Language: UR
خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده امام جماعت احمدیه عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز $2014 جلد 12
فہرست خطبات مسرور 2014ء جلد 12 نمبر شمار خطبه فرموده 1 2 3 4 خطبه جمعه فرموده 3 / جنوری خطبه جمعه فرموده 10 /جنوری | 19 خطبہ جمعہ فرموده 17 / جنوری 31 خطبه جمعه فرموده 24 جنوری 43 5 6 7 8 9 10 11 12 LO خطبه جمعه فرموده 31 جنوری 58 خطبه جمعه فرموده 07 فروری خطبه جمعه فرموده 14 فروری خطبه جمعه فرموده 21 فروری | 106 15 1 16 17 18 19 20 71 21 87 22 خطبه جمعه فرموده 28 فروری 121 خطبه جمعه فرموده 7 / مارچ خطبه جمعه فرموده 14 / مارچ 154 خطبه جمعه فرموده 21 / مارچ 13 113 خطبه جمعه فرموده 28 / مارچ 14 خطبه جمعه فرموده 4/ اپریل 24 137 25 26 167 184 201 صفحہ نمبر شمار خطبه فرموده صفحہ خطبہ جمعہ فرموده 11 / اپریل 218 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 / اپریل 234 خطبه جمعه فرموده 25 / اپریل 248 خطبه جمعه فرموده 02 مئی خطبه جمعه فرموده 09 مئی خطبه جمعه فرموده 16 رمئی خطبه جمعه فرموده 23 رمئی 23 گه شه یه خطبہ جمعہ فرموده 30 رمئی خطبه جمعه فرموده 16 جون 265 280 293 311 324 342 خطبه جمعه فرموده 13 / جون 356 خطبه جمعه فرموده 20 جون 369 / خطبه جمعه فرموده 27 جون 388 27 خطبہ جمعہ فرمودہ 04 / جولائی 407 28 خطبہ جمعہ فرموده 11 / جولائی 420
نمبر شمار خطبه فرموده صفحہ نمبر شمار خطبه فرموده 23 29 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جولائی 438 30 خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 452 / 31 32 خطبه جمعه فرموده 01/اگست | 465 32 خطبه جمعه فرموده 08 اگست | 481 33 40 34 35 36 37 38 39 40 33 خطبه جمعه فرموده 15 / اگست | 493 خطبه جمعه فرموده 22 اگست 506 خطبه جمعه فرموده 29 / اگست 518 خطبه جمعه فرموده 05 ستمبر خطبہ جمعہ فرموده 12 / ستمبر | 550 خطبه جمعه فرموده 19 ستمبر خطبه جمعه فرموده 26 ستمبر خطبه جمعه فرموده 03/اکتوبر 589 41 42 43 44 45 46 47 48 528 49 50 564 557 51 577 62 52 صفح خطبه جمعه فرموده 10 اکتوبر | 606 خطبه جمعه فرموده 17 /اکتوبر خطبه جمعه فرموده 24 /اکتوبر خطبه جمعه فرموده 31 را کتوبر خطبه جمعه فرموده 07 / نومبر خطبه جمعه فرموده 14 / نومبر خطبه جمعه فرموده 21 / نومبر خطبه جمعه فرموده 28 / نومبر خطبه جمعه فرموده 15 دسمبر 619 631 649 660 682 700 716 727 خطبه جمعه فرموده 12 / دسمبر 739 خطبه جمعه فرموده 19 / دسمبر خطبه جمعه فرموده 26 دسمبر 754 767
خطبات مسرور جلد 12 1 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت رز امرو احمدخلیفہ مسیح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014 ء بمطابق 03 صلح 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سب سے پہلے تو میں آج آپ کو اور دنیا میں پھیلے ہوئے تمام احمدیوں کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں.مجھے اداروں کی طرف سے بھی ، جماعتوں کی طرف سے بھی ، افراد کی طرف سے بھی مبارکباد کے پیغام آ رہے ہیں.ان سب کو مبارک ہو اور جماعت کو مبارک ہو اور اس دعا کے ساتھ یہ مبارکباد ہے کہ اللہ تعالی محض اور محض اپنے فضل سے پہلے سے بڑھ کر اس سال کو اپنی رحمتوں ،فضلوں اور برکتوں کا سال بنا دے.اور یہ دعا ہر احمدی کی یقینا ہے اور ہونی چاہئے.اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں ، برکتوں اور رحمتوں کی خواہش اور دعا کئے بغیر یہ مبارکباد دیتے ہیں تو صرف رسماً مبارکباد دینا تو بے فائدہ ہے اور دنیا داروں کی باتیں ہیں.لیکن یہ خواہش بھی بے کار ہو گی اور دعا بھی لا حاصل ہو گی اگر ہم اپنی اُن صلاحیتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے بروئے کار نہ لائیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں ودیعت فرمائی ہوئی ہیں.اُن باتوں پر عمل کرنے کی کوشش نہ کریں جن پر عمل کرنے کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے.ہمارا صرف نئے سال کی رات کو اجتماعی نفل پڑھ لینا کافی نہیں ہے، اگر ہمیں ان نوافل کی ادائیگی کے ساتھ یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ اب ہم نے حتی الوسع یہ کوشش کرنی ہے کہ نوافل کی ادائیگی کرتے رہیں.اپنی عبادت کے معیار کو بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بہتر بنانا ہے اور اپنی عملی زندگی میں ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے کی کوشش کرنی ہے.اگر اس سوچ کے ساتھ ہم نے دودن پہلے اپنے نئے سال کا آغاز کیا ہے اور ایک دوسرے کو مبارکباد میں دے رہے ہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کے
خطبات مسر در جلد 12 2 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء فضلوں، رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنے والوں میں شمار ہوں گے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کی یہ سوچ ہو.اگر نہیں ہے تو خدا کرے کہ ہماری یہ سوچ ہو جائے.یہی سوچ ہے جو اللہ تعالیٰ کے گزشتہ فضلوں کا بھی شکر گزار بناتی ہے.اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے ہم پر جو احسانات اور انعامات کئے ہیں ، اُن پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بناتی ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور ہمارا خالص ہو کر جھکنا ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے.پس یہ روح ہے جو ہماری ان مبارکبادوں کے پیچھے کارفرما ہونی چاہئے.جب ہم گزشتہ سال کا جائزہ لیتے ہیں تو جماعتی لحاظ سے جہاں بعض مشکلات بھی ہیں لیکن پھر بھی 2013 ء کا سال ہمیں اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل دکھاتا ہوا نظر آتا ہے.پس اگر ہم نے یہ فضل جاری رکھنے ہیں تو عاجزی، محنت اور دعا کے ساتھ ان فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.خاص طور پر اُن لوگوں کو جن کے سپر د بعض جماعتی خدمات ہوئی ہوئی ہیں.وہ خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھیں کہ یہ فضل جذب کرنے کے لئے ہمیں عاجزی، انکساری اور دعا اور محنت کی ضرورت ہے.بعض لوگ اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمیں جماعت میں اتنے عہدوں پر کام کرنے کی تو فیق مل رہی ہے.بے شک یہ فقرہ اُن کے منہ سے نکلتا ہے کہ کام کرنے کی توفیق مل رہی ہے لیکن اس کام کی توفیق کا حق تب ادا ہو گا جب ذہن کے کسی گوشے میں بھی عہدہ کا تصور پیدا نہ ہو بلکہ خدمت دین کا تصور پیدا ہو.خدمت دین کو اک فضل الہی سمجھیں.یہ خیال دل میں رہے.اپنی انا، فخر اور رعونت اور اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر سمجھنے کا خیال بھی دل میں پیدا نہ ہو.جولوگ اس سوچ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور عاجزی کو ہر وقت اپنے سامنے رکھتے ہیں، اُن کے کاموں میں اللہ تعالیٰ پھر بے انتہا برکت بھی ڈالتا ہے.اُن کے ساتھ کام کرنے والے بھی بھر پور طریق سے اُن کے مددگار بن کر جماعتی خدمات سرانجام دے رہے ہوتے ہیں اور افراد جماعت بھی اُن کی ہر بات کو دل کی خوشی سے قبول کر رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے تمام عہد یدار یا خدمت سر انجام دینے والے بھی اپنے آپ میں یہ عاجزی، انکساری، اخلاص، محنت اور دعا کی حالت پیدا کرنے والے ہوں اور پہلے سے بڑھ کر پیدا کرنے والے ہوں.اور جب یہ ہوگا تو تبھی وہ یقیناً خلیفہ وقت کے بھی سلطان نصیر بننے والے ہوں گے.اور افراد جماعت بھی وفا کے ساتھ سلسلہ کے کاموں کو ہر دوسرے کام پر مقدم کرنے والے ہوں تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے ہمیشہ دیکھتے چلے جانے والے ہوں.
خطبات مسرور جلد 12 3 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ ہمارا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانا ہے.اُس کام کو آگے بڑھانا ہے جو اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلانے کا آپ کے سپرد ہوا ہے.بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اکٹھا کرنا ہے.دنیا کو خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنانا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام جماعت سر انجام دے رہی ہے.مشنز کی تعمیر ، مساجد کی تعمیر تبلیغ کا کام لٹریچر کی تیاری اور اشاعت ،مبلغین اور مربیان کو تیار کرنا اور میدانِ عمل میں بھیجنا، یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کر رہی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا، اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہماری زندگی کا مقصد عبادت کرنا ہے.اور ایک مسلمان مرد پر نماز با جماعت فرض ہے اور باجماعت نماز کے لئے مساجد اور مناسب جگہوں کی تعمیر اور انتظام بھی بڑا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار فضل گزشتہ سال جماعت پر فرمائے ، ان میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا فضل ہے کہ دنیا میں ہمیں مساجد بنانے کی توفیق ملی اور مساجد کو آباد کرنے کی توفیق ملی.گو کہ یورپ میں بھی اور آسٹریلیا میں بھی ، فارایسٹ (Far East) میں بھی اور باقی علاقوں میں بھی لیکن افریقہ اور انڈیا میں خاص طور پر اس سلسلے میں بہت کام ہوا ہے.اس کا مختصر جائزہ بھی میں پیش کر دیتا ہوں.2013ء کے سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 136 با قاعدہ مساجد اور انڈیا میں بعض چھوٹے چھوٹے گاؤں میں فوری طور پر لکڑی اور ٹین سے عارضی مسجدیں یا شیڈ (Shed) بنائے گئے ہیں ان کی تعداد 22 تھی.اور 258 نئی مساجد ملیں.یہ مساجد اس طرح ملیں کہ تبلیغ کا جو کام جماعت کر رہی ہے، اُس کے ذریعہ سے جو ائمہ جماعت میں شامل ہوئے اُن کے ساتھ اُن کی مساجد بھی آئیں اور لوگ بھی شامل ہوئے.جیسا کہ میں نے کہا زیادہ کام افریقہ اور انڈیا میں ہوا ہے.158 مساجد کی جو میں نے بات کی ہے ان میں سے 102 با قاعدہ مساجد افریقہ میں بنی ہیں اور انڈیا میں مسجد کے لئے 22 شیڈ (Shed) اس لئے بنائے گئے ہیں تا کہ فوری ضرورت پوری ہو.اور افریقہ میں اس وقت 41 مساجد زیر تعمیر ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس سال باقی ممالک میں بھی مسجدیں تعمیر ہوئیں اور ہو بھی رہی ہیں.اسی طرح مشن ہاؤسز ہیں.121 مشن ہاؤسز ، مرکز تعمیر ہوئے جن میں سے 77 افریقہ میں اور پانچ انڈیا میں.انڈیا بھی کافی وسیع ملک ہے اور افریقہ تو بر اعظم ہے.اُس میں بھی ایسٹ اور ویسٹ میں زیادہ تر ہمارے چھ ، سات، آٹھ ممالک ہیں، جہاں جماعت پھیل رہی ہے اور بڑی تیزی سے وہاں کام ہو رہا ہے.پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ ہمارا کام اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہے.اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کا پر چار کرنا ہے تاکہ دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پتہ چلے اور ہمارے مبلغین اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 12 4 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء کے فضل سے یہ کام کر رہے ہیں.اور اس کے علاوہ جب مختلف ممالک میں میرے دورے ہوتے ہیں تو اُن کے ذریعہ سے بھی ایک حد تک جماعت کا تعارف ہوتا ہے.اسلام کی تعلیم کا دنیا کو پتہ چلتا ہے اور پھر اس تعارف کو بڑھاتے ہوئے جو مبلغین ہیں، ان میں بعض تو ایسے ہیں جو مستقل ملکی اخباروں میں کالم لکھتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو میرے خطبات کے حوالے سے اخباروں میں اسلام کی تعلیم کے بارے میں مستقل کالم لکھ رہے ہیں.تو یہ پیغام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہا ہے اور گزشتہ سال میں اس کو بہت زیادہ وسعت ملی ہے.دورے کی میں نے بات کی ہے.پہلے دوروں کے بعد میں بتا بھی چکا ہوں کہ امریکہ میں جو میں نے پچھلے سال دورے کئے اُس میں مجموعی طور پر بارہ ملین سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچا.کینیڈا کے دورے میں دو شہروں کے دورے کئے اور ساڑھے آٹھ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا.ان دونوں ممالک میں اس طرح مجموعی طور پر تقریباً دو کروڑ افراد تک پیغام پہنچا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس لحاظ سے بھی بے شمار فضل ہیں کہ احمدیت کا پیغام پہنچانے کے نئے سے نئے راستے کھل رہے ہیں.میرے دوروں کے ذریعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ پیغام پہنچانے کے نئے راستے کھلے ہیں اور اُنہیں پھر مبلغین نے مزید وسعت دی ہے.جو active مبلغ ہیں اُن کو ایک لگن ہے، وہ پھر اس کام کو آگے بڑھاتے ہیں اور اس میں پھر اُن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیابیاں بھی مل رہی ہیں.اسی طرح جرمنی کے دوروں کے دوران، گزشتہ سال میں نے شاید دو دورے کئے تھے، مساجد کے سنگ بنیاد رکھے اور جلسے میں شامل ہوا تھا تو وہاں اخباروں اور ریڈیو سٹیشنز اور ٹی وی چینلز نے جو کوریج دی ہے وہ صرف جرمنی تک ہی نہیں، بلکہ اُس میں آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کے مشترکہ ٹی وی چینل بھی تھے.اور اس طرح مجموعی طور پر جو جرمنی کے سفر ہوئے ان میں چار ملین افراد تک پیغام پہنچا.پھر سنگا پور ہے، آسٹریلیا ہے، نیوزی لینڈ ہے، جاپان ہے.ان کے دورے کے دوران وسیع پیمانے پر میڈیا نے کوریج دی اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ تین کروڑ افراد تک پیغام پہنچا.تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.انسانی کوشش سے یہ کبھی نہیں ہوسکتا.انسانی کوشش کا تو یہ حال ہے کہ آسٹریلیا میں جو ہمارے سیکرٹری خارجہ تھے یا پریس کے ساتھ ان کا تعلق تھا، انہوں نے وہاں کا جوصو بائی اخبار تھا اُس کے نمائندے کو ایک انٹرویو لینے کے لئے کہا.اُس نے کہا میں انٹرویو کے لئے آ جاؤں گا اور عین وقت پر اُس نے معذرت کر لی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ اُس نے معذرت کی اور پندرہ
خطبات مسرور جلد 12 5 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء منٹ کے بعد جو وہاں کا نیشنل اخبار ہے اُس سے رابطہ ہوا اور اس طرح لگتا تھا کہ وہ نمائندہ اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ کب مجھے پتہ لگے کہ آسٹریلیا کا میرا دورہ ہے اور کب میں آؤں ، اور پندرہ منٹ کے نوٹس کے بعد وہ پہنچ گیا.تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات اور نصرت کے نظارے ہمیں دکھاتا ہے.ورنہ اُن کو امید نہیں تھی کہ اتنے شارٹ نوٹس پر کوئی نمائندہ آئے گا اور انٹرویو لے گا اور وہ بھی نیشنل اخبار کا نمائندہ اور پھر نیشنل اخبار میں اس کی اشاعت بھی ہو جائے گی.جرمنی کی تاریخ میں بھی پہلی مرتبہ نیشنل ٹی وی پر جماعت کے متعلق خبر نشر کی گئی.آسٹریلیا کے ٹی وی کے نیشنل اور انٹر نیشنل چینل جو ہیں اُن پر خبریں نشر ہوئیں اور جیسا کہ پہلے بھی میں نے بتایا تھا چھیالیس ممالک میں یہ خبر گئی.نیوزی لینڈ کے نیشنل ٹیلیویژن نے خبر دی.اُن کا ماؤری جو قبیلہ ہے اُن کے ٹی وی چینل نے خبریں دیں.جاپان کا ایک اخبار ہے جس کی سرکولیشن بیس ملین یا دو کروڑ ہے، انہوں نے میرا انٹرویو لیا اور خبر دی، پھر یہی نہیں بلکہ انہوں نے بعد میں وہاں کے مشنری انچارج کا بھی انٹرویو لیا اور دوبارہ پھر خبر شائع کی اور اسلام کے متعلق سوالات کئے.اور وہاں جو ہماری مسجد بن رہی ہے، پہلی مسجد ہے، اُس کے بارے میں بھی خبریں شائع کیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی جگہ مل گئی ہے جو بڑی اچھی وسیع جگہ ہے اور ایک ہال بھی اُس میں تعمیر ہوا ہوا ہے.اور اتفاق یہ ہے کہ ہال کا رُخ جو ہے وہ بالکل قبلہ رُخ ہے.اس لئے وہاں اُس کو بدلنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی.بہر حال اس مسجد کے بننے سے جاپان میں بھی اسلام کا تعارف احمدیت کے حوالے سے بڑھ رہا ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ مسجد اور دورے کی وجہ سے صرف یہ نہیں کہ وقتی طور پر توجہ پیدا ہوئی اور قصہ ختم ہو گیا، بلکہ بعد میں بھی وہاں انہوں نے مشنری کا انٹرو یولیا اور اس سے جو پہلے خبریں لگی تھیں یا دی گئی تھیں اُن میں مزید وسعت پیدا ہوئی.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل بے شمار ہیں.ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے دنیا میں میرے دوروں کی وجہ سے اٹھارہ کروڑ چھبیس لاکھ تک احمدیت کا پیغام پہنچا.اسی طرح اس سال میں دس سو اٹھاسی اخبارات کے ذریعہ سولہ کروڑ سے زائد افراد تک پیغام پہنچا.تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے جو اُس نے اتنے وسیع پیمانے پر احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کا انتظام فرمایا.افریقہ کے ممالک میں جو کام ہورہا ہے اس کے علاوہ ہے.وہاں بھی بڑے وسیع پیمانے پر کام ہو رہا ہے.میڈیا کے ذریعہ سے وہاں کروڑوں لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا ہے.گھانا میں وہاں کے سرکاری
خطبات مسر در جلد 12 6 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء ٹی وی نے جو گھانا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کاٹی وی ہے، ہمارے ایم ٹی اے کے پروگرام دینے شروع کئے ہیں.جب 2013ء کا جلسہ ہوا ہے تو اُس کے پروگرام انہوں نے دکھائے اور یہ جو پروگرام ہیں یہ سیٹلائٹ کے ذریعہ گھانا کے علاوہ ہمسایہ ملکوں میں بھی جا رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ غیر معمولی طور پر حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے راستے کھول رہا ہے.اس سال میں جو میری مختلف ریسپشنز ہوئی ہیں اُن میں شامل ہونے والے بھی بڑے متاثر ہوئے.پڑھا لکھا طبقہ جو سیاستدان اور پالیسی بنانے والے تھے اُن کو جب اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتہ چلا تو اُن کے لئے یہ تصور بالکل نیا تھا.جبکہ یہ تصور نہیں، تعلیم ہے اور حقیقت ہے.اُن کے لئے بڑی حیرت والی بات تھی کہ اسلام کی اس طرح کی تعلیم بھی ہے.پس کن کن فضلوں کو انسان گنے.بعض منافق طبع لوگ اس بارے میں یہ بھی باتیں کر دیتے ہیں کہ یہ فلاں کے ذریعہ سے ہوا یا اتنا خرچ کیا گیا تو ہوا.بہر حال جماعت میں چند ایک لوگ ہی ایسے ہیں.نہ تو اس جماعت کے پیغام پہنچانے کے لئے کسی شخص کی ضرورت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور نہ خرچ کیا جاتا ہے جس طرح لوگوں میں بلاوجہ کی افواہیں پھیلانے والے بعض پھیلا دیتے ہیں.تو ایسے لوگوں سے بھی جماعت کے افراد کو ہشیار ہونا چاہئے.یہ منافق لوگ بڑے طریقے سے باتیں کرتے ہیں.اتنے وسیع پیمانے پر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کسی شخص کی کوشش سے یہ کام نہیں ہو سکتا.یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اور اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہتا تو ہم جتنی بھی کوشش کر لیتے یہ بھی نہ ہوتا.بلکہ اب تو میں نے مختلف سفروں میں یہ دیکھا ہے کہ بعض بڑے لوگ ہیں جن سے ملنے کی لوگ بڑی خواہش کرتے ہیں، انہوں نے ملنے کا کہا لیکن میں نے کسی وجہ سے انکار کر دیا تو اُس کے بعد انہوں نے بڑی لجاجت سے بار بار ملنے کی خواہش کی اور ہماری جماعت کے افراد اس بات کے گواہ ہیں.اس لئے یہ وہم کسی کے دل میں آنا کہ کسی کے ملنے سے ہماری جماعت کا پیغام دنیا میں پہنچتا ہے یا کسی شخص کے ذریعہ سے پیغام پہنچتا ہے، یہ انتہائی غلط تصور ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود وعلیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.کسی شخص نے نہیں پہنچانا.پس ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ نہ ہم نے کسی دنیاوی آدمی اور لیڈر سے کچھ لینا ہے، نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے وہی ہمارا مولیٰ ہے اور وہی ہمارا مددگار ہے جو جماعت کی ترقی کے غیر معمولی نظارے ہمیں دکھا رہا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 7 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء افریقہ میں اس ترقی نے نام نہاد علماء اور بعض لیڈروں کو بہت سخت پریشان کیا ہوا ہے.وہ اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ دنیا خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو رہی ہے بلکہ اُن کو یہ فکر ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے یہ لوگ حقیقی مسلمان بن رہے ہیں.گزشتہ دنوں وہاں افریقہ میں بڑی کوشش ہوتی رہی کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے مسلمان بن رہے ہیں.ہم تو جو اسلام پھیلانا چاہتے ہیں وہ تو سختی اور دہشت گردی کا اسلام ہے.یہ لوگ تو مسلمان ہو کے فتنہ وفساد سے دُور ہورہے ہیں.نام نہاد جہاد سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں.اور یہی بات ہے جو ان دنیاوی لیڈروں کو بہت زیادہ پچھتی ہے یا علماء کو چبھتی ہے.ہمارے ٹوگو کے مبلغ بیان کرتے ہیں کہ وہاں آیا کو پے (Ayakope) ایک جگہ ہے اُس کے دورے پر گئے تو وہاں کے نو مبائعین نے بتایا کہ یہاں کچھ دن پہلے مسلمانوں کا ایک گروہ آیا تھا اور ہمیں کچھ کھانے پینے کی چیزیں دیں اور کہنے لگے کہ ہم آپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں.تو ہم نے کہا آپ ہمیں دعوت دے رہے ہیں یا لالچ دے رہے ہیں.ہمیں چیز میں دے کر آپ چاہتے ہیں کہ ہم اسلام قبول کر لیں.ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے پاس جماعت احمدیہ والے آئے تھے اور انہوں نے ہمیں اسلام کی تبلیغ کی اور ہم نے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا ہے اور ہمیں کسی قسم کا لالچی بھی نہیں دیا اور وہ اب ہمیں یہ خوبصورت تعلیم سکھا بھی رہے ہیں.ہمارے بچوں کو نمازیں بھی پڑھنا سکھا رہے ہیں، قرآن کریم پڑھنا بھی سکھا رہے ہیں.اس لئے ہم آپ سے یہ چیزیں نہیں لیں گے.آپ یہ چیز میں واپس لے جائیں.آپ جو اسلام پیش کر رہے ہیں ہم اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں.ہم تو اُس حقیقی اسلام کو قبول کریں گے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور جس کی تبلیغ آج جماعت احمد یہ کر رہی ہے.اور اس کے بعد پھر وہ ایمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھے ہیں.اب اُن نو مبائعین نے وہاں اپنی ایک مسجد بھی بنالی ہے.اسی طرح مبلغ نائیجر لکھتے ہیں.برنی کوئی شہر میں ایک چھوٹا سا گاؤں بٹورو ( Botoro) ہے، وہاں جب تبلیغ کی گئی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ گاؤں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا.فوری طور پر بچوں کے لئے میسر نا القرآن کلاسز جاری کر دی گئیں.امام صاحب کا ریفریشر کورس جاری کر دیا گیا اور تربیتی پروگرام بنائے گئے.جب یہ اطلاع وہاں وہابی مولوی، امام تک پہنچی تو فوری طور پر وہ مولویوں کا ایک گروپ لے کر اس گاؤں میں پہنچ گیا اور تقریر شروع کر دی کہ یہ کافر ہیں.آپ جماعت کا انکار کر دیں.
خطبات مسرور جلد 12 8 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء ہم آپ کو مسجد بھی بنا کے دے دیں گے.گاؤں کے چیف نے اُسے کہا کہ میں پیدائشی مسلمان ہوں اور اب عمر کے آخری حصہ میں ہوں.میں نے کبھی اپنے گاؤں کی بچی کو قرآن کریم پڑھتے اور اسلامی باتیں کرتے نہیں دیکھا.مگر یہ جماعت احمدیہ کی برکت ہے کہ میری چھوٹی بچیاں مجھے دعا ئیں اور حدیثیں سناتی ہیں.اس لئے اس پہلی دفعہ کی تو میں تمہیں معافی دیتا ہوں جو تم شور مچارہے ہو.اگر آئندہ ادھر کا رخ کیا تو گاؤں کے لڑکوں سے تمہاری پٹائی کروا دوں گا.مولویوں نے یہ بات سنی تو فوراً ( ہوتے تو ڈرپوک اور بزدل ہیں) گاڑی میں بیٹھے اور وہاں سے بھاگ گئے.بورکینا فاسو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ بنفور ا ریجن کی ایک جماعت نیا کارا(Niankara) ہے.وہاں کے گاؤں میں دو سو دس افراد ہیں جو اس سال بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے.اس گاؤں کے دو خاندان ایسے ہیں جن کا تعلق انصار دین فرقہ سے ہے.انہوں نے خوب زور لگایا اور انفرادی ملاقاتیں کر کے احمدی افراد کو مجبور کیا کہ جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں اور انصار دین فرقے سے اپنا تعلق جوڑیں.لیکن احمدی افراد نے ان باتوں پر کان نہیں دھرے بلکہ ہمیں بتایا کہ ہم پر بڑا دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ہم جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں.لیکن وہ کہتے ہیں کہ جس قدر احمدیوں کی تبلیغ و تربیت نے ہمیں مطمئن کیا ہے، ہم احمدیت سے الگ ہو کر پھر اندھیروں میں واپس نہیں جانا چاہتے.اور انہوں نے با قاعدہ چندے بھی دینے شروع کر دیئے ہیں.اسی طرح بین کی ایک جماعت کو جر و میدے ہے، چھوٹا سا گاؤں ہے کو جر و میدے (Kodjromede).وہاں کے ایک شخص کریم نامی نے بیعت کی تھی.دو تین ماہ گزرنے کے بعد اس نے مولویوں کے زیر اثر آ کر مخالفت شروع کر دی تو ایک دن معلم نے امیر جماعت کو بتایا کہ اس شخص نے جماعت کے خلاف سخت بد زبانی کی ہے تو انہوں نے اُسے کہا کہ کوئی بات نہیں، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر ایک مرتد ہوگا تو وہ اپنے فضل سے ایک جماعت عطا فرمائے گا.کہتے ہیں کہ اُسی دن یہ معلم صاحب اور امیر صاحب اکونو پے (Akonopey) گاؤں ہے، اُس کا جو بادشاہ ہے، جو چیف ہے وہ مقامی بادشاہ کہلاتے ہیں، اُن کو تبلیغ کرنے گئے تو وہ اللہ کے فضل سے احمدی ہو گیا.پھر ایک واگا(Waga) گاؤں ہے، اُس گاؤں کے بھی دو آدمی وہاں موجود تھے.انہوں نے کہا آپ ہمارے گاؤں میں بھی آئیں اور تبلیغ کریں تو مغرب کی نماز اُن کے گاؤں میں ادا کی اور تبلیغ کی تو بتیس افراد نے احمدیت قبول کر لی.اس طرح گاؤں میں ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا.اور وہی شخص جو بدزبانی کیا کرتا تھا وہ پولیس کو کسی مقدمے
خطبات مسرور جلد 12 9 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء میں مطلوب تھا، اس کی وجہ سے وہ گاؤں چھوڑ کے چلا گیا.پھرنا کیجیریا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ کیمرون کا علاقہ دومبا (Foumban) کثر مسلمانوں کی اکثریت کا علاقہ ہے.پہلی بار وہاں جلسہ یوم خلافت منعقد کیا گیا.ہر سال کی طرح اس سال بھی وہاں کیمرون میں پاکستان سے آنے والے تبلیغی گروپ نے احباب جماعت احمد یہ کونشانہ بنانے کی کوشش کی.جلسہ یومِ خلافت کی خبریں چونکہ ٹی وی اور ریڈیو پر گاہے بگا ہے نشر ہو رہی تھیں اس لئے اُن تک بھی اس کی خبر پہنچ گئی.چنانچہ تبلیغی جماعت کا چومیں افراد پر مشتمل ایک گروپ جس میں دس افراد براستہ کینیا اور پندرہ افراد کیمرون اور چاڈ کے بارڈر کے ذریعہ وہاں آئے.اس شہر میں خدا کے فضل سے اب جماعت کی اکثریت ہے.یہاں کے چیف امام اور اُن کے نائبین امام مع اپنے احباب کے تین سال قبل احمدیت قبول کر چکے ہیں.تو یہ گروپ جو آیا انہوں نے ہمارے معلم کے ذریعہ رابطہ پیدا کیا.یہ وہی معلم صاحب ہیں جن کے ذریعہ سے یہاں جماعت کا پودا لگا تھا، گھر گھر پیغام پہنچا تھا.اُس معلم کی بابت اس تبلیغی جماعتی گروپ نے دریافت کیا.جس پر معلم صاحب کی اہلیہ نے ان کو بتایا کہ معلم صاحب شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں.اس پر یہ لوگ وہاں سے شہر کی سینٹرل مسجد میں پہنچے اور یہ جو مسجد ہے یہ اللہ کے فضل سے بڑی مسجد ہے اور جماعت احمدیہ کی مسجد ہے.یہاں انہوں نے چیف امام سے کہا کہ ہم یہاں تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور آپ سب احباب کو جماعت احمدیہ کے متعلق حقائق بتانا چاہتے ہیں.اس پر ہمارے چیف امام نے ان سے کہا کہ اگر آپ نے جماعت احمدیہ کے خلاف بات کرنی ہے تو میں یہ آپ کو بتادوں کہ یہ مسجد جہاں آپ کھڑے ہیں یہ جماعت احمدیہ کی مسجد ہے اور ہم سب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی مسلمان ہیں.اس لئے آپ کو ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے اور آپ سب احباب یہاں سے جا سکتے ہیں.بہر حال پولیس کو بھی اطلاع کر دی گئی اور انہوں نے اُن کو شہر سے نکال دیا.اسی طرح آج کل ساؤتھ افریقہ میں پاکستانی مولوی اکٹھے ہوئے ہوئے ہیں.پاکستان سے ہیں مولویوں کا ایک گروپ ہے.دہلی انڈیا سے بھی آئے ہوئے ہیں، سعودی عرب سے بھی آئے ہوئے ہیں.ایک گروہ میں وہاں کے مقامی لوگ بھی ہیں.جو مسلم جوڈیشل کونسل کے زیر اہتمام کا نفرنس میں جماعت کی مخالفت میں پروگرام بنارہے ہیں.سیرالیون کی بھی یہی رپورٹ ہے.سیرالیون میں پاکستان سے تبلیغی ملاں اور مصر سے الا زہر یو نیورسٹی کے پڑھے ہوئے ملاں اور سیرالیون سے سعودی عرب جا کر تعلیم حاصل کرنے والے سعودیہ کے
خطبات مسرور جلد 12 10 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء خرچ پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ یہاں پر پہنچے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ تقریباً ہر فلائٹ پر کافی تعداد میں لوگ آرہے ہیں اور شہروں اور دیہاتوں میں جا کر جماعت احمدیہ اور شیعہ احباب کے خلاف لوگوں کو اکساتے ہیں.تو بجائے اس کے کہ تبلیغ کریں، صرف فتنہ و فساد پیدا کرنا ( مقصد ) ہے.بلکہ اب وہاں ایک افریقہ عرب summit میں بہت بڑی رقمیں افریقہ کے لئے بھی اور خاص طور پر سیرالیون کے لئے بھی ، ان کی ترقی کے نام پر اور سکول کھولنے کے نام پر مخصوص کی گئی ہیں، اور یہ باتیں اخباروں میں وہاں آ رہی ہیں کہ یہ بنا کے دیں گے، وہ بنا کے دیں گے.لیکن ہمیشہ کی طرح، پہلے بھی کئی دفعہ اس طرح ہو چکا ہے کہ جاتے ہیں، پیسوں کا اعلان کرتے ہیں، اُس کے بعد یا امداد آتی نہیں، یا آپس میں کھاپی جاتے ہیں اور قصہ ختم ہو جاتا ہے.اور یہی انشاء اللہ تعالیٰ اس کا بھی انجام ہوگا.بہر حال جوں جوں جماعت ترقی کر رہی ہے، جوں جوں اللہ تعالیٰ کے فضل ہورہے ہیں، یہ مخالفتیں بھی تیز ہورہی ہیں اور ہوں گی.ان کی ہمیں کوئی فکر نہیں ہے، نہ ہونی چاہئے.آخر کار ان کی تقدیر میں نا کامی اور نا مرادی لکھی ہوئی ہے.لیکن ہمیں جس بات کی فکر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے ، ان مخالفتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم اپنے ایمانوں میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی پیدا کریں.پہلے سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود د علیہ الصلواۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کی کوشش کریں.پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ دیں.دعاؤں کے ساتھ اس سال کو بھر دیں، درود و استغفار پر اس قدر توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم پر رحمت کی نظر ڈالتے ہوئے اپنے فضلوں کو ہم پر وسیع تر کرتا چلا جائے.دشمن کے مکروں کو اُن پر الٹا دے.ہر مخالف کو اور ہر مخالفت کو ہوا میں اُڑا دے.اللہ تعالیٰ کے فضل پہلے سے بڑھ کر ہم پر نازل ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے.کہ جو کچھ ہو گا.دعاء ، ہی کے ذریعہ سے ہوگا.ہمارا ہتھیار تو دعاء ہی ہے.اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں‘.( سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ 518-519) پس یہی ہتھیار ہے جو ہم نے بھی استعمال کرنا ہے.اللہ کرے کہ ہم اس کو صحیح طور پر استعمال کرنے والے ہوں.آج جنوری کا پہلا جمعہ ہے اور روایت کے مطابق وقف جدید کے نئے سال کا اعلان بھی اس
خطبات مسرور جلد 12 11 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء جمعہ کو ہوتا ہے اور گزشتہ سال میں اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہوئے ہیں، جو وقف جدید کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے کئے اور کر رہا ہے، اُن کا ذکر بھی ہوتا ہے.کچھ کا تو میں نے ذکر کیا ہے.افریقہ میں وقف جدید کے چندے کا بہت سا استعمال ہوتا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس چندے کی رقم بھی وہاں تبلیغی میدان میں آگے بڑھنے کا، مسجدیں بنانے کا اور دوسری چیزیں کرنے کا ایک ذریعہ بن رہی ہے.پس اب میں اس ضمن میں مزید میں کچھ کہوں گا.جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وقف جدید کی تحریک پہلے صرف پاکستان میں ہوتی تھی اور خلافت رابعہ کے وقت میں پاکستان سے باہر کی جماعتوں میں یہ تحریک کی گئی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے کی تاکہ افریقہ اور بھارت میں جماعت کے کاموں کو مزید وسعت دی جائے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال میں افریقہ اور بھارت میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر ہوئی اور کچھ خریدے بھی گئے ہیں، اس کے علاوہ تبلیغی سرگرمیاں ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں سعید روحوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی.بیشک ان ممالک میں رہنے والے احمدی بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق غیر معمولی طور پر مالی قربانیاں کر رہے ہیں لیکن اُن کی غربت کی وجہ سے وہ اتنی زیادہ قربانی نہیں کر سکتے کہ تمام اخراجات پورے کر سکیں.اس لئے امیر ملکوں کا جو چندہ وقف جدید ہے، یہ خاص طور پر افریقہ اور بھارت میں خرچ کیا جاتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ ان ملکوں کے لوگ بھی ایک جذبے کے تحت چندے دیتے ہیں.ہمارے گنی کنا کری کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک احمدی نوجوان محمد ساکو نے بتایا کہ میری شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی اور گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ شادی کی تیاریاں کی جاسکیں اور جہاں سے رقم آنے کی امید تھی، وہاں سے مسلسل مایوسی ہو رہی تھی.اس دوران چندوں کا مطالبہ ہوا تو جو تم گھر میں موجود تھی وہ چندے میں ادا کر دی.اس پر اس کی منگیتر نے بڑا شور مچایا کہ یہ تم نے کیا کیا.جو معمولی رقم تھی وہ چندے میں دے دی.تو یہ نو جوان کہتے ہیں کہ میں نے اُسے کہا کہ خدا کے فضل سے میں ایک ایماندار شخص ہوں اور خدا پر یقین رکھنے والا شخص ہوں اس لئے گھبراؤ نہیں، اللہ تعالیٰ خود ہماری مددفرمادے گا اور خدا کی راہ میں دیا ہوا کبھی ضائع نہیں ہوتا.کہتے ہیں کہ اگلے روز ہی جب وہ کام پر گئے تو اُن کو وہ ساری رقم مل گئی جو ایک لمبے عرصے سے رکی ہوئی تھی.اور جب شام کو گھر لا کر انہوں نے دی تو لوگ حیران رہ گئے کہ کس طرح (اتنی ) جلدی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.پھر قربانی کے بھی یہ لوگ کیسے کیسے ذریعے اختیار کرتے ہیں.بینن سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ
خطبات مسرور جلد 12 12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء سال کے شروع میں ان کے ریجن کو تو نو کے اٹلانٹک ایریا میں اس قدر بارشیں ہوئیں کہ لوگوں کی فصلیں تباہ ہوگئیں اور وہاں قحط سالی کا سال بن گیا.سب کچھ ڈوب گیا.افراد کے پاس چندہ تو کیا کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں بچا.اس صورت حال میں تبدیلی کے لئے انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھا، اور پھر وہاں کی ایک جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ہماری فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، دیہاتی جماعتیں تو چندہ اُسی پر دیتی ہیں، تو اس بار ہم یوں کریں گے کہ جو فصلیں ہم لگائیں گے اُس میں ایک پلاٹ یا کھیت یا جو کچھ فصل ہے اس میں وہ جماعتی فصل بھی لگائیں گے تا کہ وہ ساری کی ساری چندے پر چلی جائے.اس کے بعد انہوں نے وہ فصل لگائی اور خدا تعالیٰ نے اُس میں اتنی برکت ڈالی کہ اُس میں سے تقریباً گیارہ ہزار آٹھ سوفرانک اُن کو آمد ہوئی جو انہوں نے چندے میں دے دی.اسی طرح گیمبیا کی ایک خاتون کہتی ہیں کہ جب محصل ان سے چندہ لینے ان کے گھر آیا تو وہ بار بار گھر کے اندر جاتیں اور اپنے ہر بچے کی طرف سے بھی کچھ نہ کچھ چندے کی رقم لے آتیں.مبلغ نے بتایا کہ یہ دیکھ کر اُن کے بچے بھی اندر گئے اور اپنے گلوں سے جو بھی معمولی رقم نکلی وہ پیش کر دی اور کہتے تھے کہ ہم کیوں ثواب سے پیچھے رہیں.تو اس طرح اللہ تعالیٰ بچوں کے دلوں میں بھی چندوں کی اہمیت ڈالتا ہے.اسی طرح گیمبیا کی ایک نو مبائعہ ہیں، وہ کپڑا دھونے کا صابن لینے جا رہی تھی تو رستے میں اُسے معلوم ہوا کہ اس طرح چندوں کی تحریک ہوئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ہر شخص چندہ دے چاہے وہ تھوڑ اسا ہی دے.اس پر انہوں نے وہ جو پیسے تھے وہ (چندہ میں ) دے دیئے اور کہہ دیا کہ صابن کا انتظام اللہ تعالیٰ آپ ہی کر دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسا انتظام کیا کہ دو دن کے بعد اُن کے ہاں ایک مہمان آیا اور صابن کا پورا کارٹن اُن کو تحفہ دے گیا.اسی طرح بین کی ایک خاتون جو بڑی چُھپ کے نیکیاں بجالانے والی ہیں اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں.اُن کا چندہ بھی خاصا معیاری تھا مگر پھر بھی سال کے اختتام پر ان سے جب رابطہ کیا گیا تو وہ سنتے ہی اپنے اوپر خدا کے فضلوں کو گنے لگیں اور اپنی طرف سے مزید ایک لاکھ فرانک سیفا چندہ دے دیا.اس دوران جب اُنہیں بتایا گیا کہ ان کے فلاں بیٹے کی طرف سے بھی چندے کا انتظار ہے تو فوراً اُس کی طرف سے بھی تیس ہزار ادا کر دیئے.بیٹی کاعلم ہوا تو ان کی طرف سے بھی خود ہی دینے لگیں.اسی طرح جب اُن کو بتایا گیا کہ آپ کی ایک بیٹی کا معمولی چندہ باقی ہے تو وہ بھی اُنہوں نے ادا کر دیا.تو اس طرح کے لوگ بھی ہیں جو اپنی تمام خواہشات کو ختم کر کے چندوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اُس کی ادائیگی کرتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء اسی طرح تنزانیہ کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ جو ناد ہند تھے ، اُن کو جب کہا گیا تو انہوں نے فوراً اپنے چندے دینے شروع کر دیئے.اُن کی ضروریات زیادہ تھیں لیکن بعضوں نے ضروریات کو پس پشت ڈالا اور چندوں کی طرف توجہ دی.امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ ہمارے معلم عبد القادر نے چندے کی تحریک کی اور اس کی اہمیت میں بتایا کہ چندہ دینے میں بڑی برکت ہوتی ہے.وہاں کے امام صاحب بڑے غریب آدمی تھے.سائیکل خریدنے کی بھی اُن میں استطاعت نہیں تھی، اُس نے پوچھا کتنا چندہ چاہئے.معلم صاحب نے بتایا کہ جو اللہ نے توفیق دی ہے.اُس کے مطابق دے دیں.لیکن یہ بتایا کہ جو بھی آپ نے دینا ہے کوشش کریں کہ پھر اُس میں کمی نہ آئے.امام صاحب نے ایک ہزار فرانک ادا کر دیا.اور کہتے ہیں ساتھ ہی دل میں یہ سوچا کہ اگر چندے سے برکت والی بات درست ہے تو خدا تعالیٰ اب اس کو سائیکل کے بجائے موٹر سائیکل دے گا.چنانچہ ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں موٹر سائیکل خریدنے کی توفیق عطا فرمائی اور ایک ہزار چندے کی بجائے انہوں نے پینسٹھ ہزار فرانک چندہ ادا کیا.اسی طرح ہریانہ میں ایک احمدی جن کا بجٹ بارہ ہزار روپیہ تھا.انہیں چندے کی اہمیت کا بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ میری تنخواہ تو پچاس ہزار روپیہ ماہانہ ہے.اس لئے اس کے مطابق بجٹ تیار کریں.چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق ادائیگی شروع کر دی.پھر انڈیا کے ایک انسپکٹر وقف جدید لکھتے ہیں کہ جموں کشمیر کی ایک خاتون سکول ٹیچر ہیں.پورے علاقے میں ان کا چندہ وقف جدید سب سے زیادہ ہے.اپنی آمد کے لحاظ سے ان کا یہ طریق ہے کہ جب بھی نیا بجٹ بنتا ہے تو پوچھتی ہیں کہ خلیفہ وقت کی طرف سے کیا بجٹ مقرر کیا گیا ہے.جب بتایا جاتا ہے تو پہلے سے بڑھ کر وعدہ لکھواتی ہیں اور اپنی اولین فرصت میں اُس کو ادا بھی کر دیتی ہیں.اس سال بھی انہوں نے اپنا وعدہ لکھوایا اور اپنے خاوند مرحوم کی جانب سے بیس ہزار روپے مزید بھی ادا کئے.پھر وہاں کے انسپکٹر وقف جدید لکھتے ہیں کہ آسنور جماعت کے ایک شخص خواجہ صاحب ہیں.جب بھی ان کے پاس چندہ لینے کے لئے گئے تو وہ کوئی نہ کوئی واقعہ اپنی ترقی کا سناتے.اس مرتبہ اُن کے پاس گئے تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بہت سے غریب دوستوں کو کاروبارسکھایا اور اب وہ لوگ مجھ سے کاروبار میں بہت مقابلہ کرتے ہیں.تو انہوں نے کہا کہ وہ کاروبار کے مقابلے میں تو میرے سامنے آ گئے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے کاروبار میں ترقی دے لیکن کاش کہ وہ چندہ دینے میں مجھ سے مقابلہ کریں.کہتے ہیں
خطبات مسرور جلد 12 14 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء میر امال تو جب منڈی میں پہنچتا ہے، اگر ریٹ کم بھی ہوتو اللہ تعالیٰ خود بخو داس کا اچھا ریٹ مہیا کر دیتا ہے.تو عورتوں اور مردوں کے بے شمار واقعات ہیں جو مالی قربانیوں کے ہیں اور جس سے چندے کی اہمیت اُن پر واضح ہوتی ہے.یہ صرف باہر کے لوگوں کی امداد پر گزارہ نہیں کر رہے بلکہ خود بھی بہت قربانیاں دے رہے ہیں.اور حتی الوسع یہ لوگ بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ، جیسا کہ ان واقعات سے بھی ظاہر ہے اور یہ سب کچھ ایک احمدی کی اُس روح کے تحت ہے جس کی قرآنِ کریم نے مالی قربانی کے ضمن میں ہمیں تعلیم دی ہے.اور جس کی اہمیت حضرت مسیح موعود وعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانے میں بیان فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے.اسی واسطے علم تعبیر الرویاء میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دے دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے.یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لیے فرمایا.لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران: 93) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے.کیونکہ مخلوق الہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے.اور ابنائے جنس اور مخلوق خدا کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے.جس کے بڑوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا.جب تک انسان ایثار نہ کرے دُوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے.دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثا ر ضروری شئے ہے.اور اس آیت میں لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے.ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی میں لہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی.اور وہ کل اثاث البيت لے کر حاضر ہو گئے.“ 66 ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 95-96) اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں اور اس روح کو سمجھنے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے.اب گزشتہ سال کا جو جائزہ ہے وہ پیش کرتا ہوں جو چھپن واں سال تھا اور 2014ء کا ستاون واں سال شروع ہو رہا ہے اس کا بھی اعلان کرتا ہوں.گزشتہ سال میں جو چھپن واں سال تھا اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں چون لاکھ
خطبات مسرور جلد 12 15 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء چوراسی ہزار پاؤنڈ کی مالی قربانی جماعت نے پیش کی اور یہ گزشتہ سال کے مقابلے پر چار لاکھ چھیاسٹھ ہزار پاؤنڈ زیادہ تھی.اور اس سال برطانیہ کی پوزیشن نمبر ایک ہے.اس دفعہ برطانیہ کی پوزیشن نمبر ایک سے مراد یہ ہے کہ پہلے میں پاکستان کی بات کیا کرتا تھا اور پاکستان کو نکال کے پوزیشنیں بتایا کرتا تھا.اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ کی پوزیشن پاکستان سے اوپر ہے اور پاکستان کو نکال کے جو یہ مقابلہ ہوتا تھا اب اس لحاظ سے برطانیہ نمبر ایک آ گیا.پھر پاکستان نمبر دو، پھر امریکہ پھر جرمنی پھر کینیڈا پھر ہندوستان پھر آسٹریلیا پھر انڈونیشیا پھر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے اور پھر بیلجیم.اللہ تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ نے اس سال جو وصولی کی ہے وہ نمایاں اضافے کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ تمام چندہ دینے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.امریکہ اور جرمنی تو اس سے اب بہت پیچھے ہیں.ان کو بہت کوشش کرنی پڑے گی اگر انہوں نے آگے نکلنا ہے.اور ان کو بھی اس کو maintain رکھنے کے لئے بڑی کوشش کرنی پڑے گی کیونکہ جو چھلانگ لگائی ہے ،لگتا ہے بہت اونچی چھلانگ لگا دی ہے.بعض لوگ شاید مجھے مشورہ دیں کہ ایک دفعہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے زمانے میں بھی پاکستان شاید چندہ تحریک جدید میں نمبر دو پر آیا تھا تو انہوں نے باہر والوں کو تحریک کی تھی کہ آپ کے جو عزیز رشتہ دار ہیں آپ اُن کو جو رقم بھیجتے ہیں وہ زائد دے دیں اور چندے کے لئے بھی بھیج دیا کریں.اس لئے شاید مجھے یہ مشورہ آئے کہ آپ بھی اس طرح کریں تا کہ پاکستان کا نمبر قائم رہے.میں یہ نہیں کہوں گا.جونمبر جس کو اللہ تعالیٰ نے دے دیا وہی قائم رہے.اب کوشش ہے اپنی کہ کون کون کس طرح کوشش کرتا ہے.لیکن اس لحاظ سے پاکستان کا یہ نمبر بھی بہر حال اُن کا ایک مقام ہے کہ ایک تو وہاں کی کرنسی وہاں کے حالات کی وجہ سے انتہائی devalue ہو چکی ہے اور اُس کے باوجود انہوں نے بڑی قربانی دی ہے.اس کے علاوہ عمومی طور پر جو پاکستان کے حالات ہیں کہ کاروبار ختم ہو چکے ہیں.پھر پاکستان میں جو احمدی ہیں، اُن کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں.اس کے باوجود قربانیوں میں ان کا بڑا نمایاں کردار ہے.اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے.اُن کی مشکلات کو دور فرمائے.اُن کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے.ذراسی بھی آسانیاں پیدا ہو گئیں تو جس جذبے کے تحت پاکستان کے احمدی چندہ دیتے ہیں کوئی بعید نہیں کہ وہ خود ہی اگلے سال بغیر کسی بیرونی امداد کے آگے نکل جائیں.لیکن بہر حال برطانیہ نے بھی جو چھلانگ لگائی ہے اللہ تعالیٰ اس کو یہ اعزاز مبارک کرے اور سیکرٹری صاحب وقف جدید او را میر صاحب کو اب زیادہ دعاؤں اور کوشش کرنے کی ضرورت ہوگی.
خطبات مسرور جلد 12 16 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء اُس کے بعد بڑی جماعتوں میں فی کس ادائیگی کے مطابق پہلے تو مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے.پھر امریکہ ہے.پھر سوئٹزرلینڈ ہے.امریکہ کا چندہ 83 پاؤنڈ فی کس ہے.نمبر ایک کا 93 پاؤنڈ فی کس ہے.سوئٹزرلینڈ کا 61 پاؤنڈ ہے.بیلجیم کا 47 پاؤنڈ یو کے کا 45 پاؤنڈ.تعداد کے لحاظ سے لگتا ہے ان میں اضافہ ہوا ہے.اسی لئے ان کا یہ چندہ بڑھ گیا.آسٹریلیا 39 پاؤنڈ.فرانس 38 پاؤنڈ.کینیڈا 32 پاؤنڈ.جاپان 30 پاؤنڈ.سنگاپور، جرمنی اور ناروے 29 پاؤنڈ.شاملین کی تعداد بھی دس لاکھ چوالیس ہزار سات سو میں ہے.اس تعداد میں زیادہ تر افریقہ کے نومبائعین اور بچے شامل ہوئے ہیں.لیکن آئندہ سے افریقہ والے بھی یہ نوٹ کریں کہ جنہوں نے چندے دیئے ہیں، چاہے کوئی دس پینس دینے والا ہی ہو وہ اپنی فہرستیں بھجوایا کریں تا کہ ایک دفعہ پتہ لگے کہ تعداد کے لحاظ سے کس کس جماعت کا کتنا ہے.شاملین کی تعداد میں اضافے کے اعتبار سے بورکینا فاسو، بینن، سیرالیون، گیمبیا، نائیجر، آئیوری کوسٹ ، تنزانیہ کی جماعتیں زیادہ آگے ہیں.مجموعی وصولی کے لحاظ سے نائیجر یا سب سے آگے ہے، پھر گھانا ہے، پھر ماریشس ہے.پاکستان میں پوزیشن کے لحاظ سے جو پہلی تین جماعتیں جو ہیں ان میں اول لا ہور ہے.پھر دوئم ربوہ ہے.سوم کراچی ہے.چندہ بالغان میں اضلاع کی پوزیشن جو ہے اُس میں سیالکوٹ نمبر ایک ہے، پھر راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ، گجرات ، ملتان، نارووال اور حیدرآباد.دفتر اطفال میں تین بڑی جماعتیں جو ہیں ان میں اول لاہور ہے، دوم کراچی ہے، سوم ربوہ ہے اور اطفال میں اضلاع کی پوزیشن کے لحاظ سے سیالکوٹ نمبر ایک ہے، پھر راولپنڈی ہے، مردوں میں بھی اور بچوں میں بھی مطلب بالغان میں بھی اور بچوں میں بھی سیالکوٹ نمبر ایک ہی ہے.اور پھر راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، گجرات ، نارووال، ملتان، ننکانہ صاحب.مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں برمنگھم ویسٹ ہے جلنگھم ہے، رینز پارک ہے، مسجد فضل ہے، ووسٹر پارک ہے، ہونسلو نارتھ ، پھر ومبلڈن ہے، بریڈ فورڈ ساؤتھ ہے، باہم ہے، پھر نیومولڈن ہے.اور ریجن کے لحاظ سے پہلا نمبر مڈل سیکس.پھر ساؤتھ لندن، پھر مڈلینڈ اور نارتھ ایسٹ ہے.مجموعی وصولی کے لحاظ سے چھوٹی جماعتیں سپن ویلی، براملے اینڈ ایملوشم، ڈیون اینڈ کارنوال اور نارتھ ہیمپٹن ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 17 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء (وصولی کے لحاظ سے ) امریکہ کی دس جماعتیں.لاس اینجلس ان لینڈ امپائر، سلیکون ویلی، ڈیٹرائٹ ، سیاٹل، لاس اینجلس ایسٹ، سینٹرل جرسی ، سلور سپرنگ،سینٹرل ورجینیا، ڈیلس اور بوسٹن ہیں.(وصولی کے لحاظ سے ) جرمنی کی پانچ لوکل امارات میں ہمبرگ نمبر ایک پھر فرینکفرٹ، گر اس گراؤ ،ڈامسٹڈ اور ویز بادن.وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی دس جماعتیں روئڈر مارک پہلی ، پھر نیدا، پھر فیڈ برگ، مائنز ، فولڈا، نوکس ، راؤن ہیم سیوڈ کوبلنز ، ہنوفر اور کولون ہیں.وصولی کے لحاظ سے) کینیڈا کی بڑی جماعتیں کیلگری، پیس ویج ، وان اور وینکوور جبکہ کینیڈا کی چھوٹی جماعتیں.ایڈمنٹن.ڈرہم.آٹوا.سکاٹون ساؤتھ اور ملٹن ہیں.مجموعی وصولی کے لحاظ سے بھارت کے صوبہ جات میں نمبر ایک کیرالہ.پھر جموں کشمیر پھر آندھرا پردیش، تامل ناڈو، ویسٹ بنگال، اڑیسہ، کرناٹک، قادیان پنجاب ،مہاراشٹرا ، دہلی ، اتر پردیش.وصولی کے لحاظ سے انڈیا کی پہلی جماعتیں کیرولائی ، کالی کٹ، کینانور ٹاؤن،حیدرآباد، قادیان، کولکتہ، چنائی، پینگاڈی ، بنگلور، رشی نگر، پر تھما پر یم میںتھو تم اور کیرنگ ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کو بے انتہا نوازے.نمازوں کے بعد ایک جنازہ بھی میں پڑھاؤں گا.یہ مکرم یوسف لطیف صاحب بوسٹن امریکہ کا ہے.23 ستمبر 2013ء کو یہ 93 سال کی عمر میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ 1920ء میں پیدا ہوئے تھے.19اکتوبر 1920ء کو ٹینیسی کی اسٹیٹ میں پیدا ہوئے تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب پڑھنے کے بعد 1948 ء میں بیعت کی توفیق ملی.افریقن امریکن احمدی تھے.ان کا شمارا بتدائی افریقن امریکن احمد یوں میں ہوتا ہے.اکثر کہا کرتے تھے کہ اس وقت میرا فرض بنتا تھا کہ میں بیعت کروں.اگر نہ کرتا تو میں خدا تعالیٰ اور سچائی سے اپنا منہ موڑنے والا ہوتا.آپ نے ایجو کیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی.مختلف یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر پڑھاتے رہے.مختلف کتب کے مصنف بھی تھے جن میں آپ کی اپنی سوانح بھی شامل ہے.ان کی قد آور شخصیت کی وجہ سے ان کی وفات کی خبر یکدم امریکہ اور ساری دنیا میں پھیل گئی اور امریکہ کے تمام بڑے بڑے اخبارات میں شائع ہوئی.صدر کلنٹن نے جب اُنہیں وائٹ ہاؤس میں دعوت پر بلایا تھا تو وہاں اگر چہ یہ پاکستانی نہیں تھے اور افریقن امریکن تھے لیکن شلوار قمیض
خطبات مسرور جلد 12 18 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 جنوری 2014ء پہن کر گئے تھے.انہوں نے اپنے پیشے میں سب سے اونچا ایوارڈ حاصل کیا جو نوبل پرائز کے برابر تھا.چونکہ احمدی تھے اس لئے دین پر کبھی کمپرومائز (compromise) نہیں کیا.موسیقی کے اوپر انہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن کبھی ایسی جگہوں پر، ایسے فنکشنوں میں کبھی شامل نہیں ہوتے تھے جہاں شراب وغیرہ ہو.آپ کو حج اور عمرے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.مالی قربانی اور چندہ جات میں غیر معمولی قربانی پیش کرتے.لوکل سیکرٹری مال کہتے ہیں کہ ان کی عادت تھی کہ مہینے کے دوران جب بھی ان کو تنخواہ کا چیک ملتا تو سب سے پہلے اپنے لازمی چندہ جات ادا کرتے تھے اور آپ کہا کرتے تھے کہ مجھے آج بھی اتنا ہی یقین ہے جتنا اُس وقت تھا جب میں نے بیعت کی کہ احمدیت کا راستہ سچائی کا راستہ ہے اور یہ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ تھا.مجھے یقین ہے کہ اس راستہ پر چلنے والا کوئی شخص تباہ نہیں ہوسکتا.اور مجھے یقین ہے کہ اس راستے پر چلنے سے میں اور میرا خاندان نجات پا جائیں گے.اور میرا ایمان ہے کہ احمدیت تمام انسانوں میں بھائی چارہ پیدا کرنے کی تعلیم پیش کرتی ہے.آپ کو قادیان اور بوہ کی زیارت کا بھی موقع ملا.لندن بھی گزشتہ سال جلسہ پر آئے ہوئے تھے.خلافت سے ان کو والہانہ محبت تھی.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کو بھی ملے ہوئے ہیں.حضرت خلیفہ رابع کو بھی اور مجھے بھی ملے تھے.جلسہ پر جب آئے ہیں تو بیمار تھے.ویل چیئر پر ہی تھے.بہت نیک اور نمازوں کے پابند تھے.نماز جمعہ کی ادائیگی میں با قاعدہ تھے.نہایت شفیق اور ہر ایک سے پیار و محبت کا سلوک کرنے والے مخلص انسان تھے.احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت دوستوں سے بھی بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے.لمبا عرصہ ان کو مختلف حیثیتوں سے جماعتی خدمتوں کی توفیق ملی.دعوت الی اللہ کا بہت شوق رکھتے تھے.جماعتی لٹریچر اپنے ہمسایوں اور رشتے داروں اور دوستوں میں تقسیم کیا کرتے تھے.جیب میں ہمہ وقت کچھ فلائرز وغیرہ رکھتے اور جہاز میں اپنے ہم سفروں میں تقسیم کرتے اپنے خرچ پر نا بینا افراد کے لئے ” اسلامی اصول کی فلاسفی اور بچوں کی تربیت کے متعلق کتب انہوں نے شائع کیں.مرحوم موصی تھے.ان کے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ عائشہ لطیف صاحبہ اور ایک بیٹا مکرم یوسف لطیف صاحب بھی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 24 جنوری 2014 ء تا30 جنوری 2014ءجلد 21 شماره 04صفحہ 05تا10 )
خطبات مسرور جلد 12 19 2 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014 ء بمطابق 10 صلح 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ دو جمعوں سے پہلے میں نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے خطبات کی روشنی میں چند خطبے عملی اصلاح کے بارے میں دیئے تھے اور بعض اسباب بیان کئے تھے جو عملی اصلاح میں روک کا باعث بنتے ہیں اور یہ بھی ذکر ہو گیا تھا کہ اگر ہم نے من حیث الجماعت اپنی عملی اصلاح کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں تو ان روکوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے.اور یہ بات بھی واضح کر دی گئی تھی کہ عمل کے متعلق ہماری روکیں عقائد کی روکوں سے زیادہ سخت ہیں.اس حوالے سے آج میں مزید کچھ کہوں گا.ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن اور بعثت کا مقصد صرف عقائد کی اصلاح کرنا نہیں تھا.آپ نے واضح فرمایا ہے کہ بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے اس چیز کے لئے آپ تشریف لائے ہیں.بندے کا ایک دوسرے کے حق ادا کرنا بھی ایک مقصد ہے اور یہ سب باتیں اعمال پر منحصر ہیں.نیک اعمال بجالا کر خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا ہوتا ہے اور بندوں کا بھی حق ادا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا تھا، پہلے بھی میں کئی دفعہ یہ چیزیں بیان کر چکا ہوں.فرمایا کہ یاد رکھو کہ صرف لفاظی اور استانی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ عمل نہ ہو.“ 66 ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 77) پھر ایک موقع پر فرمایا: ”اپنے ایمانوں کو وزن کرو.عمل ایمان کا زیور ہے.اگر انسان کی عملی
خطبات مسرور جلد 12 20 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء حالت درست نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 375 376) پس اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن میں کارآمد ہونا ہے.آپ کے مقصد کو پورا کرنے والا بننا ہے تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی روکوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کرے.کیونکہ یہ عملی اصلاح ہی دوسروں کی توجہ ہماری طرف پھیرے گی اور نتیجہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی تکمیل میں ممد و معاون بن سکیں گے.پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس کے حصول کے لئے ہم نے کیا کرنا ہے؟ کیونکہ ہمارے غالب آنے کا ایک بہت بڑا ہتھیار عملی اصلاح بھی ہے.ہماری اپنی اصلاح سے ہی ہمارے اندر وہ قوت پیدا ہو گی جس سے دوسروں کی اصلاح ہم کر سکیں گے.ہمارے غالب آنے کا مقصد کسی کو ماتحت کرنا اور دنیاوی مقاصد حاصل کر نا تو نہیں ہے.بلکہ دنیا کے دل اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر ڈالنا ہے.لیکن اگر ہمارے اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے تو دنیا کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہماری باتیں سنے.پس ہمیں اپنی عملی قوتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور پھر مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے.خود دوسروں سے مرعوب ہونے کی بجائے دنیا کو مرعوب کرنے کی ضرورت ہے آجکل جبکہ دنیا میں لوگ دنیا داری اور مادیت سے مرعوب ہو رہے ہیں ہمیں پہلے سے بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اور یہ نظریں رکھتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا کے رعب سے نکالنے کی ضرورت ہے.اور دنیا کو بھی ان شیطانی حالتوں سے نکالنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہم بن سکیں اور دنیا کی اکثر آبادی بن سکے.لیکن اس کے راستے میں بہت سی روکیں ہیں.اس کے لئے ہم نے اپنے اندر ایسی طاقت پیدا کرنی ہے کہ ان روکوں کو دور کر سکیں.ہمیں دنیا کے مقابلے کے لئے بعض قواعد تجویز کرنے ہوں گے جو ہم میں سے ہر ایک اپنے اوپر لاگو کرے اور پھر اُس کی پابندی کرے.اس کے لئے ہمیں اپنے نفسوں کی قربانی دینی ہوگی اور ایک ماحول پیدا کرنا ہوگا.جب تک ہمیں یہ حاصل نہیں ہوتا، ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.جیسا کہ میں گزشتہ ایک خطبہ میں بتا چکا ہوں.آجکل دنیا سمٹ کر قریب تر ہوگئی ہے.گویا ایک شہر بن گئی ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے ایک محلہ بن گئی ہے.ہزاروں میل دور کی برائی بھی ہر گھر میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ پہنچ گئی ہے اور ہر ملک کی جو خواہ ہزاروں میل دور ہے، اچھائی بھی ہر گھر تک پہنچ گئی ہے.
خطبات مسرور جلد 12 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء مجموعی لحاظ سے ہم دیکھیں تو برائی کے پھیلنے کی شرح اچھائی کے پھیلنے کی نسبت بہت زیادہ تیز ہے.پھر جیسا کہ میں پہلے بھی کئی موقعوں پر ذکر کر چکا ہوں اچھائی اور برائی کا معیار بدل گیا ہے.ایک چیز جو اسلامی معاشرے میں برائی ہے، دنیا دار معاشرے میں جواب تقریباً لا مذہب معاشرہ ہے، اس میں وہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو ہم برائی سمجھتے ہیں.یہ ان کے نزدیک بہت معمولی سی چیز ہے بلکہ اچھائی سمجھی جانے لگی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثال دی ہے کہ مغربی معاشرے میں ناچ کا رواج ہے.یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تو اتناعام نہیں تھا یا کم از کم اس کے لئے خاص جگہوں پر جانا پڑتا تھا.آجکل توٹی وی اور انٹرنیٹ نے ہر جگہ یہ پہنچا دیا ہے اور بعض گھروں میں ہی تفریح کے نام پر ناچ کے اڈے بن گئے ہیں.اور بعض گھر یلو فنکشنز پر بھی یہ ناچ وغیرہ ہوتے ہیں.خاص طور پر شادیوں کے موقع پر تفریح اور خوشی کے نام پر بیہودہ ناچ کئے جاتے ہیں.ایک احمدی گھر کو اس سے بالکل پاک ہونا چاہئے.اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.بہر حال میں حضرت مصلح موعود کے حوالے سے بات کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ اب مغربی ملکوں میں ناچ کا رواج ہے مگر پہلے اسے لوگ برا سمجھتے تھے.اب آہستہ آہستہ اسے لوگوں نے اختیار کرنا شروع کر دیا.پہلے عورت مرد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ناچتے تھے.پھر ایک دوسرے کے قریب منہ کر کے ناچنے لگے اور پھر یہ فاصلے کم ہونے لگے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 432 خطبه فرمودہ 3 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ) جیسا کہ میں نے کہا کہ اب تو ناچ کے نام پر بیہودگی کی کوئی حد نہیں رہی.ننگے لباسوں میں ٹی وی پر ناچ کئے جاتے ہیں.یہ کیوں پھیلا ؟ صرف اس لئے کہ برائی پھیلانے والے باوجود دنیا کے شور مچانے کے کہ یہ برائی ہے، برائی پھیلانے پر استقلال سے قائم رہے اور دنیا کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی.آخر ایک وقت میں یہ کامیاب ہو گئے.اب تو پاکستان جو مسلمان ملک ہے اُس کے ٹی وی پر بھی تفریح کے نام پر، آزادی کے نام پر بیہودگیاں نظر آتی ہیں، ننگ نظر آتا ہے.گویا برائی اپنے استقلال کی وجہ سے دنیا کے ذہنوں پر حاوی ہوگئی ہے.پس اس کے مقابلے پر آنے کے لئے بہت بڑی منصوبہ بندی اور قربانی کی ضرورت ہے.اگر یہ نہ ہوئی تو پھر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.پس بہت سوچنے اور غور کرنے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے.اُن چیزوں کو اپنانے کی ضرورت ہے جن کو اپنا کر ہم یہ روکیں دُور کر سکتے ہیں.جن کو استعمال میں لا کر ہمارے اندر یہ روکیں دور کرنے کی
خطبات مسرور جلد 12 22 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء طاقت پیدا ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے ہم برائیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں.اس کے حصول کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے عمدہ رنگ میں وضاحت فرمائی ہے کہ اگر عملی اصلاح کے لئے یہ باتیں انسان میں پیدا ہو جا ئیں تو بھی کامیابی مل سکتی ہے اور یہ تین چیزیں ہیں.نمبر ایک قوتِ ارادی نمبر دو صحیح اور پورا علم.اور نمبر تین قوت عملی.لیکن اصل بنیادی قو تیں دو ہیں.قوتِ ارادی اور قوت عملی.جو چیز ان دونوں کے درمیان میں رکھی گئی ہے یعنی صحیح اور پورا علم ہونا ، یہ دونوں بنیادی قوتوں پر اثر ڈالتی ہے.علم کا صحیح ہونا قوت عملی پر بھی اثر ڈالتا ہے اور قوت ارادی پر بھی اثر ڈالتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 440 خطبه فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ ) بہر حال پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ قوت ارادی اور قوت عملی ہی دو بنیادی چیزیں ہیں جو عملی اصلاح پر اثر انداز ہوتی ہیں.اس کے لئے ہمیں قوتِ ارادی کو زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے.اور قوت عملی کے نقص کو دور کرنے کی ضرورت ہے.ہمارا ارادہ اگر کسی برائی کو روکنے کا مضبوط ہو تو تبھی وہ برائیاں رک سکتی ہیں اور ارادے کی مضبوطی اُس وقت کام آئے گی جب عمل کرنے کی جو قوت ہے، ہمارے اندر جو طاقت ہے، اُس کی جو کمزوری ہے اُس کو دُور کریں، اُس کے نقص کو دُور کریں.اس کے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی.اس پہلو سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ہماری قوت ارادی کیسی ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جہاں تک ارادے کا تعلق ہے اس میں بہت کم نقص ہے کیونکہ ارادے کے طور پر جماعت کے تمام یا اکثر افراد ہی تقریبا یہ چاہتے ہیں کہ ان میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو.وہ اسلامی احکام کی اشاعت کر سکیں.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کا قرب حاصل کر سکیں.حضرت مصلح موعود نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ہماری قوتِ ارادی تو مضبوط ہے اور طاقتور ہے پھر بھی نتائج صحیح نہیں نکلتے تو پھر یقینا دو باتوں میں سے ایک بات ہے.یا تو یہ کہ عمل کے لئے حقیقی قوت ارادی جو چاہئے ، اتنی ہمارے اندر نہیں ہے لیکن عقیدے کی اصلاح کے لئے جتنی قوت ارادی کی ضرورت تھی وہ ہم میں موجود تھی.اس لئے عقیدے کی تو اصلاح ہوگئی لیکن عملی اصلاح کے لئے چونکہ قوت ارادی کی ضرورت تھی ، وہ ہم میں موجود نہیں تھی، اس لئے ہم اعمال کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکے.اور پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہماری عبودیت میں بھی کچھ نقص ہے.خدا تعالیٰ کی یہ بندگی جس کا ہم دعوی کرتے ہیں اُس میں بھی کچھ نقص ہے
خطبات مسرور جلد 12 23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء اور اس وجہ سے قوت عملی مفلوج ہو گئی ہے اور قوت ارادی کے اثر کو قبول نہیں کر رہی.یعنی ہماری عمل کی قوت مفلوج ہوگئی ہے اور قوت ارادی کا اثر قبول نہیں کر رہی.یا ان باتوں کو قبول کرنے کے لئے جن معاونوں کی یا جن مددگاروں کی ضرورت ہے اُن میں کمزوری ہے.اس صورت میں ہم جب تک قوت متاثرہ یا عملی قوت کا یا اثر لے کر کسی کام کو کرنے والی قوت کا علاج نہ کر لیں کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.مثلاً ایک طالبعلم ہے، وہ اپنا سبق یاد کرتا ہے مگر یاد نہیں رکھ سکتا.اُس کا جب تک ذہن درست نہیں کر لیا جاتا اُس وقت تک اُسے خواہ کتنا سبق دیا جائے، کتنی ہی بار اُسے یاد کروایا جائے یا یاد کرانے کی کوشش کی جائے ، وہ اُسے یاد نہیں رکھ سکے گا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 435 436 خطبه فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ) پس ذہن کو درست کرنے کے لئے وجوہات معلوم کرنی ہوں گی تا کہ صحیح رہنمائی ہو سکے، یا پھر سبق یاد کروانے کا طریق بدلنا ہوگا.پاکستان میں یہ رواج ہے کہ رقما لگا کر ہر چیز یاد کر لی ، چاہے سمجھ آئے ، نہ آئے اور اس طرح وہاں پڑھنے والے بہت سے طالبعلم تیاری کرتے ہیں، اس میں اُن کو بڑی مہارت ہوتی ہے، ایک ایک لفظ کتاب کا بعضوں کو یاد ہو جاتا ہے.لیکن جب یہاں مغربی ممالک کی پڑھائی کے نظام میں آتے ہیں تو یہاں کیونکہ طریقہ کار مختلف ہے، ہر چیز کوسمجھ کر پڑھنا پڑتا ہے، اس لئے بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں کم نمبر لینے والے یہاں بہتر نمبر لے لیتے ہیں، جلد ہی اپنے آپ کو اس نظام میں ڈھال لیتے ہیں.اور وہاں زیادہ نمبر لینے والے یہاں آکر کم نمبر لیتے ہیں.ربوہ میں ہمارے جماعتی سکولوں کو جب بعض مجبوریوں کی وجہ سے حکومت کے بورڈوں سے علیحدہ کر کے آغا خان بورڈ کے ساتھ منسلک کیا گیا، رجسٹر کروایا گیا تو وہاں کیونکہ امتحان کا طریق مختلف تھا، اس لئے بہت سے طلباء نے لکھا کہ ہم جتنے نمبر عام پاکستانی نظام تعلیم جو ہے اُس کے امتحانات میں لیتے تھے ایسا نہیں ہے، اب نہیں لے سک رہے اور ہمیں سمجھ بھی نہیں آتی کہ کیا ہو گیا ہے؟ تو بعض دفعہ صرف ذہن کی بات نہیں ہوتی.ذہن اگر صحیح بھی ہو تو اچھی طرح یاد نہیں ہوتا.یہ صرف ذہن کی کمزوری نہیں ہوتی بلکہ اور بھی وجوہات ہو جاتی ہیں اور اگر ذہن بھی کمزور ہو تو پھر بالکل ہی مشکل پڑ جاتی ہے، یاد کروانے کے طریقے بدلنے پڑتے ہیں.یہاں ایسے کمزور ذہن بچوں کے لئے بھی خاص سکول ہوتے ہیں، اُن کو تو جہ دیتے ہیں اور بعض دفعہ وہی کمزور ذہن بچے پڑھائی میں بڑے اچھے بچے نکل آتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء بہر حال عملی طریق بھی جو ہے وہ پریشان کر دیتا ہے اور اگر اُس صحیح طریق کو اپنا یا نہ جائے تو کامیابی نہیں ملتی.پس جو عملی طریق کسی کام کرنے کے لئے تجویز ہوا ہے، دماغ کو بھی اُس کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں.پس ہمیں اپنی عملی اصلاح کی حالتوں کے لئے بھی اس طرف دیکھنا ہو گا.ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری نیکی کے ارادے دماغ کے اس حصے پر کیوں اثر نہیں کرتے جس پر اثر ہونے کے نتیجہ میں عملی اصلاح شروع ہو جاتی ہے.ہمیں ان روکوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اس رستے میں حائل ہوتی ہیں.پھر دیکھنا ہوگا کہ ہمارے عبودیت کے معیار کیا ہیں؟ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری عملی کوشش میں نیک نیتی اور اخلاص و وفا کتنا ہے.پس دو قسم کی روکیں ہیں جو عملی اصلاح کے راستے میں حائل ہوتی ہیں.ایک قوتِ ارادی میں کمزوری اور دوسری قوت عملی میں کمزوری.لیکن جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ان کے درمیان میں ایک اور صورت بھی عملی اصلاح میں کمی کی ہے اور وہ ہے علمی طور پر کمزوری.یہ دونوں طرف اپنا اثر ڈالتی ہے.ہم عملی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ارادہ بھی علم کے مطابق چلتا ہے اور عمل بھی علم کے مطابق چلتا ہے.اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کسی انسان کو یہ معلوم نہ ہو کہ ایک ہزار کا لشکر اُس کے مکان پر حملہ آور ہونے والا ہے بلکہ صرف اس قدر جانتا ہو کہ کسی نے حملہ کرنا ہے اور ہوسکتا ہے ایک دو آدمی ہوں تو اُس کے لئے وہ تیاری کرتا ہے.لیکن اگر ایسے یہ علم ہو کہ حملہ آور ایک ہزار ہیں تو پھر اس کی تیاری اُس سے مختلف ہوتی ہے.پس علم کی کمی کی وجہ سے نقص پیدا ہو جاتا ہے اور علم کی صحت قوت ارادی کو بڑھا دیتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ انسان کسی چیز کو اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور اُسے ہلکی سمجھتا ہے لیکن وہ بھاری ہوتی ہے، اُٹھا نہیں سکتا.لیکن جب ایک دفعہ اندازہ ہو جائے کہ یہ بھاری ہے تو پھر زیادہ قوت صرف کرتا ہے، زیادہ طاقت لگاتا ہے، اُٹھانے کا طریق بدل لیتا ہے تو پھر اُس کو اُٹھا بھی لیتا ہے.پس کوئی زائد طاقت اُس میں دوسری دفعہ نہیں آئی بلکہ صحیح علم ہونے کی وجہ سے اور صحیح طریق پر طاقت کا استعمال اُس نے کیا تو اس میں کامیاب ہو گیا.پس اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت تو موجود ہے.جب اُس صلاحیت اور طاقت کا استعمال صحیح ہو تو آسانی سے کام ہو جاتا ہے یا بہتر رنگ میں کام ہو جاتا ہے اور یہ علم کی وجہ سے ہوتا ہے.اگر صلاحیت کا صحیح استعمال نہ ہو تو عام معاملات میں بھی نقصان پہنچ جاتا ہے.پس یہاں اسی اصول کو عملی صلاحیت کے استعمال
خطبات مسرور جلد 12 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء اور عملی کمزوری کو دور کرنے کے لئے لگانے کی ضرورت ہے.اور اس کے لئے اپنے علم کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اُس کے مطابق صحیح طاقت کا استعمال کر کے اپنی کمزوریوں پر غالب آیا جا سکے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بات یہ بھی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں ایک قوت مواز نہ رکھی ہے جس سے وہ دو چیزوں کے درمیان مواز نہ کر سکتا ہے.جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں کام کرنے کے لئے اتنی طاقت درکار ہے.اور کیونکہ ساری طاقت انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ دماغ میں محفوظ ہوتی ہے.اس لئے پہلی دفعہ جب ایک کام نہ ہو، جیسے وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی ہے، وزن نہ اُٹھایا جا سکے تو پھر انسان دماغ کو مزید طاقت بھیجنے کے لئے کہتا ہے اور اس طاقت کے آنے پر چیز اُٹھانے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے.اور یہ قوت موازنہ بھی علم کے ذریعہ آتی ہے.خواہ اندرونی علم ہو یا بیرونی علم ہو.اندرونی علم سے مراد مشاہدہ اور تجربہ ہے اور بیرونی علم سے مراد باہر کی آوازیں ہیں جو کان میں پڑتی ہیں.جیسے باہر کے کسی حملے کی مثال دی گئی تھی.باہر کے حملے سے ہوشیار کرنے کے لئے باہر کی آواز میں انسان کو ہوشیار کرتی ہیں.لیکن یہ جو وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی تھی، اس کے لئے قوت موازنہ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ پہلے یہ وزن نہیں اُٹھایا گیا تو اس لئے کہ تم اسے کم وزن سمجھتے تھے، اگر مثلاً دس کلو تھا تو پانچ کلو سمجھتے تھے اور تھوڑی طاقت لگائی تھی.اب اسے اُٹھانے کے لئے دس کلو کی طاقت لگاؤ تو اُٹھا لو گے.اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو جب انسان اس لائحہ عمل کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو قوت موازنہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مجھے اپنی جدو جہد کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے.بعض دفعہ صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان اعمال کی اصلاح نہیں کر سکتا.اور قوتِ موازنہ عدمِ علم کی وجہ سے اُسے صحیح خبر نہیں دیتی کہ اس کی عملی اصلاح کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 437 438 خطبه فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ ) پس قوت موازنہ انسان کو ہوشیار کرتی ہے اور یہی ہے جو عدم علم کی وجہ سے اُسے غافل بھی کرتی ہے.قوت مواز نہ بھی تبھی ہوگی جب کسی چیز کا علم ہو جائے.اگر علم ہوگا تو ہوشیار کرے گی کہ اس کو اس طرح استعمال کر وہ علم نہیں ہوگا تو انسان وہ کام نہیں کر سکتا.اور پھر اسی عدم علم کی وجہ سے یا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان سے گناہ سرزد ہوتے ہیں.چنانچہ ایک بچہ جب ایسے لوگوں میں پرورش پاتا ہے جو گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں یا مستقل ہی مرتکب رہتے ہیں، ہر وقت اُن کی مجلسوں میں یہ ذکر رہتا ہے کہ جھوٹ کے بغیر تو دنیا میں گزارہ نہیں ہوسکتا تو بچے کے ذہن میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ اس زمانے میں جھوٹ کے بغیر
خطبات مسرور جلد 12 26 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء کامیابی حاصل ہو ہی نہیں سکتی.یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں جو اسائلم لینے والے آتے ہیں، وہ پتا نہیں کیوں، اکثریت کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو گئی ہے کہ لمبی کہانی بنائے بغیر اور جھوٹی کہانی بنائے بغیر ہمارے کیس پاس نہیں ہوں گے.حالانکہ کئی مرتبہ میں کہہ چکا ہوں کہ اگر مختصر اور صحیح بات کی جائے تو کیس جلدی پاس ہو جاتے ہیں.ایسی کئی مثالیں میرے سامنے ہیں.کئی لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے سچی اور مختصر سی بات کی ہے اور چند دنوں میں کیس پاس ہو گیا.اس کے لئے تو یہی کافی ہے کہ دماغی ٹارچر اب اُن سے برداشت نہیں ہوتا.جہاں ہر وقت اپنا بھی دھڑکا ہے اور اپنے بچوں کا بھی دھڑکا ہے.بہت ساری پریشانیاں ہیں.سکول نہیں جا سکتے ، سکولوں میں تنگ کئے جاتے ہیں تو اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں.اسی بات پر اکثریت جو کیس ہیں وہ پاس ہو جاتے ہیں.پس سچائی پر قائم رہنا چاہئے اور پھر خدا تعالیٰ پر تو گل بھی کرنا چاہئے.یہ جھوٹی کہانیاں جب بچوں کے سامنے ذکر ہوں کہ ہم نے حج کو یہ کہانی سنائی اور وہ سنائی تو پھر بچے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے میں کوئی گناہ نہیں ہے.اگر جھوٹ نہ بولتے تو شاید ہمارا کیس پاس نہ ہوتا یا ہمیں فائدہ نہ پہنچ سکتا.یہ تصور پیدا ہو جاتا ہے کہ جھوٹ ہی ہے جو تمام ترقیات کی چابی ہے.یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ آجکل بھلا کون ہے جو سچ بولتا ہے.تو یہ سب باتیں بچوں کے ذہنوں میں اپنے بڑوں کی باتیں سن کر پیدا ہوتی ہیں.اور پھر اُن کا علم یہیں محدود ہو جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا ایسی بُری بات نہیں ہے.اور نتیجہ کیا ہو گا پھر؟ نتیجہ ظاہر ہے کہ بڑے ہو کر جہاں جہاں بھی ایسے بچے کو جھوٹ بولنے کا موقع ملے گا وہ اپنی قوت موازنہ سے فیصلہ چاہے گا تو قوت مواز نہ اُسے فوراً یہ فیصلہ دے دے گی کہ خطرہ زیادہ ہے ، جھوٹ بول لو، اس میں کوئی حرج نہیں.اسی طرح غیبت ہے.اگر بچہ اپنے ارد گرد غیبت کرتے دیکھتا ہے کہ تمام لوگ ہی غیبت کر رہے ہیں تو بڑا ہو کر اس کے سامنے جب غیبت کا موقع آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے غیبت کی تو مجھے فائدہ پہنچے گا تو قوت موازنہ اُسے کہتی ہے، تمہارے ارد گرد تمام غیبت کرتے ہیں اگر تم غیبت کر لو تو کیا حرج ہے.گو یا گناہ تو ہے لیکن اتنا بڑا گناہ نہیں.اس بارے میں گزشتہ ایک خطبہ میں بات ہو چکی ہے کہ اصلاح اعمال میں ایک بہت بڑی روک یہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بعض گناہ بڑے ہیں اور بعض چھوٹے گناہ ہیں اور ان کو کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے.اور پھر ان گناہوں کو جب ایک دفعہ انسان کر لے تو چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے.یہاں انسان میں قوتِ موازنہ تو موجود ہوتی ہے مگر اس غلط علم کی وجہ سے جوا سے ماحول نے دیا ہے ، وہ انسان کو اتنی طاقت نہیں دیتی جس
خطبات مسرور جلد 12 27 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء طاقت کے ذریعہ سے وہ گناہوں پر غالب آ سکے.جیسے کہ وزن اُٹھانے کی مثال بیان کی گئی تھی.کمزور طاقت ایک وزن کو اُٹھا نہ سکی لیکن جب دماغ نے زیادہ وزن اُٹھانے کی طاقت بھیجی تو وہی ہاتھ اُس زیادہ وزن کو اُٹھانے کے قابل ہو گیا.لیکن اگر انسان کی قوت موازنہ یہ حکم دماغ کو نہ بھیجتی تو وہ وزن نہ اُٹھا سکتا.اسی طرح گناہوں کو مٹانے میں بھی یہی اصول ہے.گناہوں کو مٹانے کی طاقت انسان میں ہوتی ہے لیکن جب گناہ سامنے آتا ہے اور قوتِ مواز نہ یہ کہہ دیتی ہے کہ اس گناہ میں حرج کیا ہے کہ چھوٹا سا، معمولی سا تو گناہ ہے جب کہ اس کے کرنے سے فائدہ زیادہ حاصل ہوگا تو دماغ پھر گناہ کو مٹانے کی طاقت نہیں بھیجتا.وہ حس مرجاتی ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوتِ ارادی ختم ہو جاتی ہے اور گناہ سرزد ہو جاتا ہے.گویا اصلاح اعمال کے لئے تین چیزوں کی مضبوطی کی ضرورت ہے.ایک قوت ارادی کی مضبوطی کی ضرورت ہے ، ایک علم کی زیادتی کی ضرورت ہے اور ایک قوتِ عملیہ میں طاقت کا پیدا کرنا، یہ بھی ضروری ہے.یہ بھی یادر ہے کہ علم کی زیادتی در حقیقت قوت ارادی کا حصہ ہوتی ہے کیونکہ علم کی زیادتی کے ساتھ قوت ارادی بڑھتی ہے.یا کہہ سکتے ہیں کہ وہ عمل کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے.ان سب باتوں کا خلاصہ یہ بنے گا کہ عملی اصلاح کے لئے ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے، پہلے قوت ارادی کی طاقت کہ وہ بڑے بڑے کام کرنے کی اہل ہو.علم کی زیادتی کہ ہماری قوت ارادی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی رہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اور صحیح کی تائید کرنی ہے اور اُس پر عمل کرنے کے لئے پورا زور لگانا ہے.غفلت میں رہ کر انسان مواقع نہ گنوا دے.تیسرے قوت عملیہ کی طاقت کہ ہمارے اعضاء ہمارے ارادے کے تابع چلیں.بد ارادوں کے نہیں ، نیک ارادوں کے اور اُس کا حکم ماننے سے انکار نہ کریں.یہ باتیں گناہوں سے نکالنے اور اعمال کی اصلاح کا بنیادی ذریعہ ہیں.اپنی قوت ارادی کو ہمیں اُس زبر دست افسر کی طرح بنانا ہو گا جو اپنے حکم کو اپنی طاقت اور قوت اور اصولوں کے مطابق منواتا ہے اور کسی مصلحت کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتا.ہمیں چھوٹے بڑے گناہوں کی اپنی من مانی تعریفیں بنا کر اپنے اوپر غالب آنے سے روکنا ہوگا.صحیح علم ہمیں اُن ناکامیوں سے محفوظ رکھے گا جو قوت موازنہ کی غلطیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جس کی مثال میں دے چکا ہوں کہ حس مرجاتی ہے.چھوٹے اور بڑے گناہوں کے چکر میں انسان رہتا ہے اور پھر اصلاح کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے.اور بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ عدم علم کی وجہ سے قوت ارادی فیصلہ ہی نہیں کر سکتی کہ اُسے کیا کرنا ہے یا کیا کرنا چاہئے.اسی
خطبات مسرور جلد 12 28 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء طرح جب قوت عملیہ مضبوط ہوگی تو وہ قوت ارادی کے ادنیٰ سے ادنی اشارے کو بھی قبول کر لے گی.حضرت مصلح موعود نے ایک نکتہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ یہاں یہ یادرکھنا چاہئے کہ قوت عملیہ کی کمزوری دو طرح کی ہوتی ہے.حقیقی اور غیر حقیقی.غیر حقیقی تو یہ ہے کہ قوت تو موجود ہو لیکن عادت وغیرہ کی وجہ سے زنگ لگ چکا ہو اور حقیقی یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے کے عدم استعمال کی وجہ سے وہ مردہ کی طرح ہو گئی ہو اور اُسے بیرونی مدد اور سہارے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہو.غیر حقیقی مثال ایسے شخص کی ہے جسے طاقت تو یہ ہو کہ من بوجھ اُٹھا سکے، چالیس کلو وزن اُٹھا سکے لیکن کام کرنے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے جب اُسے بوجھ اٹھانے کا کہو تو اُسے گھبراہٹ چھڑ جاتی ہے، پریشانی شروع ہو جاتی ہے.ایسا شخص اگر اپنی طبیعت پر دباؤ ڈالے گا تو پھر بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے گا اور اُس میں کامیابی حاصل ہو جائے گی.اور حقیقی کی مثال یہ ہے کہ دیر تک کام نہ کرنے کی وجہ سے انسان میں کام کرنے کی طاقت ہی باقی نہیں رہتی اور اُس میں دس بیس سیر سے یا کلو سے زیادہ وزن اُٹھانے کی طاقت نہیں رہتی.تو ایسے شخص کو زائد وزن اُٹھوانے کے لئے مددگار دینا ہو گا.اُس کی اصلاح کے لئے اُس کی قوت ارادی کو بڑھانے کے لئے اور اُس کی قوت عملی کو بڑھانے کے لئے پھر کچھ اور طریقے اختیار کرنے ہوں گے.غرض جب طاقت کا خزانہ موجود نہ ہو تو اُس وقت بیرونی ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں تا کہ کام کو پورا کیا جاسکے.یہی حال اعمال کی اصلاح کا ہے اور مختلف لوگوں کے لئے مختلف علاجوں کی ضرورت ہے.ایک ہی علاج ہر ایک کے لئے نہیں ہے.بعض کے لئے قوت ارادی پیدا کرنے کی ضرورت ہے.بعض کے لئے قوت عملی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور بعض کے لئے اس صورت میں جبکہ بوجھ زیادہ ہو، اُن کی طاقت اور برداشت سے باہر ہو، بیرونی مدد کی ضرورت ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 441 خطبه فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ) اُس وقت معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، جماعت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، ذیلی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے.پس ہمیں اپنی عملی اصلاح کے لئے ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان باتوں کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، قوت عملی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں اور ہماری جو صلاحیتیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو طاقتیں ہمیں دی ہیں وہ زنگ لگ کے ختم نہ ہو جائیں.اس کی
خطبات مسرور جلد 12 29 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء مزید وضاحت انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ میں کروں گا.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات پیش کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوت خرچ کرنا یہی ایمان کا طریق ہے.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 145) پس اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا، اپنی قوتِ ارادی کو دعا کے ذریعہ سے مضبوط کرنا ہے اور قوت کا خرچ کرنا ، قوت ارادی اور قوت عملی کا اظہار ہے.جب یہ اظہار اعلیٰ درجہ کا ہو جائے تو یہی ایمان ہے اور پھر بندہ ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتا ہے اُس کی رضا کے حصول کی طرف توجہ رہتی ہے.پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا: ” تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ.اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اُس کو قبول کر لیں.کیونکہ جب تک اس میں چمک نہ ہو ، کوئی اس کو قبول نہیں کرتا.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 181 جب تک تمہاری اندرونی حالت میں صفائی اور چمک نہ ہوگی ، کوئی خریدار نہیں ہوسکتا.جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں، کسی مقام تک نہیں پہنچ سکو گے.پس عملی حالتوں کی درستی کے لئے بہت محنت اور مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہر احمدی اپنے احمدی ہونے کے مقصد کو پورا کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ہم اپنے آپ کو حقیقی مسلمان بنا سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم ماسٹر مشرق علی صاحب ایم اے کلکتہ انڈیا کا ہے.3 جنوری 2014ء کو تقریباً80 سال کی عمر میں قادیان میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ گزشتہ ایک سال سے بیمار تھے.جاپان بھی آپ کے بیٹے علاج کی غرض سے لے گئے.وہاں سے کچھ بہتر ہوئے تھے.آجکل اپنی بیٹی کے پاس قادیان تھے.آپ کو 1965ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت کی سعادت ملی.اس کے بعد یہ زندگی کے آخری لمحے تک دیوانہ وار دعوت الی اللہ میں مصروف رہے ہیں.ان کا 48 سالہ دینی خدمات کا دور ہے اور آپ کو سیکرٹری تبلیغ ، قائد خدام الاحمدیہ، ناظم انصار اللہ بنگال ، نائب امیر اور امیر کلکتہ، پھر لمبا عرصہ صوبائی امیر بنگال اور آسام کی حیثیت سے خدمات بجالانے کی توفیق ملی.اسی طرح نیپال کے تبلیغی امور کے نگران اور انجمن وقف جدید قادیان کے ممبر رہے.بنگالی زبان میں رسالہ ” البشری بڑی محنت سے شائع کرتے اور لوگوں کو پوسٹ بھی خود ہی
خطبات مسرور جلد 12 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 جنوری 2014ء کرتے تھے.مکرم ناظر صاحب اعلیٰ قادیان انعام غوری صاحب کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ بنگال و آسام کے متعد د سفر کئے.پر خطر ماحول میں بھی جلسے اور تقاریر کرنے سے باز نہیں رہتے تھے.کہتے ہیں تین مرتبہ تو خاکسار کے ساتھ نہایت مخدوش حالات میں سے بحفاظت نکلنے کا اللہ تعالیٰ نے سامان فرمایا.گاڑی اور سامان وغیرہ کو تو نقصان پہنچا لیکن ممبران محفوظ رہے.بے دھڑک ہو کے ہر خطرے کی جگہ پر لے جایا کرتے تھے.موصوف کے ساتھ دورہ کرتے ہوئے ہر علاقے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے تائید و نصرت کے نشانات کا تذکرہ جاری رہتا.بنگال و آسام میں متعدد جماعتیں مرحوم کے دور میں قائم ہوئیں.نہایت دلیر اور متوکل اور درویش صفت انسان تھے.مرحوم موصی تھے.بہشتی مقبرہ قادیان میں ان کی تدفین ہوئی ہے.ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.ایک بیٹے تو عصمت اللہ صاحب ہیں جو جلسہ سالانہ میں نظمیں وغیرہ پڑھتے ہیں.جماعت احمدیہ کا ہر فرد تقریبا جانتا ہی ہوگا.ایم ٹی اے پر بھی ان کی نظمیں آتی ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں پر قدم مارنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 31 جنوری 2014 ء تا 06 فروری 2014 ء جلد 21 شماره 05 صفحه 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 31 3 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014 ء بمطابق 17 صلح 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں یہ ذکر ہورہا تھا کہ عملی اصلاح کے لئے جو روکیں راہ میں حائل ہیں، جو اسباب ہمیں بار بار پیچھے کھینچتے ہیں اُن کو دُور کرنے کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہے اور اس بارے میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ اگر انسان میں قوت ارادی، صحیح اور پورا علم اور قوت عمل پیدا ہو جائے تو پھر عملی اصلاح کی برائیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے.کیونکہ اعمال کی کمزوری ہوتی ہی اُس وقت ہے جب قوتِ ارادی نہ ہو، یا یہ علم نہ ہو کہ اچھے اعمال کیا ہیں اور برے اعمال کیا ہیں؟ اور اچھے اعمال کو حاصل کس طرح کرنا ہے، کس طرح بجالا نا ہے اور برے اعمال کو دور کرنے کی کس طرح کوشش کرنی ہے؟ اور پھر قوت عمل ہے جو اتنی کمزور ہو کہ برائی کا مقابلہ نہ کر سکے.پس قوت ارادی کو مضبوط کرنا، علمی کمزوری کو دور کرنا اور عملی طاقت پیدا کرنا، یہ بڑا ضروری ہے.عملی طاقت اپنی کوشش سے بھی پیدا ہوتی ہے اور اگر انسان بہت ہی کمزور ہو تو پھر بیرونی مدد کی ضرورت ہوتی ہے.بہر حال ان باتوں کا گزشتہ خطبہ میں ذکر ہو چکا ہے.اس بارے میں بعض مثالوں سے مزید تفصیل اس کی بیان کروں گا.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں کہا تھا کہ اس بارے میں مزید وضاحت کرنی ہے اور اس کی ضرورت ہے.یہ تو ہم نے دیکھ لیا کہ عملی اصلاح میں جن تین باتوں کی ضرورت ہے اُن میں سب سے پہلی قوتِ ارادی ہے.یہ قوت ارادی کیا چیز ہے؟ ہم میں سے بعض کے نزدیک یہ عجیب بات ہوگی کہ قوت ارادی کے
32 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء خطبات مسرور جلد 12 بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اکثر یہ کہیں گے کہ قوت ارادی کے جو اپنے الفاظ ہیں، اُن سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کسی کام کو کرنے کے مضبوط ارادے اور اُسے بجالانے کی اور انجام دینے کی قوت ہے.یہاں یہ سوال اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ قوت ارادی کیا چیز ہے؟ تو اس بارے میں واضح ہونا چاہئے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے احسن رنگ میں اس کو بیان فرمایا ہے کہ قوت ارادی کا مفہوم عمل کے لحاظ سے ہر جگہ بدل جاتا ہے.پس یہ بنیادی بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے اور جب یہ بات اپنے سامنے رکھیں گے تو پھر ہی اس نہج پر سوچ سکتے ہیں کہ دین کے معاملے میں قوت ارادی کیا چیز ہے؟ پس واضح ہو کہ دین کے معاملے میں قوت ارادی ایمان کا نام ہے.اور جب ہم اس زاویے سے دیکھتے ہیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ عملی قوت ایمان کے بڑھنے سے بڑھتی ہے.اگر پختہ ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر انسان کے کام خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں.ہر مشکل اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آسان ہوتی چلی جاتی ہے.عملی مشکلات اس ایمان کی وجہ سے ہوا میں اڑ جاتی ہیں اور آسانی سے انسان اُن پر قابو پالیتا ہے.اور یہ صرف ہوائی با تیں نہیں ہیں بلکہ عملاً اس کے نمونے ہم دیکھتے ہیں.جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو ایمان سے پہلے کی عملی حالتوں اور ایمان کے بعد کی عملی حالتوں کے ایسے حیرت انگیز نمونے نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو لوگ ایمان لائے وہ کون لوگ تھے؟ اُن کی عملی حالت کیا تھی؟ تاریخ ہمیں اس بارے میں کیا بتاتی ہے؟ اُن ایمان لانے والوں میں چور بھی تھے.اُن میں ڈاکو بھی تھے.اُن میں فاسق و فاجر بھی تھے.اُن میں ایسے بھی تھے جو ماؤں سے نکاح بھی کر لیتے تھے ، ماؤں کو ورثے میں بانٹنے والے بھی تھے.اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے والے بھی تھے.اُن میں جواری بھی تھے جو ہر وقت جوا کھیلتے رہتے تھے.اُن میں شراب خور بھی تھے اور شراب کے ایسے رسیا کہ اس بارے میں اُن کا مقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا.شراب پینے کو ہی عزت سمجھتے تھے.ایک دوسرے پر شراب پینے پر فخر کرتے تھے کہ میں نے زیادہ پی ہے یا ئیں زیادہ پی سکتا ہوں.ایک شاعرا اپنی بڑائی اور فخر اس بات پر ظاہر کرتا ہے کہ میں وہ ہوں جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر بھی شراب پیتا ہوں.پانی کو تو ہاتھ ہی نہیں لگا تا.جواری اپنے بجوئے پر فخر کرتے ہوئے یہ کہتا تھا کہ میں وہ ہوں جو اپنا تمام مال جوئے میں لٹا دیتا ہوں اور پھر مال آتا ہے تو پھر اُسے جوئے میں لٹا دیتا ہوں.شاید آج بڑے سے بڑا جواری بھی کھل کر یہ اعلان نہ کرتا ہو.بہر حال یہ حالت اُن کی اُس وقت تھی.
خطبات مسرور جلد 12 33 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو اُن کی حالت کس طرح پلٹی ، کیسا انقلاب اُن میں پیدا ہوا ، کیسی قوت ارادی اس ایمان نے اُن میں پیدا کی؟ اس کے واقعات بھی تاریخ ہمیں بتاتی ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی جلدی اتنا عظیم انقلاب اُن میں پیدا ہو گیا؟ ایمان لاتے ہی اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب دین کی تعلیم پر عمل کے لئے ہم نے اپنے دل کو قوی اور مضبوط کرنا ہے.انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ خدا تعالیٰ کے احکامات کے خلاف اب ہم نے کوئی قدم نہیں اٹھانا.انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم ہمارے لئے حرف آخر ہے.اُن کا یہ فیصلہ اتنا مضبوط، اتنا پختہ اور اتنے زور کے ساتھ تھا کہ اُن کے اعمال کی کمزوریاں اُس فیصلے کے آگے ایک لمحے کے لئے بھی نہ ٹھہر سکیں.اُن کے حالات ایسے بدلے کہ وہ خطرناک سے خطر ناک مصیبت اپنے پر وارد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور نہ صرف تیار ہوئے بلکہ اس قوت ارادی نے جو انہوں نے اپنے اندر پیدا کی ، اُن کے اعمال کی کمزوری کو اس طرح پرے پھینک دیا اور اُن سے دور کر دیا جس طرح ایک تیز سیلاب کا ریلا، تیز پانی کا ریلا جو ہے ایک تنکے کو بہا کر لے جاتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 443-444 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوع فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) ابھی شراب کی مثال دی گئی ہے کس طرح وہ شراب پیتے تھے اور کس قدر ان کو اس بات پر فخر تھا.جب اس کا نشہ چڑھتا ہے تو کیا حالت انسان کی بنادیتا ہے.ان ملکوں میں رہنے والے یہاں کے شرابیوں کے نمونے اکثر دیکھتے رہتے ہیں.ہماری مسجد فضل کی سڑکوں پر بھی ایک شرابی پھرتا ہے اور اُس کے پاس سوائے شراب کے بٹن کے اور کچھ نہیں ہوتا.گندے کپڑے لیکن شراب خرید لیتا ہے.مجھے یہ بھی پتا چلا ہے کہ وہ پڑھا لکھا بھی ہے اور شاید کسی زمانے میں انجینئر بھی تھا.بہر حال اب تو کچھ کام نہیں کرتا ، ویسے بھی اُس کی عمر ایسی ہے.کونسل سے جو کچھ ملتا ہے اُس کو ، حکومت سے شاید جو بھی خرچہ ملتا ہو، وہ سب شراب پر خرچ کر دیتا ہے.سڑکوں پر زندگی گزارتا ہے.نشے نے اُس کی دماغی حالت بھی خراب کر دی، بیچارہ بالکل مفلوج ہو گیا.نشے کی حالت میں جب وہ ہو تو اُسے دیکھ کے ڈر لگتا ہے.کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ وہ عورتوں کو راہ چلتے روک لیتا ہے، باوجود یکہ وہ اس ماحول میں رہنے والی انگریز عورتیں ہیں لیکن اُن کے چہروں سے خوف ظاہر ہورہا ہوتا ہے.تو بہر حال شراب کے نشے نے اُس کی یہ حالت بنائی ہے.ایسے شرابی بھی عام ملتے ہیں جو نشے میں اتنے غصیلے ہو جاتے ہیں کہ ماں باپ کو بھی گالیاں دیتے ہیں.عجیب عجیب حرکتیں اُن سے سرزد ہوتی ہیں.مجھے یاد ہے جب میں گھانا میں تھا تو ٹمالے(Tamale) وہاں
خطبات مسرور جلد 12 34 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء ایک شہر ہے.اُس زمانے میں وہاں جماعت کا زرعی پراجیکٹ تھا.تو جس گھر میں میں رہتا تھا اُس کی باہر کی طرف ، نہ صرف باہر کی طرف بلکہ اندر کی طرف بھی چار دیواری نہیں تھی.تمام گھر جو تھے وہ بغیر چار دیواری کے ہی تھے.یہاں بھی عموماً ایسے بنے ہوتے ہیں.بعضوں نے اپنے اندر کے صحنوں میں چار دیواری بنائی ہوئی تھی جس طرح یہاں کے backyard ہوتے ہیں.بہر حال ہمارا گھر ایسا تھا کہ نہ اُس کے اندر صحن تھا نہ باہر، ہر طرف سے کھلا تھا.چھوٹی سی جگہ تھی جہاں گاڑی کھڑی کی جاتی تھی.کوئی دیوار اور گیٹ نہیں جیسا کہ میں نے بتایا.اُن دنوں میں وہاں کے معاشی حالات خراب تھے.اگر کوئی چیز باہر کھلے میں پڑی ہو تو چوریاں بھی ہوتی تھیں.اب تو یہاں بھی چوریاں شروع ہو گئی ہیں بلکہ یہاں تو دروازے توڑ کے چوریاں ہونے لگ گئی ہیں، ڈا کے پڑنے لگ گئے ہیں.بہر حال امن کی حالت اُس وقت خراب تھی اس وجہ سے کہ معاشی حالات خراب تھے.وہاں ہم نے ایک watch man رکھا ہوا تھا، اُس کو میں نے رکھا تو رات کے لئے آتا تھا اور اُس کو میں نے خاص طور پر کہا کہ ہماری گاڑی جو پک اپ تھی باہر کھڑی ہوتی ہے.اس کا ٹائر باہر ہی پڑا ہوتا ہے کیونکہ اس کی ایسی حالت تھی کہ اُس کے اندر تبدیلی کر دی گئی تھی جہاں ٹائر رکھنے کی جگہ ہوتی ہے وہ وہاں رکھا نہیں جا سکتا تھا.بہر حال اُس کو خاص طور پر میں نے یہ کہا کہ ٹائر بہت چوری ہوتے ہیں اس کا خیال رکھنا.تو اکثر یہی ہوتا تھا کہ وہ شراب کے نشے میں آتا تھا اور ٹائر کو باہر نکالتے وقت ٹائر سے پہلے خود زمین پر گرا ہوتا تھا.تو بہر حال ایک دن میں نے اُسے دیکھا کہ اوندھے منہ پڑا ہوا ہے.اُس دن تو بہت ہی نشے میں تھا.اُس وقت چوکیدارا اُس نے کیا کرنا تھا.وہ اول فول بک رہا تھا.اُس وقت تو مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ کچھ نہ کہا جائے کیونکہ اُس نے پھر مجھے بھی برا بھلا کہنا شروع کر دینا تھا.اگلے دن جب اُس کا نشہ تھوڑا کم ہوا یا اترا تو میں نے اُسے کہا کہ تم جاؤ اب تمہیں نہیں رکھنا.بڑی منتیں سما جتیں کرنے لگا.خیر پینا تو بہر حال وہ نہیں چھوڑ سکتا تھا لیکن اُس نے یہ عقل مندی کی کہ یا تو وقت سے پہلے اتنا وقت دے دیتا تھا کہ جب یہاں ڈیوٹی پر آنا ہے تو نشہ کم ہو جائے یا پھر اُس وقت حساب سے پیا ہوگا، نشہ زیادہ ظاہر نہ ہو.لیکن بہر حال نشئی جو ہیں وہ قابو تو رکھ نہیں سکتے.کچھ عرصے بعد پھر وہی حالت ہونی شروع ہو گئی.کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نشے میں انسان کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے، کیا بول رہا ہے.اگلے دن جب اُسے پوچھو کہ تم یہ یہ کہتے رہے تو صاف انکاری ہوتا تھا کہ میں تو بڑے آرام سے رہا ہوں.میں نے تو ایسی بات ہی کوئی نہیں کی.تو ایسے اچھے بھلے انسان ہوتے ہیں کہ نشہ جب اترتا ہے تو مانتے بھی نہیں.
خطبات مسرور جلد 12 35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے کہ جس سے آپ کو ایک ٹرین کے سفر کے دوران واسطہ پڑا.وہ ایک معزز خاندان کا شخص تھا.شاید حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالٰی عنہ کو جانتا بھی تھا اور پونچھ کے کسی وزیر کا بیٹا بھی تھا.وہ ٹرین کے اس سفر میں نشے میں ایسی باتیں کہ رہا تھا جو عقل و ہوش قائم ہونے کی صورت میں کبھی انسان کہ نہیں سکتا.تو حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ یہ شراب کا جو نشہ ہے انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور نشے میں اُسے بالکل پاگل بنا دیتا ہے.مگر دوسری طرف ہم قوتِ ارادی کا ایسا انقلاب دیکھتے ہیں کہ بعض غیر مسلم اس پر مشکل سے یقین کرتے ہیں.یہ قوت ارادی ایمان کی قوت ارادی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کی.اس کا نظارہ ہمیں اس روایت سے ملتا ہے کہ چند صحابہ ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے.دروازے بند تھے اور یہ سب شراب پی رہے تھے اور اُس وقت ابھی شراب نہ پینے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور شراب پینے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی نہیں تھی.جس کا جتنا دل چاہے، پیتا تھا، نشے میں بھی آجاتے تھے.شراب کا ایک مٹکا اس مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے خالی کر دیا اور جو مٹکا ہے وہ بھی کئی گیلن کا ہوتا ہے.اور دوسرا شروع کرنے لگے تھے کہ اتنے میں گلی سے آواز آئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ آج سے مسلمانوں پر شراب حرام کی جاتی ہے.اس آواز کا ان لوگوں تک پہنچنا تھا کہ اُن میں سے ایک جو شراب کے نشے میں مزا لے رہا تھا، اُس میں مدہوش تھا، دوسرے کو کہنے لگا کہ اُٹھو اور دروازہ کھول کر اس اعلان کی حقیقت معلوم کرو.ان شراب پینے والوں میں سے ایک شخص اُٹھ کر اعلان کی حقیقت معلوم کرنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک دوسرا شخص جو شراب کے نشے میں مخمور تھا اُس نے سوٹا پکڑا اور شراب کے مٹکے پر مار کر اُسے توڑ دیا.دوسروں نے جب اُسے یہ کہا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ پہلے پوچھ تو لینے دیتے کہ حکم کا کیا مفہوم ہے اور کن لوگوں کے لئے ہے؟ تو اُس نے کہا پہلے مٹکے تو ڑو، پھر پوچھو کہ اس حکم کی کیا حقیقت ہے؟ کہنے لگا کہ جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی آواز سن لی تو پہلے تو حکم کی تعمیل ہوگی.پھر میں دیکھوں گا کہ اس حکم کی قیود کیا ہیں؟ اُس کی limitations کیا ہیں؟ اور کن حالات میں منع ہے.پس یہ وہ عظیم الشان فرق ہے جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور دوسروں میں نظر آتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 445-446 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ) پہلے بیان ہو چکا ہے کہ شرابیوں کی کیا حالت ہوتی ہے؟ کسی شرابی سے شراب پیتے ہوئے گلاس
خطبات مسرور جلد 12 36 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء بھی لے لیں یا اُس کے سامنے سے اُٹھا لیں تو مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.کلبوں اور باروں (Bars) میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں.چند دن ہوئے یہاں پر بھی ایک خبر تھی کہ ایک کلب میں یا بار (Bar) میں ایک نشئی شخص نے دوسرے کو مار دیا.بلکہ یہ نشئی لوگ خلاف مرضی باتیں سن کر ہی قتل و غارت پر آمادہ ہو جاتے ہیں.پس ان شرابیوں کی جو نشے میں دھت ہوتے ہیں، نہ عقلیں سلامت ہوتی ہیں، نہ سمجھ سلامت ہوتی ہے، نہ زبان پر قابو رہتا ہے اور نہ ماں باپ کی پرواہ ہوتی ہے.اُن کے ہاتھ پاؤں بھی غیر ارادی طور پر حرکت کرتے ہیں.نشے میں نہ اُنہیں قانون کی پرواہ ہوتی ہے، نہ سزا کا ڈر ہوتا ہے.لیکن صحابہ کی قوت ارادی نشے پر غالب آ گئی.باوجود اس کے کہ وہ نشے میں مخمور تھے.ایک مٹکا اُس وقت پی بھی چکے تھے.دوسرا مٹکا وہ پینے والے تھے.ایسے وقت میں اُن کے کانوں میں یہ آواز پڑتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ شراب مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ہے تو اُن کا نشہ فوراً ختم ہو جاتا ہے.وہ پہلے شراب کا مٹکا توڑتے ہیں اور پھر اعلان کرنے والے سے وضاحت پوچھتے ہیں کہ اس اعلان کا کیا مطلب ہے؟ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 446-447 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ) اور یہ ایک گھر کا معاملہ نہیں ہے، چند لوگوں کا معاملہ نہیں.بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں روایت میں آتا ہے کہ ایسے کئی گھر مدینے میں تھے جن میں شراب کی محفلیں جمی ہوئی تھیں.اس اعلان کے ساتھ ہی اس تیزی سے شراب کے مٹکے ٹوٹے کہ مدینے کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہنے لگی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 448 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ) کیسی حیران کن قوت ارادی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ قوت ارادی ایسی ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد کوئی روک درمیان میں حائل نہیں رہ سکتی بلکہ ہر چیز پر قوت ارادی قبضہ کرتی چلی جاتی ہے.گویا قوت ارادی سے وافر حصہ رکھنے والے روحانی دنیا کے سکندر ہوتے ہیں، اس کے پہلوان ہوتے ہیں.جس طرف اُٹھتے ہیں اور جدھر جاتے ہیں اور جدھر جانے کا قصد کرتے ہیں، شیطان اُن کے سامنے ہتھیار ڈالتا چلا جاتا ہے اور مشکلات کے پہاڑ بھی اگر اُن کے سامنے آئیں تو وہ اسی طرح کٹ جاتے ہیں جس طرح پنیر کی تکیہ کٹ جاتی ہے.پس اگر اس قسم کی قوت ارادی پیدا ہو جائے اور اس حد تک ایمان پیدا ہو جائے تو پھر لوگوں کے اصلاح اعمال کے لئے اور طریق اختیار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 447 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ )
خطبات مسرور جلد 12 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء چودہ سو سال پہلے اصلاح کا جو عمل قوت ایمان کی وجہ سے انقلاب لایا، اُس کی مثال اس وسیع پیمانے پر دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتی.کس طرح حیرت انگیز طور پر دنیا میں یہ انقلاب بر پا ہوا.لیکن اس سے ملتی جلتی کئی مثالیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ماننے والوں میں ہمیں نظر آتی ہیں.تمباکو نوشی گوحرام تو نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہر حال اس کو برافرمایا بلکہ ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ شاید یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتی تو منع فرما دیتے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 235) لیکن ایک برائی بہر حال ہے اور اس میں نشہ بھی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک سفر کے دوران جب حقے سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو آپ کے صحابہ نے جو حقہ پینے کے عادی تھے، اپنے حقے کو توڑ دیا اور پھر تمباکو نوشی کے قریب بھی نہیں پھٹکے.کہتے کہ اس طرف تو کبھی ہماری توجہ ہی نہیں گئی.(ماخوذ از سیرت المہدی از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جلد 1 حصہ سوم صفحہ 666 روایت نمبر 726 مطبوعه ربوہ ) اسی طرح ایسے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثالیں بھی ملتی ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد تمام برائیوں کو چھوڑا.حتی کہ ایسی مثال بھی ہے جو شراب جیسی برائی میں گرفتار تھے لیکن احمدیت قبول کرنے کے بعد وہ چھوڑ دی.پس یہ نمونے ہیں جو ہمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے کسی قانون سے ڈر کر یا اپنے معاشرے سے ڈر کر ہی برائیاں نہیں چھوڑنی.یا اُن سے اس لئے نہیں بچنا کہ اُن میں ماں باپ کا خوف ہے یا معاشرے کا خوف ہے.یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے بلکہ سوچ یہ ہونی چاہئے کہ ہم نے برائی اس لئے چھوڑنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا.یا اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے تو ہم نے اس سے رکنا ہے.مسلمان ملکوں میں اگر شراب کھلے عام نہیں ملتی، پاکستان وغیرہ میں تو مجھے پتا ہے کہ قانون اب اس کی اجازت نہیں دیتا تو چھپ کر ایسی قسم کی شراب بنائی جاتی ہے جو دیسی قسم کی شراب ہے اور پھر پیتے بھی ہیں اور اس کا نشہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے.امیر طبقہ اور اور بہانوں سے اعلیٰ قسم کی شراب کا بھی انتظام کر لیتا ہے.پھر یو نیورسٹی میں سٹوڈنٹس کو میں نے دیکھا ہے کہ ایسے سیرپ یا دوائیاں ، خاص طور پر کھانسی کے سیرپ جن میں الکوحل ملی ہوتی ہے، اُس کو نشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے کیونکہ اس میں دوسری دوائیاں بھی ملی ہوتی ہیں.پس ایسے معاشرے میں بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اپنی قوتِ ارادی سے ان برائیوں سے
خطبات مسرور جلد 12 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء بچنے کی ضرورت ہے.آجکل یہاں یورپین ملکوں میں بھی علاوہ ایسے نشوں کے جو زیادہ خطر ناک ہیں ، شیشے کے نام سے بھی ریسٹورانوں میں ، خاص طور پر مسلمان ریسٹورانوں میں نشہ ملتا ہے.اسی طرح امریکہ میں حقے کے نام سے نشہ کیا جاتا ہے.وہ خاص قسم کا حقہ ہے.اور مجھے پتا لگا ہے کہ یہاں ہمارے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ شیشہ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں نشہ نہیں ہے یا کبھی کبھی استعمال کرنے سے کچھ نہیں ہوتا.کوئی حرج نہیں ہے.یا درکھیں کہ یہ کبھی کبھی کا جو استعمال ہے ایک وقت آئے گا جب آپ بڑے نشوں میں ملوث ہو جائیں گے اور پھر اس سے پیچھے ہٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.پس ابھی سے اپنی قوتِ ارادی سے کام لینا ہو گا اور اس برائی سے چھٹکارا پانا ہوگا.اور اس کے لئے اپنے ایمان کو دیکھیں.ایمان کی گرمی ہی قوت ارادی پیدا کرسکتی ہے جو فوری طور پر بڑے فیصلے کرواتی ہے جیسا کہ صحابہ کے نمونے میں ہم نے دیکھا، ورنہ قانون تو ان میں روکیں نہیں ڈال سکتے.جیسا کہ میں نے کہا پاکستان میں قانون بھی ہے، ملتی بھی نہیں لیکن پھر بھی لوگ پیتے ہیں اور انتظام بھی کر لیتے ہیں.انہوں نے کئی طرح کے طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں.امریکہ میں ایک زمانے میں کھلے عام شراب کی ممانعت کی کوشش ہوئی تو اس کے لئے لوگوں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور سپرٹ (spirit) پینا شروع کر دیا.اور سپرٹ (spirit) پینے کے نقصانات بہت زیادہ ہیں تو اس کی وجہ سے لوگ مرنے بھی لگے.حضرت مصلح موعود نے لکھا ہے کیونکہ ایمان نہیں تھا اس لئے دنیاوی قانون کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی بلکہ نشے کے ہاتھوں ایسے مجبور ہوئے کہ سپرٹ پی کر اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتے تھے.حکومت نے پھر قانون بنایا کہ اگر ڈاکٹر اجازت دیں، بعض اسباب ایسے ہوں جو اس کو ( justify) کرتے ہوں تو پھر شراب ملے گی اور ڈاکٹروں کا اجازت نامہ بھی بعض وجوہات کی وجہ سے تھا.تو اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ ہزاروں ڈاکٹروں نے اپنی آمدنیاں بڑھانے کے لئے غلط سرٹیفکیٹ جاری کرنے شروع کر دیئے.تو ایسے ڈاکٹر جن کی پریکٹس نہیں چلتی تھی اُن کی اس طرح آمدنی شروع ہوگئی کہ شراب پینے کے سرٹیفکیٹ دے دیئے.آخر ایک وقت ایسا آیا کہ قانون کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور آہستہ آہستہ اب ہر جگہ عمر کی پابندی کے ساتھ شراب ملتی ہے.کہیں یہ عمر اکیس سال ہے، کہیں اٹھارہ سال ہے اور کہیں کہتے ہیں کہ اگر بڑا ساتھ ہو تو پندرہ سولہ سال، سترہ سال کے بچے بھی بعض خاص قسم کی شرابیں پی سکتے ہیں.پس اپنے قانون کی بے بسی پر پردہ ڈالنے
خطبات مسرور جلد 12 39 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء کے یہ بہانے ہیں.جوں جوں ترقی یافتہ ہورہے ہیں برائیوں کی اجازت کے قانون پاس ہوتے چلے جا رہے ہیں.برائیوں کو روک نہیں سکتے تو قانون میں نرمی کر دیتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے احکامات میں جو برائی ہے وہ ہمیشہ کے لئے برائی ہے.خدا تعالیٰ ہماری مرضی کا پابند نہیں بلکہ ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند ہونا ہوگا اور یہ پابندی اُس وقت پیدا ہوگی جب ہماری ایمانی حالت بھی اعلیٰ درجہ کی ہوگی.آجکل کی جو ترقی یافتہ دنیا ہے وہ جس قوم کو جڑ اور جاہل کہتی ہے، جسے ان پڑھ مجھتی ہے وہ لوگ جو تھے انہوں نے اپنے ایمان کی حرارت کو اپنے نشے پر غالب کر لیا.اپنے اعمال کی اصلاح کی اور پھر ایک دنیا میں اپنے اعمال کی برتری کا جھنڈا گاڑ کر دنیا کو اپنے پیچھے چلایا.پس یہ واضح ہونا چاہئے کہ دین کے معاملے میں قوت ارادی اپنے ایمان کی مضبوطی ہے جو نیک اعمال بجالانے پر قائم رہ سکتی ہے اور برائیوں سے چھڑواتی ہے.اس کے ساتھ ہی جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ قوت علمی ہے، اگر قوت علمی کسی میں ہو تو عمل کی جو کمزوری علم کی وجہ سے ہوتی ہے، وہ دور ہو جاتی ہے.جس کے لئے عام دنیاوی مثال یہ ہے کہ بچپن کی بعض عادتیں بچوں میں ہوتی ہیں.کسی کو مٹی کھانے کی عادت ہے تو جب اس کے نقصان کا علم ہوتا ہے تو پھر وہ کوشش کر کے اس سے اپنے آپ کو روکتا ہے.اور بہت سی عادتیں ہیں.مثلاً ایک بچی کا مجھے پتا ہے کہ اُسے یہ عادت تھی کہ رات کو سوتے ہوئے اپنے بال نوچتی تھی اور زخمی کر لیتی تھی.لیکن اب بڑی ہو رہی ہے تو آہستہ آہستہ اس کو احساس بھی ہو رہا ہے اور کوشش کر کے اس عادت سے چھٹکارا پا رہی ہے.تو یہ عادت بہر حال علم ہونے سے ختم ہو جاتی ہے.پس اسی طرح جس کو کچھ خدا کا خوف ہے، اگر اُسے عمل کے گناہ کا اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا صحیح احساس دلا دیا جائے اور اسے اس بات پر مضبوط کر دیا جائے کہ گناہ سے اللہ تعالیٰ کس طرح ناراض ہوتا ہے تو پھر وہ گناہ سے بچ جاتا ہے.پھر تیسری چیز جس سے عملی کمزوری سرزد ہوتی ہے وہ عملی قوت کا فقدان ہے.بعض لوگ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ باتیں دوہرائی جارہی ہیں.بیشک بعض باتیں ایک لحاظ سے دو ہرائی جا رہی ہیں لیکن مختلف زاویوں سے اس کا ذکر ہو رہا ہے تا کہ سمجھ آسکے.بہر حال واضح ہو کہ قوت عملیہ کی کمی یا قوت عملیہ نہ ہونے کے بھی بعض اسباب ہیں.مثلاً ایک سبب عادت ہے.ایک شخص میں قوت ارادی بھی ہوتی ہے علم بھی ہوتا ہے لیکن عادت کی وجہ سے مجبور ہو کر وہ عمل
خطبات مسرور جلد 12 40 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء میں کمزوری دکھا رہا ہوتا ہے.یا ایک شخص جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوسکتا ہے لیکن ماڈی اشیاء کے لئے جذبات محبت یا مادی نقصان کے خوف سے جذبات خوف غالب آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے انسان محروم رہ جاتا ہے.ایسے لوگوں کے لئے اندرونی کے بجائے بیرونی علاج کی ضرورت ہے.کیونکہ جو بیرونی علاج کیا جائے اسی سے قوت عمل میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے.اس کے لئے صحیح سہارے کی ضرورت ہے.اگر صحیح سہارا مل جائے تو بہتری آسکتی ہے.پس اصلاح کے لئے اس صحیح سہارے کی تلاش کی ضرورت ہے.ایک شخص کو اگر پہلے سے کسی بات کا علم ہو تو یہا اصلاح کے لئے تو نہیں ہو سکتا.اس کو یہ علم ہے کہ انسان جب گناہ جب کرے تو خدا تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے.اسے خدا تعالیٰ کے غضب سے خوف دلا نا یا خدا تعالیٰ کی محبت کے حاصل کرنے کی اُسے تلقین کی جائے جبکہ اُسے پہلے ہی اس کا علم ہے تو یہ اُسے کوئی فائدہ نہیں دے گا.ان باتوں کا تو اُسے علم ہے.قوت ارادی بھی اُس میں ہے لیکن کامل نہیں.علم جیسا کہ ذکر ہوا اُسے ہم نے بھی دیا اور اُسے پہلے بھی ہے مگر خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے غضب کا خوف دل کے زنگ کی وجہ سے دل پر اثر نہیں کر سکتے.اب اُس کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ اُس کی نظروں سے اوجھل ہے.وہ یہی کہتا ہے ناں کہ خدا تعالیٰ تو مجھے نظر نہیں آ رہا.سامنے کی چیزیں تو نظر آ رہی ہیں.جس کا ایمان اتنا کامل نہیں تو خدا تعالیٰ بھی اُس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا.اس لئے وہ خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتا.ایسے لوگوں کے لئے بعض دوسرے بندے ہوتے ہیں جن سے وہ ڈر جاتا ہے.پس ایسے شخص کے دل میں اگر بندے کا رعب ڈال دیں یا مادی طاقت سے کام لے کر اُس کی اصلاح کریں تو اس کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ طاقت دنیاوی قانون کی طرح سیاسی مصلحت کی وجہ سے ڈر کر اصلاح سے پیچھے ہٹنے والی نہ ہو.جیسے آجکل کے دنیاوی قانون ہیں.بہر حال یہ تینوں قسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ بیماریاں بھی موجود ہیں.بعض ایسے لوگ ہیں جن کے عمل کی کمزوری کی وجہ ایمان میں کامل نہ ہونا ہے.بعض لوگ ایسے ہیں جن میں عمل کی کمزوری اس وجہ سے ہے کہ اُن کا علم کامل نہیں ہے.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایمان اور علم رکھتے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے اُن پر ایسا زنگ لگ جاتا ہے کہ دونوں علاج اُن کے لئے کافی نہیں ہوتے اور بیرونی علاج کی ضرورت ہوتی ہے، کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے.جیسے کسی کی ہڈی ٹوٹ جائے تو بعض دفعہ ہڈی جوڑنے کے لئے پلستر لگا کر باہر سہارا دیا جاتا ہے.بعض دفعہ آپریشن کر کے پلیٹیں ڈالی جاتی ہیں تا کہ ہڈی مضبوط ہو جائے اور پھر آہستہ آہستہ ہڈی جڑ جاتی ہے اور وہ سہارے دُور کر دیئے جاتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء اسی طرح بعض انسانوں کے لئے کچھ عرصے کے لئے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ سہارا اُس میں اتنی طاقت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ خود فعال ہو جاتا ہے اور عملی کمزوریاں دُور ہو جاتی ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 447 تا 450 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوع فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) پس جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ ہمارا نظام جماعت ، ہمارے عہد یدار، ہماری ذیلی تنظیمیں ان عملی کمزوریوں کو دُور کرنے کا ذریعہ بنیں.لیکن اگر خود ہی یہ لوگ جن کی قوت ارادی میں کمی ہے، ان عہد یداروں کے بھی اور باقی لوگوں کے بھی علم میں کمی ہے، عملی کمزوری ہے تو وہ کسی کا سہارا کس طرح بن سکیں گے.پس جماعتی ترقی کے لئے نظام کے ہر حصے کو، بلکہ ہر احمدی کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی ضرورت ہے اور اپنے دوستوں اور قریبیوں کا سہارا بننے کی ضرورت ہے جو کمزوریوں میں مبتلا ہیں تا کہ جماعت کا ہر فر د عملی اصلاح کے اعلیٰ معیاروں کو چھونے والا بن جائے اور اس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.ایک افسوسناک خبر ہے کہ عزیزم ارسلان سرور ابن مکرم محمد سرور صاحب راولپنڈی کی 14 جنوری کو شہادت ہوگئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پہلے ان کے خاندان کا تھوڑا سا تعارف کرا دوں.ارسلان سرور صاحب کے دادا محمد یوسف صاحب کا تعلق چک نمبر 55 گ ب تحصیل جڑانوالہ، فیصل آباد سے تھا.شہید مرحوم کے والد اور دادا نے خلافت ثالثہ میں 1973ء میں بیعت کی تھی جبکہ والدہ پیدائشی احمدی تھیں.1984ء میں یہ فیملی راولپنڈی شفٹ ہو گئی.مرحوم کے والد وہاں فلور مل میں سپر وائزر تھے.ارسلان شہید کی پیدائش پنڈی کی ہے.اسلام آباد میں ایف ایس سی پری انجینئر نگ کے طالب علم تھے.وفات کے وقت ان کی عمر سترہ سال کی تھی.عزیزم ارسلان کا شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ 13 ، 14 جنوری کی درمیانی شب، رات ایک بجے اپنے محلے کے غیر احمدی دوستوں کے ہمراہ گلی میں 12 ربیع الاول کے حوالے سے لائٹنگ اور دیگر تیاریاں وغیرہ کر رہے تھے کہ ایک گاڑی گلی کے آخر پر آ کے رُکی اور اُس کے کچھ دیر بعد ایک موٹر سائیکل سوار بھی قریب آ کے رُکا.ان کے کھڑے ہونے سے قبل ان میں سے دو افراد قریب واقع گندگی کے ڈھیر سے ایک سفید رنگ کے شاپر میں کچھ لے کر بھی آئے جو کہ پہلے ہی وہاں پر رکھا ہوا تھا.اسی دوران گلی میں موجود دوغیر احمدی لڑکوں اور ارسلان سرور صاحب نے ان کو دیکھا اور مشکوک خیال کیا اور آپس میں مشورہ کیا کہ بڑوں کو بھی جگاتے ہیں جس کی وجہ سے ارسلان سرور نے شور مچایا جس پر گاڑی میں سے ایک آدمی نکلا اور اُس نے
خطبات مسرور جلد 12 42 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 جنوری 2014ء پہلے دو تین ہوائی فائر کئے جس پر لڑ کے شور مچاتے ہوئے گلی کی دوسری طرف بھاگے جس پر وہ شخص پیچھے آیا اور ان پر تین چار فائر کئے.ارسلان سرور بھاگتے ہوئے دونوں لڑکوں کے درمیان میں تھا.گلی میں موجود فائرنگ کے نشانات سے پتا چلتا ہے کہ دونوں غیر احمدی لڑکوں پر بھی فائرنگ ہوئی ہے جو دائیں اور بائیں تھے.جبکہ ارسلان سرور نے بھاگتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عین اُسی وقت اس کے سر پر گولی لگی جس کی وجہ سے وہ وہیں گر گیا اور دونوں لڑکے بھی گلی میں موجود گاڑیوں کے پیچھے لیٹ گئے.حملہ آور کچھ دیر تک آگے آئے پھر واپس مڑ گئے اور بھاگ گئے.عزیزم کو ہسپتال لے جایا گیا.”ہولی فیملی ہسپتال وہاں قریب ہی ہے.ڈاکٹروں نے کوشش تو کی لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ بچنا مشکل ہے کیونکہ دماغ میں گولی لگی ہے.خون وغیرہ بھی دیا گیا.تقریباً تین گھنٹے کے بعد عزیزم کی شہادت ہوگئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.کافی ہر دلعزیز تھا.وہاں کے غیر از جماعت بھی تعزیت کے لئے ان کے گھر آئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھا اور چودہ سال کی عمر میں وصیت کی تھی.خدام الاحمدیہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں سائق کے طور پر کام کر رہا تھا.پہلے بھی اطفال الاحمدیہ میں خدمات بجالاتا رہا.اس کے بھائی بھی مختلف جماعتی خدمات پر مامور ہیں.قائد صاحب ضلع راولپنڈی کہتے ہیں کہ ارسلان سرور مرحوم اور اُن کے تمام بھائی خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن ہیں اور وہ حفاظتی ڈیوٹیاں اور دیگر تنظیمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں.مربی صاحب راولپنڈی نے بتایا کہ اکثر ان کے دفتر میں آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرنا شہید مرحوم کا معمول تھا.نمازوں میں با قاعدہ تھا اور نمازوں میں سوز وگداز تھا.جمعہ با قاعدگی سے ایوانِ توحید میں پڑھتے تھے.اگر چہ پولیس کا پہرہ بھی ہوتا تھا، بعض پابندیاں بھی تھیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے چندوں میں بڑے با قاعدہ تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے پسماندگان جو ہیں ان کو صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.مرحوم کے پسماندگان میں والد مکرم محمد سرور صاحب سیکرٹری دعوت الی اللہ حلقہ، والدہ عشرت پروین صاحبہ اور اس کے علاوہ تین بھائی یا سر احمد ( یہ جرمنی میں ہیں ) ، ناصر احمد (امریکہ میں ہیں ) اور محمد احمد راولپنڈی میں ہیں سوگوار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 07 فروری 2014 ء تا 13 فروری 2014 ، جلد 21 شماره 06 صفحه 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 43 4 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرز مسروراحمد خلیفة المسح لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014 ء بمطابق 24 صلح 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج بھی گزشتہ خطبہ کا مضمون ہی جاری رہے گا.پہلے جو باتیں ہوئیں اُن کی مزید وضاحت یا اُن کے بہترین نتائج کے حصول کے لئے کوشش کے مزید راستے کیا ہیں، طریق کیا ہیں، جن سے ہم جماعت کے ایک بڑے حصہ میں بہتری پیدا کر سکتے ہیں.اس بارے میں آج کچھ بیان ہوگا.گزشتہ دو خطبات میں اس بات کا تفصیل سے ذکر ہوا اور یہ ذکر ہونے کی وجہ سے ہم پر یہ بات واضح ہوگئی کہ عملی اصلاح کے لئے تین باتیں انسان میں پیدا ہو جائیں تو عملی اصلاح جلد اور بہتر طور پر ہوسکتی ہے.یعنی قوت ارادی کا پیدا ہونا جو دین کے حوالے سے اگر دیکھی جائے تو ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا ہے.دوسرے علمی کمی کو دور کرنا.اور تیسرے قوت عملی کی کمزوری کو دور کرنا.جیسا کہ میں نے کہا آج میں بعض اور پہلو بیان کروں گا جن کو حضرت مصلح موعود نے تفصیل سے بیان کیا ہے، اس میں سے کچھ کچھ پوائنٹ میں لیتا ہوں.لیکن اس بارے میں آج جو باتیں ہوں گی اس کے لئے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مربیان، ہمارے علماء اور ہمارے وہ عہدیداران اور امراء جن کو نصائح کا موقع ملتا ہے یا جن کے فرائض میں یہ داخل ہے اور ان عہدیداروں میں ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی شامل ہیں، خاص طور پر ان باتوں کو سامنے رکھیں تاکہ جماعت کے افراد کی عملی اصلاح میں اپنا کردار بھر پور طور پر ادا کرسکیں.اس بارے میں بہت سی باتیں میں جماعت کے سامنے وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہتا ہوں اور ایم ٹی اے کی نعمت کی وجہ سے
خطبات مسرور جلد 12 44 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء جماعت کے افراد جہاں کہیں بھی ہیں اگر وہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے رابطہ رکھتے ہیں تو میری باتیں سن لیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن پر اثر بھی ہوتا ہے یا کم از کم اچھی تعداد میں لوگوں پر اثر ہوتا ہے.لیکن مربیان، امراء اور عہدیداران کا کام ہے کہ اپنے پروگرام اس نہج سے رکھیں کہ یہ پیغام اور اس بنا پر بنائے ہوئے پروگرام بار بار جماعت کے سامنے آئیں تا کہ ہر احمدی کے ذہن میں اُس کا دائرہ عمل اچھی طرح واضح اور راسخ ہو جائے.پس یہ بہت اہم چیز ہے جسے اُن سب کو جن کے سپر دذمہ داریاں ہیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.اصلاح کے ذرائع کا جو سب سے پہلا حصہ ہے، جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے وہ قوتِ ارادی کی مضبوطی ہے.یا دوسرے لفظوں میں ایمان ہے جس کے پیدا کرنے کے لئے انبیاء دنیا میں آتے ہیں اور وہ انبیاء تازہ اور زندہ معجزات دکھاتے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات کا اتنا وافر حصہ ہے کہ اتنا سامان کیا، اس سامان کے قریب قریب بھی کسی اور کے پاس موجود نہیں.اور اسلام کے باہر کوئی مذہب دنیا میں ایسا نہیں جس کے پاس خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام، اُس کے زندہ معجزات اور اُس کی ہستی کا مشاہدہ کرانے والے نشانات موجود ہوں، جو انسانی قلوب کو ہر قسم کی آلائشوں سے صاف کرتے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سے لبریز کر دیتے ہیں.لیکن باوجود اس ایمان کے اور باوجود ان تازہ اور زندہ معجزات کے پھر کیوں ہماری جماعت کے اعمال میں کمزوری ہے؟ اس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خیال کا یہ اظہار فرمایا ہے کہ وجہ یہ ہے کہ سلسلہ کے علماء، مربیان اور واعظین نے اس کو پھیلانے کی طرف خاص توجہ نہیں دی.حضرت مصلح.صلح موعود کی یہ بات جس طرح آج سے پچہتر ، چھہتر سال پہلے صحیح تھی ، آج بھی صحیح ہے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے.اور جوں جوں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے دُور جا رہے ہیں ہمیں اس طرف مکمل planning کر کے توجہ کی ضرورت ہے.پس آپ کا یہ فرما نا آج بھی قابلِ توجہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وفات مسیح پر جس شد و مد سے تقریریں کرتے ہیں یا معترضین کے اعتراضات پر حوالوں کے حوالے نکال کر اُن کے یعنی اُن معترضین کے بزرگوں کے جو اقوال ہیں، معترضین کے سامنے ہم پیش کرتے ہیں اور اُن کا منہ بند کر دیتے ہیں.اتنی کوشش جماعت کے افراد کے سامنے جماعت کی صحیح تعلیم پیش کرنے کی نہیں ہوئی یا کم از کم علماء کی طرف سے نہیں ہوتی.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں
خطبات مسرور جلد 12 45 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء ایسے لوگ تو مل جائیں گے جو وفات مسیح کے دلائل جانتے ہوں یا مولوی کے اعتراضات کے منہ توڑ جواب دے سکتے ہوں.یہاں بھی آپ دیکھیں کہ بعض چینلز پر یا انٹرنیٹ پر مولوی جو اعتراض کرتے ہیں اُن کے جواب اور بعض دفعہ بڑے عمدہ اور احسن رنگ میں جواب ایک عام احمدی بھی دے دیتا ہے.مجھے بھی بعض لوگ ٹی وی کے حوالے سے اپنی گفتگو کے بارے میں رپورٹ بھجواتے ہیں اور اپنے جوابات بھی لکھتے ہیں اور اُن کے جواب بھی اکثر اچھے اور علمی ہوتے ہیں.پس اس لحاظ سے تو ہم ہتھیاروں سے لیس ہیں مگر ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جنہیں یہ علم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کو کس رنگ میں پیش کیا ؟ آپ نے معرفت اور محبت الہی کے حصول کے کیا طریق بتائے؟ اُس کا قرب حاصل کرنے کی آپ نے کن الفاظ میں تاکید کی ؟ خدا تعالیٰ کے تازہ کلام اور اُس کے معجزات و نشانات آپ پر کس شان سے ظاہر ہوئے؟ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 450-451 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوع فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) اس لئے بعض دفعہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ایک شخص وفات مسیح کا تو قائل ہوتا ہے، اُس کی دلیل بھی جانتا ہے.ماں باپ کی وراثت میں اُسے احمدیت بھی مل گئی ہے لیکن ان باتوں کا علم ہونے کے باوجود، کہ یہ سب کچھ جانتا ہے، دوسری طرف ان باتوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ایمانی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے جو ابھی میں نے کیں کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت یا خدا تعالیٰ کے تازہ کلام کے معجزات و نشانات یا قرب حاصل کرنے کے طریق، اس کا علم نہیں ہوتا اس لئے کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.ایمان بھی ڈانوا ڈول ہونے لگتا ہے اور عملی کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.پس بیشک وفات مسیح کے مسئلے میں تو ایک شخص بڑا پکا ہوتا ہے لیکن اس مسئلے کے جاننے سے اُس کی عملی اصلاح نہیں ہو سکتی.اس لئے اس پہلو سے جماعت میں بعض جگہ کمزوری نظر آتی ہے.پس جب تک ہماری جماعت کے علماء، مربیان اور وہ تمام امراء اور عہدیداران جن کے ذمہ جماعت کے سامنے اپنے نمونے پیش کرنے اور اصلاح کے کام بھی ہیں، اس بات کی طرف ویسی توجہ نہیں کرتے جیسی کرنی چاہئے اور جماعت کے ہر فرد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے جو کوشش کرنے کا حق ہے، اُس وقت تک جماعت کا وہ طبقہ جو قوت ارادی کی کمزوری کی وجہ سے عملی اصلاح نہیں کر سکتا ، جماعت میں کثرت سے موجود رہے گا.ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے اور جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہم میں
خطبات مسرور جلد 12 46 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء سے کتنے ہیں جنہیں یہ شوق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں.رمضان میں ایک مہینہ نہیں یا ایک مرتبہ اعتکاف بیٹھ کر پھر ساراسال یا کئی سال اس کا اظہار کر کے نہیں بلکہ مستقل مزاجی سے اس شوق اور لگن کو اپنے او پر لاگو کر کے، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب مستقل طور پر حاصل ہو ، ہم میں سے کتنے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک کرتے ہوئے دعاؤں کے قبولیت کے نشان دکھاتا ہے، اُن سے بولتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر یہ معیار حاصل کرنا یا حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.پس اسلام کے احیائے نو کا یہی تو وہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا کرنے کے لئے آئے تھے.اگر واقع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام ہر ایک کو معلوم ہو اور آپ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کی ہر ایک میں تڑپ ہو، اگر ہمیں پتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر کتنے عظیم نشانات دکھائے اور آپ کے ماننے والوں میں سے بھی بے شمار کو نشانات سے نوازا تو ہم میں سے ہر ایک اُس مقام کے حصول کی خواہش کرتا اور اس کے لئے کوشش کرتا جہاں اُس سے بھی براہِ راست یہ نشان ظاہر ہوتے اور اُسے نظر آتے.قوتِ ایمان میں وہ جلاء پیدا ہو جاتی جس کے ذریعہ سے پھر ایسی قوت ارادی پیدا ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ایک خاص جوش پیدا کر دیتی ہے.پس اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات جن کا اظہار اللہ تعالیٰ آج تک فرماتا چلا آ رہا ہے ہمارے دلوں میں ایک جوت جگانے والا ہونا چاہئے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے آپ علیہ السلام اور اپنے اور آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کے طفیل آپ کے ہر اُسوہ کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس مقام پر پہنچ جائیں جہاں اللہ تعالیٰ ہم سے ایک خاص پیار کا سلوک کر رہا ہو.ہم دنیاوی چیزوں میں تو دوسروں کی نقل کرتے ہیں.کسی کی اچھی چیز دیکھ کر اُس کو حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کے لئے کئی طریقے بھی استعمال کرتے ہیں ، اور اس معاملے میں ہر ایک اپنی سوچ اور اپنی پہنچ کے مطابق عمل کرنے کی یا نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے.کوئی کسی کا مثلاً اچھا، خوبصورت جوڑا ہی پہنا ہوا دیکھ لے، سوٹ پہنا ہوا دیکھ لے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اُس کو بھی مل جائے اور اُس کے پاس بھی ایسا ہی ہو.کوئی کوئی اور چیز دیکھتا ہے تو اُس کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.اب توٹی وی نے دنیا کو ایک دوسرے کے اتنا قریب کر دیا ہے کہ متوسط طبقہ تو الگ رہا، غریب افراد
خطبات مسرور جلد 12 47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء بھی یہ کوشش کرتے ہیں کہ میرے پاس زندگی کی فلاں سہولت بھی موجود ہونی چاہئے اور فلاں سہولت بھی موجود ہونی چاہئے.ٹی وی بھی ہو میرے پاس اور فریج بھی ہو میرے پاس کیونکہ فلاں کے پاس بھی ہے.وہ بھی تو میرے جیسا ہے.یہ نہیں سوچتے کہ اگر فلاں کو یا زید کو یہ چیزیں اُس کے کسی عزیز نے تحفہ لے کر دی ہیں تو مجھے اس بات پر لانچ نہیں کرنا چاہئے.فوراً یہ خیال ہوتا ہے کہ زید کے پاس یہ چیز ہے تو میرے پاس بھی ہو اور پھر قرض کی کوشش ہو جاتی ہے.یا بعض لوگوں کو اس کام کے لئے بعض جگہوں پر امداد کی درخواست دینے کی بھی عادت ہو گئی ہے.بیشک جماعت کا فرض ہے کہ اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے ضرورتمند کی ضرورت پوری کرے لیکن درخواست دینے والوں کو ، خاص طور پر پاکستان ، ہندوستان یا بعض اور غریب ممالک بھی ہیں، اُن کو جائز ضرورت کے لئے درخواست دینی چاہئے اور اپنی عزت نفس کا بھی بھرم رکھنا چاہئے.اسی طرح ذرا بہتر معاشی حالت کے لوگ ہیں تو دیکھا دیکھی وہ بھی بعض چیزوں کی خواہش کرتے ہیں، نقل کرتے ہیں.کسی نئے قسم کا صوفہ دیکھا تو اُس کو لینے کی خواہش ہوئی.نئے ماڈل کے ٹی وی دیکھے تو اُس کو لینے کی خواہش ہوئی یا اسی طرح بجلی کی دوسری چیزیں یا اور gadget جو ہیں وہ دیکھے تو اُن کو لینے کی خواہش ہوئی.یا کاریں قرض لے کر بھی لے لیتے ہیں.ضمنا یہ بھی یہاں بتادوں کہ آجکل دنیا کے جو معاشی بدحالی کے حالات ہیں اُن کی ایک بڑی وجہ بنکوں کے ذریعہ سے ان سہولتوں کے لئے سُود پر لئے ہوئے قرض بھی ہیں.سود ایک بڑی لعنت ہے.جب چیزیں لینی ہوں تو یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ اُن کو کہاں لے جائے گا.بہر حال یہ چیزیں خریدنا یا سود پر قرض دینا ہی ہے جس نے آخر کار بہتوں کو دیوالیہ کر دیا.بہر حال نقل کی یہ بات ہو رہی تھی کہ لوگ دنیاوی باتوں میں نقل کرتے ہیں اور اُس کے حصول کے لئے یا تو عزت نفس کو داؤ پر لگا دیتے ہیں یا دیوالیہ ہو کر اپنی جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.یعنی دنیاوی باتوں کی نقل میں فائدے کم اور نقصان زیادہ ہیں.لیکن دین کے معاملے میں نقل اور ویسا بننے کی کوشش کرنا جیسا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانے میں ہمارے سامنے نمونہ پیش فرمایا ہے، بلکہ ہم میں سے تو بہت سوں نے اُن صحابہ کو بھی دیکھا ہوا ہے جنہوں نے قرب الہی کے نمونے قائم کئے.لیکن اُن کی نقل کی ہم کوشش نہیں کرتے جبکہ نقصان کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے اور فائدہ بھی ایسا ہے جس کو کسی پیمانے سے نا پا نہیں جا سکتا.پس کیا وجہ ہے کہ ہم اس نقل کی کوشش نہیں کرتے جو نیکیوں میں بڑھانے والی چیز کی نقل ہے.صاف ظاہر ہے کہ یا تو ہمیں ان چیزوں کا بالکل ہی علم نہیں دیا
خطبات مسرور جلد 12 48 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء جاتا جس کی وجہ سے احساس پیدا نہیں ہوتا یا اتنا تھوڑ اعلم اور اتنے عرصے بعد دیا جاتا ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے تازہ بتازہ نشانات آج بھی دکھا رہا ہے.نتیجہ ہماری اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جبکہ دنیاوی چیزوں کے لئے ہم آتے جاتے ٹی وی پر ، اخبارات پر دس مرتبہ اشتہارات دیکھتے ہیں اور دماغ میں بات بیٹھ جاتی ہے کہ میں نے کسی نہ کسی ذریعہ سے یہ چیز لینی ہے، حاصل کرنی ہے.اور اگر کسی کو سمجھایا جائے یا کوئی ویسے ہی کہہ دے کہ جب وسائل نہیں ہیں تو اس چیز کی تمہیں کیا ضرورت ہے؟ تو فوراً جواب ملتا ہے کہ کیا غریب کے جذبات نہیں ہوتے ، کیا ہمارے جذبات نہیں ہیں ، کیا ہمارے بچوں کے جذبات نہیں ہیں کہ ہمارے پاس یہ چیز ہو.لیکن یہ جذبات کبھی اس بات کے لئے نہیں ابھرتے کہ الہامات کا تذکرہ سن کر یہ خواہش پیدا ہو کہ ہمارے سے بھی کبھی خدا تعالیٰ کلام کرے.ہمارے لئے بھی خدا تعالیٰ نشانات دکھائے اور اپنی محبت سے ہمیں نوازے.اس سوچ کے نہ ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے علماء، ہمارے مربیان ، ہمارے عہد یداران اپنے اپنے دائرے میں افرادِ جماعت کے سامنے اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کی کوشش کے لئے بار بار ذکر نہیں کرتے ، یا اُس طرح ذکر نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے ، یا اُن کے اپنے نمونے ایسے نہیں ہوتے جن کو دیکھ کر اُن کی طرف توجہ پیدا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ کا بار بار ذکر کر کے اس بارے میں اُن بزرگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور نشانات کے واقعات بھی شدت سے نہیں دہرائے جاتے اور یہ یقین پیدا نہیں کرواتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کو کسی خاص وقت اور اشخاص کے لئے مخصوص نہیں کر دیا بلکہ آج بھی اللہ تعالیٰ اپنی صفات کا اظہار کرتا ہے.اگر بار بار ذکر ہو اور یہ تعلق پیدا کرنے کے طریقے بتائے جائیں ، اگر اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کا ذکر کیا جائے تو بچوں ، نو جوانوں میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ نے ہماری دعا کیوں قبول نہیں کی.اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے.پھر دعا کی قبولیت کے فلسفے کی بھی سمجھ آ جاتی ہے اور نشانات بھی ظاہر ہوتے ہیں.پس یہ بات عام طور پر بتانے کی ضرورت ہے کہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق سے جڑ کر اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے.نشانات صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات یا زمانے تک محدود نہیں تھے یا مخصوص نہیں تھے بلکہ اب بھی خدا تعالیٰ اپنی تمام تر قدرتوں کے ساتھ جلوہ دکھاتا ہے.پس نیکیوں کو حاصل کرنے کی تڑپ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی تڑپ ہماری جماعت
خطبات مسرور جلد 12 49 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء میں عام ہو جائے تو ایک بہت بڑا طبقہ ایسا پیدا ہوسکتا ہے جو گناہ کو بہت حد تک مٹادے گا.گناہ کو کمل طور پر مٹانا تو مشکل کام ہے، اس کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن بہت حد تک گناہ پر غالب آیا جا سکتا ہے.یا اکثر حصہ جماعت کا ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگا اور ہوسکتا ہے جو گناہوں پر غالب آ جائے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 452-453 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ) پس اس کے لئے ہمارے مربیان اور امراء اور عہدیداران کو اپنے اپنے دائرے میں اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ بتا کر اصلاح کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ کی کامل پیروی کرنے والے خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے اور ایسے لوگوں کی اکثر دعاؤں کو خدا تعالی سنتا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ ہیں اور مجھے لکھتے بھی رہتے ہیں.ایسے لوگوں کے بعض واقعات کا مختلف وقتوں میں ذکر بھی ہوتا رہتا ہے اور میں بھی بیان کرتارہتا ہوں.پس ایسے واقعات ہیں جو نقل کی تحریک پیدا کرنے والے ہونے چاہئیں نقل اگر کرنی ہے تو ایسے واقعات کو سن کر اپنے اوپر بھی یہ حالت طاری کرنے کے لئے نقل کرنی چاہئے تا کہ خدا تعالیٰ سے قرب کا رشتہ قائم ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ: دنیا میں جس قدر قو میں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو...کیا ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے.وہ میری دعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں.بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے.جس نے کہا.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن : 61) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے.کوئی ہو جو ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ ( یہ چیز اہم ہے جو فرمایا ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو.وہ مجاہدہ کرے اور دعاؤں میں لگا رہے.آخر اس کی دعاؤں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ (201) پس یہ باتیں بار بار جماعت کے سامنے بیان کی جائیں تو یقینا اس میں طاقت پیدا ہوسکتی ہے.یا جماعت کے ایک بھاری حصے میں یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے اور اُس کی قوتِ ارادی ایسی مضبوط ہو سکتی ہے کہ وہ ہزاروں گناہوں پر غالب آ جائے اور اُن سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا
خطبات مسرور جلد 12 50 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء تعلق : پیدا ہو جائے جو کبھی ڈانواڈول ہونے والا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ انسانیت کو گناہوں سے بچایا جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی رضا ہر چیز پر مقدم ہو جائے.عبادت سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے یا فرض سمجھ کر جلدی جلدی ادا کرنے کی بجائے ، جس طرح کہ سر سے، گلے سے ایک بوجھ ہے جوا تارنا ہوتا ہے،اُس طرح اتارنے کی بجائے ایک شوق پیدا ہو.میں اس وقت آپ کے سامنے چند مثالیں بھی پیش کر دیتا ہوں کہ احمدیت نے کیا عملی تبدیلی لوگوں میں پیدا کی؟ ہمارے مبلغ قرغزستان نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ احمدی مکرم عمر صاحب، انہوں نے 10 رجون 2002ء کو بیعت کی تھی.اٹھاون برس اُن کی عمر ہے.پیدائشی مسلمان تھے لیکن کمیونسٹ نظریات کے حامی تھے.انہوں نے بیعت کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا.کہتے ہیں کہ جس دن خاکسار نے بیعت کے لئے خط لکھا وہ دن در حقیقت میری زندگی کا ایک یادگار دن تھا اور میں اُس دن کو اپنی ایک نئی پیدائش سے تعبیر کرتا ہوں.اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل میں ہر طرح کی دینی جماعتوں کے پاس گیا، مگر میری زندگی میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہ ہو سکی، جبکہ بیعت کے بعد میری زندگی میں حقیقی روحانی انقلاب بر پا ہو گیا تھا.بیعت سے پہلے نماز میرے لئے ایک بالکل اجنبی چیز تھی.مگر آج یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجوقتہ نماز میری زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے.اور تہجد میں ناغہ کرنا میرے لئے ایک امر محال ہے اور آج میرا دل اس یقین سے پر ہے کہ جب انسان سچائی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے تو اُس کی منزل اُسے ضرور مل جاتی ہے اور اُسی منزل پر پہنچ کر ہی اُس کی حقیقی روحانی تربیت ہوتی ہے اور اُسے ترقی نصیب ہوتی ہے اور یہی وقت دراصل اُس کی قلبی تسکین کا وقت ہوتا ہے.تو یہ انقلابات ہیں جو لوگوں میں ، نئے آنے والوں میں پیدا ہور ہے ہیں.پھر ہمارے مشنری کو تو نو ، افریقہ سے لکھتے ہیں کہ اور بیسو صاحب آرمی میں لیفٹینٹ کی پوسٹ پر تعینات ہیں.2013 ء میں انہوں نے بیعت کی.وہ اپنی قبولیت احمدیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میری پیدائش مسلمانوں کی عید کے دن ہوئی تھی.تو میرے مشرک باپ نے دائی سے کہا کہ اس کا مسلمانوں کا نام رکھو.وہاں افریقہ میں یہ رواج ہے کہ جس دن پیدا ہواُس دن کا نام رکھ دیتے ہیں یا اُن خصوصیات کی وجہ سے بعض نام رکھے جاتے ہیں.تو کہتے ہیں بہر حال عید والے دن میں پیدا ہوا، باپ تو
خطبات مسرور جلد 12 51 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء میرا مشرک تھا لیکن مسلمانوں کی عید ہو رہی تھی.میرے باپ نے کہا کہ اس کو مسلمان بنانا ہے اس کا مسلمان نام رکھو کیونکہ یہ عید کے دن پیدا ہوا ہے.چنانچہ کہتے ہیں بچپن میں میں نے کچھ عرصہ مسجدوں کا رخ کیا مگر ایک دن جمعہ کی نماز کے بعد واپس آ رہا تھا تو چوٹ لگ گئی.خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے آ رہا ہوں تو ٹھوکر لگنے کا تو سوال ہی نہیں کہ میں گروں اور چوٹ لگ جائے یا کسی بھی ذریعہ سے چوٹ لگے ، تو اس خیال سے کہ خدا کی عبادت کے بعد بھی ٹھوکر لگی تو پھر عبادت کا فائدہ کیا ؟ کہتے ہیں میں اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہو گیا اور کبھی ایک چرچ میں جاتا، کبھی دوسرے چرچ میں ، اور عیسائیت میں بھی فرقے بدلتا رہتا.کہتے ہیں میرے مسائل اور بڑھ گئے یہاں تک کہ بیوی سے بھی جھگڑا ہو گیا،سکون برباد ہو گیا.ہر وقت پریشانیوں میں گھرا رہتا تھا.کہتے ہیں میرے والدین اور بزرگ تھے.انہوں نے ہمارے گھر یلو مسائل سلجھانے کی کوشش کی ، بہت میٹنگیں ہوئیں ، پنچائتیں ہوئیں صلح کروانے کی ہر کوشش ہوئی لیکن بیکار، بے فائدہ.ان حالات میں جماعت کے داعی الی اللہ، محمد صاحب اُن کو ملے.کہتے ہیں اُن کو میرے حالات کا علم ہوا تو کہنے لگے تم نے تمام نسخے آزما لئے.مسلمان ہوئے ، عیسائی ہوئے ، مسائل بڑھتے رہے، مسائل حل نہیں ہوئے.گھر یلو طور پر بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی.پنچائتی طور پر بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں.اب تمہیں میں ایک نسخہ بتاتا ہوں.یہ نسخہ آزما ؤ اور دیکھو پھر کیا نتیجہ اس کا نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دعا کرو.کیونکہ ہمارے مذہب کی سچائی کا نشان یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.تم بھی اپنے لئے دعا کرو اور میں بھی تمہارے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہاری بیوی کے درمیان صلح اور حسن سلوک قائم کر دے اور جب یہ قائم ہو جائے گا تو کیونکہ میں نے تمہیں دعا کے لئے کہا ہے، کیونکہ خالص ہو کر تم نے دعا مانگتی ہے اور میں خود بھی تمہارے لئے دعا کروں گا.کیونکہ میں یہ کہ رہا ہوں اس لئے جب یہ بات صحیح ہو جائے گی ، جب تمہارے مسائل حل ہو جائیں گے تو پھر یا درکھو کہ یہ ہمارے امام کی صداقت کا نشان ہوگا.چنانچہ کئی دن اس نے دعا کی.موصوف کہتے ہیں کہ ان دعاؤں کے نتیجہ میں ایک ایک کر کے میرے سارے مسائل حل ہونے لگے اور بیوی سے بھی صلح ہو گئی.کہتے ہیں کہ یہی راہ اصل اسلام کی راہ ہے جس میں خدا ملتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں.اب میری کا یا پلٹ گئی ہے اور کہا کہ یہ سب مسیح موعود، امام الزمان علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے اور آپ کے ماننے میں نجات ہے.اور اب وہ احمدی ہیں.یہ اُن احمدیوں کے لئے بھی سبق ہے جو اپنے آپ کو پرانے احمدی خاندانوں سے منسوب کرتے
خطبات مسرور جلد 12 52 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء ہیں لیکن اُن کے گھروں میں بے چینیاں ہیں.اور بعض گھر بے چینیوں سے بھرے پڑے ہیں، مسائل میرے سامنے آتے ہیں کہ خاوند بیوی کے حقوق نہیں ادا کرتا، بیوی خاوند کے حقوق نہیں ادا کرتی.ایمان میں پختگی پیدا کر کے عملی اصلاح کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں تو پھر یہ مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں.یہ بھی طریقہ ہر ایک کو آزمانا چاہئے.اپنی اناؤں کو چھوڑ کر اپنے دلوں میں جو پہلے ایک سوچ بنا لی ہوتی ہے کہ اس نے یہ کہا اور میں نے یہ کہنا ہے.اُس نے یہ کہنا ہے اور میں نے یہ کہنا ہے.اس بات کو ختم کر کے خالصہ اللہ تعالیٰ سے مد مانگنی چاہئے تبھی اللہ تعالیٰ پھر صحیح راستے دکھاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ ہمیں اس زمانے میں بھی دکھاتا ہے اُن کے بارے میں بھی بتا دوں.ٹیچی مان (Techiman) گھانا کے ہمارے سرکٹ مشنری ہیں.کورا بورا ان کا گاؤں ہے.کہتے ہیں کہ وہاں ایک نواحمدی جبریلا صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ کاشت کا موسم ہے.میرے غیر مسلم بت پرست والد نے مجھے بتوں کے حضور حاضر ہونے اور نذرانہ پیش کرنے کا کہا ہے تاکہ ان کی برکت سے میری یام (Yam) کی فصل اچھی ہو جائے اور خوب پھل آئے ( یام وہاں کی ایک خاص فصل ہے.لوگ کھاتے ہیں، ویسے تو یہاں بھی ملتا ہے).تو معلم لکھتے ہیں کہ جب میں نے اُسے کہا کہ ان بتوں سے باز ہی رہو اور والد کو بھی باز رکھو.نیز اُسے دعائے استخارہ سکھائی تو خدا کے فضل سے جب کٹائی کا وقت آیا تو اس نوجوان کی یام کی فصل بہت اچھی ہوئی اور اُس کے والد کی نسبت اُس کی فصل کو اور زیادہ اچھا پھل لگا.والد مشرک تھا اُس کی نسبت اس کی فصل بہت بہتر تھی.اس کے والد نے یہ نشان دیکھ کر اُسے کہا کہ میرے بیٹے کا جو خدا ہے وہ سچا خدا ہے.پھر جو بت اُس کے پاس موجود تھے وہ سارے جلا دیئے.تو یہ وہ ایمان کی مضبوطی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے سے نواحمدیوں میں پیدا ہورہی ہے.پھر ہمارے ایلڈوریٹ (Eldoret) کینیا کے مبلغ ہیں.مسجد کے احاطے میں اُن کا جو دفتر تھا وہاں کسی طرح مخالف احمدیت نے داخل ہو کر جو اصل میں تو پہلے ملازم تھا اور وہاں اُس کا آنا جانا تھا.بہر حال کچھ ناراضگیاں ہو گئیں اور اُس کو فارغ کیا گیا تو اُس نے داخل ہو کر چھت کی جو سیلنگ (ceiling) ہوتی ہے اُس میں وہ دوائی، وہ نشہ آور ڈرگز رکھ دیں جو ممنوعہ ہیں.اور پولیس کو رپورٹ کر دی کہ یہاں احمدی مبلغ رہتا ہے اور اسلام کی تبلیغ کا تو یہ بس ایک بہانہ ہے.اصل میں تو یہ ڈرگ کا کاروبار کرتا ہے.اس پر پولیس نے اپنی کارروائی کرتے ہوئے دفتر پر چھاپا مارا اور جب اُس کی بتائی
خطبات مسرور جلد 12 53 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء ہوئی جگہ چھت میں سے کھولی تو وہاں سے دوائی حاصل ہو گئی.بہر حال پولیس کو سب کچھ بتایا گیا کہ یہ کسی مخالف نے شرارت کی ہے لیکن پولیس نے کچھ نہیں سنا اور انہوں نے کہا ہم تو اپنی کارروائی کریں گے.ہمارے مشنری کو پولیس سٹیشن لے گئے اور حوالات میں بند کر دیا.اگلے دن کیس عدالت میں پیش ہوا تو حج نے کیس سننے کے بجائے تاریخ دے دی.خیر انہوں نے مجھے بھی یہاں اطلاع کی تو اُن کو میں نے دعائیہ جواب بھی دیا.پھر دوبارہ پیشی ہوئی تو کہتے ہیں جب میں جاتا اور کٹہرے میں حج کے سامنے پیش ہوتا تھا تو حج بڑے غور سے مجھے دیکھتا تھا اور اُس کے بعد gentleman sit down کہہ کے وہ مجھے بٹھا دیتا تھا اور وکیلوں کو اگلی تاریخ دے دیتا تھا.کہتے ہیں عدالت میں حاضر ہونے کی تاریخ سے دو دن قبل صبح کی نماز کے بعد جب بہت فکر پیدا ہوئی تو میں نے دعا کی.قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگا تو دل میں خیال آیا کہ قرآن سے نیک فال نکالی جائے تو سوچا کہ قرآن کو کھولتے ہیں جس لفظ پر نظر پڑے گی اُس میں کوئی پیغام ہو گا.جب دیکھا تو اس آیت پر نظر پڑی کہ يُنَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ - (الانبياء: 70) اس سے دل کو تسلی ہوئی کہ پیغام تو اچھا ہے.خیر کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد میں ڈاکخانہ سے ڈاک لینے گیا تو وہاں میرا خط بھی اُس میں اُن کو آیا ہوا تھا جس میں میں نے یہ لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور حفاظت میں رکھے اور منافقین کو اپنے منصوبوں میں نا کام کرے اور جماعت کو ہر ابتلاء سے بچائے اور مزید ترقیات دئے.کہتے ہیں یہ خط پڑھنے کے بعد اور یہ ( آیت) دیکھنے کے بعد میرے دل میں میخ کی طرح یہ گڑھ گیا کہ اب ضرور اللہ تعالی فضل کرے گا اور چند احباب کو بھی میں نے یہ خوشخبری سنادی کہ اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے.چنانچہ کہتے ہیں جب میں عدالت میں حاضر ہوا تو حسب سابق جج نے مجھے بٹھا دیا اور وکیلوں سے بات کرنے کے بعد مجھے کہا کہ تم آزاد ہو.جاؤ اور اپنا کام کرو.تمہارے خلاف کوئی کیس نہیں.پس اگر ایمان مضبوط ہو تو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین ہوتا ہے.اور انسان صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ پھر نشان دکھاتا ہے.یہی باتیں ہیں، یہ جہاں اپنا ایمان مضبوط کرتی ہیں، اپنی عملی حالت کو درست رکھتی ہیں وہاں دوسروں کے لئے بھی مضبوطی ایمان کا باعث بنتی ہیں.پس یہ چیز ہے جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.عملی اصلاح کے لئے دوسری چیز جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے وہ علمی قوت ہے یا علم کا ہونا ہے.اس بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے، دوبارہ بتا دوں کہ غلطی سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ کچھ گناہ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ گناہ چھوٹے ہوتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن گناہوں کو انسان چھوٹا سمجھ رہا ہوتا ہے وہ گناہ اُس
خطبات مسرور جلد 12 54 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتا ہے.اگر زیادہ ہیں تو جو زیادہ گناہ ہیں وہ دل و دماغ میں بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ تو کوئی گناہ ہے ہی نہیں.چھوٹی سی بات ہے یا ایسا معمولی گناہ ہے جس کے بارے میں کوئی زیادہ باز پرس نہیں ہوگی.خود ہی انسان تصور پیدا کر لیتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 453 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ) ابھی گزشتہ خطبوں میں شاید دو ہفتے پہلے ہی میں نے توجہ دلائی تھی کہ اسائلم سیکرز جو ہیں، وہ بھی یہاں آ کر جب غلط بیانی کرتے ہیں اور اپنا کیس منظور کروانے کے لئے جھوٹ کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو حقیقت میں وہ اپنا کیس خراب کر رہے ہوتے ہیں.اور نہ صرف اپنا کیس خراب کر رہے ہوتے ہیں بلکہ جماعت کی ساکھ پر بھی حرف آ رہا ہوتا ہے.لیکن مجھے کسی نے بتایا کہ خطبہ کے بعد یہاں سے ایک اسائلم سیکر وکیل کے پاس گیا اور وکیل صاحب بھی احمدی ہیں.وہ بھی شاید خطبہ سن رہے تھے.اور وکیل شاید کوئی جماعتی خدمت بھی کرتے ہیں.اُس وکیل نے اس اسائلم لینے والے کو کیس تیار کرتے ہوئے غلط بیانی سے بعض باتیں لکھ دیں کہ یہ غلط باتیں بیچ میں ڈالنی پڑیں گی.حالانکہ ان کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا.اور مؤکل کو کہہ دیا کہ اس کے بغیر کیس بنتا ہی نہیں.پھر تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا.اس لئے ایسی غلط بیانی کرنا ضروری ہے.حالانکہ میں نے واضح طور پر بتایا تھا کہ کسی غلط بیانی اور جھوٹ سے کام نہیں لینا اور احمدیوں پر ظلموں کے واقعات تو ویسے ہی اتنے واضح اور صاف ہیں اور اب دنیا کو بھی پتا ہے کہ اس کے لئے کسی وکیل کی ہشیاری اور چالا کی اور جھوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی.پس مربیان کو بھی اور عہدیداران کو بھی بار بار جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرنی ہوگی.بار بار یہ ذکر کرتے چلے جانا ہو گا کہ کوئی گناہ بھی بڑا اور چھوٹا نہیں ہے.گناہ گناہ ہے اور اس سے ہم نے بچنا ہے.ہر جھوٹ جھوٹ ہے اور اس جھوٹ کے شرک سے ہم نے بچنا ہے.اگر اپنا تعلق خدا تعالیٰ سے مضبوط ہے تو پھر فکر کی ضرورت نہیں.نشان ظاہر ہوں گے اور انسان پھر دیکھتا ہے.لیکن تلقین کرنے والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اُن کی اپنی حالت بھی ایسے معیار کی ہو جہاں وہ اپنی قوت ارادی کے اعلیٰ معیاروں کی تلاش میں ہوں.اور عملی طور پر بھی اُن کے عمل اور علم میں مطابقت پائی جاتی ہو.اس زمرہ میں شمار نہ ہوں جو کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں.بہر حال جماعتوں کو بار بار درسوں وغیرہ میں ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے اور عملی حالت بہتر کرنے کے لئے علمی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے توجہ دلانے کی ضرورت ہے.پس اگر ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں کام شروع کر دے تو ایک واضح تبدیلی نظر آ سکتی ہے.
خطبات مسرور جلد 12 55 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء اس زمانے میں جبکہ علم کے نام پر سکولوں میں مختلف برائیوں کو بھی بچوں کو بتایا جاتا ہے ہمارے نظام کو بہت بڑھ کر بچوں اور نوجوانوں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے.ماں باپ کو اپنی حالتوں کی طرف نظر کرتے ہوئے اُس علم کے نقصانات سے اپنے آپ کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو بچوں کو علم کی آگاہی کے نام پر بچپن میں سکول میں دیا جاتا ہے.ماں باپ کو بھی پتا ہونا چاہئے تا کہ اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی بچا ئیں.یہاں بہت چھوٹی عمر میں بعض غیر ضروری باتیں بچوں کو سکھا دی جاتی ہیں اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اچھے برے کی تمیز ہو جائے.جبکہ حقیقت میں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی بلکہ بچوں کی اکثریت کے ذہن بچپن سے ہی غلط سوچ رکھنے والے بن جاتے ہیں.کیونکہ اُن کے سامنے اُن کے ماں باپ کے نمونے یا اُس کے ماحول کے نمونے برائی والے زیادہ ہوتے ہیں ، اچھائی والے کم ہوتے ہیں.پس مربیان، عہد یداران ، ذیلی تنظیموں کے عہدیداران، والدین، ان سب کو مل کر مشترکہ کوشش کرنی پڑے گی کہ غلط علم کی جگہ صحیح علم سے آگاہی کا انتظام کریں.سکولوں کے طریق کو ہم روک نہیں سکتے.وہاں تو ہم کچھ دخل اندازی نہیں کر سکتے.لیکن گندگی اور بے حیائی کا فرق بتا کر، بچوں کو اعتماد میں لے کر اپنے عملی نمونے دکھا کر ماحول کے اثر سے بچا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نمازوں کے بعد میں دو غائب جنازے بھی پڑھاؤں گا.ایک جنازہ ہے مکرمہ نواب بی بی صاحبہ جو مانگٹ اونچا ضلع حافظ آباد کی رہنے والی تھیں اور ہمارے مبلغ سلسلہ گیانا (Guyana) احسان اللہ مانگٹ صاحب کی والدہ تھیں.19 جنوری 2014ء کو بقضائے الہی وفات پاگئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ان کے ددھیال کا تعلق اجنیاں والا ضلع شیخوپورہ سے ہے.ننھیال کا تعلق مانگٹ اونچا ضلع حافظ آباد سے ہے.آپ حضرت ناصر دین صاحب مانگٹ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پڑنو اسی تھیں.بہت مہمان نواز ، نرم مزاج، غریب پرور، مخلص اور نیک خاتون تھیں.گاؤں کے احمدی اور غیر احمدی سب آپ کی بڑی عزت کیا کرتے تھے.مربیانِ سلسلہ کے ساتھ بہت شفقت اور پیار کے ساتھ پیش آتی تھیں.خلافت کے ساتھ بہت عقیدت تھی.اکثر پنجابی نظمیں بھی خلافت کے بارے میں انہوں نے بنائی ہوئی تھیں اور سنایا کرتی تھیں.پسماندگان میں تین بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا احسان اللہ مانگٹ صاحب مربی سلسلہ ہیں، آجکل گیا نا جنوبی امریکہ کے مبلغ انچارج ہیں اور
خطبات مسرور جلد 12 56 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے وہ اپنی والدہ کے جنازہ میں شامل بھی نہیں ہو سکے.اللہ تعالیٰ اُن کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.دوسرا جنازہ مکرم شیخ عبدالرشید شر ما صاحب شکار پور سندھ کا ہے جو 16 جنوری 2014ء کو نوے سال کی عمر میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ حضرت شیخ عبدالرحیم شرما صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے.مولوی عبدالکریم شر ما صاحب جو بڑا لمبا عرصہ یہاں رہے ہیں اُن کے بھائی تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصف صدی سے زائد عرصہ شکار پور سندھ میں جماعت کی بھر پور خدمت کی توفیق پائی.پارٹیشن سے قبل قادیان میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارخانے میں انہیں بہت محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا.پاکستان کے قیام کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بعض ہدایات تھیں اُن پر عمل کرنے کی توفیق پائی.اور پھر پارٹیشن کے بعد آپ کا اس وقت یہاں کوئی ایسا کاروبار نہیں تھا تو میرے والد صاحب صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے مشورے کے بعد شکار پور میں گئے.وہاں اُن کو ایک کارخانہ الاٹ ہو گیا تو پھر انہوں نے وہاں جا کر احمدیوں کو تلاش کر کے جماعت قائم کی.اس کے پہلے صدر بھی آپ مقرر ہوئے اور اپنے کارخانے کے باغ میں ان کو ایک خوبصورت مسجد بھی بنانے کی توفیق ملی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کو چار اضلاع سکھر، شکار پور، جیکب آباد اور گونگی کا امیر مقرر فرمایا تھا.1982ء میں ان کی اہلیہ فوت ہوئیں اور اکتیس سال کا عرصہ انتہائی صبر اور حو صلے سے انہوں نے گزارا.اس دوران 1995ء میں آپ کے بیٹے شیخ مبارک احمد شرما کو مخالفانہ فسادات کے دوران شکار پور میں شہید کیا گیا.پھر 1997ء میں آپ کے دوسرے بیٹے مظفر احمد شرما کو بھی شہید کر دیا گیا لیکن آپ کے پایہ ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار اور احسان مند ہی رہے.بہت بہادر اور نڈر انسان تھے.مخالفین احمدیت کا ایک جلوس اُن کے گھر واقع شکار پور اور فیکٹری پر حملہ آور ہوا تو آپ بہت بہادری سے اکیلے ہی اس کے مقابلے کے لئے باہر نکل کھڑے ہوئے جبکہ پولیس کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی.انہوں نے آگے بڑھ کر جلوس کی قیادت کرنے والے مولوی کو پکڑ لیا.یہ منظر دیکھ کر سارا جلوس بھاگ گیا.پولیس والے بھی حیران تھے.بار بار پوچھتے تھے کہ آپ نے جلوس کو کیسے بھگا دیا.اس کے بعد یہ اسلام آباد منتقل ہو گئے.خلافت سے بڑا مضبوط تعلق تھا.مالی قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے.بزرگوں کی طرف سے بھی با قاعدگی سے چندہ دیتے تھے.پاکستان کی بہت سی مساجد کی تعمیر میں بڑی مالی قربانی دی.موصی تھے اور پورے سال کا حصہ
خطبات مسرور جلد 12 57 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 جنوری 2014ء آمد سال کے شروع میں ادا کر دیا کرتے تھے.آپ کے پسماندگان میں پانچ بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں.ایک بیٹی لئیقہ فوزیہ صاحبہ نائیجیریا میں ہے.وہ بھی ڈاکٹر ہیں اور (ان کے میاں ) واقف زندگی ڈاکٹر ملک مدثر احمد صاحب ہیں.دونوں ہی ڈاکٹر لعیقہ فوزیہ بھی اور اُن کے میاں ڈاکٹر مدثر بھی وقف زندگی ہیں.نائیجیریا میں خدمات بجالا رہے ہیں.اسی طرح ان کے پوتے مکرم سہیل مبارک شر ما صاحب مربی سلسله، آج کل صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پارہے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان کی اولا د کو اور نسل کو احسن رنگ میں اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور وفا سے اس تعلق کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 14 فروری 2014 ء تا 20 فروری 2014 ، جلد 21 شماره 07 صفحه 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 12 58 5 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014 ء بمطابق 31 صلح 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں اصلاح اعمال یا تربیت کے حوالے سے مربیان، اس میں تمام واقفین زندگی شامل ہیں ، امراء اور عہدیداران کی ذمہ داریوں کی بات ہو رہی تھی کہ کس طرح انہیں اپنا کردار عملی اصلاح کی روک کے اسباب پر قابو پانے کے لئے ادا کرنا چاہئے اور اس کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہے جن کو مر بیان اور عہدیداران کو اپنے اوپر لاگو کر کے پھر جماعت کو بتانے اور دکھانے کی ضرورت ہے.یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ وہ علماء اور واعظین جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تھے اُن میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شامل تھے اور صحابہ سے تربیت پانے والے بھی شامل تھے، اُن کا تعلق باللہ اور ایمان اور یقین کا معیار بھی یقیناً بہت اعلیٰ تھا.اُن کی کمی ان باتوں میں نہیں تھی.کمی اس بات کی تھی جس کی طرف حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توجہ دلائی کہ ترجیحات کو بدلنے کی ضرورت ہے یا اعتقادی مسائل پر جس طرح زور دیا جا رہا ہے اسی طرح عملی اصلاح کی اہمیت پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات اور اپنے ذاتی تعلق باللہ اور اطاعت خلافت اور احترام نظام کے حوالے سے بھی افراد جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے.لیکن آجکل ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارا ان باتوں میں وہ معیار نہیں ہے.اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ مربیان اور عہدیداران اپنے اوپر لاگو کر کے پھر افرادِ جماعت کو بتائیں تو اس کی خاص اہمیت ہے.یعنی اپنے پر لاگو کرنے کے لفظ پر غور کرنے اور عمل کرنے اور اپنا نمونہ قائم کرنے کی بہت ضرورت ہے تبھی اصلاحی باتوں کا اثر بھی حقیقی رنگ میں ہوگا.
خطبات مسرور جلد 12 59 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء گزشتہ خطبہ میں قوت ارادی کے پیدا کرنے اور علمی کمزوری دور کرنے کا ذکر ہو گیا تھا لیکن تیسری بات اس ضمن میں بیان نہیں ہوئی تھی.یعنی عملی کمزوری کو دور کرنے کا طریق یا عملی قوت کو کس طرح بڑھایا جاسکتا ہے.اس بارے میں آج کچھ کہوں گا.اس کے لئے جیسا کہ پہلے خطبات میں ذکر ہو چکا ہے، بیرونی علاج یا مدد کی ضرورت ہے.یا کہ سکتے ہیں کہ دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہے.اور عملی اصلاح کے لئے یہ سہارا دو قسم کا ہوتا ہے یا دو قسم کے سہاروں، ایک نگرانی کی اور دوسرا جبر کی ضرورت ہے.نگرانی یہ ہے کہ مستقل نظر میں رکھا جائے، زیر نگرانی رکھا جائے کہ کہیں کوئی بد عمل نہ کر لے.اس قسم کی نگرانی دنیاوی معاملات میں بھی ہوتی ہے.گھروں میں ماں باپ بچوں کی نگرانی کرتے ہیں.سکولوں میں استاد علاوہ پڑھانے کے نگرانی کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں.بعض دفعہ حکومت کے کارندے نگرانی کر رہے ہوتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ ہم نگرانی کریں گے.سڑکوں پر ٹریفک کے لئے مستقل کیمرے لگائے ہوتے ہیں اور بورڈ لگے ہوتے ہیں کہ کیمرہ لگا ہوا ہے.یہ نگرانی کا ایک عمل ہے.جو بچے ماں باپ کی زیادتیوں کا نشانہ بنتے ہیں اُن کے والدین کو warning دی جاتی ہے کہ ہم نگرانی کریں گے.اگر بچوں کو زیادہ تنگ کیا گیا تو پھر بچوں کی بہبود کا جو ادارہ ہے وہ کہتا ہے کہ ہم بچے لے جائیں گے.ان ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ بہت عام ہے.بلکہ میرے خیال میں تو بچوں کے معاملے میں ناجائز حد تک یہ نگرانی ہوتی ہے.اور ماں باپ بچوں سے ڈر کر یا اس ادارے سے ڈر کر جائز روک ٹوک بھی بچوں پر نہیں کرتے اور نتیجہ بسا اوقات بچے بھی بگڑ جاتے ہیں.دنیا کے معاملات میں تو یہ نگرانی بعض دفعہ نقصان کا باعث بھی بن رہی ہوتی ہے.پھر خاوند بیوی کے تعلقات میں خرابی کی وجہ سے بھی اُن کی نگرانی ہوتی ہے.پھر ملزمان کی نگرانی ہوتی ہے.بہر حال اس ساری نگرانی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُس کو اُن کاموں سے روکا جائے جن کی وجہ سے فساد پیدا ہو سکتا ہے یا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اصلاح ہو.بہر حال نگرانی ہر معاشرے کے قانون میں اصلاح کا ایک ذریعہ ہے اور عملی اصلاح کرنے کے لئے دین بھی اس کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے.اور بہت سے غلط کاموں سے انسان اس وجہ سے بچ رہا ہوتا ہے کہ معاشرہ اس کی نگرانی کر رہا ہے.ماں باپ اپنے دائرے میں نگرانی کر رہے ہوتے ہیں.مربیان کا اپنے دائرے میں یہ گرانی کرنا کام ہے.اور باقی نظام کو بھی اپنے اپنے دائرے میں نگران بننا ضروری ہے.اور جب اسلام کی تعلیم بھی سامنے ہو کہ ہر نگران نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا.(صحیح البخاری کتاب الجمعه باب الجمعة فى القرى والمدن حدیث نمبر (893
خطبات مسرور جلد 12 60 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء تو نہ صرف اُن کی اصلاح ہوگی جن کی نگرانی کی جارہی ہے بلکہ نگرانوں کی بھی اصلاح ہورہی ہو گی.بہر حال عملی اصلاح کے لئے نگرانی بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے.دوسری بات جو اصلاح کے لئے ضروری ہے جبر ہے.یہاں کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ دین کے معاملے میں جبر نہیں ہے دوسری طرف عملی اصلاح کے لئے جو علاج تجویز کیا جارہا ہے، وہ جبر ہے.پس واضح ہو کہ یہ جبر دین قبول کرنے یا دین چھوڑنے کے معاملے میں نہیں ہے.ہر ایک آزاد ہے، جس دین کو چاہے اختیار کرے اور جس دین کو چاہے چھوڑ دے.اسلام تو بڑا واضح طور پر یہ اختیار دیتا ہے.یہاں جبریہ ہے کہ دین کی طرف منسوب ہو کر پھر اُس کے قواعد پر عمل نہ کرنا اور اُسے توڑنا، ایک طرف تو اپنے آپ کو نظام جماعت کا حصہ کہنا اور پھر نظام کے قواعد کو توڑنا.یہ بات اگر ہو رہی ہے تو پھر بہر حال سختی ہوگی اور یہاں جبر سے یہی مراد ہے.نظام کا حصہ بن کر رہنا ہے تو پھر تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا.ورنہ سزا مل سکتی ہے، جرمانہ بھی ہوسکتا ہے، بعض قسم کی پابندیاں بھی عائد ہوسکتی ہیں.اور ان سب باتوں کا مقصد اصلاح کرنا ہے تا کہ قوت عملی کی کمزوری کو دور کیا جاسکے.جماعت میں بھی جب نظام جماعت سزا دیتا ہے تو اصل مقصد اصلاح ہوتا ہے.کسی کی سبکی یا کسی کو بلا وجہ تکلیف میں ڈالنا نہیں ہوتا.یہ جبر حکومتی قوانین میں بھی لاگو ہے.سزائیں بھی ملتی ہیں، جیلوں میں بھی ڈالا جاتا ہے، جرمانے بھی ہوتے ہیں، بعض دفعہ مارا بھی جاتا ہے.اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میں امن رہے اور جو دوسرے کو نقصان پہنچانے والے ہیں وہ نقصان پہنچانے کا کام نہ کر سکیں بلکہ بعض دفعہ تو اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے کام پر بھی سزامل جاتی ہے.لیکن اس سزا کے دوران اصلاح کرنے کے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں.اگر کسی کو پھانسی بھی دی جاتی ہے تو یہ جبر اس لئے ہے کہ قاتل نے ایک جان لی اور قاتلوں کو اگر کھلی چھٹی مل جائے تو پھر معاشرے کا امن برباد ہو جائے اور کئی اور قاتل پیدا ہو جائیں.پس قتل کی سزا قتل دینے سے کئی ایسے لوگوں کی اصلاح ہو جاتی ہے یاوہ اس کام سے رُک جاتے ہیں جو قتل کا رجحان رکھتے ہیں، جو زیادہ جوشیلے ہوتے ہیں.بہر حال یہ جبر اصلاح کا ایک پہلو ہے جودنیا میں بھی رائج ہے.دنیا دار کے جبر سے یا دنیاوی سزاؤں کے جبر سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں ہے.لیکن ایک دین کی طرف منسوب ہونے والے پر جب جبر کیا جاتا ہے اور دینی نظام کے تحت اُس کو سزا دی جاتی ہے یا کسی بھی قسم کی سزا یا جرمانہ ہو، کوئی اور سزا ہو یا بعض پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں.جماعت میں بعض دفعہ بعض چندے لینے پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں تو بیشک جبراً ان کاموں سے روکا جار ہا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی
خطبات مسرور جلد 12 61 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء جب وہ باتیں یا اعمال جو صالح اعمال ہیں ، اُن کی طرف توجہ دلائی جارہی ہو اور کوئی شخص اس لئے کر رہا ہو کہ سزا سے بچ جاؤں یا خلیفہ وقت کی ناراضگی سے بچ جاؤں یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جاؤں تو آہستہ آہستہ دل میں ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ برائیوں کو چھوڑ کر خوشی سے نیک اعمال بجالانے والے بننا شروع ہو جاتے ہیں.پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ نیک اعمال بجالانے کی عادت ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں.بغیر ان ذرائع کو اختیار کئے اصلاح اعمال میں کامیابی نہیں ہوسکتی.پس ان ذرائع کا استعمال انتہائی ضروری ہے.یعنی ایمان کا پیدا کرنا علم صحیح کا پیدا کرنا ، ان باتوں کا تو گزشتہ خطبہ میں ذکر ہو گیا تھا.اور قوت عملی پیدا کرنے کے ضمن میں نگرانی کرنا اور جبر کرنا ، جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے.یہ چار چیزیں ہیں جن کے بغیر اصلاح مشکل ہے.جب ہم گہرائی میں جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ایمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا.یعنی وہ معیار نہیں رکھتا جو اصلاح عمل کے لئے ایک انسان میں ہونا ضروری ہے.ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر قوت ایمانیہ بھر دی جائے تو ان کے اعمال درست ہو جاتے ہیں.اور ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو عدم علم کی وجہ سے گناہوں کا شکار ہوتا ہے.اس کے لئے صحیح علم کی ضرورت ہوتی ہے.اور ایک طبقہ جو نیک اعمال بجالانے کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے.یہ تین قسم کے لوگ ہیں.اور اس کی احتیاج جو ہے وہ دو طرح سے پوری کی جاتی ہے.یا اُس کی بیرونی مدد دو طرح سے ہوگی.ایک تو نگرانی کر کے، جس کی میں نے ابھی تفصیل بیان کی ہے کہ نگرانی کی جائے تو بدیاں چھوٹ جاتی ہیں اور نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے لیکن وہ طبقہ جو بالکل ہی گرا ہوا ہو، جو گرانی سے بھی باز آنے والا نہ ہو، اُسے جب تک سزا نہ دی جائے اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی.پس ان چاروں ذرائع کو جماعت کی اصلاح کے لئے بھی اختیار کرناضروری ہے.اور ہر ایک کی بیماری کا علاج اُس کی بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے کرناضروری ہے.یہ بات یادرکھنا ضروری ہے کہ جس زمانے میں مذہب کے پاس نہ حکومت ہو، نہ تلوار اُس زمانے میں یہ چاروں علاج ضروری ہوتے ہیں.پس جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں ذکر ہو چکا ہے کہ پہلے علاج کے طور پر تربیت کر کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا ضروری ہے.اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات، آپ کی وحی ، آپ کے تعلق باللہ اور آپ کے ذریعہ سے آپ کے ماننے والوں میں روحانی انقلاب کا ذکر کیا جائے.
خطبات مسرور جلد 12 62 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء اُنہیں بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے کیا فوائد ہیں.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ اس دور میں جب شیطان بھر پور حملے کر رہا ہے تو ان باتوں کے بارے میں بتانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.یہ ذکر متواتر اور بار بار ہونا چاہئے.یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کو کس طرح حاصل ہوسکتی ہے اور اُس کا پیار جب کسی انسان کے شامل حال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے کس طرح امتیازی سلوک کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اس بارے میں کس طرح بتایا ہے.مختلف قوموں سے جو نئے احمدی ہو رہے ہیں، افریقہ میں سے بھی اور زیادہ تر عربوں میں سے بھی ، وہ اپنے واقعات لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھ کر اُن میں تبدیلیاں ہوئیں، اُن کے ایمان میں اضافہ ہوا.بیشک کتب پڑھ کر اُن کی اعتقادی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں اور اعتقادی لحاظ سے اُن کے علم میں اضافہ ہوکر ان کو ایمان کی نئی راہیں نظر آئیں.لیکن ایمان کی مضبوطی اُن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات کو دیکھنے ، آپ کی وحی کی حقیقت کو سمجھنے اور آپ کے تعلق باللہ سے پیدا ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بعض نشانات دکھا کر اپنے قرب کا نظارہ دکھا دیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات ، وحی، الہامات اور تعلق باللہ جو ہمارے دلوں میں بھی ایمان کی کرنوں کو روشن تر کرے، کی اہمیت اپنے انداز میں بیان فرماتے ہوئے یوں فرمایا کہ: حضرت عیسی بیشک زندہ آسمان پر بیٹھے رہیں.اُن کا آسمان پر زندہ بیٹھے رہنا اتنا نقصان دہ نہیں ہے جتنا خدا تعالیٰ کا ہمارے دلوں میں مردہ ہو جانا نقصان دہ ہے.پس کیا فائدہ اس بات کا کہ تم حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر زور دیتے رہو جبکہ خدا تعالیٰ کولوگوں کے دلوں میں تم مار رہے ہو اور اُسے زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے.خدا تعالیٰ توحی و قیوم ہے اور کبھی نہیں مرتا مگر بعض انسانوں کے لحاظ سے وہ مر بھی جاتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کے ایک استاد جو بھوپال کے رہنے والے تھے، کہتے ہیں کہ : انہوں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ بھوپال کے باہر (بھوپال ہندوستان کا ایک شہر ہے ) ایک پل ہے ، وہاں ایک کوڑھی پڑا ہوا ہے جو کوڑھی ہونے کے علاوہ آنکھوں سے اندھا ہے، ناک اُس کا کٹا ہوا ہے، انگلیاں اُس کی جھڑ چکی ہیں اور تمام جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہے.سکھیاں اُس پر بھنبھنا رہی ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اُسے دیکھ کر مجھے سخت کراہت آئی.اور میں نے پوچھا کہ بابا تو کون ہے؟ وہ کہنے لگا کہ میں خدا
خطبات مسرور جلد 12 63 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء ہوں.یہ جواب سن کر مجھ پر سخت دہشت طاری ہوگئی.اور میں نے کہا کہ تم خدا ہو؟ آج تک تو تمام انبیاء دنیا میں یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ سب سے زیادہ خوبصورت ہے اور اُس سے بڑھ کر اور کوئی حسین نہیں.ہم جو اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت کرتے ہیں تو کیا اسی شکل پر ؟ اُس نے کہا انبیاء جو کہتے آئے وہ ٹھیک اور درست کہتے ہیں.میں اصل خدا نہیں ہوں.میں بھوپال کے لوگوں کا خدا ہوں.یعنی بھو پال کے لوگوں کی نظروں میں میں ایسا ہی سمجھا جاتا ہوں.یعنی ان لوگوں کی نظر میں خدا تعالیٰ کی کوئی اہمیت نہیں ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 455-456 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1936ء) پس خدا تعالیٰ تو نہیں مرتا مگر جب کوئی انسان اُسے بھلا دیتا ہے تو اُس کے لحاظ سے وہ مرجاتا ہے.یہاں نوجوانوں کو یہ بھی سمجھا دوں کہ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بس لوگ ایسے ہو گئے تو خدا نے یہ شکل اختیار کر لی اور معاملہ ختم.اصل میں تو یہ شکل اُن لوگوں کی اپنی ہے جنہوں نے خدا کو چھوڑا.جس طرح آئینہ میں اپنی تصویر نظر آتی ہے.اصل چیز یہی ہے اپنی شکل نظر آ رہی ہوتی ہے.یہ شکل جو اُس نے خواب میں دیکھی ، وہ اُن لوگوں کا آئینہ تھا.وہ روحانی لحاظ سے کوڑھی ہو گئے اور ایسے لوگ پھر اپنے انجام کو بھی پہنچتے ہیں.نعوذ باللہ خدا نے مرکز اُن سے کنارہ کشی نہیں کر لی.اللہ تعالیٰ کو ایسا سمجھنے والوں کو خدا تعالیٰ بعض دفعہ اس دنیا میں بھی سزا دیتا ہے.خدا تعالیٰ ایک طرف ہو کے بیٹھ نہیں جاتا بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے لوگوں کو سزا دیتا ہے.بلکہ متعد دجگہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا انجام یہی بتایا ہے کہ وہ جہنم میں جانے والے ہیں جو خدا کو بھول جائیں.پس اس مثال سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ خدا کو چھوڑ دیا یا بے طاقت تصور کر لیا تو بات ختم ہو گئی ، کچھ نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ بدلہ لینے والا بھی ہے، سزا دینے والا بھی ہے اور اُس کا غضب جب بھڑکتا ہے تو پھر کوئی بھی اُس کے غضب کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا.پس اس لحاظ سے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ خدا کو بھول گئے اور قصہ ختم ہو گیا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ : عجیب بات ہے کہ ہمارے علماء حضرت عیسی کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے.وہ روح پیدا نہیں کرتے جس سے اللہ تعالیٰ کا فہم اور ادراک پیدا ہو.ہماری اصل کوشش خدا تعالیٰ کو زندہ کرنے کی اور اُس سے زیادہ تعلق پیدا کرنے کی ہونی چاہئے.اگر خدا سے ہمارا زندہ تعلق ہے تو چاہے عیسی کو زندہ سمجھنے والے جتنا بھی شور مچاتے رہیں ، ہمارے ایمانوں میں کبھی بگاڑ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ خدا ہر قدم پر ہمیں سنبھالنے والا ہوگا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 456 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1936ء)
خطبات مسرور جلد 12 64 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء پس بیشک وفات مسیح، ختم نبوت یا جو دوسرے مسائل ہیں جن کا اعتقاد سے تعلق ہے اُن کا علم ہونا تو بہت ضروری ہے اور ان پر دلیل کے ساتھ قائم رہنا بھی ضروری ہے، بغیر دلیل کے نہیں لیکن عملی اصلاح کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہو گا اور اس کے لئے وہ ذرائع اپنانے ہوں گے جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھائے.ہمیں اپنے قول وفعل کے تضاد کو ختم کرنا ہوگا.جو ہم دوسروں کو کہیں اُس کے بارے میں اپنے بھی جائزے لیں کہ کس حد تک ہم اس پر عمل کر رہے ہیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں جماعت احمدیہ کے جو جامعات ہیں جہاں مبلغین اور مربیان تیار ہوتے ہیں، ان میں نوجوان مربی اور مبلغ بننے کے لئے بہت سارے بچے داخل ہورہے ہیں اور خاص طور پر پاکستان میں بڑی تعداد میں بچے جامعہ میں آتے ہیں.ان میں بہت کثرت سے واقفین نو بھی ہیں.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعداد کی کثرت معیار میں کمی کر دیتی ہے.اور بعض دفعہ یہ مثالیں بھی سامنے آتی ہیں کہ روحانی معیار کے حصول میں کوشش نہ کرنے ، بلکہ بعض غلط عادتوں کی وجہ سے اور صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے کہ مربی اور مبلغ کا کیا تقدس ہونا چاہئے جب ایسے لڑکے بعض حرکتیں کرتے ہیں تو پھر اُن کو جامعات سے فارغ بھی کیا جاتا ہے.پس وہ زمانہ جو انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ احمدیت کی ترقی کا آنے والا ہے، اس کی تیاری کے لئے مربیان بننے والے مبلغین بننے والے اپنے آپ کو بہت زیادہ تیار کریں.کوئی معمولی کام نہیں جو اُن کے سپر دہونے والا ہے.ابھی سے خدا تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا کریں اور اس کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نشانات ہمیں دکھائے ، اسلام کی جو حقیقی تعلیم دوبارہ کھول کر واضح فرمائی، اُسے سامنے رکھیں.صرف مسائل کو یاد کرنے تک ہی اپنے آپ کو محدود نہ رکھیں.مجھے قادیان سے کسی عالم نے لکھا کہ آجکل کھلے جلسے جو مخالفین کے جواب دینے کے لئے پہلے ہندوستان میں منعقد ہوتے تھے، اب نہیں ہوتے ، ہم اُن جلسوں میں ایسے تابڑ توڑ حملے مخالف علماء پر کرتے تھے کہ ایک کے بعد دوسرے حملے نے اُنہیں زچ کر دیا تھا.ٹھیک ہے یہ اچھی بات ہے کہ کرتے تھے.مخالفین کے جواب دینے چاہئیں، بلکہ دلائل کے ساتھ اُن کی باتوں کے رڈ اُن پر ہی پھینکنے چاہئیں لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور ضروری ہے کہ ہمارے معلمین اور مبلغین اور مربیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنی روحانی حالت میں بھی وہ ترقی کرتے کہ ہر ایک کا وجود خود ایک نشان بن جاتا.اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے بلکہ وہ ترقی کریں کہ خود ایک نشان بن جائے.اور اسی نمونے کو
خطبات مسرور جلد 12 65 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء دیکھ کر لوگ جماعت میں داخل ہوں.بعض دفعہ نمونے دیکھ کر داخل ہوتے ہیں.لیکن یہاں مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ معیار پیدا نہیں ہوا.اسی لئے ہندوستان میں بہت سے معلمین کو فارغ کرنا پڑا.لگتا تھا کہ بعض پر دنیا داری غالب آ گئی ہے.پس یہ خط لکھنے والے بھی اور ہم میں سے ہر ایک اپنے جائزے لے کہ اُس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ معلمین، مبلغین، یہ دیکھیں کہ انہوں نے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کی کتنی کوشش کی ہے.خشک دلائل سے لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالنے اور غیر احمدی مولویوں کو دوڑانے پر ہی ہمیں اکتفا نہیں کر لینا چاہئے اور اسی پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہمارے پاس جو خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات اور معجزات ہیں، اُس سے خدا تعالیٰ کی ہستی دنیا کو دکھا ئیں.اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہے، اُس سے لوگوں کے دلوں کو قائل کریں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مثال دی ہے کہ اگر سورج چڑھا ہو اور کوئی کہے کہ تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو دوسرا اُسے سورج چڑھنے کی دلیلیں دینی شروع کر دے کہ اتنے بجے سورج نکلنے کا وقت ہوتا ہے، اتنے بجے غروب ہوتا ہے اور سائنس یہ کہتی ہے اور فلاں کہتی ہے.پس یہ جو دلیلیں ہیں تو کہتے ہیں کہ دلیل دینے والا بھی احمق ہی ہو گا جو دلیلیں دینے بیٹھ گیا، اُس کا سادہ علاج تو یہ تھا کہ سورج کی دلیل پوچھنے والے کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اُس کا منہ اونچا کرتا اور کہتا کہ وہ سورج ہے، دیکھ لو.اُن کو دلیلیں دینے کی ضرورت نہیں ہوتی.تمہاری بیوقوفانہ باتوں کا جواب اس وقت سورج کا وجود ہے.پس اس وقت خدا تعالیٰ بھی ہمارے سامنے جلوہ گر ہے.وہ بھی عریاں ہو کر اپنی تمام صفات کے ساتھ دنیا کے سامنے رونما ہو گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ وہ اپنے سارے حسن کے ساتھ جلوہ نما ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 457 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1936ء) پس واعظین کا یہ کام ہے کہ سورج کے وجود کی دلیلیں دینے والے احمق بننے کے بجائے تازہ نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ظاہر ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جو ہر دم ہمارے ساتھ ہے، اُس سے یہ سچائی ثابت کریں.لیکن بات وہی ہے کہ اپنی حالتوں کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنائیں.جماعت کی عملی قوت کو مضبوط کریں.جماعت کے بچوں ،عورتوں اور مردوں کے سامنے یہ باتیں پیش کریں اور بار بار پیش کریں.جیسا کہ میں نے کہا، انہیں بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کس طرح خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوا، انہیں سمجھا ئیں کہ
خطبات مسرور جلد 12 66 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں.اللہ تعالیٰ کی محبت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے؟ پھر دیکھیں کہ جو نو جوان دنیا داری کے معاملات میں نقل کی طرف رجحان رکھتے ہیں، خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے بنیں گے.پھر صرف چند مربیان یا علماء غیر از جماعت مولویوں کے چھکے چڑانے والے نہیں ہوں گے بلکہ یہ نمونے جو ہمارے نوجوان مرد، عورتیں، بچے قائم کر رہے ہوں گے یہ دنیا کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں گے.پس اپنی عملی حالتوں کی درستی کی طرف توجہ کی سب سے پہلے ضرورت ہے.اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جوڑ کر پھر خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے.یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنے گی.خلافت کی پہچان اور اُس کا صحیح علم اور ادراک اس طرح جماعت میں پیدا ہو جانا چاہئے کہ خلیفہ وقت کے ہر فیصلے کو بخوشی قبول کرنے والے ہوں اور کسی قسم کی روک دل میں پیدا نہ ہو کسی بات کو سن کر انقباض نہ ہو.خلافت کا صحیح فہم و ادراک پیدا کرنا بھی مربیان کے کاموں میں سے اہم کام ہے.اور پھر عہد یداران کا کام ہے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دیں.بعض ایسی مثالیں بھی سامنے آ جاتی ہیں کہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت نے یہ غلط کام کیا اور یہ غلط فیصلہ کیا یا فلاں فیصلے کو اس طرح ہونا چاہئے تھا.بعض قضا کے فیصلوں پر اعتراض ہوتے رہتے ہیں.یا فلاں شخص کو فلاں کام پر کیوں لگا یا گیا ؟ اس کی جگہ تو فلاں شخص ہونا چاہئے تھا.خلیفہ وقت کی فلاں فلاں کے بارے میں تو بڑی معلومات ہیں، علم ہے ، اور فلاں شخص کے بارے میں اُس نے باوجود علم ہونے کے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں.اس قسم کی باتیں کرنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن ماحول کو خراب کرتے ہیں.اگر مر بیان اور ہر سطح کے عہدیداران، پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں، ہر تنظیم کے اور جماعتی عہد یداران اپنی اس ذمہ داری کو بھی سمجھیں تو بعض دلوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ، کبھی پیدا نہ ہوں.خاص طور پر مربیان کا یہ کام ہے کہ انہیں سمجھا ئیں اور بتائیں کہ تمام برکتیں نظام میں ہیں.اللہ تعالیٰ تو جب کسی قوم پر لعنت ڈالنا چاہتا ہے تو نظام کو اُٹھا لیتا ہے.پس جب یہ باتیں ہر ایک کے علم میں آ جائیں گی تو بعض لوگ جن کو ٹھوکر لگتی ہے وہ ٹھوکر کھانے سے بچ جائیں گے.ایسا طبقہ چاہے وہ چند ایک ہی ہوں ہمیشہ رہتا ہے جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے اور ادھر ادھر بیٹھ کر با تیں کرتا رہتا ہے کہ خلیفہ خدا تونہیں ہوتا، وہ بھی غلطی کر سکتا ہے، جیسا کہ عام آدمی غلطی کر سکتا ہے ،ٹھیک ہے.لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس کا بڑا اچھا جواب دیا ہے.اور یہ جواب جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی
خطبات مسرور جلد 12 67 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء نے دیا ، ہر وقت اور ہر دور کے لئے ہے.اگر خلافت برحق ہے، اگر خلافت پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انعام دیا گیا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلفاء جن امور کا فیصلہ کیا کرتے ہیں ہم ان امور کو دنیا میں قائم کر کے رہتے ہیں.وہ فرماتا ہے وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى از تطى لَهُمْ (النور : 56 ) یعنی وہ دین اور وہ اصول جو خلفاء دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں، ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اُسے دنیا میں قائم کر کے رہیں گے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 458 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1936ء) پس یہ باتیں جماعت کے ہر فرد کے دل میں راسخ ہونی چاہئیں اور یہ مربیان اور اہلِ علم کا کام ہے کہ اسے ہر ایک کے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کریں.پس اس ذمہ داری کو سمجھیں، اس بات کے پیچھے پڑ جائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکات اور آپ کے فیوض لوگوں پر ظاہر کرنے ہیں.خدا تعالیٰ کے زندہ نشانات کا بار بار تذکرہ کرنا ہے، لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے ذرائع کیا ہیں؟ اور خلیفہ وقت کی ہر صورت میں اطاعت اور نظام کی فرمانبرداری کی ایک اہمیت ہے اور ہر ایک پر یہ اہمیت واضح ہونی چاہئے.پس جب یہ ہو گا تو دلوں کے وساوس بھی دُور ہوں گے.اور اس طریق سے وساوس دور کرنے والوں کی تعداد، یا جن کے دلوں کے وساوس دور ہو جائیں اُن کی تعداد اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ ہر فتنہ اپنی موت آپ مر جائے گا.جماعت میں ہر لحاظ سے عملی اصلاح کا ہر پہلو نظر آ رہا ہوگا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا بڑا مقصد ہے.یا درہنا چاہئے کہ ہمیں ختم نبوت اور وفات مسیح کے متعلق مسائل جاننے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت مخالفین کے جواب دینے کے لئے ہے لیکن عمل اور عرفان کو بھی اپنی جماعت میں رائج کرنے کے لئے ایک کوشش کی ضرورت ہے.پس جتنی توجہ ہم نے باہر کے محاذ پر دینی ہے، اتنی بلکہ اُس سے بڑھ کر اندرونی محاذ پر بھی ہمیں توجہ دینی چاہئے.ہماری روحانی پاکیزگی اور ہماری عملی اصلاح انشاء اللہ تعالی زیادہ بڑا انقلاب لانے کا باعث بنے گی ، بہ نسبت اس تبلیغ کے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ارشاد یقیناً بڑا اہم ہے کہ اگر وہ یعنی علماء اور مربیان ” قلوب کی اصلاح کریں اور لوگوں کے دلوں میں عرفان اور اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں تو کروڑوں کروڑ لوگ احمدیت میں داخل
خطبات مسرور جلد 12 68 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء ہونے لگ جائیں.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے.اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ.(النصر : 4-2) کہ اگر تبلیغ کے ذریعہ تم اپنے مذہب کی اشاعت کرو گے تو ایک ایک دودو کر کے لوگ تمہاری طرف آئیں گے، لیکن اگر تم استغفار اور تسبیح کرو اور اپنی جماعت سے گناہ دور کر دو تو پھر فوج در فوج لوگ آئیں گے اور تمہارے اندر شامل ہو جا ئیں گے.“ خطبات محمود جلد 17 صفحہ 460 خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1936ء) پس وہ ہمارے عالم جو مجھے لکھتے ہیں کہ ہم غیروں کے چھکے چھڑا دیا کرتے تھے.اس چھکے چھڑانے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہو گا جو اپنی عملی اصلاح سے ہو گا.اس لئے عملی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور خلافت کے نائبین بننے کی کوشش کریں.خلیفہ وقت کے مددگاروں میں سے بننے کی کوشش کریں.سالوں ہم صرف علمی بحثوں میں نہیں الجھ سکتے بلکہ اگر ہم نے جماعت کو ترقی کی طرف لے جانا ہے اور انشاء اللہ لے جانا ہے تو ہمیں کچھ اور طریق اختیار کرنے ہوں گے اور وہ جیسا کہ میں نے کہا، یہ عملی اصلاح کا (طریق) ہے.پس ہمیں اپنے اعمال اچھے کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے دیانت اور امانت کے معیاروں کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے.ہمیں اپنی آمد کے حلال ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہے.یہ نہیں کہ چند پیسوں کے لئے کونسل کو دھوکہ دے کر اپنی سچائی کے معیار کو داؤ پر لگا دیں اور benefit حاصل کر لیں یارو پے حاصل کرنے کے لئے جھوٹے مقدمے کر دیں.ہمیں اپنے کام جو بھی ہمارے سپرد کئے جائیں، پوری تندہی اور محنت اور پوری خوش اسلوبی اور پوری دیانتداری سے کرنے کی ضرورت ہے.اگر یہ ہوگا تو دین کے ساتھ دنیا کے میدان بھی ہم پر کھل جائیں گے.انشاء اللہ.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ غیروں پر عمومی طور پر جماعت کا اچھا اثر ہے لیکن اگر ہم بعض معمولی دنیاوی فائدوں کے لئے اپنی دیانت اور امانت کے معیاروں کو ضائع کرنے والے بنیں تو ہر ایک شخص جو یہ حرکت کرتا ہے، جماعت کو بدنام کرنے والا بھی بنے گا.پس جہاں مربیان کو اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے وہاں ہر فر د جماعت کو اپنے جائزے لے کر اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ سب سے بڑا ہتھیار دعا کا ہے جس کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے صحیح استعمال اور اس سے صحیح فائدہ اُٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایمان میں ترقی کرو اور میں نے جو نیک اعمال بجالانے کے لئے لائحہ
خطبات مسرور جلد 12 69 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء عمل دیا ہے اُس پر عمل کرو.پس یہ عمل اور دعا اور دعا اور عمل ساتھ ساتھ چلیں گے تو حقیقی اصلاح ہوگی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے.آخر میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں، جس نے آجکل ہر حقیقی مومن کو بے چین کر دیا ہوا ہے اور وہ مسلمان ممالک کی قابلِ رحم حالت ہے.آج مسلم امہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ماننے والوں کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.پس یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کے لئے بہت دعا کریں.سیریا کے حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں.حکومت نے بھی ظلموں کی انتہا کی ہوئی ہے اور حکومت مخالف گروپ جو ہیں انہوں نے بھی ظلم کی انتہا کی ہوئی ہے.دونوں طرف سے ظلم ہو رہے ہیں.کسی کا قصور ہے یا نہیں ، بچوں ،عورتوں ، بوڑھوں کو بھی ظلموں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے.جب جس کو چاہیں پکڑ کے لے جاتے ہیں، اور پھر بھوکا رکھا جاتا ہے ، اذیت دی جاتی ہے.بعض کی تصویریں دکھائی گئی ہیں اُن کو دیکھ کر تو آ دمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ مسلمان مسلمان پر اس قدر ظلم کر رہا ہے اور غیر مسلموں کو موقع دے رہا ہے کہ اسلام پر اعتراض کریں.گزشتہ دنوں بعض چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کے انٹرویو دکھائے جا رہے تھے ، جو اپنے ماں باپ کو کھو بیٹھے ہیں یا کسی وجہ سے اُن سے علیحدہ ہو گئے ، کھانے پینے کے لئے اُن کو کچھ نہیں ملتا.ادھر اُدھر ہاتھ مار کر گزارہ کرتے ہیں.جب پوچھنے والے نے بارہ تیرہ سال کے لڑکے سے پوچھا کہ تم بڑے ہو کر کیا بننا چاہو گے.تو اُس نے بڑے ہنس کر جواب دیا کہ ظاہر ہے کہ criminal بنوں گا.ہم چور، ڈاکو ، بدمعاش اور دہشتگر دبنیں گے ، اس کے علاوہ ہم کیا بن سکتے ہیں تا کہ اپنے بدلے لیں.اپنی کرسی بچانے کے لئے حکومت اور کرسی حاصل کرنے کے لئے اپوزیشن اپنی نسلوں کو برباد کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے.اور ظالموں کے تسلط سے عوام کو بچائے اور انہیں انصاف پسند حکام عطا فرمائے.پاکستان میں بھی خاص طور پر احمدیوں پر ظلموں کی انتہا ہورہی ہے.ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی اذیتیں دی جارہی ہیں.عام پاکستانی بھی ظلم کی چکی میں پس رہا ہے.اور لگتا ہے کہ ان حالات کی جو شدت ہے وہ بڑھتی چلی جائے گی.یہ دہشتگر دگروپ جو ہیں یہ بھی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں اور اس لئے ان پر قابو پانا بھی ان کے لئے مشکل ہے.پس دعا ہی ہے جو ان ظالموں کو عبرت کا نشانہ بنا سکتی ہے.بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.پاکستان سے بھی اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو ختم کرے.اسی طرح دوسرے
خطبات مسرور جلد 12 70 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 جنوری 2014ء مسلمان ممالک ہیں ،ہمصر ہے، لیبیا وغیرہ ہے اور دوسرے بھی.قریباً ہر جگہ حالات خراب ہیں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور اسلام کو بدنام کرنے کی جو ان کی مذموم کوششیں ہیں اُن سے محفوظ رکھے.جو بھی ظلم کرنے والے ہیں اُنہیں اللہ تعالیٰ عبرت کا نشان بنائے اور اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں رہنے والے ہر احمدی کو ان کے شر سے محفوظ رکھے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 21 فروری 2014 ء تا 27 فروری 2014ءجلد 21 شماره 08صفحه 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 71 6 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمدخلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014 ء بمطابق 07 تبلیغ 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: راه بدی پروگرام جو ہر ہفتے کو ایم ٹی اے پر شام کے وقت آتا ہے جس میں مختلف موضوعات پر ہمارے علماء اور مربیان بات چیت کرتے ہیں اور لائیو کالز کے ذریعہ سے سوال جواب بھی ہوتے ہیں جس میں غیر از جماعت احباب بھی سوال کرتے ہیں.گزشتہ ہفتے کے پروگرام کا کچھ حصہ دیکھنے کا مجھے موقع ملا تو اُس وقت ایک غیر از جماعت کا سوال پیش ہو رہا تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کے حوالے سے یہ سوال کر رہے تھے، بلکہ ایک رنگ میں اعتراض ہی تھا.تمہید بھی اس طرح باندھی کہ قرآنِ کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے، بعد اس کے احادیث ہیں پھر اسی طرح بزرگوں کا کلام ہے.اُن سب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اُن میں آپس میں ربط نظر آتا ہے لیکن یہ الہام پیش کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اس میں ربط نہیں یا ہمیں سمجھ نہیں آئی.بہر حال ایک اعتراض کا رنگ تھا، اور اگر اُن کی نیت اعتراض کی نہیں بھی تھی تو سوال کی ٹون (Tone) ایسی تھی کہ لگتا تھا اعتراض ہے.الہام یہ تھا کہ دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں.أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ فِي شَائِلٍ مقیاس “.پھر آگے انگریزی کا حصہ ہے، ”دن ول یو گوٹو امرت سر“.Then will you go to) 66 Amritsar) - براہین احمدیہ ہر چہار ص.روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 559.بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
خطبات مسرور جلد 12 72 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 فروری 2014ء اس کا جواب تو اپنے انداز میں جواب دینے والوں نے مختصراً دیا.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تفصیل جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہے، وہ بتانی ضروری ہے.کیونکہ شاید دوسرے معترضین بھی اور کم علم بھی یا کم علم رکھنے والے ہمارے نوجوان سوال کرنے والے کے انداز سے متاثر ہوں یا پھر تفصیل چاہتے ہوں.راہ ہدی پروگرام میں اس طرح کے اور سوال بھی غیر از جماعت جو افراد ہیں کرتے رہتے ہیں جس کا بعض دفعہ اُسی وقت علماء جواب دے دیتے ہیں، بعض دفعہ اگر جواب تفصیل چاہتا ہو تو اگلے پروگرام میں دیا جاتا ہے.اس لئے مجھے ضرورت نہیں کہ جو اعتراض اور سوال اُٹھتے ہیں اُن میں سے ہر ایک کا اپنے خطبات میں جواب دینا شروع کر دوں.تاہم اس کی تفصیل میں اس لئے بتارہا ہوں کہ گزشتہ جمعوں میں جو خطبات کا سلسلہ جاری تھا اُن میں میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمارے ایمان میں اضافے اور غیروں کے منہ بند کرنے کے لئے اس قدر تعداد میں موجود ہیں کہ شاید اس کا عشر عشیر بھی غیروں کے پاس نہ ہو.جس بات کو یا الہام کو ان صاحب نے ہنسی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ، وہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہینِ احمدیہ میں اپنے نشان کے طور پر پیش فرمائی ہے.اسی طرح تذکرہ میں بھی اس کا ذکر ہے اور کافی تفصیل سے ذکر ہے.بہر حال سوال کرنے والے کے سوال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُس نے جو سوال یا اعتراض ہے وہ کم از کم " تذکرہ پڑھ کر کیا ہے.لیکن سیاق و سباق یا پڑھا ہے یا جان بوجھ کر اُس میں اُس کو ذکر نہیں کیا تا کہ الجھن میں ڈالا جائے.براہینِ احمدیہ میں بھی اسی طرح ہے.تقریباً یہی مضمون ہے اور وہ بہر حال انہوں نے نہیں پڑھی ہو گی.کیونکہ وہ تو ایسی کتاب ہے جو بڑی توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے اور میرا نہیں خیال کہ ان میں یہ صلاحیت ہو.بہر حال اصل حوالہ پیش ہے.یہ 1882 ء کا ذکر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : کچھ عرصہ گزرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی.جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا.اس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرت احدیت میں دعا کی جائے تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہو جائے اور دوسری مخالفین کے لئے تائید الہی کا نشان پیدا ہو.ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہو جائیں.سواسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے.تب یہ الہام
خطبات مسرور جلد 12 73 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء ہوا.دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں.الا ان نضر اللهِ قَرِيبٌ فِي شَائِلٍ مِقْيَاسِ.دن ول یو گوٹو امرت سر“.(Then will you go to Amritsar).( حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی تشریح فرمائی ) یعنی دس دن کے بعد روپیہ آئے گا.خدا کی مدد نزدیک ہے.اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دم اٹھاتی ہے تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے ایسا ہی مد دالبی بھی قریب ہے.اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرتسر بھی جاؤ گے.تو جیسا اس پیشگوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورہ بالا کے رُو برو وقوع میں آیا.یعنی حسب منشاء پیشگوئی دس دن تک ایک خرمہرہ نہ آیا ( یعنی ایک کوڑی بھی نہ آئی ) اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بند و بست را ولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے اور بیست روپیہ ( میں روپے) ایک اور جگہ سے آئے اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہو گیا جس کی امید نہ تھی.اور اسی روز کہ جب دس دن کے گزرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب وغیرہ کا روپیہ آیا.امرتسر بھی جانا پڑا.کیونکہ عدالت خفیفہ امرتسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے ا.اس عاجز کے نام اسی روز ایک سمن آ گیا.“ (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 561-559.بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) تو یہ تھا اس الہام کا پورا حصہ اور اس کی background.اس کے آگے پھر ایک جگہ ایک اور حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید وضاحت بھی فرمائی ہے جس میں اس کے علاوہ ایک اور نشان کا بھی اظہار ہے.فرمایا کہ: کچھ عرصہ ہوا.ایک صاحب نوراحمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں ، اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے.چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر انہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارہ میں اُن کے دل میں تھی ، مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کر دی.اس لئے دل میں بہت رنج گزرا.غلط رائے کا جو حوالہ ہے وہ یہ ہے کہ اُن کے ایک استاد مولوی صاحب تھے جن کے نام کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں ذکر کیا ہوا ہے وہ یہ کہا کرتے تھے کہ انہیں الہام اولیاء اللہ کے بارے میں شک تھا.تو یہ نور احمد صاحب بھی اُن سے متاثر تھے.اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما
خطبات مسرور جلد 12 74 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء رہے ہیں کہ الہام کے بارے میں اُن کو کچھ شکوک تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ہر چند معقولی طور پر سمجھایا گیا، کچھ اثر مترتب نہ ہوا.( کوئی اثر نہ ہوا ).آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی.( پھر یہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے ).اور اُن کو قبل از ظہور پیشگوئی بتلایا گیا کہ خدا وند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی.کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعا بپایۂ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیشگوئی خداوند کریم ظاہر فرمادے جس کو تم چشم خود دیکھ جاؤ.سو اُس رات اس مطلب کے لئے قادر مطلق کی جناب میں دعا کی گئی.علی الصباح بنظر کشفی ایک خط دکھلایا گیا کشفی حالت میں ایک خط دکھلایا گیا ) ” جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے.اس خط پر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے.آئی ایم کو رلر ( I am quarreler).اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے.هُذَا شَاهِدٌ نَزّاغ.اور یہی الہام حکایتا عن الكاتب القا کیا گیا اور پھر وہ حالت جاتی رہی.چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا، اس جہت سے پہلے علی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر ، ( یعنی وہی شخص جن کو کچھ شکوک تھے کہ اولیاء اللہ کے الہامات جو ہیں یہ باتیں ہی ہیں، کہتے ہیں اُن کو کشف اور الہام کی اطلاع دے کر ) اور اس آنے والے خط سے مطلع کر کے پھر اسی وقت ایک انگریزی خوان سے اس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے تو معلوم ہوا کہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ میں جھگڑنے والا ہوں.سو اس مختصر فقرہ سے یقینا یہ معلوم ہو گیا کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے.اور هَذَا شَاهِدٌ نَزَّاغ کہ جو کا تب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اُس کے یہ معنے کھلے کہ کاتب خط نے کسی مقدمہ کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے.اُس دن حافظ نور احمد صاحب باعث بارش باران امرت سر جانے سے روکے گئے“.(انہوں نے جانا تھا، سفر کرنا تھا لیکن بارش کی وجہ سے نہ جاسکے ) اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے اُن کا روکا جانا بھی قبولیت دعا کی ایک خبر تھی تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی ، پیشگوئی کے ظہور کو بچشم خود دیکھ لیں.غرض اس تمام پیشگوئی کا مضمون اُن کو سنادیا گیا.شام کو اُن کے رو برو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرتسر سے آیا جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کا تب پر جو اسی کتاب کا کا تب ہے عدالت خفیفہ میں نالش کی ہے اور اس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے.اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی هذَا شَاهِد نَزاغ جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے.ان معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتم مطبع سفیر ہند کے دل میں یہ یقین کامل یہ مرکوز تھا کہ اس عاجز کی
خطبات مسرور جلد 12 75 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہوگی، باعث وثاقت اور صداقت اور نیز با اعتبار اور قابلِ قدر ہونے کی وجہ سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی“.(یعنی کہ اس کی سچائی بھی اور اس کی value ، قدر بھی اس کی ہو گی اور ٹھوس بھی ہو گی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو بیان ہے اس کی ہر لحاظ سے ایک اہمیت ہو گی اور اس اہمیت کی وجہ سے اُس کا خیال تھا کہ یہ دوسرے فریق پر تباہی ڈالے گی ) اور اسی نیت سے مہتم مذکور نے اس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاری کرایا.اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور امرتسر جانے کا سفر پیش آیا وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا.سو وہ پہلی پیشگوئی بھی میاں نوراحمد صاحب کے روبرو پوری ہو گئی.یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا، روپیہ آ گیا اور امرتسر بھی جانا پڑا.فالحمد للہ علی ذالک.“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحه 562 تا 565.بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) آج میں نشانات کے حوالے سے اتنا ہی ذکر کرنا چاہتا تھا اور وہ جیسا کہ میں نے بتایا راہِ ہدیٰ پروگرام میں ایک سوال کی وجہ سے اس کا ذکر ہوا ہے.انشاء اللہ آئندہ نشانات کا ذکر ہوگا.اس کے بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کی عملی حالت کے بارے میں فکر کے حوالے سے آپ علیہ السلام کے بعض حوالے پیش کروں گا.اس سے پہلے کہ میں آپ کی نصائح اور توقعات بیان کروں ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی سیرت میں جو ایک واقعہ درج فرمایا ہے، وہ بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ کا جماعت احمد یہ پر یہ بھی فضل اور احسان ہے کہ جب خلیفہ وقت کی کسی مضمون کی طرف توجہ ہوتی ہے تو وہ اگر اصلاحی پہلو ہے تو جماعت کا بڑا حصہ اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس کا اندازہ مجھے خطوط سے بھی ہو رہا ہے اور پھر بعض مددگار جو اللہ تعالیٰ نے خلافت کو عطا فرمائے ہوئے ہیں، وہ بھی اپنی یادداشت کے مطابق بعض حوالے نکال کر بھیج دیتے ہیں.چاہے یہ حوالے پہلے پڑھے ہوں لیکن نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں.تو سیرت کا جو حوالہ ہے جب میں پڑھوں گا تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی فکر کا اظہار فرمایا ہے.یہ بھی ہمارے ایک مربی صاحب نے مجھے بھیجا کہ آپ خطبات میں عملی اصلاح کی اہمیت کے بارے میں بتارہے ہیں، تو ایک حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی پیش ہے جو اس فکر کا اظہار کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا یہ حوالہ جو سیرت میں بیان کیا گیا ہے یوں ہے کہ: بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی کام کے متعلق میر صاحب
خطبات مسرور جلد 12 76 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہو گیا.میر صاحب نے ناراض ہو کر اندر حضرت صاحب کو جا اطلاع دی ) کہ اس طرح اختلاف ہو گیا ، غصے کا اظہار کیا.) مولوی محمد علی صاحب کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ) سے عرض کیا کہ ہم لوگ یہاں حضور کی خاطر آئے ہیں کہ تا حضور کی خدمت میں رہ کر کوئی خدمت دین کا موقع مل سکے.لیکن اگر حضور تک ہماری شکایتیں اس طرح پہنچیں گی تو حضور بھی انسان ہیں ہممکن ہے کسی وقت حضور کے دل میں ہماری طرف سے کوئی بات پیدا ہو تو اس صورت میں ہمیں بجائے قادیان آنے کا فائدہ ہونے کے الٹا نقصان ہو جائے گا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب نے مجھ سے کچھ کہا تو تھا مگر میں اُس وقت اپنے فکروں میں اتنا محو تھا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ میر صاحب نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا.پھر آپ نے فرمایا کہ چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہورہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے.( یہ بڑے غور سے سننے والی بات ہے ) بس ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے وہی خیال میرے سامنے رہتا ہے، میں باہر لوگوں میں بیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اُس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکر لگارہا ہوتا ہے.وہ شخص سمجھتا ہوگا کہ میں اُس کی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں.جب میں گھر جا تا ہوں تو وہاں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے.غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پر غلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اور خیال کی گنجائش نہیں رہی.وہ خیال کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ (میرے آنے کی اصل غرض کیا ہے؟ ) میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اُس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ پر کار بند ہو اور اصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے، تا پھر ایسی جماعت کے ذریعہ دنیا ہدایت پاوے اور خدا کا منشاء پورا ہو.پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پالیا اور اُس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا ( یعنی فتح کر لیا ) تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں.کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام رائیگاں گیا.مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ دلائل و براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کرنے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے، اس کے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے.پس یہ خیال ہے جو مجھے آج کل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب
خطبات مسرور جلد 12 77 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 فروری 2014ء ہو رہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا.“ (سیرت المہدی مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جلد 1 حصہ اول صفحہ 235-236 روایت نمبر 258) پس یہ درد ہے جس نے آپ کو بے چین کر دیا تھا.مختلف وقتوں میں آپ نے جماعت کو نصائح فرمائیں کہ احمدی کو کیسا ہونا چاہئے.دوسری کتابوں کے علاوہ ملفوظات جو آپ کی مجالس کی مختصر ار پورٹس ہوتی تھیں تفصیلی نہیں ، اُس کی بھی دس جلدیں ہیں.اور ان دسوں میں سے کسی جلد کو بھی آپ لے لیں، اس میں آپ نے جماعت سے توقعات اور جماعت کو نصائح عملی حالتوں کی تبدیلی کا یہ مضمون مختلف حوالوں اور مختلف زاویوں سے ہر جگہ، ہر مجلس میں بیان فرمایا ہوا ہے.ان میں سے چند ایک اس وقت میں پیش کرتا ہوں.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : ”جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد رکھو ور نہ ہو نکل جائے گی.نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو.برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی.اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کرو“.اب ہمیں یہ دیکھنے کی ، جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کتنے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرتے ہیں ) اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو.کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے.اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہوتی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو.“ فرمایا: میں دو ۲ ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی تو حید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی.كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ (آل عمران: 104 ) یا درکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.یاد رکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، وہ 66 میری جماعت میں سے نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلا میں ہے.اس کا انجام اچھا نہیں.پھر آپ فرماتے ہیں : وو...یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہوگی.وہ ضرور ہو
خطبات مسرور جلد 12 78 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء گی.تم کیوں صبر نہیں کرتے.جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے، مرض دفع نہیں ہوتا.میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیدا ہو گی.باہمی عداوت کا سبب کیا ہے بخل ہے، رعونت ہے ، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں.ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے.جو ایسے ہیں وہ یا درکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں.جبتک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھا ئیں.میں کسی کے سبب سے اپنے او پر اعتراض لینا نہیں چاہتا.ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو ، وہ خشک ٹہنی ہے.اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے.خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اُس کو سر سبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے.پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 48-49) یہ حوالہ ہم پہلے بھی کئی دفعہ سنتے ہیں، پڑھتے ہیں لیکن اُس حوالے کے ساتھ ملا کر دیکھیں جس میں آپ نے درد کا اظہار کیا ہے کہ کئی دن سے مجھے اور کسی چیز کا ہوش ہی نہیں سوائے اس بات کے کہ جماعت کی عملی اصلاح ہو جائے تو پھر ایک خاص فکر پیدا ہوتی ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ کس وقت کوئی آدمی سچا مومن کہلا سکتا ہے؟ فرمایا کہ: یں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالیٰ مقدم نہ ہو جاوے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے، اس وقت تک کوئی سچا مومن نہیں کہلا سکتا.ایسا آدمی تو ال (عرف عام ) کے طور پر مومن یا مسلمان ہے.جیسے چوہڑے کو بھی مصلی یا مومن کہہ دیتے ہیں.مسلمان وہی ہے جو اسلم وَجْهَهُ لِلهِ (البقرة: 113) کا مصداق ہو گیا ہو.وجہ مونھ کو کہتے ہیں مگر اس کا اطلاق ذات اور وجود پر بھی ہوتا ہے.پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دی ہوں وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے.مجھے یاد آیا کہ ایک مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی کہ تو مسلمان ہو جا.مسلمان ( وہ دعوتِ اسلام دینے والا جو تھا) خود فسق و فجور میں مبتلا تھا.یہودی نے اس فاسق مسلمان کو کہا کہ تو پہلے اپنے آپ کو دیکھ اور تو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تو مسلمان کہلاتا ہے.خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ “ پھر آپ فرماتے ہیں کہ : وو...یاد رکھوکہ صرف لفاظی اور کستانی کام نہیں آسکتی ، جب تک کہ عمل نہ ہو.محض باتیں عند اللہ
خطبات مسرور جلد 12 79 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَنْ تَقُولُوا مَالَا تَفْعَلُونَ (الصف: 4).پھر فرمایا کہ اگر تم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو.فرماتے ہیں کہ : ” صَابِرُوا وَرَابِطُوا - ( قرآنِ کریم میں آل عمران کی آیت 201 ہے ) جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے.اسی طرح تم بھی تیار رہو.ایسا نہ ہو کہ دشمن سرحد سے گزر کر اسلام کو صدمہ پہنچائے.میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصنِ حصین میں آسکو.اور پھر تم کو اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو.تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہوگئی ہے.قومیں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں“.(اور آج جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ حالت تو پہلے سے بھی بڑھ کر ہوئی ہوئی ہے ) فرمایا کہ "اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو.تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کر دو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے.اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاوے.بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے.کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں گے کرتا پھرتا ہے.پگڑی گلے میں ہوتی ہے.موریوں اور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے.پولیس کے جوتے پڑتے ہیں.ہندو اور عیسائی اس پر بنتے ہیں.اس کا ایسا خلاف شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفس اسلام تک پہنچتا ہے.مجھے ایسی خبریں یا جیل خانوں کی رپورٹیں پڑھ کر سخت رنج ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ اس قدر مسلمان بدعملیوں کی وجہ سے موردِ عتاب ہوئے.دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو صراط مستقیم رکھتے ہیں اپنی بداعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اسلام پر بنی کراتے ہیں....میری غرض اس سے یہ ہے کہ مسلمان لوگ مسلمان کہلا کر ان ممنوعات اور منہیات میں مبتلا ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کو بلکہ اسلام کو مشکوک کر دیتے ہیں.پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفار کو بھی تم پر ( جو دراصل اسلام پر ہوتی ہے ) نکتہ چینی کرنے کا موقعہ نہ ملے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 76 تا 78)
خطبات مسرور جلد 12 80 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 فروری 2014ء آج کل جو اعتراضات ہو رہے ہیں وہ یہی ہو رہے ہیں کہ قرآن کریم کی اگر تعلیم یہی ہے تو مسلمانوں کے عمل اس کے مطابق کیوں نہیں؟ جہاں جاؤ یہی سوال اُٹھتا ہے اور یہی اعتراض ہوتا ہے.اور آج کل جماعت احمدیہ ہی ہے جس نے اپنی حالتوں کو بدل کر ان اعتراضوں کو دھونا ہے.اس کے لئے ہمیں بھر پور کوشش کرنی چاہئے.پھر آپ شکر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شکر اگر کرنا ہے تو تقویٰ اور طہارت کو اختیار کرنا ہوگا.فرمایا کہ: 66 تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے.مسلمان پوچھنے پر الحمد للہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے.یہ کوئی شکر گزاری نہیں کہ کوئی پوچھے مسلمان ہو؟ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں ) اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو، کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا.مجھے یاد ہے کہ ایک ہند وسر رشتہ دار نے جس کا نام جگن ناتھ تھا اور جو ایک متعصب ہندو تھا بتلایا کہ امرتسر یا کسی جگہ میں وہ سررشتہ دار تھا جہاں ایک ہندو اہلکار در پردہ نماز پڑھا کرتا تھا ( ہندو تھا، مسلمان ہو گیا لیکن اپنا آپ ظاہر نہیں کیا.نمازیں با قاعدہ پڑھتا تھا.مگر بظاہر ہندو تھا.“ جو سر رشتہ دار ہے وہ بتانے لگا، جو سرکاری افسر تھا وہ کہنے لگا کہ ”میں اور دیگر دوسرے سارے ہندو اُسے بہت برا جانتے تھے اور ہم سب اہلکاروں نے مل کر ارادہ کر لیا کہ اس کو ضرور موقوف کرائیں.( نوکری سے فارغ کروائیں) سب سے زیادہ شرارت میرے دل میں تھی.میں نے کئی بار شکایت کی اپنے افسروں کو شکایت کرتا تھا کہ اس نے یہ غلطی کی ہے.اور یہ خلاف ورزی کی ہے.مگر اس پر کوئی التفات نہ ہوتی تھی“.(افسران اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے ) لیکن ہم نے ارادہ کر لیا ہوا تھا کہ اسے ضرور موقوف کرا دیں گے.اور اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہونے کے لئے بہت سی نکتہ چینیاں بھی جمع کر لی تھیں اور میں وقتا فوقتا ان نکتہ چینیوں کو صاحب بہادر کے روبرو پیش کر دیا کرتا تھا.صاحب اگر بہت ہی غصہ ہو کر اس کو بلا بھی لیتا تھا تو جوں ہی وہ سامنے آجاتا تو گویا آگ پر پانی پڑ جاتا“.(اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا) معمولی طور پر نہایت نرمی سے اُسے فہمائش کر دیتا.گویا اس سے کوئی قصور سر زد ہی نہیں ہوا.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 78-79) تو یہ ہے کہ تقویٰ ہو، اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو تو پھر کوئی مشکل جو ہے وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.کوئی کوشش نقصان نہیں پہنچاسکتی.
