خودان کے مخالف بھائی کے دل کی حالت بدل گئی اور بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.اسی طرح ہندوستان سے ہمارے مربی اجمل صاحب لکھتے ہیں کہ اس سال 17 جون کو ( جب انہوں نے یہ تحریر لکھی ) صوبہ بنگال کے ضلع مرشد آباد کے ایک گاؤں میں ایک تبلیغی میٹنگ رکھی گئی.اس میٹنگ میں گاؤں کی غیر احمدی مسجد کی کمیٹی کے نگران اور مسجد کے مؤذن اور بعض دیگر پڑھے لکھے غیر احمدی احباب بھی شامل ہوئے.میٹنگ کے بعد مسجد کی کمیٹی کے نگران کہنے لگے کہ میرا بھتیجا احمدی ہے اور میں ہمیشہ احمدیوں سے نفرت کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ احمدی بے دین لوگ ہیں لیکن اب میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ احمدی ہی حقیقی مسلمان ہیں اور باقی سب اسلام سے کوسوں دور ہیں.بعد میں پھر اس گاؤں میں بارہ بیعتیں بھی ہو ئیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں جو وہ کر رہا ہے اور جماعت یہ نشانات دیکھ رہی ہے
خطبات مسرور جلد 13 614 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء اور یقینا یہ واقعات ہمارے ایمانوں کو مزید مضبوط کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ یہ خدا ہی کے سلسلہ میں برکت ہے کہ وہ 66 دشمنوں کے درمیان پرورش پاتا اور بڑھتا ہے.فرمایا کہ انہوں نے بڑے بڑے منصوبے کئے.خون تک کے مقدمے بنوائے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو باتیں ہوتی ہیں وہ ضائع نہیں ہو سکتیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے.اگر انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں کا نتیجہ ہوتا تو انسانی تدا بیر اور انسانی مقابلے اب تک اس کو نیست و نابود کر چکے ہوتے.انسانی منصوبوں کے سامنے اس کا بڑھنا اور ترقی کرنا ہی اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت ہے.پس جس قدر تم اپنی قوت یقین کو بڑھاؤ گے اسی قدر دل روشن ہوگا.جس قدر تم یعنی احمدی اپنی قوت یقین کو بڑھاؤ گے اسی قدر تمہارے دل روشن ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ یقیناً خدائی الفاظ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات لئے ہوئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن کے درمیان یہ سلسلہ پرورش پارہا ہے.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں فرمایا کہ دلوں کو روشن کرنے کے لئے قوت یقین کو بڑھانے کی ضرورت ہے اپنے ایمانوں کو مضبوط ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 257) کرنے کی ضرورت ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری قوت یقین بڑھ رہی ہے؟ کیا ہمارے دل روشن ہورہے ہیں؟ کیا ہماری دین کی طرف رغبت ہے؟ کیا ہم اسلامی احکامات پر عمل کر رہے ہیں؟ ہم اپنی روحانی اور عملی حالتوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ بہت سے واقعات لوگ جو نئے احمدی ہو رہے ہیں لکھتے ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد ہماری روحانی حالت کہاں سے کہاں پہنچ گئی.ہماری نمازوں کی کیا کیفیت ہو گئی ہے.ہماری عملی حالتوں میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی ہے.بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے بارے میں لکھتی ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد ان کے رویے یکسر بدل گئے ہیں.پہلے جہاں گھروں میں فساد فتنہ ،لڑائیاں جھگڑے ہوتے تھے، گھروں میں سکون اور امن پیدا ہو گیا ہے.دیکھیں کس طرح اور کس فکر کے ساتھ نئے شامل ہونے والے اپنے دین اور دینی حالت کے بارے میں سوچتے ہیں، فکر مند ہیں، تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں.یہی حالت ہم سب میں، ہر ایک میں پیدا ہونی چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ ہمیں اپنی دینی حالتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.
خطبات مسرور جلد 13 66 615 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا اُمید نہ ہو.مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا.یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں.ہمارا خدا عَلى كُلّ شَینی قدیر خدا ہے.قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو.اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو.قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو.نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بیشک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو.(اپنی جو دعائیں ہیں، جو ضروریات ہیں وہ اپنی زبان میں مانگو.سجدوں میں مانگو ) اس میں کوئی حرج نہیں ہے.اس سے نماز ہر گز ضائع نہیں ہوتی.فرمایا کہ آجکل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے.نمازیں کیا پڑھتے ہیں، ٹکریں مارتے ہیں.نماز تو بہت جلد جلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لیے بیٹھے رہتے ہیں“.( غیر احمدیوں میں یہی حال ہے لیکن ہمارے ہاں بعد میں دعا بھی نہیں ہوتی اور نمازیں بھی بعض لوگ میں نے دیکھا ہے بڑی تیزی سے پڑھ رہے ہوتے ہیں ) فرمایا کہ ”نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے.نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہوسکتا ہے.ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے ( جب بادشاہ کے دربار میں گئے وہاں تو کچھ نہ کہا ) لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے اسے کیا فائدہ.ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے.تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب اللہ عا کوملحوظ رکھو.فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی دعا کے آداب بھی بتا دیئے ہیں.سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے.چنانچہ اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے.( أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ وَلَا الضَّالِّينَ ) - فرمایا کہ ” یعنی دعا سے پہلے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی جاوے“ (اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ) جس سے اللہ تعالیٰ کے لیے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو.
خطبات مسرور جلد 13 616 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء اس لیے فرمایا.الحمد للہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں.رَبّ الْعَالَمِينَ.سب کو پیدا کرنے والا اور پالنے والا.اگر ممن.جو بلا عمل اور بن مانگے دینے والا ہے.الرحیم.پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے.فرمایا ملِكِ يَوْمِ الدِّين.ہر بدلہ اُسی کے ہاتھ میں ہے.نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے“.فرمایا ” پورا اور کامل موحد تب ہی ہوتا ہے انسان خدا تعالیٰ کی خدائے واحد کی پرستش کرنے والا تبھی ہوتا ہے) جب اللہ تعالیٰ کو ملِكِ يَوْمِ الدين تسلیم کرتا ہے.دیکھو اب کام کے سامنے جا کر ان کو سب کچھ تسلیم کر لینا یہ گناہ ہے ( تم دنیاوی حکام کے سامنے جاتے ہو، افسروں کے سامنے جاتے ہو تو ان کو سب کچھ سمجھ لینا یہ گناہ ہے ) اور اس سے شرک لازم آتا ہے.اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو حاکم بنایا ہے.(لیکن اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حاکم بنایا ہے ان سے کس طرح پیش آنا چاہئے ) ان کی اطاعت ضروری ہے ( جہاں تک حاکم کا سوال ہے ان کی اطاعت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حاکم بنایا ہے مگر ان کو خدا ہر گز نہ بناؤ“.( یہ نہ سمجھو کہ صرف وہی تمہارے کام کریں گے.بعض اپنے افسروں کے سامنے بھی اس طرح مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں خوشامد کر رہے ہوتے ہیں کہ جس طرح نعوذ باللہ وہ خدا ہوں ) فرمایا کہ انسان کا حق انسان کو اور خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو.پھر یہ کہو - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین.ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہم کو سیدھی راہ دکھا.یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیے اور وہ نبیوں، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے.اس دعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے.پھر فرمایا کہ ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے.غرض یہ مختصر طور پر سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ہے.اسی طرح پر سمجھ سمجھ کر ساری نماز کا ترجمہ پڑھ لو اور پھر اسی مطلب کو سمجھ کر نماز پڑھو.( یہ نماز پڑھنے کے آداب ہیں جنہیں سمجھنا چاہیئے لیکن بعض لوگ جو تیزی میں پڑھتے ہیں وہ کیا سمجھتے ہوں گے ) فرمایا کہ طرح طرح کے حرف رٹ لینے سے کچھ فائدہ نہیں.یہ یقیناً سمجھو کہ آدمی میں سچی توحید آ ہی نہیں سکتی جبتک وہ نماز کوطوطے کی طرح پڑھتا ہے.روح پر وہ اثر نہیں پڑتا اور ٹھو کر نہیں لگتی جو اس کو کمال کے درجہ تک پہنچاتی ہے“.فرمایا کہ ”عقیدہ بھی یہی رکھو کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ثانی اور بد نہیں ہے اور اپنے عمل سے بھی یہی ثابت کر کے دکھاؤ“.ا ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 257 تا 259) عقیدہ بھی یہ ہو.عمل بھی یہ ہو.قول و فعل ایک ہوں تب ہی انسان ایک صحیح مومن بن سکتا
خطبات مسرور جلد 13 617 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اکتوبر 2015ء ہے.) پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا اس تعلیم کے مطابق ہمارے عمل اور سوچیں ہیں.اگر نہیں تو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں بعد میں آنے والی قومیں ترقی کر کے ہم سے بہت آگے نہ نکل جائیں.اللہ تعالیٰ کے قرب کو پا کر اتنی دور نہ چلی جائیں کہ ہمیں جب احساس ہو کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں، ہماری نسلیں پیچھے رہ رہی ہیں تو پھر دہائیاں ان فاصلوں کو پورا کرنے میں لگ جائیں.نسلوں کو اگلی نسلوں کو سنوار نے میں وقت لگ جائے.یہ دیکھیں کہ کہیں اس دنیا میں ڈوب کر ہماری نسلیں بہت پیچھے نہ چلی جائیں.ان ملکوں میں آکر صرف دنیا داری کے پیچھے نہ پڑ جائیں.جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں وہ بہر حال ادا کر نے فرض ہیں.نمازیں جو ہیں بہر حال ادا کرنی ضروری ہیں اور سمجھ کر ادا کرنی ضروری ہیں.پس یہ نہ ہو کہ ہماری نسلیں بہت پیچھے چلی جائیں اور نئے آنے والے ان انعامات کے وارث بن کر جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اپنے مقام کو ہم سے بہت بلند کر لیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے، اس پر بہت کوشش کریں اور اس کو سمجھیں اور یہ سمجھنا اور اس پر کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے اور ان الفاظ پر بھی غور کریں کہ اپنی قوت یقین کو بڑھا ئیں اور دلوں کو روشن کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے پھر ان انعاموں کو حاصل کرنے والے بہنیں.یہ نہ ہو کہ پیچھے رہنے سے ان انعاموں سے محروم ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو تعلق قائم ہوا ہے یہ کوشش کریں وہ کبھی نہ ٹوٹے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں اور جماعت کا ایک فعال اور مضبوط حصہ بنیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ہمیشہ وارث بنتے چلے جائیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 06 نومبر 2015 ء تا 11 نومبر 2015 ء جلد 22 شماره 45 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 618 43 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 23 /اکتوبر 2015 ء بمطابق 23 راخاء 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: خلیفہ وقت کے دورہ جات میں تائید الہی کے نشانات یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ ہر سفر میں اپنی تائید و قدرت کے نشانات دکھاتا ہے.بعض دفعہ فکر ہوتی ہے کہ بعض جماعتیں بعض پروگرام بنانے میں تجربہ نہیں رکھتیں اور ایسے پروگرام بنا لیتی ہیں جو جماعت کے اپنے پروگرام نہیں ہوتے بلکہ غیروں کے ساتھ پروگرام ہوتے ہیں اور جو غیروں کے ساتھ پروگرام ہوں ان کو ظاہر ہے پہلے ان ذرائع کے ذریعہ سے جو غیروں کے ہیں مشتہر بھی کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ جماعت مخالف بعض شرارتی عصر پروگرام میں کوئی بدمزگی پیدا نہ کریں.پھر یہ بھی کہ اگر کسی لحاظ سے بھی پروگرام کم معیار کا ہو تو شماست اعداء کا باعث نہ بن جائے.بہر حال بہت سی فکریں پیدا ہوتی ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ اپنی تائید ونصرت کے نظارے دکھا تا ہے.ایسے نظارے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے وعدے ہر دفعہ ایک نیا رنگ دکھاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو غیروں کے اس طرح اظہار ہو رہے ہوتے ہیں اور وہ پروگرام کو اس طرح سراہتے ہیں کہ ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں، انتظام کرنے والےخود سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا واقعی ہم نے ایسا اچھا پروگرام کیا تھا جو غیر اس قدر تعریف کر رہے ہیں.پھر صرف ظاہری تعریف نہیں ہوتی بلکہ لگتا ہے کہ غیر لوگوں کے، مہمانوں کے، جو غیر مہمان آئے ہوتے ہیں ان کے جذبات دل سے نکل رہے ہیں.ان کی آنکھیں بتا رہی ہوتی ہیں، ان کے چہرے ظاہر کر رہے ہوتے
خطبات مسرور جلد 13 619 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں واقعی وہ ان کے دل کی آواز ہے اور یہ چیزیں دیکھ کر پھر انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات سے بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی اور پروگرام کامیاب ہوا.گزشتہ دنوں میں ہالینڈ اور جرمنی کے سفر پر تھا.جرمنی میں تو بڑی جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی منظم ہے اور وہاں جماعت کے افراد کے ہر طبقے سے تعلقات بھی ہیں.میڈیا بھی ان کو اچھی طرح جانتا ہے.بہت وسیع طور پر کوریج دیتا ہے.بعض اخبارات یا دوسرے میڈیا کے ذرائع جماعت کی ترقی دیکھ کے منفی خبریں بھی جماعت کے بارے میں لکھتے ہیں یا بعض سیاستدان جو عموماً ایشین نژاد ہیں اپنی سستی شہرت کے لئے وہاں جماعت کے خلاف مہم بھی وقتاً فوقتاً چلاتے رہتے ہیں.لیکن عموماً جرمن سیاستدان بھی اور پڑھا لکھا طبقہ بھی اور جرمن لوگ بھی جو کسی نہ کسی رنگ میں جماعت سے تعارف رکھتے ہیں جماعت کے لئے اچھے خیالات رکھتے ہیں اور اس وجہ سے اسلام کی بھی حقیقی تصویر انہیں مل رہی ہوتی ہے.پس یہ بھی اسلام اور احمدیت کے تعارف کا ایک ذریعہ ہے جو جرمنی میں مختلف پروگرام کر کے احمدی کروا رہے ہیں جو بعض دفعہ غیر جماعتی پروگرام بھی ہوتے ہیں، لیکن ہالینڈ میں تو جماعت بھی چھوٹی سی ہے اور اب تک اتنی فعّال کوشش بھی انہوں نے نہیں کی جس سے میڈیا کے ذریعہ ملک کے وسیع حصہ میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا تعارف ہوا ہو.پھر ممبران پارلیمنٹ سے بھی اور پڑھے لکھے طبقے سے اور ڈپلومیٹس وغیرہ سے بھی ان کے کوئی ایسے تعلقات نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ لوگ جماعت کو جانتے ہوں اور اسلام کی نمائندہ جماعت سمجھتے ہوں.لیکن اللہ تعالیٰ نے نن سپیٹ کا علاقہ جہاں ہمارا سینٹر ہے وہاں کے ایک ممبر پارلیمنٹ جن سے دو تین سال پہلے جماعت کا تعارف ہوا تھا اور وہ مجھے بھی ہالینڈ کے ایک جلسے میں مل چکے ہیں.ان کے ذریعہ سے بالینڈ کی پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک فنکشن کروانے کا اللہ تعالیٰ نے سامان کر دیا.یہ جو ممبر آف پارلیمنٹ ہیں ان دنوں میں ہالینڈ کی پارلیمنٹ کی جو فارن افیئرز کی کمیٹی ہے اس کے قائمقام چیئر مین بھی تھے یا اب بھی ہیں بہرحال ان کے ذریعہ سے فارن افیئر ز کمیٹی نے پارلیمنٹ ہاؤس کے ایک ہال میں ایک پروگرام کا انتظام کیا اور مجھے امیر صاحب نے لکھا کہ اس طرح انتظام ہو رہا ہے اور آپ وہاں آئیں.چنانچہ میں گیا.میرا خیال تھا کہ چند ایک لوگ ہوں گے.جماعت کا اتنا تعارف ملک میں نہیں ہے ، لوگ نہیں آئیں گے.پھر جماعت کو بھی اس قسم کے کام کرنے کا تجربہ نہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہالینڈ جماعت کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو میرے خیال میں ان کا کافی اچھا فنکشن ہو گیا.
خطبات مسرور جلد 13 620 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء اس تقریب میں 89 سر کردہ افراد شامل ہوئے جن میں ڈچ پارلیمنٹ کے ممبران کے علاوہ سپین ، آئرلینڈ، سویڈن، کروشیا ، مونٹی نیگرو، البانیا، فرانس، سوئٹزرلینڈ ، جیم ، جرمنی ، انڈیا، فلپائن، ڈنمارک اور سائپرس سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ، ایمبیسیڈرز اور بعض دوسرے سرکاری حکام اور نمائندگان شامل تھے.جیسا کہ میں نے کہا جرمنی کی جماعت کے اکثر جگہوں پر اچھی سطح کے لوگوں سے تعلقات ہیں لیکن ابھی تک وہ اس سطح کا پروگرام نہیں کروا سکے.وہاں ہمارے فنکشنز میں تو بیشک بڑے بڑے لوگ آتے ہیں اور ہماری خدمات کو سراہتے ہیں.اسلام کی تصویر جوحقیقی تصویر ہے اسے دیکھ کر وہ اظہار خیال کرتے ہیں لیکن وہاں ابھی تک کوئی ایسا پروگرام نہیں ہوا اور پروگرام نہ کرنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ جرمنی بڑا ملک ہے اور ہالینڈ اس کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا ملک ہے.بہر حال مجھے امید ہے کہ ہالینڈ کی جماعت نے اب جو قدم اٹھایا ہے اور تعلقات بنائے ہیں، اخبارات سے رابطے کئے ہیں، میڈیا سے رابطے کئے ہیں ، وہ اسے مزید آگے بڑھانے کی کوشش کرے گی اور اب تک جو کام انہوں نے کر دیا اس کو اپنی انتہا نہیں سمجھیں گے.وہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں جو فنکشن تھا وہاں میں نے اٹھارہ ہیں منٹ میں مختصراً اسلام کی تعلیم اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جو مسائل ہیں وہ بیان کئے.عموماً جہاں بھی میں اسلام کی تعلیم کے حوالے سے ، قرآن کریم کے حوالے سے کچھ کہوں لوگ سمجھتے ہیں اور اظہار بھی کر دیتے ہیں کہ ان کے سوالوں کے کافی جواب مل گئے ہیں لیکن یہاں اس فنکشن میں تین چار پارلیمنٹیرین جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے ، انہوں نے کہا کہ ہم نے اب سوال بھی کرنے ہیں.میں نے انہیں کہا ٹھیک ہے تسلی نہیں ہوئی تو کر لیں.اس پر انہوں نے بعض ایسے سوال کئے جو سوائے انہی باتوں کو دہرانے کے اور کچھ نہیں تھے.لگتا تھا کہ مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں یا کسی نہ کسی موقع پر کہوں کہ اسلام کی تعلیم غلط ہے نعوذ باللہ یا کوئی ایسی بات میرے منہ سے نکل جائے جس سے ان کو اسلام پر کچھ کہنے کا موقع مل جائے اور یہ بات دوسرے ممالک سے آئے ہوئے پارلیمنٹیرین نے بھی محسوس کی اور بعد میں اس کا اظہار بھی انہوں نے کیا کہ ان ایک دوکا یہ رویہ ٹھیک نہیں تھا بلکہ بعض ڈچ جو یہ پروگرام دیکھ رہے تھے یا وہاں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بھی اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنی شرمندگی کا بھی اظہار کیا.لیکن بہر حال ہمیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شاید مجھے غصہ دلانا چاہتے تھے لیکن بہر حال یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس قسم کی برداشت اللہ نے مجھے بہت دی ہوئی ہے.لگتا ہے ان میں سے ایک کو خود بھی یہ احساس ہو گیا تھا
خطبات مسرور جلد 13 621 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء کیونکہ جب میرے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لئے آئے تو کہنے لگے کہ اگر میرے سوال مناسب نہیں تھے تو میں اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں.بہر حال اس پروگرام کی تو ایک لمبی تفصیل ہے.ایم ٹی اے پر آپ نے سن لی ہوگی.دیکھ بھی لی ہوگی یار پورٹ میں پڑھ لیں.اس وقت تو یہ سب کچھ یہاں بیان نہیں ہو سکتا.لیکن بہر حال اس پروگرام میں شامل مہمانوں اور پروگرام سننے والے جو غیر تھے ان پر اسلام کی تعلیم کا اچھا اثر پڑا ہے.بعض دفعہ یہ خیال بھی بعد میں آتا ہے کہ فلاں سوال کا اس طرح جواب زیادہ مناسب ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا ایسا فضل فرمایا کہ جو بھی جواب دیئے گئے تھے انہوں نے ہی غیروں پر اچھا اثر ڈالا اور اس بات کا انہوں نے اظہار بھی کیا کہ ایسے سوالوں کے اسی قسم کے جواب تھے جو بہترین رنگ میں دے دیئے گئے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اسی لئے وہ دلوں پر قبضہ کر کے رعب ڈال دیتا ہے.انسانی کوششیں تو کچھ بھی نہیں کر سکتیں.یہ پروگرام منعقد ہونا بذات خود اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے ورنہ ہالینڈ کی جماعت اگر کہے کہ کسی کی کوشش سے ہوا ہے یا جماعت کی کوشش سے ہوا ہے، کسی شخص کی کوشش سے ہوا ہے تو وہ غلط ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ ان میں سے اکثر یہی کہیں گے کہ ہمیں تو سمجھ نہیں آئی کہ یہ ہو کیسے گیا.اس پروگرام کے معیاری ہونے کے بارے میں جن ممبر پارلیمنٹ نے اسے منظم کروایا تھا انہوں نے ہمارے ایک احمدی کو بعد میں کہا کہ اس کی میڈیا میں بہت زیادہ کوریج ہونی چاہئے تھی.حالانکہ ہمارے خیال میں کافی ہو گئی لیکن ان کے نزدیک اس سے زیادہ ہونی چاہئے تھے اور پہلے صفحہ کی سرخی ہونی چاہئے تھی تا کہ ملک کے لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیم کا پتا چلتا.بہر حال انہوں نے کہا کہ میری تسلی نہیں ہوئی.جتنا ہونا چاہئے تھا اتنا نہیں ہوا.انہوں نے ہی اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مجھ سے بہت سے ممبران پارلیمنٹ نے پوچھا کہ یہ پروگرام کس طرح تم نے منعقد کروالیا ؟ ( تو صرف اپنے نہیں غیروں کے نزدیک بھی یہ بہت مشکل تھا کہ ایک چھوٹی سی جماعت کے پروگرام اس طرح پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد کروائے جاتے.) یہ ممبر آف پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ یہ جو پروگرام تھا حاضری وغیرہ کے لحاظ سے اور جو نفس مضمون بیان ہوا ہے اس کے لحاظ سے میری امید سے بہت زیادہ کامیاب رہا اور یہ کہتے ہیں کہ اب اس کے دور رس نتائج نکلیں گے کیونکہ امام جماعت احمدیہ نے اپنا پیغام نہایت مؤثر رنگ میں دیا.ہالینڈ کے لوگوں کا یہ حق ہے کہ ان کو اسلام کا امن پسند چہرہ بھی دکھایا جائے.ان کو اس پیغام کی ضرورت ہے.یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ اسیح کے ساتھ پارلیمنٹ کی یہ تقریب پہلا قدم تھا.اب ہم مزید ایسے پروگراموں کا انعقاد کریں گے.بلکہ یہ اظہار
خطبات مسرور جلد 13 622 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء انہوں نے وہاں آخر میں بھی کیا تھا.پھر اور بھی بہت سے معزز مہمانوں نے اس پروگرام کو سراہتے ہوئے اسلام کی حقیقی تعلیم کا چہرہ دکھانے پر شکریہ ادا کیا.ہالینڈ کے سابق وزیر دفاع بھی اس تقریب میں شامل ہوئے.فنکشن کے بعد بھی وہ میرے ساتھ بڑی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے.انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پیغام سے اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مجھے کہا کہ اب یہ خواہش ہے کہ آپ بار بار ہالینڈ آئیں تا کہ لوگوں کے دل سے اسلام کا ڈرنکل جائے.پھر کہتے ہیں کہ پارلیمانی کمیٹی کے سوالات پر آپ کے جوابات کسی بھی مناسب سوچ رکھنے والے شخص کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی تھے.اس تقریب میں سپین کے ایمبیسیڈ بھی آئے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ بالخصوص جس طرح امام جماعت نے freedom of speech، برداشت اور دوسرے مذاہب کے لئے عزت واحترام جیسے حساس سوالات کے جوابات دیئے وہ نہایت موزوں تھے اور پھر یہ بھی کہ تقریر کے دوران برداشت، مذہبی آزادی اور اخوت کے بارے میں جو باتیں اسلام کی تعلیم کے مطابق بیان کیں، کہتے ہیں یہ دل کو لگتی ہیں اور میں ان کی بڑی حمایت کرتا ہوں.کیونکہ بین المذاہب ہم آہنگی اور دنیا کے امن کے لئے ان اقدار کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے.سپین کے ممبر آف پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ انسانیت کے لئے امن، آزادی اور خدا تعالیٰ جو تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے اس سے محبت کا پرکشش پیغام سن کر خوشی ہوئی.ایک ایسی دنیا کے لئے جہاں جنگوں اور مذہب کے نام پر کئے جانے والے مظالم میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے.اس قسم کے امن کے پیغام پر ہم کومشکور ہونا چاہئے.آج پہلے سے بڑھ کر ان سب لوگوں کو جو امن چاہتے ہیں اور مذہب پر عمل کرتے ہیں انہیں متحد ہونا چاہئے.ہمیں ان باتوں پر توجہ دینی چاہئے جو ہمارے درمیان یکساں ہیں بجائے اس کے کہ ہم اپنے درمیان پائے جانے والے تضادات پر زور دیں.پھر مونٹی نیگرو سے بھی تین احباب آئے تھے.ان میں ایک ممبر آف نیشنل پارلیمنٹ تھے.کہتے ہیں کہ یہ تقریب جماعت کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ ان کے امام نے اسلام کی حقیقی تعلیم نہایت اعلیٰ سطح پر پیش کی.ہالینڈ کے ممبران پارلیمنٹ کے سوالات نہایت جارحانہ تھے لیکن انہوں نے جوابات نہایت مدلل اور حقائق پر مبنی دیئے اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ امام جماعت جرات اور خود اعتمادی کے ساتھ دلیل سے بات کرتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ آج کی پر خطر دنیا میں ایسی تقریبات کی اشد ضرورت ہے.
خطبات مسرور جلد 13 623 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء پھر ہیومن رائٹس ڈیفنس کی دوممبر خواتین وہاں تھیں وہ بھی کہتی ہیں کہ یہ پیغام جو پارلیمنٹ میں دیا گیایہ تمام پالیسی میکرز تک پہنچایا جانا چاہئے.پھر کروشیا سے ان کی برسر اقتدار پارٹی کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ آئے ہوئے تھے.وہ کہتے ہیں کہ امام جماعت نے اسلامی تعلیمات کو بڑے ہی واضح اور مؤثر رنگ میں بیان کیا.دنیا میں امن کے قیام کے لئے اسلامی تعلیمات بہت مؤثر ہیں.اگر تمام مسلمان ان تعلیمات پر صدق دل سے عمل کریں تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے.پھر کہتے ہیں کہ freedom of speech کے بارے میں جماعت احمدیہ کے سربراہ نے جو دو ٹوک مؤقف دیا وہ بہت ہی متاثر کرنے والا تھا خصوصا ہولوکوسٹ (Holocaust) کے بارے میں بعض ممالک میں جو پابندیاں ہیں اس کے حوالے نے ان کے مؤقف کو مزید تقویت دی.پھر کہتے ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان میں احمدیوں پر مظالم ہوئے ہیں جماعت احمدیہ کے سر براہ نے پاکستان پر براہ راست تنقید کرنے سے گریز کیا اور عمدہ انداز میں حقیقی اسلامی تعلیم پر مسلمانوں کو عمل کرنے کی تلقین کی جو کہ بہت ہی متاثر کن تھی.پھر کہتے ہیں ہتھیاروں پر پابندی اور فنڈنگ روکنے پر جو مؤقف دیا وہ بہت ہی حقیقت پسندانہ تھا.واقعی اگر دنیا کے طاقتور ممالک ان نکات پر سنجیدگی اور دیانتداری سے عمل کریں تو دنیا امن کی جانب کو ٹ سکتی ہے.پھر سویڈن سے آنے والے ممبر آف پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ خطاب بڑا اچھا تھا.اثر کرنے والا تھا اور مذہبی لیڈر ہونے کی حیثیت سے آپ نے دنیا کے صاحب اختیار لوگوں کو جھنجھوڑا ہے.خطاب میں ایک سچائی تھی.کوئی مصلحت نہیں تھی.امن ، انصاف، برداشت، انسانیت، محبت اور بھائی چارے سے متعلق امام جماعت نے بڑے آسان فہم الفاظ میں توجہ دلائی ہے اور دنیا کو ایک پیغام دیا ہے.فارن افیئرز کمیٹی کے ممبران کی طرف سے آزادی اظہار کے متعلق سوالات پر کہتے ہیں کہ ان کے جوابات مدلل اور فراست سے بھر پور تھے.یہودیوں کا ریفرینس دینے سے بھی وہ امام جماعت کا اشارہ نہیں سمجھے جبکہ ہمارے ملک سویڈن میں نازیوں کا بیج لگانا بھی قانونی طور پر منع ہے اور لگانے پرسزا اور جرمانہ ہے.پھر البانیا سے ترانہ جو ان کا کیپیٹل ہے وہاں کے میئر کے مشیر اعلیٰ ہیں اور ان کی گورنمنٹ کی مذہبی امور کی ایک کمیٹی ہوتی ہے اس کے صدر بھی رہ چکے ہیں.کہتے ہیں کہ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ جماعت احمد یہ ایسے عظیم الشان طریق پر اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے.امام جماعت احمدیہ نے نہایت اعلیٰ
خطبات مسرور جلد 13 624 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء پیرائے میں اور بہت دلکش انداز میں اسلامی تعلیمات کی عکاسی کی ہے.Amsterdam University کے پروفیسر جو بدھ ازم اور اسلام اور دیگر مذاہب کے ماہر ہیں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امام جماعت نے اسلام کی امن کے حوالے سے تعلیم کا جس واضح انداز میں ذکر کیا ہے اس سے مجھے اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ ہمارے انٹر فیتھ ڈائیلاگ کے پروگراموں میں جماعت کی نمائندگی ناگزیر ہے.اب جماعت کو ہمارے پروگراموں میں ضرور شریک ہونا چاہئے تا کہ اسلام کی اصل اور حقیقی تصویر ہمارے سامنے آسکے.اس کے علاوہ بھی وہاں ہالینڈ میں چار پانچ دن جو پروگرام رہے ان میں تو روزانہ ہی کسی نہ کسی اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندے آکر انٹرویو لیتے رہے تھے.کافی لمبی ان سے باتیں ہوتی رہیں.آدھے گھنٹے سے لے کر تیس پینتیس منٹ تک، چالیس منٹ تک بھی ایک ایک انٹرویو ہوا جس میں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام، دعوئی، اسلام کی تعلیم ، دنیا کا امن ، خلافت وغیرہ کے موضوع پہ بتایا گیا.تفصیلات تو آپ لوگ پڑھ ہی لیں گے یا دیکھ لیں گے.بہر حال اس ذریعہ سے جماعت کا وہاں کافی وسیع تعارف ہوا ہے وہاں اور جیسا کہ پروفیسر صاحب نے بھی کہا کہ اس ملک میں بھی اب پڑھے لکھے طبقے میں لوگوں کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ اگر اسلام کے بارے میں حقیقی تعلیم کو جاننا ہے تو پھر احمدیوں کو بہر حال بیچ میں شامل کرنا ہوگا.جیسا کہ میں نے انٹرویوز کے بارے میں کہا پہلا انٹرویو 5 اکتوبر کون سپیسٹ کے ریڈیو چینل آر.ٹی.وی نن سپیٹ کے جرنلسٹ نے لیا جو وہاں بیت النور مسجد سے ہی لائیو نشر کیا گیا.اور اس کی لائیو سٹریمنگ(live streaming) کے ذریعہ پوری دنیا میں سنا گیا.پھر 1/5اکتوبر کو ہی ہالینڈ کے ایک ریجنل ٹیلیویژن سٹیشن گلدرلینڈ (Gelderland) کے جرنلسٹ نے انٹرویولیا اور اس ٹی وی سٹیشن کے ذریعہ سے بھی اس علاقے میں تقریبا دو ملین سے زیادہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچا ہے بلکہ وہ جرنلسٹ خود ہی کہنے لگا کہ یہاں ہماری اہمیت وہی ہے جو آپ کے ہاں بی بی سی کی ہے.پھر 6 اکتوبر کو ہالینڈ کی نیشنل اخبار کے جرنلسٹ نے انٹرویولیا اور اس اخبار کی پرنٹ اشاعت تو تھوڑی پچاس ہزار ہے لیکن انٹرنیٹ پر پڑھنے والوں کی تعداد جو ہے وہ لاکھوں میں ہے.7 اکتوبر کو پھر ایک ریجنل اخبار کے جرنلسٹ آئے انہوں نے انٹرویو لیا.اس اخبار کی اشاعت بھی ایک لاکھ کے قریب ہے.پھر 9 اکتوبر کو ہالینڈ کے اخبار کے جرنلسٹ نے انٹرویو لیا اور اس کی تعداد بھی سنا جاتا ہے کافی ہے.
خطبات مسرور جلد 13 625 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء یہ ایک مذہبی اخبار بھی ہے.ان انٹرویوز اور میڈیا کے ذریعہ سے جو کوریج ہوئی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی تھی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ پہلی دفعہ ہالینڈ جماعت نے اتنا وسیع رابطہ کیا ہے اور اس لحاظ سے ان کا پروگرام بہت اچھا تھا.ہالینڈ کے تین نیشنل اور 9 ریجنل اخبارات نے دورے کے حوالے سے خبریں دیں اور رپورٹس شائع کیں.9 اخبارات نے اپنے انٹرنیٹ کے ایڈیشن میں خبریں دیں.اخبارات کے ذریعہ سے کل تین ملین سے زائد افراد تک پیغام پہنچا.آر.ٹی.وی ریڈیو جس کا میں نے ذکر کیا ہے یہ (انٹرویو ) بھی کے.پی.این ٹی وی نیٹ ورک کے ذریعہ ملکی سطح پر اور ویب سٹریم کے ذریعہ تمام دنیا میں نشر کیا گیا.نیشنل ریڈیو نے 1/7 اکتوبر کو رات 9 بجے دورے کے حوالے سے پانچ منٹ کا پروگرام بھی نشر کیا.اس طرح ریڈیو کے ذریعہ بھی قریباً نصف ملین تک پیغام پہنچا.پھر ان کا جوٹی وی چینل ہے اس نے بھی دورہ کے حوالے سے پانچ منٹ کی خبر دی جس میں پارلیمنٹ کا اور مسجد کی بنیاد کا ذکر کیا.اس کے علاوہ ملک کے نیشنل ٹی وی پر بھی خبریں نشر کی گئیں.اس طرح ان دونوں ٹی وی چینلز کے ذریعہ بھی ان کا خیال ہے کہ پانچ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا تو مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو اس پرنٹ میڈیا کے ذریعہ سے ان کی اس دفعہ پہلی کوشش میں ہالینڈ میں آٹھ ملین افراد تک یہ پیغام پہنچا ہے.ہالینڈ میں جماعت ہالینڈ کی دوسری مسجد کا سنگ بنیادرکھنے کی بھی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ اس کی تعمیر بھی جلد مکمل کروائے.60 سال کے بعد وہاں جماعت با قاعدہ مسجد بنا رہی ہے.سینٹر تو ہیں، ایک دو سینٹر لئے تھے مگر باقاعدہ مسجد نہیں تھی اور یہ وقت کی بڑی ضرورت تھی کہ مسجد ہوتی.سنگ بنیاد کی تقریب میں شامل مہمانوں کی مجموعی تعداد 102 تھی.ان مہمانوں میں المیرے شہر جہاں یہ مسجد بن رہی ہے وہاں کے میئر، حجز ، وکلاء، ڈاکٹرز، آرکیٹکٹس ، مذہبی لیڈر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے.اس کے علاوہ البانیا، مونٹی نیگرو، کروشیا، سویڈن، پین اور سوئٹزرلینڈ کے جو مہمان ایک دن پہلے فنکشن پہ آئے ہوئے تھے وہ بھی شامل ہو گئے.المیرے کے میئر صاحب نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی جو بھی باتیں مسجد کے بارے میں کی گئی ہیں ،سن کر دل پر بڑا اثر ہوا ہے اور یہ پیغام جو آپ نے دیا ہے ایک پر امن فضا قائم کرنے کے لئے نہایت اثر انگیز ہے اور ہم سب کو مل کر اس کو عملی طور پر نافذ کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں امید ہے کہ مسجد کے ذریعہ امن کا یہ پیغام ضرور پھیلے گا.پھر وہاں کی ایک لوکل کونسل کے ممبر کونسلر ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ پیغام جو ہے تمام مکاتب فکر کے
خطبات مسرور جلد 13 626 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے.ایک سیاسی پارٹی لبرل پارٹی ہے.اس کے لیڈر کہتے ہیں کہ لگتا ہے مستقبل میں آپ کی جماعت ہی اس دنیا میں امن کی ضامن ہے.پھر وہاں ایک مسلم ریڈیو بھی نیشنل مسلم ریڈیو کے نام سے چلتا ہے.جس روز مسجد کے سنگ بنیاد کا پروگرام تھا اسی روز نیشنل مسلم ریڈیو نے ساڑھے چارمنٹ کی رپورٹ المیرے مسجد کی تعمیر کے پروگرام کے بارے میں نشر کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں بتایا اور میرے بارے میں بھی بتایا گیا کہ مسیح موعود کے خلیفہ ہیں اور المیرے میں مسجد کے سنگ بنیاد کے لئے تشریف لائے ہیں.پھر اس رپورٹ میں وہاں مسجد ( کے سنگ بنیاد) کے موقع پہ جو خطاب تھا اس کے بعض حصے بھی سنائے.اس کے علاوہ بھی میڈیا نے اس حوالے سے بہت ساری خبر میں دیں.اس کے بعد جرمنی میں دو مساجد کی بنیاد رکھی.وہاں بھی شہر کے معززین اور پڑھا لکھا طبقہ آیا ہوا تھا.یہاں بھی اچھے فنکشن ہوئے.جماعت کا تعارف تو وہاں ہے.مزید بڑھا.ہالینڈ سے جرمنی جاتے ہوئے نورڈ ہارن (Nordhorn) میں مسجد کا سنگ بنیا د رکھا.پھر وہاں ایک ٹی وی چینل نے انٹرویو بھی لیا.اس کی خبر بھی دی.ایک سابق میئر بھی وہاں آئے ہوئے تھے.فنکشن کے بعد وہ کہنے لگے کہ میں نے اپنے ساتھیوں کو کہہ دیا ہے کہ اس اتوار کو تمہیں چرچ جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جو کچھ ہمارے لئے ضروری تھا وہ ان کے خلیفہ نے کہہ دیا ہے.تو اس طرح بھی بعض لوگ اظہار خیال کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ حقیقت میں بھی ان کے دل کھولے اور حقیقت میں اسلام کی حقیقی تعلیم کو سمجھ کر قبول کرنے والے ہوں.ایک جرمن خاتون کہنے لگی کہ حقیقت میں یہ بہت اچھی تقریب تھی.میں اسلام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی لیکن آج جس طرح خلیفہ مسیح نے مجھے سمجھایا ہے مجھے اس کا صحیح علم ہوا ہے.پھر ایک جرمن کہتے ہیں کہ میں مذہباً کیتھولک ہوں اور آج میں نے ایک اور خوبصورت مذہب یعنی اسلام کے بارے میں سیکھا ہے.خلیفہ کی تقریر سے مجھے اسلام پر زیادہ تحقیق کرنے کا شوق ہوا ہے.انہوں نے ہمیں اسلام کی حقیقت کا بتایا.کہتے ہیں کہ مجھے پتا چلا ہے کہ اسلام کی بنیاد محبت ، آزادی اور امن پر قائم ہے.مجھے سب سے اچھی بات یہ گی کہ انہوں نے کہا ہے کہ اسلام ہمسایوں کے حقوق پر بہت زور ڈالتا ہے.ایک جرمن خاتون کہتی ہیں کہ میں مذہبی نہیں ہوں اور نہ میں کسی مذہب پر ایمان رکھتی ہوں بلکہ مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ دنیا میں ایک خلیفہ ہے لیکن آج جب میں نے اس خلیفہ کو دیکھا اور سنا ہے تو کہتی ہیں کہ اس کے بعد آج میں اسلام کے بارے میں بہترین رائے لے کر جا رہی ہوں.میں نے سیکھا ہے کہ
خطبات مسرور جلد 13 627 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء مسجد صرف عبادت کے لئے نہیں ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کے لئے بھی ہے.میں نے سیکھا ہے کہ مسجد ہمسایوں کا خیال رکھنے کی بھی جگہ ہے.میں نے سیکھا ہے کہ مسجد امن پھیلانے کا مقام ہے.اسلام کے بارے میں تمام سوالات یا خوف جو کسی انسان کو ہو سکتے ہیں امام جماعت کے خطاب سے دور ہو جاتے ہیں.پھر ایک مہمان جرنلسٹ کہتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا کہ اس تقریب کے بعد میں امام جماعت کا انٹرویو کروں گا.لیکن کہتے ہیں خلیفہ امسیح کا خطاب سن کر کسی قسم کے انٹرویو کی ضرورت نہ رہی کیونکہ انسان کے ذہن میں اسلام کے بارے میں جو بھی ممکنہ خوف یا سوالات آ سکتے تھے ان سب کا جواب خلیفہ اسیح نے اپنے خطاب میں دے دیا.ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے خاوند بھی ساتھ آئے ہوئے تھے لیکن انہوں نے جب انہیں کہا کہ اندر آ جاؤ تو انہوں نے کہا کہ میں تو اندر نہیں جاؤں گا.ان کو وہیں کار سے ڈراپ کر کے تو پارکنگ میں چلے گئے کہ یہ مسلمانوں کا فنکشن ہے اور کہتے ہیں کہ میرا دل کہتا ہے کہ یہاں آج دھما کہ ہو جانا ہے اس لئے مجھے تو اپنی جان بڑی پیاری ہے.تمہیں مرنا ہے تو تم جاؤ.میں تو نہیں جاتا.کہتی ہیں اب میں جا کے انہیں بتاؤں گی کہ تم نے آج کے دن کا جو ایک بہترین پروگرام تھا وہ miss کر دیا کیونکہ وہاں تو سوائے امن اور پیار اور محبت کے کچھ بھی نہیں تھا.تو لوگ ایسی بھی سوچ رکھتے ہیں.ایک جرمن خاتون بھی اس موقع پر آئی ہوئی تھیں.خطاب سنا اور خطاب سننے کے دوران ہر بات پر یہی کہتی رہی کہ یہ سچ ہے، سچ ہے.اس کے بعد اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں پہلی دفعہ اس پروگرام میں آئی ہوں اور آپ کے انتظامات دیکھ کر حیران ہوں.آپ کا جو نظام ہے اس میں ہر انسان ایک سلجھا ہوا انسان دکھائی دے رہا ہے.اب یہ جولوگوں کے تاثرات ہوتے ہیں یہ ہمیں یہ یاد کرانے کے لئے بھی ہیں کہ ہمیں ہمیشہ اپنا رویہ ایسا رکھنا چاہئے کہ سلجھے ہوئے دکھائی بھی دیں.یہ صرف عارضی موقعوں پر نہیں بلکہ اپنے یہ رویے ہمیشہ مستقل بنا ئیں.کہتی ہیں کہ مجھے بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم جرمن اس سے عاری ہو چکے ہیں جو اخلاق سکھائے جاتے ہیں.کہتی ہیں کہ میں جو اخلاقی قدریں گھر میں اپنے بچوں کو سکھانا چاہتی ہوں انہی قدروں کے خلاف سکول میں تعلیم دی جا رہی ہے لیکن مجھے تو یہاں انسان کی حقیقی عزت دکھائی گئی ہے.پس یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آزادی کے نام پر بچوں کو یہ تعلیم دی جارہی ہے جو بہت کچھ ہے.یہاں کے رہنے والے لوگ خودان باتوں سے بڑے پریشان ہیں.اس لئے اپنے بچوں کو ہمیں بھی خاص طور پر
خطبات مسرور جلد 13 628 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء گھروں میں سمجھانا چاہئے کہ ان کی ہر بات جو ہے سچ نہیں ہے بلکہ تمہیں اسلامی قدروں کی طرف دیکھنا بہت ضروری ہے اور ان کا خیال رکھو.اسی طرح ایک مہمان مرد ہیں جو کہتے ہیں کہ میں یہاں آ کر بہت خوش ہوں.کہتے ہیں عیسائیت تو مردہ مذہب ہو چکا ہے صرف اوپر اوپر سے باتیں ہیں کوئی روح نہیں ہے لیکن یہاں تو مجھے زندہ مذہب نظر آیا ہے.پھر جب میں نے افریقہ کا ذکر کیا کہ وہاں پانی بھی نہیں ملتا تو کہتے ہیں جب آپ نے ذکر کیا کہ افریقہ میں تو پینے کا پانی موجود نہیں تو وہاں ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھیں جب ان کو پتا لگا کہ جماعت احمد یہ افریقہ میں پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے لئے کیا کچھ کر رہی ہے تو ایک عورت اپنے سات آٹھ سالہ بیٹے کے کان میں کہنے لگی کہ پانی کو ضائع بالکل نہیں کرنا چاہئے اور پھر اس کے ساتھ تین چار اور بچے بھی تھے ان کو انگلی کے اشارے سے کہہ رہی تھی کہ ان کی باتیں سنو تا کہ تمہیں سمجھ آئے.اسی طرح ایک میاں بیوی وہاں بیٹھے ہوئے تھے وہاں ایک احمدی سے پردے سے سے متعلق بحث شروع ہو گئی.انہوں نے پوچھا کہ عورتیں کیوں نہیں ہیں، صرف مرد کیوں نظر آ رہے ہیں.عورتوں کے لئے علیحدہ مارکی کیوں ہے.جب انہوں نے میرا خطاب سن لیا اور پھر انہیں پردے کی روح بھی بتائی گئی کہ کیا وجہ ہے تو پھر کہنے لگیں کہ مغرب میں عورت کی آزادی صرف سطحی طور پر ہے اور یہ صحیح آزادی نہیں.کہتی ہیں کہ اب آپ نے پردے کا جو concept مجھے سمجھایا ہے تو اب مجھے سمجھ میں آیا ہے کہ اسی میں عورت کی شان ہے.پس غیروں کو اسلامی تعلیم کی سمجھ آ رہی ہے.اس لئے ہماری عورتوں میں بھی بعض دفعہ پر دے کے بارے میں جو complex ہو جاتا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے اور ان کا اعتماد بڑھنا چاہئے نہ کہ کسی قسم کی جھینپ یا بناوٹ ہو.ایک خاتون اپنے خاوند کے ساتھ آئی تھیں.کہتی ہیں کہ آج کی تقریب میں ہر چیز مجھے بہت پسند آئی.میں اسلام کے بارے میں بہت زیادہ جنس رکھتی تھی اور آج مجھے سمجھ آئی ہے کہ اسلام صرف اچھائی کا ہی نام ہے.پھر کہتی ہیں کہ امام جماعت کی یہ بات پسند آئی کہ ہمیں ایک دوسرے سے مل جل کر امن کے ساتھ رہنا چاہئے کیونکہ ہم سب ایک ہی خدا کی مخلوق ہیں.ان باتوں کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہے.موصوفہ کے خاوند نے کہا کہ مجھے بھی بہت تجس تھا کہ آج آپ کے خلیفہ کس قسم کی باتیں کریں گے لیکن خلیفہ کی تقریرسن کر میں یہی کہوں گا کہ میں ان کی ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں.مجھے اب پتا چل گیا ہے کہ
خطبات مسرور جلد 13 629 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء مساجد تو امن کے گھر ہیں.انہوں نے اپنی تقریر میں جو بھی کہا ہے وہ امن کے متعلق ہی کہا ہے.لوگوں کو ایک دوسرے سے ڈرنے کی بجائے ایک دوسرے پر اعتماد کرنا چاہئے.کہتے ہیں اب یہ باتیں سن کر میرے اندر اس مسجد کے بارے میں کسی قسم کا کوئی خوف باقی نہیں رہا.پھر ایک دوست وہاں آئے ہوئے تھے.کہتے ہیں میں دہریہ اور مذہب کا مخالف ہوں لیکن آپ کے خلیفہ نے آج یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر قسم کے لوگوں کے لئے برداشت کا مادہ رکھتے ہیں اور ان کے عمل سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام برداشت کا مذہب ہے.خلیفہ کا پیغام تھا کہ ہمیں اپنی رنجشیں اور لڑائیاں ختم کر دینی چاہئیں.میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ خلیفہ نے جو بھی باتیں بیان فرمائیں ان کی آج سخت ضرورت ہے.ایک خاتون کہتی ہیں کہ امام جماعت نے جو باتیں کیں ان کی سخت ضرورت تھی.آج دنیا تقسیم کا شکار ہے لیکن امام جماعت کا پیغام ایسا تھا جو ہم سب کو متحد کر سکتا ہے.صرف مسلمانوں کو ہی خلیفہ اسیح کی باتیں نہیں سنی چاہئیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں اور تمام لوگوں کو آپ کی باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.کہتے ہیں کہ اس سارے خطاب کو سن کے میرا اسلام کے بارے میں منفی نظریہ تبدیل ہو گیا اور بالکل مثبت ہو گیا.یہاں اخباروں نے بھی خبریں دیں.نورڈ ہورن (Nordhorn) کے ایک مقامی اخبار نے مسجد کی بنیاد کی تفصیلی خبر شائع کی اور یہ لکھا کہ حقیقی مسلمان امن اور محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں.ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرے.میرے خطاب کے حوالے سے باتیں کیں.اس کی اشاعت کافی ہے.ان اخباروں کے ذریعہ تین لاکھ بیس ہزار کے قریب لوگوں تک پیغام پہنچا.پھر مسجد صادق جو یہیں نور ڈ ہورن کی ہے.یہاں اس کے علاقے کے ٹی وی نے اس حوالے سے دومنٹ کی خبر دی اس کو بھی کئی ملین لوگ دیکھتے ہیں.اخبارات نے خبریں شائع کیں.وہاں کے جو مقامی اخبار ہیں ان اخبارات کی مجموعی اشاعت ایک لاکھ ستر ہزار ہے اور سب سے بڑے روز نامہ ہلڈ (Bild) کے دو علاقائی ایڈیشنوں میں بھی یہ خبر شائع ہوئی اور بنیاد کے حوالے سے پہلے بھی اس میں دو دفعہ خبریں شائع ہوئیں.پھر نور ڈہورن کی مسجد کی خبر ریڈیو نے بھی دی.تو مجموعی طور پر وہاں جو دو مسجدوں کے سنگ بنیادر کھے گئے ان کی اخباروں میں جو اشاعت ہوئی ہے اس کے مطابق یہ چارلاکھ نوے ہزار کی اشاعت والے اخبار تھے جن کے ذریعہ سے مسجد کی بنیاد کی یہ خبریں پہنچیں اور اسلام کا پیغام پہنچا.اور اس کے علاوہ ٹی وی اور ریڈیو چینلز کی جو تعداد ہے کہتے ہیں کہ ان کو سننے والوں کی تعداد تو کئی ملینز میں ہے.
خطبات مسرور جلد 13 630 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء جامعہ احمدیہ جرمنی کی پہلی کلاس بھی سات سال پورے کر کے اپنا کورس مکمل کر کے اس دفعہ پاس ہوئی ہے.وہاں 16 مربیان، مبلغین تیار ہوئے ہیں اور ان کا سالانہ کانووکیشن بھی تھا.اصل مقصد جرمنی جانے کا تو یہی تھا.وہاں یہ جامعہ 2008ء میں بیت السبوح کی چھوٹی سی بلڈنگ میں چند کمروں میں شروع ہوا تھا.اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے جامعہ کی باقاعدہ عمارت تعمیر کی ہے جس میں ساری سہولیات ہیں.کلاس رومز، ہالز ، لائبریری، ہاسٹل وغیرہ سارا کچھ ہے اور اچھی خوبصورت بلڈنگز ہیں تو وہاں کانووکیشن تھی ، ان کا فنکشن تھا.وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا رہا.اللہ تعالیٰ ان فارغ ہونے والے مربیان کو صحیح رنگ میں خدمت دین کی توفیق بھی عطا فرمائے اور وفا کے ساتھ اپنے وقف کو نبھانے کی توفیق بھی دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے ہیں.کوئی انسانی عقل یا دور اندیشی یا دنیوی اسباب ان وعدوں تک ہم کو نہیں پہنچا سکتے.اللہ تعالیٰ خود ہی اسباب مہیا کر دے گا تب یہ کام انجام کو پہنچے گا.پھر آپ نے فرمایا کہ: ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 431-430) میں جانتا ہوں کہ خدا نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور اس کے فضل سے اس کا نشو نما ہورہا ہے.اصل یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور نہ اس کا نشو ونما ہوسکتا ہے.لیکن جب خدا تعالیٰ کسی کے لئے چاہتا ہے تو وہ قوم بیج کی طرح ہوتی ہے.جیسے قبل از وقت بیج کے نشو ونما اور اس کے آثار کوئی نہیں سمجھ سکتا.اس قوم کی ترقیوں کو بھی محال اور ناممکن سمجھتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 431-430 حاشیہ) جس طرح بیچ کا نہیں پتا کہ اگنا ہے کہ نہیں لیکن جب اُگتا ہے تو پھل پھول لاتا ہے اسی طرح فرمایا کہ اس قوم کی ترقیوں کو بھی لوگ پہلے یہی سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں ہوگی کہ نہیں ہوگی ).پس اللہ تعالیٰ کی تقدیر جب فیصلہ کرتی ہے کہ یہ ہو تو وہ کام ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وعدہ ہے اور یہ اس کی تقدیر ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت نے پھلنا پھولنا اور بڑھنا ہے.اور یہی کچھ سلوک اللہ تعالیٰ کا ہر جگہ ہمیں جماعت کے ساتھ نظر بھی آتا ہے.یہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ رپورٹ جو میں نے بیان کی ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے کام ہیں.کسی کی ذات کا یا چند انتظامیہ کے ممبران کا کمال نہیں ہے.
خطبات مسرور جلد 13 631 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء اس پروگرام کو اگر کوئی کامیابی ہوئی ہے تو اللہ کے فضل سے ملی ہے.ہاں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو سمجھتے ہوئے ہم سے جو کوشش ہو سکتی ہے ہمیں کرنی چاہئے تا کہ ہم بھی اس کا حصہ بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.نماز جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم مرزا اظہر احمد صاحب کا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے.14 اکتوبر 2015ء کو ان کی وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹوں میں سے یہ آخری بیٹے حیات تھے جن کی وفات ہو گئی.حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے لڑکوں کی یہ نسل جو دوسری نسل تھی ان کی وفات کے بعد یہ دوسری نسل تو اب ختم (ہوگئی ہے ).اللہ کرے تیسری نسل اور چوتھی نسل اور آئندہ نسلیں بھی دین پر قائم رہنے والی ہوں.17 اکتوبر 1930ء کو یہ قادیان میں حضرت ام ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے.ابتدائی تعلیم انہوں نے قادیان سے حاصل کی.وہیں میٹرک کیا.پارٹیشن کے بعد آپ نے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا.جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک سال کے لئے آپ نے تحریک جدید میں بطور انچارج مشن کام کیا.اس کے بعد آپ کی تقرری 21 را کتوبر 1961ء کو صدرانجمن احمد یہ میں بطور نائب افسر خزا نہ ہوئی.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا کوئی بیٹا جماعت کے مالی معاملات میں بھی معاونت کرے.اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ شاید اسی وجہ سے حضرت مصلح موعودؓ نے خزانے میں ان کا تقرر فرمایا تھا.ساری زندگی ان کی دفتر خزانہ میں خدمت کرتے ہوئے گزری اور 1992 ء میں وہاں سے ریٹائر ہوئے تھے.فرقان بٹالین میں بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی.خلافت سے بھی بڑا گہرا تعلق تھا.اور میرے ماموں تھے لیکن بڑا احترام کا تعلق انہوں نے رکھا.پہلے جلسے پر 2003ء میں میں نے دیکھا کہ لوگوں کے رش میں کھڑے تھے اور جب میرے پر ان کی نظر پڑی یا میری ان پر نظر پڑی ہے تو بڑے جذباتی انداز میں انہوں نے ہاتھ ہلایا اور ایک خالص وفا تعلق اور خلوص ان کے چہرے سے جھلک رہا تھا.غریب پروری کرنے والے بھی تھے.اللہ تعالیٰ ان سے رحمت اور شفقت کا سلوک فرمائے.1956ء میں حضرت خلیفہ اسی الثانی نے ان کا نکاح قیصرہ خانم صاحبہ بنت خان سعید احمد خان صاحب سے پڑھا تھا.ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے.ایک دامادان کے ربوہ میں ہی واقف زندگی
خطبات مسرور جلد 13 632 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء ہیں اور ایک داماد ڈاکٹر عرفان یہاں لندن میں بھی رہتے ہیں.کیونکہ یہ تاریخی بات ہے اس لئے میں خطبہ میں کچھ حصہ بیان بھی کر دیتا ہوں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ان کے خطبہ نکاح میں فرمایا تھا کہ آج جس نکاح کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ میرے لڑکے مرزا اظہر احمد کا ہے جو خان سعید احمد خان مرحوم کی لڑکی قیصرہ خانم سعید سے قرار پایا ہے.قیصرہ خانم پہلے ہی ہماری دو ہری رشتہ دار تھیں لیکن اب اس نکاح کی وجہ سے ان کا ہم سے تہرہ رشتہ ہو گیا ہے.ان کا ایک رشتہ تو یہ ہے کہ وہ کرنل اوصاف علی خان کی پوتی ہیں اور کرنل اوصاف علی خان صاحب نواب محمد علی خان صاحب کے بہنوئی اور خالہ زاد بھائی تھے.گویا یہ اس شخص کے بہنوئی کی پوتی ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے اپنی لڑکی کا رشتہ دیا بلکہ بعد میں حضرت خلیفہ اسیح الاول کے زمانے میں ان کے بیٹے کو آپ کی دوسری لڑکی کا رشتہ دے دیا گیا.دوسرا رشتہ جس کی بنا خدا تعالیٰ کے ایک الہام پر ہے یہ ہے کہ یہ خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کے بیٹے عبدالمجید خان صاحب کی نواسی ہیں اور خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے بہت پرانے صحابی تھے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ افسوس ہے کہ ہماری جماعت اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں نہایت ست واقع ہوئی ہے.شاید ہی کوئی اور قوم ایسی ہو جوا اپنی تاریخ کو یا درکھنے میں اتنی ست ہو جتنی ہماری جماعت ہے.عیسائیوں کو لے لو انہوں نے اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں اتنی سستی سے کام نہیں لیا اور مسلمانوں نے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم کے حالات کو اس تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اس موضوع پر بعض کتا ہیں کئی کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں لیکن ہماری جماعت باوجود اس کے کہ ایک علمی زمانے میں پیدا ہوئی ہے اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں سخت غفلت سے کام لے رہی ہے.پس اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے.لوگوں کو توجہ دینی چاہئے.پہلے بھی توجہ دلائی ہوئی ہے کہ اپنی تاریخ کو ، اپنی خاندانی تاریخ کو یا درکھنے کی کوشش کریں اور جو صحابہ ہیں ان کا ذکر ہونا چاہئے.ان کے بارے میں لکھا جانا چاہئے.کہتے ہیں کہ میں نے بتایا ہے کہ خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے پرانے صحابی تھے اور آپ سلسلہ سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ جب وہ یکم جنوری 1904 ء کو فوت ہوئے تو دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے اور فرمایا آج مجھے الہام ہوا ہے کہ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے.حاضرین مجلس نے کہا کہ حضور کے اہل بیت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں.پھر یہ الہام کس شخص کے متعلق ہے؟ آپ نے فرمایا خان محمد خان صاحب کپور
خطبات مسرور جلد 13 633 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اکتوبر 2015ء تھلوی کل فوت ہو گئے ہیں اور یہ الہام مجھے انہی کے متعلق ہوا ہے.گو یا خدا تعالیٰ نے الہام میں انہیں اہل بیت میں سے قرار دیا ہے.پھر ان کے متعلق یہ الہام بھی ہوا کہ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا.بہر حال ( حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ ) ان کی وفات پر اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعزیت کرنا اور یہ کہنا کہ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک روحانی رنگ میں اہل بیت میں ہی شامل تھے.پس قیصرہ خانم کا ہم سے یہ دوسرا رشتہ ہے کہ وہ اس شخص کے ایک بیٹے کی نواسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل بیت میں سے قرار دیا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 678-677) اس کی تاریخی حیثیت کی وجہ سے ہی مجھے خیال آیا اور میں نے یہ کچھ حصہ بیان کیا ہے.ان کی اہلیہ کی چند سال پہلے وفات ہوئی تھی.اس میں بھی میں نے بیان کیا تھا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 13 نومبر 2015 ء تا 19 نومبر 2015 ، جلد 22 شماره 46 صفحہ 05-09)
خطبات مسرور جلد 13 634 44 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 30 را کتوبر 2015 ء بمطابق 30 راخاء 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واقعات اور آپ کے حوالے سے جو آپ نے بعض حکایات بیان کیں ان کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مختلف تقاریر میں بیان کیا ہوا ہے ان کو مختلف جگہوں سے لے کے میں آج بیان کروں گا.ہر واقعہ یا حکایت علیحدہ علیحدہ اپنے اندر ایک نصیحت کا پہلو رکھتی ہے.اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ افراد جماعت کو اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے.دینی علم رکھنے والے حالات حاضرہ سے بھی واقفیت رکھیں اور تاریخ سے بھی واقفیت رکھیں.خاص طور پر وہ جن کے سپرد تبلیغ کا کام ہے.مرتبیان ہیں، مبلغین ہیں ان کو چاہئے کہ خاص طور پر توجہ دیں.آج کل کی دنیا میں تو یہ معلومات فوری طور پر بڑی آسانی سے مہیا ہو جاتی ہیں.بہر حال ایک حکایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمائی ہے جو علمی استعداد بڑھانے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے.موقع محل کے مطابق اپنی علمی صلاحیت کے اندر رہنے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے اور حقیقی بزرگی کے معیار کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہم نے یہ واقعہ سنا ہوا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی شخص تھا جو بڑا بزرگ کہلاتا تھا.کسی بادشاہ کا وزیر اتفاقاً اس کا معتقد ہو گیا اور اس نے ہر جگہ اس شخص کی بزرگی اور اس کی ولایت کا پروپیگنڈا شروع کر دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ بڑے بزرگ اور خدارسیدہ انسان ہیں.یہاں تک کہ اس نے بادشاہ کو بھی تحریک کی اور کہا کہ آپ ان کی ضرور زیارت کریں.چنانچہ بادشاہ نے کہا اچھا فلاں دن میں اس بزرگ کے پاس جاؤں گا.جو بنا ہوا
خطبات مسرور جلد 13 635 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء بزرگ ہے یا جسے تم بزرگ کہتے ہو.بہر حال وزیر نے یہ بات فوراً اس بزرگ کو پہنچا دی اور کہا کہ بادشاہ فلاں دن آپ کے پاس آئے گا.آپ اس سے اس طرح باتیں کریں تا کہ اس پر اثر ہو جائے اور وہ بھی آپ کا معتقد ہو جائے.اگر بادشاہ معتقد ہو گیا تو پھر باقی رعایا بھی پوری توجہ دے گی.بہر حال آپ لکھتے ہیں کہ معلوم نہیں وہ بزرگ تھا یا نہیں مگر جو آگے واقعات ہیں ان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ بیوقوف ضرور تھا.جب اسے اطلاع پہنچی کہ بادشاہ آنے والا ہے اور اس سے مجھے ایسے باتیں کرنی چاہئیں جن کا اس کی طبیعت پر اچھا اثر ہو تو اس نے اپنے ذہن میں کچھ باتیں سوچ لیں اور جب بادشاہ اس سے ملنے کے لئے آیا تو کہنے لگا.بادشاہ سلامت! آپ کو انصاف کرنا چاہئے.دیکھئے مسلمانوں میں سے جو سکندر نامی بادشاہ گزرا ہے وہ کیسا عادل اور منصف تھا اور اس کا آج تک کتنا شہرہ ہے.حالانکہ سکندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے سینکڑوں سال پہلے بلکہ حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی پہلے ہو چکا تھا مگر اس نے سکندر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد کا بادشاہ قرار دے کر اسے مسلمان بادشاہ قرار دے دیا.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی سینکڑوں سال بعد ہوا تھا کیونکہ سکندر خلافت اربع کے زمانے میں تو ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ اس وقت خلفاء کی حکومت تھی.حضرت معاویہ کے زمانے میں بھی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس وقت حضرت معاویہ تمام دنیا کے بادشاہ تھے.بنو عباس کے ابتدائی ایام خلافت میں بھی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس وقت بھی وہی رُوئے زمین کے حکمران تھے.پس اگر سکندر مسلمان تھا تو وہ چوتھی پانچویں صدی ہجری کا بادشاہ ہو سکتا ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سینکڑوں سال پہلے گزرا ہے.تو وہ جو سینکڑوں سال پہلے کا بادشاہ تھا اسے اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی امت میں سے قرار دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے بادشاہ پہ اثر تو کیا ڈالنا تھا، بادشاہ اس سے سخت بدظن ہو گیا اور فوراً اٹھ کر چلا آیا.تو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ تاریخ دانی بزرگی کے لئے شرط نہیں ہے مگر یہ مصیبت تو اس خود ساختہ بزرگ نے خود اپنے اوپر سپیری.اسے کس نے کہا تھا کہ وہ تاریخ میں دخل دینا شروع کر دے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 19 صفحہ 631 تا633) تو اس لئے علم صحیح ہونا چاہئے اور جو بھی بات انسان کرے اس کے بارے میں یہ مسلتی ہونی چاہئے کہ اگر وہ تاریخی لحاظ سے ہے تو تاریخ کا صحیح علم ہو اور کوئی علمی بات ہو تو اس کا صحیح علم ہو.اس شخص کو اس کی نفس کی خواہش نے ہلاک کر دیا.جب انسان سچائی سے ہٹ کر نام نہاد بزرگی اور علم کا چولہ پہنے یا اس کو
خطبات مسرور جلد 13 636 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء پہننے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اسی طرح ذلیل ہوتا ہے یہی انجام ہوتا ہے.ہم کسی کے لئے بددعانہ کریں پھر ایک جگہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل کی نرمی اور امت کے لئے درد بلکہ انسانیت کے لئے بھی درد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ کسی کو بد دعا دینے کی لوگوں کو بڑی جلدی ہوتی ہے.ہمارا یہی اصول ہونا چاہئے کہ ہم کسی کے لئے بددعا نہ کریں بلکہ ہمیں اپنے مخالفین کے لئے دعا کرنی چاہئے.آخر انہوں نے ہی ایمان لانا ہے.مولوی عبد الکریم صاحب فرما یا کرتے تھے کہ میں چوبارے میں رہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمرے کے اوپر آپ نے ان کے لئے ایک اور کمرہ بنوایا تھا اور اوپر رہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مکان کے نچلے حصے میں تھے کہ ایک رات نچلے حصے سے مجھے اس طرح رونے کی آواز آئی جیسے کوئی عورت دردزہ کی وجہ سے چلاتی ہو.مجھے تعجب ہوا اور میں نے کان لگا کر آواز کو سنا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کر رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اے خدا! طاعون پڑی ہوئی ہے اور لوگ اس کی وجہ سے مر رہے ہیں.اے خدا ! اگر یہ سب لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا.اب دیکھو طاعون وہ نشان تھا جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی.طاعون کے نشان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے بھی پتا چلتا ہے.لیکن جب طاعون آتی ہے تو وہی شخص جس کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے طاعون آتی ہے خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا تا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ ! اگر یہ لوگ مرگئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا.پس مومن کو عام لوگوں کے لئے بددعا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ انہی کے بچانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے.ایک مومن دنیا کو بچانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے.اگر وہ ان کے لئے بددعا کرے گا تو وہ کس کو بچائے گا ؟ احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ اسلام کو بچائے.احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بچائے اور ان کی عظمت انہیں واپس دلائے.بنو امیہ کے زمانے میں مسلمانوں کو جو شوکت اور عظمت حاصل تھی حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں آج وہی شوکت و عظمت احمدیت مسلمانوں کو اس شرط کے ساتھ دینا چاہتی ہے کہ بنو عباس اور بنوامیہ کی خرابیاں ان میں نہ آئیں.پس جن لوگوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے ان کے لئے ہم بددعا کیسے
خطبات مسرور جلد 13 637 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء کا خر کنند دعوئے حبّ پیمبرم کر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :.اے دل تو نیز خاطر اینان نگاه دار کہ اے میرے دل تو ان لوگوں کے خیالات، جذبات اور احساسات کا خیال رکھا کرتا ان کے دل میلے نہ ہوں.یہ نہ ہو کہ تنگ آ کر تو بددعا کرنے لگ جائے.یعنی اپنے آپ کو کہہ رہے ہیں.آخر ان کو تیرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور اسی محبت کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے یہ تمہیں گالیاں دیتے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 33 صفحہ 222-221) پس عوام الناس تو لاعلم ہے.ان کو جو مولوی پڑھاتے ہیں وہ آگے اس کا اظہار کر دیتے ہیں.آج بھی کئی احمدی اپنے واقعات بھیجتے ہیں کہ جب کسی طرح احمدیت کی حقیقت مخالفین کو بتائی گئی یا کسی شخص کو بتائی گئی جو مخالف تھا تو اس کی کایا پلٹ گئی.اسی طرح مجھے بھی بعض غیر از جماعت خط لکھتے ہیں کہ کس طرح ان کو احمدیت کی حقیقت معلوم ہوئی اور اب ہمیں پتا چلا ہے کہ مولوی ہمیں کس طرح گمراہ کر رہے تھے.افریقہ میں کئی ایسے واقعات ہیں جہاں بعد میں جماعتیں قائم ہوئیں اور انہوں نے اظہار کیا کہ ہمیں مولویوں نے غلط رنگ میں احمدیت کے بارے میں بتایا تھا.پس ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امت کو علماء سوء اور غلط لیڈروں سے بچائے اور عوام الناس کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے.پھر اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ حقیقی مسلمان کے لئے یہ مقدر ہے کہ مصائب اور مشکلات اور خطرات پیدا ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بہتری کے سامان پیدا فرماتا ہے.آپ فرماتے ہیں.حضرت مولا نا روم کا شعر ہے کہ ہر بلا کئیں قوم را اُودَادَه است زیر آن یک گنج با نهاده است کہ اس خدا نے قوم پر جو بھی مشکل ڈالی اس کے نیچے اس نے ایک بہت بڑا خزانہ رکھا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ اس کو پڑھ کر ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی قوم یا جماعت واقع میں مسلمان بن جائے تو اس کے تمام مصائب اور تمام خطرات جن میں وہ گرفتار ہواس کے لئے موجب نجات و ترقی ہو جاتے ہیں اور اس پر کوئی مصیبت نہیں آتی جس کا نتیجہ اس کے لئے سکھ نہیں ہوتا.یعنی ہر مصیبت جو آتی ہے ہر مشکل جو آتی ہے اس کے پیچھے سکھ اور آسانیاں ہوتی ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 9 صفحہ 167-166 )
خطبات مسرور جلد 13 638 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء پس اس وقت تمام مسلم امہ میں سے حقیقی مسلمان وہی ہے جو زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ساتھ جڑا ہوا ہے.ہمارے لئے اگر مشکلات کھڑی ہوتی ہیں تو مستقبل کی خوشخبریاں دینے کے لئے ہیں اور یہ سچائی کو ماپنے کا بہت بڑا معیار ہے کہ مشکلات کے بعد سکھ آتے ہیں.جماعت احمدیہ کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ہر ابتلا ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے سامان لے کر آتا ہے.ٹی وی پروگرام اور بداثرات پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ بد خیالات کا اثر بغیر ظاہری اسباب کے صرف صحبت سے بھی ہو جاتا ہے.کوئی کسی کو کسی برائی میں پڑنے کی ترغیب دے یا نہ دے اگر کسی برے کی صحبت میں انسان وقت گزار رہا ہو تو وہ برائی لاشعوری طور پر اس میں پیدا ہو جاتی ہے.برے انسان کا اثر لاشعوری طور پر اس پر ہور ہا ہوتا ہے.اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک سکھ طالبعلم نے جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اخلاص کا تعلق رکھتا تھا حضرت صاحب کو کہلا بھیجا یا دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے کہلا کے بھیجا کہ پہلے مجھے خدا پر یقین تھا مگر اب میرے دل میں اس کے متعلق شکوک پڑنے لگ گئے ہیں.(ماخوذ از اپنے اندر یکجہتی پیدا کرد....انوار العلوم جلد 24 صفحہ 422) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کہلا بھیجا کہ جہاں تم کالج میں جس سیٹ پر بیٹھتے ہو اس جگہ کو بدل لو.چنانچہ اس نے جگہ بدل لی اور پھر بتایا کہ اب خدا تعالیٰ کے بارے میں کوئی شک پیدا نہیں ہوتا.جب یہ بات حضرت صاحب کو سنائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس پر ایک شخص کا اثر پڑ رہا تھا جو اس کے پاس بیٹھتا تھا اور وہ دہریہ تھا.جب جگہ بدلی تو اس کا اثر پڑ نا بند ہو گیا اور شکوک بھی ندر ہے.تو برے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بھی بلا اس کے کہ وہ کوئی لفظ کہے اثر پڑتا ہے اور ا چھے آدمی کے پاس بیٹھنے سے ہلا اس کے کہ وہ کچھ کہے اچھا اثر پڑتا ہے.(ماخوذ از ملائکۃ اللہ.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 537) پس دنیا میں خیالات ایک دوسرے پر اثر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا پتا نہیں لگتا.پس خاص طور پر نو جوانوں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ان کی دوستیاں، ان کا اٹھنا بیٹھنا، ایسے لوگوں سے ہو جوان پر بداثر نہ ڈالیں.اسی طرح ٹی وی پروگرام ہیں.اس بارے میں بڑوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بچوں کو پروگرام دیکھنے سے روکتے ہیں تو وہ اگر بچوں کو ایسے پروگرام نہ بھی دیکھنے دیں جو بچوں کے اخلاق پر برا اثر
خطبات مسرور جلد 13 639 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء ڈالتے ہیں یا پروگراموں میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ بچوں کی عمر کے لئے نہیں ہیں، اس عمر کے بچوں کے لئے نہیں لیکن خود گھروں میں اگر ماں باپ دیکھ رہے ہوں تو ایک تو یہ بات ہے کہ کبھی نہ کبھی بچوں کی نظر اس پروگرام پر پڑ جاتی ہے جب ماں باپ دیکھ رہے ہوں.دوسرے لاشعوری طور پر ماحول کا بھی اثر ہورہا ہوتا ہے اور بچوں کی تربیت بھی خراب ہو رہی ہوتی ہے.ایسے ماں باپ جو ایسے پروگرام دیکھتے ہیں یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ خود یہ پروگرام دیکھنے کے بعد بالکل تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں پر قائم ہوں.بعض دیر تک دیکھتے ہیں اور پھر صبح فجر پہ نمازوں کے لئے بھی نہیں جاگتے.پس والدین کا بھی فرض ہے کہ اپنے گھر کے ماحول کو پاک صاف رکھیں کیونکہ لاشعوری طور پر ان چیزوں کا بھی بچوں پر اثر پڑتا ہے اور تربیت پر اثر پڑتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ دعا کے لئے تعلق کی ضرورت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض لوگوں کو کہہ دیا کرتے تھے کہ تم ایک نذر مقرر کرو میں دعا کروں گا.یہ طریق اس لئے اختیار کرتے تھے کہ تعلق بڑھے.اس کے لئے حضرت صاحب نے بارہا ایک حکایت سنائی ہے کہ ایک بزرگ سے کوئی شخص دعا کرانے گیا.اس کے مکان کا قبالہ گم ہو گیا تھا.مکان کے جو کاغذات تھے وہ گم گئے تھے.اس نے کہا میں دعا کروں گا پہلے میرے لئے حلوہ لاؤ.وہ شخص حیران تو ہوا کہ میں دعا کے لئے گیا ہوں اور یہ مجھے حلوہ کا کہ رہے ہیں.مگر بہر حال اس کو دعا کی ضرورت تھی حلوہ لینے چلا گیا اور حلوائی کی دکان سے حلوہ لیا.اور جب حلوہ اس نے لیا اور حلوائی اس کو ایک کاغذ میں ڈال کر دینے لگا جو کاغذ حلوائی کے پاس پڑا ہوا تھا تو اس نے شور مچادیا کہ اس کاغذ کو نہ پھاڑنا.یہی تو میرے مکان کے کاغذات ہیں.اسی کے لئے تو میں دعا کروانا چاہتا تھا.غرض وہ حلوہ لے کر گیا اور بتایا کہ مجھے قبالہ یا وہ کاغذات مل گئے ہیں تو اس بزرگ نے کہا کہ میری غرض حلوہ سے صرف یہ تھی کہ تمہارے سے ایک تعلق پیدا ہو اور وہ تعلق دعا کے لئے تو پیدا ہونا ہی تھا تمہیں ظاہری فائدہ بھی ہو گیا.(ماخوذ از منصب خلافت.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 50) تو بہت سے ایسے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے ملتے ہیں جب کسی مخلص کے کاروبار کی بہتری یا اس کی صحت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاص درد کے ساتھ اس لئے دعا کی کہ وہ آپ کے مشن ، آپ کے اشاعت اسلام کے کاموں کے لئے مالی مدد بہت زیادہ کرتے تھے یا غیر معمولی کرتے تھے.پس ان قربانیوں کی وجہ سے خاص تعلق ان سے پیدا ہو گیا تھا.نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک دفعہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے
خطبات مسرور جلد 13 640 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوصحابیوں کے بارے میں سناتے تھے.ایک صحابی بازار میں گھوڑا بیچنے کے لئے لایا.دوسرے نے اس سے قیمت دریافت کی.اس نے کچھ بتائی لیکن خرید نے والے نے کہا نہیں اس کی قیمت یہ ہے اور جو اس نے بتائی وہ بیچنے والے کی بتائی ہوئی قیمت سے زیادہ تھی.بیچنے والا کہے کہ میں وہی قیمت لوں گا جو میں نے بتائی ہے اور خریدنے والا یہ کہ رہا تھا کہ میں وہی قیمت دوں گا جو میں نے قرار دی ہے.تو آپ فرماتے ہیں کہ یہ تو صحابہ کا ایک معمولی واقعہ ہے.ان کی دیانت کا، ایمانداری کا یہ معیار تو ایک معمولی واقعہ ہے.وہ لوگ تو ہر ایک نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتے تھے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھو.اگر ایک دین کا کوئی کام کرے تو تم کوشش کرو کہ اس سے بھی بڑھ کر کرو اور دوسرے کے مقابلے میں اپنے نفس کو قربان کرو.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ 502) اگر ہم میں سے ہر ایک کی یہ سوچ ہو جائے کہ بجائے اپنے دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے وہ نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.سچائی پر قائم رہنے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں تو جہاں یہ بات ہماری اپنی تربیت کے لئے ، اپنے ثواب پہنچانے کے لئے فائدہ مند ہوگی ہماری نسلوں کی تربیت کرنے والی بھی ہوگی اور اس کے ساتھ ہی جماعت کی ترقی کا بھی باعث بنے گی.پس یہ ایمانداری کے معیار ہیں جو ہمیں قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.ایک اور اہم بات پھر ایک اور اہم بات جس کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے ، یہ ہے کہ ہمیشہ یہ یا درکھیں کہ تمام خوبیوں کی مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اسی طرح کسی کو ہدایت دینا بھی اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپر د ایک کام کیا ہے کہ ہدایت کی اشاعت کرو.پیغام پہنچاؤ.لیکن ہدایت دینا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.ہمیں جس حد تک ممکن ہوا اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس کام کو کرنا چاہئے اور نتائج پھر اللہ تعالیٰ خود عطا فرماتا ہے.یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اگر فلاں شخص ہدایت پا جائے اور احمدی ہو جائے تو جماعت ترقی کرے گی.بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص احمدی ہو جائے تو یہ احمدیت کی ترقی ہوگی اور ہم بھی احمدی ہو جائیں گے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آتے اور کہتے کہ ہمارے گاؤں میں فلاں شخص ہے اگر وہ احمدی ہو جائے تو ہم گاؤں کے لوگ احمدی ہو جائیں
خطبات مسرور جلد 13 641 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء گے حالانکہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ شخص مان بھی لے تب بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو نہیں مانتے اور تکذیب سے باز نہیں آتے.چنانچہ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک گاؤں میں تین مولوی تھے وہاں کے لوگ کہتے تھے کہ اگر ان میں سے کوئی مرزا صاحب کو مان لے تو ہم سب کے سب مان لیں گے.ان میں سے ایک نے بیعت کر لی.(اللہ تعالیٰ نے اس پر فضل کیا اور اس نے بیعت کر لی ) تو سب لوگوں نے کہہ دیا کہ ایک نے مان لیا تو کیا ہوا.اس کی تو عقل ماری گئی ہے.ابھی دو نے نہیں مانا.دوسرے دو تو ایسے ہی ہیں ناں جنہوں نے نہیں مانا.یہ تین ہمارے ایسے بزرگ ہیں اور پڑھے لکھے لوگ ہیں اگر یہ مان لیں تو مانے جائیں گے.ایک نے مانا ہے تو کیا پتا اس کی عقل ماری گئی ہو.پھر ایک اور نے بیعت کر لی.پھر مخالفین نے یہی کہا کہ ان دونوں مولویوں کا کیا ہے، یہ تو بیوقوف لوگ ہیں.ایک نے ابھی تک بیعت نہیں کی اس لئے ہم نہیں مانتے.تو ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں لیکن جن لوگوں کا تجربہ وسیع نہیں ہوتا وہ اسی دھن میں لگے رہتے ہیں کہ فلاں شخص مان لے تو سب لوگ مان لیں گے مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 5 صفحہ 507-508) پس ہماری توجہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی طرف ہونی چاہئے.ہمارا انحصار اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہئے اور جو کام ہم نے کرنا ہے اس کو کرنا چاہئے نہ کہ لوگوں کی طرف ہم نظر رکھیں.بہت سارے لوگ ہیں جن پر بعض لوگ بعض دفعہ انحصار کرتے ہیں لیکن وہ جن پر انحصار کیا جا رہا ہوتا ہے وہ خود ہی بعض دفعہ مشکل اور ابتلا میں آجاتے ہیں.بعض دفعہ لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس کے لئے یہ شرائط کہی ہیں.اس کے لئے دعا کریں کہ اس کی یہ شرطیں پوری ہو جائیں تو وہ احمدی ہو جائے گا اور جب وہ احمدی ہو جائے گا تو ہمارے علاقے میں انقلاب آ جائے گا.حالانکہ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.اس لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ جماعت کو عطا فرمائے جو اخلاص و وفا میں بڑھنے والے ہوں اور دینی ترقی میں آگے قدم بڑھانے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو انسانیت کو گمراہی سے بچانے کے لئے کتنا درد تھا اس کی ایک مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک ان پڑھ اور ادنی عورت آئی.وہاں ہندوستان میں تو ذاتوں کا بڑا دیکھا جاتا ہے.تو بڑی ادنی ذات کی عورت تھی اور کہنے لگی کہ حضور میرا بیٹا عیسائی ہو گیا.آپ دعا کریں کہ وہ
خطبات مسرور جلد 13 642 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30اکتوبر 2015ء مسلمان ہو جائے.آپ نے فرمایا تم اسے میرے پاس بھیجا کرو کہ وہ خدا تعالیٰ کی با تیں سنا کرے.وہ بیمار تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس علاج کے لئے آیا ہوا تھا.کیونکہ وہ قادیان میں تھا تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے علاج کروا رہا ہے.اس کو میرے پاس بھی بھیج دیا کرو.آپ فرماتے ہیں اس لڑکے کوسل کی بیماری تھی ( یعنی ٹی بی کی بیماری تھی.چنانچہ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آتا تو اسے نصیحت کرتے رہے اور اسلام کی باتیں سمجھاتے رہے لیکن عیسائیت اس کے اندر اتنی راسخ ہو چکی تھی کہ جب آپ کی باتوں کا اثر اس کے دل پر ہونے لگا تو اس نے خیال کیا کہ میں کہیں مسلمان ہی نہ ہو جاؤں.چنانچہ ایک رات وہ اپنی ماں کو غافل پا کر بٹالہ کی طرف بھاگ گیا.رات کو گھر سے، قادیان سے دوڑ گیا.اور بٹالہ میں جہاں عیسائیوں کا مشن تھا وہاں چلا گیا.جب اس کی ماں کو پتالگا تو وہ راتوں رات بٹالہ پیدل گئی اور اسے پکڑ کر پھر قادیان واپس لے آئی.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ عورت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروں پر گر جاتی تھی اور کہتی تھی مجھے اپنا بیٹا پیارا نہیں مجھے اسلام پیارا ہے.میرا یہ اکلوتا بیٹا ہے مگر میری خواہش یہ ہے کہ یہ مسلمان ہو جائے پھر بیشک مرجائے.جو بیماری ہے اس سے اگر نہیں بچتا تو مجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس عورت کی التجا قبول کر لی اور وہ لڑکا مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے کے چند دن بعد ( بیچارہ ) فوت بھی ہو گیا.(ماخوذ از الفضل 10 فروری 1959 ، صفحہ 3 جلد 48 / 13 نمبر 35) اس عورت کو بھی یہ پتا تھا کہ اگر دین میں واپس لانے کے لئے کوئی آخری حیلہ، انسانی وسیلہ ہوسکتا ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں کیونکہ انہی میں اسلام کا حقیقی درد ہے اور وہی حقیقی درد کے ساتھ دوسرے کو پیغام بھی پہنچا سکتے ہیں تبلیغ بھی کر سکتے ہیں، قائل بھی کر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصلاح کے طریق کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.اب اصلاح میں بھی بعض لوگ بعض دفعہ غلط رنگ میں ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ لوگ بجائے اصلاح کے بگڑ جاتے ہیں.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں حضرت صاحب کی اصلاح کا طرز بڑا لطیف اور عجیب تھا.ایک شخص آپ کے پاس آیا.اس کے پاس وسائل کی کمی تھی.وہ باتوں باتوں میں یہ بیان کرنے لگا کہ اس کمی کی وجہ سے ریلوے ٹکٹ میں اس رعایت کے ساتھ آیا ہوں اور وہ طریقہ شاید کچھ غلط طریقہ تھا.آپ نے ایک روپیہ اس کو دے دیا (اس زمانے میں روپے کی بڑی و بلی تھی اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ امید ہے جاتے ہوئے ایسا کرنے کی تمہیں ضرورت نہیں
خطبات مسرور جلد 13 643 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء پڑے گی.اس کو یہ بھی سمجھا دیا کہ جو جائز چیز ہے اس کو ہمیشہ کرنا چاہئے.(ماخوذ از جماعت قادیان کو نصائح.انوار العلوم جلد 4 صفحہ 23) پھر افراد جماعت کو ہنر سیکھنے اور محنت کرنے کی طرف حضرت مصلح موعودؓ نے بہت توجہ دلائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا ایک واقعہ اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے نوجوان تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس رہتا تھا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک لڑکا تھا جس کا نام تجا تھا.اسے آپ نے کسی معمار کے ساتھ لگا دیا اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ معمار بن گیا.آپ فرماتے ہیں کہ اس میں سمجھ بہت کم تھی مگر مخلص اور دیندار تھا.وہ غیر احمدی ہونے کی حالت میں آیا تھا اور بعد میں احمدی ہو گیا تھا.اس کی عقل کا ( یعنی معمولی عقل کا جو واقعہ ہے وہ آپ یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ حال تھا کہ ایک دفعہ بعض مہمان آئے.اس وقت لنگر خانے کا کام علیحدہ نہیں تھا.شروع شروع کی بات تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر ہی سے مہمانوں کے لئے کھانا جاتا تھا.شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ، خواجہ کمال الدین صاحب ، قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری قادیان آئے اور ایک دوست اور بھی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے لئے چائے تیار کروائی اور مجھ کو کہا کہ ان مہمانوں کو چائے پلا آئے.اور اس خیال سے کہ وہ کسی کو چائے دینا بھول نہ جائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی تاکید کی کہ دیکھو پانچوں کو چائے دینی ہے.یہ نہ ہوکسی کو بھول جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اور پرانے ملازم چراغ تھے ان کو بھی آپ نے ساتھ کر دیا اور جب یہ دونوں چائے لے کر گئے تو پتا لگا کہ وہ جہاں باہر کمرے میں تھے وہاں نہیں بیٹھے ہوئے بلکہ وہ تو سارے حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے پاس ان کی ملاقات کے لئے چلے گئے تھے.چنانچہ وہ چائے لے کر یہ لوگ وہاں پہنچ گئے.حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ چراغ تو پرانا ملازم تھ اس نے پہلے چائے کی پیالی حضرت خلیفتہ مسیح الاول کے سامنے رکھی کیونکہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی بزرگی اور حفظ مراتب کا خیال تھا.اس لئے انہوں نے ان کے سامنے رکھی.لیکن فجے صاحب نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا نام نہیں لیا تھا.چراغ نے اسے آنکھ سے اشارہ کیا اور کہنی ماری اور یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بیشک آپ نے حضرت خلیفتہ امسیح الاول کا نام نہیں لیا تھا لیکن آپ ان سب سے زیادہ معزز ہیں اس لئے چائے پہلے آپ کے سامنے ہی رکھنی چاہئے.لیکن وہ یہ بات کہے جاتا تھا کہ حضرت صاحب نے صرف پانچ کے
خطبات مسرور جلد 13 644 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء نام لئے تھے ان کا نام نہیں لیا تھا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں گویا ان کا عقل کا معیار اس قدر تھا کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھ سکتے تھے.لیکن وہ جب معمار کے ساتھ لگایا گیا تو معمار بن گئے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 35 صفحہ 290-289) پس حضرت مصلح موعود اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ جو لوگ سکتے بیٹھے رہتے ہیں بعض دوسرے ممالک میں،غریب ملکوں میں بھی اور یہاں بھی آ کر بعض لوگ بیٹھے رہتے ہیں وہ اگر ذرا بھی توجہ کریں تو کوئی نہ کوئی ہنر اور کام سیکھ سکتے ہیں اور روپیہ کما سکتے ہیں بلکہ رفاہ عامہ کے کاموں میں، خدمت خلق کے کاموں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں.خدا تعالیٰ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیرت کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہتے ہیں کہ یہاں ایک شخص تھے بعد میں وہ بہت مخلص احمدی ہو گئے اور حضرت صاحب سے ان کا بڑا تعلق تھا مگر احمدی ہونے سے قبل حضرت صاحب ان سے ہیں سال تک ناراض رہے.وجہ یہ کہ حضرت صاحب کو ان کی ایک بات سے سخت انقباض ہو گیا اور وہ اس طرح کہ ان کا ایک لڑکا مر گیا (فوت ہو گیا.) حضرت صاحب اپنے بھائی کے ساتھ ان کے ہاں ماتم پرسی کے لئے گئے.ان میں قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص آتا اور اس سے ان کے بہت دوستانہ تعلقات ہوتے تو اس سے بغلگیر ہو کر روتے اور چیخیں مارتے.اسی کے مطابق انہوں نے حضرت صاحب کے بڑے بھائی سے بغلگیر ہو کر روتے ہوئے کہا کہ خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے.نعوذ باللہ.یہ سن کر حضرت صاحب کو ایسی نفرت ہو گئی کہ ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے.بعد میں خدا تعالیٰ نے اس شخص کو توفیق دی اور وہ ان جہالتوں سے نکل آئے اور احمدیت قبول کر لی.(ماخوذ از تقدیر الہی.انوارالعلوم جلد 4 صفحہ 607-606) حضرت مصلح موعود ہستی باری تعالیٰ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ ایک دہر یہ پڑھا کرتا تھا.یعنی ہستی باری تعالیٰ کا کیا ثبوت ہے اس کے بارے میں بیان فرما رہے ہیں کہ ایک دفعہ زلزلہ جو آ یا تو اس کے منہ سے بے اختیار رام رام نکل گیا.پہلے ہندو تھا.دہر یہ ہو گیا تو میر صاحب نے جب اس سے پوچھا کہ تم تو خدا کے منکر ہو پھر تم نے رام رام کیوں کہا.کہنے لگا غلطی ہوگئی.یونہی منہ سے نکل گیا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مگر اصل بات یہ ہے دہریے جہالت پر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 13 645 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء کے ماننے والے علم پر.اس لئے مرتے وقت یا خوف کے وقت دہر یہ کہتا ہے کہ ممکن ہے میں ہی غلطی پر ہوں.ورنہ اگر وہ علم پر ہوتا تو اس کے بجائے یہ ہوتا کہ مرتے وقت دہر یہ دوسروں کو کہتا کہ خدا کے وہم کو چھوڑ دو کوئی خدا نہیں.مگر اس کے الٹ نظارے نظر آتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کی ہستی کی یہ بہت زبر دست دلیل ہے کہ ہر قوم میں یہ خیال پایا جاتا ہے.(ماخوذ از هستی باری تعالیٰ.انوار العلوم جلد 6 صفحہ 286) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت پر آپ علیہ السلام کی دلی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس حالت اور اس کیفیت کا اندازہ اس نوٹ سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے اپنی ایک پرائیویٹ نوٹ بک میں لکھا اور جسے میں نے نوٹ بک سے لے کر شائع کر دیا.وہ تحریر آپ نے دنیا کو دکھانے کے لئے نہ لکھی تھی کہ کوئی اس میں کسی قسم کا تکلف اور بناوٹ خیال کر سکے.وہ ایک سر گوشی تھی اپنے رب کے ساتھ اور وہ ایک عاجزانہ پکار تھی اپنے اللہ کے حضور جو لکھنے والے کے قلم سے نکلی اور خدا تعالیٰ کے حضور پہنچی.آپ نے وہ تحریر نہ اس لئے لکھی تھی کہ وہ دنیا میں پہنے اور نہ پہنچ سکتی تھی اگر میرے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے تحت نہ ڈال دیتا اور میں اسے شائع نہ کر دیتا.اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں : اے خدا! میں تجھے کس طرح چھوڑ دوں جبکہ تمام دوست و غمخوار مجھے کوئی مدد نہیں دے سکتے اُس وقت تو مجھے تسلی دیتا اور میری مددکرتا ہے.یہ اس کا مفہوم ہے.(ماخوذ از افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1927 ء.انوار العلوم جلد 10 صفحہ 60) ہر احمدی کے اخلاق کا معیار انتہائی اعلیٰ ہونا چاہئے.اس کی بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تلقین فرمائی ہے.اس بارے میں آپ کا اپنا نمونہ کیا تھا اور مخالفین سے بھی آپ کس طرح حسن سلوک فرمایا کرتے تھے اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ ہندوؤں میں سے ایک شخص شدید مخالف کی بیوی سخت بیمار ہوگئی.طبیب نے اس کے لئے جو دوائیں تجویز کیں ان میں مشک بھی پڑتا تھا.جب کہیں اور سے اسے کستوری نہ ملی تو وہ شرمندہ اور نادم سا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا اور آ کر عرض کیا کہ اگر آپ کے پاس مشک ہو تو عنایت فرمائیں.غالباً اسے ایک یا دورتی مشک کی ضرورت تھی مگر اس کا اپنا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشک کی شیشی بھر کر لے آئے اور فرمایا
خطبات مسرور جلد 13 646 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء آپ کی بیوی کو بہت تکلیف ہے یہ سب لے جائیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ (124) اشتعال انگیزی سے بچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا تعلیم ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ طاعون طعن سے نکلا ہے اور طعن کا معنی نیزہ مارنا ہیں.پس وہی خدا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت آپ کے دشمنوں کے متعلق قہری جلوہ دکھا یا وہی اب بھی موجود ہے اور اب بھی ضرور اپنی طاقتوں کا جلوہ دکھائے گا اور ہرگز خاموش نہ رہے گا.ہاں ! ہم خاموش رہیں گے اور جماعت کو نصیحت کریں گے کہ اپنے نفسوں کو قابو میں رکھیں اور دنیا کو دکھا دیں کہ ایک ایسی جماعت بھی دنیا میں ہوسکتی ہے جو تمام قسم کی اشتعال انگیزیوں کو دیکھ اور سن کرامن پسند رہتی ہے.(ماخوذ از حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات.انوار العلوم جلد 13 صفحہ 512-511) یہ دعا کا قصہ پہلے بھی سنا چکا ہوں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام درد سے دعا کرتے تھے تو ایک تو بددعا نہیں دینی.دوسرے ہر فتنے کی صورت میں ہم نے امن پسند رہنا ہے.دعا میں خاص حالت پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رہنمائی فرمائی ہے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ دعا کے وقت حقیقی تضرع اس میں پیدا نہیں ہوتا تو وہ مصنوعی طور پر رونے کی کوشش کرے اور اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے نتیجہ میں حقیقی رفت پیدا ہو جائے گی.“ (خطبات محمود جلد 15 صفحہ 166 ) پھر دعا میں کیسی حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ہماری بعض معاملات میں ناکامیاں اور دشمنوں میں اس طرح گھرے رہنا صرف اس لئے ہے کہ ہمارا ایک حصہ ایسا ہے جو دعا میں سستی کرتا ہے.(اور آج بھی یہ حقیقت ہے ) اور بہت ایسے ہیں جو دعا کرنا بھی نہیں جانتے.اور ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ دعا کیا ہے؟ (انقلاب انقلاب کی باتیں تو ہم کرتے ہیں لیکن اس میں بہت کمزوری ہے.) اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دعا موت قبول کر نے کا نام ہے.اور آپ فرمایا کرتے تھے جو منگے سومر رہے جو مرے سومنگن جائے.یعنی کسی سے سوال کرنا یا مانگنا ایک موت ہے اور موت وارد کئے بغیر انسان مانگ نہیں سکتا.جب تک وہ اپنے او پر ایک قسم کی موت وارد نہیں کر لیتا وہ مانگ نہیں سکتا.پس دعا کا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے اوپر ایک
خطبات مسرور جلد 13 647 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اکتوبر 2015ء موت طاری کرتا ہے کیونکہ جوشخص جانتا ہے کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں وہ کب مدد کے لئے کسی کو آواز دیتا ہے.کیا یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کپڑے پہننے کے لئے محلے والوں کو آواز میں دیتا پھرے کہ آؤ مجھے کپڑے پہنا ؤ یا تھائی دھونے کے لئے ، (پلیٹ دھونے کے لئے ) دوسروں سے کہتا پھرے کہ مجھے آکے پلیٹ دھلوا دو یا قلم اٹھانے کے لئے دوسرے کا محتاج بنتا ہے.انسان دوسروں سے اس وقت مدد کی درخواست کرتا ہے جب وہ جانتا ہے کہ یہ کام میں نہیں کر سکتا.ورنہ جس کو یہ خیال ہو کہ میں خود کر سکتا ہوں وہ دوسروں سے مدد نہیں مانگا کرتا.وہی شخص دوسروں سے مدد مانگتا ہے جو یہ سمجھے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا.اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھی وہی شخص مانگ سکتا ہے جو اپنے آپ کو اس کے سامنے مرا ہوا سمجھے اور اس کے آگے اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا ظاہر کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان میرے رستے میں جب تک مر نہ جائے اس وقت تک دعا دعا نہ ہوگی کیونکہ پھر تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص قلم اٹھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہو دوسروں کو مدد کے لئے آوازیں دے.کیا اس کا ایسا کرنا ہنسی نہ ہو گا.جب ایک شخص جانتا ہو اس میں اتنی طاقت ہے کہ قلم اٹھا سکے تو اس کی مدد نہیں کرے گا.اسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں خود فلاں کام کر سکتا ہوں وہ اگر اس کے لئے دعا کرے تو اس کی دعا در اصل دعا نہیں ہوگی.دعا اسی کی دعا کہلانے کی مستحق ہو گی جو اپنے اوپر ایک موت طاری کرتا ہے اور اپنے آپ کو بالکل پیچ سمجھتا ہے.جو انسان یہ حالت پیدا کرے وہی خدا کے حضور کامیاب اور اسی کی دعائیں قابل قبول ہوسکتی ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 9 صفحہ 104) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اندر اخلاق کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اور عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ ہمیں مقبول دعاؤں کی بھی توفیق دے اور اس کا حق ادا کرنے والا بنائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 20 نومبر 2015 ء تا 26 نومبر 2015 ، جلد 22 شماره 47 صفحہ 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 13 648 45 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء بمطابق 06 / نبوت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (آل عمران : 93) تم ہرگز نیکی کو پانہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہوا اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقینا اللہ اس کو خوب جانتا ہے.ہر مومن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ نیکی کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنین کو یہ توجہ دلائی کہ اگر تم نیکی کرنے کی خواہش رکھتے ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکو تو یا درکھو کہ نیکی قربانی کو چاہتی ہے.پس خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربانی کرو.اس چیز کی قربانی کرو جو تمہیں بہت زیادہ عزیز ہے.اس چیز کی قربانی کرو جس سے تم فائدہ اٹھا رہے ہو، نفع حاصل کر رہے ہو.اس چیز کی قربانی کرو جو تمہیں آرام اور سہولت مہیا کر رہی ہے.اس چیز کی قربانی کرو جو بظاہر تمہاری نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کا بھی تمہارے نزدیک ذریعہ ہے.پس یہ تمام قسم کی قربانیاں کوئی معمولی قربانیاں نہیں ہے.مال تو ہمیشہ انسان کو پیارا رہا ہے.اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ سونا، چاندی، جانور، جائیداد، کھیت، باغات یہ سب انسان کو بہت پیارے ہیں اور انسان کے لئے فخر کا باعث ہیں.میدان پر فخر کرتا ہے.لیکن آجکل کے ماڈی دور میں جبکہ نئی ٹیکنالوجی نے دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے انسانوں کو نہ صرف بہت قریب کر دیا ہے بلکہ اس ٹیکنالوجی اور معاشی نظام نے خواہشات
خطبات مسرور جلد 13 649 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء کو بھی بہت بڑھا دیا ہے.قطع نظر اس کے کہ کسی کے پاس وافر دولت ہے یا نہیں خواہشات کی بھڑک اور روپے سے محبت اور اس کے حصول کے لئے کوشش انتہا تک پہنچی ہوئی ہے تا کہ ان تمام سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور تمام عیاشی کی چیزوں تک پہنچ ہو جو د نیا میں کسی بھی ملک میں میسر ہیں.خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں تو اس کی انتہا ہوئی ہوئی ہے.اگر خدانخواستہ ان ملکوں کے حالات خراب ہوئے یا جنگ کی صورتحال ہوئی تو جو حالت یہاں کے رہنے والوں کی ہوگی وہ تصور سے باہر ہے.بہر حال یہ تو ضمنی بات تھی لیکن ہر طبقے میں دولت سے محبت اور ضرورت زندگی کے نام پر نئی سے نئی چیز کی خواہش انتہا پر پہنچی ہوئی ہے اور میڈیا کی وجہ سے اور تجارتوں کی وسعت کی وجہ سے غریب یا کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملکوں میں رہنے والوں کو بھی ان سہولتوں کا علم ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں ہیں اور ان ملکوں میں بھی اگر بہت غریب نہ سہی تو کم از کم اوسط درجے کے شہریوں کی خواہشات اور ترجیحات نئی سے نئی چیزیں حاصل کرنے کی طرف ہوگئی ہیں.بہر حال مادیت اپنے عروج پر ہے.ایسے حالات میں یہ باتیں کرنا عام دنیا دار کے لئے عجیب سی بات ہے کہ نیکی کے حصول کے لئے ان چیزوں کو خرچ کرو جن سے تمہیں محبت ہے.اپنی خواہشات کو قربان کرو، اپنی سہولتوں کو قربان کرو.اور ایک دنیا دار یہی کہے گا کہ یہ پرانے زمانے کی فرسودہ باتیں ہیں یا یہی کہے گا کہ ٹھیک ہے تم غریبوں کے لئے خرچ کرو.ان کی کچھ مددکر دو.کچھ چیریٹی میں دے دو.لیکن یہ کہنا کہ جو چیز تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے اسے خرچ کرو، اپنی خواہشات کو کچل دو اور دوسروں کی خواہشات کے لئے قربانی کرو یا دین کے لئے قربانی کرو یہ عجیب مضحکہ خیز بات ہے.مالی قربانی کرنے والے لوگ لیکن دنیا کو پتا نہیں کہ اس زمانے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو قرآن کریم کی اس تعلیم کا ادراک رکھتے ہیں.اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس زمانے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ان پر کے حصول کی کوشش کرتے ہیں یعنی ایسی نیکی کی کوشش کرتے ہیں جو دوسروں کے لئے قربانی کی انتہا ہے.اس نیکی کی کوشش کرتے ہیں جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہر وقت بے چین رکھتی ہے.اس نیکی کی کوشش کرتے ہیں جو دین کے پھیلانے کے لئے اپنے مال جان اور وقت قربان کرنے کے معیار قائم کرتی ہے.اس نیکی کی کوشش کرتے ہیں جو اطاعت میں بڑھاتی ہے اور اس اطاعت پر عمل کرنے کے لئے یہ نہیں دیکھتے کہ مجھے کیا چیز پیاری ہے.اس وقت سب سے پیاری چیز صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت ہے.اس نیکی کی کوشش کرتے ہیں جو تقویٰ میں بڑھانے والی ہو.دنیا کا بہت سا حصہ نہیں جانتا کہ یہ کون لوگ
خطبات مسرور جلد 13 650 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور زمانے کے امام سے جڑ کر حقیقی نیکی کو پانے کا ادراک حاصل کیا.جنہوں نے نیکی کو پانے کے لئے نیکی کے ان روشن میناروں سے صحیح راستوں کی راہنمائی حاصل کی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے والے تھے.جن کی قربانیوں کے معیار بھی عجیب تھے.ایک حدیث میں آتا ہے جب یہ آیت اتری کہ لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ تو حضرت ابوطلحہ انصاری جو مدینے کے انصار میں سے مالدار شخص تھے.ان کے کھجوروں کے باغات تھے جن میں سے سب سے زیادہ عمدہ باغ بیر وحاء کے نام کا ایک باغ تھا اور یہ حضرت ابوطلحہ کو بہت پسند تھا اور یہ مسجد نبوی کے بھی بالکل قریب تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس باغ میں اکثر جاتے تھے.بہر حال اس آیت کے نازل ہونے پر حضرت ابوطلحہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری سب سے پیاری جائیداد بیروحاء کا باغ ہے.میں اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہوں.(صحيح البخارى كتاب التفسير باب لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون حدیث نمبر 4554) تو یہ وہ لوگ ہیں جو روشن ستارے تھے اور نیکیوں کے راستے متعین کرنے والے تھے.پس ان صحابہ کی مثالیں دیتے ہوئے ہمیں اس زمانے کے امام نے بار بار توجہ دلائی.آپ علیہ السلام نے اپنے متعدد ارشادات میں قرآن کریم کی تعلیمات اور احکامات کو کھول کر بیان کیا.نیکیوں کے حصول کا فہم و ادراک دیا.قربانیوں کے معیاروں کے بارے میں بتایا.ان نمونوں پر قائم ہونے کی تلقین فرمائی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے قائم فرمائے تھے.آپ نے فرمایا کہ مسیح موعود کے ماننے والوں کے لئے ان نمونوں کو اپنا نا ضروری ہے.چنانچہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: بریکار اور گھی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعوی نہیں کرسکتا.نیکی کا دروازہ تنگ ہے.پس یہ امرذہن نشین کر لو کہ مکتی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہوسکتا.کیونکہ نص صریح ہے لن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا بِمَا تُحِبُّونَ (آل عمران: 93).جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اُس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا.اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجے تک پہنچ گئے جو اُن کو حاصل ہوا.دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تب کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے
خطبات مسرور جلد 13 651 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی ملتا ہے.پھر خیال کرو کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضامندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا ؟ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں.خدا ٹھگا نہیں جاسکتا.مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پروانہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 76,75) پھر ایک مجلس میں احباب جماعت کو نصیحت فرماتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے.اسی واسطے علم تعبیر الرؤیاء میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے (خواب میں دیکھے ) کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دے دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے.یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لیے فرمایا لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے.کیونکہ مخلوق الہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ا بنائے جنس اور مخلوق خدا کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے جو ایمان کا دوسرا جز و ہے جس کے بڑوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا.جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے.دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شئے ہے اور اس آیت لَن تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقوی شعاری کا معیار اور محک ہے.ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی میں لہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البيت لے کر حاضر ہو گئے.“ اخلاص و وفا میں حضرت مسیح موعود کی قابل رشک جماعت 66 ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 95-96) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو جماعت پیدا کی اس نے صرف یہ نہیں کیا کہ ان باتوں کو صرف سن لیا اور منہ دوسری طرف کر لیا اور توجہ پھیر لی بلکہ ان باتوں کو سننے کے بعد قربانیوں کے معیار بھی قائم کئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی کئی جگہ، کئی مجالس میں اس بات کا ذکر فرمایا ہے.ایک موقع پر آپ نے جماعت کے معیار قربانی کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ صد ہا
خطبات مسرور جلد 13 652 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے.مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسر آتا ہے.ان کی کوئی جائیداد نہیں مگر ان کے لا انتہا اخلاص اور ارادت سے محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 10 صفحہ 306) پھر ایک موقع پر آپ نے فرمایا: "جو کچھ ترقی اور تبدیلی ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے وہ زمانہ ( ملفوظات جلد 10 صفحہ 243) بھر میں اس وقت کسی دوسرے میں نہیں ہے.“ پس آپ سے براہ راست فیض پانے والوں نے یہ مقام حاصل کیا اور آپ سے خوشنودی کی سند حاصل کی.لیکن کیا یہ اخلاص و وفا وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو گیا.یقینا نہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ آج بھی ایسے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں مردوں میں سے بھی ،عورتوں میں سے بھی اور بچوں میں سے بھی ہیں جو اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ہیں.چند ایک اور چند مخصوص جگہوں پر نہیں بلکہ ہزاروں ایسی مثالیں ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں جو لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مما تحبون کا صحیح ادراک رکھتے ہیں.جو قربانیوں میں بڑھتے چلے جارہے ہیں.جن میں پرانے بھی ہیں اور وہ نئے شامل ہونے والے بھی ہیں جن کو احمدیت قبول کئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے بلکہ ایسے بھی ہیں جن کو شاید چند ماہ ہوئے ہوں.جن کی ترجیحات احمدیت قبول کرنے سے پہلے دنیاوی خواہشات تھیں لیکن احمدیت قبول کرنے کے بعد وہ دین کی خاطر اپنا محبوب مال یا جو کچھ بھی پاس ہے قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.یہ انقلاب ہے جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا فرمایا.لوگوں کی ترجیحات بدل دی ہیں.اور آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ ان پر صادق آتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی قربانیوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.ان مخلصین کی قربانیوں کے چند نمونے میں اس وقت پیش کرتا ہوں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مشکل سے بدن پر لباس ہوتا ہے لیکن اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ہیں اس کی ایک مثال دیتا ہوں.یہ مثال ایک عورت کی ہے اور عورت بھی وہ جو نا بینا ہے.سیرالیون سے ہمارے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جماعت پیمبارو (Kpangbaru) ہے جہاں ایک نابینا عورت رہتی ہیں جنہوں نے تحریک جدید کے چندے کا وعدہ دو ہزار لیون (Leone) لکھوایا.چندہ کے حصول کے لئے جب ان کے پاس گئے تو کہنے لگیں کہ مجھے چندے کی ادائیگی کی پہلے فکر ہو رہی تھی مگر نا بینا ہونے کی وجہ سے میرا ذریعہ آمدنی اتنا نہیں کہ میں کوئی چندہ ادا کر سکتی.