خطبات مسرور جلد 12 81 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء پھر آپ فرماتے ہیں کہ : یہ بات بھی خوب یا د رکھنی چاہیے کہ ہر بات میں منافع ہوتا ہے.دنیا میں دیکھ لو.اعلیٰ درجہ کی نباتات سے لے کر کیڑوں اور چوہوں تک بھی کوئی چیز ایسی نہیں، جو انسان کے لئے منفعت اور فائدے سے خالی ہو.یہ تمام اشیاء خواہ وہ ارضی ہیں یا سماوی اللہ تعالیٰ کی صفات کے اظلال اور آثار ہیں“.(اللہ تعالیٰ کی صفات کے سائے ہیں.اور جب صفات میں نفع ہی نفع ہے تو بتلاؤ کہ ذات میں کس قدر نفع اور سود ہو گا.(یعنی یہ صفات ہیں تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے اگر تعلق پیدا کر لو گے تو کس قدر نفع ہے ) اس مقام پر یہ بات بھی یا درکھنی چاہیے کہ جیسے ان اشیاء سے کسی وقت نقصان اٹھاتے ہیں تو اپنی غلطی اور نانہی کی وجہ سے.اس لئے نہیں کہ نفس الامر میں ان اشیاء میں مضرت ہی ہے“.( یعنی اس لئے نہیں ہوتا کہ ان کی اصل میں، ان چیزوں کی بنیاد میں ہی نقصان رکھا ہوا ہے.) نہیں ، بلکہ اپنی غلطی اور خطا کاری سے “.( نقصان ہوتا ہے ) اسی طرح پر ہم اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف اور مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ تو ہمہ رحم اور کرم ہے.دنیا میں تکلیف اٹھانے اور رنج پانے کا یہی راز ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنی شور نہم اور قصور علم کی وجہ سے مبتلائے مصائب ہوتے ہیں“.( یہ سوال بھی اکثر لوگ کرتے رہتے ہیں کہ کیوں مصیبتیں آتی ہیں؟ مصیبتیں ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے آتی ہیں ) پس اس صفاتی آنکھ کے ہی روزن سے ہم اللہ تعالیٰ کو رحیم اور کریم اور حد سے زیادہ قیاس سے باہر نافع ہستی پاتے ہیں.( یہی اگر صفاتی آنکھ سے ہم دیکھتے ہیں تو تبھی ہمیں اللہ تعالیٰ کریم اور رحیم نظر آتا ہے اور اُس سے ہر فائدہ پہنچتا ہے.اور وہ ہستی نظر آتی ہے جس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اور پہنچتا ہے ) فرمایا اور ان منافع سے زیادہ بہرہ ور وہی ہوتا ہے جو اس کے زیادہ قریب اور نزدیک ہوتا جاتا ہے.اور یہ درجہ ان لوگوں کو ہی ملتا ہے جو تقی کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں جگہ پاتے ہیں.جوں جوں متقی خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے ایک نور ہدایت اسے ملتا ہے جو اس کی معلومات اور عقل میں ایک خاص قسم کی روشنی پیدا کرتا ہے اور جوں جوں دُور ہوتا جاتا ہے ایک تباہ کرنے والی تاریکی اس کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے.یہاں تک کہ وہ صُمٌّ بُكْمٌ عُمَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (البقرة:19) کا مصداق ہوکر ذلت اور تباہی کا مورد بن جاتا ہے.مگر اس کے بالمقابل نور اور روشنی سے بہرہ ور انسان اعلیٰ درجہ کی راحت اور عزت پاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے.يَاتِهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر : 29-28) یعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے اور پھر یہ اطمینان خدا کے
خطبات مسرور جلد 12 82 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء ساتھ پایا ہے.بعض لوگ حکومت سے بظاہر اطمینان اور سیری حاصل کرتے ہیں.بعض کی تسکین اور سیری کا موجب ان کا مال اور عزت ہو جاتی ہے.اور بعض اپنی خوبصورت اور ہوشیار اولا دو احفاد کو دیکھ دیکھ کر بظاہر مطمئن کہلاتے ہیں (اپنے اولاد اور مددگار اور کام کرنے والوں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم بہت ہیں.ہمارے لئے اطمینان ہو گیا مگر یہ لذت اور انواع و اقسام کی لذات دنیا انسان کو سچا اطمینان اور سچی تسلی نہیں دے سکتیں.بلکہ ایک قسم کی ناپاک حرص کو پیدا کر کے طلب اور پیاس کو پیدا کرتی ہیں.استسقاء کے مریض کی طرح ان کی پیاس نہیں بجھتی یہاں تک کہ ان کو ہلاک کر دیتی ہے“.(دنیادارصرف دنیا کے پیچھے ہی پڑا رہتا ہے.آخر ہلاک ہو جاتا ہے مگر یہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وہ نفس جس نے اپنا اطمینان خدا تعالیٰ میں حاصل کیا ہے.یہ درجہ بندے کے لئے ممکن ہے.اس وقت اس کی خوشحالی باوجود مال ومنال کے دنیوی حشمت اور جاہ وجلال کے ہوتے ہوئے بھی خدا ہی میں ہوتی ہے.یہ زروجواہر، یہ دنیا اور اس کے دھندے، اُس کی سچی راحت کا موجب نہیں ہوتے.پس جب تک انسان خدا تعالیٰ ہی میں راحت اور اطمینان نہیں پاتا وہ نجات نہیں پاسکتا کیونکہ نجات اطمینان ہی کا ایک مترادف لفظ ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 110 - 111 ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ نفس مطمئنہ کے بغیر انسان نجات نہیں پاسکتا.اس کے بارے میں فرمایا کہ: یں نے بعض آدمیوں کو دیکھا اور اکثروں کے حالات پڑھے ہیں جو دنیا میں مال و دولت اور دنیا کی جھوٹی لذتیں اور ہر ایک قسم کی نعمتیں اولا د احفادر کھتے تھے“.( یعنی اولا دبھی اور کام کرنے والے مددگار بھی رکھتے تھے ) ” جب مرنے لگے اور ان کو اس دنیا کے چھوڑ جانے اور ساتھ ہی ان اشیاء سے الگ ہونے اور دوسرے عالم میں جانے کا علم ہوا تو ان پر حسرتوں اور بے جا آرزوؤں کی آگ بھڑکی اور سرد آہیں مارنے لگے.پس یہ بھی ایک قسم کا جہنم ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں دے سکتا، بلکہ اس کو گھبراہٹ اور بے قراری کے عالم میں ڈال دیتا ہے.اس لیے یہ امر بھی میرے دوستوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے کہ اکثر اوقات انسان اہل و عیال اور اموال کی محبت ، ہاں ناجائز اور بیجا محبت میں ایسا محو ہو جاتا ہے.(محبت تو ہو سکتی ہے لیکن ناجائز اور بے جا محبت نہیں ہونی چاہئے ، اُس میں محو نہیں ہونا چاہئے ) اور اکثر اوقات اسی محبت کے جوش اور نشہ میں ایسے ناجائز کام کر گزرتا ہے جو اُس میں اور خدا تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا کر دیتے ہیں اور اس کے لیے ایک دوزخ تیار کر دیتے ہیں.اس کو اس بات کا علم نہیں ہوتا جب وہ ان سب سے یکا یک علیحدہ کیا جاتا ہے اس گھڑی کی اسے خبر نہیں ہوتی.تب وہ ایک
خطبات مسرور جلد 12 83 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء سخت بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے.یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ کسی چیز سے جب محبت ہو تو اس سے جدائی اور علیحدگی پر ایک رنج اور در ناک غم پیدا ہو جاتا ہے.یہ مسئلہ اب منقولی ہی نہیں بلکہ معقولی رنگ رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ناررُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَة (الهمزة: 8-7).پس یہ وہی غیر اللہ کی محبت کی آگ ہے جو انسانی دل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور ایک حیرت ناک عذاب اور درد میں مبتلا کر دیتی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یہ بالکل سچی اور یقینی بات ہے کہ نفس مطمئنہ کے بدوں انسان نجات نہیں پاسکتا.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 111-112) پھر جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی.آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو.ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقا کنارہ کش ہو جاؤ، کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دُور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے.آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ.ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے.اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کر لو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ.اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے تو بہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں.تم یا درکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور اپنے کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے، مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں ان کی مالک پروا نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑ ہارا ان کو کاٹ کر تنور میں ڈال دیوے.سوایسا ہی تم بھی یادرکھوا اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی.پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہد نہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پروا نہیں.ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں روز ذبح ہوتی ہیں پر اُن پر کوئی رحم نہیں کرتا اور اگر ایک آدمی مارا جاوے تو کتنی باز پرس ہوتی ہے.سوا گر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بیکار اور لا پروا بناؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہو گا.چاہئے کہ تم
خطبات مسرور جلد 12 84 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی وباء کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ ہو سکے، کیونکہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی.ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنی باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ فرمایا: ” اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہرگز تندی اور سختی سے کام نہ لینا.“ ہمیشہ نرمی سے سمجھا ؤا اور جوش کو ہرگز کام میں نہ لاؤ.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 266 تا 268) آئندہ کے لئے یاد رکھو کہ حقوق اخوت کو ہر گز نہ چھوڑو، ورنہ حقوق اللہ بھی نہ رہیں گے.پھر فرمایا: ”مجھے یہی بتایا گیا ہے کہ إِنَّ اللهَ لا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد: 12) اللہ تعالیٰ کسی حالت میں قوم میں تبدیلی نہ کرے گا جبتک لوگ دلوں کی تبدیلی نہ کریں گے.ان باتوں کو سن کر یوں تو ہر شخص جواب دینے کو تیار ہو جاتا ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، استغفار بھی کرتے ہیں ، پھر کیوں مصائب اور ابتلا آ جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو جو سمجھ لے وہی سعید ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہوتا ہے.سمجھا کچھ اور جاتا ہے اور پھرا اپنی عقل اور عمل کے پیمانہ سے اسے ماپا جاتا ہے.یہ ٹھیک نہیں.ہر چیز جب اپنے مقررہ وزن سے کم استعمال کی جاوے تو وہ فائدہ نہیں ہوتا جو اس میں رکھا گیا ہے.مثلاً ایک دوائی جو تو لہ کھانی چاہئے اگر تولہ کی بجائے ایک بوند استعمال کی جاوے تو اس سے کیا فائدہ ہوگا اور اگر روٹی کی بجائے کوئی ایک دانہ کھالے تو کیا وہ سیری کا باعث ہو سکے گا؟ اور پانی کے پیالے کی بجائے ایک قطرہ سیراب کر سکے گا ؟ ہرگز نہیں.یہی حال اعمال کا ہے.جب تک وہ اپنے پیمانہ پر نہ ہوں وہ اوپر نہیں جاتے ہیں.یہ سنت اللہ ہے جس کو ہم بدل نہیں سکتے.فرمایا: ” بھائی کی ہمدردی کرنا صدقات خیرات کی طرح ہی ہے.اور یہ حق ، حق العباد کا ہے جو فرض ہے.جیسے خدا تعالیٰ نے صوم وصلوٰۃ اپنے لیے فرض کیا ہے اسی طرح اس کو بھی فرض ٹھہرایا ہے کہ حقوق العباد کی حفاظت ہو.“ فرمایا: جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے.قرآن شریف فرماتا ہے :مج قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَاد....الآية (المائدة : 33).یعنی جو شخص کسی نفس کو بلا وجد قتل کر دیتا
خطبات مسرور جلد 12 85 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 فروری 2014ء ہے وہ گو یا ساری دنیا کوقتل کرتا ہے.ایسا ہی میں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی.زندگی سے اس قدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتا رہے.حقوق اخوت کو کبھی نہ چھوڑو.اگر ہم لوگ اس بات کو بھی سمجھ لیں تو بہت سارے ہمارے لڑائی جھگڑے، رنجشیں ،مقدمے سب ختم ہو سکتے ہیں.فرمایا: یاد رکھو کہ سارے فضل ایمان کے ساتھ ہیں.ایمان کو مضبوط کر و قطع حقوق معصیت ہے.جب حقوق کو کاٹو گے، ختم کرو گے تو یہ گناہ ہے.فرمایا : یہ جماعت جس کو خدا تعالیٰ نمونہ بنانا چاہتا ہے اگر اس کا بھی یہی حال ہوا کہ ان میں اخوت اور ہمدردی نہ ہو تو بڑی خرابی ہوگی.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 351 تا 353) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت ( جس سے مخالف بغض رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ جماعت ہلاک اور تباہ ہو جاوے) کو یا درکھنا چاہیے کہ میں اپنے مخالفوں سے باوجود اُن کے بغض کے ایک بات میں اتفاق رکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ یہ جماعت گناہوں سے پاک ہو اور اپنے چال چلن کا عمدہ نمونہ دکھاوے.وہ قرآن شریف کی تعلیم پر سچی عامل ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں فنا ہو جاوے.ان میں با ہم کسی قسم کا بغض و کینہ نہ رہے.وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری اور سچی محبت کرنے والی جماعت ہو.لیکن اگر کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر بھی اس غرض کو پورا نہیں کرتا اور سچی تبدیلی اپنے اعمال سے نہیں دکھاتا وہ یا در کھے کہ دشمنوں کی اس مراد کو پورا کر دے گا.وہ یقیناً ان کے سامنے تباہ ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کا رشتہ نہیں اور وہ کسی کی پروا نہیں کرتا.وہ اولاد جو انبیاء کی اولاد کہلاتی تھی یعنی بنی اسرائیل جن میں کثرت سے نبی اور رسول آئے اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کے وہ وارث اور حقدار ٹھہرائے گئے تھے.لیکن جب اس کی روحانی حالت بگڑی اور اُس نے راہ مستقیم کو چھوڑ دیا سرکشی اور فسق و فجور کو اختیار کیا.نتیجہ کیا ہوا؟ وہ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ اللَّهُ وَ الْمَسْكَنَةُ :(البقرۃ:62) کی مصداق ہوئی.خدا تعالیٰ کا غضب ان پر ٹوٹ پڑا.یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے.بنی اسرائیل کی حالت ہر وقت ایک مفید سبق ہے.اسی طرح یہ قوم جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے وہ قوم ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر بڑے بڑے فضل کرے گا.لیکن اگر کوئی اس جماعت میں داخل ہو کر خدا تعالیٰ سے سچی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل اتباع نہیں کرتا وہ چھوٹا ہو یا بڑا کاٹ ڈالا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے غضب کا
خطبات مسرور جلد 12 86 خطبه جمعه فرموده مورخه 07 فروری 2014ء 66 نشانہ ہوگا.پس تمہیں چاہیے کہ کامل تبدیلی کرو اور جماعت کو بدنام کرنے والے نہ ٹھہرو “ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 187 - 188 ) پس یہ وہ معیار ہے جو ہم سب نے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے اور کرنی چاہئے.تقویٰ پر چلنا ، اپنے اعمال کی اصلاح کرنا ، اپنے ایمان کے معیار بلند کرنا، یہ باتیں کوئی معمولی باتیں نہیں ہیں.ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو اُس کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے ہمیں پوری طرح سعی و کوشش کرنی چاہئے.ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو ہمیں انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے.اور ہر بدی سے ہمیں مکمل طور پر نفرت کا اظہار کرنا چاہئے.محبت، پیار اور اخوت کو بڑھانے کی ہمیں ضرورت ہے.ہمیں ایک دوسرے کا مددگار بننے کی ضرورت ہے.تبھی ہم اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آج میں پھر یاد دہانی کے طور پر آپ کو اسلامی ممالک خاص طور پر سیر یا یا مصر وغیرہ جہاں فساد ہیں، خاص طور پر شام وہاں بہت زیادہ ظلم ہو رہے ہیں، اُن کے لئے دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں، اسی طرح پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی.پاکستان میں احمدیوں پر بہت ظلم ہو رہے ہیں اور ہر طرح سے ان کو عدم تحفظ کا احساس دلایا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اُن سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور یہ لوگ جو فتنہ پرداز اور امن برباد کرنے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ جلدی اپنی پکڑ میں لے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 28 فروری 2014 ء تا 06 مارچ 2014 ، جلد 21 شماره 09 صفحه 05 تا 09)
خطبات مسرور جلد 12 7 87 52 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014 ء بمطابق 14 تبلیغ 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات کے حوالے سے کچھ ذکر کروں گا جو اپنے نشانات کے بارے میں آپ نے تحریر فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس ضمن میں یہ ایک اصولی بات بڑی واضح طور پر فرمائی کہ اصل مقصد ، یہ نشانات جو ابھی ظاہر ہوئے یا ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوتے رہیں گے، ان کا مقصد یہ ہے کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے اسلام کی صداقت کو دنیا پر واضح کرنا چاہتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کو دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے.یہ نشانات جہاں غیروں کے اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کرتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت ہیں کہ آپ ہی وہ جری اللہ ہیں جن کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے.اس وقت میں براہین احمدیہ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس سے آپ کے اس بیان کا اظہار ہوتا ہے اور اس کی روح کا پتا لگتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: یہ سب اہتمام اس لئے کیا گیا کہ تا جو لوگ فی الحقیقۃ راہِ راست کے خواہاں اور جو یاں ہیں ان پر بکمال انکشاف ظاہر ہو جائے کہ تمام برکات اور انوار اسلام میں محدود اور محصور ہیں اور تا جو اس زمانہ کے ملحد ذریت ہے اس پر خدائے تعالیٰ کی حجت قاطعہ اتمام کو پہنچے اور تا ان لوگوں کی فطرتی شیطنت ہر یک منصف پر ظاہر ہو کہ جو ظلمت سے دوستی اور نور سے دشمنی رکھ کر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے
خطبات مسرور جلد 12 88 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء مراتب عالیہ سے انکار کر کے اس عالی جناب کی شان کی نسبت پر خبث کلمات مونہہ پر لاتے ہیں اور اس افضل البشر پر ناحق کی تہمتیں لگاتے ہیں اور بباعث غایت درجہ کی کور باطنی کے اور بوجہ نہایت درجہ کی بے ایمانی کے اس بات سے بے خبر ہورہے ہیں کہ دنیا میں وہی ایک کامل انسان آیا ہے جس کا نور آفتاب کی طرح ہمیشہ دنیا پر اپنی شعاعیں ڈالتا رہا ہے اور ہمیشہ ڈالتا رہے گا.اور تا ان تحریرات حقہ سے اسلام کی شان وشوکت خود مخالفوں کے اقرار سے ظاہر ہو جائے.اور تا جو شخص سچی طلب رکھتا ہو اس کے لئے ثبوت کا راستہ کھل جائے.اور جو اپنے میں کچھ دماغ رکھتا ہو اس کی دماغ شکنی ہو جائے.اور نیز ان کشوف اور الہامات کے لکھنے کا یہ بھی ایک باعث ہے ( جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات ہیں ) کہ تا اس سے مومنوں کی قوت ایمانی بڑھے اور ان کے دلوں کو تثبت اور تسلی حاصل ہو.اور وہ اس حقیقت حقہ کو یہ یقین کامل سمجھ لیں کہ صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاءاور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.اور ایک باعث ان کشوف اور الہامات کی تحریر پر اور پھر غیر مذہب والوں کی شہادتوں سے اس کے ثابت کرنے پر یہ بھی ہے کہ تا ہمیشہ کے لئے ایک قومی حجت مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے اور جو سفلہ اور ناخدا ترس اور سیاہ دل آدمی ناحق کا مقابلہ اور مکابرہ مسلمانوں سے کرتے ہیں“.(اپنی برابری یا بڑائی جتاتے ہیں) ان کا مغلوب اور لاجواب ہونا ہمیشہ لوگوں پر ثابت اور آشکار ہوتا رہے اور جو ضلالت اور گمراہی کی ایک زہرناک ہوا آج کل چل رہی ہے اس کی زہر سے زمانہ حال کے طالب حق اور نیز آئندہ کی نسلیں محفوظ رہیں.کیونکہ ان الہامات میں ایسی بہت سی باتیں آئیں گی جن کا ظہور آئندہ زمانوں پر موقوف ہے.پس جب یہ زمانہ گزر جائے گا اور ایک نئی دنیا نقاب پوشیدگی سے اپنا چہرہ دکھائے گی اور ان باتوں کی صداقت کو جو اس کتاب میں درج ہے بچشم خود دیکھے گی تو ان کی تقویت ایمان کے لئے یہ پیشین گوئیاں 66 بہت فائدہ دیں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.“ براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 555تا558 بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر 3)
خطبات مسرور جلد 12 89 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء براہین احمدیہ کی جو پہلی چار جلدیں ہیں یہ حوالہ ان میں سے ہے اور آپ نے صرف اُس زمانے کے لئے ان الہامات کا اور پیشگوئیوں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ آئندہ کی نسلیں اگر اس کو یادرکھیں تو اس ( ضلالت و گمراہی ) سے محفوظ رہیں گی.اور بہت ساری پیشگوئیاں جو کی گئی ہیں آئندہ زمانوں میں ظاہر ہوں گی.اور سب کچھ پیشگوئیاں جو آپ نے کیں یہ اپنے لئے نہیں بلکہ اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ ہمیں بتانے کے لئے یا دنیا کو بتانے کے لئے ہیں.حیرت ہوتی ہے اُن لوگوں پر جو اس روح کی تلاش نہیں کرتے اور اس بات پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ آپ کو اس قسم کے الہام ہو رہے ہیں اور جو اردو، انگریزی اور عربی سارے ملا کر ہو رہے ہیں.خدا کو پابند تو نہیں کیا جا سکتا.خدا تعالیٰ کی مرضی ہے جس مرضی زبان میں اور ایک ہی وقت میں ایک ہی مضمون کو دو، تین، چار زبانوں میں بیان کروا سکتا ہے.بہر حال یہ جو الہام ہوئے ان کے پورے ہونے کے گواہ غیر بھی ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اُن پر ظاہر ہوئی.روحانی آنکھ رکھنے والوں کے لئے تو براہین احمدیہ آج بھی ایک نشان ہے.اس میں بیان کردہ مضامین اور نشانات ایمان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ان باتوں کی صداقت آئندہ نسلیں دیکھیں گی.یہ دیکھ کر یقینا ایمان کو تقویت ملتی ہے.یہ کتاب اور آپ علیہ السلام کی دوسری کتابیں ہدایت کا باعث بن رہی ہیں بلکہ ایک نشان ہیں.لیکن جن کے دل اندھے ہیں اُن کو آپ کے علوم و معرفت اور نشانات کا کچھ پتا نہیں لگتا، کچھ سمجھ نہیں آتی.اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر جس طرح آپ نے پیشگوئیاں فرمائی ہیں اُن کا ذکر فرماتے ہوئے آپ کشتی نوح میں فرماتے ہیں کہ : ”وہ غیب کی باتیں جو خدا نے مجھے بتلائی ہیں اور پھر اپنے وقت پر پوری ہوئیں وہ دس ہزار سے کم نہیں.مگر کتاب نزول ایج میں جو چھپ رہی ہے نمونہ کے طور پر صرف ڈیڑھ سو ان میں سے مع ثبوت اور گواہوں کے لکھی گئی ہیں.اور کوئی ایسی پیشگوئی میری نہیں ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئی یا اُس کے دوحصوں میں سے ایک حصہ پورا نہیں ہو چکا.اگر کوئی تلاش کرتا کرتا مر بھی جائے تو ایسی کوئی پیشگوئی جو میرے منہ سے نکلی ہو اس کو نہیں ملے گی جس کی نسبت وہ کہہ سکتا ہو کہ خالی گئی.مگر بے شرمی سے یا بے خبری سے جو چاہیے کہے.اور میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ ہزار ہا میری ایسی کھلی کھلی پیشگوئیاں ہیں جو نہایت صفائی سے پوری ہو گئیں جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں.ان کی نظیر اگر گزشتہ نبیوں میں تلاش کی جائے تو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور جگہ ان کی مثل نہیں ملے گی.اگر میرے مخالف اسی طریق سے فیصلہ
خطبات مسرور جلد 12 90 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء کرتے تو کبھی سے اُن کی آنکھیں کھل جاتیں اور میں ان کو ایک کثیر انعام دینے کو تیار تھا اگر وہ دنیا میں کوئی نظیر ان پیشگوئیوں کی پیش کر سکتے.محض شرارت سے یا حماقت سے یہ کہنا کہ فلاں پیشگوئی پوری نہ ہوئی ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ ایسے اقوال کو خباثت اور بدظنی کی طرف منسوب کریں.اگر کسی مجمع میں اسی تحقیق کے لئے گفتگو کرتے تو ان کو اپنے قول سے رجوع کرنا پڑتا یا بے حیا کہلانا پڑتا.ہزارہا پیشگوئیوں کا بہو بہو پورا ہو جانا اور اُن کے پورا ہونے پر ہزار ہا گواہ زندہ پائے جانا یہ کچھ تھوڑی بات نہیں ہے.گو یا خدائے عز وجل کو دکھلا دینا ہے.کیا کسی زمانہ میں باستثنائے زمانہ نبوی کے کبھی کسی نے مشاہدہ کیا کہ ہزار ہا پیشگوئیاں بیان کی گئیں اور وہ سب کی سب روز روشن کی طرح پوری ہو گئیں اور ہزار ہا لوگوں نے ان کے پورے ہونے پر گواہی دی.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس زمانہ میں جس طرح خدا تعالیٰ قریب ہو کر ظاہر ہو رہا ہے اور صدہا امور غیب اپنے بندہ پر کھول رہا ہے.اس زمانہ کی گزشتہ زمانوں میں بہت ہی کم مثال ملے گی.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 7-6) جن پیشگوئیوں کے بارے میں آپ نے نزول مسیح کا ذکر فرمایا، اس میں سے تین چار میں نے نمونے کے طور پر رکھی ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : يَا أَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْك دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 517 ترجمہ یہ ہے کہ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی جاوے گی.بلاغت اور فصاحت اور حقائق اور معارف تجھے عطا کئے جاویں گے.سو ظاہر ہے کہ میری کلام نے وہ معجزہ دکھلایا کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکا.اس الہام کے بعد ہیں ۲۰ سے زیادہ کتابیں اور رسائل میں نے عربی بلیغ فصیح میں شائع کئے مگر کوئی مقابلہ نہ کر سکا.خدا نے ان سے زبان اور دل دونو چھین لئے اور مجھے دے دیئے.“ نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحه 510) پھر آپ ایک اور پیشگوئی کے ذکر میں فرماتے ہیں: وَقَالُوا أَنَّى لَكَ هَذَا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرُ يُؤْتَرُ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً لا يُصَدِّقُ السَّفِيهُ إِلَّا سَيْفَةَ الْهَلَاكِ.عَدُوٌّ لِى وَ عَدُوٌّ لكَ قُلْ أَنِّي أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوه.دیکھو صفحہ 518-519 براہین احمدیہ.“ اور ترجمہ اس کا یہ ہے.” اور کہتے ہیں کہ یہ مقام تجھے کہاں سے ملا یہ تو ایک فریب ہے.ہم تیرے پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو نہ دیکھ لیں.یہ لوگ تو بجز موت کے نشان کے کبھی مانیں گے
خطبات مسرور جلد 12 91 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء نہیں.ان کو کہہ دے کہ مری یعنی طاعون بھی چلی آتی ہے.سو تم مجھ سے جلدی مت کرو.“ فرمایا کہ : یہ پیشگوئی میں برس پہلے طاعون کے کی گئی تھی.“ ( نزول مسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 510) طاعون جو آیا تھا اُس سے ہیں برس پہلے کی گئی اور کئی سال تک وہ طاعون چلا اور لاکھوں آدمی مرے.پھر آپ ایک پیشگوئی کے بارے میں فرماتے ہیں: أصْحَابُ الصُّفَةِ وَمَا اَدْرُكَ مَا اَصْحَابُ الصُّفَةِ.تَرَى أَعْيُنُهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ.يُصَلُّونَ عَلَيْكَ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ وَدَاعِيَّا إِلَى اللَّهِ وَسِرَاجًا مُّبِيرًا اَمْلُوا.دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 242 ترجمہ یہ ہے.صفہ کے دوست، اور تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صفہ کے دوست.تو اُن کی آنکھوں کو دیکھے گا کہ اُن سے آنسو جاری ہیں.تیرے پر درود بھیجیں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا! ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز کو سنا جو کہتا تھا کہ اپنے ایمان کو درست کرو اور قوی کرو اور وہ خدا کی طرف بلاتا تھا اور شرک سے دُور کرتا تھا اور وہ ایک چراغ تھا زمین پر روشنی پھیلانے والا.( لکھ لو ) یہ پیشگوئی جس زمانہ میں براہین احمدیہ میں شائع کی گئی ، اُس وقت نہ کوئی صفہ تھا، نہ اصحاب الصفہ.( یہ جو براہین احمدیہ ہے یہ 1882ء کی کتابیں ہیں (ان میں ) یہ الہامات ہیں.پھر بعد اس کے جو مخلصین قادیان میں ہجرت کر کے آئے اُن کے لئے صفے اور مہمانخانے تیار کئے گئے.دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ اُس زمانے میں یہ باتیں بتلائی گئیں جبکہ کسی کو اس طرف خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ قادیان میں ایسے مخلص جمع ہوں گے اور ان کے لئے کئے تیار کئے جاویں گے.“ ( نزول ایچ ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 501502) پھر آپ فرماتے ہیں کہ: "يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِه وَلَو كَرِهَ الْكَافِرُونَ.دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 240.ترجمہ.مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں.یعنی بہت سے مکر کام میں لاویں گے مگر خدا اپنے نور کو کمال تک پہنچائے گا اگر چہ کا فرلوگ کراہت ہی کریں.یہ اُس زمانہ کی پیشگوئی ہے کہ جبکہ اس سلسلہ کے مقابل پر مخالفوں کو کچھ جوش اور اشتعال نہ تھا.یعنی مخالفت تھی ہی کوئی نہیں اور پیشگوئی ہو رہی ہے کہ جو مخالف ہیں وہ ختم ہو جائیں گے.اور پھر اس پیشگوئی سے دس ۱۰ برس
خطبات مسرور جلد 12 92 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء بعد وہ جوش دکھلایا کہ انتہا تک پہنچ گیا، یعنی تکفیر نامہ لکھا گیا قتل کے فتوے لکھے گئے اور صدہا کتا ہیں اور رسالے چھاپ دیئے گئے اور قریباً تمام مولوی مخالف ہو گئے اور کوئی ذلیل سے ذلیل منصوبہ نہ چھوڑا جو میرے تباہ کرنے کے لئے نہ کیا گیا مگر نتیجہ برعکس ہوا اور یہ سلسلہ فوق العادت ترقی کر گیا.“ 66 نزول المسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 527-526) پھر آپ فرماتے ہیں: اِنْ لَّمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ فَيَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ يَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ وَ اِنْ لَّمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ 510.ترجمہ.اگر چہ لوگ تجھے نہ بچا ویں یعنی تباہ کرنے میں کوشش کریں مگر خدا اپنے پاس سے اسباب پیدا کر کے تجھے بچائے گا.خدا تجھے ضرور بچالے گا اگر چہ لوگ بچانا نہ چاہیں.اب دیکھو کہ یہ کس قوت اور شان کی پیشگوئی ہے اور بچانے کے لئے مکرر وعدہ کیا گیا ہے اور اس میں صاف وعدہ کیا گیا ہے کہ لوگ تیرے تباہ اور ہلاک کرنے کے لئے کوشش کریں گے اور طرح طرح کے منصوبے تراشیں گے مگر خدا تیرے ساتھ ہوگا اور وہ ان منصوبوں کو توڑ دے گا اور تجھے بچائے گا.اب سوچو کہ کونسا منصوبہ ہے جو نہیں کیا گیا بلکہ میرے تباہ کرنے اور ہلاک کرنے کے لئے طرح طرح کے مکر کئے گئے.چنانچہ خون کے مقدمے بنائے گئے ، بے آبرو کرنے کے لئے بہت جوڑ توڑ عمل میں لائے گئے اور ٹکس لگانے کے لئے منصوبے کئے گئے.کفر کے فتوے لکھے گئے قتل کے فتوے لکھے گئے لیکن خدا نے سب کو نا مرا درکھا.وہ اپنے کسی فریب میں کامیاب نہ ہوئے.پس اس قدر زور کا طوفان جو بعد میں آیا مدت دراز پہلے خدا نے اُس کی خبر دے دی تھی.خدا سے ڈرو اور سچ بولو کہ کیا یہ علم غیب اور تائید الہی ہے یا نہیں؟ اور اگر کہو کہ عصمت کا وعدہ چاہتا تھا کہ وہ لوگ کسی قسم کی تکلیف نہ دیں مگر انہوں نے جھوٹے مقدمات کر کے عدالت میں جانے کی تکلیف دی، بہت سی گالیاں دیں، مقدمات کے خرچ سے نقصان کرایا.اس کا جواب یہ ہے کہ عصمت سے مراد یہ ہے کہ بڑی آفتوں سے جو دشمنوں کا اصل مقصود تھا بچایا جاوے.دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عصمت کا وعدہ کیا گیا تھا حالانکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت زخم پہنچے تھے اور یہ حادثہ وعدہ عصمت کے بعد ظہور میں آیا تھا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کو فرمایا تھا اِذْ كَفَفْتُ بَنِی إسْرَائِيلَ عَنكَ (المائدة: 111 ) یعنی یاد کر وہ زمانہ کہ جب بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے میں نے تجھ سے روک دیا.حالانکہ تو اتر قوی سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کو یہودیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور صلیب پر کھینچ دیا تھا لیکن خدا نے آخر جان بچادی.پس یہی معنی اِذْ كَفَفْتُ کے ہیں.جیسا کہ وَاللهُ
خطبات مسرور جلد 12 يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کے ہیں.66 93 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 529-528) پس یہ تین چار میں نے نمونے رکھے تھے.اسی طرح آپ کی کتب جو ہیں وہ بھی ایک نشان ہیں.اس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ :.میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گوعربی ہو یا اردو یا فارسی، دو حصہ پر منقسم ہوتی ہے.(1) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور میں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقت اٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا.یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر ان مضامین کو میں لکھ سکتا.واللهُ أَعْلَمُ.(2).دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب میں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب ان کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح روح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت میں اپنی حسن سے غائب ہوتا ہوں.مثلاً عربی عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاری عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سلسلہ عبارت اس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلو کی طرح لفظ ضفف ڈالا گیا جس کے معنی ہیں بسیاری عیال.یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنی ہیں غم وغصہ سے چپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دل پر وحی ہوئی کہ ونجوم.ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے.عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا ان کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرف سے.اور بعض اوقات کچھ مدت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلو القاء ہوا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے.چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی
خطبات مسرور جلد 12 94 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے.یہ تو زبان عربی کے متعلق بیان ہے.مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں کچھ نمونہ ان کا لکھا گیا ہے.اور مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اللہ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جو مختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القاء ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سے توریت کے قصے بیان کر کے ان کو علم غیب میں داخل کیا ہے کیونکہ وہ قصے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علم غیب تھا گو یہودیوں کے لئے وہ غیب نہ تھا.پس یہی راز ہے جس کی وجہ سے میں ایک دنیا کو معجزہ عربی بلیغ کی تفسیر نویسی میں بالمقابل بلاتا ہوں.ورنہ انسان کیا چیز اور ابن آدم کیا حقیقت کہ غرور اور تکبر کی راہ سے ایک دنیا کو اپنے مقابل پر بلاوے.“ ( نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 434 تا436) آپ کی عربی کتب نے عربوں پر جو اثر کیا اُس کی چند مثالیں اب اس زمانے میں بھی ہیں جو پیش کرتا ہوں.چند نہیں بلکہ بہت سی مثالیں ہیں اُن میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں.اُس زمانے میں تو آپ کی عربی کے مقابلے پر کوئی نہیں آیا لیکن آج بھی عربوں کا جو اظہار ہے وہ کس طرح کا ہے.فلسطین کی ہماری ایک خاتون ہیں، وہ کہتی ہیں کہ مروجہ طرزفکر کے زیر اثر میرا بڑا پکا ایمان تھا کہ عیسی علیہ السلام آسمان پر موجود ہیں اور آخری زمانے میں آسمان سے نازل ہوں گے اور اُمت کو دیگر اقوام کی غلامی سے تلوار کے زور پر آزاد کروائیں گے.نیز تلوار کے زور سے ہی جبر آلوگوں کو اسلام میں داخل کریں گے.لہذا مجھے بڑی شدت کے ساتھ اس دن کا انتظار تھا.پھر جماعت سے میرا تعارف ہوا اور یہ تعارف میرے دیور کے ذریعہ ہوا جو نہ صرف جماعت کے بارے میں میرے ساتھ اکثر بات چیت کرتے تھے بلکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب اور لٹریچر بھی بھیجتے رہتے تھے.ان کتب میں مجھے بے مثل اور انمول موتی ملے.ایسے معارف کا مطالعہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا.ایسی بلاغت اور اعجاز سے بھر پور عربی کلام جس میں علم و معرفت کے ہیرے رکھ دیئے گئے ہوں میرے لئے بالکل نیا تھا.ایسے جواہر پاروں کے مطالعہ سے ہی قاری کا خدا سے تعلق قائم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور مکمل اطمینان
خطبات مسرور جلد 12 95 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء ہونے کے بعد میں نے بیعت کر لی.پھر الجزائر سے حجاز صاحب ہیں.کہتے ہیں کہ مسخ شدہ اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کی غلط تفاسیر سے بالکل مایوس ہو چکا تھا.علماء کی تشریحات سن کر سوچتا تھا کہ کیا یہ خدا کا کلام ہوسکتا ہے؟ یہاں تک کہ اردن کے احمدی دوست کے ذریعہ احمدیت اور بانی سلسلہ کی تحریرات سے آگاہی ہوئی.حضرت مسیح موعود یہ السلام کی تفسیر پڑھنے سے قبل نوافل پڑھ کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ راہِ راست کی طرف رہنمائی فرمائے.جیسے جیسے پڑھتا گیا سینہ کھلتا گیا اور اس کلام کی ہیبت سے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی اور یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ یہ الہی وحی ہے.پھر فر اس صاحب ابوظہبی سے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جس قدر کتابیں مجھے مہیا ہو سکیں اُن کے مطالعہ سے نیز ایم ٹی اے کے پروگرام ”الحوار المباشر“ کو باقاعدگی سے دیکھنے سے مجھے جماعتی عقائد پر اطلاع ہوئی.شروع میں تو جہالت اور گزشتہ خیالات کی وجہ سے میں نے فوری منفی رد عمل ظاہر کیا لیکن جب قرآنی آیات و احادیث اور خدائی سنت کا بغور مطالعہ کیا تو میرا دل مطمئن ہونے لگا.اب میرے سامنے دو راستے ہو گئے.یا تو میں مسلسل حضرت عیسی بن مریم کے آسمان سے نزول کا انتظار کئے جاؤں اور اس سے قبل دجال کا انتظار ، جس کی بعض ایسی صفات بیان کی گئی ہیں جو صرف خدا تعالیٰ کو زیبا ہیں، جیسے احیائے موتی وغیرہ اور پھر جن بھوتوں کے قصے اور قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ کے عقیدے سے چمٹا رہوں.یا پھر حضرت احمد علیہ السلام کو مسیح موعود اور امام مہدی مان لوں جنہوں نے اسلام کو خرافات سے پاک فرمایا ہے اور اسلام کے حسین چہرے کو نکھار کر پیش فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی دفاع فرمایا ہے.خیر کہتے ہیں، بہر حال میں نے خدا تعالیٰ سے مدد چاہی اور بہت دعا کی کہ وہ میری رہنمائی فرمائے اور حق اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.چنانچہ میں نے جماعت احمدیہ اور حضرت احمد علیہ السلام کی طرف ایک دلی میلان محسوس کیا.پھر کہتے ہیں کہ میں نے قانون پڑھا ہوا ہے.جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار سنے تو میرا جسم کانپنے لگا اور آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور میں نے زور سے کہا کہ ایسے شعر کوئی مفتری نہیں کہہ سکتا.ایک مفتری کے سینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت کیسے ہو سکتی ہے.پھر ایک عجمی کا اتنا قوی اور فصیح و بلیغ عربی زبان کا استعمال کرنا بغیر خدائی تائید کے ناممکن ہے.پھر عباس صاحب ہیں جو اٹلی میں رہتے ہیں.عرب ہیں.کہتے ہیں کہ میں باوجود مولویوں کی
خطبات مسرور جلد 12 96 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء ہرزہ سرائی کے ایم ٹی اے العربیہ کا ہو کر رہ گیا تھا.ایک دن میں الحوار دیکھ رہا تھا کہ اس میں وقفے کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عربی قصیدہ آ گیا.علين من الرحمن ذى الألاء بِاللهِ حُزْتُ الْفَضْلَ لَا بِدَهَاءِ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 282-266) میں یہ قصیدہ سننے کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو بھی دیکھتا جا تا تھا.یہاں تک کہ ایک بے اختیاری کے عالم میں میرے منہ سے بلند آواز سے یہ کلمات نکلے کہ خدا کی قسم ! یہ بات کوئی جھوٹا ہرگز نہیں کہہ سکتا.یہ شخص لا زمی خدا کا فرستادہ ہے.ایسا کلام خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کی بے حرمتی کرنے والا نہیں ہو سکتا.پھر مراکش کے ایک خالد صاحب ہیں ، وہ کہتے ہیں.احمدیت سے تعارف کے بعد مجھے اس بات سے کسی قدر حیرت بھی ہوئی کہ امام مہدی آکر چلا بھی گیا اور ہم اب اُن کے بارے میں سن رہے ہیں.سوچ سوچ کر میں نے خدا تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کی اور جماعت کی عربی ویب سائٹ پر موجود کتب کا مطالعہ شروع کر دیا.سب سے پہلی کتاب جو میں نے پڑھی وہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ تھا جسے میں نے کئی مرتبہ پڑھا.اس کتاب میں عدل و احسان اور ایتائی ذی القربی کا مضمون پڑھ کر میری روح بھی وجد کرنے لگی.اس کے بعد میں نے التبلیغ ، پڑھی اور دیگر کتب کا مطالعہ کیا.ان کتب نے روحانی دقائق اور دینی معارف کے ایسے دریا بہائے کہ اکثر میری زبان پر یہ فقرہ آتا تھا کہ مجھے خزانہ مل گیا ہے.ہمارے ایک صاحب حمادہ صاحب ہیں اُن کے بارے میں بانی طاہر صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری ویب سائٹ پر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مریم بنے اور پھر اس مریم میں نفخ روح کے بارے میں پوچھا تھا.اس پر اُن سے رابطہ کیا گیا اور کچھ مضامین اور حضور علیہ السلام کے اقتباسات بھجوائے گئے جن سے وہ بہت متاثر ہوئے اور حقیقت پاگئے.وہ لکھتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کی کتاب التبلیغ نے میرا سینہ کھول دیا اور مجھے حیرت آمیز خوشی ہوئی کہ اس زمانے میں بھی انبیاء کا پرنور کلام مجھے پڑھنے کو ملا.اپنے سابقہ شکوک وشبہات پر افسوس بھی ہوا.یمن کے ایک صاحب حطامی صاحب ہیں، کہتے ہیں کہ ایک صحافی اور ایک محقق ہونے کے ناطے
خطبات مسرور جلد 12 97 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء حقیقت حال جاننے کا مجھے شوق تھا.لہذا جماعت کے مخالفین کی کتب بھی پڑھیں.اُن میں ناروا الزام تراشی کے بعد نوبت تکفیر تک پہنچتی نظر آئی.مزید تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان میں وہی پرانے غلط الزامات کے سوا کچھ نہیں.دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی دانی وغیرہ جیسے معجزات تھے.یہ بھی الہی معجزہ تھا کہ امام مہدی کو فارسی الاصل پیدا کیا.ضروری نہیں کہ عربوں میں ہی مہدی آتا.کیونکہ ہدایت اور نبوت صرف عربوں پر ہی منحصر نہیں ، دوسری دنیا کا کیا قصور ہے.اسلام کے آخری زمانے میں غریب ہو جانے کا میرے نزدیک ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اس کی نشاۃ ثانیہ غیر عرب ملک سے شروع ہو گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا کہ آپ نے اسلام کا صحیح تصور دوبارہ پیش کیا ہے.جس کو لوگوں نے بھلا دیا تھایا بگاڑ دیا تھا.اسلام امن اور سلامتی کا نام ہے.لیکن مسلمان آپس میں لڑ مر رہے ہیں.کوئی خونی مہدی کا انتظار کر رہا ہے تو کوئی مہدی کے غار سے نکلنے کا منتظر ہے.لیکن ایک جماعت احمد یہ ہے جو حقیقی مہدی کو مان کر اس کی پیروی کر رہی ہے.پھر ایران کے ایک صاحب عبیات صاحب ہیں.کہتے ہیں میری پیدائش اور پرورش شیعہ خاندان میں ہوئی جہاں شروع سے ہی دینی رجحان تھا.میں نے مختلف ٹی وی پروگرامز اور کتب کا مطالعہ کیا لیکن جس طرح سے اسلام کو پیش کیا جارہا تھا اس سے تسلی نہ ہوتی تھی.اور خیال کرتا تھا کہ جس طریق سے اسلام پیش کیا جا رہا ہے ، ضرور اس میں کوئی کمی یا کمزوری ہے.کیونکہ قرآن تو یہ فرماتا ہے کہ کثرت سے لوگ اس دین میں داخل ہوں گے لیکن آجکل لوگوں کی اکثریت تو اسلام کی حقیقت سے خالی ہے.اس پر مجھے یقین ہو گیا کہ رائج الوقت مفاہیم کو درست کرنے کی ضرورت ہے.کہتے ہیں ایک روز میرے ایک دوست نے اپنے گھر بلایا اور ایم ٹی اے سے تعارف کروایا.اس کے بعد میں نے پروگرام ”الحوار المباشر‘ اور بعض دیگر پروگرام دیکھے جن میں آپ کی تفسیر القرآن اور مختلف مسائل پر گہری علمی اور حکیمانہ گفتگو سے بہت متاثر ہوا.پہلی بار کسی چینل پر اسلام کے بارے میں علمی طریق سے گفتگو اور رابطہ کرنے والوں کے سوالوں کے قوی دلائل پر مبنی جوابات سنے.پھر کہتے ہیں نیز عجیب بات یہ تھی کہ یہ علماء جو غیر از جماعت علماء ہیں، شیعوں کو تو مناظرے کی دعوت دیتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کے مقابلے پر صرف تکفیر بازی اور گالی گلوچ پر اکتفار کرتے ہیں کیونکہ وہ جماعت احمدیہ کے قوی دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے.کہتے ہیں کہ احمدی لوگوں کو قید اور قتل کیا جاتا ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت کے مخالفین کے پاس سوائے اسلام کو بد نام کرنے والے ان کاموں کے اور کچھ نہیں.جب بھی میں ایم ٹی اے دیکھتا ہوں میرا ایمان مضبوط تر ہوتا ہے.قرآنِ کریم
خطبات مسرور جلد 12 98 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء میں کسی قسم کے نسخ نہ ہونے کے بارے میں آپ کا عقیدہ معلوم کر کے آپ کی اسلام کے ساتھ محبت کا یقین ہو گیا.جب یہ سنا کہ مسیح موعود نے اسلام کی دوسرے مذاہب پر فوقیت ثابت کرنے کے لئے اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں کتاب براہین احمدیہ کھی ہے تو مجھے اس کی تبلیغ کے بارہ میں آپ کی لگن کا یقین ہو گیا.حضرت مسیح موعود اور پھر خلفاء کی کتب پڑھ کر یقین ہو گیا کہ یہ لوگ معمولی آدمی نہیں بلکہ یہ اسلام کے سرگروہ ہیں اور ان کے افکار کی دنیا کو سخت ضرورت ہے.حضور علیہ السلام کی عربی زبان کی مہارت اور عرب و عجم کو عربی میں مقابلہ کا چیلنج دینا مخالفین کے لئے گولڈن چانس مہیا کرتا تھا کہ اپنی فوقیت ثابت کر سکیں لیکن وہ ایسا نہ کر سکے.ان سب دلائل نے میرے لئے آپ علیہ السلام پر ایمان لانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ چھوڑا.جماعت کی حقیقت پر آگاہ ہونے کے بعد اس کی تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں.اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ میں چند ایک پیش کروں گا جو پیش کئے ہیں.پھر ان نشانات کے ضمن میں ہی ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:.میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صد ہا نشان ظاہر ہوئے.کیاز مین پر کوئی ایسا انسان زندہ ہے کہ جو نشان نمائی میں میرا مقابلہ کر کے مجھ پر غالب آ سکے.مجھے اُس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اب تک دو لاکھ سے زیادہ میرے ہاتھ پر نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور شاید دس ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ لوگوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ نے میری تصدیق کی.اور اس ملک میں جو بعض نامی اہل کشف تھے جن کا تین تین، چار چارلاکھ مرید تھا اُن کو خواب میں دکھلا یا گیا کہ یہ انسان خدا کی طرف سے ہے.اور بعض اُن میں سے ایسے تھے کہ میرے ظہور سے تیس برس پہلے دنیا سے گزر چکے تھے.جیسا کہ ایک بزرگ گلاب شاہ نام ضلع لدھیانہ میں تھا.جس نے میاں کریم بخش مرحوم ساکن جمال پور کو خبر دی تھی کہ عیسی قادیان میں پیدا ہو گیا اور وہ لدھیانہ میں آئے گا.میاں کریم بخش ایک صالح موحد اور بڑھا آدمی تھا.اُس نے مجھ سے لدھیانہ میں ملاقات کی اور یہ تمام پیشگوئی مجھے سنائی.اس لئے مولویوں نے اُس کو بہت تکلیف دی.مگر اُس نے کچھ پروا نہ کی.اُس نے مجھے کہا کہ گلاب شاہ مجھے کہتا تھا کہ عیسی بن مریم زندہ نہیں ، وہ مرگیا ہے.وہ دنیا میں واپس نہیں آئے گا.اس امت کے لئے مرزا غلام احمد عیسی ہے جس کو خدا کی قدرت اور مصلحت نے پہلے عیسی سے مشابہ بنایا ہے اور آسمان پر اُس کا نام عیسی رکھا ہے اور فرمایا کہ اے کریم بخش جب وہ عیسی ظاہر ہوگا تو تو دیکھے گا کہ مولوی لوگ کس قدر اُس کی مخالفت کریں گے.وہ
خطبات مسرور جلد 12 99 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء سخت مخالفت کریں گے لیکن نامرا در ہیں گے.وہ اس لئے دنیا میں ظاہر ہوگا کہ تاوہ جھوٹے حاشیے جو قرآن پر چڑھائے گئے ہیں اُن کو دُور کرے اور قرآن کا اصل چہرہ دنیا کو دکھاوے.اس پیشگوئی میں اس بزرگ نے صاف طور پر یہ اشارہ کیا تھا کہ تو اس قدر عمر پائے گا کہ اس عیسی کو دیکھ لے گا.“ ( تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 36-37) اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں بعض لوگوں کی رہنمائی فرمائی.اس ضمن میں ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بعض جو بیعت کرنے والے تھے ، اُن کے کچھ واقعات اور بعد کے واقعات بھی بیان کرتا ہوں.حضرت میاں عبدالرشید صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ” مجھے بیعت کی تحریک حضرت والد صاحب کی تحریک اور ایک خواب کے ذریعہ سے ہوئی.میں نے آنحضرت صلعم کو خواب میں دیکھا کہ حضور ایک چار پائی پر لیٹے ہیں اور بہت بیمار ہیں.اور حضرت مسیح موعود آپ کے پاس کھڑے ہیں جیسے کسی بیمار کی خبر گیری کرتے ہیں.حضور صلعم چار پائی سے آپ کے کندھے پر سہارا دے کر کھڑے ہوئے.اس کے بعد اس حالت میں حضور صلعم نے لیکچر دینا شروع کیا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق بیان تھا اور اس کے بعد خواب میں دیکھا کہ حضور صلعم تندرست ہو گئے ہیں اور آپ کا چہرہ پر رونق ہو گیا.جس سے میں نے یہ تعبیر نکالی کہ اب اسلام حضرت صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کے ذریعہ سے دوبارہ زندہ ہو گا.چنانچہ اس خواب کے بعد پھر میں نے بیعت کر لی.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 28 روایت حضرت میاں عبدالرشید صاحب لاہور ) اسی طرح عبدالستار صاحب ولد عبد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ : ” میں نے اپنے والد صاحب سے سوال کیا کہ مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ ہمیں نہیں آتا ، زندہ کا آتا ہے.کیونکہ مسیح زندہ کے بارے میں سنتے رہے ہیں.یہ ہمیں سمجھا دیں.میرے والد صاحب نے اپنا ایک خواب بیعت سے آٹھ دس ماہ کے بعد یہ سنایا کہ میں نے دریائے راوی کے کنارے پر دیکھا کہ دو خیمے لگے ہوئے ہیں، ایک مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور دوسرا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا.میں رسول کریم کے خیمے میں داخل ہوا اور یہ سوال کیا کہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے والے بزرگ کیسے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہ شخص بہت لائق ، بہت لائق (ہے)، بہت لائق.تین دفعہ انگلی کے اشارے سے فرما یا.مکمل شہادت کو دیکھ کر یقین کامل ہو گیا کہ آپ یعنی مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوئی میں راستباز ہیں ، ہمیں
خطبات مسرور جلد 12 100 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء حیات و اموات کے مسئلے کی ضرورت نہیں ، ایمان لے آئے اور بیعت میں داخل ہوئے.“ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 6 صفحہ 178 روایت حضرت عبدالستار صاحب) پھر سر دار کر مداد صاحب " روایت کرتے ہیں کہ : ”میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بیعت کرنے سے پہلے خواب میں دیکھا.وہ اس طرح کہ ایک سڑک ہے اس پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مل کر ٹہلتے آرہے ہیں.بندہ سامنے سے آ رہا ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بندہ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں، (انگلی کا اشارہ کر کے ) کہ یہ خدا کی طرف سے ہے.یہ خدا کی طرف سے ہے.یعنی تین دفعہ حضور نے فرمایا.جب میں نے 1902ء میں بمقام قادیان دارالامان میں جبکہ چھوٹی مسجد ہوا کرتی تھی، بیعت کی تو اُسی حلیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پایا (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 5 صفحہ 1 روایت حضرت سردار کرم دادخان صاحب) اس زمانے میں پھر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کا نظارہ دیکھتے ہیں.محمد بن احمد صاحب جرمنی میں رہتے ہیں.کہتے ہیں کہ ایک عرصے سے میں یہ لکھنے کا سوچ رہا تھا لیکن بار بار لکھنے میں تر در پیدا ہوا.کیونکہ جب تک میں ایک خاص روحانی کیفیت میں نہ ہوں ، خدا تعالیٰ کی رضا کو محسوس نہ کر رہا ہوں، لکھنے نہیں بیٹھتا.کہتے ہیں.خاکسار اس وقت جرمنی میں انجینئر نگ پڑھ رہا ہے.بچپن اور جوانی اپنی فیملی کے ساتھ سعودی عرب میں گزاری جہاں احمدیت کا نام تک نہ سنا تھا.2004ء یا 2005ء میں خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی.اُس وقت ہم ایک خوبصورت مینار میں تھے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو اپنے جوبن پر اور ہمارے بالکل قریب تھا.چاند کی روشنی ہمارے چاروں طرف دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی جس کے درمیان میں ایک مینار تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتا رہے تھے جسے میں پہلے نہیں جانتا تھا.آپ میرے ساتھ اتنی محبت اور شفقت سے پیش آرہے تھے کہ جس کا بیان ناممکن ہے.پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے.حضور کے چہرہ سے اہل دنیا کے لئے ہموم و عموم کا بوجھ ہو یدا تھا.پھر میں بیدار ہو گیا اور یوں محسوس ہوا جیسے میں زمین سے بلند ہوں.اس کے بعد کئی روز تک لوگوں سے میر اسلام کلام بہت کم رہا.مجھے اس خواب کی کچھ سمجھ نہ آئی ، یہاں تک کہ میرے والد صاحب نے بعد میں اس بارے میں بتایا.میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب والد صاحب نے بتایا کہ انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں 1979ء میں میری ولادت کی بشارت دی تھی
خطبات مسرور جلد 12 101 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء اور فرمایا تھا کہ تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو گا اور اُس کا نام محمد رکھنا.یہ بات میرے والد صاحب نے مجھے 2007ء میں بتائی.اُس وقت تک میں احمدیت کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا.پھر سیر یا میں ایک بار میرے چھوٹے بھائی نے جماعت کی ویب سائٹ کے بارے میں بتایا جہاں میں نے جماعت کے عقائد اور تفسیر کا مطالعہ کیا.یہ کم و بیش وہی عقائد تھے جن کا ہم بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے.مثلاً یہ کہ دجال سے مراد عصرِ حاضر کا مغربی ممالک کا صنعتی انقلاب اور مادی کشش، نیز عیسائیت کا پر چار کرنے والی قوتیں ہیں.پھر مجھے لکھتے ہیں کہ یقین کریں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھتے وقت حقائق و معارف اور حضور کی روزِ روشن کی طرح واضح صداقت کو پڑھ کر رویا کرتا تھا.ہر لفظ میری روح میں اتر جاتا تھا.یہ متاع ایمان ایسی دولت ہے جس کا بیان کرنا ممکن نہیں ہے.جماعت کے عقائد کا دوسروں پر غلبہ بھی واضح تھا.یقینا جو جماعت اسلام کے صحیح عقائد پیش کرتی ہے، مثلاً قرآن کریم کا ناسخ و منسوخ سے پاک ہونا ، اس کی عقلی اور منطقی تفسیر ، عصمت انبیاء ختم نبوت کی تفسیر ، اسراء اور معراج کی حقیقت، وہ صرف مسیح موعود کی جماعت ہی کھول سکتی ہے.گو آج اُسے جزوی غلبہ حاصل ہے لیکن مستقبل قریب میں اُسے کامل غلبہ حاصل ہوگا.دمشق کے ایک دوست رضوان صاحب ہیں.وہ کہتے ہیں کہ میں نے دمشق یونیورسٹی سے میتھمیٹک (Mathematic) اور آئی ٹی (IT) کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کمپیوٹر کی مرمت کا کام شروع کیا اور اس کے ساتھ دمشق کی بعض مساجد میں نوجوانوں کو قرآن پڑھانے لگا.دینی علوم میں نے کسی ادارے میں نہیں حاصل کئے بلکہ ذاتی کوشش اور مطالعہ سے اخذ کئے.ایک واقعہ کے بعد میں معرفت الہی کے حصول کی کوشش میں لگ گیا.تو اُس کے بعد جو پہلا رؤیا دیکھا اُس میں میرے لئے پیغام تھا کہ قرآنِ کریم ہی علوم و معارف کا خزانہ ہے اور اپنی زندگی کی تمام مشکلات کا حل اس میں تلاش کرو.میں نے جب قرآن کریم پر غور کیا تو اس کے فیوض و علوم سے میرا دامن بھر گیا.ایک رات میں نماز میں قول خدا الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا (الكهف : 105) سے بہت ڈرا.اور خدا تعالیٰ سے ہی سیدھے راستے کی ہدایت چاہی.اُس وقت دو نو جوانوں نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور قادیانیت کے بارے میں سوال کیا.میں نے قادیانیت کے کافر ہونے کے بارے میں ایک کتاب لی اور انہیں سنانے لگا.اچانک مجھے ایک عجیب احساس ہوا اور میں نے کتاب بند کر دی اور کہا مجھے لگتا ہے کہ کوئی بڑی غلطی کر رہا ہوں.کیونکہ میں ایسی جماعت کے بارے میں بتا رہا ہوں جس کے ساتھ
خطبات مسرور جلد 12 102 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء مجھے بات کرنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا بلکہ میں سنی سنائی باتیں کر رہا ہوں.پھر میرا تعارف ایک احمدی مکرم بدر صاحب سے ہوا جنہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی“ دی.میں نے یہ کتاب اُس وقت تک نہ رکھی جب تک مکمل نہ پڑھ لی.میں نے محسوس کیا کہ اس شخص کے انگ انگ میں اسلام سمایا ہوا ہے.یہ سنا سنا یا ہوا اسلام نقل نہیں کر رہا بلکہ اس نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا ہے.یہ ضرور کوئی خدا کا مقرب انسان ہے.اس کتاب میں جس موضوع نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ وحی الہی اور اُس کا غیر منقطع ہونا ہے کیونکہ کوئی چھ ماہ قبل میں نے ایک رؤیا د یکھا تھا کہ جیسے میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں اور خدا تعالیٰ کا نور پھیلا ہوا ہے.اُس وقت اللہ تعالیٰ مجھے فرماتا ہے.اَعْطَيْتُكَ اللّرُعَ الواقع یعنی میں نے تجھے محفوظ رکھنے والی زرہ عطا کی ہے.مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی اور خدا تعالیٰ سے شرم کے سبب میں نے انہیں نہیں پوچھا بلکہ عرض کیا کہ سمعا وطاعتا.اس پر ایک فرشتہ نظر آیا جو جنگجولگتا تھا اور اُس نے اسلحہ وغیرہ زیب تن کیا ہوا تھا.اس فرشتے نے مجھے کہا کہ اپنے دوست باسط سے کہو کہ لا إلهَ إِلَّا اللہ کے ساتھ چمٹ جاؤ.اس کے بعد میں نے حضور علیہ السلام کی تمام عربی کتب پڑھ لیں اور بہت فائدہ اُٹھایا.آپ کے کلام نے مجھ پر جادو کا سا اثر کیا.اس کے بعد میں نے استخارہ کیا تو ایک دفعہ مجھے یہ آیت سنائی دی.عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَهُ مِن لَّدُنَا عِلْمًا.(الکھف: 66) پھر دوسری دفعہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی.میرے پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ اس زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے صرف مرزا غلام احمد ہی سفینہ نجات ہیں.پھر بعض نشانات دیکھ کر افریقہ کے جو مختلف لوگ ہیں ان کے کچھ واقعات بیان کرتا ہوں ).ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ سرکٹ مبلغ عبدالمالک اپنے دو ساتھیوں مونسے (Monsie) نامی قصبہ میں تبلیغ کے لئے گئے.قصبے کے نوجوانوں نے تبلیغ کی جگہ پر خوب شور شرابا کیا جن پر اُن کو تبلیغی نشست بند کرنا پڑی.اگلے دن قصبے کے لوگ اپنے ایک پروگرام کے تحت ایک جگہ اکٹھے ہوئے.اچانک تیز ہوا شروع ہوئی.بظاہر بارش کا کوئی امکان نہ تھا کہ اچانک گھنے بادل آئے اور بڑی تیز آندھی چلی.موسلا دھار بارش ہوئی اور اُن کا سارا پروگرام خراب ہو گیا.اس واقعہ پر قصبہ کے لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ طوفان خدا کے غضب کا نشان تھا جو احمدیوں کو تبلیغ سے روکنے کے نتیجہ میں ظاہر ہوا ہے.چنانچہ اس کے نتیجہ میں اکتالیس افراد نے احمدیت میں شمولیت اختیار کر لی.پھر نائیجیریا کی ایک رپورٹ ہے کہ وہاں اور ولو (Odulu) گاؤں اور اس کے اردگرد تبلیغ کر
خطبات مسرور جلد 12 103 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء رہے تھے تو وہاں کافی مخالفت ہوئی.کچھ عرصے بعد اس گاؤں کا ایک نوجوان بشیر ہے، اس نے آکر بتایا کہ اُس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر یہ احمدی لوگ سچے نہیں ہیں تو انہیں تکلیف میں مبتلا کر اور اگر احمدی بچے ہیں تو مخالفین کو تکلیف میں مبتلا کر جو ایک نشان بنے.چنانچہ پانچ دن بعد میں نے دیکھا کہ مخالفین میں دو شخص بیمار ہوئے اور شدید تکلیف میں مبتلا ہو کر فوت ہوئے جس سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ جماعت خدا کی طرف سے ہے اور میں سچے دل کے ساتھ ایمان لا کر احمدی ہوتا ہوں.پھر بورکینافاسو میں درگو (Dedougou) ریجن ہے، وہاں سے (ہمارے مبلغ ) لکھتے ہیں کہ جب تبلیغ کے سلسلے میں مختلف گاؤں کا دورہ کیا تو ایک گاؤں پہنچے.اس گاؤں میں ہمارے سو کے قریب ممبر ہیں.انہوں نے کہا کہ مربی صاحب! کافی عرصے سے بارش نہیں ہو رہی اور ہم فصلیں کاشت نہیں کر سکے.خاکسار نے کہا کہ آؤ خدا سے دعا کرتے ہیں اور نماز استسقاء پڑھتے ہیں.صبح دس بجے نماز استسقاء ہوگی.تمام گاؤں کے افراد، بچے بوڑھے خواتین سب کو اطلاع کر دیں.جب اطلاع کی تو غیر احمدی مسلمان اپنے امام سمیت اس نماز میں شامل نہیں ہوئے.کہتے ہیں میں نے نماز میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واسطہ دے کر کہا کہ اے میرے رب! ان لوگوں کی زمین کی پیاس بجھا دے، ہماری دعائیں ٹن اور آج یہ نظارہ گاؤں والوں کو دکھا دے.خدا تعالیٰ نے احمدی بچوں اور خواتین اور بوڑھوں کی دعا کو سنا.اُسی رات موسلا دھار بارش ہوئی.کہتے ہیں ہم تو نماز پڑھ کے دوسرے گاؤں میں تبلیغ کرنے چلے گئے تھے.صبح جب جماعت ماسو کے لوگ پیغام دینے کے لئے آئے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گاؤں میں یہ سب سے پہلی بڑی بارش برسی ہے جو خدا تعالیٰ کا بڑا فضل تھا.اس واقعہ سے غیر احمدی مسلمان اور عیسائی بہت متاثر ہوئے جنہوں نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور نتیجہ وہاں نوے (90) بیعتیں ہوئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہئے.اور اُن کو شکر کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو یونہی نہیں چھوڑا بلکہ اُن کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صدہا نشان دکھائے ہیں.“ 66 ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 438) اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ سے ایک سچا تعلق پیدا کرنے والے ہوں.ایسا تعلق پیدا کرنے والے ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا نشان دکھانے والا بنائے اور ہمارے ایمانوں میں اضافہ کرنے والا بنائے.اور آئندہ نسلوں میں بھی ہم اس روح کو پھونکنے والے ہوں کہ خدا تعالیٰ سے ایک
خطبات مسرور جلد 12 104 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء سا تعلق جوڑ و اور جماعت کے ہمیشہ وفادار ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آئے ہو تو اُس کی قدر کرو.اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں میں بھی ایمان قائم رکھے اور بڑھاتا چلا جائے.اس وقت ایک افسوسناک خبر ہے.میں نمازوں کے بعد دو جنازے پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ مکرم رضی الدین صاحب ابن مکرم محمد حسین صاحب کا ہے، جو 8 فروری 2014ء کو اپنے گھر سے کام پر جانے کے لئے نکلے تھے کہ ان کو شہید کر دیا گیا.اِنَّا لِلهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ کراچی میں تھے.ان کی اہلیہ اور بھتیجا بھی ان کے ہمراہ تھے.کراچی میں اُس دن ہڑتال تھی اور ان کی اہلیہ نے انہیں کہا بھی کہ کام پر نہ جائیں لیکن یہ پھر بھی کام پر جانے کے لئے تیار ہوئے.ابھی گھر سے کچھ فاصلے پر ہی پہنچے تھے کہ دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے اور انہوں نے ان پر فائرنگ کردی.ایک گولی آپ کی گردن میں لگی جس نے سانس کی نالی کو زخمی کر دیا.بھتیجا ان کا ساتھ تھا، وہ تو خیر اطلاع دینے کے لئے گھر چلا گیا.اہلیہ ان کو فوری طور پر ہسپتال لے گئیں جہاں ڈاکٹر نے ہر ممکن کوشش کی لیکن مکرم رضی الدین صاحب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ محمد حسین مختار صاحب کے یہ بیٹے تھے.شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق مینڈ رضلع پونچھ کشمیر سے تھا.مینڈر کے دو بزرگان نے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور واپس آکر تبلیغ شروع کر دی جس کے نتیجہ میں شہید مرحوم کے پڑدادا مکرم فتح محمد صاحب نے بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کی توفیق پائی تھی.شہید مرحوم کے دادا کا نام مکرم مختار احمد صاحب جبکہ والد مکرم محمد حسین مختار ہیں.قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان گوئی ضلع کوٹلی میں آباد ہوا.بعد میں 1992ء سے کراچی میں رہائش اختیار کر لی.ایف.اے تک تعلیم حاصل کی.ایک فیکٹری میں چھ سال سے ملازم تھے.شہادت کے وقت ان کی عمر 26 سال تھی.نہایت ہمدرد اور مخلص انسان تھے.ہر ایک سے خوش دلی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے.خلافت سے عشق تھا.عہد یداران اور نظام جماعت کا بہت احترام کرتے تھے.کسی سے جھگڑے کی نوبت کبھی نہیں آئی.شہادت کے بعد غیر از جماعت دوست بھی اظہار کرتے رہے کہ کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی، نہ ہی کبھی کسی کو شکایت کا موقع دیا.بار بار شہادت کی تمنا کیا کرتے تھے.شہادت سے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک لڑکا کلہاڑی لے کر تعاقب کر رہا ہے اور اچانک وار کر دیتا ہے تو اس سے آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے.شہادت سے دو دن قبل چھ فروری کو ان کی اہلیہ محترمہ نے خواب میں دیکھا کہ میرے خاوند شہید مرحوم کی شادی ہو رہی ہے.پھر اچانک دیکھتی ہیں کہ گھر جنازہ پڑا ہوا ہے.کہتی ہیں میں بھاگ کر اپنے والدین کے گھر جاتی ہوں جو قریب ہی تھا تو دیکھا کہ ایک جنازہ وہاں بھی پڑا ہوا ہے.پھر ان کی آنکھ کھل گئی.شہید مرحوم کے والد نے بھی خواب دیکھی تھی کہ بڑا بیٹا
خطبات مسرور جلد 12 105 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 فروری 2014ء محمد احمد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے پاس سترہ دن کی مہلت ہے.بفضلہ تعالیٰ شہید موصی تھے اور اکثر مسجد میں جو آجکل خدام ڈیوٹی دیتے ہیں اُن ڈیوٹی دینے والوں میں بڑے فعال تھے.ان کے والد عمر رسیدہ ہیں.اسی (80) سال ان کی عمر ہے.گزشتہ چارسال سے مفلوج بھی ہیں.یا اپنی فیملی کے، والدین اور بچوں کے بھی اکیلے ہی کفیل تھے.ان کے بھائیوں کو بھی دھمکیاں ملی ہیں جس کی وجہ سے وہ وہاں سے چلے گئے تھے.ان کے جانے کے بعد پھر ان کو دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں تھیں.ان کے والدین کے علاوہ اہلیہ محترمہ نصرت جبین صاحبہ اور سات ماہ کی بیٹی عزیزہ عطیۃ النور ہیں.صرف ایک ہی ان کی بیٹی ہے.بھائی ہیں، ان کے بیٹے ہیں.اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کے والدین کو بھی اور باقی لوگ، بیوی کو بھی اور بچی کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے اور صبر اور حوصلہ کی توفیق عطا فرمائے.دوسرا جنازہ ڈاکٹر خالد یوسف صاحب کا ہوگا جو 7 فروری 2014ء کو فضل عمر ہسپتال ربوہ میں 46 سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ڈاکٹر صاحب موصی تھے.بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین ہوئی ہے.آپ کے والد محترم سیٹھ محمد یوسف صاحب تھے جو نوابشاہ کے امیر ضلع تھے اور انہیں 9 ستمبر 2008ء میں شہید کر دیا گیا تھا.ان کی والدہ نوابشاہ میں ہی رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تھا.امۃ الشافعی اور ادیبہ یوسف اور اعیان احمد بیٹا نو سال کا ہے اور ایمان خالد پانچ سال.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ دے اور ان کو اپنی حفاظت میں رکھے.اپنے والد کی شہادت کے بعد یہ نوابشاہ سے یہاں آئے تھے اور بڑے اچھے ڈاکٹر تھے.وہاں بھی انہوں نے غریبوں کی بڑی خدمت کی لیکن نوابشاہ کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے پھر یہ فضل عمر ہسپتال میں آگئے تھے.ای این ٹی کے رجسٹرار تھے.اور مریضوں کے ساتھ ان کا بڑا اچھا سلوک ہوتا تھا.جس دن ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں، اُس دن بھی باوجودا اپنی بیماری کے انہوں نے اسی (80) مریض دیکھے.بڑی خدمت کا جذبہ رکھنے والے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 07 مارچ 2014 ء تا 13 مارچ 2014 ءجلد 21 شماره 10 صفحہ 05 تا 10 )
خطبات مسرور جلد 12 106 8 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014 ء بمطابق 21 تبلیغ 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کل یعنی گزشتہ کل 20 فروری کا دن گزرا ہے.یہ دن جماعت میں مصلح موعود کی پیشگوئی کے حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے کے پیدا ہونے کی خبر دی تھی جو نیک، صالح اور بہت سی صفات کا حامل ہونا تھا.گزشتہ جمعہ کوبھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات کے حوالے سے ذکر کیا تھا، آج بھی میں نے یہی مناسب سمجھا کہ 20 فروری کے قریب کا جمعہ ہے اس وجہ سے اس پیشگوئی کا ذکر کروں جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عظیم الشان نشان قرار دیا ہے.معترضین کے جواب میں آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ تم اعتراض تو کرتے ہولیکن یہ بشری طاقتوں سے بالا تر ہے کہ ایسی پیشگوئی کی جائے.اور صرف بیٹا ہونے کی پیشگوئی نہیں کی جارہی بلکہ ایسی صفات کا حامل بیٹا ہونے کی پیشگوئی کی جارہی ہے ) جو لمبی عمر پانے والا بھی ہو گا اور جو آپ کی زندگی میں پیدا ہو گا.آپ نے فرمایا کہ اگر اس اعلان کو گہری اور انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کے نشانِ الہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا.آپ نے معترضین کو فرمایا کہ اگر شک ہو تو اس قسم کی پیشگوئی جو ایسے ہی نشان پر مشتمل ہو، پیش کرو.فرمایا: اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے.اور جیسا کہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی اسلام کی حقانیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت سب پر ثابت کرنا تھا.یہاں بھی آپ اس پیشگوئی اور نشان کو پیش فرما کر یہ نہیں فرمار ہے کہ یہ میری
خطبات مسرور جلد 12 107 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء صداقت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ فرمایا کہ اس نشانِ آسمانی کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم ، رؤوف الرحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے.اور فرمایا اور درحقیقت یہ نشان ایک مردہ زندہ کرنے سے صد با درجہ اعلیٰ اولیٰ و اکمل و افضل واتم ہے.آپ نے وضاحت فرمائی کہ مردہ زندہ کرنا تو صرف اتنا ہی ہے کہ ایک روح تھوڑے عرصے کے لئے واپس منگوالی، جیسا کہ بائبل میں حضرت عیسی علیہ السلام یا بعض انبیاء کے بارے میں لکھا گیا ہے.گو اس پر بھی اعتراض کرنے والوں کے اعتراض موجود ہیں.اور کسی مردہ کا زندہ ہونا اگر مان بھی لیا جائے تو اس سے دنیا کوکوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا.مگر یہاں بفضلہ تعالیٰ واحسانہ برکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 99 اشتہار نمبر 34 مطبوعہ ربوہ ) آپ فرماتے ہیں کہ ”اے لوگو! میں کیا چیز ہوں اور کیا حقیقت؟ جو کوئی مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ در حقیقت میرے پاک متبوع پر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے، حملہ کرنا چاہتا ہے.مگر اُس کو یاد رکھنا چاہئے ، وہ آفتاب پر خاک نہیں ڈال سکتا بلکہ وہی خاک اُس کے سر پر، اُس کی آنکھوں پر، اُس کے منہ پر گر کر اُس کو ذلیل اور رسوا کرے گی.اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و شوکت اُس کی عداوت اور اُس کے بخل سے کم نہیں ہوگی بلکہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ ظاہر کرے گا.کیا تم فجر کے قریب آفتاب کو نکلنے سے روک سکتے ہو.ایسے ہی تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آفتاب صداقت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے.خدا تعالیٰ تمہارے کینوں اور بخلوں کو دور کرئے“.( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 100 اشتہار نمبر 34 مطبوعہ ربوہ) ان اعتراض کرنے والوں میں غیر مسلموں کے ساتھ بعض مسلمان بھی شامل تھے جن کو آپ نے یہ چیلنج دیا اور تنبیہ بھی فرمائی.بہر حال اس پیشگوئی کے تحت جیسا کہ ہم جانتے ہیں 1889ء میں جنوری میں وہ موعود بیٹا پیدا ہوا جس نے اسلام کی برتری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان وشوکت کو قائم کرنے کے لئے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیئے جو رہتی دنیا تک یادر کھے جائیں گے اور جن کا غیروں نے بھی اعتراف کیا.اس سے پہلے کہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے بعض کارناموں کا ذکر کروں، پیشگوئی کے اصل الفاظ بھی آپ کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ ان کے بار بار ہمارے سامنے آنے سے ہمیں اس کی
خطبات مسرور جلد 12 108 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء عظمت و شوکت کا بھی پتا لگے اور اس کی حقیقت کا بھی پتا لگے.حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قلم سے 20 فروری 1886ء کو ایک اشتہار رسالہ سراج منیر مشتمل بر نشا نہائے رب قدیر کے نام سے تحریر فرمایا جو اخبار ریاض ہند امرتسر میں یکم مارچ 1886ء کی اشاعت میں بطور ضمیمہ شائع ہوا.اس میں آپ نے لکھا کہ ان ہر سہ قسم کی پیشگوئیوں میں سے جو انشاء اللہ رسالہ میں بہ بسط تمام درج ہوں گی (یعنی تفصیلات کے ساتھ درج ہوں گی ) ” پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر سے متعلق ہے.آج 20 فروری 86ء میں جو مطابق پندرہ جمادی الاول ہے، برعایت ایجاز و اختصار (یعنی مختصر مضمون بیان کرتے ہوئے ) " کلمات الہیہ نمونے کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصل رسالہ میں مندرج ہو گی ، انشاء اللہ تعالیٰ.“ 66 پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عز وجل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے (جلشانہ وعزاسمہ ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بہپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کردیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں، باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تالوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا“.(اللہ تعالیٰ نے یہاں ہر قسم کا ابہام ختم کر دیا کہ بعد کی نسل میں یا ذریت میں نہیں پیدا ہوگا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا بیٹا ہوگا) فرمایا ” خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل (انجام آتھم میں جو پوری پیشگوئی ہے، عربی میں لکھی ہوئی ہے، وہاں عمانوایل لکھا گیا ہے تو اصل عمانوایل ہی ہے، بہر حال ) پھر
خطبات مسرور جلد 12 109 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء فرمایا اور بشیر بھی ہے.اُس کا نام عمو ائیل اور بشیر بھی ہے یا عمانوایل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا...) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَاء كَأَنَّ اللهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا“.( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 95-96 اشتہار نمبر 33 مطبوعہ ربوہ) پس جیسا کہ میں نے کہا، یہ وہ خصوصیات ہیں جن کا حامل وہ بیٹا ہوناتھ اور ایک دنیا نے دیکھا کہ وہ بیٹا پیدا ہوا اور 52 سال تک خلافت پر متمکن رہنے کے بعد اپنی خصوصیات کا لوہا دنیا سے منوا کر اس دنیا سے رخصت ہوا.اگر ان خصوصیات کی گہرائی میں جا کر دیکھیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود حمد الصلح الموعود کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کے لئے کئی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے.کسی خطبہ میں یا کسی تقریر میں حضرت مصلح موعود کی زندگی اور آپ کے کارناموں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا.جماعت میں اس حوالے سے ہرسال 20 رفروری کو جلسے منعقد کئے جاتے ہیں اور مقررین اور علماء اپنے اپنے ذوق اور علم کے مطابق اس مضمون کو بیان کرتے ہیں.میں بھی کئی مرتبہ اس مضمون کو بیان کر چکا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع بھی بیان کر چکے ہیں.لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مصلح موعود کی زندگی اور اس پیشگوئی کا مکمل احاطہ ہو گیا یا ہر ایک کو سمجھ آ گئی.بہر حال آج بھی میں اس پیشگوئی کے حوالے سے اس کے ایک آدھ پہلو کو لے کر حضرت مصلح موعود کی زندگی کی بعض باتیں پیش کروں گا.اور یہ بھی کہ اپنوں کو اور غیروں کو آپ کے علم و عرفان نے کس طرح متاثر کیا.اس سے پہلے میں حضرت مصلح موعود کی کتب اور لیکچرز اور تقاریر کا ایک جائزہ بھی پیش کرنا چاہتا
خطبات مسرور جلد 12 110 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء ہوں.اُس وقت ریکارڈنگ کا تو با قاعدہ انتظام نہیں تھا.اُن کے بعض لیکچر، نقار پر مکمل موجود ہیں، بعض نہیں.زو د نویں ساتھ ساتھ لکھتے جاتے تھے اور بعض دفعہ پوری طرح لکھا بھی نہیں جاتا تھا.بہر حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب، لیکچرز اور تقاریر کا مجموعہ انوار العلوم“ کے نام سے فضل عمر فاؤنڈیشن شائع کر رہی ہے.اس وقت تک انوار العلوم کی 24 جلد میں شائع ہو چکی ہیں.اور ان جلدوں میں آپ کے گل 633 لیکچر اور تقاریر اور کتب آ چکی ہیں.اور فضل عمر فاؤنڈیشن کی سکیم ہے، اُن کا اندازہ ہے کہ 32 جلدیں شائع ہوں گی.اور اس طرح گل تقاریر، لیکچر اور کتب وغیرہ تقریباً ساڑھے آٹھ سو کے قریب بن جائیں گے.24 جلدوں میں میں نے کہا آ گئیں.25 سے 29 جلدیں جو ہیں وہ تیار ہوگئی ہیں، ابھی چھپی نہیں ہیں.اُن میں 163 کتب، لیکچرز اور تقاریر شامل ہیں.پھر اُس کے بعد تین اور رہ جائیں گی.تو یہ تقریباً آٹھ سو سے اوپر چلی جائیں گی.اسی طرح خطبات جمعہ اور عیدین اور نکاح ہیں.ابھی تک جولسٹ ملی ہے اس کے مطابق ان کی تعداد 2076 بنتی ہے.اور خطبات محمود کی اس وقت گل 28 جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن میں 1602 خطبات شامل ہیں.اور 1948 ء سے 1959 ء تک کے خطبات 29 سے 39 جلد میں شائع ہوں گے.ان میں بھی تقریباً 500 خطبات اور شامل ہو جائیں گے.تو یہ آپ کے علمی کاموں کا ایک ہلکا ساعمومی خاکہ ہے، اور اگر ہر خطے اور ہر تقریرکوسیں، ہر لیکچر کو دیکھیں تو علم وعرفان کے ایسے موتی پروئے ہوئے نظر آتے ہیں اور علم کی ایسی نہریں بہہ رہی ہوتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بھی ایک دفعہ یہ تجزیہ پیش کیا تھا اور انہوں نے ایک پہلو ” وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا “ کو لے کے فرمایا تھا کہ اس میں ہی اتنی وسعت ہے کہ اس کو بیان کرتے چلے جائیں تو ختم نہیں ہوسکتا.بہر حال اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ اس سلسلہ میں حضور کی ایک کتاب تو تفسیر کبیر ہے جو خود اتنی عجیب تفسیر ہے کہ جس شخص نے بھی غور سے اُس کے کسی ایک حصہ کو پڑھا ہو گا یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ اگر دنیا میں کوئی خدا رسیدہ بزرگ پیدا ہوتا اور وہ صرف یہ حصہ قرآنِ کریم کا تفسیری نوٹوں کے ساتھ شائع کر دیتا تو یہ اُس کو دنیا کی نگاہ میں بزرگ ترین انسانوں میں سے ایک انسان بنانے کے لئے کافی تھا.لیکن اس پر ہی بس نہیں، قرآن کریم پر اور بہت سی کتب لکھیں.اور خلیفہ ثالث فرماتے ہیں کہ ”میرا خیال ہے کہ حضور نے صرف قرآنِ کریم کی تفسیر پر ہی آٹھ ، دس ہزار صفحات
خطبات مسرور جلد 12 111 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء لکھے ہیں.اس وقت جو چھپی ہوئی صورت میں تفسیر کبیر کی دس جلدیں ہیں وہ تقریباً چھ ہزار صفحات بنتے ہیں.اس کے علاوہ سورتوں کے نوٹس ہیں اور مختلف تقریروں میں بہت ساری جگہوں پر تفاسیر بیان کی گئی ہیں جو اس میں شامل نہیں.پھر کلام کے اوپر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دس کتب اور رسائل لکھے.حضرت علیہ اسی اثاث کا جو اُس وقت جائزہ تھا یہ اُس کے مطابق ہیں.تفسیر کبیر جو ہے دس جلدیں، اُس میں سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرۃ، پہلی دوسورتیں ، پھر سورۃ یونس سے سورۃ عنکبوت تک، دسویں سورۃ سے لے کر انتیسویں سورۃ تک ہے.اُس کے بعد پھر بیچ میں لکھی نہیں گئیں ، چھپی نہیں.پھر سورۃ النبأ سے لے کر الناس تک ہے.گویا کہ تقریباً 59 سورتیں بنتی ہیں جن کی تفسیر لکھی.اور یہ جو تفسیر ہے تقریب چھ ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور اس کو بہت باریک لکھا ہوا ہے.اگر آج کل کے حساب سے لکھا جائے تو شاید دس بارہ ہزار صفحات بن جائیں.بہر حال یہ دوبارہ پرنٹ ہو رہی ہے انشاء اللہ تعالیٰ منظرِ عام پہ آجائے گی.قرآن کریم کی کل 114 سورتیں ہیں.جس کا مطلب ہے کہ 55 سورتیں ابھی اس میں شامل نہیں.پھر کلام پر آپ کی دس کتب اور رسائل ہیں.آپ نے روحانیات، اسلامی اخلاق اور اسلامی عقائد پر 31 کتب اور رسائل تحریر فرمائے.سیرت و سوانح پر 13 کتب و رسائل لکھے.تاریخ پر چار کتب اور رسائل لکھے.فقہ پر تین کتب اور رسائل لکھے.سیاسیات قبل از تقسیم ہند 25 کتب اور رسائل.سیاسیات بعد از تقسیم ہند اور قیام پاکستان 9 کتب اور رسائل، سیاست کشمیر 15 کتب اور رسائل.پھر تحریک احمدیت کے مخصوص مسائل اور تحریکات پر تقریباً 100 کتب اور رسائل.اس کے علاوہ بے شمار اور مضامین ہیں.جیسا کہ میں نے تفصیل بیان کی کہ یہ تعداد سینکڑوں میں چلی جاتی ہے.تقریباً 800 سے اوپر چلی جائے گی.تو خلیفہ ثالث فرماتے ہیں کہ ”جیسا کہ فرمایا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.ان پر ایک نظر ڈال لیں تو ان میں علوم ظاہری بھی نظر آتے ہیں اور علومِ باطنی بھی نظر آتے ہیں اور پھر لطف یہ کہ جب بھی آپ نے کوئی کتاب یا رسالہ لکھا، ہر شخص نے یہی کہا کہ اس سے بہتر نہیں لکھا جا سکتا.سیاست میں جب بھی آپ نے قیادت سنبھالی یا جب بھی آپ نے سیاست کے بارے میں قائدانہ مشورے دیئے ، بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کی بے مثال قابلیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا.(ماخوذ از ماہنامہ انصار اللہ حضرت مصلح موعود نمبر مئی، جون ، جولائی 2009 صفحہ 64-65)
خطبات مسرور جلد 12 112 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء غرض حضور کے علوم ظاہری و باطنی سے پر ہونے کے متعلق ایک بڑی تفصیل ہے جس کے ہزارویں حصہ تک بھی ہم نہیں پہنچ سکتے.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ صرف تفسیر ہی حضرت مصلح موعود کے مقام کو منوانے کے لئے بہت کافی ہے.یقیناً ان تفاسیر نے قرآنِ کریم کو سمجھنے کا جو نیا انداز اور علوم و معارف کے گہرے راز کھولے ہیں، وہ ہمیشہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حصہ رہیں گے.اس وقت میں آپ کی تفسیر پر بعض غیروں کے تبصرے پیش کرتا ہوں.علامہ نیاز فتح پوری صاحب حضرت مصلح موعود کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ : ”تفسیر کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے.( یہ احمدی نہیں تھے ) اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں.اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیرا اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے.آپ کی تجر علمی.آپ کی وسعتِ نظر، آپ کی غیر معمولی فکر وفر است، آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے.اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا.کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا.کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا آپ نے ” هؤلاء بناتي “ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں.خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے“.یہ اُس وقت انہوں نے دعا دی.تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 157 مطبوعہ ربوہ ) پھر علامہ نیاز فتح پوری صاحب ہی ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں: تفسیر کبیر برابر پیش نظر رہی اور رات کو تو بالالتزام اُسے دیکھتا ہوں.میں نے اُسے کیسا پایا یہ بڑی تفصیل طلب بات ہے.لیکن مختصر یوں سمجھ لیجئے کہ میرے نزدیک یہ اردو میں بالکل پہلی تفسیر ہے جو بڑی حد تک ذہن انسانی کو مطمئن کر سکتی ہے.اس میں شک نہیں کہ آپ کے ادارے نے اس تفسیر کے ذریعہ سے جو خدمت اسلام کی انجام دی ہے وہ اتنی بلند ہے کہ آپ کے مخالف بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے“.( تفسیر کبیر جلد 7 تعارفی نوٹ ، مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 12 113 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء جناب اختر اورینوی صاحب (ایم.اے صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی ) تفسیر کے بارے میں، پروفیسر عبدالمنان بیدل صاحب (سابق صدر شعبہ فاری پٹنہ کالج ) کا اپنا ایک چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ : ”میں نے یکے بعد دیگرے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تفسیر کبیر کی چند جلدیں پروفیسر عبدالمنان بیدل سابق صدر شعبہ فاری پٹنہ کالج، پٹنہ حل پرنسپل شبینہ کا لج پٹنہ کی خدمت میں پیش کیں اور وہ ان تفسیروں کو پڑھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مدرسہ عربیہ شمس الہدئے کے شیوخ کو بھی تفسیر کی بعض جلدیں پڑھنے کے لئے دیں اور ایک دن کئی شیوخ کو بلوا کر انہوں نے ان کے خیالات دریافت کئے.ایک شیخ نے کہا کہ فارسی تفسیروں میں ایسی تفسیر نہیں ملتی.پروفیسر عبدالمنان صاحب نے پوچھا کہ عربی تفسیروں کے متعلق کیا خیال ہے شیوخ خاموش رہے.کچھ دیر کے بعد ان میں سے ایک نے کہا پٹنہ میں ساری عربی تفسیریں ملتی نہیں ہیں.مصر و شام کی ساری تفاسیر کے مطالعہ کے بعد ہی صحیح رائے قائم کی جاسکتی ہے.پروفیسر صاحب نے قدیم عربی تفسیروں کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا مرزا محمود کی تفسیر کے پایہ کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی.آپ جدید تفسیریں بھی مصر و شام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھے سے باتیں کیجئے.عربی و فارسی کے علماء مبہوت رہ گئے.“ تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 157 - 158 مطبوعہ ربوہ ) پھر سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ نے ایک مختصر مکتوب کے بعد ایک مفصل مضمون بھی اخبار صدق جدید کو بھجوایا جس میں وہ صدق جدید کے ایڈیٹر کو لکھتے ہیں کہ حصول دار السلام کی جدو جہد میں مجھے جب جیل پہنچایا گیا تو تیسرے دن مجھے وجوہات نظر بندی تحریری شکل میں مہیا کئے گئے.جن میں میری گزشتہ تین چار برسوں کی تقریروں کے اقتباسات تھے.اور الزام یہ تھا کہ میں ہندوستان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں.میں حیران تھا کہ مجھ جیسا چھوٹا آدمی اور یہ پہاڑ جیسا الزام.لیکن مجھے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ میری تقریروں سے کچھ ایسا ہی مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے.میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میں بھٹکا ہوا مسافر تھا جس کی منزل تو متعین تھی لیکن راستے کا پتا نہ تھا.مسلمانوں کی انجمن اتحاد المسلمین ہو یا کوئی اور جماعت ، ان سب کی حالت یہی ہے.( کہتے ہیں کہ ) دوسرے دن میں نے تفسیر کبیر کا مطالعہ شروع کیا ( جو ان کے ایک دوست نے اسی جیل میں ہی دی تھی.) جو میں اپنے ساتھ لے کر گیا تھا.تو مجھے اس تفسیر میں زندگی سے معمور اسلام نظر آیا.( یہ احمدی نہیں تھے ) اس میں وہ سب کچھ تھا جس کی مجھ کو تلاش تھی.تفسیر کبیر پڑھ کر میں قرآن کریم سے پہلی دفعہ روشناس ہوا.جیسا کہ آپ نے ارشاد
خطبات مسرور جلد 12 114 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء فرمایا ( اُن کو لکھ رہے ہیں ) اپنا مسلک چھوڑ کر احمد یہ جیسی جماعت میں داخل ہونا ، جس کو تمام علمائے اسلام نے ایک ہو ابنا رکھا، کچھ معمولی بات نہیں.لیکن حق کے کھل جانے کے بعد یہاں خطرات کی پرواہ بھی کسی کو ی تھی.تاہم سجدے میں گر کر شب و روز میں نے دعائیں شروع کیں کہ یا اللہ ! مجھے صراط المستقیم دکھا.کئی ماہ اسی حالت میں گزر گئے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری سجدے کی زمین آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھی.مجھے یقین ہے کہ میری دعائیں قبول ہوئیں کیونکہ احمدیت کو سچا سمجھنے کے عقیدے میں مستحکم ہو گیا اور قادیان سے حضرت میاں وسیم احمد صاحب کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ سے میں نے درخواست کی کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.( پھر کہتے ہیں کہ ) میری قید کا بڑا حصہ سکندر آباد جیل میں گزرا.وہاں کے جیلر ایک مسلمان اور علم دوست بھی تھے.قیدیوں کی پوری خط و کتابت اُن لوگوں کے علم میں رہتی ہے.کیونکہ اُن کے دستخط کے بعد ہی قیدیوں کے خطوط روانہ ہوتے ہیں.اگر چہ یہ بات کچھ اچھی نہ تھی لیکن جرأت کی کمی کے باعث میری یہ کوشش رہتی تھی کہ قادیان کو لکھے ہوئے میرے خطوط حکام جیل کے علم میں نہ آنے پائیں.مجلس اتحاد المسلمین حیدر آباد ایک بڑی ہی ہر دلعزیز جماعت ہے.( یہ انڈیا کا حیدرآباد ہے ) جیل کا عملہ جمعیت حتی کہ جیل کے سارے ہی قیدی مجھ سے بڑی محبت اور عقیدت سے پیش آتے تھے.(یہ جو تنظیم تھی اس کی وجہ سے، تو کہتے ہیں) اگر چہ پہریداروں کے سوا مجھ سے کوئی نہ مل سکتا تھا، ان وجوہ سے حکام کے علم میں آئے بغیر میرے خطوط قادیان کو پوسٹ ہو جاتے تھے.لیکن جو خط قادیان سے آتا تھا وہ بہر صورت جیلر کے علم میں آنا ضروری تھا.جب قادیان سے بیعت کا فارم آیا تو جیل میں بڑی گڑ بڑ ہوئی.راز باقی نہ رہ سکا کہتے ہیں ) آخر جیلر میرے پاس آئے اور میرا خط مع بیعت فارم کے اُن کے پاس تھا.مجھ سے بڑی ہی ہمدردانہ گفتگو کی کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں.قرآن کی اس تفسیر کو چھوڑیے.میں آپ کو مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کی تفسیر قرآن دیتا ہوں.آپ کے خیالات ٹھیک ہو جائیں گے.چنانچہ انہوں نے وہ دونوں تفسیریں لا دیں جو اصل میں ترجمہ تھے اور کہیں کہیں تفسیر تھی.بیعت کا فارم تکمیل کر کے بھیجنے سے قبل میں نے ان دونوں تفاسیر کا مطالعہ کیا.تفسیر کبیر کے طالب علم میں اتنی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دیگر تمام تفاسیر پر تنقید کر سکے.چنانچہ میں نے جیلر صاحب کو بتلایا کہ ان دونوں تفاسیر میں کون کون سے مقامات مبہم ہیں.کہاں کہاں ترجمے کی غلطی ہے اور کہاں کہاں معنی محدود ہیں.مجھے ایسا کرنے میں آسانی اس لئے ہوئی کہ تفسیر کبیر میں لغتِ قرآن بھی موجود ہے.لا تمشۂ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.صرف مطہر لوگ ہی قرآن کریم کے مطالب کو سمجھ سکیں گے“.
خطبات مسرور جلد 12 115 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء تو کہتے ہیں یہ تفصیل (میں نے ) اس لئے لکھی ہے کہ مجھ پر سے یہ الزام دور ہو جائے کہ میں نے بیعت میں عجلت کی.میں نے غیروں کی تفسیریں بھی پڑھیں.پھر تفسیر کبیر پڑھی ، موازنہ کیا اور مجھے سمجھ آ گئی.اور پھر کہتے ہیں اس کے بعد ” بیعت کا فارم بھیج کر میں دعاؤں میں لگ گیا ( کہ کہیں میری بیعت قبول بھی ہوتی ہے کہ نہیں.اور پھر کہتے ہیں کہ ) اندیشہ غلط نہ نکلا.میری بیعت قبول کرنے سے پہلے حضور خلیفہ صاحب نے دریافت فرمایا کہ ایک احمدی مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حکومت وقت کا بھی وفا دار رہے اور قانون کے اندر رہ کر کام کرے.میں نے جواب دیا کہ حضور کی تفسیر نے یہ ساری باتیں میرے دل پر نقش کر دی ہیں.کچھ دنوں کے بعد جب قادیان سے مجھے معلوم ہوا کہ میری بیعت قبول کر لی گئی تو میں سجدے میں گر گیا.( پھر کہتے ہیں کہ ) تفسیر کبیر میں ایک مقام پر میں نے پڑھا تھا کہ خلیفہ جو مصلح موعود ہوگا وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہوگا.میں نے حضور سے درخواست کی.( یہ ابھی تک جیل میں تھے ) کہ وہ میری رہائی کے لئے دعا فرما ئیں.حضور خلیفہ صاحب نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رہائی کے سامان کرے.اس کے چند ہی دنوں بعد میں رہا ہو گیا.خلیفہ موعود کی نسبت یہ پیشینگوئی کہ وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہوگا میں اس کا زندہ ثبوت ہوں.“ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 8 صفحه 159 تا 162 مطبوعہ ربوہ ) پھر مغربی مفکرین ہیں.امریکہ اور یورپ کے مختلف مفکرین ہیں.اس وقت میں ایک مثال پیش کرتا ہوں.اے.جے آر بری (A.J.Arberry) جو برطانوی مستشرق ہیں.عربی، فارسی، اسلامیات کے سکالر ہیں.کہتے ہیں ” قرآن شریف کا یہ نیا ترجمہ اور تفسیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے.(یہ five volume کی بات کر رہے ہیں ).موجودہ جلد اس کا رنامہ کی گویا پہلی منزل ہے.کوئی پندرہ سال کا عرصہ ہوا جماعت احمد یہ قادیان کے محقق علماء نے یہ عظیم الشان کام شروع کیا اور کام حضرت اقدس مرزا بشیر الدین محمود احمد کی حوصلہ افزاء قیادت میں ہوتا رہا.کام بہت بلند قسم کا تھا.یعنی یہ کہ قرآن شریف کے متن کی ایک ایسی ایڈیشن شائع کی جائے جس کے ساتھ ساتھ اُس کا نہایت صحیح صحیح انگریزی ترجمہ ہو اور ترجمہ کے ساتھ آیت آیت کی تفسیر ہو.پہلی جلد جو اس وقت سامنے ہے قرآن شریف کی پہلی نوسورتوں پر مشتمل ہے.شروع میں ایک طویل دیباچہ ہے جو خود حضرت مرزا بشیر الدین نے رقم فرمایا ہے.اس دیباچہ میں حضرت اقدس نے لکھا ہے کہ جو کچھ اس تفسیر میں بیان ہوا ہے وہ اُن معارف کی ترجمانی ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتابوں اور مواعظ میں بیان فرمائے یا پھر آپ کے خلیفہ اول یا خود حضرت ممدوح نے جو بانی
خطبات مسرور جلد 12 116 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء سلسلہ کے خلیفہ ثانی ہیں بیان فرمائے.اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ترجمہ اور یہ تفسیر جماعت احمدیہ کے فہم قرآن کی صحیح ترجمانی کرنے والی ہے“.تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 862-863 مطبوعہ ربوہ ) پھر صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی ، عربوں میں سے بھی ہیں.شام کے ایک ڈاکٹر انس صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں حق اور نور کی تلاش میں مختلف علماء کی کتب اور تفاسیر پڑھیں جن میں سلطان العارفین، محی الدین ابنِ عربی اور محمد بن علی الحاتم الطائی وغیرہ کی تفاسیر شامل تھیں لیکن کسی تفسیر میں وہ خوبی اور چاشنی اور لذت نہ پائی جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی تفسیر میں ملی.میں اپنی روح اور جسم کے ساتھ پیش آنے والے کشوف وغیرہ کی تفسیر کا متلاشی تھا.پھر جب جماعت کی ویب سائٹ پر موجود تفسیر کبیر کا مطالعہ کیا تو اس میں احمدی نور اور سچائی اور صداقت نظر آئی جس نے میرے دل کو موہ لیا.پھر مراکش کے جمال صاحب ہیں.ان کی طویل خط و کتابت حضرت خلیفہ المسیح الرابع سے چلتی رہی تھی.کہتے ہیں اس عرصے میں جو خط و کتابت کا عرصہ تھا مجھے مرکز سے تفسیر کبیر جلد اول کے ترجمہ کا تحفہ ارسال کیا گیا.میں نے جب اس تفسیر کو پڑھا اور اس کا دیگر تفاسیر سے موازنہ کیا تو زمین و آسمان کا فرق نکلا.یہاں الہی علوم اور حکمتوں کی کنہ کا بیان تھا اور شریعت کے مغز کا خلاصہ تھا جبکہ دیگر تفاسیر میں محض چھلکے پر اکتفا کیا گیا تھا.اس تفسیر کے مطالعہ نے میرے دل میں اسلام کی ایسی حسین تصویر پیش کی کہ جو روح تک اترتی چلی گئی.پھر حضرت مصلح موعود کے لیکچروں کا غیروں پر اثر آپ کے گہرے علم کا اعتراف ہے.اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں.سید نا حضرت مصلح موعود نے پنجاب لٹریری کی تحریک پر جس کے لیڈر جو تھے پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تھے، لاہور میں دو لیکچر دینے منظور فرمائے.اس کے مطابق حضور کا پہلا لیکچر ” عربی زبان کا مقام السنہ عالم میں کہ عربی زبان کا مقام دنیا کی زبانوں میں کیا تھا، کے موضوع پر 31 رمئی 1934 ء کو وائی ایم سی اے ہال میں جو مال روڈ پر لاہور میں تھا، شروع ہوا.اور اس کی صدارت جناب ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی ایم.اے، پی ایچ ڈی پرنسپل اسلامیہ کالج نے کی.حضور کا لیکچر ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا جسے سامعین نے ہمہ تن گوش ہو کر سنا.اختتام پر جناب صدر نے شکریہ ادا کرنے کے بعد حاضرین کو لیکچر سے فائدہ اُٹھانے کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ایسے علمی مضامین پھر بھی سننے کا موقع ملا.
خطبات مسرور جلد 12 117 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء سامعین میں علمی طبقہ کے ہر خیال کے اصحاب شامل تھے.لالہ کنورسین صاحب سابق چیف جسٹس کشمیر جو جناب لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند ارجمند تھے وہ بھی وہاں موجود تھے.انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تقریر اور صدر صاحب کی تقریر کے بعد اپنے شکر گزاری کے جذبات کا اظہار کیا، انگلش میں ایک تقریر کی.کہتے ہیں کہ آج قابل لیکچرر نے زبان عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکۃ الآراء تقریر کی ہے اُسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی.کہتے ہیں کہ جب میں لیکچر سننے کے لئے آیا اُس وقت میں نے خیال کیا تھا کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کرتے ہیں.وہ کس طرح بیان کرتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ مشہور ہے کہ کسی عرب سے ایک دفعہ زبان عربی کی فضیلت کی وجہ دریافت کی گئی تو اُس نے کہا کہ اُسے یعنی عربی زبان کو تین وجہ سے فضیلت حاصل ہے.پہلی وجہ : اس لئے کہ میں عرب کا رہنے والا ہوں.دوسرے اس لئے کہ یہ قرآن مجید کی زبان ہے.تیسرے اس لئے کہ جنت میں عربی بولی جائے گی.کہتے ہیں میں سمجھتا تھا کہ شاید اس قسم کی باتیں زبان عربی کی فضیلت میں پیش کی جائیں گی.مگر جولیکچر دیا گیا وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے.میں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حفظ اُٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے.مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر قائم رہے گا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 180 - 181 مطبوعہ ربوہ ) پھر سید عبد القادر صاحب ایم.اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کے تاثرات ہیں.یہ صدر شعبہ تاریخ تھے.اسلامیہ کالج نے اسلام اور اشتراکیت (Islam and Communism) کے عنوان پر اخبار ”سن رائز لا ہور (24 مارچ 1945ء) میں ایک نوٹ دیا جس کا ایک حصہ درج کیا جاتا ہے.کہتے ہیں کہ ”اسلام کا اقتصادی نظام اور کمیونزم کے موضوع پر (حضرت) مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کا لیکچر سنے کا مجھے بھی فخر حاصل ہوا.یہ لیکچر بھی آپ کے دوسرے لیکچروں کی طرح جو مجھے سننے کا اتفاق ہوا ہے، عالمانہ ، خیالات میں جلا پیدا کر دینے والا اور پُر از معلومات تھا.مرزا صاحب خدا داد قابلیت کے مالک ہیں اور اس موضوع کے ہر پہلو پر آپ کو پورا پورا عبور حاصل ہے.اس وجہ سے آپ کے خیالات اس بات کے مستحق ہیں کہ ہم ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان پر توجہ کریں“.تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 626 مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 12 118 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء بیرونی دنیا میں بھی اس کتاب کی تقسیم کی ضرورت ہے.عموما یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اسلام کا اقتصادی نظام کا نظریہ شاید مودودی صاحب نے پیش کیا تھا.حالانکہ اس سے بہت پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بڑی عالمانہ قسم کی تقریر فرمائی تھی جو کتابی صورت میں شائع ہوئی ہوئی ہے اور اب اس کا انگلش میں بھی ترجمہ ہو گیا ہے.جو انگریزی دان احمدی ہیں اُن کو بھی پڑھنا چاہئے اور جو لوگ معاشیات میں دلچسپی رکھتے ہیں اُن کو دینی بھی چاہئے.پھر لالہ رام چند مچندہ صاحب کی اسلام کا اقتصادی نظام پر صدارتی تقریر ہے کہتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقع ملا اور مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ تحریک احمدیت ترقی کر رہی ہے اور نمایاں ترقی کر رہی ہے.جو تقریر اس وقت آپ لوگوں نے سنی ہے اس کے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضور نے بیان فرمائی ہیں.مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے.پھر کہتے ہیں کہ یہ میری غلطی تھی کہ اسلام صرف اپنے قوانین میں مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے.غیر مسلموں کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا.مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے.میں غیر مسلم دوستوں سے کہوں گا کہ اس قسم کے اسلام کی عزت و احترام کرنے میں آپ لوگوں کو کیا عذر ہے؟“ پھر کہتے ہیں ” حضرت امام جماعت احمدیہ کا بار بار اور لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی نہایت ہی قیمتی معلومات سے پر تقریر سے ہمیں مستفید فرمایا.( تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 622-623 مطبوعہ ربوہ ) پس یہ صرف ایک پہلو کی جھلک ہے جو پیشگوئی میں علوم ظاہری و باطنی سے پر ہونے کے بارے میں درج ہے.حضرت مصلح موعود نے علم و عرفان کا جو خزانہ ہمیں دیا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو پڑھنے کی ہمیں توفیق بھی عطا فرمائے اور جیسا کہ آپ کے مضامین کے عنوانات کی عمومی فہرست میں میں نے بتایا ہے مختلف نوع کے جو مضامین ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اُن سے بھی استفادہ کرنے کی توفیق دے اور ہم اپنا علم و عرفان بڑھانے والے ہوں.اس وقت میں نمازوں کے بعد ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزادے کا ہے.یہ حضرت سارہ بیگم صاحبہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے جو بہار کی رہنے والی تھیں.ان کا نام مکرم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب ہے جو 17 فروری کو بوقت ساڑھے نو بجے
خطبات مسرور جلد 12 119 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ ربوہ میں 82 سال کی عمر میں انتقال کر گئے.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ میرے ماموں بھی تھے.24 / مارچ 1932ء کو پیدا ہوئے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام بیٹوں کی طرح آپ کو بھی بچپن میں وقف کیا ہوا تھا اور اس لحاظ سے آپ کی تربیت اور تعلیم کے مراحل طے کرائے گئے تھے.آپ نے مدرسہ احمدیہ اور جامعہ المبشرین قادیان میں دینی تعلیم حاصل کی.میٹرک پرائیویٹ پاس کیا.1958ء میں بی.اے پاس کیا.لاہور لاء کالج سے 1962ء میں اس شرط پر ایل ایل بی کیا کہ اس کی پریکٹس نہیں کرنی.1962ء میں آپ خدمات سلسلہ کے لئے بیرونِ ملک تشریف لے گئے.1962 ء سے 1969ء تک بطور پرنسپل سیکنڈری سکول سیرالیون میں خدمت کی توفیق پائی.علمی شخصیت کے مالک تھے.میں سال کی محنت و تحقیق کے بعد قرآن کریم کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر و تفسیر کے بحر بے کراں کا احاطہ کرتے ہوئے قیمتی ارشادات اور اردو، فارسی اور عربی اشعار کا چناؤ اور الہام اکٹھے کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم نہم قرآن“ کے نام سے ایک بڑی اچھی اور تعلیم کتاب مرتب کی جو 2004ء میں شائع ہوئی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی ، فاری اور اردوادب پر مشتمل اشعار کی دوسری کتاب بھی ادب اسی کے نام سے شائع کی.یہ بھی ایک بڑا اچھا شاہکار ہے.ان کی شادی 1959ء میں مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جو حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ماموں تھے، اُن کی بیٹی طاہرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی.اور ان کے چار بچے تھے.ایک عزیزم مرزا سلیمان احمد، یہ امریکہ میں ہیں.اور تین بیٹیاں ہیں.امتہ المؤمن حنا جو ڈاکٹر خالد تسلیم احمد صاحب ربوہ میں ہیں اُن کی اہلیہ، اور ایک مینامبارکہ مرزا احسن احمد کی اہلیہ، اور امتہ السمیع فرخ احمد خان کی اہلیہ ہیں.سیرالیون میں ایک عرصہ رہے ہیں.آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بو (Bo) شہر میں پہلی مرتبہ جماعت کے کسی سکول میں سائنس بلاک کا قیام عمل میں آیا.تو آپ کی اہلیہ کہتی ہیں بہت محنت اور توجہ سے سارا سارا دن کھڑے ہو کر اس بلاک کی تعمیر کروایا کرتے تھے.قمر سلیمان صاحب سیرالیون دورے پر گئے تھے تو کہتے ہیں سیرالیون کے لوگ ابھی تک صاحبزادہ صاحب کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں.یتیموں کی پرورش کا بھی خیال کرتے تھے.خاموشی سے اُن کی مدد کرتے رہتے تھے.اپنے دوستوں کا بہت خیال رکھتے تھے.دوستی خوب نبھاتے تھے.اپنے ایک بہت قریبی اور ہر دلعزیز دوست کی وفات کے بعد جس کی اولا د جو ابھی چھوٹی تھی، اُن کا بڑا خیال رکھا، اُن کی شادیاں کروائیں اور دوستی کے رشتے کو
خطبات مسرور جلد 12 انہوں نے بڑا نبھایا.120 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 فروری 2014ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سب سے زیادہ فارسی زبان پر آپ کو عبور حاصل تھا.فارسی بڑی اچھی ان کو آتی تھی.حضرت مسیح موعود کی کتب کا بڑا گہرا مطالعہ تھا.اور اسی کی وجہ ہے کہ آپ نے جو تعلیم فہم القرآن کتاب لکھی ہے، لکھی ہی نہیں جاسکتی جب تک اُس میں اچھی طرح مطالعہ نہ ہو.بہر حال آپ کی اہلیہ نے بتایا کہ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب یا شاید ساری کتب میں چھپیں مرتبہ انہوں نے پڑھیں.قادیان سے بھی بڑی غیر معمولی محبت تھی.دو چار سال سے اُن کی صحت کا فی خراب تھی ، پھر بھی پچھلے دو سال باقاعدگی سے قادیان جلسے پر جاتے رہے.دعا پر بھی آپ کو بڑا یقین تھا.آپ کی بیٹی نے بتایا کہ انہوں نے کسی صحابی کا قصہ بیان کیا کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کے درجات بلند ہوتے جا رہے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ میرے تو ایسے اعمال نہ تھے.اس پر انہیں بتایا گیا کہ تم نے جو اپنی نیک اولا د چھوڑی ہے وہ ہر وقت تیرے لئے دعا کرتی ہے اور اس سے ہر روز تیرے درجے میں اضافہ ہوتا ہے.کہتی ہیں، اپنے بچوں کو نصیحت کرتے تھے کہ میرے لئے دعا کرتے رہنا.اللہ کرے کہ ان کی اولاد نیکیوں پر قائم ہو.جس طرح کہ وہ دیکھنا چاہتے تھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی اولاد اور اپنی جماعت کے لئے جو دعائیں کی ہیں اس دعا کے مصداق اور ان کے بچے بھی اور باقی افراد خاندان بھی اور جماعت بھی بنے.حضرت مصلح موعود نے بچوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ ان کی اولادیں اور اُن کی اولادیں ابد تک تیری امانت ہوں جس میں شیطان خیانت نہ کر سکے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہوں.( میری ساره، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 189 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ) اللہ تعالیٰ محترم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب سے مغفرت کا سلوک فرمائے ، رحم کا سلوک فرمائے، آپ کے درجات بلند فرمائے.ان کے بچوں کو بھی حقیقت میں اُس خون کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں.مجھ سے بھی ان کا بہت گہرا تعلق تھا.خلافت سے پہلے بھی تھا اور خلافت کے بعد تو پیارکا یہ تعلق بہت بڑھ گیا تھا.لیکن اس میں عاجزی اور اخلاص اور وفا کا بے انتہا اظہار تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتار ہے اور ان کی اولاد کو بھی خلافت سے خاص تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 14 / مارچ 2014 ء تا 20 مارچ 2014 ، جلد 21 شماره 11 صفحه 05 تا 09)
خطبات مسرور جلد 12 121 9 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014 ء بمطابق 28 تبلیغ 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ جمعہ میں میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشگوئی کے حوالے سے بات کی تھی اور اس ضمن میں آپ کے علوم ظاہری و باطنی سے پر کئے جانے کا ذکر ہوا تھا اور یہ بھی کہ آپ کے علم و معرفت اور قرآن کریم کے تفسیری نکات کا غیروں پر بھی اثر تھا اور اس بات کا انہوں نے برملا اظہار کیا.یہ اظہار، یہ کارنامے تو اتنے وسیع ہیں کہ مہینوں شاید سالوں بھی یہ ذکر چل سکتا ہے جو ظاہر ہے بیان کرنا ممکن نہیں.لیکن ایک بات کا میں گزشتہ خطبہ میں ذکر کرنا چاہتا تھا جو وقت کی کمی کی وجہ سے میں نہیں کر سکا.آج اسی کا ذکر کروں گا.یہ بات آج سے 90 سال پہلے کی ہے اور اس شہر لندن سے اس کا تعلق ہے.آپ میں سے بہت سے جانتے ہوں گے کہ تمبر 1924ء میں ایک مذاہب کا نفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی خود بنفس نفیس شامل ہوئے تھے.آجکل تو ہمارے تعارف بھی ہیں، تعلقات بھی ہیں اور احمدیوں پر دنیا میں مختلف جگہوں پر جو ظلم ہورہا ہے، اُس کی وجہ سے بہت سی حقوق انسانی کی جو تنظیمیں ہیں، اُن کی بھی نظر ہے.پھر ان تعلقات کی وجہ سے پارلیمنٹ کے ممبران اور پڑھے لکھے طبقے سے ہمارا یہاں بھی اور دنیا میں بھی تعارف ہے.لیکن اُس زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا.مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے جو خاص حالات پیدا فرمائے اور خود کانفرنس کرنے والی انتظامیہ نے مشورے کے بعد آپ سے لندن آ کر کانفرنس میں دین اسلام کے بارے میں کہنے کے لئے درخواست کی.یہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت لئے ہوئے تھی.اور پھر جب ہم اُن حالات کو دیکھتے ہیں جو مالی لحاظ سے جماعت کے حالات تھے.اور
خطبات مسرور جلد 12 122 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء اُس وقت آپ اپنے ساتھ گیارہ افراد کا وفد لے کے آئے تھے اور یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ خود تو حضرت مصلح موعود نے اپنا خرچ ذاتی طور پر کیا ، باقیوں کے لئے قرض لینا پڑا تھا.بہر حال پہلے تو یہاں نہ آنے کا فیصلہ ہوا، پھر دعا اور استخارے اور جماعت سے مشورے کے بعد یہ سفر ہوا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہمیں ہر جگہ نظر آئے.یہ خلیفہ مسیح کا پہلا دورہ یورپ تھا اور اس کے ساتھ عرب ممالک بھی شامل تھے.شام، مصر، فلسطین وغیرہ عرب ممالک میں تو سوائے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے کسی بھی خلیفہ کا دورہ نہیں ہوا.اس کے بعد تو حالات بگڑتے چلے گئے اور پابندیاں لگتی چلی گئیں.اس وقت میں اس کا نفرنس کے مختصر حالات اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بارے میں انگریزوں کے تاثرات بھی پیش کروں گا.یہ تاثرات جہاں آپ کی ذات کے علمی ہونے اور اللہ تعالیٰ کی خاص تائید ساتھ ہونے کا اظہار کرتے ہیں وہیں اس میں بعض تاریخی پہلو بھی ہیں جو ہمارے نو جوانوں کو پتہ ہونے چاہئیں.اُس زمانے میں سفر تو بحری جہاز کے ذریعہ ہوتے تھے اور سفر میں کئی دن لگتے تھے.ایک روز حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے درمیان ڈیک پر نماز باجماعت پڑھا رہے تھے.نماز کے بعد فارغ ہو کر بیٹھے تھے.ساتھ ساتھی بھی بیٹھے تھے تو جہاز کے ڈاکٹر کا وہاں سے گزر ہوا جو Italian تھا.اس نے آپ کو بیٹھے دیکھا تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا کہ Jesus Christ and twelve disciples یعنی یسوع مسیح اور اُس کے بارہ حواری.یہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی روایت ہے.ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ سنا تو میں حیرت زدہ رہ گیا کہ ڈاکٹر جو تھا Italian تھا اور اس لحاظ سے پوپ کی بستی کا رہنے والا تھا اُس نے کیسی صحیح اور عارفانہ بات کی ہے.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 437 مطبوعہ ربوہ ) حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو گیارہ ساتھی تھے ان میں بارہویں چوہدری محمد شریف صاحب وکیل تھے جو اپنے طور پر سفر میں شامل ہوئے تھے.اب اس کا نفرنس جو ویمبلے کا نفرنس کہلاتی ہے، اس کا تاریخی پس منظر اور اغراض و مقاصد بھی پیش کرتا ہوں.شروع 1924ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں سوشلسٹ لیڈ رولیم لافٹس ہیئر (William Loftus Hare) نے یہ تجویز کی کہ اس عالمی نمائش کے ساتھ ایک مذہبی کانفرنس بھی منعقد کی جائے.جس میں برطانوی مملکت کے، (اُس زمانے میں برطانیہ کی حکومت کی کالونیز تھیں،
خطبات مسرور جلد 12 123 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء بہت جگہ پھیلی ہوئی تھی.مختلف مذاہب کے نمائندوں کو بھی دعوت دی جائے تا کہ وہ اس کا نفرنس میں شریک ہوں اور اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں.نمائش کے منتظمین نے جن میں مستشرقین بھی شامل تھے اس خیال سے اتفاق کیا اور لندن یونیورسٹی کا علوم شرقیہ کا سکول یعنی School of oriental studies جو ہے اُس کے زیر انتظام کا نفرنس کے وسیع پیمانے پر انعقاد کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی اور کانفرنس کا مقام امپیریل انسٹی ٹیوٹ لندن مقرر کیا گیا اور 22 ستمبر 1924ء سے 3 را اکتوبر 1924 ء تک کی تاریخیں رکھی گئیں اور کمیٹی نے ان مذاہب کے مقررین کو منتخب کیا اور اُن کو دعوت دی.ہندومت، اسلام، بدھ ازم، پارسی مذہب، جینی مذہب، سکھ ازم، تصوف، برہمو سماج ، آریہ سماج، کنفیوشس ازم وغیرہ.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 422 مطبوعہ ربوہ ) اُس زمانے میں حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو 1923ء کے آغاز میں ہی لنڈن میں آئے تھے.وہ لندن میں تھے لیکن آپ کو اس کا نفرنس کا علم نہیں ہو سکا تھا.جب کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ مقررین بھی تجویز ہو چکے.( یہ سارا کام ہو چکا تھا اُس وقت ) اور 1924 ء کا کچھ حصہ بھی گزر گیا تو کسی نے ایک جگہ بیٹھ کر یونہی برسبیل تذکرہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کے سامنے ذکر کیا جس پر آپ گئے اور کمیٹی کے جوائنٹ سیکرٹری ایم ایم شار پلز سے ملے.انہوں نے جب آپ کی باتیں سنیں تو محسوس کیا کہ اسلام کے متعلق احمدی جماعت کا نقطۂ نگاہ ضرور پیش ہونا چاہئے.تو کمیٹی میں اس کا ذکر ہوا.کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر سر تھامس ڈبلیو آرنلڈ ) Dr.Sir Thomas Walker Arnold) اُن کی شخصیت سے اور اُن کے علم سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ مقررین کے بارے میں بھی نیر صاحب سے ضرور مشورہ کر لیا جائے.آجکل بعض دفعہ ہم لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں کہ جی اب وقت گزر گیا، کچھ نہیں ہو سکتا.اُس وقت انہوں نے سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہمت کی ، گئے اور ساری انتظامیہ کو قائل کر لیا.چنانچہ نیر صاحب کے ساتھ پھر اس پروگرام پر نظر ثانی ہوئی، اور ہندومت اور بدھ کے نمائندوں کے نام بھی اور اس کے علاوہ تصوف کی نمائندگی کے لئے بھی نیر صاحب سے مشورہ ہوا اور تصوف کے لئے حضرت صوفی حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لکھا گیا.مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ حافظ روشن علی صاحب نہیں آ سکتے جب تک حضرت خلیفہ اسیح الثانی جو امام جماعت احمد یہ ہیں، کی اجازت حاصل نہ کی جائے.تو کمیٹی میں جونہی یہ نام پیش ہوئے تو ڈاکٹر
خطبات مسرور جلد 12 124 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء آرنلڈ اور پروفیسر مارگولیتھ (David Samuel Margoliouth) نے اور کمیٹی کے دوسرے ممبران نے نہایت خلوص اور محبت سے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں کانفرنس میں شمولیت کی درخواست کی جائے اور صوفی صاحب کو بھی ساتھ لانے کی گزارش کی جائے.اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں انگلستان کے جو بڑے بڑے مستشرقین تھے ،ان کا دعوت نامہ پہنچا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 423-422) بہر حال جیسا کہ میں نے کہا، بڑے سوچ و بچار کے بعد یہ دعوت قبول کی گئی تھی.حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے کا نفرنس کے لئے مضمون لکھنا شروع کیا اور اس کا ترجمہ اور اصلاح وغیرہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، مولوی شیر علی صاحب اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کی.لیکن جو مضمون لکھا گیا تھا تو وہ بہت لمبا بن گیا.اس کا کوئی حصہ پڑھ کر سنانا مناسب نہیں تھا.اتنا وقت ہی نہیں تھا.کیونکہ سارا پڑھا نہیں جاسکتا تھا اور خلاصہ بیان کرنا مناسب نہیں تھا.اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ نیا مضمون لکھا جائے.چنانچہ پھر نیا مضمون لکھا گیا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے لکھا اور اُس کا پھر ترجمہ ہوا.(ماخوذ از انوار العلوم جلد 8 صفحہ 423-422 بہر حال آپ سفر پر روانہ ہوئے.جیسا کہ میں نے کہا 23 ستمبر 1924ءکو یہ کانفرنس شروع ہوئی.یہ دن سفر یورپ کی تاریخ جو ہے، اُس میں بھی سنہری دن تھا.اس دن ویمبلے کا نفرنس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا جو بے نظیر مضمون تھا، یہ پڑھا جانا تھا اور اس کے پڑھے جانے سے اسلام اور احمدیت کی شہرت کو چار چاند لگے.یورپ میں اسلام کا پیغام صحیح رنگ میں پہنچایا گیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لندن میں تقریر کرنے کا جو ایک رؤیا تھا ، اس کا ذکر حضرت مصلح موعود نے تقریر میں بھی کیا ہے، وہ پوری آب و تاب سے پورا ہو گیا.یہ کہتے ہیں کہ مضمون کا وقت پانچ بجے شام مقرر تھا، جبکہ اس سے پہلے لوگ اڑھائی گھنٹے سے مسلسل بیٹھے اسلام سے متعلق باتیں سن رہے تھے، یا مذہب سے متعلق باتیں سن رہے تھے.مگر جونہی آپ کی تقریر کا وقت آیا تو نہ صرف لوگ پورے ذوق و شوق سے اپنی جگہ پر بیٹھے رہے بلکہ دیکھتے دیکھتے اور لوگ بھی ہال میں آنے شروع ہو گئے اور ہال بالکل بھر گیا.اس سے پہلے کسی لیکچر کے وقت حاضری اتنی زیادہ نہیں تھی.اجلاس کے صدر سر تھیوڈر ماریسن (Sir Theodore Morrison) تھے.انہوں نے حضور کا تعارف کروایا اور پھر نہایت ادب و احترام کے جذبات کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ اپنے
خطبات مسرور جلد 12 125 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء کلمات سے محفوظ فرما ئیں.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی جو اپنے رفقاء کے ساتھ ،ساتھیوں کے ساتھ سٹیج پر تشریف رکھتے تھے، کھڑے ہوئے اور انگلش میں آپ نے مختصر سا خطاب کیا کہ ”مسٹر پریذیڈنٹ، بہنو اور بھائیو! سب سے پہلے میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے اس کا نفرنس کے بانیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ لوگ اس طرح پر مذہب کے سوال پر غور کریں اور مختلف مذاہب سے متعلق تقریریں سن کر یہ دیکھیں کہ کس مذہب کو قبول کرنا چاہئے؟ پھر آپ نے کہا کہ اس کے بعد میں اپنے مرید چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بارایٹ لاء سے کہتا ہوں کہ میرا مضمون سنائیں.آپ نے کہا کہ ”میں ایسے طور پر اپنی زبان میں بھی لکھے ہوئے پرچے پڑھنے کا عادی نہیں ہوں کیونکہ میں ہمیشہ زبانی تقریریں کرتا ہوں اور کئی کئی گھنٹے تک، چھ چھ گھنٹے تک بولتا ہوں.فرمایا کہ مذہب کا معاملہ اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جا تا بلکہ وہ مرنے کے بعد دوسرے جہان تک جاتا ہے.اور انسان کی دائمی راحت مذاہب سے وابستہ ہے.اس لئے آپ اس پر غور کریں اور سوچیں اور مجھے امید ہے کہ آپ توجہ سے سنیں گئے.بہر حال چوہدری صاحب نے اُس مضمون کو پڑھنے پر تقریبا ایک گھنٹہ لگایا اور بڑے پر شوکت لہجے میں مضمون پڑھا گیا.اس کے باوجود کہ چوہدری صاحب کے گلے میں خراش تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص تائید فرمائی اور بڑے اعلیٰ رنگ میں انہوں نے مضمون پڑھا.( حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ چوہدری صاحب نے یہ مضمون جو پڑھا تھا، یہ اصل میں میری زبان تھی.یعنی چوہدری صاحب پڑھ رہے تھے لیکن چوہدری صاحب کی زبان نہیں تھی ، میری زبان تھی.) بہر حال اس مضمون پر حاضرین میں ایک وجد کی کیفیت طاری تھی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب حاضرین گویا احمدی ہیں.تمام لوگ ایک محویت کے عالم میں اخیر تک بیٹھے رہے.جب مضمون میں اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کی جاتی جو اُن کے لئے نئی ہوتی تو کئی لوگ خوشی سے اچھل پڑتے.غلامی ،سو داور تعدد ازدواج وغیرہ مسائل کو نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا.اس حصہ مضمون کو بھی نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے بھی نہایت شوق اور خوشی سے سنا.ایک گھنٹے کے بعد لیکچر ختم ہوا تو لوگوں نے بڑی گر مجوشی کے ساتھ اور بڑی دیر تک تالیاں بجائیں.جبکہ اجلاس کے جو پریذیڈنٹ تھے اُن کو کئی منٹ تک انتظار کرنا پڑا.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 452-451 مطبوعہ ربوہ ) یہ مضمون انوار العلوم کی آٹھویں جلد میں موجود ہے.
خطبات مسرور جلد 12 126 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء بہر حال خلاصہ یہ کہ اس مضمون میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے جماعت احمد یہ کی بنیاد اور قیام کا ذکر کیا، جو 1889ء میں پڑی.پھر آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ مہدی ہونے کا تھا جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور اسی طرح مسیح ہونے کا دعوئی تھا جس کی پیشگوئی انجیل اور اسلامی کتب میں بھی موجود ہے.اور آپ کے اس دعوی کی وجہ سے آپ کو ہر جگہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.مسلمان علماء نے بھی بڑھ بڑھ کر آپ کی مخالفت کی.لیکن اس سب کے باوجود آپ کے گرد لوگ جمع ہونے شروع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک جماعت بن گئی اور پھر جماعت دنیا کے مختلف ممالک میں بھی آہستہ آہستہ بنی شروع ہوئی.میں مضمون کا خلاصہ بیان کر رہا ہوں اور خلاصہ کیا ؟ اس کو انتہائی خلاصہ کہہ سکتے ہیں، پوائنٹس جو تھے ، ویسے تو جو مختصر مضمون لکھا گیا ہے اس میں بھی میں نے جیسا کہ بتایا ایک گھنٹہ لگا تھا اور جو پہلا لکھا گیا تھا، ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام وہ تو کافی لمبی کتاب بن جاتی ہے.بہر حال پھر آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد خلافت کا نظام جاری ہوا اور اس خلافت کے نظام کے تحت یہی مشن چلتے رہے اور دنیا کے درجنوں ممالک جو ہیں، وہاں جماعت کا قیام ہوا.ہر مذہب کے لوگ اسلام میں، جماعت میں شامل ہونا شروع ہوئے.پھر یہ بھی بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ واضح فرمایا کہ پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کی ضرورت اس زمانے میں ہونی تھی.کیونکہ یہی زمانہ تھا جس کی حالت یہ ہے کہ جو نشانیاں بتائی گئی تھیں ان کے مطابق جس میں کوئی نہ کوئی مصلح اور مسیح موعود آتا ہے جن کی پیشگوئی کی گئی تھی.پھر آپ نے یہ بھی بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں سے کلام کرتا ہے.اُن کی دعائیں سنتا ہے.خدا رحیم و مشفق ہے.اُس نے مسیح موعود کو بھیج کر اس زمانے میں بھی دنیا کی اصلاح کے سامان کئے ہیں.حضرت مسیح موعود نے خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین پیدا کروا کر اور اُس کی توحید ثابت کر کے اُس سے تعلق پیدا کروا کر آج بھی اللہ تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور یہ بھی واضح طور پر بتایا کہ اگر کوئی مذہب خدا کے وجود کی کامل شناخت نہیں کروا سکتا تو وہ مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہے.پھر حضرت مصلح موعود نے اپنے مضمون میں انبیاء کی حیثیت اور ہر فرد بشر کے خدا سے تعلق ، تا کہ روحانی ترقی ہو، اس کی بھی وضاحت فرمائی.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت مسیح موعود نے اس بات کو بڑی حکمت اور دوراندیشی سے بیان فرمایا کہ قرآن کریم گو آخری اور کامل شریعت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان عقلی ترقی کے آخری دور تک پہنچ چکا ہے.بلکہ قرآن کی آخری کتاب
خطبات مسرور جلد 12 127 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء ہونے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے اندر علموں کا گہر اخزانہ چھپا ہوا ہے جو اُس کو ملتا ہے جو اس کی تلاش میں سنجیدہ ہو.اور سنجیدگی کے ساتھ جب اس کی تلاش کی جائے ، جہاں روحانی ترقی ہوتی ہے، وہاں دوسرے چھپے ہوئے دنیاوی اور علمی مضامین بھی ہر ایک کو اُس کے ذوق کے مطابق قرآنِ کریم سے ملتے ہیں.پھر حضرت مصلح موعود نے یہ بھی فرمایا کہ قرآن کریم اس اعتراض کو ر ڈ کرتا ہے جو مسلمانوں پر کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا اور اس کی دلیل یہ پیش کی جو قرآن کریم کی آیت ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں.جنگ کی صرف اس وقت اجازت ہے جب اسلام کو برباد کر دینے کی کوشش کی جائے ، نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے.پھر مختلف موضوعات ہیں جو اس تقریر میں آپ نے بیان فرمائے.مثلاً غلامی ، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے.حرمت سود، تعدد ازدواج، طلاق، اخلاقی تعلیم ، حیات بعد الموت.یہ ساری باتیں جو تھیں، اس پر اسلامی نظریہ کیا ہے اس پر روشنی ڈالی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت دیئے.آپ علیہ السلام کی تائید میں الہی نشانات کا ذکر فرمایا.پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک رؤیا کا بھی ذکر فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے یہ دیکھا تھا کہ آپ لندن میں ایک سٹیج پر کھڑے ہیں اور اسلام پر ایک تقریر فرمارہے ہیں.اور بعد ازاں آپ نے چند پرندے پکڑے.آپ نے اس کی تعبیر یہ کی کہ آپ کی تعلیم کی لندن میں تبلیغ کی جائے گی اور آپ کی معرفت لوگ اسلام میں داخل ہوں گے.اور پھر اس کی جو پہلی تعبیر ہے وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو یہ تقریر تھی اس صورت میں پوری ہوئی.پھر حضرت مصلح موعود نے حضرت مسیح موعود کے حوالے سے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی تعصب سے پاک ہو کر چالیس دن تک صداقت جاننے کے لئے دعا کرے تو اُس پر صداقت کھل جائے گی.وہ پیرا پڑھا گیا.وہ اقتباس پڑھا گیا.(ماخوذ از دورہ یورپ / مجمع البحرین، انوارالعلوم جلد 8 صفحہ 388 تا414) آخر میں حضرت مصلح موعود نے اس مضمون کو اس طرح بند کیا کہ : بہنو اور بھائیو! خدا کی روشنی تمہارے لئے چمک اٹھی ہے اور وہ جس کو دنیا بوجہ مرورِ زمانہ ایک عجیب فسانہ خیال کرنے لگی تھی تمہاری عین آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے.خدا کا جلال ایک نبی کے ذریعے تم پر ظاہر کیا گیا ہے.ہاں ایسا نبی جس کی بعثت کی خبر نوع لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام
خطبات مسرور جلد 12 128 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء انبیاء نے پہلے سے دی تھی.خدا نے آج تمہارے لئے پھر یہ امر ثابت کر دیا کہ میں صرف ان کا خدا انہیں جو مر چکے ہیں بلکہ ان کا بھی خدا ہوں جو زندہ ہیں.اور نہ صرف ان کا خدا ہوں جو پہلے گزر چکے ہیں بلکہ ان کا بھی خدا ہوں جو آئندہ آئیں گے.پس تم اس روشنی کو قبول کرو اور اپنے دلوں کو اس سے منور کر لو.بہنو اور بھائیو! بی زندگی عارضی ہے لیکن یہ خیال کرنا غلطی ہے کہ اس کے بعد فنا ہے.فنا تو کوئی چیز ہی نہیں.روح کوفنا کے لئے نہیں بلکہ ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اپنی پیدائش کے لمحے سے لے کر انسان ایک نہ ختم ہونے والے رستے پر چلنا شروع کر دیتا ہے اور سوائے اس کے کہ موت اس کی رفتار کی تیزی کا ذریعہ ہو اور کچھ نہیں.یہ کیا بات ہے کہ تم جو چھوٹے چھوٹے مقابلوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی لگا تار کوشش میں لگے رہتے ہو اس بڑے مقابلہ کو نظر انداز کر رہے ہو جس میں ماضی، حال اور مستقبل کی تمام پشتوں کو لازماً حصہ لینا پڑے گا.کیا تم کو معلوم نہیں کہ مشرق میں ایک فرستادہ مبعوث کیا گیا اور خدا نے اس کے ذریعے سچائی کو تمہارے دروازوں تک پہنچا دیا ہے.تم سچے دل سے اس فضل کا شکر یہ ادا کر و جوتم پر کیا گیا تا تم پر زیادہ فضل نازل کئے جائیں اور تم اس کی رحمت کو لینے کے لئے آگے دوڑوتا تمہارے لئے اس کی محبت ایک جوش مارے.یہ کیا بات ہے کہ تم جو تمام ان نیند آور چیزوں کو جو دماغ میں سستی پیدا کریں نفرت سے دیکھتے ہو کس طرح ایسی چیز سے مطمئن ہو جو نفع رساں نہیں اور روح کی خواہشات کو دبانے والی ہے.تم بتوں کے سامنے جھکنے سے تو انکار کرتے ہو پھر کس طرح تم ایسے بت کے آگے جھکتے ہو جس میں زندگی کی کوئی علامت نہیں.آؤ اور اس ربانی شراب زندگی کو پیو جو خدا نے تمہارے لئے مہیا کی.یہ ایسی شراب ہے جو عقل کو ہلاک کرنے والی نہیں بلکہ اس کو مضبوط کرنے والی ہے.خوش ہو جاؤ اے دلہن کی سہیلیو( یہ بائبل کے حوالے سے آگے اُس رنگ میں بیان فرمایا کہ ) خوش ہو جاؤ اے دلہن کی سہیلیو! اور خوشی کے گیت گاؤ کیونکہ دولہا آپہنچا ہے.وہ جس کی تلاش تھی مل گیا ہے.وہ جس کا انتظار کیا جارہا تھا یہاں تک کہ انتظار کرنے والوں کی آنکھیں مدھم پڑ گئی تھیں اب تمہاری آنکھوں کو منور کر رہا ہے.مبارک ہے وہ جو خدا کے نام پر آیا.ہاں مبارک ہے جو خدا کے نام پر آیا.وہ جو اس کو پالیتے ہیں سب کچھ پالیتے ہیں اور وہ جو اس کو نہیں دیکھ سکتے وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے.وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین انوار العلوم جلد 8 صفحہ 415 416.دورہ کیورپ ) آپ نے یہ مضمون یہاں ختم فرمایا.پس بڑی حکمت سے، بڑی جرات سے آپ نے اسلام کی
خطبات مسرور جلد 12 129 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء خوبیاں بھی بیان کیں اور دعوتِ اسلام بھی دی.جیسا کہ میں نے کہا، یہ ایک گھنٹے سے زائد کی تقریر تھی.اس کا انتہائی مختصر خلاصہ چند نکات کے حوالے سے میں نے پیش کیا ہے.بہر حال اس تقریر کا حاضرین پر جواثر ہوا اُس کے بارے میں میں بیان کرنا چاہتا ہوں.کا نفرنس کے صدرا جلاس نے کہا ، جو الفضل کی رپورٹ میں درج ہے کہ : ”مرزا بشیر الدین امام جماعت احمدیہ کے مضمون پڑھے جانے پر سر تھیوڈور ماریسن نے اپنے پریزیڈنشل ریمارکس میں کہا کہ اس ( یعنی احمد یہ ) سلسلہ اور ایسے ہی زمانہ حال کے دوسرے سلسلوں کا پیدا ہونا ثابت کرتا ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے جس کی تجدید کے متعلق لوگ اعلی مطالعہ جاری رکھتے ہیں.(حضرت) مرزا بشیر الدین نے جن کے ہمراہ بہت سے سبز عماموں والے متبعین تھے فرمایا کہ سلسلہ احمد یہ سلسلہ موسویہ میں سلسلہ عیسویہ کی طرح اسلام میں ایک ضروری اور قدرتی تجدید ہے جس کی غرض کسی نئے (شرعی ) قانون کا اجرا نہیں بلکہ اصلی اور حقیقی اسلامی تعلیم کی اشاعت کرنا ہے.“ الفضل 30 ستمبر 1924 نمبر 35 جلد 12 صفحہ 2) پھر پریذیڈنٹ نے کہا ”مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں.مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرالیا ہے.میں اپنی طرف سے اور حاضرین کی طرف سے مضمون کی خوبی ترتیب، خوبی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریق استدلال کے لئے حضرت خلیفہ اُسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں.حاضرین کے چہرے زبانِ حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ متفق ہیں.اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ میں اُن کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں اور اُن کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں.پھر حضور کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں آپ کو لیکچر کی کامیابی پر مبارک بادعرض کرتا ہوں.آپ کا مضمون بہترین مضمون تھا جو آج پڑھے گئے.اور اس کے بعد بھی سرتھیو ڈ ر ماریسن جو تھے، وہ سٹیج پر بڑی دیر تک کھڑے رہے اور بعد میں اور بار بار مضمون کی تعریف کرتے رہے.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 453-452) مضمون کے یہ پوائنٹ میں نے اس لئے بتائے ہیں کہ اس مضمون میں اسلام کی تبلیغ کی گئی تھی.آخر میں جو پورا پیرا پڑھا گیا ہے.اُس میں تو صاف بتایا گیا کہ جو مسیح آنے والا تھا وہ آ گیا.پھر (فری چرچ کے ہیڈ ) ڈاکٹر والٹر والش (Dr.Walter Walsh) نے جو خود فصیح البیان لیکچرار تھے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ”میں نہایت خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ لیکچر سنے کا موقع ملا.“
خطبات مسرور جلد 12 130 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء پھر ” قانون کے ایک پروفیسر نے بیان کیا کہ جب میں مضمون سن رہا تھا تو یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ دن گویا ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہے.پھر کہا، اگر آپ لوگ کسی اور طریق سے ہزاروں ہزار روپیہ بھی خرچ کرتے تو اتنی زبردست کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے.“ پھر ایک پادری منش نے کہا کہ تین سال ہوئے مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں اور اب میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہ خواب پورا ہو گیا.( میں نے پہلے بارہ حواریوں کا ذکر کیا تھا.یہ تیرھویں جو وہاں فنکشن کے وقت موجود تھے وہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب تھے.اس طرح تیرہ پورے ہو گئے.) مس شارپلز جو کانفرنس کی سیکرٹری ہیں ، انہوں نے کہا کہ لوگ اس مضمون کی بہت تعریف کرتے ہیں اور خود ہی بتایا کہ ایک صاحب نے His Holiness کے متعلق کہا کہ ”یہ اس زمانے کا Luther معلوم ہوتا ہے.بعض نے کہا کہ ان کے سینہ میں ایک آگ ہے.ایک نے کہا یہ تمام پر چوں سے بہتر پر چہ تھا.“ ایک جرمن پروفیسر نے جلسہ کے بعد سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر حضور کی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا میرے پاس بعض بڑے بڑے انگریز بیٹھے کہہ رہے تھے (کہ) یہ نادر خیالات ہیں جو ہر روز سننے میں نہیں آتے.“ مسٹرلین جو انڈیا آفس میں ایک بڑے عہدے دار تھے، انہوں نے تسلیم کیا کہ خلیفہ مسیح کا پر چہ سب سے اعلیٰ اور بہترین پرچہ تھا.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 453 مطبوعہ ربوہ ) پھر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی " بیان کرتے ہیں.ایک صاحب حضور کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے ہندوستان میں تیس سال کام کیا ہے اور مسلمانوں کے حالات اور دلائل کا مطالعہ کیا ہے.کیونکہ میں ایک مشنری کی حیثیت سے ہندوستان میں رہا ہوں مگر جس خوبی، صفائی اور لطافت سے آپ نے آج کے مضمون کو پیش کیا ہے، میں نے اس سے پہلے کبھی کسی جگہ بھی نہیں سنا.مجھے اس مضمون کو سن کر کیا بلحاظ خیالات اور کیا بلحاظ ترتیب اور کیا بلحاظ دلائل بہت گہرا اثر ہوا ہے.پھر ایک صاحب نے کہا جو یہ مضمون سننے کے لئے فرانس سے آئے ہوئے تھے کہ میں عیسائیت پر اسلام کو ترجیح دیا کرتا تھا (عیسائیت کو ترجیح نہیں دیتے تھے.اسلام کو ترجیح دیتے تھے.) اور اسلام پر
خطبات مسرور جلد 12 131 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء بدھ ازم کو ترجیح دیا کرتا تھا.اب جبکہ میں نے آپ کا مضمون بھی سن لیا ہے اور بدھ ازم کو بھی سنا ہے، میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی اسلام ہی سب سے بالا تر مذہب ہے.جس خوبی سے اور جس خوش اسلوبی سے آپ نے اسلام کو پیش کیا اس کا کوئی دوسرا مذ ہب مقابلہ نہیں کر سکتا.میرے دل پر اب اس کا گہرا اثر ہے.“ (الفضل 23 اکتوبر 1924 ء جلد 12 نمبر 45 صفحہ 4 کالم 3) پھر بہت ساری عورتیں بھی آئیں اور انہوں نے اس مضمون کی بہت تعریف کی.ایک عورت کہتی ہے کہ بعض نے مجھے کہا کہ There is a fire in him.اس میں ایک آگ ہے.پھر مسز شار پلز نے کہاوہ بھی سیکرٹری تھیں ہسیکرٹری کی بیوی بھی تھیں اور انتظامیہ میں بھی شامل تھیں.کہتی ہیں کہ ایک انگریز میرے پاس آیا اور اُس نے مجھے کہا کہ چائے پر تو مجھے نہیں بلایا، وہاں چائے کا انتظام بھی تھا، مگر مجھے اجازت دو کہ میں اندر آ جاؤں.میری غرض دراصل اس شخص کو دیکھنا ہے جو ہندوستان سے اسلام کو پیش کرنے کے لئے آیا ہے اور احمدیوں کا سردار ہے.وہ شخص حضرت صاحب سے ملا، باتیں کیں اور پھر مولوی مبارک علی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے بدھ مذہب کے پرچے بھی سنے اور دوسرے پر چے بھی لیکن یہ تمام پر چوں سے بہتر تھا.ایک جرمن شخص جو یہاں اُس زمانے میں پروفیسر تھے، انہوں نے جلسے سے واپسی کے وقت سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر ( یہ وہی لگتے ہیں جن کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے لیکن یہاں ذرا تفصیل ہے) حضرت کے حضور مبارکباد عرض کی اور کہا، میرے پاس بڑے بڑے انگریز بیٹھے تھے، میں نے دیکھا کہ بعض زانو پر ہاتھ مارتے تھے اور کہتے تھے..Rare ideas.One can not hear such ideas everyday یعنی یہ نہایت نادر خیالات ہیں.ایسے خیالات ہر روز سنے میں نہیں آتے.وہی جرمن پروفیسر روایت کرتے ہیں کہ بعض جگہ لوگ بے اختیار بول پڑتے تھے کہ.What a beautiful and true principles کیسے خوبصورت اور سچے اصول ہیں.اور ان جرمن پروفیسر نے خود اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی کہ یہ موقع احمدیوں کے لئے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے.اور یہ ایسی کامیابی ہے کہ اگر آپ لوگ ہزاروں پاؤنڈ بھی خرچ کر دیتے تو ایسی شہرت اور کامیابی بھی نہ ہوتی.مسٹرلین کا ذکر ہوا ہے.انڈیا آفس کے ایک بڑے عہد یدار تھے.وہ لیکچر سن رہے تھے لیکن اُن کی بیوی اُس دن نہیں آئی تھیں.انہوں نے جا کر اپنے گھر میں بیوی سے ذکر کیا تو وہ اگلے دن آئیں اور قافلے کے جولوگ تھے اُن کو ملیں کہ میں کل آ نہیں سکی تھی اور میرے خاوند نے مجھے گھر جا کر بتایا ہے کہ لیکچر
خطبات مسرور جلد 12 132 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء کتنا کامیاب اور مقبول ہوا.مس گارنر ایک دہر یہ اور خدا کی منکر عورت ہے.اُس نے کہا کہ It was charmfull.یہ ایک دلکش اور اچھا مضمون تھا.نہایت اعلیٰ خیالات تھے.“ ”نئی صداقت وغیرہ وغیرہ الفاظ تو اکثر نے استعمال کئے.بہائی مذہب کی ایک عورت نے لیکچر سنا اور ہمارے ساتھ ساتھ مکان کے قریب تک چلی.وہ کہتی تھی کہ میں بہائی خیالات رکھتی تھی مگر اب آج کا لیکچر سن کر میرے خیالات بدل گئے ہیں.میں چاہتی ہوں کہ آپ کے زیادہ لیکچر سنوں.مجھے اگر مہربانی سے بتائیں کہ کب اور کہاں کہاں لیکچر ہوں گے تو میں ضرور آؤں گی.ایک عیسائی صورت مع اپنی لڑکی کے وہاں آئی.بڑے خلوص سے حضرت خلیفہ البیع الثانی کے پیچھے پیچھے چلی آئی اور درخواست کی کہ میرے مکان پر جمعرات کو چائے کے لئے آئیں.حضرت نے مصروفیت کا عذر کیا.مگر اس نے بڑے اصرار اور محبت سے درخواست کو منظور کر ا لیا اور کہا کہ خواہ کسی وقت آئیں مگر ضرور آئیں.ایک شخص نے کہا کہ ایسا پیارا مضمون تھا کہ حب الوطنی سے بھی زیادہ پیارا تھا.(ماخوذ از الفضل 23 اکتوبر 1924 نمبر 45 جلد 12 صفحه 5-4) اخباروں میں جو ذکر ہوا، ان میں سے ایک اخبار کا ذکر سن لیں.مانچسٹر گارڈین نے اپنی 24 ستمبر 1924ء کی اشاعت میں لکھا کہ اس کا نفرنس میں ایک ہلچل ڈالنے والا واقعہ، جو اُس وقت ظاہر ہوا، وہ آج سہ پہر کو اسلام کے ایک نئے فرقے کا ذکر تھا.نئے فرقہ کا لفظ ہم نے آسانی کے لئے اختیار کیا ہے.ورنہ یہ لوگ اس کو درست نہیں سمجھتے.یہ بھی اُس نے وضاحت کر دی.اس فرقے کی بناء ان کے قول کے بموجب آج سے 34 سال پہلے اس مسیح نے ڈالی جس کی پیشگوئی بائبل اور دوسری کتابوں میں ہے.اس سلسلے کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے صریح الہام کے ماتحت اس سلسلے کی بنیاد اس لئے رکھی ہے کہ وہ نوع انسان کو اسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچائے.ایک ہندوستان کے باشندے نے جو سفید دستار باندھے ہوئے ہے اور جس کا چہرہ نورانی اور خوش کن ہے.اور وہ سیاہ داڑھی رکھتا ہے اور جس کا لقب 46 holiness خلیفة اسبح الحاج مرزا بشیر الدین محمود احمد یا اختصار کے ساتھ خلیفہ اسیح ہے.مندرجہ بالا تحدی اپنے مضمون میں پیش کی.جس کا عنوان ہے اسلام میں احمدیہ تحریک“.آپ کے ایک شاگرد نے جو سرخ رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھا آپ کا پرچہ کمال خوبی کے ساتھ پڑھا.آپ نے اپنے مضمون کو جس میں His
خطبات مسرور جلد 12 133 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی ، ایک پر جوش اپیل کے ساتھ ختم کیا جس میں انہوں نے حاضرین کو اس نئے مسیح اور نئی تعلیم کے قبول کرنے کے لئے مدعو کیا.اس بات کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس پرچے کے بعد جس قدر تحسین اور خوشنودی کا چیئر ز کے ذریعہ اظہار کیا گیا، اُس سے پہلے کسی پرچے پر ایسا نہیں کیا گیا.ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 454-453) بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کہتے ہیں کہ مضمون کے خاتمہ پر ریزولیوشن پیش کیا گیا اور اتفاقِ رائے سے پاس کیا گیا کہ ایسے مفید معلومات ، علمی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے مشورہ کے لئے His Holiness کا شکر یہ ادا کیا جائے.ایک پروفیسر اور پادری جو اس لیکچر کی خبر پا کر پہلے مکان پر آئے اور پھر ہمارے ساتھ لیکچر کی جگہ تک گئے تھے ، بہت متاثر تھے.انہوں نے سلسلے کی بعض کتابیں بھی خریدیں.وہ لیکچر کی خوبی سے متاثر ہو کر اپنی کرسی سے بار بار اچھلتے نظر آتے تھے.بہت کچھ سنا اور پھر آنے کا وعدہ کیا.اور اقرار کیا کہ آئندہ میں اسلام کے ان خیالات کو preach کروں گا.اُن کی تبلیغ کیا کروں گا.اور ٹیچنگز آف اسلام میں جو خیالات بیان کئے گئے ہیں ان کو لے کر وعظ و تبلیغ کروں گا.(ماخوذ از حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا سفر یورپ 1924 ء ڈائری از قلم حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی صفحہ 314 تا 316 مطبوعہ ربوہ ) پس یہ مضمون جو پڑھا گیا، یہ بھی اور جو پہلے تیار کیا گیا تھا جیسا کہ میں نے بتایا، وہ لمبا ہونے کی وجہ سے پڑھا نہیں جاسکتا تھا، یہ دونوں مضامین انگلش میں translate ہوئے ہوئے ہیں.گوبعض اعداد و شمار جو ہیں، یا مشن ہاؤسز یا جماعت کے کاموں کی جو تفصیل دی گئی ہے ، وہ اُس زمانے کی ہے.اب تو جماعت اس سے بہت آگے نکل چکی ہے.لیکن اس مضمون کی خوبصورتی جو ہے، جو علم ہے اور جو باقی بیان ہے، وہ ابھی بھی قائم ہے.اس لئے ہمارا جو انگریزی دان طبقہ ہے اُسے اور نو جوانوں کو بھی یہ ضرور پڑھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود پر بیشمار رحمتیں فرمائے جنہوں نے ہمارے لئے تقریباً ہر مضمون میں بے شمار خزانہ چھوڑا ہے جس کا میں نے پہلے خطبہ میں ذکر کیا تھا.انہوں نے ہرٹا پک (topic) کو سیچ (touch) کیا ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن کو بھی اب اس علمی خزانے کے مختلف زبانوں میں ترجمے جلدی کروانے کی کوشش کرنی چاہئے.کچھ تو کوشش کر رہے ہیں لیکن مزید تیزی کی ضرورت ہے.آج بھی میں جمعہ ( وعصر ) کی نمازوں کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم کمال احمد کرو
خطبات مسرور جلد 12 134 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء صاحب کا ہے.ڈنمارک کے رہنے والے تھے.1942ء میں ڈنمارک کے شہر ہوئے بیو (Hojby) میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کے بعد ٹیچرز یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد 2003 ء تک آپ تاریخ، مذہب، جغرافیہ اور ڈینش زبان کے مضامین پڑھاتے رہے.ابھی آپ یو نیورسٹی کے طالب علم تھے کہ آپ کو اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ عبدالسلام میڈیسن صاحب کے شاگردوں میں سے تھے.آپ کے ذریعہ 1960ء کی دہائی کے شروع میں اُس وقت ان کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جب مکرم میر مسعود صاحب مرحوم وہاں مبلغ تھے اور پھر وفات تک آپ نے جماعت سے نہایت اخلاص اور محبت اور وفا کا تعلق قائم رکھا.خلافت اور خلیفہ وقت سے آپ کو نہایت درجہ عقیدت اور محبت تھی، بلکہ عشق تھا.مجھے بھی ملے ہیں تو اخلاص و وفا تھی.جب میں ڈنمارک گیا ہوں تو حالانکہ بیمار بھی تھے پھر بھی جتنے دن ہم وہاں رہے با قاعدہ آیا کرتے تھے.مختلف جماعتی عہدوں پر انہوں نے کام کیا.نیشنل قائد مجلس خدام الاحمدیہ اور نیشنل سیکرٹری تبلیغ کی ذمہ داریاں سالہا سال تک نہایت محنت اور صدق و وفا سے نبھاتے رہے.تبلیغ کا جنون کی حد تک شوق تھا.ہر موقع پر آپ نے ڈنمارک کے لوگوں کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی.آپ کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ جماعتی کا موں سے فارغ ہوکر جب رات کو دیر سے گھر آتے تھے تو پھر اگلی میٹنگ کی منصوبہ بندی کے لئے بیٹھ جاتے اور نصف رات تک کام کر کے امیر صاحب کو رپورٹ دیتے اور اُس کے بعد آپ سوتے.آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور ڈینش اکابرین کے ساتھ آپ کے اچھے تعلق تھے.امیر صاحب ڈنمارک لکھتے ہیں کہ 89-1988ء میں جب وہ یہاں مبلغ انچارج تھے تو انہوں نے نہایت اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ جماعتی کاموں میں خاص طور پر شعبہ تبلیغ میں دن رات میری معاونت کی اور اُس وقت جب ڈنمارک کے پرائم منسٹر کو ایک ملاقات میں ڈینش زبان میں قرآن کریم کا تحفہ دیا گیا تو کمال کرو صاحب بھی اس وفد میں شامل تھے بلکہ اس ملاقات کا انتظام بھی انہوں نے ہی کیا تھا.اس کے علاوہ نو جوانوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ مسجد نصرت میں ہر جمعہ کی شام کو ایک پروگرام کرتے تھے.اس میں بچوں اور بچیوں کے سوالات کے جوابات اور اُن کے مسائل کے حل پر گفتگو فرمایا کرتے تھے.کئی کتابوں کے مصنف تھے اور جماعتی کتب کے تراجم بھی آپ نے کئے.”اسلامی اصول کی فلاسفی کے ڈینش ترجمہ کی نظر ثانی کا کام آپ نے کیا.جماعت احمدیہ ڈنمارک کا سہ ماہی رسالہ ایکٹو اسلام (Active Islam) کی ادارت کی ذمہ داری کئی سال تک خوش اسلوبی سے سرانجام دی اور اسی طرح ستر اور اسی کی دہائی میں مسلمان ممالک سے آنے
خطبات مسرور جلد 12 135 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء والے ریفیو جیز (refugees ) کو احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہے.2004ء میں آپ کو فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث آپ معذوری کی زندگی گزارتے رہے لیکن معذوری اور بیماری کے باوجود جمعہ اور جماعتی پروگراموں میں کافی دور سے سفر کر کے شامل ہوتے تھے.اس کے علاوہ جب بھی امیر صاحب ان کو ملنے کے لئے جاتے تو ہر ملاقات میں جماعت کی ترقی کے بارے میں دریافت کرتے اور مشن ہاؤس کی جو آجکل وہاں نئی تعمیر ہونی ہے اُس کے لئے خاص طور پر پوچھتے.امیر صاحب سے ہر ملاقات میں میرے بارے میں بھی بار بار پوچھا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت کا کیا حال ہے اور کافی جذباتی ہو جایا کرتے تھے.18 فروری 2014 ء کو آپ کی طبیعت اچانک ناساز ہوئی اور آپ ہسپتال میں داخل کر دیئے گئے.19 فروری کو صبح ساڑھے پانچ بجے اکہتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ نے اپنے پیچھے بیوہ اور ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور پانچ پوتے پوتیاں چھوڑے ہیں.ان کی اہلیہ بھی نہایت درجہ اخلاص کے ساتھ جماعتی پروگرام میں شامل ہوتی ہیں اور ترجمہ کا کام کر رہی ہیں اور بڑی مددگار ہیں.یہ غیروں میں بھی کافی معروف تھے.جو ڈ منیش الیکٹرانک میڈیا ہے وہاں جو ان کے بارے میں بعض کی رائے ہے وہ اس طرح ہے.ہنر یک جینسن (Mr.Henrik Jensen) صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کر وصاحب، ایک بہت عظیم شخصیت جو آج ہم میں نہیں رہی.کمال صاحب کو ہمیشہ ہی بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے.ہم جیسے کئی شاگردوں کے دلوں میں اُن کی بہت عزت ہے.وہ بہت معزز اور عظیم شخصیت تھے.وہ ایک ایسی شخصیت تھے جو کلاس میں ہر دلعزیز تھی.کہتے ہیں کہ میں خود بھی آج کمال کی طرح تعلیمی شعبہ سے منسلک ہوں.میرے تمام تعلیمی عرصہ میں کمال میرے لئے ایک نمونہ تھے.انہیں علمی لحاظ سے اپنے مضامین میں بہت عبور حاصل تھا.آپ نے ہم میں سے بہتوں کو زندگی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے.اور کہتے ہیں کہ سب انسان ہی اپنی زندگی بسر کرتے ہیں.کچھ نے حاصل کرنے کا علم پالیا ہے.جبکہ بہت کم تعداد میں وہ لوگ ہیں جو اس نقطہ کو پاگئے کہ انسان زندگی سے زندہ رہنے کا گر پاسکتا ہے.پھر ایک خاتون ہیں وہ بیان کرتی ہیں.کمال کر و صاحب ایک ایسے استاد تھے جسے انسان کبھی بھلا نہیں سکتا.مسٹر کینیتھ (Mr.Kenneth) صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک ایسے ٹیچر جس سے میں بہت متاثر ہوں.ایک اچھا اور متقی انسان.ایک خاتون میں انگر تھ (Ms.Ingerrethe) ( صحیح تلفظ
خطبات مسرور جلد 12 136 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 فروری 2014ء جو بھی ہے ) کہتی ہیں کہ کالج میں میرے بہت سے اور شاگرد تھے جو اپنے سکول کے زمانے میں کمال کرو کے شاگردرہ چکے تھے.وہ ہمیشہ کمال کرو کا ذکر بڑی عزت اور تکریم سے کرتے.مذہب کے مضمون میں یہ شاگرد جو کمال کرو کے زیر تعلیم رہ چکے تھے، دیگر ساتھیوں سے بہت آگے ہوتے تھے.بہر حال اسی طرح کے اور بہت سارے تبصرے ہیں.ایک مسٹر مائیکل (Mr.Mikael) ہیں وہ کہتے ہیں کہ امید کرتا ہوں کہ ڈنمارک کی سرزمین میں کوئی ایسا ہو گا جو اُن کے کام کو جاری رکھ سکے جو انہوں نے ڈینش عوام اور غیر ممالک سے آنے والے مسلمانوں کے درمیان پل بنانے اور ان کے درمیان ڈائیلاگ کی فضا پیدا کرنے کے لئے شروع کیا تھا.افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب ہماری سوسائٹی میں بعض لوگ باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی بجائے آگ پر تیل چھڑ کنے کا کام کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان کے بیوی بچوں کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے اور ہمیشہ جماعت سے وابستہ رکھے.جیسا کہ میں نے کہا نمازوں کے بعد ان کا جنازہ غائب انشاء اللہ ادا ہوگا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 21 مارچ 2014 ء تا 27 مارچ 2014 ، جلد 21 شماره 12 صفحه 05 تا 09)
خطبات مسرور جلد 12 137 10 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء بمطابق 07 امان 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تقریباً تین ہفتے پہلے جماعت احمدیہ یوکے نے برطانیہ میں جماعت کے سوسال مکمل ہونے پر ایک تقریب منعقد کی تھی جس میں مختلف مذاہب کے علماء یا نمائندوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اپنی اپنی مقدس کتب پر بنیا در کھتے ہوئے خدا تعالیٰ اور مذہب کے تصور کی تعلیم کو پیش کریں، اور یہ کہ اکیسویں صدی میں خدا تعالیٰ کا کردار اور خدا تعالیٰ کی کیا ضرورت ہے.بہر حال اس میں ظاہر ہے اسلام کی نمائندگی تو ہونی تھی اور جماعت نے کرنی تھی اور میں نے کی.اس کے علاوہ یہودی، عیسائی، بدھ مت، دروزی، ہندومت وغیرہ کی بھی نمائندگی تھی جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور زرتشتی اور سکھوں کی نمائندگی بھی تھی.مختلف مذاہب کے لوگ وہاں موجود تھے.اسی طرح بہائی وغیرہ بھی موجود تھے.اس کے علاوہ بعض سیاستدانوں اور ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس (Activists) جو ہیں اُن کو بھی اپنے خیالات کے اظہار ) کا موقع دیا گیا.اور یہ تقریب یہاں کے سب سے بڑے پرانے اور روایتی بال جس کا نام Guildhall ہے، وہاں منعقد ہوئی.یہ عمارت 1429ء یا بعض روایات ہیں کہ اس سے بھی پہلے کی تعمیر ہوئی ہوئی عمارت ہے.اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لندن کی پرانی ترین دو عمارتوں میں سے ایک ہے.بہر حال اس کی ایک تاریخی حیثیت ہے.ایم ٹی اے پر یہ پروگرام دکھایا بھی جا چکا ہے اور آپ نے بھی یہ دیکھا ہوگا.لیکن جہاں تک اس کی تاریخی حیثیت کا سوال ہے امید ہے جب الفضل میں رپورٹ شائع ہوگی تو اس میں اس کا ذکر بھی ہو جائے گا.میرا مقصد اس وقت اس کی تاریخ بیان کرنا نہیں.یہ مختصر
خطبات مسرور جلد 12 138 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014ء تعارف تھا.اصل مقصد یہ ہے کہ جو تقریب منعقد ہوئی اُس کے بارے میں کچھ بتاؤں.جیسا کہ میں نے کہا کہ ایم ٹی اے پر دکھائی جا چکی ہے.اور اردو میں بھی مقررین اور میرے خطاب کا ترجمہ امید ہے آ گیا ہوگا، میں نے دیکھا تو نہیں.لیکن پاکستان سے مجھے یہ مطالبہ آیا کہ بہتر ہوگا کہ اس بڑے فنکشن کی تفصیل یا اس کے بارے میں کچھ حد تک ذکر میں اپنے خطبے میں کروں، جس طرح اپنے دوروں کے بارے میں بھی بیان کرتا ہوں تا کہ سننے والے بہتر سمجھ سکیں اور زیادہ اُن کو اس کی اہمیت کا زیادہ اندازہ بھی ہواور فائدہ بھی اٹھا سکیں.ایم ٹی اے پر بعض پروگرام بعض لوگ دیکھتے بھی نہیں.یہاں بھی کل ہی میں دیکھ رہا تھا ایک خط میں ذکر تھا کہ میں نے فلاں اخبار میں اس تقریب کی کارروائی پڑھی حالانکہ ایم ٹی اے پر آچکی تھی.خطبے بہر حال لوگ زیادہ بہتر سنتے ہیں، اس لئے میں اس کا مختصر اذکر کروں گا لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کو جب بھی ایم ٹی اے پر آئے ، احمدیوں کو دیکھنا چاہئے.ایک اچھی بھر پور قسم کی تقریب تھی.اس وقت میں مختصراً مقررین کے چند فقرات پیش کروں گا.اور جو میں نے کہا، اُس کا خلاصہ آپ کو بتاؤں گا.اور اس کے علاوہ مہمانوں کے لوگوں کے، غیروں کے جو تاثرات تھے ، وہ بھی بتاؤں گا تاکہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا جس سے اظہار ہوتا ہے ، وہ سامنے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری ، اسلام کی برتری جو آپ کے عاشق صادق کے ذریعہ دنیا پہ ظاہر ہو رہی ہے اُس کا دنیا کو پتا لگے ہمیں پتا لگے.اس فنکشن کے ضمن میں میں پہلی بات یہ بھی کہوں گا اس سے پہلے کہ باقی تفصیلات بیان کروں کہ یو کے جماعت کی انتظامیہ جنہوں نے اتنا بڑا اور اہم فنکشن کیا، اُن کو جس طرح اس فنکشن سے پہلے فنکشن کی تشہیر کرنی چاہئے تھی اس طرح نہیں کی اور اس بات پر خوش ہو گئے کہ ہم فنکشن کر رہے ہیں اور اتنے لوگ آئیں گے.حالانکہ یہ موقع تھا کہ جماعت کے وسیع پیمانے پر تعارف اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کے پر چار کا زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بتایا جاتا.اگر پریس سے صحیح رابطہ ہوتا تو جو کوشش اب امیر صاحب اور اُن کی ٹیم کر رہی ہے، خبریں لگوا رہے ہیں، یہ خود بخود لگتیں اور اس سے بہتر طریق پر لگتیں.آجکل تو پریس پیغام پہنچانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.اس بارے میں دنیا کے اکثر ممالک کی جماعتوں میں جس طرح کام ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہورہا اور کمزوری دکھائی جاتی ہے.اب امریکہ میں کچھ عرصے سے کچھ بہتری پیدا ہوئی ہے، اللہ کے فضل سے اچھا کام کر رہے ہیں.افریقہ میں گھانا اور سیرالیون میں اس بارے میں اچھا کام ہو رہا ہے.اور بعض افریقن فرانکو فون ممالک جو ہیں اُن میں بھی اس طرف توجہ ہوئی ہے.
خطبات مسرور جلد 12 139 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء بہر حال ہر سطح پر میڈیا تک ہماری رسائی ہونی چاہئے تا کہ اس تعارف کے ساتھ جو جماعت احمدیہ کا تعارف ہے، اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو پتا لگے اور تبلیغ میں تیزی آئے.یہ بھی تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.اس طرف جماعتوں کو تو جہ دینے کی ضرورت ہے..اب میں اس کی کارروائی کے بارے میں مختصراً بیان کرتا ہوں.بعض مقررین نے بڑی اچھی باتیں بھی کیں.اللہ کرے جو کچھ انہوں نے کہا وہ اُن کے دل کی آواز ہو اور اس پر عمل بھی کریں.پہلے ایک ہندو کونسل جو یہاں ہے اُس کے چیئر مین ہمیش چندر شر ما صاحب ہیں.وہ کہتے ہیں کہ آج کا عنوان بہت دلچسپ ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کائنات میں خدا کا وجود ہے.دوسری بات جو بڑی واضح ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی لیڈر اور دیگر نظام دنیا میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے.ہر طرف جھگڑے اور فساد بر پاہیں اور عوام کا سیاستدانوں سے اعتماد اُٹھ گیا ہے.اسی لئے میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ ہم انسانیت کی بہتری کے لئے دوبارہ مذہب کی طرف رُخ کریں، ہمیں اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہوگا.اور پھر یہ کہتے ہیں کہ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو صرف نصیحتیں ہی نہ کرتے چلے جائیں بلکہ اپنے نمونے بھی پیش کرنے والے ہوں.اور یہی حقیقت ہے.اللہ کرے کہ یہ مقرر بھی جو کچھ انہوں نے کہا اُس پر عمل کرنے والے ہوں.پھر دلائی لامہ کا پیغام، بدھ مت کے رہنما جو یہاں لندن میں ہیں، انہوں نے اُن کی نمائندگی میں پڑھا.وہ کہتے ہیں کہ تمام مذاہب اپنے پیروکاروں کو باہم محبت، رواداری اور صبر وسکون کا درس دیتے ہیں.اس لئے خواہ اُن کے عقائد ہمارے عقائد سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں ہمیں اُن کی عزت کرنی چاہئے.ہر کچے مذہب نے اپنے اپنے وقت میں انسانیت کو اعلیٰ اقدار سے نوازا ہے.آئندہ زمانے میں بھی یہی مذہبی قدریں ہمیں دنیا میں امن، ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا کرنے اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ زندگی گزارنے کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گی.ہم سب پر واجب ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ اپنی روز مرہ زندگی میں اُن اعلیٰ اخلاق پر کاربند ہو جائیں جن کی تعلیم ہمارا مذ ہب ہمیں دیتا ہے.بہر حال یہ باتیں اُن کی بڑی صحیح ہیں.کہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر فساد تب بر پا ہوتا ہے جب لوگ مذہب کی اصل غرض و غایت کو سمجھ نہیں پاتے.کہتے ہیں، کچھ وقت سے مجھے خیال آ رہا تھا کہ ہمیں مل کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن
خطبات مسر در جلد 12 140 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء کے ساتھ عالمی مذہبی برادری کو اکٹھا کیا جا سکے تاکہ آپس میں مفاہمت ہو اور یگانگت کی فضا پیدا ہو اور دنیا میں امن کا قیام ممکن ہو سکے.کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف سے برطانیہ میں 11 رفروری 2014ء کو منعقد ہونے والی مذہبی عالمی کانفرنس کو منعقد کرنے کے جرات مندانہ اقدام کو سراہتا ہوں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس قسم کے جلسے بہت دُور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں.بہر حال اکثر مقررین نے ایسی باتیں کی ہیں جن کی اس وقت زمانے کو ضرورت ہے.پھر دروزی کمیونٹی کے روحانی پیشوا شیخ موفق صاحب کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جن کے ارضِ مقدس میں بسنے والے تمام مذاہب کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں.( یہ کمیونٹی زیادہ تر فلسطین اور اسرائیل وغیرہ کے علاقے میں ہے، ویسے شام میں بھی ہے) کہتے ہیں کہ ارضِ مقدس وہ سرزمین ہے جہاں بہت سے مذاہب نے جنم لیا اور وہیں سے بہت سے انبیاء کا روحانی سفر شروع ہوا.پھر کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور پھر قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بہتر اور معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.یقینا اللہ دائی علم رکھنے والا اور ہمیشہ باخبر ہے.یہ سورۃ الحجرات آیت 14 ہے جو انہوں نے پڑھی.اور کہتے ہیں کہ میں امام جماعت احمدیہ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اور اُن کی جماعت نے مجھے اس کا نفرنس میں شمولیت کی دعوت دی اور میں جماعت احمدیہ کے برطانیہ میں سوسال پورے ہونے کی خوشی میں منعقد کی جانے والی اس شاندار کا نفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں.ہماری در روز کمیونٹی کے ارضِ مقدس میں جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت دوستانہ مراسم ہیں.ہمیں آپ کی طرف سے دعوت ملنے پر خوشی ہے.آئیں ہم سب مل کر ظلم اور تشدد کی مذمت کریں اور محبت کے وہ بیج بوئیں جن سے صرف مشرق میں ہی نہیں بلکہ تمام عالم میں محبت کے چشمے پھوٹ پڑیں.پھر کیتھولک چرچ کے بشپ کیمن مکڈونلڈ نے کہا کہ مجھے مذاہب عالم کی اس کانفرنس میں شمولیت کر کے اور کیتھولک چرچ کی نمائندگی میں اپنی تقریر پیش کر کے انتہائی خوشی ہو رہی ہے.اس وقت دنیا کو اس قسم کے جلسوں کی شدید ضرورت ہے.پھر اس کے بعد انہوں نے جناب کارڈینل پیٹر ٹرکسن جو پوپ کی کیبنٹ کے پریذیڈنٹ ہیں اور کونسل فار جسٹس پیس بھی ہیں، اُن کا پیغام پڑھ کر سنایا کہ میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی برطانیہ میں صد سالہ قیام کے سلسلہ میں منعقد کی جانے والی اس تقریب میں آپ سے مخاطب ہوں.اس
خطبات مسرور جلد 12 141 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء محفل کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے مختلف مذاہب کے نمائندگان اکٹھے ہو کر دنیا میں امن کے قیام کے لئے بات کر رہے ہیں.اس کے بعد اسرائیل کے ایک رہائی (Rabbai) ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں ظاہری ترقی کو ایک بہت بلند کامیابی تصور کیا جاتا ہے.اور امیروں اور غریبوں کے درمیان معاشی فرق خوفناک حد تک بڑھتا چلا جا رہا ہے.ترقی اور آسائش کے نام پر ہم دنیا کی نعمتوں کو اسراف کی حد تک خرچ کرتے جا رہے ہیں.تازہ پانیوں کو گندہ کر رہے ہیں.جنگلات کو تباہ کر رہے ہیں.ہم جس دور میں رہ رہے ہیں یہاں ہر طرف مذہبی اور سیاسی کشمکش جاری ہے اور فساد برپا ہے.خدا تعالیٰ کا نام اور اس کی دی ہوئی ہدایت کو پامال کیا جا رہا ہے اور اس سب کارروائی کو سمجھداری اور مصلحت اور سیاسی مجبوریوں کا نام دے دیا جاتا ہے.آئیے ہم سب مل کر اس کے خلاف کام کریں.اللہ کرے کہ یہ جو ان کی باتیں ہیں وہ ان کے جوسر براہانِ حکومت ہیں اُن کو بھی سمجھ آنے والی ہوں اور یہ لوگ اُن کو بتانے والے بھی ہوں.بعض سیاسی لوگوں کے بھی پیغامات تھے اور خطاب تھے.گھانا کے صدر مملکت کا پیغام اُن کے ایک ہائی کمشنر نے پڑھ کر سنایا، ویسے اُن کے ایک نمائندے بھی وہاں آئے ہوئے تھے.انہوں نے لکھا کہ ہمیں اس موقع پر ایک مرتبہ پھر یہ باور کرایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر دنیا میں بھیجے جنہوں نے دنیا میں موجود تمام رنگ ونسل کے لوگوں کو بلا تفریق یہ پیغام دیا کہ انسان کو پر عزم، منظم اور باہمی رواداری کے طریقوں سے زندگی گزارنی چاہئے.اور پھر اپنا لکھا ہے کہ گھانا میں نیشنل پیس کونسل کا قیام ہوا ہے اور مذہبی رواداری ہے اور ہر ایک کو نمائندگی حاصل ہے.پھر یہاں کی بیرونس سعیدہ وارثی صاحبہ ہیں.یہ بھی آئی ہوئی تھیں.یہ کہتی ہیں آج اس عظیم الشان ہال میں جلسہ مذاہب عالم کے لئے جمع ہونے والے معزز مہمانوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا میرے لئے ایک اعزاز ہے.یہ کانفرنس جماعت احمدیہ کی وسعت حوصلہ، کشادہ دلی، کشادہ نظری اور اعلیٰ ظرفی کی آئینہ دار ہے کہ آپ لوگوں نے عالمی نوعیت کی ایک ایسی تقریب کا انعقاد کیا ہے جس میں صرف اپنی جماعت کے عقائد پیش کرنے کی بجائے تمام مذاہب کے نمائندگان کو اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی دعوت دی ہے.ہمیں برطانیہ کے طول و عرض میں محض انسانیت کی بنیاد پر جماعت احمدیہ کی طرف سے کئے گئے فلاحی کاموں کے اثرات نظر آتے ہیں.پھر کہتی ہیں اس جلسے کے کامیاب انعقاد سے
خطبات مسرور جلد 12 142 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014ء یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ دنیا بھر کے مذاہب مل بیٹھ کر متحد ہو کر بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف قدم بڑھانے کے لئے تیار ہیں.اس کا نفرنس میں شمولیت میرے لئے بہت اعزاز کی بات ہے.امریکہ کی کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم (USCIRF) کی وائس چیئر مین ، ڈاکٹر کیٹرینا ہیں.ان کا جماعت سے بڑا پرانا تعلق ہے.یہ کہتی ہیں کہ آج آپ کے ساتھ شامل ہونے کا جو موقع مجھے مل رہا ہے،اس پر میں بہت خوشی اور اعزاز محسوس کر رہی ہوں.اور آپ کی جماعت کے برطانیہ میں قیام پر سوسال پورے ہونے کے موقع پر آج کی تقریب میں حاضر ہوں.( یہ امریکہ سے خاص طور پر اس مقصد کے لئے آئی تھیں) کہتی ہیں آج کی تقریب باہمی رواداری اور مذہبی آزادی کی اعلیٰ قدروں کی پہچان کے لئے منعقد کی گئی ہے.اور یہ اوصاف ہی دراصل آپ کی جماعت کے بنیادی اصول ہیں.آپ لوگ یعنی جماعت احمد یہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ مذہب کا امن، باہمی افہام و تفہیم اور آزادی سے چولی دامن کا ساتھ ہے.گزشتہ صدی کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ایک بہت خوبصورت نظارہ نظر آتا ہے جس میں کچھ ایسی ہستیاں دکھائی دیتی ہیں جو نیکی اور پاکیزگی کی شمعیں روشن کر کے اندھیروں کو دور کرنے کی جد و جہد میں لگے رہے.پھر انہوں نے دوسروں کی کچھ مثالیں دی ہیں.لیکن بہر حال پھر آخر میں وہ کہتی ہیں کہ بیسویں صدی میں ہم آپ کی جماعت کو دیکھتے ہیں کہ کس طرح آپ تمام دنیا میں لوگوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں.یہاں یہ غلطی پر ہیں.اصل میں تو یہ انیسویں صدی سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے وقت تھی.اُس وقت سے ہی جماعت احمد یہ ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے اور یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق ہے.ان کو یہاں بیسویں صدی نہیں بلکہ انیسویں صدی، کہنا چاہئے تھا.بہر حال کہتی ہیں کہ بیسویں صدی میں ہم آپ کی جماعت کو دیکھتے ہیں کہ کس طرح آپ تمام دنیا میں لوگوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں.ہم آپ کی طرح رواداری اور انصاف کے علمبردار ہیں.اور آپ کی طرح ہم بھی اس معاشرے کا قیام چاہتے ہیں جہاں مختلف عقائد رکھنے والے تمام لوگ مل جل کر رہیں.ایک دوسرے کی باتیں سنیں اور ہم ایک دوسرے کی بات اس وقت تک نہیں سن سکتے جب تک ہم ایک دوسرے کے لئے عزت واحترام کے جذبات نہ رکھتے ہوں.میں اس بات کی قدر کرتی ہوں کہ جماعت احمد یہ باہمی رواداری کا سبق دیتی ہے.ہم سب کو اپنے عقائد پر عمل
خطبات مسرور جلد 12 143 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء کرنے کی آزادی ہونی چاہئے.نیز یہ کہ جب ہم آپس میں تبادلہ خیال کریں تو وہ برابری، انصاف اور انسانیت کی اقدار کو مدنظر رکھ کر کیا جائے.میری یہ خواہش ہے کہ ہم سب اس مقصد کے حصول کے لئے اپنے پورے دل اور اپنی پوری جان سے کوشش کرنے والے بن جائیں.اللہ کرے یہ بڑی طاقتیں بھی اس چیز کو سمجھنے والی ہوں.وزیر اعظم برطانیہ کا پیغام یہاں کے اٹارنی جنرل رائٹ آنریبل ڈومینک گریو (.Rt.Hon Dominic Grieve) نے پڑھا تھا لیکن اس سے پہلے انہوں نے اپنی باتیں کی.کہتے ہیں کہ پیغام پڑھنے سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کانفرنس کے اعتبار سے جگہ کا انتخاب بھی موزوں ترین ہے.یہی وہ جگہ ہے جہاں سے انگریزوں میں بحیثیت ایک قوم کے وسعت نظری نے جنم لیا اور انہوں نے دنیا کی طرف نظریں اُٹھا کر دیکھنا شروع کیا.آج ہم سب کا اس اجلاس کے لئے یہاں اکٹھا ہونا بھی اسی کا مرہونِ منت ہے.آج کا جلسہ ایک منفرد نوعیت کا جلسہ ہے.ایک عیسائی ہونے کے ناطے میرا یہ تجربہ ہے کہ ایسا شخص جو کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، ایک لا مذہب آدمی کی نسبت دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے احساسات و جذبات کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے.اللہ کرے کہ ان کی یہ بات صحیح ہو.سمجھنے والے ہوں.پھر وزیر اعظم کا پیغام انہوں نے پڑھا کہ میں احمدیہ مسلم جماعت کو دنیا میں امن کے قیام کے لئے مختلف مذاہب کے نمائندگان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں.میں جماعت احمدیہ کی انگلستان میں بے مثال خدمتِ خلق کو سراہتا ہوں.آپ لوگ ایک طرف ملک کے طول و عرض میں بین المذاہب کا نفرنسز کا انعقاد کرتے ہیں تو دوسری طرف حالیہ سیلاب کے حالات میں مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدام الاحمدیہ نے اس میں بڑا کام کیا ہے ) پھر کہتے ہیں کہ جہاں تک مذاہب کے درمیان خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کا سوال ہے تو آج کے دن منعقد ہونے والی یہ تقریب اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ آپ لوگ اپنے مشن میں کس قدر سنجیدہ ہیں کہ مختلف مذاہب کے لوگ مل بیٹھیں اور پوری دنیا امن کا گہوارہ بن جائے.مجھے اس بات کی بے حد مسرت ہے کہ اس اجلاس میں حکومت برطانیہ کی نمائندگی بھی ہو رہی ہے.ہم لوگ امام جماعت احمد یہ اور دیگر مذاہب کے نمائندگان اور دیگر مہمانان کے ساتھ مل کر اس بات پر غور کریں گے کہ مختلف ادیان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے کس طرح دنیا میں امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں.پھر ملکہ جو چرچ آف انگلینڈ کی سر براہ ہیں، اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری نے لکھا کہ ملکہ عالیہ
خطبات مسرور جلد 12 144 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء انگلستان کے لئے جماعت احمدیہ انگلستان کی طرف سے اپنے صد سالہ جشن کے موقع پر Guildhall میں اس عظیم الشان جلسہ ہائے مذاہب عالم کا انعقاد باعث مسرت ہے.ملکہ عالیہ کو اس جلسہ کے مقاصد جان کر بہت خوشی ہوئی اور وہ آپ کے پیغام بھجوانے کی درخواست پر بہت ممنون ہیں.ملکہ عالیہ کی آپ سب کے لئے دلی تمنا ہے کہ جلسہ ایک کامیاب اور یادگار جلسہ ہو جائے.یہ تو غیروں کے کچھ تاثرات تھے.جو میں نے وہاں کہا اُس کا خلاصہ بھی بیان کر دوں.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ بہت سارے لوگوں نے لگتا ہے سنا بھی نہیں اور اخبار میں اس طرح کھل کے آیا نہیں.جو میں نے کہا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ انسانوں کی اصلاح ہو اور انسان خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور اُس کی مخلوق کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں.اور اسی مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء کو دنیا میں بھیجتا ہے.جو انبیاء کی بات سنتے ہیں وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں.جنہوں نے انکار کیا وہ بد انجام کو پہنچے.ہر وہ قوم جس نے انبیاء اور مذہب کی مخالفت کی ، خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کا انکار کیا، خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کیا اور یہ کہا کہ یونہی باتیں ہیں.نہ کوئی خدا ہے اور نہ کسی قسم کا کوئی عذاب ہے، نہ سزا ہے.ایسی تمام قو میں پھر ختم ہو گئیں.قرآن کریم ایسی قوموں کی تاریخ سے بھرا پڑا ہے.مختلف جگہوں پر اس کا بیان ہے.اسی طرح دوسرے مذاہب کی کتب بھی اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کے منکر تباہ ہو گئے.پس یہ باتیں ہمیں سوچنے پر مجبور کرنے والی ہونی چاہئیں کہ یہ قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ہر مذہب کی تاریخ اس کی گواہی دیتی ہے کہ یہ سچ تھا.پھر میں نے بتایا کہ میں جس آسمانی کتاب کو مانتا ہوں وہ قرآنِ کریم ہے.اور وہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ انبیاء کو بھیج کر اس بات کو رائج کرنا چاہتا ہے کہ انسان روحانیت کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اور اُس کا حق ادا کرے.اسی طرح اعلیٰ اخلاق کے معیار قائم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرے.میں نے پھر بتایا کہ جب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا تو آپ نے اس کے حصول کے لئے تبلیغ کو انتہا تک پہنچایا.اور صرف تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ راتوں کو اس شدت سے اس کے نتائج حاصل کرنے اور لوگوں کے دلوں اور سینوں کو کھولنے کے لئے دعائیں کیں کہ آپ کی سجدہ گا ہیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھیں.آپ کے دل میں انسانیت کی اصلاح اور اُسے تباہی سے بچانے کے لئے جو درد تھا وہ بیان نہیں کیا جا سکتا.آپ کی اس تڑپ اور دعاؤں
خطبات مسرور جلد 12 145 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء کی حالت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ تیری بات نہ مانیں تو کیا تو اپنی جان کو ہلاک کر لے گا؟ میں نے پھر کہا کہ لیکن خدا تعالیٰ نے یہ کہہ کر بس نہیں کر دیا.دعاؤں کی قبولیت کو رد نہیں کر دیا بلکہ ان دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا.اس درد کی تسکین کے سامان کئے اور وہ لوگ جو ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے، اُن سے برائیوں کو چھڑا کر با اخلاق اور خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والا بنا دیا.یہ تبدیلی کوئی دنیاوی طاقت نہیں کر سکتی تھی.یہ خالص اُس خدا کا فعل تھا جو دعاؤں کو سنے والا اور دلوں پر قبضہ رکھتا ہے.پھر میں نے بتایا کہ دشمنوں سے حسنِ سلوک کی بھی ایسی مثالیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرما ئیں کہ جس کی دنیاوی معاملات میں کہیں مثال نہیں مل سکتی.دشمنوں کو ، اُن دشمنوں کو جنہوں نے مکہ میں دشمنی کی انتہا کی ہوئی تھی ، فتح مکہ کے موقع پر اس طرح معاف فرمایا کہ جس طرح انہوں نے کبھی کوئی غلطی یا شرارت کی ہی نہ ہو.ہر ایک کا فرکو بھی امن سے قانون کے دائرے کے اندر رہنے کی شرط پر معاف فرما دیا اور اس حسن سلوک کو دیکھ کر بڑے دشمن جو تھے، بہت بڑے بڑے اور کفر میں بڑھے ہوئے جو تھے، بے اختیار ہوکر بول اُٹھے کہ ایسا جذ بہ صرف خدا تعالیٰ کے نبی کا ہی ہو سکتا ہے.اور یقینا اسلام برحق ہے.اور پھر وہ بھی ایمان لے آئے.(ماخوز از دلائل النبوة ومعرفة احوال صاحب الشريعة جلد 5 صفحه 58 باب ما قالت الانصارحين امن...دار الكتب العلمية بيروت 2002ء) پھر میں نے بتایا کہ قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت للعالمین فرمایا ہے اور یقینا آپ رحمت کے انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے تھے اور ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جو یقیناً خدا تعالیٰ کے کلام کی سچائی کا ثبوت ہیں جو آپ کی رحمت کی دلیل کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں.پھر میں نے بتایا کہ اس کے باوجود کہ آپ رحمت للعالمین تھے، اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی اور جنگوں کا جو الزام لگایا جا سکتا ہے اور آجکل بھی اس دنیا میں لگایا جاتا ہے، یہ تاریخی حقائق سے لاعلمی کا نتیجہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جنگوں میں پہل نہیں کی.مکہ میں ظلم ہے.جب یہ ظلم نا قابل برداشت ہوئے تو مدینہ ہجرت کی.کبھی بدلے نہیں لئے.لیکن جب مکہ والوں نے مدینہ پر مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے حملہ کیا تو پھر خدا تعالیٰ کے اذن سے جواب دیا جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے.وہاں میں نے قرآن کریم کی سورۃ حج کی یہ دو آیات سنائیں کہ أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظلِمُوَاء وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ - الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ
خطبات مسرور جلد 12 146 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء ط يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْ لَا دَفَعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوتَ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ طَ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز (الحج : 41-40) یعنی اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے، قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ اُن پر ظلم کئے گئے.اور یقینا اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے.یعنی وہ لوگ جنہیں اُن کے گھروں سے ناحق نکالا گیا.محض اس بناء پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے.اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی ، جس میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقیناً اللہ ضرور اُس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے.یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے.میں نے بتایا کہ اس آیت کی روشنی میں مظلوموں کو دفاع کی اجازت دی گئی.دوسرے اس اجازت میں تمام مذاہب کو محفوظ کیا گیا ہے اور پھر یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خدا تعالیٰ طاقتوں کا مالک ہے، وہ کفار کے خلاف کمزور مسلمانوں کی مدد کی طاقت رکھتا ہے.کفار باوجود اپنی تمام تر طاقت کے اور ہتھیاروں کے شکست کھا ئیں گے اور خدا تعالیٰ نے اپنے وجود کا ثبوت دیتے ہوئے پھر کمزور مسلمانوں کو کفار پر فتح بھی عطا فرمائی.اور اپنے سے بہت بڑے لشکر اور بہت اسلحہ سے لیس لشکر کو شکست دی.پس جو جنگیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے خلفائے راشدین نے لڑیں ، وہ دفاع کے لئے اور امن قائم کرنے کے لئے لڑیں، نہ کہ حکومتیں حاصل کرنے کے لئے.اور اس وجہ سے پھر اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت بھی رہی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.پھر میں نے یہ بتایا کہ مسلمانوں کی کمزور اور مذہب سے دور جانے کی حالت کی پیشگوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی.اور آج اگر مسلمانوں کی طرف سے کوئی ظلم ہو رہا ہے یا اُن کی بگڑی ہوئی حالت ہم دیکھتے ہیں تو یہ عین پیشگوئی کے مطابق ہے.اور پھر یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کی آخری حالت یہ نہیں ہے کہ تم سمجھ لو کہ یہ انتہا ہوگئی اور مسلمان ختم ہو گئے.میرا یہ بھی ایمان ہے اور اس پر میں مضبوط ہوں کہ جس طرح مسلمانوں کے بگڑنے کی پیشگوئی پوری ہوئی، اُن کی روحانی حالت کی بہتری کی پیشگوئی بھی پوری ہوگی جو مسیح موعود کی آمد کے ساتھ ہونی تھی.پھر میں نے بتایا کہ میں اور جماعت احمد یہ یہ ایمان رکھتی ہے کہ مسیح موعود بانی جماعت احمدیہ کی صورت میں آگئے اور اپنے ماننے والوں میں حقیقی اسلام کی تعلیم کو رائج فرما دیا.ایک جماعت قائم کر دی جو حقیقی اسلام پر عمل کر رہی ہے اور کرنے کی کوشش کرتی ہے.میں
خطبات مسرور جلد 12 147 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء نے یہ بھی بتایا کہ مسیح موعود علیہ السلام جو اسلام کے احیائے نو کے لئے آئے ، اُن کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں.مثال کے طور پر میں نے تین باتیں پیش کیں کہ یہ تین پیشگوئیاں مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں جو آپ کی سچائی کے بارے میں ہیں.آپ نے فرمایا تھا کہ اس زمانے میں زلزلوں اور طوفانوں کی بہت زیادہ تعداد ہوگی.(ماخوذ از حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 267 تا 269) جو سچ ثابت ہوئی اور ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ صدیوں کی نسبت سب سے زیادہ اس صدی میں آئے.پھر آپ نے ایک پیشگوئی روسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بارے میں فرمائی تھی کہ زار کا تختہ الٹا جائے گا.(ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 152) وہ پیشگوئی سچ ثابت ہوئی.پھر ایک تیسری پیشگوئی جنگوں کی بتائی.(ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحه 151-152) اور بتایا کہ اب تک ہم دو عالمی جنگیں دیکھ چکے ہیں.دنیا پھر اس لپیٹ میں آنے کی کوشش کر رہی ہے.دنیا کے فوجی بجٹ باقی تمام ضروریات کو پس پشت ڈال رہے ہیں اور صرف فوج بڑھانے اور اسلحہ رکھنے اور فوجی طاقت بنے کی طرف دنیا کی زیادہ توجہ ہو رہی ہے.اس لئے دنیا کو پھر غور کرنے کی ضرورت ہے.بدامنی دنیا میں مذہب کی وجہ سے نہیں پھیل رہی بلکہ لالچ اور سیاست اس کی وجوہات ہیں.پھر میں نے یہ بھی بتایا کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات ہیں.اگر یہ نہ ہوتیں تو ہندوستان کے ایک دور دراز قصبہ میں رہنے والا اللہ تعالیٰ کے پیغام کو تمام دنیا میں نہ پھیلا سکتا.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت کا نظام قائم ہوا، جس کے تحت یہ مشن آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور یہ جہاں اس زمانے میں خدا تعالیٰ کے وجود کا ثبوت ہے، وہاں جماعت احمدیہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات کا بھی ثبوت ہے.یہ میں نے بتایا کہ بانی جماعت احمدیہ نے ہم میں یہ ادراک پیدا فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتیں کوئی پرانے قصے نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ آج بھی زندہ ہے اور اپنے نیک بندوں سے بولتا اور نشان دکھاتا ہے.پس دنیا اس طرف توجہ دے اور اپنی غلطیوں کا الزام خدا اور مذہب کو نہ دے بلکہ اپنے گریبان میں جھانکے.خدا تعالی دنیا کو توفیق دے کہ اس پر عمل کرے.میہ اس کا خلاصہ ہے جو میں نے اُن کو کہا.تقریباً تیس پینتیس منٹ کی میری تقریر تھی.اس وقت میں بعض تاثرات پیش کرتا ہوں.لوگوں کے چہروں سے بہر حال لگ رہا تھا ، بعض نے
خطبات مسرور جلد 12 148 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014ء اظہار بھی کیا ہے کہ اسلام کی تعلیم جومختصر پیش کی گئی تھی ، اس کا اُن پر اثر ہے.Stein Villumstad یورپین کونسل فار ریجس لیڈرز کے جنرل سیکرٹری ہیں.انہوں نے کہا کہ اس طرح مل جل کر بیٹھنا اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ایک دوسرے کی بات کو حو صلے سے سننا اور پھر سب کا یہ تسلیم کرنا کہ ہم سب امن کے خواہاں ہیں ایک بہت بڑی کامیابی ہے.پھر انگلستان میں گریناڈا (Grenada) کے ہائی کمشنر HE Joselyn Whiteman یہ کہتے ہیں کہ یہ بہت زبردست تقریب تھی.یہ خیال کہ اتنے سارے مذاہب ایک ہی چھت کے نیچے اس طرح اکٹھے ہو سکتے ہیں ہمارے ایمانوں میں اضافہ کا باعث ہے.اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آج کل دنیا کے مسائل کے حل کے لئے لوگوں کو اکٹھا کس طرح کیا جاسکتا ہے“.پھر Mak Chishty ، جو لنڈن میں میٹرو پولیٹن پولیس میں کمانڈر ہیں، کہتے ہیں کہ ”مجھے آج کی تقریب میں یہ بات اچھی لگی کہ ہر کسی نے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیں.دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی نہیں کی.اور اسی چیز سے ہم میں باہم اتحاد اور یگانگت کا احساس پیدا ہوتا ہے.“ یہی بات ہے جس کو کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ملکہ کو لکھا بھی تھا کہ (ایسا) ہونا چاہئے.(ماخوذ از تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 261) پھر یورپین پارلیمنٹ میں لندن کے جو نمائندے ہیں Dr.Charles Tannock MEP وہ کہتے ہیں کہ مستقبل میں اس رستہ کو اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں.ہم سب خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم یہ نہیں مان سکتے کہ خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ہم مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے اس طرح لڑتے چلے جائیں.اس لیے میں امن کے اس پیغام کی پر زور تائید کرتا ہوں.احمدیوں کے بارے میں جس بات کو میں قابل قدر جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کے مذہب کی تعلیمات کا مرکز ' محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں ہے.میرے خیال میں یہ ایک عالمی نوعیت کا پیغام ہے.جس قدر مختلف مذاہب مل بیٹھ سکیں اتنا ہی بہتر ہے.“ Baroness Berridge جو انگلستان کی پارلیمنٹ کی 'آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ (APPG) آن انٹر نیشنل فریڈم آف ریلیجن کی چیئر پرسن ہیں.کہتی ہیں: ” مجھے آل پارٹی گروپ برائے مذہبی آزادی کی چیئر مین ہونے کا اعزاز حاصل ہے.میں جانتی ہوں کہ احمد یہ کمیونٹی کس طرح دوسروں کی 66
خطبات مسرور جلد 12 149 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء فلاح و بہبود کے لئے خدمات کرتی چلی جا رہی ہے اور یہ بات امام جماعت احمدیہ نے اپنی تقریر میں بھی کی.ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہم احمدیہ کمیونٹی کے ساتھ ان کے کاموں میں تعاون کرتے ہیں.اور ہمیں اس بات پر بھی خوشی ہے کہ احمدیوں کو اس ملک میں مکمل آزادی حاصل ہے.“ پھر Kay Carter جو انگلستان کی پارلیمنٹ کے آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ (APPG) آن انٹر نیشنل فریڈم آف ریجن کے ممبر ہیں.کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے جو کہا کہ تمام مذاہب میں بنیادی بات ایک ہی نظر آتی ہے یعنی محبت، رواداری اور امن.درحقیقت میڈیا میں مذہب کو ایک ایسی چیز بنا کر پیش کیا گیا ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کا جواز پیدا کر رہا ہے لیکن جیسا کہ آج کی اس محفل میں ہم نے دیکھا کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے.“ پھر یہی چیف رہائی جو تھے اُن کا دوبارہ ایک پیغام ( آیا ) تھا کہ امام جماعت احمدیہ کا پیغام امن اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے متعلق ہے.نیز یہ کہ دنیا کے تمام مذاہب کو ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کرنا چاہیے کیونکہ ہم سب آدم کی نسل ہیں اور خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں.“ کہتے ہیں کہ ”ہمیں ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے اور امن کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے، نہ یہ کہ ہم ایک دوسرے سے لڑنے لگ جائیں بلکہ جس قدر ممکن ہو سکے ہمیں امن کے لیے کوشش کرنی ہے.“ جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا، یہ ربائی ہیں.ان کو یہ چاہئے کہ یہ اسرائیل کی حکومت کو بھی اس بارے میں بتا ئیں.پھر ایک کونسلر سنتوخ سنگھ صاحب کہتے ہیں کہ " میرا خیال ہے کہ امام جماعت احمد یہ یہ بات ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ تمام مذاہب میں بہت ساری تعلیمات مشترک ہیں.تمام مذاہب عالم ہمیں انسانیت کا سبق سکھاتے ہیں.ہمیں مل جل کر کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا بھلا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.“ پھر ناروے سے ان کی ایک سیاسی پارٹی Christian Republic کے Billy Tranger ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے اپنے خطاب کے آخر میں ایک بہت ہی اہم پیغام دیا ہے کہ ہم سب کو مل کر امن کے قیام کے لئے کام کرنا چاہیے.اور میرا خیال ہے کہ یہی وہ امر ہے جس کی اس دنیا کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے.اس پیغام کی ہمیں ناروے میں بھی بہت ضرورت ہے.“ یونیورسٹی آف ایمسٹرڈم کے پروفیسر Prof.Dr.T.Sunier نے کہا کہ ” امام جماعت
خطبات مسرور جلد 12 150 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء احمدیہ نے بڑے واشگاف الفاظ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام اور قرآن کی تعلیمات تشدد کی بجائے امن کے قیام پر زور دیتی ہیں.66 پھر Greek Orthodox Patriarch of Antioch سے تعلق رکھنے والے Father Ethelwine نے کہا کہ میں نے احمدیہ مسلم جماعت کے مختلف فنکشنز میں شمولیت کی ہے.امام جماعت کی شخصیت اور ان کے پیغام کو دل سے سراہتا ہوں.ہمیشہ کی طرح اس کانفرنس کی بہترین تقریر جماعت کے خلیفہ کی تھی.یقیناً مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اکٹھا کر دینا اور ان سے ان کے مذہب کی بات سننا ایک بہت ہی جرات مندانہ اور قابل قدر اقدام ہے.یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے.“ آئرلینڈ سے ایک صاحب آئے ہوئے تھے ، وہ کہتے ہیں کہ میں اس کانفرنس میں شامل ہوا اور یہاں پر جو پیغام مجھے ملا ہے اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے.میں احمدیوں سے یہ کہوں گا کہ آج کل دنیا میں پبلسٹی کے بغیر اپنے پیغام کو پھیلانا بہت مشکل ہے.جماعت احمد یہ اس قدر کام کر رہی ہے لیکن مجھے خوشی ہو گی اگر آپ لوگ اپنے کاموں کی تشہیر بہتر طور پر کر سکیں کیونکہ آپ لوگوں کے بارے میں دنیا میں مٹھی بھر لوگ ہی معلومات رکھتے ہیں.“ جہانگیر سارو صاحب جو یوروپین کونسل آف ریلیجیں لیڈرز سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ میں مذہباً زرتشتی ہوں.میں اس تقریب سے بہت متاثر ہوا ہوں.سب مقررین نے بہت اچھی تقاریر کیں لیکن آخر میں امام جماعت کا خطاب تو بہت ہی بھر پور تھا.“ پھر رابن ہستی جو مذہبی تعلیمات کے استاد ہیں کہتے ہیں کہ اس قدر روحانیت سے پر یہ تقریب ہو گی مجھے نہیں معلوم تھا.میں نے بہت سارے مذاہب کے پیغامات سنے اور میں یقیناً گھر جا کر ان باتوں پر غور کروں گا.میں امید کرتا ہوں کہ امام جماعت احمدیہ کے لیکچر کا متن جلد شائع کیا جائے گا.“ پھر Reverend Canon Dr.Anthony Cane، ان کا بھی کسی کیتھیڈرل سے تعلق ہے، کہتے ہیں : ” کچھ عرصہ پہلے لوگ یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ ہمیں مذہب کی ضرورت نہیں.میرا خیال : یہ ہے کہ یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ یہ بات سراسر بے بنیاد ہے.“ پھر بیلجیم کی یونیورسٹی آف Antwerpen سے Dr Lydia جو اپنے ایک colleague کے ساتھ آئی تھیں.یہاں سے دو پروفیسر ڈاکٹر شامل ہوئے تھے ، ان دونوں نے کہا کہ ” اسلام اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیمات کے حوالہ سے امام جماعت احمدیہ کے خطاب سے وہ بے حد متاثر
خطبات مسرور جلد 12 151 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء ہوئے ہیں.خطاب سننے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم یو نیورسٹی میں اپنے طلباء کو قرآن کریم کا فلیمش ترجمہ دیں گے تا کہ وہ قرآن کریم کو پڑھ کر اسلام کی حقیقی تعلیمات جان سکیں.“ واپس جا کر ان کو وہاں ترجمہ دے دیا گیا ہے جو اپنی یو نیورسٹی میں تقسیم بھی کر رہے ہیں.تو اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے مزید راستے بھی کھلے ہیں.Santiago Catala Rubio (سنتی آگو کتالہ روبیو ) صاحب سپین سے آئے تھے اور میڈرڈ یونیورسٹی میں ریلجز کے پروفیسر ہیں.کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں.جماعت کے ساتھ ان کا قریبی تعلق ہے.یورپین پارلیمنٹ برسلز میں 2012ء میں جو تقریب ہوئی تھی وہاں بھی آئے تھے ، مجھے ملے تھے.کہتے ہیں: ”اگر عالمی مذاہب کی اس کانفرنس کے متعلق اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرنے لگوں تو اس کا نفرنس کی اہمیت اور مسلم جماعت احمدیہ کے پیغام کی اہمیت کو بیان کرنے میں کئی صفحات بھر جائیں.دنیا کی تاریخ میں مختلف مذاہب تنازعات کا باعث رہے ہیں.حتی کہ آج کے دور میں بھی مختلف ثقافتوں مشرق و مغرب، اسلام اور عیسائیت، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین اختلاف موجود ہے.یہ اختلاف نفرت اور ظلم میں زیادتی کو ہوا دینے کے لئے بطور بہانہ پیش کیا جا سکتا ہے.لیکن احمد یہ مسلم جماعت کا نعرہ محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں، تمام مذاہب کا خلاصہ ہے.یہ نعرہ دنیا کے تمام مذاہب اور تمام لوگوں کو ان کے عقائد، حالات اور افکار سے بالا ہو کر یکجا کر دیتا ہے.ایک ایسے وقت میں جب مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ لڑائی ، نفرت ، ظلم، دوسروں کی اور اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے اور اپنے ہی لوگوں پر حملہ کرنے کی حمایت کر رہا ہے جماعت احمدیہ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے.اس لئے اس قسم کی تقریبات کو عالمی سطح پر مذہبی اور نظریاتی کمیونٹیز میں بھر پور پذیرائی ملنی چاہئے.“ میگل گارسیا (Miguel Garcia پید رو آباد کے ہیں.کانفرنس میں شامل ہوئے تھے.یہ میئر بھی رہ چکے ہیں.اور انہوں نے اپنے دور میں اس وقت چرچ کی مخالفت کے باوجود 1980ء میں مسجد بشارت بنانے کی اجازت دی تھی.مسجد بشارت کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کو بھی ملے تھے.انہوں نے ان کو ایک فریم تحفہ دیا جس پر کلمہ لکھا ہوا تھا وہ انہوں نے اپنے دفتر میں بھی لگایا ہوا ہے.جماعت سے کافی متاثر ہیں.یہ کہتے ہیں کہ مسلم جماعت احمدیہ کی طرف سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے وفود، ممبرز آف پارلیمنٹ ، سیاسی شخصیات تعلیم دان اور مختلف انسانی ہمدری سے تعلق رکھنے والے اداروں کے نمائندگان کو لندن میں جمع کیا گیا تا کہ وہ اتحاد اور امن کے قیام کیلئے ڈائیلاگ کی
خطبات مسرور جلد 12 152 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014 ء ضرورت پر غور کریں.یہ انتہائی مثبت قدم تھا.میں جماعت احمدیہ کو اس تقریب کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں.اور میری خواہش ہے کہ یہ جماعت اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے.میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ کے ساتھ پید رو آباد میں مسجد بشارت کے سنگ بنیاد کے موقع پر 1981ء میں ملنے کی سعادت حاصل ہوئی.اس کے بعد چوتھے خلیفہ کے ساتھ اسی مسجد کے افتتاح کے موقع پر 1982ء میں ملنے کی سعادت حاصل ہوئی.اب اس کا نفرنس کے ذریعہ مجھے جماعت احمدیہ کے پانچویں خلیفہ کے ساتھ ملنے کی بھی سعادت مل گئی.میں حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے الفاظ سے بہت محظوظ ہوا ہوں.انہوں نے جنگ وجدل سے آزاد ایک پرامن معاشرے کے قیام کے حوالہ سے بات کی ہے اور اُن حکومتوں کی مذمت کی ہے جو دفاع کے نام پر اسلحہ کو انسانیت پر ترجیح دیتی ہیں.مجھے خوشی ہے کہ مرزا مسرور احمد نے ایک ایسے معاشرہ کے قیام کے لئے جس کی بنیاد انصاف اور با ہمی عزت و احترام پر ہو، مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی دعوت دی ہے.ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو تضادات سے بھری پڑی ہے.بعض ممالک ترقی کی انتہا کو چھو گئے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھوک اور افلاس کی وجہ سے مررہی ہے.ایک طرف ہم لاکھوں ٹن خوراک سمندر میں پھینک دیتے ہیں اور دوسری طرف کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کو کھانے کے لئے انتہائی مشکل کے ساتھ کچھ ملتا ہے.ایک طرف کروڑ پتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف معاشرے کے بعض طبقے انتہائی غریب ہو گئے ہیں.ایک ایسی دنیا کے قیام کی ضرورت ہوگی جو جنگ کو ترک کر دے اور امن کی خواہاں ہو ، جو سب کو ساتھ لے کر مشترکہ طور پر ترقی کرے، جو نا انصافی کے خلاف کھڑی ہو جائے اور معاشرتی انصاف کو فروغ دے.“ بہر حال یہ چند تبصرے تھے جو میں نے پیش کئے.اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرے.اُسے پہچانے اور خدا کو پہچاننے سے ہی اس تباہی سے بچ سکتے ہیں جو ہمارے سامنے کھڑی ہے جس کی وارنگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے کلام میں، اپنی تحریرات میں بارہا دی ہے.اس کے علاوہ میں آج پھر پاکستان کے حالات کے بارے میں بھی دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں.دعا کریں اللہ تعالیٰ شر پسند لوگوں سے اس ملک کو بچائے اور احمدیوں کو بھی محفوظ رکھے اور اُن سب لوگوں کو محفوظ رکھے جو امن کے خواہاں ہیں اور اس فتنہ و فساد سے بچنا چاہتے ہیں اور اس کا حصہ نہیں.اسی طرح
خطبات مسرور جلد 12 153 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 مارچ 2014ء سیریا کے حالات کے بارے میں بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ وہاں بھی احمدیوں کو محفوظ رکھے.گزشتہ دنوں پھر ایک احمدی کو بلا وجہ گرفتار کر لیا گیا تھا.اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کی حفاظت فرمائے.اور عمومی طور پر دنیا کے لئے بھی دعا کریں.جو حالات اب پیدا ہو رہے ہیں لگتا ہے کہ یہ جنگ کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں.بعض بڑی حکومتیں اس بات کو سمجھ نہیں رہیں کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو کیا خوفناک صورت حال پیدا ہونے والی ہے.دنیا بالکل تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے.ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کے لئے بہت زیادہ دعا ئیں کریں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 28 مارچ 2014 ء تا 103 اپریل 2014 ، جلد 21 شماره 13 صفحہ 05 تا 09)
خطبات مسرور جلد 12 154 11 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014 ء بمطابق 14 امان 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: چند جمعے پہلے تک عملی اصلاح کے طریقوں کے بارے میں میں نے چند خطبات دیئے تھے جن میں یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کو کس طرح پیش فرمایا اور معرفت اور محبت الہی کے کیا طریق بتائے ہیں.اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے آپ نے کس طرح رہنمائی فرمائی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے حق میں جو معجزات ونشانات دکھائے ہیں وہ کس شان سے پورے ہوئے؟ یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کا علم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کی روشنی میں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ باتیں ہمارے ایمان اور ہمارے عمل میں ترقی کا باعث بنیں.سو آج اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اور ارشادات کے کچھ نمونے میں پیش کروں گا جن میں معرفت الہی کے بارے میں آپ نے رہنمائی فرمائی ہے.صرف اس ضمن میں ہی آپ کی تحریرات پیش کی جائیں تو بیسیوں بلکہ اگر گہرائی میں جایا جائے تو سینکڑوں صفحات بھی اس بارے میں مل جاتے ہیں.تاہم جیسا کہ میں نے کہا آج بطور نمونہ چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا جو اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ معرفت الہی کیا ہے؟ اس میں انبیاء اور اولیاء کا تو ایک مقام ہے ہی، ایک عام مسلمان کا بھی اس میں کیا معیار ہونا چاہیے ؟ عموماً میں نے ایسے حوالے لینے کی کوشش کی ہے جو آسان ہوں لیکن ان کی زبان یا بعض حوالے
خطبات مسرور جلد 12 155 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014 ء سمجھنے مشکل بھی ہو سکتے ہیں.بہر حال خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے طریق کی رہنمائی کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے.اول بدی سے پر ہیز کرنا.دوم نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا.اور محض بدی کو چھوڑ نا کوئی ہنر نہیں ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قو تیں اس کی فطرت کے اندر موجود ہیں.ایک طرف تو جذبات نفسانی اس کو گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں اور دوسری طرف محبت الہی کی آگ جو اس کی فطرت کے اندر مخفی ہے وہ اس گناہ کے خس و خاشاک کو اس طرح پر جلا دیتی ہے جیسا کہ ظاہری آگ ظاہری خس و خاشاک کو جلاتی ہے.مگر اس روحانی آگ کا افروختہ ہونا جو گناہوں کو جلاتی ہے (یعنی اس کا بھڑکا یا جانا جو گناہوں کو جلاتی ہے ) معرفت الہی پر موقوف ہے.(معرفت الہی ہو گی تو تب ہی یہ جل سکتی ہے اسی پر اس کا انحصار ہے ) کیونکہ ہر ایک چیز کی محبت اور عشق اس کی معرفت سے وابستہ ہے.جس چیز کے حسن اور خوبی کا تمہیں علم نہیں تم اس پر عاشق نہیں ہو سکتے.پس خدائے عزوجل کی خوبی اور حسن و جمال کی معرفت اس کی محبت پیدا کرتی ہے اور محبت کی آگ سے گناہ جلتے ہیں.مگر سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ معرفت عام لوگوں کو نبیوں کی معرفت ملتی ہے اور ان کی روشنی سے وہ روشنی حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو دیا گیا وہ ان کی پیروی سے سب کچھ پالیتے ہیں.“ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 62) پھر آپ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ میں نے تمام مذاہب کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے ( جائزہ لیا ہے ) اور اس کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس وقت اسلام ہی ہے جو خدا تعالیٰ کی حقیقی معرفت ہر زمانے میں پیدا کر سکتا ہے کیونکہ یہی ایک ایسا مذ ہب ہے جس کا نبی بھی زندہ ہے.جس کی تعلیم زندہ ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا کلام بھی اتر سکتا ہے اور انوارالہی کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں اور ان سے تم فیض پاسکتے ہو.(ماخوذ از حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 63 تا 65) پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اسلام کی حقیقت اور معرفت الہی کا ایک تعلق ہے.آپ فرماتے ہیں کہ :.علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اگر چہ حصول
خطبات مسرور جلد 12 156 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014 ء حقیقت اسلام کے وسائل اور بھی ہیں جیسے صوم وصلوٰۃ اور دعا اور تمام احکام الہی جو چھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں لیکن علم عظمت و وحدانیت ذات اور معرفت شیون وصفات جلالی و جمالی حضرت باری ع اسمه وسیله الوسائل اور سب کا موقوف علیہ ہے.( یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا علم، اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی معرفت حاصل کرنا، اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کرنا ان سب کا انحصار اس بات پر ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس طرح جانا جائے جس طرح اس کے پہچانے جانے کا حق ہے.فرمایا کہ : ” کیونکہ جو شخص غافل دل اور معرفت الہی سے بکلی بے نصیب ہے وہ کب تو فیق پاسکتا ہے کہ صوم اور صلوٰۃ بجالا وے یا دعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو.ان سب اعمال صالح کا محرک تو معرفت ہی ہے اور یہ تمام دوسرے وسائل دراصل اسی کے پیدا کردہ اور اس کے بنین و بنات ہیں“.( یعنی کہ اس کے بچے ہیں ) اور ابتدا اس معرفت کی پر تو اسم رحمانیت سے ہے.“ (یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت کی جو ابتدا ہے وہ اس کے اسم یا اس کی رحمانیت کی جو صفت ہے اس سے ہے ).نہ کسی عمل سے نہ کسی دعا سے بلکہ بلاعلت فیضان سے صرف ایک موہبت ہے“.( یعنی بغیر کسی علت فیضان کے، بغیر کسی فیض پانے کے سبب کے ، صرف اللہ تعالیٰ کی عطا سے یہ ملتی ہے اور یہ رحمانیت ہے.فرمایا: تمدنی من يَشَاءُ وَيُضِلُّ مَن يَشَاءُ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے مگر پھر یہ معرفت اعمال صالحہ اور حسن ایمان کے شمول سے زیادہ ہوتی جاتی ہے“.( پہلی بات تو یہ کہ یہ معرفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی رحمانیت سے ملتی ہے لیکن جب یہ معرفت مل جائے تو اس کے بعد کیا ہو اور اس میں آدمی کو پھر کیا کرنا چاہئے.اعمال صالحہ بجالانے کی ضرورت ہے اور ایمان میں اور خوبصورتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے.جب ایمان کی خوبصورتی ہوگی اور اعمال صالحہ ہوں گے تو پھر اس معرفت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ آخر الہام اور کلام الہی کے رنگ میں نزول پکڑ کر تمام صحن سینہ کو اس نور سے منور کر دیتی ہے جس کا نام اسلام ہے“.،، آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 187 تا 189) پھر اللہ تعالیٰ کی معرفت، گناہوں سے نجات ، نیکیوں کی توفیق اور دعا کے معیار کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :.اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان نہ تو واقعی طور پر گناہ سے نجات پاسکتا ہے اور نہ کچے طور پر خدا سے محبت کر سکتا ہے اور نہ جیسا کہ حق ہے اس سے ڈر سکتا ہے جب تک کہ اسی کے فضل اور کرم سے اس کی
66 157 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014 ء خطبات مسرور جلد 12 معرفت حاصل نہ ہو اور اس سے طاقت نہ ملے.اور یہ بات نہایت ہی ظاہر ہے کہ ہر ایک خوف اور محبت معرفت سے ہی حاصل ہوتی ہے.دنیا کی تمام چیزیں جن سے انسان دل لگاتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے یا ان سے ڈرتا ہے اور دور بھاگتا ہے.یہ سب حالات انسان کے دل کے اندر معرفت کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو.اور نہ مفید ہوسکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو اور فضل کے ذریعہ سے معرفت آتی ہے.تب معرفت کے ذریعہ سے حق مینی اور حق جوئی کا ایک دروازہ کھلتا ہے“.( یعنی سچائی پھر نظر بھی آتی ہے اور اس معرفت کے آنے سے سچائی کی تلاش کی طرف اور دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں.اور پھر بار بار دور فضل سے ہی وہ دروازہ کھلا رہتا ہے.( یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فضل پھر دوبارہ دوبارہ آتا چلا جاتا ہے اور اسی فضل کے آنے کی وجہ سے پھر یہ معرفت کا دروازہ کھلا رہتا ہے اور بند نہیں ہوتا.غرض معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے.فضل معرفت کو نہایت مصفی اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو درمیان سے اٹھا دیتا ہے اور نفس امارہ کے لئے گردوغبار کو دور کر دیتا ہے اور روح کو قوت اور زندگی بخشتا ہے اور نفس اتارہ کو اتارگی کے زندان سے نکالتا ہے اور بد خواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کے تند سیلاب سے باہر لاتا ہے.تب انسان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی گندی زندگی سے طبعاً بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے روح میں پیدا ہوتی ہے وہ دعا ہے.یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں.کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے.وہ فنا کرنے والی چیز ہے.وہ گداز کرنے والی آگ ہے.وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے.وہ موت ہے پر آخر کوزندہ کرتی ہے.وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کوکشتی بن جاتی ہے“.(ایک تیز سیلاب ہے.کشتی بن جاتی ہے ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے.“ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 222-221) یہ معرفت کا مقام ہے.پھر فرمایا کہ انسان گناہ کی طرف کیوں زیادہ گرتا ہے.نفس امارہ کیوں دلوں پر قبضہ کرتا ہے؟ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ :.گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجود نہ ہونا ہے.لیکن یہ خوف کیونکر پیدا
خطبات مسرور جلد 12 158 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014 ء ہو.اس کے لیے معرفت الہی کی ضرورت ہے.جس قدر خدا تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر خوف زیادہ ہوگا.ہر کہ عارف تر است ترساں تری یعنی جو زیادہ عرفان رکھتا ہے وہ اتنا ہی خوف رکھتا ہے.لرزاں و ترساں رہتا ہے.فرمایا: ” اس امر میں اصل معرفت ہے.( یہ جو بات ہے اس میں اصل بنیادی چیز جو ہے وہ معرفت ہے.اور اس کا نتیجہ خوف ہے“.(اگر معرفت پیدا ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی پہچان ہوگی.اللہ تعالیٰ کی حقیقت کا علم ہوگا تو پھر ہی خوف بھی پیدا ہوگا.) ” معرفت ایک ایسی شئے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ادنی ادنی کیڑوں سے بھی ڈرتا ہے.( یعنی جن کیڑوں کے بارے میں انسان کو علم ہوتا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے، ان سے بھی ڈرتا ہے.فرمایا: ” جیسے پسو اور مچھر کی جب معرفت ہوتی ہے تو ہر ایک اُن سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.پس کیا وجہ ہے کہ خدا جو قادر مطلق ہے اور علیم اور بصیر ہے اور زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے، اس کے احکام کے برخلاف کرنے میں یہ اس قدر جرات کرتا ہے.اگر سوچ کر دیکھو گے تو معلوم ہوگا کہ معرفت نہیں“.(اللہ تعالیٰ کا صحیح علم ہی نہیں.اس لئے گناہوں کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے.” بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹول کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر دہریت ہے کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں.اس لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو.بغیر اس کے یقین کامل ہر گز حاصل نہیں ہو سکتا.وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے.گناہ سے بچنے کے لیے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام حفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کرتے رہو...اب آج کل اس دنیا میں ہماری کون سی مجلسیں ہیں جو گناہ کی طرف لے جاتی ہیں.کہیں ٹی وی ہے، کہیں انٹرنیٹ ہے، کہیں فیس بکیں (facebook) ہیں.یہ اب ایسی چیزیں ہیں جن کو دنیا والے بھی محسوس کرنے لگ گئے ہیں.گزشتہ دنوں میں پہلے یہ خبر آئی تھی کہ امریکہ میں ہی اس بات پر کہ فیس بک نے 66 لوگوں میں بے چینیاں پیدا کر دی ہیں انہوں نے چھ لاکھ سے زیادہ اکا ؤنٹ وہاں بند کر دیئے.بہر حال فرمایا کہ جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کرتے رہو.اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں
خطبات مسرور جلد 12 159 جب تک خدا تعالی کی مددساتھ نہ ہو ہر گز رہائی نہیں ہوتی.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014 ء ( ملفوظات جلد 7 صفحہ نمبر 123-122) پھر اس بات کو مزید کھولتے ہوئے کہ گناہوں سے بچنا بغیر معرفت الہی کے ممکن نہیں ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : 66 یقیناً یا درکھو کہ گناہوں سے بچنے کی توفیق اس وقت مل سکتی ہے جب انسان پورے طور پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے.یہی بڑا مقصد انسانی زندگی کا ہے کہ گناہ کے پنجہ سے نجات پالے.دیکھو ایک سانپ جو خوشنما معلوم ہوتا ہے بچہ تو اس کو ہاتھ میں پکڑنے کی خواہش کر سکتا ہے اور ہاتھ بھی ڈال سکتا ہے لیکن ایک عظمند جو جانتا ہے کہ سانپ کاٹ کھائے گا اور ہلاک کر دے گا وہ کبھی جرات نہیں کرے گا کہ اس کی طرف لیکے بلکہ اگر معلوم ہو جاوے کہ کسی مکان میں سانپ ہے تو اس میں بھی داخل نہیں ہو گا.ایسا ہی زہر کو جو ہلاک کرنے والی چیز سمجھتا ہے تو اس کے کھانے پر وہ دیر نہیں ہو گا.پس اسی طرح پر جب تک گناہ کو خطرناک زہر یقین نہ کرلے اس سے بچ نہیں سکتا.یہ یقین معرفت کے بڑوں پیدا نہیں ہو سکتا.( جب تک معرفت نہ ہو اس وقت تک یہ یقین پیدا نہیں ہو سکتا.یعنی انسان کو یہ پتا ہے، معرفت ہے، اس کا علم ہے کہ زہر بھی خطرناک ہے، سانپ بھی خطرناک ہے تبھی ان سے بچتا ہے.فرمایا کہ پھر وہ کیا بات ہے کہ انسان گناہوں پر اس قدر دلیر ہو جاتا ہے باوجود یکہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور گناہ کو گناہ بھی سمجھتا ہے.اس کی وجہ بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ معرفت اور بصیرت نہیں رکھتا جو گناہ سوز فطرت پیدا کرتی ہے.اگر یہ بات پیدا نہیں ہوتی تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ معاذ اللہ اسلام اپنے اصلی مقصد سے خالی ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ایسا نہیں.یہ مقصد اسلام ہی کامل طور پر پورا کرتا ہے اور اس کا ایک ہی ذریعہ ہے مکالمات و مخاطبات الہیہ.کیونکہ اسی سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا ہوتا ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت اللہ تعالی گناہ سے بیزار ہے اور وہ سزا دیتا ہے.گناہ ایک زہر ہے جو اول صغیرہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر کبیرہ ہو جاتا ہے اور انجام کار کفر تک پہنچادیتا ہے“.لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحه 287) پھر گناہوں سے رکنے کے لئے معرفت کی اہمیت کو ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں کہ : معرفت بھی ایک ھے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے جیسے جو شخص سم الفار ،سانپ اور شیر کو
خطبات مسرور جلد 12 160 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014ء ہلاک کرنے والا جانتا ہے تو وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا.( یعنی ان چیزوں کے بارے میں علم ہے کہ یہ انسان کو مار سکتے ہیں، ہلاک کر سکتے ہیں اس لئے وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا.ایسے جب تم کو معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکو گے.اس کے لیے ضروری ہے کہ یقین بڑھاؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے.نماز کو جس قدر سنوار کر ادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤ گے.معرفت صرف قول سے حاصل نہیں ہوسکتی.بڑے بڑے حکیموں نے خدا کو اس لیے چھوڑ دیا کہ ان کی نظر مصنوعات پر رہی اور دعا کی طرف توجہ نہ کی جیسا کہ ہم نے براہین میں ذکر کیا ہے.“ اس بارے میں براہین احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کافی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.فرماتے ہیں: 66 مصنوعات سے تو انسان کو ایک صانع کے وجود کی ضرورت ثابت ہوتی ہے کہ ایک فاعل ہونا چاہئے لیکن یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ ” ہے بھی.”ہونا چاہئے اور شئے ہے اور ” ہے اور شئے ہے.اس ” ہے کا علم سوائے دعا کے نہیں حاصل ہوتا.اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا علم دعا سے حاصل ہوتا ہے.) عقل سے کام لینے والے ” ہے“ کے علم کو نہیں پاسکتے.“ (اگر صرف عقل سے کام لینا ہے تو وہ ہونا چاہئے“ اور ” ہے“ کے فرق کو محسوس نہیں کر سکتے.” ہے“ کے علم کو پا نہیں سکتے.اسی لیے ہے (یعنی یہ جو ایک محاورہ ہے کہ خدا را بخدا تواں شناخت.( کہ خدا کو خدا تعالیٰ کے ذریعہ ہی پہچانا جاتا ہے.) لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ کے بھی یہی معنی ہیں کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ سے شناخت نہیں کیا جا سکتا بلکہ خود جو ذریعے اس نے بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے اور اس امر کے لیے اهدِنَا الصِّراط المُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحہ:6) جیسی اور کوئی دعا نہیں ہے“.( ملفوظات جلد 6 صفحہ 368) پھر حقیقی تو بہ کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : جو خدا کی تلاش میں استقلال سے لگتا ہے وہ اُس کو پالیتا ہے.نہ صرف پالیتا ہے بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ وہ اس کو دیکھ لیتا ہے.ارضی علوم کی تحصیل میں کس قدر وقت اور روپیہ صرف کرنا پڑتا ہے.یہ علوم روحانی علوم کی تحصیل کے قواعد کو صاف طور پر بتا رہے ہیں“.( یعنی عام جو دنیا داری کی تعلیم ہے اس پر محنت لگاتے ہیں روپیہ بھی لگاتے ہیں تو یہی اصول روحانی علوم کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے.) فرما جا کہ ”ہمارا مذہب جو روحانی علوم مبتدی کے لئے ہونا چاہئیں ، یہ ہے کہ وہ پہلے خدا کی ہستی، پھر اس کی
خطبات مسرور جلد 12 161 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014 ء صفات کی واقفیت پیدا کرے ایسی واقفیت جو یقین کے درجہ تک پہنچ جاوے.تب اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا ملہ پر اس کو اطلاع مل جاوے گی اور اس کی رُوح اندر سے بول اُٹھے گی کہ پورے اطمینان کے ساتھ اس نے خدا کو پالیا ہے.جب اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایسا ایمان پیدا ہو جاوے کہ وہ یقین کے درجہ تک پہنچ جاوے اور انسان محسوس کر لے کہ اس نے گویا خدا کو دیکھ لیا ہے اور اس کی صفات سے واقفیت حاصل ہو جاوے تو گناہ سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور طبیعت جو پہلے گناہ کی طرف جھکتی تھی اب ادھر سے ہٹتی اور نفرت کرتی ہے اور یہی تو بہ ہے“.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 237) پھر معرفت الہی کے حصول کے لئے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : سورۃ فاتحہ میں جو پنج ۵ وقت فریضہ نماز میں پڑھی جاتی ہے یہی دعا سکھلائی گئی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمتَ عَلَيْهِمُ.تو کسی امتی کو اس نعمت کے حاصل ہونے سے کیوں انکار کیا جاتا ہے.کیا سورہ فاتحہ میں وہ نعمت جو خدا تعالیٰ سے مانگی گئی ہے جو نبیوں کو دی گئی تھی وہ درہم ودینار ہیں.ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کی نعمت ملی تھی جس کے ذریعہ سے ان کی معرفت حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچ گئی تھی اور گفتار کی بجلی دیدار کے قائم مقام ہوگئی تھی.(یعنی جو جی اللہ تعالی کی طرف سے مکالمہ کی تجلی تھی، اللہ تعالیٰ سے اتنی زیادہ شدت سے اتنی زیادہ قربت پیدا ہوگئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے قائم مقام ہو گئی تھی.فرمایا: ” پس یہ جو دُعا کی جاتی ہے کہ اے خداوند وہ راہ ہمیں دکھا جس سے ہم بھی اس نعمت کے وارث ہو جائیں اس کے بجز اس کے اور کیا معنے ہیں کہ ہمیں بھی شرف مکالمہ اور مخاطبہ بخش بعض جاہل اس جگہ کہتے ہیں کہ اس دعا کے صرف یہ معنے ہیں کہ ہمارے ایمان قوی کر اور اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرما اور وہ کام ہم سے کرا جس سے تو راضی ہو جائے.مگر یہ نادان نہیں جانتے کہ ایمان کا قوی ہونا یا اعمال صالحہ کا بجالانا اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق قدم اٹھانا یہ تمام باتیں معرفت کا ملہ کا نتیجہ ہیں.جس دل کو خدا تعالیٰ کی معرفت میں سے کچھ حصہ نہیں ملا وہ دل ایمان قوی اور اعمال صالحہ سے بھی بے نصیب ہے.(اس کو وہ بھی نہیں مل سکتا.) ” معرفت سے ہی خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے.اور معرفت سے ہی خدا تعالیٰ کی محبت دل میں جوش مارتی ہے.جیسا کہ دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہر ایک چیز کا خوف یا محبت معرفت سے ہی پیدا ہوتا ہے.اگر اندھیرے میں ایک شیر بر تمہارے پاس کھڑا ہو
خطبات مسرور جلد 12 162 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014ء اور تم کو اس کا علم نہ ہو کہ یہ شیر ہے بلکہ یہ خیال ہو کہ یہ ایک بکرا ہے تو تمہیں کچھ بھی اس کا خوف نہیں ہوگا اور جبھی کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ تو شیر ہے تو تم بے حواس ہو کر اس جگہ سے بھاگ جاؤ گے.ایسا ہی اگر تم ایک ہیرے کو جو ایک جنگل میں پڑا ہوا ہے جو کئی لاکھ روپیہ قیمت رکھتا ہے محض ایک پتھر کا ٹکڑا سمجھو گے تو اس کی تم کچھ بھی پروا نہیں کرو گے.لیکن اگر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ اس شان اور عظمت کا ہیرا ہے تب تو تم اس کی محبت میں دیوانہ ہو جاؤ گے اور جہاں تک تم سے ممکن ہو گا اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو گے.پس معلوم ہوا کہ تمام محبت اور خوف معرفت پر موقوف ہے.انسان اس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا جس کی نسبت اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کے اندر ایک زہریلا سانپ ہے اور نہ اس مکان کو چھوڑ سکتا ہے جس کی نسبت اس کو یقین ہو جائے کہ اس کے نیچے ایک بڑا بھاری خزانہ مدفون ہے.اب چونکہ تمام مدار خوف اور محبت کا معرفت پر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف بھی پورے طور پر اس وقت انسان جھک سکتا ہے جب کہ اس کی معرفت ہو“.(جب اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت ہو گی تب ہی اس کی محبت بھی دل میں پیدا ہو گی ، تب ہی اس کا خوف بھی دل میں پیدا ہو گا.فرمایا: ”اول اس کے وجود کا پتہ لگے اور پھر اس کی خوبیاں اور اس کی کامل قدرتیں ظاہر ہوں اور اس قسم کی معرفت کب میسر آسکتی ہے بجز اس کے کہ کسی کو خدا تعالیٰ کا شرف مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہو اور پھر اعلام الہی سے اس بات پر یقین آجائے کہ وہ عالم الغیب ہے اور ایسا قادر ہے کہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.سو اصلی نعمت (جس پر قوت ایمان اور اعمال صالحہ موقوف ہیں.‘ { ایمان اور اعمال صالحہ کا جس پر انحصار ہے } خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ ہے جس کے ذریعہ سے اول اس کا پتہ لگتا ہے اور پھر اس کی قدرتوں سے اطلاع ملتی ہے اور پھر اس اطلاع کے موافق انسان ان قدرتوں کو چشم خود دیکھ لیتا ہے.یہی وہ نعمت ہے جو انبیاء علیہم السلام کو دی گئی تھی اور پھر اس امت کو حکم ہوا کہ اس نعمت کو تم مجھ سے مانگو کہ میں تمہیں بھی دوں گا.پس جس کے دل میں یہ پیاس لگا دی گئی ہے کہ اس نعمت کو پاوے بیشک اس کو وہ نعمت ملے گی“.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 307 تا 309) پھر نیکیوں کے بجالانے اور برائیوں سے روکنے کے لئے معرفت الہی کے حصول پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : تمام سعادت مندیوں کا مدار خدا شناسی پر ہے اور نفسانی جذبات اور شیطانی محرکات سے رو کنے والی صرف ایک ہی چیز ہے جو خدا کی معرفت کا ملہ کہلاتی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہے.وہ
خطبات مسرور جلد 12 163 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014 ء بڑا قادر ہے وہ ذُو الْعَذَابِ الشَّدِیدِ ہے.یہی ایک نسخہ ہے جو انسان کی متمردانہ زندگی پر (سرکش زندگی پر ایک بھسم کرنے والی بجلی گراتا ہے“.(ایسی بجلی گراتا ہے جو اس کو جلا کر خاک کر دیتی ہے.) پس جب تک انسان آمَنْتُ بِاللہ کی حدود سے نکل کر عرفتُ اللہ کی منزل میں قدم نہیں رکھتا ( اللہ پر ایمان لانے کی حد سے نکل کر اس کی پہچان اور معرفت حاصل کرنے کی منزل پر قدم نہیں رکھتا ) اس کا گناہوں سے بچنا محال ہے.( بہت مشکل ہے کہ گناہوں سے بچا جائے.) ”اور یہ بات کہ ہم خدا کی معرفت اور اس کی صفات پر یقین لانے سے گناہوں سے کیونکر بچ جائیں گے ایک ایسی صداقت ہے جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے.ہمارا روزانہ تجربہ اس امر کی دلیل ہے کہ جس سے انسان سے ڈرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا.مثلاً جب کہ یہ علم ہو کہ سانپ ڈس لیتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا ہلاک ہو جاتا ہے تو کون دانشمند ہے جو اس کے منہ میں اپنا ہاتھ دینا تو درکنار کبھی ایسے سوٹے کے نزدیک جانا بھی پسند کرے جس سے کوئی زہریلا سانپ مارا گیا ہو.اسے خیال ہوتا ہے کہ کہیں اس کے زہر کا اثر اس میں باقی نہ ہو“.(یعنی سوٹے میں بھی زہر کا اثر نہ لگا ہو.''اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ فلاں جنگل میں شیر ہے توممکن نہیں کہ وہ اس میں سفر کر سکے یا کم از کم تنہا جا سکے.بچوں تک میں یہ مادہ اور شعور موجود ہے کہ جس چیز کے خطرناک ہونے کا ان کو یقین دلایا گیا ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں.پس جب تک انسان میں خدا کی معرفت اور گناہوں کے زہر کا یقین پیدا نہ ہو کوئی اور طریق خواہ کسی کی خود کشی ہو یا قربانی کا خون نجات نہیں دے سکتا اور گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں کرسکتا.یقیناً یا درکھو کہ گناہوں کا سیلاب اور نفسانی جذبات کا دریا بجز اس کے رک ہی نہیں سکتا کہ ایک چمکتا ہوا یقین اس کو حاصل ہو کہ خدا ہے اور اس کی تلوار ہے جو ہر ایک نافرمان پر بجلی کی طرح گرتی ہے.جب تک یہ پیدا نہ ہو گناہ سے بچ نہیں سکتا اگر کوئی کہے کہ ہم خدا پر ایمان لاتے ہیں اور اس بات پر بھی ایمان لاتے کہ وہ نافرمانوں کو سزا دیتا ہے مگر گناہ ہم سے دور نہیں ہوتے.میں جواب میں یہی کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے اور نفس کا مغالطہ ہے.بچے ایمان اور سچے یقین اور گناہ میں با ہم عداوت ہے.جہاں سچی معرفت اور چمکتا ہوا یقین خدا پر ہو وہاں ممکن نہیں کہ گناہ رہے“.پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ : ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 5-4 خدا شناسی کی طرف قدم جلد اٹھانا چاہئے.خدا تعالیٰ کا مزا اسے آتا ہے جو اسے شناخت کرے اور جو اس کی طرف صدق و وفا سے قدم نہیں اُٹھاتا اس کی دعا کھلے طور پر قبول نہیں ہوتی اور کوئی نہ کوئی حصہ
خطبات مسرور جلد 12 164 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014ء تاریکی کا اسے لگا ہی رہتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی طرف ذراسی حرکت کرو گے تو وہ اس سے زیادہ تمہاری طرف حرکت کرے گا.لیکن اول تمہاری طرف سے حرکت کا ہونا ضروری ہے.یہ خام خیالی ہے کہ بلا حرکت کئے اس سے کسی قسم کی توقع رکھی جاوے.یہ سنت اللہ اسی طریق سے جاری ہے کہ ابتدا میں انسان سے ایک فعل صادر ہوتا ہے پھر اس پر خدا تعالیٰ کا ایک فعل نتیجہ ظاہر ہوتا ہے.اگر ایک شخص اپنے مکان کے گل دروازے بند کر دے گا تو یہ بند کرنا اس کا فعل ہوگا.خدا تعالیٰ کا فعل اس پر یہ ظاہر ہو گا کہ اس مکان میں اندھیرا ہو جاوے گالیکن انسان کو اس کو چہ میں پڑ کر صبر سے کام لینا چاہئے.66 بعض لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے سب نیکیاں کیں، نماز بھی پڑھی، روزے بھی رکھے، صدقہ خیرات بھی دیا، مجاہدہ بھی کیا مگر ہمیں وصول کچھ نہیں ہوا.تو ایسے لوگ شقی از لی ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ انہوں نے سب اعمال خدا تعالیٰ کے لیے کئے ہوتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کے لیے کوئی فعل کیا جاوے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ضائع ہو اور خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی زندگی میں نہ دیوے.اسی وجہ سے اکثر لوگ شکوک و شبہات میں رہتے ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا کوئی پتہ نہیں لگتا کہ ہے بھی کہ نہیں.ایک پارچہ سلا ہوا ہو تو انسان جان لیتا ہے ( کپڑ اسلا ہوا ہو تو انسان جان لیتا ہے کہ اس کے سینے والا ضرور کوئی ہے.ایک گھڑی ہے وقت دیتی ہے.اگر جنگل میں بھی انسان کو مل جاوے تو وہ خیال کرے گا کہ اس کا بنانے والا ضرور ہے.پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے افعال کو دیکھو کہ اس نے کس کس قسم کی گھڑیاں بنارکھی ہیں اور کیسے کیسے عجائبات قدرت ہیں.ایک طرف تو اس کی ہستی کے عقلی دلائل ہیں.ایک طرف نشانات ہیں.وہ انسان کو منوا دیتے ہیں کہ ایک عظیم لشان قدرتوں والا خدا موجود ہے.وہ پہلے اپنے برگزیدہ پر اپنا ارادہ ظاہر فرماتا ہے اور یہی بھاری شے ہے جو انبیاء لاتے ہیں اور جس کا نام پیشگوئی ہے.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 230-220 مذہب کی جڑھ خدا شناسی اور معرفت نعمائے الہی ہے اور اس کی شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں اور اس کا پھل برکات روحانیہ اور نہایت لطیف محبت ہے جو رب اور اس کے بندہ میں پیدا ہو جاتی ہے.اور اس پھل سے متمتع ہونا روحانی تقدس و پاکیزگی کا مثمر ہے.....کمالیت محبت، کمالیت معرفت سے پیدا ہوتی ہے اور عشق الہی بقدر معرفت جوش مارتا ہے اور جب محبت ذاتیہ پیدا ہو جاتی
خطبات مسرور جلد 12 165 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014ء ہے تو وہی دن نئی پیدائش کا پہلا دن ہوتا ہے اور وہی ساعت نئے عالم کی پہلی ساعت ہوتی ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 281) ”خدا ایک موتی ہے اس کی معرفت کے بعد انسان دنیاوی اشیاء کو ایسی حقارت اور ذلت سے دیکھتا ہے کہ ان کے دیکھنے کے لئے بھی اسے طبیعت پر ایک جبر اور اکراہ کرنا پڑتا ہے.پس خدا تعالیٰ کی معرفت چاہو اور اس کی طرف ہی قدم اٹھاؤ کہ کامیابی اسی میں ہے“.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 145) فرماتے ہیں: ”میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دُور کر دے.پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشے محض سمجھے اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لیے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے.پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئے سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے.اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی.دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنادیتا ہے.پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ”میں یہ سب باتیں بار بار اس لیے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے“.پھر آپ مزید اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 278-277) اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خدا شناسی اور خدارسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اس نے مجھ کو معوث کیا
خطبات مسرور جلد 12 166 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 مارچ 2014ء ہے تائیں ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ سے غافل اور بیخبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلا دوں“.( جو سچائی اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں وہ آپ کو ماننے کے بعد خدا تعالیٰ کو بھی دیکھ لیں.) پھر فرمایا کہ: اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا: آنت مینی و انا منك ، یعنی تو مجھ سے ہے یا مجھے سے ظاہر کیا گیا ہے اور میں تجھ سے.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 7-8) پس یہ وہ مقصد ہے جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے کہ خدا تعالیٰ کی ایسی معرفت ہم میں پیدا فرمائیں گویا ہم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور اپنے ہر فعل کو خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے خوف کو سامنے رکھتے ہوئے بجالائیں.ایسی معرفت الہی ہم میں پیدا ہو جائے جو ہمارے تمام گناہوں کو جلا دے اور ہم آپ کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی اور اس روح کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.یہاں نمازوں کے بعد ایک جنازہ بھی ہوگا.حاضر جنازہ ہے.میں نیچے جا کر جنازہ ادا کروں گا.احباب یہیں مسجد میں رہیں گے.یہیں میرے پیچھے ادا کریں.مکرم عبدالسبحان منان دین صاحب کا جنازہ ہے جو عبدالمنان دین صاحب کے بیٹے تھے.72 سال کی عمر میں کل وفات پاگئے ہیں.اِنَّا لِلهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ.انگلستان میں آنے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھے.1945ء میں یہاں آئے تھے.جلسہ سالانہ میں تیس سال تک شعبہ امانت میں کافی خدمات دیتے رہے ہیں.پرانے لوگوں میں سے تھے.نصیر دین صاحب کے یہ چازاد ہیں.جیسا کہ میں نے کہا نماز جنازہ جمعہ کے بعد ادا ہوگی.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 4 اپریل 2014 ء تا 10 اپریل 2014 ءجلد 21 شمارہ 14 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 167 12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء بمطابق 21 امان 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چند تحریرات اور اقتباسات ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے اپنی صداقت اور نشانات و معجزات کا ذکر فرمایا ہے.لیکن اس سے پہلے میں گزشتہ خطبہ کے حوالے سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.گزشتہ خطبہ میں میں نے آپ علیہ السلام کے معرفت الہی کی اہمیت اور حصول کے طریق کے بارے میں کچھ اقتباسات پڑھے تھے اور ایک دو مشکل حوالوں کی مختصر وضاحت بھی کی تھی.لیکن بعد میں جب میں نے اس خطبہ کا ابتدائی انگریزی ترجمہ سنا اور پھر الفضل میں چھپنے کے لئے خطبہ تحریری شکل میں میرے سامنے آیا تو مجھے احساس ہوا کہ ایک اقتباس کی وضاحت صحیح طور پر نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے شاید مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے والوں کو دقت ہوئی ہو.اسی طرح تحریر میں لانے والے کو بھی دقت ہوئی.اس لئے آج میں پہلے اس اقتباس کی چند سطریں یا اس کا کچھ حصہ پڑھ کر آسان الفاظ میں اس کو مختصرا بیان کروں گا یا بیان کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو علم کلام ہے اس کو بڑی گہرائی میں جا کر غور کرنا پڑتا ہے ، سمجھنا پڑتا ہے.اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ احکام الہی پر عمل بغیر معرفت الہی کے نہیں ہو سکتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اگر چہ حصولِ
خطبات مسرور جلد 12 168 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء حقیقت اسلام کے وسائل اور بھی ہیں جیسے صوم وصلوٰۃ اور دعا اور تمام احکام الہی جو چھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں لیکن علم ، عظمت و وحدانیت ذات اور معرفت شیون وصفات جلالی و جمالی حضرت باری عز اسمۂ وسیلۃ الوسائل اور سب کا موقوف علیہ ہے کیونکہ جو شخص غافل دل اور معرفت الہی سے بکلی بے نصیب ہے وہ کب تو فیق پاسکتا ہے کہ صوم اور صلوٰۃ بجالا وے یا دعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو.ان سب اعمال صالح کا محرک تو معرفت ہی ہے اور یہ تمام دوسرے وسائل دراصل اسی کے پیدا کر دہ اور اس کے بنین و بنات ہیں.“ 66 ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 187-188) یہ اقتباس بڑا اہم ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ عام آدمی کے سمجھنے کے لئے بھی اس کی کچھ وضاحت کردوں.پہلی بنیادی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ اسلام کی حقیقت اسی کو پتہ چل سکتی ہے جب کوئی گہرائی میں جا کر اس کا علم اور معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے یا اس وقت پتہ لگ سکتی ہے جب یہ کوشش کی جائے کہ علم اور معرفت حاصل ہو.فرمایا کہ اسلام کی حقیقت کے حصول کے لئے بہت سے ذریعے ہیں اور اسلام کی حقیقت انہی پر واضح ہو سکتی ہے جو ان ذریعوں کو حاصل کریں.بے شمار ذریعے ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش ہوگی تبھی اسلام کی حقیقت واضح ہوگی.ان ذرائع میں نماز ہے ، روزہ ہے ، دعا ہے اور وہ تمام احکام الہبی ہیں جو قرآن کریم میں درج ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد چھ سو سے زیادہ ہے.لیکن یاد رکھو نہ نماز کی حقیقت معلوم ہوسکتی ہے، نہ روزے کی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے.یعنی حقیقی طور پر نہ نماز کی ادائیگی کا فرض ادا ہوسکتا ہے، نہ روزے کی ادائیگی کا فرض ادا ہو سکتا ہے ، نہ دعا کی حقیقت کا علم ہوسکتا ہے، نہ ہی قرآن کریم کے باقی احکامات کا صحیح فہم و ادراک ہو سکتا ہے.ان سب باتوں کی گہرائی ، اہمیت اور حقیقت کا علم تبھی ہوگا جب اللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم اور معرفت حاصل ہو.جب اللہ تعالیٰ کی ذات کی وحدانیت کی معرفت حاصل ہو.یہ یقین ہو کہ وہی ایک خدا ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں.اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی جو مختلف صفات ہیں جن میں صفات جلالی بھی ہیں اور صفات جمالی بھی ہیں ان کی نئی سے نئی شان کا فہم و ادراک اور معرفت نہ ہو تو اس وقت تک احکامات پر عمل نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ہوگا تو تبھی اس کے احکامات پر عمل بھی صحیح طرح ہو سکے گا.گو یا اگر نماز روزہ اور
خطبات مسرور جلد 12 169 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء باقی احکام کی روح کو سمجھنا ہے تو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں دوسری جگہ فرمایا ہے حال يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ - (الرحمن : 30) یعنی ہر گھڑی وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے.اس کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے.پس اسلام کی حقیقت اور عبادات اور احکام الہی کو سمجھنے کے لئے بنیادی چیز اللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم ہونا ہے کہ وہ کتنی عظیم ذات ہے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ذات کا علم ہونا، اللہ تعالیٰ کی صفات جلالی اور جمالی کے مختلف پہلوؤں اور شانوں کا علم ہونا ضروری ہے کہ ان صفات کی بھی مختلف شانیں ہیں.یا اس کا علم اور معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے.اگر پوری طرح ادراک نہیں بھی ہوتا تو انسان کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی عبادات کو بجالانے کے لئے اور احکامات پر عمل کرنے کے لئے یہ کوشش کرے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی معرفت حاصل کرے کیونکہ تمام احکام الہی پر عمل کا انحصار اسی معرفت الہی پر ہے.آپ نے فرمایا کہ جو غافل دل ہے اس کو علم ہی نہیں کہ معرفت الہی کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ذات وصفات کی شان اور عظمت کیا ہے؟ وہ کب نماز میں یا روزے کی ادائیگی میں اس کا حق ادا کرنے کی توفیق پاسکتا ہے یادعا اور صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دے سکتا ہے.آپ نے فرمایا کہ سب اعمال صالحہ کا محرک جس کی وجہ سے یہ تحریک پیدا ہو، جس کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہو کہ اعمال صالحہ بجا لانے ہیں ، وہ معرفت ہی ہے.جتنی زیادہ خدا تعالیٰ کی معرفت ہوگی اتنا زیادہ عبادات اور اعمال صالحہ کی روح کو سمجھتے ہوئے ان کو بجالانے کی طرف توجہ ہو گی.پس اگر ہم معرفت الہی کے حصول کی طرف توجہ کریں گے تو احکام الہی پر عمل کی طرف بھی توجہ رہے گی.بیشک شروع میں یہ معرفت اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کی خاص عطا کی وجہ سے نیک فطرت لوگوں کو عطا ہوتی ہے مگر پھر یہ معرفت ایمان کی خوبصورتی اور اعمال صالحہ کے بجالانے سے بڑھتی جاتی ہے اور انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اسے حقیقی اسلام کا پتہ چلتا ہے.صرف نام کا اسلام نہیں رہتا.اور اس کا سینہ و دل اللہ تعالیٰ کی معرفت سے روشن ہو جاتا ہے.پس یہ چیز ہے جسے ہمیں ایک حقیقی مسلمان ہونے کا دعوی کرنے والے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس وضاحت کے بعد اب میں اس مضمون کو بیان کرتا ہوں جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں جو مختلف الہی تائیدات اور نشانات حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات مسرور جلد 12 170 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014ء نے بیان فرمائے ہیں ان میں سے کچھ کا ذکر ہے.دو دن تک انشاء اللہ تعالیٰ 23 مارچ ہے اور یوم مسیح موعود بھی جماعتوں میں منایا جائے گا جس میں اس دن کے حوالے سے علماء اور مقررین تقریریں بھی کرتے ہیں اور اس حوالے سے باتیں بھی کرتے ہیں جس میں نشانات کا بھی ذکر ہوتا ہے، تائیدات کا بھی ذکر ہوتا ہے یا جو بھی متعلقہ مضامین ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے متعلق وہ بیان ہوتے ہیں.بہر حال یہ حسن اتفاق ہے کہ آج کا مضمون اس دن کے حوالے سے میں بیان کر رہا ہوں جو گودو دن پہلے بیان ہو رہا ہے.اس بارے میں یہ بھی بتادوں کہ اس سال قادیان سے تین دن کا ایک پروگرام نشر ہو گا جو عربی میں یوم مسیح موعود کے حوالے سے ہو رہا ہے اور یہ پروگرام ایم ٹی اے پر لائیو (Live) آئے گا.وہاں ہمارے عرب دوست گئے ہوئے ہیں جو وہاں سے اس دن کی اہمیت سے یا اس مضمون کی اہمیت کے بارے میں بیان کریں گے.قادیان کی بستی سے ہی انشاء اللہ تعالیٰ یہ لائیو پروگرام ہو رہا ہے اور امید ہے کہ انشاء اللہ اتوار کو میں بھی اس میں اپنا پیغام دوں گا.احباب اس سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کریں.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں.اپنی آمد اور صداقت کے بارے میں چاند اور سورج گرہن کا نشان پیش فرماتے ہوئے ، ان کے بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ إِنَّ لِمَهْدِيَّنَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ في النصف مِنْهُ - ترجمہ یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور جب سے که زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دونشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اس کی اوّل رات میں ہوگا یعنی تیرھویں تاریخ میں.اور سورج کا گرہن اس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا.یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو.اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا.صرف مہدی معہود کے وقت اس کا ہونا مقدر ہے.اب تمام انگریزی اور اردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ ۱۲ سال کا گزر چکا ہے اسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے.اور جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے.اول اس ملک میں دوسرے امریکہ میں.اور
خطبات مسرور جلد 12 171 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء دونوں مرتبہ اُنہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے.اور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دے کر صد با اشتہار اور رسالے اردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے، اس لئے یہ نشان آسمانی میرے لئے متعین ہوا.دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ بارہ ۱۲ برس پہلے اس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اس نشان کے بارے میں مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہولا کھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی“.(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 202) گواب بعض لوگ چاند گرہن کی دلیلیں پیش کرتے ہیں لیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے پہلے فرما دیا تھا کہ یہ نشان ظاہر ہوگا.پھر اس بارے میں مزید وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : یہ حدیث ایک غیبی امر پر مشتمل ہے جو تیرہ سو برس کے بعد ظہور میں آ گیا.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مہدی موعود ظاہر ہوگا اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن تیرھویں رات کو ہوگا اور اسی مہینہ میں سورج گرہن اٹھائیسویں دن ہوگا اور ایسا واقعہ کسی مدعی کے زمانہ میں بجز مہدی معہود کے زمانہ کے پیش نہیں آئے گا.اور ظاہر ہے کہ ایسی کھلی کھلی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُول (الجن : 27-28).یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا.پس جبکہ یہ پیشگوئی اپنے معنوں کے رُو سے کامل طور پر پوری ہو چکی تو اب یہ کچے بہانے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے یا امام محمد باقر کا قول ہے.بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہر گز نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو.یا کوئی قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو“.(اب یہ صداقت کا جو نشان ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے پورے ہونے کا نشان ہے.فرمایا کہ دنیا ختم ہونے تک پہنچ گئی مگر بقول ان کے اب تک آخری زمانہ کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اور اس حدیث سے بڑھ کر اور کونسی حدیث صحیح ہوگی جس کے سر پر محد ثین کی تنقید کا بھی احسان نہیں بلکہ اس نے اپنی صحت کو آپ ظاہر کر کے دکھلا دیا کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے.خدا کے نشانوں کو قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے ورنہ یہ عظیم الشان نشان ہے جو مجھ سے پہلے ہزاروں علماء اور محدثین اس کے وقوع کے امیدوار تھے اور منبروں پر چڑھ چڑھ
خطبات مسرور جلد 12 172 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء کر اور رو رو کر اس کو یاد دلایا کرتے تھے.چنانچہ سب سے آخری مولوی لکھو گے والے اسی زمانہ میں اسی گرہن کی نسبت اپنی کتاب احوال الاخرت میں ایک شعر لکھ گئے ہیں جس میں مہدی موعود کا وقت بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے ( پنجابی کا شعر ہے کہ ):.تیرھویں چند ستیہویں اے سورج گرہن ہوسی اس سالے اندر ماہ رمضانے لکھیا بک روایت والے اور پھر دوسرے بزرگ جن کا شعر صد ہا سال سے مشہور چلا آتا ہے یہ لکھتے ہیں:.در سن 1311 ناشی ہجری دو قران خواهد بود از پیئے مہدی و دجال نشاں خواہد بود یعنی ( 1311 ھ ) چودھویں صدی میں جب چاند اور سورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہو گا تب وہ مہدی معہود اور دجال کے ظہور کا ایک نشان ہوگا.اس شعر میں ٹھیک سن کسوف خسوف درج ہوا ہے“.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 204-205) پھر اللہ تعالیٰ کا آپ کے دعوئی سے بھی پہلے آپ سے جو سلوک رہا اس بارے میں ایک واقعہ اور اللہ تعالیٰ کے الہام کے ذریعہ تسلی کا ذکر فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.یہ بھی ایک نشان ہے کہ ”جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جا ئیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہیں کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکا رانگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے جوان کی حیات سے مشروط تھی.اس لئے یہ خیال گذرا کہ ان کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گزر گیا تب اسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا.آلیس الله بِكَافٍ عبده.یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.اس الہام الہی کے ساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے.درحقیقت یہ امر بار ہا آزمایا گیا ہے کہ وحی الہی میں دلی تسلی دینے کے لئے ایک ذاتی خاصیت ہے اور جڑھ اس خاصیت کی وہ یقین ہے جو وحی الہی پر ہو جاتا ہے.افسوس ان لوگوں کے کیسے الہام ہیں کہ باوجود دعوی الہام کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ اے اس جگہ حاشیہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحریرفرمایا ہے کہ : "شعر میں ستائیسویں کا لفظ سہو کا تب ہے یا خودمولوی صاحب سے باعث بشریت سہو ہو گیا ہے ورنہ جس حدیث کا یہ شعر ترجمہ ہے اس میں بجائے ستائیس کے اٹھائیسویں تاریخ ہے.منہ
خطبات مسرور جلد 12 173 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014ء ہمارے الہام مظنی امور ہیں نہ معلوم یہ شیطانی ہیں یا رحمانی ایسے الہاموں کا ضرر ان کے نفع سے زیادہ ہے.مگر میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اُسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر.اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اُسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں کیونکہ اس کے ساتھ الہی چمک اور نور دیکھتا ہوں اور اس کے ساتھ خدا کی قدرتوں کے نمونے پاتا ہوں.غرض جب مجھ کو الہام ہوا کہ آليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدہ تو میں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا.تب میں نے ایک ہند و کھتری ملا وامل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ اس کو سنایا اور اس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے اور میں نے اس ہندو کو اس کام کے لئے محض اس غرض سے اختیار کیا کہ تا وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جائے اور تا مولوی محمد شریف بھی گواہ ہو جاوے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ طیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جواب تک میرے پاس موجود ہے.یہ اس زمانہ میں الہام ہوا تھا جبکہ ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور میں ایک گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا.پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیشگوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے مالی مدد کی کہ جس کا شکر یہ بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں.مجھے اپنی حالت پر خیال کر کے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے مگر خدا تعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اٹھا تا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے اس نے ایسی میری دستگیری کی کہ میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آ چکا ہے اور شائد اس سے زیادہ ہو اور اس آمدنی کو اس سے خیال کر لینا چاہئے کہ سالہا سال سے صرف لنگر خانہ کا ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تک خرچ ہو جاتا ہے یعنی اوسط کے حساب سے اور دوسری شاخیں مصارف کی یعنی مدرسہ وغیرہ اور کتابوں کی چھپوائی اس سے الگ ہے.پس دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی یعنی آلیس الله بِكَافٍ عبده کس صفائی اور قوت اور شان سے پوری ہوئی.کیا یہ کسی مفتری کا کام ہے یا شیطانی وساوس ہیں؟ ہرگز نہیں.بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کے ہاتھ میں عزت اور ذلت اور ادبار اور اقبال ہے.اگر اس میرے بیان کا اعتبار نہ ہو تو بیس برس کی ڈاک کے سرکاری رجسٹروں کو دیکھوتا معلوم ہو کہ
خطبات مسرور جلد 12 174 کس قدر آمدنی کا دروازہ اس تمام مدت میں کھولا گیا.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 219 تا 221) اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جوانگر ہے اب ساری دنیا میں جاری ہے اور یہاں بھی یہ جاری ہے.خلافت کی وجہ سے یہاں مستقل بنیادوں پر قائم ہے.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں کی ایک اہم شاخ ہے.اس لئے یہاں لنگر کے جوذ مہ دار ہیں ، ضیافت کے جو ذمہ دار ہیں ان کا کام ہے کہ ہر آنے والے کی ضیافت کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دیا کریں.بیشک اسراف جائز نہیں.منصوبہ بندی صحیح ہونی چاہئے.لیکن کہیں کنجوسی کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ انگر آپ کا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لنگر ہے جو جاری ہے.اس لئے بعض دفعہ ضیافت کی جوٹیم ہے ان کے بارے میں یا جو عہد یدار ہیں ان کے بارے میں شکایات آجاتی ہیں، تو ان کو دنیا میں ہر جگہ اور خاص طور پر یہاں اس طرف توجہ دینی چاہئے.اسی طرح ربوہ میں بھی اور قادیان میں بھی.پھر جماعت کی ترقی کے متعلق اپنے ایک الہام کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ” براہین احمدیہ میں اس جماعت کی ترقی کی نسبت یہ پیشگوئی ہے گزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلى سُوقہ.یعنی پہلے ایک بیج ہوگا کہ جو اپنا سبزہ نکالے گا.پھر موٹا ہوگا.پھر اپنی ساقوں پر قائم ہو گا.یہ ایک بڑی پیشگوئی تھی جو اس جماعت کے پیدا ہونے سے پہلے اور اس کے نشو ونما کے بارہ میں آج سے پچیس برس پہلے کی گئی تھی.ایسے وقت میں کہ نہ اُس وقت جماعت تھی اور نہ کسی کو مجھ سے تعلق بیعت تھا بلکہ کوئی اُن میں سے میرے نام سے بھی واقف نہ تھا.پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے یہ جماعت پیدا کر دی جواب تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہے“.(جس زمانے میں یہ ذکر ہے اس وقت کی (تعداد) بیان فرمارہے ہیں کہ ”میں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح تھا جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے بویا گیا.پھر میں ایک مدت تک مخفی رہا.پھر میرا ظہور ہوا اور بہت سی شاخوں نے میرے ساتھ تعلق پکڑا.سو یہ پیشگوئی محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پوری ہوئی.“ 66 (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 241) اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت دنیا کے 204 ممالک میں قائم ہے اور کروڑوں کی تعداد میں اللہ کے فضل سے ہے.اور دنیا کے ہر کونے میں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے
خطبات مسرور جلد 12 175 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام بھی پہنچ رہا ہے.پھر آپ ایک جگہ ایک نشان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ : براہین احمدیہ میں ایک یہ بھی پیشگوئی ہے.يَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ وَلَوْ لَمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ.یعنی خدا تجھے آپ تمام آفات سے بچائے گا اگر چہ لوگ نہیں چاہیں گے کہ تو آفات سے بیچ جائے.یہ اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ میں ایک زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا اور کوئی مجھ سے نہ تعلق بیعت رکھتا تھا نہ عداوت“.( بچائے جانے کا سوال تب ہو سکتا ہے جب کوئی دشمنی ہو.کسی کو جانتا ہی کوئی نہیں تھا تو دشمنی کیسی.فرمایا کہ بعد اس کے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ میں نے کیا تو سب مولوی اور ان کے ہم جنس آگ کی طرح ہو گئے.ان دنوں میں میرے پر ایک پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک نام نے خون کا مقدمہ کیا.اس مقدمہ میں مجھے یہ تجربہ ہو گیا کہ پنجاب کے مولوی میرے خون کے پیاسے ہیں اور مجھے ایک عیسائی سے بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے اور گالیاں نکالتا ہے بد تر سمجھتے ہیں.کیونکہ بعض مولویوں نے اس مقدمہ میں میرے مخالف عدالت میں حاضر ہو کر اس پادری کے گواہ بن کر گواہیاں دیں اور بعض اس دعا میں لگے رہے کہ پادری لوگ فتح پاویں.میں نے معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ وہ مسجدوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا! اس پادری کی مدد کر ، اس کو فتح دے.مگر خدائے علیم نے ان کی ایک نہ سنی.نہ گواہی دینے والے اپنی گواہی میں کامیاب ہوئے اور نہ دعا کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوئیں.یہ علماء ہیں دین کے حامی اور یہ قوم ہے جس کے لئے لوگ قوم قوم پکارتے ہیں.ان لوگوں نے میرے پھانسی دلانے کے لئے اپنے تمام منصوبوں سے زور لگایا اور ایک دشمن خدا اور رسول کی مدد کی.اور اس جگہ طبعاً دلوں میں گذرتا ہے کہ جب یہ قوم کے تمام مولوی اور ان کے پیرو میرے جانی دشمن ہو گئے تھے تو پھر کس نے مجھے اس بھڑکتی ہوئی آگ سے بچایا.حالانکہ آٹھ ۸ نو ۹ گواہ میرے مجرم بنانے کے لئے گذر چکے تھے.اس کا جواب یہ ہے کہ اُسی نے بچایا جس نے پچیس ۲۵ برس پہلے یہ وعدہ دیا تھا کہ تیری قوم تو تجھے نہیں بچائے گی اور کوشش کرے گی کہ تو ہلاک ہو جائے مگر میں تجھے بچاؤں گا.جیسا کہ اس نے پہلے سے فرمایا تھا جو براہین احمدیہ میں آج سے پچیس برس پہلے درج ہے اور وہ یہ ہے فَبَراهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِيهًا.یعنی خدا نے اُس الزام سے اُس کو بری کیا جو اس پر لگا یا گیا تھا اور وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 242-243)
خطبات مسرور جلد 12 176 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014ء دیکھیں یہ الہام آج بھی کس شان سے پورا ہوا ہے کہ جب ڈاکٹر مارٹن کلارک کا پڑپوتا ہمارے سامنے کھل کر یہ اظہار کرتا ہے کہ میرا پڑ دا دا غلط تھا اور مرزا غلام احمد قادیانی سچے تھے.اور یہ ریکارڈ ہوا ہوا ہے.جلسہ میں کھل کے کہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر ایک اور نشان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنے رسالہ فتح رحمانی میں جو 1315 ھ کو میری مخالفت میں مطبع احمدی لدھیانہ میں چھاپ کر شائع کیا گیا مباہلہ کے رنگ میں میرے پر ایک بددعا کی تھی جیسا کہ کتاب مذکور کے صفحہ 27, 28 میں ان کی یہ بد دعا تھی:.اللهُمَّ يَا ذَا الْجَلالِ وَالْإِكْرَامِ يَا مَالِكَ الْمُلْكِ جیسا کہ تو نے ایک عالم ربانی حضرت محمد طاہر مؤلف مجمع بحار الانوار کی دعا اور سعی سے اس مہدی کا ذب اور جعلی مسیح کا بیڑا اغارت کیا (جو ان کے زمانہ میں پیدا ہوا تھا ویسا ہی دعا اور التجاء اس فقیر قصوری کان اللہ لہ سے ہے جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے ( یہ کوشش کرتا ہے ) ” کہ تو مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو تو بہ نصوح کی توفیق رفیق فرما.اور اگر یہ مقدر نہیں تو اُن کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا.فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير وَبِالْإِجَابَةِ جَدِيرٌ.آمین.یعنی جو لوگ ظالم ہیں وہ جڑ سے کاٹے جائیں گے اور خدا کے لئے حمد ہے.تو ہر چیز پر قادر ہے اور دعا قبول کرنے والا ہے.آمین.اور پھر صفحہ 26 کتاب مذکور کے حاشیہ میں مولوی مذکور نے میری نسبت لکھا ہے تَبالَهُ وَلاتُبَاعِه - یعنی وہ اور اس کے پیرو ہلاک ہو جائیں.پس خدا تعالیٰ کے فضل سے میں اب تک زندہ ہوں اور میرے پیرو اُس زمانہ سے قریبا پچاس حصہ زیادہ ہیں“ اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں ہزاروں حصے زیادہ ہو چکے ہیں.) اور ظاہر ہے کہ مولوی غلام دستگیر نے میرے صدق یا کذب کا فیصلہ آیت فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا (الانعام : 46) پر چھوڑا تھا جس کے اس محل پر یہ معنی ہیں کہ جو ظالم ہو گا اس کی جڑ کاٹ دی جائے گی.اور یہ امرکسی اہل علم پر مخفی نہیں کہ آیت ممدوحہ بالا کا مفہوم عام ہے جس کا اس شخص پر اثر ہوتا ہے جو ظالم ہے.پس ضرور تھا کہ ظالم اس کے اثر سے ہلاک کیا جاتا.لہذا چونکہ غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی نظر میں ظالم تھا اس لئے اس قدر بھی اس کو مہلت نہ ملی جوا اپنی اس کتاب کی اشاعت کو دیکھ لیتا.اس سے پہلے ہی مر گیا.اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اس دعاسے چند روز بعد ہی فوت ہو گیا.