خطبات مسرور جلد 13 653 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء دو ہزار لیون چندہ دینا میرے لئے بہت مشکل ہے.لیکن انہوں نے کہا کہ بہر حال میں نے وعدہ کیا ہے میں ادا کروں گی.چندہ دینے کے لئے انہوں نے ارادہ کیا کہ اپنی ایک غیر احمدی بہن سے ادھار رقم لے لیں.لیکن بہن نے انکار کر دیا کہ تم نا بینا ہو تمہارے پاس ذرائع بھی ایسے نہیں ہیں پتا نہیں مجھے واپس بھی کر سکوگی یا نہیں.اس پر وہ نابینا عورت بڑی فکرمند ہوئیں اور جو سیکرٹری تحریک جدید یا مال چندہ لینے گئے تھے انہیں کہنے لگیں کہ کچھ دیر ٹھہر کے واپس آئیں.چنانچہ وہ دعا میں مصروف ہو گئیں.اسی دوران ایک اجنبی شخص گاؤں میں آیا اور ان کے پاس سے گزرا.گھر کے باہر بیٹھی ہوئی تھیں.تو انہوں نے اس آدمی کو آواز دی.اس سے کہنے لگیں کہ میرے پاس اس وقت ایک سر پر لینے والا کپڑا ہے وہ دو ہزار لیون میں تم خرید لو.یہ کہتے ہیں کہ حالانکہ وہ کپڑا دس سے پندرہ ہزار لیون کا تھا.اس آدمی نے حیران ہو کر پوچھا کہ اتنا ستا کیوں بیچ رہی ہو.اس پر اس خاتون نے بتایا کہ میں نے چندہ تحریک جدید ادا کرنا ہے اور میرے پاس اس وقت رقم نہیں ہے.اس اجنبی نے وہ کپڑا خرید لیا اور دو ہزار لیون نابینا عورت کو دے دیئے.شریف آدمی تھا اور بعد میں وہ کپڑ ابھی واپس کر دیا اور کہا یہ میری طرف سے آپ رکھ لیں.تو افریقہ کے دور دراز علاقے میں رہنے والی ایک ان پڑھ نا بینا خاتون کا یہ اخلاص ہے.یقینا یہ اخلاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کردہ ہیں.پھر بعض اور واقعات پیش کرتا ہوں.راجھستان انڈیا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جماعت بولا بالی ہے.وہاں دورے پر گئے تو وہاں ایک دوست جن کی عمر 65 سال کے قریب ہے.اکثر بیمار رہتے ہیں اور ان کی کوئی آمد نہیں ہے.سال میں صرف سو دن سرکاری مزدوری کا کام ملتا ہے.ان کی اہلیہ گھر کے گزارے کے لئے کام کرتی ہیں.گھر کی حالت بھی بہت خستہ تھی.انہیں جب مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی گئی کہ ٹوکن کے طور پر معمولی سی قربانی کر دیں کیونکہ یہ بھی مومنین کے لئے فرض ہے تو ایک ہزار پچاس روپے چندہ کے ادا کر دیئے.اس پر انہوں نے بڑا حیران ہو کر ان سے پوچھا کہ آپ کے گھر کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں لیکن اس کے با وجود اتنی بڑی رقم دے رہے ہیں.یہ سیکرٹری جو بھی (چندہ لینے گئے تھے کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ اس رقم میں سے کچھ رکھنا چاہتے ہیں تو رکھ لیں.اس پر وہ موصوف رونے لگے اور کہنے لگے کہ یہ رقم میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع کی تھی اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی رقم ہے.میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے تاکہ میں اس سے زیادہ اپنے رب کے حضور پیش کرسکوں.پھر اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ایک اور مخلص کا واقعہ نہیں.یقیناً امراء کو یہ جھنجھوڑنے والا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 654 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء بینن کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہاں کو تو نو جماعت کے صدر صاحب کو تحریک جدید کے چندہ کی ادائیگی کرنے والے افراد کی جنہوں نے وعدے کئے ہوئے تھے فہرست بھجوائی تو ایک پرانے احمدی دوست کا نام چندہ دہندگان میں لکھا ہوا تھا.جب انہیں توجہ دلائی گئی تو اگلے روز مشن ہاؤس آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ نے کسی کو دیکھا ہے جس نے ایک ہفتے سے کھانا نہ کھایا ہو.کہتے ہیں غربت کا یہ حال ہے کہ میں ساری رات روتا رہا ہوں کہ میں نے چندہ تحریک جدید ادا کرنا ہے اور میرے پاس پیسے نہیں ہیں.شاید اللہ تعالیٰ میری آزمائش کر رہا ہے.اس کے بعد انہوں نے معمولی سی رقم تحریک جدید کی مد میں ادا کی اور کہا کہ اس وقت میرے پاس یہی کچھ ہے.اور شاید وہ رقم بھی کہیں سے قرض لے کر آئے ہوں.انہوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لئے ( رقم ) استعمال نہیں کی بلکہ چندہ دیا.اس پر یہ جو لینے والے صاحب گئے تھے کہتے ہیں خاکسار نے ان کو کچھ رقم مدد کے طور پر دی کہ آپ کی تو یہ حالت ہے.چندہ کیا دینا ہے؟ آپ کی مدد کر رہا ہوں.اور ان کو مدد کے طور پر رقم دی تو انہوں نے دس ہزار فرانک سیفا اسی وقت واپس کر دیا اور کہا کہ ابھی میرا چندہ عام بقایا ہے.آپ اس رقم میں سے میرا چندہ کا بقایا کاٹ لیں.تو یہ ہے اخلاص و وفا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بدن پر کپڑے نہیں لیکن اخلاص میں بڑھے ہوئے ہیں.پھر قادیان سے نائب وکیل المال تحریر کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو ڈ یا تھور ( یا جو بھی لفظ ہے) میں خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کی اہمیت بیان کی گئی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کی آواز پر والہانہ لبیک کرنے والے مخلصین کی بعض قربانیوں کا ذکر کیا گیا.اس پر وہاں کی جماعت کی صدر لجنہ اماءاللہ جمعہ کے بعد گھر گئیں اور جا کر اپنے سونے کا ایک وزنی کنگن استار کر تحریک جدید میں پیش کر دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی خواتین میں بھی دینی ضروریات کی خاطر اپنا زیور پیش کرنے کی بے شمار مثالیں ہر جگہ نظر آتی ہیں.دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والی احمدی خواتین کی یہ روح، یہ قدر مشترک ہے کہ دین کی خاطر اپنا پسندیدہ زیور قربان کرنا ہے اور یہ آج صرف احمدی خواتین کا ہی خاصہ ہے.جرمنی کے نیشنل سیکرٹری تحریک جدید لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جماعت بناؤ (Hanau) میں تحریک جدید کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا.سیمینار ختم ہوتے ہی ایک دوست اپنی بیگم کا زیور لے کر دفتر تحریک جدید آ گئے.انہوں نے بتایا کہ سیمینار ختم ہونے کے بعد ہم واپس گھر جارہے تھے تو میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ میں نے تو اپنا وعدہ پکھوا دیا ہے.کیا تم نے بھی کوئی وعدہ لکھوایا ہے؟ اس پر وہ کہنے لگی
خطبات مسرور جلد 13 655 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء کہ میں نے قرآن کریم کی تعلیم لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ کے مطابق قربانی پیش کی ہے.چنانچہ ان کی اہلیہ نے اپنی شادی کا زیور تحریک جدید میں دے دیا.لاہور کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک خاتون کا تحریک جدید کا وعدہ معیاری تھا.امیر تھیں، صاحب حیثیت تھیں لیکن پھر بھی جب انہیں ٹارگٹ پورا کرنے کے حوالے سے مزید دینے کی درخواست کی تو فوراً اٹھ کر کمرے میں گئیں اور زیورات کا ایک ڈبہ لے آئیں اور کہنے لگیں کہ یہ سب خدا تعالیٰ کی راہ میں ہی دینا ہے.چنانچہ انہوں نے اس میں سے وزنی کڑے نکالے اور تحریک جدید میں پیش کئے.اب دیکھیں ایک عورت ہندوستان کے جنوب میں رہتی ہے.مختلف قبیلے مختلف لوگ مختلف قوم، زبان مختلف، ایک پنجاب پاکستان میں رہتی ہے، تیسری جرمنی میں رہتی ہے لیکن قربانی کرنے کی روح اور سوچ ایک ہے.یہ اکائی ہے.یہ قربانی کے معیار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت میں پیدا فرمائے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جو احمد یوں پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.افریقہ کے ملک مالی کے ایک مخلص کا واقعہ بیان کرتے ہوئے وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ان کی پوسٹنگ مالی کے ریجن سیگو (Segou) میں ہوئی.ایک دن نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد معلم صاحب نے ایک شخص کو خاکسار سے ملوایا کہ یہ مولویوں کے سب سے بڑے خاندان سے ہیں اور انہوں نے بیعت کی ہے.انہوں نے کہا کہ میں چندہ دینے آیا ہوں کیونکہ میں نے آج ریڈیو میں خلیفہ اسیح کا خطبہ چندہ کے متعلق سنا ہے.کہتے ہیں خاکسار نے انہیں انفاق فی سبیل اللہ کی برکات بتانے کے لئے آیت لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ.سنائی تو وہ بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ میں نے ریڈیو پر جو خطبہ سنا تھا اس میں بھی یہی آیت سنی تھی.سوچا تھا کہ پانچ ہزار سیفا چندہ دوں مگر بعد میں شیطان نے دل میں وسوسہ ڈال دیا کہ صرف دو ہزا ر سیفا ہی کافی ہے لیکن اب جب آپ نے یہی آیت دوبارہ سنائی ہے تو میرے دل کو یقین ہو گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی نظام ہے اور اب میں پانچ ہزار سیفہ ہی چندہ دوں گا.چنانچہ انہوں نے پانچ ہزار سیفا چندہ دیا تو اللہ کے فضل سے نو مبائعین مالی قربانی میں بھی اب بہت آگے بڑھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والوں پر جس طرح فضل فرماتا ہے اور جس طرح قربانی کو پھل لگتے ہیں اور پھر اس کے نتیجہ میں ان کے ایمان میں اور اخلاص میں مزید ترقی ہوتی ہے اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں.کانگو سے ابراہیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں ایک زمیندار ہوں اور کھیتی باڑی کرتا ہوں.
خطبات مسرور جلد 13 656 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء پہلے میں مالی قربانی کم کرتا تھا مگر جب سے میں نے چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے میری فصل کی پیداوار میں بہت اضافہ ہو گیا ہے.چندے کی اہمیت مجھ پر واضح ہوگئی ہے اور میں نے اب باقاعدگی سے چندے کی ادائیگی شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے میری یہ زندگی تبدیل ہوگئی ہے.پھر کانگو کی ایک خاتون مریم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میں بھی کھیتی باڑی کرتی ہوں.اب میں نے ہر دفعہ فصل کی کٹائی کے بعد چندہ ادا کرنا شروع کر دیا ہے اور میرا تجربہ ہے کہ چندہ ادا کرنے کے بعد میری آمدنی دوگنی ہو جاتی ہے.پھر کانگو سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں ایک احمدی دوست احمد صاحب ہیں ان کو چندہ کی تحریک کی گئی.انہوں نے اپنے تحریک جدید کا وعدہ مبلغ ہیں ہزار فرانک لکھوایا حالانکہ ان دنوں یہ بیروز گار تھے لیکن وعدہ لکھوانے کے ایک ہفتہ بعد ہی ان کو ملازمت مل گئی اور آج کل یہ اپنی فیلڈ میں مینجر کے طور پر کام کر رہے ہیں اور باقاعدگی سے چندہ ادا ئیگی کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب چندہ کی برکت ہے.پھر نائب وکیل المال قادیان سے تحریر کرتے ہیں کہ کیرالہ کی ایک جماعت پتھ پیریم کے ایک دوست نے فون پر بتایا اور میرا کہا کہ انہوں نے گزشتہ سال تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا اور مخلصین کا ذکر کیا تھا ( خطبہ میں میں نے افریقہ کی مثالیں دی تھیں ) جنہوں نے غربت کے باوجود چندہ تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہم تو پھر بھی صاحب استطاعت ہیں.یہ کہتے ہیں کہ اس دوست نے کہا اس لئے میرا چندہ تحریک جدید کا وعدہ دو لاکھ روپے بہت کم ہے اسے بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کر دیں.یہ کہہ کر موصوف نے رونا شروع کر دیا اور کہتے ہیں کہ انہوں نے وعدہ پورا کرنے کے لئے مجھے دعائیہ خط بھی لکھا.نائب وکیل المال کہتے ہیں کچھ عرصہ کے بعد صوبہ کیرالہ کا دورہ کرتے ہوئے موصوف سے ملاقات ہوئی تو موصوف نے اپنا چندہ مکمل ادا کر دیا اور کہنے لگے کہ تحریک جدید کے وعدے میں اضافہ کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرے کام میں بے انتہا برکت ڈالی اور اب میرے پاس اس قدر کام ہے کہ سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے.پھر ابراہیم صاحب کرناٹک میں انسپکٹر تحریک جدید ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جماعت گلبرگہ کے ایک خادم نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی ایک ماہ کی آمد تہتر ہزار چھ سو روپے تحریک جدید کے چندے میں لکھوائی لیکن ادائیگی کے وقت موصوف نے غیر معمولی اضافے کے ساتھ ایک لاکھ پانچ سو گیارہ روپے کی ادائیگی کی.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک معجزہ دکھایا کہ
خطبات مسرور جلد 13 657 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء ایک شخص کے ذمہ ان کی ایک بڑی رقم قابل ادا تھی.موصوف بار ہا تقاضا کرنے کے بعد تھک ہار کر اس رقم کی واپسی سے بالکل مایوس ہو چکے تھے.لیکن ایک دن وہ شخص غیر متوقع طور پر آیا اور معذرت کرتے ہوئے ساری رقم ادا کر دی.مالی قربانی سے اللہ تعالیٰ ایمان میں کس طرح مضبوطی پیدا فرماتا ہے.دنیا میں مختلف جگہوں پر اس کے بھی نظارے نظر آتے ہیں.ازبکستان کے ایک نو مبائع دوست واحد و وچ صاحب ہیں.وہ کہتے ہیں کہ میں اتنے لمبے عرصے سے ماسکو میں مقیم ہوں اور ایک معمول کے مطابق مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سال مجھے کتنی آمد ہوگی.لیکن اس سال جب سے میں نے بیعت کی ہے اور چندہ دینا شروع کیا ہے میری آمدنی میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے.پچھلے تیرہ سال میں مجھے اتنی آمدنی نہیں ہوئی جتنی اس سال میں ہوئی ہے اور اب مجھے اس بات کا کامل یقین ہو گیا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی ہی برکت ہے.بورکینا فاسو کے کا یا ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں تا پگو (Tapgo) کی جماعت کے ایک ممبر ایک دن وہاں کے معلم صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ وہ حج کرنے کی خواہش رکھتے ہیں مگران کے پاس ابھی وسائل نہیں ہیں.اس پر معلم صاحب نے انہیں کہا کہ آپ اپنے چندے میں با قاعدہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے مالی حالات خود ہی ٹھیک کر دے گا اور حج پر جانے کے سامان بھی پیدا کر دے گا.اس کے بعد انہوں نے اپنا چندہ با قاعدہ ادا کرنا شروع کر دیا.کچھ عرصہ کے بعد آ کر انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کر دی ہے اور حج پر جانے کے لئے انتظام ہو گیا ہے.انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ سب چندے کی برکت سے ہوا ہے.اب وہ حج کر کے واپس بھی آچکے ہیں اور اپنے چندے میں با قاعدہ ہیں.بورکینا فاسو کی ایک جماعت کے صدر صاحب نے بتایا کہ ایک شخص کے گھر میں بہت مالی تنگی تھی.ایک پراجیکٹ بھی شروع کرنا چاہا مگر پیسوں کی کمی کے باعث مکمل نہ ہو سکا.انہی دنوں جلسہ سالانہ بورکینا فاسو جانے کا اتفاق ہوا.وہاں پر مالی قربانی کے بارے میں سن کر ارادہ کیا کہ گھر پہنچ کر ضرور چندوں میں شامل ہوں گا.جو بقایا جات ہیں وہ بھی ادا کروں گا.چنانچہ واپس آتے ہی سب سے پہلے اپنا بایا چندہ ادا کیا اور آئندہ سے چندہ وقت پر ادا کرنے کا وعدہ بھی کیا.یہ کہتے ہیں کہ اس پر ابھی ایک ماہ بھی پورا نہ گزرا تھا کہ تمام گھر یلو پریشانیاں حل ہونی شروع ہو گئیں اور پرا جیکٹ بھی خدا کے فضل سے مکمل ہو گیا اور یہ تمام
خطبات مسرور جلد 13 658 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء تر برکت چندے ادا کرنے کی بدولت ہوئی.کینیڈا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دوست کا کچھ سال پہلے بعض مالی معاملات میں دو اڑھائی لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا.انہیں توجہ دلائی گئی کہ آپ اپنے لا زمی چندہ جات با قاعدگی سے ادا کیا کریں.اس سے آپ کے اموال میں برکت پڑے گی.( یہ بھی واضح ہو کہ جو چندہ عام وغیرہ ہیں یہ بھی دینے ضروری ہیں.) اس کے بعد انہوں نے باقاعدگی سے لازمی چندہ جات ادا کرنا شروع کر دیئے.وہ کہتے ہیں کچھ عرصہ قبل میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد پڑھا کہ تحریک جدید کا چندہ ابتدائی مہینوں میں ادا کرنا چاہئے.تو میں نے اس ارشاد پر عمل کرتے ہوئے سال کے شروع میں ہی چندہ ادا کرنا شروع کر دیا اور گزشتہ تین سال سے سال کے آغاز میں ہی چندہ ادا کر رہا ہوں.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسا فضل نازل فرمایا کہ میرا سارا قرض اتر گیا اور نہ صرف قرض اتر گیا بلکہ مالی کشائش میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا.اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ ضرور فضل فرماتا ہے.امیر صاحب کینیڈا ہی لکھتے ہیں کہ ایک دوست نے اپنا بزنس شروع کیا اور ایک ہزار ڈالر کا وعدہ تحریک جدید میں لکھوایا.اس پر انہیں تحریک کی گئی کہ اگلے سال آپ نے اپنا وعدہ بڑھا کر کم از کم پانچ ہزار ڈالر لکھوانا ہے.نیز کہا کہ دعا کے لئے مجھے خط بھی لکھتے رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو وعدہ پورا کرنے کی توفیق دے.چنانچہ سال کے اختتام پر جب سیکرٹری مال صاحب چندہ کی وصولی کے لئے ان کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کاروبار میں بہت برکت ڈالی ہے اور میں بجائے اگلے سال کے اسی سال پانچ ہزار ڈالر ادا کروں گا اور اگلے سال بڑھانے کی مزید کوشش کروں گا.امریکہ کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت سیٹل (Seattle) کے ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ پاکستان میں 1974ء میں بھی اور پھر 1984ء میں ہمارے کاروبار جلا دیئے گئے.مگر جب بھی ہمارے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا ہر بار خدا تعالیٰ نے خاص فضل فرماتے ہوئے ہمارے اموال میں کئی گنا برکت ڈالی.چنانچہ موصوف نے اس سال ایک لاکھ ڈالر کا وعدہ لکھوایا اور بتایا کہ اللہ کے فضل سے اب اتنے وسیع پیمانے پر کاروبار کر رہے ہیں جس کا پہلے سوچ بھی نہیں سکتے تھے.اسی طرح ایک ممبر شکا گو سے چیک لے کر آئے جس پر اڑتیس ہزار چارسو پندرہ ڈالر لکھا ہوا تھا.جب اس ممبر سے پوچھا گیا کہ یہ خاص رقم کیوں لکھی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے اکاؤنٹ میں
خطبات مسرور جلد 13 659 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء جتنی بھی رقم تھی ساری کی ساری یہ لکھ دی اور پیش کرتا ہوں.ایسے بھی لوگ ان ملکوں میں ہیں جو اس ترقی یافتہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دین کی خاطر قربانیاں کرنے والے ہیں اور سب کچھ دینے والے ہیں.نئے آنے والے بھی اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں.عرب ملک کے ایک دوست ہیں جنہوں نے نومبر 2011ء میں بیعت کی تھی لیکن پچھلے سال ان کی اہلیہ نے بھی بیعت کی ہے.سیکرٹری مال سے ان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ دونوں میاں بیوی آپس میں گفتگو کرتے تھے کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو سب سے اچھے طریق سے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتی ہے.اس لئے انہی کے ذریعہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہئے.ان کی اہلیہ پہلے احمدی نہیں تھیں.اب وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئی ہیں اور اس سال دونوں میاں بیوی نے قریباً چودہ ہزار پاؤنڈ تحریک جدید میں چندہ کی ادائیگی کی ہے جو ان کی مقامی جماعت میں سے کسی بھی فیملی کی طرف سے کی جانے والی سب سے زیادہ بڑی قربانی ہے.لندن ریجن کے امیر لکھتے ہیں کہ ووسٹر پارک کی جماعت کو تحریک جدید کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لئے تحریک کی گئی.وہاں ایک فیملی نے اپنی چھٹیوں پر جانے کے لئے جو پیسے جمع کئے تھے انہیں چندے کی تحریک کی گئی تو انہوں نے وہ پیسے تحریک جدید میں ادا کر دیئے اور چھٹیوں کے دوران کہیں جانے کی بجائے گھر میں رہ کر چھٹیاں گزارنے کو ترجیح دی.مالی قربانی کے مردوں عورتوں اور بچوں کے بیشمار واقعات سامنے آتے ہیں.اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا دنیا کی ترجیحات، دنیاوی لذات اور سہولت کی طرف ہیں.لیکن احمدی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربانی کرتے ہیں.یوگنڈا سے اگا نگاریجن کے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ ہم نے جماعت بوسو کے ایک ممبر کوتحریک جدید کا وعدہ پورا کرنے کی طرف توجہ دلائی.بیچاروں کے پاس اور کچھ نہیں تھا.ایک مرغا گھر میں تھا انہوں نے اسی وقت اس کی قیمت جوان کے وعدے کے برابر تھی پیش کر دی.وہ کہنے لگے کہ اس وقت تو میرے پاس کوئی اور رقم نہیں ہے.بچوں کی سکول فیس بھی ادا کرنی ہے.لیکن وہ میں اب بعد میں کروں گا.پہلے آپ میرا اور میری فیملی کا چندہ لیں.امریکہ کے نیشنل سیکرٹری تحریک جدید لکھتے ہیں کہ ایک گیارہ سال کا بچہ ایک ویڈیو گیم خرید نے کے لئے پیسے جمع کر رہا تھا.عموماً اس عمر میں بچے ویڈیو گیمز کے بہت شوقین ہوتے ہیں اور ویڈیو گیمز کے
خطبات مسرور جلد 13 660 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء علاوہ ان کو کچھ اور نظر نہیں آتا.لیکن عزیزم کو جب تحریک جدید کے چندے کی تحریک کی گئی تو اس نے ویڈیو گیم خریدنے کے لئے جو ایک سو ڈالر جمع کئے ہوئے تھے وہ چندے میں ادا کر دیئے.اس طرح اس بچے نے دین کو دنیا پر ترجیح دینے کا وعدہ ایفاء کر کے دکھایا.اس کے علاوہ بہت سے بچوں نے جیب خرچ کے لئے دی گئی رقم جمع کی اور تحریک جدید کے چندے میں ادا کر دی.اب امریکہ جیسے ملک میں رہتے ہوئے بچوں کی یہ سوچ یقیناً قابل تعریف ہے اور ان کے ماں باپ کو اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے.اور شکر گزاری کا طریق یہ ہے کہ اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے معیار بلند کریں.یوگنڈا سے اگا نگا ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہمارے ریجن کی ایک جماعت ناچیرے کے ایک طفل نے نماز سیکھی اور اب وہاں اپنی جماعت میں نماز پڑھاتا ہے اور جمعہ بھی پڑھاتا ہے.امیر صاحب نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے کچھ انعام دیا تو اس نے وہ پیسے تحریک جدید میں ادا کر دیئے.اس کے کچھ عرصے بعد یہ طفل ایک جنازے میں شرکت کے لئے گیا تو وہاں نماز کا وقت ہو گیا اور اس طفل نے بڑی خوش الحانی سے اذان دی.اس پر وہاں ایک شخص نے خوش ہو کر اسے انعام دیا تو اس نے وہ بھی تحریک جدید میں چندے کے طور پر پیش کر دیا.اس طفل کو دیکھ کر اس جماعت کے دوسرے اطفال میں بھی چندہ دینے کا شوق پیدا ہوا اور بعض اطفال نے کہا کہ ہم کھدائی کا کام کر کے چندہ ادا کریں گے.غریب تھے.چھوٹاسا گاؤں ہے.غریب لوگ ہیں.چنانچہ اس سال اس جماعت کے چھ اطفال نے اپنے وعدہ جات سے زائد چندوں کی ادائیگی کی توفیق حاصل کی.پس دنیا کے ہر کونے میں اللہ تعالیٰ ایسے مخلص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرما رہا ہے جو قربانی کی روح کو سمجھتے ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ روح ہمیشہ ترقی کرتی رہے اور سب تقویٰ میں بھی بڑھتے چلے جانے والے ہوں.تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان اس وقت میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے مختصراً گزشتہ سال کی رپورٹ پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے 31 اکتوبر کو تحریک جدید کا اکیا سیواں (81) سال ختم ہوا اور بیا سیواں (82) سال شروع ہو گیا.اس میں ہم داخل ہو گئے ہیں اور اب تک جور پورٹس آئی ہیں ان کے مطابق اس سال تحریک جدید کے مالی نظام میں کل وصولی بانوے لاکھ سترہ ہزار آٹھ سو پاؤنڈ ہوئی ہے.الحمد للہ.یہ وصولی گزشتہ سال کی نسبت سات لاکھ سینتالیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.
خطبات مسرور جلد 13 661 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء پاکستان میں مخدوش حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے وہاں قربانی کا جو معیار رکھا ہوا ہے اس پر قائم ہیں اور ان کا نمبر پہلا ہی ہے.اس کے بعد باہر کے ممالک میں جرمنی پہلے نمبر پر ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی میں مالی قربانی کرنے کی روح بہت زیادہ ہے.وہاں مساجد کی تعمیر کے سلسلے میں بھی وہ قربانیاں کر رہے ہیں اور بڑھ چڑھ کر قربانی کر رہے ہیں.اور ان کی کوشش ہے، ہر جگہ سے بے چین ہو کر لوگ خط لکھتے ہیں کہ یہ دعا کریں ہماری مسجد جو ہے جلدی بن جائے اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہیں.لیکن باقی قربانیوں میں بھی مکمل اور پورا حصہ لے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے.تیسرے نمبر پر امریکہ.چوتھے پر کینیڈا.پانچویں پر آسٹریلیا.چھٹے پر بھارت.ساتویں پر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے.آٹھویں نمبر پر انڈونیشیا.پھر نویں نمبر پر پھر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے.دسویں نمبر پر گھانا.گھانا پیچھے سے بہت اوپر آیا ہے اور سوئٹزرلینڈ جو دسویں نمبر پر ہوا کرتا تھا وہ گیارھویں نمبر پر چلا گیا ہے.اور گھانا کی جماعت کے ممبران نے اس سال فیصد مقامی کرنسی کے لحاظ سے سب سے زیادہ وصولی کی ہے یا ادائیگی کی ہے.انہوں نے ساٹھ فیصد اضافہ کیا ہے.آسٹریلیا کے لوگ دوسرے نمبر پر وصولی میں بڑھے ہیں.اور پھر عرب ممالک کے لوگ ہیں.پھر کینیڈا اور باقی لوگ ہیں.باقی جماعتیں ہیں.فی کس ادائیگی کے اعتبار سے نمایاں ادائیگی کرنے والوں میں دو عرب ممالک کے علاوہ پہلے نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے.پہلے یہ پہلے نمبر پر ہوا کرتا تھا لیکن اب عرب ممالک میں قربانی کی روح اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑھتی جارہی ہے.فی کس قربانی کے لحاظ سے امریکہ چوتھے نمبر پر ہے.آسٹریلیا پانچویں پر اور یوکے(UK) چھٹے پر.جرمنی ساتویں نمبر پہ.ناروے میں بھی ترقی ہورہی ہے نویں نمبر پر ہے.پھر چھوٹی جماعتوں میں سنگا پور فن لینڈ، جاپان اور مڈل ایسٹ کی چار جماعتیں قابل ذکر ہیں.افریقن ممالک میں مجموعی طور پر نمایاں وصولی کرنے والے گھانا، نائیجیریا، ماریشس، بورکینا فاسو، تنزانیہ، گیمبیا، بینن ہیں.مجموعی تعداد کے بارے میں میں ہمیشہ بہت زور دیتا ہوں کہ اس کو بڑھائیں.چاہے کوئی تھوڑا ساٹوکن کے طور پر ہی دے.اس کے لئے جماعتوں کو ٹارگٹ بھی دیئے گئے تھے.اس سال اللہ کے فضل سے تحریک جدید میں شاملین کی تعداد تیرہ لاکھ گیارہ ہزار ہو گئی ہے.اور اس سال ایک لاکھ نئے شامل
خطبات مسرور جلد 13 662 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء ہوئے ہیں.آسٹریلیا نے اس میں کافی ترقی کی ہے.شامل کرنے کے لئے کوشش کی ہے اور تقریباً چورانوے فیصد لوگوں کو شامل کر لیا ہے.کینیڈا نے بہت کوشش کی ہے اکانوے فیصد کو شامل کیا ہے.بھارت نے بھی اس بارے میں کافی کام کیا ہوا ہے.لگتا ہے ان کی رپورٹ نہیں آئی.میرا خیال ہے وہ بھی اس کے برابر ہی ہیں.اگر رپورٹ نہیں بھیجی تو بھجوادیں.اس کے علاوہ افریقہ کے ملکوں میں اس بارے میں کافی کام کیا گیا ہے.مالی نے اس سال کافی کام کیا ہے.بورکینا فاسو، کانگو برازاویل، گنی کنا کری، کیمرون، گھانا، سینیگال، ساؤتھ افریقہ.پہلے سے بڑھ کر انہوں نے شامل کرنے میں کوشش کی ہے.دفتر اول کے شامل افراد کے پانچ ہزار نو سوستائیس کھاتے ہیں جس میں سے پچاسی خدا کے فضل سے حیات ہیں اور اپنے چندے خود ادا کر رہے ہیں.باقی پانچ ہزار آٹھ سو بیالیس وفات شدگان کے کھاتے بھی ان کے ورثاء نے جاری کر دیئے ہیں.پاکستان کی تین بڑی جماعتیں جنہوں نے قربانی کی.پہلے نمبر پر لاہور ہے.دوسرے نمبر پر ربوہ.تیسرے پر کراچی.اور وصولی کے اعتبار سے قربانی کرنے والے اسلام آباد، ملتان، کوئٹہ، پشاور، حیدرآباد، میر پور خاص، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، بہاولنگر اور جھنگ ہیں.دس اضلاع جو بڑے ہیں جنہوں نے قربانی کی.سیالکوٹ نمبر ایک، فیصل آباد دو.سرگودھا تین.عمر کوٹ چوتھے نمبر پر.گوجرانوالہ اور گجرات پانچویں پر.ٹو بہ ٹیک سنگھ چھٹے پر.میر پور آزاد کشمیر ساتواں.اوکاڑہ آٹھ.ننکانہ صاحب اور سانگھڑ.گزشتہ سال کی نسبت درج ذیل جماعتوں نے زیادہ کارکردگی پیش کی.جو چھوٹی جماعتیں ہیں ان میں ایک حیدر آباد کی صابن دستی.پھر گھٹیالیاں خورد ہے.شہداد پور.کھوکھر غربی.کنری.چک نو پنیار.ساہیوال.بشیر آباد سٹیٹ.عنایت پور بھٹیاں.جرمنی کی دس جماعتیں نوکس اور روڈر مارک، فلورز ہائم ، کولون ، نیدا، مهدی آباد، نوئزن برگ، فریڈ برگ ، درائے آئش اور کوبلنز.دس لوکل امارتیں ہیمبرگ، فرینکفرٹ، گروس گراؤ، ڈارم شنڈ ، ویز بادن، من ہائم ، موئر فیلڈن والڈورف ، ڈیٹسن باخ ، ریڈشنڈ ، آفن باخ.
خطبات مسرور جلد 13 663 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 نومبر 2015ء امریکہ کی جماعتیں ہیں سلیکون ویلی، ڈیٹرائٹ، لاس اینجلس ایسٹ، سیاٹل، سینٹرل ورجینیا، یارک ہیرس برگ.برطانیہ کے پہلے پانچ ریجن لندن اے نمبر دولندن بی.مڈلینڈ ز.نارتھ ایسٹ اور ساؤتھ ہیں.فی کس ادائیگی کے لحاظ سے برطانیہ کے ریجن میں اسلام آباد نمبر ایک پہ.مڈلینڈز.ساؤتھ ویسٹ.نارتھ ایسٹ اور سکاٹ لینڈ ہیں.جلنکھ وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی پہلی دس بڑی جماعتیں مسجد فضل نمبر ایک پہ.پھر رسیز پارک.پھر و وسٹر پارک، نیو مالڈن، سلطعم، برمنگھم ساؤتھ ، تھارٹن ہیتھ ، ومبلڈن پارک، بریڈ فورڈ اور گلاسگو ہیں.چھوٹی جماعتوں میں نمبر ایک پیمنگٹن سپا، وولور ہیمپٹن ، سپین ویلی کاونٹری، نیو کاسل ہیں.ادائیگی کے لحاظ سے جو چھوٹی جماعتیں ہیں ان میں ڈیون اینڈ کا نوال ہیمنگٹن سپا، سپین ویلی، سوان زی اور دولور ٹیمپٹن.کینیڈا کی جماعتیں کیلگری نمبر ایک پہ.پیس و تیسج ٹورانٹو.وان.وینکوور ہیں.وصولی کے لحاظ سے پانچ قابل ذکر جماعتیں.ایڈمنٹن.ڈرہم.سکاٹون ساؤتھ ملٹن جارج ٹاؤن اور آٹو اویسٹ ہیں.آسٹریلیا کی پہلی دس جماعتیں ہیں کا سل ہل ، میلبرن ساؤتھ ، برزمین ساؤتھ ، ACT کینبرا، ایڈیلیڈ ساؤتھ ہیمپٹن ، بلیک ٹاؤن ، ماؤنٹ ڈریواٹ، مارزڈن پارک ہیں.انڈیا کی دس جماعتیں کیرولائی ( کیرالہ) ، حیدرآباد، کالی کٹ ( کیرالہ ) ، قادیان ، پتھہ پیریم ( کیرالہ) ، کنانور ٹاؤن ( کیرالہ) اور پنگا ڈی ( کیرالہ)، کلکتہ ( بنگال)، بنگلور (کرناٹک)، سولور ( تامل ناڈو) ہیں.اور قربانی کے لحاظ سے انڈیا کے جو دس صوبہ جات ہیں وہ کیرالہ، تامل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش ، جموں و کشمیر، اڑیسہ، پنجاب، بنگال، دہلی اور مہاراشٹر ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام شاملین کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور انہیں اخلاص و وفا میں بڑھاتا رہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27 نومبر 2015 ء تا 03 دسمبر 2015 ، جلد 22 شماره 48 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 664 46 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء بمطابق 13 نبوت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اورسورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعایٰ نے فرمایا: حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جوعشق اور محبت کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھا اسے ہر وہ احمدی جس نے آپ کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھا ہو یا نا ہو جانتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محض اللہ عقد اخوت اور محبت کی کوئی مثال اگر دی جاسکتی ہے تو وہ حضرت مولانا حکیم نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال ہے.اقرار اطاعت کرنے کے بعد اگر اس کے انتہائی معیاری نمونے دکھا کر اس پر قائم رہنے کی مثال کوئی دی جا سکتی ہے تو وہ حضرت مولانا نورالدین کی ہے.تمام دنیوی رشتوں سے بڑھ کر بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے اگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رشتہ جوڑا تو اس کی اعلیٰ ترین مثال حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی ہے.خادمانہ حالت کا بیمثال نمونہ اگر کسی نے قائم کیا تو وہ حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین نے قائم کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے عجز وانکسار میں اگر ہمیں کوئی انتہائی اعلی مقام پر نظر آتا ہے تو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس کا بھی اعلیٰ معیار حضرت خلیفہ اسح الاول نے قائم کیا اور پھر امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وہ اعزاز پایا جو کسی اورکو نہ مل سکا.آپ علیہ السلام نے حضرت خلیفتہ اسی الاول کے بارے میں فرمایا کہ چہ خوش بُودے اگر ہر یک زامنت نور دیں بودے“.نشان آسمانی روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 411) پس یہ ایک زبردست اعزاز ہے جو کہ زمانے کے امام نے اپنے ماننے والوں کے لئے ہر چیز کا معیار حضرت مولانا نورالدین کے معیار کو بنادیا کہ اگر ہر ایک نورالدین بن جائے تو ایک انقلاب بر پا ہو سکتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفہ اسیح الاوّل کے
خطبات مسرور جلد 13 665 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء بعض واقعات بیان فرمائے ہیں.ان واقعات کو پڑھ کر آقا و غلام ، مرشد و مرید کے دوطرفہ تعلق اور محبت کے نمونے نظر آتے ہیں.عاجزی اور انکساری کے نمونے بھی نظر آتے ہیں.اخلاص و وفا کے نمونے بھی نظر آتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی قربانیوں کے معیار اور اطاعت کے اعلیٰ ترین نمونے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے.اس پر آپ نے وطن واپس جانے تک کا نام تک نہ لیا.اس وقت آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنا رہے تھے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب میں بھیرہ گیا ہوں تو میں نے بھی یہ مکان دیکھا تھا.اس میں آپ ایک شاندار ہال بنوار ہے تھے تا کہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مطلب بھی کیا کریں.حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے لحاظ سے ( یعنی اس زمانے میں جب یہ بیان ہو رہا ہے ) تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانے میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے قربانی کی تھی اس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا.اس وقت اس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کا کام نہیں تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے بعد آپ نے واپس جا کر اس مکان کو دیکھا تک نہیں.بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جا کر مکان تو دیکھے آئیں.لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے اب اسے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے.(ماخوذ از مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات، انوارالعلوم جلد 25 صفحہ 419-420) پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں.جب انجمن کے بعض عمائدین اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگ گئے تھے اور دنیا داری کا رنگ ان پر غالب آ رہا تھا.بہت سے معاملات جب انجمن میں پیش ہوتے تو عموماً حضرت خلیفہ امسیح الاول اور حضرت مصلح موعودؓ کی رائے ایک ہوتی تھی اور بعض دوسرے بڑے سرکردہ ممبران کی مختلف ہوتی تھی.بہر حال ایک ایسے ہی موقع پر ایک مجلس میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کو بند کرنے کا معاملہ پیش ہوا.حضرت مصلح موعود اس کو بند کرنے کے خلاف تھے.حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی رائے بھی یہی تھی کہ اس کو بند نہ کیا جائے.اس پر بڑی زور دار بحث ہو رہی تھی.آخر فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہونا تھا.بہر حال اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے ایام میں بعض
خطبات مسرور جلد 13 666 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء لوگوں نے کوشش کی کہ اس سکول کو توڑ کر صرف عربی کا ایک مدرسہ قائم رکھا جائے کیونکہ جماعت دوسکولوں کے بوجھ برداشت نہیں کر سکتی اور اس پر اتفاق جماعت اتنا ز بر دست تھا (یعنی وہ جو ممبران تھے ).حضرت مصلح موعود" کہتے ہیں جہاں تک میں سمجھتا ہوں شاید ڈیڑھ آ دمی سکول کی تائید میں رہ گیا تھا.ایک تو حضرت خلیفہ اسیح الاول تھے اور حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ آدھا میں اپنے آپ کو کہتا ہوں کیونکہ اُس وقت میں بچہ تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو جوش مجھے اس وقت سکول کے متعلق تھا وہ دیوانگی کی حد تک پہنچا ہوا تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الاول چونکہ ادب کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بات نہ کر سکتے تھے اس لئے آپ نے مجھے اپنا ذریعہ اور ہتھیار بنایا ہوا تھا.وہ مجھے بات بتا دیتے اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچا دیتا.آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی عطا کی اور باوجود یکہ بعض جلد باز دوستوں نے قریباً ہم پر کفر کافتویٰ لگا دیا کہ اگر یہ سکول بند نہ کیا تو گویا کہ تم لوگ کفر کر رہے ہو اور کہا پر یہ دنیا دار لوگ ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الاول کو بھی اور حضرت مصلح موعودؓ کو بھی کہنے لگے یہ لوگ دنیا دار ہیں کیونکہ انگریزی تعلیم کی تائید کرتے ہیں.پھر بھی فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے حق میں کیا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 13 صفحہ 480-481) اس واقعہ سے سکول کے جاری رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں جو باتیں ہیں وہ تو ہیں لیکن حضرت خلیفہ اسی الاول کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے بات کرنے کے ادب اور احترام کا بھی پتا چلتا ہے.شاید آپ کو یہ بھی خیال ہو کہ معاملہ کو پیش کرتے وقت جوش میں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ادب کے خلاف ہو.حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کی فراست کا ذکر کرتے ہوئے ، آپ کے ایمان کا ذکر کرتے ہوئے اور یہ بیان کرتے ہوئے کہ قو میں کس طرح بنتی ہیں حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ افراد سے قو میں بنتی ہیں اور قوموں سے افراد بنتے ہیں.اعلیٰ دماغوں کے مالک ذہین اور نیک انسان قوموں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں اور اعلیٰ اور نیک مقاصد اچھے اور ہوشیارلوگوں کے ہاتھ آ کر بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں.اور پھر یہ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جماعت قائم کی.آپ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے یہی سلوک کیا کہ آپ کے دعوئی کے ابتدا میں ہی بعض ایسے افراد آپ علیہ السلام پر ایمان لائے جو کہ ذاتی جوہر کے لحاظ سے بہترین خدمات سرانجام دینے والے تھے اور اس کام میں آپ کی مدد کرنے والے تھے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپرد کیا تھا اور ان میں
خطبات مسرور جلد 13 667 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء ایک حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل" بھی تھے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ میں وہ لوگ بہترین مددگار اور معاون ثابت ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ نبوت سے پہلے ہی حضرت خلیفہ اول مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توجہ آپ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف پھری اور آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوئی مسیحیت کیا تو نبوت کے متعلق بعض مضامین اپنی ابتدائی کتب فتح اسلام اور توضیح مرام میں بیان فرمائے.ایک شخص نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بدظنی رکھتا تھا ان کتابوں کے پروف کسی طرح دیکھے.پریس میں شاید پڑھے ہوں.وہ جموں گیا اور اس نے کہا آج میں نے مولوی نورالدین صاحب کو مرزا صاحب سے ہٹا دینا ہے.اس وقت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر چکے تھے.دعوی مسیحیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فتح اسلام اور توضیح مرام کی اشاعت کے زمانے میں کیا جو بیعت سے قریبا دو سال بعد ہوا اور انہی میں مسئلہ اجرائے نبوت کی بنیا د رکھی.جب اس شخص نے آپ کی کتب میں نبوت کے جاری ہونے کے متعلق پڑھا تو اس نے کہا اب تو یقیناً مولوی نور الدین صاحب مرزا صاحب کو چھوڑ دیں گے کیونکہ مولوی صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت رکھتے ہیں.جب وہ یہ نہیں گے کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے تو وہ مرزا صاحب کے مرید نہیں رہیں گے.چنانچہ اس شخص نے اپنے ساتھ ایک پارٹی لی ، کچھ لوگ لئے اور خراماں خراماں حضرت مولوی صاحب کی طرف چلے.جب آپ کے پاس پہنچے تو اس شخص نے حضرت مولوی صاحب سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں.آپ نے کہا فرمائیے کیا پوچھنا چاہتے ہیں.اس شخص نے کہا کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں اس زمانے کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت محمدیہ میں نبوت جاری ہے تو آپ اس کے متعلق کیا خیال کریں گے.اس شخص نے تو یہ خیال کیا تھا کہ گویا میں ایک مولوی کے پاس جارہا ہوں لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں ایک مولوی کے پاس نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے پاس جارہا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ اپنے سلسلے کا کام لینا چاہتا ہے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ اس سوال کا جواب تو دعوی کرنے والے کی حالت پر منحصر ہے کہ آیا وہ اس دعوے کا مستحق ہے یا نہیں.اگر یہ دعویٰ کرنے والا انسان راستباز نہ ہوگا تو ہم اسے جھوٹا کہیں گے اور اگر دعوی کرنے والا کوئی راستباز انسان ہے تو میں یہ سمجھوں گا کہ غلطی میری ہے،
خطبات مسرور جلد 13 668 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء حقیقت میں نبی آ سکتا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ اس شخص نے جب میرا یہ جواب سنا تو وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ چلو جی اے بالکل خراب ہو گئے.اب ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اس پر میں نے اس سے کہا کہ مجھے یہ تو بتا دو کہ بات کیا تھی تو اس نے کہا بات یہ ہے کہ آپ کے مرزا صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہوتا ہے اور میں ایک نبی کے مشابہ ہوں.حضرت خلیفہ اول نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا کہ بیشک مرزا صاحب نے جو کچھ لکھا ہے وہ درست ہے اور مجھے اس پر ایمان ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 28 صفحہ 209-210) ایک واقعہ جو براہِ راست حضرت خلیفہ اول سے تعلق تو نہیں رکھتا لیکن رکھتا بھی ہے ان کی بہن کا واقعہ ہے جس کو حضرت خلیفہ اول نے ایک پیر صاحب سے سوال جواب کی رہنمائی کی تھی.ان کی بہن نے احمدیت قبول کی اور وہ کسی ایک پیر کی مرید تھیں اور پیر نے انہیں بیعت کے بعد ورغلانے کی کوشش کی.آج بھی یہی آجکل کے پیروں کا حال ہے.اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک بہن ایک پیر صاحب کی مرید تھیں.وہ قادیان میں آئیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.جب واپس گئیں تو ان کے پیر صاحب کہنے لگے کہ تجھے کیا ہو گیا کہ تو نے مرزا صاحب کی بیعت کر لی.معلوم ہوتا ہے کہ نورالدین نے تجھ پر جادو کر دیا ہے.وہ آئیں تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہوں نے اس کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا اگر پھر کبھی پیر صاحب سے ملنے کا اتفاق ہو تو انہیں کہنا کہ آپ کے عمل آپ کے ساتھ ہیں اور میرے عمل میرے ساتھ ہیں.میں نے تو مرزا صاحب کو اس لئے مانا ہے کہ اگر آپ کو نہ مانا تو قیامت کے دن مجھے جوتیاں پڑیں گی.آپ بتائیں کہ آپ اس دن کیا کریں گے.پیر صاحب سے پوچھنا.جب وہ واپس گئیں تو انہوں نے پیر صاحب سے یہی بات کہ دی.وہ پیر کہنے لگا کہ یہ نورالدین کی شرارت معلوم ہوتی ہے اسی نے تجھے یہ بات سمجھا کر میرے پاس بھیجا ہے مگر تمہیں اس بارے میں کسی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں.جب قیامت کا دن آئے گا اور پل صراط پر سب لوگ اکٹھے ہوں گے تو تمہارے گناہ میں خود اٹھالوں گا اور تم دگر دگر کرتے ہوئے جنت میں چلے جانا.انہوں نے کہا پیر صاحب ہم تو جنت میں چلے گئے پھر آپ کا کیا بنے گا.وہ کہنے لگے جب فرشتے میرے پاس آئیں گے تو میں انہیں لال لال آنکھیں دکھا کر کہوں گا کہ کیا ہمارے نانا امام حسین کی شہادت کافی نہیں تھی کہ آج قیامت کے دن ہمیں بھی ستایا جا رہا ہے.پس یہ سنتے
خطبات مسرور جلد 13 669 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء فرشتے شرمندہ ہو کر دوڑ جائیں گے اور ہم بھی چھلانگیں مارتے جنت میں داخل ہو جائیں گے.(ماخوذ از الفضل 27 جون 1957 ، صفحہ 3 جلد 11/46 نمبر 152) حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی سادگی اور اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے.ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہورہا تھا.ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں وہ سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سر جھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرت اولا د بھی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے.حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سر اٹھایا اور فرمایا کہ حضور میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہو گا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنس پڑے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رتبہ ملا.(ماخوذ از الفضل 27 مارچ 1957 صفحہ 5 جلد 46 / 11 نمبر 74) آجکل بعض لوگ شادیوں کے شوقین ہیں لیکن وہ اس وجہ سے شوقین نہیں ہوتے.اگر تو کوئی جائز وجوہ ہوں تو شادی کرنے کی اجازت ہے.لیکن بعض لوگ اپنے گھروں کو برباد کر کے شادیاں کرتے ہیں ان کو اس چیز سے بچنا چاہئے اور اس بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے.پھر حضرت خلیفہ اول کی یہ بات بیان کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ذکر کیا کہ آپ کے بچوں میں سے بعض نے خلافت اور جماعت کے بارے میں غلط رویہ اختیار کیا لیکن اب بھی جماعت آپ کا یعنی حضرت خلیفہ اول کا احترام کرنے پر مجبور ہے اور آپ کے لئے دعائیں کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں اس انکسار اور محبت کی جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھی وہ عظمت ڈالی ہے کہ باوجود اس کے کہ بعض بیٹوں نے غلط رویہ اختیار کیا پھر بھی ان کے باپ کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں جاتی.پھر بھی ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یادر کھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے کیونکہ انہوں نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا جب
خطبات مسرور جلد 13 670 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء ساری دنیا آپ کی مخالف تھی.پس حضرت خلیفتہ امسیح الاول کا ایک مقام ہے جو ہمیشہ قائم رہے گا.(ماخوذ از الفضل 27 مارچ 1957 ، صفحہ 5 جلد 46 / 11 نمبر (74) اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیان کردہ یہ بات کہ جماعت کی تعداد بڑھانے کا ایک ذریعہ کثرت اولا د بھی ہے اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود کا یہ بھی بیان ہے جو اُن کے اپنے بارے میں یا حضرت مسیح موعود کی اولاد کے بارے میں ہے.آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب ہماری شادیوں کی تجویز فرمائی تو سب سے پہلے یہ سوال کرتے تھے کہ فلاں صاحب کے ہاں کتنی اولاد ہے؟ وہ کتنے بھائی ہیں؟ آگے ان کی کتنی اولاد ہے؟ حضرت مصلح موعود” کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جس جگہ میاں بشیر احمد صاحب کی شادی کی تحریک ہوئی اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دریافت فرمایا کہ اس خاندان کی کس قدر اولاد ہے اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ سات لڑکے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور تمام باتوں پر غور کرنے سے پہلے فرمانے لگے کہ بہت اچھا ہے یہیں شادی کی جائے.فرماتے ہیں کہ میری اور میاں بشیر احمد صاحب کی شادی کی تجویز اکٹھی ہی ہوئی تھی.ہم دونوں کی شادی کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہے.یہی دریافت فرمایا کہ معلوم کیا جائے کہ جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں ان کے ہاں اولا د کتنی.کتنے لڑکے ہیں.کتنے بھائی ہیں.تو جہاں آپ نے اور باتوں کو دیکھا وہاں وُلُو ڈا کو مقدم رکھا.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں اب بھی بعض لوگ جب مجھ سے مشورہ لیتے ہیں میں ان کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ یہ دیکھو جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں ان کے ہاں کتنی اولاد ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 396-397) آجکل کی دنیا میں فیملی پلانگ پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے.لیکن ایسے ممالک جہاں اس پر بہت زور دیا گیا ان میں اب یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہ غلط ہے.جب انسان قانون قدرت سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں.ایک لمبے عرصے تک چین نے اپنے شہریوں پر پابندی لگا دی تھی کہ ایک سے زیادہ بچہ نہ ہو ورنہ جرمانہ یا سزا بھی ہوگی اور وہاں ایسے بھی واقعات ہوئے کہ لوگوں نے یا اپنے بچے ضائع کر دیئے یا ان کو پیدائش کے وقت مار دیا.لیکن اب اس کا احساس ان لوگوں میں پیدا ہوا ہے اور اب انہوں نے اس پابندی کو اٹھایا ہے.اور بعض دوسرے ممالک بھی ہیں جہاں یہ پابندی ہے اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ اگر یہ پابندی جاری رہی تو ان ملکوں میں کچھ عرصے کے بعد افرادی قوت بالکل ختم ہو
خطبات مسرور جلد 13 671 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء جائے گی.ان کو کام کرنے والے نہیں ملیں گے.آئندہ نسل جو ہے اس میں اتنا بڑا گیپ (gap) آ جائے گا کہ بیچ میں اس وقفے کو غیروں کے ذریعہ سے پُر کرنا پڑے گا.چنانچہ اب یہ اپنی پالیسیاں بدل رہے ہیں.اور یہی نتیجہ ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے قانون سے انسان لڑنے کی کوشش کرے اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھے.اب ان کو یہ فکر پیدا ہوگئی ہے کہ ہماری نسلوں میں ایک نسل سے دوسری نسل تک اتنا خلا پیدا ہو جائے گا کہ اس کو پتا نہیں کس طرح پر کیا جائے گا اور اس کی وجہ سے پھر قوموں کو نقصان ہو گا.بہر حال یہ یمنی بات بیچ میں آئی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خلیفہ امسیح الاول کے اخلاص، عاجزی اور سادگی کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں.فرماتے ہیں کہ خدمت کے لئے مختلف سامانوں کی ضرورت ہوتی تھی.کھانا پکوانے کی ضرورت ہوتی تھی.شروع شروع میں جب قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس مہمان آتے تھے سود اوغیرہ لانے کی ضرورت ہوتی تھی اور یہ ظاہر ہے کہ یہ کام صرف ہمارے خاندان کے افراد نہیں کر سکتے تھے.اکثر یہی ہوا کرتا تھا کہ جماعت کے افرا دل ملا کر وہ کام کر دیا کرتے تھے.اس وقت طریق یہ تھا نگر خانے کا باقاعدہ انتظام تو نہیں تھا کہ اگر ایندھن آجاتا اور وہ اندر ڈالنا ہوتا یعنی سٹور میں رکھنا ہوتا تو گھر کی خادمہ آواز دے دیتی کہ ایندھن آیا ہے کوئی آدمی ہے تو وہ آ جائے اور ایندھن اندر ڈال دے.آگ جلانے کے لئے جو سامان آیا ہے.پانچ سات آدمی جو حاضر ہوتے وہ آ جاتے اور ایندھن اندر ڈال دیتے.دو تین دفعہ ایسا ہوا کہ کام کے لئے باہر خادمہ نے آواز دی مگر کوئی آدمی نہ آیا.ایک دفعہ لنگر خانے کے لئے اوپلوں کا ایک گڈا آیا.(وہ جو جلانے کے لئے او پلے استعمال کئے جاتے ہیں ) بادل بھی آیا ہوا تھا.خادمہ نے آواز دی تا کوئی آدمی مل جائے تو وہ اوپلوں کو اندر رکھوا دے مگر اس کی آواز کی طرف کسی نے توجہ نہ کی.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول ” اُس وقت مسجد اقصیٰ سے قرآن کریم کا درس دے کر واپس تشریف لا رہے تھے.آپ اس وقت خلیفہ نہیں تھے مگر علم دینیات، تقویٰ اور طب کی وجہ سے آپ کو جماعت میں ایک خاص پوزیشن حاصل تھی اور لوگوں پر آپ کا بہت اثر تھا.آپ درس سے فارغ ہو کر گھر جارہے تھے کہ خادمہ نے آواز دی اور کہا کہ کوئی آدمی ہے تو وہ آ جائے.بارش ہونے والی ہے ذرا اوپلے اٹھا کر اندر ڈال دے.لیکن کسی نے توجہ نہ کی.آپ نے جب دیکھا کہ خادمہ کی آواز کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی تو آپ نے فرمایا اچھا آج ہم ہی آدمی بن جاتے ہیں.یہ کہہ کر آپ نے او پلے اٹھائے اور اندر ڈالنے شروع کر دیئے.ظاہر ہے کہ جب شاگرد استاد
خطبات مسرور جلد 13 672 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء کو او پلے اٹھاتے دیکھے گا تو وہ بھی اس کے ساتھ ہی وہی کام شروع کر دے گا.چنانچہ اور لوگ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو گئے.کام کرنے لگے اور او پہلے اندر ڈال دیئے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں مجھے یاد ہے میں نے دو تین مختلف مواقع پر آپ کو ایسا کرتے دیکھا اور جب بھی آپ ایسے اٹھانے لگتے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جاتے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 29 صفحہ 326-327) پھر حضرت خلیفہ اسیح الاول کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو عشق تھا اس کی مثال دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی جب آپ بہت خوش ہوتے اور محبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتے تو مرزا کا لفظ استعمال کرتے اور فرماتے کہ ہمارے مرزا کی یہ بات ہے.ابتدائی ایام میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ابھی دعویٰ نہیں تھا چونکہ آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات تھے اسی لئے اس وقت سے یہ لفظ آپ کی زبان پر چڑھے ہوئے تھے.کئی نادان اس وقت اعتراض کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب کے دل میں نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آپ کو یعنی خلیفہ اول کو لوگ عام طور پر مولوی صاحب یا بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں میں نے خود کئی دفعہ یہ اعتراض لوگوں کے منہ سے سنا ہے اور حضرت مولوی صاحب کو اس کا جواب دیتے ہوئے بھی سنا ہے.چنانچہ ایک دفعہ اسی مسجد میں ( یعنی مسجد اقصیٰ میں ) حضرت خلیفہ اول ” جبکہ درس دے رہے تھے آپ نے فرما یا بعض لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب نہیں کرتا حالانکہ میں محبت اور پیار کی شدت کی وجہ سے یہ لفظ بولا کرتا ہوں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ان الفاظ کے اندر حقیقت جو مخفی ہو اس کو دیکھنا چاہئے.(ماخوذ از الفضل 30 جون 1938 ء صفحہ 3 جلد 26 نمبر 147 ) پھر دو طرفہ اخلاص و محبت کی ایک اور مثال ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں حضرت خلیفہ المسیح الاول میں جس قدر ا خلاص تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.لیکن انہیں تیز چلنے کی عادت نہیں تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو حضرت خلیفہ اسیح الاول بھی ساتھ ہوتے مگر تھوڑی دور چل کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تیز قدم کر لینے تو حضرت خلیفہ اول نے قصبہ کے مشرقی طرف باہر ایک بڑ کا درخت تھا اس کے نیچے بیٹھ جانا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات مسرور جلد 13 673 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء نے سیر سے واپس آنا تو پھر آپ کے ساتھ ہو لینا.کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا کہ حضرت مولوی صاحب سیر کے لئے نہیں جاتے.آپ نے فرما یا وہ تو روز جاتے ہیں.اس پر آپ کو بتایا گیا کہ وہ سیر کے لئے ساتھ تو چلتے ہیں لیکن پھر بڑ کے نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور واپسی پر ساتھ شامل ہو جاتے ہیں.چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ حضرت خلیفہ اول کو اپنے ساتھ سیر میں رکھتے اور جب آپ نے تیز ہوجانا اور حضرت خلیفہ اول نے بہت پیچھے رہ جانا تو آپ نے چلتے چلتے ٹھہر جانا اور فرمانا مولوی صاحب فلاں بات کس طرح ہے.مولوی صاحب تیز تیز چل کر آپ کے پاس پہنچتے اور ساتھ چل پڑتے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھوڑی دیر کے بعد پھر تیز چلنا شروع کرتے آگے نکل جاتے تھوڑی دور جا کر پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہر جاتے اور فرماتے مولوی صاحب فلاں بات اس اس طرح ہے.مختلف باتیں ہوتیں.مولوی صاحب پھر تیزی سے آپ کے پاس پہنچتے اور تیز تیز چلنے کی وجہ سے ہانپنے لگ جاتے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کو اپنے ساتھ رکھتے.تیس چالیس گز چل کر مولوی صاحب پیچھے رہ جاتے اور آپ پھر کوئی بات کہہ کر مولوی صاحب کو مخاطب فرماتے اور وہ تیزی سے آپ سے آ کر مل جاتے.حضرت مسیح موعود کی غرض یہ تھی کہ اس طرح مولوی صاحب کو تیز چلنے کی عادت ہو جائے.یہ صرف تیز چلنے کی مشق نہ ہونے کا نتیجہ تھا کہ مولوی صاحب آہستہ چلتے تھے.چونکہ طب کا پیشہ ایسا ہے کہ اس میں عموماً انسان کو بیٹھا رہنا پڑتا ہے اور اگر با ہرکسی مریض کو دیکھنے کے لئے جانے کا اتفاق ہو تو سواری موجود ہوتی ہے اس لئے حضرت خلیفہ امسیح الاول کو تیز چلنے کی مشق نہ تھی ورنہ اخلاص آپ میں جس قدر تھا اس کے متعلق خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ” چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے“.(ماخوذ از تحریک جدید کے مقاصد اور ان کی اہمیت، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 126-127) پھر ایک اور مثال ہے جس سے حضرت خلیفہ اول کا اخلاص بھی ظاہر ہوتا ہے اور تو گل بھی.حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ مطب میں بیٹھے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دتی میں تھے.وہاں حضرت میر صاحب سخت بیمار ہو گئے.قولنج کا اتنا سخت حملہ ہوا کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ آپریشن ہونا چاہئے.بعض لوگوں نے کہا کہ بعض یونانی دواؤں سے بغیر آپریشن کے بھی آرام ہو جاتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
خطبات مسرور جلد 13 674 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تار دے دیا کہ جس حالت میں بھی ہوں آجائیں.آپ مطب میں بیٹھے ہوئے تھے.کوٹ بھی نہیں پہنا ہوا تھا، پیسے بھی پاس نہ تھے.آپ نے غالباً حکیم غلام محمد صاحب مرحوم امرتسری کو ساتھ لیا اور اسی طرح اٹھ کر چل پڑے.حکیم غلام محمد صاحب نے کہا کہ میں گھر سے پیسے وغیرہ لے آؤں مگر آپ نے کہا کہ نہیں حکم یہی ہے کہ جس حالت میں ہو چلے آؤ.سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول چلنے میں کمزور تھے جیسا پہلے واقعہ بیان ہو چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو جاتے تو آپ پیچھے رہ جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہو کر فرماتے کہ مولوی صاحب کہاں ہیں اور حضرت خلیفہ اول بعد میں آکر ملتے.اس طرح پھر پیچھے رہ جاتے.پھر کھڑے ہوکر انتظار فرماتے جیسا کہ میں نے واقعہ سنایا.مگر آپ غالباً حکیم غلام محمد صاحب کو ساتھ لے کر پیدل بٹالہ پہنچے.سٹیشن پر جا کر بیٹھے.چلنے میں کمزور تھے لیکن اس کے باوجود کیونکہ حکم آیا کہ فوراً پہنچو اسی طرح پیدل چل کر بٹالہ پہنچ گئے.اب دیکھیں یہ اخلاص اور اطاعت ہے کہ زیادہ چلنے میں آپ کو دقت ہوتی تھی لیکن حکم ہوا تو بٹالے تک تقریباً گیارہ میل کا فاصلہ پیدل پہنچے ہیں.حکیم صاحب نے کہا کہ اب کرائے وغیرہ کا کیا انتظام ہو گا.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ یہاں بیٹھو اللہ تعالیٰ خود ہی کوئی انتظام کر دے گا.تو گل کی یہ مثال ہے.اتنے میں ایک شخص آیا اور دریافت کیا کہ کیا آپ حکیم نورالدین صاحب ہیں.آپ نے فرمایا ہاں.وہ شخص کہنے لگا کہ ابھی گاڑی آنے میں دس پندرہ منٹ باقی ہیں اور میں نے سٹیشن ماسٹر سے کہہ بھی دیا ہے کہ وہ آپ کا انتظار کرے.میں بٹالے کا تحصیل دار ہوں میری بیوی بہت سخت بیمار ہے آپ ذرا چل کر اسے دیکھ آئیں.آپ گئے، مریضہ کو دیکھ کر نسخہ لکھا اور سٹیشن پر واپس آگئے.وہ شخص تحصیل دار بھی ساتھ آیا اور کہا کہ آپ چل کر گاڑی میں بیٹھیں میں ٹکٹ لے کر آتا ہوں اور وہ سیکنڈ کلاس کا ایک ٹکٹ اور ایک تھرڈ کلاس کا لے آیا اور ساتھ پچاس روپے نقد دیئے اور کہا کہ یہ حقیر ہدیہ ہے اسے قبول فرمائیں.آپ دہلی پہنچے اور جا کر میر ناصر نواب صاحب کا علاج کیا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ صحیح تو کل کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرے بندے کا تو کل صحیح ہے یا نہیں.ممکن ہے اس آزمائش کے لئے بعض دفعہ وہ فاقے بھی دے.تو گل میں یہ نہیں ہوتا کہ ہر دفعہ پورا ہو جائے.بعض دفعہ آزمائش آتی ہے.فاقے بھی ہوتے ہیں.نگا بھی کر دے.موت کے قریب کر دے تا بندوں کو بتائے کہ میرے اس بندے کا انحصار تو کل پر ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لنگوٹی
خطبات مسرور جلد 13 675 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء باندھنی پڑتی ہے، دھجیاں لٹکے لگتی ہیں اور بعض کو اس کی مدد کے لئے اس طرح نگا دکھا کر الہام کرتا ہے.بعض کو لفظی الہام سے بھی مد کا حکم دیتا ہے مگر بعض کو اس کی حالت دکھا کر تحریک کرتا ہے.مگر تو گل کے صحیح مقام پر جولوگ ہوتے ہیں وہ کسی سے منہ سے مانگتے نہیں.(ماخوذ از الفضل 8 نومبر 1939، صفحه 7-6 جلد 27 نمبر 256) اللہ تعالیٰ لوگوں کی توجہ اس طرف پھیر دیتا ہے اور انتظام کر دیتا ہے لیکن وہ خود جن کو اللہ پر توکل ہوتا ہے وہ خود کسی کے پاس نہیں جاتے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے خود بھیجتا ہے.تو یہ توکل کا بہت اعلیٰ مقام ہے جو آپ کو حاصل تھا.ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کا جو مقام تھا بہت بالا مقام تھا، بہت بلند مقام تھا، بڑے ولی اللہ تھے لیکن اس میں غلو بھی نہیں ہونا چاہئے.یہ نہ ہو کہ اس کو اتنا بڑھا دو کہ انتہائی ایسے مقام پر لے جاؤ جہاں مبالغہ ہونا شروع ہو جائے.آپ فرماتے ہیں حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل کی اولاد میں سے بعض نے مبالغہ کرنے کی کوشش کی اور بعض غیر مبائع بھی مبالغہ کرتے ہیں.لیکن غیر مبائعین جو ہیں یہ آپ کی محبت میں نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصد تو اپنا مقصد حاصل کرنا ہے.لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سچائی کے اظہار سے بھی نہیں رکنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سچائی کا اظہار بھی کیا ہے اور آپ کے مقام کو بھی بلند کیا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ بیشک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی تعریف فرمائی.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بڑی تعریف فرمائی.مگر قرآن اس لئے نہیں اترا تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عزت قائم کی جائے.نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں یہ کہیں ذکر آتا ہے کہ ہم نے تجھے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ تو نور الدین کی عزت قائم کرے.ہاں جو سچائی اور حقیقت تھی اس کا آپ نے اظہار کر دیا.مثلاً آپ نے فرمایا ' چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے“ مگر یہ تو ایک سچائی ہے جو کہنی چاہئے تھی.حضرت خلیفہ اول نے بڑی قربانیاں کی ہیں.اب جس نے قربانی کی ہو اس کی قربانی کا اظہار نہ کرنا ناشکری ہوتی ہے.حضرت مصلح موعود
خطبات مسرور جلد 13 676 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک مریض آیا اور اس نے ذکر کیا کہ مولوی صاحب سے میں نے علاج کروایا تھا جس سے مجھے بڑا فائدہ ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس دن بیمار تھے مگر جب آپ نے یہ بات سنی تو آپ اسی وقت اٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت اتاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ ہی مولوی صاحب کو تحریک کر کے یہاں لایا ہے اور اب ہزاروں لوگ ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.اگر مولوی صاحب یہاں نہ آتے تو ان لوگوں کا کس طرح علاج ہوتا.پس مولوی صاحب کا وجود بھی خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے.یہ شکر گزاری تھی لیکن غلو نہیں تھا.(ماخوذ از الفضل 2 اگست 1956 ، صفحہ 2 جلد 45 / 10 نمبر 179) حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی عاجزی کی جو انتہا تھی اس کا ذکر ایک صحابی کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ نے کیا ہے.ایک صحابی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے کے لئے آیا آپ مسجد مبارک میں بیٹھے تھے اور دروازے کے پاس جو تیاں پڑی تھیں.ایک آدمی سیدھے سادے کپڑوں والا آ گیا اور آ کر جوتیوں میں بیٹھ گیا.یہ صحابی کہتے ہیں کہ میں نے سمجھا کہ یہ کوئی جوتی چور ہے.چنانچہ میں نے اپنی جوتیوں کی نگرانی شروع کر دی کہیں وہ لے کر بھاگ نہ جائے.کہنے لگے اس کے کچھ عرصے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے اور میں نے سنا کہ آپ کی جگہ کوئی اور شخص خلیفہ بن گیا ہے اس پر میں بیعت کرنے کے لئے آیا.جب میں نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ وہی شخص تھا جس کو میں نے اپنی بیوقوفی سے جوتی چور سمجھا تھا ( یعنی حضرت خلیفہ اول اور میں اپنے دل میں سخت شرمندہ ہوا.آپ کی عادت تھی کہ آپ جوتیوں میں آ کر بیٹھ جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آواز دیتے تو آپ ذرا آگے آ جاتے.پھر جب کہتے کہ مولوی نورالدین صاحب نہیں آئے تو پھر کچھ اور آگے آجاتے.اس طرح بار بار کہنے کے بعد کہیں وہ آگے آتے تھے.تو یہ صحابی پھر بیان کرتے ہیں کہ میں ان کی اولا د کو بھی کہا کرتا تھا کہ یہ مقام جو انہوں نے حاصل کیا اس طرح عاجزی سے حاصل کیا تھا.(ماخوذ از الفضل 27 مارچ 1957 صفحہ 5 جلد 46 / 11 نمبر (74) بہر حال یہ تو تھی آپ کی عاجزی، اس شخص کی عاجزی جو علم و معرفت میں بھی انتہا کو پہنچا ہوا تھا.
خطبات مسرور جلد 13 677 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 نومبر 2015ء جو ہندوستان کے چوٹی کے حکماء میں سے تھا.جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت بڑے عظیم اعزاز سے نوازا.لیکن ان سب باتوں نے آپ کو عجز میں اور زیادہ کیا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور آپ کے نام پر فساد پیدا کرنے والوں کو بھی عقل دے اور سمجھ دے اور ہمیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اس نمونے سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آج ماریشس کا جلسہ سالانہ بھی ہو رہا ہے اور ماریشس میں جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے ایک سو سال ہو چکے ہیں.وہ اپنی سینٹری (centenary) منا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا یہ جلسہ بھی ہر لحاظ سے با برکت کرے اور یہ سو سال آئندہ وہاں نئی ترقیات کا پیش خیمہ ثابت ہوں اور نئے سے نئے منصوبے کریں وہاں بعض فسادی لوگ بھی ہیں اللہ تعالیٰ ان سے بھی جماعت کو محفوظ رکھے اور ہر شر سے بچائے اور ہر لحاظ سے جلسے کو اور ان کے پروگراموں کو بابرکت فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 04 دسمبر 2015 ء تا 10 دسمبر 2015 ، جلد 22 شماره 49 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 13 678 47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015 ء بمطابق 20 رنبوت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الاحد، ناگویا، جاپان تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: الَّذِينَ إِن مَّكَّتُهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكُوةَ وَآمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْامُورِ (الحج:42) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں تمکنت عطا کریں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں.زکوۃ ادا کرتے ہیں اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور ہر بات کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے.جاپان میں پہلی مسجد کی تعمیر الحمد للہ آج جماعت احمد یہ جاپان کو اپنی پہلی مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے.اللہ تعالیٰ اس کی تعمیر کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور آپ لوگ اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جو مسجد بنانے کا مقصد ہے.مسجد تو غیر از جماعت اور دوسرے مسلمان بھی بناتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کر کے بہت خوبصورت مساجد بناتے ہیں.یہاں جاپان میں گو جماعت احمد یہ مسلمہ کی یہ پہلی مسجد ہے لیکن ملک کی پہلی مسجد نہیں ہے.کہا جاتا ہے کہ یہاں دوسرے مسلمانوں کی سو (100) یا اس سے زائد مساجد ہیں.پس صرف مسجد بنالینا کوئی ایسی بات نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ جاپان میں آنے کا ہمارا مقصد پورا ہو گیا.بعض یہ بات بھی بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ یہ مسجد جو ہم نے بنائی یہ گنجائش کے اعتبار سے جاپان کی سب سے بڑی
خطبات مسرور جلد 13 679 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء مسجد ہے لیکن یہ بات بھی کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے کہ ہم سمجھیں کہ ہم نے اپنی انتہاؤں کو حاصل کر لیا ہے.ہمارا مقصد تو تب پورا ہو گا جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ مقصد یہ ہے کہ ہمارا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو اور ہم اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں.ہم اس کی مخلوق کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہم اپنی عملی حالتوں کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے اونچے معیار حاصل کرنے والے ہوں.ہم اسلام کے خوبصورت پیغام کو، اس کی خوبصورت تعلیم کو اس قوم کے ہر فرد تک پہنچانے والے ہوں.جب جاپان کو مذہبی آزادی ملی اور جاپانیوں کا بھی مذہب کی طرف رجحان پیدا ہوا تو اسلام کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی.جب یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں لائی گئی تو آپ نے جاپانیوں تک حقیقی اسلام پہنچانے کی خواہش کا بڑی شدت سے اظہار کیا.آج سے ایک سوسال پہلے یہ واضح فرمایا کہ اگر اسلام کی طرف جاپانیوں کا رجحان پیدا ہوا ہے تو پھر حقیقی اسلام کا پیغام بھی انہیں پہنچانا چاہئے ورنہ جاپانیوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ مردہ مذہب کی طرف جائیں.آپ نے فرمایا کہ جن کے اندر یعنی دوسرے مسلمانوں کے اندر خود اسلام کی روح نہیں ہے وہ دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائیں گے.فرمایا کہ دوسرے مسلمان تو وحی کا دروازہ بند کر کے اپنے مذہب کو مردے کی طرح بنا چکے ہیں.آپ نے بڑے درد سے فرمایا کہ دوسرے مسلمان یہ بات کہہ کے کہ وحی کا دروازہ بند ہو گیا صرف اپنے پر ہی ظلم نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے عقائد اور خراب اعمال دکھا کر اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں.ان کے پاس کونسا ہتھیار ہے جس سے غیر مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں.آپ نے اپنے ماننے والوں کو کہا کہ چاہئے کہ اس جماعت میں چند آدمی اس کام کے لئے تیار کئے جائیں جولیاقت اور جرات والے ہوں.(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 452) پھر آپ نے جاپانیوں میں تبلیغ کے لئے کتاب لکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا.(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ (20) پس آپ علیہ السلام جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے آئے تھے جاپان بھی اس سے باہر نہیں ، جزائر بھی اس سے باہر نہیں اور باقی دنیا بھی اس سے باہر نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ آپ لوگوں کو اس ملک میں آنے کا موقع میسر آیا.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ آپ میں سے ایسے بھی ہیں جن کو یہاں آ کر اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروباروں میں
خطبات مسرور جلد 13 680 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء ترقی دی.تقریباً تمام ہی ایسے ہیں جن کے حالات یہاں آکر پاکستان کی نسبت معاشی لحاظ سے بھی بہتر ہوئے.آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے باپ دادا نے احمدیت قبول کی اور یقیناً ان میں سے ایسے بھی ہوں گے جن کی خواہش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سن کر یہ ہو کہ کاش ہمیں موقع ملے تو ہم بھی جاپان میں بھی اور دنیا میں بھی پھیل کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام پہنچا ئیں لیکن ان کی حسرت ان کے دلوں میں رہی.لیکن آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ جاپان میں بھی آئے اور دنیا میں بھی نکلے تا کہ اس پیغام کو پہنچا سکیں.کیا صرف معاشی آسودگی حاصل کرنے کے لئے آپ جاپان میں آئے تھے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اس بات پر دکھ کا اظہار فرما رہے ہیں کہ دوسرے مسلمانوں نے جاپان میں اسلام کو کیا پھیلا نا ہے کہ یہ لوگ تو اللہ تعالیٰ کے کلام ووحی کا دروازہ بند کر کے اسلام کو مردہ مذہب بنا چکے ہیں اور جاپانیوں کو یاد نیا میں کسی بھی ملک کے رہنے والوں کو مردہ مذہب کی کیا ضرورت ہے.آپ فرماتے ہیں یہ تو تم لوگ ہو جو اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت دے سکتے ہو اور اس کی خوبیاں دنیا کو بتا سکتے ہو.جب اللہ تعالیٰ سے تعلق کے راستے بند کر دیئے تو مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں کیا فرق رہ گیا.اگر اسلام کی برتری دنیا پر ثابت کرنی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کر کے ثابت کی جاسکتی ہے.دنیا کو یہ بتا کر برتری ثابت کی جاسکتی ہے کہ اسلام کا خدا اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار.پس یہ برتری ثابت کرنے کے لئے یہاں آ کر آپ کی معاشی آسودگی ہی کافی نہیں اور یقینا نہیں ہے.بلکہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے.اسلام کو پھیلنے کے لئے کسی تلوار کی ضرورت نہیں ہے.اسلام کو پھیلنے کے لئے ان لوگوں کی ضرورت ہے جن کا خدا تعالیٰ پر کامل اور مکمل یقین اور ایمان ہو.اسلام کو پھیلنے کے لئے ان لوگوں کی ضرورت ہے جن کی عبادت کے معیار بلند ہوں.اسلام کو پھیلنے کے لئے ان لوگوں کی ضرورت ہے جو قتل و غارت گری کرنے کے بجائے اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کر کے اپنی عملی حالتوں کو درست کرنے والے ہوں.مسلمانوں کی حالت کا یہ بڑا سخت المیہ ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی زندہ وحی اور تعلق کا انکار کر بیٹھے ہیں اور دوسری طرف تلوار سے اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں.سختی سے اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں.متشدد ہوتے چلے جارہے ہیں.معصوموں کو قتل کر کے اسلام کی خدمت کا دعوی کرتے ہیں.اب پچھلے دنوں میں پیرس میں جو واقعہ ہوا انتہائی ظالمانہ فعل تھا.یہ لوگ یہ عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو نہیں بلکہ اس کی ناراضگی کو مول لے رہے ہیں.پس اس لحاظ سے بھی آج احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جہاں اپنی عبادتوں کے معیار
خطبات مسرور جلد 13 681 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء بڑھائیں وہاں اسلام کی خوبصورت تعلیم کے ساتھ دوسروں کو تبلیغ کریں.پس یہ مسجد جو بنائی ہے تو اس کا حق ادا کریں.اس حق کو ادا کرنے کے لئے اسے پانچ وقت آباد کریں.اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی عبادتوں کے معیار بڑھا ئیں.اس کا حق ادا کرنے کے لئے اپنی عملی حالتوں کے جائزے لیں.اس کا حق ادا کرنے کے لئے تبلیغ کے میدان میں وسعت پیدا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو وہاں مسجد بنا دو تو تبلیغ کے راستے اور تعارف کے راستے کھلتے چلے جائیں گے.ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحه 119 ) پس یہ مسجد آپ پر ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ جہاں عبادتوں کے معیاروں کو اونچا کریں وہاں تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.اب افتتاح سے پہلے ہی میڈیا نے اس مسجد کی کافی کوریج بھی دے دی ہے اور اس حوالے سے ایک امن پسند اسلام کا تعارف اہل ملک کے سامنے پیش کیا ہے.پس اس تعارف سے فائدہ اٹھا نا اب یہاں رہنے والے ہر احمدی کا کام ہے.جاپانیوں کے لئے مسجد تو کوئی نئی چیز نہیں ہے.یہاں جیسا کہ میں نے بتایا کہا جاتا ہے کہ سو کے قریب مساجد ہیں تو ہماری اس مسجد کے افتتاح کو اتنی اہمیت کیوں؟ اس لئے کہ عام مسلمانوں سے ہٹ کر ہم اسلام کی تصویر دکھاتے ہیں.وہ حقیقی تصویر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائی اور جس کے دکھانے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے غلام صادق کو بھیجا ہے.پس اس تصویر کو دکھانے کے لئے آپ کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی اور یہ ذمہ داریاں نہیں ادا ہو سکتیں جب تک کہ آپ صرف عقیدے کی پختگی تک ہی قائم نہ ہوں بلکہ عملی حالتوں کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی بھی کوشش کرنے والے ہوں.آپس کی محبت اور پیار اور بھائی چارے میں بڑھنے والے ہوں.جہاں ہمارے آقا و مطاع کی نظر ہے جہاں آپ کے غلام صادق کی نظر ہے، ہمیں اپنی نظریں اس طرف پھیرنی ہوں گی.آپ نے کیا کیا؟ آپ نے کیا دکھایا؟ آپ نے ماحول میں بھی اس پیار اور محبت کا عملی اظہار کیا جس کی تعلیم دی.اس کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں بھی ملتا ہے.پس صرف یہ کہہ دینا کہ الحمد للہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا، الحمد للہ ہم احمدی ہیں، کافی نہیں ہے.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں جن باتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اس کے اس زمانے میں مخاطب احمدی مسلمان ہی ہیں کیونکہ ہم ہی ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے.ہم ہی ہیں جن میں نظام خلافت دین کی تمکنت کے لئے جاری ہے.ایک احمدی مسلمان کے لئے ، اس
خطبات مسرور جلد 13 682 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء زمانے کے امام کو ماننے والے کے لئے ، خلافت سے وابستہ رہنے کا دعویٰ کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض اصولی باتیں بیان فرما دیں کہ ایک تو نمازوں کے قیام کی طرف توجہ رکھو کہ یہ تمہاری پیدائش کا بنیادی مقصد ہے.اگر نمازوں کی ادائیگی نہیں، اگر عبادتوں کی طرف توجہ نہیں تو پھر یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم حقیقی مسلمان ہیں.یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم دنیا میں انقلاب پیدا کر دیں گے.یہ دعوے بھی غلط ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو مان لیا ہے.کیونکہ آپ نے تو اپنی آمد کا مقصد ہی بندے کو خدا تعالیٰ سے جوڑنے کا بتایا ہے.اور پھر فرمایا کہ دوسرا مقصد ایک دوسرے کے حق ادا کرنا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 95) اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں.اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہیں.اپنے مال میں سے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر انسانیت کی بھلائی اور بہتری کے لئے خرچ کرنے والے ہیں.اور صرف اپنی زندگیوں میں ہی یہ انقلاب پیدا نہیں کرتے کہ تقویٰ پر چلنے والی زندگی گزار و بلکہ اپنے نمونے دکھا کر دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملاتے ہیں.انہیں بھی بتاتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے.انہیں بتاتے ہیں کہ شیطان سے کس طرح بچ کر رہنا ہے.پس اگر ہم اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے فرستادے کے ماننے والے ہیں تو ہمیں ان باتوں کا خیال رکھنا ہوگا کہ ہم پر جو اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہوا ہے جبکہ دوسرے مسلمان بکھرے پڑے ہیں ان کے پاس کوئی آواز نہیں ہے جو انہیں ایک ہاتھ کی طرف بلائے.ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر اور پھر آپ کے بعد آپ کے جاری نظام خلافت کے ذریعہ وہ تمکنت عطا فرمائی ہے کہ ہم ایک آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے والے ہیں.تمکنت صرف حکومت کا ملنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک رعب کا ظاہر ہونا بھی ہے اور سکونِ دل کا پیدا ہونا بھی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی آئے گا جب حکومتیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آ کر صحیح اسلام کو سمجھیں گی.لیکن اس وقت بھی دنیا اب ہماری طرف دیکھنے لگ گئی ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیم بتاؤ.پس یہ بھی ایک تمکنت اور رعب ہے جواب دنیا پر اللہ تعالیٰ ڈال رہا ہے.لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والے وہی ہوں گے جو خدا تعالیٰ کی بات کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس فضل کے وارث بننے کے لئے نیکیوں پر قائم ہو جاؤ اور اس کو پھیلا ؤ اور برائیوں سے بچو اور دوسروں کو بچاؤ.پس جب تک اس پر قائم رہو
خطبات مسرور جلد 13 683 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء گے، اس بنیادی اصول کو پکڑے رہو گے، ترقیاں کرتے چلے جاؤ گے.پس ہر احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اپنے اعمال میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دیتا چلا جائے تبھی دنیا کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکیں گے اور یہی چیز پھر اُس تمکنت کا بھی باعث بنے گی جب حکومتیں بھی اس حقیقی تعلیم کے تابع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آئیں گی.پس اللہ تعالیٰ بہت بڑے مقاصد کے حصول کی حقیقی مسلمانوں کو خوشخبری دے رہا ہے لیکن اُن مسلمانوں کو جو ظالم نہ ہوں بلکہ انصاف پر قائم ہوں.جو خدا تعالیٰ کو بھولنے والے نہ ہوں بلکہ اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں.جو دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے نہ ہوں بلکہ حقوق ادا کرنے والے ہوں.جو خود غرض نہ ہوں بلکہ بے نفس ہوں.جو خلافت احمدیہ سے وفا کا تعلق رکھتے ہوں.صرف اجتماعوں پر عہد دہرانے والے نہ ہوں بلکہ نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں سے روکنے کے لئے پہلے اپنے نفس کے جائزے لینے والے ہوں.جو نظام جماعت کی حفاظت کے لئے اپنی اناؤں کو قربان کرنے والے ہوں.پس یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا مقرب بنائیں گی.یہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے والا بھی بنائیں گی.یہ چیز میں ہیں جو وہ حقیقی احمدی بنے والا بنا ئیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مانے والوں سے توقع رکھتے ہیں.آپ میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم خلافت کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن جب آپس کی رنجشوں اور چپقلشوں کو ختم کرنے اور ایک وحدت بننے کا کہا جاتا ہے تو پھر سو بہانے بھی تلاش کرنے لگ جاتے ہیں.پس اگر حقیقی مومن بننا ہے تو فساد کے بہانے اور راستے تلاش کرنے والا بننے کی بجائے قربانی کر کے امن اور سلامتی قائم کرنے والا بنیں.جب اس مسجد کی طرف منسوب ہو رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک اینٹ، سیمنٹ، پتھر کی عمارت کی طرف منسوب نہیں ہو رہے بلکہ اس شخص کی طرف منسوب ہور ہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اس لئے بھیجا ہے کہ بندے کو خدا سے جوڑے اور تمام ذاتی رنجشوں اور خواہشوں اور اناؤں کو ختم کرتے ہوئے اس نظام میں پروئے جو قربانی چاہتا ہے.صرف مال کی قربانی نہیں بلکہ اپنی انا کی قربانی بھی.صرف امر بالمعروف دوسروں کے لئے نہیں چاہتا بلکہ پہلے اپنے نفس کو متوجہ کرتا ہے کہ کیا تم جو کہہ رہے ہو وہ کرتے بھی ہو.نہی عن المنکر کے لئے دوسروں کو کہنے سے پہلے اپنے نفس کے جائزے لینے کے لئے کہتا ہے.آپ میں سے اکثریت پاکستان سے آئے ہوؤں کی ہے جہاں آپ کو عبادت کرنے پر سختیاں اور پابندیاں اور تنگیاں برداشت کرنی پڑیں یا کرنی پڑتی ہیں.جہاں آپ کو اپنی مسجد کو مسجد کہنے کی سزا
خطبات مسرور جلد 13 684 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء کاٹنی پڑتی ہے.جہاں آپ کو سلامتی کا پیغام دینے پر تین سال کے لئے جیل جانا پڑتا ہے.بعض آپ میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی تنگیوں کی وجہ سے یہاں اسائلم بھی کیا ہے.کچھ کاروباری لوگ بھی ہیں.پس اس بات کو سوچیں، اس پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں آپ پر کس قدر فضل فرمایا ہے کہ عبادت کرنے پر یہاں کوئی سختی نہیں ہے.مسجد کو مسجد کہنے پر کوئی سزا نہیں ہے.آپ کے سلامتی کے پیغام کو بجائے جیل میں بھجوانے کے پسند کیا جاتا ہے.پس کیا یہ باتیں اس بات کا تقاضا نہیں کرتیں کہ اپنے آپ میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں.اپنے مقصد پیدائش کو پہچانیں.اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے بجائے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں.آپس میں بھی پیار اور محبت سے رہیں اور اس پیار اور محبت کو اس معاشرے میں بھی پھیلائیں.اپنے اندر وہ خصوصیات پیدا کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے.صرف مسجد بننے سے وہ خصوصیات پیدا نہیں ہو جائیں گی بلکہ اس کے لئے کوشش کرنی ہوگی.ان خصوصیات کا خدا تعالیٰ نے ایک جگہ قرآن کریم میں یوں ذکر فرمایا ہے.فرماتا ہے کہ التَّائِبُونَ العبدُونَ الْحَمدُونَ السَّائِحُونَ الرَّكِعُونَ السُّجِدُونَ الأمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَفِظُونَ لِحُدُودِ اللهِ وَبَيَّرِ الْمُؤْمِنِينَ (التوبة : 112 ) کہ تو بہ کرنے والے عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، (خدا کی راہ میں) سفر کرنے والے، (لله ) رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے اور بری باتوں سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (سب سچے مومن ہیں ) اور تو مومنوں کو بشارت دے دے.پس جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک انسان کے حقیقی مومن بننے کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ تو بہ کرے یعنی اپنے گناہوں کا اقرار کرے اور گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے مکمل طور پر ان سے بچنے کا عہد کرے.گناہ صرف بڑے بڑے گناہ نہیں ہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں جو نظام میں خرابی پیدا کرتی ہیں وہ بھی گناہ بن جاتے ہیں اور جب اس عہد پر قائم ہو جائیں تو پھر خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی عبادت کرنا ایک مومن کا فرض ہے.اللہ تعالیٰ کی مرضی پر اپنے آپ کو چلانا ایک مومن کا فرض ہے.اور خدا تعالیٰ کی مرضی کیا ہے؟ جیسا کہ میں پہلے بھی اس کا ذکر کر آیا ہوں، خدا تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی عبادت کرے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 57).اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.پس نہ امیروں اور کاروباری لوگوں کے لئے کوئی گنجائش ہے کہ عبادت سے باہر ہوں، نہ عام انسانوں کے
خطبات مسرور جلد 13 685 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء لئے اور غریبوں کے لئے کوئی گنجائش ہے کہ عبادت میں سستی کریں.مسجد بنانے میں بعض نے بہت بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں یا بعض کم آمدنی والوں نے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر مالی قربانیاں کی ہیں.بچوں نے بھی بڑے اعلیٰ نمونے قائم کئے ہیں.لیکن یہ سب کچھ آپ میں سے کسی کو بھی چاہے اس نے اس مسجد کی تعمیر میں بے انتہا قربانی کی ہے اس بات سے بری نہیں کر دیتا کہ عبادتوں میں سستی دکھائیں.یہ قربانیاں بھی تبھی قبول ہوں گی جب اس مسجد کی آبادی کا بھی حق ادا کریں گے.اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کریں گے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حمد کرنے والے بنو.خدا تعالیٰ کی حمد کا حق اس کی عبادت سے ادا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی حمد کریں کہ اس نے مسجد بنانے کے لئے قربانی کی توفیق دی.اللہ تعالیٰ کی حمد ادا کریں کہ اس نے یہ مسجد عطا فرما کر تبلیغ کے میدان کھولے.اللہ تعالیٰ کی حمد اس طرح کریں کہ اس نے اسلام کی خوبصورت تعلیم بتانے کے لئے نئے راستے کھولے.اللہ تعالیٰ کی حمد ادا کریں کہ اس نے آپ کے معاشی حالات بہتر کئے اور یہ معاشی حالات کا بہتر ہونا کسی کی عقل اور ہوشیاری اور علم کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کریں.اس طرح اس کا حق ادا کریں.اللہ تعالیٰ کی حمدیہ بھی ہے کہ بعض ناموافق حالات اگر آجائیں تو اس پر بھی اس کا شکر ادا کرتے چلے جائیں کبھی ناشکری نہ کریں.اللہ تعالیٰ کی حمد اس طرح بھی کریں کہ اس نے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور ضائع ہونے سے بچالیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن اپنے سفروں کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بناتا ہے.پس اس لحاظ سے آپ کا اس ملک میں آنا تبلیغ کے میدان میں ترقی کر کے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا ہونا چاہئے.پھر فرمایا کہ مومن رکوع کرنے والے ہیں.ایک تو نمازوں کے رکوع ہیں لیکن اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اپنے وقت کو ، اپنی جان کو، اپنے مال کو دین کی راہ میں قربان کرنے والے ہیں.پس اپنے عہدوں کا خیال رکھیں.صرف جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کا عہد رسماً نہ دہرائیں بلکہ اس کی عملی تصویر بنیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کے لئے ساجد ہونا بھی ضروری ہے.یعنی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کریں.اپنی دعاؤں کی طرف توجہ دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ مومن سجدہ کی حالت میں خدا تعالیٰ کے قریب ترین ہوتا ہے.(صحیح مسلم کتاب الصلاة باب ما يقال في الركوع والسجود حدیث نمبر 1083) پس اس قربت کے سجدے تلاش کرنے کی کوشش کریں.صرف ماتھا زمین پر ٹکادینا ہی سجدہ نہیں
خطبات مسرور جلد 13 686 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھک کر اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سب کچھ قربان کرتے ہوئے اور اپنی اناؤں کو پیچھے رکھتے ہوئے ، اپنی عزت کو بھولتے ہوئے ، اپنی عزت کو پس پشت ڈالتے ہوئے ، اس کے حکموں پر چلتے ہوئے نظام کی پابندی کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.اور نظام کی اطاعت بھی اس لئے کہ یہ کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتا ہے.پس سجدے اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور اس وقت ہوتے ہیں جب انسان میں عاجزی پیدا ہوتی ہے.اس کی تلاش ہمیں کرنی چاہئے.پس جب یہ عاجزانہ سجدوں کی توفیق ہمیں مل جائے ، خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی انتہائی کوشش کی طرف توجہ ہو تو پھر اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ دوسروں کو بھی نیک باتوں کی تلقین کر کے خدا تعالیٰ کے قریب لائیں.پھر تبلیغ کی طرف توجہ کریں.دوسروں کو بھی جو دنیا میں غرق ہو رہے ہیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنا ئیں.دوسروں کو بھی گناہوں میں ڈوبنے اور آگ میں گرنے سے بچائیں.آج یہی ہر احمدی کا کام ہے.یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ دنیا کو خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچائیں.اور پھر یہ بھی یادرکھیں جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں.ان باتوں پر نظر رکھیں اور ان کی حفاظت کریں.یعنی ان پر عمل کی پوری پابندی کے ساتھ کوشش کریں جو باتیں اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں.جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.ان باتوں کی حفاظت کرنا بھی کام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے بتائی ہیں.ان باتوں کی طرف بھی توجہ دیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں اور اپنی جماعت سے توقع رکھی ہے.ان باتوں کی طرف بھی توجہ کریں، انہیں سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں جو خلیفہ وقت کی طرف سے آپ کو کہی جاتی ہیں.اپنے ایمان اور عمل کی حفاظت کریں.اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے ہمیں سرفراز فرمایا ہے اس کی قدر کریں کہ اللہ تعالیٰ نے تمکنت دین کے لئے یہ لازمی جزو قرار دیا ہے اور ایسے مومنین کو خوشخبری دی ہے جو ان تمام باتوں پر عمل کرنے والے ہیں.پس اپنے جائزے لیں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو سچا مومن ہونے کی خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے.ایم ٹی اے تبلیغ و تربیت کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے اس زمانے کی ایجادات کو بھی ہمارے تابع کر دیا ہے.جماعت ہر سال ایم ٹی اے پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے.یہ تبلیغ اور تربیت کا بہترین ذریعہ ہے اور
خطبات مسرور جلد 13 687 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء سے بڑھ کر خلیفہ وقت سے رابطے کا ذریعہ ہے.ایک ماں نے گزشتہ دنوں یہاں ملاقات میں ذکر کیا کہ بچوں کی تربیت کا انتظام نہیں ہے.انتظام ہونا چاہئے.تو بجائے اس کے کہ مبلغ کو یا انتظامیہ کو موردالزام ٹھہرائیں.یہ سوچیں کہ ہفتہ میں چھ دن تو بچے یا ماں باپ کے پاس ہوتے ہیں یا سکول میں ہوتے ہیں.جب وہ گھر میں ہوں تو ان کو کم از کم خلیفہ وقت کے پروگراموں کو سننے کی طرف توجہ دلا ئیں.اس سے ایک تعلق اور محبت قائم ہوگا.اس سے تربیت ہوگی.انہیں جماعت کی وحدت کا پتا چلے گا.پس ماں باپ نے اگر اپنی اگلی نسلوں کو سنبھالنا ہے تو خود بھی خلیفہ وقت کے پروگراموں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑیں اور اپنے بچوں کو بھی جوڑیں.بعض غیر احمدی بھی مجھے بعض دفعہ لکھتے ہیں کہ آپ کا خطبہ یا فلاں پروگرام سن کر ہمیں دین کی حقیقت کا پتا چلا.تو احمدی کو تو دین سیکھنے اور اصلاح کے لئے اور وحدت قائم کرنے کے لئے خلیفہ وقت کے پروگراموں کے ساتھ جڑنا بے انتہا ضروری ہے.اگر یہاں مثلاً جاپان میں وقت کا فرق ہے تو وہاں جب لائیو خطبہ اور وقت ہو رہا ہوتا ہے تو مختلف اوقات میں پروگرام آتے ہیں سنے جاسکتے ہیں.ایک بیماری بعض لوگوں میں یہ ہے کہ ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرتے رہتے ہیں.بجائے برائیاں تلاش کرنے کے تعمیری کاموں پر اپنا وقت لگا ئیں.اس طرح عہدیدار بھی چاہے وہ صدر جماعت ہیں یا دوسرے عہدیدار ہیں محبت اور پیار سے لوگوں کی تربیت کریں.محبت اور پیار کو فروغ دیں.رنجشیں بڑھانے کے بجائے محبتیں بڑھانے کی کوشش کریں.دوسروں کو تو پیغام دے رہے ہیں کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں اور خود دلوں میں اگر بغض اور کینے ہوں تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں.جو بھی ایسی حالت میں ہیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر اس حالت کو بدلیں.اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو سچا مومن ہونے کی خدا تعالیٰ نے بشارت دی ہے.بعض دفعہ گھروں میں نظام جماعت کے خلاف باتیں کرنے یا عہدیداروں کے خلاف باتیں کرنے کو ایک معمولی چیز سمجھا جاتا ہے لیکن غیر محسوس طور پر اس سے آپ لوگ اپنی اگلی نسلوں کو خراب کر رہے ہوتے ہیں.پس سوچیں کہ دعوئی تو ہم یہ کر رہے ہیں کہ امر بالمعروف کریں گے اور نہی عن المنکر کریں گے.نیکیوں کو پھیلائیں گے اور برائیوں کو روکیں گے تو پھر پہلے اپنے اور اپنے گھر کے افراد اور بچوں کو اس کا مخاطب بنا ئیں ورنہ آپ کی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہو گا.یہ مسجد تو بنالی ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اس مسجد کا
خطبات مسرور جلد 13 688 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے بنیں.جاپانی احمدیوں سے بھی میں کہوں گا کہ دین سیکھیں اور اپنے ایمان وایقان میں ترقی کریں.یہ نہ دیکھیں کہ فلاں پیدائشی احمدی یا پرانا احمدی کیسا ہے.اگر وہ دین کے معاملے میں کمزور ہے تو آپ اس کے لئے ہدایت کا باعث بن جائیں.پہلے بھی کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں ہے.جو نیک عمل کرے گا ، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرے گا، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پھر اس کے ساتھ ہوگی.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر احمدی اس اصل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزارے اور یہ مسجد ہر احمدی کے ایمان میں بھی اور اس کی عملی حالت میں بھی ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرنے والی ہو.صرف عارضی شوق اور جذبے سے مسجد بنانے والے نہ ہوں بلکہ حقیقت میں اس کا حق ادا کرنے والے ہوں.مسجد کے بعض کو الف بھی میں پیش کر دیتا ہوں.مسجد کی زمین کا کل رقبہ 1000 مربع میٹر ہے.دو منزلہ عمارت ہے.جیسا کہ یہاں آنے والوں نے تو دیکھ لیا، دنیا والوں کو بتادوں کہ یہ علاقے کی مین سڑک کے بالکل اوپر ہے.یہ سڑک جو ہے علاقے کی ساری بڑی سڑکوں کو آپس میں ملاتی ہے.ہائی وے کے ایگزٹ (exit) کے بہت قریب ہے بلکہ اسے دو ہائی ویز (highways) لگتی ہیں.قریب ہی ریلوے سٹیشن موجود ہے.اس ریلوے سٹیشن سے Nagoya کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ تک سیدھی ٹرین جاتی ہے.اس لحاظ سے بھی اس میں بڑی سہولتیں ہیں.مسجد کا نام بیت الاحد میں نے رکھا تھا.یہاں تبرک کے لئے مسجد مبارک قادیان اور دارا مسیح کی اینٹیں بھی نصب ہیں.عمارت کی پہلی منزل پر مسجد کا مین ہال ہے.یہ ہال جس میں بیٹھے ہوئے ہیں یہاں پانچ سو سے زائد نمازیوں کی گنجائش موجود ہے اور اوپر کی منزل میں لجنہ ہال ہے اور محن ہے.وہاں چھوٹی سی سائبان لگا کر کچھ فنکشن بھی کئے جا سکتے ہیں اور اس کو شامل کر لیا جائے تو سات آٹھ سونمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں.دوسری منزل پر دفتر بھی ہے.چھوٹی سی لائبریری ہے.لجنہ ہال ہے.مربی ہاؤس ہے.گیسٹ رومز ہیں.اور اس مسجد کی عمارت خریدی گئی تھی لیکن بعد میں اس میں تبدیلیاں کی گئیں.اس کی وجہ سے اس کو مسجد کا رنگ دینے کے لئے چاروں کونوں پہ منارے بھی تعمیر کئے گئے اور گنبد بھی بنایا گیا.اور یہ سڑک پر ہونے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کھینچنے کا بڑا مرکز بنا ہوا ہے.یہ مسجد نہ صرف جاپان بلکہ جو شمال مشرقی ایشیائی ممالک چین، کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان وغیرہ ہیں، ان میں جماعت کی پہلی مسجد ہے.اللہ تعالیٰ اس کو باقی جگہوں میں بھی راستے کھولنے کا ذریعہ بنائے اور وہاں بھی جماعتیں ترقی کریں اور مسجد میں بنانے والی ہوں.