خطبات مسرور جلد 12 177 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء بعض نادان مولوی لکھتے ہیں کہ غلام دستگیر نے مباہلہ نہیں کیا صرف ظالم پر بددعا کی تھی.مگر میں کہتا ہوں کہ جبکہ اس نے میرے مرنے کے ساتھ خدا سے فیصلہ چاہا تھا اور مجھے ظالم قرار دیا تھا تو پھر وہ بددعا اُس پر کیوں پڑگئی اور خدا نے ایسے نازک وقت میں جبکہ لوگ خدائی فیصلہ کے منتظر تھے غلام دستگیر کو ہی کیوں ہلاک کر دیا.اور جبکہ وہ اپنی دعا میں میرا ہلاک ہونا چاہتا تھا تا دنیا پر یہ بات ثابت کر دے کہ جیسا کہ محمد طاہر کی بددعا سے جھوٹا مہدی اور جھوٹا مسیح ہلاک ہو گیا تھا میری بددعا سے یہ شخص ہلاک ہو گیا تو اس دعا کا الٹا اثر کیوں ہوا.یہ تو سچ ہے کہ محمد طاہر کی بددعا سے جھوٹا مہدی اور جھوٹا مسیح ہلاک ہو گیا تھا اور اسی محمد طاہر کی ریس سے ( اس کی ریس میں جو اس نے کہا تھا ) غلام دستگیر نے میرے پر بددعا کی تھی تو اب یہ سوچنا چاہئے کہ محمد طاہر کی بددعا کا کیا اثر ہوا اور غلام دستگیر کی دعا کا کیا اثر ہوا.اور اگر کہو کہ غلام دستگیر اتفاقا مر گیا تو پھر یہ بھی کہو کہ وہ جھوٹا مہدی بھی اتفاقا مر گیا تھا محمد طاہر کی کوئی کرامت نہ تھی.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِين - اس وقت قریباً گیارہ سال غلام دستگیر کے مرنے پر گذر گئے ہیں.جو ظالم تھا خدا نے اس کو ہلاک کیا اور اس کا گھر ویران کر دیا.اب انصافا کہو کہ کس کی جڑھ کاٹی گئی اور کس پر یہ دعا پڑی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوء (التوبة : 98).یعنی اے نبی ! تیرے پر یہ بد نہاد دشمن طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں.انہیں پر گردشیں پڑیں گی.پس اس آیت کریمہ کی رو سے یہ سنت اللہ ہے کہ جو شخص صادق پر کوئی بددعا کرتا ہے وہی بددعا اس پر پڑتی ہے.یہ سنت اللہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے ظاہر ہے.پس اب بتلاؤ کہ غلام دستگیر اس بد دعا کے بعد مر گیا ہے یا نہیں.لہذا بتلاؤ کہ اس میں کیا بھید ہے کہ محمد طاہر کی بد دعا سے تو ایک جھوٹا مسیح مر گیا اور میرے پر بد دعا کرنے والا خود مر گیا.خدا نے میری عمر تو بڑھا دی کہ گیارہ سال سے میں اب تک زندہ ہوں اور غلام دستگیر کو ایک مہینہ کی بھی مہلت نہ دی.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 343-345) پھر فصاحت و بلاغت کے نشان کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ تجھے عربی زبان میں فصاحت و بلاغت عطا کی جائے گی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا.چنانچہ اب تک کوئی مقابلہ نہ کر سکا.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 235)
خطبات مسرور جلد 12 178 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا.كَلَامُ أَفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبِّ کریم.اور جو میں نے اب تک عربی میں کتابیں بنائی ہیں جن میں سے بعض نثر میں ہیں اور بعض نظم میں.جس کی نظیر علماء مخالف پیش نہیں کر سکے ان کی تفصیل یہ ہے :.رسالہ ملحقہ انجام آتھم صفحہ 73 سے صفحہ 282 تک (عربی میں ہے ).التبلیغ ملحقہ آئینہ کمالات اسلام.کرامات الصادقین.حمامة البشری.سیرت الا بدال - نور الحق حصہ اول.نور الحق حصہ دوم تحفہ بغداد.اعجاز اسیح - اتمام الحجۃ.حجتہ اللہ.سر الخلافہ.مواهب الرحمن.اعجاز احمدی.خطبہ الہامیہ.الہدی.علامات المقر بین ملحقہ تذکرۃ الشہادتین.اور وہ کتا ہیں جو عربی میں تالیف ہو چکی ہیں مگر ابھی شائع نہیں ہوئیں یہ ہیں.ترغیب المؤمنین.لحجۃ النور.نجم الہدی.“ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 235 - حاشیہ) یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب آپ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے اور پھر اس کے بعد یہ کتا بیں بھی لکھیں.اور ان کتابوں کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف تو آج بھی ، اس زمانے میں بھی عرب بھی کرتے ہیں جیسا کہ میں گزشتہ چند خطبہ پہلے بعض حوالوں سے اس کا ذکر بھی کر چکا ہوں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ایک دفعہ ایک ہندو صاحب قادیان میں میرے پاس آئے جن کا نام یاد نہیں رہا.اور کہا کہ میں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتا ہوں آپ بھی اپنے مذہب کی خوبیوں کے متعلق کچھ مضمون لکھیں تا اس جلسہ میں پڑھا جائے.میں نے عذر کیا پر اس نے بہت اصرار سے کہا کہ آپ ضرور لکھیں.چونکہ میں جانتا ہوں کہ میں اپنی ذاتی طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتا بلکہ مجھ میں کوئی طاقت نہیں.میں بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اس کے دکھانے کے کچھ دیکھ نہیں سکتا اس لئے میں نے جناب الہی میں دعا کی کہ وہ مجھے ایسے مضمون کا القا کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے.میں نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت میرے اندر پھونک دی گئی ہے.میں نے اس آسمانی قوت کی ایک حرکت اپنے اندر محسوس کی اور میرے دوست جو اس وقت حاضر تھے جانتے ہیں کہ میں نے اس مضمون کا کوئی مسودہ نہیں لکھا.جو کچھ لکھا صرف قلم برداشتہ لکھا تھا اور ایسی تیزی اور جلدی سے میں لکھتا جاتا تھا کہ نقل کرنے والے کے لئے مشکل ہو گیا کہ اس قدر جلدی اس کی نقل لکھے.جب میں مضمون ختم کر چکا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا.خلاصہ کلام یہ کہ جب وہ مضمون اس مجمع میں پڑھا گیا تو اس کے پڑھنے کے وقت سامعین
خطبات مسرور جلد 12 179 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء کے لئے ایک عالم وجد تھا.اور ہر ایک طرف سے تحسین کی آواز تھی.یہاں تک کہ ایک ہند وصاحب جوصدر نشین اس مجمع کے تھے ان کے منہ سے بھی بے اختیار نکل گیا کہ یہ مضمون تمام مضامین سے بالا رہا.اورسول اینڈ ملٹری گزٹ جولا ہور سے انگریزی میں ایک اخبار نکلتا ہے اس نے بھی شہادت کے طور پر شائع کیا کہ یہ مضمون بالا رہا.اور شائد ہیں ۲۰ کے قریب ایسے اردو اخبار بھی ہوں گے جنہوں نے یہی شہادت دی اور اس مجمع میں بجر بعض متعصب لوگوں کے تمام زبانوں پر یہی تھا کہ یہی مضمون فتحیاب ہوا اور آج تک صد ہا آدمی ایسے موجود ہیں جو یہی گواہی دے رہے ہیں.غرض ہر ایک فرقہ کی شہادت اور نیز انگریزی اخباروں کی شہادت سے میری پیشگوئی پوری ہو گئی کہ مضمون بالا رہا.یہ مقابلہ اس مقابلہ کی مانند تھا جو موسیٰ نبی کو ساحروں کے ساتھ کرنا پڑا تھا.کیونکہ اس مجمع میں مختلف خیالات کے آدمیوں نے اپنے اپنے مذہب کے متعلق تقریریں سنائی تھیں جن میں سے بعض عیسائی تھے اور بعض سناتن دھرم کے ہندو اور بعض آریہ سماج کے ہندو اور بعض برہمو اور بعض سکھ اور بعض ہمارے مخالف مسلمان تھے اور سب نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سانپ بنائے تھے لیکن جبکہ خدا نے میرے ہاتھ سے اسلامی راستی کا عصا ایک پاک اور پُرمعارف تقریر کے پیرایہ میں ان کے مقابل پر چھوڑا تو وہ اثر رہا بن کر سب کو نگل گیا اور آج تک قوم میں میری اس تقریر کا تعریف کے ساتھ چر چاہے جو میرے منہ سے نکلی تھی.فالحمد للہ علی ذالک.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 291-292) اور صرف اس زمانے میں نہیں بلکہ آج بھی پڑھنے والے یہ اعتراف کرتے ہیں.اس لئے میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اس کتاب کی بھی تشہیر ہونی چاہئے اور لٹریچر میں دینی چاہئے.کئی غیر مجھے خط لکھتے ہیں کہ یہ کتاب پڑھنے سے اسلام کی خوبصورتی کا ہمیں پتہ لگا.کئی نئے بیعت کرنے والوں سے جب میں پوچھتا ہوں، کس چیز نے متاثر کیا تو کئی لوگوں کے یہ جواب ہوتے ہیں کہ اسلامی اصول کی فلاسفی جو ہے اس کتاب نے ہمیں متاثر کیا اور ہمیں اسلام کی طرف رغبت اور توجہ پیدا ہوئی اور جماعت کی طرف توجہ پیدا ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ان پیشگوئیوں کو کہ میں تجھے نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلوں، اس زمانہ میں ظاہر کر دیا.چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ باوجود تمہاری سخت مخالفت اور مخالفانہ دعاؤں کے اُس نے مجھے نہیں چھوڑا.اور ہر میدان میں وہ میرا حامی رہا.ہر ایک پتھر جو میرے پر چلایا گیا اُس نے اپنے ہاتھوں پر
خطبات مسرور جلد 12 180 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014ء لیا.ہر ایک تیر جو مجھے مارا گیا اُس نے وہی تیر دشمنوں کی طرف لوٹا دیا.میں بے کس تھا اس نے مجھے پناہ دی.میں اکیلا تھا اُس نے مجھے اپنے دامن میں لے لیا.میں کچھ بھی چیز نہ تھا مجھے اس نے عزت کے ساتھ شہرت دی اور لاکھوں انسانوں کو میرا ارادت مند کر دیا.پھر وہ اُس مقدس وحی میں فرماتا ہے کہ جب میری مدد تمہیں پہنچے گی اور میرے منہ کی باتیں پوری ہو جائیں گی یعنی خلق اللہ کا رجوع ہو جائے گا اور مالی نصرتیں ظہور میں آئیں گی تب منکروں کو کہا جائے گا کہ دیکھو کیا وہ باتیں پوری نہیں ہو گئیں جن کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے.چنانچہ آج وہ سب باتیں پوری ہو گئیں.اس بات کے بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ خدا نے اپنے عہد کو یاد کر کے لاکھوں انسانوں کو میری طرف رجوع دے دیا اور وہ مالی نصرتیں کیں جو کسی کے خواب و خیال میں نہ تھیں.پس اے مخالفو! خدا تم پر رحم کرے اور تمہاری آنکھیں کھولے.ذراسوچو کہ کیا یہ انسانی مکر ہو سکتے ہیں.یہ وعدے تو براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانے میں کئے گئے تھے جبکہ قوم کے سامنے ان کا ذکر کرنا بھی ہنسی کے لائق تھا اور میری حیثیت کا اس قدر بھی وزن نہ تھا جیسا کہ رائی کے دانہ کا وزن ہوتا ہے.تم میں سے کون ہے کہ جو مجھے اس بیان میں ملزم کر سکتا ہے.تم میں سے کون ہے کہ یہ ثابت کر سکتا ہے کہ اس وقت بھی ان ہزار ہا لوگوں میں سے کوئی میری طرف رجوع رکھتا تھا.میں تو براہین احمدیہ کے چھپنے کے وقت ایسا گمنام شخص تھا کہ امرتسر میں ایک پادری کے مطبع میں جس کا نام رجب علی تھا میری کتاب براہین احمدیہ چھپتی تھی اور میں اُس کے پروف دیکھنے کے لئے اور کتاب کے چھپوانے کیلئے اکیلا امرتسر جا تا اور اکیلا واپس آتا تھا اور کوئی مجھے آتے جاتے نہ پوچھتا کہ تو کون ہے اور نہ مجھ سے کسی کو تعارف تھا اور نہ میں کوئی حیثیت قابل تعظیم رکھتا تھا.میری اس حالت کے قادیان کے آریہ بھی گواہ ہیں جن میں سے ایک شخص شرمیت نام اب تک قادیان میں موجود ہے جو بعض دفعہ میرے ساتھ امرتسر میں پادری رجب علی کے پاس مطبع میں گیا تھا جس کے مطبع میں میری کتاب براہین احمد یہ چھپتی تھی اور تمام یہ پیشگوئیاں اس کا کا تب لکھتا تھا.اور وہ پادری خود حیرانی سے پیشنگوئیوں کو پڑھ کر باتیں کرتا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ایسے معمولی انسان کی طرف ایک دنیا کا رجوع ہو جائیگا پر چونکہ وہ باتیں خدا کی طرف سے تھیں میری نہیں تھیں اس لئے وہ اپنے وقت میں پوری ہوگئیں اور پوری ہورہی رہیں.ایک وقت میں انسانی آنکھ نے اُن سے تعجب کیا.اور دوسرے وقت میں دیکھ بھی لیا“.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 79-80) اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو بڑی شان سے پوری ہورہی ہیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی
خطبات مسرور جلد 12 181 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء کہا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں ہر جگہ یہ پیغام پہنچ رہا ہے.اسی طرح پہلے تو امرتسر پریس میں جاتے تھے.آج قادیان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام تر جدید سہولیات کے ساتھ پریس جاری ہے اور وہاں کتا بیں چھپ رہی ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا.اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمد أخدا تعالیٰ کے نشانوں کو رد کرتا ہے اور مجھ کو باو جود صد ہا نشانوں کے مفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مومن کیونکر ہوسکتا ہے.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 168) بہر حال یہ چند نشانات میں نے ان میں سے پیش کئے ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے یہ لاکھوں میں ہیں.یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے نشان ہیں اور صرف یہ نشان اس وقت میں بند نہیں ہو گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے.اور ہزاروں لوگ یہ نشانات دیکھ کر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہورہے ہیں.بیعتیں کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی بیعت میں آتے ہیں.ہاں بعض جگہوں پر احمدیوں کو تکالیف کا ضرور سامنا ہے، مشکلات کا سامنا ہے.وقت آئے گا کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی دُور ہو جائیں گی اور ہمارے ایمان وایقان اور معرفت میں یقینا ان کو دیکھتے ہوئے اضافہ ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: برائے خدا ناظرین اس مقام میں کچھ غور کریں تا خدا ان کو جزائے خیر دے ورنہ خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کر چکا.اور اُسی کی ذات کی مجھے قسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گا جب تک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کر دے.پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو.اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتا اور اس تمام کاروبار کا نام ونشان نہ رہتا.مگر تم نے دیکھا کہ کیسی خدا تعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہورہی ہے اور اس قدر نشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں.دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کر کے ہلاک ہو گئے.اے بندگان خدا! کچھ تو سوچو، کیا خدا تعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے؟“ ( تتمہ حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 554)
خطبات مسرور جلد 12 182 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014 ء جیسا کہ میں نے بتایا کہ آج 125 سال ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جا رہا ہے.پس کیا یہ لوگ عقل استعمال نہیں کریں گے؟ مخالفین اپنی مخالفتوں سے باز نہیں آئیں گے؟ اللہ تعالیٰ سے دعا ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ زمانے کے امام اور مسیح موعود کو پہچاننے والے ہوں.ورنہ جب اللہ تعالی کی پکڑ آتی ہے تو پھر یہ تمام مخالفین جو ہیں، چاہے جتنی طاقت رکھنے والے ہوں، خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتے ہیں.ایک سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح بھسم ہو جاتے ہیں.اللہ کرے کہ ان کو عقل آئے اور یہ پہچاننے والے بنیں.اس کے علاوہ میں پھر آج دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں.شام کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کی خاص ضرورت ہے.پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی خاص ضرورت ہے.اسی طرح بعض تکلیفیں اور مشکلات مصر کے احمدیوں کو بھی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کی مشکلات دور فرمائے اور اس بارے میں بھی ہم خاص نشان دیکھنے والے ہوں تا کہ یہ آزادی سے اپنے مذہب کا اظہار بھی کر سکیں.اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے بھی ہوں.جہاں ہم پر یہ پابندیاں ہیں کہ ہم عبادتیں نہیں کر سکتے ، نمازیں ادا نہیں کر سکتے ، وہاں ہر جگہ یہ پابندیاں بھی اللہ تعالیٰ دُور فرمائے.آج میں نمازوں کے بعد ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ محترمہ لطیفہ الیاس صاحبہ.بالٹی مور.یوایس اے (USA) کا ہے جو 19 مارچ کو بقضائے الہی وفات پاگئیں.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ محتر مہ لطیفہ الیاس صاحبہ افریقن امریکن خاتون تھیں جنہیں اسلام احمدیت قبول کئے تقریباً پچاس سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا.وفات کے وقت ان کی عمر 76 سال تھی.نہایت سادہ مخلص اور متقی احمدی تھیں.خلافت سے بھی انہیں بے پناہ عشق تھا.مسجد کی جیسے وہ جان تھیں.ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا جمال الیاس ہے جو خلص احمدی ہے.ان کے صدر جماعت لکھتے ہیں کہ محدود وسائل ہونے کے باوجود سسٹر لطیفہ اپنے گھر سے صفائی کا سامان لاتیں اور گھنٹوں مسجد کی صفائی میں مصروف رہتیں اور اکثر ایسے اوقات میں صفائی کرتیں جب انہیں خیال ہوتا کہ مسجد میں ان کو کوئی دیکھ نہ لے تاکہ کسی قسم کی ریا کاری نہ ہو.مسجد صاف کرتے وقت بھی ، ویسے بھی ہر وقت تسبیح وتحمید کرتی رہتی تھیں.رمضان المبارک میں بھی افطار سے دو گھنٹے پہلے مسجد آ جاتیں.کچن کی صفائی کرتیں اور کبھی انہوں نے شکایت نہیں کی کہ لوگ کیوں گند ڈال جاتے ہیں.ہمیشہ یہ کہا کرتی تھیں کہ خدمت دین کو اک فضل الہی جانو.عملاً اس کی تصویر
خطبات مسرور جلد 12 183 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 مارچ 2014ء تھیں.ستر سال کی عمر میں بھی عموماً پیدل چل کر مسجد آتی رہیں.اگر کوئی احمدی سڑک سے گزرتے ہوئے احترام کی وجہ سے گاڑی میں چھوڑنے کی پیشکش کرتا تو کہتیں کہ نہیں، مسجد کی طرف اٹھنے والا ہر قدم حدیث کے مطابق ثواب کا باعث ہے اس لئے مجھے پیدل جانے دو.ڈیوٹیاں دیا کرتی تھیں.سکیورٹی کی ڈیوٹیاں بھی دیا کرتی تھیں.بہت سالوں تک مقامی لجنہ میں سیکرٹری مال اور سیکرٹری خدمت خلق کے فرائض احسن رنگ میں انجام دیتی رہیں.کبھی کسی سے ذاتی عناد نہیں رکھا.بچوں سے انتہائی شفقت سے پیش آتیں.خطبہ سننے کی طرف ان کا خاص رجحان تھا.ایم ٹی اے پر خطبہ سنتیں اور اس کی تحریک کیا کرتی تھیں اور جمعہ پر جانا تو خیر ان کو فرض تھا ہی.بیٹا جمال الیاس جمعہ کی نماز پر کچھ ہفتے نہ آ سکا تو اس سے پوچھا کہ کیوں نہیں گئے.اس نے بتایا کہ نئی جاب کی وجہ سے فی الحال چھٹی نہیں مل رہی تو اس کو خاص طور پر تنبیہ کی کہ جمعہ چھوڑنا نہیں چاہئے.لیکن بہر حال اس کا بیٹے پر بھی یہ اثر تھا کہ وہ کہتا ہے کہ یہاں سے ایم ٹی اے پر جو میرا خطبہ آتا تھاوہ با قاعدہ ڈرائیونگ کے دوران بھی سن لیتا تھا.تو ان کے بیٹے کی بھی ایسی تربیت تھی.ایک لکھنے والے لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا بھی خوبصورت نشان تھیں اور خلافت پر فدا ہونے والی تھیں.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان لوگوں کو بھی توجہ کرنی چاہئے جو لوگ ایم ٹی اے پر خطبے کو اہمیت نہیں دیتے اور سنتے نہیں.اگر یہ سب ایم ٹی اے سے منسلک ہو جائیں اور جماعت کا ہر فرد اس پر توجہ دینی شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا تربیتی معیار بہت بلند ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی بھی سب کو توفیق دے.مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بیٹے کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 11 اپریل 2014 ء تا 17 اپریل 2014 ءجلد 21 شماره 15 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 12 184 13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء بمطابق 28 امان 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات کے بارے میں اقتباسات اور کچھ واقعات جو آپ نے خود بیان فرمائے ہیں یا بعض ایسے بھی جو لوگوں نے بیان کئے وہ اس وقت پیش کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”میری تائید میں اس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ آج کی تاریخ سے جو 16 جولائی 1906 ء ہے اگر میں ان کو فرڈ افرڈ اشمار کروں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو میں اس کو ثبوت دے سکتا ہوں.بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے ہر ایک محل پر اپنے وعدہ کے موافق مجھ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں ہر حمل میں اپنے وعدہ کے موافق میری ضرورتیں اور حاجتیں اس نے پوری کیں اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں اس نے بموجب اپنے وعدہ إِنِّي مُهِينٌ مِّنْ أَرَادَ اهانتك کے میرے پر حملہ کرنے والوں کو ذلیل اور رسوا کیا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو مجھ پر مقدمہ دائر کر نے والوں پر اس نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق مجھ کو فتح دی.یہ جو إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَ اِهَا نَتَكَ، ہے آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف جگہوں سے افریقہ سے بھی اور دوسری جگہوں سے بھی رپورٹیں آتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ذلیل کرتا ہے اور اگر کہیں جھوٹ ہے، اور وہ لوگ اگر پکڑ میں نہیں آرہے تو ان کو اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ اُملِي لَهُمْ اِنَّ
خطبات مسرور جلد 12 185 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء كَيْدِى متين (الاعراف : 184) ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے.پکڑ انشاء اللہ ان کی بھی ہوگی پر وہ باز نہیں آتے.آپ فرماتے ہیں: وو...اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری مدت بعث سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے یہ مدت دراز کسی کا ذب کو نصیب نہیں ہوئی اور بعض نشان زمانہ کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ زمانہ کسی امام کے پیدا ہونے کی ضرورت تسلیم کرتا ہے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں دوستوں کے حق میں میری دعائیں منظور ہوئیں اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو شریر دشمنوں پر میری بددعا کا اثر ہوا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری دعا سے بعض خطر ناک بیماروں نے شفا پائی اور انکی شفا سے پہلے مجھے خبر دی گئی اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میرے لئے اور میری تصدیق کیلئے...بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوا ہیں آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا جیسے سجادہ نشین صاحب العلم سندھ جن کے مرید ایک لاکھ کے قریب تھے اور جیسے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب میں انکو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور بعض نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور یہ خدا کا آخری خلیفہ اور مسیح موعود ہے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو بعض اکابر نے میری پیدائش یا بلوغ سے پہلے میرا نام لیکر میرے مسیح موعود ہونے کی خبر دی جیسے نعمت اللہ ولی اور میاں گلاب شاہ ساکن جمالپور ضلع لدھیانہ“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 70-71) پھر ایک جگہ آپ بیان فرماتے ہیں، لیکن اس سے پہلے یہ بتادوں کہ یہ واقعہ صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی جو احمدی تھے کے بڑے بھائی جو سجادہ نشین تھے، پیر تھے انہوں نے اپنے بھائی پیر ( سراج الحق ) صاحب کو خط لکھا کہ میں تو کشف قبور کروا سکتا ہوں کیا مرزا صاحب بھی کروا سکتے ہیں؟ کشف قبور یہ ہے کہ مردے کے حالات معلوم کر کے دے سکتا ہوں یا اس سے ملاقات کروا سکتا ہوں، تو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : وو...کشف قبور کا معاملہ تو بالکل بیہودہ امر ہے.جو شخص زندہ خدا سے کلام کرتا ہے اور اس کی تازہ بتازہ وحی اس پر آتی ہے اور اس کے ہزاروں نہیں لاکھوں ثبوت بھی موجود ہیں اس کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ مردوں سے کلام کرے اور مُردوں کی تلاش کرے.اور اس امر کا ثبوت ہی کیا ہے کہ فلاں مُردے
خطبات مسرور جلد 12 186 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014ء سے کلام کیا ہے؟ یہاں تو لاکھوں ثبوت موجود ہیں.ایک ایک کارڈ اور ایک ایک آدمی اور ایک ایک روپیہ جو آب آتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ایک زبر دست نشان ہے کیونکہ ایک عرصہ دراز پیشتر خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ يَأْتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجَ عَمِيقٍ وَيَأْتِيكَ مِن كُلِّ فج عميق اورایسے وقت فرمایا تھا کہ کوئی شخص بھی مجھے نہ جانتا تھا.اب یہ پیشگوئی کیسے زور شور سے پوری ہو رہی ہے.کیا اس کی کوئی نظیر بھی ہے؟ غرض ہمیں ضرورت کیا پڑی ہے کہ ہم زندہ خدا کو چھوڑ کر مردوں کو تلاش کریں.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 323 324) پھر آپ فرماتے ہیں...دیکھو میں سچ کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی آیات کی بے ادبی مت کرو اور انہیں حقیر نہ سمجھو کہ یہ محرومی کے نشان ہیں اور خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا.ابھی کل کی بات ہے کہ لیکھرام خدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشان کے موافق مارا گیا.کروڑوں آدمی اس پیشگوئی کے گواہ ہیں.خود لیکھرام نے اسے شہرت دی.وہ جہاں جاتا اسے بیان کرتا.یہ نشان اسلام کی سچائی کے لئے اس نے خود مانگا تھا اور اس کو سچے اور جھوٹے مذہب کے لیے بطور معیار قائم کیا تھا.آخر وہ خود اسلام کی سچائی اور میری سچائی پر اپنے خون سے شہادت دینے والا ٹھہرا.اس نشان کو جھٹلانا اور اس کی پروانہ کرنا یہ کس قدر بے انصافی اور ظلم ہے پھر ایسے کھلے کھلے نشان کا انکار کرنا تو خو دیکھر ام بنا ہے اور کیا ؟ مجھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ جس حال میں خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا ہے کہ اس نے ہر قوم کے متعلق نشانات دکھائے.جلالی اور جمالی ہر قسم کے نشان دیئے گئے پھر ان کو رڈی کی طرح پھینک دینا یہ تو بڑی ہی بد بختی اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا مور دینا ہے.جو آیات اللہ کی پروا نہیں کرتا وہ یادر کھے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا.خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نشان ظاہر ہوتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک عقی عقلمند خدا ترس ان کو شناخت کر لیتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن جو فراست نہیں رکھتا اور خدا کے خوف کو مدنظر رکھ کر اس پر غور نہیں کرتا وہ محروم رہ جاتا ہے کیونکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ دنیا دنیا ہی نہ رہے اور ایمان کی وہ کیفیت جو ایمان کے اندر موجود ہے نہ رہے.ایسا خدا تعالیٰ کبھی نہیں کرتا.اگر ایسا ہوتا تو یہودیوں کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ حضرت مسیح کا انکار کرتے.موسیٰ علیہ السلام کا انکار کیوں ہوتا اور پھر سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر تکالیف کیوں برداشت کرنی پڑتیں.خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہی نہیں کہ وہ ایسے نشان ظاہر کرے جو ایمان بالغیب ہی اٹھ جاوے.ایک جاہل وحشی سنت اللہ سے ناواقف تو اس چیز کو معجزہ اور نشان کہتا ہے جو ایمان بالغیب کی مد سے نکل جاوے مگر خدا تعالیٰ ایسا کبھی نہیں کرتا.ہماری
خطبات مسرور جلد 12 187 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء جماعت کے لیے اللہ تعالیٰ نے کمی نہیں کی.کوئی شخص کسی کے سامنے کبھی شرمندہ نہیں ہوسکتا.جس قدر لوگ اس سلسلہ میں داخل ہیں ان میں سے ایک بھی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا.“ (یعنی اُس زمانے میں بھی اور اب بھی جو بھی بیعت کر کے شامل ہوتے ہیں نشان دیکھ کے ہوتے ہیں اور جو پیدائشی احمدی ہیں ان کو بھی ان اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ کو پڑھتے رہنا چاہئے ، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو پڑھتے رہنا چاہئے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی طرف متوجہ رکھنا چاہئے.) فرمایا کہ: ”براہین احمدیہ کو پڑھو اور اس پر غور کرو اس زمانہ کی ساری خبریں اس میں موجود ہیں.دوستوں کے متعلق بھی ہیں اور دشمنوں کے متعلق بھی.اب کیا یہ انسانی طاقت کے اندر ہے کہ تیس برس پہلے جب ایک سلسلہ کا نام ونشان بھی نہیں اور خود اپنی زندگی کا بھی پتہ نہیں ہوسکتا کہ میں اس قدر عرصہ تک رہوں گا یا نہیں ، ایسی عظیم الشان خبریں دے اور پھر وہ پوری ہو جائیں نہ ایک نہ دو بلکہ ساری کی ساری براہین احمدیہ، احمد یہ لوگوں کے گھروں میں بھی ہے عیسائیوں اور آریوں اور گورنمنٹ تک کے پاس موجود ہے اور اگر خدا کا خوف اور سچ کی تلاش ہے تو میں کہتا ہوں کہ براہین کے نشانات پر ہی فیصلہ کر لو.دیکھواس وقت جب کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور کوئی یہاں آتا بھی نہیں تھا، ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ تھا اس جماعت کی جو یہاں موجود ہے خبر دی.اگر یہ پیشگوئی خیالی اور فرضی تھی تو پھر آج یہاں اتنی بڑی جماعت کیوں ہے؟ اور جس شخص کو قادیان سے باہر ایک بھی نہیں جانتا تھا اور جس کے متعلق براہین میں کہا گیا تھا فَحان أَن تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَيْنَ النَّائیں.( یعنی سو وقت آگیا ہے جو تیری مدد کی جائے اور تجھے لوگوں میں معروف د مشہور کیا جائے ) فرمایا...آج کیا وجہ ہے کہ وہ ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ عرب، شام، مصر سے نکل کر یورپ اور امریکہ تک دنیا اس کو شناخت کرتی ہے ( بلکہ افریقہ میں بھی اور یہ جو پچھلے دنوں میں قادیان سے عرب دنیا کے لئے تین دن پروگرام ہوتا رہا ہے اس نے تو دنیا میں، عرب دنیا میں تہلکہ مچا دیا.فرمایا : اگر یہ خدا کا کلام نہیں تھا اور خدا کے منشاء کے خلاف ایک مفتری کا منصوبہ تھا تو خدا نے اس کی مدد کیوں کی؟ کیوں اس کے لیے ایسے سامان اور اسباب پیدا کر دیئے؟ کیا یہ سب میں نے خود بنالیے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ اسی طرح پر کسی مفتری کی تائید کیا کرتا ہے تو پھر راستبازوں کی سچائی کا معیار کیا ہے؟ تم خود ہی اس کا جواب دو.سورج اور چاند کو رمضان میں گرہن لگنا کیا یہ میری اپنی طاقت میں تھا کہ میں اپنے وقت میں کر لیتا اور جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچے مہدی کا نشان قرار دیا
خطبات مسرور جلد 12 188 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء تھا اور خدا تعالیٰ نے اس نشان کو میرے دعوی کے وقت پورا کر دیا.اگر میں اس کی طرف سے نہیں تھا تو کیا خدا تعالیٰ نے خود دنیا کو گمراہ کیا؟ اس کا سوچ کر جواب دینا چاہئے کہ میرے انکار کا اثر کہاں تک پڑتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور پھر خدا تعالیٰ کی تکذیب لازم آتی ہے.اسی طرح پر اس قدر نشانات ہیں کہ ان کی تعداد دو چار نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں تک ہے.تم کس کس کا انکار کرتے جاؤ گے؟ اس براہین میں یہ بھی لکھا ہے.يَأْتُونَ مِن كُلِّ فَجَ عَمِيقٍ.اب تم خود آئے ہو تم نے ایک نشان پورا کیا ہے.اس کا بھی انکار کرو.اگر اس نشان کو جو تم نے اپنے آنے سے پورا کیا ہے مٹا سکتے ہو تو مٹاؤ.میں پھر کہتا ہوں کہ دیکھو آیات اللہ کی تکذیب اچھی نہیں ہوتی.اس سے خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے.میرے دل میں جو کچھ تھا میں نے کہہ دیا ہے.اب ماننا نہ ماننا تمہارا اختیار ہے.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں صادق ہوں اور اسی کی طرف سے آیا ہوں.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 453 تا 455) یہ جو آخری پیرا ہے کہ تم خود آئے ہو اور تم نے نشان پورا کیا ہے، یہ جس کو آپ فرما رہے ہیں ایک نو مسلم تھا جو مسلمان تو ہو گیا تھا لیکن آپ سے آ کے نشان دکھانے کی درخواست کی تھی.اس پر آپ نے یہ تفصیل سے اس کو سمجھایا تھا کہ نشان کا کیا کہتے ہو؟ یہ یہ نشان پورے ہوئے اور تمہارا آنا بھی ایک نشان ہے اور آج تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں یہ نشانات ظاہر ہورہے ہیں.,, پھر بیماری سے شفا کے نشانات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : سردار نواب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبد الرحیم خاں ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا تھا ( بڑا تیز بخار تھا ) اور کوئی صورت جانبری کی دکھائی نہیں دیتی تھی گو یا مردہ کے حکم میں تھا.اسوقت میں نے اسکے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے.تب میں نے جناب الہی میں عرض کی کہ یا الہی میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں.اسکے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرما یا مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ.یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الہی کے کسی کی شفاعت کر سکے.تب میں خاموش ہو گیا.بعد اس کے بغیر توقف کے یہ الہام ہوا.اِنَّكَ اَنْتَ الْمَجَاز - یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی.تب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی تو خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیا تھا کہ مدت دراز کے بعد
خطبات مسرور جلد 12 189 66 وہ اپنے اصلی بدن پر آیا اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے.“ خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 229-230) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ : بشیر احمد میرالڑکا ( یہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی بات ہے ) آنکھوں کی بیماری سے ایسا بیمار ہو گیا تھا کہ کوئی دوا فائدہ نہیں کر سکتی تھی اور بینائی جاتے رہنے کا اندیشہ تھا.جب شدت مرض انتہا تک پہنچ گئی تب میں نے دعا کی تو الہام ہوا.برق طفلي بشير.یعنی میرالڑ کا بشیر دیکھنے لگا.تب اسی دن یا دوسرے دن وہ شفایاب ہو گیا.یہ واقعہ بھی قریباً سو آدمی کو معلوم ہو گا.“ 66 (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 240) پھر مخالفین کے ہلاک ہونے کے نشانات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: اکہترواں نشان جو کتاب ستر الخلافہ کے صفحہ 62 میں میں نے لکھا ہے یہ ہے کہ مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے میں نے دعا کی تھی یعنی ایسے مخالف جن کی قسمت میں ہدایت نہیں.سواس دعا سے کئی سال بعد اس ملک میں طاعون کا غلبہ ہوا اور بعض سخت مخالف اس دنیا سے گذر گئے اور وہ دعا ئی تھی وَخُذْرَب مَنْ عَادَى الصلاح و مفسدا ونَزِلُ عليه الرَّجْزَ حقًا ودَمِرِ کہ اے میرے خدا جو شخص نیک راہ اور نیک کام کا دشمن ہے اور فساد کرتا ہے اس کو پکڑ اور اس پر طاعون کا عذاب نازل کر اور اس کو ہلاک کر دے.و فرج گروبی یا کریمی و نجی وَمَزْقُ خَصِيمِي يَا الهى وعَقِّرِ اور میری بیقراریاں دور کر اور مجھے غموں سے نجات دے اے میرے کریم.اور میرے دشمن کو ٹکڑے ٹکڑے کر اور خاک میں ملا دے.اور پھر کتاب اعجاز احمدی میں یہ پیشگوئی تھی.اذا ما غضبنا غاضب الله صائِلاً على معتد يؤذى وبالسوء يجهر جب ہم غضبناک ہوں تو خدا اس شخص پر غضب کرتا ہے جو حد سے بڑھ جاتا ہے اور کھلی کھلی بدی پر آمادہ ہوتا ہے ويأتي زمان كاسر كل ظالم و هل يهلكن اليوم الا المدمر اور وہ زمانہ آرہا ہے کہ ہر ایک ظالم کو توڑے گا اور وہی ہلاک ہونگے جو اپنے گناہوں کے باعث
خطبات مسرور جلد 12 ہلاک ہو چکے ہیں 190 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء وانّى لشر الناس ان لم يكن لهم جزاء اهانتهم صغار يصغر اور میں سب بدلوگوں سے بدتر ہوں گا اگر ان کے لئے اہانت کی جزا اہانت نہ ہو قضى الله ان الطعن بالطعن بيننا فذالك طاعون اتاهم ليبصروا خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ طعن کا بدلہ طعن ہے پس وہی طاعون ہے جو ان کو پکڑے گی ولما طغى الفسق المبيد بسيله تمنيت لو كان الوباء المتبر اور جب فسق ہلاک کرنے والا حد سے بڑھ گیا تو میں نے آرزو کی کہ اب ہلاک کر نیوالی طاعون چاہئے.اور اس کے بعد یہ الہام ہوا.ع اے بسا خانہ دشمن کہ تو ویران کر دی.(فارسی میں یعنی تو نے کئی دشمنوں کے گھر ویران کئے ) اور یہ الحکم اور البدر میں شائع کیا گیا اور پھر مذکورہ بالا دعا ئیں جو دشمنوں کی سخت ایذاء کے بعد کی گئیں جناب الہی میں قبول ہو کر پیشگوئیوں کے مطابق طاعون کا عذاب ان پر آگ کی طرح برسا اور کئی ہزار دشمن جو میری تکذیب کرتا اور بدی سے نام لیتا تھا ہلاک ہو گیا.لیکن اس جگہ ہم نمونہ کے طور پر چند سخت مخالفوں کا ذکر کرتے ہیں.چنانچہ سب سے پہلے مولوی رسل بابا باشندہ امرتسر ذکر کے لائق ہے جس نے میرے رڈ میں کتاب لکھی اور بہت سخت زبانی دکھائی اور چند روزہ زندگی سے پیار کر کے جھوٹ بولا.آخر خدا کے وعدہ کے موافق طاعون سے ہلاک ہوا.پھر بعد ا سکے ایک شخص محمد بخش نام جو ڈ پٹی انسپکٹر بٹالہ تھا عداوت اور ایذا پر کمر بستہ ہوا وہ بھی طاعون سے ہلاک ہوا.پھر بعد اس کے ایک شخص چراغ دین نام ساکن جموں اٹھا جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا تھا جس نے میرا نام دجال رکھا تھا اور کہتا تھا کہ حضرت عیسی نے مجھے خواب میں عصا دیا ہے تا میں عیسی کے عصا سے اس دجال کو ہلاک کروں.سو وہ بھی میری اس پیشگوئی کے مطابق جو خاص اسکے حق میں رسالہ ” دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں اسکی زندگی میں ہی شائع کی گئی تھی 14 اپریل 1906ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا.کہاں گیا عیسی کا عصا جس کے ساتھ مجھے قتل کرتا تھا؟ اور کہاں گیا اس کا الہام انّی لَمِنَ الْمُرْسَلِين؟ افسوس اکثر لوگ قبل تزکیہ نفس کے حدیث النفس کو ہی الہام قرار دیتے ہیں (یعنی نفس کو پاکیزہ کرنے سے پہلے ہی ، اپنے نفس کا تزکیہ کرنے سے پہلے ہی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم بہت پاک ہو گئے ہیں اور جوان کی نفس کی خواہشات ہیں انہی کو الہام سمجھنے لگ جاتے ہیں.فرمایا.اس لئے آخر کار ذلت اور رسوائی سے انکی موت ہوتی ہے اور انکے سوا اور بھی کئی لوگ ہیں جو ایذا اور اہانت میں حد سے بڑھ گئے تھے اور خدا تعالیٰ کے قہر سے نہیں ڈرتے
خطبات مسرور جلد 12 191 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014ء تھے اور دن رات ہنسی اور ٹھٹھا اور گالیاں دینا ان کا کام تھا آخر کار طاعون کا شکار ہو گئے جیسا کہ منشی محبوب عالم صاحب احمدی لاہور سے لکھتے ہیں کہ ایک میرا چچا تھا جس کا نام نوراحمد تھا وہ موضع بھڑی چٹھہ تحصیل حافظ آباد کا باشندہ تھا اس نے ایک دن مجھے کہا کہ مرزا صاحب اپنی مسیحیت کے دعوے پر کیوں کوئی نشان نہیں دکھلاتے..حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کی طرف سے بیان دے رہے ہیں کہ محبوب عالم صاحب کہتے ہیں.میں نے کہا کہ ان کے نشانوں میں سے ایک نشان طاعون ہے جو پیشگوئی کے بعد وو آئی جو دنیا کو کھاتی جاتی ہے.تو اس بات پر وہ بول اٹھا کہ طاعون ہمیں نہیں چھوئے گی بلکہ یہ طاعون مرزا صاحب کو ہی ہلاک کرنے کے لئے آئی ہے.اور اس کا اثر ہم پر ہرگز نہیں ہوگا، مرزا صاحب پر ہی ہوگا.اسی قدر گفتگو پر بات ختم ہو گئی.تو منشی محبوب عالم صاحب کہتے ہیں کہ ”جب میں لاہور پہنچا تو ایک ہفتہ کے بعد مجھے خبر ملی کہ چانور احمد طاعون سے مر گئے اور اس گاؤں کے بہت سے لوگ اس گفتگو کے گواہ ہیں اور یہ ایسا واقعہ ہے کہ چُھپ نہیں سکتا.“ پھر آپ فرماتے ہیں : ” اور میاں معراج الدین صاحب لاہور سے لکھتے ہیں کہ مولوی زین العابدین جومولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کردہ تھا اور مولوی غلام رسول قلعہ والے کے رشتہ داروں میں سے تھا اور دینی تعلیم سے فارغ التحصیل تھا اور انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک مقرب مدرس تھا.اُس نے حضور کے صدق کے بارہ میں مولوی محمد علی سیالکوٹی سے کشمیری بازار میں ایک دوکان پر کھڑے ہو کر مباہلہ کیا.پھر تھوڑے دنوں کے بعد بمرض طاعون مر گیا اور نہ صرف وہ بلکہ اسکی بیوی بھی طاعون سے مر گئی اور اس کا داماد بھی جومحکمہ اکانٹنٹ جنرل میں ملازم تھا طاعون سے مر گیا.اسی طرح اس کے گھر کے سترہ آدمی مباہلہ کے بعد طاعون سے ہلاک ہو گئے.“ 66 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ عجیب بات ہے، کیا کوئی اس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب اور مفتری اور دجال تو میں ٹھہرا مگر مباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں.کیا نعوذ باللہ خدا سے بھی کوئی غلط فہمی ہو جاتی ہے؟ ایسے نیک لوگوں پر کیوں یہ قہر الہی نازل ہے.جو موت بھی ہوتی ہے اور پھر ذلت اور رسوائی بھی آپ فرماتے ہیں اور میاں معراج دین لکھتے ہیں کہ ایسا ہی کریم بخش نام لاہور میں ایک ٹھیکہ دار تھا وہ سخت بے ادبی اور گستاخی حضور کے حق میں کرتا تھا اور اکثر کرتا ہی رہتا تھا.میں نے کئی دفعہ اس کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا.آخر جوانی کی عمر میں ہی شکار موت ہوا.“ پھر آپ فرماتے ہیں کہ سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ حافظ سلطان سیالکوٹی حضور کا
خطبات مسرور جلد 12 192 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014ء سخت مخالف تھا.یہ وہی شخص تھا جس نے ارادہ کیا تھا کہ سیالکوٹ میں آپ کی سواری گذرنے پر آپ پر راکھ ڈالے.آخر وہ سخت طاعون سے اسی 1906ء میں ہلاک ہوا اور اس کے گھر کے نو یا دس آدمی بھی طاعون سے ہلاک ہوئے.ایسا ہی شہر سیالکوٹ میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حکیم محمد شفیع جو بیعت کر کے مرتد ہو گیا تھا جس نے مدرستہ القرآن کی بنیاد ڈالی تھی آپ کا سخت مخالف تھا یہ بدقسمت اپنی اغراض نفسانی کی وجہ سے بیعت پر قائم نہ رہ سکا اور سیالکوٹ کے محلہ لوہاراں کے لوگ جو سخت مخالف تھے عداوت اور مخالفت میں ان کا شریک ہو گیا.آخر وہ بھی طاعون کا شکار ہوا اور اس کی بیوی اور اس کی والدہ اور اس کا بھائی سب یکے بعد دیگرے طاعون سے مرے اور اس کے مدرسہ کو جو لوگ امداد دیتے تھے وہ بھی ہلاک ہو گئے.“ پھر فرمایا کہ ایسا ہی مرزا سردار بیگ سیالکوٹی جو اپنی گندہ زبانی اور شوخی میں بہت بڑھ گیا تھا اور ہر وقت استہزا اور ٹھٹھا اس کا کام تھا اور ہر ایک بات طنز اور شوخی سے کرتا تھا وہ بھی سخت طاعون میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوا اور ایک دن اس نے شوخی سے جماعت احمدیہ کے ایک فردکو کہا کہ کیوں طاعون طاعون کرتے ہو ہم تو تب جانیں کہ ہمیں طاعون ہو.پس اس سے دودن بعد طاعون سے مر گیا.“ 66 (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 235-238) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے.حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ روئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ (14) پھر آپ نے ایک جگہ پر فرمایا کہ: ” خدا نے مجھے اصلاح کرنے کے لئے مامور کر کے بھیجا اور میرے ہاتھ پر وہ نشان دکھلائے کہ اگر ان پر ایسے لوگوں کو اطلاع ہو جن کی طبیعتیں تعصب سے پاک اور دلوں میں خدا کا خوف ہے اور عقل سلیم سے کام لینے والے ہیں تو وہ ان نشانوں سے اسلام کی حقیقت بخوبی شناخت کرلیں.وہ نشان ایک دو نہیں
خطبات مسرور جلد 12 193 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014ء بلکہ ہزار ہا نشان ہیں جن میں سے بعض ہم اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں لکھ چکے ہیں.جب سن ہجری کی تیرھویں صدی ختم ہو چکی تو خدا نے چودھویں صدی کے سر پر مجھے اپنی طرف سے مامور کر کے بھیجا اور آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر نبی گذر چکے ہیں سب کے نام میرے نام رکھ دیئے اور سب سے آخری نام میرا عیسی موعود اور احمد اور محمد معہود رکھا.اور دونوں ناموں کے ساتھ ساتھ بار بار مجھے مخاطب کیا.ان دونوں ناموں کو دوسرے لفظوں میں مسیح اور مہدی کر کے بیان کیا گیا.اور جو معجزات مجھے دیئے گئے بعض ان میں سے وہ پیشگوئیاں ہیں جو بڑے بڑے غیب کے امور پر مشتمل ہیں کہ بجز خدا کے کسی کے اختیار اور قدرت میں نہیں کہ ان کو بیان کر سکے اور بعض دعائیں ہیں جو قبول ہو کر ان سے اطلاع دی گئی اور بعض بددعائیں ہیں جن کے ساتھ شریر دشمن ہلاک کئے گئے اور بعض دعائیں از قسم شفاعت ہیں جن کا مرتبہ دعا سے بڑھ کر ہے اور بعض مباہلات ہیں جن کا انجام یہ ہوا کہ خدا نے دشمنوں کو ہلاک اور ذلیل کیا اور بعض صلحائے زمانہ کی وہ شہادتیں ہیں جنہوں نے خدا سے الہام پاکر میری سچائی کی گواہی دی.اور بعض ایسے صلحائے اسلام کی شہادتیں ہیں جو میرے ظہور سے پہلے فوت ہو چکے تھے جنہوں نے میرا نام لے کر اور میرے گاؤں کا نام لے کر گواہی دی تھی کہ وہی مسیح موعود ہے جو جلد آنے والا ہے اور بعض نے ایسے وقت میں میرے ظہور کی خبر دی تھی جب کہ میں ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور بعض نے میرے ظہور کے بارے میں ایسے وقت میں خبر دی تھی جب کہ میری عمر شاید دس ۱۰ یا بارہ ۱۲ برس کی ہوگی اور اپنے بعض مریدوں کو بتلادیا تھا کہ تم اس قدر عمر پاؤ گے ان بزرگوں نے بعض مریدوں کو بتلا دیا تھا کہ تم اس قدر عمر پاؤ گے کہ ان کو دیکھ لو گے اور جو نشانیاں زمانہ مہدی معہود کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی تھیں جیسا کہ اس کے زمانہ میں کسوف خسوف رمضان میں ہونا اور طاعون کا ملک میں پھیلنا یہ تمام شہادتیں میرے لئے ظہور میں آگئیں اور اس وقت تک چودھویں صدی کا بھی میں نے چہارم حصہ پالیا.یہ اس قدر دلائل اور شواہد ہیں کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جائیں تو ہزار جزو میں بھی سمانہیں سکتے.“ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 328-329) یہ اقتباس چشمہ معرفت کا ہے، اس سے پہلے جو تھا وہ حقیقۃ الوحی کا تھا.ان اقتباسات میں مخالفین کے انجام کے بارے میں بھی ذکر ہوا جو نشان پورا ہونے کا ذریعہ بن کر اپنے بد انجام کو پہنچے ، اس دنیا سے رخصت ہوئے.بعض دوسرے قبولیت دعا اور نشانات کا بھی ذکر ہوا.اب میں قبول احمدیت کے چند
خطبات مسرور جلد 12 194 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء واقعات پیش کرتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں لوگوں کی رہنمائی فرمائی.حضرت شیخ محمد افضل صاحب فرماتے ہیں کہ جس وقت خاکسار کی عمر بارہ سال کی تھی اور گو ہمارے خاندان میں میرے تایا حکیم شیخ عباد اللہ صاحب اور میرے تایا زاد بھائی شیخ کرم الہی صاحب حضرت صاحب سے بیعت تھے مگر خادم نے نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تھا اور نہ ہی حضور کا فوٹو دیکھا تھا.خواب دیکھا کہ میرے جسم کی تمام جان نکل گئی ہے مگر دماغ میں سمجھنے کی اور آنکھوں میں دیکھنے کی طاقت باقی ہے.میرے سامنے ایک بزرگ بیٹھے ہیں اور ان کے پیچھے گھٹنوں تک قدم مبارک دکھائی دیتے ہیں.( یعنی ایک بزرگ پیچھے بیٹھے ہیں اور پیچھے قدم نظر آ رہے ہیں گھٹنوں تک ) میرے دل میں ڈالا گیا یہ بزرگ جو بیٹھے تیری طرف دیکھ رہے ہیں مرزا صاحب ہیں اور پچھلی طرف جو قدم مبارک نظر آتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں.میری آنکھ کھل گئی.صبح میں نے مرتضیٰ خان ولد مولوی عبداللہ خان صاحب جو ان دنوں لاہوری جماعت میں شامل ہیں، سے تعبیر دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ تم کو مرزا صاحب کی بدولت رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی حاصل ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں خدا کی قسم کھا کر تحریر کرتا ہوں کہ جب 1905ء میں میں بیعت ہوا تو حضور وہی تھے جو خواب میں میری طرف دیکھ رہے تھے.اس طرح سے خدا جس کو چاہتا ہے سچا راستہ دکھا دیتا ہے.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 7 صفحہ نمبر 218-219 روایت حضرت شیخ محمد افضل صاحب) پھر حضرت نظام الدین صاحب فرماتے ہیں کہ میں ابھی بیعت میں داخل نہیں ہوا.نماز عصر مسجد مبارک سے پڑھ کر پرانی سیڑھیوں سے جب نیچے اتر اتو ابھی سقفی ڈیوڑھی میں تھا ( یعنی جو چھتا ہوا باہر کمرہ ہے، اسی میں تھا) کہ دو آدمی بڑے معزز سفید پوش جوان قد والے ملے جو مجھے سوال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کا پتہ مہربانی کر کے بتلائیں کہ کہاں ہیں.ہم بہت دور دراز سے سفر طے کر کے یہاں پہنچے ہیں.تو میں نے کہا آؤ میں بتلا دوں.انہوں نے کہا نہیں آپ ہمارے پیچھے ہو جائیں اوپر ہیں (اگر آپ اوپر ہیں) تو ہم پہچانیں گے.تب میں ان کے پیچھے ہو لیا.وہ میرے آگے آگے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چلے گئے.آگے اجلاس لگا ہوا تھا اور حضور دستار مبارک سر سے اتارے ہوئے بے تکلف حالت میں بیٹھے ہوئے تھے (آگے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے اور آپ بھی بیٹھے تھے، پگڑی اتاری ہوئی تھی.کہتے ہیں ) ” جاتے ہوئے ان میں سے ایک شخص نے حضور کو جاتے ہی پوچھا
خطبات مسرور جلد 12 195 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء کہ آپ کا نام غلام احمد ہے.آپ نے فرمایا ہاں.پھر اس نے کہا.آپ کا دعویٰ مسیح موعود کا ہے.حضور نے فرمایا ہاں.تو پھر اس نے کہا کہ پہلے آپ کو السلام علیکم ، جناب حضرت رسول مقبول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور پھر میری طرف سے.اور میں فلاں دن حضوری میں تھا تب رسول خدا کا ہاتھ مبارک حضور کے دائیں کندھے پر تھا اور فرمایا ھذا مسیح.ان کی بیعت کرو اور میر اسلام کہو.“ یعنی یہ خواب میں انہوں نے دیکھا تھا جو بیان کر رہے ہیں کہ اس طرح میں نے دیکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کندھے پر تھا، آپ نے فرمایا کہ ھذا مسیح سلام کرو اس لئے میں آیا ہوں اور سلام پہنچا رہا ہوں.اور پھر انہوں نے بیعت کی.(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 7 صفحہ نمبر 189 - 190 روایت حضرت نظام الدین صاحب) حضرت حکیم عطاء محمد صاحب فرماتے ہیں کہ......بعد بیعت چند دن قادیان رہا اور پھر حضور سے اجازت حاصل کر کے واپس لاہور آ گیا اور صوفی احمد دین صاحب ( ڈوری باف) نے احمد یہ جماعت کے احباب سے ملاقات کرائی.کچھ عرصہ کے بعد ایک صاحب نے محبت سے فرمایا کہ پھر محمد صاحب قادیان آگئے ہیں.اس بات کو سن کر مجھے حیرانی ہوئی اور دعا کی کہ یا الہی اس جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ آگئے ہیں اور مرزا صاحب محمد کیسے ہو سکتے ہیں.میں نے خواب میں دیکھا کہ اقدس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے ہیں اور آسمان سے ایک فرشتے نے اتر کر مجھ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں.میں نے کہا یہ مرزا صاحب ہیں.پھر میں نے دیکھا کہ آسمان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نورا ترا اور وہ نور حضرت مسیح موعود کے دماغ میں داخل ہوا.پھر تمام جسم میں سرعت کر گیا اور حضور کا چہرہ اس نور سے پرنور ہو گیا.پھر اس فرشتے نے کہا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ پہلے تو مرزا صاحب تھے اب واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو گئے ہیں.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 7 صفحہ نمبر 176 روایت حضرت حکیم عطا محمد صاحب) یہ تو لوگوں کے چند پرانے واقعات تھے کہ کس طرح انہوں نے خوا ہیں دیکھیں اور بیعت ہوئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور نشانات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک کہ یہ سلسلہ کمال تک نہ پہنچ جائے.(ماخوذ از چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 332) پس آپ کی یہ پیشگوئی آج بھی کس شان سے پوری ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کس طرح یہ نشان دکھا
خطبات مسرور جلد 12 196 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014ء رہا ہے.ہزاروں میل دور رہنے والے بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی فرماتا ہے.ان کے چند واقعات بھی پیش کرتا ہوں.مالی کے علاقے Bala میں تیجانیہ فرقے کے بڑے امام صاحب ہیں.ان کے والد کے ذریعہ سے اس علاقے کے 93 گاؤں مسلمان ہوئے تھے.اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد یہ جانشین بنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کچھ عرصہ قبل انہیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.آدم صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے گھر ان کے کمرے میں تشریف لائے ہیں.وہ حضور کے ساتھ کمرے میں ہیں جبکہ باہر بہت سے علماء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انتظار کر رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ باہر علماء آپ کا انتظار کر رہے ہیں حضور باہر تشریف لاتے ہیں اور تمام غیر احمدی علماء کے سروں سے ٹو پیاں اتار دیتے ہیں اور صرف میرے سر پر ٹوپی رہنے دیتے ہیں.اس جگہ ان کے مریدوں کے کئی گاؤں ہیں.احمدیت قبول کرنے کے بعد یہ ہمارے معلمین کے ساتھ اپنے مریدوں کے وہاں جتنے بھی گاؤں تھے.ان میں گاؤں گاؤں جاتے ہیں اور اللہ کے فضل.اب تک چالیس سے زائد گاؤں احمدیت قبول کر چکے ہیں.پھر برکینا فاسو کے ایک جیا را بخاری صاحب Jiara Boukhari) نے ریڈیو میں فون کیا.وہاں ہمارے مختلف ریڈیو سٹیشن کام کرتے ہیں.کہ میں نے آپ کی تبلیغ سنی.جس میں کہا گیا تھا کہ اگر آپ نے یہ دیکھنا ہو کہ امام مہدی جو آنے والا ہے وہ یہی ہے یا نہیں تو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے لئے یہ طریق فیصلہ بتایا ہے کہ اس کے لئے استخارہ کریں.چنانچہ اس دن سے میں نے بھی استخارہ شروع کر دیا اور استخارہ کرتے ہوئے ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ خواب میں ایک ٹینٹ کے نیچے دونورانی آدمیوں کو دیکھا.خواب میں ہی ان کے دوست نے کہا کہ جو دائیں طرف والے ہیں وہ امام مہدی ہیں اور دوسرے آدمی کا ان کو پتا نہیں چلا.تو کہتے ہیں کہ اس کے بعد ان پر واضح ہو گیا کہ آنے والا امام مہدی سچا ہے.اگر وہ نعوذ باللہ جھوٹا ہوتا تو میرے استخارے کے جواب میں میری خواب میں کیسے آجاتا.اس لئے میں نے بیعت کر لی.پھر مصر سے ایک خاتون نے مجھے لکھا.وہ لکھتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بعض خوبیوں سے نوازا ہے.چنانچہ میں نے خواب میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اور آپ کو دیکھا ہے اور خدا کی قسم ہے کہ مجھے اس وقت یہ بھی علم نہ تھا کہ اس وقت دنیا میں کوئی خلیفہ بھی موجود ہے.میں
خطبات مسرور جلد 12 197 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014ء صرف استخارہ کر رہی تھی تو خدا تعالیٰ نے مجھے یہ دونوں شخصیات دکھا ئیں لیکن شیطان نے مجھے بہکا دیا اور اب خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اس بہکاوے سے میں باہر نکل آئی.میری استقامت اور مغفرت کے لئے دعا کی درخواست ہے.اللہ تعالیٰ ان کو استقامت بخشے.پھر مراکش کی ایک خاتون فاہمی صاحبہ ہیں، وہ کہتی ہیں لقاء مع العرب کے ذریعہ سے تعارف ہوا.پھر لکھتی ہیں کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی بات گو کہ مدلل اور مطمئن کرنے والی ہوتی تھی اس کے باوجود تقریباً ہر پروگرام میں ہی وہ استخارہ کرنے اور خدا تعالیٰ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے بارے میں دعا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے.چنانچہ میں نے استخارہ شروع کیا اور خواب میں دیکھا کہ ایک وسیع علاقے میں لمبا اور بہت بڑا خیمہ لگا ہوا ہے اس خیمہ میں ایک شخص بہت غمزدہ اور حزین بیٹھا ہوا ہے.اتنے میں ایک شخص اس کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تم اتنے دکھی کیوں ہو؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں میں لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلاتا ہوں لیکن لوگ میری تصدیق نہیں کرتے.اس پر سوال کرنے والا شخص اسے کہتا ہے کہ میں تیری تصدیق کرتا ہوں.میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں.اس رؤیا کے بعد میں نے کہا.اب جو ہونا ہے ہو جائے.اب مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے.چنانچہ میں نے فوراً بیعت کر لی اور بیعت کے ساتھ ہی پردہ کرنا بھی شروع کر دیا.پھر یہ یہاں بھی آئی تھیں.جلسہ کا جو نظارہ انہوں نے دیکھا اور خیمہ دیکھا.تو کہتی ہیں یہ ہو بہو وہی خیمہ تھا جہاں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اکیلے بیٹھے دیکھا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر آپ کو فرمایا تھا کہ میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں.پھر مالی سے عبداللہ صاحب معلم تحریر کرتے ہیں باماکو (Bamako) کے استاد (Dambele) دا مبلے صاحب ہیں.وہ احمدیت کے سخت مخالف تھے.جب بھی وہ احمد یہ ریڈیو ٹیلیفون کرتے تو جماعت کو گالیاں نکالنے لگ جاتے اور اگر انہیں ٹیلیفون کیا جاتا تو پھر بھی جماعت کو سخت گالیاں دیتے.اسی طرح کرتے ہوئے انہیں کافی عرصہ گزر گیا.ایک دن انہوں نے روتے ہوئے احمد یہ ریڈیو ٹیلیفون کیا جس کا نام 'ربوہ FM ہے، اور بتایا کہ انہوں نے ایک رات پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھا تھا اور جو نور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دیکھا ہے وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.لہذا اب وہ جماعت سے صدقِ دل سے معافی مانگتے ہیں اور وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر احمدیوں نے اسے معاف نہ کیا تو خدا بھی معاف نہیں کریگا.اس پر معلم صاحب نے انہیں
خطبات مسرور جلد 12 198 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء احمدیت میں شامل ہونے کی دعوت دی کہ حق واضح ہو گیا ہے تو اب بیعت کریں.چنانچہ انہوں نے احمدیت قبول کی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شامل ہوئے.پھر مالی ریجن کولی کورو (Koulikoro) سے یوسف صاحب، یہ معلم ہیں، بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ریجن کو لیکورو (Koulikoro) کے گاؤں جالا کرو جی (Jala Koroji) کے ایک بزرگ پیدائشی مسلمان تھے.مگر مسلمان فرقوں کی طرف دیکھ کر انھیں سمجھ نہیں آتی تھی کون سا فرقہ خدا کی طرف سے ہے.بہت عرصہ حق کی تلاش کرتے رہے مگر آپ کو کہیں بھی حق نہ ملا.ایک دن جب آپ نے احمد یہ ریڈیور بوہ لگایا تو اس پر معلم صاحب نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اگر کوئی سچے مذہب کو جاننا چاہتا ہے تو خدا سے دعا کرے وہ خود اسکی راہنمائی کر دے گا.یہ طریق آپ کو بہت پسند آیا اور آپ نے اس پر عمل کرنے کے لئے چلہ کرنے کا ارادہ کیا.اس کے بعد آپ نے نیت کی کہ جب تک خدا آپ کی راہنمائی نہ کرے اس وقت تک آپ کسی سے بات نہ کریں گے اور خدا سے دعائیں کرتے رہیں گے.چنانچہ یہ چلہ ابھی کچھ دن ہی کیا تھا کہ ایک دن خدا نے آپ کو دکھایا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آپکے گھر نازل ہوئے ہیں اور پیار سے آپ کے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھا.یہ خواب دیکھتے ہی آپ کی آنکھ کھل گئی.اس کے بعد آپ کو یقین ہو گیا کہ تمام دنیا میں احمدی ہی حق پر ہیں.کیونکہ صرف یہی لوگ حضرت امام مہدی کی آمد کی خبر دیتے ہیں.اس خواب کے فور ابعد آپ نے مالی کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی اور وہاں حضرت امام مہدی کی تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہی حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں جو کہ آپ کے گھر تشریف لائے تھے اور پھر بیعت بھی کر لی.مالی سے ہمارے مربی سلسلہ بلال صاحب لکھتے ہیں کہ احمد یہ ریڈیو سٹیشن سکاسو (Sikaso) میں ہمارے ایک احمدی بھائی تشریف لائے اور بتایا کہ ان کا ایک ہمسایہ آج ان کے گھر آیا اور رو رو کر معافی مانگنے لگا.جب اس نے ان سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ مجھے احمدیت سے شدید نفرت تھی اور جب بھی میں آپ لوگوں کا ریڈیو سنتا تھا تو سوائے گالیوں کے کچھ میرے منہ سے نہ نکلتا تھا.کل رات آپ کے مبلغ لائیو پروگرام کر رہے تھے اور اس کو سنتے سنتے اور دل ہی میں برا بھلا کہتے ہوئے سو گیا.مگر رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے خواب میں تشریف لائے اور مجھے خوب ڈانٹا.میں نے خواب میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی کہ رسول اللہ مجھے معاف کردیں.میں اب کبھی بھی احمدیوں کو برا بھلا نہیں کہوں گا اور آج سے میں بھی احمدی ہوں.اب اللہ کے فضل سے یہ بھائی پر جوش مبلغ بھی ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 199 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014ء مالی سے معلم عبداللہ صاحب لکھتے ہیں کہ باما کو (Bamako) میں ایک طالبعلم بکری تراورے (Bakary Tarore) صاحب نے انٹرنیٹ پر احمدیت کے بارے میں مطالعہ شروع کیا اور مطالعہ کرنے کے ساتھ انہوں نے انٹرنیٹ پر فرانس جماعت سے رابطہ کیا.جماعت احمدیہ فرانس نے انہیں باما کومشن کا رابطہ دیا.چنانچہ اس طالبعلم نے معلم صاحب سے رابطہ کیا اور چند سوالات پوچھے.سوالات کے جواب ملنے پر اس طالبعلم کو جماعت کی سمجھ آگئی مگر اس نے بیعت نہ کی.ایک دن وہ طالبعلم معلم صاحب کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ وہ بیعت کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھا تھا جو اس کے گھر آئے تھے اور آپ علیہ السلام کے چہرہ پر نور ہی نور تھا اور وہ ایسا نور تھا کہ جیسا اس نے پہلے کہیں نہیں دیکھا.اس نے کہا کہ وہ اب نہ صرف بیعت کرتا ہے بلکہ جماعت کے ساتھ مل کر تبلیغ بھی کرے گا.پھر مالی ریجن کو لیکور و سے وہاں کے مبلغ فاتح صاحب لکھتے ہیں کہ : میرے ریجن کو لیکورو (Koulikoro) سے ایک بزرگ سعید کولیبالی صاحب ( Saeed Coulibaly) ہمارے ریڈیو النور آئے اور انہوں نے بتایا کہ ان کے آباء واجداد بت پرست تھے.اور ان سے بھی بتوں کی پوجا کروانا چاہتے تھے.مگر بچپن سے ہی آپ کی طبیعت بتوں کی پوجا کو پسند نہ کرتی تھی.چنانچہ جب آپ تھوڑے بڑے ہوئے تو انہوں نے بتوں کی پرستش سے صاف انکار کر دیا.جس پر آپ کے والدین اور تمام دیگر رشتہ دار ناراض ہو گئے.انہوں نے اس مخالفت کی کچھ پرواہ نہیں کی اور اسلام قبول کر لیا.اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا انتظار تھا.کہتے ہیں اس انتظار کے لمبا عرصہ بعد ایک دن خواب میں دیکھا کہ سفید رنگ کے ایک بزرگ مالی سے شمال کی جانب نازل ہوئے ہیں اور ان بزرگ کو دیکھنے کے لئے بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں.حضور علیہ السلام کا اتنا پر نور چہرہ کیونکہ آپ نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا.اس لئے آپ نے بے اختیار ہو کر اپنے آپ سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ تو آپکے پیچھے کھڑے ایک شخص نے بتایا کہ یہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں جو کہ نازل ہو چکے ہیں.یہ نظارہ دیکھتے ہی آنکھ کھل گئی.اس کے بعد سے آپ کو یقین ہو گیا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آچکے ہیں.مگر جب آپ نے مسلمان فرقوں کی طرف دیکھا تو ان میں سے کوئی بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی خبر نہ دیتا تھا.اتفاقاً ایک دن آپ نے احمد یہ ریڈیو النور لگایا تو اس پر حضرت امام مہدی کی آمد کی خبر بیان ہوئی.یہ خبر سنتے ہی ان کو یقین ہو گیا کہ یہی لوگ حق پر ہیں.اس خواب کے کچھ عرصہ
خطبات مسرور جلد 12 200 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 مارچ 2014 ء بعد آپ نے احمد یہ مشن ہاؤس آکر اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ بیعت کر لی اور جب یہاں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی تو تصویر دیکھتے ساتھ ہی کہنے لگے کہ یہی وہ حضرت امام مہدی ہیں جو کہ انہوں نے خواب میں دیکھے تھے.اس کے بعد انہوں نے دس ہزار فرانک سیفا کی بڑی رقم بطور چندہ بھی ادا کی اور بتایا کہ اب وہ خدا کا شکر کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں حق پہچانے کی توفیق دی.یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں اور نشانات ہیں.اگر ان کو نشانات اور تائیدات نہ مانیں تو پھر کیا چیز ہے جولوگوں کے دلوں میں ایک ہلچل مچارہی ہے.کاش کہ دوسرے مسلمان بھی اس بات کو سمجھیں اور اس حقیقت کو جاننے کے لئے دعا کریں ، اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہیں اور مخالفت کے بجائے سیدھے راستے کی تلاش کی طرف جستجو زیادہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ان کی بھی رہنمائی فرمائے.اللہ تعالیٰ ان کو یہ توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہو سکتی ہے لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا اور شیطان کا مع اپنی تمام ذریت کے آخری حملہ تھا اس لئے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لئے ہزار ہا نشان ایک جگہ جمع کر دیئے لیکن پھر بھی جو لوگ انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ نہیں مانتے اور محض افترا کے طور پر ناحق کے اعتراض پیش کر دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح خدا کا قائم کردہ سلسلہ نابود ہو جائے مگر خدا چاہتا ہے کہ اپنے سلسلہ کو اپنے ہاتھ سے مضبوط کرے جب تک کہ وہ کمال تک پہنچ جاوے.“ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 332) آخر میں پھر مسلمان امت مسلمہ اور مسلمان ممالک کے لئے دعا کی درخواست کروں گا.اللہ تعالیٰ ان میں ، ان ملکوں میں امن اور سلامتی قائم فرمائے اور اس بات کو یہ تسلیم کر لیں کہ یہ امن وسلامتی اگر حقیقت میں قائم کرنی ہے تو اس کا صرف ایک ہی حل ہے، اللہ تعالیٰ نے جس کو امام مہدی بنا کر بھیجا ہے، جس کو امن قائم کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا ہے اس کو یہ قبول کر لیں.اس مسیح محمدی کی پیروی کریں جس کی پیشگوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی تھیں.تو یہی ایک حل ہے جو ان کی نجات کا ذریعہ ہے اور اس سے وہ فتنے اور فساد اور دکھوں سے رہائی پاسکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 18 اپریل 2014ء تا 24 اپریل 2014 ءجلد 21 شماره 16 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 12 201 14 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 اپریل 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 04 / اپریل 2014ء بمطابق 04 شہادت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت الہی سے متعلق کچھ تحریرات پیش کروں گا، ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے محبت الہی کی حقیقت اور تعریف بھی بیان فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا راز اور طریق اور اس کی گہرائی اور فلاسفی بھی بیان فرمائی ہے اور ہمارے سے، جو آپ کے ماننے والے ہیں جو آپ کی جماعت میں شامل ہیں محبت الہی کے بارے میں کیا تو قعات رکھی ہیں.یہ سب بھی بیان فرمایا کہ ہماری کیا کوشش ہونی چاہئے اور اس کے کیا معیار ہونے چاہئیں.پس اس لحاظ سے ہر حوالہ ہی قابل غور ہے اور ہمارے لئے مشعل راہ ہے.اس لئے توجہ سے سننے کی ضرورت ہے تا کہ ہم محبت الہی کے مضمون کی روح کو سمجھتے ہوئے اس میں بڑھنے والے ہوں اور اضافہ کرنے والے ہوں اور اپنی اصلاح کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : محبت کو ئی تصنع اور تکلف کا کام نہیں بلکہ انسانی قولی میں سے یہ بھی ایک قوت ہے.اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ دل کا ایک چیز کو پسند کر کے اس کی طرف کھنچے جانا اور جیسا کہ ہر یک چیز کے اصل خواص اس کے کمال کے وقت بدیہی طور پر محسوس ہوتے ہیں (بہت کھلے اور واضح محسوس ہوتے ہیں ) یہی محبت کا حال ہے کہ اس کے جو ہر بھی اس وقت کھلے کھلے ظاہر ہوتے ہیں کہ جب اتم اور اکمل درجہ پر پہنچ جائے.“ ( کمال اور اتمام ایسی ہو جو اپنے انتہا کو پہنچ جائے) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُشْرِ بُوا فِي قُلُوبِهِمُ
خطبات مسرور جلد 12 202 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 پریل 2014ء العجل (البقرة: 94).یعنی انہوں نے گوسالہ سے ایسی محبت کی کہ گویا ان کو گوسالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا.در حقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اسے پی لیتا ہے یا کھالیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اس قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے.یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلی طور پر بقدرا اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے.یعنی فرما یا کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنا نا یہی محبت کا راز ہے.معرفت کے ضمن میں بتایا گیا تھا کہ جب تک تمام صفات کا علم نہ ہو معرفت نہیں ہو سکتی اور معرفت کے بعد جب انسان مزید آگے بڑھتا ہے تو وہ محبت ہے اور محبت اسی وقت کامل ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنا یا بھی جائے.صرف علم حاصل کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ اسے اپنا یا بھی جائے.اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کا نور حاصل ہوتا ہے.) پھر آپ فرماتے ہیں کہ وو ( نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 430) محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہوتا اپنے محبوب میں ہوکر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے.سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے.اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہو کر اور اس کے رنگ میں رنگین ہو کر اور اس کے ساتھ ہو کر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے.“ 66 ( نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 431) پھر محبت الہی کے معیار کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.یہ ایک اقتباس ہے.اصل میں یہ پادری فتح مسیح کے خط کے جواب میں آپ فرما رہے ہیں جس نے کچھ اعتراضات کئے تھے اور آپ نے ان کے جواب دیئے.آپ نے فرمایا آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مسلمان لوگ خدا کے ساتھ بھی بلا غرض محبت نہیں کرتے ان کو
خطبات مسرور جلد 12 203 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104اپریل 2014ء 66 یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ خدا اپنی خوبیوں کی وجہ سے محبت کے لائق ہے.“ ( تو اس کا جواب یہ ہے.فرمایا ) و پس واضح ہو کہ یہ اعتراض در حقیقت انجیل پر وارد ہوتا ہے نہ قرآن پر کیونکہ انجیل میں یہ تعلیم ہرگز موجود نہیں کہ خدا سے محبت ذاتی رکھنی چاہئے اور محبت ذاتی سے اس کی عبادت کرنی چاہئے مگر قرآن تو اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے.قرآن نے صاف فرما دیا ہے.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ أَبَا كُمْ أَوْأَشَدَّ ذكرا....( البقرة: 201) اور پھر فرمایا وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة: 166) یعنی خدا کو ایسا یا دکر وجیسا کہ اپنے باپوں کو بلکہ اس سے بہت زیادہ.اور مومنوں کی یہی شان ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر خدا سے محبت رکھتے ہیں یعنی ایسی محبت نہ وہ اپنے باپ سے کریں اور نہ اپنی ماں سے اور نہ اپنے دوسرے پیاروں سے اور نہ اپنی جان سے اور پھر فرمایا : حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَ زَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات : 8).یعنی خدا نے تمہارا محبوب ایمان کو بنا دیا.اور اس کو تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور پھر فرمایا.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبَى (النحل : 91) یہ آیت حق اللہ اور حق العباد پر مشتمل ہے اور اس میں کمال بلاغت یہ ہے کہ دونوں پہلو پر اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے.فرمایا کہ حق العباد کا پہلو تو ہم ذکر کر چکے ہیں.اصل میں یہ جس کتاب کا حوالہ دیا جارہا ہے وہ نور القرآن نمبر 2 ہے.اس میں آپ نے تفصیل سے ذکر فرمایا ہے.بہر حال اس میں پہلے حق العباد کا جو آپ نے ذکر فرمایا اس میں آپ نے وضاحت فرمائی ہے کہ وہ یہ ہیں کہ مؤمن کا فر پر بھی شفقت کرے یہ حق العباد ہے اور گہرائی میں جا کر اگر اس کی ہمدردی کی ضرورت ہو تو ضرور کرے.اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہو.یعنی چاہے وہ کافر ہی ہے اگر اس کو کسی قسم کی بیماری ہے.چاہے وہ روحانی بیماری ہے تو اس کے لئے غمگسار ہو.اور یہ ہیں حقوق العباد.یہاں اس بات کا بھی جواب آ گیا کہ کافر سے محبت کس طرح ہو؟ بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں Love for all.یہ کس طرح ہو سکتی ہے؟ تو فرمایا کہ اس کی ہمدردی اس کی اصلاح کرنا، اس کی ضرورت کو پورا کرنا اس سے محبت ہے نہ کہ محبت میں آ کر کافر کی کافرانہ باتوں اور اس کے دین کو اختیار کر لینا.ایک مؤمن سے جو محبت ہے اگر وہ حقیقی مؤمن ہے تو اس سے محبت یہ ہے کہ اس کی جو اچھی عادات ہیں ، اس میں جو نیکیاں ہیں ان کو اختیار کرنا اور اگر اس میں کوئی برائیاں ہیں تو اس کو دین کے حوالے سے ان کو سمجھانا.لیکن جو عام انسانی ہمدردی ہے وہ ہر ایک کے لئے اس سے محبت ہے.محبت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ایک کی جو ذاتی برائیاں، عادات ہیں ان کو اپنا لیا جائے کہ ہمیں اس سے بڑی محبت ہے.پھر
خطبات مسرور جلد 12 وو 204 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 اپریل 2014 ء حقوق العباد میں بھی آپ نے فرمایا کہ بھوکوں کو کھانا کھلانا ، غلاموں کو آزاد کرنا، قرضداروں کے قرض ادا کرنا، جو زیر بار ہیں ان کا بار اٹھانا.پھر یہ کہ عدل کا بھی اس میں ، حقوق العباد میں ذکر آ گیا ، کہ عدل سے بڑھ کر پھر احسان کرو.اور احسان یہ ہے کہ بلا تخصیص مذہب وملت ہر ایک سے کرو اور یہی حقوق العباد ہیں اور یہ ان لوگوں کے حق ہیں جو ایک انسان کے لئے اس کی محبت میں ایک مؤمن ادا کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے.اول محبت بہر حال خدا تعالیٰ کی ہے.پھر فرمایا کہ حق العباد کا ذکر تو ہم نے کر دیا.اور حق اللہ کے پہلو کی رو سے اس آیت کے (یعنی اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وإِيتَائِي ذِي الْقُرْبى (النحل : 91)) کے یہ معنی ہیں کہ انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کر کیونکہ جس نے تجھے پیدا کیا اور تیری پرورش کی اور ہر وقت کر رہا ہے اس کا حق ہے کہ تو بھی اس کی اطاعت کرے اور اگر اس سے زیادہ تجھے بصیرت ہو تو نہ صرف رعایت حق سے بلکہ احسان کی پابندی سے اس کی اطاعت کر کیونکہ وہ حسن ہے اور اس کے احسان اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے اور ظاہر ہے کہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر وہ درجہ ہے جس میں اطاعت کے وقت احسان بھی ملحوظ رہے اور چونکہ ہر وقت مطالعہ اور ملاحظہ احسان کا محسن کی شکل اور شمائل کو ہمیشہ نظر کے سامنے لے آتا ہے اس لئے احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور..( یعنی محسن کی شکل جب سامنے آتی ہے تو تبھی اس کے احسان بھی یاد آتے ہیں یا جب احسان یاد کرے تو محسن کی شکل سامنے آجائے تو انسان مزید زیرا احسان ہوتا ہے.تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا احسان یہ ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرو کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اور در حقیقت خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے ہو.فرمایا کہ )...خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے در حقیقت تین قسم پر منقسم ہیں.اوّل وہ لوگ جو باعث مجو بیت اور رویت اسباب کے احسان الہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے.“ ( یعنی اللہ تعالیٰ تو پردے میں ہے ظاہر میں نہیں کہ انسانی شکل میں نظر آ جائے اور دنیاوی اسباب جو ہیں وہ نظر آ رہے ہوتے ہیں ان کا علم بھی ہوتا ہے اور انہیں محسوس بھی انسان کرتا ہے.پھر جب دنیاوی چیزیں سامنے نظر آ رہی ہوں تو یہ احساس نہیں رہتا کہ ان اسباب کو پیدا کرنے والی بھی کوئی ہستی ہے اور وہ خدا ہے.اس لئے ان دنیاوی چیزوں سے ایک انسان زیادہ محبت کرنے لگ جاتا ہے.پھر فرمایا کہ تین قسم پر یہ چیزیں ہیں پہلے وہ لوگ ہیں جو ملا حظہ نہیں کرتے ، اللہ تعالیٰ کے احسانات کو اچھی طرح نہیں دیکھتے اور وجہ کیا ہے کہ وہ پر دے میں ہے اور دوسرے اسباب جو ہیں وہ سامنے نظر آ رہے ہوتے ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ ) اور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے جو وو
خطبات مسرور جلد 12 205 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 پریل 2014ء احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو حسن کی عنایات عظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کرتی ہے بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالیٰ کے حقوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کر لیتے ہیں.اللہ کا احسان نہیں مانتے لیکن بہر حال مجموعی طور پر کیونکہ ایک ایمان ہوتا ہے، یہ دعوی ہوتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کا جو حق ہے یا اس کے مخلوق ہونے کا جو حق ہے وہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا) فرمایا کہ اور احسان الہی کی ان تفصیلات کو جن پر ایک بار یک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے ہرگز مشاہدہ نہیں کرتے“ ( عمومی طور پر تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں.خدا تعالیٰ سے محبت ہے لیکن ہر فائدہ جو وہ اُٹھا رہے ہوتے ہیں اس فائدہ کے اُٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احسان کو سامنے نہیں رکھتے بلکہ دنیاوی فائدوں کو ، دنیاوی اسباب کو سامنے رکھ رہے ہوتے ہیں.فرما یا وجہ کیا ہے اس کی؟ کیونکہ اسباب پرستی کا گرد و غبار مسبب حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے روک دیتا ہے ( کیونکہ ظاہری طور پر جو اسباب ہیں جن سے انسان فائدہ اُٹھا رہا ہوتا ہے، انہوں نے اس طرح ڈھانک لیا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جو ان سب اسباب کو پیدا کرنے والا ہے اس کا چہرہ نظر نہیں آتا.پھر کیونکہ اسباب پرستی ہے اس لئے مسبب حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے یہ چیز روک دیتی ہے) اس لئے ان کو وہ صاف نظر میسر نہیں آتی جس سے کامل طور پر معطی حقیقی کا جمال مشاہدہ کر سکتے.“ ( وہ جو ہر چیز عطا کرنے والا ہے اصل میں تو حقیقی طور پر وہی ہے جو ہر چیز دینے والا ہے اس کی جو خوبصورتی ہے اس کا جوحسن ہے وہ ہمارے سامنے نہیں آتا.تو فرمایا کہ ) سو ان کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے جو وہ خدا کے احسانات کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتے خود بھی اس کی طرف وہ التفات نہیں کرتے جو احسانات کے مشاہدہ کے وقت کرنی پڑتی ہے جس سے محسن کی شکل نظر کے سامنے آجاتی ہے بلکہ ان کی معرفت ایک دھندلی سی ہوتی ہے.وجہ یہ کہ وہ کچھ تو اپنی محنتوں اور اپنے اسباب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور کچھ تکلف کے طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حق خالقیت اور رزاقیت ہمارے سر پر واجب ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کے وسعت فہم سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اس لئے ان سے جب تک کہ وہ اس حالت میں ہیں یہی چاہتا ہے کہ اس کے حقوق کا شکر ادا کریں اور آیت اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ (النحل : 91).میں عدل سے مراد یہی اطاعت برعایت عدل ہے.چونکہ ان کو پوری طرح علم نہیں ، صرف اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور اس کے رازق ہونے کا چاہے وہ زبانی ہو ا ظہار کر رہے ہوتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ بھی ان کی اسی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے جتنا جتنا بھی شکر وہ ادا کر رہے
خطبات مسرور جلد 12 206 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 104 پریل 2014ء ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے عدل کا بھی تقاضا ہے کہ وہ اس کو اتنا ہی ان کے لئے کافی سمجھے اور وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر کافی کچھ کر لیا) فرمایا کہ مگر اس سے بڑھ کر ایک اور مرتبہ انسان کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں انسان کی نظر رویت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہو کر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہے اور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آ جاتا ہے اور یہ مقولہ کہ مثلاً میری اپنی ہی آبپاشی سے میری کھیتی ہوئی اور یا میرے اپنے ہی بازو سے یہ کامیابی مجھے ہوئی یا زید کی مہربانی سے فلاں مطلب میرا پورا ہوا اور بکر کی خبر گیری سے میں تباہی سے بچ گیا یہ تمام باتیں بیچ اور باطل معلوم ہونے لگتی ہیں اور ایک ہی ہستی اور ایک ہی قدرت اور ایک ہی محسن اور ایک ہی ہاتھ نظر آتا ہے.تب انسان ایک صاف نظر سے جس کے ساتھ ایک ذرہ شرک فی الاسباب کی گرد وغبار نہیں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتا ہے اور یہ رویت اس قسم کی صاف اور یقینی ہوتی ہے کہ وہ ایسے محسن کی عبادت کرنے کے وقت اس کو غائب نہیں سمجھتا بلکہ یقیناً اس کو حاضر خیال کر کے اس کی عبادت کرتا ہے اور اس عبادت کا نام قرآن شریف میں انسان ہے اور صیح بخاری اورمسلم میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں.اور اس درجہ کے بعد ایک اور درجہ ہے جس کا نام ایتاءِ ذِي الْقُرْبی ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احسانات الہی کو بلا شرکت اسباب دیکھتار ہے اور اس کو حاضر اور بلا واسطہ محسن سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے تو اس تصور اور تخیل کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جناب الہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی.کیونکہ متواتر احسانات کا دائی ملا حظہ بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے ( یعنی اس شخص کے دل میں جس پر احسان کیا جائے یہ اثر پیدا کرتا ہے ) ” کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے جس کے غیر محدود احسانات اس پر محیط ہو گئے.پس اس صورت میں وہ صرف احسانات کے تصور سے اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی ذاتی محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے جیسا کہ بچہ کو ایک ذاتی محبت اپنی ماں سے ہوتی ہے.پس اس مرتبہ پر وہ عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں بلکہ دیکھ کر سچے عشاق کی طرح لذت بھی اٹھاتا ہے اور تمام اغراض نفسانی معدوم ہو کر ذاتی محبت اس کی اندر پیدا ہو جاتی ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ ایتائی ذی القربی سے تعبیر کیا ہے اور اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ ابَاءَ كُمْ أَوْ أَشَدَّ ذكرًا (البقرة: 201) غرض آیت إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَأَيَّ
خطبات مسرور جلد 12 207 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 اپریل 2014ء ذِي الْقُرْبى (النحل : 91) کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (البقرة: 208) یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاء الہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے.اور پھر فرمایا بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : 113 ).یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں.سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غم کرتے ہیں یعنی ان کا مدعا خدا اور خدا کی محبت ہو جاتی ہے اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے اور پھر ایک جگہ فرمایا.يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينًا وَيَتِمَا وَ أَسِيرًا إِثْمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا (الدھر : 9-10 ) یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گزاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے.اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت الہی اور رضاء الہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے.خدا تعالیٰ نے تو اس دین کا نام اسلام اس غرض سے رکھا ہے کہ تا انسان خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے کرے ( خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض سے نہیں ، ضرورتیں پوری کرنے کے لئے عبادت نہیں کرنی بلکہ طبعی جوش سے کرے) کیونکہ اسلام تمام اغراض کے چھوڑ دینے کے بعد رضا بقضا کا نام ہے.دنیا میں بجز اسلام ایسا کوئی مذہب نہیں جس کے یہ مقاصد ہوں.بے شک خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت جتلانے کے لئے مومنوں کو انواع اقسام کی نعمتوں کے وعدے دیئے ہیں مگر مومنوں کو جو اعلیٰ مقام کے خواہش مند ہیں یہی تعلیم دی ہے کہ وہ محبت ذاتی سے خدا تعالیٰ کی عبادت کریں.“ ( نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 436 تا 441)
خطبات مسرور جلد 12 208 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 اپریل 2014ء اصل عبادت وہی ہے جو محبت ذاتی سے ہو نہ کہ کسی فائدے کے لئے.پھر ایک جگہ سچی محبت کی علامت بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ وو محبت عجیب چیز ہے.اس کی آگ گناہوں کی آگ کو جلاتی اور معصیت کے شعلے کو بھسم کر دیتی ہے.کچی اور ذاتی اور کامل محبت کے ساتھ عذاب جمع ہو ہی نہیں سکتا اور سچی محبت کے علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی فطرت میں یہ بات منقوش ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کے قطع تعلق کا اُس کو نہایت خوف ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ سے ادنیٰ قصور کے ساتھ اپنے تئیں ہلاک شدہ سمجھتا ہے اور اپنے محبوب کی مخالفت کو اپنے لئے ایک زہر خیال کرتا ہے اور نیز اپنے محبوب کے وصال کے پانے کے لئے نہایت بے تاب رہتا ہے اور بعد اور ڈوری کے صدمہ سے ایسا گداز ہوتا ہے کہ بس مر ہی جاتا ہے.اس لئے وہ صرف ان باتوں کو گناہ نہیں سمجھتا کہ جو عوام سمجھتے ہیں کہ قتل نہ کر.خون نہ کر.زنانہ کر.چوری نہ کر.جھوٹی گواہی نہ دے.بلکہ وہ ایک ادنی غفلت کو اور ادنی التفات کو جو خدا کو چھوڑ کر غیر کی طرف کی جائے ایک کبیرہ گناہ خیال کرتا ہے.اس لئے اپنے محبوب ازلی کی جناب میں دوام استغفار اس کا ورد ہوتا ہے.( با قاعدگی سے استغفار کرتا رہتا ہے ) اور چونکہ اس بات پر اس کی فطرت راضی نہیں ہوتی کہ وہ کسی وقت بھی خدا تعالیٰ سے الگ رہے اس لئے بشریت کے تقاضا سے ایک ذرہ غفلت بھی اگر صادر ہو تو اس کو ایک پہاڑ کی طرح گناہ سمجھتا ہے.یہی بھید ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک اور کامل تعلق رکھنے والے ہمیشہ استغفار میں مشغول رہتے ہیں کیونکہ یہ محبت کا تقاضا ہے کہ ایک محب صادق کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ اس کا محبوب اس پر ناراض نہ ہو جائے اور چونکہ اس کے دل میں ایک پیاس لگا دی جاتی ہے کہ خدا کامل طور پر اس سے راضی ہو اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بھی کہے کہ میں تجھ سے راضی ہوں تب بھی وہ اس قدر پر صبر نہیں کرسکتا کیونکہ جیسا کہ شراب کے دور کے وقت ایک شراب پینے والا ہر دم ایک مرتبہ پی کر پھر دوسری مرتبہ مانگتا ہے.اسی طرح جب انسان کے اندر محبت کا چشمہ جوش مارتا ہے تو وہ محبت طبعاً یہ تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.“ (اگر اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا میں راضی ہوں تو بیٹھ نہیں جانا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی اطلاع ہونا اس شخص کو مزید استغفار میں اور عبادتوں میں مائل کرتی ہے اور بجالانے کی طرف توجہ دلاتی ہے) فرمایا پس محبت کی کثرت کی وجہ سے استغفار کی بھی کثرت ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا سے کامل طور پر پیار کرنے والے ہر دم اور ہر لحظہ استغفار کو اپنا ور در کھتے ہیں.اور سب سے بڑھ کر معصوم کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب سے زیادہ استغفار میں مشغول رہے.اور استغفار کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ ہر ایک لغزش
خطبات مسرور جلد 12 209 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 اپریل 2014ء اور قصور جو بوجہ ضعف بشریت انسان سے صادر ہوسکتی ہے اس امکانی کمزوری کو دور کرنے کے لئے خدا سے مدد مانگی جائے تا خدا کے فضل سے وہ کمزوری ظہور میں نہ آوے.اور مستور ومخفی رہے.“ ( چھپی رہے کمزوری.ظاہر نہ ہو ) پھر بعد اس کے استغفار کے معنی عام لوگوں کے لئے وسیع کئے گئے اور یہ امر بھی استغفار میں داخل ہوا کہ جو کچھ لغزش اور قصور صادر ہو چکا خدا تعالیٰ اس کے بدنتائج اور زہریلی تا خیروں سے دنیا اور آخرت میں محفوظ رکھے.پس نجات حقیقی کا سرچشمہ محبت ذاتی خدائے عزوجل کی ہے جو عجز و نیاز اور دائمی استغفار کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے.اور جب انسان کمال درجہ تک اپنی محبت کو پہنچاتا ہے اور محبت کی آگ سے اپنے جذبات نفسانیت کو جلا دیتا ہے تب یکدفعہ ایک شعلہ کی طرح خدا تعالیٰ کی محبت جو خدا تعالیٰ اس سے کرتا ہے اس کے دل پر گرتی ہے اور اس کو سفلی زندگی کے گندوں سے باہر لے آتی ہے اور خدائے تھی وقیوم کی پاکیزگی کا رنگ اس کے نفس پر چڑھ جاتا ہے بلکہ تمام صفات الہیہ سے ظلی طور پر اس کو حصہ ملتا ہے.تب وہ تجلیات الہیہ کا مظہر ہوجاتا ہے اور جو کچھ ربوبیت کے ازلی خزانہ میں مکتوم و مستور ہے (چھپا ہوا ہے ) اس کے ذریعہ سے وہ اسرار دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں.چونکہ وہ خدا جس نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے بخیل نہیں ہے بلکہ اس کے فیوض دائمی ہیں اور اس کے اسماء اور صفات کبھی معطل نہیں ہو سکتے.66 چشمه مسیحی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 378-380) پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ گناہوں کو دور کرنا اور اعمال صالحہ بجالا نا بغیر خدا تعالیٰ کی محبت کے ممکن نہیں.آپ فرماتے ہیں کہ وو گناه در حقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پر جوش محبت اور محبانہ یاد الہی سے محروم اور بے نصیب ہو.اور جیسا کہ ایک درخت جب زمین سے اکھڑ جائے اور پانی چوسنے کے قابل نہ رہے تو وہ دن بدن خشک ہونے لگتا ہے اور اس کی تمام سرسبزی برباد ہو جاتی ہے.یہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جس کا دل خدا کی محبت سے اکھڑا ہوا ہوتا ہے.پس خشکی کی طرح گناہ اس پر غلبہ کرتا ہے سو اس خشکی کا علاج خدا کے قانون قدرت میں تین طور سے ہے.(۱) ایک محبت (۲) استغفار جس کے معنے ہیں دبانے اور ڈھانکنے کی خواہش.کیونکہ جب تک مٹی میں درخت کی جڑ جمی رہے تب تک وہ سرسبزی کا امیدوار ہوتا ہے.(۳) تیسرا علاج تو بہ ہے.یعنی زندگی کا پانی کھینچنے کے لئے تذلیل کے ساتھ خدا کی طرف پھرنا اور اس سے اپنے تئیں نزدیک کرنا اور معصیت کے حجاب سے اعمال
خطبات مسرور جلد 12 210 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 اپریل 2014ء صالحہ کے ساتھ اپنے تئیں باہر نکالنا.“ یعنی گناہوں کا جو پردہ پڑا ہوا ہے اس کو دور کرنے کے لئے اعمال صالحہ کی ضرورت ہے اور اعمال صالحہ بجالانے کے لئے جو اس پر دے کو دور کر دیں جیسا کہ میں خطبات میں چند ماہ پہلے یا چند ہفتوں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ان کے لئے پھر قوت ارادی اور علم کا پیدا ہونا اور قوت عملی کی ضرورت ہے تبھی یہ حجاب دور ہوتے ہیں اور اعمال صالحہ کرنے کی توفیق ملتی ہے اور پھر ان برائیوں سے انسان باہر آتا ہے.فرمایا: ” اور تو بہ صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ تو بہ کا کمال اعمال صالحہ کے ساتھ ہے.( کہ زبان سے تو بہ کہنا کوئی ضروری نہیں بلکہ تو بہ اس وقت ہے، یہ تو بہ اسی وقت مکمل ہوگی، اسی وقت تو بہ سمجھی جائے گی جب اعمال صالحہ بھی ساتھ ساتھ بجالائے جار ہے ہوں ) تمام نیکیاں تو بہ کی تکمیل کے لئے ہیں کیونکہ سب سے مطلب یہ ہے کہ ہم خدا سے نزدیک ہو جائیں.دعا بھی تو بہ ہے کیونکہ اس سے بھی ہم خدا کا قرب ڈھونڈتے ہیں.اسی لئے خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام روح رکھا.کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اسکی محبت اور اسکی اطاعت میں ہے.اور اس کا نام نفس رکھا کیونکہ وہ خدا سے اتحاد پیدا کر نیوالا ہے (روح اس لئے رکھا کہ اس کو خدا کی محبت میں راحت ملتی ہے اس کو اور نفس اس لئے کہ نفس میں خدا تعالیٰ سے جڑنے کی صلاحیت ہے.یہ نکتہ آپ نے بیان فرمایا کہ خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام اس لئے روح رکھا کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اس کی محبت اور اس کی اطاعت میں ہے.روح کی راحت اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں انسان فنا ہو جائے اس کے احکامات کی پابندی کرے، اطاعت کرے.نفس اس لئے رکھا کیونکہ وہ خدا سے اتحاد پیدا کرنے والا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے ساتھ جڑنے کی اس میں صلاحیت موجود ہے ) فرمایا کہ خدا سے دل لگانا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ باغ میں وہ درخت ہوتا ہے جو باغ کی زمین سے خوب پیوستہ ہوتا ہے.یہی انسان کا جنت ہے.اور جس طرح درخت زمین کے پانی کو چوستا اور اپنے اندر کھینچتا اور اس سے اپنے زہر یلے بخارات باہر نکالتا ہے اسی طرح انسان کے دل کی حالت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کا پانی چوس کر زہریلے مواد کے نکالنے پر قوت پاتا ہے اور بڑی آسانی سے اُن مواد کو دفع کرتا ہے.اور خدا میں ہوکر پاک نشو نما پاتا جاتا ہے.اور بہت پھیلتا اور خوشنما سرسبزی دکھلاتا اور اچھے پھل لاتا ہے.مگر جو خدا میں پیوستہ نہیں وہ نشو ونما دینے والے پانی کو چوس نہیں سکتا اس لئے دم بدم خشک ہوتا چلا جاتا ہے.آخر پتے بھی گر جاتے ہیں اور خشک اور بدشکل ٹہنیاں رہ جاتی ہیں.پس چونکہ گناہ کی خشکی بے تعلقی سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اس خشکی
خطبات مسرور جلد 12 66 211 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 104اپریل 2014ء کے دور کرنے کے لئے سیدھا علاج مستحکم تعلق ہے.“ ( اپنا مضبوط تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا کرو تبھی یہ خشکی دور ہوگی.نہیں تو سوکھے ہوئے درخت کی طرح انسان روحانی لحاظ سے بالکل ختم ہو جاتا ہے.فرمایا کہ ) جس پر قانون قدرت گواہی دیتا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ کر کے فرماتا ہے.یاتھا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِى إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جنتى (الفجر : 28-31) یعنی اے وہ نفس جو خدا سے آرام یافتہ ہے اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی.پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت کے اندر فرمایا کہ غرض گناہ کے دور کرنے کا علاج صرف خدا کی محبت اور عشق ہے.لہذا وہ تمام اعمال صالحہ جو محبت اور عشق کے سرچشمہ سے نکلتے ہیں گناہ کی آگ پر پانی چھڑکتے ہیں کیونکہ انسان خدا کیلئے نیک کام کر کے اپنی محبت پر مہر لگاتا ہے.خدا کو اس طرح پر مان لینا کہ اس کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھنا یہاں تک کہ اپنی جان پر بھی.یہ وہ پہلا مرتبہ محبت ہے جو درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جبکہ وہ زمین میں لگایا جاتا ہے.اور پھر دوسرا مرتبہ استغفار جس سے یہ مطلب ہے کہ خدا سے الگ ہوکر انسانی وجود کا پردہ نہ کھل جائے.اور یہ مرتبہ درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جبکہ وہ زور کر کے پورے طور پر اپنی جڑ زمین میں قائم کر لیتا ہے اور پھر تیسرا مرتبہ تو بہ جو اس حالت کے مشابہ ہے کہ جب درخت اپنی جڑیں پانی سے قریب کر کے بچہ کی طرح اس کو چوستا ہے.غرض گناہ کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ خدا سے جدا ہوکر پیدا ہوتا ہے.لہذا اس کا دور کرنا خدا کے تعلق سے وابستہ ہے.پس وہ کیسے نادان لوگ ہیں جو کسی کی خود کشی کو گناہ کا علاج کہتے ہیں.“ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن.جلد 12 صفحہ 328 تا330) پھر اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعہ کا ذکر فرماتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.قرآن شریف اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الہی میسر آ سکتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.مَن كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا (الكهف: 111 ) یعنی جوشخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے.پس چاہتے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو.یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں اور نہ وہ عمل ناقص اور نا تمام ہوں اور نہ ان میں کوئی ایسی بد بو ہو جو محبت
خطبات مسرور جلد 12 212 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 اپریل 2014ء ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہو.نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے نہ ہوانہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا ان پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز.بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت روح گرمی رہے اور دعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا بھی ہے اور اس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیریں.پس اس نے افتان و خیزاں بہر حال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا.“ لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 154) پھر محبت الہی کے معیار کا ذکر فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر یہ معلوم کر لو کہ تم میں ایک عاشق صادق کی سی محبت ہے جس طرح وہ اس کے ہجر میں، اس کے فراق میں بھوکا مرتا ہے پیاس سہتا ہے نہ کھانے کی ہوش نہ پانی کی پرواہ.نہ اپنے تن بدن کی کچھ خبر اسی طرح تم بھی خدا کی محبت میں ایسے محو ہو جاؤ کہ تمہارا وجود ہی درمیان سے گم ہو جاوے پھر اگر ایسے تعلق میں انسان مر بھی جاوے تو بڑا ہی خوش قسمت ہے.ہمیں تو ذاتی محبت سے کام ہے.نہ کشوف سے غرض نہ الہام کی پرواہ ( یہ لوگ کہتے ہیں ناں کہ کشف ہوا یا الہام ہوا ہے.ذاتی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو تو وہ اصل چیز ہے.یہ نہیں کہ کتنے الہام ہوئے اور کتنے کشف آئے اور کتنی سچی خوا ہیں آئیں ) ” دیکھو ایک شرابی شراب کے جام کے جام پیتا ہے اور لذت اٹھاتا ہے.اسی طرح تم اس کی ذاتی محبت کے جام بھر بھر کے پیو.جس طرح وہ دریا نوش ہوتا ہے اسی طرح تم بھی کبھی سیر نہ ہونے والے بنو.جب تک انسان اس امر کو محسوس نہ کر لے کہ میں محبت کے ایسے درجہ کو پہنچ گیا ہوں کہ اب عاشق کہلا سکوں تب تک پیچھے ہر گز نہ ہے.قدم آگے ہی آگے رکھتا جاوے اور اس جام کو منہ سے نہ ہٹائے.اپنے آپ کو اس کے لیے بیقرار وشیدا و مضطرب بنالو.اگر اس درجہ تک نہیں پہنچے تو کوڑی کے کام کے نہیں.ایسی محبت ہو کہ خدا کی محبت کے مقابل پر کسی چیز کی پرواہ نہ ہو.نہ کسی قسم کی طمع کے مطیع بنو اور نہ کسی قسم کے
خطبات مسرور جلد 12 213 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 اپریل 2014ء 66 خوف کا تمہیں خوف ہو.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 173-172) پھر فرماتے ہیں ” جب اللہ تعالیٰ سے بالکل راضی ہو جاوے اور کوئی شکوہ شکایت نہ رہے اس وقت محبت ذاتی بیدار ہو جاتی ہے.اور جب تک اللہ تعالیٰ سے محبت ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرہ کی حالت میں ہے لیکن جب ذاتی محبت ہو جاتی ہے تو انسان شیطان کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے.اس ذاتی محبت کو دعا سے حاصل کرنا چاہئے.جب تک یہ محبت پیدا نہ ہوانسان نفس امارہ کے نیچے رہتا ہے اور اس کے پنجہ میں گرفتار رہتا ہے اور ایسے لوگ جو نفس امارہ کے نیچے ہیں ان کا قول ہے ( پنجابی میں فرمایا کہ ) ا یہ جہان مٹھا اگلا کن ڈٹھا (یعنی یہ جہان تو میٹھا میٹھا ہے اگلا جہاں پتا نہیں آنا ہے کہ نہیں آنا کون سا ہم نے دیکھا ہے ) یہ لوگ بڑی خطرناک حالت میں ہوتے ہیں اور لو امہ والے ایک گھڑی میں ولی اور ایک گھڑی میں شیطان ہو جاتے ہیں.“ (دوسری حالت لوامہ کی ہے.ان کی حالت یہ ہے کہ ایک وقت میں تو ولی ہو جاتے ہیں اور دوسرے وقت میں شیطان بھی ہو جاتے ہیں.اوپر نیچے حالت ہوتی ہے.ان کا ایک رنگ نہیں رہتا کیونکہ ان کی لڑائی نفس کے ساتھ شروع ہوتی ہے جس میں کبھی وہ غالب اور کبھی مغلوب ہوتے ہیں تاہم یہ لوگ محل مدح میں ہوتے ہیں کیونکہ ان سے نیکیاں بھی سرزد ہوتی ہیں اور خوف خدا بھی ان کے دل میں ہوتا ہے لیکن نفس مطمئنہ والے بالکل فتح مند ہوتے ہیں اور وہ سارے خطروں اور خوفوں سے نکل کر امن کی جگہ میں جا پہنچتے ہیں.وہ اس دار الاماں میں ہوتے ہیں جہاں شیطان نہیں پہنچ سکتا.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 251-250) پھر ایک مؤمن کے عشق الہی کے معیار کے بارے میں فرمایا کہ " مؤمن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے اور وہ اپنے عشق میں صادق ہوتا ہے اور اپنے معشوق یعنی خدا کے لیے کامل اخلاص اور محبت اور جان فدا کرنے والا جوش اپنے اندر رکھتا ہے اور تضرع اور ابتہال اور ثابت قدمی سے اس کے حضور میں قائم ہوتا ہے.دنیا کی کوئی لذت اس کے لیے لذت نہیں ہوتی.اس کی روح اسی عشق میں پرورش پاتی ہے.معشوق کی طرف سے استغنا دیکھ کر وہ گھبرا تا نہیں.اس طرف سے خاموشی اور بے التفاتی بھی معلوم کر کے وہ کبھی ہمت نہیں ہارتا بلکہ ہمیشہ قدم آگے ہی رکھتا ہے اور درد دل زیادہ سے زیادہ پیدا کرتا جاتا ہے.ان دونوں چیزوں کا ہونا ضروری ہے کہ مومن عاشق ( جو مؤمن عاشق ہے ) ” کی طرف سے محبت الہی میں پورا استغراق ہو.(مؤمن عاشق بن کے محبت الہی میں پوری طرح
خطبات مسرور جلد 12 214 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 پریل 2014ء غرق ہو جائے اور ) عشق کمال ہو، محبت میں سچا جوش اور عہد عشق میں ثابت قدمی ایسی کوٹ کوٹ کے بھری ہو کہ جس کو کوئی صدمہ جنبش میں نہ لا سکے (جس کو کوئی صدمہ ہلا نہ سکے ) اور معشوق کی طرف سے کبھی کبھی بے پرواہی اور خاموشی ہو.درد دو قسم کا موجود ہو.ایک تو وہ جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا درد ہو.دوسرا وہ جو کسی کی مصیبت پر دل میں درد اٹھے اور خیر خواہی کے لیے اضطراب پیدا ہو.اور اس کی اعانت کے لیے بے چینی پیدا ہو.خدا تعالیٰ کی محبت کے لیے جو اخلاص اور درد ہوتا ہے اور ثابت قدمی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے وہ انسان کو بشریت سے الگ کر کے الوہیت کے سایہ میں لا ڈالتا ہے.جب تک اس کی حد تک درد اور عشق نہ پہنچ جائے کہ جس میں غیر اللہ سے محویت حاصل ہو جائے اس وقت تک انسان خطرات میں پڑا رہتا ہے.ان خطرات کا استیصال بغیر اس امر کے مشکل ہوتا ہے کہ انسان غیر اللہ سے بکلی منقطع ہو کر اسی کا ہو جائے اور اس کی رضا میں داخل ہونا بھی محال ہوتا ہے اور اس کی مخلوق کے لیے ایسا درد ہونا چاہئے جس طرح ایک نہایت ہی مہربان والدہ اپنے ناتواں پیارے بچے کے لیے دل میں سچا جوش محبت رکھتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 42-41) یعنی کہ اللہ تعالیٰ کے غیر سے بالکل تعلق قطع کر لینا اور دوسرے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا درد بھی دل میں رکھنا چاہئے.یہ اصل ہے جو ایک صحیح مؤمن کے دل میں ہوتا ہے جواللہ تعالیٰ کا عاشق ہو.پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قومی اور محبت صافی تب ہو سکتی ہے جب اس کی ہستی کا پتہ لگے.دنیا اس قسم کے شبہات کے ساتھ خراب ہوئی ہے.بہت سے تو کھلے طور پر د ہر یہ ہو گئے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو د ہر یہ تو نہیں ہوئے مگر ان کے رنگ میں رنگین ہیں اور اسی وجہ سے دین میں سست ہو رہے ہیں.اس کا علاج یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں تا ان کی معرفت زیادہ ہو اور صادقوں کی صحبت میں رہیں جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تصرف کے تازہ بتازہ نشان دیکھتے رہیں.پھر وہ جس طرح پر چاہے گا اور جس راہ سے چاہے گا معرفت بڑھا دے گا اور بصیرت عطا کرے گا اور ثلج قلب ہو جائے گا“.( یعنی دل تسلی پائے گا ) یہ بالکل سچ ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی عظمت پر ایمان ہو گا اسی قدر اللہ تعالیٰ سے محبت اور خوف ہو گا ورنہ غفلت کے ایام میں جرائم پر دلیر ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی عظمت اور جبروت کا رعب اور خوف ہی دوائیسی چیزیں ہیں جن سے گناہ جل جاتے ہیں اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جن اشیاء سے ڈرتا ہے، پر ہیز کرتا ہے.مثلاً جانتا ہے کہ آگ جلا دیتی ہے اس لیے آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا.یا مثلاً اگر یہ علم
خطبات مسر در جلد 12 215 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104اپریل 2014ء ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو اس راستہ سے نہیں گزرے گا.اسی طرح اگر اس کو یہ یقین ہو جاوے کہ گناہ کا زہر اس کو ہلاک کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت سے ڈرے اور اس کو یقین ہو کہ وہ گناہ کو نا پسند کرتا ہے اور گناہ پر سخت سزا دیتا ہے تو اس کو گناہ پر دلیری اور جرات نہ ہو.زمین پر پھر اس طرح سے چلتا ہے جیسے مردہ چلتا ہے.اسکی روح ہر وقت خدا تعالیٰ کے پاس ہوتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 63-62) پھر فرمایا کہ انسان جب خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں پڑ کر اپنی تمام ہستی کو جلا دیتا ہے تو وہی محبت کی موت اس کو ایک نئی زندگی بخشتی ہے.کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ محبت بھی ایک آگ ہے اور گناہ بھی ایک آگ ہے.پس یہ آگ جو محبت الہی کی آگ ہے گناہ کی آگ کو معدوم کر دیتی ہے.یہی نجات کی جڑھ ہے.“ ( قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 448) خاص طور پر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”خدا نہ معمولی طور پر بلکہ نشان کے طور پر کامل منتقی کو بلا سے بچاتا ہے ہر ایک مکار یا نادان متقی ہونے کا دعوی کرتا ہے مگر متقی وہ ہے جو خدا کے نشان سے متقی ثابت ہو.ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ میں خدا سے پیار کرتا ہوں.مگر خدا سے پیار وہ کرتا ہے جس کا پیار آسمانی گواہی سے ثابت ہو.اور ہر ایک کہتا ہے کہ میرا مذہب سچا ہے مگر سچا مذہب اس شخص کا ہے جس کو اس دنیا میں نو ر ملتا ہے.اور ہر ایک کہتا ہے کہ مجھے نجات ملے گی مگر اس قول میں سچا وہ شخص ہے جو اسی دنیا میں نجات کے انوار دیکھتا ہے.سو تم کوشش کرو کہ خدا کے پیارے ہو جاؤ تا تم ہر ایک آفت سے بچائے جاؤ.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 82) پھر خدا کی محبت ہمیں اپنے دلوں میں پیدا کرنے کے لئے کس طرز سے آپ نے نصیحت فرمائی ہے، اس کی ایک مثال دیتا ہوں.فرمایا کہ کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے.اور یہ عمل خرید نے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب
خطبات مسرور جلد 12 216 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 104 اپریل 2014 ء کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا.تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا.تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتا کہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہو جاتے.ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے.خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے.تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں.غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی.اور جیسے گدھ اور کتے مردار کھاتے ہیں انہوں نے مردار پر دانت مارے.وہ خدا سے بہت دور جا پڑے.انسانوں کی پرستش کی اور خنزیر کھایا اور شراب کو پانی کی طرح استعمال کیا اور حد سے زیادہ اسباب پر گرنے سے اور خدا سے قوت نہ مانگنے سے وہ مر گئے اور آسمانی روح ان میں سے ایسی نکل گئی جیسا کہ ایک گھونسلے سے کبوتر پرواز کر جاتا ہے ان کے اندر دنیا پرستی کا جذام ہے جس نے ان کے تمام اندرونی اعضا کاٹ دیئے ہیں.پس تم اس جذام سے ڈرو.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 21-22) پھر آپ فرماتے ہیں:.تم اس خدا کے پہچاننے کے لئے بہت کوشش کرو جس کا پانا عین نجات اور جس کا ملنا عین رستنگاری ہے.وہ خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے جو دل کی سچائی اور محبت سے اس کو ڈھونڈتا ہے.وہ اسی پر تجلی فرماتا ہے جو اسی کا ہو جاتا ہے.وہ دل جو پاک ہیں وہ اس کا تخت گاہ ہیں اور وہ زبانیں جو جھوٹ اور گالی اور یا وہ گوئی سے منزہ ہیں ( پاک ہیں) وہ اس کی وحی کی جگہ ہیں اور ہر ایک جو اس کی رضا میں فنا ہوتا ہے اس کی اعجازی قدرت کا مظہر ہو جاتا ہے.“ ( کشف الغطاء، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 188 )
خطبات مسرور جلد 12 217 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 اپریل 2014ء اللہ تعالیٰ ہمیں ان معیاروں کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے اور اس سے محبت کرنے والے ہوں اور اس کی محبت حاصل کر کے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں اور اس کی رضا کی جنتوں میں جانے والے ہوں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 25 را پریل 2014 ء تا 01 مئی 2014 ءجلد 21 شمارہ 17 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 12 218 15 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 11 / اپریل 2014ء بمطابق 11 شہادت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ایسے نشان کا ذکر کروں گا جو آج کے دن یعنی 11 اپریل 1900ء میں ظاہر ہوا.یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نشان عمل میں آیا.یہ نشان آپ کا عربی زبان میں خطبہ ہے جو خاص تائید الہی سے آپ کی زبان پر جاری ہوا، بلکہ الہام میں ہی تھا.یہ ایک ایسا نشان تھا جو الہامی تھا اس لئے اس کا نام ” خطبہ الہامیہ رکھا گیا.اس الہامی خطبہ اور اس الہامی کیفیت کو دو سو کے قریب لوگوں نے اُس وقت سنا اور دیکھا.مجھے بھی کسی نے اس طرف توجہ دلائی کہ آج کے دن کی مناسبت سے جبکہ آج جمعہ بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عظیم الشان نشان کو بیان کروں کیونکہ ایسے احمدی بھی ہیں جو شاید خطبہ الہامیہ کا نام تو جانتے ہوں جو کتابی صورت میں شائع ہے لیکن اس کی تاریخ اور پس منظر اور مضمون کا علم نہیں رکھتے.اور اس بات نے مجھے حیران بھی کیا جب یہ پتا چلا کہ بعض ایسے بھی ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ خطبہ الہامیہ کیا چیز ہے.ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نشان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے دکھائے ایسے ہیں جو ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہیں اور مخالفین احمدیت کا منہ بند کرنے کے لئے ہمیں مواد مہیا کرتے ہیں.آپ کی صداقت کی دلیل ہمیں مہیا کرتے ہیں.اور خاص طور پر ایسے نشان جیسے خطبہ الہامیہ ہے یہ تو عظیم الشان نشانوں میں سے ہے.جس نے بڑے بڑے علماء کے منہ بند کر دیئے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ مختصراً اس کا پس منظر اور تاریخ بیان کروں گا اور یہ بھی کہ اس نے اپنوں پر اس وقت کیا اثر کیا، کس کیفیت میں سے وہ
خطبات مسرور جلد 12 219 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء گزرے اور غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں.اسی طرح اس خطبہ کی چند سطریں یا بعض چھوٹے سے اقتباسات پیش کروں گا.اس الہامی خطبہ کی حقیقت اور عظمت کا تو اسے پڑھنے سے ہی پتا چلتا ہے لیکن یہ چند فقرے جو میں پیش کروں گا جو میں نے پڑھنے کے لئے چنے ہیں ان میں بھی اس کی عظمت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام و مرتبے کا پتا چلتا ہے.تذکرہ میں یہ خطبہ الہامیہ شاید اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ علیحدہ کتابی صورت میں چھپا ہوا ہے لیکن بہر حال مجھے اس بارے میں کچھ تحفظات ہیں.اس لئے آئندہ جب بھی تذکرہ شائع ہو یا آئندہ کسی زبان میں جو بھی ایڈیشن شائع ہوں تو متعلقہ ادارے اس بارے میں مجھ سے پوچھ لیں.اس خطبہ الہامیہ کا پس منظر یہ ہے جو بدر نے لکھا ہے ، اخبار الحکم نے بھی لکھا تھا یا جماعتی روایات میں آ رہا ہے کہ یوم العرفات کو یعنی بڑی عید، عید الاٹھی سے ایک دن پہلے ) علی الصبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ ایک خط کے حضرت مولانا نورالدین صاحب کو اطلاع دی.کہ میں آج کا دن اور رات کا کسی قدر حصہ اپنے اور اپنے دوستوں کے لئے دعا میں گزارنا چاہتا ہوں.اس لئے وہ دوست جو یہاں موجود ہیں اپنا نام معہ جائے سکونت ( یعنی پتہ وغیرہ کہاں رہتے ہیں ) لکھ کر میرے پاس بھیج دیں، تا کہ دعا کرتے وقت مجھ یادر ہے.“ اس پر تعمیل ارشاد میں ایک فہرست احباب کی ترتیب دے کر حضور کی خدمت میں بھیج دی گئی.اس کے بعد اور احباب باہر سے آ گئے جنہوں نے زیارت و دعا کے لئے بیقراری ظاہر کی اور رقعے بھیجنے شروع کر دیئے.حضور نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ ”میرے پاس اب کوئی رقعہ وغیرہ نہ بھیجے.اس طرح سخت ہرج ہوتا ہے.“ مغرب وعشاء میں حضور تشریف لائے جو جمع کر کے پڑھی گئیں.بعد فراغت فرمایا: چونکہ میں خدا تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ آج کا دن اور رات کا حصہ دعاؤں میں گزاروں.اس لئے میں جاتا ہوں تا کہ تخلف وعدہ نہ ہو.“ ( وعدہ خلافی نہ ہو ) یہ فرما کر حضور تشریف لے گئے اور دعاؤں میں مشغول ہو گئے.دوسری صبح عید کے دن مولوی عبدالکریم صاحب نے اندر جا کر تقریر کرنے کے لئے خصوصیت سے عرض کی.اس پر حضور نے فرمایا:
خطبات مسرور جلد 12 220 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء 66 ” خدا نے ہی حکم دیا ہے اور پھر فرمایا کہ رات الہام ہوا ہے کہ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو.میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا.شاید یہی مجمع ہو.( یعنی عید کا ) پھر یہ بھی رپورٹس میں ہے کہ ) ” جب حضرت اقدس عربی خطبہ پڑھنے کے لئے تیار ہوئے تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو حکم دیا کہ وہ قریب تر ہو کر اس خطبہ کو لکھیں.جب حضرات مولوی صاحبان تیار ہو گئے تو حضور نے يَا عِباد اللہ کے لفظ سے عربی خطبہ شروع فرمایا.اثناء خطبہ میں حضرت اقدس نے یہ بھی فرمایا اب لکھ لو پھر یہ لفظ چلے جاتے ہیں“ ( یعنی ساتھ ساتھ لکھتے جاؤ.اگر کوئی لفظ سمجھ نہیں آیا تو ابھی پوچھ لینا ) جب حضرت اقدس خطبہ پڑھ کر بیٹھ گئے، تو اکثر احباب کی درخواست پر مولانا مولوی عبد الکریم صاحب اس کا ترجمہ سنانے کے لئے کھڑے ہوئے.اس سے پیشتر کہ مولانا موصوف ترجمہ سنائیں، حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس خطبہ کو کل عرفہ کے دن اور عید کی رات میں جو میں نے دعائیں کی ہیں ان کی قبولیت کے لیے نشان رکھا گیا تھا کہ اگر میں یہ خطبہ عربی زبان میں ارتجالاً پڑھ گیا، تو وہ ساری دعائیں قبول سمجھی جائیں گی.الحمد للہ کہ وہ ساری دعائیں بھی خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق قبول ہوگئیں....( آپ نے یہ فرمایا اور پھر اس کا اردو میں ترجمہ شروع ہوا.....ابھی مولا نا عبد الکریم صاحب ترجمہ سنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس علیہ السلام فرط جوش کے ساتھ سجدہ شکر میں جا پڑے.حضور کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدہ شکر ادا کیا.سجدہ سے سر اٹھا کر حضرت اقدس نے فرمایا ا بھی میں نے سرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ ”مبارک یہ گو یا قبولیت کا نشان ہے.“ یر پورٹ الحکم میں شائع ہوئی تھی جو ملفوظات میں بھی درج ہے.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 29 تا 31) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب ”نزول امسیح “ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عید اضحی کی صبح کو مجھے الہام ہوا کہ کچھ عربی میں بولو.چنانچہ بہت احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی اور اس سے پہلے میں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی لیکن اس دن میں عید کا خطبہ عربی
خطبات مسرور جلد 12 221 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے.وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی.اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی.میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے.یہ تقریر وہ ہے جس کے اس وقت قریبا ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے.“ 66 ( نزول مسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 588) پھر حقیقۃ الوحی میں آپ ذرا تفصیل سے فرماتے ہیں کہ 11 اپریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی.اور نیز یہ الہام ہوا کلام أُفصحت مِن لَّدُنْ رَبِّ كَرِيمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے.چنانچہ اس الہام کو اسی وقت اخویم مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور اخویم حکیم مولوی نور دین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی اے اور حافظ عبد العلی صاحب اور بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی.تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الہی کے بیان کر سکے.جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو ۲۰۰ کے قریب ہوگی.سبحان اللہ اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا.مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا.خود بخو د بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبہ الہامیہ ہے.اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہہ بیان کر سکے.یہ ایک علمی معجزہ ہے جو
خطبات مسرور جلد 12 222 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 375-376) پس یہ چیلنج آج تک قائم ہے.یہ خطبہ دے دیا تو (اس بارہ میں ) بعض مزید باتیں تاریخ احمدیت میں لکھی ہیں کہ خطبہ چونکہ ایک زبردست علمی نشان تھا....“ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ”.....اس لئے اس کی خاص اہمیت کے پیش نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خدام میں تحریک فرمائی کہ اسے حفظ کیا جائے.چنانچہ اس کی تعمیل میں صوفی غلام محمد صاحب، حضرت میر محمد اسمعیل صاحب مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کے علاوہ بعض اور اصحاب نے اسے زبانی یاد کیا.بلکہ مؤخر الذکر دو اصحاب نے مسجد مبارک کی چھت پر مغرب و عشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بھی اسے زبانی سنایا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو انتہا درجہ ادبی ذوق رکھتے تھے وہ تو اس خطبہ کے اتنے عاشق تھے کہ اکثر اسے سناتے رہتے تھے اور اس کی بعض عبارتوں پر تو وہ ہمیشہ وجد میں آ جاتے.مولوی صاحب ایسے بلند پایہ عالم کو خطبہ الہامیہ کے اعجازی کلام پر وجد آنا ایک طبعی بات قرار دی جاسکتی ہے مگر خدا کی طرف سے ایک تعجب انگیز امر یہ پیدا ہوا کہ تقریر سننے والے بچے بھی اس کی جذب و کشش سے خالی نہیں تھے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا بیان ہے کہ وہ دن جس میں یہ تقریر کی گئی ابھی ڈوبا نہیں تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر بارہ سال سے بھی کم تھی اس کے فقرے قادیان کے گلی کوچوں میں دہراتے پھرتے تھے ( یعنی خطبہ کے فقرے ) جو ایک غیر معمولی بات تھی.یہ خطبہ اگست 1901 ء میں شائع ہوا.حضور نے نہایت اہتمام سے اسے کا تب سے لکھوایا.فارسی اور اردو میں ترجمہ بھی خود کیا اور اعراب بھی خود لگائے.اصل خطبہ کتاب کے (جو خطبہ الہامیہ کتاب ہے اس کے اڑتیسویں صفحہ پر ختم ہو جاتا ہے جو کتاب کے باب اول کے تحت درج ہے.اگلا حصہ آخر تک عام تصنیف ہے جس کا اضافہ حضور نے بعد میں فرمایا.اور پوری کتاب کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا“ (یعنی پہلا حصہ جو ہے وہ اصل خطبہ الہامیہ ہے.الہامی ہے.یہ کتاب شائع ہوئی تو بڑے بڑے عربی دان اس کی بے نظیر زبان اور عظیم الشان حقائق و معارف پڑھ کر دنگ رہ گئے.حق تو یہ ہے کہ مسیح محمدی کا یہ وہ علمی نشان ہے جس کی نظیر قرآن مجید کے بعد نہیں ملتی.“ تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه 85-86)
خطبات مسرور جلد 12 223 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء اسی خطبہ الہامیہ کے متعلق دو خوا ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قلم مبارک سے لکھی ہوئی ملی ہیں جو تذکرے میں بھی درج ہیں.19 را پریل 1900ء کی تاریخ دے کر حضور نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کی مندرجہ ذیل خواب لکھی ہے کہ میاں عبد اللہ سنوری کہتے ہیں کہ منشی غلام قادر مرحوم سنور والے یہاں آئے ہیں.ان سے انہوں نے پوچھا ہے کہ اس جلسہ کی بابت اُس طرف کی خبر دو.کیا کہتے ہیں.تو اس نے جواب دیا کہ اوپر بڑی دھوم مچ رہی ہے.( یہ خواب بیان کر رہے ہیں کہ اوپر کیا حالات ہیں؟).یہ خواب بعینہ سید امیر علی شاہ صاحب کے خواب سے مشابہ ہے کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ جس وقت عربی خطبہ بروز عید پڑھا جاتا تھا اس وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام جلسہ میں موجود ہیں اور اس خطبہ کو سن رہے ہیں.یہ خواب مین خطبہ پڑھنے کے وقت ہی بطور کشف اس جگہ بیٹھے ہوئے ان کو معلوم ہو گیا تھا.“ بعض صحابہ کے بھی تاثرات ہیں.حضرت حافظ عبدالعلی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ( تذکرہ صفحہ 290 حاشیہ ایڈیشن چہارم) میں بوقت خطبہ الہامیہ موجود تھا.حضور کی آواز اس وقت بدلی ہوئی تھی.ضلع سیالکوٹ کا ایک سید لہم [ خادم حضور ] (سید صاحب تھے ان کو الہام ہوا کرتا تھا لیکن بہر حال وہ احمدی تھے ) میرے پاس بیٹھا ہوا تھا.وہ کہہ رہا تھا کہ فرشتے بھی سننے کے لئے موجود ہیں.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر 3 صفحہ 146 روایت حضرت حافظ عبدالعلی صاحب) حضرت مرزا افضل بیگ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ عید الاضحی کا خطبہ الہامیہ میرے سامنے حضرت اقدس نے مسجد اقصیٰ میں جو پرانی مسجد مسیح موعود کے وقت کی ہے محراب اندرون دروازے کے سامنے باہر کے دروازے میں کھڑے ہو کر خطبہ بزبان عربی میں پڑھا.(یعنی جو بر آمرے کی ڈاٹ تھی یا در تھا اس کے اوپر کھڑے ہو کر حضور ہر لفظ کو تین بار دہراتے تھے اور مولوی حاجی خلیفہ اسیح اول اور مولوی عبد الکریم صاحب یہ ہر دو صاحب کتابت کرتے تھے اور حضور سے دریافت کرتے تھے کہ لفظ س سے ہے یاٹ سے.عین سے یا الف سے ہے.(یعنی
خطبات مسرور جلد 12 224 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء لفظ پوچھا بھی جایا کرتے تھے.غرضیکہ مولوی صاحبان خود اپنے اصلاح کے دریافت کرتے تھے.حضرت اس کی تصحیح فرماتے تھے.پھر ختم ہونے پر حضور نے مولوی عبدالکریم صاحب کو فرمایا کہ آپ ترجمہ کر کے پبلک کو سنادیں چنانچہ مولوی صاحب نے ترجمہ سنایا اور پھر سجدہ شکر مسجد میں ادا کیا گیا.“ ( رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر 8 صفحہ 212 روایات حضرت مرزا افضل بیگ صاحب) حضرت مولانا شیر علی صاحب فرماتے ہیں کہ اس عید کا خطبہ الہامیہ حضرت صاحب نے پڑھایا.یوم الحج کی صبح کو حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی صاحب کو پیغام بھیجا یا خط لکھا کہ جتنے لوگ یہاں موجود ہیں ان کے نام لکھ کر میرے پاس بھیج دیں تا میں ان کے لئے دعا کروں.حضرت مولوی صاحب نے موجود احباب کو تعلیم الاسلام سکول میں جمع کیا.( تعلیم الاسلام ان دنوں مدرسہ احمدیہ کی جگہ میں تھا ) اور لوگوں کے ناموں کی فہرست تیار کروائی اور حضرت صاحب کی خدمت میں بھیجی.حضرت صاحب نے اپنے دالان کے دروازے بند کر کے دعائیں فرمائیں.بعض لوگ جو پیچھے آتے تھے بند دروازے میں سے اپنے رقعے اندر پہنچاتے تھے.اس دن صبح کو حضرت مسیح موعود عید کے لئے نکلے مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے تو آپ نے فرمایا کہ رات کو مجھے الہام ہوا ہے کہ کچھ کلمات عربی میں کہو.اس لئے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی نورالدین صاحب دونوں کو پیغام بھیجا کہ وہ کاغذ اور قلم دوات لے کر آویں.کیونکہ عربی میں کچھ کلمات پڑھنے کا الہام ہوا ہے.نماز مولوی عبد الکریم نے پڑھائی اور مسیح موعود نے پھر اردو میں خطبہ فرمایا غالباً کرسی پر بیٹھ کر.اردو خطبے کے بعد آپ نے عربی خطبہ پڑھنا شروع کیا کرسی پر بیٹھ کر.اس وقت آپ پر ایک خاص حالت طاری تھی.آنکھیں بند تھیں.ہر جملے میں پہلی آواز اونچی تھی ، پھر دھیمی ہو جاتی تھی.سامنے بائیں طرف حضرت مولوی صاحبان لکھ رہے تھے.ایک لفظ دونوں میں سے ایک نے نہ سنا اس لئے پوچھا تو حضرت نے وہ لفظ بتایا اور پھر فرمایا کہ جولفظ سنائی نہ دے وہ ابھی پوچھ لینا چاہئے کیونکہ ممکن ہے مجھے بھی یاد نہ رہے.آپ نے فرمایا کہ جب تک اوپر سے سلسلہ جاری رہا میں بولتا رہا اور جب ختم ہو گیا بس کر دیا.پھر حضرت صاحب نے اس کے لکھوانے کا خاص اہتمام کیا اور خود ہی اس کا دوزبانوں فارسی اور اردو میں ترجمہ کیا اور یہ تحریک بھی فرمائی کہ اس کو لوگ یاد کر لیں جس طرح قرآن مجید یاد کیا جاتا ہے.چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اس کو یاد کر کے مسجد مبارک میں باقاعدہ حضرت صاحب کو سنایا.اس کے بعد میرے بھائی حافظ عبدالعلی صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے اس کے متعلق پوچھا.مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم
خطبات مسرور جلد 12 225 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء جانتے ہیں کہ یہ حضرت صاحب کی طاقت سے بالا ہے.ان کے اس جواب سے یہ مطلب تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے.حضرت صاحب کا نہیں“.(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر 10 صفحہ 302 تا 304 روایت حضرت مولانا شیر علی صاحب) حضرت میاں امیر الدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب جو خطبہ الہامیہ سنا کر نکلے تو راستے میں فرمایا کہ جب میں ایک فقرہ کہہ رہا ہوتا تھا تو مجھے پتا نہیں ہوتا تھا کہ دوسرا فقرہ کیا ہوگا.لکھا ہوا سامنے آ جاتا تھا اور میں پڑھ دیتا تھا، حضور بہت ٹھہر ٹھہر کر اور آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے.“ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر 10 صفحہ 62 روایت حضرت میاں امیرالدین صاحب) حضرت مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی تحریر فرماتے ہیں کہ وو سید عبدالحئی صاحب عرب جو عرب سے آکر بہت دنوں تک قادیان میں بغرض تحقیق ٹھہرے رہے اور بعد میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.انہوں نے خاکسار سے اپنی بیعت کرنے کا حال اس طرح بیان کیا تھا فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فصیح و بلیغ تصانیف کو پڑھ کر اس بات کا دل ہی میں قائل ہو گیا تھا کہ ایسا کلام سوائے تائید الہی کے اور کوئی لکھ نہیں سکتا.لیکن یہ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کلام خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے.اگر چہ مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور دیگر علماء اس بات کا یقین دلاتے اور شہادت دیتے تھے لیکن میرے شبہ کو ان کا بیان دور نہ کر سکا اور میں نے مختلف طریقوں سے اس بات کا ثبوت مہیا کرنا شروع کر دیا کہ آیا واقعی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا ہی کلام ہے؟ اور کسی دوسرے کی امداد اس میں شامل نہیں.چنانچہ میں عربی میں بعض خطوط حضرت اقدس کی خدمت میں لکھ کر ان کے جواب عربی میں حاصل کرتا اور پھر اس عبارت کو غور سے پڑھتا اور اس کا مقابلہ حضور کی تصانیف سے کر کے معلوم کرتا تھا کہ یہ دونوں کلام ایک جیسے ہیں.لیکن پھر بھی مجھے کچھ نہ کچھ ان میں فرق ہی نظر آتا جس کا جواب مجھے یہ دیا جاتا کہ حضرت اقدس کا عام کلام جو خطوں وغیرہ کے جواب میں تحریر ہوتا ہے اس میں معجزانہ رنگ اور خاص تائید الہی نہیں ہو سکتی چونکہ عربی تصانیف کو حضرت صاحب نے متحد یا نہ طور پر خدا تعالیٰ کے منشا اور حکم کے ماتحت اس کی خاص تائید سے لکھا ہے اس لئے ان کا رنگ جدا ہوتا ہے اور جدا ہونا چاہئے ورنہ عام لیاقت اور خاص تائید الہی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا.
خطبات مسرور جلد 12 226 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء بہر حال میں قادیان میں اس بات کی تحقیقات کے واسطے ٹھہرا رہا تا کہ میں بھی کوئی اس قسم کی تائید الہی کا وقت بچشم خود ملاحظہ کروں.چنانچہ خطبہ الہامیہ کے نزول کا وقت آ گیا اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس الہامی اور معجزانہ کلام کے نزول کو دیکھا اور خود کانوں سے سنا کہ بلا امداد غیرے کس طرح وہ انسان روز روشن میں تمام لوگوں کے سامنے ایسا فصیح وبلیغ کلام سنا رہا ہے.لہذا میں نے اس خطبہ کو سننے کے بعد شرح صدر سے بیعت کر لی.“ ( اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ 188 روایت حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی مطبوعہ ربوہ) ایک دوست مکرم حاجی عبدالکریم صاحب فوجی ملازمت کے سلسلے میں مصر گئے.(شاید 1940ء سے کچھ پہلے کا کوئی وقت ہے.) وہاں انہوں نے تبلیغ کا کام جاری رکھا اور ایک دوست علی حسن صاحب احمدی ہو گئے.ان کو لے کر حاجی صاحب مختلف مصری عرب احباب کے پاس جاتے اور تبلیغ کرتے تھے.ان میں سے ایک دوست محکمہ تار میں کلرک تھے.کئی روز ان سے خیالات کا تبادلہ ہوتا رہا.وہ تمام مسائل میں ان کے ساتھ متفق ہو گئے مگر امتی نبی ماننے پر تیار نہ تھے ( یہ بات ماننے پر تیار نہ تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں ) انہوں نے اس کلرک کو ” الخطبة الالهامية‘ دیا اور پھر کئی دن اس کے پاس نہ گئے.ایک دن اس دوست کا خط آیا جس میں اس نے حاجی صاحب کو کھانے پر بلایا تھا.وہاں پہنچنے پر اس نے کہا.آپ میری بیعت کا خط لکھ دیں.حاجی صاحب نے پوچھا کہ کیا ختم نبوت کا مسئلہ حل ہو گیا ہے.اس پر اس دوست نے کہا کہ میں نے ”الا زھر یو نیورسٹی کے ایک بڑے عالم کو رات کے کھانے پر بلایا تھا اور اسے بتایا کہ اس طرح مجھے بعض ہندوستانیوں نے تبلیغ کی ہے اور کہا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور آنے والا عیسی امت محمدیہ کا ہی ایک فرد ہے جو سیح و مہدی ہو کر آئے گا اور اس کے دعوے دار حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں.مجھے ان لوگوں کے تمام دلائل سے اتفاق ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب امتی نبی ہیں اور یہ وہ بات ہے جس کو میں ماننے کے لئے تیار نہیں.چونکہ آپ عالم دین ہیں آپ مجھے بتائیں کہ کیا میرا موقف درست ہے یا نہیں؟ اس ازھری عالم نے“ ازھر یونیورسٹی کے عالم نے جواب دیا کہ میں نے مرزا صاحب کا لٹریچر پڑھا ہے اور بعض احمدیوں سے بھی ملا ہوں اور تبادلہ خیالات کیا ہے.جس قسم کی نبوت کا مرزا صاحب نے دعویٰ کیا ہے اگر اس قسم کے ہزار بھی نبی آجائیں تو ختم نبوت نہیں ٹوٹتی (یہ تسلیم کیا انہوں نے ، کہتے ہیں ) اس پر میں نے انہیں کہا کہ دیکھو اب میں احمد یہ جماعت میں داخل ہو جاؤں گا اور قیامت والے دن تم اس کے ذمہ دار ہو گے.ازھری عالم کہنے
خطبات مسرور جلد 12 227 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء لگے کہ میرا یہ جواب صرف یہاں کے لئے ہی ہے.اگر پبلک میں سوال کرو گے تو میں یہی کہوں گا کہ امتی نبی بھی نہیں آسکتا ( لوگوں کے سامنے میں نہیں کہوں گا.ہاں اگر آپ جماعت احمدیہ میں شامل ہونا چاہئیں تو بیشک میری ذمہ داری پر داخل ہو جائیں.جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے لئے بعض روکیں ہیں جن میں سب سے بڑی یہ ہے کہ اگر میں احمدی ہو جاؤں تو مجھے ملازمت سے نکال دیا جائے گا دنیا داری غالب آ گئی ”یہ مصری دوست کہتے ہیں کہ جب میں نے ازھری عالم سے یہ بات سنی تو فوراً جماعت میں داخل ہونے کا مصم ارادہ کرلیا اور خطبہ الہامیہ پڑھنا شروع کردیا اور ختم کر کے سو یا.رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت سید نا احمد اسیح علیہ السلام ایک کثیر جماعت کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے ہیں.میں نے دریافت کیا کہ حضور یہ کون لوگ ہیں؟ اور انہیں آپ کہاں لے کے جار ہے ہیں.آپ نے فرمایا: یہ اولیاء اللہ ہیں جو امت محمدیہ میں مجھ سے پہلے ہوئے ہیں اور میں ان کو دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں زیارت کے لئے لے کے جا رہا ہوں.میں خاتم الاولیاء ہوں.میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہی جو میری جماعت میں سے ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی جو امتی نبی ہو جیسے میں ہوں.جب میں بیدار ہوا تو میرے لئے مسئلہ ختم نبوت حل ہو چکا تھا اور میں بہت خوش تھا.“ حاجی عبد الکریم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت ان کا یہ واقعہ اور بیعت فارم پر کر کے 66 قادیان روانہ کر دیا.ایک صاحب شیخ عبد القادر المغر بی بڑے چوٹی کے عالم تھے.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے ان علامہ المغر بی سے علمی، ادبی اور دینی مزاج کی وجہ سے گہرے دوستانہ مراسم تھے.آپ سے ان کی پہلی ملاقات 1916ء میں ہوئی تھی.ایک دفعہ علامہ المغربی نے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کو کہا کہ آئیے ہم دونوں تصویر بنائیں اور دوستی کا اقرار قرآن مجید پر ہاتھ رکھتے ہوئے کیا.اسی دوستی کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دمشق گئے ہیں تو مولوی عبد القادر صاحب بھی آپ سے ملنے آگئے اور بہت سے سوالات آپ سے کئے اور جب حضرت مصلح موعودؓ نے جواب دیئے تو انہوں نے پھر یہ کہہ دیا کیونکہ علامہ تھے ،ضد بھی تھی) کہ ہم لوگ عرب ہیں ، اہل زبان ہیں.قرآن مجید کو خوب سمجھتے ہیں ہم سے بڑھ کر کون قرآن کو سمجھے گا.اس پر خیر باتیں ہوتی رہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ فرمایا کہ تم لوگ بھی اسی طرح سے لغت کے محتاج ہو جس طرح سے ہم ہیں.قرآن خدا نے ہمیں سکھایا ہے اور سمجھایا ہے اور ہماری زبان باوجود یہ کہ ہم لوگ اردو میں گفتگو کرنے کا محاورہ رکھتے ہیں اور عربی میں بولنے کا ہمیں موقع
خطبات مسرور جلد 12 228 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء نہیں ملتا تم سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے وغیرہ وغیرہ حضور نے بڑے جوش سے عربی میں ایسی فصیح گفتگو فرمائی کہ پاس بیٹھے ایک سید صاحب بھی مولوی عبد القادر کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ واقعہ میں ان کی زبان ہم لوگوں سے زیادہ فصیح ہے.اس پر مولوی عبد القادر نے کچھ نرمی اختیار کی اور پھر ادب سے گفتگو کرنے لگے.بہر حال دوران گفتگو انہوں نے (علامہ مغربی صاحب نے یہ بھی کہا کہ حضرت مسیح موعود کی کتب میں زبان کی غلطیاں ہیں.اس کا بھی جواب حضرت خلیفہ ثانی نے دیا.فرمایا کہ تم میں اگر طاقت ہے تو اب ہی اغلاط کا اعلان کر دو یا ان کتب کا جواب لکھ کر شائع کر دو.پر یا درکھ کہ تم ہر گز نہ کر سکو گے.اگر قلم اٹھاؤ گے تو تمہاری طاقت تحریر سلب کر لی جاوے گی.تجربہ کر کے دیکھ لو.ان باتوں پر اب اس نے منت سماجت شروع کی کہ آپ ان دعووں کو عرب مصر اور شام میں نہ پھیلائیں اس سے اختلاف بڑھتا ہے اور اختلاف اس وقت ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہے.وہابیوں نے پہلے ہی سخت صدمہ پہنچایا ہوا ہے.آپ بلاد یورپ، امریکہ اور افریقہ کے کفار اور نصاریٰ میں تبلیغ کریں.مبشر بھیجیں لیکن یہاں ہرگز ایسے عقائد کا نام نہ لیں خدا کے واسطے.انا اَرجُوكُمْ يَا سَیّدِدی کبھی بوسہ دے کر کبھی ہاتھوں کو لپیٹ کر غرض ہر رنگ میں بار بار منت کرتا تھا کہ خدا کے واسطے ان علاقہ جات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا اعلان نہ کریں اور نہ مبلغ بھیجیں وغیرہ وغیرہ.پھر کہنے لگے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اچھے آدمی تھے.اسلام کے لئے غیرت رکھتے تھے مگر ان کی نبوت اور رسالت کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے.صرف لا اله الا اللہ پر لوگوں کو جمع کریں.خیر ان باتوں کا جواب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بڑے پر شوکت الفاظ میں ، لہجے میں دیا کہ اگر یہ منصوبہ ہمارا ہوتا تو ہم چھوڑ دیتے.مگر یہ خدا کا حکم ہے اس میں ہمارا اورسید نا احمد کا کوئی دخل نہیں.خدا کا یہ حکم ہے ہم پہنچائیں گے اور ضرور پہنچائیں گے.انہیں مغربی صاحب کا یہ واقعہ آگے چل رہا ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مولا نا جلال الدین صاحب شمس کو شام بھیجا.اس زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ.....ایک دن میں اور حضرت مولانا شمس صاحب بعض دوستوں سے احمدیت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ شیخ عبدالقادر المغر بی مرحوم تشریف لائے اور بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں.اثنائے گفتگو استخفاف سے اپنی سابقہ ملاقات کا ذکر کیا“ ( یعنی جو حضرت خلیفۃ مسیح الثانی سے ہوئی تھی بڑے تحقیر کے الفاظ میں...اور جو مشورہ حضور کو دیا تھا اسے دہرایا.( یعنی تبلیغ 66
خطبات مسرور جلد 12 229 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء یہاں نہ کریں) اور مذاقاً کہا کہ الہامات کی عربی عبارت بھی درست نہیں.( یعنی حضرت مسیح موعود کے الہامات کی عربی عبارت بھی درست نہیں ہے تو کہتے ہیں ) میں نے خطبہ الہامیدان کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ پڑھیں کہاں عربی غلط ہے.انہوں نے اونچی آواز سے پڑھنا شروع کیا اور ایک دولفظوں سے متعلق کہا کہ یہ عربی لفظ ہی نہیں.تو مولانا شمس صاحب نے (وہاں بیٹھے ہوئے تھے ) تاج العروس (عربی کی ایک لغت ہے ) الماری سے نکالی اور وہ لفظ نکال کر دکھائے.سامعین کو حیرت ہوئی اور شاہ صاحب کہتے ہیں میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا کہ کہلاتے تو آپ بڑے ادیب ہیں، بڑے عالم ہیں لیکن آپ کو اتنی عربی بھی نہیں آتی جتنی میرے شاگرد کو آتی ہے.( کہتے ہیں شمس صاحب ان دنوں مجھ سے انگریزی پڑھا کرتے تھے تو اس لئے میں نے ان کو شاگرد کہا.) اس پر انہیں بڑا غصہ آیا اور یہ کہتے ہوئے اٹھے اور کمرے سے باہر چلے گئے کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا اور کل بتاؤں گا تمہیں کیا ہوتا ہے.....خیر شاہ صاحب کہتے ہیں.....میں نے دیکھا کہ جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ میری باتوں سے کچھ متاثر ہیں تو ان کو بھی میں نے کہا کہ ہم دونوں اکٹھے رہے ہیں.میں بھی وہاں پڑھایا کرتا تھا اور ان کو علامہ صاحب کو خطبہ الہامیہ پڑھ کر ایسی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہئے تھا.بجائے اس کے حق بات ان کو مان لینی چاہئے تھی.خیر یہ دوستوں میں باتیں ہوتی رہیں.دوسرے دن کہتے ہیں صبح سویرے شمس صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے آپ کو کہا تھا کہ عبد القادر المغربی سے بگاڑ نہیں پیدا کرنا، تعلقات رکھیں تو آپ نے تو انہیں ناراض کر دیا ہے.تو میں نے کہا فکر نہ کرو ٹھیک کر لیں گے.دوسرے دن ہم دونوں صبح سویرے علامہ صاحب کے مکان پر گئے.دروازہ کھٹکھٹایا تو مغربی صاحب تشریف لے آئے اور آتے ہی مجھ سے بغلگیر ہو گئے اور مجھے بوسہ دیا اور کہا کہ میں آپ سے معافی مانگتا ہوں.میں آپ کی طرف آنا ہی چاہتا تھا.اندر تشریف لے آئیں.قہوہ پیئیں اور میں آپ کو دکھاؤں کہ میری رات کیسے گزری.ہم اندر گئے تو انہوں نے رسالہ الحقائق عن الاحمدیہ (یہ حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کی تألیف تھی ) کی طرف اشارہ کیا اور کہا.یہ رسالہ میرے ہاتھ میں تھا اور پختہ ارادہ کیا کہ اس رسالے کا رڈ شائع کروں.میں نے حدیث اور تفاسیر کی کتب جو میرے پاس تھیں وہ میز پر رکھ لیں اور عشاء کی نماز پڑھ کر رڈلکھنا شروع کر دیا.ادھر سے رسالہ پڑھتا اور رڈ لکھنے کے لئے کتا بیں دیکھتا.ایک رڈ لکھتا اس میں تکلف معلوم ہوتا اسے پھاڑ دیتا.ایک اور رد لکھتا اسے بھی پھاڑ دیتا.اسی طرح رات گزرگئی.بیوی نے بھی کہا کیا ہو گیا ہے تمہیں واپس آ جاؤ.سو جاؤ ( کہتے ہیں کہ ) آخر صبح فجر کی اذان ہوگئی اور میں کچھ نہیں لکھ سکا.ہر بات جو میں لکھتا تھا مجھے لگتی تھی یہ تو غلط
خطبات مسرور جلد 12 230 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء ہوگئی اور وہ سارا جماعت کا ہی لٹریچر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات پر ہی بنیا درکھتا ہے.تو اس کے بعد وہ ان کو (شاہ صاحب کو) کہنے لگے کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب ایک کلمہ مخالفت کا مجھ سے آپ نہیں سنیں گے.آپ کے خیالات سراسر اسلامی ہیں اور آپ آزادی سے تبلیغ کریں اور پوچھنے والوں سے میں آپ کے حق میں اچھی بات ہی کہوں گا لیکن میں آپ کے فرقے میں داخل نہیں ہوں گا.آخری دم تک وہ جماعت کی تعریف کرتے رہے.“ (ماخوذ از سیرت حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب.صفحہ 27-29) اب میں خطبہ الہامیہ کے بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں جس سے اس کی جیسا کہ میں نے کہا عظمت کا کچھ اندازہ ہوتا ہے.اصل تو پورا پڑھیں گے تو پتا لگے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عربی میں فرماتے ہیں کہ أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ الْمُحَمَّدِى وَإِنِّي أَنَا أَحْمَدُنِ الْمَهْدِى وَإِنَّ رَبِّ مَعِيَ إلى يَوْمِ تَحْدِى مِنْ يَوْمِ مَهْدِى وَإِنِّي أُعْطِيتُ ضِرَامًا أَكَالًا وَمَاءٌ زُلَالًا وَأَنَا كَوْكَبٌ يَمَانِي وَوَابِلْ رُوحَانِي ابْذَائِي سِنَانٌ مُذَرَّبٌ وَدُعَائِي دَوَا مُجَرَّبْ أُرِى قَوْمًا جَلَالًا وَقَوْمًا أَخَرِينَ جَمَالًا وَبِيَدِى حَرْبَةٌ أَبِيدُ بِهَا عَادَاتِ الظُّلْمِ وَالذُّنُوبِ وَفِي الْأُخْرَى ،، شُرْبَةٌ أُعِيْدُ بِهَا حَيَاةَ الْقُلُوبِ.(یعنی) اے لوگو! میں وہ مسیح ہوں کہ جو محمدی سلسلہ میں سے ہے اور میں احمد مہدی ہوں اور سچ سچ میرا رب میرے ساتھ ہے.میرے بچپن سے لے کر میری لحد تک.اور مجھے کو وہ آگ ملی ہے جو کھا جانے والی ہے اور وہ پانی جو میٹھا ہے اور میں یمانی ستارہ ہوں اور روحانی بارش ہوں.میرا رنج دینا تیز نیزہ ہے اور میری دعا مجرب دوا ہے.ایک قوم کو میں اپنا جلال دکھاتا ہوں اور دوسری قوم کو جمال دکھاتا ہوں.اور میرے ہاتھ میں ہتھیار ہے اس کے ساتھ میں ظلم اور گناہ کی عادتوں کو ہلاک کرتا ہوں اور دوسرے ہاتھ میں شربت ہے جس سے میں دلوں کو دوبارہ زندہ کرتا ہوں.“ پھر آپ فرماتے ہیں.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16 صفحه 61-62) أيُّهَا النَّاسُ قَوْمُوا لِلهِ زَرَافَاتٍ وَفُرَادَى فُرَادَى ثُمَّ اتَّقُوا اللهَ وَفَكِّرُوا كَالَّذِي مَا بَخِلَ وَمَا عَادَى أَلَيْسَ هَذَا الْوَقْتُ وَقتَ رُحْممِ اللهَ عَلَى الْعِبَادِ وَوَقْتَ دَفْعِ
خطبات مسرور جلد 12 231 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء الشَّرِ وَتَدَارُكِ عَطَشِ الْأَكْبَادِ بِالْعِهَادِ أَلَيْسَ سَيْلُ الشَّرِ قَدْبَلَغَ انْتِهَاءَ هُ وَذَيْلُ الْجَهْلِ طَوَّلَ أَرْجَاءَهُ وَفَسَدَ الْمُلْكُ كُلُّهُ وَشَكَرَ إِبْلِيسُ جُهَلَاءَهُ فَاشْكُرُوا اللَّهَ الَّذِي تَذَكَّرَكُمْ وَتَذَكَرَ دِينَكُمْ وَمَا أَضَاعَةَ وَعَصَمَ حَرْثَكُمْ وَزَرْعَكُمْ وَلُعَاعَهُ.وَأَنْزَلَ الْمَطَرَ وَأَكْمَلَ أَبْضَاعَهُ.وَبَعَثَ مَسِيحَهُ لِدَفْعِ الطَّيْرِ وَمَهْدِيَّهُ لافَاضَةِ الْخَيْرِ.وَأَدْخَلَكُمْ فِي زَمَانِ اِمَامِكُمْ بَعْدَ زَمَانِ الْغَيْرِ (کہ) اے لوگو! خدا کے لئے تم سب کے سب یا اکیلے اکیلے خدا کا خوف کر کے اس آدمی کی طرح سوچو جو نہ بخل کرتا ہے اور نہ دشمنی.کیا یہ وہ زمانہ نہیں کہ خدا بندوں پر رحم کرے؟ اور کیا یہ وہ زمانہ نہیں کہ بدی کو دفع کیا جائے اور جگروں کی پیاس کا مینہ برسانے سے تدارک کیا جائے؟ کیا بدی کا سیلاب اپنی انتہا کو نہیں پہنچا؟ اور جہالت کے دامن نے اپنے کناروں کو نہیں پھیلا یا ؟ اور ملک فاسد ہو گیا اور شیطان نے جاہلوں کا شکر یہ ادا کیا.پس اس خدا کا شکر کرو جس نے تم کو یاد کیا اور تمہارے دین کو یاد کیا اور ضائع ہونے سے محفوظ رکھا اور تمہارے بوئے ہوئے کو اور تمہاری زراعت کو آفتوں سے بچایا اور مینہ نازل فرمایا اور اس کے سر مایہ کو کامل کیا اور اپنے مسیح کو ضرر کے دور کرنے کے لئے اور اپنے مہدی کو خیر اور نفع پہنچانے کے لئے بھیجا اور تمہیں تمہارے امام کے زمانے میں غیر کے زمانہ کے بعد داخل کیا.“ پھر آپ فرماتے ہیں (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 66-67) وَانّي عَلَى مَقَامِ الْخَتمِ مِنَ الْوِلَايَةِ كَمَا كَانَ سَيِّدِى الْمُصْطَفَى عَلَى مَقَامِ الختمِ مِنَ النُّبُوَّةِ وَإِنَّهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاء وَانَا خَاتَمُ الْأَوْلِيَاء لَا وَلِى بَعْدِي إِلَّا الَّذِي هُوَ مِنِى وَعَلَى عَهْدِى وَإِنِّي أُرْسِلْتُ مِن رَّبِّي بِكُلِ قُوَّةٍ وَبَرَكَةٍ وَعِزَّةٍ وَإِنَّ قَدَهِيَ هَذِهِ عَلَى مَنَارَةٍ خُتِمَ عَلَيْهَا كُلُّ رِفْعَةٍ فَاتَّقُوا اللهَ أَيُّهَا الْفِتْيَانُ وَاعْرِفُونِي وَأَطِيعُونِي وَلَا تَمُوتُوا بِالْعِصْيَانِ وَقَدْ قَرُبَ الزَّمَانُ وَحَانَ أَنْ تُسْتَلَ كُلُّ نَفْسٍ وَتُدَانُ.اور میں ولایت کے سلسلے کو ختم کرنے والا ہوں جیسا کہ ہمارے سید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے سلسلے کو ختم کرنے والے تھے اور وہ خاتم الانبیاء ہیں اور میں خاتم الاولیاء ہوں.میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہوگا اور میرے عہد پر ہو گا اور میں اپنے خدا کی طرف سے تمام تر قوت اور برکت
خطبات مسرور جلد 12 232 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء اور عزت کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور یہ میرا قدم ایک ایسے منارہ پر ہے جو اس پر ہر ایک بلندی ختم کی گئی ہے.پس خدا سے ڈرواے جوانمر دو اور مجھے پہچانو اور نافرمانی مت کرو اور نافرمانی پرمت مرو اور زمانہ نزدیک آ گیا ہے اور وہ وقت نزدیک ہے کہ ہر ایک جان اپنے کاموں سے پوچھی جائے اور بدلہ دی جائے.“ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 69-71) پس یہ وہ عظیم الشان نشان ہے، یہ عظیم الشان الفاظ ہیں، یہ دعوت ہے جو اللہ تعالی کے حکم سے آپ نے دی.اللہ تعالیٰ کے الہام سے آپ نے دنیا کو دی اور یہ نشان جیسا کہ میں نے کہا 11 را پریل 1900ء کو ظہور میں آیا ، آج تک اپنی چمک دکھلا رہا ہے اور آج تک کوئی ماہر سے ماہر زبان دان اور بڑے سے بڑا عالم اور ادیب بھی چاہے وہ عرب کا رہنے والا ہے اس کا مقابلہ نہیں کر سکا.اور کس طرح یہ مقابلہ ہوسکتا ہے.یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام تھا جو آپ علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوا.اللہ تعالیٰ دنیا کو اور خاص طور پر عرب مسلمانوں کو عقل اور جرات دے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرستادے کے پیغام کو سمجھیں اور امت مسلمہ کو آج پھر امت واحدہ بنانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام صادق کے مددگار بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.نماز جمعہ کے بعد میں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا.ان میں سے ایک جنازہ مکرمہ حنیفاں بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب بھٹی بھوڑ و چک ضلع شیخو پورہ کا ہے جو 3 را پریل 2014ء کو 84 سال کی عمر میں وفات پاگئیں تھیں.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ نے 1953ء میں ایک خواب کی بناء پر بیعت کر کے جماعت میں شمولیت کی سعادت پائی تھی.جلسہ سالانہ ربوہ میں آپ نے خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا تو بتایا کہ خواب میں بیعت کے لئے کہنے والے بزرگ حضور ہی تھے.آپ بہن بھائیوں میں اکیلی احمدی تھیں اور پنجوقتہ نمازی ، تہجد گزار، بڑی دعا گو تھیں.غریب پرور نیک دل مخلص خاتون تھیں.جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق تھا.عہدے داران کی بڑی عزت کرتی تھیں.ان کے پسماندگان میں میاں کے علاوہ دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں.اپنے ایک بیٹے مکرم محمد افضل بھٹی صاحب کو انہوں نے جامعہ بھیجا.وہ تنزانیہ میں مبلغ سلسلہ ہیں اور وہاں خدمت بجالا رہے ہیں اور میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے پر بھی شامل نہیں ہو سکے تھے.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور ان کے اس بیٹے کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے جو میدان عمل میں دین کی خدمت بجالا رہا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 233 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اپریل 2014ء دوسرا جنازہ مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب آف کراچی کا ہے.جو 29 / مارچ 2014ء کو 76 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پاگئے.انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ اپنے گھر میں تھے کہ وضو کر کے عصر کی نماز پڑھنے کے لئے اپنے کمرے میں گئے ہیں.کافی انتظار کے بعد جب ان کی اہلیہ نے جاکے دیکھا تو جائے نماز ابھی کھولی نہیں تھی، فولڈ کی ہوئی جائے نماز پڑی تھی ، یا نماز پڑھ لی تھی یا پڑھنے سے پہلے بہر حال جائے نماز پر یہ گرے ہوئے تھے تو بستر پر ڈالا ، ایمبولینس آئی ، انہوں نے چیک کر کے بتایا کہ ان کی وفات ہو چکی ہے.آپ حضرت سید ناظر حسین شاہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے اور مکرم عبد اللہ شاہ صاحب جو حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے خالہ زاد بھائی تھے ان کے داماد تھے.نہایت شفیق، حلیم، نیک، دعا گو، نظام جماعت اور خلافت سے بے انتہا محبت کا تعلق رکھنے والے تھے.جماعتی کاموں میں مختلف ذمہ داریوں پر طویل عرصے تک ان کو خدمت بجالانے کی توفیق ملی.تہجد گزار، نمازوں کے پابند، با قاعدگی سے وقف عارضی بھی کرتے تھے.جلسہ سالانہ کا ہر سال بے چینی سے انتظار کرتے.یہاں آتے تھے اور جلسہ میں شمولیت اور خلیفہ وقت سے ملاقات کا بھی ان کو بڑا شوق ہوتا تھا.لمبے عرصہ تک کراچی میں اپنے حلقے کے سیکرٹری وصایا کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.موصی تھے.اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور چار بیٹے یادگار چھوڑے ہیں جو سارے پاکستان سے باہر ہی آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ اور سویڈن وغیرہ میں رہتے ہیں.ان کے دو بھائی یہاں ہیں.ایک سید نصیر شاہ صاحب ہیں جو آجکل یو.کے میں شعبہ رشتہ ناطہ کے انچارج ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.رحم کا سلوک فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر اور حوصلہ دے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 02 مئی 2014 ء تا 08 رمئی 2014 ءجلد 21 شمارہ 18 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 12 234 16 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفه امس الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده مورخہ 18 اپریل 2014 ء بمطابق 18 شہادت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات پیش کروں گا جن میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی کیا حقیقت ہے؟ اس کا مرتبہ کیا ہے؟ اس کے سب طاقتوں کے مالک اور واحد و یگانہ ہونے کا مقام بیان فرمایا ہے نیز یہ بھی کہ وہی ہے جو تمام مخلوق کا خالق ہے.ہر چیز کو فنا ہے اور اس کو فنا نہیں.آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اس کا ئنات کے خدا تک پہنچنے کا ذریعہ اب صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.جس کا حسن و احسان میں کوئی ثانی نہیں.آپ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو دیکھنے کے لئے اس کی طرف خالص ہو کر جھکنا ضروری ہے.اس کے آگے خالص ہو کر جھکنا ضروری ہے.اس کی عبادت بجالا نا ضروری ہے.پھر جب انسان کی یہ حالت ہوتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ دوڑ کر انسان کو گلے لگاتا ہے اور اس پر اپنے فضلوں کی بارش برساتا ہے.پس آپ نے بڑے درد سے فرمایا کہ ایسے خدا سے تعلق جوڑو تا کہ اپنی دنیا و آخرت سنوانے والے بن سکو.اللہ تعالیٰ کی کیا حقیقت ہے، وہ خدا جو تمام کائناتوں کا مالک ہے جس کو اسلام نے پیش کیا ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟ اس بارے میں ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:.خدا آسمان وزمین کا نور ہے.یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے.خواہ وہ ارواح میں ہے.خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی.( یعنی ہر قسم کا نور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.اللہ تعالیٰ ہی وہ نور ہے جو جسموں میں نظر 66
خطبات مسرور جلد 12 235 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء آتا ہے.ذاتی خوبیاں ہیں ان میں نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض خاص آدمیوں کو دی گئی خوبیاں ہیں وہ ان میں نظر آتی ہیں، ظاہری خوبیاں ہیں یا چھپی ہوئی خوبیاں ہیں، ذہنی خوبیاں ہیں یا خارجی ہیں.انسان کے باہر نظر آ رہی ہوتی ہیں.کسی چیز کی خوبصورتی جو نظر آرہی ہوتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے نور کی وجہ سے ہیں.فرمایا : اسی کے فیض کا عطیہ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہورہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں.“ ( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 191 حاشیہ نمبر (11) دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، جتنی ان کی خوبیاں نظر آتی ہیں، جہاں جہاں خوبصورتی نظر آتی ہے،حسن نظر آتا ہے.انسان دیکھتا ہے اس کو فائدے پہنچ رہے ہوتے ہیں.ہر قسم کی چیزیں جو ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فیض عام کی وجہ سے ہیں اور اس کے فیض سے کوئی خالی نہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو.فرمایا کہ وو وو وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے (اسی سے تمام فیض پھوٹتے ہیں.وہی تمام نوروں کا سبب اور ذریعہ ہے.وہی ہے جہاں سے رحمتوں کے چشمے پھوٹتے ہیں ) اسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیروزبر کی پناہ ہے.“ یعنی تمام دنیا کے قائم رکھنے کے لئے اور جو بھی اس میں شکست وریخت ہو رہی ہے یا جو بھی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ اسی کی طرف لوٹتی ہیں) وہی ہے جس نے ہر ایک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا ( جو اندھیروں میں پڑی ہوئی چیزیں تھیں ان کو باہر نکالا )’اور خلعت وجود بخشا.بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاته واجب اور قدیم ہو.“ (اس کے علاوہ کوئی ہستی نہیں ، کوئی وجود نہیں جو اپنی ذات میں اس بات کا حقدار ٹھہرتا ہو اور ہمیشہ سے ہو ) یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں.“ ( یہ دنیا ، ہماری دنیا بھی ، آسمان بھی ، انسان بھی ، حیوان بھی ، پتھر بھی ، درخت بھی ، روح جسم ہر چیز جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فیض سے ہی وجود میں ہے.) (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 192-191 حاشیہ نمبر 11 ) پھر اللہ تعالیٰ کے واحد اور لاشریک ہونے کے بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : شرکت از روئے حصر عقلی چار قسم پر ہے.کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کبھی فعل میں اور تاثیر میں.سو اس سورۃ میں ( یعنی سورۃ اخلاص میں.ان
خطبات مسرور جلد 12 236 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء چاروں قسموں کی شرکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دویا تین نہیں اور وہ صمد ہے یعنی اپنے مرتبہ وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور بالک الذات ہیں.آگے بعض مشکل الفاظ آئیں گے میں مختصراً ان کی وضاحت کر دوں گا.فرمایا کہ جو اس کی طرف ہر دم محتاج ہیں اور وہ آخر یلڈ ہے یعنی اس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اس کا شریک ٹھہر جائے اور وہ آخر یولی ہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اس کا شریک بن جائے اور وہ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اس سے برابری کرنے والا نہیں تا باعتبار فعل کے اس کا شریک قرار پاوے.سو اس طور سے ظاہر فرما دیا کہ خدائے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اور منزہ ہے اور وحدہ لاشریک ہے.“ ( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 518، حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) آپ نے اس میں فرمایا کہ شرکت یا شریک ہونا عقل کی رو سے چار قسم پر منحصر ہے یعنی تعداد میں.ایک تو کسی کی شرکت ہو سکتی ہے، کوئی کسی کا شریک ہو سکتا ہے جب تعداد میں اس کے مطابق ہو.ایک دو تین چار پانچ ہوں.دوسرے مرتبہ اور مقام میں.تیسرے نسب یا خاندان میں.چوتھے کسی کام کے کرنے کی طاقت میں اور اس کے اثرات قائم کرنے میں.فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان چاروں قسم کے شرک سے پاک ہے.یہاں اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کھول کر بتا دیا کہ وہ احد ہے.وہ اپنے عدد میں ایک ہے.دو تین چار نہیں.نہ اس کے برابر کوئی ہو سکتا ہے.وہ صمد ہے یعنی وہی ہے جس کی ضرورت ہر وقت مخلوق کو ہے.جب بھی کسی چیز کی احتیاج ہو، کسی چیز کی ضرورت ہو تو اسی کی طرف جایا جاتا ہے اور جایا جانا چاہئے.یا وہی ہے جو اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی طرف جایا جائے کوئی اور وجو دضرورت پوری کرنے کے لئے اس کا ہم پلہ نہیں ہے.اس کے برابر نہیں ہے.وجہ کیا ہے؟ کوئی وجود برابر کیوں نہیں ہے جو ضرورتیں پوری کر سکے؟ یہاں آپ نے وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس کے علاوہ ہر چیز وجود میں آسکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ ہمیشہ سے ایک ہی ہے اور رہے گا اور پھر ہر چیز کو فنا ہے.ایک وقت میں ختم ہو جائے گی، ہلاک ہونے والی ہے.یعنی ہر وجو دجو مخلوق ہے اس کے ساتھ پیدائش بھی ہے اور فنا بھی لیکن خدا تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.پس بوجہ پیدا ہونے اور ہلاک ہونے کے باقی مخلوق عارضی ہے.کچھ وقت کے لئے ہے اور جو عارضی اور کچھ وقت کے لئے ہو وہ اپنی ضروریات کے تمام سامان مہیا نہیں کر سکتا، نہ کسی کو مہیا کر واسکتا ہے.پس جو
خطبات مسرور جلد 12 237 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء تمام سامان مہیا نہ کر سکے اسے خود ایک خدا کی ضرورت ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ میں نے اپنی مخلوق کی زندگی قائم رکھنے کے لئے سامان مہیا کئے ہیں.وہی ہے جس پر انحصار کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہئے.پس یہ وجہ ہے اور تفصیل سے صمد کے یہ معنی ہیں.پھر نسب کی بات کی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لحد يلد اس کا کوئی بیٹا نہیں.وَلَمْ يُولّد اور اس کا کوئی باپ نہیں.پس نسب نسل سے وہ بالا ہے.لہذا اس کا کوئی شریک ہو نہیں سکتا.پھر چوتھی بات اللہ تعالیٰ کے متعلق فرماتا ہے کہ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدد اس کے کاموں میں کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں.پس جب برابری کرنے والا نہیں تو نہ ہی خدا تعالیٰ جیسے کوئی کام کر سکتا ہے.نہ ہی کام کے نتائج اور اثرات پیدا کرنا کسی کے بس میں ہے یا ہو سکتا ہے.یہ عام دنیا دار بھی جو اپنے کاموں کا نتیجہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میں نے یہ کر دیا وہ کر دیا.اس کے بھی جو نتائج پیدا ہورہے ہوتے ہیں یہ نتائج پیدا کرنا اس کے بس میں نہیں ہے بلکہ قانون قدرت کے تحت انسان کو اس کی محنت کا صلہ مل رہا ہوتا ہے جو محنت وہ کرتا ہے.وہ رب بھی ہے اور رحمان بھی ہے.اس کی ربوبیت اور رحمانیت کا فیض انسان کو مل رہا ہوتا ہے.پس کتنا بد قسمت ہے وہ انسان جو بجائے اپنے خدا کے اس احسان کے اس کے قریب ہو، اس کے آگے جھکے، اکثریت ان میں سے دور ہٹتی چلی جاتی ہے.پھر لیکچر لا ہور میں خدا تعالیٰ کی توحید اور سب طاقتوں کا مالک ہونے کے بارے میں آپ نے اسی سورت کو مزید بیان فرمایا کہ: قرآن میں ہمارا خدا اپنی خوبیوں کے بارے میں فرماتا ہے.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (الاخلاص : 2-5).یعنی تمہارا خداوہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی از لی اور ابدی....نہ کسی چیز کے صفات اُس کی صفات کے مانند ہیں.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے...علم حاصل کرنے والے کے لئے کسی علم سکھانے والے کی ضرورت ہے...اور پھر محدود ہے.( جو بھی علم حاصل ہو گا وہ محدود ہوتا ہے مگر اس کا علم ( خدا تعالیٰ کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور با ایں ہمہ غیر محدود ہے اور ساتھ ساتھ غیر محدود بھی ہے انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے.( بغیر ہوا کے سن نہیں سکتے ) اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں.اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے ( ایک حد تک دیکھ سکتا ہے انسان)
خطبات مسرور جلد 12 وو 238 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے.ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے.لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیر محدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں.اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا.اس لئے اس کی تو حید قائم نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو.آپ فرماتے ہیں کہ پھر اس سے آگے آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنی ہیں کہ خدا نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کوئی اس کا بیٹا ہے.کیونکہ وہ فنی بالذات ہے.اس کو نہ باپ کی حاجت ہے اور نہ بیٹے کی.یہ تو حید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدارا ایمان ہے.“ لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحه 155-154) پھر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی عقلی دلیل دیتے ہوئے آپ قرآن شریف کے عقائد سے ہی استنباط کرتے ہوئے فرماتے ہیں.یعنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پھر بعد اس کے اُس کے وحدہ لا شریک ہونے پر ایک عقلی دلیل بیان فرمائی اور کہا لَوْ كَانَ فِيْهِمَا الهَةٌ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَتا.( سورة ) انبیاء کی آیت 23 ہے.پھر فرمایا :.....وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ الهِ الخ المومنون کی آیت (92) ہے.یعنی اگر زمین.وو - وو و آسمان میں بجز اُس ایک ذات جامع صفات کا ملہ کے کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ دونوں بگڑ جاتے.کیونکہ ضرور تھا کہ کبھی وہ جماعت خدائیوں کی ایک دوسرے کے برخلاف کام کرتے.پس اسی پھوٹ اور اختلاف سے عالم میں فساد راہ پا تا اور نیز اگر الگ الگ خالق ہوتے تو ہر واحدان میں سے اپنی ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا اور ان کے آرام کے لئے دوسروں کا بر بادکر نا روا رکھتا.پس یہ بھی موجب فساد عالم ٹھہرتا.“ ( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 519-518 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) پس سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایک سے زیادہ کوئی خدا ہو.پھر خدا تعالیٰ کی بعض صفات جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے، ان کا ذکر فرماتے ہوئے مختصر وضاحت آپ نے فرمائی.فرمایا کہ جس خدا کی طرف ہمیں قرآن شریف نے بلایا ہے اس کی اس نے یہ صفات لکھی ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 239 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ (الحشر: (23) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة: (4) الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبَرُ (الحشر: 24) هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوَّرُ لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الحشر: 25) عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة: (21) رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة 2 (4) أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: 187) الْحَى الْقَيُّومُ (البقرة: 256) قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اللهُ الصَّمَدُ.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ.وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (الاخلاص : 2-5) یعنی وہ خدا جو واحد لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں.یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آ جائے.اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی.اور یہ جو فرمایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں.اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کا ملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہوسکتا.وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنی کو شریک کرنا ظلم ہے.جہاں تک بھی اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی سوچ پہنچ سکتی ہے اس کے ساتھ پھر کسی ادنی کو شریک نہیں ٹھہرایا جا سکتا.) وو پھر فرمایا کہ عالم الغیب ہے یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے.اس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سرا پا دیکھ سکتے ہیں مگر خدا کا سرا پا دیکھنے سے قاصر ہیں.( ہر چیز کو ہم دیکھ سکتے ہیں لیکن خدا کو جسمانی صورت میں نہیں دیکھ سکتے.) وو پھر فرمایا کہ وہ عَالِمُ الشَّهَادَة ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں ہے.یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو.وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا.وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا.اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا ؟ سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے.پھر فرمایا هُوَ الرحمن یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش
خطبات مسرور جلد 12 240 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء وو میں ان کے لئے سامان راحت میسر کرتا ہے.جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنا دیا.اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے.اور اس کام کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ رحمن کہلاتا ہے.( یعنی تمام ضروریات کو پہلے سے مہیا کر دیا یہ اس کی روحانیت ہے.) اور پھر فرمایا کہ الرحیم یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے.اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.اور پھر فرما یا ملِكِ يَوْمِ الدّین یعنی وہ خدا ہر ایک کی جزا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے.اس کا کوئی ایسا کار پرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو...کسی سے کوئی کام کروانے کے لئے اس کو ضرورت نہیں.ہر چیز اس کے اپنے ہاتھ میں ہے.اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو اور آپ کچھ نہ کرتا ہو.وہی کار پرداز سب کچھ جزا سزا دیتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو.اور پھر فرما یا الْمَلِكُ القُدُّوسُ یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں.یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں.( انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں ہے.کوئی نہ کوئی خامیاں کمزوریاں اس میں ہیں.اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے (رعایا قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے...( جواس سے ٹیکس وصول کیا جاسکتا ہے وہ کہاں سے آئے گا اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کونسی لیاقت اپنی ثابت کرے.بادشاہ کے مقابلے پر اگر رعایا کھڑی ہو جائے تو کیا ثابت کرے.آجکل دنیا میں، ملکوں میں آپ دیکھ لیں.یہی کچھ فتنہ وفساد ہورہا ہے.حکومتوں اور رعایا کی جنگیں ہو رہی ہیں.پس فرمایا کہ " پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے.وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کر کے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے.اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجر ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی.کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا.کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا ؟ تو اس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا.( یہ جولوگوں کا نظریہ ہے ناں کہ معافی کی اور پھر بھیجا.پھر فرمایا اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا جو دنیا کے لئے قانون بناتے ہیں.بات باتمیں بگڑتے ہیں اور اپنی خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو
خطبات مسرور جلد 12 241 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء 66 شیر مادر سمجھ لیتے ہیں.( ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو پھر اس طرح ظلم کرتے ہیں جس طرح ماں کا دودھ پی رہے ہیں.آجکل بھی آپ دیکھ لیں ، بعض ملکوں میں حکومت کے سر براہان کی طرف سے جو ظلم ہو رہا ہے، اسی طرح ہو رہا ہے.پھر فرمایا مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو تو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے.پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو یا تو وہ کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی کو ہی الوادع کہتا.بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ بچے انصاف پر چل رہا ہے.پھر فرمایا السلام یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے.اس کے معنے بھی ظاہر ہیں کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا،لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو پھر اس بد نمونہ کو دیکھ کر کس طرح دل تسلی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرور مصیبتوں سے چھڑا دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ باطل معبودوں کے بارے میں فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لَن تَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ.وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ التُّبَابُ شَيْئًا لا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُ (الحج: 74-75) جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.بلکہ اگر مکھی ان کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہوگی کہ وہ مکھی سے چیز واپس لے سکیں.ان کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں.کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے.نہ اُس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے.ایسی غلطیوں میں جولوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہئے اور پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچے خدا کا مانے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوسکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہو گا کیونکہ اس کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں.لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے.وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تاہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے.اور پھر فرمایا کہ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَ برو یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کاموں کا بنانے والا ہے.اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے.
خطبات مسرور جلد 12 242 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء.اور فرمایا هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوَّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰی.یعنی وہ ایسا خدا ہے کہ جسموں کا بھی پیدا کرنے والا اور روحوں کا بھی پیدا کرنے والا.رحم میں تصویر کھینچنے والا ہے.بچے کی پیدائش سے پہلے جب بچہ رحم میں ہی ہوتا ہے تو وہیں اس کی شکل بنادیتا ہے.تمام نیک نام جہاں تک خیال میں آ سکیں سب اسی کے نام ہیں.اور پھر فرمایا.يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی.اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں.( یعنی دنیا میں اور بھی ایسے گرے ہو سکتے ہیں جہاں آبادیاں ہوں ، بلکہ ہیں.) اور پھر فرمایا عَلى كُلّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یعنی خدا بڑا قادر ہے.یہ پرستاروں کے لئے تسلی وو ہے.کیونکہ اگر خدا عاجز ہو اور قادر نہ ہو تو ایسے خدا سے کیا امید رکھیں.اور پھر فرمایا.رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِي یعنی وہی خدا ہے جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا.رحمن رحیم اور جزا کے دن کا آپ مالک ہے.اس اختیار کوکسی کے ہاتھ میں نہیں دیا.ہر ایک پکارنے والے کی پکار کو سنے والا اور جواب دینے والا یعنی دعاؤں کا قبول کرنے والا.اور پھر فرمایا الحی القیوم یعنی ہمیشہ رہنے والا اور تمام جانوں کی جان اور سب کے وجود کا سہارا.یہ اس لئے کہا کہ وہ ازلی ابدی نہ ہو تو اس کی زندگی کے بارے میں بھی دھڑ کا ر ہے گا کہ شاید ہم سے پہلے فوت نہ ہو جائے.اور پھر فرمایا کہ وہ خدا اکیلا خدا ہے نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا بیٹا.اور نہ کوئی اس کے برابر اور نہ کوئی اس کا ہم جنس.“ 66 ( اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 372-376) پھر آپ فرماتے ہیں: ”مذہب اسلام کے تمام احکام کی اصل غرض یہی ہے کہ وہ حقیقت جو لفظ اسلام میں مخفی ہے اُس تک پہنچایا جائے.اسی غرض کے لحاظ سے قرآن شریف میں ایسی تعلیمیں ہیں کہ جو خدا کو پیارا بنانے کے لئے کوشش کر رہی ہیں.کہیں اس کے حسن و جمال کو دکھاتی ہیں اور کہیں اُس کے احسانوں کو یاد دلاتی ہیں.کیونکہ کسی کی محبت یا تو حسن کے ذریعہ سے دل میں بیٹھتی ہے اور یا احسان کے ذریعہ سے.چنانچہ لکھا ہے کہ خدا اپنی تمام خوبیوں کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے کوئی بھی اس میں نقص نہیں.وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا تمام صفات اس میں کامل طور پر جمع ہیں.اور مظہر ہے تمام پاک قدرتوں کا..66
وو 243 خطبات مسرور جلد 12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء ( ہر پاک قدرت کے اظہار اس سے ہو رہے ہوتے ہیں اور مبدا ہے تمام مخلوق کا.“ ( ہر چیز جو ہے وہی پیدا کرنے والا ہے اور سر چشمہ ہے تمام فیضوں کا.( تمام فیض اسی سے ملتے ہیں.) اور مالک ہے تمام جزا سزا کا.اور مرجع ہے تمام امور کا.“ ( تمام کام جو ہیں، تمام اعمال جو ہیں اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں اور نزدیک ہے باوجود ڈوری کے اور دُور ہے باوجود نزدیکی کے.وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے.“ ( یعنی کہ اتناوہ قریب ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ پوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اُس سے کوئی زیادہ ظاہر ہے.وہ زندہ ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ زندہ ہے.حق کا مطلب یہی ہے کہ زندہ بھی ہے اور زندہ رکھنے والا بھی ہے وہ قائم ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ قائم ہے.اُس نے ہر یک چیز کو اُٹھا رکھا ہے اور کوئی چیز نہیں جس نے اُس کو اُٹھا رکھا ہو.( یعنی ہر چیز کا انحصار اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی ہے کوئی چیز نہیں جو اس کے بغیر خود بخود پیدا ہوئی ہے یا اس کے بغیر خود بخود جی سکتی ہے.وہ ہر یک چیز پر محیط ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ کیسا احاطہ ہے.وہ آسمان اور زمین کی ہر یک چیز کا نور ہے اور ہر یک نور اسی کے ہاتھ سے چمکا.اور اُسی کی ذات کا پر توہ ہے.وہ تمام عالموں کا پروردگار ہے.کوئی روح نہیں جو اس سے پرورش نہ پاتی ہو اور خود بخود ہو.کسی روح کی کوئی قوت نہیں جو اس سے نہ ملی ہو اور خود بخود ہو.اور اس کی رحمتیں دو قسم کی ہیں (۱) ایک وہ جو بغیر سبقت عمل کسی عامل کے قدیم سے ظہور پذیر ہیں جیسا کہ زمین اور آسمان اور سورج اور چاند اور ستارے اور پانی اور آگ اور ہوا اور تمام ذرات اس عالم کے جو ہمارے آرام کے لئے بنائے گئے.ایسا ہی جن جن چیزوں کی ہمیں ضرورت تھی وہ تمام چیزیں ہماری پیدائش سے پہلے ہی ہمارے لئے مہیا کی گئیں اور یہ سب اُس وقت کیا گیا جبکہ ہم خود موجود نہ تھے.نہ ہمارا کوئی عمل تھا.کون کہہ سکتا ہے کہ سورج میرے عمل کی وجہ سے پیدا کیا گیا یاز مین میرے کسی شدھ کرم کے سبب سے بنائی گئی.غرض یہ وہ رحمت ہے جو انسان اور اس کے عملوں سے پہلے ظاہر ہو چکی ہے جو کسی کے عمل کا نتیجہ نہیں (۲) دوسری رحمت وہ ہے جو اعمال پر مترتب ہوتی ہے“.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 153-152) کہ جب عمل کرو نیک عمل کرو تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی جزا دیتا ہے.پھر آپ نے یہ بیان فرمایا کہ اب اس زمانے میں خدا تک پہنچنے کے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.آپ فرماتے ہیں:
خطبات مسرور جلد 12 244 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء اُس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قومی کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے نہ اُس کی خُلق سے.ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چپکنے والا چہرہ دکھاتا ہے.سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا.اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا.اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا اور بے شمار احسان والا.اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں.“ (نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 363) پھر ایسے لوگوں کے بارے میں جو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے آپ فرماتے ہیں.کہ ”خدا کی ذات غیب الغیب اور وراء الوراء اور نہایت مخفی واقع ہوئی ہے جس کو عقول انسانی محض 66 اپنی طاقت سے دریافت نہیں کر سکتیں وہ چھپی ہوئی ہستی ہے اور اس کو صرف عقلوں سے محفوظ نہیں کیا جاسکتا.دہر یہ لوگ کہتے ہیں کہ جی ہم عقل سے خدا تعالیٰ کو کس طرح سمجھیں یا صرف عقل سے ہی سمجھا جا سکتا ہے.فرمایا) عقول انسانیہ محض اپنی طاقت سے دریافت نہیں کر سکتیں اور کوئی برہان عقلی اس کے وجود پر قطعی دلیل نہیں ہو سکتی کوئی عقلی دلیل اس کے وجود پر قطعی دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ عقل کی دوڑ اور سعی صرف اس حد تک ہے کہ اس عالم کی صنعتوں پر نظر کر کے صانع کی ضرورت محسوس کرنے...عقل زیادہ سے زیادہ یہیں تک پہنچ سکتی ہے کہ کسی چیز کو دیکھ کر بتائے کہ اس کو کس نے بنایا ہے مگر ضرورت کا محسوس کرنا اور شئے ہے اور اس درجہ عین الیقین تک پہنچنا کہ جس خدا کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے وہ در حقیقت موجود بھی ہے یہ اور بات ہے.ایک خدا کی ضرورت ہے وہ موجود بھی ہے کہ نہیں یہ بالکل اور بات ہے اور چونکہ عقل کا طریق ناقص اور نا تمام اور مشتبہ ہے اسلئے ہر ایک فلسفی محض عقل کے ذریعہ سے خدا کو شناخت نہیں کر سکتا بلکہ اکثر ایسے لوگ جو محض عقل کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا پتہ لگانا چاہتے ہیں آخر کار دہریہ بن جاتے ہیں.اور مصنوعات زمین و آسمان پر غور کرنا کچھ بھی ان کو
خطبات مسرور جلد 12 245 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء فائدہ نہیں پہنچا سکتا.بڑے غور وفکر کرنیوالے ہیں، بڑے کائنات پر بھی غور کرتے ہیں، زمین پر بھی غور کرتے ہیں، سائنس پر بھی غور کرنے والے ہیں لیکن ان میں سے بہت سارے لوگ دہر یہ بھی ہیں جیسا وو کہ اس زمانے میں نظر آتا ہے کیونکہ صرف عقل کے استعمال کرنے سے ان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا.)....اور خدا تعالیٰ کے کاملوں پر ٹھٹھا اور ہنسی کرتے ہیں.نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہے ان سے مذاق اور ٹھٹھہ کر رہے ہوتے ہیں فرمایا اور اُن کی یہ حجت ہے کہ دنیا میں ہزار ہا ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن کے وجود کا ہم کوئی فائدہ نہیں دیکھتے اور جن میں ہماری عقلی تحقیق سے کوئی ایسی صنعت ثابت نہیں ہوتی جو صانع پر دلالت کرے بلکہ محض لغو اور باطل طور پر اُن چیزوں کا وجود پایا جاتا ہے.66 عقل کیونکہ اس تک پہنچ نہیں سکی ، اس لئے ضرورت ہی نہیں کہ کوئی اس کا بنانے والا بھی ہوگا.فرماتے ہیں کہ افسوس وہ نادان نہیں جانتے کہ عدم علم سے عدم فی لازم نہیں آتا.66 (یعنی کسی چیز کاعلم نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چیز موجود نہیں ہے.اس قسم کے لوگ کئی لاکھ اس زمانہ میں پائے جاتے ہیں جو اپنے تئیں اول درجہ کے عقلمند اور فلسفی سمجھتے ہیں.اب تو یہ کروڑوں میں ہو گئے ہیں.بلکہ دنیا میں بہت سارے لوگ ہیں کہ انہی باتوں کی وجہ سے انہوں نے خدا تعالیٰ پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ روحانیت کا جو خانہ تھاوہ بالکل خالی ہوتا چلا جارہا ہے.) فرمایا اور خدا تعالیٰ کے وجود سے سخت منکر ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی عقلی دلیل زبر دست اُن کو ملتی تو وہ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار نہ کرتے.اور اگر وجود باری جل شانہ پر کوئی برہان یقینی عقلی وو 66 انکوملزم کرتی تو وہ سخت بے حیائی اور ٹھٹھے اور جنسی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر نہ ہو جاتے.(یعنی اگر ایسا کوئی یقینی اور عقلی ثبوت مل جاتا جو ان کا منہ بند کرانے کے لئے کافی ہوتا تو پھر وہ خدا تعالیٰ کی ذات پر ٹھٹھہ اور ہنسی نہ کرتے ، اس کا انکار نہ کرتے جس طرح آجکل دنیا کی اکثریت کر رہی ہے.فرمایا ) پس کوئی شخص فلسفیوں کی کشتی پر بیٹھ کر طوفان شبہات سے نجات نہیں پاسکتا.پھر فلسفیوں کی بھی باتیں سنی ہیں یا ظاہری طور پر سائنس کو دیکھنا ہے یا روحانیت سے دور ہٹ کے دیکھنا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں جو شبہات دل میں پیدا ہوتے ہیں ان سے تم نجات نہیں پاسکتے وہ تمہارے دل سے کبھی نہیں دور ہو سکتے بلکہ ضرور غرق ہوگا ( مزید دہریت میں ڈوبتا چلا جائے گا.اور ہرگز ہرگز شربت توحید خالص اس کو میسر نہیں آئے گا.اب سوچو کہ یہ خیال کس قدر باطل اور بد بودار ہے کہ
خطبات مسرور جلد 12 246 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء بغیر وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے توحید میسر آسکتی ہے.( توحید میسر نہیں آسکتی جب تک ایک روحانی وسیلہ نہ ہو اور روحانی وسیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.اور اس سے انسان نجات پاسکتا ہے.اے نادانو ! جب تک خدا کی ہستی پر یقین کامل نہ ہو اس کی توحید پر کیونکر یقین ہو سکے.پس یقینا سمجھو کہ توحید یقینی محض نبی کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے دہریوں اور بد مذہبوں کو ہزار ہا آسمانی نشان دکھلا کر خدا تعالیٰ کے وجود کا قائل کر دیا اور اب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل پیروی کرنے والے ان نشانوں کو دہریوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.بات یہی سچ ہے کہ جب تک زندہ خدا کی زندہ طاقتیں انسان مشاہدہ نہیں کرتا شیطان اس کے دل میں سے نہیں نکلتا اور نہ سچی توحید اس کے دل میں داخل ہوتی ہے اور نہ یقینی طور پر خدا کی ہستی کا قائل ہوسکتا ہے.اور یہ پاک اور کامل توحید صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ملتی ہے.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 121-120 ) پھر خدا کے وجود پر یقین ، ایسا یقین دلوانے کے لئے جو انسان کی توجہ ہر معاملے میں صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی طرف رکھے آپ فرماتے ہیں اور بڑے درد سے فرماتے ہیں کہ ”ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں.وہ غیروں پر جو اس کی قدرتوں پر یقین نہیں رکھتے اور اس کے صادق وفادار نہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا.کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے.اور یہ عمل خرید نے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تالوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 22-21) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس زندہ خدا کا پیغام اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی اتباع میں دنیا کو پہنچانے والے ہوں اور دنیا کو یہ احساس دلانے والے ہوں
خطبات مسرور جلد 12 247 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اپریل 2014ء کہ زندہ خدا ہے، موجود ہے، اب بھی سنتا ہے، نشان بھی دکھاتا ہے.اس کی طرف لوٹو.اس کی طرف آؤ.اور ہم خود بھی اس خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنے والے ہوں اور اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں.اس کی صفات کا صحیح ادراک حاصل کرنے والے ہوں.اس کے انعامات کے وارث ہوں.ہماری نسلیں بھی اور ہم بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے شرک سے ہر طرح محفوظ رہیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 09 مئی 2014 ء تا 15 مئی 2014 ، جلد 21 شماره 19 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 248 17 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده مورخہ 25 اپریل 2014ء بمطابق 25 شہادت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت میں ذکر کرنا چاہتا ہوں ایک انتہائی پیاری شخصیت کا جو اپنے انتہائی باوفا ہونے میں ایک خاص مقام رکھتے تھے.فدائی خادم سلسلہ تھے.دو دن پہلے ان کا انتقال ہوا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ہر انسان نے ایک دن اس دنیا کو چھوڑنا ہے لیکن کتنے خوش قسمت ہیں وہ انسان جو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتے ہیں.جب عہد کرتے ہیں تو عہدوں کو نبھانے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں.خدمت دین کے ساتھ خدمت انسانیت کی بھی ہمہ وقت کوشش میں لگے رہتے ہیں.ان لوگوں میں شامل ہوتے ہیں جن کی ایک دنیا تعریف کرتی ہے اور اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق جنت ایسے لوگوں پر واجب ہو جاتی ہے.یہ خادم سلسلہ خلفائے وقت کے سلطان نصیر اور خلافت کے لئے انتہائی غیرت رکھنے والے ہمارے پیارے بھائی مکرم محمود احمد شاہد صاحب تھے جن کو محمود بنگالی کے نام سے پاکستان میں بھی اکثر لوگ جانتے ہیں.اس وقت یہ آسٹریلیا جماعت کے امیر تھے اور وہیں بدھ کے روز 23 را پریل کو ان کی وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مجھے ان کی وفات کے بعد ایک عزیز کا جو پہلا خط یا پیغام آیا انہوں نے یہ لکھا کہ خلافت کے فدائی ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی بنائے.ان کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ وہ نبض کی طرح چلتے تھے.کبھی ان کے دل میں یہ انقباض پیدا نہیں ہوا کہ یہ حکم کیوں آیا اور اس طرح کیوں آیا.اپنی مرضی کے خلاف بھی اگر کوئی بات ان کو کہی جاتی تو فوراً اس کی تعمیل ہوتی تھی.ان کی بیماری اور وفات کی کچھ تفصیلات کا
خطبات مسرور جلد 12 ذکر کرتا ہوں.249 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء 22 را پریل کو مشن ہاؤس سڈنی میں نماز عصر کے لئے مسجد کی طرف نکلے لیکن تھوڑا سا چل کے واپس گھر لوٹ آئے کہ طبیعت خراب ہو رہی ہے.اور گھر پہنچتے ہی شدید برین ہیمبرج کا حملہ ہوا.شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض تو پہلے ہی تھے.ہسپتال لے گئے.وہاں وینٹی لیٹر پر ان کو رکھا گیا.ڈاکٹروں کا تو یہی خیال تھا کہ دماغ کے جس حصہ میں برین ہیمبرج ہے وہاں سے زندگی کی واپسی ممکن نہیں ہے لیکن بہر حال میں نے ان کو کہا کہ 24 گھنٹے کوشش کر لیں اس سے زیادہ نہیں.24 گھنٹے کے بعد جب وہ مشین اتاری گئی تو دومنٹ بعد ہی آپ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.ان کا تعارف کچھ اس طرح ہے.محمود صاحب 18 نومبر 1948ء کو بنگلہ دیش کے ایک گاؤں چار دکھیہ ضلع چاند پور میں پیدا ہوئے تھے.ان کے والد مولانا ابوالخیر محد محب اللہ اور والدہ کا نام زیب النساء تھا.ان کے والد ابوالخیرمحمدمحب اللہ صاحب نے 1943ء میں احمدیت قبول کی تھی.ابتدائی نام ابو الخیر محمد تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے محب اللہ کے نام کا اضافہ فرمایا تھا.ان کے والد اپنے علاقے کے سب سے پہلے احمدی تھے اور بڑے پائے کے عالم تھے.تبلیغ کا بھی ان کو بڑا شوق تھا.اور انہوں نے تبلیغ کے ذریعہ سے اپنے والد خواجہ عبدالمنان صاحب یعنی محمود صاحب کے دادا کو احمدیت کے نور سے فیضیاب کیا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کی بات ہے کہ اس زمانے میں یہ سہارن پور یو.پی میں پڑھنے کے لئے گئے ہوئے تھے تو وہاں ان کو احمدیت کے بارے میں علم ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب دہلی تشریف لے گئے تو ان کے دادا کو بھی حضور علیہ السلام سے ملنے کا شوق پیدا ہوالیکن جہاں وہ زیر تعلیم تھے ان لوگوں نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے کی اجازت نہیں دی.بعد میں جب یہ احمدی ہوئے تو کہا کرتے تھے کہ لوگوں نے تو ہمیں اس نعمت سے محروم رکھنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت ہمیں عطا فرما دی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک پر مکرم محمود احمد شاہد صاحب کے والد نے آپ کو وقف اولاد کے تحت 1954ء میں وقف کیا.محمود شاہد صاحب مرحوم نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہی حاصل کی اور پھر 1962ء میں، ابھی بچے ہی تھے کہ جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخل ہوئے اور 1974ء میں انہوں نے شاہد کی ڈگری حاصل کی.آپ کی شادی 1977ء میں مولوی محمد صاحب مرحوم امیر جماعت بنگلہ دیش کی بیٹی ہاجرہ صاحبہ سے ہوئی.ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے
خطبات مسرور جلد 12 250 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء شادی شدہ ہیں اور جماعتی خدمات میں پیش پیش ہیں.محمود صاحب نے اپنی ابتدائی زندگی کی بعض باتیں اپنے داماد کونوٹ کروائی تھیں کہ کیا واقعات تھے.کہتے ہیں کہ تعلیم کے دوران ایک مرتبہ جامعہ میں ہی فٹ بال کھیلتے ہوئے ان کے گھٹنے میں سخت چوٹیں آئیں.سخت بیمار ہو گئے اور مشرقی بنگال واپس چلے گئے.ربوہ کا موسم بھی اس زمانے میں سخت تھا.وہاں سہولیات بھی نہیں تھیں.پانی نمکین تھا.میٹھے پانی کی دستیابی نہیں تھی.اکثر ان کے پیٹ میں تکلیف رہتی تھی.والدین بھی دور تھے.چھوٹے تھے.چوٹیں بھی لگی ہوئی تھیں.آخر والدین کی یاد بھی آئی تو بنگلہ دیش واپس چلے گئے.اس زمانے میں مشرقی پاکستان ہوتا تھا.ربوہ واپس آنے کی ان کی کوئی کوشش نہیں تھی.کوئی خواہش نہیں تھی کہ دوبارہ جائیں لیکن کہتے ہیں کہ سید میر داؤد احمد صاحب جو اس زمانے میں پرنسپل تھے انہوں نے بار بار خط لکھے اور کوشش کی کہ دوبارہ جامعہ میں آجائیں تو اس وجہ سے پھر ان کی واپسی ہوئی.کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی دعاؤں کا بھی میری زندگی پر بڑا گہرا اثر تھا.ربوہ میں جب تھے تو انہوں نے والد صاحب کو لکھا کہ ربوہ کا موسم سخت ہے.پانی نہیں ہے.گرمی ہے.کھانے پینے کی بڑی تکلیف ہے وغیرہ وغیرہ.اس کے جواب میں ان کے والد مکرم محب اللہ صاحب نے لکھا کہ مکہ میں بھی بڑے تکلیف دہ حالات تھے اور سورۃ ابراہیم کی آیت ربَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْع.....(ابراهيم: 38) کے حوالے سے پھر انہوں نے نصیحت کی اور لکھا کہ اللہ کے خلیفہ نے جو شہر آباد کیا ہے اگر وہاں نہیں رہ سکتے تو والد کے ساتھ تعلق بے معنی ہے.کہتے ہیں اس کے بعد پھر میری زندگی میں بڑی گہری تبدیلی آئی.راولپنڈی سے مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ جو ہیں وہ کہتے ہیں کہ خاموش اور سلیقہ مند کام کرنے والے خادم سلسلہ تھے.ساری عمر نہایت اخلاص اور وفا کے ساتھ اپنے فرائض بجالاتے رہے.عین خدمت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.ان کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے صدر خدام الاحمدیہ بنایا تھا اور اس کے بعد سے پھر ان کی انتظامی خوبیاں بھی سامنے آنے لگیں.مجیب الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ ان کے والد محترم مولانا محب اللہ صاحب کی تعیناتی بنگال میں بطور مبلغ ہوئی.انہوں نے اپنی پہلی اولا دکو وقف کر دیا اور محمود احمد ابھی چھوٹے ہی تھے کہ انہیں ربوہ میں بھجوادیا.اجنبی ماحول میں شروع شروع میں کافی اداس ہو جاتے تھے.مجیب الرحمن صاحب محمود صاحب کے ماموں ہیں.یہ کہتے ہیں کہ ان کے والد کو اتنی تڑپ تھی کہ مجھے اکثر لکھتے تھے کہ محمود کو اداس نہ ہونے دینا تا کہ یہ پڑھ لکھ جائے.جامعہ سے
خطبات مسرور جلد 12 251 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 125 اپریل 2014ء فارغ ہو.یہ ابتدائی دنوں کی بات تھی مگر بہت جلد محمود صاحب پھر پورے دل و جان سے اپنی تعلیم میں مشغول ہو گئے اور ربوہ کے ماحول میں ربوہ کے پرانے رہنے والے جانتے ہیں کہ بڑے گھل مل گئے.میر داؤ د احمد صاحب گرمیوں کی تعطیلات میں ان کو مجیب الرحمن صاحب کے پاس راولپنڈی بھیج دیا کرتے تھے.مجیب صاحب لکھتے ہیں اور بڑا صحیح لکھتے ہیں کہ عزیزم مرحوم کی طبیعت میں سادگی اور خلوص اس قدر تھا اور اتنے خوش اخلاق اور ملنسار تھے کہ غیر از جماعت ہمسائے کے بچے اور خواتین بھی ان سے مانوس ہو جایا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کو یاد کرتے تھے.محمود احمد صاحب کا اپنے بھائیوں سے بہت شفقت کا تعلق تھا.اپنے غریب رشتہ داروں کی خاموشی سے مدد کرتے رہتے تھے.بنگلہ دیش کی جماعت میں کچھ رقم ان کی امانت میں رکھی رہتی تھی جس سے وہ اپنی والدہ کی مستقل خدمت کرتے رہتے تھے.سب ان کے عزیز رشتہ دار بھی یہی کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بڑا پیار کا تعلق تھا.جب یہ صدر بنے ، یہ بھی انہوں نے اپنے داماد کو خود نوٹ کروایا، ) تو کہتے ہیں 1979ء میں خدام الاحمدیہ کی شورٹی میں صدر کا انتخاب ہوا.ووٹ کے لحاظ سے وہ پانچویں پوزیشن میں تھے.انتخاب کے بعد نماز فجر کے وقت حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بلا کے فرمایا کہ کثرت سے استغفار کرو اور درود پڑھو.اور اگلے روز یا اس دن شام کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ان کی بطور صدر منظوری عطا فرمائی.پانچویں نمبر پر تھے ووٹوں کے لحاظ سے.ان کے جامعہ کے ساتھی انعام الحق کوثر صاحب جو آجکل امریکہ میں مبلغ سلسلہ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ جامعہ کے ناصر ہوسٹل میں آپ سے دوستی ہوئی.آپ ہوٹل کے زعیم تھے اور انعام صاحب معتمد تھے.کہتے ہیں کہ میں ( کمیٹی) کے مبر اور پھر صدر بنے.جامعہ میں نائب الرئيس الجامعہ منتخب ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے انہیں صدر منتخب کیا اور اس کا اعلان ہوا تو انعام صاحب کہتے ہیں کہ میں محمود صاحب کے پاس ہی کھڑا تھا.میں نے آگے بڑھ کر ان کو گلے ملنا چاہا.کہنے لگے پرے ہٹو.اور اپنی مخصوص زبان جس میں بنگالی اردو بھی ملی ہوئی تھی ، پوچھنے لگے کیا میرا نام کا اعلان ہوا ہے تو میں نے کہا ہاں.انہیں یقین نہیں آ رہا تھا.خوشی کی بجائے صدمے کی حالت تھی.مگر پھر جلد سنبھل گئے اور کہتے ہیں پھر میں نے ان کو گلے لگایا.خالد سیف اللہ صاحب جو ان کے بعد اب اس وقت قائمقام امیر جماعت آسٹریلیا ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک موقع پر محمود بنگالی صاحب نے یہی صدر بنے کا قصہ خود انہیں بتایا کہ 1979ء میں جب
خطبات مسرور جلد 12 252 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء انٹرنیشنل صدر خدام الاحمدیہ کا انتخاب ہوا تو آپ ووٹوں کی گنتی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر تھے.حضرت خلیفة أسبح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ آپ سے بہت شفقت فرماتے تھے.حضور نے آپ کو بلا کر فرمایا کہ آج شام تک کثرت سے استغفار کرو.کہتے ہیں کہ میں بہت ڈرا کہ پتا نہیں مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوگئی ہے.جب حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچویں نمبر پر ہونے کے باوجود صدر مقرر فرما دیا تو مجھے سمجھ آئی کہ حضور اس طریق سے مجھے عاجزی کی طرف متوجہ فرما رہے تھے.یہ ان سب عہدے داروں کے لئے بھی سبق ہے جو جب منتخب ہوتے ہیں تو (انہیں) استغفار اور درود بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ عاجزی ہمیشہ قائم رہے اور خدمت کی توفیق اللہ تعالیٰ صحیح رنگ میں عطا فرما تار ہے.محمود مجیب صاحب انجینئر جو ہیں وہ بھی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ محمود بنگالی صاحب بڑے ہی فدائی اور خلافت کے شیدائی احمدی تھے.خلیفہ اسیح الثالث نے غالباً (ان کو سن تو یاد نہیں.غالباً لکھا ہوا ہے اور شاید ٹھیک ہی لکھا ہوا ہے کہ 80ء یا 81ء میں سارے صدران شمار کروائے جو 1960ء سے اس وقت تک پہلے گزر چکے تھے اور اس کے بعد پھر محمود بنگالی صاحب کی تعریف فرمائی کہ اطاعت میں اور دعائیں لینے میں یہ سب سے آگے نکل گئے ہیں.اور پھر وہاں خلیفہ اسیح الثالث نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں نے ان کو پانچویں نمبر سے اٹھا کے جو صدر بنایا تھا تو جماعت کو ایک سبق دینا چاہتا تھا کہ خلافت کا جو انتخاب ہے وہی بہتر ہوتا ہے.خدام الاحمدیہ کے دور میں انہوں نے ان سے کافی کتا نہیں کھوا ہیں.1981ء کا یہ واقعہ ہے.خدام الاحمدیہ کا اجتماع تھا.اس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے جو اپنے الفاظ ہیں جس میں آپ نے ان کو ، ان کی خدمات کو سراہا.فرمایا کہ ” برکت اسی کو ملے جو مخلصانہ نیت سے خلافت کی اتباع کرے کیونکہ ساری برکتیں اسی نظام سے وابستہ ہیں.اس کے سوا کوئی بات اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتی“.پھر فرمایا کہ پچھلے سال خدام الاحمدیہ کے صدر کا جو انتخاب ہوا اس میں ووٹوں کے لحاظ سے محمود احمد صاحب.....پانچویں نمبر پر تھے اور میں یہ سبق جماعت کو دینا چاہتا تھا کہ جن چار کو ووٹ زیادہ ملے ان کے کام میں برکت ان کے ووٹوں کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ جو مخلصانہ نیت سے خلافت کی اتباع کرے گا وہی برکت حاصل کرے گا.چنانچہ پانچویں نمبر پر جو محمود احمد بنگالی صاحب تھے ان کو میں نے صدر منتخب کر دیا.بڑے مخلص آدمی ہیں.اللہ ان کے اخلاص میں ترقی دے.بڑا کام کیا.دعائیں لیں.اور پھر حضور نے 1960 ء سے لے کر اس وقت تک کے جو مختلف صدر ان مجالس خدام الاحمدیہ تھے.ان کے زمانوں
خطبات مسرور جلد 12 253 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء میں اجتماعات میں مجالس کی نمائندگی کے گراف کا ذکر کرنے اور اس میں ایک مرحلے پر درمیان میں تنزل کے علاوہ تدریجی ترقی کی طرف اشارہ کرنے کے بعد فرمایا کہ ”میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کامیابی ووٹ لینے والوں کو نہیں خلیفہ وقت کی دعائیں حاصل کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے.پچھلی دفعہ پانچویں نمبر پر ووٹ لینے والے صاحب کو صدر بنایا گیا تھا.ان کے پہلے سال 771 مجالس حاضر تھیں اور دوسرے سال یعنی اس سال 818 مجالس (اس وقت کی جور پورٹ ہے اس میں ) حاضر ہیں.“ ( مشعل راه جلد دوم صفحه 571 تا573) محمود بنگالی صاحب جو تھے وہ اپنے دور صدارت میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر تھے.اس زمانے میں تمام دنیا میں مرکز کے تحت ایک صدر ہوتا تھا.باقی دنیا کے صدران نہیں تھے بلکہ قائدین کہلاتے تھے اور ان کے دور میں یہ اختتام ہوا.پر آخری صدر تھے جو خدام الاحمدیہ کے بین الاقوامی صدر تھے.تو بہر حال جب یہ دور ختم ہوا تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں انہوں نے ایک بڑا عاجزانہ خط بھیجا.اس پر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے جواب دیا کہ آپ نے خط میں خوامخواہ شرمندگی کا اظہار کیا ہے.شرمندگی کی کیا بات ہے.آپ نے تو ماشاء اللہ بہت اچھا دور نبھایا ہے.بڑے مشکل حالات میں بڑی عمدگی، حکمت اور بہادری کے ساتھ کام کیا ہے.اللہ مبارک کرے.اسی لئے تو آپ کو انصار اللہ میں جانے کے باوجو د خدمت کا موقع ملا.(ان کو ایک سال کی extention دی گئی تھی.) اگر آپ نا اہل ہوتے تو ہرگز ایسا نہ کیا جاتا.اللہ تعالیٰ آئندہ بھی آپ کو ہمیشہ سلسلے کا بے لوث خادم بنائے رکھے اور بہترین خدمات کی توفیق پاتے رہیں ( مکتوب 15 نومبر 1989ء).آپ نے اسیران کی بھلائی اور بہبود کے حوالے سے بہت کام کیا اور اس حوالے سے رپورٹس با قاعدہ جاتی رہیں.ان رپورٹس پر حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا یہ ارشاد بھی تھا کہ ”آپ کی رپورٹ بابت بہبودی اسیران موصول ہوئی.آپ ماشاء اللہ بڑی حکمت اور محنت سے کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج پیدا فرمائے اور واقعی انہوں نے اس زمانے میں اسیران کی بڑی خدمت کی.اور پھر ایک جگہ ایک رپورٹ پر لکھا: ” خدمت اسیران میں آپ کی مساعی سے بڑی خوشی ہوئی ہے“.84ء کا جو قانون تھا یہ اس کا ابتدائی دور تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں اسیران کلمہ کی وجہ سے جیل میں جا رہے تھے.اس زمانے میں خدام الاحمدیہ اور صد ر خدام الاحمدیہ نے کافی کام کیا ہے.فرماتے ہیں کہ ” خدمت اسیران میں آپ کی مساعی سے بڑی خوشی ہوئی ہے.بہت عمدگی سے کام کر رہے ہیں.بالکل اسی طرح سے جس طرح کہ میرا منشا تھا.( مکتوب 12 مئی 1988ء)
خطبات مسرور جلد 12 254 نے خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء خدام الاحمدیہ میں آپ کی نمایاں خدمات یہ ہیں کہ آپ کے دور میں خدام الاحمدیہ نے کئی شعبوں میں نمایاں طور پر آگے قدم بڑھایا.آپ نے اسیروں کی بھلائی اور بہبودی کے لئے اسیران ٹرسٹ قائم کیا جس کے تحت ان کی ضروریات پوری کرنے اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی گئی.اسی طرح صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے ایک ایمبولینس مخلوق خدا کی خدمت کے لئے چلائی گئی.بیوت الحمد سوسائٹی کے آغاز پر مجلس خدام الاحمدیہ نے بھاری عطیہ پیش کیا جس کے روح رواں مکرم محمود احمد صاحب ہی تھے.پھر خدام احمدیہ کے کارکنان کے لئے کوارٹرز تعمیر کرنے کی خاطر زمین خریدی جس میں آپ نے ذاتی دلچسپی کا اظہار کیا.پھر تراجم قرآن فنڈ میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے گراں قدر عطیہ پیش کرنے کی سعادت پائی.آپ نے پاکستان سے باہر خدام الاحمدیہ کی تنظیمی ترقی کے لئے کئی ممالک کا دورہ فرمایا اور ان میں سب سے تفصیلی دورہ 11 جون سے 11 /اکتوبر 1987ء کاسہ براعظمی دورہ تھا جس میں آپ نے یورپ امریکہ اور مغربی افریقہ کے گیارہ ممالک بالینڈ بلیجیم ، جرمنی ، برطانیہ، امریکہ، گیمبیا،سینیگال، سیرالیون، لائبیریا، آئیوری کوسٹ اور گھانا وغیرہ مختلف جگہوں پر سفر کیا.کسی صدر مجلس خدام الاحمدیہ کا ان ممالک کا یہ پہلا دورہ تھا.1989ء میں آپ نے انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگا پور کا دورہ کیا.آپ ہی کے دور میں خدام الاحمدیہ کے گیسٹ ہاؤس کی بالائی منزل تعمیر ہوئی.پھر خدام الاحمدیہ کا حمود بال جو ایوان محمود کہلاتا ہے اس کو ایک دفعہ آگ لگ گئی تھی تو بغیر کسی مالی تحریک کے پھر اس کی مرمت اور ساری رینوویشن وغیرہ کروائی.آپ کے دور میں خدام الاحمدیہ کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے انتخاب کے موقع پر، خلافت رابعہ کے انتخاب کے موقع پر خدمات کی توفیق ملی.پھر حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی پاکستان سے ہجرت کے وقت کے نازک حالات میں بھی خدام الاحمدیہ نے خدمت کی توفیق پائی.ڈیوٹیاں دیں، ساتھ بھی گئے.آپ کے دور کو خدا تعالیٰ نے کئی تاریخی اعزازات بھی عطا فرمائے.ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے چودھویں اور پندرھویں دونوں صدیوں میں اور اسی طرح جماعت کی پہلی اور دوسری دونوں صدیوں میں خدمت کی توفیق پائی.ان کے عہد میں ہی خدام الاحمدیہ اپنے پچاس سال پورے کر کے اکاونویں (51) سال میں داخل ہوئی.سلطان مبشر صاحب جو تاریخ خدام الاحمدیہ لکھ رہے ہیں.لکھتے ہیں کہ محمود صاحب کہا کرتے تھے کہ جب مجھے صدر خدام الاحمد یہ بنے دو تین روز ہوئے تو میں بہت گھبرایا اور حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کے قدموں میں بیٹھ کر بہت رویا اور اپنے مخصوص لہجے میں میں نے
خطبات مسرور جلد 12 255 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء کہا.مذکر مؤنث کا تو ان کو خیال نہیں رہتا تھا کہ مجھ سے یہ کام نہیں ہوتا.اس پر حضور نے شفقت سے فرمایا کہ خلیفہ وقت جب فیصلہ کر لیتا ہے اور دعا کر کے فیصلہ کیا ہے تو بدلتا نہیں.میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں.جب مشکل ہو میرے پاس آجانا.اور کہتے تھے کہ پھر میں نے خلفاء کی دعاؤں کو ہمیشہ اپنے سر پرہی دیکھا.خدام سے براہِ راست تعلق تھا.کہتے تھے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ دفتر میں کم سے کم بیٹھنا اور خدام سے براہ راست تعلق رکھنا.محمود صاحب عموماً دفتر میں بیٹھنے کے بجائے شام کو باہر کرسی پر بیٹھ جایا کرتے تھے ، خدام الاحمدیہ کا کیونکہ با قاعدہ دفتر ہے اور سارا احاطہ ہی خدام الاحمدیہ کا ہے اس لئے وہاں خدام کا ہی آنا جانا ہوتا تھا تو وہاں بیٹھ جاتے تھے اور ایوان محمود میں آنے جانے والوں سے براہ راست رابطہ رکھتے ، حال احوال پوچھتے ، خدام سے بے تکلف ہوتے ، نتیجہ خدام سے یگانگت کا ماحول پیدا ہو جاتا.ہر ایک کے غم میں برابر کے شریک ہوتے.ڈاکٹر مبشر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن ہم دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ بہت دیر ہوگئی تو محمود صاحب کہنے لگے کہ کچھ کھانے کو ہو تو لاؤ.کہتے ہیں میں گیسٹ ہاؤس گیا.جو کھانا دارالضیافت سے معاونین کے لئے آیا تھا وہ ختم ہو چکا تھا.چند بچے کھچے ٹکڑے تھے.میں خالی ہاتھ واپس آیا اور بتا یا کہ کچھ نہیں ہے.صرف چند ٹکڑے ہیں.اس پر انہوں نے کہا کہ وہ بھی تبرک ہیں وہی لے آؤ.چنانچہ وہی ٹکڑے انہوں نے کھائے.کسی منتظم کو یا گیسٹ ہاؤس کے خادم کو نہ کوئی ہدایت دی نہ ہی کچھ باز پرس کی کہ میرے لئے کوئی کھانا وغیرہ کیوں نہیں رکھا.خصوصاً ایسی حالت میں کہ رات کا وقت ہے ، ان کو شوگر اس وقت ہوگئی ہوئی تھی ، اور شوگر کے مریض کو تو بعض دفعہ بھوک بھی لگ جاتی ہے.لیکن کوئی اظہار نہیں کیا.اسی طرح معتمد صاحب کا اور دوسرے کارکنوں کا گھر بھی خدام الاحمدیہ کے احاطے میں تھا مگر انہیں بھی زحمت نہیں دی.پھر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ تاریخ خدام الاحمدیہ لکھنے پر انہوں نے ہی مامور کیا اور بہت حوصلہ افزائی کی.ان کی زبان میں بنگالی لہجہ تھا جو تحریر میں بھی آجاتا تھا.عموماً اپنے خطوط مجھ سے لکھواتے.2010ء میں جب وہ جلسہ لندن پر تشریف لائے تو کچھ خطوط اور رپورٹس خاکسار سے لکھوائیں.ڈاکٹر صاحب بھی یہاں آئے ہوئے تھے.ان کا جو بنگالی لہجہ تھا اس میں الفاظ کی ادائیگی کی وجہ سے بعض دفعہ سمجھنے میں دشواری ہوتی تو کہتے ہیں کہ مذاق سے کہ بھی دیا کرتا تھا لیکن کبھی انہوں نے مذاق کو برانہیں مانا.پھر یہ لکھتے ہیں کہ سب سے
خطبات مسرور جلد 12 256 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء بڑھ کر جو بات خاکسار نے یعنی ڈاکٹر صاحب نے ان سے سیکھی ، وہ خلیفہ وقت کی اطاعت اور مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کمال تک پہنچادینا تھا.وہ خلفاء کے معتمد تھے.اگر کبھی خلیفہ وقت کی طرف سے کسی معاملے میں باز پرس ہوتی تو قول سدید سے کام لیتے.کبھی اس لئے ہمت نہ چھوڑتے کہ حضور کی طرف سے ناراضگی کیوں ہوئی ہے بلکہ ہمیشہ اصلاح پر مامور رہتے اور آئندہ کے لئے خلفاء سے رہنمائی چاہتے.دعا کرتے اور دعاؤں کے لئے کہتے.فیروز عالم صاحب بھی یہ لکھتے ہیں کہ مجھے ان سے گہری وابستگی تھی.1982ء میں جب میں جامعہ گیا تو اس وقت میں تجربہ سے عاری ایک نو احمدی تھا اور اپنی اہم مصروفیت کے باوجود کہتے ہیں کہ مجھ پر نظر شفقت رکھتے.عید اور دوسرے مواقع پر گھر بلاتے ، تحفے دیتے.غریب الوطنی میں جو کمیاں ہوتیں انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے.اسی طرح عبد الاول صاحب نے بھی انہی خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور سب سے بڑی خصوصیت یہی کہ خلافت کے بہت ہی قریبی تھے اور قربان تھے.خاموش طبع تھے.دوسروں کی خوبیوں پر نظر رکھنے والے با عمل بزرگ تھے.بارہا مجھ جیسے بچے کی حوصلہ افزائی فرمائی.کہتے ہیں جب میں میٹرک کر کے جامعہ گیا تو اس وقت سولہ سال کا تھا اور وہاں میں نے دیکھا کہ آپ دور بیٹھے بھی اپنے وطن کے حالات کا جائزہ لیتے رہتے اور قیمتی دعاؤں اور مشوروں سے نوازتے رہتے تھے.گزشتہ سال میں نے ان کو بنگلہ دیش ایک جلسہ پر نمائندے کے طور پر بھجوایا تھا تو کہتے ہیں وہاں بھی بڑے خوش تھے اور بار بار ہماری حوصلہ افزائی فرماتے تھے.خالد سیف اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ امیر صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب ہم پڑھنے کے لئے ربوہ آئے تو میرے ساتھ اور بھی لڑکے تھے.ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات کے لئے گئے تو حضور چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.ہم پاس ہی زمین پر بیٹھے ہوئے تھے.حضور ہمیں وقف کی اہمیت اور قربانی کے بارے میں بتا رہے تھے اور حضور نے اپنا ایک ہاتھ میرے اوپر رکھا ہوا تھا کیونکہ میں سب سے زیادہ حضور کے قریب تھا.اللہ کی حکمت کہ باقی اکثر لڑ کے جو باہر سے آئے ہوئے تھے آب و ہوا اور غذ اوغیرہ کی سختی برداشت نہ کر سکے اور واپس گھروں کو چلے گئے.میں نے اپنی تعلیم اور وقف خدا کے فضل سے پورا کیا جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لمس کی برکت تھی.پھر خالد سیف اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ امیر صاحب مرحوم ایک ذہین انسان تھے.تعلق بنانے اور نبھانے کا فن خوب جانتے تھے اور اسے جماعت کے مفاد میں استعمال کرتے تھے.اس کے نتیجہ میں
خطبات مسرور جلد 12 257 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء امیگریشن کا عمل پاکستانی احمدیوں کے لئے آسان ہو گیا اور آسٹریلیا کی جماعت جو آپ کے آسٹریلیا آنے پر صرف چند سوتھی اب ہزاروں میں ہو چکی ہے اور ترقی کا یہ سلسلہ جاری ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق احمد یوں کو آسٹریلیا کے سبھی بڑے شہروں میں بسایا گیا.چنانچہ اب ہر سٹیٹ کے کیپیٹل میں مضبوط جماعت قائم ہے اور وسیع وعریض خوبصورت مساجد اور مشن ہاؤسز قائم ہیں.سڈنی میں بھی مسجد بیت الھدی کے علاوہ خلافت سینٹینری ہال اور مشن ہاؤس بھی ہے اور ایک گیسٹ ہاؤس ابھی تعمیر کیا جا رہا ہے.اسی طرح برسبین (Brisbane) میں مسجد بنی.میلبرن Melbourne) میں مسجد بنی.ایڈیلیڈ (Adelaide) میں مسجد محمود ہے.کینبرا (Canberra) میں مسجد کے لئے قطعہ زمین کے لئے کوشش ہو رہی تھی جلد مل جائے گا.آسٹریلیا کی جماعت میں ، ان کی ترقی میں انہوں نے ماشاء اللہ خوب حصہ لیا ہے.آسٹریلیا کے نیشنل سیکرٹری تربیت عمران احسن صاحب جو ہیں وہ کہتے ہیں کہ امیر صاحب 1991ء سے آسٹریلیا میں مشنری انچارج اور امیر جماعت کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے.آپ کے دور میں بہت بڑے پراجیکٹس تعمیل کو پہنچے جبکہ جماعت ابھی بھی بہت تھوڑی تعداد میں ہے.2006ء کے دورے کے بعد انہوں نے وہاں دو تین نئی مساجد اور سینٹینری ہال تعمیر کروایا.مسجد بیت السلام ملبرن جو ہے اس میں بڑا حصہ ہے وہ ہال ہے جس میں دو ہزار سے زائد نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.اسی طرح باقی مساجد بھی کافی وسیع ہیں.پھر آپ کے دور میں وفاقی حکومت آسٹریلیا کی دونوں سیاسی جماعتوں سے امیگریشن کے معاملات میں بہت اچھے روابط قائم ہوئے اور اسی طرح اور سہولتیں انہوں نے حکومت سے حاصل کیں.آسٹریلیا میں ذیلی تنظیموں کی تشکیل مرکزی خطوط پر کی.مختلف ممالک کے باشندوں کے مابین بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں آپ کی تربیت کا بہت ہاتھ ہے.آسٹریلیا میں صرف پاکستانی نہیں ہیں بلکہ وہاں پر جھن بھی بہت سارے آئے ہوئے ہیں، آسٹریلین بھی ہیں اور افریقن بھی.انہوں نے ان سب میں بھائی چارے کی بہت فضا قائم کی اور ہر ایک کو ڈیوٹیاں سپر د کر کے ذمہ دار بنایا اور ان سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا اور یہی ایک اچھے ایڈ منسٹریٹر کی خوبی ہے جس پر باقیوں کو بھی عمل کرنا چاہئے.ابھی پچھلے دنوں میں ان کا جلسہ ہوا ہے انہوں نے اس کی صدارت کی اور خدا تعالیٰ کی ذات کے شکر کے مضمون پر خطاب کیا.اس وقت تو بڑے صحت مند تھے.کسی کو خیال بھی نہیں تھا.