خطبات مسرور جلد 13 689 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ عمارت خرید کر اس کو مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا.جون 2013ء میں یہ عمارت خریدی گئی تھی.اور اس کی خرید اور تعمیر وغیرہ پر گل تقریباً تیرہ کروڑ اٹہتر لاکھ ئین (137800000 Yen) کی رقم خرچ ہوئی ہے.یہ تقریباً کوئی بارہ لاکھ ڈالر کے قریب بن جاتی ہے.اس میں سے تقریبا نصف سے کچھ کم تو مرکز کی گرانٹ تھی یا مد تھی.باقی لوگوں نے ، یہاں کی جماعت چھوٹی سی ہے، بڑی قربانی کر کے اس مسجد کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.جب یہ جگہ خریدی گئی تو پہلے تو یہی تھا کہ بڑی آسانی سے مسجد کی اجازت مل جائے گی لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ بہت مشکل لگ رہا تھا کہ اس مسجد کی تعمیر کی اجازت ملے.جماعت کے نام رجسٹریشن اور بطور مسجد استعمال کرنا بڑا مشکل لگ رہا تھا.ایک دفعہ تو وکلاء نے مسجد کمیٹی کو مشورہ دیا کہ یہاں کام بہت مشکل معلوم ہوتا ہے اور جماعت رجسٹر ڈ نہ ہونے کی وجہ سے جماعت کے نام انتقال اور دیگر مسائل کا سامنا آ سکتا ہے.لہذا بہتر یہی ہے کہ اس معاہدے سے دستبردار ہو جائیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے راستے کی یہ ساری روکیں جو تھیں وہ ہٹا دیں.لوکل لوگوں کی طرف سے مسائل پیدا ہونے کا یا اعتراض آنے کا خدشہ تھا.کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے.اس شہر میں یہ پہلی مسجد ہے لیکن لوکل لوگوں کے ساتھ جب میٹنگز کی گئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں کو بھی ایسا انشراح عطا کر دیا کہ انہوں نے فوراً اپنی رضامندی ظاہر کر دی.بعض ان میں سے اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے موجود بھی ہوں گے.یہ تمام باتیں یہاں کے رہنے والے احمدیوں کے لئے ایمان اور یقین میں اضافے کا باعث ہونی چاہئیں.اور میں پھر دوبارہ کہوں گا کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.مسجد بیت الاحد کے لئے بعض بڑی مالی قربانی کے واقعات بھی ہوئے ہیں.جب مسجد بنانے کی تحریک کی گئی تو ایک احمدی بھائی کہتے ہیں کہ جب ان کو محصل نے یا سیکرٹری مال نے ، جس نے بھی تحریک کی تو یہ احمدی ان کو اپنے ساتھ لے گئے کہ میرے ساتھ گھر چلیں اور جو کچھ ہے میں پیش کر دیتا ہوں.ان کی اہلیہ جاپانی ہیں.جب وہ گئے اور چندے کا بتایا تو انہوں نے مختلف ڈبے لا کے سامنے رکھ دیئے اور جب ان میں سے رقمیں نکالی گئیں یا دیکھا گیا تو یہ ساری چیزیں تقریبا دس ہزار ڈالر مالیت کی تھیں.اسی طرح صدر صاحب جاپان نے یہ بھی لکھا کہ بعض احباب کے حالات سے ہمیں آگاہی تھی کہ وہ زیادہ آسودہ حال نہیں ہیں لیکن انہوں نے اپنے اخراجات کو محدود کر کے اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے لئے قربانی کی سعادت حاصل کی اور ایک وقت میں انہوں نے جو رقم دینی تھی اس میں دو اڑھائی لاکھ ڈالر کی کمی آ رہی
خطبات مسرور جلد 13 690 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء تھی لیکن احباب نے بڑی قربانی کر کے تکلیف اٹھا کر یہ رقم ادا کی.جو پہلے دے چکے تھے انہوں نے بھی پوری کوشش کی اور جو کچھ میسر تھا لا کے پیش کر دیا اور اس طرح تقریباً سات لاکھ ڈالر جمع ہو گئے.ایک نوجوان طالبعلم پارٹ ٹائم جاب کر رہے ہیں.اتنی ہزار یکین ان کو تنخواہ ملتی ہے.اس میں سے ہر مہینے پچاس ہزار بین مسجد کے لئے ابھی تک پیش کرنے کی توفیق پارہے ہیں یا جب تک رپورٹ تھی اس وقت تک دیتے رہے.احمدی بچے بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں.اپنی جیب خرچ لا کر مسجد کے لئے چندہ پیش کرتے رہے.اور بچوں میں سب سے زیادہ قربانی ایک بچی نے کی ہے جس نے مختلف کرنسیوں کی صورت میں مختلف وقتوں میں جو اس کو تحفے تحائف اپنے بڑوں سے ملتے رہے وہ دیئے اور اس طرح جو رقم اس نے جمع کی ہوئی تھی وہ جمع کی گئی تو نو ہزار ڈالر کے قریب رقم بنی جو اس نے پیش کر دی.احمدی خواتین نے بڑی قربانیاں کیں.اپنے زیور پیش کر دیئے.اور ایک خاتون نے تو اپنی چوبیس چوڑیاں پیش کر دیں.پھر ایک اور ہیں انہوں نے اپنے زیورات جوان کی والدہ کی طرف سے ملے تھے وہ دے دیئے.ایک خاتون جو پاکستان سے آئی ہیں انہوں نے اپنے زیور کا نیا سیٹ مسجد کے لئے پیش کر دیا جو انہوں نے جنوری میں ہی اپنی بیٹی کی شادی کے لئے خریدا تھا.اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کو اپنی جناب سے بے انتہا نوازے.ان کے اموال میں برکت دے.ان کے نفوس میں برکت دے.انہیں ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے اور ان سب کو اس مسجد کا حق ادا کرنے والا بنائے.یہ مسجد جہاں ان کی عبادت کے معیار بلند کرے وہاں یہ آپس میں محبت پیار میں بھی بڑھنے والے ہوں اور اس محبت اور پیار کو دیکھ کر دوسروں کی بھی اس طرف توجہ پیدا ہو.غیر از جماعت ہمسایوں نے بھی بڑا محبت اور خلوص کا اظہار کیا ہے.ایک جاپانی دوست کو جب علم ہوا کہ افتتاح میں شرکت کے لئے بیرون ملک سے کافی تعداد میں مہمان آ رہے ہیں تو انہوں نے اپنا ایک بہت بڑا گھر جو تین منزلہ گھر ہے جماعت کو پیش کر دیا کہ اپنے مہمان اس میں ٹھہرائیں.اسی طرح مسجد کے ہمسایوں کو جب پتا چلا کہ یہاں مسجد کے افتتاح کے لئے کثرت سے مہمانوں کی توقع ہے تو انہوں نے جماعت کے لئے کاروں کی پارکنگ کے لئے اپنی پارکنگ کی جگہ دے دی.بالعموم جاپانی لوگ کسی بھی عمارت کے افتتاح وغیرہ کے موقع پر اس عمارت کو نہایت قیمتی پھولوں سے سجاتے ہیں.جب دو جاپانی دوستوں کو پتا چلا کہ جاپان کی جماعت احمدیہ کی مسجد کا افتتاح ہورہا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ مسجد کے افتتاح کے موقع پر مسجد کو پھولوں سے سجانا چاہتے ہیں.چنانچہ انہوں نے پوری مدد کی.
خطبات مسرور جلد 13 691 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء مسجد کی رجسٹریشن میں ایک غیر مسلم وکیل اکیو نجیما (Akio Najima) صاحب کی معاونت کا بھی بیان کر دوں انہوں نے بڑا کام کیا ہے.یہ قانونی معاونت فراہم کرتے رہے.نہایت بے لوث انداز میں انہوں نے معاونت فرمائی.ان کے کام کی فیس کم از کم بیس ہزار ڈالر کے قریب بنتی ہے.لیکن ان کا کہنا تھا کہ جماعت احمدیہ کے جاپان پر احسانات ہیں اور اس کے بدلہ میں میں یہ کام معاوضے کے بغیر کروں گا.چنانچہ انہوں نے کوئی فیس نہیں لی.اخبارات اور میڈیا میں بھی اس (مسجد ) کا کافی ذکر ہے جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں.تمام بڑے اخبارات، معروف ٹی وی چینلز کے ذریعہ تعارف ہو چکا ہے اور 11 نومبر کو مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی دوسری بڑی اخبار نے یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ مسلمان ”امن و محبت جن کے ایمان کا حصہ ہے.جماعت احمد یہ جاپان کی مسجد اور کمیونٹی سینٹر آئی چی پریفیکچر کے تسوشیما شر یعنی جو یہاں لوکل گورنمنٹ کا علاقہ ہے، میں تعمیر ہوگیا ہے.یہ مسجد پانچ چھوٹے بڑے میناروں پر مشتمل ہے اور پھر بتایا کہ اس میں پانچ سو کے قریب نمازی نمازیں ادا کر سکتے ہیں.پھر لکھا کہ امن و محبت کا پر چار اور اپنے معاشرے سے میل ملاپ بڑھاتے ہوئے پروگراموں کا انعقاد جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز ہے.جاپان میں زیادہ تر پاکستانی اور پندرہ دیگر قوموں سمیت اس جماعت کے دوسو کے قریب ممبر آباد ہیں.رضا کارانہ سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہنے والی جماعت ہے.یہ لوگ کو بے میں آنے والے زلزلہ اور سونامی اور شمالی جاپان میں آنے والے زلزلوں کے علاوہ اس سال آنے والے سیلاب کے بعد متاثرین کوکھانا وغیرہ تقسیم کر کے خدمت میں حصہ لیتے رہے.پس یہ اثر ہے جو جماعت احمدیہ کا دوسروں پر قائم ہے کہ پُرامن اور سلامتی پھیلانے والے اسلام کے نمائندے ہیں.خدمت خلق کرتے ہیں.اس کو قائم رکھنا اور اس اثر کو بڑھانا یہاں رہنے والے ہر احمدی کا کام ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہر احمدی اس حقیقت کو پھیلانے والا بھی ہو کہ اسلام محبت اور سلامتی کا مذہب ہے اور ہماری مساجد اس کا symbol ہیں تا کہ اس قوم میں اسلام کا حقیقی پیغام پھیلانے کے راستے وسیع تر ہوتے چلے جائیں اور یہ قوم بھی ان خوش قسمتوں میں شامل ہو جائے جو اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے والی اور محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھنے والی ہو.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 11 دسمبر 2015 ء تا 17 دسمبر 2015 ءجلد 22 شماره 50 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 692 48 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء وراحمدخلیفة خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015 ء بمطابق 27 رنبوت 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جاپان میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی بنیا درکھ دی گئی ہے جیسا کہ احباب جانتے ہیں گزشتہ دنوں میں جاپان کی پہلی مسجد کے افتتاح کے لئے وہاں گیا تھا.اگر ظاہری حالات کو دیکھا جائے تو یہ بہت مشکل امر تھا کہ وہاں مسجد بن سکے.ہمارے وکیل جو جا پانی ہیں مجھے ملے اور کہنے لگے کہ مسجد کی تعمیل آپ کو مبارک ہو لیکن میں اب بھی سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں اور یقین نہیں آتا کہ اس علاقے میں آپ کو مسجد بنانے کی اجازت مل گئی.کہنے لگے کہ میں آپ کے لئے کیس تو لڑ رہا تھا لیکن مجھے توقع نہیں تھی کہ کوئی کامیابی ہو اس لئے ایک موقع پر میں نے جماعت کی انتظامیہ کو کہہ دیا کہ اس معاملے کو چھوڑ دیں تو زیادہ بہتر ہے.لیکن جماعت کے افراد کا تو کل بھی عجیب ہے.انہوں نے کہا کہ تم کوشش کرتے رہو.یہ جگہ ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ ملے گی اور مسجد بھی بنے گی.کہنے لگے آج یہ مسجد جو ہے یہ میرے لئے تو یقیناً ایک حیران کن بات ہے اور نشان ہے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو وہ ہر موقع پر جماعت پر فرماتا رہتا ہے اور ہمارے ایمانوں کو بڑھاتا ہے.ہر کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے وقت رکھا ہوا ہے اور جب وہ وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کام ہو جاتے ہیں.جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ مسجد بنے تو تمام روکوں کے باوجود مسجد بنانے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی اور اسلام کا پیغام اس ملک میں پہنچانے کا پہلا مرکز قائم ہو گیا.اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف ایک مرکز یا مسجد تمام ملک میں اسلام کی تعلیم پھیلانے کے مقصد کو پورا نہیں کر سکتی لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کے ساتھ جاپان میں اسلام کا حقیقی
خطبات مسرور جلد 13 693 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء پیغام پہنچانے کی بنیا درکھ دی گئی ہے.میں چندلوگوں کے تاثرات بھی بیان کروں گا جس سے پتا چلتا ہے کہ جاپانیوں نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے بتائی گئی صحیح اسلامی تعلیم کو کس طرح دیکھا.اور یہ ہونا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعہ سے ہی یہ مقدر تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طرح باقی دنیا کے ممالک میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی تڑپ کا اظہار فرمایا ہے اور اس کے لئے کوشش بھی فرمائی اسی طرح جاپان کے متعلق بھی فرمایا کہ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جائے اور کسی فصیح وبلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کروایا جائے اور پھر اس کا دس ہزارنسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جائے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحه 22 آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جاپان میں نیک فطرت لوگ احمدیت قبول کریں گے.ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ (385) الحمد للہ کہ آج قرآن کریم کے ترجمہ سمیت ہزاروں کی تعداد میں جماعت کی طرف سے جاپانیوں کے لئے ان کی زبان میں لٹریچر تیار ہو رہا ہے اور اب تو اس مسجد کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش پورا کرنے کے لئے ایسے دروازے کھولے ہیں کہ کروڑوں تک اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ لوگوں کے تاثرات پیش کروں گا جس سے پتہ چلتا ہے لوگوں کی اسلام کے بارے میں رائے بدل گئی ہے.پہلے کچھ اور رائے تھی اب بالکل مختلف ہوگئی ہے.اور انہوں نے کہا ہے، یہ برملا اظہار کیا کہ مسجد کے افتتاح اور فنکشن میں شامل ہو کر ہمیں اسلام کی تعلیم کا پتا چلا ہے اور اسلام کے بارے میں ہماری غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اسلام کا تعارف کروانا ہو تو مسجد بنادو،لوگوں کی توجہ پیدا ہوگی.ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحه 119 ) یہ بات بڑی شان کے ساتھ پوری ہوتی ہمیں ہر جگہ اور جاپان میں بھی نظر آتی ہے.جب انسان دیکھتا ہے کہ مسجد کے فنکشن میں شامل ہو کے کس طرح لوگوں کی کایا پلٹی تو حیرت ہوتی ہے.جس دن جمعہ تھا اس دن جمعہ کے وقت بھی جا پانی مہمان مسجد میں آئے ہوئے تھے.میں جب گیا ہوں تو پہلے نقاب کشائی تھی.کچھ باہر کھڑے تھے اور پھر وہ اندر آ کے مسجد میں بھی بیٹھ گئے اور خطبہ بھی سنا اور ہمیں نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا.تقریباً انچاس، پچاس کے قریب جا پانی مہمان تھے جن میں شنٹو ازم کے ماننے والے
خطبات مسرور جلد 13 694 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء بدھسٹ اور عیسائی رہنماؤں کے علاوہ علاقے کے ممبران پارلیمنٹ ، پروفیسر اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے.ان شامل ہونے والوں کے جو تاثرات ہیں وہ بتا تا ہوں.ایک صاحب ہیں اوسامو ( Osamu) صاحب جو Church of Jesus Christ کے ڈائریکٹر آف پبلک افیئرز ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں امید ہے کہ یہ مسجد جاپانیوں اور اسلام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرے گی.پھر ایک اور پر لیسٹ جن کا نام تائی جون سا تو (Taijun Sato) ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک بدھسٹ کے طور پر مسجد میں داخل ہو کر بہت اچھا لگا.ہمارا تو خیال تھا کہ غیر مسلم اور بدھسٹ کے طور پر مسجد میں داخلہ منع ہے.لیکن نہ صرف یہ کہ گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا گیا بلکہ نماز اور خطبہ میں شامل ہو کر ہمیں دلی خوشی ہوئی.اسلام کے بارے میں ہمارا تأثر تبدیل ہو گیا.پھرسٹی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے علاقے میں مسجد کی تعمیر کو خوش آمدید کہتے ہیں.ہمیں امید ہے کہ جماعت احمدیہ کے موقف کے مطابق یہ مسجد انسانیت سے محبت کرنے والوں اور خدمت خلق پر یقین رکھنے والے لوگوں کا مرکز بنے گی.پھر اشمینو ما کی (Ishinomaki) سٹی کے ممبر پارلیمنٹ ہیں.ایک ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے مسجد کی تقریب میں شامل ہونے کے لئے آئے تھے.کہتے ہیں یہ خوبصورت مسجد دیکھتے ہی میری سفر کی ساری تھکان دُور ہوگئی.پھر انہوں نے کہا کہ جماعت احمد یہ جاپان نے زلزلوں میں خدمت کے ذریعہ جو نیک نامی کمائی ہے امید ہے کہ یہ مسجد اس نیک نامی کو بڑھانے کا باعث بنے گی.پھر Aichi ایجوکیشنل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر مینیسا کی ہیروکو (Minesaki Hiroko) صاحب ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جاپان میں جماعت احمدیہ کی مسجد کی تعمیر کی بہت ضرورت تھی.دنیا میں اسلام کا خوبصورت چہرہ دکھانے کے لئے جماعت احمدیہ کا کردار بہت نمایاں ہے.ہم امید رکھتے ہیں کہ اس مسجد سے جماعت کا تعارف مزید بڑھے گا اور دنیا میں حقیقی امن وسکون پھیلے گا.وہاں جاپان کی جماعت چھوٹی سی جماعت ہے.تقریب بارہ ممالک کے اتنے ہی احمدی لوگ فنکشن میں باہر سے بھی آئے ہوئے تھے.اس لئے جمعہ کے دن اچھی رونق ہو گئی تھی.انڈونیشیا سے، ملائیشیا سے، آسٹریلیا سے، کوریا سے، امریکہ، کینیڈا، جرمنی، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، بھارت، یواے ای اور کانگو کنشاسا سے بھی کچھ گئے ہوئے تھے.اور اللہ کے فضل سے جماعت نے ان سب کی مہمان
خطبات مسرور جلد 13 نوازی کا بھی حق ادا کیا.695 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء ہفتہ کی شام کو وہاں مسجد کے حوالے سے مسجد کے صحن میں ہی ایک reception بھی تھی.اس تقریب میں بھی تقریباً 109 جاپانی مہمان اور آٹھ دیگر غیر ملکی غیر از جماعت مہمان شامل ہوئے.ان مہمانوں میں پریذیڈنٹ اے ایم اے سٹی انٹر نیشنل ایسوسی ایشن.دو صو بائی ممبران پارلیمنٹ، تین سٹی ممبران پارلیمنٹ، ڈائریکٹر آف انٹر نیشنل ٹورازم، پریذیڈنٹ پریسٹ آف سوٹو ٹمپل، یونیورسٹی کے پروفیسر، پریذیڈنٹ آئی چی ایجوکیشنل یو نیورسٹی، ڈاکٹرز، ٹیچر ، وکلاء اور دیگر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے.ایک بدھ پر لیسٹ جو اس میں شامل ہوئے کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کی آمد بہت ہی اچھے وقت پر ہوئی جبکہ ہم پیرس میں دہشت گردی کے بعد ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھے.کہتے ہیں کہ جس خوبصورتی اور آسان فہم انداز میں انہوں نے بات کی ہے اور اسلام کی تعریف کی اس سے یہ بہیجانی کیفیت جو ہمارے دلوں میں اسلام کے بارے میں گھر کئے ہوئے تھی ختم ہو گئی.امام جماعت احمدیہ کی آمد اور اس مسجد کی تعمیر نے ہماری گھبراہٹ اور پر یشانی کو یکسر ختم کر دیا.پھر ایک وکیل ایتو ہیروشی (Ito Hiroshi صاحب ہیں.انہوں نے مختلف موقعوں پر قانونی معاونت بھی فراہم کی تھی.یہ کہتے ہیں یہ میری زندگی کا سب سے بہترین دن ہے.یہ وہی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا.کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کی تمام باتیں حق پر مبنی تھیں.جہاں انہوں نے امن اور نرمی کی تلقین کی ہے وہیں انہوں نے عدل اور انصاف کے فروغ کی بھی بات کی ہے جو بہت ہی اچھی بات ہے اور اس کی ضرورت ہے.ایک یونیورسٹی کے طالبعلم تھے وہ کہتے ہیں کہ میرا گھرانہ بدھسٹ پر ٹیسٹ کا گھرانہ ہے اور میرا گھر ٹمپل ہے.مجھے اسلام میں کافی دلچسپی تھی تاہم کبھی موقع نہیں ملا کہ کسی مسلمان سے بات کر سکوں.کتابوں سے جو مل سکا وہ پڑھا تا ہم آج اس افتتاحی تقریب میں شرکت کر کے اور امام جماعت احمدیہ کی باتیں سن کر مجھے اسلام کی اصل تصویر نظر آئی اور ایک نیا باب مجھ پر کھلا ہے.امام جماعت کا خطاب اس زمانے کی ضرورت ہے ایک خاتون یو کی سانگی ساکی (Yuki Sngisaki) صاحبہ کہتی ہیں کہ اس پر وقار تقریب پر دعوت کے لئے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں.اس شہر میں اتنی شاندار مسجد کا بنا ہمارے لئے بھی بہت خوشی
خطبات مسرور جلد 13 696 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء کی بات ہے.میں ایک یونیورسٹی کی طالبعلم ہوں اور مختلف مذاہب پر تحقیق کر رہی ہوں.اس تقریب میں شامل ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ ہمارا اسلام کے بارے میں علم بہت تھوڑا ہے جس کی وجہ سے ہم غلط فہمی کا شکار ہیں.امام جماعت احمدیہ کا خطاب اس زمانے کی ضرورت ہے.میں نے اس خطاب سے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے.ہم جاپانی لوگ اسلام کے متعلق زیادہ نہیں جانتے بلکہ اسلام سے خوفزدہ ہیں مگر آج کے خطاب سے ہمیں پتا چلا کہ اسلام اصل میں کیا چیز ہے.کہتی ہیں کہ اس تقریب میں شامل ہونے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کے بارے میں کتابیں پڑھنے سے اور اس کی تاریخ پڑھنے سے ہم اس کا اصل چہرہ نہیں دیکھ سکیں گے.کیونکہ بہت ساری کتابیں تو یہ لوگ جو پڑھتے ہیں وہ انہی کی پڑھتے ہیں جو ویسٹرن اور سیٹلسٹس (Western Orientalists) نے لکھی ہیں.اس کے لئے اس طرح کی اور تقاریب منعقد کرنے کی ضرورت ہے.مسجد کے بننے کے بعد میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح کے مواقع مزید آئیں گے.امام جماعت احمد یہ اور ان کی جماعت سے ملنے کا موقع ملا.باہمی محبت اور امن اور آشتی مجھے ان کے چہروں پر نظر آئی اور ان سے ملاقات کرنے کے بعد مجھے ان میں بہت پیار اور محبت نظر آئی.ایک اور جاپانی دوست تھو یا سا گورائی (Toya Sakurai) صاحب کہتے ہیں کہ آج اس تقریب میں شامل ہونے اور امام جماعت احمدیہ کی باتیں سننے سے اس دنیا کے امن کے بارے میں سوچنے کا موقع ملا.اس موقع کے فراہم کرنے کے لئے میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں.امام جماعت احمدیہ نے صرف امن کے متعلق ہی بات کی اور دنیا کو خفی خطرات سے بھی آگاہ کیا.جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے ہمارے ان خدشات کو بھی دور کیا کہ مسلمان دنیا پر قابض ہونا چاہتے ہیں.میں بار بار یہی کہوں گا کہ ہمیں ان کے ساتھ مل کر امن کے لئے کام کرنا چاہئے.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کے بارے میں پڑھیں اور اس کو سمجھیں.اسی طرح ایک جاپانی دوست جو سکول ٹیچر ہیں کہتے ہیں کہ احمدی احباب نے مشکل اوقات میں ہمیشہ ہماری مدد کی.یہ بات میں پہلے نہیں جانتا تھا.(وہاں کیونکہ بہت سارے مقررین نے بتایا کہ مختلف زلزلوں میں سونامی کے دنوں میں جماعت احمدیہ نے مدد کی ہے.تو کہتے ہیں اس بات کا مجھے پہلے نہیں پتا تھا.وہ کہتے ہیں کہ یہاں قریب کے سکول میں ٹیچر ہوں.کہتے ہیں اب میں آج کے بعد اپنے سکول کے بچوں کو کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ خطر ناک نہیں کیونکہ امام جماعت احمدیہ اور مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے ملاقات کا بہت حسین موقع مجھے ملا.کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے بہت آسان طریق
خطبات مسرور جلد 13 697 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء سے اسلام کے بارے میں بیان کیا.ان کی باتیں بہت جلد سمجھ آنے والی تھیں.پھر ایک دوست جو اس تقریب میں شامل ہوئے کہتے ہیں کہ اس تقریب میں شامل ہو کر اور امام جماعت احمدیہ کا خطاب سننے کے بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہمیں اسلام کی بنیادوں سے واقفیت حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہے.جاپان ایک جزیرہ ہے اور یہاں کے لوگ بھی اسی طرح باہر کی دنیا سے بند اور ناواقف ہیں.اسی لئے وہ اسلام کے متعلق دہشت گردی کے تصور سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے.مجھے امید ہے کہ امام جماعت احمدیہ کی آمد اور اس مسجد کی تعمیر اس تصور کو بدلنے میں ایک مثبت ذریعہ بنے گی.پھر ایک اور جاپانی دوست ہیں انوکین (Oono Ken) صاحب کہتے ہیں کہ میں مسجد کے پاس ہی رہتا ہوں.مسجد کی افتتاحی تقریب میں شامل ہو کر اور اسلام کے بارے میں جان کر بہت خوش ہوا ہوں.میں چاہتا ہوں کہ اب اسلام کے بارے میں مزید معلومات کے لئے آئندہ بھی اس مسجد میں آتارہوں.پھر ایک اور جاپانی دوست کہتے ہیں میں نے اس طرح کی تقریب میں پہلے کبھی شرکت نہیں کی.آج اس تقریب میں شامل ہو کر اور جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا خطاب سن کر مجھے پہلی بار علم ہوا ہے کہ مسجد کے مقاصد کیا ہیں.ایک جاپانی ڈاکٹر جو آرتھو پیڈک سرجن ہیں وہ مجھے بھی ملے تھے.یہ گزشتہ تین سال سے خدمت خلق کے لئے ہمارے ساتھ ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ کام کر رہے ہیں اور رضا کارانہ طور پر باوجود اس کے کہ احمدی نہیں ہیں اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.یہ کہتے ہیں جو اسلام امام جماعت احمدیہ نے پیش کیا ہے اس کے ماننے میں کسی شنٹو کے پیروکار، عیسائی، بدھسٹ یا کسی اور مذہب کے پیروکار کوکوئی عار نہیں ہونا چاہئے.پھر ایک اور جاپانی دوست متئو ایشی کاوا (Mitsuo Ishikawa) صاحب ہیں.کہتے ہیں ”اسلام کا مطلب امن اور با ہمی سلامتی ہے.امام جماعت احمدیہ کے یہ الفاظ میرے دل میں اتر گئے.ایک طالبعلم جو برازیل سے ایکسچینج پروگرام کے تعلق میں وہاں جاپان آئے ہوئے تھے کہتے ہیں کہ بہت ہی دلچسپ تقریب تھی.میں نے برازیل میں کبھی مسلمانوں کی اس طرح کی تقریب نہیں دیکھی.آج خلیفہ اسیح کی باتیں سن کر میں نے اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے.امام جماعت احمدیہ کا خطاب سن کر میں بہت جذباتی ہو گیا تھا.کوئی شک نہیں کہ ان کے الفاظ دلوں کو بدلنے والے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ امام جماعت نے بتایا کہ دہشت گرد گھناؤنے کام کرتے ہیں لیکن اسلام کی اصل تعلیمات تو بہت اچھی 66 ہیں.اس سے پتا چلتا ہے کہ میڈیا جو اسلام کے بارے میں بتاتا ہے وہ حقیقت سے بالکل مختلف ہے.
خطبات مسرور جلد 13 698 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء ایک جاپانی خاتون مسز اوزو کی (Mrs Uzuki) صاحبہ کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آج کا یہ دن میری زندگی کی کایا پلٹ دینے والا دن تھا.امام جماعت احمدیہ نے میرا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نظر یہ کلیہ تبدیل کر دیا ہے.پھر میرے خطاب کے بارے میں کہتی ہیں کہ انہوں نے کہا کہ یہ تلوار سے جہاد کرنے کا زمانہ نہیں بلکہ پیار سے جہاد کرنے کا زمانہ ہے.کہتی ہیں جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی باتوں کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے.میں تو کہوں گی کہ سب لوگوں کو یہاں آ کر یہ مسجد دیکھنی چاہئے اور احمدیوں سے اسلام کے بارے میں سیکھنا چاہئے.ایک جاپانی خاتون Mrs Haiashi صاحبہ کہنے لگیں کہ پہلے بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے جاپان میں ایک تقریب کا انعقاد ہوا تھا.میں اس تقریب میں بھی شامل تھی لیکن اس تقریب میں شامل ہونے کے بعد بھی اس وقت کچھ سوال میرے ذہن میں باقی رہ گئے تھے لیکن آج جماعت کے خلیفہ نے اپنے خطاب میں میرے ان تمام سوالوں کے جواب دے دیئے.اب میرے دل میں اسلام کے بارے میں کسی قسم کا کوئی خدشہ یا خوف باقی نہیں رہا.آج میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ اسلام دنیا کے لئے خطرہ نہیں ہے بلکہ ہم سب کو یکجا کر سکتا ہے.پھر ایک جاپانی خاتون جو سکول کی ٹیچر تھیں.کہتی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا خطاب سننے سے پہلے دفتر میں ان سے ملاقات کا بھی موقع ملا.یہ اپنے بہت ہمارے سٹوڈنٹ لے کر آئی ہوئی تھیں پندرہ سولہ سٹوڈنٹ تھے اور چار پانچ ٹیچر تھے.کہتی ہیں کہ خلیفتہ امسیح نے ملاقات کے دوران اور پھر بعد میں اپنے خطاب کے ذریعہ میرے تمام سوالات کے جوابات دے دیئے.اب میرا پختہ یقین ہے کہ اسلام ایک امن کا مذہب ہے.میں یہاں اپنے بعض طالبعلموں کو ساتھ لے کر آئی تھی.یہ طالبعلم پہلے اسلام.خوفزدہ تھے لیکن امام جماعت احمدیہ کا خطاب سن کر اور باتیں کر کے ان کا نظریہ تبدیل ہو گیا ہے بلکہ یہ خطاب سن کر وہ سخت حیران ہوئے اور مسجد میں اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھنے لگے.(جیسے پہلے خطرہ تھا.) کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں کہ جاپانیوں اور احمدیوں کے بیچ اس تعلق میں اضافہ ہوتا چلا جائے.ان کے ساتھ ایک جاپانی طالبعلم آئے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ یہ جو خطاب تھا ایک امن کا پیغام تھا.میرا خیال ہے کہ اب اس مسجد کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر لوگوں کے بیچ جو خلیج ہے وہ دور ہو جائے گی اور جاپان میں اسلام پھیلنے لگ جائے گا.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا کے ذریعہ بھی مسجد کے افتتاح کا کافی چر چاہوا اور وسیع پیمانے پر
خطبات مسرور جلد 13 699 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء جاپانیوں تک اسلام کا پیغام پہنچا.میڈیا کے میرے چار مختلف انٹرویو ہوئے.تین تو یہیں مسجد کے لئے اور ایک وہاں ٹوکیو میں.Chukyo TV (چور کیو ٹی وی) یہ وسطی جاپان کا مشہور ٹی وی چینل ہے.اس کے ناظرین کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے.یہ انٹرویو بھی اور مسجد کے افتتاح اور نماز جمعہ کے مناظر کے ساتھ بروز جمعہ 20 نومبر کو انہوں نے خبر بھی نشر کی.پھر ثناء نیوز ایجنسی (Sana News Agency) کے صحافی نے انٹرویو لیا اور وہ غیر ملکی میڈیا کو دیتے ہیں انہوں نے بھی کہا کہ بعد میں بھی اس کی کافی کوریج ہوگی.اسی طرح Chugal Nippon (بچوگائی نیو ) اخبار ہے.اس کے نمائندے نے عیسائی پریسٹ کے ساتھ مل کے انٹرویو لیا.یہ جاپان کا واحد مذہبی اخبار ہے.یہ ہفت روزہ اخبار ہے اور انٹرنیٹ ایڈیشن سمیت اس اخبار کے پڑھنے والوں کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے.یہ انٹرویو بھی اس ہفتے شائع ہونا تھا.ہو گیا ہوگا.اسی طرح ٹوکیو میں جرنلسٹ نے ایک انٹرو یولیا اور یہ بھی کہتے تھے میں اس ہفتے شائع کروں گا.اس اخبار کی تعداد بھی اتنی لاکھ سے زائد ہے.اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر پانچ ٹی وی چینلز اور مختلف اخبارات کے نمائندے اور جرنلسٹ آئے تھے.Chukyo TV (چور کیوٹی وی) جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اس نے جو خبر نشر کی وہ یہ تھی کہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح آج ہوا.اور یہ خبر انہوں نے جمعہ والے دن قریباً چھ سات منٹ کی دی.ان کے ناظرین کی تعداد بھی ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد ہے.پھر خبر میں اس نے بیان کیا کہ لندن سے آئے ہوئے جماعت احمدیہ کے امام نے دہشت گرد تنظیموں کے اسلام سے بے تعلق ہونے اور ان کے عمل کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسجد جہاں مسلمانوں کی عبادت کی جگہ ہے وہاں ہر ایک کے لئے امن کا گہوارہ ہے.امام جماعت احمدیہ نے پیرس کے حملوں کی بھر پور مذمت کی.اس چینل نے انٹرویو بھی لیا تھا اور پھر میرے انٹرویو کے بعض چنیدہ حصے بھی دکھائے.اسی طرح Tokai ٹی وی اس کے ناظرین کی تعداد بھی ایک کروڑ سے زیادہ بلکہ سوا کروڑ سے زیادہ ہے.اس چینل نے دن میں پانچ مرتبہ یہ خبر نشر کی کہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا آج سوشیما شہر میں افتتاح ہوا.افتتاح پیرس میں حملوں کے بعد ہوا ہے.جماعت احمدیہ کے امام اس وقت مرکز انگلینڈ
خطبات مسرور جلد 13 700 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء سے یہاں اس کی تقریب کے لئے آئے.افتتاح کی خبر کے دوران پھر انہوں نے وہاں جو میں خطبہ دے رہا تھا وہ بھی دکھایا اور افتتاح کے مناظر بھی دکھائے.اسی طرح TBS TV چینل ہے یہ بھی وہاں کافی مشہور ہے اور یہ کہتے ہیں کہ کروڑ سے زیادہ اس کو سننے والے، دیکھنے والے ہیں.اس نے خبر نشر کی کہ پیرس حملوں کو ابھی ایک ہفتہ ہوا ہے اور جاپان میں سب سے بڑی مسجد کا افتتاح آج عمل میں آیا ہے.یہ مسجد ایک جماعت نے بنائی ہے اور ان کے خلیفہ نے پیرس میں ہونے والے حملوں کو غیر اسلامی اور غیر انسانی قرار دیا ہے.خبر کے دوران مسجد کے مناظر دکھائے گئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر بھی دکھائی گئی.یہ خبر بھی دن میں تین مرتبہ نشر ہوئی.TV Aichi.اس کے ناظرین کی تعداد بھی ایک کروڑ سے اوپر ہے اور اس نے بھی یہ خبر دی کہ پیرس حملوں کے بعد جبکہ اسلام کے بارے میں منفی تاثر دوبارہ پختہ ہو گیا ہے سوشیما میں ایک مسجد کا افتتاح کیا گیا ہے.یہ مسجد جماعت احمدیہ نے بنائی ہے اور یہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد ہے اور امام جماعت احمدیہ نے پیرس حملوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسجد ایسے تمام عناصر کی مذمت کرتی ہے.یہ مسجد امن و امان کا ذریعہ ہوگی.جو چاہے اس مسجد میں آ سکتا ہے.اور خبر کے دوران پھر مسجد کے مناظر اور دیگر احباب کے تاثرات دکھائے گئے.خطبہ جمعہ کے بھی بعض مناظر دکھائے گئے.یہ خبر بھی دو پہر اور شام کی خبروں میں نشر کی گئی.پھر نا گویا ٹی وی Nagoya TV) ہے اس کے دیکھنے والوں کی تعداد بھی کافی ہے.کروڑ سے اوپر ہے بلکہ سوا کروڑ سے اوپر ہے.یہ کہتے ہیں سوشیما میں جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا.حاضرین کا کہنا تھا کہ جہاں ان کے دل اس بات پر خوش ہیں کہ یہ مسجد بنی ہے وہیں وہ اس بات پر رنجیدہ بھی ہیں کہ پیرس میں ناحق خون بہایا گیا.اس تقریب میں دنیا کے امن وامان کے لئے دعا بھی کی گئی.خبر کے دوران پھر مسجد کے مناظر دکھائے جاتے رہے.یہ خبر بھی اس ٹی وی چینل پر دودفعہ دکھائی گئی.اخبارات کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اشاعت ہوئی.ایک اخبار The Daily Yomiuri (یو می اوری ) اس کی اشاعت ایک کروڑ بارہ لاکھ ہے.یہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اخبار شمار ہوتی ہے.اس اخبار نے اس طرح سرخی لگائی کہ اسلام کا اصل چہرہ“.نئی تعمیر شدہ مسجد میں سانحہ پیرس کے ہلاک شدگان کے لئے دعا کی گئی.پھر اس نے آگے لکھا ہے جاپان میں 200 سے زائد افراد پر مشتمل احمد یہ مسلم جماعت جاپان نے جمعہ 20 رنومبر کو سوشیما شہر میں اپنی نو تعمیر شدہ مسجد
خطبات مسرور جلد 13 701 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء کے افتتاح کے موقع پر نماز جمعہ میں سانحہ پیرس میں ہلاک شدگان کے لئے بھی دعا کی.اس موقع پر دنیا بھر سے آئے افراد جن کی تعداد 500 کے لگ بھگ تھی موجود تھے.خطبہ جمعہ میں امام جماعت احمد یہ عالمگیر نے اپنے خطاب میں سانحہ پیرس کو انسانیت کے خلاف ایک گھناؤنا جرم قرار دیتے ہوئے شدت پسند تنظیم کی بھر پور مذمت کی اور اپنی جماعت کے افراد کو تلقین کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ جاپانی قوم تک اسلام کی اصل تعلیم پہنچانے کی ذمہ داری اٹھا ئیں.اس خبر کو انٹرنیٹ پر بھی پانچ دیگر ویب سائٹس نے ڈالا جن میں yahoo japan اور msn japan ، japanbiglobe اور goo news شامل ہیں.ان سب ویب سائٹس کے ناظرین کی کل تعداد بھی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے.ایک اخبار ڈیلی اسا ہی Daily Asahi) جس کی اشاعت اتنی لاکھ سے زائد ہے.اس نے یہ خبر شائع کی کہ ہمارا عقیدہ ہم آہنگی ہے“.اور پھر یہ لکھتا ہے کہ جماعت احمد یہ جاپان کی مسجد تعلیم وتربیت کے مرکز کی تعمیر سوشیما شہر میں مکمل ہوئی ہے.یہ مسجد چار میناروں اور ایک گنبد سے آراستہ ہے اور یہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد ہے.اس میں پانچ سونمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں.دوسری منزل پر دفاتر اور گیسٹ ہاؤسز وغیرہ ہیں.یہ مسجد بلا تفریق قومیت و مذہب ہر کسی کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے گی.پھر یہ کہتا ہے کہ یہ وہ مذہبی جماعت ہے جس کی بنیادی تعلیمات کامل امن و آشتی پر مبنی ہیں.پھر کہتا ہے یہ جماعت رضا کارانہ خدمات میں بھی پیش پیش ہے.گوبے، نیگا تا اور شمال مشرقی جاپان کے زلزلے کے وقت نیز امسال آنے والے سیلاب کے موقع پر اس جماعت نے سب سے پہلے اپنی عملی خدمات پیش کی ہیں.اس خبر کو بھی مختلف ویب سائٹس نے لیا اور جس کو دیکھنے والے پچہتر لاکھ سے زائد افراد تھے.امام جماعت احمدیہ کی شدت پسندی کی مذمت اسی طرح جی جی پریس نیوز ایجنسی (Jidi Press News Agency) ہے.یہ ایجنسی جاپان میں مختلف اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلز کو اور رسالوں کو خبریں مہیا کرتی ہے جن کی مجموعی تعداد 75 ہے.اس طرح ان کی یہ خبر تقریباً پینسٹھ لاکھ لوگوں تک پہنچتی ہے.اس ایجنسی نے جو سرخی دی وہ یہ تھی کہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر مکمل.امن چاہتے ہیں.مقامی احمدیوں کی دعا.پھر کہتا ہے کہ بڑھتی ہوئی اسلامی تنظیم احمدیہ مسلم جماعت کے مرکز سوشیما شہر میں مسجد کا افتتاح عمل میں آیا.جماعت کے مطابق اس مسجد میں 500 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں.اس لحاظ سے یہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد ہے.برطانیہ سے آئے ہوئے جماعت احمد یہ عالمگیر کے امام نے سانحہ پیرس کے متعلق کہا کہ یہ بہت ظالمانہ اور
خطبات مسرور جلد 13 702 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء غیر انسانی فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے.نیز یہ بھی کہا کہ اسلام کی ترقی کے لئے ہمیں تلوار کی نہیں بلکہ اپنے اندر کی برائی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے.امام جماعت احمدیہ نے بھر پور انداز میں شدت پسندی کی مذمت کی.اور اس کے visitors کی تعداد بھی جب یہ مختلف ویب سائٹس پر ڈالا گیا اسی طرح لاکھوں میں ہے.اسی طرح جاپان کا ایک اخبار Manichi Shinbun (مائی نیچی شم بن ) لکھتا ہے کہ جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح ہوا.مسلمانوں کی ایک تنظیم جماعت احمد یہ عالمگیر کے سر براہ مرزا مسرور احمد نے یہاں 20 نومبر کو آئی چی کے صوبہ کے سوشیما شہر میں جاپان کی سب سے بڑی مسجد کا افتتاح کیا.پھر کہتا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی اور شدت پسندی کی مذمت کی ہے.پھر کہتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ طاقت کے زور پر اسلام پھیلانے کا نظریہ غلطی خوردہ ہے.انسانی جانوں کا ضیاع اور انہیں پہنچنے والی تکالیف خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن رہی ہیں.بہر حال ان ٹی وی چینلز کے ذریعہ سے اور اخبارات کے ذریعہ سے اور انٹرنیٹ اور ویب سائٹس میں اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر جو خبریں شائع ہوئی ہیں ان کے ذریعہ سے مجموعی طور پر تقریبا پانچ کروڑ ہیں لاکھ افراد تک اسلام کا یہ پیغام پہنچا ہے.تو یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہیں جو مسجد کے ذریعہ اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی وجہ سے ہمیں نظر آئے.دوسری طرف ملاں بھی اپنے غیظ و غضب کا اظہار کر رہے ہیں اور اس بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما چکے ہیں کہ انہوں نے غیظ و غضب کا اظہار کرنا تھا بلکہ خاص جاپان کے حوالے سے بھی آپ نے فرمایا.اس لئے مُلاں کا یہ غیظ وغضب تو ہونا ا.چنانچہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو یہاں تک یقین رکھتا ہوں کہ اگر میری طرف سے کوئی کتاب اسلام پر جاپان میں شائع ہو تو یہ لوگ ( یعنی ملاں ) میری مخالفت کے لئے جاپان بھی جا پہنچیں گے لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے.ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحه 25 2013ء میں جب میں نے جاپان کا دورہ کیا ہے تو اس وقت بھی پاکستان کا ایک مولوی جاپان میں گیا اور اس نے کہا کہ میرے باپ کا یہ مشن تھا کہ چاہے جہاں بھی جائیں.سمندر پار احمدی قادیانی جائیں تبلیغ کریں تو ہم (وہاں) جاکر ان کی تبلیغ کو روکیں گے.اور 2013ء میں جب یہ مولوی جاپان گیا تھا تو وہاں جا کے اس نے جو تقریر کی اس نے یہ کہا تھا کہ یہ لوگ یعنی احمدی اپنے عقیدے اور مشن کے ساتھ اس قدر مخلص
خطبات مسرور جلد 13 703 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء ہیں کہ وہ اپنی جان مال اور وقت قربان کرتے ہیں.اور پھر میرے بارے میں کہا کہ اس کے دورے اور جماعت کی سرگرمیوں کی وجہ سے اب میں ہر سال جاپان آیا کروں گا اور اپنے والد کا ختم نبوت کا مشن مکمل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا.تو یہ ان کی کوششیں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے شر اُن پر الٹائے.آجکل ویب سائٹ پر جو خبر چل رہی ہے وہ اس دفعہ کے ”جنگ“ (اخبار) کی نہیں ہے بلکہ گزشتہ 2013 ء کے بعد کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم جاپانی حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ جماعت احمدیہ کیونکہ غیر مسلم تنظیم ہے اس لئے اسے جاپان میں بین (ban) کیا جائے.یہ تو ان کی عقل ہے.یہ تو نا گویا میں مسجد کے افتتاح کا قصہ تھا.پھر اسی طرح ٹوکیو میں بھی ایک فنکشن تھا.ریسپشن تھی جس میں 63 جا پانی مہمان شامل ہوئے جس میں ایک بدھسٹ فرقہ کے چیف پریسٹ تھے.نی ہون یونیورسٹی کے چانسلر تھے.معروف شاعر، بزنس ایڈوائز رمسٹر مارٹن تھے.جاپان کے دوسرے بڑے اخبار آساہی کے چیف رپورٹر تھے.مشہور سیاستدان کی ایک بیٹی جو خود بھی سیاستدان ہے، گاڑیاں بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے صدر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوئے.نی ہون یونیورسٹی کے چانسلر مسٹر اور ائو ٹاٹ سونو (Mr Urano Tatsunoo) صاحب کہتے ہیں کہ میں سوچتا رہا کہ آپ ہمیں کیا بتائیں گے.لیکن ہیں منٹ کے اندر آپ نے گزشتہ تاریخ اور آئندہ آنے والے حالات کو جامع رنگ میں سمودیا ہے.آپ نے حقائق اور حوالوں سے بات کی.جنگ کے نقصانات سے آگاہ کیا اور آئندہ جنگوں سے بچنے سے متنبہ کیا.انتہائی مختصر وقت میں اسلام کی تعلیم بھی بتادی.میرے خطاب کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ خطاب جس میں یہ سارا کچھ بیان ہوا انگریزی اور جاپانی زبان میں پورے جاپان میں پھیلانا چاہئے.پھر آساہی اخبار کے چیف رپورٹر نے کہا کہ اگر جماعت احمد یہ جاپان اپنی رضا کارانہ خدمات کے ذریعہ ہمارے سامنے نہ آتی تو ہم اسلام کا یہ خوبصورت چہرہ دیکھنے سے محروم رہ جاتے.پھر ایک دوست یو کو صاحب نے کہا کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کے خطاب نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں.ہمیں وہ باتیں بتائیں جن کے متعلق ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا.ہم تو امن اور سکون کے اس ماحول میں ان خطرات کا تصور بھی نہیں کر سکتے جن کا آپ نے ذکر کیا.جنگ کتنی تباہ کن ہوتی ہے اور ایٹمی حملے کتنے ہولناک ہیں ہمیں یہ آج پتا چلا ہے.پھر ایک صاحب نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے بعد جماعت کے امام
خطبات مسرور جلد 13 704 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء کی طرف سے مذمتی خطاب ایک غیر معمولی بات ہے.اس سے جماعت احمدیہ کا امن کے قیام کے لئے کر دار واضح ہوتا ہے.دوسری جنگ عظیم کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے یہ خطاب فرمایا تھا جس کو میں نے وہاں quote کر کے ان کو بتایا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جو فرمایا تھا اس کا ایک حصہ میں نے وہاں بیان کیا تھا جو یہ تھا کہ یہ ہمارا مذ ہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خونریزی کو جائز نہیں سمجھتے ( جیسی کہ جاپان میں ایٹم مار کے کی گئی تھی ) خواہ حکومتوں کو ہمارا اعلان برا لگے یا اچھا“.(خطبات محمود جلد 26 صفحہ 315) یہ اس وقت حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اعلان فرمایا تھا.پھر ایک بدھسٹ فرقہ کے چیف پریسٹ کہتے ہیں کہ میں بدھسٹ ہوں لیکن امام جماعت کی باتیں سن کر ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں.پھر انہوں نے ملاقات کے بعد نماز بھی پڑھی اور وہاں ہال میں بیٹھے رہے اور آبدیدہ رہے.2013ء میں بھی یہ مجھے ملے تھے.اس وقت ایک دوست نے ان کو کہا تھا کہ آپ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اپنا وجود دکھائے.کہنے لگے کہ میں تو خدا کا قائل ہی نہیں.میں دعا کیا کروں؟ لیکن آج یہی بدھسٹ پر لیسٹ جب دوبارہ مجھے ملے ہیں تو وہاں با قاعدہ نماز بھی پڑھی ہے اور آنکھوں میں آنسو بھی لئے بیٹھے رہے ایک جاپانی دوست کہتے ہیں کہ میں نے آج یہ سیکھا ہے کہ جو لوگ اسلام کو داعش کے ساتھ جوڑتے ہیں وہ بالکل غلط ہے.آج جماعت کے خلیفہ نے ہمیں امن کا پیغام دیا ہے.آج کے دور میں دنیا امن کے خلاف چل رہی ہے اور میں امام جماعت احمدیہ کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے.آجکل جو ہم بم پھینکنے اور فضائی حملے کرنے کے لئے تحریکیں چلا رہے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں اور معصوموں کی جان لینے کا باعث بن رہے ہیں.کن پھر ایک جاپانی خاتون ہارا (Hara) صاحبہ نے کہا کہ میرا اسلام کے بارے میں تاثر تھا کہ اسلام نہایت خطرناک مذہب ہے.لیکن آج امام جماعت احمدیہ کا خطاب سن کر مجھے احساس ہوا ہے کہ اسلام تو دراصل سب سے زیادہ امن پسند مذہب ہے اور یہ بات میرے لئے بہت حیران ہے.جب جماعت کے خلیفہ نے جاپان پر ہونے والی ایٹمی حملے کی سترہویں anniversary کا ذکر کیا تو اس سے پتا چل رہا تھا کہ ان کو دنیا کے حالات سے بخوبی آگاہی ہے اور خلیفہ کی لوگوں کے لئے ہمدردی اور پیار قابل ستائش ہے.پھر ایک جاپانی دوست کہتے ہیں کہ آج کی تقریر سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اسلام احمدیت
خطبات مسرور جلد 13 705 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء نہایت زبر دست اور امن پسند مذہب ہے.اکثر جاپانی لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسلام برا مذ ہب ہے لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے خلیفہ صرف امن ہیں.خلیفہ کا کہنا کہ آج سے ستر برس پہلے جو غلطیاں ہوئی تھیں انہیں دہرانا نہیں چاہئے.جو بھی انہوں نے کہا بڑا سچ کہا اور حقیقت پر مبنی تھا.پھر ایک جاپانی دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا.کہتے ہیں کہ آج جماعت کے خلیفہ کا خطاب سن کر مجھے پتا لگا کہ ISIS اور اصل مسلمانوں میں کس قدر فرق ہے.میرے دل میں جو بھی خدشات یا پریشانیاں تھیں وہ سب دُور ہو گئیں اور جو انہوں نے کہا بالکل حق کہا کہ ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف جارہے ہیں اور خلیفہ نے ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی کہ ہمیں اس جنگ کو روکنے کے لئے ہرممکن کوشش کرنی چاہئے.پھر ایک خاتون کہتی ہیں کہ بہت سے لوگ اسلام کو برائی کے ساتھ جوڑتے ہیں لیکن آج مجھے پتا چلا کہ اسلام تو بالکل اس کے برعکس ہے.اسلام تو ایک ایسا مذ ہب ہے جو امن کو فروغ دیتا ہے.کہتی ہیں کہ میری عمراتنی زیادہ نہیں اس لئے میں دوسری جنگ عظیم کے بارے میں تو زیادہ نہیں جانتی لیکن امام جماعت احمدیہ نے ہماری قوم کے ساتھ جس ہمدردی اور پیار کا اظہار کیا ہے اس کو سراہتی ہوں.پھر ایک جاپانی دوست کہتے ہیں کہ آج جماعت کے خلیفہ کے خطاب میں ہم سب کے لئے ایک نہایت اہم پیغام تھا اور پیغام یہ تھا کہ اس دور میں جو اسلحہ اور ہم ہیں وہ گزشتہ دور کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہیں.خلیفہ کا کہنا تھا کہ یہ وقت ایک دوسرے کو انگیخت کرنے کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لئے محبت کے اظہار کا ہے اور یہ وقت پجہتی پیدا کرنے کا ہے.خلیفہ نے بالخصوص ہم جاپانیوں کو ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ جنگ کی تباہ کاریاں کیا ہوتی ہیں.خلیفہ نے کہا کہ جاپان کو چاہئے کہ وہ اپنی تاریخ سامنے رکھتے ہوئے ہر قسم کے فساد کی روک تھام کے لئے سب سے آگے کھڑا ہو.پھر اسی طرح ایک دوست نے اپنے جذبات کا، تاثرات کا اظہار (اس طرح) کیا کہ آپ جاپانیوں کو امن کی تعلیم اور اسلام کی سچائی کی طرف بلانے کے لئے آئے ہیں.عام طور پر ہمیں مسلمانوں سے ملنے کا اتنا اتفاق نہیں ہوتا لیکن میں اس بات پر فخر محسوس کر رہا ہوں کہ آج میں مسلمانوں کے ایک لیڈر سے ملا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ جنگ کب ہوگی.میں سمجھتا تھا کہ جنگ ہو کر رہے گی.لیکن اب میرا خیال ہے کہ ہم اس جنگ کو روک سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ہمیں خلیفہ کی باتوں پر عمل کرنا پڑے گا.پھر یہ کہتے ہیں کہ یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہورہی کہ اسلام کی سچی تعلیم جیسے خلیفہ پیش کر
خطبات مسرور جلد 13 706 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء رہے ہیں یہ ہمارے ملک کے لئے بہتر ہے.ایک جرنلسٹ نے کہا کہ یہ پیغام دراصل امن کا پیغام ہے.آپ نے امن قائم کرنے اور جنگ روکنے کے لئے جاپان کو اپنا کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں.یہی وقت کی ضرورت ہے.میں اس بات کی بہت قدر کرتا ہوں کہ آپ ہمارا درد محسوس کرتے ہیں جو ایٹمی حملوں سے ہم نے سہا.ایک جاپانی مسلمان دوست اسماعیل ہیرانو (Hirano) صاحب ہیں.کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں لیکن کسی مسلمان عالم کے منہ سے ایسی بات نہیں سنی.تاریخ ہو یا جنگ کی تباہ کاریاں آپ نے سب کچھ بیان کر دیا.میں قرآن پڑھتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں وہ ساری باتیں نہیں جانتا جو آپ نے بیان کیں.پھر کہتا ہے کہ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ خلیفہ نے قرآن کریم کے حوالہ جات سے اسلامی تعلیم بیان کی اور یہ حوالہ جات ایسے ہی نہیں بلکہ حقائق پر مبنی تھے.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ خلیفہ اسلام کی نمائندگی نہیں کر رہے بلکہ خلیفہ جماعت احمدیہ نے جو بھی بیان کیا وہ قرآن کریم کے حوالہ جات کے مطابق بیان کیا اور بتایا کہ اصل اسلام یہ ہے.کہتے ہیں کہ میں نے پہلے کبھی اپنی زندگی میں اسلام کی اس قدر خوبصورت تفصیل نہیں جاتی تھی.کہتے ہیں کہ پہلے کبھی تیسری عالمی جنگ کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن اب مجھے احساس ہوا ہے کہ تیسری عالمی جنگ دنیا کے لئے واقعی ایک خطرہ ہے اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں خلیفہ اسی کا شکر گزار ہوں.گاڑیاں بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے صدر تھے.کہتے ہیں کہ آپ کی ساری باتیں ساری دنیا کے لئے راہ عمل ہیں.پھر ایک دوست جو بزنس ایڈوائزر ہیں اور شاعر بھی ہیں.انہوں نے امن اور محبت کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی.تو مجھے بھی وہ ملے تھے.یہ کہنے لگے کہ جو کچھ میں نے کتاب میں لکھا تھا آپ نے آج اس پر مہر لگا دی ہے.اسی طرح بہت سارے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا.تو ایک طرف تو ہمارا پیغام سننے والے یہ اظہار کرتے ہیں کہ اسلام حقیقت میں امن کا مذہب ہے اور دوسری طرف ہمارے یہاں کے بعض مغربی سیاستدان ہیں جو اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسلام کی تعلیم میں کوئی نہ کوئی شدت پسندی کی بات ہے جو مسلمان اسی وجہ سے شدت پسند ہیں.یہ نہیں سوچتے کہ کتنے فیصد مسلمان ہیں جوان
خطبات مسرور جلد 13 707 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء شدت پسندوں کا ساتھ دے رہے ہیں.اس قسم کی باتیں کر کے کہ اسلام کی تعلیم میں شدت پسندی ہے.یہ سیاستدان چاہے یہاں یو کے کے ہوں یا کہیں اور کے یہ لوگ امن پسند مسلمانوں کو بھی اپنے خلاف کر لیں گے اور پھر فساد پیدا ہو گا.اس لئے مغربی سیاستدانوں کو جن کے نظریات اسلام کے متعلق یہ ہیں کہ اس میں سختی ہے اور شدت پسندی ہے ان کو غور کرنا چاہئے اور بلا سوچے سمجھے بیانات جاری نہیں کرنے چاہئیں.اور وہ احمدی جن کے ان لوگوں سے تعلقات ہیں انہیں ان کو سمجھانا چاہئے کہ اس وقت دنیا کے لئے اور دنیا کے امن کے لئے حکمت اور دانائی سے بات کرنا ضروری ہے.اس لئے ایسے بیانات نہ دیں جس سے دنیا میں فساد پھیلے.اللہ کرے کہ ان لوگوں کو عقل بھی آجائے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد کے افتتاح اور دورے کے، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، بڑے مثبت نتائج ظاہر ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ جاپان کی جماعت کو بھی توفیق دے کہ وہ اس مسجد کی وجہ سے جو وسیع تعارف ہوا ہے اس کو مزید پھیلاتے چلے جائیں اور جاپانیوں کو جماعت احمدیہ سے جو توقعات ہیں وہ ان پر پورا اترنے کی کوشش بھی کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق وہاں احمدیت کا پیغام بھی جلد سے جلد پھیلانے کی کوشش کریں.پاکستان میں جماعت کے خلاف ایک اور ظالمانہ سلوک مولویوں کے جو کینے اور بغض ہیں جیسا کہ میں نے بیان بھی کیا ان کے اظہار پاکستان میں تو وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں.جماعت کی ترقی دیکھ کر ان کی حسد کی آگ بھڑکتی رہتی ہے.یہاں یہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک ظالمانہ اور بڑا بہیمانہ اظہار ان مولویوں کی طرف سے اور شدت پسندوں کی طرف سے جہلم میں بھی ہوا جہاں احمدی مالکان جو چپ بورڈ فیکٹری کے تھے ان کی فیکٹری کو آگ لگا دی گئی اور کوشش ان کی یہ تھی کہ جو احمدی ورکر ہیں اور مالکان ہیں ان کو بھی اندر زندہ جلایا جائے.لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس میں یہ کامیاب نہیں ہو سکے لیکن بہر حال مالی نقصان تو ہوا.ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح یہ احمدیت کو ختم کر سکتے ہیں.احمدیوں کے جذبہ ایمانی کو چھین سکتے ہیں.ان کو احمدیت سے دور کر سکتے ہیں.ان آگئیں لگانے والوں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بتادیا ہے کہ اگر یہ لوگ تو بہ نہیں کریں گے تو ان کے لئے جہنم کی آگ اور آگ کا عذاب مقدر ہے.جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے تو ان کڑے حالات میں جب ایسے سخت حالات ہوں ان کا ایمان کم ہونے یا ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہے.74ء میں بھی ان لوگوں نے آگئیں لگائیں اور احمدیوں
خطبات مسرور جلد 13 708 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء کو ابتلاء میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن آگیں لگانے والوں اور احمدیوں کو ابتلاء میں ڈالنے والوں کی کوئی بھی خواہشات پوری نہیں ہو سکیں.ہم نے دیکھا کہ جو ان کے دلوں میں تھا وہ ان کے دلوں کی حسرتیں رہ گئیں.احمدیوں کو کشکول پکڑوانے والوں کو ہم نے بھیک مانگتے دیکھا.یہ تو اللہ تعالیٰ کا سلوک جماعت سے ہوتا ہے.پس یہ ابتلا ہمارے ایمانوں کو ہلانے والے نہیں بلکہ مضبوط کرنے والے ہیں.مالی نقصان اگر ہوا تو خدا تعالیٰ پورا کر دیتا ہے.یہ تو کوئی ایسی چیز نہیں.بیشمار احمدی ہیں جو ان ابتلاؤں میں گزرے اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا.اگر ان مالکان کا نقصان ہوا تو یہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پورا ہو جائے گا.یہ فیکٹری جو چپ بورڈ فیکٹری تھی یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احد صاحب کے بیٹے صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کی تھی اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولا داس کی مالک تھی.مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ جس طرح ایسے نقصانات پر ایک مومن کا اظہار ہونا چاہئے وہ اظہار ان لوگوں نے کیا اور شکر کے کلمات ہی ان کے منہ سے نکلتے رہے.اللہ تعالیٰ نے ان کے احمدی کارکنان کی جان مال کو بھی محفوظ رکھا اور انہیں بھی بچایا اور عورتوں اور بچوں کو بھی بچایا.ان کی عزتیں بھی محفوظ رکھیں.مرز انصیر احمد طارق جو مرزا امنیر احمد صاحب کے بڑے بیٹے ہیں اس فیکٹری کے سر براہ تھے.وہیں اس کے اندر ہی رہتے تھے.اسی طرح ان کا بیٹا بھی جو فیکٹری میں کام کرتا ہے اس کا گھر بھی فیکٹری کے اندر تھا.بیٹا تو حملہ آوروں کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے اپنی بیوی کے علاج کے سلسلے میں لاہور کے لئے نکل گیا تھا اس لئے وہ وہاں موجود نہیں تھا لیکن مرز انصیر احمد صاحب اور ان کی بیوی گھر پر تھے.جب بلوائیوں نے گھیراؤ اور جلاؤ کا سلسلہ شروع کیا تو ان کے گھر پر بھی حملہ کر دیا اور گھروں کے دروازے کھڑکیاں توڑ کر اندر آ گئے.ارد گرد آگ لگا دی لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے بچانا تھا.اس موقع پر اس وقت پولیس پہنچ گئی جس نے ان حملہ آوروں کو تو نہیں روکا لیکن بہر حال ان کو کسی طریقے سے پچھلے دروازوں سے گھر سے نکال دیا اور پھر فیکٹری کی چاردیواری سے باہر نکل کر جنگل میں کافی دیر یہ لوگ چلتے رہے اور ایک جگہ پہنچ کر پھر سواری ملی جہاں سے یہ محفوظ جگہ پہنچے.اسی طرح بہت سارے احمدی ور کر بھی جو تھے وہ بھی ادھر ادھر جنگل میں چھپتے رہے.ان کو بھی کسی طرح ڈھونڈ کر بعد میں خدام نے محفوظ مقامات پر پہنچایا.ان کے گیٹ کے ایک سیکیورٹی انچارج تھے.قمر احمد ان کا نام ہے.ان کو پولیس نے گرفتار بھی کر لیا.وہ جیل میں ہیں.ان پر دفعہ بھی بڑی سخت لگائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کا بھی سامان فرمائے اور منصفوں کو بھی توفیق دے کہ وہ انصاف کرنے والے ہوں.اسی طرح مرزا انصیر احمد کو بھی
خطبات مسرور جلد 13 709 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء پولیس نے ایک طرح سے house arrest کیا ہوا تھا اور بعد میں مچلکہ بھروا کر کہ کہیں نہیں جاؤں گا اور جب پولیس آئے گی تو میں آجاؤں گا.پھر پولیس کا پہرہ ان سے ہٹایا گیا.گویا کہ حملہ آوروں کو تو کھلی چھٹی دی گئی اور جن پر حملہ ہوا وہ سارے مجرم بن گئے.مرز انصیر احمد صاحب امیر ضلع جہلم بھی ہیں.جس طرح حملہ ہوا اس سے لگتا ہے کہ یہ پہلے پلان تھا کیونکہ امیر ہونے کی حیثیت سے بعض ایسے exposure بھی ہوتے ہیں ، کام کروانے ہوتے ہیں جو انہوں نے کروائے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہم امیر کو پکڑ لیں تو باقی سب احمدی خود بخود شاید دوڑ جا ئیں.بہر حال یہ ان کا پلان پہلے سے تھا.فیکٹری کے اندر تو کسی کو پتا نہیں چلا کہ کیا ہو رہا ہے اور ان کو تو وہاں سے جان بچا کر بھا گنا اور نکلنا بھی مشکل ہو گیا لیکن حملہ آوروں نے بلڈوزروں کا انتظام بھی کرلیا.سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی اکٹھے کر لئے.آگ لگانے کا سامان بھی لے آئے اور کافی دیر تک وہاں جمع ہوتے رہے.لیکن پولیس نہیں آئی اور پولیس آئی بھی یا قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے بھی آئے تو بہت دیر سے جب آگ لگ چکی تھی.بہر حال یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے ایک دولوگوں کو بشمول مالک کے پولیس نے نکلوایا اور بلوائیوں سے بچا کر لے گئے.مرزا انصیر احمد صاحب کی بہو نے مجھے لکھا ہے اور ان کی یہ بہو بھی وہیں فیکٹری میں رہتی تھیں.کہتی ہیں کہ قمر صاحب جن پر یہ مقدمہ چلایا گیا ہے اور توہین قرآن کی دفعہ لگائی گئی ہے میں ان کی اہلیہ کو ملنے گئی تو حیران رہ گئی کہ قمر صاحب کی اہلیہ اس طرح مسکرا کرمل رہی تھیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں حالانکہ ان کے خاوند پر جیسا کہ میں نے کہا بڑی سخت دفعہ لگی ہوئی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ ان کے حوصلہ اور صبر کو بڑھائے اور دشمنوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائے.مرز انصیر احمد صاحب کی اہلیہ اور بہو اور ان کے بچوں نے بھی جو صبر اور شکر کا اظہار کیا ہے وہ بھی قابل قدر ہے.مجھے فکر تھی کہ ایسے حالات میں ان میں سے کسی کے منہ سے کوئی ناشکری کا کلمہ نہ نکل جائے لیکن ان کی بہو کے خط سے، بیٹے کے خط سے اور مرزا نصیر احمد صاحب سے میں نے خود بھی بات کی اور اسی طرح ان کے مختلف قریبیوں اور عزیزوں کے خطوط جو مجھے ملے ہیں ان سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور کامل رضا کا اظہار کیا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خونی رشتہ ہونے کا بھی اس صبر اور شکر کے ادا کرنے سے نمونہ دکھایا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے.مال تو آنی جانی چیز ہے جیسا کہ میں نے کہا جس خدا نے پہلے دیا تھا وہ اب بھی دے گا اور انشاء اللہ بڑھ کے دے سکتا ہے اور بڑھ کے دے گا.
خطبات مسرور جلد 13 710 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 نومبر 2015ء اللہ تعالیٰ جھوٹے مقدمات سے بھی ان سب کو بری کرے اور خاص طور پر قمر صاحب کو جوسیکیو رٹی گیٹ کے انچارج تھے جن پر توہین قرآن کی جیسا کہ میں نے کہا بڑی سخت دفعہ لگائی گئی ہے.حالانکہ سب سے زیادہ قرآن کریم کی عزت و تکریم کا اگر کسی کو احساس ہے تو وہ احمدی کو ہے.بہر حال ایک لحاظ سے خوش آئند بات بھی ہے کہ اس دفعہ پاکستان میں یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض غیر از جماعت نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور ایک ٹی وی پروگرام ہوا جس میں وہاں کے ڈی پی او اور سیاستدانوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ انصاف کریں گے اور مجرموں کو پکڑیں گے.پروگرام کرنے والوں نے بھی جو کمپیئر تھا یا جو پروگرام کنڈکٹ (conduct) کر رہا تھا اس نے بھی اس ظلم کے خلاف کھل کر بات کی ہے.اسی طرح اس فیکٹری کو آگ لگانے کے بعد انہوں نے ہماری دو چھوٹی جماعتیں کالا گوجراں اور محمود آباد ہیں وہاں بھی مسجدوں پر حملہ کیا.ایک مسجد تو سیل کر دی گئی ہے.پہلے مولویوں نے مسجد پر حملہ کیا پھر مسجد کی صفیں اور سامان باہر نکال کے اس کو آگ لگائی اور پھر اس کے بعد دھو یا اور جا کر وہاں نماز پڑھی.لیکن بہر حال بعد میں پولیس نے یا ایلیٹ فورس نے ان کو باہر نکال دیا اور وہاں تالا لگا دیا.فی الحال ان کے قبضہ میں نہیں ہے.لیکن بہر حال یہ دو جماعتیں جو ہیں یہ بھی کافی خطرے میں ہیں.اللہ تعالیٰ اس علاقے کے سب احمدیوں کو وہاں محفوظ رکھے.اللہ کرے کہ پاکستان میں بھی انصاف قائم ہو اور ان مزدوروں کو بھی جو وہاں فیکٹری میں کام کرتے تھے جن کا روزگار اب ختم ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ بہتر روزگار کے سامان مہیا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 18 دسمبر 2015 ء تا 24 دسمبر 2015 ءجلد 22 شماره 51 صفحہ 05 تا 10 )
خطبات مسرور جلد 13 711 49 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرز مسروراحمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء بمطابق 04 فتح 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیج کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز فرمایا.وہ لوگ یقیناً بڑے خوش قسمت تھے جنہوں نے چودہ سو سال بعد پھر تازه به تازه وحی والہام کے نازل ہونے کا زمانہ پایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر اس سے براہ راست فیض پایا.جب انسان تصور کی آنکھ سے دیکھے کہ کس طرح وہ صحابہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد پا کر اپنی قسمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر کرتے ہوں گے تو دل کی عجیب کیفیت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کیسے اپنے وعدوں کا سچا ہے کہ اس نے جب فرمایا کہ میں آخرین میں بھی ایسے لوگ پیدا کروں گا جو پہلوں سے ملنے والے ہوں گے تو وحی والہام کے تازہ بتازہ نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعہ دکھا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے والوں کے ایمانوں کو مضبوط تر کر دیا.وہ ہر روز اس تلاش سے صبح کا آغاز کرتے تھے کہ پتا کریں کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیا تازہ وحی والہام ہوا ہے.صحابہ کی اس کیفیت کا ذکر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یوں فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی کے متعلق یہ کیفیت تھی کہ احمدی دن چڑھتے ہی عاشقوں کی طرح ادھر ادھر دوڑ نے لگتے تھے کہ معلوم کریں کہ حضور کو رات کیا وحی ہوئی ہے.حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ادھر میں گھر سے نکلا اور مجھ سے پوچھنے لگے یا کوئی اور بچہ نکلا تو اس سے دریافت کرنے لگے کہ آج کی تازہ وحی کیا ہے؟ آپ
خطبات مسرور جلد 13 712 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء کو کیا الہام ہوا ہے؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اور ہماری یہ حالت تھی کہ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز کے لئے تشریف لے گئے اور ہم نے جھٹ جا کر کاپی اٹھا کر دیکھی کہ دیکھیں کیا تازہ الہام ہوا ہے.یا پھر خود مسجد میں پہنچ کر آپ کے دہن مبارک سے سنا، آپ کے منہ سے سنا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 1 صفحہ 313-314) پس یہ ذوق و شوق اس لئے تھا کہ اپنے ایمانوں کو مزید صیقل کریں، مضبوط کریں.اس کی برکات حاصل کریں.اللہ تعالیٰ کا شکر اور حمد کریں کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی.پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ کسی صحابی کی موجودگی میں الہام ہوتا اور وہ خوش قسمت بھی اللہ تعالیٰ کی وحی کو سن رہا ہوتا.بعض دفعہ ایسی کیفیت بھی ہوتی کہ ساتھ بیٹھے ہوئے سن رہا ہوتا.ایسے ہی ایک بزرگ کا ذکر کرتے ہوئے جن کی موجودگی میں الہام ہوا حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب ایک نہایت ہی پرانے احمدی خاندان میں سے ہیں.ان کے والد سید فضل شاہ صاحب حضرت صاحب کے نہایت ہی مقرب صحابی تھے اور عام طور پر حضرت صاحب کی خدمت کیا کرتے تھے اور اکثر قادیان میں آتے جاتے تھے.سید ناصر شاہ صاحب اوورسیئر جو بعد میں شاید ایس ڈی او ہو گئے تھے یہ سید فضل شاہ صاحب ان کے بھائی تھے.ان میں بھی بڑا اخلاص تھا اور وہ بھی حضرت صاحب کو بہت پیارے تھے.اور وہ بھی اپنے اخلاص کی وجہ سے اپنے بھائی یعنی سید فضل شاہ صاحب کو کہا کرتے تھے کہ کام کچھ نہ کر و قادیان جا کر بیٹھے رہو.حضرت صاحب سے ملاقات کیا کرو.مجھے کچھ ڈائریاں بھیج دیا کرو.کچھ دعاؤں کے لئے کہتے رہا کرو.جو تمہارے اخراجات ہیں ، خرچے ہیں وہ میں بھیجا کروں گا.چنانچہ وہ اپنے بھائی کی مدد کرتے رہتے تھے محض اس وجہ سے کہ وہ قادیان میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک وحی جس کے شروع میں الرحی آتا ہے اور جو خاص ایک رکوع کے برابر ہے وہ ایسی حالت میں نازل ہوئی جبکہ حضرت صاحب کو درد گردہ کی شکایت تھی اور وہ یعنی سید فضل شاہ صاحب آپ کو دبا رہے تھے.گویا ان کو یہ خاص فضیلت حاصل تھی کہ ان کی موجودگی میں دباتے ہوئے حضرت صاحب پر وحی نازل ہوئی اور وحی بھی اس طرز کی تھی کہ کلام بعض دفعہ اونچی آواز سے آپ کی زبان پر جاری ہو جا تا تھا.حضرت مصلح موعود کہتے
خطبات مسرور جلد 13 713 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ہم چھوٹے بچے ہوتے تھے کہ ہم بے احتیاطی سے اس کمرے میں چلے گئے جس میں حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے.آپ نے اپنے اوپر چادر ڈالی ہوئی تھی اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم آپ کو دبا رہے تھے ان کو محسوس ہوتا تھا کہ وحی ہو رہی ہے ( بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو لکھا ہوا ہے کہ آپ ان سے خود لکھواتے بھی رہے تھے.انہوں نے یعنی فضل شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ.چنانچہ ہم باہر آ گئے.بعد میں پتالگا کہ بڑی لمبی وحی تھی جو نازل ہوئی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 673) یہ الہام جس کا حضرت مصلح موعود ذکر فرما رہے ہیں یہ اس واقعہ اور مقدمے کے بارے میں ہے جب مرزا امام الدین صاحب وغیرہ نے دیوار کھینچ کر راستے بند کر دیئے تھے.عدالت میں جو کاغذات پیش ہوئے ان کی رُو سے فیصلہ مخالفین کے حق میں ہوتا نظر آتا تھا بلکہ انہوں نے مشہور کر دیا تھا کہ جلد مقدمہ خارج ہو جائے گا.لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی تھی اسی طرح ہوا اور آخر وقت میں ایک ایسا ثبوت کا غذات میں مل گیا جس سے اس زمین پر مرزا امام دین صاحب کے ساتھ حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد بھی قابض حصہ دار تھے.چنانچہ عدالت نے آپ علیہ السلام کے حق میں فیصلہ دیا اور دیوار گرانے کا حکم دیا.یہ وحی بھی بڑی شان اپنے اندر رکھتی ہے اس لئے میں اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیتا ہوں.تذکرہ میں اور حقیقۃ الوحی میں اس کا ذکر ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں کہ : ”مجھے یاد ہے کہ اس وقت سید فضل شاہ صاحب لاہوری برادر سید ناصر شاہ صاحب اوورسیئر متعین بارہ مولہ کشمیر میرے پیر دبا رہا تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا.میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے.آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں.چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ لے لیا.پس ایسا ہوا کہ ہر ایک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الہی کا جیسا کہ سنت اللہ ہے زبان پر نازل ہوتا تھا.اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تھا اورلکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دوسرا فقرہ وحی الہی کا زبان پر جاری ہوتا تھا یہاں تک کر گل وحی الہی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہوری کی قلم سے لکھی گئی اور اس میں تفہیم ہوئی کہ یہ اس دیوار کے متعلق ہے جو امام الدین نے کھینچی ہے جس کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے اور یہ تفہیم ہوئی کہ انجام کا راس مقدمہ میں فتح ہو گی.چنانچہ میں نے اپنی ایک کثیر جماعت کو یہ وحی الہی سنا دی اور اس کے معنی اور
خطبات مسرور جلد 13 714 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء شانِ نزول سے اطلاع دے دی اور اخبار الحکم میں چھپوا دیا اور سب کو کہہ دیا کہ اگر چہ مقدمہ اب خطرناک اور صورت نومیدی کی ہے مگر آخر خدا تعالیٰ کچھ ایسے اسباب پیدا کر دے گا جس میں ہماری فتح ہوگی کیونکہ وحی الہی کا خلاصہ مضمون یہی تھا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 279-280) یہ عربی میں وحی ہوئی.لمبی ہے.میں اس کا ترجمہ پڑھتا ہوں.یہ ترجمہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی کیا ہوا ہے.ترجمہ یہ ہے کہ : چکی پھرے گی اور قضا و قدر نازل ہوگی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے باعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آ جاتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے.یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اس کو ر ڈ کر سکے کہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی.یہ اس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے.میرا رب اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں.سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہو گی مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے.تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں.تو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اور ناز اور تکبر میں چھوڑ دے.وہ قادر تیرے ساتھ ہے.اس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں جو انسان کے فہم سے بھی برتر ہیں وہ بھی اس کو معلوم ہیں.وہی خدا حقیقی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں.انسان کو نہیں چاہئے کہ کسی دوسرے پر توکل کرے کہ گویاوہ اس کا معبود ہے.ایک خدا ہی ہے جو یہ صفت اپنے اندر رکھتا ہے.وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے اور جو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے اور وہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام بار یک لوازم کو ادا کرتے ہیں سطحی طور پر نیکی نہیں کرتے اور نہ ناقص طور پر بلکہ اس کی عمیق در عمیق شاخوں کو بجالاتے ہیں اور کمال خوبی سے اس کا انجام دیتے ہیں سو انہیں کی خدا مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی پسندیدہ راہوں کے خادم ہوتے ہیں اور ان پر چلتے ہیں اور چلاتے ہیں...ہم نے احمد کو ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں) یعنی اس عاجز کو اس کی قوم کی طرف بھیجا.پس قوم اس
خطبات مسرور جلد 13 715 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء سے روگردان ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذاب ہے.دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے.یعنی ایسے ایسے حیلوں سے دنیا کمانا چاہتا ہے اور انہوں نے عدالتوں میں اس پر گواہیاں دیں تا اس کو گرفتار کرا دیں اور وہ ایک تند سیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں.مگر وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے.وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 281 تا 283) پس یہ وجی بڑی شان سے پوری ہوئی اور مختلف جگہوں پہ آپ نے اس کا ذکر فرمایا ہوا ہے.ہوسکتا ہے ایک سے زیادہ دفعہ بھی ہوئی ہو.پوشیدہ ظاہر ہوا اور آخری وقت میں فیصلہ ہوا اور جب بھی آپ پر مقدمات قائم کئے گئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب مخالفین کی خواہشیں ان کے اوپر الٹائی گئیں اور ان کے خلاف فیصلے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آواز میں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست سنیں.فرماتے ہیں میں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ یہی تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتیں سنتا.فرماتے ہیں ہم نے ان مجالس میں اس قدر مسائل سنے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے وہ شام کو مجلس میں آ کر بیان کر دیتے اس لئے آپ کی تمام باتیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منشاء اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہیں.(ماخوذ از سوانح فضل عمر جلد 1 صفحہ 113) پھر حقیقی ایمان کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک ماں کو اس کے بچے کی خدمت کے لئے اگر صرف دلائل دیئے جائیں اور کہا جائے کہ اگر تم خدمت نہیں کرو گی تو گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور یہ ہو گا اور وہ ہوگا تو یہ دلائل اس پر ایک منٹ کے لئے بھی اثر انداز نہیں ہو سکتے.ماں کو دلیلوں سے بچے کی خدمت پر مجبور نہیں کیا جاتا.وہ اگر خدمت کرتی ہے تو صرف اس جذبہ محبت کے ماتحت جو اس کے دل میں کام کر رہا ہوتا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایمان العجائز ہی انسان کو ٹھوکروں سے بچاتا ہے ورنہ وہ لوگ جو حیل و حجت سے کام لیتے ہیں اور قدم قدم پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں حکم کیوں دیا گیا ہے اور فلاں کام کرنے کو کیوں کہا گیا ہے وہ بسا
خطبات مسرور جلد 13 716 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء اوقات ٹھوکر کھا جاتے ہیں اور ان کا رہا سہا ایمان بھی ضائع ہو جاتا ہے.لیکن کامل الایمان شخص اپنے ایمان کی بنیاد مشاہدے پر رکھتا ہے.وہ دوسروں کے دلائل کوسن تو لیتا ہے مگر ان کے اعتراضات کا اثر قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوتا ہے.پھر آپ نے منشی اروڑے خان صاحب کی مثال دی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی تھے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ان کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے ( پہلے بھی ایک دفعہ میں اس کا ذکر کر چکا ہوں.دوبارہ کر دیتا ہوں.) فرماتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے بعض لوگوں نے کہا کہ اگر تم مولوی ثناء اللہ صاحب کی ایک دفعہ تقریر سن لو تب تمہیں پتا لگے کہ مرزا صاحب بچے ہیں یا نہیں.وہ کہنے لگے میں نے ایک دفعہ ان کی تقریر سن لی ( مولوی ثناء اللہ صاحب کی ).بعد میں لوگ مجھ سے پوچھنے لگے اب بتاؤ کیا اتنے دلائل کے بعد بھی مرزا صاحب کو سچا سمجھا جاسکتا ہے.کہتے ہیں میں نے کہا میں نے تو مرزا صاحب کا منہ دیکھا ہوا ہے.ان کا منہ دیکھنے کے بعد اگر مولوی ثناء اللہ صاحب دو سال بھی میرے سامنے تقریر کرتے رہیں تب بھی ان کی تقریر کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ جھوٹے کا منہ ہے.بیشک مجھے ان کے اعتراضات کے جواب میں کوئی بات نہ آئے میں تو یہی کہوں گا کہ حضرت مرزا صاحب سچے ہیں.غرض حکمت کا معلوم ہونا ایک کامل مومن کے لئے ضروری نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ایمان عقل کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ مشاہدے کی بنا پر ہوتا ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 279-280) منشی اروڑے خان صاحب کا یہ واقعہ ہے.اس حوالے سے بھی یہ سامنے لانا ضروری تھا کہ ہمیں خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھانے سے ہی ہو سکتا ہے اور اسی طرح پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یقین بھی اس وقت حقیقی ہو گا جب اس بات پر قائم ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس زمانے میں دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور یہ وقت کی ضرورت ہے.وقت تقاضا کر رہا ہے.اس زمانے میں ایک مصلح آنا چاہئے تھا.مسیح موعود کو آنا چاہئے تھا.دنیا کی حالت ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت ہے اس کے علاوہ کوئی دلیلوں کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اس بگڑے ہوئے زمانے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی.پس اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر خوف کردگار بھی ہوتا ہے اور پھر کثرت اعجاز کی ضرورت نہیں ہوتی.دلیلوں کی ضرورت نہیں ہوتی.معجزے مانگنے کی ضرورت نہیں ہوتی.زمانے کی ضرورت اور آپ کی زندگی کا ہر لحہ آپ کی صداقت کا ثبوت ہے.
خطبات مسرور جلد 13 717 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء پس ہمیں اس کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے اور اس حوالے سے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے رہنا چاہئے اور خدا کرے کہ زمانے کی ضرورت کا احساس دوسرے مسلمانوں کو بھی ہو جائے اور وہ بھی زمانے کے امام کو مانیں.حضرت منشی اروڑے خان صاحب کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت میں بعض نام ایسے ہیں جو عجیب سے لگتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی کا نام اروڑا تھا.اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.اس زمانے میں رواج تھا کہ بعض لوگ جن کے بچے عام طور پر فوت ہو جاتے ہیں وہ بچے کو میلے کے ڈھیر پرگھیٹتے تھے.گندی جگہ پر گھسیٹتے کہ شاید وہ اس طرح بچ جائے.ایک رسم یا ایک طریقہ رائج تھا یا خیال کیا جاتا تھا اور پھر اس کا نام اروڑا رکھ دیا جاتا تھا.ان منشی صاحب کا نام اسی طرح ان کے والدین نے اروڑا رکھا تھا مگر وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اروڑا نہ تھے.میلی جگہ پر رہنے والے نہیں تھے.ماں باپ نے ان کا یہ نام اس لئے رکھا تھا کہ شاید میلے کے ڈھیر پر پڑ رہی یہ بچہ زندہ رہے مگر اللہ تعالی انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں ڈال کر نہ صرف جسمانی موت سے بلکہ روحانی موت سے بھی بچانا چاہتا تھا.ماں باپ نے اسے گندگی کی نظر کرنا چاہا مگر خدا تعالیٰ نے اس کے پاک دل کو دیکھا اور اسے اپنے لئے قبول کیا.چنانچہ اس نے انہیں ایمان نصیب کیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی بنے اور ایسے مخلص کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایسے اخلاص کے بغیر نجات کی امید رکھنا فضول بات ہے.اس قسم کے مخلص تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان کے اخلاص پر تعریف فرما رہے ہیں.ان لوگوں نے اپنے اخلاص کا ثبوت ایسے رنگ میں پیش کیا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.یہ لوگ محبت اور پیار کے خیمے تھے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 19 صفحہ 886) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں که منشی صاحب مرحوم شاید مجسٹریٹ یا سیشن جج کی پیشی میں تھے.اس کے ساتھ کام کرتے تھے.مہینہ میں ایک بار ضرور قادیان آ جاتے تھے اور چونکہ ایک چھٹی سے فائدہ نہ اٹھا سکتے تھے جب تک ساتھ ہفتے کا کچھ وقت نہ ملے اس لئے جس دن ان کے قادیان آنے کا موقع ہوتا تو ان کا افسر دفتر والوں سے کہہ دیتا کہ آج جلدی کام ختم ہونا چاہئے کیونکہ منشی جی نے قادیان جاتا ہے اگر وہ نہ جا سکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں برباد ہو جاؤں گا اور اس طرح ہمیشہ ان کو ٹھیک وقت پر فارغ کر دیتا.افسر گو ہندو تھا مگر آپ کی نیکی ، تقویٰ اور قبولیت دعا کا اس پر ایسا اثر تھا کہ وہ آپ ہی آپ ان کے لئے قادیان آنے کا وقت نکال
خطبات مسرور جلد 13 718 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء دیتا اور کہتا کہ اگر یہ قادیان نہ جا سکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں نہیں بچ سکوں گا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 19 صفحہ 887) تو یہ ان بزرگوں کا غیروں پر بھی اثر تھا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ کو دیکھا ہوا تھا اور پھر اخلاص میں بڑھے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ سے ان کا ایک تعلق تھا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ انسان جیسا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرتا ہے ویسا ہی وہ اس سے کرتا ہے.پس جس رنگ میں انسان اپنے دل کو اس کے لئے پگھلاتا ہے اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ سلوک کرتا ہے.دنیا اسے مارتی ہے، اسے گالیاں دیتی ہے، اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے مگر وہ ہر دفعہ دبائے جانے کے بعد گیند کی طرح پھر ابھرتا ہے.ایسے مومنوں کو ہر طرح کی روکوں کے باوجود اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اور یہی حقیقی جماعت ہوتی ہے جو ترقی کرتی ہے اور ایسا ایمان پیدا کرنا چاہئے.پس اپنے دلوں کو ایسا ہی بناؤ اور ایسی محبت سلسلے کے لئے پیدا کرو پھر دیکھو تمہیں اللہ تعالیٰ کس طرح بڑھاتا ہے.جو لوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کو تو مانگنا بھی نہیں پڑتا.بعض وقت وہ ناز کے انداز میں کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانگیں گے اور اللہ تعالیٰ خود بخود ان کی ضروریات پوری کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی میں نے یہ واقعہ بھی سنا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ تھے ایک دفعہ ان پر ایسی حالت آئی کہ وہ سخت مصیبت میں تھے.کسی نے ان سے کہا کہ آپ دعا کیوں نہیں کرتے.تو انہوں نے کہا کہ اگر میرا رب مجھے نہیں دینا چاہتا تو میرا دعا کرنا گستاخی ہے.جب اس کی مرضی نہیں تو میں کیوں مانگوں.یہ ان کا مقام تھا.اس صورت میں میں تو یہی کہوں گا مجھے نہ ملے.اور اگر وہ دینا چاہتا ہے تو میرا مانگتا بےصبری ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ مطلب نہیں کہ دعا کرتے ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی کامل مومنوں پر ایسی کیفیات آتی ہیں.کبھی کبھی ایسی کیفیات آتی ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اچھا ہم مانگیں گے نہیں.دعا کرنے کا تو خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوا ہے کہ مانگو لیکن بعض دفعہ ایسی کیفیت ہوتی ہے، بعض اس تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے ناز و نخرے کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ہماری ضرورت کو پورا کرے گا.مگر یہ مقام یونہی حاصل نہیں ہوتا.یہ مت خیال کرو کہ تم یونہی بیٹھے رہو، اپنے قلوب میں محبت نہ پیدا کرو.نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا نہ کرو.صدقہ و خیرات اور چندوں میں غفلت کرو.جھوٹ اور فریب سے کام لیتے رہو اور پھر بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے وارث ہو جاؤ، یہ کبھی نہیں ہوسکتا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 19 صفحہ 887-888)
خطبات مسرور جلد 13 719 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں میں نے کئی دفعہ پہلے بھی سنایا ہے کہ قاضی امیر حسین صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی تھے.احمدی ہونے سے قبل وہ کٹر وہابی تھے اور اسی طرح سے کئی باتیں ظاہری آداب کی وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے.وہابی بہت کٹر ہوتے ہیں بعض چیزوں کو وہ برداشت نہیں کر سکتے جو ظاہر کی چیزیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب حضور باہر تشریف لاتے تو دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھ کے کھڑے ہو جاتے تھے.قاضی صاحب مرحوم احمدی تو ہو گئے تھے لیکن ان کا یہ خیال تھا کہ یہ کھڑے ہونا جائز نہیں ہے بلکہ شرک ہے اور اس بارے میں ہمیشہ بحث کیا کرتے تھے کہ آج ہم میں ایسی باتیں موجود ہیں تو آئندہ کیا ہو گا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں وہ میرے استاد بھی تھے.کہتے ہیں جب میری خلافت کا زمانہ آیا تو ایک دفعہ میں باہر آیا تو معا کھڑے ہو گئے.( حضرت مصلح موعودؓ کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے.تو میں نے انہیں کہا قاضی صاحب یہ تو آپ کے نزدیک شرک ہے.اس پر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ خیال تو میرا یہی ہے مگر کیا کروں رُکا نہیں جاتا.اس وقت بغیر خیال کے کھڑا ہو جاتا ہوں.میں نے کہا بس یہی جواب ہے آپ کے تمام اعتراضات کا.جہاں بناوٹ سے کوئی کھڑا ہو تو یہ بیشک شرک ہے مگر جب آدمی بیتاب ہو کر کھڑا ہو جائے تو یہ شرک نہیں ہے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض امور ایسے ہیں جنہیں تکلف اور بناوٹ شرک بنا دیتے ہیں.پس اس بات کا خیال رکھنا چاہئے.فرماتے تھے اپنے ایک بھائی کی وفات پر حضرت عائشہ نے بے اختیار چیخ مار دی اور منہ پر ہاتھ مارلیا.کسی نے ان سے دریافت کیا کہ کیا یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا بے اختیاری میں ایسا ہو گیا.میں نے جان کر نہیں کیا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں قاضی صاحب کی یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے کہ بے اختیاری میں ہو گیا.بہر حال ان صحابہ کا بھی اپنا رنگ تھا.ہر ایک کا اخلاص اور محبت تھا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 19 صفحہ 889) اللہ تعالیٰ سے تعلق کیسے کیسے نشان دکھاتا ہے.اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہوا ہے کہ ایک دفعہ غالباً ہارون الرشید کے زمانے میں ایک بزرگ جو اہل بیت میں سے تھے اور جن کا نام موسیٰ رضا تھا اس بہانے سے قید کر دیئے گئے کہ ان کی وجہ سے فتنے کے پیدا ہونے کا احتمال ہے.ایک دفعہ آدھی رات کے وقت ایک سپاہی ان کے پاس قید خانے میں رہائی کا حکم لے کر پہنچا.وہ بہت حیران ہوئے کہ اس طرح میری رہائی کا فوری حکم کس طرح ہو گیا.وہ
خطبات مسرور جلد 13 720 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء بادشاہ سے ملے تو اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ آپ نے مجھے اس طرح یکا یک رہا کر دیا.اس نے کہا کہ وجہ یہ ہوئی کہ میں سورہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کسی نے آ کر مجھے جگایا ہے.خواب میں ہی میری آنکھ کھل گئی تو پوچھا آپ کون ہیں تو معلوم ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.میں نے عرض کیا کہ کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہارون الرشید یہ کیا بات ہے کہ تم آرام سے سور ہے ہو اور ہمارا بیٹا قید خانے میں ہے.یہ سن کر مجھ پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اسی وقت رہائی کے احکام بھجوائے.ان بزرگ نے کہا کہ اس روز مجھے بھی قید خانے میں بڑا کرب تھا.اس سے پہلے مجھے بھی کبھی رہائی کی خواہش پیدا نہ ہوئی تھی لیکن اس دن بڑی بے چینی تھی کہ رہائی ہو جائے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 19 صفحہ 890-891) عجب تھا عشق اس دل میں..حضرت مصلح موعود اس کے بعد پھر دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق کا، منشی اروڑا صاحب مرحوم کا ، حوالہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشاق میں سے تھے ان کی یہ عادت تھی کہ وہ کوشش کرتے کہ ہر جمعہ یا اتوار کو وہ قادیان پہنچ جایا کریں.چنانچہ جب انہیں چھٹی ملتی یہاں آجایا کرتے تھے اور مہینے میں ایک دفعہ آنے کا تو پہلے ذکر ہو چکا ہے.اور پھر جب آتے تھے تو اپنے سفر کا ایک حصہ پیدل طے کرتے تھے تا کہ کچھ رقم بچ جائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر سکیں.ان کی تنخواہ اس وقت بہت تھوڑی تھی.غالباً پندرہ بیس روپے تھی اور اس میں سے وہ نہ صرف گزارہ کرتے بلکہ سفر خرچ بھی نکالتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھی نذرانہ پیش کرتے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں میں نے ان کو ہمیشہ ایک ہی کوٹ میں دیکھا ہے، دوسرا کوٹ پہنتے ہوئے میں نے ان کو ساری عمر نہیں دیکھا.انہوں نے تہہ بند باندھا ہوا ہوتا تھا اور معمولی سا کر نہ ہوتا تھا.ان کی بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کرتے رہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں نذرانہ عقیدت کے طور پر پیش کر دیں.رفتہ رفتہ وہ اپنی دیانت کی وجہ سے ترقی کرتے گئے اور تحصیلدار بھی ہو گئے.پھر ان کا جو مشہور واقعہ ہے حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک دن آئے.مجھے باہر بلایا اور بڑی شدت سے رونا شروع کر دیا.حضرت مصلح موعود نے کہا مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا وجہ ہے.پھر انہوں نے تین یا چار سونے کے اشرفیاں نکال کر دیں کہ یہ میں
خطبات مسرور جلد 13 721 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دینا چاہتا تھا لیکن توفیق نہیں ملی اور اب جبکہ مجھے تو فیق ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دنیا میں نہیں اور اس پر پھر بڑی شدت سے رونا شروع کر دیا.تو حضرت مصلح موعود اس واقعہ کا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ہوتا ہے عشق.اگر دنیا کی یہ عمتیں کوئی نعمتیں ہیں اور اگر واقعہ میں ہمیں ان سے کوئی حقیقی آرام پہنچ سکتا ہے تو ایک مومن کا دل ان کو استعمال کرتے وقت ضرور دکھتا ہے کہ اگر یہ نعمتیں ہیں تو اس قابل تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماتیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 24 صفحہ 167-168) حضرت عائشہ کا ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ جب آپ گونرم آٹے کی روٹی ملی تو آنکھوں میں آنسو آگئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ نہیں ملتا تھا اور آپ موٹے پیسے ہوئے آٹے کی روٹی کھایا کرتے تھے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 24 صفحہ 165-166) حضرت مصلح موعود اسی ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنے عشق کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ لکھتے ہیں.یہ فرمانے کے بعد کہ اگر یہ نعمتیں کسی قابل تھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتیں اور پھر آپ کے بعد آپ کے ظل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملتیں.فرماتے ہیں کہ میں چھوٹا ہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں مجھے شکار کرنے کا شوق پیدا ہو گیا.ایک ہوائی بندوق (airgun) میرے پاس تھی جس سے میں شکار مار کر گھر لایا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ کھانا کم کھایا کرتے تھے اور آپ کو دماغی کام زیادہ کرنا پڑتا تھا اور میں نے خود آپ سے یا کسی اور طبیب سے سنا ہوا تھا کہ شکار کا گوشت دماغی کام کرنے والوں کے لئے مفید ہوتا ہے اس لئے میں ہمیشہ شکار آپ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتا تھا.مجھے یاد نہیں کہ اس زمانے میں میں نے خود کبھی شکار کا گوشت اپنے لئے پکوایا ہو.ہمیشہ یہ شکار مار کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا کرتا تھا.تو جب انسان کو اپنے محبوب سے محبت کامل ہوتی ہے تو پھر یا تو وہ کسی چیز کو راحت ہی نہیں سمجھتا اور یا اگر راحت سمجھتا ہے تو کہتا ہے یہ اس محبوب کا حق ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم کے بڑے بڑے معارف اپنے فضل سے کھولے ہیں مگر بیسیوں مواقع مجھ پر ایسے آئے جبکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نکتہ مجھ پر کھولا گیا تو میرے دل میں اس وقت بڑی تمنا اور آرزو پیدا ہوئی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفہ اول کے زمانے میں یہ نکتہ مجھ پر کھلتا تو میں ان کے سامنے پیش کرتا اور مجھے ان کی خوشنودی حاصل ہوتی.فرماتے
خطبات مسرور جلد 13 722 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء ہیں اصل مقام تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ہے حضرت خلیفہ اول کا خیال مجھے اس لئے آیا کرتا ہے کہ انہوں نے مجھے قرآن شریف پڑھایا اور انہیں مجھ سے بے حد محبت تھی اور ان کی یہ خواہش ہوا کرتی تھی کہ میں قرآن پر غور کروں اور اس کے مطالب نکالوں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ دنیاوی چیزیں نہیں بلکہ یہ چیزیں ہیں جو ہمارے لئے حقیقی راحت کا سامان بہم پہنچاسکتی ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 24 صفحہ 168-169 ) یہ تو قصہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق کا.ایسے لوگوں کا جو قادیان جاتے تھے اور ہر وقت یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہیں بیٹھے رہیں جیسا کہ فضل شاہ صاحب کا بھی قصہ سنایا اور منشی اروڑے خان صاحب کا بھی.ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ کو دیکھتے تھے اور اس کوشش میں ہوتے تھے قادیان پہنچیں.قادیان آنے کے لئے بے چین ہوتے تھے اور آپ کے لئے پھر قربانیاں بھی دیتے تھے.لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں بیچارے جن پر قادیان کا نیک ماحول مصیبت بن جاتا تھا.دنیاوی لذات ان پر اتنی غالب ہوتی تھیں کہ وہ نیک ماحول سے جان چھڑا کر بھاگتے تھے.ایسے ہی ایک شخص کا واقعہ بھی حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے.فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ قادیان ایک شخص آیا اور ایک دن ٹھہر کر چلا گیا.جنہوں نے اسے قادیان بھیجا تھا انہوں نے اس خیال سے بھیجا تھا کہ یہ قادیان جائے گا اور وہاں کچھ دن ٹھہر کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سنے گا وہاں کے حالات دیکھے گا تو اس پر احمدیت کا کچھ اثر ہوگا.مگر جب وہ صرف ایک دن ہی ٹھہر کر واپس چلا گیا تو ان بھیجنے والوں نے اس سے پوچھا کہ تم اتنی جلدی کیوں آگئے.تو وہ کہنے لگا تو بہ کرو جی وہ بھی کوئی شریفوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے.انہوں نے خیال کیا کہ شاید کسی احمدی کے نمونے کا اچھا اثر نہیں ہوا جس سے اس کو ٹھوکر لگی ہوئی ہے.انہوں نے پوچھا کہ آخر بات کیا ہوئی ہے جو تم اتنی جلدی چلے آئے.فرماتے ہیں کہ ان دنوں قادیان اور بٹالہ کے درمیان یگے چلا کرتے تھے.( ٹانگے چلا کرتے تھے.) اس نے کہا میں صبح کے وقت قادیان پہنچا.مہمان خانے میں مجھے ٹھہرایا گیا.میری تواضع اور آؤ بھگت کی گئی.ہم نے کہا سندھ سے آئے ہیں راستہ میں تو کہیں حقہ پینے کا موقع نہیں ملاب اطمینان سے بیٹھ کر حقہ پئیں گے اور آرام کریں گے.ابھی ذرا حقہ آنے میں دیر تھی کہ ایک شخص نے کہا کہ بڑے مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ مسیح الاول ( ان کو بڑے مولوی صاحب کہا جاتا تھا ) اب حدیث کا درس دینے لگے ہیں پہلے درس سن لیں بعد میں حقہ پئیں.
خطبات مسرور جلد 13 723 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء ہم نے کہا چلو اب قادیان آئے ہیں تو حدیث شریف کا درس بھی سن لیں.حدیث کا درس سن کر آئے تو ایک شخص نے کہا کھانا بالکل تیار ہے پہلے کھانا کھا لیں.ہم نے کہا ٹھیک ہے.ٹھیک بات ہے کھانے سے فارغ ہو کر پھر اطمینان سے حقہ پئیں گے.ابھی کھانا کھا کر بیٹھے ہی تھے کہ کسی نے کہا کہ ظہر کی اذان ہو چکی ہے.ہم نے کہا اب آئے ہیں تو چلو قادیان میں نماز ہی پڑھ لیتے ہیں.ظہر کی نماز پڑھ چکے تو مرزا صاحب بیٹھ گئے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھ گئے اور باتیں ہونا شروع ہو گئیں.ہم نے کہا کہ چلو مرزا صاحب کی گفتگو بھی سن لیں کہ کیا فرماتے ہیں پھر چل کر حقہ پئیں گے.( حقہ دماغ سے نہیں نکلا) وہاں سے باتیں سن کر آئے اور آکر پیشاب پاخانے سے فارغ ہو کر بیٹھے اور حقہ سلگا یا کہ اب تو سب طرف سے فارغ ہیں اب تسلی سے حقہ پیتے ہیں لیکن ابھی دوکش بھی حقہ کے نہ لگائے تھے کہ کسی نے کہا کہ عصر کی اذان ہو چکی ہے نماز پڑھ لو.حقہ کو اس طرح چھوڑ کر ہم عصر کی نماز پر چلے گئے.عصر کی نماز پڑھی تو خیال تھا کہ اب تو شام تک حقہ کے لئے آزادی ہوگی.کسی نے کہا کہ بڑے مولوی صاحب مسجد اقصیٰ میں چلے گئے ہیں اور وہاں قرآن کریم کا درس ہوگا.ہم نے سمجھا تھا کہ اب شام تک حقہ پینے کا موقع ملے گا پر خیر اب آئے ہیں تو قرآن کریم کا درس بھی سن لیتے ہیں.بڑی مسجد میں گئے درس سنا اور سن کر واپس آئے تو مغرب کی اذان ہوگئی اور حقہ اسی طرح دھرا رہا.پھر ہم مغرب کی نماز کے لئے چلے گئے.نماز پڑھ کر پھر مرزا صاحب بیٹھ گئے اور ہم پھر مجبوراً بیٹھ گئے.ہم نے کہا چلیں مرزا صاحب کی باتیں سن لیں.آخر وہاں سے آئے سوچا کہ اب شاید حقہ پینے کا موقع ملے لیکن کھانا آ گیا اور کہنے لگے کھانا کھالو پھر حقہ پینا.شام کا کھانا بھی کھا لیا اور خیال کیا کہ اب تسلی سے حقہ کے لئے بیٹھیں گے کہ عشاء کی اذان ہو گئی.لوگ کہنے لگے نماز پڑھ لو.خیر عشاء کی نماز کے لئے بھی چلے گئے.نماز پڑھ کر خدا تعالیٰ کا شکر کیا کہ اب تو اور کوئی کام نہیں رہا اب پوری فرصت ہے اور حقہ پیتے ہیں.لیکن ابھی حقہ سلگا یا ہی تھا کہ پتا لگا کہ باہر سے آنے والے مہمانوں کو عشاء کے بعد بڑے مولوی صاحب کچھ وعظ ونصیحت بھی کیا کرتے ہیں.اب بڑے مولوی صاحب وعظ کرنے لگ گئے.وہ ابھی وعظ و نصیحت کر ہی رہے تھے کہ سفر کی کوفت اور تکان کی وجہ سے ہم کو بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی پھر پتا ہی نہیں تھا کہ ہم کہاں ہیں اور ہمارا حقہ کہاں ہے.صبح جب اٹھا تو میں اپنا بستر اٹھا کر وہاں سے بھاگا کہ قادیان میں شریف انسان کے ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 3 صفحہ 497-498) تو یہ حال تھا شرفاء کا.اب اسی وجہ سے کہ ایک نشے کی عادت تھی دین کا علم سیکھنے سے محروم رہے.
خطبات مسرور جلد 13 724 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیض پانے سے محروم رہے.سب نشہ کرنے والوں کے لئے بھی اس میں ایک سبق ہے.تباہی کی طرف جانے والی دنیا اب میں دنیا کے جو حالات ہورہے ہیں اس کے بارے میں مختصر بتانا چاہتا ہوں کہ جس تباہی کی طرف دنیا تیزی سے جارہی ہے اس کے لئے احباب جماعت کو بہت زیادہ دعا کی طرف توجہ کرنی چاہئے.نام نہاد اسلامی حکومت جو عراق اور شام میں قائم ہے اس کے خلاف اب مغربی حکومتوں نے فرانس کے ظالمانہ واقعہ کے بعد جو سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہوائی حملے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے بلکہ شروع کر دیئے ہیں، اگر ان حکومتوں نے یہ حملے کرنے ہیں تو پھر ان پر کریں جو ظلم کر رہے ہیں.ان حملوں سے اللہ تعالیٰ معصوموں اور عوام الناس کو محفوظ رکھے.وہاں شام وغیرہ میں رہنے والے اکثر تو ایک چکی میں پس رہے ہیں.نہ ادھر کا راستہ ہے نہ اُدھر کا راستہ ہے.پھر ہمسایہ مسلمان ممالک بھی اس فتنہ کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں.چاہئے تو یہ تھا کہ خود ہمسایہ ممالک مل کر وہاں کی حکومتوں کی مدد کر کے اس فتنے کو ختم کرتے.اس کو بڑھنے دیا گیا یہاں تک کہ یہ شر تمام دنیا میں پھیل گیا.اور ابھی بھی یہ کہا جاتا ہے کہ بعض ممالک جو ہمسایہ اسلامی ممالک ہیں اس نام نہاد اسلامی حکومت سے تجارت بھی کر رہے ہیں اور ان کا تیل وغیرہ بھی خرید رہے ہیں.روس ترکی پر اس کا الزام لگا رہا ہے گوتر کی اس کو رد کرتا ہے اور روس پر الٹا الزام لگاتا ہے.لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ ہو تو رہا ہے.یہ تجارت چل رہی ہے.اس کے بارے میں میں کئی سال سے کہہ رہا ہوں.ان ہوائی حملوں میں مغربی دنیا کے ساتھ روس بھی شامل ہے.گو کہ مغربی دنیا سے اختلاف ہے.روس جو ہے وہ سیر یا میں جو بشارالاسد کی حکومت ہے ان کی طرفداری کر رہا ہے.باقی دنیا اس کے خلاف ہے.لیکن اس وقت بہر حال داعش کے ٹارگٹ جو ہیں وہ دونوں کے مشترکہ ہیں.لیکن اس کے باوجود جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کے اختلافات بھی موجود ہیں.اگر سنجیدہ حالات ہوتے ہیں تو چین روس کی حمایت کا اعلان کرتا ہے.سیریا کی حکومت کہتی ہے کہ یورپ کے ہوائی حملوں کا اس وقت تک فائدہ نہیں جب تک ہم سے مل کر نہیں کرتے.پھر روس کا جو جہاز ترکی نے گرایا اس کے بعد کے اثرات سے دشمنیوں کے اظہار اور اعلانات بڑھتے چلے جا رہے ہیں.پھر یہ بھی سنا ہے کہ اس نام نہاد اسلامی حکومت نے اپنا یہ بھی ایک پلان بنایا ہے کہ اگر عراق، شام کے علاقے کو چھوڑنا پڑا تو لیبیا میں پھر اپنے اڈے قائم کریں گے، وہاں حکومت قائم کریں گے.اور پھر اس کا کیا نتیجہ نکلے گا.ظاہر ہے کہ
خطبات مسرور جلد 13 725 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 دسمبر 2015ء اگر یہ لوگ اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو یہ بھی بعید نہیں کہ ہوائی حملے بعد میں پھر وہاں لیبیا میں شروع ہو جائیں.پھر عوام مریں گے.مغربی ممالک پہلے انہی حکومتوں کی مدد کرتے رہتے ہیں پھر ان کے خلاف ہو جاتے ہیں.لیبیا، شام، عراق وغیرہ کی حکومتوں کے خلاف ہو کر یا انہیں الٹادیا یا الٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.اور یہ سب ایک لمبے عرصے سے انصاف سے کام نہ لینے کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں فساد پھیلا ہوا ہے.بدقسمتی سے مسلمان ممالک کی حکومتیں بھی اپنے اپنے ممالک میں بے انصافی اور ظلم سے کام لے رہی ہیں.گویا کہ ایسے پیچ دار حالات ہو چکے ہیں کہ جنگ عظیم کی صورت ہے.بلکہ ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ چھوٹے پیمانے پہ جنگ عظیم شروع ہو چکی ہے.اب یہاں کے بہت سے تجزیہ نگار اس بات کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں، لکھنے بھی لگ گئے ہیں کہ جنگ عظیم شروع ہے.اس بات کی طرف میں تو گزشتہ کئی سال سے توجہ دلا رہا ہوں گواب یہ لوگ خود بھی ایسی باتیں کرنے لگ گئے ہیں.لیکن اب بھی یہی لگ رہا ہے کہ انصاف سے کام لینے کی طرف توجہ نہیں ہو گی.نہ بڑی طاقتوں کو نہ مسلمان حکومتوں کو اس طرف توجہ ہوگی.بظاہر لگتا ہے کہ نام نہاد اسلامی حکومت کے خلاف سب مل کے کارروائی کر رہے ہیں.اس لئے اگر اس کو ختم کر دیں یا ختم کر سکتے ہوں تو امن کے حالات پیدا ہو جائیں گے.لیکن بعض حالات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ فتنہ ختم ہو بھی گیا تو حالات نہیں سدھریں گے بلکہ اس کے بعد بڑی طاقتوں کی آپس میں کھینچا تانی شروع ہو جائے گی.اور بعید نہیں کہ جنگ شروع ہو جائے کیونکہ روس اور دوسری مغربی طاقتوں کی آپس میں رنجشیں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور پھر عوام ہی زیادہ تر مریں گے.گزشتہ جنگوں میں بھی ہم نے یہی دیکھا.عوام ہی مرتے ہیں.معصوم لوگ مرتے ہیں.اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہی سے بچائے.اس کے علاوہ احتیاطی تدابیر کے لئے بھی میں نے گزشتہ سالوں میں جماعت کو توجہ دلائی تھی اس طرف بھی توجہ دیں.بعض باتوں کی طرف میں نے مختصراً اشارہ کر دیا ہے.پھر میں توجہ دلاتا ہوں کہ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں.اللہ تعالیٰ حکومتوں اور طاقتوں کو عقل دے کہ دنیا کو تباہی کی طرف اور بربادی کی طرف نہ لے کر جائیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 25 دسمبر 2015 ء تا 31 دسمبر 2015 ، جلد 22 شماره 52 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 726 50 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرز امرو احمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015 ء بمطابق 11 فتح 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ دنوں یہاں ایک اخباروں میں کالم لکھنے والے نے لکھا اور اسی طرح ایک آسٹریلین سیاستدان نے بھی کہا کہ اسلام کی تعلیم میں جو جہاد اور بعض دوسرے احکامات ہیں انہی کی وجہ سے مسلمان شدت پسند بنتے ہیں.اسلامی احکامات کے بارے میں گزشتہ دنوں یو کے (UK) کے بھی ایک حکومتی سیاستدان نے یہی کہا تھا کہ اسلام میں کچھ نہ کچھ تو شدت پسندی کے احکامات ہیں، سختی کرنے کے احکامات ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کا شدت پسندی کی طرف رجحان ہے.آجکل جو اسلام کے نام پر عراق اور شام میں شدت پسند گروہ نے کچھ علاقے پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کی ہے اس نے مغربی ممالک کو بھی نہ صرف دھمکیاں دی ہیں بلکہ بعض جگہ ظالمانہ حملے کر کے معصوموں کو قتل بھی کیا ہے.اس کا میں گزشتہ خطبوں میں ذکر بھی کر چکا ہوں.اس چیز نے جہاں عوام کو خوفزدہ کیا ہے وہاں ان لوگوں کو جو بعض ملکوں کے لیڈر ہیں لاعلمی کی وجہ سے یا اسلام مخالف خیالات کی وجہ سے اسلام کے خلاف کہنے کا موقع بھی دیا ہے.کہنے اور لکھنے والے یہ بھی لکھتے ہیں کہتے بھی ہیں کہ ٹھیک ہے دوسرے مذاہب کی تعلیم میں بھی سختی ہے.بعض احکامات ایسے ہیں لیکن ان کے ماننے والے یا تو اس پر اب عمل نہیں کرتے یا اس میں حالات کے مطابق تبدیلیاں کرلی ہیں اور زمانے کی ضرورت کے مطابق اس تعلیم کو کر لیا ہے.اور اس بات پر ان کا زور ہے کہ لہذا اب قرآن کریم کے احکامات کو بھی اس زمانے کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے.بہر حال اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ان کے مطابق ان کی تعلیم اب خدا کی بھیجی ہوئی نہیں رہی بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی تعلیم رہ گئی ہے.اور یہ ہونا تھا کیونکہ ان تعلیموں کے قائم رہنے یا ان پر
خطبات مسرور جلد 13 727 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء تا قیامت عمل کرنے والے پیدا ہونے کا خدا تعالیٰ کا وعدہ نہیں.لیکن قرآن کریم میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ انا نحنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر: 10 ) یعنی اس ذکر یعنی قرآن کریم کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.تو اس کی حفاظت کے پھر سامان بھی فرمائے.قرآن کریم ایک دائمی کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کی مختلف موقعوں پر مختلف کتابوں میں تفسیر فرمائی ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ عادت ہے کہ جب ایک قوم کو کسی فعل سے منع کرتا ہے تو ضرور اس کی تقدیر میں یہ ہوتا ہے کہ بعض ان میں سے اس فعل کے ضرور مرتکب ہوں گے جیسا کہ اس نے توریت میں یہودیوں کو منع کیا تھا کہ تم تو ریت اور دوسری خدا کی کتابوں کی تحریف نہ کرنا.سو آخران میں سے بعض نے تحریف کی (اس کو بدلا ) مگر قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیا کہ تم قرآن کریم کی تحریف نہ کرنا ( اس کو نہ بدلنا) بلکہ یہ کہا گیا اِنّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُوْنَ (الحجر: 10) (ماخوذ از نزول اسیح - روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 419) پھر آپ فرماتے ہیں کہ (یہ آیت) صاف بتلا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہوگی کہ اس ذکر کو دنیا سے مٹانا چاہے گی تو اس وقت خدا آسمان سے اپنے کسی فرستادہ کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرے گا.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 267) پس وقتا فوقتا یہ لوگ قرآنی تعلیم پر اعتراض کر کے اس تعلیم کو مٹانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی تعلیم یا مٹ گئی ہے یا صرف کتاب کی حد تک رہ گئی ہے.یہ مختلف طریقے آجکل میسج (Message) کے یا ٹویٹ (Tweet) کرنے کے ہیں.ان میں واٹس ایپ (WhatsApp) وغیرہ بھی ہے.گزشتہ دنوں اس پر ایک چھوٹی سی فلم چل رہی تھی جس میں دولڑ کے ایک کتاب میں سے جس کے باہر قرآن لکھا ہوا تھا لوگوں کو بعض آیات یا حصے پڑھ کر سنا رہے تھے کہ یہ کیسی تعلیم ہے اور سڑک پر مختلف لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھ رہے تھے ، ان کا انٹرویو لے رہے تھے ، ان کو بتاتے تھے.تو ہر ایک کو جب یہ پتا لگتا تھا کہ یہ قرآن کریم کی تعلیم ہے کیونکہ باہر لکھا ہوا تھاتو ہر ایک اسلام کی تعلیم کی برائیاں کر رہا تھا کہ دیکھو یہ ثابت ہو گیا کہ اسلامی تعلیم ہی ایسی ہے جس کی وجہ سے مسلمان ایسی حرکتیں کرتے ہیں.کچھ دیر کے بعد ان لڑکوں نے اس کتاب کا کور (cover) اتار دیا اور دکھایا کہ یہ اسلام کی نہیں یہ بائبل کی تعلیم ہے کیونکہ یہ بائیل ہے جو ہم پڑھ رہے تھے.تو کسی نے اس پر کوئی منفی تبصرہ نہیں کیا.اسلام کا نام آتا ہے تو فوراً منفی تبصرہ
خطبات مسرور جلد 13 728 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء ہوتا ہےلیکن یہاں سارے بس ہنس کر چپ ہو گئے.ان میں عورتیں بھی تھیں مرد بھی تھے.تو ایک عورت نے کہا کہ اچھا بڑی حیرانی کی بات ہے.میں نے تو کرسچین سکول میں تعلیم حاصل کی اور بائبل پڑھی ہے مجھے تو کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا.تو یہ تو ان کا حال ہے.اگر ایک مسلمان غلط حرکت کرتا ہے تو اسلام کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اگر کوئی دوسرے مذہب والا کرتا ہے تو کہتے ہیں بیچارا معذور ہے پاگل ہے.ہم مانتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بعض مسلمان گروہوں کے غلط عمل نے اسلام کو بدنام کیا ہے لیکن اس پر قرآن کریم کی تعلیم کو نشانہ بنانا اور انتہا تک چلے جانا بھی اسلام کے خلاف دلوں کے بغض اور کینے کا اظہار ہے.اس کا ایک انتہائی اظہار تو آجکل امریکہ کے ایک صدارتی امیدوار کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بولنا ہے.بہر حال یہ اسلام کے متعلق جو چاہے بولتے رہیں لیکن اسلام کی خوبصورت تعلیم کا مقابلہ نہ کسی مذہب کی تعلیم کر سکتی ہے اور نہ ہی ان کے اپنے بنائے ہوئے قانون کر سکتے ہیں.یہ کہتے ہیں کہ ہم نے حالات کے مطابق قانون بدل دیئے.اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھی اپنے وعدے کے مطابق قرآن کریم کی حفاظت کے لئے ایک فرستادے کو بھیجا جنہوں نے اسلام کی خوبصورت تعلیم سے ہمیں آگاہ فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اُس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش ہوئی ہوئی صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ اِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ.اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة:4) کا مصداق اور موعود ہے.وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جو إِنَّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر: 10) کا وعدہ دے کر قرآن اور اسلام کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوتا ہے مسلمانوں کو اس مصیبت سے بچالیا اور فتنہ میں پڑنے (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 97) نہ دیا.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں“.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 95) یعنی آپ کی جماعت میں شامل ہوئے.پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا ہے.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 193 )
خطبات مسرور جلد 13 729 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی تائید میں اور نصرتیں ہمارے شامل حال ہیں.یہ آج کسی اور مذہب کے پیروکو نصیب نہیں“.( بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 2 صفحہ 770، الحکم جلد 5 نمبر 25 مؤرخہ 10 جولائی 1901ء صفحہ 2) پس یہ باتیں جہاں مخالفین اسلام کے اعتراضات کا شافی جواب ہیں وہاں ان کا یہ کہنا ہی کہ دوسرے مذاہب زمانے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال چکے ہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ مذہب مردہ ہو چکے ہیں.لیکن ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس پر شوکت کلام میں مسلمانوں کو بھی دعوت ہے کہ اس زمانہ میں اسلام پر میڈیا اور تحریر و تقریر کے ذریعہ سے جو حملے ہور ہے ہیں ان کا توڑ کرنے کے لئے اس شخص کے ساتھ رشتہ جوڑ کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کی عظمت سے ان مخالفین کا منہ بند کریں جو اسلام پر دہشت گردی اور شدت پسندی کا الزام لگاتے ہیں.جو گروہ یا لوگ تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں، تلوار کے ذریعہ سے اسلام پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں، حقیقت میں وہ اسلام مخالف طاقتوں کے آلہ کار ہیں.یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں واضح طور پر بتادیا کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں ہے اور تلوار کے جہاد کی اجازت بھی ان مشروط حالات کی وجہ سے ملی تھی جو اسلام کے ابتدائی زمانے میں پیدا ہوئے تھے کہ دشمن اسلام کو تلوار کے زور سے ختم کرنا چاہتا تھا.اسلام امن اور پیار کی تعلیم سے بھرا پڑا ہے.یعنی قرآن کریم اس تعلیم سے بھرا ہوا ہے.پس آج اس زمانے میں اس تعلیم کا پر چار کرنے کی ضرورت ہے اور ہر احمدی کو اس تعلیم کو سمجھنے کی ضرورت ہے.اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے.سبھی اپنے احمدی ہونے کا بھی ہم حق ادا کر سکتے ہیں.آج ہم احمدیوں نے ہی مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو حقیقت سے آشکار کرنا ہے.جو لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں وہ جاہل ہیں اور ہم نے ان کو ان کی جہالت کا حال دکھانا ہے.اسلام کی تعلیم تو امن اور سلامتی کی تعلیم ہے.قرآن کریم کی روشنی میں ہی ہم نے یہ تعلیم دنیا کو دکھانی ہے.ان لوگوں کو بتانا ہے کہ تم جو بغیر علم کے کہہ دیتے ہو کہ اسلام کی تعلیم میں شدت پسندی ہے اسی لئے مسلمان بھی شدت پسند بنتے ہیں یہ تمہاری لاعلمی اور جہالت ہے.مسلمانوں کو بھی بتانا ہو گا کہ آپس کے قتل و غارت اور فرقہ بندی سے تم اسلام کو بدنام کر رہے ہو.گو ہمارے پاس زیادہ وسائل تو نہیں ہیں لیکن جس حد تک ہم پریس میڈیا اور مختلف ذرائع سے یہ کام کر
خطبات مسرور جلد 13 730 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء سکتے ہیں ہر ملک میں اور ہر شہر میں کرنے چاہئیں.اس وقت دنیا کو اسلام کی حقیقی تصویر دکھانا بہت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی قریباً ہر جگہ اس طرف توجہ ہے لیکن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ لگا تار اس بارے میں میڈیا کو استعمال کیا جاتا رہے.ان سے تعلق اور رابطہ رکھا جائے.ان کے ذریعہ سے عوام الناس کو بتایا جائے.اللہ کے فضل سے امریکہ میں بھی اس معاملے میں ان کا کافی تعلق اور رابطہ ہے.باقی ملکوں میں بھی اور یہاں بھی کچھ رابطے ہیں.جرمنی میں بھی ہیں.تو ان کو وسیع تر کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے.گزشتہ دنوں یہاں برٹش پارلیمنٹ میں گلاسگو کی ایک ایم پی (MP) نے اسلام کی حقیقت کے بارے میں جماعت احمدیہ کے حوالے سے یہ بتا کر کہا کہ اسلام کی امن اور سلامتی کی تعلیم پر عمل کرنے والے احمدی مسلمان ہیں اور میں گلاسگو میں ان کے ایک پیس سمپوزیم میں شامل ہوئی تھی اور اس نے بڑی تعریف کی.اس پر وہیں بیٹھی ہوئی وزیر داخلہ، ہوم سیکرٹری نے بھی کہا کہ جو اسلام احمدی پیش کرتے ہیں وہ واقعی اس سے بالکل مختلف ہے جو اسلامی شدت پسند دکھاتے ہیں.اور حقیقت میں احمدی امن پسند شہری ہیں.اور حقیقت یہ ہے کہ احمدی کوئی نئی تعلیم پیش نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم کی تعلیم پیش کرتے ہیں.لیکن یہ ایک واقعہ ہو کر اگر خاموشی ہو گئی تو کچھ دیر کے بعد لوگ یہ کہہ کر بھول جائیں گے کہ ہاں جی برٹش پارلیمنٹ میں ایک سوال اٹھا تھا اور مسلہ ختم ہو گیا.اس کوتو ہر وقت تازہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ پریس نے ایک دفعہ خبر دے دی اور ہم خاموش ہو گئے.لیکن شدت پسندی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے یا نہیں بھی ہوتا تو ان کے حوالے سے اخبار میں شہ سرخیاں دی جاتی ہیں.پھر اسلام مخالف لوگوں کو اسلام کے خلاف بولنے کا موقع مل جاتا ہے.گزشتہ دنوں جب میں جاپان میں تھا تو وہاں بھی پڑھے لکھے طبقے کا یہ اظہار تھا.بلکہ ایک عیسائی پادری نے بھی کہا کہ اسلام کی تعلیم جو تم قرآن کریم کی روشنی میں بتارہے ہو اس کو جانے کی جاپانیوں کو بہت ضرورت ہے بلکہ دنیا کو ضرورت ہے.اس نے کہا لیکن اس کا فائدہ تبھی ہو گا کہ اب اس بات کو اس فنکشن تک محدود نہ کریں جس میں آپ بول رہے ہیں بلکہ جاپان میں مسلسل کوشش سے یہ تعلیم لوگوں کو بتا ئیں.پس اب انصاف پسند غیر بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ خاموش نہ بیٹھ جاؤ بلکہ لگا تار دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کرتے رہو بھی فائدہ ہوگا.اب یہ جاپان جماعت کا بھی کام ہے کہ جامع منصوبہ بندی کر کے اس بات کو تازہ رکھیں.اسی طرح یہاں اس ملک یو کے (UK) میں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی
خطبات مسرور جلد 13 731 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء خوبصورت تعلیم کا ادراک جس طرح ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہوا ہے اسے پھیلا ئیں.اس خوبصورت تعلیم کے سامنے کوئی ٹھہر ہی نہیں سکتا.اور یہ سب باتیں قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ہمیں آپ نے بتائی ہیں اور آگے جماعت کے لٹریچر میں بھی بہت ساری جگہوں پہ موجود ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صحیح تشریح اور تفسیر کے پہنچانے ، اس کے معنوں کی صحیح تشریح کرنے کے لئے اور قرآن کریم کی حفاظت کے لئے آپ علیہ السلام کو بھیجا جیسا کہ آپ نے فرمایا.آپ نے اپنی کتب اور ملفوظات اور تقاریر میں اس کا خوب حق ادا کیا ہے پس اس زمانے میں قرآن کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے کام لیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کام لیا ہے.اور یہی کام ہر احمدی کا ہے کہ ہر طبقے اور ہر مزاج تک اس پیغام کو پہنچائیں اور ہر جگہ اس کام کو سر انجام دیتے ہوئے آپ علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کریں.اس وقت میں بعض مثالیں پیش کرتا ہوں جو اسلام کی امن کی تعلیم کی خوبصورتی ظاہر کرتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ لا إكراه في الدِّينِ (البقرة: 257) كه دين میں کوئی جبر نہیں.پھر فرمایا: وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَأمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (يونس: 100) اور اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہی مشیئت کو نازل کرتا تو جس قدر لوگ زمین پر موجود ہیں سب کے سب ایمان لے آتے.پس جب خدا بھی مجبور نہیں کرتا تو کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں.اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لامَن مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو پھر ہر ایک زمین پر جو موجود ہے وہ ایمان لے آتا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ تمہارے کہنے سے بھی یہ نہیں ہوگا.پس اس بات کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے اور یہی ایک تعلیم ہے جو بڑے واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ اسلام میں جبر نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ”اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا.اگر قرآن شریف اور تمام حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے اور جہاں تک
خطبات مسرور جلد 13 732 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء انسان کے لئے ممکن ہے تدبر سے پڑھا یا سنا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد قطعی یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ اعتراض کہ گویا اسلام نے دین کو جبراً پھیلانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے نہایت بے بنیاد اور قابل شرم الزام ہے.اور یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے تعصب سے الگ ہو کر قرآن اور حدیث اور اسلام کی معتبر تاریخوں کو نہیں دیکھا بلکہ جھوٹ اور بہتان لگانے سے پورا پورا کام لیا ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جاتا ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیا سے ان بہتانوں کی حقیقت پر مطلع ہو جائیں گے.کیا اس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے كه لا إكراه في الدين (البقرة : 257) یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں.کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو.ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گزرگئی اور دین اسلام کے مٹا دینے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرت الہی نے تقاضا کیا کہ جولوگ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں.ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی.اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر سچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے“.(اگر جبر میں ہو تو دل سے سچائی نہیں دکھائی جاسکتی ، وفا کا تعلق نہیں ظاہر کیا جا سکتا ) فرمایا لیکن ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں“.66 مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحه 11-12) پھر آپ فرماتے ہیں : اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں “.یعنی تین قسم کی لڑائیاں ہیں جب اسلام میں سختی ہوئی یا سختی کرنے کی اجازت ہے.دفاعی طور پر یعنی بہ بطریق حفاظت خود مختیاری.(اگر تم پر کوئی حملہ کرے تو اس وقت اپنی حفاظت اور دفاع کرنے کے لئے ہتھیار اٹھایا جا سکتا ہے ).” بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون.(اس وقت جب کسی کو سزا دینی ہو اور دوسروں نے حملہ کیا ہے خون بہایا ہے تو بہر حال سزا کے طور پر چاہے وہ جنگ ہے یا عام حالات ہیں اس وقت ہتھیار استعمال کیا گیا ہے یا سزا دی گئی ہے یا قتل کیا گیا ہے ) اور نمبر تین ” بطور آزادی قائم کرنے کے.یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے“.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 12 )
خطبات مسرور جلد 13 733 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء اب وہ دشمن لوگ جو اس بات پر قتل کرتے تھے کہ تم مسلمان کیوں ہو گئے؟ تم نے مذہب بدل لیا اس لئے مسلمان ہونے کی وجہ سے تمہیں قتل کرتے ہیں.تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یہ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اس لئے ان کے خلاف بھی تلوار اٹھائی جاسکتی ہے.آپ فرماتے ہیں ان تین وجوہات کے علاوہ کوئی وجہ نہیں جہاں تلوار اٹھائی جائے یا سختی کی جائے.فرمایا کہ قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو.اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی.مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا.“ (ستارہ قیصرہ.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 120-121 ) فرمایا : ” جولوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں“.(اس کا اعتراف نہیں کرتے ) اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے.(جانور ہیں ).( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 167 حاشیہ ) پس قرآن کریم کا جبر سے دین میں شامل نہ کرنے کا یہ اعلان معترضین کے اعتراض کے رڈ کے لئے کافی ہے اور جو عقلمند ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو غلط طریق پر بد نام کیا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں حتی کہ عیسائی پادری نے بھی یہ کہا کہ اسلام کی یہ پرامن تعلیم جو ہے اس کا بہت زیادہ پر چار کرو.اور جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کا پر چار کرو تو اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات پوری ہو رہی ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے.جب ان کو پتا لگتا ہے کہ اصل تعلیم کیا ہے.لیکن ساتھ ہی ہمیں بھی آپ علیہ السلام نے توجہ دلائی کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو.دین کی خوبیوں کو پیش کرو اور وہ تبھی پیش ہوسکتی ہیں جب خود علم ہو.اپنے علم کو بڑھاؤ.اور دوسرا فرمایا ” اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو“.اپنے نیک نمونے قائم کرو تا کہ ہمیں دیکھ کے لوگ ہماری طرف آئیں.پس یہ ہر احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے کے لئے قرآن کریم کا علم حاصل کریں اور پھر اپنے نیک نمونے قائم کر کے دنیا کو اپنی طرف کھینچیں اور یہی علم اور عمل ہے جس سے اس زمانے میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آتے ہوئے قرآن کریم اور اسلام کی
خطبات مسرور جلد 13 734 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء حفاظت کے کام میں حصہ دار بن سکتے ہیں اور دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ اگر دنیا میں حقیقی امن قائم کرنا ہے تو قرآن کریم کے ذریعہ ہی قائم ہو سکتا ہے.قرآن کریم نے ایک جگہ اسلام کو قبول نہ کرنے والوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ وَقَالُوا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدى مَعَكَ نُتَخَطَّفَ مِنْ أَرْضِنَا (القصص: 58 ) اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس ہدایت کی جو تجھ پر اتری ہے اتباع کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں.پس اسلام کی تعلیم پر اعتراض اس لئے نہیں ہے کہ ظلم اور جبر کی تعلیم ہے بلکہ قبول نہ کرنے والے اسلام کی تعلیم پر جو اعتراض کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ہم تیری تعلیم پر عمل کریں جو امن والی تعلیم ہے جو سلامتی والی تعلیم ہے تو ارد گرد کی قو میں ہمیں تباہ کر دیں.پس اسلام کی تعلیم تو دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی تعلیم ہے.امن اور سلامتی قائم کرنے کی تعلیم ہے.امن اور محبت کا پیغام دینے کی تعلیم ہے.اگر بعض مسلمان گروہ عمل نہیں کرتے تو ان کی بدقسمتی ہے.قرآن بیشک اصل الفاظ میں ان کے پاس موجود ہے لیکن عمل نہیں ہے.قرآن کریم کی تعلیم کی اور قرآن کریم کے احکامات کی جو حفاظت کرنی تھی یا کرنی چاہئے وہ یہ لوگ نہیں کر رہے.اس کی حفاظت تو مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت نے ہی کرنی ہے.دنیا کو ہم نے اپنے علم اور عمل سے بتانا ہے کہ دنیا کو اپنی سلامتی اور امن کا خطرہ اسلام سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو اسلام کے خلاف ہیں.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اقتباس میں بھی فرمایا ہے جو میں نے پڑھا کہ یہ لوگ جو اسلام کو بدنام کرتے ہیں وہ جھوٹ اور بہتان سے کام لیتے ہیں.اور ان کا یہ جھوٹ اور بہتان اصل میں دنیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے.یہ لوگ اپنے مفادات کے لئے، دنیا میں اپنی جغرافیائی اور سیاسی برتری حاصل کرنے کے لئے فساد برپا کئے ہوئے ہیں.مسلمان ممالک کے فساد میں بھی بعض بڑے ممالک کا حصہ ہے.اور اب تو مختلف مغربی میڈیا پر خود ان کے اپنے لوگ ہی کہنے لگ گئے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ شدت پسند تنظیمیں ہماری حکومتوں کی پیداوار ہیں جو ہم نے عراق کی جنگ کے بعد یا شام کے حالات کے بعد پیدا کی ہیں.اس بات سے میں مسلمانوں اور ان لوگوں کو جو اسلام کے نام پر مسلمان کہلاتے ہوئے شدت پسندی کا اور اسلام کی غلط تعلیم کے اظہار کا مظاہرہ کر رہے ہیں بری الذمہ نہیں کرتا لیکن اس آگ کو بھڑکانے میں بڑی طاقتوں کا بہر حال حصہ ہے.انصاف سے کام نہ لینے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے.اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ کسی بڑی طاقت کی طرف سے ایک بیان آ گیا اور دنیا نے تسلیم کر لیا بلکہ ہر تجزیہ نگار کا میڈیا کے ذریعہ ہر جگہ پہنچنا یا اپنے خیالات پہنچانا اب آسان ہو گیا ہے.ابھی بھی ایک طرف تو شدت پسند لوگوں کو ختم کرنے کی باتیں ہوتی
خطبات مسرور جلد 13 735 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء ہیں، ان پر بم گرائے جاتے ہیں اور دوسری طرف ان کو اسلحہ پہنچانے والوں اور غلط ذریعہ سے مال پہنچانے والوں یا مالی ٹرانزیکشن (Transaction) کرنے والوں کی طرف سے ان لوگوں نے باوجود علم ہونے کے کہ کس طرح یہ سب کچھ ہورہا ہے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں.پس دنیا کے امن اور سلامتی کو برباد کرنے والے صرف یہ مسلمان گروہ ہی نہیں ہیں جو اسلامی تعلیم کے خلاف چلتے ہوئے ظلم و فساد کر رہے ہیں بلکہ بڑی حکومتیں بھی ہیں جو اپنے مفادات کو اولیت دیتی ہیں اور دنیا کا امن ان کے نزدیک ضمنی اور ثانوی چیز ہے.ایک حقیقی مسلمان تو یہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ سلام ہے وہ اپنی مخلوق کے لئے سلامتی چاہتا ہے اور حقیقی مسلمانوں میں یقیناً احمدی ہی ہیں جو اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو سلامتی دینے اور دنیا میں امن وسلامتی قائم رکھنے کے لئے کتنے احکامات دیئے ہیں، کتنی زیادہ رہنمائی فرمائی ہے.خدا تعالیٰ ایک جگہ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وقیله لِرَبِّ إِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُونَ.فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَمُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (الزخرف: 90-89).اور جب اس نے کہا کہ اے میرے رب یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پس تو ان سے درگزر کر اور اتنا کہہ دے کہ سلام.( تم پر سلامتی ہو ) پس عنقریب وہ جان جائیں گے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے.پس یہ ہے قرآن کریم کی تعلیم کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں تو سننے والے انکار کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے اللہ ! میں تو ان کو امن اور سلامتی کی طرف بلا رہا ہوں اور یہ انکار کر رہے ہیں.یہ صرف انکار ہی نہیں کر رہے، یہ ایسی قوم ہیں جو نہ صرف ایمان نہیں لاتی سلامتی کے پیغام کو نہیں مجھتی بلکہ الٹا مجھے امن نہیں دیتی.ہم مسلمانوں کی سلامتی کو بھی برباد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاصْفَحُ عَنْهُمْ.کہ ان سے در گزر کر.ان کو سمجھ نہیں ہے، یہ عقل نہیں رکھتے.بیوقوف لوگ ہیں.غصہ میں آ جاتے ہیں.ان کی یہ باتیں سن کر کہہ دے کہ میں تو تمہارے لئے سلامتی لایا ہوں اور میرا پیغام سلامتی کا ہے اور یہی پیغام میں پہنچاتا رہوں گا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوتو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ حکم دیا کہ اسلام مخالفین کی تمام زیادتیاں دیکھ کر اور سہہ کر صرف یہ جواب دے کہ میں تمہیں سلامتی کا پیغام ہی دیتا ہوں اور دیتا رہوں گا تا کہ دنیا میں امن قائم ہو.پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ حکم ہے تو پھر ہر مسلمان کے لئے یہ حکم کتنا ضروری ہے.آج بھی جب یہ حالات ہیں تو ہمارا یہی فرض ہے کہ اسی طرح پیغام پہنچا ئیں.ہمارا
خطبات مسرور جلد 13 736 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء کام امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانا ہے.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اسلام کی طرف سے کبھی تلوار اٹھائی گئی تو وہ بھی حفاظت کے لئے اور امن قائم کرنے کے لئے اٹھائی گئی کبھی ظلم کے لئے نہیں اٹھائی گئی.پس یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قرآن کریم نے کبھی بھی اور کہیں بھی یہ حکم دیا ہو کہ جو تمہاری بات نہیں مانتا اس کے خلاف تلوار اٹھاؤ اور اسے تہ تیغ کر دو.اگر کوئی مسلمان گروہ یا مسلمان سر براہ اپنے عمل سے اس کی نفی کر رہا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں امن قائم کر رہے ہیں تو وہ حقیقی اسلام نہیں ہے.وہ ان کے اپنے ذاتی مفادات ہیں جن کا وہ اظہار کر رہے ہیں یا بڑی طاقتوں کے مفادات ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو آلہ کار بنایا ہوا ہے.اور پھر اسلام پر ہی الزام کہ اس کی تعلیم ایسی ہے.ایک حقیقی مسلمان اور عبد رحمان کی تو پہچان ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجُهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا - (الفرقان: 64) اور جب جاہل لوگ ان سے لڑتے ہیں تو وہ بجائے لڑنے کے کہتے ہیں ہم تمہارے لئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں.پس یہ قرآنی تعلیم ہے اور یہی تعلیم ہے جو ہر سطح پر امن اور سلامتی قائم کرنے اور اس کے لئے کوشش کرنے کا حکم دیتی ہے.ہم میں سے ہر ایک کو اور خاص طور پر نو جوانوں کو کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے.یہ اسلام ہے اور صرف اسلام ہے جو دنیا میں امن وسلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے.اور یہ قرآن کریم ہے اور صرف قرآن کریم ہے جو امن اور سلامتی پھیلانے کی اور شدت پسندی کے خاتمے کی تعلیم دیتا ہے.پس اس تعلیم کا ادراک حاصل کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے.اس تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے.اس تعلیم پر عمل کریں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اپنے عملی نمونوں سے دنیا کو بتا ئیں کہ آج قرآن کریم کی حفاظت کے کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق بخشی ہے اور یہ اس کا فضل ہے.قرآن کریم کی صحیح تفسیر اور تشریح ہی اس کی معنوی حفاظت بھی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور ہمیں آپ علیہ السلام کو ماننے کی توفیق دے کر اس کام کے لئے ہمیں بھی چن لیا، ہمیں بھی توفیق دی.پس یہ خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلانے کا کام سرانجام دینا ہر احمدی کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ہر احمدی لڑکے لڑکی ، مرد عورت کو کوشش کرنی چاہئے.دنیا اس وقت آگ کے گڑھے کے جس دہانے پر کھڑی ہے کسی وقت بھی ایسے حالات ہو سکتے ہیں کہ وہ اس میں گر جائے.ایسے وقت میں دنیا کو اس آگ میں گرنے سے بچانے کی کوشش کرنا اور امن اور سلامتی
خطبات مسرور جلد 13 737 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء دینے کا کام کرنا ایک احمدی کی ذمہ داری ہے اور احمدی ہی کر سکتے ہیں.پس اس کے لئے کوشش کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی چیز اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنا ہے، اس کے آگے جھکنا ہے، اس کا تقویٰ اختیار کرنا ہے.اس کا تقویٰ اپنے دلوں میں پیدا کرنا ہے.تبھی ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بھی اور دنیا کو بھی امن اور سلامتی دے سکتے ہیں.ایسے ہی موقع کے لئے اور ان حالات کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ : آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار در ثمین صفحه 154 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ) پس اس ذو العجائب اور سب طاقتوں کے مالک خدا سے تعلق مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ سے پیار میں بڑھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا داروں کو بھی عقل دے کہ وہ خدا تعالیٰ کی آواز کو سنیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچیں.نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ حاضر اور دو غائب پڑھاؤں گا.جنازہ حاضر مکرم عنایت اللہ احمدی صاحب کا ہے.19 دسمبر کو ان کی وفات ہوئی تھی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ بڑا لمبا عرصہ مبلغ سلسلہ رہے.ان کے والد کا نام اللہ بخش صاحب تھا جو قادیان کے اللہ بخش سٹیم پریس کے مالک تھے.عنایت اللہ احمدی صاحب کی پیدائش جنوری 1920ء کی ہے.پانچ سال کی عمر میں آپ قادیان آ گئے.تعلیم الاسلام سکول قادیان میں داخل ہوئے.1936ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے ہی میٹرک پاس کیا.پھر 1939ء میں مشرقی افریقہ میں ملٹری میں کلرک بھرتی ہوئے اور جولائی 1946ء کو فارغ ہوئے.30 رمئی 1944ء کو چوبیس سال کی عمر میں آپ نے وقف کیا اور جولائی 1946 ء سے مشرقی افریقہ میں بطور مبلغ کام شروع کیا اور دسمبر 1979 ء تک بعمر ساٹھ سال ریٹائر ہوئے.1946 ء سے دسمبر 73 ء تک 23 سال تین مہینے آپ نے بیرون پاکستان بطور مبلغ خدمت کی توفیق پائی.چارسال چار ماہ کینیا میں ، اٹھارہ سال گیارہ مہینے تنزانیہ میں بطور مبلغ کام کیا.اس کے بعد ریٹائر منٹ تک پاکستان میں سیالکوٹ اور جھنگ کے اضلاع میں بطور مربی اور مربی ضلع کام کی تو فیق ملی.ان کی اولاد میں چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں.ایک بیٹے حبیب اللہ احمدی صاحب ہیں جن کو بطور وقف خدمت کی توفیق ملی.جب تنزانیہ
خطبات مسرور جلد 13 738 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء میں تبلیغی کاموں میں وسعت پیدا ہوئی تو 1947ء میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم کی مدد کے لئے جو مبلغین بھیجے تھے ان میں چوہدری عنایت اللہ صاحب بھی شامل تھے.وہاں مختلف جگہوں پر انہوں نے خدمات سرانجام دیں.اسی طرح جب شیخ مبارک احمد صاحب قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ کر رہے تھے تو اس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان کو جو مددگار مہیا کئے ان میں بھی چوہدری عنایت اللہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب قمر کو شامل کیا.اس طرح آپ کو قرآن کریم کے سواحیلی ترجمہ میں کام کی سعادت بھی نصیب ہوئی.دارالسلام میں تین سال آپ کو مشنری انچارج کے طور پر خدمت کی توفیق بھی ملی.ایک دفعہ آپ اپنی ایک جماعت پنگا لے (Pangalay) کی مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے سائیکل پر جارہے تھے تو احمدی احباب نے بتایا کہ غیر احمدی امام اور دیگر لوگوں کا منصوبہ ہے اور امام نے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے کہ مسجد کو جلانا ہے اور وہاں بلوہ کرنا ہے اس لئے آپ پنگا لے نہ جائیں.اس پر آپ نے بڑا دلیرانہ جواب دیا کہ میں ضرور جاؤں گا اور بہر حال سفر جاری رکھا.جیسا کہ میں نے کہا سائیکل پر جارہے تھے.راستے میں ایک جگہ پنگالے کا چیف ملا اور اس نے آپ کو سائیکل پر دیکھا تو اپنی کا ررو کی اور کار میں بیٹھنے کی دعوت دی تو آپ نے کہا کہ نہیں میں سائیکل پر جارہا ہوں ،ٹھیک ہوں.بہر حال چیف کے اصرار پر آپ اس کی کار میں بیٹھ گئے اور چیف گاؤں میں لے کر آیا اور راستے میں آپ نے چیف کو بتایا کہ جو گاؤں کی صورتحال کی خبر ان کو پہنچی ہے.اس پر چیف نے تمام لوگوں کو بلایا اور کہا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں اور مہمانوں سے بہر حال برا سلوک نہیں ہوگا اور میں ایسا نہیں کرنے دوں گا اور جو بھی ان کی مدد ہو دے گی میں کروں گا اور امام کو بھی کافی سرزنش کی.بلکہ یہ بھی کہا کہ میں ان کے پیچھے نماز پڑھوں گا.چنانچہ جب نماز کا وقت آیا تو چیف نے ان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی.علاقے کے لوگوں پہ بھی ان کا بہت اثر تھا اور بڑے تعلقات وسیع تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسل کو بھی جماعت اور خلافت سے وفا کا تعلق قائم رکھنے کی توفیق دے.دوسرا جنازہ غائب ہے جو مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغانہ مرحوم درویش قادیان کا ہے.87 سال کی عمر میں 7 دسمبر کو ان کی وفات ہوئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغانہ مرحوم اخبار بدر کے درویش نمبر میں شائع شدہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ خاکسار کے گاؤں کے ایک دوست مکرم محمد احمد صاحب کالا افغانہ قادیان آگئے تھے.میں ڈیرہ بابا نانک میں امتحان دے کر
خطبات مسرور جلد 13 739 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء ملازمت کی تلاش میں تھا کہ مکرم محمد احمد صاحب نے پیغام بھجوایا کہ میں چونگی کی ملازمت چھوڑ کر دفتر الفضل میں کام کرنا چاہتا ہوں.تم میری جگہ چونگی میں لگ جاؤ.یہ اس وقت احمدی نہیں تھے.1946 ء کی بات ہے.کہتے ہیں کہ خاکسار اپنے گاؤں سے قادیان آ گیا اور چونگی میں ملازمت شروع کر دی.جس وقت میں قادیان ملازمت کے لئے آیا اس وقت مجھے احمدیت کے تعلق سے زیادہ معلومات نہیں تھیں.کہتے ہیں میں نے ایک غیر مسلم دوست کو کہا کہ مجھے نماز کے لئے کوئی ایسی مسجد بتاؤ جو قادیانیوں کی نہ ہو.میں ان کی مسجد میں نہیں جاسکتا.اس غیر مسلم نے مجھے مسجد اقصیٰ کا راستہ بتادیا.کہتے ہیں میں وہاں گیا.دیکھا کہ بہت بڑی مسجد ہے کوئی نماز پڑھ رہا ہے کوئی تلاوت کر رہا ہے، خوبصورت منارہ ہے.میں دل ہی دل میں خوش ہوا کہ ہماری مسجد تو بہت اچھی ہے، اب میں قادیانیوں کی مسجد میں نہیں جاؤں گا.تو ایک روز پتا چلا کہ یہ احمدیوں کی مسجد ہے.کہتے ہیں ایک دن احراریوں کی مسجد میں بھی گیا لیکن وہاں کی حالت دیکھ کر عہد کر لیا کہ اب ہمیشہ میں مسجد اقصیٰ میں ہی نماز ادا کروں گا.پھر آہستہ آہستہ ان کا ایک احمدی دوست سے تعارف ہوا.انہوں نے ان کو جماعتی معلومات دیں اور کتاب تبلیغ ہدایت اور دیگر رسائل دیئے جس کے نتیجہ میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی.1947ء میں ملک کی تقسیم ہوئی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر خدام دور دور سے حفاظت مرکز کے لئے آنے لگے.اس موقع پر کہتے ہیں کہ خاکسار نے بھی اپنا نام حفاظت مرکز کے لئے پیش کر دیا جس کی منظوری ہوئی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے درویشی میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.کہتے ہیں بیعت کرنے کے بعد میرے عزیز واقارب اور خاص طور پر والدین نے بہت مخالفت کی اور پھر تقسیم ملک کے موقع پر بھی مجھے کہا کہ ہمارے ساتھ آ جاؤ اور میرے احمدی ہونے پر بڑا افسوس کرتے رہے.لیکن میرے انکار پر بڑا رو رو کر میرے والد اور والدہ نے کوشش کی لیکن بہر حال میں نہیں گیا.دین کو دنیا پر مقدم رکھا.بلکہ کہتے ہیں کہ میری والدہ کی میرے اس غم میں بینائی جاتی رہی.1952ء میں ان کی شادی حیدر آباد کے ظہور الدین صاحب کی بیٹی اختر النساء صاحبہ سے ہوئی.ان سے ان کے دو بیٹے محمود احمد صاحب اور شعیب احمد صاحب ہیں.شعیب صاحب واقف زندگی ہیں اور اس وقت قادیان میں ناظر بیت المال خرچ ہیں.اسی طرح ان کے ایک داماد قاری نواب صاحب واقف زندگی ہیں.انہوں نے دیہاتی مبلغ کے طور پر مہاراشٹر، کرناٹک میں خدمت کی توفیق پائی.تبلیغ کا ان کو بہت شوق تھا.کسی بورڈ یاتختی پر لکھتے تھے کہ امام مہدی علیہ السلام آگئے ہیں تا کہ سب لوگ پڑھ لیں اور پھر
خطبات مسرور جلد 13 740 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 دسمبر 2015ء تبلیغ شروع کر دیتے تھے اور اسی طرح مختلف دفاتر میں بھی ان کو کام کی توفیق ملی.مینجر اخبار البدر بھی رہے اور اسی طرح لنگر خانے میں اور دوسری جگہوں پر بھی کام کیا.ان کے بھی محکموں کے ساتھ افسران کے ساتھ بڑے وسیع تعلقات تھے اور ان کا بڑا عزت و احترام کرتے تھے.باوجود پیرانہ سالی کے ہمیشہ مسجد میں آ کر نماز باجماعت ادا کیا کرتے تھے حتی کہ وفات والے دن بھی نماز ظہر اور عصر مسجد میں ادا کی اور مسجد مبارک کا جو پرانا حصہ تھا اس میں کھڑے ہو کے خاص طور پر نمازیں پڑھتے تھے.صاحب رؤیا وکشوف تھے.دعا گو شخص تھے ، بہت ملنسار تھے اور اکثر جو نئے واقفین زندگی نو جوان ہیں وہ ان کی صحبت میں بیٹھ کر کافی فیض پایا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولا د کوبھی ان کی دعاؤں اور نیکیوں کا وارث بنائے.تیسرا جنازہ مکرمہ سیدہ قامتہ بیگم صاحبہ کا ہے.اڑیسہ کی ہیں.ہمارے واقف زندگی ڈاکٹر طارق احمد صاحب جو اس وقت نور ہسپتال قادیان کے انچارج ہیں ان کی والدہ تھیں.16 راکتو بر کو ان کی وفات ہوئی تھی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بڑی قناعت پسند ، سادہ مزاج، صابرہ اور شاکرہ، غریب پرور، خوددار، نیک اور مخلص خاتون تھیں.اپنے بچوں کی اعلی تعلیم اور اچھی تربیت کا انہوں نے بہت خیال رکھا.ان کے خاوند سرکاری ملازم تھے اور ان کی محدود تنخواہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ اپنے غریب اور ضرورتمند عزیزوں کی بہت خدمت کرتے تھے اور اس سلسلے میں مرحومہ قانتہ صاحبہ کا بھی ان سے بہت تعاون تھا.کبھی انہوں نے اعتراض نہیں کیا بلکہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کی.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں بھی جاری رہیں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 01 جنوری 2016 ء تا 07 جنوری 2016 ءجلد 23 شماره 01 صفحه 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 741 51 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015 ء بمطابق 18 فتح 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا اُس وقت سے لے کر آج تک مخالفین احمدیت یا نام نہاد علماء آپ پر بہت سے اعتراضات کرتے چلے آ رہے ہیں اور الزامات لگاتے چلے آرہے ہیں.بہر حال یہ تو ان کی عادت ہے کرتے رہیں گے اور اس وجہ سے عامتہ المسلمین کو گمراہ کر رہے ہیں یا گمراہ کرنے کی کوشش کرتے چلے جا رہے ہیں.اور سب سے بڑا الزام جو یہ لوگ مسلمانوں کے جذبات بھڑ کانے اور انہیں انگیخت کرنے کے لئے لگاتے ہیں یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو نعوذ باللہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتے ہیں.بلکہ ان علماء کی اپنے مقاصد کے حاصل کرنے کے لئے جھوٹ اور ظلم کی یہ انتہا ہے کہ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض ایسے الفاظ کہے ہیں جن سے آپ کی ہتک ہوتی ہے.اور یہی الزام یہ لوگ آج جہاں جہاں ان کو موقع ملتا ہے جہاں ان کی طاقت ہے افراد جماعت احمد یہ پر بھی لگاتے ہیں کہ احمدی نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتے ہیں.جن سعید فطرت لوگوں نے جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھیں، جماعت کا لٹریچر پڑھایا آپ کے ارشادات سنے انہیں فوری طور پر یہ بات سمجھ آگئی کہ ان نام نہا داور فتنہ گر علماء نے صرف فتنہ پیدا کرنے کے لئے یہ الزامات لگائے ہیں، یہ باتیں کی ہیں.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض حوالے پیش کروں گا جو آپ کی مختلف کتب میں موجود ہیں.اس وقت نہ ہی اس حوالے سے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کیا سمجھا
خطبات مسرور جلد 13 742 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء آپ کے سب اقتباسات پیش کئے جاسکتے ہیں ، نہ ہی آپ کی تمام کتب کے حوالے بیان کئے جاسکتے ہیں.تا ہم اس وقت میں اُس وقت سے کہ جب آپ نے براہین احمدیہ تصنیف فرمائی اور اپنی وفات کے وقت تک یا اس سے کچھ پہلے جو آپ نے آخری کتاب تصنیف فرمائی اس کے حوالے پیش کروں گا جن میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے متعلق بیان فرمایا.براہین احمدیہ کے ہر چار حصے 1880ء سے لے کر 1884 ء تک آپ نے تصنیف فرمائے جو روحانی خزائن کی جلد نمبر ایک میں جمع کر دیئے گئے ہیں.اس میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: آنحضرت سلیم کا اعلی وارفع مقام اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پر دے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.“ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 558-557 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) یعنی اس بات پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قرآن شریف کی عظمت پر یقین قائم ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.پھر براہین احمدیہ میں ہی آپ فرماتے ہیں: "اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.( براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 594 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) پھر 1886ء میں اپنی تصنیف سرمہ چشم آریہ میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ : غرض وحی الہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی صفات کمالیہ کا چہرہ حسب صفائی باطن نبی منزل علیہ کے نظر آتا ہے.( یعنی جو دل کی صفائی ہے، انبیاء کی جو بھی اندرونی حالت ہے اس کے
خطبات مسرور جلد 13 743 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں.اور جس نبی پر یہ اترتا ہے ہر ایک کے رتبہ کے مطابق نظر آتا ہے.فرمایا کہ ) اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاک باطنی وانشراح صدری و عصمت و حیا وصدق وصفا و توکل و وفا اور عشق الہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل واعلیٰ و اکمل وارفع واحلی واصفا تھے اس لئے خدائے جل شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا ( سب سے حصہ زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پایا) اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ واکمل وارفع و تم ہو کر صفات الہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو.سرمه چشم آرید روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 71 حاشیہ) پھر 1891ء میں اپنی تصنیف توضیح مرام میں وحی الہی کے انتہائی درجہ کی تجلی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اور یہ کیفیت صرف دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے ( یعنی وحی الہی کی اعلیٰ درجہ کی تجلی کی جو کیفیت ہے وہ ایک ہی انسان کو ملی ہے ) جو انسان کامل ہے جس پر تمام سلسلہ انسانیہ کا ختم ہو گیا ہے.اور دائرہ استعدادت بشریہ کا کمال کو پہنچا ہے ( جتنی بھی انسانی طاقتیں تھیں ، استعداد میں تھی وہ کمال کو پہنچی ہیں ) اور وہ در حقیقت پیدائش الہی کے خط ممتد کی اعلیٰ طرف کا آخری نقطہ ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ نے جو بھی انسانی پیدائش کی ہے اس کی جو انتہا ہے اگر لکیر کھینچی جائے تو اس کا آخری سرا ہے ) جو ارتفاع کے تمام مراتب کا انتہا ہے.( جو انتہائی اونچے مقام پر پہنچا ہوا ہے.فرمایا کہ ) حکمت الہی کے ہاتھ نے ادنیٰ سے ادنیٰ خلقت سے اور اسفل سے اسفل مخلوق سے سلسلہ پیدائش کا شروع کر کے اس اعلی درجہ کے نقطہ تک پہنچا دیا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم.جس کے معنی یہ ہیں کہ نہایت تعریف کیا گیا.یعنی کمالات تامہ کا مظہر سوجیسا کہ فطرت کے رو سے اس نبی کا اعلیٰ اور ارفع مقام تھا ایسا ہی خارجی طور پر بھی اعلیٰ وارفع مرتبہ وحی کا اس کو عطا ہوا اور اعلیٰ وارفع مقام محبت کا ملا فرمایا کہ یہ وہ مقام عالی ہے کہ میں (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) اور مسیح ( یعنی عیسی علیہ السلام ) دونوں اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے“.توضیح مرام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 64) پھر 1892-93ء کی تصنیف 'آئینہ کمالات اسلام ہے جو روحانی خزائن کی جلد پانچ میں ہے.
خطبات مسرور جلد 13 744 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء اس کے دو حصے ہیں.اردو اور عربی حصہ ہے.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الا حیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قوی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی وجسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ) اور پھر انسان کامل برطبق آیت ( یعنی اس آیت کے مطابق کہ) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنَتِ إِلَى أهْلِهَا (النساء: 59) اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے.( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ امانتیں اس کے اہل کو ادا کرو اور سب سے زیادہ ذمہ داریاں جو اللہ تعالیٰ خود ہی امانتیں دیتا ہے اور ان امانتوں کی ادائیگی کا سب سے زیادہ حق اللہ تعالیٰ کا ہے کہ اس کے حق ، حقوق اللہ ادا کئے جائیں.اور یہ امانتیں جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر کے اس کو ادا کی گئیں، واپس کی گئیں اس میں سب سے بڑا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.فرمایا کہ اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے ) د یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.(اللہ تعالیٰ کو یہ امانتیں واپس دینا کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میں فانی ہو کر، اس میں فنا ہو کر اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے کام کے لئے وقف کر دے.اللہ تعالیٰ کے دین کے پھیلانے کے لئے دین کی اشاعت کے لئے اس کی عبادت کے لئے اور اس کے حکم کے مطابق حقوق اللہ کی ادائیگی کے لئے وقف کر دے.فرمایا ) ” جیسا کہ ہم مضمون حقیقت اسلام میں بیان کر چکے ہیں اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولی ، ہمارے ہادی، نبی اُمّی صادق مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی جیسا کہ خود خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: قُل اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: 163 164 ) وَانَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ
خطبات مسرور جلد 13 745 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهِ ذَلِكُمْ وَضَكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (الانعام: 154) قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رّحِيْمٌ (آل عمران 2 3 ( آل عمران 1 2 وَأُمِرْتُ أَنْ أَسْلِمَ لِرَبِّ العلمين (المومن: 67) حضرت مسیح موعود ان آیات کی جو مختلف سورتوں کی ہیں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.سارا ترجمہ آپ نے نہیں کیا.کچھ تھوڑا سا ترجمہ فرمایا ہے ) یعنی ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدو جہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے.وہی خدا جو تمام عالموں کا رب ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اول المسلمین ہوں یعنی دنیا کی ابتدا سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنافی اللہ ہو.“ ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.) آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 162-160) پھر 1894ء میں اپنی تصنیف 'نورالحق حصہ اول میں آپ فرماتے ہیں.یہ روحانی خزائن کی جلد 8 ہے.عربی کی یہ عبارت ہے کہ : طُوبى لِلَّذِى قَامَ لِإِعْلَائِ كَلِمَةِ الدِّينِ وَنَهَضَ يَسْتَقْرِى طُرُقَ مَرْضَاةِ اللَّهِ النَّصِيرِ الْمُعِيْنِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنِ وَالصَّلَوَةُ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ سَيِّدِ رسلہ.مبارک وہ جودین کی مدد کے لئے کھڑا ہو گیا اور ربانی رضا مندی کی راہوں کو ڈھونڈھتا ہوا اٹھا.تمام تعریفیں خدا کے لئے ثابت ہیں جو تمام عالموں کا پروردگار ہے اور درود اور سلام اس کے نبیوں کے سردار پر.( نور الحق الحصة الاولی ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 2) پھر روحانی خزائن کی جلد 8 میں ہی اتمام الحجتہ ہے.یہ بھی 1894ء کی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلين، فخر النبين ، جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا
خطبات مسرور جلد 13 746 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملا کی اور یحي اور ذکر یا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگر چہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے.یہ اُس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے.اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ وَأَخِرُ دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ “ اتمام الحجبۃ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308) پھر 1895ء کی اپنی تصنیف آریہ دھرم میں آپ فرماتے ہیں: ” ہمارے مذہبی مخالف ( یعنی اسلام کے مخالف ) صرف بے اصل روایات اور بے بنیاد قصوں پر بھروسہ کر کے جو ہماری کتب مسلّمہ اور مقبولہ کی رو سے ہرگز ثابت نہیں ہیں بلکہ منافقوں کے مفتریات ہیں (منافقوں کے جھوٹ ہیں ) ہمارا دل دکھاتے ہیں اور ایسی باتوں سے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں اور گالیوں تک نوبت پہنچاتے ہیں جن کا ہماری معتبر کتابوں میں نام و نشان نہیں.اس سے زیادہ ہمارے دل دکھانے کا اور کیا موجب ہوگا کہ چند بے بنیاد افتر اؤں کو پیش کر کے ہمارے اس سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر (نعوذ باللہ ) زنا اور بدکاری کا الزام لگانا چاہتے ہیں جس کو ہم اپنی پوری تحقیق کی رو سے سید المعصومین اور ان تمام پاکوں کا سردار سمجھتے ہیں جو عورت کے پیٹ سے نکلے اور اس کو 66 خاتم الانبیاء جانتے ہیں کیونکہ اس پر تمام نبوتیں اور تمام پاکیز گیاں اور تمام کمالات ختم ہو گئے.“ آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 84) پھر 1897 ء کی آپ کی تصنیف ہے سراج منیر.اس میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی تصرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی.(سراج منیر.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 82) پھر 1898ء کی آپ کی تصنیف ہے کتاب البریہ.اس میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ” ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نشان اور معجزات دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو آنجناب کے ہاتھ سے یا آپ کے قول یا آپ کے فعل یا آپ کی دعا سے ظہور میں آئے اور ایسے معجزات شمار کے رو سے
خطبات مسرور جلد 13 747 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء قریب تین ہزار کے ہیں.اور دوسرے وہ معجزات ہیں جو آنجناب کی امت کے ذریعہ سے ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور ایسے نشانوں کی لاکھوں تک نوبت پہنچ گئی ہے اور ایسی کوئی صدی بھی نہیں گذری جس میں ایسے نشان ظہور میں نہ آئے ہوں.چنانچہ اس زمانہ میں اس عاجز کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ یہ نشان دکھلا رہا ہے.ان تمام نشانوں سے جن کا سلسلہ کسی زمانہ میں منقطع نہیں ہوتا.ہم یقیناً جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا نبی اور سب سے زیادہ پیارا جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ دوسرے نبیوں کی امتیں ایک تاریکی میں پڑی ہوئی ہیں اور صرف گذشتہ قصے اور کہانیاں ان کے پاس ہیں مگر یہ اُمت ہمیشہ خدا تعالیٰ سے تازہ بتازہ نشان پاتی ہے.لہذا اس اُمت میں اکثر عارف ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر اس درجہ کا یقین رکھتے ہیں کہ گویا اس کو دیکھتے ہیں.اور دوسری قوموں کو خدا تعالیٰ کی نسبت یہ یقین نصیب نہیں.لہذا ہماری روح سے یہ گواہی نکلتی ہے کہ سچا اور صحیح مذہب صرف اسلام ہے.ہم نے حضرت عیسی علیہ السلام کا کچھ نہیں دیکھا.اگر قرآن شریف گواہی نہ دیتا تو ہمارے لئے اور ہر ایک محقق کے لئے ممکن نہ تھا کہ ان کو سچا نبی سمجھتا کیونکہ جب کسی مذہب میں صرف قصے اور کہانیاں رہ جاتی ہیں تو اس مذہب کے بانی یا مقتدا کی سچائی صرف ان قصوں پر نظر کر کے تحقیقی طور پر ثابت نہیں ہو سکتی.وجہ یہ کہ صدہا برس کے گذشتہ قصے کذب کا بھی احتمال رکھتے ہیں بلکہ زیادہ تر احتمال یہی ہوتا ہے کیونکہ دنیا میں جھوٹ زیادہ ہے.پھر کیونکر دلی یقین سے ان قصوں کو واقعات صحیحہ مان لیا جائے.لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات صرف قصوں کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے خودان نشانوں کو پالیتے ہیں.لہذا معائنہ اور مشاہدہ کی برکت سے ہم حق الیقین تک پہنچ جاتے ہیں.سو اس کامل اور مقدس نبی کی کس قدرشان بزرگ ہے جس کی نبوت ہمیشہ طالبوں کو تازہ ثبوت دکھلاتی رہتی ہے.اور ہم متواتر نشانوں کی برکت سے اس کمال سے مراتب عالیہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ کو ہم آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں.پس مذہب اسے کہتے ہیں اور سچا نبی اس کا نام ہے جس کی سچائی کی ہمیشہ تازہ بہار نظر آئے.محض قصوں پر جن میں ہزاروں طرح کی کمی بیشی کا امکان ہے بھروسہ کر لینا عقلمندوں کا کام نہیں ہے.دنیا میں صد ہا لوگ خدا بنائے گئے.اور صدہا پرانے افسانوں کے ذریعہ سے کراماتی کر کے مانے جاتے ہیں.مگر اصل بات یہ ہے کہ سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو.سو وہ شخص ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں اس کامل اور مقدس کے نشان دکھلانے کے لئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے اور اس
خطبات مسرور جلد 13 748 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء زمانہ میں مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے.دیکھو آسمان سے نشان ظاہر ہورہے ہیں اور طرح طرح کے خوارق ظہور میں آ رہے ہیں اور ہر ایک حق کا طالب ہمارے پاس رہ کر نشانوں کو دیکھ سکتا ہے گو وہ عیسائی ہو یا یہودی یا آریہ.یہ سب برکات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں.“ ( کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 154 تا 157 حاشیہ) پھر سن 1900ء میں اپنے رسالہ اربعین نمبر ایک میں جو روحانی خزائن کی جلد 17 میں ہے، آپ فرماتے ہیں کہ : میں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان کامل گزرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا ایک ایسا امر ہے جو اب تک اُمت کے سچے پیروؤں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے.بجز اسلام وہ مذہب کہاں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں.“ اربعین نمبر 1.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 346) پھر 1902ء کی اپنی تصنیف کشتی نوح میں آپ فرماتے ہیں: ” نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یا درکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 14-13) پھر 1902ء کی ہی اپنی ایک تصنیف نسیم دعوت میں آپ فرماتے ہیں: اس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قومی کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اس کے تصرف سے نہ اس کی خُلق سے
خطبات مسرور جلد 13 749 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا ( یعنی خدا تعالیٰ کی وہ صفات جو اوپر بیان کی گئی ہیں اس زندہ خدا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پایا جس میں یہ صفات ہیں.) ” جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے.سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا اور بے شمار احسان والا اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں“.نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 363) اور یہ خدا ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ملا.پھر 1903ء کی اپنی تصنیف دلیکچر سیالکوٹ میں آپ فرماتے ہیں.: غرض یہ تمام بگاڑ کہ ان مذاہب میں پیدا ہو گئے جن میں سے بعض ذکر کے بھی قابل نہیں اور جو انسانی پاکیزگی کے بھی مخالف ہیں یہ تمام علامتیں ضرورت اسلام کے لئے تھیں“.(پرانے مذہبوں میں جو بگاڑ پیدا ہوئے وہ اس لئے تھے کہ اسلام کے آنے کی ضرورت تھی ) فرمایا کہ ایک عقلمند کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام سے کچھ دن پہلے تمام مذاہب بگڑ چکے تھے اور روحانیت کو کھو چکے تھے.پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے.اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی.جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی.یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی.یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جب کہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعاً ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا اور پھر آپ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرما یا جب کہ لاکھوں انسان شرک
خطبات مسرور جلد 13 750 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء اور بت پرستی کو چھوڑ کر تو حید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے.اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو ( جانوروں کی طرح جیسی قوم تھی ان کو ) انسانی عادات سکھلائے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا (جانوروں کو انسان بنایا ) اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا.وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا.پس بلا شبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قو تیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بارو بر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تاخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہو گئے اور چونکہ آپ صفات الہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی اور آپ کے دو نام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے ہیں اور آپ کی نبوت عامہ میں کوئی حصہ بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتدا سے تمام دنیا کے لئے ہے.66 لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 207-206) پھر 1905ء کی اپنی تصنیف 'براہین احمدیہ جلد پنجم میں آپ فرماتے ہیں کہ : ہزار ہزار شکر اس خداوند کریم کا ہے جس نے ایسا مذہب ہمیں عطا فرمایا جو خدا دانی اور خدا ترسی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانہ میں نہیں پائی گئی.اور ہزار ہا درود اس نبی معصوم پر جس کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے.اور ہزار ہا رحمتیں نبی کریم کے اصحاب پر ہوں جنہوں نے اپنے خونوں سے اس باغ کی آب پاشی کی“.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 25) پھر براہین احمدیہ حصہ پنجم میں ہی آپ فرماتے ہیں: نوح میں وہی حسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جل شانہ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا.(حضرت نوح کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کیا اس وجہ سے کہ وہ نبی تھے.فرمایا) پھر اس کے بعد موسیٰ بھی وہی حسن روحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آ خر فرعون
خطبات مسرور جلد 13 751 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء کا بیڑا غرق کیا.پھر سب کے بعد سید الانبیاء و خیر الوریٰ مولنا وسید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے: دَنى فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أو أدنى (النجم : 10 - 9).یعنی وہ نبی جناب الہی سے بہت نزد یک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا.اور دونوں قسم کا حسن روحانی ظاہر کیا.اور دونوں قوسوں میں وتر کی طرح ہو گیا.یعنی دونوں قوسوں میں جو ایک درمیانی خط کی طرح ہو اور اس طرح اس کا وجود واقع ہوا.اس حسن کو نا پاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ آپ کے حسن کو نا پاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا) جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : - يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (الاعراف : 199 ).یعنی تیری طرف وہ دیکھتے ہیں مگر تو انہیں دکھائی نہیں دیتا.آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے.( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 221-220) پھر 1907ء کی آپ کی تصنیف ' حقیقۃ الوحی ہے.اس میں آپ نے فرمایا کہ: پس میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور وو سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جود نیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مراد ہیں اس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے.( یہ کہتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچا مقام رکھتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ میں آخر میں آیا اور میں نبی ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ جو بغیر اقرارا فاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے.ایسے لوگوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے آپ کو باہر سمجھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں وہ ذریت شیطان ہے.) '' کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی
خطبات مسرور جلد 13 752 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فرنعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 119-118) پھر حقیقۃ الوحی میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ : اب اس تمام بیان سے ہماری غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے.چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کارانسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے.اس طرح پر کہ خود اس کے دل میں محبت الہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے.تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا انس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبت الہی کی ایک خاص تجلی اس پر پڑتی ہے اور اس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قومی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.تب جذبات نفسانیہ پر وہ غالب آ جاتا ہے اور اس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 ص 68-67) لیکن یہ ملتا انہی کو ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں.پھر حقیقۃ الوحی، میں ہی آپ فرماتے ہیں: سو میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھے سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.اور میرے لئے اس نعمت کا پا ناممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولی فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا.اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے.اور میں اس جگہ بی بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں
خطبات مسرور جلد 13 753 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے.سو یا در ہے کہ وہ قلب سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لا زوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے.پھر بعد اس کے ایک مصفی اور کامل محبت الہی بباعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالی خود فرماتا ہے.قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكُمُ الله (آل عمران : 32) یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحه 65-64) پھر 1908ء کی اپنی تصنیف چشمہ معرفت میں آپ فرماتے ہیں کہ : دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - إنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تسليما (الاحزاب : 57 ).ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے.جیسے حضرت موسیٰ حضرت داؤد حضرت عیسی علیہم السلام اور دوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو اُن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں کیونکہ اب ان کا نام ونشان نہیں بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقینا سمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے.اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا.پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے.کسی نے یہ شعر بہت
خطبات مسرور جلد 13 ہی اچھا کہا ہے : 754 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء 66 محمد عربی کرے بادشاہ ہر دو سرا ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں کہتا ہوں کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 301 تا 303) ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج.وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا.وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا.وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو.کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹا یا جواس کے لئے کھولا نہ گیا لیکن افسوس! کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نوران کے اندر داخل ہو.“ پھر چشمہ معرفت میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ : ” اب سوچنا چاہئے کہ کیا یہ عزت، کیا یہ شوکت، کیا یہ اقبال، کیا یہ جلال، کیا یہ ہزاروں نشان آسمانی، کیا یہ ہزاروں برکات ربانی جھوٹے کو بھی مل سکتی ہیں.ہمیں بڑا فخر ہے کہ جس نبی علیہ السلام کا ہم نے دامن پکڑا ہے خدا کا اس پر بڑا ہی فضل ہے.وہ خدا تو نہیں مگر اس کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو دیکھ لیا ہے.اس کا مذہب جو ہمیں ملا ہے خدا کی طاقتوں کا آئینہ ہے.اگر اسلام نہ ہوتا تو اس زمانہ میں اس بات کا سمجھنا محال تھا کہ نبوت کیا چیز ہے اور کیا معجزات بھی ممکنات میں سے ہیں اور کیا وہ قانون قدرت میں داخل ہیں.اس عقدے کو اُسی نبی کے دائمی فیض نے حل کیا اور اسی کے طفیل سے اب ہم دوسری قوموں کی طرح صرف قصہ گو نہیں ہیں بلکہ خدا کا نور اور خدا کی آسمانی نصرت ہمارے شامل حال ہے.ہم کیا چیز ہیں جو اس شکر کو ادا کر سکیں کہ وہ خدا جو دوسروں پر مخفی ہے اور وہ پوشیدہ طاقت جو دوسروں سے نہاں در نہاں ہے.وہ ذوالجلال خدا محض اس نبی کریم کے ذریعہ سے ہم پر ظاہر ہو گیا.“ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ (381) پس ان علماء کو آپ پر یہ اعتراض ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے
خطبات مسرور جلد 13 755 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی اور عشق کی وجہ سے کلام کیا.اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیوں کلام کیا اور مخفی اور پوشیدہ طاقت عطا فرما کر اپنے قرب سے نوازا.طاقت کے ذریعہ سے اپنے قرب سے نوازا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا جماعت احمدیہ نہیں بلکہ یہ نام نہاد علماء اس الزام کے نیچے آتے ہیں کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض جاری نہیں ہے.اور نعوذ باللہ للہ تعالی کی طاقتیں اور صفات محدود ہوگئی ہیں.پس اگر الزام لگتا ہے تو ان لوگوں پر لگتا ہے.حضرت مسیح موعود تو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طاقتیں اب بھی کام کر رہی ہیں.پھر چشمہ معرفت میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور آپ کے جاری فیض کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : وو پھر جب ہمارے بزرگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ظاہر ہوئے تو ایک انقلاب عظیم دنیا میں آیا اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ جزیرہ عرب جو بجز بت پرستی کے اور کچھ بھی نہیں جانتا تھا ایک سمندر کی طرح خدا کی توحید سے بھر گیا.علاوہ اس کے یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان اور معجزات ملے وہ صرف اس زمانہ تک محدود نہ تھے بلکہ قیامت تک ان کا سلسلہ جاری ہے.اور پہلے زمانوں میں جو کوئی نبی ہوتا تھا وہ کسی گذشتہ نبی کی امت نہیں کہلا تا تھا گواس کے دین کی نصرت کرتا تھا اور اس کو سچا جانتا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت ان پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی ہے جو اُن کی امت سے باہر ہو بلکہ ہر ایک کو جو شرف مکالمہ الہیہ ملتا ہے وہ انہیں کے فیض اور انہیں کی وساطت سے ملتا ہے اور وہ امتی کہلاتا ہے، نہ کوئی مستقل نبی.“ ( پس اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے لئے امتی نبی ہونے کا اعلان فرمایا.پھر فرماتے ہیں کہ ) اور رجوع خلائق اور قبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج کم سے کم بیس کروڑ ہر طبقہ کے مسلمان آپ کی غلامی میں کمر بستہ کھڑے ہیں ( یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے کی تعداد بتارہے ہیں جو آپ کے زمانے میں تھی ) اور جب سے خدا نے آپ کو پیدا کیا ہے بڑے بڑے زبر دست بادشاہ جو ایک دنیا کو فتح کرنے والے تھے آپ کے قدموں پر ادنی غلاموں کی طرح گرے رہے ہیں اور اس وقت کے اسلامی بادشاہ بھی ذلیل چاکروں کی طرح آنجناب کی خدمت میں اپنے تئیں سمجھتے ہیں اور نام لینے سے تخت سے نیچے اتر آتے ہیں.“ (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 381-380)
خطبات مسرور جلد 13 756 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 دسمبر 2015ء پس یہ مقام آپ بیان فرما رہے ہیں اور یہ جو آپ پر الزام ہے کہ آپ نعوذ باللہ دوسرے مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے.تو آپ فرما رہے ہیں کہ صرف احمدی نہیں بلکہ تمام دنیا کے مسلمان جو ہیں وہ آپ کی غلامی میں فخر محسوس کرتے ہیں.پس یہ مقام و مرتبہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سمجھا اور دنیا کو بتایا اور اپنے ماننے والوں کو اس کا ادراک عطا فر مایا.اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے نہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور فضیلت اور ارفع مقام کی گہرائی کو ہم بھی نہ جان سکتے.مخالفین کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام شروع میں کچھ اور کہتے تھے اور بعد میں اپنی سوچ بدل لی اور نعوذ باللہ ذاتی مفادات حاصل کرنے لگ گئے.یہ سب تحریرات جو میں نے 1880ء سے لے کر 1908 ء تک جو آپ کی وفات کا سال ہے پیش کی ہیں ان تحریرات میں کہیں بھی ایک جگہ بھی ایسا جھول نہیں ہے کوئی بھی ایسا فقرہ نہیں ہے جو ایک دوسرے سے مطابقت نہ رکھتا ہو.ہر جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو پہلے سے بڑھ کر آپ نے بیان فرمایا ہے.اپنے آپ کو اگر کہیں نبی کہا بھی ہے تو آپ کی غلامی میں.اللہ تعالیٰ ان مفاد پرستوں کے چنگل سے اُمت مسلمہ کو بچائے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے والے ہوں اور یہی ایک طریقہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جو امت مسلمہ کی ساکھ کو دوبارہ قائم کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب و ارشادات پڑھنے اور انہیں سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہمیں اپنے تک پہنچنے کا صحیح ادراک بھی عطا فرمائے اور توفیق بھی عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 08 جنوری 2016 ء تا 14 جنوری 2016 ءجلد 23 شماره 02 صفحه 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 13 757 52 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015 ء بمطابق 25 فتح 1394 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ دن قادیان میں جلسہ سالانہ کے دن ہیں.کل سے انشاء اللہ تعالیٰ قادیان کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے.اسی طرح آج آسٹریلیا کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو چکا ہوگا اور امریکہ کے ویسٹ کوسٹ کا جلسہ بھی شروع ہونے والا ہے.وقت کا فرق ہے اس لئے کچھ دیر بعد شاید شروع ہو.اور شاید بعض اور ملکوں میں بھی ان دنوں میں جلسے ہور ہے ہوں گے یا ہونے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ان تمام جلسوں کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.اشرار کی شرارتوں اور ان کے شر سے محفوظ رکھے.دنیا بھر میں ہونے والے جلسہ سالانہ اور قادیان قادیان کے جلسہ سالانہ کی خاص طور پر اس لحاظ سے بھی اہمیت ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بستی میں ہو رہا ہے اور یہیں آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر جلسے شروع کروائے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مختلف خطابات اور خطبات میں جلسہ الانہ کے حوالے سے ہمیں اس زمانے سے بھی آگاہی دی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تھا اور جماعت کی ابتدا تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلسوں کا نقشہ کھینچا ہے کہ شروع کے جلسے کیسے ہوتے تھے وہاں بعض الہامات کا بھی ذکر فر ما یا کہ کس طرح بعض الہامات کو اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں پورا ہوتا دکھایا اور دکھا رہا ہے.بعض الہامات آئندہ زمانوں کے متعلق ہوں گے یا ایک دفعہ پورے ہو چکے اور دوبارہ بھی پورے ہوں گے.اس وقت میں اس حوالے
خطبات مسرور جلد 13 758 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء سے حضرت مصلح موعودؓ کے بعض حوالے پیش کرتا ہوں.ابتدائی جلسوں میں سے ایک کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود اپنے بچپن کا تاثر اور جماعت کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یہ 1936 ء کی بات ہے جب آپ فرما رہے ہیں کہ قریباً چالیس سال پہلے اس جگہ پر جہاں اب مدرسہ احمدیہ کے لڑکے پڑھتے ہیں ( قادیان میں جو جگہ ہے) ایک ٹوٹی پھوٹی فصیل ہوا کرتی تھی.ایک فصیل تھی جس نے پورے قادیان کی آبادی کو گھیرا ہوا تھا.کہتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں قادیان کی حفاظت کے لئے وہ کچی فصیل بنی ہوئی تھی.وہ خاصی چوڑی تھی اور ایک گڈا اس پر چل سکتا تھا (یعنی بیل گاڑی).پھر انگریزی حکومت نے جب اسے تڑوا کر نیلام کر دیا تو اس کا کچھ ٹکڑا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مہمان خانہ بنانے کی نیت سے لے لیا.وہ ایک زمین لمبی سی چلی جاتی تھی.ایک لمبا ٹکڑا پلاٹ تھا.کہتے ہیں کہ میں نہیں کہ سکتا کہ اس وقت 93 ء تھا یا 94ء یا 95 ، قریباً اسی قسم کا زمانہ تھا.یہی دسمبر کے دن تھے.یہی موسم تھا، یہی مہینہ تھا کچھ لوگ جو ابھی احمدی نہیں کہلاتے تھے کیونکہ ابھی احمدی نام سے جماعت یاد نہیں کی جاتی تھی.احمدی نام جو ہے یہ 1901ء میں رکھا گیا.اس سے پہلے احمدی کی باقاعدہ ایک نشانی نہیں تھی.احمدی کہلاتے تو نہیں تھے مگر یہی مقاصد اور یہی مدعا لے کر وہ قادیان میں جمع ہوئے.کہتے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا آیا وہ ساری کارروائی اسی جگہ ہوئی یا کا رروائی کا بعض حصہ اس جگہ ہوا ( جہاں ذکر فرمارہے ہیں) اور بعض مسجد میں ہوا کیونکہ میری ( حضرت مصلح موعودؓ کی ) عمر اس وقت سات آٹھ سال کی ہوگی.اس لئے میں زیادہ تفصیلی طور پر اس بات کو یاد نہیں رکھ سکا.میں اس وقت اس اجتماع کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا.مجھے اتنا یاد ہے کہ میں وہاں جمع ہونے والے لوگوں کے ارد گرد دوڑتا اور کھیلتا پھرتا تھا.میرے لئے اس زمانے کے لحاظ سے یہ اچھنبے کی بات تھی کہ کچھ لوگ جمع ہیں.اس فصیل پر ایک دری بچھی ہوئی تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے اور اردگرد دوست تھے جو جلسہ سالانہ کے اجتماع کے نام سے جمع تھے.( کہتے ہیں ) ممکن ہے میرا حافظ غلطی کرتا ہو اور دری ایک نہ ہو، دو ہوں لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک ہی دری تھی.اس ایک دری پر کچھ لوگ بیٹھے تھے.ڈیڑھ سو ہوں گے یا دوسو اور بچے ملا کر ان کی فہرست اڑھائی سو کی تعداد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شائع بھی کی تھی.کہتے ہیں میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ایک دری تھی یا دو دریاں.بہر حال ان کے لئے اتنی ہی جگہ تھی جتنی اس جلسہ گاہ (جس پہ یہ ذکر فرما رہے ہیں اس) کے سٹیج کی جگہ ہے.( بلکہ آجکل ہمارے
خطبات مسرور جلد 13 759 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء جلسوں کے سیج تو اور بھی بڑے ہوتے ہیں.) کہتے ہیں میں نہیں کہہ سکتا کیوں؟ مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ دری تین جگہ بدلی گئی.ایک جگہ سے اٹھائی، پھر دوسری جگہ سے، اور پھر تیسری جگہ سے.پہلے ایک جگہ بچھائی گئی.تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اٹھا کر اسے کچھ دُور بچھایا گیا.تھوڑی دیر بعد وہاں سے تبدیل کر کے ایک اور جگہ بچھایا گیا.اور پھر تیسری جگہ اس جگہ سے بھی اٹھا کر کچھ اور دور وہ بچھائی گئی.کہتے ہیں کہ اپنے بچپن کی عمر کے لحاظ سے میں نہیں کہ سکتا کہ آیا ان جمع ہونے والوں کو لوگ روکتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارا حق نہیں کہ اس جگہ دری بچھا دیا کوئی اور وجہ تھی.بہر حال مجھے یاد ہے کہ دو تین دفعہ اس دری کی جگہ بدلی گئی.(ماخوذ از جماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقی آستانہ رب العزت پر گریہ و بکا کرنے کا نتیجہ ہے...انوار العلوم جلد 14 صفحہ 321 تا 323) آج جو لوگ قادیان میں اس وقت جلسے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں وہ شاید اس وقت کی حالت کا اندازہ نہ کر سکتے ہوں.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک وسیع جلسہ گاہ میسر ہے جس کو پکی چار دیواری سے گھیرا گیا ہے اور اس میں بھی کوشش یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا ہوں.1936ء میں جب حضرت مصلح موعود یہ فرمارہے ہیں اس کے بعد پارٹیشن تک مزید وسیع انتظام ہوتے گئے.قادیان پر بعد میں پارٹیشن کے وقت ایسا دور بھی آیا جب صرف دار مسیح اور اردگرد کے چند گھروں تک احمدی محدود ہو گئے بلکہ چندسو کے سوا سب کو ہجرت کرنی پڑی اور یہ جو چند ایک احمدی تھے وہ بھی بڑے کمزور تھے.لیکن آج پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں وسعت پیدا ہو رہی ہے اور وہاں جانے والے جو پہلی دفعہ گئے ہوں گے، نئی نسلیں ہیں، نوجوان ہیں یا باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں، اب صرف اس وسعت کو دیکھ رہے ہوں گے.لیکن تاریخ کے دریچے میں سے جھانک کر ہم دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش نظر آتی ہے.آج ربوہ کے رہنے والے بھی ان دنوں بے چین ہوں گے تو انہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے.انشاء اللہ تعالیٰ وہاں بھی حالات بدلیں گے اور رونقیں بھی قائم ہوں گی لیکن ربوہ کے رہنے والوں کو دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہوگی.پاکستان میں رہنے والوں کو دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہوگی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ (آل عمران: 140) اور کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو.یقینا تم ہی غالب آنے والے ہو جبکہ تم مومن ہو.شرط یہ لگائی جبکہ تم مومن ہو.پس ایمان میں زیادتی اور دعاؤں پر زور سے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر کے حالات بدلتے ہیں.حضرت مصلح موعود اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو وہاں جمع تھے (جن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھایا جاتا تھا) اس نیت اور اس ارادے سے کہ اسلام دنیا میں نہایت ہی کمزور حالت میں
خطبات مسرور جلد 13 760 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء کر دیا گیا ہے اور وہ ایک ہی نور جس کے بغیر دنیا میں روشنی نہیں ہو سکتی اسے بجھانے کے لئے لوگ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں ( یعنی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نور ہے.) اسے وہ ظلمت اور تاریکی کے فرزند مٹا دینا چاہتے ہیں.کہتے ہیں اس ایک ارب اور پچیس تیس کروڑ آدمیوں کی دنیا میں (اُس زمانے میں جو آبادی تھی ) دو اڑھائی سو بالغ آدمی جن میں سے اکثر کے لباس غریبانہ تھے جن میں سے بہت ہی کم لوگ تھے جو ہندوستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی متوسط درجے کے کہلا سکیں جمع ہوئے تھے.اس ارادے سے اور اس نیت سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا جسے دشمن سرنگوں کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ اس جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دیں گے بلکہ اسے پکڑ کر سیدھا رکھیں گے اور اپنے آپ کو فنا کر دیں گے مگر اسے نیچا نہیں ہونے دیں گے.اس ایک ارب پچیس کروڑ آدمیوں کے سمندر کے مقابلے کے لئے دواڑھائی سو کمزور آدمی اپنی قربانی پیش کرنے کے لئے آئے تھے.(اس وقت 96.1895ء میں ) جن کے چہروں پر وہی کچھ لکھا ہوا تھا جو بدری صحابہ کے چہروں پر لکھا ہوا تھا.جیسا کہ بدر کے صحابہ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ بیشک ہم کمزور ہیں اور دشمن طاقتور مگر وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.ان کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ انسان نہیں بلکہ زندہ موتیں ہیں جو اپنے وجود سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کے دین کے قیام کے لئے ایک آخری جد و جہد کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں.دیکھنے والے اُن پر ہنتے تھے.دیکھنے والے ان پر تمسخر کرتے تھے اور حیران تھے کہ یہ لوگ کیا کام کریں گے.( کہتے ہیں کہ ) میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ایک درمی تھی یا دو در یاں.بہر حال ان کے لئے اتنی ہی جگہ تھی جتنی اس سٹیج کی جگہ ہے.میں نہیں کہہ سکتا کیوں مگر اتنا جانتا ہوں کہ وہ دری تین جگہ بدلی گئی ( جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ).حضرت یوسف کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں جب یوسف مصر کے بازار میں بکنے کے لئے آئے تو ایک بڑھیا بھی دو روئی کے گالے لے کر پہنچی.(چھوٹے گولے لے کے ) کہ شاید میں ہی ان گالوں سے یوسف کو خرید سکوں.دنیا دار لوگ اس واقعہ کو سنتے ہیں اور ہنستے ہیں.روحانی لوگ اسے سنتے ہیں اور روتے ہیں کیونکہ ان کے قلوب میں فوراً یہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جہاں کسی چیز کی قدر ہوتی ہے وہاں انسان دنیا کی ہنسی کی پرواہ نہیں کرتا.مگر میں کہتا ہوں یوسف تو ایک انسان تھا اور اس وقت تک یوسف کی قابلیتیں ظاہر نہیں ہوئی تھیں.( چھوٹی عمر تھی ) آخر اس کے بھائیوں نے نہایت ہی قلیل قیمت پر اسے فروخت کر دیا تھا.( یہ کہانی اگر سچی بھی مان لی جائے.)