خطبات مسرور جلد 12 258 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء بڑے (صحت مند ) تو نہیں، مطلب یہ کہ بیماری کے لحاظ سے ان کی صحت دوبارہ بحال ہو رہی تھی اور کافی حد تک بحال ہو چکی تھی کہ پھر اچانک یہ سٹروک (stroke ) ہوا.پھر وکٹوریہ جماعت کے صدر جاوید صاحب ہیں وہ اپنے ایک تفصیلی خط میں لکھتے ہیں کہ امیر صاحب کی معاملہ نہی ، چھوٹی چھوٹی بات میں رہنمائی، تدبر، بصیرت اور دور اندیشی کے واقعات ہر شخص کی زبان پر عام ہیں.امیر صاحب کے پاس پرانی سی گاڑی تھی مجلس عاملہ کے بار بار اصرار اور کہتے ہیں میری ذاتی درخواست پر بھی اچھی گاڑی نہیں لی اور ہمیشہ دوسرے مربیان کو اچھی گاڑیاں لے کر دیں.اپنی کوئی فکر نہیں تھی.اسی طرح ان کی بیٹی نے لکھا ہے کہ کپڑوں وغیرہ کو لے کر ہم آتے تھے تو ان کو زیادہ نہیں ہوتا تھا.یہی تھا کہ جو آرام دہ کپڑا ہے وہ پہنوں.زیادہ fuss کرنے کی ضرورت نہیں.جماعتی اخراجات پر بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے.یادداشت بہت اچھی تھی.احباب جماعت کو ان کے ناموں سے یاد کرتے اور ان کی خوبیوں کو استعمال میں لانے کا خدا داد ملکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہوا تھا.مجلس عاملہ میں اور شوریٰ کے اجلاس میں خلیفہ وقت کے حوالے دے کر بات سمجھا یا کرتے تھے.ایک صاحب کہتے ہیں کہ ایک صاحب جنہوں نے یہاں جو کرکٹ ٹورنا منٹ ہوتا ہے اس میں آنا تھا لیکن ایک طوفان کی وجہ سے فلائٹ لیٹ ہو گئی یا کینسل ہو گئی اور وہ ٹورنا منٹ میں شامل نہیں ہو سکے تو امیر صاحب نے انہیں سمجھایا کہ پھر بھی ضرور جائیں.اگر ٹورنامنٹ میں شامل نہیں ہو سکتے تو کوئی بات نہیں.اصل مقصد تو خلیفہ وقت سے ملاقات ہے اگر وہ ہو جائے تو تم سمجھو کہ تمہارا ٹورنامنٹ کا مقصد پورا ہو گیا.اب دورے پر جب میں گیا ہوں تو ان دنوں میں ایک بیماری کی وجہ سے کافی شدید بیمار تھے اور ساتھ میلبرن نہیں جا سکے لیکن فون پر ہر تھوڑے تھوڑے وقفے سے فون کر کے تمام - انتظامات کا جائزہ لیتے رہے.کہتے ہیں کہ امیر صاحب اپنے خطابات میں خدام، انصار اور لجنات کو حقوق کی ادائیگی کی تلقین کیا کرتے تھے جس کا خوشگوار اثر ان کی زندگیوں میں دیکھنے میں آتا رہا.غیر ممالک سے آئے طلباء کا خاص خیال کرتے.شہداء کی فیملیز کے متعلق ہر دوسرے کام پر ترجیح دیا کرتے تھے.فیملیز کے معاملات کو ہر دوسرے کام پر ترجیح دیا کرتے تھے.تعزیری کارروائی کی کبھی شکایت کرنی پڑتی اور یہاں سے تعزیر ہوتی تو فرمایا کرتے تھے کہ اس سے میرا دل کٹ جاتا ہے اور معافی کے معاملے میں بہت جلدی کرتے تھے.جماعت احمد یہ آسٹریلیا کے لئے امیر صاحب کی شخصیت ایک ایسی اینٹ کی حیثیت رکھتی ہے جس نے
خطبات مسرور جلد 12 259 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 125 اپریل 2014ء جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی تعمیر تنظیم میں بنیاد کا کام کیا ہے.ڈاکٹر سید حسن احمد کہتے ہیں کہ پیار کا ایک سمندر تھا جو میں نے آپ میں دیکھا اور محسوس کیا.ہر احمدی چاہے چھوٹا ہو یا بڑا آپ کے گھر بلا تکلف چلا جاتا اور معمولی نوعیت کی باتیں ان سے بیان کرتا.نو جوانوں کو خاص طور پر کام سپر د کر تے.گویا ان کو لیڈر بنے کی ٹریننگ دے رہے ہیں.ہر وقت جماعت افراد جماعت کے درد میں گھلتے رہتے تھے.میلبرن سے ایک اسامہ احمد صاحب کہتے ہیں کہ مولانامحمود احمد صاحب کا وجود ہم آسٹریلیا کے احمدیوں کے لئے ایک شفیق باپ کی طرح تھا.آپ آسٹریلیا کے تمام احمدیوں سے یکساں اور بلا امتیاز پیار اور شفقت اور محبت کا سلوک فرماتے تھے.ہر چھوٹے بڑے کو اپنے حسن سلوک ، اعلیٰ اخلاق اور نمونے سے اپنا گرویدہ بنالیا تھا.آپ ہر موقع پر سڈنی آنے والے مہمانوں کا بہت خیال رکھتے.ہر جلسے اور اجتماع کے موقع پر اپنے گھر سے باہر تشریف لاکر مہمانوں کا خود استقبال کرتے اور گلے لگاتے.ہم ہمیشہ امیر صاحب کا مسکرا تا ہوا چہرہ دیکھتے اور اس محبت اور سلوک سے سفر کی تھکان دور ہو جاتی.بعض لوگوں نے ان کو بعض تکلیفیں بھی دیں لیکن جب تحقیق کی گئی تو باوجودلوگوں کی بدظنیوں کے کبھی براہ راست ان کا قصور نہیں نکلا.ایک دو کیس ایسے تھے جن میں ان پر بدظنیاں کی گئیں اور شکایتیں کرنے والوں کا ہی اصل میں قصور ہوتا تھا.ایک خاتون طاہرہ اطہر صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ چند دن پہلے جلسہ سالانہ آسٹر یلی ختم ہوا ہے.مسجد میں رہائش پذیر مہمانوں کی مہمان نوازی کی خاص تاکید کرتے رہے کہ جلسے پر آنے والوں کا خیال رکھا جائے.نمازوں کی ادائیگی کے لئے بڑی تاکید کی.ہمارے ہاں پریس کے انچارج عابد وحید ہیں جو میرے ساتھ دورے پر بھی تھے.وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دورہ آسٹریلیا کے دوران محترم محمود بنگالی صاحب کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا.باوجود یکہ کہ تمام دورے کے دوران ان کی طبیعت ناساز تھی.چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھتے اور بھر پور توجہ دیتے.مثال کے طور پر ایک دفعہ رات کے کھانے میں ہمیں دوسرے روز بھی ایک ہی سبزی پیش کی گئی.گو کہ ہمیں اس بات کا احساس بھی نہیں تھا لیکن بنگالی صاحب نے اس بات کو نوٹ کیا اور بیماری کے باوجود خود کچن میں جا کر ضیافت والوں سے وجہ معلوم کی کہ یہاں کوئی اور سبزی نہیں ملتی جو ایک ہی چیز کھلائی جا رہے ہو.اس طرح مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے.اس کے علاوہ ان کی طبیعت
خطبات مسرور جلد 12 260 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء میں عاجزی بہت تھی.یہ عابد کہتے ہیں کہ اپنے علم و تجربے کے باوجود مجھ سے پریس اور میڈیا کے امور کے متعلق مشورہ لینے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے.نظام جماعت کی عزت کرتے اور خلافت سے والہانہ محبت رکھتے تھے.زرتشت منیر صاحب امیر ناروے کہتے ہیں کہ جن دنوں آپ صدر خدام الاحمدیہ تھے.خاکسار کو کراچی میں بطور قائد ضلع خدمت کی توفیق ملی.انتہائی پر آشوب دور میں آپ نہایت کامیاب صدر تھے.یہ چوراسی پچاسی چھیاسی کا دور تھا جب حالات بہت خراب ہو گئے تو سندھ اور بلوچستان کو جماعتی اور تنظیمی سطح پر جماعت کراچی کے سپرد کر دیا گیا تھا.سندھ میں کسی جگہ بھی شہادت ہوتی تو محمود صاحب یا ان کا نمائندہ کراچی جماعت کے نمائندے سے قبل پہنچ جاتے.مشکل حالات میں محمود صاحب بہت دلیری ، دانشمندی کے ساتھ بڑے مشکل امور کو بڑی محنت کے ساتھ سر انجام دیتے.خلافت کے ساتھ عشق کی حد تک پیار تھا اور اس کی بڑی غیرت رکھتے تھے.حفاظت کے سلسلے میں معمولی کو تاہی بھی برداشت نہیں کرتے تھے.جب ہم ربوہ اجتماعات اور جلسوں پر جاتے تو آپ بہت ہی پیارو محبت کا سلوک فرماتے.ملک اکرم صاحب جو یہاں مربی ہیں یہ کہتے ہیں کہ جامعہ میں طالب علمی کے دور میں خاکسار نے ان کے ہمراہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے تحت راولپنڈی کی مجلس کا دورہ کیا.انہوں نے ہر مجلس میں مختلف تقریر کی.آیات قرآنیہ، احادیث مبارکہ ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفائے احمدیت کے کلمات پورے حوالوں کے ساتھ زبانی یاد کئے ہوئے تھے اور راولپنڈی کے ایک سینئر عہدے دار نے ایک جلسے کے بعد کہا تھا کہ زندگی میں یہ بچہ اعزاز پائے گا حالانکہ اس وقت محترم محمود صاحب جامعہ کے تیسرے چوتھے سال کے طالبعلم تھے.اکرم صاحب کہتے ہیں کہ خاکسار کو آپ کی صدارت خدام الاحمدیہ کے دور میں ان کی عاملہ میں پانچ سال تک خدمت کی توفیق ملی.نہایت باریک بین، زیرک، معاملہ فہم انسان تھے.انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.نہایت شفیق اور محبت کرنے والی ہستی تھی.خود بھی محنتی تھے اور عاملہ سے بھی محنت کی توقع رکھتے تھے.نہایت دلیر تھے.کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک شریر فطرت افسر ربوہ پر مسلط کر دیا گیا تو اس نے بعض نامناسب روکیں پیدا کر دیں.محمود صاحب بحیثیت صدر مجلس خدام الاحمدیہ اس کے دفتر گئے اور ایسے رعب اور دبدبے سے بات کی کہ خوف سے اس نے ان رکاوٹوں کو دور کر دیا.پھر یہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کام کے دوران کبھی بھی انہیں جماعتی کاراپنے ذاتی کام یا فیملی کے لئے استعمال کرتے نہیں دیکھا.ربوہ میں بالعموم پیدل یا سائیکل پر تقریبات
خطبات مسرور جلد 12 261 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء میں شرکت کرتے.خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ غیر احمدی لوگوں سے احمدی نوجوان بہتر ہیں.آپ نے کہا کہ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد نہیں تھا کہ دوسروں کے ساتھ اپنی نسبت تلاش کرتے پھر دیا ان سے مقابلہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ ہر احمدی کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں اور اس بات کو سامنے رکھنا چاہئے.بنگلہ دیش کے ظفر احمد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بنگلہ دیش میں ان کے قیام کے دوران ان کی خدمت کی توفیق پائی، جب یہ گزشتہ سال گئے ہوئے تھے.محموداحمد صاحب بہت ہی سادہ طبیعت کے اور ملنسار انسان تھے.نمازوں کے لئے بروقت مسجد میں حاضر ہوتے تھے.بیماری کے باوجود با قاعدگی سے تہجد پڑھتے تھے.مہمان خانے میں ان کے قیام کے دوران ان کی ہدایت تھی کہ جو بھی ملنا چاہیں انہیں روکنا نہیں.ذاتی خرچ پر ان کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے.ہر ایک کا خیال رکھتے تھے.مریضوں کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے.اس طرح کی خصوصیات تو بہت ساروں نے لکھی ہیں کہ جو پہلے دن سے تھے آخر تک وہ رہے.مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد لندن لکھتے ہیں کہ نہایت مخلص، دیندار، خاکسار اور بے ریا انسان تھے.کہتے ہیں 2004ء میں مجھے ایک ماہ کے لئے آسٹریلیا جانے کا موقع ملا تو اس دوران ان کی بے شمار خوبیوں سے آگاہی ہوئی.سر فہرست ان کی خلافت سے محبت اور اطاعت تھی.صبح کی سیر میں اکثر اس موضوع پر بات ہوتی.جماعت کی ترقی اور جماعتی کاموں میں شمولیت اور وابستگی پر بات ہوتی.اس بات کا بڑے درد سے ذکر کرتے کہ ابھی بہت کمزوریاں ہیں.دوروں پر جاتے ہوئے مجھے ہر جماعت کے حوالے سے بتا دیتے کہ انہیں کن کن امور کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے.خالد احمد صاحب جو ہمارے رشین ڈیسک کے انچارج ہیں.انہوں نے مجھے لکھا کہ آپ سے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد محمود صاحب کی محبت نہایت درجہ عقیدت میں تبدیل ہوگئی اور ذکر سے ہی چہرے پر انکساری اور عاجزی اور خلوص پھوٹ جاتا تھا.پھر یہ کہتے ہیں اور واقعی یہ صحیح کہتے ہیں.اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ فی زمانہ آپ کے مقام و مرتبہ کے مخلص، عاجز، متقی، درویش صفت ، ہمدرد، خلافت کے فدائی بہت کم ہوں گے.ایک عزیز نے لکھا کہ وہ امیر صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے.آسٹریلیا کے ہی کسی فرد جماعت کا فون آیا جو اپنی بات منوانا چاہتا تھا اور اس میں کچھ تختی کے الفاظ بھی استعمال کر رہا تھا کہ میں ٹھیک
خطبات مسرور جلد 12 262 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء ہوں.محمود صاحب نے اسے سمجھایا تو وہ اور زیادہ غصہ میں آ گیا کہ میں پھر خلیفہ وقت کو آپ کی رپورٹ کروں گا.خیر جب بات ختم ہوئی تو بڑے افسوس سے کہنے لگے کہ یہ لوگ غلطیاں خود کرتے ہیں اور پھر خلیفہ وقت کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں.یہ تو جیسا کہ میں نے کہا کئی لوگوں نے کہا ہے کہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ غلطی کی وجہ سے خلیفہ وقت سے کیا سرزنش ہو گی.جو حق تھا تمام معاملہ انصاف کے ساتھ پیش کر دیا کرتے تھے.نوجوانوں کو سمجھاتے رہتے تھے کہ ہم تو مہرے ہیں.یہ خدا کی جماعت ہے خود معاملات سنبھالتا چلا جارہا ہے.اگر تمہیں موقع مل رہا ہے تو موقع سے فائدہ اٹھاؤ.ان کی جو جماعتی خدمات ہیں وہ زعامت ناصر ہوٹل سے انہوں نے شروع کی تھیں.پھر 77ء سے 79 ء تک مہتمم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ رہے.پھر سالانہ اجتماع 79 ء کے موقع پر آپ کو صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی اعلیٰ ذمہ داری تفویض ہوئی.80-1979ء سے اٹھاسی انانوے تک تقریباً دس سال صدر خدام الاحمد یہ رہے.خدام الاحمدیہ کے آخری صدر تھے جو بین الاقوامی تھے جیسا کہ میں نے بتا یا.پھر اس کے بعد سے علیحدہ علیحدہ تنظیمیں ہو گئیں.شعبہ اصلاح و ارشاد میں خدمت کی توفیق پائی.خلافت رابعہ میں جب مرکزی شعبہ سمعی بصری کا قیام عمل میں آیا تو نومبر 1983ء میں اس کی نگرانی آپ ہی کے سپرد ہوئی.84ء میں بطور وکیل سمعی بصری تحریک جدید میں خدمت کی توفیق پائی.اس کے بعد یہ شعبہ بھی تحریک جدید میں ختم ہو گیا.میرا خیال ہے کہ شاید ختم نہیں ہو گیا بلکہ ایم ٹی اے کے بعد اس نے کام نہیں کیا کیونکہ اس وقت یہ کیسٹ پہنچانے کے لئے شروع کیا گیا تھا.پھر ایم ٹی اے نے یہ کام سنبھال لیا.28 جون 1991ء سے لے کر تادم آخر آسٹریلیا کے امیر کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے.ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے.یقیناً بے نفس اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ جماعت کی خدمت کرنے والے بزرگ تھے.نہ اپنی صحت کی پرواہ کی نہ کسی روک کو جماعتی کام میں سامنے آنے دیا.میرے گزشتہ دورہ آسٹریلیا کے دوران باوجوداس کے کہ انتہائی تکلیف میں تھے ہر کام کی نگرانی کرتے رہے.میں جب جہاز سے باہر آیا ہوں تو یہ سامنے کھڑے تھے.ان کی حالت دیکھ کر بڑی فکر پیدا ہوئی.کمر کی ان کو شدید تکلیف تھی.ان کی ریڑھ کی جو ہڈی تھی وہ کافی خراب ہو چکی تھی.ڈاکٹروں کے مطابق تو ایسے مریض کو آرام کرنا چاہئے لیکن انہوں نے آرام نہیں کیا کہ خلیفہ وقت کا دورہ ہے تو میں کس طرح آرام سے بیٹھ سکتا ہوں.ائیر پورٹ سے باہر آ کے
خطبات مسرور جلد 12 263 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء کار میں بیٹھتے ہوئے نائب امیر ناصر صاحب ہماری کار ڈرائیو کر رہے تھے ان کو میں نے کہا کہ محمود صاحب تو مجھے بہت زیادہ کمزور اور بوڑھے لگے ہیں.اس وقت مجھے ان کی تکلیف کا اندازہ نہیں تھا.یہ تو تفصیل بعد میں مجھے پتہ لگی.وہاں کے ڈاکٹر سے بات کی تو پتا چلا کہ کس طرح یہ شخص اتنی شدید تکلیف میں اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر چل پھر رہا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ تمام امور کی جو دورے سے متعلقہ تھے نگرانی بھی کر رہے تھے.ایک دن اسی تکلیف کے ساتھ دورے کے دوران ان کا بلڈ پریشر بھی بہت بڑھ گیا.خیال یہ ہوا کہ سٹروک نہ ہو یا دل کا حملہ نہ ہو.حالت انتہائی خراب تھی.ہسپتال لے کر گئے.چند گھنٹے ہسپتال میں رہے پھر بہر حال ہسپتال والوں نے گھر آنے کی اجازت دے دی.اور اس مرد مجاہد نے گھر آتے ہی پھر دوبارہ کام شروع کر دیا.ایک شہر میں میرے ساتھ دورے پر نہیں جاسکے تو اس کا بڑے غم سے ذکر کرتے تھے.دوسری جگہ تکلیف کے باوجود بھی گئے.باوجود اس کے کہ میں نے کہا نہ جائیں لیکن یہ ساتھ گئے اور تمام پروگرام جو بڑے hectic اور سخت پروگرام تھے اس میں یہ ساتھ ساتھ رہے.ہر وقت موجود ہے نگرانی کرتے رہے.اپنی فکر بھول کر میری فکر تھی کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور تمام پروگرام باحسن ہو جائیں.اور صرف یہی نہیں کہ میری فکر تھی بلکہ جو میرے قافلے کے افراد تھے ان کی بھی فکر تھی.ان کا بھی خیال رکھا.بار بار اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ تم لوگوں کا صحیح خیال نہیں رکھ سکا.اور یہ فکر صرف اس وجہ سے تھی کہ قافلے کے افراد کی وجہ سے خلیفہ وقت کو تکلیف نہ ہو بلکہ مجھے تو دوران دورہ ان کی فکر رہی کہ ان کی طبیعت خراب نہ ہو جائے.بہر حال دورے کے دوران ہی ان کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ کافی بہتر ہو گئی.گزشتہ دنوں ان کا جلسہ ہوا ، شوری ہوئی اس میں انہوں نے بھر پور حصہ لیا.میں نے خدام الاحمدیہ میں بھی ان کے ماتحت کام کیا ہے.بڑے کھلے ہاتھ سے اپنے ماتحتوں سے کام لیا کرتے تھے.کام کرنے کا ان کو موقع دیتے تھے اور پھر قدردانی بھی کیا کرتے تھے.اور خلافت کے بھی ایسے سلطان نصیر کہ جس کی مثالیں کم کم ملتی ہیں اس کا تو میں نے شروع میں ہی ذکر کر دیا ہے.ان کے جانے سے گوآسٹریلیا جماعت میں ایک خلاء پیدا ہوا ہے لیکن البی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ خود سنبھالتا ہے اور ان خلاؤں کو خود پورا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ان جیسے سلطان نصیر ہمیشہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتا رہے جو خلافت کے باوفا بھی ہوں، جاں نثار بھی ہوں اور اپنے عہد کو پورا کرنے والے بھی ہوں.اللہ تعالیٰ ان کے اہلیہ اور بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو اور انہیں بھی توفیق دے کہ اپنے باپ کی طرح ایمان وایقان میں
خطبات مسرور جلد 12 264 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اپریل 2014ء مضبوط ہوں اور خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی توفیق دے کہ اپنے ماں باپ کا حق ادا کرنے والے ہوں.ابھی نماز جمعہ کے بعد میں انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 16 مئی 2014 ء تا 22 مئی 2014 ، جلد 21 شماره 20 صفحہ 05 تا 09)
خطبات مسرور جلد 12 265 18 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014 ء بمطابق 02 ہجرت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے حوالے سے میں گزشتہ خطبات میں معرفتِ الہی کے طریق محبت الہی کے طریق اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی حقیقت کا بیان کرتا رہا ہوں.آج آپ علیہ السلام کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے آپ کے اس علمی خزانے میں سے چند حوالے پیش کروں گا جن میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے قرب کی حقیقت ، اس کی اہمیت ، اس کو حاصل کرنے کے بعض طریق اور اپنی جماعت سے اس کے حصول کے لئے توقعات کا اظہار فرمایا ہے.اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنا ہے تو اس بات کا ادراک ہونا ضروری ہے کہ اصل نیکی خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور اس کی طرف سے ہی نیکی آتی ہے.جو خدا تعالیٰ کی تعلیم کو اختیار کرنے سے ملتی ہے اور نتیجہ خدا تعالیٰ کے انعامات اور اس کا قرب حاصل ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ و حقیقی طور پر بجز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں.تمام اخلاق فاضلہ اور تمام نیکیاں اسی کے لئے مسلم ہیں.پھر جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت سے فانی ہو کر اس ذات خیر محض کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر اخلاقِ الہیہ اس کے نفس پر منعکس ہوتی ہیں..66 (یعنی جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت یعنی چاہت اور پسند سے بالا ہو کر اللہ تعالیٰ کے قرب کی کوشش کرتا ہے تو پھر اسے اس کا قرب حاصل ہو جاتا ہے اور اخلاق الہیہ جو ہیں اس کے نفس پر منعکس
خطبات مسرور جلد 12 266 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء ہوتے ہیں.جب انسان اپنے نفس سے بالا ہو ، انسان اپنی پسندوں کو چھوڑے، اللہ تعالیٰ میں ڈوبنے کی کوشش کرے تو پھر یہ نتیجہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق ہیں، اللہ تعالیٰ کے جو رنگ ہیں اس میں انسان رنگین ہونا شروع ہوتا ہے اور پھر جتنازیادہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو گا اس کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق ملتی چلی جائے گی ، بڑھتی چلی جائے گی.) فرمایا: ” پس بندہ کو جو جو خوبیاں اور کچی تہذیب حاصل ہوتی ہے وہ خدا ہی کے قرب سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہی چاہئے تھا کیونکہ مخلوق فی ذاتہ کچھ چیز نہیں ہے.سواخلاق فاضلہ الہیہ کا انعکاس انہیں کے دلوں پر ہوتا ہے کہ جو لوگ قرآن شریف کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے جو اخلاق فاضلہ ہیں اسی کے دل پر منعکس ہوتے ہیں، انہیں سے ان کا اظہار ہورہا ہوتا ہے اسی کی جو قرآن شریف کی مکمل اور کامل پیروی کرتے ہیں اتباع کرتے ہیں.فرمایا اور تجربہ صحیحہ بتلا سکتا ہے کہ جس مشرب صافی اور روحانی ذوق اور محبت کے بھرے ہوئے جوش سے اخلاق فاضلہ ان سے صادر ہوتے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اگر چہ منہ سے ہر یک شخص دعوی کر سکتا ہے اور لاف و گزاف کے طور پر ہریک کی زبان چل سکتی ہے مگر جو تجر بہ صحیحہ کا تنگ دروازہ ہے اس دروازہ سے سلامت نکلنے والے یہی لوگ ہیں اور دوسرے لوگ اگر کچھ اخلاق فاضلہ ظاہر کرتے بھی ہیں تو تکلف اور تصنع سے ظاہر کرتے ہیں.( جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرتا ہے قرآن شریف کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی سے ہی ایسے اخلاق ظاہر ہوں گے.دوسری دنیا میں یا اس کے علاوہ اگر کوئی اخلاق فاضلہ ظاہر کرتا ہے یا بظاہر اخلاق ظاہر ہورہے ہیں تو تکلف ہے، تصنع ہے، بناوٹ ہے.) فرمایا: ” اور اپنی آلودگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور اپنی بیماریوں کو چھپا کر اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں...( ان کے اوپر جو گند ہیں، زنگ لگے ہوئے ہیں ان کو انہوں نے چھپایا ہوتا ہے، اخلاق اصل میں نہیں ہوتے وہ ظاہری لیپا پوتی ہوتی ہے، بناوٹ ہوتی ہے، تصنع ہوتی ہے.) وو فرمایا: ” اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں.سب کچھ انہوں نے چھپایا ہوتا ہے.) اور ادنی ادنی امتحانوں میں ان کی قلعی کھل جاتی ہے.جب امتحان آتا ہے، آزمایا جاتا ہے تو قلعی کھل جاتی ہے.ذاتی مقدمے ہوتے ہیں تو اس وقت پتا لگ جاتا ہے کہ کتنے پانی میں ہیں.جھوٹ اور سچ اور اخلاق سب ظاہر ہو جاتے ہیں.یہ پتا لگ جاتا ہے کہ جھوٹ کتنا ہے.سچ کو کتنا چھپایا جا رہا ہے یہ پتا لگ
خطبات مسرور جلد 12 267 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء جاتا ہے.اخلاق کس حد تک دکھائے جا رہے ہیں یہ پتا لگ جاتا ہے.اور یہ نہ بھی ہو تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثال دی ہے کہ ایک دفعہ بڑے پڑھے لکھوں کی ایک جگہ ایک مجلس میں جو ظاہری طور پر سوسائٹی کے بڑے سرکردہ بنے پھرتے تھے، ان کی مجلس میں فیصلہ ہوا کہ آج بے تکلف مجلس ہونی چاہئے اور آپ کہتے ہیں اس بے تکلفی کا معیار یہ تھا کہ جو کچھ بیہودگیاں ہو سکتی تھیں وہ کی گئیں.تو وہاں ان سب کی قلعی کھل جاتی ہے.فرمایا اور تکلف اور تصنع اخلاق فاضلہ کے ادا کرنے میں اکثر وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اپنی دنیا اور معاشرت کا حسن انتظام وہ اسی میں دیکھتے ہیں.یہ تکلف اور تصنع اور اخلاق کیوں دکھائے جاتے ہیں؟ اس لئے کہ ان کی جو دنیا ہے، جو دنیاوی باتیں ہیں، معاشرہ ہے اس میں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ چیزیں دکھانی ضروری ہیں.اس سے ہمیں فائدہ ہوگا.اس لئے دکھایا جاتا ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے.) فرمایا اور اگر اپنی اندرونی آلائشوں کی ہر جگہ پیروی کریں تو پھر مہمات معاشرت میں خلل پڑتا ہے.جوان کے دلوں میں گندگی اور آلائشیں شامل ہوئی ہوئی ہیں اگر اس کی پیروی کریں، اس کے پیچھے چلیں تو جو کچھ ان کے دنیاوی کام ہیں وہ پھر متاثر ہوں گے، ان میں خلل پڑے گا.اس لئے یہ اخلاق دکھانے کا مقصد صرف ذاتی مفاد ہوتا ہے نہ کہ اخلاق کو لاگو کرنا.اخلاق پر عمل کرنا اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو ، اخلاق اس لئے دکھانا کہ دوسرے کا فائدہ ہو.( یہ مقصد نہیں ہوتا ) فرمایا: اور اگر چہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تم اخلاق کا ان میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبا رہتا ہے اور بغیر آمیزش اغراض نفسانی کے خالصا اللہ ظاہر نہیں ہوتا چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے اور خالصا اللہ انہیں میں وہ تخم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہو رہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالیٰ غیریت کی لوٹ سے بکلی خالی پا کر خود اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے...(وہ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں اور جو غیریت کی آلودگی ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی آلودگی ہے وہ اس سے بالکل پاک ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اخلاق ان میں بھر دیتا ہے.اور ان کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کر دیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں.پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے متخلق باخلاق اللہ کا ایسا مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہو جاتے ہیں جس کی توسط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور ان کو بھو کے اور پیاسے پا کر وہ آب زلال 66
خطبات مسرور جلد 12 268 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء ان کو اپنے اس خاص چشمہ سے پلاتا ہے ( یعنی اخلاق کا ، روحانیت کا ایک میٹھا پانی پلاتا ہے.) ( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 542.541 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) 66 پھر ایک جگہ قرب الہی کے طریق کے بارے میں فرمایا کہ ” خدا تعالیٰ دھوکا کھانے والا نہیں.وہ انہیں کو اپنا خاص مقرب بناتا ہے جو مچھلیوں کی طرح اس کی محبت کے دریا میں ہمیشہ فطرتاً تیرنے والے ہیں اور اسی کے ہو رہتے ہیں اور اسی کی اطاعت میں فنا ہو جاتے ہیں.پس یہ قول کسی بچے راستباز کا نہیں ہوسکتا جو بعض مذہبوں کے بعض لوگوں کا اس کے بارہ میں نظریہ ہے.) ” کہ خدا تعالیٰ کے سوا در حقیقت سب گندے ہی ہیں اور کوئی نہ کبھی پاک ہوانہ ہو گا....فرمایا.گو یا خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عبث پیدا کیا ہے بلکہ سچی معرفت اور گیان کا یہ قول ہے کہ نوع انسان میں ابتدا سے یہ سنت اللہ ہے کہ وہ اپنی محبت رکھنے والوں کو پاک کرتا رہا ہے.ہاں حقیقی پاکی اور پاکیزگی کا چشمہ خدا تعالیٰ ہی ہے.جو لوگ ذکر اور عبادت اور محبت سے اس کی یاد میں مصروف رہتے ہیں خدا تعالیٰ اپنی صفت ان پر بھی ڈال دیتا ہے تب وہ بھی اس پاکی سے ظلی طور پر حصہ پالیتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی ذات میں حقیقی طور پر موجود ہے“ ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 210) پھر آپ نے فرمایا کہ یہ اخلاق فاضلہ اور نیکیاں اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا جو وسیلہ اور نمونہ اور تعلیم خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتدا اس امام الرسل کے حاصل ہوسکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے خلقی اور طفیلی طور پر ملتا ہے“ (ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد 3 صفحه 170) پھر اسلام کی حقیقت کیا ہے اور ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہئے اور ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ کا قرب کس معیار تک پہنچاتا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ
خطبات مسرور جلد 12 269 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرے کی طرح رکھ دینا.اور اپنے تمام ارادوں سے کھوئے جانا اور خدا کے ارادہ اور رضا میں محو ہو جانا.اور خدا میں گم ہو کر ایک موت اپنے پر وارد کر لینا اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے محض محبت کے جوش سے اس کی اطاعت کرنا نہ کسی اور بنا پر.اور ایسی آنکھیں حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ دیکھتی ہوں.اور ایسے کان حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ سنتے ہوں.اور ایسا دل پیدا کرنا جو سراسر اس کی طرف جھکا ہوا ہو.اور ایسی زبان حاصل کرنا جو اس کے بلائے بولتی ہو.یہ وہ مقام ہے جس پر تمام سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور انسانی قوی اپنے ذمہ کا تمام کام کر چکتے ہیں.سلوک کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے کوشش کر کے ہر قسم کی مشکلات میں سے بھی گزرے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.) پھر فرمایا اور پورے طور پر انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جاتی ہے تب خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے زندہ کلام اور چمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ دوبارہ اُس کو زندگی بخشتی ہے اور وہ خدا کے لذیذ کلام سے مشرف ہوتا ہے اور وہ دقیق در دقیق نور جس کو عقلیں دریافت نہیں کر سکتیں اور آنکھیں اس کی گنہ تک نہیں پہنچتیں وہ خود انسان کے دل سے نزدیک ہو جاتا ہے.جیسا کہ خدا فرماتا ہے.نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق : 17).یعنی ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اُس سے نزدیک ہیں.پس ایسا ہی وہ اپنے قرب سے فانی انسان کو مشرف کرتا ہے.تب وہ وقت آتا ہے کہ نابینائی دُور ہو کر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے خدا کو ان نئی آنکھوں سے دیکھتا ہے.اور اُس کی آواز سنتا ہے اور اس کی ٹور کی چادر کے اندر اپنے تئیں لپٹا ہوا پاتا ہے.تب مذہب کی غرض ختم ہو جاتی ہے اور انسان اپنے خدا کے مشاہدہ سے سفلی زندگی کا گندہ چولہ اپنے وجود پر سے پھینک دیتا ہے.( جوگندی زندگی ہے، گندہ چولہ ہے، اس گندگی کا، دنیاوی چیزوں کا جو لباس پہنا ہوا ہے، وہ انسان پھینک دیتا ہے.جب اُسے اللہ تعالیٰ کا اتنا قرب حاصل ہو جائے.اور ایک نور کا پیراہن پہن لیتا ہے.ایک نیا لباس پہنتا ہے جو نور ہوتا ہے اور نہ صرف وعدہ کے طور پر اور نہ فقط آخرت کے انتظار میں خدا کے دیدار اور بہشت کا منتظر رہتا ہے بلکہ اسی جگہ اور اسی دنیا میں دیدار اور گفتار اور جنت کی نعمتوں کو پالیتا ہے.“ لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 160 - 161 ) پھر استغفار کی دو قسموں کا ذکر فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 270 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خدا تعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہو کر اس سے مدد چاہنا یہ استغفار تو مقربوں کا ہے.ہر وقت استغفار اس لئے چاہنا کہ ایک دل میں خدا ہی ہر وقت یادر ہے اور انسان اللہ تعالیٰ کی محبت میں مضبوط ہوتا جائے.یہ استغفار تو مقربوں کا ہے.جو ایک طرفتہ العین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں یعنی ایک لمحہ کے لئے بھی خدا سے علیحدہ ہونا سمجھتے ہیں کہ ہماری تباہی ہو جائے گی.اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے.اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشو و نما پا کر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا.“ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 346.347) اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی پہچان کے کئی مرتبے ہیں.مگر سب سے اعلیٰ مرتبہ قرب الہی کا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی صحیح رنگ میں پہچان ہوتی ہے.اس لئے صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ میں نے سچی خوا ہیں دیکھ لی ہیں یا کوئی کشف مجھے ہو گیا یا الہام ہو گیا.الہام تو بلعم کو بھی ہو گیا تھا لیکن اس نے اس کے باوجود ٹھو کر کھائی.اس لئے قرب کی تلاش کرو اور قرب خدا تعالیٰ کے برگزیدہ سے جڑ کر ہی ملتا ہے جس سے مسلسل اللہ تعالیٰ اس کو اپنے نور سے فیضیاب فرما تا رہتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی رضا بندے کا مقصود ہو جاتی ہے.فرماتے ہیں کہ ”خدا نور ہے جیسا کہ اس نے فرمایا اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ ( النور : 36).پس وہ شخص جو صرف اس نور کے لوازم کو دیکھتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو دور سے ایک دھواں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی نہیں دیکھتا اسلئے وہ روشنی کے فوائد سے محروم ہے.( روشنی کے فوائد تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا میں ڈوب جانے سے ملتے ہیں).فرمایا کہ اور نیز اس کی گرمی سے بھی جو بشریت کی آلودگی کو جلاتی ہے.فوائد سے بھی محروم ہے اور نیز اس کی گرمی سے بھی جو بشریت کی آلودگی کو جلاتی ہے.انسان کے بشری تقاضے ہونے کے جو بعض گند ہیں جنہوں نے اس کو گھیرا ہوا ہے، اس گرمی سے بھی محروم رہتا ہے، اس آگ سے محروم رہتا ہے جو ان گندوں کو جلاتی ہے.فرمایا کہ پس وہ لوگ جو صرف منقولی یا معقولی دلائل یافتنی الہامات سے خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل پکڑتے ہیں جیسے علماء ظاہری یا جیسے فلسفی لوگ
خطبات مسرور جلد 12 271 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء اور یا ایسے لوگ جو صرف اپنے روحانی قومی سے جو استعداد کشوف اور رؤیا ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کو مانتے ہیں مگر خدا کے قرب کی روشنی سے بے نصیب ہیں.اب اس میں یہ فرمایا کہ ان کے پاس منقولی اور عقلی دلائل بھی ہیں.الہامات پر یا بعض دفعہ خوابوں پرظن کرتے ہوئے ان کو خدا تعالیٰ کی ہستی پر اور وجود پر یقین بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے.علماء ظاہری اسی چیز کی وجہ سے خدا کو مانتے ہیں یا ایسے فلسفی یا وہ لوگ جن کی روحانیت اس حد تک ہے کہ ان میں بعض کشف اور رویا صالحہ کی استعداد میں بھی موجود ہوتی ہیں اور اس وجہ سے خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر ان سب چیزوں کے باوجود وہ خدا تعالیٰ کے قرب کی روشنی سے بے نصیب ہیں.فرمایا کہ وہ اس انسان کی مانند ہیں جو دور سے آگ کا دھواں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی کو نہیں دیکھتا اور صرف دھوئیں پر غور کرنے سے آگ کے وجود پر یقین کر لیتا ہے (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 14) پھر قرب کے مدارج کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے فرمایا کہ وو چونکہ مدارج قرب اور تعلق حضرت احدیت کے مختلف ہیں.اللہ تعالیٰ سے ملنے کے جو قرب اور تعلق کے درجے ہیں وہ مختلف ہیں.اس لئے ایک شخص باوجود خدا کا مقرب ہونے کے جب یسے شخص سے مقابلہ کرتا ہے جو قرب اور محبت کے مقام میں اس سے بہت بڑھ کر ہے تو آخر نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص جو ادنی درجہ کا قرب الہی رکھتا ہے نہ صرف ہلاک ہوتا ہے بلکہ بے ایمان ہو کر مرتا ہے جیسا کہ موسیٰ کے مقابل پر بلعم باعور کا حال ہوا.66 (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 349) اور آپ نے فرمایا کہ اس قرب کے مقام کا جو سب سے اعلیٰ درجہ ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور اتباع کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام دیا ہے.آج اس زمانے میں اب جو آپ علیہ السلام سے علیحدہ ہو کر اس قرب کی تلاش کرے گا اس کا انجام پھر بلعم جیسا ہی ہوگا.پھر آپ نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب قرآن کریم کی پیروی سے ملتا ہے اور ایسا قرب پانے والے کے لئے خدا تعالیٰ پھر نشانات دکھاتا ہے.زبانی جمع خرچ نہیں ہوتا.فرمایا کہ ہر ایک جو اُس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے
خطبات مسرور جلد 12 272 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء جیسا کہ اُس نے لیکھرام پر ظاہر کیا اور اس کی موت ایسی حالت میں ہوئی کہ وہ خوب سمجھتا تھا کہ خدا نے اُس کی موت سے اسلام کی سچائی پر مہر لگا دی.غرض اس طرح پر خدا اپنے زندہ تصرفات سے قرآن شریف کی پیروی کرنے والے کو کھینچتا کھینچتا قرب کے بلند مینار تک پہنچا دیتا ہے.“ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحه 309) پھر آپ فرماتے ہیں: یہ بات بھی خوب یا درکھنی چاہئے کہ ہر بات میں منافع ہوتا ہے.دُنیا میں دیکھ لو.اعلیٰ درجہ کی نباتات سے لے کر کیڑوں اور چوہوں تک بھی کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کے لئے منفعت اور فائدہ سے خالی ہو.یہ تمام اشیاء خواوہ ارضی ہیں یا سماوی اللہ تعالیٰ کی صفات کے اظلال اور آثار ہیں اور جب صفات میں نفع ہی نفع ہے، تو بتلاؤ کہ ذات میں کس قدر نفع اور سود ہوگا.اس مقام پر یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ جیسے ان اشیاء سے کسی وقت نقصان اٹھاتے ہیں تو اپنی غلطی اور نانہی کی وجہ سے.اس لئے نہیں کہ نفس الامر میں ان اشیاء میں مضرت ہی ہے.یعنی ان چیزوں کے اندر سوائے نقصان کے اور کچھ ہے ہی ( نہیں.نہیں بلکہ اپنی غلطی اور خطا کاری سے انسان نقصان اٹھاتا ہے.اگر کسی چیز میں نقصان پہنچے.فرمایا : ” اس طرح پر ہم اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف اور مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ تو ہمہ رحم اور کرم ہے.دُنیا میں تکلیف اٹھانے اور رنج پانے کا یہی راز ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنی سوء فہم اور قصور علم کی وجہ سے مبتلائے مصائب ہوتے ہیں.( صحیح طرح ہم کسی بات کو سمجھ نہیں سکتے یا ہمیں علم نہیں ہوتا اس وجہ سے مصیبتوں اور مشکلات میں مبتلا ہو جاتے ہیں.فرمایا: پس اس صفاتی آنکھ کے ہی روزن سے ہم اللہ تعالیٰ کو رحیم اور کریم اور حد سے زیادہ قیاس سے باہر نافع ہستی پاتے ہیں اور ان منافع سے زیادہ بہرہ ور وہی ہوتا ہے جو اس کے زیادہ قریب اور نزدیک ہو جاتا ہے اور یہ درجہ اُن لوگوں کو ہی ملتا ہے جو شقی کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں جگہ پاتے ہیں.جوں جوں متقی خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے ایک نور ہدایت اسے ملتا ہے جو اس کی معلومات اور عقل میں ایک خاص قسم کی روشنی پیدا کرتا ہے اور جوں جوں دور ہوتا جاتا ہے ایک تباہ کرنے والی تاریکی اس کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے.یہاں تک کہ وہ صُمٌّ بُكْمٌ عُمَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (البقرة:19 ) کا مصداق ہو کر ذلت اور تباہی کا مورڈ بن جاتا ہے ،مگر اس کے بالمقابل نور اور روشنی سے بہرہ ور انسان اعلیٰ درجہ کی راحت اور عزت پاتا ہے؛ چنانچہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے.یاتھا
خطبات مسرور جلد 12 273 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء 66 النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (الفجر : 29-28).....( یعنی اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ.اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ” یعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے اور پھر یہ اطمینان خدا کے ساتھ پایا ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 110 - 111 ) آپ نے اس کی یہ وضاحت بھی فرمائی کہ بعض لوگ بظا ہر حکومت سے کچھ حاصل کر کے اطمینان حاصل کرتے ہیں.بعض لوگوں کے اطمینان کا ذریعہ ان کی اولا د اور رشتے دار اور اردگرد کے لوگ ہوتے ہیں مگر یہ سب کچھ جو ہے یہ سچا اطمینان مہیا نہیں کر سکتا بلکہ پیاس کے مریض کی طرح جوں جوں ان لوگوں سے یہ بظاہر اطمینان حاصل کر رہے ہوتے ہیں پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے، تسلی نہیں ہوتی.آخر انسان کو یہ بیماری ہلاک کر دیتی ہے.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس بندے نے خدا تعالیٰ کا قرب پا کر یہ اطمینان حاصل کیا ہے اس کے پاس بے انتہا دولت بھی ہو تو وہ اس کی خدا تعالیٰ کے مقابلے میں ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتا.دنیا اس کا مقصود نہیں ہوتی.وہ اصل راحت کی تلاش کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے سمجھایا کہ تمام راحت انسان کی خدا تعالیٰ کے قرب اور محبت میں ہے اور جب اس سے علاقہ تو ڑ کر دنیا کی طرف جھکے تو یہ جہنمی زندگی ہے.اور اس جہنمی زندگی پر آخر کار ہر یک شخص اطلاع پالیتا ہے اور اگر چہ اس وقت اطلاع پاوے جبکہ یکدفعہ مال ومتاع اور دنیا کے تعلقات کو چھوڑ کر مرنے لگے.“ لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 158) بہر حال کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی وقت یہ اطلاع مل جاتی ہے کہ دنیا جہنمی ہے.چاہے مرتے وقت ہی انسان کو اس کی اطلاع ہو.پھر فرمایا کہ اعلیٰ درجے کی خوشی خدا میں ملتی ہے.جس سے پرے کوئی خوشی نہیں ہے.جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں ( یعنی چھپی ہوئی چیز کو جنت کہتے ہیں اور جنت کو جنت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نعمتوں سے ڈھکی ہوئی ہے.اصل جنت خدا ہے جس کی طرف تر در منسوب ہی نہیں ہوتا.اس لئے بہشت کے اعظم ترین انعامات میں رِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ أَكْبَرُ (التوبة : 72) ہی رکھا ہے.انسان انسان کی حیثیت سے 66
خطبات مسرور جلد 12 274 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء کسی نہ کسی دکھ اور تردد میں ہوتا ہے، مگر جس قدر قرب الہی حاصل کرتا جاتا ہے اور تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللهِ سے رنگین ہوتا جاتا ہے، اسی قدر اصل سکھ اور آرام پاتا ہے جس قدر قرب الہی ہو گالا زمی طور پر اسی قدر خدا کی نعمتوں سے حصہ لے گا اور رفع کے معنے اسی پر دلالت کرتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 137) خدا کا قرب پانے کی کوشش کرنے والوں کے انجام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو سو وہ سر چشمہ قرب الہی سے اپنا اجر پائے گا اور ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم.یعنی جو شخص اپنے تمام قومی کو خدا کی راہ میں لگادے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے.اور حقیقی نیکی بجالانے میں سرگرم رہے،سواس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور حزن سے نجات بخشے گا.“ ( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 344) پھر دعا جو قرب الہی کا ذریعہ ہے اس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ دعا کی مثال ایک چشمہ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے.وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے.( دعا کی جو صحیح جگہ ہے وہ نماز ہے.یہی حقیقت میں صحیح دعا ہو سکتی ہے.فرمایا کہ جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے.( نماز میں راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے ) کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اُسے کسی بد معاشی میں میسر آ سکتا ہے، بیج ہے.بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قرب الہی ہے.دُعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہوجا تا اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 59) پس قرب الہی حاصل کرنے کے لئے نمازوں کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے اور وہ حق تبھی ادا ہو گا جب اس کی ادائیگی با قاعدہ کی جائے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس طرح کی جائے.پھر نمازوں اور دعاؤں کے معیار کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مزید آپ فرماتے ہیں کہ ”انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس
خطبات مسرور جلد 12 275 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شئے ہو جاوے گا.اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا.خدا تعالیٰ مہلت اس لیے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے علم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اُسے وہ کیا کرے.پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے.سب عبادتوں کا مرکز دل ہے.اگر عبادت تو بجالاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی.اس لیے دل کا رجوع تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے.( دل کا مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا ضروری ہے.)...اب دیکھو کہ ہزاروں مساجد ہیں.مگر سوائے اس کے کہ ان میں رسمی عبادت ہو اور کیا ہے؟ ایسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہودیوں کی حالت تھی کہ رسم اور عادت کے طور پر عبادت کرتے تھے اور دل کا حقیقی میلان جو کہ عبادت کی رُوح ہے ہر گز نہ تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت کی.پس اس وقت بھی جو لوگ پاکیزگی قلب کی فکر نہیں کرتے تو اگر رسم و عادت کے طور پر وہ سینکڑوں ٹکریں مارتے ہیں ان کو کچھ فائدہ نہ ہوگا.اعمال کے باغ کی سرسبزی پاکیزگی قلب سے ہوتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا بے قد أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا الشمس :10.11 ) کہ وہی بامراد ہو گا جو کہ اپنے قلب کو پاکیزہ کرتا ہے اور جو اُ سے پاک نہ کرے گا بلکہ خاک میں ملا دیگا یعنی سفلی خواہشات کا اُسے مخزن بنارکھے گاوہ نامرادر ہے گا.اس بات سے ہمیں انکار نہیں ہے کہ خدا کی طرف آنے کے لئے ہزا رہا روکیں ہیں.اگر یہ نہ ہو تیں تو آج صفحہ دُنیا پر نہ کوئی ہندو ہوتا نہ عیسائی.سب کے سب مسلمان نظر آتے لیکن ان روکوں کو دُور کرنا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.وہی توفیق عطا کرے تو انسان نیک و بد میں تمیز کر سکتا ہے.اس لئے آخر کار بات پھر اسی پر آ ٹھہرتی ہے کہ انسان اسی کی طرف رجوع کرے تا کہ قوت اور طاقت دیوے.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 289 290) پھر قرب الہی حاصل کرنے کے لئے تو بہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بخوبی یا درکھو کہ گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور نہ صرف ہلاک ہی ہوتا ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے سے رہ جاتا ہے اور اس قابل نہیں ہوتا کہ یہ نعمت اس کومل سکے.جس جس قدر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے اسی اسی قدر خدا تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ روشنی اور نور جو خدا تعالیٰ کے قرب میں اسے ملنی تھی اس سے پرے ہٹتا جاتا ہے اور تاریکی میں پڑ کر ہر طرف سے
خطبات مسرور جلد 12 وو 276 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء آفتوں اور بلاؤں کا شکار ہو جاتا ہے.یہانتک کہ سب سے زیادہ خطرناک دشمن شیطان اس پر اپنا قابو پالیتا ہے اور اُسے ہلاک کر دیتا ہے.لیکن اس خطرناک نتیجہ سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک سامان بھی رکھا ہوا ہے.اگر انسان اس سے فائدہ اٹھائے تو وہ اس ہلاکت کے گڑھے سے بچ جاتا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے قرب کو پاسکتا ہے.وہ سامان کیا ہے؟ رجوع الی اللہ یا سچی توبہ.( یہ سچی توبہ وہ سامان ہے.) فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا نام تو اب ہے.وہ بھی رجوع کرتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس سے بعید ہوتا ہے.( گناہ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے دور ہو جاتا ہے.لیکن جب انسان رجوع کرتا ہے یعنی اپنے گناہوں سے نادم ہو کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو اس کریم رحیم خدا کا رحم اور کرم بھی جوش میں آتا ہے اور وہ اپنے بندہ کی طرف توجہ کرتا ہے اور رجوع کرتا ہے.اس لئے اس کا نام اللہ تعالیٰ کا نام بھی تواب ہے.(وہ بھی بندے کی طرف توبہ قبول کرتے ہوئے آتا ہے اس لئے اس کا نام تو اب ہے.).پس انسان کو چاہئے کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع برحمت کرے.“ وو ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 183 - 184) پھر آپ فرماتے ہیں : اسلام وہی طریق نجات بتاتا ہے جو درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ازل سے مقرر ہے اور وہ یہ ہے کہ سچے اعتقاد اور پاک عملوں اور اس کی رضا میں محو ہونے سے اس کے قرب کے مکان کو تلاش کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہو کیونکہ تمام عذاب خدا تعالیٰ کی دوری اور غضب میں ہے پس جس وقت انسان کچی تو بہ اور سچے طریق کے اختیار کرنے سے اور کچی تابعداری حاصل کرنے سے اور سچی توحید کے قبول کرنے سے خدا تعالیٰ سے نزدیک ہو جاتا ہے اور اس کو راضی کر لیتا ہے تو تب وہ عذاب اس سے دور کیا جاتا ہے.“ ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 275) پھر قرب الہی کے حصول کے لئے عمومی طور پر اعمال صالحہ بجالانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ و عمل صالح بڑی ہی نعمت ہے.خداوند کریم عمل صالح سے راضی ہو جاتا ہے اور قرب حضرت احدیت حاصل ہوتا ہے.( اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.مگر جس طرح شراب کے آخری
خطبات مسرور جلد 12 277 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء گھونٹ میں نشہ ہوتا ہے اسی طرح عمل صالح کے برکات اُس کی آخری خیر میں مخفی ہوتے ہیں.جوشخص آخر تک پہنچتا ہے اور عمل صالح کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے وہ ان برکات سے متمتع ہو جاتا ہے لیکن جو شخص درمیان سے ہر عمل صالح کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کو اپنے کمال مطلوب تک نہیں پہنچا تا ، وہ ان برکات سے محروم رہ جاتا ہے.) مکتوبات احمد جلد 1 صفحہ 600 - مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مکتوب نمبر 45) فرمایا : ” میں تو یہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے.جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اس سے تسلی پاتا ہے.اب تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دل میں سوچ لے کہ کیا یہ مقام اسے حاصل ہے؟ میں سچ کہتا ہوں کہ تم صرف پوست اور چھلکے پر قانع ہو گئے ہو حالانکہ یہ کچھ چیز نہیں ہے.خدا تعالیٰ مغز چاہتا ہے.پس جیسے میرا یہ کام ہے کہ ان حملوں کو روکا جاوے جو بیرونی طور پر اسلام پر ہوتے ہیں ویسے ہی مسلمانوں میں اسلام کی حقیقت اور روح پیدا کی جاوے.“ ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 261) آپ نے فرمایا: ”انسان کی عزت اسی میں ہے اور یہی سب سے بڑی دولت اور نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو.جب وہ خدا کا مقرب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہزاروں برکات اس پر نازل کرتا ہے.زمین سے بھی اور آسمان سے بھی اس پر برکات اترتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیخ کنی کے لئے قریش نے کس قدر زور لگایا.وہ ایک قوم تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا.مگر دیکھو! کون کامیاب ہوا.اور کون نامرادر ہے.نصرت اور تائید خدا تعالیٰ کے مقرب کا بہت بڑا نشان ہے.“ ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 128) پھر ہمیں قرب حاصل کرنے کے معیار کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ” خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے.بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.خائن اس کا قرب حاصل نہیں کرسکتا.اور ہر ایک جو اس کے نام کیلئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کرسکتا.وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا گیڈوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.ہر ایک نا پاک آنکھ اس سے دور ہے.ہر ایک نا پاک دل اس سے بے خبر ہے.وہ جو اس کے
خطبات مسرور جلد 12 278 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا.وہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا.وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا.تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے.تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو تم سچ مچ اس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جاوے.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه (13) پھر خدا تعالیٰ اپنے مقربوں کے لئے کس طرح غیرت کا اظہار فرماتا ہے اور مخالفوں کو کس طرح ختم کرتا ہے، اس بارے میں آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ پھر کس طرح غیرت دکھاتا ہے.فرماتے ہیں کہ پس جس وقت تو ہین اور ایڈا کا امر کمال کو پہنچ گیا اور جو ابتلا خدا کے ارادہ میں تھا وہ ہو چکا.پس اس وقت خدا تعالیٰ کی غیرت اس کے دوستوں کیلئے جوش مارتی ہے.اور خدا ان کی طرف دیکھتا ہے اور ان کو مظلوم پاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ ظلم کئے گئے اور گالیاں دیئے گئے اور ناحق کا فرٹھہرائے گئے اور ظالموں کے ہاتھوں سے دکھ دیئے گئے.پس وہ کھڑا ہوتا ہے تاکہ ان کے لئے اپنی سنت پوری کرے اور اپنی رحمت کو دکھلائے اور اپنے نیک بندوں کی مدد کرے.پس ان کے دلوں میں ڈالتا ہے تا کہ پورے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں.اور صبح شام اس کی جناب میں تضرع کریں اور اسی طرح اس کی سنت اس کے مقربین کی نسبت جاری ہے.پس آخر کار دولت اور مدد ان کے لئے ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ ان کے دشمنوں کو شیروں اور پلنگوں کی غذا کر دیتا ہے شیروں اور چیتوں کی غذا کر دیتا ہے.اور اسی طرح مخلصوں میں سنت اللہ جاری ہے وہ ضائع نہیں کئے جاتے اور برکت دیئے جاتے ہیں اور حقیر نہیں کئے جاتے اور بزرگ کئے جاتے ہیں.“ (حجة الله، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 198 ) اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہم نے دیکھا اور دشمنوں کو اس نے ذلیل و خوار کیا.ایک بار نہیں دو بار نہیں، بار بار کئی مرتبہ اور مختلف علاقوں میں، مختلف ملکوں میں دشمنان احمدیت کی ذلت اور رسوائی اور تباہی ہم نے دیکھی.پس آج بھی یہ نظارے ہم دیکھتے ہیں.میں پھر افراد جماعت کو اور خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کو تو جہ دلانی چاہتا ہوں کہ مخالفین احمدیت کے خلاف خدا تعالیٰ کی لاٹھی چلے گی اور ضرور چلے گی انشاء اللہ تعالیٰ.چھوٹے پیمانے پر اس کے
خطبات مسرور جلد 12 279 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 02 مئی 2014ء نظارے ہم دیکھتے بھی ہیں، دیکھتے رہتے ہیں لیکن اگر وسیع پیمانے پر جلد یہ نظارے دیکھنے ہیں تو پاکستان میں رہنے والے ہر احمدی اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہر احمدی کو خدا تعالیٰ سے قرب اور تعلق میں بڑھنے کی ضرورت ہے.پس دنیا کو پیچھے دھکیلیں.خدا تعالیٰ سے قرب میں بڑھتے چلے جائیں اور اس کے بڑھتے چلے جانے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے تا یہ نظارے ہم جلد تر دیکھ سکیں.عمومی طور پر دنیا کے احمدیوں کو بھی خاص طور پر اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا میں شیطان کی حکومت کا جلد خاتمہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے مقربین کی حکومت دنیا میں قائم ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں کے کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور ان لوگوں میں شامل ہونے کی بھی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 23 مئی 2014 ء تا 29 مئی 2014 ، جلد 21 شماره 21 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 12 280 19 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014 ء بمطابق 09 ہجرت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں“.یہ نعرہ ہم خاص طور پر غیروں کے سامنے پیش کرتے ہیں.ہم یہ نعرہ اس بات کے جواب میں یا اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے لگاتے ہیں کہ جماعت احمد یہ مسلمہ یا اس کے افراد دوسروں کے لئے بغض و کینہ رکھتے ہیں یا دوسروں کو اپنے سے بہتر نہیں سمجھتے.یا غیر مسلموں کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہم یہ آواز بلند کرتے ہیں کہ اسلام محبت پیارحسن سلوک اور دوسروں کے جذبات کا خیال نہ رکھنے کی تعلیم دیتا ہے.اس لئے ان کی یہ بات ہی غلط ہے کہ اسلام ظلم و تعدی اور بربریت کا مذہب ہے یا پھر ہم یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ ہم آپس میں نفرتوں کی دیواروں کو گرا کر پیار اور محبت سے رہتے ہیں اور رہنا چاہتے ہیں.پس اگر ہم کسی بھی قسم کی خدمت انسانیت کرتے ہیں، ہم اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو یہ بھی اسی وجہ سے ہے کہ ہمیں دنیا کے ہر انسان سے محبت ہے اور ہم ہر ایک کے دل سے نفرتوں کے بیچ ختم کر کے محبت اور پیار کے پودے لگانا چاہتے ہیں.یہ سب کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہمیں ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سکھایا ہے.یہ سب اس لئے ہے کہ ہم نے اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو راتوں کو دنیا کی ہمدردی اور محبت میں تڑپتے دیکھا ہے اور اس حد تک تڑپتے اور بے چین ہوتے اور سجدوں میں روتے دیکھا ہے کہ اس تڑپ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرما کر قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے ، ان انسانوں کے لئے جو بغض و کینے سے پاک ہوں بطور ثبوت محفوظ فرما دیا تا کہ آئندہ
خطبات مسرور جلد 12 281 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء آنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے سے پہلے اس تڑپ پر غور کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے جو مسلمان کہلاتے ہیں اس اسوہ حسنہ پر چلنے کی کوشش کرنے والے بنیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكهف : 7) پس کیا تو شدت غم کے باعث ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں.یہ جن کا ذکر کیا گیا ہے وہ کس بات پر ایمان نہیں لاتے ؟ اس بات پر کہ شرک نہ کرو، خدا کا بیٹا نہ بناؤ.جب ان کو کہا جاتا ہے تو اس پر ایمان نہیں لاتے.شرک ایک ایسا گناہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے معاف نہیں کرتا.پس یہ ہمدردی اور محبت ہے ہر انسان سے حتی کہ مشرک کے ساتھ بھی کہ اسے سیدھے راستے پر لانے کے لئے جہاں عملی کوشش کی جائے وہاں اس کے لئے دعا بھی کی جائے.پس اگر احمدیوں کو محبت سب سے“ کا صحیح ادراک حاصل کرنا ہے تو ہمیں اپنے آقا اور محسن انسانیت سے اس کے طریق سیکھنے ہیں اور یہ ہم تبھی کر سکتے ہیں جب خود اپنی توحید کے معیاروں کو بھی ما ہیں.پھر ہم دیکھتے ہیں محبت اور ہمدردی کے جذبات کی ایک اور مثال کہ جب قوم کی طرف سے ظلم وتعدی کی انتہا ہوتی ہے تو تباہی کی دعائیں نہیں کیں بلکہ یہ دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے.یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ان کے فائدے کے لئے ہے.جب دوسرے قبیلے تنگ کرتے ہیں اور بددعا کے لئے کہا جاتا ہے تو تب بھی ایک موقع پر آپ نے یہی ہاتھ اٹھائے.لوگ سمجھے کہ بددعا ہوئی اور قبیلہ تباہ ہوا.آپ نے کہا کہ اے اللہ دوس قبیلے کو ہدایت دے.(صحيح البخارى كتاب الجهاد و السير باب الدعاء للمشركين بالهدى ليتألفهم حديث 2937) پس محبت صرف اپنوں کے لئے اور ہمدردی صرف اپنوں سے ہی نہیں بلکہ دوسروں سے بھی محبت اور ہمدردی کے وہی معیار ہیں.صرف اور صرف ایک درد ہے کہ توحید کا قیام ہو جائے تاکہ دنیا تباہی سے بیچ جائے.آج بھی دنیا میں ہزاروں قسم کا شرک پھیل چکا ہے اور نہ صرف شرک بلکہ خدا کے وجود سے ہی دنیا کا ایک بڑا حصہ انکاری ہے.پس خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کے لئے اور توحید کے قیام کے لئے ہمیں بھی اس چیز کو اپنانے کی ضرورت ہے جس کا سبق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نمونے سے ہمیں دیا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 282 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء ہمیں صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ایک نعرہ ہم نے لگالیا جسے دنیا پسند کرتی ہے اور اس بات پر مختلف جگہوں پر ہماری واہ واہ ہو جاتی ہے.ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ یہ نعرہ ایک ذریعہ ہے اس وسیع تر مقصد کے حصول کے لئے جس کی خاطر انسان کی پیدائش ہوئی ہے.پس ہمارے انسانی ہمدردی کے کام، محبت کا پرچار اور اظہار اور عمل اور نفرت سے دوری اور نفرت سے صرف دوری ہی نہیں کرنی بلکہ نفرت سے ہمیں نفرت بھی اللہ تعالی کا پیار حاصل کرنے کے لئے ہے، اس کی توحید کے قیام کے لئے ہے.اگر ہمیں نفرت ہے توکسی شخص سے نفرت نہیں بلکہ شیطانی عمل سے نفرت ہے اور ہونی چاہئے.شیطانی عمل کرنے والوں سے بھی ہمیں ہمدردی ہے اور اس ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم انہیں اس گند سے باہر لائیں تا کہ انہیں خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچائیں.دنیا داروں سے ہماری محبت اور ہمدردی دنیا داری کی خاطر نہیں ہے.ہم اپنے دلوں سے دنیا داروں کی نفرت ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے تو حید کے قیام کے لئے تو حید کو اپنے دلوں میں پہلے سے بڑھ کر بسانے اور راسخ کرنے کے لئے کرتے ہیں.پس ہمیں چاہئے کہ دنیا کی نظر میں پسندیدہ بننے کے لئے صرف نعرے نہ لگائیں یا اظہار نہ کریں بلکہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے یہ نعرہ لگائیں.اس زمانے میں ہم وہ خوش قسمت جماعت ہیں جنہیں حضرت مسیح و موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ، ہمدردی خلق اور محبت کے اصول اپنانے کے لئے چنا ہے اور آپ نے ہمیں وہ اصول سکھائے اور تعلیم دی.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دین کے دو ہی کامل حصے ہیں.ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دعا کرنا پھر آپ فرماتے ہیں : (نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 464) 66 یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں.“ ایک مجلس میں آپ نے فرمایا کہ (لیکچرلدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 281) میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو....میں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینه توزی کی عادت کو بالکل ترک کر دو.“ ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 104 )
خطبات مسرور جلد 12 283 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء یہاں پہلے جوفرمایا کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو.اس سے یہ خیال آ سکتا ہے کہ جب نفرت کسی سے نہیں تو دشمنی کیسی.اس کا جواب بھی فرما دیا کہ جو مذہب کی وجہ سے دشمن ہیں، جو خود دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں تم ان کو ذاتی دشمن نہ سمجھو.تمہارے دل میں دشمنی ہے یا نہیں.جو بھی تمہارے سے دشمنی کرنے والے ہیں ان کی اصلاح کی کوشش تو کرو لیکن ذاتی دشمن بنا کر یا ذاتی دشمنی کا دل میں خیال لاکر پھر کینه توزی کی عادت نہ ڈالو.نفرتوں کو دور کرنے کے بارے میں نصیحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا: نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبر دست ذریعہ ہے.“ ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 102 فرمایا : ”اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب ملت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو.بھوکوں کو کھلاؤ.غلاموں کو آزاد کرو.قرضہ داروں کے قرض دو.زیر باروں کے بار اٹھاؤ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو.“ پھر ایک موقع پر فرمایا کہ ( نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 434) میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں مگر میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدود نہ کرو.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 282-283) پھر فرمایا: ” تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کرسکتا.(دکھاوے کے لئے نیکی نہیں کر سکتا.)......کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 30 ) پس دوسروں سے ہمدردی اور محبت کے یہ معیار ہیں اور یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے، اس کے رسول کا حکم ہے.قرآن کریم میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے.پس ہمدردی خلق کے بارے میں اسلام کی یہ کیسی خوبصورت تعلیم ہے.کیا اس تعلیم کے دینے
خطبات مسرور جلد 12 284 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء والے خدا کو چھوڑ کر اور اس زمانے کے فرستادے کو چھوڑ کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آیا ہم کہیں اور جا کر یہ معیار حاصل کر سکتے ہیں؟ کبھی نہیں کر سکتے.پس ہر ایک کے لئے ہماری جو محبت ہے یا نفرت کسی سے نہیں جو ہے یہ ایک آخری مقصد نہیں ہے بلکہ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے.اس کو ہمیشہ ہمیں سامنے رکھنا چاہئے اور اسی کے لئے کوشش کرنی چاہئے.کچھ عرصہ ہوا مجھے احساس ہوا کہ خدمت انسانیت کے لئے ہیومینٹی فرسٹ کے نام سے جو ہمارا ادارہ ہے اس کے کام کر نیوالوں اور شاید انتظامیہ کو یہ خیال ہو گیا ہے کہ دین سے بالکل اپنے آپ کو علیحدہ کرنا ہے اور اگر علیحدہ کر کے خدمت کریں تو شاید ہماری دنیا میں زیادہ آؤ بھگت ہو گی.تو میں نے یہاں مرکزی انتظامیہ کو کہا کہ آپ کی اہمیت اس لئے ہے کہ دین سے جڑے ہوئے ہیں.جماعت کا کہیں نہ کہیں نام آتا ہے.اگر کہیں حسب ضرورت جماعت کا نام بھی استعمال کرنا پڑے تو لینے میں کوئی حرج نہیں.یہ پیش نظر رہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے خدمت انسانیت کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کرو اس لئے ہم نے خدمت انسانیت کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اپنی عبادتوں کی حفاظت کی بھی ضرورت ہے.بغیر اس کے خدمت انسانیت کا بھی کوئی فائدہ نہیں.انہیں تو یہ بات سمجھ آگئی لیکن باقی ممالک میں جو ہیومینٹی فرسٹ کی شاخیں ہیں ان کے کارکنوں اور انتظامیہ کو جن میں الا ماشاء اللہ تقریباً سارے احمدی ہی ہیں، یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے کام میں برکت اسی وقت پڑے گی جب خدا تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کریں گے اور اپنے کام کو اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے والا بنانے کی کوشش کریں گے اور اپنے کاموں کو دعاؤں سے شروع کریں گے.اس کے بغیر ہمارے کسی کام میں برکت نہیں پڑسکتی ، چاہے کوئی اپنی عقل سے منصوبہ بندی کرتا ر ہے.بہر حال یہ بات کہنی بھی ضروری تھی اور آج میں نے اسی ضمن میں بات کی ہے کیونکہ میں سوچ رہا تھا کہ کبھی ہیومینٹی فرسٹ کی انتظامیہ کوتو جہ دلانے کے لئے کہوں گا ، اس کا ذکر کروں گا تو چاہے ضمنا کہہ لیں یا اس تعلق میں میں کہہ لیں.بہر حال اس کا ذکر کرنا ضروری ہے اور اسی لئے میں نے یہ بات بیان کی ہے.اب میں ” محبت سب کے لئے“ کے نعرے کی بات جو میں کر رہا تھا اس کی طرف آتا ہوں.اور یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بے شک خدمت خلق اور ہمدردی خلق اور محبت پھیلانے اور دشمنیاں ختم کرنے کی نیکی ایک بہت بڑی نیکی ہے لیکن صرف یہی نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ نعرہ ہماری زندگی کا مقصد ہے.اگر ہمیں یہ خیال آ جائے کہ اگر ہم نے یہ کر لیا تو سب کچھ پالیا.لیکن جیسا کہ پہلے بھی میں بتا آیا ہوں کہ یہ نعرہ اس
خطبات مسرور جلد 12 285 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء مقصد کے حصول کا ایک حصہ ہے.اس منزل کی طرف بڑھنے کا ایک قدم ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور آپ کی غلامی میں اس زمانے میں اس کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے.اور وہ مقصد ہے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح ادراک پیدا کرنا، خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے تمام احکامات پر چلنے کی کوشش کرنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنا صح نظر اور مقصد بنانا اور اس کے حصول کے لئے مقدور بھر کوشش کرنا نظراء مط کیونکہ یہی چیز ہے جس سے ہر قسم کے اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کے حصول کو ممکن بنایا جاسکتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی علماء کی ایک بحث مضامین کی صورت میں چلی جو الفضل میں شائع ہوتے رہے یا بعض بزرگوں نے اس بارے میں اپنا اپنا نقطہ پیش کیا کہ جماعت کا ماٹو یا طمح نظر کیا ہونا چاہئے؟ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو جو ماٹو دیا یا جس طرف توجہ دلائی وہ ایسا ہے جس سے دین بھی مضبوط ہوتا ہے، ایمان بھی مضبوط ہوتا ہے، حقوق اللہ کی ادا ئیگی بھی ہوتی ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہوتی ہے.دو بزرگوں میں سے ایک نے کہا کہ ہماری مطر جماعت کا مح نظر فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرة: 149) ہونا چاہئے.دوسرے نے کہا کہ ہمارا ما ٹو یا صحیح نظر میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“ ہونا چاہئے.حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ کوئی نہ کوئی صطح نظر ضرور ہونا چاہئے.دنیا میں جتنی تنظیمیں ہیں اور انجمنیں ہیں جب قائم ہوتی ہیں تو اپنا اپنا کوئی نہ کوئی سطح نظر رکھتی ہیں اور اگر سنجیدہ اور امانت کا حق ادا کرنے والی ہیں تو اس کے حصول کے لئے سنجیدگی سے کوشش بھی کرتی ہیں تا کہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کر سکیں.دنیا میں اخلاقی ترقی کو بھی طمح نظر بنانے کا نعرہ لگایا جاتا ہے تعلیمی ترقی کو بھی مطمح نظر بنانے کا نعرہ لگایا جاتا ہے.اگر کسی جگہ عوام کے یا کسی کے حقوق غصب ہور ہے ہیں تو سیاسی تنظیمیں آزادی کو اپنامائٹو بنالیتی ہیں، اس کے لئے کوشش کرتی ہیں اور نعرے لگاتی ہیں.اگر کسی جگہ کوئی اور صورت ہے تو اس کو اپنا طمح نظر بنایا جا تا ہے.بہر حال صطح نظر کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم نے اس بات کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور اپنی جماعت کے سامنے بھی ہر وقت اسےموجود رکھنا ہے،دنیا میں بھی قائم کرنا ہے اور اپنے سامنے بھی موجود رکھنا ہے.اس دنیا میں ہزاروں قسم کی نیکیاں ہیں اگر کسی ایک نیکی کو چن لیا جائے تو بظاہر ایک اچھی بات ہے، مطمح نظر ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ باقی قسم کی نیکیوں کی ضرورت نہیں رہتی.بلکہ ضرورت اور سہولت کو سامنے رکھتے ہوئے ان نیکیوں میں سے کسی ایک نیکی کو صح نظر بنایا جاتا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 286 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء بہر حال کوئی بھی اچھا ماٹو کوئی اپنے لئے مقرر کرے وہ اس کے لئے نیکی ہے.آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ بعض ماٹو ایسے ہوتے ہیں جن کا آپس میں اشتراک ہوتا ہے مثلاً یہ کہ خدا کی اطاعت کرو اور یہ ماٹو کہ نیکیوں میں ترقی کرو یہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں کیونکہ خدا کی اطاعت کے بغیر نیکیوں کا حصول ناممکن ہے اور اسی طرح جو نیک نہیں وہ خدا کا مطیع نہیں ہوسکتا.اسی طرح یہ مائٹو کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور یہ کہ ” میں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کروں گا، دونوں آپس میں مشابہ ہیں.دونوں ایک دوسرے کے اندر آ جاتے ہیں.پس ساری نیکیاں ہی اچھی ہیں اور ہمیں انہیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 560 تا 562 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1936ء) لیکن جب ماٹو کے بارے میں سوال اٹھے تو پھر اسی طرف توجہ رکھ کر اسی طرف اپنی توجہ محدود کر کے بعض لوگ اپنی نیکیوں کو بالکل ہی محدود کر دیتے ہیں یا اسی کو سب کچھ سمجھنے لگ جاتے ہیں.جیسے ہمارے نوجوانوں میں یا بعض اور لوگوں میں بھی (لوگ) اپنی دینی حالت کو تو بھول گئے ہیں لیکن صرف دنیا دکھاوے کے لئے محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں“ کا نعرہ بہت زیادہ لگانے لگ گئے ہیں.ٹھیک ہے اگر اسلام کی تعلیم کا پر چارا گر کرنا ہے ، نیک نیت ہے تو یہ نعرہ بہت اچھا ہے لیکن ہمارا صرف یہی مقصد نہیں جیسا کہ میں نے کہا بلکہ ہمارے مقصد بہت وسیع ہیں.اسی طرح ہمدردی خلق اگر کرنی ہے تو صرف ہمدردی خلق ہی کچھ چیز نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ کی یاد دلوں سے غائب ہو رہی ہے تو پھر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں.حضرت مصلح موعود نے لکھا ہے کہ میں نے جب یہ مضمون پڑھے تو مجھے ایک یہودی کا قصہ یادآ گیا کہ جب اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باتیں کرتے ہوئے دورانِ گفتگو کہا کہ ہمیں آپ لوگوں سے یعنی مسلمانوں سے بہت زیادہ حسد ہوتی ہے.حضرت عمر نے پوچھا کہ حسد کی کیا وجہ ہے؟ یہ کس لئے ہوتی ہے؟ تو یہودی کہنے لگا کہ اس بات کا حسد ہے کہ اسلام میں ایک خاص خوبی ہے کہ دنیا کی کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام کے احکامات میں موجود نہ ہو.قرآن کریم میں موجود نہ ہو.ذاتی نوعیت سے لے کر بین الاقوامی نوعیت تک تمام احکام اور مسائل اور ان کا حل اس میں موجود ہے.یہ چیز ایسی ہے جو ہم میں حسد پیدا کرتی ہے.پس اگر ہم میں سے ہر ایک اس بات کو سامنے رکھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کسی ایک
خطبات مسرور جلد 12 287 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء بات کو بطور ماٹو چنا درست نہیں پس بے شک فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ایک عمدہ ماٹو ہے اسی طرح میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا بھی عمدہ ہے.قرآن کریم میں بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ آیت بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرُ وابقى (الأعلى: 17-18 ) یعنی نادان لوگ دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ آخرت یعنی دین کی زندگی کا نتیجہ دنیوی زندگی سے اعلیٰ اور دیر پا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 562 تا 563 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1936ء) اکثر ہم جمعہ پر سورۃ میں یہی آیت پڑھتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی بے شمار تعلیم قرآن کریم نے دی ہے.پس قرآن کریم کی وہ کون سی تعلیم ہے جو مائو نہ بن سکے، جو طمح نظر نہ بن سکے.جس پر نظر ڈالیں اور اس پر غور کریں تو وہ دل کو اپنی طرف کھینچتی.اس تمہید کے بعد پھر آپ نے یہ فرمایا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کا مصداق تھا.کوئی خرابی ایسی نہ تھی جو اس زمانہ میں پیدا نہ ہو گئی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل ہیں، اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بھی اس زمانے کا ظل ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی تمام قسم کی خرابیاں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں.اس لئے آج مذہب کی بھی ضرورت ہے.اخلاق کی تمام اقسام کی بھی ضرورت ہے.دنیا کی ہر خوبی اور ترقی کی بھی ضرورت ہے.جہاں لوگوں کے دلوں سے ایمان اٹھ گیا ہے وہاں اخلاق فاضلہ بھی اٹھ گئے ہیں اور حقیقی دنیوی ترقی بھی مٹ گئی ہے کیونکہ اس وقت جسے لوگ ترقی کہتے ہیں وہ نفسانیت کا ایک مظاہرہ ہے.چاہے وہ ذاتی طور پر ہو یا بین الاقوامی طور پر دیکھ لیں کیونکہ اس وقت جسے لوگ ترقی کہتے ہیں وہ صرف اپنی ذات کے لئے مفاد ہے.وہ دنیا کی ترقی نہیں کہلاسکتی کیونکہ اس سے دنیا کا ایک حصہ فائدہ اٹھا رہا ہے اور دوسرے کو غلام بنایا جا رہا ہے.چاہے وہ سیاسی غلامی ہو یا معاشی اور اقتصادی غلامی ہو کسی نہ کسی صورت میں ایک حصہ غلام بن رہا ہے اور ان کے لئے بہر حال یہ ترقی نہیں ہے اور جو ترقی کر رہے ہیں ان کے بھی اپنے مفادات ہیں، نفسانیت ہے جس کو وہ ترقی کا نام دیتے ہیں.پس ایسے وقت میں یہ کہنا کہ فلاں آیت کو مطمح نظر بناؤ اور فلاں کو چھوڑ دو یہ غلط ہے بلکہ قرآن کریم کی ہر آیت ہی ہمارا صح نظر اور نصب العین ہے اور ہونا چاہئے.پس ہمارا ما ٹو تو تمام قرآن کریم ہی ہے لیکن اگر کسی دوسرے ماٹو کی ضرورت ہے تو حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے مقرر کر دیا اور وہ ہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.
خطبات مسرور جلد 12 288 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء اور یہ تمام قرآن کریم کا خلاصہ ہے.حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام تعلیمیں اور تمام اعلیٰ مقاصد توحید سے ہی تعلق رکھتے ہیں.اسی طرح بندوں کے آپس کے تعلقات اور بندے کے خدا تعالیٰ سے تعلقات یہ بھی توحید کے اندر آ جاتے ہیں.اور تو حید ایسی چیز ہے جو بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے ظاہر نہیں ہو سکتی.اس لئے لا إلهَ إِلَّا اللهُ کے ساتھ مُحمد رسُولُ اللہ لگادیا گیا ہے کہ حقیقی معبود کی تلاش یا خدا تعالیٰ کو اگر دیکھنا ہے تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد سے دیکھو.گویا آپ ہی وہ عینک ہیں جس سے معبود حقیقی نظر آ سکتا ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد لی جائے تو الحمد سے لے کر الناس تک ہر جگہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله کا مضمون نظر آئے گا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک ہی ہے جن کے آنے سے دنیا میں توحید حقیقی قائم ہوئی ورنہ اس سے پہلے بعض لوگوں نے حضرت عزیر کو بعض نے حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا بنایا ہوا تھا.بعض لوگ ملائکہ کو معبود بنائے بیٹھے تھے.ایسے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ہر قسم کے فسادوں کو دور فرما یا اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی توحید کے قیام کے لئے کھڑا کیا اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہی دنیا میں پھر تو حید قائم ہوئی اور یہی لا إلهَ إِلَّا الله کا ماٹو ہے جو ہم اپنی اذانوں کے ساتھ بھی بلند کرتے ہیں.جب کسی شخص کو اسلام میں لایا جاتا ہے تو اسے بھی لا إلهَ إِلَّا اللہ کہلوایا جاتا ہے کیونکہ حقیقی اسلام اسی کا نام ہے.اگر کسی میں دینی کمزوری پیدا ہوتی ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ لا إله إلا اللہ اس کے سامنے سے ہٹ گیا ہوتا ہے ورنہ اگر لا إلهَ إِلَّا اللہ ہر وقت سامنے ہو تو انسان دینی کمزوریوں سے محفوظ رہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 563 تا 565 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1936ء) صرف منہ سے لا إلهَ إِلَّا اللہ کہنا مقصد نہیں ہے اکثر جیسے لوگ دہراتے رہتے ہیں.جھوٹ بھی بولیں گے تو لا إلهَ إِلَّا اللہ کہہ کر جھوٹ بول دیں گے.بلکہ لا إلهَ إِلَّا اللہ اگر کہا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت اور اس کا خوف اور اس کی تمام صفات سامنے آ جاتی ہیں.پھر جیسا کہ بیان ہو چکا ہے لَا إِلَهَ إِلَّا الله کی حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی واضح ہوتی ہے.پس جب تک انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو نہ ہو جائے تو حید کو کامل نہیں سمجھ سکتا یا تو حید کامل کو نہیں سمجھ سکتا.اور نہ اللہ تعالیٰ اور اس کے تفصیلی جلوہ یعنی قرآن کریم کو سمجھ سکتا ہے.جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہو کر تو حید کو نہیں سمجھتے ، باوجود عقل کے شرک میں مبتلا رہتے ہیں.غیر مسلموں کو تو ایک طرف رکھیں مسلمانوں میں
خطبات مسرور جلد 12 289 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء بھی جو لوگ ہیں ان کی بہت بڑی اکثریت پیروں فقیروں کو اپنا خدا بنا بیٹھے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 566 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1936 ء) کہا تو احمدیوں کو جاتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر کے اسلام سے خارج ہو گئے ہیں لیکن حقیقت میں یہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو نہیں پہچانا اور نتیجہ توحید سے بھی دور ہیں.اس زمانے میں اس توحید کا حقیقی ادراک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حاصل ہوا ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہونے کی وجہ سے آپ کو ملا ہے.جن کو دنیا کا فرکہتی ہے وہی توحید کے حقیقی علمبردار ہیں.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہوئے تو آپ کو نظر آ گیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور ان کو زندہ ماننا شرک ہے.آپ سے پہلے لاکھوں ایسے عالم اور فقیہ تھے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف خدائی صفات منسوب کرتے تھے مثلاً یہ کہ وہ اب تک زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں، وہ مردے زندہ کیا کرتے تھے ، ان کو غیب کا علم تھا وغیرہ وغیرہ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وجہ سے آج ہم بلکہ ہر احمدی بچہ عقلی اور نقلی دلائل سے اس عقیدے پر قائم رہنا گوارا نہیں کرتا.اسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہوکر ، آپ سے نور لے کر ہمیں بتائیں اور شرک کو ہم سے دور کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی اس زمانے کے لوگوں کو لا اله الا اللہ کا جلوہ دکھایا اور یہی ایک چیز ہے جو اسلام کا لب لباب ہے اور جس کا ہر کامل موحد میں پایا جانا ضروری ہے.باقی تو سب تفصیلات ہیں جو مختلف آدمیوں کے لئے مختلف شکلوں میں بدلتی رہتی ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بڑی نیکی ماں باپ کی خدمت بتایا، کسی کو بڑی نیکی جہاد فی سبیل اللہ بتا یا کسی کو بڑی نیکی تہجد کی ادائیگی بتایا.پس ہر ایک کو اس کی بنیادی کمزوری دور کرنے کے لئے توجہ دلائی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی نیکیاں بجالانے کی ضرورت نہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 566 تا 567 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1936ء) پس یا درکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے تمام احکام اپنی اپنی جگہ پر بہت عمدہ اور مفید ہیں لیکن لا إلهَ إِلَّا اللہ سب پر حاوی ہے.پس یہ اصل ماٹو ہے جسے ہمیں ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.توحید کی حقیقت اور اس کے قیام پر غور کرنے کی ضرورت ہے.توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ انسان بت پرستی نہ کرے یا کسی انسان کو خدا تعالیٰ کے مقابل پر زندہ نہ مانے یا کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھہرائے بلکہ دنیا کے ہر کام میں توحید کا تعلق ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سونے کے وقت اور وضو
خطبات مسرور جلد 12 290 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء کے وقت بھی توحید کا اقرار فرمایا کرتے تھے.جب بھی کسی انسان کو دنیا کے کسی کام پر بھروسہ یا انحصار ہو گیا تو وہ انسان شرک کے مقام پر جا ٹھہرا اور پھر اس کے موحد ہونے کا دعویٰ باطل ہو جاتا ہے کیونکہ توحید کی لازمی شرط ہے کہ انسان صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہی تکیہ رکھے اور بھروسہ کرے.توحید کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر کام میں خواہ دینی ہے یا دنیاوی انسان کی نظر صرف ایک خدا کی طرف اٹھے.پس بے شک اپنی جگہ تمام نیک فقرات عمدہ اور اچھے ماٹو ہیں لیکن کامل موحد بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی نظر سے ہر ایک چیز غائب ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے لئے ہر چیز کا لعدم ہو جائے.پس حقیقی مائو لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله ہے جس میں تمام نیکیاں جمع ہو جاتی ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 568 تا 569 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1936 ء) اور تو حید کو سمجھنے کے لئے جو دقتیں ہیں ان کا حل بھی ہمیں یہی بتاتا ہے.وقتیں دور کرنے کے لئے کوئی نمونہ ہونا چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ نمونہ ہے جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک فقرے میں یوں بیان فرمایا تھا کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآن (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحه 144 مسند عائشة ماله حدیث 25108 مطبوعه عالم الكتب بيروت ($1998 اس ایک فقرے میں توحید کا اعلیٰ معیار بھی بیان ہو گیا.احکام قرآن کا عملی نمونے کا معیار بھی قائم ہو گیا اور احکامات کی تفصیل بھی سامنے آ گئی.پس جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسمجھ لیا اس نے خدا تعالی کو سمجھ لیا اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اس نے سب کچھ ہی سمجھ لیا کیونکہ شرک ہی تمام بدیوں ،غفلتوں اور گناہوں کی جڑ ہے اور توحید پر قائم ہونے کے بعد انسان میں اعلیٰ اخلاق، علم ، عرفان ، تمدن، سیاست، دوسرے فنون میں کمال ، سب ہی کچھ آ جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نور ایک تریاق ہے جس میں تمام امراض کا علاج ہے.پس ہمارا مائو جو خود بخود خدا تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے وہ لا إلهَ إِلَّا اللہ ہے.باقی تفصیلات ہیں جو نصیحت کے طور پر کام آ سکتی ہیں.اس زمانے میں چونکہ دجال اپنی تمام طاقت کے ساتھ دنیا میں رونما ہوا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ میں دنیا کو دین پر مقدم رکھوں گا.یہ دجال کا مقصد ہے کہ دنیا کو دین پر مقدم کرنا ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس کے مقابل پر ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا نعرہ لگائیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی شرائط بیعت میں یہ فقرہ شامل فرمایا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ اپنے اوپر ہم دین کی تعلیم لاگور کھیں گے اور ہر مخالف کے اعتراض کے مقابل پر اسلام کا خوبصورت
خطبات مسرور جلد 12 291 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء چہرہ دکھا ئیں گے اور یہ سب اس لئے کہ ہم لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحمد رسُولُ اللہ کو دنیا میں قائم کرنے والے بنیں.ہم نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اس مقصد کے حصول کے لئے کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما یہ فرمایا تھا کہ خُذُوا التَّوحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسِ (براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 267) یعنی کہ اے ابنائے فارس! توحید کو مضبوطی سے پکڑو.ابنائے فارس سے مراد صرف آپ کا خاندان ہی نہیں ہے بلکہ تمام جماعت روحانی لحاظ سے ابنائے فارس کے ماتحت آتی ہے اور یہ حکم تمام جماعت کے لئے ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ مصیبت کے وقت انسان کسی خاص چیز کو پکڑتا ہے.فرمایا کہ تم مصائب کے وقت تو حید کو پکڑ لیا کرو کہ اس کے اندر باقی تمام چیزیں ہیں.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ لا إله إلا اللہ کے ماٹو کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 570 تا 571 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1936ء) آج جبکہ شرک کے ساتھ دہریت بھی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے بلکہ دہریت بھی شرک کی ایک قسم ہے یا شرک دہریت کی قسم ہے.ہم اپنے آپ کو ایک نعرے پر محدود کر کے اور اس پر اکتفا کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار نے والے نہیں بن سکتے.نہ ہی ہم انسانیت کی خدمت کے زعم میں اپنی نمازوں اور عبادتوں کو چھوڑ سکتے ہیں.جو ایسا کرتا ہے یا کہتا ہے اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام سے کوئی تعلق نہیں.پس ہمیں اپنے حقیقی مطمح نظر اور مقصود کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم تمام دینی و دنیاوی انعامات کے حاصل کرنے والے بن سکیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.نماز جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا ( آ گیا ہے جنازہ؟ ) جو مکرم صدیق اکبر رحمان صاحب کا ہے.فیض الرحمان صاحب کے بیٹے تھے.وا تھم فاریسٹ ( Waltham Forest) میں رہتے تھے.7 مئی کو کینسر کی بیماری کی وجہ سے چالیس سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.عہدوں کے لحاظ سے تو جماعتی خدمت کی ان کو زیادہ توفیق نہیں ملی لیکن کارکن کے لحاظ سے ہمیشہ بڑے سرگرم کا رکن رہے ہیں.خلافت سے بھی مضبوط تعلق رکھا.خدا تعالیٰ کی ذات پر اور دعاؤں پر بڑا یقین تھا.انہوں نے بڑی لمبی بیماری کاٹی ہے.کینسر کی
خطبات مسرور جلد 12 292 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09 مئی 2014ء انہیں بیماری تھی اور بڑے صبر سے اور حوصلے سے انہوں نے اپنا یہ بیماری کا عرصہ گزارا ہے.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے.ان کی والدہ کو بھی صبر کی توفیق دے.ان کی اہلیہ اور چھوٹا بچہ شاید سال ڈیڑھ سال کا ہے.اللہ تعالیٰ ان کا بھی حافظ و ناصر ہو.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 30 مئی 2014 ء تا 05 جون 2014 ، جلد 21 شماره 22 صفحہ 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 293 20 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014 خطبہ جمعہ سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014 ء بمطابق 16 ہجرت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں ذکر ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو ہو کر قرآن کریم کو سمجھا ، قرآنی احکامات کو سمجھا، اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھا کیونکہ توحید کا حقیقی مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کے بغیر سمجھ آ ہی نہیں سکتا اور نہ ہی قرآن کریم کا علم آپ کے وسیلے کے بغیر حاصل ہوسکتا ہے.اس لئے لا إلهَ إِلَّا الله کے ساتھ مُحمد رسُولُ اللہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جو لا إلهَ إِلَّا اللہ کا حقیقی اور عملی نمونہ اور مثال ہیں.بہر حال آج میں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض ارشادت پیش کروں گا جو توحید کے بارے میں آپ نے بیان فرمائے کہ سچی توحید کیا ہے؟ توحید کی حقیقت کیا ہے؟ کس طرح عمل کرنے سے انسان حقیقی موحد کہلا سکتا ہے.سورۃ الناس کی تفسیر میں الہ الناس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ فرماتے ہیں.ربّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاس کا مضمون بیان ہو رہا ہے.فرماتے ہیں کہ میں بتلانا چاہتا ہوں کہ پہلے اس صورت میں خدا تعالیٰ نے رَبّ الناس فرمایا.پھر مَلِكِ النَّاسِ ، آخر میں اِله الناس فرمایا جو اصلی مقصود اور مطلوب انسان کا ہے (یعنی اله الناس جو ہے وہی انسان کا اصل مقصد ہے، اسی کی انسان کو طلب ہے اور ہونی چاہئے ).فرمایا کہ: ”اللہ کہتے ہیں مقصود، معبود، مطلوب کو.“ ( یعنی وہ چیز جو حاصل کرنی ہے، جو ہمارا ٹارگٹ ہے، جس کو حاصل کرنا ضروری
خطبات مسرور جلد 12 294 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء ہے یا جہاں تک پہنچنے کے لئے ایک مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے ، ایک موحد کو کوشش کرنی چاہئے اور اسی کی ہمیں طلب ہے ).فرمایا: اللہ کہتے ہیں مقصود، معبود، مطلوب کو.لا إِلهَ إِلَّا الله کے معنی یہی ہیں کہ لا مَعْبُودَ لِي وَلَا مَقْصُودَ لِي وَلَا مَطْلُوبَ لِي إِلَّا اللهُ " ) کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی مقصود نہیں، کوئی مطلوب نہیں، کوئی معبود نہیں ).فرمایا کہ یہی سچی تو حید ہے کہ ہر مدح اور ستائش کا مستحق اللہ تعالیٰ کو ہی ٹھیرا یا جاوے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 24) جتنی بھی تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی منسوب کی جائیں.جو تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی جاتی ہیں اور اسی کو ہی زیب دیتی ہیں اور یہی حقیقی تو حید ہے.فرمایا کہ " تو حید بھی پوری ہوتی ہے کہ کل مرادوں کا معطی اور تمام امراض کا چارہ اور مداوا وہی ذاتِ واحد ہو - لا إله إلا اللہ کے معنی یہی ہیں.فرمایا: ”صوفیوں نے اس میں اللہ کے لفظ سے محبوب، مقصود، معبود مراد لی ہے.بے شک اصل اور سچ یونہی ہے جب تک انسان کامل طور پر کار بند نہیں ہوتا.اس 66 میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی.“ ( حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت وجود پر ایک خط مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ 13 ) لا إلهَ إِلَّا اللہ پر حقیقی طور پر کار بند ہو بھی اسلام کی محبت اور عظمت قائم ہوگی اور نہ صرف باتیں ہیں.پھر آپ اسلام کی اعلیٰ و اکمل تعلیم کے بارے میں فرماتے ہیں یہ خدا کا فضل ہے جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو ملا اور اس فضل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے.جس پہلو سے دیکھو مسلمانوں کو بہت بڑے فخر اور ناز کا موقع ہے.مسلمانوں کا خدا پتھر، درخت ، حیوان، ستارہ یا کوئی مردہ انسان نہیں ہے بلکہ وہ قادر مطلق خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے پیدا کیا اور حی و قیوم ہے.مسلمانوں کا رسول وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی نبوت اور رسالت کا دامن قیامت تک دراز ہے.آپ کی رسالت مُردہ رسالت نہیں بلکہ اس کے ثمرات اور برکات تازہ بتازہ ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں جو اس کی صداقت اور ثبوت کی ہر زمانہ میں دلیل ٹھہرتے ہیں.چنا نچہ اس وقت بھی خدا نے ان ثبوتوں اور برکات اور فیوض کو جاری کیا ہے اور مسیح موعود کو بھیج کر نبوت محمدیہ کا ثبوت آج بھی دیا ہے اور پھر اس کی دعوت ایسی عام ہے کہ کل دنیا کے لیے ہے.“
خطبات مسرور جلد 12 295 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء فرمایا اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الا اعراف: 159) “ ( کہ کہہ دے کہ اے لوگو! میں تمہارے لئے تم سب کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں) اور پھر فرمایا وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (الانبیاء : 108 ).(اور ہم نے تجھے دنیا کی طرف صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے.فرمایا کہ " کتاب دی تو ایسی کامل اور ایسی محکم اور یقینی کہ لا رَيْبَ فِيهِ (البقرة : 3 ) اور فِيهَا كُتُبْ قَيَّمَةٌ (البيئة : 4)‘ (جس میں قائم رہنے والے احکام ہیں.باقی کتابیں تو صرف قصے ہیں، قصے رہ گئے ہیں.ایسی صداقتیں جو دائمی ہیں وہ صرف قرآن کریم میں نظر آتی ہیں.اور ایت مُحْكَمت قَوْلُ فَضْلُ مِيزَانٌ مُهَيْمِنُ پھر فرماتے ہیں کہ غرض ہر طرح سے کامل اور مکمل دین مسلمانوں کا ہے جس کے لئے اليَوم اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِينًا (المائدة : 4 ) کی مہر لگ چکی ہے.“ ( کہ آج تمہارے لئے تمہارا دین مکمل ہو گیا.اپنی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا.یہ مہراب لگ چکی ہے.پس اسلام ہی ہے جو آخری اور کامل دین ہے جو تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے.) پھر فرمایا: پھر کس قدر افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ ایسا کامل دین جو رضاء الہی کا موجب اور باعث ہے رکھ کر بھی بے نصیب ہیں (ایسے دین کی طرف منسوب ہو کر بھی بے نصیب ہیں ) ” اور اس دین کے برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں لیتے بلکہ خدا تعالیٰ نے جو ایک سلسلہ ان برکات کو زندہ کرنے کے لئے قائم کیا تو اکثر انکار کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کست مُرْسَلًا اور لَسْتَ مُؤْمِنَّا کی آوازیں بلند کرنے لگے.( مسیح موعود کو بھیجا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ہی فیض ہے تو بجائے اس کے کہ قبول کرتے انکار کرنا شروع کر دیا.یہ نعرے لگانے شروع کر دیئے کہ تم خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہیں آئے.یہ آوازیں بلند کرنی شروع کر دیں کہ تم مومن نہیں ہو.) فرمایا کہ ” یا درکھو خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار محض ان برکات کو جذب نہیں کر سکتا جو اس اقرار اور اُس کے دوسرے لوازمات یعنی اعمال صالحہ سے پیدا ہوتے ہیں.“ صرف توحید کا اقرار کر لینا برکات کو جذب نہیں کرے گا.اس اقرار کے ساتھ جو لوازمات ہیں یعنی اعمال صالحہ کا بجالانا، وہ بھی کیونکہ ضروری ہیں اس لئے جب تک وہ پیدا نہیں ہوتے (برکتیں نہیں ملیں گی ).توحید کی برکتیں تبھی ملیں گی جب
خطبات مسرور جلد 12 296 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہو کر آپ کے اسوہ حسنہ کو دیکھتے ہوئے ، عمل کرتے ہوئے اعمال صالحہ بجالا ؤ گے.فرمایا: ” یہ سچ ہے کہ تو حید اعلی درجہ کی جو ہے جو ایک سچے مسلمان اور ہر خدا ترس انسان کو اختیار کرنی چاہئے مگر تو حید کی تکمیل کے لئے ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ محبت الہی ہے یعنی خدا سے محبت کرنا.قرآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسا وحدہ لاشریک ہے ایسا ہی محبت کی رُو سے بھی اس کو وحدہ لاشریک یقین کیا جاوے اور گل انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا اصل منشاء ہمیشہ یہی رہا ہے.چنانچہ لا إلهَ إِلَّا اللہ جیسے ایک طرف تو حید کی تعلیم دیتا ہے ساتھ ہی توحید کی تکمیل محبت کی ہدایت بھی کرتا ہے (لا إله إلا الله توحید کی تعلیم بھی دیتا ہے اور توحید کی تکمیل محبت ، اس سے توحید سے محبت کرنے کے کمال کو حاصل کرنے کی ہدایت بھی کرتا ہے.اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے یہ ایک ایسا پیارا اور پر معنی جملہ ہے کہ اس کی مانند ساری تو رات اور انجیل میں نہیں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب نے کامل تعلیم دی ہے.الہ کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جاوے.گویا اسلام کی یہ اصل محبت کے مفہوم کو پورے اور کامل طور پر ادا کرتی ہے.یا د رکھو کہ جو تو حید بدوں محبت کے ہو وہ ناقص اور ادھوری ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 186 - 187) اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا اللہ تعالیٰ کی محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو کر ملتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو.اعلان کرایا کہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (آل عمران: 32).انہوں نے فرمایا کہ میری پیروی کرو تو پھر اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ملے گی.توحید کی حقیقت اور ایک مؤمن کا کیا معیار ہونا چاہئے ، اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ حکام کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ان سے انعام یا خطاب پاتے ہیں.اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے.وہ اُن کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو توحید کا استیصال کرتا ہے ( توحید کے معیار کو ختم کر دیتا ہے.) اور انسان کو اس کے اصل مرکز سے ہٹا کر دور پھینک دیتا ہے.پس انبیاء علیہم السلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میں تناقض نہ ہونے پاوے بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اور مال کا رتوحید پر جا ٹھہرے.‘ ( آخر کار جو نتیجہ ہے، جو سارا
خطبات مسرور جلد 12 297 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء انحصار ہے وہ تو حید پر جا کے ٹھہرے.وہ انسان کو " (یعنی انبیاء انسان کو ) ” یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ساری عرب تیں ، سارے آرام اور حاجات برآری کا متکفل خدا ہی ہے.پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دوسروں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے.“ (جب دوضروں کا مقابلہ ہوگا تو لازماً ایک ہلاک ہوگی.دو دشمنوں کا مقابلہ ہو گا، دوفریقین کا مقابلہ ہو گا تو ایک کو بہر حال ہار ماننی پڑے گی.) فرمایا کہ اس لئے مقدم ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید ہو.رعایت اسباب کی جاوے.اسباب کو خدا نہ بنا یا جاوے.‘“ (اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہے.جو ذریعے اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں، وسائل مہیا کئے ہیں ان کو استعمال کرو لیکن ان کو خدا نہ بناؤ.توحید کو مقدم رکھو.اسی توحید سے ایک محبت خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اس کے ہاتھ میں ہے.محسن حقیقی وہی ہے.ذرہ ذرہ اُسی سے ہے.کوئی دوسرا درمیان نہیں آتا.جب انسان اس پاک حالت کو حاصل کرلے تو وہ موحد کہلاتا ہے.( جب یہ حالت ہو جائے گی مکمل انحصار خدا تعالیٰ پر ہو جائے گا کوئی دوسرا درمیان میں نہیں ہوگا تبھی موحد کہلاؤ گے.غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدانہ بنائے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہر کرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گزرے.“ ( یعنی اسباب جو ہیں انہی پر زیادہ انحصار نہ کرے.حد سے زیادہ نہ بڑھے.صرف انہی پر چارہ نہ کرے، اپنا مدار نہ رکھے.) فرمایا کہ " تیسری قسم یہ ہے کہ اپنے نفس اور ومجود کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھا دیا جاوے“ ( تو حید قائم کرنے کے لئے تیسری چیز یہ ہے کہ اپنے نفس کو بھی مٹادو.اس کی جو غرضیں ہیں، جو ذاتی نفسانی اغراض ہیں ان کو ختم کر دو.) ” اور اس کی نفی کی جاوے.بسا اوقات انسان کے زیر نظر اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے (اکثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کی اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے اور بعض کاموں میں اپنی خوبی اپنی طاقت پر انحصار کر رہا ہوتا ہے.کہ فلاں نیکی میں نے اپنی طاقت سے کی ہے.انسان اپنی طاقت پر ایسا بھروسہ کرتا ہے کہ ہر کام کو اپنی قوت سے منسوب کرتا ہے.انسان موحد تب ہوتا ہے کہ جب اپنی طاقتوں کی بھی نفی کر دے.لیکن اب اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان جیسا کہ تجربہ دلالت کرتا ہے ( تجربے سے یہ ثابت ہے کہ عموماً کوئی نہ کوئی حصہ گناہ کا اپنے ساتھ رکھتے ہیں.بعض موٹے گناہوں میں مبتلا
خطبات مسرور جلد 12 298 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء ہوتے ہیں اور بعض اوسط درجہ کے گناہوں میں اور بعض بار یک در بار یک قسم کے گناہوں کا شکار ہوتے ہیں.جیسے بخل، ریا کاری یا اور اسی قسم کے گناہ کے حصوں میں گرفتار ہوتے ہیں.جب تک ان سے رہائی نہ ملے انسان اپنے گمشدہ انوار کو حاصل نہیں کر سکتا.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیئے ہیں.بعض اُن میں سے ایسے ہیں کہ ان کی بجا آوری ہر ایک کو میتر نہیں ہے.مثلاً حج.یہ اس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو.پھر راستہ میں امن ہو.پیچھے جو متعلقین ہیں ان کے گزارہ کا بھی معقول انتظام ہو یہ نہیں کہ گھر والوں کو بھوکا چھوڑ جاؤ کہ ہم حج پر جا رہے ہیں) اور اسی قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کرسکتا ہے.ایسا ہی زکوۃ ہے.یہ وہی دے سکتا ہے جو صاحب نصاب ہو.ایسا ہی نماز میں بھی تغیرات ہو جاتے ہیں.( سفر میں قصر ہو جاتی ہے یا بعض دوسرے حالات میں جمع ہو جاتی ہے.لیکن ایک بات ہے جس میں کوئی تغیر نہیں.کوئی تبدیلی نہیں پیدا ہو سکتی وہ ہے : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ.اصل بات یہی ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ سب اس کے مکملات ہیں.توحید کی تکمیل نہیں ہوتی جب تک عبادات کی بجا آوری نہ ہو.“ ( جس طرح اللہ تعالیٰ نے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اس طرح عبادت کرو گے تبھی توحید کی تکمیل ہوگی.) فرمایا کہ اس کے یہی معنے ہیں کہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہنے والا اس وقت اپنے اقرار میں سچا ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر عملی پہلو سے بھی وہ ثابت کر دکھائے کہ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا محبوب و مطلوب اور مقصود نہیں ہے.جب اس کی یہ حالت ہو اور واقعی طور پر اس کا ایمانی اور عملی رنگ اس اقرار کو ظاہر کرنے والا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس اقرار میں جھوٹا نہیں.ساری مادی چیزیں جل گئی ہیں اور ایک فنا اُن پر اس کے ایمان میں آگئی ہے.تب وہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ منہ سے نکالتا ہے اور مُحمد رسُولُ اللہ جو اس کا دوسرا جزو ہے وہ نمونہ کے لیے ہے.کیونکہ نمونہ اور نظیر سے ہر بات سہل ہو جاتی ہے.“ ( مثالیں قائم ہوں تو سب باتیں آسان ہو جاتی ہیں اور مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کر کے ، اپنا اسوہ حسنہ قائم کر کے ہمیں دے دی.) فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام نمونوں کے لئے آتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع کمالات کے نمونوں کے جامع تھے.“ ( تمام کمالات جتنے بھی ہیں آپ میں جمع ہو گئے اور ان کے نمونوں کی مثالیں بھی آپ نے قائم کر دیں.) ” کیونکہ سارے نبیوں کے نمونے آپ میں جمع ہیں.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 81 تا 83)
خطبات مسرور جلد 12 299 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء ایک دفعہ ایک مجلس میں ایک سوال ہوا کہ یہودیوں میں بھی تو حید موجود ہے.اسلام اس سے بڑھ کر کیا پیش کرتا ہے؟ اعتراض کرنے والے نے یہ اعتراض کیا.آپ نے فرمایا کہ ”یہودیوں میں توحید تو نہیں ہے.ہاں قشر التوحید بےشک ہے ( کہ توحید کا خول ہے جو موجود ہے.اور نرا قشر کسی کام نہیں آ سکتا.توحید کے مراتب ہوتے ہیں.بغیر ان کے توحید کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی.نرالا إله إلا الله ہی کہہ دینا کافی نہیں.یہ تو شیطان بھی کہہ دیتا ہے.جبتک عملی طور پر لا إلهَ إِلَّا اللہ کی حقیقت انسان کے وجود میں متحقق نہ ہو.کچھ نہیں.یہودیوں میں یہ بات کہاں ہے؟ آپ ہی بتا دیں.“ ( سوال کرنے والا بھی یہودی تھا.توحید کا ابتدائی مرحلہ اور مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف کوئی امر انسان سے سرزد نہ ہو.اور کوئی فعل اس کا اللہ تعالیٰ کی محبت کے منافی نہ ہو.گویا اللہ تعالیٰ ہی کی محبت اور اطاعت میں محو اور فنا ہو جاوے.اسی واسطے اس کے معنے یہ ہیں.لا مَعْبُودَ لِي وَلَا مَحْبُوبَ لِي وَلَا مَطَاعَ لِي إِلَّا الله - یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی میرا معبود ہے نہ کوئی محبوب ہے اور نہ کوئی واجب الاطاعت ہے.یا درکھو شرک کی کئی قسمیں ہوتی ہیں.ان میں سے ایک شرک جلی کہلاتا ہے دوسرا شرک خفی.شرک جلی کی مثال تو عام طور پر یہی ہے جیسے یہ بت پرست لوگ بتوں، درختوں یا اور اشیاء کو معبود سمجھتے ہیں.اور شرک خفی یہ ہے کہ انسان کسی شئی کی تعظیم اسی طرح کرے جس طرح اللہ تعالیٰ کی کرتا ہے.“ ( ضرورت سے زیادہ کسی کو عزت و مقام دینا شروع کر دے تو فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ کی کرتا ہے یا کرنی چاہیے یا کسی شئے سے اللہ تعالیٰ کی طرح محبت کرے یا اس سے خوف کرے یا اس پر توکل کرے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ حقیقت کامل طور پر توریت کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے یا نہیں.خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی میں جو کچھ ان سے سرزد ہوا.“ ( بتانے والے کو آپ فرمار ہے ہیں کہ ) وہ آپ کو بھی معلوم ہو گا.اگر توریت کافی ہوتی تو چاہئے تھا کہ یہودی اپنے نفوس کو مز کی کرتے مگر ان کا تزکیہ نہ ہوا.وہ نہایت قسی القلب اور گستاخ ہوتے گئے.“ ( حضرت موسیٰ کو بھی جواب دینے لگ گئے تھے.یہ تاثیر قرآن شریف ہی میں ہے کہ وہ انسان کے دل پر بشر طیکہ اس سے صوری اور معنوی اعراض نہ کیا جاوے.ایک خاص اثر ڈالتا ہے اور اس کے نمونے ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں.چنانچہ اب بھی موجود ہے.قرآن شریف نے فرمایا : قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ
خطبات مسرور جلد 12 300 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء 66 الله (آل عمران: 32 ) یعنی اے رسول ! تو ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو.اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع انسان کو محبوب الہی کے مقام تک پہنچا دیتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامل موحد کا نمونہ تھے.پھر اگر یہودی توحید کے ماننے والے ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ایسے موحد سے دُور رہتے.“ (یعنی پھر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننا چاہئے تھا انہیں یا درکھنا چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ کے خاتم الرسل کا انکار اور عناد نہایت خطرناک امر ہے.مگر انہوں نے پروانہیں کی اور باوجود یکہ ان کی کتاب میں آپ کی پیشگوئی موجود تھی مگر انکار کر دیا.اس کی وجہ بجز اس کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ (الانعام: 44) ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 114-115) ایک موقع پر حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں غلط عقیدے پر ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ اسلام وہ مصفا اور خالص توحید لے کر آیا تھا جس کا نمونہ اور نام ونشان بھی دوسرے ملتوں اور مذہبوں میں پایا نہیں جاتا.یہاں تک کہ میرا ایمان ہے کہ اگر چہ پہلی کتابوں میں بھی خدا کی تو حید بیان کی گئی ہے اور گل انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض اور منشاء بھی تو حید ہی کی اشاعت تھی.لیکن جس اسلوب اور طرز پر خاتم الا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم توحید لے کر آئے اور جس نہج پر قرآن نے توحید کے مراتب کو کھول کھول کر بیان کیا ہے کسی اور کتاب میں اس کا ہرگز پتہ نہیں ہے.پھر جب ایسے صاف چشمہ کو انہوں نے مکد ر کرنا چاہا ہے ( یعنی ان لوگوں نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کرتے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل نہیں ہیں اور خدا تعالیٰ کے مقابل پر بعض جگہ انہوں نے کھڑا کیا ہوا ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، ان کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ جب ایسے صاف چشمہ کو انہوں نے یعنی ایسے مسلمان کہلانے والوں نے مکدر کرنا چاہا ہے.تو بتاؤ اسلام کی توہین میں کیا باقی رہا.اس پر اُن کی بد قسمتی یہ ہے کہ جب اُن کو وہ اصل اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے پیش کیا جاتا ہے اور قرآن شریف کے ساتھ ثابت کر کے دکھایا جاتا ہے کہ تم غلطی پر ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح مانتے آئے ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ کیا اتنی بات کہہ کر یہ اپنے آپ کو بری کر سکتے ہیں؟ نہیں! بلکہ قرآن شریف کے موافق اور خدا تعالیٰ کی سنتِ قدیم کے مطابق اس قول سے بھی ایک حجت اُن پر پوری ہوتی ہے.جب کبھی کوئی خدا کا مامور اور مرسل آیا ہے تو مخالفوں نے اس کی تعلیم کو سن کر یہی کہا ہے.مَا سَمِعْنَا بِهذا في ابيْنَا الْأَوَّلِينَ (المؤمنون : 25) 66 ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 254)
خطبات مسرور جلد 12 301 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء یعنی ہم نے اپنے پہلے باپ دادوں میں اس قسم کا واقعہ ہوتے نہیں دیکھا نہ سنا.تو حید اور شرک فی الاسباب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تو حید اس کا نام نہیں کہ صرف زبان سے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ کہ لیا.بلکہ توحید کہ یہ معنی ہیں کہ عظمت الہی بخوبی دل میں بیٹھ جاوے اور اس کے آگے کسی دوسری شئے کی عظمت دل میں جگہ نہ پکڑے.ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون کا مرجع اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کو سمجھا جاوے اور ہر ایک امر میں اسی پر بھروسہ کیا جاوے کسی غیر اللہ پر کسی قسم کی نظر اور تو کل ہر گز نہ رہے اور خدا تعالیٰ کی ذات میں اور صفات میں کسی قسم کا شرک جائز نہ رکھا جاوے.اس وقت مخلوق پرستی کے شرک کی حقیقت تو کھل گئی ہے اور لوگ اس سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں ( یعنی عیسائی بھی جو حضرت عیسی کو خدا سمجھتے تھے دور ہٹنے لگ گئے ہیں، بیزاری ظاہر کرنے لگ گئے ہیں.اس لئے یورپ وغیرہ تمام بلاد میں عیسائی لوگ ہر روز اپنے مذہب سے متنفر ہورہے ہیں.چنانچہ روز مرہ کے اخباروں ، رسالوں اور اشتہاروں سے جو یہاں پڑھے جاتے ہیں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے.‘‘ (اس زمانے میں متنفر ہونے کی جو رفتار تھی اب تو اس سے ہزاروں گنا بڑھ گئی ہے بلکہ عملاً بہت سے لوگ صرف کہنے کے لئے نام نہاد عیسائی ہیں.اس نظریے کو ماننے کے قائل ہی نہیں کہ حضرت عیسی زندہ ہیں یا نہیں ہیں یا خدا ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے وجود کے بھی اسی وجہ سے انکاری ہورہے ہیں.) فرمایا کہ الغرض مخلوق پرستی کو اب کوئی نہیں مانتا.ہاں اسباب پرستی کا شرک اس قسم کا شرک ہے کہ اس کو بہت لوگ نہیں سمجھتے.مثلاً کسان کہتا ہے کہ میں جب تک کھیتی نہ کرونگا اوروہ پھل نہ لاوے گی تب تک گزارہ نہیں ہو سکتا.اسی طرح ہر ایک پیشہ والے کو اپنے پیشہ پر بھروسہ ہے اور انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر ہم یہ نہ کریں تو پھر زندگی محال ہے.اس کا نام اسباب پرستی ہے اور یہ اس لئے ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان نہیں ہے پیشہ وغیرہ تو در کنار پانی، ہوا، غذا وغیرہ جن اشیاء پر مدار زندگی ہے یہ بھی انسان کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک خدا تعالیٰ کا اذن نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اسی لئے جب انسان پانی پیئے تو اسے خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی پیدا کیا ہے اور پانی نفع نہیں پہنچا سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو.خدا تعالیٰ کے ارادے سے پانی نفع دیتا ہے اور جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو وہی پانی ضرر دے دیتا ہے.( نقصان دیتا ہے.) ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 315-316) فرمایا کہ ایک شخص نے ایک دفعہ روزہ رکھا ہوا تھا تو جب روزہ افطار کیا تو پانی پی لیا اور پانی پیتے
خطبات مسرور جلد 12 302 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء ہی لیٹ گیا.اس کے لئے پانی نے ہی زہر کا کام کیا.پانی پیتے ہی ایسی تکلیف ہوئی کہ اٹھنے کے قابل نہیں رہا اور وہی پانی جو زندگی بخش چیز ہے وہاں اس کے لئے زہر بن گیا.بعض لوگ روزے کے بعد بے انتہا پانی پی جاتے ہیں ہیں، ان کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے.اس بارے میں احتیاط کرنی چاہئے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 316) پھر فرمایا کہ ”جو کام ہے خواہ معاشرہ کا خواہ کوئی اور جب تک اس میں آسمان سے برکت نہ پڑے تب تک مبارک نہیں ہو تا غرض کہ اللہ تعالیٰ کے تصرفات پر کامل یقین چاہیئے.جس کا یہ ایمان نہیں ہے اس 66 میں دہریت کی ایک رگ ہے.پہلے ایک امر آسمان پر ہو رہتا ہے.تب زمین پر ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 316 فرمایا کہ لاف و گزاف کا نام تو حید نہیں.مولویوں کی طرف دیکھو کہ دوسروں کو وعظ کرتے اور آپ کچھ عمل نہیں کرتے.اسی لئے اب اُن کا کسی قسم کا اعتبار نہیں رہا ہے.ایک مولوی کا ذکر ہے کہ وہ وعظ کر رہا تھا.سامعین میں اس کی بیوی بھی موجود تھی.صدقہ و خیرات اور مغفرت کا وعظ اس نے کیا.اس سے متاثر ہو کر ایک عورت نے پاؤں سے ایک پازیب اُتار کر واعظ صاحب کو دیدی جس پر واعظ صاحب نے کہا تو چاہتی ہے کہ تیرا دوسرا پاؤں دوزخ میں جلے ؟ یہ سن کر اس نے دوسری بھی دیدی.جب گھر میں آئے تو بیوی نے بھی اس وعظ پر عملدرآمد چاہا کہ محتاجوں کو کچھ دے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ باتیں سنا نے کی ہوتی ہیں کرنے کی نہیں ہوتیں اور کہا کہ اگر ایسا کام ہم نہ کریں تو گزارہ نہیں ہوتا.“ ( آجکل کے مولویوں کا یہی حال ہے.) ”انہیں کے متعلق یہ ضرب المثل ہے.واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند چون بخلوت مے روند آں کا ر د یگر می کنند ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 316) یعنی وعظ کرنے والے جو کچھ محراب و منبر پر بتاتے ہیں جب تنہائی میں جاتے ہیں تو اس کام کے برخلاف کرتے ہیں.پھر ایک حقیقی مومن جو توحید پر قائم ہو کیسا ہوتا ہے یا کیسا ہونا چاہئے.اس کی حالت بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ” مومن ایک لا پروا انسان ہوتا ہے.اسے صرف خدا تعالیٰ کی رضامندی کی حاجت ہوتی ہے اور اسی کی اطاعت کو وہ ہر دم مد نظر رکھتا ہے کیونکہ جب اس کا معاملہ خدا سے ہے تو پھر اسے کسی کے ضرر اور نفع کا
خطبات مسرور جلد 12 303 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء کیا خوف ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کے بالمقابل کسی دوسرے کے وجود کو دخل دیتا ہے تو ریاء اور عجب وغیرہ معاصی میں مبتلا ہوتا ہے.“ فرمایا: یاد رکھو کہ یہ دخل دہی ایک زہر ہے اور کلمہ لا إلهَ إِلَّا الله کے اول جزولا 66 الہ میں اس کی بھی نفی ہے.“ فرمایا کہ ” جب انسان کسی انسان کی خاطر خدا تعالیٰ کے ایک حکم کی بجا آوری سے قاصر رہتا ہے تو آخر اُسے خدا کی کسی صفت میں شریک کرتا ہے تبھی تو قاصر رہتا ہے ( جب اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان میں سے کسی ایک حکم کو وہ نہیں بجالاتا ، اس کو چھوڑتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں کسی کو شریک سمجھتا ہے تبھی وہ کام نہیں کر رہا.فرمایا کہ ) اس لئے لا الہ کہتے وقت اس قسم کے معبودوں کی بھی نفی کرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ (112) اگر حقیقی مومن ہے تو جب لا اللہ کہتا ہے تو اس قسم کے معبودوں کی بھی نفی کر رہا ہے.یعنی کسی بھی صفت میں اللہ تعالیٰ کے مقابل پر کسی کو نہیں لاتا اور یہی لا الہ کی حقیقت ہے.فرمایاذ کر کرتے ہوئے کہ بعض کتابوں میں بعض واقعات لکھے ہیں.روزے داروں کا ایک ذکر لکھا ہے کہ کوئی روزہ دار مولوی کسی کے ہاں جاوے اور اسے مقصود ہو کہ اپنے روزہ کا اظہار کرے تو مالک خانہ کے استفسار پر بجائے اس کے کہ سچ بولے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے اس کی نظروں میں بڑا نفس کش ثابت کرنے کے لئے ( کہ میں اپنے نفس پر بڑی سختی کرتا ہوں ) ”جواب دیا کرتے ہیں کہ مجھے عذر ہے.‘‘ ( غرض اس کی یہ ہوتی ہے کہ بہت سے مخفی ہوتے ہیں.یعنی واضح طور پر نہیں کہتا کہ روزہ رکھا ہوا ہے بلکہ بہانہ کہ بس ایک وجہ ہے.میں کچھ کھاؤں پیوں گا نہیں.فرمایا کہ ) غرضکہ اسی طرح کے بہت سے مخفی گناہ ہوتے ہیں جو اعمال کو تباہ کرتے رہتے ہیں.“ (اس طرح جو بناوٹ ہے اور تصنع ہے یا اپنی کسی بھی نیکی کا اظہار کرنا یخفی گناہ ہیں اور اس سے آہستہ آہستہ پھر اعمال تباہ ہو جاتے ہیں.انسان توحید سے دور ہو جاتا ہے.فرمایا کہ امراء کو کبر اور نخوت لگے رہتے ہیں جو کہ ان کے عملوں کو کھاتے رہتے ہیں.اس لئے بعض غریب آدمی جن کو اس قسم کے خیالات نہیں ہوتے وہ سبقت لے جاتے ہیں.‘ ( کیونکہ کبر اور نخوت جو ہے وہ انسان کو توحید سے بھی دور کرتی ہے.فرمایا کہ ) غرضکہ ریاء وغیرہ کی مثال ایک چوہے کی ہے جو
خطبات مسرور جلد 12 304 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء کہ اندر ہی اندر اعمال کو کھا تا رہتا ہے.خدا تعالی بڑا کریم ہے لیکن اس کی طرف آنے کے لئے عجز ضروری ہے.(عاجزی ہوگی تو اللہ کے قریب آؤ گے) جس قدر انانیت اور بڑائی کا خیال اس کے اندر ہو گا خواہ وہ علم کے لحاظ سے ہو، خواہ ریاست کے لحاظ سے، خواہ مال کے لحاظ سے، خواہ خاندان اور حسب نسب کے لحاظ سے، تو اسی قدر پیچھے رہ جاویگا.اسی لئے بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ سادات میں سے اولیاء کم ہوئے ہیں کیونکہ خاندانی تکبر کا خیال ان میں پیدا ہو جاتا ہے.قرونِ اولیٰ کے بعد جب یہ خیال پیدا ہوا تو یہ لوگ رہ گئے.“ فرمایا کہ اس قسم کے حجاب انسان کو بے نصیب اور محروم کر دیتے ہیں.بہت ہی کم ہیں جوان سے نجات پاتے ہیں.امارت اور دولت بھی ایک حجاب ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 112 - 113) اور یہی چیزیں، دولت بھی اور امارت بھی ہیں جو احکامات کی بجا آوری سے روکتی ہیں اور جب احکامات پر عمل نہ ہوتو پھر تو حید سے انسان دور ہو جاتا ہے.آپ کا ایک الہام ہے کہ آنت مینی و انا مِنْكَ ( اس کے بارہ میں ) آپ سے سوال کیا گیا کہ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تو مجھ میں سے ہے اور میں تجھ میں سے یہ تو توحید کے خلاف ہے.فرمایا کہ "آنت مینی تو بالکل صاف ہے اس پر کسی قسم کا اعتراض اور نکتہ چینی نہیں ہوسکتی.میرا ظہور محض اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے ہے اور اسی سے ہے.یعنی ( آنت مٹی کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو کچھ ملا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا ہے.اللہ تعالیٰ نے دیا ہے.) پھر فرماتے ہیں کہ یا درکھنا چاہئے کہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا قرآن شریف میں بار بار اس کا ذکر ہوا ہے وحدہ لاشریک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ صفات میں نہ افعال الہیہ میں.سچی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان کامل اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک انسان ہر قسم کے شر سے پاک نہ ہو.تو حید تب ہی پوری ہوتی ہے کہ وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کو کیا ( با اعتبار ذات اور کیا) با اعتبار صفات کے اصل اور افعال کے بے مثل مانے.“ ( اب اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے حساب سے یہی سمجھے کہ اسی کی طرف ساری منسوب ہوتی ہیں.اسی کی ذات اور صفات جو ہیں وہ ہر چیز پر حاوی ہیں اور جو کام ہیں ان کے جیسے بے مثل نتائج اللہ تعالیٰ پیدا فرما سکتا ہے اور کوئی پیدا نہیں فرما سکتا.) فرمایا: ” نادان میرے اس الہام پر تو اعتراض کرتے ہیں اور سمجھتے نہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے لیکن اپنی زبان سے ایک خدا کا اقرار کرنے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی صفات دوسرے کے لئے تجویز
خطبات مسرور جلد 12 305 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء کرتے ہیں جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی اور ممیت مانتے ہیں.“ ( زندہ کرنے والا اور مردہ کرنے والا مانتے ہیں.مارنے والا مانتے ہیں.) عالم الغیب مانتے ہیں.الحی القیوم مانتے ہیں.کیا یہ شرک ہے یا نہیں؟ یہ خطر ناک شرک ہے جس نے عیسائی قوم کو تباہ کیا ہے اور اب مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے اُن کے اس قسم کے اعتقادوں کو اپنے اعتقادات میں داخل کر لیا ہے.پس اس قسم کے صفات جو اللہ تعالیٰ کے ہیں کسی دوسرے انسان میں خواہ وہ نبی ہو یا ولی تجویز نہ کرے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کے افعال میں بھی کسی دوسرے کو شریک نہ کرے.دنیا میں جو اسباب کا سلسلہ جاری ہے بعض لوگ اس حد تک اسباب پرست ہو جاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں.توحید کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ شرک فی الاسباب کا بھی شائبہ باقی نہ رہے.خواص الاشیاء کی نسبت کبھی یہ یقین نہ کیا جاوے ( یعنی جو چیزوں میں خواص ہوتے ہیں ان کے بارے میں یہ یقین نہ کیا جائے.) ” کہ وہ خواص ان کے ذاتی ہیں بلکہ یہ ماننا چاہئے کہ وہ خواص بھی اللہ تعالیٰ نے ان میں ودیعت کر رکھے ہیں.جیسے تربد ( ایک بوٹی ہے ) اسہال لاتی ہے یا سم الفار ہلاک کرتا ہے.(ایک زہر ہے اب یہ قو تیں اور خواص ان چیزوں کے خود بخود نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن میں رکھے ہوئے ہیں.اگر وہ نکال لے تو پھر نہ تر بد دست آور ہوسکتی ہے اور نہ سنکھیا ہلاک کرنے کی خاصیت رکھ سکتا ہے، نہ اسے کھا کر کوئی مر سکتا ہے.غرض اسباب کے سلسلہ کو حد اعتدال سے نہ بڑھا دے اور صفات و افعال الہیہ میں کسی کو شریک نہ کرے تو توحید کی حقیقت متحقق ہوگی اور اسے موحد کہیں گے لیکن اگر وہ صفات و افعال الہیہ کوکسی دوسرے کے لئے تجویز کرتا ہے تو وہ زبان سے گوکتنا ہی توحید ماننے کا اقرار کرے وہ موحد نہیں کہلا سکتا.ایسے موحد تو آریہ بھی ہیں جو اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں لیکن باوجود اس اقرار کے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ روح اور مادہ کو خدا نے پیدا نہیں کیا.وہ اپنے وجود اور قیام میں اللہ تعالیٰ کے محتاج نہیں ہیں گویا اپنی ذات میں ایک مستقل وجود رکھتے ہیں.( یہ روح اور مادہ.” اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہوگا ؟ اسی طرح پر بہت سے لوگ ہیں جو شرک اور توحید میں فرق نہیں کر سکتے.ایسے افعال اور اعمال اُن سے سرزد ہوتے ہیں یا وہ اس قسم کے اعتقادات رکھتے ہیں جن میں صاف طور پر شرک پایا جاتا ہے مثلاً کہہ دیتے ہیں کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے یا فلاں کام درست نہ ہوتا.پس انسان کو چاہئے کہ اسباب کے سلسلہ کو حد اعتدال سے نہ بڑھادے اور صفات و افعال الہیہ میں کسی کو شریک نہ کرے.“ فرمایا کہ انسان میں جو قو تیں اور ملکات اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں ان میں وہ حد سے نہیں بڑھ سکتے
خطبات مسرور جلد 12 306 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء مثلاً آنکھ اس نے دیکھنے کے لئے بنائی ہے اور کان سننے کے لئے ، زبان بولنے اور ذائقہ کے لئے.اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کانوں سے بجائے سننے کہ دیکھنے کا کام لے.زبان سے بولنے اور چکھنے کی بجائے سننے کا کام لے.ان اعضاء اور قومی کے افعال اور خواص محدود ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے افعال اور صفات محدود نہیں ہیں اور وہ کیس كَمِثْلِهِ شَیئ ہے.غرض یہ تو حید تب ہی پوری ہوگی جب اللہ تعالیٰ کو ہر طرح سے واحد لاشریک یقین کیا جاوے اور انسان اپنی حقیقت کو ہالکتہ الذات اور باطلۃ الحقیقت سمجھ لے کہ نہ میں اور نہ میری تدابیر اور اسباب کچھ چیز ہیں.“ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 2 تا 4 ) فرمایا کہ اب انا منك کے بارے میں پھر فرماتے ہیں کہ اس کی حقیقت سمجھنے کے واسطے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا انسان جو نیستی کے کامل درجہ پر پہنچ کر ایک نئی زندگی اور حیات طیبہ حاصل کر چکا ہے اور جس کو خدا تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا ہے آنت مٹی.جو اس کے قرب اور معرفت الہی کی حقیقت سے آشنا ہونے کی دلیل ہے اور یہ انسان خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی عزت و عظمت اور جلال کے ظہور کا موجب ہوا کرتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک عینی اور زندہ ثبوت ہوتا ہے.اس رنگ سے اور اس لحاظ سے گویا خدا تعالیٰ کا ظہور اس میں ہو کر ہوتا ہے ( جب بالکل خدا تعالیٰ میں ڈوب جاتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کا ظہور اس میں ہو جاتا ہے.) اور خدا تعالیٰ کے ظہور کا ایک آئینہ ہوتا ہے.اس حالت میں جب اس کا وجود خدا نما آئینہ ہو.اللہ تعالیٰ اُن کے لئے یہ کہتا ہے وانا منك - ایسا انسان جس کو انا منك کی آواز آتی ہے اُس وقت دنیا میں آتا ہے جب خدا پرستی کا نام ونشان مٹ گیا ہوتا ہے (آنا مِنْكَ کی آواز جس انسان کو آئے وہ اس وقت آتا ہے جب لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے دور ہٹ چکے ہوتے ہیں اس کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا ہے ) اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خدا شناسی اور خدا رسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے تائیں اُن لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ سے غافل اور بیخبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ کو دکھلا دوں.اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا.اَنْتَ مِتَّى وَانَا منك 66 66 ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 7-8 فرماتے ہیں کہ ” توحید کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی
خطبات مسرور جلد 12 307 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء درمیان سے اٹھا دے اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کر دے.66 ( ملفوظات جلد 1 صفحه (241) صحابہ کا اخلاص بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کے حالات کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ گرمی دیکھی نہ سردی اپنی زندگی کو تباہ کر دیا.نہ عزت کی پروا کی نہ جان کی.بکری کی طرح ذبح ہوتے رہے.اس طرح کی نظیر پیش کرنی آسان نہیں ہے.اس جماعت کے اخلاص کا اس سے زیادہ کیا ثبوت ہے کہ جان دے کر اخلاص ثابت کیا.ان کے نفس بالکل دنیا سے خالی ہو گئے تھے جیسے کوئی ڈیوڑھی پر کھڑا سفر کے لئے تیار ہوتا ہے ویسے ہی وہ لوگ دنیا کو چھوڑ کر آخرت کے واسطے تیار تھے.لوگوں کے کاموں میں بہت حصہ دنیا کا ہوتا ہے اور اس فکر میں ہوتے ہیں کہ یہ کرو وہ کرو اور وہ وقت مؤجل آ پہنچتا ہے.خدا ایسا نہیں کہ کسی کو ضائع کرے.یہ اعتراض کہ ہمارے املاک تباہ ہو جاویں گے غلط ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابوبکر وغیرہ کے املاک ہی کیا تھے؟ ایک ایک دو دوسو یا کچھ زیادہ روپیہ کسی کے پاس ہو گا مگر اس کا اجر اُن کو یہ ملا کہ خدا تعالیٰ نے بادشاہ کر دیا اور قیصر و کسری کے وارث ہو گئے.مگر خدا تعالیٰ کی غیرت یہ نہیں چاہتی کہ کچھ حصہ خدا کا ہو اور کچھ شیطان کا اور توحید کی حقیقت بھی یہی ہے کہ غیر از خدا کا کچھ بھی حصہ نہ ہو.توحید کا اختیار کرنا تو ایک مرنا ہے لیکن اصل میں یہ مرنا ہی زندہ ہونا ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں کہ 66 ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 6 تا 8 ) ”یقینا سمجھو.اس دنیا کے بعد ایک اور جہان ہے جو بھی ختم نہ ہوگا.اس کے لئے تمہیں اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے.یہ دنیا اور اس کی شوکتیں یہاں ہی ختم ہو جاتی ہیں مگر اس کی نعمتوں اور خوشیوں کا کوئی بھی انتہا نہیں ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جو شخص ان سب باتوں سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہی مومن ہے اور جب ایک شخص خدا کا ہو جاتا ہے تو پھر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ اسے چھوڑ دے.یہ مت سمجھو کہ خدا ظالم ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے کچھ کھوتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ پالیتا ہے.اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لو اور اولاد کی خواہش نہ کرو تو یقیناً اور ضروری سمجھو کہ اولا دمل جاوے گی.اور اگر مال کی اور خواہش نہ ہو تو وہ ضرور دے دے گا.تم دو کوششیں مت کرو کیونکہ ایک وقت دو کوششیں نہیں ہو سکتی ہیں اور
خطبات مسرور جلد 12 308 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو پانے کی سعی کرو.“ ( کوشش کرو.جو خدا تعالیٰ کے واسطے دنیا کو چھوڑ دیتے ہیں انہیں دنیا بھی مل جاتی ہے لیکن یہ شرط ہے کہ ہر قسم کے شرک سے بچو.) فرمایا: ”میں پھر کہتا ہوں کہ اسلام کی اصل جڑ تو حید ہے.یعنی خدا تعالیٰ کے سوا کوئی چیز انسان کے اندر نہ ہواور خدا اور اُس کے رسولوں پر طعن کرنے والا نہ ہوخواہ کوئی بلا یا مصیبت اس پر آئے.کوئی دکھ یا تکلیف یہ اٹھائے مگر اس کے منہ سے شکایت نہ نکلے.بلا جو انسان پر آتی ہے وہ اس کے نفس کی وجہ سے آتی ہے.خدا تعالیٰ ظلم نہیں کرتا.ہاں کبھی کبھی صادقوں پر بھی بلا آتی ہے مگر دوسرے لوگ اسے بلا سمجھتے ہیں درحقیقت وہ بلا نہیں ہوتی.وہ ایلام برنگ انعام ہوتا ہے.اس سے خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا تعلق بڑھتا ہے اور ان کا مقام بلند ہوتا ہے.اس کو دوسرے لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے لیکن جن لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا اور ان کی شامت اعمال ان پر کوئی بلا لاتی ہے تو وہ اور بھی گمراہ ہوتے ہیں.ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا ہے : في قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا (البقرة: 11 ) پس ہمیشہ ڈرتے رہو اور خدا تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو تا ایسا نہ ہو کہ تم خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے والوں میں ہو جاؤ.جو شخص خدا تعالی کی قائم کردہ جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اس کو ایسی توفیق عطا کی.وہ اس بات پر قادر ہے کہ ایک قوم کو فنا کر کے دوسری پیدا کرے.یہ زمانہ لوڈ اور نوح کے زمانہ سے ملتا ہے.بجائے اس کے کہ کوئی شدید عذاب آتا اور دنیا کا خاتمہ کر دیتا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے اصلاح چاہی ہے اور اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 116 تا 118 ) ہماری بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس تعلیم کو سمجھیں.توحید کی حقیقت کو سمجھیں.فرمایا کہ : ”ہماری جماعت کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلی کریں، کیونکہ ان کو تو تازہ معرفت ملتی ہے اور اگر معرفت کا دعویٰ کر کے کوئی اس پر نہ چلے تو یہ نری لاف گزاف ہی ہے.پس ہماری جماعت کو دوسروں کی شستی غافل نہ کر دے ( دنیا کے نمونے دیکھ کر ان کے پیچھے نہ چل پڑو.اور اس کو کاہلی کی جرات نہ دلا دے.وہ ان کی محبت سرد دیکھ کر خود بھی دل سخت نہ کر لے.“ ( دوسرے لوگوں کی دین کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی طرف محبت نہیں ہے تو دیکھا دیکھی اپنے دل بھی کہیں سخت نہ کر لیں.) فرمایا ”انسان بہت آزوئیں اور تمنا میں رکھتا ہے.مگر غیب کی ، قضاء وقدر کی کس کو خبر ہے.زندگی آرزوؤں کے موافق نہیں چلتی.تمناؤں کا سلسلہ اور ہے، قضا و قدر کا سلسلہ اور ہے.اور وہی سچا سلسلہ
خطبات مسرور جلد 12 309 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء ہے.“ ( جو قضا و قدر کا ہے.) خدا کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں.اسے کیا معلوم ہے اس میں کیا لکھا ہے.اس لئے دل کو جگا جگا کر غور کرنا چاہئے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ (241) ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں توحید کا حقیقی ادراک عطا فرمائے اور ہمارا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ہو.نماز جمعہ کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا.یہ مکرم عبدالکریم عباس صاحب سیر یا کا ہے جو 5 مئی کو بقضائے الہی وفات پاگئے تھے.اِنَّا لِلهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُون.انہوں نے 2005ء میں بیعت کی سعادت پائی تھی اور بعد میں آکے بہت آگے نکلنے والوں میں شامل ہو گئے.خاندان میں اکیلے احمدی تھے.2009ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے.چندوں کی ادائیگی میں با قاعدہ تھے.گزشتہ سال مالی حالات کی خرابی کے باعث ملک میں جو حالات ہیں ان پر بھی اثر پڑا.اگر بہت دور بھی ہوتے تھے تو کسی رشتے دار کے ہاتھ چندہ ضرور بھجوا دیا کرتے تھے.مرحوم شوگر کے مریض تھے اور صحت کافی خراب تھی.جسم بھی دبلا پتلا تھا.گزشتہ دنوں خرابی صحت اور تکلیف کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوئے.ان کو مکرم ملہم العدس صاحب نے تبلیغ کی تھی اور اپنے صدق و اخلاص کی وجہ سے جلد ہی انہوں نے بیعت کی توفیق پائی.لکھتے ہیں کہ آپ نے سچی تلاش حق اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت کے باعث زیادہ مطالعہ کے بغیر ہی حق کو قبول کر لیا اور تبلیغ کے ایک ماہ بعد ہی بیعت کر لی.بیعت کے بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ مسجد قبا میں کبار صحابہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں اور سب نے سفید لباس پہنا ہوا ہے.نیز بیان کیا کہ نماز کے دوران ان کی حالت بہت روحانی تھی.مرحوم اس خواب سے بہت خوش تھے.کہا کرتے تھے کہ یہ خواب اس بات کا ثبوت ہے کہ میرا بیعت کا فیصلہ درست تھا.لیکن اپنی خاکساری کے باعث ہمیشہ پوچھا کرتے تھے کہ کیا میں واقعی صحابہ کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہل ہوں.جہاں بھی ہوتے تبلیغ کرتے.اس بارے میں کسی خوف یا ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے.خصوصاً یہ بات اس لئے بھی قابل ذکر ہے کہ آپ اس علاقے میں رہتے تھے جہاں کے رہائشی اپنے عقائد اور عادات کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے.شدید بیماری کے باوجود جماعت سے رابطہ رکھتے اور مطالعہ کرتے اور دلائل سیکھتے اور نرمی سے آگے بیان فرماتے.بہت نرم دل اور دھیمے مزاج کے طور پر مشہور تھے.ہمیشہ یہ ثابت کرتے کہ بیماری کوئی
خطبات مسرور جلد 12 310 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 مئی 2014ء روک نہیں ہے اور ہر کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو پہنچانے میں حصہ لے سکتا ہے.جب تبلیغ کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے تو آنکھیں نمناک ہو جاتیں.حق کی بات ہمیشہ جرات اور بہادری سے کرتے اور سننے والوں کو احساس نہ ہوتا کہ ایسا کلام کوئی دبلا پتلا انسان بھی کر سکتا ہے.وفات کے بعد ان کے گھر والے کیونکہ احمدی نہیں تھے ان کی نعش آبائی گاؤں لے گئے اور وہاں احمدی بھی جنازہ نہیں پڑھ سکے.بہر حال بعد میں انہوں نے جنازہ غائب پڑھا.ہم بھی انشاء اللہ پڑھیں گے.ہانی طاہر صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم بہت مخلص احمدی تھے.2009ء میں میرے لئے ویب سائٹ ڈیزائن کرنے کی پیشکش کی.میں نے وقت کی کمی کا عذر کیا تو کہنے لگے مجھے صرف مضامین بھجوا دیا کریں.باقی کام میں خود کروں گا.پھر انہوں نے بہت ہی خوبصورت ویب سائٹ ڈیزائن کی.جماعت کی خدمت کے بارے میں اپنی لگن اور شدت کا اور تڑپ کا اظہار کرتے تھے.مجید عامر صاحب نے بھی لکھا ہے کہ مرحوم محمد العباس کے ساتھ خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اردو کتب کے عربی تراجم کی چیکنگ اور دہرائی کے سلسلے میں کام کرنے کی توفیق ملی.اس دوران شدت سے محسوس کیا کہ مرحوم غیر معمولی اخلاص اور باریک بینی سے کام کرنے اور جلد کام کو نپٹانے کے عادی تھے.کبھی بیماری کو اس راہ میں آڑے نہیں آنے دیا بلکہ بیماری کا کبھی ذکر تک بھی نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو پڑھ کر بڑی سعادت اور خوشی کا اظہار کرتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معارف اور تعلیمات جلد عرب لوگوں میں پہنچنے چاہئیں تا کہ وہ بھی اس سے مستفیض ہوں اور ہدایت پائیں.خلافت کی محبت میں سرشار تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 06 جون 2014 ء تا 12 جون 2014 ، جلد 21 شماره 23 صفحہ 05 09)
خطبات مسرور جلد 12 311 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014 ء بمطابق 23 ہجرت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ كِتَابًا مُؤَجَلًا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّكِرِينَ.وَكَأَيِّنْ مِنْ نَّبِي قتَلَ مَعَهُ رِبْتُونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللهُ يُحِبُّ الصَّبِرِينَ وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَاسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ فَأَشْهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران: 146-149) وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمُ (آل عمران: 170_172) يُرْزَقُونَ فَرِحِيْنَ بِمَا أَهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ.یہ آیات سورۃ آل عمران کی 146 سے 149 اور 170 سے 172 تک ہیں.پہلے حصے کا ترجمہ یہ ہے کہ اور کسی جان کے لئے مرنا ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اللہ کے اذن سے ہو.یہ ایک طے شدہ نوشتہ ہے.اور جو کوئی دنیا کا ثواب چاہے ہم اسے اس میں سے عطا کرتے ہیں.اور جو کوئی آخرت کا ثواب چاہے ہم اسے
خطبات مسرور جلد 12 312 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء اسی میں سے عطا کرتے ہیں.اور ہم شکر کرنے والوں کو یقینا جزا دیں گے.اور کتنے ہی نبی تھے کہ جن کے ساتھ مل کر بہت سے ربانی لوگوں نے قتال کیا.پھر وہ ہرگز کمزور نہیں پڑے اس مصیبت کی وجہ سے جو اللہ کے رستے میں انہیں پہنچی.اور انہوں نے ضعف نہیں دکھایا اور وہ (دشمن کے سامنے جھکے نہیں.اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.اور ان کا قول اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے عرض کیا اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملہ میں ہماری زیادتی بھی.اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کا فرقوم کے خلاف نصرت عطا کر.تو اللہ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا بہت عمدہ ثواب بھی.اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.دوسرے حصے کا ترجمہ یہ ہے کہ اور جولوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو ہرگز مردے گمان نہ کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کے ہاں رزق عطا کیا جارہا ہے.بہت خوش ہیں اس پر جواللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اور وہ خوشخبر یاں پاتے ہیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق جو ابھی ان سے نہیں ملے کہ ان پر بھی کوئی خوف نہیں ہوگا اوروہ غمگین نہیں ہوں گے.وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے متعلق خوشخبریاں پاتے ہیں اور یہ خوشخبریاں بھی پاتے ہیں کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل و احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے لوگ عطا فرمائے ہیں جو اپنے عہدوں کی روح کو جانتے ہیں اور جو قربانیوں کی روح کو جانتے ہیں اور نہ صرف جانتے ہیں بلکہ اس کے ایسے نمونے قائم کرنے والے ہیں جن کی اس زمانے میں کہیں اور مثال نہیں ملتی.مال کی قربانی کا سوال اٹھے کہ کہاں ہیں ایسے لوگ جو اپنے مال کو دین کی خاطر قربان کرنے والے ہیں تو جماعت احمدیہ کے افراد کا گروہ سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے.وقت کی قربانی کا مطالبہ ہو تو آج جماعت احمدیہ میں دین کی خاطر وقت قربان کرنے کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں.عزت کی قربانی کے نمونے دیکھنے ہیں تو آج جماعت احمدیہ میں اس کے نمونے نظر آئیں گے.تبلیغ اسلام کے لئے زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو مخلصین کا گروہ اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے والا ہے.جان کی قربانی کا حقیقی
خطبات مسرور جلد 12 313 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء نمونہ دیکھنا ہے تو جماعت احمدیہ کی تاریخ اس حقیقی قربانی کے نمونوں پر مہر لگاتی ہے.غرض کہ کوئی بھی ایسی قربانی جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہو، اس کے نمونے قائم کرنے کے لئے آج خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو پیدا کیا ہے.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسی جماعت عطا کی ہے جس کی اکثریت مال جان وقت اور عزت قربان کرنے کی روح کو سمجھنے والی ہے اور ہر وقت تیار ہے.لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو علم کی کمی کی وجہ سے ایسا اظہار کر دیتے ہیں جو مومن کی شان نہیں یا حالات کی وجہ سے بشری تقاضے کے تحت ایسے اظہار کر دیتے ہیں جس سے بعض کم تربیت یافتہ یا کچے ذہن ضرورت سے زیادہ اثر لے لیتے ہیں.بعض لوگ مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ یہ ابتلا اور امتحان کا عرصہ لمبا ہوتا چلا جارہا ہے.اگر صرف یہاں تک ہی ہو کہ مشکلات اور امتحان کا عرصہ لمباہور ہا ہے.اللہ تعالیٰ جلد آسانیوں کے سامان پیدا فرمائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ جب ان سختیوں اور ابتلاؤں کی انتہا پہنچتی ہے تو رسول اور مومنین کی جماعت متى نضر اللہ کی آواز بلند کرتے ہیں اور یہ دعا بھی کرتے ہیں لیکن ایسا اظہار جس سے دنیاوی واسطوں اور اسباب کی طرف توجہ کی طرف رغبت کا اظہار ہو تو یہ ایک مؤمن کی شان نہیں ہے.مثلاً مجھے ایک لکھنے والے نے لکھا کہ پاکستان میں جماعت پر جو کچھ ظلم ہور ہے ہیں، ہمیں دنیا کو بتانا چاہئے اور ایم ٹی اے کو بھی ایک بڑا حصہ اس بات پر لگادینا چاہئے کہ وہ اس کے ذریعہ ظلموں کا اظہار کرتی رہے، دنیا کو بتائے اور دوسرے ذرائع بھی استعمال کئے جائیں.ظلم کے خلاف دنیا میں آواز بلند کی جائے.بلکہ خط سے یوں لگا کہ جیسے دنیا والے کرتے ہیں ہم بھی دنیاوی طریقے سے شور شرابہ کر کے دنیا کے سامنے اپنے احتجاج کے نعرے بلند کریں تو پھر شاید ان حکومتوں کو جو ہمارےخلاف ہیں ہمارے حقوق دینے کی طرف توجہ پیدا ہواور یہ ابتلا اور مشکلات کا دور ختم ہو.یہ کہتے ہیں کہ میرے شیعہ دوست کہتے ہیں کہ جو کچھ جماعت احمدیہ کے ساتھ ہورہا ہے اگر ہمارے ساتھ ہو تو ہم تو یوں جلوس نکالتے ہیں اور یوں احتجاج کرتے ہیں اور یہ کر دیتے ہیں اور وہ کر دیتے ہیں.اور یہ بھی کہ اگر ہمارے سے تھوڑا سا بھی ہو تو ہم دنیا میں شور مچادیتے ہیں.احمدی صحیح احتجاج نہیں کرتے.اس لئے ان کا ابتلا اور ان پر ظلم کا عرصہ لمبا ہورہا ہے.اس بارے میں پہلی بات تو یہ یا درکھنے والی ہے کہ جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم الہی جماعت ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ الہی جماعتیں دنیاوی حکومتوں یا دنیاوی طرز کے احتجاجوں پر یقین نہیں رکھتیں، نہ الہی جماعتوں کی ترقی میں دنیا وی مدد کا کوئی کردار ہے یا ہاتھ ہے.دنیا وی مدد یں بغیر شرائط کے نہیں ہوتیں.بغیر کسی غرض کے نہیں ہوتیں.اپنے آگے کسی نہ کسی رنگ میں جھکائے بغیر نہیں ہوتیں.اور یہ
خطبات مسرور جلد 12 314 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء باتیں ایک حقیقی مومن کبھی برداشت نہیں کر سکتا.متى نضر اللہ کی آواز اگر مومنین کی طرف سے بلند ہوتی ہے تو یہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے دعا کی آواز ہے.اور ہر مرتبہ جب ہم ابتلا اور امتحانوں کے دور سے گزرتے ہوئے اللہ کے آگے جھکتے ہوئے اس کے فضلوں اور اس کی مدد مانگتے ہیں ، اس کی مدد کے طالب ہوتے ہیں تو ترقی کے نئے سے نئے راستے ہمارے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں.آج تقریباً تمام دنیا میں پھیلے ہوئے افراد جماعت اور دنیا کے 204 ممالک میں بسنے والے احمدی اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ ابتلاء جماعتی ترقی کے نئے سے نئے راستے کھول رہا ہے اور نئی سے نئی منزلیں طے ہو رہی ہیں.پس صرف اس بات پر پریشان نہیں ہو جانا چاہئے کہ ایک ملک میں ابتلا یا امتحان کا دور لمبا ہو گیا.بلکہ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وسعتیں کہاں تک پھیل رہی ہیں.جہاں تک یہ سوال ہے کہ دنیاوی اسباب کا استعمال بھی ہونا چاہئے تو بالکل ٹھیک ہے.یہ ہونا چاہئے.رعایت اسباب منع نہیں ہے بلکہ اس کا بھی حکم ہے.ظاہری طریقوں کو اپنانا بالکل منع نہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن حدود میں رہتے ہوئے ہم نے یہ ظاہری اسباب استعمال کرنے ہیں اور ہمیں یہ استعمال کرنے چاہئیں ہم کرتے بھی ہیں.دنیا کو آگاہ بھی کرتے ہیں کہ کس طرح جماعت پر مظالم ہورہے ہیں.اور ہم ان کو یہ بتاتے ہیں کہ اگر آج دنیا نے مل کر ان فلموں کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ مظالم پھیلتے چلے جائیں گے.جماعت کا سوال نہیں ہے بلکہ کوئی بھی انسان محفوظ نہیں رہے گا اور اب یہ پھیل رہے ہیں.دنیا دیکھ رہی ہے.لیکن یہ سب کچھ بتانے کے باوجود ہمارا انحصار نہ کسی حکومت پر ہے نہ کسی انسانی حقوق کی تنظیم پر بلکہ ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے.اور یہی مضمون میں خاص طور پر گزشتہ دو تین جمعوں میں خطبوں میں بتارہا ہوں کہ تمام نتائج کے حصول کے لئے ہماری نظر خدا تعالیٰ پر ہونی چاہئے.اور یہی ایک مومن کی مثال ہے.دنیاوی لوگ اگر شور مچاتے ہیں.جلسے جلوس کرتے ہیں.توڑ پھوڑ کرتے ہیں.اپنے خلاف ظلموں کا اسی طرح ظلم کر کے بدلہ لیتے ہیں تو اس لئے کہ ان سے الہی وعدے نہیں ہیں کہ آخری فتح تمہاری ہے.جبکہ ہمارے ساتھ خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں کہ ان سب ظلموں کے باوجود جو تم سے روار کھے جارہے ہیں، جو تم پر ہورہے ہیں.ان سب زیادتیوں کے باوجود جو حکومتوں کی طرف سے یا حکومتوں کے اشیر باد پر حکومت کے قریبیوں اور کارندوں اور اہلکاروں کی طرف سے ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ تمہیں وہ انعامات ملنے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ملنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے مومنوں کو ملتے ہیں.اس دنیا کے انعامات کے بھی تم وارث ہو گے اور اگلے جہان کے انعامات کے بھی تم
خطبات مسرور جلد 12 315 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء وارث ہو گے.قربانیوں کی جو مثالیں تم قائم کر رہے ہو وہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی اور آخری فتح تمہاری ہے.اس فتح کے حصول کا سب سے زیادہ تیر بہ حرف نسخہ جو ہے وہ دعائیں ہیں.جتنا زیادہ دعاؤں میں ڈو بو گے اتنی جلدی یہ مشکلات دور ہوں گی.دشمنوں کے حملوں سے بچنے کے لئے جتنے زیادہ یار نہاں میں نہاں ہو گے اتنی زیادہ تیزی سے وہ ظاہر ہو کر خارق عادت نشان دکھائے گا انشاء اللہ.پس ہماری سوچ اور دنیا داروں کی سوچ میں بہت فرق ہے.ہم نے زمانے کے امام کی بیعت کی ہے جس سے خدا تعالیٰ کے فتوحات کے وعدے ہیں.فتوحات کے نئے سے نئے دروازے کھلنے کے وعدے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا یہ نظارے ہم دیکھ بھی رہے ہیں لیکن دوسروں سے اس قسم کے کوئی وعدے نہیں ہیں.جہاں تک شیعوں کی مثال دیتے ہیں یا کسی دوسرے کی مثال دیتے ہیں مجھے تو کہیں ایسا نظر نہیں آتا کہ دنیاوی احتجاج کر کے انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے ہوں.ہاں توڑ پھوڑ ، گھیراؤ جلاؤ ہر جگہ ضرور ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے مزید فساد پھیل رہا ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ ظلم کا بدلہ ظلم کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا اور ہم نے یہ نہیں کرنا.یہاں میں دنیا داروں کے رویوں کی ایک مثال بھی دے دیتا ہوں.جیسا کہ میں نے کہا کہ دنیا اگر مددبھی کرتی ہے تو اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے یا اپنی مصلحتوں کو دیکھتے ہوئے کرتی ہے.گزشتہ دنوں یہاں ایک اخبار نے ایک مضمون دیا کہ مسلمان یہاں حکومت کے وفادار نہیں ہیں اس لئے مغربی ممالک سے ان مسلمانوں کو نکال دینا چاہئے.اس پر ہمارے پریس سیکشن نے کہا کہ یہ غلط ہے.اسلام ملکی قانون کی پابندی اور وطن سے محبت کا حکم دیتا ہے.اس پر اخبار نے کہا کہ دوسرے مسلمان فرقوں کا تو یہ عمل نہیں ہے.تم دوسرے مسلمان فرقوں کو بھی یہ نصیحت کرو.تو ہم نے کہا ٹھیک ہے اگر تمہارا اخبار اس نصیحت کو شائع کرنے کے لئے تیار ہے تو ہم بیان دے دیتے ہیں.جب ان کی دی ہوئی شرائط کے مطابق کہ یہ لکھ کے فلاں لکھ کے دو، وہ پورا کر دیا گیا تو پھر ایڈیٹر نے یا ان کے بورڈ نے یہ اعلان دینے سے بھی انکار کر دیا.بہانہ یہ تھا کہ کچھ اور مضامین ایسے آگئے ہیں جس کی وجہ سے ہم نہیں دے سکتے اور پھر کبھی دینا ہوا تو دیکھیں گے.ٹال مٹول.تو بہر حال یہ بہانے تھے.اصل بات یہ ہے کہ ان میں یہ جرات نہیں تھی کہ دوسرے مسلمان فرقے جو احمدیوں کے مخالف ہیں ان کو ناراض کریں.انصاف کے تقاضے یہ لوگ پورے نہیں کرنا چاہتے.بعض قسم کے خوف اور ڈران کے اندر ہیں اور جب وہ بعض مسلمانوں کے سختی کے رویے دیکھتے ہیں تو یہ ڈرمزید اور بڑھ جاتے ہیں.میں اکثر جب مختلف لیڈروں اور پریس کو یہ کہتا ہوں کہ امن قائم کرنا ہے تو انصاف قائم کرو اور
خطبات مسرور جلد 12 316 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء ڈبل سٹینڈرڈ نہ بناؤ تو اکثر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس بات کی ہمارے اندر کمی ہے اور یہی حقیقت ہے.بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ کھلے طور پر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہمارے مقاصد ہیں ، جن کے حصول کے لئے ہم نے ایجنڈے بنائے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم دنیا کے سامنے باتیں تو انصاف کی کرتے ہیں لیکن مقاصد ہمارے اپنے ہیں.ان کو ہم نے حاصل کرنا ہے.تو یہ تو ان کا حال ہے جن کی طرف ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی نظریں رکھیں یا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نظر کریں.دو عملی کرنے والوں پر تو انحصار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ان میں کوئی طاقت ہے کہ یہ مشکلات دور کر سکیں.ایک اخبار ہے جو ایک ایسا بیان بھی شائع نہیں کرنا چاہتا جس سے ملک کی محبت کا اظہار ہورہا ہے.کوئی نزاعی اور جھگڑے والا معاملہ نہیں ہے جن پر ان کو تحفظات ہوں.اس پر ایسے لوگوں کو جو اس قسم کے مشورے دیتے ہیں، سوچنا چاہئے کہ کیسے ہم ان لوگوں کی طرف دیکھیں اور ان پر تکیہ کریں.اگر ہر احمدی خدا پر انحصار کی حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو جہاں جہاں بھی احمدیوں پر تنگیاں وارد کی جارہی ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ دعاؤں سے ہی ہوا میں اڑ جائیں گی مگر شرط ان دعاؤں کا حق ادا کرنا ہے.ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت پر پاکستان یا بعض دوسرے ممالک میں غیروں کی طرف سے جو سختیاں ہورہی ہیں یا حکومتوں کی طرف سے یہ ظلم جو قانون کی آڑ میں یا کسی بھی طرح سے کئے جارہے ہیں یہ آج کی پیداوار نہیں.یہ کوئی گزشتہ دو تین دہائیوں کا معاملہ نہیں ہے.یہ تو اس وقت سے ہیں جب سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ایک جماعت قائم کی تھی.آپ کو اور جماعت کو ابتدا سے ہی ان فلموں اور سختیوں سے گزرنا پڑا تھا.بلکہ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جب یہ خیال پیدا ہوا کہ آپ کو اپنی آبائی بستی قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی جس کا مالک مدتوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان تھا.آپ وہاں بھی محفوظ نہیں تھے.بلکہ ہم اس سے بھی اوپر جائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا تمام دور ہی دشمنوں کی طرف سے ظلم پر ظلم کے اظہار دیکھتے ہوئے گزرا ہے.آپ کی چہیتی بیوی جو لاکھوں روپے کی مالک تھی اور جن کے بیسیوں غلام تھے ، جو مکہ کی امیر ترین عورتوں میں شمار ہوتی تھیں ، انہیں اسلام قبول کرنے کے بعد کیسی شدتوں سے گزرنا پڑا.بڑھاپے میں گھر سے بے گھر ہوئیں اور نہ صرف یہ بلکہ بڑا لمبا عرصہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں ایک گھائی میں رہنا پڑا جہاں خوراک کی بھی تنگی ، پانی کی بھی تنگی ، رہائش کی بھی تنگی تھی اور یہی تنگی کے حالات اور سختی کی جو حالت تھی ان کی وفات کی وجہ
خطبات مسرور جلد 12 317 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء بنی.(انہوں نے ) یہ سب کچھ اسلام کی خاطر ، ایک نیک مقصد کی خاطر اس امید پر برداشت کیا کہ ان قربانیوں کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مدد کے وعدے ہیں جو پورے ہونے ہیں.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو کس قدر تکالیف پہنچیں.متواتر تیرہ سال تو مکہ میں ہی آپ پر مظالم ہوئے.تیروں ، سونٹوں ، پتھروں غرض کہ کون سی ایسی چیز تھی جس سے آپ پر حملہ نہ کیا گیا ہو اور آپ کو اذیت دینے کی کوشش نہ کی گئی ہو لیکن آپ نے نہ صرف جوانمردی سے اس کا مقابلہ کیا.اپنے پیاروں، عزیزوں اور صحابہ کی جان کی قربانیوں کو برداشت کیا بلکہ جب ان ظلموں کی وجہ سے آپ سے بددعا کی درخواست کی جاتی تو آپ نے ہدایت کی دعا ہی مانگی.جب خود آپ کی ذات پر پتھروں سے حملہ کر کے آپ کو لہو لہان کر دیا گیا، جس کو خود آپ نے اپنی زندگی کا سخت ترین دن فرمایا ہے.اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو تباہ کرنے کے لئے آپ کی مرضی پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ نہیں پہاڑوں کو ان پر نہیں گرانا شاید ان لوگوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہو جا ئیں جو حق کو قبول کر لیں بلکہ امید ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو حق کو قبول کر کے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے والے بن جائیں.پھر ہجرت کے بعد جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور دشمنوں کی طرف سے بار بار حملہ ہوتا تھا.پس جہاں ظلموں کی ایک لمبی داستان ہے وہاں صبر برداشت اور رحم کی بھی بے مثل داستانیں ہیں جو آپ نے رقم کی ہیں.یہ سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو برداشت کرنا ہی تھا کہ آپ نے ہر معاملے میں دنیا میں ایک مثال قائم کرنی تھی.آپ کے صحابہ نے بھی قربانیوں کے نمونے دکھائے ہیں.اس لئے کہ خدائی وعدوں اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر ان کی نظر تھی اور کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل پر آنا تھا اور آپ آئے.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل ہیں.اس لئے آپ نے بھی اپنے ماننے والوں کو یہی فرمایا کہ میرے ساتھ اور میری جماعت کے ساتھ تو یہ ظلم و زیادتی ہوتی ہے تکالیف کے دور آنے ہیں.آپ نے واضح فرمایا کہ میرا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہے کانٹوں پر چلنا ہو گا.آپ نے کسی سے کوئی دھوکہ نہیں کیا.ہر شخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھ کر ہوتا ہے کہ تکالیف برداشت کرنی پڑیں گی.میں بعض دفعہ نو مبائعین سے یہ دیکھنے کے لئے یہ سوال کر دیتا ہوں کہ ان کو کچھ اندازہ بھی ہے کہ احمدیت کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے.گزشتہ دنوں یہاں یوکے(UK) کے جو نومبائعین تھے، ان کے ساتھ ایک نشست تھی تو ایک دوست سے میں نے یہی سوال پوچھا.کیونکہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے تو ان کا یہی جواب تھا کہ ہم نے سوچ سمجھ کر بیعت کی ہے اور ہر سختی جھیلنے کے لئے
خطبات مسرور جلد 12 318 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء تیار ہیں.بعض عورتوں نے بھی اپنے گھر بار چھوڑ دیئے لیکن ایمان کو نہیں چھوڑا.تو یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ادراک حاصل کیا.یہ ادراک حاصل کیا کہ زندگی اور موت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور خوش قسمت ہیں وہ جو اللہ تعالیٰ کی خاطر استقامت دکھانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہان کی جنتوں کا وارث بناتا ہے اور یہ صرف منہ کی باتیں نہیں ہیں.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اب یہ واقعات کسی نہ کسی شکل میں نظر آتے رہتے ہیں.جب یہ قربانیوں کے نمونے دکھائے جاتے ہیں.اور یہ ایسی ایسی قربانیوں کے نمونے ہیں کہ بعض دفعہ انسان حیران رہ جاتا ہے.یہ سب اس لئے ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں ابتدا سے ہی یہ واضح کردیا کہ یہ ہوگا.اور یہ بھی فرما دیا کہ سب کچھ دیکھنے اور اپنے پر بیتنے کے باوجود تم اپنے ایمان پر حرف نہ آنے دینا اور اسی بات کو ہمیشہ یادرکھنا کہ اس استقامت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے دونوں جہان میں انعامات مقرر کئے ہوئے ہیں.اس کا ذکر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی کئی جگہ فرمایا ہے.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے.اس کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا.پس زندگی اور موت تو ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ واضح فرما دیا کہ زندگی اور موت خدا تعالیٰ کے اذن سے ہے.دشمن زیادہ سے زیادہ ہمیں موت کا ہی خوف دلا سکتا ہے تو اس کی پرواہ نہیں.اگر یہ خدا تعالیٰ کے راستے میں آئے تو انعامات کی بشارتیں ہیں.ہم اسلام کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید جب بستر مرگ پر تھے تو ایک دوست جو اُن کی عیادت کے لئے گئے، ان کو دیکھ کر وہ شدت سے رونے لگے.یہ دوست سمجھے کہ شاید موت کا ڈر ہے.انہوں نے کہا کہ خالد ! آپ تو دشمنوں کے نرغے میں کئی دفعہ آئے اور ایسی شجاعت کے مظاہرے کئے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.اب اس وقت کیوں موت سے ڈر رہے ہیں؟ حضرت خالد نے کہا کہ میرے اوپر سے کپڑا اٹھاؤ.دیکھا تو جسم کے اوپر والے حصے میں انچ انچ پر زخم کے نشانات تھے.پھر انہوں نے کہا کہ اب میری ٹانگوں سے کپڑا اٹھاؤ.وہاں بھی انچ انچ پر زخموں کے نشانات تھے.پھر حضرت خالد بن ولید نے کہا کہ میں موت کے ڈر سے نہیں رورہا.اس فکر میں رورہا ہوں کہ میں نے ہمیشہ شہادت کی تمنا کی ہے اور یہ زخموں کے نشان اس بات کے گواہ ہیں لیکن مجھے وہ مقام و مرتبہ نہیں ملا اور اب میں بستر پر جان دے رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ شہادت کی موت نہ آنا کہیں میرے شامت اعمال کا نتیجہ تو نہیں ہے.اور یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شہادت نہیں دی تو اس میں خدا تعالیٰ کی کوئی ناراضگی نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی روح کو یا قربان
خطبات مسرور جلد 12 319 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء ہونے کی روح کو سمجھنے والوں کا یہ مقام تھا.یہ تو ان کے دل کی حالت تھی لیکن اللہ تعالیٰ ایسے غازیوں کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ ان کو بھی جنت کی بشارتیں ہیں.کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شہادت کے لئے یہ جذبے تھے.پھر قربانی کی روح کو سمجھنے کی اس زمانے میں یہ مثال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانے میں جب بادشاہ نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید سے بار بار یہ اصرار کے ساتھ کہا کہ اگر حضرت مسیح موعود کا انکار کر دو، جس کو تو نے مانا ہے اس کا انکار کر دو ، تو میں اس کے نتیجہ میں تمہاری جان بخشی کر دوں گا.یہ لالچ دی تو آپ نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ آج اگر مجھے خدا تعالیٰ وہ موت دے رہا ہے جو اس کے انعامات کا وارث بنانے والی ہے تو میں دنیا کی خاطر اس کا انکار کیوں کر دوں.عجیب جاہلوں والا سوال تم مجھ سے کر رہے ہو یا سودا مجھ سے کر رہے ہو.پس یہی مومن کی شان ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ فرمایا ہے کہ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللهُ يُحِبُّ الصُّبِرِينَ (آل عمران: 147) پس وہ ہرگز کمزور نہیں پڑے اس مصیبت کی وجہ سے جو اللہ کے راستے میں انہیں پہنچی.اور انہوں نے ضعف نہیں دکھایا اور دشمن کے سامنے جھکے نہیں اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.آج بھی ہمارے مخالفین کو یہی تکلیف ہے کہ یہ کیوں کمزوری نہیں دکھاتے.کیوں ہمارے ظلموں پر ہمارے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے لیکن ان کو نہیں پتا کہ ایک حقیقی احمدی ہر وقت خدا پر نظر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہر وقت کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا حاصل کرنے کے لئے یہاں ایک دعا بھی سکھائی ہے کہ اپنے ثبات قدم کے لئے ہمیشہ دعا مانگتے رہو.کیونکہ ایمان کی مضبوطی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہے.یہ دنیا تمہارے ایمانوں کو کمزور کرنے پر اپنا زور لگا رہی ہے.اس کے اثر میں نہ آ جانا اور دعا یہ سکھائی جو آیات میں میں نے پڑھی ہے کہ ربَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِيْن.کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملے میں ہماری زیادتی سے ہمیں بچا کے رکھ اور ہمیں ثبات قدم عطا فرما.اور ہمیں کا فرقوم کے خلاف نصرت عطا فرما.یا یہ کہہ لیں کہ ہمارے اعمال میں جو ہم نے زیادتی کی ہے، بعض غلط باتیں ہو گئیں ہم سے ہمیں بخش دے، ہمارے گناہوں کو معاف کر دے.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے کے لئے دعا سکھائی ہے وہاں یہ بھی بتا دیا کہ کامیابیاں دعاؤں سے ملتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے آگے
خطبات مسرور جلد 12 320 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء جھکو، اس سے مانگو اور جبکہ خالص ہو کر اس سے دعائیں مانگی جارہی ہوں تو اس کے نتیجہ میں پھر دنیا اور آخرت کے ثواب کا انسان وارث بن جاتا ہے.پھر سورۃ آل عمران کا دوسرا حصہ ہے.جیسا کہ میں نے بتایا، اس میں ایمانوں کی مزید مضبوطی کے لئے یہ تسلی بخش الفاظ بیان فرمائے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ مردے نہیں بلکہ زندہ ہیں.امواتاً کا مردہ ہونے کے علاوہ یہ بھی مطلب ہے کہ جس کا بدلہ نہ لیا جائے.دوسرے یہ کہ جس کے پیچھے اس کے مقصد کو پورا کرنے والا کوئی نہ ہو.تیسرا یہ کہ جو مایوس اور غمزدہ ہو.لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنے والے ایسے ہوں گے جو مردے نہیں ہیں جو احیاء کے زمرے میں آتے ہیں اور ان شہیدوں کے خون کا بدلہ خدا تعالیٰ لے گا.دوسرے یہ کہ ان شہیدوں کی شہادت سے پیچھے رہنے والے کمزور نہیں ہو جائیں گے.شہادت سے سرشار لوگوں کا گروہ ہر وقت موجود رہے گا.اور تیسرے یہ کہ یہ شہداء خدا تعالیٰ کے حضور ایسا مقام پانے والے ہیں اور انہیں ایسا رزق دیا جائے گا جس پر وہ خوش ہیں.ان کی موت افسردہ موت نہیں ہے بلکہ ان کے لئے خوشی کے سامان پیدا کرنے والی موت ہے.وہ اس بات پر خوش ہیں کہ جب اگلے جہان جا کر ان کو یہ خوشخبری ملے گی کہ ان کی قربانی نہ صرف قربانیاں کرنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کی ایک تعداد پیدا کرنے والی بنی ہے بلکہ یہ بھی خوشی ہے کہ یہ قربانیاں دشمنوں پر آخری فتح کا باعث بنے والی ہیں.پس یہ قربانیاں، سیدامتحان، یہ عارضی ابتلاء ہماری ترقی کی رفتار تیز کرنے والے ہیں نہ کہ مایوسی میں دھکیلنے والے.اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ اس طرح فرمایا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزِّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (حم السجدة: 31) یعنی يقيناً وه لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور استقامت اختیار کی ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہو گئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے.ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اورمت غمگین ہو اور خوش ہو اور خوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہو گئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں.اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ اس استقامت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق
خطبات مسرور جلد 12 321 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء الکرامت ہے.کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے.اس وقت نامردی نہ دکھلاو میں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں.ذلت پر خوش ہوجائیں.موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 419.420) پس یہ حالت ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتی.جب یہ حالت ہو کہ انسان ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ اپنے بندے کو چھوڑ تا نہیں، وہ بڑھ کر تھام لیتا ہے تبھی تو جنتوں کے وعدے بھی دے رہا ہے اور اس لئے اس میں ثبات قدم کی دعا بھی سکھلائی ہے اور دشمنوں پر فتح پانے کی دعا بھی سکھائی ہے.اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اس طرح فتوحات کے دروازے کھولے گا کہ دشمن کے لئے کوئی جائے فرار نہیں ہوگی اور انشاء اللہ تعالیٰ آخری فتح کے جو وعدے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے کئے ہیں وہ یقینا پورے ہوں گے اور آخری فتح ہماری ہی ہوگی.ان قربانیوں کی داستان رقم کرنے والوں میں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کی خوشخبری پانے والوں میں آج پھر ہمارے ایک بھائی شامل ہوئے ہیں جو بھوئیوال ضلع شیخو پورہ کے مکرم خلیل احمد صاحب ابن مکرم فتح محمد صاحب ہیں، جن کو 16 مئی 2014ء کو شہید کر دیا گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ واقعہ یوں ہے کہ 13 مئی 2014ء کو مخالفین نے گاؤں میں جماعت کے جو مخالفانہ سٹکر لگائے ہوئے تھے ان کو اتارنے کی وجہ سے احمدیوں سے جھگڑا ہو گیا اور جھگڑا تو نہیں ہوا تو تکار ہی تھی.اس معاملے کو جواز بنا کر انہوں نے جماعت کے خلاف بھوئیوال ضلع شیخو پورہ میں جلوس نکالا.لاؤڈ سپیکر پر جماعت کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کیں اور ٹریفک بلاک کر کے پولیس سے مطالبہ کیا کہ مقدمہ درج کریں جس پر پولیس نے چار احمدی احباب کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جن میں مبشر احمد صاحب، غلام احمد صاحب ، خلیل احمد صاحب اور احسان احمد صاحب تھے اور ایف آئی آر میں نامزد ملزمان میں سے خلیل احمد صاحب اور ملزمان کے بعض دیگر رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا اور حوالات میں بند کر دیا.مقدمہ کے اندراج کے بعد ایف آئی آر
خطبات مسرور جلد 12 322 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء میں جو باقی نامزد ملزمان تھے، ان کی عبوری ضمانتیں کروالی گئی تھیں اور خلیل صاحب کی ضمانت کے حوالے سے کارروائی ہو رہی تھی کہ 16 مئی 2014ء بروز جمعہ سوا بارہ بجے دوپہر سلیم نامی ایک نو جوان آیا، جو قریبی گاؤں کا رہنے والا تھا کہ میں کھانا دینے آیا ہوں.اس بہانے سے اندر داخل ہوا اور حوالات کے قریب آ کر پوچھا کہ خلیل صاحب کون ہیں؟ اور نشاندہی ہونے پر پستول نکال کر خلیل صاحب کے چہرے پر فائر کر دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے اور قاتل نے دوسرے احمدی اسیران پر بھی فائر کی کوشش کی لیکن اس وقت پستول چلا نہیں ، گولی پھنس گئی.پولیس نے مجرم کوگرفتار کر لیا، خلیل صاحب کو حوالات سے باہر نکالا لیکن اس وقت تک جام شہادت نوش فرما چکے تھے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ گو اُسے گرفتار تو کر لیا لیکن حال یہی ہے کہ یہ سب کچھ وہاں کے سرکاری افسروں اور پولیس کی آنکھوں تلے ہو رہا ہے اور یہ نوجوان جس کو مولویوں نے احمدیت کی دشمنی میں بالکل ہی اندھا کیا ہوا تھا اس نے یہ ایک نعرہ لگایا کہ ” مجھے جنت مل گئی.یہ تو آج کل کے مولویوں کا حال ہے جو یہ تعلیم دے رہے ہیں.اللہ اور اس کا رسول یہ کہتے ہیں کہ کلمہ پڑھنے والے کو مارنے والے قتل کرنے والے کی سزا جہنم ہے اور یہ ان کو جنتوں کی خوشخبریاں دے رہے ہیں.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق بھوئیوال ضلع شیخو پورہ سے تھا.ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذان کے والد فتح محمد صاحب کے ذریعہ سے ہوا.دو بھائیوں سردار محمد صاحب اور چوہدری محمد عمر دین صاحب کے ہمراہ 1918ء میں خلافت ثانیہ میں انہوں نے بیعت کی.شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے.بوقت شہادت ان کی عمر 61 سال تھی، میٹرک تک تعلیم تھی.واپڈا میں ملازم ہو گئے تھے.شہادت سے ڈیڑھ ماہ قبل ہی محکمہ سے ریٹائرڈ ہوئے تھے.مکرم خلیل احمد صاحب شہید مرحوم بفضل خدا تجد گزار، پنجوقته نمازوں کے پابند، تلاوت کے باقاعدہ کرنے والے، خلافت کے ساتھ محبت کا ، اخلاص کا گہرا تعلق رکھنے والے، خطبہ جمعہ اور باقی پروگرام بڑی باقاعدگی سے سنتے تھے.بچوں کو اس کی تلقین کرتے تھے.واق زندگی کے ساتھ بڑی محبت کا تعلق تھا.عزت و احترام ان کا کرتے تھے.مہمان نوازی آپ کا وصف تھا.مرکزی نمائندوں کی مہمان نوازی میں فخر محسوس کرتے.بڑے امانتدار اور مخلص احمدی تھے.خدمت خلق کے جذبے سے سرشار تھے.کمزور احباب اور غرباء کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کرتے.جماعتی قفين خدمات کے طور پر ان کو سیکرٹری مال، سیکرٹری دعوت الی اللہ اور زعیم انصار اللہ کی خدمت کی توفیق ملی.ان کی اہلیہ اور دو بیٹیاں ہیں اور دو بیٹے ہیں.ایک جرمنی میں ہیں لئیق احمد صاحب اور ایک
خطبات مسرور جلد 12 323 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 مئی 2014ء احسان احمد و ہیں قائد خدام الاحمدیہ ہیں.معلم صاحب لکھتے ہیں کہ یہ بڑے دعا گو تھے اور بڑی پر درد دعا ئیں کیا کرتے تھے.فرضوں اور سنتوں کی ادائیگی کے بعد تمام دوست مسجد سے چلے جاتے تھے لیکن ان کی سنتیں اور نوافل دیر تک جاری رہتے تھے.ابھی نماز کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ان کا نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.اس کے علاوہ نماز جنازہ حاضر بھی ہیں.ایک جنازہ ہے مولوی احسان الہی صاحب ریٹائر ڈ معلم وقف جدید کا جو آجکل یہاں لندن میں رہتے تھے.17 مئی کو 84 سال کی عمر میں وفات پاگئے ہیں.انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی رحمت علی صاحب ( پھیرو چی جو قادیان کے نزدیک ہے ان کے بیٹے تھے اور یہ جو مولوی رحمت علی صاحب تھے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہشتی مقبرہ قادیان میں مالی مقرر فرمایا تھا.احسان الہی صاحب نے 1949ء میں زندگی وقف کی اور 1957 ء سے وقف جدید میں بطور معلم خدمت کا آغاز کیا جو اکتوبر 1999 ء تک جاری رہا.اسی سال ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بچوں کے پاس لندن آگئے.سندھ میں ان کی تقرری رہی ہے.بے شمار جگہوں پر ان کونئی جماعتیں قائم کرنے کی توفیق ملی.مرحوم موصی تھے.پسماندگان میں چار بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.ایک بیٹے ان کے محمد احمد صاحب شمس مربی سلسلہ بھی ہیں.دوسرا جنازہ حاضر جو ہے وہ نسرین بٹ صاحبہ کا ہے جو 18 رمئی کو 48 سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک سے وفات پاگئیں.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بہت نیک ، خدا ترس، غریب پرور خاتون تھیں.جماعت کی فعال ممبر تھیں.چندہ جات کی ادائیگی میں با قاعدہ تھیں.ساڑھے چار سال قبل اپنے شوہر کی اچانک وفات کے بعد اپنے بچوں کی اچھے رنگ میں پرورش اور تربیت کی توفیق پائی اور انہیں نظام جماعت اور خلافت کے ساتھ وابستہ رکھا.خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق تھا.انہوں نے چار بیٹے پیچھے یادگار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ماں باپ کی نیک دعاؤں اور تمناؤں کا وارث بنائے.جماعت سے وابستہ رکھے اور یہ تینوں جن کے ہم جنازے پڑھیں گے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 13 جون 2014 ء تا 19 جون 2014 ، جلد 21 شماره 24 صفحہ 05 08)
خطبات مسرور جلد 12 324 22 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 30 رمئی 2014 ء بمطابق 30 ہجرت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور بہت بڑا احسان جس نے جماعت احمدیہ کو ایک اکائی میں پرویا ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد جاری نظام خلافت ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ کے گزشتہ 106 سال اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد جیسا کہ آپ علیہ السلام نے رسالہ الوصیۃ میں بیان فرمایا تھا افراد جماعت نے کامل اطاعت کے ساتھ نظام خلافت کو قبول کیا.دنیا میں بسنے والا ہر احمدی چاہے وہ کسی قوم یا ملک سے تعلق رکھتا ہے اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے ساتھ جو خلافت علی منہاج النبوۃ کا سلسلہ شروع ہو نا تھا اس سے جڑ کر رہنا اس کا سب سے بڑا فریضہ ہے.میں ان لوگ کی بات نہیں کر رہا جو شروع میں علیحدہ ہو گئے اور ان کی اب حیثیت بھی کوئی نہیں.جو جماعت احمدیہ کی اکثریت ہے، وہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام و مرتبہ کو بجھتی ہے وہ بہر حال اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ خلافت سے جڑ کر رہنا ہی اصل چیز ہے.اسی سے جماعت کی اکائی ہے.اسی سے جماعت کی ترقی ہے.اسی سے دشمنان احمدیت اور اسلام کے حملوں کے جواب کی طاقت ہم میں پیدا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اب اسلام کی اس نشاة ثانیہ میں خلافت کے نظام سے وابستہ ہے.لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف زبانی ایمان کا اعلان اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرنے والا نہیں بنا دیتا بلکہ آیت استخلاف میں جہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں خلافت کا وعدہ فرمایا ہے، ان کے خوف کو امن
خطبات مسرور جلد 12 325 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء میں بدلنے کی خوشخبری دی ہے، خلافت سے وابستہ رہنے والوں کو تمکنت عطا فرمانے کا اعلان فرمایا ہے وہاں ان انعامات کا صرف ان لوگوں کو مورد ٹھہرایا ہے جو عبادتوں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہوں اور اس مقصد کے لئے قربانیاں کرنے والے ہوں کہ خدا کی تو حید دنیا میں قائم کرنی ہے.پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ لا إله إلا اللہ کہنے والے تو بہت سے ہوں گے لیکن حقیقی لا إلهَ إِلَّا اللہ کہنے والے وہی ہیں جو ہر حالت میں صرف خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں.غیر اللہ کی طرف اُن کی نظر نہیں ہوتی.پس ہر یوم خلافت جو ہم مناتے ہیں، ہمیں اپنی دعاؤں اور عبادتوں اور توحید پر قائم رہنے اور توحید کو پھیلانے کے معیاروں کو ماپنے کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے.ورنہ اگر یہ نہیں ، اگر ہمارے معیار اللہ تعالیٰ سے تعلق میں پہلے سے بلند نہیں ہور ہے تو جلسے، تقریریں علمی باتیں اور خوشیاں منانا کوئی حیثیت نہیں رکھتے.پس اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے.دعاؤں کی طرف ہماری توجہ ہوگی، توحید کی حقیقت کو سمجھنے کی طرف ہماری نظر ہوگی تو ہم میں سے ہر ایک ان فضلوں کا وارث بنے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے.گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ ہر پریشانی اور ہر مشکل کے وقت ہمیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہئے.دنیا وی طریقہ احتجاج جو ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے.جیسا کہ میں نے بتایا خلافت سے وابستہ رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور پریشانیوں سے نجات پانے اور امن کی حالت میں آنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعاؤں اور عبادتوں کی طرف توجہ دلائی ہے.پس یہی ہمارے اصل ہتھیار ہیں جن پر ہم مکمل اور مستقل انحصار کر سکتے ہیں.دعاؤں کے ہتھیار کو چھوڑ کر ہم چھوٹے اور عارضی ہتھیاروں کی طرف دیکھیں گے تو ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی، نہ کبھی چھوٹے ہتھیاروں سے کسی کو کامیابی ملی ہے یا ملا کرتی ہے.انبیاء کی تاریخ میں ہمیں کامیابیاں انہیں دعاؤں کے ذریعہ سے ہی ملتی نظر آتی ہیں اور خاص طور پر جب ہم اسلام کی تاریخ دیکھیں اور خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے زمانے کو دیکھیں تو دنیاوی طاقت سے نہیں، اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہی فتوحات ملیں.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق فتوحات ملیں.لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تمام تر وعدوں کے باوجود ان فتوحات کو حاصل کرنے کے لئے جان کی قربانیاں دینی پڑیں، عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے پڑے.یہاں ضمناً یہ بھی ذکر کر دوں کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں ایک احمدی کا ذکر کیا تھا جس نے اپنے شیعہ دوست کے حوالے سے بات کی تھی کہ تم لوگ صحیح جواب نہیں دیتے اور یہ بھی شاید میں نے بتایا تھا کہ لگتا
خطبات مسرور جلد 12 326 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء ہے ان احمدی دوست کی سوچ بھی یہ ہے کہ دنیاوی کوشش کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے.میں نے نام تو نہیں لیا تھا لیکن بہر حال سمجھ گئے.انہوں نے مجھے خط لکھا ہے کہ میں نے اپنے شیعہ دوست کا ذکر کیا تھا، میری ایسی سوچ نہیں ہے.لیکن بہر حال مجھے اور مختلف جگہوں سے ایسی باتیں پہنچتی رہتی ہیں جن سے ایسی سوچ کا اظہار ہوتا ہے.اس لئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات دعاؤں سے ملنے ہیں.اللہ تعالیٰ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے ہمیں فرماتا ہے کہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وانحز (الكوثر :03).پس تو اپنے رب کی عبادت کر اور اس کے لئے قربانیاں دے.پھر یہ جوعبادت اور قربانیاں ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائیں گی.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انسانی فطرت ہے اور یہ جو فطرت ہےاس کے مطابق لمبے عرصے کی پریشانیاں اور تنگیاں اور ابتلا انسان کو بے چین کر دیتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ ایسے حالات میں رسول اور مومنین بھی متیٰ نَصْرُ اللہ کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ، اس کی آواز بلند کرتے ہیں.بے چین ہو کر ان کے دل سے یہ آواز بلند ہوتی ہے.مایوسی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم کو ابھارنے کے لئے ، اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کی گود میں ڈالتے ہوئے دعاؤں کو اپنی انتہا تک پہنچاتے ہوئے قربانیوں کے معیار قائم کرتے ہوئے یہ آواز بلند کرتے ہیں.تب پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ الا اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِیب کہ سنو ! یقینا اللہ تعالیٰ کی مددقریب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے.تذکرہ صفحہ 39 ایڈیشن چہارم مطبوعه ربوہ) مختلف اوقات میں آپ نے اللہ تعالیٰ کی نصرت کے قریب ہونے کے نظارے دیکھے ہیں.آپ کو بھی الہاما یہی فرمایا گیا اور پھر عملاً دیکھا بھی.آپ نے تو یہ نظارے دیکھے ہی ہیں لیکن ہم نے بھی مختلف وقتوں میں دیکھے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی دیکھتے رہیں گے.اس کے اپنے اپنے دائرے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اپنے نظارے دکھاتی ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا فتح کی صورت میں آخری عظیم الشان نظارہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ہم دیکھیں گے.دشمن کے منصوبے بہت خطر ناک ہیں.دنیاوی نظر سے دیکھیں تو بظاہر خوفناک صورتحال نظر آتی ہے، خاص طور پر مسلمان ممالک اور پاکستان میں تو خصوصی طور پر.لیکن اللہ تعالیٰ تو سب قدرتوں کا مالک ہے وہ خَيْرُ الْمَاکرین ہے.دشمن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملانے کی طاقت رکھتا ہے.اور انشاء اللہ تعالیٰ ان سب کے مکر اُن پر
خطبات مسرور جلد 12 327 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء الٹائے جائیں گے.لیکن ہمیں دعاؤں اور استغفار کی طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.اپنی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی فتوحات کو سنبھالنے کے لئے بھی ہمیں دعاؤں کی ضرورت ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ (النصر : 4).کہ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر اور اس سے مغفرت مانگ.پس اس مضمون کو سمجھنے کی ہم سب کو ضرورت ہے.اپنی دعاؤں کو انتہا تک پہنچانے کی ضرورت ہے.میں نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ قربانیوں کے مضمون کو تو ہم بہت حد تک سمجھتے ہیں لیکن دعاؤں کی حقیقت کو سمجھنے کی ابھی بہت ضرورت ہے.اگر ہم نے ان قربانیوں کے پھل جلد سے جلد حاصل کرنے ہیں تو دعاؤں کے معیاروں کو بلند کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اپنے اندر وہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آمن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ إِلهُ مَّعَ اللهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (النمل: 63) کہ ( نیز بتاؤ تو ) کون کسی بیکس کی دعا سنتا ہے جب وہ اس (خدا) سے دعا کرتا ہے اور (اس کی) تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور وہ تم (دعا کرنے والے انسانوں ) کو (ایک دن) ساری زمین کاوارث بنادے گا.کیا (اس قادر مطلق ) اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ تم بالکل نصیحت حاصل نہیں کرتے.وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ (ترجمه از تفسیر صغیر) یا درکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے.جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا.دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آ جاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے.پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے.قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیسا کہ فرمایا آمن تجيب الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (النمل : 63) ( ملفوظات جلد 10 صفحه 137 ) پس ہمیں اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر تو جہ دینے کی ضرورت ہے.اضطراب پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے رحم کو ابھارنے کی ضرورت ہے.اس وقت میں بعض دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی جو بلی کے لئے پہلے بھی حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بتائی
خطبات مسرور جلد 12 328 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء تھیں.پھر بعد میں خلافت جو بلی کے لئے میں نے بتائی تھیں.ان کو بھولنا نہیں، نہ کم کرنا ہے.ان کو ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے.مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا چاہئے اور پھر اپنی نمازوں کو اپنی عبادتوں کو بھی سنوار کر ادا کرنے کی اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.تبھی ہم دعاؤں کا بھی حق ادا کر سکتے ہیں.ایم ٹی اے پر تو یہ دعا ئیں آتی رہتی ہیں لیکن بہر حال یاد دہانی کے طور پر بتا دیتا ہوں.ان میں سے پہلے سورۃ فاتحہ ہے، اس کو بہت زیادہ پڑھنا چاہئے.درود شریف ہے جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں، اس کا بہت زیادہ ورد کریں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو الہامی دعا سکھائی گئی تھی.سُبحان اللہ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ ( تذکرہ صفحہ 25 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) اس کو بہت زیادہ پڑھیں.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں جو بولنے کے لحاظ سے زبان پر نہایت ہی ملکے ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے ترازو میں بہت وزنی ہیں اور وہ خدائے رحمان کے بہت ہی پیارے ہیں اور وہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحمدِهِ سُبْحَانَ اللهِ العَظیم.آپ نے فرمایا خدائے رحمان کے بہت پیارے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے رحم کو ابھارنے کے لئے یہ دعا بھی بہت ضروری ہے.(صحیح البخارى كتاب الدعوات باب فضل التسبيح حدیث نمبر 6406) پھر یہ دعا تھی جو اب بھی پڑھنی چاہئے کہ ربَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ اذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (ال عمران:9) یعنی اے اللہ ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا ہونے نہ دینا بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر.یقینا تو ہی ہے بہت عطا کرنے والا ہے.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد خواب دیکھی تھی جس میں آپ نے بڑی تاکید فرمائی تھی کہ یہ دعا بہت پڑھا کرو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا والی.حضرت خلیفہ اول کو جب آپ نے یہ خواب سنائی تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ میں اب اسے کبھی پڑھنا نہیں چھوڑوں گا.بہت زیادہ پڑھوں گا اور یہ فرمایا کہ جہاں اس میں ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ سے التجا ہے وہاں یہ دعا نظام خلافت سے جڑے رہنے کے لئے بھی بہت بڑی دعا ہے.(ماخوذ از تحریرات مبارکہ صفحہ 306-307 شائع کردہ شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ پاکستان )
خطبات مسرور جلد 12 329 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء پھر ایک دعا تھی جس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ.(البقرة:251) کہ اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کا فرقوم کے خلاف ہماری مدد کر.پھر اللهُمَّ إِنَّا تَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ کی دعا ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس فرماتے تھے تو آپ یہ دعا پڑھتے تھے کہ اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِ هِمُ.کہ اے اللہ ! ہم تجھے ان کے سینوں میں ڈالتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں.(سنن ابی داؤد کتاب الصلوة باب ما يقول الرجل اذا خاف قومًا حدیث نمبر 1537) اللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحورِهِمْ - کا ترجمہ اے اللہ ہم تجھے ان کے سینوں میں ڈالتے ہیں پوری طرح واضح نہیں ہوتا سمجھ نہیں آتی اس کا کیا مطلب ہے.سحر کے لغوی معنی بتاؤں تو شاید مزید واضح ہو جائے.النَّحْرُ کہتے ہیں سینے کے اوپر کے حصہ کو یا سینہ اور گردن کے جوڑ کو اور خاص طور پر اس جگہ جہاں گڑھا ہے اس جگہ کو جو سانس کی نالی کا اوپر کا حصہ ہے.یعنی اس کا یہ مطلب بنے گا کہ اے اللہ ! تو ہی ان پر ایسا وار کر جس سے ان کی زندگی کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور ہم ان کی شرارتوں سے بچ جائیں.تو ہی ہے جوان شریروں اور فساد پیدا کرنے والوں اور ظلم کرنے والوں کی طاقت توڑنے والا ہے.پس ان کا خاتمہ کر اور ہمیں ان کے شر سے اپنی پناہ میں لے لے.پھر جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ استغفار کا بھی فرماتا ہے کہ بہت زیادہ استغفار کرو.اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَآتُوبُ اِلَيْهِ کی دعا ہے.پھر اسی طرح کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک خواب کی بنا پر کہا تھا کہ رَبّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبَّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي ( تذکرہ صفحہ 363 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) کی دعا بہت زیادہ پڑھیں.پھر یہ دعا بھی اس میں شامل کریں جو میں نے گزشتہ خطبہ میں بتائی تھی کہ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتُ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ
خطبات مسرور جلد 12 330 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء الْكَافِرِينَ (آل عمران: 148) کہ اے ہمارے رب! ہمارے قصور یعنی کو تا ہیاں اور ہمارے اعمال میں ہماری زیادتیاں ہمیں معاف کر اور ہمارے قدموں کو مضبوط کر اور کا فرلوگوں کے خلاف ہماری مدد کر.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک الہامی دعا ہے اسے پڑھنے کی بہت ضرورت ہے.دشمن اب اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے ہمیں بھی دعا ئیں کرنی چاہئیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کے لئے اور پھر قادیان کے لئے دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا کہ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں.پھر فَسَحِقُهُمْ تَسْحِیقًا.یعنی پس پیس ڈال ان کو ، خوب پیس ڈالنا.فرمایا کہ میرے دل میں آیا کہ اس میں ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے.اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے اور وہ دعا یہ ہے.يَا رَبِّ فَاسْمَعُ دُعَائِي وَمَزْقُ أعْدَانَكَ وَ أَعْدَائِي وَ الْجِزْ وَعْدَكَ وَانْصُرْ عَبْدَكَ وَ آرِنَا أَيَّامَكَ وَ شَهْرُ لَنَا حُسَامَكَ وَلَا تَذَرُ مِنَ الْكَافِرِينَ شَرِیرا.کہ اے میرے رب ! تو میری دعاسن اور اپنے دشمن اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مددفرما اور ہمیں اپنے دن دکھا اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ.(ماخوذ از تذکرہ صفحہ 426 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) پس یہ دعائیں ہیں ان کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.اب اس کے بعد میں آج اپنے ایک انتہائی پیارے مخلص ، باوفا، نافع الناس اور بہت سی خوبیوں کے مالک جن کا نام ڈاکٹر مہدی علی قمر تھا ابن مکرم چوہدری فرزند علی صاحب کا ذکر خیر کروں گا جنہیں 26 رمئی کور بوہ میں شہید کر دیا گیا.اور واقعہ یہ ہے کہ صبح تقریباً پانچ بجے دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے جب یہ دارالفضل کے قریب بہشتی مقبرہ کی طرف جا رہے تھے وہاں ان کو فائر نگ کر کے انہوں نے شہید کیا.یہ کہتے ہیں کہ مکرم ڈاکٹر مہدی علی صاحب جو ہارٹ سپیشلسٹ تھے اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ دو یوم قبل امریکہ سے وقف عارضی کے لئے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں تشریف لائے تھے.ڈاکٹر صاحب کی رہائش بھی وہیں تھی اور 26 رمئی 2014 ء کی صبح بعد نماز فجر اہلیہ، ایک بیٹے اور عزیزہ کے ہمراہ بہشتی مقبرہ دعا کے لئے جارہے تھے.کچی سڑک پر بہشتی مقبرے کے گیٹ کے سامنے پہنچے تھے کہ ایک موٹرسائیکل پر سوار دو افراد آئے جنہوں نے آ کر ڈاکٹر صاحب پر فائرنگ کر دی اور فائر کر کے مین روڈ پر سرگودھا کی طرف فرار ہو گئے اور 11 گولیاں فائر کیں جو ان کو گیس جس سے ڈاکٹر صاحب کی موقع پر ہی شہادت ہو گئی.
خطبات مسرور جلد 12 331 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء ڈاکٹر صاحب شہید کے خاندان کا تعلق گوکھو وال ضلع فیصل آباد سے ہے.ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد مکرم چوہدری فرزند علی صاحب کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے اوائل جوانی میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی.چوہدری صاحب کی بیعت کے بعد اُن کے بھائی مکرم چوہدری اللہ دتہ صاحب نے بیعت کر لی.پھر یہ خاندان ربوہ شفٹ ہو گیا.ڈاکٹر صاحب شہید کے نانا مکرم ماسٹر ضیاءالدین صاحب شہیدر بوہ کے مکینوں میں پہلے شہید تھے جو 1974ء میں سرگودھا سٹیشن پر فائرنگ سے شہید ہوئے.اس وقت ماسٹر ضیاء الدین صاحب محلہ دارالبرکات کے صدر اور تعلیم الاسلام سکول میں استاد بھی تھے.ڈاکٹر صاحب شہید 23 ستمبر 1963 ء کور بوہ میں پیدا ہوئے.ڈاکٹر صاحب کی پیدائش کے روز حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قمر الانبیاء کا وصال ہوا.اسی مناسبت سے ڈاکٹر صاحب کے والد نے ان کے نام کے ساتھ ”قمر“ کا لقب لگا دیا.پھر ڈاکٹر صاحب کے نانا شہید جو تھے انہوں نے حضرت مصلح موعود کے نام کا حصہ بشیر الدین بھی ساتھ شامل کر دیا.چنانچہ ڈاکٹر صاحب شہید کا پورا نام ” مہدی علی بشیر الدین قمر ہو گیا.اور یہی نام ہر جگہ لکھا جاتا ہے.ڈاکٹر صاحب شہید نے ابتدائی تعلیم ربوہ میں ہی تعلیم الاسلام سکول اور کالج میں لی.نہایت ذہین اور ہونہار طلباء میں ان کا شمار ہوتا تھا.پھر پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں میڈیکل کی تعلیم شروع کی.وہاں پڑھائی کے دوران احمدیت کی وجہ سے طلباء نے کافی مخالفت کی.کتابیں اور سامان وغیرہ جلا دیا جس کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لئے واپس ربوہ آ گئے.پھر حالات بہتر ہوئے تو دوبارہ جاکر تعلیم شروع کی.ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا.پھر 1989ء سے جولائی 91 ء تک دو سال فضل عمر ہسپتال ربوہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے.بعض ازاں اپنی والدہ کے ساتھ کینیڈ امنتقل ہو گئے.کینیڈا میں میڈیکل کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ہاؤس جاب کیا.پھر بروک لین (Brooklyn) یو نیورسٹی نیویارک چلے گئے.وہاں کارڈیالوجی میں سپیشیلا ئز یشن کیا.تعلیم مکمل کرنے کے بعد کولمبس او بایو امریکہ میں آپ نے جاب شروع کیا.وہیں پھر مستقل رہائش اختیار کر لی اور طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے قیام کے بعد جب میں نے ڈاکٹروں کو تحریک کی تو یہ بھی وقف عارضی کے لئے آتے تھے.اس سے پہلے بھی دو دفعہ آچکے تھے.اب تیسری دفعہ تشریف لائے تھے.جماعتی طور پر مختلف سطح پر ان کو کام کرنے کی توفیق ملی.بڑے نرم مزاج ، نرم خو اور نرم رو شخصیت کے مالک تھے.ہر کسی کے ساتھ ہمدرداور دکھ درد میں شریک ہوتے تھے.کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا یا تنگی ترشی نہیں کی.ڈاکٹر صاحب کی
خطبات مسرور جلد 12 332 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء اہلیہ نے بتایا کہ میرے ساتھ بھی بے حد نرم رویہ رکھتے تھے.ہر طرح دلداری کرتے.غلطیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا.کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دی.بچوں کے لئے بڑے شفیق اور مہربان باپ تھے.بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا ہر وقت خیال رکھتے تھے.انتہائی منکسر المزاج تھے.یہ کہتی ہیں کہ مجھے اگر کسی بات پر غصہ آ جاتا تو ہمیشہ کہتے غصہ نہیں کرتے.طبیعت میں عاجزی اور انکساری بہت تھی.سسرالی رشتہ داروں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.ان کی خوشدامن نے بتایا کہ میں پانچ سال امریکہ جا کے ان کے پاس رہی اور انہوں نے کبھی اونچی آواز سے بات نہیں کی اور ہمیشہ اپنی ماں کی طرح میرا عزت و احترام کیا.مہمان نوازی ان کا ایک بہت بڑا شیوہ تھا.جماعتی تقریبات کے موقع پر اپنے گھر میں مہمان ٹھہرانے کا اہتمام کرتے.پھر ائیر پورٹ سے لانے لے جانے کا کام کرتے.غریبوں اور ضرورتمندوں کی کثرت سے امداد کیا کرتے تھے.شہید اپنے شعبہ کے علاوہ ادبی ذوق بھی رکھتے تھے.ایک اچھے شاعر بھی تھے.ان کا مجموعہ کلام 'برگ خیال کے نام سے طباعت کے مراحل میں ہے.اسی طرح کیلیگرافی بھی اچھی کر لیتے تھے.ان کا خلافت سے انتہائی گہری محبت اور خلوص کا تعلق تھا اور ہر تحریک پر فوری لبیک کہنے والے تھے.بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے تھے.کولمبس کی مسجد کی تعمیر میں بھی ایک بہت خطیر رقم انہوں نے پیش کی.اس کی زیبائش اور آرائش کا کام بھی کیا.اسی طرح اپنے آبائی محلہ دار الرحمت غربی ربوہ کی مسجد کے لئے بھی بڑی رقم دی.طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے بھی عطیات کی فراہمی میں پیش پیش رہتے تھے.دعوت الی اللہ کا جنون کی حد تک ان کو شوق تھا اور دینی مطالعہ بھی اللہ کے فضل سے کافی تھا.یو ٹیوب پر غیر احمدیوں اور معترضوں کے اعتراضوں کے مؤثر جواب دینے میں مستعد تھے.ان کے لواحقین میں اہلیہ محترمہ وجیہہ مہدی اور تین بیٹے عزیزم عبداللہ علی عمر پندرہ سال، باشم علی عمر سات سال اور عزیزم اشعر علی عمر تین سال ہیں.ان کا یہ چھوٹا بچہ اس وقت ساتھ ہی تھا جب ان کو گولیاں ماری گئیں.ان کی شاعری کی بات کی تھی تو وہ نمونہ میں بتا دوں.28 / مارچ 2014ء کوانہوں نے جواپنی آخری نظم کہی اس کے دو تین شعر یہ ہیں.موت کے رو بروکریں گے ہم زندگی کے حصول کی باتیں نہ مٹا پائے گا یز ید کوئی حق ہیں ابن بتول کی باتیں سب فنا ہوگا پر رہیں گی تمام باقی اللہ رسول کی باتیں پھر ایک ان کا پرانا شعر پہلے کا بھی ہے کہ
خطبات مسرور جلد 12 333 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء اللہ تیری راہ میں یہی آرزو ہے اپنی اے کاش کام آئے خون جگر ہمارا پھرا اپنی شاعری میں نور استخلاف کے نام سے ایک نظم ہے.اس میں لکھتے ہیں کہ رحمت حق نے پلایا ہے یوں جام زندگی کہ بندھا اپنا خلافت سے نظام زندگی رشک ہے شمس و قمر کونور استخلاف پر ابلیس کے چیلوں پہ ہے تاریک شام زندگی بادی علی صاحب جو ہمارے مبلغ سلسلہ ہیں یہاں بھی بڑا لمبا عرصہ رہے ہیں ، ڈاکٹر صاحب ان کے چھوٹے بھائی تھے اور جس طرح ہادی علی صاحب کیلیگرافی کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب کو بھی اسی طرح کیلیگرافی کا بڑا شوق تھا، لکھا کرتے تھے.بادی علی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی بہت ہی غیر معمولی انسان تھے.ان کی جدائی سارے خاندان کے لئے گویا ایک بہت بڑا صدمہ ہے مگر محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا خاندان اللہ تعالیٰ کی رضا پر صدق دل سے راضی اور صابر اور شاکر ہے.مہدی علی شہید کی ای میلز پر اس طرح کے فقرے لکھے ہوتے تھے کہ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة: 84).ان کی ہمشیرہ کہتی ہیں کہ بچپن سے ہی بہت پیاری مدبرانہ اور بزرگ طبیعت کے مالک تھے.فضولیات سے ہمیشہ بچتے.نہایت شوق اور با قاعدگی سے نماز ادا کرتے.بچپن سے ہی ذیلی تنظیم کے فعال رکن تھے.جب طفل تھے تو صبح نماز فجر سے پہلے لوگوں کو جگانے کے لئے صل علی کیا کرتے تھے.بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق تھا اور جماعتی کتب کا مطالعہ بہت کم سنی سے شروع کر دیا تھا.اکثر بزرگ جو آپ کے محلے میں رہتے تھے آپ ان سے استفادہ کیا کرتے تھے، اُن کے پاس جایا کرتے تھے.ان میں مولانا عبد اللطیف بہاولپوری صاحب، اسی طرح صوفی بشارت الرحمن صاحب، مولا نا ابوالعطاء صاحب وغیرہ شامل ہیں.ان کو ربوہ سے ایک خاص محبت تھی جو ساری زندگی آپ کے دل میں رہی یہاں تک کہ اپنی جان بھی اسی سرزمین ربوہ میں اپنے خدا کے حضور پیش کی.والدین کی خواہش پر ڈاکٹر بنے اور بہت پائے کے ڈاکٹر بنے اور کئی اعزازات حاصل کئے.یہ معمولی ڈاکٹر بھی نہیں تھے.طبیعت میں بہت ٹھہراؤ تھا.کبھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے.ہمیشہ علم کی جستجو رہی.بچوں کی بھی بہت اعلیٰ تربیت کی.مصروف الاوقات ہونے کے باوجود اپنی بیوی بچوں کے لئے وقت نکالتے.
خطبات مسرور جلد 12 334 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء اپنے بچوں کو قرآن کریم بھی انہوں نے خود سکھایا اور پڑھایا.یہاں ہمارے بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی ہمیں وقت نہیں ملتا.دوسروں کے معاملے میں عفو سے کام لینے والے.خود تکالیف برداشت کر لیتے تھے اور پوچھنے پر یہی بتاتے تھے کہ اللہ کی رضا کی خاطر کر رہا ہوں.ان کے ایک دوست ڈاکٹر محمود کہتے ہیں کہ ہم میڈیکل کالج میں روم میٹ تھے وہاں دیکھنے کا موقع ملا.صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے اور میرے سے سینئر تھے اس لئے کوئی غلط کام دیکھتے تو بڑے پیار سے رہنمائی بھی فرماتے تھے.خدمت خلق کا جذ بہ ہمیشہ غالب رہا.ربوہ کا پہلا بلڈ بنک بھی ڈاکٹر مہدی علی شہید اور ڈاکٹر سلطان مبشر اور ڈاکٹر محمود صاحب نے شروع کیا لیکن اس میں زیادہ کوشش ڈا کٹر مہدی علی صاحب کی تھی.اب یہ بلڈ بنک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اردگرد کے لوگوں کو بھی جب بھی خون کی ضرورت پڑے ، خون مہیا کرتا ہے.ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ شہید نہایت عاجز اور منکسر المزاج طبیعت کے مالک تھے.ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی.ابھی کچھ دن ہوئے مجھے مل کے گئے تھے.جب سے ان کی شہادت کی خبر ملی ہے وہی مسکراتا چہرہ بار بار سامنے آ جاتا ہے.بڑا پرسکون چہرہ تھا اور جیسا کہ بعض لکھنے والوں نے لکھا ہے شہادت کے وقت بھی جو اُن کی تصویر دیکھی ہے سینہ خون سے بھرا ہوا ہے لیکن لگتا ہے بڑے پرسکون انداز میں سوئے ہوئے ہیں.عبدالسلام ملک صاحب جو کولمبس جماعت کے صدر ہیں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر مہدی علی صاحب ہماری جماعت میں دس سال قبل آئے تھے اور شروع سے ہی ہماری لوکل عاملہ کے فعال رکن تھے.جماعت کی اطاعت کا بھر پور جذبہ ان کی ذات میں ودیعت تھا.کبھی کسی بات پر argument نہیں کرتے تھے.ہمیشہ خندہ پیشانی سے ہر بات قبول کرتے.کبھی یہ نہ کہتے کہ یہ کام نہیں ہوسکتا.جب بھی کوئی ذمہ داری آپ کے سپرد کی گئی ہمیشہ اسے عمدگی سے نبھایا.خلافت سے ایک والہانہ رنگ میں عشق تھا اور جب میں 2012ء میں وہاں کولمبس امریکہ کے دورے پر گیا ہوں تو رات بھر جاگ کر مسجد کی آرائش اور خطاطی کا کام کرتے رہے.کئی بینر لگائے اور ان کے بھائی ہادی صاحب بھی ساتھ تھے اور رات بھر مسجد میں کام کرنے کے بعد صبح اپنے ہسپتال کی ڈیوٹی بھی پوری نبھائی.اور پھر یہ کہ مسجد کی سجاوٹ پر جو بھی خرچ ہوا انہوں نے ہمیشہ اپنی جیب سے ادا کیا.اور جب مسجد میں کام کر رہے ہوتے تھے تو کوئی یہ نہیں سمجھتا تھا کہ آپ اتنے بڑے ڈاکٹر ہیں.نہایت سادگی سے
خطبات مسرور جلد 12 335 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء اپنی خدمت کر رہے ہوتے تھے.مالی قربانی میں صف اول میں رہے.عبدالسلام ملک صاحب بھی ڈاکٹر ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مجھے بھی کام کرنے کا موقع ملا.کئی دفعہ ایسا ہو جاتا کہ آپ کی کامیابی کو دیکھ کر بعض دوسرے لوگ حسد کی بنا پر مشکلات کھڑی کرتے تھے.آپ ہمیشہ خندہ پیشانی سے ان مشکلات کا سامنا کرتے.کبھی آپ کو میں نے غصے میں نہیں دیکھا.ہمیشہ ہی پرسکون اور مسکراتے ہوئے پایا.اور یہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں کیا ضرورت ہے پریشان ہونے کی.خلیفہ وقت کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں کوئی فکر کی بات نہیں.جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں یہاں آئے چند دن رہے اور بڑے خوش تھے.جا کے دوستوں کو بتایا کہ میں مل کے آیا ہوں.میٹنگ کی باتیں کیں.یہ ایک لکھنے والے لکھتے ہیں کہ آپ کی ای میل پر یہ بھی لکھا ہوتا تھا کہ اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کرو جو تم دوسروں میں دیکھنا چاہتے ہو اور خود اس کی زندہ مثال تھے.ڈاکٹر نوری صاحب جو ربوہ میں طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں ہمارے ڈاکٹر ہیں کہتے ہیں ڈاکٹر مہدی علی صاحب مریضوں میں بے حد مقبول تھے.غریب اور نادار مریض آپ کے پاس بہت خوشی اور امید سے علاج کے لئے آتے تھے.ذاتی دلچسپی اور توجہ سے ہر مریض کو دیکھتے.طبیعت میں انتہائی سادگی تھی.لباس اتنا سادہ ہوتا کہ ان کو مریضوں کے درمیان دیکھ کر پہچاننا مشکل ہوتا تھا.طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں خدمت کے لئے اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر اور بغیر کسی تکلف کے پیش کیا.ارادے کے بہت پکے تھے.بے لوث خدمت خلق کے لئے ان کا اس ہسپتال میں آتے رہنا اپنے پیشہ کے ساتھ پر خلوص وابستگی کا ثبوت ہے.انتہائی عاجز انسان تھے.حافظہ کمال کا تھا.قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ساتھ شاعری اور کیلیگرافی میں بھی دلچسپی تھی.ہمارے ہاں مبارک صدیقی صاحب جو ہیں وہ بھی ان کے کلاس فیلو تھے.کہتے ہیں کہ مہدی علی بچپن سے ہی مومنانہ صفات کے حامل خوبصورت اور ذہین انسان تھے.جماعت احمدیہ کے جان شار خادم اور خلافت سے از حد پیار کرنے والے تھے.علم اور مالی فراخی میں ہمیشہ ہم سے بہت آگے ہونے کے باوجود انتہائی حلیم اور عاجز قسم کے انسان تھے.کہتے ہیں کہ سکول کے زمانے میں بعض اوقات میرے پاس کورس کی ساری کتابیں نہیں ہوتی تھیں تو یہ مجھے کہتے کہ آدھا دن کتاب میں نے پڑھ لی ہے اب آدھا دن کتاب تم پڑھ لو.حتی کہ بعض اوقات عین اس وقت جب اگلے روز امتحان ہوتا تھا آپ جلدی جلدی کتاب پڑھ کر مجھے پکڑا جاتے کہ اب باقی دن تم پڑھ لو.اس کے باوجود بھی آپ زیادہ تر اول پوزیشن ہی حاصل
خطبات مسرور جلد 12 336 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء کرتے تھے.گزشتہ دنوں جب لندن آئے تھے تو میں نے کہا امریکہ کے ایک بڑے سرجن بن گئے ہیں تو اب کسی اچھے ریسٹورنٹ میں لے کے چلتے ہیں.کہنے لگے میں وہی عاجز انسان ہوں.کسی غریب سے ہوٹل میں چلے جائیں وہیں کھانا کھا لیں گے.کبھی آپ کے منہ سے غیر شائستہ لفظ نہیں سنا.نظام جماعت کے بارے میں بڑی غیرت رکھتے تھے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ آپ کے سامنے کسی چھوٹے سے چھوٹے جماعتی عہد یدار کے خلاف بھی کوئی بات کر سکے.ایک مثالی احمدی تھے.غریب دوستوں کی مالی مدد کرتے تھے لیکن ایسے رنگ میں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو.ان کے ایک دوست ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی آواز نہایت رسیلی اور دکش اور دلر ہاتھی.تلاوت اور تقریر کے مقابلوں میں بچپن سے ہی حصہ لیا کرتے تھے.ہمیشہ اچھی پوزیشن لیتے رہے.کہتے ہیں حضرت مصلح موعود کے چند شعر اکثر پڑھا کرتے تھے جو ابھی بھی ان کی شہادت کے بعد میرے کانوں میں گونج رہے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کے وہ شعر یہ ہیں کہ عبث ہیں باغ احمد کی تباہی کی یہ تدبیریں چھپی بیٹھی ہیں تیری راہ میں مولیٰ کی تقدیریں بھلا مومن کو قاتل ڈھونڈھنے کی کیا ضرورت ہے نگاہیں اس کی بجلی ہیں تو آہیں اس کی شمشیریں تیری تقصیریں خود ہی تجھ کو لے ڈوبیں گی اے ظالم لپٹ جائیں گی تیرے پاؤں میں وہ بن کے زنجیریں ( کلام محمود صفحہ 282 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ) پھر ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب لکھتے ہیں کہ غریبوں کا بہت خیال رکھنے والے تھے.گزشتہ سال آئے تو بنک اکا ؤنٹ کھلوا کے مجھے بتایا کہ میں نے یہاں پیسے جمع کروا دیئے ہیں ان سے ضرورتمندوں کی مدد کر دیا کرو.ایک دن فون آیا کہ فلاں جماعت کا سابق کا رکن ہے.اب وہ کارکن نہیں اور ان کو پیسوں کی ضرورت ہے.وہ مکان بنا رہے ہیں تو ان کو ایک لاکھ روپیہ دے دو.اسی طرح یہ بھی کہا کہ اگر کوئی سٹوڈنٹ جو میڈیکل کالج میں پڑھنا چاہے تو میں اس کا سارا خرچہ دوں گا.ان کے ایک دوست حافظ عبدالقدوس نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب فضل عمر ہسپتال میں تھے تو ایک دن دو پہر کو ان کے گھر تشریف لائے اور بتایا کہ یہ لاوارث مریض ہے اسے ایک بوتل خون تو میں نے
خطبات مسرور جلد 12 337 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء دے دی ہے، ایک کی مزید ضرورت ہے میں چاہتا ہوں کہ وہ آپ دیں.طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے لئے سامان وغیرہ بھیجتے رہتے تھے.جو Stent وغیرہ آپریشن کے لئے ڈالتے ہیں اور کہتے تھے ہسپتال کی خدمت کر کے مجھے بڑا فخر ہے.پھر یہ بھی چاہتے تھے کہ ربوہ میں مکان بناؤں تا کہ جماعت کی رہائش پر بوجھ نہ بنوں.بچوں کی تربیت کے بارے میں بھی ان کو تسلی تھی.باوجود امریکہ میں رہتے ہوئے اللہ کے فضل سے اچھی تربیت ہو رہی ہے کیونکہ خود ذاتی طور پر توجہ دیتے تھے.ان کے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہمارا بڑا پیارا بھائیوں جیسا تعلق تھا.اس سال ہفتہ کی رات کو ربوہ پہنچے تو فوراً آنے کو کہا.رات کے دس بجے تھے.میں نے آرام کرنے کو کہا مگر انہوں نے کہا کہ نہیں ابھی آؤ.خیر ملاقات ہوئی.بہت پیار سے ایک جدید سٹیتھو سکوپ کا تحفہ پیش کیا جسے خاص طور پر لائے تھے اور پھر نمازوں کے بارے میں قبلے کا رخ وغیرہ پوچھا.کہتے ہیں رات کو ملاقات ہوئی.سوا گیارہ بجے تک گفتگو ہوتی رہی.میں سوا گیارہ بجے اٹھ کے آ گیا اور خدا حافظ کہہ کے رخصت کیا اور چند گھنٹوں کے بعد ہی صبح جب بہشتی مقبرے گئے تو وہیں جام شہادت نوش کیا.Dawn اخبار کی ویب سائٹ پر ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر جماعت احمدیہ کی مخالفت کا پس منظر بیان کر کے یوں ذکر کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب کوئی عام ڈاکٹر نہیں تھے.انہوں نے امریکن کالج آف کارڈیالوجی سے ینگ انوسٹی گیٹر (young investigator) کا ایوارڈ حاصل کیا اور سال 2003 ء اور 2004ء میں امریکہ کے بہترین فزیشنز میں ان کا شمار ہوا.اس کے علاوہ سال 2005ء،2006ء،2007ء میں مسلسل تین سال تک اور 2009ء، 2010ء، 2011 ء اور 2012ء میں مسلسل چار سال تک امریکہ کے بہترین کارڈیالوجسٹ میں ان کا شمار ہوا.نیز انہیں امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے فزیشن یگنیشن (recognition) کا بھی ایوارڈ ملا.پھر اخبار والے یہ لکھتے ہیں کہ میں نے انٹرنیٹ پر مہدی صاحب کے ایک پروفائل پر ان کی مسکراتی ہوئی روشن تصویر دیکھی جس کے ساتھ ان کے یہ الفاظ لکھے تھے کہ میں اعلیٰ ترین پیشہ وارانہ معیار کو قائم رکھتے ہوئے مریض کی بہترین دیکھ بھال پر یقین رکھتا ہوں تا کہ ان اداروں کی ترقی میں معاون ثابت ہوسکوں جن سے میں وابستہ ہوں.میری ترجیح پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو قابلیت ،سچائی اور دیانت داری سے نبھانا ہے اور یقیناً قابلیت ،سچائی اور دیانت داری سے انہوں
خطبات مسرور جلد 12 نے یہ سب نبھایا.338 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء پھر آخر میں لکھنے والے نے لکھا کہ ڈاکٹر مہدی علی قمر ! میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو بچا نہیں سکا لیکن میں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے.میں نے اپنی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے تا کہ کل میں ایسے نہ مروں کہ میری آواز نہ سنی گئی ہو.پھر پاکستان، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دنیا کے متعدد اخباروں اور نیوز چینلز نے اس نہایت بہیمانہ قتل اور انسانیت سوز فعل کی سخت مذمت کی ہے.اب تک ان اخباروں اور دیگر ذرائع ابلاغ کی تعداد تیس سے زیادہ ہے جن میں خبریں شائع ہوئی ہیں.جس میں National Post Canada ، ، CNN.Global News.CBC News Canada.The star Canada Columbus.Washington Post.New York Times U.S.A Today The Wall Street Gournal Dispath اور یہ بہت بڑا مشہور اخبار ہے)، The Strategic 6 Express Tribune Washington Times The BBC Urdu Daily Mail، Intelligence ، الجزيرة ، ڈان وغیرہ.ان تمام تر اخباروں اور ذرائع ابلاغ میں جہاں ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب شہید کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی گئی ہے وہیں جماعت احمد یہ کے تعارف اور پچھلی کئی دہائیوں سے ہونے والے جبر و تشدد کا بھی انتہائی تفصیل سے ذکر موجود ہے.ان تمام تر اخباروں اور دوسرے میڈیا نے جماعت احمدیہ کا تعارف کرواتے ہوئے جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نام اور دعوی نبوت اور مسیحیت کا ذکر کیا ہے وہیں اس امر کا بھی ذکر کیا ہے کہ جماعت احمد یہ ایک امن پسند جماعت ہے جو جہاد کے نام پر مظلوموں کو قتل کرنے کی مذمت کرتی ہے.اسی طرح بعض اخباروں نے جماعت کے فلاحی کاموں کو بھی سراہا.پس یہ جان دے کر بھی تبلیغ کے نئے سے نئے راستے کھول گئے اور دنیا کو متعارف کروا گئے.وال سٹریٹ جنرل امریکہ کا مشہور اخبار ہے، دنیا میں کئی جگہ چھپتا ہے.اس کے تجزیہ نگار نے شہادت کے واقعہ، جماعت احمدیہ کا تعارف اور جماعت کے خلاف ہونے والے مظالم کا ذکر کرنے کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن صاحبہ کا تجزیہ پیش کیا کہ گو پاکستان میں تمام تر اقلیتیں ہی مظالم کا شکار ہیں مگر جماعت احمد یہ سخت ترین فلموں کا شکار ہے.پاکستان کی کئی لوکل اخبار میں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز خبریں شائع کرتی رہتی ہیں.اگر مسیحی برادری کے خلاف دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا
خطبات مسرور جلد 12 339 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء ہے تو ملک کے وزیر اعظم خود اظہار افسوس کرنے اور متاثرین سے ملنے جاتے ہیں مگر احمدیوں کے حق میں کوئی کھڑا ہونے والا نہیں.(احمدیوں کے حق میں خدا کھڑا ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا انشاء اللہ تعالی.) تجزیہ نگار نے شہید کے ایک ساتھی ڈاکٹر شنتا نو سنہا کا بھی انٹرویو شائع کیا ہے.ڈاکٹر سنہا نے شہید مرحوم کے متعلق کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ دیانتدار اور خوش اخلاق شخص نہیں دیکھا.آپ کے جسم میں ایک بھی شر پسند ذرہ نہ تھا.آپ بہت زیادہ خدمت خلق کرنے والے شخص تھے اور گو کہ آپ جانتے تھے کہ آپ کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آ سکتا ہے مگر اس کے باوجود خدمت خلق کے لئے پاکستان گئے.میں بس اس قدر چاہتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ کس طرح ایک انتہائی با اخلاق انسان جوانسانیت کی خدمت کرنے کے لئے گیا ہوا تھا اس کو انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا.پھر آخر میں پولیس انسپکٹر کی طرف سے صرف اس قدر بات درج کی ہے کہ پولیس والوں نے کہا ہم کوئی روشنی نہیں ڈال سکتے اور ایک پولیس اہلکار کا یہ بیان ہے کہ ہم اکثر ایسے پمفلٹ دیکھتے رہتے ہیں جن میں ربوہ کے اس ہسپتال اور یہاں علاج کروانے کی مخالفت کی جاتی ہے اور غالبات قبل بھی اسی سے متعلق ہے.اسی طرح الجزیرۃ کے ایک تجزیہ نگار نے بھی یہی لکھا ہے کہ اکثر احمدیوں کے خلاف ظلم اور تشدد کی خبریں ملتی رہتی ہیں اور مجرم یہ ظلم اس تسلی کے ساتھ کرتے ہیں کہ حکومت انہیں سزا دینے کے لئے کچھ نہیں کرے گی.واشنگٹن پوسٹ میں بھی شہادت کی خبر شائع ہوئی اور اسی طرح لکھا کہ جرم اس لئے ہورہے ہیں کہ پتا ہے کچھ نہیں ہونا.پھر لن کا سٹر ایگل گزٹ (Lancaster Eagle Gazette) جو کہ اس علاقے کا اخبار ہے جہاں ڈاکٹر صاحب خدمت انجام دے رہے تھے.اس اخبار نے ایک تفصیلی مضمون مرحوم کی شہادت پر شائع کیا جس میں مرحوم کے ساتھ کام کرنے والوں کے تاثرات بھی درج کئے گئے.کیلی موریسن جو وہاں کارڈیو ویسکولر بزنس ڈیویلپمنٹ کے مینجر ہیں انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی افسوسناک وقت ہے اور یہاں ہسپتال میں ہر ایک کی آنکھ آنسوؤں سے تر ہے.پھر تجزیہ نگار نے اس امر کا بھی اظہار کیا کہ مرحوم گورڈن بی سنائڈر (Gordon.B.Snider) کارڈیو ویسکیولر انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈاکٹروں میں سے تھے اور انہیں 2013ء میں عظیم الشان خدمت خلق یعنی لیجنڈری فلن تھراپسٹ کا اعزاز بھی ملا تھا.نامہ نگار نے لکھا ہے کہ مرحوم کی وفات سے نہ صرف جماعت احمدیہ کے افراد بلکہ کمیونٹی کا ہر فرد متاثر ہوا
خطبات مسرور جلد 12 340 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء ہے.ان کے مریض بھی اخباروں میں ان کی بڑی تعریفیں کر رہے ہیں.کولمبس ڈسپیچ نے اپنی خبر میں مرحوم کے بڑے بیٹے کا انٹرویو لیا.یہ لکھتا ہے کہ سولہ سالہ عبداللہ علی سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے والد صاحب کے اس طرح قتل کئے جانے پر کیسا محسوس کر رہے ہیں.تو انہوں نے کہا کہ I am.disappointed.نامہ نگار نے اس جواب کو پسند کرتے ہوئے خاص طور پر ذکر کیا کہ اس بچے کے دل میں غصہ یا انتقام کا جذ بہ نہیں.Fox 2 Columbus نے بھی مرحوم کی شہادت کا ذکر کیا اور مرحوم کے بڑے صاحبزادے عبد اللہ لی کا انٹرویو بھی شائع کیا جس میں انہوں نے کہا کہ میرے والد صاحب ایک عظیم شخص تھے اور مجھے یقین ہے کہ اگر قاتل کچھ دیر رک کر آپ سے بات کرتے تو یقینا آپ ان کی زندگی میں بھی کوئی مثبت تبدیلی لے آتے.انہوں نے یہ قتل صرف ایک ایسی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا ہے جن کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتے.اور یہی حالت ہے.مولویوں نے صرف زہر بھر دیا ہے.خودان کو پتا ہی نہیں کہ کیا ہے کیا نہیں؟ بی بی سی اردو نے بھی مرحوم کی شہادت اور احمدیوں کے خلاف ظلم وستم کا ذکر کیا نیز طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے خلاف چھپنے والے پمفلٹ کا عکس بھی شائع کیا جس میں لکھا ہوا ہے کہ طاہر ہارٹ میں علاج کروانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے.نیز احمدیوں سے تعلق رکھنے والا خود بھی کا فر ہو جاتا ہے.انا للہ.بہر حال یہ شہید تو اپنی زندگی میں بھی کامیابیاں دیکھتا رہا اور مخلوق خدا کی خدمت کرتا رہا اور موت بھی ایسی پائی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے دائمی زندگی دے گی.اللہ تعالیٰ ہمارے اس پیارے بھائی کو جنت میں اعلیٰ درجے عطا فرمائے.لمحہ لمحہ ان کے درجات کی بلندی ہوتی رہے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں اس کو جگہ دے.ان کے بیوی بچوں کو بھی اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ڈاکٹر صاحب شہید کی تمام نیک خواہشات اور دعائیں جو انہوں نے اپنے بچوں کے لئے کیں، انہیں قبول فرمائے.جیسا کہ میں بتا آیا ہوں کہ ہماری ترقیات اور دشمن کو مغلوب کرنے کے لئے سب سے بڑا ہتھیار ہمارے پاس دعاؤں ہی کا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ ظاہری سامان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے وہ بھی ساتھ ساتھ ہونے چاہئیں جس حد تک ہو سکتا ہے.اس لئے ربوہ میں اس واقعہ کے بعداب ربوہ میں انتظامیہ کو بھی پہلے سے زیادہ چوکس اور ہشیار ہونے کی ضرورت ہے.اپنی تدبیروں اور وسائل کو انتہا تک پہنچائیں پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑیں اور پھر ربوہ کے ہر شہری کو بھی چوکس رہنے کی ضرورت ہے.اس پیارے شہید
خطبات مسرور جلد 12 341 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 مئی 2014ء نے ربوہ کی زمین پر اپنا خون بہا کر ہمیں دعاؤں اور تدبیروں کی طرف توجہ دلائی ہے.پس اس طرف بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے.دنیا کے احمدی بھی پاکستانی احمدیوں کے لئے بہت دعائیں کریں کیونکہ وہ انتہائی ناقابل برداشت حالات میں اب رہ رہے ہیں اور یہ جو حالات ہیں یہ شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے.اب تو پورا ملک ہی فلموں کی داستان بن کے رہ گیا ہے.کچھ دن ہوئے ہائیکورٹ کے اندر پتھر مار مار کر ایک عورت کو مار دیا.روزانہ وہاں قتل و غارت ہورہی ہے اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک احمدی کو شہید کیا تو اس کا بدلہ یہ ظلم اور یہ سب کچھ ہے.جب یہ ظلم کیا گیا تو سرکاری اہلکار بھی وہاں یقینا موجود ہوں گے، پولیس بھی موجود ہوگی ان کے سامنے ہوا.اور پاکستان میں ہر ایک پہ جو ظلم ہو رہا ہے وہ اللہ اور رسول کے نام پر ہو رہا ہے.اس رسول کے نام پر ہو رہا ہے جو حسن انسانیت ہے.اس رسول کے نام پر ہو رہا ہے جو رحمت للعالمین ہے.پس ہمارے دل اس بات سے زخمی اور چھلنی ہوتے ہیں کہ اگر ظلم کرنے ہیں توکم از کم اللہ اور رسول کے نام پر ظلم تو نہ کرو.اس محسن انسانیت اور رحمت للعالمین کے نام پر ظلم تو نہ کرو.اسلام کو بدنام تو نہ کرو لیکن یہ ان کو مجھ نہیں آتی اور ان کو پتا نہیں ہے یہ کس طرف جارہے ہیں.جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر چلے گی اور انشاء اللہ ضرور چلے گی تو ان کے نام ونشان مٹ جائیں گے.نہ ظلم کرنے والے رہیں گے اور نہ ظلم کی پشت پناہی کرنے والے رہیں گے.پس ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں ، بہت دعائیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ عوام الناس کو بھی علماء کے چنگل سے نکالے اور یہ حقیقت کو سمجھیں اور زمانے کے امام کو پہچاننے والے ہوں.نماز جمعہ کے بعد میں انشاء اللہ شہید مرحوم کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 20 جون 2014 ء تا 26 جون 2014 ، جلد 21 شماره 25 صفحہ 05 تا 09)
خطبات مسرور جلد 12 342 23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014 ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفه امس الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 06 جون 2014 ء بمطابق 06 احسان 1393 ہجری شمسی بمقام فرانکفرٹ.جرمنی تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ (الغاشية: 21-18) یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.جہاں بھی اور جس معاملے میں بھی ہمیں رہنمائی کی ضرورت ہو، کسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہو.قرآن کریم میں بیان فرمودہ حکمت کے موتیوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہو یا ان کی تلاش ہو تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادے کی کتب اور ارشادات مل جاتے ہیں جو ہمارے مسائل حل کرتے ہیں.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں جمعہ پر اکثر ہم دوسری رکعت میں پڑھتے ہیں.سورۃ غاشیة کی یہ آیات پڑھی جاتی ہیں.ان میں پہلی آیت جو میں نے پڑھی ہے یعنی أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَت.کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کئے گئے؟ اس کی جو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے وہ اپنی گہرائی اور خوبصورتی اور علم و عرفان اور پھر عملی حالت پر منطبق کرنے کا ایک عجیب اور جدا نقشہ کھینچتی ہے.آپ علیہ السلام نے اس آیت سے نبوت اور امامت کی اطاعت کے مسئلہ کو حل فرمایا ہے اور نبوت اور امامت کے ساتھ جڑنے والوں کے لئے جو بنیادی چیز ہے یعنی اطاعت اور کامل اطاعت اس کو آپ نے اہل یعنی اونٹ کے لفظ سے یا اونٹوں کے لفظ سے جوڑ کر
خطبات مسرور جلد 12 343 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014ء وضاحت فرمائی ہے.بظاہر یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ اونٹوں اور نبوت اور امامت کی اطاعت کا کیا جوڑ ہے لیکن جس طرح کھول کر آپ نے تشریح فرمائی ہے اس سے اس جوڑ کا حیرت انگیز ادراک ہمیں بھی حاصل ہوتا ہے.آپ کی تفسیر پہلے پیش کرتا ہوں.فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہے أَفَلا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (الغاشية : 18 ) یہ آیت نبوت اور امامت کے مسئلہ کو حل کرنے کے واسطے بڑی معاون ہے.اونٹ کے عربی زبان میں ہزار کے قریب نام ہیں اور پھر ان ناموں میں سے ابل کے لفظ کو جولیا گیا ہے اس میں کیا ستر ہے؟ کیوں الى الجبل بھی تو ہو سکتا ہے؟ عمل بھی تو اونٹ کو کہتے ہیں.فرمایا کہ ”اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جمل ایک اونٹ کو کہتے ہیں اور اہل اسم جمع ہے.یہاں اللہ تعالیٰ کو چونکہ تمدنی اور اجماعی حالت کا دکھانا مقصود تھا اور جمل میں جو ایک اونٹ پر بولا جاتا ہے یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا تھا اسی لئے اہل کے لفظ کو پسند فرمایا.اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوت رکھی ہے.دیکھو اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیشرو کے ہوتا ہے وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو.پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہے.جیسے گھوڑے وغیرہ میں.گو یا اونٹ کی سرشت میں اتباع امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آفلا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِل کہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جارہے ہوں.اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو“.یہ پہلی بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے.اس سے مطابقت کے لئے تمدنی اور اتحادی حالت قائم رکھنے کے لئے ایک امام ہو.” پھر یہ بھی یادر ہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے.پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہوانسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے.دنیا کا بھی جو زندگی کا سفر ہے اس میں ایک امام ہونا ضروری ہے جو صحیح رہنمائی کرتا رہے.پھر اونٹ زیادہ بارکش اور زیادہ چلنے والا ہے.اس سے صبر و برداشت کا سبق ملتا ہے.پھر اونٹ کا خاصہ ہے کہ وہ لمبے سفروں میں کئی کئی دنوں کا پانی جمع رکھتا ہے.غافل نہیں ہوتا.پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے سفر کے لئے تیار اور محتاط رہنا چاہئے اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے“.فرمایا کہ انظر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھنا بچوں کی طرح دیکھنا نہیں ہے بلکہ اس
خطبات مسرور جلد 12 344 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014ء سے اتباع کا سبق ملتا ہے کہ جس طرح پر اونٹ میں تمدنی اور اتحادی حالت کو دکھایا گیا ہے اور ان میں اتباع امام کی قوت ہے.اسی طرح پر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتباع امام کو اپنا شعار بناوے.کیونکہ اونٹ جو اس کے خادم ہیں ان میں بھی یہ مادہ موجود ہے.کیفَ خُلِقَت “ میں ان فوائد جامع کی طرف اشارہ ہے جو اہل کی مجموعی حالت سے پہنچتے ہیں.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 133 - 134) پس اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کو بھیجا اور ہمیں پھر انہیں ماننے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور پھر آپ کے بعد خلافت کے جاری نظام سے بھی نوازا.ہمیں اس انعام کی قدر کرنی چاہئے اور اس روح کو سمجھنا چاہئے جو خلافت کے نظام میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جو میں مفہوم بیان کر رہا ہوں کہ میرے نام پر افراد جماعت سے بیعت لینے والے افراد آتے رہیں گے.(ماخوذ از الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306) یعنی خلافت آپ کی نیابت میں آپ کے نام پر بیعت لے گی.جب آپ کے نام پر بیعت لی جارہی ہے تو پھر خلافت کی بیعت اور اطاعت کی کڑی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جا کے ملتی ہے.پس یہ جو اقتباس میں نے پڑھا ہے اس میں نبوت اور امامت کا جو تعلق آپ نے اہل کی خصوصیات کے ساتھ جوڑا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد خلافت کے جاری نظام سے جڑے رہنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے والوں کی روحانی بقا اور ترقی ہے اور یہ ضمانت ہے.اس میں جماعت کی ترقی اسی صورت میں ہے جب ہم خلافت کے نظام سے جڑے رہیں گے.اسی میں شیطانی حملوں سے بچنے کے سامان بھی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام تمہاری ڈھال ہے.الصحيح البخارى كتاب الجهاد و السير باب يقاتل من وراء الامام ويتقى به حدیث 2957 پس اس ڈھال کے پیچھے رہو گے تو بچت کے سامان ہیں اور ڈھال کے پیچھے رہنا یہی ہے کہ کامل اطاعت کرو.اپنی لائنوں پر چلو.اس قطار میں چلو جو تمہارے لئے مقرر کر دی گئی ہے.اس سے ذرا باہر نکلے تو بھٹکنے کا خطرہ ہے گنے کا خطرہ ہے.پھر اطاعت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی یاد رکھنا چاہئے کہ من اطاع
خطبات مسرور جلد 12 345 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014 ء آمِيُرِى فَقَدْ أَطَاعَنِي وَ مَنْ عَلَى آمِيُرِى فَقَدْ عَصَانِي - (مسند ابی داؤد الطیالسی جلد دوم صفحه 736 حديث 2554 مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت 2004ء) اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت امیر کے بارے میں اور بھی بہت سے ارشادات ہیں.اسی طرح قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اطاعت اور فرمانبرداری کے حکم دیئے گئے ہیں.اس لئے کہ یہی ایک راز ہے جو جماعتی ترقی کے لئے جاننا ضروری ہے.ہر اس شخص کے لئے جاننا ضروری ہے جو جماعت سے منسلک ہے.پس اس بات کو سمجھنے کی افراد جماعت کو بہت زیادہ ضرورت ہے.خاص طور پر آجکل کے دور میں جبکہ آزادی کے نام پر ان غلط خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کیوں ہم پابندیاں کریں؟ کیوں ہمارے پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں؟ کیوں ہمیں بعض معاملات میں آزادی نہیں؟ ایک احمدی مسلمان کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ اسلام نے ہر جائز آزادی اپنے ماننے والوں کو دی ہے.اور جتنی آزادیاں اسلام میں ہیں شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں ہوں بلکہ اس کے مقابلے میں نہیں ہیں.لیکن بعض حدود جو قائم کی ہیں وہ انسان کے اپنے اخلاق کی درستی کے لئے ، روحانی ترقی کے لئے اور جماعتی یکجہتی کے لئے اور جماعتی ترقی کے لئے قائم کی گئی ہیں اور ان کے اندر رہنا ضروری ہے.یہاں میں عہد یداروں کو بھی کہوں گا کہ اگر جماعتی ترقی میں مد و معاون بننا ہے اور عہدے صرف بڑائی کی خاطر نہیں لئے گئے.اپنے اظہار کی خاطر نہیں لئے گئے.اپنی انا کی تسکین کی خاطر نہیں لئے گئے تو اطاعت کے مضمون کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہر سطح کے عہدیداروں کو ہے.اگر عہدیدار اس مضمون کو سمجھ جائیں تو افراد جماعت خود بخود اس کی طرف توجہ کریں گے.اور ہر سطح پر اطاعت کے نمونے ہمیں نظر آئیں گے.ہمیں اونٹوں کی قطار کی پیروی کرتے ہوئے سب نظر آئیں گے.ایک رخ پر چلتے ہوئے نظر آئیں گے.امام کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے چلتے ہوئے نظر آئیں گے.پس امیر بھی ، صدر بھی اور دوسرے عہدیدار بھی پہلے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کی اطاعت کے معیار ایسے ہیں کہ ہر حکم جو خلیفہ وقت کی طرف سے آتا ہے اس کی بلا چون و چرا تعمیل کرتے ہیں یا اس میں تاویلیں نکالنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں.اگر تاویلیں نکالتے ہیں تو یہ اطاعت نہیں.روایات میں ایک واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا آتا ہے.جب گلی میں چلتے ہوئے آپ کے ایک صحابی عبداللہ بن مسعود نے 'بیٹھ جاؤ کی آواز سنی اور بیٹھ گئے.آواز سن کر یہ نہیں کہا کہ یہ حکم تو اندر مسجد والوں کے لئے ہے بلکہ آواز سنی اور بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے مشکل سے قدم قدم
خطبات مسرور جلد 12 346 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014 ء مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا.کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ یہ آپ کو کیا ہوا ہے جو اس طرح گھسٹ رہے ہیں.آپ نے یہی جواب دیا کہ اندر سے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ تو میں بیٹھ گیا.پوچھنے والے نے کہا کہ یہ حکم تو اندر والوں کے لئے تھا.آپ نے جواب دیا مجھے اس سے غرض نہیں کہ یہ اندر والوں کے لئے ہے یا باہر والوں کے لئے یا سب کے لئے.میرے کان میں اللہ کے رسول کی آواز پڑی اور میں نے اطاعت کی.پس یہی میرا مقصد ہے.(ماخوذ از سنن ابی داؤ د کتاب الجمعة باب الامام يكلم الرجل في خطبته حدیث 1091) پس یہ معیار ہیں اطاعت کے جو ہمیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے.بعض عہد یدار خلیفہ وقت سے جو کوئی ہدایت آتی ہے تو اس پر عمل بھی کر لیتے ہیں لیکن بڑے انقباض سے، نہ چاہتے ہوئے یہ عمل کرتے ہیں.اور نہ چاہتے ہوئے عمل کرنا کوئی اطاعت نہیں ہے.اطاعت وہی ہے جو فوری طور پر کی جائے.اپنی رائے رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے.لیکن جب کسی معاملے میں خلیفہ وقت کا فیصلہ آجائے کہ یوں کرنا ہے تو پھر اپنی رائے کو یکسر بھلا دینا ضروری ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرما یا کرتے تھے کہ میں بعض معاملات میں اپنی رائے رکھتا ہوں اور اپنی طرف سے دلیل کے ساتھ خلیفہ اسیح کو اپنی رائے پیش کرتا ہوں لیکن اگر میری رائے رڈ ہو جائے تو کبھی مجھے خیال بھی نہیں آیا کہ کیوں یہ رد ہوئی ہے یا میری رائے کیا تھی.پھر میری رائے وہی بن جاتی ہے جو خلیفہ وقت کی رائے ہے.پھر کامل اطاعت کے ساتھ اس حکم کی بجا آوری پر میں لگ جاتا ہوں جو خلیفہ وقت نے حکم دیا تھا.(ماخوذ از حیات بشر مؤلفه شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگرمل صفحہ 323-322 مطبوعہ ضیاءالاسلام پریس ربوہ) حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : غسال کی طرح اپنے آپ کو امام کے ہاتھ میں دو.جس طرح مردہ اپنے آپ کو ادھر ادھر نہیں کر سکتا، حرکت نہیں کرسکتا، اس کو نہلانے والا اس کو حرکت دے رہا ہوتا ہے.(ماخوذ از خطبات نور صفحہ 131 مطبوعہ ربوہ) اسی طرح کامل اطاعت کرنے والے کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو امام کے ہاتھ میں دیدے اور جب یہ معیار ہوگا تو تبھی عہد بیعت نبھانے والے بن سکیں گے.تبھی اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے.پس ہم میں سے ہر ایک کو جس نے بیعت کا عہد کیا ہے نہ صرف یہ سوچ پیدا کرنی ہوگی بلکہ اپنے
خطبات مسرور جلد 12 347 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014 ء عمل سے اس کا ثبوت دینا ہو گا.اپنے نمونے نئے آنے والوں کے لئے بھی اور اپنی اولادوں کے لئے بھی قائم کرنے ہوں گے.نوجوانوں کو بھی اپنے نمونے بڑوں کو دکھانے کی ضرورت ہے، یعنی بڑے اپنے نمونے قائم کریں جو ان کے بچے اور نو جوان دیکھیں اور سیکھیں اور سب سے بڑھ کر یہ معیار او پر سے لے کر نیچے تک ہر عہد یدار کو دکھانا ہوگا ، قائم کرنا ہوگا.یہاں بعض ذہنوں میں کبھی کبھی یہ سوال اٹھتا ہے.اگر وہ باتیں صحیح ہیں.میں سوال کی بات کر رہا ہوں جو مجھ تک پہنچے ہیں اگر یہ باتیں صحیح ہیں کہ یہ سوال اٹھانے والے اٹھاتے ہیں کہ کامل اطاعت شاید نقصان دہ ہے.اور ایسے لوگوں کی یہ سوچ شاید اس لئے ہے جو کامل اطاعت کو نقصان دہ سمجھتے ہیں کہ یہاں جرمنی میں ہٹلر نے اپنا ہر حکم منوایا اور ڈکٹیٹر بن کر رہا اس لئے دوسری جنگ عظیم میں یہ تصور ہے، یہ تاثر ہے کہ اس وجہ سے ہماری یعنی جرمنی کی شکست بھی ہوئی.ان کو نقصان اٹھانا پڑی ہسبکی اٹھانی پڑی.میں یہاں ہر احمدی اور ہر نئے آنے والے اور ہر نو جوان پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امامت اور خلافت اور ڈکٹیٹر شپ میں بڑا فرق ہے.خلافت زمانے کے امام کو ماننے کے بعد قائم ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قائم ہوئی ہے اور ہر مانے والا یہ عہد کرتا ہے کہ ہم خلافت کے نظام کو جاری رکھیں گے.دین میں کوئی جبر نہیں ہے.جب اپنی خوشی سے دین کو مان لیا تو پھر دین کے قیام کے لئے اس عہد کو نبھانا بھی ضروری ہے جو خلافت کے قیام کے لئے ایک احمدی کرتا ہے اور جو قومی بجہتی کے لئے وحدت کے لئے ضروری ہے.خلافت کی اطاعت کے عہد کو اس لئے نبھانا ہے کہ ایک امام کی سرکردگی میں خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا کے دلوں میں بٹھانے کی مشترکہ کوشش کرنی ہے.دوسرے مسلمان جو ہیں وہ بغیر امام کے ہیں اور جماعت احمدیہ کی کوششیں جو ہیں وہ خلافت سے وابستہ ہو کر ہورہی ہیں.یہ سب کوششیں جو خلافت سے وابستہ ہو کر ہو رہی ہیں ان کی کامیابی کے نتائج بتا رہے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کے ساتھ (حقیقی تعلیم دوسرے مسلمانوں کے پاس بھی ہے لیکن اسلام کی حقیقی تعلیم کے ساتھ ) ان نتائج کا حصول، کامیابی کا حصول خلافت کی لڑی میں پروئے جانے کی وجہ سے ہے.پھر خلافت کا مقصد حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھر پور توجہ دینا ہے.ان حقوق کو منوانا اور قائم کرنا اور مشترکہ کوشش سے ان کی ادائیگی کی کوشش کرنا ہے.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے افراد جماعت میں یہ روح پیدا کرنا ہے.ان کو توجہ دلانا ہے کہ دین بہر حال دنیا سے مقدم رہنا چاہئے اور اسی میں تمہاری بقا ہے.اس میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے.یہ ایک روح پھونکنا بھی خلافت کا کام ہے.توحید کے
خطبات مسرور جلد 12 348 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014 ء قیام کے لئے بھر پور کوشش یہ بھی خلافت کا کام ہے.جبکہ دنیاوی لیڈروں کے تو دنیاوی مقاصد ہیں.ان کا کام تو اپنی دنیاوی حکومتوں کی سرحدوں کو بڑھانا ہے.اسی کی ان کو فکر پڑی رہتی ہے.ان کا کام تو سب کو اپنے زیر نگیں کرنا ہے.دنیا میں آپ دیکھیں اپنے ملکوں کی حدوں سے باہر نکل کر بھی دوسرے ملکوں کی آزادیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں چاہے وہ ڈکٹیٹر ہوں یا سیاسی حکومتیں ہوں.دنیاوی لوگوں کا تو یہ کام ہے.ان کا کام تو جھوٹی اناؤں اور عزتوں کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑانا ہے جو ہمیں مسلمان دنیا میں بھی اور باقی دنیا میں بھی نظر آتی ہے.کون ساڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو.خلیفہ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے.ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے.ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ نا قابل یقین بات ہے.یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے.ان کے لئے خلیفہ وقت دعا کرتا ہے.کون سا د نیا وی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو.کون سالیڈ ر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو.کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو.حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے.صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے.تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفہ وقت کو ہے.جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفہ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں.ان کی صحت کی فکر خلیفہ وقت کو رہتی ہے.رشتے کے مسائل ہیں.غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفہ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو.اس سے دعا ئیں نہ مانگتا ہو.میں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے.میں نے ایک خاکہ کھینچا ہے بے شمار کاموں کا جو خلیفہ وقت کے سپر د خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اور انہیں اس نے کرنا ہے.دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں میں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو.یہ میں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے.یہ میرا فرض ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر میں فرض ادا کرنے والا بنوں.
خطبات مسرور جلد 12 349 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014ء کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ خلافت اور دنیا وی لیڈروں کا موازنہ ہو ہی نہیں سکتا.یہ ویسے ہی غلط ہے.بعض دفعہ دنیاوی لیڈروں سے باتوں میں جب میں صرف ان کو روزانہ کی ڈاک کا ہی ذکر کرتا ہوں کہ اتنے خطوط میں دیکھتا ہوں لوگوں کے ذاتی بھی اور دفتری بھی تو حیران ہوتے ہیں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے.پس کسی موازنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بعض لوگوں کی اس غلط نبی کو بھی دور کر دوں گو کہ پہلے بھی میں شرائط بیعت کے خطبات کے ضمن میں اس کا تفصیلی ذکر کر چکا ہوں کہ ہر احمدی خلیفہ وقت سے اس کے معروف فیصلہ پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ معروف کی تعریف انہوں نے خود کرنی ہے.ان پر واضح ہو کہ معروف کی تعریف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دی ہے.یہ پہلے ہی تعریف ہو چکی ہے.معروف فیصلہ وہ ہے جو قرآن اور سنت کے مطابق ہو.جس خلافت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق على منهاج النبوۃ قائم ہونا ہے، اس طریق کے مطابق چلنا ہے جو نبوت قائم کر چکی ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق یہ دائی بھی ہے جو آپ کے کام کو آگے چلانے کے لئے ہے وہ قرآن وسنت کے منافی یا خلاف کوئی کام کر ہی نہیں سکتی اور یہی معروف ہے.معروف سے یہاں یہ مراد ہے.پس اطاعت کے بغیر دوسروں کے لئے اور کوئی راستہ نہیں ہے.یا پھر قرآن وسنت سے جو اختلاف کرنے والے ہیں یہ ثابت کریں کہ خلیفہ وقت کا فلاں فیصلہ یا فلاں کام قرآن وسنت کے منافی ہے.یہاں یہ بھی بتادوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا ہے کہ خلفاء راشدین کے فیصلے اور عمل اور سنت بھی تمہارے لئے قابل اطاعت ہیں.ان پر چلو.(سنن ابی داؤ د کتاب السنۃ باب فی لزوم السنة حديث 4607) پس یہ ثابت کرنے کے لئے کہ فیصلے غلط ہیں پہلے بہت کچھ سوچنا ہو گا.جماعت میں رہتے ہوئے اگر کوئی بات کرنی ہے تو پھر ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے خلیفہ وقت کو لکھنا ہو گا.لکھنے کی اجازت ہے.ادھر ادھر باتیں کرنے کی اجازت نہیں.یہاں سے وہاں بیٹھ کر غلط قسم کی افواہیں پھیلانے کی اجازت نہیں ہے.تا کہ اگر سمجھنے والے کی سمجھ میں غلطی ہے تو خلیفہ وقت اس کو دور کر سکے اور اگر سمجھے کہ اس غلطی کو جماعت کے سامنے بھی رکھنے کی ضرورت ہے تو تمام جماعت کو بتائے.جماعت جب بڑھتی ہے تو منافقین بھی اپنا کام کرنا چاہتے ہیں.حاسدین بھی اپنا کام کرتے ہیں.خلافت سے سچی وفا یہ ہے کہ ان کے منصوبوں کو ہر سطح پر نا کام بنا ئیں اور خلافت سے جو بعض بدظنیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے
خطبات مسرور جلد 12 350 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014 ء ہیں ان کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں.حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ایک واقعہ ہے جو قرآن کریم کا ترجمہ انگلش میں کرنے کے لئے لندن آرہے تھے تو بمبئی سے غالباً ان کی روانگی تھی.وہاں پہنچے تو جمعہ کا دن آ گیا.جماعت نے درخواست کی کہ آج جمعہ ہے آپ جمعہ پڑھا ئیں.قادیان سے آئے ہیں بزرگ ہیں صحابی ہیں ہم بھی آپ سے کوئی فیض پالیں.نہ جماعت والے آپ کو جانتے تھے، نہ کبھی دیکھا تھا، نہ آپ کسی کو جانتے تھے.آپ نے خطبہ دیا کہ دیکھو تم مجھے جانتے نہیں ہو.بعضوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہوا.تم نے مجھے جمعہ کے لئے کھڑا کر دیا.آج اپنا امام بنا دیا.اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر امام نماز پڑھاتے ہوئے کوئی غلطی کرے تو تم نے سبحان اللہ کہ دینا ہے.اگر امام اس سبحان اللہ پر اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو ٹھیک ہے.اگر وہ اصلاح نہیں کرتا، اسی طرح اپنے عمل جاری رکھتا ہے تو تمہارا کام کامل اطاعت کرتے ہوئے اس کے ساتھ اٹھنا اور بیٹھنا ہے.تمہارا کوئی حق نہیں بنتا ہے کہ تم اپنے طور پر نماز پڑھنی شروع کر دو.اسی طرح تم نے بیٹھنا ہے اسی طرح اٹھنا ہے اسی طرح جھکنا ہے.پس آگے انہوں نے فرمایا کہ جب عارضی امامت میں اطاعت کا یہ معیار ہے اس کی اتنی پابندی ہے تو خلیفہ وقت کی بیعت میں آکر جو تم عہد کرتے ہو اور خوشی سے عہد کر کے خود شامل ہوتے ہو، اس میں کس قدر اطاعت ضروری ہے.جبکہ تم نے خود سوچ سمجھ کر یہ بیعت کی ہے.پس یادرکھیں عہد بیعت پورا کرنے کے لئے اطاعت انتہائی اہم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے.مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے بڑوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.بڑے بڑے تو حید کا دعویٰ کرنے والے جو ہیں وہ بھی اطاعت سے بعض دفعہ باہر نکل جاتے ہیں بت بنا بیٹھتے ہیں.فرمایا : ” کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.پھر فرماتے ہیں کہ اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ
خطبات مسرور جلد 12 351 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014 ء ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو ستر ہے.اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحہ 247-246 تفسیر سورۃ النساء زیر آیت 59.الحکم جلد 5 نمبر 5 مورخہ 10 فروری (3-2-611901 تاریخ اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ نے کامل اطاعت کی وجہ سے اپنی گردنیں کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کیا اور چند سالوں میں دنیا میں اسلام کو پھیلا دیا تو یہ اطاعت کی وجہ تھی.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جنگوں سے اسلام پھیلا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ تبلیغ بھی انہوں نے کی.اگر کہیں جنگوں کا سامنا ہوا تو دشمن کی کثرت اور تعداد اور حملے انہیں اپنے کام سے روک نہیں سکے.اطاعت کی روح ان میں تھی تو کثیر دشمن کے سامنے بھی اگر ضرورت پڑی تو کھڑے ہو گئے اور اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے ماننے والوں نے اطاعت کا نمونہ نہ دکھا کر چالیس سال تک اپنے آپ کو انعام سے محروم رکھا.پس اگر ترقی کرنی ہے تو اس زمانے کا جو جہاد ہے جو اپنی تربیت کا جہاد ہے اور پھر وہ جہاد ہے جو تبلیغ کے ذریعہ ہونا ہے خلیفہ وقت کے پیچھے چل کے ہونا ہے اس کی پابندی کرنی ہوگی.اسی طرح عمل کرنا ہو گا جس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اہل یعنی اونٹوں کی مثال سے واضح فرمائی ہے.اپنی فطرت ثانیہ اطاعت کو بنانا ہوگا بلکہ ہر چیز پر اطاعت امام کو فوقیت دینی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہی تفسیر کی روشنی میں بات مزید آگے بڑھا تا ہوں کہ ہلاکت سے بچنے اور بھٹکنے سے بچنے کے لئے اپنی اطاعت کو اطاعت کے اعلیٰ معیاروں پر رکھنے کی ضرورت ہے.خلافت کے ساتھ جڑ کر ہی صبر کے ساتھ مشکلات میں سے گزرا جا سکتا ہے.یہ بھی آپ نے فرمایا جو مشکلات میں سے گزر سکتے ہیں تو صبر کے ساتھ مشکلات میں سے خلافت کے ساتھ جڑ کر ہی گزرا جا سکتا ہے.مخالفین احمدیت جتنا بھی ہمیں دبائیں گے.ہمیں اپنے زعم میں جتنا بھی دبانے کی کوشش کریں گے، مشکلات میں ڈالیں گے، اپنے زعم میں ہمیں ختم کرنے کی آخری کوششیں کریں گے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے باوجود ہماری منزلوں کی طرف انشاء اللہ تعالیٰ لے جاتا چلا جائے گا.لیکن شرط یہی ہے کہ اطاعت اور کامل اطاعت.آج ہم دیکھتے ہیں دوسرے مسلمان بیشک قرآن وسنت کو ماننے اور عمل کا دعویٰ کرتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا لیکن ہمیں ان میں صبر اور برداشت نظر نہیں آتی.سوائے اسلام کو بدنام کرنے
خطبات مسرور جلد 12 352 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014ء کے اور کیا کام یہ لوگ کر رہے ہیں.پس یہ آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ صبر اور برداشت کے ایسے نمونے قائم کر رہے ہیں جو قابل رشک ہیں.تکلیفوں کو برداشت کرنے کے ایسے نمونے دکھا رہے ہیں جو کہ دور اول کے مسلمانوں میں نظر آتے ہیں.اور وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة : 4 ) کا مضمون اس زمانے کے لئے واضح ہو جاتا ہے.پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اونٹ سفر کے لئے پانی جمع رکھتا ہے.اس بات سے غافل نہیں ہوتا کہ میں نے ضرورت کے وقت پانی کی کمی کو کس طرح پورا کرنا ہے.پانی جمع رکھتا ہے تا کہ ضرورت کے وقت وہ پانی کام آئے.آپ نے فرمایا کہ مومن کو بھی ہر وقت سفر کے لئے تیار اور محتاط رہنا چاہئے.اور یہ تیاری اور احتیاط کس طرح ہوگی؟ یہ زادِ راہ کے ساتھ ہے.زادِ راہ رکھنے سے ہوگی.اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا مومن بھی اس دنیا میں مسافر کی طرح ہے اور بہترین زادِراہ مومن کے لئے تقویٰ ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 134 ) اعمال کو اور اپنی عبادتوں کو وہ رنگ ہمیں دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے لئے بہترین زادِ راہ ثابت ہوں.اس زمانے کے امام کو مان کر روحانی پانی ہمیں میسر آ گیا.اس کو سنبھالنا اور اس سے فائدہ اٹھا نا اب ہمارا کام ہے.پس اس حقیقت کو بھی ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے.کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جو کامل اطاعت کے ساتھ امام وقت کی باتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں اور یہی باتیں ہیں جو پھر خلافت کے انعام سے بھی فیض پانے والا بناتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خلافت کے فیض سے فیض پانے والے وہی بتائے ہیں جو عمل صالح کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، توحید کو قائم رکھنے والے ہیں.اور یہی وہ لوگ ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے کہلاتے ہیں.پس ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خلافت میں کبھی دنیاوی مقاصد ہو سکتے ہیں یا خلافت کا مقصد بھی دنیاوی مقاصد کی طرح ہے یا دنیا داروں کی طرح ہے.دنیاوی مقاصد حاصل کرنے والوں کا روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا.وہ تو تمام دنیاوی ساز وسامان کے ساتھ بھی بسا اوقات کا میاب نہیں ہوتے.ان کے دنیاوی مقاصد پورے نہیں ہوتے.کامیابی تو وہی ہے ناں جو آخری فتح مل جائے.وہ ان کو حاصل نہیں ہوتی.لیکن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں اور تقویٰ پر چلنے والوں کا مقصد دنیاوی ہار جیت نہیں ہے بلکہ کامل اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور تقویٰ میں بڑھنا ہوتا ہے.ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنا ہے.کوئی ذاتی نفع رسانی نہیں ہے.توحید
خطبات مسرور جلد 12 353 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014ء کا جھنڈالہرانا ہے.ہم نے دنیا کے دل جیت کر دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے.اسی مقصد کے لئے ہمارے تبلیغی پروگرام ہیں اور دوسرے پروگرام ہیں.اس کے حصول کے لئے ہماری دعاؤں کی طرف توجہ ہے اور ہونی چاہئے.پس خلافت تو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کام کر رہی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس کے لئے اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلافت ہے کیا؟ اور یہ بات اسی وقت سمجھ آئے گی جب کامل اطاعت پر یقین پیدا ہوگا.کوئی جتنا جتنا بھی اپنے آپ کو عالم مدبر یا مقرر سمجھتا ہے، اگر اطاعت نہیں ہے تو نہ ہی جماعت احمدیہ میں اس کی کوئی جگہ ہے، نہ اس کا یہ علم اور عقل دنیا کو کوئی روحانی فائدہ پہنچا سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتباع امام کو اپنا شعار بنادے.پس جب مکمل طور پر خلیفہ وقت کی پیروی اور اطاعت اختیار کر لیں گے.خلیفہ وقت کی طرف سے ملنے والی ہدایات اور حکموں پر عمل کریں گے اور ان کی تو جی ہیں اور تاویلات نکالنی بند کر دیں گے تو علم بھی اور عقل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے شمر آور ہوگی اور پھل پھول لائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تفسیر پر بنیادرکھتے ہوئے جب ہم باقی آیات جو میں نے تلاوت کی تھیں ان کو بھی دیکھیں تو مزید معانی کھلتے ہیں کہ روحانی آسمان کی بلندیوں کو بھی انسان اُسی وقت چھو سکتا ہے جب أطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء: 60) کے مضمون کو سمجھیں.اور جیسا کہ میں نے کہا عہدیداران اپنے آپ کو اولی الامر سمجھ کر اپنی اطاعت کروانے کے اس وقت تک حقدار نہیں کہلا سکتے جب تک خلافت کی کامل اطاعت اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے اور تاویلیں کرنے سے پر ہیز نہیں کرتے.بلکہ خلیفہ وقت کے ہر لفظ کو اپنے لئے قابل اطاعت سمجھ کر اس پر عمل کریں.بعض دفعه بعض معاملات تحقیق کے لئے جب بھیجے جائیں تو پہلی یہ کوشش ہوتی ہے کہ یہ پتا کرو کہ شکایت کس نے کی ہے.بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ بات سچ ہے یا غلط ہے.اگر تحقیق میں سچائی ہے تو اس کے لئے مداوا ہونا چاہئے اس کا حل ہونا چاہئے اور جو بھی کمی ہے اس کو پورا ہونا چاہئے اور غلط ہے تو پھر رپورٹ دے دی جائے کہ غلط ہے کسی نے یونہی بات کر دی تحقیق بعد میں کی جاتی ہے، پہلے اس شخص کا پتا کھوج لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کون ہے وہ یا کون نہیں ہے.اس سے کسی عہد یدار کو غرض نہیں ہونی چاہئے کہ کس نے شکایت کی ہے کس نے اطلاع دی ہے.آپ کا کام یہ ہے کہ جو ر پورٹ بھیجی جائے،
خطبات مسرور جلد 12 354 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014ء رپورٹ کے لئے کوئی بات بھیجی جائے اس پر تحقیق کریں اور اطلاع دیں.جہاں خلیفہ وقت کے کسی حکم کی واضح طور پر سمجھ نہ آئے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے وہاں یہ کہنے کی بجائے کہ اس کا یہ مطلب ہے اور وہ مطلب ہے مجھ سے لکھ کر پوچھیں کہ اس بات کی مزید وضاحت چاہئے ہمیں یہ واضح نہیں ہوئی.اس بات کا کیا مطلب ہے.اسی طرح ہر فرد جماعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کامل اطاعت کرے.جب ہر ایک کامل اطاعت کرے گا تو روحانی بلندیوں کی طرف ہمارے قدم انشاء اللہ بڑھیں گے.یہی اس آیت کا مطلب ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب روحانی بلندیوں پر جاؤ گے تو ایمان بھی اس طرح مضبوط ہوں گے جس طرح پہاڑ مضبوطی سے زمین میں گڑھے ہوئے ہیں اور اس روحانی عروج اور مضبوطی ایمان کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم زمین پر اسلام کا پیغام لے کر پھیل جاؤ گے.تمہاری ترقی انشاء اللہ تعالی مشرق میں بھی ہوگی اور مغرب میں بھی ہوگی.یورپ بھی تمہارا ہوگا اور ایشیا بھی.امریکہ بھی تمہارا ہوگا اور افریقہ بھی.آسٹریلیا میں بھی حقیقی اسلام کا جھنڈا لہرائے گا اور جزائر میں بھی.اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے میں ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں.یہاں میں نے یہ سنا ہے کہ ایک اعتراض کرنے والے کی یہ بات سن کر آپ میں سے بعض پریشان ہو جاتے ہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا کہ جرمنی فتح ہو گیا تو یورپ فتح ہو گیا.جلسہ پر یہ بینر لگا ہوا تھا تو کسی نے دیکھ کر یہ اعتراض کیا کہ گویا آپ یہاں جرمنی کو فتح کرنے آئے ہیں.ظاہراً آپ نرمی اور پیار کا نعرہ لگاتے ہیں اور لبادہ اوڑھا ہوا ہے لیکن آپ کے عزائم خطر ناک ہیں.یہ بات کہنے والے کی بھی بے سمجھی ہے.بے عقلی ہے یا شرارت ہے.اگر شرارت ہے تو خطر ناک ہے کہ اس طرح مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے، جماعت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے.اور سمجھانے والے کی بھی کم علمی ہے اور بلا وجہ کی پریشانی ہے کہ اس سوال سے پتا نہیں کیا ہو جائے گا.عمومی طور پر یہاں کے رہنے والے لوگ ، مقامی جرمن لوگ عقل رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو جماعت دنیا میں مشنری کام کر رہی ہے اور خدمت خلق کے کام کر رہی ہے تبلیغ اسلام کر رہی ہے تو اس لئے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتا کر انہیں اسلام سے قریب کرے اور اس میں شامل کرے.فتح کے لفظ سے قطعا یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ خدانخواستہ ہم نے تلوار چلانی ہے یا حکومتوں پر قبضہ کرنا ہے.ہم تو سب سے پہلے یہ اعلان کرتے ہیں کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں.یہ ہر ایک کے دل کا معاملہ ہے.پس اس میں پریشان ہونے والی تو کوئی بات نہیں ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہم دنیا میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.جرمنی کیا اور یورپ کیا ہمیں تو انشاء اللہ تعالی تمام دنیا کو فتح کرنا ہے.لیکن تلوار
خطبات مسرور جلد 12 355 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 جون 2014 ء سے نہیں بلکہ دل جیت کر.اسلام کی خوبصورت تعلیم سے دلوں کو گھائل کر کے.اگر حضرت مصلح موعود نے یہ فقرہ کہا تھا تو یہ تو جرمن قوم کی بڑائی بیان کی تھی.ایک جرمن نواحمدی کی دعوت پر یہ فقرات کہے گئے تھے کہ یورپ کے لیڈر جرمن ہیں.اس وقت آپ کے زمانے میں جرمن نواحمدی وہاں گئے تھے تو یہ ان کی بڑائی بیان ہو رہی ہے کہ یورپ کے لیڈر جرمن ہیں.ان میں لیڈرانہ صلاحیت ہے.اگر انہوں نے اسلام کو سمجھ لیا تو سمجھو کہ یہ تمام یورپ کو سمجھا سکیں گے اور پھر یورپ ان کی بات مانے گا.(ماخوذ از ہر عبدالشکور کنزے کے اعزاز میں دعوتوں کے مواقع پر تین تقاریر، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 69 مطبوعہ ربوہ ) حضرت مصلح موعود کی یہ بات سچ ہے.آج یہ ثابت ہو رہی ہے.یورپی یونین بنی ہوئی ہے.اس میں دیکھ لیں جرمنی کی لیڈرانہ صلاحیتیں ہی نظر آ رہی ہیں.ہر ایک اس کی طرف دیکھتا ہے.اب اس بات میں نہ تلوار کا سوال ہے نہ سختی کا سوال ہے بلکہ اسلام کی پیارو محبت کی تعلیم اور خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی تعلیم کی بات ہو رہی ہے.اس تعلیم کولوگوں کے دلوں میں بٹھانے کی بات ہو رہی ہے.پرسوں ویز بادن میں مسجد کا سنگ بنیاد تھا.چار سو سے اوپر وہاں کے مقامی لوگ آئے ہوئے تھے.جرمن مہمان آئے ہوئے تھے.میں نے مختصراً اسلامی تعلیم کے حوالے سے وہاں باتیں کیں.ہر ایک نے تقریباً یہی کہا کہ یہ پیغام ہم سب کے دل کی آواز ہے.انہوں نے کہا کہ ہمیں آج اسلام کو سمجھنے کا موقع ملا ہے.پس ہمیں یہ یادرکھنا چاہئے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اخلاص و وفا کے ساتھ اپنے کام کرتے رہے تو ان میں سے یا ان کی اگلی نسلوں میں سے لوگ اسلام کو سمجھیں گے اور داخل ہوں گے.جس کو اللہ چاہے گا اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.پس خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، نہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے، نہ مجھکنے کی ضرورت ہے، نہ ڈیفینسیو (defensive) ہونے کی ضرورت ہے، نہ ایسا جواب دینے کی ضرورت ہے جس سے خوف اور ڈر جھلک رہا ہو.نہ دنیاوی حکومتیں ہمارا مقصد ہیں اور نہ ہمیں ان کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں بٹھانا اور اس کے آگے جھکانا ہمارا کام ہے اور یہ کام انشاء اللہ ہم کرتے رہیں گے.پس اس کام کو کرنے کے لئے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی کو خلافت سے کامل اطاعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27 جون 2014 ء تا 03 جولائی 2014، جلد 21 شماره 26 صفحہ 09/05)
خطبات مسرور جلد 12 356 24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفه امس الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء بمطابق 13 احسان 1393 ہجری شمسی بمقام کالسروئے.جرمنی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جرمنی کا جلسہ سالانہ اس خطبہ کے ساتھ شروع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسے کی حاضری میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے.امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس سال بھی ہوگا اور ہونا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس کی بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ تمام احمدیوں کو اس جلسہ میں شامل ہونا چاہئے.پس جس طرح جماعت کی تعداد بڑھ رہی ہے جلسے کی حاضری بھی بڑھنی چاہئے اور اس کی خاطر تکلیف اٹھا کر بھی لوگوں کو آنا چاہئے.آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جلسے کے موقع عطا فرمائے ہوئے ہیں.پاکستان میں جلسے پر پابندی ہے تو وہاں کے احمدی بے چین ہو جاتے ہیں کہ کاش یہ پابندیاں ختم ہوں تو ہم بھی جلسے منعقد کریں اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو جلسے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں.ہم بھی ان دعاؤں کے حاصل کرنے والے بنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے کیں.یہاں بعض مہمان عورتیں بھی اور مرد بھی پاکستان سے آئے ہوئے ہیں جو مجھے ملے ہیں، روتے ہوئے بعض کی ہچکی بندھ جاتی ہے کہ ہم ان نعمتوں سے محروم ہیں.یہ دعا کریں کہ ہمیں بھی یہ نعمتیں ملیں.بہر حال جیسا کہ ہمیشہ کہتا ہوں کہ پاکستان کے احمدیوں کو اگر جلد ان مشکلات سے نکلنا ہے تو پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے.اللہ تعالیٰ جلد فضل کے سامان پیدا فرمائے.ظالموں کے ظلم اور دشمنوں کی مخالفتوں سے ہمیں نجات دے.یہ سب کچھ دعاؤں سے ہونا ہے.یہ چیز حاصل کرنے کا اس کے
خطبات مسرور جلد 12 357 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں.بہر حال میں آپ لوگوں سے جو یہاں رہنے والے ہیں یہ کہ رہا تھا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے یہ سامان پیدا فرمائے کہ جلسے منعقد کرتے ہیں.ہر طرح کے اجتماعات کرتے ہیں.ہر سطح پر اجلاسات منعقد کرتے ہیں.پس اس بات پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں اور شکر گزاری یہ ہے کہ جلسے کے پروگراموں سے بھر پور فائدہ اٹھا ئیں.جلسہ کے دنوں میں بھی اور پھر بعد میں بھی جو نیک باتیں یہاں دیکھیں اور سنیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کا مقصد صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرنا اور فقط دین کو چاہنا بتایا ہے.(ماخوذ از شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحه 395) یعنی ہر شخص جو جلسہ میں شامل ہوتا ہے اس نیت سے شامل ہونے کے لئے آئے کہ تھوڑی بہت مشکلات تکلیفیں اگر برداشت بھی کرنی پڑیں تو کرلیں گے اور کوئی بے صبری کا کلمہ منہ سے نہیں نکالیں گے کہ ہم سے یہ سلوک ہوا اور وہ سلوک ہوا.اول تو عموماً یہاں ڈیوٹی دینے والے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جن میں کمی ہے انہیں میں دوبارہ یاد دہانی کروادیتا ہوں کہ صبر سے اور برداشت سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے فرائض ادا کریں اور ساتھ ہی شاملین جلسہ سے بھی میں کہوں گا کہ یہاں جلسہ پر آنا صرف اس مقصد کے لئے ہونا چاہئے کہ اس نے یا آپ نے دین سیکھنا ہے اور اس ماحول میں اپنی روحانی ترقی کے سامان کرنے ہیں.اور پھر اس روحانی ترقی میں اپنی نسلوں کو بھی شامل کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد کو ہمیشہ محسوس کرتے رہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھوں کو پاک کرو اور ان کو روحانیت کے طور سے ایسا ہی روشن کرو جیسا کہ وہ ظاہری طور پر روشن ہیں.فرمایا: ”انسان اس وقت سو جا کھا کہلا سکتا ہے جب کہ باطنی رؤیت یعنی نیک و بد کی شناخت کا اس کو حصہ ملے اور پھر نیکی کی طرف جھک جائے.فرمایا: ”نجات انہیں کو ہے کہ جو دنیا کے جذبات سے بیزار اور بری اور صاف دل تھے.فرمایا کہ ”جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے.جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی بیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود و قیام نہ ہو.فرمایا کہ دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کے لئے
خطبات مسرور جلد 12 اپنے وجود سے دست بردار ہو.66 358 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014ء پھر آپ نے یہ بھی دعا دی کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے“ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 397_398) پس ہماری عملی اصلاح کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دعائیں ہیں.یہ دلی جذبات ہیں.یہ درد ہے.اور ان جلسوں کا مقصد بھی یہی عملی اصلاح ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ موقع عطا فرمایا ہے کہ ان تین دنوں میں اپنی عملی اصلاح کے جائزے بھی لیتے رہیں اور اس طرف توجہ بھی دیں.ہمارے یہ معیار اس وقت قائم ہوں گے جب ہم ایک فکر کے ساتھ اس کی کوشش کریں گے.آپ علیہ السلام کا ایک ایک فقرہ اور ایک ایک لفظ درد انگیز اور ہمیں ہلا دینے والا ہے.فرمایا اپنی روحانی آنکھوں کو اس طرح روشن کر و جس طرح تمہاری یہ مادی آنکھیں روشن ہیں.ہماری آنکھوں کو ذراسی تکلیف پہنچے تو ہمیں بے چین کر دیتی ہے.فوراً ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں.آنکھوں کی ذراسی دھندلا ہٹ ہمیں پریشان کرتی ہے.اس کے لئے ہم کتنا تردد کرتے ہیں.ہرایسی چیز سے اپنی آنکھوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں جو ہماری نظر پر اثر ڈالنے والی ہو.برا اثر ڈالنے والی ہو.کیا یہی کوشش ہم اپنی روحانی آنکھ کی روشنی اور اس کو صحت مند رکھنے کے لئے کرتے ہیں؟ ان تین دنوں میں اگر ہم تو جہ بھی دے رہے ہوں تو اس کے بعد باہر جا کر ہم پھر ایسے کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیں جو ہمارے روحانیت پر منفی اثر ڈالتے ہیں.پس روحانی آنکھ کی روشنی چند دنوں کی بات نہیں بلکہ یہ تین دن تو اس روشنی کے قائم رکھنے کے لئے علاج کے طور پر ہیں.اگر اس علاج کے بعد پھر بے احتیاطی ہوگی تو روحانی آنکھ کی روشنی متاثر ہوگی.اس لئے آپ نے فرمایا کہ حقیقی سو جا کھا وہی ہے جو نیک و بد میں پہچان کرنے والا ہو اور پھر جب پہچان ہو جاوے تو نیکی کی طرف جھک جاوے.پھر وہ نیکیاں سرزدہوں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اور ان نیکیوں میں جہاں خدا تعالیٰ کی عبادت ہے وہاں خدا تعالیٰ کی مخلوق کا حق بھی ہے.اب ایک مثال دیتا ہوں ایک حق جس کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے جماعت میں پریشانی بڑھتی چلی جا رہی ہے.جس کی عدم ادائیگی نے نہ صرف گھروں میں بے سکونی پیدا کی ہوئی ہے بلکہ کئی لڑکیاں جو پاکستان سے یا کئی دوسری جگہوں سے شادی ہو کر یہاں آتی ہیں ان کو اپنے گھروں سے دوری نے بھی انتہائی تکلیف میں مبتلا کیا ہوا ہے.پھر پاکستان میں جو اُن کے ماں باپ ہیں ان کی پریشانی کی وجہ سے ان
خطبات مسرور جلد 12 359 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء کی نیندیں الگ اڑ رہی ہیں.گو بعض لڑکوں سے بھی یہ زیادتیاں ہو رہی ہیں اور لڑکی یالڑکی کے ماں باپ یہ زیادتیاں کر رہے ہیں.ماں باپ کا کرداران زیادتیوں میں زیادہ ہے لیکن مرد پھر بھی مرد ہونے کی وجہ سے اپنے نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کر لیتا ہے.گو تکلیف سے ہی سہی لیکن اس کا یہ وقت گزر ہی جاتا ہے لیکن عورت کو تو معاشرے کی نظریں بھی تکلیف دے رہی ہوتی ہیں.اور پھر جیسا کہ میں نے کہا پیچھے بیٹھے ہوئے اس کے والدین الگ پریشان ہو رہے ہوتے ہیں.پس ایسے لوگوں کو جو جان بوجھ کر بلا وجہ صرف اپنی ذاتی اناؤں کی وجہ سے ایسی حرکتیں کر رہے ہوں چاہے کوئی بھی فریق ہوا انہیں خدا کا خوف کرنا چاہئے.پھر بعض دفعہ عہدے دار بھی خدا کا خوف نہیں کرتے اور غلط طرف داریاں کر کے اس فلم میں شامل ہو جاتے ہیں.پس خدا کا خوف رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے آپ کو روحانی بیماریوں سے بچانے کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا کہ نجات انہی کو ہے جو دنیا کے جذبات سے بیزار اور بری اور صاف دل ہیں.پس ان درد بھرے الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے.کیا ہمارے دل دنیا کے جذبات سے بیزار ہیں یا دنیاوی جذبات ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہر قسم کی برائیوں سے بچے ہوئے ہیں؟ کوئی ہمارے حقیقی عمل کو جانتا ہے یا نہیں جانتا.ہم کیا کرتے ہیں یہ کسی کو پتا ہے یا نہیں پتا لیکن کیا خدا کو حاضر ناظر جان کر ہم اپنے آپ کو ہر قسم کی گندگیوں اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچا کر خدا تعالیٰ کی نظر میں بری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے دل خدا تعالیٰ کے حق ادا کرنے اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرنے میں صاف ہیں؟ یا کم از کم ہم انہیں حتی المقدور صاف رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اور اس کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد بھی مانگ رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ہماری حالت قابل فکر ہے.کیا ہمارے سجدے فروتنی اور عاجزی کے سجدے ہیں؟ فروشنی کا سجدہ وہ ہے جو اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوتا ہے.ظاہری سجدوں کا حال تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دیا کہ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (الماعون : 5).کہ ظاہری سجدے کرنے والے نمازیوں پر ہلاکت ہے.خدا نہ کرے خدا نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مور د بن کر ہلاکت میں پڑے لیکن خدا تعالیٰ بے نیاز ہے.ہمیشہ اس کے خوف کی ضرورت ہے.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.وہ قیام اور رکوع وسجود ہمیں کرنے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں جن کے نمونے قائم کروانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تھے.
خطبات مسرور جلد 12 360 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء آپ نے وضاحت بھی فرما دی کہ قیام رکوع و سجود ہیں کیا ؟ کس طرح کئے جاسکتے ہیں؟ فرما یا دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو.دل کا قیام اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کے حکموں پر قائم ہو جاؤ گے.اللہ تعالیٰ کے حکم کون سے ہیں وہ حکم ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اور قائم ہونا یہ ہے کہ ان کو اس مضبوطی سے پکڑے رکھنا کہ کبھی نہ گریں.نہ آپ گریں نہ آپ سے وہ دور ہو جائیں.کبھی ان کا سہارا نہ چھوٹے.کبھی انہیں تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں.دل کا رکوع یہ ہے کہ ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کے حضور جھکے.کوئی دنیاوی وسیلے کوئی دنیاوی ذریعے یا خیال دل میں پیدا نہ کریں کہ ان سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے.پھر دل کا سجدہ کیا ہے؟ فرمایا دل کا سجدہ یہ ہے کہ اپنے وجود سے دست بردار ہو جاؤ.خدا تعالیٰ کے رضا کی حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دو.اپنے جذبات کو قربان کر دو.اپنے عزیزوں کی قربانی دو.تعلقات کی قربانی دو.اپنی اناؤں کو قربان کر دو.اپنی غیرتوں کی جھوٹی غیرتوں اور جھوٹی اناؤں کی قربانی دو.یعنی وہ باتیں جو تم غیرت سمجھتے ہو لیکن یہ غیرت خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہے اس کو قربان کرنا ہو گا.غیرت دکھانی ہے تو دین کی غیرت ہونی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف کوئی چلانے کی کوشش کرے تو وہاں غیرت دکھانی چاہئے.گویا کہ ہمارے ہر عمل ایسے ہو جا ئیں یا انہیں ایسا کرنے کی کوشش میں ہم لگ جائیں جو ہمارے دلوں کو پاک کرنے والی ہو.آپ فرماتے ہیں: میں تو اپنی جماعت سے یہ چاہتا ہوں اور امید بھی کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے افراد جماعت کی یہ حالت کر دے گا.آپ نے فرمایا جو اس حالت کے حصول کے لئے کوشش نہیں کرتے ان کا پھر میرے ساتھ کوئی تعلق بھی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی بھی کبھی ان لوگوں میں شامل ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنا تعلق توڑنے والے ہوں بلکہ ہم میں سے ہر ایک اس کوشش میں ہو کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تعلق کو کس طرح مضبوط سے مضبوط تر کر سکتے ہیں.پس جلسہ پر آنے والے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ان دنوں میں اپنے جائزے لیں ، دیکھیں کہ کس حد تک ہم وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں.جلسہ کے دنوں میں یہ ماحول اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کے عملی اظہار ہو سکتے ہیں اور پھر ان عملی اظہاروں کو زندگی کا مستقل حصہ بنانے کی کوشش ہو.انشاء اللہ تعالیٰ اس مہینہ کے آخر میں رمضان کا مہینہ بھی شروع ہورہا ہے جو عملی تربیت کا مہینہ ہے.اگر ان دنوں کی برکتوں کو رمضان المبارک کی عظیم برکتوں سے جوڑنے کی کوشش کریں تو ایک روحانی انقلاب
خطبات مسرور جلد 12 361 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء ہم میں پیدا ہوسکتا ہے.اور اگر اس نیت سے جلسے پر نہیں آئے یا یہ دن کوئی تبدیلی پیدا کرنے والے نہ بن سکے یا ان کے لئے کوشش نہ کی تو اس جلسے پر آنا نہ آنا ایک جیسا ہے.بلکہ بعض دفعہ نقصان کا باعث بھی بن جاتا ہے.ایک مجمع ٹھوکر کا باعث بھی بن جاتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا ایک شخص کا ایک واقعہ بیان کرتے تھے کہ جس کی بدبختی کی وجہ سے اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ الٹا ایمان ضائع کر کے چلا گیا.اس لئے کہ اس کی انا اور اس کی جھوٹی نیکی کا اظہار اس کے آڑے آ گیا.واقعہ یوں ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لاتے تھے تو لوگ زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے تھے کہ آپ کے قریب تر ہو جائیں اور آپ کی باتیں سنیں اور ان سے فیض اٹھا ئیں.اپنی روحانیت کی تسکین کریں.اس کو بڑھانے کی کوشش کریں.ایسی ہی ایک مجلس میں ایک شخص آیا اور آ کے مسجد میں ایک طرف یا تقریباً بیچ میں ہی سنتیں پڑھنی شروع کر دیں.اور اتنی لمبی سنتیں پڑھنی شروع کر دیں کہ اس کے ارد گرد جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب ہونا چاہتے تھے، ان میں بے چینی شروع ہو گئی.آخر بعض دوسرے جو دوسری طرف سے آ رہے تھے قریب آنے شروع ہوئے تو انہوں نے بھی جرات کی اور آگے بڑھنے شروع ہو گئے.تو بعض لوگ جب تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے تو کسی کی کہنی اس سنتیں پڑھنے والے شخص کو لگ گئی.اس پر وہ کہنے لگا کہ یہ اچھا نبی اور مسیح موعود ہے کہ اس کی مجلس کے لوگ نماز پڑھنے والوں کو ٹھوکریں مارتے ہیں.سخت ناراض ہوا اور مرتد ہو کے چلا گیا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 11 صفحہ 544 تا 546 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 1919ء) یہ اس کی بد بختی تھی.وہی مجلس جولوگوں کے ایمانوں میں اضافہ کر رہی تھی ، ایمان میں ترقی کا باعث ہو رہی تھی اس کے لئے ٹھوکر کا باعث بن گئی.پس اس کا یہ عمل ظاہر کر گیا کہ اس کے رکوع وسجود دکھاوے کے لئے تھے.اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مجلس جس میں تازہ مائدہ اتر رہا ہو اور روحانی خزائن تقسیم ہورہے ہوں اس کو چھوڑ کر وہاں اپنی نمازوں کے اظہار میں لگ گیا اور اس عمل نے اس کا ایمان بھی ضائع کر دیا.پس گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس تو اب نہیں ہیں لیکن آپ کی تعلیم کی روشنی میں یہی باتیں ہوتی ہیں.قرآن کریم کی تفسیریں بیان ہوتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں تربیت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.معین پروگرام ہوتے ہیں.نمازیں بھی ہیں اور تہجد بھی ہے.سارے پروگرام اپنے وقت پر ادا کئے جاتے ہیں ہر پروگرام میں اس کے وقت پر ہر ایک کو شامل ہونا چاہئے اور
خطبات مسرور جلد 12 362 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر نمازیں کسی وجہ سے رہ بھی گئی ہیں تو ایک کونے میں جا کر ادا کرنے کی کوشش کریں.تا کہ نہ آپ کی وقت پر ادا نہ کی گئی نمازیں متاثر ہوں اور نہ لوگوں کو بیٹھنے میں دقت ہو کہ وہ آرام سے جلسے کی کارروائی بھی سن سکیں.یا درکھیں عمل صالح وہ عمل ہے جو موقع اور محل کے حساب سے ہے.ورنہ غلط موقع پر کیا گیا عمل غلط نتائج کی وجہ سے ایمان میں ٹھوکر کا باعث بھی بن سکتا ہے.اگر وہ نماز پڑھنے والا شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو سمجھ کر اپنی نماز کومختصر کر کے آپ کی مجلس میں بیٹھتا تو یہ عمل اس کا زیادہ صالح عمل ہوتا اور وہ ایمان ضائع کرنے سے بچ جاتا.اس بات سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ صبر اور برداشت ایمان ضائع ہونے سے بھی بچاتی ہے.ان دنوں میں آ کر آپ کو جائز تکلیف بھی کسی سے پہنچے.صرف کہنی لگنے کا سوال نہیں.بڑی تکلیف بھی ہو تو تب بھی صبر اور برداشت سے کام لیں اور اس نیک مقصد کے حاصل کرنے کی طرف توجہ دیں جس کے لئے آپ یہاں آئے ہیں.جلسوں پر بعض دفعہ اس بے صبری کی وجہ سے بعض لوگ ایک دوسرے سے سختی بھی کرتے ہیں اور لڑائی تک نوبت آ جاتی ہے.اور نتیجہ لڑنے والوں کے خلاف پھر جب پتا لگتا ہے تو تعزیری کارروائی بھی ہوتی ہے جو بعض دفعہ ان کو مزیدٹھوکر لگاتی ہے کیونکہ پھر انا غالب آ جاتی ہے.ایمان بھی ضائع ہوتا ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا یہ جلسہ فیض کے بجائے اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والا ہو جاتا ہے.نقصان کا باعث بن جاتا ہے.ایمان کے ضائع ہونے کا باعث بنتا ہے، لیکن اگر صبر ، برداشت اور جلسے میں شمولیت کا حقیقی مقصد پیش نظر ہو تو نہ صرف اپنے ایمان میں ترقی ہوتی ہے بلکہ بہتوں کے ایمان میں ترقی اور ہدایت کا موجب بھی انسان بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیائے احمدیت میں اب ہر جگہ جلسے منعقد ہوتے ہیں.بیسیوں ممالک میں جلسے منعقد ہوتے ہیں جو جماعتیں بڑھی ہیں.حضرت مسیح موعود کے ماننے والے جو مختلف قوموں اور نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی وجہ سے جو دنیا میں جو ہدایت پھیل رہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں بھی جھکانے والا بناتی ہے.اگر کوئی بد بخت ایمان ضائع کرنے والا ہوتا ہے تو سینکڑوں خوش قسمت ایمان لانے والے بھی ہوتے ہیں.اس کی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی تھیں اور آج بھی ہیں.اس وقت میں ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ وہ لوگ ہدایت کا باعث بنے جو ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں لیکن ایمان میں ترقی کر رہے ہیں.ان میں سے اکثریت نے شاید خلیفہ وقت کو بھی نہ دیکھا ہو اور جنہوں نے دیکھا ہے انہیں بھی پچیس تیس سال کا عرصہ ہو چکا ہے.لیکن ہدایت کا باعث یہ لوگ کس طرح بن رہے
خطبات مسرور جلد 12 363 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء ہیں، ایمان میں کس طرح بڑھ رہے ہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.سیرالیون کا ایک واقعہ ہے.وہاں کے کوٹ لوکو ریجن کے معلم لکھتے ہیں کہ کافح (Kaffeh) چیفڈم کے چیف امام اور ڈپٹی چیف امام شیخ آدم جماعت کے بہت مخالف تھے.ہمارے لوکل معلم شیخ ابراہیم تورے صاحب ان سے جماعتی مسائل پر بات چیت کرتے رہتے تھے.جلسہ سیرالیون قریب آیا تو معلم سے کہا کہ چیف امام اور ڈپٹی چیف امام کو جلسے پر بطور مہمان آنے کی دعوت دیں.چیف امام نے تو انکار کر دیا لیکن ڈپٹی چیف شیخ آدم جو تھے انہوں نے دعوت قبول کر لی اور پھر یہ جلسے پر تشریف لائے.وہاں بو(Bo) میں جلسہ ہوتا ہے.یہ جو ڈپٹی چیف امام شیخ آدم تھے ، کہتے ہیں کہ میں سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ کس بات کے لئے اتنا خرچ کر کے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں لیکن جلسے کے پہلے دن جب لوگ نماز تہجد کے لئے اکٹھے ہوئے جو ایک بہت بڑا مجمع تھا اور جب نماز تہجد میں قرآن کریم سنا اور لوگوں کو خدا کے حضور دعائیں کرتے ہوئے روتے دیکھا تو میرا دل پگھل گیا کہ یہ نشانیاں اور لوگوں کا عبادت میں اس طرح مشغول ہونا بتاتا ہے کہ یہ سچے لوگ ہیں اور یہ سچے لوگوں کی جماعت ہے.دنیاوی اور جھوٹے لوگوں کی جماعت کے لوگ اس طرح کے نہیں ہوتے.پھر مبلغ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے پہلے سیشن کے بعد ان سے پوچھا کہ آپ کو یہ جلسہ کیسا لگا، کیا محسوس ہوا ؟ انہوں نے بتایا کہ میں احباب جماعت اور جماعتی روایات سے بہت متاثر ہوا ہوں اور احمدی ہو گیا ہوں اور میرے تمام شبہات دور ہو گئے ہیں.واپس جا کر اپنے علاقے میں بھی تبلیغ کرنے لگے کہ حقیقی اسلام یہی ہے جس پر جماعت احمد یہ عمل کر رہی ہے اور پھیلا رہی ہے.ان کے امام ان سے ناراض ہو گئے اور ان کو نکال بھی دیا.انہوں نے کہا کہ حق مجھے مل گیا ہے.اب میں جماعت کے لئے سب کچھ چھوڑ دوں گا اور سچائی کا ساتھ دوں گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں ان کے ذریعہ سے بہت سے لوگ احمدی بھی ہوئے ہیں.تو ایک جلسے نے ایک شخص کو احمدی بنایا جس کی وجہ سے پھر سینکڑوں لوگوں کو احمدی ہونے اور زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق ملی.اب شیخ آدم صاحب جو ہیں کیونکہ وہ جلسے کی وجہ سے احمدی ہوئے تھے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ بھی یہ لگالیا.شیخ آدم جلسہ سالانہ.پس جلسے کئی آدم پیدا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کی حالتوں میں تبدیلی پیدا کر کے نئی زمینیں اور نئے آسمان بنا رہا ہے.پس ہمیں بھی فکر کرنی چاہئے کہ ہم لوگ جن میں سے اکثریت پیدائشی احمدیوں کی ہے اپنی حالتوں کو درست کریں.یہاں بہت سے
خطبات مسرور جلد 12 364 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء اسائلم سیکر بھی اب آگئے ہیں وہ صرف یہ نہ سمجھیں کہ دنیا کمانے کے لئے دنیا وی غرض سے آئے ہیں.اگر جماعت کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان سے آئے ہیں تو یہاں پھر جماعت کے سفیر بن کر اپنا کردار ادا کریں اور اپنے عملوں سے اس بات کا اظہار کریں جو جماعت کی حقیقی تعلیم ہے.دنیا کما میں بے شک لیکن دنیا میں پڑنے کے بجائے ، دنیا میں ڈوب جانے کے بجائے اپنی روحانیت کی طرف بھی توجہ دیں.بہر حال یہ جلسوں کی برکات ہیں جو دنیا میں ظاہر ہو رہی ہیں.دنیائے احمدیت میں اب نیکیوں میں سبقت لے جانے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے.پس آپ لوگ بھی کوشش کریں کہ اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں.ایک زمانہ تھا کہ جب شہروں کے مقابلے ہوتے تھے.اب تو ملکوں کے مقابلے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے وہی ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے درد کو سمجھتے ہوئے اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.یہاں میں کچھ باتیں کارکنان اور خاص طور پر ان کارکنان کو جن کے سپر دمہمان نوازی ہے کہنا چاہتا ہوں.یادرکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب وَشِعُ مَكَانَكَ کا الہام ہوا تو اس لئے کہ آپ کے مہمان جو پہلے ہی کافی تعداد میں آپ کے پاس آتے تھے، اور جن کی مہمان نوازی آپ ہر ایک کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے کرتے تھے اس میں مزید اضافہ ہوتا رہا.یہ الہام آپ کو شروع دعوی میں ابتدائی زمانے میں بھی ہوا اور کئی مرتبہ ہوا اور آخر تک مختلف شکلوں میں یہ ہوا ہے.تذکرہ صفحہ 41، 246، 395، 624،541 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) پس یہ وَشِعُ مَكَانَك كا پیغام جو ہے آپ کے ماننے والوں کے لئے بھی ہے اور یہ اس وقت آپ کے ساتھ کام کرنے والے جو آپ کے کارندے تھے ان کے لئے بھی تھا کہ یہ وسعت جو مکانیت میں ہوگی ، مہمان نوازی میں بھی اضافے کا باعث بنے گی.اب یہاں بھی جرمنی میں جو وسعت ہو رہی ہے، نئے مشن بن رہے ہیں ، یہاں مساجد بن رہی ہیں، اس وجہ سے مہمان نوازی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا.پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تم لوگ جو کام کرنے والے ہو، تم جو مسیح موعود کو ماننے والے ہو، تم تھک نہ جانا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو پہلے ہی بہت کھلے دل کے تھے اور مہمانوں کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ مہمانوں کے آنے سے نہ تھکنا ہے، نہ پریشان ہونا ہے ( الفاظ میرے ہیں مفہوم یہی ہے ) آپ کے لئے تو تھا ہی آپ کے ان کارندوں کے لئے بھی ہے جن کے سپر د اللہ تعالیٰ نے مہمان نوازی کی ہے، جو آپ کے زمانے میں بھی تھے اور آپ کے بعد آنے والے بھی ہیں.یہ ان کے لئے برکتیں
خطبات مسرور جلد 12 365 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء حاصل کرنے کے مواقع ہیں.پس ان خدمتوں کے کرنے والوں کو وسع مكانك كے اللہ تعالیٰ کے حکم کو آج بھی پورا کرنے کے لئے اپنے دلوں کو بھی مہمانوں کے لئے وسیع کرنا ہوگا.انگر خانہ تو آپ کے اہم کاموں میں سے ایک کام تھا اور آج بھی جو لوگ خاص طور پر جب خلیفہ وقت کی موجودگی ہو آتے ہیں تو اس لئے کہ خلیفہ وقت کے قریب ہوں، کچھ دن گزار ہیں.اس لئے ان دنوں میں مہمانوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے.صرف جلسہ پر ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی.قرآن کریم نے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کی خبر دی ہے اور یہ بتایا کہ مہمان کے لئے یہ نہیں پوچھنا کہ مہمان نوازی کروں یا نہ کروں اور کسی بھی قسم کے خرچ سے ڈرنا نہیں ہے.مہمان نوازی کرنی چاہئے ، اس کے آرام کا خیال رکھنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خاص طور پر مہمان نوازی کی تلقین فرمائی ہے.آپ کا چہرہ اس وقت خوشی سے دمک جا تا تھا جب آپ کو پتا چلتا تھا کہ آج مدینہ میں رہنے والے آپ کے صحابہ نے باہر سے آنے والے مہمانوں کے آرام کا خیال رکھا ہے اور اپنے سے زیادہ ان کے آرام کا خیال رکھا ہے اور اپنی توفیق سے بڑھ کر ان کا خیال رکھا ہے اور ان کی مہمان نوازی کی ہے.(صحيح البخارى كتاب مناقب الانصار باب قول الله عز وجل ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة...حديث نمبر 3798) (مسند الامام احمد بن حنبل جلد 6 صفحه 503-502 مسند جریر بن عبدالله حدیث نمبر 19388 عالم الكتب بيروت 1998ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں کہ لنگر خانوں کے کارکنوں سے ناراض ہو کر چلے جانے والے مہمانوں کے پیچھے بڑے لمبے فاصلے تک آپ گئے اور انہیں واپس لے کر آئے.پھر ان کا سامان خود ٹانگے سے اتارنا شروع کیا تو کارکنوں نے آگے بڑھ کر سامان لے لیا.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 4 صفحہ 161 - 160 مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) یہ سب کچھ اس لئے کہ آپ مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار جہاں قائم کرتے تھے وہاں اپنے ماننے والوں کو سکھانا بھی چاہتے تھے.یہ باتیں صرف ہمارے پڑھنے سنے اور لطف اٹھانے کے لئے ہیں نہیں بلکہ عمل کرنے کے لئے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے قیام سے پہلے بھی
خطبات مسرور جلد 12 366 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء وَسْع مَكَانَكَ کی خبر دی تھی ، لوگوں کے آنے کی خبر دی تھی.لیکن پھر دوبارہ بار بار اس کی تجدید فرمائی.آخر تک آپ کو الہام ہوتے رہے.1907ء میں بھی ہوا.اس لئے کہ آپ کے بعد آپ کی جماعت اس کی اہمیت کو سمجھے.پس یہاں کی انتظامیہ کو بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مہمان نوازی کی اہمیت کو سمجھیں.ایک مہمان نوازی تو یہ ہے جو یہاں جلسے کے دنوں میں ہو رہی ہے.تیں بنتیس ہزار افراد کا کھانا پکانا ہے.ان کو کھانا کھلانا ہے اسلئے ایک وقت میں ایک سالن پکتا ہے، ساتھ روٹی ہوتی ہے.اس کا خیال تو رکھنا چاہئے کہ جہاں ہر فرد تک یہ کھانا پہنچے، ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق ملے اور عزت کے ساتھ اس کو یہ کھانا کھلایا جائے وہاں یہ بھی احتیاط ہو کہ ضیاع بھی نہ ہو.لیکن ضیاع سے بچنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس گرمی میں ایک وقت کے بچے ہوئے کھانے کو دوبارہ لوگوں کو کھلا دیں اور بیمار کر دیں.ہمارے دوسری مہمان نوازی جیسا کہ میں نے کہا عام دنوں کی ہے اور اس عام دنوں کی مہمان نوازی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مہمانوں کی ہر ضرورت اس کے مزاج کے مطابق مہیا کرنے کی کوشش فرماتے تھے.پس متعلقہ انتظامیہ کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.کسی کو کھانا کھلا کے مہمان نوازی کا کوئی حق نہیں ادا ہو گیا بلکہ مہمان کی خدمت کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا.ہمارے بہت سے غیر مہمان ے فنکشن میں شامل ہوتے ہیں.ان پر ہماری مہمان نوازی کا بھی دنیا میں مختلف جگہوں پر بہت اثر ہوتا ہے جس کا ذکر بھی وہ کرتے ہیں.جرمنی کی جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد بنارہی ہے اور مساجد کے فنکشنز میں مہمانوں کے لئے مہمان نوازی کا انتظام بھی ہوتا ہے.دوسرے مہمان بھی آتے ہیں.اکثر جگہ پر چائے وغیرہ کی حد تک تو ٹھیک ہے کافی بہتر انتظام ہوتا ہے لیکن بیٹھنے کا انتظام میرے نزدیک ٹھیک نہیں ہوتا.کہتے یہ ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو بنچوں پر بیٹھنے کی عادت ہے اس لئے لکڑی کے بینچ رکھے جاتے ہیں اور اچھے اچھے معزز لوگ اس پر بیٹھے ہوتے ہیں.عادت ہو بھی تو ہمارے مہمان نوازی کے معیار بہتر ہونے چاہئیں.اگر عادت ہے تو پھر آپ لوگوں کو یہاں بھی اس عادت کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ کرسیاں جہاں رکھی ہوئی ہیں اس کی جگہ بینچ رکھنے چاہئیں.اپنے لئے اور معیار ہیں مہمانوں کے لئے اور معیار ہیں.اب اس کا یہ مطلب بھی نہ لے لیں کہ آئندہ سال کے لئے کرسیاں اٹھا کر بیچ رکھنے شروع کر دیں.میرا مطلب صرف یہ ہے کہ وہاں معیار بہتر کریں.یہاں کرسیاں ہی رہنے دیں.افسر صاحب جلسہ سالا نہ فوراً اپنے بجٹ میں کمی کی کوشش کریں گے.بہر حال شریفانہ طور پر مہمانوں کو بٹھانے کا انتظام ہونا
خطبات مسرور جلد 12 367 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء چاہئے.ہمارے مہمان نوازی کے جو اعلیٰ معیار کے طریق ہیں وہ نظر آنے چاہئیں جس کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے.یہ چائے وغیرہ کا میں نے ذکر کیا، ہلکی پھلکی ریفرشمنٹ دی جاتی ہے، وہاں کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اس میں بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ یہاں کے لوگوں کو کیا پسند ہے.لیکن اگر کھانے کی دعوت ہو اور غیر مہمان بلائے ہوں تو پھر ان کے مزاج کے مطابق کھانا بھی ہونا چاہئے، ہلکی مرچ کا کھانا بھی ہونا چاہئے اور ایسا ہو جو یہ پسند کرتے ہیں.حلال اور طیب کھانے بھی ان کے مزاج کے مطابق بنائے جاسکتے ہیں.چند دن پہلے میونخ میں مسجد کا افتتاح تھا.وہاں ممبر آف پارلیمنٹ بھی میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ڈسٹرکٹ گورنر اور میئر اور مختلف لوگ تھے.ان کے لئے تو تھوڑا سا کھانا جو چند ایک کے لئے تھا نسبتا بہتر تھا لیکن عمومی طور پر ڈھائی تین سو کے قریب جرمن لوگ آئے ہوئے تھے اور اچھی تعداد تھی اور معززین تھے.ان کے لئے کھانا جو مجھے نظر آ رہا تھا وہ بالکل ایسا تھا جیسے ٹالنے کی کوشش کی گئی ہے.بعض لوگوں نے شاید کھانا کھایا بھی نہیں.ایک فنکشن ہوتا ہے جس میں معززین بلائے جاتے ہیں.لوگ اس لئے بھی آتے ہیں کہ خلیفہ وقت کی موجودگی ہے.ان کی مہمان نوازی کا تو حق ادا کیا کریں.اگر مقامی جماعت خرچ نہیں کر سکتی تو ملکی مرکز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مہمان نوازی کرے.بہر حال فنکشن تو بہت اچھا تھا، کافی لوگ تھے.جو ہال میں بیٹھنے کی جگہ انہوں نے لی ہوئی تھی وہ بھی اچھی تھی.اس کی تفصیل تو بعد میں بیان کروں گا لیکن بہر حال جو کمی تھی اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے کیونکہ نہیں تو پھر ہمیں عادت پڑ جائے گی.پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ جو مہمان خاص طور پر ان دنوں میں آتا ہے جب میں یہاں آؤں تو میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ان کی احسن رنگ میں مہمان نوازی آپ کا فرض ہے.اور یہ مستقل مہمان نوازی کرنے کی جو ضیافت کی ٹیم ہے ان کا فرض ہے اور جس جس شہر میں جایا جائے وہاں کے مقامی لوگوں کا فرض ہے.اور کسی قسم کے ایسے اظہار کے بغیر مہمان نوازی کرنی چاہئے کہ مہمان بوجھ بن رہے ہیں.جس سے کسی بھی قسم کی جذباتی تکلیف کسی کو پہنچنے کا احتمال ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے تو صدقہ دے کر احسان جتانے والے کو بھی بڑا نا پسند فرمایا ہے کہ اچھی بات کہنا اس سے بہتر ہے کہ کسی کی مدد کر کے پھر احسان جتاؤ یا ایسے الفاظ کہو جس سے اس کو تکلیف پہنچے اور مہمان نوازی تو مہمانوں کا حق ہے.اس کی مہمان نوازی کر کے پھر باتیں بنانا یہ انتہائی گھٹیا فعل ہے.بعض ایسے لوگ جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں، یہاں تک کر جاتے ہیں کہ میرے ساتھ جو لوگ آئے ہوئے ہیں ان سے بھی ایسی باتیں کرتے ہیں جو جذباتی ٹھیس پہنچانے والی ہوں.فی الحال میں اشارہ سمجھا رہا ہوں.
خطبات مسرور جلد 12 368 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 جون 2014 ء ضرورت پڑی تو یہ بھی کبھی کھول کر بیان کر دوں گا لیکن اللہ کرے ضرورت نہ پڑے اور جو جو ذمہ دار ہیں ان کو پہلے ہی ہوش آ جائے.لیکن بہر حال مجھے امید ہے کہ جو لوگ بھی متعلقہ اشخاص ہیں وہ اپنی غلطی کو سمجھتے ہوئے استغفار کریں گے.اللہ تعالیٰ سب کام کرنے والوں کو عقل اور سمجھ دے اور وہ اپنے فرائض اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ادا کرنے والے ہوں.جلسہ کے حوالے سے یہ بات بھی یادرکھیں کہ آپ میں سے ہر ایک کو اپنے ماحول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.ڈیوٹی والے کارکنان ہیں ان سے ہر شامل ہونے والا مکمل تعاون کرے.سکیورٹی کے مسائل اب ہر جگہ ہیں اس لئے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ اس جلسے کو ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے اور تمام شامل ہونے والوں کو ان برکات کو سمیٹنے والا بنائے جو اس جلسہ سے وابستہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہم پورا کرنے والے ہوں اور آپ کو اپنی جماعت سے جو توقعات ہیں ہم اپنی زندگیوں کا حصہ انہیں بنانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 04 جولائی 2014 ء تا 10 جولائی 2014 ، جلد 21 شمارہ 27 صفحہ 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 369 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفه امس الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء بمطابق 20 احسان 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ دو جمعے جرمنی کے سفر کی وجہ سے میں نے جرمنی میں پڑھائے.وہاں 6 جون کے خطبہ میں میں نے خلافت کی اطاعت اور خلافت سے وفا کے موضوع پر صرف جرمنی کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے خطبہ دیا تھا.گو بعض مثالیں جرمنی کے حالات کی وجہ سے وہاں کی دی تھیں.بہر حال مجھے خوشی ہے کہ دنیا بھر کے احمدیوں نے رد عمل دکھایا اور فوری طور پر خلافت کی کامل اطاعت اور مکمل وفا کا اظہار کیا.اور خاص طور پر اس بات پر بھی بعض نے اظہار کیا کہ ہم میں سے بعض عہد یدار بعض ہدایات کی تاویلیں اور تو جیہیں نکالنے لگ جاتے ہیں اور آئندہ سے انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کی خوبصورتی ہے کہ جب توجہ دلاؤ تو فوری توجہ ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو اس اطاعت و وفا میں بڑھا تا رہے.جیسا کہ میں عموماً جلسہ کے بعد جلسہ کے بارے میں کچھ بیان کرتا ہوں تو اب میں اس سفر کے حوالے سے کچھ اور باتیں کروں گا.جلسہ بھی ہوا.جلسہ پر ایک رونق تو افراد جماعت کی ان کے شامل ہونے سے ہوتی ہے.احمدی مرد عورتیں بچے ایک خاص جذبے کے تحت جلسہ میں شامل ہوتے ہیں یا شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن اب ہمارے جلسوں کی ایک رونق غیر از جماعت اور غیر مسلم افراد سے بھی ہوتی ہے جو یہ دیکھنے اور سننے آتے ہیں کہ یہ جلسہ جس کی احمدیوں نے اتنی دھوم مچائی ہوئی ہے یہ ہوتا کیسا ہے؟ اور احمدیوں کے اس جلسے کے دوران کیسے عمل ہوتے ہیں اور یہ کیا کہتے ہیں؟ اور اگر اچھی باتیں کہتے ہیں تو کیا
خطبات مسرور جلد 12 370 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014ء ان کے عمل ان باتوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں؟ یا صرف دنیا داروں کی طرح ایک اکٹھ ہوتا ہے، ایک اجتماع ہوتا ہے، ہلہ گلہ اور رونق ہوتی ہے.جب یہ دیکھتے ہیں کہ جلسے کا ماحول تو ایک عجیب ماحول ہوتا ہے جس کی دنیاوی میلوں اور جلسوں سے مثال نہیں دی جاسکتی تو پھر یہ جلسہ غیر مسلمانوں کے لئے، مہمانوں کے لئے اسلام کی خوبصورت تعلیم بتانے اور اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات دور کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے.اسی طرح بعض غیر مسلم اور غیر احمدی جنہوں نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات لی ہوتی ہیں جلسے کے ماحول اور پروگراموں کو جب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں تو ان میں سے بعض بیعت پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور بیعت کر کے جاتے ہیں یا اس حد تک متاثر ہو جاتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد ان کے دل احمدیت کی طرف مکمل طور پر مائل ہو جاتے ہیں.گویا کہ یہ جلسہ جہاں اسلام کے بارے میں نیک اثرات پیدا کرنے والا ہوتا ہے وہاں تبلیغ کا بھی بہت بڑا ذریعہ بن جاتا ہے.پس جرمنی کا جلسہ بھی یقیناً ان باتوں کا ذریعہ بنا.اس لئے میں پہلے جلسے میں آنے والے مہمانوں کے بعض تاثرات پیش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح حیرت انگیز طور پر اپنی تائید و نصرت دکھا رہا ہے.کیونکہ دل تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی مائل ہو سکتے ہیں اور پھر صرف جلسہ ہی نہیں بلکہ ہر جماعتی فنکشن جس میں مہمانوں کو بلایا جاتا ہے وہ فنکشن جماعتی تعارف کا بہت بڑا ذریعہ بنتا ہے اور ہر فنکشن ہی اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بتانے اور تبلیغ کے میدان کھولنے والا بن جاتا ہے.جرمنی کے دورے کے دوران مسجدوں کی بنیادیں رکھنے اور مسجدوں کے افتتاح کرنے کا بھی موقع ملا.اس سے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم لوگوں پر واضح ہوئی جس پر انہوں نے اظہار بھی کیا کہ یہ اسلام ہماری نظروں کے سامنے پہلے کبھی نہیں لایا گیا.پھر اخباروں نے جو کوریج دی اس سے بھی کئی ملینز (millions) تک یہ پیغام پہنچا.بہر حال سب سے پہلے تو میں جلسے پر آنے والے غیروں کے تاثرات یہاں بیان کرتا ہوں.جرمنی کے جلسے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف ہمسایہ ممالک کے وفود بھی شامل ہوئے اور اچھی خاصی تعداد میں یہ وفد شامل ہوئے.جو افراد شامل تھے ان کی تعداد بھی کافی تھی.فرانس اور بھیجیم سے آنے والے نو مبائعین اور زیر تبلیغ دوستوں کے علاوہ اسٹونیا، کروشیا لتھوینیا، سلوینیا، رومانیہ، ہنگری، مونٹی نیگرو، بوسنیا اور رشین ممالک، کوسوو، البانیہ، بلغاریہ اور میسیڈونیا سے وفد آئے جن میں بچے بھی تھے ، مردو خواتین، زیر تبلیغ افراد اور غیر مسلم دوست شامل تھے.
خطبات مسرور جلد 12 371 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014ء میسیڈونیا سے امسال جلسے پر 55 افراد کا وفد شامل ہوا.اس میں اٹھائیس عیسائی دوست تھے.دس غیر احمدی مسلمان اور سترہ احمدی تھے.اسی طرح بلغاریہ سے 82 افراد پر مشتمل وفد لمبا سفر کر کے آیا.ان وفود سے ملاقاتیں بھی ہوئیں.جلسے کا روحانی ماحول بھی تھا جس سے کافی متاثر ہوئے اور ایک نمایاں تبدیلی تھی جس کا برملا سب نے اظہار کیا اور جماعت کے خدمت کے جذبے کو مہمان نوازی کے جذبے کو بہت سراہا.جیسا کہ بتایا میسیڈونیا سے امسال پچپن افراد کا وفد تقریباً دو ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے آیا تھا اور سواری بھی ان کی ایسی تھی کہ ان کو پینتیس گھنٹے لگے.اس وفد میں اٹھائیس عیسائی دوست تھے.دس غیر احمدی مسلمان اور سترہ احمدی.اس دفعہ اس میں دو صحافی اور کیمرہ مین بھی شامل ہوئے جو پروگراموں کی ریکارڈنگ کرتے رہے اور انہوں نے کہا کہ ہم واپس جا کر اپنے ٹی وی پروگرام میں دکھا ئیں گے.اس وفد میں سے جلسہ کے آخری دن نو (9) افراد نے بیعت بھی کی.ایک مہمان Nikolcho Goshevski نیکلچو گوشیوسکی ) جو ایک سرکاری دفتر میں کام کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میرا یہ وزٹ مذہب کو جاننے اور مذہب کے بارے میں غور وفکر کے اعتبار سے بہت اچھا ہے.جلسے کی تقاریب نے مجھ پر بہت اچھا اثر چھوڑا.پھر میرا کہا کہ ان کے خطابات نے میرے اسلام کے بارے میں خیالات کو تبدیل کر دیا.قبل ازیں میں اسلام کو ایک radical اور تشدد پسند مذہب کے طور پر دیکھتا تھا.اب میں نے اپنے پرانے خیالات کو تبدیل کر دیا ہے.اسلام تو امن کا مذہب ہے.اسی طرح ایک اور مہمان تھے.Dusko uksanov ( دوشکو دوو کسانو و) کہتے ہیں کہ میل ملاقات اور اجتماعی عبادات کے اثر مجھے اس طرف لے جاتے ہیں کہ میں اسلامی تقاریب، روایات نیز اس مذہب کے بارے میں علم حاصل کروں.مجھ پر سب سے زیادہ امام جماعت کی تقریر کا اثر ہوا اور اگلے سال بھی اس جلسہ میں شامل ہونا چاہوں گا.ان کی ملاقات کا مجھ سے ذکر کرتے ہیں کہ ملاقات ہوئی انہوں نے ہمارے سوالوں کی اور ہر بات کی وضاحت کی جو ہم نے پوچھی اور اسلام کے بارے میں ہماری سوچ تبدیل ہوئی.اور یہ جوابات نہایت تفصیل سے تھے.سچائی تھی.ہمیں معلوم ہوا کہ مذہب اسلام کی تعلیم کتنی اچھی ہے جو سب قوموں سے محبت کی تعلیم دیتی ہے.پھر میسیڈونیا سے آنے والی ایک خاتون کہتی ہیں.میرا اسلام کے بارے میں اور اسلام کی تعلیمات کے بارے میں خیال تبدیل ہو گیا ہے اور امام جماعت احمدیہ کے خطابات نے اسلام کے
خطبات مسرور جلد 12 372 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء بارے ہماری سوچوں کو تبدیل کر دیا ہے.پھر میسیڈونیا سے ہی ایک مہمان Martincho (مارنچو ) صاحب کہتے ہیں کہ میں روح کی گہرائی تک خوش اور مطمئن ہوں اور خاص طور پر خلیفہ کی تقاریر کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں امن کی طرف بلایا، برداشت کی طرف بلایا، محبت کی طرف بلا یا.ہم سب جانتے ہیں کہ ہم ایک ایسے وقت میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ برداشت کا لیول اس وقت صفر ہے اور یہ وہ وقت ہے جب جنگیں ہو رہی ہیں اور ہلاکتیں ہو رہی ہیں.پھر ایک پروفیسر صاحب تھے Sashko ( ساشکو) صاحب وہ کہتے ہیں کہ اس جلسے پر میں نے امام جماعت احمدیہ کے خطابات سے اسلام کے بارے میں اپنے علم میں مزید اضافہ کیا ہے.میں ان کا بہت شکر گزار ہوں.اور پھر ملاقات کا ذکر کیا کہ ملاقات میری کل ہوئی اور یہ بہت انوکھی ملاقات تھی.بہت دلچسپ تجربہ حاصل ہوا.انہوں نے ہمیں بہت وقت دیا.تفصیل سے ہمارے سوالات کے جواب دیئے اور احمدیت اور اسلام کے بارے میں ہمیں نئی چیزیں سننے کو ملیں اور ہمیں علم ہوا کہ احمدی جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں.میسیڈونیا سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فائنل ائیر کی ایک طالبہ کہتی ہیں.میرے لئے بہت متاثر کن تھا اور میں بہت حیران تھی.پھر جو امام جماعت احمدیہ سے میری ملاقات ہوئی میرے لئے ایک نئی قسم کا تجربہ تھا.اس ملاقات نے میری مدد کی کہ میں جماعت احمدیہ کو بہتر انداز میں سمجھ سکوں.پھر میسیڈونیا سے ہی ایک مہمان نے اسی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے انہوں نے تجویز دی کہ تمام مذاہب کو محبت پر اکٹھا کیا جائے.اپنی تجویز کا ذکر کر رہے ہیں کہ ایسا پروگرام ہو تو پھر میرا جواب انہوں نے بتایا کہ ہم تو پہلے سے اس بارے میں کوشش کرتے ہیں اور پھر ان کو تفصیل سے جو گلڈ ہال میں پروگرام ہوا تھا اس کے بارے میں بتایا گیا.اس کا بڑا اچھا اثر ہوا.البانیا سے اکیس افراد پر مشتمل وفد آیا تھا جس میں دس غیر احمدی اور گیارہ احمدی تھے.اور ایک سابق فوجی جو فوج کے عہدے پر بڑا لمبا عرصہ رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ایسا ڈسپلن میں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا اور افراد جماعت میں رضا کارانہ خدمات کے جذبہ کا یوں پایا جانا بھی ایک خوش کن تجربہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی مہمانوں کو پانی پلا کر نہایت مسرت محسوس کر رہے تھے.پھر ایک البانین مہمان تھے جو بلدیہ کے نائب صدر بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں گزشتہ سال بھی آیا
خطبات مسرور جلد 12 373 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء تھا.اس سال جو نمایاں طور پر ایک چیز نظر آئی وہ یہ تھی کہ جرمن نژاد احمدیوں کی غیر معمولی حاضری تھی.انہوں نے کہا اس جلسہ میں ہمیں نظر بھی آیا کہ جماعت احمدیہ کے علاوہ دیگر مسلمان فرقوں میں صرف دعاوی اور لفاظی ہی نظر آتی ہے جبکہ اسلام کا حقیقی عملی نمونہ صرف جماعت احمدیہ کا ہی طرہ امتیاز ہے.ہنگری سے آنے والے وفد کے تاثرات یہ تھے.ایک مہمان ٹیچر جو تاریخ کے ٹیچر تھے.یہودیت میں ماسٹر کیا ہوا ہے.انہوں نے کہا کہ جماعت محبت اور پیار اور رضا کارانہ خدمت کرنے میں بہت آگے ہے.اتفاق و اتحاد بہت واضح نظر آتا ہے.بیعت کی تقریب میں کہا کہ یہ نظارہ دل کو کھینچنے والا اور موہ لینے والا تھا.ایک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اتحاد کا ایک دلفریب نقشہ ابھرتا ہے.نماز باجماعت پڑھتے دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور ان کے لئے یہ ایک منفرد اور انوکھی بات تھی.بہت ہی پر اثر نظارہ تھا.موصوف نے کہا کہ جماعت کے افراد اپنے خلیفہ سے بے حد محبت کرتے ہیں.یہ محبت بے لوث اور خالص محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس میں کچھ بناوٹ تصنع یا تکلف نہیں لگا.بلکہ لگتا ہے جماعت کی اپنے خلیفہ سے محبت کسی فطری اور طبعی جذ بہ سے ہے.اور یقینا یہ صحیح بات ہے.پھر ہنگری کے وفد کے ایک مسٹر رابرٹ (Mr Robert) ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جلسے کے انتظامات سے بہت متاثر ہوا.اس سے بڑا مسلمانوں کا اجتماع پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا.رومانیہ سے جو وفد آیا تھا اس میں ایک سیرین دوست تھے حسین الحافظ صاحب جو بڑے لمبے عرصے سے رومانیہ میں رہتے ہیں.وہاں بزنس کرتے ہیں.کہتے ہیں جب جلسہ میں شامل ہوئے تو وہاں ہمارے جو ایک مبلغ ہیں ان سے کہنے لگے کہ خلیفہ اسیح کو ہم دُور سے دیکھیں گے یا قریب سے بھی دیکھنے کا موقع ملے گا.جب انہوں نے بتایا کہ ملاقات بھی ہو گی تو اس پر ان کو یقین نہیں آیا.لیکن بہر حال ملاقات ہوئی اور اس بات پر بڑے خوش تھے.بڑی مسرت کا اظہار کیا.مبلغ صاحب کہتے ہیں کہ جلسے کے پہلے دن سے انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ خلیفہ سے محبت کرتے ہیں اور بار بار کہتے کہ سارے عالم اسلام کا ایک خلیفہ المسلمین ہو تو مسلمانوں کے مسائل حل ہو جائیں کیونکہ خلیفہ ہی ہے جو ہمیں سیدھا اور صحیح راستہ دکھا سکتا ہے.ملاقات کے دوران بھی انہوں نے اس بات کا اظہار کیا.پھر ہمارے مبلغ سے انہوں نے پوچھا کہ خلیفہ کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟ اس پر انہوں نے خلافت کے بارے میں بتایا کہ کس طرح خلافت راشدہ کا بھی انتخاب ہوا اور اب بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انتخاب کرنے والوں کو اپنے تصرف میں لے لیتا ہے اور وحی خفی کے ذریعہ سے اکٹھا کر دیتا ہے.وحی خفی اور تصرف الہی کا پہلو ان کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن شام ہوئی تو
خطبات مسرور جلد 12 374 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء کہتے ہیں میرا یہ مسئلہ حل ہو گیا.جب میں لجنہ سے خطاب کر کے نماز ظہر کے لئے واپس آیا ہوں تو اس وقت لوگ لائنوں میں کھڑے تھے تو یہ کہتے ہیں میں بھی وہاں کھڑا ہو گیا.جب میں ان کے پاس سے گزرا ہوں تو کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت پر میری نظر پڑی تو بے اختیار اور بلا ارادہ میرا ہاتھ سلام کے لئے فضا میں بلند ہو گیا.کہتے ہیں یہ بے اختیار فعل تھا.اس پر تصرف الہی اور وحی خفی کا عقدہ حل ہو گیا.یہ بھی کہا کہ عادتا وہ عام طور پر ہاتھ بلند کر کے اور لہرا کر کسی کو سلام نہیں کرتے خواہ کوئی بڑا شخص ہی ہو.لیکن اب جو مجھ سے ہوا ہے یہ یقینا تصرف الہی ہے اور ایسا کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا.بہت حد تک قائل ہو چکے ہیں.مجھے بھی انہوں نے بتایا کہ مزید تھوڑا سا سوچ کر وہ جماعت میں انشاء اللہ شامل ہو جائیں گے.پھر یو نیورسٹیوں سے آئے ہوئے لتھوینیا کے تین مہمان تھے.ایک طالبعلم نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جلسہ ان مغربی مفکرین کے لئے بہت مفید ہے جو اسلام کے بارے میں کم معلومات یا منفی خیالات رکھتے ہیں کیونکہ یہ جلسہ ان کی محدود سوچ کو وسیع کر سکتا ہے.آپ لوگ بہت مثبت خیالات کے مالک ہیں.اور ہر وقت چہرے پر بشاشت اور مسکراہٹ رہتی ہے.اور جب مجھ سے ملے ہیں پھر بھی ان پر بڑا اچھا اثر تھا.پھر ایک طالبہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمیں اس چیز نے بہت متاثر کیا ہے کہ بہت پرسکون متحمل اور برداشت والا ماحول ہے.آپ لوگوں کے اندر رہ کر اسلام کا حقیقی چہرہ دیکھنے کا موقع ملا.اور انہوں نے کہا کہ نمازوں کے دوران بھی ایک عجیب نظارہ تھا.پھر اس بات پر وہ متاثر ہوئیں کہ ایک موقع پر جب میں نے مجمع کو کہا تھا کہ خاموش ہو جاؤ تو فوراً خاموش ہو گئے.یہ کیسی اطاعت ہے.پھر ایک طالبہ نے بیان کیا کہ مجھے مذاہب میں کافی دلچسپی ہے.میرے لئے یہ بات اہم ہے کہ آج کے دور میں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں کیسی رائے رکھتے ہیں.جلسہ میں شریک ہوکر اسلام کے بارے میں اور اسی طرح دوسرے لوگوں اور خاص طور پر اپنے آپ کو جاننے اور سمجھنے کا بھی موقع ملا.کروشیا سے جو وفد آیا تھا ان کے ایک صاحب اپنے علاقے میں شعبہ زراعت سے منسلک ہیں.سوشل ویلفیئر کے کمیونٹی لیڈر بھی ہیں اور باقی خواتین تھیں جو یونیورسٹی میں قانون اور پبلک ریلیشنز میں ماسٹرز کی ڈگری لے رہی ہیں.تو کہتے ہیں کہ ملاقات کے دوران جو اُن سٹوڈنٹس نے مجھ سے سوالات کئے تھے.تقریباً آدھ گھنٹے سے زیادہ یہ سوال جواب ہوتے رہے.اسلام کے بارے میں تعصب سوشل میڈیا کا رویہ، مذہب سے دوری کا سبب، اسلام میں عورت کا مقام اور حقوق پر مبنی بہت سے سوالات ہوئے.
خطبات مسرور جلد 12 375 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء طالبات نے اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ ان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا امام جماعت احمدیہ نے بہت اچھے انداز میں اور بڑی تفصیل سے جواب دیا اور ان کی پوری تسلی ہو گئی.بلکہ مجھے یاد ہے کہ میں نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ اگر مزید تسلی کروانی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں.کوئی ایسی بات اب نہیں رہی جس کی ہمیں تسلی نہیں.یہ شعبہ زراعت سے جو دوست تعلق رکھتے ہیں انہوں نے کہا.امام جماعت احمدیہ سے ملنا میرے لئے بڑا اعزاز ہے.اس بات کا ہمیں ملاقات کے دوران اندازہ ہوا کہ جماعت میں خلیفہ کا مقام کیا ہے اور احمدیوں سے مل کر اور خلیفہ کی تقاریر سن کر اندازہ ہوا.جب شروع میں آئے تو بڑا ڈر تھا لیکن وہ ڈر جلد ہی محبت اور عزت میں تبدیل ہو گیا اور ہمیں محسوس ہوا کہ ہم اسلام کو ایک اور طرح دیکھ رہے ہیں.ہمارا نظر یہ بالکل بدل گیا.اور اسی طرح بہت سارے لوگوں کے تاثرات ہیں.ایک بلغاریہ سے آئے ہوئے مہمان نے کہا کہ پہلی دفعہ یہاں آیا ہوں.جب تک میں یہاں نہیں آیا تھا تو اور کیفیت تھی اور جماعت کا مخالف تھا.جب سے میں یہاں آیا ہوں جلسے کا ماحول دیکھا ہے اور امام جماعت کے خطابات سنے ہیں تو میری کا یا پلٹ گئی ہے.پھر بلغاریہ سے ایک دوست کہتے ہیں میں عیسائی ہوں اور پہلی دفعہ آیا ہوں، بہت متاثر ہوا ہوں.اسلام کا حقیقی اور حسین چہرہ یہاں دیکھا ہے.اب دل چاہتا ہے کہ بلغاریہ میں اعلان کر دیا جائے کہ کثرت سے لوگ یہاں جلسے پر آئیں تا کہ انہیں معلوم ہو کہ اسلام کتنا پیارا مذہب ہے اور ہم کس طرح باہمی پیار ومحبت اور رواداری کے ساتھ رہ سکتے ہیں.بلکہ وہ مجھے زور دے رہے تھے کہ اعلان کرو.اس کو میں نے بتایا کہ آپ کے مفتی صاحبان جو ہیں وہ آپ کو وہاں پھر جینے نہیں دیں گے.بہر حال پھر انہوں نے کہا کہ جلسے پر ہمیں روحانی کھانا ملا ہے.ہمیں بلغاریہ میں اس کھانے کی ضرورت ہے.وہاں ہمیں یہ کھانا کب ملے گا ؟ انہوں نے یہ مجھ سے سوال کیا تھا.ان کو میں نے یہی کہا کہ اپنی حکومت کو کہیں جب حکومت ہمیں مشن کھولنے کی اجازت دے گی تبلیغ کی اجازت دے گی تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ ہو گا.تو دنیا بے چین ہے حق کو دیکھنے اور سننے اور پانے کے لئے لیکن شیطان بھی اپنا کام کر رہا ہے.دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ جلد ہی جہاں جہاں روکیں ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دور فرمائے اور ان لوگوں کی پیاس بھی بجھ سکے جو اسلام کا حقیقی پیغام سننا چاہتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 376 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء کوسووو سے آنے والے ایک دوست نے بتایا کہ میں پہلی دفعہ آیا ہوں اور حکومتی محکمے میں کام کرتا ہوں.میں نے کل بیعت کی ہے.میں کبھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ایسا عظیم الشان جلسہ ہوسکتا ہے.اگر جرمنی کا ملک بھی یہ کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا.صرف جماعت احمدیہ کی ہی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسا عظیم الشان جلسہ کر سکتی ہے جس میں صرف امن، محبت، پیار اور رواداری ہو.بوسنیا کے وفد کی ایک ممبر خاتون نے مجھ سے ملاقات میں مجھے بتایا کہ میں نے بہت سے سوالات آپ سے پوچھنے تھے.لیکن آپ کا جو جلسے والا خطبہ جمعہ سنا تو اس میں سارے سوالات کے جواب دے دیئے گئے ہیں اور میرے تمام سوالوں کا جواب مل گیا ہے.اب میرا کوئی سوال نہیں رہا.میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کہ خلافت کے تابع ہوں.انہوں نے بیعت بھی کی تھی.ان کو میں نے بتایا بھی کہ یہ خطبہ تو پرانے احمدیوں کے لئے تربیت کے لئے تھا، تمہارے سوال کیا ملے لیکن انہوں نے کافی نکات اس میں سے نکالے کہ جن کا صحیح فہم و ادراک حاصل ہوا.تو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی لوگوں کے دلوں کو کھولتا ہے کہ کوئی بات کسی کے دل پر اثر کر جاتی ہے اور وہی اس کی اصلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے، ہدایت کا ذریعہ بن جاتی ہے.جرمنی میں جرمنوں سے ایک علیحدہ خطاب بھی ہوتا ہے.اس میں تقریباً دوسو جرمن اور دوسری قوموں کے لوگ تھے.تقریباً گل چار سو سے اوپر یا ساڑھے چار سو کے قریب تھے.اور ایک سیاستدان واگنر صاحب ہیں.میرا کہتے ہیں کہ میں تین سالوں سے جلسے کے موقع پر ان کے خطابات سن رہا ہوں لیکن آج کے خطاب نے مجھے بہت متاثر کیا ہے کیونکہ بہت واضح خطاب تھا.ٹو دی پوائنٹ (to the point) تھا اور امن کے لئے بہت اچھی کوشش ہے اور مجھے سارے سوالوں کے جواب مل گئے.تو غیروں کو بھی اس طرح اللہ تعالیٰ اطمینان کرواتا ہے.یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بڑی حیران کر دینے والی بات ہے کہ اتنا بڑا مجمع کتنے امن وسکون کے ساتھ رہ رہا ہے.کوئی بھی کسی قسم کا مسئلہ کھڑا نہیں کر رہا.اگر اتنا بڑا مجمع جرمن لوگوں کا ہوتا تو کچھ لوگ ان میں ضرور ہوتے جو ماحول کو خراب کرتے.ایک مہمان کارل ہینز (Karl Heinz) صاحب نے میرا خطاب سننے کے بعد کہا کہ وہ باتیں کہی ہیں جو پوپ نے بھی کبھی نہیں کہ سکتی تھی.میڈیا میں مسلمانوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ وہ سارے تشدد پسند ہوں اور ان کے خلاف اکسایا جاتا ہے اور عیسائیوں کو بطور معصوم پیش کیا جاتا ہے.آج مجھے اسلام کی حقیقی اور سچی تعلیم کا علم ہوا ہے.پھر کہتے ہیں ایک پر امن ماحول ہے.بڑی تعجب کی بات ہے
خطبات مسرور جلد 12 377 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء کہ اتنے زیادہ لوگ اتنے پیار سے اور مہذبانہ طریقے پر ا کٹھے رہ رہے ہیں.ایک مہمان حسین صاحب تھے.وہ میری تقریر سننے کے بعد کہتے ہیں خطاب تو بڑا اچھا لگا.بہت سی باتوں پر یقین نہیں ہے لیکن پھر بھی مجھے خطاب اچھا لگا.جلسے کا ماحول حیرت انگیز تھا اور یہ کیونکہ مسلمان ہیں اس لئے انہیں خطاب بھی بہر حال اچھا لگا، باتیں بھی اچھی لگیں، جماعت کا اطاعت کا جذ بہ بھی اچھا لگا لیکن کہتے ہیں مجھے پھر بھی اختلاف ہے.ایک مہمان ڈومینک (Dominik) صاحب کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کے خطاب سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوا.جماعت کا پہلے سے کچھ تعارف تو تھا لیکن خلیفہ کی تقریر سننے کے بعد بہت سی نئی باتوں کا علم ہوا.پھر ایک مہمان کہتے ہیں آپ نے آج رواداری اور مساوات کی جو تعلیم پیش کی ہے یہ بہت ہی اعلیٰ تعلیم ہے.یہ جرمن قانون کے عین مطابق ہے.میرے ساتھ یو نیورسٹی میں ایک احمدی پڑھتا ہے اور اس کے عمل سے نظر آتا ہے کہ احمدی مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں میں فرق ہے.پس یہ عملی فرق ہے جو ہم نے ہر سطح پر ہر طبقے میں دکھانا ہے اور دکھانا چاہئے اور یہ بہت بڑا ذریعہ ہے تبلیغ کا.اس لئے ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ اس کے عملی نمونوں کی طرف لوگوں کی نظر ہے.ایک جرمن کہتے ہیں کہ یوں لگتا تھا کہ یہ خلیفہ کا خطاب میں نے لکھا ہے کیونکہ اس کا ہر لفظ میرے دل کی آواز تھی.مسجد کے سنگ بنیاد کے دوران ویز بادن شہر کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر نے لارڈ میئر کی نمائندگی میں اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے بہت ساری باتوں کے علاوہ یہ کہا کہ آپ کی جماعت شہر میں مختلف موقعوں پر اور پروگراموں میں بڑا فعال اور مثبت کردارا دا کر رہی ہے.آپ یہاں غیر قوموں کے لوگوں سے تعلق قائم کرنے میں سب سے آگے ہیں.آپ غیر مسلموں میں وہ خوف دور کرتے ہیں جو بعض دوسرے شدت پسند مسلمانوں کے رویہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.آپ ہمیشہ امن کے قیام کی کوشش کرتے ہیں.صوبہ بیسن (Hessen) کی صوبائی حکومت کی نمائندگی میں وزارت انٹیگریشن کے سیکرٹری آف سٹیٹ نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے ایک اعزاز کی بات ہے کہ اس طرح آج میں ایک تقریب میں شامل ہو رہا ہوں اور مسجد کی مبارکباد پیش کی.پھر بعض مہمان جو مسجدوں میں آئے ان کے تاثرات یہ ہیں.ایک قطعہ زمین جو ہم نے مسجد
خطبات مسرور جلد 12 378 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء کے لئے لیا وہ ایک بیوہ کی ملکیت تھی جس نے چالیس سال تک یہ پلاٹ اپنے پاس رکھا.بعد میں بڑھاپے کی وجہ سے شہر کی انتظامیہ کو فروخت کر دیا.یہ خاتون تقریب میں موجود تھی اور جب انہوں نے میرا خطاب سنا تو کہنے لگی کہ مجھے خوشی ہے کہ جس جگہ کی میں مالک تھی میرے بعد وہاں خدا کی عبادت کی جائے گی اور اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا گھر آباد ہوگا اور ہمیشہ قائم رہے گا اور خلیفتہ اسیح نے جو کچھ کہا ہے اس سے مجھے بہت اطمینان ہوا کہ واقعی جیسا کہا گیا ہے ویسا ہی ہے.بلکہ ایک بہت پرانے بوڑھے جرمن کا ایک تبصرہ مجھے یہ بھی ملا کہ میں نے تو مر جانا ہے اور مجھے فکر تھی کہ قوموں میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں.اگر جرمنی میں جرمنوں پر ایسی حالت ہوتی ہے تو کیا بنے گا، اس پر کون لوگ قابض ہو جائیں گے.لیکن آج جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی باتیں سن کے مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ جرمنی پر اگر کوئی ایسی صورتحال ہوئی تو یقیناً جماعت احمدیہ کے ہاتھوں ہی جرمنی آئے گا اور بڑے محفوظ ہاتھوں میں ہوگا.ایک مہمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ کی بات بہت دوستانہ، ذاتی اور براہ راست تھی.خلیفہ کا پیغام ہمیں پہنچ گیا ہے.ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہئے ، نفرت نہیں.اسلام کو کچھ لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو بالکل غلط ہے.لجنہ کی طرف مسجد کا جو پروگرام تھا وہاں ایک خاتون ٹیچر گئیں تو جب بچیاں میرے سے چاکلیٹ لے رہی تھیں تو بعض بچیاں رو کے اپنے لئے دعا کے لئے بھی کہتی تھیں تو کہتی ہیں کہ اتنی چھوٹی عمر سے کسی سے ایسی محبت میں نے کبھی نہیں دیکھی.میں آج بہت متاثر ہوئی ہوں.پھر مسٹر جو کم آرنلڈ (Mr Joachim Arnold) ڈسٹرکٹ ایڈ منسٹر یٹ کمشنر آف کاؤنٹی نے اپنے ایڈریس میں بہت ساری باتوں میں سے یہ بھی کہا کہ پچیس سال سے اس بات پر گواہ ہوں کہ احمد یہ مسلم جماعت ہمیشہ رواداری کا پاس رکھتی ہے اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے.آپ کی مسجد اس بات کی نشانی ہے کہ یہاں مذہبی رواداری ہے اور ایک دوسرے سے رواداری کے ساتھ رہ سکتے ہیں.ایک مہمان نے کہا کہ میں نے خلیفہ اسیح کی تقریر آدھی اردو میں اور آدھی جرمن میں سنی.اس کی وجہ یہ تھی کہ براہ راست خلیفہ اسیح کی آواز سنا چاہتا تھا اور اردو زبان بھی سننا چاہتا تھا.اور پھر انہوں نے کہا کہ بڑی اچھی تقریر تھی اور مجھے بہت اچھا لگا.آپ نے اپنی جماعت کو حکم دیا کہ وہ ملک کی ترقی کے لئے کام کریں.تو لوگوں کے جماعت کو پرکھنے کے، سننے کے اپنے عجیب عجیب انداز ہیں.یہ سب اللہ تعالیٰ کی.
خطبات مسرور جلد 12 379 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء چلائی ہوئی ہوا ہے.کسی شخص یا عہدیدار کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی محنت کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے.محنت تو پہلے بھی ہوتی تھی لیکن نتائج نہیں نکلتے تھے.اب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ نتائج نکلیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ ہوا بھی چلائی اور ان کے رویے بالکل بدلتے چلے جارہے ہیں.جرمنی کی ایک پارٹی کے ممبر ہیں مہمت ترن (Mehmet Turan) صاحب کہتے ہیں کہ آپ کے خطاب سے تمام سیاستدان بیحد متاثر ہوئے اور اس کا اظہار ان کے چہروں سے بھی عیاں تھا.خلیفہ اسیح کی یہ بات بڑی مؤثر اور پر حکمت ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کے تمام ممبران کو ملک جرمنی کی ترقی میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی ہے.پھر ایک مہمان نے کہا کہ مجھے آج کی تقریب نے حیران کر دیا ہے.جرمن لوگوں کو چاہئے کہ آپ احمدی لوگوں سے کچھ سیکھیں.پس ہمیں ، یورپ میں رہنے والوں کو بھی کسی کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے.آج دنیا کی رہنمائی کی باگ ڈور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو دی ہے.پس اس کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی کوشش کریں.اپنے تعلق کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط کریں پھر انشاء اللہ تعالیٰ یہ انعامات بھی ضرور ملنے والے ہیں.مسجد مهدی میونخ کے افتتاح کے موقع پر مہمانوں کے تاثرات یہ ہیں.ایک جرنلسٹ نے میرے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو امن کا پیغام دیا ہے اس کا اظہار بھی ہورہا تھا اور سارے ہال پر اس کا گہرا اثر تھا.ایک خاتون کہتی ہیں کہ خلیفہ اسی نے جب اپنے ایڈریس میں ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی شہادت کا ذکر کیا تو میں برداشت نہ کر سکی اور رونے لگی.پھر خلیفہ اسیح نے جب یہ کہا کہ اس شہادت کے باوجود ہماری خدمت کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی اور ہم یہ خدمت جاری رکھیں گے تو اپنے جذبات پر قابورکھنا میرے لئے بہت مشکل ہو گیا.ایک خاتون کہتی ہیں.میں بہت متاثر ہوئی خاص طور پر جو امن کے لئے حل پیش کیا گیا ہے، یعنی دنیا کے سب انسانوں کو چاہئے کہ مذہب وملت سے بالا تر ہو کر ایک دوسرے سے محبت کریں.نہ یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی بڑھتی جائے.یہ تقریب بڑی کامیاب رہی.پروگرام کے لئے صرف اپنی جماعت کے لوگوں کو نہیں بلایا.یا سیاستدان ہی نہیں بلائے بلکہ ہمسایوں کو بھی دعوت دی.یہ بھی بڑی اچھی بات تھی اور اس نے مجھے بڑا متا ثر کیا.
خطبات مسرور جلد 12 380 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء پس مسجدوں کے افتتاح کے موقع پر یہ پیغام جو احمدیوں کو دیا جاتا ہے کہ نئے رستے کھلیں گے.اس طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.ہر احمدی کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں جب اس کے علاقے میں کسی مسجد کا افتتاح ہوتا ہے یا مسجد بنتی ہے.جرمنی میں جلسے کے تیسرے دن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت بھی ہوئی تھی جس میں انیس (19) قوموں کے تراسی (83) لوگوں نے بیعت کی توفیق پائی جو وہاں موجود تھے.بعض بیعت کرنے والوں کے واقعات بیان کرتا ہوں.ایک البانین مہمان ایڈوین صاحب پہلے مسلمان تھے.انہوں نے بتایا کہ میں نے حدیثوں کی کتاب میں پڑھا تھا.جب امام مہدی علیہ السلام نازل ہوں گے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان کی بیعت میں شامل ہو.چنانچہ بیعت میں شامل ہو کر ان کی عجیب قلبی کیفیت تھی.کہتے ہیں دوسری بات جس نے مجھے متاثر کیا وہ ایک کثیر تعداد میں سعید الفطرت روحوں کا خوابوں کے ذریعہ سے خبر پاکر جماعت میں شامل ہونا ہے.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعی الہی جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ خود دلوں کو اس جماعت کی طرف کھینچ رہا ہے.پھر ایک مہمان حیدر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کی.انہوں نے بیان کیا کہ چند سال قبل جبکہ انہیں جماعت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں ایک رات انہوں نے خواب دیکھا کہ وہ دوست کے ہمراہ ہیں اور اس وقت انہیں اذان کی آواز سنائی دیتی ہے چنانچہ وہ اور ان کے ایک دوست نماز پڑھنے کے لئے ایک پہاڑ پر چڑھنے لگتے ہیں.غالباً پہاڑ کی چوٹی پر نماز پڑھائی جانی ہے.جب وہ بلندی پر پہنچتے ہیں تو وہاں انہیں مختلف داڑھیوں والے افراد نظر آتے ہیں جو ایک دوسرے کو دھکا دے رہے ہیں اور مار پیٹ کر رہے ہیں.کہیں آگ لگی ہوئی ہے اور ایک عجیب خوفناک صورتحال ہے.اس پر حیدر صاحب اپنے دوست سے کہتے ہیں کہ یہاں سے نکلو ورنہ یہ لوگ ہمیں بھی مار دیں گے.چنانچہ وہ وہاں سے روانہ ہوتے ہیں اور تھوڑی ہی دوری پر انہیں ایک سرسبز و شاداب وادی نظر آتی ہے جو چاروں طرف سے خوبصورت تناور درختوں سے گھری ہوئی ہے.اس وادی میں سفید لباس میں ملبوس نمازیوں کی ایک کثیر تعداد انتہائی نظم وضبط کے ساتھ نماز کے لئے صف آراء ہے اور ان کے سامنے ایک شخص کھڑا ہے جو ان کی امامت کرا رہا ہے.میں اپنے دوست سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ بتاتا ہے کہ یہ احمدی لوگ ہیں اور اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.اس وقت میں جماعت کے نام سے بھی
خطبات مسرور جلد 12 381 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء واقف نہ تھا، نہ میرا کسی احمدی سے رابطہ تھا.یہی خواب میرے لئے قبول احمدیت کا موجب بنی.پھر مراکش کے ایک دوست عبد القادر صاحب کہتے ہیں کہ چھ سال قبل احمدیت سے متعارف ہوا تھا لیکن چند ہفتے قبل احمدیت کی تلاش میں جماعت کے ایک نماز سینٹر پہنچا اور جماعت کا مزید تعارف حاصل کیا اور نمازوں اور جمعوں پر آنا شروع کیا.مجھے جلسہ سالانہ جرمنی کے لئے دعوت دی گئی.میں اس میں شامل ہوا جلسہ کا روحانی ماحول دیکھ کر اور خلیفہ وقت سے احباب جماعت کی محبت اور اطاعت دیکھ کر میرے دل میں ایک غیر معمولی تبدیلی آئی کہ یہ یقینا سچوں کی جماعت ہے.اس پر میں نے جماعت میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا اور بیعت کر لی.پھر سویڈن سے عراق کے ایک دوست ہیں.کہتے ہیں جلسے کا روحانی ماحول دیکھ کر بہت متاثر ہوا.وہ کہتے ہیں یہی وہ حقیقی اور سچی جماعت ہے جس کی مجھے تلاش تھی اور یہی جماعت احمد یہ میرے سب سوالوں کا جواب ہے اور پھر جلسے پر انہوں نے بیعت کر لی.بھیجیم سے ایک غانین دوست عباس صاحب جلسے پر آئے تھے.کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں اور خدا تعالیٰ بھی رحمت کی نظر سے مجھے دیکھ رہا ہے.میں ایک تبلیغی میٹنگ میں گیا اور وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی شخص ہیں جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا.میں پوری میٹنگ میں تصویر دیکھ کر روتا رہا اور اب جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کے لئے آیا ہوں اور میں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے.میں احمدیت کے ہر مخالف کو کہتا ہوں کہ اگر وہ جلسے کا ماحول دیکھ لیں اور ایک بار آ کر جلسے میں شرکت کر لیں تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ مخالفت چھوڑ دیں گے.پھر ایک مراکشی خاتون بلیجیم سے آئی ہیں.کہتی ہیں خواب دیکھا کہ امام مہدی آئے ہیں اور ایک چاند کی روشنی کی طرح انہوں نے کہا بشارت ہو، بشارت ہو.پھر بعد میں خلیفتہ اسیح الخامس کو دیکھا جنہوں نے انگریزی میں فرمایا Don't worry.مجھے کوئی علم نہ تھا کہ یہ بزرگ کون ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو آپ علیہ السلام ہی تھے جو مجھے خواب میں امام مہدی کے طور پر نظر آئے تھے.پھر میں جلسہ سالانہ یو کے میں شامل ہوئی تو خلیفہ اسی کو دیکھ کر یقین نہیں آیا اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے کہ یہ وہی شخص تھا جس کو خواب میں میں نے دیکھا تھا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ سچی اور حقیقی جماعت ہے.چنانچہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئی.
خطبات مسرور جلد 12 382 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014ء پھر فرانس سے ایک دوست آئے ہوئے تھے.کہتے ہیں میں عیسائی فیملی میں پیدا ہوا ہوں.میں کوئی مذہبی پریکٹس نہیں کرتا.جب اپنے ماں باپ کے کہنے پر چرچ میں گیا تو سامنے حضرت عیسی علیہ السلام کا بت رکھا تھا.مجھے مجھ نہیں آرہی تھی کہ خدا کی عبادت کروں یا اس بت کی عبادت کروں.چنانچہ جس احمدی دوست سے رابطہ ہوا، انہوں نے مجھے جماعت کا تعارف کروایا اور معلومات مہیا کیں.اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھنے کیلئے دی.جلسہ میں شامل ہوا.امام جماعت کا خطاب سنا اور میرے دل کی حالت بدل گئی اور میں جلسہ کے تیسرے دن بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گیا ہوں.یہ مقامی فرانسیسی ہیں.ہنگری سے آنے والے وفد کے انچارج صداقت صاحب کہتے ہیں کہ جرمنی میں ایک فیملی تھی.ان سے انٹرنیٹ پر رابطہ تھا.انہیں جلسے پر آنے کی دعوت دی تو اسلام کے بارے میں کیونکہ اچھا تاثر نہیں رکھتے تھے اس لئے انہوں نے پہلے تو انکار کیا.لیکن بہر حال پھر تسلی دلائی تو اس پر وہ آگئے اور تینوں دن جلسے میں شامل ہوئے اور میرا خطبہ جمعہ بھی انہوں نے سنا اور بہت غور سے سنا اور بڑے متاثر ہوئے.پھر نماز کے ماحول کو دیکھا.اس نے بھی انہیں بہت متاثر کیا کہ اس طرح کا ماحول انہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ہے.اس کے بعد شام کو ان کی مجھ سے ملاقات تھی جس میں یہ بہت متاثر ہوئے.انہوں نے بتایا کہ میں عیسائی پادریوں سے بھی ملتا رہتا ہوں لیکن ان کی باتوں کا کچھ بھی اثر نہیں کیونکہ میں ان کی باتیں ایک کان سے سنتا ہوں دوسرے سے نکال دیتا ہوں لیکن خلیفہ وقت کے الفاظ میرے دل میں اتر رہے تھے.پھر کہتے ہیں کہ اسی روز رات انہوں نے اپنے بیٹے کو فون کر کے ساری تفصیل بتائی کہ جماعت احمدیہ کے سر براہ نے انہیں وقت دیا اور بڑی شفقت اور پیار سے ہم سے باتیں کیں اور ہمیں پین وغیرہ دیا اور آخر میں ہاتھ پکڑ کر تصویر کھنچوائی.ہفتہ کے دن ان کی اہلیہ عورتوں کی جلسہ گاہ میں چلی گئیں.عورتوں کی جلسہ گاہ کے انتظامات دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں.ظہر اور عصر کی نمازیں بھی احمدی خواتین کو دیکھ کر ان کی طرح ادا کرتی رہیں.پھر یہ کہتے ہیں ان کا مبلغین سے بھی رابطہ رہا.مختلف مبلغین کے ساتھ ان کی سٹنگز (sittings) بھی ہوئیں جس میں انہیں اسلام اور احمدیت کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا.موصوف نے بتایا کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات تقریباً دو بجے اپنے ہوٹل میں جہاں یہ رہائش پذیر تھے انہیں کمرے میں میری آواز آئی کہ جس طرح میں نماز پڑھا رہا ہوں.تو کہتے ہیں میں نے آواز سنی اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور اٹھنے پر انہیں آواز سنائی دیتی رہی.کہتے ہیں میں نے اپنی بیوی کو اٹھا یا اور اسے خواب کے بارے
خطبات مسرور جلد 12 383 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014ء میں بتایا.اور کہاں تو یہ اسلام کے مخالف تھے لیکن پھر اس وجہ سے انہوں نے اتوار کی دو پہر کو جب بیعت ہوئی تو جلسے پر آ کر انہوں نے بیعت کرنے کا اظہار کیا اور بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.فرانس سے آئے ہوئے ایک عرب احمدی نے بتایا.یہ اپنا ایک پرانا خواب بتا رہے ہیں.کہتے ہیں خلیفتہ امسح الرابع رحمہ للہ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے میں نے رویا میں نا کہ کوئی کہ رہا ہے.يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: 31-28) پھر ایک نوجوان کو دیکھا جس کے بارے میں مجھے خواب میں کہا گیا کہ یہ تمہارا نیا خلیفہ ہے.تو کہتے ہیں اس رؤیا کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی وفات ہوگئی اور جب انتخاب خلافت ہوا تو مجھے یہ رویا یاد آ گیا اور جب میں نے تصویر دیکھی تو آپ ہی تھے.پھر سپین کے علاقہ مرسیا سے آئے ہوئے ایک مراکشی نو احمدی نے بتایا کہ ایک مراکشی احمدی الطیب الفرح کے ساتھ کام کیا کرتے تھے.ان کی اخلاقی اور دینی حالت سے بہت متاثر تھے.وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ کئی مراکشی لوگ ان سے استہزاء کا سلوک کرتے ہیں.ایک روز کسی نے مجھے کہا کہ کیا تم بھی قادیانی ہو؟ میں نے کہا وہ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ الطیب الفرح قادیانی ہے.میں نے جب طیب صاحب سے پوچھا کہ قادیانیت کیا چیز ہے.تو جماعتی عقائد کے بارے میں مجھے تفصیل سے انہوں نے بتایا اور پھر جب میں نے ایم ٹی اے دیکھا تو وہاں بھی بیٹھے ہوئے لوگوں کے چہروں سے نظر آ گیا کہ یہ جھوٹوں کے چہرے نہیں ہیں.کہتے ہیں کہ اس بات پر میں نے تحقیق کی اور پھر بیعت کر لی.کہتے ہیں بیعت کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور میری اہلیہ آپ کے گھر آئے ہیں.مجھے کہہ رہے ہیں کہ دروازہ کھٹکھٹانے پر آپ نے دروازہ کھولا اور اندر بٹھایا،ضیافت فرمائی.پھر ہم نے نمازیں ادا کیں.جب انہوں نے بیعت کی ہے تو اکیلے تھے.چار سال تک اکیلے تھے اور لوگ ان کو تمسخر کا نشانہ بنایا کرتے تھے لیکن جماعت نہیں تھی.پھر انہوں نے مجھے خط بھی لکھا اور جواب میں جب میں نے انہیں یہ لکھا کہ آپ دعا بھی کیا کریں کہ ربّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَ اَنْتَ خَيْرُ الْوَرِثِينَ (الانبياء : 90).تو کہتے ہیں کہ یہ دعا کا معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پھر ایک سے دو، دو سے چار کر دیئے اور مزید احمدی بیعت میں شامل ہوئے.اب وہاں ایک فیملی شامل ہوئی ہے، گیارہ احمدیوں کی جماعت بن گئی ہے.
خطبات مسرور جلد 12 384 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014ء پھر ایک اور دوست ہیں جو اٹلی میں ہیں، وہاں نمازیں پڑھایا کرتے تھے.بیعت کر لی تو لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے.اس بات پر پریشان تھے.میں نے انہیں کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نماز پڑھانے کے لئے چنا ہے.پہلے تو آپ ایسے لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے جو مومن نہیں تھے.بہر حال ایک خوبصورت ماحول میں اچھی باتیں وہاں ہوتی رہیں.ہر ایک اچھا اثر لے کے گیا.پریس اور میڈیا نے بھی مساجد کے افتتاح کی، جلسہ سالانہ کی کافی کوریج دی ہے.اس کے مطابق ساٹھ سے زائد ر پورٹس اور خبریں مختلف چینلوں میں آئی ہیں.اخبارات کے علاوہ چارٹی وی چینلز ، چار ریڈیو سٹیشن بھی اس میں شامل ہیں.اور جماعت کا ایک اندازہ ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ مجموعی طور پر سینتیس ملین (37million) افراد تک پیغام پہنچا ہے.پس یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کا اظہار کرتی ہیں.یہ باتیں تو ہو گئیں جو جلسہ اور مساجد کے افتتاح یا سنگ بنیاد کی تقریبات کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہمیں دکھاتی ہیں.اب میں بعض باتیں وہ بھی کرنا چاہتا ہوں جو ہمیں اپنے جائزوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں.جہاں ہمیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے اور ہوتے ہیں کہ وہ کس کس طرح اپنی تائیدات اور نصرت کے نظارے دکھاتا ہے وہاں ہمیں اس بات کی بھی فکر ہونی چاہئے کہ کہیں ہم میں سے کسی ایک کی بھی کوئی ایسی حرکت یا ہماری شامت اعمال اسے ان فضلوں کا حصہ بننے سے محروم نہ کر دے.دوسروں کو تو عموماً خوبیاں نظر آتی ہیں لیکن ہمیں اپنی کمی اور خامیوں کی طرف بھی نظر رکھنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کس طرح ہم اپنی حالتوں اور اپنے کاموں کو بہتر کر سکتے ہیں.خاص طور پر عہد یداران اور ان میں سے بھی خاص طور پر نیشنل عاملہ کے عہد یداران اور مرکزی کارکنان کو اس جائزے کی ضرورت ہے.وہاں بعض باتیں ایسی توجہ طلب تھیں یا خامیاں اور کمزوریاں تھیں ( کہ جن کی طرف میں نے جب توجہ دلائی ) تو اس کے بعد جرمنی کے امیر صاحب نے مجھے یہ لکھ دیا کہ ہم میں جو کمزوریاں رہ گئی ہیں اس کے لئے معذرت اور معافی.لیکن یہ لکھ دینا کافی نہیں جب تک سارا سال ان باتوں کے جائزے نہ لیں اور عملی طور پر اس کی درستی کے سامان نہیں کرتے ، اس معذرت کا کوئی فائدہ نہیں.معذرتیں اور معافیاں تو کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں.اصل چیز اصلاح ہے اور عملی کوشش ہے.
خطبات مسرور جلد 12 385 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014ء ایک جرنلسٹ خاتون جو وہاں غالباً میسیڈونیا سے آئی ہوئی تھیں.انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ جلسے کے تمام انتظامات سے مطمئن ہیں؟ اس کی کیا نیت تھی ، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ہو سکتا ہے یہ بھی ہو کہ بعض کمیوں کی طرف نشاندہی کرنا چاہتی ہو.اگر میں کہوں کہ سو فیصد مطمئن ہوں تو اگلا سوال پوچھ سکتی تھی.میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ ترقی کرنے والی قومیں خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہوتی ہیں.چند لوگوں کی تعریفیں سن کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا اور بہت اعلیٰ کا م ہو گیا اور ظاہری کمیاں جو ہیں ان کو ہم بھول جائیں.یہ تو کبھی نظر انداز نہ ہو سکتی ہیں، نہ ہونی چاہئیں.تو بہر حال اس پر وہ خاموش ہو گئی.اب ساؤنڈ سسٹم کا ہی مسئلہ ہے.دو تین دفعہ ایسے وقت میں خرابی ہوئی جب میرے پروگرام تھے.بہر حال اس پر جب میں نے بتایا کہ تم نے بھی ساؤنڈ سسٹم کا پروگرام دیکھا، اس میں خرابی ہوئی.تو اس نے سوال تو آگے نہیں کیا.وہ چپ ہو گئی.شاید اس لئے بھی چپ ہو گئی کہ خود ہی اپنی غلطیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں.بیشک یہ ٹھیک ہے کہ کسی کام میں سو فیصد perfection نہیں آسکتی لیکن بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش ضرور ہونی چاہئے اور ساؤنڈ سسٹم میں جو گڑ بڑ ہوئی ہے وہ تو خالصتاً لا پرواہی کی وجہ سے ہوئی ہے.جبکہ میں ایک دن پہلے کارکنوں کو مخاطب کر کے یہ کہہ چکا تھا کہ اگر آپ کے کام میں کوئی خرابی پیدا ہوگی تو لا پرواہی سے پیدا ہوگی ویسے تو ماشاء اللہ سب trained ہیں.اس لئے چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی معمولی نہ سمجھیں.لیکن شاید افسروں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ہدایت کارکنوں کے لئے ہے ہمارے لئے نہیں اور اسی وجہ سے یہ سب خرابیاں پیدا ہوئی ہیں.اور اب تحقیق کے بعد جو باتیں سامنے آ رہی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو بے احتیاطیاں کی گئیں وہ لا پرواہی کی وجہ سے تھیں اور کسی بڑے حادثے کی وجہ بھی بن سکتی تھیں.بجلی کے پوائنٹس کو بغیر کسی نگرانی کے چھوڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے کسی نے آکر لاؤڈ سپیکر کا پلگ نکال دیا جس کی وجہ سے آواز بند ہو گئی.یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.پھر جلسہ کی انتظامیہ کو اپنے لوڈ ( load) کا بھی پتا ہونا چاہئے کہ بجلی کا کتنا لوڈ ہمارے پاس ہے اور کوئی زائد چیز ہم لگا بھی سکتے ہیں کہ نہیں.اب وہاں چائے بنانے کا انتظام کیا ہوا تھا.اسی پلگ (Plug) میں ساؤنڈ سسٹم ہے، اس پلگ میں چائے کا نظام رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک فیوز (fuse) اڑ گیا.ایک وقت میں اس لئے آواز بند ہو گئی.تو میں بار بار احتیاط کے لئے کہتا ہوں اور سکیورٹی کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور سب سے بڑا سکیورٹی پوائنٹ یہ فیوز باکس اور پلگ کنکشن (plug connection) وغیرہ ہوتے ہیں.یو کے کا بھی جلسہ ہو رہا ہے.ان کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ ایک تو مکمل سکیورٹی چوبیس گھنٹے ایسی جگہوں پر ہونی چاہئے جہاں کہیں بھی مین مارکی کے اندر بجلی کے پوائنٹس ہوں.اور چائے وائے بنانی ہے تو دوسری جگہوں پر بنا کر
خطبات مسرور جلد 12 386 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء کارکنوں کے لئے لایا کریں.امیر صاحب جرمنی ایک یہ جواب دیتے ہیں کہ اگلے سال ہم اس کمپنی کو بدل دیں گے جن سے یہ ساؤنڈ سسٹم لیا تھا ، ان کی negligence ہے.یہ تو بالکل بچگانہ باتیں ہیں.اگر بدل کر پھر بے احتیاطی کرنی ہے، تو پھر یہی نتیجے نکلیں گے.جب تک ہر معاملے میں مکمل اطاعت کی عادت نہیں ڈالتے ، بات سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اس وقت تک یہی کچھ ہوتا رہے گا.یہ غلطیاں اور چھوٹی چھوٹی خامیاں سامنے آتی رہیں گی.اب بیعت کے وقت میں بھی آواز بند ہوگئی.اس کے بھی کئی بہانے ہیں.یہ تو اچھا ہوا کہ میں نے بیعت کے الفاظ دوبارہ دہرا دیے.دنیا سے فورا شکریہ کی فیسیں آنی شروع ہو گئی تھیں کہ آپ نے الفاظ دہرا دیئے، بڑا اچھا کیا.ورنہ ہمیں تو آواز نہیں پہنچی تھی اور ہم بیعت کے الفاظ سے محروم رہ گئے تھے اور خاص طور پر پاکستان والے کہتے ہیں کہ جب بیعتیں ہوتی ہیں تو عموماً انگریزی میں الفاظ دہرائے جاتے ہیں.اردو کی بیعت بہت کم ہوتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اردو میں بیعت ہو تو ان کی طرف سے بہت زیادہ اس بات کا اظہار ہوا.تو اس طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے.اسی طرح انتظامیہ جرمنی جو ہے ان کو کھانے کے معاملے میں پچھلی دفعہ بھی میں نے توجہ دلائی تھی.اب مجھے پتا چلا ہے کہ وہاں روٹی جو استعمال کی گئی ہے اس میں بعض دفعہ بعض ایسے پیکٹ تھے جن کی تاریخ ایکسپائر (expire) ہوئی ہوئی تھی.اس بارے میں بھی ان کو تحقیق کر کے رپورٹ دینی چاہئے.اور ان تمام کمیوں اور خامیوں کو یہ جو سامنے آگئیں یا مزید کارکنوں سے پوچھ کے جو بھی ہیں، جیسا کہ میں نے کہا ہوا ہے ایک لال کتاب بنانی چاہئے.اس ریڈ بک (Red Book) میں سب خامیاں اور کمیاں سارا کچھ لکھا جانا چاہئے اور پھر ان کو دیکھ کر آئندہ سال کے لئے بہتری کے سامان بھی کرنے چاہئیں، پڑھنا بھی چاہئے ، صرف یہ نہیں کہ لکھ لیا.اس پر غور سارا سال ہونا چاہئے کہ کس طرح ہم اس کو بہتر سے بہتر کر سکتے ہیں.بہر حال عملی طور پر بہتری کریں تبھی اس کا مداوا ہو سکتا ہے،صرف باتوں میں نہیں.اور اگر تو جہ ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے.کینیڈا کی جماعت میں بھی ایک سال اسی طرح ہوا تھا.اُن کو میں نے توجہ دلائی اور انہوں نے توجہ کی عملی اقدام اٹھائے.اب وہاں کے لوگ لکھتے ہیں کہ بہت بہتر انتظام ہے.اس لئے کہ انہوں نے بات کو سنا اور اس پر عمل کیا یا عمل کرنے کی پوری کوشش کی.جرمنی والے بھی اس اصول پر چلیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ بہتری ہوگی.عام کارکن اور افراد
خطبات مسرور جلد 12 387 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 جون 2014 ء جماعت تو بے چین ہو ہو کر لکھتے ہیں اور اب بھی شاید لکھیں گے لیکن نیشنل عہد یداروں کو اپنے خولوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے.وہ باہر نکلیں اور اپنے آپ کو افسر نہ سمجھیں بلکہ خادم سمجھ کر جماعت کی خدمت کریں.اپنے اندر یہ سوچ پیدا کریں.اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اور جو بھی کامیابیاں جماعت کومل رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے موصوف و منسوب کریں.عاجزی اور انکساری اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں بڑھنے کی کوشش کریں.اللہ کرے کہ سب عہد یداروں میں یہ روح پیدا ہو جائے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر جذب کرنے والے ہوں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 11 جولائی 2014 ء تا 17 / جولائی 2014 ء جلد 21 شمارہ 28 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 12 388 26 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014 ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27 جون 2014 ء بمطابق 27 احسان 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دعوئی سے پہلے بھی یہ الہام ہوا، پھر آخر تک کئی مرتبہ ہوا کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ - ( تذکرہ صفحہ 39 ایڈیشن چہارم) یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم الہام کریں گے.اور 1907ء میں اس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے کہ يَأْتُونَ مِن كُل فج عميق ( تذکرہ صفحہ 623 ایڈیشن چہارم) وہ دور دراز جگہوں سے تیرے پاس آئیں گے.یہ الہام بڑی شان سے مختلف شکلوں میں مختلف صورتوں میں اب تک پورا ہوتا چلا جارہا ہے.مختلف لوگ مختلف علاقوں سے آپ کے پاس آتے ہیں.یعنی آپ کی زندگی میں آپ کے پاس آتے رہے اور پھر آپ کے بعد آپ کے ذریعہ جاری نظام خلافت میں خلفاء وقت کے پاس آتے رہے اور آ رہے ہیں جو مددگار بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ نہ صرف ان کے دلوں کو اس طرف مائل کرتا ہے کہ مددگار نہیں بلکہ مید اور خدمت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو مکمل کرنے کی ایک تڑپ اور لگن ان میں پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ اپنے تن من دھن سے اس کام میں جت جاتے ہیں اور آپ کے سلطان نصیر بن جاتے ہیں.خلفائے وقت کے دست و بازو بن جاتے ہیں.ان میں سے ایسے بھی ہیں جو قرآنی حکم تفقه في الدّین کے مطابق دین کا علم حاصل کر کے اپنے ہم قوموں کو دین حق کا پیغام پہنچاتے ہیں اور اس میں اپنی زندگیاں قربان کر دیتے ہیں.بہت سے ایسے دُور دراز علاقوں سے آئے جہاں بیسویں صدی کی چھٹی ساتویں دہائی تک رسل و رسائل اور خط و کتابت کا یہ حال تھا کہ چھ چھ
خطبات مسرور جلد 12 389 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014 ء مہینے تک خطا نہیں پہنچتے تھے.پس ایسے علاقوں کے لوگوں کا دین سیکھنے کے لئے مرکز سلسلہ میں آنا اور کامل شرح صدر کے ساتھ دین سیکھنا اور اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کر دینا اور پھر کامل وفا کے ساتھ اس وقف کو نبھانا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل میں ہر قربانی کے لئے تیار ہو جانا یہ بات جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے وہاں ایسے لوگوں کی قربانی کو آج تک ، اب تک جاری رکھنا خلافت احمدیہ کی سچائی کی بھی دلیل ہے.اور یہ چیز اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ ایسے لوگ سعید فطرت ہوتے ہیں اور ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی رحمت کی نظر ان پر پڑتی ہے اور انہیں چن کر پھر آسمان کا چمکتا ہوا ستارہ بنادیتی ہے.اس وقت میں ایک ایسے ہی مخلص خادم سلسلہ اور فدائی خادم سلسلہ مکرم عبد الوہاب آدم صاحب کا ذکر کروں گا جو افریقہ کے ایک ملک سے اس وقت مرکز سلسلہ میں حصول علم دین اور خلافت کا سلطان نصیر بننے کے لئے آئے ، یہ عزم لے کر آئے کہ میں نے اب اس کام کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بروئے کا رلانا ہے.اس وقت آئے جب ابھی ربوہ آباد ہورہا تھا اور افریقہ میں رابطے بھی مہینوں بعد ہوتے تھے.یہ ہمارے پیارے بزرگ بھائی اور خلافت کے جان شار سپاہی ، خلیفہ وقت کے اشارے پر چلنے والے، ہر فیصلہ جو خلیفہ وقت کی طرف سے آئے اسے شرح صدر سے قبول کرنے والے، خلیفہ وقت کے چھوٹے چھوٹے حکم بلکہ خواہش کی تکمیل کے لئے بھی بے چین رہنے والے تھے.میں نے جب آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گھانا میں ان کے ساتھ کام کیا ہے اس وقت بھی خلافت کے ساتھ تعلق میں ایسا ہی انہیں دیکھا جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اور خلافت کے بعد میرے ساتھ بھی اطاعت وفرمانبرداری اور وفا کے اس معیار میں انہوں نے سرِ مو فرق نہیں آنے دیا.جیسا کہ آپ جانتے ہیں گزشتہ دنوں وہاب آدم صاحب کی وفات ہوئی ہے.اناللہ وانا الیہ راجِعُونَ.گزشتہ تقریباً ایک سال یہاں رہے تھے اور مارچ میں ہی یا فروری کے آخر میں واپس گئے تھے.اس خادم سلسلہ کا خدمت سلسلہ کا عرصہ نصف صدی سے زائد پر پھیلا ہوا ہے.ان کی خدمات اور ان کی شخصیت اور ان کے کردار اور ان کی وفاؤں کے قصوں کو مختصر وقت میں بیان نہیں کیا جاسکتا.بہر حال کچھ باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے ان کی سیرت کے بعض پہلو نمایاں ہوتے ہیں.پہلے تو یہ کہ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد اور والدہ کے ذریعہ آئی تھی.ان کے بیٹے حسن وہاب صاحب نے بتایا کہ وہاب آدم صاحب پیدائشی احمدی تھے اور ان کے والد سلیمان.کے.آدم
390 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء خطبات مسرور جلد 12 (K.Adam) صاحب اور والدہ عائشہ اکوادورو (Ayesha Akua Woro) صاحبہ نے احمدیت قبول کی تھی.اور جس زمانہ میں بشارت احمد بشیر صاحب گھانا میں امیر جماعت یا مبلغ تھے اس وقت وہاب صاحب کے والد سلیمان کے آدم صاحب وہاں معلم ہوتے تھے.اور وہاب آدم صاحب نے اپنی ہوش میں اپنے والد کو نہیں دیکھا.چھوٹی عمر میں ہی ان کے والد وفات پاگئے تھے.والدہ نے بتایا کہ ان کے والد کی شدید خواہش تھی کہ وہاب صاحب جماعت کے مبلغ نہیں.چنانچہ والد صاحب کی خواہش پوری کرنے کے لئے والدہ نے ان کو بشارت بشیر صاحب کے ساتھ ربوہ بھجوا دیا.بلکہ انہوں نے اپنے والد کی کبھی تصویر بھی نہیں دیکھی تھی.کچھ عرصہ پہلے کسی دوست نے ایک تصویر دکھائی جس میں وہاب صاحب کے والد کی تصویر تھی تو تب ان کو پتا لگا کہ یہ میرے والد ہیں.وہاب صاحب بروفئی ایڈور ( Brofoyedru) گاؤں میں جو اشانٹی ریجن کے اڈانسی (Adansi) ڈسٹرکٹ میں ہے، دسمبر 1938 ء میں پیدا ہوئے تھے اور ابتدائی تعلیم انہوں نے یونائٹڈ مڈل سکول سے حاصل کی اور احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی میں پڑھے.وہاں سے تعلیم مکمل کی یا کچھ عرصہ بہر حال پڑھتے رہے.پھر زندگی وقف کر دی اور آپ کو 1952ء میں جامعہ احمد یہ ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوا دیا گیا.1960ء میں آپ نے جامعہ احمد یہ ربوہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی.واپس گھانا گئے اور وہاں آپ کا مختلف جگہوں پر بطور ریجنل مشنری تقرر ہوا.سب سے پہلے آپ نے 1969ء تک برونگ آبا فو ( Brong Ahafo) ریجن میں خدمت کی توفیق پائی.اس کے بعد سالٹ پونڈ گھانا میں جامعتہ المبشرین کے پرنسپل بنے.اور اس وقت مشنوں کا یہ حال تھا کہ چھوٹے چھوٹے مٹی کے گھر ہوتے تھے جن میں غسل خانے کوئی نہیں تھے.چٹائیوں کو کھڑا کر کے اور لکڑی کے ڈنڈوں پر غسل خانے بنائے جاتے تھے.اب تو افریقہ میں یہ تصور نہیں.انہوں نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ فسل خانے کی یہ حالت تھی کہ دو اینٹیں رکھ کے پانی کی بالٹی کہیں سے لا کے تو نسل کر لیا کرتے تھے.بالکل ہی ابتدائی حالات تھے.بہر حال اس کے بعد 1971ء میں وہاب صاحب کی تقرری یو کے (UK) میں بطور نائب امام مسجد فضل لندن ہوئی.1974 ء تک آپ نے یہ ذمہ داری ادا کی.1975ء میں آپ کو امیر و مشنری انچارج گھانا مقرر کر دیا گیا اور تقریباً 39 سال وفات تک یہی خدمت سرانجام دیتے رہے.ی ابتدائی تاریخ لکھنے والے بتاتے ہیں کہ جب گھانا میں جماعت کی تعداد بڑھنی شروع ہوئی تو اس وقت یہ سوچا گیا کہ بجائے معلمین کے مقامی مبلغین کی تعداد کو بڑھایا جائے اور اس کے لئے حضرت
خطبات مسرور جلد 12 391 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہاں کچھ لڑ کے لائے جائیں جن کی تربیت کی جائے.تو جیسا کہ میں نے بتایا اس وقت گھانا سے دو چھوٹی عمر کے چودہ پندرہ سال کے بچے، وہاب آدم صاحب اور بشیر بن صالح صاحب پاکستان بھجوائے گئے.اور دونوں بڑی محنت اور لگن سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کرتے رہے.1957ء میں عزیزم بشیر بن صالح ربوہ میں گرمی کے باعث بیمار ہو گئے.ان کو واپس گھانا بھجوایا گیا لیکن یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور 16 نومبر 1958ءکو صالح صاحب جو تھے وہ انیس سال کی عمر میں وفات پاگئے اور پھر وہاب صاحب اکیلے جامعہ میں پڑھتے رہے.آٹھ سال تک یہیں رہے.شاہد کی ڈگری حاصل کی اور مرکزی مبلغ بن کر پھر گھانا گئے.ان کے جانے کے بعد پھر جماعت اس وقت تک کچھ بڑھ بھی چکی تھی.لوگوں کو جوش اور جذ بہ بھی پیدا ہوا اور پھر انہوں نے اپنے بچے جامعہ احمدیہ میں بھجوانے شروع کئے.اس کے بعد پھر آٹھ دس مبلغین یہاں سے بن کے گئے.پھر بعض پابندیاں لگ گئیں.اب تو وہیں جامعہ میں خود ہی مبلغین تیار ہورہے ہیں بلکہ انٹرنیشنل جامعہ بن گیا ہے جہاں افریقہ کے مختلف ممالک سے لڑکے آتے ہیں اور شاہد مبلغ کا کورس پاس کرتے ہیں.جب یہ ربوہ میں تھے اس وقت گھانا کے سفیر ایک موقع پر یہاں آئے.انہوں نے اُن کو بتایا کہ ربوہ کس طرح آباد ہوا، کیسی بنجر زمین تھی.کس طرح لوگوں نے قربانیاں کیں.یہ ساری تفصیل اس انداز میں بیان کی کہ وہ سفیر صاحب کہنے لگے کہ اگر کوئی شخص خدا پر یقین نہ رکھتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی حقانیت پر ایمان نہ ہو تو وہ یہ واقعات سن کے یقینا خدا کی ہستی پر ایمان لائے گا کہ کس طرح ربوہ آباد ہوا.کوئی بھی موقع تبلیغ کا جانے نہیں دیتے تھے.اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے ربوہ میں ابتدائی زمانے میں وقت گزارا.کہتے ہیں ان دنوں میں بجلی بھی نہیں ہوتی تھی.پینے کا پانی کوئی نہیں تھا.دُور سے لا نا پڑتا تھا.کوئی بلڈنگ نہیں تھیں اور ہوٹل کی چھتیں بھی کچی تھیں.فرش بھی کچا تھا.بارش ہوتی تو چھت ٹپکتی تھی.فرش پر پانی کھڑا ہو جاتا تھا.بلکہ مذاق میں بتایا کرتے تھے کہ ہمارے جوصندوق تھے ، box تھے وہ بھی پانی میں تیر نے لگ جاتے تھے.تو اس وقت یہ حال تھا.پھر احمد نگر میں بلڈنگ لی ، وہاں جامعہ شروع ہوا.غیر ملکیوں کا بھی ایک ہوٹل تھا تو اس میں انگلستان سے بھی ایک شخص تھا، ایک جرمنی سے عبدالشکور کنزے صاحب وہاں تھے.امریکہ سے ایک وائٹ امریکن تھے، ایک افریقن امریکن تھے.ٹرینیڈاڈ سے بھی ایک صاحب آئے ہوئے تھے.چین سے عثمان چینی صاحب، ابراہیم وان اور ادریس وان صاحب تھے.تو مختلف لوگوں کا یہ ہوٹل تھا جو اس زمانے میں مختلف ملکوں سے آئے اور وہاں رہے جن میں
خطبات مسرور جلد 12 392 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء سے یہ ایک دو ہی تھے جو مبلغ بنے باقی چھوڑ کے چلے گئے تھے یا کچھ عرصے بعد تعلیم حاصل کر کے اپنے اپنے کام کرنے لگ گئے.وہاب صاحب کا ایک واقعہ ہے.کہتے ہیں کہ جامعہ احمد یہ ربوہ میں جب زیر تعلیم تھے تو ایک مرحلے پر پہنچ کر بعض مضامین میں مثلاً منطق اور فقہ کو اردوزبان میں سمجھنے میں دقت محسوس کی.امتحان سر پر آ گیا.بڑے پریشان تھے.ان کے دوست امری عبیدی صاحب تنزانیہ کے تھے.انہوں نے بھی اس زمانے میں جامعہ پڑھا تھا، جو بعد میں وہاں کے وزیر بھی بنے.انہوں نے مشورہ دیا کہ مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے پاس جا کر دعا کے لئے کہتے ہیں.خیر یہ ان کے پاس گئے.حضرت مولانا راجیکی صاحب کوئی کتاب پڑھ رہے تھے.ان کو دیکھ کے انہوں نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور دریافت کیا کہ کیا مسئلہ ہے؟ امری عبیدی صاحب نے اور وہاب صاحب دونوں نے کہا کہ ہمارے امتحان ہو رہے ہیں اور ہمیں بڑی مشکل پیش آ رہی ہے، دعا کے لئے کہنے آئے ہیں.تو انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے.انہوں نے کہا تم بھی میرے ساتھ دعا میں شامل ہو.دعا کے بعد حضرت مولا ناراجیکی صاحب کہنے لگے کہ میں نے دعا کرتے ہوئے کشفی حالت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک کو آپ دونوں کے سروں پر رکھا ہوا دیکھا ہے جس کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس علیہ السلام کی برکت سے آپ کو کامیابی بخشے گا.چنانچہ کہتے ہیں ایسا ہی ہوا اور معجزانہ طور پر وہ پڑھائی آسان ہو گئی.تیاری آسان ہوگئی.جب امتحان دیا تو پرچوں کو بہت آسان پایا اور جب نتیجہ نکلا تو وہاب آدم صاحب اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن پر تھے.بعض اور سعادتیں بھی ان کے حصے میں آئیں.وہاب صاحب سب سے پہلے افریقن مرکزی مشنری تھے.سب سے پہلے گھا نین امیر ومشنری انچارج یہ تھے.سب سے پہلے افریقن احمدی جنہیں حضرت خلیفہ اسیح کی نمائندگی میں بطور امیر مقامی ربوہ بننے کی سعادت حاصل ہوئی وہ یہ تھے.سب سے پہلے افریقن مرکزی مشنری جنہیں یورپ میں خدمت کی توفیق ملی وہ یہ تھے.پھر سب سے پہلے افریقن جنہیں مجلس افتاء کا اعزازی ممبر بنے کی توفیق ملی وہ وہاب صاحب تھے.ان کو مرکز کی نمائندگی میں مختلف ممالک جیسے کینیڈا، جرمنی ، بین ، مالی، آئیوری کوسٹ، نائیجیریا، برکینا فاسو، لائبیریا ، سیرالیون، جمیکا کے دورہ جات کی توفیق ملی.ان کو اسلام اور رنگ ونسل میں امتیاز اور اسلام اور عیسائیت کے بارے میں ریسرچ اور مضامین لکھنے کی توفیق عطا ہوئی.والدہ کے نام پر انہوں نے ایک فاؤنڈیشن بھی جاری کی ہے جو
خطبات مسرور جلد 12 393 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء ضرورتمندوں کی مدد کرتی ہے.جماعت احمد یہ گھانا نے ان کے دورامارت میں اللہ کے فضل سے بڑی ترقی کی ہے.اللہ کے فضل سے کچھ تو سکول پہلے تھے ، کچھ اور کھلے.کچھ نئے سرے سے اسٹیبلش (Establish) ہوئے ، مزیدان میں بہتری پیدا ہوئی.جماعت احمدیہ کے چارسو سے زائد سکول ہیں.اس کے علاوہ ٹیچر ٹرینگ کالج، جامعتہ المبشرین، جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل نمایاں ہیں.اسی طرح سات بڑے ہسپتال ہیں.دو ہومیو پیتھک کلینک ہیں جو گھانا میں خدمت کر رہے ہیں.اس کے علاوہ رفاہ عامہ کے کام جاری ہیں.الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں جماعت کو غیر معمولی مقام ملا ہے.گھانا کی دو مشہور شاہرا ہیں جو ہیں ان پہ انہوں نے بڑی کوشش سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں کروائی ہیں اور ہر آنے جانے والا وہ دیکھتا ہے اور نیچے لکھا ہوا ہے جس مسیح کے آنے کا انتظار تھا وہ آ گیا اور وہ یہ ہیں.اس طرح یہ کھل کے وہاں تبلیغ بھی کر رہے ہیں.ان کو جود نیاوی اعزازات ملے وہ یہ ہیں کہ کوریا میں انٹر ریجیس (Inter Religious) اور انٹرنیشنل فیڈریشن فار ورلڈ پیس امریکہ کی طرف سے امن کے لئے بے لوث اور شاندار خدمات کی بنا پر Ambassador for Peace کا اعزاز دیا گیا.اسی طرح گورنمنٹ آف گھانا کی طرف سے امیر صاحب گھانا کو ان کی شعبہ تعلیم، صحت، زراعت اور ملکی امن و استحکام کے لئے خدمات کے اعتراف میں ایک اہم ملکی اعزاز Companion of the Order of the Volta سے نوازا گیا.پھر 10 نومبر 2007ء کو آپ کی قابلیت کے اعتراف میں ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی، یو نیورسٹی آف کیپ کوسٹ (University of Cape Coast) نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے ان کو نوازا.یہ نیک نیتی سے کئے گئے وقف کی برکات ہیں کہ دین کی خدمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیاوی اعزازات سے بھی نوازا.اگر وقف نہ ہوتے تو پتا نہیں کوئی اور کام کر رہے ہوتے اور کسی کو پتا بھی نہیں ہونا تھا کہ وہاب صاحب کون ہیں.پھر انٹر نیشنل سطح پر ان کی ذمہ داریاں درج ذیل ہیں.سینٹر فار ڈیموکریٹک ڈیویلپمنٹ گھانا ( Centre for Democratic (Development(CDD)Ghana) کے ممبر تھے.Ghana Integrity Initiative کے وائس چیئر مین تھے.نیشنل پیس کونسل (National Peace Council) کے ممبر تھے اور وہاں کی سیاسی حکومتوں کو آپس میں امن
خطبات مسرور جلد 12 394 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء سے حکومت جاری رکھنے میں بڑا کردار ادا کیا.کو فاؤنڈر (Co-Founder) اینڈ نیشنل پریذیڈنٹ فار کونسل آف ریلیجنز تھے اس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کی نمائندگی تھی.نیشنل reconciliation کمیشن کے ممبر رہ چکے تھے.جب یہ 1974ء میں یہاں تھے ، اور پاکستان میں جماعت احمدیہ پر حالات بڑے خطرناک ہو گئے تھے ، مظالم ہو رہے تھے جو ابتلاء کا دور تھا تو وہاب صاحب نے یہاں امام مسجد فضل کے ساتھ مل کے دن رات کام کیا اور مسلسل کئی کئی راتیں جاگتے گزاریں اور خبروں کو برطانوی پریس اور دوسرے میڈیا تک پہنچایا.1973ء میں وہاب صاحب کو مسلم ہیرلڈ کا نائب ایڈیٹر مقرر کیا گیا.اس رسالہ میں انہوں نے دو نئے کالم شروع کئے.ایک لندن ڈائری کے نام سے تھا جس میں مہینے کی کارگزاری رپورٹ شائع ہوتی تھی اور دوسرا کالم Your Questions Answered کے نام سے تھا جس میں مختلف لوگوں کے موصول ہونے والے سوالات کے مدلل جوابات ہوتے تھے.اس کے علاوہ مرحوم نے لندن مشن کے سٹڈی سرکل میں متعدد مضامین پیش کئے جو بالخصوص نئی نسل کے سوالات کے جواب ہوتے تھے.نائب صدر مملکت گھانا کوئیسی بیکوئی ایسا آرتھر (Kwesi Bekoe Amissah-Arthur) کہتے ہیں کہ وہ ہماری قوم کا ایک عظیم الشان رہنما تھا.حکومت گھانا اس عظیم الشان رہنما کی وفات پر ان کے اہل خانہ اور احمد یہ سلم مشن کے ساتھ غم میں برابر کی شریک ہے.ہم میں سے بہت سے مولوی وہاب آدم کو ان کی اس ملک میں امن کی فضا پیدا کرنے کی کوششوں کے لئے ہمیشہ یادرکھیں گے.اسی طرح ان کی اور احمد یہ مسلم مشن کی جس کی انہوں نے کئی سال تک قیادت کی ہے تعلیم کے فروغ کے لئے کی گئی کوششوں کوبھی فراموش نہ کرسکیں گے.سکالر اور مذہبی رہنما کو نگین دل کے ساتھ الوداع کہتے ہوئے دعا گو ہیں کہ جس امن کے قیام کے لئے انہوں نے کوشش کی تھی وہ ہمارے ملک میں قائم ودائم رہے.اسی طرح سابق صدر گھانا جان اجسیکم کوفور (John Agyekum Kufuor) صاحب کہتے ہیں کہ ایک بہت بڑے مذہبی اور قومی رہنما تھے.پھر ڈاکٹر مصطفی احمد جوممبر آف پارلیمنٹ اور منسٹر آف سٹیٹ بھی ہیں.یہ مسلمان ہیں.وہ کہتے ہیں إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.گھانا نے اپنا ایک قابل فخر بیٹا کھو دیا.انہوں نے امن کے قیام کے لئے جو کاوشیں کی ہیں اس سے قوم مسلسل فائدہ اٹھاتی چلی جائے گی اور ہم آپ کو ہمیشہ ہماری ترقی و کامیابی میں بیش بہا خدمات کی وجہ سے یادرکھیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے.
خطبات مسرور جلد 12 395 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء چارلس جی پالمر بکل (Charles.G.Palmer Buckle) جو کیتھولک آرچ بشپ آف اکرا ( Accra) ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدمت انسانیت کے انتھک علمبر دار تھے.امن کا پیامبر بن کر خدا کی محبت کو بانٹتے رہے.مولوی جن اعلیٰ نظریات پر قائم تھے اور جن کے لئے انہوں نے کام کیا ان کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے.پھر ریورنڈ پروفیسر ایمانوئل اسانے (Most Rev.Prof.Emmanuel Asante) جو کہ میتھوڈسٹ(Methodist) کے صدر بشپ ہیں اور نیشنل پیس کا نفرنس کے چیئر مین ہیں.انہوں نے لکھا کہ ایک امن پسند ، محب وطن اور اتحاد کی کوشش کرنے والا اچانک خدا کی طرف چلا گیا.نیشنل پیس کا نفرنس ہمیشہ آپ کے ان اصولوں کو قائم رکھے گی جو انہوں نے قیام امن کے لئے اپنائے.پھر اسی طرح اور لوگوں نے بھی (اپنے تاثرات ) دیئے ہیں.وزارت خارجہ کا نمائندہ حاجی محمد گاڈ و صاحب جو کہ گورننگ کونسل اور گھانا کونسل مذاہب برائے امن کے نائب چیئر مین ہیں ، کہتے ہیں ہم نے مسلم کمیونٹی گھانا کا ایک بڑا ستون کھو دیا ہے.دوسری دنیا میں تو احمدی مسلمان نہیں ہیں لیکن یہاں مسلمانوں کی جو تنظیمیں ہیں کہہ رہی ہیں کہ ہم نے مسلم کمیونٹی گھانا کا ایک بڑا ستون کھو دیا ہے.انہوں نے مختلف مذاہب کے درمیان روابط کے پل استوار کئے.مولوی وہاب آدم نہایت قابل عظیم اور اتحاد قائم کرنے والے رہنما تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ خدمت انسانیت کے لئے صرف کیا اور رابطوں کو استوار کیا.پھر ان کے بیٹے حسن وہاب نے ان کے بارے میں کچھ حالات لکھے ہیں.کہتے ہیں کہ والد صاحب خلافت احمدیت کے حقیقی وفا شعار تھے.ہرامر میں خلیفہ وقت سے ضروری رہنمائی حاصل کرتے تھے.بسا اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خلیفہ وقت کی خدمت میں بغرض رہنمائی لکھتے.مثال کے طور پر اپنی وفات سے ایک ہفتہ پہلے جب بیماری کی وجہ سے کافی کمزور ہو گئے تو ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال جانے کے لئے کہا.اس پر انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو جواب دیا کہ پہلے خلیفہ وقت کی خدمت میں لکھ کر اجازت لے لو پھر جاؤں گا.شکر گزاری کے بارے میں ان کے بیٹے لکھتے ہیں.زندگی کا وسیع تجربہ رکھتے تھے اور اس حوالے سے جو بھی واقعات سناتے ان کا ہمارے اخلاق پر بہت گہرا اثر ہوتا.1990ء میں جب ان کا ایک بیٹا ملک سے باہر گیا تو اس نے وہاب صاحب کو شکایت کی کہ گھر سے رابطہ کرنے میں بہت وقت لگتا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 396 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء بہت دیر سے خط پہنچتا ہے.اس دور میں انٹرنیٹ اور ای میل وغیرہ کی اتنی سہولت میسر نہیں تھی.اس پر وہاب صاحب نے اسے بتایا کہ دیکھو جب میں ربوہ تعلیم حاصل کر رہا تھا تو میری ماں تک میرے خطوط پہنچنے میں چھ مہینے کا وقت لگتا تھا.آپ لوگوں کو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ آج کل سہولتیں میسر ہیں.پھر محنت کی عادت کے بارے میں کہتے ہیں کہ بعض اوقات ہم نے دیکھا کہ فجر کی نماز کے بعد کام شروع کرتے اور سوائے نمازوں اور کھانے کے وقفہ کے سارا دن اور ساری رات یہاں تک کہ انگلی فجر کا وقت آجا تا کام میں مصروف رہتے.اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب آپ بیماری کی وجہ سے زیادہ بیٹھ نہیں سکتے تھے تو انہیں لیٹ کر کام کرتے دیکھا ہے.لیٹے لیٹے لمبے چوڑے خطوط لکھتے اور نوٹس لکھتے تھے.آخر تک ان کے خط مجھے آتے رہے ہیں.خاص طور پر مجھے جو خط لکھتے تھے ہمیشہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے.اور ایک خوبی یہ تھی کہ اردو میں لکھتے تھے.خوش مزاجی صبر اور حوصلے کے بارے میں ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ بہت خوش مزاج انسان تھے.مثال کے طور پر بیماری کے دنوں میں ہمیں پتا تھا کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور زندگی کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اپنی تکلیف کا ذکر نہیں کیا.بلکہ جب بھی ہم ان سے پوچھتے تو یہی کہتے کہ اب پہلے کی نسبت بہتر ہیں حالانکہ ہمیں نظر آ رہا تھا کہ وہ دن بدن کمزور ہورہے ہیں.اپنی بیماری کے ان سخت ایام میں بھی ہمیں لطائف سناتے رہے.ان کو جیسی بیماری تھی اس کا بڑے صبر سے انہوں نے مقابلہ کیا ہے اور یہ وہی کر سکتا ہے جس کو اللہ پر کامل ایمان ہو اور یہ صبر جو ہے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا ہو.اُس وقت بعض لوگ اظہار کرتے رہے کہ شاید ان کو پتا نہیں کہ بیماری کی شدت کیا ہے.ان کو کینسر کی بیماری تھی ، پینکریاز (Pancreas) کا کینسر تھا.لیکن لوگ غلط تھے، ان کو سب کچھ پتا تھا.یہ اس بات پر راضی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جیسی زندگی دی الحمد للہ بڑی اچھی دی اور اس بات پر بھی راضی تھے کہ اللہ تعالیٰ بیماری سے شفا دے یا جو بھی اس کی تقدیر ہے وہ آ جائے.اس بارے میں زبیر خلیل صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ برس جرمنی میں چیک آپ کروانے کے لئے خاکسار کو ان کے ساتھ سپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس جانے کی توفیق ملی.ڈاکٹر نے جب ان کی جان لیوا بیماری کے بارے میں مطلع کیا تو ہنس کے فرمانے لگے.میرا ایک خدا ہے اور خلیفۂ وقت کو بھی ہم دعا کے لئے کہتے ہیں جو ہمارے لئے دعائیں کرتا ہے.اگر اللہ کی مرضی میری وفات میں ہے تو میں اس پر بھی راضی ہوں.ڈاکٹر یہ باتیں سن کر بڑا متاثر ہوا.
خطبات مسرور جلد 12 397 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء یہی لکھنے والے لکھتے ہیں کہ میں نے ایک خواب میں دیکھا تھا جس میں آپ ٹی وی پہ یہ کہہ رہے ہیں، اعلان کر رہے ہیں کہ امیر غانا تو ایک نور ہے.پھر ان کے بیٹے مہمان نوازی کے متعلق کہتے ہیں کہ جو بھی ان سے ملنے کے لئے جاتا خود جوس پیش کرتے.ہمارے بہت سے مسلمان اور غیر مسلم دوستوں نے مجھے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وہاب صاحب ہمارے ساتھ اپنے بچوں جیسا سلوک کرتے.جب بھی کوئی ان سے مشورہ مانگتا ہمیشہ ان کی مدد کر تے.گھانا میں کوکونٹ (coconut) خاص طور پر بہت ہوتا ہے اور پیش کیا جاتا ہے اور یہ خاص طور پر مہمانوں کو پیش کرنے کے لئے فریج میں رکھتے ہیں.پچھلے دنوں ہمارے مبارک ظفر صاحب گئے ہوئے تھے.وہ کہتے ہیں کہ بیماری کے باوجود ان کی کوشش یہ تھی کہ خود کھول کے سٹرا (Straw) ڈال کے پیش کریں.ہاتھ پوری طرح اٹھا نہیں سکتے تھے تو پھر دوسروں کی مدد سے انہوں نے سٹرا (Straw) ڈالنے کی کوشش کی.آخری بیماری تک یہ وصف جو مہمان نوازی کا تھا اس کو انہوں نے پوری طرح نبھانے کی کوشش کی.بشارت بشیر صاحب کی اہلیہ صاحب لکھتی ہیں کہ وہاب صاحب نے جب تعلیم مکمل کی خدا کے فضل سے کامیاب مبلغ بنے.وہاب صاحب کی طبیعت میں شروع سے ہی بہت انکساری تھی.1954ء میں میری شادی ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہاب صاحب ہمارے گھر آتے اور مجھے کہتے کہ مولانا کے بوٹ دے دیں.یعنی بشارت بشیر صاحب کے بوٹ دے دیں، میں نے پالش کرنے ہیں.میں بہت گھبرا جاتی کہ مبلغ بننے والے بچے سے میں یہ خدمت لوں؟ لیکن ان کا اصرار ہوتا تھا اس لئے کہ جو احسان انہوں نے ربوہ لا کر مجھ پر کیا اس کو ہر صورت میں اتاریں اور ویسے بھی استاد کی عزت ان کے دل میں تھی.اسی طرح انہوں نے بشارت بشیر صاحب کی وفات پر ایک بڑا مضمون لکھا اور جب انہوں نے اس کا ذکر کیا تو اس سے بڑے خوش بھی ہوئے.ان کے بیٹے رحمدلی کا واقعہ لکھتے ہیں کہ بہت سے واقعات ہیں جب انہوں نے لوگوں کی مدد کے لئے اپنے تعلقات استعمال کئے اور ایسے لوگوں کی بھی مدد کرتے جنہیں وہ پہلے نہ جانتے تھے.ایک مرتبہ ایک بیوہ ان کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ وہ بیوہ ہو گئی ہے اور چاہتی ہے کہ کوئی چھوٹا سا کام شروع کر کے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے جس کے لئے اس کو مالی مدد کی ضرورت ہے.والد صاحب اس بیوہ خاتون
خطبات مسرور جلد 12 398 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014 ء سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے لیکن اس کی مدد کی تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکے.بچوں سے اور دوسروں سے بھی ہمیشہ بڑا حسن سلوک کرتے تھے.ہر بچے کو جب بھی ملتے ان کو تحفے غبارے اور چاکلیٹ جو ان کی جیب میں ہوتے تھے ، دیا کرتے تھے.بلکہ کسی نے مجھے شکایت کی کہ ان کا سلوک ایسا ہے ( یعنی اچھا نہیں).اس پر میں نے انہیں کہا مجھے یقین تو نہیں لیکن ان کو میں نے بھیج دیا ہے.اس پر انہوں نے کہا میں تو ہمیشہ اپنے پاس سے اپنے اوپر تنگی کر کے بھی لوگوں کا خیال رکھتا ہوں لیکن بہر حال ایسا طبقہ ہوتا ہے جو شکایتیں کرنے پر تلا ہوتا ہے چاہے اس سے اچھا سلوک بھی کیا جائے.اسی طرح خلافت کے ساتھ تعلق اور وابستگی کے بارے میں یا کوئی کام پوچھے بغیر نہیں کر نا (اس بارہ میں ) ڈاکٹر تاثیر صاحب جو گھانا میں ڈاکٹر ہوتے تھے، لکھتے ہیں کہ وہاب صاحب کا ایک وصف یہ تھا کہ اطاعت ہمیشہ کرنی ہے.کہتے ہیں خلافت رابعہ میں ایک بار ایک غیر احمدی ریڈیو گرافر کی طرف سے ایکسرے پلانٹ لگانے کی تجویز ہوئی جس میں بظاہر ہسپتال کو فائدہ اور سہولت دکھائی دے رہی تھی.کہتے ہیں جب میں نے وہاب صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے کہ کوئی بات طے کرنے سے پہلے جب تک خلیفہ وقت سے اجازت نہیں مل جاتی یہ نہیں کرنی.ان سے اجازت لو پھر آگے بات چلانا.چنانچہ جب اجازت لی گئی تو اجازت نہیں ملی اور اس طرح بہت سی قباحتوں سے بچ گئے.محمود ناصر ثاقب صاحب مالی کے امیر جماعت ہیں.محمود ناصر صاحب پہلے برکینا فاسو میں بھی رہے ہیں.کہتے ہیں وہاب صاحب وہ مبلغ تھے جو ہم پیچھے آنے والوں کے لئے ایک نیک نمونہ بنے.کہتے ہیں خاکسار کو ان کے ساتھ متعدد دفعہ ملنے کا موقع ملا.خاکسار نے سبغ تھینگا گاؤں میں وہ جھونپڑی دیکھی ہے جس میں برکینا فاسو میں وہاب صاحب کا قیام ہوتا تھا.وہاب صاحب کی کوشش سے 1986ء میں جماعت احمدیہ برکینا فاسو کی رجسٹریشن ہوئی.اور 2005 ء میں برکینا فاسو کے جلسہ سالانہ میں جب ان کو میں نے نمائندہ بنا کر بھجوایا تو انہوں نے اپنی بہت سی یادیں وہاں تازہ کیں کہ کن حالات میں وہ برکینا فاسو آئے تھے.جماعت کی کس طرح رجسٹریشن ہوئی.بہت مشکلات تھیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُور ہوئیں.برکینا فاسو کی جماعت انہی کے ذریعہ سے قائم ہوئی ہے.ہم بھی دیکھا کرتے تھے کہ یہ جاتے تھے.پھر خلافت جو بلی کے جلسے پہ برکینا فاسو سے سائیکلوں کا قافلہ چلا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ میں خود طمبالے آکر ان کا استقبال کروں گا اور باوجود مصروفیت کے یہ دو تین سومیل کا سفر کر کے وہاں گئے اور ان کا
خطبات مسرور جلد 12 399 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014 ء بارڈر پر استقبال کیا.چند سال پہلے ایک دفعہ افریقہ کے لوگوں کو میں نے کہا تھا کہ یہ مشہور ہے کہ احمدی حج نہیں کرتے اور غیر احمدیوں نے بڑی افواہیں پھیلائی ہوئی ہیں اس لئے ہمارے مبلغین کو حج کرنا چاہئے.اس کے لئے ایک سکیم شروع کی تھی.تو حافظ مشہور صاحب کہتے ہیں کہ میں نے وہاب صاحب سے کہا کہ مختلف لوگوں کے لئے آپ نام پیش کرتے ہیں آپ خود کیوں نہیں جاتے.تو انہوں نے فوراً اس کا جواب دیا کہ میں پہلے ہی حاجی ہوں.کہتے ہیں مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی تو میری پریشانی دیکھ کے کہنے لگے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثالث کے زمانے میں میں نے حج پر جانے کا ارادہ کیا لیکن اس وقت غانا کے مذہبی امور کے جو وزیر تھے وہ مسلمان تھے.انہوں نے بڑی مخالفت کی اور میر اویز انہیں لگنے دیا.کچھ عرصے کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے ان کی ملاقات ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ ویزا نہ ملنے کی کیا وجوہات ہیں ؟ جب انہوں نے یہ بتایا تو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کچھ دیر خاموش رہے، ان کو دیکھتے رہے.اس کے بعد کہتے ہیں کہ مجھے ابھی کشفا اللہ تعالیٰ نے دکھایا ہے کہ تم خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہو اور تمہارے ساتھ ساتھ ستر ہزار لوگ طواف کر رہے ہیں.تو کہتے اس لئے میں تو پہلے ہی حاجی ہوں.already حاجی ہوں اس لئے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا.صبران کی ایک بڑی خاصیت تھی.کہتے ہیں صبر کی حالت دماغ پر نقش ہے کہ جس روز ان کے ایک داماد جوامریکہ میں تھے شہید ہو گئے.وہاں کسی نے ڈاکہ ڈالا اور ان کو ان کی جگہ پر قتل کر دیا تو کہتے ہیں اس روز جامعہ احمدیہ غانا کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات تھی.پروگرام پر آنے سے قبل امیر صاحب کو یہ اطلاع مل گئی تھی.ظاہر ہے ایک باپ کی حیثیت سے فکر ہونی چاہئے کہ جوان بیٹی بیوہ ہوگئی ہے اور اس کے تین بچے ہیں.لیکن تین چار گھنٹے اس فنکشن میں شامل رہے اور چہرے پر بالکل آثار نہیں آنے دیئے کہ یہ واقعہ ہو چکا ہے اور تمام فنکشن بڑی مسکراہٹ سے گزارا اور شام کے وقت جب سب کچھ ختم ہو گیا پھر ہمیں بتایا کہ یہ حادثہ ہو گیا اور میری بیٹی جو ہے وہ آج بیوہ ہو گئی ، جوان داماد جو ہے اس کو اس طرح قتل کر دیا گیا ہے.ایک دوست قانات بیگ صاحب جو رشین ہیں وہ کہتے ہیں کہ 2008ء میں جلسہ سالا نہ گھانا میں شمولیت کی توفیق ملی.مجھے امیر صاحب گھانا کی طرف سے ان کی رہائش پر دعوت دی گئی.اپنے روایتی لباس میں مجھے ملے.گلے لگایا اور اس انداز میں ملے کہ میری سفر کی پانچ دن کی جو تھکاوٹ تھی بالکل دور ہو
خطبات مسرور جلد 12 400 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء گئی.اور کہتے ہیں ابھی بھی جب میں تصویر دیکھتا ہوں تو ان کے ہاتھوں کی گرمی محسوس کرتا ہوں.مجھے آپ کی یہ ادا بھی بڑی پسند آئی کہ آپ کے ساتھ صدر مملکت کرسی پر بیٹھے تھے تو آپ نے جو عزت صدر مملکت کو دی وہی عزت ڈیوٹی والے کو دی جو کہ دھوپ سے بچنے والی بڑی چھتری لئے کھڑا تھا.آپ نے دونوں سے ایک ہی انداز میں باری باری پوچھا کہ آپ تھک تو نہیں گئے آپ کو پیاس تو نہیں لگی.یعنی غریب اور امیر دونوں کا خیال رکھا.کہتے ہیں جہاں گیسٹ ہاؤس میں ہماری رہائش تھی تو وہاں مسجد میں لائنوں میں صفیں عموماً بچھی ہوئی نہیں ہوتیں.وہاب صاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ صفیں سیدھی ہیں کہ نہیں.تو یہ جو مہمان آئے ہوئے تھے رشین ان کے نیچے جائے نماز نہیں تھی.ان کو خیال ہوا کہ شاید یہ فرش پر صیح طرح نہ پڑھ سکیں تو وہاب صاحب نے اپنی جائے نماز اٹھا کر ان کو دے دی اور خود اسی طرح نماز پڑھی.کہتے ہیں اگلے دن سے پھر باقاعدہ دو جائے نماز میں لے کر آیا کرتے تھے.ماجد صاحب کہتے ہیں کہ خلافت سے جو اُن کا تعلق تھا اور جس طرح اطاعت کرتے تھے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے.ایک واقعہ کہتے ہیں کہ یہاں گزشتہ سال دو پہر کے وقت دفتر آئے.سارے کھانا کھا رہے تھے تو کہتے ہیں کہ گھانا فون کرنا ہے.کہتے ہیں اس پر میں نے ان کو کہا کہ امیر صاحب پہلے کھانا کھا لیں پھر فون کر لیتے ہیں.کہنے لگے نہیں.خلیفہ وقت کا یہ ارشاد ہے جو ابھی ملا ہے، میں نے اسے فوری پہنچانا ہے کہ وہاں اس پر کام شروع ہو جائے.کھانا تو بعد میں کھایا جا سکتا ہے.چنانچہ انہوں نے فون کیا.میرا جو پیغام تھاوہ پہنچایا اور فوری طور پر اس پر کام کر کے رپورٹ دینے کا کہا.اسی طرح عاجزی انکساری یہ تھی کہ وہاب صاحب دفتر میں بیٹھے ہوتے تو ماجد صاحب کو دیکھتے ہی بار بار اس لئے کھڑے ہو جاتے تھے کہ آپ ہمارے افسر ہیں، ہمارا فرض ہے کہ احترام کریں.ایک دفعہ دفتر میں یہ لوگ کھانا کھا رہے تھے تو شاید اس کھانے میں نمک زیادہ تھا.ماجد صاحب بلڈ پریشر کی وجہ سے نمک نہیں کھاتے.تو وہاب صاحب خاموشی سے اٹھے، گیسٹ ہاؤس گئے، اپنا کھانا جو تھا وہاں سے لے کے آگئے اور کہا کہ میں نے چیک کیا ہے اس میں نمک کم ہے.تو یہ ہیں وہ لوگ جو قر آنی حکم کے مطابق اپنے نفسوں کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں.قریشی داؤ د صاحب بھی کچھ عرصہ گھانا میں رہے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ ریجنل مشنری کے علاوہ اردو ڈاک کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا.ہمیشہ ہر ایک کے ساتھ بڑی شفقت اور محبت
خطبات مسرور جلد 12 401 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014 ء سے پیش آتے تھے.کہتے ہیں ایک دفعہ میں رخصت پر پاکستان گیا تھا.واپس آیا تو کسی دوست کو کہا کہ فلاں وقت رات گیارہ بجے فلائٹ آنی ہے تم مجھے لینے آجانا.کہتے ہیں جب میں جہاز سے اتر کر باہر آیا ہوں تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ اس وقت بھی رات کو عبدالوہاب آدم صاحب ائیر پورٹ کے اس دروازے پر کھڑے تھے جہاں سے اتر کر ائیر پورٹ میں داخل ہوتے ہیں اور امیگریشن وغیرہ کلیئر کروا کے اور دعا کے ساتھ پھر انہوں نے ان کو آگے رخصت کیا اور کہتے ہیں کہ خلفاء کے خط لکھوانے کا احترام اس طرح سکھایا کہ بعض دفعہ خلیفہ وقت کو اردو خط لکھتے ہوئے رپورٹ میں کوئی غلطی ہو جاتی تھی تصحیح کے لئے جب اس پر ٹیکس (Tippex) لگاتے تھے تو کہتے تھے اس طرح نہیں.یہ پورا خط دوبارہ لکھو کیونکہ خلیفہ وقت کے پاس اس طرح جانا بے ادبی ہے.مرز انصیر احمد صاحب بھی لکھتے ہیں کہ کام کو دوسرے وقت پر اٹھا نہیں رکھتے تھے.بڑے جذبے سے کام کرتے تھے اور کام ختم کر کے ہی اٹھتے تھے.اسی طرح دوسروں کو بھی بڑا encourage کرتے تھے جو کام کرنے والے ہیں.اور ایک دفعہ وا (Wa) میں جو وہاں سے تین چارسوکلومیٹر دور ہے ایک فنکشن تھا.مرزا صاحب کو ساتھ لے گئے.وہ کچی اور بڑی ٹوٹی ہوئی سڑک ہے.صرف کچھی نہیں بلکہ بے انتہا جھٹکے.خیر بڑا لمبا سفر کر کے جب وہاں پہنچے تو پتا لگا کہ فنکشن تو ملتوی ہو گیا ہے.اور بڑا تکلیف دہ سفر ہوتا ہے لیکن کچھ انہوں نے اظہار نہیں کیا اور کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا گو کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے وہاں پہلے اطلاع دے دی تھی لیکن تار کا نظام بھی ایسا ہی تھا کہ اطلاع نہیں پہنچ سکی.پھر بہت سارے لوگ ہیں، ایسے واقفین زندگی ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے لئے بعض دفعہ وہاں حالات کی وجہ سے دودھ وغیرہ میسر نہیں ہوتا تھا تو فوراً اس کا انتظام کرتے تھے.یہ مجید بشیر صاحب نے اور ان کے علاوہ اوروں نے بھی لکھا.پھر ڈاکٹر عبد الخالق صاحب کہتے ہیں کہ ربوہ میں ایک دفعہ ملے تو تعارف نہیں تھا.پھر میں نے بتایا کہ میں مولانا غلام باری سیف صاحب کا بیٹا ہوں.تو پھر دوبارہ اٹھ کے گلے لگایا کہ آپ تو میرے استاد کے بیٹے ہیں اور بڑے احترام سے پیش آئے.رشین ڈیسک والے خالد صاحب کہتے ہیں کہ جب میں نے ایک دفعہ ان کو بتایا کہ میں رشیا سے آیا ہوں تو کہنے لگے تم بڑے خوش قسمت ہو.You are very lucky person.کہتے ہیں میں نے حیران ہو کر کہا یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ آپ اور آپ کے مبلغین جو وہاں رشیا میں کام کر رہے ہیں بڑے خوش قسمت ہیں.تو اس پر کہنے لگے کہ ایک نبی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ہے کہ وہاں بڑی
خطبات مسرور جلد 12 402 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014 ء تعداد میں جماعت پھیل جائے گی اور خوب ترقی ہوگی تو آپ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں کہ اس کا حصہ بن رہے ہیں.پس یہ یقین تھا اور اس یقین پر اظہار کہ جن مبلغین نے ابھی وہاں قدم رکھے ہیں انہیں بھی مبارک ہو کہ وہ اس آئندہ تاریخ کا حصہ بننے والے ہیں.اسی طرح ملک مظفر صاحب کہتے ہیں.سیاسی اثر و رسوخ کا ایک دفعہ اس طرح اندازہ ہوا کہ خاکسار ا کرا ( Accra) سے ٹیما ( یہ دو شہر ہیں ) جا رہا تھا.راستے میں بیریئر (Barrier) تھا، وہاں اخبار فروخت ہورہا تھا.اخبار کے سرورق پر وہاب صاحب کی نمایاں فوٹو نظر آئی تو میں نے مقامی مبلغ سے معلوم کرا یا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی چند ہفتے پہلے گھانا میں جنرل الیکشن ہوئے تھے اور موجودہ پارٹی اور حزب اختلاف نے صرف معمولی فرق کے ساتھ الیکشن جیتے تھے جو کہ حکومت مان نہیں رہی تھی.اس موقع پر بڑے ہنگامے اور بدامنی کا خطرہ تھا.وہاب صاحب نے دونوں پارٹیوں کے لوگوں سے مل کر پرامن انتقال اقتدار کے لئے جو بھر پور کوشش کی ہے یہ خبر اسی کے لئے ہے اور قوم اس کو سراہ رہی ہے.شمشاد صاحب آجکل امریکہ میں مبلغ ہیں.یہ گھانا میں بھی رہے ہیں.کہتے ہیں میرا تبادلہ سیرالیون ہو گیا تو میں جس شہر میں تھا وہاں کے لوگ ایک وفد بنا کر امیر وہاب صاحب کے پاس گئے کہ ان کو ابھی یہیں رہنا چاہئے تو اس پر وہاب صاحب نے کہا دیکھو ایک جماعت کا صدرا اپنی جماعت کی فلاح و بہبود چاہتا ہے کہ وہاں ترقی ہو.ریجنل چیئر مین چاہتا ہے کہ وہاں ریجن میں ترقی ہو.ملک کا امیر چاہتا ہے کہ اس کے ملک میں ترقی ہو تو سب سے اوپر ہمارے خلیفتہ اسیح ہیں کہ جو سب دنیا میں ترقی دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے کون سا آدمی کہاں موزوں ہے ان کو سب سے زیادہ پتا ہے.اگر اس کا تبادلہ گھانا سے سیرالیون میں ہو رہا ہے تو ان کو پتا ہے کہ اس کی خدمات کی وہاں ضرورت ہے.اگر خلیفتہ اسیح کو یہ لکھا جائے کہ یہاں رہنے دو تو یہ سوء ادبی ہے.اور پھران کو بتایا، سمجھا یا کہ دیکھو میں آپ کے جذبات کا احترام کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود خلیفتہ امسیح کے حکم کی تعمیل ہمارا فرض ہے اور پھر مزید ان کو پھر اہمیت بتائی کہ خلافت کی کیا اہمیت ہے اور کیا برکات ہیں.اس طرح ان لوگوں کو بھی مزید یہ ادراک اور فہم حاصل ہوا کہ کس طرح خلافت کا احترام کرنا ہے.مبارک صدیقی صاحب ایک واقعہ اور لطیفہ بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ وہاب آدم صاحب یہاں آئے تھے تو ایک دن میری ٹیکسی پر بیٹھے اور لندن مسجد چلنے کے لئے کہا.میں تو انہیں جانتا تھا لیکن وہ نہیں جانتے تھے.مجھے شرارت سوجھی ( وہ حسب عادت کرتے رہتے ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے ان سے
خطبات مسرور جلد 12 403 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء کہا کہ آپ اس مسجد میں کیوں جارہے ہیں؟ وہ تو احمدیوں کی مسجد ہے.یہ سنتے ہی وہاب صاحب نے تبلیغ شروع کر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کا ظہور ہو چکا ہے اور پوری تحقیق کے بعد ہم نے انہیں مان لیا ہے اور تم لوگ بیٹھے ہوئے ہو، قبول نہیں کر رہے.تو وہاں مسجد فضل پہنچ کر بہت دیر تک بیٹھے رہے، مجھے تبلیغ کرتے رہے.کہتے ہیں میں نے ان کو مذا قا اس وقت بڑی سنجیدگی سے کہا کہ سنا ہے آپ کا کلمہ بھی الگ ہے.اس پر انہوں نے کہا ہمارا کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله ہے.پھر مجھے بازو سے پکڑ کے کھینچنے لگے کہ اندر آؤ میں تمہیں مسجد پر لکھا ہوا دکھا تا ہوں.خیر کافی دیر کے بعد میں نے ہاتھ جوڑ کے کہا کہ میں تو آپ کو جانتا ہوں بلکہ آپ کا بڑا مداح ہوں اور احمدی ہوں اور حلقے کا قائد بھی ہوں ، میں مذاق کر رہا تھا.خیر اس پر بہت ہنسے.انہوں نے کہا اگر تم مجھے نہ بتاتے تو میں نے تمہیں اٹھا کر لے جانا تھا.اور انہوں نے ان کو اٹھا کے لے بھی آنا تھا.جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ربوہ میں امیر مقامی رہے.تو عطاء المجیب صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے بھی یہ یاد ہے کہ خلیفہ اسیح الثالث چند روز کے لئے ربوہ سے باہر اسلام آباد گئے.وہاب صاحب کو امیر مقامی مقرر کیا اور مولانا ابوالعطاء صاحب کو نائب امیر مقرر کیا اور یہ ہمیشہ اس پر آبدیدہ ہو جاتے تھے.بلکہ جب میں گھانا میںتھا تو مجھے بھی انہوں نے کئی دفعہ بتایا کہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث مجھے ایک سبق دینا چاہتے تھے ، ایک نصیحت کرنا چاہتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اپنا انداز تھا اور نصیحت تھی کہ بعض گھا نین کی بعض باتیں بعض جگہ سے پہنچ رہی تھیں کہ ہمارا جو گھا نین مشنری ہے، قابل ہے، لائق ہے اس کو کیوں ہمارا امیر نہیں بنایا جاتا.کیوں ہمارا امیر پاکستانی ہے.تو یہ سبق تھا کہ تم اپنے گھانا کی باتیں کر رہے ہو، میں تمہیں ربوہ کا امیر مقامی بنا رہا ہوں.خود وہاب صاحب اس پر ہمیشہ کہتے تھے کہ مجھے اس سے بڑی نصیحت حاصل ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ پھر انہوں نے وہاں کی جماعت میں خلافت کے لئے ایک بڑا احساس پیدا کیا، ایسا جو اُن کے دلوں میں گڑھ گیا.اسی طرح گزشتہ سال جب یہ یہاں تھے تو گھانا کی جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس سال جلسہ نہ کیا جائے ، ہمارے انتظامات ٹھیک نہیں ہوتے.اس پر میں نے ذرا تھوڑا سا ناراضگی کا اظہار کیا اور وہاب صاحب کو کہا کہ آپ یہاں آگئے ہیں اور لوگ اس قسم کی سوچیں سوچنے لگ گئے ہیں.یہ کیا ہو رہا ہے؟ تو بلال صاحب کہتے ہیں کہ یہ اس بات پر بڑے افسردہ تھے.ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے لیکن اس دن بڑی گہری سوچ میں رہے اور ان کو فون کیا تو دھیمی آواز میں ہلکی آواز میں کچھ کہتے بھی رہے.کہتے ہیں کہ صرف
خطبات مسرور جلد 12 404 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014 ء یہ ایک واقعہ ہے جب میں نے ان کو سنجیدہ اور فکر مند دیکھا ہے.بہر حال ان کی جو یہ بے چینی تھی ، جو سوز تھا یہ خلافت سے محبت کا اظہار تھا.پھر یہاں سے علاج کے بعد جب گئے ہیں تو تمام عاملہ سے پھر انہوں نے مجھے معافی کا خط لکھوایا کہ ہمارے سے غلطی ہوگئی ہے اور جلسہ انشاء اللہ ہو گا.اور پھر جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا اور بڑا کامیاب ہوا اور پھر یہ بھی لکھا کہ اس سال کا جلسہ گزشتہ سالوں کے جلسوں سے زیادہ کامیاب ہوا ہے اور سہولیات بھی بہتر رہی ہیں.پس یہ یقینا خلافت کی اطاعت کی وجہ سے تھا اور جس طرح میرے ہر فیصلے پر ان کا یہی کہنا تھا کہ میں نے تو ماننا ہے اور نبض کی طرح ساتھ چلنا ہے.فہیم بھٹی صاحب کہتے ہیں کہ بڑے بے نفس تھے.ایک دن میں گیا ہوں تو حالانکہ بیمار تھے پھر بھی سنک میں برتن دھور ہے تھے.میں نے کہا میں دھودیتا ہوں تو انہوں نے کہا نہیں کوئی ضرورت نہیں.خلیفہ اسیح الثالث کے متعلق ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہاب صاحب چھٹی پر پاکستان گئے تو فرمایا تمہاری کوئی چھٹی نہیں اور دیہاتوں میں جا کر کام کرو.وہاب صاحب کہتے ہیں کہ دیہاتوں میں جا کر مجھے جو تجربہ ہوا اس سے مجھے بڑا فائدہ ہوا اور پھر مجھے خلیفہ وقت کے فیصلوں کی حکمت نظر آئی.ساری ساری رات جو لوگ کام کرنے والے تھے ان کو خود چائے وغیرہ پوچھتے ، ان کا خیال رکھتے.سلیم الحق صاحب کہتے ہیں کہ جب یہ یہاں تھے تو گزشتہ سال ایک دن سپریم کورٹ گھانا کا کوئی فیصلہ آنا تھا.تو فجر کے بعد ملاقات ہوئی.کہنے لگے میراٹی وی خراب ہو گیا ہے اور چل نہیں رہا.ٹھیک کر دیں کیونکہ میں نے خلیفہ وقت کو اس فیصلے کے بارے میں رپورٹ دینی ہے.تو کہتے ہیں مجھے تو پتا نہیں لیکن میرے بچے ٹھیک کر دیں گے.خیر بچوں نے ٹھیک کر دیا.اس پر بڑے خوش ہوئے پھر ان کو چاکلیٹ بھی دیئے.فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کے یہ نھے مجاہد ہیں اور یہ بچے جو ہیں یہ جماعت کے روشن مستقبل اور ترقیات کا ذریعہ بنیں گے اور انشاء اللہ غالب بھی آئیں گے.اس طرح بچوں کو encourage کیا کرتے تھے.ابراہیم اخلف صاحب بھی ان کو ملے ہیں.کہتے ہیں کہ کوئی ملاوٹ نہیں تھی.خلافت سے محبت اور عقیدت بہت زیادہ تھی.اسی طرح جو کوئی بھی مرکزی نمائندہ جاتا تھا اس کی بڑی عزت و احترام کیا کرتے تھے.میں نے اپنا بھی ذکر کیا کہ میں وہاں رہا ہوں.کچھ دن شروع میں ان کے گھر بھی رہا ہوں.چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا، پاکستانی کھانوں کا وغیرہ.اور صرف میرا نہیں بلکہ ہر پاکستانی جو جا تا تھا اس کا خیال رکھتے تھے.
خطبات مسرور جلد 12 405 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014ء ان کی ایک اور خوبی جونوافل اور تہجد کی تھی میں نے دیکھی ہے.ایک دفعہ ہم ایک لمبے سفر کے بعد ٹمالے میں ناردرن ریجن میں تھے وہاں یہ آئے اور بڑی خراب سڑک تھی، بڑا تھکا دینے والا لمبا سفر تھا رات گیارہ بجے پہنچے.کھانا وانا کھایا.بارہ بجے فارغ ہوئے تو رات کو میری آنکھ کھلی اور باہر دیکھا تو مسجد کے صحن میں صفیں بچھی ہوتی تھیں اور وہاں انتہائی خشوع و خضوع سے نوافل پڑھ رہے تھے شاید رات کا ڈیڑھ بجا تھا.پتا نہیں کب سے پڑھ رہے تھے.آدھا پونا گھنٹہ شاید سوئے ہوں گے اور پھر نفل شروع کر دیئے.تھکاوٹ ہو یا کچھ ہو انہوں نے اپنے نوافل کبھی نہیں چھوڑے.ایک دفعہ ٹمالے میں ہی ایک مربی صاحب نے غیر از جماعت لوگوں کے سامنے اور میرے سامنے بڑا غلط رویہ ان کے ساتھ اپنایا.یہ تو کچھ نہیں بولے.مجھے غصہ آیا میں نے بھی ان مربی صاحب کو کچھ برا بھلا کہا.انہوں نے اردو میں صرف اتنا کہا کہ ان غیر لوگوں کے سامنے تو جماعتی وقار کا کچھ خیال رکھا کرو.لیکن خاموش رہے.پھر انہوں نے مجھے کہا کہ دیکھو یہ ایسی باتیں کرتے ہیں.ان کی اس بات کا غیر احمدیوں پر کیا اثر پڑے گا.بڑا درد تھا اور صرف فکر تھی کہ جماعتی وقار اثر انداز ہو رہا ہے.بہر حال ایسے لوگ پھر وقف میں رہتے بھی نہیں.وہ مربی صاحب مرکز واپس گئے اور پھر وقف سے فارغ بھی کر دیئے گئے.لیکن اس وقت وہاب صاحب کے صبر کو دیکھ کے مجھے بڑی حیرت ہوئی.حالانکہ امیر تھے کوئی بھی ایکشن لے سکتے تھے.جب میں گھانا میں ہی تھا تو کئی مرتبہ بڑے درد سے مجھ سے ذکر کیا کہ بعض مربیان جو ہیں وہ محنت کرتے ہیں اور بہت محنت کرتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو بالکل کام نہیں کرتے اور جواب دے دیتے ہیں کہ اس سے زیادہ کام نہیں ہو سکتا.حالانکہ تبلیغ کے نئے سے نئے راستے کھولنے چاہئیں اور ہمیں پیغام پہنچانا چاہئے اور ان کی یہ بات سو فیصد صحیح تھی کہ بعض صرف یہی سمجھتے ہیں کہ جوطریق جاری ہو گیا ہے بس اس پر چلتے رہو اور لکیر کے فقیر بنے رہو.نئے نئے راستے نہ نکالو.بہر حال وہاب صاحب کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ہر جگہ احمدیت کا پیغام پہنچے.صحیح اسلام کا پیغام پہنچے اور اس کے لئے خود کوشش بھی کرتے تھے.دوسروں سے بھی بڑی توقع رکھتے تھے اور اس کے لئے بے چین رہتے تھے.دعائیں کرتے تھے.پھر لالچ بھی کوئی نہیں تھی.شروع میں جماعت کی طرف سے کارکنوں کو پاکستان میں ربوہ میں سستی قیمت پر کچھ پلاٹ ملا کرتے تھے.اب گزشتہ سال انہوں نے یہاں علاج پر جماعت کا جو پیسہ خرچ ہو رہا ہے، شاید اُسےcompensate کرنے کے لئے مجھے لکھا کہ وہ پلاٹ جو ہے جس کی لاکھوں روپے میں قیمت تھی
خطبات مسرور جلد 12 406 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 جون 2014 ء وہ میں جماعت کو دینا چاہتا ہوں اور جماعت کو دے رہا ہوں.تو یہ بھی ہے کہ ان کو اس طرح کوئی دنیاوی لالچ بھی نہیں تھا.وہ کم از کم ہمیں پچیس لاکھ کی جائیداد انہوں نے جماعت کو دی.ان کی وفات بھی بڑے سرکاری اعزاز کے ساتھ ہوئی اور صدر مملکت نے وہاں اپنے سٹیٹ ہاؤس میں ان کا جنازہ منگوایا وہیں پڑھوا یا حکومتی پروٹو کول پورا دیا.جنازہ لے جانے کے لئے حکومت کی جانب سے پولیس اور آرمی اور پیرا ملٹری فورسز کی گاڑیوں نے مکمل اعزاز دیا.پھر وہاں پوری کا رروائی ہوئی اور سٹیٹ ہاؤس میں مختلف وزراء نے ،صدر مملکت کے نمائندے نے جو سپیکر آف پارلیمنٹ تھے اور اسی طرح نائب صدر مملکت نے بھی ان کے بارے میں وہاں خیالات کا اظہار کیا.اعزاز کے ساتھ پورا پروٹوکول ان کو دیا گیا.اور پھر اسی طرح وہاں کے جو مختلف مذہبی رہنما تھے اور عیسائیوں وغیرہ نے بھی ان کے حق میں بہت کچھ کہا.ہمارے مشنری فرید صاحب جو جامعہ احمد یہ گھانا کے پرنسپل ہیں انہوں نے اسلام کا زندگی اور موت کا جو فلسفہ اور نظریہ ہے قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کے ساتھ وہ بیان کیا.بہر حال ایک پورے اعزاز کے ساتھ ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سے لے جایا گیا اور مقبرہ موصیان گھانا میں ان کی تدفین ہوئی اور میڈیا پر بھی کافی کوریج ہوئی.گھانا ٹیلی ویژن نے پوری کوریج دی اور سٹریمنگ (streaming ) پر دنیا میں بھی دکھائی گئی.ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ مریم وہاب صاحبہ اور چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور خلافت اور جماعت سے ویسا ہی پختہ تعلق رکھیں جیسا ان کا اپنا تھا اور یہ اپنے بچوں اور بیوی کے لئے چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ صبر اور حوصلہ بھی ان کو عطا فرمائے اور وہاب صاحب کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کے قرب میں ان کو جگہ عطا فرمائے.نماز کے بعد انشاء اللہ ان کا جنازہ غائب بھی پڑھوں گا.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 18 جولائی 2014 ء تا 24 جولائی 2014 ، جلد 21 شماره 29 صفحہ 05 - 09)
خطبات مسرور جلد 12 407 27 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 04 / جولائی 2014 ء بمطابق 04 وفا 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ (البقرة:184) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.اللہ تعالیٰ ہمیں پھر محض اور محض اپنے فضل سے ایک اور رمضان سے گزرنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے.یہ ایک مہینہ جو اپنی بے شمار برکات لے کر آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس مہینے میں تمہارے پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے.کس لئے فرض کیا گیا ہے؟ کیا اس لئے کہ تم صبح سے شام تک بھوکے رہو؟ نہیں ، بلکہ اس لئے کہ تم تقویٰ اختیار کرو.اصل چیز یہی تقویٰ ہے جو بے شمار برکات کا حامل بناتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتناہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو.“ تبتل اور انقطاع کا مطلب ہے کہ خدا سے کو لگانا اور دنیاوی خواہشات کو پیچھے پھینک دینا.گویا کہ ان دنوں میں ایسی حالت ہو کہ ان میں دنیا کی خواہشات سے تعلق توڑ کر صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہر عمل اور کوشش ہو.
خطبات مسرور جلد 12 408 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء آپ نے فرمایا کہ ” پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے.‘ فرمایا کہ ” اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے.“ ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 123) پس ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ دے، ان دنوں میں پہلے سے بڑھ کر اس کی تسبیح کرے.اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کا نہ صرف اظہار کرے بلکہ اپنے عبادتوں کے معیار اونچے کرنے کی کوشش کرے تبھی روزوں کا فیض حاصل ہوتا ہے اور تبھی اس مقصد کو انسان حاصل کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تم تقویٰ اختیار کر کے اللہ کا قرب حاصل کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچانے کا مضبوط قلعہ ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 458 مسندابی هریرة حدیث نمبر 9214 عالم الكتب بيروت 1998ء) لیکن یہ آگ سے بچانے کا مضبوط قلعہ تب بنتا ہے جب خدا تعالیٰ کی خاطر انسان اپنے ہر عمل کو کرے.خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول اپنے سامنے رکھے.دعاؤں اور ذکر الہی میں دن اور رات گزارنے کی کوشش کرے.تقویٰ پر چلے.تقویٰ کے بارے میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہوں پر توجہ دلائی ہے اور فرمایا جو اس سوچ کے ساتھ روزے رکھے کہ تقویٰ اختیار کرنا ہے، ذکر الہی اور دعاؤں کے ساتھ اپنے دن رات گزارنے ہیں، اپنی عبادتوں کے حق کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دینی ہے.تو اللہ نے فرمایا کہ یہ روزہ پھر میری خاطر ہے اور پھر میں ہی اس کی جزا ہوں.(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى يريدون...حدیث 7492) یعنی ایسے روزے دار پھر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہو جاتے ہیں.ان کی نیکیاں عارضی وقتی اور رمضان کے مہینے کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ حقیقی تقویٰ کا ادراک ان کو ہو جاتا ہے.یہ نیکیاں پھر رمضان کے بعد بھی جاری رہتی ہیں.ایسے لوگ پھر ایک رمضان کو اگلے رمضان سے ملانے والے ہوتے ہیں.پس ہمیں اس سوچ کے ساتھ اور اس کوشش سے اس رمضان میں سے گزرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہمارا تقویٰ عارضی نہ ہو.ہمارے روزے صرف سطحی نہ ہوں.بھوکے پیاسے رہنے کے لئے نہ
خطبات مسرور جلد 12 409 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء ہوں.رمضان کی روح کو سمجھے بغیر صرف ایک دوسرے کو رمضان مبارک کہہ کر پھر رمضان کی روح کو بھول جانے والا ہمارا رمضان نہ ہو بلکہ تقویٰ کا حصول ہمارے سامنے ہر سحری اور ہر افطاری کے وقت ہو.دن بھر کا ذکر الہی اور رات کے نوافل ہمیں تقویٰ کی راہیں دکھانے والے ہوں.ہم اپنے اوپر زیادتی کرنے والے کا جواب اسی طرح الٹا کر دینے والے نہ ہو جائیں.اس کے بجائے ہم اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اپنے اوپر زیادتی کرنے والے کے جواب میں خاموش ہو جا ئیں.تقویٰ پر چلتے ہوئے یہ جواب دیں کہ میں روزہ دار ہوں.ہر زیادتی کے جواب میں اني صائم کے الفاظ ہمارے منہ سے نکلیں.(صحيح البخارى كتاب الصوم باب فضل الصوم حديث 1894) ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہماری عزتیں ہماری بڑائی کسی کو نیچا دکھانے یا اسی طرح ترکی بہ ترکی جواب دینے میں نہیں اور اپنے پر کی گئی زیادتیوں کا بدلہ لینے میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ہے.اسی میں ہماری بڑائی ہے.اسی بات میں ہماری عزت ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کو عزت دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ.(الحجرات : 14 ) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہونے کا یہ معیار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس بارے میں ایک ارشاد ہے جو ایک اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ :.اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے.اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا.یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہو سکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور نا پاک بھی وہیں.ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے.اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اس کے نزدیک متقی ہے فرمایا ” پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے.خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بد بخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 238-239) پس یہ بڑا خوف دلانے والی تنبیہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ روزے اور یہ رمضان کا مہینہ اس لئے ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر انتہائی رحم کا سلوک ہے.پھر فرمایا کہ ان دنوں
خطبات مسرور جلد 12 410 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء میں شیطان کو جکڑ کر میں نے تمہارے لئے یہ سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ تم آسانی سے تقویٰ اختیار کر سکو.ان احکامات پر چل سکو، چلنے کی کوشش کرو.میرا قرب پانے والے بن سکو لیکن اب بھی اگر روزے کے ساتھ بظاہر عبادتوں کی طرف توجہ دے رہے ہو لیکن اپنی اناؤں اور جھوٹی عزتوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہو تو روزے کوئی فائدہ نہیں دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر اگر ہم ان جالوں اور ان خولوں کو توڑ کر باہر نہیں نکلتے اور صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے تقویٰ کو حاصل کرنے کی طرف ہم توجہ نہیں دیں گے یا نہیں دیتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ دو عملی ہے اور ظاہری تقویٰ کا اعلان اور دل میں ناپاکیاں یہ دونوں جمع نہیں ہوسکتیں.فرمایا کہ خوف کا مقام ہے اور یہ خوف کا مقام اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ کسی کے تقویٰ کا فیصلہ کسی انسان نے نہیں کرنا.یہ فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے.اور جب یہ فیصلہ خدا تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے تو پھر سوائے توبہ استغفار تسبیح تخمید اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا ورداور ڈرتے ڈرتے دن بسر کرنا اور خدا تعالیٰ کے خوف سے راتیں گزارنا.اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں.لیکن ہمارا خدا بڑا پیار کرنے والا خدا ہے.قربان جائیں ہم اس پر کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں رمضان میں اپنے بندے کے بہت قریب آ گیا ہوں اس لئے فیض اٹھا لو جتنا اٹھا سکتے ہو اور تقویٰ کے حصول کے لئے میرے بتائے ہوئے طریق پر چلنے کی کوشش کرو تا کہ تم اپنی دنیا و عاقبت سنوار نے والے بن سکو.یہ کیمپ جو ایک مہینہ کا قائم ہوا ہے اس سے بھر پور فائدہ اٹھا لو کہ اس میں خالصہ اللہ تعالیٰ کے لئے کی گئی نیکیاں تمہیں عام دنوں میں کی گئی نیکیوں کی نسبت کئی گنا ثواب کا مستحق بنانے والی ہوں گی.پس اٹھو اور میرے حکموں کے مطابق اپنی عبادتوں کو بھی سنوارو اور اس عہد کے ساتھ سنوارو کہ یہ سنواراب ہم نے ہمیشہ قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے.اٹھو اور اپنے اعمال کو بھی خوبصورت بناؤ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بناؤ اور اس ارادے سے بنانے کی کوشش کرو کہ اب ہم نے ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے.اٹھو اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد کیا ہے اس کا حقیقی ادراک اس مہینے میں حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس سوچ کے ساتھ کرو کہ اب یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے.اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھو کہ وَلَا تَشْتَرُوا بِايْتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ (البقرة:42) کہ میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت مت لو اور مجھ سے ہی ڈرو یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری باتیں جو دین ہیں ان کے بدلے میں دنیا کی خواہش نہ کرو.یادرکھو دین کے مقابلے میں دنیا بالکل حقیر چیز ہے.پس یہ سوچ ہے جو ہم میں سے ہر ایک میں پیدا ہونی چاہئے تبھی ہم رمضان کا حقیقی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اور پھر اللہ تعالیٰ یہی نہیں
خطبات مسرور جلد 12 411 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء کرتا کہ بندے کو کہہ دیا کہ تقویٰ اختیار کرو یہ میرا حکم ہے اور حکم عدولی کی تمہیں سزا ملے گی بلکہ فرمایا کہ اس تقوی کا تمہیں ہی فائدہ ہوگا اور پھر خدا تعالیٰ نے ان فوائد کا بھی ذکر فرما دیا جو اس دنیا کے بھی فوائد ہیں اور آخرت کے بھی فوائد ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم شریعت کے طریق پر چلو گے اور احکامات پر عمل کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہارا ولی اور دوست ہو جائے گا.فرمایا یہ دنیا والے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنْكَ مِنَ اللهِ شَيْئًا ( الجاثية :20 ).وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.اس لئے لوگوں کی پناہیں تلاش کرنے کی بجائے اس کامل پناہ کی تلاش کرو جو وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (الجاثیۃ:20) ہے جو متقیوں کا دوست ہے اور ان کی پناہ گاہ ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم کوئی بھی کام، کوئی بھی معاملہ میری خاطر کرتے ہو، میری رضا کے حصول کے لئے کرتے ہو، میرا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے کرتے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے.فرمایا اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (التوبة :4) یقینا اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرتا ہے.جس کو اللہ تعالیٰ کی محبت مل جائے اسے اور کیا چاہئے.اسے تو دونوں جہان کی نعمتیں مل گئیں.اس کی تو دنیاو عاقبت سنور گئی اور اس خوبصورت انجام کا اللہ تعالیٰ نے خود کہہ کر بھی بتادیا کہ تمہارا یہ انجام ہوگا تمہاری دنیا و عاقبت سنور جائے گی.فرمایا کہ یہ جو انجام ہے متقیوں کے لئے ہے.دنیا دار اس انجام کو نہیں پہنچ سکتے.جولوگ دنیاوالوں کی زیادتیوں پر صبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگتے ہیں، دنیا والوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ، دنیا والوں کی ظاہری طاقت دیکھ کر ان کے آگے جھکتے نہیں تو اس دنیا میں بھی انہیں طاقت ملے گی اور انجام کا روہی فتیاب ہوں گے انشاء اللہ.آج پاکستان میں یا بعض دوسرے ممالک میں احمدیوں پر سختیاں وارد کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے پیچھے چلو ہم تمہاری تمام سختیاں اور مشکلات دور کر دیں گے.ہم تمہیں اپنے گلے سے لگالیں گے.ہماری باتیں مان لو.لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب لوگ دھوکہ دینے والے ہیں.جس کو بظاہر آجکل یہ اپنی کامیابیاں سمجھ رہے ہیں ان کی ناکامیاں بننے والی ہیں.جن دنیاوی سہاروں پر بھروسہ کر کے یہ لوگ ظلم کا بازار گرم کر رہے ہیں یہی سہارے دیمک زدہ لکڑیوں کی طرح ٹوٹ کر خاک میں ملنے والے ہیں.پس صبر سے کام لو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہو، اسی سے مدد مانگو تو یقینا تم زمین کے وارث بنائے جانے والے ہو.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی
خطبات مسرور جلد 12 412 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور آپ کے طفیل ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ مسیح موعود کے آنے کے ساتھ دین کا احیاء ہونا ہے اور تقویٰ پر قائم رہنے والوں نے ہی اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے بہتر انجام کو دیکھنا ہے.قربانیاں تو دینی پڑیں گی یہ قربانیاں ہی کامیابی کی راہ دکھانے والے ہیں.یہ قربانیاں ہی تقویٰ کا معیار بلند کر کے وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ.(الاعراف : 129) کا انجام یعنی کہ انجام متقیوں کے ہاتھ میں رہتا ہے اس کی خوشخبری دینے والی ہیں.پس ہم خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں بہتر انجام کی خبریں دے رہا ہے.آج اگر مسلم امہ بھی اس راز کو سمجھ کر مسیح موعود کی مخالفت کرنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مددگاروں میں شامل ہو جائے تو یہ بے چینی جو ہر مسلمان ملک کے افراد اور حکومتوں میں پائی جاتی ہے یہ ختم ہو جائے.فتنہ وفساد اور آپس کی لڑائیاں جو جہاد کے نام پر ایک دوسرے پر ظلم کر کے ہو رہی ہیں یہ محبت اور پیار میں بدل جائیں.پس نہ لیڈروں میں تقویٰ ہے، نہ علماء میں تقویٰ ہے اور نتیجہ ان علماء کے تربیت یافتہ عوام الناس بھی حقیقی تقویٰ کا ادراک نہیں رکھتے اور اپنی طرف سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان نام نہاد علماء اور شدت پسند گروہوں کے جال میں پھنس کر غلط اور تقویٰ سے کوسوں دور ہٹے ہوئے اعمال بجالانے کی کوشش کر رہے ہیں.نوجوان نسل کے جذبات ابھار کر انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا لالچ دے کر ان علماء نے ظلم کی راہ پر لگایا ہوا ہے.ان نو جوانوں اور عموما مسلم امہ کو کوئی سمجھانے والا نہیں ہے کہ یہ تقویٰ نہیں ہے جس کو تم تقویٰ سمجھ رہے ہو.یہ نیکی نہیں ہے جس کو تم نیکی سمجھ رہے ہو.یہ جہاد نہیں ہے جس کو تم جہاد سمجھ رہے ہو.آپس میں کلمہ گوؤں کو قتل کرنا تقویٰ سے دور لے جانے والی چیز ہے.مومن کی نشانی تو خدا تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ (الفتح : 30) کہ آپس میں رحم کے جذبات سے پر ہوتے ہیں.یہ دلوں کے پھاڑ کر کے ظلمت پر تلے ہوئے جو لوگ ہیں یہ کہاں سے تقویٰ پر چلنے والے ہو گئے ؟ کیا ایسے لوگوں کے انجام اللہ تعالیٰ بہتر کرتا ہے؟ کیا ایسے ظالموں کو خدا تعالیٰ زمین کا وارث بناتا ہے؟ کبھی نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کو کبھی ظلم پسند نہیں آسکتا.جو خلافت خلافت کا نعرہ لگاتے ہیں کیا ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ زمین میں خلافت دے کر اپنا جانشین بنانے والا ہے؟ وہ خدا جو رحمان خدا ہے کیا وہ ظلموں اور ظالموں کا مددگار ہوگا ؟ وہ خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے کیا وہ اپنے پیارے نبی کے نام پر دنیا میں ظلموں کو پہنچنے دے گا؟ کبھی نہیں.خلافت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات مسرور جلد 12 413 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کے ذریعہ سے جاری ہونی تھی جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ہو گئی.اس کے علاوہ خلافت کا ہر نعرہ دین کے نام پر دنیاوی فوائد حاصل کرنے اور حکومتوں پر قبضہ کرنے کے طریق ہیں.گزشتہ جمعہ یہاں ایک ٹی وی چینل والے آئے ہوئے تھے ان کو میں نے انٹرویو دیا.ان کو میں نے یہی کہا تھا کہ جس خلافت کو تم سمجھ رہے ہو کہ جاری ہونی ہے یہ کوئی خلافت نہیں ہے.خلافت جاری ہو چکی ہے اور ظلم سے نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تائید سے جاری ہوئی تھی اور ہو گئی.کاش کہ مسلم امہ کو بھی یہ سمجھ آ جائے اور ان کے آپس کے جھگڑے اور فساد اور حکومتوں کے لئے کھینچا تانیاں ختم ہو جا ئیں.ان کے لئے بھی ہمیں رمضان میں دعا کرنی چاہئے کیونکہ ان کی وجہ سے غیر مسلموں کو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بدنام کرنے کا موقع مل رہا ہے.اس بات پر گزشتہ دنوں یہاں کے ایک پروفیسر نے جو مذہبی تعلیم پڑھاتے ہیں، یہ جو خلافت کی باتیں ہو رہی ہیں خلفائے راشدین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی بیہودہ بکواس کی ، بیہودہ گوئی کی.مسلمان علماء اور تنظیموں کے لیڈروں اور حکومتوں کے سر براہوں کو تو اپنی طاقت حاصل کرنے یا محفوظ کرنے کی فکر ہے.اسی فکر میں وہ پڑے ہوئے ہیں.ایسی بیہودہ گوئیوں کا جواب اگر کوئی دینے والا ہے، اگر کوئی ان کا منہ بند کروانے والا ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہی کرتی ہے اور ہم نے اس کا جواب دیا.یہی لوگ اسلام کے مخالفین ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ اور بغض رکھنے والے ہیں.ان لوگوں نے اب ایک نئی فلم بنائی ہے جو سنا ہے آج واشنگٹن میں بھی اور برلن جرمنی میں بھی بیک وقت چلائی جائے گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ کے بارے میں ہے.یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونعوذ باللہ استہزاء کا نشانہ بنا سکتے ہیں.ان لوگوں کی دنیا بھی برباد ہونے والی ہے اور عاقبت بھی.ان کو اپنے انجام نظر نہیں آرہے لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے یہ اپنے بد انجام کو پہنچیں گے.دنیاوی طور پر قانون کے دائرے میں رہ کر جو احتجاج کرنا ہے یا جو کوشش کرنی ہے اس کے بارے میں کل ہی جب مجھے پتا لگا تو جرمنی کی جماعت کو میں نے کہہ دیا تھا.امریکہ والے بھی اس کے لئے بھر پور کوشش کریں لیکن آج ایک احمدی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق اور آپ کی شان اور عظمت کی بلندی کا اظہار یہ ہے کہ بے انتہا درود پڑھیں.سُبحان اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّد.دنیا کا ہر احمدی آج کی فضا اور اس رمضان کو درود سے بھر دے
خطبات مسرور جلد 12 414 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء کہ جہاں دشمنوں کے آپ کی شان پر حملے کا جواب یہی ہے اس سے بہتر اور کوئی جواب نہیں وہاں یہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ پیدا کرنے والی بھی چیز ہے اور یہی تقویٰ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس خوشکن انجام کی خبر دے رہا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عاقبت متقیوں کے لئے ہے.آخر کار بہتر انجام متقیوں کا ہے.جب یہ دشمنان اسلام پارہ پارہ ہو کر ہوا میں اڑ جائیں گے اور کامیابیاں اور بہتر انجام حقیقی مومنین اور متقین کا ہی ہوگا.انشاء اللہ.مسلم اُمہ کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ شیطانی اور دجالی طاقتیں بڑے طریقے سے انہیں ایک دوسرے سے لڑا رہی ہیں.یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں فرقہ بازیاں ہیں.یہ فرقہ بازیاں اب کیوں ایک دم پیدا ہو گئیں.یہ باہر کی کچھ طاقتیں ہیں جنہوں نے ان میں فرقہ بازیاں پیدا کروائی ہیں تا کہ اسلام کو بدنام کرنے کا موقع ملے اور پھر اسلام کو اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے جو کچھ وہ کر سکتے ہیں وہ کرتے چلے جائیں.اندرونی حملہ یہ طاقتیں آپس میں لڑا کر اور بیرونی حملہ بیہودہ فلمیں بنا کر اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور زندگی کے بارے میں بیہودہ گوئیاں کر کے کر رہی ہیں.اور انہیں یہ پتا ہے کہ اس کے رد عمل کے طور پر مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑے گی اور پھر دنیا میں جو فساد ہوگا اس کو لے کر یہ طاقتیں پھر اسلام کو بدنام کریں گی.ان شیطانی قوتوں نے ایک ایسا شیطانی چکر پیدا کر دیا ہے جس سے اب مسلمانوں کو باہر نکالنے والا کوئی نہیں.جو ایک راستہ ہے اس کا یہ انکار کر رہے ہیں.پس اس لحاظ سے بھی مسلم امہ کے لئے بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے.ان کو یہ نظر آ جائے کہ کن لوگوں کے نیک انجام کی اللہ تعالیٰ خوشخبری دے رہا ہے.کاش یہ مسیح موعود کو مان کر اسلام کی فتوحات کے نظارے دیکھنے والوں میں شامل ہو جا ئیں.یہ دوسروں کے متعلق جو میں نے انجام کے بارے میں باتیں کی ہیں اس کو سن کر ہمیں صرف اس بات پر ہی تسلی نہیں پکڑ لینی چاہئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان لیا اور خلافت کا نظام ہم میں موجود ہے اور ہم ایک نظام کے تحت چل رہے ہیں.روزوں کے ساتھ تقویٰ کے معیاروں کو بلند کرنے کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کی ذمہ داری لگا دی ہے کہ جماعت کی برکات سے، خلافت کی برکات سے حصہ لینے کے لئے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہونے کا صحیح فیض پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد
خطبات مسرور جلد 12 415 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء بننے کے لئے تقویٰ شرط ہے اور یہ رمضان کا مہینہ اس تقویٰ میں ترقی کا ایک ذریعہ ہے.پس اس سے فائدہ اٹھا لو جتنا اٹھا سکتے ہو.اس لئے ہر فرد جماعت کو اور ہر مومن بننے والے کی خواہش رکھنے والے کو اپنے انفرادی جائزے لیتے ہوئے تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ رہنمائی فرمائی کہ فرمایا: وَهُذَا كِتب انْزَلْنَهُ مُبَارَكَ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الانعام: 156 ) اور یہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے اور یہ برکت والی ہے.پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.پس اگر رمضان سے فیض پانا ہے، اگر اپنے بہتر انجام کو دیکھنا ہے، اگر فلاح کے دروازے اپنے او پر کھلوانے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے اور ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا جن کا کوئی رہنما نہیں ہے، جو بکھرے ہوئے ہیں اور ہر اس شخص کے دھوکے میں آ جاتے ہیں جو اسلام کے نام پر اور دین کے نام پر ان کے جذبات بھڑکا دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن پر عمل کرو.اس کے احکامات کو دیکھو.ان کا حقیقی ادراک حاصل کرو.اس زمانے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے ان کی نظر سے قرآن کریم کے احکامات کو غور سے دیکھو کہ وہی اللہ تعالیٰ نے سکھائے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی عشق اور پیروی میں سکھائے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو قرآن کریم کے سات سو حکموں میں سے کسی ایک حکم کو بھی چھوڑتا ہے جان بوجھ کر اس کی طرف توجہ نہیں دیتا تو پھر ایسا شخص کو آپ کی جماعت اور آپ کی بیعت میں آنے کا عبث دعویٰ کرتا ہے.(ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 26) یہ الفاظ میرے ہیں لیکن مضمون کا مفہوم یہی ہے.آپ اسے اپنی جماعت میں شامل نہیں سمجھتے تھے.پس جیسا کہ میں پہلے ایک اقتباس میں پڑھ آیا ہوں کہ یہ بڑے خوف کا مقام ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے.بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے رحم کے دروازے ان پر ہمیشہ کھلے رہیں گے اور کھلتے چلے جائیں گے جو تقویٰ پر چلتے ہوئے میرے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے.پس اس کی برکات سے فائدہ اٹھا لو.کسی حکم کو بھی معمولی نہ سمجھو.کیونکہ یہی راہ ہے جو تقویٰ پر چلانے والی اور متقی بنانے والی ہے.انسان بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے بعض احکامات کو اس لئے اہمیت نہیں دیتا کہ دنیا کے فوائد اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں.دولت، اولاد، تجارتیں، دنیا کی
خطبات مسرور جلد 12 416 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء دوسری تر جیحات اس کو زیادہ پرکشش لگتی ہیں اور وہ ان کے حصول کے لئے بعض ایسی حرکتیں کر دیتا ہے جن کا تقویٰ تو کیا، عام اخلاق سے بھی ڈور کا واسطہ نہیں ہوتا.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان عارضی دنیاوی فوائد کے لئے تم دین کو بھول رہے ہو اور میرے احکامات پر عمل نہیں کر رہے ہو.تم سمجھتے ہو کہ جھوٹ بول کر کسی دنیا دار کی خوشامد کر کے دوسرے کے مال میں خیانت کر کے تم دنیاوی فوائد حاصل کر لو گے.کسی کا حق ظلم سے مار کر تم اپنی دولت میں اضافہ کر لو گے تو سنو کہ ہر قسم کا رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.وہ سب دولتوں کا سر چشمہ ہے.اگر خدا نہ چاہے تو تم یہ دولت کبھی حاصل نہیں کر سکتے.اگر تم عارضی طور پر یہ حاصل کر بھی لوتو یہ دولت تمہارے لئے خیر نہیں ، نشتر بن جائے گی.انجام کارتم خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آؤ گے.پس اگر تم اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حلال رزق کی تلاش کرو اور حلال رزق متقیوں کو ہی ملتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور ایسے راستوں سے آتا ہے جس کا ایک عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُةَ (الطلاق: 4-3 ) جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا اور اس کو وہاں سے سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اس کو خیال بھی نہیں ہو گا اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے وہ اللہ اس کے لئے کافی ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : 66 ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے.اس کا معیار قرآن ہے.اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے.جیسے کے فرمایا: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتسب فرمایا کہ ”جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم وگمان میں نہ ہوں.یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا.مثلاً ایک دوکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا اس لئے وہ دروغ گوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں.خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اسے ایسے موقع سے بچالیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں“.موقع ہی نہیں آنے دیتا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے جو متقی ہوں جو جھوٹ بولنے پر مجبور کرنے والے ہوں.فرمایا کہ
خطبات مسرور جلد 12 417 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء یا درکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا.جب رحمان نے چھوڑ دیا ، یعنی خدا نے چھوڑ دیا، خدائے رحمان نے ” تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا.“ ( رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ 34) پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہو سکتا کہ میں اپنی جناب سے متقی کو رزق دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں ( یہ الفاظ میرے ہیں ) کہ جو تقویٰ کا دعویٰ کر کے پھر رزق سے تنگ ہیں.دعوئی تو یہ کرتے ہیں متفق ہیں ، تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور رزق میں بھی تنگی ہے یا تو پھر ان کی دنیاوی خواہشات بہت بڑھی ہوئی ہیں اور پوری نہیں ہو ر ہیں یا تقویٰ کا دعویٰ غلط ہے.ان کا تقویٰ پر عمل کرنے کا دعوی جھوٹا ہے.تقویٰ پر چلنے کا دعویٰ غلط ہے.خدا تعالیٰ کی بات بہر حال غلط نہیں ہوسکتی.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحه (244) آپ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ لوگ بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں کہ کفار کے پاس، دنیا داروں کے پاس بڑی دولت ہے جو دین سے دور ہٹے ہوئے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ کفار کے پاس بھی بڑا مال اور دولت ہے اور وہ عیش و عشرت میں منہمک اور مست رہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل دنیا داروں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں مگر در حقیقت وہ ایک جلن اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحه (421) اور تجربات سے ثابت ہے کہ دنیا داری نے ان کو بے چین کیا ہوا ہے.اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے سکون کے لئے مختلف طریقے اپنائے ہوئے ہیں.نشوں میں گرفتار لوگوں کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ دنیا داری کی خواہشات جو ہیں وہ پوری نہیں ہوتیں اس کی وجہ سے بے چینی ہے، بے سکونی ہے.اس کے سکون کے لئے وہ نشے کرتے ہیں.پس اگر کوئی شخص حقیقت میں متقی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی حصول کی کوشش کر رہا ہے تو تھوڑے سے بھی اس کو سکون مل جاتا ہے.غیر ضروری خواہشات کا نہ ہونا بھی تو اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ہے،فضل ہے.پس ایک احمدی کو اس طرف بھی نظر رکھنی چاہئے کہ رمضان میں اپنے تقوی کو اس معیار پر لانے کی کوشش کریں جہاں دنیاوی لذات اور خواہشات اس حد تک ہوں جہاں تک خدا تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے اور مال و دولت کا حصول ہو تو وہ بھی تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے ہو.اور پھر ایسے مال دار متقی اپنی
خطبات مسرور جلد 12 418 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء دولت بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں.کل یا پرسوں ہی میں ایک کتاب دیکھ رہا تھا.بشیر رفیق صاحب نے چوہدی ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق لکھی ہوئی ہے.اس میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک سیاسی لیڈر بڑے امیر تھے.یہاں آ کرلندن میں ہوٹل میں ٹھہرتے تھے اور ایک پور اونگ ہوٹل کا ٹک کرالیا کرتے تھے.اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے.ایک مرتبہ وہ آئے تو فیملی نہیں تھی اکیلوں نے ونگ بک کرالیا اور انہوں نے کہا میرے پاس بڑی دولت ہے اور میں گھٹ کے کمروں میں نہیں رہ سکتا تو میں نے تو پورے کا پورا دنگ کرایا ہوا ہے.چوہدری صاحب سے انہوں نے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں یہاں مشن ہاؤس کے فلیٹ میں کمرے میں بشیر رفیق صاحب کے ساتھ رہتا ہوں.اور کھانا بھی ان کے ساتھ کھاتا ہوں.کہنے لگے کہ اتنا پیسہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو کیوں آپ تنگی کرتے ہیں.خرچ کریں.جس طرح میرے پاس دولت ہے میں خرچ کرتا ہوں.آپ کے پاس بھی دولت ہے خرچ کریں.تو چوہدری صاحب.پہلے تو سنتے رہے پھر کہنے لگے کہ تم تو فضول خرچی کرتے ہو لیکن میں اگر پیسے بچاتا ہوں تو اس سے میں طلباء کی تعلیم کے او پر خرچ کر رہا ہوں.ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کر رہا ہوں اور بے انتہا ایسے لوگوں پر خرچ کر رہا ہوں جو مجبور ہیں.پس جو سکون مجھے یہ خرچ کر کے ملتا ہے وہ تمہیں دنیا داروں کو نہیں مل سکتا.چو ہدی صاحب نے انہیں کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ کاش تمہیں بھی اس سکون کا پتا لگ جائے پھر تم یہ جوا اپنی دولت خرچ کر رہے ہو، لٹا ر ہے ہو ، تم اس کو اپنے اوپر لٹا نا حقیر سمجھو گے اور یہی تمہاری خواہش ہوگی کہ غریبوں کی ضروریات پوری کروں.(ماخوذ از چند خوشگوار یادیں از بشیر احمد رفیق صاحب صفحه 360 تا 362 مطبوعہ قادیان 2009ء) پس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کما کر بھی دنیا سے بے رغبتی کی ہے اور ایسے ہی متقی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دونوں جہان میں جنتوں کی بشارتیں دی ہیں.اللہ کرے کہ ہم اس رمضان کے روزوں سے ایسا فیض پانے والے ہوں جو تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو مستقل ہماری زندگی کا حصہ بنادے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے دونوں جہان کی جنتوں سے حصہ پانے والے ہوں.ہمارا اس دنیا کا بھی انجام بخیر ہو.آخرت کا بھی انجام بخیر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر اسلام کی حقیقی تصویر بننے کی کوشش کرنے والے ہوں.اسلام کے خلاف دشمن کے ہر حملے کو اپنے قول، اپنے عمل اور اپنی دعاؤں کو انتہا تک پہنچا کر رد کرنے والے ہوں.اس کو اس پر الٹانے والے ہوں.
خطبات مسرور جلد 12 419 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04 جولائی 2014ء آج اسلام کے خلاف جو شیطانی قوتیں جمع ہوگئی ہیں ان کا مقابلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت نے ہی کرنا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اسلام کے خلاف یہ آج ایسے منصوبے بنا رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان مسلمان ملکوں کو جال میں پھنسا کر ان پر حملہ کرو.عامتہ المسلمین کو اس چال کی سمجھ نہیں آ رہی اور عموماً تو شاید نہیں، لیکن شاید بعض، ایک آدھ کوئی لیڈر ہو جو نیک نیت بھی ہوں.تو ان کو بھی سمجھ نہیں آ رہی اور سمجھتے ہیں کہ غیروں کی مدد لے کر وہ کامیاب ہو رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اس جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں جہاں ان کو اپنی بربادی کے سوا کچھ نہیں ملے گا.ہمارے سمجھانے سے تو ان کو سمجھ نہیں آتی کوئی اثر نہیں ان پر ہوتا.جو امت مسلمہ کے ہمدرد بلکہ بے چین ہو کر در در کھنے والے ہیں ان کے یہ لوگ خلاف ہیں.پس اس کا علاج دعا کے علاوہ کچھ نہیں.اس رمضان میں دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا بھی کریں اور امت مسلمہ کے لئے بھی رحم مانگیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا رحم کرتے ہوئے ان کو عقل دے.جہاں جہاں احمدیوں پر ظلم ہورہے ہیں ان ظلموں سے بچنے کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ احمدیوں کو ان ظلموں سے بچائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس رمضان میں ہمیں حقیقی تقوی عطا کرے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اس کی مدد اور فضل سے مخالفین دین اور دشمنان اسلام کو خائب و خاسر ہوتا دیکھنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ رمضان میں ہمارے اندر ایک حقیقی انقلاب پیدا کر دے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 25 جولائی 2014 ء تا 31 جولائی 2014 ، جلد 21 شماره 30 صفحه 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 420 28 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رزا مرد احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014 ء بمطابق 11 وفا 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات (البقرة: 186) کی تلاوت فرمائی: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَ كُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ :.رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہوں یا سفر پر ہوں تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا.اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو.قرآن کریم کی اہمیت، اس کے مقام ، اس پر عمل کرنے کی ضرورت کس طرح عمل کرنا ہے کن لوگوں کے لئے یہ زندگی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے.انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات ہیں، غرض کہ بیشمار باتیں ہیں جن کی تفصیل ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بتائی ہے.اس لئے کہ نہ صرف ہم اس عظیم
خطبات مسرور جلد 12 421 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء شرعی کتاب پر عمل کر کے اپنی روحانی، دینی ، اخلاقی ترقی کے سامان کریں بلکہ دنیاوی ترقی کے بھی سامان کریں اور اس آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے رمضان کے مہینے کے ساتھ جوڑ کر قرآن کریم کی برکات کا رمضان کے ساتھ تعلق قائم فرمایا ہے اور رمضان کے تعلق کو قرآن کے ساتھ قائم کر کے رمضان کی اہمیت مزید اجاگر کی گئی ہے.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ - ہ کر بتایا کہ اس آخری شرعی اور کامل کتاب کا تعلق رمضان سے ہے اور جو شخص چاہتا ہے کہ اپنے ایمان میں ترقی کرے، جو چاہتا ہے کہ اس آخری اور مکمل کتاب اور شریعت کو دنیا میں پھیلائے اور دنیا اس کو جان لے.جو شخص چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لے جانے کی کوشش کرے جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے اور فاتح قریب کی آواز سنے تو پھر رمضان اور قرآن کا حق ادا کرے.ان کے آپس کے تعلق کو جانے.اس مہینے میں یہ فاصلے جو عام دنوں اور مہینوں میں بہت دور لگتے ہیں سمیٹ کر قریب کر دیئے ہیں.پس ایک مؤمن اس مہینے سے جتنا بھی فیض پاسکتا ہے پانے کی کوشش کرنی چاہئے.آیت کے اس حصے کے بارہ میں مفسرین نے لکھا ہے کہ رمضان کے روزوں کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کے بارے میں قرآن کریم میں خاص طور پر احکام نازل کئے گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی فرمایا کہ: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ القُرآنُ یہی ایک فقرہ ہے جس سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 646 - البدر جلد 1 نمبر 7، 12 دسمبر 1902ء صفحہ 52 کالم 2) اور پھر یہ بھی فرمایا کہ اس عظمت کی وجہ سے روزے کا اجر بھی بہت بڑا اور عظیم ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحه 256) لیکن ان کے لئے جو ان روزوں اور قرآن کے آپس کے تعلق کا بھی حق ادا کریں اور اس کا حق یہ ہے کہ روزوں کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھیں.اس پر غور کریں اس کی تفسیریں سنیں یا پڑھیں.کیونکہ جہاں تک میراعلم ہے میں نے جائزہ لیا ہے ہم میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں بڑی تعداد ہے ایسی جو رمضان میں بھی قرآن کریم کا حق ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتے پورا پڑھتے نہیں.مطلب یہ ہے کہ جو توجہ سے پڑھنا چاہئے اس طرح نہیں پڑھتے.اگر پڑھا بھی تو بے دلی سے تھوڑا سا پڑھ لیا.تو بہر حال اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.
خطبات مسرور جلد 12 422 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء پھر شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ کے ایک یہ معنی بھی ہیں کہ اس مہینے میں قرآن کا نزول شروع ہوا.اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے بھی یہی روایت ہے کہ جبریل ہر سال رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نازل شدہ قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور آپ کے وصال کے سال یہ دور دومرتبہ کیا گیا.دودفعہ قرآن کریم دہرایا گیا.(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن على النبي ال التعليم پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور اللہ تعالیٰ کے خاص منشاء سے آپ کا یہ طریق ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ ہم قرآن کریم کو کم از کم ایک بار تو ضرور رمضان میں ختم کرنے کی کوشش کریں اور جیسا کہ میں نے کہا اس پر غور بھی کریں.جب غور کریں گے، پڑھیں گے سمجھیں گے تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے والے ہو سکیں گے کہ ھدی للناس.کہ انسانوں کے لئے ہدایت ہے، ان انسانوں کے لئے ہدایت ہے جو اس سے ہدایت لینا چاہتے ہیں اور ہدایت پڑھے اور سمجھے بغیر تو نہیں مل سکتی.پس اس کا پڑھنا اور پڑھ کر سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ہدایت دلائل کے ساتھ ہے.تم لوگوں کو صرف یہ حکم نہیں دے دیا کہ تم اس کو پڑھو، اس میں ہدایت ہے بلکہ ہر ہدایت کی دلیل دی گئی ہے.اس کو سمجھو پڑھو اور اپنے اوپر لاگو کرو کیونکہ دلائل کے ساتھ سمجھی ہوئی بات پر عمل دل کی گہرائی سے ہو سکتا ہے، حقیقی رنگ میں ہو سکتا ہے.اس ہدایت کی روح کو سمجھتے ہوئے ہوسکتا ہے.پھر یہ کہ بینات کے ساتھ ، دلائل کے ساتھ جو ہدایت ہے اس کو دوسروں تک پہنچانے اور غیروں کو سمجھانے میں بھی آسانی پیدا ہوتی ہے اور یوں قرآن کریم کے ذریعہ تبلیغ کا، ایک جہاد کا جو حکم ہے وہ بھی پورا ہوتا ہے.اور پھر یہ بھی اعلان فرمایا کہ اس میں فرقان بھی ہے.ایسے ٹھوس اور بین دلائل ہیں جو حق اور باطل میں فرق کر دیتے ہیں.اس پر عمل کرنے والا بھی دوسروں سے مختلف نظر آتا ہے.جو بھی قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر رہا ہے وہ دوسروں سے بہر حال مختلف نظر آئے گا.اس کی عملی اور روحانی اور اعتقادی حالت بھی دوسروں سے نمایاں طور پر اعلی درجے پر پہنچی ہو گی.اور قرآن کے مقابل پر جب ہم دوسروں سے بات کرتے ہیں تب بھی جب ہم قرآن کی دلیل سے بات کریں گے تو قرآن کے مقابل پر کوئی اور کتاب یا کوئی اور دین کھڑا ہو ہی نہیں سکتا.کیونکہ اس میں ایسی تعلیمات ہیں ایسے تاریخی شواہد ہیں دوسرے دینوں کے مقابل پر ایسے دلائل ہیں جو روز روشن کی طرح اپنی برتری ثابت کر دیتے ہیں.اس کتاب کے شروع سے آخر تک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے اور اب تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ رہنے کا قرآن کریم اعلان کرتا ہے اور ہمیشہ محفوظ رہنے کا
خطبات مسرور جلد 12 423 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء قرآن کریم اعلان کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں روزوں کے ساتھ جو ایک مجاہدہ ہے اس علم و عرفان کے خزانے کو پڑھنے اور سیکھنے کی بھی کوشش کرو اور اس کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ.اس کے احکامات پر غور کرو اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرو.اس کے بھولے ہوئے حصے کو اس مہینے میں بار بار دہرا کر تازہ کرو.اس کی تعلیمات کی جگالی کر کے اس مہینے میں اپنا جائزہ لوکہ کس حد تک تم قرآن کریم پر عمل کر رہے ہو.یہ اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے کیونکہ یہی باتیں ہیں جو دنیا و عاقبت سنوار نے والی بنتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :.یعنے قرآن میں تین صفتیں ہیں.اول یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے.دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ ا جمال چلا آتا تھا ان کی تفصیل بیان کرتا ہے.تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہو گیا تھا ان میں قول فیصل بیان کر کے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہے.“ براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 225 حاشیہ نمبر 11) پس یہ ایک ایسی جامع کتاب ہے اور مکمل کتاب ہے جس کا کوئی ثانی نہیں جس میں ہر چیز بکمل طور پر بیان کر دی.تمام پرانے دینوں کی غلطیاں نکال دیں تمام پرانی کتابوں کی کمیاں پوری کر دیں.اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے میں پیدا کیا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور یہ توفیق دے کر آپ کے ذریعہ سے قرآن کریم کی اہمیت و معرفت جاننے کے سامان بھی مہیا فرمائے.قرآن کریم کے علوم و معرفت کے خزانے آپ نے ہمارے سامنے پیش فرمائے.اس کا صحیح ادراک تو آپ کی کتب پڑھنے سے ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے.بہر حال اس وقت میں قرآن کریم کے بارے میں آپ کے چند اقتباسات رکھوں گا جس سے قرآن کریم کے مقام و اہمیت کا پتا چلتا ہے اور اس بارے میں ادا کرنے والی ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ، ان کی طرف توجہ ہوتی ہے تا کہ ہم ان باتوں کو سامنے رکھ کر قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور عمل کرنے کی طرف توجہ دیں.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے یہ تو اس کے صرف اتنے حصے کی میں نے تھوڑی سی وضاحت کی ہے اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا.
خطبات مسرور جلد 12 424 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء آپ فرماتے ہیں کہ:."خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے.بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں......کیونکہ کلام الہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے.اسی قدر قوت اور شوکت اس کلام کی ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہوگا.اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات کمال آپ پر ختم ہو چکے تھے اور آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے.اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے.آپ خاتم النبیین ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری.جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے.یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین ، کیا باعتبار تعلیم ، کیا باعتبار کمالات تعلیم ، کیا باعتبارات ثمرات تعلیم ،غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام پر نظیر طلب کی ہے.یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کر و.خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت ، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم ، خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں.غرض کسی رنگ میں دیکھو، یہ معجزہ ہے.“ طور پر 66 ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 36-37) پھر قرآن کریم کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ ہمیں توجہ دلاتے ہیں فرمایا کہ:.اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایہ ناز ایمان واعتقاد ہوتے (اگر صرف حدیثوں پر اعتقاد کرنا ہے) تو ہم قوموں کو شرمساری سے منہ بھی نہ دکھا سکتے “ فرمایا ”میں نے
خطبات مسرور جلد 12 425 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء قرآن کے لفظ میں غور کی.تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیش گوئی ہے.وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہو گی.جبکہ اور کتا بیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی.اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہوگی.اور دیگر کتا بیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی.فرقان کے بھی یہی معنے ہیں.یعنی یہی ایک کتاب حق و باطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی.اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی.اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو.بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا ر ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں.اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں.بڑے تاسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتنا اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے.اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لوتو تمہاری فتح ہے.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی.“ 66 پھر اصلاح کے ذرائع بیان کرتے ہوئے آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ:.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 122) 66 تبدیلی اور اصلاح کس طرح ہو؟ اس کا جواب وہی ہے کہ نماز سے جو اصل دعا ہے.پہلی ، بات نماز.پھر فرمایا ” قرآن شریف پر تدبر کرو.اس میں سب کچھ ہے.نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں.“ ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 122 ) پس پہلی چیز جو ہے نمازوں کی طرف توجہ ہے اور ان دنوں میں تو خاص طور پر باجماعت نمازوں کی طرف توجہ ہونی چاہئے ، خاص اہتمام ہونا چاہئے اور پھر قرآن کریم کا کیونکہ رمضان سے تعلق ہے اس لئے ان دنوں میں اگر پڑھنے کی عادت ڈال لیں اور سوچنے کی اور سمجھنے کی عادت ڈال لیں ، اپنے اوپر اس تعلیم کو لاگو کرنے کی عادت ڈال لیں تو وہ پھر آئندہ بھی کام آتی ہے.فرمایا کہ: ”نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں.انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا.اس کی تعلیم اس زمانہ کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ
خطبات مسرور جلد 12 426 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء اور ہر حالت کے موافق ہر گز نہیں.یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قومی کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے.اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو.“ ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 122) 66 حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ پاکستان کے ایک وزیر ماؤزے تنگ کے زمانے میں چائنا (China) کے دورے پر گئے.انہوں نے ماؤ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اپنی قوم میں یہ انقلاب پیدا کیا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا تم مجھ سے کیا پوچھتے ہو جاؤ اپنے نبی کا اسوہ دیکھو اور اپنے قرآن کریم کو پڑھو اور اس پر عمل کرو تو تمہیں سب کچھ مل جائے گا.تو غیروں کو بھی جو عقل مند ہیں چاہے وہ مانیں نہ مانیں لیکن قرآن کریم میں ایک نور نظر آتا ہے.پھر قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے سے کیا انقلاب آتے ہیں؟ اس بارے میں معجزات کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ :.دوسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہمارے لئے حکم مشہود ومحسوس کا رکھتا ہے بڑا واضح ہے وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں برکت پیروی قرآن شریف واثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں.جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اتباع قرآن شریف کس رنگ میں آگئے اور کیسے اخلاق میں ، عقائد میں ، چلن میں ، گفتار میں ، رفتار میں ، کردار میں اور اپنی جمیع عادات میں خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور روشنی اور چمک بخش دی تھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارق عادت تصرف تھا جو خاص خدائے تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا.“ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 447) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل اور وجوہات پہلے آپ نے بیان کر دیں.پھر آپ فرماتے ہیں:.
خطبات مسرور جلد 12 427 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء پھر یہ امر بھی ہر یک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یا وہ اور نا پارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہو گئے اور کیونکر تاثیرات کلام الہی اور صحبت نبی معصوم نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدل کر دیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہو گئے اور محبت دنیا کے بعد الہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں، اپنے مالوں، اپنے عزیزوں، اپنی عزتوں، اپنی جان کے آراموں کو اللہ جل شانہ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا.چنانچہ یہ دونوں سلسلے ان کی پہلی حالت اور اس نئی زندگی کے جو بعد اسلام انہیں نصیب ہوئے قرآن شریف میں ایسی صفائی سے درج ہیں کہ ایک صالح اور نیک دل آدمی پڑھنے کے وقت بے اختیار چشم پر آب ہو جاتا ہے.پس وہ کیا چیز تھی جو ان کو اتنی جلدی ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف کھینچ کر لے گئی.وہ دو ہی باتیں تھیں ایک یہ کہ وہ نبی معصوم اپنی قوت قدسیہ میں نہایت ہی قوی الاثر تھا ایسا کہ نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا.دوسری خدائے قادر مطلق حی قیوم کے پاک کلام کی زبر دست اور عجیب تاثیریں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں.بلاشبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں کیونکہ کوئی دنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی.کون اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ کسی کتاب نے ایسی عجیب تبدیل و اصلاح کی جیسی قرآن شریف نے کی...لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کے اتباع سے برکات الہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولیٰ کریم سے ہو جاتا ہے خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اترتے ہیں اور معارف اور نکات ان کے مونہہ سے نکلتے ہی ایک قوی تو کل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے.اگر ان کے وجودوں کو ہاون مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑ ا جائے تو ان کا عرق بجز حب الہی کے اور کچھ نہیں.“ سرمه چشم آرید ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 77 تا 79 حاشیہ) ان کو بیشک جتنا مرضی ہیں جس طرح گرائنڈر میں پیتے ہیں اور سخت شکنجوں میں نچوڑیں، ان کا شک عرق نکالیں اگر کوئی ایسی چیز کسی انسان کے پاس نکالنے کی ہو تو ایسے لوگ جو ہیں جو قرآن کی تعلیم پر غور کرنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والے ہیں ان کا آخری نتیجہ کیا نکلے گا یہی کہ محبت الہی کا عرق ان میں سے نکلے گا اور کچھ بھی نہیں ہوگا.