خطبات مسرور جلد 13 761 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء ایسی حالت میں اگر بڑھیا کو یہ خیال آیا ہو کہ شاید روئی کے دو گالوں کے ذریعہ سے میں یوسف کو خرید سکوں تو یہ کوئی بعید بات نہیں.خصوصاً جب ہم اس بات کو مد نظر رکھیں کہ جس ملک سے یہ قافلہ آیا تھا وہاں روئی نہیں ہوا کرتی تھی اور وہ مصر سے ہی روٹی لے جایا کرتے تھے تو پھر تو یہ کوئی بھی بعید بات معلوم نہیں ہوتی کہ روٹی کی قیمت اس وقت بہت بڑھی ہوئی ہو اور وہ بڑھیا واقعہ میں یہ بجھتی ہو کہ روئی سے یوسف کو خریدا جا سکتا ہے.لیکن جس قیمت کو لے کر وہ لوگ جمع ہوئے تھے وہ یقیناً ایسی ہی قلیل تھی (یعنی کہ اس وقت یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد دو اڑھائی سو آدمی بیٹھے تھے.جس قیمت کو لے کر یہ لوگ جمع ہوئے تھے وہ یقیناً ایسی ہی قلیل تھی ) اور یہ یوسف کی خریداری کے واقعہ سے زیادہ نمایاں اور زیادہ واضح مثال اس عشق کی ہے.وہ اصل چیز کیا ہے؟ یہ عشق ہے.جو انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے.(وہ بڑھیا تو یہ سمجھی تھی کہ اس کی یہی ”میری قیمت کافی ہے.لیکن یہاں ایک اور قیمت لگ رہی ہے جو عشق کی قیمت ہے جو عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے اور پھر یہ عشق ) انسان سے ایسی ایسی قربانیاں کراتا ہے جن کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.وہ دو یا اڑھائی سو آدمی جو جمع ہوا ان کے دل سے نکلے ہوئے خون نے خدا تعالیٰ کے عرش کے سامنے فریاد کی.بیشک ان میں سے بہتوں کے ماں باپ زندہ ہوں گے، بیشک وہ خود اس وقت ماں باپ یا دادے ہوں گے مگر جب دنیا نے ان پر جنسی کی ، جب دنیا نے انہیں چھوڑ دیا، جب اپنوں اور پرایوں نے انہیں الگ کر دیا اور کہا کہ جاؤاے مجنونو ! ہم سے دُور ہو جاؤ.( جب انہوں نے احمدیت قبول کی تو ان کے باوجود بڑے ہونے کے، باپ ہونے کے، دادا ہونے کے، بچے ہونے کے لوگوں نے ان کو گھروں سے نکال دیا کہ ہم سے دُور ہو جاؤ ) تو وہ باوجود بڑے ہونے کے یتیم ہو گئے.کیونکہ یتیم ہم اسے ہی کہتے ہیں جو لا وارث ہو اور جس کا کوئی سہارا نہ ہو.پس جب دنیا نے انہیں الگ کر دیا تو وہ یتیم ہو گئے اور خدا کے اس وعدے کے مطابق کہ یتیم کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے جب وہ قادیان میں جمع ہوئے اور سب یتیموں نے مل کر آہ وزاری کی تو اس آہ کے نتیجہ میں وہ پیدا ہوا جو آج تم اس میدان میں دیکھ رہے ہو.(ماخوذ از جماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقی آستانہ رب العزت پر گریہ وبکا کرنے کا نتیجہ ہے.انوار العلوم جلد 14 صفحہ 322-323) یعنی اس وقت جو لوگ جلسے میں جمع تھے اور وسیع میدان تھا.قادیان تھا.پس اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے چند ہزار لوگوں کو کہا تھا کہ ان دواڑھائی سو لوگوں کی آہوں کا نتیجہ تم دیکھ رہے ہو.یعنی کہ اس میدان میں ان دو اڑھائی سو لوگوں کی آہیں تھیں جس کا
خطبات مسرور جلد 13 762 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء نتیجہ تم یہ دیکھ رہے ہو کہ اسی میدان میں قادیان میں تم بیٹھے ہوئے ہو.آج جیسا کہ میں نے بتایا کہ قادیان کی جلسہ گاہ اور بھی وسیع ہو چکی ہے.میں جلسہ میں شامل ہونے والے مردعورتیں جتنے بھی لوگ ہیں، ان سے کہتا ہوں کہ ایک وسیع میدان جس میں تمام سہولتیں بھی میسر ہیں جہاں ایک زبان کی بجائے (اس زمانے میں تو ایک زبان میں حضرت مصلح موعودؓ تقریر فرمار ہے تھے اب وہاں ایک کے بجائے ) کئی زبانوں میں آوازیں پہنچائی جارہی ہیں.اس وقت خطبہ بھی وہاں بیٹھ کر سن رہے ہیں.سات آٹھ زبانوں میں ان کو خطبہ کا ترجمہ بھی پہنچ رہا ہے.جہاں اس وقت مختلف قوموں کے لوگ بیٹھے ہیں، جہاں پاکستان سے آئے ہوئے اپنے حقوق سے محروم لوگ بھی بیٹھے ہیں.یہ سب لوگ اپنے آپ میں وہ ایمان اور اخلاص پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں، ایک جذبہ پیدا کریں جو اُن دو سولوگوں میں تھا جس کی مثال حضرت مصلح موعودؓ نے دی ہے.اسی طرح آسٹریلیا میں جیسا کہ میں نے کہا جلسہ ہورہا ہے.امریکہ کے ویسٹ کوسٹ کا جلسہ ہو رہا ہے.ہر جگہ اگر اس نیت سے آپ جمع ہوئے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پیغام کو دنیا تک پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنا ہے تو جس طرح وہ دو اڑھائی سولوگ اڑھائی سو گٹھلیاں یا پیج بن گئے تھے جن سے پھل دار درخت پیدا ہوئے اور قادیان کی وسعت اور میدان اور ان بزرگوں کی نسلیں اور امریکہ میں جماعت اور اس کی وسعت اور آسٹریلیا میں جماعت اور اس کی وسعت کے نظارے ہم دیکھ رہے ہیں.آسٹریلیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماشاء اللہ نئی نئی جگہیں خریدی جا رہی ہیں.ان کی خوبصورتی اگر بڑھانی ہے تو پھر اپنی ایمانی کیفیت میں اضافے سے بڑھا ئیں ورنہ صرف جلسہ کے لئے جمع ہونا کافی نہیں ہے.اگر ان دو اڑھائی سو بیجوں یا گٹھلیوں نے اپنے اثر دکھائے تو آج یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے ایمان میں بڑھیں اور پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ہمارا غلبہ ہے انشاء اللہ.اُس وقت تو ایک ارب کچھ کروڑ کی بات تھی آج دنیا کی آبادی سات ارب سے زیادہ ہے.سات ارب تیس کروڑ کہا جاتا ہے.اور ہماری تعدا د ابھی بھی دنیا کی آبادی کے مقابلے میں اور اپنے وسائل کے لحاظ سے بہت معمولی ہے.لیکن ہم نے کام وہی کرنے ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد نے کئے.پس اس بات کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.ہمارا مقصد بہت بڑا ہے اسے ہم نے حاصل کرنا ہے اور یہ تمام لوگ جو
خطبات مسرور جلد 13 763 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء قادیان میں جلسہ میں شامل ہوئے ہیں ان کو بھی یادرکھنا چاہئے کہ ان دنوں میں بہت دعائیں کریں.حضرت مصلح موعود اس بات کا ذکر فرماتے ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایسے نشان ہزاروں ہیں اور شہادتیں بے اندازہ ہیں جو اپنی خوبصورتی دکھاتی ہیں.ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ کا ایک الہام ہے کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِ فَجِ عَمِيقٍ اور يَأْتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجِ عَمِيقٍ.یعنی اور دُور دُور سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ڈور ڈور سے تیرے پاس تحائف لائے جائیں گے اور ایسے ایسے سامان کئے جائیں گے جن سے مہمان نوازی کی جائے اور اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ وہ راستے جائیں گے جن راستوں سے وہ آئیں گے.فرماتے ہیں کہ یہ نشان ایک عظیم الشان نشان ہے.اس عظیم الشان نشان کی کس وقت خدا تعالیٰ نے خبر دی تھی اس حالت کے دیکھنے والے اب بھی موجود ہیں.( جب یہ الہام ہوا اس وقت کیا حالت تھی اس کے دیکھنے والے اب بھی موجود ہیں.) کہتے ہیں میری عمر تو چھوٹی تھی لیکن وہ نظارہ اب بھی یاد ہے جہاں اب مدرسہ ہے وہاں ڈھاب ہوتی تھی اور میلے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ( یعنی گند اور روڑی کے ڈھیر تھے ) اور مدرسے کی جگہ لوگ دن کو نہیں جایا کرتے تھے کہ یہ آسیب زدہ جگہ ہے.اوّل تو کوئی وہاں جاتا نہیں تھا اور اگر کوئی جاتا بھی تھا تو اکیلا کوئی نہیں جاتا تھا بلکہ دو تین مل کر جاتے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہاں جانے سے جن چڑھ جاتا ہے.جن چڑھتا تھا یا نہیں.بہر حال یہ ویران جگہ تھی اور یہ ظاہر ہے کہ ویران جگہوں کے متعلق ہی لوگوں کا خیال ایسا ہوتا ہے کہ وہاں جانے سے جن چڑھ جاتا ہے.پھر یہ ( کہتے ہیں ) میرے تجربے سے تو باہر تھا لیکن بہت سے آدمی بیان کرتے ہیں کہ قادیان کی یہ حالت تھی کہ دو تین روپے کا آٹا بھی یہاں سے نہیں ملتا تھا.آخر یہ گاؤں تھا.زمیندارہ طرز کی یہاں رہائش تھی.اپنی اپنی ضرورت کے لئے لوگ خود ہی گندم پیس لیا کرتے تھے.کہتے ہیں یہ تو ہمیں بھی یاد ہے کہ ہمیں جب کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی آدمی کو لاہور یا امرتسر بھیج کر وہ چیز منگواتے تھے.پھر آدمیوں کا یہ حال تھا کہ کوئی ادھر آتا نہ تھا.برات وغیرہ پر کوئی مہمان اس گاؤں میں آ جائے تو آ جائے لیکن عام طور پر کوئی آتا جاتا نہ تھا.مجھے وہ دن بھی یاد ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا حضرت صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے.مجھے یاد ہے کہ برسات کا موسم تھا.ایک چھوٹے سے گڑھے میں پانی کھڑا تھا.میں پھلانگ نہ سکا تو مجھے خود اٹھا کر آگے کیا گیا.پھر بھی شیخ حامد علی صاحب اور
خطبات مسرور جلد 13 764 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء کبھی حضرت صاحب خود مجھے اٹھا لیتے.اس وقت نہ تو مہمان تھا اور نہ یہ مکان تھے.کوئی ترقی بی تھی مگر ایک رنگ میں یہ بھی ترقی کا زمانہ تھا.(اس زمانے میں ایسی ترقی کوئی نہیں تھی لیکن وہ بھی ترقی کا زمانہ تھا ) چونکہ اس وقت حافظ حامد علی صاحب آچکے تھے.اس سے بھی پہلے جبکہ قادیان میں کبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کوئی شخص نہ جانتا تھا خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ تیرے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور دُور دُور سے تحائف لائے جائیں گے.اس وقت کی حالت کا اندازہ لگاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے اس وعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اے وہ شخص جس کو کہ اس کے محلے کے لوگ بھی نہیں جانتے ، جس کو کہ اس کے شہر سے باہر دوسرے شہروں کے انسان نہیں جانتے ، جس کی گمنامی کی حالت سے لوگوں کو یہی خیال تھا کہ مرزا غلام قادر صاحب ہی اپنے باپ کے بیٹے ہیں (یعنی صرف ایک بیٹا ہے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تجھے یعنی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو ) میں تجھ جیسے شخص کو عزت دوں گا.دنیا میں مشہور کروں گا.عزت چل کر پاس آئے گی.(ماخوذ از خطبات محمودجلد 10 صفحہ 246-247) یہ غور کرنے والی بات ہے.حضرت مصلح موعوددؓ فرماتے ہیں کہ ) میں نے حضرت مسیح موعود سے خود سنا آپ فرماتے تھے کہ اگر غور کر کے دیکھا جائے تو کافر بھی رحمت ہوتے ہیں.اگر ابو جہل نہ ہوتا تو اتنا قرآن کہاں اترتا.اگر سارے حضرت ابو بکر ہی ہوتے تو صرف لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ ہی نازل ہوتا.(خطبات محمود جلد 10 صفحہ 299) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کو ہر چیز میں بھلائی نظر آتی ہے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت ہوئی تو اس وقت آپ کو نظر آ رہا تھا کہ اب عزت اور زیادہ بڑھے گی اور بڑھتی چلی جائے گی اور آج ہم بھی قادیان کے یہ نظارے دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بیس پچیں ملکوں سے وہاں لوگ پہنچے ہوئے ہیں اور نئی سے نئی عمارتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بن رہی ہیں.پھر جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی کے حوالے سے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود وہی آخری جلسے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں کل سات سو آدمی تھے.اب ایک ایک بلاک میں کئی کئی ہزار بیٹھا ہے.( جلسے کے وقت آپ فرما رہے ہیں کہ کئی کئی ہزار لوگ ایک بلاک میں بیٹھے ہیں لیکن اُس وقت کل سات سو آدمی تھے.) اس وقت
خطبات مسرور جلد 13 765 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء آپ علیہ السلام کی زندگی کا آخری سال تھا اور کل سات سو آدمی جلسے پر آیا اور انتظام اتنا خراب ہوا.گل سات سو آدمی مہمان تھا اور انتظام میں خرابی پیدا ہو گئی ) کہ ( بعضوں کو ) رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا.اور آپ کو الہام ہوا کہ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر.کہ اے نبی بھوکے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ.چنانچہ صبح معلوم ہوا کہ مہمان تین بجے رات تک لنگر خانے کے سامنے کھڑے رہے اور ان کو کھانا نہیں ملا.پھر آپ نے نئے سرے سے فرمایا کہ دیگیں چڑھاؤ اور ان کو کھانا کھلاؤ.تو دیکھو سات سو آدمیوں کی یہ حالت ہوئی مگر ان سات سو آدمیوں کا یہ حال تھا کہ جب آپ علیہ السلام سیر کے لئے نکلتے تو سات سو آدمی ساتھ تھا.ہجوم بہت تھا.آنے والے بیچاروں نے کبھی یہ نظارہ تو دیکھا نہ تھا.باہر تو دوسو آدمی بھی لوگوں کو کسی روحانی بزرگ کے گرد جا تا ہوا نظر نہ آتا تھا.میلوں میں بیشک جاتے ہوں گے لیکن روحانی نظاروں میں نہیں جاتے.(فرماتے ہیں کہ ) اس لئے ان کے لئے عجیب چیز تھی.یہ لوگ دھکے کھا رہے تھے.حضرت صاحب ایک قدم چلتے تو ٹھو کر کھا کر آپ کے پیر سے جوتی نکل جاتی.(لوگوں کا اثر دہام تھا ) پھر کوئی احمدی ٹھہرالیتا کہ حضور جوتی پہن لیجئے اور آپ علیہ السلام کے پیر میں جوتی ڈال دیتا.پھر آپ چلتے تو پھر کسی کا ٹھڈ الگتا اور جوتی پرے جا پڑتی.پھر وہ کہتا حضور ٹھہر جائیں جوتی پہنا دوں تو اس طرح ہو رہا تھا.اس وقت سیر پہ جاتے ہوئے یہ حالت تھی.لوگ ساتھ تھے.ایک زمیندار دوست نے ( جو مخلص احمدی تھا ) دوسرے زمیندار دوست سے جو احمدی تھا پنجابی میں کہا کہ ” اوٹوں مسیح موعود د ا دست پنجہ لے لیا.یعنی کیا تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کر لیا ہے؟ وہ کہنے لگا ”ایتھے دست پنجہ لین دا کیبر اویلا اے.نیڑے کوئی نئیں ہون دیندا.یعنی اتنے لوگ ہیں کہ نزدیک بھی کوئی نہیں آنے دیتا مصافحہ کرنے کا موقع ہی کوئی نہیں یہاں تو کوئی قریب بھی نہیں آنے دیتا.اس پر وہ جو عاشق زمیندار تھاوہ اس کو دیکھ کر کہنے لگا کہ تجھے یہ موقع پھر کب نصیب ہو گا.بیشک تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جا ئیں پھر بھی لوگوں کے درمیان میں سے گزر جا اور مصافحہ کر آ.تو کجاوہ وقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کجا یہ وقت ہے کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہزاروں لوگ ہیں.(ماخوذاز الفضل 17 مارچ 1957 صفحہ 4-3 جلد 46/11 نمبر 66)
خطبات مسرور جلد 13 766 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء پس ایک وقت میں سات سو آدمی کے کھانے کا انتظام بھی مشکل ہو گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود کھڑے ہو کر انتظام کروایا.مصافحہ کا کرنا مشکل سمجھا جاتا تھا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا یہ نظارہ ہے کہ مختلف قوموں کے ہزاروں لوگ قادیان میں جمع ہیں اور ان کے کھانے بھی پک رہے ہیں اور ان کے مزاج کے مطابق مہمان نوازی بھی ہورہی ہے اور باقی دنیا کے جلسوں میں بھی اسی طرح ہورہا ہے.پھر اس جلسہ کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اب بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے.جماعت بہت بڑھ گئی ہے.لگتا ہے اب ہمارا کام ختم ہو گیا.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری سال قادیان میں جلسہ سالانہ پر جتنے لوگ جمع ہوئے وہ مجھے یاد ہے.جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت بار بار فرماتے تھے کہ خدا نے ہمیں جس کام کے لئے دنیا میں بھیجا تھا وہ ہو گیا ہے اور اب اتنی بڑی جماعت پیدا ہوگئی ہے اور اتنی کثرت سے لوگ ایمان لے آئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد جو اس دنیا میں آنے کا تھا وہ پورا ہو گیا ہے.اب کجاوہ دن تھا کہ جلسہ سالانہ پر اس قدر اژدہام کو عظیم الشان اثر دہام سمجھا جاتا تھا اور کجا یہ وقت ہے ( حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں) کہ لاہور شہر میں ہی ہماری ایک جمعہ کی نماز میں اس کے قریب قریب آدمی جمع ہو جاتے ہیں بلکہ اب تو ہزاروں لوگ مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں.جیسا کہ میں پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں کہ ہزاروں لوگ یہاں لندن میں اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کی تائید کا ایک عظیم الشان نشان ہے اور جن جماعتوں کے ساتھ اس کی نصرت ہوتی ہے وہ اس طرح بڑھتی چلی جاتی ہے اور دشمن کی نگاہوں میں پھر کانٹوں کی طرح کھٹکنے بھی لگ جاتی ہیں.دشمن دشمنی میں بھی بڑھتے ہیں، حسد میں بڑھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر پورا ہوئے بغیر نہیں رہتی اور باوجود دشمنوں کی حاسدانہ نگاہوں کے وہ اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کو بڑھاتا چلا جاتا ہے اور اسے دنیا میں ترقی دیتا چلا جاتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیز اپنی ذات میں ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کا موجب ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 25 صفحہ 2) لیکن ساتھ ہی ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے.ہمیں ان مقاصد کی طرف توجہ دلاتی ہے جس کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.
خطبات مسرور جلد 13 767 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء اور پھر یہ دیکھیں کہ برصغیر ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں آج دنیا کے دوسو سے او پر ممالک میں جماعت بڑھ رہی ہے اور ترقی کر رہی ہے.حاسدوں کے حسد کے باوجود بھی اسی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے.یہ دشمنیاں پہلے تو ہندوستان یا پاکستان میں تھیں.انڈونیشیا کی دشمنی کا بھی ہم نے ذکر سنا تھا.اب دو دن پہلے قرغیزستان میں بھی ہمارے ایک مقامی قرغیز احمدی کو شہید کر دیا گیا.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.انشاء اللہ آج ان کا نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا.اسی طرح آج ابھی کچھ دیر پہلے بنگلہ دیش میں جمعہ ہو رہا تھا تو وہاں کے ایک شہر میں جمعہ کے وقت ہماری مسجد میں بھی ایک دھما کہ ہوا.غالباً خودکش دھما کہ ہی لگتا ہے.کچھ احمدی زخمی ہوئے ہیں.بہر حال ابھی مکمل رپورٹ آئے گی.اللہ تعالیٰ ان زخمیوں کو بھی محفوظ رکھے اور جان لیوا زخم نہ ہوں اور جلد ان سب کو صحت عطا فرمائے.بہر حال یہ حسد اور مخالفت احمدیت کی ترقی دیکھ کر بڑھتی چلی جارہی ہے اور دنیا میں پھیلتی چلی جارہی ہے اور یہ بڑھے گی.لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اس نے ہی غالب آنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.جماعت ترقی کر رہی ہے اور انشاء اللہ کرتی جائے گی.دد لنگر اٹھادو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے جو ذو معنی ہے.ہم اس کے کوئی خاص معنی نہیں کر سکتے اور نہ ہمیں پتا ہے کہ وہ کب اور کس طرح پورا ہوگا اور وہ الہام ہے کہ لنگر اٹھا دو.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس لنگر سے اگر کشتیوں والا لنگر مرا دلیا جائے ( یعنی کشتی میں جب لنگر ڈالا جاتا ہے پانی میں کھڑا کرنے کے لئے ) تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ باہر نکل جاؤ اور خدا تعالیٰ کے پیغام کو ہر جگہ پھیلاؤ.اور اگر لنگر سے ظاہری لنگر خانہ مرا دلیا جائے تو پھر اس کے یہ معنی ہوں گے کہ آنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب لنگر خانے کا انتظام نہیں کیا جاسکتا.اس لئے لنگر اٹھا دو اور لوگوں سے کہو کہ وہ اپنی رہائش اور خوراک کا خود انتظام کر لیں.ان دونوں مفہوم میں سے ہم کسی مفہوم کو بھی متعین نہیں کر سکتے اور نہ وقت متعین کر سکتے ہیں کہ کب ایسا واقعہ ہو گا.بہر حال جب تک مہمانوں کو ٹھہرانا انسانی طاقت میں ہے اس وقت تک ہمیں یہی ہدایت ہے کہ وَسِعَ مَكَانَگ کہ تم اپنے مکان بڑھاتے جاؤ اور مہمانوں کے لئے گنجائش نکالو.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 35 صفحہ 398-397)
خطبات مسرور جلد 13 768 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء پس اس کے لئے کم از کم قادیان میں اور جہاں جہاں دوسری جماعتیں بھی یہ کر سکتی ہیں وہاں رہائش کے لئے عارضی اور مستقل انتظام کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام وَسَعْ مَكَانَگ کے تحت قادیان میں اپنی مکانیت میں بھی اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی وسعت پیدا ہورہی ہے اور نئے نئے گیسٹ ہاؤس اور جگہیں بن گئی ہیں اور مہمانوں کو جس حد تک سہولت ہو سکتی ہے مہیا کی جاتی ہے لیکن بہر حال گھر والی سہولت تو نہیں.اس لئے مہمانوں کو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جتنی سہولت دی گئی ہے اس کے اندر رہتے ہوئے ہی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے جلسے پر آنے کا جو اصل مقصد ہے اس کو پورا کریں اور صرف مہمان نوازی یار ہائش کی سہولتوں کی طرف نہ دیکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اور الہام اور خواہش کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خواہش ظاہر فرمائی کہ جماعت کے وہ تمام دوست جن کا جلسے پر آنا ممکن ہو وہ جمع ہوا کریں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سننے یا سنانے میں شامل ہوا کریں جوان دنوں یہاں کیا جاتا ہے.کہتے ہیں کہ ابھی تک ہمارے ملک میں وسائل سفر اتنے آسان نہیں جتنے کے یورپ میں آسان ہیں اور ہندوستان کے باہر تو کئی ممالک میں ان وسائل میں اور بھی کمی ہے جیسے کہ افغانستان ہے یا ایران ہے یا ہندوستان کے باہر کے جزائر ہیں.پھر ابھی تک ہماری جماعت میں ایسے لوگ شامل نہیں جو مالدار ہوں.(اُس زمانے کا ذکر کر رہے ہیں.ابھی بھی بہت زیادہ مالدار تو نہیں لیکن بہر حال اچھے صاحب حیثیت لوگ شامل ہوتے جا رہے ہیں.جو دور دراز ممالک سے جبکہ ہوائی جہازوں کی آمدورفت نے سفر کو بہت حد تک آسان کر دیا ہے جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان پہنچ سکیں.لیکن اگر ایسے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوں.( یہ حضرت مصلح موعود اپنے زمانے کا ذکر کر رہے ہیں ) تو ان دُور دراز ممالک کے لوگوں کے لئے بھی جہاں ہر قسم کے وسائل سفر آسانی سے میسر آ سکتے ہیں یہاں پہنچنا کوئی مشکل نہیں رہتا اور زیادہ سے زیادہ ان کے لئے روپیہ کا سوال رہ جاتا ہے مگر ایسے لوگ ابھی ہماری جماعت میں بہت کم ہیں یا حقیقتا بالکل نہیں.آج جب ہم دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں سے لوگ وہاں قادیان پہنچتے ہیں.فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کا بیشتر حصہ اس وقت ہندوستان میں ہے (اور اب پاکستان اور ہندوستان ملا کے ) اور اس میں سے بھی زیادہ تر مردوں کی ایک تعداد ہے جو جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان
خطبات مسرور جلد 13 769 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء پہنچ سکتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ترقی کے شروع ہونے پر ست ہو جاتے ہیں.( یہ غور کرنے والی اصل چیز ہے.) اور سمجھتے ہیں کہ اب جماعت بہت ہو گئی.ایسے لوگوں کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کے لئے جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان پہنچناممکن ہے اگر یہاں آنے میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کا لازمی اثر اس کے ہمسایوں اور اس کی اولاد پر پڑے گا.میں نے دیکھا ہے کہ جو دوست سال بھر میں ایک دفعہ بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان آ جاتے ہیں اور اپنے اہل وعیال کو ہمراہ لاتے ہیں ان کی اولادوں میں احمدیت قائم رہتی ہے اور گوان بچوں کو احمدیت کی تعلیم سے ابھی واقفیت نہیں ہوتی مگر وہ اپنے والدین سے یہ ضرور کہتے رہتے ہیں کہ ابا ہمیں قادیان کی سیر کے لئے لے چلو.اس طرح بچپن میں ہی ان کے قلوب میں احمدیت گھر کرنا شروع کر دیتی ہے اور آخر بڑے ہوکر وہ اپنی احمدیت کا شاندار نمونہ پیش کرنے پر قادر ہو جاتے ہیں.پھر بچوں کے ذہن کے لحاظ سے بھی جلسہ سالانہ کا اجتماع ان پر بڑا اثر کرتا ہے.بچہ ہمیشہ غیر معمولی چیزوں اور ہجوم سے متاثر ہوتا ہے اور جلسہ سالانہ پر آ کر وہ نہ صرف ایک مذہبی مظاہرہ دیکھتا ہے بلکہ اپنی طبیعت کی جدت پسندی کے لحاظ سے بھی تسلی پاتا ہے اور یہ اجتماع اس کے لئے دلچسپ اور یا درکھنے والا نظارہ بن جاتا ہے.اب جو قادیان جا سکتے ہیں، afford کر سکتے ہیں، ان کو تو جانا چاہئے.لیکن جو اپنے ملکی جلسے ہیں ان میں بھی ضرور شامل ہونا چاہئے.) فرمایا کہ غرض جو باپ جلسے پر آتے ہیں وہ اپنی اولاد کے دل میں بھی یہاں آنے کی تحریک پیدا کر دیتے ہیں اور کبھی نہ کبھی ان کے بچے کا اصرار بچے کو جلسہ سالانہ پر لانے کا محرک ہو جاتا ہے جس کے بعد دوسرا قدم وہ اٹھتا ہے جس کا میں نے ذکر کیا.پس ان ایام میں قادیان آنا کسی ایسے بہانے یا عذر کی وجہ سے ترک کر دینا جسے توڑا جا سکتا ہو یا جس کا علاج کیا جا سکتا ہو صرف ایک حکم کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد پر بھی ظلم ہے.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو حکم ہے کہ جلسے پر آؤ.وہ صرف اس کی نافرمانی نہیں کر رہے بلکہ اپنی اولاد پر بھی ظلم کر رہے ہوں گے.ہندوستان کے احمدیوں کو خاص طور پر کوشش کر کے قادیان آنا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ ) حقیقت تو یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہماری جماعت میں ابھی مالدار لوگ داخل نہیں ہوئے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جلدی سے جانے کے لئے جو وسائل سفر ہیں وہ اتنا خرچ چاہتے ہیں کہ بیرونی ممالک کے احمدیوں کے لئے ان ایام میں قادیان پہنچنا مشکل ہے.لیکن اگر کسی زمانے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے مالدار ہماری
خطبات مسرور جلد 13 770 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء جماعت میں شامل ہو جائیں یا سفر کے جو اخراجات ہیں ان میں کچھ کمی ہو جائے اور ہر قسم کی سہولت لوگوں کو میسر آ جائے تو دنیا کے ہر گوشے سے لوگ اس موقع پر آئیں گے.آج سے ساٹھ سال پہلے بڑا مشکل لگ رہا تھا کہ دنیا کے غیر ممالک سے لوگ قادیان نہیں آ سکتے لیکن آج جب ہم اس حوالے سے دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے.بہر حال آپ کہتے ہیں کہ اگر کسی وقت امریکہ میں ہماری جماعت کے مالدار لوگ ہوں اور وہ آمدورفت کے لئے روپیہ خرچ کر سکیں تو حج کے علاوہ ان کے لئے یہ امر بھی ضروری ہوگا کہ وہ اپنی عمر میں ایک دو دفعہ قادیان بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر آئیں.یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ احمدی حج پر نہیں جاتے.اس کی جگہ قادیان چلے جاتے ہیں.تو حج کے علاوہ، حج پر جائیں جو جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ قادیان جانے کی کوشش کریں) کیونکہ قادیان میں علمی برکات میسر آتی ہیں اور مرکز کے فیوض سے لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں.( باوجود اس کے کہ اب وہاں خلافت نہیں ہے لیکن پھر بھی وہاں اس کی ایک روحانی حیثیت ہے جو وہاں جائیں تو جا کے احساس ہوتا ہے.) آپ فرماتے ہیں کہ میں تو یہ یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن آنے والا ہے جبکہ دور دراز ممالک کے لوگ یہاں آئیں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ ہوا میں تیر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کہ عیسی تو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے.( یہ آپ نے خواب دیکھی.) اس رؤیا کے ماتحت میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جس طرح قادیان کے جلسے پر کبھی یکے سڑکوں کو گھسا دیتے تھے اور پھر موٹریں چل چل کر سڑکوں میں گڑھے ڈال دیتی تھیں اور اب ریل سواریوں کو کھینچ کھینچ کر قادیان لاتی ہے.اسی طرح کسی زمانے میں جلسہ کے ایام میں تھوڑے تھوڑے وقفے پر یہ خبریں بھی ملا کریں گی کہ ابھی ابھی فلاں ملک سے اتنے ہوائی جہاز آئے ہیں.یہ باتیں دنیا کی نظروں میں عجیب ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں عجیب نہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب یہ نظارے ہم کثرت سے دیکھ رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا دنیا کے بیں چھپیں ممالک کے لوگ اس وقت ہوائی جہاز کے ذریعہ سے ہی وہاں قادیان جلسے پر گئے ہوئے ہیں اور بعض ایسے ملکوں کے مقامی لوگ ہیں جن کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ وہاں پہنچیں گے.اور یہ بھی بعید نہیں کہ کسی وقت چارٹرڈ فلائٹس چلا کریں اور قادیان کے جلسے میں لوگ شامل ہوا کریں.آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے دین کے لئے مکہ اور مدینہ کے بعد قادیان کو مرکز بنانا چاہتا
خطبات مسرور جلد 13 771 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء ہے.مکہ اور مدینہ وہ دو مقامات ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا تعلق ہے.آپ اسلام کے بانی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آقا اور استاد ہیں.اس لحاظ سے ان دونوں مقامات کو قادیان پر فضیلت حاصل ہے لیکن مکہ اور مدینہ کے بعد جس مقام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کا مرکز قرار دیا ہے وہ وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے اور جو اس وقت تبلیغ دین کا واحد مرکز ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل مکہ اور مدینہ جو کسی وقت بابرکت مقام ہونے کے علاوہ تبلیغی مرکز بھی تھے آج وہاں کے باشندے اس فرض کو بھلائے ہوئے ہیں لیکن یہ حالت ہمیشہ نہیں رہے گی.(انشاء اللہ.) مجھے یقین ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان علاقوں میں ( یعنی عرب ملکوں میں ) احمدیت کو قائم کرے گا تو پھر یہ مقدس مقامات ( مکہ اور مدینہ بھی ) اپنی اصل شان و شوکت کی طرف لوٹائے جائیں گے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحه 615 تا618 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 دسمبر 1937ء) ایک نصیحت ہے جو جلسہ پر شامل ہونے والوں کے لئے بڑی قابل غور ہے.قادیان میں لوگ بیٹھے سن رہے ہیں اور باقی جگہوں پر بھی سن رہے ہیں.آپ ( مصلح موعودؓ ) فرمارہے ہیں خدا تعالیٰ کے اس شکر کے بعد میں ان تمام دوستوں کو جو یہاں جمع ہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہر اس چیز کے ساتھ جو خوشی کا موجب ہوتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے اور جہاں پھول پائے جاتے ہیں وہاں خار بھی ہوتے ہیں.( کانٹے بھی ہوتے ہیں.اس طرح ترقی کے ساتھ حسد اور بغض اور اقبال کے ساتھ زوال لگا ہوا ہے.غرض ہر چیز جو اچھی اور اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اس کے حاصل کرنے کے راستے میں کچھ مخالف طاقتیں بھی ہوا کرتی ہیں.(جیسا کہ پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں.) اور اصل بات یہ ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک اس بات کا مستحق ہی نہیں کہ اسے کامیابی حاصل ہو جب تک وہ مصائب اور تکالیف کو برداشت نہ کرے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کو بھی کچھ نہ کچھ تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں.کبھی تو ان پر ایسے ایسے ابتلاء آتے ہیں کہ کمزور اور کچے ایمانوں والے لوگ مرتد ہو جاتے ہیں اور کبھی چھوٹی چھوٹی تکالیف پیش آتی ہیں مگر بعض کمزور ایمان والے ان سے بھی ٹھو کر کھا جاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے ( پہلے بھی ایک دفعہ میں اس بات کا ذکر کر چکا ہوں.) قادیان میں ایک دفعہ پشاور سے ایک مہمان آیا.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے اور مہمان آپ سے ملتے تھے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ نبیوں سے ان کے متبعین کو
خطبات مسرور جلد 13 772 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء خاص محبت اور اخلاص ہوتا ہے اور انہیں نبی کو دیکھ کر اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور وہ کسی اور بات کی پرواہ نہیں کرتے.جیسا کہ ہمارے مفتی محمد صادق صاحب کی ایک روایت ہے کہ جلسہ کے ایام میں ایک دفعہ جب حضرت صاحب باہر نکلے تو آپ کے گرد بہت سے لوگ جمع ہو گئے.ہجوم اکٹھا ہو گیا.اس ہجوم میں ایک شخص نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور وہاں سے باہر نکل کے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ تم نے مصافحہ کیا ہے یا نہیں؟ ( جو کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے.اتنی بھیٹر میں کہاں جگہ مل سکتی ہے.اس نے کہا جس طرح ہو سکے مصافحہ کرو خواہ تمہارے بدن کی ہڈی ہڈی کیوں نہ جدا ہو جائے.یہ موقعے روز روز نہیں ملا کرتے.چنانچہ وہ گیا اور مصافحہ کر آیا.غرض نبی کو دیکھ کر انسان کے دل میں ایک خاص قسم کا جوش موجزن ہوتا ہے اور وہ جوش اتنا وسیع ہوتا ہے کہ نبی کے خدمتگاروں کو دیکھ کر بھی اہل پڑتا ہے.فرماتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تو لوگ آپ کے قریب بیٹھنے کے لئے دوڑتے گو اس وقت تھوڑے ہی لوگ ہوتے تھے تاہم ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ میں سب سے قریب بیٹھوں.ایک شخص کے مقدر میں چونکہ ابتلاء تھا اس لئے اسے خیال نہ آیا کہ میں کس شخص کی مجلس میں آیا ہوں.یہ دوست پشاور سے آیا ہوا تھا.اس نے سنتیں پڑھنی شروع کر دیں اور اتنی لمبی کر دیں کہ پہلے تو کچھ عرصہ لوگ اس کا انتظار کرتے رہے مگر جب انتظار کرنے والوں نے دیکھا کہ دوسرے لوگ ہم سے آگے بڑھتے جاتے ہیں اور قریب کی جگہ حاصل کر رہے ہیں تو وہ بھی جلدی سے آگے بڑھ کر حضرت صاحب کے پاس جا بیٹھے مگر ان کے جلدی کے ساتھ گزرنے سے کسی کی کہنی اُسے لگی جو سنتیں پڑھ رہا تھا.اس پر وہ سخت ناراض ہو کر کہنے لگا کہ اچھا نبی اور مسیح موعود ہے کہ اس کی مجلس کے لوگ نماز پڑھنے والوں کوٹھوکریں مارتے ہیں.وہ اتنی بات پر مرتد ہو کر وہاں سے چلا گیا.گویا جو چیز ایمان کی ترقی کا باعث ہے اور ہوسکتی ہے وہ اس کے لئے ٹھوکر کا موجب بن گئی اور اس کی مثال اس جماعت کی سی ہوگئی جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب روشنی آئے تو ان کا نور جاتا رہتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 11 صفحہ 544-545 - خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 1919ء) حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ قادیان آنے والوں کو میں نصیحت کرتا ہوں، جلسے پر آنے والوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ کثرت ہجوم اور کام کرنے والوں کی قلت کی وجہ سے اگر آپ کو کوئی تکلیفیں پہنچیں تو پریشان نہ ہو جا ئیں ٹھو کر نہ کھا جائیں.اس نصیحت کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.چاہے یہاں جلسہ ہو یا کہیں اور ہور ہے ہوں.
خطبات مسرور جلد 13 773 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء بہر حال مہمان نوازی کرنے والے اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہر طرح مہمان نوازی کی جائے لیکن پھر بھی کمیاں رہ جاتی ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا کہ آج بھی قادیان آنے والے یا کہیں بھی جلسے پر جانے والے یا درکھیں کہ انتظامی لحاظ سے بعض تکلیفیں اگر پہنچیں تو خوشی سے برداشت کر لیں اور اس کو اپنے ایمان کی ٹھوکر کا باعث نہ بنائیں.اللہ تعالیٰ قادیان کے جلسہ کے بھی اور باقی جلسوں کے بھی یہ تمام نا اپنے فضلوں اور برکتوں سے گزارے اور ان کا اختتام فرمائے اور ہر جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کو سمیٹنے والا ہو اور سب شاملین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بھی بنیں اور خود بھی ان دنوں میں بہت دعائیں کریں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ روس میں قرغیزستان میں جو پہلے روس کی ریاست تھی وہاں ایک ہمارے احمدی کو شہید کر دیا گیا ہے جن کا نام یونس عبدل جلیلوف ہے.22 دسمبر کو 8:05 منٹ پر قرغیزستان کے مغرب میں واقع گاؤں ہے کاشغر کشتاک یہاں دو افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں موصوف شہید ہو گئے.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اپنے گھر کے باہر یونس صاحب ایک ہمسائے کے ساتھ کھڑے تھے کہ دو افراد کار میں آئے اور انہوں نے یونس صاحب پر گولیاں چلانی شروع کر دیں.بارہ گولیاں چلائیں جن میں سے سات گولیاں یونس صاحب کے جسم سے آر پار ہو گئیں.دو گولیاں جسم میں رہ گئیں.حملہ آوروں نے یونس صاحب کے ساتھ کھڑے ان کے ہمسائے پر فائرنگ نہیں کی.صرف یونس صاحب کو نشانہ بنا کر بھاگ گئے.بہر حال ان کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہاں ان کی وفات ہوگئی.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کے والد اور بھائی غیر احمدی ہیں.ان کے رشتہ داروں نے اپنے کسی جاننے والے مولوی سے ہی جنازہ پڑھایا.اس وقت احمدی پہنچ نہیں سکے تھے.اس (مولوی) نے یہ بھی کہا کہ یہ موت نہایت ظالمانہ طریق پر ہوئی ہے.ہم سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس طرح کسی بندے کو قتل کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے.بعد میں احمدی پہنچے تو نماز جنازہ غائب وہاں پر ان کے گھر میں ہی ادا کی گئی.کیونکہ کچھ نہ کچھ مخالفت تو تھی.اس لئے یہ بھی خطرہ تھا کہ ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے مولوی شور مچائیں گے اور قبرستان میں تدفین نہیں ہونے دیں گے.لیکن اللہ کے فضل سے امن و امان سے تدفین بھی ہو گئی.اب وہاں کی جو کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ ہے وہ پولیس اہلکار آئے اور جماعت کے بعض افراد کو اپنے دفتر لے گئے.وہاں ان کو مکمل طور بر معلومات دی گئیں.جماعت احمدیہ مسلمہ کے بارے میں بتایا گیا.یہ سن کے وہ لوگ بہت حیران
خطبات مسرور جلد 13 774 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء ہوئے.کہنے لگے کہ ہم نے تو آپ لوگوں کے بارے میں کچھ اور ہی سن رکھا ہے.انہوں نے وعدہ کیا کہ جو کچھ ہو سکا ہم انشاء اللہ اس حقیقت کو سامنے لانے کے لئے کریں گے اور پھر پولیس نے کوشش بھی کی اور بعد میں کچھ دیر کے بعد دو قاتلوں کو انہوں نے پکڑ بھی لیا اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ اس کے بھی ڈانڈے سیر یا کے لوگوں سے جا کے ملتے ہیں.انہوں نے بتایا کہ ایک آدمی جو یہاں سے سیر یا گیا ہوا ہے وہ وہاں سے آیا تھا اس نے بتایا کہ وہاں چار احمدی افراد ہیں جن کو تم نے قتل کرنا ہے.پہلے ایک احمدی پر ایک حملہ ہوا تھا.چاقوؤں سے اس پر وار کئے گئے تھے اور سلاخوں سے مارا گیا.ان کی ہڈیاں بھی ٹوٹیں.زخمی بھی ہوئے.تقریباً مردہ چھوڑ کر چلے گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.یہ دو تین مہینے یا چھ مہینے پہلے کی بات ہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت دی اور اب وہ ٹھیک ہیں لیکن یہاں ان کو شہید کرنے پر کامیاب ہو گئے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے.بہر حال پولیس اور بھی پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے.اللہ کرے کہ سارے اپنے کیفر کردار تک پہنچیں.مقامی احمدیوں کا جور د عمل ہے انہوں نے لکھ کر بھیجا ہے کہ یونس صاحب کے اس طرح ظالمانہ طور پر قتل کئے جانے پر کاشغر کشتاک جماعت کے افراد غمگین بھی ہیں لیکن انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں ہے.ہم اس شہادت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے پیغام کو پھیلاتے چلے جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مضبوط ایمان کے لوگ ہیں.یونس عبدل جلیلوف (Yunusjan Abdujalilov) صاحب 1978ء میں پیدا ہوئے تھے.2008ء میں انہوں نے بیعت کی تھی اور ابتدائی احمدیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے.ان کے رشتہ داروں کی طرف سے بڑی مخالفت بھی ہوئی لیکن یہ عہد بیعت پر قائم رہے.کہتے ہیں بیعت کے بعد ان میں بڑی غیر معمولی روحانی تبدیلی آئی.ہر وقت دینی علوم کی تلاش میں رہتے تھے.اس حوالے سے مبلغین کے ساتھ بھی ہر وقت رابطے میں رہتے تھے اور جب بھی دین کی کوئی نئی بات سیکھتے تو بہت خوش ہوتے.پنجوقتہ نماز با جماعت کے پابند تھے.شہادت کے وقت اپنی جماعت کے جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمت کر رہے تھے.جماعت کے بڑے ایکٹو (active) ممبر تھے.اپنے پیچھے انہوں نے اہلیہ، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا سوگوار چھوڑے ہیں.بڑی بیٹی 9 سال کی.دوسری بیٹی چھ سال کی.تیسری تین سال کی اور سب سے چھوٹا بیٹا تین ماہ کا ہے.
خطبات مسرور جلد 13 775 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 دسمبر 2015ء ہمارے مبلغ جو وہاں رہ چکے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ یونس صاحب اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے.پھر بعد میں آپ کی اہلیہ نے بھی بیعت کر لی تھی.بہت ہی پیارے اور فدائی احمدی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت سے عشق کا تعلق تھا.ہمیشہ مسکراتے رہتے.بہت خوش مزاج ملنسار تھے.دین سیکھنے اور تبلیغ کرنے کا بے حد شوق تھا.ان کی نمازوں میں خشوع وخضوع ہوتا تھا.قرغیزستان جماعت کی ترقی کے بارے میں اکثر سوچتے رہتے اور اس کے لئے بہت دعائیں بھی کرتے تھے.جماعتی نمائندگان اور مبلغین کا بہت احترام کرتے تھے اور سب سے ان کا انتہائی پیار اور محبت کا سلوک تھا.بعض مبلغین پر جب قانونی مجبوریاں ہوئیں اور جانا پڑا تو یہ بڑے دکھی تھے کہ مبلغین کو ملک چھوڑنا پڑا.پہلے رشیا تھا اب قرغیزستان تو رشیا کی زمین میں اسلام اور احمدیت کی راہ میں اپنا خون پیش کرنے والے یہ پہلے شہید ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کے خون کا ہر قطرہ بے شمار نیک فطرت اور سعید روحوں کو جماعت میں شامل کرنے کا باعث بنے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کی اولاد کا بھی حافظ و ناصر ہو اور ان کے ایمان اور یقین میں ترقی دیتا چلا جائے.جیسا کہ میں نے کہا ہے ابھی نماز کے بعد ان کا نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا انشاء اللہ.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 15 جنوری 2016 ء تا 21 جنوری 2016 ، جلد 23 شماره 03 صفحه 05-09)
انڈیکس 1 3 6 67 96 103 اشاریہ خطبات مسرور جلد 13 آیات قرآنیہ احادیث نبویہ مال لا السلام مضامین اسماء..مقامات کتابیات
خطبات مسرور جلد 13 1 آیات قرآنیہ الفاتحة بِسْمِ اللهِ الرَّحمن....(81) البقرة يأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ (22) آیات قرآنیہ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا...(59) 615 فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا (87) 394 المائدة وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (68) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَى....( 156-157) 583577 رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ (120) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (184) 370 الانعام وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ (187) وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا..(154) 369 ، 370، 379، 578 | قُلْ إِنَّ صَلَاتِي....( 163-164) ربنا اتنا فِي الدُّنْيَا (202) 588 لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ....(256) 267 268 لا إِكْرَاةَ في الدِّينِ (257) لا يُكلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (287) آل عمران 732.731 72069 744 49 535 309 745,744 744 الاعراف إِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ (57) 407 عَذَابِى أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاء (157) 406 407 يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (199) 745 | أَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ (200 ) فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ (21) قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ الله..(32) 753،745،306 يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى ( 56 ) وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوك (56) لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا...(93) الانفال 751 402 168 إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ الله (3) 415 126 655.652-648 ما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ (18).377.376 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ (28) 396 التوبة وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ (105) 75 الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَاء..( 135 ) 400 ، 403 التَّائِبُونَ الْعَبدُونَ الحَمدُونَ...(112) 686684 وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا (140) النساء 759 عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ (128).......یونس 386 ، 388 تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ (11) وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا...(37) 496 362
خطبات مسرور جلد 13 2 وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَأَمَن مَنْ فِي الْأَرْضِ (100) 731 ابراهیم لئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (8) الحجر.انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (10) الكهف 509 728.727 الذريت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ...(57) النجم انڈیکس آیات قرآنیہ 684.396 دَى فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ آدنی (10) الرحمن اللولو وَالْمَرْجَانُ (23) ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (105) 263 وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتُنِ (47) الحج الحشر 678 وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ....(10) الَّذِينَ إِن مَّكَّتُهُمْ فِي الْأَرْضِ....(42) المؤمنون قَد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (3-2) النور 238-229 751 536 413 401 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله (20-19) 155تا165 الجمعة وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (4) 728،330 يَعْبُدُونَنى لا يُشْرِكُونَ في شَيْئًا (56) 337 338 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوة (11-10) 418...الفرقان وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِينَ.(64) وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ..(58) القصص العنكبوت 736.380 وَاللهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (12) التغابن يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ (2) 734 فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمُ...( 17 18) الطلاق 47 595 - مَن يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (4-3) وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا..(70) الاحزاب القلم (5) 753.43,4036 إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ إِنَّ اللهَ وَمَليكته.(57) الزمر الفجر 207 فَادْخُلِي فِي عِبْدِ...( 31-30) اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَه......(37) المؤمن ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (61) وَأُمِرْتُ أن أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (67) الزخرف وَقِيلِهِ يُرَبِّ إِنَّ هَؤُلاء...(90-89 ) الحجرت الصحى 578 أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيثُ (11) 745 735 سورة الانشراح فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبَ وَإِلى رَبِّكَ فَارْعَبْ (89) اخلاص قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ (2) 313 533,532 20 384 304 381 354 98 537 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا..(13) 314
خطبات مسرور جلد 13 3 احادیث نبویہ صلی ال ال وتم الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ الدِّينُ يُسْرْ آنَا سَيَدُولْدِادَم أَيُّهَا الْمُصَلَّى ادْعُ تُجَبْ فُرْتَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم احادیث احادیث نبو یه سالی ملا که تنم 259.258 وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقْ وَلِجَارِكَ عَلَيْكَ حَقُ 169 382 42.41 276 304 261 کام اگر اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ بے برکت اور بے اثر ہوتا ہے 10 جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا 10 11 مومن کے سارے کام برکت ہی برکت ہیں جو شخص دین کے معاملے میں کوئی ایسی رسم پیدا کرتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے 11 قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو اُن میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا 41 قیامت کے دن اس کے خطرات سے تم میں سب سے زیادہ محفوظ احادیث المعنی وہ ہوگا جو دنیا میں سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا 41 آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو آپ کا ایک جلد نماز ادا کرنے والے کو درست طریق بتلانا 42،41 اذان کے وقت اذان کے الفاظ دہرانے اور بعد ازاں درود 4 دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے گالی گلوچ کرنا فسق ہے سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے نبی کریم پر درود شریف کے متعلق حدیث میں بَارِک عَلَی ایک ہاتھ زمین دبالے 5 پڑھنے کی فضیلت بیان فرمانا اور شفاعت کا ذکر 6 مُحَمَّدٍ وَ عَلى آل محمد کے الفاظ آئے ہیں 42 50 اس شخص سے بھی خیانت سے پیش نہ آؤ جو تم سے خیانت سے آپ کا ایک شخص کو اسلام کے بنیادی ارکان کی بابت تفصیل بیان پیش آچکا ہے 6 کرنا...72 تہجد کا التزام کرناچاہیے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریق رہا ہے 8 حضرت عمر کا گمان کہ آج میں حضرت ابو بکر پر سبقت لے جاؤں گا جس شخص نے آپ پر درود پڑھا اللہ تعالی اس پر دس گنا حمتیں لیکن وہ سارے گھر کا سامان لے آئے نازل فرمائے گا 73.72 و خیر کی ترغیب دلانے والا ثواب کا ویسا ہی مستحق ہوتا ہے جیسا کہ جو شخص استغفارکو چمٹا رہتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی نیکی کرنے والا سے نکلنے کی راہ بنادیتا ہے 9 ہر طبقے کو سلام کو رواج دینا چاہئے 79 86
4 خطبات مسرور جلد 13 انڈیکس احادیث نبو یہ ملایا یہ تم ایسی چھتیں جن کی منڈیر نہ ہو ان پر سونے کی مناہی 138 نہیں ہوتا جسے جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے 372 آپ کا راتوں کو اٹھ کر خدا کے حضور گر یا وزاری کرنا اور حضرت عائشہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے 162 میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں..کا استفسار 372 381 انسان کے خون میں شیطان ہے.میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے 162 رمضان میں دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور آپ کی ( سورج گرہن ) کے موقع پر خاص طور پر دعاؤں، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں استغفار، صدقہ خیرات اور نماز پڑھنے کی ہدایت 181 اس حد تک انکساری اختیار کرو کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے 382 احادیث میں اللہ تعالی کے خاص نشانوں میں سے ایک نشان کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ہے اور نہ بجھی کوعربی پر ہے 382 سورج اور چاند گرہن کو قرار دیا گیا ہے 181 مجھے موسیٰ پر فوقیت نہ دو.....حضرت اسماء کی سورج گرہن میں لمبی نماز اور وعظ کی بابت جس نے میرے لئے اس طرح عاجزی اختیار کی..182 183 آپ مغریبوں مسکینوں کی مدد کے لئے رمضان میں خاص طور پر روایت 382 383 386 گرہن اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اس کا کسی اپنے ہاتھوں کو اس قدر کھولتے تھے کہ...تیز آندھی سے بھی 183 | بڑھ جاتے کی زندگی اور موت سے کوئی تعلق نہیں ہے میں بھی جنت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جاؤں گا 237 میں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں جب اذن ہوگا اسی کی سفارش ہوگی تم میں نبوت قائم رہے گی...وہ ایمان شریا سے زمین پر لے کر آئے گا آپ کا صیح و مہدی کو سلام پہنچانا 268 329 330 330 گے جس طرح دوانگلیاں اکٹھی ہیں 388 جبرئیل آپ کو خاص طور پر رمضان میں قرآن کریم کا دور کرواتے تھے 393 کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر ، صدق اور کذب، امانت اور خیانت اکٹھے نہیں ہو سکتے ہیں 397 ایک صحابیہ کا عبادت کیلئے رہنی چھت سے لٹکانا 346 347 مومن میں جھوٹ اور خیانت کے علاوہ بری عادتیں ہو سکتی ہیں مؤاخات مدینہ...صحابہ نے شکریہ کہہ کر یہ کہا کہ یہ تمہاری چیز لیکن ایک مومن میں جھوٹ اور خیانت نہیں ہو سکتی تمہیں مبارک ہوں ہمیں بازار کا رستہ بتادو 347 397 تین باتوں کے بارے میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا 397 398 جمعہ میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں مومن اپنے رب کے اگر تم اپنے بھائیوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو یہ بھی خیانت ہے 398 حضور جو دعا کرے وہ قبول کی جاتی ہے رمضان کے دنوں میں نہ بیہودہ باتیں ہوں.....428.368 368 ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان بھی محفوظ رہیں 398 جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت یہ کی اللہ تعالیٰ بندے کی تو بہ پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنا خوش وہ شخص بھی کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے.399
خطبات مسرور جلد 13 5 جس نے بغیر رشد کے مشورہ دیا تو اس نے اس سے خیانت کی 399 جاتا ہے احادیث نبویہ صلی المال وتم 494.425 آپ نے اپنی بیٹی کے قاتل کو بھی معاف فرما دیا 401 آپ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جب ایک شخص نے حضرت ابوبکر کو آپ کی موجودگی میں برا بھلا کہنا قبولیت دعا ہوتی ہے 494.428 شروع کر دیا.....آپ نے کبھی بھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والی کسی دیکھ کر عرض کرنا کہ ان خوبیوں کے حامل کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کر 401 حضرت خدیجہ کا آپ کی پہلی وحی کے بعد آپ کی گھبراہٹ 402 سکتا 480 زیادتی کا انتقام نہیں لیا آپ کے ایک ارشاد کے مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ایک صحابی کا بیان کہ آپ ہمیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے مغفرت کے عشروں میں سے گزرتے ہوئے جہنم سے نجات گئے.اور تھوڑا سا مشروب اور کھانا آپ کی برکت سے متعدد کے دلانے والے عشرہ میں سے گزر رہے ہیں 405 لئے کافی ہو گیا 480 محسن وہ ہے جو ہر نیک کام کرتے ہوئے یہ دیکھے کہ وہ خدا تعالیٰ کو ایک صحابی کا مہمان کے لئے اپنے بچوں کو بہلا پھسلا کر بھوکا دیکھ رہا ہے 408 412 سلانا اور خود بھی بھوکے رہنا 482 جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات آخری عشرہ جہنم سے بچانے کا عشرہ ہے جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے کہے یا خاموش رہے....482 آپ کا مہمانوں سے مہمان نوازی کی بابت دریافت فرمانا کہ رمضان کے روزے رکھے، اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے کیسی مہمان نوازی ہوئی...جائیں گے 415 جمعہ کے دن مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں.421 جس نے جان بوجھ کر تین جمعے چھوڑ دیئے اللہ تعالیٰ اس کے دل 421 482 جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا 509 آپ کی اطاعت خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا اور اس کی رضا حاصل کرنے والا بناتی ہے 599 حضرت ابوطلحہ انصاری کا بیر وحاء کو خدا کی راہ میں دینا 650 پر مہر کر دیتا ہے جمعہ کے دن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عید بنایا ہے 421 مؤمن سجدہ کی حالت میں خدا تعالیٰ کے قریب ترین ہوتا ہے 685 ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا فرض ہے سوائے چار حضرت عائشہ کو نرم آٹے کی روٹی ملی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے 422 کہ آپ کے زمانے میں یہ نہیں ملتا تھا اور آپ موٹے پسے ہوئے افراد کے،غلام ،عورت، بچہ اور مریض پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعے تک اور رمضان اگلے رمضان تک آٹے کی روٹی کھایا کرتے تھے 721 ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جیتک کہ انسان بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے 423 دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا
خطبات مسرور جلد 13 مضامین مضامین اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے غیروں کو ا آ بھی نشان دکھاتا ہے اللہ تعالیٰ 245 حضور کا فرمانا کہ میری صداقت کے خدا تعالٰی نے لاکھوں 251 اللہ تعالیٰ کے احکامات سے باہر نکلنا فسق ہے 5 نشانات دکھائے ہیں خدا کے احسانوں کو یا درکھیں اور اس کی حمد کرنے کی ضرورت 9 اسلام کی خوبصورت تعلیم اور زندہ مذہب ہونے کے باوجودلوگوں 10 کا مذہب اور خدا سے انکار اور اس کی وجہ ہر حالت میں خدا کا وفادار رہنا ہے کام اگر اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ بے برکت خدا اور مذہب کی بابت فلاسفروں کے خیالات اور بے اثر ہوتا ہے 255 261 10 اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ضمن میں ایک تاجر اور قاضی کی مثال 264 خدا کی خاطر کسی دکھ اور ذلت کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے 11 حضرت مسیح موعود کا ایک بیمار کی شفاعت کرنا اور اللہ تعالی کا آپ اللہ اور اس کے رسول کے ہر فرمان کو مشعل راہ بنائیں 12 | حسن سلوک فرمانا اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمیشہ ہمدردی کرنے کا عہد 13 لیکھرام کا نشان ، خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک اظہار 268 270 مالی قربانی کرنے والوں کی عظمت خدا تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا، پیار سب ترقیوں کا راز خدا تعالیٰ کے گھروں کو آباد کرنے اور اس سے 21 تعلق جوڑنے سے ہے 289 289 کی نظر سے دیکھتا ہے حضور انور کا فرمانا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخراجات کی فکر جماعت کی ہر طرح کی ترقی کا خدا تعالیٰ کا وعدہ نہیں کہ وہ کس طرح پورے ہوں گے...انبیاء سے استہزاء کرنے والوں سے اعراض کی تعلیم ، معاملہ خدا ہونا چاہئے اور نہ اس کی ضرورت ہے ،انی مع الافواج اتیک 32 جماعت کی مخالفت کے حالات کیسے بھی ہوں ہمیں مایوس نہیں 38 بغتة، خدا کی مددا چانک آئے گی 290 پر چھوڑ دینا چاہئے اللہ کا کوئی حکم بھی انسانی طاقت سے باہر نہیں ہوتا 69 حضرت مصلح موعود کا فرمانا کہ " خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری اللہ تعالیٰ واحد بھی ہے اور احد بھی ، اس کی تشریح 180 مدد کے لئے فرشتے نازل کئے " باوجود تمام تر مخالفتوں کے یہ سلسلہ اللہ کے فضل سے بڑھتا چلا حضرت مسیح موعود پر حملہ خدا پر حملہ ہے...جائے گا 315 316 214 حضرت مصلح موعود اور خاندان حضرت اقدس کی بابت خدا تعالیٰ 316 جماعت میں ہونے والی شہادتوں کے بدلہ میں خدا کے فضل اور کی خوشخبری کہ ان کی قبریں بھی چاندی کی ہوں گی 224 لنگر کے خرچ کے لئے حضرت مسیح موعود کی فکر اور اہتمام اور خدا تائید و نصرت
خطبات مسرور جلد 13 7 مضامین کے فضل سے اب ایک احمدی لنگر خانے کا سارا خرچ دے سحری کے اوقات کے بارہ میں ایک شخص کا اپنا نظریہ کہ وقت کی 319 | خاص قید نہیں) اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی 473 سکتا ہے...حضرت مصلح موعود کی ایک جماعتی کارکن کو نصیحت کہ خدا سے خدا تعالیٰ کے ملنے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کا فرمان 475 مانگیں بجائے اس کے کہ انجمن پر کسی کی نظر ہو 321 حضرت خدیجہ کا آپ کی پہلی وحی کے بعد آپ کی گھبراہٹ احمدیوں پر خدا تعالیٰ کے فضل اور شکر گزار بنتے ہوئے ہمارے دیکھ کر عرض کرنا کہ ان خوبیوں کے حامل کو خدا تعالی ضائع نہیں کر فرائض...330 سکتا 480 خدا تعالیٰ کا مسیح موعود کے ساتھ خلافت کے نظام کا وعدہ اور ہماری جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات ذمہ داری 331 کہے یا خاموش رہے....482 غلط کام کرنے والے احمدی خود بھی اللہ کے فضلوں سے محروم اور جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالی کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا 509 338 خدا تعالیٰ کی خشیت اور خوف دنیا کی چیزوں سے بے پرواہ کر دیتا 527 532 دوسروں کی دوری کا باعث بن رہے ہیں خلیفہ وقت کے دورہ جات اور سفروں میں افضال الہی اور خدا ہے لیکن وہ دنیا کی نعمتوں سے محروم نہیں رہتا تعالیٰ کی تائید ونصرت اور غیر معمولی انقلابات کا ذکر 354 تا 367 مسیح موعود کا نمونہ کہ اللہ کی نعمتوں کو جب استعمال کریں تو اس کا اللہ تعالیٰ بندے کی تو بہ پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنا خوش وہ شخص بھی شکر کریں نہیں ہوتا جسے جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے 372 حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک شخص کا کہنا کہ مجھے بھی خدا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے کہتا ہے کہ میں ابراہیم ہوں، نوح ہوں..آپ کا جواب 537 372 خلافت احمدیہ کے قیام کی خوشخبری اور اللہ تعالیٰ کی فعلی 538 میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں...ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے شہادت....کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف نظر رکھنے کی ضرورت اللہ تعالیٰ کا لوگوں کی توجہ جماعت کی طرف پھیرنے کے کچھ ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اقسام 379 واقعات 547 405 حضرت مسیح موعود کی ایک تڑپ اور شوق، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی 567 آپ کے ایک ارشاد کے مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور طرف توجہ دینا اور نمازیں پڑھنا مغفرت کے عشروں میں سے گزرتے ہوئے جہنم سے نجات ہمارے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ خدا تعالیٰ کیوں بڑے دلانے والے عشرہ میں سے گزر رہے ہیں 405 ابتلاؤں اور نقصانات سے ہمیں گزارتا ہے اللہ کی رحمت محسن کے لئے ، دعائیں قبول کروانے کے لئے محسن بیت الفتوح کی آتشزدگی اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت 587 408 نظام خلافت کا قیام اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ، خلافت کے نظام بننا ضروری ہے 580 597 اللہ کا فضل ہمیشہ جماعت کے شامل حال رہا ہے اس فضل کو دائی نے بھی اسی کام کو آگے بڑھانا ہے کرنے کے لئے دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے 436 آپ کی اطاعت خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا اور اس کی رضا
خطبات مسرور جلد 13 حاصل کرنے والا بناتی ہے 8 مضامین 599 جماعت احمدیہ کے کام اس آگ کے وقت بھی نہیں رکے ، راہ خدا کا نشان که مخالفین کا زور لگانے کے باوجود نا کام ہونا 604 ھدی کا لائیو پروگرام ہونا 585 احمدی ہو نا خدا تعالی کا بہت بڑا احسان، ان بزرگوں کے لئے دعا بیت الفتوح کی آتشزدگی ، اگر یہ واقعہ بھی آزمائش ہے تو ہمیں یہ کرنی چاہئے جنہوں نے احمدیت کو اپنی نسلوں میں جاری عہد کرنا چاہئے کہ خدا کے حضور جھکتے ہوئے دعائیں کرتے 612 ہوئے آزمائش سے بھی کامیاب گزریں گے ،انشاء اللہ اس رکھا....ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امت کو علماء سوء اور غلط نقصان کی بہتر رنگ میں تلافی ہوگی 586 لیڈروں سے بچائے خدا تعالیٰ کے لئے حضرت مسیح موعود کی غیرت کا ذکر 644 بیت الفتوح کی آتشزدگی اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت 587 تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں پاکستان میں جماعت کے خلاف ایک ظالمانہ سلوک چپ بورڈ اخلاص و وفا کرنے والوں کے تذکرے 660651 | فیکٹری میں مخالفین کی آتشزدگی خلیفہ اول کے نام پر فساد پیدا کرنے والے لوگ اللہ ان کو معقل دنیا کے بگڑتے ہوئے حالات میں ایک احمدی کے لئے حضرت 677 مسیح موعود کا یہ پیغام "آگ ہے پر آگ سے..." 737 637 | بیت الفتوح کی آگ ، لوگوں کا بغیر کہے از خودرقوم بھیجنا 587 دے حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد بندے کو خدا سے جوڑنا ، ایک آخرت دوسرے کے حق ادا کرنا 707 682 صبر نہ کرنے والے ، جزع فزع کرنے والے دنیا کی بھی مصیبت 273 مومن سجدہ کی حالت میں خدا تعالیٰ کے قریب ترین ہوتا ہے 685 اٹھاتے ہیں اور آخرت کی بھی جاپان میں مسجد کی تعمیر میں مشکلات اور اللہ تعالیٰ کا فضل، غیر جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات 692 کہے یا خاموش رہے....معمولی تائید و نصرت جاپان میں پاکستانی مولوی کا جانا ، اللہ ان کے شر ان پر آریہ الٹائے...آبادی 482 703 منکرین خلافت کا قادیان سے جاتے ہوئے تعلیم الاسلام سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہنا کہ دس سال نہیں گزریں قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک پھیل جائے گی ، رؤیا اور گے کہ ان عمارتوں پر آریہ اور عیسائیوں کا قبضہ ہوگا لیکن خدا کے اس کی تفصیل آتشزدگی/ آگ 284 حیرت انگیز فضل اور تائید و نصرت کے نظارے 334 محمد حسین بٹالوی کے ایک بیٹے کا آریہ ہونا اور حضرت مصلح موعود آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو کے اس کو دوبارہ مسلمان کرنے پر محمد حسین کا شکریہ کا خط 435 دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے ابراہیم کو آگ سے محفوظ رکھا 4 آزادی رائے 140 | آزادی رائے کی بھی ایک حد ہونی چاہئے 39 بیت الفتوح میں ہولناک آتشزدگی اور حضور انور کی آزادی رائے اور فرانس کے ایک اخبار پر حملہ کے بعد جماعت کا رہنمائی......582 تا 588 مؤقف اور میڈیا میں وسیع پیمانے پر کوریج 39
خطبات مسرور جلد 13 آزمائش 9 مضامین ہر سال خلیفہ وقت کے و ہر سال خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کے ذریعہ ہر احمدی کا عہد بیت الفتوح کی آتشزدگی ، اگر یہ واقعہ بھی آزمائش ہے تو ہمیں یہ کرنا...1 عہد کرنا چاہئے کہ خدا کے حضور جھکتے ہوئے دعائیں کرتے ہوئے شادی بیاہ کے غلط رسوم و رواج سے احمدیوں کو بچنا چاہئے 11 آزمائش سے بھی کامیاب گزریں گے، انشاء اللہ اس نقصان کی بہتر ایک احمدی سے توقع "جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں رنگ میں تلافی ہوگی ابتلاء 586 سے..." 11 پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک 35 ایک احمدی سے توقع " جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے درود شریف کو کثرت سے پڑھنا آج ہر احمدی کے لئے ضروری نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں سے..." 11 ہے..45 ہمارے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ خدا تعالیٰ کیوں بڑے دوسری جنگ عظیم میں ایک جرات مند احمدی کی یورپ کو تبلیغ 52 580 یورپ میں حکومت سے فائدہ اٹھانے ،اسائلم ،انشورنس سے ابتلاؤں اور نقصانات سے ہمیں گزارتا ہے مومن پر ابتلاء اور مشکلات کا آنا اور اس کی اہمیت و برکات...577 فائدہ اٹھانے کے لئے غلط طریق کا استعمال ایک احمدی کو زیب اتمام حجت تبلیغ اور اتمام حجت کے لئے اشتہارات کی اہمیت اور حضرت مسیح موعود کار د عمل احسان 197 نہیں دیتا 66 ہر احمدی کی حالت ایسی ہو کہ وہ پہچانا جائے کہ یہ احمدی ہے 167 واقفین زندگی ، مبلغین اور ہر احمدی کے لئے نصیحت کہ ظاہری رکھ رکھاؤ کی طرف اتنی توجہ نہ دیں کہ...167 خدا کے احسانوں کو یا درکھیں اور اس کی حمد کرنے کی ضرورت 9 حضرت نظام الدین صاحب کے قبول احمدیت کا ایک دلچسپ واقعہ 170 ہمیں زمانے کے امام کو مانے کی توفیق ملی یا یک احسان ہے خدا ہر احمدی کو پر اعتماد رہنا چاہئے کہ قرآن حضرت مسیح موعود اور تعالی کا...10 جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے 172 نظام خلافت کا قیام اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ، خلافت کے نظام احمدی ہونے کے بعد ان پڑھ کو بھی خدا کیسے عقل دیتا ہے حضرت 597 مصلح موعودؓ کا بیان فرمودہ ایک واقعہ 173 نے بھی اسی کام کو آگے بڑھانا ہے احمدی ہونا خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ، ان بزرگوں کے لئے دعا ہر احمدی کو اپنے ایمانداری اور دیانت کے معیاروں کو بلند کرنے کرنی چاہئے جنہوں نے احمدیت کو اپنی نسلوں میں جاری کی ضرورت ہے رکھا....احمدی / احمدیت شرائط بیعت اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں 612 1 203 مختلف ممالک اور پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم لیکن خدا کے فضل سے ان لوگوں کے انشاء اللہ حالات بدلیں گے 207 احمدی کی خوش قسمتی کہ حضرت مسیح موعود نے مغرب کے غلط فلسفہ
خطبات مسرور جلد 13 10 مضامین سے بچا کر رہنمائی فرمائی کہ اصل حقیقت جاننے کے لئے حاصل کرنا ہے آنحضرت کی طرف دیکھو 763 261 جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں اور عہدیداران کو پنجوقتہ نمازوں کے احمدیوں پر خدا تعالیٰ کے فضل اور شکر گزار بنتے ہوئے ہمارے فرائض...330 قیام کے لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے مالی قربانی کی اہمیت اور جماعت احمدیہ 8 20 غلط کام کرنے والے احمدی خود بھی اللہ کے فضلوں سے محروم اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور جماعت احمدیہ 20 338 دوسروں کی دوری کا باعث بن رہے ہیں ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف نظر رکھنے کی ضرورت ہے عبادالرحمان اور احمدی کا معیار 379 380 عرب احمدیوں کو تلاوت قرآن کریم کے حوالہ سے ایک ضروری نصیحت 499 دنیا کے نقشے پر جماعت احمد یہ ہی ہے جو اسلامی تعلیم کے مطابق حقوق ادا کرنے والی ہے 21 دنیا بھر میں جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کرنے والوں کے اخلاص و وفا کا تذکرہ 30022 آزادی رائے اور فرانس کے ایک اخبار پر حملہ کے بعد جماعت کا فیصل آباد کے ایک مولوی کا قل ھو اللہ احد پڑھ کر کہنا کہ دیکھو مؤقف اور میڈیا کی وسیع پیمانے پر کوریج قرآن کہتا ہے کہ احمدی کا فر ہیں 39 537 حضرت مسیح موعود کا تبلیغ کے بارہ میں جوش اور کسی طرح جماعت 166 احمد می ہونے کا اعلان کچھ ذمہ داریاں ڈالتا ہے 591 کے افراد کو دیکھنا چاہتے تھے ہر احمدی جائزے لے، اس جائزے کے لئے صرف ایک شرط حضور کی اپنی جماعت کے لئے الگ لباس کی تجویز 166 بیعت ، "یہ کہ اس عاجز سے..." 593 ہر احمدی کو پر اعتماد رہنا چاہئے کہ قرآن حضرت مسیح موعود اور ہر احمدی کو جو پاکستان سے مغربی ممالک میں آیا ہے شکر جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے گذاری کا احساس..603 احمدی ہونا خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان، ان بزرگوں کے لئے دعا کرنی 172 جب مخالفت ترقی کرتی ہے تو جماعت کو بھی ترقی حاصل ہوتی ہے...173 چاہئے جنہوں نے احمدیت کو اپنی نسلوں میں جاری رکھا...612 حضرت مسیح موعود کا ہمدردی خلق کے لئے تڑپ اور درد، دنیا کی جاپانی احمدیوں سے بھی میں کہوں گا کہ دین سیکھیں اور اپنے اصلاح کے اس دور کو قائم رکھنا اور آگے چلانا جماعت کے افراد کا ایمان وایقان میں ترقی کریں 688 فرض ہے 197 200 ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے تبلیغ بھی جماعتی نظام کے تابع ہو تو زیادہ مفید ہے کے لئے قرآن کا علم حاصل کریں اور اپنے نیک نمو نے قائم کر ، قائم مسیح موعود کے زمانہ میں آپ کی جماعت میں شامل ہونے والے کے دنیا کو اپنی طرف کھینچیں 733 دنیا کے بگڑتے ہوئے حالات میں ایک احمدی کے لئے حضرت مسیح موعود کا یہ پیغام "آگ ہے پر آگ سے..." 737 تین طرح کے لوگ بچوں کو جماعتی ماحول میں لانا بہت ضروری ہے 201 219 جماعت میں ہونے والی شہادتوں کے بدلہ میں خدا کے فضل اور ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ ہمارا مقصد بہت بڑا ہے اسے ہم نے
خطبات مسرور جلد 13 11 مضامین تائید و نصرت 224 عظمند کی عقل...339 قادیان کی ابتدائی حالت کا نقشہ اور قادیان ، اور جماعت کی جلسوں کا انعقاد جماعت احمدیہ کے اہم پروگراموں کا ایک ترقی...جماعت کی ہر طرح کی ترقی کا خدا تعالیٰ کا وعدہ 277 | حصہ ہے 289 جماعت کی مخالفت کے حالات کیسے بھی ہوں ہمیں مایوس نہیں جماعت کے لئے دعاؤں کی تحریک 342 404 اللہ کا فضل ہمیشہ جماعت کے شامل حال رہا ہے اس فضل کو دائمی کرنے کے لئے دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے 436 ہونا چاہئے اور نہ اس کی ضرورت ہے، انی مع الافواج اتیک اللہ تعالیٰ کا لوگوں کی توجہ جماعت کی طرف پھیرنے کے کچھ 290 | واقعات 547 بغتة، خدا کی مددا چا نک آئے گی لا ہور میں آریوں کا جلسہ اور حضرت مسیح موعود کا احباب جماعت غیر مسلم اور غیر از جماعت مسلمانوں کا جماعت احمدیہ کے ذریعہ پر ناراض ہونا کہ جب سخت کلامی شروع ہوئی تو کیوں بیٹھے اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھ کر اظہار کرنا رہے...545 294 دنیا کے مختلف حصوں میں جماعت کے ذریعہ اسلام کا پیغام محبت مخالفین جماعت کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے کسی ماں نے وہ بچہ اور امن پہنچنا نہیں جنا...554 298 جماعت احمدیہ کے کام اس آگ کے وقت بھی نہیں رکے ، راہ حضرت مسیح موعود کی دعا ئیں کہ جماعت کو کشائش ملے ہنگر دنیا ھدی کا لائیو پروگرام ہونا 317 | حضرت مسیح موعود کی جماعت کو نصائح کے ہر ملک میں چل رہا ہے 585 595 حضرت مسیح موعود پر الزام کہ جماعت کا روپیہ ذاتی مصارف پر امام جماعت نے جو باتیں کیں ان کی سخت ضرورت تھی ایک خرچ کرتے ہیں اور اس بدظنی کا جواب اور انجام 317 خاتون کا قول 629 ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے حضرت مصلح موعودؓ کی ایک جماعتی کارکن کو نصیحت کہ خدا سے مانگیں بجائے اس کے کہ انجمن پر کسی کی نظر ہو 321 ہیں...630 کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ فلاں شخص ہدایت پا جائے تو جماعت 640 جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد نئے سرے سے کرنے کی ضرورت ہے ترقی کرے گی اور نبھانے کی ضرورت ہے کہ ہم شرک سے دور رہیں گے اور حضرت افراد جماعت کو ہنر سیکھنے اور محنت کی طرف توجہ دینی چاہئے 643 مسیح موعود کے مشن کی تکمیل کی بھی بھر پور کوشش کریں گے 328 جاپانیوں نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلامی تعلیم کو کس قادیان اور دوسرے ممالک میں جماعت احمدیہ کا عمارتیں خرید طرح دیکھا، تاثرات کر سکول اور مشن ہاؤسز بنانا آج دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام خلافت احمدیہ کے نظام کے تحت ہی فیکٹری میں مخالفین کی آتشزدگی ہو رہا ہے 7070693 334 335 پاکستان میں جماعت کے خلاف ایک ظالمانہ سلوک چپ بورڈ 707 335 جماعتوں میں رہائش کے لئے عارضی اور مستقل انتظام کرتے جماعت احمدیہ کی ترقی میں نہ علماء کی علمیت کام دے رہی ہے نہ رہنا چاہئے 768
خطبات مسرور جلد 13 اخبارات 12 نشانہ بنایا جاتا ہے مضامین 254 آزادی رائے اور فرانس کے ایک اخبار پر حملہ کے بعد جماعت کا مذہب ، مادیت ، اخلاق اور انسان کی دیگر ضروریات اور ان کا مؤقف اور میڈیا میں وسیع پیمانے پر کوریج 39 با هم تعلق 258256 259 فرانس کے ایک اخبار (Charlie Hebdo) کے دفتر پر حملہ اخلاق کی بابت آنحضرت کی لطیف رہنمائی اور حضور انور کا منصفانہ و حقیقت پسند تجزیہ 39،37 لا اله الا الله محمد رسول الله سے اخلاق بھی درست، دنیا اور بعض اخبارات کا یہ کہنا کہ اسلام کی تعلیم میں جہاد کی تعلیم کی وجہ دین دونوں درست ہو جاتے ہیں سے شدت پسندی...اخلاص 726 | اخوت جلسہ کا ایک مقصد تعلقات واخوت 263 496 دنیا بھر میں جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کرنے والوں کے آپ سے محض اللہ عقد اخوت اور محبت کی کوئی مثال اگر دی جاسکتی ہے تو 22 تا 30 وہ حضرت مولانا حکیم نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال ہے 664 اخلاص و وفا کا تذکرہ حضرت مسیح موعود کے الہام کو پورا کرتے ہوئے یا تیک من اذان کل فج عمیق کے مصداق لوگوں کا جوق در جوق قادیان آنا اور اذان کے وقت آذان کے الفاظ دہرانے اور بعد ازاں درود 175 ان کی محبت واخلاص کا انوکھا انداز خلیفہ وقت سے ملنے کے بعد اخلاص و وفا میں حیرت انگیز تبدیلی ، امریکہ،کینیڈا سے آنے والے خدام کی لندن میں حضور سے ملاقات 340 پڑھنے کی فضیلت بیان فرمانا اور شفاعت کا ذکر 42 خدا سے محبت کے اظہار کا یہ طریق بھی اختیار کرو کہ وضو کر کے تیار ہو کر اذان کے انتظار میں بیٹھو 80 معروف اطاعت کا مطلب کہ محبت و اخلاص کو انتہا تک پہنچا کر مسلمان نماز اور اذان میں توحید کی شہادت دیتے ہیں.لیکن کامل اطاعت کرنا 594 حرکتیں مشرکانہ ہیں 348 63 بیعت کے بعد اخلاص و وفا میں ترقی کے کچھ واقعات 613 ارتداد تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں میر عباس علی صاحب کا ارتداد ایک درس عبرت اخلاص و وفا کرنے والوں کے تذکرے 660,651 اسائلم چندہ جات ، اخلاص و وفا اور مالی قربانی میں حضرت مسیح موعود کی اسائلم لینے والوں کا وکیلوں کے کہنے پر بار بار سمجھانے کے قابل رشک جماعت مختلف ممالک کے واقعات 1 65 تا 660 باوجود جھوٹ بولنا اور اس کا نقصان حضرت منشی اروڑے خان صاحب کے اخلاص و محبت کا یورپ میں حکومت سے فائدہ اٹھانے ،اسائلم ،انشورنس سے 716، 717 فائدہ اٹھانے کے لئے غلط طریق کا استعمال ایک احمدی کو زیب ذكر......اخلاق نہیں دیتا مذہب کی ضرورت اور یہ خیال کہ دنیا داروں کی اکثریت کے استعدادیں 3 66 اخلاق مذہب کے ماننے والوں سے بہتر ہیں اور اسلام خصوصاً مربیان اور مبلغین کے لئے ایک ضروری نصیحت کہ اپنی
خطبات مسرور جلد 13 13 مضامین 21 استعدادوں کو استعمال کریں اور دوسروں کی بڑھائیں 74 حقوق ادا کرنے والی ہے تقریر سننا، خطبہ سننا، توجہ سے سننا، اسے جذب کرنا ، اس پر عمل فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت قتل و غارت گری کرنا یہ سب ہر ایک کی اپنی اپنی استعدادوں پر منحصر ہیں 78 سے اسلام کی فتح نہیں ہوگی استغفار استغفار کی ضرورت اور اہمیت 37 مسلمان تنظیمیں جو اسلام کے نام پر ظلم کرتی ہیں کاش وہ سمجھ و جائیں کہ اسلام کی محبت کی تعلیم زیادہ جلدی دنیا کو اسلام کی آپ کی ( سورج گرہن ) کے موقع پر خاص طور پر دعاؤں، آغوش میں لاسکتی ہے استغفار، صدقہ خیرات اور نماز پڑھنے کی ہدایت 181 اسلامی تعلیم انسانی فطرت کے مطابق ہے استغفار اور مغفرت کی حقیقت 38 70 410 آپ کا ایک شخص کو اسلام کے بنیادی ارکان کی بابت تفصیل تو بہ اور استغفار کی مستقل عادت جہنم کے دروازے ہمیشہ کے بیان کرنا...لئے بند کر دے گی 412 شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے استغفار کرنا بہت ضروری ہے استقلال 576 72 خدام الاحمدیہ کو نصیحت کہ ان کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہونی چاہئے 167 مذہب کی ضرورت اور یہ خیال کہ دنیا داروں کی اکثریت کے اخلاق مذہب کے ماننے والوں سے بہتر ہیں اور اسلام خصوصاً حضرت مسیح موعود کو مقدمات میں پیش آنے والی تنگیاں اور آپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے صبر و استقلال استهزاء اتمسخر 254 86 اسلام کی خوبصورت تعلیم اور زندہ مذہب ہونے کے باوجودلوگوں آنحضرت کے مقام کو کوئی دنیاوی کوشش نقصان نہیں پہنچا سکتی ، آپ سے استہزاء کرنے والوں کی یہ سوچ کہ وہ کامیاب 36 کا مذہب اور خدا سے انکار اور اس کی وجہ 255 اسلام کے نام پر مختلف ممالک میں شدت پسندی اور قتل و غارت جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں 257 ہو جائیں گے وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں انبیاء سے استہزاء کرنے والوں سے اعراض کی تعلیم ، معاملہ خدا اسلام کے نام پر شدت پسند تنظیمیں اور جہاد کا غلط تصور 348 38 خلیفہ وقت کے دورہ جرمنی کے دوران اسلام احمدیت کا پیغام پر چھوڑ دینا چاہئے 355 انبیاء کے ساتھ تمسخر کر نے والوں کو خداعبرتناک نشان بناتا ہے 91 وسیع پیمانے پر پہنچنا ایسی مجالس جہاں استہزاء اور مخالفانہ سخت کلامی ہو تو وہ وہاں سے خلیفہ اسیح کی باتیں سن کر اسلام کے بارہ میں اپنی رائے تبدیل قرآنی حکم کے مطابق اٹھ کر آ جانا چاہئے اسلام 295 کرنا کہ یہ ایک امن دینے والا مذہب ہے دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان مال عزت اور اولاد سے زیادہ عزیز سمجھنے کا عہد 365 اسلام کا ایک بہت بڑا المیہ، اسلام کے نام پر لوٹ مار اور مختلف تنظیمیں 13 اسلام کے دفاع کے لئے حضرت مسیح موعود کی بعثت 452 534 دنیا کے نقشے پر جماعت احمدیہ ہی ہے جو اسلامی تعلیم کے مطابق حضرت مسیح موعود کے علم کلام کی اہمیت ، آپ نے اسلام کا دفاع
خطبات مسرور جلد 13 14 مضامین ایسے شاندار رنگ میں کیا ہے کہ پہلے کسی مسلمان عالم نے نہیں ہر جگہ اور جاپان میں بھی نظر آتی ہے کیا...693 535 جاپانیوں نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلامی تعلیم کوکس 7070693 دنیا میں پائیدار امن کا ذریعہ مسلم دنیا ، ایمان اور اسلام کے طرح دیکھا ، تا ثرات خلاصہ کو سمجھ لے اور دوسروں کے لئے سلامتی کے سامان حضرت مسیح موعود کی بعثت سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز 711 کرے....543 بعض اخبارات کا یہ کہنا کہ اسلام کی تعلیم میں جہاد کی تعلیم کی وجہ اسلام کے خلاف میڈیا کا کردار اور حضور انور کے انٹرویوز میں سے شدت پسندی...اس کا بر ملا اظہار 544 726 اسلام دشمن قوتوں کا اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے مسلم دنیا اسلام کی خوبصورت تعلیم کا مقابلہ نہ کسی مذہب کی تعلیم کر سکتی ہے کے جھگڑے بڑھانا اور میڈیا میں کوریج کے ذریعہ اسلام کو بدنام نہ کوئی قانون کرنا...544 اسلام نے کبھی جبر کامسئلہ نہیں سکھایا 728 731 غیر مسلم اور غیر از جماعت مسلمانوں کا جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی تعلیم دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ،امن وسلامتی قائم کرنے اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھ کر اظہار کرنا 545 کی تعلیم ہے آج اسلام کی حقیقی تعلیم حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہی دنیا کو پہنچ اُسوہ (دیکھیں نمونہ) سکتی؟ سکتی ہے 548 بدقسمتی سے مسلمان علماء اور لیڈروں نے اسلام سے دور کرنے میں بہت کردارا دا کیا ہے 549 دنیا کے مختلف حصوں میں جماعت کے ذریعہ اسلام کا محبت اور امن کا پیغام پہنچنا دنیا کے امن کی اسلام ہی ضمانت ہے 554 734 اشتعال انگیزی اشتعال انگیزی سے بچنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی تعلیم 646 اشتہارات تبلیغ اور اتمام حجت کے لئے اشتہارات کی اہمیت اور حضرت مسیح 557 موعود کار د عمل 197 اسلام مخالف طاقتیں چاہے جتنا بھی منفی پروپیگنڈہ کریں اسلام حضرت مسیح موعود کے شائع کردہ اشتہارات مذہبی دنیا کا ایک نے ہی دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھانے ہیں اور امن اور سلامتی مہیا کرنی ہے اسلام کی تعلیم کو پھیلانے میں ایم ٹی اے کا کردار 557 599 جاپان میں اسلام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی خواہش 679 خزانہ ہیں 197 جامعہ کینیڈا کے طلباء کا سپینش ممالک میں تبلیغی اشتہارات تقسیم کرنا اور اس کی اہمیت 199 اسلامی اصول کی فلاسفی مضمون لکھے اور پڑھے جانے کی بابت ایک واقعہ جس سے بعض ٹیڑھے لوگوں کی فطرت کا پتہ لگتا ہے جاپان میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی بنیا درکھ دی گئی ہے 692 اشتہار کو عام نہ کرنا اور دیواروں پر اونچا لگا دینا حضرت مسیح موعود کا ارشاد کہ اسلام کا تعارف کروانا ہو تو مسجد بنا دو اصلاح لوگوں کی توجہ...یہ بات بڑی شان کے ساتھ پوری ہوتی ہمیں اصلاح کے لئے قومی احساس ضروری ہے 292 102
خطبات مسرور جلد 13 15 مضامین حضرت مسیح موعود کی ہمدردی خلق کے لئے تڑپ اور درد، دنیا کسوف و خسوف کا نشان اور حضرت مسیح موعود کا اس کے متعلق کی اصلاح کے اس دور کو قائم رکھنا اور آگے چلانا جماعت کے بعض اعتراضات کا جواب 184.183 197 حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ 315 افراد کا فرض ہے مذہب کے حوالہ سے مغرب کا رویہ اور اس کی اصلاح 260 اعتراضات اور بدظنیوں کا سامنا کرنا پڑا جس اصلاح کے لئے حضرت مسیح موعود کو بھیجا گیا...263 چندوں کی بحث، کسی کا حضرت مسیح موعود پر اعتراض اور آپ کا نبی اس لئے آتا ہے کہ دنیا کے روحانی انحطاط کی اصلاح کرے 317 فرمانا کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ سلسلہ کے لئے ایک حبَّہ بھی اصول 315 مسلمان حکمرانوں کے حکومت چلانے کا ایک بہترین رہنما اصول 264 خلیفہ وقت ( حضرت مصلح موعود ) پر چندوں اور روپے کے غلط خرچ کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب اور حضور کا مالی قربانی اطاعت 316.315 آپ کی حدیث کے مطابق آپ کی اطاعت سے گزارتے کرنے کا ذکر ہوئے خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا اور اس کی رضا حاصل حضرت مصلح موعود اور حضرت اقدس کے اہل وعیال کی بابت 599،59 | اعتراضات کرنے والوں کا نقصان 316 کرنے والا بناتی ہے نظام جماعت اور خلافت سے وفا اور اطاعت کا تعلق 592 حضرت مسیح موعود پر الزام کہ جماعت کا روپیہ ذاتی مصارف پر معروف اطاعت کا مطلب کہ محبت و اخلاص کو انتہا تک پہنچا کر خرچ کرتے ہیں اور اس بدظنی کا جواب اور انجام 594 لنگر کے روپیہ کو ذاتی مصارف میں لانے کا الزام اور اس بدظنی کا کامل اطاعت کرنا 317 حضرت خلیفتہ اسح الاول" کی قربانیوں کے معیار اور اطاعت خمیازہ ابھی تک بھگتا جا رہا ہے کہ لنگرکا فنڈ ہمیشہ مقروض رہتا 677-665 کے اعلی ترین نمونے....ہے....حضرت خلیفۃ اسبح الاول کی سادگی واطاعت کے متعلق محمد شریف صاحب ڈپٹی کا واقعہ سنانا اعتدال 669 317 حضور کی وفات کے وقت لوگوں کا یہ کہنا کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی 326 ہر معاملہ میں اعتدال اور اس کا حق ادا کرنا حقیقی دین ہے، مساجد کی آبادی کی طرف بھی توجہ دیں ،مساجد میں کھیلوں یا 261 فنکشنز کا انتظام اور اس پر اعتراض اور جواب و لنفسک علیک حق 568 جب تک یہ دونوں پہلو یعنی حکومت کے فرائض اور رعایا کے فرائض مخالفین کا ایک جھوٹا الزام کہ حضرت مسیح موعود نعوذ باللہ اپنے آپ اعتدال سے چلتے ہیں تب تک اُس ملک میں امن رہتا ہے 544 کو آنحضرت سے بڑا سمجھتے ہیں، حضور کی تحریرات کے حوالہ سے اعتراضات/ الزامات اس کی تردید حضرت مسیح موعود پر عیسائیوں کے خلاف سخت زبان استعمال | اعتماد کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب 756741 176 | قرآن پر آپ کا اعتماد اور آپ کا وثوق سے فرمانا کہ قرآن آپ
خطبات مسرور جلد 13 کے خلاف نہیں ہوسکتا 16 172 | إِنِّي مَعَ الرَّسُوْلِ أَقْوْمُ ہر احمدی کو پر اعتماد رہنا چاہئے کہ قرآن حضرت مسیح موعود اور آليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَةُ 172 لَا تَقْتُلُوا زَيْنَبَ جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے عورتوں میں بعض دفعہ پر دے کے بارے میں جو complex ہو جاتا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے اور ان کا اعتماد بڑھنا چاہئے 628 لوگوں کو ایک دوسرے سے ڈرنے کی بجائے ایک دوسرے پر اعتماد کرنا چاہئے افواہیں غلط افواہوں کو پھیلنے سے روکا جائے الہام 629 89 مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ تَرى نَسْلاً بَعِيدًا وَسِعْ مَكَانَكَ يَأْتِيَكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يايها النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَ مضامین 141 207 432.430 268 539 768.767 175 765 حضرت مصلح موعودؓ کا فرمانا کہ میرے الہام اور خواب ایک ہزار تک پہنچ چکے ہوں گے لیکن وہ آپ کے ایک الہام کے برابر نہیں.....141 اردو الہامات آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے تین کو چار کرنے والا جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا حضرت مسیح موعود کے الہام کو پورا کرتے ہوئے یاتیک من کل فج عمیق کے مصداق لوگوں کا جوق در جوق قادیان آنا اور چکی پھرے گی اور قضاوقدر نازل ہوگی.175 لنگر اٹھادو ان کی محبت و اخلاص کا انوکھا انداز حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کی قدرت کے عجائبات کے مضمون بالا رہا نظارے ،کھانسی سے بذریعہ الہام شفاء 268 وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا الهام "لاتقتلوا زینب " اور اس کی تفصیل و تشریح 430 | وہ جلد جلد بڑھے گا بڑے خوش قسمت وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا ذریعہ چودہ سو سال بعد تازه به تازہ وحی و الہام کا زمانہ پایا، ان وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا عشاق کی کیفیت 711 جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی اور حضرت مسیح موعود کا ایک الهام.....764 ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اتم الالسنة 140 128 129 715.714 767 292 130 129 118 126.118 118 حضرت مسیح موعود کے الہام لنگر اٹھالو " کی تشریح 767 عربی زبان کے ام الالسنتہ ہونے کی بابت ایک عیسائی کی حضرت مسیح موعود سے گفتگو اور آپ کا جواب اس جلد میں مذکور الہامات امام 534 ہمیں زمانے کے امام کو مانے کی توفیق ملی یہ ایک احسان ہے خدا عربی الہامات إِنِّيْ مَعَ الْأَفْوَاجِ أَتِيْكَ بَغْتَةً 290 تعالی کا...10
خطبات مسرور جلد 13 17 مضامین ہم نے زمانے کے امام کو مان کر اسلام کی حقیقی تعلیم کی روح کو اور امن پہنچنا سمجھا ہے 554 21 اسلام مخالف طاقتیں چاہے جتنا بھی منفی پروپیگنڈہ کریں اسلام خطبہ میں کسی کو روکنا ہو تو امام جو خطبہ دے رہا ہے وہ بول سکتا ہے 68 نے ہی دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھانے ہیں اور امن حقیقی مومن وہی ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے 106 اور سلامتی مہیا کرنی ہے خلیفہ اول کا اپنی کتاب نورالدین میں فرمانا کہ تم ہمارے امام کو آگ میں ڈال کر دیکھ لو 140 جب امام اپنا خطبہ ختم کر لیتا ہے تو وہ فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں 421 امام جماعت نے جو باتیں کیں ان کی سخت ضرورت تھی ایک عورت کا کہنا امانت ایمان کی نشانی سچائی اور امانت کی ادائیگی 629 557 اسلام کی تعلیم دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ،امن وسلامتی قائم کرنے کی تعلیم ہے امید 734 حضرت مسیح موعود کو یقین تھا کہ قرآن آپ کی تائید میں ہے یہی امید تھی کہ جس نے دنیا میں آپ کو کامیاب کرایا انٹرنیٹ ٹی وی انٹرنیٹ کے منفی پہلو اور بعض نقصانات 397 | انٹرویو 172 میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی بھی ایک امانت ہے مثلاً حق فرانس کے واقعہ کے بعد مختلف چینلز کا جماعت سے انٹرویو 40 398 مسلمان رسالے کے ایک شخص کا حضور سے انٹرویو لینا 139 مهر...بہتر مشورہ دینا بھی امانت کا حق ادا کرنا ہے 399 مسیڈونیا کے صحافیوں کا جرمنی کے جلسہ میں مختلف لوگوں سے انٹرویو لینا 357 امت مسلمہ مسلم امہ اور دنیا کی ابتر حالت اور دعا کی تحریک ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امت کو علماء سوء اور غلط جرمنی کے مشہور ٹی وی چینل آرٹی ایل (RTL) کا مسجد کی افتتاحی تقریب کے موقع پر حضور انور سے ایک انٹرویو لینا 366 226 جرمنی جلسہ کے آخری دن ایک خاتون صحافی کا حضور سے انٹرویو لینا 366 لیڈروں سے بچائے امن 637 خلیفہ اسیح کی باتیں سن کر اسلام کے بارہ میں اپنی رائے تبدیل اخبار دی سائٹ Die Zeit) میں حضور انور کے ایک انٹرویو 365 کی اشاعت 366 کرنا کہ یہ ایک امن دینے والا مذہب ہے تزکیۂ نفس اور معاشرے میں پیار و محبت اور امن کی فضا پیدا نیپال کے زلزلے کے بعد ہیومینٹی فرسٹ کے لئے 380 | انٹرویوز 489 518 کرنے والے احکامات الہی معاشرے میں امن کے قیام کے لئے آنحضرت کا اسوہ 382 383 جمیکا کی ایک جرنلسٹ کا حضور انور سے انٹریو دنیا میں پائیدار امن کا ذریعہ مسلم دنیا ، ایمان اور اسلام کے بی بی سی کی جرنلسٹ کا حضورانور کے انٹرویوکو شائع کرنا 522 خلاصہ کو سمجھ لے اور دوسروں کے لئے سلامتی کے سامان خلیفہ وقت کے انٹرویوز تبلیغ کا ذریعہ کرے....519 543 اسلام کے خلاف میڈیا کا کردار اور حضور انور کے انٹرویوز میں دنیا کے مختلف حصوں میں جماعت کے ذریعہ اسلام کا پیغام محبت اس کا بر ملا اظہار 544
خطبات مسرور جلد 13 18 بیت الفتوح میں آگ لگنے پر ایک جرنلسٹ کا سیکرٹری اشاعت | انعام سے انٹرویو سے لینا مضامین 584 جب کوئی انسان کمال حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا 265 حضور انور کا دورہ ہالینڈ اور ٹیلی ویژن کے نمائندوں کے آپ انقلاب سے انٹریوز 624 حضور انور کے دورہ جرمنی و ہالینڈ میں ہونے والے انٹریوز کی تفصیل 624 نئی زمین اور نیا آسمان بنانا اور انسان پیدا کرنا وہ انقلاب ہے جو آپ نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا تھا 346 حضور انور کے دورہ جاپان میں ہونے والے انٹرویوز 699 حضرت مسیح موعود نے جو انقلاب پیدا کیا اس کا ثبوت ہماری انجمن ذات ہونی چاہئے 349 انجمن اور دین میں فرق اور ان کی ترقی کے طریق وذرائع 202 خلیفہ وقت کے دورہ جات اور سفروں میں افضال الہی اور خدا حضرت مصلح موعود کی ایک جماعتی کارکن کو نصیحت کہ خدا سے مانگیں بجائے اس کے کہ انجمن پر کسی کی نظر ہو انسان بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کا عہد اللہ کا کوئی حکم بھی انسانی طاقت سے باہر نہیں ہوتا 321 تعالیٰ کی تائید و نصرت اور غیر معمولی انقلابات کا ذکر 367354 حضور انور کا دورہ ہالینڈ اور ٹیلی ویثرن کے نمائندوں کے آپ 14 سے انٹریوز 69 انسان کی حالت پیدائش سے مومن کی تشبیہ ، ایک پر معارف تشریح....624 حضور انور کے دورہ جرمنی و ہالینڈ میں ہونے والے انٹریوز کی تفصیل 624 233 پاکستان سے آزاد ملکوں میں آنا تقاضا کرتا ہے کہ اپنے آپ میں مذہب ، مادیت ، اخلاق اور انسان کی دیگر ضروریات اور ان کا انقلابی تبدیلیاں پیدا کریں با ہم تعلق 684 256 258 حضور انور کے دورہ جاپان میں ہونے والے انٹرویوز 699 جیتک کوئی انسان کمال حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا 265 انکساری عاجزی تمام انسانیت کا خیال رکھنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا حكم.....387 عاجزی اور انکساری کو اپنا شعار بنائیں ہرانسان کے حقوق کی ادائیگی ایک مسلمان پر فرض ہے 398 | عاجزی اور انکساری کی اہمیت 10 13 انسان کے لئے ایک لیلۃ القدر اس کا وقت اصلی بھی ہے 419 اس حد تک انکساری اختیار کرو کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے 382 علم صحیح ہونا چاہئے اور جو بھی بات انسان کرے اس کے بارے جس نے میرے لئے اس طرح عاجزی اختیار کی..میں یہ تسلی ہونی چاہئے...383 635 بعض لوگ اپنی عاجزی میں ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتے انشورنس یورپ میں حکومت سے فائدہ اٹھانے ،اسائلم ، انشورنس.ہیں...سے اولاد 470 فائدہ اٹھانے کے لئے غلط طریق کا استعمال ایک احمدی کو زیب دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان مال عزت اور اولاد نہیں دیتا 66 سے زیادہ عزیز سمجھنے کا عہد 13
خطبات مسرور جلد 13 19 حضرت مسیح موعود کی اولاد کی کثرت اور فخر کی پیشگوئی 540 | جلسہ سالانہ میں ایم ٹی اے کا اہم بنیادی کردار ایمان ایمانداری تمہارا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا معیار اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا تمہاری اصل ترجیح اور فکر ہونی چاہئے 156 ہر احمدی کو ایمانداری اور دیانت کے معیاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے وہ ایمان ثریا سے زمین پر لے کر آئے گا ایمان کی نشانی سچائی اور امانت کی ادائیگی 203 ایم ٹی اے کا اہم کردار اور اہمیت مضامین 508 598 ایم ٹی اے تبلیغ و تربیت کا بہترین ذریعہ، خلیفہ وقت سے رابطے کا ذریعہ بارش ب.پ.ت.ٹ 686 330 انبیاء کا وجود ایک بارش ہوتی ہے، اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے 397 سے ایمانی قوت بڑھتی ہے جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے بچے 464 8 28 رمضان کے روزے رکھے، اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے والدین نمازوں میں بچوں کے لئے نمونہ بنیں بچوں میں مالی قربانی کا پر خلوص جذ بہ حضرت مصلح موعود کا فرمانا کہ بچوں میں جلدی کام کرنے کی جائیں گے 415 انبیاء کا وجود ایک بارش ہوتی ہے، اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے 464 عادت ڈالی جائے....94 کھلی فضا میں کھیلنے کی طرف بچوں اور نوجوانوں کو خاص توجہ کی جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات ضرورت ، جامعہ کے طلباء کے لئے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ باہر 482 کھیلنالازمی...95 کہے یا خاموش رہے....دنیا میں پائیدار امن کا ذریعہ مسلم دنیا ، ایمان اور اسلام کے بچوں کو جماعتی ماحول میں لانا بہت ضروری ہے خلاصہ کو سمجھ لے اور دوسروں کے لئے سلامتی کے سامان نوجوانوں اور بچوں کو مذہب کے حوالہ سے سمجھ بوجھ رکھنے کی کرے....543 219 ضرورت اور اہمیت اور انگلی نسلوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بڑوں جاپانی احمدیوں سے بھی میں کہوں گا کہ دین سیکھیں اور اپنے کی ہے ایمان وایقان میں ترقی کریں ایم ٹی اے 688 | بحث 255 دعوت الی اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ علمی بحثوں اور بڑے اس زمانے میں ایم ٹی اے سے منسلک رہنا بھی بہت بڑے سیمیناروں اور فنکشنز کا سہارا لیا جائے ، حالات کے مطابق ضروری ہے 107 طریق نکالنے چاہئے 170 ایم ٹی اے کے ذریعہ غیر احمدی احباب کو حضور سالی کہ ہم اور خوبصورتی کی پہچان ،عریانی یا ظاہری حالت پر نہیں بلکہ کچھ اور اسلام کی حقیقی شان کا علم ہونا 299 ہے...خلیفہ اول اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی اسلام کی تعلیم کو پھیلانے میں ایم ٹی اے کا کردار 599 دلچسپ بحث...472
خطبات مسرور جلد 13 بدحالی 20 بعثت مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ، اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب مسیح موعود کی بعثت کی ضرورت اور اہمیت رکھ دیا بددعا 262 ہمارا یہی اصول ہونا چاہئے کہ ہم کسی کے لئے بد دعا نہ کریں..بدظنی بدظنی کے بھیانک نتائج اسلام کے دفاع کے لئے حضرت مسیح موعود کی بعثت آنحضرت کی غلامی میں حضرت مسیح موعود کی بعثت مضامین 347 534 558 636 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد بنے کو خدا سے جوڑنا ، ایک دوسرے کے حق ادا کرنا 682 314 حضرت مسیح موعود کی بعثت سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز 711 لنگر کے روپیہ کو حضرت مسیح موعود اپنے ذاتی مصارف میں لانے کا بغاوت بغاوت سے بچیں یہ باغیانہ رو یہ چاہے نظام جماعت کے ادنیٰ الزام اور اس بدظنی کا خمیازہ ابھی تک بھگتا جا رہا ہے کہ لنگر کا فنڈ کارکن کے خلاف ہو یا حکومت کے 317 بہشتی مقبرہ 7 ہمیشہ مقروض رہتا ہے....حضرت مصلح موعود کو اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ بہشتی مقبرہ کے بارہ میں ایک خواب جو اس طرح چھپی نہیں لیکن اعتراضات اور بدظنیوں کا سامنا کرنا پڑا بد نظری بد نظری کے نقصانات 315 4 حضرت مصلح موعود کی روایت کے مطابق...چاندی کی قبریں...316 برکت برکات درود شریف کی اہمیت و برکات 9 ہر سال خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کے ذریعہ ہر احمدی کا عہد کرنا...1 31 حلیمی اور مسکینی کی زندگی بسر کرنے کی اہمیت و برکت 13 بیعت کے بعد مسلسل رابطہ کی ہدایت حضرت مسیح موعود کی قادیان سے محبت کا ایک اظہار ، قادیان کی ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے دھوپ صاف ہوتی ہے اور قادیان کا ایک متبرک مقام ہونا 323 کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف نظر رکھنے کی ضرورت 338334 ہے 379 خلافت کی برکات و ترقیات دین کے نام پر کئے جانے والے کام خلافت سے علیحدہ ہو کر حضرت مسیح موعود کو ماننے اور عہد بیعت نبھانے اور اس سے پیدا ایک ذرہ کی بھی برکت نہیں پڑے گی جلسہ کی برکات رمضان کی برکات 339 344.363 378368 ہونے والی تبدیلی 527 حضرت مسیح موعود کا ایک کوٹ جو حضور انور عالمی بیعت کے وقت زیب تن فرماتے ہیں 542 نیک لوگوں کے مزاروں کی برکات اور وہاں دعا کرنا 444 مومن پر ابتلا ء اور مشکلات کا آنا اور اس کی اہمیت و حضرت مسیح موعود کی تصویر دیکھ کر بیعت کرنا کہ خواب میں انہیں کا بركات.577 | چہرہ دکھایا گیا تھا 553
خطبات مسرور جلد 13 21 مضامین ہر احمدی جائزے لے، اس جائزے کے لئے صرف ایک شرط نے ہی دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھانے ہیں اور امن بیعت، "یہ کہ اس عاجز سے..." 593 اور سلامتی مہیا کرنی ہے بیعت کے بعد اخلاص و وفا میں ترقی کے کچھ واقعات 613 پھول بیمار بیماری 557 قبر پر پھولوں کی چادر چڑھانے یا پھول رکھنے کی بابت سوال اور حضرت مسیح موعود کا ایک بیمار کی شفاعت کرنا اور اللہ تعالیٰ کا آپ جواب...سے حسن سلوک پیر 268 پیدائش 290 کسی لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا کسی انسان کی طاقت میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا خواب میں بہن کو جنت نہیں ہو سکتا میں بیر بیچتے دیکھنا اور حضور کی تعبیر بیوی 115 97 حضرت مصلح موعود کی پیدائش کے وقت وہ لوگ موجود تھے جنہوں نے آپ سے نشان مانگا تھا 116 لوگ اگر بیویوں کے ساتھ سلوک میں حضرت مسیح موعود کی تعلیم کو انسان کی حالت پیدائش سے مومن کی تشبیہ ، ایک پر معارف 7 7 تشریح...سامنے رکھیں تو شکایات نہ ہوں گھر میں مجبوری کی صورت میں بیوی بچوں کے ساتھ نماز انسانی پیدائش کا مقصد عبادت با جماعت ادا کرنا 84 مقصد پیدائش کا حق کس طرح ادا کر سکتے ہیں بیویوں سے حسن سلوک اور محبت کے بارہ میں آنحضرت کی تعلیم پیدائشی احمدیوں کو نصیحت اور ہمارا نمونہ 233 396.261 423 592 259 | پیدائش کا بنیادی مقصد نمازوں کے قیام کی طرف توجہ 682 خاونداور بیوی ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے حق ادا پیر کریں تو گھروں کے بہت سے جھگڑے ختم ہو جائیں 387 چوہٹروں کا پیر 174 ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی پاکستان میں وزیروں ،سفیروں اور پڑھے لکھے لوگوں کا پیروں 399 کے پاس جانا 348 ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اگر بیوی خطبہ سنتی ہے اور خاوند نہیں تو تب بھی فائدہ نہیں 598 خلیفہ اول کی ہمشیرہ کا پیر صاحب سے رہنمائی لینے کا واقعہ 668...پابندی پیشگوئی / پیشگوئیاں پاکستان میں پنجاب حکومت کی طرف سے الفضل، روحانی آتھم کی پیشگوئی اور حضرت مسیح موعود خزائن وغیرہ کو Ban کرنے کا حکم پارکنگ جلسه سالا نہ اور مہمان نوازی، پارکنگ...پروپیگنڈہ 290 487-479 پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق خطبہ 61056 112 قادیان کی ترقی ایک نشان اور اس کی بابت پیشگوئی 281 تا290 حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی جو آپ کے بعد بھی پوری ہوئیں ، وہ اسلام مخالف طاقتیں چاہے جتنا بھی منفی پروپیگنڈہ کریں اسلام صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، اس کی تفصیل 322
خطبات مسرور جلد 13 22 مضامین خلافت علی منھاج النبوۃ کی پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا 329 دنیا کے تباہی کی طرف تیزی سے جانے پر دعا کی تحریک اور حضور 455 انور کی رہنمائی پیشگوئی مصلح موعود کی اہمیت حضرت مسیح موعود کی اولاد کی کثرت اور فخر کی پیشگوئی 540 تبرک تاجر/ تجارت اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ضمن میں ایک تاجر اور قاضی کی مثال 264 تائید و نصرت مختلف ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور تائید و نصرت کے واقعات...724 حضرت مسیح موعود کے مزار سے مٹی بطور تبرک لینے وغیرہ کی حرکات سے منع فرمانا 291 تبلیغ بھی بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ایک احمدی کا فرض ہے 14 215 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس طرف خاص توجہ دلائی ہے جماعت میں ہونے والی شہادتوں کے بدلہ میں خدا کے فضل اور اور کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو تبلیغ کرنی ہو تو مسجد بنادو 30 تائید و نصرت 224 | بنگال میں تبلیغ کی تلقین 33 131 منکرین خلافت کا قادیان سے جاتے ہوئے تعلیم الاسلام سکول دوسری جنگ عظیم میں ایک جرأت مند احمدی کی یورپ کو تبلیغ 52 کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہنا کہ دس سال نہیں گزریں انگلستان میں ایک تنظیم تبلیغ کی نگران گے کہ ان عمارتوں پر آریہ اور عیسائیوں کا قبضہ ہو گا لیکن خدا کے حضرت مسیح موعود کا تبلیغ کے بارہ میں جوش اور کسی طرح جماعت کے افراد کو دیکھنا چاہتے تھے 166 334 میاں شیر محمد صاحب یکہ بان ایک ان پڑھ صحابی کا طریق حیرت انگیز فضل اور تائید و نصرت کے نظارے خلیفہ المسیح کے دورہ جرمنی کے دوران غیر معمولی تاثیر و تائید الهي...337 169 تبلیغ اور اتمام حجت کے لئے اشتہارات کی اہمیت اور حضرت مسیح موعود کاردعمل 197 بیت الفتوح کی آتشزدگی اور اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت 587 خلیفہ وقت کے دورہ جات میں تائید الہی اور اس کے فضل اور تین چار سال پہلے حضور انور ایدہ اللہ نے جماعتوں کو کہا تھا کہ احسانات 631 618.367.354 جاپان میں مسجد کی تعمیر میں مشکلات اور اللہ تعالیٰ کا فضل غیر معمولی تائید و نصرت تباہی ورقہ دو ورقہ بنا کر تبلیغ کا کام کریں 198 200 تبلیغ بھی جماعتی نظام کے تابع ہو تو زیادہ مفید ہے احمدیوں کے صرف نعرے نہیں بلکہ عملی حالتیں بھی تبلیغ کا ذریعہ 692 بنتی ہیں 224 آج دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام خلافت احمدیہ کے نظام کے تحت ہی مغربی معاشرہ تو آزادی کے نام پر ایک تباہی کی طرف جا رہا ہے 104 ہو رہا ہے جب تک خدا کی محبت کا اظہار کرتے رہیں گے تباہی سے بچے خلیفہ وقت کے دوروں سے تبلیغ اسلام رہیں گے 335 354 371 آپ کا فرمانا کہ جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہیے آنحضرت سے قبل دنیا تباہی کے گڑھے میں تھی 380 | کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے 389
خطبات مسرور جلد 13 23 مضامین حضور کا فرمانا کہ ہمارے نظام میں بھی تربیت اور تبلیغ کے شعبے ہیں 483 | 14 اگست پاکستان کے یوم آزادی پر دعا کی تحریک 487 جلسہ کے موقع پر کارکنان کے کام خاموش تبلیغ ہیں 515 حضرت مصلح موعود کا صحابہؓ کی روایات جمع کرنے کی تحریک جلسہ سالانہ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے 518 کرنا اور اس کی اہمیت 559 519 صحابہ کی روایات لکھ کر ایڈیشنل وکالت تصنیف میں بھجوانے کی خلیفہ وقت کے انٹرویوز تبلیغ کا ذریعہ حضور انور کا ارشاد کہ تبلیغ دین کے لئے کوشش کریں 532 | تحریک...566 حضور انور کی دعاء اللہ تعالیٰ مربیان کو تبلیغ کے نئے نئے راستے حاسدوں کے حسد تو اور بڑھیں گے اس لئے دعاؤں کی طرف بھی 601 توجہ دیں اور دعاؤں کی تحریک، اللهم انا نجعلک 588 تلاش کرنے کی توفیق عطا کرے حضور انور کا ارشاد کہ مرتبیان اور مبلغین کو چاہئے کہ خاص طور پر دنیا کے تباہی کی طرف تیزی سے جانے پر دعا کی تحریک اور حضور تبلیغ پر توجہ دیں 634 انور کی رہنمائی 724 آپ کا جاپانیوں میں تبلیغ کے لئے کتاب لکھنے کی خواہش کا بھی دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور احتیاطی تدابیر کی تحریک 725 اظہار کرنا 679 آپ کا فرمانا کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو وہاں مسجد بناد و تو تبلیغ کے راستے اور تعارف کے راستے کھلتے چلے جائیں گے 681 ایم ٹی اے تبلیغ و تربیت کا بہترین ذریعہ، خلیفہ وقت سے رابطے کا ذریعہ.قادیان اس وقت تبلیغ دین کا واحد مرکز تجزیه تحریک جدید تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اخلاص و وفا کرنے والوں کے تذکرے 6600651 686 تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی مجموعی تعداد کو بڑھانے پر 771 میں ہمیشہ بہت زور دیتا ہوں تراویح 661 فرانس کے ایک اخبار(Charlie Hebdo) کے دفتر پر حملہ رمضان میں تہجد ، تراویح کی اہمیت گو کہ روزے کے لئے یہ کوئی اور حضور انور کا منصفانہ و حقیقت پسند تجزیہ 39،37 شرط نہیں ہے 393 تجویز حضور کی اپنی جماعت کے لئے الگ لباس کی تجویز 166 تربیت عہد یداران اپنے نمونے کے ساتھ دوسروں کی تربیت کی طرف بھی توجہ دیں 76 تحریک تحریکات پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک 35 مسیح موعود کی تعلیم اور تربیت ہمارے لئے اسوہ اور لائحہ عمل ہے درود شریف پڑھنے کی تحریک 35، 37 کہ ہم نے آج بھی ہمیشہ صبر اور حوصلے سے کام لینا ہے 469 یورپ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک 35 ہماری تربیت کے لئے حضرت مسیح موعود کی قرآن وسنت کے بارہ مسلم امہ اور دنیا کی ابتر حالت اور دعا کی تحریک 226 میں تفسیروں ،تشریحات اور تحریرات کو سمجھنا بھی ضروری جماعت کے لئے دعاؤں کی تحریک 404 ہے، پڑھنا بھی ضروری ہے 592
خطبات مسرور جلد 13 24 ایم ٹی اے تبلیغ و تربیت کا بہترین ذریعہ، خلیفہ وقت سے کرنے والے احکامات الہی 686 تشریح تفسیر رابطے کا ذریعہ..مضامین 380 عہدیدار محبت اور پیار سے لوگوں کی تربیت کریں ، رنجشیں تفسیر و تشریح کا ایک اصول ، خلافت اور نظام کے تحت ہی اپنے 687 نظریات کا اظہار کرنا چاہئے بڑھانے کی بجائے محبتیں بڑھانے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ واحد بھی ہے اور احد بھی ، اس کی تشریح ترقی / ترقیات قدافلح المؤمنون کی پرمعارف تفسیر 103 180 229 جب مخالفت ترقی کرتی ہے تو جماعت کو بھی ترقی انسان کی حالت پیدائش سے مومن کی تشبیہ ،ایک پر حاصل ہوتی ہے 173 معارف تشریح.....233 430 انجمن اور دین میں فرق اور ان کی ترقی کے طریق و ذرائع 202 البام "لاتقتلوا زینب " اور اس کی تفصیل و تشریح قادیان کی ترقی اور شہرت ، حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی تفسیر پڑھ کر ایک غیر از جماعت کا 252 تاثر کہ اتنی سادہ اور شفاف تفسیر چودہ سو سال میں کسی اور نے ثبوت ہے 554 قادیان کی ترقی ایک نشان اور اس کی بابت پیشگوئی 281 تا290 کیوں نہیں لکھی؟ سب ترقیوں کا راز خدا تعالیٰ کے گھروں کو آباد کرنے اور اس سے ہماری تربیت کے لئے حضرت مسیح موعود کی قرآن وسنت کے بارہ 289 میں تفسیر وں ،تشریحات اور تحریرات کو سمجھنا بھی ضروری 592 تعلق جوڑنے سے ہے جماعت کی ہر طرح کی ترقی کا خدا تعالیٰ کا وعدہ 289 ہے، پڑھنا بھی ضروری ہے نظام خلافت کی دینی ترقی کے ساتھ تعلق اور شریعت اسلامیہ کا حضرت مسیح موعود کے الہام "لنگر اٹھالو " کی تشریح 767 ایک حصہ خلافت کی برکات و ترقیات 332 تصویر 334 تا 338 حضرت مسیح موعود کی تصویر دیکھ کر بیعت کرنا کہ خواب میں انہیں کا جماعت احمدیہ کی ترقی میں نہ علماء کی علمیت کام دے رہی ہے نہ چہرہ دکھایا گیا تھا عقلمند کی عقل...339 553 کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ فلاں شخص ہدایت پا جائے تو جماعت حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا خواب میں بہن کو جنت ترقی کرے گی 640 بیعت کے بعد ا خلاص و وفا میں ترقی کے کچھ واقعات 613 جاپانی احمدیوں سے بھی میں کہوں گا کہ دین سیکھیں اور اپنے ایمان وایقان میں ترقی کریں 688 میں بیر بیچتے دیکھنا اور حضور کی تعبیر تعلق 97 مذہب اور مادیات اور اخلاق اور انسان کی دیگر ضروریات اور ان کا یا ہم تعلق 258-256 نقشہ خدا قادیان کی ابتدائی حالت کافت اور پر ان کے فضل سے تری 76 سیب ترقیوں کا راز خداتعالی کے گھروں کو آباد کرنے اور اس سے تزکیه نفس تعلق جوڑنے سے ہے تزکیۂ نفس اور معاشرے میں پیار و محبت اور امن کی فضا پیدا جلسہ کا ایک مقصد تعلقات واخوت 289 496
خطبات مسرور جلد 13 تعلق باللہ 25 مضامین بعض اخبارات کا یہ کہنا کہ اسلام کی تعلیم میں جہاد کی تعلیم کی وجہ تمہارے تقویٰ و طہارت تمہاری دعاؤں کی قبولیت اور تمہارے سے شدت پسندی...تعلق باللہ کو دیکھ کر لوگ اس طرف کھنچے چلے آویں تعلق باللہ کو بڑھانے کی ضرورت ہے 92 726 اسلام کی خوبصورت تعلیم کا مقابلہ نہ کسی مذہب کی تعلیم کرسکتی ہے نہ کوئی قانون 728 352 اسلام کی تعلیم دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ،امن وسلامتی قائم کرنے کی تعلیم ہے انبیاء سے استہزاء کرنے والوں سے اعراض کی تعلیم ، معاملہ خدا تکبر پر چھوڑ دینا چاہئے 38 تکبر اور نخوت کو چھوڑنے کا عہد 734 12 مسلمان تنظیمیں جو اسلام کے نام پر ظلم کرتی ہیں کاش وہ سمجھ شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں جو دونوں جہان میں انسان جائیں کہ اسلام کی محبت کی تعلیم زیادہ جلدی دنیا کو اسلام کی کو رسوا کرتی ہے آغوش میں لاسکتی ہے اسلامی تعلیم انسانی فطرت کے مطابق ہے 13.12 38 تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں 70 سخت مکروہ ہے 13 اسلام کی خوبصورت تعلیم اور زندہ مذہب ہونے کے باوجودلوگوں جب تکبر پیدا ہو جائے تو بڑے بڑے وکیلوں اور عالموں کی عقل 255 کا مذہب اور خدا سے انکار اور اس کی وجہ بیویوں سے حسن سلوک اور محبت کے بارہ میں آنحضرت کی تعلیم پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ بے عقل ہو جاتے ہیں اور ہمارا نمونہ 259 مادی زندگی ، شہری زندگی ، صفائی وغیرہ کی بابت آنحضور کی تعلیم 260 تقویٰ اللہ کا تقوی اختیار کر جس حد تک تمہیں توفیق ہے 293 20 تمہارے تقویٰ و طہارت تمہاری دعاؤں کی قبولیت اور تمہارے تعلق باللہ کو دیکھ کر لوگ اس طرف کھنچے چلے آویں 92 اور رہنمائی مسیح موعود کی تعلیم اور تربیت ہمارے لئے اسوہ اور لائحہ عمل ہے حضور کا فرمانا کہ تمہیں تقوی وطہارت سے کام لے کر اسلامی کہ ہم نے آج بھی ہمیشہ صبر اور حوصلے سے کام لینا ہے 469 حکومت کو مضبوط کرنا چاہئے آج اسلام کی حقیقی تعلیم حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہی دنیا کو پہنچ تمہارا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا معیار اور اس کا تقویٰ اختیار کرنا سکتی ہے 548 قرآن کریم کی تعلیم کا غیروں پر کس طرح اثر ہوتا ہے ، اس کی مثالیں اسلام کی تعلیم کو پھیلانے میں ایم ٹی اے کا کردار 551 599 تمہاری اصل ترجیح اور فکر ہونی چاہئے 148 156 جو تقویٰ پر نہیں چلتا وہ پھر اس بات کو بھی ذہن میں رکھے کہ ایسا انسان خدا کی پکڑ میں آئے گا 159 اپنے تقویٰ کو بھی بڑھا میں اور خلافت کے ساتھ اپنے تعلق کو بھی اشتعال انگیزی سے بچنے کے لئے مسیح موعود کی تعلیم 646 بڑھائیں جاپانیوں نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلامی تعلیم کو کس تقویٰ کیا ہے؟ طرح دیکھا ، تا ثرات 339 371 707693 تقویٰ دل میں ہو تو اللہ تعالیٰ گناہوں کو ڈھانپتا چلا جاتا ہے 371
خطبات مسرور جلد 13 اصل بنیاد تقویٰ ہے عبادت کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے 26 مضامین 382 | مسلمان تنظیمیں جو اسلام کے نام پر ظلم کرتی ہیں کاش وہ سمجھ 397 جائیں کہ اسلام کی محبت کی تعلیم زیادہ جلدی دنیا کو اسلام کی قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے 400 آغوش میں لاسکتی ہے برائیوں سے بچنا تقومی کا پہلا مرحلہ 38 427 مسلمانوں کے نوجوان جو دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہو رہے ہیں ہمارا سب سے بڑا غم یہ کہ تقویٰ ہے کہ نہیں 596 | ان کی غلط سوچ 201 اسلام کے نام پر شدت پسند تنظیمیں اور جہاد کا غلط تصور 348 تلاوت قرآن کریم رمضان میں تلاوت قرآن کریم کی طرف خاص توجہ کی اسلام کا ایک بہت بڑا المیہ ، اسلام کے نام پر لوٹ مار اور مختلف ضرورت...393 | تنظیمیں 452 قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت اور طریق ، اصل چیز قاری کی شدت پسند گروہ اور تنظیموں کا ابھرنا اس وجہ سے ہے کہ مفاد طرح قرآت نہیں 447 پرستی زور پکڑ رہی ہے عرب احمدیوں کو تلاوت قرآن کریم کے حوالہ سے ایک ضروری توبہ نصیحت تلوار 544 499 عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کا تو بہ کی وجہ سے ٹل جانا ہمگر دوبارہ پکڑا جانا 60 آجکل دشمن تلوار کی بجائے گھٹیا ہتھکنڈوں سے اسلام کو نقصان اللہ تعالیٰ کا بندے کی تو بہ پر خوش ہونا، اس شخص سے زیادہ جسے پہنچا رہا ہے رستم تلوار چلانی خوب جانتا تھا 38 89 جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے 372 حضور نے مکہ والوں کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر ان کو بخش دیا 304 جو شخص...ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جب دشمن نے آپ پر تلوار سے حملہ کیا تو اللہ نے ان کی تلواروں جماعت میں سے نہیں ہے کو کند کر دیا 399 535 تو بہ اور استغفار کی مستقل عادت جہنم کے دروازے ہمیشہ کے 412 اسلام کو پھیلنے کیلئے کسی تلوار کی ضرورت نہیں 680 لئے بند کر دے گی اسلام کی ترقی کیلئے تلوار کی نہیں بلکہ اندر کی برائی کو ختم کرنے کی مومن کا کام عمل کے ساتھ تو بہ کی طرف بھی توجہ دے 582 702 حقیقی مومن بننے کے لئے پہلی شرط تو بہ، گناہوں کا اقرار 684 ضرورت ہے اسلام پر تلوار سے پھیلانے کا الزام بے بنیاد ہے یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں تمدن مسلمانوں پر تمدن کے اثرات 732 729.698 559 جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں اور عہدیداران کو پنجوقتہ نمازوں کے قیام کے لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے 8 توحید توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لا إله إلا اللہ کہا جائے 2 روح الحق توحید کی روح کو کہا جاتا ہے توحید کے قیام کیلئے وفات مسیح کا مسئلہ اہم ہے 117 179 حقیقی توحید اس وقت قائم ہوگی جب احدیت کی حقیقت کو ہم سمجھیں گے 180
خطبات مسرور جلد 13 27 مضامین صحابہ کرام اور صحابیات کا توحید پر قائم ہونا اور عبادتوں اور ذکر آپ کو عبد الکریم کی وفات پر جامعہ کے قیام کا خیال پیدا ہوا 97 الہی کے اعلیٰ معیار قائم کرنا توکل 346 حضرت اقدس کے توکل ، قبولیت دعا کا ایک واقعہ مسجد کپور تھلہ کا 276 کارکنان کو جماعت کی طرف سے ہر ممکن دی جانے والی سہولتیں، شکر اور توکل کی نصیحت آپ کا تہجد پڑھنے کی تلقین کرنا 322 8 جامعات میں بڑی تعداد مربیان کی آرہی ہے لیکن پھر بھی مستقبل قریب میں ضرورت پوری نہیں ہوسکتی 169 جامعہ کینیڈا کے طلباء کا سپینش ممالک میں تبلیغی اشتہارات تقسیم کرنا اور اس کی اہمیت وسیم احمد متعلم جامعہ احمدیہ قادیان کا ذکر خیر جائزہ 199 228 ہر احمدی جائزے لے، اس جائزے کے لئے صرف ایک شرط بیعت، "یہ کہ اس عاجز سے..." 593 تہجد کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریق رہا ہے 8 ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے 614 رمضان میں تہجد ، تراویح کی اہمیت گو کہ روزے کے لئے یہ کوئی جبر شرط نہیں ہے ٹونے ٹوٹکے ٹونے ٹوٹکے کرنا جائز نہیں ٹیٹو 393 اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا جذبات 66 حضرت مصلح موعودؓ کا ایک شخص کا جسم پر ٹیٹو بنوانے کا واقعہ بیان کرنا ٹیکس 450 731.555 مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ، اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب رکھ دیا جرنلسٹ 262 کینیڈا کی ٹیم کے پریس سے رابطے پر ایک جرنلسٹ کا سوال 40 عراق اور شام میں نام نہاد اسلامی حکومت سے رہا ہونے والے جھوٹ ، ٹیکس چوری اور دوسرے غلط کام کرنے والے خلافت سے صحیح فیض یاب نہیں ہو سکتے ٹی وی ٹی وی انٹرنیٹ کے منفی پہلو اور بعض نقصانات ٹی وی پروگرام اور بداثرات جامعہ احمدیہ 338 638 ایک فرنچ جرنلسٹ کا اظہار 257 آئی ٹی وی کی جرنلسٹ کا کمال صاحب کی وفات پر اظہار افسوس 490 جمیکا کی ایک جرنلسٹ کا حضور انور سے انٹرویو 519 سیرالیون کے نیشنل ٹی وی SLBC کے جرنلسٹ کا جلسہ میں شامل ہونا 520 ج - چ - ح - خ بی بی سی کی ایک جرنلسٹ کیرولائن وائٹ ( Caroline Wyatt) کا حضور انور سے انٹرویو 522 جامعہ کے طلباء کے لئے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ باہر کھیلنالازمی 95 | ہالینڈ میں ریجنل اخبار کے ایک جرنلسٹ کا حضور انور سے انٹرویو 602
خطبات مسرور جلد 13 28 مضامین نن سپیٹ کے ریڈیو چینل آر ٹی.وی نن سپیٹ کے جرنلسٹ کا جلسہ سالانہ میں ایم ٹی اے کا اہم بنیادی کردار حضور سے انٹرویو جلد بازی جلد بازی کرنا شیطان کا کام ہے 508 624 جلسہ سالانہ برطانیہ کا اختتام اور اظہار تشکر ، غیر از جماعت مہمانوں کے تاثرات اور ہمارے فرائض 95 جلسہ سالانہ میں کام کرنے والے والٹیئر ز 525508 509 کسی بھی بات کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلد بازی نہیں جلسہ برطانیہ کے حوالہ سے بعض انتظامی باتیں، کرسیوں، پانی اور کرنی چاہئے جلسه 434 رہائش کی کمی لاہور میں آریوں کا جلسہ اور حضرت مسیح موعود کا احباب جماعت پر ناراض ہونا کہ جب سخت کلامی شروع ہوئی تو کیوں بیٹھے رہے...294 حضرت مسیح موعود کے جلسوں کا نقشہ جلسہ سالانہ قادیان کی ایک خاص اہمیت دنیا میں ہونے والے جلسے اور جلسہ سالانہ قادیان 524 757 757 757 ربوہ والوں کو یا درکھنا چاہئے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہنے جلسوں کا انعقاد جماعت احمدیہ کے اہم پروگراموں کا انشاء اللہ وہاں بھی حالات بدلیں گے اور ( جلسوں کی رونقیں بھی قائم ہوں گی لیکن دعاؤں کی طرف توجہ دیں ایک حصہ ہے 759 سالانہ جلسوں میں شمولیت کی اہمیت اور شکر گزاری کا جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی اور حضرت مسیح موعود کا ایک طريق.......343 الهام.....764 جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ذکر الہی میں مصروف جلسہ میں ضرور شامل ہونا چاہئے ، حضرت مسیح موعود کا حکم ہے جلسہ رہنا چاہئے......جلسہ سالانہ کی برکات، دعاؤں کی قبولیت جلسہ کی برکات غیر معمولی ہوتی ہے 344 344 363 جلسہ سالانہ کے لئے کام کرنے والے رضا کاران کا جوش و جذبہ جو حضرت مسیح موعود نے پیدا کیا 478 پر آؤ 769 جلسہ پر شامل ہونے والوں کے لئے بڑی قابل غور نصیحت کہ کثرت ہجوم اور کام کرنے والوں کی قلت کی وجہ سے پریشان نہ ہو جا ئیں اور ٹھوکر نہ کھائیں جمعه / جمعۃ الوداع 772 جلسہ سالانہ برطانیہ ، نصائح اور رہنمائی ، میزبانی و مہمان جمعہ میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں مومن اپنے رب کے حضور جو دعا کرے وہ قبول کی جاتی ہے نوازی.....جلسہ کا ایک مقصد تعلقات واخوت جلسہ سالانہ اور مہمان نوازی، پارکنگ.487-478 496 479 تا 487 جمعتہ الوداع کا ایک غلط تصور جلسہ سالانہ برطانیہ میں شریک ہونے والوں کے لئے ہدایات جمعہ کی اہمیت اور نماز جمعہ کی فضیلت اور نصائح 428.368.494 418 4250420 497 تا 502 جمعہ کے دن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عید بنایا ہے 421 جلسہ کے پروگرام کے علاوہ دیگر پروگرام ، ان میں شمولیت 498 جمعہ کے دن مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے
خطبات مسرور جلد 13 ہیں....29 مضامین 421 | بعض اخبارات کا یہ کہنا کہ اسلام کی تعلیم میں جہاد کی تعلیم کی وجہ جس نے جان بوجھ کر تین جمعے چھوڑ دیئے اللہ تعالیٰ اس کے دل سے شدت پسندی...پر مہر کر دیتا ہے 421 یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں جمعہ کے دن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عید بنایا ہے 421 جہنم ادوزخ 726 729 ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا فرض ہے سوائے چار آپ کے ایک ارشاد کے مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور 422 مغفرت کے عشروں میں سے گزرتے ہوئے جہنم سے نجات افراد کے، غلام ،عورت، بچہ اور مریض پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعے تک اور رمضان اگلے رمضان تک ان دلانے والے عشرہ میں سے گزررہے ہیں کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جب تک کہ جنت اور جہنم کی حقیقت انسان بڑے بڑے گنا ہوں سے بچتا رہے جمعه اور درود شریف 494.423 425 بنگلہ دیش میں جمعہ کے وقت ایک احمد یہ مسجد میں خودکش دهما كه...جن جنات 767 حضرت مسیح موعود کی خدمت میں کسی کا خط لکھنا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جن آتے ہیں ،اس پر حضور کا جواب جنت 246 حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا خواب میں بہن کو جنت میں بیر بیچتے دیکھنا اور حضور کی تعبیر 97 رمضان میں دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں 381 میں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے جس طرح دو انگلیاں اکٹھی ہیں جنت اور جہنم کی حقیقت جنگ 388 405 412 تو بہ اور استغفار کی مستقل عادت جہنم کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دے گی جھوٹ 412 اسائلم لینے والوں کا وکیلوں کے کہنے پر بار بار سمجھانے کے با وجود جھوٹ بولنا اور اس کا نقصان 3 3 جھوٹ کے نقصانات اور اس کی بڑائی یورپ میں بعض Banifits لینے کے لئے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لینا 4 338 جھوٹ ہٹیکس چوری اور دوسرے غلط کام کرنے والے خلافت سے صحیح فیض یاب نہیں ہو سکتے مومن میں جھوٹ اور خیانت کے علاوہ بری عادتیں ہوسکتی ہیں لیکن ایک مومن میں جھوٹ اور خیانت نہیں ہوسکتی چندہ جات 412 نومبا لعین کو چندوں کے نظام میں لانے کی نصیحت 397 32 چندوں کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود پر اعتراض اور آپ کا دوسری جنگ عظیم میں ایک جرأت مند احمدی کی یورپ کو تبلیغ 52 فرمانا کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ سلسلہ کے لئے ایک کبہ بھی آپ کا فرمانا کہ شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے....352 بھیجو جہاد 315 خلیفہ وقت ( حضرت مصلح موعود ) پر چندوں اور روپے کے غلط اسلام کے نام پر شدت پسند تنظیمیں اور جہاد کا غلط تصور 348 | خرچ کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب اور حضور کا مالی قربانی
خطبات مسرور جلد 13 کرنے کا ذکر 30 316.315 مضامین 771 چندہ جات ، اخلاص و وفا اور مالی قربانی میں حضرت مسیح موعود کی حریر حضرت عائشہ سے حضور کا پوچھنا کہ کچھ کھانے کو ہے گھر قابل رشک جماعت مختلف ممالک کے واقعات 1 65 660 تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی مجموعی تعداد کو بڑھانے پر میں ہمیشہ بہت زور دیتا ہوں چوری 661 جھوٹ ٹیکس چوری اور دوسرے غلط کام کرنے والے خلافت سے صحیح فیض یاب نہیں ہو سکتے 338 میں فرما یا حریر ہے حسن سلوک 480 بیویوں سے حسن سلوک اور محبت کے بارہ میں آنحضرت کی تعلیم 259 اور ہمارا نمونہ حضرت مسیح موعود کا ایک بیمار کی شفاعت کرنا اور اللہ تعالیٰ کا آپ سے حسن سلوک 268 حفاظت چوہڑے چوہٹروں کا پیر چھت ایسی چھتیں جن کی منڈیر نہ ہوا پر سونے کی مناہی 174 138 ایک صحابیہ کا عبادت کیلئے رہی چھت سے لٹکانا 346 347 حالات مختلف ممالک اور پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم لیکن خدا کے فضل سے ان لوگوں پر انشاء اللہ حالات بدلیں گے 207 حرام 207 حضرت مسیح موعود کی حفاظت الہی کا ایک معجزہ دار امسیح اور اس کے متعلقہ گھروں کو محفوظ رکھنا ضروری ہے 284 حق | حقوق حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور جماعت احمدیہ 20 دنیا کے نقشے پر جماعت احمد یہ ہی ہے جو اسلامی تعلیم کے مطابق حقوق ادا کرنے والی ہے 21 ہر معاملہ میں اعتدال اور اس کا حق ادا کرنا حقیقی دین ہے، و لنفسک علیک حق 261 آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو تمام انسانیت کا خیال رکھنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے حسد 4 | هم.....حکومتوں کو احمدیت کی ترقی دیکھ کر حسد کے اظہار کا کوئی بہانہ چاہئے 298 387 ہر انسان کے حقوق کی ادائیگی ایک مسلمان پر فرض ہے 398 جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت یہ کی کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے..399 حاسدوں کے حسد تو اور بڑھیں گے اس لئے دعاؤں کی طرف بھی توجہ دیں حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد بنے کو خدا سے جوڑنا ،ایک اور دعاؤں کی تحریک، اللهم انا نجعلک...588،501 دوسرے کے حق ادا کرنا 682 707، 766، 767 میاں بیوی کے حقوق کی ادا ئیگی بھی ایک امانت ہے مثلاً حق جماعت کی ترقی دیکھ کر مخالفین کی حسد کی آگ بھرکتی رہتی ہے حق مہر ترقی کے ساتھ حسد اور بغض اور اقبال کے ساتھ زوال لگا ہوا ہے | مہر...398
خطبات مسرور جلد 13 31 مضامین جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت یہ کی حضور کا فرمانا کہ تمہیں تقویٰ و طہارت سے کام لے کر اسلامی 399 حکومت کو مضبوط کرنا چاہئے کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے.148 مسلمان حکمرانوں کیلئے کو حکومت چلانے کا ایک بہترین رہنما اصول 264 قادیان کے پاکیزہ ماحول کا ایک نقشہ ، ایک حقہ پینے والا پاکستان میں پنجاب حکومت کی طرف سے الفضل،روحانی 722 ، 723 خزائن وغیرہ کو Ban کرنے کا حکم حکم اللہ تعالیٰ کے احکامات سے باہر نکلنا فسق ہے حمد وثناء 290 5 خدا کے احسانوں کو یا درکھیں اور اس کی حمد کرنے کی ضرورت 9 اللہ کا کوئی حکم بھی انسانی طاقت سے باہر نہیں ہوتا 69 کام اگر اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ بے برکت پاکستان میں پنجاب حکومت کی طرف سے الفضل، روحانی اور بے اثر ہوتا ہے 290 حیات مسیح 10 خزائن وغیرہ کو Ban کرنے کا حکم ایک احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے ایک حکیم کا حیات ، وفات مسیح کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف نظر رکھنے کی ضرورت متعلق عجیب نظریہ 379 تردید حیات مسیح کی اہمیت تزکیۂ نفس اور معاشرے میں پیار و محبت اور امن کی فضا پیدا کرنے والے احکامات الہی 380 خدام الاحمدیہ 179.178 180.179 تمام انسانیت کا خیال رکھنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا حضرت مصلح موعود کا خدام الاحمدیہ کو توجہ دلا نا کہ ان کی ظاہری 387 شکل اسلامی شعار کے مطابق ہو 167 معاشرے کے حسن کو نکھارنے والا ایک اہم حکم ،غصہ دبانا، خلیفہ وقت سے ملنے کے بعد اخلاص و وفا میں حیرت انگیز تبدیلی، امریکہ، کینیڈا سے آنے والے خدام کی لندن میں حضور آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کا اسوہ 400 جلسہ میں ضرور شامل ہونا چاہئے ، حضرت مسیح موعود کا حکم ہے جلسہ پر آؤ حکومت / حکمران 769 بغاوت سے بچیں یہ باغیانہ رویہ چاہے نظام جماعت کے ادنیٰ کارکن کے خلاف ہو یا حکومت کے 7 سے ملاقات خدمت مخلوق کی خدمت کی اہمیت 340 275 عہد یداروں کو نصیحت کہ خدمت دین بھی صرف خلافت سے وابستگی میں ہے 338 قرآن شریف کی حکومت کو قبول کرنے کا عہد 12 یہ نہ کہا کریں کہ میرے پاس فلاں عہدہ ہے بلکہ خدمت کہیں....یورپ میں حکومت سے فائدہ اٹھانے ،اسائلم ، انشورنس سے فائدہ اٹھانے کے لئے غلط طریق کا استعمال ایک احمدی کو زیب خزانہ نہیں دیتا 339 66 | حضرت مسیح موعود کے شائع کردہ اشتہارات مذہبی دنیا کا ایک
خطبات مسرور جلد 13 خزانہ ہیں خشیت الہی 32 مضامین 197 وفات کے بعد فرمایا کرتے تھے مجھے اپنا جسم خالی معلوم ہوتا ہے...321 خدا تعالیٰ کی خشیت اور خوف دنیا کی چیزوں سے بے پرواہ کر دیتا خلافت على منهاج النبوۃ کی پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا 329 آپ کا خلافت علی منہاج نبوت کی خوشخبری دے کر خاموشی ہے لیکن وہ دنیا کی نعمتوں سے محروم نہیں رہتا خط خطوط 527 اختیار کرنا 331 خدا تعالیٰ کا مسیح موعود کے ساتھ خلافت کے نظام کا وعدہ اور ہماری 331 حضرت مسیح موعود کی خدمت میں کسی کا خط لکھنا کہ میری ہمشیرہ ذمہ داری کے پاس جن آتے ہیں ، اس پر حضور کا جواب 246 نظام خلافت کے قیام کے لئے سب سے زیادہ کوشش اور قربانی محمد حسین بٹالوی کے ایک بیٹے کا آریہ ہونا اور حضرت مصلح موعود حضرت مصلح موعودؓ نے کی اور اس کی تفصیل کے اس کو دوبارہ مسلمان کرنے پر محمد حسین کا شکریہ کا خط 435 نظام خلافت کی دینی ترقی کے ساتھ تعلق اور شریعت اسلامیہ کا خطبہ جمعہ ایک حصہ 332 332 68 خلافت اولی کے بعض منکرین خلافت کا مذموم و مشکوک کردار اور خطبہ بھی نماز کا حصہ، اس میں بولنا منع ہے آپ کا پیشگوئی مصلح موعودؓ کے متعلق خطبہ 112 ان کی ناکامی 332 338 334 لندن اور بعض دیگر ممالک میں سورج گرہن اور حضور انور کا خطبہ خلافت کی برکات و ترقیات جمعہ میں اس کے متعلق پر معارف بیان نماز کا اہتمام اور منکرین خلافت کا قادیان سے جاتے ہوئے تعلیم الاسلام سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہنا کہ دس سال نہیں گزریں گے کہ ان عمارتوں پر آریہ اور عیسائیوں کا قبضہ ہوگا لیکن خدا کے حضور انور کا خطبہ جمعہ میں ارشاد کہ اپنا فون بند کریں اور مسجد حیرت انگیز فضل اور تائید و نصرت کے نظارے صدقات و خیرات کی تاکید میں بند کر کے آیا کریں" خلافت / خلیفہ 181 236 334 خلافت سے علیحدہ ہونے والوں کے مرکزی نظام کا درہم برہم ہو جانا...335 ہر سال خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کے ذریعہ ہر احمدی کا عہد آج دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام خلافت احمدیہ کے نظام کے تحت ہی کرنا...1 ہو رہا ہے 335 تفسیر و تشریح کا ایک اصول ، خلافت اور نظام کے تحت ہی اپنے خلیفہ المسیح کے دورہ جرمنی کے دوران غیر معمولی تاثیر و تائید 103 الهی...337 نظریات کا اظہار کرنا چاہئے خلیفہ وقت ( حضرت مصلح موعود ) پر چندوں اور روپے کے غلط خلافت کی نعمت سے فائدہ اٹھانا ہے تو عبادتوں کا حق ادا خرچ کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب اور حضور کا مالی قربانی کریں، پانچ وقت نمازوں کی حفاظت کریں کسی کو شریک نہ کرنے کا ذکر 316،315 بنائیں 338 خلیفہ اول غم اور فکر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے مسیح موعود کی جھوٹ ، ٹیکس چوری اور دوسرے غلط کام کرنے والے خلافت
خطبات مسرور جلد 13 سے صحیح فیض یاب نہیں ہو سکتے 33 مضامین 338 | حضرت خلیفہ مسیح الاول " کا حضرت مسیح موعود سے عشق اور محبت 664 338 حضرت خلیفہ اسیح الاول کی قربانیوں کے معیار اور اطاعت کے عہدیداروں کو نصیحت کہ خدمت دین بھی صرف خلافت سے اور عجز و انکسار کا اعلی نمونہ وابستگی میں ہے دین کے نام پر کئے جانے والے کام، خلافت سے علیحدہ ہو کر اعلی ترین نمونے....ایک ذرہ کی بھی برکت نہیں پڑے گی 6770665 339 خلیفہ اول کے نام پر فساد پیدا کرنے والے لوگ اللہ ان کو عقل اپنے تقویٰ کو بھی بڑھائیں اور خلافت کے ساتھ اپنے تعلق کو بھی بڑھائیں دے...677 339 خلافت کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن آپس 683 خلیفہ وقت کی باتوں کو سنو اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو 340 کی رنجشوں کو ختم کرنے کا کہا جائے تو...خلیفہ وقت سے ملنے کے بعد اخلاص و وفا میں حیرت انگیز ایم ٹی اے تبلیغ و تربیت کا بہترین ذریعہ، خلیفہ وقت سے رابطے کا تبدیلی، امریکہ، کینیڈا سے آنے والے خدام کی لندن میں حضور ذریعہ...سے ملاقات 340 | خواب 686 66 عہدیدار کی اہمیت خود بخود بڑھے گی اگر وہ خلافت کی اہمیت اور خواب کو پورا کرنے کے لئے اس پر عمل کرنا اور چنوں پر وظیفہ تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے 340 پڑھ کر کنویں میں پھینکنے والی ایک روایت حضرت مصلح موعود کی مربیان اور علماء کو ایک بڑی اہم حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا خواب میں بہن کو جنت نصیحت، خلیفہ کے ساتھ دن رات تعاون کر کے اس کام میں لگ میں بیر بیچتے دیکھنا اور حضور کی تعبیر 97 جائیں کہ...خلیفہ وقت کے دورہ جرمنی کے دوران اسلام احمدیت کا پیغام پہنچ چکے ہوں گے لیکن وہ آپ کے ایک الہام کے برابر نہیں 141 وسیع پیمانے پر پہنچنا 355 آپ کا فرمانا کہ آج ہم نے خواب میں پیاز دیکھا اور اس کی تعبیر 192 خلیفتہ اسیح کی باتیں سن کر اسلام کے بارہ میں اپنی رائے تبدیل بہشتی مقبرہ کے بارہ میں ایک خواب جو اس طرح چھپی نہیں لیکن کرنا کہ یہ ایک امن دینے والا مذہب ہے 365 حضرت مصلح موعودؓ کی روایت کے مطابق...چاندی کی خلافت احمدیہ کے قیام کی خوشخبری اور اللہ تعالیٰ کی فعلی قبریں...341 حضرت مصلح موعودؓ کا فرمانا کہ میرے الہام اور خواب ایک ہزار تک شهادت....316 538 حضرت مسیح موعود کی وفات کے متعلق حضرت مصلح موعود کی نظام جماعت اور خلافت سے وفا اور اطاعت کا تعلق 592 خوا ہیں ، جس سے آپ کو اندازہ ہو گیا تھا اور یہ وفات اچانک وفات نہ تھی نظام خلافت کا قیام اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ، خلافت کے نظام آپ کا ابوجہل کے متعلق خواب دیکھنا اور تشویش نے بھی اس کام کو آگے بڑھانا ہے 325 456 597 خلیفہ اول کے پاس ایک شخص کا آنا اور سحری کی تاخیر کے متعلق خلیفہ اسیح کو خواب میں دکھائے جانے سے قبول احمدیت 609 | خواب بیان کرنا 474 خلیفہ وقت کے دورہ جات میں تائید الہی اور اس کے فضل اور بعض دفعہ خوابوں کی وجہ سے غلط فہمی کی بناء پر دعوے کر دینا اصل احسانات 354 تا 367، 618 تا 631 میں شیطان کا اثر...538
خطبات مسرور جلد 13 34 مضامین 396 حضرت مسیح موعود کی تصویر دیکھ کر بیعت کرنا کہ خواب میں انہیں کا خیانت صرف بُری باتوں یا کاموں میں ہی نہیں 553 کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر نیز صدق اور کذب اکٹھے نہیں ہو چہرہ دکھایا گیا تھا آپ کو لاہور سے ایک آدمی کا خط آنا جس نے آپ کو خواب سکتے اور نہ ہی امانت اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں میں دیکھا 397 604 مومن میں جھوٹ اور خیانت کے علاوہ بری عادتیں ہوسکتی ہیں 397 آپ کا ایک شخص کو خواب میں فرمانا کہ مرزا صاحب بچے ہیں 604 لیکن ایک مومن میں جھوٹ اور خیانت نہیں ہو سکتی خوابوں کے ذریعہ قبول احمدیت، کچھ واقعات 605 اگر تم اپنے بھائیوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو یہ بھی خیانت ہے 398 خلیفہ اسیح کو خواب میں دکھائے جانے سے قبول احمدیت 609 جس نے بغیر رشد کے مشورہ دیا تو اس نے اس سے خیانت کی 399 آپ کا ہارون الرشید کے خواب میں آنا خوبی خوبیاں 720 حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو دریا دے ڈز ان کے اندر سے مجھے ایسی شعائیں نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جن قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک پھیل جائے گی ، رؤیا اور اس کی تفصیل سے مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ عیب یا یہ خوبی درود شریف ہے....خوبصورتی 245 درود شریف کی اہمیت و برکات آپ کا حضور پر درود بھیجنے کا عہد لینا خوبصورتی کی پہچان، عریانی یا ظاہری حالت پر نہیں بلکہ کچھ اور درود شریف پڑھنے کی تحریک ہے...خلیفہ اول اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی درود شریف کی اہمیت اور فضائل دلچسپ بحث..خوشخبری 284 9 9 37.35 41 472 قیامت کے دن اس کے خطرات سے تم میں سب سے زیادہ محفوظ وہ ہوگا جو دنیا میں سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا 41 حضرت مصلح موعود اور خاندان حضرت اقدس کی بابت خدا تعالی اذان کے وقت اذان کے الفاظ دہرانے اور بعد ازاں درود 316 پڑھنے کی فضیلت بیان فرمانا اور شفاعت کا ذکر بیان 42 کی خوشخبری کہ ان کی قبریں بھی چاندی کی ہوں گی خلافت احمدیہ کے قیام کی خوشخبری اور اللہ تعالی کی فعلی درود کی نصیحت اور حکمت ، حضرت مسیح موعود کے ارشادات 43،42 شہادت....خوش خلقی 538 درود شریف کو کثرت سے پڑھنا آج ہر احمدی کے لئے ضروری ہے...ہمیشہ خوش خلقی کو اپنا ئیں 13 درود پڑھنے کا طریق خیانت حضرت مصلح موعود کا درود کا ایک خوبصورت انداز 45 45 48 خیانت سے پیش نہ آؤ 6 درود شریف میں صل علی اور وبارک علی علیحدہ علیحدہ کہنے
خطبات مسرور جلد 13 35 مضامین میں حکمت 50 | جلسہ سالانہ کی برکات، دعاؤں کی قبولیت 344 آنحضرت پر درود بھیجنے کا پیارا انداز جو حضرت مسیح موعود نے جمعہ میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں مومن اپنے رب کے 301 حضور جود عا کرے وہ قبول کی جاتی ہے 494،428،368 سکھایا ہے جمعہ اور درود شریف دشمن دشمنی مخالف علماء کا دین میں ہی دشمنی اور فساد ہے 425، 494 جماعت کے لئے دعاؤں کی تحریک 299 404 اللہ کی رحمت محسن کے لئے ، دعائیں قبول کروانے کے لئے محسن بننا ضروری ہے 408 اللہ کا فضل ہمیشہ جماعت کے شامل حال رہا ہے اس فضل کو دائی 436 پاکستان کی بقاء اور سالمیت کو خطرہ باہر سے زیادہ اندر کے دشمن سے کرنے کے لئے دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے ہے خود غرض اور مفاد پرست لیڈروں اور علماء سے 488 قبر پر جا کر صرف مردے کے لئے دعا ضروری نہیں اپنے لئے بھی اسلام دشمن قوتوں کا اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے مسلم اور کئی امور کے لئے بھی دعا کی جاسکتی ہے دنیا کے جھگڑے بڑھانا اور میڈیا میں کوریج کے ذریعہ نیک لوگوں کے مزاروں کی برکات اور وہاں دعا کرنا 444 544 14 اگست پاکستان کے یوم آزادی پر دعا کی تحریک 487 اسلام کو بدنام کرنا...دعا 443 مومن کو صبر کے معنے سمجھنے کی ضرورت ہے تبھی دعا کی حقیقت بھی 581 نماز تہجد کے وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے 8 معلوم ہوگی پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور پر دعا کی تحریک 35 بیت الفتوح کی آتشزدگی ، اگر یہ واقعہ بھی آزمائش ہے تو ہمیں یہ یورپ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک 35 سورۃ فاتحہ کی ایک دعا جسے ہمیشہ یا درکھنا چاہئے 64 تمہارے تقویٰ و طہارت تمہاری دعاؤں کی قبولیت اور تمہارے تعلق باللہ کو دیکھ کر لوگ اس طرف کھنچے چلے آویں مسلم امہ اور دنیا کی ابتر حالت اور دعا کی تحریک 92 226 عہد کرنا چاہئے کہ خدا کے حضور جھکتے ہوئے دعائیں کرتے ہوئے آزمائش سے بھی کامیاب گزریں گے ،انشاء اللہ اس نقصان کی بہتر رنگ میں تلافی ہوگی 586 حاسدوں کے حسد تو اور بڑھیں گے اس لئے دعاؤں کی طرف دعا کی اہمیت ہمسمریزم اور دعا کے ذریعہ تبدیلی میں فرق 239 بھی توجہ دیں اور دعاؤں کی تحریک اللهم انا 239 | نجعلک 588 علم تو جہ اور مسمریزم...اور دعا حضرت مسیح موعود کے معجزات اور نشانات ، سگ گزیدہ کا حیرت احمدی ہونا خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ، ان بزرگوں کے لئے دعا 247 کرنی چاہئے جنہوں نے احمدیت کو اپنی نسلوں میں جاری انگیز طور پر حضور کی دعا سے بچ جانا حضرت اقدس کے توکل، قبولیت دعا کا ایک واقعہ مسجد کپورتھلہ کا رکھا....612 276 ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امت کو علماء سوء اور غلط 291 لیڈروں سے بچائے 637 قبر سے مردے کا تعلق اور دعا کرنا حضرت مسیح موعود کی دعا ئیں کہ جماعت کو کشائش ملے ہنگر دنیا دنیا کے تباہی کی طرف تیزی سے جانے پر دعا کی تحریک اور حضور کے ہر ملک میں چل رہا ہے 317 انور کی رہنمائی 724
خطبات مسرور جلد 13 36 مضامین ربوہ والوں کو یا درکھنا چاہئے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہنے حضرت مسیح موعود کا ہمدردی خلق کے لئے تڑپ اور درد، دنیا کی انشاء اللہ وہاں بھی حالات بدلیں گے اور ( جلسوں کی رونقیں اصلاح کے اس دور کو قائم رکھنا اور آگے چلانا جماعت کے افراد کا بھی قائم ہوں گی لیکن دعاؤں کی طرف توجہ دیں دعوت الی اللہ 759 فرض ہے 197 مذہب کی ضرورت اور یہ خیال کہ دنیا داروں کی اکثریت کے دعوت الی اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ علمی بحثوں اور بڑے اخلاق مذہب کے ماننے والوں سے بہتر ہیں اور اسلام خصوصاً بڑے سیمیناروں اور فنکشنز کا سہارا لیا جائے ، حالات کے مطابق نشانہ بنایا جاتا ہے طریق نکالنے چاہئے دفاع 254 170 لا اله الا الله محمد رسول اللہ سے اخلاق بھی درست، دنیا اور دین دونوں درست ہو جاتے ہیں 263 حضرت مسیح موعود کے علم کلام کی اہمیت ، آپ نے اسلام کا دفاع صبر نہ کرنے والے ، جزع فزع کرنے والے دنیا کی بھی مصیبت ایسے شاندار رنگ میں کیا ہے کہ پہلے کسی مسلمان عالم نے نہیں اٹھاتے ہیں اور آخرت کی بھی کیا...دل حضرت مسیح موعود کے کلام کا دلوں پر اثر 273 535 نبی اس لئے آتا ہے کہ دنیا کے روحانی انحطاط کی اصلاح کرے....317 223 آج دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام خلافت احمدیہ کے نظام کے تحت ہی اپنے دلوں کو عقیدے کے لحاظ سے نہیں بلکہ عملوں کے لحاظ سے ہو رہا ہے 351 335 جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ذکر الہی میں مصروف 344 بھی فائدہ مند بنانا ہے ہمارے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ خدا تعالیٰ کیوں بڑے رہنا چاہئے.....ابتلاؤں اور نقصانات سے ہمیں گزارتا ہے 580 خدا تعالیٰ کی خشیت اور خوف دنیا کی چیزوں سے بے پرواہ کر دیتا ہے لیکن وہ دنیا کی نعمتوں سے محروم نہیں رہتا دنیا 527 دنیا کے نقشے پر جماعت احمدیہ ہی ہے جو اسلامی تعلیم کے مطابق دنیا میں پائیدار امن کا ذریعہ مسلم دنیا ، ایمان اور اسلام کے 21 خلاصہ کو سمجھ لے اور دوسروں کے لئے سلامتی کے سامان 22 تا 30 دنیا میں برپا فساد نے اسلام کو بدنام کیا ہوا ہے 543 543 حقوق ادا کرنے والی ہے دنیا بھر میں جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کرنے والوں کے کرے....اخلاص و وفا کا تذکرہ یورپ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک 35 اسلام دشمن قوتوں کا اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے مسلم دنیا دنیا میں عذاب شوخیوں کی وجہ سے آتے ہیں 61 کے جھگڑے بڑھانا اور میڈیا میں کوریج کے ذریعہ اسلام کو بدنام حضرت مسیح موعود کو یقین تھا کہ قرآن آپ کی تائید میں ہے یہی کرنا...امید تھی کہ جس نے دنیا میں آپ کو کامیاب کرایا 172 آج اسلام کی حقیقی تعلیم حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہی دنیا کو پہنچ حضرت مسیح موعود کے شائع کردہ اشتہارات مذہبی دنیا کا ایک خزانہ ہیں سکتی ہے 544 548 197 دنیا کے مختلف حصوں میں جماعت کے ذریعہ اسلام کا پیغام محبت
خطبات مسرور جلد 13 37 مضامین اور امن پہنچنا 554 | دوستی اسلام مخالف طاقتیں چاہے جتنا بھی منفی پروپیگینڈہ کریں اسلام اسلام کی تعلیم دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ، امن وسلامتی قائم کرنے نے ہی دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھانے ہیں اور امن کی تعلیم ہے اور سلامتی مہیا کرنی ہے دنیا کے امن کی اسلام ہی ضمانت ہے 557 دہشت گردی 557 734 فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت قتل و غارت گری 37 دنیا میں فیملی پلانگ پر زور اور ان ممالک کی غلطی 670 سے اسلام کی فتح نہیں ہوگی دنیا کے تباہی کی طرف تیزی سے جانے پر دعا کی تحریک اور حضور مسلمانوں کے نوجوان جو دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہورہے ہیں انور کی رہنمائی 724 ان کی غلط سوچ 201 دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور احتیاطی تدابیر کی تحریک 725 دھما کہ دنیا کے بگڑتے ہوئے حالات میں ایک احمدی کے لئے حضرت بنگلہ دیش میں جمعہ کے وقت ایک احمد یہ مسجد میں خودکش مسیح موعود کا یہ پیغام " آگ ہے پر آگ سے..." 737 دھا کہ...دنیا میں ہونے والے جلسے اور جلسہ سالانہ قادیان دورہ جات 757 337 دیانت 767 ہر احمدی کو اپنے ایمانداری اور دیانت کے معیاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے آپ کی دورہ کینیا کے دوران ایک سائنسدان سے ملاقات اور نصیحت 164 خلیفہ اسیح کے دورہ جرمنی کے دوران غیر معمولی تا ثیر و تائید الہی.آپ کا فرمانا کہ جب میں سفر پر جاتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کئی دین گنا زیادہ بڑھ کر ہوتے ہیں 203 354 جو شخص دین کے معاملے میں کوئی ایسی رسم پیدا کرتا ہے جس کا خلیفہ وقت کے دورہ جرمنی کے دوران اسلام احمدیت کا پیغام وسیع دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے 11 355 دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان مال عزت اور اولاد پیمانے پر پہنچنا 13 آپ کا ہالینڈ اور جرمنی کے سفر میں خدائی تائید کے متعلق بتانا 619 سے زیادہ عزیز سمجھنے کا عہد حضور انور کا دورہ ہالینڈ اور ٹیلی ویثرن کے نمائندوں کے آپ انجمن اور دین میں فرق اور ان کی ترقی کے طریق وذرائع 202 24 ہر معاملہ میں اعتدال اور اس کا حق ادا کرنا حقیقی دین ہے، سے انٹریوز 261 حضور انور کے دورہ جرمنی و ہالینڈ میں ہونے والے انٹریوز کی تفصیل 624 | و لنفسک علیک حق آپ کا ہالینڈ کی دوسری مسجد کا سنگ بنیا درکھنا 625 لا اله الا الله محمد رسول اللہ سے اخلاق بھی درست، دنیا اور 626 | دین دونوں درست ہو جاتے ہیں 263 آپ کا جرمنی میں دو مساجد کا افتتاح کرنا آپ کا جاپان میں پہلی مسجد کے متعلق اظہار تشکر 678 نظام خلافت کا دینی ترقی کے ساتھ تعلق اور شریعت اسلامیہ کا حضور انور کے دورہ جاپان میں ہونے والے انٹرویوز 699 | ایک حصہ 332 خلیفہ وقت کے دورہ جات میں تائید الہی اور اس کے فضل اور دین کے نام پر کئے جانے والے کام خلافت سے علیحدہ ہو کر 354 تا 367 ،618 تا 631 | ایک ذرہ کی بھی برکت نہیں پڑے گی احسانات 339
خطبات مسرور جلد 13 38 مضامین جاپانی احمدیوں سے بھی میں کہوں گا کہ دین سیکھیں اور اپنے رحمت ایمان وایقان میں ترقی کریں ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے مغفرت کے عشروں میں سے گزرتے ہوئے جہنم سے نجات 688 آپ کے ایک ارشاد کے مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کے لئے قرآن کا علم حاصل کریں اور اپنے نیک نمونے قائم کر دلانے والے عشرہ میں سے گزررہے ہیں 733 اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اقسام 405 405 اللہ کی رحمت محسن کے لئے ، دعائیں قبول کروانے کے لئے محسن کے دنیا کو اپنی طرف کھینچیں دیوانگی مولوی محمد یار کی دیوانگی کی ایک مثال ڈی بیٹس 476 بننا ضروری ہے رزق 408 ڈی بیٹنگ سوسائٹی (Debating Society) کے اللہ تعالیٰ کا غیب سے رزق دینے کے نرالے طریق نقصانات.82 رسم و رواج حضرت مصلح موعودؓ کا فرمانا کہ علم النفس کے رو سے ڈی بیٹس کرنا سخت مضر ہے ذکر الہی 83 321 جو شخص دین کے معاملے میں کوئی ایسی رسم پیدا کرتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے 11 جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ذکر الہی میں مصروف رہنا چاہئے 344 شادی بیاہ کے غلط رسوم و رواج سے احمدیوں کو بچنا چاہئے 11 صحابہ کرام اور صحابیات کا توحید پر قائم ہونا اور عبادتوں اور ذکر رسم ورواج کے پیچھے نہ چلنے کا عہد الہی کے اعلیٰ معیار قائم کرنا ذمہ داری 346 رضا کاران (دیکھیں والنٹیئر ز ) رمضان المبارک نوجوانوں اور بچوں کو مذہب کے حوالہ سے سمجھ بوجھ رکھنے کی رمضان کے دنوں میں نہ بیہودہ باتیں ہوں..ضرورت اور اہمیت اور انگلی نسلوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بڑوں کی ہے 255 رمضان کی برکات خدا تعالیٰ کا مسیح موعود کے ساتھ خلافت کے نظام کا وعدہ اور ہماری رمضان میں شیطان کو باندھ دیا جانا ذمہ داری 11 368 378-368 369 331 آپ غریبوں مسکینوں کی مدد کے لئے رمضان میں خاص طور پر خاندان حضرت مسیح موعود کی ذمہ داریاں 541 اپنے ہاتھوں کو اس قدر کھولتے تھے کہ تیز آندھی سے بھی احمدی ہونے کا اعلان کچھ ذمہ داریاں ڈالتا ہے رز راه هدی 591 بڑھ جاتے 386 رمضان میں تلاوت قرآن کریم کی طرف خاص توجہ کی ضرورت...393 رمضان میں تہجد ، تراویح کی اہمیت گو کہ روزے کے لئے یہ کوئی جماعت احمدیہ کے کام اس آگ کے وقت بھی نہیں رکے ، راہ شرط نہیں ہے ھدی کا لائیو پروگرام ہونا 585 | رمضان کا دوسرا عشرہ مغفرت ، اور اس کی تشریح 393 409
خطبات مسرور جلد 13 39 مضامین س شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے | کسوف و خسوف اور بعض صحابہ کے واقعات و روایات 185 رمضان کے روزے رکھے، اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے بہشتی مقبرہ کے بارہ میں ایک خواب جو اس طرح چھپی نہیں لیکن 415 حضرت مصلح موعود کی روایت کے مطابق...چاندی کی جائیں گے 316 پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعے تک اور رمضان اگلے رمضان تک قبریں...ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں حضرت مصلح موعود کا صحابہؓ کی روایات جمع کرنے کی تحریک اور جب تک کہ انسان بڑے بڑے گنا ہوں سے بچتا رہے 423 اس کی اہمیت ربخش 559 رجسٹر روایات صحابہ پر ہونے والے کام کی بابت حضور انور کا ذکر 564 خلافت کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہیں لیکن آپس اور رہنمائی کی رنجشوں کو ختم کرنے کا کہا جائے تو...683 حضرت مسیح موعود کی یہ باتیں بھی ( روایات ) ایسی ہی اہم ہیں رہنمائی جیسی حدیثیں...565 اخلاق کی بابت آنحضرت کی لطیف رہنمائی 259 صحابہ کی روایات لکھ کر ایڈیشنل وکالت تصنیف میں بھجوانے کی مادی زندگی ،شہری زندگی ،صفائی وغیرہ کی بابت آنحضور کی تعلیم تحریک..، اور رہنمائی 260 روحانی انقلاب احمدی کی خوش قسمتی کہ حضرت مسیح موعود نے مغرب کے غلط فلسفہ سے بچا کر رہنمائی فرمائی کہ اصل حقیقت جاننے کے لئے اسلامی اصول کی فلاسفی کے ذریعہ روحانی انقلاب 261 رؤيا / کشوف 566 514 آنحضرت کی طرف دیکھو سحری کے اوقات کے بارہ میں ایک شخص کا اپنا نظریہ کہ وقت کی مرزا سلطان احمد صاحب کے متعلق آپ کی ایک رؤیا کہ جس سے 473 | معلوم کہ آپ کے لئے ہدایت مقدر ہے 128 خاص قید نہیں ) اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی رجسٹر روایات صحابہ" پر ہونے والے کام کی بابت حضور انور کا ذکر قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک پھیل جائے گی ،رؤیا اور اور رہنمائی 564 اس کی تفصیل 284 بیت الفتوح میں ہولناک آتشزدگی اور حضور انور کی حضرت مصلح موعودؓ کا آپ کی رؤیا کہ آپ ہوا میں تیر رہے ہیں کی رہنمائی......588582 وضاحت جاپان میں پہلی مسجد کی تعمیر اور حضور انور کی نصائح اور زمانه رہنمائی.....770 678 ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملی یہ ایک احسان ہے خدا دنیا کے تباہی کی طرف تیزی سے جانے پر دعا کی تحریک اور حضور تعالیٰ کا...انور کی رہنمائی روایات 724 10 مسیح موعود کے زمانہ میں آپ کی جماعت میں شامل ہونے والے تین طرح کے لوگ خواب کو پورا کرنے کے لئے اس پر عمل کرنا اور چنوں پر وظیفہ 201 پڑھ کر کنویں میں پھینکنے والی ایک روایت 66 حضرت مصلح موعود کو اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ
خطبات مسرور جلد 13 40 مضامین اعتراضات اور بدظنیوں کا سامنا کرنا پڑا 315 | غیروں کو بھی نشان دکھاتا ہے نبی کی وفات کے بعد روحانی لحاظ سے رات اور جسمانی لحاظ سے ایمان کی نشانی سچائی اور امانت کی ادائیگی 318 | سحری 245 397 طلوع فجر کا زمانہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک شخص کا کہنا کہ مجھے بھی خدا سحری کے اوقات کے بارہ میں ایک شخص کا اپنا نظریہ کہ (وقت کی کہتا ہے کہ میں ابراہیم ہوں ، نوح ہوں، آپ کا جواب 537 خاص قید نہیں ) اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں 473 729 خلیفہ اول کے پاس ایک شخص کا آنا اور سحری کی تاخیر کے متعلق بڑے خوش قسمت وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے خواب بیان کرنا ذریعہ چودہ سو سال بعد تازه به تازه وحی و الہام کا زمانہ پایا ، ان سخاوت عشاق کی کیفیت زنا 711 | آنحضرت کی سخاوت کا معیار سکول 474 386 زنا کی مذمت اور اس کے مختلف پہلو، نظر کا ، خیالات کا زنا 4 حضرت مسیح موعود کا سکول قائم کرنے کا فیصلہ اور اس کا پس منظر 204 جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت یہ کی کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے.زندگی 399 منکرین خلافت کا قادیان سے جاتے ہوئے تعلیم الاسلام سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہنا کہ دس سال نہیں گزریں مادی زندگی بشہری زندگی ، صفائی وغیرہ کی بابت آنحضور کی تعلیم اور گے کہ ان عمارتوں پر آریہ اور عیسائیوں کا قبضہ ہوگا لیکن خدا کے رہنمائی 260 حیرت انگیز فضل اور تائید ونصرت کے نظارے 334 قادیان اور دوسرے ممالک میں جماعت احمدیہ کا عمارتیں خرید سیش کر سکول اور مشن ہاؤسز بنانا سال نو سگ گزیده سال نو کی مبارکباد دینے کے تقاضے سائیکل 335.334 حضرت مسیح موعود کے معجزات اور نشانات ، سنگ گزیدہ کا حیرت حضرت مسیح موعود کا حضرت مصلح موعودؓ کو سائیکل کی بجائے انگیز طور پر حضور کی دعا سے بچ جانا گھوڑی خرید کر دینا جس کو حضرت اقدس کی وفات کے بعد مالی سلام مشکلات کی وجہ سے فروخت کرنا پڑا سیچ/سچائی 247 324 عہدیداران کو سلام کرنے کے متعلق ایک ضروری نصیحت 85 آپ کی نصیحت کہ عہد یداروں کو سلام کرنے میں پہل حضرت مسیح موعود کی راستبازی کا واقعہ ، مقدمہ ڈاک 65 کرنی چاہیے قومی ترقی کے لئے سچائی کی ضرورت واہمیت 243 ہر طبقے کو سلام کو رواج دینا چاہئے | اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے کس طرح آپ کا مسیح و مہدی کو سلام پہنچانا 85 86 330
خطبات مسرور جلد 13 41 مضامین کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے..ہماری تربیت کے لئے حضرت مسیح موعود کی قرآن وسنت کے بارہ شان 399 میں تفسیر وں ، تشریحات اور تحریرات کو سمجھنا بھی ضروری آنحضرت کی شان اور مقام جو حضرت مسیح موعود نے بیان ہے، پڑھنا بھی ضروری ہے 592 | فرمایا ہے...شدت پسندی حضرت مسیح موعود کی سیر کی عادت اور اس کے فوائد سیر 95 ایک سیر کے دوران حضرت مسیح موعود کا ریتی چھلہ میں بڑ کا کے 3110299 اسلام کے نام پر مختلف ممالک میں شدت پسندی اور اور قتل و غارت جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں 257 درخت کے پاس فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کام ختم ہو چکا اسلام کے نام پر شدت پسند تنظیمیں اور جہاد کا غلط تصور 348 شدت پسند گروہ اور تنظیموں کا ابھرنا اس وجہ سے ہے کہ مفاد ہے...خلیفہ اول کا سیر میں پیچھے رہ جانا اور حضور کا طریق سیرت حضرت مسیح موعود 318 672 پرستی زور پکڑ رہی ہے 544 بعض اخبارات کا یہ کہنا کہ اسلام کی تعلیم میں جہاد کی تعلیم کی وجہ حضرت مسیح موعود کی سیرت و سوانح کی بابت حضرت مصلح موعود سے شدت پسندی...کی بعض روایات 166 شرائط بیعت سیرت حضرت مسیح موعود کے واقعات بیان فرمودہ حضرت مصلح موعود...278+267 726 1 شرائط بیعت اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں شرائط بیعت کہنے کو تو دس ہیں لیکن موٹے طور پر بھی لیں تو تھیں حضرت مصلح موعودؓ کا مسیح موعود کی سیرت کے واقعات بیان کرنا سے زیادہ بنتی ہیں اور نتیجہ اخذ کرنا جو آپ کا ہی خاصہ ہے سیکرٹری 531 شرائط بیعت کی کچھ تفصیل و تشریح شرک حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی خدمات حضرت مسیح موعود شرک سے بچنے کا عہد کے سیکرٹری کے طور پر سیمینار 2 2 تا 15 2 436 جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد نئے سرے سے کرنے کی ضرورت ہے اور نبھانے کی ضرورت ہے کہ ہم شرک سے دور رہیں گے اور حضرت دعوت الی اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ علمی بحثوں اور بڑے مسیح موعود کے مشن کی تکمیل کی بھی بھر پور کوشش کریں گے 328 شریعت اسلامیہ بڑے سیمیناروں اور فنکشنز کا سہارا لیا جائے ، حالات کے مطابق نظام خلافت کی دینی ترقی کے ساتھ تعلق اور شریعت اسلامیہ کا طریق نکالنے چاہئے 170 ایک حصہ 332 شعائیں شادی بیاه شادی بیاہ کے غلط رسوم و رواج سے احمدیوں کو بچنا چاہئے 11 حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت یہ کی ان کے اندر سے مجھے ایسی شعائیں نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جن
خطبات مسرور جلد 13 42 سے مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ عیب یا یہ خوبی ہے 245 کا خرکنند دعوئے جب پیمبرم شعر (اس جلد میں مذکور اشعار ) اے جانِ حسنِ مطلق اے حسنِ آسمانی اے مست رو محبت، اے تیز رو جوانی شفاعت جب اذن ہوگا اسی کی سفارش ہوگی 505 شفاعت کا غلط تصور اور قبر پرستی مضامین 637 268 268 بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں بھلا ہوا ہم بیچ بھنے ہر کو کیا سلام جے ہوتے گھر اُونچ کے مانتا کہاں بھگوان 230 حضرت مسیح موعود کا ایک بیمار کی شفاعت کرنا اور اللہ تعالیٰ کا آپ کی شفاعت سے حسن سلوک شفاء 268 حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کی قدرت کے عجائبات کے 385 نظارے ،کھانسی سے بذریعہ الہام شفاء شکر ادر ہے وہ بارگاہ جو ٹوٹا کام بناوے بنابنا یا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے کریں نہ کریں وہ تمہیں قتل مضطر 507 سہولتیں ، شکر اور توکل کی نصیحت جھکا دینا تم اپنا سر احتیاطاً 268 465 جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا 10 کارکنان کو جماعت کی طرف سے ہر ممکن دی جانے والی 322 محمد حربی بادشاہ ہر دوسرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی احمدیوں پر خدا تعالیٰ کے فضل اور شکر گزار بنتے ہوئے ہمارے اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں کہ اسکی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی 754 فرائض...وہ نہ آئے تو تُو ہی چل اے میر تیری کیا اس میں شان گھٹتی ہے ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لئے لْفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِي چه خوش بودے اگر ہر یک زامنت نورد میں بودے بز بلا کئیں قوم را اُو دَادَه است زیر آن یگ گیج بارکبا د است آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار اے دل تو نیز خاطر اینان نگاه دار 85 453.241 530.528 664 637 737 330 سالانہ جلسوں میں شمولیت کی اہمیت اور شکر گزاری کا طريق.......343 جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا 509 528 قناعت اور شکر کے نتیجہ میں مزید فضل اور نعمتیں مسیح موعود کا نمونہ کہ اللہ کی نعمتوں کو جب استعمال کریں تو اس کا شکر کریں 532 ہر احمدی کو جو پاکستان سے مغربی ممالک میں آیا ہے شکر گذاری کا احساس...شوق 603 قرآن ایسے طریق سے پڑھایا جائے جس سے شوق اور محبت پیدا ہو 447 حضرت مسیح موعود کی ایک تڑپ اور شوق، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دینا اور نمازیں پڑھنا 567
خطبات مسرور جلد 13 43 مضامین شہادت مکرم لقمان شہز ا دصاحب ابن مکرم اللہ دتہ صاحب کی بھڑی شاہ رحمان ضلع گوجرانوالہ میں شہادت 15 صیض آپ کا مصائب اور مشکلات میں صبر 43 46 مکرم نعمان احمد نجم صاحب ابن مکرم چوہدری مقصود احمد آپ کے محبان کا صبر صاحب ملیر رفاہ عام سوسائٹی کراچی کی شہادت 211 حضرت مسیح موعود کو مقدمات میں پیش آنے والی تنگیاں اور آپ کا جماعت میں ہونے والی شہادتوں کے بدلہ میں خدا کے فضل اور صبر و استقلال تائید و نصرت 86 224 صبر نہ کرنے والے ، جزع فزع کرنے والے دنیا کی بھی مصیبت 273 مکرم اکرام اللہ صاحب شہید ابن مکرم کریم اللہ صاحب آف اٹھاتے ہیں اور آخرت کی بھی تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان کی شہادت 502 مسیح موعود کی تعلیم اور تربیت ہمارے لئے اسوہ اور لائحہ عمل ہے مکرم احمد الرحال صاحب آف سیریا کی شہادت 590 کہ ہم نے آج بھی ہمیشہ صبر اور حوصلے سے کام لینا ہے 469 قرغیزستان میں ایک احمدی کی شہادت ، یونس عبدل جیلوف حضرت مسیح موعود کا ضبط اور صبر گالیوں کے بھرے ہوئے خطوط کا صاحب شہرت 773،767 | آنا.....قادیان کی ترقی اور شہرت ، حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک ثبوت ہے 252 442 مومن کو صبر کے معنے سمجھنے کی ضرورت ہے تبھی دعا کی حقیقت بھی معلوم ہوگی صحابة ย 581 شیطان جلد بازی کرنا شیطان کا کام ہے 95 آپ کا فرمانا کہ شیطان انسان کے خون کے ساتھ اس کے جسم میں چلتا ہے، میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے 162 160 آپ کا فرمانا کہ شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے...352 369 میاں شیر محمد صاحب یکہ بان ایک ان پڑھ صحابی کا طریق تبليغ....169 463.320 کسوف و خسوف اور بعض صحابہ کے واقعات و روایات 185 حضرت مسیح موعود کے صحابہ کا آپ سے عشق صحابہ کرام اور صحابیات کا توحید پر قائم ہونا اور عبادتوں اور ذکر الہی کے اعلیٰ معیار قائم کرنا 346 ایک صحابیہ کا عبادت کیلئے رشتی چھت سے لٹکانا 346 347 رمضان میں شیطان کو باندھ دیا جانا بعض دفعہ خوابوں کی وجہ سے غلام نبی کی بناء پر دعوے کر دینا اصل مؤاخات مدینہ صحابہ نے شکریہ کہ کر یہ کہا کہ یہ تمہاری چیز تمہیں مبارک ہوں ہمیں بازار کا رستہ بتادو میں شیطان کا اثر...538 347 شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے استغفار کرنا بہت ضروری حضرت مسیح موعود اور آپ کے صحابہ کے متعلق بعض واقعات ہے 576 | بیان فرمودہ حضرت مصلح موعود 445-430
خطبات مسرور جلد 13 44 مضامین حضرت مسیح موعود کی اپنے صحابہ سے محبت 438 اپنے ہاتھوں کو اس قدر کھولتے تھے کہ...تیز آندھی سے بھی حضرت مسیح موعود کے ایک صحابی (حضرت عبد اللہ سنوری بڑھ جاتے صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب) کا آپ سے عشق 458 حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے واقعات کا بیان 463 تا 477 ایک صحابی کا بیان کہ آپ ہمیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے صفائی ظاہری صفائی کو ملحوظ رکھنے کی نصیحت گئے.اور تھوڑا سا مشروب اور کھانا آپ کی برکت سے متعدد کے آپ کا فرمانا کہ نظافت ایمان کا حصہ ہے 386 167 168 480 مادی زندگی ، شہری زندگی ، صفائی وغیرہ کی بابت آنحضور کی تعلیم اور لئے کافی ہو گیا ایک صحابی کا مہمان کے لئے اپنے بچوں کو بہلا پھسلا کر بھوکا رہنمائی سلانا اور خود بھی بھوکے رہنا 260 482 آنحضرت جمعہ کے دن نہایت تعہد سے صفائی کرتے اور اعلیٰ اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے حضرت مصلح موعود کا صحابہ کی روایات جمع کرنے کی تحریک اور اس کی اہمیت 559 حضرت ابوطلحہ انصاری کا بیرحاء کو خدا کی راہ میں دینا 650 صحابہ کی روایات لکھ کر ایڈیشنل وکالت تصنیف میں بھجوانے کی تحریک...566 علم ایک بہت بڑا گناہ ہے ظ 560 5 سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے حضرت عائشہ کو نرم آٹے کی روٹی ملی تو آنکھوں میں آنسو آگئے ایک ہاتھ زمین دبائے.6 کہ آپ کے زمانے میں یہ نہیں ملتا تھا اور آپ موٹے پسے ہوئے مختلف ممالک اور پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے 721 مظالم لیکن خدا کے فضل سے ان لوگوں پر انشاء اللہ حالات آٹے کی روٹی کھایا کرتے تھے صداقت حضور کا فرمانا کہ میری صداقت کے خدا تعالی نے لاکھوں نشانات دکھائے ہیں 251 بدلیں گے قادیان کی ترقی اور شہرت، حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک عاجزی ( دیکھئے انکساری) ثبوت ہے صدقہ و خیرات ع غ 252 عاشق عشق حضرت مسیح موعود کے صحابہ کا آپ سے عشق 207 463.320 لندن اور بعض دیگر ممالک میں سورج گرہن اور حضور انور کا خطبہ حضرت مسیح موعود کے ایک صحابی (حضرت عبد اللہ سنوری جمعہ میں اس کے متعلق پر معارف بیان نماز کا اہتمام اور صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب) کا آپ سے عشق 458 181 حضرت مسیح موعود کے عشاق کا ایک گروہ صدقات و خیرات کی تاکید 459 آپ مغریبوں مسکینوں کی مدد کے لئے رمضان میں خاص طور پر حضرت مسیح موعود کے ایک عاشق صحابی پروفیسر صاحب کا
45 مضامین 575 خطبات مسرور جلد 13 بڑا پتھر لے کر مخالف مجسٹریٹ کو مارنے کے لئے اٹھانا 468 | عبادت میں شوق کس طرح پیدا ہو حضرت خلیفہ امسیح الاول" کا حضرت مسیح موعود سے عشق اور محبت مومن سجدہ کی حالت میں خدا تعالیٰ کے قریب ترین ہوتا ہے 685 اور عجز وانکسار کا اعلیٰ نمونہ عالم / علماء 664 عجائبات حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کی قدرت کے عجائبات کے جب تکبر پیدا ہو جائے تو بڑے بڑے وکیلوں اور عالموں کی عقل نظارے، کھانسی سے بذریعہ الہام شفاء 268 پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ بے عقل ہو جاتا ہے مخالف علماء کا دین میں ہی دشمنی اور فساد ہے 293 299 جماعت احمدیہ کی ترقی میں نہ علماء کی علمیت کام دے رہی ہے نہ عقلمند کی عقل...339 عدالت حضرت مسیح موعود پر مقدمات میں سختیاں ، کئی کئی گھنٹے عدالت میں کھڑے رکھے جانا 467 عذاب ملک پاکستان کی بقاء اور سالمیت کو خطرہ باہر سے زیادہ اندر کے دشمن دنیا میں عذاب شوخیوں کی وجہ سے آتے ہیں 61 488 ایسے مجرموں کو بھی جن پر عذاب لازم ہو گیا جب وہ زاری کریں سے ہے خود غرض اور مفاد پرست لیڈروں اور علماء سے حضرت مسیح موعود کے علم کلام کی اہمیت ، آپ نے اسلام کا دفاع تو اللہ تعالی بخش دیتا ہے 407 ایسے شاندار رنگ میں کیا ہے کہ پہلے کسی مسلمان عالم نے نہیں مخالفین احمدیت اگر تو بہ نہیں کریں گے تو ان کے لئے جہنم کی کیا...عبادت عبادات 535 آگ اور آگ کا عذاب مقدر ہے 707 نوح کے منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا 750 آپ کا راتوں کو اٹھ کر خدا کے حضور گر یا وزاری کرنا اور حضرت عربی زبان عائشہ کا استفسار ایک حقیقی مومن کی نماز اور عبادت 162 عربی زبان کے ام الالسنتہ ہونے کی بابت ایک عیسائی کی حضرت 229 | مسیح موعود سے گفتگو اور آپ کا جواب خلافت کی نعمت سے فائدہ اٹھانا ہے تو عبادتوں کا حق ادا عریانیت عریانی کریں، پانچ وقت نمازوں کی حفاظت کریں کسی کو شریک نہ لباس زینت ہے اور عریانی کو فیشن سمجھا جاتا بنائیں 534 471 338 ایک ماہر مصور کا فیشن اور عریانی کے حوالہ سے کہنا کہ نگا جسم صحابہ کرام اور صحابیات کا توحید پر قائم ہونا اور عبادتوں اور ذکر خوبصورتی پیدا نہیں کرتا الہی کے اعلیٰ معیار قائم کرنا 346 عشق رسول ایک صحابیہ کا عبادت کیلئے رہتی چھت سے لٹکانا 346 347 حضرت مسیح موعود کا عشق رسول 472 55.54 مسجدوں کی آبادی اور عبادت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت 394 آنحضرت کی عزت و احترام حضرت مسیح موعود کی نظر میں لیکھر ام عبادت کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے 397 کا سلام کہنا...حضرت مسیح موعود کی ایک تڑپ اور شوق، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی عقل طرف توجہ دینا اور نمازیں پڑھنا 54 567 | احمدی ہونے کے بعد ان پڑھ کو بھی خدا کیسے عقل دیتا ہے حضرت
خطبات مسرور جلد 13 46 مضامین 173 میں یہ تسلی ہونی چاہئے...635 مصلح موعودؓ کا بیان فرمودہ ایک واقعہ جب تکبر پیدا ہو جائے تو بڑے بڑے وکیلوں اور عالموں کی عقل ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالی امت کو علماء سوء اور غلط 293 لیڈروں سے بچائے 637 پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ بے عقل ہو جاتا ہے خلیفہ اول کے نام پر فساد پیدا کرنے والے لوگ اللہ ان کو عقل ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے دے عقیده 677 حضرت عیسی کے آسمان پر چڑھ جانے کے تصور میں اب تبدیلی 351 کے لئے قرآن کا علم حاصل کریں اور اپنے نیک نمونے قائم کر کے دنیا کوا اپنی طرف کھینچیں عملی حالت 733 آرہی ہے، پاکستان میں بھی...اپنے دلوں کو عقیدے کے لحاظ سے نہیں بلکہ عملوں کے لحاظ سے احمدیوں کے صرف نعرے نہیں بلکہ عملی حالتیں بھی ایسی ہونی 351 چاہئے کیونکہ یہ بھی تبلیغ کا ذریعہ بنتی ہیں بھی فائدہ مند بنانا ہے علم/ علماء ظاہری علم پر بزرگی کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی عہد 224 ہر سال خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کے ذریعہ ہر احمدی کا عہد کرنا...حضرت مصلح موعوددؓ کا فرمان کہ علم النفس کے رو سے ڈی بیٹس کرنا شرک سے بچنے کا عہد سخت مضر ہے 83 ایک احمدی کا ہر قسم کے فساد سے بچنے کا عہد دعوت الی اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ علمی بحثوں اور بڑے نمازوں کی پابندی کا عہد اور اس کی ضرورت بڑے سیمیناروں اور فنکشنز کا سہارا لیا جائے ، حالات کے مطابق آپ کا حضور پر درود بھیجنے کا عہد لینا طریق نکالنے چاہئے علم تو جہ اور مسمریزم...اور دعا 170 239 مخلوق کو تکلیف نہ دینے کا عہد رسم ورواج کے پیچھے نہ چلنے کا عہد جماعت احمدی کی ترقی میں نہ علماء کی علمیت کام دے رہی ہے نہ ہوا وہوں کے پیچھے نہ چلنے کا عہد 339 عقلمند کی عقل...تکبر اور نخوت کو چھوڑنے کا عہد حضرت مسیح موعود کے علم کلام کی اہمیت ، آپ نے اسلام کا قرآن شریف کی حکومت کو قبول کرنے کا عہد دفاع ایسے شاندار رنگ میں کیا ہے کہ پہلے کسی مسلمان عالم نے نہیں کیا...535 1 2 6 7 9 10 11 12 12 12 دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان مال عزت اور اولاد حضرت مصلح موعودؓ کی مربیان اور علماء کو ایک بڑی اہم سے زیادہ عزیز سمجھنے کا عہد نصیحت، خلیفہ کے ساتھ دن رات تعاون کر کے اس کام میں لگ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمیشہ ہمدردی کرنے کا عہد 341 بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کا عہد 13 13 14 جائیں کہ...بد قسمتی سے مسلمان علماء اور لیڈروں نے اسلام سے دور کرنے حضرت مصلح موعودؓ کا حضرت اقدس کی لاش کے سرہانے میں بہت کردارادا کیا ہے 549 کھڑے ہو کر ایک عہد کرنا 326 علم صحیح ہونا چاہئے اور جو بھی بات انسان کرے اس کے بارے جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد نئے سرے سے کرنے کی ضرورت ہے
47 مضامین 176 خطبات مسرور جلد 13 اور نبھانے کی ضرورت ہے کہ ہم شرک سے دور رہیں گے اور حضرت کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب مسیح موعود کے مشن کی تکمیل کی بھی بھر پور کوشش کریں گے 328 منکرین خلافت کا قادیان سے جاتے ہوئے تعلیم الاسلام سکول حضرت مسیح موعود کو ماننے اور عہد بیعت نبھانے اور اس سے پیدا کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہنا کہ دس سال نہیں گزریں ہونے والی تبدیلی 527 بیت الفتوح کی آتشزدگی ، اگر یہ واقعہ بھی آزمائش ہے تو ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ خدا کے حضور جھکتے ہوئے دعائیں کرتے گے کہ ان عمارتوں پر آریہ اور عیسائیوں کا قبضہ ہو گا لیکن خدا کے حیرت انگیز فضل اور تائید و نصرت کے نظارے 334 ہوئے آزمائش سے بھی کامیاب گزریں گے انشاء اللہ اس عربی زبان کے ام الالسنتہ ہونے کی بابت ایک عیسائی کی حضرت نقصان کی بہتر رنگ میں تلافی ہوگی 586 مسیح موعود سے گفتگو اور آپ کا جواب حضرت مسیح موعود کا ہم سے ایک عہد لینا اور آپ کی عیب عیوب توقعات.......عہدہ عہدیداران 593 قرآن کریم کی تعلیم ہر عیب سے پاک اور مکمل 534 105 حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں اور عہدیداران کو پنجوقتہ نمازوں کے ان کے اندر سے مجھے ایسی شعائیں نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جن 8 قیام کے لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے عہدیداران اپنے نمونے کے ساتھ دوسروں کی تربیت کی طرف سے مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ عیب یا یہ خوبی ہے 245 76 غلط فہمی بھی توجہ دیں عہد یداران کو سلام کرنے کے متعلق ایک ضروری نصیحت 85 بعض دفعہ خوابوں کی وجہ سے غلط فہمی کی بناء پر دعوے کر دینا اصل عہدیداروں کو نصیحت کہ خدمت دین بھی صرف خلافت سے میں شیطان کا اثر...338 غیب 538 وابستگی میں ہے یہ نہ کہا کریں کہ میرے پاس فلاں عہدہ ہے بلکہ خدمت لنگر خانہ کے لئے حضرت مسیح موعود کی فکر اور غیبی امداد ،ایک کہیں....339 عہدیدار کی اہمیت خود بخود بڑھے گی اگر وہ خلافت کی اہمیت اور تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے نصیحت کرنا ہر عہد یدار کا کام ہے 340 392 غریب سے شخص کی طرف سے خطیر رقم کا ملنا اللہ تعالیٰ غیب سے رزق دینے کے نرالے طریق غیرت 319 321 عہدیدار محبت اور پیار سے لوگوں کی تربیت کریں ،رنجشیں نبی کریم کیلئے حضرت اقدس کی غیرت 54 بڑھانے کی بجائے محبتیں بڑھانے کی کوشش کریں 687 حضرت مسیح موعود کا آپ کی غیرت میں وفات مسیح کے مسئلہ کی عیسائیت عیسائی بابت جوش و جذ به آتھم کے مباحثہ میں عیسائیوں کا چال چلنا کا ذکر 61،60 احمدیوں میں کس قسم کی دینی غیرت ہونی چاہئے؟ حضرت مسیح موعود پر عیسائیوں کے خلاف سخت زبان استعمال خدا تعالیٰ کے لئے حضرت مسیح موعود کی غیرت کا ذکر 244 293 644