خطبات مسرور جلد 12 428 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء فرمایا ” دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر و بلند تر ہیں.خدا کے معاملات ان سے خارق عادت ہیں.انہیں پر ثابت ہوا ہے کہ خدا ہے.انہیں پر کھلا ہے کہ ایک ہے.جب وہ دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی سنتا ہے.جب وہ پکارتے ہیں تو وہ انہیں جواب دیتا ہے.جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ ان کی طرف دوڑتا ہے.وہ باپوں سے زیادہ ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی درودیوار پر برکتوں کی بارش برساتا ہے.پس وہ اس کی ظاہری و باطنی و روحانی و جسمانی تائیدوں سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ ہر یک میدان میں ان کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے اور وہ ان کا ہے.یہ باتیں بلا ثبوت نہیں.“ 66 سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 77 تا 79 حاشیہ) پھر آج بھی ترقی کا یہی گر ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل کیا جائے.صرف مان لینا کافی نہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : ”اصل یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھایا ہے جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے.جس قدر وہ قرآن شریف سے دور جارہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جارہے ہیں.قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے.“ ہے کہ:.( ملفوظات جلد 8 صفحہ 29-30) پھراپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے دوبارہ آپ نے فرمایا.پہلے بھی میں نے یہ اقتباس پڑھا سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سوتم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کر وایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الخیر محله فِي الْقُرانِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات سچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے یہی بتائے گا کہ تمہارے میں ایمان کیسا تھا تصدیق کرے گا یا جھٹلائے گا.فرمایا اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ
خطبات مسرور جلد 12 429 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.کوئی کتاب ایسی نہیں جو تمہیں ہدایت دے جب تک قرآن میں سے نہیں گزرو گے.جب تک اس میں قرآن کریم کی تعلیمات کا ذکر نہیں ہو گا.فرمایا ” خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی.یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی ( بڑے گندے لوتھڑے کی طرح ہوتی.) ” قرآن وہ کتاب ہے جس 66 کے مقابل پر تمام ہدا یتیں بیچ ہیں.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27) پھر اس کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ :.قرآن مجید ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اس وقت دنیا میں آئی تھی جبکہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں اور تقریباً سب کے سب لوگ بد اعمالیوں اور بد عقیدگیوں میں گرفتار تھے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالبَحْخر.یعنی تمام لوگ کیا اہل کتاب اور کیا دوسرے سب کے سب بدعقید گیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فساد عظیم برپا تھا.غرض ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمام عقائد باطلہ کی تردید کے لئے قرآن مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی جس میں کل مذاہب باطلہ کا رڈ موجود ہے اور خاص کر سورہ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کل عقائد کا ذکر ہے.“ ( ملفوظات جلد 10 صفحہ 31) پھر آپ فرماتے ہیں کہ:.” ( قرآن میں ) جس قدر خداوند قادر مطلق نے تمام دنیا کے مقابلہ پر تمام مخالفوں کے مقابلہ پر تمام دشمنوں کے مقابلہ پر تمام منکروں کے مقابلہ پر تمام دولتمندوں کے مقابلہ پر تمام زور آوروں کے مقابلہ پر تمام بادشاہوں کے مقابلہ پر تمام حکیموں کے مقابلہ پر تمام فلاسفروں کے مقابلہ پر تمام اہل مذہب کے مقابلہ پر ایک عاجز ناتوان بے زر بے زور ایک امی نا خوان بے علم بے تربیت کو اپنی خداوندی کے کامل جلال سے کامیابی کے وعدے دیئے ہیں.کیا کوئی ایمانداروں اور حق کے طالبوں میں سے شک کر سکتا ہے
خطبات مسرور جلد 12 430 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء یہ تمام مواعید کہ جو اپنے وقتوں پر پورے ہو گئے اور ہوتے جاتے ہیں یہ کسی انسان کا کام ہے؟“ ( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 266-267 حاشیہ نمبر (11) تلاوت کے آداب کے بارے میں کسی نے سوال کیا تھا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے؟ آپ نے فرمایا : ” قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے.حدیث شریف میں آیا ہے رُبّ قارِ يلعنه القرآن.یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے.تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبرو غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے.“ ( ملفوظات جلد 9 صفحہ 200-199 پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ تلاوت کی غرض کس طرح پوری ہوتی ہے.آپ نے فرمایا :.لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح سے یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں.جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے.نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتا لگتا ہے.اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا.زیادہ سے زیادہ یہ کہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور ق اور ع کو پورے طور پر ادا کر دیا.قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا یہ بھی ایک اچھی بات ہے.“ حدیث میں بھی آیا ہے اچھی تلاوت کرنی چاہئے.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 429-428) (سنن ابی داؤ د کتاب الصلاة باب استحباب الترتيل في القراءة حديث نمبر 1468) مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر کرے.یہ یادرکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے.اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی.جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کو مد نظر نہ رکھا جاوے اور اس پر پورا غور نہ کیا جاوے.قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 429-428
خطبات مسرور جلد 12 431 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ کلام اللہ کی تلاوت سے محبت الہی پیدا ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں:.پرستش کی جڑ تلاوت کلام الہی ہے کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا جائے یا سنا جائے تو ضرور سچے محب کے لئے محبت انگیز ہوتا ہے اور شورش عشق پیدا کرتا ہے.“ سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 283) فرمایا کہ دلوں کی سختی کا علاج بھی قرآن کریم میں ہے.فرماتے ہیں کہ:.”انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا تعالیٰ سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے اور ان بداعمالیوں سے بچے جس کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی...دل کی اگر سخی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے.جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مؤمن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الہی میرے بھی شامل حال ہو.قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے.پھر آگے چل کر اور قسم کا چنتا ہے.پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھاوے.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 266-265) فرمایا کہ قرآن کریم کے بعد اب کسی اور الہامی کتاب کی ضرورت نہیں بالکل کامل اور مکمل کتاب ہے.فرماتے ہیں:.قرآن شریف ایسے زمانہ میں آیا تھا کہ جس میں ہر ایک طرح کی ضرورتیں کہ جن کا پیش آنا ممکن ہے پیش آگئی تھیں یعنے تمام امور اخلاقی اور اعتقادی اور قولی اور فعلی بگڑ گئے تھے اور ہر ایک قسم کا افراط تفریط اور ہر ایک نوع کا فساد اپنے انتہاء کو پہنچ گیا تھا.اس لئے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی.پس انہی معنوں سے شریعت فرقانی مختتم اور مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں کیونکہ پہلے زمانوں میں وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لئے الہامی کتابیں آئیں وہ بھی انتہائی درجہ پر نہیں پہنچے تھے اور قرآن شریف کے وقت میں وہ سب اپنی انتہا کو پہنچ گئے تھے.بس اب قرآن شریف اور دوسری الہامی کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتا بیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنے فرقان مجید ظہور پذیر ہوتا.“ (اگر اس وقت کے لحاظ سے مکمل بھی تھیں تب بھی کیونکہ اس وقت کی ضروریات اور تھیں اس لئے تعلیم پھر بھی نامکمل رہنی تھی اور قرآن کریم
خطبات مسرور جلد 12 432 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء کا ظہور بہر حال ہو نا تھا.) فرمایا مگر قرآن شریف کے لئے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کہ اس کے بعد کوئی اور کتاب بھی آوے کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں.ہاں اگر یہ فرض کیا جائے کہ کسی وقت اصول حقہ قرآن شریف کے وید اور انجیل کی طرح مشرکانہ اصول بنائے جائیں گے اور تعلیم توحید میں تبدیل اور تحریف عمل میں آوے گی.یا اگر ساتھ اس کے یہ بھی فرض کیا جائے.جو کسی زمانہ میں وہ کروڑ با مسلمان جو توحید پر قائم ہیں وہ بھی پھر طریق شرک اور مخلوق پرستی کا اختیار کر لیں گے تو بیشک ایسی صورتوں میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہوگا.مگر دونوں قسم کے فرض محال ہیں.“ ( کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا کہ یہ ہو.) براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 101-102 حاشیہ نمبر 9) پھر آپ فرماتے ہیں کہ:.یاد رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے.عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقادہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے.اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں.جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لا پرواہ ہیں اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفی اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے.یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے.اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھا تا.مگر وہ باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہورہی ہے وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیے.مگر نہیں اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایما سے اس طرف بلا وے تو اسے کذاب اور
خطبات مسرور جلد 12 433 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی.مسلمانوں کو چاہیے تھا اور اب بھی ان کے لیے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں.اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں.اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے.کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اُٹھا ئیں.“ 66 ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 182-181) پھر آپ فرماتے ہیں کہ :.یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں.چنانچہ میں اس وقت اسی ثبوت کے لیے بھیجا گیا ہوں.اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کے لیے بھیجتا رہا ہے کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر: 10) یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر ( قرآن شریف ) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لیے نہیں.اسی لیے ان کتابوں میں انسانی چالاکیوں نے اپنا کام کیا.قرآن شریف کی حفاظت کا یہ بڑا زبر دست ذریعہ ہے کہ اس کی تاثیرات کا ہمیشہ تازہ بتازہ ثبوت ملتا رہتا ہے اور یہود نے چونکہ توریت کو بالکل چھوڑ دیا ہے اور ان میں کوئی اثر اور قوت باقی نہیں رہی جو ان کی موت پر دلالت کرتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 117-116 ) پھر بڑے درد کے ساتھ آپ نے ایک نصیحت فرمائی.فرمایا:.تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.“ 66 کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13 )
خطبات مسرور جلد 12 434 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء یہ چند اقتباسات قرآن کریم کی اہمیت و تلاوت کی طرف توجہ دلانے، اور تعلیم پر غور کرنے اور عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے میں نے پڑھے ہیں تا کہ ہم میں سے ہر ایک کو ان کی طرف توجہ پیدا ہو اور اس رمضان میں ہم اس اہم خزانے سے فیض پانے والے ہوں جیسا کہ شروع میں میں نے کہا.اس کو پڑھیں اور غور کریں اور جو چیزیں بھول گئے ہیں.بعض لوگوں نے بعض آیات یاد بھی کی ہوتی ہیں لیکن بھول گئے ، ان کو دہرائیں یاد کریں.جو احکامات نظروں سے اوجھل ہو گئے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.ابھی نماز کے بعد میں دو جنازے پڑھاؤں گا ایک نماز جنازہ حاضر ہے ہمارے کلیم احمد وسیم صاحب ایم.ٹی.اے کے کارکن تھے 6 جولائی کو دل کا دورہ پڑنے سے 54 سال کی عمر میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ مرحوم حضرت حاجی محمد دین صاحب درویش قادیان کے پوتے تھے.سید صادق علی صاحب سہارن پور کے نواسے تھے.مبارک ساقی صاحب جو یہاں مبلغ رہے ہیں، وکیل النبشیر بھی رہے ہیں یہ ان کے داماد تھے.مکرم کلیم صاحب بچپن سے سلسلے کے کاموں میں فعال تھے.کراچی جو ر ہے ہیں تو وہاں کی لوکل اور ضلعی عاملہ کے ممبر تھے.ابوظہبی میں بطور نائب صدر جماعت کی خدمت کی توفیق پائی.1989ء میں یو.کے میں شفٹ ہو گئے.یہاں قائد مجلس لندن ریجن کے رہے پھر شعبہ مال میں، خدمت خلق میں رہے، جلسہ سالانہ کی خدمات بجالاتے رہے.93ء میں ایم.ٹی.اے کا آغاز ہوا ہے تو اس وقت سے یہ جوایم.ٹی.اے کے بنیادی ابتدائی کارکن تھے، ان میں شامل تھے اور مینٹینس (maintenance) اور ٹیکنیکل کاموں میں بھی کام کیا دوسرے شعبوں میں بھی انہوں نے کام کیا اور آخری سانس تک ایم.ٹی.اے کے لئے خدمت بجالاتے رہے.وہاں جوٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ ہے یہ اس کے انچارج تھے.ایم.ٹی.اے کے ابتدائی نیوز کاسٹر اور پریزنٹر (presenter) بھی رہے تھے.خلافت سے انتہائی محبت کا تعلق تھا.دیانت داری سے کام سرانجام دیا کرتے تھے.اپنے سٹاف کے ساتھ انتہائی پیار اور محبت کا سلوک تھا.عزت و احترام کا سلوک تھا.ان کی بوڑھی والدہ زندہ ہیں ان کے علاوہ انہوں نے اہلیہ سارہ وسیم صاحبہ اور ایک بیٹی اور دو بیٹے یاد گار چھوڑے ہیں.ان کی والدہ کہتی ہیں.بڑا والدین کا احترام کرنے والا ، خیال رکھنے والا ، انتہائی خدمت کرنے والا، بہنوں بھائیوں کا خیال رکھنے والا تھا.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر کو میں نے دیکھا ہے حقیقی معنوں میں خدمت کا جذبہ رکھتے تھے.خدا تعالیٰ کے
خطبات مسرور جلد 12 435 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء دین کے کام کرنے کے لئے ہر وقت حاضر ہوتے تھے اور خلافت کی طرف سے جو بھی کوئی کام سپر دہوتا اس کو بڑے جوش اور جذبے اور بشاشت سے سرانجام دینے کی کوشش کرتے.اللہ تعالیٰ کی مشیت پر کامل ایمان رکھتے تھے.لوگوں کو بھی اس کی تسلی دلایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور یہ کام کرو یا دعا کرو.مہمان نوازی ان کا نمایاں وصف تھا اور جو مہمان گھر میں آتے تھے ان کی بڑی خدمت کیا کرتے تھے بلکہ خود بلاتے تھے.پھر ان کی ہمشیرہ نے بھی لکھا ہے کہ تصنع بالکل نام کا نہیں تھا اور ایک خوبی ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنے کی تھی.کہتی میں کہ نے اکثر دیکھا ہے ان کو بڑا شوق تھا.ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک کارکن عاصم شہزاد صاحب کہتے ہیں.گیارہ سال کلیم صاحب کے ساتھ میں نے ایم.ٹی.اے میں کام کیا.اور ان کو ہمیشہ سچا اور مخلص اور خلافت کا فدائی کارکن پایا اور سینئر کارکن کی حیثیت سے کبھی بھی اپنے سے جونیئر کارکن کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں سینئر ہوں اور بڑے پیار اور محبت سے نئے آنے والے کارکنان کو کام سکھانے کی کوشش کرتے تھے.کہتے ہیں ایک دفعہ انہیں ایم.ٹی.اے کمپلیکس میں یہاں بیت الفتوح میں صفائی کے انتظامات کرتے ہوئے دیکھا اور میں نے پوچھا کہ آپ خود یہ صفائی کیوں کرتے ہیں.دوسروں سے کروالیا کریں تو آپ نے بڑے فخر سے بتایا کہ جب اس کمپلیکس کا افتتاح ہوا ہے تو میرے متعلق کہا کہ خلیفہ وقت نے کارکنوں کو جو دیگر نصائح کی تھیں.جو نصائح کی تھیں ان میں صفائی کی طرف بھی خاص نصیحت کی تھی اور جب اس وقت میں نصیحتیں کر رہا تھا تو اس وقت میری نظر ان کی طرف تھی اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب سے پہلا حکم ان کے لئے تھا کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں.پھر کہتے ہیں ایک دفعہ ایم.ٹی.اے کے پرانے کلپ دیکھ رہے تھے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے اقتباسات سلائیڈ میں رکھے گئے تھے اور جن سے یہ اظہار تھا کہ ایم.ٹی.اے جو ہے ایک ایسا ادارہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ایک بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے تو یہ کلپ دکھاتے ہوئے زار و قطار رونے لگے.کہنے لگے کہ کلیم بھی کس قدر خوش قسمت ہے کہ اس کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے کہ اس میں کام کرے.پھر کہتے ہیں کہ ان کا چھٹی کا ، رخصت کا حق بنتا تھا.اس کیلئے ایک دفعہ انہوں نے رخصت کی درخواست دی تو عطاء المجیب راشد صاحب نے ان کو کہا ابھی کام بہت ہے تو آپ ابھی رخصت نہ لیں تو بڑے انہوں نے فوری طور پر رخصت واپس لے لی اور وہ درخواست بھی پھاڑ دی.عطاء المجیب صاحب
436 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء خطبات مسرور جلد 12 نے بھی لکھا ہے مجھے کہ بڑی بشاشت سے انہوں نے وہ درخواست پھاڑی یہ نہیں کہ کوئی غصے میں.پھر وہ خود اس کے علاوہ بھی امام صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ ماشاء اللہ بہت محبت اور خلوص سے ٹھوس خدمت کی تو فیق انہوں نے پائی.ہمیشہ جماعتی کاموں اور مفادات کو ذاتی کاموں پر فوقیت دی.اپنے کام کے بھی ماہر تھے اور بڑی دلی رغبت سے کرتے تھے.خالد صاحب نے بھی لکھا کہ راویل صاحب کے زمانے میں ان کا مختلف وقتوں میں آنا جانا ہوتا تھا.تو جب بھی ان کو کہا گیا انہوں نے کہا کوئی بات نہیں ، جب راویل صاحب فارغ ہوں دن ہو رات ہو آ جایا کریں.مجھے صرف بتا دیا کریں تا کہ میں اس سے پہلے آکے وہاں انتظام کر دیا کروں.تو ہر وقت خدمت کے لئے تیار رہتے تھے.میں نے بھی دیکھا ہے بچوں کے ساتھ ملاقات کے لئے کبھی آئے ہیں میرے پاس تو بچوں کو آگے بٹھایا کرتے تھے اور خود پیچھے بیٹھ جاتے تھے.شاید اس لئے کہ براہ راست بچے میرے سے باتیں کریں اور وہ تعلق جو ان کو خلافت سے ہے ان بچوں میں بھی آئندہ جاری رہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کی یہ خواہش ہمیشہ پوری ہوتی رہے اور ان کے بچوں کا خلافت سے تعلق قائم رہے اور جوان دونوں ماں باپ نے بچوں کی ماشاء اللہ بڑے احسن رنگ میں تربیت کی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کے بچوں کو جماعت کا مفید وجود بنائے اور ان کا حامی و ناصر ہو.ان کی اہلیہ کو بھی صبر اور استقامت دے ان کی والدہ کو بھی صبر دے.دوسرا جنازہ مکرم الحاج عاصم زکی بشیر الدین صاحب امریکہ کا ہے.یہ جنازہ غائب ہو گا.پہلا جنازہ حاضر ہے.یہ 22 جون 2014ء کو بقضائے الہی وفات پاگئے.إِنَّالِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ چند سالوں سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے لیکن کبھی اپنے چہرے پر کسی قسم کا ملال ظاہر نہیں ہونے دیا.بڑی ہمت اور صبر کے ساتھ بیماری کا مقابلہ کرتے رہے.ایک عیسائی گھرانے میں 26 مئی 1929ء کو پیدا ہوئے.بچپن سے ہی مذہب سے لگاؤ تھا اور جوانی میں خدا کے فضل سے آپ کو ذاتی شوق اور مطالعہ کی وجہ سے احمدیت کا تعارف ہوا اور پھر انہیں نہیں سال کی عمر میں آپ نے احمدیت قبول کر لی.خدا تعالیٰ کی ہستی پر آپ کو کامل یقین تھا نہایت مضبوط ایمان تھا.بڑے صابر اور شاکر مؤمن یعنی مؤمن ہونے کی حقیقی تصویر تھے.کئی جماعتی بزرگ شخصیات سے شرف ملاقات ان کو حاصل ہوا.پہلی دفعہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے 1940ء میں ان کی ملاقات ہوئی.1979ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے شرف ملاقات نصیب ہوا.عاصم صاحب کہا کرتے تھے کہ جب میں نے خلیفہ اسیح الثالث سے پہلی ملاقات کی تو
خطبات مسرور جلد 12 437 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جولائی 2014ء مجھے یوں لگا جیسے ان کے گرد نور کا ایک ہالہ ہے جواب بھی میں تصور کر سکتا ہوں.امریکہ کی نیشنل عاملہ میں ان کو خدمت بجالانے کی توفیق ملی.لوکل صدر بھی رہے سیکرٹری تبلیغ بھی رہے.زعیم انصار اللہ کی حیثیت سے بھی کام کیا.امریکہ کے شہر سیاٹل میں ایک پورٹ پر کام کرتے تھے اور آپ کو دو تین ماہ گھر سے دور رہنا پڑتا تھا.انہی ایام میں جبکہ یہ آپ کی بڑی آمدنی والی ملازمت تھی، ایک دفعہ جلسہ آ گیا اور آپ جلسہ اٹنڈ (attend) کرنے کے لئے اپنا کام چھوڑ کر آگئے ، ملازمت چھوڑ کر آ گئے.ہمیشہ جماعتی پروگراموں میں شمولیت کیا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک جماعتی پروگرام میں شامل ہونے کے لئے جارہے تھے خدمت کے لئے کسی جگہ اور تیز گاڑی چلا رہے تھے تو پولیس والے نے آپ کو روک لیا.آپ نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی.پولیس نے پوچھا کہ چرچ یعنی مسجد میں جا رہے ہو.ٹوپی مسلمانوں والی تھی نماز والی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں.پولیس افسر بھی کوئی نیک تھا کہنے لگا اچھا جاؤ پھر جتنا تمہیں جرمانہ میں نے کرنا تھا وہ جا کے اپنی مسجد کو ادا کر دینا.تو انہوں نے مسجد پہنچتے ہی پچاسی ڈالر کی رقم جو جرمانے کی ہوئی تھی وہ مسجد کے چندے میں نہایت ایمانداری سے دے دی.اسی طرح جب سیاٹل (Seattle) کی مسجد بنی.تو اس زمانے میں انہوں نے سب سے زیادہ رقم پیش کی.یہ 1970ء کی بات ہے جس میں کہتے ہیں اس زمانے میں ایک نئی کار آ جاتی تھی اس رقم میں.ہمیشہ تبلیغ کا شوق تھا اپنی گاڑی میں فولڈنگ ٹیبل اور چند کتب اور فلائر وغیرہ ہمیشہ رکھتے تھے اور جہاں بھی جاتے وہاں سٹال لگایا کرتے اور تبلیغ کیا کرتے تھے، لٹریچر تقسیم کرتے تھے.سیاٹل کی پبلک لائبریری میں جماعتی کتب اور فلائر انہوں نے رکھوائے.آخری لمحے تک ان کو جماعت کی ترقی کی فکر رہتی تھی.بڑی محبت تھی جماعت سے خلافت سے.اور ہمیشہ لوگوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ جماعت کے لئے خدمت کرو.آپ کے لواحقین میں اہلیہ اور چار بچے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو بھی نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ یکم اگست 2014ء تا 07 اگست 2014 ، جلد 21 شماره 31 صفحہ 05-09)
خطبات مسرور جلد 12 438 29 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رزاسر د احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014 ء بمطابق 18 وفا 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ النُّ نُوبَ جَمِيعًا....وَآنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ (الزمر: 55-54) ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ تو کہہ دے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو.یقینا اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے یقینا وہی بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.اور اپنے رب کی طرف جھکو اور اس کے فرمانبردار ہو جاؤ پیشتر اس کے کہ تم تک عذاب آ جائے پھر تم کوئی مددنہیں دیئے جاؤ گے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف آیات میں مختلف مضامین کے حوالے سے مختلف بندوں کو یہ امید دلائی ہے کہ وہ بے انتہاء بخشنے والا اور اپنے بندوں پر بے انتہا رحم کرنے والا ہے.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں اس کی پہلی آیت میں یہی مضمون بیان ہوا ہے اور اس میں ہر اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کا، اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے فیض پانے کا ایک خوبصورت پیغام ہے جو گنا ہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی سزا سے خوفزدہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو! میری رحمت سے مایوس نہ ہو.میں مالک ہوں، میں طاقت رکھتا ہوں کہ تمہارے گناہ بخش دوں اور تمہیں اپنی رحمت کی چادر میں
خطبات مسرور جلد 12 439 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء لپیٹ لوں.پس کیا خوبصورت پیغام ہے جو امیدوں کو بڑھاتا ہے اور مایوسیوں کا خاتمہ کرتا ہے.یہی پیغام ہے جو انسانوں کو کہ رہا ہے کہ مایوسی گناہ ہے.یہی پیغام ہے جو ہمیں کمزوریوں سے بھی بچانے کی طرف لے جانے والا ہے اور زندگی کی ناکامیوں سے بھی دور رکھنے والا ہے.کیونکہ مایوسیاں ہی بسا اوقات گناہوں کے کرنے اور زندگی کی ناکامیوں کی وجہ بنتی ہیں.لیکن جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نیچے آ جائے ، مایوسیاں اور ناکامیاں اس سے دُور بھاگتی ہیں.یہی پیغام ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے راستے دکھا رہا ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے چلے جانے والے بن کر اس کی رحمتوں سے فیض پاتے چلے جائیں.پس یہ پیغام تمام بھٹکے ہوؤں کے لئے روشن راستہ ہے.یہ پیغام تمام روحانی مُردوں کے لئے زندگی کا پیغام ہے یہ پیغام شیطان کے پنجے میں جکڑے ہوؤں کے لئے آزادی کی نوید ہے.کیا ہی پیارا ہمارا خدا ہے جو ہم پر اپنے پیار کی اس طرح نظر ڈالتا ہے جو بار بار اپنے ماننے والوں کو کہتا ہے کہ وَلَا تَايْنَسُوا مِنْ روح الله (يوسف: 88) اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہو کیونکہ لَا يَايَنَّسُ مِنْ زَوْحِ اللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُوْنَ.(يوسف: 88) کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافروں کے سوا کوئی نا امید نہیں ہوتا.پس اگر ایمان کا دعوی ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی ہر وقت امید رکھو.تم اپنی بشری کمزوریوں کی وجہ سے بعض برائیوں میں مبتلا ہو گئے ہو لیکن بھٹکے ہوؤں میں تو نہیں ہو ، گمراہوں میں تو نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس تو صرف بھٹکے ہوئے لوگ ہوتے ہیں.وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ پر یقین نہیں ہے، خدا تعالیٰ کی رحمانیت پر یقین نہیں ہے.یہ مایوسی بھٹکے ہوؤں کا شیوہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبَّةٍ إِلَّا الضَّالُونَ ( الحجر :57) اور گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے.پس یقیناً پریشان حالوں اور اپنی حالتوں کی وجہ سے بے چین لوگوں کے لئے اس سے بڑھ کر ہمدردی اور تسکین قلب کا اور کوئی پیغام نہیں ہوسکتا.پھر ہمارا خدا ہماری تسکین کے لئے ہمیں یہ بھی کہتا ہے کہ وہ تمہارے برے اعمال کی وجہ سے تمہیں فوری پکڑ کر سزا نہیں دیتا بلکہ وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ (الكهف:59 ) کہ اور تمہارا خدا بہت ہی بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے کیونکہ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ.(الانعام: 55) کہ تمہارے رب نے اپنے آپ پر تمہارے لئے رحمت کو فرض کر لیا ہے.پس تمہارے جہالت سے کئے گئے گناہوں کو وہ معاف کرتا ہے.پس اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرو.اگر اصلاح کرتے ہوئے اس کی رحمت
خطبات مسرور جلد 12 440 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء پر نظر ہوگی تو وہ غفور الرحیم ہے.بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے.اور صرف یہی نہیں کہ صرف وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے بلکہ فرماتا ہے ورحمتی وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ـ (الاعراف: 157 ) کہ اور میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.یہاں بات تو مومنوں سے بھی آگے نکل جاتی ہے.صرف مومنوں کی بات نہیں ہو رہی.یہ رحمت تو کافروں کو بھی پہنچتی ہے اور مومنوں پر تو پھر یہ فرض ہو گئی.وہ تمام گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور کرتا ہے.یہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وہ مالک ہے.اس کو معاف کرنے کے لئے کسی پابندی کی یاکسی شرط کی ضرورت نہیں ہے.لیکن کیا ایسے رحیم اور پیار کرنے والے خدا کے رحم اور پیار کا تقاضا نہیں کہ ہم اس کے کہنے پر چل کر اس کے حکموں پر عمل کر کے اس سے محبت کو بڑھا ئیں، اس کے اور قریب ہوں اور اپنے گناہوں اور اپنی کمزوریوں کو ختم کرنے کی حتی القدور کوشش کریں.یہ ساری باتیں جو میں نے قرآن کریم کے حوالے سے کی ہیں اور اسی طرح جو احادیث ہم تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہنچتی ہیں یہ سب ہمیں یہی بتاتی ہیں کہ کوئی بھی شخص نا قابل اصلاح نہیں ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی شخص کی اصلاح نہ ہو سکے.ہر ایک کی اصلاح ہو سکتی ہے.ہر ایک اللہ تعالیٰ کی عمومی رحمت سے جو ہر ایک کے لئے پھیلی ہوئی ہے اس کی رحمت کو اس سے بڑھ کر زیادہ بھی حاصل کرنے والا بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے دل میں اور پھر عملی طور پر پاک تبدیلیاں لانے کی کوشش کرے.گزشتہ دنوں ڈنمارک کے ایک مذہبی اخبار میں ایک خاتون نے مضمون لکھا اور قرآن کریم کے بارے میں لکھا کہ اس میں بار بار سزا اور عذاب کا ذکر ہے اور محبت کا لفظ تو کہیں استعمال ہی نہیں ہوا یا ایک دو جگہ استعمال ہوا ہے.اور یہ کہنا کہ خدا پر ایمان ایک انسان کو اپنی مرضی اور آزادی اور خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہے یہ کسی طرح بھی کم از کم مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہوسکتا.بعض آیات بغیر سیاق وسباق کے لکھ کر یا غلط طور پر بیان کر کے اور اپنی طرف سے استنباط کر کے اسلام کے خدا کو صرف سزا دینے میں جلد باز اورسخت پکڑ والا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.بہر حال اس کا جواب تو وہاں کی جماعت دے رہی ہے لیکن یہ جو چند حوالے میں نے پیش کئے ہیں وہ جہاں مومنین کو امید افزاء پیغام دیتے ہیں وہاں اس جیسے مضمون نگاروں کو اور اسلام دشمنوں کو جو اسلام کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں اور اسلام اور قرآن سے بغض رکھتے ہیں ان کو جواب بھی دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو مالک ہے، بخشتا ہے.یہ ایسی صفت ہے جو تمام صفات پر حاوی ہے.معاف بھی کرتا ہے رحم بھی کرتا ہے.یہ بھی اس کا رحم ہے کہ انسانوں کی بے انتہاء بداعتدالیوں
خطبات مسرور جلد 12 441 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء اور ظلموں کے باوجود انہیں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا.ہاں یہ بیشک ہے کہ ان فلموں اور حد سے زیادہ گناہوں میں پڑنے کی وجہ سے اور پھر اس ضد پر قائم رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہیں سزا ملے گی.مسلسل گناہ اور ظلم کرتے چلے جاؤ اور کسی طرح باز نہ آؤ تو پھر سزا ملے یہ تو قانون قدرت ہے بلکہ دنیا کا بھی قانون ہے.لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ اتنا رحمان ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دوزخ خالی ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسی وسیع اور لا انتہاء ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور بخشش کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر تم لوگ پھر میری رحمت اور بخشش سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو تمہارے لئے گناہوں اور ظلموں کی پھر سزا بھی ہے لیکن یہ میری رحمت ہے اور میری بخشش ہے جو تمہیں بار بار توجہ دلا رہی ہے کہ ان سے بچو.اس سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ کر لو کہ کوئی عذاب تمہیں گھیرے.حد سے زیادہ فلموں کی وجہ سے تم میری پکڑ میں نہ آجانا.پس بچنے کی کوشش کرو.اب جو اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں اس پر سوائے ان کی عقل کو اندھا اور بغض وعناد میں بھرے ہوئے ہونے کے اور کیا کہا جا سکتا ہے.اپنے ملکوں کے قانون جو بناتے ہیں اس میں تو یہ جرموں کی سزا دینا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑنے والوں اور ظلموں اور زیادتیوں میں بڑھنے والوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کیوں یہ کہتا ہے کہ میں سزا دوں گا، میں عذاب دوں گا.اسلام کا خدا کتنا بخشنہار ہے اس کی وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے.حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کئے تھے.اب یہ مثالیں اس لئے دی جارہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے متعلق بھی بتایا جائے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی.فرمایا کہ اس نے نانوے قتل کئے تھے پھر وہ تو بہ کے متعلق پوچھنے کے لئے نکلا.ایک راہب کے پاس آ کر اس نے پوچھا کہ اب تو بہ ہو سکتی ہے.اس راہب نے کہا: نہیں اب کوئی رستہ نہیں.اس نے اس کو بھی قتل کر دیا.وہ مسلسل اس کے بارے میں پوچھتا رہا کہ کیا تو بہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں تو اسے ایک شخص نے کہا کہ فلاں بستی میں جاؤ.جب وہ جارہا تھا تو اس کو راستے میں موت آ گئی.اس نے اپنے سینے کو اس بستی کی طرف کر دیا.جب مر کے گرا تو اس طرف گرا.رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے آگئے.اس کے متعلق جھگڑنے لگے.اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو جس میں وہ جارہا تھا حکم دیا کہ اس کے قریب ہو جا اور جس بستی سے وہ دُور جارہا تھا اسے حکم دیا کہ اس سے دُور ہو جا.پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ ان دونوں بستیوں کے درمیان فاصلہ کی پیمائش کرو تو وہ اس بستی سے جس کی طرف وہ گناہ بخشوانے
خطبات مسرور جلد 12 442 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء کے لئے جارہا تھا ایک بالشت قریب تھا.اللہ تعالیٰ نے اس بات پر اسے بخش دیا.(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب 54/52 حدیث نمبر :3470) پس یہ ہے اسلام کا خدا جو عذاب کے بجائے بخشنے کو پسند کرتا ہے جس کی رحمت وسیع تر ہے.پھر ایک اور حدیث ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب عز وجل کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے ابن آدم! تو مجھ سے دعا نہیں کرتا اور مجھ سے امید بھی وابستہ کرتا ہے.پس میں اس شرط کے ساتھ کہ تو شرک نہ کرے تجھے تیری خطائیں بخش دوں گا اگر چہ تیری خطائیں زمین کے برابر ہی کیوں نہ ہوں.میں تجھے اپنی زمین بھر مغفرت کے ساتھ ملوں گا.اور اگر تو نے آسمان کی انتہاؤں تک غلطیاں کی ہوں اور پھر تو مجھ سے میری بخشش طال کرے تو میں تجھے وہ بھی بخش دوں گا اور میں ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کروں گا.(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحه 208 مسند ابو ذر الغفاری حدیث 21837 عالم الكتب بيروت 1998ء) یہ ہے اللہ تعالیٰ جو اسلام کا خدا ہے، جو بخشنے والا ہے اور ہم مومنوں پر اللہ تعالیٰ کے کتنے بڑے احسان ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر سال رمضان میں اس کی بخشش کے دروازے مزید کھلتے ہیں.رمضان میں اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت کے بارے میں ایک روایت یوں بیان ہوئی ہے.نفر بن بیان کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو.ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہا: ہاں.مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان کے روزے رکھنا تم پر فرض کیا ہے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیا ہے پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے اس میں روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو.نوزائیدہ بچے کی طرح ہو جاتا ہے.(سنن النسائی کتاب الصیام باب ذکر اختلاف یحیی بن ابی کثیر و النضر بن شيبان فيه حديث (2210) پس ہمیں اس سے غرض نہیں کہ جاہلوں کو اسلام کا خدا کیسا نظر آتا ہے.ہمیں تو یہ پتا ہے کہ ہمارا خدا ہمارے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہمیں پیار کرنے والا اور بخشنے والا ہے اور ہماری طرف دوڑ کر آنے والا خدا ہے تا کہ اپنے بندوں کے گناہ بخشے.پھر رمضان کے حوالے سے ایک اور حدیث ہے جس میں رمضان کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 443 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے.اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں کو قیام کرنے کو فل ٹھہرایا ہے.هُوَ شَهْرُ اوَلُهُ رَحْمَةٌ وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَ آخِرُهُ عِتْقُ مِّنَ النَّارِ.کہ وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے.اور جس نے اس میں کسی روزے دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے بھی پیاس نہ لگے گی.(شعب الايمان للبيهقى جلد 5 صفحه 223 کتاب الصیام باب فضائل شهر رمضان حدیث نمبر (3336 یعنی یہ مغفرت ایسی ہے کہ اگر رمضان کا حق ادا کرتے ہوئے روزے رکھے جائیں اور نوافل ادا کئے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے تو پچھلے گناہ بھی بخشے جاتے ہیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے.پس اللہ تعالیٰ ہمارے لئے قدم قدم پر ایسے سامان پیدا فرما رہا ہے جو جنت میں لے جانے والے ہیں.آجکل ہم رمضان سے گزر رہے ہیں اور دوسرے عشرہ کا بھی اختتام ہو رہا ہے.کل پرسوں تیسرا عشرہ شروع ہونے والا ہے.اور یہ عشرہ تو جیسا کہ حدیث میں بھی ہے اس لحاظ سے بھی برکتیں لئے ہوئے ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہے جو لیلتہ القدر ہے جو دعاؤں کی قبولیت اور بندے کو خدا کے قریب تر کرنے کے جلوے دکھانے اور دیکھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.پس اس عشرہ میں ہمیں اپنی دعاؤں اور اپنی عبادتوں کے لئے خاص اہتمام کرنے کی ضرورت ہے.جو کچھ اس میں حاصل کریں پھر اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی بھی خاص ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت سے فیض پاتے چلے جانے کے لئے خاص طور پر ان دنوں میں اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے جو رمضان کا حق ہے اور خاص طور پر اس آخری عشرہ کا حق ہے.اپنی برائیوں کو دور کرنے کے لئے ، آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے، جہنم سے مستقل نجات پانے کے لئے ایک کوشش کی ضرورت ہے.ہر کام کے لئے ایک کوشش کرنی پڑتی ہے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ کوئی کام بغیر کوشش کے ہو جائے.یہ تو عام اصول ہے اور ایک حقیقی مومن سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی خوشخبریوں، اللہ تعالیٰ کے پیغاموں، آنحضرت
خطبات مسرور جلد 12 444 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیئے گئے امید افزاء پیغاموں کو سرسری نظر سے نہ دیکھے بلکہ جب سنے تو ان کا حصہ بننے کی ایک تڑپ دل میں پیدا ہو.اور یہ تڑپ تبھی فائدہ مند ہوگی جب اس کے حصول کے لئے عملی قدم بھی اٹھائے.اور عملی قدم وہی پھل لانے والے ہوتے ہیں، وہی کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں جوان اصولوں کے مطابق اور اس طریق پر چلتے ہوئے اٹھائے جائیں جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بنائے گئے ہوں.پس بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع تر ہے.بیشک رمضان میں نیکیوں کے کئی گنا ثواب ہیں.بیشک رمضان رحمت اور مغفرت کے حصول اور جہنم سے ڈوری کا ذریعہ ہے لیکن ان باتوں سے مستقل فائدہ وہی اٹھانے والے ہوتے ہیں جو ایک لگن کے ساتھ اس کے حصول کی کوشش کریں.پس ہم میں سے خوش قسمت ہیں وہ لوگ یا ہم میں سے خوش قسمت وہ لوگ ہوں گے جو اس رمضان کو رحمت اور بخشش کے حاصل کرنے اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بنالیں گے.اور وہ ان کمزوریوں کو ختم کرنے والے ہوں، اپنے گناہوں سے ہمیشہ کے لئے بیچنے والے ہوں.یہ رمضان ہمارے لئے وہ سنگ میل بن جائے جو ہمیشہ برائیوں سے دور رکھنے والا اور ہمیشہ نیکیوں کی طرف لے جانے والا بن جائے.برائیوں سے نفرت ہمارے دلوں میں ایسی پیدا ہو جائے جو کبھی دوبارہ ہمیں ان برائیوں کی طرف مائل کرنے والی نہ ہو.سچی توبہ کی طرف ہماری توجہ ہو اور ایسی تو بہ ہو جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بناتی چلی جائے.ان باتوں کا حصول کس طرح ہو سکتا ہے یا ایسی سچی توبہ کس طرح ہو سکتی ہے جو ہمیشہ گنا ہوں سے دور رکھے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.تو به در اصل حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤید چیز ہے“ (اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ کردار کا مالک بنا ہے، اللہ تعالیٰ کے قریب ہونا ہے تو تو بہ ہی ہے جو اس کے کام آ سکتی ہے.اسی کی وجہ سے آدمی ترقی کرتا ہے.یہی چیز ہے جو مددگار بنتی ہے.فرمایا) اور انسان کو کامل بنادیتی ہے.یعنی جو شخص اپنے اخلاق سیہ کی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ بچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ تو بہ کرے.یہ بات بھی یا درکھنی چاہیے کہ تو بہ کے تین شرائط ہیں.“ ( صرف تو بہ کرنے سے تو بہ نہیں ہو جاتی.) بدوں ان کی تکمیل کے سچی توبہ جسے توبۃ النصوح کہتے ہیں حاصل نہیں ہوتی.اور وہ شرائط کیا ہیں.فرمایا: ”ان ہرسہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں.یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کر دیا جاوے جوان خصائل ردیہ کے محرک ہیں.اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثر پڑتا ہے کیونکہ حیطہ عمل میں آنے سے پیشتر ہر ایک فعل ایک تصویری صورت رکھتا ہے.پس تو بہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ان
خطبات مسر در جلد 12 445 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء خیالات فاسدہ وتصورات بد کو چھوڑ دے.مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہو تو اسے تو بہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قرار دے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے تصورات کا اثر بہت زبردست اثر ہے اور میں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے تصور کو یہانتک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صورت میں دیکھا.غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصور کرتا ہے ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے.پس جو خیالات بدلذات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے.یہ پہلی شرط ہے.دوسری شرط ندم ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا.ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے مگر بد بخت انسان اس کو معطل چھوڑ دیتا ہے.پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پر پشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چند روزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے.یہاں تک کہ بڑھاپے میں آ کر جبکہ قومی بیکا راور کمزور ہو جائیں گے آخر ان سب لذات دنیا کو چھوڑ نا ہوگا.پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب لذات چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیا حاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو تو بہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اول اقلاع کا خیال پیدا ہو یعنی خیالات فاسدہ وتصورات بیہودہ کو قلع قمع کرے.جب یہ نجاست اور نا پا کی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پر پشیمان ہو.تیسری شرط عزم ہے.یعنی آئندہ کے لئے مصمم ارادہ کر لے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کرے گا.اور جب وہ مداومت کرے گا تو خدا تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا یہانتک کہ وہ سیئات اس سے قطعا زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر.اس پر قوت اور طاقت بخشا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے.جیسے فرما یا اَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِيعًا (البقرة: 166 ).ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں اور انسان ضعیف البنیان تو کمزور ہستی ہے.خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء : 29) اس کی حقیقت ہے.پس خدا تعالیٰ سے قوت پانے کے لئے مندرجہ بالا ہر سہ شرائط کو کامل کر کے انسان کسل اور سستی کو چھوڑ دے اور ہمہ تن مستعد ہو کر خدا تعالیٰ سے دعا مانگے.اللہ تعالیٰ تبدیلی اخلاق کر دے گا.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 138 تا 140) پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے.ان لوگوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے جو
خطبات مسرور جلد 12 446 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء ہیں کہ ہم نے فلاں برائی سے بچنے کے لئے دعا کی لیکن یہ برائی دور نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں نہیں سنیں.بعض ماں باپ پریشان ہوتے ہیں کہ بچوں میں یا بعض نو جوانوں میں غلط عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور کہتے ہیں ہم نے کوشش کی.یہ دعا بھی کی بنی نہیں گئی.تو یہ چیز غلط ہے.اس کو میں آسان رنگ میں دوبارہ سمجھا دیتا ہوں.دعا کی قبولیت کے لئے بھی کچھ لوازمات ہیں ان کو پورا کرنا ضروری ہے.چار دن دعا کر کے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے دعا نہیں سنی یہ ویسے ہی اپنی نااہلی کو خدا تعالیٰ پر ڈالنے والی بات ہے.بہر حال اس وقت میں حضرت مسیح موعود کے اس اقتباس کے حوالے سے جو میں نے پڑھا ہے، یہی بتانا چاہتا ہوں کہ برائی سے کس طرح رکنا چاہئے اور تو بہ کا حصول کس طرح ہوتا ہے.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تو بہ کرنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے کچھ ضروری باتیں ہیں کچھ عمل ہیں کچھ محنت ہے کچھ طریقے ہیں جن پر عمل کرنا ہو گا.ان کو کریں گے تو تبھی نتیجہ حاصل ہو گا اور برائیوں سے بچنے کے لئے دعا بھی تبھی قبول ہو گی جب کچھ عملی اقدام بھی اٹھا ئیں گے.عملی قدم کچھ نہ اٹھانا اور صرف سرسری دعا کر کے کہہ دینا کہ خدا تعالیٰ نے دعا قبول نہیں کی اس لئے شاید یہی مرضی ہے کہ میں گناہگار ہی رہوں تو یہ غلط ہے.برے اعمال اور اخلاق کو اگر بہتر کرنا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین باتیں پہلے خود انسان کرے پھر دعا کرے تو یہ دعا مددگار ہوتی ہے اور برائیاں پھر چھوٹ جاتی ہیں.اور سچی توبہ کے لئے جیسا کہ میں نے حوالے میں پڑھا، آپ نے فرمایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ گندے اور برے خیالات سے اپنے دماغ کو پہلے صاف کروں کسی بھی برائی کی لذت کا تصور پہلے دماغ میں پیدا ہوتا ہے تب انسان اس برائی کو کرتا ہے.اگر دماغ میں برائی کا یا اس کی اچھائی کا یا لذت کا تصور پیدا نہ ہو اور کراہت ہو تو کبھی وہ برائی کرتا ہی نہیں.اور پہلے کسی بھی برائی کی لذت کا تصور پیدا ہوتا ہے، احساس پیدا ہوتا ہے پھر انسان اس برائی کی طرف راغب ہوتا ہے.پس پہلا عملی قدم جوانسان کو برائیوں سے بچنے کے لئے اٹھانا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے ذہن کو گندے تصورات یا عارضی لذات کے تصور سے پاک کرے.اس کی مثال آپ نے یہ دی کہ جس طرح مثلاً کسی عورت سے ناجائز تعلقات ہوتے ہیں.دوستیاں قائم ہو جاتی ہیں تو ایسی عورت کا اچھا تصور دماغ میں قائم کرنے کے بجائے بدصورت تصور قائم کرو.بجائے یہ دیکھو کہ اس میں خوبصورتی کیا ہے اور کیا کچھ خوبیاں ہیں اس کا بدصورت ترین تصور جو قائم کر سکتے ہو وہ قائم کرو.اس کے جو برے خصائل ہیں جو اس کی برائیاں ہیں ان کو سامنے لاؤ اور ایک ایسی شکل تصور میں قائم کرو جو سخت قسم کی مکروہ اور کر یہ شکل ہو تو تبھی اس برائی سے تم دور ہو سکو گے.پھر دوسری
خطبات مسرور جلد 12 447 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء شرط یہ بتائی کہ اپنے نیک کانشنس کو بیدار کرو اور سوچو کہ میں کن برائیوں میں مبتلا ہورہا ہوں.اپنے حالات پر پشیمانی اور شرمندگی کا احساس دل میں پیدا کرو.اگر یہ حالت ہوگی تو پھر ہی برائی سے بچ سکو گے.پھر فرمایا تیسری بات یہ ہے کہ ایک پکا اور مصمم ارادہ ہو کہ میں نے اب اس برائی کے قریب بھی نہیں جانا.اور جب اس ارادے پر قائم رہنے کی ہر وقت کوشش کر رہے ہو گے تو پھر خدا تعالیٰ سچی توبہ کی توفیق دیتا ہے اور برائیوں سے بچنے کے لئے کی گئی دعاؤں کو بھی پھر سنتا ہے.دعاؤں کے قبول ہونے سے پہلے یہ عمل کرنے کی ضرورت ہے.یہ نہیں کہ صبح سے شام تک اور رات سے صبح تک غلط کاموں اور برائیوں میں ملوث رہے اور ایک وقت یا کسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کر لی کہ مجھے اس برائی سے بچالے.یہ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ دعا سنجیدگی سے نہیں کی گئی.وہ نیک فطرت جو کانشنس ہے جو اندر چھپا ہوا ہے اس نے کسی وقت یہ کچھ کا لگا دیا کہ تمہاری یہ کیا حالت ہے کہ برائیوں میں ڈوبے ہوئے ہو.اس عارضی احساس سے دعا کی طرف وقتی توجہ پیدا ہو جائے اور پھر جب برائی کو سامنے دیکھے تو اس کی چاہت اس عارضی احساس کو ختم کر دے، ندامت پر حاوی ہو جائے.ایسی حالت تو نہ برائیوں سے مستقل بچاتی ہے نہ دعا کا حق ادا کرنے والی بناتی ہے بلکہ یہ تو دعا کے ساتھ بھی مذاق ہے اور خدا تعالیٰ کو پابند کرنے کی کوشش ہے.خدا تعالیٰ کسی بندے کا پابند نہیں ہے.پس ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش سے حقیقی فیض اگر اٹھانا ہے، اس کے انعاموں کا وارث بننا ہے، اپنی دعاؤں کی قبولیت کو دیکھنا ہے تو پھر اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنے کی بھی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایسا مہر بان ہے کہ ہر وقت اس کی رحمت کی چادر اپنے بندوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے تیار ہے.کیا یہ بات ہم سے اس بات کا تقاضا نہیں کرتی کہ ہم خود بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر چل کر اس کی بخشش اور رحمت کو حاصل کرنے والے بنیں.ہم اس رحمت کو حاصل کرنے والے بہنیں جو حقیقی مومنوں کو حاصل ہوتی ہے، جو اس کے پیاروں کو حاصل ہوتی ہے.ان باتوں سے بچیں جو باوجود اس کی وسیع رحمت کے سزا کا مورد بنا دیتی ہے.ہماری تو بہ سچی تو بہ ہو اور ہم ہمیشہ اس کے آگے جھکے رہنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:.اپنے اعمال کو صاف کرو اور خدا تعالیٰ کا ہمیشہ ذکر کرو اور غفلت نہ کرو.جس طرح بھاگنے والا شکار جب ذرا سست ہو جاوے تو شکاری کے قابو میں آ جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کرنے والا شیطان کا شکار ہو جاتا ہے.تو بہ کو ہمیشہ زندہ رکھو اور کبھی مردہ نہ ہونے دو.کیونکہ جس عضو سے
خطبات مسرور جلد 12 448 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء کام لیا جاتا ہے وہی کام دے سکتا ہے اور جس کو بیکار چھوڑ دیا جاوے پھر وہ ہمیشہ کے واسطے ناکارہ ہو جاتا ہے.اسی طرح تو بہ کو بھی متحرک رکھو تا کہ وہ بیکار نہ ہو جاوے.اگر تم نے سچی توبہ نہیں کی تو وہ اس پیج کی طرح ہے جو پتھر پر بویا جاتا ہے اور اگر وہ کچی تو بہ ہے تو وہ اس بیج کی طرح ہے جو عمدہ زمین میں بویا گیا ہے اور اپنے وقت پر پھل لاتا ہے.آج کل اس تو بہ میں بڑی بڑی مشکلات ہیں.کیونکہ دنیا کی لالچیں دنیا کی لذات سامنے ہوتی ہیں.فرمایا : ”ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، تو بہ، دینی علوم کی واقفیت ، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں.نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے.جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الہی کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو، بچو.( ملفوظات جلد 5 صفحہ (303) اللہ کرے کہ ہم اس سچی تو بہ کرنے والوں میں شامل ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں.رمضان سے وابستہ تمام برکات جو ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان کو حاصل کرنے والا بنائے.اس وقت میں نماز جمعہ کے بعد تین جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ جو ہے وہ نوابشاہ کے رہنے والے ہمارے مکرم محمد امتیاز احمد صاحب ابن مشتاق احمد صاحب طاہر ہیں جن کو 14 جولائی کو شہید کر دیا گیا.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کی عمر تقریباً 39 سال تھی.کہتے ہیں کہ شام کو ساڑھے چار بجے کچھ نا معلوم موٹر سائیکل سوار ان کی دوکان پر آئے اور ان کو گولی مار کر شہید کر دیا.اِنَّا لِلهِ وَاِنّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.تفصیلات کے مطابق محمد امتیاز احمد صاحب نوابشاہ شہر کے ٹرنک بازار میں واقع اپنی دوکان کے باہر کھڑے تھے کہ موٹر سائیکل پر دو نامعلوم سوار آئے اور ان پر فائرنگ کر کے فرار ہو گئے.فائرنگ کے نتیجے میں انہیں تین گولیاں لگیں.دو گولیاں ان کے سر پر دائیں طرف لگیں اور بائیں طرف کان کے نیچے سے آر پار ہو گئیں جبکہ تیسری گولی ان کے ہاتھ پر لگی.بہر حال موقع پر شہادت ہوگئی انا للہ وانا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ نوابشاہ میں مذہبی منافرت کی وجہ سے اب تک یہ نویں شہادت ہے اور گزشتہ ایک دو سال میں یہاں زیادہ شہادتیں ہوئی ہیں.اس واقعہ سے دو تین دن پہلے شہید مرحوم کو ایک قریبی دکاندار نے بتایا بھی تھا کہ بعض مخالفین آپ کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں.احتیاط جتنی مرضی کرو باہر تو بہر حال نکلنا ہی ہوتا
خطبات مسرور جلد 12 449 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء ہے اور دشمنوں کو موقع مل جاتا ہے.شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ 1935ء میں ان کے دادا مکرم سیٹھ محمد دین صاحب آف امرتسر کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے نعمت اللہ خان صاحب وزیر آباد کے ذریعہ سے بیعت کی تھی.1947ء میں یہ امرتسر انڈیا سے نوابشاہ پاکستان میں شفٹ ہو گئے.1975ء میں شہید پیدا ہوئے تھے.پھر F.Sc کی تعلیم حاصل کی.اس کے بعد اپنے والد کے کاروبار میں مصروف ہو گئے.جماعتی خدمات کافی کرتے تھے.شہادت کے وقت یہ بطور صدر جماعت حلقہ محمود ہال تھے.شہر کے سیکرٹری تحریک جدید، سیکرٹری اصلاح وارشاد شہر اور ذیلی تنظیم میں نوابشاہ شہر کے قائد خدام الاحمدیہ تھے.ناظم اصلاح وارشاد علاقہ اور ضلع تھے.ناظم تحریک جدید ضلع تھے.ماضی میں یہ سیکرٹری وقف جدید، سیکرٹری ضیافت بھی رہ چکے ہیں، سیکرٹری دعوت الی اللہ بھی رہ چکے ہیں.جماعتی خدمات کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے.جو بھی کام سپر د کیا جاتا بڑی خوش اسلوبی سے اس کو سر انجام دیتے.کبھی انکار نہیں کیا.بہت مہمان نواز تھے.مرکزی مہمانوں کا بڑا خیال رکھتے تھے.سادہ طبیعت کے مالک.خلافت سے انتہائی محبت اور اطاعت کا تعلق تھا.اطاعت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے.پنجوقتہ نمازی اور تہجد گزار تھے.بڑا دھیما مزاج تھا.ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتے.ان میں ہمیشہ معاف کرنے کی صفت تھی.گزشتہ سال قادیان کے جلسہ میں بھی شامل ہوئے تھے.شہادت کے روز رمضان المبارک کے سلسلے میں ذاتی طور پر مستحقین کے لئے راشن کے پیکٹ خود تیار کر کے دو پہر تک تقریباً سات گھروں میں تقسیم کر کے آئے تھے اور جب واپس پہنچے ہیں تو وہاں ان نامعلوم حملہ آوروں نے ، بدبختوں نے حملہ کیا اور آپ کو شہید کر دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور سیٹھ محمد یوسف صاحب شہید جو سابق امیر ضلع نوابشاہ تھے ان کے بھتیجے تھے.ان کے والد مشتاق احمد صاحب بھی زندہ حیات ہیں.لواحقین میں ان کی اہلیہ نبیلہ امتیاز صاحبہ ہیں تین بیٹے جاذب عمر دس سال عبد الباسط عمر نو سال، محمد عبداللہ عمر سات ماہ.دوسرا جنازہ مکرم نصیر احمد انجم صاحب واقف زندگی کا ہے جو جامعہ احمد یہ ربوہ میں استاد تھے.1981ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان دیا.اس کے بعد زندگی وقف کی اور جامعہ میں پڑھائی کے لئے تشریف لے آئے.جامعہ میں آپ نے بی اے کیا.جامعہ سے فارغ ہوئے تو پھر ایم اے عربی کیا.رشین زبان میں بھی ان کو جماعت کی طرف سے کورس کروایا گیا.1988ء میں جامعہ سے شاہد کی ڈگری لینے کے بعد میدان عمل میں آئے اور مختلف جماعتوں میں رہے.1990ء میں موازنہ مذاہب کے تخصص کے لئے ربوہ بلایا گیا اور تخصص کے دوران ہی آپ نے جامعہ احمدیہ میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا اور
خطبات مسرور جلد 12 450 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء با قاعدہ طور پر 18 جولائی 1999ء کو آپ مستقل طور پر استاد موازنہ مذاہب مقرر ہوئے اور تادم آخر اسی ذمہ داری کو با احسن نبھاتے رہے.جامعہ سے پاس ہونے کے بعد خدمت کا عرصہ تقریباً چھبیس سال ہے اور باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو ان مربیان میں تھے ،علماء میں تھے ، موازنہ مذاہب میں آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اتھارٹی تھے.بڑا اعلم تھا.بڑا گہر اعلم تھا.جامعہ میں تدریس کے علاوہ آپ کو مختلف شعبہ جات میں خدمت کی توفیق ملی.قضا کے ان ابتدائی نمائندگان میں سے تھے جنہیں حضرت خلیفۃ اصیح الرابع نے مقرر فرمایا تھا اور آخر تک یہ رہے.مجلس افتاء اور ریسرچ سیل کے ممبر بھی تھے.خدام الاحمدیہ میں مختلف عہدوں پر آپ نے خدمات انجام دیں.پھر ان کی ایک خوبی گھر والے بتاتے ہیں یھی کہ نظام جماعت کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے.اگر اپنے بچوں میں سے بھی کوئی کسی عہدیدار کے خلاف بات کرتا تو اس کو سمجھاتے اور اگر کوئی شخص کسی جماعتی فیصلے یا شخصیت کے خلاف بات کرنے کی کوشش کرتا تو اس کو بھی بڑی حکمت سے سمجھا دیتے.جلسہ سالانہ یو کے میں بھی ان کو شمولیت کی سعادت ملی اور غالباً جلسہ سالانہ 2010ء میں انہوں نے یہاں تقریر بھی کی تھی.اور اس دفعہ بھی انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ میں نے اپلائی کیا ہوا ہے.اللہ کرے ویزہ مل جائے پھر ریجیکٹ ہو گیا پھر دوبارہ اپلائی کیا.خلافت کے ساتھ ان کو غیر معمولی تعلق اور پیار تھا اور حقیقی سلطان نصیر میں شامل تھے.تبلیغ کا بڑا شوق تھا.ہر جگہ مجلس میں جاتے تھے اور ان کو تبلیغی میدان میں بھی بڑا عبور تھا.لوگوں کو پڑھے لکھوں کو بھی بڑے دلائل سے قائل کر لیا کرتے تھے.ان کی بیٹی خدیجہ ماہم نے لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ عشق تھا اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑھنے پر بہت زور دیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی لغت لکھ رہے تھے اور یہ فکر مند رہتے تھے کہ یہ قیمتی خزانہ لوگوں تک پہنچ جائے.مشکل الفاظ کی ڈکشنری لکھ رہے تھے تا کہ لوگ حضور علیہ السلام کی کتب سے مستفیض ہو سکیں.اس کام کا آپ نے ابھی آغاز ہی کیا تھا.مبشر ایاز صاحب نے بھی لکھا کہ اچھے مقرر تھے.راہ ہدی میں بھی اور ایم ٹی اے کے متعدد پروگراموں میں شامل ہوتے اور بڑے مدلل جواب دیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے ، ان کے درجات بلند کرے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسے عالم باعمل جماعت کو اللہ تعالیٰ اور بھی عطا فرمائے.تیسرا جنازہ مکرم صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب کا ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے اور حضرت ام ناصر کے بیٹے تھے.ان کی وفات گزشتہ سوموار کو ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
خطبات مسرور جلد 12 451 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جولائی 2014ء آپ نے 1944ء میں میٹرک پاس کیا.پھر حضرت مصلح موعود کی خواہش پر ایگریکلچر کالج میں داخل ہو گئے.پھر دارالضیافت کی ابتدائی کچی عمارت جو مسجد مبارک کے سامنے تھی اس کا انتظام حضرت مصلح موعود نے ان کے سپرد کیا.موجودہ دارالضیافت کی ابتدائی تعمیر بھی آپ کے دور میں ہوئی.82ء 83 تک افسر نگر خانہ کی حیثیت سے خدمات بجالاتے رہے.پھر بطور نائب ناظر امور عامہ خدمت کی توفیق ملی.پھر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے اپنی زمینوں کی نگرانی بھی ان کے سپرد کی.ان کی شادی صاحبزادی صبیحہ بیگم صاحبہ بنت مکرم مرزا رشید احمد صاحب ابن حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے ساتھ ہوئی.ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.اپنے پوتوں کی شادی میں حضرت اماں جان نے جو شرکت فرمائی ان میں سے ان کی شادی آخری تھی جس میں حضرت اماں جان شامل ہو ئیں تھیں.ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا.بہت شریف مہمان نواز اور پیار کرنے والے وجود تھے.مہمان نوازی تو آپ کا بڑا اچھا بڑا نمایاں وصف تھا اور ایک یہ بھی نمایاں خوبی تھی کہ حسن مزاح بہت تھا اور اپنی مجلس میں لوگوں سے مذاق کیا کرتے تھے اور کبھی پریشان مجلس میں بھی اپنے مزاح کی وجہ سے جان پیدا کر دیا کرتے تھے.ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں کہ غریب اور نادار مریضوں کی امداد کے لئے طاہر ہارٹ میں اکثر آتے تھے اور مجھے رقم دے کے جایا کرتے تھے.ہماری والدہ کے بھائی تھے.ان کا خاص تعلق تھا.ویسے تو ہر بھائی کا ہوتا ہے لیکن ان کا خاص تھا.ہمارے گھر میں بہت زیادہ آنا جانا تھا اور اس تعلق کو قائم رکھا اور پھر خلافت کے بعد مجھ سے بھی انہوں نے بڑا تعلق رکھا.اکثر یہاں فون کر کے بھی اس تعلق کا اظہار کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے.ان کی اولا دکو بھی خلافت سے وفا کا تعلق قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.ان کی اہلیہ بھی کافی بیمار ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم اور فضل فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا نماز جمعہ کے بعد یہ جنازے میں ادا کروں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 08 اگست 2014 ، تا 14 اگست 2014 ، جلد 21 شماره 32 صفحه 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 452 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت رزا مرد احمد خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014 ء بمطابق 25 وفا 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: رمضان کا آخری عشرہ بھی بڑی تیزی سے گزر رہا ہے.اس عشرے میں دو چیزوں کی طرف مسلمان زیادہ توجہ رکھتے ہیں یا انہیں بہت اہمیت دیتے ہیں ان میں سے ایک تولیلۃ القدر ہے اور دوسری چیز جمعتہ الوداع.ان میں سے ایک یعنی لیلتہ القدر تو ایک حقیقی اہمیت رکھنے والی چیز ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے.احادیث میں اس کا مختلف روایتوں میں ذکر ہے.اسی طرح قرآن شریف میں بھی اس کا ذکر موجود ہے لیکن جمعتہ الوداع کو تو خود ہی مسلمانوں نے یا علماء کی اپنی خود ساختہ تشریح نے غلط رنگ دے دیا ہے.آج میں ان ہی دو باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا یا ان کی اہمیت اور حقیقت کے بارے میں مختصر ذکر کروں گا.آج بھی میں نے کچھ استفادہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات سے کیا ہے.لیلۃ القدر کے بارے میں مختلف راویوں نے مختلف تاریخیں بتائی ہیں.کسی نے اکیس رمضان بتائی.کسی نے تئیس سے انتیس تک تاریخیں بتا ئیں بعض اسی بات پر پکتے ہیں کہ ستائیس یا انتیس لیلتہ القدر ہے.لیکن بہر حال عموماً اس بارے میں یہی روایت ہے کہ لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو.آخری دس دنوں میں ، دس راتوں میں تلاش کرو.بہر حال لیلتہ القدر ایک ایسی رات ہے جس کی ایک حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خاص رات کی معین تاریخ کا بھی علم دیا گیا جس میں ایک حقیقی مومن کو قبولیت دعا کا
خطبات مسرور جلد 12 453 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء خاص نظارہ دکھایا جاتا ہے اور دعائیں بالعموم سنی جاتی ہیں.لیکن روایات سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ دو مسلمانوں کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ معین تاریخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول گئی.اس ساعت کا علم ہونا، اس گھڑی کا علم ہونا کوئی معمولی چیز نہیں اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں قدرتی طور پر ایک خواہش پیدا ہوئی کہ اس کا جو علم خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے تو میں مومنین کی جماعت کو بھی بتاؤں.حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم دیا گیا تو آپ خوشی خوشی گھر سے باہر آئے تاکہ لوگوں کو بھی اس کی اطلاع دیں اور وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں مگر جب باہر تشریف لائے تو دیکھا دو مسلمان لڑ رہے ہیں.آپ ان کی لڑائی اور اختلاف مٹانے میں مصروف ہوئے تو اس کی تاریخ کی طرف سے آپ کی توجہ ہٹ گئی.لگتا ہے کافی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں اشخاص کی صلح کرانے میں لگا یا معاملے کو سلجھانے میں لگا.بہر حال جب آپ دوبارہ اس طرف متوجہ ہوئے کہ میں تو لیلتہ القدر کی تاریخ بتانے آیا تھا تو آپ اس وقت تک وہ معین تاریخ بھول چکے تھے بلکہ حدیث میں بھلا دیا گیا' کے الفاظ بھی ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھولے ہی نہیں تھے بلکہ الہی تصرف سے اس گھڑی کی یاد اٹھالی گئی تھی.پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جھگڑے کی وجہ سے یا اختلاف کی وجہ سے اس گھڑی کا علم اٹھالیا گیا ہے اس لئے اب معین تو نہیں لیکن اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو.اس سے ایک بڑا اہم نکتہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت کی وجہ سے اسے لیلتہ القدر کہا گیا ہے وہ قومی اتحاد و اتفاق سے تعلق رکھتی ہے.پس یہ بڑا اہم نکتہ ہے.ہم حدیث سنتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر وہ دونوں مسلمان نہ لڑتے تو یہ معین تاریخیں ہمیں پتا چل جاتیں.لیکن اس اہم بات کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت سے اسے لیلتہ القدر کہا جاتا ہے وہ قومی اتفاق و اتحاد سے تعلق رکھتی ہے اور جس قوم میں سے اتحاد واتفاق مٹ جائے اس سے لیلتہ القدر بھی اٹھالی جاتی ہے.آج بڑے افسوس سے ہمیں یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک کی بدقسمتی ہے کہ ان میں اتفاق و اتحاد نہیں رہا.رعایا رعایا سے لڑ رہی ہے.رعا یا حکومت سے بھی لڑ رہی ہے اور حکومت رعایا پر ظلم کر رہی ہے.گویا نہ صرف اتفاق و اتحاد نہیں رہا بلکہ ظلم بھی ہو رہا ہے.اور پھر ظلم پر زور بھی دیا جا رہا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 454 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء پس اس اتفاق و اتحاد کی کمی کا نتیجہ ہے کہ غیروں کو بھی جرات ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو چاہیں کریں.اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بھی ظالمانہ طور پر اس وقت معصوم فلسطینیوں کو قتل کرتا چلا جا رہا ہے.اگر مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد ہوتا اور وہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے ہوتے تو مسلمان ممالک کی اتنی بڑی طاقت ہے کہ پھر اس طرح ظلم نہ ہوتے.جنگ کے بھی کوئی اصول وضوابط ہوتے ہیں.اسرائیل کے مقابل پر فلسطینیوں کی کوئی طاقت نہیں.اگر یہ کہا جاتا ہے کہ حماس والے بھی ظلم کر رہے ہیں تو مسلمان ملکوں کو ان کو بھی روکنا چاہئے.لیکن ان دونوں کے ظلموں کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص اپنے ڈنڈے سے ظلم کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک فوج تو پہیں چلا کر ظلم کر رہی ہے.مسلمان ممالک سمجھتے ہیں گزشتہ دنوں ترکی میں سوگ منایا گیا کہ سوگ منا کر انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا.اسی طرح مغربی طاقتیں بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں.چاہئے تو یہ تھا کہ دونوں طرفوں کو سختی سے روکا جا تا.بہر حال ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں اور معصوموں کو ان ظلموں سے بچائے اور امن قائم ہو.اسی طرح مسلمان ممالک کے اپنے اندر بھی جو ایک دوسرے کے اوپر ظلم کئے جا رہے ہیں اور فساد بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے.اور کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کے خون سے جو ہاتھ رنگ رہے ہیں اس سے یہ لوگ بچیں.آپس میں بھی اتفاق و اتحاد قائم ہو.اس کے بغیر نہ ان کی عبادتوں کے حق ادا ہو سکتے ہیں نہ یہ حسرت پوری ہو سکتی ہے کہ ہمیں لیلۃ القدر ملے.کیونکہ جب قوم میں اتفاق و اتحادمٹ جائے ، ختم ہو جائے تو لیلۃ القدر بھی اٹھالی جاتی ہے.پھر صرف راتیں اور ظلمتیں ہی ، اندھیرے ہی مقدر بنتے ہیں.ترقی رک جاتی ہے..لیلۃ القدر کے معنی ہیں کہ وہ رات جس میں انسان کی قسمت کا اندازہ کیا جاتا ہے اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ سال میں اس سے کیا معاملہ ہو گا.وہ کہاں تک بڑھے گا اور ترقی کرے گا.کیا کیا فوائد حاصل ہوں گے اور کیا نقصان اٹھانے پڑیں گے.انسانی ترقی کے تمام فیصلے تیل یعنی ظلمت میں ہی ہوتے ہیں.اس ترقی کی مثال جسمانی ترقی سے جوڑتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمائی کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی متواتر ظلمتوں میں ہوتی ہے.ماں کا پیٹ بھی کئی ظلمتوں کا مجموعہ ہے اور وہیں انسان کی جسمانی ترقی کا فیصلہ ہوتا ہے.اگر ان دنوں میں پرورش اچھی طرح نہ ہو تو بچہ کمزور ہو جاتا ہے.یہ تو ثابت شدہ ہے کہ ماں کے ظاہری ماحول کا بچے پر اثر ہوتا ہے.اسی طرح ماں کی خوراک وغیرہ کا بچے پر اثر ہوتا ہے.بچے کی اخلاقی حالت بھی اچھی نہیں ہوگی
خطبات مسرور جلد 12 455 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء اگر ماحول اچھا نہیں.یہاں تک کہ خوفزدہ ماؤں کے بچے دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے بلکہ بعض دفعہ بیرونی خوف کی وجہ سے دماغی طور پر بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں.دورانِ حمل اچھی خوراک اور اچھے ماحول کا بچے کی صحت پر اچھا اثر پڑ رہا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دورانِ حمل عورت کا روزہ رکھنا جو ہے وہ ناپسند کیا گیا ہے، اس سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس سے بچے کی پرورش میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے.اور یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ایسے مواقع پر طلاق کو بھی نا پسند کیا ہے کیونکہ اس سے جو صدمہ ہوتا ہے اس سے بھی بچے کی پرورش میں کمزوری ہو جاتی ہے.اور یہی وجہ ہے کہ ایسی حالت میں اسلام نے نکاح کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اس سے جذبات کے ہیجان کی وجہ سے بچے کی پرورش پر برا اثر پڑتا ہے.پھر اسلام نے میاں بیوی کو شیطانی خیالات سے بچنے کی دعا بھی سکھائی ہے تا کہ ایسے خیالات پیدا نہ ہوں جو آئندہ آنے والی اولاد میں بھی پیدا ہو جائیں.یہ دعا دونوں کریں کہ ہماری رگوں میں خون کے ساتھ جو شیطان دوڑ رہا ہے.( حدیث میں آتا ہے ناں کہ ہر انسان کی رگوں میں خون کے ساتھ شیطان دوڑ رہا ہے) اسے ہم سے علیحدہ کر دے تا کہ اولا دشیطان سے پاک ہو.پس شریعت نے بچے کی پرورش کے لئے ان دنوں میں خصوصاً احتیاط سکھائی ہے جبکہ وہ ظلمات میں ہوتا ہے، اندھیروں میں ہوتا ہے اور یہ احتیاط کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جب تک کہ ظلمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے.اسی طرح بچے کے ماں کے دودھ کے پینے کے دن بھی اس سلسلے کی لمبائی ہیں (وہاں تک پھیلا ہوا ہے ) کیونکہ ان دنوں میں ابھی بچہ اپنی زندگی کے لئے دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ ماں کی طرف متوجہ ہوتا ہے.ان دنوں میں بھی ماں کو روزے رکھنے کی ممانعت ہے تاکہ بچے کی پرورش اور اس کی صحت پر برا اثر نہ پڑے.پس جس طرح جسمانی ترقیات ظلمت میں ہوتی ہیں اسی طرح روحانی ترقیات بھی رات میں ہی ہوتی ہیں.ہر قوم کی روحانی ترقی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اس قوم کی ابتدائی قربانی ہو اور اس کی ترقیات کی عمر کا معیار اس کی لیلتہ القدر ہوتی ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص جتنا خدا کا پیارا ہو اتنے ہی اسے ابتلا پیش آتے ہیں.پس ہمیں بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہم بھی بعض جگہ ابتلا میں سے گزر رہے ہیں.یہ لیلتہ القدر ہی ہے.اس ابتلا کی وجہ سے حقیقی لیلۃ القدر کی تلاش بھی اسی شدت سے ہوتی ہے.دعاؤں کی طرف توجہ بھی اسی وقت پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف خاص طور پر انسان اسی وقت جھکتا ہے جب تکلیف میں بھی ہو.جو تربیت اور پرورش کے دور کو پھر کامیابی سے گزارتی ہے.لیکن اگر اس میں ہم اپنے اتفاق و اتحاد کے معیاروں کو ضائع کرتے گئے تو لیلتہ القدر کا صحیح فائدہ نہیں
خطبات مسرور جلد 12 456 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء ނ اٹھا سکیں گے.اگر اپنی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھتے ہوئے کرتے چلے جائیں گے تو کامیابیوں ہمکنار ہوتے چلے جائیں گے.اور کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہوئے ایک نئی زندگی پانے والے ہوں گے ایک نئے رنگ میں ابھریں گے.آپس کے اتفاق و اتحاد کو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے قائم رکھیں گے تو ترقی کی نئی منزلیں انشاء اللہ تعالیٰ دیکھیں گے.پس یہ بہت اہم نکتہ ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ جب اس لیلتہ القدر میں سے کامیاب گزریں گے تو ترقی کرنے اور اس میں بڑھتے چلے جانے کے فیصلے بھی غیر معمولی ہوں گے.فیصلے تو اللہ تعالیٰ نے کرنے ہیں، دعا ئیں تو اللہ تعالیٰ نے سننی ہیں، لیلتہ القدر تو اللہ تعالیٰ نے دکھانی ہے.پس ان باتوں کی پابندی بھی ضروری ہے جو لیلتہ القدر کے حاصل کرنے کا باعث بنتی ہیں.پھر مطلع الفجر بھی غیر معمولی ہوتا ہے اور پھر جو دن طلوع ہوگا یہ غیر معمولی کامیابیوں کے ساتھ نظر آئے گا.پس لیلتہ القدر سے فیضیاب ہونے کے لئے ہمیں ان باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.لیلۃ القدر اس قربانی کی ساعت کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو اور جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جائے اس سے بڑھ کر اور کوئی نفع کا سودا نہیں ہے.پس مقبول قربانیوں کی کوشش کرنی چاہئے.اسلامی جنگوں میں مثلاً جنگ بدر میں کفار بھی مارے گئے اور مسلمان بھی لیکن کفار کا مارے جانا لیلتہ القدر نہیں تھا ان کی قربانیاں لیلتہ القدر نہیں تھیں لیکن مسلمانوں کا شہید ہونا لیلۃ القدر تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان قربانیوں کو مقبول قرار دیا.یہ اصول یا درکھنا چاہئے کہ جس تکلیف کی خدا تعالیٰ کوئی قیمت مقرر نہیں کرتا وہ لیلتہ القدر نہیں ہے وہ سزا ہے عذاب ہے.مگر وہ تکلیف جس کے لئے خدا قیمت مقرر کرتا ہے وہ لیلۃ القدر ہے یعنی ظلمت بلا اور دکھ جس کا بدلہ دینے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے وہ لیلۃ القدر ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ایسی ساعتیں مقرر کی ہیں جن میں وہ جو قر بانیاں کرے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہوتی ہیں.یقیناً جماعت احمد یہ اس کے نظارے دیکھتی ہے اور دیکھ رہی ہے.بعض ملکوں میں احمدیوں کے خلاف شدید حالات ہیں.یہ شدید حالات جہاں ان کے لئے طلوع فجر کی خوشخبری دے رہے ہیں وہاں اس لیلۃ القدر کے نتیجہ میں دنیا کے ملک ملک اور شہر شہر میں احمدیت کے بچوں کی پیدائش ہوتی چلی جارہی ہے.نئی نئی جماعتیں قائم ہوتی چلی جارہی ہیں.پس اس سے مزید فیضیاب ہونے کے لئے لیلتہ القدر کی مزید برکات سمیٹنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہمارا آپس کا اتفاق و اتحاد پہلے سے
خطبات مسرور جلد 12 457 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء بڑھ کر ہو گا اور اگر اس میں کہیں رخنے پیدا ہو رہے ہیں، دراڑیں پیدا ہو رہی ہیں تو ہم فوری طور پر انہیں بھریں گے.رُحماء بینم کی مثال بن کر لیلتہ القدر کا حقیقی فیض پائیں گے.پس اس رمضان میں ہمیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ آپس کی انفرادی رنجشیں بھی ختم کریں تا کہ انفرادی طور پر لیلتہ القدر سے فیض پاسکیں اور لیلۃ القدر کے جو پھل، جو کامیابیاں، جو ترقیاں، جو انعامات جماعتی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہیں ان سے بھی ہم حصہ لے سکیں.ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ جوں جوں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بڑھ رہی ہے اسی تیزی سے دشمن بھی ہمارے لئے روکیں اور مشکلات کھڑی کرے گا اور کر رہا ہے.ابتلا میں ڈالنے کی کوشش کرے گا اور کر رہا ہے اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ صرف چند ملکوں میں یہ محدود ہے.حسد کی آگ ترقی کو روکنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرتی ہے اور ہر جگہ یہ کرے گی لیکن لیلتہ القدر کے آنے کی خوشخبری ہمیں ان کے بداثرات سے بچنے اور جماعتی ترقی کے لئے کی گئی دعاؤں کی قبولیت کا بھی پتا دے رہی ہے.پس جب تک ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے لیلتہ القدر سے بھی فیض پاتے رہیں گے.مومنین کا مقصد اور کوشش اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ جماعت کی ترقی کو اس اعلیٰ معراج پر دیکھیں جس کے وعدے خدا تعالیٰ نے کئے ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب ہو کر ہمیں اس طریق سے ان ترقیات کا حصہ بنے کی کوشش کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے اور وہ طریق ان دو باتوں میں آجاتا ہے جو آپ نے اپنی بعثت کے مقصد کے بارے میں ہمیں بتائی ہیں.یعنی ایک یہ کہ بندے کو خدا سے ملا دیا جائے اور دوسرے یہ کہ انسان کو دوسرے انسان کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنایا جائے.پس یہ دو کام ہیں جو ہمارے ذمہ ہیں کہ اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی اونچا کریں اور اپنے اختلافات اور جھگڑوں کو مٹا کر ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ کریں.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ حق ادا ہور ہے ہوں اور پھر رنجشیں بھی قائم ہوں، اختلافات بھی قائم ہوں.پس اس اصول پر اگر ہم چلتے رہے تو لیلۃ القدر کی حقیقت کو سمجھنے والے بھی ہوں گے اور اس کو پانے والے بھی ہوں گے.لیلۃ القدر کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ اس طرح بھی تعریف فرمائی ہے.فرمایا کہ لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفی ہے.( احکم جلد 5 نمبر 32.مورخہ 31 اگست 1901 ء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد چہارم ( زیر سورۃ القدر ) صفحہ 673 مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 12 458 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء پس اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے ایسی لیلتہ القدر بھی ہمیں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور وہی حقیقی لیلۃ القدر ہوگی جب ہم اپنی زندگیوں کو پاک کرنے والے ہوں گے.دوسری بات جیسا کہ میں نے کہا جمعۃ الوداع ہے.اس کے بارے میں بھی عجیب عجیب تصورات راہ پاچکے ہیں.یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام کو مانے کی توفیق دی اور غلط قسم کے خیالات سے ہمیں پاک کیا اور ان خیالات سے ہمیں ، ایک احمدی کو پاک ہونا چاہئے ورنہ احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں.بہت سے غیر احمدیوں کا تو یہ خیال ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں شامل ہو جائیں تو جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نمازیں یا جو بھی نمازیں ہیں ان کی بھی معافی مل جاتی ہے.سب فرض ادا ہو گیا.یعنی آج ایک خطبہ سن کر اور دو رکعت نماز پڑھ کے گویا گزشتہ سب برائیوں سے انسان پاک ہو جاتا ہے یا پاک ہو جائیں گے اور اس عرصے میں اللہ تعالیٰ کے ایک انسان پر جتنے فضل اور احسان ہوتے ہیں رمضان کا یہ آخری جمعہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں اور احسانوں کا بدلہ اتر جائے گا.ان لوگوں کے خیال میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت نعوذ باللہ ان کے ان چار سجدوں پر منحصر ہے.انہوں نے خدا تعالیٰ پر یہ بڑا احسان کیا کہ چار سجدے کر کے اس کی الوہیت کو نعوذ باللہ قائم کر دیا.پس اس نیت سے جمعہ پڑھنے والوں کو نہ جمعتہ الوداع کوئی فائدہ دیتا ہے نہ رمضان کوئی فائدہ دیتا ہے نہ لیلۃ القدر کا آنا ان کے لئے کوئی فائدہ ہے.وہ تو دوسروں کے لئے آئے گی.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات بطور احسان کے ہوتے ہیں.ان پر عمل کر کے ہمارا ہی فائدہ ہے.یہ کوئی چٹی نہیں ہے کہ اس کے نہ کرنے کے لئے حیلے بہانے تلاش کئے جائیں.حیلے بہانے تو ان چیزوں کے لئے تلاش کئے جاتے ہیں جو بطور سزا یا جرمانے کے ہوں.کوئی عقلمند انسان اس چیز پر عمل نہ کرنے کے بہانے تلاش نہیں کرتا جو اس کے فائدے کے لئے ہو.کون ہے جو یہ سوچ رکھتا ہے کہ اس کی اولاد نہ ہو.اس کی بیماریاں اچھی نہ ہوں.وہ یا اس کے بچے علم سے محروم رہیں.اس کے قریبی عزیز اور دوست سکھ اور آرام نہ پائیں.اس کی اولا دعزت پانے والی نہ ہو.یہ تو کوئی نہیں چاہتا.حیلے تو اس کے الٹ باتوں کے لئے تلاش کئے جاتے ہیں.انسان حیلے یا بہانے مشکلات سے بچنے کے لئے کرتا ہے.پس خدا تعالیٰ کے احکام سے بچنے کے لئے اگر ہم بہانے تلاش کریں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کے احکامات کو ہم قہر، مصیبت اور دکھ سمجھتے ہیں.نعوذ باللہ.جبکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کی طرف سے آنے والی ہر بات اور اس کی ہدایات ہماری بھلائی اور ہمیں سکھ پہنچانے کے لئے ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 459 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء پس چاہئے کہ اس کے احکامات کی طرف ہم توجہ دیں.یہ احکامات چاہے اس کی عبادتوں کے بارے میں ہیں یا دوسرے متفرق احکامات ہیں، سب ہماری بھلائی کے لئے ہیں.پس کسی بھی حکم کو چھٹی سمجھنا اللہ تعالیٰ کے فیض سے اپنے آپ کو محروم کرنے والی بات ہے.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہمیں زندگی دینے والا اس دنیا میں بھیجنے والا خدا ہے.اور جو اس دنیا میں بھیجنے والا ہے اُس نے ہمارے لئے ایک مقصدِ حیات بھی رکھا ہے اور وہ ہے.فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 57) یعنی میں نے جن اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں.پس جب پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ تو یہ کسی خاص دن اور کسی خاص جمعہ سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہر نماز اور ہر جمعہ فرض ہے.علاوہ نوافل کے جو انسان اپنی طاقت اور حالات کے مطابق خدا تعالیٰ کا مزید قرب حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہے.پس ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ بجالانے کی کوشش کرے اور خاص طور پر عبادت جو زندگی کا بنیادی مقصد ہے اُس پر تو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور پھر اس عبادت کا فائدہ ہمیں ہی ہے.یہ نہیں کہ عبادت بے فائدہ ہے.اس کا فائدہ بھی ہمیں پہنچ رہا ہے.اللہ تعالیٰ کی الوہیت تو ہماری عبادت کے بغیر بھی قائم ہے اور قائم رہے گی.لیکن اگر ہم عبادت کرنے والے ہوں گے تو اس کے احسانات کے ساتھ اس کے انعامات کے بھی ہم وارث بنیں گے.ان سے فیض پانے والے بھی ہم ہوں گے.ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ ہم خالص ایمان والے اس وقت کہلائیں گے جب خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں گے.ایک خالص مومن کے خدا تعالیٰ سے تعلقات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ایک دوست کے.اور اس معاملے میں یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ دوستی کا معاملہ دوطرفہ ہوتا ہے.ایک دوسرے کی باتیں بھی مانی جاتی ہیں اور خلوص اور وفا سے مانی جاتی ہیں.یہ نہیں کہ ایک دوست صرف اپنی منوا تا رہے اور دوسرا مانتا رہے.پس اس سے قبولیت دعا کی طرف بھی رہنمائی ملتی ہے.اس مسئلے کی طرف جو قبولیت دعا کا مسئلہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات پر ہم عمل کریں گے اور خالص ہو کر عمل کریں گے تو وہ بھی ہماری دعائیں سنے گا.دوسرے دوستی جو خالص ہو اس میں کوئی دوست اپنے دوسرے دوست کا برانہیں چاہتا.اور جب دنیا داروں کی جو دوستی ہے اس میں جب دوست دوست کا برانہیں چاہتا تو خدا تعالیٰ جوسب وفاداروں سے زیادہ وفاؤں کی قدر کرنے والا ہے وہ کس طرح اپنے دوست کا برا چاہے گا.پس خالص ایمان کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور برکت ہی حاصل ہوتی ہے.دنیاوی دوستی میں اگر ہم.
خطبات مسرور جلد 12 460 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء ی دیکھتے ہیں اور اس یقین پر قائم ہیں کہ میرا دوست میرا وفادار ہے اور اگر کوئی ایسا معاملہ کر رہا ہے جو بظاہر نقصان رساں نظر آ رہا ہے تو انسان یہی سمجھتا ہے کہ کیونکہ میرا وفادار دوست ہے اس لئے اس میں کوئی مصلحت ہوگی لیکن نتیجہ برانہیں نکلے گا.مجھے نقصان پہچانے کی میرے دوست کی نیت نہیں ہے بلکہ فائدے کی نیت ہے.تو خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہمیں کوئی تکلیف پہنچانا چاہتا ہے لیکن جب اس کے احکام پر عمل نہ کیا جائے تو یقیناً یہی سمجھا جائے گا کہ ان کو مصیبت یا عذاب سمجھا جارہا ہے.اور اگر یہ صورت ہے تو پھر یا ہماری دوستی کچی نہیں یا پھر اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ اپنے اندر رحمت و شفقت کی صفات نہیں رکھتا اور ظالم اور تند خو اور سخت گیر ہے اور بلا وجہ یونہی گرفت میں لے لیتا ہے.دوسری بات تو بہر حال سچی نہیں.غلط ہے، جھوٹ ہے.اللہ تعالیٰ تو بہر حال رحیم و شفیق ہستی ہے.ہاں ہماری دوستی کی سچائی میں کوئی نقص ہو سکتا ہے.کمزوری ہے تو ہمارے اپنے اندر ہے.ہم اس کی رحمت و شفقت کا اپنے آپ کو اہل نہیں بنارہے.پس اس کی رحمت و شفقت کا اہل بنانے کے لئے ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو رحمت اور فضل سمجھنے کی ضرورت ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات کو رحمت اور فضل سمجھا جائے تو پھر اس کو وداع نہیں کیا جاتا بلکہ ان پر عمل کر کے ایمانوں کو مضبوط کیا جاتا ہے.اپنے اندر یہ احکامات قائم کئے جاتے ہیں.اپنے دلوں میں بٹھائے جاتے ہیں.بعض سرکاری حکم تو ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان بعض دفعہ چٹی سمجھتا ہے یا غریب ملکوں میں ، تیسری دنیا کے ملکوں میں سرکاری حکام ایسے ہیں جو قانون سے بڑھ کر بھی اپنے حکم جاری کر دیتے ہیں جو لوگوں کی تکلیف کا موجب بنتے ہیں.ان کا کسی جگہ میں آنا ہی لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہو جاتا ہے.افسروں کے دورے جب ہوتے ہیں تو لوگ مشکل میں پڑے ہوتے ہیں.اور پھر یہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کرے یہ افسر نہ ہی آئے.اس سے کسی طرح جان چھوٹے.لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام ظالم حاکم کی طرح نہیں ہوتے بلکہ رحمت ہوتے ہیں اور ان پر عمل نہ کرنا تباہی کی علامت بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا تو ہر حکم رحمت لے کر آتا ہے اور بے شمار رحمتیں چھوڑ کر جاتا ہے.اب نماز ہے، نماز کا وقت اس لئے نہیں آتا کہ اس چھٹی سے جلدی چھٹکارا حاصل کیا جائے.یہ بوجھ پڑ گیا ہے اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور گھر سے اسے نکال دیا جائے.اسی طرح رمضان ہے.یہ اس لئے نہیں آتا کہ ہم اسے یونہی گزار دیں.روزے فرض ہیں.دنیا روزے رکھ رہی ہے تو ہم بھی ساتھ رکھتے چلے جائیں.اسی طرح دوسری عبادات ہیں.یہ اس لئے نہیں کہ ماحول کیونکہ ہمیں کہہ
خطبات مسرور جلد 12 461 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء رہا ہے اس لئے انہیں ادا کرو اور جیسے تیسے ہو ان سے جان چھڑاؤ بلکہ مومن ہمیشہ ان چیزوں کو اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتا ہے.اگر ایک مومن ایک بار بھی سچی نماز خلوص دل سے ادا کر لیتا ہے پھر اس کے دل سے نماز نکل نہیں سکتی.اس کا ایک عجیب مزہ ہوتا ہے جو اس کو آئندہ نماز پڑھنے کی طرف راغب کرتا ہے.نماز ختم کرتے ہوئے سلام کہتا ہے مگر السلام علیکم اس لئے نہیں کہ ہم جا رہے ہیں، چھٹی.بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے سلام کہتا ہے.اسی طرح مومن سے رمضان بھی نہیں جاسکتا.حضرت مصلح موعود نے یہاں ایک بڑا اچھا نکتہ بیان فرمایا کہ ہمارے ملک میں محاورہ ہے، اردو میں محاورہ ہے کہ روزہ رکھا.اب یہ بہت عمدہ محاورہ ہے کیونکہ جو روزہ گزرتا ہے اسے بھی رخصت نہیں کرتے بلکہ رکھ لیتے ہیں اور وہ ہمیں ہمیشہ کے لئے پھر خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنادیتا ہے.حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مومن سے کوئی خطا ہو جائے تو اس کے اعمال صالحہ اس کے لئے ڈھال بن کر اسے تباہی سے بچالیتے ہیں.پس ہر نیکی کے متعلق یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ جائے نہیں بلکہ قائم رہے کیونکہ فائدہ اسی سے اٹھایا جا سکتا ہے جو باقی رہے اور دل میں قائم ہو.قرآن کریم میں بھی والبقيتُ الصلحت (الكهف : 47) کہہ کر بتایا گیا ہے کہ نیک کام باقی رہنے والی چیزیں ہیں.پس وہ رمضان جو ہم نے صالح اعمال کرتے ہوئے گزارا ہے وہ باقی ہے.یہ دن بیشک گزر جائیں گے لیکن جب تک وہ نیک کام ہیں جو رمضان کے نتیجہ میں ہمارے اندر قائم ہوئے تو وہ رمضان کو نہیں جانے دیں گے.مومن کو چاہئے کہ ہر اچھی چیز کو باقیات الصالحات بنائے.دن گزر جائیں مگر رمضان نہ گزرے.رمضان بھی ایک عبادت ہے اور عبادت گزرا نہیں کرتی.وہ ہمیشہ ایک حقیقی مومن کے دل میں رہتی ہے.پس ہمیں حقیقی مومن کی طرح رمضان کو اپنے دل میں بسانے کی ضرورت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ایک بندہ کوئی نیک کام کرتا ہے تو ایک سفید نشان اس کے دل پر لگ جاتا ہے.پھر ایک اور نیک کام کرتا ہے تو ایک اور سفید نشان اس کے دل پر لگ جاتا ہے.حتی کہ نیکیاں کرتا رہتا ہے اور سارا دل سفید ہو جاتا ہے.اسی طرح جو برے کام کرتا ہے اس کے دل پر سیاہ شان لگتے چلے جاتے ہیں اور اگر وہ بُرے کام کرتا چلا جائے تو آخر تمام دل سیاہ ہو جاتا ہے.تو نیک اور بد دونوں قسم کے اعمال سمٹ کر انسان کے دل پر جمع ہو جاتے ہیں.اس کو نشان لگا دیتے ہیں.ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ نیک اعمال کو اپنے دل میں سمیٹیں.اس رمضان میں جو نیکیاں کی ہیں وہ ہمارے اندر ہمیشہ قائم رہیں.اللہ تعالیٰ رمضان کے ذریعہ سے جو چیزیں ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے
خطبات مسرور جلد 12 462 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء وہ دلوں کو نیکوں سے بھرنا ہی ہے.رمضان ہمارے لئے صرف انتیس یا تیس دن رات نہیں لایا نہ لاتا ہے.یہ دن رات تو دوسرے مہینوں میں بھی آتے ہیں بلکہ یہ مہینہ ہمارے لئے عبادات اور دوسرے نیک اعمال لایا ہے جن کے بجا لانے کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے.ہمیں چاہئے کہ انہیں اپنے دلوں میں سمیٹ لیں اور دل میں جو چیز محفوظ ہو جائے اسے کوئی دوسرا چھین نہیں سکتا جب تک کہ انسان خود اسے نکال کر ضائع نہ کر دے.پس ایک مومن کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی قدر کرے.ہمیشہ یادرکھیں کہ یہ جمعہ اس لئے نہیں آیا کہ ہم اس کو پڑھ کر رمضان کو وداع کر دیں یا رخصت کر دیں بلکہ اس لئے آیا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اس سے فائدہ اٹھا کر ہمیشہ کے لئے اسے اپنے دل میں قائم کر لیں.جمعہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے عیدوں میں سے ایک عید قرار دیا ہے.اور اس دن میں احادیث کے مطابق ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جس میں دعا ئیں خصوصیت کے ساتھ قبول ہوتی ہیں.ان سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے.آج کے دن ہم اس لئے مسجد میں نہیں آئے ، نہ آنا چاہئے اور یہ ایک احمدی کی سوچ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کہیں کہ تو نے جو مصیبت رمضان کی صورت میں ہم پر ڈالی تھی شکر ہے وہ آج ٹل رہی ہے یا رخصت ہورہی ہے.بلکہ اس لئے آئے ہیں کہ ان مبارک گھڑیوں میں یہ دعا کریں کہ رمضان کے دن تو تین چار دن میں گزر جائیں گے لیکن اے خدا تو رمضان کی حقیقت اور اس میں کی گئی عبادتیں اور دوسرے نیک اعمال ہمارے دل کے اندر محفوظ کر دے اور وہ ہم سے کبھی جدا نہ ہوں.اس لحاظ سے اگر آج ہم جمعہ کی تعریف کریں یا فیض اٹھا ئیں تو ہم نے آج کے جمعہ کا بڑا با برکت استعمال کیا ہے لیکن اس جمعہ کے ساتھ یا آئندہ تین چار دن کے بعد رمضان ہم سے چلا جائے اور اس میں کی گئی نیکیاں بھی ہم بھول جائیں تو یہ بڑی بد قسمتی ہے.دنیا میں بیٹا باپ سے، ماں بیٹے سے، بھائی بھائی سے جدا ہونے پہ خوش نہیں ہوتے بلکہ دوست حقیقی دوست عزیز ہوں، قریبی ہوں وہ بھی خوش نہیں ہوتے.خوشی ہمیں ہمیشہ دشمن کے جدا ہونے سے ہوتی ہے.اسی طرح رمضان کے جدا ہونے پر ایک حقیقی مومن خوش نہیں ہوسکتا.برکت کے جدا ہونے پر کوئی خوش نہیں ہوسکتا.کون ہے ایسا شخص جو برکت کے جدا ہونے پر خوش ہو؟ جو برکت کے جدا ہونے پر خوش ہو وہ بد قسمت ہی کہلا سکتا ہے اور اس کو کیا کہا جا سکتا ہے.پس آج ہم میں سے ہر ایک کو یہ دعا کرنی چاہئے کہ وہ اس دن کو ہمیشہ کے لئے ہم سے وابستہ کر
خطبات مسرور جلد 12 463 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء دے اور ہماری کوئی گھڑی رمضان سے جدا نہ ہو.ہمیں ہمیشہ اس بات پر غور کرتے رہنا چاہئے کہ رمضان کیا ہے اور اس کی حقیقت کے بارے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں جو بتایا ہے وہ یہ ہے جیسا کہ میں نے شروع کے پہلے خطبے میں رمضان کا ذکر کیا تھا کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ (البقرة: 186 ).وہ مبارک دن جن میں قرآن کا نزول ہوا رمضان کہلاتے ہیں اور جب قرآن کا نزول بند ہو جائے تو پھر وہ دن مبارک نہیں رہتے.وہ تو پھر منحوس دن ہو جاتے ہیں.پس مومنین کا فرض ہے کہ ان دنوں میں جو قرآن کریم کو پڑھنے اور سکھنے کی طرف توجہ رہی ہے اسے سارا سال اپنی زندگیوں کا حصہ بناتے رہیں.سارا سال قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دیں.سارا سال اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.قرآن کریم کے نزول کا حقیقی مقصد تبھی پورا ہوگا جب ہم اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے.اپنے دلوں پر نازل کر کے پھر اسے اپنے دلوں میں محفوظ کر لیں گے تاکہ زندگی کے ہر موڑ پر ہم اس سے فیض پاتے رہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ جن دو باتوں کا آج میں نے ذکر کیا ہے ان کی طرف ہمیشہ ہماری توجہ قائم رہے.اس کی حقیقت کو ہم جاننے والے ہوں.ہماری لیلۃ القدر ہمیں کامیابیوں کی معراج پر لے جاتی رہے.اس کا حقیقی ادراک ہمیں حاصل ہو اور یہ جمعہ جس کو جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے یہ جو رمضان کا آخری جمعہ ہے اسے جمعتہ الوداع تو نہیں کہنا چاہئے ، رمضان کے مہینے کا یہ آخری جمعہ ہے.یہ ہمیں رمضان کی برکات کو رخصت کرنے والا نہ بنائے بلکہ اس کا فیض ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے اور ہم قرآن کریم کے نزول کے مقصد کو پورا کرتے چلے جانے والے ہوں.جیسا کہ میں پہلے بھی فلسطین کے مسلمانوں کی حالت کے بارے میں ذکر کر چکا ہوں.دعاؤں میں خاص طور پر ان لوگوں کو بھی یا درکھیں.اللہ تعالیٰ ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے.ان کو اس مشکل سے نکالے.نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو کرم نعیم اللہ خان صاحب آف قرغزستان کا ہے جو 21 جولائی 2014ء کو ہارٹ اٹیک سے 61 سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کو وسطی ایشیا جماعتوں میں بالخصوص قرغزستان میں جماعت کے قیام میں غیر معمولی خدمات بجالانے اور نائب نیشنل صدر جماعت قرغزستان کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی.حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے جب لوگوں کو وہاں جانے کی تحریک کی تھی تو یہ اس وقت وہاں کاروبار کی نیت سے گئے
خطبات مسرور جلد 12 464 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جولائی 2014ء تھے.لیکن انہوں نے دین کا کام بھی کیا.جماعتی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.جماعتی امور کو ذاتی کاموں پر ترجیح دیتے تھے.وہاں کے نامساعد حالات کے باوجود آخر وقت تک اخلاص سے خدمت بجالاتے رہے.نمازوں کے پابند، تہجد گزار، دعا گو، بکثرت صدقہ و خیرات کرنے والے، لازمی چندہ جات اور دوسری مالی تحریکات میں پیش پیش، غریب پرور، مخلص انسان تھے.خلافت سے محبت اور فدائیت کا تعلق تھا.مبلغین سلسلہ جو وہاں جاتے رہے ان کو بعض مشکلات تھیں ان کا بھی انہوں نے بہت خیال رکھا.مرکزی مہمانوں کا بہت خیال رکھا.تمام مبلغین جن کو ان علاقوں میں خدمت کی توفیق ملی یا مل رہی ہے وہ سب اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ جماعت کے لئے غیر معمولی غیرت اور جرات رکھنے والے تھے.جماعت احمدیہ قرغزستان کے مشن ہاؤس کی خرید میں بھی آپ نے بہت کلیدی کردار ادا کیا.مرحوم موصی تھے.ان کی دو بیویاں تھیں ایک پاکستانی ایک رشین.دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں.دو بیٹے ان کے رشین بیوی سے ہیں.رشین بیوی قرغزستان کی ہیں.قرغزستان سے انہوں نے بھی خط لکھا ہے اور ان کے کردار کی بڑی تعریف کی ہے.اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کا بیویوں کا بھی حامی و ناصر ہو اور ہمیشہ جماعت سے اور خلافت سے وابستہ رکھے.وہ نیکیاں جو انہوں نے جاری کی تھیں ان نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 15 اگست 2014 ء تا 21 اگست 2014 ، جلد 21 شماره 33 صفحہ 05-09)
خطبات مسرور جلد 12 465 31 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده مورخه 01 اگست 2014 ء بمطابق 01 ظہور 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ.وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ قُتِلَ أَصْحَبُ الْأَخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ.وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ جَنَّتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الْأَنْهرُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ - ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ : قسم ہے برجوں والے آسمان کی اور موعود دن کی اور ایک گواہی دینے والے کی اور اُس کی جس کی گواہی دی جائے گی.ہلاک کر دیئے جائیں گے کھائیوں والے یعنی اس آگ والے جو بہت ایندھن والی ہے.جب وہ اس کے گرد بیٹھے ہوں گے اور وہ اس پر گواہ ہوں گے جو وہ مومنوں سے کریں گے.اور وہ ان سے پرخاش نہیں رکھتے مگر اس بنا پر کہ وہ اللہ کامل غلبہ رکھنے والے صاحب حمد پر ایمان لے آئے جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے.یقیناًوہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو فتنے میں ڈالا پھر تو بہ نہیں کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے آگ کا عذاب مقدر ہے.یقیناوہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان (البروج: 1 تا 12 )
خطبات مسرور جلد 12 466 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء کے لئے ایسی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.یہ بہت بڑی کامیابی ہے.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں یہ بعینہ اس واقعہ کا نقشہ کھینچ رہی ہیں جو گوجرانوالہ میں احمدیوں کے ساتھ ہوا.یہ احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی ایک ایسی دلیل ہے کہ اگر انصاف پسند مسلمان سورۃ البروج پر غور کریں تو احمدیوں پر ہونے والے ظلم اور خاص طور پر ایسے ظلموں کے بارے میں اپنے علماء، اپنے لیڈروں، اپنے سیاستدانوں، اپنی حکومتوں کے رویوں اور احمدیت کی مخالفت میں جو عمل یہ لوگ دکھاتے ہیں اور کرتے ہیں ان کی حقیقت کھل جائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یقین کر لیں اور اس ظلم کا حصہ نہ بنیں جو ظالم لوگ یا ان کے چیلے احمدیوں پر کرتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کا کلام سمجھنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے ایک فرستادے کی ضرورت ہے.لیکن ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اس کی بات تو یہ لوگ بالکل سننا نہیں چاہتے اور اس لئے ظلموں میں بڑھتے چلے جار ہے ہیں.ان آیات کی مختصر وضاحت میں یہاں کر دیتا ہوں.جس برجوں والے آسمان کی یہاں قسم کھائی گئی ہے اس سے مراد آسمان کے بارہ برج ہیں، ستارے ہیں سیارے ہیں جن کے بارے میں علم ہیئت والے بتاتے ہیں.یہاں تمثیلی رنگ میں ان روحانی برجوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا اسلام کی تاریخ سے اہم تعلق ہے اور اس سے مراد بارہ محد دین ہیں جو اسلام کے آسمان پر سورج غروب ہونے کے بعد اپنی روشنی دینے کے لئے چمکے یا کچھ عرصے کے لئے روشنی دیتے رہے.اس عرصے کے بارے میں احادیث بھی موجود ہیں اور پرانے علماء بھی صاد کرتے ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ بارہ صدیوں میں بارہ دفعہ اسلام کے تاریک زمانے یا روشنی کی کرنیں پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جولوگ بھیجے انہیں تو مسلمان مانتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُود کہ وہ دن جس کا وعدہ دیا جاتا ہے، اس کی قسم کھا کر جب تیرہویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کے مطابق موعود مامور بھیجا تو انکار کرنے لگ گئے.پہلوں کے بارے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا بتایا تھا کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئیں گے.(سنن ابی داؤ د کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائة حديث نمبر 4291) لیکن اس موعود کے بارے میں خدا تعالیٰ نے بھی علیحدہ بیان کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف نشانیاں بتا کر جن میں چاند سورج گرہن کی نشانی بھی ہے اور بے شمار اور نشانیاں بتائیں کہ وہ آئے گا، جو روز روشن کی طرح پوری ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں.لیکن اس کو یہ ماننے سے انکاری ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 467 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء بلکہ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے بعد بعض نے کہنا شروع کر دیا اور اب بھی بڑے زور شور سے بعض جگہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں اب کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے.اس لئے کہ مولوی اور نام نہا دعلماء جو ہیں ان کے منبر چھن جاتے ہیں.اس لئے کہ ان کے علم و عقل کی قلعی کھل جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے اس زمانے میں آنے کے بارے میں اور عین پیشگوئیوں کے مطابق آنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک 1290ھ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ مخاطبہ پا چکا تھا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 208) پھر کچھ عرصے بعد آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا اور آسمانی اور زمینی نشان بھی آپ کے حق میں پورے ہوئے.جماعت کے لٹریچر میں اس کی تفصیل موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اس کی تفصیل موجود ہے.میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جار ہا لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس یوم الموعود کے وقت یعنی مسیح موعود کے زمانے میں اسلام کی احیاء نو تو بیشک ہوگی.اسلام کی نئی زندگی کا زمانہ تو شروع ہو گا لیکن اس کے لئے مومنوں کو ، ان کو جو مسیح موعود کو مانیں گے بڑی بھاری قربانیاں دینی پڑیں گی.فرمایا کہ قُتِلَ اَصْحَبُ الْأَخْدُودِ.ہلاک کر دیئے جائیں گے کھائیوں والے.النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ - یعنی اس آگ والے جو بہت ایندھن والی ہے.اِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودُ.جب وہ اس کے گرد بیٹھے ہوں گے.یہ مخالفین کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی مخالفتیں ہوں گی.لیکن یہ آگیں جو بھڑکائی بھی جائیں گی اور اس کے گرد بھی بیٹھے ہوں گے.یہ تو بیشک ہوگا لیکن انجام کار مخالفین اپنا بد انجام دیکھیں گے.وہ ہلاک کئے جائیں گے.بہر حال مومنوں کو لمبا عرصہ جوروستم اور بھیانک مظالم کا نشانہ بننا پڑے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اسلام کی ترقی ہم سے کچھ مطالبہ کرتی ہے اور وہ مطالبہ موت کا مطالبہ ہے.(ماخوذ از فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحه 10) ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ بہت ایندھن والی آگیں تمہارے خلاف بھڑکائی جائیں گی.
خطبات مسرور جلد 12 468 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء ان آگوں میں بار بار ایندھن ڈالا جائے گا.یہ آگیں بھڑ کانے والے ارد گرد بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں گے.یہ لوگ جنہوں نے ایسے انتظامات اپنے زعم میں کئے ہوں گے کہ گویا خندقیں کھود کر ، ان مومنوں کو محدود کر کے، ہر طرف سے گھیر کر پھر آگیں جلائیں گے.لیکن اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فرما دیا کہ بیشک آگ کی تکلیفوں سے تو گزرنا پڑے گا لیکن آخر کار یہ ہر طرف سے گھیر کر مومنوں کو آگ میں جلانے کی کوشش کرنے والے خود ہی ہلاک کر دیئے جائیں گے.اپنے زعم میں تو یہ آگ کے ارد گرد پہرے لگا کر بھی بیٹھے ہوں گے کہ اس آگ سے کوئی بچ کر باہر نہ نکلے.اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس بھی ساتھ کھڑی تماشا دیکھتی رہتی ہے.وہ بھی نہیں کوشش کرتی کہ بچائے بلکہ حصہ بن رہی ہوتی ہے.اور پھر یہ سب آگ بھڑ کانے والے نہ صرف باہر کھڑے ہوتے ہیں بلکہ مومنوں کو جلا کر مزا لیتے ہیں.اِذْهُمُ عَلَيْهَا قُعُودُ.یہ صرف کوئی پرانا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی بھی ہے جو ہمیں بتارہی ہے کہ مومنین کے مخالفین اس طرح کی آگیں بھڑ کا ئیں گے اور پھر ان آگوں پر پہرے لگا کر بھی بیٹھیں گے.یہ ایک اور ثبوت ہے ہمارے سچائی کے راستے پر ہونے کا اور مومن ہونے کا اور ان مخالفین کے ان لوگوں کے زمرہ میں شامل ہونے کا جو مومنین کے خلاف آگیں بھڑکاتے ہیں.اور پھر نہ صرف یہ کہ گھیرا ڈال کر بیٹھے ہیں کہ اس آگ سے باہر کوئی نہ نکلے بلکہ خوش ہو رہے ہیں کہ ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے.میں کچھ تفصیلات شہداء کے حوالے سے بیان کروں گا جس میں آپ دیکھیں گے کہ عین اس کے مطابق انہوں نے کمروں کے دروازے بند کر کے پھر آگ لگائی اور کمروں میں جو دس گیارہ بچے ،عورتیں اور لوگ تھے ان کو تنگ کرنے کے لئے ، ان کو بتانے کے لئے کہ اب تم پھنس گئے اب باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں.انہیں پھر کھڑکیوں سے شیشوں سے طنزیہ انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے اور خوشی کے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے.اس واقعہ کی جو ویڈیو فلمیں ہیں ان میں بھی ان ظالموں کے چہرے سے واضح ہوتا ہے کہ بے حیائی اور بے شرمی کی ان سے انتہا ہو رہی ہے.بہر حال ان کے عمل ، ان کے نعرے، ان کی باتیں میران کی دشمنی کی انتہا ہے.بلکہ اس واقعہ کے دو دن بعد کی خبر تھی.اسی علاقے کے قریب ایک دوسرے علاقے کے ایک مولوی نے اس علاقے کے لوگوں کو جمع کر کے یہ وعدہ بھی لیا ہے کہ ان احمدیوں کے ساتھ یہ تو کچھ بھی نہیں کیا گیا تم میرے سے وعدہ کرو کہ ہم اس سے بڑھ کر کریں گے اور تم میراساتھ دو گے.تو یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ جس کے بعد ہم کہیں کہ معصوم بچوں اور عورتوں کو شہید کر کے شاید ان کو کوئی شرم آ گئی ہو.ایسے بھی بے شرم ہیں اور بہیمانہ سوچ رکھنے والے ظالم ہیں جو ٹوئٹر (Twitter) پر بھی ( فون پر آج کل پیغام
خطبات مسرور جلد 12 469 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء ٹوئٹ (tweet) کیا جاتا ہے) پیغام دے رہے ہیں اور اپنے تاثرات چھوڑ رہے ہیں کہ احمدیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا بڑا اچھا ہوا اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اور افسوس یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر ہو رہا ہے.اذْهُمْ عَلَيْهَا قُعُودُ.سے یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ مستقل بیٹھے رہیں گے.یہ عذاب دینے کی تدبیریں لمبی کرنے کی کوشش کریں گے.قُعُود کا مطلب بیٹھنا ہے اور کسی چیز پر بیٹھے رہنا، یہ بھی محاورہ ہے کہ لمبے عرصہ تک کوئی کام کرتے چلے جانا.پس ان کے جھوٹ فریب اور تکلیفوں کا یہ سلسلہ جو ہے یہ تو چل ہی رہا ہے اور شاید لمبا چلتا رہے گا کیونکہ مخالفین تو پیدا ہوتے رہیں گے.اور یہ لوگ کوشش کرتے چلے جائیں گے کہ اس کو چلاتے رہیں.لیکن اس کی کوئی ایک انتہا بھی ہے اور وہ انتہا یہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کر دی کہ تم بھی چلتے جاؤ اور آخر کا ر ہو گا کیا؟ تم خود اس آگ سے ہلاک کئے جاؤ گے.خود اس آگ میں ڈالے جاؤ گے.ان کے علماء بھی جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ سے کام لے رہے ہیں.ان کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کے دعوے کو رد کر سکیں سوائے اس کے کہ جھوٹی باتیں بنائی جائیں، آپ کی کتابوں میں سے توڑ مروڑ کر واقعات پیش کئے جائیں، اقتباسات لئے جائیں.لیکن مخالفت نے انہیں اندھا کر دیا ہے.یہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے.وہ آگیں بھڑ کانے میں عوام الناس کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں.پس یہ آگیں کبھی تو حقیقی رنگ میں یہ بھڑکاتے ہیں اور مومنوں کو جلانے کی کوشش کرتے ہیں.کہیں اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہیں ناکام رہتے ہیں.اور پھر کبھی کیا بلکہ یہ تو مستقل ہی ہے کہ احمدیت کی مخالفت کی جو آگ ہے وہ یہ ہر طرف بھڑکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.آجکل انہوں نے پاکستان کے ہر شہر اور ہر گلی میں جھوٹ کے پلندوں پر مشتمل احمدیت مخالف اشتہار لگائے ہوئے ہیں اور یہ سرکاری عمارتوں پر بھی حتی کہ ہائیکورٹ کی عمارتوں پر بھی لگے ہوئے ہیں.اور ایسی غلط باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کی ہیں یا جماعت کے عقائد کی طرف یہ لوگ منسوب کرتے ہیں کہ جس کی انتہا کوئی نہیں اور یہ باتیں منسوب کر کے لوگوں کو بھڑکاتے ہیں.ایسی باتیں جن کا جماعت کے عقائد سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے.ان کی انہی مخالفتوں کی وجہ سے جماعت کو تسلی دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.
خطبات مسرور جلد 12 470 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جوز مین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے“.(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحه 309) پس بیشک افراد کوتو قربانیاں دینی پڑیں گی لیکن یہ جماعت کا جو درخت ہے جو اللہ تعالیٰ نے لگایا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتا پھلتا اور پھولتا رہے گا انشاء اللہ.اور یہ آ گئیں بھڑ کانے والے خود اپنے آپ کو اسی آگ میں جلتا دیکھیں گے یا کسی اور ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک کرنے کے سامان پیدا فرمائے گا.قُتِلَ أَصْحَبُ الْأُخُدُود.یہ ایک پیشگوئی ہے جو جماعت احمدیہ کے حق میں پوری ہو بھی رہی ہے اور پوری ہوتی بھی رہے گی.یہ لوگ ہلاک ہوتے رہیں گے.پس یہ پیشگوئی بھی ان ظلموں کے ساتھ بار بار پوری ہوتی رہے گی اور پھر یہ نہیں کہ باز آجائیں بلکہ بار بار اپنے ظلموں کا اعادہ بھی کرتے رہیں گے.لیکن احمدیت کا درخت جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے یہ بڑھتا ہی چلا جائے گا.انشاء اللہ تعالی.125 سالہ جماعت احمدیہ کی تاریخ اور یہ ترقی جو ہو رہی ہے اس سے اب ان کو یہ سبق لے لینا چاہئے کہ یہ انسانی کام نہیں ہے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے.اور خدا تعالیٰ کے کام میں دخل اندازی کر کے اسے روکنے کی کوشش کر کے یہ سوائے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے اور کچھ نہیں لے رہے.یہ جانتے ہیں کہ غلط کرتے ہیں یا قرآن کریم بھی ان کی تائید نہیں کرتا، اللہ کے رسول کی کوئی بات ان کی تائید نہیں کرتی.میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو واقعات بیان کرتا رہا ہوں ، ان میں بھی اور اب بھی جو لوگ حق کو پہچان کر بیعت میں شامل ہوتے ہیں ان کے واقعات میں بھی یہ بیان کر چکا ہوں کہ یہ لوگ جو نام نہاد علماء ہیں یہ کہتے ہیں کہ قادیانیوں سے صرف قرآن کی بنیاد پر بات نہ کرو.اپنے لوگوں کو، اپنے عوام الناس کو ان علماء نے یہ پٹی پڑھائی ہے، یہ سبق سکھاتے ہیں کہ قرآن کی بنیاد پر ان سے بات نہ کرو.اس سے تو یہ لوگ وفات مسیح بھی ثابت کر دیں گے.ختم نبوت کی جو تعریف یہ کرتے ہیں وہ بھی ثابت کر دیں گے.صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ثابت کر دیں گے بلکہ اب تو ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کی باتیں ہی نہ سنو اور ان سے بالکل بات ہی نہ کرو.اس لئے کہ ان کو پتا ہے کہ دلیل کی رو سے ان
خطبات مسرور جلد 12 471 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء کے پاس کچھ نہیں.ہاں ضد اور ہٹ دھرمی ہے اور ضد اور ہٹ دھرمی میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی مطلب نکالتے رہیں یا اپنی مرضی کے جتنے مرضی مطالب نکالتے رہیں.غلط تعلیم اور نظریات سے انہوں نے عوام الناس کو بیوقوف بنایا ہوا ہے اور اب اس زعم میں ظلم کرتے ہیں اور کرواتے ہیں کہ اکثریت ہمارے ساتھ ہے.حکومت کا جو میڈ یا یاٹی وی چینل ہے اس کا یہ حال ہے کہ گزشتہ دنوں ایک مولوی صاحب آئے ہوئے تھے بغیر احمدیوں کا نام لئے انہوں نے یہ کہا.اپنی طرف سے تو وہ اپنی عوام کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس طرح نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن زیادہ زور ان کا اس بات پر تھا کہ یہ جو اقلیت ہے اس کو بھی اکثریت کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے.اب یہ خود ہی مارتے ہیں.خود ہی اس پر الزام لگاتے ہیں.خود ہی منصف بنتے ہیں.خود ہی فیصلے کرتے ہیں اور پھر خود ہی سزائیں دیتے ہیں.بہر حال ان لوگوں کے پاس کیونکہ ایک منبر ہے اور مولویوں کے پاس ایک سٹریٹ پاور (street power) بھی ہے.یاخود سیاستدانوں نے اب اپنی سیاست اسی میں سمجھی ہے کہ احمدیوں کی مخالفت کی جائے ، اس لئے حکومت جو ہے وہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے.ان کو یہ نہیں پتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا انجام کیا رکھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ.یقینا وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کوفتنہ میں ڈالا.پھر تو بہ نہیں کی تو ان کے لئے گھٹنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے آگ کا عذاب مقدر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقینا وہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو عذاب دیتے ہیں یا دینے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے خلاف آگیں بھڑکاتے ہیں، پھر اس پر پہرے لگاتے ہیں کہ ان کو کوئی بچانے والا نہ آ جائے تو ایسے لوگوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے.یہ لوگ تو ظاہری آگ اور چھپی ہوئی آگ بھی بھڑکاتے ہیں تا کہ جو لوگ ان کے ساتھی ہیں، ان کے ہمنوا ہیں وہ ہر طریقے سے مومنوں کو عذاب میں ڈالنے کی کوشش کریں اور کرتے رہیں.آجکل یہ فتنہ اور چھپی ہوئی آگ اس طرح بھی بھڑکائی جاتی ہے کہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم احمدی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے یا آپ کی ہم تو ہین کرتے ہیں.یہ ایک ایسا الزام ہے جو ہمارے دلوں کو سخت تکلیف پہنچانے والا الزام ہے.حالانکہ احمدی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور جلال کے اظہار کے لئے دنیا کے کونے کونے میں دن رات مصروف ہیں.جہاں کہیں
خطبات مسرور جلد 12 472 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ ہو احمدی سب سے پہلے اس حملے کا جواب دینے کے لئے وہاں موجود ہوتا ہے.پس ہم تو وہ ہیں جو اپنی موت قبول کر سکتے ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے معمولی سے لفظ کو بھی برداشت نہیں کر سکتے.اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو ہمارے عمل ہیں وہ کیا ہیں اور وہ جانتا ہے کہ جو ہمارے دل میں ہے وہ کیا ہے.اس میں تضاد نہیں ہے.یو نہی تو نعوذ باللہ ایک جھوٹے کی جماعت کو باوجود تمام دنیا کی مخالفت کے وہ ترقی پر ترقی نہیں دے رہا.وہ جانتا ہے کہ اُس کی جماعت ہے.وہ جانتا ہے کہ اُس نے اس کو ترقی دینی ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے مومنوں کو جو میرے جاہ وجلال اور توحید کے قیام کے لئے اور میرے آخری نبی کی عزت و جلال کو قائم کرنے کے لئے صبح شام لگے ہوئے ہیں انہیں فتنے میں ڈالنے اور تکلیف دینے والوں، ان کے بدنوں کو جلانے والوں یا ان کے گھروں کو جلانے والوں یا جھوٹی باتیں ان کی طرف منسوب کر کے ان کے دلوں کو جلانے والوں کو میں چھوڑوں گا نہیں.ان کو یقیناً جہنم کی آگ میں ڈالوں گا سوائے اس کے کہ وہ تو بہ کر لیں.اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کر لیتا ہے اور معاف کر دیتا ہے.لیکن اگر تو بہ نہیں کرتے تو یا درکھیں فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ.جس طرح انہوں نے مؤمنوں کے دلوں کو جلایا یا ان کے بدنوں کو جلایا یا ان کے گھروں کو جلایا یا کوشش کرتے رہتے ہیں اور کبھی کامیابی ہوئی کبھی نہیں ہوئی.اسی طرح انہیں بھی عذاب دیا جائے گا.لیکن ایسے ظلم کرنے والوں کا عذاب دوطرح کا ہوگا.ظاہری بھی اور باطنی بھی.جلنے کا عذاب بھی اور جہنم کا عذاب بھی.ہمارے دلوں کو تو یہ لوگ جھوٹے الزام لگا کر ، اس ہستی کے بارے میں جو ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ پیارا ہے ہماری طرف جھوٹ منسوب کر کے دلوں کو جلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے دل تو اس وقت اس سچائی کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جل رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ کیوں ترقی کر رہی ہے.کیوں ہماری تمام تر مخالفت کے باوجود جماعت کا ہر فرد اپنے ایمان پر قائم ہے.کیوں ان کا ہر بچہ بوڑھا مرد اور عورت ہمارے سے خوف نہیں کھاتا اور ہمارے ظلموں کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیوں کر رہا ہے؟ گوجرانوالہ کے رہنے والوں نے 1974 ء کے فسادوں میں بھی بہت قربانیاں کی تھیں اور اس کی ایک مثال قائم کی تھی.اور آج بھی انہوں نے قربانیوں کی ایک نئی مثال قائم کر دی.جس میں آٹھ ماہ کی بچی، چھ سال کی بچی اور ایک عورت نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر قربانی کی ایک مثال قائم کی بلکہ ایک وجود جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا تھا جس نے ڈیڑھ دو ماہ بعد اس دنیا کو دیکھنا تھا وہ بھی ان
خطبات مسرور جلد 12 473 ظالموں کی وجہ سے دنیا میں آنے سے محروم ہوا اور قربانی دے کے گیا.خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء بہر حال ان ظالموں اور آگئیں لگانے والوں کے بارے میں تو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ان کا انجام کیا ہو گا اور ساتھ ہی ایمان لانے والوں کو بھی ان قربانیوں کے بدلے میں انعامات کی تسلی کروا کر فرمایا کہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَهُمْ جَنَّتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ - یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان کے لئے ایسی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے.دشمنوں نے تو آ گوں کا سلسلہ شروع کیا اور اس کی نگرانی کرتے رہے کہ یہ نہ بجھیں.جیسا کہ ہماری رپورٹس میں بھی ذکر آتا ہے کہ فائر بریگیڈ والوں کو بھی انہوں نے روک دیا اور پتھر مارنے شروع کر دیئے کہ آگ بجھانے کے لئے آگے نہیں جانا.اسی طرح ایمبولینس کو بھی مریضوں کو نکالنے سے روک دیا اور سامنے کھڑے ہو گئے اور ناچتے رہے.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان مظلوموں کے لئے میں نے ایسی جنت تیار کی ہوئی ہے جس کے باغ ایسے ہیں جن کی شاخیں آپس میں ملی ہوئی ہیں.جن کے سائے ٹھنڈے ہیں.جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں.جب چاہا پانی پی کر اپنے گلوں اور جسموں کو تازہ کر لیا.دشمن نے تو آگ کی تپش دینے کی کوشش کی تھی.جنت میں تو ٹھنڈےسائے ہیں.دھوپ کی تپش بھی انہیں نہیں پہنچے گی.دشمن نے تو معصوم بچوں اور بیمارعورت کے گلے دھوئیں سے چوک (chock) کرنے کی کوشش کی تھی یا خشک کرنے کی کوشش کی تھی اور پانی سے محروم رکھا تھا کہ اس طرح سانس گھٹ کے مر جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ان کے لئے کھلی فضا اور ٹھنڈا پانی مہیا کرے گا جہاں ان کے گلے اور جسم ہر وقت تر و تازہ رہیں گے.پس یہ واضح فرق ہے آگئیں لگانے والوں کے انجام کا اور مظلوموں اور مومنوں کے انجام کا.ہم ان ظلموں کے خلاف مدد کے لئے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے تھے آج بھی اس کے آگے جھکتے ہیں.ان آیات میں اس عورت کے بھی سوال کا جواب آ گیا جس نے اس واقعہ کے بعد کچھ دنوں پہلے مجھے جرمنی سے لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو الہام ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ یا مجھے مت ڈراؤ آگ میری غلام بلکہ میرے غلاموں کی بھی غلام ہے.(ماخوذ از تذکرہ صفحہ 324 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) اس عورت نے آگے کوئی بات تو نہیں لکھی لیکن مطلب یہی لگ رہا تھا کہ پھر یہ سب کچھ کیوں ہوا؟
خطبات مسرور جلد 12 474 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء پہلی بات تو یہ کہ اپنا ایمان مضبوط رکھیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے بتا دیا تھا کہ یوں ہوگا جیسا کہ ان آیات میں میں نے اس کی تفصیل بتائی کہ یہ ہوگا.یہ آیات اس بارے میں بڑی واضح ہیں.اور الہام کا یہ بھی مطلب ہے کہ اس سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں.یہ لوگ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے آگئیں بھڑکا ئیں گے.یقیناً بھڑکا ئیں گے لیکن جو مقصد ان آ گوں سے یہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کر سکیں گے.مقصد تو یہی ہے کہ آگئیں لگا کر احمدیوں کو احمدیت سے برگشتہ کرو.آگ کے عذاب سے جو یہ لوگ بھڑکاتے ہیں اس سے احمدیوں کو ڈرانے کی کوشش کرو.لیکن کیا کسی حقیقی مومن کا ان باتوں سے ایمان ضائع ہوا؟ کبھی نہیں.ہاں ان آگوں نے غلام بن کر مومنوں کو ترقی کے راستے ضرور دکھائے.اس کے دروازے ضرور کھولے اور ان کے ایمان کو مضبوط کیا.اس آگ کی وجہ سے اگر ظاہری نقصان ہوا تو وہ بھی کھاد بن کر جماعت کی ترقی اور تعارف کے ایسے دروازے کھولنے والا بن گیا کہ حیرت ہوتی ہے اور پھر بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ دشمن اپنی کارروائی میں نا کام بھی ہوا جیسا کہ میں نے کہا.پس ہر صورت میں جب نتائج اللہ تعالیٰ کی تائید کا پتا دے رہے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات کے مختلف پہلو ہیں.ظاہری بھی اور باطنی بھی.لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان آ گوں کے بھڑ کانے کے نتیجے میں آگ بھڑ کانے والوں کو تو میں جلنے کا عذاب بھی دوں گا اور جہنم کا عذاب بھی دوں گا لیکن آگ سے نقصان پہنچنے والے مومنین کے لئے تو ٹھنڈی سائے دار جنتیں ہیں.یہ معصوم بچے جنہوں نے جان دی.یہ تو ویسے ہی جنتی ہوتے ہیں ان کی اس قربانی نے تو انہیں خدا تعالیٰ کا مزید پیارا بنا دیا.خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے پیار کی آغوش میں لے لیا.الہام میں یہ تو کہیں نہیں کہا گیا تھا کہ آگ احمدیوں کے لئے کوئی نشانی کے طور پر ہے اور یا یہ عذاب ہے دوسروں کے لئے اور یہ اس عذاب سے محفوظ رہیں گے.کوئی ایسی نشانی نہیں بتائی گئی تھی.مقصد یہی تھا کہ آگ سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں.ہاں بعض دفعہ ظاہری طور پر بھی پوری ہوتی ہے باطنی طور پر بھی پوری ہوتی ہے.کہیں آ گیں بجھ بھی جاتی ہیں کہیں نقصان بھی پہنچائے گئے.ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار کے لئے جو عذاب مقدر تھاوہ جنگ کا عذاب تھا.دوسرے تو کوئی عذاب ان کو نہیں آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ یہی عذاب ان کے لئے مقدر تھا اور اسی سے وہ تباہ ہوئے اور ان کا زور ٹوٹا.لیکن کیا ان جنگوں میں مسلمان شہید نہیں ہوئے؟ یقیناً ہوئے.لیکن جہاں کفار کے مرنے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ یہ جہنمی ہوئے وہاں مسلمانوں کی موت کو فرمایا کہ انہیں مردہ نہ کہو بلکہ یہ زندہ ہیں.یہ خدا تعالیٰ کے ہاں زندہ ہیں
خطبات مسرور جلد 12 475 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء اور ہر روز نئے سے نئے رزق سے فیض اٹھا رہے ہیں.پس ہمارے یہ شہداء بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں جنتوں میں پھر رہے ہیں.اور یہ بھی شاید احمدیت کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ تمام قربانی کرنے والیاں، عورت اور بچیاں ہی ہیں.کوئی مرد ان میں شامل نہیں.پس ان معصوموں کی قربانیاں ان ظالموں کی جہنموں کو قریب تر لا رہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی.یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ یہ موتیں سانس رکنے سے ہوئی ہیں کسی کو جلنے کے زخم نہیں آئے.باوجود اس کے کہ جو ظالم لوگ تھے بار بار آگ کے سامان کر رہے تھے اور مختلف قسم کا ایندھن یا ٹوٹا ہوا سامان، بالٹیاں،گھر کا فرنیچر وغیرہ جس کو یہ لوٹ نہیں سکتے تھے یالوٹ کے لے جانا نہیں چاہتے تھے، (باقی قیمتی سامان تو لوٹ کے لے گئے )، اس کو بار بار آگ میں ڈالتے تھے تا کہ آگ کبھی نہ بجھے.اب اس واقعہ کی جور پورٹ ہے، کچھ کو الف ہیں وہ بھی میں آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں.ان شہداء میں جو خاتون شہید ہوئی ہیں ان کا نام بشری بیگم صاحبہ تھا جو اہلیہ تھیں مکرم منیر احمد صاحب مرحوم کی.بچیاں جو ہیں وہ عزیزہ حراء تقسیم بنت مکرم محمد بوٹا صاحب اور کائنات تبسم بنت مکرم محمد بوٹا صاحب.اس واقعہ کو ویسے تو تمام لوگوں نے سن ہی لیا ہے.مختلف جگہوں پر آچکا ہے لیکن پھر بھی میں بیان کر دیتا ہوں کہ 27 جولائی 2014ء کو کچی پپ والی عرفات کالونی گوجر انوالہ میں مخالفین احمدیت شدت پسندوں نے احمدی احباب کے گھروں پر حملہ کیا.گھروں کو آگ لگادی جس کے نتیجہ میں جیسا کہ میں نے بتایا بشری بیگم صاحبہ اہلیہ منیر احمد صاحب مرحوم عمر 55 سال اور دو کم سن بچیاں عزیزہ حراء تبسم عمر 16 سال اور عزیزہ کا ئنات تبسم عمر 8 ماہ جو محد بوٹا صاحب کی بچیاں تھیں شہید ہوئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.تفصیلات اس کی یہ ہیں کہ وقوعہ کے روز شہید مرحومہ کے ایک بیٹے مکرم محمد احمد صاحب افطاری کے بعد ایک قریبی کلینک پر دوائی لینے گئے.وہاں انہوں نے دیکھا کہ ان کے چچازاد وقاص احمد کو بعض لوگوں نے روکا ہوا ہے.ان کے پوچھنے پر کہ کیا معاملہ ہے؟ ان لوگوں نے ان سے بھی بد کلامی شروع کر دی اور الزام عائد کیا کہ آپ کے ایک نوجوان نے فیس بک (facebook) پر خانہ کعبہ کی تصویر کی توہین کی ہے.نعوذ باللہ.جس پر انہوں نے کہا کہ ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے.ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ ایک سوچی سمجھی سکیم تھی.بہر حال فورا ہی وہ لوگ جو دشمن تھے مار کٹائی پر آمادہ ہو گئے اور شیشے کی بوتلیں تو ڑ کر مارنے لگے جس پر محمد احمد صاحب نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر فوری طور پر بذریعہ فون اپنے بھائی محمد بوٹا
خطبات مسرور جلد 12 476 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء پریہ صاحب کو دکان سے اور چا خلیل احمد صاحب کو گھر سے موقع پر بلایا جنہوں نے آ کر معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کی.اس دوران خلیل احمد صاحب ٹوٹی بوتل لگنے سے زخمی بھی ہو گئے.بہر حال وقتی طور پر یہ معاملہ ختم ہو گیا.گھر آ گئے اور اپنے بھائی کو گھر چھوڑ کے سروس سٹیشن جو ان کی دکان تھی وہاں چلے گئے.تھوڑی دیر بعد ہی وہ ڈاکٹر صاحب جن کی کلینک کے سامنے یہ معاملہ ہوا تھا.انہوں نے محمد بوٹا اور فضل احمد صاحب کو فون کر کے بتایا کہ یہاں لوگ اکٹھے ہورہے ہیں اور جلوس کی شکل اختیار کر کے آپ لوگوں کے گھروں پر حملہ کی غرض سے آ رہے ہیں.اسی طرح انجمن تاجران کی طرف سے بھی اعلان کیا گیا کہ لوگ کٹھے ہو جا ئیں اور دکانیں بند کر دیں.جس نے دکان بند نہ کی وہ خود ذمہ دار ہوگا.یہ با قاعدہ planning تھی.اور یہ سارا کام جیسا کہ میں نے کہا منصوبہ بندی کے ساتھ شروع ہوا.اس علاقے میں قریب قریب مختلف گلیوں میں اٹھارہ احمدی احباب کے گھر ہیں.اس اطلاع کے ملتے ہی پندرہ احمدی گھرانوں کے احباب و خواتین تو اپنے گھروں سے نکل گئے.تاہم محمد بوٹا صاحب اور دیگر دو گھروں محمد اشرف صاحب صدر جماعت اور ان کے بھائی کی فیملیز ابھی گھر میں تھیں کہ جلوس نے رات تقریباً ساڑھے آٹھ بجے حملہ کر دیا اور احمدی گھروں کے قریب آ کر شدید نعرے بازی کی.فائرنگ بھی کی اور ساتھ ہی گھروں کے بند دروازوں کو توڑنا بھی شروع کر دیا.اب اس کے بارے میں بھی پولیس نے غلط رپورٹ اخباروں کو دی ہے کہ دونوں طرف سے فائرنگ ہوئی.حالانکہ فائر نگ صرف ان مخالفین نے کی تھی.جماعت کی طرف سے کوئی فائرنگ نہیں ہوئی.ان لوگوں نے منصوبہ بندی کے ساتھ ہر طرف سے ایک ساتھ حملہ کیا.اس علاقے میں شیعہ حضرات کی بہت زیادہ تعداد آباد ہے.ویسے تو شیعہ بہت باتیں کرتے ہیں لیکن انہوں نے بھی اُس وقت ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا بلکہ بڑھ چڑھ کے دیا.اس واقعہ کے بعد صدر جماعت نے فوری طور پر ایس ایچ او پیپلز کالونی کو مطلع کیا جس پر اس نے کہا کہ میں خود پولیس نفری کے ساتھ موقع پر موجود ہوں اور میں حملہ آوروں کو مذاکرات کے لئے اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں.بہر حال حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کو ساتھ لے کر نہیں گیا اور اس دوران شدت پسندوں نے دوبارہ حملہ کر دیا جو اسلحہ اور دروازے اور دیواریں توڑنے والے ہتھوڑوں گینتیوں سے لیس تھے.ہتھوڑے اور گینتیاں اور اسلحہ سب کچھ ان حملہ آوروں کے پاس تھا.ان کے ساتھ اور مجمع بھی آکے شامل ہو گیا.آتے ہی انہوں نے پہلے بجلی کے میٹر توڑے، تاریں کاٹیں.بہر حال حالات کی سنگینی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ صدر صاحب اور ان کے بھائی کی فیملیز نے چھت کے ذریعہ غیر از جماعت ہمسایہ جو کہ اہل
خطبات مسرور جلد 12 477 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء قرآن ہے ان کے گھر پناہ لی.وہ شریف آدمی تھے انہوں نے پناہ دے دی.جبکہ محمد بوٹا صاحب اور ان کے بھائی فضل احمد صاحب کی فیملیز اپنے ہی مکان کی بالائی منزل پر ایک کمرے میں جا کر محبوس ہوگئیں.اتنی دیر میں شدت پسندوں نے گھر کے اندر داخل ہو کر بالائی منزل کے اس کمرے کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی جہاں یہ گیارہ خواتین و بچے بند تھے.جب دروازہ نہ ٹوٹا تو انہوں نے کمرے کے لاک میں ایلفی ڈال دی تا کہ اندر سے بھی دروازہ نہ کھلے اور سیل ہو جائے.کمرے کی کھڑکی کے شیشے توڑ دیئے اور پلاسٹک کا سامان اور دیگر اشیاء اکٹھی کر کے عین دروازے اور کھڑکی کے باہر آگ لگا دی.اس آگ کا زہریلا دھواں دروازے کے نیچے سے اور ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے کمرے میں بھر گیا اور ان ظالم شدت پسندوں نے آگ لگانے کے بعد اس کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر وہاں کے اندر رہنے والوں کو استہزائیہ رنگ میں الوداع کہا اور چلے گئے.جس میں گیارہ احمدی خواتین اور بچے بند تھے.بہر حال دھوئیں کی وجہ سے سانس رکنے کی وجہ سے بشری بیگم صاحبہ اور ان کی دو پوتیاں حراء تبسم اور کائنات تبسم شہید ہوگئیں.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.حملہ آور اس قدر مشتعل تھے کہ انہوں نے موقع پر زخمیوں کو اٹھانے اور آگ بجھانے کے لئے آنے والی ہسپتال کی ایمبولینس اور ایک دوسری ایمرجینسی ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کو بھی موقع سے بھگا دیا اور تمام شدت پسند گھروں کو آگ لگاتے رہے، جلاتے رہے اور ساتھ ناچتے بھی رہے.جبکہ پولیس یہ ساری کارروائی موقع پر خاموش تماشائی کی طرح کھڑی دیکھتی رہی اور کسی طرح بھی مشتعل افراد کو روکنے کی کوشش نہیں کی.میڈیا نے بھی بڑی دیر کے بعد آکر اس کی کوریج شروع کی.وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لیا جب شدت پسندا پنا کام ختم کر چکے تھے.اس سانحہ میں شہید ہونے والی مکرمہ بشری بیگم صاحبہ شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذان کے دادا مکرم میاں شہاب الدین صاحب آف لودھی منگل کے ذریعہ ہوا تھا جن کو خلافت ثانیہ میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی.یہ لوگ تو سیالکوٹ چلے گئے تھے، ان کی شادی گوجرانوالہ میں منیر احمد صاحب کے ساتھ ہوئی.پھر یہ 1976ء میں یہاں آ گئیں.ان کے خاوند منیر احمد صاحب بھی چھ ماہ قبل وفات پاگئے تھے.دیگر دونوں شہداء جراء قسم اور کائنات تقسیم ان کی پوتیاں تھیں.یہ شہید مرحومہ جو تھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجوقتہ نمازی، تہجد گزار، تلاوت کرنے والی ، نہایت ملنسار، ہمدرد، مہمان نواز، اعلیٰ اخلاق کی مالک تھیں.جانوروں اور پرندوں کو دانہ اور خوراک وغیرہ ڈالنا ان کا روزانہ کا معمول تھا اور
خطبات مسرور جلد 12 478 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء باوجود اس کے کہ کوئی عہدہ نہیں تھا لیکن جب بھی اور جہاں بھی جماعتی خدمت کی ضرورت ہوتی فوراً پیش پیش ہوتیں.شہادت کے وقت میں ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی اور کانوں میں بالیاں کے علاوہ کچھ نقدی بھی تھی.شاید انہوں نے اس لئے لے لی ہوگی کہ اب شاید یہاں سے جانا پڑے تو کچھ پیسے ہوں.لیکن اس دوران میں ہی سانس رکنے سے ان کی موت ہو گئی.تو جب پوسٹ مارٹم کے لئے لے جایا گیا تو ان ظالموں نے ان میں سے بھی کچھ چیزیں ٹوٹ لیں.شہادت سے ایک روز قبل انہوں نے محلے میں افطاری بھی کروائی تھی اور شہید ہونے والی پوتی حرارت تبسم نے گھروں میں جا کے افطاری تقسیم کی تھی.محمد بوٹا صاحب جن کی والدہ اور دونوں بیٹیاں شہید ہوئی ہیں ،سعودی عرب میں بھی رہے تھے.وہاں سے پھر حالات کی وجہ سے واپس پاکستان آگئے.اب پاکستان آکر انہوں نے گاڑیوں کی سروس سٹیشن کا کام شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا کافی اچھا تھا.ان کے بھائی فضل احمد صاحب بھی جزیر کرائے پر دینے کا کام کرتے تھے.اچھا کاروبار تھا اور یہ بھی وہاں کے لوگوں کے حسد کی ایک وجہ تھی.امیر صاحب گوجرانوالہ نے بتایا کہ ساری فیملی بڑی شریف النفس ، بڑی مخلص اور جماعتی غیرت رکھنے والی ہے.جس علاقے میں یہ لوگ آباد ہیں یہ حلقہ بھی انہی کی وجہ سے یہاں بنا تھا اور انہوں نے وہاں نماز سینٹر بھی بنایا ہوا تھا.چندہ جات اور دیگر جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.ہر طرح سے ہر وقت جماعت کے ساتھ تعاون اور اطاعت میں پیش پیش تھے.شہید مرحومہ نے پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں.ایک بیٹے تو یہی محمد بوٹا صاحب ہیں جن کی دو بیٹیاں شہید ہوئی ہیں اور جو دو بچیاں ہیں ان کے پسماندگان میں والدہ والد اور پانچ سال کا ایک بھائی عطاء الواسع ہے اور ایک بہن عزیزہ سدرۃ النور تین سال کی ہے.امیر صاحب گوجرانوالہ مزید یہ بھی لکھتے ہیں کہ 27 جولائی اتوار کے دن ساڑھے نو بجے تقریباً چارسو یا پانچ سو افراد نے احباب جماعت احمد یہ حلقہ کچی پمپ والی کے گھروں پر حملہ کر دیا.شر پسندوں نے فیس بک پر کسی قابل اعتراض تصویر کو احمدی خادم مکرم عاقب سلیم صاحب والد مکرم محمد سلیم صاحب کی طرف منسوب کیا اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے لوگوں کو اکٹھا کر کے فساد پھیلا یا جبکہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے.مشتعل افراد نے ان کے علاوہ جو جہاں شہید ہوئے ہیں مزید چھ گھروں کو آگ لگائی اور ان کا سامان لوٹا.متاثرہ افراد کی نزدیک ہی دکانیں بھی تھیں جن پر حملہ کیا اور ان کے ویلڈنگ پلانٹ اور ہیوی جنریٹر لو ہے کے گارڈر اور عمارتی سامان جس کا کاروبار تھا وہ سب لوٹ لیا.
خطبات مسرور جلد 12 479 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء سانحہ گوجرانوالہ میں شہید ہونے والوں کے علاوہ محمد بوٹا صاحب کے بھائی مکرم فضل احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ حمیر فضل صاحبه مع بچگان، بیٹی عطیہ البصیر عمر تین سال واقعہ نو شمر منیب عمر ایک سال اور طلحہ انصر بعمر ایک ماہ کے علاوہ محمد بوٹا صاحب کی ہمشیرہ مکرمہ مبشرہ جری صاحبہ اہلیہ مکرم جری اللہ صاحب آف قلعہ کالر والہ ضلع سیالکوٹ جو انہیں ملنے کے لئے آئی ہوئی تھیں زخمی ہو گئیں.مبشرہ صاحبہ سات ماہ کی حاملہ تھیں جو وضع حمل اور عید کرنے کی غرض سے اپنی والدہ کے پاس آئی ہوئی تھیں.جس بچے کے ضائع ہونے کا بتایا وہ ان کا بچہ تھا جن کو پھر ربوہ میں بھجوایا گیا اور وہاں ان کا آپریشن کیا گیا.اس وقت ان کی طبیعت کافی خراب ہی ہے.ربوہ میں ہی طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہیں.ان کے پھیپھڑوں میں دھواں بھرنے کی وجہ سے سانس کی بڑی تکلیف ہے.دیگر زخمی احباب جو ہیں ان میں منیب احمد لودھی عمر تینتیس سال حملہ آوروں کے تشدد سے زخمی ہوئے تھے.ان پر حملہ کیا گیا تھا اور ان کا جبڑا اور دودانت ٹوٹے ہیں، کان بھی کٹ گیا ہے جبکہ جسم کے دیگر حصوں پر بھی چوٹیں آئی ہیں.ان کا علاج بھی جاری ہے.خلیل صاحب بوتل کے مارنے کی وجہ سے زخمی ہوئے.محمد انور صاحب قلعہ کالر والہ سیالکوٹ کو جب واقعہ کا پتا چلا تو وہ اپنی ہمشیرہ حمیر افضل صاحبہ اور فضل احمد صاحب اور دیگر فیملی ممبران کی مددکو پہنچے اور انہوں نے پہنچ کے پھر پولیس کو بلایا.اس وقت تک زیادہ تر لوگ جاچکے تھے ، اکا دُکا ہی تھے یا تھوڑے رہ گئے تھے تو پھر پولیس آئی ہے.تب انہوں نے پولیس کی مدد سے اور ایمبولینس لا کے لوگوں کو نکالا اور جب وہ نکال رہے تھے تو کیونکہ بڑی آگ لگی ہوئی تھی ، اندر سے لوگوں کو نکالنا تھا اس لئے اس دوران میں ان کو بھی آگ کی وجہ سے تھوڑے سے زخم آئے.بوٹا صاحب کی اہلیہ محترمہ رقیہ بیگم صاحبہ اور دیگر دو بچے عزیزم عطاء الواسع عمر پانچ سال اور سدرۃ النور پر بھی اس سانحہ میں گیس اور دھوئیں کا اثر ہوا.ان کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں.یہاں اس علاقے میں اٹھارہ گھر ہیں جو آپس میں باہمی رشتہ دار ہیں.اس وقت بہر حال ربوہ میں ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا حملہ آوروں نے چھ گھروں کو سامان سمیت جلا دیا.محمد افضل صاحب کا ، اشرف صاحب کا ، بوٹا صاحب کا سلیم صاحب کا اور خلیل صاحب کا اور فیروز دین صاحب کا گھر ہے.جبکہ ماسٹر بشیر صاحب اور مبشر صاحب کے دو گھروں کی توڑ پھوڑ کی ہے ان کا صرف سامان نکال کے جلایا ہے.اس کے علاوہ پانچ احمدی احباب کی دکانوں کو بھی مکمل طور پر لوٹنے کے بعد آگ لگادی گئی.اسی طرح حلقے کا جو نما زسینٹر تھا اس کو بھی نشانہ بنایا گیا.اس میں موجود قرآن پاک کے نسخوں، جماعتی کتب اور دیگر سامان کو جلانے کے بعد نما ز سینٹر کو بھی آگ لگا دی.
خطبات مسرور جلد 12 480 خطبه جمعه فرموده مورخه 01 اگست 2014ء تو یہ ان کے ظلموں کی کارروائیوں کی مختصر داستان یا حالات ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر یہ لوگ تو بہ نہیں کریں گے تو عذاب جہنم اور عذاب الحریق ان کا مقدر ہے.اللہ تعالیٰ ائمۃ الکفر کے بھی پکڑنے کے جلد سامان کرے اور ان آگیں لگانے والوں میں جو پیش پیش ہیں ان کی بھی پکڑ کے سامان کرے.ان شہیدوں کے درجات تو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہی ہے.ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.خاص طور پر ان ماں باپ اور بہن بھائی کو جن کی معصوم بچیوں اور بہنوں کو ان سے جدا کیا گیا ہے.اللہ تعالی تمام مریضوں کو بھی شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اور ان کے مالی نقصانات کو بھی اپنے فضل سے پورا فرمائے اور پہلے سے بڑھ کر عطا فرمائے.نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ بھی ادا کروں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 22 اگست 2014 ء تا 28 اگست 2014 ، جلد 21 شماره 34 صفحہ 05 09)
خطبات مسرور جلد 12 481 32 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده مورخه 08 اگست 2014ء بمطابق 08 ظہور 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: آمن تُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ إِلَهُ مَّعَ اللهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (النمل: (63 اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے.کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار اپنی جماعت کے افراد کو یہی تلقین فرمائی ہے کہ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دو کیونکہ جماعتی ترقی ، جماعت کا غلبہ اور دشمنوں کے مکروں اور ان کی کارروائیوں سے نجات دعاؤں سے ہی ملنی ہے.آپ نے بڑا واضح فرمایا کہ ہمارا غالب آنے کا ہتھیار دعا ہی ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ (303) پس جب ہم نے ہر ترقی دعاؤں کے طفیل دیکھنی ہے اور ہر دشمن کو دعاؤں سے زیر کرنا ہے تو پھر دعا کی اس اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے کس قدر توجہ ہمیں دعاؤں کی طرف دینی چاہئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہم کس قدر توجہ دعاؤں کی طرف دے رہے ہیں.اس کا اندازہ اور جائزہ ہم میں سے ہر ایک اپنی حالت کو دیکھ کر لگا سکتا ہے اور جائزہ لے سکتا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 482 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء گزشتہ دنوں مجھے ایک عزیز نے اپنی ایک خواب سنائی کہ میں اس عزیز کو کہہ رہا ہوں کہ رمضان بڑی جلدی ختم ہو گیا.ابھی تو میں نے جماعت سے اور زیادہ دعائیں کروانی تھیں.اس میں ایک توجہ کا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے اور یقینا ہے کہ رمضان میں جس طرح دعاؤں کی طرف توجہ رہتی ہے اس طرح اب توجہ نہیں رہے گی جبکہ جماعت کو دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.کیونکہ اس خواب کے سننے سے پہلے ہی میرے دل میں یہ تحریک تھی اور اللہ تعالیٰ نے ڈالا کہ رمضان کے بعد کے خطبے میں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دلاؤں.اس لئے اس شخص کی خواب بھی میری توجہ کی تائید میں ہی تھی.اس نے مزید اس طرف توجہ دلائی.اللہ تعالیٰ کا یہی طریق ہے کہ بعض دفعہ بجائے براہ راست واضح توجہ دلانے کے مومنوں کو دوسرے مومنوں کے ذریعہ توجہ دلاتا ہے گو کہ دل میں ڈالا ہوتا ہے.رمضان کے بعد ہم عموماً دعاؤں کی طرف اس لئے توجہ نہیں رکھتے ، ان میں وہ شدت نہیں ہوتی جیسی کہ رمضان میں ہوتی ہے.اس وقت دنیا کے حالات ، مسلم امہ کے حالات خاص طور پر فلسطینیوں پر اسرائیل کا جو مسلسل ظالمانہ حملہ ہے جس میں کل تک تو عارضی روک پیدا ہوئی تھی لیکن آج سنا ہے پھر وہ سیز فائر جو ہے وہ ختم ہوگئی اور الزام بہر حال یہی دیا جارہا ہے، اللہ بہتر جانتا ہے حقیقت، کہ فلسطینیوں کی طرف سے پہلے راکٹ حملے کئے گئے.بہر حال اللہ کرے کوئی ایسی صورت پیدا ہو کہ یہ جنگ بندی مستقل ہو جائے اور ظلم بند ہو.اور پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے پر ظلم اور گردنیں اڑانا اورقتل و غارت گری اس کی بھی انتہا ہو رہی ہے.اور پھر ظلم کی انتہا ان کلمہ پڑھنے والوں کی طرف سے یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے نام پر احمدیوں پر ظلم کر رہے ہیں اور ڈھٹائی سے اس ظلم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور جاری رکھنے کے بہانے بھی تلاش کرتے ہیں اور بیانات بھی دیئے جاتے ہیں.ہر سطح پر اور ہر موقع پر احمدیوں کو اذیت دینا اور ان پر ظلم کرنا اب پاکستان میں ملاں کے زیر اثر غیر احمدیوں کی اکثریت کا یا بہت بڑی تعداد کا شیوہ بن چکا ہے.اور اگلی نسل میں بچوں میں بھی یہ زہر گھولا جارہا ہے.ان کے دماغوں کو زہر آلود کیا جارہا ہے.ان بچوں کے منہ سے بھی اب یہ الفاظ نکلتے ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ دین کیا ہے یا کیا نہیں ؟ یا دشمنی کیا ہوتی ہے کیا نہیں ؟ کہ احمدی کافر ہیں اور ان کو قتل کرنا جائز ہے.سکولوں میں احمدی اساتذہ کے ساتھ بچے اس لئے بدتمیزی کرتے ہیں کہ یہ احمدی ہے جو مرضی اس کو کہو.سکولوں سے نکالنے کی کارروائیاں ہوتی ہیں.ان سے پڑھنے سے انکار کیا جاتا ہے.گزشتہ دنوں ہی ایک گاؤں میں چھوٹی سی جگہ پر ایک ٹیچر کے خلاف بچوں نے اور ان کے والدین نے جلوس نکالا ، ہڑتال کی کہ ہم نے اس سے نہیں پڑھنا.یہ قادیانی ہے.
خطبات مسرور جلد 12 483 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء غالباً ہیڈ ماسٹر نے یا کسی عقل والے نے ان سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگی قیدیوں کو بھی اس شرط پر رہا کرنے کا کہا تھا کہ و تعلیم تمہارے پاس ہے، جولکھنا پڑھنا تم جانتے ہو وہ اگر تم مسلمانوں کو سکھا دو تو تمہیں قید سے آزادی مل جائے گی.حالانکہ یہ ان لوگوں کو کہا گیا جو اس نیت سے جنگ میں آئے تھے کہ مسلمانوں کو ختم کر دیں.اس پر اس گاؤں کے لوگوں نے یہ کہا کہ ٹھیک ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کا فروں کو کہا ہو گا لیکن ہم نہیں مانیں گے کیونکہ یہ قادیانی ان کافروں سے بڑھ کر کا فر ہیں اور ان کو تو قتل کرنا بھی جائز ہے.اور یہ ڈھٹائی کسی بھی واقعہ کے بعد کم نہیں ہوتی.یہ نہیں کہ انسانیت سوز مظالم دیکھ کر پھر کسی قسم کی شرم کا احساس ان میں پیدا ہو جائے بلکہ وہی حال رہتا ہے.وہی لوگ جو گوجرانوالہ میں ہمارے احمدی گھروں کے ہمسائے تھے اور عام حالات میں بول چال اٹھنا بیٹھنا بھی تھا.جب یہ واقعہ ہوا تو ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جو خالی گھروں کو دیکھ کر لوٹ کھسوٹ میں شامل ہو گئے.جب گراوٹ اس حد تک پہنچ جائے تو پھر سوائے انا للہ کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اب تو یہ لوگ اپنے خاتمے پر پہنچے ہوئے ہیں.اور ان ابتلاؤں کے دور میں ہمیں پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے.پس اپنی دعاؤں میں کمی نہ آنے دیں.باقی مسلمان تو ایک دوسرے پر ظلم کا جواب ظلم سے دے کر اپنا حساب پورا کر لیتے ہیں لیکن ہم نے تو ہر ظلم کو آہ وفغاں میں ڈوب کر ختم کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر اس سے دعا مانگ کر ختم کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک شعر میں یہ فرمایا تھا کہ عد وجب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں (احکم جلد 5 نمبر 45 مورخہ 10 دسمبر 1901 ، صفحہ 3 کالم 2) ( در ثمین اردو صفحہ 50 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ) پس یارنہاں میں ڈوبنے کی ضرورت ہے.اپنے اندر وہ کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو عرش کے پائے ہلا دینے والی ہو.وہ دعائیں کرنے کی ضرورت ہے جن کا رخ ایک طرف ہو.متفرق دعا ئیں نہ ہوں.اس عزیز کی خواب میں جو یہ بتایا گیا ہے کہ میں اس کو کہہ رہا ہوں کہ ابھی میں نے جماعت سے دعائیں کروائی تھیں.تو جماعت سے من حیث الجماعت دعا کروانا جماعت کی کامیابیوں اور ترقیات کے لئے اور ان مشکلات کے دور ہونے کے لئے تھی.پس جب ہماری یہ خواہش ہے کہ ابتلا کا یہ دور جلد ختم ہو تو
خطبات مسرور جلد 12 484 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء ہمیں دشمن کے شر سے بچنے کے لئے اپنی دعاؤں، جماعتی دعاؤں کے دھارے اس طرف کرنے کی ضرورت ہے.اپنی دعاؤں کے دھارے اس طرف کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہم دشمن کے شر سے بیچ سکیں اور اس کے شر سے بچنے کے لئے ہم جتنی بھی دعائیں کریں وہ آجکل کی ضرورت ہے.اس موقع پر مجھے اپنی ایک پرانی خواب بھی یاد آ رہی تھی جس کا میں پہلے بھی ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں کہ اگر جلد حالات بدلنے ہیں تو جماعت کو ان ابتلاؤں سے بچانے کے لئے من حیث الجماعت اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص کرتے ہوئے ، اپنی دعاؤں کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے ہمیں اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے.اور اگر اس کیفیت میں ہم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں گے ، یہ کیفیت ساری جماعت میں پیدا ہو جائے اور ہماری راتیں اس کیفیت میں گزریں کہ ہم نے جماعت کے لئے دعائیں کرنی ہیں تو چند دن میں ، چند راتوں کی دعاؤں سے انقلاب آ سکتا ہے.ورنہ انقلاب تو آنا ہے، حالات تو بدلنے ہیں لیکن اپنا وقت لیں گے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ حالات بدلیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.جو پیغام مجھے دیا گیا تھا اس میں تمام جماعت جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرتی ہے اُس کا خالص ہو کر دعا کرنا شرط ہے.اس وقت بھی خواب میں مجھے یہی تاثر تھا کہ پاکستان کے احمدیوں کے لئے یہ پیغام ہے.پس پاکستان کے احمدیوں کو چاہے وہ امیر ہیں ، غریب ہیں، مرد ہیں، عورتیں ہیں ان کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ احمدیت کے حوالے سے اس وقت سب سے زیادہ ظلم پاکستان میں ہی ہو رہا ہے.اور دنیا کے احمدیوں کو بھی عموماً اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.کیونکہ احمدیت کی فتح سے ہی دنیا کی بقا وابستہ ہے.مسلم اُمہ کا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا احمدیت کی فتح سے ہی وابستہ ہے.ظلم و تعدی کا خاتمہ اسی سے وابستہ ہے.پس چاہے وہ فلسطینیوں کو ظلم سے آزاد کروانا ہے یا مسلمانوں کو ان کے اپنے ظالم حکمرانوں سے آزاد کروانا ہے اس کی ضمانت صرف احمدیوں کی دعائیں ہی بن سکتی ہیں.ان دعاؤں کا حق ادا کرنے کی ہمیں ضرورت ہے.اس وقت ظلم کی چکی میں سب سے زیادہ احمدی پس رہے ہیں.اس لئے ہماری دعائیں ہی مضطر کی دعاؤں کا رنگ اختیار کر کے نہ صرف اپنی آزادی بلکہ انسانیت کے لئے بھی ظلموں سے نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں.پس ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد 12 485 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں.اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 201 پس جیسا کہ میں نے کہا کہ آج احمدیوں سے زیادہ اور کون ان ابتلاؤں میں ڈالا جارہا ہے.آج احمدیوں سے زیادہ اور کون ہے جس پر ہر طرف سے ظلم بعض مسلمان ممالک میں روا رکھا جا رہا ہے.ان ملکوں کے اکثر شرفاء بلکہ تمام ہی کہنا چاہئے ، ان کی شرافت جیسا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ گونگی شرافت ہو چکی ہے.(ماخوذ از خطبات ناصر جلد هشتم صفحه 376 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 ستمبر 1979ء) ایسے میں معجزانہ دعاؤں کے فیض حاصل کرنے کے لئے ہمیں خاص توجہ کی ضرورت ہے.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ دیکھو مصیبت زدہ لوگوں کی دعاؤں کو کون قبول کرتا ہے.صرف اللہ تعالیٰ ہی قبول کرتا ہے.اور جب وہ ایسی حالت میں ہوں جب مضطر ہوں.مضطر اس کو کہتے ہیں جو اپنے چاروں طرف مشکلات اور ابتلاؤں کو دیکھتا ہے.اسے اپنی کامیابی کا کوئی مادی یاد نیاوی راستہ نظر نہیں آتا اور صرف اور صرف ایک راستہ نظر آتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف جانے کا راستہ ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے یہ مضطر ہیں جو میری طرف آتے ہیں جن کے لئے دنیا کے تمام راستے بند اور مسدود ہو چکے ہوتے ہیں.مضطر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب کوئی راستہ نظر نہ آئے تو گھبراہٹ میں اضطراب شروع ہو جائے کہ ہم کدھر جائیں.بلکہ مضطر کا مطلب جیسا کہ میں نے کہا یہ ہے کہ جب تمام راستے بند ہو جائیں، تمام راستے مسدود ہو جائیں تو ایک طرف روشنی کی کرن نظر آئے اور وہ اس کی طرف دوڑے.اگر ہر طرف آگ نظر آ رہی ہو تو دیوانوں کی طرح بے چین ہو کر دوڑنے والے کو مضطر نہیں کہتے.کیونکہ اگر اس طرح وہ گھبراہٹ میں دوڑے گا تو خود آگ میں پڑ جائے گا بلکہ ہر طرف کی آگ دیکھنے کے بعد جب اسے امن کا ایک راستہ نظر آ رہا ہو، اسے ایک طرف پناہ نظر آ رہی ہو اور وہ اس معین راستے کی طرف چلا جائے تو وہ شخص ایسا ہے جو مضطر کہلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے شخص کو پھر آگ سے بچانے والا ہوں.میں اس کی پناہ گاہ ہوں.آگ کی تپش سے بچانے والی ٹھنڈی چھاؤں میں ہوں.میری طرف آؤ.مجھ سے پناہ طلب کرو.میں تمہیں ان ابتلاؤں سے نکالوں گا.اس یقین سے میری طرف آؤ کہ ہمارا خدا ہے جو ہمیں اس ابتلا سے نکالنے والا ہے تو میں تمہیں تمہارے اس یقین کی وجہ سے اس
خطبات مسرور جلد 12 486 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء ابتلا سے نکالوں گا.تمہاری دعاؤں کی وجہ سے تمہیں اس ابتلا سے نکالوں گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عجیب و غریب خواص اور اثر تمہارے حق میں ظاہر ہوں گے.پس جو شخص ایسا مضطر بن جائے جو خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی کو اپنا ملجا و ماویٰ نہ سمجھے کوئی پناہ کی جگہ نہ سمجھے، جو خدا کے سوا کسی اور کو ان ابتلاؤں سے نجات دلانے والا نہ سمجھے تو وہی حقیقی مضطر ہے اور اس کی دعائیں عجائب دکھانے والی بنتی ہیں.دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ یقین ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا کہ ہر قسم کے اضطرار کی حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کام آتا ہے.اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں جہاں ہمیں روشنی کی کرن نظر آتی ہو اور جب ایسی حالت پیدا ہو جائے ، جب اس طرح کی اضطرار کی کیفیت آ جاتی ہے تو پھر اس قسم کے مضطر کے پاس اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق دوڑتا ہوا آتا ہے اور اس کی مشکلات اور مصیبتیں دور کر دیتا ہے.اس کی تکالیف ہوا میں اڑ جاتی ہیں.چاہے وہ ذاتی تکالیف اور مشکلات ہوں یا جماعتی تکالیف اور مشکلات ہوں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف یہی نہیں ہوگا کہ يَكْشِفُ السُّوء.ہو یعنی اللہ تکلیفوں کو دور کر دے اور بس.یہ کافی ہو گیا.اللہ تعالیٰ جب انعامات دیتا ہے تو اس کے انعامات لا محدود ہو ود ہوتے ہیں.کسی بھی حد تک وہ انعامات کو بڑھا سکتا ہے.پس یہاں بھی جب تکلیف میں مبتلا مومنوں کی تکلیفوں کو دور کرنے کا اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ يَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الأرض.کہ وہ تمہیں زمین کے وارث بنادیتا ہے.وہ بڑے بڑے ظالموں، جابروں اور سرکشوں کو تباہ کر کے مظلوم اور کمزور نظر آنے والوں کو ان کی جگہ بٹھا دیتا ہے.پس جہاں انفرادی طور پر مضطر کی دعا سن کر اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے وہاں قومی رنگ میں بھی اس کی تکلیفوں اور ابتلاؤں کو دور کرتا ہے.اور یہی ہمیں قرآن کریم نے دوسری جگہ پر بھی بتایا ہے.اس سے پتا چلتا ہے کہ جب پہلی قوموں نے رسولوں کے ساتھ اور ان کی قوموں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم نے انہیں تباہ کر دیا اور مظلوموں کو ان کی جگہ دے دی.پہلے لوگ بڑے بڑے جابر اور بڑے بڑے جاہ وجلال والے تھے لیکن ان کے نام تک مٹ گئے.پس یہ قانون آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلی قوموں کے لئے قائم تھا.پس اللہ تعالیٰ ظالموں کو ختم کرتا ہے لیکن جب مظلوم مضطر بن کر منی نضر اللہ کی درد بھری دعائیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آکر ظالموں کے جلد خاتمے کے سامان پیدا کر دیتا ہے.طاقت اور کثرت کے زعم میں آج ظلموں پر جو لوگ تلے بیٹھے ہیں اللہ تعالیٰ کرے کہ انہیں عقل آجائے ورنہ ان کی یہی طاقت اور کثرت ان کے لئے تباہی کا باعث بننے والی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ جو اپنی
خطبات مسرور جلد 12 487 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء طاقت اور کثرت کی وجہ سے تقویٰ سے کام نہیں لیتے ان کے انجام بھی بد ہوا کرتے ہیں.اگر کلمہ پڑھ کر اور اللہ اور رسول کا نام لے کر ظلموں کی داستانیں رقم ہوں گی تو کلمہ بھی اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بھی ایسے لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے بد انجام کی خبر دی ہے.یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ فلاں قوم یا مذ ہب کے ماننے والوں کا استثناء ہے وہ جو چاہیں کرتے پھریں.بلکہ جو بھی ایسے کاموں میں ملوث ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہیں، جو ظلموں پر منتج ہوتے ہیں وہ اپنے بد انجام کو پہنچے گا.لیکن ہمارا کام ہے کہ ان ظلموں سے جلدی چھٹکارا پانے کے لئے ہم مضطر کی حالت اپنے اندر پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کی مدد کو بے چین ہو کر پکار ہیں.پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح مددکو آتا ہے.ہم میں سے ہر ایک کو یہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : یا درکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے.جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروانہیں کرتا.دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آ جاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے.پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے.قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے.“ ( ملفوظات جلد 10 صفحہ 137) پس جماعتی مشکلات کے دور کرنے کے لئے بھی ہمیں اسی اضطراب کی ضرورت ہے جس طرح بعض دفعہ ہم دعاؤں میں اپنے ذاتی مقاصد کے لئے دکھاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کثرت سے اور بار بار دعا شرط ہے.پس یہ خیال کر لینا کہ ہم نے رمضان میں دعائیں کر لیں اور کافی ہو گیا تو ہم پر واضح ہونا چاہئے کہ یہ کافی نہیں.ابھی ہمیں مسلسل دعاؤں کی ضرورت ہے اور انسان کو ہمیشہ مسلسل دعاؤں کی ضرورت رہتی ہے.جب اللہ تعالیٰ ہمیں کھلی فتح بھی عطا فرمادے گا تو پھر بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے اس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے مسلسل دعاؤں کی ضرورت ہوگی.غرض کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں کبھی بھی کمی نہیں ہونی چاہئے ، نہ ایک مومن کبھی یہ برداشت کر سکتا ہے.تکلیفوں میں بھی ہمیں اضطراب کی ضرورت ہے اور آسانیوں اور آسائشوں میں بھی ہمیں یاد خدا کی ضرورت ہے.پس ایک مومن کبھی خود غرض نہیں ہوتا.نہ ہی عارضی اور وقتی دعاؤں اور جوشوں کو کافی سمجھتا ہے بلکہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ سے اس کا تعلق رہتا ہے اور رہنا چاہئے.یہ ایمان اور تعلق ہی ایک مومن کو عام حالات میں بھی دعا کی قبولیت کے
خطبات مسرور جلد 12 488 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء نشان دکھاتا رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ یاد رکھو کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 4 صفحہ 58) یہ تو ایک حقیقی مومن کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ خدا سے تعلق کالے لیکن بعض دفعہ کمزوریوں کی وجہ سے دعاؤں میں کمی آجاتی ہے اور دنیاوی معاملات کی وجہ سے اسباب کی طرف توجہ ہو جاتی ہے یا دعاؤں کا حق ادا نہیں ہوتا.پس ہمیں چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی حالتوں کے ہر وقت جائزے لیتا رہے کہ کبھی ہم اپنے مسائل میں اس قدر نہ الجھ جائیں کہ ان لوگوں کے لئے دعاؤں کا احساس نہ رہے جو جماعت کے افراد ہونے کی وجہ سے مشکلات میں گرفتار ہیں.یادرکھیں ہر فرد جماعت کی دعا اور اللہ تعالیٰ کو اس کے رحم ، مغفرت ، بخشش اور مختلف صفات کا واسطہ دے کر جو دعا ہے یہ جماعتی تکالیف کو بھی دُور کرنے کا باعث بنتی ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ پہلی امتوں میں سے ایک اُمت کے تین آدمی تھے.ایک دفعہ طوفان میں پھنس گئے.وہ طوفان سے پناہ لینے کے لئے ایک غار میں چلے گئے اور اتفاق سے اس طوفان کی وجہ سے ایک پتھر لڑھک کر اس غار کے منہ پر آ گرا اور ان کے باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا.گو یا ایک چھوٹی مصیبت سے بچنے کے لئے گئے تھے اور بڑی مصیبت ان پر پڑ گئی.ایسی حالت میں نہ ان کی اپنی کوشش سے وہ پتھر غار کے منہ سے ہٹایا جا سکتا تھا اور نہ ہی کوئی بیرونی مددان کو جنگل میں پہنچ سکتی تھی.ایک ایسی قید تھی جس میں سے کسی انسانی کوشش سے نکلنا ناممکن تھا.ایسی حالت میں ان پر شدید گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہوئی کہ اب یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں.یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا ہے.یہی نہ ہو کہ ہماری قبراب اس غار میں بن جائے.ایسی حالت میں جب انہوں نے دیکھا کہ نجات کی کوئی صورت نہیں تو ان میں سے ایک شخص کے دل میں دعا کی تحریک ہوئی.اس نے کہا آؤ ہم دعا کریں اور دعا اس حوالے سے کریں کہ ہم نے اپنی زندگی میں اگر کوئی عمل اور نیکی خدا تعالیٰ کی خاطر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پتھر کو ہٹا دے.تب ان میں سے ایک نے کہا کہ اے خدا مجھے اپنی ایک رشتہ دارٹر کی سے محبت تھی.میں اس سے بدکاری کرنا چاہتا تھا مگر وہ نہیں مانتی تھی.آخر میں نے بعض ایسی تدابیر کیں، مال بھی خرچ کیا، وقت گزرا تو آخر وہ بدفعلی پر راضی ہو گئی.جب میں اس پر قادر ہو گیا تو اس نے کہا کہ اے خدا کے بندے! میں تجھے خدا کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ یہ گناہ نہ کر.تب میں اس کے قریب سے ہٹ گیا.اور اے خدا اگر میں نے یہ
خطبات مسرور جلد 12 489 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 08 اگست 2014ء کام تیری خوشنودی کی خاطر کیا تھا تو اس پتھر کو ہمارے راستے سے ہٹا دے.اس دعا سے اس طوفان کی وجہ سے وہ پتھر اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہٹ گیا لیکن راستہ نہیں کھلا.پھر دوسرے نے کہا.اے خدا تو جانتا ہے کہ ایک مزدور میرے پاس آیا.اس نے میری مزدوری کی.اس سے پہلے کہ وہ میرے سے مزدوری لے.وہ چلا گیا.یہ مزدوری جو نصاب بنتا ہے اس میں تقریباً نو سیر دانے کے برابر بنتی ہے.تو میں نے اس کی مزدوری کے جو دانے تھے ان کو بود یا.اس کی فصل لگا دی.وہ فصل اچھی ہوئی.اور اس میں سے میں نے کچھ جانور خرید لئے جو بڑھتے بڑھتے بھیڑوں بکریوں کا ایک گلہ بن گیا.پھر یوں ہوا کہ کئی سالوں کے بعد وہ میرے پاس آیا اور اپنی مزدوری مانگی.میں نے کہا کہ یہ بکریوں کا گلہ تمہارا ہے.تم لے جاؤ.ایک وادی میں پھیلا ہوا تھا.اس نے کہا کہ مزدوری لینے آیا ہوں اور تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو.تب میں نے اس سے کہا کہ تمہاری مزدوری سے میں نے تجارت کی تھی جس سے اتنا بڑا ریوڑ بن گیا.یہ تمہارا ہے اس پر وہ ریوڑ لے کر چلا گیا.پس اے خدا! اگر یہ کام میں نے تیری خوشنودی اور رضا کی خاطر کیا ہے تو ہم پر رحم کر اور یہ پتھر ہٹا دے.اس پر ہوا کے ایک تیز جھگڑہ نے اس پتھر کو تھوڑ اسا اور سرکا دیا لیکن ابھی بھی باہر نکلنے کا راستہ نہیں تھا.تب تیسرا شخص اس دعا کے ساتھ خدا کے حضور جھکا اور کہا کہ اے خدا! تو جانتا ہے کہ میں بکریاں چرا یا کرتا ہوں اور دودھ پر میرا گزارا ہے.ایک دن گھر پہنچنے میں دیر ہوگئی اور میرے ماں باپ جو میرے ساتھ تھے.بہت بوڑھے تھے.میرا طریق یہ تھا کہ اپنے چھوٹے بچوں سے پہلے اپنے ماں باپ کو دودھ پلایا کرتا تھا.جب میں دیر سے پہنچا تو میرے ماں باپ جو بوڑھے تھے سو چکے تھے.میں نے پسند نہ کیا کہ انہیں جگاؤں اور ان کے پاس دودھ لے کر میں کھڑا ہو گیا کہ جب وہ جاگیں گے میں پلا دوں گا.میرے بچے روتے رہے.انہیں بھی بھوک لگی تھی لیکن میں ماں باپ کے لئے دودھ لے کر کھڑا رہا.یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور صبح تک دودھ لے کر کھڑا رہا.صبح جب وہ جاگے تو انہیں دودھ پلا یا پھر اپنے بیوی بچوں کو بھی دیا.پس اے خدا اگر میرا یہ کام تیری رضا اور خوشنودی کے لئے تھا اور دنیا کی کوئی غرض نہ تھی تو مجھ پر رحم فرما اور اس پتھر کو ہٹا دے.چنانچہ طوفان کے ایک زور نے اس پتھر کو اور آگے سر کا دیا اور راستہ صاف ہو گیا اور وہ باہر آگئے.(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الغار حدیث 3465) اب تین اشخاص نے تین قسم کے کام کئے تھے.کسی نے مزدور کی مزدوری میں امانت کا حق
خطبات مسرور جلد 12 490 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء ادا کیا.انصاف پر قائم رہتے ہوئے بندوں کے حق کی ادائیگی کی کسی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت کا حق ادا کیا.تیسر از نا کے گناہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بچا اور اس حوالے سے دعا کی لیکن ان سب کی دعاؤں کا مقصد مشترکہ تھا کہ پتھر ہٹ جائے اور وہ پتھر ہٹ گیا.پس یہ انفرادی نیکیاں اور انفرادی نیکیوں کے حوالے سے کی گئی دعائیں اجتماعی قبولیت کا نظارہ دکھانے والی بن گئیں.پس اس حدیث سے جہاں اور بہت سے سبق ملتے ہیں وہاں ایک یہ بہت بڑا سبق ہے کہ افراد کی انفرادی نیکیاں اور دعا ئیں اجتماعی مصیبت کو دور کرنے کا باعث بنتی ہیں.پس جب ہم ایک جماعت میں پروئے جانے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں خدا تعالیٰ سے اجتماعی تکالیف اور ابتلا کے دُور کرنے کے لئے دعائیں مانگنے کی ضرورت ہے.صرف اپنی ذاتی مشکلات اور پریشانیوں کو اپنا سمجھتے ہوئے ان کے لئے دعاؤں میں ہی نہ ڈوبے رہیں بلکہ جماعتی دعاؤں میں بھی وہ اضطراب اور اضطرار پیدا کریں جو اپنی ذاتی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے ایک انسان میں پیدا ہوتا ہے.جماعت کی ترقی اور حالات کے بدلنے کے لئے جب دونفل پڑھتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ پڑھا کریں اور اکثریت مجھے لکھتی بھی ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو اس میں درد بھری دعائیں کریں.ان غار میں پھنسے ہوئے لوگوں کی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر دنیاوی مدد سے مایوس ہو کر انہوں نے بیشک اپنی کسی نیکی جو خالص خدا تعالیٰ کے لئے انہوں نے کی تھی اس کا حوالہ دے کر دعا مانگی لیکن ان کی جو اس وقت اضطراری کیفیت ہوگی جو اضطراب ان میں پیدا ہوا ہوگا ، ہر طرف سے مادی ذرائع سے جو مایوسی تھی اس سے جو اضطراب پیدا ہوسکتا ہے اس کا انسان اندازہ کر سکتا ہے.پس جہاں ہمیں اپنے عمل خدا تعالیٰ کے لئے خالص کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ اعمال قبولیت دعا میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں وہاں ہمیں جماعت کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہوئے بڑی تضرع اور عاجزی سے اسے دور کرنے کے لئے دعا کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے.اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا.“ پھر ایک جگہ ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 27)
خطبات مسرور جلد 12 491 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء اگر تم دوسرے لوگوں کی طرح بنو گے تو خدا تعالیٰ تم میں اور ان میں کچھ فرق نہ کرے گا.اور اگر تم خود اپنے اندر نمایاں فرق پیدا نہ کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ بھی تمہارے لیے کچھ فرق نہ رکھے گا.عمدہ انسان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق چلے.لیکن اگر ظاہر کچھ اور ہو اور باطن کچھ اور تو ایسا انسان منافق ہے اور منافق کا فر سے بدتر ہے.سب سے پہلے دلوں کی تطہیر کرو.مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے.ہم نہ تلوار سے جیت سکتے ہیں اور نہ کسی اور قوت سے.ہمارا سے 66 ( ملفوظات جلد 7 صفحہ (386) اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنے سب کام خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق سرانجام دینے والے ہوں.اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں.اس کے حضور متضرعانہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہوں.اپنی دعاؤں میں جماعتی ترقی اور ابتلاؤں کے دور ہونے کے لئے وہی شدت پیدا کرنے والے ہوں جو اپنی ذاتی تکالیف میں ہم کرتے ہیں.جماعت کے لئے دعاؤں میں بھی وہ شدت ہم میں پیدا ہو جیسی ہم میں اپنی ذاتی تکالیف کے لئے پیدا ہوتی ہے.ایک ہو کر ہم مخالفین کے شر سے بچنے کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں.جیسا کہ میں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ جب تک ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے ان اجتماعی تکلیفوں کے دور کرنے کے لئے نہیں جھکیں گے ہم اپنے مقصد کو جلد حاصل نہیں کر سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہماری مشتر کہ دعائیں ہی ہماری انفرادی تکالیف کو بھی دور کر سکتی ہیں.جب انسان دوسرے کے لئے دعا کرتا ہے تو فرشتے بھی اس کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں.غار سے پتھر اس وقت ہٹتے ہیں جب دعاؤں کا رخ اور مقصد مشترک ہو.پس کسی فرد جماعت کو اس خود غرضی میں نہیں پڑنا چاہئے کہ میں ٹھیک ہوں تو بس سب ٹھیک ہے.دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے احمدی کی تکلیف ہم سب کی مشترک تکلیف ہے.اس کا احساس ہم میں پیدا ہونا چاہئے اور صرف احساس ہی پیدا نہ ہو اس کے لئے ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اور یہی ہتھیار ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ ہتھیار ہمیں ہماری فتوحات سے ہمکنار کرے گا.لیکن یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ جوش میں ہم دشمنوں کے بارے میں یا مخالفین کے
خطبات مسرور جلد 12 492 خطبه جمعه فرموده مورخه 08 اگست 2014ء بارے میں یہ دعا نہ کریں کہ خدا تعالیٰ ان پر و بال اور عذاب نازل کرے.بلکہ یہ دعا کریں کہ اے اللہ جب ہم اپنی کامیابیاں چاہتے ہیں.ابتلا اور مشکلات کو دُور کرنے کے لئے تجھ سے دعا مانگتے ہیں.مشکلات کے یہ دور ختم ہونے کے لئے ہم دعا کرتے ہیں وہاں اے خدا ہم ان لوگوں کی بھی بہتری چاہتے ہیں تباہی نہیں چاہتے.ہم کمزوروں کو تیرے فضلوں نے ڈھانپا ہوا ہے اور باوجود سخت ترین حالات کے ہم تیرے فضلوں کے نظارے پھر بھی دیکھتے رہتے ہیں.پس اگر تو ان لوگوں کو بھی ڈھانپ لے اور ان کو ہدایت دے تو یہ ہماری بھی اور ان کی بھی بڑی خوش قسمتی ہے.لیکن اگر تیری حکمت بعض کو اس کا اہل نہیں سمجھتی اور ان کو فنا کرنے میں ہی بہتری ہے تو ان کو ہمارے راستے سے اس طرح ہٹا دے کہ اسلام کی ترقی جواب تو نے احمدیت اور حقیقی اسلام سے وابستہ کی ہے اس میں ان کا وجود روک نہ بن سکے.پس جہاں یہ دعا بھی ہے تو وہاں اللہ تعالیٰ کی حکمت جہاں چاہتی ہے وہاں پر یہ بددعا بھی بن جائے گی.اس لحاظ سے ہمیں دعا کرنی چاہئے نہ کہ کھلی بددعا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعاؤں کے حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 29 راگست 2014 ء تا 11 ستمبر 2014 ، جلد 21 شماره 36-35 صفحه 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 493 33 خطبه جمعه فرموده مورخہ 15 اگست 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15 اگست 2014ء بمطابق 15 ظہور 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انو راید و اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال: 25) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول کی بات پر لبیک کہو.جب وہ تمہیں بلائے تاکہ تمہیں زندہ کرے.اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو زندگی دینے کے لئے بھیجتا ہے.ان یعنی مومنوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کی موت کو زندگی عطا کرنے کے لئے بھیجتا ہے.جیسا کہ قرآن کریم کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہ زندگی روحانی زندگی ہے نہ کہ ظاہری موت سے زندگی.یہاں ایک صداقت کا بھی اظہار ہے کہ مومن کو ہمیشہ نبی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اصلاح کے سامان کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہماری زندگی کے سامان کئے اور ایک کامل اور مکمل شریعت قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمائی.اور اس پر عمل کرنے کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں نے محسوس کیا اور محسوس کرتے تھے.جو جتنا زیادہ آپ کے قریب تھا اتنا ہی زیادہ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونے کا حسن نکھر کر واضح ہوتا تھا اور آپ کی بیویاں آپ کے اس حسن عمل کی سب سے زیادہ گواہ ہو سکتی تھیں اور تھیں.تبھی تو جب سوال کرنے والے نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ آپ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا كَانَ خُلُقُهُ الْقُرآن
خطبات مسرور جلد 12 آپ کا خلق قرآن تھا.494 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اگست 2014ء (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحه 144 حديث عائشة رضى الله عنها حديث نمبر 25108 عالم الكتب جو کچھ اس میں یعنی قرآن کریم میں ہے اس کا عملی نمونہ آپ تھے.بيروت 1998ء) پس انبیاء کا وجود دنیا میں نمونہ ہوتا ہے.یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ان کے وجود یا ان کے نمونے سے کسی کو ٹھوکر لگے.یہاں اس آیت میں اللہ اور رسول کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ جو اللہ کہتا ہے وہی اس کے رسول کہتے اور کرتے ہیں.پس اگر روحانی زندگی چاہتے ہو تو آ نکھیں بند کر کے رسول کے پیچھے چل پڑو.اس کی اتباع کرو.اس کے حکموں پر عمل کرو.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو یہ بھی فرمایا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ضروری ہے اور خدا کی محبت ہی وہ مقام ہے جس سے روحانی حیات ملتی ہے، روحانی زندگی ملتی ہے.پس حقیقی روحانی زندگی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنا ضروری ہے.اور جب تک ایک مسلمان کہلانے والا حقیقی رنگ میں اس بات کو نہیں مانتا جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان الفاظ میں اعلان کروائی کہ فَاتَّبِعُونِي يُحببكُمُ الله ( آل عمران:32).پس میری اتباع کرو تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.اس وقت تک ایک مسلمان کہلانے والا حقیقی متبع اور مومن نہیں کہلا سکتا.اور آپ کی اتباع کے لئے آپ کے نمونے کی لکھی ہوئی تفصیل جیسا کہ حضرت عائشہ نے فرمایا قرآن کریم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے.یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں نا انصافی پر مجبور نہ کرے.یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے کہ بلا وجہ کسی کا خون نہ بہاؤ.یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے مخلوق کے حقوق ادا کرو.یہ قرآن کریم ہی ہے جو کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں جو بلا تخصیص مذہب و ملت ہر ایک کے لئے رحمت ہیں.رحمانیت اس بات کا ہی تقاضا کرتی ہے کہ وہ بلا تخصیص ہو.غرض کہ جیسے جیسے قرآن کریم کو پڑھتے جائیں اس میں ہر قسم کی رہنمائی اور ہدایت ملتی چلی جاتی ہے.پس قرآن کریم تو ہر اس شخص کے اعتراض کو رڈ کرتا ہے جو آ جکل کے مسلمانوں کے غلط عمل دیکھ کر غیر مسلم یا معترضین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر کرتے ہیں کہ یہ زندگی ہے؟ تم کہتے ہو کہ رسول زندگی دینے والا ہے لیکن کیا یہ زندگی ہے جو دینے کے لئے تمہارا رسول اور تمہارا دین آیا ہے؟ انبیاء تو
خطبات مسرور جلد 12 495 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 اگست 2014ء زندگیاں دیتے ہیں لیکن مسلمانوں کے تو عمل بھی مردہ ہیں اور عملاً بھی انسانی زندگی کے خاتمے میں یہ پڑے ہوئے ہیں.معصوموں بیواؤں کے قتل ہورہے ہیں.مجھ سے اگر کوئی پوچھے ، کئی دفعہ لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں.احمدیوں سے بھی پوچھتے ہیں تو میں یہی کہا کرتا ہوں کہ تمہارے اس اعتراض کا جواب تو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول چودہ سو سال پہلے اسلام کے ابتدا میں ہی قرآن کریم میں سورۃ جمعہ کی ان آیات میں دے چکے ہیں کہ هُوَ الَّذِي بَعَثَ في الأمين رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ.وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِيْنٍ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الحَكِيمُ (الجمعة: 4-3) کہ وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا.وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی اسے مبعوث کیا ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے.وہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے.پس یہ جہالت اور گمراہی جو اس وقت کے مسلمانوں کے عمل سے ظاہر ہو رہی ہے وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی اور اس کے دُور کرنے کے لئے اور اصل زندگی بخش پیغام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا اور اب یہ زندگی بخش پیغام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اس کو پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آکر جماعت احمد یہ مسلمہ یہ پیغام پہنچا رہی ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ یہ پہنچائے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان حالات کے بارے میں ، ان لوگوں کے بارے میں، ان علماء کے بارے میں جو آجکل یہ حرکتیں کر رہے ہیں واضح فرما دیا کہ یہ لوگ آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں جو علماء بنے پھرتے ہیں.فتنوں کی اور فسادوں کی یہ لوگ آماجگاہ بن جائیں گے (الجامع لشعب الايمان للبيهقى جلد سوم صفحه 317 فصل قال وينبغى لطالب العلم...باب نشر العلم والايمنعه اهله...حدیث نمبر 1763) اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا نزول ہوگا جو زندگی بخشے گا.پس ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ میں زندگی بخشنے آیا ہوں اور آپ کے ماننے والوں
خطبات مسرور جلد 12 496 خطبه جمعه فرموده مورخه 15 اگست 2014ء نے یہ زندگی پائی.پس یہ اعتراض کہ کیا یہ رسول ہے جو زندگی دینے والا ہے؟ یہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ آپ نے اور اللہ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ یہ حالات ہوں گے.یہ پیغام تو زندگی بخش ہے اور رہے گا.یہ رسول تو زندگی بخش ہے اور ہمیشہ تا قیامت رہے گا لیکن اس پر عمل کرنے والے اس کی پیروی کرنے والے نہیں ہوں گے اور ایسے حالات میں پھر اللہ تعالیٰ آپ کی کامل اتباع اور پیروی میں مسیح موعود کو بھیجے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ( الجمعة : 4 ) اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دو ۲ ہی گروہ ہیں.اول صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبوی پا یا اور معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے ان میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک روح رہ گئے.دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے.کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا.اور آیت آخَرِينَ مِنْهُمْ میں جو اس گروہ کو منہم کی دولت سے یعنی صحابہ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے.یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات دیکھے اور پیشنگوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے اور درمیانی زمانہ کو اس نعمت سے کامل طور پر حصہ نہیں ہو گا.چنانچہ آج کل ایسا ہی ہوا کہ تیرہ سو برس بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا دروازہ کھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ؟ 66 پھر آپ فرماتے ہیں: طاعون کا پھیلنا اور حج سے روکے جانا بھی سب نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا.ملک میں ریل کا تیار ہونا اونٹوں کا بیکار ہونا یہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے جو اس زمانہ میں اس طرح دیکھے گئے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے معجزات کو دیکھا تھا.اسی وجہ سے اللہ جل شانہ نے اس آخری گروہ کو منہم کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہؓ کے رنگ میں ہی ہیں.سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوۃ کا اور کس نے پایا.اس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے.وہ
497 خطبات مسرور جلد 12 خطبه جمعه فرموده مورخه 15 اگست 2014ء معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا.وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا.وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دل آزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا.وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مردوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی.بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے“.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 306-305) پس آپ کا یہ دعویٰ کہ میں دنیا کو زندگی دینے آیا ہوں بڑی شان سے پورا ہوا اور ہو رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے بھی دنیا کو زندگی بخش رہا ہے.اب خدا تعالیٰ کے کلام کو سمجھنا آپ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے.اس کے بغیر ناممکن ہے.قرآن کریم کے معارف و حقائق بتا نا آپ کا ہی کام ہے.لوگوں کو روحانی زندگی اب آپ کے ذریعہ سے ہی مل رہی ہے اور مل سکتی ہے.چودہ سو سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور محبت میں فنا ہو کر کامل عملی نمونہ آپ نے ہی پیش فرمایا.پس یہ عملی اور اخلاقی زندگی بخشنے کا فیضان آج بھی جاری ہے.لیکن اسلام پر اعتراض کرنے والے اس طرف نظر نہیں کرتے.اگر مسلمانوں کے غلط عمل دیکھتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ پراپیگنڈا کرتے ہیں.اعتراضوں کی بھر مار شروع ہو جاتی ہے.گزشتہ دنوں مجھے کسی نے لکھا کہ ایک پڑھے لکھے عیسائی سے اسلام کی خوبصورت تعلیم پر بات ہو رہی تھی اور خلافت کے جاری نظام اور جماعت دنیا میں کیا خدمات انجام دے رہی ہے اس بارے میں احمدی نے بتایا تو وہ کہنے لگا کہ میڈیا کو کیوں نہیں بتاتے.یہ دنیا کو کیوں نہیں پتا لگتا.اخباروں میں یہ کیوں نہیں آتا.اس دوست نے کہا کہ ہم تو بتاتے ہیں.ہماری تبلیغ بھی ہے، لیف لٹس کی تقسیم بھی ہے.اب تو تقسیم لاکھوں کروڑوں میں چلی گئی ہے.بسوں میں اشتہار ہیں اور ذریعے ہیں اشتہار کے مختلف پروگرام ہیں.خبریں بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میڈیا اس کو اتنی کوریج نہیں دیتا جتنی وہ منفی خبروں کو دیتا ہے.تو عیسائی دوست خود ہی کہنے لگے کہ ہر چیز ہی کمرشلائز ہو چکی ہے میڈیا کو بھی جس طرف رجحان زیادہ ہو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے چٹ پٹی خبروں کی ضرورت ہے تا کہ لوگ ان کو سنیں اور دیکھیں اور مسلمانوں کے خلاف کیونکہ آجکل رجحان ہے اس لئے ان کے خلاف خبریں لگانے میں یہ تیزی دکھاتے
خطبات مسرور جلد 12 498 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 اگست 2014ء ہیں.خود ہی کہنے لگا کہ میڈیا والے انصاف سے کام نہیں لیتے اور حقائق سے گریز کرتے ہیں.بہر حال یہ ان کا کام ہے لیکن بعض اب ایسے بھی ہیں جو کچھ نہ کچھ حق میں کہنے یا بولنے لگ گئے ہیں.گزشتہ دنوں میں نے ذکر کیا تھا کہ بی بی سی کے نمائندے نے مجھ سے انٹرو یولیا تھا.کافی لمبا تھا.اس کے کچھ حصے کو انہوں نے اپنی ایک ڈاکو منٹری میں بھی سنایا ہے جو کل ایک دفعہ دکھایا جا چکا ہے.بی بی سی ایشیا پر اور جو بی بی سی ورلڈ ریڈیو سروس ہے اس میں شاید ہفتے سے دکھا ئیں گے یا ہفتے سے شروع کریں گے یا صرف ہفتے والے دن انہوں نے دکھانا ہے.بہر حال اس دن انہوں نے کہا کہ ہم یہ سنائیں گے.( دکھا ئیں گے نہیں سنائیں گے کیونکہ ریڈیو سروس ہے.) اس میں میری یہ بات بھی انہوں نے شامل کی ہے کہ جماعت جو خو بصورت تعلیم دیتی ہے وہ اسلام کی حقیقی تعلیم ہے اور اسی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہر سال جماعت میں شامل ہوتے ہیں.پوری بات تو نہیں لیکن بہر حال انہوں نے کافی حد تک بتائی، کچھ کچھ الفاظ بھی بیچ میں سنائے ہیں کہ جو لوگ شامل ہوتے ہیں وہ اس لئے شامل ہوتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم ان کو پتالگتی ہے اور اسلام کے اس زندگی بخش پیغام کوسن کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.پس اسلام کی تعلیم میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ ایک کامل اور مکمل نمونہ اور تعلیم ہے.اگر خرابی ہے تو ان علماء اور لوگوں میں جو ان کی غلط رہنمائی کرتے ہیں اور جو غلط طریقے پر ان علماء کے پیچھے چلتے ہیں.اگر یہ بات نہ ہو کہ انبیاء زندگی بخشتے ہیں جس کا سب نبیوں نے دعویٰ کیا تو خدا تعالیٰ کی ذات پر بھی اعتماد اٹھ جائے.وہ مردہ مذاہب جو صرف دعوی کرتے ہیں اور اب زندگی بخشنے والی بات ان میں کوئی نہیں رہی.اس لئے لوگ ان مذاہب کو چھوڑ رہے ہیں.ان مذاہب کے ساتھ رسمی تعلق تو ہے لیکن ایمان کی حالت نہیں.مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے اس زمانے میں بھی اپنا رسول بھیج کر اپنی تعلیم کو تازہ کر کے ہمارے سامنے پیش فرمایا تا کہ ہم روحانی زندگی کو حاصل کرتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ کے مامور اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ لے کر آتے ہیں کہ جو قوم ان کے ساتھ شامل ہوگی حقیقی پیروی کرے گی وہ اسے کامیابی تک پہنچائیں گے.انہیں روحانی زندگی عطا ہوگی اور باقی لوگ نا کام اور ذلیل ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ آپ غالب آئیں گے.آپ کے ماننے والے ترقی کرتے چلے جائیں گے انشاء اللہ.خلافت کا نظام آپ کے بعد آپ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے چلتا چلا جائے گا.کوئی اور نظام اگر اس کے مقابل پر اٹھے گا تو
خطبات مسرور جلد 12 499 خطبه جمعه فرموده مورخه 15 اگست 2014ء ناکام و نامراد ہو گا.خلافت وہ انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے.چھین کر نہیں لیا جاتا.ظلم کر کے نہیں حاصل کیا جاتا.معصوموں کو زندہ درگور کر کے نہیں حاصل کیا جاتا.ظالمانہ طریقے پر قتل کر کے اس نظام پر قبضہ نہیں کیا جاتا.یہ تو زندگیاں دینے کا ذریعہ ہے نہ کہ زندگیاں لینے کا.جو خدا تعالیٰ کی تائید اور مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے.پس کوئی اور نظام بھی جو چھین کر لیا جائے وہ خدا تعالیٰ کا تائید یافتہ نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا ہے.یہاں ایک چیز یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کو ماننے والے، زندگی حاصل کرنے والے اور زندگیاں دینے والوں کو قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور مامور کے ساتھ شامل ہونے والے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی قربانیاں ضائع نہیں ہوں گی.ان کو قربانیوں کی اہمیت کا پتا ہوتا ہے.اس لئے وہ بعض دفعہ اپنی اس ظاہری زندگی کو روحانی زندگی کے لئے قربان کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں بھی ایسے تھے جنہوں نے اپنے خاندان، رشتے دار، مال، کاروبار حتی کہ جان تک کی قربانی دی.ماننے والوں کو جذبات کی ، رشتے داروں کی ، مالوں کی تو اکثر قربانی دینی پڑتی ہے لیکن جان کی قربانیاں دینے والے بھی ہوتے ہیں.تو ان میں ایسے تھے جنہوں نے یہ سب کچھ قربان کیا لیکن اپنی روحانی زندگی پر موت نہیں آنے دی.اور آج بھی سینکڑوں ہزاروں ایسے ہیں جو قربانیاں دیتے ہیں.جذبات کی قربانی ہے، مال کی قربانی ہے، رشتوں کی قربانی ہے.یہ سب قربانیاں وہ خوشی سے دے رہے ہیں اور جان کی قربانیاں بھی بعض جگہوں پہ دے رہے ہیں.بعض ایسے ہیں جو احمدیت قبول کرتے ہیں، اسلام کے حقیقی زندگی بخش پیغام کو قبول کرتے ہیں تو ساتھ ہی ان کے لئے مشکلات اور مصائب کا دور شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے.روحانی زندگی کو ظاہری زندگی پر ترجیح دیتے ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ لوگ مختلف تکالیف میں سے گزرتے ہیں، بہت تنگ کیا جاتا ہے لیکن پرواہ نہیں کرتے.ایسی مشکلات سے گزرنے والوں کی اب تو جماعت کی تاریخ میں بے شمار مثالیں ہیں.چند ایک کی مثالیں میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں جنہوں نے اگر چہ جان کی قربانی تو نہیں دی لیکن احمدیت قبول کی تو جذبات کی قربانی ، معاشرے کی مشکلات اور مصائب کا ان کو سامنا کرنا پڑا.معاشرے میں احمدیت قبول کرنے کے ساتھ ہی ان پر دباؤ پڑنے شروع ہو گئے.ایک صاحب حسام الدین صاحب تھے.عرب ہیں.انہوں نے ہمارے عکرمہ صاحب کے
خطبات مسرور جلد 12 500 خطبه جمعه فرموده مورخه 15 اگست 2014ء 66 لئے ایک دفعہ ایک پیغام چھوڑا کہ کچھ عرصہ قبل میں نے بیعت کی تھی اور اب بڑے مشکل حالات کا سامنا ہے.کہتے ہیں کہ میں نے ان کو تسلی دلائی.حالات پوچھے کیا وجہ ہوگئی.تو انہوں نے کہا کہ میں اور میری بیوی تبلیغی جماعت سے منسلک تھے اور تبلیغی دوروں پر جایا کرتے تھے.پھر جب ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام پر میں ایمان لے آیا.مجھے سچا لگا، زندگی بخش لگا.میری بیوی نے بڑی شدید مخالفت کی اور میرے گھر والوں کو میرے خلاف بھڑکایا.تو کہتے ہیں مولویوں کو بھی میرے خلاف کیا.مولویوں کے کہنے پر میری بیوی الازہر سے میری تکفیر کا فتویٰ بھی لے آئی اور ہماری علیحدگی ہوگئی.نکاح ختم ہو گیا جو مولویوں کا طریق ہے.اس کے بعد کہتے ہیں گھر والوں نے مجھ پر بہت پریشر ڈالا کہ جماعت کو چھوڑ دوں لیکن میں نے کسی کی پرواہ نہیں کی.اس بیوی سے میرے چار بچے بھی ہیں لیکن سب کچھ چھوڑنے کے باوجود میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان پر قائم ہوں.بیعت کے بعد مجھے اجنبیت کی حقیقت معلوم ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھ آیا کہ اسلام اجنبی ہونے کی حالت میں شروع ہوا اور آخر کار پھر اجنبی ہو جائے گا.پس اجنبیوں کو مبارک ہو.“ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خود مجھے پناہ دی اور میرا کفیل ہوا ہے.اللہ کرے کہ میں کبھی نہ پھسلوں.میں پھسلنے والا نہیں اور ثابت قدم رہوں گا انشاء اللہ.اسی طرح مختلف علاقے ہیں.اب یہ ایسٹ افریقہ ہے جہاں تنزانیہ سے ہمارے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں شیا نگاریجن کے بعض علاقوں میں ایک تبلیغی پروگرام کا موقع ملا.کئی جگہ سے نئی بیعتیں آئیں.ان میں ایک گاؤں سونگا میلے ہے.وہاں غیر احمدیوں کی مسجد بھی ہے.اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں میں سے تقریباً نوے فیصد مسلمانوں نے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے بعد پھر تنزانیہ میں غیر احمدیوں کی مسلمانوں کی تنظیم بکواٹا (Bakwata) ہے جو کہ مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت سمجھی جاتی ہے، اس نے شدید مخالفت شروع کر دی.پہلے انہوں نے احمدیوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کیں اور کیونکہ انہوں نے یہاں فوری طور پر معلم بھی بھیج دیا تھا تا کہ تربیت شروع ہو جائے اور اس نے تربیت شروع کر دی تھی.اس لئے ان کے ایمان میں مضبوطی پیدا ہوتی رہی.اسلام کی حقیقی تعلیم کا علم ان کو ہو گیا.انہوں نے کسی کے ڈرانے دھمکانے کی کوئی پرواہ نہیں کی.آخر انہوں نے اپنی مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کر دیا.انہوں نے نماز پڑھنے کے لئے ایک متبادل جگہ بنالی اور انہوں نے مسجد کی تعمیر کا فیصلہ کیا تو پھر انہوں نے نیا رخ اختیار کیا اور جو ضلعی انتظامیہ تھی اور جو پولیس تھی اس کا افسر جو کہ خود سنی
خطبات مسرور جلد 12 501 خطبه جمعه فرموده مورخه 15 اگست 2014ء مسلمان تھا اس نے بھی بکواٹا کی ضلعی تنظیم کے ساتھ مل کے گاؤں کے نواحمد یوں کو تنگ کرنا شروع کیا.معلم صاحب سمیت دو آدمیوں کو گرفتار کر لیا.پھر کچھ وقفے کے بعد چھوڑ بھی دیا اور پھر دوبارہ چند دنوں کے بعد معلم کو بھی اور ہمارے تین چار احمدیوں کو بھی گرفتار کر لیا اور یہی اصرار تھا کہ مقدمہ کریں گے.مختلف قسم کے الزامات احمدیوں پر لگاتے رہے کہ احمدی ہماری مسجد کو آگ لگانے آئے ہیں.اس لئے اپنی الگ مسجد بنا رہے ہیں.انتشار پیدا کر رہے ہیں.ہمارا امن و سکون برباد کر دیا ہے.جو باتیں یہ خود کرتے ہیں وہ سب الزامات احمدیوں پر لگاتے چلے گئے.لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور یہ سب لوگ اپنے ایمان پر قائم رہے اور انہوں نے کسی قسم کی پرواہ نہیں کی.یہ بڑی مشکلات میں سے گزرے ہیں.اب ایک اور تیسری مثال دیتا ہوں.پہلے ایسٹ افریقہ تھا.یہ ویسٹ افریقہ ہے.بورکینا فاسو.فرنچ علاقہ ہے.یہاں بھی گان زورگو (Ganzourgou) ایک جگہ ہے.وہاں پچھلے سال کی بات ہے کہ پانچ سو بیعتیں ہوئیں جس میں گاؤں کا چیف اور امام بھی بیعت میں شامل ہو گئے.آخر ان کے جو دوسرے گاؤں کے علاقے کے قریبی رشتے دار تھے انہوں نے مخالفت شروع کر دی.سوشل بائیکاٹ ہو گیا.سلام کرنا، میل جول، لین دین یہ سب ختم کر دیا.وہاں اس علاقے میں، قصبے میں یا گاؤں میں ایک چھوٹی سی جگہ تھی ، جہاں نماز پڑھا کرتے تھے وہاں نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی اور مخالفت بڑھتی چلی گئی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے ، اب یہ جو دور دراز علاقے میں رہنے والے لوگ ہیں اور بظاہر ان پڑھ کہلاتے ہیں ، انہوں نے کسی مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور اپنے ایمان کو سلامت رکھا اور قائم رہے.اللہ تعالیٰ نے اب حالات بہتر کر دیئے ہیں.تو ان مخالفتوں میں سے ہر ایک کو گزرنا پڑتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.میں نے پرانے لوگوں کی مثالیں نہیں دی ہیں.بے شمار ایسی مثالیں ہیں.سیہ تازہ مثالیں اس لئے دی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تیزی سے اپنے فضل سے دلوں میں ایمان بھرتا ہے اور دلوں میں ایمان بھر رہا ہے اور پھر اس کے بعد یہ ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.دنیا کے مختلف ممالک میں ایسے لوگ ہیں جو احمدیت اور حقیقی اسلام کے پیغام کو سمجھ کر اپنی روحانی زندگی کا سامان کر رہے ہیں.یہ کام سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد کے ہو ہی نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ اپنے ماموروں کے شامل حال ہوتی ہے تو یہ کام ہوتے ہیں.مامور کی نہ اپنی ہمت سے ہوسکتا ہے.نہ ہی ہمارے مبلغین یا بعد کا نظام جو ہے وہ یہ کر سکتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ کی تائیدات شامل حال نہ ہوں.اور یہ تائیدات ہی ہیں جو قربانی
خطبات مسرور جلد 12 502 خطبه جمعه فرموده مورخہ 15 اگست 2014ء کے لئے تیار کرتی ہیں اور استقامت عطا کرتی ہیں.کئی پاکستانی بھی ہیں جو احمدیت قبول کرتے ہیں.بعض دفعہ ان سے مختلف جگہوں پر مختلف ملکوں میں ملاقات بھی ہوئی تو جب بھی میں نے ان سے کہا کہ بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، سختیاں جھیلنی پڑیں گئی ؟ پاکستان نہیں جاسکتے یا جاؤ گے، جیسا کہ بعض جاتے بھی ہیں تو مشکلات ہوں گی.تو انہوں نے کہا ہم نے بڑی سوچ سمجھ کے قبول کیا ہے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہیں گے.یہ تو دنیا کا بھی طریق ہے اور اسی اصل پر دنیا چلتی ہے کہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے محنت بھی کرنی پڑتی ہے، قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور بڑے مقاصد کے حصول کے لئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں.پس دائمی روحانی زندگی کے لئے قربانیاں تو ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ہر قربانی کے لئے تیار رہنے والوں کو بغیر قربانی کے ہی اس قدر نواز دیتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے.اگر انسان جو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا اپنی استعداد کے مطابق معمولی نمونہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنا معمولی نمونہ دکھا کر دوسرے انسانوں کونو از سکتا ہے تو خدا تعالیٰ جو بڑا دیا لو ہے، جو نیتوں کے بھی بیشمار پھل لگاتا ہے اس کے نواز نے کی تو انتہا ہی نہیں ہے.انسان کی قربانی اور اس پر انعام کی ایک دنیاوی مثال ہم پیش کرتے ہیں.بہت سارے لوگوں نے سنی ہوگی.کہاوت ہے کہ ایران کا ایک بادشاہ تھا.وہ اپنے وزیر کے ساتھ ایک کسان کے پاس سے گزرا جو درخت لگا رہا تھا.عمر کے لحاظ سے وہ ایسے حصے میں تھا جہاں ان درختوں کے پھلوں سے اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا.تو بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تمہیں اس درخت لگانے سے کیا فائدہ ہوگا.اس نے جواب دیا کہ پہلوں نے جو درخت لگائے تھے، جو قربانیاں کی تھیں ان کو ہم کھا رہے ہیں اور جو ہم لگائیں گے ان کو آئندہ نسلیں کھائیں گی.بادشاہ کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی اچھی بات لگتی تو خوش ہو کر وہ زہ کہتا تھا.جس کا مطلب وزیر کے لئے یہ اشارہ ہوتا تھا کہ اس کو انعام دے دو.کسان کی یہ بات سن کر بادشاہ خوش ہوا اور اس نے زہ کہا تو وزیر نے اس کو اشرفیوں کی ایک تھیلی دے دی.یہ تھیلی لے کر کسان نے کہا کہ اس درخت نے تو لگاتے لگاتے ہی پھل دے دیا.اس کا تو ابھی فائدہ شروع ہو گیا.یہ بات پھر بادشاہ کو اچھی لگی.اس نے یہ سن کر پھر زہ کہہ دیا.وزیر نے پھر ایک تھیلی دے دی.اس پر اس نے کہا کہ درخت تو کئی سالوں میں تیار ہوتا ہے اور پھر ایک دفعہ پھل دیتا ہے.میرے درخت نے تو لگاتے لگاتے دو پھل دے دیئے.اس پر بادشاہ نے پھر زہ کہا اور کہا کہ اب چلو یہاں سے نہیں تو بوڑھا ہمیں لوٹ لے
خطبات مسرور جلد 12 503 خطبه جمعه فرموده مورخه 15 اگست 2014ء گا.تو یہ تو دنیاوی بادشاہوں کا حال ہے جہاں انعاموں سے نوازتے ہیں وہاں خزانے خالی ہونے کا بھی ان کو ڈر رہتا ہے.لیکن ہمارا خدا تو وہ انعام دیتا ہے اور دیتا چلا جاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتے اور روحانی زندگی دینے کے بعد پھر دائمی زندگی دیتا ہے اور اس اخروی زندگی میں بھی انعام دیتا چلا جاتا ہے اور بڑھاتا چلا جاتا ہے.لیکن اس کے حصول کے لئے جیسا کہ یہ بوڑھا کسان قربانی کر رہا تھا قربانیاں کرنی پڑتی ہیں.ایسی قربانیاں جن کا فوری فائدہ نظر نہیں آتا مگر اس کے پیچھے بہت عظیم الشان فوائد ہوتے ہیں.انبیاء کے متبعین بھی اسی اصول کے تحت قربانیاں کرتے ہیں اور وہ اور ان کی جماعت دنیا میں پھر کامیاب ہوتے جاتے ہیں.اور باقیوں کو خدا تعالیٰ ذلیل ورسوا کر دیتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں پر کیا کیا ظلم نہیں کئے گئے.تقریباً تین صدیوں تک ان پر سخت مظالم ڈھائے گئے مگر وہ صبر سے مظالم برداشت کرتے رہے اور قربانی کرتے چلے گئے حتی کہ تیسری صدی میں جب روما کے بادشاہ نے عیسائیت قبول کی تو پھر ان کو آزادی حاصل ہوئی.انہوں نے اس مشکلات کے دور میں غاروں میں چھپ کر بھی گزارا کیا.پس جس طرح عیسائیوں نے پہاڑوں کے غاروں میں چھپ کر اپنے ایمانوں کو سلامت رکھا.اپنی روحانی زندگی کو بچانے کے لئے چٹانوں کے پیچھے چلے گئے.اس لئے کہ انہیں یقین تھا کہ ایک دن ان کو آزادی ملنی ہے.اسی طرح آج مسیح محمدی کے غلاموں کو ان سے زیادہ یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمارا یہ غلبہ ہونا ہے.پس ہم نے بھی جہاں جہاں مشکلات کے دور ہیں اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنی ہے.جو زندگی کا پانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں پلا یا اس سے فیض پاتے چلے جانا ہے.عیسائیوں نے تو چٹانوں کے پیچھے چھپ کر اپنے ایمانوں کی حفاظت کی اور قربانیاں دیں.ہم نے اپنے ایمانوں کو پتھر کی چٹان کی طرح مضبوط کرنا ہے اور یہ ثابت کر کے دکھانا ہے تا کہ وہ انعام اور وہ فیض ہمیشہ جاری رہے.کچے ایمان تو پہلے بھی تھے اور بہت سوں میں ہیں.ہم نے اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ مامور کا کام نئی زندگی پیدا کرنا ہوتا ہے اور ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے اور وہ حالت بہر حال ہم نے انشاء اللہ تعالیٰ اپنے اندر پیدا کرنی ہے اور اس حالت کا اظہار اس وقت ہوسکتا ہے جب ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہوں کہ غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا مقدر ہے اور بحیثیت فرد جماعت اس بات کو ہر ایک سمجھے کہ اس غلبے میں میں نے بھی حصہ ڈالنا ہے.دنیا کی نجات میرے ذریعہ سے ہونی ہے اور اس کے لئے میں نے اپنا کردار ادا کرنا ہے.تمام مشکلات کے باوجود میں نے اپنی زندگی کے بھی سامان کرنے ہیں اور دنیا کی زندگی کے بھی سامان کرنے ہیں کیونکہ اس
خطبات مسرور جلد 12 504 خطبه جمعه فرموده مورخہ 15 اگست 2014ء کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں جو دنیا کو زندگی دے سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی فتوحات اور غلبے کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: ے تمام لوگوسن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنا یا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہی ہے ) ” اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرادر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی.اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.لحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (يس : 31 ) پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے.مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے رو برو آسمان سے اترے (جیسا کہ غیر احمدیوں کا نظریہ ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں ناں کہ آسمان سے اترنا ہے ) ” اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں اس سے کون ٹھٹھا کرے گا.پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اتر نامحض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا دمرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جا ئیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بو یا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور
خطبات مسرور جلد 12 505 خطبه جمعه فرموده مورخه 15 اگست 2014ء پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.انشاء اللہ تذكرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحه 67-66) آج ہی میں ڈاک میں دیکھ رہا تھا کہ ایک جگہ ہمارے لڑکے لیف لٹ تقسیم کرنے گئے.غالباً جرمنی کی یا کسی اور ملک کی بات ہے.ذہن میں مستحضر نہیں.انہی یورپی ملکوں میں سے تھا.بہر حال ایک جگہ لیف لٹ تقسیم کر رہے تھے کہ عیسی مسیح آ گیا.تو وہاں دو آدمی اپنے گھر کے باہر بیٹھے ہوئے تھے وہ کہنے لگے ہم ابھی اسی بات پر ڈسکس (Discuss) کر رہے تھے کہ اگر عیسی نے آنا تھا تو آسمان سے اب تک کیوں نہیں اترا.اور اگر نہیں آنا تو پھر کب آئے گا؟ اور اگر زمین سے آنا ہے تو کون آئے گا؟ اور اسی ڈسکشن کے دوران ہی تم یہ لیف لٹ لے آئے کہ عیسی علیہ السلام آچکے ہیں.مسیح موعود علیہ السلام آچکے ہیں.اور تمہارا یہ پروگرام ہے، نمائش بھی ہے.ہمیں یہ دعوت نامہ مل گیا ہم ضرور آئیں گے.تو اس طرح اللہ تعالیٰ نئے نئے راستے کھول رہا ہے.لوگوں کے دلوں میں خود ڈال رہا ہے کہ وہ اس بات کو سوچیں.اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اس پھلنے پھولنے والے درخت کا حصہ بنے رہیں اور ہمارے ایمان مضبوط چٹان کی طرح قائم رہنے والے ہوں اور ہم اپنی ذمہ داریاں ہمیشہ ادا کرتے چلے جانے والے رہیں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 29 اگست 2014 ء تا 11 ستمبر 2014 ، جلد 21 شماره 35 - 36 صفحہ 13 تا 16 )
خطبات مسرور جلد 12 506 34 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 اگست 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 22 اگست 2014ء بمطابق 22 ظہور 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ اگلے جمعہ سے شروع ہو رہا ہے.جلسہ گاہ یا حدیقہ المہدی میں وہ علاقہ جہاں سارے جلسہ کے انتظامات ہوتے ہیں.وہاں اب تک کافی حد تک تیاری کے کام مکمل ہو چکے ہیں.مہمانوں کی بھی آمد شروع ہو چکی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب مہمانوں کی جو جلسے کی برکات کے حصول کے لئے سفر کر رہے ہیں ، سفر میں ہیں یا آچکے ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں ، حفاظت فرمائے اور جو سفر کر رہے ہیں ان کے سفروں کو بھی آسان کرے.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور خیریت سے لائے.دنیا کے حالات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں.سفروں کی اور مسافروں کی بھی فکر رہتی ہے.بہر حال ہماری تو یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو، نہ صرف احمدیوں کو بلکہ دنیا کے ہر فرد کو اپنی حفظ وامان میں رکھے.اور وہ اس امن اور سکون کو پاسکیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے.جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رضا کارانہ خدمت کے جذبے کے تحت ہمارے جلسے کے انتظامات سرانجام پاتے ہیں.اور اس حوالے سے جلسے سے ایک جمعہ پہلے میں کارکنان کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ بھی دلاتا ہوں.اس وقت اسی بارے میں چند باتیں میں کارکنان کے حوالے سے کارکنان کو کہوں گا.بلکہ مہمان نوازی سے متعلق جو باتیں ہیں ان کا تعلق صرف کارکنان یا جلسے کے رضا کاروں سے ہی نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص سے ہے جس کے گھر میں جلسے کے مہمان آرہے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہمیں کہنا چاہئے
خطبات مسرور جلد 12 507 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 اگست 2014ء کہ مہمان کا احترام ، اس کی مہمان نوازی ، اس کا عزت و احترام ہر مومن کو عام حالات میں بھی کرنا چاہئے اور یہ اس پر فرض ہے.بہر حال اس وقت میں کیونکہ جلسے کے مہمانوں کے حوالے سے توجہ دلانی چاہتا ہوں اس لئے ان باتوں کا محور جلسہ سالانہ ہی رہے گا.جلسہ پر آنے والے مہمان جیسا کہ میں نے کہا یہاں آتے ہیں اور جلسے کے لئے آ رہے ہیں ، خالص دینی غرض سے آتے ہیں اور جلسے میں شامل ہونے والوں کی یہی غرض ہونی چاہئے.اور جب یہ غرض ہو تو مہمان کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے میں شامل ہونے کی طرف خاص توجہ دلائی ہے اور اس جلسے کو خالص دینی اغراض کا حامل ٹھہرایا ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا حامل ٹھہرایا ہے.تو اس سے کس قدر اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے.آنے والے کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں آتے.کسی دنیاوی رونق میں حصہ لینے کے لئے نہیں آتے.اگر کوئی اس غرض کے لئے آتا ہے تو اپنے ثواب کو ضائع کرتا ہے.پس یہاں آنے والے مہمان جن کی خدمت کے لئے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کے لئے مخلصین اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں یہ عام مہمان نہیں ہیں بلکہ زمانے کے امام کے قائم کردہ نظام پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے والے مہمان ہیں.پھر یو کے کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے آنے والے مہمان تو خاص طور پر وہ مہمان ہیں جو خاص تردد سے ، فکر سے اور بعض دفعہ بے انتہا خرچ کر کے، اپنی بساط سے زیادہ خرچ کر کے یہاں آتے ہیں اور بڑی دور دور سے آتے ہیں.اس لئے کہ یہ سفر ہر لحاظ سے برکات کا موجب بن جائے.خلافت سے محبت ان کو یہ احساس دلا رہی ہوتی ہے کہ یہ سفر خلیفہ وقت سے ملاقات کا بھی باعث بن جائے گا.دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ آتے ہیں.نو مبائعین بھی ہیں ، پرانے احمدی بھی ہیں.ان آنے والوں کی آنکھوں میں جب میں خلافت سے محبت دیکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے شکر سے جذبات بڑھتے جاتے ہیں کہ کس طرح وہ مومنین کے دل میں خلافت سے محبت پیدا کرتا ہے.یہ کسی انسان کی کوشش سے نہیں ہو سکتا.اور یہ صرف اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج کر آپ کے بعد اس نظام کو جاری فرمایا اور اس لئے ہے تا کہ اسلام کے صحیح اور حقیقی تعلیم سے دنیا کو روشناس کرایا جائے.اس لئے کہ اسلام کے پیار اور محبت کے پیغام کو دنیا کو بتایا جائے.اس لئے کہ دنیا کو یہ بتا یا جائے کہ حقیقی اسلام میں ہی اب دنیا کا امن ہے.پس یہ باتیں ہیں جن کو دیکھنے کے لئے ، سننے کے لئے،
خطبات مسرور جلد 12 508 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 اگست 2014ء سیکھنے کے لئے لوگ یہاں آتے ہیں اور یہی وجہ ہے جو خلافت سے محبت ہے.اب تو جرمنی میں بھی کئی ملکوں کی نمائندگی جلسے پر ہوتی ہے اور اچھی خاصی تعداد میں ہوتی ہے اس لئے کہ خلیفہ وقت سے ملاقات ہو جائے.برطانیہ کے جلسے پر تو خاص طور پر بہت لوگ اس لئے آتے ہیں کہ جلسہ کے روحانی ماحول سے بھی فائدہ اٹھا ئیں گے.علمی تربیتی اور دینی پروگراموں میں بھی شامل ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے بھی وارث بنیں گے اور خلیفہ وقت سے ملاقات بھی ہو جائے گی.غرض کہ یہاں آنے والوں کا جذبہ ایسا ہے جو کسی دوسرے دنیا وی رشتے میں نہیں ہے اور اسی بات کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی شرائط بیعت میں توجہ دلائی ہے.پس یہاں آنے والے مہمان یا مہمانوں کا مقام ایک خاص مقام ہے اور ان کی اہمیت ہے.اور اسی وجہ سے ان مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کی بھی اہمیت بڑھ جاتی ہے.اور اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کو سمجھتے ہوئے ہی افراد جماعت رضا کارانہ طور پر مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.ایک دنیاوی لحاظ سے اچھے افسر، کو بڑے کمانے والے کو دیگوں پر کھانا پکانے ، روٹیاں پکانے ، اور دوسرے مختلف کاموں پر لگا دیا جاتا ہے حتی کہ ٹائلٹس کی صفائی پر بھی کھڑا کر دیں تو وہ خوشی سے یہ کام کرتا ہے.اس لئے کہ ان مہمانوں کی خدمت سے وہ بے انتہا دعاؤں کا وارث بن رہا ہوتا ہے اور پھر یہی کارکن غیر از جماعت مہمانوں کے لئے تبلیغ کا بھی باعث بن رہے ہوتے ہیں.ایک بچہ بھی جب جلسہ گاہ میں پھر کر پانی پلا رہا ہوتا ہے تو وہ بھی ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے.دنیا کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو دنیا میں فساد پیدا کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ دنیا کو مادی پانی بھی پلاتے ہیں، روحانی پانی بھی پلاتے ہیں.پس مہمان کی اہمیت میزبان کی اہمیت کو بھی بڑھا رہی ہوتی ہے.اور یہ چیز دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آ سکتی.پس خوش قسمت ہیں وہ کارکن اور رضا کار جو ایسے مہمانوں کی خدمت کو انجام دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن رہے ہوتے ہیں.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے مہمانوں اور مہمان نوازی کی بہت اہمیت بیان فرمائی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام اور خوبیوں کا جب ذکر فرمایا تو ان کے مہمان نوازی کے وصف کا خاص طور پر ذکر فرمایا.پس وہ میزبان جو بے نفس ہو کر مہمان نوازی کرتے ہیں اور مہمان کو دیکھتے ہی کسی اور کام کے بجائے مہمان کی خدمت کی فکر کرتے ہوئے ان کے لئے تیاری شروع کر دیتے ہیں.ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مقام ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مہمانوں کی اس خدمت سے اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 12 509 خطبه جمعه فرموده مورخہ 22 اگست 2014ء راضی ہو گا.اللہ تعالیٰ کی رضا ہی ان کے پیش نظر ہوتی ہے.کوئی خواہش ، کوئی مطلب ، کوئی شکر گزاری وصول کرنا ان کا مقصود نہیں ہوتا.پس دنیا میں نہ ایسے مہمانوں کی مثالیں ملتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر سفر کر رہے ہوں اور دنیاوی غرض کوئی نہ ہو اور نہ ہی ایسے میزبانوں کی مثال ملتی ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مہمان نوازی کر رہے ہوں بلکہ اس کے حصول کے لئے مہمانوں کے آنے سے پہلے ہی ان کو سہولیات مہیا کرنے کے لئے کئی کئی دن سے وقار عمل کر کے اس جنگل کو قابل رہائش اور قابل استعمال بنا رہے ہوں.یہ خوبصورت نقشہ ہمیں صرف جماعت احمد یہ میں نظر آتا ہے.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق زمانے کے امام کو ہم نے مانا ہے.اس لئے کہ خلافت کی لڑی میں پروئے گئے ہیں.اس لئے کہ اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.ہر سال کا تجربہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا مر دعورت بچہ جوان بوڑھا ایک خاص جذبے سے خدمت کرتا ہے.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خدمت اس سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ اس جذبے سے ہو گی اور ہو رہی ہے.اور جو وقار عمل کی رپورٹس مجھے مل رہی ہیں ان کے مطابق اس سال تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے نوجوان بھی وقار عمل میں وقف عارضی کر کے شامل ہو رہے ہیں جن کو پہلے یہ تجربہ نہیں تھا.یا پہلے ان کی اس طرف توجہ نہیں کروائی گئی جو اپنے آپ کو جماعت سے منسلک کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں احمدی ہوں.اس کے بارے میں میں تو ہمیشہ یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر ان میں سے کسی کی جماعت کے کام کی طرف عدم توجہ ہے تو اس لئے کہ جولوگ توجہ دلانے کے کام پر مامور ہیں وہ صحیح طور پر اپنا فرض ادا نہیں کرتے.لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی بھی فرد کو جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے ضرورت بتا کر کسی کام کے لئے بلایا جائے اور وہ نہ آئے.پس صحیح رہنمائی کرنا ہمارا فرض ہے اور اس لئے اللہ تعالیٰ کا بھی یاد دہانی کا حکم ہے کہ صحیح رہنمائی ملتی رہے.اور یقینا صحیح رہنمائی اور صحیح رنگ میں رہنمائی اور نصیحت سے طبیعتوں میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے.پھر صرف یہی نہیں کہ کمزوروں یا توجہ نہ دینے والوں کو رہنمائی اور نصیحت کی ضرورت ہے.بہت سے نئے شامل ہونے والے ہیں جن کو نظام کا پوری طرح علم نہیں ہوتا.ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں خدمت کے جذبے کی حقیقت بتائی جائے.گوان نئے شامل ہونے والوں کی اکثریت دوسروں کے نمونے دیکھ کر اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کرتی ہے لیکن پھر بھی توجہ کی ضرورت رہتی ہے.اسی طرح بچے شامل ہو رہے ہیں.ان کو بھی ڈیوٹیاں اور خدمت کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے.پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ نئے نو جوان خدمت کے
خطبات مسرور جلد 12 510 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 اگست 2014ء لئے توجہ دلانے سے آگے آئے ہیں.ان کی صحیح رہنمائی کے لئے اور ان کو مزید فعال بنانے کے لئے بھی کہ مہمانوں کی خدمت کس طرح کی جانی چاہئے.خدمت کی اہمیت بتانے کے لئے نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذكرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاريات : 56) یعنی یاد دلا تارہ کیونکہ یاد دلا نا مومنوں کو نفع بخشتا ہے.اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا.پس اس یاد دہانی کو بھی بلا وجہ کی بات کو دہرانا یا repetition نہیں سمجھنا چاہئے.بہت سے کارکنوں کو اس یاد دہانی سے ہی اپنی اہمیت کا اندازہ اور احساس ہوتا ہے.کوئی توجہ طلب بات پہلے سنی ہونے کے باوجود وہ بھول جاتے ہیں یا اتنی توجہ نہیں رہتی اور یاد دہانی سے پھر توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور بعض اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہمیں توجہ پیدا ہوئی.یہ بات بھی یاد رکھیں کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ جلسے پر آنے والے بہت سے ایسے ہیں جو دور دور کا سفر کر کے آتے ہیں اور مسافروں کی خدمت کا حق ادا کرنا بھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر فرض قرار دیا اور ان کا شیوہ قرار دیا.ہمارے یہاں جلسہ پر آنے والے مہمانوں کا تقریباً چھٹا حصہ جو یو کے میں جلسے میں شامل ہوتے ہیں وہ یورپ کے علاوہ دوسرے ملکوں سے ،مشرق بعید سے، پاکستان سے، ہندوستان سے، افریقہ سے، امریکہ سے، ساؤتھ امریکہ سے، جلسے کی برکات سمیٹنے کیلئے آتا ہے.تو بہت دور دور کے ممالک سے آتے ہیں اور تقریباً باقی میں سے نصف ایسے مہمان ہیں جو یہاں کے دوسرے شہروں سے آتے ہیں.تو یہ سب بھی مہمان ہیں، مسافر ہیں بلکہ بعض بوڑھوں اور کمزوروں اور بیماروں کے لئے لندن سے حدیقۃ المہدی جانا بھی ایک سفر ہوتا ہے، تکلیف دہ سفر ہوتا ہے.جو بڑی تکلیف اٹھا کر وہ کر رہے ہوتے ہیں.پس ہر ڈیوٹی دینے والے اور ڈیوٹی دینے والی کارکنہ کو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے.انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہمارے مسافر ہیں، مہمان ہیں ان کی ہم نے خدمت کرنی ہے اور ان سے ہر طرح حسن سلوک کرنا ہے.بعض دفعہ بعض مہمانوں کے غلط رویے بھی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہر کارکن کو ہر ڈیوٹی دینے والے کو حو صلے سے کام لینا چاہئے اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر شعبے کے کارکن کو اپنے فرائض ادا کرنا چاہئیں.ہمیں اللہ تعالیٰ نے نبی کی مثال دے کر قرآن شریف میں جو تو جہ دلائی ہے کہ مہمان کو کس طرح سنبھالنا ہے.مہمان کے سلام کے جواب میں اس سے زیادہ بھر پور طریق پر اسے سلام کا جواب دینا ہے.اس کے لئے نیک جذبات کا اظہار کرنا ہے.اسے امن اور تحفظ دینا ہے.خوشی کا اظہار کرنا ہے.حقیقی سلامتی ہوتی ہی اس وقت ہے جب خوشی پہنچے اور مہمان صرف یہی نہیں کہ احمدی ہی مہمان ہیں.غیر (احمدی)
خطبات مسرور جلد 12 511 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 اگست 2014ء.مہمان، غیر لوگ زیادہ توجہ چاہتے ہیں.اس لئے بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ غیر صرف observe کر رہے ہوتے ہیں یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ رویے کیسے ہیں.قطع نظر اس کے کہ ان سے کیسا سلوک ہے.وہ تو اچھا سلوک ان سے کیا جاتا ہے.لیکن وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ دوسروں سے کیسا سلوک ہے.پس ہر وقت اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہم نے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے اور حقیقی طور پر ایسی خدمت کرنی ہے جو ہمیں حقیقی خوشی پہنچانے والی ہو.پس ہمارے ہر آنے والے مہمان سے ہمیں اس طرح خوشی پہنچنی چاہئے جس طرح اپنے عزیز مہمان کو دیکھ کر ہوتی ہے، کسی قریبی کو دیکھ کر ہوتی ہے، اور جب ایسی خوشی ہو تو پھر ہی خدمت کا حق بھی ادا ہوتا ہے.اپنوں کی خدمت اور مہمان نوازی، قریبیوں کی خدمت اور مہمان نوازی یہ تو سب کر لیتے ہیں.زیادہ پیارے اگر کسی کے ہوں تو ان کے نخرے بھی برداشت کر لیتے ہیں.اصل جذ بہ خدمت تو اس وقت پتا چلتا ہے جب کوئی خونی رشتہ نہ ہو.جب مہمان آتے ہیں تو سلامتی حاصل کرنے اور سمیٹنے کے لئے آتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ جلسے کے مہمان ہیں جن کے کوئی دنیاوی مقاصد نہیں ہوتے.پس ایسے مہمانوں کے لئے حتی المقدور سلامتی اور آسانیوں کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں کرنے چاہئیں.پھر مہمان نوازی کا یہ معیار ہمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے تمام تر وسائل کے مطابق اور حالات کے مطابق جو بہترین مہمان نوازی کی سہولت ہم مہیا کر سکتے ہیں وہ کریں.انتظامیہ کو اس بارے میں ہمیشہ سوچتے رہنا چاہئے.پس اللہ تعالیٰ ہم سے اس قسم کی مہمان نوازی چاہتا ہے کہ بہترین سہولت مہیا ہو.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے تھے.آپ نے ہماری اس بارے میں کس طرح رہنمائی فرمائی ہے آپ نے فرمایا کہ مہمان کا تم پر حق ہے اسے ادا کرو.(سنن الترمذی ابواب الزهد باب نمبر 64/63 حدیث نمبر (2413 ایسی مثالیں بھی ہیں کہ مہمان زیادہ آگئے ، آپ نے صحابہ میں مہمان بانٹنے شروع کر دیئے اور خود بھی ، اپنے حصے میں بھی مہمان لئے.انہیں اپنے گھر لے گئے.گھر جا کر پتا لگا کہ تھوڑا سا کھانا اور مشروب ہے.حضرت عائشہ سے جب آپ نے پوچھا تو انہوں نے عرض کی کہ آپ کی افطاری کے لئے تھوڑا سا رکھا ہوا ہے.صرف وہی گھر میں ہے اور تو کچھ نہیں.آپ نے اس میں سے تھوڑا سا چکھا اور مہمان کو کہا کہ اب تم کھاؤ.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چکھا بھی اس لئے ہو گا یقیناً کہ میرے لینے اور کھانے سے اس میں ، پڑ جائے.اور مہمانوں کے لئے وہ برکت والا کھانا ان کے لئے سیری کا باعث بن جائے.اور
خطبات مسرور جلد 12 512 خطبه جمعه فرموده مورخہ 22 اگست 2014ء پھر روایت سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس تھوڑے سے کھانے سے جو حضرت عائشہ کے مطابق صرف آپ کی افطاری کے لئے تھا مہمان سیر بھی ہو گئے.(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحه 794-795 حدیث 24015 مسند طخفة الغفاري مطبوعه عالم الكتب بيروت 1998ء) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی بھی اس رنگ میں تربیت کی تھی کہ صحابہ بھی بے لوث مہمان نوازی کا جذبہ رکھتے تھے.ہر قسم کی تکلیف سے آزاد ہو کر کشائش میں اور مددگاروں کی موجودگی میں تو مہمان نوازی سب کر لیتے ہیں.اصل مہمان نوازی تو وہ ہے جو اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر کی جائے.اور مہمان کا یہی حق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور مومنین کو اس طرف توجہ دلائی کہ اس حق کو ادا کرو.یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا ہی اثر تھا اور صحابہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کا شوق تھا جس کی وجہ سے صحابہ میں بھی اس مہمان نوازی کی حیرت انگیز مثالیں ملتی ہیں.ایسی مثالیں مہمان نوازی کی ہیں جس نے اللہ تعالیٰ کو بھی خوش کر دیا اور اس خوشی کا اظہار اللہ تعالیٰ نے اسی وقت جب مہمان کی مہمان نوازی ہو رہی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کر دیا.وہ میاں بیوی اور بچے کس مقام کے میزبان تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے خوشی کا اظہار کیا.خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو خراج تحسین ملا.اس کی تفصیل ایک روایت میں یوں بیان ہوتی ہے.حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجوا ؤ.جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں ہے.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اس مہمان کے کھانے کا بندو بست کون کرے گا.ایک انصاری نے عرض کی کہ حضور میں انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کا اہتمام کرو.بیوی نے جواباً کہا کہ آج گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے.ہمارے کھانے کے لئے کچھ نہیں.انصاری نے کہا کہ اچھا تم کھانا تیار کرو اور پھر چراغ جلا ؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپ تھپا کر بہلا کر سلا دو.چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا.چراغ جلایا.بچوں کو کسی طرح سلا دیا.پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا اور پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھے.یہ ظاہر کرنے لگے کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں.پس وہ دونوں رات بھو کے ہی رہے.صبح جب وہ انصاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
خطبات مسرور جلد 12 513 خطبه جمعه فرموده مورخہ 22 اگست 2014ء حاضر ہوا تو آپ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی مسکرا دیا.یا فرما یا کہ تم دونوں کے اس فعل کو اس نے پسند فرمایا.بعض روایات میں آتا ہے کہ اسی موقع پر یہ آیت بھی نازل ہوئی کہ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ - وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر : 10 ) کہ یہ پاک باطن اور ایثار پیشہ مخلص ہیں.ایثار پیشہ خلص مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ خود ضرورتمند اور بھوکے ہوتے ہیں اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں.(صحيح البخارى كتاب المناقب باب قول الله ويؤثرون على انفسهم...الخ حديث 3798) پس یہ ان کی تدبیر تھی جس پر اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوا کہ تھوڑا کھانا دیکھ کر مہمان کہیں جھجھک نہ جائے.اپنا ہاتھ کہیں کھانے سے روک نہ لے.یہ تدبیر انہوں نے کی کہ چراغ کو بجھا دو تا کہ مہمان جس کے اکرام کے بارے میں حکم ہے اس کو یہ احساس پیدا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے گھر والوں کو کوئی تنگی آ رہی ہے.دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہے.پس اس کے لئے تو ہمیں خاص طور پر مہمان نوازی کرنی چاہئے.پس آج بھی ہمیں اس بات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان دنوں میں آنے والے مہمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے مہمان ہیں.دینی مقصد کے لئے سفر کر کے آنے والے مہمان ہیں.آج بھی گو مقصد ایک ہے لیکن حالات مختلف ہیں.آج جب کارکنوں کو مختلف خدمات اور مہمان نوازی کے لئے بلایا جاتا ہے تو انتظامیہ یہ نہیں کہتی کہ اپنے گھر لے جا کر مہمان نوازی کرو.لوگوں کے وہ حالات نہیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے.آپ کے صحابہ کے جو حالات تھے کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یا بہت تھوڑا ہے پھر بھی اپنے نفس کو مشقت میں ڈال کر ، اپنے بچوں کی بھوک کی قربانی دے کر پھر بھی خدمت کرنی ہے.یہاں تو سب کچھ کارکنوں کو دے کر پھر کہا جاتا ہے کہ مختلف انتظامات کے تحت کام کرنے کے لئے صرف اپنے آپ کو پیش کرو.نظام جماعت باقی سہولیات مہیا کرے گا.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ سب کا رکنان مرد عورتیں بچے خوش قسمت ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت پر مامور کئے گئے ہیں اور بغیر کسی مشقت کے صرف مہمان نوازی کے فرائض ہی ادا کر رہے ہیں کوئی مالی بوجھ نہیں پڑ رہا یا کسی اور قسم کی
خطبات مسرور جلد 12 514 خطبه جمعه فرموده مورخہ 22 اگست 2014ء قربانی نہیں دینی پڑ رہی.ربوہ میں جب جلسہ سالانہ ہوتا تھا تو ربوہ کے مکین اپنے گھروں کے آرام کو مہمانوں کے آرام کی خاطر قربان کر دیا کرتے تھے.جماعت کو اپنے گھر پیش کر دیتے تھے کہ ان کے مہمان اس میں ٹھہرائے جائیں.باوجود یکہ لنگر ہمیشہ جاری رہتا تھا، یہ خاص طور پر جلسے کے آٹھ دس دنوں میں بعض بوجھ اٹھا کر بھی کھانے پینے کی مہمان نوازی کیا کرتے تھے.لیکن بہر حال وہ حالات کہیں بھی نہیں تھے جس کے نمونے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے ہمیں دکھائے.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اسوہ میں ہمیں اپنے آقا کی اتباع میں وہ نمونے نظر آتے ہیں جب آپ نے مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے اپنا آرام بھی قربان کیا اور سردی میں بغیر کسی رضائی کے، بغیر بستر کے رات بسر کی.(ماخوذ از اصحاب احمد جلد چہارم صفحه 180 روایت نمبر 76 مطبوعہ ربوہ ) کھانے کے انتظامات کے لئے حضرت اماں جان کا زیور بھی رقم کے بندو بست کے لئے استعمال کیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 13 صفحہ 364 روایت حضرت منشی ظفر احمد صاحب) اور یہی قربانی کا جذبہ آپ کے صحابہ نے بھی ہمیں دکھایا جو دوسروں کے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے ضمن میں بھی اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ ہمارے احباب ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دیں بلکہ قربانی کرنی چاہئے.(ماخوذ از شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394-395) ایک واقعہ ہے، سیرت میں لکھا ہے.صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب کا بیان ہے کہ:.میرے لئے جو ایک چار پائی حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے دے رکھی تھی.جب مہمان آتے تو میری چار پائی پر بعض صاحب لیٹ جاتے اور میں مصلیٰ زمین پر بچھا کر لیٹ جا تا.اور جب میں بستر چار پائی پر بچھا لیتا تو بعض مہمان اس چار پائی بستر شدہ پر لیٹ جاتے.میرے دل میں ذرہ بھر بھی رنج یا ملال نہ ہوتا اور میں سمجھتا کہ یہ مہمان ہیں اور ہم یہاں کے رہنے والے ہیں.اور بعض صاحب میرا بستر چار پائی کے نیچے زمین پر پھینک دیتے اور آپ اپنا بستر بچھا کر لیٹ جاتے.ایک دفعہ ایسا ہی ہوا.حضرت اقدس علیہ السلام کو ایک عورت نے خبر دے دی کہ حضرت پیر صاحب زمین پر لیٹے پڑے ہیں.آپ نے فرما یا چار پائی کہاں گئی؟ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں.آپ فورا باہر تشریف لائے اور گول کمرے کے سامنے
خطبات مسرور جلد 12 515 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 اگست 2014ء مجھے بلایا کہ زمین میں کیوں لیٹ رہے ہو.برسات کا موسم ہے اور سانپ بچھو کا خطرہ ہے.میں نے سب حال عرض کیا کہ ایسا ہوتا ہے اور میں کس کو کچھ نہیں کہتا.آخر ان لوگوں کی تواضع اور خاطر و مدارات ہمارے ذمہ ہے.یہ سن کر آپ اندر گئے اور ایک چار پائی میرے لئے بھجوا دی.ایک دو روز تو وہ چار پائی میرے پاس رہی.آخر پھر ایسا ہی معاملہ ہونے لگا جیسا کہ میں نے بیان کیا.پھر کسی نے آپ سے کہہ دیا.پھر آپ نے اور چار پائی بھجوادی.پھر ایک روز کے بعد وہی معاملہ پیش آیا.پھر آپ کو کسی نے اطلاع دی اور صبح کی نماز کے بعد آپ نے مجھے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب بات تو یہی ہے جو تم کرتے ہو.( یعنی یہ مہمان نوازی کا حق ہے ) اور ہمارے احباب کو ایسا ہی کرنا چاہئے لیکن تم ایک کام کرو.ہم ایک زنجیر لگا دیتے ہیں.چار پائی میں زنجیر باندھ کر چھ میں لڑکا دیا کرو.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم یہ سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ ایسے بھی استاد ہیں جو اس کو بھی اتار لیں گے.پھر آپ بھی ہنسنے لگے.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ ز شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جلد سوم صفحہ 344-345 مطبوعہ ربوہ) تو مہمان نوازی میں اسطرح کے لطیفے بھی ہو جاتے ہیں.مذاق کی باتیں.لطیفے کے لفظ سے مجھے یاد آ گیا بعض دفعہ میں لطیفہ کہہ مزاح کی کوئی بات بیان کرتا ہوں.اردو میں لطیفہ کا مطلب ہے کوئی اچھی بات یا کوئی گہری نکتے کی بات اور مزاح کی بات.یہ سارے اس کے مطلب ہیں.ایک دفعہ میں خطبہ میں سن رہا تھا تو بجائے لطیفہ کو مزاح کی بات کر کے ذکرنے کے ترجمہ کرنے والے نے اس کو بڑا نکتہ کر کے بیان کیا تھا جس طرح اس میں کوئی سبق ، گہرا نکتہ بیان ہو رہا ہے.تو ترجمے میں بعض دفعہ غلطیاں ہو جاتی ہیں لیکن یہاں بہر حال ایک نکتہ ہے کہ اپنی چیز کی حفاظت کرنی چاہئے.پھر آپ علیہ السلام کے ایک نمونے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے کام کرنے والے عہد یداروں کے لئے بھی ایک نمونہ ہے اور کارکنان کے لئے بھی ایک سبق ہے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں کہ جنگ مقدس کی تقریب پر بہت سے مہمان جمع ہو گئے تھے.ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کھانا رکھنا یا پیش کرنا گھر میں بھول گیا.میں نے اپنی اہلیہ کو تاکید کی ہوئی تھی مگر وہ کثرت کا روبار ، مشغولیت کی وجہ سے بھول گئی یہاں تک کہ رات کا بہت بڑا حصہ گزر گیا اور حضرت نے بڑے انتظار کے بعد استفسار فرمایا.(کھانے کے متعلق پوچھا ) تو سب کو فکر ہوئی.بازار بھی بند ہو چکا تھا اور کھانا نہ مل سکا.حضرت کے حضورصورتحال کا اظہار کیا گیا.آپ نے فرما یا اس قدر گھبراہٹ اور تکلیف کی کیا ضرورت ہے.
خطبات مسرور جلد 12 516 خطبه جمعه فرموده مورخہ 22 اگست 2014ء دستر خوان میں دیکھ لو کچھ بچا ہوا ہو گا وہی کافی ہے.دستر خوان کو دیکھا تو اس میں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے.آپ نے فرمایا یہی کافی ہیں اور ان میں سے ایک دوٹکڑے لے کر کھا لئے اور بس.پس ہمارے کارکنوں کے لئے یہ سبق ہے کہ بعض دفعہ بعض حالات میں کہیں خوراک کی کمی ہو جائے تو پریشان نہیں ہونا چاہئے بلکہ مہمانوں کی خاطر قربانی کرنی چاہئے.شیخ یعقوب علی صاحب یہ لکھتے ہیں کہ بظاہر یہ واقعہ نہایت معمولی معلوم ہو گا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی اور بے تکلفی کا حیرت انگیز اخلاقی معجزہ نمایاں ہے.کھانے کے لئے اس وقت نئے سرے سے انتظام ہو سکتا تھا اور اس میں سب کو خوشی ہوتی مگر آپ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ بے وقت تکلیف دی جاوے اور نہ اس بات کی پرواہ کی کہ پر تکلف کھانا آپ کے لئے نہیں آیا.اور نہ اس غفلت اور بے پرواہی پر کسی سے جواب طلب کیا اور نہ خفگی کا اظہار.بلکہ نہایت خوشی اور کشادہ پیشانی سے دوسروں کی گھبراہٹ کو دور کر دیا.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جلد سوم صفحہ 333 مطبوعہ ربوہ ) پس اگر کبھی ایسا موقع پیدا ہو جائے تو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے اکثریت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کارکنان کی ایسی ہے جو اچھے اخلاق دکھانے والی ہے اس کی پرواہ نہیں کرتی.لیکن بعض دفعہ بعض شکوہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں تو ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے لیکن ہر شعبے کے افسران اور شعبہ خوراک یا مہمان نوازی کا بھی کام ہے کہ اپنے کارکنان کے لئے پہلے انتظام کر کے رکھا کریں تا کہ جب وہ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر آئیں تو ان کو خوراک مہیا کی جاسکے یا کھانا یا کوئی اور انتظام ہو.ایک اصولی ہدایت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں دی ہے اسے کارکنان کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.مہمان نوازی کی نسبت ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: 66 وو ،، میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے.مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے ، شیشے کی طرح نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.‘ فرمایا کہ اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھا تا تھا مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پر ہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا.ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہوگئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی اس لئے مجبوری علیحدگی ہوئی.ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے.بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں ان کے واسطے الگ
خطبات مسرور جلد 12 517 خطبه جمعه فرموده مورخہ 22 اگست 2014ء 66 کھانے کا انتظام ہوسکتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 407-406) پس اس بات کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ کبھی بھی کسی مہمان کو جذباتی ٹھیس نہیں پہنچانی.ہر کارکن کا ہر جگہ اور ہر موقع پر فرض ہے کہ اعلیٰ اخلاق کا ہمیشہ مظاہرہ کرنا ہے.اگر کوئی تکلیف کا اظہار کرے بھی تو بجائے اس کے کہ اس کو روکھا سوکھا جواب دیا جائے.اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کی جائے.آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف شعبہ جات میں اب کارکنان کی کافی تربیت ہو چکی ہے اور اپنے کاموں کو خوب سمجھتے ہیں اور انہیں اس کے کرنے کی انکل بھی ہے لیکن بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ اعتماد انتظام میں کمزوریاں پیدا کر دیتا ہے.اعتماد تو رکھیں لیکن اس وجہ سے بار یکی میں جا کر اس کے تمام جزئیات کی طرف توجہ دینے میں سستی نہ کریں.پھر دوسری بات یہ ہے کہ جو سکیورٹی کا شعبہ ہے اسے خاص طور پر بہت زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے.جس طرح جماعت دنیا میں متعارف ہو رہی ہے ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں.ہر غلط بات کی جرات مندانہ طریقے پر جماعت نفی کرتی ہے.آجکل بہت سارے شدت پسندوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے بعض باتیں کی ہیں، کر رہے ہیں.جماعت ہمیشہ ان کی نفی کرتی ہے.تو اس قسم کی جب باتیں ہو رہی ہوں تو اس سے حاسدین اور مخالفین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہوتی ہے اور جماعت کے خلاف تدبیریں کرنے کی ان کی کوششیں بھی بڑھ رہی ہیں.اس لئے اس شعبہ کو ہر لحاظ سے ابھی سے فعال ہونے کی ضرورت ہے.یہ نہیں کہ اس دن جا کے جائزے لیں گے بلکہ با قاعدہ ڈیوٹیاں شروع ہونی چاہئیں.لیکن یہ بھی یادرکھیں کہ سکیورٹی کی تمام تر گہرائی اور گہری نظر کے ساتھ ساتھ جیسا کہ میں نے کہا اخلاق کے اظہار میں کمی نہیں آنی چاہئے.ہر جگہ جہاں چیکنگ کے پوائنٹس ہیں وہاں ڈیوٹی دینے والے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنے والے ہوں اور ہر جگہ صرف بچے نہ ہوں بلکہ بڑے سمجھدار افراد بھی ہر جگہ موجود ہونے چاہئیں.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب کام کرنے والے اپنے کاموں کے احسن رنگ میں انجام پانے کے لئے دعا کریں.ہمارے سب کام کسی کی قابلیت اور کوشش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور مدد کو حاصل کرنے کے لئے دعا بہت اہم ہے جسے ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے.اسی طرح ہم سب کو بھی ، کارکنوں کے علاوہ بھی ہر ایک کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جلسے کے تمام انتظامات اپنے فضل سے بروقت مکمل فرمائے اور مہمانوں کے لئے ہر طرح کی سہولیات مہیا ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 12 ستمبر 2014ء تا 18 ستمبر 2014 ، جلد 21 شماره 37 صفحه 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 518 35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اگست 2014ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرت رزا مسرور احم خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 29 را گست 2014ء بمطابق 29 ظہور 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج شام کو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمد یہ برطانیہ کا جلسہ با قاعدہ شروع ہوگا.بہر حال یہ جمعہ بھی جلسے کا ایک حصہ ہے.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمان ایک نیک مقصد لے کر آتے ہیں اور اس نیک مقصد کے ساتھ ہی آنا چاہئے اور وہ مقصد یہ ہے کہ دین کی حقیقت کا علم حاصل کریں دین سیکھیں روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش کریں.نیک ماحول کے زیر اثر اپنی فطری نیکی کو پہلے سے بہتر کرنے کی کوشش کریں.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو ہم نے عہد کیا ہوا ہے اس عہد کو پورا کرنے کے اعلیٰ سے اعلیٰ راستوں کی نشاندہی کر کے علم پا کر پھر ان پر چلنے کی کوشش کریں.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ پیدا کریں.اپنی زبانوں کو ذکر الہی سے تر کرنے اور تر رکھنے کی کوشش کریں.اگر پہلے سے اس پر عمل ہو رہا ہے تو پہلے سے بڑھ کر اس کے لئے کوشش کریں.عبادتوں کی طرف توجہ دیں اور انہیں اس معیار پر لانے کی کوشش کریں جو معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم سے چاہتے ہیں اور وہ معیار یہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ میں نے جن و انس کی پیدائش کا مقصد عبادت کو قرار دیا ہے.فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات :57) یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ پس اس آیت کی رو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا
خطبات مسرور جلد 12 کے لئے ہو جانا ہے.“ 519 خطبه جمعه فرموده مورخہ 29 اگست 2014ء اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 414) غرض کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے ہر فرد کا یہ کام ہونا چاہئے کہ اپنے اس سفر کو اور یہاں آنے کے مقصد کو خالصہ للہی سفر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا مقصد بنا ئیں.اگر یہ نہیں تو جلسہ سالانہ میں تکلیف اٹھا کر اور خرچ کر کے آنے والے اس جلسہ کی غرض و غایت کو پورا کرنے والے نہیں ہوں گے.پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کی اور اس ذمہ داری کی ادائیگی ہی ان کی اہمیت کو بڑھاتی ہے اور اسی لئے ان کارکنوں کی بھی اہمیت ہے جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا جو اس نیک کام کے کرنے کے لئے آنے والے مہمانوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.بلکہ کارکنوں کا ثواب اور اہمیت تو اس لحاظ سے دوگنی ہو جاتی ہے کہ وہ ایسے مہمانوں کی خدمت بھی کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہی پروگراموں کو سن کر اس جلسے کے ماحول میں شامل ہو کر اپنی عملی اور اعتقادی زندگی کی بہتری کے سامان بھی کر رہے ہیں.پس اس بات کو مہمان بھی اور میزبان بھی ، ڈیوٹی والے کارکنان بھی یاد رکھیں کہ یہ تین دن ان کی عملی اور اعتقادی بہتری کی ٹریننگ کا کیمپ ہے.پس اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اس کے لئے اپنی تمام تر توجہ اور طاقتوں سے اس میں حصہ لیں.ہم نے ہمیشہ اپنے سامنے جلسے کے وہ مقاصد رکھنے ہیں اور رکھنے چاہئیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں.آپ کی جلسے کی غرض و غایت اپنے ماننے والوں کو اس روحانی ماحول میں رکھ کر ایک ایسا نمونہ بنانا تھا جو دنیا کے لئے قابل تقلید ہو، جس کے پیچھے دنیا چلے.آپ نے فرمایا: میرے ماننے والوں کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں.(ماخوذ از شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحه 394) یعنی انہیں ہر وقت آخرت کی فکر ہو.یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے.انسان اپنی کوشش سے یہ مقام حاصل نہیں کر سکتا.ہاں اس کے لئے جس حد تک عملی کوشش ہو سکتی ہے کر کے پھر دعاؤں میں لگ جائے کہ اے اللہ دنیا کے مسائل اور روکیں قدم قدم پر میری راہ میں حائل ہیں تو اپنے فضل سے مجھے اس راستے پر چلا دے جو تیری رضا کا راستہ ہے.میرے دل میں اپنا خوف ایسا بھر دے جو ایک پیارے اور اپنے محبوب کے لئے ہوتا ہے.کسی ظلم کی وجہ سے وہ خوف نہیں ہوتا بلکہ محبت کی وجہ سے ہوتا ہے.کہیں میرا کوئی عمل تیری ناراضگی کا موجب نہ بن جائے.میرا ہر قدم ان نیکیوں کی طرف اٹھے جن کے کرنے کا تو نے حکم دیا ہے اور
خطبات مسرور جلد 12 520 خطبه جمعه فرموده مورخه 29 اگست 2014ء میری سوچ ہر اس بات سے نفرت کرتے ہوئے اسے اپنے دماغ سے نکالنے والی ہو جس کے نہ کرنے کا تو نے حکم دیا ہے.میں تقویٰ پر چلتے ہوئے حقوق العباد بھی ادا کرنے والا بنوں اور حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف بھی ہر وقت میری توجہ رہے اور میں اس چیز کو حاصل کرنے والا بن جاؤں جو تو نے میری زندگی کا مقصد قرار دیا ہے.یعنی عبادت اور عبادت کا بھی وہ معیار حاصل کرنے والا بن جاؤں جو تو اپنے بندوں سے چاہتا ہے.اخلاق فاضلہ میں بھی ایک ایسا نمونہ بن جاؤں جس کی تقلید کرنا لوگ فخر سمجھیں.پس اس جلسے میں شامل ہو کر اپنی دعاؤں اور سوچوں کے یہ دھارے بنانے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ ہم پر بڑا احسان ہے کہ جہاں اس نے قرآن کریم میں ہمیں عبادتوں کے طریق بتائے ،اس کے معیار حاصل کرنے کے راستے دکھائے وہاں اخلاق فاضلہ جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے ان کی بھی نشاندہی فرمائی.اعلیٰ اخلاق کا حاصل کرنا اور اس کا مظاہرہ کرنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے ضروری قرار دیا ہے.آپ نے اس معیار کا ایک جگہ یوں ذکر فرمایا کہ:.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہرا دے.“ ( شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحه 395) یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ معیار حاصل کرنا کوئی عام بات نہیں ہے بہت سے ہیں جو دوسروں کے آرام کا خیال رکھتے ہیں لیکن اپنے وسائل کے لحاظ سے اگر اپنے آرام کو قربان کئے بغیر یہ خیال رکھ سکیں تو رکھتے ہیں لیکن یہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی اپنے آرام پر دوسروں کے آرام کو ترجیح دے.خونی رشتوں میں بھی لوگ بعض دفعہ ایسی قربانی دے دیتے ہیں کہ اپنے آرام کو قربان کر دیتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں اور ہر ایک کے لئے اس معیار کی قربانی بہت مشکل ہے.بلکہ دوسروں کے آرام کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ دوسروں کی تکلیف کو جب تک اپنی تکلیف کی طرح نہیں سمجھتے حقیقی مومن نہیں بن سکتے.یہ الفاظ میرے ہیں مفہوم یہی ہے.آپ نے فرمایا اگر میرا بیمار بھائی تکلیف میں مبتلا ہے اور میں آرام سے سو رہا ہوں تو میری حالت پر حیف ہے.میرا فرض بنتا ہے کہ جہاں تک میرا بس چلے اس کے آرام کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کروں.اگر کوئی دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے سخت گوئی کرے تو تب بھی میری حالت پر افسوس ہے کہ میں دیدہ و
خطبات مسرور جلد 12 521 خطبه جمعه فرموده مورخہ 29 اگست 2014ء دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں.میرا کام یہ ہے کہ میں صبر کا مظاہرا کروں اور اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کہ یہ روحانی طور پر بیمار ہے اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کرے.(ماخوذ از شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 396) پس یہ وہ معیار ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے دین میں، قرآن کریم میں حکم دیا ہے کہ رُحماء بَيْنَهُم (الفتح : 30) - کہ مؤمن آپس میں رحم کے جذبات رکھتے ہیں اور رحم کے جذبات کی وجہ سے ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور درد کو محسوس کر کے اس کے لئے عملی کوشش بھی کرتے ہیں اور دعائیں بھی کرتے ہیں.پس ہمیں جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اگر ہم اس پر عمل کرنے لگ جائیں تو جتنے چھوٹے بڑے جھگڑے ہمارے ہوتے ہیں یہ سب ختم ہو جائیں.ذاتی اناؤں کا وہیں سوال پیدا ہوتا ہے، بغض اور غصہ وہیں بھڑکتا ہے جب تقویٰ نہ ہو.جب خدا تعالیٰ کا خوف نہ ہو جب ذاتی مفادات کو دوسروں کے مفادات پر ترجیح دی جا رہی ہو.پس یہ تقویٰ پیدا کرنا ہر مومن کا فرض ہے.ہر اس شخص کا فرض ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے.ہر اس شخص کا فرض ہے جو جلسے میں شامل ہو رہا ہے.کیونکہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بننا ہے، جلسے کی برکات سے فیض اٹھانا ہے تو تمام جھگڑوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ، ان باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے قدم قدم پر رہنمائی مل جاتی ہے.اسلام کی حقیقت اور تقویٰ کا پتا چل جاتا ہے.ان بکھرے ہوئے مسلمانوں کی طرح نہیں ہیں جن کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کس کے پیچھے چلیں اور کس کے پیچھے نہ چلیں.جن کی غلط رہنمائی کر کے ان کے نام نہاد لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں نے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر ان کو لگا دیا ہوا ہے.پس ان لوگوں کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور یہ اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے غضب کا مورد نہ بنیں.اسلام کا غلط تصور دنیا کے سامنے رکھ کر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بد نام کرنے کی کوشش کرنے والے نہ بنیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے ماننے والوں کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر مسلمان اور ہر سلامتی دینے والا بلا تخصیص محفوظ رہے.(صحيح البخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده حدیث نمبر 10)
خطبات مسرور جلد 12 522 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اگست 2014ء اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں کھول کر بتایا کہ حقیقی مسلمان سے نہ صرف اپنے بلکہ دوسرے مذہب کے ماننے والے بھی امن اور سلامتی میں رہتے ہیں.قرآن کریم نے جن اعلیٰ اخلاق کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے چند ایک میں بیان کرتا ہوں.پہلی بات کہ کیوں تم میں اعلیٰ اخلاق ہونے چاہئیں؟ فرمایا كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران: 111 ) کہ تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو.پس ایک مومن کی نشانی یا امت مسلمہ کا فرد ہونے کی نشانی یہ ہے کہ نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور بدی سے روکنے والے ہوں.دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے ہوں اور نقصان سے بچانے والے ہوں.کاش یہ بات مسلمان سمجھ جائیں اور اپنے فرض کو نبھانے کی کوشش کریں.غلط رنگ میں اسلام کے نام پر انسانیت کا خون کرنے کے بجائے ، اسلام کے حسن کو دنیا کو دکھا ئیں.ان لوگوں نے یا کم از کم ان کے لیڈروں نے تو مسیح موعود کا انکار کر دیا ہے.اس واسطے نہ یہ رہنمائی کر سکتے ہیں اور جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانتے کوئی ان کی رہنمائی کرنے والا نہ ہے.اس بات کو یہ نہیں سمجھتے.آج خیر امت بن کر اس فرض کی ادائیگی کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے سپر د کیا گیا ہے.اس ذمہ داری کو سمجھنے کی ہمیں ضرورت ہے تو یہ بھی ایک مؤمن کی خصوصیت ہے کہ وہ غرباء کا خیال رکھنے والا ہوتا ہے.اپنے اموال معاشرے کے ضرورت مند اور محروم لوگوں پر خرچ کرنے والا ہو.احسان جتا کر نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ان کی خدمت کرنے والا ہو.یہاں اس بات کا بھی ذکر کر دوں کہ عام طور پر مسلمانوں کی برائیاں تو سب کو نظر آ جاتی ہیں اور اس کا چر چا بھی خوب ہوتا ہے.تو اگر کوئی خوبی ہے تو خوبیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا.گزشتہ دنوں ایک سروے ہوا جو یہیں کے لوگوں نے کیا.کسی مسلمان نے نہیں کیا کہ دنیا میں صدقہ و خیرات اور چیریٹی دینے والے کون لوگ ہیں جو زیادہ ہیں؟ تو یہ بات سامنے آئی کہ خدا تعالیٰ کو ماننے والے، کسی مذہب کو ماننے والے، لا مذہبوں اور خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والوں کی نسبت زیادہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں.اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے آپس کے موازنے میں بھی یہ بات پتا لگی کہ مسلمان صدقہ و خیرات دوسروں سے زیادہ کرتے ہیں.مسلمانوں میں یہ نیکی صدقہ و خیرات کے حکم کی وجہ سے ہے.خدا کرے کہ یہ لوگ باقی نیکیاں بھی اپنانے والے بن جائیں.
خطبات مسرور جلد 12 523 خطبه جمعه فرموده مورخہ 29 اگست 2014ء پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دوسروں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب بے شمار لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں تو بعض ضرورتیں پیدا ہوتی ہیں تو ایسے وقت ایک حقیقی احمدی کا یہ کام ہے کہ اپنی ضرورت کو دوسروں کے لئے قربان کرے اور محبت و ایثار کا نمونہ دکھائے.نہ صرف قربان کرے بلکہ اس نمونے میں محبت وایثار بھی ٹپک رہا ہو.(ماخوذ از شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394-395) پھر اللہ تعالیٰ کو عاجزی بہت پسند ہے ایک مؤمن کو عاجزی کی تلقین کی گئی ہے.جب بہت سارے لوگ اکٹھے ہوں تو بعض دفعہ بہت سے مسائل معاشرے میں اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ تکبران مسائل کو حل کرنے سے روک رہا ہوتا ہے.ایک احمدی کو تو خاص طور پر عاجزی اختیار کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس وصف کو خاص طور پر بڑا سراہا ہے اور فرمایا کہ ” تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں.“ (تذکرہ صفحہ 595 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) پس جب ہم آپ کی طرف منسوب ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو ان اوصاف کو اپنانے کی طرف بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.اسی طرح حسن ظنی ہے سچائی ہے سچائی کا اظہار ہے اور ہر حالت میں سچائی کا اظہارضروری ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سچائی کا ایسا معیار ہو اور انصاف کا ایسا معیار ہو کہ اگر اپنے خلاف یا اپنے پیاروں کے خلاف بھی بات جاتی ہو تو کرو لیکن سچائی کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دو.معاف کرنا ہے ،صبر کرنا ہے، یہ سب قسم کی نیکیاں ہیں جو ہمیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اور ان کا اظہار ایسے موقعوں پر ہی ہوتا ہے جب بہت سارے لوگ جمع ہوں اور بعض ایسی باتیں ہو جائیں جس کی وجہ سے انسان کے اخلاق کا پتا لگتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کو قرآنی تعلیم کی روشنی میں خاص طور پر ان کو اپنانے کا ارشاد فرمایا ہے.پھر عدل اور احسان کے معیار حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور عدل اور احسان کے جیسے معیار قرآن کریم نے قائم فرمائے ہیں کسی اور کتاب نے ایسے معیار قائم نہیں فرمائے کہ دشمن کی دشمنی بھی تمہیں عدل اور انصاف کرنے سے نہ روکے.یہ ہیں وہ معیار جو اسلام کا خاصہ ہے اور ایک مسلمان کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے.اور ان تمام نیکیوں کو اپنانے کا ہمیں حکم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات مسرور جلد 12 524 خطبه جمعه فرموده مورخہ 29 اگست 2014ء فرماتے ہیں کہ جلسے میں کثرت سے لوگ آتے ہیں تو پھر وہ اخلاق فاضلہ کی ادائیگی کا حقیقی رنگ میں اظہار کریں.اور اخلاق فاضلہ کی ادائیگی کا تبھی پتا چلتا ہے جب یہ اظہار ہورہا ہو.جب لوگ اکٹھے ہوں.اور اگر اخلاق کے اعلیٰ معیار کا اظہار ہورہا ہو تو ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کے پیش کرنے والے بن جاتے ہیں.یہی نمونے ہیں جو احمدیت کی تبلیغ کا بھی باعث بن رہے ہوتے ہیں اور اخلاق کے یہ نمونے دکھانا ہی ایک احمدی کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے.بہت سے لوگ ان اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر ہی جماعت کی طرف مائل ہوتے ہیں.آپ میں سے بھی کئی ہوں گے جن کے بزرگ جلسے کی برکات کی وجہ سے جماعت احمد یہ میں شامل ہوئے.آپ کے بزرگوں کے نمونوں سے ہی بہت سوں کو حق کو پہچاننے کی توفیق بھی ملی ہو گی بلکہ یہاں بیٹھے ہوئے بھی ایسے لوگ ہوں گے جن کے رویوں کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت ملی ہوگی.دنیا کے کئی ممالک سے یہ رپورٹس آتی ہیں.لوگ جلسے میں شامل ہوئے اور شامل ہو نیوالے یہ کہتے ہیں کہ جلسے کے نیک اثر کی وجہ سے ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم کا بھی پتا چلا.لوگوں کے آپس کے تعلقات کی وجہ سے ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم کا بھی پتا چلا.پر امن فضا کو دیکھ کر ہمیں پتا لگا کہ اتنا ہزاروں کا مجمع بھی کس طرح پر امن رہ سکتا ہے.اور حتی کہ بعض دینی رہنما بھی یا افریقہ میں بعض ممالک میں جن کی طرف سے پہلے مخالفت تھی، کسی طرح کسی ذریعہ سے ان کو جب جلسے پر لایا گیا تو نہ صرف مخالفت سے رک گئے بلکہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے.تو یہ مخالف لوگ بھی اثر لیتے ہیں.ابھی دو مہینے پہلے جرمنی میں بھی جلسہ ہوا.اس میں ایک ہمسایہ ملک سے ایک غیر مسلم جوڑا میاں بیوی آئے ہوئے تھے جو اسلام کے مخالف بھی تھے یا کم از کم ان پر اسلام کا اچھا اثر نہیں تھا.احمدیوں سے کچھ واقفیت تھی.انہوں نے کہا کہ جا کے دیکھیں ، احمدی بڑا شور مچاتے ہیں کہ اسلام بڑا پر امن اور سلامتی کا مذہب ہے.دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا سچائی ہے.زیادہ نیت ان کی یہی تھی کہ جا کر اعتراض کریں گے اور کوئی اثر نہیں لیں گے.لیکن جلسے کے ماحول کو دیکھ کر اس کے بعد ان کی ملاقات بھی ہوئی، ان کی ایسی کا یا پلیٹی کہ انہوں نے بیعت کر لی.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جب بیعت لی جارہی ہوتی ہے تو بیعت کا نظارہ ایسی صورت پیدا کر دیتا ہے کہ غیر ارادی طور پر نہ چاہتے ہوئے بھی ہم بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں.اگر ہمارے نمونے مختلف ہوں یا ہم میں سے اکثریت کے نمونے مختلف ہوں تو وقتی بیعت کا نظارہ ان لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتا.یاکسی بھی قسم کی نیکی کا عارضی نظارہ وہ حالت پیدا نہیں کر سکتا جو دل کو کھینچنے والی ہو.
خطبات مسرور جلد 12 525 خطبه جمعه فرموده مورخہ 29 اگست 2014ء پس جلسے میں شامل ہونے والا ہر شخص خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے.گزشتہ جمعہ کو میں نے کارکنوں کے حوالے سے بات کی تھی کہ ان کے عمل خاموش تبلیغ ثابت ہور ہے ہوتے ہیں.لیکن یہ صرف کارکنان ہی نہیں بلکہ جلسے میں شامل ہونے والا ہر شخص مبلغ ہوتا ہے، دوسروں کو متا ثر کر رہا ہوتا ہے.پس ( جلسہ میں ) شامل ہونے والے ہر فرد، مرد عورت بچے بوڑھے کا فرض ہے کہ اپنے نمونے ایسے بنائے کہ توجہ کھینچنے والے ہوں اور یہ نمونے عارضی نہ ہوں بلکہ ہمیں اپنی حالتوں میں ، اپنے اندر مستقل ایسی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمیں حقیقی مسلمان بنائے.پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اہمیت اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم جلسے سے حقیقی فیض اٹھا سکیں.اعلیٰ اخلاق کے اظہار کے بارے میں ایک مسلمان کو یہ بھی حکم ہے کہ سلامتی کا پیغام پہنچائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تَقْرَأُ السَّلَام عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَ مَنْ لَّمْ تَعْرِفُ کہ ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کرو.(صحیح البخاری کتاب الایمان باب افشاء السلام من الاسلام حدیث نمبر (28) یہ ایک ایسا حکم ہے اور نسخہ ہے کہ اگر اس پر اس کی روح کو سمجھتے ہوئے عمل کیا جائے تو دنیا کے فسادوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے.جب انسان ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دے رہا ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دل میں بغض، کینہ ، نفرت یا تکبر کے جذبات ابھریں شرط یہ ہے کہ دل سے آواز نکل رہی ہو.اگر یہ برائیاں نہ ہوں تو پھر اس بات کا بھی سوال نہیں کہ معاشرے میں کسی قسم کا فساد ہو.پس سلامتی کے پیغام کو بہت وسعت دینے کی ضرورت ہے اور اسلام نے وسعت دے دی کہ صرف اپنوں اور اپنے جاننے والوں کے لئے یہ پیغام نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو یہ پیغام دو.پس جلسے پر آنے والے ہر شخص کو جہاں اس بات کی پابندی کرنی چاہئے ، یہ کوشش بھی کرنی چاہئے کہ اس ماحول میں ایک دوسرے پر اس قدر سلامتی بکھیریں کہ پورا ماحول سلامتی بن جائے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور سلامتی کو حاصل کرنے والے بن جائیں.بعض انتظامی باتیں بھی میں ذکر کرنا چاہتا ہوں گو اس بارے میں نسبتاً پہلے بھی کافی توجہ ہے لیکن پھر بھی یاد دہانی کے لئے کہنا چاہتا ہوں.خاص طور پر وہ مرد جن کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں.چھوٹے بچے تو عموماً ماؤں کے ساتھ ہوتے ہیں، آٹھ نو سال کے بچے جو مردوں کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ اتنے چھوٹے نہیں ہوتے کہ ان کو بہلانے کے لئے مرد باہر نکل جائیں اور جلسہ کی کارروائی کے دوران ان بچوں کو کھیلنے کی اجازت دیں.اس طرح تو بچوں میں کبھی بھی جلسے کا احترام پیدا نہیں ہو گا.سات
خطبات مسرور جلد 12 526 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اگست 2014ء سال کے بعد نماز کی یقین دہانی کی طرف توجہ اس لئے ہے کہ بچہ ہوش میں ہوتا ہے.اس لئے ان کو بتانا چاہئے کہ تم ایک مقصد کے لئے آئے ہو تو ابھی سے سیکھو.بچپن سے اگر ٹر یننگ نہیں دیں گے تو پھر بڑے ہو کر بھی جلسے کا تقدس کبھی قائم نہیں رہے گا.پھر یہ ہوتا ہے کہ ان بچوں کا بہانا بنا کر باپ بھی باہر پھرتے رہتے ہیں، پھر شکایتیں آتی ہیں، بچے کھیل رہے ہوتے ہیں اور جلسے کا ایک غلط تاثر پیدا ہورہا ہوتا ہے.اسی طرح شکایتیں ہوتی ہیں کہ عورتیں بھی جلسہ کی کارروائی سننے کی بجائے باہر بیٹھ کر باتیں کرتی رہتی ہیں.انہیں بھی چاہئے کہ جلسے کی تقریریں سنیں کیونکہ ہر مقرر جو یہاں تقریر کرتا ہے اس کی تقریر علم اور روحانیت کے بڑھانے میں مددگار ہوتی ہے.کوئی احمدی مقرر قرآن حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے کلام سے باہر کوئی بات نہیں کرتا اور یہی آج وقت کی ضرورت ہے.پس اس بات کی اہمیت کو سمجھیں اور جلسے کی حاضری کو صرف شامل ہو کے نہ بڑھائیں بلکہ اندر بیٹھ کر بن کر اس جلسے کا صحیح فائدہ اٹھائیں.پس یہ بھی نہیں کہنا چاہئے جو بعض کہہ دیتے ہیں کہ فلاں کی تقریر سنیں گے اور فلاں کی نہیں.ہم نے پہلے سن لی.یہ سب باتیں غلط ہیں.ہر مقرر تیاری کر کے آتا ہے، ان کی تقریروں کو سنا چاہئے.جلسے پر آئے ہیں تو جلسے کی مکمل کارروائی سننے کی کوشش کریں.چھوٹے بچوں کی ماؤں کے لئے جو علیحدہ مار کی ہے وہاں سے بھی شکایت آتی ہے کہ بچوں کے شور کم ہوتے ہیں اور بچوں کے شور کے بہانے عورتیں آپس میں زیادہ باتیں کر رہی ہوتی ہیں.اس لئے اس طرف لجنہ کی انتظامیہ کو بھی اور عورتوں کو خود بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.اگر عورتیں خود خاموش ہو جا ئیں تو صرف بچوں کا جو شور ہوتا ہے اس میں بہت ساری ایسی عورتیں ہوتی ہیں جن کے کانوں میں کچھ نہ کچھ تقریروں کی آواز پڑ رہی ہوتی ہے اور کچھ نہ کچھ ان کے لئے فائدہ مند ہو جاتا ہے.پس اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.کارکنوں کو میں دوبارہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں.اپنے فرائض کو احسن رنگ میں انجام دینے کے لئے پوری طرح توجہ دیں.کسی بات کو معمولی نہ سمجھیں، کسی کام کو معمولی نہ سمجھیں.سکیورٹی والوں کے لئے بھی جہاں خوش اخلاقی ہے وہاں ہر چیز پر گہری نظر کی ضرورت ہے.کسی بات کو بھی معمولی نہ سمجھیں اور سکیورٹی کارکنان کے علاوہ بھی جو دوسرے کارکنان ہیں وہ بھی حوش وحواس کے ساتھ اپنے چاروں طرف نظر رکھیں.اور اسی طرح تمام شامل ہونے والے بھی ، ہر احمدی ہماری سکیورٹی ہے.ہر احمدی کا بھی فرض ہے کہ اپنے ماحول پر نظر رکھے اور کوئی بھی ایسی قابل توجہ بات دیکھیں تو فوراً انتظامیہ کو بتائیں.پھر داخلے کے وقت یا باہر نکلتے وقت جورش کے وقت ہوتے ہیں.بعض دفعہ وہاں بھی
خطبات مسرور جلد 12 527 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 اگست 2014ء بڑے صبر اور تنظیم کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے.اسی طرح رش کے دوران سکیورٹی کانشس بھی ہونے کی ضرورت ہے.ایسے موقعوں پر بھی بعض دفعہ بعض واقعات ہو جاتے ہیں اس لئے بہت احتیاط کریں.پھر ڈیوٹی کے کارکنان جو ہیں ان کی جو بھی ہدایت ہے اسے شامل ہونے والے بغیر برا منائے مانیں قطع نظر اس کے کہ ہدایت دینے والا بچہ ہے یا بڑا.اگر وہ اپنے فرائض ادا کر رہا ہے تو اس کو اہمیت دیں اور اس کی بات مانیں.پروگرام جو شائع ہوا ہے اس میں بھی ساری ہدایات درج ہیں یا کم از کم بہت ساری ہدایات درج ہیں اس لئے ان کو پڑھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں.پھر ایک شکایت بعض دفعہ یہ بھی آجاتی ہے جس کا بجائے اس کے کہ جلسے کے بعد ذکر کیا جائے پہلے ہی ضروری ہے کہ اپنے کارڈ کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال ہر ایک کا فرض ہے.یہ نہیں کہ کوئی واقف کار ہے اس کو اپنا کارڈ دے دیا.جس جس جگہ بیٹھنے اور جانے کے لئے اس کا رڈ کی access ہے و ہیں استعمال ہو سکتا ہے اور اسی شخص کے لئے استعمال ہو سکتا ہے.اس لئے اپنے کارڈ کسی بھی اپنے دوست یا واقف کار یا قریبی کو نہیں دینے.جو جس کا کارڈ ہے وہ استعمال کرے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے جلسے کو بابرکت فرمائے اور جس کی جتنی جتنی توفیق ہے وہ روزانہ صدقہ بھی دے سکتا ہے بلکہ دینا چاہئے اور دے.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسے کو بابرکت فرمائے اور ہم تمام برکات سمیٹنے والے بھی بنیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 19 ستمبر 2014 ء تا 25 ستمبر 2014 ، جلد 21 شماره 38 صفحہ 05 تا07)
خطبات مسرور جلد 12 528 36 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء خطبه جمع سید نا امیرالمومنین حضرت رزا مسرور احم خلیفہ امسح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014 ء بمطابق 05 تبوک 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الحمد للہ ! گزشتہ ہفتے جلسہ سالانہ یو کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے اپنی برکات سے ہمیں مستفیض کرتے ہوئے منعقد ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہونے والوں نے اور دنیا میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے تمام تر برکات دیکھیں اور ان سے فائدہ اٹھایا.ہر ملنے والا اور بے شمار لکھنے والے یہی کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دفعہ نظام میں ہر معاملے میں بہت بہتری تھی.مقررین کی تقریریں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اعلیٰ رنگ میں تیار ہوئی ہو ئیں تھیں.علمی اور روحانی تھیں.جلسے کے بعد کے خطبے میں جلسے کے دوران نازل ہونے والی برکات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی تائیدات کا ذکر کرتا ہوں.لوگوں کے تاثرات بھی بیان کرتا ہوں جو مہمان آئے ہوتے ہیں.اسی طرح کارکنان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں.بعض انتظامی باتیں جن میں کمیاں رہ گئی ہوں ان کا بھی ذکر ہوتا ہے.تو بہر حال آج اسی حوالے سے کچھ کہوں گا.جلسے کا ماحول اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ماحول ہوتا ہے کہ ہر سعید فطرت پر یہ نیک اثر ڈالتا ہے.بعض غیر از جماعت اور غیر مسلم لوگ صرف اس لئے جلسے میں شامل ہوتے ہیں کہ دیکھیں ان سے تعلق رکھنے والے احمدی ان غیر از جماعت دوستوں کو جلسے کی برکات کے بارے میں جو بتاتے ہیں وہ کس حد تک صحیح ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے.اور جب یہ غیر دوست یہاں آ کر جلسے میں شامل ہوتے ہیں تو پھر اکثر یہی کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں جلسے کے بارے میں بتایا گیا اس سے بہت زیادہ ہم نے مشاہدہ کیا.اور بعض پر
خطبات مسرور جلد 12 529 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء اس کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ بیعت کر لیتے ہیں.اس دفعہ بھی دو مہمانوں نے جو رشیا سے تھے جلسے کا ماحول دیکھ کر بیعت کی.اسی طرح گوئٹے مالا اور چلتی اور کوسٹاریکا کے امریکن ممالک کے بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے جلسے پر عالمی بیعت کے دوران تو بیعت نہیں کی لیکن انتہائی متاثر تھے.تمام جلسہ سنا پھر مجھ سے ملاقات کی اور کہنے لگے ہمیں افسوس ہے کہ ہم بیعت نہیں کر سکے.ہمارے دل بالکل اس طرف مائل ہیں.ہم نے حقیقت کو سچائی کو پہچان لیا ہے، سمجھ لیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھا ہے کہ کس طرح جماعت پر نازل ہوتے ہیں اور ہم بھی اب بیعت کرنا چاہتے ہیں.ہماری بیعت لے لیں.چنانچہ کل ایسے چھ افراد، چار مرد اور دو خواتین نے ظہر کی نماز کے بعد بیعت کی.بعض لوگ جو شامل ہوتے ہیں ان کے تاثرات تو میں بیان کروں گا لیکن ان بیعت کرنے والوں کے تأثرات میں پہلے بیان کرتا ہوں جنہوں نے وہاں بیعت نہیں کی تھی لیکن کل کی.ان میں سے ایک دوست سمیع قادر صاحب ہیں جو گوئٹے مالا میں رہتے ہیں.اردن سے ان کا تعلق ہے.کاروبار کے سلسلے میں وہاں ہیں.کہتے ہیں کہ میں نے اس جلسے میں با ہمی اخوت و محبت کی وہ عملی صورت دیکھی جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے.جلسہ سالانہ کے بہترین انتظامات نظم و ضبط، احباب کا اخلاص و وفا اور باہمی ہمدردی اور اخوت کے جذبے نے بہت متاثر کیا.اور اس حدیث مبارکہ کی عملی تصویر دیکھی کہ مومنین کی باہم محبت و اخوت کی مثال اس جسم کی طرح ہے کہ جس کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے.پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کارکنان جلسہ کو جزائے خیر عطا فرمائے.اسی طرح کو سٹاریکا سے آنے والے وفد میں حیدر سہیلیا صاحب شامل تھے.وہ کہتے ہیں کہ مجھے جماعت احمدیہ کے اعلیٰ انتظام نے بہت متاثر کیا.جماعت احمدیہ کے ہر ممبر کا اپنے ذمہ لگائی گئی ڈیوٹی کو اخلاص کے ساتھ ادا کرنے نے از حد متاثر کیا.میں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں سے مل کر ، ان سے گفتگو کر کے اور ان کے ساتھ باہمی تبادلہ خیالات کر کے بہت خوش ہوا ہوں.جلسے میں شمولیت سے حقیقی اسلام کی طرف میری توجہ مزید بڑھی ہے اور اس حوالے سے اخلاص اور ایمان نے ترقی کی ہے.اور خلیفہ وقت کے خطابات، نصائح اور رہنمائی بغیر شیعہ اور سنی کی تمیز کے تمام مسلمانوں کے لئے ہیں.پھر کوسٹا ریکا سے ہی ایک خاتون ڈیانا نعیمہ Diana Naima) صاحبہ کہتی ہیں.جلسے میں شمولیت ایک انوکھا تجربہ تھا.دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مختلف اقوام ونسل کے لوگوں کے باہمی
خطبات مسرور جلد 12 530 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء پیار و محبت نے میرے دل پر گہرا اثر کیا ہے.اس فضا نے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد کروا دیا.مجھے یقین ہے کہ جماعت احمدیہ ترقی کرے گی اور اس کے ذریعے اسلام کا محبت بھرا پیغام بھی پھیلتا چلا جائے گا.انہوں نے بھی کل بیعت کی ہے.اسی طرح کل بیعت کرنے والوں میں گوئٹے مالا ، چلی ، کوسٹاریکا سے آنے والے جیسا کہ میں نے کہا چار مرد اور خواتین تھیں.ان سب نے ( جلسہ کا ) سارا نظارہ دیکھ کر، عالمی بیعت کا نظارہ دیکھ کر جب ان کو مکمل شرح صدر ہوا تو پھر انہوں نے بیعت کی.پس جماعت احمد یہ جو اسلام کا خوبصورت پیغام دیتی ہے اور بغیر دوسروں پر گندا چھالے، بغیر کسی پر تنقید کئے ایک وحدت پر جمع کرنے کی کوشش کرتی ہے.اور پھر اس کا پیار اور محبت کا جو نظارہ ہر آنے والے کو نظر آتا ہے.آپس میں سلوک کا ، دوسروں سے سلوک کا جو نظارہ ہر آنے والا دیکھتا ہے.وہ ہر ایک کو مجبور کرتا ہے کہ حقیقی اسلام کے اس نمونے کو دیکھ کر اس کا حصہ بنیں.یا کم از کم یہ ضرور ہوتا ہے کہ اسلام پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کا اثر یہاں آ کر ہمیں دیکھنے والوں پر سے زائل ہو جاتا ہے.یہ نظارے ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ ہمیں دکھاتا رہا، اب بھی دکھا رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ ہی اسلامی تعلیم کبھی پرانی ہوئی اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات کا ہاتھ کبھی جماعت احمدیہ پر سے اٹھایا ہے.ایک دفعہ ایک خاندان نے پاکستان میں مجھے بتایا کہ ان کی ایک بزرگ خاتون تھیں جو جماعت کی مخالف تھیں لیکن خاندانی نظام وہاں کا ایسا ہوتا ہے کہ اکٹھے رہتے تھے.کبھی وہ جلسے پر نہیں آیا کرتی تھیں.ایک دفعہ مجبوری ہوئی ، ان کو ساتھ ربوہ جانا پڑ گیا اور پھر بہانے سے ان کے رشتے دار اُن کو جلسے پر بھی لے گئے.سارا نظام بھی دکھایا.وہ یہ کہا کرتی تھیں کہ ربوہ والے جادو کر دیتے ہیں اس لئے وہاں نہیں جانا.بہر حال جلسے کا ماحول دیکھ کر ، تقریریں سن کر ہنگر خانوں کا نظام دیکھ کر انہوں نے بیعت کر لی.یہ خلافت ثانیہ کا واقعہ ہے جو ایک خاندان نے مجھے بتایا تھا.پھر ہر خلافت کے دور میں ہم نے یہی کچھ دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب بھی کوئی جلسے پر آیا نیک اثر لے کر گیا یا نیک اثر نے اس کو گھائل کیا اور بیعت کر کے اس سلسلے میں شامل ہو گیا.پس یہ نشان ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی صداقت کی یہ دلیل ہے.یہ خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا نشان ہے.جو باتیں ہم دیکھتے ہیں یہ انسانی کوششوں سے تو پیدا نہیں ہوسکتیں.جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ جلسے کا ماحول ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے اور اس
خطبات مسرور جلد 12 531 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء میں شامل ہونے والا ہر احمدی اور ہر کارکن ایک خاموش مبلغ ہوتا ہے.تمام غیر مہمان یہ نظام دیکھ کر کہ خاموشی سے سب کام ایک دھارے میں بہتے چلے جارہے ہیں.کوئی panic نہیں.کوئی افراتفری نہیں ہے.کہیں کوئی سختی یا سخت کلامی نظر نہیں آتی بلکہ مسکراتے چہرے نظر آتے ہیں.چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھے مرد عورتیں خدمت کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں.اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں.یہ چیز ہیں دیکھ کر غیروں پر جماعت کا بڑا اثر ہوتا ہے.اور جو احمدی پہلی بار جلسے میں شامل ہوئے ہوتے ہیں ان کے ایمان میں بھی یہ ماحول بے انتہا ترقی کا باعث بنتا ہے بلکہ ہمیشہ شامل ہونے والے بھی نئے سرے سے چارج ہوتے ہیں اور اپنے ایمان وایقان میں ترقی اور اضافہ کر کے یہاں سے جاتے ہیں.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو نیک نیتی سے اور بعض عادتا بھی یہ بات کرتے ہیں کہ انہوں نے نقائص تلاش کرنے ہوتے ہیں اور ایسے ناقدین کا بھی اس دفعہ عموماً یہ اظہار رہا ہے کہ کارکنان کی خوش مزاجی کا معیار پہلے سے بہتر تھا.جلسہ کے مہمانوں کے بھی تاثرات پیش کرتا ہوں.اس دفعہ کانگو کنشاسا سے سپیکر صوبائی اسمبلی باندوند و بو نیفا این تو ابوشیوا Boniface twa Boshi Wa) صاحب پہلی بار جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے.موصوف نے تینوں دن جلسہ کی مکمل کارروائی دیکھی.جلسہ گاہ میں بیٹھ کر سنی.نمازوں کے دوران بھی جلسہ گاہ میں رہتے.عالمی بیعت بھی انہوں نے دیکھی.یہ کہتے ہیں یہاں ہر کوئی ایسے مل رہا ہے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتا ہو.ہر کوئی سلام کر رہا ہے.یہی حقیقی محبت ہے.یہی حقیقی مذہب اور دین ہے.کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم نے صوبائی سطح پر ایک پروگرام منعقد کرنا تھا جس میں پہلے دن ہی بدانتظامی کی وجہ سے 26 افراد کی موت ہوگئی.چنانچہ پروگرام کینسل کرنا پڑا.لیکن میں حیران ہوں کہ جلسے میں ہزاروں افراد کے مجمع میں کوئی چھوٹی سی بدنظمی نہیں ہوئی.کوئی دھکم پیل اور فساد نہیں ہوا کسی کی موت ہونا تو دور کی بات ہے کسی نے اونچی آواز سے بات تک نہیں کی.چھوٹے بچوں کو ڈیوٹی دیتا دیکھ کر بڑے جذباتی تھے.کہتے ہیں یہ ننھے بچے پانی یا کوئی اور کھانے کی چیز اس پیار اور محبت سے پیش کرتے ہیں کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجودان بچوں کو انکار کرنے کا دل نہیں کرتا.چھوٹی عمر کے بچوں کی عام طور پر یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ چیز خود لینا چاہتے ہیں لیکن جماعت نے ان بچوں کی ایسی تربیت کر دی ہے کہ اس عمر سے ان کو دوسروں کے لئے جذبات قربان کرنے کی عادت پڑ گئی ہے اور انتہائی چھوٹی عمر سے دوسروں کے آرام اور سکون کو اپنے آرام پر ترجیح دینے لگے ہیں.یقینا یہ بچے بڑے ہو کر دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بنیں گے بلکہ دوسروں کی خدمت کرنے والے ہوں گے.اور جلسے کے بعد جب وہ اپنی ایمبیسی
خطبات مسرور جلد 12 532 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء میں گئے ہیں تو وہاں انہوں نے اپنے ایمبیسیڈر کے سامنے اس طرح اظہار کیا کہ میں نے کئی ملکی اور غیر ملکی بڑی بڑی کا نفرنسز میں شرکت کی ہے لیکن جو حسن انتظام یہاں جلسے میں نظر آیا وہ کہیں اور نہیں دیکھا.پھر بینن کے وزیر داخلہ فرانس ہو سو ( Francis Houessou) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا.میرے پاس الفاظ نہیں جن سے میں جلسے کے انتظامات کی تعریف کرسکوں.بہت عمدہ اور منظم جلسہ تھا.میں نے جماعت کے لوگوں میں رضا کارانہ طور پر دوسروں کی خدمت کرنے کا غیر معمولی جذبہ دیکھا ہے.یہ جذبہ ہر احمدی کی روح کی غذا بن چکا ہے.یہی وجہ ہے کہ آج جماعت احمد یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے.کہتے ہیں میں نے بچوں بڑوں کو حتی کہ بوڑھوں کو دیکھا کہ انہیں اپنے کھانے پینے کی فکر نہیں تھی.اگر فکر تھی تو بس ایک چیز کی کہ ہمارا جلسہ کامیاب ہو.اپنے مقاصد کے حصول میں اتنی محنت کرنے والے لوگ میں نے کبھی نہیں دیکھے.کہتے ہیں میں نے دنیا دیکھی ہے.امریکہ جیسے سپر پاور کے انتظامات بھی دیکھے ہیں مگر بڑی بڑی طاقتوں کو بھی اس طرح کے منظم اور پر امن انتظام کرتے نہیں دیکھا.یہاں تو بالکل چھوٹی عمر کے بچے بھی رضا کارانہ ڈیوٹیاں دیتے ہیں اور جو ہدایات انہیں ملتی ہیں بڑے شوق سے ان کی پابندی کرتے ہیں.پھر کہتے ہیں جماعت کی عالمی طاقت کا راز یہی ہے کہ جماعت کو ایک خلیفہ ملا ہوا ہے.میں بر ملا اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ آج جماعت احمد یہ ہی ہے جو دنیا میں امن کے قیام کے لئے کام کر رہی ہے.آج زمین پر صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو بھائی چارے کی تعلیم دیتی ہے ،صبر کی تلقین کرتی ہے اور امن کے قیام کی علمبر دار ہے.یوگنڈا کے ڈیفنس منسٹر ڈاکٹر کرسپس چیونگا (Dr.Crispus Kiyonga) نے جلسے میں شمولیت کی.کہتے ہیں جلسے کی کیفیت کا نظارہ بیان سے باہر ہے.باقاعدہ دو دن جلسے کی کارروائی دیکھی اور نمائش بھی دیکھی.ان کی مجھ سے ملاقات بھی ہوئی تھی.سب کچھ دیکھنے کے بعد یہ کہنے لگے کہ اتنا ڈسپلن تو آرمی پیدا کر سکتی ہے.اس پر اُن کو میں نے کہا تھا کہ آپ کی آرمی بھی نہیں پیدا کر سکتی.تو کہتے ہیں بڑی صحیح بات کہی ہے.اس میں کوئی شک نہیں.اس قسم کا ڈسپلن تو دنیا کی کوئی آرمی بھی نہیں پیدا کر سکتی.یونان سے آنے والے مہمانوں میں انٹی گونی (Antigoni) اور پانا گی یوتس (Panagiotis بہر حال جو بھی ان کا نام ہے شامل تھے.اس میں پانا گی یوتس (Panagiotis) صاحب کو جماعتی لٹریچر کا گر یک ترجمہ کرنے کی توفیق مل رہی ہے.جلسے سے واپس جا کر انہوں نے ایک ای میل بھجوائی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں اس قدر پر امن مجمع کو جو
خطبات مسرور جلد 12 533 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء ایک دوسرے کو پیار اور محبت دینے کے لئے اور دعائیں کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے، دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو دوسروں کی مدد اور خدمت کے لئے یکجا ہوتے دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.جماعت احمد یہ دوسروں کو فقیر سمجھ کر مدد نہیں کرتی بلکہ ایسے پروجیکٹ کرتی ہے جس سے غریب لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں.ایسی کمیونٹی جو دوسروں کی اتنی مدد بھی کر رہی ہو لیکن اس کے با وجود عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنے والی ہو کوئی عام بات نہیں ہے.کہتے ہیں کہ جلسے کے دوران کسی کو ہم نے کسی بھی چیز کی شکایت کرتے نہیں سنا اور نہ ہی ہم نے کوئی ایسا چہرہ دیکھا جس میں مسکراہٹ نہ ہو اور نہ ہی کسی کو اونچی آواز میں بات کرتے دیکھا.ہر ایک رضا کار پوری جان لگارہا تھا اور سخت محنت کے باوجود ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی.یہ جامعہ میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں کے کارکنوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ مہمان جامعہ کو اپنا گھر ہی سمجھیں.نائیجیریا سے آنے والے وفد میں ایک ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر اسحاق صاحب تھے.کہتے ہیں جلسہ سالانہ کے تمام انتظامات انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے تھے.ائیر پورٹ سے ریسیو کرنے سے لے کر جلسہ کے اختتام تک ہر پہلو سے تمام انتظامات بہترین تھے.جلسہ کی تقاریر بہت عمدہ تھیں.میں نے پہلی مرتبہ عالمی بیعت کا نظارہ دیکھا.بہت ہی جذباتی نظارہ تھا.اس نظارے نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا.جلسہ سالانہ کے اجلاسات میں جب خلیفہ اسیح موجود ہوتے تھے تو یہ نظارہ بہت روح پرور اور جذباتی ہوتا یہاں تک کہ میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے کہ کس طرح ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے امام کے سامنے سر تسلیم خم کئے بیٹھے ہیں.ایسا نظارہ میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا.جو پیار و محبت احباب جماعت نے اس جلسے کے دوران اور بعد میں دیا وہ میں واپس جا کر بتاؤں گا کہ تمام امت مسلمہ کو اسی بہترین نمونے کو اپنانا چاہئے.نائیجیریا سے ایک اخبار نیشنل مرر کی اسسٹنٹ ایڈیٹر سکینہ لو ال صاحبہ آئی تھیں.کہتی ہیں کہ جلسہ سالانہ یو کے پر آ کر احساس ہوا کہ جماعت کا ہر فرد ایک دوسرے سے پیار و محبت کا تعلق رکھتا ہے.ہر آدمی مسکرا کر ملتا اور ہر وقت ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے.مجھے بطور جرنلسٹ کام کرتے ہوئے اٹھارہ سال ہو گئے.میں برملا اس بات کا اظہار کرتی ہوں اور یہ بات کہنے پر فخر محسوس کرتی ہوں کہ تمام مسلمان تنظیموں میں سے جماعت احمدیہ ہی وہ واحد تنظیم ہے جو اسلامی حکموں پر عمل کرتی ہے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ ہے.جلسہ سالانہ کے انتظامات تمام پہلوؤں سے ہر لحاظ سے مکمل تھے.پھر
خطبات مسرور جلد 12 534 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء کہتی ہیں کہ ہر مرد و عورت بوڑھا بچہ بہت پیار اور دوستانہ طریقے سے ملتا تھا.کسی اسلامک پروگرام میں ایسا نہیں دیکھا.پس یہ جو غیروں کے اثر ہیں یہ صرف سننے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہمیں ہمیشہ اپنی حالتوں پہ یہ کیفیت طاری رکھنی چاہئے.ھر تحکیم کے ایک شہر کستار لی (Kasterlee) کے میئر جوفلیمش پارلیمنٹ کے مبر بھی ہیں، وہ آئے ہوئے تھے.وہ کہتے ہیں کہ اس جلسے میں شامل ہو کر مجھے اسلام کی اصل تعلیم کے بارے میں آگا ہی حاصل ہوئی.نیز میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ کس طرح اس تعلیم پر عمل کرتے ہیں.لوگوں کے آپس میں پیار اور محبت نے مجھے بہت متاثر کیا.میں نے جماعت کے لوگوں کو صرف لوکل سطح پر دیکھا تھا لیکن جلسہ میں شامل ہو کر عالمی سطح پر بھی جماعت کے لوگوں کو دیکھا ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ جماعت جو کہتی ہے اس پر عمل بھی کرتی ہے.جلسے کے اس قدر اعلیٰ انتظامات کی مثال کہیں اور نہیں ملتی.میں یہاں سے اپنے ساتھ پیار اور محبت لے کر واپس جا رہا ہوں.آپ لوگوں نے مجھے حقیقی اسلام کی تعلیم بتائی ہے.میں ہیومینٹی فرسٹ اور انجینیئر زایسوسی ایشن کے سٹالوں پر بھی گیا ہوں.وہاں جا کر مجھے پتا چلا کہ جماعت انسانیت کی کس قدر خدمت کر رہی ہے.میرے لئے یہ سب باتیں حیران کن تھیں.میرے دل میں جماعت کی قدر پہلے سے بڑھ گئی ہے.بیلجیئم کے شہر ٹرن ہاؤٹ کے وائس میئر اور کونسلر جلسہ میں شامل تھے.کہتے ہیں کہ اسلام کے متعلق جو کچھ ہم نے میڈیا میں دیکھا تھا جلسے میں آ کر بالکل اس کے برعکس دیکھا ہے.اسلام کا جو نقشہ آپ نے پیش کیا ہے وہی حقیقی اسلام ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی تعلیم بہت ہی پیاری ہے.کہتے ہیں آپ اسلام کی حقیقی تعلیم بیان کر کے تمام بنی نوع انسان کو جو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کرنا چاہتے ہیں وہ یقیناً ایک بہت بڑی نیکی ہے.میں نے اپنے شہر میں دیکھا تھا کہ جماعت انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں رہتی ہے لیکن جلسے میں آ کر مجھے معلوم ہوا کہ جماعت احمد یہ تو پوری دنیا میں انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہے.میری نظر میں اس وقت دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جو انسانیت کی اس حد تک خدمت کر رہا ہو اور دنیا میں پیار اور محبت اور امن کی تعلیم پھیلا رہا ہو.میں نے جلسے پر ڈیوٹیاں دینے والوں کو بھی دیکھا.میں اس بات سے بہت متاثر ہوا کہ ڈیوٹیاں دینے والے یہ لوگ مہمانوں کی خدمت کر کے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں.کہتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اگر ہمارے ملک میں بھی لوگ اسی طرح اسی
خطبات مسرور جلد 12 535 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء جذبے سے کام کرتے تو ہمارا ملک ان مالی مشکلات سے دو چار نہ ہوتا جن سے آج کل ہم گزررہے ہیں.پھر بیجیم کے شہر ٹرن ہاؤٹ کے وائس میئر کی اہلیہ کہتی ہیں.میں عورتوں کے جلسے میں بھی گئی.وہاں مجھے جو پیار اور محبت ملا اس کی مثال میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی.جب خلیفہ امسیح عورتوں کے جلسہ گاہ میں آئے تو ایک عجیب ماحول تھا.اتنی کثیر تعداد میں عورتیں وہاں موجود تھیں لیکن ہر طرف خاموشی تھی.پھر جب خلیفتہ اسیح نے خطاب فرمایا تو ہزاروں کی تعداد میں موجود عورتوں نے مکمل خاموشی کے ساتھ خطاب سنا.عورتوں کے بارے میں اسلامی تعلیم کے حوالے سے جو سوالات میرے ذہن میں تھے خلیفۃ المسیح کے خطاب سے ان سوالوں کے جوابات مل گئے.پھر کہتی ہیں کہ میں شروع میں جب عورتوں کے جلسہ گاہ میں گئی تھی تو میرے دل میں ایک خوف سا تھا لیکن جب خلیفہ اسیح کا خطاب سننا شروع کیا تو میرا سارا خوف دُور ہو گیا.بھیجیم سے ایک زیر تبلیغ دوست شو بام میمد (Chauboum Ahmad) صاحب تھے کہتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے سے احمدیت کا تعارف تھا اور پہلی مرتبہ احمدیوں کے جلسے میں شرکت کی ہے.جلسے میں جو تین دن گزارے اور سب کچھ دیکھا ئیں برملا کہتا ہوں کہ احمدیت ہی اسلام کی صحیح تصویر ہے.میں نے یہاں پر لوگوں کو سجدے میں روتے دیکھا ہے.اس کا گہرا اثر ہے.مالٹا سے ایک سوشل ورکر کینتھ کریمونا (Kenneth Cremona) صاحب بھی آئے تھے جو معذور افراد کی دیکھ بھال کا کام کرتے ہیں.کہتے ہیں جو بات سب سے زیادہ اچھی لگی وہ یہ تھی کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی جماعت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور پانی پلانے کا کام سرانجام دے رہے تھے.پھر کہنے لگے کہ مجھے یہ بات بڑی اچھی لگی کہ خلیفہ اسیح نے جلسے سے متعلق ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ اطاعت کریں اور ہر حکم مانیں خواہ یہ حکم یہ ہدایت کسی چھوٹے بچے کی طرف سے کیوں نہ ہو.کہنے لگے کہ میں نے جلسہ سے متعلق ہدایات پر مشتمل ایک کتا بچہ دیکھا جس میں لکھا تھا کہ کھانا اتنا ہی لیں جتنی ضرورت ہے.زائد کھا نا ڈال کر ضائع نہ کریں.یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی بات کا یہ جماعت خیال رکھتی ہے.اور یہ باتیں لوگ پھر نوٹ بھی کرتے ہیں.مالٹا سے ایک صحافی اوان بارتولو (Ivan Bartolo) صاحب آئے تھے.ٹی وی پر ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتے ہیں.تین سال سے جماعت سے ان کا تعلق ہے.انہوں نے میرا انٹرویو بھی لیا.خواہش تھی کہ انٹرویو لیں.کہتے ہیں کہ میرے لئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ 125
خطبات مسرور جلد 12 536 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء سال میں جماعت نے اس قدر ترقی کی ہے کہ دنیا کے 206 ممالک میں جماعت قائم ہو چکی ہے.یہ یقیناً الہی تائید و نصرت کے بغیر ممکن نہیں.پھر کہتے ہیں کہ جلسے پر ہر چیز منظم اور با قاعدہ ایک ترتیب کے مطابق تھی اور جہاں نظام اور ترتیب ہو وہاں خدا ہوتا ہے.یہ عیسائی ہیں اور عیسائیوں کے تاثرات ہیں.انہوں نے میرا انٹرویو لیا.اس کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک جا کے اپنے ٹی وی کے لئے جماعت کے بارے میں ایک گھنٹے کی ایک ڈاکومنٹری بھی بنائیں گے.اس کے علاوہ مالٹا سے مائیکل گر یک (Michael Grech) صاحب جلسہ میں شامل ہوئے.یہ کالج میں فلاسفی پڑھاتے ہیں.اخبارات اور رسائل میں مضامین بھی لکھتے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں جلسہ سالانہ کی کارروائی اور تقاریر پر مشتمل ایک جامع تفصیلی مضمون لکھنا چاہتا ہوں تا کہ دوسرے لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکیں اور اس جلسے میں بیان کئے گئے دینی و دنیوی فلاح و بہبود سے متعلق بیان فرمودہ زریں نصائح اور اصولوں سے فائدہ اٹھا سکیں.فرینچ گیانا سے بھی احمدی اور غیر احمدی مہمان جلسے میں آئے تھے.ان مہمانوں میں ایک غیر احمدی مہمان مسٹر تھیری ایٹی کوٹ (Mr.Thierry Atticot) تھے جو کہ تاریخ کے پروفیسر ہیں اور عقیدے کے لحاظ سے عیسائی ہیں.کہتے ہیں جب مجھے جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت ملی تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مجھے یہ لوگ کیوں دعوت دے رہے ہیں.بعض ویڈیوز بھی مجھے دکھائی گئیں.سمجھا یا بھی گیا لیکن پھر بھی جلسے کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا.لیکن اب خود جلسے پر آ کر مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ اس جلسے کی جماعت میں کیا حیثیت ہے بلکہ پوری دنیا کے لئے یہ جلسہ کتنا اہم ہے.دنیا کو ایسے جلسوں کی ضرورت ہے جس میں محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں، نعرہ ہو.کہتے ہیں کہ جلسے کی کارروائی کے آغاز میں جو تلاوت قرآن کریم ہوتی تھی اس سے بھی میری روح کو ایک عجیب لطف پہنچتا تھا جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.اب میں نے ان تلاوتوں کی آڈیو بھی لے لی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ میرے لئے سکون کا موجب ہوگی.پھر اس دفعہ یہاں سے بھی اور باہر کے ملکوں سے بھی مختلف پریس کے کافی جرنلسٹس بھی آئے ہوئے تھے.ایک ہندو جرنلسٹ نے کہا کہ میری ماں نے مجھے منع کیا تھا کہ مسلمانوں کے فنکشن پر نہ جاؤ.یہ بڑے خطر ناک لوگ ہیں.تمہیں مارمور دیں گے اور پتا بھی نہیں لگے گا کہ کہاں گئی ہو.خیر کہتی ہیں لیکن میں نے اپنی ماں کی بات نہیں مانی.مجھے یہاں جو تجربہ ہوا ہے اب میں اپنی ماں کو جا کر کہوں گی کہ احمدی ہم
خطبات مسرور جلد 12 537 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء سے زیادہ پر امن ہیں.اور ایسی ان کی باتیں خوبصورت ہیں اور تعلیم خوبصورت ہے کہ تمہیں بھی جا کے دیکھنی چاہئے.کہتی ہیں شکر ہے کہ میں اس جلسے سے محروم نہیں رہی.پھر Belize جس میں اس دفعہ جماعت قائم ہوئی ہے.وہاں کی ایک جرنلسٹ مریم عبدل صاحبہ آئی ہوئی تھیں.یہ بلیز کے کریم (Krem) ٹی وی کی معروف اینکر بھی ہیں.موصوفہ نے جلسے میں شمولیت کےحوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمد یہ کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کا تجربہ میری توقعات سے زیادہ خوشگوار رہا.ڈیوٹی پر موجود سارے لوگ بہت محبت اور احترام سے پیش آئے.پھر کہتی ہیں جماعت کے ماٹو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں نے مجھ پر بہت اچھا اثر چھوڑا ہے.میں نے اس ماٹو پر بہت غور کیا اور گزشتہ چند دنوں میں مجھے ہر طرف سے صرف اور صرف محبت ہی دیکھنے کو ملی.اس جماعت نے مجھے بہت کچھ دیا ہے.میں اس پر شکر گزار ہوں اور ہمیشہ اسے یاد رکھوں گی.اور کہتی ہیں کہ اس کے علاوہ میں تمام ڈیوٹیاں دینے والوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں.انہوں نے بتایا کہ وہ کٹرستی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں.کہتی ہیں میرا باپ بڑا سخت مسلمان تھا جس کی وجہ سے مجھے رد عمل ہوا اور میں نے بڑے ہو کر اسلامی احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا کیونکہ پردہ ، سکارف اور بہت ساری ایسی باتیں جن کا غلط رنگ میں یا صحیح رنگ میں دوسرے مسلمانوں میں رواج ہے.ان میں اتنی سختی تھی کہ میں اسلام کی تعلیم سے دور ہو گئی.بڑی ہوئی تو سکارف حجاب سب کچھ اتار کے پھینک دیا.لیکن کہتی ہیں خدا تعالیٰ پر مجھے بہر حال یقین ہے.لیکن جلسہ سالانہ میں یہاں آ کر مجھے ایک انوکھا تجربہ ہوا ہے.یہاں میں نے کسی عورت کو پابند اور جکڑا ہوا نہیں دیکھا.ہرلڑ کی ، ہر عورت آزاد تھی.میں نے عورتوں اور بچیوں کو دیکھا.وہ آزادانہ طور پر پھر رہی تھیں.نظمیں پڑھ رہی تھیں.بازار میں جا رہی تھیں.ایک دوسرے کو محبت سے مل رہی تھیں.اس نے میرے اندر یہ سوچ پیدا کر دی ہے کہ اگر میں احمدی مسلمان گھر میں پیدا ہوئی ہوتی تو میری روش باغیانہ نہ ہوتی.میں نے یہاں بہت سی دوست بنائی ہیں.پس احمدی خوش قسمت ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کو احمدی گھروں میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور کچھ کو احمدی ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور ان باتوں سے بچا کے رکھا جو باغیانہ روش پیدا کرتی ہیں.بعض احمدی بچیوں میں بھی رد عمل ہوتا ہے، ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ غیر آ کر ہمارے سے متاثر ہوتے ہیں اس لئے کسی بھی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں.اسلام کی جو خوبصورت تعلیم ہے یہ ہر ایک کے لئے ایسی تعلیم ہے جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے اور اس پر عمل
خطبات مسرور جلد 12 538 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر ایک جرنلسٹ نے کہا کہ میں نے کبھی اپنے چرچ میں بھی اتنی عزت نہیں دیکھی جتنی میری یہاں ہوئی ہے.کہتی ہیں با قاعدہ چرچ جاتی ہوں اور بڑی مذہبی عورت ہوں.نہ میں نے کبھی شراب پی ہے، نہ سگریٹ نوشی کی ہے.یہ سب برائیاں ہیں ان کو میں برا سمجھتی ہوں.لیکن کہتی ہیں کہ جو بھی ہے یہاں میں نے اپنے آپ کو بہت خاص محسوس کیا.قزاقستان سے ایک غیر از جماعت دوست آرتی میف صاحب کہتے ہیں کہ میں دل کی گہرائیوں سے خلیفہ اُسیح اور جماعت احمدیہ کی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس جلسے پر مدعو کیا اور کچھ کہنے کا موقع دیا.جلسہ سالانہ انگلستان میں شمولیت کی سب سے پہلی دعوت مجھے پندرہ سال پہلے دی گئی تھی اور جماعت احمدیہ کے بارے میں میری تحقیق اس وقت سے جاری ہے جب سے قزاقستان میں احمدیت کی ابتدا ہوئی ہے.ایک مذہبی سکالر کی حیثیت سے جسے مختلف مذاہب پر تحقیق کرتے نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہو اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ میرا تجربہ ہے.پھر کہتے ہیں مجھے سب سے زیادہ پرکشش آپ کی جماعت کا ماٹو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں، لگتا ہے.یہ نظریہ بیسویں صدی کے آخر میں رونما ہونے والا ایک انقلاب تھا اور مذہب اسلام کے ایک روشن اور تابندہ باب کا آغاز تھا جس کے بارے میں آج تک کبھی دوسری اسلامی تحریکات نے توجہ نہیں کی.کہتے ہیں اس دور میں ہم سب دنیا میں ہونے والے پریشان کن واقعات و حالات کے گواہ ہیں.جہاں انتہا پسندی اپنے عروج پر اور مذہبی برداشت اور رواداری نا پید ہوتی جارہی ہے.ایسے وقت میں یہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو اپنے انسانیت دوست کاموں سے، اس دنیا کو دوبارہ اسی نور سے روشن کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو مذہب اسلام ابتدا ہی سے اپنے اندر رکھتا ہے.کہتے ہیں آج جماعت احمد یہ عالم اسلام میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی اور سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والی جماعت ہے.اور یہ بات منطقی طور پر بھی اس لئے درست ہے کہ جماعت احمدیہ کی تعلیمات اس وقت کروڑوں لوگوں کے دلوں کے قریب ہیں.یہ تعلیمات قزاق قوم کے دلوں کے بھی قریب ہیں اور زیادہ قابل فہم ہیں.اور یہی بات وہاں موجود اسلام کے نام نہاد علماء کوبھی خوف میں مبتلا کئے ہوئے ہے جن کی پوری کوشش ہے کہ اسلام احمدیت کو نقصان پہنچا ئیں.وہاں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ قرغیزستان، قازقستان میں احمدیوں کو اپنی
خطبات مسرور جلد 12 539 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء حفاظت میں رکھے.سیرالیون سے آنے والے وفد میں ڈاکٹر عثمان فوفا صاحب جو انٹر ریلیجس کونسل سیرالیون کے جنرل سیکرٹری ہیں.پھر ایک پروفیسر کریم صاحب یونیورسٹی میں سائنس کے شعبہ کے ہیڈ ہیں اور سیرالیون مسلم کانگرس کے جنرل سیکرٹری ہیں.پھر ایمبو بنکو را صاحب جو ملک کے دارالحکومت فری ٹاؤن میں رولنگ پارٹی کے چیئر مین ہیں شامل تھے.یہ جو بنکو را صاحب ہیں انہوں نے اللہ کے فضل سے بیعت بھی کر لی ہے.ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ جلسہ سالانہ کی کارروائی سیرالیون کے ٹی وی نے لائیو نشر کی ہے اور صدرمملکت سیرالیون نے بھی جلسہ کی کارروائی دیکھی.جب ٹومی کالون صاحب نے تقریر ختم کی تو صدر مملکت نے جلسہ گاہ میں اپنے وفد کے ممبران کو فون کر کے جلسے کی مبارکباد دی.اس سال ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو کے منسٹر آف لیگل افیئرز مسٹر پرکاش رمادار ( Mr.Prakash Ramadhar) بھی شامل ہوئے.کہتے ہیں کہ کمیونٹی کے ممبرز کا خلیفہ اسیح کے لئے جو پیار تھا انسان اس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.جہاں تک جلسے کی بات ہے تو ہر چیز ز بر دست تھی.وہاں کام کرنے والوں کا اخلاص اور جذ بہ اس حقیقت پر گواہ تھا کہ یہ جماعت کسی انسان کی بنائی ہوئی جماعت نہیں ہے بلکہ اس جماعت کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے.کہتے ہیں میں جلسے میں شامل ہو کر اندر سے ہل گیا ہوں.میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایمانداری، انکساری اور اخلاص کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق دے.کروشیا سے نو افراد پر مشتمل وفد جلسے میں شامل ہوا.ان میں سے پانچ کیتھولک خواتین تھیں جن میں سے چار یو نیورسٹی کی طالبات اور ایک خاتون میوزیم ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں.اس کے علاوہ چار مرد احباب تھے.جن میں ایک زاغرب میں مسلم عربک سینٹر کے ہیڈ تھے اور باقی تین کیتھولک تھے.عربک سینٹر کے ڈائریکٹر علی بیگووچ کہنے لگے کہ میں نے دنیا کے مختلف ممالک میں بے شمار ایونٹس (events) میں شمولیت کی ہے لیکن احمد یہ جماعت کے جلسے میں جس اخلاص اور محبت سے بچے خدمت بجالا رہے تھے یہ منظر میں نے بھی پہلے نہیں دیکھا.جامعہ کے جو کارکنان یعنی سٹوڈنٹ بیچے، کارکن، والنٹیر زہماری خدمت کر رہے تھے کہتے ہیں ان کے طریق خدمت نے سب کے دل موہ لئے.وفد کی ایک رکن ساندرا صاحبہ جو میوزیم ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں کہنے لگیں.ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کارکنان کب آرام کرتے ہیں.جب دیکھو ڈیوٹی پر مستعد ہوتے ہیں.کہنے لگیں کہ ایسے فدائی رضا کار میں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے.پھر عالمی بیعت کی تقریبات خصوصاً سجدہ شکر اور لوگوں کا گریہ
خطبات مسرور جلد 12 540 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء وزاری سے دعائیں مانگنا ہم سب کے لئے باعث حیرت تھا.پھر ایک رکن ما یا صاحبہ جو ز اغرب یونیورسٹی میں مذاہب عالم میں سٹڈی کر رہی ہیں اور انہوں نے مجھ سے کئی سوال جواب بھی کئے.وہ کہتی ہیں ان جوابوں سے میں بڑی مطمئن ہوئی ہوں.میری کافی تسلی ہو گئی ہے.کہنے لگے دیگر مسلمان اور دنیا وی رہنما بھی خلیفہ اسیح سے رہنمائی لیں تو بہت سارے مسائل پر امن طریقے پر حل ہو سکتے ہیں.انہوں نے سوال یہ کیا تھا کہ لوگ تہذیب یافتہ معاشرے میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود پھر تشدد کی طرف مائل کیوں ہیں، جہادی کیوں بن رہے ہیں ؟ اس کا میں نے ان کو کافی تفصیل سے جواب دیا تھا.بہر حال ان کی کافی تسلی ہوئی.کروشیا سے انگلش اور فرنچ میں ماسٹرز کی طالبہ روبرٹا نے بھی مختلف مذاہب کے اکابرین اور امن کے حصول کے متعلق سوال کیا تھا.پھر کہتی ہیں جواب سے میری بڑی تسلی ہو گئی.بیٹی سے گیری گیتو (Gary Guiteau) جو کہ بیٹی میں منسٹری آف کلچر کے ڈائریکٹر ہیں، جلسے میں شامل ہوئے.وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک بیٹی سے پہلی بار کوئی بھی حکومتی نمائندہ جماعت احمد یہ کے اس عظیم الشان جلسہ میں شامل ہوا ہے.مجھے اس جلسے میں شرکت کر کے بیحد خوشی محسوس ہوئی ہے.آپ کا نظام دیکھ کر میں یہ برملا کہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ تمام دنیا کے لئے ایک مثالی جماعت ہے.جلسے میں تمام رضا کاروں کو ایک خاص جذبے کے ساتھ کام کرتے دیکھ کر بہت حیرانگی ہوتی ہے اور رشک آتا ہے.ان رضا کاروں میں سب شامل ہیں.چھوٹے بڑے مرد و زن سب شامل ہیں.بعد میں ان کو مسجد کا وزٹ بھی کرایا گیا.مسجد میں یہ گئے تو بڑے احترام سے اپنے رنگ میں دعائیں کرتے رہے.اس کے بعد پھر انہوں نے وہاں لمباسجدہ بھی کیا.پھر بعض نئے شامل ہونے والوں کے تاثرات پیش کرتا ہوں.میکسیکو سے ایک خاتون یا نالو پیز ریخون (Yanna Lopez Rejon) کہتی ہیں کہ مجھے اس جلسے نے بہت سی چیزیں سکھائی ہیں.مجھ پر نہ صرف اپنی زندگی کی حقیقت آشکار ہوئی ہے بلکہ مسلمان دنیا کی موجودہ حالت کی وجوہات کا بھی علم ہوا ہے.مجھے قبل ازیں ایک کمیونٹی کا پتا چلا تھا کہ وہ بڑی متحد ہے اور اس کے مختلف ممالک میں سینٹر ہیں لیکن اب جلسے میں شامل ہو کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ یقیناً وہ جماعت احمدیہ کی طرح متحد نہیں ہے اور نہ ہی وہ کمیونٹی جماعت احمدیہ کی طرح پھیلی ہوئی ہے.پہلے میں سمجھتی تھی کہ جس فرقے سے میرا تعلق ہے وہی ٹھیک ہے لیکن جلسہ سالانہ کی تقاریر کے ذریعہ مجھے پتا چلا
خطبات مسرور جلد 12 541 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء کہ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل ہوتا ہے.میں دعا کیا کرتی تھی کہ اے اللہ ! مجھے بہترین لوگوں میں شامل کر اور سچی خلافت کے ذریعے میری رہنمائی کر اور مجھے توفیق دے کہ میں اپنی استعداد یں اسلام کی تبلیغ کے لئے استعمال کر سکوں.اور ضرورتمندوں کے کام آسکوں.اب میں سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی ہے.اب مجھے جماعت احمد یہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.پھر بیلیز سے ایک نو مبائع ایون ورنون Evan Vernon) جن کا اسلامی نام حمزہ رشید ہے کہتے ہیں کہ جلسے کے ان تین دنوں میں مجھے جماعت کی وسعت کے بارے میں پتا چلا.اس جلسے کی تنظیم اور ترتیب اپنے اندر ایک جادوئی کیفیت رکھتی ہے.میں نے اس جلسے پر اسی (80) سے زیادہ ممالک سے آنے والے مختلف طبقات کے لوگوں کو دیکھا جن میں غریب بھی تھے اور امیر بھی.سیاستدان بھی تھے اور حکومتی حکام بھی.اس جلسے کی کامیابی کے لئے لا تعدا د رضا کاروں نے کام کیا اور مہمان نوازی بہت اعلی تھی.مارشل آئی لینڈ کی صدر لجنہ میری لین تھا جوانی (Mery Lintha Johnny) یہ بھی نئی احمدی ہیں.کہتی ہیں الحمد للہ جلسہ سالانہ میرے لئے ایک نعمت عظمیٰ تھا.جب سے میں یہاں آئی ہوں میں نے اپنے بھائی بہنوں میں پیار اور محبت اور ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس ہی دیکھا.ان سے بات کر کے احساس ہوتا تھا جیسے ہم پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں.کہتی ہیں جماعت کے ماٹو محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں، کا اظہار ہوتا دیکھا تھا.پھر میری تقریروں کے بارے میں کہتی ہیں کہ ایک عجیب احساس ہوتا تھا اور اس دوران ہر لفظ پر میرے آنسو بہہ پڑتے تھے.میں اپنے جذبات بیان نہیں کر سکتی.پھر عالمی بیعت کا نظارہ بھی بہت مسحور کن اور ایک اثر رکھنے والا تھا.کہتی ہیں بلا شبہ میں جلسے میں شامل ہونے کے بعد پہلے کی نسبت خدا تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوئی ہوں.پھر ایک افریقن امریکن لجنہ نے اپنا خواب بھی مجھے بتایا.کہتی ہیں میں نے خواب دیکھا کہ ایک خوبصورت مسجد میں نماز ادا کر رہی ہوں اور وہ مسجد بہت وسیع اور کشادہ ہے اور وہاں بہت سے لوگ ہیں جن کو میں پہچانتی بھی نہیں.ہر مرتبہ مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں اب کسی اور ملک میں ہوں.کہتی ہیں اب اس جلسے میں شامل ہو کر مجھے اپنی خواب کی تعبیر ملی.یہاں مختلف ممالک کے لوگ اکٹھے ہو کر بڑی تعداد میں نماز پڑھتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے کامل اطاعت کے ساتھ بہترین مسلمان بن کر زندگی
خطبات مسرور جلد 12 542 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء گزارنے کی توفیق دے.میکسیکو کے ایک نو مبائع بشیر کو یا سو صاحب کہتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد خلیفہ وقف کی محبت اور فدائیت کے جذبے سے معمور تھے جو بے مثال تھا.جلسے کے کارکنان مہمانوں کی خدمت رضا کارانہ طور پر انتہائی جذ بہ فدائیت سے کر رہے تھے.جماعت احمد یہ دنیا میں ایک مثالی جماعت ہے جو حقیقی اسلام کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے.میکسیکو کے نو مبائع امام ابراہیم چیچو صاحب جو اپنے ستر مقتدیوں کے ساتھ احمدیت میں شامل ہوئے.کہتے ہیں میرے دل نے محسوس کیا کہ جلسے کے ایام میں بے شمار افضال و برکات نازل ہو رہے ہیں اور خلافت کے سائے میں دنیا کے مختلف رنگ ونسل کی قومیں باہمی محبت و اخوت سے سرشار ہیں.کہتے ہیں ،خلیفہ وقت کی تقاریر سے جہاں میرے علم میں اضافہ ہوا وہاں مجھے قلبی سکون بھی نصیب ہوا.جلسے میں شامل ہر فرد بزبانِ حال گواہی دے رہا تھا کہ اسلام محبت اور سلامتی کا مذہب ہے جس کی ہر قوم و ملک کوضرورت ہے.پانامہ سے گریگوریو گونز الیز (Gregoria Gonzales) یہ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ یو کے میں مختلف افراد کے اجتماع تنظیم ، محبت اور اخوت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے.میں نے محسوس کیا کہ ہر فرد دوسرے سے دلی محبت کرتا ہے.یہ ایک مثالی اجتماع تھا جس نے ہماری روحانی زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا اور ہماری ذمہ داری ہے کہ دوسروں کو بھی اس میں شامل کریں اور وہ بھی جماعت کا حصہ بن جائیں اور پانامہ کے افراد جماعت بھی اس سے بھر پور استفادہ کرنے والے بن جائیں.فرنچ گیانا سے ایک دوست مسٹر ڈیوئیو آبدو (Mr.Diavia Abdou) آئے تھے انہوں نے 2008ء میں بیعت کی تھی.جلسے میں پہلی دفعہ شامل ہوئے.کہتے ہیں میں پیدائشی مسلمان تھا.میں نے فرنچ گیا نا میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی تھی.لیکن آج جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر مجھے محسوس ہوا ہے کہ اصل حقیقی اسلام کیا ہے.مجھے احمدیت کی حقیقت اور خلیفہ وقت کی اہمیت کا اب اندازہ ہوا ہے.کہتے ہیں، خلیفہ وقت نے زندگی گزارنے کی راہیں بتا ئیں اور ہر ایک شخص ان راہوں پر چل کر خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے.بیلجیم سے ایک دوست عبدو فال (Abdou Fall) صاحب آئے تھے.یہ سینیگال کے ہیں.کہتے ہیں جب میں نجیم میں احمدیوں کی مسجد میں گیا تو وہاں بہت زیادہ پیار ومحبت دیکھی.پھر یہاں
خطبات مسرور جلد 12 543 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء بھی میں نے احمدیوں میں پیار اور محبت ہی دیکھا.اس پیار محبت اور بھائی چارے کے ماحول سے میں بہت متاثر ہوا.عالمی بیعت میں شامل ہو کر میں نے بیعت بھی کی.بیعت کے وقت جو میرے جذبات اور کیفیت تھی اس کا بیان ممکن نہیں.کہتے ہیں میں نے جلسے کے موقع پر احمدیوں کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے.واقعی احمدی حقیقی مسلمان ہیں.پھر کہتے ہیں کہ خلیفہ خدا کا مقرر کر دہ ہے.اس جلسے میں شامل ہو کر اور خلیفہ وقت سے ملاقات کر کے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے.فلپائن کے ایک دوست یول اولا یا Yul Adelf Olaya) صاحب جو United Nations میں کام کرتے ہیں.انہوں نے پچھلے سال بیعت کی ہے.کہتے ہیں الحمد للہ جلسے میں شامل ہو کر مجھے جس چیز کی تلاش تھی وہ مل گئی.انشاء اللہ اب میں اپنی آئندہ زندگی بطور احمدی ہی گزاروں گا.جلسے کے دوران رضا کارانہ طور پر کام کرنے والوں نے جس جذبہ پیار اور محبت کے ساتھ کام کیا وہ قابل تحسین ہے.کہتے ہیں میں نے ان کو صبح سے لے کر رات تک کام کرتے دیکھا.پھر بچوں کو پانی پلاتے ہوئے دیکھا.عجیب نظارہ تھا.ان کے پیار اور محبت نے میرا دل موہ لیا.یہ بھی بڑے جذباتی تھے.پھر مالی سے ڈاکٹر کا ئیتا حما اللہ صاحب آئے تھے.انہوں نے جلسے پر بیعت کی.کہتے ہیں جلسے کے دوران میرے جو احساسات تھے وہ زندگی میں پہلی مرتبہ پیدا ہوئے تھے.پہلی مرتبہ یہاں آیا ہوں اور اب یہ ارادہ لے کر جارہا ہوں کہ ہمیشہ آئندہ جلسوں میں آؤں گا.پھر کہتے ہیں کہ اگر دشمن پوری کوشش بھی کر لے تو وہ اس جلسے کا عشر عشیر بھی انتظام نہیں کر سکتے.میرے خیال میں تو دنیا کی یونائیٹڈ نیشن جیسی بڑی طاقتیں بھی ایسا انتظام نہیں کر سکتیں.جماعت احمدیہ واقعی ایک حقیقت اور سچ ہے.اسی وجہ سے میں نے دلی گہرائیوں سے احمدیت کو قبول کیا ہے.احمدی جہاں بعض جگہ پابندیوں میں گھرے ہوئے ہیں جیسا کہ میں نے قرغیزستان کا اور قزاقستان کا ذکر کیا.ان کے بھی عجیب جذبات ہوتے ہیں.قزاقستان سے ایک دوست عسکر عمر و وصاحب جلسے میں شامل ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے بھی کئی دفعہ جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کر چکا ہوں لیکن جامعہ میں رہائش کا پہلا تجربہ تھا.میں سمجھتا ہوں کہ مختلف ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کا ایک ساتھ رہنا بہت ہی اچھا ہے کیونکہ اس سے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کا موقع ملتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑی تعداد میں نمازی نماز ادا کرتے ہیں.رہائش کی جگہ میں نماز ادا کر نے کا موقع ملتا ہے.میرے لئے یہ بہت اہم بات تھی کیونکہ اس وقت قزاقستان میں ہم زیادہ تعداد میں جمع
خطبات مسرور جلد 12 544 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء ہو کر نمازیں ادا نہیں کر سکتے اور یہاں نمازیں ادا کر کے مجھے احساس ہوا کہ میں باجماعت نماز نہ پڑھنے سے کتنا محروم رہا ہوں.اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے کہا کہ مرکزی پریس کی ٹیم اور یو کے پریس کی ٹیم نے اچھا کام کیا ہے اور اس سال پہلی دفعہ جلسہ کی بہت بہتر انداز میں کوریج ہوئی ہے.پہلے یہ ذکر ہو چکا ہے.اور احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کو پہنچا ہے.مرکزی پریس ٹیم کے رابطے سے دوسرے ممالک سے بھی پریس اور میڈیا کے لوگ آئے.ان کے بھی اچھے تاثرات تھے جیسا کہ میں تاثرات میں ذکر کر چکا ہوں.پریس کے ذریعہ سے تقریباً تیرہ ملین افراد تک یو کے میں ہی پیغام پہنچا ہے اور بعض اور جو ابھی آرٹیکل لکھ رہے ہیں، جو خبریں دے رہے ہیں ان کی اطلاع نہیں آئی.اندازہ ہے کہ اس ذریعہ سے تقریباً بارہ تیرہ ملین تک باہر کی دنیا کو یہ پیغام پہنچا.اسلام کا تعارف پہنچا ہے اور تعلیم پہنچی.پریس کے ضمن میں یہ بھی کہوں گا کہ پریس میں مختلف مذاہب کے لوگ ہوتے ہیں.کوئی مذہب کو ماننے والے ہیں کوئی نہیں ماننے والے.کچھ خدا کو ماننے والے ہیں کچھ نہیں ماننے والے جو یہاں آتے ہیں تو اس ماحول کو دیکھ کر پھر متاثر ہوتے ہیں.ویسے بھی مختلف قسم کے لوگ آتے ہیں، شامل ہوتے ہیں ان کے اپنے لباس ہوتے ہیں ان کی اپنی روایات ہیں بعض حیا دار لباس تو پہن لیتے ہیں لیکن عورتوں میں سکارف وغیر ہ نہیں ہوتا.عورتیں عموماً جب ہمارے فنکشن میں آتی ہیں تو سکارف سر پر لے لیتی ہیں لیکن اگر نہ بھی لیں تو کوئی حرج نہیں.ہم ان کو پابند نہیں کر سکتے.لیکن ہمارے بعض مرد جو ہیں وہ زبردستی کرنے کے عادی ہیں.سختی پر اتر آتے ہیں.بی بی سی کی ایک نمائندہ آئی ہوئی تھیں.ان کا سر ننگا تھا.ایک مرد نے جا کے پیچھے سے ان کے سر پر سکارف رکھ دیا.وہ ہمارے احمدی کی واقف ہے.جماعت کو جانتی ہے.میرا انٹرویو لے چکی ہے اور وہاں بڑے حیا دار لباس میں سکارف لے کر سر ڈھانک کے بیٹھی تھی لیکن اس وقت سکارف سر پہ نہیں تھا.بہر حال انہوں نے اس مرد کی اس حرکت کو دیکھ کے ہنس کے ٹال دیا لیکن اپنے احمدی دوست کو کہنے لگیں کہ اگر کوئی اور عورت ہوتی تو غصہ بھی کر سکتی تھی.غصہ کر سکتی تھی یا غلط تاثر لے سکتی تھی.پس مردوں کو بھی یادرکھنا چاہئے کہ ان کو داروغہ نہیں مقرر کیا گیا.ان کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے.ان کا کام نہیں ہے کہ غیر عورتوں کے سروں پر اوڑھنیاں ڈالتے پھریں.مردوں کو غض بصر کا حکم ہے.اپنا جو فرض ہے وہ پورا کریں.غیر مسلموں یا اپنوں کو بھی زبردستی سر ڈھانکنے کا حکم کہیں نہیں ہے.ایسے ہی شدت پسند مرد ہیں ، بعض ایک دو ہمارے میں ہوں گے جو پھر اسلام کو بھی بدنام کرتے ہیں اور دین کو بدنام کرتے ہیں.آر
خطبات مسرور جلد 12 545 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء لوگ یا ان جیسے جو لوگ ہیں ان میں کوئی یہ نہ سمجھے کہ انہوں نے دنیا کی اصلاح کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے.ایسے دو واقعات ہوئے ہیں.اسی طرح ایک احمدی جس کے ساتھ ایک دوسری جرنلسٹ تھیں.اس احمدی کو ایک احمدی نے کہا کہ اس عورت کو کہو ہمارے ماحول میں سر ڈھانکنا ضروری ہے، اپنا سر ڈھانکے.تو ایسے مردوں کو میں کہوں گا کہ آپ لوگ پہلے اپنے گھروں کو سنبھال لیں.یہی عمل ہیں جو پھر اسلام سے متنفر کرتے ہیں.دنیا کی اصلاح انشاء اللہ خود بخود ہو جائے گی.جیسا کہ میں نے مسلمان جرنلسٹ کا یہ واقعہ سنایا ہے کہ بغیر حکمت کے شدت پسندی کے حکم کی وجہ سے، اس کے باپ کے رویے کی وجہ سے وہ اسلام سے متنفر ہو گئی، پرے ہٹ گئی اور باغیانہ رویہ اختیار کر لیا لیکن یہاں آ کر جب اس نے احمدی عورتوں کا رویہ اور ان کی آزادی دیکھی تو اس کو خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں احمدی گھر میں پیدا ہوئی ہوتی.پس یہ جو اصلاحیں ہیں ، یہ عورت کی اصلاح عورت کے ذریعہ سے ہونی چاہئے اور خاص طور پر یورپ میں جہاں پہلے ہی یہ شور ہے کہ مرد سختی کرتے ہیں اور عورتوں کے ساتھ غیر ضروری ظالمانہ سلوک ہوتا ہے.مرد جب اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں تو ایسے بگاڑ پیدا ہوتا ہے.پس اگر کوئی ایسی بات ہو تو یہ عورتوں کا کام ہے کہ وہ پیار سے محبت سے سمجھا دیں کہ یہاں اس ماحول میں ایسا ہے اور لجنہ اپنا کام کرتی ہیں اور اگر کسی نے کچھ نہیں بھی اوڑھا ہوا تو کوئی فرق نہیں پڑتا.ان کے مطابق لباس بہر حال ان کے حیادار ہوتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے بھی جلسے کے پروگرام اپنوں اور غیروں تک پہنچانے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے اور اس سال اس کا بھی ہمیشہ کی طرح بہت بڑا کر دار رہا ہے.جہاں اس کے ذریعہ سے جلسے کی کارروائی دیکھنے والے احمدیوں نے خوشی کا اور تشکر کا اظہار کیا ہے وہاں غیروں نے بھی اس بارے میں بڑے اچھے تاثرات کا اظہار کیا ہے.غیر از جماعت عربوں نے بھی اس دفعہ بڑے اچھے تاثرات بھیجے ہیں بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ حقیقی اسلام یہی ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے جو جماعت احمد یہ پھیلا رہی ہے اور بعضوں نے پھر یہ بھی کہا کہ یہی حقیقی خلافت کا نظام ہے جس کی آج مسلم اُمہ کو ضرورت ہے.پھر اس سال ایم ٹی اے کے جلسے کے جو پروگرام تھے وہ جلسے کے تین دنوں میں روزانہ کچھ گھنٹے کے لئے گھانا کے نیشنل ٹی وی ، سیرالیون کے نیشنل ٹی وی اور نائیجیریا کے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل نے بھی دکھائے.اس کا بھی ان علاقوں میں اور ملکوں یہ بہت اچھا اثر ہوا.اور بڑا اچھا فیڈ
خطبات مسرور جلد 12 546 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء بیک (feedback) ہے کہ یہ پروگرام دیکھ کے ہمیں جماعت احمدیہ کی اور اسلام کی حقیقت کا پتا لگا ہے.اس کے بعض تاثرات ہیں.گھانا سے جو ایک تاثر موصول ہوا ہے یہ ہے کہ کماسی گھانا سے ایک غیر احمدی دوست نے لکھا ہے کہ میں نے جماعت کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن جب میں نے گھانا ٹی وی پر آپ کے پروگرام دیکھے تو مجھے سخت حیرت ہوئی کہ ہمارا لوکل امام ہمیں جماعت کے متعلق جو باتیں بتاتا ہے وہ سب جھوٹ ہے اور میں نے پہلی مرتبہ کسی مسلمان جماعت کو اس طرح خوبصورت انداز میں اسلام کی حقیقی تعلیم اور شدت پسندی کی مذمت کرتے دیکھا ہے.پھر اسی طرح یہ رپورٹ لکھنے والے ایک احمدی دوست کہتے ہیں کہ میں گھانا ٹی وی پر اپنی غیر احمدی بہن کے ساتھ آپ کے پروگرام دیکھ رہا تھا اور جلسے کی کارروائی دیکھ کر اس غیر احمدی بہن نے احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا.یہ کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ میں نے عالمی بیعت کی لائیو کوریج دیکھی.اور پھر لکھا ہے کہ مجھے اپنے احمدی ہونے پر بڑا فخر ہے.کہتے ہیں میں نے اپنے بعض عیسائی دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ پروگرام دیکھتے ہیں اور وہ جماعت کی عظیم الشان ترقی دیکھ کر ششدر رہ گئے.گھانا کے ایک دوست کہتے ہیں کہ احمدیت صرف امن اور محبت کی تعلیم کا پیغام ہے.مجھے اس جماعت سے محبت ہو گئی ہے.عنقریب میں جماعت میں شامل ہو جاؤں گا.پھر جلسے کی کارروائی دیکھ کر ایک غیر احمدی صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے اس جماعت کی فلاسفی اور مقاصد کا پتا چلا ہے.میں بہت جلد احمد یہ جماعت میں شامل ہو جاؤں گا.پھر اسی طرح اور بہت سارے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تاثرات بھیجے کہ یہ سارے پروگرام ہم نے دیکھے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ جلدی جماعت میں شامل ہو جائیں گے.پھر سیرالیون سے عیسائی دوست فرانس فور بی کہتے ہیں کہ آپ کے جلسہ کے پروگرام آج صبح میرے لئے بہت برکت کا باعث ہوئے.میں جلسے کی لائیو کوریج سے بہت متاثر ہوا ہوں.شکریہ.پھر سیرالیون کے ایک احمدی دوست الحاج علی مامے سیسے صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہمسایوں کو جلسہ کے پروگرام دکھانے کے لئے اپنے گھر مدعو کیا تھا.میں نے دیکھا کہ سیرالیون میں اکثر لوگ جلسے کی لائیو نشریات دیکھ رہے تھے.ابوبکر کو نتے کہتے ہیں کہ کیا ہی عظیم الشان جلسہ تھا.اللہ تعالیٰ اس جماعت کو ساری دنیا میں پھیلا دے.فری ٹاؤن کے ایک غیر احمدی دوست کہتے ہیں کہ میں نے جلسے کی نشریات دیکھیں جو کہ بہت
خطبات مسرور جلد 12 547 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء اچھی ہیں.پھر ایک دوست نے لکھا کہ میں نے اپنے غیر احمدی دوستوں کے ساتھ جلسہ سالانہ کی کارروائی دیکھی اور وہ بڑے متاثر ہوئے.نائیجیریا کے ٹیلیویژن نے بھی اس دفعہ یہ پروگرام دکھایا اور اس ٹی وی کے دیکھنے والے جو ہیں ان کی بھی بہت بڑی viewership ہے.ان کا خیال ہے کہ ملین کی تعداد میں لوگوں نے جلسہ کی تقاریر دیکھیں اور سنیں.یہ اس میڈیا کے علاوہ ہے جس کا پریس کے تعلق میں ذکر ہو چکا ہے.پھر اس سال ایم ٹی اے کی لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ سے بھی آخری دن جو انٹرنیٹ پر دیکھا جاتا ہے تین لاکھ تیس ہزار لوگوں نے جلسے کی کارروائی دیکھی.اور باقی دنوں میں بھی گزشتہ سالوں کی نسبت کئی ہزار کی تعداد زیادہ تھی.اور ایم ٹی اے پر جو دیکھتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہے.پس یہ تاثرات بھی آپ نے سنے.کوریج کا حال بھی سنا.لیکن ہمیں یہ ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ یہ با تیں ہمارے قدم آگے بڑھانے کے لئے مزید جوش پیدا کرنے والی ہونی چاہئیں نہ کہ اس بات پر خوش ہو کے ہم بیٹھ جائیں کہ بہت کچھ حاصل کر لیا.ترقی کرنے والی قومیں خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہیں.ہمیں پتا ہے اور اس طرف نظر رکھنی چاہئے کہ ہماری بعض کمزوریاں بھی ہیں.بڑے پیمانے پر انتظامات میں کمزوریاں ہو جاتی ہیں اور رہ جاتی ہیں یہ کوئی ایسی بات نہیں لیکن بہر حال ان کو دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے.ان سب کمزوریوں کو نوٹ کر کے انتظامیہ کو چاہئے کہ اگلے سال ان کا حل کریں، ان کا مداوا کریں اور یہ کمزوریاں صرف کارکنان کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ بعض ضدی شامل ہونے والے جو لوگ ہوتے ہیں اور ان کے رویے جو ہوتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ ایسی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں اس لئے ان کے لئے بھی انتظام ہونا چاہئے.ان کو بھی اصلاح کر کے آنا چاہئے.مثلاً عورتوں کی طرف سے ایک بات مجھے پہنچی کہ عورتوں کی مین مارکی میں ایک عورت بچے کو لے کے بیٹھی تھی تو کارکنہ نے اسے کہ دیا کہ یہاں بچوں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے تو اس نے کہا ٹھیک ہے.مجھے پتا نہیں تھا.چلی جاتی ہوں.بعد میں اسی کا رکنہ کو پتا لگا کہ عورت جو بیٹھی ہوئی ہے یہ احمدی نہیں، غیر از جماعت ہے تو اس نے جاکے اس سے معذرت کی کہ آپ کا بچہ اگر شور نہیں کر رہا تو ٹھیک ہے آپ بیشک بیٹھی رہیں.لیکن ساتھ بیٹھی ہوئی ایک احمدی خاتون نے ان سے لڑنا شروع کر دیا کہ ہمیں تکلیف نہیں تو آپ کو کیا تکلیف ہے اور اس طرح کی باتیں کیں.اب شکر ہے کہ کارکنہ کو تو عقل آ گئی کہ اس نے زیادہ بات کو آگے نہیں بڑھایا اور چپ کر کے وہاں سے چلی گئی.لیکن پھر وہ خاتون پوچھنے لگی کہ کیا یہ حدیث ہے
خطبات مسرور جلد 12 548 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء کہ ضرور یہاں نہیں بیٹھنا.اس قسم کی جو ضدی عورتیں ہیں، خاص طور پر عورتوں میں زیادہ ہوتی ہیں، بعض دفعہ مردوں میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں، ان کو اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے.ورنہ یہ جو اتنے اچھے اثرات لوگوں پر پڑ رہے ہیں جن کو لوگوں نے دیکھا وہ شاید نہ ہوتے.یہ تو شکر ہے کہ اس صورتحال میں کم از کم یہ لوگ وہاں موجود نہیں تھے جو یہ بات نوٹ کرتے.باقی جہاں تک رہا یہ سوال کہ حدیث ہے؟ یہ حدیث بھی ہے اور قرآن بھی ہے کہ جو ہدایت دی جائے چاہے وہ کسی کی طرف سے ہو، اطاعت کرو.اطاعت امیر کا حکم ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منقہ کے سر جتنا بھی تمہارا امیر مقرر کیا جائے تو اس کی بھی اطاعت کرو.(صحيح البخارى كتاب الاذان باب امامة العبد و المولی حدیث نمبر (693) پس ذرا ذراسی باتوں پے اس قسم کے باغیانہ رویے نہ دکھایا کریں کہ حدیث ہے یا حدیث نہیں.حدیث یہی ہے کہ اطاعت کرو.اور اس کی پابندی ہر ایک کے لئے ضروری ہے جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے.لیکن ان کا رکنات کے لئے اور کارکنوں کے لئے بھی یہ ہدایت آئندہ سے نوٹ کر لیں کہ اگر کوئی ایسا رویہ دکھاتا ہے تو اپنے بالا افسر جو ہیں ان کو بتا ئیں اور وہ اس کا جو بھی AIMS Card ہے اس کو کینسل کر دیں اور پھر اس کو جلسے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی.جماعت احمدیہ کو ایسے باغیانہ رویے رکھنے والوں کی ضرورت نہیں ہے.باقی انتظامی لحاظ سے عورتوں کی طرف سے بھی یہ شکایت تھی کہ ٹوائلٹس میں صفائی وغیرہ کا بعض دفعہ انتظام نہیں تھا.جو دوسرے انتظامات تھے ان کے متعلق تو میں انتظامیہ کو بتا دوں گا.کھانے اور روٹی کے معیار کی اس دفعہ عموماً اچھی تعریف کی گئی ہے.اس کو اللہ تعالیٰ مزید بہتر بنانے کی توفیق دے.پھر یہ بھی شکایت ہے کہ بعض دفعہ اگر کوئی بوڑھا یا کوئی مریض اگر کھانے پر لیٹ ہو گیا تو عورتوں کی طرف سے یہ شکایت آئی تھی کہ اس کو کھانا دینے سے انکار کر دیا گیا ہے.چاہے کوئی بھی آئے ، کسی وقت آئے ، خاص طور پر مریض، بچے اور بوڑھے اگر کھانے کے لئے آئیں اور کھانا موجود ہو تو ان کو کھانا دینا چاہئے بلکہ ایسے لوگوں کے لئے انتظام ہونا چاہئے کہ کسی وقت بھی آجائیں تو کھانا دے دیا جائے.آرام سے بٹھا دیا جائے اور یہ بتا دیا جائے کہ آپ کو مریض ہونے یا بچے کی وجہ سے کھا نا مل رہا ہے اور آئندہ جو بھی وقت ہو یہ بھی واضح کر کے بتا دیا جائے کہ اگر کسی وجہ سے آج لیٹ ہو گئے ہیں تو کل کھانے کے یہ یہ وقت ہیں اس پر آئیں.لیکن رویہ ہمدردانہ اور پیار والا ہونا چاہئے.
خطبات مسرور جلد 12 549 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 ستمبر 2014ء اسی طرح اس دفعہ ٹمینٹس میں بڑے پیمانے پر واش روم ٹوائلٹس وغیرہ بنانے کا جو تجربہ انہوں نے کیا تھا اس کی بھی اچھی تعریف کی گئی ہے.رشین مہمانوں کی طرف سے ایک شکایت آئی تھی کہ جامعہ میں انتظام اچھا تھا لیکن ٹرانسپورٹ کا انتظام ناکافی تھا جس کی وجہ سے جلسے پر آتے ہوئے دیر ہو جاتی تھی اور ان کی ایک آدھ تقریر یا اس کا کچھ حصہ miss ہو جاتا تھا.اسی طرح واپسی پر بھی لیٹ جاتے تھے جس کی وجہ سے تہجد ضائع ہوتی تھی.تو اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کے نظام کو اگلے سال مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے.اس کو اپنی سرخ کتاب (Red Book) میں درج کریں.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر جلسہ اچھا گزر گیا.مہمانوں نے اچھا اثر لیا.جیسا کہ میں نے کہا مقررین کی تقریریں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی تھیں.اللہ تعالیٰ ان نیک اثرات کو ہمیشہ قائم رکھے اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اور جس طرح مہمانوں نے تمام کارکنان کا شکریہ ادا کیا ہے، میں بھی تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کارکنات کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور ان کی یہ خدمت قبول فرمائے.ان کو پہلے سے بڑھ کر آئندہ خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور صرف ظاہری خدمت نہ ہو بلکہ اسلام کی تعلیم کی حقیقی روح بھی ان میں پیدا کرے اور سب کو شامل ہونے والوں کو بھی اور ان خدمت کرنے والوں کو بھی حقیقی اور سچا احمدی بنائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 26 ستمبر 2014 ء تا02 اکتوبر 2014 ، جلد 21 شمارہ 39 صفحہ 05 تا 10 )
خطبات مسرور جلد 12 550 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014 ء بمطابق 12 تبوک 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ دنوں امریکہ سے مجھے ایک خط آیا کہ جلسے پر آپ اپنی تقریر میں واقعات بیان کر رہے تھے کہ کس طرح لوگ احمدیت میں شامل ہورہے ہیں.کس طرح تبلیغ کے ذریعہ اور براہ راست بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ہوتی ہے.اس کے ذریعہ سے بھی احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.لوگ ایمان میں مضبوط ہورہے ہیں اور احمدیت کی سچائی بھی ان کے دلوں میں گڑتی چلی جارہی ہے.تو یہ سب سن کر وہ کہتے ہیں میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میرے ذریعہ سے بھی دنیا کے اس حصہ میں کوئی احمدیت میں شامل ہوا اور میں بھی اس طرح کے نشان دیکھوں.کہتے ہیں کچھ دیر کے بعد میرے فون کی گھنٹی بجی.تو دوسری طرف ایک خاتون تھی.کہنے لگیں کہ میں نے کہیں سے بلکہ ویب سائٹ پر آپ کا نمبر دیکھا تھا تو میں فون کر رہی ہوں.مجھے اسلام میں دلچسپی ہے اور میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں.انہوں نے کہا ٹھیک ہے آ جائیں.خیر بڑی دور کا سفر کر کے وہ ان کے پاس گئیں.اپنے حالات بتائے کہ کس طرح اسلام میں ان کی دلچسپی پیدا ہوئی.پھر انٹرنیٹ کے ذریعہ سے انہوں نے مزید معلومات حاصل کیں جس کی وجہ سے ان کے خاوند اور سسرال جو کٹر عیسائی ہیں وہ بھی ان کے خلاف ہو گئے.ان کی ناراضگی مول لی.اس وجہ سے خاوند سے علیحدگی ہوگئی.ان کے دو بچے ہیں وہ بھی عدالت کے فیصلے کے مطابق خاوند کو دینے پڑے.لیکن انہوں نے سچائی کی تلاش کو مقدم رکھا اور یہ سب کچھ چھوڑ دیا.بہر حال کہتی ہیں کہ جماعت احمدیہ کی سائٹ پر جا کر میں نے گہرا مطالعہ کیا ہے اور ایم.ٹی.اے بھی باقاعدگی سے دیکھتی ہوں اور یہ بھی بتایا کہ وسرے مسلمان فرقوں کی بھی معلومات لیں لیکن میری تسلی کہیں نہیں ہوئی.اور ہر مرتبہ جب بھی میں
خطبات مسرور جلد 12 551 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء اسلام کی طرف توجہ کرتی تھی تو جماعت کا لٹریچر پڑھنے کی طرف میری توجہ رہتی تھی.ہمارے ان احمدی نے انہیں بتایا کہ گزشتہ دنوں ایم.ٹی.اے پر ہمارا جلسہ بھی تھا.انہوں نے کہا ہاں ، وہ جلسہ بھی میں نے سنا اور اب میں حقیقی اسلام میں شامل ہونا چاہتی ہوں.یہ لکھتے ہیں کہ میری بیٹی جو اس وقت اس کے ساتھ باتیں کر رہی تھی اور وہاں موجود تھی.وہ یو نیورسٹی میں شاید پڑھتی ہے ، کہنے لگی کہ جب جلسے پر احمدیت میں نئے آنے والوں، نئے شامل ہونے والوں کے واقعات بیان ہو رہے تھے کہ کس طرح ان کو احمدیت کی صداقت پر یقین آیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی کے واقعات بیان ہو رہے تھے تو میں سمجھی تھی ان میں کچھ قصے ہیں، کچھ مبالغہ ہے لیکن اس عورت کی یہ باتیں سن کر میرا ایمان بھی تازہ ہوا ہے کہ یہ مبالغہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ دنیا کے دلوں کو پھیر رہا ہے.کس طرح اللہ تعالی رہنمائی کرتا ہے؟ پس بعض پڑھے لکھے لوگوں یا نو جوانوں میں بھی بعض دفعہ خیال آ جاتا ہے کہ شاید کوئی واقعہ بڑھا چڑھا کر بیان ہورہا ہولیکن یا درکھنا چاہئے کہ جو بھی واقعات یہاں بیان ہوتے ہیں، یہ قصے کہانیاں نہیں بلکہ حقائق ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلائی ہوئی ہوا کے وہ چند نمونے ہیں جو میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.ایسے بیشمار واقعات ہوتے ہیں جن میں سے چند ایک میں لیتا ہوں اور جلسے کے لئے جو واقعات چنے جاتے ہیں.وہ بھی وہاں بیان نہیں ہو سکتے.اس لئے گزشتہ سال میں نے کہا تھا کہ دوران سال بھی میں موقع ملا تو بیان کرتا رہوں گا.لیکن کچھ بیان ہوئے، کچھ نہیں ہو سکے.پھر اس سال کے بہت سارے واقعات جمع ہو گئے.بہر حال یہ واقعات بیان میں اس لئے کرتا ہوں کہ ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہو اور ہم بھی اپنے جائزے لیتے رہیں کہ کس حد تک ہمارے اندر بھی احمدیت کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہیں کس طرح ہمیں بھی اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے.کس طرح ہمیں بھی احمدیت قبول کرنے کے بعد خدا تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے.بہر حال اس حوالے سے آج میں نئے شامل ہونے والوں کے کچھ واقعات بیان کروں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی فرماتا ہے.انہیں صرف دلچسپ واقعات سمجھ کر ہمیں نہیں سننا چاہئے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور بنی چاہئے.اپنی حالتوں کے جائزے لینے والی ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے جماعت کے ساتھ سلوک پر شکر گزاری کے جذبات کا اظہار کرنے والی ہونی چاہئے.اپنی ذمہ داری کا احساس اور اس کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے.دنیا تک
خطبات مسرور جلد 12 552 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء صداقت کا پیغام پہنچانا ، ان کی رہنمائی کرنا آج ہمارا کام ہے.یہ ہمارا فرض ہے.پس اس کام کی ادائیگی کی طرف جہاں ہمیں کوششوں کی ضرورت ہے وہاں اپنی عملی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھالنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہمارے عملی نمونے نئے آنے والوں کے ایمانوں کو مزید مضبوط کرتے چلے جائیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور کس طرح اللہ تعالی رہنمائی فرماتا ہے اس کے نمونے پیش کروں گا.تیونس سے ایک صاحبہ منیہ صاحبہ ہیں وہ لکھتی ہیں کہ مجھے مطالعہ کا بڑا شوق ہے.میں نے قرآن کریم اور کئی دوسری اسلامی کتب کا بھی مطالعہ کیا لیکن کئی باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی.مثلاً سورۃ النساء کی آیت وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِن شُبّهَ لَهُمْ - (النساء : 158) اسی طرح وفات مسیح کے متعلق دوسری آیات ہمیشہ میری توجہ کا مرکز رہیں کہ کیا مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں یا زندہ آسمان پر ہیں؟ پھر ریاض الصالحین میں دجال کے اوصاف پڑھے اور خیال آیا کہ خیر امت میں اللہ تعالیٰ ایسا شخص کیسے بھجوا سکتا ہے؟ خیال آتا تھا کہ عیسی علیہ السلام آسمان پر بیٹھے کیا کر رہے ہیں؟ ان خیالات سے پریشان ہو جاتی تھی اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتی تھی.اچانک ایک روز چینل بدلتے ہوئے ایم.ٹی.اے مل گیا جو دوسرے تمام دینی چینلز سے مختلف تھا اس پر ایک پادری کے ساتھ وفات مسیح پر بحث چل رہی تھی.دوسرے چینلز کے برعکس میز بان اور شرکاء کی گفتگو بڑی پر وقار تھی.اس دوران معلوم ہوا کہ مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ظاہر ہو چکے ہیں.پھر باقاعدگی سے ایم.ٹی.اے دیکھتی رہی اور سارے مسائل آہستہ آہستہ سمجھ آتے گئے.پھر میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے موت نہ آئے جب تک احمدی نہ ہو جاؤں.بالآخر میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئی.یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے.پھر یمن سے رمدان صاحب اپنی بیعت کا واقعہ لکھتے ہیں کہ مجھے چین میں جا کے چینی معاشرے میں رہنے کا موقع ملا اور ان کو بہت اچھے لوگ پایا.یہ بھی دیکھا کہ بعض عرب ان کے حسن معاملہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے اور ان کو برا بھلا بھی کہتے.مجھے خیال آتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنے تمام حسن اخلاق اور حسن عمل کے باوجود جہنم میں جائیں اور ہم صرف نام کے مسلمان ہونے پر جنت کے وارث ٹھہریں؟ اس کے بعد کہتے ہیں ، میں نے تحقیق کی اور اسلامی کتب پڑھنی شروع کیں.یہ تحقیق جاری رہی.مختلف اسلامی کتب اور چینلز دیکھے اسی دوران ایک روز اچانک ایم.ٹی.اے دیکھنے کا موقع مل گیا.اس میں بیان
خطبات مسرور جلد 12 553 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء ہونے والے دلائل اتنے قومی تھے کہ ان کی قوت اور ہیبت سے میرا جسم کانپ اٹھا.ایسا لگا جیسے جسم میں کوئی بجلی کا کرنٹ لگا ہو.اس کے بعد مستقل ایم.ٹی.اے دیکھنے لگا.اس کو دیکھتے دیکھتے بے اختیار رونے لگتا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ کیوں روتا ہوں.یہ احساس غالب تھا کہ خدا تعالیٰ نے خود مجھے اس چینل کی طرف رہنمائی کی ہے.حضرت مسیح موعود کی صداقت جاننے کے لئے اللہ تعالیٰ سے کثرت سے دعا کرنے لگا.ہر بار مجھے اس کا جواب جسم پر کپکپی اور ذہنی اطمینان کی صورت میں ملتا.اس سے تسلی ہو جاتی کہ مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کیا جن میں میرے اکثر سوالات کا جوا ب تھا.اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں بیعت کر کے جماعت کا حصہ بن گیا.پھر ہالینڈ سے Tom Overgoor صاحب، قبولیت کے اپنے واقعات کو لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری عمر 22 سال ہے اور یونیورسٹی کا طالب علم ہوں.میں نے 2014ء کے شروع میں ایمسٹر ڈم میں مسجد بیت المحمود میں بیعت کی.مجھے ہمیشہ ہی سے دین سے لگاؤ تھا اور ایک خاص عمر میں تو خدا کی ہستی پر ایمان بھی بہت تھا مگر کبھی خاص مذہب کی طرف توجہ نہ تھی.مجھے روز بروز اس بات کا احساس ہوتا گیا کہ دنیا میں برائی پھیل گئی ہے.یہ نوجوان ہے اور ان کی سوچ ہے ہمارے نوجوانوں کو بھی سوچنا چاہئے جو بعض پیدائشی احمدی ہیں اور اس بات پر سوچتے ہی نہیں.کہتے ہیں مجھے روز بروز اس بات کا احساس ہوتا گیا کہ دنیا میں برائی بہت پھیل گئی ہے.اس بات نے مجھے مجبور کیا اور میں زندگی کے مقصد کی تحقیق میں لگ گیا.میں نے بہت مطالعہ کیا اور دوستوں سے اس بارے میں گفتگو کی.اس تحقیق کے دوران میرا دل اسلام کی طرف مائل ہونا شروع ہو گیا.اس حوالے سے میں اپنے دو احمدی دوستوں کے ساتھ بھی گفتگو کرتا رہا.ان کے ساتھ نسپیٹ میں جماعتی سینٹر بھی گیا جہاں جماعتی ماحول دیکھا.اس سے مجھ پر واضح ہو گیا کہ حقیقی اسلام احمدیت ہی ہے اور مجھ پر یہ بھی واضح ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقتاً اس دنیا میں آچکے ہیں.تمام مسلمان اتحاد کی تلاش میں ہیں اور احمدیت ہی وہ واحد سلسلہ ہے جس میں حقیقی اور مضبوط اتحاد ہے اور جس میں حقیقی ایمان کی حلاوت پائی جاتی ہے.لکھتے ہیں میں نے خلیفہ اسیح کی خدمت میں دعا کا خط لکھا اور خط لکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرمایا.اسلام کی حقانیت پورے طور پر مجھ پر واضح ہوگئی اور مسجد محمود جا کر میں نے بیعت کر لی.میں نماز پڑھنا سیکھ رہا ہوں.پاکباز زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہوں.پھر قرغیزستان سے سلامت صاحب ہیں.جماعت کے صدر ہیں کہتے ہیں کہ جہاں میں کہ کام
خطبات مسرور جلد 12 554 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء کرتا ہوں وہاں میری ایک colleague رشین خاتون جو عیسائی تھیں.ان کے ساتھ مذہب کے متعلق گفتگو ہوئی.کہتے ہیں گفتگو کے دوران انہوں نے خاکسار سے کہا کہ مجھے اپنے مذہب پر دلی اطمینان نہیں ہے.انہیں اسلام احمدیت کا تعارف کروایا گیا اور کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی دی گئی تو کہنے لگی کہ مذہب کے بارے میں میرے جتنے بھی سوالات تھے مجھے ان کے جوابات مل گئے اور مجھے تسلی ہوگئی ہے کہ واقعی اسلام حقیقی اور سچا مذہب ہے.اس کے بعد انہوں نے مزید جماعتی کتب کا مطالعہ کیا اور اسلام کی صداقت پران کا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا.یہاں تک کہ موصوفہ قادیان بھی گئیں اور بیعت بھی کر لی اور اب نظام وصیت میں بھی شامل ہیں.پھر ہالینڈ سے ہر جان (Arjan) صاحب جو کہ مذہب عیسائی تھے اپنی قبولیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی محبت کے حصول کی ہمیشہ تلاش تھی مگر بائبل نے میری کبھی بھی حقیقی رہنمائی نہیں کی.ایک دن گھر سے نکلنے سے پہلے نہایت دلسوزی سے خدا کے حضور دعا کی کہ مجھے حق کی طرف رہنمائی فرما اور مجھے ایک ایسے وجود سے ملا جو مجھے تجھ سے ملا دے.یہ دن (ہالینڈ میں ) بادشاہ کی سالگرہ کا دن تھا جب کہ سب لوگ باہر جا کر اپنے اپنے سٹال لگاتے ہیں.ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا ہوگا کہ میں احمد یہ جماعت کے ایک بک سٹال سے گزرا.وہاں مجھے ایک احمدی دوست ملے جنہوں نے مجھے جماعت کا تعارف کروایا اور دیگر جماعتی لٹریچر کے علاوہ اسلامی اصول کی فلاسفی کی کتاب دی.میں نے گھر جا کر اس کتاب کا مطالعہ کیا تو میری دنیا ہی بدل گئی.مجھ پر فوراً ظاہر ہو گیا کہ اس کتاب کا مصنف کوئی معمولی انسان نہیں ہے بلکہ خدا سے تعلیم یافتہ انسان ہی ایسی کتاب لکھ سکتا ہے اور اسلام واقعی سچا مذ ہب ہے.اس کے بعد میں جلسہ سالا نہ ہالینڈ اور جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا.ان روحانی جلسوں نے مجھ پر ایک غیر معمولی اثر ڈالا اور مجھ پر واضح ہو گیا کہ یہ سب کچھ میری دعا کا جواب ہے جو میں نے مانگی تھی.میرے پاس انکار کی کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں رہی چنانچہ جلسہ جرمنی کے دوران انہوں نے بیعت کر لی.لیبیا سے ھالہ صاحبہ ہیں کہتی ہیں لیبیا میں قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد میں نے خدا تعالیٰ سے بہت تضرع سے دعا کی کہ اب تو امام مہدی کو جلد بھیج دے تا کہ حالات کو درست فرمائے.اس کے بعد اچانک ایک دن چینل بدلتے ہوئے ایم.ٹی.اے مل گیا جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی جس نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچا چنانچہ میں اس چینل کے مختلف پروگرام دیکھنے لگی اور عقائد پر اطلاع ہوئی.اور یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا.جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ تاخیر کے بغیر
خطبات مسرور جلد 12 555 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء فوراً بیعت کر لینی چاہئے اور پھر یہ مجھے خط لکھتی ہیں کہ میرے مضبوطی ایمان اور استقامت کے لئے دعا کریں.پھر بو آ کے مشن ہاؤس کے پونے عبداللہ صاحب جو کہ مشن ہاؤس کے ڈرائیور کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پارہے ہیں کہتے ہیں کہ میری شادی ہوئے دوسال سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا اور کوئی اولا د نہ تھی.دو سال قبل جب میں نے احمدیت کا نام نیا نیا سنا اور امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی خبر ابھی میرے کانوں تک پہنچی ہی تھی تو میں نے حصول اولاد کے لئے دعا کی کہ اے میرے اللہ ! اے سمیع و علیم خدا !! اگر واقعی مسیح اور مہدی کا ظہور ہو چکا ہے اور مرزا غلام احمد صاحب ہی وہی امام مہدی ہیں تو مجھے اولاد کی نعمت سے بھی مالا مال فرما اور مسیح محمدی علیہ السلام کے غلاموں میں بھی شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور اسی ماہ میری اہلیہ امید سے ہوگئیں اور اب میری ایک بیٹی بھی ہے اور اس کے بعد پھر اس فیملی نے بیعت بھی کر لی.اگر بعضوں کو کسی طرح تسلی نہیں ہوتی لیکن حق کے پہچاننے کی خواہش ہے تو اگر وہ خدا تعالیٰ کے آگے خالی الذھن ہو کر گڑ گڑا ئیں اور اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات فرمائی ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ سیدھے راستہ کی راہنمائی کرے.اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالی رہنمائی فرماتا ہے اور پھر کسی نہ کسی ذریعہ سے یا خوابوں کے ذریعہ سے رہنمائی ہوتی ہے اور احمدیت کی صداقت ظاہر ہو جاتی ہے.کچھ خوابوں کے واقعات ہیں.امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ ایک جگہ ڈونگے کہے ہے وہاں کے ایک دوست نے کہا کہ جب سے جماعت احمدیہ کا پیغام سنا ہمیشہ اچھا محسوس کیا اور پھر افراد جماعت کا کردار مثالی اور متاثر کن تھا لیکن مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا کہ کیا وجہ ہے کہ تمام مسلمان علماء احمدیت کے مخالف ہیں اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام غلط ہوں.اس لئے جماعت احمدیہ کے دعاوی کے متعلق میں ہمیشہ شک میں رہتا تھا.مجھے مشورہ دیا گیا کہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دو اور دعا کرو تا کہ اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے.چنانچہ میں نے دعائیں کرنی شروع کر دیں.ایک رات خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آؤ میرے ساتھ چلو.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے.میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم نے ایک صحراء عبور کیا.صحرا عبور کر کے جس جگہ پہنچ رہے تھے وہاں دور سے کچھ لوگ نظر آنے لگ گئے.جب میں ان لوگوں کے قریب پہنچا تو میں نے واضح طور پر پہچان لیا کہ یہ جماعت احمدیہ کے افراد ہیں.گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو گروہوں کے ساتھ تھے.ایک پہلا گروہ تھا
خطبات مسرور جلد 12 556 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء اور دوسرا بعد والا.اس خواب کے ذریعہ مجھ پر احمدیت کی صداقت واضح ہوگئی.میں نے خواب مشنری صاحب کو سنائی اور بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کر لی.اب یہ تبلیغ بھی کرتے ہیں ان کے ذریعہ سے کئی لوگ احمدیت میں داخل بھی ہوئے ہیں.پھر بیٹی کے مبلغ ہیں.کہتے ہیں کہ ہمارے ایک نو مبائع عبد المتعالی صاحب نے بتایا کہ وہ جماعت کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے.فروری 2014 ء کے دوسرے ہفتہ کی بات ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ایک دن ہے جو غیر معمولی روشن ہے اور لگتا ہے کہ سورج بہت قریب سے چمک رہا ہے کہ اچا نک بہت شدید زلزلہ آتا ہے جس کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً تمام گھر تباہ ہو جاتے ہیں.ان کے گھر کا کچھ حصہ بھی گر جاتا ہے.اس صورتحال کے پیش نظر ان کو خیال آتا ہے کہ میں جا کر احمد یہ مشن ہاؤس دیکھتا ہوں.وہ خواب میں ہی گھر سے مشن ہاؤس کی طرف نکل پڑتے ہیں.راستے میں ہر طرف تباہ حال عمارات ہیں.لوگ سڑکوں پر نکل کر چیخ رہے ہیں.جب وہ احمد یہ مشن پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ مشن کی عمارت بالکل صحیح سلامت ہے.اور مبلغ صاحب بعض دوسرے احمدی احباب کے ساتھ گھر سے باہر کھڑے ہو کر باتیں کر رہے ہیں.مجھے دیکھ کر کہتے ہیں کہ آئیں sea port جاتے ہیں اور ہم سب جب پورٹ پر پہنچتے ہیں تو ایک سفید رنگ کی کشتی کھڑی ہوتی ہے اور ہم سب احمدی احباب اس میں سوار ہو جاتے ہیں.اس کشتی میں پہلے سے بھی کچھ احمدی سوار ہوتے ہیں اور ہم اس بڑی سی کشتی کے ذریعہ اپنا سفر سمندر میں شروع کرتے ہیں اس کے بعد خواب ختم ہو جاتا ہے.کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ بات یقین کی طرح گڑھ گئی کہ اب اگر نجات ہے تو احمدیت کے ذریعہ سے ہی ہے چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی.پھر آسٹریلیا سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک سکھ دوست دیپ اندر صاحب زیر تبلیغ تھے.جلسہ سالانہ آسٹریلیا میں بھی شامل ہوئے.کافی تحقیق کے بعد ایک خواب کی بناء پر انہوں نے احمدیت قبول کی.کہتے ہیں دو ہفتے قبل کے انہوں نے مجھے فون کیا اور آواز بہت بھرائی ہوئی تھی.بات کرنا مشکل تھا اور رو پڑتے تھے.انہوں نے بتایا کہ تین دن پہلے خواب دیکھا کہ میں ایک ایسی جگہ پر ہوں جہاں بہت اندھیرا ہے.اس اندھیرے کی وجہ سے شدید گھبراہٹ ہے ایسا لگتا ہے کہ سانس نہیں آئے گی اور جان نکل جائے گی.سوچتا ہوں اس اندھیرے سے کیسے نکلوں گا اتنے میں اندھیرے میں اچانک روشنی پیدا ہوئی اور اندھیرا روشنی میں بدل گیا.ایک بزرگ میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ان اندھیروں سے نکلنا ہے تو میرا ہاتھ پکڑ لواور اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا یا کہ ہاتھ پکڑو.میں نے جونہی ان کا ہاتھ پکڑا تو میری
خطبات مسرور جلد 12 557 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء آنکھ کھل گئی.میں دو دن پریشان رہا کہ یہ کیسی خواب تھی.یہ خواب اور وہ بزرگ میرے ذہن سے نہیں نکلتے.اسی روز مبلغ صاحب نے ان صاحب کو بلایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر دکھا ئیں تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہی وہ بزرگ تھے جو مجھے کہہ رہے تھے کہ میرا ہاتھ پکڑ لو تو اندھیرے سے نجات پا جاؤ گے.مالی کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے احمد یہ مشن ہاؤس فون کیا اور کہا کہ آج سے میں احمدی ہوتا ہوں.براہ کرم آپ میری بیعت لے لیں.جب ان سے بیعت کرنے کی وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے باعث میرا کسی فرقے میں شامل ہونے کو دل نہیں کرتا تھا اور میں قرآن کریم وحدیث کی کتابیں پڑھ کر اس پر حتی الوسع عمل کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا مگر مسلمانوں کی موجودہ صورتحال پر میرے دل میں ہمیشہ یہ بات تھی کہ خدا اس دین کو اس حالت پر نہیں چھوڑے گا اور مہدی کا ظہور ضرور ہو گا.اس وقت کو ہی امام مہدی کا وقت خیال کرتا تھا اور اس کے لئے دعا کیا کرتا تھا.کہتے ہیں کل رات جب میں دعا کرنے کے بعد سویا تو خواب میں دیکھا کہ چاند آسمان سے علیحدہ ہوا ہے اور زمین کی طرف آ رہا ہے.اور چاند قریب آتے آتے میرے ہاتھ پر آ گیا جس میں سے آواز آ رہی ہے کہ مہدی آ گیا ہے اور وہ پکار پکار کر لوگوں کو بلا رہے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ آپ کا ریڈیو جو ہے وہ بھی یہی اعلان کر رہا ہے کہ جَاءَ الْمَهْدِی جَاءَ الْمَهْدِی.اس لئے اب کوئی ابہام نہیں ہے اور میں بیعت کرتا ہوں.گنی کنا کری سے اسینی سوما صاحب کہتے ہیں مجھے ایک احمدی دوست محمد صاحب تبلیغ کر رہے تھے مجھے اطمینان قلب نہیں تھا اور میں مسلسل دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے سیدھا راستہ دکھائے.اس دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے جس راستے کی طرف بلایا جارہا ہے وہی صحیح راستہ ہے.اس پر میرا دل مطمئن ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.پھر جرمنی سے ابراہیم قارون صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت کے ساتھ تعارف ہونے کے بعد میں ایم.ٹی.اے دیکھنے لگا.اس کے بعد میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے بارے میں دعا کی اور استخارہ کیا.ایک دن نماز استخارہ کے بعد میں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ اپنے محل سے تشریف لا رہے ہیں.اس محل کی دیواروں سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں.میں احرام باندھے آپ کے محل کی دہلیز کے پاس کھڑا تھا.میں نے جھک کر اپنے بازو اپنے گھٹنے پر رکھے.
خطبات مسرور جلد 12 558 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کھول کر میرے سر پر رکھے تو میں ان سے عرض کرنے لگا کہ سَمْعًا وَ طَاعَةً.اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.کہتے ہیں اس کے بعد مجھے شرح صدر ہو گیا.پھر مصر سے علاء صاحب لکھتے ہیں کہ میں مصری نوجوان ہوں.تقریباً ایک سال قبل ایم.ٹی.اے کے ذریعہ سے جماعت سے تعارف ہوا اور فرقہ ناجیہ کا یقین ہو گیا.میری بیعت قبول کریں.کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے خدا سے رو رو کر استقامت کے لئے کوئی نشان مانگا تو خواب میں خود کو ایک مجلس میں دیکھا جہاں مجھے لکھ رہے ہیں کہ میں نے آپ کو دیکھا اور آپ نے مجھے ایک چاندی کی انگوٹھی درمیانی انگلی میں پہنائی جس پر ایک قرآنی آیت درج تھی.میں بیدار ہوا تو بہت خوش تھا اور خواب کو احمدیت اور اسلام کے درمیان واسطہ خیال کیا.پھر سیرالیون سے مبلغ لکھتے ہیں کہ کینیا ریجن کی ایک دور دراز جماعت ٹونگو فیلڈ ( Tongo Field) ہے.اس جماعت کے ارد گرد کے گاؤں میں احمدیت کا پودا نہیں لگا.اس جماعت کے ساتھ والے گاؤں میں ایک اچھے اخلاق کے مالک نوجوان تھے.اس گاؤں کے لوگوں نے انہیں اپنے لوکل رواج کے مطابق نوجوانوں کا لیڈر بنانے کے لئے تاج پہنچایا.وہ نوجوان بیان کرتے ہیں کہ جس رات یہ تاج مجھے پہنایا گیا میں نے خواب میں ایک بڑی اور چھوٹی مسجد دیکھی.میں بڑی مسجد میں نماز کے لئے جانا چاہتا ہوں.آواز آتی ہے کہ اگر تم نے دعا قبول کروانی ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنا ہے تو اس چھوٹی مسجد میں جاؤ.جب میں اس چھوٹی مسجد میں جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ میرے والد صاحب اس چھوٹی مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ بیٹا یہ احمد یہ مسلم جماعت کی مسجد ہے.اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنا ہے تو صرف اسی مسجد میں آ کر نماز پڑھو اور رابطہ رکھو.یہ نوجوان کہتے ہیں کہ اس خواب سے پہلے میں جماعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن اس کے بعد میں نے اردگرد کے گاؤں کے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ یہاں کوئی احمد یہ مسلم جماعت کی مسجد ہے.ایک آدمی نے مجھے ٹونگو کی مسجد کے بارے میں بتا یا.وہاں کے معلم صاحب سے رابطہ کیا اور بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا.اصل چیز اخلاص ہے ، کثرت نہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل جس کے ساتھ ہو.پس صرف یہ کہنا کہ مسلمانوں کے تمام فرقے ایک طرف اور جماعت احمد یہ ایک طرف.اس طرف بھی ان کو اشارہ کیا گیا کہ کثرت کو نہ دیکھو یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت کہاں ہے اور قبولیت دعا کس طرف زیادہ ہے.
خطبات مسرور جلد 12 559 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء گیمبیا سے ایک صاحب اپنی خواب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک رات جب وہ سور ہے تھے تو خواب میں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ آئے اور ان کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ کر السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہا.خواب میں انہوں نے اس شخص کو نہیں پہچانا اور پھر خواب ہی میں وہ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ تو لوگ بتاتے ہیں کہ یہ جماعت احمدیہ کے امام ہیں اور پھر کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی.اگلی صبح یہ صاحب ہمارے مشن ہاؤس آئے اور ہمارے معلم کو خواب سنائی تو ہمارے معلم نے ایم.ٹی.اے لگا یا ہوا تھا.اس وقت میراجمعہ کا خطبہ ایم.ٹی.اے پر چل رہا تھا.تو کہتے ہیں مجھے دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا که کل رات یہی شخص میری خواب میں آیا تھا اور پھر انہوں نے احمدیت قبول کر لی.نائب ناظر صاحب دعوت الی اللہ قادیان کہتے ہیں کہ یہاں ہنومان گڑھ کا ایک موضع موجہا والی کے ایک دوست لال دین صاحب نے کچھ عرصہ قبل ایک خواب دیکھا کہ ایک فوت شدہ بچہ ہے جو ان کو یہ کہہ رہا ہے کہ آپ کے پاس چار لوگ آئیں گے.وہ آپ کو دین اسلام کی باتیں بتائیں گے.آپ ان کی باتیں ماننا اور ان کا ساتھ دینا اور عمل کرنا.جب ہم لوگ لال دین صاحب کے گھر گئے اور ان کو احمدیت کا پیغام دیا تو انہوں نے ساری باتیں سننے کے بعد کہا کہ آپ لوگوں کے آنے کی اطلاع مجھے پہلے ہی بذریعہ خواب مل گئی تھی اور میں آپ لوگوں کا انتظار کر رہا تھا.چنانچہ انہوں نے اور ان کے بیٹوں نے اور سارے خاندان نے بیعت کر لی.قرغیزستان کی ایک لوکل جماعت ہے ایک وہاں کے نو مبائع بہادر صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1998ء کی بات ہے کہ خاکسار نماز عصر ادا کر رہا تھا کہ سلام پھیر نے سے کچھ دیر قبل خاکسار پر کشفی کیفیت طاری ہوئی اور میرے دائیں کان میں قرآن کریم کی سورۃ یونس کی یہ آیت تلاوت کی گئی کہ وَاللهُ يَدْعُوا إلى دَارِ السَّلْمِ وَيَهْدِى مَنْ يَّشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ.(یونس : 26 ) کہ اور اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے.اس کے بعد کہتے ہیں مجھے بتایا گیا کہ اس آیت کی تشریح اور تفسیر تمہیں انڈیا سے ایک استاد آ کے سمجھائے گا.اس کے بعد یہ کیفیت جاتی رہی.نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں بہت زیادہ حیران اور ششدر تھا کہ مجھ پر یہ کیسی کیفیت ہوئی اور یہ کیا سلوک ہوا ہے کیونکہ میں اس وقت تک انڈیا جیسے ملک کو جانتا نہیں تھا اور نہ ہی نام سنا تھا.پھر مجھے کام کے سلسلے میں قرغیزستان سے رشیا آنا پڑا.جب میں یہاں آیا تو کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی.ان کا تعلق انڈیا سے ہی تھا لیکن جماعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا اور ان سے بھی کوئی دینی
خطبات مسرور جلد 12 560 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء باتیں نہیں ہوئیں.صرف دنیا داری اور کاروباری باتیں ہوتی رہیں.پھر آہستہ آہستہ دین کے بارے میں آگاہی اور دلچسپی بڑھتی گئی.ایک دن آیا کہ میرا تعارف جماعت احمدیہ سے ہوا اور مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو قبول کرنے کا موقع مل گیا.2012ء میں بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گیا.خاکسار کو اس آیت کی تفسیر و تشریح سمجھ آئی کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعلق قادیان سے ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس امام کو ماننے اور جماعت میں داخل ہونے کی توفیق دی اور انڈیا سے ہی آنے والا میرے لئے ہدایت اور سلامتی کا موجب ہوا.چندر پور مہاراشٹر کے ہمارے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ یہاں ایک قصبہ ہے وہاں شیخ قدیر صاحب کی اہلیہ سلطانہ بیگم عرصے سے جماعت احمدیہ کی سخت مخالفت کرتی تھیں.یہ خاتون صو بہ آندھرا پردیش کے ایک شدید مخالف گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں.شادی کے بعد ان کے شو ہر شیخ قدیر صاحب نے احمدیت قبول کر لی.اس پر گھر میں بہت ہنگامہ ہوا اور بات خلع طلاق تک پہنچ گئی.شیخ قدیر صاحب نے احمدیت کے سامنے تمام تر رشتوں کو بیچ مانا اور ثابت قدم رہے.قدیر صاحب کے کہنے پر ہم نے بھی ان کی اہلیہ کو سمجھایا کہ آپ کے شوہر سچائی پر ہیں.آپ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ضرور معجزہ دکھائے گا لیکن موصوفہ یہی سوچتی تھیں کہ کہیں احمدیت کی وجہ سے میرا ایمان خراب نہ ہو جائے.اسی وجہ سے وہ احمدیت سے دور رہنے کی کوشش کرتیں.گھر میں ایم.ٹی.اے ہونے کے باوجود وہ مدنی چینل دیکھتی تھیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت نے اپنا جلوہ دکھایا.ایک روز موصوفہ سلطانہ صاحبہ نے ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ انہیں کلمہ پڑھا رہے ہیں اور وہ بتارہے ہیں کہ قرآن پاک آخری شریعت ہے اس پر عمل کرو.وہ کہتی ہیں وہ بزرگ ان کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.اس خواب پر موصوفہ کی تسلی نہ ہوئی لیکن ویسے ہی کچھ عرصے کے لئے خاموش ہو گئیں.پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ ایک خواب دیکھا کہ آس پاس کے پورے علاقے میں احمدیت پھیل چکی ہے اور جسے بھی پوچھتی ہیں وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے.پھر انہوں نے دیکھا کہ انڈے کی زردی کے اندر لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ لکھا ہوا ہے اور اس پر لکھا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آچکے ہیں اور خواب میں ہی سلطانہ صاحبہ اپنے مخالف بھائی سے کہتی ہیں کہ یہ لوگ واقعی سچے ہیں.ان کی نیک فطرت تھی ، اس کے بعد صبح ہوتے ہی انہوں نے بیعت کر لی.مالی ریجن کے کولی کو رو(Koulikoro) سے ہمارے معلم لکھتے ہیں کہ ان کے گاؤں شو (Show ) میں ایک بزرگ بنگے جارہ صاحب (Bange Diarra) نے بتایا کہ ایک لمبا عرصہ پہلے
خطبات مسرور جلد 12 561 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014 ء انہوں نے خواب دیکھا کہ وہ ایک بہت بلند دیوار پر چڑھ رہے ہیں اور جب وہ اس کی بلندی پر پہنچتے ہیں تو وہاں انہیں بہت سے پھول نظر آتے ہیں اور ان پھولوں کی دائیں جانب بہت سے لوگ بیٹھے ہیں.خواب میں انہیں بتایا گیا کہ اگر تم نے اسلام سیکھنا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننا ہے تو ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ مگر انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس سے کیا مراد ہے.اب جبکہ انہوں نے ریڈیو احمد یہ نور ( احمد یہ ریڈیو کا نام نور ہے ) سننا شروع کیا تو ایک دن پھر انہیں یہ خواب آئی.انہیں کہا گیا کہ احمد یہ ریڈیو کے جو لوگ ہیں.ان میں شامل ہو جاؤ تو خدا تک پہنچ جاؤ گے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بیعت کر لی.اللہ تعالیٰ جب ایسے لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے تو ایسے واقعات سن کر ہم جو پرانے اور پیدائشی احمدی ہیں ہماری بھی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ اپنی حالت کی طرف ہمیشہ نظر رکھیں.اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں.اپنی عملی حالتوں کو درست کریں جیسا کہ میں نے کہا.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری ستیاں ہمیں کہیں محروم نہ کرتی جائیں.اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ احمدیت کے قافلے نے انشاء اللہ تعالیٰ آگے بڑھتے چلے جانا ہے.یہ تو آگے بڑھتا جائے گا.پس بہت توجہ کی ضرورت ہے کہ ہم بھی ہمیشہ اس قافلے کا حصہ بنے رہیں.باقی ایسے بھی واقعات ہیں جہاں احمدیت کے خلاف بڑے فتوے دیئے جاتے ہیں لیکن بعض دفعہ سبق دینے کے لئے اللہ تعالیٰ ایسے موقع پیدا کرتا ہے کہ انہی فتووں کا نشانہ یہ فتوے حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں.مصر سے ہمارے ایک خاتون ہیں جہاد صاحبہ کہتی ہیں کہ میرے والد صاحب ایک تنظیم اخوان المسلمین کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور اس کی اندھی تقلید کرتے تھے.اسی تنظیم نے احمدیت کے نعوذ باللہ اسلام سے خارج ہونے کا ایک اور مصری تنظیم دار الافتاء سے فتوی نکالا تھا.ایک مرتبہ میرے والد صاحب نے ہمارے اقرباء کے سامنے ہم پر ایک جھوٹا الزام عائد کیا.اس وقت میں نے انتہائی لاچارگی کے عالم میں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اپنے فضل سے ہماری تائید فرما اور اس سے انتقام لے جو جھوٹ بول کر حق بولنے کا دعوی کرتا ہے.میں نے دعا کی کہ اے اللہ ! کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں تو کوئی نشان دکھا.کہتی ہیں میں اس وقت شوال کے روزے سے تھی اور مغرب کی نماز کے قریب کا وقت تھا میں نے ٹی وی آن کیا کہ مصر کے حالات کے بارے میں خبریں سنوں تو میری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ
خطبات مسرور جلد 12 562 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء الا زہر نے اخوان المسلمین کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا تھا اور انہیں مرتد قرار دیا تھا.اس پر میں نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام در حقیقت حق پر ہیں.مصر میں جامعہ الازہر سے جاری کردہ فتوے کو دار الافتاء کی طرف سے جاری کردہ فتوے پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے.میں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ اب دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کیسا جواب ملا.کہ آپ نے ایک فتویٰ نکالا اور اس کے بالمقابل آپ کو ایک زیادہ قومی فتویٰ اللہ تعالیٰ نے جواب میں دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی حق پر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : وہ وقت کہ ایک دو آدمی ہمارے ساتھ تھے اور کوئی نہ تھا اور اب دیکھتے ہیں کہ جوق در جوق آ رہے ہیں.يَأْتُونَ مِن كُل فج عَمِيقٍ.اور پھر ان ہی بات نہیں بلکہ اس کے اوپر ایک اور حاشیہ گا ہوا ہے کہ مخالفوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ لوگ آنے سے رکیں مگر آخر کار وہ فقرہ پورا ہوکر رہا.اب جو نیا شخص ہمارے پاس آتا ہے.وہ اسی الہام کا ایک نشان ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 370) پھر ایک جگہ فرمایا کہ: ”اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت کا ایمان کمزور رہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے ایمان کو بڑھانے کے لئے نشانات ظاہر کر رہا ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 356) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا سلسلہ آج تک جاری ہے.لیکن کچھ ایسے بدقسمت ہیں جو نہ نشانات دیکھ کر سبق حاصل کرتے ہیں، نہ حق کو پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ مخالفت میں ترقی کر رہے ہیں.ایسے لوگ پھر ایک دن اپنے انجام کو دیکھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا نے مجھے مامور کیا ہے.خدا نے مجھے بھیجا ہے.وہ دیکھتے ، یعنی مخالفین دیکھتے کہ کیا جس شخص نے اپنا آنا خدا کے حکم سے بتایا ہے.وہ خدا کی نصرتیں اور تائید میں بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے یا نہیں.مگر انہوں نے نشان پر نشان دیکھے اور کہا کہ جھوٹے ہیں.انہوں نے نصرت پر نصرت اور تائید پر تائید دیکھی لیکن کہہ دیا کہ سحر ہے.جادو ہے.”میں ان لوگوں سے کیا امید رکھوں جو خدا تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی کرتے ہیں.خدا کے کلام کے ادب کا نقا ضا تو یہ
خطبات مسرور جلد 12 563 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 ستمبر 2014ء تھا کہ اس کا نام سنتے ہی یہ ہتھیار ڈال دیتے مگر یہ اور بھی شرارت میں بڑھے.اب خود دیکھ لیں گے کہ انجام کس کے ہاتھ ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 437) اللہ تعالیٰ ان مخالفین کو بھی جلد ان کے انجام جلد دکھائے اور احمدیت کا قافلہ تو انشاء اللہ تعالیٰ آگے بڑھتا چلا جائے گا اس کو اور تیزی سے آگے بڑھاتا چلا جائے اور ہم بھی ہمیشہ اس کا حصہ بنیں رہیں.نماز جمعہ کے بعد میں کچھ جنازے پڑھاؤں گا.جو مکرم جمیل احمد گل ہے یا گل صاحب ہیں جو کہ لمبے عرصے سے جرمنی میں مقیم ہیں.جلسہ سالانہ یو.کے پر فیملی کے ساتھ آئے ہوئے تھے.دو فیملیوں کے ساتھ دو گاڑیوں میں تھے.3 رستمبر کو یہ واپس جرمنی جا رہے تھے تو رات کو لیمبرگ (Limburg) شہر کے قریب جہاں سڑک پر کام ہو رہا تھا ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا.جسے ان کی بیٹی چلا رہی تھی.اس حادثے میں پیچھے سے آنے والی ایک گاڑی نے اوور ٹیک کرنے کی کوشش میں ان کی گاڑی سے ٹکر ماری جس کے باعث ان کا توازن قائم نہ رہا.گاڑی دوسری Lane میں چلی گئی اور مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں سے ٹکرا گئی.اس کے نتیجے میں جمیل احمد صاحب کی اہلیہ امتہ الحمید صاحبہ، ان کی پوتی عزیزہ سلینہ جمیلہ احمد عمر 11 سال اور نواسی فاتح رعنا عمر 10 سال موقع پر ہی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں.اِنَّا لِلهِ وإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.جبکہ جمیل صاحب کی بیٹی ہندہ جو گاڑی چلا رہی تھیں وہ اور ان کا نواسا شدید زخمی ہو کر قومے میں چلے گئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی حالت اب بہتر ہے اللہ تعالیٰ ان کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.مکرمہ امنة الحمید صاحبہ نے تقریباً 15 سال بطور صدر لجنہ اماءاللہ آ فن باخ خدمت کی توفیق پائی اور بیت الجامعہ آ فن باخ (Offenbach) کے سنگ بنیاد کے موقع پر اینٹ رکھنے کی سعادت بھی پائی.مرحومہ مکرم را نا کرامت اللہ خان صاحب سابق امیر ضلع مانسہرہ کی بیٹی تھیں جنہیں اسیر راہ مولی رہنے کی سعادت نصیب ہوئی اور السلام علیکم کہنے پر پہلا مقدمہ بھی آپ پر ہوا تھا.اللہ تعالیٰ ان مرحومین کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے اور پیچھے رہنے والوں کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 03 اکتوبر 2014 ء تا09 اکتوبر 2014 ، جلد 21 شماره 40 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 564 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014 ء بمطابق 19 تبوک 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے.عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو.یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں.وہ کیا ہیں ریا کاری ( کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے ) عجب ( کہ وہ عمل کر کے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے ) یعنی ایسی خوشی جو خود پسندی کی ہو.فرمایا: ”اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں.عمل صالح وہ ہے جس میں ظلم ، عجب، ریا، تکبر اور حقوق انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو.جیسے آخرت میں انسان عمل صالح سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے.یعنی عمل صالح کی اہمیت دنیا میں بھی ہے اور جس طرح یہاں جو عمل صالح بجالاتا ہے اس کا حساب آخرت میں ہو گا.اسی طرح یہاں بھی اس کا حساب ہوگا یا یہاں کے عمل جو ہیں وہ آخرت میں انسان کے جزا سزا کا ذریعہ بنیں گے.اور پھر اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اگر عمل صالح ہوں تو اس دنیا کی زندگی کو بھی جنت بنا دیتے ہیں.فرمایا: ” اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عمل صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے.سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو صرف ما تنا فائدہ نہیں کرتا.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 274_275) آپ نے فرمایا کہ معصم عزم اور عہد واثق سے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.پکا اور مضبوط عہد
خطبات مسرور جلد 12 565 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء کرو.آپ نے ایمان کو ایک درخت سے تشبیہہ دے کر فرمایا کہ اعمال ایمان جو ہے ایک درخت کی طرح ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ درخت کو بھی فائدہ مند بنانے کے لئے اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے تبھی درخت فائدہ مند ہوتا ہے تبھی زندہ رہتا ہے جب اس کا خیال رکھا جائے.اس کی طرف توجہ دینی پڑتی ہے.اسی طرح ایمان کو بھی کامل کرنے کے لئے اعمال کی ضرورت ہے اور اپنے ایمان کی اعمال کے ذریعہ سے غور و پرداخت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر باوجود ایمان کے یا ایمان کا دعوی کرنے کے انسان مومن نہیں کہلاسکتا.بغیر عمل کے انسان ایسا درخت ہے جس کی خوبصورت سرسبز شاخیں کاٹ کر اسے بدشکل بنادیا گیا ہو.جس کے پھلوں کو ضائع کر دیا گیا ہو.جس کی سایہ دار شاخوں سے خدا تعالیٰ کی مخلوق کو محروم کر دیا ہو.ایک درخت جس کی جڑیں چاہے کتنی ہی مضبوط ہوں اور تناور درخت ہوا گر اسے کھا د پانی سے محروم کر دیا جائے ، اس کی نکلنے والی کونپلوں اور شاخوں کو ضائع کر دیا جائے تو ایک وقت میں وہ مرجائے گا.اس کی مضبوط جڑیں اسے کچھ بھی فائدہ نہیں دیں گی.اگر کچھ عرصہ وہ زندہ بھی رہے تو ایسے شاخوں سے محروم اور کسی بھی قسم کا فائدہ دینے سے عاری درخت کی طرف کوئی بھی نہیں دیکھے گا، کسی کی توجہ نہیں ہوگی.ایک ٹنڈ منڈلکڑی کھڑی ہو گی.ہر ایک نظر اس خوبصورت پودے اور درخت کو دیکھے گی اور اس کی طرف متوجہ ہوگی جو ہرا بھرا ہو.جس کی خوبصورتی نظر آتی ہو.جو درخت وقت پر پھولوں اور پھلوں سے لد جائے.جو گرمی میں سایہ دینے والا ہو.اسی کو لوگ پسند کریں گے.پس بیشک ایمان جو ہے وہ جڑ کی طرح ہے.بیشک ایک مسلمان دعوی کرتا ہے کہ میرا ایمان مضبوط ہے.اس کا اظہار ہم اکثر مسلمانوں میں دیکھتے ہیں.بہت سے لوگ دین کی غیرت بھی رکھتے ہیں.اسلام کے نام پر مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.آجکل جو مختلف گروہ بنے ہوئے ہیں، تنظیمیں بنی ہوئی ہیں، یہ لوگ اپنے ایمان کی مضبوطی کے کیا کیا دعوے نہیں کرتے.لیکن کیا اس خوبصورت اور خوشنما درخت یا اس باغ کی طرح ہیں جو دنیا کو فائدہ دے رہا ہو؟ لوگ اس کی خوبصورتی دیکھ کر اس کی طرف کھنچے چلے جارہے ہوں؟ جتنی شدت سے یہ متشد دگروہ یا لوگ اپنے دین کے نام پر شدت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اسی شدت سے دنیا ان سے دور بھاگ رہی ہے.وہ دین جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اس نے تو دشمنوں کو بھی اپنی طرف کھینچ کر نہ صرف دوست بنالیا تھا بلکہ شدید محبت میں گرفتار کر لیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا یہ اثر تھا کہ جب مسلمان حکومت ایک موقع پر یہ مجھی کہ اس وقت رومی حکومت کا مقابلہ مشکل ہے اور وہ مقبوضہ علاقہ جس میں عیسائی اور یہودی اکثریت تھی اسے مسلمانوں نے چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو عیسائی اور یہودی سب نے مل
خطبات مسرور جلد 12 566 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء کر مسلمانوں کی فوج کو روتے ہوئے رخصت کیا اور کہا کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ تم دوبارہ اس علاقے پر قابض ہو جاؤ تاکہ تمہارے شجر سایہ دار اور پھل دار سے ہم ہمیشہ فیض پاتے رہیں.جو سہولتیں تم نے ہمیں مہیا کی ہیں وہ تو ہماری ساری حکومتیں بھی ہمیں مہیا نہیں کر سکیں.(ماخوذازفتوح البلدان صفحه 87-88 باب يوم اليرموك مطبوعه دار الكتب العلميةبيروت 2000ء ماخوذ از سیر الصحابه الله جلد دوم حصه اول مهاجرین صفحه 171-172 ناشر اداره اسلامیات لاهور) ان مسلمانوں کی یہ قدر اس لئے تھی کہ ان کے ایمان کے ساتھ ان کا ہر عمل فیض رساں تھا.پس نرے ایمان کے دعوے اور اظہار اور اس کی جڑ کی مضبوطی کا اعلان کسی کام کا نہیں.جب تک اعمال صالحہ کی سرسبز شاخیں اور پھل خوبصورتی نہ دکھا رہی ہوں اور فیض نہ پہنچا رہی ہوں.اور جب یہ خوبصورتی اور فیض رسانی ہو تو پھر دنیا بھی متوجہ ہوتی ہے اور اس کے گرد جمع بھی ہوتی ہے اور ان کی حفاظت کے لئے پھر کوشش بھی کرتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو صرف ایمان میں مضبوطی کا نہیں کہا بلکہ تقریباً ہر جگہ جہاں ایمان کا ذکر آیا ہے ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ جوڑ کر مشروط کیا اور یہ حالت پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء بھی بھیجتا ہے.یہ حالت مومنوں میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب زمانے کے نبی کے ساتھ تعلق بھی پیدا ہو.جیسا کہ میں نے کہا بڑے بڑے گروہ ہیں جو دین کے نام پر اور ایمان کے نام پر اپنی مضبوط جڑوں کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہو کیا رہا ہے؟ ان کی نہ صرف آپس میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں اور ایک گروہ دوسرے گروہ پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے جو بھی کوشش ہو سکتی ہے جائز نا جائز طریقے سے ظلم سے ، وہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ غیر مسلم بھی پریشان ہوکر ان کی وجہ سے اسلام سے خوفزدہ ہو رہے ہیں.وہ مذہب جس نے غیر مسلموں کی محبتوں کو سمیٹا اور مسلمان حکومتوں کی حفاظت کے لئے غیر مسلم بھی مسلمانوں کی طرف سے لڑنے کے لئے تیار ہو گئے.اس کی یہ حالت ہے کہ غیروں کو تو کیا کھینچنا ہے خود مسلمانوں کی آپس کی حالت اعمال صالحہ کی کمی کی وجہ سے قُلُوبُهُمْ شَتَّى (الحشر: 15) کا نظارہ پیش کر رہی ہے.دل ان کے پھٹے ہوئے ہیں.آج ان صحیح اعمال کی تصویر پیش کرنا ہر احمدی کا کام ہے جس نے زمانے کے امام اور نبی کو مانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہی وہ خدا تعالیٰ کا لگایا ہوا درخت ہے جس کی جڑیں مضبوط ہیں اور شاخیں بھی سرسبز خوبصورت اور پھل دار ہیں جو دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے.اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں حقیقی اسلام کی تعلیم سے آشنا کیا ہے.ہمیں
خطبات مسرور جلد 12 567 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی طرف ترغیب دلائی ، زوردیا، توجہ دلائی ، اس کی اہمیت واضح کی.پس یہ جماعت احمدیہ ہی ہے جس کی جڑیں بھی مضبوط ہیں اور شاخیں بھی سرسبز و خوبصورت ہیں اور پھل دار ہیں جو دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے یہ وہ درخت ہے.جس کو دیکھ کر دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ کون سا اسلام ہے جو تم پیش کرتے ہو.بے شمار واقعات اب ایسے سامنے آتے ہیں کہ حقیقی اسلام کی خوبصورتی دیکھ کر لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں.افریقہ میں ایک جگہ ایک مسجد کا افتتاح ہورہا تھا.وہاں کے چیف عیسائی تھے ان کو بھی دعوت تھی.وہ بھی شامل ہوئے.وہ کہنے لگے کہ میں یہاں تم لوگوں کی محبت میں نہیں آیا.میں تو صرف یہ دیکھنے آیا تھا کہ اس زمانے میں یہ کون سے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی مسجد کے افتتاح پر ایک غیر مسلم اور عیسائی کو بھی بلایا.یہاں آ کر یہ دیکھ کر مجھے اور بھی حیرت ہوئی کہ یہاں تو مختلف مذاہب کے لوگ جمع ہیں اور احمدی خود بھی مسلمان ہونے کے باوجود ایسے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کی مثال نہیں.چھوٹا ہو بڑا ہو،امیر ہو غریب ہو، ہر ایک سے یہ لوگ محبت اور پیار سے پیش آ رہے ہیں.اور ایسے تعلقات ہیں اور یہاں ایسے اعلیٰ اخلاق ہیں جن کا مظاہرہ کیا جارہا ہے کہ جو کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آتا.پھر وہ چیف کہنے لگے کہ ایسی مسجدیں اور ایسا اسلام تو وقت کی ضرورت ہے.پس انہوں نے کہا کہ میرے تمام شکوک و شبہات جو اسلام کے بارے میں تھے وہ دور ہو گئے.اور پھر انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے اس علاقے کو ایک نئی مسجد نہیں دی بلکہ ہمیں ایک نئی زندگی دی ہے.زندگی کی اعلیٰ قدروں کے اسلوب سکھائے ہیں.پس ایسے درخت ہوتے ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ان کی جڑیں بھی زمین میں مضبوط ہوتی ہیں اور ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے اگر انسانوں کو درختوں سے مثال دی جائے تو ان کی سرسبز شاخیں بھی آسمان کی بلندیوں کو چھورہی ہوتی ہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے ہر احمدی کا فرض ہے کہ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ سرسبز شاخیں بن جائے.سرسبز شاخوں کے خوبصورت پتے بن جائے ان پر لگنے والے خوبصورت پھول اور پھل بن جائے.جو دنیا کو نہ صرف خوبصورت نظر آئے بلکہ فیض رساں بھی ہو.فیض پہنچانے والا بھی ہو ورنہ ایمان ویقین میں کامل ہونا بغیر عمل کے بے فائدہ ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ بظاہر ایمان ویقین میں کامل دنیا کے جو لوگ ہمیں نظر آتے ہیں وہ کہنے کو تو اپنے آپ کو ایمان ویقین میں کامل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں لیکن دنیا کے لئے ٹھوکر کا باعث بن رہے ہیں.ہم احمدی ہونے کا حق اس وقت ادا کر
خطبات مسرور جلد 12 568 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء سکتے ہیں جب ہم اپنے اعمال صالحہ کی وجہ سے ہر طرف اعلیٰ اخلاق دکھانے کا مظاہرہ کرنے والے ہوں.جب ہم اپنے محلے اور شہر اور اپنے ملک میں اعمال صالحہ کی وجہ سے اسلام کی خوبصورتی دکھانے والے بنیں.ہر قسم کے فسادوں ، جھگڑوں، چغلی کرنے کی عادتوں، دوسروں کی تحقیر کرنے ، رحم سے عاری ہونے ، احسان کر کے پھر جتانے والے لوگوں میں شامل نہ ہوں بلکہ ان چیزوں سے بچنے والے ہوں اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے ہوں.قرآن کریم بار بار ہمیں اعلیٰ اخلاق کو اپنانے اور نیک اعمال بجالانے کی تلقین فرماتا ہے.بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کسی وقتی جذبے کے تحت کسی پر احسان تو کر دیتے ہیں، مدد کر دیتے ہیں لیکن بعد میں کسی وقت اس کو جتا بھی دیتے ہیں کہ میں نے یہ احسان تم پر کیا یا یہ توقع رکھتے ہیں کہ اب ان کے احسان کا زیر بار انسان تمام عمر اُن کا غلام بنا ر ہے.اور اگر زیرا احسان شخص توقع پر پورا نہ اترے تو پھر اسے تکلیفیں دینے سے بھی نہیں چوکتے.یہ تو اسلامی تعلیم نہیں ہے.اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تُبْطِلُوا صَدَقْتِكُمْ بِالْمَنِ وَالْأَذَى(البقرة: 265 ) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے صدقات کو احسان جتا کر یا اذیت دے کر ضائع نہ کیا کرو کیونکہ یہ حرکتیں تو وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے ، جن کے ایمان کمزور ہیں نہ صرف کمزور ہیں بلکہ ایمان سے عاری ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ مختلف حوالوں سے ایک مومن کو بار بار یہ تلقین کی ہے کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے اور اس کے مختلف فوائد ہیں.پس جہاں اعمال صالحہ کے ساتھ ایک مومن دوسروں کے لئے نفع رساں وجود بنتا ہے وہاں وہ خود بھی اس کے میٹھے پھل کھا رہا ہوتا ہے.مثلاً جو ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ کرنے والے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مغفرت حاصل کرنے والے ہوں گے.یہ لوگ وہ ہوں گے جو جنتوں میں اعلیٰ مقام پائیں گے اور ایسی جنتوں میں ہوں گے جہاں نہریں چل رہی ہوں گی اور ان نہروں کے مالک ہوں گے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان کے ساتھ نیک اعمال کرنے والوں کو ایسے ایسے بڑے اور احسن اجر ملیں گے جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے.صرف ایمان کا دعویٰ احسن اجر کا حقدار نہیں ٹھہرا دیتا بلکہ اعمال صالحہ ہوں گے تو احسن اجر ملے گا، جنتیں ملیں گی ، مغفرت ہوگی.پھر یہ بھی فرمایا کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کرنے والوں کو خدا تعالیٰ پاکیزہ رزق دے گا.جو اس دنیا کا بھی رزق ہے اور آخرت کا بھی رزق ہے.عمل صالح کرنے والوں کو کوئی خوف نہیں ہو گا وہ امن میں ہوں گے کسی قسم کی پریشانی ان کو نہیں ہو گی.نہ دنیا کا خوف اور نہ اگلے جہان کا یہ خوف کہ میرے سے کوئی نیکیاں نہیں ہوئیں.اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو تسکین عطا
خطبات مسرور جلد 12 569 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء فرمائے گا.اور خوف ہو بھی کس طرح سکتا ہے وہ عمل صالح کرنے والے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی آغوش میں جارہے ہوتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ( مريم : 97) یقیناً وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں خدائے رحمان ان کے لئے وہ پیدا کرے گا.وڈ کے معنی ہیں کہ گہرا پیار اور تعلق.سطحی قسم کی محبت نہیں یا پیار نہیں.گہرا پیار اور تعلق.ایسا مضبوط تعلق جو کبھی کٹ نہ سکے.بلکہ اس طرح کا گہرا تعلق جس طرح کلا زمین پر گاڑ دیا جاتا ہے، مضبوط ہو جاتا ہے.اسی طرح وہ گاڑ دیا جائے گا.اس طرح یہ پیار دل میں گڑ جائے.پس اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جو مضبوط ایمان اور اعمال صالحہ بجا لانے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ ایسے مومنوں کے دل میں اپنی محبت کتے کی طرح گاڑ دے گا.اس طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہوں گے اور پھر وہ ایمان اور اعمال صالحہ میں مزید بڑھتے چلے جائیں گے.یا یہ کہ خدا تعالیٰ خود ایسے مومنوں سے ایسی محبت کرے گا جو بھی ختم نہیں ہوگی.پس اگر خدا تعالیٰ کی محبت ایک انسان کے دل میں گڑ جائے یا خدا تعالیٰ مومنوں سے ایسا پیار کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کے دل میں ان کی محبت گڑ گئی ہے تو اس سے بڑا کامیاب شخص اور کون ہوسکتا ہے وہ تو اپنی ذات میں ہی ایک ایسا خوبصورت اور سایہ دار درخت بن جاتا ہے جو دوسروں کو فیض پہنچانے والا ہوتا ہے کیونکہ اس کا ہر عمل خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو اور دوسروں کو فیض پہنچانے والا ہو.پھر اس آیت کا یہ بھی مطلب بنے گا کہ خدا تعالیٰ ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کے دلوں میں بنی نوع انسان کی محبت بھی مضبوطی سے گاڑ دے گا.پس ایک حقیقی مومن کبھی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو تکلیف پہنچائے.بنی نوع انسان سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک حقیقی مومن اسے ہمیشہ فیض پہنچانے کی فکر میں رہے.جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر آیا ہوں کہ یہ چیز اگر مسلمانوں میں پیدا ہو جائے تو ایک دوسرے کے حقوق تلف کرنے ظلم کرنے اور غیروں کو ، دوسروں کو قتل کرنے کے جو عمل حکومتوں میں بھی ہیں، نام نہاد تنظیموں میں بھی ہیں ، عوام میں بھی ہیں، آجکل بڑے عام نظر آ رہے ہیں یہ کبھی نظر نہ آئیں.اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل ہی نہیں ہورہا اس لئے سب کچھ ہورہا ہے.لیکن ظلم یہ ہے کہ یہ سب ظلم اللہ تعالیٰ کے نام پر ہورہا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ وڈ پیدا کرو، محبت پیدا کرو.ایسی محبت پیدا کرو جو دلوں میں گڑ جائے.ایسے بنو جو
خطبات مسرور جلد 12 570 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء دوسروں کو فیض پہنچانے والے ہوں.پس اگر حقیقی تعلیم پر عمل ہو تو کبھی یہ دکھ اور تکلیفیں جو ایک دوسرے دیئے جارہے ہیں یہ نظر نہ آئیں.ایک خوبصورت تصور اسلام کے شجر سایہ دار کا دنیا کے ذہنوں میں ابھرے.پھر اس آیت کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ بنی نوع کے دل میں مسلمانوں کی محبت کلے کی طرح گڑ جائے.اللہ تعالیٰ یقینا قدرت رکھتا ہے کہ ایسا کر دے لیکن اس نے اس بات کے حصول کے لئے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کی شرط لگائی ہے.جیسا کہ میں نے کہا پہلے مسلمانوں کے لئے جو قرون اولیٰ کے تھے ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں یہ محبت ہی تھی جو خدا تعالیٰ نے عیسائیوں کے دل میں اور یہودیوں کے دل میں پیدا کی تھی جو مسلمانوں کے علاقہ چھوڑنے پر روتے تھے، واپسی کی دعائیں کرتے تھے بلکہ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ ہم جانیں دے دیں گے لیکن عیسائی لشکر کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیں گے تم یہیں رہو ہم حفاظت کریں گے.(ماخوذ از فتوح البلدان صفحه 87-88 باب يوم اليرموك مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت 2000ء ماخوذ از سیر الصحابه من جلد دوم حصه اول مهاجرین صفحه 171 - 172 ناشر اداره اسلامیات لاهور) پس یہ نیک اعمال کا اثر تھا جو ہر سطح پر مسلمانوں سے ظاہر ہوتا تھا.جس نے اس خوبصورت درخت کی طرف دنیا کو متوجہ کیا اور دنیا کو فیض پہنچایا.آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے غلاموں کا یہ فرض ہے کہ ایمان کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ اعمال صالحہ کے وہ خوبصورت پتے ،شاخیں اور پھل بنیں جو اسلام کی خوبصورتی کی طرف دنیا کو کھینچنے والی ہو.جو دنیا کو فیض پہنچانے والی ہو.اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے والے بھی ہم ہوں اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والے بھی ہم ہوں.بنی نوع انسان سے محبت بھی ہماری ترجیح ہو اور بنی نوع انسان کی توجہ کھینچنے والے بھی ہم ہوں کیونکہ اس کے بغیر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں بن سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی بارا اپنی مختلف تحریروں میں، ارشادات میں مجالس میں اس طرف ہمیں توجہ دلائی کہ اپنے اعمال صالحہ کی طرف توجہ کرو.اپنے اعمال کی طرف توجہ کرو.ایسے اعمال بجالا ؤ جو صالح عمل ہوں ، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہوں، جو دنیا کو تکلیفوں سے بچانے والے ہوں.ایک اقتباس میں نے پہلے شروع میں پڑھا تھا.بعض اور اقتباسات آپ کےسامنے رکھتا ہوں.آپ نے ایک موقع پر فرمایا یعنی یہ کہ میری تعلیم کیا ہے اور اس کے موافق تمہیں عمل کرنا چاہئے فرماتے ہیں :
خطبات مسرور جلد 12 571 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء ”ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے.لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے.محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا.اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آ جائے گا کہ وہ الگ ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے.اعمال پروں کی طرح ہیں.بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کے لئے پرواز نہیں کر سکتا اور ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا جو ان کے نیچے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں.پرندوں میں فہم ہوتا ہے اگر وہ اس فہم سے کام نہ لیں تو جو کام ان سے ہوتے ہیں نہ ہو سکیں.مثلاً شہد کی مکھی میں اگر فہم نہ ہوتو وہ شہر نہیں نکال سکتی اور اسی طرح نامہ بر کبوتر جو ہوتے ہیں.(ایسے کبوتر جن کے ذریعہ سے پیغام پہنچائے جاتے ہیں ) ان کو اپنے فہم سے کس قدر کام لینا پڑتا ہے.کس قدر دور دراز کی منزلیں وہ طے کرتے ہیں اور خطوط کو پہنچاتے ہیں.اسی طرح پر پرندوں سے عجیب عجیب کام لئے جاتے ہیں.پس پہلے ضروری ہے کہ آدمی اپنے فہم سے کام لے اور سوچے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نیچے اور اس کی رضا کے لئے ہے یا نہیں.جب یہ دیکھ لے اور فہم سے کام لے تو پھر ہاتھوں سے کام لینا ضروری ہوتا ہے سستی اور غفلت نہ کرے.ہاں یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ تعلیم صحیح ہو.کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعلیم صحیح ہوتی ہے لیکن انسان اپنی نادانی اور جہالت سے یا کسی دوسرے کی شرارت اور غلط بیانی کی وجہ سے دھوکا میں پڑ جاتا ہے.اس لئے خالی الذہن ہو کر تحقیق کرنی چاہئے.“ آپ دوسروں کو بھی غیروں کو بھی اور اپنوں کو بھی فرما ر ہے ہیں.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 439-440) پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ: ”ہر شخص کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کرے اور اللہ تعالیٰ کا خوف اس کو بہت سی نیکیوں کا وارث بنائے گا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہی اچھا ہے کیونکہ اس خوف کی وجہ سے اس کو ایک بصیرت ملتی ہے جس کے ذریعہ وہ گناہوں سے بچتا ہے بہت سے لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور انعام اور اکرام پر غور کر کے شرمندہ ہو جاتے ہیں اور اس کی نافرمانی اور خلاف ورزی سے بچتے ہیں لیکن ایک قسم لوگوں کی ایسی بھی ہے جو اس کے قہر سے ڈرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اچھا اور نیک تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پر کھ سے اچھا نکلے.بہت لوگ ہیں جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور
خطبات مسرور جلد 12 572 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء سمجھ لیتے ہیں کہ ہم متقی ہیں مگر اصل میں متقی وہ ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ کے دفتر میں متقی ہو.اس وقت اللہ تعالیٰ کے اسم ستار کی تجلی ہے (یعنی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ستاری فرما رہا ہے لیکن قیامت کے دن جب پردہ دری کی تجلی ہوگی اس وقت تمام حقیقت کھل جائے گی.اس تجلی کے وقت بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو آج بڑے متقی اور پر ہیز گار نظر آتے ہیں قیامت کے دن وہ بڑے فاسق فاجر نظر آئیں گے.اس کی وجہ یہ ہے کہ عمل صالحہ ہماری اپنی تجویز اور قرار داد سے نہیں ہو سکتا.اصل میں اعمال صالحہ وہ ہیں جس میں کسی نوع کا کوئی فساد نہ ہو کیونکہ صالح فساد کی ضد ہے.جیسے غذا طیب اس وقت ہوتی ہے کہ وہ کچی نہ ہو ، نہ سڑی ہوئی ہو اور نہ کسی ادنی درجہ کی جنس کی ہو بلکہ ایسی ہو جو فوراً جزو بدن ہو جانے والی ہو.اسی طرح پر ضروری ہے کہ عمل صالح میں بھی کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق ہو اور پھر نہ اس میں کسی قسم کا کسل ہو، نہ عجب ہو، نہ رہا ہو، نہ وہ اپنی تجویز سے ہو.جب ایسا عمل ہو تو وہ عملِ صالح کہلاتا ہے اور یہ کبریت احمر ہے.“ (یعنی بہت بڑی نایاب چیز ہے.) اس بارے میں کہ شیطان کس طرح گمراہ کر رہا ہے، ہر وقت مومنوں کے پیچھے لگا رہتا ہے.اس لئے تمام لوگوں کو ، ہر مومن کو، اس شیطان سے اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے.آپ فرماتے ہیں کہ شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے اور اس کے اعمال کو فاسد بنانے کے واسطے ہمیشہ تاک میں لگارہتا ہے یہانتک کہ وہ نیکی کے کاموں میں بھی اس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے.( یہ نہ سمجھیں کہ شیطان نیکی کے کاموں میں گمراہ نہیں کرتا ) اور کسی نہ کسی قسم کا فساد ڈالنے کی تدبیریں کرتا ہے.نماز پڑھتا ہے تو اس میں بھی ریا وغیرہ کوئی شعبہ فساد کا ملانا چاہتا ہے.“ (یعنی دکھاوے کی نمازیں) ایک امامت کرانے والے کو بھی اس بلا میں مبتلا کرنا چاہتا ہے.پس اس کے حملہ سے کبھی بے خوف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کے حملے فاسقوں فاجروں پر تو کھلے کھلے ہوتے ہیں وہ تو اس کا گو یا شکار ہیں لیکن زاہدوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ نہیں چوکتا اور کسی نہ کسی رنگ میں موقعہ پا کر ان پر بھی حملہ کر بیٹھتا ہے جو لوگ خدا کے فضل کے نیچے ہوتے ہیں اور شیطان کی بار یک در بار یک شرارتوں سے آگاہ ہوتے ہیں وہ تو بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں لیکن جو ابھی خام اور کمزور ہوتے ہیں وہ کبھی کبھی مبتلا ہو جاتے ہیں.“ پھر عمل کی ضرورت کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 425-426
خطبات مسرور جلد 12 573 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء انسان سمجھتا ہے کہ نرا زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کافی ہے یا نرا استغفر اللہ کہہ دینا ہی کافی ہے.مگر یا درکھو زبانی لاف و گزاف کافی نہیں.خواہ انسان زبان سے ہزار مرتبہ استغفر اللہ کہے یا سو مرتبہ تسبیح پڑھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ خدا نے انسان کو انسان بنایا ہے طوطا نہیں بنایا.یہ طوطا کا کام ہے کہ وہ زبان سے تکرار کرتا رہے اور سمجھے خاک بھی نہیں.انسان کا کام تو یہ ہے کہ جو کچھ منہ سے کہتا ہے اس کو سوچ کر کہے اور پھر اس کے موافق عملدرآمد بھی کرے.( جو کہے رہے ہو اس کو سوچو اور پھر اس پر عمل بھی کرو ) دلیکن اگر طوطا کی طرح بولتا جاتا ہے تو یا درکھونری زبان سے کوئی برکت نہیں ہے.جب تک دل سے اس کے ساتھ نہ ہو اور اس کے موافق اعمال نہ ہوں وہ نری باتیں سمجھی جائیں گی جن میں کوئی خوبی اور برکت نہیں کیونکہ وہ نرا قول ہے خواہ قرآن شریف اور استغفار ہی کیوں نہ پڑھتا ہو.خدا تعالیٰ اعمال چاہتا ہے اس لیے بار بار یہی حکم دیا کہ اعمال صالحہ کرو.جب تک یہ نہ ہو خدا کے نزدیک نہیں جا سکتے.بعض نادان کہتے ہیں کہ آج ہم نے دن بھر میں قرآن ختم کر لیا ہے.لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ نری زبان سے تم نے کام لیا مگر باقی اعضاء کو بالکل چھوڑ دیا حالا نکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اعضاء اس لیے بنائے ہیں کہ ان سے کام لیا جاوے.یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت کرتا ہے کیونکہ ان کی تلاوت نرا قول ہی قول ہوتا ہے اور اس پر عمل نہیں ہوتا.جو شخص کہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے موافق اپنا چال چلن نہیں بناتا ہے وہ ہنسی کرتا ہے کیونکہ پڑھ لینا ہی اللہ تعالیٰ کا منشا نہیں وہ تو عمل چاہتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 398-399) پھر آپ نے فرمایا کہ: ”اچھی طرح یا درکھو کہ نری لاف و گزاف اور زبانی قیل وقال کوئی فائدہ اور اثر نہیں رکھتی جب تک کہ اس کے ساتھ عمل نہ ہو اور ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء سے نیک عمل نہ کئے جاویں جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف بھیج کر صحابہ سے خدمت لی.کیا انہوں نے صرف اسی قدر کافی سمجھا تھا کہ قرآن کو زبان سے پڑھ لیا یا اس پر عمل کرنا ضروری سمجھا تھا.انہوں نے اطاعت اور وفاداری دکھائی کہ بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے اور پھر انہوں نے جو کچھ پایا اور خدا تعالیٰ نے ان کی جس قدر ، قدر کی وہ پوشیدہ بات نہیں ہے.فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کر کے دکھاؤ ورنہ لکھی شئے کی طرح تم پھینک دیئے جاؤ گے.فرماتے ہیں ”کوئی آدمی اپنے گھر کی اچھی چیزوں
خطبات مسرور جلد 12 574 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء اور سونے چاندی کو باہر نہیں پھینک دیتا بلکہ ان اشیاء کو اور تمام کار آمد اور قیمتی چیزوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہو لیکن اگر گھر میں کوئی چوہا مرا ہوا دکھائی دے تو اس کو سب سے پہلے باہر پھینک دو گے.اسی طرح پر خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ہمیشہ عزیز رکھتا ہے ان کی عمر دراز کرتا ہے اور ان کے کاروبار میں ایک برکت رکھ دیتا ہے.وہ ان کو ضائع نہیں کرتا اور بے عزتی کی موت نہیں مارتا....اگر چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری قدر کرے تو اس کے واسطے ضروری ہے کہ تم نیک بن جاؤ تا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر ٹھہر و.جولوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے حکموں کی پابندی کرتے ہیں وہ ان میں اور ان کے غیروں کے درمیان ایک فرقان رکھ دیتا ہے.یہی راز انسان کے برکت پانے کا ہے کہ وہ بدیوں سے بچتا ر ہے.ایسا شخص جہاں رہے وہ قابل قدر ہوتا ہے کیونکہ اس سے نیکی پہنچتی ہے وہ غریبوں سے سلوک کرتا ہے، ہمسایوں پر رحم کرتا ہے، شرارت نہیں کرتا، جھوٹے مقدمات نہیں بناتا ، جھوٹی گواہیاں نہیں دیتا بلکہ دل کو پاک کرتا ہے اور خدا کی طرف مشغول ہوتا ہے اور خدا کا ولی کہلاتا ہے.“ فرمایا کہ: ” خدا کا ولی بننا آسان نہیں بلکہ بہت مشکل ہے کیونکہ اس کے لیے بدیوں کا چھوڑنا، برے ارادوں اور جذبات کو چھوڑ نا ضروری ہے اور یہ بہت مشکل کام ہے.اخلاقی کمزوریوں اور بدیوں کو چھوڑ نا بعض اوقات بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے.ایک خونی خون کرنا چھوڑ سکتا ہے، چور چوری کرنا چھوڑ سکتا ہے لیکن ایک بد اخلاق کو غصہ چھوڑ نا مشکل ہو جاتا ہے یا تکبر والے کو تکبر چھوڑ نا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں دوسروں کو جو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے پھر خود اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی عظمت کے لیے اپنے آپ کو چھوٹا بناوے گا خدا تعالیٰ اس کو خود بڑا بنا دے گا.یہ یقیناً یا درکھو کہ کوئی بڑا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ آپ کو چھوٹا نہ بنائے ( یعنی اپنے آپ کو چھوٹا نہ بنائے ) یہ ایک ذریعہ ہے جس سے انسان کے دل پر ایک نور نازل ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے.جس قدر اولیاء اللہ دنیا میں گذرے ہیں اور آج لاکھوں انسان جن کی قدر و منزلت کرتے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو ایک چیونٹی سے بھی کمتر سمجھا جس پر خدا تعالیٰ کا فضل ان کے شامل حال ہوا اور ان کو وہ مدارج عطا کئے جس کے وہ مستحق تھے.تکبر، بخل، غرور وغیرہ بد اخلاقیاں بھی اپنے اندر شرک کا ایک حصہ رکھتی ہیں.اس لیے ان بداخلاقیوں کا مرتکب خدا تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ نہیں لیتا بلکہ وہ محروم ہو جاتا ہے.برخلاف اس کے غربت وانکسار کرنے والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مورد بنتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 400-401)
خطبات مسرور جلد 12 575 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء پھر تین اشخاص بیعت کے لئے آئے.بیعت کے بعد آپ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے.“ فرمایا: صرف ماننے سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا.جب تک اچھے عمل نہ ہوں.کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو تو نیک بنوہ متقی بنو.ہر ایک بدی سے بچو یہ وقت دعاؤں سے گزارو.رات اور دن تضرع میں لگے رہو.جب ابتلا کا وقت ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ کا غضب بھی بھڑ کا ہوا ہوتا ہے.ایسے وقت میں دعا ، تضرع، صدقہ خیرات کرو، زبانوں کو نرم رکھو، استغفار کو اپنا معمول بناؤ.نمازوں میں دعائیں کرو...نر ماننا انسان کے کام نہیں آتا.اگر انسان مان کر پھر اسے پس پشت ڈال دے تو اسے فائدہ نہیں ہوتا.پھر اس کے بعد یہ شکایت کرنی کہ بیعت سے فائدہ نہیں ہوا.بے سود ہے.خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 274) پھر عمل صالح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ : ” سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو.صرف مانا فائدہ نہیں کرتا.ایک طبیب نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ لے کر اسے پیوے.اگر وہ ان دواؤں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اسے کیا فائدہ ہوگا.فرمایا کہ: ”اب اس وقت تم نے تو بہ کی ہے.اب آئندہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس تو بہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کیا.اب زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ تقویٰ کے ذریعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے.بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے.انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں.ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 275) پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ: ''وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کار کھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تاوہ نیک چلنی اور نیک نیتی اور تقوی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے.وہ پنجوقت نماز جماعت کے پابند ہوں.وہ جھوٹ نہ بولیں ، وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں، وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور نا کر دنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور
خطبات مسرور جلد 12 576 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 ستمبر 2014ء غریب مزاج بندے ہو جائیں.اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 220 اشتہار نمبر 191 بعنوان ” اپنی جماعت کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ضروری اشتہار) پس یہ وہ نصائح ہیں جو ہمیں ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.یہی وہ باتیں ہیں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں بننے والا بنائیں گی.اسی سے ہمارے عہد بیعت کا مقصد بھی پورا ہوگا.یہی باتیں ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والا بھی بنائیں گی اور انہی اعمال صالحہ کے ذریعہ سے ہم دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا بھی بنا سکیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقیقی مومنوں میں بنائے جوایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوتے ہیں.نماز جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ حاضر پڑھاؤں گا.مکرم رشید احمد خان صاحب ابن مکرم اقبال محمد خان صاحب مرحوم Inner Parkلندن میں رہتے تھے.16 ستمبر کو 91 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.اِنَّا لِلهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آگرہ انڈیا میں یہ پیدا ہوئے تھے.قادیان میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی.پھر 1955 ء میں یہاں انگلستان آگئے تھے.یہاں پر برٹش نیوی میں چیف انجنیئر کے طور پر کام کرتے رہے.1980ء میں ریٹائر ہوئے.جب 1980ء میں اسلام آباد کی جگہ خریدی گئی تو حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کو وہاں نگران مقرر کیا تھا جہاں آپ نے بڑی محنت سے خدمت سرانجام دی.وہاں کے ابتدائی مکینوں میں آپ تھے.اسی طرح آپ کو سپین ویلی ( Spen Valley) یارک شائر میں لمبا عرصہ بطور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق ملی.نیک مخلص انسان تھے.آپ کے والد ا قبال محمد خان صاحب گوجرانوالہ کے تھے.وہ بھی بڑے مخلص تھے انہوں نے اپنی بیگم کے نام پر جامعہ احمد یہ ربوہ میں حسن اقبال کے نام سے مسجد بھی بنائی.ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا شمیم احمد خان ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بیٹے کو بھی جماعت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ان دونوں کو اہلیہ کو اور بچے کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 10 اکتوبر 2014 ء تا 16 اکتوبر 2014 ، جلد 21 شمارہ 41 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 577 39 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014 ء بمطابق 26 تبوک 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد مریم.گالوے، آئرلینڈ تشہد وتعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: إنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَالَّى الزَّكَوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (التوبة:18) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے.پس قریب ہے کہ یہ لوگ کامیابی کی طرف لے جائے جائیں گے.الحمد للہ آج ہمیں آئرلینڈ میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی پہلی مسجد میں اللہ تعالیٰ جمعہ پڑھنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس مسجد کی تعمیر ، اس کا قیام ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.گو یہ چھوٹی سی مسجد ہے لیکن اس بات کا اعلان ہے کہ مسیح محمدی کے ماننے والے یہاں سے خدائے واحد کی وحدانیت کا پانچ وقت اعلان کریں گے اور اس میں حاضر ہو کر خدائے واحد کی پانچ وقت عبادت بجالائیں گے.اس مسجد سے اس آواز کو بلند کریں گے کہ مساجد تو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی جگہ ہیں نہ کہ کسی فتنہ اور فساد کی آماجگاہ.یہ مساجد تو اس خدا کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں جو رب العالمین ہے جس نے تمام زمانوں کے انسانوں کے لئے اپنی ربوبیت کا اظہار کیا.جس نے ماضی میں بھی ہر قوم کی مادی اور روحانی ترقی کے لئے اپنی ربوبیت کا اظہار کیا.آج بھی اپنی ربوبیت سے دنیا کو فیضیاب کر رہا ہے اور جو آئندہ بھی
خطبات مسرور جلد 12 578 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء ہمیشہ نو از تا چلا جائے گا، فیضیاب کرتا چلا جائے گا.اس کی ربوبیت کسی خاص قوم کے لئے مخصوص نہیں بلکہ تمام جہانوں اور تمام مخلوق کے لئے ہے.پس اس لحاظ سے مسیح محمدی کے ماننے والوں کی مساجد اس بات کا اعلان کرنے کے لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی روحانی ربوبیت کا ادراک حاصل کرنا ہے تو مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہونے والوں کو ہی یہ حقیقی رنگ میں حاصل ہو سکتا ہے.یہ مساجد اس بات کا اعلان کرنے کے لئے ہم تعمیر کرتے ہیں کہ دنیا کے فسادوں کو دُور کرنے کے لئے اسلام کی اس خوبصورت تعلیم پر غور کرو جو محبت، پیار صلح اور امن کا پیغام دیتی ہے.یہ مساجد اس بات کے اعلان کے لئے ہیں کہ دنیا کو محبت پیار اور بھائی چارے کی ضرورت ہے نہ کہ جنگ و جدل کی ، نہ کہ تلوار اور توپ کی.ہر مسجد جو ہم تعمیر کرتے ہیں اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اس مسجد میں آنے والے کا دل ہر قسم کے ظلموں اور حقوق غصب کرنے کے خیالات سے پاک ہے.یہ ہماری مساجد اس بات کا نشان اور مرکز ہیں کہ یہاں آنے والے دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے والے ہیں اور ان حقوق کی ادائیگی کے لئے قربانی کرنے کے لئے جہاں اپنوں کے لئے ان کے دل رحم کے جذبات سے پر ہیں وہاں دشمن کی دشمنی بھی انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حق کی ادائیگی سے نہیں روکتی.یہ مساجد جو ہم تعمیر کرتے ہیں یہ اس بات کا اعلان ہیں کہ مذہبی آزادی کا سب سے بڑا علمبر دار اسلام ہے اور اس کے اظہار کے لئے ہماری مسجدوں کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہیں.ہر شخص جو ایک خدا کی عبادت کرتا ہے اسے مسجد میں عبادت کرنے میں کوئی روک نہیں.قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم.ہماری مساجد اور اس میں آنے والا ہر احمدی اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ قرآنی تعلیم کے مطابق ہر حقیقی مسلمان پر تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور فرض ہے اور اس ذمہ داری کا ادا کرنا اس کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنی مسجد کی حفاظت کرنا.ہماری مساجد ہمیں اس طرف بھی توجہ دلاتی ہیں کہ مومن کے ایمان کا حصہ ملک سے وفاداری بھی ہے.ایک مومن اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے ملک وقوم کا وفادار نہ ہو.غرض کہ بیشمار باتیں ہیں جو مساجد سے حقیقی رنگ میں وابستہ ہونے والوں سے یہ مطالبہ کرتی.ہیں کہ مساجد کا حق اس وقت ادا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق صحیح رنگ میں ادا تا ہوں.اور یہ تمام باتیں کرنے کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دیا ہے اور ان تمام باتوں کے کرنے کے لئے ہمیں ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار توجہ دلائی ہے اور اپنے
خطبات مسرور جلد 12 579 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء عمل اور اسوہ حسنہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی ہے.انسانیت کی قدریں قائم کرنے اور محبت ، سلامتی اور امن کے قیام کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نمونے قائم کئے.یہ صرف کہنے کی باتیں نہیں ہیں بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ایک موقع پر آپ نے عیسائیوں کو ان کی عبادت کے وقت اپنی مسجد مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی.(السيرة النبوية لابن هشام صفحه 396 امر السيد والعاقب وذكر المباهلة (صلاتهم الى المشرق) مطبوعه دار الكتب العلميه بيروت 2001ء) اور یہی وہ حقیقی اسلامی تعلیم ہے جس کو اس زمانے میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور عاشق صادق نے اپنے اوپر لاگو کرنے کا حکم دیا.یہی وہ حقیقی اسلامی تعلیم اور عمل ہے جس کی چند مثالیں میں نے پیش کیں.جن کے کرنے اور پھیلانے کا ہمیں حکم دے کر اور ہم سے توقع کر کے زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سوچ کے ساتھ جہاں بھی تم مسجدیں بناؤ گے اسلام کے تعارف اور تبلیغ کے نئے راستے کھولتے چلے جاؤ گے.لوگوں کی اسلام کی طرف توجہ ہوگی.اس کی خوبصورت تعلیم انہیں اپنا گرویدہ کر لے گی اور یوں تمہاری تعداد بھی بڑھتی چلی جائے گی.(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 119 ) پس یہی مقصد ہے جس کے لئے ہمیں اپنی مساجد بنانی چاہئیں اور ہم بناتے ہیں.یہی وہ تعلیم ہے جس کو آج میڈیا کے ذریعہ دیکھ کر اور اس کا علم پا کر دنیا ہماری طرف متوجہ ہوتی ہے.ایک عام آدمی سے لے کر بڑے بڑے لیڈر اور سیاستدان جب دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو شدت پسند گروہ ہیں جو مار دھاڑ اور بلا امتیاز قتل وغارت میں لگے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ایک جماعت ہے جو محبت، پیار، صلح اور امن کے لئے کوشش کر رہی ہے.ایک طرف تو ایسے نام نہاد مسلمانوں کی مساجد ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر گالیاں اور غلاظتوں سے بھرے ہوئے جذبات کے اظہار کئے جاتے ہیں اور دوسری طرف صرف امن اور صلح کی بات کی جاتی ہے اور محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں.یقینا یہ باتیں اپنی طرف توجہ پینچتی ہیں.لوگوں کو متجسس پیدا ہوتا ہے کہ ان دو قسموں کے مسلمانوں میں فرق کیوں ہے؟ اور پھر یہی نجس آجکل کے جدید میڈیا انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی طرف مائل کرتا ہے.پرسوں ڈبلن پارلیمنٹ میں جانے کا اتفاق ہوا.کچھ ممبران پارلیمنٹ سے ملنے کا بھی موقع ملا.
خطبات مسرور جلد 12 580 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء ایک ان میں سے کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ جس طرح انسانیت کی قدریں قائم کرنے کے لئے اور امن کے قیام کے لئے کوشش کرتی ہے وہ دوسرے مسلمانوں میں نظر نہیں آتیں اور یہ معلومات جماعت کے بارے میں بڑی گہرائی میں جا کر میں نے لی ہیں.اور کہنے لگے کہ یہ سب معلومات لے کر میں اس بات کا خواہشمند ہوں کہ اب جماعت احمدیہ، ڈبلن میں بھی جلد مسجد بنائے تا کہ یہ محبت اور اعلیٰ قدروں کا پیغام اس شہر میں بھی پھیلے جو میرا شہر ہے.تو اس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کو بتا رہا ہے کہ صرف تصویر کا ایک رخ دیکھ کر اسلام کے بارے میں غلط رائے قائم نہ کرو بلکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھو جو حقیقی رخ ہے جس کو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی جماعت پیش کرتی ہے.پس اس بات پر ہمیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے یہاں مسجد بنالی اور آج دنیا نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے آپ کی مسجد دیکھ لی.آپ بھی دنیا کو کہنے کے قابل ہو گئے کہ ہمارے پاس بھی مسجد ہے.ایک فنکشن شام کو بھی ہو جائے گا انشاء اللہ اور اس میں پڑھے لکھے طبقے کو آپ کی مسجد دیکھنے کا موقع ملے گا یا یہ لوگ مسجد کی خوبصورتی کی تعریف کر دیں گے یا تعریف کی جانی شروع بھی ہو گئی ہوگی.یا مختلف وقتوں میں شاید مختلف لوگ اس شہر کے بھی اور باہر سے بھی مسجد کا وزٹ کرنے آئیں اور آپ خوش ہو جائیں کہ اتنے لوگوں یا اتنے گروپوں نے وزٹ کیا ہے اور بس آپ نے سمجھ لیا کہ ہم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے.یہ نہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت سی باتیں ہیں جس کا اعلان آپ اس مسجد کے ساتھ کر رہے ہیں.یہ سب باتیں ایک بہت بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالنے والی ہونی چاہئیں.پس ان ذمہ داریوں کی طرف یہاں کے رہنے والے ہر احمدی کی توجہ ہونی چاہئے کہ کس طرح یہ ذمہ داری ادا کرنی ہے؟ جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں کہ مسجد کا کردار کیا ہے اور ہماری مسجدوں سے کیا اعلان ہوتا ہے.کس طرح ہم نے حقوق اللہ بھی ادا کرنے ہیں اور حقوق العباد بھی ادا کرنے ہیں.اگر ان کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں تو ہمارے دعوے بھی کھو کھلے ہوں گے.ہمارے نعرے اور اعلان بھی دنیا کو دھوکہ دینے والے ہوں گے.ہم صرف زبانی باتوں اور پراپیگنڈے سے دنیا والوں کو خوش تو کر رہے ہوں گے لیکن جو ہماری زندگی کا مقصد ہے خدا کو راضی کرنا اور اس کی رضا کے مطابق اپنے عملوں کو ڈھالنا ، اس طرف ہماری توجہ نہیں ہو گی.میں نے شروع میں جو آیت تلاوت کی تھی اس میں بھی خدا تعالیٰ نے مسجدوں کو آباد کر نے والوں کی خصوصیات بیان کی ہیں.اس آیت کی وسعت خانہ کعبہ سے نکل کر ہر اس مسجد تک پھیلتی چلی جاتی ہے جو
خطبات مسرور جلد 12 581 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء ان خصوصیات کے حامل لوگوں سے آباد ہوتی ہے جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے.جو ایمان لانے والوں میں شامل ہیں.ان مومنوں میں شامل ہیں جن کے ایمان کے معیار اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمائے ہیں.فرمایا کہ اَشَدُّ حُبًّا لِلہ.یعنی مومنوں کی محبت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے.کوئی دوسری دنیاوی محبت ان پر غالب نہیں ہوتی.وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں.یہ نہیں ہوتا کہ دنیاوی مفاد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کو بھول جائیں.اللہ تعالیٰ کی محبت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کے احکام پر عمل کیا جائے.یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے.یہ نہیں کہ اپنے کام کے بہانے کر کے نمازوں کو انسان بھول جائے.مالی مفاد کا فائدہ اٹھانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لے لے.یہ کام کرتے وقت انسان کو سوچنا چاہئے کہ میری محبت خدا تعالیٰ سے زیادہ ہے یا دنیاوی مفادات سے؟ اگر دنیاوی چیز میں اللہ تعالیٰ کے حکموں سے دور لے جا رہی ہیں تو دنیا کی محبت غالب آ رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے (یعنی اللہ کے ) غیر سے شراکت نہیں چاہتی.ایمان جو ہمیں سب سے پیارا ہے.وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں.“ ( مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 538 مکتوب نمبر 120 مکتوبات بنام حضرت منشی رستم علی صاحب ، شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ) پس یہ بڑی قابل غور بات ہے.کہنے کو تو ہر مسلمان یہی کہتا ہے کہ مجھے خدا سے محبت ہے، مجھے رسول سے محبت ہے.اسی لئے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.کبھی کسی مسلمان کے منہ سے ہم یہ نہیں سنیں گے کہ مجھے خدا یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ہے.لیکن کتنے ہیں جو خدا اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے والے ہیں.صرف نماز کو ہی لے لیں.ہمیں جائزے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نمازوں کا حق ادا کر کے نمازیں پڑھتے ہیں.بہت سے ایسے ہیں جن کے جواب یہ ہیں کہ تین نمازیں یا چار نمازیں پڑھتے ہیں.پھر بہت سے ایسے ہیں جو نماز کی ادائیگی میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ جیسے ایک بوجھ گلے سے اتار رہے ہوں.نماز جو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے اور اس سے محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے.اگر اس کی ادائیگی ہم سنوار کر نہیں کر رہے تو محبت کے تقاضے ہم پورے نہیں کر رہے.پھر ایمان لانے والوں
خطبات مسرور جلد 12 582 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہیں اللہ اور رسول کسی فیصلے کے بارے میں بلاتے ہیں، کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی.پس ہر ایک کو اس معیار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے.خود اپنا جائزہ ہی ہمیں اپنی حالتوں کے بارے میں بتا سکتا ہے.قرآن کریم نے بے شمار احکام دیئے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ سات سو حکم ہیں.اور جو ان کو نہیں مانتا، ان پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ مجھ سے دُور ہو رہا ہے اپنا تعلق مجھ سے کاٹ رہا ہے.- (ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 26) پس اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان تب مکمل ہو گا جب ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر رہے ہوں گے.پھر ہم کہتے تو یہ ہیں کہ ہم آخرت پر ایمان لاتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ یہ آخرت پر ایمان کا دعویٰ صرف منہ کی باتیں ہیں کیونکہ اگر آخرت پر ایمان کامل ہو تو انسان بہت سے گناہوں اور حقوق کے غصب کرنے سے بچتا ہے.ہم دنیاوی قانون کے خوف سے تو بہت سے کام کرنے سے رک جاتے ہیں کہ پکڑے گئے تو کیا ہوگا اور افسروں کی اطاعت بھی ہم ان کے خوف سے کرتے ہیں.لیکن بہت سے غلط کام ہم میں سے بہت سے اس لئے کرتے ہیں کہ آخرت کے بارے میں باوجود دعوے کے ہم سوچتے نہیں.بہت سے ہم میں سے اگر کبھی خشوع سے نمازیں پڑھ بھی رہے ہوں گے تو اس لئے پڑھتے ہیں کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دعا کریں.دنیاوی مقاصدان میں بہت زیادہ ہوتے ہیں.مسجدوں میں بعض اس لئے بھی آ جاتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اتنا عرصہ ہوا مسجد میں نہیں آیا.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مسجدوں کو آباد کرنے والے قیام نماز خدا تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں.باجماعت نمازیں، ان کی پابندی، وقت پر ادا ئیگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتے ہیں.ان کی عبادتیں خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتی ہیں.ان کی مالی قربانیاں بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ کے علاوہ انہیں کسی کا خوف نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صرف ایمان کا دعویٰ کرنے والے نہیں ہیں بلکہ انہیں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت بھی نظر آتی ہے.ہر قدم ان کا ہدایت کے نئے سے نئے راستوں کی طرف اٹھتا ہے.ہر راستہ ان کے لئے فلاح کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے.کامیابیوں کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے.یہ ہدایت انہیں کامیابیوں کی طرف لے جاتی ہے.انہیں کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر یہ احسان ہے کہ اس نے جماعت کو ایسے مومنین عطا کئے
خطبات مسرور جلد 12 583 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء ہیں جن کے ایمان کے دعوے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ان کا مقصد ہوتا ہے اور یہی راز ہے جس کی وجہ سے جماعت احمد یہ من حیث الجماعت ترقی کی منازل کی طرف بڑھ رہی ہے.پس ان فضلوں کا حصہ بننے کے لئے مسجد کی آبادی کا حق ادا کرنے کے لئے ، جیسا کہ میں نے کہا ہم میں سے ہر ایک کو ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی احمدی مرد عورت ایسا نہ رہے جو اس ترقی کی برکات اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے سے محروم رہے.ہمارے خوف دنیاوی خوف نہ ہوں بلکہ اگر کوئی خوف ہو تو اس محبت سے بھرا ہوا ہو کہ ہمارا پیارا خدا ہم سے ناراض نہ ہو جائے.پس اس مسجد کے بننے کے بعد جب دنیا کی نظر ہم پر ہوگی تو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہمیں پہلے سے بڑھ کر اپنے جائزے لینے ہوں گے.ہمیں اپنے عملوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہوگی تھی ہم مسجد دیکھ کر اس طرف متوجہ ہونے والوں کی صحیح رہنمائی کر سکیں گے.مسجد کے بعد تبلیغ اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے تعارف کے نئے راستے کھلیں گے اور کھل بھی رہے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا لوگ آئیں گے، دیکھیں گے.دنیا میں ہر جگہ جہاں جماعت کی مسجد بنتی ہے تو لوگ ،سکولوں کے بچے بھی اور دوسرے گروپس بھی ، آتے ہیں.آجکل کیونکہ بعض مسلمانوں کی حرکات کی وجہ سے دنیا کی نظر مسلمانوں کی طرف بہت ہے اس لئے جیسا کہ میں نے کہا تجسس بہت بڑھ گیا ہے.جب ہمارے عملوں اور ہماری حالتوں سے وہ اسلام کی تصویر کا حقیقی رخ دیکھیں گے تو یقینا متاثر ہوں گے.پس مسجد بنانے کے بعد یہاں کے رہنے والوں کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے.میں اس لئے یہ بار بار کہہ رہا ہوں کہ اب آپ چھپے ہوئے نہیں رہے.کبھی زمانہ تھا کہ جب آئرلینڈ کی جماعت چھوٹی سی تھی اور کوئی نہیں جانتا تھا.اب آپ لوگ ان لوگوں میں نہیں رہے جن کو لوگ جانتے نہیں.مسجد کی خوبصورت عمارت اور بلند مینار ہر روز آپ کو دنیا سے متعارف کروا رہے ہیں.اور اس کا آج افتتاح اور شام کو جیسا کہ میں نے کہا انشاء اللہ غیر مسلم یا غیر احمدیوں کے ساتھ جو فنکشن ہے اس تعارف کو ہر طبقے میں لے جائے گا.اخبارات نے کچھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے.مزید خبریں انشاء اللہ آئیں گی جو جماعت احمدیہ کے بارے میں حقیقی اسلام کے بارے میں اس ملک کے لوگوں کو مزید آگاہ کریں گی اور یہ مسجد صرف گالوئے کے لوگوں کے لئے توجہ کا مرکز نہیں رہے گی بلکہ دوسرے شہروں کے لوگ بھی آپ کے بارے میں جانیں گے اور موقع ملا تو یہاں آ کر مسجد دیکھنے کی کوشش بھی کریں گے.یہی ہمارا مختلف جگہوں پر تجربہ ہے.گویا جیسا کہ میں نے کہا آپ کی تبلیغ میں وسعت پیدا ہوتی چلی جائے گی.اس کے لئے ہر احمدی کو علمی لحاظ سے بھی تیاری کرنے
خطبات مسرور جلد 12 584 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء کی ضرورت ہے تاکہ دینی اور علمی جوابات دے سکیں اور عملی حالتوں کو بھی اس معیار کے مطابق لانے کی ضرورت ہوگی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں.اور جس کے بارے میں میں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ معیار کیا ہے؟ وہ معیار قرآن کریم کے تمام احکامات پر عمل کرنا ہے.اپنے ایسے نمونے قائم کرنا ہے کہ یہاں کے رہنے والے خود بخود آپ کی طرف متوجہ ہوں.اس ملک میں بھی مذہبی رجحان بہت زیادہ ہے.یورپ میں یہ ملک ہے جس میں ابھی تک امیر لوگ بھی ، دنیا دار بھی ، غریب بھی اپنے عیسائی ہونے کے حوالے دیتے ہیں اور اظہار کرتے ہیں کہ ہم مذہبی ہیں اور حضرت عیسی کے حوالے سے عیسائیت کو اپنا نجات دہندہ مذہب سمجھتے ہیں.ان کو ہم نے بتانا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہماری تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے برحق نبی تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے سپر مفوضہ کام کو احسن طریق پر سر انجام دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے.اصل طاقتوں کا مالک اور تمام جہانوں کا رب خدائے واحد دیگا نہ ہے جس کی حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی عبادت کی اور آپ کی پاکیزہ والدہ حضرت مریم نے بھی عبادت کی.اور پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق آخری اور کامل شریعت لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں.اور یہی شریعت کامل اور نجات دلانے والی ہے.خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہے اور دنیا و آخرت سنوارنے کا ذریعہ بننے والی ہے لیکن صرف دعوی کرنے سے نہیں بلکہ اس شریعت پر عمل کرنے سے.ان کو بتانا ہو گا کہ اسلام کے زندہ مذہب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں مسیح موعود علیہ السلام آچکے ہیں جنہوں نے ہمیں خدا تعالیٰ سے ملا یا.وہ خدا جو ہماری دعاؤں کو سنتا بھی ہے اور قبول بھی کرتا ہے جو اپنے وعدے کے مطابق اپنے نشانات بھی دکھا رہا ہے.پس اب دنیا کی بقا اس مسیح موعود کو ماننے میں ہے.اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق اس مسیح موعود کی آغوش میں آنے سے ہی پیدا ہوگا.لیکن کیا ہم یہ باتیں دوسروں کو بغیر کسی جھجک کے کہہ سکتے ہیں یا ہمیں رک کر سوچنا پڑے گا کہ کہوں یا نہ کہوں؟ کیا اگر دوسرے نے مجھے قبولیت دعا کا چیلنج دے دیا تو میں اس حالت میں ہوں کہ اسے قبول کروں.کیا میرا خدا تعالیٰ سے تعلق ہے.کیا میں خدا تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت اپنے دل میں رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو اس کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہوں؟ اگر نہیں تو پھر ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کا احساس کئے بغیر اور انہیں نبھائے بغیر میں کس طرح دنیا کو دعوت دے سکتا ہوں.دنیا کو کس طرح بتا سکتا ہوں کہ یار وسیح جو آنے کو تھا وہ تو آچکا.
خطبات مسرور جلد 12 585 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء کیا لوگ مجھے پوچھیں گے نہیں کہ تمہارے اندر اس مسیح نے کیا تبدیلی پیدا کی ہے جو تم مجھے پاک تبدیلیاں پیدا ہونے کا لالچ دے کر اس مسیح موعود کو ماننے کی طرف توجہ دلا رہے ہو.تمہارا اپنا خدا تعالیٰ سے کتنا تعلق پیدا ہو گیا ہے جو تم مجھے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہونے کا لالچ دے کر مسیح موعود کو قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہو.تمہارا دین تمہیں کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق اس کی عبادت کر کے ادا کرو بلکہ تمہارے تو قرآن کریم میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد خدا کی عبادت کرنا ہے اور اسی لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے.کتنی نمازیں ہیں جو تم باجماعت ادا کرتے ہو؟ تم نے مسجد تو خوبصورت بنالی لیکن اس کی خوبصورتی تو نمازیوں کی حالت سے ہے.ان سے ہی چمک اور ابھرتی ہے.کیا تم لوگ پانچ وقت نماز میں مسجد میں پڑھتے ہو؟ کیا تم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرتے ہو؟ قرآن کریم تو تمہیں کہتا ہے کہ تم خیر امت ہو جولوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کئے گئے ہو کیونکہ تم نیکیوں کی تلقین کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو.پوچھنے والے ہمیں پوچھیں گے کہ کیا صرف تلقین کرنے سے تمہارا مقصد پورا ہو جاتا ہے.اگر نہیں تو پہلے اپنے جائزے لو کہ کیا تم جو کہہ رہے ہو اس پر تم عمل بھی کر رہے ہو.پوچھنے والے پوچھیں گے کہ رشتے داروں اور لوگوں سے حسن سلوک کی تم باتیں کرتے ہو لیکن تمہارے اپنے عمل کیا اس کے مطابق ہیں.اپنی امانتوں کی ادائیگی اور عہدوں کے پورا کرنے کی تم باتیں کرتے ہو کیا امانتوں کا حق ادا کرنے اور عہدوں کو پورا کرنے کے تم سو فیصد پابند ہو.تم قربانی اور عاجزی کی باتیں کرتے ہولیکن کیا اس کا اظہار تمہارے ہر قول و فعل سے ہو رہا ہے.تم یہ تو کہتے ہو کہ اسلام ہمیں حسن ظنی کی تعلیم دیتا ہے لیکن کیا اس حسن ظنی کو تم نے اپنی روز مرہ زندگی پر لاگو بھی کیا ہوا ہے یا نہیں.تم کہتے ہو کہ قرآن کریم ہمیں سچائی پر قائم رہنے کی بڑی تلقین کرتا ہے لیکن کئی مواقع پر تو میں نے دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے تمہیں خود جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے دیکھا ہے.یہ کوئی بھی ہمیں کہہ سکتا ہے اگر ہمارا عمل اس کے سامنے ہے.تم کہتے ہو کہ اسلام تعلیم دیتا ہے کہ اپنے غصے کو دباؤ اور عفوکا سلوک کرو تعلیم تو بڑی اچھی ہے لیکن کیا تم اپنے روز مرہ کے معاملات میں ان باتوں کا اظہار بھی کرتے ہو.تم اسلام کی ایک بڑی خوبصورت تعلیم مجھے بتا رہے ہو کہ عدل وانصاف کو قائم رکھنے کے لئے تمہارا معیار اتنا اونچا ہونا چاہئے کہ دشمن کی دشمنی بھی تمہیں اس سے بے انصافی کرنے اور اس کا حق غصب کرنے پر نہ اکسائے لیکن کیا تم دوسروں کو معاف کرنے اور انصاف کے قیام کے لئے یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہو اور اس کا حوصلہ رکھتے ہو.تمہارے سارے احکامات جو قرآن کریم کے حوالے سے تم بتاتے ہو بڑے اچھے اور خوبصورت ہیں لیکن کیا تم ان پر عمل کر رہے ہو.تم
خطبات مسرور جلد 12 586 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء دوسرے مسلمانوں کے بارے میں تو کہہ دیتے ہو کہ انہوں نے مسیح موعود کو نہیں مانا اس لئے ان کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں اور رُحماء بینہم کا اُن سے اظہار نہیں ہوتا اور وہ اس کے الٹ کام کر رہے ہیں.لیکن تم نے جو مسیح موعود کو مانا ہے تمہارے تو ہر عمل کو تمہارے کہنے کے مطابق قرآنی تعلیم کے مطابق ہونا چاہئے.اگر نہیں تو پھر تم ہمیں کس روحانی اور عملی انقلاب کی طرف بلا ر ہے ہو.جیسے تم ویسے ہم.ہمارے میں اور تمہارے میں فرق کیا ہے.پس ہمیشہ ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ جہاں احمدی، احمدی کی حیثیت سے جانا جاتا ہے وہاں اس کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں.وہ صرف احمدی نہیں رہتا بلکہ مسیح موعود کا نمائندہ بن جاتا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہماری طرف منسوب ہو کر ہمیں بدنام نہ کرو.(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 188) پس ایک احمدی کے کسی بُرے عمل کا اثر صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات تک پہنچ جاتا ہے.یہ بہت اہم بات ہے جسے ہر احمدی کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور جب یہ سب کچھ پیش نظر ہوگا تو ہر احمدی احمدیت کا سفیر بن جائے گا.ہر تعارف اس کو دنیا کی نظروں میں اتنا بڑھائے گا کہ وہ آپ کی طرف لپک کر آئے گا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمائندہ بن جائیں گے.تبلیغ کا حق ادا کرنے والے بن جائیں گے.دنیا والوں کی دنیا اور آخرت سنوار نے والے بن جائیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن جائیں گے.پس اس کے حصول کے لئے ہمیں بھر پور کوشش کرنے کی ضرورت ہے.اپنی پنجوقتہ نمازوں کو باجماعت اور سنوار کر ادا کرنے کی ضرورت ہے.مسجد کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے.فرائض کے ساتھ نوافل کے ذریعہ بھی خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.ہر احمدی مرد اور عورت کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے.ہم بڑے شوق سے یہاں کے رہنے والوں کو بتاتے ہیں کہ ہم نے اس مسجد کا نام مسجد مریم رکھا ہے کیونکہ لوگ حضرت مریم کا بڑا احترام کرتے ہیں.ہم انہیں یہ کہتے ہیں کہ حضرت مریم تمہیں بھی پیاری ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ ہیں لیکن صرف حضرت عیسی کی ماں ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں پیاری نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نیکی اور تقویٰ کے معیار کو بھی دیکھ کر ان پر پیار کی نظر ڈالی اور مومنوں کو کہا کہ تم مریم جیسی خصوصیات پیدا کرو.مریم نے اپنی ناموس کی حفاظت کی اور یہ حفاظت خدا تعالیٰ کی محبت اور خوف کی
خطبات مسرور جلد 12 587 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء وجہ سے کی.وہ خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبردار تھیں اور اس کے حکموں پر عمل کرنے والی تھیں.وہ راستباز اور سچائی پر قائم رہنے والی تھیں.پس ہر حقیقی مسلمان مرد اور عورت کو اللہ تعالیٰ نے ان مومنانہ صفات کو اپنانے کا حکم دیا ہے.میں یہاں ان احمدی لڑکیوں اور عورتوں کو بھی کہوں گا کہ اگر یہاں کے لوگ حضرت مریم کی عزت کرتے ہیں اور صرف عزت ہی کرتے ہیں اور ان صفات کو اپنانے کی کوشش نہیں کرتے جوان میں تھیں تو یہ ان کی کمزوری ہے.ایک حقیقی مسلمان مرد اور عورت کو تو حضرت مریم کی طرح اللہ تعالیٰ کا حقیقی فرمانبردار ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان حکموں میں سے حیا اور پردہ بھی ایک حکم ہے جس کا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ اپنے حیا دار لباس کا بھی خیال رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کے مطابق زندگیاں گزار نے اور حقیقی مومن بننے کی توفیق عطا فرمائے.دنیا میں ڈوبنے کی بجائے عبادتوں کا حق ادا کرنے والا بنائے.ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کو ادا کرنے والا بنائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادتمندوں کے لئے پیدا کر دی ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنا.” مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پاچکے.یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تر بہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید ا نکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسن ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی.لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے.ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے.پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کے بڑوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ ہی ہے جو توفیق دیتا ہے.یہ میں یقینا جانتا ہوں کہ جو اس چشمے سے پٹے گا وہ ہلاک نہ ہوگا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے.اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو.ان میں سے ایک
خطبات مسرور جلد 12 66 خدا کا حق ہے، دوسرا مخلوق کا.“ 588 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 ستمبر 2014ء ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 184 185) اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ یہ حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے اور اس چشمے سے زیادہ سے زیادہ ہم فیضیاب ہونے والے بنتے چلے جائیں اور پھر اس فیض سے دنیا کو بھی فیضیاب کرنے والے ہوں.میں اس مسجد کے کچھ کو ائف بھی بتا دوں.دنیا میں اس طرف بھی توجہ ہوتی ہے.میں نے ستمبر 2010ء میں اس کی بنیا د رکھی تھی اور زمین کا کل رقبہ 2400 مربع میٹر ہے تقریباً پونہ ایکٹ ، پونے ایکڑ سے تھوڑا سا کم.بہر حال جو مسجد کا مستقف حصہ ہے وہ 217 مربع میٹر ہے اور یہ جگہ 2009ء میں پانچ لاکھ پندرہ ہزار یورو کی لاگت سے خریدی گئی تھی.اس میں ایک مکان بھی بنا ہوا تھا.پھر اس کی تعمیر پر تقریباً گیارہ لاکھ یورو کے اخراجات آئے ہیں.مین ہال اور دوسری جگہوں کو ملا کے ان میں تقریباً دوسو کے قریب لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں.اس مسجد سے ملحقہ دو دفاتر بھی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ ایک مکان بھی تھا جو تین کمروں پر مشتمل ہے اور اس میں کچن وغیرہ بھی بنا ہوا ہے.سترہ گاڑیوں کی پارکنگ کی بھی گنجائش ہے.پھر اس کے ساتھ یہ جو جگہ ہے اس کی لوکیشن (Location) بڑی اچھی ہے.قریب ہی یہاں گھوڑ دوڑ ہوتی ہے، ریسنگ گراؤنڈ (Racing Ground) ہے جہاں سے یہ مسجد بڑی اچھی طرح نظر آتی ہے.مشہور تہوار یہاں ہوتا ہے اور مشہور شخصیات بھی اس گھوڑوں کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے آتی ہیں.اس میں یہاں کے تقریباً چالیس ہزار لوگ شامل ہوتے ہیں.اور وہاں سے مسجد کا نظارہ بھی بڑا خوبصورت ہے تو اس لحاظ سے بھی مسجد کا تعارف بڑھے گا کیونکہ باہر سے بھی لوگ یہاں آئیں گے.اور یہ کافی آباد علاقہ ہے.یہاں سے تقریباً روزانہ ہی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ گزرتے ہیں.سٹوڈنٹس کی ایک رہائشگاہ بھی یہاں قریب ہی ہے.گالوے ایئر پورٹ بھی دس منٹ کے فاصلے پر ہے.اس کے ساتھ ہی اب بعد میں دو اور مکان بھی خریدے گئے ہیں جو بالکل پیچھے دیوار کے ساتھ لگتے ہیں اور ان کی بھی اچھی اکاموڈیشن (accommodation) ہے.بہر حال یہ سارا کمپلیکس جو ہے اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے با برکت فرمائے اور یہاں کے لوگوں کو اس مسجد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 17 اکتوبر 2014 ء تا 23 اکتوبر 2014 ، جلد 21 شماره 42 صفحہ 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 589 40 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014 ء بمطابق 103 خاء 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اسلامی تعلیم کے رُو سے دینِ اسلام کے حصے صرف دو ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تعلیم دو بڑے مقاصد پر مشتمل ہے.اوّل ایک خدا کو جاننا.جیسا کہ وہ فی الواقعہ موجود ہے.اور اس سے محبت کرنا اور اس کی سچی اطاعت میں اپنے وجود کو لگانا جیسا کہ شرط اطاعت و محبت ہے.دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی میں اپنے تمام قومی کو خرچ کرنا اور بادشاہ سے لے کر ادنی انسان تک جو احسان کرنے والا ہو شکر گزاری اور احسان کے ساتھ معاوضہ کرنا “ ( تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 281) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصے کئے ہیں.اوّل حقوق اللہ.دوم حقوق العباد حق اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے اور حقوق العباد یہ ہے کہ خدا کی مخلوق سے ہمدردی کریں.یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں.“ لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحه 281) اس طرح کے بہت سے ارشادات اور تحریرات ہمیں ہمارے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب اور ملفوظات میں دیئے ہیں اور یہی حقوق اللہ اور حقوق العباد قائم کرنے کی تعلیم ہے جس کی دنیا کو آج ضرورت ہے اور یہی تعلیم ہے جسے ہم دنیا کے سامنے پیش
خطبات مسرور جلد 12 590 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء کرتے ہیں تو دنیا حیران رہ جاتی ہے اور جب اسلامی تعلیم کی مزید تفصیل پیش کی جاتی ہے، مزید جزئیات میں جا کر بیان کیا جاتا ہے تو سننے والوں کی حیرانی اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے.کیونکہ عام طور پر غیر مسلم دنیا نے تو مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام کے بارے میں یہی باتیں سنی ہیں کہ اسلام شدت پسندی اور حقوق غصب کرنے کا مذہب ہے اور وہ اپنی دلیل کو مسلمان گروہوں کے عملی نمونے پیش کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں جو بدقسمتی سے بعض مسلمان گروہ اور افراد دکھا رہے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ جب اسلامی تعلیم کی حقیقت قرآن کریم سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے اور خلفائے راشدین اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے نمونے کے حوالے سے پیش کی جائے تو ان پر حقیقت کھلتی ہے.اور جب یہ بتایا جائے کہ اس تعلیم کے لاگو کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے اور جماعت احمد یہ اس کا پر چار بھی کرتی ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے تو دنیا کی توجہ جماعت کی طرف پیدا ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ مخالف سے مخالف کے سامنے بھی جب احسن رنگ میں، اچھے رنگ میں یہ تعلیم پیش کی جائے اور عملی نمونے سے اس کے اظہار کی کوشش بھی کی جائے تو ایک غیر معمولی اثر لوگوں پر پڑتا ہے.بہر حال اس وقت میں اس تعلیم کی تفصیل میں جانے کی بجائے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں جماعت احمدیہ آئرلینڈ کی پہلی باقاعدہ مسجد کا افتتاح تھا.آپ سب نے میرا خطبہ بھی وہاں سے سنا ہوگا اور پھر شام کومہمانوں کے ساتھ ، غیروں کے ساتھ ریسیپشن کا جو پروگرام تھا وہ بھی لا ئیو نشر کیا گیا تھاوہ بھی سنا ہو گا.اس میں میں نے اس اسلامی تعلیم کے حوالے سے کچھ باتیں کی تھیں اور عموماً غیروں کے سامنے میں اسی حوالے سے بات کیا کرتا ہوں جس کا غیروں پر غیر معمولی اثر بھی ہوتا ہے.وہاں گا لوئے آئر لینڈ میں بھی جو ہمارے مہمان آئے ہوئے تھے ان پر بھی اثر ہوا.اس کے علاوہ پریس انٹرویوز اور سیاستدانوں اور پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ بھی اسلام کی تعلیم کے حوالے سے باتیں ہوئیں.ان پر بھی اثر ہوا جس کا اظہار ہر ایک نے کیا.آئرش لوگوں کی یہ خوبی ہے کہ مثبت یا منفی اظہار کھل کر کر دیتے ہیں.یا بات اگر پسند نہیں آئی تو پھر خاموش رہتے ہیں ، بلا وجہ کی تعریف نہیں کرتے.آج میں اس دورہ کے حوالے سے کچھ باتیں، کچھ تاثرات ان لوگوں کے بیان کروں گا جس کو دیکھ کر سن کر، پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور توفیق ملتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کا تعارف اور اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے کی توفیق عطا فرما رہا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 591 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء جب میں وہاں آئرلینڈ میں پہنچا ہوں تو اگلے دن جماعت نے پارلیمنٹ ہاؤس میں سپیکر اور بعض پارلیمنٹیرین کے ساتھ ملاقات کا ایک پروگرام رکھا ہوا تھا جو بڑے اچھے ماحول میں ہوا.آئر لینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ کے سپیکر سے ملاقات ہوئی.بڑے ملنسار اور کھلے دل کے اور انسانی ہمدردی رکھنے والے انسان ہیں.انصاف پسند شخصیت ہیں.انہوں نے بتایا کہ میرا جماعت سے تعارف ہے اور آپ کی جماعت کے کاموں کو میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.اگر چہ یہ جماعت یہاں چھوٹی ہے لیکن اللہ تعالی کے فضل سے بڑی فعال ہے.اپنے حوالے سے انہوں نے افریقہ کی بعض مشکلات اور مسائل کا بتایا کہ میں روانڈا میں گیا تھا تو وہاں بھی میں نے دیکھا ہے.بہر حال ان سے باتیں ہوئیں اور جماعت افریقن ممالک میں جو خدمت کر رہی ہے اس کے بارے میں ان کو میں نے بتایا کہ کس طرح ہم ہسپتال، سکول چلا رہے ہیں.غریب لوگوں کو پینے کا پانی مہیا کر رہے ہیں اور دوسرے رفاہی کام جو ہیں وہ کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ بغیر کسی تفریق مذہب و ملت کے ہو رہا ہے.جس چیز نے ان کو حیران کیا وہ یہ تھی کہ میں نے ان کو جب بتایا کہ ہمارے سکولوں میں مذہبی تعلیم بھی دی جاتی ہے لیکن اس میں آزادی ہے کوئی زبردستی نہیں.ہر مذہب کے طلباء اپنے اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں.بائبل نالج بھی پڑھائی جاتی ہے.یہ سن کر سپیکر صاحب نے بڑی حیرانی کا اظہار کیا کیونکہ عیسائی مشن کے جو سکول ہیں وہ زبر دستی صرف عیسائیت کی تعلیم دیتے ہیں اور بائبل نالج پڑھاتے ہیں.مسلمانوں کو بھی زبر دستی پڑھنی پڑتی ہے.تو یہ سن کر کہ اس طرح کی آزادی ہماری طرف سے ہے ان کے لئے یہ بڑی حیرت کی بات تھی.پھر خود ہی دہشتگردی کے حوالے سے یہ بھی کہنے لگے کہ بعض جگہ عیسائیوں کی طرف سے بھی ظلم ہوتا ہے لیکن عیسائیت کوکوئی الزام نہیں دیتا.اس پر میں نے کہا یہی فرق ہے کہ مسلمانوں سے دنیا میں تعصب کا اظہار ہورہا ہے کہ عیسائیت کی طرف سے اگر کوئی غلطی ہو تو عیسائیت کو بدنام نہیں کیا جاتا لیکن ایک مسلمان اگر کوئی غلطی کرتا ہے یا ظلم کرتا ہے تو اسلامی تعلیم کو بد نام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.بہر حال خود ہی یہ ان کا خیال تھا.اس لئے انہوں نے بڑی ہاں میں ہاں ملائی.اسی طرح پھر بیس کے قریب پارلیمنٹیرین کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی.وہاں ہمارے ایک ممبر آف پارلیمنٹ ایمن کین (Eamon O'Cuin) ہیں جنہوں نے میرا تعارف بھی کرایا اور اس کے بعد جماعت کے کاموں کی تعریف کی.پرانے جماعت کو جانتے ہیں.وہاں کچھ سوال بھی ہوئے جہاں میں نے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور اس کا سارا تعارف کرایا.باقی باتیں بھی ہوئیں.یہ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ شاید جماعت احمد یہ اپنے آپ کو دوسرے
خطبات مسرور جلد 12 592 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء مسلمانوں سے علیحدہ رکھنے کی کوشش کرتی ہے اور اگر کبھی موقع ملے بھی تو ہم بات چیت کرنے کی طرف راغب نہیں ہوتے.اسی طرح ایک نے سوال کیا کہ کیا کوئی ایسا موقع کبھی ہوا ہے یا اگر پیدا کیا جائے کہ غیر از جماعت یا غیر احمدی علماء سے یا ان کے لیڈروں سے جو جماعت کے خلاف ہیں بیٹھ کر کسی پلیٹ فارم پر بات کی جائے تو میں نے کہا ہم تو ہمیشہ تیار ہیں اور اگر تم لوگ کوئی ایسا پلیٹ فارم مہیا کر سکتے ہو تو ہم وہاں بھی جانے کو تیار ہیں اور مجھے پتا ہے کہ وہ لوگ نہیں آئیں گے.گزشتہ دنوں یہاں ہی بی بی سی نے ایک پروگرام کرنا تھا.ہمارے ایک نوجوان جو ٹیم کے ممبر ہیں.ان کو انہوں نے بلایا کہ تمہارا مؤقف بھی سنیں گے اور دوسرے غیر از جماعت کو بھی بلایا.لیکن جب ان کو پتا لگا کہ احمدی وہاں آ رہا ہے تو انہوں نے آنے سے انکار کر دیا تو یہ تو ان کا حال ہے.کیونکہ پتا ہے کہ حقیقت ان کے پاس کچھ نہیں اور جو کچھ ہے اس کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہے.پھر عورتوں کی آزادی کے حوالے سے بات ہوئی.ان کو سمجھایا گیا تو ان کی کافی تسلی ہوئی.پھر فرقہ واریت کے بارے میں بھی انہوں نے سوال کئے کہ کیوں شیعہ سنی ہیں؟ اس پر میں نے ان کو بتایا کہ جس طرح یہودی اور عیسائی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اسی طرح اسلام میں بھی ہیں لیکن اسلام کے ان فرقوں کی پیشگوئی تو پہلے سے ہی تھی اور یہی جماعت احمدیہ کی بنیاد کی وجہ ہے کیونکہ آنے والے نے ان سب فرقوں کو اکٹھا کرنا تھا جو کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ کر رہی ہے.بہر حال ان ساری باتوں کا ان پر بڑا اچھا اثر تھا.اس میں سے کچھ لوگ وہاں بھی آئے جو مسجد میں جمعہ والے دن ریسپشن ہوئی تھی.تقریباً ایک سو سے زائد یہ مہمان تھے جن میں سے پانچ ممبران نیشنل پارلیمنٹ تھے.دوسینیٹر تھے.سٹی کونسل کے ممبر تھے.چیف سپر نٹنڈنٹ گالوے پولیس تھے.بشپ گالوے کے نمائندے تھے.یہ خود بھی بشپ ہیں.کونسلرز ، استاد، ڈاکٹر، انجنیئر ز اور وکلاء وغیرہ مختلف لوگ آئے ہوئے تھے.بہر حال ایک اچھے ماحول میں یہ ریسپشن بھی ہوئی.ایک مہمان سیاستدان جان ریبٹ (John Rabbit) ہیں.اس فنکشن کے بعد وہ کہتے ہیں کہ آج کی تقریب نے مجھے up lift کر دیا ہے.میں خلیفہ اسیح کے خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں.میرا اسلام کے بارے میں نظریہ یکسر تبدیل ہو گیا ہے.کہتے ہیں کہ میرا ایک دوست سعودی عرب میں رہتا ہے وہ مجھے اسلام کے بارے میں جو باتیں بتا تا ہے اس کے برعکس میں نے یہاں خوبصورت اسلام کو دیکھا ہے.آپ کی باتیں سن کے مجھے پتا لگا کہ اسلام واقعی پر امن، محبت و پیار اور ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور رواداری رکھنے والا مذہب ہے.66
خطبات مسرور جلد 12 593 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء میں نے مختلف لوگوں کے تھوڑے تھوڑے فقرے لئے ہیں.ڈپٹی میئر گالوے کا ؤنٹی کا کافی لمبا بیان ہے.تھوڑا سا حصہ بیان کر رہا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہوتے دیکھنا نہایت خوشی کی بات ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ آئر لینڈ اور بالخصوص گالوئے شہر اسلام احمدیت کو خوش آمدید کہتا ہے.تو یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے.مخالفین بھی ، دوسرے مذہب رکھنے والے بھی خوش آمدید کہتے ہیں.پھر ڈپٹی سپیکر نیشنل پارلیمنٹ مائیکل پی رکٹ (Michael P.Kit ) نے کہا: ” یہ بڑی خوبصورت تقریب تھی اور میرے پیغام کے بارے میں کہا کہ محبت اور امن کے بارے میں یہ خطاب میرے لئے بہت حوصلہ افزا ہے اور اس خطاب سے پتا چلتا ہے کہ محبت کے پیغام میں کتنی طاقت ہے“.پھر ایک مہمان جو تقریب میں آئے ، کہتے ہیں کہ ”میں بہت خوش ہوں اور آپ کے محبت اور امن کے پیغام سے بہت متاثر ہوا ہوں.میں اس پیغام کو اپنے دیگر احباب تک پہنچاؤں گا“.پھر ایک مہمان ڈرڈ ری میک کینا (Deirdre Mc Kenna) کہتے ہیں کہ مختلف بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک جگہ متحد دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی.اللہ کرے کہ آج کی یہ تقریب ہمارے معاشرے میں کشادہ دلی کی روایات کا آغاز کرنے والی ثابت ہو اور آئر لینڈ کے تمام لوگ اس کا حصہ بن جائیں تا کہ ہم باہم مثبت تعلقات استوار کرتے ہوئے زندگی گزارنا سیکھیں اور آئرلینڈ میں ایک بہترین مستقبل کی بنیاد پڑئے“.تو یہ ہے جماعت کی خوبصورت تعلیم ، اسلام کی خوبصورت تعلیم جو جماعت پیش کرتی ہے اور غیروں کو بھی مجبور کرتی ہے کہ وہ اس تعلیم کو اپنانے کی طرف توجہ دیں.پھر ایک مہمان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آجکل لوگ اسلام سے بہت خوفزدہ ہیں مگر اس تقریب نے ہم سب کو مذہبی برداشت کا درس دیا ہے.خلیفہ نے ہمیں اسلام اور قرآن کی محبت اور امن کی تعلیمات سے آگاہ کیا جو ہم سب کے لئے بہت اطمینان بخش تھا.آج کی تقریب سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے.پھر ایک مہمان جینی مکلین (Jenny Mc Clean ) میرے خطاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے بعض بہت ہی اہم امور کا ذکر کیا اور کہتے ہیں کہ ہر شخص جو خلیفہ کا خطاب سن رہا تھا بہت متاثر دکھائی دیا.اور یہ بھی اہم بات تھی کہ خلیفہ نے اپنے خطاب میں مسلمان دنیا میں موجود تضادات کا بھی
خطبات مسرور جلد 12 594 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء ذکر کیا.تو یہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا پتا لگنے کے بارہ میں بہت سارے لوگوں کے کومنٹس (comments) ہیں.پھر ایک یہ بھی ہے کہ یہ خطاب حکمت سے پُر اور دل کو چھو لینے والا تھا.پھر ایک مہمان خاتون تھیں، کہتی ہیں ”جو امن کا پیغام دیا ہے اور جہاد کی وضاحت کی ہے اس سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں اور مسجد کا نام ہی معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دے رہا ہے.یہاں آ کر اسلام کے متعلق مجھے ایک نئی قسم کی آگا ہی ہوئی ہے“.پھر گالوے کا ؤنٹی کے ایک کونسلر ٹام پہلے (Tom Healy) کہتے ہیں کہ اللہ کرے کہ آپ کا پیغام ساری دنیا میں گونجے اور آپ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی سفیر بنیں.تو اس طرح یہ عیسائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی عزت کر رہے ہیں اور اس پیغام کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچانے کی دعا دے رہے ہیں.پھر ایک خاتون مہمان جوایجوکیشن فاؤنڈیشن ڈبلن کی ڈپٹی پرنسپل تھیں، کہتی ہیں کہ ” مجھے مسجد کا یہ نام مریم رکھنا بڑا اچھا لگا.اور اس خطاب سے مجھے پتا چلا کہ اسلام میں مریم کا کیا مقام ہے اور قرآن کریم میں حضرت مریم علیہا السلام کی تعریف بیان کی گئی ہے.میرے نزدیک یہ بہت دلکش نکتہ ہے جو ان تمام عیسائیوں کو بتانا چاہئے جو اسلام کے خلاف بولتے ہیں.اسلام کے متعلق مجھے اتنا علم نہ تھا لیکن خلیفہ مسیح کا خطاب سن کر اب مجھ پر اسلام کا انتہائی اچھا تاثر قائم ہو گیا.ایک جرنلسٹ خاتون مسز بر تھا (Mrs.Bertha) آئی ہوئی تھیں.کہتی ہیں کہ آج سے پہلے میں اسلام سے بالکل واقف نہ تھی.میں نے آج کا سارا دن مسجد مریم میں گزارا ہے اور خلیفہ کا خطبہ جمعہ اور مسجد مریم کے حوالے سے افتتاحی خطاب سنا ہے.میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے.میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ احمدی لوگ کس قدر خوش مزاج ہیں“.پس یہ نمونے ہیں جو متاثر کرتے ہیں، یہ نمونے بھی ہمیں دکھانے چاہئیں.پھر ایک آئرش خاتون کہتی ہیں کہ اسلام کے متعلق مجھے زیادہ علم نہ تھا مجھے صرف اس حد تک ہی علم تھا جو خبروں میں نظر آتا ہے یعنی خودکش دھماکے اور دہشتگر دی.لیکن خلیفہ نے جس اسلام کا بتایا ہے وہ تو بالکل مختلف ہے وہ اسلام تو محبت اور امن کا پرکشش پیغام دیتا ہے.ایک مہمان جو کو نسلر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ ”یہاں آنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ سارے مسلمان
خطبات مسرور جلد 12 595 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء ایک ہی طرح کے ہیں.بالکل ایسے جس طرح میڈیا میں نظر آتا ہے کہ مسلمان دہشتگر دی کر رہے ہیں اور ظلم کر رہے ہیں لیکن خلیفہ کا خطاب سن کر میں بہت متاثر ہوا.بالخصوص امن کا پیغام اور آپ کا یہ ماٹو دیکھ کر کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں“.اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت احمد یہ اس پر عمل بھی کرتی ہے جس کی وہ تبلیغ کرتے ہیں اور دنیا کو آجکل اس پیغام کی سخت ضرورت ہے.دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو صرف اور صرف محبت کا پیغام پھیلاتی ہے.پس جہاں جہاں جب ہم یہ پیغام سنتے ہیں تو خوش نہ ہو جا ئیں بلکہ اسی طرح ہمارا احساس ذمہ داری بڑھتا چلے جانا چاہئے.ایک خاتون کونسلر کہتی ہیں کہ ”میرے خیال میں جب ہم اس تقریب میں آئے ہیں تو ہر شخص کچھ نہ کچھ tense ضرور تھا لیکن جب خلیفہ نے اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر کر دیا کہ یہاں پر موجود بعض لوگ اسلام کے متعلق خوف و خدشات رکھتے ہوں گے تو جو نہی خلیفہ نے اس بات کا اظہار کیا، ہر ایک مطمئن سا ہو گیا اور پھر بڑے آرام سے یہ خطاب سنا.پھر ایک اخباری صحافی کہتے ہیں کہ یہ خطاب سوچنے پر مجبور کرتا ہے.کہتے ہیں کہ ” تقریر میں انہوں نے اسلام احمدیت کی وضاحت کی اور بتایا کہ بعض شدت پسندوں نے اسے بگاڑ دیا ہے.خلیفہ نے بڑے عمدہ رنگ میں اسلام کی امن، محبت اور برداشت کا مذہب ہونے کی تعلیم پیش کی اور یہ تقریر مدلل اور واضح تھی.یہ بھی سن کر بڑا علم حاصل ہوا.کہتے ہیں ” میں گزشتہ گیارہ سال سے جماعت کو جانتا ہوں.جماعت انٹرفیتھ پروگرامز بھی کرتی ہے لیکن ان کا یہ خیال تھا کہ شاید وہاں رہنے والے لوگ دکھانے کے لئے ایسا کرتے ہیں.اصل تعلیم کچھ اور ہے.لیکن آج جب مجھے ملے اور سارا کچھ دیکھا تو جماعت کے بارے میں ان کی تسلی مزید بڑھی.ایک مہمان تھیں جو آئر لینڈ قومی اسمبلی کی ممبر ہیں.پہلے تو شکر یہ ادا کرتی ہیں.کہتی ہیں ”اپنے حلقے میں بہت سے احباب کو جانتی ہوں اور لوکل سطح پر یہ احمدی سارے بڑے فعال ہیں.ہمارے معاشرے میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں.جماعت کی خواتین کی تنظیم بھی ہمیں چیریٹی دیتی ہے“.بہر حال یہ چیریٹی بھی ہر تنظیم کی طرف سے، جماعت کی طرف سے بھی ان تنظیموں کو دینی چاہئے.اس سے بھی تعارف بڑھتا ہے اور تعارف بڑھنے سے پھر تبلیغ کے مواقع پیدا ہوتے ہیں.پھر گالوے کاؤنٹی کی ایک ڈویژن کے جو پولیس چیف سپر نٹنڈنٹ تھے، وہ کہنے لگے کہ اس میں
خطبات مسرور جلد 12 596 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء شامل ہونا میرے لئے اعزاز کی بات ہے اور مجھے بخوبی علم ہے کہ اسلام احمدیت شدت پسندی پر یقین نہیں رکھتی.جو احمدی اسلام ہے جو حقیقی اسلام ہے یہ دوسرے مذہب کو برداشت کرنے کا درس دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آج جماعت احمدیہ نے اس مسجد کا نام حضرت مریم علیہا السلام کے نام پر رکھا ہے.اور پھر کہتے ہیں کہ میں اس بات پر خوش ہوں کہ آپ نے گا لوئے شہر کا انتخاب کیا.پھر کہتے ہیں’ جماعت احمدیہ کو میں بحیثیت پولیس افسر یہ یقین دلاتا ہوں کہ جس تعلیم کا آپ پر چار کر رہے ہیں آپ کو ہر قسم کا تحفظ دیا جائے گا“.پاکستان میں یا دوسرے ممالک میں ہماری مسجدوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہورہا ہے.اور عیسائی دنیا اس بات پر فخر کر رہی ہے کہ آپ نے ہمارے شہر میں مسجد بنانے کا انتخاب کیا ہے اور اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہر ایک کو عبادت کا حق ہے.انڈونیشیا میں یا پاکستان میں یا بعض جگہوں پر پولیس کی نگرانی میں تشدد کیا جاتا ہے.ان ملکوں میں عیسائی دنیا میں پولیس کے افسران کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کو ہر طرح کا تحفظ دینے کے لئے بھر پور کوشش کریں گے.اسلام کے یہ جو بنیادی اخلاق تھے ان کو اصل میں ان لوگوں نے اپنا لیا اور ہماری مسلمانوں کی اکثریت بھولتی جارہی ہے.پھر ایک مہمان سیاستدان ایمن صاحب جو بڑے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں.1989ء میں پہلی مرتبہ بطور سینیٹر ان کا انتخاب ہوا.منسٹر آف سٹیٹ بھی رہ چکے ہیں.پھر 2002 ء سے 2010 ءتک منسٹر آف کمیونٹی اور Rural افیئرز بھی رہے.2010ء میں منسٹر آف سوشل پروٹیکشن بنے.یہ کہتے ہیں کہ 2010ء میں مجھے سنگ بنیا درکھنے کی تقریب میں بھی شمولیت کا موقع ملا اور مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ آج یہ مسجد مکمل ہوگئی اور میں افتتاح کے لئے بھی آیا ہوں“.اور یہ جماعت کی محبت اور پیار کی تعلیم سے بڑے متاثر ہیں.کہتے ہیں کہ ” جماعت نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جماعت اپنے اعلیٰ مقاصد کے مطابق ہی کام کر رہی ہے.اس جماعت نے جس طرح بین المذاہب کا نفرنسز کا انعقاد کیا اور مختلف مذاہب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں“.مسجد کے ساؤنڈ سسٹم کے لئے کمپنی کے مالک مسٹر فنٹن (Mr.Fintan) ایک عیسائی تھے، وہ آئے ہوئے تھے.دورے سے پہلے بھی کام کرتے رہے، بعد میں بھی.انہوں نے مجھے نمازیں پڑھاتے ، جمعہ پڑھاتے بھی دیکھا تو کہتے ہیں کہ میں مذہباً کیتھولک ہوں اور چرچ جاتا ہوں لیکن یہاں آکر میں نے محسوس کیا ہے کہ میری زندگی میں ایک تبدیلی آرہی ہے.مجھے مسجد آ کر ایک سکون محسوس ہو رہا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 597 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء چرچ میں تو مجھے آج تک خدا نہیں ملا لیکن جب سے یہاں میں نے خلیفہ المسیح کو نمازیں پڑھاتے دیکھا ہے تو مجھے یہاں خدا نظر آ رہا ہے.مجھے یہاں خدامل گیا ہے.میں نے خلیفہ کے ساتھ سجدے کئے ہیں اور دعائیں کی ہیں“.اور باقاعدہ وہ ہمارے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے.کہتے ہیں ” مجھے نماز تو نہیں آتی لیکن جو حرکات تم لوگ کرتے تھے وہی ساتھ ساتھ میں کرتا تھا اور سجدے میں جا کے میں نے تم لوگوں کے لئے بہت دعا کی.پھر پریس کے ذریعہ بھی جو کہ تبلیغ کا، اسلام کا پیغام پہنچانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.اس کے ذریعے بھی کافی کام ہوا.ان کا ایک ٹی وی TG4 ہے.اس میں خبر نشر ہوئی.اس میں مجھے خطبہ دیتے ہوئے دکھایا گیا.یہ پورے ملک کا چینل ہے اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ ملین لوگ اس کو دیکھتے ہیں یا کہہ لیں پوری آبادی دیکھتی ہے.پھر آرٹی ای ریڈیو چینل ہے.آرٹی ، ٹی وی چینل تو یہاں بھی سکائی پر آتا ہے.لیکن یہ ریڈیو ہے.ان کے سنے والوں کی تعداد بھی ایک ملین ہے.انہوں نے کچھ جمعہ بھی ریکارڈ کیا تھا اور جمعہ کے بعد پھر میرا انٹرویو بھی لیا تھا جس کو انہوں نے اپنے پروگرام میں بغیر کسی ایڈٹ کرنے کے تقریباً اسی طرح دکھا بھی دیا.پھر آرٹی ون کے نمائندے جنہوں نے انٹرو یولیا تھا.اسلام کے بارے میں سوال کیا کہ آپ کا نعرہ تو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ہے اور جو کچھ مسلمان دنیا میں ہو رہا ہے یہ آپ کو فکرمند یا پریشان نہیں کرتا؟ اس پر میں نے ان کو یہی کہا تھا کہ اسلام تو یہ سکھاتا ہے کہ کسی کا حق نہ ماروہ کسی کی حق تلفی نہ کرو، کسی پر زیادتی نہ کرو اور ہم تو اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل پیرا ہیں اور اسی بنیاد پر، اسی تعلیم پر ہمارا یہ مائو ہے.ہمیں اسلام نے یہ سکھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں اور جو اللہ ہے وہ رب العالمین ہے.تمام جہانوں کا رب ہے.سب کو پالنے والا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ رحمت للعالمین ہیں.جب ایک ربّ ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور ایک نبی ہے جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اسلام کی تعلیم میں کہیں بھی کسی کا حق مارنے اور ظلم کرنے کا ذکر ہو.پس یہ سب جھوٹ ہے اور اسلام کی تعلیم کی بنیاد ہی یہ ہے.بہر حال اس پر وہ کافی متاثر ہوئے.انہوں نے اس کو ریڈیو پر بھی دیا.پھر اور زیادتیوں کے بارے میں ، طالبان وغیرہ کے بارے میں، ISIS کے بارے میں سوال کرتے رہے.میں نے یہی بتایا کہ سب غلط ہے.پھر انہوں نے پوچھا کہ دنیا کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو میں نے یہ ہی بتایا کہ دنیا جس تیزی سے فسادات میں ملوث ہو رہی ہے اس میں صرف اسلامی ممالک کا سوال نہیں ہے بلکہ اس میں یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں اور اب یہ لپیٹ بڑھتی چلی جا رہی
خطبات مسرور جلد 12 598 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء ہے.اگر صبر اور تحمل کا مظاہرہ نہ کیا ، اگر امن کے قیام کی کوششیں صحیح طرح نہ کی گئیں تو ایک بہت بڑی تباہی آئے گی جس کو قابو کرنا مشکل ہو جائے گا اور یہ تباہی تیسری جنگ عظیم ہے.اس کا بھی انہوں نے اپنی خبروں میں ذکر کیا.اسی طرح انہوں نے ہمارے آئرلینڈ جماعت کے صدر اور مبلغ انچارج کا انٹرویو بھی لیا.پھر گالوے ایف ایم ریڈیو ہے اس نے بھی نشر کیا.ان کی سننے والوں کی تعداد بھی ایک لاکھ پینتیس ہزار ہے.پھر آئرلینڈ کا نیشنل اخبار آئرش ٹائمز ہے.اس نے بھی 29 ستمبر کو خبر دی اور تقریباً پورے پونے صفحے کی خبر تھی اور مسجد کی بڑی تصویروں کے ساتھ اور میری تصویر کے ساتھ دی.انٹرویو بھی اس نے آکے لیا تھا.انٹرویو کے حوالے سے کچھ quote بھی اس نے بیان کئے.اس اخبار کے قارئین جو ہیں ایک لاکھ اکاسی ہزار ہیں اور انٹرنیٹ پر تقریباً چار لاکھ چوراسی ہزار سے زائد لوگ اس کو وزٹ کرتے ہیں، پڑھتے ہیں.بہر حال انہوں نے جب انٹرویو لیا کہ کیا فرق ہے؟ کیوں احمدیت قائم ہوئی اور آپ میں اور مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ تو اس کو میں نے بتایا کہ جو فرق ہے یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہے کہ ایسا زمانہ آئے گا اور اس زمانے میں پھر مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہو گا.مسلمانوں کی مسجدیں آباد تو نمازیوں سے بیشک ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی.(الجامع لشعب الايمان جزء 3 صفحه 317-318 فصل قال وينبغى لطالب العلم ان يكون تعلمه...حدیث نمبر 1763 مكتبة الرشد ناشرون 2004ء) اور حدیث کی رو سے یہ ساری تعلیم جو ہے ان کو بیان کی.پھر یہ بھی میں نے بتایا کہ صرف یہ باتیں نہیں ہیں کہ خلافت کسی کے کہنے سے قائم ہو جائے یا ریفارمر آ گیا اور اس نے دعوی کر دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے نشانات بتائے تھے جس میں سے آسمانی نشانوں میں سے ایک نشان چاند اور سورج کا گرہن بھی تھا.(سنن الدار قطنی جزء 2 صفحه 51 کتاب العيدين باب صفة صلاة الخسوف والكسوف وهيئتهما حديث 1777 دار الكتب العلمية بيروت 2003ء) تو یہ ساری باتیں ان کو بتائیں جو انہوں نے نوٹ بھی کی تھیں.کچھ کا شاید ذکر بھی کیا ہے.اسی طرح مسجدوں کی آزادی اور تحفظ کے حوالے سے بھی کافی باتیں ہوتی رہیں.بہر حال مجموعی طور پر میڈیا نے تقریباً ہر لحاظ سے ریڈیو نے بھی، ٹیلی ویژن نے بھی ، اخبار نے بھی کوریج دی اور پورے ملک میں یہ خبریں اچھی طرح پھیلیں اور جماعت کا اور اسلام کا تعارف ہوا.پس جہاں ہم مسجد بناتے ہیں وہاں
خطبات مسرور جلد 12 599 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے کے غیر معمولی سامان بھی پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی تائیدات ظاہر ہوتی ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ میرے دوروں کو بھی غیر معمولی طور پر برکت بخشتا ہے.یہ سب برکات و تائیدات اور تبلیغ اور تعارف کے جو نئے راستے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے مطابق ہیں جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہے.ہماری تو معمولی کوشش ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عنایات ہوتی ہیں جن سے ہر احمدی ایمان وایقان میں مزید مضبوط ہوتا ہے اور ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے چمکانے اور ہمارے اس سلسلہ کی تائید میں اس قدر کثرت کے ساتھ زور دے رہا ہے.پھر بھی ان لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں.فرمایا: ”یہ بھی ایک عادت اللہ ہے کہ مکذبین کی تکذیب خدا تعالیٰ کے نشانات کو بھینچتی ہے آپ فرماتے ہیں کہ...ایک مخالف نے ایک دفعہ مجھے خط لکھا کہ آپ کی مخالفت میں لوگوں نے کچھ کمی نہیں کی.مگر ایک بات کا جواب ہمیں نہیں آتا کہ باوجود اس مخالفت کے آپ ہر بات میں کامیاب ہی ہوتے جاتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 238-239) یہ سوال ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ ہم مخالفت کرتے ہیں اور کامیابی آپ کو ملتی چلی جاتی ہے.یہی سوال آج بھی ان لوگوں کا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تائیدات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہیں اور ان کو یہ دیکھنا نہیں چاہتے.ان کے نام نہاد علماء نے ان کی عقل پر ایسے پردے ڈالے ہیں کہ روشنی کے بجائے اندھیروں کی تلاش میں ہیں.اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بار بار مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن پھر بھی توجہ نہیں.یہ جو قدرتی آفات ہیں، یہ مسلمانوں کی قابل رحم حالت ہے قتل و غارتگری ہے ان کو اس بات کی طرف نہیں لے جاتی کہ سوچیں کہ یہ ہم پر کیا ہورہا ہے.کیا ہم اسلامی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں.کیا اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بن رہے ہیں.اپنی ان حرکات سے ہم دنیا کو اسلام کی طرف کھینچ رہے ہیں یا متنفر کر رہے ہیں.بہر حال اللہ کرے کہ ان نام نہاد علماء اور خود غرض لیڈروں کے چنگل سے یہ مسلمان نکل کر اسلام کی خوبصورت تعلیم پر عمل کرنے اور اس کو پھیلانے والے بنیں اور اس امام کو قبول کریں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے بھیجا ہے.ہمارے تو یہ شہید بھی کرتے ہیں.ایک شہید ہوتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں کیا ان کو سکون ملتا ہے، ان کے روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتے میں سینکڑوں مر رہے ہیں.پاکستان میں ہی آپ دیکھ
خطبات مسرور جلد 12 600 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء لیں.فساد ہے.ہر طرف بے چینی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی اپنے فرائض کو پورے طور پر احسن رنگ میں ادا کرنے والے ہوں.آج بھی میں ایک شہید کا جنازہ پڑھاؤں گا جن کو میر پور خاص میں شہید کیا گیا اور دو اور جنازے بھی ہیں.پہلے تو ایک جنازہ حاضر ڈاکٹر روبینہ کریم صاحبہ کا ہے.اس کے ساتھ ہی سارے جنازے ہوں گے.ی ڈا کٹر عبدالمنعم صاحب (آئرلینڈ) کی اہلیہ تھیں.یہ 27 ستمبر کو بقضائے الہی وفات پاگئیں.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مکرم محمد کریم قریشی صاحب راولپنڈی کی بیٹی تھیں اور حضرت حافظ محمد امین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی تھیں.یہ بیاہ کر 2000ء میں آئر لینڈ آئیں.یہاں آئر لینڈ میں لمبا عرصہ آپ کو لجنہ کی جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری مال کی خدمت کی توفیق ملی.اسی طرح 2009 ء سے اپنی وفات تک ایسٹ ریجن کی نائب صدر لجنہ مقامی کے فرائض بھی جانفشانی سے انجام دیتی رہیں.یہاں مسجد یا سینٹر بھی نہیں تھا تو کئی سال تک جمعہ کا انتظام ان کے گھر میں ہوتارہا.مہمانوں کی تواضع انتہائی خوش اخلاقی سے کیا کرتی تھیں.نمازوں کی پابند، دعا گو، ملنسار، خوش مزاج، مہمان نواز ، غریب پرور، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار، ہر ایک سے حسن اخلاق اور حسن سلوک کرنے والیس صابرہ شاکرہ تھیں.چندہ میں با قاعدگی ، مالی قربانیوں میں پیش پیش، بڑی مخلص اور نیک تھیں.کچھ عرصہ سے علیل چلی آ رہی تھیں.کینسر کی ان کو تکلیف تھی لیکن بڑے صبر اور حو صلے سے انہوں نے بیماری کے دن گزارے ہیں.کبھی کوئی ناشکری کا کلمہ زبان پر نہیں آنے دیا.بڑی ہمت کر کے مجھے بھی ملنے آئی تھیں.ان کے چھوٹے بچے ہیں.فکر تھی تو صرف یہ کہ میرے یہ بچے اس ماحول میں کہیں خراب نہ ہو جائیں.ان کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ان بچوں کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے.یہ مسجد کے افتتاح میں بیماری کی وجہ سے تو نہیں جا سکیں اور ہفتے کو اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں.جیسا کہ میں نے بتا یا خاوند کے علاوہ ان کے دو بیٹے ہیں اور دونوں بچے وقف نو ہیں.جس شہید کا میں نے ذکر کیا ہے یہ مکرم مبشر احمد صاحب کھوسہ ابن مکرم محمد جلال صاحب آف سیٹلائٹ ٹاؤن میر پور خاص ہیں جن کو 22 ستمبر کو ساڑھے سات بجے رات ان کے کلینک میں جہاں یہ ہومیو پیتھک کی بھی اور ڈسپنسری کی بھی پریکٹس کرتے تھے ان کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر مبشر صاحب مالہی کالونی میر پور خاص سانگھڑ بائی پاس رنگ روڈ پر
خطبات مسرور جلد 12 601 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء واقع اپنی کلینک پر معمول کے مطابق مریض چیک کر رہے تھے.خواتین کی طرف سے چیک کر کے مرد حضرات کی طرف آئے اور ابھی کرسی پر نہیں بیٹھے تھے کہ دو نامعلوم افراد موٹر سائیکل پر آئے اور ان میں سے ایک شخص نے کلینک میں داخل ہو کر مکرم مبشر احمد صاحب پر فائرنگ کردی.فائرنگ کے نتیجہ میں پانچ چھ گولیاں شہید مرحوم کے سر اور سینے میں لگیں جس سے موقع پر ہی ان کی وفات ہوگئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ڈاکٹر صاحب کے خاندان کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا.1954ء میں ان کے والد مکرم محمد جلال صاحب نور نگر ضلع عمر کوٹ سندھ شفٹ ہو گئے تھے.مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد مکرم محمد جلال صاحب کے ذریعے 1954ء میں ہوا تھا.انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.ڈاکٹر صاحب شہید کے والد جب احمدی ہوئے تو گھر والوں نے انہیں گھر سے نکال دیا جس پر ان کو مکرم غلام رسول صاحب آف محمد آباد نے پناہ دی اور اپنی بیٹی محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ کے ساتھ شادی کر دی کہ محنتی اور مخلص انسان ہے.شادی کے بعد محمد جلال صاحب کنری چلے گئے.وہاں انہوں نے آٹا چکی کا کام شروع کیا.1974ء میں مخالفین نے ان کی آٹا چکی کو آگ لگادی.گھر کا سامان لوٹ لیا.گھر پر پتھراؤ کیا.بہر حال شہید کے والد نے بھی سختیاں دیکھیں.یہ شہید 1967ء میں کنری میں پیدا ہوئے تھے.میٹرک تک تعلیم محمدآباد ضلع عمر کوٹ میں حاصل کی.وہاں جماعت کی زمینیں ہیں.اس کے بعد یہ کراچی اپنی نانی کے پاس چلے گئے.ایف.اے پاس کیا.پھر ڈی ایچ ایم ایس کا کورس کیا.ڈسپنسری کا کورس کیا اور شادی کے بعد پھر 1995ء میں بچوں کی تعلیم کی خاطر میر پور خاص شفٹ ہو گئے.کچھ عرصے کے بعد وہاں کلینک کا آغاز کیا.اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی تھی.علاقہ کے وڈیروں اور بعض افراد کے فیملی ڈاکٹر کے طور پر تھے.ہومیو پیتھک علاج بھی کرتے تھے.تمام لوگوں کو ان کے احمدی ہونے کا علم تھا مگر کبھی کسی نے مخالفت نہیں کی حتی کہ کلینک کے ساتھ غیر از جماعت کی مسجد ہے.وہاں کے امام مسجد نے بھی کبھی جماعت کی مخالفت کی کوئی بات نہیں کی بلکہ ڈاکٹر صاحب سے ان کا اچھا سلوک تھا تو وہاں بعض مولوی صاحبان بھی ایسے ہیں جن میں اللہ کے فضل سے شرافت ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو مزید ہدایت دے.شہید مرحوم شہادت کے وقت سیکرٹری تربیت نومبائعین کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے تھے.اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کو کئی تنظیمی اور جماعتی عہدوں پر خدمت کرنے کی توفیق ملی.ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب شہید کی امارت کے دور میں ضلعی عاملہ کے ممبر رہے.جو بھی نومبائعین آتے ان کے کھانے کا انتظام کرتے.ان کے پاس کرایہ نہ ہوتا تو اپنی جیب سے کرا یہ بھی دیتے.