خطبات مسرور جلد 13 فاسق فرق 48 قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سزا دینی چاہئے...اللہ تعالیٰ کے احکامات سے باہر نکلنا فسق ہے گالی گلوچ کرنا فسق ہے فخر 5 5 5 فضل مضامین حضور انور کا فرمانا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخراجات کی فکر 32 نہیں کہ وہ کس طرح پورے ہوں گے...مختلف ممالک اور پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم لیکن خدا کے فضل سے ان لوگوں پر انشاء اللہ حالات بدلیں گے 207 باوجود تمام تر مخالفتوں کے یہ سلسلہ اللہ کے فضل سے بڑھتا چلا جائے گا 214 اس حد تک انکساری اختیار کرو کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے 382 مختلف ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور تائید و نصرت کے فرشتے واقعات....215 حضرت مصلح موعودؓ کا فرمانا کہ " خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری جماعت میں ہونے والی شہادتوں کے بدلہ میں خدا کے فضل اور مدد کے لئے فرشتے نازل کئے " 315 تائید و نصرت 224 جمعہ کے دن مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے لنگر کے خرچ کے لئے حضرت مسیح موعود کی فکر اور اہتمام اور خدا کے فضل سے اب ایک احمدی لنگر خانے کا سارا خرچ دے ہیں..فرض فرائض 421 سکتا ہے...319 احمدیوں پر خدا تعالیٰ کے فضل اور شکر گزار بنتے ہوئے ہمارے حضرت مسیح موعود کا ہمدردی خلق کے لئے تڑپ اور درد، دنیا کی اصلاح کے اس دور کو قائم رکھنا اور آگے چلانا جماعت کے افراد کا فرائض...197 330 فرض ہے منکرین خلافت کا قادیان سے جاتے ہوئے تعلیم الاسلام سکول احمدیوں پر خدا تعالیٰ کے فضل اور شکر گزار بنتے ہوئے ہمارے کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہنا کہ دس سال نہیں گزریں 330 گے کہ ان عمارتوں پر آریہ اور عیسائیوں کا قبضہ ہو گا لیکن خدا کے فرائض...334 جلسہ سالانہ برطانیہ کا اختتام اور اظہار تشکر ، غیر از جماعت حیرت انگیز فضل اور تائید و نصرت کے نظارے مہمانوں کے تاثرات اور ہمارے فرائض 508 تا 525 غلط کام کرنے والے احمدی خود بھی اللہ کے فضلوں سے محروم اور فساد دوسروں کی دوری کا باعث بن رہے ہیں 338 اللہ کا فضل ہمیشہ جماعت کے شامل حال رہا ہے اس فضل کو دائمی 436 528 ایک احمدی کا ہر قسم کے فساد سے بچنے کا عہد مخالف علماء کا دین میں ہی دشمنی اور فساد ہے 299 کرنے کے لئے دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے کے لئے میں لگے دنیا میں برپا فساد نے اسلام کو بدنام کیا ہوا ہے 543 قناعت اور شکر کے نتیجہ میں مزید فضل اور نعمتیں خلیفہ اول کے نام پر فساد پیدا کرنے والے لوگ اللہ ان کو عقل خلیفہ وقت کے دورہ جات میں تائید الہی اور اس کے فضل اور 677 | احسانات 631-618
خطبات مسرور جلد 13 49 مضامین جاپان میں مسجد کی تعمیر میں مشکلات اور اللہ تعالیٰ کا فضل غیر معمولی | ایک ماہر مصور کا فیشن اور عریانی کے حوالہ سے کہنا کہ نگا جسم تائید و نصرت 692 | خوبصورتی پیدا نہیں کرتا 472 قادیان کی ابتدائی حالت کا نقشہ اور پھر خدا کے فضل سے ترقی 763 مردوں کا عجیب و غریب حلیہ بنالینا جن سے ان کا وقار بھی ضائع فطرت ہوتا ہے 70 فیصلہ 472 اسلامی تعلیم انسانی فطرت کے مطابق ہے "اسلامی اصول کی فلاسفی " مضمون لکھے اور پڑھے جانے کی حضرت مسیح موعود کا سکول قائم کرنے کا فیصلہ اور اس کا پس منظر 204 بابت ایک واقعہ جس سے بعض ٹیڑھے لوگوں کی فطرت کا پتہ لگتا فیکٹری ہے، اشتہار کو عام نہ کرنا اور دیواروں پر اونچا لگا دینا 292 فلسفه فلاسفر خدا اور مذہب کی بابت فلاسفروں کے خیالات 261 پاکستان میں جماعت کے خلاف ایک ظالمانہ سلوک چپ بورڈ فیکٹری میں مخالفین کی آتشزدگی احمدی کی خوش قسمتی کہ حضرت مسیح موعود نے مغرب کے غلط فلسفہ فیملی پلاننگ سے بچا کر رہنمائی فرمائی کہ اصل حقیقت جاننے کے لئے دنیا میں فیملی پلاننگ پر زور اور ان ممالک کی غلطی آنحضرت کی طرف دیکھو فنڈ 261 | قاری 707 670 قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت اور طریق ، اصل چیز قاری کی 447 حضرت اقدس پر لنگر کے روپیہ کو ذاتی مصارف میں لانے کا طرح قرآت نہیں الزام اور اس بدظنی کا خمیازہ ابھی تک بھگتا جا رہا ہے کہ لنگر کا فنڈ بلال کے "اسھد " کہنے پر اللہ اور اس کے رسول کے پیار کی نظر ہمیشہ مقروض رہتا ہے فنکشنز 317 کا کوئی قاری مقابلہ نہیں کر سکتا قاضی 448 دعوت الی اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ علمی بحثوں اور بڑے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ضمن میں ایک تاجر اور قاضی کی مثال 264 بڑے سیمیناروں اور فنکشنز کا سہارا لیا جائے ، حالات کے مطابق قانون طریق نکالنے چاہئے 170 مساجد کی آبادی کی طرف بھی توجہ دیں ، مساجد میں کھیلوں یا فنکشنز کا انتظام اور اس پر اعتراض اور جواب فون 568 اسلام کی خوبصورت تعلیم کا مقابلہ نہ کسی مذہب کی تعلیم کرسکتی ہے نہ کوئی قانون قبرا قبرستان حضور انور کا خطبہ جمعہ میں ارشاد کہ اپنا فون بند کریں اور مسجد شفاعت کا غلط تصور اور قبر پرستی میں بند کر کے آیا کریں" فیشن 728 268 236 حضرت اقدس کا اپنی بیٹی کی نعش کو خود اٹھا کر قبرستان تک لے کر جانا...275 لباس کو زینت اور عریانی کو فیشن سمجھا جانا 471 قبر پر پھولوں کی چارد چڑھانے یا پھول رکھنے کی بابت سوال اور
خطبات مسرور جلد 13 جواب...قبر سے مردے کا تعلق اور دعا کرنا 50 مضامین 290 ہر احمدی کو پر اعتماد رہنا چاہئے کہ قرآن حضرت مسیح موعود اور 291 جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے 172 بہشتی مقبرہ کے بارہ میں ایک خواب جو اس طرح چھپی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود کو یقین تھا کہ قرآن آپ کی تائید میں ہے یہی حضرت مصلح موعود کی روایت کے مطابق...چاندی کی امید تھی کہ جس نے دنیا میں آپ کو کامیاب کرایا قبریں...172 316 ایسی مجالس جہاں استہزاء اور مخالفانہ سخت کلامی ہو تو وہ وہاں سے حضرت مصلح موعود اور خاندان حضرت اقدس کی بابت خدا تعالیٰ کی کی خوشخبری کہ ان کی قبریں بھی چاندی کی ہوں گی 316 قرآنی حکم کے مطابق اٹھ کر آ جانا چاہئے 295 جبرئیل آپ کو خاص طور پر رمضان میں قرآن کریم کا دور کرواتے تھے 393 قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے 400 قبر پر جا کر صرف مردے کے لئے دعا ضروری نہیں اپنے لئے بھی قرآن ایسے طریق سے پڑھایا جائے جس سے شوق اور محبت اور کئی امور کے لئے بھی دعا کی جاسکتی ہے قبول احمدیت 443 پیدا ہو 447 عرب احمدیوں کو تلاوت قرآن کریم کے حوالہ سے ایک ضروری نظام الدین صاحب کے قبول احمدیت کا دلچسپ واقعہ 170 نصیحت 499 خلیفہ المسیح کو خواب میں دکھائے جانے سے قبول احمدیت 609 فیصل آباد کے ایک مولوی کا قل ھو اللہ احد پڑھ کر کہنا کہ دیکھو قل خوابوں کے ذریعہ قبول احمدیت، کچھ واقعات 605 | قرآن کہتا ہے کہ احمدی کافر ہیں قتل و غارت فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت قبل و غارت گری سے اسلام کی فتح نہیں ہوگی 537 قرآن کریم کی تعلیم کا غیروں پر کس طرح اثر ہوتا ہے ،اس کی مثالیں 551 37 ہماری تربیت کے لئے حضرت مسیح موعود کی قرآن وسنت کے بارہ اسلام کے نام پر مختلف ممالک میں شدت پسندی اور قتل و غارت میں تفسیر وں ، تشریحات اور تحریرات کو سمجھنا بھی ضروری جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں قدرت الہی 257 ہے، پڑھنا بھی ضروری ہے قرآن شریف کو پڑھواور خدا سے کبھی ناامید نہ ہو حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کی قدرت کے عجائبات کے قرآن کریم ایک دائمی کتاب ہے 592 615 727 نظارے ،کھانسی سے بذریعہ الہام شفاء لیکھرام کا نشان ، خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک اظہار 270 کے لئے قرآن کا علم حاصل کریں اور اپنے نیک نمونے قائم کر 268 ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے قرآن کریم کے دنیا کو اپنی طرف کھینچیں 12 مالی قربانی کی اہمیت اور جماعت احمدیہ آپ کا قرآن کے حکموں سے ایک حکم کو چھوڑنے والے کے لئے قربانی وعظ 733 20 قرآن شریف کی حکومت کو قبول کرنے کا عہد 12 | مالی قربانی کرنے والوں کی عظمت خدا تعالیٰ ادھار نہیں
خطبات مسرور جلد 13 51 مضامین رکھتا، پیار کی نظر سے دیکھتا ہے 21 | قناعت دنیا بھر میں جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کرنے والوں کے قناعت اور شکر کے نتیجہ میں مزید فضل اور نعمتیں اخلاص و وفا کا تذکرہ بچوں میں مالی قربانی کا پر خلوص جذبہ 22 تا 30 28 قومی نقائص اور کمزوریاں اور اس کے اثرات حضرت عمر کا گمان کہ آج میں حضرت ابو بکر پر سبقت لے جاؤں گا اصلاح کے لئے قومی احساس ضروری ہے لیکن وہ سارے گھر کا سامان لے آئے 72 73 قومی ترقی کے لئے سچائی کی ضرورت واہمیت خلیفہ وقت ( حضرت مصلح موعود ) پر چندوں اور روپے کے غلط قیامت 528 99 102 243 خرچ کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب اور حضور کا مالی قربانی قیامت کے دن اس کے خطرات سے تم میں سب سے زیادہ محفوظ 315 316 وہ ہوگا جو دنیا میں سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا کرنے کا ذکر کارکنان 41 حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں مالی قربانی کرنے کی نسبت کہ سارے سال کی قربانی اس ایک دن سے نہیں بڑھ سکتی 319 بغاوت سے بچیں یہ باغیانہ رویہ چاہے نظام جماعت کے ادنیٰ کارکن کے خلاف ہو یا حکومت کے نظام خلافت کے قیام کے لئے سب سے زیادہ کوشش اور قربانی حضرت مصلح موعودؓ نے کی اور اس کی تفصیل نیکی قربانی کو چاہتی ہے 332 648 حضرت ابو طلحہ انصاری کا بیرحاء کو خدا کی راہ میں دینا 650 چندہ جات ، اخلاص و وفا اور مالی قربانی میں حضرت مسیح موعود کی 7 حضرت مصلح موعود کی ایک جماعتی کارکن کو نصیحت کہ خدا سے 321 مانگیں بجائے اس کے کہ انجمن پر کسی کی نظر ہو کارکنان کو جماعت کی طرف سے ہر ممکن دی جانے والی سہولتیں ، شکر اور توکل کی نصیحت 322 ک میگ قابل رشک جماعت ، مختلف ممالک کے واقعات 1 65 تا 660 | حضرت خلیفہ المسیح الاول کی قربانیوں کے معیار اور اطاعت کے کافر اعلیٰ ترین نمونے.....665تا 677 قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سزا دینی خلافت کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہیں لیکن آپس چاہئے...5 کی رنجشوں کو ختم کرنے کا کہا جائے تو...683 فیصل آباد کے ایک مولوی کا قل ھو اللہ احد پڑھ کر کہنا کہ دیکھو مسجد بیت الاحد (جاپان) کے کوائف اور مالی قربانی کے قرآن کہتا ہے کہ احمدی کا فر ہیں 688 کسوف و خسوف واقعات قرض 537 کسوف و خسوف حضرت مسیح موعود کی آمد کا ایک زبردست حضرت اقدس پر لنگر کے روپیہ کو ذاتی مصارف میں لانے کا نشان...181 الزام اور اس بدظنی کا خمیازہ ابھی تک بھگتا جا رہا ہے کہ لنگر کافنڈ حضرت اسماء کی سورج گرہن میں لمبی نماز اور وعظ کی بابت ہمیشہ مقروض رہتا ہے....317 | روایت 183.182
خطبات مسرور جلد 13 52 مضامین کسوف و خسوف کا نشان اور حضرت مسیح موعود کا اس کے متعلق کھیل بعض اعتراضات کا جواب 184.183 کسوف و خسوف اور بعض صحابہ کے واقعات و روایات 185 کشف ( دیکھیں رویا ) کفاره کھلی فضا میں کھیلنے کی طرف بچوں اور نو جوانوں کو خاص توجہ کی ضرورت ،جامعہ کے طلباء کے لئے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ باہر کھیلنا لازمی...95 پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعے تک اور رمضان اگلے رمضان تک مساجد کی آبادی کی طرف بھی توجہ دیں ،مساجد میں کھیلوں یا فنکشنز کا انتظام اور اس پر اعتراض اور جواب ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جیتک کہ انسان بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے 423 گالیاں کلام حضرت مسیح موعود کے کلام کا دلوں پر اثر کلمه 223 گالی گلوچ کرنا فسق ہے 568 5 ت مصلح موعودؓ کا فرمانا کہ جماعت کو گالیاں دی جانے والی حضرت مجلس میں جانا حقیقی غیرت نہ ہونا ہے 293 آپ کا خلیفہ اسیح الثانی سے گالیوں کے خطوط کا تھیلا لے لینا لا اله الا الله محمد رسول اللہ سے اخلاق بھی درست، دنیا اور دین دونوں درست ہو جاتے ہیں کمال 263 جب کوئی انسان کمال حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا 265 کنواں خواب کو پورا کرنے کے لئے اس پر عمل کرنا اور چنوں پر وظیفہ پڑھ کر کنویں میں پھینکنے والی ایک روایت کھانا 66 اور پڑھنے سے منع کرنا 442 حضرت مسیح موعود کا ضبط اور صبر گالیوں کے بھرے ہوئے خطوط کا آنا اور حضرت خلیفہ ثانی کو پڑھنے سے منع کرنا گرہن 442 حضرت مصلح موعود کا گجرات کے ایک مولوی کا گرہن کے متعلق واقعہ بیان کرنا 146 لندن اور بعض دیگر ممالک میں سورج گرہن اور حضور انور کا خطبہ جمعہ میں اس کے متعلق پر معارف بیان ، نماز کا اہتمام اور 181 حضرت مسیح موعود کا ابتداء میں دیسی چنے کھا کر گزارا کرنا اور اب 530 صدقات و خیرات کی تاکید قادیان نہیں دنیا کے کئی ممالک میں آپ کا لنگر...آنحضرت کے عہد مبارک میں سورج گرہن اور حضور کا طریق 182 حضرت مسیح موعود کے کھانے کا انداز کھانسی 531 آنحضرت کا گرہن کو خاص اہمیت دینا 182 حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کی قدرت کے عجائبات کے حضرت اسماء کی سورج گرہن میں لمبی نماز اور وعظ کی بابت 268 | روایت 183.182 نظارے ،کھانسی سے بذریعہ الہام شفاء حضرت مسیح موعود کی کھانسی اور اس واقعہ میں کیلا تھا یا سیب، اس جمال الدین ہیڈ ماسٹر کا نشان گرہن پر فرمانا کہ اب مہدی کی کی وضاحت 295 296 تلاش کرنی چاہیئے 193
خطبات مسرور جلد 13 گستاخی 53 مضامین آنحضرت جمعہ کے دن نہایت تعہد سے صفائی کرتے اور اعلیٰ اور حضرت مسیح موعود کے خلاف گستاخی کر نیوالوں کا انجام 20 عمدہ لباس زیب تن فرماتے گناه ظلم ایک بہت بڑا گناہ ہے لٹریچر 560 5 جماعتی لٹریچر پر پابندی سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا...300 تقوی دل میں ہو تو اللہ تعالی گناہوں کو ڈھانپتا چلا جاتا ہے 371 لڈو جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے ایک ایسا لڈو کھلاؤں گا جو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہوگا ، مرزا مظہر جان جاناں کا لڈو کھانے کا طریق...رمضان کے روزے رکھے، اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے لنگر خانہ جائیں گے 251.250 415 حضرت مسیح موعود کی دعا ئیں کہ جماعت کو کشائش ملے ہلنگر دنیا پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعے تک اور رمضان اگلے رمضان تک کے ہر ملک میں چل رہا ہے 317 ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں حضرت مسیح موعود پر لنگر کے روپیہ کو ذاتی مصارف میں لانے کا جبتک کہ انسان بڑے بڑے گناہوں سے بچتا ہے 23 الزام اور اس بدظنی کا خمیازہ ابھی تک بھگتا جا رہا ہے کہ لنگر کا فنڈ حقیقی مومن بننے کے لئے پہلی شرط تو بہ گناہوں کا اقرار 684 گھوڑی 317 ہمیشہ مقروض رہتا ہے....لنگر خانہ کے لئے حضرت مسیح موعود کی فکر اور غیبی امداد ،ایک غریب شخص کی طرف سے خطیر رقم کا ملنا 319 حضرت مسیح موعود کا حضرت مصلح موعود کو سائیکل کی بجائے اب ایک احمدی لنگر خانے کا سارا خرچ دے سکتا ہے 319 گھوڑی خرید کر دینا جس کو حضرت اقدس کی وفات کے بعد مالی حضرت مسیح موعود کا ابتداء میں دیسی چنے کھا کر گزارا کرنا اور اب 324 قادیان نہیں دنیا کے کئی ممالک میں آپ کا لنگر...مشکلات کی وجہ سے فروخت کرنا پڑا لائحہ عمل ل.م مسیح موعود کی تعلیم اور تربیت ہمارے لئے اسوہ اور لائحہ عمل ہے کہ ہم نے آج بھی ہمیشہ صبر اور حوصلے سے کام لینا ہے 469 لباس حضور کی اپنی جماعت کے لئے الگ لباس کی تجویز 530 حضرت مسیح موعود کے الہام " لنگر اٹھالو " کی تشریح 767 لیڈر ملک پاکستان کی بقاء اور سالمیت کو خطرہ باہر سے زیادہ اندر کے دشمن 488 سے ہے خود غرض اور مفاد پرست لیڈروں اور علماء سے بدقسمتی سے مسلمان علماء اور لیڈروں نے اسلام سے دور کرنے میں بہت کردارادا کیا ہے 549 ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امت کو علماء سوء اور غلط 166 لیڈروں سے بچائے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے 400 لیلۃ القدر لباس کو زینت اور عریانی کو فیشن سمجھا جانا 471 | لیلۃ القدر کی عظمت واہمیت 637 415
خطبات مسرور جلد 13 54 مضامین انسان کے لئے ایک لیلۃ القدر اس کا وقت اصفی بھی ہے 419 | مایوسی ماحول جماعت کی مخالفت کے حالات کیسے بھی ہوں ہمیں مایوس نہیں بچوں کو جماعتی ماحول میں لانا بہت ضروری ہے 219 ہونا چاہئے اور نہ اس کی ضرورت ہے ،انی مع الافواج اتیک مالی قربانی دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان مال عزت اور اولاد سے زیادہ عزیز سمجھنے کا عہد 13 بغتة، خدا کی مددا چا نک آئے گی ہمارا کام یہ نہیں کہ نقصان پر مایوس ہو کر بیٹھ جائیں 290 586 مالی قربانی کی اہمیت اور جماعت احمد یہ 20 مباحثه عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ مالی قربانی کرنے والوں کی عظمت خدا تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا، پیار مبلغین (دیکھیں واقفین زندگی) 21 کی نظر سے دیکھتا ہے دنیا بھر میں جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کرنے والوں کے مثال اخلاص و وفا کا تذکرہ 56 56 22 30 اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ضمن میں ایک تاجر اور قاضی کی مثال 264 تا 28 | مولوی محمد یار کی دیوانگی کی ایک مثال 476 بچوں میں مالی قربانی کا پر خلوص جذبہ خلیفہ وقت ( حضرت مصلح موعود ) پر چندوں اور روپے کے غلط مجسٹریٹ خرچ کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب اور حضور کا مالی قربانی حضرت مصلح موعود کی مجسٹریٹ سے ملاقات ،جس نے حضور 315 316 کو تکلیف دی 88 کرنے کا ذکر مالی قربانی کرنے والے لوگ روشن ستارے اور نیکیوں کی راہیں حضرت مسیح موعود کے ایک عاشق صحابی پروفیسر صاحب کا 650 بڑا پتھر لے کر مخالف مجسٹریٹ کو مارنے کے لئے اٹھانا 468 متعین کرنے والے مجذوب چندہ جات ، اخلاص و وفا اور مالی قربانی میں حضرت مسیح موعود کی قابل رشک جماعت ، مختلف ممالک کے واقعات 1 65 تا 660 | حضرت مسیح موعود کا شاہدرہ میں ایک مجذوب کے پاس جانا 247 مسجد بیت الاحد (جاپان) کے کوائف اور مالی قربانی کے واقعات مالی مشکلات 688 حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد مالی و معاشی مشکلات 323 مجلس ایسی مجالس جہاں استہزاء اور مخالفانہ سخت کلامی ہو تو وہ وہاں سے قرآنی حکم کے مطابق اٹھ کر آ جانا چاہئے 295 حضرت مسیح موعود کی مجالس کا ذکر حضرت مصلح موعود کے ذریعہ 715 قرآن کریم کے پہلے ترجمہ کی اشاعت کے لئے مالی مشکلات اور 323 محبت پیار اس کا انتظام 21 حضرت مسیح موعود کا حضرت مصلح موعود کو سائیکل کی بجائے مالی قربانی کرنے والوں کی عظمت خدا تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا، پیار گھوڑی خرید کر دینا جس کو حضرت اقدس کی وفات کے بعد مالی کی نظر سے دیکھتا ہے مشکلات کی وجہ سے فروخت کرنا پڑا 324 مسلمان تنظیمیں جو اسلام کے نام پر ظلم کرتی ہیں کاش وہ سمجھ
خطبات مسرور جلد 13 55 مضامین جائیں کہ اسلام کی محبت کی تعلیم زیادہ جلدی دنیا کو اسلام کی حضرت منشی اروڑے خان صاحب کے اخلاص و محبت کا 38 ذكر.....717.716 آغوش میں لاسکتی ہے حضرت مسیح موعود کے الہام کو پورا کرتے ہوئے یا تیک من مخالفت / مخالفت کل فج عمیق کے مصداق لوگوں کا جوق در جوق قادیان آنا اور جب مخالفت ترقی کرتی ہے تو جماعت کو بھی ترقی حاصل ہوتی 175 ہے...173 ان کی محبت و اخلاص کا انوکھا انداز بیویوں سے حسن سلوک اور محبت کے بارہ میں آنحضرت کی تعلیم با وجود تمام تر مخالفتوں کے یہ سلسلہ اللہ کے فضل سے بڑھتا چلا اور ہمارا نمونہ 259 | جائے گا 214 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سے حضرت اقدس کا پیار جماعت کی مخالفت کے حالات کیسے بھی ہوں ہمیں مایوس نہیں اور وفات پر راضی برضا کا قابل رشک نمونہ 271،270 ہونا چاہئے اور نہ اس کی ضرورت ہے ، انی مع الافواج اتیک حضرت مسیح موعود کی قادیان سے محبت کا ایک اظہار ، قادیان کی بغتة، خدا کی مددا چانک آئے گی دھوپ صاف ہوتی ہے اور قادیان کا ایک متبرک مقام ہونا 323 تزکیۂ نفس اور معاشرے میں پیار و محبت اور امن کی فضا پیدا کرنے والے احکامات الہی حضرت مسیح موعود کی اپنے صحابہ سے محبت 290 ایسی مجالس جہاں استہزاء اور مخالفانہ سخت کلامی ہو تو وہ وہاں سے 380 قرآنی حکم کے مطابق اٹھ کر آ جانا چاہئے 438 مخالف علماء کا تو دین ہی دشمنی اور فساد ہے 295 299 قرآن ایسے طریق سے پڑھایا جائے جس سے شوق اور محبت مخالفین جماعت کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے کسی ماں نے وہ بچہ پیدا ہو 447 | نہیں جنا...298 انبیاء کا وجود ایک بارش ہوتی ہے، اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے مخالفین کا زور لگا نا لیکن ان کا نا کام ہونا اور یہ خدا کا نشان 604 464 پاکستان میں جماعت کے خلاف ایک ظالمانہ سلوک چپ بورڈ 707 سے ایمانی قوت بڑھتی ہے دنیا کے مختلف حصوں میں جماعت کے ذریعہ اسلام کا پیغام محبت فیکٹری میں مخالفین کی آتشزدگی 554 مخالفین کا ایک جھوٹا الزام کہ حضرت مسیح موعود نعوذ باللہ اپنے آپ اور امن پہنچنا معروف اطاعت کا مطلب کہ محبت و اخلاص کو انتہا تک پہنچا کر کو آنحضرت سے بڑا سمجھتے ہیں، حضور کی تحریرات کے حوالہ سے کامل اطاعت کرنا 594 اس کی تردید حضرت خلیفہ اسیح الاول کا حضرت مسیح موعود سے عشق اور محبت مذمت اور عجز وانکسار کا اعلیٰ نمونہ 664 فرانس میں ہونے والے پر تشدد واقعہ کی مذمت آپس میں پیار اور محبت سے رہیں اور معاشرے میں اس کو پھیلائیں 684 مذہب 7560741 35 حضرت مسیح موعود کے شائع کردہ اشتہارات مذہبی دنیا کا ایک عہد یدار محبت اور پیار سے لوگوں کی تربیت کریں ، پنجشیں خزانہ ہیں 197 بڑھانے کی بجائے محبتیں بڑھانے کی کوشش کریں 687 | مذہب کی ضرورت اور یہ خیال کہ دنیا داروں کی اکثریت کے
خطبات مسرور جلد 13 56 مضامین اخلاق مذہب کے ماننے والوں سے بہتر ہیں اور اسلام خصوصاً میں بند کر کے آیا کریں" نشانہ بنایا جاتا ہے 236 254 مسجد اقصیٰ میں کبھی میں 14 کھ نمازیوں کی گنجائش ہوگی 284 اسلام کی خوبصورت تعلیم اور زندہ مذہب ہونے کے باوجود لوگوں قادیان میں ایک وسیع مسجد بنائی جائے جس میں تین چار لاکھ کا مذہب اور خدا سے انکار اور اس کی وجہ 255 نمازی نماز پڑھ سکیں 285 نوجوانوں اور بچوں کو مذہب کے حوالہ سے سمجھ بوجھ رکھنے کی مسجدوں کی تعمیر کے ساتھ اس کے چھوٹے ہونے کی بھی کوشش ضرورت اور اہمیت اور اگلی نسلوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بڑوں کرنی چاہئے کی ہے 255 287 مسجدوں کی آبادی اور عبادت کی طرف توجہ دینے کی مذہب اور مادیات اور اخلاق اور انسان کی دیگر ضروریات اور ضرورت....ان کا باہم تعلق 258-256 394 جمعہ کے دن مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے مذہب کے حوالہ سے مغرب کا رویہ اور اس کی اصلاح 260 ہیں....خدا اور مذہب کی بابت فلاسفروں کے خیالات 261 421 مساجد کی آبادی کی طرف بھی توجہ دیں ،مساجد میں کھیلوں یا مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ، اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب فنکشنز کا انتظام اور اس پر اعتراض اور جواب رکھ دیا 262 568 586 خلیفہ امسیح کی باتیں سن کر اسلام کے بارہ میں اپنی رائے تبدیل مسجد مبارک کی تعمیر کے وقت ایک شبہ پڑنا کہ تعمیر صحیح نہیں اور کرنا کہ یہ ایک امن دینے والا مذہب ہے 365 حضرت مصلح موعودؓ کا اس موقعہ پر نمونہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا مقابلہ نہ کی مذہب کی تعلیم کرسکتی ہے جاپان میں پہلی مسجد کی تعمیر میں مشکلات اور خدائی تائیدات اور حضور انور کی نصائح اور رہنمائی......نہ کوئی قانون مربیان ( دیکھیں واقفین زندگی ) مردم شماری آپ کا مسلمانوں کی مردم شماری کرانا مزار 728 98 86 حضرت مسیح موعود کے مزار سے مٹی بطور تبرک لینے وغیرہ کی حرکات سے منع فرمانا 291 حضرت خواجہ میر درد صاحب کے مزار پر آپ کا دعا کرنا 443 نیک لوگوں کے مزاروں کی برکات اور وہاں دعا کرنا 444 مسجد / مساجد مساجد میں حاضری کے لئے کوشش اور اس کا ایک طریق 77 692.678 مسجد بیت الاحد (جاپان) کے کوائف اور مالی قربانی کے واقعات 688 حضرت مسیح موعود کا ارشاد کہ اسلام کا تعارف کروانا ہو تو مسجد بنادو لوگوں کی توجہ...یہ بات بڑی شان کے ساتھ پوری ہوتی ہمیں 693 ہر جگہ اور جاپان میں بھی نظر آتی ہے بنگلہ دیش میں جمعہ کے وقت ایک احمدیہ مسجد میں خودکش دھما که...مسلمان 767 یورپ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک 35 ن تنظیمیں جو اسلام کے نام پر ظلم کرتی ہیں کاش وہ سمجھ مسلمان حضور انور کا خطبہ جمعہ میں ارشاد کہ "اپنا فون بند کریں اور مسجد جائیں کہ اسلام کی محبت کی تعلیم زیادہ جلدی دنیا کو اسلام کی
خطبات مسرور جلد 13 آغوش میں لاسکتی ہے 57 38 مشعل راه مضامین مسلمانوں کے نوجوان جو دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہو رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول کے ہر فرمان کو مشعل راہ بنا ئیں 201 | حضرت مسیح موعود کا نمونہ بھی مشعل راہ ہے ان کی غلط سوچ 12 558 مسلم الممہ اور دنیا کی ابتر حالت اور دعا کی تحریک 226 | مشک مسلمانوں کی بدحالی کی وجہ، اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب حضرت مسیح موعود کا سردی کی وجہ سے مشک کا استعمال اور شیشی رکھ دیا 262 بھر کے جیب میں رکھنا 321 مسلمان حکمرانوں کو حکومت چلانے کا ایک بہترین رہنما اصول 264 آپ کا ایک مخالف ہندوکو مشک کی شیشی دینے کا واقعہ 645 ہر انسان کے حقوق کی ادائیگی ایک مسلمان پر فرض ہے 398 ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان بھی محفوظ رہیں 398 مشن جماعت کے ہر فرد کو یہ عہد نئے سرے سے کرنے کی ضرورت ہے اور نبھانے کی ضرورت ہے کہ ہم شرک سے دور رہیں گے اور حضرت محمد حسین بٹالوی کے ایک بیٹے کا آریہ ہونا اور حضرت مصلح موعود مسیح موعود کے مشن کی تکمیل کی بھی بھر پور کوشش کریں گے 328 کے اس کو دوبارہ مسلمان کرنے پر محمد حسین کا شکریہ کا خط 435 حضرت مسیح موعود کے علم کلام کی اہمیت ، آپ نے اسلام کا دفاع ایسے مشن ہاؤس قادیان اور دوسرے ممالک میں جماعت احمدیہ کا عمارتیں خرید شاندار رنگ میں کیا ہے کہ پہلے کسی مسلمان عالم نے نہیں کیا...535 کرسکول اور مشن ہاؤسز بنانا بدقسمتی سے مسلمان علماء اور لیڈروں نے اسلام سے دور کرنے مشوره میں بہت کردار ادا کیا ہے 549 مسلمانوں کی حالت کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ واقعات 450 غیر مسلم اور غیر از جماعت مسلمانوں کا جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھ کر اظہار کرنا مسلمانوں پر تمدن کے اثرات مسمریزم بہتر مشورہ دینا بھی امانت کا حق ادا کرنا ہے مصور 335.334 399 ایک ماہر مصور کا فیشن اور عریانی کے حوالہ سے کہنا کہ ننگا جسم 545 خوبصورتی پیدا نہیں کرتا 559 مصیبت / مصائب 472 صبر نہ کرنے والے ، جزع فزع کرنے والے دنیا کی بھی مصیبت دعا کی اہمیت مسمریزم اور دعا کے ذریعہ تبدیلی میں فرق 239 اٹھاتے ہیں اور آخرت کی بھی علم تو جہ اور مسمریزم...اور دعا 273 239 تمہارے مصائب ختم اور تمہارے دشمن کیلئے مصائب ہی آپ کا صوفی احمد جان صاحب کو مسمریزم کے متعلق کہنا کہ اس سے آپ مصائب بن جائیں گے کو کیا فائدہ 240 290 آنحضرت سالی ایم کے مصائب کے حالات میں اخلاق کیا تھے؟ 302 حضرت مسیح موعود کے متعلق کسی کا مسمریزم کرنے کی کوشش کرنا مصائب حقیقت میں انبیاء اور اولیاء کیلئے نعمت ہیں 241 | مصائب سے گھبرا نا نہیں چاہئے اور ناکامی 302 327.326
خطبات مسرور جلد 13 58 مضامین مومنین کی مصائب میں خصوصیات 580،578،577 سے بچا کر رہنمائی فرمائی کہ اصل حقیقت جاننے کے لئے معاشرہ آنحضرت کی طرف دیکھو 261 تزکیۂ نفس اور معاشرے میں پیار و محبت اور امن کی فضا پیدا مقام کرنے والے احکامات الہی معاشرے میں امن کے قیام کے لئے آنحضرت کا اسوہ 382 383 سکتی ، آپ سے استہزاء کرنے والوں کی یہ سوچ کہ وہ کامیاب معاشرے کے حسن کو نکھارنے والا ایک اہم حکم ہغصہ ہو جائیں گے وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں 380 آنحضرت کے مقام کو کوئی دنیاوی کوشش نقصان نہیں پہنچا 36 267 دبانا، آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کا اسوہ 400 حضرت مسیح موعود کا مقام و مرتبہ آپس میں پیار اور محبت سے رہیں اور معاشرے میں اس کو آنحضرت کی شان اور مقام جو حضرت مسیح موعود نے بیان 3110299 مسیح موعود کے زمانہ کی اہمیت اور مقام جو بعد میں کسی کو نصیب پھیلائیں معجزه معجزات 684 | فرمایا ہے...نہیں ہو سکتا حضرت مسیح موعود کی حفاظت الہی کا ایک معجزہ 207 320 حضرت مسیح موعود کے معجزات اور نشانات ، سگ گزیدہ کا حیرت انگیز طور پر حضور کی دعا سے بچ جانا 247 مقدمه مقدمات 65 حضرت مسیح موعود کی راستبازی کا واقعہ ، مقدمہ ڈاک حضرت مسیح موعود کو مقدمات میں پیش آنے والی تنگیاں اور آپ کا آپ کا ایک امریکی شخص کے معجزے کے سوال پر کہنا کہ تم خود صبر واستقلال ایک معجزہ ہو 249 86 حضرت اقدس کے توکل ، قبولیت دعا کا ایک واقعہ مسجد کپورتھلہ کا مقدمه 276 آنحضرت کا ایک عظیم معجزہ ، ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان حضرت مسیح موعود پر مقدمات میں سختیاں ، کئی کئی گھنٹے عدالت 348 میں کھڑا ر کھے جانا آپ نے بنایا ایک صحابی کا بیان کہ آپ ہمیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے مقدمہ گورداسپور کے کچھ واقعات گئے.اور تھوڑا سا مشروب اور کھانا آپ کی برکت سے متعدد کے مقصد منارة السح لئے کافی ہو گیا 467 468.467 480 منارة امسیح کی تعمیر اور اس پر ماربل کی بڑی بڑی سلیں لگانے کی مومنین کیلئے مصائب ہمیشہ نہیں رہتے 582 سعادت پانے والے اور دیسی مشین تیار کرنے والے 297 مومن کیلئے یہ مقدر ہے کہ مصائب اور مشکلات پیدا ہوں 637 منحوس کامیابی مصائب کے بغیر ممکن نہیں مغرب 771 بعض دنوں کے بارہ میں یہ خیال کہ یہ دن منحوس ہے اس کی وضاحت مذہب کے حوالہ سے مغرب کا رویہ اور اس کی اصلاح 260 منصوبہ 469 احمدی کی خوش قسمتی کہ حضرت مسیح موعود نے مغرب کے غلط فلسفہ میڈیا اور ماحول کے بھیانک اثرات اور نظام جماعت کا
خطبات مسرور جلد 13 59 مضامین فرض سر جوڑیں، منصوبہ بندی کریں 104 105 حقیقی مومن بننے کے لئے پہلی شرط تو بہ ، گناہوں کا اقرار 684 مولوی مومن سجدہ کی حالت میں خدا تعالیٰ کے قریب ترین ہوتا ہے 685 ایک مولوی کا قادیان حضور کے پاس نشان دیکھنے آنا اور آپ کا مہمان / مہمان نوازی فرمانا کہ میری کتاب حقیقۃ الوحی دیکھ لو...253 جلسہ سالانہ برطانیہ ، نصائح اور رہنمائی ، میزبانی و مہمان فیصل آباد کے ایک مولوی کا قل ھو اللہ احد پڑھ کر کہنا کہ دیکھو نوازی....قرآن کہتا ہے کہ احمدی کا فر ہیں 537 جلسہ سالانہ اور مہمان نوازی، پارکنگ...487-478 4870479 جاپان میں پاکستانی مولوی کا جانا ،اللہ ان کے شر ان پر ایک صحابی کا بیان کہ آپ ہمیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے 703 گئے.اور تھوڑا سا مشروب اور کھانا آپ کی برکت سے متعدد کے الٹائے...مومن آپ کا مومن کی صفات بتانا لئے کافی ہو گیا 480 10 آپ کا مہمانوں سے مہمان نوازی کی بابت دریافت فرمانا کہ 482 11 کیسی مہمان نوازی ہوئی..مومن کے سارے کام برکت ہی برکت ہیں مومن کا کام ہے اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھے 97 ایک صحابی کا مہمان کے لئے اپنے بچوں کو بہلا پھسلا کر بھوکا مبلغ کی شکل مومنانہ ہو ایک حقیقی مومن کی نماز اور عبادت 167 سلانا اور خود بھی بھوکے رہنا 482 229 جلسہ سالانہ برطانیہ کا اختتام اور اظہار تشکر ، غیر از جماعت انسان کی حالت پیدائش سے مومن کی تشبیہ، ایک پر معارف مہمانوں کے تاثرات اور ہمارے فرائض تشریح...525+508 233 جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی اور حضرت مسیح موعود کا ایک حقیقی مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے نماز شروع کرنے اور ختم کرنے میں ایک واضح فرق ہو الهام....238 میڈیا 764 39 جمعہ میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں مومن اپنے رب کے آزادی رائے اور فرانس کے ایک اخبار پر حملہ کے بعد جماعت کا حضور جو دعا کرے وہ قبول کی جاتی ہے 368 ،428 موقف اور میڈیا کی وسیع پیمانے پر کوریج مومن میں جھوٹ اور خیانت کے علاوہ بری عادتیں ہو سکتی ہیں میڈیا اور ماحول کے بھیانک اثرات اور نظام جماعت کا لیکن ایک مومن میں جھوٹ اور خیانت نہیں ہو سکتی 397 فرض سر جوڑیں، منصوبہ بندی کریں مومن پر ابتلا ء اور مشکلات کا آنا اور اس کی اہمیت و اسلام دشمن قوتوں کا اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے مسلم دنیا 577 کے جھگڑے بڑھانا اور میڈیا میں کوریج کے ذریعہ اسلام کو بدنام بركات.......مومن کوصبر کے معنے سمجھنے کی ضرورت ہے تبھی دعا کی حقیقت بھی کرنا...معلوم ہوگی 581 105.104 544 اسلام کے خلاف میڈیا کا کردار اور حضور انور کے انٹرویوز میں مومن کا کام عمل کے ساتھ تو بہ کی طرف بھی توجہ دے 582 | اس کا بر ملا اظہار 544
خطبات مسرور جلد 13 میله 60 مضامین حضرت مسیح موعود کے معجزات اور نشانات ، سگ گزیدہ کا حیرت جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ذکر الہی میں مصروف رہنا چاہئیے 344 انگیز طور پر حضور کی دعا سے بچ جانا نی ن 247 حضور کا فرمانا کہ میری صداقت کے خدا تعالی نے لاکھوں نشانات دکھائے ہیں 251 ایک مولوی کا قادیان حضور کے پاس نشان دیکھنے آنا اور آپ کا انبیاء سے استہزاء کرنے والوں سے اعراض کی تعلیم، معاملہ خدا فرمانا کہ میری کتاب حقیقۃ الوحی دیکھ لو...پر چھوڑ دینا چاہئے 253 270 38 لیکھرام کا نشان ، خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک اظہار انبیاء کے ساتھ تمسخر کرنے والوں کو خدا عبرتناک نشان بناتا قادیان کی ترقی ایک نشان اور اس کی بابت پیشگوئی 281 تا290 91 مخالفین کا زور لگا نالیکن ان کا نا کام ہونا اور یہ خدا کا نشان 604 ہے...نبی اس لئے آتا ہے کہ دنیا کے روحانی انحطاط کی اصلاح کرے....317 نصیحت / نصائح نبی کی وفات کے بعد روحانی لحاظ سے رات اور جسمانی لحاظ سے درود کی نصیحت اور حکمت، حضرت مسیح موعود کے ارشادات 43،42 طلوع فجر کا زمانہ تم میں نبوت قائم رہے گی...318 مربیان اور مبلغین کے لئے ایک ضروری نصیحت کہ اپنی 329 استعدادوں کو استعمال کریں اور دوسروں کی بڑھائیں 74 انبیاء کا وجود ایک بارش ہوتی ہے، اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے عہدیداران کو سلام کرنے کے متعلق ایک ضروری نصیحت 85 464 حضور انور کی دورہ کینیا کے دوران ایک سائنسدان سے ملاقات سے ایمانی قوت بڑھتی ہے نخوت تکبر اور نخوت کو چھوڑنے کا عہد نشان نشانات اور نصیحت 164 12 خدام الاحمدیہ کو نصیحت کہ ان کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے انبیاء کے ساتھ تمسخر کرنے والوں کو خدا عبرتناک نشان بناتا ہے...91 مطابق ہونی چاہئے ظاہری صفائی کو ملحوظ رکھنے کی نصیحت 167 167 واقفین زندگی ، مبلغین اور ہر احمدی کے لئے نصیحت کہ ظاہری رکھ کسوف و خسوف حضرت مسیح موعود کی آمد کا ایک زبردست رکھاؤ کی طرف اتنی توجہ نہ دیں کہ...نشان.167 181 حضرت مصلح موعودؓ کی ایک جماعتی کارکن کو نصیحت کہ خدا سے کسوف و خسوف کا نشان اور حضرت مسیح موعود کا اس کے متعلق مانگیں بجائے اس کے کہ انجمن پر کسی کی نظر ہو 184.183 321 عہدیداروں کو نصیحت کہ خدمت دین بھی صرف خلافت سے بعض اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے غیروں کو وابستگی میں ہے بھی نشان دکھاتا ہے 245 338 حضرت مصلح موعود کی مربیان اور علماء کو ایک بڑی اہم
خطبات مسرور جلد 13 61 مضامین نصیحت ، خلیفہ کے ساتھ دن رات تعاون کر کے اس کام میں لگ | آج دنیا میں تبلیغ اسلام کا کام خلافت احمدیہ کے نظام کے تحت ہی جائیں کہ...نصیحت کرنا ہر عہد یدار کا کام ہے 341 335 ہو رہا ہے ہو 392 خلافت سے علیحدہ ہونے والوں کا مرکزی نظام درہم برہم ہے جلسہ سالانہ برطانیہ ، نصائح اور رہنمائی میزبانی و مہمان جانا...نوازی....335 478 تا 487 نظام جماعت اور خلافت سے وفا اور اطاعت کا تعلق 592 عرب احمدیوں کو تلاوت قرآن کریم کے حوالہ سے ایک ضروری نظام خلافت کا قیام اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ، خلافت کے نظام 499 نے بھی اسی کام کو آگے بڑھانا ہے نصیحت 597 جلسہ سالانہ برطانیہ میں شریک ہونے والوں کے لئے ہدایات گھروں میں نظام جماعت کے خلاف باتیں کرنا معمولی نہ اور نصائح 5020497 نظام خلافت کا قیام اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ، خلافت کے نظام نے بھی اسی کام کو آگے بڑھانا ہے نظریہ 687 597 تفسیر و تشریح کا ایک اصول ،خلافت اور نظام کے تحت ہی اپنے جاپان میں پہلی مسجد کی تعمیر اور حضور انور کی نصائح اور نظریات کا اظہار کرنا چاہئے 678 نعرے رہنمائی.....103 جلسہ پر شامل ہونے والوں کے لئے بڑی قابل غور نصیحت کہ احمدیوں کے صرف نعرے نہیں بلکہ عملی حالتیں بھی ایسی ہونی کثرت ہجوم اور کام کرنے والوں کی قلت کی وجہ سے پریشان نہ چاہئے کیونکہ یہ بھی تبلیغ کا ذریعہ بنتی ہیں ہوجائیں اور ٹھوکر نہ کھائیں نظام 772 | نعمتیں 224 خدا تعالیٰ کی خشیت اور خوف دنیا کی چیزوں سے بے پرواہ کر دیتا بغاوت سے بچیں یہ باغیانہ رو یہ چاہے نظام جماعت کے ادنی ہے لیکن وہ دنیا کی نعمتوں سے محروم نہیں رہتا 7 قناعت اور شکر کے نتیجہ میں مزید فضل اور نعمتیں 527 528 کارکن کے خلاف ہو یا حکومت کے تفسیر وتشریح کا ایک اصول ، خلافت اور نظام کے تحت ہی اپنے مسیح موعود کا نمونہ کہ اللہ کی نعمتوں کو جب استعمال کریں تو اس کا 103 | شکر کریں نظریات کا اظہار کرنا چاہئے میڈیا اور ماحول کے بھیانک اثرات اور نظام جماعت کا نقشہ 532 فرض سر جوڑیں، منصوبہ بندی کریں تبلیغ بھی جماعتی نظام کے تابع ہو تو زیادہ مفید ہے 105.104 200 دنیا کے نقشے پر جماعت احمدیہ ہی ہے جو اسلامی تعلیم کے مطابق حقوق ادا کرنے والی ہے 21 نظام خلافت کی دینی ترقی کے ساتھ تعلق اور شریعت اسلامیہ کا قادیان کی ابتدائی حالت کا نقشہ اور قادیان ،اور جماعت کی ایک حصہ 332 ترقی...763.277 نظام خلافت کے قیام کے لئے سب سے زیادہ کوشش اور قربانی قادیان کے پاکیزہ ماحول کا ایک نقشہ ، ایک حقہ پینے والا حضرت مصلح موعودؓ نے کی اور اس کی تفصیل 332 | شخص 723.722
خطبات مسرور جلد 13 62 مضامین حضرت مسیح موعود کے جلسوں کا نقشہ 757 | نمازی نماز پڑھ سکیں 285 ن نقصان مسجدوں کی تعمیر کے ساتھ اس کے چھوٹے ہونے کی بھی کوشش کرنی چاہئے 287 خلافت کی نعمت سے فائدہ اٹھانا ہے تو عبادتوں کا حق ادا کریں، پانچ وقت نمازوں کی حفاظت کریں کسی کو شریک نہ نقصان ، ہمارے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ خدا تعالی کیوں بنائیں 338 نمازوں کی حفاظت اور ادائیگی کی طرف توجہ 580 477 بڑے ابتلاؤں اور نقصانات سے ہمیں گزارتا ہے بیت الفتوح کی آتشزدگی ، اگر یہ واقعہ بھی آزمائش ہے تو ہمیں یہ حضرت مسیح موعود کی ایک تڑپ اور شوق، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی عہد کرنا چاہئے کہ خدا کے حضور جھکتے ہوئے دعائیں کرتے طرف توجہ دینا اور نمازیں پڑھنا ہوئے آزمائش سے بھی کامیاب گزریں گے ،انشاء اللہ اس نماز تہجد نقصان کی بہتر رنگ میں تلافی ہوگی 567 586 نماز تہجد کے وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاخیر ہوتی ہے 8 ہمارا کام یہ نہیں کہ نقصان پر مایوس ہو کر بیٹھ جائیں 586 نماز تہجد کا اہتمام کریں یہ روحانی اور جسمانی علاج ہے آپ کا تہجد پڑھنے کی تلقین کرنا 8 8 نماز با جماعت نمازوں کی پابندی کا عہد اور اس کی ضرورت 7 تہجد کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریق رہا ہے 8 جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں اور عہدیداران کو پنجوقتہ نمازوں کے رمضان میں تہجد ، تراویح کی اہمیت گو کہ روزے کے لئے یہ کوئی قیام کے لئے بہت توجہ کی ضرورت ہے شرط نہیں ہے 393 خطبہ بھی نماز کا حصہ، اس میں بولنا منع ہے نماز با جماعت کے اہتمام کی ضرورت نماز کی اہمیت اور نماز باجماعت 68 | نماز جنازہ ذکر خیر 79 | لقمان شہزاد شہید کا ذکر خیر 83 شہزادے ستانوسکا صاحبہ مقدونیہ کا ذکر خیر 15 18 لندن اور بعض دیگر ممالک میں سورج گرہن اور حضور انور کا خطبہ مولوی عبد القادر صاحب دہلوی درویش قادیان کا ذکر خیر 51 جمعہ میں اس کے متعلق پر معارف بیان نماز کا اہتمام اور مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب حافظ آبادی کا ذکر خیر 52 صدقات و خیرات کی تاکید ایک حقیقی مومن کی نماز اور عبادت 181 حبیبہ صاحبہ میکسیکو کا ذکر خیر 229 جنان العنانی صاحبہ کا ذکر خیر 81 80.79 حقیقی مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے نماز شروع کرنے حضرت اسماء کی سورج گرہن میں لمبی نماز اور وعظ کی بابت 238 روایت اور ختم کرنے میں ایک واضح فرق ہو حضرت اقدس کے توکل، قبولیت دعا کا ایک واقعہ مسجد کپورتھلہ کا احمد یحیی باجوہ متعلم جامعہ احمد یہ جرمنی کا ذکر خیر قدمه 183.182 196 276 نعمان احمد صاحب نجم کراچی کی شہادت اور ذکر خیر 210، 211 مسجد اقصیٰ میں 4 لاکھ نمازیوں کی گنجائش کا ہونا...284 | انجینئر فاروق احمد صاحب نائب امیر پشاور کا ذکر خیر 213 قادیان میں ایک وسیع مسجد بنائی جائے جس میں تین چار لاکھ انتصار احمد ایاز صاحب کا ذکر خیر 227
خطبات مسرور جلد 13 63 مضامین وسیم احمد معلم جامعہ احمدیہ قادیان کا ذکر خیر 228 | عنایت اللہ احمدی صاحب کا ذکر خیر 278 مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغانہ کا ذکر خیر 737 738 سیدہ قانتہ بیگم صاحبہ والدہ ڈاکٹر طارق احمد صاحب کا ذکر خیر 740 نیم محمود صاحب کا ذکر خیر حاجی منظور احمد صاحب درویش کا ذکر خیر 296 قرغیزستان میں ایک احمد بیونس عبدل جیلوف صاحب کی محمد موسی درویش صاحب قادیان کا ذکر خیر 311 شہادت اور ذکر خیر صاحبزادی سیدہ امتہ الرفیق صاحبہ کا ذکر خیر 312 | نمونه 773.767 8 رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد دین صاحب درویش کا ذکر خیر 367 والدین نمازوں میں بچوں کے لئے نمونہ بنیں ہدایت بی بی اہلیہ عمر احمد صاحب درویش کالا افغاناں کا ذکر خیر 389 عہدیداران اپنے نمونے کے ساتھ دوسروں کی تربیت کی طرف مولوی محمد احمد ثاقب صاحب کا ذکر خیر 390 بھی توجہ دیں 76 بیویوں سے حسن سلوک اور محبت کے بارہ میں آنحضرت کی تعلیم مولوی یوسف صاحب درویش قادیان کا ذکر خیر 445 اور ہمارا نمونہ کمال آفتاب صاحب کا ذکر خیر 488 259 مولوی خورشید احمد پر بھا کر صاحب کا ذکر خیر 460 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سے حضرت اقدس کا پیار اور وفات پر راضی برضا کا قابل رشک نمونہ 270 271 معاشرے میں امن کے قیام کے لئے آنحضرت کا اسوہ 382 383 502 معاشرے کے حسن کو نکھارنے والا ایک اہم حکم ،غصہ 504 دبانا، آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کا اسوہ اکرام اللہ صاحب شہید کا ذکر خیر پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب کا ذکر خیر سیده فرید بیگم صاحبه الیہ مرزا رفیق احمد صاحب کا ذکر خیر 526،525 400 بزرگوں کے نمونے جنہیں واقفین زندگی کو بھی سامنے رکھتے ہوئے غور کرنا چاہئے 437 صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ بنت صاحبزادہ حضرت مرزا حضرت مسیح موعود کا نمونہ کہ اللہ کی نعمتوں کو جب استعمال کریں تو شریف احمد صاحب کا ذکر خیر 538 اس کا شکر کریں الحاج یعقوب با ؤ بنگ آف غانا کا ذکر خیر 568 حضرت مسیح موعود کا نمونہ بھی مشعل راہ ہے مولا نا فضل الہی بشیر صاحب کا ذکر خیر 569 532 558 مسجد مبارک کی تعمیر کے وقت ایک شبہ پڑنا کہ تعمیر صحیح نہیں اور حضرت مصلح موعود کا اس موقعہ پر نمونہ 586 خالد سلیم عباس صاحب آف سیر یا کا ذکر خیر 589 حضرت خلیفتہ امسیح الاول کا حضرت مسیح موعود سے عشق اور محبت چوہدری محمود احمد صاحب مبشر درویش قادیان کا ذکر خیر 589 اور معجز وانکسار کا اعلیٰ نمونہ احمد الرحال صاحب آف سیریا کا ذکر خیر 590 664 حضرت خلیفہ اسیح الاول کی قربانیوں کے معیار اور اطاعت کے اعلی ترین نمونے.....677-665 حافظ محمد اقبال وڑائچ صاحب کا ذکر خیر 599 ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب کا ذکر خیر 631 کے لئے قرآن کا علم حاصل کریں اور اپنے نیک نمو نے قائم کر
خطبات مسرور جلد 13 کے دنیا کو اپنی طرف کھینچیں نوجوان نو 64 مضامین 733 | کسوف و خسوف اور بعض صحابہ کے واقعات و روایات 185 حضرت منشی احمد جان صاحب کا نماز کے آخر پر سلام پھیرنا اور 240 کھلی فضا میں کھیلنے کی طرف بچوں اور نو جوانوں کو خاص توجہ کی پھونک مارنے کا واقعہ ضرورت ، جامعہ کے طلباء کے لئے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ باہر سیرت حضرت مسیح موعود کے واقعات بیان فرمودہ حضرت مصلح کھیلنالازمی...95 موعود...634.278+267 مسلمانوں کے نوجوان جو دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہو رہے ہیں حضرت مسیح موعود کی کھانسی والے واقعہ میں کیلا تھا یا سیب ، اس کی ان کی غلط سوچ 201 | وضاحت 296.295 نوجوانوں اور بچوں کو مذہب کے حوالہ سے سمجھ بوجھ رکھنے کی حضرت مسیح موعود اور آپ کے صحابہ کے متعلق بعض واقعات ضرورت اور اہمیت اور اگلی نسلوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بڑوں کی ہے نومبائعین نو مبائعین کو چندوں کے نظام میں لانے کی نصیحت 255 32 بیان فرمودہ حضرت مصلح موعود 445-430 حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا آپ کی گستاخی کرنے والے پر تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھانے کا واقعہ 440 مسلمانوں کی حالت کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے بیان پیٹرک (Patrick) صاحب کا جلسہ جرمنی میں بیعت کرنا 361 آپ کا نو بائعین کو کہنا کہ آپ بڑے خوش قسمت ہیں کہ نوکری 612 فرمودہ واقعات 450 حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے واقعات کا بیان 463 تا 477 مقدمہ گورداسپور کے کچھ واقعات 468.467 حضرت مسیح موعود کے والد صاحب کی آپ کے مستقبل کے بارہ حضرت مصلح موعود کا مسیح موعود کی سیرت کے واقعات بیان کرنا میں تفکر اور حضور کا فرمانا کہ میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کر لی 529 نیکی اور نتیجہ اخذ کرنا جو آپ کا ہی خاصہ ہے 531 اللہ تعالیٰ کے لوگوں کی توجہ جماعت کی طرف پھیرنے کے خیر کی ترغیب دلانے والا ثواب کا ویسا ہی مستحق ہوتا ہے جیسا کہ کچھ واقعات نیکی کرنے والا نیکی قربانی کو چاہتی ہے 79 648 خوابوں کے ذریعہ قبول احمدیت، کچھ واقعات 547 605 بیعت کے بعد اخلاص و وفا میں ترقی کے کچھ واقعات 613 واقعہ واقعات آپ کا ایک شخص کا قبالہ گم ہونے کا واقعہ بیان کرنا 639 چندہ جات ، اخلاص و وفا اور مالی قربانی میں حضرت مسیح موعود کی 35 قابل رشک جماعت ،مختلف ممالک کے واقعات 1 65 تا660 فرانس میں ہونے والے پرتشدد واقعہ کی مذمت حضرت مصلح موعود کا گجرات کے ایک مولوی کا گرہن کے متعلق واقعہ بیان کرنا 146 حضرت نظام الدین صاحب کا قبول احمدیت کا دلچسپ واقعہ...خلیفہ اول کی ہمشیرہ کا پیر صاحب سے رہنمائی لینے کا واقعہ 668 خلیفہ اول کو حضور کا دلی بلانے کا واقعہ 673 170 خلیفہ اول کا حضور کی مجلس میں جوتیوں میں بیٹھنے کا واقعہ 676
خطبات مسرور جلد 13 65 مسجد بیت الاحد (جاپان) کے کوائف اور مالی قربانی کے وحی واقعات مضامین 688 آنحضرت کے متعلق وہابیوں کا خیال کہ آپ کے بعد وحی وغیرہ ایک زمیندار کا دوسرے زمیندار سے آپ سے مصافحہ کی تلقین کا واقعہ 765 بند واقفین زندگی 464 بڑے خوش قسمت وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ چودہ سوسال بعد تازہ بہ تازہ وحی والہام کا زمانہ پایا،ان مربیان اور مبلغین کے لئے ایک ضروری نصیحت کہ اپنی عشاق کی کیفیت استعدادوں کو استعمال کریں اور دوسروں کی بڑھائیں 74 وظیفہ 711 مربیان مبلغین اپنے فرائض اور کاموں پر زیادہ توجہ دیں 75 خواب کو پورا کرنے کے لئے اس پر عمل کرنا اور چنوں پر وظیفہ 167 پڑھ کر کنویں میں پھینکنے والی ایک روایت مبلغ کی شکل مومنانہ ہو واقفین زندگی ، مبلغین اور ہر احمدی کے لئے نصیحت کہ ظاہری رکھ عباس احمد کے نام پر وظیفہ کا اجراء رکھاؤ کی طرف اتنی توجہ نہ دیں کہ...167 جامعات میں بڑی تعداد مربیان کی آرہی ہے لیکن پھر بھی 169 وعده جماعت کی ہر طرح کی ترقی کا خدا تعالیٰ کا وعدہ 66 542 289 خدا تعالیٰ کا مسیح موعود کے ساتھ خلافت کے نظام کا وعدہ اور ہماری ذمہ داری 331 مستقبل قریب میں ضرورت پوری نہیں ہوسکتی حضرت مصلح موعود کی مربیان اور علماء کو ایک بڑی اہم ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالی کے بڑے بڑے وعدے نصیحت، خلیفہ کے ساتھ دن رات تعاون کر کے اس کام میں لگ ہیں...جائیں کہ...341 | وفا بزرگوں کے نمونے جنہیں واقفین زندگی کو بھی سامنے رکھتے ہر حالت میں خدا کا وفادار رہنا ہے 437 630 10 نظام جماعت اور خلافت سے وفا اور اطاعت کا تعلق 592 تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہوئے غور کرنا چاہئے والدین والدین نمازوں میں بچوں کے لئے نمونہ بنیں اخلاص و وفا کرنے والوں کے تذکرے وفات مسیح 6600651 والتليرز جلسہ سالانہ کے لئے کام کرنے والے رضا کاران کا جوش و جذ بہ ایک حکیم کا حیات ، وفات مسیح کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کے ، جو حضرت مسیح موعود نے پیدا کیا 478 متعلق عجیب نظریہ 179.178 حضرت خدیجہ کا آپ کی پہلی وحی کے بعد آپ کی گھبراہٹ حضرت مسیح موعود کا آپ کی غیرت میں وفات مسیح کے مسئلہ کی دیکھ کر عرض کرنا کہ ان خوبیوں کے حامل کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کر بابت جوش و جذ به سکتا 480 وقار 244 جلسه سالا نہ میں کام کرنے والے والنٹیئر ز 509 | مردوں کا عجیب وغریب حلیہ بنا لینا جن سے ان کے وقار بھی
خطبات مسرور جلد 13 ضالع ہوتا ہے وقف جدید 66 472 مضامین اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمیشہ ہمدردی کرنے کا عہد 13 وقف جدید کی وسعت اور کاموں کا ایک جائزہ 30 حضرت مسیح موعود کی ہمدردی خلق کے لئے تڑپ اور درد، دنیا کی خلیفہ اسیح الرائع نے وقف جدید کی تحریک بیرون از پاکستان اصلاح کے اس دور کو قائم رکھنا اور آگے چلانا جماعت کے افراد کا ممالک کے لئے شروع کی تھی وقف جدید کے نئے سال کا اعلان اور جائزہ 30 فرض ہے 33 | ہنر آپ کا ایک شخص فجانا می کو ہنر سکھانے کا واقعہ وکیل 197 643 اسائلم لینے والوں کا وکیلوں کے کہنے پر بار بار سمجھانے کے افراد جماعت کو ہنر سیکھنے اور محنت کی طرف توجہ دینی چاہئے 643 3 ہوا و ہوس با وجود جھوٹ بولنا اور اس کا نقصان جب تکبر پیدا ہو جائے تو بڑے بڑے وکیلوں اور عالموں کی عقل ہوا و ہوس کے پیچھے چلنے کا عہد 12 پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ بے عقل ہو جاتا ہے وہابی 293 یاد دہانی یاددہانی کی اہمیت ، یہ ضروری ہے 464 ی آنحضرت کے متعلق وہابیوں کا خیال کہ آپ کے بعد وحی وغیرہ بند ویڈیو 77 ایک ویڈیو جس میں ایک افریقن مولوی قرآن پڑھاتے وقت میں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں 477 کے جس طرح دو انگلیاں اکٹھی ہیں مار رہا ہے ، اس پر تبصرہ ہدایات بیعت کے بعد مسلسل رابطہ کی ہدایت 31 کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ فلاں شخص ہدایت پا جائے تو جماعت ترقی کرے گی ہمدردی 640 دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان مال عزت اور اولاد سے زیادہ عزیز سمجھنے کا عہد 13 یتیموں کی خبر گیری کی اہمیت یوم آزادی 14 اگست پاکستان کی یوم آزادی پر دعا کی تحریک 388 388 487
خطبات مسرور جلد 13 67 اسماء اسماء آ تعلیم کا صحیح رخ اب دنیا کو بتانا ہے 40 آپ کا فرمانا کہ خیر کی طرف لے جانے والا آپ مہ کے قیامت کے دن سب سے ثواب کا ویسا ہی مستحق ہوتا ہے جیسا کہ نیکی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم زیاده نزدیک وہ شخص ہو گا جو سب سے کرنے والا 79 آپ نے فرمایا ہے کہ آگ اس آنکھ پر زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا 41 آپ کا مسلمانوں کی مردم شماری کرانا86 آپ کے بارے میں جب کوئی نازیبا آپ سے بیہودہ گوئیاں خدا تعالیٰ یونہی نہیں حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے الفاظ کہے جائیں ہمارے دل اُس وقت جانے دے گا آپ نے فرمایا کہ اس شخص سے بھی چھلنی ہوتے ہیں خیانت سے پیش نہ آؤ جو تم سے خیانت سے پیش آچکا ہے 41 91 رسول کاریل کے متعلق پیشگوئی فرمانا 120 آپ کا ایک جلد نماز ادا کرنے والے کو درست آپ نے فرمایا کہ شیطان انسان کے خون 42,41 کے ساتھ اس کے جسم میں چلتا ہے 160 آپ کا فرمانا کہ سب سے بڑا ظلم کہ کوئی شخص طریق بتلانا آپ نے فرمایا جس کسی نے بھی میرے لئے آپ کا راتوں کو اٹھ کر خدا کے حضور گر یا وزاری اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت کرنا اور حضرت عائشہ کا استفسار 162 حضور کا فرمانا کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے 162 اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دبالی آپ کا تہجد پڑھنے کی تلقین کرنا آپ کا استغفار کی فضیلت بیان کرنا 9 حلال ہو جائے گی 42 حضور کا نماز میں درود کی وجہ سے قبولیت حضور کا سورج گرہن کے موقع پر صدقہ ، دعا کا بیان 42 خیرات اور دعا کی ہدایت فرمانا 181 آپ کا درود کی فضیلت بیان کرنا 41،9 آپ کا فرمانا کہ اہم کام اگر اللہ تعالیٰ کی حمد آپ نے ہر بد تحریک کا مقابلہ کیا 43 آنحضرت کا گرہن کو خاص اہمیت دینا 182 آپ کی عزت کے لئے اس سلسلہ کو اللہ نے حضور کا فرمانا کہ تم قبروں میں آزمائے 45 جاؤ گے کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ بے برکت اور بے اثر ہوتا ہے 10 قائم کیا آپ کا شکر نہ کرنے والے کو وعظ 10 نبی کریم پر درود شریف کے متعلق حدیث 50 182 حضور کے متعلق منافق اور مومن کی گواہی 183 حضور " کا فرمانا کہ میں جنت میں خدا کے فضل سے جاؤں گا 237.235 آپ کا مومن کی صفات بتانا 10 میں بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى ال آپ کا رسم کے متعلق فرمانا 11 مُحَمَّدٍ کے الفاظ آئے ہیں آپ کی بیویوں سے حسن سلوک کی مثال 259 آپ کی عاجزی اختیار کرنے والے کو بشارت 13 آپ کا ایک شخص کے متعلق فرمانا کہ اگر یہ ہی آپ کا کھجور کے متعلق تعلیم کا واقعہ 260 آپ پر جو لوگ غلط الزامات لگاتے ہیں وہ کہتا ہے تو اس کو کامیاب سمجھو 72 آپ کی مادیات کی متعلق تعلیم احمقوں کی جنت میں بستے ہیں 36 آپ نے کم از کم معیار پانچ نمازیں فرض آپ پر ایمان لانے والوں کی مثال 276 آپ کے عاشق صادق کی جماعت نے اسلام کی ٹھہراتی ہیں 73 آپ دنیا کے مادی، اخلاقی اور روحانی مصلح ہیں 258 260
68 اسماء 397 397 خطبات مسرور جلد 13 آپ پر آپ کا درود بھیجنے کا انداز 301 الخلفاء کے ذریعہ سے ہی جاری ہوتا ہے 331 | دل خیانت نہیں کرتا آپ کی شان اور مقام میں حضرت مسیح موعود آپ کا خلافت علی منہاج نبوت کی آپ کا فرمانا کہ کسی شخص کے دل میں ایمان کے اقتباسات 304 تا 309، 742 خوشخبری دے کر خاموشی اختیار کرنا 331 اور کفر اکٹھے نہیں ہو سکتے آپ پر تنگی اور فتح کے دونوں حالات کمال آپ کا فرمانا کہ وہ مومن نہیں جو جھوٹا اور آپ کا مشورہ غلط دینے والے کو خائن قرار د ینا399 337 آپ کا اپنی بیٹی کے قاتل کو معاف فرمانا 401 آپ کا مکہ والوں کو معاف کرنا 304 آپ کے ذریعہ ہر میدان میں ایک انقلاب آپ کا ابو بکر سے کسی شخص کا برا بھلا کہنے پر آپ کے اخلاق کا کمال تمام انبیاء کے پیدا ہوا 348 جواب دینے میں ناراض ہونا اخلاق کو ثابت کرتا ہے 304 | آپ کا جمعہ کے دن کو بابرکت بتانا 368 آپ کا صحابہ کی تربیت کرنا کہ جائز غصوں کو آپ کی وجہ سے مسیح کے اخلاق پر اعتراض آپ کا رمضان کے دنوں کی برکت بتانا 368 عفو میں بدل لینا میں ظاہر ہوئے کا دور ہونا 304 | خائن ہو 401 401 402 408 304 آپ کا بدر کی جنگ میں ایک عورت کا بچے کو آپ کا اپنی خاطر کبھی انتقام نہ لینا 402 آپ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس ڈھونڈنا سے خدا کی محبت کی مثال دینا 373 آپ کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ کے اخلاق حضور کی طرح واضح ہوں 305 حضور کا فرمان کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں لا سکے آپ کا حقانی صبر دنیا پر آفتاب کی طرح ہے اور نہ بھی کوعربی پر ہے 382 | آپ کا محسن کی تعریف بیان کہ روشن ہو گیا ہے 305 مجھے موسیٰ پر فوقیت نہ دو 382 383 آپ کا لیلتہ القدر کی فضیلت بیان کرنا 415 آپ کی پیروی سے انسان خدا کا پیارا بن آپ کا فرمانا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے آپ کے ارشادات سے یہ بات ثابت ہے جاتا ہے مسیح کے گزشتہ اقوال پر غالب 306 کہ اس حد تک انکساری اختیار کرو کہ کوئی کسی کہ صرف رمضان کا آخری جمعہ پڑھ لینا آپ کی محبت اور پیروی انسان کو خدا کا پیارا پر فخر نہ کرے بنادیتی ہے 382 نجات کا ذریعہ نہیں 417 306 آپ کا خدا کے لئے عاجزی اختیار کرنا اور آپ کا جمعہ پر آنے والے کو ثواب کا مستحق 383 | ٹھہرانا 420 آپ سب سے کامل انسان اور کامل نبی ہی ہیں 307 اس کی برکت آپ کے احسانات کا ذکر آپ کے ذریعے 308 آپ غریبوں مسکینوں کی مدد کے لئے آپ کی جمعہ چھوڑنے والے کو تنبیہ 421 آپ کے منصب ختم نبوت کی برکات 309 آپ روحانیت کے رو سے کمال یافتہ شخص پر اپنی فیضان رسالت کے لحاظ سے باپ ہیں 309 تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم 310 رمضان میں خاص طور پر اپنے ہاتھوں کو آپ کا دوسروں کی روح کوسامنے رکھ کر دعا کرنا 444 آپ کا خواب دیکھنا کہ جنت سے انگوروں کا اس قدر کھولتے تھے کہ تیز آندھی سے بھی بڑھ جاتے 386 خوشہ لایا جانا 454 آپ کا ابو جہل کے متعلق خواب دیکھنا اور آپ کا یتیم کی خبر گیری کرنے کا انعام بتانا 388 تشویش 456 آپ کا اپنی امت میں خلافت کی پیشگوئی کر 329 آپ کے بعد وہی نبی آ سکتا ہے جس کی آنحضرت کے متعلق وہابیوں کا خیال کہ 464 آپ کی پیشگوئی کا پور ہونا موجودہ خلافت تربیت آپ کے فیضان سے ہوئی ہو 388 آپ کے بعد وحی وغیرہ بند 330 آپ کا مسیح و مہدی کو سلام پہنچانا 330 آپ کی زندگی میں سینکڑوں واقعات جو مہمان کے ذریعہ آپ کا سلسلۂ خلافت آپ کے غلام صادق اور خاتم آپ کا فرمانا کہ تین باتوں میں مسلمان کا نوازی کے اعلیٰ معیار کو چھورہے ہیں 480
69 اسماء خطبات مسرور جلد 13 آنحضرت کا ایک مہمان کا بستر دھونا 481 | آپ کو سب سے اعلیٰ نور دیا گیا 744 | بیعت کرنے کی تلقین آپ کا ایک صحابی کی مہمان نوازی پر آپ کے آنے سے دنیا میں انقلاب عظیم آیا 755 ابراہیم نون صاحب کا کمال صاحب کے فرمانا کہ خدا تعالیٰ بھی اس پر ہنسا 482 آنحضرت کا اچھی بات ، خاموش رہنے اور پڑوسی و مہمان کے حقوق کی تلقین 482 آنحضرت کا مہمانوں سے مہمان نوازی کے متعلق پوچھنا 482 متعلق ذکر خیر 610 491 ابوالعطا ء صاحب جالندھری صاحب 227، 189 آدم نگارا تیجانیہ فرقہ کے ایک بڑے امام صاحب کا بیعت کرنا 216 حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آدم و اکر 490 حضرت ابوبکر کی بابت حضرت عمر کا گمان آلیپا صاحب کا مالی خدمت کا واقعہ 24 کہ آج میں ان پر سبقت لے جاؤں گا لیکن آپ کا جمعہ کے دن مقبولیت کی گھڑی کا بتانا494 آندرے یا بورچ صاحبہ کا جلسہ کے متعلق وہ سارے گھر کا سامان لے آئے 73،72 517 کیا حضرت ابوبکر اور عمر کو ساری آپ کا دنوں میں سے بہترین دن جمع کو قرارد یا 494 ذکر خیر آپ کی غلامی میں حضرت مسیح موعود کو تجدید آئی تورے صاحب کا حضور سے ملاقات احادیث یا تھیں دین کے لئے بھیجا گیا ہے آپ کا کدوشوق سے کھانا 558 559 143 کے بعد ٹانگ کا در دختم ہونا 358 آپ کو ایک شخص کا برا بھلا کہنا...401 آنحضرت جمعہ کے دن نہایت تعہد سے صفائی حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ کے متعلق آپ کا تعریف کرنا 675 کرتے اور اعلی اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے 560 ابراہیم کو آگ سے محفوظ رکھا جانا 140 آپ اور عمر جیسے ایمان کا اسلام ہر ایک | آپ کا جمعہ کے دن اچھا سا جبہ پہن کر مسجد آنا 560 ابراہیم کی مہمان نوازی کا ذکر کرنا 479 سے مطالبہ نہیں کرتا آپ کا تکالیف پر صبر کا نمونہ دنیا میں ہمیں ابراہیم بن یعقوب صاحب ٹرینیڈاڈ میں ابوبکر صاحب آف برونڈی کا مالی خدمت کا کہیں نظر نہیں آتا 582 آپ کا ایک شخص کو خواب میں فرمانا کہ 604 مشنری انچارج اور امیر 569 واقعہ 72 23 احمد ابن خورشید احمد دور لیش 462 ابوبکر صاحب کا فارانا میں تبلیغی نشست کا ابراہیم احمد ابن ابراهیم امام صاحب پوتا مر حومہ حبیبہ صاحبہ 81 اہتمام کرنا 548 455 مرز اصاحب سچے ہیں آپ کا طاعون کے متعلق خبر دینا 636 ابراہیم اور و پووالد الحاج یعقوب 569 ابو جہل کے لڑکے کا دین کے لئے شاندار آپ کا طلحہ انصاری کے باغ میں جایا کر 650 ابراہیم خلیل صاحب کی صاحبزادی کا رشتہ قربانیاں کرنا آپ کا اس بگڑے ہوئے زمانے کے متعلق | الحاج رشید صاحب سے ہونا 110 ابو جہل کے متعلق بتایا جانا کہ یہ خوشہ 716 ابراہیم صاحب آف کنشاسا کی مالی انگوروں کا اس کے لئے ہے پیشگوئی فرمانا خدمت کا واقعہ 454 امام ابوحنیفہ کے فقہ و صحیح قراردیا جانا 565 آپ کا ہارون الرشید کے خواب میں آنا 720 آپ گو لہ تعالی کا فرمان الآمن من في الأرض 731 ابراہیم صاحب انسپکٹر تحریک جدید کا ایک ابو ہریرۃ راوی حدیث 419 66 شخص کی مالی قربانی کا ذکر 656 ابوہریرۃ کے متعلق حضرت مسیح موعود کا آپ کا دنیا میں امن وسلامتی کا حکم 735 آپ سید الرسل اور سب رسولوں کے سرتاج ہیں 742 ابراہیم صاحب بقا پوری کا دو افراد کی نظریہ آپ کے نام کے معنی کہ نہایت تعریف کیا احمدیت کی صداقت کا واقعہ بیان کرنا 190 | حافظ احمد اللہ خان کی بڑی لڑکی زینب گیا یعنی کمالات تامہ کا مظہر 743 | ابراہیم صاحب مجذوب کی اپنے مرید کو کے رشتہ کے متعلق آپ کی رائے 430
خطبات مسرور جلد 13 70 اسماء 631 153 حافظ احمد اللہ خان کا کہنا کہ میں نے اپنی بیٹی کی مالی خدمت کا واقعہ 23 | آپ کا قیصرہ خانم صاحبہ بنت خان سعید زینب کے رشتہ کے متعلق الہام کو غلط سمجھا 432 | احمد یحیی باجوہ ابن مکرم نعیم احمد کا ذکر خیر 196 احمد خان صاحب سے نکاح احمد الرحال صاحب کا ذکر خیر 590 | اجمل صاحب مربی سلسلہ کا ایک غیر احمدی اعمراش حمید سمیر بخوطہ صاحب کے متعلق حضرت منشی احمد جان صاحب مسجد کے نگران کا واقعہ بتانا 613 | ذکر خیر آپ کا اپنی اولاد کو وصیت کرنا کہ مرزا اختر النساء صاحبہ کا رشتہ بشیر احمد صاحب افتخار احمد صاحب پیر اور پیر منظور محمد صاحب صاحب کو قبول کریں 209 کالا افغانہ درویش سے ہونا 739 بیٹے صوفی احمد جان صاحب 240، 454 آپ کو ان کے پیر کا بارہ سال چکی چلانے حضرت منشی اروڑے خان صاحب افتخار ایاز صاحب کا انتصار احمد ایاز کے 209 آپ کا حضرت مصلح موعود کو سونے کی متعلق ذکر خیر کے بعد روحانیت سیکھانا ย 227 189 188 آپ کا حضرت مسیح موعود کو لکھنا کہ ہم اشرفیاں دینے کا واقعہ 720 اکبر صاحب قاضی کا مولوی برہان الدین مریضوں کی ہے...209، 453 آپ کا خلیفہ الثانی سے ملنا اور تین پاؤنڈ صاحب سے امام مہدی کے متعلق پچھوانا188 آپ کا پیر کے ساتھ رہ کر مجاہدہ کرنا 239 پیش کرنا 440 اکبر قاضی صاحب کا تین افراد پر مشتمل ایک آپ صوفی رتر چھتر والوں کے مرید تھے 240 آپ کا آپ سے عشق کا واقعہ 439 وفد تحقیق کے لئے قادیان بھیجنا آپ کا نماز کے آخر پر سلام پھیرنا اور آپ کا مولوی ثناء اللہ کے متعلق بیان 716 اکبر قاضی صاحب کا تعین کتابوں کے متعلق رویا پھونک مارنے کا وقعہ 240 آپ کا چھٹی لے کر قادیان آنا، افسر کا جلدی دیکھنا آپ کے دو بیٹے افتخار احمد صاحب پیر کام ختم کرنے کا حکم ، واقعہ 717 اکرام اللہ صاحب شہید ابن مکرم کریم اللہ اور پیر منظور محمد صاحب 240 آپ کے نام کی وجہ تسمیہ 717 صاحب کا ذکر خیر آپ کے متعلق حضرت مصلح موعود کا کہنا اسد اللہ قریشی صاحب کا قاضی محمد اکبر اکرم شریف داما دوغلو صاحب کا جماعت کہ انھیں دور بین نگاہ دی ہوئی تھی 241 صاحب کی قبول احمدیت کا واقعہ 188 کے افراد کے متعلق ذکر خیر آپ کا اپنے اہل کو جمع کرک کہنا کہ تم سب اسرائیل احمد ابن خورشید احمد دوریش 462 اللہ بخش صاحب آپ پر ایمان لے آنا 454 اسماعیل نوری صاحب مولوی عبد القادر اللہ بخش صاحب کے بیٹے کا ذکر خیر 737 آپ کا جموں کے مہاراجہ کو دعا کے سلسلہ صاحب کے بیٹے اللہ پاشا صاحب کا رشتہ امتۃ الرفیق صاحبہ میں جواب دینا 452 52 مرزا اسماعیل بیگ صاحب کا حضور سے بیٹی کا سے میاں بشیر صاحب کا کرنا احمد خاں سرسید کا عیسائیوں کے اعتراضات جنازہ اٹھانے کا کہنا اور حضور کا جواب 275 حضرت اللہ دتہ صاحب سیٹھ کا جواب دینا 502 517 599 312 488 535 اسماعیل میرانو (Hirano) صاحب اللہ دین حکیم پنجاب کا ایک مشہور حکیم 178 احمد صاحب کا ڈاکٹر امیر صاحب کی قبول جاپانی مسلمان کا حضور کے خطاب کا شکر الماس محمود ناصر کا لقمان شہزاد شہید کے احمدیت کا واقعہ بتانا 609 | گزار ہونا 706 بارے میں ذکر خیر احمد گل صاحب کے ذریعہ فاروق احمد خان حضرت اسماء کا حضور کے وقت سورج اُم طاہر شہید کے خاندان میں احمدیت 213 گرہن کا واقعہ روایت کرنا 182 حضرت ام ناصر 17 525 631 احمد منیو پے صاحب نو مبائع آف تنزانیہ مرزا اظہر احمد صاحب کا ذکر خیر 631 | مرزا امام الدین صاحب کا دیوار کھینچنا اور
خطبات مسرور جلد 13 مقدمه دیوار 71 713 | بدرالدین صاحب مولوی کو کسوف کو دیکھ کر وضاحت اسماء 128 مرز امام الدین صاحب میاں کا قبول احمدیت قبول کرنا 185 | آپ اور خلیفہ ثانی کی اکٹھی شادی کی احمدیت کرنا 190 بدر الدین مہتاب صاحب ابن محمد یوسف تجویز امہ الباری صاحبہ بنت شریف احمد درویش قادیان 670 446 مولوی بشیر صاحب کا حضور کو مجد د کہنا اور صاحب کا ذکر خیر 538 حضرت برہان الدین جہلمی دوسروں کو براہین پڑھنے کی تلقین کرنا 82 حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ 538 امت الرفیق صاحبہ بیٹی میر محمد اسماعیل صاحب کا ذکر خیر 312 امتة اللطیف بیگم صاحب الیہ محمد اسماعیل صاحب 312 آپ کا واقعہ بیعت 463،94 | مولوی بشیر صاحب کا مخالف کتب پڑھ کر آپ پر گو بر پھینکے کا واقعہ 93 | ایمان جاتا رہنا 83 آپ کا مخالفین کی اذیت پر کہنا کہ سبحان مرزا بشیر اول صاحب سے تین کو چار 96 کرنے والی پیشگوئی کی وضاحت 128 والی اللہ یہ دن..آپ کا اپنی فوت شدہ بہن کا واقعہ آپ کو حضرت مرزا بشیر الدین خلیفہ اسیح شیخ امیر الدین صاحب، میاں صاحب دین صاحب اور میاں محمد یار صاحب کو بٹالہ سنانا......97 الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بٹالوی کے شاگردوں کا سامنا 186 آپ کے خواب کی تعبیر آپ کا بتانا 97 آپ کا مزار مسیح پر اپنی دعا کا طریق بیان کرنا 48 186 48 55 آپ کا بٹالہ میں محمد حسین بٹالوی کے آپ کا اکبر قاضی صاحب کو تین کتابیں مہدی آپ کا درود بھیجنے کا طریق شاگردوں کو جواب دینا کی صداقت کے متعلق بھیجنا 188 آپ کا آپ کی عزت و احترام کا واقعہ 54 قاضی امیر حسین صاحب کا ادب کے لئے بشیر احمد صاحب ہو تا قاضی محمد اکبر صاحب 188 آپ کا بیان کہ آپ کو مرزا مبارک سے کھڑے ہونے کے متعلق واقعہ 719 بشیر احمد صاحب چوہدری ابن چوہدری محمد بہت محبت تھی انتصار احمد ایاز صاحب ابن مکرم ڈاکٹر ابراہیم صاحب کا ذکر خیر 153 آپ کا آتھم کی پیشگوئی کے واقعہ کا ذکر کرنا59 افتخار احمد ایاز صاحب کا جنازہ 227 بشیر احمد صاحب درویش قادیان کا خلیفہ ثانی کے آپ کا محمد احسن صاحب امروہی کی بات کا 53 پر ناراضگی کا اظہار....منشی اندرمن مراد آبادی اور پنڈت لیکھرام کا حکم پر ہندوستان میں شادی کرنا اسلام کے سچا ہونے کا نشان مانگتا 116 بشیر احمد صاحب کالا افغانه مرحوم درویش آپ کی 1931ء کے خطبہ میں جماعت کو 738 جھگڑوں سے بچنے کی تلقین حضرت انس 41 قادیان کا ذکر خیر کرنل اوصاف علی خان صاحب 632 مرزا ایوب بیگ صاحب کا نشان گرہن کے متعلق واقعہ بیان کرنا 191 خواجہ باقی باللہ صاحب کے مزار پر آپ کا باقی بالله.دعا کرنا 65 67 آپ کا نماز میں بولنے کا واقعہ بیان کرنا68 بشیر احمد صاحب کالا افغانه درویش کا رشتہ اختر النساء صاحبہ سے ہونا 739 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب 312 آپ کا فرمانا کہ لوگ نماز کے لئے آتے وقت ہمسایوں کا ساتھ لے کر آیا کریں 77 آپ کا فرمانا کہ علم النفس کے رو سے میاں بشیر احمد صاحب کا آپ کی مہمان ڈیبیٹس کرنا سخت مضر ہے 443 نوازی کا واقعہ بیان کرنا 484 83 آپ کا آپ کی نماز کے متعلق واقعہ بیان کرنا83 امام بخاری کی دنیا میں عزت کی وجہ 566 | آپ کی تین کو چار کرنے والی پیشگوئی کی آپ کا حضرت مسیح موعود کے ساتھ ملتان
خطبات مسرور جلد 13 72 اسماء 132 جانے کا واقعہ اور مخالفت.6 8 | میرے سچے ہونے کی 121 | تیرے نام کو دنیا پورا ہونا آپ کا آپ کے ایک مقدمہ کے واقعہ آپ کی علوم ظاہری کے متعلق وضاحت 123 آپ کا حضرت میر حسام الدین صاحب کا بیان.....87 آپ کا اپنے مصلح موعود ہونے کا مخالفین کو کے متعلق واقعہ بیان کرنا 137 123 | آپ کا فرمانا کہ میرے الہام اور خواب رم آپ کی مجسٹریٹ سے ملاقات جس نے چیلنج دینا 88 آپ کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے ایک ہزار تک پہنچ چکے ہوں گے لیکن وہ 95 سے مراد.......124 سب باتیں معلوم ہوں 143 146 146 حضور کو تکلیف دی آپ کا فرمانا کہ جنہوں نے آپ کے متعلق کسی کے ذریعے قرآن کا علم مجھے سکھایا 123 آپ کے ایک الہام کے برابر نہیں 141 مرض کا کہا ان کو وہی مرض لاحق ہو گیا 91 آپ کا فرمانا کہ کئی علوم میں نے فرشتوں آپ کا فرمانا کہ یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ کو آپ کا کہنا کہ بچوں میں جلدی کام سے سیکھے..کرنے کی عادت ڈالی جائے 94 | آپ کا پبلک میں پہلی دفعہ تقریر کرنا 125 آپ کا فرمانا کہ جن باتوں کا یاد رکھنا آپ کا کھلی ہوا کے اندر چلنے پھرنے کے آپ کو علوم باطنی سے پر کیا جائے گا، اس میرے کام سے تعلق نہ رکھتا ہو...1945 فوائد بیان کرنا 126 آپ کا فرمانا کہ میں ان لوگوں میں سے آپ کا قومی نقائص پر خطبہ دینا 99 آپ کو خلافت کے متعلق آپ کی زندگی ہوں جو نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ آپ کا زعفران کی اعلیٰ قسم کے متعلق میں الہام ہونا...126 دشمن کا مقابلہ کیا کرتے ہیں فرمانا کہ کشمیر ایک خاص علاقہ میں خاص آپ کے متعلق غیر مبائعین کا کہنا کہ ایک آپ کا گجرات کے ایک مولوی کا گرہن قسم کا زعفران پیدا ہوتا ہے 100 | بچہ کی خاطر جماعت کو تباه....127 کے متعلق واقعہ بیان کرنا آپ کا قومی اصلاح کی تدبیر کے لئے ارشاد 102 آپ کا مصلح موعود کے متعلق پیشگوئیوں کو آپ کا مقامات مقدسہ کے متعلق بیان 149 آپ کا نماز با جماعت کی طرف توجہ دلانا 105 منگوا کر دیکھنا 128 آپ کا فرمانا کہ تبلیغ کے لئے ضروری ہے آپ کا الحاج رشید صاحب کا استقبال کرنا 110 آپ کا تین کو چار کرنے سے مراد...128 کہ مبلغ کی شکل مومنانہ ہو آپ کی جب پیدائش ہوئی تو وہ لوگ آپ کا جلال الہی کے ظہور کا موجب کی آپ کا خدام الاحمدیہ کو توجہ دلانا کہ ان کی موجود تھے جنہوں نے نشان مانگا 116 پیشگوئی کی وضاحت 129 ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہو 167 آپ کی پیشگوئی مصلح موعود کی رؤیا 117 آپ کا پہلا اشتہار کہ "کون ہے جو خدا آپ کا تبلیغ کے حوالے سے ایک واقعہ 168 آپ کی خلیفہ اول کی وفات کے دوسرے دن کے کام کو روک سکے 129 آپ کا فرمانا کہ نظافت ایمان کا حصہ ہے 168 جماعت کا آپ کو خلیفہ ماننا 119 آپ کی وہ جلد جلد بڑھے گا کی پیشگوئی آپ کا ایک صحابی مسیح موعود کی تبلیغ کا واقعہ آپ کا فرمانا خلفاء ہمارے قول و عمل اور کی وضاحت ارشاد سے ہدایت حاصل کریں گے 119 آپ کی وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب آپ کا بیان فرمانا کہ بیعت کے بعد ان آپ کا پہلے مصلح موعود کا دعوی نہ کرنے ہوگا پیشگوئی کی وضاحت 130 پڑھ بھی معقل مند ہو جاتا ہے ( واقعہ (173 120 آپ کا فرمانا کہ آج دنیا کی کوئی قوم ایسی آپ کا فرمانا کہ مخالفت سے جماعت کی کی وجہ 129 بتانا 167 169 173 آپ کا فرمانا کہ مصلح موعود کی پیشگوئی میرے نہیں جو اس سلسلہ سے واقف نہ ہو 132 ترقی ہوتی ہے متعلق ہے تو زمانہ خود بخود گواہی دے گا آپ کے ذریعے آپ کی پیشگوئی میں آپ کا گجرات کے لوگوں کی قادیان آمد
خطبات مسرور جلد 13 کے متعلق واقعہ بیان کرنا 175 | کال.73 اسماء 283 | آپ کا آپ کی نعش کے سرہانے کھڑا ہو کر آپ کا فرمانا کہ حقیقی تو حید اس وقت قائم ہوگی آپ کی تائی کا آپ کی خدمت کرنا اور عہد کرنا جب احدیت کی حقیقت کو ہم سمجھیں گے 180 آپ کو اپنا پیر کہنا 325 283 | خلافت کو قائم رکھنے میں آپ کی سب سے آپ کا سکول میں پہلے دن کا واقعہ بیان آپ کا فرمانا کہ مسجد اقصی کی اتنی وسعت ہوگی زیادہ کوشش کرنا 332 203 کہ اس میں چار لاکھ نمازی آسکیں 284 مولوی محمد علی صاحب کو بلا کر کہنا کہ خلافت آپ کا تعلیم الاسلام کے قیام کا پس منظر آپ سے آپ کبھی دریافت نہیں فرماتے کے متعلق کوئی جھگڑا پیش نہ کریں 332 203 تھے کہ تم نے نماز پڑھی ہے 285 ، 286 مولوی محمدعلی کو فرمانا کہ چھ سال کی خلافت جائز بیان فرمانا آپ کا جماعت پر اللہ تعالیٰ کے احسانوں آپ کا جمعہ کی نماز کا واقعہ سنانا 285 تھی تو آئندہ حرام نہیں ہوگی کا ذکر کرنا 333 206 آپ کا گیارہ سال کی عمر میں خدا کے حضور آپ کا مولوی محمد علی کوفرمانا کہ جس شخص پر آپ آپ کا حفاظت الہی کے معجزہ کے بارے عہد کرنا کہ کبھی نماز نہیں چھوڑوں گا 285 متفق ہوں گے اس کو خلیفہ مان لیں گے 333 میں ایک واقعہ بیان کرنا 207 آپ کا قادیان کے ابتدائی ایام کے آپ کا مربیان اور علماء کو ایک بڑی اہم شیخ نور احمد صاحب کا اشاعت قرآن کے لئے متعلق بتانا دو ہزار روپے لا کر دینے کا واقعہ 223 آپ کا آپ کی قبر کے متعلق رسوم کا آپ کا آج کے معاشرہ اور پہلے کے آپ کا حضرت اماں جان کی خاطر گھوڑی تدارک کرنا بیچنے کا واقعہ 288 | نصیحت فرمانا 290 معاشرہ سے موازنہ 340 347 224 آپ کی پیشگوئی انّي مَعَ الْأَفْوَاجِ آپ کا فرمانا کہ آپ کے دو قسم کے آپ کا آپ سے سائیکل لے کر دینے کے...کی وضاحت مطالبہ کا واقعہ 290 | نشانات ہیں..350 324 آپ کا فرمانا کہ جماعت کو گالیاں دی جانے آپ کا فرمانا کہ انسان خدا کی کتنی محبت کی 373 آپ کا اپنے ایک رشتہ دار ڈاکٹر کا زمانہ والی مجلس میں جانا حقیقی غیرت نہ ہونا 293 کیفیت کو سمجھ سکتا ہے طالبعلمی کا واقعہ سنانا 248 آپ کا لاہور کے آریوں کے جلسہ میں آپ کا خدا کا نام ستار کی حکمت بیان کرنا 374 شخص کالڈو کے متعلق واقعہ سنانا 250 بیٹھے رہنے کی وجہ بیان کرنا 294 آپ کا فرمانا کہ ہماری مثال وہی ہے جیسے محمد آپ کا ایک و 376 آپ کا آپ کو کھانسی کی بیماری میں کیلا نہ آپ کا فرمانا کہ میں نے پہلی دفعہ لفظ رسول اللہ نے کنکر اٹھ کر...کھانے کا اصرار کرنا 269 ذہول محمد احسن امروہی سے سنا 295 آپ کا افریقہ کے ایک شخص کو لکھنا کہ آپ کا فرمانا کہ میری پیدائش اور بیعت قریباً آپ کا فرمانا "خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری بڑائی کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے 433 ایک ہی وقت سے چلتی ہے 277 مدد کے لئے فرشتے نازل کئے " 315 آپ کا بکری کا چھری نکال لینا اور اسی سے اس آپ کا بچپن میں سیر پر جانے کے لئے آپ اور خاندان حضرت اقدس کی بابت کو ذبح کرنا کی مثال سے وضاحت 434 اصرار کرنے کا واقعہ 278 خدا تعالیٰ کی خوشخبری کہ ان کی قبریں بھی آپ کا حرف 'ض' کو استعمال کرنے کا مسجد مبارک کی توسیع سے آپ کی سچائی چاندی کی ہوں گی 316 واقعہ ثابت کرنا 441 282 آپ کا فرمانا کہ خدا سے مانگیں بجائے آپ کا ام طاہر کے والد صاحب کے قرآن آپ کی تائی کا آپ کو کہنا کہ جیو جیا اس کے کہ انجمن پر کسی کی نظر ہو 321 کے لئے شوق کا واقعہ بیان کرنا 449
خطبات مسرور جلد 13 74 اسماء آپ کا ایک شخص کا جسم پر ٹیٹو بنوانے کا آپ کا بھیرہ جانا 665 | آپ کی آپ کے الہام نگر اٹھا دو کی تشریح 767 450 آپ کا قومیں بننے کے متعلق بیان 666 آپ کا آپ کی رؤیا کہ آپ ہوا میں تیر 770 واقعہ بیان کرنا آپ کا بچپن میں لدھیانہ میں رہنا 456 آپ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رہے ہیں اس کی وضاحت آپ کے نام رکھنے کی وجہ 456 اکٹھی شادی کی تجویز 670 آپ کی جلسہ میں شامل ہونے والوں کو آپ کا فرمانا کہ پیشگوئی میں محمود نام بتایا آپ کا آپ کا خلیفہ اول کے متعلق تعریف ایک نصیحت گیا ہے 771 456 کرنے کا واقعہ بیان کرنا 676 آپ کا پشاور کے ایک دوست کا نماز میں پروفیسر کا آپ سے عشق کا واقعہ 467 آپ کا آپ کی تازہ وحی سننے کے متعلق کہنی لگنے کا واقعہ سنانا آپ کا فرمانا کہ سارے دن برکت والے شوق کو بیان کرنا ہوتے ہیں 711 772 بلال صاحب دل شکسته نو مسلم کا واقعہ 551 470 آپ کا حضرت منشی اروڑے خان کے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کا نشان 717 گرہن کا واقعہ بیان کرنا 193 آپ کا فرمانا کہ ایک ماہر مصور کے مطابق نام کی وجہ تسمیہ بتانا نگا جسم خوبصورتی پیدا نہیں کرتا 472 آپ کا ایک بزرگ کا دعانہ کرنے کا واقعہ بی ٹی صاحب سیالکوٹ میں سٹی انسپکٹر حضور کی ایک فلاسفر جولا ہے کا سحری کے متعلق بیان کرنا واقعہ بیان کرنا 718 473 آپ کا بچپن میں مشغلہ کہ آپ کی مجلس 715 آپ کا چوہدری محمد علی صاحب سے نیک میں شامل رہتے توقعات وابستہ کرنا 505 آپ کا آپ کے لئے شکار کرنا 721 آپ کا آپ کے کھانے کا انداز بیان کرنا آپ کے خلیفہ اول سے پیار کی وجہ 722 اور حکمت آمد پر امن قائم کرنے کے لئے متعین 92 پ، ت، ث پاسلمان ماتسرے صاحب کا صدیق گورداسپوری صاحب کے متعلق ذکر خیر 136 پانڈک در ازن صاحب کا جلسہ کے متعلق ذکر خیر 519 532 | آپ کا ایک شخص کا حقہ نہ پی سکنے کی وجہ سے پوپ کا بیان کہ آزادی رائے کی کوئی حد 39 صحابہ کو روایات اکٹھی کرنے کی تلقین 558 قادیان سے چلے جانے کا واقعہ کا بیان 723 ہونی چاہئے اور مثال دینا آپ کا ایک پٹھان کا نماز کے متعلق واقعہ آپ کا شیخ مبارک صاحب مبلغ کی مدد پیٹرک (Patrick) صاحب کا جلسہ سنانا 563 آپ کا کلید قرآن والوں کے لئے دعا کرنا 566 آپ کا مسجد مبارک ربوہ کی تعمیر کے سلسلہ میں ہدایت 586 آپ کا فرمانا کہ کوئی بیٹا میری مالی معاملات میں معاونت کرے 631 کے لئے عنایت اللہ صاحب کو بھیجنا 738 جرمنی میں بیعت کرنا آپ کا جماعت کے ابتدائی جلسوں کے متعلق ذکر 758 361 تاج محمود صاحب کا دیگر دوستوں کے ساتھ مشورہ کرنا کہ ایک وفد قادیان آپ کا جلسہ کے حوالہ سے آپ کے صداقت کے لئے بھیجا جائے 186 الہاموں کا ذکر کرنا 763 تا نا شیوا ماصاحبہ کا جلسہ کے متعلق ذکر خیر 519 مولوی ثناء اللہ کے ذریعہ ایک دوست کا آپ کا آپ کے زمانہ میں جلسہ کے گاؤں کے تین مولویوں کی بیعت کے متعلق لوگوں کے خیال کا واقعہ 641 انتظام میں خرابی کا واقعہ بتانا 765 احمدیت قبول کرنا 173 آپ کا تعلیم الاسلام سکول کو بند کرنے کی ایک زمیندار کا دوسرے زمیندار سے آپ سے مولوی ثناء اللہ آپ کی زیارت کے لئے 665 مصافحہ کی تلقین کا واقعہ کا بیان 765 چل کر قادیان جانا مخالفت کرنا 453
خطبات مسرور جلد 13 75 اسماء پروفیسر ثناء اللہ صاحب کا چوہدری محمد علی حبیب اللہ شاہ صاحب کی نواسی کا ذکر خیر 525 | کر حضور کو ڈرانے کی کوشش کرنا 90 کے متعلق ذکر خیر 507 حبيبه صاحبہ میکسیکو کا غائبانہ ذکر خیر 81 خالد سلیم عباس ابوراجی صاحب (سیریا) ج، چ، ح، خ کا ذکر خیر 589 خالد صاحب کا اقبال صاحب مرحوم کے حکیم حسام الدین صاحب کے کہنے پر 19 آپ کا واپسی سفر از سیالکوٹ ملتوی کرنا 138 متعلق ذکر خیر جعفر صاحب کا قبول احمدیت حکیم جلال الدین صاحب کے نواسے کا ذکر خیر 110 جلال الدین صاحب قمر مبلغ مشرقی افریقہ 570 601 حسام الدین صاحب حکیم کے ہاں حضور" خالد عثمان کی بیٹی عزیزہ احمد صاحبہ سے رشید کا منڈیر نہ ہونے پر واپسی کا ارادہ کرنا 138 الحاج صاحب کی شادی ہونا میر حسام الدین صاحب جلال الدین صاحب قمر صاحب کو سواحیلی 111 137 خدیجہ کا آپ کو کہنا آپ میں تو مہمان ترجمہ قرآن کے لئے مبارک صاحب کے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نوازی کا وصف انتہاء تک پہنچا ہوا ہے 480 738 آپ کی نماز کی حالت میں آپ پر بیٹھنا 563 خرم احمد صاحب کا نعمان انجم صاحب کے پاس بھیجنا 570 حسن عبداللہ صاحب آف ڈیٹرائٹ کا ذکر خیر 112 متعلق ذکر خیر حضرت جلال دین صاحب جلیل شاہ صاحب کی بیٹی کا ذکر خیر 525 حسن عبد اللہ صاحب کا وہاب صاحب کے خضر پاشا صاحب 212 312 ذریعہ احمدیت قبول کرنا 112 | خلیل احمد صاحب شہید کی شہادت کا سن کر ایک جمال الدین صاحب اسیر راه مولی 409 حسن عبداللہ صاحب کا پیدائشی نام ولیم جاپانی دوست کا احمدیت قبول کرنا 224 جمال الدین ہیڈ ماسٹر کا نشان گرہن پر فرمانا ہنرمی تھا 112 | خورشید احمد صاحب پر بھا کر ابن نواب کہ اب مہدی کی تلاش کرنی چاہیئے 193 جمیل احمد صاحب ناصر ابن محمد یوسف حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ الدین صاحب کا ذکر خیر در ویش قادیان 446 آپ کی شہادت کافی نہیں ایک پیر کا قیامت جنان العنانی صاحبہ کا غائبانہ ذکر خیر 79 کے دن فرشتوں کو کہنے کا خیال ڈاکٹر جیوانی مونٹے 514 چراغ ملازمسیح موعود کا چائے پلانے کا واقعہ 643 چنگیز خان حارث بن ہشام حامد شاہ صاحب 4 455 525 460 خورشید احمد صاحب کا خلیفہ ثانی سے تحریک 668 جدید میں شمولیت کی اجازت لینا 461 مستری حسن دین صاحب کے پڑپوتے کا خورشید احمد صاحب کا وفات سے ایک ماہ قبل ذکر خیر 110 اپنے بیٹے ابراہیم کو اپنی وفات کا بتانا 462 ڈاکٹر حفیظ صاحب کا کمال آفتاب صاحب کے متعلق ذکر خیر د، ر، ز 489 داتا گنج بخش صاحب کے مقبرے پاس 443 137 حمید اللہ صاحب چوہدری کا چوہدری محمد علی ایک فقیر کا آپ کی سچائی کا اقرار کرنا 604 میر حامد شاہ صاحب حامد علی کا برہان الدین صاحب کو اندر نہ صاحب کے متعلق ذکر خیر 504 | حضرت خواجہ میر درد صاحب کے مزار پر جانے کی اجازت دینے کا واقعہ 463 حمید اللہ نصرت اللہ پاشا صاحب کا والدہ آپ کا دعا کرنا کے متعلق ذکر خیر شیخ حامد علی کا حضرت مصلح موعودؓ کو بچپن میں سیر کے دوران اٹھانا ، واقعہ 764 حنیف قمر صاحب کا صدیق گورداسپوری لکھنا حبیب اللہ احمدی صاحب کے والد عنایت صاحب کے متعلق ذکر خیر 136 میاں دیسی باشو کی سیٹھ حسن احمد صاحب اللہ صاحب کا ذکر خیر 737 مرزا حیرت دہلوی کا جعلی انسپکٹر پولیس بن کے ذریعہ قبول احمدیت 312 دحرم پال شخص کا ایک کتاب ترک اسلام 139 228
76 اسماء خطبات مسرور جلد 13 راجی شھود صاحب آف بینن کا سلمان اور شمشاد صاحب کا ذکر خیر 111 | شہید کے خاندان میں احمدیت صاحب کو زیادہ چندہ دینے پر سمجھانا 23 خلیفہ رشید الدین کا آپ کے لئے پھل لانا295 مولوی سید سرور شاہ صاحب کا آپ کا 502 راضیه اعوان بنت محمد نعیم اعوان 492 رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد دین صاحب ایک اشتہار کے متعلق توجہ دلانا 117 راغب شپتانی (Ragi Shaptafi) بدر در ویش قادیان کا ذکر خیر 367 آپ کا بیعت خلافت الثانیہ کے الفاظ صاحب کا جلسہ جرمنی کے متعلق اظہار 360 رشیدہ بیگم صاحبه والده شهید مرحوم 503 دہرانا رافعه مریم صاحبہ 503 رضا صاحبہ کا قبول احمدیت کا واقعہ 225 334 سعید خالد صاحب مربی سلسلہ ابن محمد را نارؤف صاحب کا لقمان شہزاد شہید کے رضیہ بیگم صاحبہ کے نکاح کے لئے حضرت صدیق گورداسپوری صاحب 134 18 مصلح موعودؓ کا باوجود بیماری کے آنا 526 سعید صاحب کا احمدیت قبول کرنے کا واقعہ 608 بارے میں ذکر خیر 151 شیخ رحمت اللہ صاحب کا حضرت مصلح موعود رضیه مسرت خان صاحبہ کا ذکر خیر 109 سفير الرحمن مربی صاحب کا سمیر بخوطہ کے خلاف کہنا......127 | رفیع بٹ صاحب کا لقمان شہزاد شہید کے شیخ رحمت اللہ اور دوسرے دوستوں کا بارے میں ذکر خیر آپ کے سر سے تقریر کے دوران نور کا حافظر وشن علی صاحب کا گجرات کے 246 | لوگوں کا واقعہ سنانا ستون نکلتے دیکھنا 17 175 شیخ رحمت اللہ جماعت میں صاحب حیثیت آپ آپ سے عبدالکریم " جیسی محبت تاجر تھے 205 | کرتے صاحب کے متعلق ذکر خیر سکندر، بزرگ کا بادشاہ کونصیحت کرنا635 سکندر بادشاہ کا عیسی سے پہلے کا ہونا 635 سکندر رسول اللہ سے پہلے کا گزرچکا ہے 635 437 مرزا سلطان احمد صاحب 128 128 128 شیخ رحمت اللہ صاحب مہمان مسیح موعود " 643 مولانا روم کا شعر ہر بلا کیں قوم...637 مرزا سلطان احمد صاحب کو خلیفہ اول پر رستم کے گھر چور کے آنے کا واقعہ 89 رونالڈ وکوچز صاحب کا جلسہ کے متعلق ذکر خیر 519 بڑا اعتقاد تھا آپ کا رسول بخش نامی ایک شخص کا نام ریاض احمد ڈوگر صاحب کا چوہدری محمد علی آپ کا اپنی بیعت کے متعلق کہنا کہ یہ بدل کر اللہ بخش نام رکھنا 599 صاحب کے متعلق ذکر خیر 505 پیالہ مجھے پینا پڑے گا الحاج رشید صاحب کا رشتہ حضور کا ابراہیم زکریا صاحب کی مالی قربانی کا واقعہ 553 آپ کے متعلق آپ کی ایک رؤیا کہ جس سے خلیل صاحب کی صاحبزادی سے کروانا 110 سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کا امام مہدی معلوم کہ آپ کے لئے ہدایت مقدر ہے 128 رشید الحاج صاحب کو امریکہ روانگی کے وقت کے آنے کے متعلق فرمانا 191 آپ کی بیعت سے تین کو چار کرنے والی حضرت مصلح موعود کا آپ کو تبرک دینا 110 زینب جس کا رشتہ عبدالرحمن مصری سے پیشگوئی پورا ہونا 430 سلطان احمد صدر جماعت کی تبلیغ کا ذکر خیر 15 رشید الحاج احمد صاحب کا ذکر خیر 110 ہونا اور آپ کا ناپسند فرمانا رشید صاحب الحاج کا اسٹیشن پر حضرت احمداللہ خان کا کہنا کہ میں نے اپنی بیٹی زینب سلمان صاحب آف بینن کی مالی خدمت مصلح موعود کا استقبال کرنا 110 کے رشتہ کے متعلق الہام کو غلط سمجھا 432 کا واقعہ الحاج رشید صاحب کی شادی خالد عثمان کی س ،ش، ض بیٹی عزیزہ احمد صاحبہ سے ہونا 111 | ساره قدسیہ صاحبہ اہلیہ الحاج رشید صاحب 110 129 22 سلیمان صاحب کا جرمنی کے جلسہ کے متعلق اظہار خیال 360 رشید الحاج صاحب کے متعلق فاران ربانی سردار بیگم صاحبہ کے ذریعہ اکرام اللہ صاحب سلیمان صاحب مالی کے نو بائع کی قبول
77 اسماء خطبات مسرور جلد 13 احمدیت و مخالفت کا واقعہ 613 | شکیل احمد داماد خورشید احمد دوریش 462 | ظہور حسین صاحب مربی بخارا 503 سلیمانی صاحب لنڈی ریجن والے کا مالی شمس الدین صاحب 367 | ظہیر خان صاحب کی والدہ کا ذکر خیر 109 خدمت کا بیان 24-23 | شمشاد صاحب کا رشید الحاج صاحب کے 111 ع 493 سمیر بخوطه صاحب امیر فرانس کا ذکر خیر 150 متعلق ذکر خیر عابد وحید کمال صاحب کے متعلق ذکر خیر 490 سہیل بن عمرو کا زخمی حالت میں کہنا کہ حاجی شیخ صاحب کی بیٹی کی مالی خدمت کا واقعہ 25 عاصم صاحب کا نعیم اعوان صاحب کے پہلے حارث بن ہشام کو پانی پلاؤ 455 شیر علی صاحب کا مولوی عبدالقادر صاحب متعلق ذکر خیر سیف الرحمن صاحب کو دہلی کے مشہور مدرسہ کے خواب میں آنا 39 | میں فقہ وحدیث کی ٹرینگ کے لئے بھجوان 30 میاں شیر محمد صاحب کا تبلیغ کا واقعہ یکہ چلاتے، عامر شیراز صاحب ابن شاہد محمود صاحب ها تلوے زبیری صاحب نو مبائع کا مالی سواریوں سے الحکم پڑھواتے خدمت کا واقعہ 51 169 عالم بی بی صاحبه زوجه خورشید احمد درویش 462 ( مورڈن ساؤتھ ) کا ذکر خیر 109 24 ضیاء اللہ صاحب مبلغ مشرقی افریقہ 570 سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب کے حافظ شاہد احمد صاحب کی والدہ کا ذکر خیر 279 طارق احمد صاحب کی والدہ محترمہ کا ذکر اخلاص کی آپ کا تعریف کرنا شاہد محمود صاحب ( مورڈن ساؤتھ ) کے بیٹے خیر کا ذکر خیر 109 ย 740 bob حضرت مرزا شریف احمد صاحب حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع طراح عفيفة حضرت مصلح موعود کا اپنی بیٹی کا نکاح آپ نے وقف جدید کی تحریک بیرون از 539 پاکستان ممالک کے لئے شروع کی تھی 30 پڑھانا 367 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 466 حضرت عائشہ کا استفسار کہ آپ کا راتوں کو اٹھ کر خدا کے حضور گر یا وزاری کرتے ہیں 162 آپ کا نرم روٹی کھانے پر آنسونکل آنا 721 آپ کا بے اختیاری میں رونا اور منہ پر ہاتھ مارنا 719 آپ کا حضور کے عفو کی مثال بیان کرنا 402 آپ کے پاس آپ کا کوٹ جو کہ فریدہ بیگم کی طاہر احمد صاحب بدر طرف سے خلیفہ خامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو ملا 542 طاہر صاحب کا قبول احمدیت کا واقعہ 608 شریف در وسکی صاحب اور شاہد احمد صاحب طلحہ انصاری کا باغ خدا کی راہ میں دینا650 آنحضرت کے کھانے کا پوچھنا پر عرض کرنا کے تبلیغی سفر سے قبول احمدیت 18 منشی ظفر احمد صاحب کا چھٹی ختم ہونے کے کہ حریر ہے شریف در وسکی کی تبلیغ سے جعفر صاحب کی باوجود آپ کے حکم پر قادیان رہنا 458 آپ کا حضو سے دعا میں خشیت کے متعلق پوچھنا 19 ظفر اللہ خان صاحب کو مرغے کی ٹانگ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے معاف..قبول احمدیت 480 162 شریف عودہ صاحب کا فضل الہی کے متعلق پسند تھی 475 عائشہ بیگم صاحبہ بنت عبد الرزاق صاحب 462 571 ظفر اللہ وڑائچ صاحب والد محمد اقبال عباس احمد خان صاحب کی اہلیہ امتہ ذکر خیر شعیب کا لوگوں کو سمجھانے پر لوگوں کا رد صاحب مرحوم عمل 600 | الباری صاحبہ کا ذکر خیر 538 177 ظہور الدین صاحب کی بیٹی اختر النساء عباس احمد خان کے نکاح کا اعلان حضرت مصلح موعود شعیب احمد صاحب ابن بشیر احمد درویش 739 صاحبہ سے بشیر احمد صاحب درویش کی کے ذریعہ شفیع احمد صاحب 52 | شادی ہونا 539 739 عباس احمد کے نام پر وظیفہ کا اجراء 542
78 اسماء 287 خطبات مسر در جلد 13 عباس علی میر کے مرتد ہونے کے واقعہ کا ذکر 63 آپ کا آپ کی گستاخی کرنے والے پر تھپڑ | متعلق دریافت فرمانا عبدالجبار مولوی کا دو افراد کو گرہن والی مارنے کے لئے ہاتھ اٹھانے کا واقعہ 440 آپ کی بیمثال قربانی کا واقعہ 436 حدیث کے متعلق کہنا کہ مرزا صاحب سے عبدالعزیز صاحب آف مراکش کا قبول آپ کا آپ کا امت کے لئے درد اور نرمی 190 | احمدیت کے متعلق بیان 223 | کا واقعہ سنانا بچ کر رہنا واقعہ 636 عبدالحکیم کا بیانکہ آپ سل کی بیماری عبدالعزیز صاحب کا ہندو مسمریزم والے عبد الکریم طالب علم کو قادیان میں کہتے میں مبتلا ہوں گے 269 سے پوچھنا 243 کے کاٹنے کا واقعہ 248 سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کے اخلاص اور عبدالغفور نامی شخص کا مرتد ہو کر اپنا نام عبدالکریم سرحدی مولوی کا آپ کے دیلی قربانی کا واقعہ 465 عبدالرحمن مصری کا خلیفہ ثانی اور چوہدری ظفر اللہ صاحب کے خرچ پر مصر جانا 432 دھرم پال رکھ لینا 139 میں قیام کے دوران ایک واقعہ پر تبصرہ 90 عبدالقادر صاحب دہلوی درویش قادیان عبدالکریم سرحدی مولوی کا حضور کی 51 گستاخی پر اللہ تعالیٰ کی سزا کا ذکر خیر عبدالرحمن مصری کے مصری کہلانے کی وجہ 432 حضرت مولوی عبد الکریم 138 عبد الرحمن مصری کا رشتہ زینب نامی لڑکی سے ہونا 430 عبدالرحمن مصری کا اپنے خسر کو مارنا 432 عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا سیٹھ تاجر جماعت میں 205 آپ کا عبداللطیف صاحبزادہ کا ہاتھ پکڑنے کا واقعہ 91 عبد الکریم صاحب کا سمیر بخوطہ صاحب کے متعلق ذکر خیر 153 440 عبداللطیف خان صاحب (ہونسلو) کی آپ کی دوعادتیں جن کا حضرت مصلح موعود اہلیہ کا ذکر خیر 109 کی ذات پر گہرا نقش 437 | عبد اللہ سنوری صاحب کا آپ سے عشق 458 آپ کے متعلق ایک شخص کا غلط الفاظ عبد اللہ بن عمرو بن عاص 42 41 56 عبد الرحمن محی الدین کو محمد صاحب لکھو کے استعمال کرنا اور مارکھانا 438 | عبداللہ بن مسعود راوی حدیث والے کا آپ کی مخالفت سے روکنا 193 آپ اور خلیفہ اول کے درمیان بحث کہ عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ عبد الرحیم صاحب کے بیٹے کا ذکر خیر 51 خوبصورتی کو پہچانا آسان ہے کہ نہیں 472 آتھم کے لئے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی 57 عبدالستار شاہ صاحب کی پڑ نواسی کا ذکر خیر 525 آپ کی وفات پر آپ کو جامعہ کے قیام کا غلام فرید صاحب کا کہنا کہ مجھے تو آتھم کی عبد السلام تر اوڑے صاحب کا احمدیت کی خیال پیدا ہوا صداقت کا نشان دکھانا 97 لاش نظر آ رہی ہے 58 60 217 آپ کا آپ سے عشق کا نمونہ 437 آتھم کا پیشگوئی سنتے ہی ردعمل حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید آپ کا آپ کی اولاد سے محبت کا واقعہ آتھم کا رسول اللہ کے خلاف نازیبا الفاظ ย 55 لکھنا 60 آپ اور نعمت اللہ خان (صاحب) کا بیان کرنا آپ پر پتھر پڑنے پر کہنا کہ اے اللہ ان آپ کی بیماری کے وقت آپ کا تیمارداری آٹھم کے مباحثہ میں عیسائیوں کے چال لوگوں پر رحم کر....200 کرنا 273 | چلنے کا ذکر 61060 آپ کی روح کو سامنے رکھ کر آپ کا دعا آپ کا آپ کی عیادت کے لئے آنا اور عبداللہ بن طکھفہ حضور" کا مہمان 480 443 آپ کا ان سے جمعہ میں حاضری کے نواب عبداللہ خان صاحب 538
خطبات مسرور جلد 13 79 اسماء عبداللہ صاحب کا جلسہ جرمنی میں شمولیت | حضرت عمر رضی اللہ عنہ حیات مسیح کے عقیدہ سے آنحضرت سراقہ کے ہاتھوں میں کنگن دیکھنے کے متعلق پر فضیلت کا ہونا ہوتی ہے اور بیعت عبدالمجید خان صاحب 362 632 243 آنحضرت کی رؤیا اور آپ کا اس کو پورا کرنا 67 آپ کا صبر اختیاری تھا یا اضطراری واضح حافظ عبدالمنان صاحب سے غلام رسول آپ کا ابوبکر سے آگے نکل جانے کی نہیں بہ نسبت حضور کے صاحب کا ترمذی پڑھنا 193 کوشش کا کرنا 72 غ 305 42.9 حضرت مرز اعلام حمد قادیانی علیہ السلام عبدالوہاب آدم صاحب کے ذریعہ حسن آپ کا درود بھیجنے کی فضیلت بیان کرنا کہ عبداللہ صاحب کا احمدیت قبول کرنا 112 دعا ٹھہر جاتی ہے.عبدالوہاب آدم صاحب کو الحاج یعقوب آپ اور ابوبکر جیسے ایمان کا اسلام ہر ایک آپ کا استغفار کی حکمت بیان کرنا 9 صاحب کا تبلیغ کے لئے گاڑی پیش کرنا 569 سے مطالبہ نہیں کرتا 72 آپ کا نماز سے فراغت حاصل کرنے عبدل صاحب کی قبول احمدیت کا واقعہ 608 آپ کے زمانہ میں تراویح کا اجراء 393 والوں کو وعید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کے زمانہ میں شام سے مسلمانوں کے آپ کا فرمانا کہ جو میرے ہیں وہ مجھ سے آپ کی طرح صحابہ میں قربانیاں کر نیوالے 459 نکلنے پر عیسائیوں کی ہمدردی عثمان احمد صاحب 264 جدا نہیں ہو سکتے 8 11 211 آپ کی طرح صحابہ میں قربانیاں کر نیوالے 459 آپ کا فرمانا کہ جماعت میں وہی شامل عمران طاہر صاحب کا نعمان انجم صاحب ہے جو اس تعلیم پر عمل کرے ڈاکٹر عرفان داما دمرزا اظہر احمد صاحب 632 کے متعلق ذکر خیر عزیزہ احمد صاحبہ سے رشید الحاج صاحب کی شادی ہونا عطاء اللہ صاحب 111 459 15 212 آپ کو لاہور کے آریوں کے جلسہ 56 عمر بن عبد العزیز اگر مجدد ہونے کا انکار نہ بھی میں شامل ہونے کی دعوت کرتے تو مجدد کہلائے جاسکتے تھے 121 آپ کا ان لوگوں پر ناراضگی کا اظہار کرنا عمر دین صاحب کا خلیفہ ثانی کو کہنا کہ جو آتھم کی پیشگوئی کے وقت نماز میں روکر 60-59 97 عطاء اللہ صاحب وکیل کا حضرت مصلح موعود ماس کھاندے او، واقعہ 204 | دعا کرتے کا منشی ظفر صاحب کا واقعہ سنانا 458 عنایت اللہ احمدی صاحب کا ذکر خیر 737 آپ کے متعلق برہان الدین صاحب کا عطاء المجیب راشد صاحب سے میڈیا کا ڈاکٹر عنایت اللہ شاہ صاحب کے والد کا کہنا کہ ان کی منزل مقصود دور ہے...94 فرانس کے واقعہ پر انٹرویو لینا 40 ، 227 آپ کے ساتھ رہنا 712 آپ کو عبدالکریم کی وفات پر جامعہ کے عکرمہ کا جنگ میں بہادری دکھانا 455 عنایت اللہ صاحب مبلغ کو شیخ مبارک قیام کا خیال پیدا ہوا عکرمہ کا زخمی حالت میں کہنا کہ پہلے صاحب کی مدد کے لئے بھیجنا 738,570 آپ کا خواب میں بیردیکھنے کی تعبیر بتانا 97 سہیل بن عمرو کو پانی پلاؤ 455 عنایت اللہ صاحب مبلغ مشرقی افریقہ 570 آپ کا میر حامد شاہ صاحب کی ایک مجلس عکرمہ کو جنت ملنا، خواب کی تعبیر 454 حضرت عیسی علیہ السلام میں تعریف کرنا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ قرآن سے آپ کی وفات کی دلیل 168 | آپ کا فرمانا کہ کیا طاعون آگ سے کوئی آپ کی طرح صحابہ مسیحی قربانیاں کر نیوالے 459 آپ کا چوتھے آسمان پر بیٹھنا اسلام کی کم ہے علی جبر صاحب کا اپنی والدہ کا ذکر خیر کرنا 80 | تو ہین ہے 137 141 244 | آپ کا فرمانا کہ خدا کے احسانوں میں سے
خطبات مسرور جلد 13 80 اسماء 315 316 ایک احسان خلیفہ اول ہیں 142 | آپ کا حضرت مصلح موعودؓ سے فرمانا کہ انبیاء پر بدظنیاں کیں آپ کا خلیفہ اول کو بڑے مولوی صاحب لاہور کی دھوپ زرد ہے، واقعہ 223 آپ پر حملہ خدا پر حملہ ہے..یا مولوی نورالدین کہ کر پکارنا 142 آپ کا سائیکل چلانے اور گھڑ سواری کے آپ کا سیر کے دوران کثرت اثر دھام دیکھ آپ کی زندگی میں چرچا رہنا کہ آپ کو چلانے کا موازنہ کرنا 324 کرفرمانا کہ ہمارا کام ختم ہو چکا ہے 318 کون زیادہ پسند ہے 142 آپ کا صوفی احمد جان صاحب کو مسمریزم کے آپ کا زلزلہ کی وجہ سے باغ میں شفٹ آپ کا خلیفہ اول کو پروف بھیجنا تا وہ آپ متعلق کہنا کہ اس سے آپ کو کیا فائدہ 240 ہونا 246 | ایک واقعہ 319 319 321 کے خیالات سے واقف رہیں 144 لاہور میں تقریر کے دوران آپ کے سر سے نور آپ کے زمانہ میں قربانی کرنے والوں کا آپ کی ترکی سفیر سے ملاقات 147 کاستون نکلتے دیکھنا آپ کو تبلیغ اسلام کے لئے جوش اور درد 166 آپ کو ایک شخص کا لکھنا کہ میری بہن کو حضرت مسیح موعود کا سردی کی وجہ سے آپ کے ایک صحابی کی تبلیغ کا واقعہ یکہ جن آتے ہیں آپ کا اس کو جواب 246 مشک کا استعمال اور شیشی بھر کے جیب چلاتے ، سواریوں سے الحکم پڑھواتے 169 آپ کا لاہور میں ایک مجذوب کو ملنا 247 میں رکھنا آپ کا ایک مولوی سے مسیح کے پیدا کئے آپ کا مولوی عبدالکریم صاحب کے آپ کا مخالفین کو جائیدا دس ہزار کی مالیت ہوئے پرندوں کے متعلق پوچھنا 176 لئے ہمدردی کا اظہار اور دعا آپ کا ایک دوست کے احمدیت کی طرف آپ کی امریکہ سے آئے دو مرد اور ایک آپ کی وفات کا علم حضرت مصلح موعودؓ کو آنے کی وجہ پوچھنے پر اس کا کہنا کہ مجھے عورت سے قادیان میں ملاقات 249 بذریعہ رویا ہوا مولوی ثناء اللہ نے تبلیغ کی تھی واقعہ 173 آپ کی کھانسی اور حضرت مصلح موعود کی آپ کا فرمانا کہ یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا آپ کے ایک رشتہ دار کا چوہڑوں کا پیر تیمارداری کا واقعہ مشہور ہونا 248 268 کا چیلنج دینا ہے 322 325 352 174 آپ کی مبارک احمد صاحب سے پیار کی آپ کا فرمانا کہ جو خدا کی طرف آتا ہے وہ 384 آپ کے عیسائیوں سے سخت الفاظ ایک وجہ انکی ذہانت تھی 275 کبھی ضائع نہیں ہوتا استعمال کرنے کی وجہ 177 آپ کے زمانہ میں کپورتھلہ کے احمدیوں آپ کا زندگی بڑھانے کا نسخہ بتانا 389 آپ کو کسی کے کہنے پر کہ وفات مسیح کا کی مسجد کا واقعہ 276 آپ کا فرمانا کہ میاں بیوی میں سے جو ایک مسئلہ اب چھوڑ دیں سخت جلال آنا 179 آپ کا درد گردہ کی وجہ سے نماز جمعہ کے دوسرے سے خیانت کرے...399 مسیح موعود کی آمد کی نشانیوں میں سے ایک بڑی لئے نہ جا سکنا 286 آپ کا استغفار کی وضاحت کرنا 410 زبردست نشانی سورج اور چاند گرہن تھا 181 آپ کا ایک قبر پر دعا کرنا اور صاحب قبر کا آپ کا فرمانا کہ انسان کے لئے ایک لیلتہ آپ کا لالیاں کے متعلق سوال کرنا 187 آپ کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھنا 291 القدر اس کا وقت اصفی بھی ہے 419 آپ کا فرمانا کہ ہماری جماعت میں تین آپ کا خواجہ کمال الدین کو اپنے مضمون پیر منظور صاحب کی بات پر فرمانا کہ قسم کے لوگ شامل ہیں 201 کے بالا ہونے کے متعلق لاہور میں اشتہار میں ایسے معاملات میں دخل نہیں دیتا 431 آپ کا سیر میں فرمانا کہ مخالفین آپ کی ترقی پر لگانے کا کہنا اور ان کا عمل 292 حافظ احمد اللہ خان کو انکی بیٹی کے رشتہ کے باوجود مخالفت کے حیران ہیں 214 آپ کا فرمانا کہ لوگوں نے اہل بیت اور متعلق مشورہ دینا 431
خطبات مسرور جلد 13 81 اسماء مرزا غلام احمد صاحب غیر معروف تھے ایک خیانت ہے 559 کے لئے درد 641 سیکھ کا خلیفہ الثانی کو کہنا 434 آپ کا حضرت مصلح موعود سے کہنا کہ آپ کا ایک شخص فجانامی کو ہنر سکھانے کا آپ کا سکھ کو کہنا کہ مجھے آدمیوں کی مولوی صاحب سے جمعہ کے دن غسل کے واقعہ نوکریوں کی ضرورت نہیں 435 متعلق پوچھیں 643 561 آپ کا ایک شخص سے میں سال ناراض 644 644 عبدالکریم سے محبت کا نمونہ مغرب کے آپ کا ایک بچہ سے ہاتھ چھڑا کر کام رہنا، واقعہ بعد بیٹھ کر باتیں کرنا چھوڑ دیا 438 | میں مصروف ہونے واقعہ 561 | ہستی باری تعالیٰ کا واقعہ آپ کا ایک شخص کو مولوی عبد الکریم کے آپ کا باغ میں بے دانہ کھانے کا واقعہ 563 آپ کی خدا کے متعلق ایک تحریر جسے بعد خلاف غلط الفاظ استعمال کرنے پر مارنے آپ کی باتیں ایسی ہی ہیں جیسی حدیثیں 565 میں حضرت مصلح موعودؓ کا شائع کروانا 645 کے خلاف ناراض ہونا 438 آپ کا نماز پڑھنے والوں کے لئے کھانا کا آپ کا دعا میں حقیقی رفت پیدا کرنے کا آپ سے صحابہ کے عشق کے واقعات 438 انتظام فرمانا 567 طریقہ بتانا 646 675 599 آپ کا خلیفہ اول کے متعلق کہنا کہ ان کے یہاں 676 آپ کا خلیفہ الثانی سے گالیوں کے خطوط کا آپ کا قادیان رہنے والوں کے لئے مسجد آپ کا جماعت کی قربانی پر رشک کرنا 652 تھیلا لے لینا اور پڑھنے سے منع کرنا 442 میں نماز پڑھنے کا انتظام فرمانا 567 آپ سے محض اللہ عقد اخوت اور محبت کی آپ کا خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت آپ کا لوگوں کو بھیج کر مسجد بلوانا 567 مثال، مولانا نورالدین صاحب 664 قطب صاحب، خواجہ نظام الدین صاحب، آپ کا عبادت میں شوق پیدا ہونے کے آپ خلیفہ اول کی تعریف کرنے کے لئے شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ میر درد متعلق سوال کا جواب دینا 575 نہیں مبعوث ہوئے بلکہ جو سچ تھا اس کا صاحب اور نصیر الدین صاحب چراغ آپ کا رسول بخش نام بدل کر اللہ بخش اظہار کر دیا اولیاء کے مزار پر دعا کرنا 443 رکھنا آپ کا خلیفہ اول کو کہنا کہ بیعت قادیان آپ کا ایک خط پر فرمانا کہ معلوم ہوتا ہے آنے سے لوگوں کو بڑا فائدہ ہوا ہے میں نہیں لی جائے گی 454 کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو خوابوں کے ذریعہ آپ کی انا نحن نزلنا کی تفسیر فرمانا 727 آپ کا لدھیانہ کو باب لد کہنا 454 میری اطلاع دے 604 آپ کا الہام کہ آگ ہے پر آگ سے...737 آپ کا لدھیانہ میں پہلی بیعت لینا 456 آپ کے متعلق ایک فقیر کا کہنا کہ مرزا صاحب آپ کا مہمان خانہ کے لئے نیلام ہونے آپ کا اپنے بیٹے کا محمد نام بطور تفاؤل رکھنا 456 کی ترقی انکی سچائی کی دلیل ہے 604 والی فصیل کا کچھ حصہ لینا سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کی طرف سے منی آپ کو لاہور سے ایک آدمی کا خط آنا جس آپ کا لا ہور سے کسی آدمی کو بھیج کر چیزیں منگوانا آرڈر آنے پر تشویش 466 نے آپ کو خواب میں دیکھا 604 اور قادیان کے ابتدائی حالات آپ کا کسی صوفی کا قول پنجابی میں بیان آپ کا نومبائعین کو کہنا کہ آپ بڑے آپ کا حضرت مصلح موعود کو سیر 758 763 764 فرمانا کہ یا تو کسی کے دامن سے...475 خوش قسمت ہیں کہ..612 میں ساتھ لے جانا اور اٹھانا آپ کو اللہ تعالیٰ کا ابراھیم ، نوع موسی ، آپ کا طاعون آنے پر لوگوں کے لئے دعا کرنا 636 آپ کا فرمانا اب ہمارا کام ختم ہو گیا ہے 766 53 آپ کا ایک طالبعلم کو کہنا کہ اپنی جگہ بدل لو 638 آپ کا ایک عیسائی لڑکے کی تربیت فرمانا اور عیسی اور محمد کہنا آپ کی ہر چھوٹی سی چھوٹی بات چھپانا قومی آپ میں انسانیت کو گمراہی سے بچانے اس کے مسلمان ہونے کا واقعہ 642
خطبات مسرور جلد 13 82 اسماء آپ کا فجے ملازم کو مہمانوں کو چائے آپ کا جاپانیوں میں تبلیغ اسلام پہنچانے کا آر آپ اور عشق رسول صلی اا اینم پلانے کا کہنا واقعہ 643 جذبه آپ کا خدا کے لئے غیرت کا واقعہ 644 عقائد اور تعلیم آپ کا سکول کے متعلق فیصلہ خلیفہ اول اور 693.679 آپ کا حضو پر درود بھیجنے کا عہد لینا 9 آپ کا فرمانا کہ اس رسول کی تابعداری سے اور آپ کا فرمانا کہ کا فر سے پہلے فاسق کو خدا کو پا سکتے ہیں حضرت مصلح موعود کے حق میں کرنا 666 سزا دینی چاہیے 4 5 آپ کا خلیفہ اول کے بارے میں فرمانا آپ کی پردہ کے متعلق تعلیم که چه خوش بودے اگر ہر یک...664 آپ کا فرمانا کہ شرک کے بعد تمبر جیسی کوئی بانہیں 13 آپ کا خلیفہ اول کو فرمانا کہ جماعت کے 12 آپ کے زمانہ میں قادیان میں ایک شخص کا حضور کو عالم الغیب سمجھنا ، واقعہ 180 آپ کا درود پڑھنے کا طریق بیان کرنا 45 آپ کا خلیفہ اول کو کہنا کہ آگ سے مراد آپ کی آنحضرت سانیا پینے کے لئے غیرت 244 بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرت اولاد ہے 669 | ظاہری آگ بھی ہے آپ کا خلیفہ اول کو سیر میں ساتھ رکھنے کا واقعہ 672 بعثت کا مقصد آنحضرت کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کرنے کے لئے مبعوث ہوئے 45 آپ کا قیصرہ ہند ملکہ کو تبلیغ اسلام کرنا 147 آپ کا فرمانا کہ خدا نے مجھے مخلوق اور خدا کے درمیان کدورت کو دور کرنے کے لئے بھیجا ہے 140 آپ کا فرمانا کہ مجھے تو اورنگ زیب بھی مجد دلگتا ہے 121 آپ نے فرمایا کہ علم تو جہ چند کیلوں کا نام ہے 239 آپ کا فرمانا کہ ظنون فاسدہ اور شکوک سے فساد پیدا ہوتا ہے 314 آپ کا دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کو سچا ماننے کا نقطہ 350 آپ کا حضور علال الہی تم پر درود کا پیارا انداز 301 آپ کا آنحضرت کے مصائب کے وقت کے اخلاق بیان کرنا 302 آپ کا فرمانا اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تونے کسی پر نہ بھیجا ہو 307 آپ کے آنحضرت صلی اینم کے مقام 210 آپ کا شرط بیعت میں دوسری شرط رکھنا ومرتبہ کے متعلق اقتباسات 742 آپ نے فرمایا کہ دعا وہ ہتھیار ہے جو کہ خیانت نہ کروں گا 397 آپ کی بیان کرد وہ حکایات زمین و آسمان کو بدل دیتا ہے 240 آپ کا جنت اور جہنم کی حقیقت بیان فرمانا 412 ایک قصہ عورت کی انگوٹھی والا 199 آپ کے بعد دوسری قدرت کو ایمان کو آپ کی اشتعال انگیزی سے بچنے کی تعلیم 646 ایک تاجر کی مثال ، رقم قاضی کے پاس رکھوانا 731 زمین پر قائم رکھنے کے لئے قائم کیا 331 آپ کا فرمانا کہ اسلام نے بھی جبر کا مسئلہ بعد میں دینے سے انکار...آپ کی جماعت کو تیار کرنے کی غرض 403 نہیں سکھایا آپ کو اللہ نے حقیقی اسلام کے نمونے آپ نے واضح طور بتا یا یہ تلوار کے جہاد کا کے ملنے کا واقعہ 729 264 ایک وزیر کے بزرگ سے اس کے بادشاہ 634 دکھانے کے لئے بھیجا 543 زمانہ نہیں آپ کے ہی ذریعہ اسلام کی حقیقی تعلیم دنیا آپ کا فرمانا کہ اسلام کی لڑائیاں تین قسم ہارون الرشیداور موسیٰ رضا کا واقعہ 719 ایک شخص کا قبالہ گم ہونے کا واقعہ 639 548 سے باہر نہیں 732 تک پہنچ سکتی ہے آپ کو آنحضرت کی غلامی میں تجدید دین آپ کا فرمانا کہ اسلام میں تلوار صرف آپ کے اسفار کے لئے بھیجا ہے 558 امن یا حفاظت کے لئے اٹھائی گئی 736 ایک شہادت کے سلسلہ میں ملتان جانا 86
خطبات مسرور جلد 13 83 اسماء 275 معجزات و نشانات و برکات جہلم آمد پر ایک ہزار لوگوں کا بیعت کرنا 90 | جانے کا واقعہ سیالکوٹ میں جانے کا واقعہ اور مولویوں کا آپ ابتداء میں جب سیر کے لئے نکلتے تو آپ کو الہام ہونا کہ یوسف کی خوشبو مجھے 278 | آ رہی ہے اس سے مراد 122 فتوی دینا نکاح کے متعلق 92 حامد علی ساتھ ہوتا دہلی میں مختلف اولیاء کی قبروں پر جانا 443 آپ کا فرمانا کہ میں نہیں چاہتا کہ میری نماز آپ کی تائید میں نشان پر نشان ظاہر ہونا 183 پڑھے.مصلح موعود کے متعلق 286 آپ کا فرمانا کہ آج ہم نے خواب میں 192 208 مقام و مرتبہ واخلاق آپ کی خلیفہ اول سے آریوں کے جلسہ آپ کا سردی دور کرنے کے لئے مشک پیاز دیکھا اور اس کی تعبیر میں بیٹے رہنے پر ناراضنگی 294،55 استعمال کرنا 321 سیالکوٹ میں چھت گرنے کا واقعہ آپ کا اپنی اولاد سے محبت کا واقعہ 55 آپ کا ذاتی روپیہ انگر خانہ کے مصارف امرتسر سے سفر پر خدائی تائید کاواقعہ ، بدلی آپ کا حضرت مصلح موعودؓ سے آریوں کے کے لئے خرچ کرنا جلسہ میں بیٹھے رہنے پر ناراضگی کا اظہار کرنا 56 آپ کے توکل کی مثال آپ کا قادیان سے باہر عیسائیوں سے مباحثہ کیلئے جانا جا و جو د غیر احمدیوں کے قتل کے فتویٰ کے 57 317 318 کا بھیجنا 209 آپ کا ایک امریکی شخص کے معجزے کے 441 سوال پر کہنا کہ تم خود ایک معجزہ ہو 249 آپ کے صبر کا نمونہ آپ کو مرنے کی ٹانگ پسند تھی 475 آپ کا فرمانا کہ میری صداقت کے خدا آپ کا مہمان نوازی کے واقعات 484 نے لاکھوں نشانات دکھلائے ہیں 251 آپ کے مہمان کی بجائے خود دروازہ کھولنا 484 آپ کا عبدالرحیم خاں کا بیماری کے وقت شفاعت آپ کا مقدمہ میں نماز کوترجیح دینے کا واقعہ 83 آپ کا ایک مہمان کے لئے دودھ لانا 484 کرنا اوراللہ تعالی کی طرف سے الہام 267 آپ جب نماز کے لئے مسجد نہ جا سکتے تو گھر آپ کا تنگی کے حالات کا ذکر کرنا 528 آپ کے کشف کے چند منٹ میں پورا پر ہی با جماعت نماز کا التزام فرماتے 84 531 ہونے کا واقعہ آپ کے کھانے کا انداز آپ کاموں کے باوجود دن میں ایک آپ کا علم کلام میں کمال 535 آپ کو مضمون اسلامی اصول کی فلاسفی کے آپ کی اصلاح کا طرز بڑا لطیف اور عجیب 642 متعلق الهام که مضمون بالا رہا 292 آپ کا ایک شخص کو ریل کے ٹکٹ کے لئے آپ کا کشف کہ نئی زمین و آسان بنائیں 346 آپ کا قادیان سے محبت کا واقعہ 224 643 آپ کو حافظ احمد اللہ خان صاحب کی بیٹی کے متعلق الہام ہونا 95 مرتبہ سیر کے لئے ضرور جاتے آپ کے معاف کرنے کا واقعہ 146 645 277 430 آپ کا الہام لا تقتلوا زینب کا پورا ہونا اور مصری صاحب کا اعتراض 433 242 پیسے دینے کا واقعہ آپ پر مسمریزم کا ایک واقعہ وفات مسیح کے مسئلہ کے وقت آپ کا جوش 244 آپ کا ایک مخالف ہندو کو مشک کی شیشی آپ کا فرمانا کہ کسی شخص کو دیکھ پر مجھے پتہ دینے کا واقعہ لگ جاتا ہے کہ اس میں کیا عیب ہے 245 آپ کا اپنے بیٹوں کے رشتہ کے تجویز کے آپ کا تذکرۃ الشہادتین لکھنا اور درد گردہ آپ کا مبارک احمد صاحب کی وفات کے وقت اولاد کے متعلق پوچھنا وقت راضی برضا ہونا 272 آپ کی عادت جو کچھ دن کو لکھتے وہ شام کو آپ کو سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کے کاروبار آپ کا اپنی بیٹی کی نعش خود اٹھا کر لے آکر مجلس میں بیان کر دیتے 715 کے متعلق الہام ہونا 670 سے شفاء یابی کا واقعہ 443 465
خطبات مسرور جلد 13 84 اسماء 10 آپ کو اللہ تعالیٰ کا بتانا کہ رات کو لنگر خانہ | جماعت دنیا میں جانی جائے گی 602 | لینا میں ریاء کیا گیا ہے واقعہ 486 آپ کا خلیفہ اول کو فرمانا کہ اگر آپ آپ علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کا آپ کے الہام توی نَسْلا بَعِيدًا کے وطن گئے تو عزت کھو بیٹھیں گے 665 عہد لینا 539 وقت آپ کے دو بیٹے تھے آپ کا سلطنت برطانیہ کی حکومت کے متعلق الهام 565 آپ کی وحی کے وقت کی کیفیت 712 ارشادات ونصائح آپ کا فرمانا کہ جھوٹ ایک بت ہے 3 آپ کا جھوٹ سے بچنے کی تلقین 3 آپ کا مقدمہ دیوار کے متعلق الہام کی آپ کا زنا سے بچنے کی تلقین کیفیت بیان کرنا 3 713 آپ نے ہم سے یہ عہد لیا کہ جھوٹ نہیں آپ کا جلسہ کے مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کا بولوں گا 3 ر شادفر مانا اور الہام أطعِمُوا الجَائِع...765 آپ کا بدنظری سے بچنے کا عہد لینا 4 آپ کی رؤیا کہ آپ ہوا میں تیر رہے ہیں 770 آپ کا فسق و فجور سے بچنے کا عہد لینا 4 آپ کا ہر قسم کے فساد سے بچنے کا عہد لینا 6 پیشگوئیاں 7 آپ کا بغاوت سے بچنے کا عہد لینا 7 آپ کا آتھم کے متعلق پیشگوئی کرنا 57 آپ کا لیکھرام کے تعلق پیشگوئی کرنا 270 آپ کا کسی سے فساد کرنے پر وعظ آپ کا ایسے رویوں سے بھی بچنے کی ہدایت آپ کا فرمانا کہ قادیان بیاس تک جائے گا 283 پ کا ایک رویا کی بنا پر کہنا کہ قادیان کی آبادی دس بارہ لاکھ ضرور ہوگی 284 آپ کی قادیان کی ترقی کی پیشگوئی کی وضاحت 288 آپ کو جب قادیان کی ترقی کی پیشگوئی ہوئی اس وقت آپ کے مرید چند سو سے زیادہ نہ تھے 288 7 فرمانا جن سے بغاوت کی بُو آئے آپ کا نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہونے کا عہد لینا 7 10 آپ کا عہد لینا کہ رسم ورواج کے پیچھے نہ چلیں گے 11 آپ کا عہد لینا کہ ہوا و ہوس کے پیچھے نہ چلوں گا 12 آپ کا عہد لینا کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دیں گے 12 آپ کا عہد لینا کہ قرآن شریف کی حکومت کو بکی سر پر قبول کروں گا 12 آپ کا کہنا کہ جونفس کی خواہشات سے بچتا ہے اس کے لئے جنت مقام ہے 12 آپ کا قرآن کے حکموں سے ایک حکم کو چھوڑنے والے کے لئے وعظ 12 آپ کا دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کا عہد لینا 13 آپ کا مخلوق سے ہمدردی کا عہد لینا 13 آپ کا فرمانا کہ اگر اللہ کو تلاش کرنا ہے تو آپ کا نمازوں کو پانچ وقت اس کی تمام مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو 13 شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا عہد لینا 8 آپ کا تہجد کے التزام کا عہد لینا 8 آپ کا عہد لینا کہ تکبر اور فروتنی اور عاجزی اختیار کروں گا 13 آپ کا خدا کے احسانوں کا یاد کرنے کا آپ کا عہد لینا کی خداداد طاقتوں سے بنی عہد لینا 9 نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤں گا 9 کی تلقین 14 14 آپ کے متعلق خدا تعالی کا فرمانا کہ اني مع آپ کا استغفار میں با قاعدگی اختیار کرنے آپ کی ہر کسی سے ہمدردی سے پیش آنے الْأَفْوَاجِ أَتَيْكَ بَغْتَة “ 290 کا عہد لینا آپ کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے سنت آپ کا عہد لینا کہ نفسانی جوشوں سے ناجائز آپ کی مخلوق کوفائدہ پہنچانے کی نصیحت 14 ہے کہ وہ دو قدرتیں دکھلاتا ہے.331 تکلیف نہیں دیں گے 10 آپ کا جماعت سے آپ کے ساتھ تعلق کا آپ کا فرمانا کہ ایک وقت آئے گا کہ آپ کا عام مخلوق کو تکلیف نہ دینے کا عہد عہد لینا جو اور کسی کے ساتھ نہ ہو 14
خطبات مسرور جلد 13 آپ کا فرمانا کہ جہاں اسلام کا تعارف پتھر مارنا کروانا ہو تبلیغ کرنی ہو تو مسجد بنادو 30 آپ کی جماعت کو تلقین کہ نماز اپنی تمام شرائط کے ساتھ ادا کریں 84 85 اسماء 96 | غلام قادر کے متعلق لوگوں کا خیال کہ غلام مرتضی کا یہی بیٹا ہے 764،456 آپ کو ایک شخص کا کہنا کہ آپ وفات صیح وغیرہ کا دعویٰ اس طرح کرتے اور مرزا غلام قادر صاحب بہت مشہور تھے 434 غلام مجتبی صاحب کے والد کا نشان گرہن دیکھ کر 253 غلام محمد صاحب صحابی 589 آپ کا فرمانا کہ یہ لوگ ہماری طرف منسوب حضور کا اس کو جواب 138 فرمانا کہ اب مہدی کے ظہور کا وقت ہے 190 ہوکر ہمیں بدنام کرنے والے ہیں 338 آپ کا ایک مولوی کو نشان مانگنے پر حقیقت غلام مجتبی صحب کا درثمین پڑھ کر تعریف کرنا 190 آپ کی جلسہ میں شمولیت کی ہدایت 342 الوحی پڑھنے کا کہنا آپ کا فرمانا کہ ہماری جماعت کو قیل و ایک عیسائی کے اعتراض " مسیح کے لئے روشنی غلام محمد صاحب کا کسوف کے ذریعے قبول قال پر محدود نہیں ہونا چاہئے.379 اور نو کا الفاظ آئے ہیں" کا جواب دینا 306 احمدیت کا واقعہ بیان کرنا آپ کا فرمانا کہ تکبر سے بچو 384 آپ پر چندہ کی بابت اعتراض 315 غلام محمد صاحب کے ساتھ خلیفہ اول کا آپ کا ایک احمدی پر وفیسر کو مخالفین جماعت لنگر خانہ کے حوالہ سے آپ پر اعتراض 317 بٹالہ پیدل جانا سے نرمی سے برتاؤ کا کہنا 468 آپ پر ایک شخص کا اعتراض حروف کی غلام مرتضی صاحب کے بیٹے کے متعلق لوگوں کا آپ کا فرمانا کہ مومن ہونے سے کوئی ادا ئیگی کے متعلق کرنا انکار نہ کرے.440 185 673 خیال کرنا کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے 456 471 آپ کے خلاف عیسائیوں اور ہندؤں کا غلام مرتضی صاحب آپ کا فرمانا کہ آجکل عریانی کو فیشن بنا مقدمات کرنا اور مشکلات لیا گیا ہے 713 467 آپ کا ایک سکھ سے آپ کے متعلق نوکری نہ 471 آپ کے ساتھ آپ کی بھاوجہ کا سلوک 530 کرنے پر تشویش کا اظہار کرنا 529 435 آپ کا ایمان کے لئے بھائی کے آرام کو آپ سے ایک عیسائی کا ام الالسنہ کے آپ کا کہنا کہ آپ سارادن مسجد مقدم ٹھہرا نالازمی قرار دینا 496 متعلق سوال کرنا اور جواب 534 میں رہتے ہیں واقعہ آپ کا فرمانا کہ قرآن پڑھو اور خدا سے آپ کا اس شخص کو جواب کہ خدا مجھےمحمد کہتا غلام نبی سیٹھی صاحب کے لئے آپ کی بھی نا امید نہ ہو 615 ہے.537 آپ کا لوگوں کو دعا کے سلسلہ میں نذر مقرر غلام حیدر صاحب تحصیلدار جہلم حضور کی 639 آمد پر اسپیشل ڈیوٹی پر لگائے گئے 90 کرنے کا کہنا اعتراضات و مخالفت غلام رسول صاحب وزیر آبادی کی تقریر مہمان نوازی کا واقعہ ف،ق 484 ملک فاران ربانی صاحب کا رشید الحاج 111 حضرت مسیح موعود اور مقدمہ کرم دین 89 پر فضل الہی صاحب کی والدہ کا آپ کو صاحب کے متعلق ذکر خیر فاروق آفتاب صاحب کا نعیم اعوان آپ کو ایک جعلی انسپکٹر پولیس کی دہلی میں وقف کرنا 570 ڈرانے کی کوشش 90 غلام رسول صاحب مولوی کا گرہن کا واقعہ صاحب کے متعلق ذکر خیر آپ کی واپسی پر سیالکوٹ میں مخالفین کا حمد یوں بیان کرنا 492 193 فاروق احمد خان صاحب نائب امیر 213 کو تکالیف پہچانا، برہان الدین کا واقعہ 93 غلام فرید صاحب کا کہنا کہ مجھے تو آنقم کی جماعت ضلع پشاور کا ذکر خیر سیالکوٹ سے واپسی پر مخالفین کا گاڑی پر لاش نظر آ رہی ہے 58 فاروق صاحب بھائی آفتاب صاحب مرحوم 488
خطبات مسرور جلد 13 86 اسماء فاطمہ جمعہ صاحبہ کا جنان العنانی صاحبہ کے قادر صاحب کا خواب کی بناء پر احمدی ہونا 607 | کمال آفتاب صاحب ابن مکرم رفیق آفتاب 81 سیدہ قامتہ بیگم صاحبہ کا ذکر خیر 740 صاحب کا ذکر خیر متعلق ذکر خیر فاطمہ صاحبہ نومبائعہ کا قبول احمدیت کا واقعہ 217 فالی محمد صاحب کا سمیر بخوطہ صاحب کے متعلق ذکر خیر صاحب کا ذکر خیر فضالہ بن عبید فضل احمد صاحب 152 525 41 599 488 منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کا حافظ احمد خواجہ کمال الدین اور دوسرے احمدیوں کا 87 اللہ خان صاحب سے قرآن پڑھانا 432 مجسٹریٹ کے رویہ سے پریشان ہونا اور مولوی قطب الدین صاحب خلیفہ اول حضور کا ان کو جواب کے آخری ایام میں درس دیتے تھے 59 خواجہ کمال الدین کا ایک احمدی کی آپ حضرت قطب صاحب کے مزار پر آپ کا سے شکایت کرنا دعا کرنا 467 443 خواجہ کمال الدین کا مضمون اسلامی اصول کی 292 فرحانہ پاشا صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر غلام احمد فرخ صاحب واقف زندگی 312 فلاسفی کے متعلق خیال اور عمل فریدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مرزا رفیق احمد قمر احمد صاحب سیکیورٹی انچارج چپ بورڈ فیکٹری کو پولیس کا گرفتار کرنا 708 کمال الدین صاحب مہمان مسیح موعود " 643 قمر الدین صاحب کا انڈیا کے ایک کمال صاحب کا خواب کی بناء پر بیعت کرنا 554 نوجوان کی مالی خدمت کا ذکر 27 کمال صاحب کو سوشل میڈیا پر معروف قیصرہ خانم صاحبہ بنت خان سعید احمد خان شخصیات کا خراج تحسین پیش کرنا 490 مرز افضل احمد صاحب، تین کو چار کرنے 128 صاحب کا اظہر احمد صاحب مرزا سے نکاح 631 کنورسین صاحب پر نسپل لاء کالج لاہور 208 کی پیشگوئی کی وضاحت فضل الہی بشیر صاحب کا ذکر خیر 569 ک گ ل م کنورسین صاحب کے والد سے آپ کا بڑا تعلق تھا فضل دین صاحب بھیروی کا حکیم اللہ دین کا شف عمر صاحب ولدا کرام اللہ صاحب کو تبلیغ کرنے کا واقعہ 178 شہید مرحوم سید فضل شاہ صاحب کو ان کے بھائی ناصر شاہ 503 208 کولی بالی صاحب کا احمدیت قبول کرنے کا واقعہ 607 مولوی فضل دین صاحب وکیل 402 | کبیر شاعر کا شعر کہ بھلا ہوا ہم بیچ بھئے 385 لطیف صاحب ابن محمد موسی درویش قادیان 310 کرشن احمد صاحب این خورشید احمد صاحب درویش 462 کرم الہی صاحب چیمہ والد فضل الہی بشیر لقمان شہزاد صاحب شہید ابن مکرم اللہ ورسته صاحب کا ذکر خیر صاحب چیمہ 571.569 صاحب کا آپ کے پاس رہنے کا کہنا 712 فضل شاہ صاحب کا آپ کو دبانا اور آپ 712 صو بیدار کرم بخش صاحب کی دختر کا ذکر حضرت لوط علیہ السلام پروحی نازل ہونے کا واقعہ دتہ 15 109 لوط کا اپنے مہمانوں کے لئے فکر کرنا 479 54 فضل شاہ صاحب لاہوری کو آپ کا کرم دین کا مقدمہ 89 پنڈت لیکھرام کا آپ کو سلام کرنے کا مقدمہ دیوار کے متعلق الہام لکھوانا 713 کرم دین والد محمدصدیق گورداسپوری کو خلیفہ واقعہ فوزیہ یامین صاحبہ اہلیہ شہید مرحوم 503 اول کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق ملنا 133 پنڈت لیکھرام، منشی اندرمن مراد آبادی کا فوفانہ صاحب کی مالی خدمت کا ذکر خیر 26 کریم اللہ صاحب کے بیٹے اکرام اللہ فیض اللہ خان صاحب بیکانی امیر ضلع ڈیرہ صاحب شہید کا ذکر خیر غازی خان 502 کلثوم بنت احمد اللہ خان 502 اسلام کے سچا ہونے کا نشان مانگنا 116 430 پنڈت لیکھرام کا اعتراض کرنا اسلام کے
خطبات مسرور جلد 13 87 اسماء 51 یچے ہونے کے متعلق 116 حافظ آبادی کا غائبانہ ذکر خیر 52 | پڑھنے کی نصیحت پنڈت لیکھرام کے مقدمہ کے سلسلہ مبشر احمد صاحب بدر 367 آپ کا مرغیاں رکھنے کا واقعہ 271 میں حضرت مسیح موعود کے گھر کی تلاشی 68 مجیب الرحمن صاحب کا چوہدری محمد علی آپ حضرت مصلح موعود سے دوسال 505 چھوٹے تھے رام کی ہلاکت کے وقت واقعات 270 صاحب کے متعلق ذکر خیر مجید سیالکوٹی صاحب کا صدیق گورداسپوری آپ بہت بڑے عالم تھے 402 صاحب کے متعلق ذکر خیر 136 قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر 503 م مارٹن کلارک کا مقدمہ 286 312 312 مارگریٹ آئی ٹی وی نیوز یارک شائر کی ہیڈ محبوب احمد راجیکی صاحب کے اقبال حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کا کمال صاحب کے متعلق ذکر خیر 490 صاحب مرحوم کے متعلق ذکر خیر 600 آپ نے دوشادیاں کی تھیں 312 مائدینا کیلاف واسرہ کے جلسہ کے متعلق ذکر خیر 518 محمد نامی ایک شخص کا اپنے خاندان کے آپ بہت بڑے صوفی تھے حضرت مرزا مبارک احمد صاحب 128 ساتھ احمدیت قبول کرنے کا واقعہ 609 آپ اور دہریہ کا واقعہ غلطی سے رام رام آپ کو آپ کا آنحضرت سیتا پریتم کی شان محمدابراہیم صاحب مبلغ مشرقی افریقہ 570 منہ سے نکل گیا محمد احسن صاحب امروہی کا مجلس میں بیان آپ سے یحیی کے قتل کے متعلق آپ کا کے خلاف بات کرنے پر مارنا 56 644 145 کرنا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے میری حوالے نکلوانا 273 نسبت مولوی لکھا ہے...65 محمد اقبال وڑائچ صاحب مربی سلسلہ کا ذکر آپ کی بیماری اور حضور کی تیمارداری 270 آپ کی وفات کا واقعہ آپ کی وفات سے خدا کا الہام پورا ہونا 273 آپ کی بات پر حضرت مصلح موعود کا خیر 275 ناراضگی کا اظہار...آپ کی ذہانت کی مثال آپ کا چٹائی سے گرنے کا واقعہ 277 آپ کا آپ کو قبولیت احمدیت سے قبل کا واقعہ واقعہ سنانا مبارک احمد صاحب شیخ مبلغ مشرقی افریقہ 570 مبارک صاحب شیخ مبلغ کی مدد کے لئے 599 65 محمد جارا صاحب آف مالی کی مالی خدمت کا 26 2 محمد حافظ پشاور والے کا واقعہ مومن نہیں تو آپ کا آپ کی کتب پڑھ کر ایمان لانا83 میں آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا 471 آپ کا فرمانا کہ ذہول ہو گیا، واقعہ 295 محمد حسین بٹالوی آپ کے دعوئی سے پہلے آپ کا خلافت کے لئے خلیفہ ثانی کا آپ کے دوست تھے عنایت اللہ صاحب مبلغ کو بھیجنا 738 مبارک صاحب شیخ مبلغ کے سواحیلی ترجمہ کے نام پیش کرنا 333 لئے جلال الدین قمر صاحب کو بھیجنا 738 آپ کا الہام کے متعلق جلد بازی کا مبارک صدیقی صاحب کا چوہدری محمد علی واقعہ صاحب کے متعلق ذکر خیر 507 434 محمد احمد ثاقب صاحب کا ذکر خیر 390 مبارک علی اعوان شہید لاہور کے بھتیجے کا محمد احمد صاحب کالا افغانہ کی تحریک پر بشیر ذکر خیر 435 آپ کا حضرت مسیح موعود کے ساتھ مباحثہ لدھیانہ میں 63 آپ کا عیسائیوں کی طرف سے بطور گواہ پیش ہونا 402 آپ کا حقارت سے حضرت مسیح موعود کو 492 احمد صاحب کالا افغانہ کا قادیان آنا 739 منشی غلام احمد“ کہنا 65 مبارک میاں صاحب کی وفات کا واقعہ 271 حضرت میر محمد الحق صاحب 492 آپ کے بیٹے کا آریہ ہونا اور خلیفہ الثانی مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ بشیر احمد صاحب آپ کی عبد القادر صاحب کو مصر جا کر کا اسے مسلمان کرنا 435
خطبات مسرور جلد 13 88 اسماء آپ کی میر عباس علی کو احمدیت سے بہکانے | محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری کا محمد صدیق صاحب کی اہلیہ امتہ المجید 63 غائبانہ ذکر خیر وذکر خیر 133 صاحبہ بنت خلیل احمد صاحب 134 کی کوشش کا واقعہ آپ کی تعریف کرنا برا بین احمدیہ کے محمدصدیق صاحب کرم دین کے بیٹے تھے 133 چوہدری محمدعلی صاحب ایم اے کا ذکر خیر 503 آپ کو خلیفہ رابع ” کا پہلا وکیل وقف نو میاں محمد صدیق لالی صوفی شاعر کا مہدی شائع ہونے پر 454 قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری مهمان مسیح موعود 643 حافظ محمد حیات صاحب کا مضمون، لالیاں میں احمدیت ،لکھنا 185 کے نشانوں کا ذکر کرنا 185 حضرت محمد ظہور خان صاحب کی بہو کا ذکر خیر 109 محمد عبد العزیز صاحب صحابی مسیح موعود 390 خان محمد خان صاحب کپورتھلوی کی محمد عبداللہ صاحب صحابی مسیح موعود 390 وفات کے متعلق الہام 632 محمد علی صاحب کا کمال صاحب کے متعلق محمد دین صاحب کی بیٹی سے فضل الہی صاحب کی پہلی شادی 571 محمد رفیق صاحب ملک ملازم ائیر فورس کا بیعت کرنے کا واقعہ 278 ذکر خیر 491 نواب محمد علی خان صاحب مرحوم و مغفور ہجرت کر کے قادیان آگئے 204 نواب محمد علی خان صاحب کا قادیان کے سکول ڈپٹی محمد شریف صاحب کا خلیفہ اول کی سادگی واطاعت کا واقعہ سنانا 669 محمد شریف صاحب کا جنان العنانی صاحبہ کے متعلق ذکر خیر 81 کو مڈل سکول کر دینے کی تجویز دینا 204 نواب محمد علی خان صاحب کی نواسی امتہ الباری صاحبہ کا ذکر خیر 538 نواب محمد علی خان صاحب خالہ زاد بھائی حافظ محمد صاحب اٹلی کے رہنے والے کا قبول احمدیت کا بیان 222 اوصاف علی خان کرنل کے 632 نواب محمد علی صاحب اور خلیفہ اول کے محمد صاحب لکھو کے والے کا پتھری کے آپریشن کروانے کے لئے لاہور آنا 193 محمد صاحب لکھو کے والے سے لوگوں کی گرہن اور آپ کی صداقت کے متعلق پوچھنا اور ان کا جواب 193 شوق بناء پر ہائی سکول کھولا جانا....2004 محمد موسیٰ صاحب درویش قادیان کا ذکر خیر 311 محمد موسیٰ صاحب کو حضرت مصلح موعود کی 504 چوہدری محمد علی صاحب کے متعلق چوہدری 504 حمید اللہ صاحب کا ذکر خیر چوہدری محمد علی صاحب کے متعلق ریاض احمد ڈوگر صاحب کا ذکر خیر 505 چوہدری محمد علی صاحب سے خلیفہ ثانی * کانیک توقعات وابستہ کرنا 505 محمد علی مولوی سے بڑھ کر چوہدری محمد علی صاحب کو حضور کی کتب کا ترجمہ کرنے کی توفیق 505 مجیب الرحمن صاحب کا چوہدری محمد علی صاحب کے متعلق ذکر خیر 505 پروفیسر ثناء اللہ صاحب کا چوہدری محمد علی صاحب کے متعلق ذکر خیر 507 مبارک صدیقی صاحب کا چوہدری محمد علی صاحب کے متعلق ذکر خیر 507 مظفر درانی صاحب کا چوہدری محمد علی صاحب کے متعلق ذکر خیر مولوی محمد علی صاحب 507 مولوی محمد علی صاحب کو خلیفہ ثانی " کا بلا کر کہنا کہ ہدایت کہ آپ نے پارٹیشن کے بعد قادیان میں رہنا ہے 311 مفتی محمد صادق صاحب کی روایت، آپ محمد نعیم اعوان صاحب ابن مشتاق اعوان سے مصافحہ کرنے کی ایک شخص کی دوسرے صاحب کا ذکر خیر شخص کو تلقین 492 خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا پیش نہ کریں 332 مولوی محمد علی کو آپ کا فرمانا کہ آپ کو چھ سال خلافت جائز تھی تو آئندہ حرام نہیں ہوگی 333 772 | محمد یوسف صاحب در ولیش کا ذکر خیر 444 مولوی محمدعلی کو آپ کا فرمانا کہ جس شخص پر آپ
خطبات مسرور جلد 13 89 اسماء متفق ہوں گے اس کو خلیفہ مان لیں گے 333 آغاز کا اعلان فرمانا 33 | صاحب کی ٹانگ کا درد ختم ہونا 358 محمد علی مولوی سے بڑھ کر آپ کو حضور کی کتب آپ کا فرانس کے ظالمانہ واقعہ کی مذمت کرنا 35 آپ کا فرمانا کہ اگر ہم دعاؤں کا حق ادا کا ترجمہ کرنے کی توفیق 505 آپ کا فرمانا کہ آنحضرت کے مقام کو کوئی کرتے رہے تو سب مخالفتیں خود اپنی دنیا وی کوشش نقصان نہیں پہنچا سکتی 36 موت مر جائیں گی آپ کا فرمانا کہ قتل و غارت گری سے آپ کو ایک جاپانی خاتون کا قرآن سنانا 447 محموداحمد صاحب ابن بشیر احمد درویش 739 محمود احمد صاحب داماد خورشید احمد درویش 462 436 اسلام کی فتح نہیں ہوگی 37 | آپ کا فرمانا کہ کوئی دن منحوس نہیں ہوتا 469 محمود احمد صاحب مبشر مرحوم درویش آپ کا کہنا کہ غلط رد عمل فساد کو جنم دیں گے 40 آپ کا فیصل آباد کے ایک مولوی کا قرآن قادیان کا نماز جنازہ غائب 588 آپ کا پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق خطبہ 112 سے غلط استدلال کا واقعہ سنانا 537 181 آپ کا عالمی بیعت کے موقع پر فریدہ بیگم میرمحمود احمد صاحب کا مسجد مبارک ربوہ کی آپ کا نماز کسوف ادا کرنا تعمیر کے متعلق واقعہ بیان کرنا 586 | آپ کا فرمانا کہ قادیان اب بہت ترقی کر صاحبہ کی طرف سے عطا کیا ہوا حضرت محمود صاحب آف مصر کا جماعت کے چکا ہے متعلق تبصره 281 مسیح موعود کا کوٹ پہننا 542 225 آپ کا فرمانا کہ دنیا کی حکومتوں کی روکوں آپ کا رجسٹر روایات کے متعلق اظہار 564 ڈاکٹر محمودالحسن نوری صاحب کا چوہدری محمد سے بھی یہ کام نہیں رک سکتا 299 آپ کی مساجد کو آباد کرنے کی تلقین 568 آپ کا فرمانا کہ روح کا تعلق اپنی قبر سے آپ کا مساجد کے ساتھ کھیلوں کا انتظام 291 کرنا، حاضری بڑھانے کی حوصلہ افزائی علی کے متعلق ذکر خیر 506 مختار احمد ایاز صاحب کے پوتے مکرم انتصار احمد ایاز صاحب 227 ہوتا ہے آپ کا تکبر کے نقصان کی مثال دینا 292 کرنا 568 آپ کا پنجاب (پاکستان) حکومت کا آپ کا بیت الفتوح میں آگ لگنے پر 586.582 585 مربی بسیاری (Murhi Busari) جماعتی کتب پر پابندی کا ذکر 298 رہنمائی فرمانا صاحب کا جلسہ کے متعلق ذکر خیر 512 آپ کا فرمانا کہ جماعتی کتب پر پابندی کوئی ایم ٹی اے والوں کو ہدایت کہ فیصلے مجھے مریم صاحبہ کی مالی قربانی کا ذکر 656 نئی چیز نہیں پہلے بھی ہوتا رہا ہے 298 سے پوچھ کر کیا کریں 312 آپ کا فرمانا کہ کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو آپ کا کہنا جماعت احمد یہ دنیا میں سب سے مریم صدیقہ صاحبہ آپ کے مشن اور باتوں کو روک سکے 298 زیادہ ترقی کرنے والی جماعت ہے 602 حضرت مرزا مسرور احمد صاحب آپ کا ایم ٹی اے پر کتب مسیح موعود آپ کا یورپ والوں کا اسلام کے متعلق خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے درس کا وقت بڑھانے کا ارشاد 300 خیال پر تبصرہ 728 بنصرہ العزیز آپ کا فرمانا کہ کس طرح ہم آپ کی اسماعیل ہیرانو ( Hirano) صاحب حضور انور کا فرمانا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے دعاؤں کے وارث بن سکتے ہیں 320 جاپانی مسلمان کا حضور انور کے خطاب کا فضل سے اخراجات کی فکر نہیں کہ وہ کس آپ کا فرمانا کہ جماعت کی وحدت شکر گزار ہونا طرح پورے ہوں گے 32 خلافت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی 332 ارشادات و نصائح آپ کا وقف جدید کے نئے سال کے حضور انور سے ملاقات کے بعد آئی تورے جماعت کو تبلیغ کرنے کی نصیحت 706 14
خطبات مسرور جلد 13 90 اسماء 639 آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو اللہ کی رضا آپ کی ہدایت کہ خلیفہ وقت کی باتوں کو سنو کے متعلق ہدایت کے لئے خرچ کرتی ہے 20 اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو 340 آپ کی نکے بیٹھے رہنے والوں کو نصیحت 644 ان دنوں میں کثرت سے درود شریف جماعتی ترقیات مانگتے ہوئے بھی ہمیں خدا تعالی کے آپ کی جماعت کو نصیحت کہ برائیاں تلاش پڑھنے کی طرف توجہ دلانا 35 ، 37 آگے بہت زیادہ جھکنا چاہئے 375 کرنے کی بجائے تعمیری کام کریں 687 مسلمان دنیا اور یورپ میں رہنے والے بغیر کسی جائز عذر کے روزے نہیں چھوٹنے آپ کی جاپانی احمدیوں کو نصیحت کہ دین سیکھیں مسلمانوں کے لئے دعا کی تحریک 35 چاہئیں 393 اور اپنے ایمان وایقان میں ترقی کریں 688 جماعت کو دنیا کو ظلموں سے بچانے کے آپ کا رمضان میں تلاوت قرآن کی آپ کا ربوہ میں رہنے والوں کو ارشاد کہ 393 | حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے 759 لئے دعا کی تحریک 35 طرف توجہ دلانا پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص طور آپ کا رمضان میں عبادات کو مستقل آپ کی دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی 35 کرنے کی ہدایت 394 | تلقین 725 پر دعا کی تحریک مساجد کو آباد کرنے کی طرف توجہ دلانا 106 آپ کا گھر یلو باتوں میں امانت کے حقوق واقفین و عہدیدران کو نصائح ہر احمدی کو ہمیشہ پر اعتماد رہنا چاہئے کہ کی طرف توجہ دلانا 398 | مربیان اور مبلغین کو نصیحت کہ استعدادوں قرآن کریم آپ اور جماعت احمدیہ کے آپ کی غلط مشورہ دینے والے وکیلوں کو کا صحیح استعمال کریں 399 مربیان کی تعریف کرنا کہ خطبہ کے نوٹس ساتھ ہے 172 | نصیحت 74 77 ورقہ دو ورقہ بنا کر تبلیغ کا کام کریں 198 آپ کا دعاؤں کی طرف توجہ دلانا 403 لے کر درس دیتے رہتے ہیں آپ کا فرمانا کہ ہمیں خدا کو حاصل کرنے آپ کا فرمانا کہ دعاؤں کی قبولیت کے واقفین کو نصیحت کہ کمزوروں کا سہارا بنیں 77 کی کوشش کرنی چاہیئے 266 لئے محسن بننا ضروری ہے 408 عطاء المجيب راشد صاحب کو ہدایت دلانا کہ جماعت کی وسعت خدا کے گھروں کی آپ کی نصیحت کہ کسی بھی بات کے متعلق افراد جماعت کو کہیں کہ ایک دوسرے کو مسجد آبادی پر بھی ہے میں لانے میں مددکریں 287 رائے قائم کرنے میں جلد بازی سے کام آپ کا فرمانا کہ مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہر نہیں لینا چاہئے جگہ مسجد چھوٹے ہونے کی کوشش کرنی آپ کا فرمانا کہ مردہ سے مانگنا منع ہے 444 چاہیے 78 434 عہد یداروں کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیے 85 آپ کی نصیحت کہ جامعات کے طلباء کے | 287 آپ کی جلسہ میں شعبہ مہمان نوازی کو محتاط لئے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ باہر کھیلنا کتب پڑھنے کی طرف توجہ دلانا 299 رہنے کی ہدایت 486 لازمی قرار دیا جانا چاہیے 95 الدین اور بچوں کونماز کے متعلق ہدایت 286 آپ کا سب دعاؤں سے اہم دعا درود کو آپ کی کارکنوں کو کم الاؤنس پر گزارہ قبروں پر پھول قبر یا روح کو کچھ فائدہ نہیں قرار دینا اور پڑھنے کی تلقین دیتے 495 کرنے کی ہدایت 322 291 آپ کا فرمانا کہ دل کی گہرائی سے ہم درود آپ کی عہد یداروں کو نصیحت کہ عبدہ نہیں حضور کے علم کلام اور کتب سے استفادہ بھیجیں 495 بلکہ خدمت کہو...اٹھانے کی تحریک 300 آپ کا قوت یقین بڑھانے کی تلقین 614 دورہ جات 339 خلیفہ ثانی کا عہد ہم سب کا عہد ہونا چاہیے 328 | آپ کی والدین کوئی وی پروگرامز کے آپ کی دورہ کینیا کے دوران ایک
خطبات مسرور جلد 13 91 اسماء سائنسدان سے ملاقات اور نصیحت 164 | کھانسی میں کھایا ، وضاحت 295 | متعلق ذکر خیر 507 خلیفہ امسیح کے دورہ جرمنی کے دوران غیر آپ سے ایک بچی کا قبر پر پھولوں کے مرزا مظہر جان جاناں کا لڈو کھانے کا واقعہ 251 کا معمولی تاثیر و تائید الہی.337 متعلق سوال کرنا اور اس کا جواب 290 معاویہ کے زمانہ میں سکندر نہ تھا ، واقعہ 635 آپ کا فرمانا کہ جب میں سفر پر جاتا ہوں جمیکا کی ایک جرنلسٹ کا حضور انور سے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کئی گنا زیادہ بڑھ کر انٹریو مقصود احمد قمر صاحب داماد محمد صدیق ہوتے ہیں 518 354 خلیفہ وقت کے انٹرویوز تبلیغ کا ذریعہ 519 گورداسپوری صاحب 134 211 296 خلیفہ وقت کے دورہ جرمنی کے دوران اسلام بی بی سی کی جرنلسٹ کا حضور انور کے منجوناتھ ہندو کا قبول احمدیت کا واقعہ 224 احمدیت کا پیغام وسیع پیمانے پر پہنچنا 355 انٹرویوکو شائع کرنا 522 منظور احمد صاحب ابن مکرم چوہدری کریم آپ کا ہالینڈ اور جرمنی کے سفر میں خدائی Caroline Wyatt بی بی سی کی الدین تائید کے متعلق بتانا 619 جرنلسٹ کا حضور انور سے انٹریو 522 حاجی منظور احمد صاحب کا ذکر خیر حضور انور کا دورہ ہالینڈ اور ٹیلی ویژن کے اسلام کے خلاف میڈ یا کا کردار اور حضور انور پیر منظور صاحب ابن صوفی احمد جان 454 پیر منظور صاحب کا حافظ احمد اللہ خان کی کے انٹرویوز میں اس کا بر ملا اظہار 544 نمائندوں کے آپ سے انٹریوز 624 حضور انور کے دورہ جرمنی و ہالینڈ میں ہونے والے انٹریوز کی تفصیل 624 آپ کا میڈیا کو فرمانا کہ اسلام کو شدت پسند دکھانے میں تمہارا بھی ہاتھ ہے 544 بات نہ ماننے پر غصہ آنا 431 چوہدری منظور صاحب کا قبول احمدیت 211 آپ کا ہالینڈ کی دوسری مسجد کا سنگ بنیاد بیت الفتوح میں آگ لگنے پر ایک جرنلسٹ کا چوہدری منظور صاحب کا نکاح صفیہ صادقہ رکھنا 625 آپ کا جرمنی میں دو مساجد کا افتتاح کرنا 626 | 211 سیکرٹری اشاعت سے انٹرویو سے لینا 584 صاحبہ بنت مبارک علی صاحب حضور انور کا دورہ ہالینڈ اور ٹیلی ویثرن کے پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب آپ کا جاپان میں پہلی مسجد کے متعلق اظہار تشکر 678 حضور انور کے دورہ جاپان میں ہونے والے انٹرویوز 699 240 188 نمائندوں کے آپ سے انٹرویوز 624 بیٹے صوفی احمد جان صاحب حضور انور کے دورہ جرمنی و بالینڈ میاں منگا صاحب میں ہونے والے انٹریوز کی تفصیل 624 | منیر احمد ابن خورشید احمد درویش 462 خلیفہ وقت کے دورہ جات میں تائید الہی اور حضور انور کے دورہ جاپان میں ہونے منیر احمد صاحب حافظ آبادی والے انٹرویوز 367 699 منیر احمد صاحب حافظ آبادی کی والدہ 53 اس کے فضل اور احسانات 354تا618،367 تا 631 حافظ مشہود احمد صاحب سید استاد جامعہ یو کے 279 صاحبہ کا ذکر خیر یوکو صاحب کا خلیفہ وقت کے جاپان میں مشہود حسن خالد صاحب کا نعمان انجم منیر حافظ آبادی کا فریدہ بیگم صاحبہ کے خطاب کی تعریف کرنا 703 صاحب کے متعلق ذکر خیر سوال و جوابات وانٹرویو آپ کو ایک صاحب کا لکھنا کہ حضرت اقدس نے 213 متعلق ذکر خیر مصطفی صاحب کی مالی خدمت کا واقعہ 26 مصطفی محمود صاحب کی تبلیغ احمدیت کی مساعی 221 542 موسیٰ رضا کو ہارون الرشید کا قید کرنا ، واقعہ 720 مولا بخش صاحب معروف اہلحدیث شدید کھانی میں کیلا نہیں سیب، آپ نے شدید منظفر درانی صاحب کا چو ہدری محمد علی کے خطیب کا فرمانا کہ اب مہدی کے ظہور کا
خطبات مسرور جلد 13 وقت ہے 92 اسماء 189 | قرآن کے لئے دو ہزار کا انتظام کرنا223 | نعمان احمد نجم صاحب ابن مکرم چوہدری حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ مقصود احمد صاحب کا ذکر خیر 210، 211 58 حضرت مرزا ناصر احد صاحب خلیفہ مسح الثالث آپ کو آپ کا کہنا کہ اللہ کے احسانوں نواب صاحب بہاولپور کا اعتراض کہ آنتم 142 کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی میں سے ایک نورالدین ہیں حضرت مصلح موعودؓ کا حضرت اماں قاری نواب صاحب داماد بشیر احمد درویش 739 آپ کا دورہ افریقہ میں فرمانا کہ بعض مبلغین مقام نعیم پر فائز ہیں...134 مقام ہیں جان کی خاطر گھوڑی بیچنے کا واقعہ 224 نورالدین باؤ بنگ صاحب ابن یعقوب مرزا ناصر احمد صاحب کافضل الہی صاحب آپ کو آپ کا فرمانا کہ مرغیاں گن کر صاحب ابن الحاج یعقوب صاحب 569 کے لئے فیس کا انتظام کرنا 572 بچوں کو قیمت دے دی جائے واقعہ 271 حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب 537 سید ناصر شاہ صاحب کا آپ سے آپ کے بھائی اسماعیل صاحب بہت اخلاص و محبت کا ایک واقعہ 712 | بڑے صوفی تھے ناصر شاہ صاحب کے بھائی فضل شاہ منشی اروڑے خان صاحب کا خلیفہ ثانی " کو کہنا صاحب کو آپ کا مقدمہ دیوار کے متعلق کہ یہ اشرفیاں آپ کو دے دیں 440 آپ کا آتھم کے مباحثہ میں عیسائیوں کی 713 آپ کا منگل کے دن خلیفہ ثانی کو سفر چال چلنے کے واقعہ کا ذکر کرنا الہام لکھوانا حضرت میر ناصر نواب صاحب آپ کا زمینوں کے کاغذات حضرت کو واپس کرنا ، واقعہ ت مصلح : 322 رم سے منع کرنا 312 آپ کا آریوں کے جلسہ میں بیٹھے رہنے پر حضور کی ناراضگی 294.55 62 469 آپ کا خلیفہ مسیح الثانی کی پہلی تقریر 126 مرزا نصیر احمد طارق ابن مرزا منیر احمد پر حوصلہ افزائی کرنا صاحب مالک چپ بورڈ فیکٹری 708 آپ پر مرزا سلطان احمد صاحب کو بڑا.مرزا نصیر احمد کے اہل وعیال کا صبر وشکر اعتقاد تھا آپ کا ایک شخص کو مارنے کا واقعہ 438 128 کے اظہار پر حضور انور کی تعریف 709 آپ کا ایک اعتراض پر لکھنا کہ آگ آپ کے علاج کے لئے خلیفہ اول کا دہلی جانا 674 نصیر الدین صاحب چراغ کے مزار پر سے مراد مخالفت کی آگ ہے 139 آپ کا اپنے بیٹے میر محمد الحق صاحب سے 443 آپ کا کتاب ترک اسلام کا جواب لکھنا 139 آپ کو آپ کا کہنا کہ آگ سے مراد ظاہری آگ بھی ہے نماز کے معاملہ میں سختی کرنا 286 آپ کا دعا کرنا آپ کے بچپن میں آم چوسنے کا واقعہ 451 شیخ نصیر الدین صاحب کا نشان گرہن نتاشہ اعوان بنت محمد نعیم اعوان 492 کے ذریعے قبول احمدیت کا واقعہ 195 نذیرحسین شاہ صاحب سید کا نشان گرہن حضرت نظام الدین صاحب کی بیعت کا 191 | واقعہ کے متعلق واقعہ بیان کرنا 170 140 آپ کے متعلق آپ کا فرمانا کہ یہ اس طرح چلتے ہیں میرے ساتھ جس طرح نبض..142......آپ کے متعلق آپ کا فرمانا کہ خدا نیم محمود صاحب الیه سیدمحموداحمدشاہ صاحب نظام الدین صاحب کے بیٹے کا ذکر خیر 296 کے احسانوں میں سے ایک احسان ہیں 142 الدین 278 خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے مزار آپ کو آپ کا بڑے مولوی صاحب یا کا ذکر خیر شیخ نور احمد کا خلیفہ ثانی " کو اشاعت پر آپ کا دعا کرنا 443 مولوی نورالدین کہہ کر پکارنا 142 |
خطبات مسرور جلد 13 93 اسماء 672 673 آپ کو آپ کا پروف بھیجنا تا آپ کے آپ کا آپ کے کہنے پر قادیان سے نہ جانا 460 آپ کا سیر میں پیچھے رہ جانا اور حضور کا خیالات سے واقف رہیں 144 آپ اور عبد الکریم کے درمیان بحث کہ طریق آپ کا فرمانا کہ مومن کو چاہئے کہ جو کام خوبصورتی کو پہچاننا آسمان ہے کہ نہیں 472 | آپ کو حضور کا دلی بلانے کا واقعہ 673 کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ آپ کے پاس ایک شخص کا آنا اور سحری آپ کا آپ کے دلی بلانے پر غلام محمد کو اس کا نتیجہ کیا ہوگا 158 کی تاخیر کے متعلق خواب بیان کرنا 474 ساتھ لے جانا آپ کا مولوی محمد حسین بٹالوی کے درمیان آپ سے قادیان میں ایک ڈپٹی صاحب آپ بڑے ولی اللہ تھے لیکن اس میں غلو مباحثہ کی شرائط کے لئے تصفیہ 171 کا آپ کے پلاؤ کھانے پر اعتراض 560 نہیں ہونا چاہیے آپ کا آپ کو لالیاں کے متعلق بتانا 187 آپ کے متعلق آپ کا فرمانا کہ چہ خوش آپ کے متعلق خلیفہ الثانی کا فرمانا کہ آپ آپ اور محمد علی صاحب نواب کے شوق بودے اگر ہر یک 664 خلیفہ اول کی تعریف کرنے کے لئے بلکہ کی بناء پر ہائی سکول کا کھولا جاتا 2004 آپ کی آپ کی اطاعت اور قربانی کا جو سچ تھا اس کا اظہار کردیا آپ کا فرمانا کہ ہماری جماعت میں کوئی اعلیٰ معیار بڑا آدمی داخل نہیں 675 675 665 آپ کا حضور کی مجلس میں جوتیوں میں 205 آپ کا آپ سے ادب کی وجہ سے سامنے بیٹھنے کا واقعہ آپ کا ایک بزرگ کا واقعہ سنانا مسجد میں بات نہ کرنا لمبی نمازیں پڑھنا 676 666 آپ کے متعلق آپ کا کہنا کہ ان کے یہاں 232 آپ کے سکول کے حق میں آپ کا فیصلہ کرنا 666 آنے سے لوگوں کو بڑا فائدہ ہوا ہے 676 آپ کی شادی صوفی احمد جان صاحب آپ کا ایک شخص کے آپ کی نبی ہونے آپ کے متعلق آپ کا تعریف کرنے کا 241، 454 کے اعتراض پر آپ کی تصدیق کرنا 667 کے ہاں ہونا آپ کا آپ کی کھانسی کے لئے نسخہ تیار آپ کی ہمشیرہ کا پیر صاحب سے رہنمائی 268 | لینے کا واقعہ کرنا 668 واقعہ 676 آپ کے نام پر فساد پیدا کرنے والے 677 لوگ اللہ ان کو عقل دے آپ، یعقوب بیگ اور خلیفہ رشید آپ کی سادگی واطاعت کے متعلق ڈپٹی 669 | آپ سے خلیفہ ثانی کے پیار کی وجہ 722 الدین کا مرزا مبارک صاحب کی بیماری محمد شریف صاحب کا واقعہ 271 آپ کو آپ کا فرمانا کہ جماعت کے بڑھنے کا شیخ نور احمد کا حضرت مصلح" کو زمینوں کے کے وقت آپ کے پاس آنا 669 لئے پیش کرنا 322 آپ کا میاں مبارک صاحب کی تیمار داری ایک ذریعہ کثرت اولاد ہے کے لئے رکھی جانیوالی خاتون کو دادی کہہ آپ کا ایک مقام ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا 670 نور محمد صاحب میاں کا ادنی اقوام میں تبلیغ 271 آپ کی سادگی کا واقعہ ، اچھا ہم آج کر پکارنا 671 کرنا وه ، ی 173 آپ کا مصری صاحب سے ناراض ہونا 432 آدمی بن جاتے ہیں آپ کو آپ کا فرمانا کہ اب یہیں آبیٹھیں 436 آپ کا اعتراض کہ آپ حضور کا ادب واحد ووچ صاحب کی مالی قربانی کا ذکر 657 آپ کا آپ کو بیعت لینے کو کہنا 454 نہیں کرتے کا جواب دینا 671 وسیم احمد طالبعلم جامعہ احمدیہ قادیان ذکر آپ کو آپ کا کہنا کہ بیعت قادیان میں آپ کا خوشی کے موقع پر فرمانا کہ ہمارے خیر 454 مرزا کی یہ بات ہے نہیں لی جائے گی 228 671 | شاہ ولی اللہ صاحب کے مزار پر آپ کا دعا کرنا 3 44
خطبات مسرور جلد 13 94 آپ ہر روز نیا جوڑا پہنتے 560 | میں فروخت کر دینا اسماء 760 | Domingo صاحب اور ان کی اہلیہ کا ولی اللہ شاہ صاحب مبلغ مشرقی افریقہ 570 یوسف کی خوشبو مجھے آرہی ہے، حضرت بیعت کرنا 555-554 ولیم ہنری حسن عبداللہ صاحب کا پیدائشی مسیح موعود کے الہام سے مراد 122 | Dragan صاحب کے جلسہ جرمنی کے 112 یوسف کے بھائیوں کا یعقوب کو کہنا کہ تو متعلق تاثرات نام تھا 357 Edgaras کے جماعت کے متعلق ہارون الرشید کا موسیٰ رضا کو قید کرنا واقعہ 719 اسی طرح یوسف کی باتیں 122 703 تاثرات جلسہ کے متعلق تاثرات 360 513 ہدایت بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم عمر احمد صاحب یوکو صاحب کا حضورانور کے جاپان میں Eric Houndete صاحب کے مرحوم در ولیش کا ذکر خیر 389 خطاب کی تعریف کرنا لالہ ہر چند داس مجسٹریٹ کا منشی ظفر صاحب | یونس عبدل جلیلوف شہید کا ذکر خیر 773 Ervin Xhepa صاحب جلسہ میں کو کہنا کہ آپ کو مرزا صاحب.......459 Agron صاحب کا جلسہ جرمنی میں شامل شامل ہونے کے بعد بیعت کرنا 356 356 360 Gabor Peter صاحب کا جماعت 359 Giovanni Monte صاحب کا 514 ہلا کو، چنگیز خان سے اللہ تعالیٰ نے ہونا مسلمانوں کو برباد کروایا 4 | Anly Anfane صاحب کا قبول کے ماٹو سے متاثر ہونا مولوی یار محمد صاحب کا آپ سے جنون کا احمدیت کی برکت کا اظہار عشق، ہاتھ ہلانے پر پاس آبیٹھتے 47 kio Najima صاحب کا جاپان جلسہ کے متعلق تاثرات حضرت یحیی علیہ السلام 145 میں مسجد کی رجسٹریشن میں تعاون 691 Hara صاحبہ جاپانی خاتون کے اسلام حضرت یعقوب کے متعلق یوسف کے بھائیوں کا Barrie Schwortz کے جلسہ کے کے متعلق تاثرات کہنا کہ تو اسی طرح یوسف کی باتیں.122 متعلق ذکر خیر 20 Heather کلارک آئی ٹی وی کی جرنلسٹ الحاج یعقوب باؤ بنگ صاحب آف غانا Bello نامی ایک نائیجیرین دوست کا کا کمال صاحب کے متعلق ذکر خیر 490 562 احمدیت قبول کرنے کا واقعہ 610-611 Heiko Fahnicke صاحب کے کا ذکر خیر یعقوب بیگ صاحب مهمان مسیح موعود 643 Branislav Beli کا جلسہ کے متعلق جلسہ جرمنی کے متعلق تاثرات شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب سے حضرت مصلح موعود کا پوچھنا کہ یہ کس کے متعلق بات کہہ رہے ہیں..127 ذکر خیر 517 704 360 Henri Roussel رساله چارلی Caroline Wyatt بی بی سی کی ایڈ وCharlie Hebdo کا ابتدائی جرنلسٹ کا حضور انور سے انٹریو 522 ممبر 39 nabi Limita صاحبہ کی مالی Hugh Farey صاحب کے جلسہ یوسف ایڈ وسٹی صاحب لوکل مشنری کی دعا خدمت کا ذکر خیر کی قبولیت کا واقعہ 217 یوسف صاحب بھائی کمال صاحب مرحوم 489 27 متعلق تاثرات 520 Dao Salif آف مالی کی مالی خدمت Humada ldatu صاحبہ کے جلسہ کا واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام یوسف کو ان کے بھائیوں کا قلیل قیمت واقعہ 26 کے متعلق تاثرات 522 Diam Tapily کا قبول احمدیت کا Ibrahim Turshilla صاحب 356 613 | Ishinomaki صاحب کے مسجد
خطبات مسرور جلد 13 جاپان کے متعلق تاثرات 95 اسماء 694 | Mezei صاحب کے جماعت کے متعلق | Paul Sanger Davies کے Ito Hiroshi صاحب کے مسجد جاپان تأثرات کے متعلق تاثرات Michael Scharrenberg 694 358 | جلسہ کے متعلق تاثرات 520 Scherher Zada Destanouska 18 Jacques Bertholle کے جلسہ میں عالمی بیعت کے متعلق تاثرات 518 کا ذکر خیر کے متعلق تاثرات 12 Minesaki Hiroko صاحب کے Sylla صاحب کا قبول احمدیت کا واقعہ 218 Jakob صاحب کا جماعت کے ماٹو کی مسجد جاپان کے متعلق تاثرات 694 Taijun Sato صاحب کے مسجد تعریف کرنا 555 | Mr Urano Tatsunoo صاحب جاپان کے متعلق تاثرات Jose Maria صاحب کے جلسہ کے کا حضور انور کے جاپان میں خطاب کی Toni صاحب کے جلسہ متعلق تاثرات 357 515 تعریف کرنا 694 متعلق تاثرات Josipa صاحبہ کے جماعت کے متعلق Mrs Haiashi صاحبہ کے اسلام کے متعلق تاثرات 703 | Toya Sakurai کے جماعت کے تاثرات 696 358 | متعلق تأثرات 698 Mrs Uzuki صاحبہ کے اسلام کے Kainjnide صاحب کی مالی خدمت کا Noel Kilomba Ngozi Mala | متعلق تاثرات واقعہ 698 صاحب کے جلسہ کے متعلق تاثرات 512 | Wilson Muruli صاحب کے جلسہ Dono Ken 511 Koukou Kouakou Ouattara صاحب کے مسجد جاپان کے متعلق تاثرات صاحب کے جلسہ کے متعلق تاثرات 520 کے متعلق تاثرات 694 | Yoshio Iwamura صاحب کے Mama Sajoba کا قبول احمدیت | Mitsuo Ishikawa صاحب کے جلسہ کے متعلق تاثرات کا واقعہ 514 608 | اسلام کے متعلق اثرات 697 | Yuki Sngsaki کے جماعت کے 694 Masayuki Akutsu صاحب Nana Osei Akoto صاحب کے متعلق تاثرات کے جلسہ کے متعلق تاثرات 515 جلسہ کے متعلق تاثرات 522 | Zmago Pavlicic کے جلسہ کے Max Muller کا لکھنا کہ ام الالسنہ Osamu صاحب کے مسجد جاپان کے متعلق تاثرات زبان مختصر ہوتی ہے 534 | متعلق تأثرات 694 517
خطبات مسرور جلد 13 96 مقامات مقامات افغانستان میں مذہب کے نام پر خودساختہ باندوندو (کانگو) آنا آٹو اویسٹ قانون سازی 663 (گانگا ( یوگنڈا ) آسٹریلیا 661 ،663،662 695 البانيا آسٹریلیا میں جلسہ سالانہ کا ہونا 762 المیرے 257 بٹالہ 557 191.189.186.643 660 حضرت مسیح موعود کے ارشاد پر حضرت 623,620 خلیفتہ اصح الاول " پیدل بٹالہ پہنچے 675 663،625 | برطانیہ 566،521،492،279، آسٹریلیا میں جماعت کی نئی جگہوں کا خریدا جانا 762 المیرے میں مسجد کا سنگ بنیاد 598 662 | امرتسر آفن باخ آندھرا پردیش آئرلینڈ 40، 620،544،491 | ہوئے 695.661.586 311 ، 461 جلسہ سالانہ برطانیہ شروع ہو نیوالا ہے 478 662 | حضرت مسیح موعود امرتسر سے یکے پر سوار جلسہ سالانہ برطانیہ پر اظہار تشکر 508 209 | برز بین ساؤتھ 663 آئیوری کوسٹ 606،218،217، 607 | امریکہ 227، 558،521، 659 ،695،662 | برکینا فاسو 216 ،658،548،524، آئیوری کوسٹ کے مہمان کے جلسہ پر امریکہ کا ایک گیارہ سالہ بچہ جو ویڈیو کیم تاثرات اٹلی 520 کے لئے پیسے جمع کر رہا تھا اس نے وہ رقم برمنگھم ساؤتھ 222 | چندے میں دے دی 661 | بریڈ فورڈ ارجنٹائن کے ایک دوست کے جلسہ پر تاثرات 514 امریکہ کے ویسٹ کوسٹ میں جلسہ سالانہ بشیر آباد سٹیٹ اڑیسہ 663 کا ہونا اڑیسہ کی مکرمہ سیدہ قامتہ بیگم صاحبہ کا انڈونیشیا ذکر خیر از بکستان 762 | بلیک ٹاؤن 695،662 | بمبئی 740 روز بینگن (جرمنی) 492 | بنگال 657 اوکاڑہ اسلام آباد (پاکستان) 662 | ایڈمنٹن 663 | بنگلور 664 بھارت ( دیکھیں ہندوستان ) 663.662 663 663 662 663 287 663 663 اشینو ما کی 694 | ایڈیلیڈ ساؤتھ افریقہ 30 ، 33،31، 131 ، 134 ، ایران 664 | بہاولپور 572 بہاولنگر.433.336.206.153.136.135.550.524.521.504.465.448 بھلوال بھیرہ 662 662 599 628،608،572،570،557، 637 ، باد ہمبرگ (جرمنی) 493 حضرت خلیفۃ المسیح الاول جب قادیان 737،662،656،655،653 با کونگو ( کانگو ) 220 | آئے تو بھیرہ میں پریکٹس جاری تھی 460
خطبات مسرور جلد 13 97 مقامات خلیفہ اول بھیرہ میں شاندار مکان تعمیر کر پاکستان میں احمدیوں پر حالات تنگ 207 | تھا نٹن ہیتھ 666 پاکستان میں ایک اور ظالمانہ کاروائی 708 تونسہ شریف رہے تھے 664 502 بھیرہ سے حضرت خلیفہ مسیح لاو کا تعلق 1436 پاکستان میں کتب کا بین ہونا 290 ٹینکو (بین ) میں یادری کا جماعت کے بو بوجلاسو ( برکینا فاسو) 216 پاکستان میں مخدوش حالات کے باوجود حق میں بیان بوسٹن کے انتصار احمد ایاز صاحب کا ذکر اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے وہاں تیونس 227 | قربانی کا جو معیار رکھا ہوا ہے اس پر قائم طبورا ( تنزانیہ ) خیر بوسنیا بوسو ( یوگنڈا ) 31 ہیں اور ان کا نمبر پہلا ہی ہے 662 ٹوبہ ٹیک سنگھ 659 پانامہ سے ایک دوست کے جلسہ پر ٹورانٹو بولا بالی (راجستھان) کے ایک معمر تاثرات 519 ٹوکیو شخص کی مالی قربانی کا واقعہ 654 | پتھ پیریم ( ہندوستان) 663،657 219 606 215 662 663 699 بولیویا بیاس بيلجيم بیلیز 521 پشاور 284 | پمپٹن 621 | پنجاب 663.470.213 663 ج، چ، ح 662.551 جاپان 298، 663 جاپان کے ایک دوست کی بیعت 224 521 پنجاب یونیورسٹی 504،445 | جاپان کے ایک مہمان کے جلسہ پر تاثرات 514 بینن 547،219، 662،655،611 | پنگاڑی 663 جماعت احمد یہ جاپان کی پہلی مسجد کا افتاح 679 بینن کے نیشنل اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کا پنگا لے (Pangalay) میں عنایت 2013 میں پاکستانی مولوی کا احمدیت کی جلسہ میں شرکت کرنا اور اس بات کا اللہ صاحب کی خدائی تائید کا واقعہ 738 مخالفت میں جاپان جانا اور اس کا عہد 703 اعتراف کرنا کہ افراد جماعت اپنے خلیفہ پیرس سے بہت محبت کرتے ہیں 513 پیس ویج 700 جاپانی خاتون کی حضور انور سے ملاقات 447 663 جالندھر 195 بینن میں جماعت کے بک سٹال پر ایک پیمبارو( سیرالیون) 652 جالندھر کے معروف اہلحدیث خطیب 189 سکول ٹیچر کا آنا اور طالب علموں کے لئے لٹریچر طلب کرنا 552 ت،ٹ بینن میں مسجد کے افتتاح کے موقع تا بگو ( برکینا فاسو) مولوی محمد علی صاحب جالندھر سے تھے اور چوہدری محمد علی صاحب بھی 505 695.662.654.621.492.225 657 663 احمد یکمی با جوہ صاحب آف جرمنی کا ذکر خیر 196 620 پر کنگ آف دا سو آئے 557 | تامل ناڈو پاکستان 211، 213، 278، 311، 521 ، ترکی پر روس کا الزام لگانا 724 حضور انور کا سفر جرمنی 624،609،604،541 ،، 662 تعلیم الاسلام کالج ( قادیان) 504 جرمنی میں دو مساجد کا سنگ بنیاد 627 پاکستان میں مذہب کے نام پر خود ساختہ تلنگانہ (بھارت) 228 جامعہ احمدیہ جرمنی کا پہلا کانوکیشن 631 | قانون سازی 257 | تنزانیہ 662،215 | جلنگهم پاکستان کا یوم آزادی 487 تنزانیہ میں عنایت اللہ صاحب بطور مبلغ 737 جموں و کشمیر 664.63.34 663.453.297
خطبات مسرور جلد 13 521 | ڈنمارک جمیکا کی ایک مہمان کے جلسہ پر تاثرات 518 ڈیٹرائٹ جہلم جھنگ جیما (مالی) 208 ڈیٹسن باخ 98 620 | سپین مقامات 623.621 663 سپین کی نیشنل اسمبلی کے ارکان کے جلسہ 662 پر تاثرات 515 663 ڈیرہ بابا نانک میں مولوی بشیر احمد صاحب پین میں جامعہ کے طلباء کا پمفلٹ تقسیم کرنا 199 217 کا نوکری تلاش کرنا 738 سپین ویلی چار کوٹ کے لوگ سودا سلف کے لئے جہلم ڈیرہ غازی خان 662،502 | سرگودھا بھی جایا کرتے تھے 188 ڈیون اینڈ کا نوال چانگر یاں 296 | راجستھان چپ بورڈ فیکٹری کو آگ لگادی گئی 708 رائے ونڈ چک پنیار چک نو پینیار 662 663 سرینگر 653 | سکاٹون ساؤتھ 278 | سعد اللہ پور 664 662.589.436 297 663 600 600 ربوہ 187 ، 211، 213، 279 280 ، سعودی عرب کے بگڑتے ہوئے حالات 226 601،570،526، 662،631 | سکاٹ لینڈ چکوال کے قریب حادثہ 213 ربوہ کے جلسوں میں ایک پر ہیزی لنگر ہوتا تھا 485 سگر الہ ڈاکا (مالی) چونیاں حیدر آباد 445 رتن باغ (لاہور) 296، 541 سلا بو بو ( برکینا فاسو ) 502 سلیکون ویلی 663.521 216 553 663 461.212 663 رکھ مور جھنگی حیدر آباد دکن 248 663 | رؤڈر مارک 662 | سندھ حیدرآباد کے ظہور الدین صاحب کی روس اور دوسری مغربی طاقتوں کی آپس کی سندھ کے ایک شخص کا حقہ نہ ملنے کی وجہ سے صاحبزادی سے بشیر صاحب کا نکاح 739 رنجشوں کا بڑھنا 725 ایک دن بعد قادیان سے چلے جانا واقعہ 722 روس کا تر کی پر الزام لگانا 724 | سنگاپور د، ڈر روس کا سیریا کی طرفداری کرنا 724 | سوازی لینڈ دار السلام میں عنایت اللہ صاحب کو بطور ریڈ شیڈ مشنری انچارج خدمت کی توفیق ملی 738 ریز پارک درائے آئش وہلی 662 663.297 میر ناصر نواب صاحب دہلی کے رہنے سالٹ پانڈ 662 | سوالو (بینن ) 663 | سوان زی سوڈان س ،ش سور بنام 570 | سوشیما 297 | سولور 662 608 219 664 610 573.571 700 663 والے تھے 451 ساندھن دوبئی 312 سانگھڑ 662 سومبو یادی ( گنی کراکری) پورے گاؤں ڈارم شیڈ 662 | ساہیوال 211، 662 کا احمدیت قبول کرنا 220 ڈر ہم 663 | ساؤتھ افریقہ 662 | سوئٹزرلینڈ 694،661،620،556 ڈلہوزی 458 | سائپرس 620
خطبات مسرور جلد 13 سوئٹزرلینڈ سے پریس اور میڈیا سے تعلق رکھنے | شیخوپورہ والے مہمان کے جلسہ پر تاثرات سویڈن 518 623.620 99 مقامات 311 | فن لینڈ فیصل آباد 661 662.460 ص، ع، غ قادیان 186 ، 187، 192،189، 195، سویڈن کے ایک پولیس افسر کے جلسہ صابن دستی (حیدرآباد) پر تاثرات سیاٹل 517 663 سیالکوٹ 572،526،296،208، 662 311 609.522.218 سید والا سیرالیون سیرالیون کا جلسہ سالانہ 222 عراق میں بدامنی 281.273.248.211.206.203 662 530.502.484.464.456.311 226 عراق میں مذہب کے نام پر خود ساختہ قادیان کی ابتدائی حالت کا نقشہ 277 257 قادیان کی ترقی قانون سازی 283 عراق میں نام نہاد اسلامی حکومت کے خلاف قادیان کی آبادی بیاس سے آگے ہوشیار پور مغربی حکومتوں کا اقدامات کرنا 724 کے ضلع کی طرف نکل جائے گی 289 عراق میں نام نہاد اسلامی حکومت کے حضرت خلیفۃ ای الاول جب قادیان 726 آئے تو بھیرہ میں پریکٹس جاری تھی 460 ظالمانہ اقدام عرب 558 صحابہ کا قادیان سے عشق 722 سیرالیون کی ایک نابینا عورت کی مالی جزیرۂ عرب ایک سمندر کی طرح خدا کی ایک شخص کا حقہ نہ ملنے کی وجہ سے ایک دن قربانی کا واقعہ 653 سیرالیون کے وائس پریذیڈنٹ کے جلسہ عمرکوٹ پر تاثرات 513 توحید سے بھر گیا عنایت پور بھٹیاں غانا 755 بعد قادیان سے چلے جانا واقعہ 22 723 662 کا ذکر خیر 737 سیر یا ( نیز دیکھیں شام) سیریا کی روس کی طرف سے طرفداری 724 سینٹرل ورجینیا سینیگال سیکل (امریکہ) شام 663 662 662 | قادیان میں اللہ بخش صاحب کے بیٹے (دیکھیں گھانا ) قادیان کے درویش بشیر صاحب کا ذکر خیر 738 ف،ق محمد احمد صاحب کالا افغانہ صاحب کا قادیان آنا 738 549 شعیب احمد صاحب ناظر بیت المال خرچ 658 | فارانا ( گنی کراکری) 590 فرانس 521،516، 621،555 | قادیان کے والد صاحب کا ذکر خیر 739 حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں کو فرانس میں ظالمانہ واقعہ 724 | قادیان کے جلسہ سالانہ کا آغاز ہونا 757 264 فرنچ گیانا کے مہمان کے جلسہ پر تاثرات 512 قادیان کی حفاظت کے لئے ایک کچی فصیل 758 226 شام سے نکلنا پڑا شام میں بدامنی فریڈ برگ شام میں نام نہاد اسلامی حکومت کے خلاف فرینکفرٹ مغربی حکومتوں کا اقدامات کرنا 724، 726 فضل عمر ہسپتال شاہدرہ کے ایک مجذوب کا واقعہ 247 659 | فلپائن شکاگو (امریکہ) شہداد پور 662 فلسطین شیخ عبدالرحمن صاحب کا مصر جانا 432 فلورز ہائم 662 قادیان میں ایسا دور آیا جب صرف چند 662 | احمدی رہ گئے تھے 759 312 قادیان کے جلسہ میں شامل ہونے والوں 620 کو عظیم مقصد کو یا درکھنا چاہیے 763 574،572 | قادیان جو جا سکتے ہیں انہیں جلسہ میں 662 شامل ہونا چاہیے 769
خطبات مسرور جلد 13 قادیان جانے پر اعتراض کہ احمدی حج پر کڑا نہ نہیں جاتے..770 | کسولی بعید نہیں کہ قادیان کے جلسہ کے لئے کلکتہ چارٹرڈ فلائٹس چلا کریں 770 کنانور ٹاؤن قادیان آنے والوں کو حضرت مصلح موعود کنری کی نصیحت 100 مقامات 187 | گڈاں عیدی ( نائیجر ) 248 | گروس گراؤ 663،287 | گلاسگو 215 662 663 663 گلاسگو کی ایک ایم پی (MP) کا احمدیت 662 کی تعریف کرنا 730 772 کنز ا ؤئے (کانگو) 220 گئی کراکری 662،605،549،220 قازخستان کے ایک دوست کے جلسہ پر تاثرات 519 کھوکھر غربی 662 | گھانا 662.661.568.522 662 | گھٹیالیاں خورد 610 | گوجرانوالہ کوڈ یا تھور ( ہندوستان ) 654 | گورداسپور قرغیزستان میں شہادت کا ذکر 767، 773 کو بلنز قصور 445 | كوتونو (ببینن ) ک گ کوریا کابل 452 کولون کاسل پل 663 کونگو کنشاسا کالا گوجراں 662 662.211 464.444 694 | گورداسپور کے ضلع کی اکثر سڑکوں پر ڈکیتی 662 کی وارداتیں ہوتی تھیں 192 522 گوئٹے مالا کی ایک طالبہ کے جلسہ پر تاثرات 519 710 کونگو کنشاسا کے جسٹس کے جلسہ پر گوئٹے مالا میں فلائرز کی تقسیم 554 کا لمبا گو ( برکینا فاسو) میں مسجد کی تعمیر 548 تا ثرات 512 662 گیمبیا 661 کالی کٹ 663 | کوئٹہ کانگو 221، 656،655 | کیرالہ 663.656.606 م دله دم کانگو برازاویل 662 کیرولائی کاونٹری 663 | کیمرون 663 لاس اینجلس ایسٹ 662 لالیاں کیا بیر 572،548،222 کینیا 570 لالیاں کے ایک صوفی شاعر کپورتھلہ کینیا میں عنایت اللہ صاحب بطور مبلغ 737 لالیاں میں احمدیت کا آغاز 663 188.187 185 185 حضرت مسیح موعود نے کپورتھلہ جماعت کے کینیڈا 520 ، 525 ، 658، 661 ، لامبونا ( گھانا) کے لوگوں کا بارش کے لئے 439 662 ، 694 دعا کی درخواست 217 اخلاص کی تعریف فرمائی ہے کراچی 210، 279 280 ،663 کینیڈا کے طلباء نے سپینش ممالک میں لاہور 278،191، 445، 468،461، کرناٹک 663،656،551 اور کینیڈا میں تبلیغی سٹال لگا ما 551 663.656.541 کرناٹک میں قاری نواب صاحب واقف گان رو گو (بینن ) 546 حضرت مسیح موعود کا لاہور میں ایک جلسے 739 گاؤ سوفو فانا صاحب کا گھانا جا کر بیعت کرنا 216 میں تقریر فرمانا زندگی کروشیا 624،621 | گجرات 246 662 لیکھرام کا قتل کے روز لاہور لوٹنا 270 کروشیا کے مہمان کے جلسہ پر تاثرات 519 گدک (ہندوستان) 550 | چوہدری محمد علی صاحب نے گورنمنٹ کالج
خطبات مسر در جلد 13 لاہور سے تعلیم حاصل کی 503 | مڈل ایسٹ لاہور شہر میں جمعہ کی نماز کی حاضری آپ کے مڈلینڈز 101 مقامات 661 میلبرن ساؤتھ 663 | ناروے 663 661 وقت جلسہ کی حاضری کے برابر ہونا 766 مراکش 150 ، 223، 360، 551 | نائیجر لاہور لاء کالج لدھیانہ لدھیانہ دارالبیعت لک بار 208 | مسکر 215 297 نائیجیریا 556،522، 661،611 240 مشرقی افریقہ میں ملٹری میں کلرک عنایت نائیجیریا کے مشہور ٹی وی کے چیئر مین کے 454 | اللہ احمدی صاحب بھرتی ہوئے 737 جلسہ پر تاثرات 187 | مصر لکسمبرگ کے ایک شہر میں جماعت نے مکند پور 611،225 نگر پارکر 195 نن سپیٹ بک سٹال لگایا لندن یونیورسٹی 551 ملینی (سیرالیون ) 513 ننکانہ صاحب 227 ملائیشیا 694 | نواں شہر 270، 662 | نورڈ ہورن 663 نوئزن برگ لندن 489 ، 585، 663،659،632،601 | ملتان لنگی ( سیرالیون) میں غیر از جماعت امام ملٹن جارج ٹاؤن از کا جماعت کے حق میں بیان 222 ملیر رفاہ عام سوسائٹی (کراچی) 210 نوٹس ٹو بوٹو ( کانگو ) میں جماعت کا قیام 221 ممباسہ لیبیا میں نام نہاد اسلامی حکومت کا اڈے من ہائم قائم کرنے کا ارادہ 724 مہاراشٹر 570 | بیدا 662 | نیو کاسل 663 | نیو مالڈن 512 212 624 662 189 629 662 662 662 663 663 226 | مہاراشٹر میں قاری نواب صاحب واقف ه، وی لیبیا میں بدامنی لیڈز لیمنگٹن سپا 488 | زندگی 663 | مهدی آباد مارزڈن پارک 663 موکل ماریشس ماسکو 661،605،573 | مونٹی نیگرو 657 | موئر فیلڈن 613،607،217،216 | مویوں (ببینن ) مالی مالی کے ایک مخلص کی مالی قربانی کا واقعہ 655 میر پور آزاد کشمیر مالیر کوٹلہ میں نواب محمد علی خان صاحب کا میر پور خاص مڈل سکول 739 662 445 622.620 662 548 662 662 204 میسیڈونیا کی ایک خاتون کا حضور کے خطاب ماؤنٹ ڈریواٹ 663 کے بعد سے پردہ کرنا مایوٹے محمود آباد 605 میکسیکو 225 199 710 | میکسیکو میں جا کر اشتہارات تقسیم کئے 199 ہارٹلے پول ہالینڈ 491 625.552 ہالینڈ کی دوسری مسجد کا سنگ بنیاد 626 حضور انور ہالینڈ میں ہانگ کانگ ہڈرزفیلڈ (برطانیہ) ہر پہ 619.562 289.190 488 211 ہناؤ (جرمنی) میں تحریک جدید کے حوالے سے سیمینار 655 ہندوستان 461، 550،541،521،.620.613.608.606.602.559 662.661
خطبات مسرور جلد 13 حضرت خلیفۃ اسح الاول ہندوستان کے چوٹی | ویلز کے حکماء میں سے تھے 678 | وینکوور 102 521 | یو کے (دیکھیں برطانیہ ) مقامات 663 یورپ کے ماہر فن مصور کا بیان کہ عریانی جسم ہندوستان کے متوسط لوگوں کا قادیان کے یاد گیر کے ایک نوجوان کی بیعت کا واقعہ 224 یوکے( UK) میں بھی اور دنیا کے پہلے جلسہ سالانہ میں شامل ہونا 760 پارک شائر 457 پارک ہیرس برگ 488 دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی تعلیم کو 663 پھیلائیں 730 662 یمن کے بگڑتے ہوئے حالات 226 یوگنڈا کے منسٹر کے جلسہ سالانہ کے بارے ہوشیار پور ہیمبرگ والڈورف وان 662 یواے ای 663 | یوپی ( ہندوستان ) 694 میں تاثرات 461 یوگنڈا ومبلڈن پارک 511 659.522 663 میں خوبصورتی پیدا نہیں کرتی 472 یونان کے وفد کے جلسہ کے متعلق تاثرات 517 ڈوسٹر پارک (برطانیہ) 663،659 221، 557،555،504 | یونان یورپ دولور سیمپٹن ویز بادن 663 662 Nagoya 521 688
خطبات مسرور جلد 13 103 کتابیات آنا کتابیات اسلامی اصول کی فلاسفی کے متعلق ایک 165،154، 328، 341 ،353 ، 367 ، عجیب واقعہ 292 آریہ دھرم میں رسول اللہ صلی ا یتیم کی جاپان کے ڈاکٹر جیوانی مونٹے کا ایک 417.404.390.378 746 سال میں پچاس مرتبہ اسلامی اصول کی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف 176 عصمت کا بیان آسمانی فیصلہ آئینہ کمالات اسلام 342 14.13 فلاسفی کا مطالعہ کرنا اصلاح نفس 514 | الموعود 66 131.129.128.123.115 331 11 405 | رسالہ الوصیت الجامع لشعب الايمان آئینہ کمالات اسلام میں رسول اللہ اللہ الی سلام کے مقام کا بیان 743 سنن ابن ماجہ 10،9،6،5 ، 382 سنن ابی داؤد 138 458.354.317 ایک صحابی کا الفضل، الحکم اخبار کے ذریعہ تبلیغ کرنا 169 انوار الاسلام انوار خلافت سنن الدارمی 4، 398 بائبل اتمام الحجہ میں نبی اکرم صلی لا الہ امام کے مقام کا السيرة الحلبية بیان احمدیت کا پیغام احوال الآخرة 745 الفضل 324 401 بائبل میں ہے کہ اگر تم میں ایک ذرہ بھر بھی ایمان ہو.....ویڈیوجس 62 124 57 ، 145،85،83، 148 ، 166 ، واٹس ایپ پر ویڈیو جس میں بائیل پر کور چڑھا کر 328.322.180.177 دکھا یا جارہاہے کہ یہ قر آن کی تعلیم ہے 727 الفضل میں شرعی نبوت کے بارہ میں صحیح البخاری حافظ محمد صاحب لکھو کے والے نے اپنی پروف کی غلطی 144 کتاب احوال الآخرۃ میں چاند سورج گرہن ایک صحابی کا الفضل ، الحکم اخبار کے ذریعہ | کے نشان کو واضح طور پر لکھا ہے 193 تبلیغ کرنا.330.162.160.72.50.11.386.382.372.368.347 415.408.402.393 169 اربعین نمبر 1 میں اسلام کی تمام مذاہب پر آجکل پاکستان میں الفضل پر آن پڑھ 748 مولویوں کے کہنے کی وجہ سے بین ہے 290 بدایۃ المجتہد فوقیت کا بیان ازالہ اوہام اسلامی اصول کی فلاسفی 397.14+2 73.5.4.3 الفضل انٹرنیشنل مولوی احمد ثاقب صاحب مرحوم نے 19، 35، 112،98،81،68،53 ،136 ، بدایۃ المجتہد کے ایک حصہ کا اردوترجمہ کیا جو ہدایة
خطبات مسرور جلد 13 104 کتابیات مقتصد کے نام سے شائع ہوا | ) 390 تاریخ احمدیت (جلد 11 402 توضیح مرام بدر تاریخ احمدیت جلد 11 میں درویشان کی توضیح مرام میں وحی الہی کے انتہائی درجہ ہفت روزہ اخبار بدر میں مولوی خورشید فہرست میں مولوی محمد یوسف صاحب کی تجلی کا ذکر درویش کا نمبر 153 ہے پر بھا کر صاحب درویش کے مضامین کا طبع ہونا براہین احمدیہ 445 743 جماعت احمد یہ دہلی کے ایڈریس کا جواب 92 461 | تحریک شدھی ملکانه 92 جنگ اخبار کی خبر کا بیان تحفه غزنویه براہین احمدیہ میں آتھم کے فتنہ کی طرف تذکرہ صاف اور واضح لفظوں میں الہام درج ہو ترک اسلام چکا ہے 61 حضرت مسیح موعود کی براہین احمدیہ لکھنے کے 407 جنگ مقدس 703 406.57 346 جنگ مقدس جس میں آتھم کا مباحثہ چھپا 56 چ، ح، ح عبدالغفور مرتد نے یہ کتاب لکھی اور حضرت چارلی ایبڈو (Charlie Hebdo) کے خلیفہ اول نے اس کا جواب لکھا جو نورالدین خاکے بنانے پر ہنری رسل کے تاثرات 39 بعد علماء اور صوفیا ء میں شہرت ہوگئی 240 کے نام سے شائع ہوئی براہین احمدیہ کی شہرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ترمزی 140 چشمه معرفت چشمه سیحی 753.54 413.346 ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاکھوں آدمی حضرت مسیح 79،73،42،41،9،8، 368، 381, Chugai Nippon (چوگائی تو ) موعود سے بڑی عقیدت رکھتے تھے 453 412.398 اساخبار نے جاپان کی مسجد بننے پر حضور انور کا انٹرویو کیا 699 براہین احمدیہ کے چار حصے روحانی خزائن حضرت غلام رسول صاحب کا 1894ء حالات حاضرہ کے متعلق جماعت میں لاہور میں مولوی عبد المنان صاحب کی جلد 1 میں ہیں براہین احمدیہ حصہ پنجم 742 سے ترمذی شریف پڑھنا 193 احمدیہ کو اہم ہدایات تشخيذ الا ذبان 325 حقائق الفرقان (جلد 4) اسلام اور رسول اللہ سی اینم کی فضیلت کا تفسیر حضرت مسیح موعود 354،44 بیان براہین احمدیہ ضمیمه بعض اہم اور ضروری امور 750 تفسیر کبیر 400 حقیقة الوحی 147 165.159.158.157 394 58،54، 88،64، 146،97،91 ، ایک مولوی کے نشان مانگنے پر حضرت اقدس کا 173، 176 ، 179 ، 318، 320 | فرمانا کہ میری کتاب حقیقۃ الوحی دیکھ 87،84، 89 بعض ایسے بھی علماء ہیں جو تفسیر کبیر پڑھ لو...ت، ج رہے ہوتے ہیں تاریخ احمدیت جلد 10 میں حضرت خلیفہ تقریر سیالکوٹ ثانی کے عہد میں پوپ کو تبلیغ اسلام کا ذکر 52 253 108 حکومت وقت اور احمدی مسلمان 461 55 56 خدام الاحمدیہ سے خطاب 167 خطابات شوری 120
خطبات مسرور جلد 13 خطبات محمود 85،68،67،65،64،63،60،56، 95، ست بچن 105 کتابیات س ، ع میاں نظام الدین صاحب کا کہنا کہ 156 جدھر قرآن ادھر میں 172 میاں نظام الدین صاحب کا مولوی محمد 100،98، 101، 104 ،106 ،119108، سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں حسین بٹالوی سے حیات مسیح کے بارہ 121 122 ، 125 ، 126 ، 138 ، 139 ، کا جواب 147،146، 172،149، 174 ، 316، 321 ، سراج منیر.348.347.341.334.328.325 خلافت را شده دعوة الامير دار قطنی در ثمین کا اثر سرمه چشم آرید 349، 351، 375، 377 | سیرت المہدی 125 3 میں دس آیات قرآن کا مطالبہ 172 746 | قرآن جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے 172 742 اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں رسول 403 اللہ صلی لی ایم کا نام نور رکھا ہے 306 نوع انسان کے لئے روئے زمین پراب سیرت مسیح موعود از مصلح موعود 86، 90 کوئی کتاب نہیں مگر قرآن 310 84 عصمت انبیاء ق،کگ 191 190 دعوئی مصلح موعود کے متعلق پرشوکت قرآن کریم اعلان دی سائٹ (اخبار) 133.114 410 قرآن کریم کے پہلے ترجمہ کا چھپوا نا 323 دین کی تکمیل کے لئے صرف تم (رسول اللہ ) میرے مخاطب ہو 327 قرآن کریم میں کہیں نہیں ملتا کہ رمضان کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے اپنا آخری جمعہ بہت اہمیت کا حامل ہے 421 ایک فرستادہ بھیجنے کا بھی اعلان فرمایا 105 قرآن شریف کے مطابق غاصب لوگوں کی نہایت مکمل کتاب ہے 107 ، 108 نمازیں ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں 424 (Die Zeit) میں حضور کا انٹرویو چھپا 366 حسن عبداللہ صاحب کو قرآن کریم سے بار بار قرآن شریف کو پڑھو........427 ڈر بہت محبت تھی 112 ایک ویڈیو میں افریقن مولوی کا بڑی عمر خدا تعالی کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے 12 کے لوگوں کو قرآن پڑھانا اور غلطی ہونے ڈیلی اساہی Daily Asahi) حضرت عیسی کے متعلق قرآن کریم اس اخبار نے جاپان میں مسجد بننے پر خبر شائع کی روحانی خزائن 701 میں آیت 129 حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میرا پرسوٹیوں سے مارنا 447 جاپان کی ایک خاتون کا تین سال میں قرآن ختم کرنا 447 حافظہ اس قسم کا ہے کہ قرآن کریم کی وہ اصل چیز یہی ہے کہ قرآن کریم سے ایسی سورتیں بھی جو روز پڑھتا ہوں...146 محبت ہو کہ اس میں ڈوب کر اسے پڑھا آجکل روحانی خزائن پر ان پڑھ مولویوں میاں نظام الدین صاحب کا حضرت جائے 447 کے کہنے کی وجہ سے بین ہے 290 مسیح موعود سے کہنا کہ اگر قرآن سے حیات مسیح مسلمانوں کی اکثریت قرآن پڑھنا ریویو آف ریلیچنز 44 ثابت ہو جائے 170 نہیں جانتی 448
خطبات مسرور جلد 13 106 کتابیات افریقہ میں مبلغین کو بہت سے ایسے حوالہ سے کچھ بیان کریں لوگوں کو اپنے لوم 348 مواقع پیش آتے ہیں جہاں نئے سرے سوالات کے جواب مل جاتے ہیں 620 سے قرآن کریم پڑھانا پڑتا ہے نئے قرآن کریم کے ترجمہ سمیت ہزاروں کی لیکچر سیالکوٹ سرے سے قرآن کریم کیا بلکہ ابتدا سے تعداد میں جماعت کی طرف سے لیکچر سیالکوٹ میں اسلام کے آنے کی قاعدہ پڑھانا پڑتا ہے.تو ان لوگوں کو جاپانیوں کے لئے ان کی زبان میں لٹریچر ضرورت کا بیان بھی قرآن کریم پڑھانا ہے 448 تیار ہو رہا ہے قرآن کریم پڑھانے والے استادوں کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم کے حوالہ سے اسلام کی تعلیم بیان کرنا 706 اس طریق سے پڑھانا چاہئے کہ قرآن کریم پڑھنے کا شوق پیدا ہو 448 یہ نہیں سوچنا کہ اگر قاری کی طرح تلاوت | 693 قرآن کریم کا جبر سے دین میں شامل نہ کرنے کا اعلان 749 مائی نیچی شم بن اخبار نے جاپان میں مسجد بننے پر خبر شائع کی صحیح مسلم 701 388.382.162.86.42.11.8 733 حضرت مسیح موعود کی غلامی میں آکر ہی رسالہ مشکوۃ نہیں ہوتی تو قرآن ہی چھوڑ دیں 448 قرآن اور اسلام کی حفاظت میں ہم حصہ اس رسالہ میں مکرم مولوی عبد القادر حضرت ام طاہر کے والد کو قرآن پڑھنے دار بن سکتے ہیں اور پڑھانے کا بہت شوق تھا 448 734 نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی ہر ایک قرآن کریم کی محبت کی وجہ سے کتاب نہیں مگر قرآن اسے بہترین رنگ میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہے 450 صاحب دہلوی کا ایک مضمون چھپا 51 748 ملاپ (روزنامه) 461 قومی ترقی کے دو اہم اصول 327 میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق افریقہ میں ایک جگہ بک سٹال پر قرآن کتاب البریہ کریم کی نمائش ہوں 132.130.124.116 550 کتاب البریہ میں رسول اللہ کے معجزات کا مجموعہ اشتہارات (جلد 1) 403 746 مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس ایک ڈچ مسلمان کا جماعت کی طرف سے بیان شائع شدہ قرآن کریم پہلی مرتبہ دیکھنا 551 کشتی نوح 399.389.11 کینیڈا میں بک سٹال پر قرآن کریم دیکھ کر کشتی نوح میں رسول اللہ اور قرآن کریم انگریز میاں بیوی کا استفسار اور ان کو کی فضیلت قرآن کریم کا تعارف کا واقعہ 552 کنز العمال | 748 399.41 اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی کیتھولک ہیرالڈ (Catholic Herald) کی کی حکمت مسند احمد بن حنبل 49.382.330.329.13.10.6 401.399.397.383 522 مکتوبات احمد (جلد 1) 48،47،43 میں دعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی جلسہ سالانہ یو کے 2015 ء کی کور پیج دعا کے آداب بھی بتا دیئے ہیں 615 اخبار گارڈین نے کمال آفتاب صاحب کو ملفوظات حضرت مسیح موعود بتادیئے | حضور ایدہ اللہ تعالیٰ جہاں بھی قرآن کے 2014ء کے Volunteer of the | Year کا اعزاز دیا 488.45.15.14.13.12.9.8.7.5
خطبات مسرور جلد 13 314،140،84،71،70،61،60، نورالدین 107 353،352،345،315، 375، 379، عبد الغفور مرتد کی کتاب ترک اسلام کے 385، 389، 395، 396 ، 400، 402 ، جواب میں نور الدین شائع ہوئی 140 416،414،404 ہدایتة المقتصد نه کتابیات ہفنگٹن پوسٹ (Huffington Post ) میں جلسہ سالانہ یو کے 2015ء کے بارہ میں دو آرٹیکل 522 ہند سماچار ی 461 مولوی احمد ثاقب صاحب مرحوم نے ہدایت تو می اوری (The Daily Yomiuri) المجتہد کے ایک حصہ کا اردوترجمہ کیا جو ہدایۃ اخبار نے جاپان میں مسجد بننے پر خبر شائع نزول المسیح 13، 384 المقتصد کے نام سے شائع ہوا المقتصد کے نام سے شائع ہوا 390 کی نسیم دعوت نور الحق حصہ اول 749 745 ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے 700 World crisis and the pathway to peace 358 168