خطبات مسرور جلد 12 602 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء خدمت خلق کا بڑا شوق تھا.کشمیر کا زلزلہ آیا تو میڈیکل ٹیم کے ساتھ وہاں گئے.22 دن تک خدمت کا موقع ملا.بہر حال قربانی کے میدان میں صف اول میں سے تھے.مہمان نواز تھے.اپنے ساتھیوں اور جماعتی عہد یداران کی دعوت کا اہتمام کرتے تھے.انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے.خلافت سے انتہائی محبت، عشق کا تعلق تھا.اطاعت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے.باجماعت نمازی تھے نفل پڑھنے والے تھے.درود پڑھنے والے تھے.ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتے.ہمیشہ در گزر سے کام لیتے.اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے اور بڑے باوقار اور بارعب شخصیت کے مالک تھے.سینتالیس سال کی عمر تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور سیکرٹری مال کہتے ہیں اور سیکرٹری وصایا نے بھی بتایا کہ ڈاکٹر صاحب چندہ کی ادائیگی میں ہمیشہ فعال تھے.ہمیشہ اپنے بجٹ سے زیادہ اور بروقت چندہ وصیت ادا کیا کرتے تھے.اعلیٰ تعلیم بچوں کو دلوانے کا شوق تھا.ان کی دو بیٹیاں اس وقت میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں.دو بیٹے بھی زیر تعلیم ہیں.درود شریف کی ، دعاؤں کی میں نے بات کی.ان کو پان کھانے کی عادت تھی تو انہوں نے پان کھانے کی عادت اس لئے ترک کر دی کہ جب ہر وقت درود شریف پڑھنا ہو، زیادہ ورد کرنا ہو تو پان جو ہے اس میں روک بنتا ہے.ان کے چھوٹے بھائی محمد بلال نے شہادت سے چند روز قبل ایک خواب میں دیکھا کہ ان کے بھائی ایک چھت پر مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صاحب صدیقی شہید کے ساتھ ایک طرف کونے میں کھڑے ہیں اور باقی لوگ دوسری طرف کھڑے ہیں.اسی طرح ڈاکٹر صاحب شہید کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ تمام بہن بھائیوں میں یہ اونچے مقام پر کھڑے ہیں.شہید مرحوم کے لواحقین میں والد مکرم جلال احمد صاحب اور والدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے علاوہ اہلیہ محمودہ بیگم، دو بیٹیاں عزیزہ مدیحہ بلوچ جو اسد اللہ رند صاحب مربی سلسلہ کراچی کی اہلیہ ہیں.یہ کراچی میں میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں.اور عزیزہ ناجیہ نگار، اکیس سال، یہ بھی حیدر آباد میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں.دو بیٹے ہیں.اٹھارہ سال کا ایک بیٹا ہے ایف ایس سی کی ہے اور اب آگے مزید انٹری ٹیسٹ کی تیاری کر رہا ہے.ایک بیٹا پندرہ سال کی عمر کا ہے.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو ، بیوی کو ، والدین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور بچوں کا حامی و ناصر ہو اور جو خواہشات یہ اپنے بچوں کے بارے میں رکھتے تھے اللہ تعالیٰ ان کو پورا فرمائے.مبشر صاحب شہید کے بارے میں عطاء الوحید باجوہ صاحب جو جامعہ ربوہ میں پڑھاتے ہیں کہتے ہیں کہ میراتعلق بھی میر پور خاص سے ہے.وہاں ہمارا گھر مکرم ڈاکٹر صاحب کے گھر کے قریب ہی ہے.اس وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.بہت خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے.
خطبات مسرور جلد 12 603 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء ہر ایک سے مسکرا کر بات کرتے.کسی مجلس میں بیٹھے ہوتے تو فوراً اس کا حصہ بن جاتے اور اپنے دلچسپ انداز گفتگو سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے.تمام واقفین زندگی اور خاص طور پر مربیان سلسلہ کا بہت احترام کرتے تھے.کہتے ہیں کہ موسم گرما میں جب بھی میں میر پور خاص جا تا تو مسجد میں آپ سے ملاقات ہوتی اور بحیثیت واقف زندگی بڑی عاجزی اور انکساری سے ملتے حالانکہ عمر میں میرے سے بڑے تھے لیکن مربی ہونے کی وجہ سے اتنا احترام کرتے کہ مجھے اس پر شرمندگی محسوس ہوتی.چہرے پر غصہ، تنگ نظری کے آثار کبھی نہیں دیکھے.ہمیشہ مسکراتے اور بارونق چہرے کے ساتھ ملتے.علاقے کے لوگ بھی حیران ہیں کہ کس وجہ سے شہید کیا گیا ہے؟ ایک ہمدرد انسان تھے.خدمت انسانیت کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.لوگوں کی طرف سے اس بات کا برملا اظہار آپ کی شہادت کے موقع پر بھی ہوا.کہتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے بچوں میں بڑا حوصلہ ہے.میں نے بیٹے سے افسوس کیا.میرا خیال تھا کہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے تو شاید جذباتی نہ ہو جائے لیکن بالکل نہیں رویا، کوئی جذباتی نہیں ہوا اور مجھے کہنے لگا کہ مربی صاحب! میر پور خاص کی دو شہادتیں ہو گئیں.سابق صدر لجنہ بیان کرتی ہیں کہ شہادت کے موقع پر غیر از جماعت بھی افسوس کے لئے آئے.دو غیر از جماعت عورتیں تعزیت کے لئے آئیں.ان کا تعلق اس علاقے سے تھا جہاں ان کا کلینک تھا.کہتی ہیں ہم بھی ڈاکٹر صاحب سے دوائی لیا کرتی تھیں.کہتی ہیں ایک دفعہ ایک غریب عورت ڈاکٹر صاحب کے پاس دوائی لینے کے لئے آئی.آپ نے اسے دوائی دی اور کچھ پر ہیز بتایا.اس پر اس عورت نے بادل نخواستہ کہا.اچھا.اس کے انداز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ وہ غریب تھی بیچاری تو مبشر صاحب شہید فوراً سمجھ گئے.اور اسے فیس بھی واپس کر دی اور کچھ رقم بھی دی اور کہا کہ لو ان پیسوں سے تم نے یہ چیزیں لینی ہیں.علاج مکمل کرنا خوراک کا خیال رکھنا.ان عورتوں نے کہا کہ آپ لوگ جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں تو یہ غیر از جماعت، یہ احمدیوں کے مخالفین ، آپ لوگوں کو ہی چچن چن کر مارتے ہیں.بہر حال ان کا خیال ہے کہ یہ ظالمانہ اور درندگی سے بھری ہوئی حرکات سے وہ ہمارے ایمان کو کچھ کمزور کر لیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد کئی خط مجھے آئے ہیں کہ ہم اپنے ایمان پر قائم ہیں اور کوئی فکر کی بات نہیں.اللہ تعالیٰ ایک شہید کے بدلے ہزاروں احمدی عطا فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے.بہر حال ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں احمدیوں کو ہر لحاظ سے اپنی حفاظت میں رکھے.ان کے بھائی بھی لکھتے ہیں کہ بڑے حکمت سے سارے خاندان کے کام سلجھانے والے
خطبات مسرور جلد 12 604 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء تھے.اور تمام خاندان والے ان سے مشورہ لیا کرتے تھے.اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا ان کی تعلیم کا خیال رکھنا.ایک بہن کے کچھ مالی مسائل تھے.ان کے خاوند کو کسی وجہ سے جیل جانا پڑ گیا.بچوں کا بڑا خیال رکھا.نومبائعین کی خدمت میں ہر وقت مصروف رہنے والے تھے.تیسرا جنازہ جو ہے الحاجہ سٹر نعیمہ لطیف صاحبہ کا ہے.یہ مکرم الحاج جلال الدین لطیف صاحب صدر جماعت زائن اور نائب صدر انصار اللہ یوایس اے کی اہلیہ تھیں.کچھ عرصہ سے کافی زیادہ بیمار تھیں.23 ستمبر 2014ء کو نماز ظہر کی تیاری کر رہی تھیں تو اپنے مولی حقیقی سے جاملیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ سسٹر نعیمہ لطیف 21 رمئی 1939ء کو ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئیں.آپ نے ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر کے امریکن آرمی کے شعبہ میڈیکل میں رضا کارانہ طور پر کام شروع کیا.جنگ کے دوران زخمی ہونے والے فوجیوں کی دیکھ بھال کا کام کیا.معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی، قانون کی پاسدار اور امن پسند خاتون تھیں.1974ء میں احمدیت قبول کی اور خود مطالعہ کر کے بڑی تیزی سے ایمان و اخلاص میں ترقی کی.یہاں تک کہ یو کے کے جلسہ سالانہ 2000ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے ملاقات ہوئی تو حضور نے ان کو فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے جیسے آپ پیدائشی احمدی مسلمان ہیں.سٹر نعیمہ نے اپنی زندگی میں کبھی نماز جمعہ نہیں چھوڑی.جماعتی پروگراموں میں با قاعدگی سے شامل ہونے والی تھیں.رمضان کے روزے کبھی نہیں چھوڑے.اس کے علاوہ سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے باقاعدگی سے ہفتہ وار نفلی روزے بھی رکھتی تھیں.اعتکاف میں بیٹھنے کا بھی انہیں موقع ملتا رہا.خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش تھیں.ضعیف کمز ور لوگوں کو جو خود مسجد نہیں پہنچ سکتے تھے.انہیں باقاعدگی سے سواری مہیا کرتیں.2002ء میں اپنے خاوند اور جماعت امریکہ کے بڑے وفد کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت پائی.اپنے بچوں کو جمعہ کی نماز میں شامل کرنے کے لئے سکول سے چھٹی کرواتی تھیں.اپنے گھر میں فجر کی نماز کے بعد سارے خاندان کو تلاوت قرآن پاک کی عادت ڈالی.مغرب کی نماز جو گھر میں باجماعت ادا ہوتی تو ان کے بچوں کے ساتھ محلے کے بچے بھی شامل ہو جایا کرتے تھے.مالی قربانی میں پیش پیش رہتیں.جب بھی کوئی زیور آپ کے میاں کی طرف سے تحفہ ملتا تو مساجد کے لئے چندے میں دے دیتیں.عمر کے آخری حصے میں اپنے خاوند کو کہا کہ آپ نے جو تحفہ دینا ہوتا ہے وہ میں مسجد فنڈ میں دے دیتی ہوں.بہتر یہ ہے کہ آپ تحائف خریدنے کے بجائے براہ راست میری طرف سے یہ رقم مسجد فنڈ میں دے دیا کریں.اخلاص سے بھری ہوئی ایسی خواتین بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا فرمائی ہیں.بہت منکسر المزاج تھیں.غیبت
خطبات مسرور جلد 12 605 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 03 اکتوبر 2014ء سے آپ کو سخت نفرت تھی.آپ کی موجودگی میں اگر کوئی عورت کسی دوسری عورت کے متعلق منفی رنگ میں بات کرتی تو بلا تردد کہہ دیا کرتی تھیں کہ میں کسی کا گوشت کھانا نہیں چاہتی.چنانچہ کسی کو آپ کے سامنے غیبت کرنے کی جرات نہ تھی.کاش کہ یہ عادت نہ صرف عورتوں میں بلکہ مردوں میں بھی پیدا ہو جائے تو بہت قسم کے جھگڑے جو ہیں فساد جو ہیں رنجشیں جو ہیں وہ ہماری جماعت میں سے دور ہو جایا کریں.خلافت اور خلیفہ وقت سے عشق کی حد تک پیار تھا اور خلیفہ وقت کی اطاعت کو اولین ترجیح دیتیں.حضرت خلیفتر اسیح الثالث کے امریکہ کے دورے کے دوران ایک یونیورسٹی میں پردے کی اہمیت پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا خطاب سن کر اسی وقت حجاب لے لیا اور اس زمانہ میں اپنے علاقہ میں واحد خاتون تھیں جو اسلامی پردے میں نظر آتی تھیں.دعا کے لئے باقاعدہ لکھا کرتی تھیں.بڑا تعلق رکھنے والی تھیں.یہاں بھی جلسوں پہ آئی ہیں.کئی دفعہ مجھے ملتی رہیں.بڑا اخلاص اور وفا کا ان کا تعلق تھا.نیشنل سیکرٹری وقف جدید ، صدر لجنہ نارتھ جرسی جماعت اور یوایس کی نیشنل رشتہ ناطہ ٹیم کی ممبر کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی.اللہ کے فضل سے موصیبہ تھیں.ان کے پسماندگان میں خاوند مکرم جلال الدین لطیف صاحب کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں.تمام بچے سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے والے اور جماعتی عہدوں پر فائز ہیں.پورا خاندان ہی اللہ کے فضل سے انتہائی وفا کا تعلق رکھنے والا ہے.جلال صاحب خود بھی، بچے بھی خدمت کرنے والے ہیں.ان کی بیٹی تو میرے خیال میں سب سے زیادہ اخلاص و وفا میں بڑھی ہوئی ہے.ہر سال یہاں جلسے پر آتی ہے.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان سے پیار اور مغفرت کا سلوک فرمائے.ان کے خاوند اور بچوں کو بھی حوصلہ دے اور صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیشہ ان کی مشکلات دور فرمائے.ایک جنازہ کیونکہ حاضر بھی ہے اس لئے نماز جمعہ کے بعد میں باہر جا کے نماز جنازہ پڑھاؤں گا.احباب یہیں مسجد میں ہی صفیں درست کر کے نماز پڑھیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 24 /اکتوبر 2014 ء تا 30 /اکتوبر 2014 ، جلد 21 شماره 43 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 12 606 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014 ء بمطابق 10 اخاء 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کو عابد بنے اور اعلیٰ اخلاق اپنانے کی طرف بہت توجہ دلائی ہے کیونکہ ان کے بغیر ایک ایمان کا دعویٰ کرنے والا مومن نہیں کہلا سکتا.جہاں مومن کی یہ نشانی ہے کہ وہ عبادت کرنے والا ہو وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لغو باتوں سے اعراض کرنے والا ہو.یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص مومن بھی ہو اور پھر اس سے بداخلاقیاں بھی سرزد ہو رہی ہوں.عموماً بد اخلاق انسان اس وقت ہوتا ہے جب اس میں تکبر ہو.اسی لئے رحمان خدا کے بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا - (الفرقان: 64) یعنی زمین پر وہ نہایت عاجزی سے چلنے والے ہیں.اور جس انسان میں عاجزی ہو وہ نہ صرف جھگڑوں اور فسادوں سے بچتا ہے بلکہ صلح جوئی کی طرف رجحان رکھتا ہے اور دوسرے اعلیٰ اخلاق بھی اس میں پائے جاتے ہیں.اور جب اعلیٰ اخلاق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا بھی پیش نظر ہو اور اس کی رضا کے حصول کے لئے اعلیٰ اخلاق کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو پھر ہی یہ کیفیت جو ہے وہ حقیقی مومن کی کیفیت ہوتی ہے.گویا حقیقی مومن عابد اور عاجز ہوتا ہے.ہاں یہ بھی صحیح ہے کہ ہر انسان کی استعدادیں مختلف ہیں.جسمانی حالت مختلف ہے.بعض عارضی حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جو روک بن جاتے ہیں.اس لئے ہر شخص ہر وقت اور ہر حالت میں اپنے اخلاقی معیار کو ایک طرح نہیں رکھ سکتا.اسی طرح اپنی روحانی ترقی کے لئے بھی اپنی عبادتوں اور اپنی
607 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء خطبات مسرور جلد 12 نمازوں کے وہ معیار نہیں رکھ سکتا جو ایک مومن سے متوقع ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مومنین کو حالات کے مطابق سہولتیں بھی مہیا فرمائی ہیں.اللہ تعالیٰ ضرورت سے زیادہ بوجھ انسان پر نہیں ڈالتا.یا انسان کی حالت اور صلاحیت سے زیادہ بوجھ اس پر نہیں ڈالتا.پس یہ کہنا کہ بعض کام ایسے ہیں جو انسان کے لئے ناممکن ہیں اس لئے کئے نہیں جا سکتے.یہ بات کم از کم دین اسلام کے بارے میں غلط ہے.یہ صیح نہیں.نمازوں کے بارے میں جب اللہ تعالیٰ مومن کو کہتا ہے کہ یہ تم پر فرض ہیں انہیں ادا کرو تو ساتھ ہی بہت سی سہولتیں بھی دے دیں.مثلاً جو کسی وجہ سے کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اسے کہہ دیا کہ بیٹھ کر پڑھ لو.اور جو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بعض بیماریوں کی وجہ سے، کمزوری کی وجہ سے کیونکہ بیٹھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے تو اسے کہہ دیا کہ لیٹ کر پڑھ لو.پھر لیٹنے میں بھی کوئی شرط نہیں ہے کہ کسی خاص انداز میں لیٹنا ہے.جس طرح انسان لیٹا ہوا ہے وہیں نماز پڑھ سکتا ہے.بیمار ہے کمزور ہے، سفر یا اور کوئی وقتی مجبوری ہے تو کہ دیا کہ قصر کر لو، جمع کر لو.پس کوئی شخص اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ نماز پڑھنا اس کے لئے ممکن نہیں بلکہ ایسے لوگ جو اس قسم کے کام کرتے ہوں جن میں بظاہر ان کے کپڑے گندے ہوئے ہوں ان کو بھی یہی حکم ہے کہ اگر صاف کپڑے نہیں ہیں تو جیسے بھی پہنے ہوئے ہیں ان میں ہی نماز پڑھ لولیکن نماز ضرور پڑھو.اسی طرح اگر پانی نہیں ہے تو پھر وضو کے بجائے تمیم کرلو.غرض کہ کوئی عقلمند کسی کا یہ بہانہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ نماز پڑھنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے.جب تک ہوش و حواس قائم ہیں نماز پڑھنا ضروری ہے.پس نماز کے بارے میں یہ کہنا کہ بعض حالات میں ہمارے لئے ناممکن ہے یہ انتہائی غلط بات ہے.بہت سے لوگوں سے پوچھو تو مختلف قسم کے بہانے بناتے رہتے ہیں.ایسے لوگ ایسے بہانے کر کے ایمان سے دور ہٹ رہے ہوتے ہیں.پس اس طرف ہم میں سے ہر ایک کو توجہ دینی چاہئے.آئر لینڈ میں جب میں نے مسجد کے افتتاح پر خطبہ دیا اور عبادتوں کی طرف توجہ دلائی تو امریکہ سے ہمارے ایک مربی صاحب نے لکھا اور پھر بعض اور جگہوں سے بھی خط آئے کہ خطبے کے بعد مسجدوں میں حاضری بڑھ گئی ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد میں نمازوں پر نہ آنا کسی کی مجبوری کی وجہ سے یا ناممکنات کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ سکتی تھی اور جب توجہ دلائی گئی تو اثر ہوا لیکن اس اثر کو مستقل قائم رکھنے کی ضرورت ہے.جو ایک مومن کا خاصہ ہے کہ اگر توجہ دلائی جائے تو پھر اس پر عمل کرتا ہے.خدام الاحمد میہ اور لجنہ کو خاص طور پر کوشش کرنی چاہئے کہ نو جوانوں میں نمازوں کی پابندی کی عادت ڈالیں.اس عمر میں صحت ہوتی ہے اور عبادتوں کا حق ادا ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ
خطبات مسرور جلد 12 608 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء دلائی ہے کہ جوانی اور صحت کی عبادتیں ہی حق ادا کرتے ہوئے ادا کی جاسکتی ہیں.بڑھاپے میں تو مختلف عوارض کی وجہ سے انسان وہ حق ادا ہی نہیں کر سکتا جو عبادت کا حق ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 258 بہر حال انسان کو سوچنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض تو طبیعت پر جبر کر کے بھی اگر ادا کرنے پڑیں تو ادا کرنے چاہئیں.کجا یہ کہ سہولتوں کے باوجود یہ ادا نہ کئے جائیں.اللہ تعالیٰ نے جب صحت دی ہے تو صحت کا شکرانہ بھی خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے اور یہ حق عبادت سے ادا ہوتا ہے.صحت کی حالت کے شکرانے کے طور پر عبادتیں بجالانے کی ضرورت ہے، نمازوں کی ادائیگی کی ضرورت ہے.پس اس طرف توجہ دینے کی ہمیں بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے اس کے بغیر ہمارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا.اب میں دوسری بات کی طرف آتا ہوں یعنی اچھے اخلاق.اعلیٰ اخلاق رکھنے والوں کا ایک بہت بڑا وصف سچائی کا اظہار ہے اور سچائی پر قائم رہنا ہے.ایک مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہے اور جھوٹ کے قریب بھی نہ پھینکے.اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر جھوٹ سے انتہائی نفرت ہو.لیکن عملاً ہم دنیا میں کیا دیکھتے ہیں کہ مختلف موقعوں پر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ میرا ارادہ تو نہیں تھا لیکن غلطی سے میرے منہ سے جھوٹ نکل گیا.اسائلم کے لئے یہاں درخواستیں دیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں وہ تو میرے منہ سے فلاں بات غلطی سے نکل گئی.میرا ارادہ نہیں تھا.لیکن اگر عادت نہ ہو تو غلطی سے بھی بات نہیں نکلا کرتی.بہر حال اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا ہے، ایسے لوگوں کو معاف کر دیتا ہے جن کو غلطی کا احساس ہو لیکن اس صورت میں انہیں اپنے اس عمل پر اظہار ندامت کرنا بھی ضروری ہے.اگر کوئی شخص جھوٹ بولے اور پھر اس پر ندامت بھی محسوس نہ کرے اور اس کے جھوٹ سے اگر کسی کو نقصان ہوا ہے تو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ الٹا ضد پر آ کر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرے یا یہ کہے کہ اس جھوٹ کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہوسکتا تھا تو ایسا شخص نہ تو ایمان پر قائم ہے نہ ہی اچھے اخلاق والا کہلا سکتا ہے.یقینا ایسے شخص کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ صحیح راستے پر نہیں ہے.پھر اخلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة: 84) کہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور اچھے طریق سے پیش آؤ.ان سے اچھے طریق سے بات کیا کرو.اب عام طور پر انسان دوسروں سے اکھڑ پن سے بات نہیں کرتا با وجود اس کے کہ بعض طبائع میں خشونت اور اکھڑ پن ہوتا
خطبات مسرور جلد 12 609 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء ہے لیکن وہ ہر وقت اس کا اظہار نہیں کرتے.تو جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں سے بات کرو تو ان سے نرمی اور ملاطفت سے پیش آؤ تو ایسے ہی لوگوں کو کہتا ہے کہ اپنی اس خشونت اور اکھڑ پن کی طبیعت میں نرمی پیدا کرو اور کبھی بھی تمہارے سے ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو دوسرے کو تکلیف پہنچانے والی ہو.ذرا ذرا سی بات پر مغلوب الغضب نہ ہو جایا کرو.لیکن بعض انسان اپنی طبیعت کی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا طبائع ہوتی ہیں، یکدم بھڑک بھی جاتے ہیں تو ایسے لوگ اگر سخت بات کہنے کے بعد اپنی سختی پر افسوس کریں اور جو جذباتی یا کسی بھی قسم کی تکلیف ان سے دوسروں کو پہنچی ہو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں، تو بہ اور استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے اور ان کی توبہ قبول بھی ہو جاتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر توجہ نہ دینے والے بے جا تشدد اور سختی کرتے چلے جانے والے اور کسی قسم کی بھی ندامت محسوس نہ کرنے والے تو وہ لوگ ہیں جو نہ صرف اخلاق سے گر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نفی کر کے گنہ گار بھی ہو رہے ہیں.ایسے لوگوں کی عبادتیں بھی ان کے کسی کام نہیں آتیں.پس اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنی مغفرت کی امید دلاتا ہے جو کسی خاص جوش یا غصے کے ماتحت ایک فعل کر دیں لیکن بعد میں ہوش آ جانے پر اپنے اس فعل پر نادم ہوں ، شرمندہ ہوں اور اس کے ازالے کی کوشش کریں.لیکن جو شخص نادم نہ ہو ، ہوش آ جانے پر بھی کسی قسم کی ندامت یا افسوس کا اظہار نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں پیش کر سکتا.پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں.بہت سے معاملات میرے سامنے آتے ہیں.میاں بیوی کے جھگڑوں کے، لین دین کے معاملات ہیں کہ لوگ ایسے مغلوب الغضب ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں دیکھتے کہ کیا کہہ رہے ہیں، کیا کر رہے ہیں.عورتوں کو جذباتی تکلیف بھی دیتے ہیں ، ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں.اسی طرح دوسرے معاملات ہیں.آپس میں غلط قسم کے رویے ہیں.پھر یہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے.اصلاحی کمیٹی کوشش کرے یا قضا کوشش کرے تو یہ لوگ اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں تو پھر تعزیر ہوتی ہے اور جب کسی فریق پر تعزیر ہو جائے تو پھر ان کو تھوڑی سی ہوش آتی ہے.پھر معافی کے لئے بھی لکھتے ہیں اور پھر جو زیادتیاں انہوں نے کی ہیں اس کا مداوا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.ٹھیک ہے ایسے لوگ سزا کے بعد معافی لے کر اپنے انجام کو بچالیتے ہیں لیکن تعزیر کا داغ ان پر لگ جاتا ہے.اگر اپنی انا کے چکر میں نہ پڑتے تو پہلے سے ہی افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہو سکتا ہے.پس ایسے لوگوں کو اپنے ایمانوں کو بچانے کی فکر کرنی چاہئے.بعض ایسے ہیں جو کسی بھی صورت میں نہیں مانتے وہ تو بالکل ہی دُور ہٹ جاتے ہیں.دنیا اور اس کے فوائد اور اس کی
خطبات مسرور جلد 12 610 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء سہولتیں چند روزہ ہیں.اپنے انجام کی ہمیں فکر کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم کس طرح حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں.جماعت کو میں اکثر توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ ہمیں اپنے اخلاقی معیار بلند کرنے چاہئیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی اناؤں کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے.جماعت کے ہر فردکو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اخلاق اور انسانیت کا معیار بنیں.بے شک بعض اوقات ہم جذبات کا اظہار بھی کر دیتے ہیں ، غصہ آ جاتا ہے یہ انسانی طبیعت ہے لیکن ایک مومن کو اللہ تعالیٰ نے کچھ حکم بھی دیئے ہوئے ہیں.ہمیں چاہئے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت انہیں خرچ کریں.میں نے میاں بیوی کے معاملات کی مثال دی ہے تو دیکھیں خطبہ نکاح میں پڑھی جانے والی آیات میں کس طرح اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف احکام دیئے ہیں جن پر میاں بیوی دونوں کو عمل کرناضروری ہے لیکن اکثر لوگ ان باتوں کو سامنے نہیں رکھتے.سمجھتے ہیں نکاح ہو گیا شادی ہوگئی اور بس.پس جولوگ اپنی باتوں پر اڑے رہتے ہیں بلکہ ان پر فخر رکھتے ہیں.سامنے رکھنا تو ایک طرف رہا جب مسائل اٹھتے ہیں تو اپنی بات پر ہی اڑے رہتے ہیں اور یہ فخر ہوتا ہے کہ ہم اس طرح اپنی بات پر قائم رہے.ہم نے فلاں کو کس طرح نیچا دکھا دیا.اپنے جذبات کو صحیح سمجھتے ہیں اور دوسرے کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے اور یہی کہتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ صحیح ہے کیونکہ ان کے خیال میں دوسرے شخص کا علاج ہی یہ تھا جو انہوں نے سوچا اور جو انہوں نے کیا.اس کے علاوہ ان کے نزدیک اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا.اگر ایسے لوگوں کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مذہب جسے انہوں نے مانا ہے وہ جھوٹا ہے کیونکہ مذہب کچھ کہتا ہے وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں.یہ بیشک وہ کہ سکتے ہیں کہ مذہب کا یہ حکم ایسا ہے جس پر ہمارے سے عمل مشکل ہے لیکن یہ کہنا کہ اس حکم کو توڑے بغیر اور جو کچھ ہم نے کیا ہے اس کے کئے بغیر گزارہ ہی نہیں ہو سکتا تھا، مذہب کو جھوٹا کہنے والی بات ہے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ غصہ دباؤ.حسن اخلاق سے پیش آؤ.اپنی غلطیوں پر ضد نہ کرو.بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرو بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو ہمیں یہاں تک فرمایا ہے کہ جو بندوں کے حق ادا نہیں کرتا، ان اخلاق کے مطابق اپنا نمونہ نہیں دکھاتا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں جن کا اپنا نا ایک مومن کے لئے ضروری ہے تو پھر ایسے لوگ خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا نہیں کرتے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحه 350)
خطبات مسرور جلد 12 - 611 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء ان کی نمازیں اور عبادتیں بھی صرف دکھاوے کی ہیں کیونکہ ان عبادتوں نے ان کے اندر وہ تبدیلی پیدا نہیں کی جو ایک مومن کا خاصہ ہے.ان میں وہ عاجزی نہیں آئی جو انہیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہے.اگر غصے کی حالت میں انسان اپنی ویڈیو بنوا لے.آج کل تو ویڈیو بڑی آسانی سے ہر جگہ میسر ہے تو ایک عقلمند انسان ہوش کی حالت میں اسے دیکھ کر خود ہی شرمندہ ہو جائے کہ اس کی کیا حالت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس بارے میں جو نصائح فرمائی ہیں وہ میں پیش کرتا ہوں کہ مغلوب الغضب ہونے والوں کی کیفیت کیا ہو جاتی ہے.ان کے دماغ عقل اور حکمت سے خالی ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ پاگل پن تک نوبت پہنچ جاتی ہے.اس بارے میں فرماتے ہوئے کہ جوش اور غصہ جو ہے جب بڑھ جائے تو عقل ماری جاتی ہے اس لئے صبر کی طرف توجہ دلائی کیونکہ صبر سے عقل اور فکر کی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : یا درکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے.جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی.لیکن جوصبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نورد یا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے.غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں.اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 180) پھر ذرا ذراسی بات پر غصے میں آنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کا دل حکمت سے عاری ہو جاتا ہے.فرمایا: یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہر گز نہیں نکل سکتیں.وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے.گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں.پھر اس سے اچھی اور نیک باتیں نہیں نکلتیں.محروم رہ جاتا ہے.” غضب اور حکمت دو نو جمع نہیں ہو سکتے.جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے.اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دیئے جاتے.غضب نصف جنون ہے جب یہ.66 زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 126-127)
خطبات مسرور جلد 12 612 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء پھر آپ فرماتے ہیں کہ : دو قوتیں انسان کو منجر بہ جنون کر دیتی ہیں.یعنی جنون کی طرف لے جانے والی بناتی ہیں.ایک بدظنی اور ایک غضب جب کہ افراط تک پہنچ جاویں.“ جب انسان ضرورت سے زیادہ ہر وقت اسی سوچوں میں پڑا ہو، غصے میں رہے، بدخانیاں کرتا رہے تو پھر پاگل پن کی کیفیت ہو جاتی ہے.پس لازم ہے کہ انسان بدظنی اور غضب سے بہت بچے“ وو (ملفوظات جلد 6 صفحہ 104) ایک مومن کی تعریف کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ مومن کو کیسا ہونا چاہئے؟ اس کو کسی بھی حالت میں عقل وخرد کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے ورنہ پھر جیسا کہ پہلے ذکر آیا پاگل پن کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : ” مرد کو چاہیے کہ اپنے قومی کو برمحل اور حلال موقعہ پر استعمال کرے.مثلاً ایک قوت غضبی ہے جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے.جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے.جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے.بلکہ اگر کوئی مخالف ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہوکر گفتگو نہ کرے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 208 پھر آپ مومن کی نشانی بتاتے ہیں کہ کس طرح مومن کو غصہ پر ضبط ہونا چاہئے یا غصے پر ضبط ہو تو حقیقی مومن کہلاتا ہے.فرمایا: " وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ(آل عمران:135) یعنی مومن وہ ہیں جو غصہ کھا جاتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ عفو اور درگذر سے پیش آتے ہیں.فرمایا ” اور اگر چہ انجیل میں بھی عفو اور درگذر کی تعلیم ہے مگر وہ یہودیوں تک محدود ہے.دوسروں سے حضرت عیسی نے اپنی ہمدردی کا کچھ واسطہ نہیں رکھا اور صاف طور پر فرما دیا کہ مجھے بجز بنی اسرائیل کے دوسروں سے کچھ غرض نہیں خواہ وہ غرق ہوں خواہ نجات پاویں.“ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحه 395) پس حضرت مسیح کا عفو و درگزر بنی اسرائیل تک محدود تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو مسیح محمدی بن کر آئے ہیں آپ کا دائرہ عفو و درگزر تو ساری دنیا تک پھیلا ہوا ہے.اس لئے ہمیں بھی اپنے عفو اور درگز رکو وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے.پس یہ ہیں وہ معیار جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.
خطبات مسرور جلد 12 613 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء اگر اللہ تعالیٰ کے نور سے فیض پانا ہے تو صبر حوصلہ اور بردباری کا وصف بھی اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے منہ سے معارف اور حکمت کی باتیں نکلیں، لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں ، ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں تو ہمیں اپنے گھر یلو اور روزمرہ کے معاملات میں سختی اور غضب کی حالت میں رہنے سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا.اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنی ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو بھی بھی تباہ و برباد نہ ہونے دیں تو بدظنی اور غضب سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا.اگر ہم چاہتے ہیں کہ حقیقی مومن بنیں تو اپنی صلاحیتوں کو برمحل اور بر موقع اور مناسب رنگ میں ادا کرنا ہوگا.غصہ کی کیفیت اگر کبھی پیدا بھی ہو تو جنونی ہو کے نہیں ہونی چاہئے بلکہ صرف اصلاح کی حد تک ہونی چاہئے.غصے اور بے لگام جذبات کا اظہار انسان کو جنونی بنادیتے ہیں.پس ان میں اعتدال کی ضرورت ہے.اگر غصہ ہے تو اس حد تک جیسا کہ میں نے کہا جہاں اصلاح کے لئے ضروری ہے.اپنی اناؤں کی تسکین کے لئے نہیں، اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لئے نہیں.آپ نے فرمایا کہ جو اس سے زیادہ غصے کا اظہار کرتا ہے وہ اپنا ایمان ضائع کرتا ہے.آپ نے فرمایا کہ اسلام کی خوبصورتی یہی ہے کہ اعلیٰ اخلاق کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے غیر ضروری غصے کو دبانے اور عفو سے کام لینے کی تلقین کرے.پس یہ خلق ہر ایک کو اپنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر حقیقی مومن بننا مشکل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے متواتر مختلف تحریرات اور ارشادات میں فرمایا ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 48) لیکن ہمارے اندر کمزوری ہے کہ ہم اس پر اس طرح عمل نہیں کرتے جس طرح کرنا چاہئے.اس میں عام احمدی بھی شامل ہے اور عہدیداران بھی شامل ہیں.ایسے لوگ جو دوسروں کو تو آپ کی باتیں سناتے ہیں اور جذبات کو قابو میں رکھنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن خود اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه (12) بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض تو جھوٹے ہو کر سچے اور ظالم ہو کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.پھر کس طرح ایسے لوگوں کے بارے میں سمجھا جائے کہ ایمان کا ایک ذرہ بھی ان میں ہے.کیونکہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ بجائے ضد کرنے کے ہوش میں آنے پر وہ اپنے ظلم کا ازالہ
خطبات مسرور جلد 12 614 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء کرے.اگر کسی کو کوئی جذباتی تکلیف پہنچائی ہے تو اس کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کم از کم اپنے اندر ندامت اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ میں نے کیا کیا ؟ ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں یا اس طرح سوچتے ہیں.اگر ظلم وقتی جوش کے تحت ہو گیا ہے تو جوش کا وقت گزر جانے پر ایک مومن کو اس کا ازالہ کرنا چاہئے.اگر یہ ازالہ نہیں کرتے اور ندامت محسوس نہیں کرتے بلکہ سارے حالات گزر جاتے ہیں اور پھر بھی اثر نہیں ہوتا تو پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے یہ حقیقی ایمان نہیں.یہ دکھاوے کا ایمان ہے.پانی کے اس بلبلے کی طرح ہے جس کے اوپر پانی ہے اور اندر صرف ہوا ہے.اگر تمام پانی ہوتا تو پھر وہ پانی کی کیفیت میں ہوتا ، پھر اس میں ہوا نہیں ہوتی.پس جیسا کہ میں نے کہا ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ کتنی دفعہ ہم پر اگر زیادتی بھی ہوئی ہے تو ہم نے برداشت کیا ہے اور مغلوب الغضب ہو کر جواب نہیں دیا یا اگر عہدیدار ہیں تو کتنی دفعہ ایسے مواقع پیدا ہوئے ہیں کہ دوسرے نے زیادتی کی اور انہوں نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ دیا.اس زیادتی کی کوئی پرواہ نہیں کی.برداشت یہ نہیں ہے کہ کسی طاقتور کا مقابلہ ہو اور جواب نہ دیا ہو اور کہہ دیا کہ ہماری بڑی برداشت ہے بلکہ برداشت یہ ہے کہ سزا دے سکے اور پھر سزا نہ دے.یہاں یہ بھی واضح ہو کہ انتظامیہ انصاف اور شریعت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر کسی کو سزا کی سفارش کرتی ہے، تعزیری کارروائی کرتی ہے تو یہ اس زمرہ میں نہیں آتا.کیونکہ اگر کسی کی غلطی ہے اور اُس کو اس کی وجہ سے سزا مل رہی ہے تو اس قسم کا جو عفو ہے وہ یہاں گناہ بن جاتا ہے.اگر کوئی اپنے معاملات میں دست درازی کرتا ہے، ظلم کا مرتکب ہوتا ہے تو حاکم یا قاضی سزا دیتا ہے جس طرح بچوں کو ماں باپ یا استادسزا دیتے ہیں.یہ سزا کسی جرم میں کسی کوملتی ہے تو اس لئے کہ اس نے شریعت کے حکم کی نافرمانی کی یا دوسروں کے حقوق تلف کئے.یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ بعض لوگ زیادتی بھی کرتے ہیں، شریعت کے قوانین کی پابندی بھی نہیں کرتے ، دوسروں کے حقوق بھی غصب کرتے ہیں اور پھر نظام جماعت جب اُن پر تعزیر کرتا ہے تو میری یہ باتیں سن کر، پہلے بھی کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں، اس بارے میں پھر مجھے لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور اب بھی شاید شروع کر دیں گے کہ آپ نے عفو اور درگزر پر خطبہ دیا ہے.ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا جائے، ہمیں بھی معاف کر دیا جائے.تو اس بارے میں پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ میری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے.بعض مجھے گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط بھی لکھ دیتے ہیں ان کے لئے بھی کبھی میرے دل میں غصہ نہیں آیا، کبھی غصے کے جذبات پیدا نہیں ہوئے.ایسے
خطبات مسرور جلد 12 615 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء لوگ عموماً اپنے نام نہیں لکھتے یا فرضی نام لکھتے ہیں.اگر وہ نام لکھ بھی دیں تو تب بھی میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس بارے میں ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی بے شک گالیاں دیں.ہاں ان پر رحم ضرور آتا ہے اور مزید استغفار کا مجھے موقع مل جاتا ہے.میرے لئے تو یہ فائدہ مند ہوتا ہے.سزا یا تعزیر تو دوسروں کے حقوق غصب کرنے یا شریعت کے حکم کی نافرمانی کرنے پر ملتی ہے اور بڑے دکھ سے یہ سزا دی جاتی ہے، کوئی خوشی سے سز انہیں دی جاتی.جس دن میری ڈاک میں نظارت امور عامہ یا امراء ممالک کی طرف سے کسی کی تعزیر کی معافی کی سفارش ہوتی ہے، جو غلطی کی تھی اس کا مداوا ان لوگوں نے کر دیا ہوتا ہے تو اس دن سب سے زیادہ میری خوشی کا دن ہوتا ہے.پس جہاں میرے فرائض میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں وہاں مجھے مجبور نہ کریں.ہاں میں یہ بھی ضرور کہوں گا کہ فریقین اپنے معاملات جب قضا میں لاتے ہیں اور قضا یا انتظامیہ واقعات کی روشنی میں ان کا فیصلہ کرتے ہیں اور ایک فریق پر ذمہ داری ڈالی جاتی ہے کہ حقوق ادا کرے یا اس حد تک ذمہ داری ڈالی جاتی ہے کہ اگر مالی معاملہ ہے تو اتنی رقم ادا کر و یا دوسری ذمہ داریاں ادا کرو تو جس فریق نے بھی رقم وصول کرنی ہو، جس نے حق لینا ہو وہ دوسرے فریق کے مالی حالات کی تنگی کی وجہ سے جو زیادہ سے زیادہ سہولت دے سکتا ہے اس کو دینی چاہئے وہاں پہ ضدیں نہیں کرنی چاہئیں.یہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ بلاوجہ کسی انا میں پڑ کر ظلم نہیں کرنا چاہئے.بہر حال ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر گزار ہونا چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ ہم لوگ اس شخص کی اتباع کرنے والے ہیں جس کا نام مسیح رکھا گیا ہے.یہ سوچنے والی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود کو مسیح کہا گیا ہے تو کیوں کہا گیا.وہ کون سی چیز ہے جو مسیح کو دوسرے انبیاء سے ممتاز کرتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام باتیں ، تمام خصوصیات ،تمام صفات دوسرے تمام انبیاء سے زیادہ ہیں.ان کی معراج پر پہنچے ہوئے ہیں کیونکہ آپ کامل انسان اور آپ کی شریعت کامل اور مکمل شریعت ہے.لیکن آر کے علاوہ جب ہم باقی انبیاء میں دیکھتے ہیں تو ہر نبی میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے.پس مسیح کی جو خاص امتیازی چیز ہے وہی مسیح موعود علیہ السلام کی صحیح سے تشبیہ کی ایک وجہ ہوسکتی ہے.اس کی وضاحت جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہے وہ بڑی دل کو لگنے والی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی خصوصیت وہ نرمی کی تعلیم ہے جو حضرت مسیح نے پیش کی اور بائبل تو یہاں تک کہتی ہے کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا گر تا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے.اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اس
خطبات مسرور جلد 12 کے ساتھ دو کوس چلا جا.“ 616 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء (انجیل متی باب 5 آیت 39 تا 41) پس بے شک تمام انبیاء نے نرمی کی تعلیم دی ہے لیکن حضرت مسیح نے اپنے زمانے کے حالات کو دیکھتے ہوئے نرمی پہ بہت زیادہ زور دیا ہے.پس یہ خاص تعلیم ہے جو حضرت مسیح لائے اور جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام مسیح رکھا یا آپ کو مسیح سے تشبیہ دی تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کو بھی خاص طور پر نرمی کی تعلیم دینے کا حکم دیا گیا ہے.گو کہ آپ کا نام مسیح رکھنے کی یہ بھی وجہ ہے کہ آپ عیسائیوں کی ہدایت کے لئے بھی آئے اور اس لحاظ سے مسیح کہلائے.گو آپ دوسرے مذاہب کی طرف بھی آئے.ہندوؤں کی طرف مبعوث ہونے کی وجہ سے آپ کا نام کرشن بھی رکھا گیا اور اسی طرح مسلمانوں اور تمام اقوام عالم کی طرف آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور نیابت میں آئے.بہر حال مسیح کے نام پر زور ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نرمی کی بہت تعلیم دی ہے اور سختی کو دور کرنے کی نصیحت فرمائی ہے.آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں بر ”خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا.تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں.وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ.نفسانیت کی فریہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کیلئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہوسکتا.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 12) اگر ہم اس خصوصیت کو مد نظر نہ رکھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کو دھوکہ دیتے ہیں.اگر ہم خود اس تعلیم پر عمل نہیں کرتے تو ہمیں دوسروں کو اس کی طرف بلانے کا کیا حق ہے.پس ہمیں اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے.ہمیں وہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے جس سے دنیا سمجھے کہ ہم نے اپنے جذبات پر پورا پورا قابو پالیا ہے.آئرلینڈ کی مسجد کے افتتاح پر بھی میں نے کہا تھا کہ جب ہم تبلیغ کریں گے تو لوگ پوچھیں گے کہ باقی مسلمانوں کے بارے میں تو تم کہتے ہو کہ انہوں نے مسیح موعود کو نہیں مانا، اس لئے ہدایت سے خالی
خطبات مسرور جلد 12 617 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء ہیں.تم نے تو مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہوا ہے تو تم نے اپنے نفسوں میں کیا انقلاب پیدا کیا ہے.پس ہمارے نمونے ہماری تعلیم سے مطابقت رکھنے والے ہونے چاہئیں.دوسرے مذاہب کو ماننے والے سارے تو اخلاق سے گری ہوئی حرکات نہیں کرتے.سوچنا چاہئے کہ کیا سارے عیسائی یا سارے ہندو یا تمام دوسرے مذاہب کو ماننے والے یا نہ ماننے والے بھی لڑتے رہتے ہیں؟ نہیں.ان میں بھی بہت سارے صلح جو ہیں اور انصاف پسند بھی ہیں.اگر ہم میں سے بھی بعض صلح جو اور بعض لڑاکے ہیں یا اخلاق سے گری ہوئی حرکات کرنے والے ہیں تو ہم میں اور دوسروں میں امتیاز کیارہ گیا.امتیاز تو تب ہو گا جب اس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جھگڑے فساد کی عادت ہم میں سے بالکل مٹ جائے گی یا کم از کم اتنی کم ہو جائے کہ کسی کو نظر نہ آئے.اور ایسے فساد کرنے والے جو تھوڑے سے ہوں بھی تو اُن سے ہم پوری طرح کراہت کرنے والے ہوں.بدی کو مٹانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے کہ اگر کسی بدی کو دیکھو اور طاقت ہو تو اسے ہاتھ سے ختم کر دو.اگر ہاتھ سے ختم نہ کر سکو تو زبان سے روکو.اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا مناؤ.“ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان كون النهي عن المنكر من الايمان...حدیث نمبر 177) پس احمدی معاشرے میں بھی غلط حرکات اور بداخلاقی کو برا سمجھنے روکنے اور منانے کا احساس ہونا چاہئے یا ترتیب کے لحاظ سے روکنے اور سمجھانے اور اس کو ختم کرنے کا احساس پیدا ہونا چاہئے یا برا منانے کا احساس پیدا ہونا چاہئے اور جب سب کو یہ احساس ہو تو پھر چند ایک بھی اخلاق سے نہیں گرتے.پھر ہر ایک اپنا معیار اونچا کرنے کی کوشش کرتا ہے.کسی ظالم کا ہمیں ساتھ نہیں دینا چاہئے.ہمیں وہ طریق اختیار کرنا چاہئے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے.جس پر اس زمانے میں خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زور دیا ہے.ہمیں عفو نرمی اور درگزر اور محبت سے کام لینا چاہئے.اگر کسی کو ظلم کرتا دیکھیں تو سمجھیں کہ اس نے مظلوم پر حملہ نہیں کیا بلکہ ہم پر حملہ کیا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کیا ہے کیونکہ جس کام کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے اس نے اس کی تحقیر کی ہے.پس ایسے حملہ آوروں کو روکنا ہمارا کام ہے.ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکیں.دل میں برا منائیں اور مظلوم کے ظالم سے بچنے کے لئے دعائیں کریں.پس اگر ہم اخلاق سوز حرکتوں پر برا منائیں، ہمارا معاشرہ برا منائے تو خود بخود یہ ظلم اور یہ حرکتیں ہم میں سے ختم ہو جائیں گی.لبن دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ بعض دفعہ خاص طور پر عائلی معاملات میں ظلموں میں ماں باپ بہن بھائی
خطبات مسرور جلد 12 618 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 اکتوبر 2014ء شامل ہو جاتے ہیں اور پھر صرف یہی نہیں کہ یہ شامل ہوتے ہیں، دوستی کے نام پر بعض دوسرے بھی شامل ہو جاتے ہیں بجائے اس کے کہ سمجھا ئیں.پس ہمیں معاشرے کی اصلاح کے لئے ان ظلموں میں شامل ہونے کی بجائے مظلوم پر حملے کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ سمجھنا چاہئے.اگر یہ ہوگا تو پھر دیکھیں ہمارا معاشرہ کس طرح ٹھیک ہوتا ہے اور ہمارے یہ رویے اور عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے.اللہ کرے کہ ہم عبادتوں کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کرنے والے اور قائم کروانے والے ہوں نہ کہ جھگڑوں اور فسادوں میں پڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بدنام کرنے والے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی نفسانیت سے بچائے.آج بھی نماز جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ حاضر پڑھاؤں گا جو مکرمہ آسیہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد عبد الرحمن صاحب مرحوم انر پارک (Inner Park) کا ہے.یہ 3 را کتوبر 2014ء کو 69 سال کی عمر میں بقضائے الہی وفات پاگئیں.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت احمد یار صاحب اور حضرت مہتاب بی بی صاحبہ آف لویری والے کی پوتی تھیں.صوم وصلوٰۃ کی پابند، تہجد گزار، دعا گو.کثرت سے ذکر الہی اور صدقہ و خیرات کرنے والیس صابر اور شاکر تھیں.چندہ جات میں با قاعدہ اور مالی قربانی کرنے والی نیک مخلص خاتون تھیں.1978ء میں جب آپ کے خاوند کو مخالفین نے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا تو آپ نے بڑی بہادری اور صبر سے یہ عرصہ گزارا.مرحومہ موصیہ تھیں اور وصیت کرنے کے ساتھ ہی اپنے حصہ جائیداد کی ادائیگی بھی کر دی تھی.ان کے پسماندگان میں پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.ان کے ایک بیٹے اشتیاق احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں جو آجکل پاکستان میں ہیں اور دوسرے اعجاز الرحمن.یہ یہاں حفاظت خاص کے عملے میں شامل ہیں.آپ ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کی پھوپھی بھی تھیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی اولا دکو بھی ان کی نیکیوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.نماز کے بعد میں باہر جا کر نماز جنازہ پڑھاؤں گا.احباب یہیں مسجد میں صفیں درست کر لیں.(الفضل انٹر نیشنل مورخہ 31 اکتوبر 2014 ء تا 06 نومبر 2014 ء جلد 21 شماره 44 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 619 42 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014 ء بمطابق 17 ا خاء 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جماعت احمدیہ میں ایک فقرہ ہر مرد عورت چھوٹا بڑا جانتا ہے اور وہ ہے کہ میں دین کو دنیا پر ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 70) مقدم رکھوں گا.“ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ہمیں اس طرف بہت توجہ دلائی ہے.خلفاء کی تقریروں میں عموما اور ہمارے مقررین کی بھی اکثر تقریروں تحریروں میں ،اس فقرے کا استعمال ہوتا ہے.شرائط بیعت کا بھی خلاصہ یہی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا جائے گا.اسی طرح تمام ذیلی تنظیموں کے جو عہد ہیں ان کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اسی طرح بیعت کے الفاظ میں بھی ہم ان الفاظ میں دہراتے ہیں.غرض کہ یہ فقرہ ایک احمدی کا عہد ہے جس پر اس کی بیعت کا انحصار ہے.خلافت سے اور نظام سے جڑے رہنے کا انحصار ہے.اگر یہ نہیں تو پھر بیعت کا دعویٰ غلط ہو جاتا ہے.نظام سے جڑے رہنے کا ،خلافت سے وابستگی کا دعویٰ غلط ہو جاتا ہے.اور بیعت کا اعلان اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی باتیں صرف منہ کی باتیں رہ جاتی ہیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ:.اگر کوئی بیعت میں تو اقرار کرتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا مگر عمل سے وہ اس کی سچائی اور وفاء عہد ظاہر نہیں کرتا تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 71 حاشیہ)
خطبات مسرور جلد 12 620 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء پس ہم میں سے ہر ایک کو اس بات کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.جیسا کہ اس فقرے سے واضح ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی دنیاوی چیز روک نہیں بنی چاہئے.اور دین کیا ہے؟ دین اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہو کر اپنی زندگیاں گزارنا ہے.اپنے ہر قول و فعل سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے بڑی تعداد یہ کوشش کرتی ہے کہ دین کے راستے میں جو چیز روک بن رہی ہوا سے دور کرے.لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہر ایک کی کوشش ایک جیسی نہیں ہوسکتی کیونکہ ہر انسان کی علمی صلاحیت بھی مختلف ہوتی ہے اور دوسری استعداد دیں اور صلاحیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں.ہاں اللہ تعالیٰ کیونکہ ہماری نیتوں کو بھی جانتا ہے اس لئے ہر ایک کی صلاحیت کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہے.پس اس عہد کو پورا کرنے کے لئے بنیادی چیز نیک نیتی ہے.اس میں کسی قسم کے عذر اور بہانے نہیں ہونے چاہئیں.دنیاوی معاملات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان کا دائرہ مختلف ہوتا ہے.کسی کی کوشش محدود دائرے میں ہوتی ہے کیونکہ اس کا علم اور صلاحیت اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے محدود ہے یا بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسری ترجیحات اس کے کام میں روک بن رہی ہوتی ہیں، جو اسے محدود کر دیتی ہیں اور کسی کی کوشش بہت زیادہ ہوتی ہے اور صحیح رنگ میں ہوتی ہے.جس مقصد کو حاصل کرنا ہو صرف اسی پر نظر ہوتی ہے اور وہ پھر اسے مکمل حاصل ہو بھی جاتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس مضمون کو بیان فرمایا ہے.اس سے استفادہ کرتے ہوئے اور اس کی روشنی میں میں کچھ بیان کروں گا خاص طور پر واقعات ہیں.محدود دائرے کی کوشش اور مقصود کے مطابق کوشش کی ایک عام سی مثال آپ نے اس طرح دی ہے کہ بعض لوگ خواہ کتنا ضروری کام کیوں نہ ہو چلتے وقت اس بات کا خیال رکھتے ہیں، اپنے لباس کے بارے بڑے کانشس (Conscious) ہوتے ہیں کہ ان کے لباس ٹھیک ہوں پتلون کی تریز خراب نہ ہو جائے.کوٹ میں کہیں بدصورت قسم کی سلوٹ یا شکن نہ پڑ جائے.انہوں نے کہیں جلدی بھی پہنچنا ہو تو تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے لباس کا جائزہ لیتے ہیں اور اس وجہ سے بعض دفعہ جلدی پہنچنے کی کوشش محدود ہو جاتی ہے.یہ اس زمانے کی بات نہیں ہے.آج بھی ایسی مثالیں نظر آ جاتی ہیں اور خاص طور پر ہمارے ایشین معاشرے میں مردوں اور عورتوں کی یہ حالت ہے کہ بعض دفعہ اپنے لباس کے بارے میں بہت زیادہ کانشس ہو جاتے ہیں.لیکن اس کے مقابلے پر کچھ ایسے بھی ہیں جو بیشک فیشن بڑے شوق سے کرتے ہیں، بڑے شوقین ہوتے ہیں لیکن جب ان کے سامنے کوئی مقصد ہو تو وہ اپنے رکھ رکھاؤ اور فیشن کو قربان کر
خطبات مسرور جلد 12 621 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء دیتے ہیں.اگر مقصد کے حصول کے لئے اپنے لباس کے رکھ رکھاؤ کے باوجود انہیں دوڑنا پڑے تو وہ دوڑ بھی لیں گے.کسی جگہ بیٹھنا پڑے تو بیٹھ بھی جائیں گے.حتی کہ گردوغبار میں بھی اگر ضرورت ہوتو بغیر کسی تکلف کے اس میں چل پڑیں گے.کیوں؟ اس لئے کہ اصل چیز ان کا مقصود اور مدعا ہوتا ہے کہ ہم نے یہ چیز حاصل کرنی ہے، یہ مقصد حاصل کرنا ہے.اس لئے وہ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے.اعلیٰ سوٹ یا سفید لباس ان کے مقصد کے حصول میں روک نہیں بنتا.اس پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے کہ لوگ مقصد کے حصول کے لئے کس طرح ظاہری چیز کو قربان کر دیتے ہیں ایک مثال حضرت مصلح موعود نے یہ بھی دی ہے.یہ تاریخ انگلستان کے ایک واقعہ کی مثال ہے.تاریخ میں واقعہ آتا ہے کہ ملکہ الزبتھ اول ، ( یہ ملکہ نہیں ) ، 1558ء میں غالباً اس کو تاج ملا تھا تقریباً 45 سال تک ملکہ رہی ہے.ایک بہت مشہور ملکہ تھی.بلکہ انگلستان کی عظمت اور طاقت کی بنیاد بھی اسی زمانے میں ہوئی ہے.اس ملکہ کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اپنے درباریوں میں خوش پوشاک اچھے لباس پہننے والے اور خوش وضع لوگوں کو دیکھنا پسند کرتی تھی.اور جس کا لباس اعلیٰ اور قیمتی نہ ہو وہ دربار میں نہیں آ سکتا تھا.اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ارد گرد خوش وضع اور خوش لباس نو جوانوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا.ایک دفعہ وہ اپنے قریبیوں کے ساتھ پیدل کہیں جا رہی تھی.راستے میں جاتے ہوئے ایک دفعہ کچھ کیچڑ آ گیا.اب تو یہاں بڑی پکی سڑکیں ہیں.ایک زمانے میں یہاں کافی کچی گلیاں بھی ہوا کرتی تھیں.بہر حال جہاں بھی وہ جارہی تھی کیچڑ آیا.اس وقت اس کے ساتھ انگلستان کی بحریہ کا کمانڈر ان چیف تھا، سر براہ تھا جو ملکہ کا بڑا قریبی اور وفادار تھا اور بڑا خوش پوشاک اچھا لباس پہنے والا نو جوان تھا.جب راستے میں وہ کیچڑ آیا تو اس نے اپنا ایک بڑا قیمتی کوٹ پہنا ہوا تھا بلکہ وہ کوٹ تھا جو دربار کے لئے خاص ہوتا ہے.خاص موقعوں پر پہنا جاتا ہے.اس نے کیچڑ دیکھ فوراً اپنا کوٹ اتارا اور اس کیچڑ کی جگہ جو بالکل تھوڑی سی جگہ تھی اس پر ڈال دیا.ملکہ کو یہ دیکھ کر بڑا عجیب لگا کہ اتنا قیمتی کوٹ ہے اور اس نے یہ کیچڑ پر ڈال دیا ہے.اس نے بڑے حیران ہو کر اس سے پوچھا.ان کا نام ریلے (Raleigh) تھا.ریلے یہ کیا ہے؟ سر والٹر ریلے ( SirWalter Raleigh) اس کمانڈر کا نام تھا.تو اس افسر نے فوراً جواب دیا کہ ریلے کا کوٹ خراب ہونا اس سے بہتر ہے کہ ملکہ کا پیر یا جوتی خراب ہو.ملکہ کو یہ بات بڑی پسند آئی.اس کے بعد پھر اس افسر پر اور نوازشات بڑھتی چلی گئیں.وہ عروج پر پہنچایا گیا.گو بعد میں جیمز اول کے زمانے میں اس افسر پر
خطبات مسرور جلد 12 622 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء غداری کا الزام بھی لگا اور پھر اس کو سزائے موت بھی دی گئی.لیکن بہر حال باوجود اس کے کہ اس نے اس بادشاہ کے زمانے میں بھی ملک کے لئے بڑا کام کیا تھا.جنوبی امریکہ میں مہمات کی تھیں.اسے سزا ہوئی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 12 صفحه 78-79 خطبہ جمعہ بیان فرموده 29 مارچ 1929) تو اس مثال سے یہ سبق ملتا ہے کہ ریلے (Raleigh) جو افسر تھا ، با وجود خوش پوشاک اور وضع دار ہونے کے جب ملکہ کا معاملہ آیا تو اس نے اپنا فیشن اور رواداری اس پر قربان کر دی.پس اگر ایک دنیا دار ملکہ کی خوشنودی کے لئے فیشن چھوڑ سکتا ہے اپنا بہترین کوٹ قربان کر سکتا ہے جو اس کے لئے بڑی قیمتی چیز تھی.وضع قطع چھوڑ سکتا ہے.تو پھر یہ سوچنا چاہئے کہ دین کی ترقی کے لئے، اسلام کی اشاعت کے لئے، مذہب کی مضبوطی کے لئے اور اس کے قیام کے لئے اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کی رضا کے حصول کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جانا چاہئے.پس کیا ہمیں یہ مقصد اتنا بھی پیارا نہیں ہونا چاہئے جتنار یلے (Raleigh) کو ملکہ کی خوشنودی پیاری تھی.دنیاوی بادشاہ کو خوش کرنے کے بعد خدمات کے باوجود جیسا کہ میں نے بتایا اس کا انجام دردناک ہوا.اور اللہ تعالیٰ کو خوش کر کے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے تو انسان اس دنیا میں بھی انعامات کا وارث بنتا ہے اور انجام بھی بہترین ہوتا ہے.ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ مقاصد کا اعلیٰ اور عمدہ ہونا کافی نہیں ہے جب تک قربانی اور فدائیت بھی اس کے مطابق نہ ہو.ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا اس وقت ملے گی جب دنیا ہمارے دین پر حاوی نہیں ہوگی بلکہ دین دنیا پر حاوی ہو گا.بیشک اللہ تعالیٰ نے دنیا کمانے سے منع نہیں کیا.دنیا کی کوئی چیز جسے خدا تعالیٰ نے حرام نہیں کیا، نا جائز نہیں ہے.اعلیٰ لباس پہنا، عمدہ قسم کے کھانے کھانا، عمدہ مکانوں میں رہنا اور ان کی سجاوٹ کرنا ان میں سے کوئی چیز بھی ناجائز نہیں ہے.سب جائز ہیں.لیکن ان چیزوں کا اسلام کی ترقی میں روک ہو جانا نا جائز ہے.لوگ شادیاں کرتے ہیں شریعت یہ نہیں کہتی کہ تم بدصورت عورت تلاش کر کے شادی کرو.لیکن یہ ضرور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صرف دنیا دیکھنے کی بجائے عورت کی دینی حالت بھی دیکھ لیا کرو.(صحیح البخاری کتاب النکاح باب الاكفاء فی الدین حدیث نمبر 5090) شریعت یہ کہتی ہے کہ عورت تمہاری عبادت کے راستے میں روک نہ ہو.عورتیں تمہیں نمازوں
خطبات مسرور جلد 12 623 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء سے غافل نہ کریں.اگر ہمارے لڑکے اور لڑکیاں اس بات کا خیال رکھیں بلکہ ان کے ماں باپ بھی تو دین مقدم کرنے سے گھروں کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور وہ مقصد بھی حاصل ہو جائے گا جو ایک مومن کا مقصد ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.اسی طرح لباس ہے.یہ ہرگز منع نہیں کہ عمدہ لباس نہ پہنو لیکن اس سے ضرور روکا گیا ہے کہ ہر وقت اتنے فیشن میں ڈوبے نہ رہو کہ دینی کام سے غافل ہو جاؤ.ہر جگہ تمہیں یہ احساس رہے کہ فلاں جگہ میں جاؤں گا تو میرا لباس گندہ ہو جائے گا.گویا کسی وقت بھی دینی کام سے انسان غافل نہ ہو.اسی طرح نمازوں کی طرف توجہ کے بجائے اچھا لباس پہنا ہوا ہے، استری کیا ہوا لباس پہنا ہوا ہے، تو صرف اپنے کپڑوں کی شکنوں کی طرف نظر نہ رہے.پس اسلام یہ کہتا ہے کہ کبھی بھی تم دینی کام سے غافل نہ ہو بھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا حق ادا کر سکتے ہو.اسی طرح اعلیٰ کھانے ہیں ان سے دین نہیں روکتا لیکن ان کا دین کے راستے میں حائل ہو جانا ناجائز ہے.پس ہمیں ہمیشہ اپنے کاموں میں ان باتوں کو سامنے رکھنا چاہئے کہ جو چیزیں دین کے معاملے میں روک ہوں انہیں دُور کیا جائے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :.”دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسلام قبول کر کے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں.شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے.بالکل دنیا میں پڑ جاتے ہیں.فرمایا ”میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے.نہیں.صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے.انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کر دے انہوں نے حاصل کیا.یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈنم گائے.کوئی امران کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا.فرمایا کہ ”جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہو جاتے ہیں گویا دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں.ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ اور قابو پالیتا ہے.دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں.یہ وہ گروہ ہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 193-194) اور جیسا کہ شروع میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس میں نے پیش کیا تھا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے سے بیعت کا مقصد پورا ہوتا ہے اور اس کا فہم حاصل کرنے کے لئے دنیاوی کاموں کے
خطبات مسرور جلد 12 624 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء ساتھ دینی علم کا حاصل کرنا اور پھر اس کو اپنے پر لاگو کرنا بھی ضروری ہے.دینی علم حاصل کئے بغیر پتا ہی نہیں چل سکتا کہ دین ہے کیا، جسے میں نے دنیا پر مقدم کرنا ہے.اب نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے لیکن بہت سے مسلمان ہیں بلکہ شاید اسی فیصد سے بھی زائد ایسے ہوں جو نمازیں نہیں پڑھتے اور اگر کبھی ایک آدھ پڑھ بھی لیں تو اس طرح بڑی تیزی میں اور جلدی جلدی جیسے زبر دستی کوئی مکروہ کام کر رہے ہیں.اس لئے حضرت مصلح موعود نے لکھا ہے کہ بڑے بڑے آدمی ایسے بھی ہیں جو نمازوں میں سست ہیں بلکہ نواب اور رؤوسا کے لئے تو لکھتے ہیں کہ باجماعت نماز ایسی ہے جیسے ایک عام مسلمان کے لئے سور کھانا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 12 صفحہ 80 خطبہ جمعہ بیان فرموده 29 مارچ 1929 ) یعنی بڑی کراہت سے پڑھتے ہیں اور یہ صرف اس زمانے کی بات نہیں ، آج بھی یہ حالت ہے.جیسا کہ میں نے کہا امراء کی اکثریت بلکہ جن کے پاس تھوڑی سی بھی کشائش آجائے ، ان کو کشائش ہو جائے تو وہ بھی نمازوں سے غافل ہو جاتے ہیں اور اگر نمازیں پڑھ بھی لیں تو جو حالت نماز پڑھنے والے کی ہونی چاہئے اس سے وہ غافل ہیں.نمازیں پڑھنے والے تو انسانی اقدار کے محافظ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ نمازیں پاک تبدیلیاں تمہارے اندر پیدا کرتی ہیں.آجکل کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں غیر احمدیوں کی مساجد کی آبادی بہت بڑھ رہی ہے.لیکن اگر آبادی بڑھ رہی ہے تو ان نمازوں نے ان کے اندر کیا انقلاب پیدا کیا ہے؟ ملاں اور خطیب جن کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں وہ انہیں سوائے نفرتوں کے درس دینے کے اور کیا دیتے ہیں؟ اسی لئے ان نمازیوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود نفرتوں کی آگیں مزید بھڑک رہی ہیں.ہمارے خلاف تو جو کرتے ہیں کرتے ہیں ، خود آپس میں بھی یہ ایک دوسرے پر کچھ کم ظلم نہیں کر رہے.اس لئے کہ یہ عبادتیں دین کو مقدم کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ دنیا کے حصول کے لئے ہیں.بظاہر ایک اعلیٰ مقصد کے لئے مسجد میں جاتے ہیں لیکن باطن میں اس کے پیچھے دنیا وی ادنیٰ مقاصد ہوتے ہیں.پس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے سوچ کو بھی اعلیٰ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور قربانی ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتی ہے.پس یہ مساجد کی آبادی اگر اعلیٰ مقصد کو پیش نظر رکھ کر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ انسانیت کے حق قائم کئے جائیں، دین کی اشاعت اور اسلام کا قیام ہو تو سب بے فائدہ ہے.اور عام مسلمانوں کی یہ تکلیف دہ صورتحال ، ہمیں ہم جو احمدی ہیں، پہلے سے بڑھ کر اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد یا
خطبات مسرور جلد 12 625 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء مضمون ہے کس طرح سمجھا ہے یا ہمیں سمجھنا چاہئے.ہم نے اللہ تعالیٰ کا حق قائم کرنے کے ساتھ انسانیت کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور دین اسلام کی اشاعت اور قیام کے لئے کوشش بھی کرنی ہے پھر جتنا چاہے ہم دنیاوی نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں ہمارے لئے جائز ہے.اسلام کا خوبصورت پیغام دنیا کو پہنچانے کی ذمہ داری ہمارے سپرد کی گئی ہے.اسے ہم نے ادا کرنا ہے.قرآن کریم کی مختلف زبانوں میں اشاعت ہمارے ذمہ کی گئی ہے.تو اس کا حق ہم نے ادا کرنا ہے.مساجد کی تعمیر ہم نے ہر جگہ کرنی ہے تاکہ ہم حقیقی عبادت گزار بنانے والے بن سکیں تو اس کا حق ادا کرنے کے لئے دنیا کے ہر ملک میں ہم نے منصوبہ بندی کرنی ہے.انسانیت کی قدروں کو ہم نے اعلیٰ ترین نمونوں پر قائم کرنا ہے.اگر یہ سب کچھ ہم دنیا کمانے کے ساتھ کر رہے ہیں تو دنیا کمانا بھی ہمارا دین ہے.اگر یہ نہیں تو ہمارے جائز کام بھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں ناجائز ہیں.اگر نیا آئی فون آگیا ہے یا کسی کے پاس کوئی پیسے آئے تو کار خریدنی ہے یا اور سوٹ خریدنا ہے اور ان چیزوں کی خاطر ہم اپنے چندوں کو پیچھے ڈال رہے ہیں تو یہ جائز چیزیں ہونے کے باوجود ہمارے لئے ناجائز بن جاتی ہیں.اگر ایک جگہ پر مسجد کی تعمیر کے لئے کوشش ہو رہی ہے وہاں ہم اپنی دوسری ترجیحات کو فوقیت دے رہے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ ہمارے لئے یا ایک آدمی کے لئے یا عام حالات میں جائز چیزیں ہیں لیکن ایسے وقت میں پھر نا جائز ہو جاتی ہیں.جنگ اُحد میں جب یہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو اس وقت ایک صحابی جو کئی دن سے فاقے سے تھے جنگ لڑ کے ہٹے تھے.اس وقت فتح کی حالت پیدا ہو چکی تھی.ان کے پاس کچھ سوکھی کھجور میں تھیں.وہ سوکھی کھجوریں کھا رہے تھے.یہ اس وقت ان کا کھانا تھا جب یہ بات انہوں نے سنی.یہ اطلاع ان کو پہنچی تو فوراً انہوں نے کھجوریں پھینک دیں اور فورا جنگ میں کود پڑے اور جا کر شہید ہو گئے.اس وقت انہوں نے اپنے پیٹ کی اور بھوک کی فکر نہیں کی بلکہ ان کھجوروں کا کھانا بھی گناہ سمجھا کیونکہ اس وقت دین یہ تقاضا کر رہا تھا کہ کھجوریں کھانا گناہ ہے.پس جو کام دین کے راستے میں روک ہے وہ خواہ کتنا ہی اعلیٰ اور عمدہ کیوں نہ ہونا جائز ہے اور جو دین کے راستے میں روک نہیں وہ خواہ کتنا ہی آرام و آسائش والا ہو تو وہ برا نہیں ، وہ جائز بن جاتا ہے.پس ہمیں وہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ہمارے دلوں کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے.اللہ تعالیٰ تو دلوں کے حال جانتا ہے اور دلوں کے حال جاننے کے بارے میں یہ روایت ہے کہ
خطبات مسرور جلد 12 626 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مسجد میں بیٹھے تھے.لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے.اسی اثناء میں تین آدمی سامنے آئے.دو آدمی تو سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آگئے اور ایک ان میں سے چلا گیا.وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے.ان میں سے ایک جو تھا اس نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب حلقے میں خالی جگہ پڑی ہے وہ جلدی سے بڑھ کے آگے آیا اور آپ کے قریب آ کے بیٹھ گیا.دوسرا جو تھا وہ لوگوں کے پیچھے بیٹھ گیا جہاں کھڑا تھا وہیں اس کو تھوڑی سی جگہ ملی تو بیٹھ گیا.تیسرا جو تھا وہ سمجھا کہ جگہ نہیں ہے وہ پیٹھ پھیر کر چلا گیا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطاب سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ان تین آدمیوں کی حالت نہ بتاؤں.ان میں سے ایک نے تو اللہ کے پاس جائے پناہ لی اور اللہ نے اسے پناہ دی جو میرے قریب ہو کے بیٹھ گیا تھا اور وہ جود وسرا تھا اس نے شرم کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے شرم کی یعنی اس کا وہاں اس مجلس میں بیٹھنا اس کے گناہوں کی دوری کا باعث بنا.اس نے حیا کی اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے گناہوں کو معاف کیا، اور حیا کی.اور جو تیسرا تھا اس نے منہ پھیر لیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا.(صحيح البخاری کتاب العلم باب من قعد حيث ينتهى به المجلس...حدیث نمبر 66) اب بظاہر تو یہ تین آدمیوں کا آنا، بیٹھنا اور ان میں سے ایک کا چلے جانا معمولی بات ہے کیونکہ اس تیسرے شخص کے خیال میں تھا کہ یہ آواز مجھ تک نہیں پہنچ رہی اس لئے بیٹھنے کا فائدہ نہیں ہے.لیکن چونکہ یہ افعال، ان تینوں کے جو یہ کام تھے، یہ جو فعل تھا اس کا معاملہ دل سے تھا، دل سے پیدا ہوئے تھے ، دل کی کیفیت کا اظہار تھا اور اللہ تعالیٰ کی نظر بھی دل پر ہوتی ہے اور اس کے انعامات دل کی حالت کے مطابق ہوتے ہیں اس لئے دل کی حالت جزا اور نتیجے کے لحاظ سے بڑی اہم ہے.یہ چیز یا درکھنے والی ہے.پس یہاں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے معاملہ کیا.اللہ تعالیٰ تو دلوں کے حال جانتا ہے اس نے ان کی دل کی حالت سے دیکھ لیا کہ کون دل کے معاملے میں کس حد تک آگے بڑھا ہے اور کس نے ستی دکھائی ہے.پہلے دو کو ان کے درجے کے مطابق انعام ملا اور تیسرا محروم رہا بلکہ ناراضگی کا مورد بنا.پس مومن کو چاہئے کہ دیکھ لے کہ اس کے سامنے جو مقصد ہے اس کے لئے اس نے کس حد تک قربانی کی ہے اگر وہ اس حد تک قربانی کر دے جس کی ضرورت ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا اور اس جزا کا مستحق ٹھہرتا ہے.قربانی ہمیشہ یا تو طاقت کے مطابق ہوتی ہے یا ضرورت کے مطابق.یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر دفعہ طاقت کے مطابق قربانی دی جائے.بعض دفعہ شریعت صرف اتنی قربانی کا تقاضا کرتی ہے جتنی
خطبات مسرور جلد 12 627 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء ضرورت ہے.مثلاً اگر کوئی مسافر ہے.آیا ہے چند آدمی کھڑے ہیں اور وہ سو پاؤنڈ کا مطالبہ کر رہا ہے ضرورت جائز ہے تو ان میں سے بعض لوگوں نے یا جو بھی کھڑے تھے انہوں نے اپنی جیب کے لحاظ سے ضرورت پوری کر دی لیکن پھر بھی دس پاؤنڈ کی کمی رہ گئی تو اتنے میں کوئی اور شخص آتا ہے جو صاحب حیثیت ہے.اگر وہ چاہے تو وہ اکیلا ہی اس کی ضرورت پوری کر سکتا ہے لیکن ضرورت کے مطابق اس وقت صرف دس پاؤنڈ چاہئے تھے تو اس نے وہ دے دیئے تو یہ چیز ایسی ہے جس سے مطالبہ ہی اتنا کیا جارہا ہے، بیشک اس کی حیثیت زیادہ ہے لیکن ضرورت کے مطابق اس نے وہ پوری کر دی.یہ ضرورت کے مطابق قربانی ہے جو نیک نیتی سے اس صاحب حیثیت نے کر دی.تو اس کا اسے ثواب ہے.اسی طرح کسی تحریک کے لئے اگر چندے کا مثلاً کہا جا رہا ہے تو لوگ سینکڑوں ہزاروں میں دے رہے ہیں لیکن ایک غریب اپنی حیثیت کے مطابق چند روپے یا پاؤنڈ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو دلوں پر نظر رکھتا ہے اس کے اس فعل کو نواز دیتا ہے اور ایسا انسان اپنے مقصد کو پالیتا ہے.اس امیر نے بھی مقصد کو پالیا کہ ضرورت کے وقت اپنے لحاظ سے معمولی سی رقم دی.اس غریب کی مدد کر دی اور غریب نے بھی اپنے مقصد کو پالیا کہ اپنی حیثیت کے مطابق یا اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کرلیا.اس لئے ایک حدیث میں بھی آتا ہے کہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ایک درہم والا لاکھ درہم پر اس لئے سبقت لے گیا کہ ایک شخص نے دو درہم میں سے ایک دیا اور ایک شخص کے پاس لاکھوں تھا اس نے اس میں سے صرف لا کھ دیا جو اس کی حیثیت کے مطابق بہت کم تھا.(سنن النسائی کتاب الزكاة باب جهد المقل حدیث نمبر 2527) پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہونی چاہئے اور اس خرچ کے معاملے میں ان دونوں کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہی تھی.پس مومن کا اصل کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے اپنے دل کی کیفیت کو ڈھالے.مقصود اس کا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہو اور اس میں اس کی فلاح اور کامیابی ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے اپنے دل کی کیفیت کو اس کے مطابق ڈھالتا ہے تو اسی میں اس کی فلاح اور کامیابی ہے.اور یہی دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے.ہمارے ذمہ جیسا کہ میں نے کہا بہت بڑے کام لگائے گئے ہیں اور جان مال وقت اور عزت قربان کرنے کے لئے ہم عہد بھی کرتے ہیں.اس کے لئے ہمیں ہمیشہ سنجیدگی سے غور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ کس طریق سے ہم اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے دین کو دنیا پر
خطبات مسرور جلد 12 628 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء مقدم کرنے کے لئے اپنی صلاحیتیں اور استعدادیں بروئے کارلائیں.انصار اللہ کا اجتماع بھی آج سے ہو رہا ہے شوریٰ بھی ہو رہی ہے.ان کو بھی اپنی شوریٰ میں غور کرنا چاہئے بھی اور ان دنوں میں اپنے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ کس حد تک ہم اپنے معیار دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے بڑھا سکتے ہیں.اور بڑھانے چاہئیں.بلکہ حاصل کرنے چاہئیں انصار اللہ کی عمر تو ایسی ہے جس میں ان کو نمونہ بنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کو ہماری کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے.یہ تو اس کا احسان ہے، اس کی عطا ہے کہ ہمیں یہ کہہ کر کہ تم دین کو دنیا پر مقدم رکھو تو میری رضا حاصل کرو گے ہمیں نوازا ہے ورنہ مال کی میں نے مثالیں دی ہیں اس کی خدا تعالیٰ کو ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ہمارا یا کسی کا بھی محتاج نہیں ہے.یہ تمام وسائل ، ذخائر ، سونا چاندی، زمینیں اس نے پیدا کی ہیں.اگر وہ چاہتا تو دین کا کام کرنے والوں کو یہ سب کچھ بانٹ دیتا خود مہیا کر سکتا تھا لیکن ہمیں وہ ہمارے مقاصد سے آگاہ فرما کر پھر اس کے حصول کے لئے قربانی کی طرف توجہ دلاتا ہے تا کہ ہم اس کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں.صرف مال ہی نہیں اس نے ہمیں اولا دبھی دی ہے.اللہ تعالیٰ اولاد کی تربیت کے اور طریقے بھی ایجاد فرما سکتا تھا لیکن اس نے ماں باپ کو کہا کہ ان بچوں کی تربیت کرو.ان پر اپنی حیثیت کے مطابق اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے خرچ کرو تا کہ یہ دین کے کام آسکیں.پس ایک احمدی ماں باپ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ دین کے کام آ سکیں اور تبھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی بات پوری ہوتی ہے، عہد پورا ہوتا ہے.ان بچوں کی ایسی تربیت کرو کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ادراک انہیں بچپن سے حاصل ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ یہ چیز میں ہمارے سپرد کر کے ہماری آزمائش بھی کرتا ہے اور ہمیں نو از تا بھی ہے.یہاں میں ہر سطح کے عہدیداروں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو نبھانے کی ذمہ داری دوسروں سے بڑھ کر ان کو اپنی جھنی چاہئے.ایک مقصد کے حصول کے لئے ان کی ذمہ داری لگائی گئی ہے جس کے لئے انہیں اپنی قربانی کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے.اسی طرح ہر سطح کا عہد یدار چھوٹی سے چھوٹی سطح سے لے کر ، محلے سے لے کر مرکزی سطح تک اپنی حیثیت کا صحیح اندازہ کر کے اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور کرنی چاہئے.یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر دلوں پر ہے اور اللہ تعالیٰ تڑپ کے ساتھ کام کرنے والوں کے اخلاص کو برکت بخشتا ہے اور انہیں قرب میں جگہ دیتا ہے اور ایک عہدیدار کو اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے اپنی بھر پور کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہر سطح کے عہد یدار کو بھی اور ہر احمدی کو بھی، مجھے بھی ، آپ کو بھی سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم
خطبات مسرور جلد 12 629 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء کرنے کے عہد کا صحیح ادراک بھی حاصل کریں اور اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں.آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے.پاکستان میں ایک شہادت ہوئی ہے.مکرم لطیف عالم بٹ صاحب ابن مکرم خورشید عالم بٹ صاحب آف کامرہ ضلع اٹک کو 15 اکتوبر کی رات کو تقریباً سات بجے ان کے گھر کے قریب دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.واقعہ یہ ہوا کہ گھر کے قریب ہی ان کی ایک سٹیشنری کی دکان ہے.معمول کے مطابق واپس آ رہے تھے اپنے گھر کے قریب گلی میں پہنچے تھے کہ پیچھے سے دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے انہیں بٹ صاحب کہہ کے آواز دی.جیسے ہی یہ واپس مڑے ہیں تو ایک شخص نے ان پر فائر کر دیا اور فائرنگ کے نتیجے میں چار پانچ گولیاں شہید مرحوم کے سینے میں لگیں.فائرنگ کے بعد ان کے بیٹے ذیشان بٹ صاحب کو کسی نے اطلاع دی تو وہ فوری موقع پر پہنچے.بہر حال ریسکیو والے بھی پہنچ گئے تھے.لطیف بٹ صاحب اس وقت ہوش میں تھے مگر سول ہسپتال اٹک جاتے ہوئے راستے میں جام شہادت نوش فرمایا.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ لطیف عالم بٹ صاحب کے خاندان کا تعلق کا مونکی ضلع گوجرانوالہ سے تھا.شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذان کے والد مکرم خورشید عالم بٹ صاحب کے ذریعہ ہوا جن کو 1934ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی.شہید مرحوم اپریل 1952ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے.ایف.اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایئر فورس میں بھرتی ہو گئے.شہید مرحوم کا مرہ ایئر فورس سے کارپورل (Corporal) ٹیکنیشن کے رینک سے 1991ء میں ریٹائر ہوئے.اب ان کا بڑا بیٹا عزیزم خرم بٹ بھی ایئر فورس میں ملازمت کر رہا ہے.ریٹائرمنٹ کے بعد شہید مرحوم کتابوں کا کاروبار کرتے تھے زیادہ قانونی کتابوں کا تھا.اور پاکستان کی مختلف کچہریوں میں وکلاء کو کتب دیا کرتے تھے اور بڑے مشہور تھے.غیر احمدی وکلاء بھی ان کے بڑے معترف تھے.شہید مرحوم شہادت کے وقت بطور ناظم اشاعت انصار اللہ کے عہدے پر خدمت کی توفیق پارہے تھے.اس کے علاوہ شہید مرحوم کو ضلعی سطح پر سیکرٹری ضیافت اور خدام الاحمدیہ میں ناظم صحت جسمانی کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی.شہید مرحوم کا گھر لمبے عرصے سے نماز سینٹر ہے.اس کے علاوہ جماعت کے دیگر پروگرام جلسے اجلاسات اور میٹنگ بھی ان کے گھر منعقد ہوتی تھیں.شہید مرحوم ہمیشہ جماعتی خدمت کے لئے تیار رہتے اور جو کام بھی سپرد کیا جاتا اسے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے.کبھی انکار نہیں کرتے تھے.شہید مرحوم بہت مہمان نواز تھے.
خطبات مسرور جلد 12 630 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 اکتوبر 2014ء خلافت سے انتہائی محبت اور عشق کا تعلق ، اطاعت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے.پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ نماز جمعہ کا بڑا خیال رکھتے تھے.نماز جمعہ سے یہ دو گھنٹے قبل ہی مسجد میں چلے جایا کرتے تھے.مرحوم بہت دلیر اور نڈر انسان تھے.08-2007ء میں ان پر نامعلوم افراد نے حملہ کی کوشش کی تھی.حملہ آور نے ان پر فائز کیا مگر گولی پسٹل میں پھنس گئی اور انہوں نے اس وقت ایک حملہ آور کو پکڑ لیا اور کافی مزاحمت ہوئی لیکن بہر حال وہ بعد میں بھاگ گیا.شہید مرحوم اعلیٰ اخلاق اور بارعب شخصیت کے مالک تھے.بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت شوق تھا.شہادت کے وقت ان کی عمر 62 سال تھی.وصیت کا فارم انہوں نے فل (fill) کر دیا تھا اور وصیت ابھی پر اسس (Process) میں تھی لیکن اب کار پرداز کو ان کی وصیت کو منظور کر لینا چاہئے.بہر حال ان کی وصیت میں منظور کرتا ہوں اس لئے بحیثیت موصی ان کے ساتھ جو بھی کارروائی کرنی ہے کار پرداز کرے.مکرم امیر صاحب ضلع نے بتایا کہ شہید مرحوم میں عہد یداران اور نظام کی اطاعت کا غیر معمولی جذبہ تھا اور جماعتی پروگراموں اور اجلا سات میں ہمیشہ شامل ہوتے.کبھی کسی پروگرام سے غیر حاضر نہیں ہوئے.پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی عزیزہ ارم وسیم اہلیہ مکرم سید وسیم احمد صاحب اور چار بیٹے خرم بٹ جو بیئر فورس میں ملازم ہیں.ذیشان بٹ یہ بھی تعلیم کے بعد والد کے ساتھ ہی کاروبار کر رہے تھے، عمر بٹ الیکٹریکل انجنیئر نگ میں زیر تعلیم ہیں اور ایک علی بٹ صاحب ہیں جو ملا زمت کر رہے ہیں.یہ سوگوار چھوڑے ہیں.وہاں محمود مجیب اصغر صاحب ایک زمانے میں امیر ضلع رہے ہیں.کہتے ہیں کہ انہوں نے ایئر فورس سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ ہیں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی اور اس نیت سے کی تھی کہ وہاں مستقل رہنے والا کوئی نہیں کیونکہ ایئر فورس کے آفیسر یا ایئر فورس میں فیکٹری میں کام کرنے والے لوگ آتے ہیں اور ٹرانسفر ہو کے چلے جاتے ہیں.جماعت نہیں تھی.اس لئے انہوں نے وہاں اپنا گھر بھی بنایا تھا کہ نماز سینٹر بھی وہاں بنے گا اور جماعت بھی قائم ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ ان کی اس نیت کو پھل لگائے اور اللہ کرے کہ اس شہادت کے بدلے اللہ تعالیٰ ہمیں سینکڑوں ہزاروں احمدی وہاں اس علاقے میں عطا فرمائے اور جماعت قائم ہو.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے ان کے لواحقین کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.پاکستان میں افراد جماعت کو اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے محفوظ رکھے.دشمن جو ہے اپنی دشمنی میں اب بڑھتا چلا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ جلد ہمارے لئے امن اور سکون کے حالات پیدا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 07 نومبر 2014 ء تا 13 نومبر 2014 ءجلد 21 شمارہ 45 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 631 43 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24 /اکتوبر 2014 ء بمطابق 24 اخاء 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: دو دن ہوئے الفضل انٹر نیشنل کا تازہ شمارہ دیکھ رہا تھا.اس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک خطاب کا ایک حصہ دیا ہوا تھا جس میں آپ نے اس وقت 1937ء میں یہ تو جہ دلائی تھی کہ ابھی کئی صحابہ موجود ہیں اس لئے ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات اور کلمات جمع کروائے جائیں کیونکہ ایک زمانہ آئے گا جب بہت سے مسائل کے حل کیلئے ان باتوں کی بہت اہمیت ہو جائے گی.ایک مثال آپ نے بیان فرمائی کہ ایک نوجوان صحابی نے مجھے بتایا کہ انہیں صرف اتنا یاد ہے کہ میں جب بہت چھوٹا سا تھا تو ایک دن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ لیا اور کچھ دیر آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھا اور برابر کھڑا رہا.کچھ دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ہاتھ علیحدہ کیا اور کسی کام میں مصروف ہو گئے.آپ لکھتے ہیں کہ اس نے تو یہی کہا کہ مجھے صرف اتنا یاد ہے.گو میں صحابی ہوں لیکن صرف مجھے اتنی بات یاد ہے.اب یہ ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن آپ نے کہا کہ ان باتوں میں بھی بڑے نتائج نکلتے ہیں.مثلاً اس ایک چھوٹی سی بات سے ہی پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو بھی بزرگوں کی مجالس میں جانا چاہئے.پھر یہ بھی کہ جب ضرورت محسوس ہو تو محبت سے اپنا ہاتھ چھڑ والیا.پکڑا رکھا ٹھیک ہے.لیکن جب ضرورت محسوس ہوئی ، کام کرنا تھا تو محبت سے اپنا ہاتھ چھڑ والیا.آپ لکھتے ہیں کہ ایسی باتیں بعض دفعہ بعد میں اٹھنے والے مسائل کا جواب ہوتی ہیں.پس ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جو صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات مسر در جلد 12 632 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء سے تعلق میں بیان کی ہے اس میں سبق ہوتا ہے کہ بچوں سے بھی محبت سے ہاتھ پکڑے رکھا، چھڑوا یا نہیں.جب ضرورت ہوئی کام کی ضرورت ہوئی تو طریقے سے، محبت سے، پیار سے چھڑوا بھی لیا تا کہ بچے پر برا اثر بھی نہ پڑے.ما خواز الفضل انٹر نیشنل مؤرخہ 24 تا 30 اکتوبر 2014 ، صفحہ 4 ، ماخوذ از مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 552 تا 557) صحابہ کے واقعات تو پہلے بھی میں بیان کرتا رہا ہوں.حضرت مصلح موعود نے اپنے انداز میں بھی اپنے بعض واقعات بیان کئے یا جو آپ کے سامنے ہوئے جو آپ نے دیکھے وہ آپ بیان فرماتے رہے اور آپ کے مختلف خطابات اور خطبات میں یہ چھپے ہوئے ہیں.ان میں سبق بھی ہیں.نصائح بھی ہیں.تاریخ بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی سیرت بھی ہے.اس کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں.یہ سب باتیں ہماری زندگیوں میں بڑا مؤثر کردار ادا کرتی ہیں.یہ باتیں ہماری زندگیاں سنوانے والی ہیں.ہمارے ایک واقف زندگی حبیب الرحمن صاحب کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو مختلف جگہوں سے نکال کے جمع کریں.اچھی کوشش ہے لیکن بعض باتیں بغیر سیاق و سباق کے واضح نہیں ہوسکتیں کیونکہ انہوں نے صرف واقعات اکٹھے کر دیئے ہیں.اس کیلئے کچھ اصول اور طریقے بنانے ہوں گے.بحر حال ایک خاص شکل دیئے جانے کے بعد جب یہ علیحدہ چھپ جائے گی تو امید ہے کہ ہمارے لٹریچر میں اچھا اضافہ ہوگا.اس وقت میں نے یہاں بیان کرنے کیلئے بعض باتیں اور واقعات لئے ہیں جو حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے اپنے ہیں یا آپ نے دوسروں کے واقعات اپنے انداز میں بیان فرمائے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا اس میں نصائح بھی ہیں اور بعض باتوں کی وضاحتیں بھی.چند ایک آج میں بیان کروں گا.کسی خاص موضوع پر نہیں بلکہ مختلف قسم کے واقعات ہیں اور آئندہ بھی حسب موقع بیان ہوتے رہیں گے.انشاء اللہ خطبے میں اس لئے میں یہ واقعات بیان کرتا ہوں اور کروں گا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں خطبہ جمعہ جو ہے یہ سب سے زیادہ جماعت احمدیہ میں سنا جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض مسائل حل کرنے میں یہ باتیں کردار ادا کرتی ہیں.اس لئے ہر احمدی تک یہ پہنچنا ضروری ہیں اور خطبہ ہی اس کا بہترین ذریعہ ہے.حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازہ پر آیا میں وہاں کھڑا تھا.اندر کمرہ میں حضرت صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) تھے.میں نے اس کتے کو اشارہ کیا اور کہا کہ ٹیپوٹیپو ٹیپو.حضرت صاحب بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا تمہیں شرم نہیں
خطبات مسرور جلد 12 633 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء آتی کہ انگریزوں نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپ رکھ دیا ہے اور تم ان کی نقل کر کے کتے کو ٹیپو کہتے ہو.خبر دار آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا“.لکھتے ہیں کہ میری عمر شائد آٹھ نو سال کی تھی.وہ پہلا دن تھا جب میرے دل کے اندر سلطان ٹیپو کی محبت قائم ہوگی اور میں نے سمجھا کہ سلطان ٹیپو کی قربانی رائیگاں نہیں گئی.اللہ تعالیٰ نے اس کے نام کو اتنی برکت بخشی کہ خدا تعالیٰ کا زمانے کا مامور اس کی قدر کرتا ہے اور اس کیلئے غیرت رکھتا ہے.الفضل ربوہ یکم اپریل 1958ء صفحہ 3 جلد 47 نمبر 76) اس واقعہ سے جہاں ایک طرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بچے کے ہر فعل کو بلا امتیاز برداشت کرنا حلم کی تعریف میں داخل نہیں وہاں حضرت صاحب کی بے پناہ دینی اور قومی حمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے.وہ بچہ جو آپ کے نہایت محنت سے لکھے ہوئے قیمتی مسودات کو جن پر خدا جانے کتنے گھنٹوں یا راتوں کی محنت آپ نے صرف فرمائی ہوگی ، آن واحد میں تیلی دکھا کر خاکستر کر دیتا ہے اس کا یہ فعل تو آپ برداشت فرمالیتے ہیں اور اس تکلیف کا کوئی خیال نہیں کرتے جو اس کے نتیجے میں دوبارہ آپ کو اٹھانی پڑی.(ماخوذ از سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 78 شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ) یہ واقعہ جس کا وہ حوالہ دے رہے ہیں یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود نے جب آپ چھوٹے بچے تھے اور بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب جو آپ تصنیف فرمار ہے تھے ، اس کا جومسودہ لکھا ہوا تھا اس سارے کے سارے کو آگے آگ لگا دی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات پر کچھ نہیں کہا.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام از مولوی عبد الکریم صاحب صفحہ 21-20 پبلشر ابوالفضل محمود قادیان) تو آپ یہی فرما رہے ہیں کہ اس کو تو برداشت کر لیا جو آپ کی اتنی محنت تھی لیکن یہ برداشت نہیں ہوا کہ ایک قومی لیڈر جو ہے اس کی ذراسی بھی ہتک کی جائے.فرماتے ہیں لیکن ایک مسلمان سلطان جو قومی حمیت میں شہید ہوا اور جس کے ساتھ آپ کا اسلام کے سوا کوئی اور رشتہ نہ تھا اس کے نام کو ایک بچے کا لاعلمی کی بنا پر بھی اس رنگ میں لینا جس سے اس کی تحقیر ہوتی ہو آپ سے برداشت نہ ہوسکا.اس واقعہ میں ان لوگوں کیلئے بھی سبق ہے جو حضرت صاحب پر انگریز کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے کی جسارت کرتے ہیں.قومی حمیت سے لبریز وہ دل جو سلطان فتح علی ٹیپو کی
خطبات مسرور جلد 12 634 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء محض اس لئے انتہائی عزت کرتا تھا کہ انگریز کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے اس نے اپنی زندگی مردانہ وار شار کر دی.کیسے ممکن ہے کہ ایسے غیور انسان کے متعلق کسی غیر قوم کے ایجنٹ ہو نے کا واہمہ تک بھی دل میں لایا جائے.(ماخوذ از سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 78 شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن) پھر ایک جگہ آپ بیان فرماتے ہیں کہ ”میرے نزدیک ان ماں باپ سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں جو بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کچھ بیمار تھے اس لئے جمعہ کیلئے مسجد میں نہ جا سکے میں اس وقت بالغ نہیں ہوا تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں.( چھوٹا تھا.بچہ تھا.تاہم میں جمعہ پڑھنے کیلئے مسجد کو آرہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت تک یاد نہیں رہ سکتی مگر واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے محمد بخش ان کا نام ہے وہ اب قادیان میں ہی رہتے ہیں.میں نے ان سے پوچھا.آپ واپس آرہے ہیں.کیا نماز ہو گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا.آدمی بہت ہیں.مسجد میں جگہ نہیں تھی.میں واپس آ گیا.میں بھی یہ جواب سن کر واپس آ گیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے؟ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا.میں نے دیکھا کہ آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا.آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت اثر ہوا.جواب میں میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آ گیا.آپ یہ کن کر خاموش ہو گئے.لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے کیلئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی کہ کیا آج لوگ مسجد میں لوگ زیادہ تھے ؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ میں خود تو مسجد میں گیا نہیں تھا.معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط نہی ہوئی.میں ان کی بات سے یہ سمجھا تھا کہ مسجد میں جگہ نہیں.مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے، دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ میں نے جھوٹ بولا.مولوی عبد الکریم صاحب نے جواب دیا کہ ہاں حضور ! آج واقعہ میں بہت لوگ تھے.میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی.خدا نے میری برایت کیلئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرادی یا فی الواقعہ اس
خطبات مسرور جلد 12 635 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء دن غیر معمولی طور پر زیادہ لوگ آئے تھے.بہر حال یہ ایک واقعہ ہوا ہے جس کا آج تک میرے قلب پر گہرا اثر ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نماز با جماعت کا کتنا خیال رہتا تھا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 9 صفحہ 164-163 ) پھر آپ اپنے بچپن کا ایک ہلکا پھلکا واقعہ اپنی تحریر کے بارے میں اور تعلیم کے بارے میں بھی بیان فرماتے ہیں.لکھتے ہیں کہ ”میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا ہے.آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں.اس لئے آپ کا طریق تھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے.میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ.اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھ میں سخت لگرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف نگروں کی وجہ سے پیدا ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے میری صحت کیلئے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے شروع کر دیئے.مجھے اس وقت یاد نہیں کہا آپ نے کتنے روزے رکھے.بہر حال تین یا سات روزے آپ نے رکھے.جب آخری روزے کی افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کیلئے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو ( مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس وقت ) یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے.لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی.چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے.میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا.دو چارفٹ پر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہوا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہوا ہو تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آسکتی.صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگر اس میں بھی لگرے پڑ گئے اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود وعلیہ الصلوۃ والسلام نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ پڑھائی اس کی مرضی پر ہو گی“.(اب دیکھیں اس میں پیشگوئی حضرت مصلح موعود کا بھی ایک پہلو نکلتا ہے کہ باوجود سب کچھ کے، اس بیماری کے اللہ تعالیٰ نے جوفر ما یا تھا معلوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا ، وہ بھی کس طرح اللہ تعالیٰ نے پر کیا ہے.آپ نے ایک جگہ لکھا ہوا ہے کہ میں نے لاکھوں کتابیں پڑھی ہوئی ہیں.اور بڑی جلدی پڑھ لیا کرتے تھے.) بہر حال فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح وعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے.اگر نہ پڑھے تو اس پر
خطبات مسرور جلد 12 636 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء زور نہ دیا جائے کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بارہا مجھے صرف یہی فرماتے تھے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے ( یعنی حضرت خلیفہ اول سے ) پڑھ لو.اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے“.نا فرماتے ہیں کہ ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کو اللہ تعالیٰ نے اسی سال ہمارے ساتھ ملنے کی توفیق عطا فرمائی ہے ( یہ پہلے کچھ عرصے کیلئے غیر مبائع میں علیحدہ ہو گئے تھے.) تو فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے حساب کے استاد تھے اور لڑکوں کو سمجھانے کیلئے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے بورڈ دکھائی نہیں دیتا تھا کیونکہ جتنی دور بورڈ تھا اتنی دور تک میری بینائی کام نہیں کر سکتی تھی.پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں بھی دیکھ نہیں سکتا تھا کیونکہ نظر تھک جاتی تھی.اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا.کبھی جی چاہتا تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا.ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ نہیں پڑھتا.کبھی مدرسے میں آجاتا ہے اور کبھی نہیں آتا.مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ شکایت کی تو میں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس قدر ناراض ہوں.لیکن حضرت مسیح موعود د علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا کہ (ماسٹر فقیر اللہ صاحب !) آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدرسہ چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے.پھر ہنس کر فرمانے لگے اس سے ہم نے آٹے دال کی دکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے.حساب اسے آئے نہ آئے کوئی بات نہیں.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کون سا حساب سیکھا تھا.اگر یہ مدرسے میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے.حساب کی بھی بات بتادوں کہ حضرت مصلح موعود کا بعد میں حساب ایسا تھا کہ تقریر کے دوران ہی لاکھوں کی ضر میں تقسیمیں کر کے حساب سامنے رکھ دیا کرتے تھے.بہر حال فرماتے ہیں کہ یہ سن کر ماسٹر صاحب واپس آگئے.میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور پھر مدرسے میں جانا ہی چھوڑ دیا.کبھی مہینے میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی غرض اس رنگ میں میری تعلیم ہوئی اور میں درحقیقت مجبور بھی تھا کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف
خطبات مسرور جلد 12 637 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا اور چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یاساگ کا پانی مجھے دیا جا تا رہا.( جگر کی خرابی کیلئے بھی یہ علاج اچھا ہے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی ).پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی تھی.اس کیلئے بھی علاج ہوتا تھا اور پھر آنکھوں کے گرے.کافی بیماریاں تھیں.پھر اس کے ساتھ بخار بھی شروع ہو جاتا تھا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا تھا.تو کہتے ہیں ” میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھ لے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے.ان حالات سے ہر شخص انداز ہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہو گا.ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ نے میرا اردو کا امتحان لیا.میں اب بھی بہت بدخط ہوں.( لکھائی اچھی نہیں.) مگر اس زمانے میں میرا اتنا بدخط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ میں نے کیا لکھا ہے.انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتالگا ئیں میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتا نہ چلا.ان کی طبیعت بڑی تیز تھی غصے میں فور احضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچے.میں بھی اتفاقا اس وقت گھر میں ہی تھا.ہم تو پہلے ہی ان کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لیکر پہنچے تو اور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نامعلوم کیا ہو.خیر میر صاحب آگئے اور حضرت صاحب سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں ہے.میں نے اس کا اردو کا امتحان لیا.آپ ذرا پر چہ تو دیکھیں.اس کا اتنا بر اخط ہے کہ کوئی بھی اس کا خطا نہیں پڑھ سکتا.پھر اسی جوش کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہنے لگے کہ آپ بالکل پرواہ نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہورہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب میر صاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا.بلا ؤ حضرت مولوی صاحب کو.جب آپ کو کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آپ ہمیشہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بلا لیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے بڑی محبت تھی.آپ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچا ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے سر اٹھا کر نہیں دیکھا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.” مولوی صاحب! میں نے آپ کو اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میر صاحب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا.میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لے لیا جائے“.یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قلم اٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا کہ اس کو نقل کرو.بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا.میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر نقل کر دیا.اول تو عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی.دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اور بھی زیادہ آسانی ہوتی ہے.کیونکہ
خطبات مسرور جلد 12 638 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء اصل چیز سامنے ہوتی ہے.پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا.الف اور باء وغیر ہ احتیاط سے ڈالے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے.مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے ہی میری تائید میں ادھار کھائے بیٹھے تھے.فرمانے لگے حضور! میر صاحب کو یونہی جوش آ گیا ہے ورنہ خط تو اچھا بھلا ہے.لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول نے پھر مجھے کہا کہ میاں مجھ سے بخاری تو پوری پڑھ لو.دراصل میں نے آپ کو بتا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب سے قرآن اور بخاری پڑھ لو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی میں نے آپ سے قرآن اور بخاری پڑھنی شروع کر دی تھی گونانے ہوتے رہے.اسی طرح طلب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایت کے ماتحت میں نے آپ سے شروع کر دی تھی.(ماخوذ از الموعود، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 569565) پھر جب آپ نے تشخیز الا ذبان رسالہ جاری فرمایا تو اس کے بارے میں حضرت خلیفہ اول کا کیا کیا سلوک تھا.کیا دیکھنا چاہتے تھے.اس بارے میں لکھتے ہیں کہ عرصہ ہوا کہ جبکہ پہلے پہل میں نے چند ایک دوستوں کے ساتھ مل کر رسالہ تفخیذ الاذہان جاری کیا تھا اس رسالے کو روشناس کرانے کیلئے جو مضمون میں نے لکھا جس میں اس کے اغراض و مقاصد بیان کئے گئے تھے وہ جب شائع ہوا تو حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور اس کی خاص تائید کی اور عرض کیا کہ یہ مضمون اس قابل ہے کہ حضور ا سے ضرور پڑھیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسجد مبارک میں وہ رسالہ منگوایا اور غالبا مولوی محمد علی صاحب سے وہ مضمون پڑھوا کر سنا اور تعریف کی.لیکن اس کے بعد جب میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا تو آپ نے فرمایا میاں تمہارا مضمون بہت اچھا تھا مگر میرا دل خوش نہیں ہوا.اور فرمایا کہ ہمارے وطن میں ایک مثل مشہور ہے کہ اونٹ چالی اور ٹوڈا بتائی.اور تم نے یہ مثل پوری نہیں کی.میں تو اتنی پنجابی نہیں جانتا تھا کہ مطلب سمجھ سکتا.اس لئے میرے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھ کر آپ نے فرما یا شاید تم نے اس کا مطلب نہیں سمجھا یہ ہمارے علاقے کی ایک مثال ہے.کوئی شخص اونٹ بیچ رہا تھا اور ساتھ اونٹ کا بچہ بھی تھا جسے اس علاقے میں ٹوڈا کہتے ہیں.کسی نے اس سے قیمت پوچھی تو اس نے کہا کہ اونٹ کی قیمت تو چالیس روپے ہے مگر ٹوڈے کی بیالیس روپے.اس نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے.تو اس نے کہا کہ ٹو ڈا اونٹ بھی ہے اور بچہ بھی پھر
خطبات مسرور جلد 12 639 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء حضرت خلیفہ اول نے خلیفہ ثانی کو فرمایا کہ تمہارے سامنے حضرت مسیح موعو علیہ السلام کی تصنیف براہین احمدیہ موجود تھی.آپ نے جب یہ تصنیف کی تو اس وقت آپ کے سامنے کوئی اسلامی لٹریچر موجود نہ تھا مگر تمہارے سامنے یہ موجود تھی اور امید تھی کہ تم اس سے بڑھ کر کوئی چیز لاؤ گے.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ مامورین سے بڑھ کر علم تو کوئی کیا لاسکتا ہے سوائے اس کے کہ ان کے پوشیدہ خزانوں کو نکال نکال کر پیش کرتے رہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ بعد میں آنے والی نسلوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ گزشتہ بنیاد کو اونچا کرتے رہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے آئندہ نسلیں اگر ذہنوں میں رکھیں تو خود بھی برکات اور فضل حاصل کر سکتی ہیں.اور قوم کیلئے بھی برکات اور فضلوں کا موجب ہو سکتی ہیں مگر اپنے آباء سے آگے بڑھنے کی کوشش نیک باتوں میں ہونی چاہئے.یہ نہیں کہ چور کا بچہ ہو تو وہ چوری شروع کر دے.نمازی آدمی کی اولاد کوشش کرے کہ باپ سے بڑھ کر نمازی بنے.“ (ماخوذ از روزنامه الفضل قادیان مؤرخہ 26 فروری 1931 ء جلد 18 نمبر 99 صفحہ 9) قرآن کریم کی عظمت کے بارے میں ایک جگہ بیان کرتے ہیں کہ ” مجھے بھی اپنے بچپن کی ایک جہالت یاد ہے.جب میں چھوٹا بچہ تھا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجالس میں بعض دشمن آتے اور آپ پر اعتراض کرتے تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہایت سادگی سے بات کرتے تھے.بعض دفعہ مجھے یہ وہم ہوتا تھا شائد آپ اس شخص کی چالا کی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.مگر جب دشمن مخالفت میں بڑھتا جاتا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی آسمانی طاقت نے آپ پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ اس شان سے جواب دیتے تھے کہ مجلس پر سناٹا چھا جاتا تھا.ایسی ہی بیوقوفی ان لوگوں کی ہے جو اس وقت کہ جب کوئی شخص قرآن شریف پر اعتراض کرے تو کہتے ہیں چپ ہو جاؤ ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا.(عام طور پر غیروں سے، مولویوں سے بات کریں تو یہی کہتے ہیں کہ باتوں کی سمجھ نہیں آتی.نئی بیعتیں کرنے والے کئی لوگ ہیں جو یہ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ سمجھ نہیں آیا تو مولوی کہتے ہیں کہ تمہیں سمجھ نہیں آسکتا اس لئے چپ کر جاؤ.نہیں تو ایمان ضائع ہو جائے گا.حالانکہ یہ فضول بات ہے.چاہئے تو یہ کہ قرآن شریف پر جو اعتراض ہوں ان کے جوابات ایسے دیئے جاویں کہ دشمن بھی ان کی صداقت کو مان جائے.نہ یہ کہ اعتراض کرنے والے کو اعتراض کرنے سے منع کر دیا جائے اور شکوک کو اس کے دل میں ہی رہنے دیا جائے.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی ایک بات خوب یاد ہے.میں نے کئی دفعہ اپنے کانوں سے وہ بات
خطبات مسرور جلد 12 640 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء آپ کے منہ سے سنی ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر دنیا میں سارے (حضرت) ابوبکر جیسے لوگ ہوتے تو اتنے بڑے قرآن شریف کی ضرورت نہیں تھی.صرف بسم اللہ کی ”ب“ کافی تھی.قرآن کریم کا اتنا پر معارف کلام جو نازل ہوا ہے یہ ابو جہل کی وجہ سے ہے.اگر ابو جہل جیسے انسان نہ ہوتے تو اتنے مفصل قرآن شریف کی ضرورت نہ تھی.غرض قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے.اس پر جتنے اعتراضات ہوں گے اتنی ہی اس کلام کی خوبیاں ظاہر ہوں گی.پس یہ ڈر کہ اعتراض مضبوط ہوگا تو اس کا جواب کس طرح دیا جائے گا ایک شیطانی وسوسہ ہے.کیا خدا کے کلام نے ہمارے ایمان کی حفاظت کرنی ہے یا ہم نے خدا کے کلام کی حفاظت کرنی ہے؟ وہ کلام جس کو اپنے بچاؤ کیلئے انسان کی ضرورت ہے وہ جھوٹا کلام ہے اور چھوڑ دینے کے لائق ، ہمارے کام کا نہیں.ہمارے کام کا وہی قرآن شریف ہے جس کی حفاظت کیلئے کسی انسان کی ضرورت نہ ہو بلکہ اس کا محافظ خدا ہو اور اس پر جو اعتراض ہو وہ خود اس کو دور کرے اور اپنی عظمت آپ ظاہر کرے.ہمارا قرآن کریم ایسا ہی ہے.66 قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 160) پھر نفس کی کمزوری کا محاسبہ کس طرح ہونا چاہئے.یعنی کہ اپنے نفس پر آپ کو کنٹرول ہونا چاہئے.اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ لاہور کی ایک گلی میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دیا.آپ گر گئے جس سے آپ کے ساتھی جوش میں آگئے اور قریب تھا کہ اسے مارتے.لیکن آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنے جوش میں سچائی کی حمایت میں ایسا کیا ہے.اسے کچھ نہ کہو.پس انبیاء اپنے نفس کے سوال کی وجہ سے نہیں بولتے بلکہ خدا کی عزت کے قیام کیلئے بولتے ہیں.تو یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی ایسا ہی کرتے ہیں ( جس طرح عام لوگ کرتے ہیں ).ان میں اور عام لوگوں میں بڑا فرق ہوتا ہے.وہ خدا کیلئے کرتے ہیں اور عام لوگ اپنے لئے کرتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت معاویہ کی نماز کا واقعہ بیان کیا کرتے تھے کہ ان سے ایک مرتبہ فجر کی نماز قضاء ہو گئی لیکن وہ اس غلطی کے نتیجے میں نیچے نہیں گرے بلکہ ترقی کی.پس جو گناہ کا احساس کرتا ہے وہ گناہ سے بچتا ہے.جب گناہ کا احساس نہیں رہتا تو انسان معصیت میں مبتلا ہو جاتا ہے.پس مومن کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ پر غور کرنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ وہ خطرات سے محفوظ نہیں ہوا.صرف اسی وقت محفوظ ہو سکتا ہے کہ جب خدا کی آواز اسے کہہ دے.پس
خطبات مسرور جلد 12 641 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء 66 انسان کو اپنے نفس کی کمزوری کا محاسبہ کرنا چاہئے.ایسے شخص کیلئے روحانیت کے راستے کھل جاتے ہیں.جو ایسا نہیں کرتا اس کے لئے روحانیت کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں اور ایسا انسان گمراہ ہو جاتا ہے.“ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 18 صفحه 141-142) مخالفت جو جماعت کی ہوتی ہے، نبی کی ہوتی ہے، یہ ترقی کا ذریعہ بنتی ہے.اس بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئی دفعہ ہم نے ایک واقعہ سنا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ دشمن جب ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں امید ہوتی ہے کہ ان میں سے سعید روحیں ہماری طرف آجائیں گی.لیکن جب نہ تو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں اور بالکل خاموش ہو جاتے ہیں تو یہ بات ہمارے لئے تکلیف دہ ہوتی ہے.آپ ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے کہ نبی کی مثال اس بڑھیا کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کچھ پاگل سی تھی اور شہر کے بچے اسے چھیڑا کرتے تھے اور وہ انہیں گالیاں اور بددعائیں دیا کرتی تھی.آخر بچوں کے ماں باپ نے یہ تجویز کی کہ بچوں کو روکا جائے کہ وہ بڑھیا کو دق نہ کیا کریں.چنانچہ انہوں نے بچوں کو سمجھایا.مگر بچے تو بچے تھے وہ کب باز آنے والے تھے.یہ تجویز بھی کارگر ثابت نہ ہوئی.آخر بچوں کے والدین نے یہ فیصلہ کیا کہ بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے اور دروازوں کو بند رکھا جائے.چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور دو تین دن تک بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا.اس بڑھیا نے جب دیکھا کہ اب بچے اسے تنگ نہیں کرتے تو وہ گھر گھر جاتی اور کہتی کہ تمہارا بچہ کہاں گیا ہے؟ کیا اسے سانپ نے ڈس لیا ہے؟ کیا وہ ہیضے سے مرگیا ہے؟ کیا اس پر چھت گر پڑی ہے؟ کیا اس پر بجلی گر گئی ہے؟ غرض وہ ہر دروازے پر جاتی اور قسم قسم کی باتیں کرتی.آخر لوگوں نے سمجھا کہ بڑھیا نے تو پہلے سے بھی زیادہ گالیاں اور بددعائیں دینا شروع کردی ہیں.اس لئے بچوں کو بند رکھنے کا کیا فائدہ.انہوں نے بچوں کو چھوڑ دیا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہی حالت نبی کی ہوتی ہے.جب مخالفت تیز ہوتی ہے تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے اور جب مخالف چپ کر جاتے ہیں تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جب تک مخالفت نہ ہو لوگوں کی توجہ الہی سلسلے کی طرف نہیں ہوسکتی“.(ماخوذ از رسول کریم سنی یا پین کی زندگی کے تمام اہم واقعات......انوار العلوم جلد 19 صفحه 152) نبی کی طرف سے گالیاں تو نہیں آتیں.نبی کی طرف سے تو ہر صورت میں دعا ئیں ملتی ہیں لیکن مخالفت جب تیز ہوتی ہے تو مخالفین کے لئے بھی دعائیں ہوتی ہیں تا کہ ان میں سے سعید روحیں پھر حق کو قبول بھی کر لیں.پھر مخالفت ترقی کا ذریعہ ہے.اس بارے میں کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک مولوی صاحب آئے.وہ شاعر بھی تھے اور بڑے مشہور ادیب بھی تھے.نواب
خطبات مسرور جلد 12 642 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء صاحب رام پور نے انہیں اردو محاورات کی لغت لکھنے پر مقرر کیا ہوا تھا.انہوں نے بتایا کہ نواب صاحب رام پور کے پاس مشہور شاعر مینائی کے مسودات پڑے ہوئے تھے.انہوں نے اردو کی ایک بڑی بھاری لغت لکھی ہوئی تھی مگر ابھی اسے مکمل نہیں کیا تھا کہ نواب صاحب وفات پاگئے.(ان کے جانشین ) نواب صاحب رام پور نے وہ مسودات مجھے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ تم انہیں مکمل کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ رام پور میں تو ہماری بڑی مخالفت ہے اور آپ وہاں کے رہنے والے ہیں.آپ کو بیعت کرنے کی توجہ کیسے ہوئی؟ وہ کہنے لگے مجھے کسی نے در خمین دی تھی.میں چونکہ خود شاعر ہوں.میں نے آپ کا کلام پڑھا جس کی وجہ سے میں بہت متاثر ہوا کیونکہ اس میں محبت رسول بھری پڑی تھی.اس کے بعد مولوی ثناء اللہ صاحب وہاں آئے اور انہوں نے ایک تقریر کی.اس تقریری میں انہوں نے بتایا کہ مرزا صاحب اسلام کے سخت دشمن ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.میں نے ان کی تقریریں سن کر سمجھا کہ مرزا صاحب ضرور بچے ہیں ورنہ ان مولوی صاحب کو آپ کے متعلق اتنا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی.جس شخص کے اندر اس قدر محبت رسول ہے کہ اس کا کلام اس سے بھرا پڑا ہے اس کے متعلق اگر کوئی مولوی کہتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن ہے تو وہ مولوی یقینا جھوٹا ہے.اور جس ا پر وہ ہتک رسول کا الزام لگاتا ہے وہ سچا ہے ورنہ اس تقریر کرنے والے کو جھوٹے دلائل دینے کی کیا ضرورت تھی.وہ سچی بات کہتا کہ اگر چہ اس شخص نے در خمین میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی تعریف کی ہے، خدا تعالیٰ کی بڑی تعریف کی ہے مگر ہے جھوٹا.اگر وہ ایسا کہتا تو پھر کوئی بات نہیں تھی.لیکن اس نے سچائی کو بالکل ترک کر دیا اور کہا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بدگوئی کرتا ہے.میں نے اس کی تقریر سنی تو فور اسمجھ لیا کہ مرزا صاحب اپنے دعوے میں سچے ہیں اور میں آپ کی بیعت کیلئے تیار ہو گیا.تو حقیقت یہ ہے کہ بسا اوقات دشمن تو یہ کوشش کرتا ہے کہ مومن کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا کرے لیکن بجائے جوش ابھر نے کے وہ بات مومنوں کے حق میں مفید ہو جاتی ہے.اسی طرح کا ایک پرانا ، شروع کا، ابتدائی زمانے کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ گجرات کے ضلع میں چک سکندر کے قریب بھاؤ گھسیٹ پور ایک گاؤں ہے جہاں حضرت مسیح موعود د علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں چند نہایت ہی مخلص بھائی رہا کرتے تھے.لکھتے ہیں کہ ”میں اس وقت چھوٹا تھا مگر مجھے خوب یاد ہے کہ وہ بڑے شوق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں آکر بیٹھا کرتے تھے اور بڑے محظوظ ہوا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود د علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک سالے تھے ( یعنی بیوی کے
خطبات مسرور جلد 12 643 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء بھائی ) جن کا نام علی شیر تھا.( یہ پہلی بیوی کے بھائی تھے.) چونکہ خدائی منشاء اور اس کے احکام کے ماتحت آپ نے حضرت ام المومنین سے شادی کر لی تھی.اس لئے آپ کی پہلی بیوی کے رشتہ دار آپ سے مخالفت رکھنے لگ گئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی پہلی بیوی ایک بہت ہی نیک عورت تھیں.میں نے دیکھا ہے کہ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ کہنے کولوگ کہتے ہیں کہ ماں سے زیادہ چاہے پیچھے کٹنی کہلائے مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم بچپن میں یہی سمجھتے تھے کہ وہ ہم سے ماں سے بھی زیادہ پیار کرتی ہیں.(اس لئے لوگوں کی یہ جو غلط فہمیاں ہیں ناں کہ پہلی بیوی سے تعلق نہیں تھا وہ بھی غلط ہے.) لکھتے ہیں کہ ہماری بڑی بہن عصمت جب فوت ہو ئیں تو ان دنوں چونکہ محمدی بیگم کی پیشگوئی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ داروں نے ایک مخالفانہ اشتہار شائع کیا تھا اس لئے ہمارے اور ان کے درمیان کے گھر کا جو دروازہ تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بند کروادیا تھا.حضرت ام المومنین نے سنایا کہ جب عصمت بیمار ہوئی تو اس کی حالت نازک ہو گئی تو جس طرح ذبح ہوتے وقت مرغی تڑپتی ہے.وہ تڑپتی تھی.(یعنی بچی تڑپتی تھی، بچی بے چین ہوتی تھی ) اور بار بار کہتی تھی کہ میری اماں کو بلا دو.( یعنی بڑی والدہ کو.) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں بلوایا.جب وہ آئیں اور انہوں نے عصمت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا تو اسے آرام اور سکون حاصل ہوا.اور تب اس کی جان نکلی.غرض وہ بہت ہی نیک عورت تھیں اور ان کو اپنی سوکن کے بچوں سے بہت زیادہ محبت تھی.خود حضرت مسیح موعود د علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی وہ بڑی محبت رکھتی تھیں اور آپ کی بڑی قدر کرتی تھیں اور آپ کے متعلق کسی سے بھی کوئی بری بات نہیں سن سکتی تھیں.مگر ان کے بھائی بڑے متعصب تھے اور وہ آنے والے احمدیوں کو ورغلاتے رہتے تھے اور کہتے تھے کہ میں تو اسکا بھائی رشتہ دار ہوں.میں جانتا ہوں کہ اس نے صرف ایک دکان کھول رکھی ہے اور کچھ نہیں ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں کہ صرف دکان کھولی ہے اور کچھ نہیں ہے نبوت کا ڈھکونسلا ہے.یہ باتیں سن کے ) کمزور لوگوں کو دھو کہ لگ جا تا کہ بھائی جب یہ باتیں کہہ رہا ہے تو ٹھیک ہی ہونگی.ایک دفعہ تحصیل کھاریاں کے یہی پانچوں بھائی جن کا پہلے شروع میں ذکر ہوا ہے، قادیان آئے.اس وقت تک ابھی بہشتی مقبرہ نہیں بنا تھا.یہ اس سے پہلے کی بات ہے.اس زمانے میں جولوگ قادیان آیا کرتے تھے انہوں نے متبرک مقامات کی زیارت کیلئے یا تو مسجد مبارک میں چلے جانا ، حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی مجلس میں چلے جانا یا پھر ہمارے دادا کے باغ میں چلے جانا وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد کا باغ ہے اس لئے یہ بھی
خطبات مسرور جلد 12 644 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء متبرک جگہ ہے.اس باغ کے رستے میں وہ جگہ تھی جہاں محلہ دار الضعفاء بنا تھا.اس محلے کے بننے سے پہلے ی زمین علی شیر صاحب کے پاس تھی (یعنی یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بیوی کے بھائی تھے ) اور وہ اس میں شوق سے باغیچہ لگا یا کرتے تھے.ایک لمبی سی سیخ انہوں نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوتی تھی.داڑھی بھی بڑی لمبی تھی مگر سلسلے کے سخت دشمن تھے اور ہمیشہ اس تاڑ میں رہتے تھے کہ کوئی احمدی ملے تو اسے ور غلاؤں.ایک دفعہ یہ پانچوں بھائی قادیان آئے (جیسا کہ ذکر ہوا ہے ) اور باغ دیکھنے کیلئے چل پڑے.ان میں سے ایک بھائی تیز تیز قدم اٹھائے ہوئے سب سے آگے جارہا تھا.مرزا علی شیر نے انہیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ باہر کے آدمی ہیں اور انہوں نے زور سے آواز دی کہ بھائی صاحب ذرا بات سننا.اس آواز پر وہ آگئے.مرزا علی شیر نے ان سے کہا کہ آپ یہاں کس طرح آئے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا تھا کہ مرزا صاحب نے مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہے اس لئے یہاں ہم ان کی زیارت کیلئے آئے ہیں کیونکہ ہمیں وہ اپنے دعوے میں سچے معلوم ہوتے ہیں.وہ کہنے لگا کہ تم اس کے دھو کے میں کس طرح آگئے.تم نہیں جانتے یہ تو اس شخص نے اپنی روزی کمانے کیلئے ایک دکان کھول رکھی ہے.یہ میرا بھائی ہے اور میں اس کے حالات کو خوب جانتا ہوں.تم تو باہر کے رہنے والے ہو.تمہیں اصل حالات کا کیا علم ہو سکتا ہے.تم اس کے دھو کے میں نہ آناور نہ نقصان اُٹھاؤ گے.وہ احمدی دوست مرز اعلی شیر کی یہ بات سن کر بڑے شوق سے آگے بڑھے اور کہنے لگے ذرا دست پنجہ تو لیں.(یعنی مصافحہ کریں.اپنا ہاتھ پکڑا ئیں.تو علی شیر نے سمجھا کہ میری باتوں کا اس پر اثر ہو گیا ہے اور میری بزرگی کا یہ قائل ہو گیا ہے کیونکہ ان کی یہ عادت تھی کہ وہ باتیں بھی کرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ سبحان اللہ اور استغفر اللہ بھی کہتے جاتے تھے.تو علی شیر نے بڑے شوق سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور سمجھا کہ آج ایک اچھا شکار میرے قابو آ گیا ہے.تو بھائیوں میں سے یہ جو ایک احمدی بھائی آگے تھے ، انہوں نے زور سے ان کا ہاتھ پکڑا اور باقی چاروں بھائیوں کو زور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ جلدی آنا ایک ضروری کام ہے.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ ہمارے ماموں نے سمجھا کہ اس پر میری بات کا اثر ہو گیا ہے اور اب یہ اپنے بھائیوں کو اس لئے بلا رہا ہے کہ انہیں بتائے کہ یہ ٹھیک کہہ رہا ہے اور وہ اپنے دل میں بڑے خوش ہوئے کہ آج میرا حربہ کارگر ہوا ہے.مگر جب ان کے بھائی وہاں پہنچ گئے.پانچوں بھائی اکٹھے ہو گئے تو جو پہلے بھائی آئے ہوئے تھے کہنے لگے ہم قرآن اور حدیث میں پڑھا کرتے تھے کہ دنیا میں ایک شیطان ہوا کرتا ہے مگر وہ ہمیں ملتا نہیں
خطبات مسرور جلد 12 645 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء تھا.آج حسن اتفاق سے ہمیں شیطان مل گیا ہے ( جو ورغلا رہا ہے.) (ماخوذ از الفضل ربوہ 31 اگست 1956 صفحہ 5_6 نمبر 204 جلد 45/10) پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل بھی دریا کی طرح ہوتے ہیں اور دریا میں سے ایک قطرہ پانی کا لے لیا جائے تو اس میں کیا کمی آسکتی ہے.مگر بندہ ہی ایسا بد قسمت ہے کہ وہ خود خدا کے انعامات سے اپنے آپ کو محروم کر لیتا ہے اور ان کی طرف سے منہ موڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور جب کوئی مامور آتا ہے تو لوگ اس کو حقیر سمجھ کر اس کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں“.پھر لکھتے ہیں کہ حضرت باوانانک کے ماں باپ بھی ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس نے ہماری دکانداری خراب کر دی ہے اور ہمارے گھر میں یہ بچہ نکما پیدا ہوا ہے.اگر ان کے ماں باپ زندہ ہو کر آج دنیا میں آجائیں اور دیکھیں کہ وہی بچہ جسے ہم حقیر سمجھتے تھے اب لاکھوں آدمی اس پر فدا ہیں اور اس کے نام پر جان دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور ان میں کئی کروڑ پتی موجود ہیں تو وہ حیران رہ جائیں.مگر لوگ بیوقوفی سے سمجھ لیا کرتے ہیں کہ یہ چھوٹا آدمی ہے اسے ہم نے مان کر کیا کرنا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ ایسے ہی آدمیوں کو بھیجتا ہے جو بظاہر چھوٹے معلوم ہوتے ہیں اور ایک زمانہ آتا ہے کہ ان کے نام پر مر مٹنے والے لاکھوں لوگ پیدا ہو جاتے ہیں.فرمایا کہ اسی طرح قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا.قادیان میں نہ تو پہلے ریلی تھی، نہ ڈاکخانہ تھا نہ کوئی دینی یاد نیوی علوم کامدرسہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کوئی دنیاوی وجاہت نہ رکھتے تھے اور بظاہر آپ نے جو تعلیم حاصل کی تھی وہ بھی معمولی تھی.اس لئے جب آپ نے مسیحیت اور مہدویت کا دعوی کیا تو لوگوں نے شور مچادیا کہ نعوذ باللہ شخص جاہل ہے.یہ شخص کیسے مہدی ہوسکتا ہے.پھر لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں کیسے مامور آسکتا ہے.اگر مامور آنا ہی تھا تو لا ہور ، امرتسر یا اس طرح کے کسی بڑے شہر میں آنا چاہئے تھے.غرض لوگوں نے زبر دست مخالفت شروع کی اور جو لوگ آپ کے دعوی کو سن کر آپ کی زیارت کیلئے قادیان آنے کا ارادہ کرتے تھے ان کو بھی روکا جا تا تھا.اگر وہ نہ رکتے تھے تو انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھیں.ان کو قسم قسم کی مصیبتوں اور دکھوں میں مبتلا کر دیا جاتا تھا.مگر ان تمام حالات کی موجودگی میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.یہ الہام آپ کو اس وقت ہوا جب آپ کو ایک آدمی بھی نہ مانتا تھا.پھر یہ الہام ہوا کہ ”میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.اس
خطبات مسرور جلد 12 646 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء زمانے میں مخالفت کا یہ حال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک نوکر پیرا نامی تھا جو اتنا بیوقوف تھا کہ سالن میں مٹی کا تیل ملا کر پی جاتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کبھی کبھی کسی کام کیلئے اسے بٹالہ بھیج دیا کرتے تھے.ایک دفعہ اس کو بٹالہ بھیجا گیا تو وہاں اس کو مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ملے جو اہل حدیث کے لیڈر مانے جاتے تھے اور بڑے بھاری مولوی سمجھے جاتے تھے ان کا کام ہی یہی تھا کہ وہ ہر اس شخص کو جو بٹالہ سے قادیان آنے والا ہوتا تھا ملتے اور کہتے کہ اس شخص ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے دکان بنائی ہوئی ہے اور جھوٹا ہے.تم قادیان جا کر کیا کرو گے.اس کے باوجود لوگ قادیان آجایا کرتے تھے.اور مولوی صاحب کے روکنے سے نہ رکتے تھے.اس دن مولوی صاحب کو اور تو کوئی آدمی نہ ملا پیرا ہی مل گیا.اس کے پاس جا کر کہنے لگے پیرے تمہیں اس شخص کے پاس نہیں رہنا چاہئے.کیوں اپنا ایمان خراب کرتا ہے.وہ بیچارہ ان کی اس قسم کی باتیں نہ سمجھ سکا.لیکن اس نے اتنا ضرور سمجھا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب کے پاس رہنا ٹھیک نہیں ہے.جب مولوی صاحب ساری بات کر چکے تو کہنے لگا کہ مولوی صاحب! میں تو بالکل جاہل ہوں اور اس قسم کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتا.البتہ اتنا سمجھا ہوں کہ آپ نے کہا ہے کہ مرزا صاحب برے ہیں.مگر ایک بات تو مجھے بھی نظر آتی ہے کہ آپ ہر روز بٹالہ میں چکر لگا لگا کر لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ کوئی شخص قادیان نہ جایا کرے اور دوسرے علاقوں سے آنے والے آدمیوں کو بھی روکتے ہیں اور ورغلاتے رہتے ہیں مگر مجھے تو صاف نظر آتا ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے.آپ کے ساتھ نہیں.کیونکہ آپ کی ساری کوششوں کے باوجود لوگ سینکڑوں کی تعداد میں پیدل چل کر قادیان جاتے ہیں مگر آپ کے پاس کبھی کوئی نہیں آیا.پس اللہ تعالیٰ کے اس قسم کے بندے شروع میں چھوٹے ہی نظر آتے ہیں.اور دنیا کے ظاہر بین لوگ انہیں حقیر سمجھتے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود دعلیہ الصلوۃ والسلام کو بھی سمجھا گیا.مگر آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ، ( حضرت مصلح موعود اس وقت لکھ رہے ہیں کہ ) ہماری جماعت دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے“.(اور اب تو اللہ کے فضل سے اور بھی زیادہ پھیل چکی ہے.) کجا یہ کہ حضرت مسیح موعود وعلیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں آخری جلسہ سالانہ پر سات سو آدمی آئے تھے ( اور جمعہ کے خطبہ میں حضرت مصلح موعود یہ ذکر کر رہے ہیں کہ مسجد اقصی میں اس وقت چار ہزار سے بھی زیادہ لوگ شامل ہوئے ہیں.اور آج تو دنیا کے اس خطبے میں بھی اس وقت اس مسجد میں بھی پانچ چھ ہزار لوگ بیٹھے خطبہ سن رہے ہوں گے.)
خطبات مسرور جلد 12 647 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے زمانے میں ہندوستان کی ساری قوموں نے آپ کے خلاف شور مچایا اور شدید مخالفت کی مگر ان تمام مخالفتوں کے باوجود ہندوستان میں بھی ہمارے سلسلے نے ترقی کی اور بیرون ممالک میں بھی ہماری جماعتیں قائم ہوئیں.چنانچہ آج ہمارے مشن دنیا کے تمام ممالک میں اپنا کام کر رہے ہیں.انگلینڈ، امریکہ، افریقہ، چین ، جاپان، جاوا،سماٹرا اور یورپ کے تمام ممالک میں ہمارے مشن قائم ہیں اور تبلیغ کا کام جاری ہے.افریقہ کے حبشی تعلیم پارہے ہیں.امریکہ اور یورپ کے شرک کرنے والے لوگ جوک در جوک اسلام میں داخل ہو رہے ہیں.اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں خدا نے اپنے مامور کے ذریعے ایک نیا ایمان پیدا کر دیا ہے جس سے دوسرے لوگ محروم ہیں....“.پھر فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کے ایک معزز شخص صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی اسی قسم کے لوگوں میں سے تھے ( جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی سن کر پہنچے.) وہ حج کیلئے گھر سے نکلے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی دعوت سن کر قادیان آگئے اور بیعت کر لی.بیعت کے بعد واپس گھر گئے تو افغانستان کے بادشاہ نے ان کو سنگساری کی سزا دی.صرف اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر چکے تھے.لوگوں نے بہتیرا زور لگایا کہ آپ اپنے عقیدے کو بدل لیں مگر وہ نہ مانے کیونکہ ان پر صداقت کھل چکی تھی.آخر بادشاہ نے ان کو زمین میں گاڑ کر سنگسار کرا دیا اور نہایت بے رحمی سے شہید کیا مگر انہوں نے اُف تک نہ کی اور خدا کی راہ میں اپنی جان دے دی.سنگساری سے پہلے ایک وزیر ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تم اپنے دل میں بے شک وہی عقائد رکھونگر صرف زبان سے ہی انکار کر دو مگر انہوں نے فرمایا میں جھوٹ نہیں بول سکتا.پس ان کو شہید کر دیا گیا مگر ان کے شہید ہونے کے تھوڑے عرصے بعد ہی افغانستان میں ہیضہ پھوٹا اور ہزاروں لوگ مر گئے.( اور اب تک دیکھیں وہ تباہی پھیلتی چلی جارہی ہے.) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب لوگوں نے مقابلہ کیا تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے دکھا یا کہ ملک میں سخت طاعون پھوٹے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں اس کا لقمہ بن گئے.مگر اس طاعون کے وقت بھی باوجود یکہ طاعون کا پھوٹنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی تائید میں تھا آپ نے مجسم رحم بن کر خدا کے حضور اس عذاب کو ٹلانے کیلئے نہایت گڑ گڑا کر دعائیں کیں اور اس قدر گر یہ وزاری کی کہ مولوی عبد الکریم صاحب جو مسجد مبارک کے اوپر کے حصہ میں رہتے تھے، فرماتے تھے کہ ایک
خطبات مسرور جلد 12 648 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 اکتوبر 2014ء دن مجھے کسی کے رونے کی آواز آئی اور وہ آواز اتنی درد ناک تھی جیسے کوئی عورت درد زہ کی تکلیف میں مبتلا ہو.میں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا حضرت مسیح موعود د علیہ الصلوۃ والسلام روروکر خدا کے حضور میں دعا فرما رہے تھے کہ اے اللہ! اگر تیرے سارے بندے مرگئے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا.یہ چیز بھی آپ کی صداقت کیلئے نہایت زبر دست دلیل ہے.آپ ہی کی تائید کیلئے اللہ تعالی نے طاعون بھیجی اور آپ کے دل میں ہی رحم آگیا اور دعائیں شروع کر دیں.یہ ہوتا ہے نبی کا رحم کا معیار.(ماخوذ از خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کیلئے ہمیشہ نبی مبعوث فرماتا ہے، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 510 تا 514) اللہ تعالیٰ ہر احمدی میں دینی غیرت بھی پیدا کرے.خدا تعالیٰ سے تعلق میں بھی بڑھائے.صبر اور حوصلہ بھی پیدا فرمائے اور انسانیت کے بچانے کیلئے دعاؤں کی توفیق بھی ہمیں عطا فرمائے.اپنی اناؤں پر اپنی عاجزی کو غالب کرنے والے ہوں اور مکمل طور پر ہمیں اپنی رضا پر چلائے ، اس کی توفیق عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کیلئے ہم اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں اور ہر وہ بات کرنے والے ہوں جس کی حضرت مسیح موعود د علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں سے، جماعت کے افراد سے خواہش کی ہے یا امید رکھی ہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 14 نومبر 2014ء تا 20 نومبر 2014 ، جلد 21 شماره 46 صفحہ 05-09)
خطبات مسرور جلد 12 649 44 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 31 /اکتوبر 2014 ء بمطابق 31 ا خاء 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: 111) یعنی تم وہ لوگ ہو جو دوسروں کی بھلائی اور فائدہ کے لئے پیدا کئے گئے ہو.یہ مسلمانوں کے کاموں میں سے ایک بہت بڑا کام ہے کہ دنیا ان سے فائدہ اٹھائے.ان سے دنیا کو خیر اور بھلائی پہنچنہ کہ شر لیکن اس وقت دنیا کی جو حالت ہے جس پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان حکومتوں اور گروہوں اور تنظیموں نے دنیا میں اس قدر فساد برپا کیا ہوا ہے کہ ایک دنیا اسلام کے نام اور مسلمان سے خوفزدہ ہے.اور اگر خوفزدہ ہونے کی حالت ہو تو پھر کون ہے جو مسلمانوں کی باتوں کو سنے یا یہ خیال کرے کہ ان سے ہمیں خیر اور بھلائی مل سکتی ہے.جو لوگ اپنے لوگوں کی ہی گردنیں کاٹ رہے ہوں ،معصوموں کو ، عورتوں کو، بچوں کو، بوڑھوں کو بلا امتیاز قتل کر رہے ہوں، بغیر کسی وجہ کے ناجائز طور پر اپنے نظریات کی پیروی نہ کرنے والوں کو غلام بنارہے ہوں، ان سے کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے لئے خیر اور بھلائی چاہنے والے ہوں گے.پس اس عمل کا جو یہ لوگ کرتے ہیں لازمی نتیجہ یہی نکلے گا اور نکل رہا ہے کہ دنیا مسلمانوں سے خوفزدہ ہے لیکن ہم احمدیوں کے لئے اس میں شرمندگی کی بات اور غم اور تکلیف کی بات تو ضرور ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جورحمۃ للعالمین ہیں ان کی طرف منسوب ہو کر ان لوگوں کے یہ عمل ہیں کہ انہوں نے مذہب اسلام کو بھی بدنام کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک اُسوہ کو بھی دنیا کے سامنے غلط رنگ میں پیش کرنے والے بن رہے ہیں.لیکن ایک احمدی کی حیثیت سے ہمیں ان کے اس
خطبات مسرور جلد 12 650 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء عمل سے مایوسی اور نا امیدی بالکل نہیں ہے.جب میں اکثر غیر مسلموں کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے یہ عمل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور اسلام کے سچا ہونے کی دلیل ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب مسلمانوں کی یہ حالت ہوگی بلکہ عرصہ بھی بتا دیا کہ یہ عملی زوال کی حالت اتنے عرصے کے بعد شروع ہو گی اور اتنے عرصے تک یہ اندھیرا زمانہ چلتا چلا جائے گا اور پھر مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہو گا جو اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کو دنیا میں جاری کرے گا.( مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 285 حدیث النعمان بن بشیر حدیث نمبر 18596 عالم الكتب بيروت 1998ء) وہ تعلیم جو قرآن کریم میں اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور جس کے حرف حرف پر عمل کا ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے پتا چلتا ہے.اور ہم احمدی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس بگڑے ہوئے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق وہ مسیح موعود اور مہدی معہود آ گیا اور صرف دعوئی ہی نہیں کیا بلکہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آنے کے جو زمینی اور آسمانی نشان بتائے تھے وہ بھی پورے ہوئے.اور اس مسیح و مہدی نے ہمیں اسلام کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروایا، ہمارے دلوں کو روشن کیا.آج جماعت احمد یہ اس خوبصورت تعلیم پر عمل کر رہی ہے.یہ باتیں جب ان کو بتائی جائیں تو ان لوگوں کو قائل کرتی ہیں کہ اسلام غلط نہیں بلکہ ان لوگوں کے عمل غلط ہیں جو اسلام کے نام پر دنیا میں فساد پھیلا رہے ہیں.پس ہراحمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ دنیا کو بھلائی کی طرف بلانا اور ہر ایک کی بھلائی چاہنا ہر احمدی کا فرض ہے.کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل اور احسان کرتے ہوئے مسیح موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.صرف امن سے رہنا ہی ہمارا کام نہیں ہے.کسی برے کام سے رُکنا ہی ہمارا کام نہیں.فسادوں سے دور رہنا ہی ہمارا کام نہیں بلکہ دنیا میں امن کا قیام اور اس کے لئے بھر پور کوشش بھی ہمارا کام ہے.دنیا کو برائیوں سے روکنے کی کوشش کرنا بھی ہمارا کام ہے.دنیا کو فسادوں سے دور رکھنے اور بچانے کی کوشش کرنا بھی ہمارا کام ہے کیونکہ یہ کام مسیح موعود کے کاموں میں شامل ہے.آپ کو بھلائی اور خیر خواہی کے کام کو دوبارہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں جاری کرنے کے لئے بھیجا گیا.پس دنیا کی یہ خیر خواہی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اور خدا تعالیٰ کا حکم ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم میدانِ عمل میں آئیں اور دنیا کو خیر اور بھلائی پہنچانے اور شر کو دور کرنے کی بھر پور کوشش
خطبات مسرور جلد 12 651 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء کریں.ہم مسلمانوں کے بھی خیر خواہ ہیں ان کی بھلائی چاہتے ہیں اور غیر مسلموں کے بھی خیر خواہ ہیں اور ان کی بھلائی چاہتے ہیں.ہم عیسائیوں کے بھی خیر خواہ ہیں اور یہودیوں کے بھی ، ہندوؤں کے بھی اور دوسرے مذاہب والوں کے بھی حتی کہ ہم دہریوں کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ ہم نے ان سب کو وہ راستہ دکھانا ہے جو انہیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والا ہو بلکہ ہم نے ہر قسم کے جرائم میں ملوث لوگوں چوروں اور ڈاکوؤں، ظالموں سب کی خیر خواہی چاہتی ہے اس لئے کہ یہ لوگ رب العالمین کے بندے ہیں اور ہم نے اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کی خیر خواہی چاہتی ہے اور انہیں نیکیوں پر چلنے اور برائیوں سے رکنے کے راستے دکھانے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُخْرِجَتْ لِلنَّاس کہہ کر ہمارا میدانِ عمل بہت وسیع کر دیا ہے.پس ہم نے دنیا کی بھلائی اور بہتری اور خیر خواہی کے لئے ان کو خدا تک پہنچنے کے صحیح راستے دکھانے ہیں.انہیں خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی تلقین کرنی ہے.انہیں یہ بتانا ہے کہ اس زندگی کا ایک روز خاتمہ ہونے والا ہے اور پھر ہر ایک نے اپنے عمل کے مطابق جزا سزا حاصل کرنی ہے.پس خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑ و تا کہ بہتر انجام ہو.لیکن یہ باتیں ہم کسی کو اس وقت تک نہیں سمجھا سکتے جب تک ہم خود اپنے انجام پر نظر رکھنے والے نہ ہوں.پس ایک بہت بڑا کام ہے جسے فکر کے ساتھ اور اپنے جائزے لیتے ہوئے ہم نے سرانجام دینا ہے.اس کام کی سرانجام دہی کے دوران ہمیں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور کرنا پڑتا ہے اور جماعت احمد یہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان مشکلات اور دنیا کی مخالفتوں کا ہم ہر قدم پر سامنا کرتے رہے ہیں اور یہ بات کوئی صرف ہمارے ساتھ خاص نہیں بلکہ جتنے بھی نبی آئے انہیں اور ان کے ماننے والوں کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا.لیکن وہ کیونکہ محدود علاقوں اور قوموں کے لئے تھے اس لئے ان کی مخالفتیں بھی محدود تھیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو آپ تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے.اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام دنیا نے مخالفت کی اور مخالفت کر رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں یہی کام اور دائرہ کار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی ہے.اس لئے آپ کی مخالفت بھی ہر مذہب اور قوم والے نے کی جب آپ نے دعوی کیا اور اب بھی کر رہے ہیں.کہیں کم ہے کہیں زیادہ ہے اور کریں گے بھی.یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، نہ ہو گا.دنیا میں بیشک ایسے افراد ہیں جو جماعت احمدیہ کے امن کے کاموں کی تعریف کرتے ہیں لیکن مذہب کے حوالے سے جب غیر معمولی ترقی ملنی شروع ہو جائے تو من حیث القوم مخالفتوں کا سامنا ہمیں مغربی ممالک میں بھی کرنا پڑے گا یا کم از کم یہاں کے جو
خطبات مسرور جلد 12 652 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31اکتوبر 2014ء بھی نام نہاد مذہب پر عمل کرنے والے ہیں ان کی طرف سے مخالفتیں ہوں گی.اس لئے یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان پڑھے لکھے ملکوں میں ہمیشہ ہمیں خیر کا جواب خیر سے ملے گا.ابھی بھی ایسے چرچ ہیں جہاں پادری ہماری مخالفت کرتے ہیں.ان کی انتظامیہ چرچ کی حیثیت سے جماعت کے ساتھ مل بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتی.فروری میں جو مذاہب کا نفرنس ہوئی ہے اس میں چرچ آف انگلینڈ کو بھی دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے جواب تک نہیں دیا اور نہیں آئے.دوسرے ممالک میں بھی کئی جگہ ہماری تبلیغی ٹیمیں جاتی ہیں تو چرچ چھوٹی جگہوں پر ایک دو مرتبہ تو اپنے ہاں فنکشن کرنے کی ، استعمال کرنے کی انہیں اجازت دے دیتے ہیں کہ لوگوں کو جمع کر کے تم اپنا جو مدعا اور مقصد بیان کرنا چاہتے ہو کر دو.لیکن جب دیکھتے ہیں کہ بار بار ہمارا وہاں جانا ہے اور لوگوں کا رجحان یہ باتیں سننے کی طرف ہورہا ہے تو پھر مخالفت شروع کر دیتے ہیں.اسی طرح لا مذہب یا دہریہ مصنفین ہیں جو بڑی شدت سے اسلام کی مخالفت میں لکھتے ہیں اور جب جماعت ان کا جواب دے تو ہمیں بھی مخالفانہ جواب آتے ہیں اور جوں جوں جماعت کی تعداد بڑھے گی یہ مخالفت بھی بڑھتی جائے گی.لیکن انبیاء کو بھی یہ یقین ہوتا ہے کہ آخر کار غلبہ ان کو ملنا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ یقین ان میں پیدا کیا ہوتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوبھی یہ یقین تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ پر واضح فرما یا تھا کہ غلبہ آپ کا ہے اور اس بنا پر ہمیں بھی یقین ہے کہ غلبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنا ہے انشاء اللہ.کیونکہ خدا تعالیٰ جھوٹے وعدوں والا نہیں ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے بے شمار فعلی شہادتیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کو کسی بھی طرح تخفیف کی نظر سے دیکھیں یا خدا تعالیٰ پر بدظنی کریں.جماعت پر ایسے ایسے ہولناک حالات آئے کہ دشمن سمجھتا تھا کہ اب تو جماعت ختم ہوئی کہ ہوئی مگر نتیجہ کیا نکلا کہ دشمن ان حالات میں اپنی تمام تر طاقتوں کے باوجود ناکام ہوا اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے حالات سے سرخرو ہو کر نکلی.پس دنیا ہمارے سے جو چاہے سلوک کرے یہ اُن کا کام ہے لیکن خدا تعالیٰ کی تائیدات کیونکہ ہمارے ساتھ ہیں اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیئے ہیں وہ پورے کرنے ہیں اس لئے بہر حال ہم نے ان حکموں پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر بھی عمل کرنا ہے اور دنیا کی خیر چاہتے ہوئے اپنے کام کو آگے بڑھاتے چلے جانا ہے.ہمارے جذبات تمام دنیا کے لئے نیک جذبات ہونے چاہئیں اور ہمارے جذبات نیک ہیں.لیکن اگر اس کے باوجود دنیا ہمیں دکھ پہنچاتی ہے تو
خطبات مسرور جلد 12 653 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء تب بھی ہم نے اپنے ذمے کام میں کمی نہیں آنے دینی کیونکہ دنیا کو سنبھالنے کا کام ہمارے سپرد ہے.جب اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام خیر امت رکھا ہے تو ہم نے خیر بانٹنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹنا اور یہ خیر اسلام کا پیغام پہنچانا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف دنیا کو بلانا ہے.اس سے بڑھیا خیر اور کیا ہوسکتی ہے؟ جتنا شر اور جتنی غلاظت اور جتنی ہوس پرستی اور جتنی خدا تعالیٰ کے احکامات کی تضحیک اس زمانے میں ہو رہی ہے اور حکومتیں اور میڈیا بھی جس طرح اس کی تشہیر کر رہے ہیں دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی.آج شیطان جس زور سے حملے کر رہا ہے شاید پہلے کبھی نہ ہوئے ہوں کہ ایک ہی وقت میں دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سیکنڈز کے اندر اندر غلاظت بھری تصویر میں کہانیاں اور آوازیں پہنچ جاتی ہیں.ہم خیر کی آواز بلند کرتے ہیں تو اکثریت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور جو برائی کی آواز ہے وہ فوراً اپنا اثر دکھا رہی ہوتی ہے.اور اگر کوئی ہماری بات پر توجہ دیتا بھی ہے تو ان میں سے بہت سے ایسے ہیں بلکہ اکثریت ایسی ہے جو ایسا رویہ رکھتے ہیں جیسے بچوں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے کہ شاباش تم بڑا اچھا کام کر رہے ہو اور پھر یہ لوگ لاتعلق ہو جاتے ہیں اور ان کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیں جو بھلائی سے دور لے جانے والے ہیں.پس ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ہمارے مقاصد کے حصول کی انتہا نہیں ہے کہ ذراسی تعریف پر بچوں کی طرح ہم خوش ہو کر بیٹھ جائیں.چند آدمیوں کو پیغام پہنچا کر ہم سمجھیں کہ ہم نے بہت بڑا کام کر لیا ہے.بلکہ ہم نے دنیا کو خیر پہنچانے کے لئے برائیوں کو دور کرنے کی کوششوں کو اپنی انتہا تک پہنچانا ہے.کوئی دنیاوی مخالفت کوئی دنیاوی روک چاہے وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو یا غیر مسلموں کی طرف سے یا کسی بھی طرف سے ، دہریوں کی طرف سے اس کو ہم نے اس طرح اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرنی ہے جس طرح تیز ہوا ایک تنکے کواڑا کر لے جاتی ہے.پس اس سے ہمیں اندازہ کر لینا چاہئے کہ ہمیں کتنی جامع ٹھوس اور شدت سے کوشش کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی ہر احمدی کو اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق اس میں حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام تمام دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچانا اور یہ خیر اور بھلائی بانٹنا ہے اور یہی ہمارا کام ہے.ہمیں یہ فکر نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا ہماری آواز پر کان نہیں دھرتی سنتی نہیں، توجہ نہیں دیتی.ہم خیر کی طرف بلاتے ہیں اور وہ شرمیں اور بھی زیادہ تیز ہو جاتے ہیں اور ہمارے خلاف یہ شر کے جو عمل ہیں یہ ہر طرف سے ہیں.خاص طور پر اس وقت مسلمانوں میں تو جماعت احمدیہ کی مخالفت اتنی زیادہ ہے کہ تمام حدود کو تو ڑگئی ہے.بیشک ایسے لوگ بھی ہیں جو ہمارے حق میں اب تھوڑی بہت آواز
خطبات مسرور جلد 12 654 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء اٹھانے لگ گئے ہیں.ایسے بھی ہیں جو حق کو حق سمجھ کر تمام تر مخالفتوں کے باوجود احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کرتے ہیں.لیکن یہ بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ فتنہ و فساد پیدا کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یا کم از کم ان کے خوف سے شرفاء باہر نہیں نکلتے اور یہ باہر نکل کر جو چاہے کرتے ہیں.لیکن کیا اس مخالفت کی وجہ سے ہم اپنے کام بند کر سکتے ہیں.کیا دنیا سے ڈر کر خدا تعالیٰ کے اس حکم کہ خیر کو پھیلا ؤ اس سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تمام تر مخالفتوں اور شیطانی روکوں کا مقابلہ کرتے ہوئے احمدیت کو قبول کرتے ہیں.ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اپنی احمدیت کی قبولیت کے واقعات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ احمدیت کی مخالفت نے ہی انہیں احمدیت قبول کرنے کا راستہ دکھایا.گزشتہ خطبہ میں ہی میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حوالے سے ایک شاعر کا ایک واقعہ بیان کیا تھا کہ انہوں نے اعتراض تلاش کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور خاص طور پر فارسی در ثمین پڑھی اور احمدیت قبول کر لی.وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر یہ روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہیں آتا.پس ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ ہم جب شر کے بدلے خیر پہنچا ئیں گے تو انہی لوگوں میں سے پھر قطرات محبت بھی ٹھیکیں گے اور یہ لوگ مسیح محمدی کی غلامی میں آجائیں گے.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ دشمنوں کے لئے بھی دعا کرو اور ان کے لئے خیر چاہو اور انہیں خیر پہنچاؤ.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 74) یہ واقعہ بھی آپ جانتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلی درد کی تصویر ہے اور گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے بیان کیا تھا کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے طاعون کو آپ کے نشان کے طور پر بھیجا تھا لیکن جب لوگ مرنے لگے تو پھر آپ کو فکر پیدا ہوئی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کون کرے گا اور ایمان کون لائے گا ؟ اس پر آپ نے اس عذاب کے دُور ہونے کے لئے اس درد سے دعا کی کہ سننے والے کہتے ہیں کہ یوں لگتا تھا جیسے دردزہ سے کوئی عورت کراہتی ہے اور تڑپتی ہے.(ماخوذ از خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے لئے ہمیشہ نبی مبعوث فرماتا ہے، انوارالعلوم جلد 18 صفحہ 514) پس دنیا والوں کے لئے یہ وہ خیر کا نمونہ اور معیار ہے جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے ہمارے سامنے رکھا ہے.آپ نے دنیا کی تباہی کے بجائے دنیا کی خیر چاہی کہ خدا تعالیٰ تمام قدرتوں کا مالک ہے.وہ بغیر تباہی کے بھی تو ان کے دلوں کی حالت بدل سکتا ہے.پس ہمارا زور بھی
خطبات مسرور جلد 12 655 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اس بات پر ہونا چاہئے کہ لوگ تباہ ہونے سے بچ جائیں تا کہ ہمارے بھائی بن جائیں.اس کے لئے ہمیں درد دل سے دعائیں کرنے کی بھی ضرورت ہے اور کوشش کی بھی ضرورت ہے.ہم نے دنیا کو صحیح روحانی راستوں کی رہنمائی کر کے ان کی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے.یہ بھی بتادوں کہ روحانی رہنمائی کر کے ہم نے دنیا کو صحیح راستوں پر تو چلانا ہی ہے ، مادی مد داور خیر بھی ہمارے ذمہ لگائی ہوئی ہے اور قرآن کریم میں اس کے بارے میں بھی احکامات ہیں.صرف اپنوں کے لئے خیر کے انتظامات نہیں کرنے ، صرف اپنوں کے بھوک ننگ اور بیماریوں کو ختم کرنے کے لئے کوشش نہیں کرنی بلکہ غیروں اور ہر ضرورتمند کے لئے ہماری کوشش ہونی چاہئے.اس وقت مضمون تو گوروحانی خیر کا ہی زیادہ ہے لیکن ایک بات میرے علم میں آئی ہے اس لئے یہاں اس کا بھی بیان کر دیتا ہوں.گزشتہ دنوں ہمارے ایک احمدی یہاں سے ترکی اور لبنان وغیرہ میں گئے جو وہاں ہمسایہ عرب ممالک سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کی ضروریات کا جائزہ لینے کے لئے گئے تھے.کیونکہ وہاں ان لوگوں کی بھی کافی بری حالت ہے.خوراک کی بھی کمی ہے اور دوسری چیزوں کی بھی ، ان کے لئے کپڑے وغیرہ کی بھی ضرورت ہے.اسی طرح بچوں کی تعلیم وغیرہ متاثر ہورہی ہے.تو بہر حال مختلف چیریٹی آرگنا ئز بیشن ہیں جو ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن کمی وہاں بہت زیادہ ہے.وہاں کسی احمدی نے یہ اعتراض بھی کیا کہ جماعت احمد یہ یورپ والوں کی مدد کیوں کرتی ہے صرف ہماری مدد کرنی چاہئے.غالباً اس شخص کا اشارہ یورپ میں ہم چیر بیٹیز کو جو تم دیتے ہیں اس کی طرف تھا.تو یہاں بھی اس قرآنی حکم کے مطابق یہی جواب ہے کہ روحانی اور مادی مد بلا امتیاز ہم نے ہر ایک کی کرنی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا د ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلاؤ تو یہ نہیں فرمایا کہ احمدی بھوکے کو یا مسلمان بھوکے کو کھانا کھلا ؤ بلکہ ہر بھو کے کوکھانا کھلاؤ.مسکین کی اور ضرورتمند کی ضرورت پوری کرو.تو یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہر مسکین اور ہر ضرورتمند کی ضرورت پوری کریں.یہ تمام فرائض ہم نے ادا کرنے ہیں اور ایک مومن کو اس قسم کی باتیں زیب نہیں دیتیں کہ وہ اعتراض کرے کہ فلاں کو کیوں دیا اور فلاں کو نہیں دیا.بلکہ مومن کے فرائض میں داخل ہے کہ بلا امتیاز ہر ایک کی خدمت کرے.دوسرے ہم یہاں جو چیریٹی واک وغیرہ کرتے ہیں اس میں غیر بھی کافی بڑی تعداد میں حصہ لیتے ہیں.اور یہی رقمیں جو چیریٹیز کو دی جاتی ہیں وہ لوگ بھی جب آتے ہیں تو ہماری چیریٹیز میں حصہ ڈالتے ہیں.اس لحاظ سے یہاں کی مقامی چیریٹیز کا بھی حق بنتا ہے کہ خدمت انسانیت کے
خطبات مسرور جلد 12 656 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء لئے جو کام وہ کر رہے ہیں ہم بھی ان کے ساتھ اس میں شامل ہو جا ئیں.ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ میں یہ نظر آتا ہے کہ نبوت کا مقام ملنے کے بعد بھی آپ نے فرمایا کہ اگر آج بھی مجھے غیروں کی طرف سے ضرورتمندوں کی مدد کے لئے بلایا جائے تو میں شامل ہو جاؤں.(السيرة النبوية لابن هشام باب حلف الفضول صفحه نمبر 91 دار الكتاب العربي بيروت 2008ء) آپ کا اشارہ حلف الفضول جو معاہدہ تھا اس کی طرف تھا جس میں نبوت سے بہت پہلے مکہ کے بعض لوگوں نے اکٹھے ہو کر غریبوں کی مدد کے لئے اور ضروریات پوری کرنے کے لئے تنظیم بنائی تھی جس میں آپ بھی شامل تھے.پس جیسا کہ میں نے کہا ہمیں اپنی خیر کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانا چاہئے نہ کہ محدود.ہم نہ تو دنیا سے ان کی جو مادی مدد ہم کرتے ہیں اس کے لئے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ روحانی خیر بانٹ کر کوئی بدلہ چاہتے ہیں.اگر کوئی درد اور تڑپ ہے تو صرف یہ کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچان لے.اور یہ خیر بانٹ کر اور خیر چاہ کر انبیاء ہمیشہ یہی جواب دیتے رہے ہیں جو ہمیشہ انبیاء کا اور ان کی جماعتوں کا شیوہ ہے اور یہی ہمیں سکھایا گیا ہے کہ میرا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے.میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا.پس یہی جواب انبیاء کی جماعت کا ہونا چاہئے اور ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ انبیاء جب خیر بانٹ کر پھر یہ کہتے ہیں کہ میرا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے تو پھر بھی ایک بہت بڑی تعداد نبی کی دشمنی میں بڑھتی چلی جاتی ہے.پس ہمیں بھی یہ سوچ لینا چاہئے کہ اس خیر کا بدلہ ہمیں ہمارے جو بدفطرت مخالفین ہیں ان کی طرف سے نقصان اور دشمنی کی صورت میں مل سکتا ہے اور ملتا بھی ہے.بلکہ بعض لوگ تو ہمیں اس طرح دیکھتے ہیں جیسے شیر بکری کو دیکھتا ہے کہ کس طرح شکار میرے قابو آ یا.ہمارا تو اس شخص جیسا حال ہے جس نے کوئی شیر یا چیتا پالا ہو اور وہ کسی طرح چھوٹ جائے تو مالک کی یہ کوشش ہو گی کہ اسے اس طرح قابو کرے کہ اس جانور کو کوئی نقصان نہ ہو اور پھر بھی وہ اس کے کسی کام آ سکے لیکن چیتے کی کوشش یہی ہوگی کہ مالک کو چیر پھاڑ ڈالے.پس پاکستان اور بعض ملکوں میں ایسے لوگ ہیں بلکہ تمام مولوی اور ان کے زیر اثر ایسے لوگ ہیں جو ہماری طرف جھوٹ منسوب کر کے ہمیں چیر نا پھاڑ نا چاہتے ہیں لیکن ہماری یہ کوشش ہے کہ یہ کسی طرح بیچ جائیں اور خدا تعالیٰ کی گرفت میں نہ آئیں.ان لوگوں کی مخالفتیں ہمارے ساتھ کسی ذاتی وجہ سے نہیں
خطبات مسرور جلد 12 657 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء ہیں.مختلف احمد یوں کو مختلف جگہوں پر آئے دن دھمکیاں ملتی رہتی ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے.اس لئے بہتر یہ ہے کہ احمدیت سے تو بہ کر کے ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ.تو ان کی دشمنیاں احمدیت سے ہیں کسی کی ذات سے نہیں.اور احمدیت سے دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ انہیں صاف نظر آ رہا ہے کہ احمدیت کی ترقی اُن کے ذاتی مفادات اور لوگوں کے ان کی طرف رجحان کا زوال ہے.جس جس طرح احمدی ترقی کرتے جائیں گے یا احمدیت ترقی کرتی جائے گی ان لوگوں کا زوال ہوتا جائے گا.ان لوگوں کو نظر آ رہا ہے کہ جماعت جس طرح ترقی کر رہی ہے کل ہم پر قبضہ کر لے گی.اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ ان ملکوں میں جو مغربی ممالک ہیں یا ان ممالک میں جو ان کے زیر اثر ہیں جماعت کی ترقی جماعت کے خلاف منصوبہ بندی کی طرف لے جائے گی.ان کے خیال میں شاید جماعت احمدیہ حکومتوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے حالانکہ جماعت احمدیہ کا پھیلاؤ ان ملکوں پر قبضہ کرنے والا پھیلا ؤ نہیں بلکہ ان میں پہلے سے بڑھ کر امن اور سلامتی کو قائم کرنے کا ذریعہ بنے گا.مسلمان ممالک میں بھی ہم مسلمانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ساتھ جڑنے کا جو کہتے ہیں تو ان کی دنیاوی تکلیفوں اور فسادوں کو دور کرنے کے لئے اور ان کے بہتر انجام کے لئے کہتے ہیں.اسی طرح دنیا کے باقی مذاہب کے لوگوں کو ہم خدا تعالیٰ کے غضب سے بچانا چاہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا پر اپنا غلبہ دنیا کو اپنے زیر نگین بنانے کے لئے نہیں چاہا تھا، نہ یہ دعا کی تھی کہ یہ غلبہ ہو.یا آج خلافت کے ساتھ جڑ کر جماعت احمد یہ دنیا میں غلبے کی باتیں حکومتوں پر قبضہ اور دنیا کو زیرنگین کرنے کے لئے نہیں کرتی بلکہ اس کا مقصد خدا تعالی کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم کو دنیا میں رائج کرنے کے لئے ہے.ہمیں ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنی چاہئے کہ باوجود آپ کی طرف سے خیر اور بھلائی کے پیغام کے آپ کے خلاف، آپ کے صحابہ کے خلاف دشمنی کے بازار گرم کئے گئے.جنگیں ٹھونسی گئیں.لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کے لئے ہدایت اور رحم ہی مانگا اور حتی الوسع کوشش کی کہ دنیا کو آپ سے خیر ہی ملے.اور جنگیں اگر لڑیں تو وہ بھی مجبوری کی صورت میں اور ہر قسم کے ظلموں سے بچتے ہوئے صرف دفاع کے لئے اور اصلاح کے لئے اور یہ بھی ایک طرح سے ان لوگوں کی خیر کے لئے تھا.بہر حال جو آخری نتیجہ تھا وہ خیر کو حاصل کرنا ہی تھا.باوجود اس کے جب ہم دیکھتے ہیں مثلاً تو رات میں حضرت اسماعیل کے خلاف حضرت اسحق کی قوم کی مخالفت کا ذکر ملتا ہے.(ماخوذ از پیدائش باب 16 آیت 12)
خطبات مسرور جلد 12 658 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء اور یہودیوں اور عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی بھی اس وجہ سے کی.باوجود اس کے کہ عیسائی اور یہودی آپس میں سخت مخالفت کرنے والے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دونوں اکٹھے ہو جاتے تھے اور اب بھی ہو جاتے ہیں.اسی سوچ اور تعلیم کی وجہ سے یہودیوں نے مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیفیں پہنچا ئیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ ان کے لئے خیر خواہی کے جذبے کا اظہار ہوا سوائے اس کے جہاں حکومت کے قانون کو نافذ کرنے کے لئے سزا کی ضرورت تھی اور وہ بھی دوسروں کے لئے خیر خواہی تھی.ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوآ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کے طور پر اور ایک خاص نسبت کے ساتھ بھیجا گیا ہے تو تکلیفوں اور دشمنیوں کی یہ نسبت آپ کے ساتھ بھی قائم ہونی ضروری تھی اور ہے.پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے والے ہیں ہم نے مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا ہے اور کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلتے ہوئے ہم نے دنیا کی خیر اور بھلائی ہی چاہنی ہے.یہ باتیں سن کر شاید بعض ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ شاید مخالفتیں ہمیشہ ہی ہمارے ساتھ لگی رہنی ہیں.ایسی بات بھی نہیں ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ غلبے کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہیں اور یہ غلبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملنا ہے.انشاء اللہ.دنیاوی اسباب پر بھروسہ کر کے اور دنیا داروں پر بھروسہ کر کے ہم کسی بھی طرح اپنے کام کو پورا نہیں کر سکتے.ہم دنیا داروں پر بھروسہ کر بھی کس طرح سکتے ہیں کیونکہ خیر امت تو ہمیں کہا گیا ہے.خیر ہم نے بانٹنی ہے، نہ کہ ہم نے خیر لینی ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے یہ غلبہ ملنا ہے تو ان فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہو گی اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ جو کام لگایا ہے اس کو انتہا تک پہنچانے کی کوشش کرنی ہوگی.ہم نے جو کچھ کرنا ہے اپنی کوشش پر انحصار کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے کرنا ہے.دوسروں پر انحصار یا دنیاوی طاقتوں پر کسی بھی قسم کا تکیہ ہمارا زوال ہے.یہ یاد رکھنا چاہئے الہی جماعتیں دنیاوی طاقتوں سے مدد نہیں لیا کرتیں.ہماری کوششیں کیا ہیں جن سے ہم کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ وہ خیر کا پیغام ہے جس کے بارے میں پہلے میں ذکر کر چکا ہوں جو ہر طبقے کے لوگوں کو ہر طبقے کے احمدی نے پھیلانا ہے اور اس کی ضرورت ہے.تبلیغ کے کام میں اپنے آپ کو ڈالنا ہے.مزدور ہے، تاجر ہے، ڈاکٹر ہے، وکیل ہے، سائنسدان ہے، استاد ہے ، دوسرے زمیندار ہیں ، ہر ایک کو حکمت سے خیر خواہی کا یہ پیغام اپنے اپنے
خطبات مسرور جلد 12 659 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 اکتوبر 2014ء طبقے میں پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو احمدیت اور حقیقی اسلام کا پتا چلے اور اس سے پہلے کہ دنیا میں اور جگہوں پر جہاں ابھی مخالفت نہیں ہے احمدیت کے خلاف مخالفتوں کے بیج بوئے جائیں یا پنپیں ہماری جڑیں وہاں مضبوط ہو جائیں.شیطان کے گروہوں کو ہوش آنے سے پہلے خیر اور بھلائی کا اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کا ان جگہوں پر غلبہ ہو جانا چاہئے.پس آج مسیح محمدی کے غلاموں کا یہ کام ہے کہ حکمت اور محنت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے خیر اور بھلائی کی اسلامی تعلیم کو ہر دل میں گاڑ دیں اور اس کے لئے بھر پور کوشش کریں.اس کیلئے دنیا میں ہر جگہ داعیان الی اللہ کی تعداد کو بڑھانے اور فعال کرنے کی بھی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ افراد جماعت کو بھی اور جماعتی نظام کو بھی اس طرف توجہ دینے کی بھر پور توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 21 نومبر 2014ء تا 27 نومبر 2014 ، جلد 21 شمارہ 47 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 660 45 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفه امس الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014 ء بمطابق 07 نبوت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (آل عمران:93) تم ہرگز نیکی کو پانہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقینا اللہ اس کو خوب جانتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے.اسی واسطے علم تعبیر الرویاء میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے ( خواب میں یہ دیکھے ) کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دے دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے.یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرما یالَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا ممَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے.کیونکہ مخلوق الہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ا بنائے جنس اور مخلوق خدا کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دوسرا جز و ہے جس کے بڑوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا.جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے.دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثا ر ضروری شے ہے اور اس آیت
خطبات مسرور جلد 12 661 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء میں لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ.میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقوی شعاری کا معیار اور محک ہے.ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی میں للہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 95-96) اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہماری اعتقادی اور علمی اصلاح جہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق کی وہاں روحانی ترقی اور تزکیہ کے بھی قرآنی تعلیم کے مطابق اسلوب سکھائے.حقوق اللہ کی طرف بھی توجہ دلائی اور حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلائی.جان، مال، وقت اور اولا دکو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربان کرنے کی روح بھی پیدا فرمائی.اپنی جماعت کے ہر فرد سے یہ توقع رکھی کہ وہ اپنی حالتوں کو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کی تعلیمات کے مطابق بنا ئیں تبھی وہ حقیقی احمدی کہلا سکتے ہیں.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زندگیوں کو آپ کی توقع اور خواہش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں.یہ اقتباس جو میں نے پڑھا ہے یہ اس آیت کی وضاحت میں ہے جس کی میں نے پہلے تلاوت کی تھی.جیسا کہ میں نے بتایا اس میں اللہ تعالیٰ ہمیں ہماری روحانی ترقی کے لئے جو ذمہ داریاں ہیں، ایک مومن کی جو ذمہ داریاں ہیں ان کی طرف توجہ دلا رہا ہے یعنی ان میں سے ایک ذمہ داری یعنی مالی قربانی کی طرف.گو اس میں یہ وسیع مضمون ہے لیکن اس وقت مالی قربانی کے حوالے سے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مال کی قربانی بھی اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.اس لحاظ سے اس آیت میں جو مالی قربانی کا پہلو ہے اس کے حوالے سے میں بیان کروں گا.حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بھی اور اشاعت دین کے کام کے لئے بھی مالی قربانی کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس کا یہ نچوڑ ہے اور مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں یہ کام اپنی انتہا کو پہنچنے تھے اور آج ہم احمدی ان خوش قسمتوں میں شامل ہیں جو اس کام کی تکمیل میں حصہ لے رہے ہیں تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں.آج دنیا مال کی محبت میں پتا نہیں کیا کچھ کر رہی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور تربیت کا اثر ہے کہ احمدیوں کی بہت بڑی اکثریت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی اشاعت کے لئے اپنے
خطبات مسرور جلد 12 662 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء پسندیدہ مال میں سے خرچ کرتے ہیں بلکہ بعض ایسے ہیں کہ اگر کبھی مال خرچ کرنے کی یہ توفیق کسی وجہ سے کم ہو جائے تو بے چین ہو جاتے ہیں ، روتے ہیں.پس یہ دلوں کی حالت اور مالی قربانی کی روح بلکہ بعض دفعہ جان کی قربانی کی روح بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی اشاعت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے اور اب اسلام کی ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمائی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ ہی مومنین کے دلوں میں مالی جہاد کے لئے مالی قربانی کی روح بھی پیدا فرماتا ہے اور اسی طرح باقی دوسری قسم کی قربانیاں بھی ہیں.اس وقت میں چند واقعات بیان کروں گا کہ اس زمانے میں بھی کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں قربانی کی روح پیدا کرنے کی تحریک پیدا کرتا ہے اور یہ نہیں کہ یہ کسی خاص طبقے یا خاص ملک میں یا خاص لوگوں میں ہے بلکہ دنیا کے ہر خطے میں ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتا ہے اس کے دل میں اللہ تعالیٰ اس کی تحریک پیدا کرتا ہے چاہے وہ افریقہ کے دور دراز ممالک ہوں یا یورپ میں رہنے والے لوگ ہوں یا جزائر میں رہنے والے ہوں.امیر صاحب برکینا فاسو نے یہ لکھا کہ فادا شہر کے صدر صاحب جماعت کہتے ہیں کہ اس سال جب عید الاضحیٰ آئی تو میرے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ گھر کھا نا بھی پک سکتا.اس لئے قربانی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا یعنی عید پر بکرے کی جو قربانی کی جاتی ہے.کہتے ہیں کہ ان دنوں تحریک جدید کے بارے میں مربی صاحب بھی درس دیتے تھے.مالی قربانی کے بارے میں بھی اور تحریک جدید کے بارے میں انہوں نے توجہ دلائی.چنانچہ کہتے ہیں میں نے برکت کے لئے دو ہزار فرانک اس میں دے دیا اور خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ میری ضروریات پوری کر دے گا.بہر حال ایسا معجزہ ہوا کہ اگلے دن ہی ان کے چھوٹے بھائی نے ان کو آئیوری کوسٹ سے غیر معمولی طور پر بڑی رقم بھجوائی جس کی انہیں کوئی امید نہیں تھی جس سے عید کی قربانی کا بھی انتظام ہو گیا اور اُن کے گھر کے اخراجات کے لئے جو ضرورت تھی وہ بھی پوری ہوگئی.وہ کہتے ہیں چند گھنٹے میں یہ دیکھ کر میرے ایمان میں مزید اضافہ ہوا.پھر برکینا فاسو کے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ وڈ گو کی جگہ کے ایک خادم تر او لے آدم صاحب نے کپاس کا بیج خریدا ( وہاں کپاس کی فصل کاشت کی جاتی ہے) کہ اس کو بیچ کرگزارہ کروں گا.لیکن ایسا ہوا کہ کوئی گا ہک نہیں ملا.ان کو بڑی تشویش ہوئی کہ اگر پیج فروخت نہ ہوا تو گھر کا نظام کیسے چلے گا.بہر حال ایک دن
خطبات مسرور جلد 12 663 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء پریشانی میں یہ مربی صاحب کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو یہی کہا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ پریشانیاں دور کرتا ہے.تم بھی یہ نسخہ آزما کے دیکھ لو.کہتے ہیں اس تحریک پر میں نے تحریک جدید کا چندہ دے دیا اور یہ عہد کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور جلد ہی انتظام ہو گیا تو دس ہزار مزید دوں گا.وہ خادم کہتے ہیں کہ رسید کٹانے کے بعد ہی فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ اتنے گا ہک آئے کہ چند دنوں میں بیج پک گیا اور اُن کی توقع سے جو زیادہ آمد ہوئی اُس کی وجہ سے انہوں نے دس ہزار مزید چندہ میں دیا.اسی طرح برکینا فاسو کی ایک اور جگہ ہے.دوسری ریجن ہے وہاں کے ایک دوست لاجی (Laji) صاحب نے گزشتہ سال ہی بیعت کی تھی.جب ان کو یہ پتالگا کہ میں نے عموماًیہ تحریک کی ہے کہ نو مبائعین کو کم از کم کسی نہ کسی تحریک میں شامل کریں تا کہ مالی قربانی کی روح ان میں پیدا ہوا اور یہ نہ دیکھیں کہ چندہ کتنا بڑھتا ہے.رقم کتنی آتی ہے.صرف یہ ہے کہ عادت ڈالنے کے لئے ہر احمدی کو مالی قربانی میں حصہ لینا چاہئے اور نومبائعین کو خاص طور پر اس طرف توجہ دلائیں.بہر حال جب ان کو تو جہ دلائی گئی کہ چاہے ایک پنس دیں یا ایک فرانک دیں تو ان نو مبائع نے بھی اس طرف توجہ کی.وہاں رواج یہ ہے کہ گاؤں کے دیہاتی لوگ ہیں، زمیندارہ کرتے ہیں.کاشت کرتے ہیں تو بجائے رقم کے وہ اپنی جنس دیتے ہیں اور جنس دینے کے لئے وہ جماعت کو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بوریاں یا کوئی چیز دے دو تا کہ ہم اس میں جنس بھر کے پہنچادیں.تو ان کو بھی مربی صاحب نے یا جو بھی جماعت کا نظام تھا انہوں نے دو خالی بوریاں دیں.ان کو خیال آیا کہ میں احمدی تو اب ہوا ہوں ساری زندگی میں مسلمان رہا ہوں.چندہ کی تحریک تو کبھی میرے سامنے نہ ہوئی اور نہ میں نے کبھی چندہ دیا.اب یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت نے کہا ہے کہ ضرور چندے میں شامل ہونا چاہئے.تو میں دیکھتا ہوں کہ اس میں کیا فائدہ ہوتا ہے.بہر حال انہوں نے وہ اناج دیا جو بائیس ہزار فرانک کا تھا اور اس کے بعد جب فصل آئی تو انہوں نے آ کے بتایا کہ اس سال میری فصل گزشتہ سال سے دوگنی ہو گئی.چنانچہ اگلے سال وہ دوگنی جنس دینے کے لئے بوریاں لے کر گئے.لائبیریا کے امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہاں کے مربی کیپ ٹاؤن کا ؤنٹی کے دورے پر گئے.جاتے ہوئے ایک جماعت نگینا (Nagbina) ہے.ان کو پیغام دیتے گئے کہ نماز مغرب کے وقت ہم آئیں گے.لیکن اگلی جو جماعت تھی ولور (Vilor) یہاں کافی بڑی جماعت ہے اور بڑی فعال جماعت ہے.چندہ دینے والے بھی ہیں.وہاں غیر معمولی تاخیر ہوگئی.انہوں نے بھی سوچا کہ یہ نگبینا
خطبات مسرور جلد 12 664 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء (Nagbina) کی جماعت جو ہے یہ عموماً کمزور جماعت ہے.قربانی کے لحاظ سے بھی کمزور ہے تو ان کو کہ کر تو گئے تھے کہ مغرب کے وقت پہنچیں گے لیکن جس جماعت میں گئے ہوئے تھے وہ بڑی بھی تھی اور وہاں مصروفیت بھی زیادہ ہو گئی ، اس لئے دیر ہو گئی تو عشاء کی نماز ہو گئی.جب عشاء کے وقت پہنچے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس جماعت میں بھی پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ 170 احباب انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.آپ نے کہا تھا کہ خلیفہ وقت نے کہا ہے کہ تمام کو شامل ہونا چاہئے تو ہم احباب یہاں تحریک جدید کا چندہ دینے کے لئے بیٹھے ہیں.تو جماعت کے افراد کی یہ روح ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ چندہ دینے والے نہیں یا کمزور ہیں لیکن جب صحیح رنگ میں ایک تحریک کی جائے.ان کو بتایا جائے.اہمیت بتائی جائے کہ مالی قربانی کی کیا اہمیت ہے؟ کیا کیا کام ہیں؟ جب لوگوں پر یہ واضح ہو جائے تو پھر ہر وقت وہ قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں.پس اگر کمزوری ہے تو نظام میں کمزوری ہوتی ہے.لوگوں کے ایمان میں اللہ کے فضل سے کوئی کمزوری نہیں ہے.پھر لائبیریا کے ہی امیر صاحب لکھتے ہیں کہ بلاور (Blavor) کے گاؤں میں اس سال نئی جماعت بنی ہے.اس گاؤں کی کوئی سڑک نہیں ہے بلکہ کچا راستہ بھی نہیں جاتا ایک پگڈنڈی جاتی ہے اور اس پر بھی جگہ جگہ نالوں کے اوپر درخت کے تنوں سے پل بنے ہوئے ہیں اور ان درختوں کے اوپر سے گزرنا پڑتا ہے.کہتے ہیں ہمارے لوکل معلم وہاں دورے پر گئے.نئی جماعت تھی.اس کو بتایا کہ مالی قربانی کیا ہوتی ہے اور تحریک جدید کا تعارف کروایا کہ اگلے ہفتے پھر آئیں گے.تو وہاں کے لوگوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم بڑی دور دراز کی جماعت ہیں.جنگل میں رہتے ہیں.غریب لوگ ہیں لیکن راستہ ایسا ہے کہ تمہیں دوبارہ آنے کی تکلیف کی ضرورت نہیں.ہمیں سمجھ آ گئی ہے کہ چندے کی اور مالی قربانی کی کیا اہمیت ہے تو جو بھی ہمارے پاس ہے، ہم سے ابھی لے کر جاؤ.بجائے اس کے کہ دوبارہ آؤ اور پھر دوبارہ اس رستے کی تنگیاں اور تکلیفیں تمہیں برداشت کرنی پڑیں.تو یہ دیکھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان دور دراز لوگوں کے دلوں میں بھی ڈال رہا ہے جن میں ابھی احمدیت آئی ہے اور حقیقت میں ان کو پوری طرح اس تعلیم کا اور اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہوا لیکن باوجود اس کے قربانیوں میں وہ پہلے دن سے ترقی کر رہے ہیں.پھر بینن کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ پورتونو دو کے ایک مشہور احمدی مشہودی صاحب ہیں.انہوں نے ایک ہزار پاؤنڈ سے زیادہ کی قربانی کی.اب افریقہ کے ملکوں میں اتنی بڑی قربانی بہت بڑی چیز ہے.جب ان کو مبلغ نے کہا کہ اتنی قربانی آپ کر رہے ہیں.وقف جدید کا بھی چندہ ہے اور دوسرے
خطبات مسرور جلد 12 665 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء چندے بھی ہیں تو انہوں نے کہا کہ بیشک ہوں گے لیکن اس میں سے میں کم نہیں کروں گا.اللہ تعالیٰ ان کے لئے اور سامان پیدا فرمادے گا.تو یہ وہ روح ہے جو ان لوگوں میں پیدا ہورہی ہے.بہر حال یہ مربی نے بھی صحیح کیا کہ ان کو بتادیا کیونکہ مقصد رقم اکٹھی کرنا نہیں ہے.مقصد وہ روح پیدا کرنا ہے جو ایک قربانی کی روح ہے.مالی قربانی کی روح ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے تزکیہ نفس بھی ہو.گزشتہ دنوں ربوہ میں ختم نبوت کا نفرنس ہو رہی تھی.ہر سال ہوتی ہے، یہاں بھی ہوتی ہے.تو وہاں پہلے تو ایک مولوی صاحب نے بڑی دھواں دار تقریر کی کہ جماعت احمدیہ کو بڑی بڑی طاقتیں اور حکومتیں فنڈ کرتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ترقی کر رہی ہے.لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد خود ہی اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان سے نکلوادیا اور وہ جوش میں یہ بھی کہہ گئے کہ دیکھو جماعت احمد یہ اس لئے ترقی کر رہی ہے کہ ان کے غریب بھی مالی قربانی کرتے ہیں اور یہ ان کا چندہ ہے جس کی وجہ سے دنیا میں وہ تبلیغ اسلام کر رہے ہیں اور ہم سے وہ بہت آگے نکل گئے ہیں.بہر حال کسی حکومت کی نہ ہمیں مدد کی ضرورت ہے اور نہ لی جاتی ہے.یہ جماعت کے افراد کا اخلاص اور قربانی کی روح ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے.پھر بینن سے ہمارے ساوے ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک نومبائع جماعت پیل (Peulh) میں تربیتی اجلاس منعقد کیا گیا تو تحریک جدید کا تاریخی پس منظر بیان کیا گیا اور مالی قربانی کے بارے میں توجہ دلائی.اجلاس کے آخر پر دوستوں نے اپنا اپنا چندہ پیش کیا.ایک دوست نے پوچھا کہ میرے پاس رقم تو نہیں لیکن چندہ دینے کی خواہش ہے.اس پر وہاں کے مقامی مبلغ نے اس کی رہنمائی کی کہ حسب استطاعت جو کچھ ہے وہ پیش کریں.اس پر وہ دوست گئے.بڑے غریب تھے.گھر سے مرغی کے دو انڈے لے کر آئے کہ اس وقت میرے پاس یہ ہیں.تو ان کو اور جماعت کو بھی بتایا گیا کہ یہ ان کی حیثیت کے مطابق بہت بڑی قربانی ہے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں کوئی قربانی چھوٹی نہیں.بس نیت نیک ہونی چاہئے.یہ باتیں جو افریقہ کے دور دراز ممالک میں ہو رہی ہیں اس طرف بھی توجہ پھیرتی ہیں جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تحریک پر غریب عورتیں اسی طرح مرغیاں اور انڈے لے کے آجایا کرتی تھیں اور یہ اس لئے ہے کہ دین اسلام کی اشاعت کی تڑپ ان لوگوں میں ہے.پھر مالی کی ایک رپورٹ ہے.ایک پرانے احمدی ابوبکر جارہ صاحب نے کسی وجہ سے چندہ دینا چھوڑ دیا اور آہستہ آہستہ جماعتی پروگراموں میں بھی آنا چھوڑ دیا.اس پر انہیں کافی سمجھا یا مگر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا.ایک عرصے کے بعد وہ ایک دن مشن آئے اور اپنا چندہ ادا کیا اور بتایا کہ آج رات انہوں نے
خطبات مسرور جلد 12 666 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء - خواب میں دیکھا ہے کہ وہ بہت گہرے پانی میں ڈوب رہے ہیں اور کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں آ رہا.اتنے میں وہ ایک کشتی دیکھتے ہیں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سوار ہیں.حضور نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کشتی میں اپنے ساتھ بٹھا لیا اور فرمایا کہ آئندہ کبھی بھی چندہ دینے میں سستی نہ کرنا.اس خواب کے بعد انہوں نے جماعت سے پختہ وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی وہ چندہ دینے میں سستی نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ جماعتی کاموں میں غفلت برتیں گے.پس جہاں یہ چندے کی اہمیت کا ثبوت ہے، وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا بھی ثبوت ہے کہ دور دراز کے ایک ملک میں اور اس ملک کے بھی ایک دور دراز علاقے میں ایک شخص احمدیت قبول کرتا ہے.پھر پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اس کی رہنمائی پھر خواب کے ذریعہ سے ہوتی ہے.بینن کے ریجن کو تو نو کے ایک زون کے ایک داعی الی اللہ شافیو صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ فطرانہ وصول کرنے کے لئے گئے تو اپنے علاقے کے ایک گھر میں پہنچے اور گھر کے سر براہ سے جب فطرانہ پوچھا گیا تو کہنے لگے کہ میرے سارے گھر میں صرف یہ پندرہ سوفرانک سیفا ہی ہیں اور ایک دو روز میں میری بیوی کی ڈیلوری ہونے والی ہے، بچہ پیدا ہونے والا ہے.اس کے لئے مجھے ساڑھے چار ہزار فرانک سیفا چاہئے اور آج ہی میرا مالک مکان بھی کرائے کے ساڑھے تین ہزار فرانک وصول کرنے آیا ہے اور ناراض ہو کر گیا ہے کہ میں اسے کرایہ نہ دے سکا تو میرے پاس تو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے.بہر حال شافیو صاحب جو لوکل سیکرٹری ہیں.انہوں نے ان کو سمجھایا.گوایسی حالت میں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ چندہ دو لیکن بہر حال انہوں نے اپنے حالات کے مطابق انہیں سمجھایا کہ ایسی حالت میں بھی اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں دو تو پھل لگتا ہے.بلکہ ایسے حالات میں تو ہمارے وہاں کے مبلغین کو چاہئے کہ ان لوگوں کی مدد کریں.لیکن بہر حال جو آگے واقعہ آتا ہے اس سے پتا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہونے والوں کی کس طرح مدد فرماتا ہے اور ان کے الفاظ کی کس طرح لاج رکھتا ہے.جب سیکرٹری صاحب نے ان کو کہا کہ اللہ تعالی مدد کرے گا اور خدا کی راہ میں قربانی خوب پھل لاتی ہے تو اس نے ایک ہزار فرانک سیفا جو ہے وہ فطرانہ اور باقی پانچ سوتحریک جدید میں دے دیا.ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ اسی آدمی نے بڑی خوشی سے بتایا کہ اس روز جب آپ ان سے چندہ وصول کر کے آئے تو ایک آدمی آیا اور مجھے دس ہزار فرانک سیفا دے کر کہنے لگا کہ یہ رقم اس فلاں آدمی نے بھجوائی ہے جس نے کبھی مجھ سے بارہ ہزار فرانک ادھار لئے تھے اور کئی مرتبہ مانگنے کے باوجود وہ قرض واپس نہیں کر رہا تھا.لیکن بغیر مانگے ہی
خطبات مسرور جلد 12 667 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء چندہ دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس قرض لینے والے کے دل میں ڈالا اور اس نے وہ رقم لوٹا دی.کہتے ہیں کہ مالک مکان کا کرایہ بھی ادا ہو گیا اور خیر و خوبی سے میری بیوی کے ڈیلوری بھی ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اولا د سے بھی نوازا.دار السلام تنزانیہ کے ایک احمدی دوست عیسی صاحب بیان کرتے ہیں.انہوں نے نوے کی دہائی میں احمدیت قبول کی تھی.اس سے پہلے وہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے لیکن احمدیت قبول کرنے کے بعد ایمان میں کافی ترقی کی.اب ماشاء اللہ موصی ہیں اور مالی قربانی کرنے والے ہیں.ہمیشہ اپنی اور اپنی فیملی کا چندہ وعدے سے زیادہ ادا کرتے ہیں.جماعتی تعلیمات کو بجالانے میں پرانے احمدیوں سے بہت آگے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دار السلام تنزانیہ کے ریجنل پریذیڈنٹ ہیں.کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی شروع کی ہے، اللہ تعالیٰ کے بہت سے افضال اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھے ہیں.اتنی برکات نازل ہوئی ہیں کہ جو بیشمار ہیں.مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ خاکسار کا پہلے ایک گھر تھا.لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین گھروں کا مالک ہوں.میری اولا د بھی بہترین جگہ پر تعلیم حاصل کر رہی ہے.اسی طرح الا ڈا ریجن کے مبلغ صاحب کہتے ہیں ایک مرتبہ سویو (Soyo) جماعت کے دورے پر گئے تو سات سال کی ایک بچی رشیدہ یا را شدہ ، اب دیکھیں بچوں کے دل میں بھی کس طرح اللہ تعالیٰ ڈالتا ہے، ٹماٹر اور مرچیں اور مالٹے لے کر آئی اور کہا کہ وہ یہ سب تحریک جدید کے چندہ کے لئے لائی ہے.وہاں کے صدر صاحب نے بتایا کہ وہ ہر ماہ چندہ دیتی ہے اور اگر اس کی ماں چندے کے پیسے نہ دے تو وہ روتی ہے.جب معلم صاحب چندہ لینے آئے تو وہ سکول گئی ہوئی تھی.آج ہمیں دیکھ کر وہ گھر گئی اور پیسے نہ ملے تو اپنے کھیت کی یہ چند چیز میں بطور چندہ کے لے کے آئی ہے.پس یہ قربانی کی وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ بچوں میں بھی پیدا کر رہا ہے.نائیجیریا کی ایک جماعت او کینے (Okene) کے صدر صاحب کہتے ہیں.خاکسار کچھ عرصہ مالی مشکلات کا شکار رہا اس کی وجہ سے کافی پریشانی ہوئی.پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ خاکسار نے تین ماہ سے چندہ ادا نہیں کیا.ممکن ہے اسی سبب خاکسار اس مالی پریشانی میں مبتلا ہو.اس پر میں نے تین ماہ بعد چار ہزار نائزہ چندہ ادا کیا.خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی ماہ خاکسار نے ایک قطعہ زمین بیچا جس پر میرے مولیٰ کریم نے آٹھ لاکھ نائزہ کا منافع عطا فرمایا.اس وقت میرے ایمان کو جہاں مزید تقویت ملی وہیں یہ بات
خطبات مسرور جلد 12 668 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء بھی سمجھ میں آئی کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے.اگر اس کی راہ میں قربانی کرو گے تو وہ ضرور کئی گنا بڑھا کر تمہیں واپس لوٹائے گا.اب انہوں نے کوگی (Kogi) سٹیٹ کے کیپیٹل لوکوجا (Lokoja) میں جماعت کو مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ایک بہت بڑا پلاٹ بھی شہر کے علاقے میں لے کر دیا ہے.تنزانیہ سے ایک احمدی مارونڈا صاحب لکھتے ہیں کہ میری تعلیم میٹرک ہے.ایک عرصے سے بیروز گار تھا.مجھے ایک گیس کمپنی میں سیکیورٹی گارڈ کی ملازمت مل گئی.چھپن ہزار شلنگ تنخواہ مقرر ہوئی.میں نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ میں اپنی تنخواہ پر چندہ جات شرح کے مطابق ادا کروں گا.خواہ مجھے کیسے ہی مسائل در پیش ہوں میں چندے میں سستی نہیں کروں گا.چنانچہ اس خادم نے اپنے اس عہد کو نبھایا.کہتے ہیں کہ میں آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی مالی قربانی کے باعث اس گیس کمپنی میں سینیئر فیلڈ گیس آپریٹر کے عہدے پر فائز ہوں اور مجھے ڈیڑھ ملین شلنگ تنخواہ مل رہی ہے.میری علمی قابلیت صرف معمولی دسویں پاس ہی ہے.کمپنی کے قوانین کے مطابق میں اس عہدے کا اہل بھی نہیں ہوں.لیکن محض خدا تعالیٰ کے فضل سے شرح کے مطابق مالی قربانی کرنے کی یہ برکتیں ہیں کہ میں اس عہدے پر فائز ہوں اور آج بھی شرح کے مطابق چندہ ادا کرتا ہوں.پس یہ لوگ اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں اور وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لاَنْفُسِكُمْ.(التغابن : 17 ) اور اپنے مال اس کی راہ میں خرچ کرتے رہو تو یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہے، اس مضمون کو سمجھنے والے ہیں.اس راز کو یہ لوگ سمجھنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ پھر ان کو نوازتا بھی ہے.شہاب الدین صاحب انڈیا کے انسپکٹر تحریک جدید لکھتے ہیں کہ ایک صاحب جو جڑ چرلہ کے صف اول کے مجاہد ہیں ان کا کاروبار متاثر ہو گیا.Real اسٹیٹ کا کاروبار تھا.کئی ماہ سے بہت پریشان تھے اور فون کر کے وہ چندوں کی ادائیگی کے لئے دعا کی درخواست بھی کرتے رہے.مجھے بھی انہوں نے لکھا.ایک دن رات کو یہ انسپکٹر شہاب صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ان کا فون آیا.اپنے مالی حالات کی وجہ سے بڑے فکر مند تھے.انہوں نے ان کو کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں.دو رکعت نفل پڑھیں اور سوجائیں.کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ فون آیا اور کہنے لگے کہ میری خاطر آپ تھوڑی دیر جاگتے رہیں میں آپ سے ملنے آرہا ہوں.جب موصوف آئے تو ایک بڑی رقم ان کے ہاتھ میں تھی.کہنے لگے کہ جب میں یہ دعا کر رہا تھا تو ایک ایسا شخص جس کا بڑا کاروبار تھا اس کا فون آیا جس کے ذمے میری بہت بڑی رقم قابل ادا تھی اور جس کے ملنے کی امید بھی نہیں تھی.اس نے مجھے فون کیا کہ فورا آ کر اپنی رقم لے جاؤ.تو کہتے ہیں کہ کیونکہ
خطبات مسرور جلد 12 669 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء میری چندہ کی نیت تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے فوراً یہ انتظام کر دیا.اسی طرح بشیر الدین صاحب قادیان کے نائب وکیل المال ہیں یہ کہتے ہیں کہ جماعت کے ایک مخلص دوست نے اڑھائی گنا اضافے کے ساتھ اپنا وعدہ لکھوایا اور اپنے آفس کے لئے روانہ ہو گئے.جب یہ وہاں گئے.کچھ ہی دیر کے بعد موصوف نے سیکرٹری صاحب تحریک جدید کوفون کیا اور بتایا کہ وعدہ لکھوا کر مسجد سے باہر نکلتے ہی مجھے اپنے کاروبار میں مزید منافع ہونے کی اطلاع ملی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ زائد منافع یقینا اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور تحریک جدید کی برکت سے ہوا ہے.لہذا آپ میرا وعدہ دو گنا کر دیں.اڑھائی گنا اضافہ پہلے ہی وہ کر چکے تھے اب اس کو بھی دو گنا کر دیا اور اللہ کے فضل سے مکمل ادائیگی کر دی.اسی طرح کیرالہ انڈیا کے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک جماعت کے ایثار پیشہ مخلص دوست نے گزشتہ سال اپنا تحریک جدید کا چندہ دو گنا اضافے کے ساتھ ادا کیا تھا اور بفضل تعالیٰ امسال بھی غیر معمولی اضافے کے ساتھ ادا ئیگی کی ہے.موصوف نے بتایا کہ انہوں نے سات سال قبل تیس ہزار روپے کے سرمائے اور صرف تین مزدوروں کے ساتھ کام شروع کیا تھا جبکہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری انڈیا، دبئی اور انڈونیشیا میں Ruber Wood Furniture کی آٹھ فیکٹریاں ہیں جن میں پانچ سو سے زائد کاریگر کام کرتے ہیں.یہ ترقی جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ محض چندوں کی با شرح ادا ئیگی کی برکت سے ہے.موصوف کہتے ہیں کہ میں جب بھی چندہ ادا کرتا ہوں خدا تعالیٰ مجھے شام تک اس سے کہیں زیادہ عطا کر دیتا ہے اور مالی تنگی کا سوال ہی نہیں کہ کبھی میں نے محسوس کی ہو.وہاں ربوہ میں نائب وکیل المال عزیزم طلحہ احمد ہیں.کہتے ہیں.کراچی کے دورے پر میں گیا تو کلفٹن کے رہنے والے ایک خادم ہیں ان کو تحریک جدید کی تحریک کی.تو انہوں نے کہا آپ خود اضافہ کر دیں.بتائیں کتنا اضافہ کروں؟ میں نے کہا میرے سامنے تو آپ کے حالات نہیں ہیں.صرف حلقے کا ٹارگٹ ہے کہ اتنا ہونا چاہئے.جو کچھ آپ بہتر سمجھتے ہیں اپنی آمد کے لحاظ سے اضافہ کر دیں.اور ان کو واقعہ سنایا کہ وکیل المال صاحب سندھ دورے پر گئے تھے تو انہوں نے ایک شخص سے اسی طرح کہا تو انہوں نے بھی ان کو یہی کہا تھا کہ آپ اپنے حالات کے مطابق کریں.اگر میں کہہ دوں کہ پانچ لاکھ کر دیں تو آپ پانچ لاکھ دے دیں گے؟ بہر حال اس نوجوان نے کہا کہ کیونکہ اس شخص کی مثال دے کے پانچ لاکھ آپ کے منہ سے نکلا ہے تو میں پانچ لاکھ روپیہ تحریک جدید میں دیتا ہوں.اور ان کے ہاں بچے کی
خطبات مسرور جلد 12 670 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء پیدائش ہونے والی تھی.پھر بعد میں آئے اور متوقع بچے کی طرف سے بھی ایک لاکھ روپیہ ادا کر گئے.اسی طرح ہماری عورتیں بھی کس طرح قربانیاں دیتی ہیں، امیر صاحب لاہور لکھتے ہیں کہ ایک خاتون نے اپنے کانوں کے طلائی بندے تحریک جدید میں پیش کئے.معاشی تنگی کی وجہ سے پہلے ہی ان کا سب زیور بک چکا تھا اور ان کی بہن نے ان کو بڑے چاؤ سے یہ بندے بنوا کر دیئے تھے اور وعدہ لیا تھا کہ کسی گھر یلوضرورت کے لئے تم یہ فروخت نہیں کرو گی.لیکن موصوفہ نے یہ چندہ تحریک جدید میں دینے کے بعد کہا کہ میں نے اپنی ضرورت کے لئے تو نہیں کئے خدا کی راہ میں دیئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سب ضروریات پوری کرنے والا ہے.اللہ تعالیٰ کرے ان کے مال میں بھی برکت پڑے اور ان کی قربانی قبول ہو.ویسے انتظامیہ کو بھی ایسے لوگوں کا خیال رکھنا چاہئے ان کے جیسے حالات ہوں ان کو اتنا مجبور بھی نہیں کرنا چاہئے.بعض دفعہ سیکرٹریان مال بھی یا سیکر ٹریان تحریک جدید بھی لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.ان کے حالات دیکھ کے ان سے وصول کیا کریں.نیشنل سیکرٹری تحریک جدید جماعت جرمنی نے ایک مقروض دوست کا واقعہ لکھا ہے کہ انہوں نے تحریک جدید میں خصوصی وعدہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے اتنی آمد بڑھا دی کہ قرض بھی ادا ہو گیا اور انہیں نیا مکان خریدنے کی بھی توفیق عطا فرمائی جو ان کے لئے بظاہر ناممکن تھا اور کہتے ہیں کہ میں پینتیس سال سے جرمنی میں رہ رہا ہوں کبھی اتنی آمد نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ نے نہ صرف مجھے قرض سے نجات عطا فرمائی بلکہ اڑھائی ماہ میں چالیس ہزار یورو آمد بھی بڑھ گئی.آمد بھی عطا ہوئی.منافع بھی عطا ہوا.تحریک جدید کے سیکرٹری صاحب ایک خاتون کا لکھتے ہیں کہ میں تحریک جدید میں کچھ نہایت عاجزی سے پیش کرتی ہوں اور یہ ہے کہ میرا نام کسی کو نہ بتایا جائے کہ میں نے کیا دیا.( یہ نام نہ ظاہر کریں لیکن ان کی قربانی تو بہر حال ہے) کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتی ہوں.اور بہت سا زیور اور نقدی انہوں نے پیش کی.اور یہ کہا کہ دعا کریں کہ مجھے اپنے بیٹے کے لئے جو نیک خواہشات ہیں اللہ تعالیٰ وہ پوری کرے.اللہ تعالیٰ ان کی خواہشات پوری فرمائے.سوئٹزرلینڈ سے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ بیٹم ریڈ ز ہپی (Betim Redzepi) صاحب ہمارے ایک مقدونین نژاد سوئس ہیں.پچھلے سال انہوں نے اکتوبر میں بیعت کی تھی.تحریک جدید کے سال ختم ہونے میں صرف پانچ دن باقی تھے.جماعت میں داخل ہوتے ہی انہوں نے ایک ہزار سوئس فرانک کی غیر معمولی رقم بغیر وعدے کے تحریک جدید میں ادا کر دی اور اگلے سال کا وعدہ بھی ایک ہزار لکھوا
خطبات مسرور جلد 12 671 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء دیا.پھر دوران سال جب انہیں مالی قربانی کی اہمیت کا پتا چلا تو انہوں نے اپنا وعدہ دو گنا کر دیا اور تحریک جدید کے ساتھ ساتھ وقف جدید میں بھی دو ہزار فرانک کا وعدہ لکھوا دیا.موصوف جس کمپنی میں کام کرتے ہیں اس نے انہیں ایک ایسے کورس کی آفر کر دی جو بہت مہنگا ہوتا ہے.یہ کمپنی بالعموم صرف ان ملازمین کو ہی کورس کرواتی ہے جن کے پاس تجربہ ہو اور جن کی عمر 35 سال سے زائد ہو.اور بہت سے لوگ یہ کورس کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن انہیں یہ موقع نہیں ملتا.وہ کہتے ہیں کہ میری عمر تنیس سال ہے اور میں نے اس کورس کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا لیکن کمپنی نے خود مجھے یہ کورس کروانے کی آفر کر دی.یقینا یہ مالی قربانی کی برکت کا پھل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فر مایا.پس یہ جو یورپ میں بھی نئے آنے والے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی ہستی کا یقین دلاتا ہے.اسی طرح ایک مقد و نین سوئس احمدی بیکم (Bekim) صاحب ہیں.کہتے ہیں میں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں اس کا مالک بہت بخیل اور تنگدل انسان ہے.کسی کو پیسے دینا اس کے لئے بہت مشکل ہے.ورکرز (Workers) کو بہت تھوڑی تنخواہ دیتا ہے اور دور کر ا کثر تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور یا تو وہ مطالبات نظر انداز کر دیتا ہے یا ٹال مٹول سے کام لیتا ہے.کہتے ہیں ایک دفعہ اس مالک نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور کہا کہ میں تمہاری تنخواہ بڑھانا چاہتا ہوں.اس پر میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ تو اس معاملے میں بڑا سخت رویہ رکھتے ہیں.پھر آپ نے از خود میری تنخواہ بڑھانے کا کیوں سوچا ہے.اس پر مالک کہنے لگا مجھے نہیں علم لیکن یہ بات میرے دل میں بڑے زور سے آئی ہے اور کافی عرصے سے میں نے تمہاری تنخواہ نہیں بڑھائی.اس لئے مجھے تمہاری تنخواہ میں اضافہ کر دینا چاہئے.یہ کہتے ہیں کہ بغیر کسی ظاہری وجہ کے میری تنخواہ میں اضافہ ہو گیا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف اور صرف مالی قربانی کا نتیجہ ہے.یہاں نصیر دین صاحب لندن کے ریجنل امیر ہیں.یہ ایک دوست کا واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک احمدی دوست نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کی کہ چندہ تحریک جدید کے سلسلے میں میری مدد فرما.اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خیال میرے دل میں ڈالا گیا کہ دفتر جاتے ہوئے ٹرین پر جانے کی بجائے بس پر سفر کیا کروں.اس طرح مجھے مفت سفر کی سہولت ملے گی اور کافی بچت بھی ہو جائے گی.بس میں سفر کرنے میں اگر چہ نصف گھنٹہ زیادہ لگتا ہے لیکن میں نے فوری طور پر اس کے مطابق عمل شروع کر دیا.اس طرح روزانہ دو پاؤنڈ کی بچت ہونے لگی اور سال بھر میں وہ ایسا کرتے رہے اور گل چارسو پاؤنڈ کی بچت ہوئی جو تحریک جدید میں چندہ ادا کر دیا تو اس طرح بھی لوگ سوچتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 672 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء یہیں لندن میں ہی ایک صاحب کے گھر ڈکیتی ہوئی سارا گھر کا مال لوٹ لیا گیا.لیکن ایک ہزار پاؤنڈ جو انہوں نے چندہ تحریک جدید کے لئے رکھا ہوا تھا وہ محفوظ رہا.وہ انہوں نے آ کر ادا کر دیا کہ یہ کیونکہ چندے کی رقم تھی جو چوری ہونے سے بچ گئی اس لئے میں پیش کر رہا ہوں.پس چوروں سے احتیاط بھی ضروری ہے کیونکہ آجکل پولیس بھی خاص طور پر ایشینز کو ہو شیار کر رہی ہے کہ گھر میں زیور وغیرہ نہ رکھا کریں.لیکن بعض لوگ ضرورت سے زیادہ احتیاط کرتے ہیں.گھروں کو ، کھڑکیوں کو ، روشن دانوں کو ، دروازوں کو تالے لگا کر چابیاں بھی چھپا دیتے ہیں.اس کی وجہ سے پھر جب خودان کو باہر نکلنے کی ضرورت پڑتی ہے تو میں نے سنا ہے کہ بعض بیوی بچے پھر مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں کہ کس طرح باہر نکلیں.تو اتنی بھی احتیاط ضروری نہیں.احتیاط بیشک کریں لیکن ایک مناسب طور پر.اسی طرح آسٹریلیا کے مشنری انچارج صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں خدام الاحمدیہ کا اجتماع تھا وہاں میں نے خدام اطفال کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلائی.اطفال کو وہاں واؤچرز کی صورت میں انعامات بھی دیئے گئے.تو ارسلان اور عاطف اور کامران یہ تین اطفال قابل ذکر ہیں.ان کو 89 ڈالر کے واؤچر انعام ملے.کہتے ہیں کہ تحریک کے بعد ان اطفال نے اپنے جیب خرچ میں سے گیارہ ڈالر کی مزید رقم ملا کے سوڈالر بنا کر فوری طور پر تحریک جدید میں ادا کر دیئے.تو یہ چند واقعات میں نے بہت سے واقعات میں سے بیان کئے ہیں اور صرف پرانے احمدی قربانیاں نہیں دے رہے بلکہ نو مبائعین بھی، بچے بھی اور عورتیں بھی جیسا کہ میں نے کہا افریقہ میں بھی ، یورپ میں بھی حیرت انگیز طور پر قربانیاں دے رہے ہیں اور ان کی قربانی کے اس جذبے کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.ایک مربی صاحب نے مجھے لکھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب چندہ عام لیا جاتا ہے تو پھر یہ تحریک جدید، وقف جدید کے چندوں کی کیا ضرورت ہے.خود ہی مربی صاحب نے یہ بھی لکھ دیا کہ یہ جو اعتراض کرنے والے تھے عموماً چندہ عام میں بھی کمزور ہیں اور مسجد میں بھی بہت کم آنے والے ہیں اور چندے بھی نہ دینے والوں میں سے ہیں.تو اس کا جواب تو اسی میں آ گیا.ایسے لوگ ہیں جو اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں.لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ چندہ عام یقیناً پہلی ترجیح ہے اور ہر کمانے والے کو یہ دینا چاہئے.اس کے بعد پھر حسب توفیق تحریک جدید اور وقف جدید یا دوسری تحریکات کے چندے دیں.لیکن نومبائعین کو عادت ڈالنے کے لئے اور بچوں کو عادت ڈالنے کے لئے ، نہ کمانے والے مردوں اور عورتوں کو
خطبات مسرور جلد 12 673 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء یہ جو عام مالی قربانی ہے اس میں حصہ ڈالنے کے لئے یہ تحریکات ہیں کیونکہ چندہ عام ان کے لئے ضروری نہیں ہے.لیکن یہ بھی واضح ہو کہ اشاعت اسلام کے کاموں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسعت پیدا ہو رہی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے.اس کے لئے بہر حال ہمیں مالی قربانیوں کی طرف بھی توجہ دینی پڑے گی اور دینی چاہئے.یہ ایک آدھ معترضین جو ہوتے ہیں بعض دفعہ کسی جماعت میں بھی دوسروں کے دماغوں میں بھی زہر بھرنے کی کوشش کرتے ہیں.ان کی معلومات کے لئے صرف میں اتنا بتا دیتا ہوں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے نے دنیا کے تمام ممالک کو کور (cover) کیا ہوا ہے اور دس سیٹلائٹس کے ذریعہ سے ایم ٹی اے کی نشریات نشر ہو رہی ہیں.صرف ان سیٹلائٹس کا خرچ علاوہ ایم ٹی اے کے دوسرے اخراجات سٹوڈیو، عملہ، سامان وغیرہ کے اتنے زیادہ ہیں کہ جب غیروں کے سامنے یہ بتایا جائے کہ اس طرح ہمارے سیٹلائٹس چل رہے ہیں اور بغیر کسی اشتہار کے چل رہے ہیں اور مالی قربانیوں سے چل رہے ہیں تو ان کے لئے ایک حیرت ہوتی ہے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے.گوایم ٹی اے کے لئے بھی بعض جماعتیں چندہ دیتی ہیں، لوگ بھی دیتے ہیں لیکن اخراجات کے مقابلے میں وہ آمد بالکل معمولی ہے اور دوسری مدات سے پھر (ضروریات پوری کی جاتی ہیں.اسی طرح ہم ایم ٹی اے کے لئے اب مختلف ممالک میں سٹوڈیوز بھی بنارہے ہیں.پھر اس سال صرف جو مساجد اور سکول اور ہاسپٹل تعمیر کئے گئے یا مرکزی طور پر ان کے اخراجات کئے گئے ، مقامی طور پر نہیں ، جو مقامی اخراجات ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں، مرکزی طور پر جو اخراجات کئے گئے ہیں وہی تقریبا اس گل رقم کے برابر ہیں جو اس سال تحریک جدید کی رقم ہے.چندہ عام اور وقف جدید علیحدہ ہے.صرف تعمیری اخراجات اور دوسرے بے شمار اخراجات ہیں.بہر حال یہ تو میں نے ایک معمولی ساخا کہ کھینچا ہے.اگر کسی کے دل میں اعتراض ہے تو بیشک ہوتار ہے.ہمیں پتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے نظام کے تحت اخراجات کئے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ جتنا بچایا جائے رقم بچائی جائے اور صحیح طور پر خرچ ہو.جماعتوں کو بھی مزید احتیاط کرنی چاہئے تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ بچت کر کے اللہ تعالیٰ کے کاموں کو مزید وسعت دے دیں.کم سے کم رقم میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ خود مومنین کے دل میں ڈالتا ہے کہ قربانی کرو.یہ چند مثالیں میں نے دی تھیں.ہماری کوشش تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتی.یہ تحریک اللہ تعالیٰ اس لئے فرماتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے کہ دینی ضروریات کیا ہیں اور خود تیار کرتا ہے جیسا کہ میں نے مثال بھی دی تھی کہ
خطبات مسرور جلد 12 674 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء افریقہ کے ایک دور دراز ملک میں بیٹھے ہوئے شخص کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود توجہ دلائی ہے.اللہ تعالیٰ تو ہمیں ثواب میں حصہ دار بنا رہا ہے اور ایک نیکی جو ہے اسی سے پھر اگلی نیکیوں کے رستے بھی کھلتے چلے جاتے ہیں.جیسا ہم جانتے ہیں تحریک جدید کا سال نومبر میں شروع ہوتا ہے اب میں اس وقت گزشتہ سال کی رپورٹ اور نئے سال کا اعلان کروں گا.یہ سال تحریک جدید کا اسی واں (80) سال تھا جو 31 اکتوبر 2014ء کوختم ہوا اور ر پورٹس کے مطابق اس سال میں چوراسی لاکھ ستر ہزار آٹھ سو پاؤنڈ کی مالی قربانی جماعت نے دی.الحمد للہ.یہ وصولی گزشتہ سال کے مقابلے پہ چھ لاکھ ایک ہزار کچھ سو زیادہ ہے.اور پاکستان باوجود اپنے حالات کے اس دفعہ بھی پہلے نمبر پر ہی ہے.پاکستان والے مالی قربانیوں میں بھی بڑھے ہوئے ہیں اور جان کی قربانیوں میں بھی بڑھے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے حالات ایسے کرے کہ اللہ تعالیٰ جلد آسانیاں پیدا فرمائے اور انہیں سکون نصیب فرمائے اور وہاں بھی ایسے حالات پیدا ہوں کہ جماعت کی تبلیغ کے بھی راستے مزید کھلتے چلے جائیں.پاکستان کے علاوہ باہر کی جو دس جماعتیں ہیں ان میں جرمنی پہلے نمبر پر ہے.برطانیہ دوسرے نمبر پر.پچھلے سال یو کے کا تیسرا نمبر تھا.اب دوسرے نمبر پر آگئے ہیں.امریکہ تیسرے نمبر پر.کینیڈا چوتھے پہ ، انڈیا پانچویں پہ، آسٹریلیا چھٹے پر، انڈونیشیا ساتویں پہ، آسٹریلیا بھی ایک نمبر اوپر آ گیا اور انڈونیشیا پیچھے چلا گیا.اس کے علاوہ مڈل ایسٹ کی دو جماعتیں ہیں.پھر سوئٹزرلینڈ ، گھانا اور نائیجیر یا ہیں.پہلی دس جماعتوں میں کرنسی کے لحاظ سے وصولی میں جو اضافہ ہے وہ گھانا نمبر ایک پہ ہے.انہوں نے مقامی کرنسی کے حساب سے تقریباً پچاس فیصد اضافہ کیا ہے.آسٹر یلیا نمبر دو پر ہے.انہوں نے چوالیس فیصد.پھر کچھ مڈل ایسٹ کی جماعتیں ہیں سترہ فیصد.سوئٹزر لینڈ تقریباً پندرہ فیصد.پاکستان چودہ فیصد.یو کے تقریباً پونے چودہ فیصد.انڈونیشیا ہے.پھر بھارت اور جرمنی برابر ہیں.کینیڈا ان دس جماعتوں میں آخری نمبر پہ ہے.فی کس ادائیگی کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر اور سوئٹزرلینڈ دوسرے نمبر پر اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پہ ہے.گزشتہ چند سالوں سے، دو تین سال سے میں توجہ دلا رہا ہوں کہ تحریک جدید میں اور وقف جدید
خطبات مسرور جلد 12 675 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء میں تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے.یہ نہ دیکھیں کہ رقم بڑھتی ہے کہ نہیں.رقم تو خود بخود بڑھ جاتی ہے مخلصین کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال یہ کل تعداد بارہ لاکھ گیارہ ہزار سات سو ہوگئی ہے اور گزشتہ چار سال میں اس تعداد میں جو نئے شامل ہوئے ہیں تقریباً چھ لاکھ کا اضافہ ہوا ہے.اور ان میں بھی بعض جماعتیں اچھا کام کر رہی ہیں جن میں کہا بیر نمبر ایک پر ہے.بین ہے.نائیجر ہے.گیمبیا ہے.سینیگال ہے.کیمرون ہے.گنی کنا کری ہے.افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے گھانانمبر ایک پر ہے.اس کے بعد نائیجیریا.پھر ماریشس.برکینا فاسو - تنزانیہ.بینن - گیمبیا.کینیا.سیرالیون.یوگنڈا ہے.دفتر اول کے کھاتے: اللہ کے فضل سے اس میں سے پانچ ہزار نو سو ستائیس افراد ہیں.دفتر کے ریکارڈ کے مطابق ایک سو پانچ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیات ہیں.باقی وفات یافتگان کے پانچ ہزار آٹھ سو بائیس کھاتے ان کے ورثاء یا دوسرے جماعتی مخلصین نے جاری کئے ہوئے ہیں.قربانی کے لحاظ سے پاکستان میں جو تین بڑی شہری جماعتیں ہیں ان میں اوّل لا ہور ہے.دوم ربوہ ہے.سوم کراچی ہے.پاکستان کے جو اضلاع ہیں ان میں دس اضلاع.سیالکوٹ نمبر ایک ہے.فیصل آباد.پھر سرگودھا.گوجرانوالہ.عمرکوٹ.گجرات.بدین.نارووال.ٹوبہ ٹیک سنگھ.قصور اور ننکانہ صاحب.جرمنی کی جو پہلی دس جماعتیں ہیں ان میں روئیڈر مارک.نوئیں.فلؤ رز ہائم.مہدی آباد.درائے الیش.و رس برگ.نیڈا.بروخسال.مارک برگ نوئے ویڈ.لوکل عمارتیں جو ہیں ان میں ہیمبرگ.فرینکفرٹ.گراس گراؤ.ڈار مشٹڈ.ویز بادن.من ہائیم.آفن باخ.ڈیٹسن باخ.موئر فیلڈن.والڈورف.ریڈشنڈ.وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی پہلی دس جماعتیں.مسجد فضل.ووسٹر پارک.نیو مالڈن.ویسٹ ہل.ماسک ویسٹ.برمنگھم سینٹرل.چیم.ریز پارک ملھم.بیت الفتوح نمبر دس پہ ہے.چھوٹی جماعتوں والے کہتے ہیں ہمارا بھی بتایا کریں تو منٹن سپانمبر ایک پر ہے.پھر بورن متھ ہے.وولور ہیمپٹن ہے.سپین ویلی ہے اور کومنٹری ہے.مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کے پانچ ریجنز لنڈن.مڈلینڈز.نارتھ ایسٹ.ساؤتھ.اور مڈل سیکس ہیں.
خطبات مسرور جلد 12 676 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء مجموعی وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں سلیکون ویلی.لاس اینجلس ایسٹ.ڈیٹرائٹ سی امیل (Seattle).ہیرس برگ ہیں.کینیڈا کی لوکل امارات میں نمبر ایک کیلگری پیس ویلج.وان اور وینکوور.اور وصولی کے لحاظ سے پانچ قابل ذکر جماعتیں ایڈمنٹن.آٹوا.ڈرہم.سکاٹون.ساؤتھ ملٹن.جارج ٹاؤن اور لائیڈ منسٹر ہیں.انڈیا کے پہلے دس صوبہ جات.کیرالہ نمبر ایک.تامل ناڈو.کرناٹک.آندھرا پردیش.جموں وکشمیر.اڑیسہ.بنگال.پنجاب.دہلی اور لکشد یپ.پہلی دس جماعتیں.نمبر ایک کیرولائی نمبر دو کالی کٹ.پھر حیدرآباد.پھر قادیان.کنا نور ٹاؤن.پینگاڑی.سولور کولکتہ.چنائی.بنگلور.آسٹریلیا کی پہلی دس جماعتیں.بلیک ٹاؤن.ملبرن.ایڈیلیڈ.مارزڈن پارک.کینبرا.ماؤنٹ ڈرواٹ.برسبین تسمانیا.پرتھ اور ڈارون.اللہ تعالیٰ ان سب کی مالی قربانیاں قبول فرمائے.ان کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور جماعتی نظام کو بھی تو فیق عطا فرمائے کہ ان اموال کو صحیح رنگ میں خرچ کرنے والے ہوں.نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے مقامی معلم اور مبلغ مکرم الحاج یوسف ایڈوسٹی صاحب گھانا کا ہے جو 2 نومبر کی شب پونے بارہ بجے کماسی میں بقضائے الہی وفات پا گئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.2 نومبر کی صبح یہ بولگا ٹانگا (Bolgatanga) جماعت کی دعوت پر ان کی ریجنل مسجد کی تعمیر میں رہنمائی کی غرض سے کماسی سے کافی فاصلے پر بولگا گئے.کوئی پانچ چھ سوکلومیٹر ہے.پھر ٹمالہ ریجن میں نو مبائعین کے لئے ایک زیر تعمیر مسجد کا دورہ کیا.پھر اب آپ نے ٹمالے میں رات گزار نی تھی لیکن آپ نے اصرار کیا کہ واپس کماسی جانا ہے.کماسی میں رہتے ہیں.اور وہاں شہر میں داخل ہونے سے پہلے ان کو کچھ پیشاب کی حاجت ہوئی.تکلیف ہوئی لیکن ضعف بڑھ گیا تھا.ڈرائیور نے بڑی مشکل سے ان کی کار سے اُترنے میں مدد کی.بہر حال اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے پیٹ میں درد ہے اور جلدی چلو.اپنے گھر پہنچ گئے.گھر پہنچ کے بجائے کمرے میں جانے کے وہیں برآمدے میں ہی تکیہ منگوا کے لیٹ گئے اور پیٹ درد کی دوبارہ شکایت کی.گھر والے ان کو فوراً ہسپتال لے گئے.اس وقت آپ ہوش میں تھے.ڈاکٹر کو کہنے لگے کہ مجھے سلا دو.لیکن جب معائنہ شروع کیا تو اس وقت ان پر نزع کی کیفیت طاری ہو چکی تھی اور اسی دوران آپ کی وفات ہو گئی جس پر ڈاکٹر نے بچوں کو کہا کہ میں آپ کے
خطبات مسرور جلد 12 677 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء والد کو پہلے سے نہیں جانتا لیکن ان کی موت کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک عظیم انسان تھے.15 دسمبر 1942ء کو کماسی میں عیسائی گھر میں پیدا ہوئے اور مذہب کی طرف بچپن سے غیر معمولی رجحان تھا.کہتے ہیں ایک مرتبہ ویسٹ ریجن میں اپنے چا کے ہمراہ رہتے ہوئے وہیں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ خیال آیا کہ اگر دنیا کی تمام رنگینیاں اور دولت حاصل کرلوں تو مجھے کیا فائدہ ہوگا اگر خدا مجھ سے راضی نہ ہو.بہر حال چا کا کیونکہ سینما کا کاروبار تھا اور اس کی وجہ سے ان کو بھی فلمیں وغیرہ دیکھنے کی عادت پڑ رہی تھی تو اس پر ان کو بڑی کراہت آئی اور چھوڑ کے آگئے.پھر رومن کیتھولک چرچ میں جا کر انہوں نے دعا کی کہ اے خدا! اگر میرا جینا تیری ناراضگی کا باعث ہوگا تو جس وقت تو مجھ سے راضی ہو گا اس وقت میری جان لے لینا.اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا ایسی قبول کی.پھر ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.لگتا ہے وہیں موقع پر اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی.کہتے ہیں کہ دعا سے فارغ ہو کے جب باہر نکلے تو ایک دوست ان کو باہر ملا اور کہنے لگا جوزف ! ( ان کا پہلا نام جوزف تھا) کہ مجھے ایک جماعت کی تبلیغ سننے کا اتفاق ہوا ہے جو مجھے پسند آئی ہے اور اب میں اس جماعت میں داخل ہونے کے لئے مشن ہاؤس جا رہا ہوں.یوسف ایڈ وسٹی صاحب کو انہوں نے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ جانا پسند کرو گے تو چلو.انہوں نے کہا ہاں.چنانچہ یہ دونوں کماسی مشن ہاؤس آ گئے جہاں ان کی ملاقات مبلغ سلسلہ سے ہوئی.مبلغ نے ان دونوں سے پوچھے بغیر کہ کون بیعت کرنے آیا ہے دونوں کو شرائط بیعت پڑھ کر سنائیں.پھر اس کے بعد پوچھا کہ کون بیعت کرنے آیا ہے.تو اس کو سنتے ہی یوسف ایڈ وسٹی صاحب نے بلا تامل کہا کہ ہم دونوں بیعت کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ احمدیت میں شامل ہو گئے.اس وقت آپ کی عمر سولہ سال تھی اور اس کے بعد آپ کو اپنے والدین کی مخالفت کا خاص طور پر باپ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ اس بیعت پر قائم رہے اور حق سے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ بعد میں معلم بن کے بلکہ اس سے بھی پہلے اپنے والد کو اتنی تبلیغ کی کہ انہوں نے بھی احمدیت قبول کر لی.ہیں سال کی عمر میں انہوں نے جامعتہ المبشرین گھانا سے تعلیم مکمل کی.اس کے بعد ان کی امینہ ایڈ وسٹی صاحبہ سے شادی ہوئی.احمدیت قبول کرنے کے بعد مسلسل روحانی منازل طے کرتے رہے.چالیس سال کی عمر میں آپ شدید بیمار ہو گئے اور ڈاکٹروں نے متفقہ طور پر آپ کو ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا کہ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں.بلکہ بعض ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ لا علاج مرض ہے تم زیادہ دیر زندہ بھی نہیں رہ سکتے.آخر کہتے ہیں کہ ڈاکٹر علاج کرنے سے تنگ آ جاتے تو کئی مرتبہ میں خود درد کا ٹیکہ لگاتا.متاثرہ
خطبات مسرور جلد 12 678 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء ٹانگ کو دیکھتا اور کہتا کہ اے میری ٹانگ ! میں خدا کا بندہ اور مسیح موعود کا خادم ہوں.میں نے مختلف جگہوں پر جا کر تبلیغ کرنی ہے اور تو اس راہ میں روک نہیں بن سکتی.میں نے خود بھی ان کو دیکھا ہے تبلیغ کا بے انتہا شوق تھا.پھر ان کو حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے علاج کی غرض سے امریکہ بھجوا دی اور حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے ڈاکٹر صاحب کو جو خط لکھا وہ یہ تھا کہ آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ یوسف کے علاج میں حصہ لے رہے ہیں.یہ مت خیال کریں کہ یوسف آپ کے پاس آئے ہیں بلکہ سمجھیں کہ میں خود آپ کے پاس آ گیا ہوں کیونکہ یوسف صاحب مجھے بہت عزیز ہیں اور اس لئے ان کا اتنا ہی خیال رکھیں جتنا آپ میرا رکھ سکتے تھے.بہر حال ان کے چار آ پریشن تجویز ہوئے جوڈا کٹر حمید الرحمن صاحب نے کرنے تھے.تیسرے آپریشن کے بعد یوسف صاحب نے کہا کہ میں نے آپریشن نہیں کرانا.پھر ڈاکٹر صاحب نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع کو لکھا کہ آپریشن نہیں کروانا چاہتے تو انہوں نے کہا کہ نہیں کروانا چاہتے تو ٹھیک ہے نہ کروائیں.لیکن انہوں نے اس سے پہلے حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی خدمت میں ایک خط لکھ دیا تھا کہ انہوں نے خواب دیکھی ہے.اس بناء پر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے بھی کہا کہ اگر یہ نہیں کروانا چاہتے تو نہ کروائیں لیکن یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفایاب ہو جائیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا دی.یوسف صاحب کہتے ہیں کہ میں اپنے کمرے میں تھا کہ کشفاً دیکھا کہ کمرے کی دیوار پر ایک آیت لکھی جا رہی ہے اور اس کے پیچھے ایک نامعلوم آواز میں اس آیت کی تلاوت کی آواز آ رہی ہے کہ ان الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ( حم السجدة: 31 ).تلاوت کے بعد ایک اجنبی آدمی کمرے میں داخل ہوا اور اس نے آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی ٹانگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا.یوسف فکر مت کرو.یہ بیماری تو ختم ہونے ہی والی ہے اور تم جلد شفایاب ہو جاؤ گے.کہتے ہیں نو سال تک بیماری میں مبتلا تھے مگر اس کے بعد ایسا معجزہ ہوا کہ آخر تک، اب تک ان کو دوبارہ اس کے کوئی آثار ظاہر نہیں ہوئے.بلکہ مبلغ کوثر صاحب بتاتے ہیں کہ قادیان میں 2005ء میں مجھے ملے.کیونکہ انہوں نے امریکہ میں ان کی حالت دیکھی ہوئی تھی تو چھلانگیں لگا کر دکھایا کہ دیکھو میری ٹانگ بالکل ٹھیک ہے.کوئی اثر نہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ملا تھا کہ 63 سال کی عمر میں وفات پا جائیں گے.لہذا جب 63 سال کے ہونے والے تھے تو اپنی اولا د کو بتایا اور قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی کہ آم كُنْتُم
خطبات مسرور جلد 12 679 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء شُهَدَا إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِى (البقرة:134).تو کہتے ہیں کہ میں نے اولاد کو جمع کر کے پوچھا کہ میرے بعد تم کس خدا کی پرستش کرو گے؟ جس طرح یعقوب نے پوچھا تھا اسی طرح اب میں سب سے پوچھتا ہوں کہ کس رب کی عبادت کرو گے؟ اولا د نے جواباً کہا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے.آپ نے کہا کہ میری زندگی تمہارے سامنے ہے.میں نے اپنی ساری زندگی جماعت کے لئے صرف کر دی.اب میری موت کا وقت قریب آنے والا ہے اور میرا سچا وارث وہی ہو گا جو سب سے زیادہ متقی ہو گا.اس کے کچھ دن بعد انہوں نے اپنے بھائی الحاج شریف صاحب کو بتایا کہ جس دن میں 63 سال کا ہوا تھا تو اس دن واقعہ ملک الموت آیا تھا مگر میں نے کچھ مہلت مانگی اور فرشتے نے کہا ٹھیک ہے.کچھ مہلت دے دی جائے گی.آپ نے مزید بتایا کہ اگر چہ فرشتہ نے معین طور پر کچھ نہیں بتایا لیکن انہیں لگتا ہے کہ ستر سال کی عمر کے لگ بھگ انہیں مہلت دے دی جائے گی.جب مولا نا وہاب آدم صاحب مبلغ انچارج بیمار ہوئے ہیں اور وہاب آدم صاحب کا انتقال ہوا ہے تو پھر کہتے تھے اب عنقریب میری باری آنے والی ہے.گھانا کے یہ مخلصین جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ان سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ جماعت کو مزید مخلصین عطا فرمائے.یہاں جلسے پر بھی اس سال آئے ہوئے تھے.کچھ بیمار بھی تھے.علاج کے لئے ان کو میں نے ڈاکٹروں کو یہاں دکھوایا بھی تھا تو ان کی جلدی یہی تھی کہ نہیں اب میرا خیال ہے میں واپس چلا جاؤں تو بہر حال ڈاکٹروں نے بھی یہی کہا کہ علاج تو وہیں بھی ہوسکتا ہے.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع نے ایک دفعہ یہاں یو کے میں جلسے پر تقریر کے دوران آپ کو بلایا اور آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سٹیج پر فرمایا تھا کہ یوسف مجھے پتا ہے کہ آپ پسند نہیں کرتے کہ آپ کے نیک اعمال سب کے سامنے بیان کئے جائیں مگر آپ کے اعمال خود بخود ظاہر ہو گئے ہیں اور میں جماعت کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ بہت نیک اور متقی انسان ہیں.اور اس عرصے میں یہ باتیں سن کے مستقل رور ہے تھے.جب میں پہلی دفعہ 2004ء میں دورے پر گیا ہوں تو وہاں بھی مالی قربانی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے پیش پیش تھے.جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک دوائی انہوں نے ایجاد کی تھی.جس کی بہت زیادہ مارکیٹنگ ہوئی اور ان کو اس سے کافی منافع ملتا تھا.اس سے انہوں نے بہت ساری مساجد تعمیر کروائی ہیں.گھانا میں تقریباً چالیس پینتالیس مساجد تعمیر کروائی ہوں گی اور بعض اچھی اچھی مساجد
خطبات مسرور جلد 12 680 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء ہیں.بڑی وسیع مساجد ہیں اور اسی طرح تبلیغی سینٹر بھی ہے.اس وقت انہوں نے مجھے دکھایا کہ یہ تبلیغ سینٹر بھی ہے اور یہ بھی انہوں نے تعمیر کروایا تھا.اس وقت میں نے ان کو کہا تھا کہ آپ دوسروں کو بھی خدمت کا موقع دیں، ہر چیز آپ خود ہی لئے چلے جارہے ہیں تو بڑی عاجزی سے انہوں نے کہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے رہا ہے اس وقت تک میں کوشش کرتا رہوں گا.بہت سادہ، کشادہ دل مخلص، متقی ، صاحب کشف، تہجد گزار، نرم خو ، اعلیٰ اخلاص سے متصف تھے.خلافت سے بیحد محبت کرنے والے انسان تھے.کھانے کی بھی بچت کیا کرتے تھے.گھر میں ایک دن بہت زیادہ کھانا ضائع ہو گیا.انہوں نے دیکھا تو نماز پڑھتے ہوئے رو پڑے.وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق دیا ہے اور ہم نے اسے ضائع کر دیا ہے.اب اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے.ان کا ایک بیٹا حافظ اسماعیل احمد ایڈ وسٹی جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل میں شاہد کے سات سالہ کورس میں پڑھ رہا ہے.کہتا ہے کہ میں حفظ قرآن مکمل کر کے گھر واپس آیا تو خاکسار کا غیر معمولی احترام کرتے تھے.کہتے ہیں ایک دفعہ میرے سے کوئی ایسی حرکت ہو گئی جس سے آپ نا خوش ہوئے تو یوسف صاحب اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ جو قرآن آپ کی یادداشت میں ہے اس قرآن کا احترام کرتے ہوئے میں آپ کو ڈانٹ نہیں سکتا مگر آپ کو بھی چاہئے کہ اس قرآن کا احترام کرتے ہوئے ایسی حرکتیں نہ کریں.کہتے ہیں اگر مجھے ڈانٹ دیتے تو مجھ پر اتنا اثر نہ ہوتا جتنا اس بات نے مجھ پر اثر چھوڑا.کہتے ہیں میرے والد اور والدہ نے میری تربیت کی کہ مبلغ بنوں اور جب کبھی پیسے لینے جاتا تو تھوڑے پیسے دیتے اور مجھے کہتے کہ تم نے مبلغ بنا ہے اور ہر مبلغ کو چاہئے کہ تھوڑے پیسوں میں اکتفا کرے اور فضول خرچی سے اجتناب کرے.بار یک بار یک باتوں کی طرف مجھے توجہ دلاتے.ایک مرتبہ آپ کے ساتھ وضو کر رہا تھا.آپ نے مجھ سے پہلے وضو کر لیا اور کہا کہ حافظ صاحب! آپ نے مبلغ بنا ہے اور مبلغین کی بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور وقت کم ہوتا ہے اس لئے تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرنے کی عادت ڈالیں.تو یہ مبلغین کے لئے بھی ایک نمونہ تھے.جیسا کہ میں نے کہا تبلیغ بے انتہا کیا کرتے تھے.تبلیغ کا بہت شوق ہگن اور تڑپ تھی.سادگی بے انتہا کی تھی.یہ میں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت زیادہ فراخی بھی عطا فرمائی اور اس سے انہوں نے جماعت پر خرچ کیا.مساجد تعمیر کروائیں اور یہ جو آخری سفر تھا یہ بھی جیسا کہ بیان ہوا ہے مسجد کی تعمیر کے لئے ہی اختیار کیا.قرآن کریم سے بھی ان کو عشق تھا.گھانا کی جو ایک علاقائی زبان بچوئی (Twi) ہے اس میں قرآن کریم کے ترجمے کی بھی ان کو توفیق ملی.مالی قربانی میں تو خیر صف اول میں تھے ہی.وہاب آدم صاحب کے بیٹے نے لکھا ہے اور بہر حال یہ غیر
خطبات مسرور جلد 12 681 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 07 نومبر 2014ء معمولی انسان تھے اور سلسلے کا غیر معمولی درد رکھنے والے تھے اور خدمت کا جذبہ اور شوق رکھنے والے تھے.ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں.اللہ کے فضل سے سب کا جماعت اور خلافت سے مضبوط تعلق ہے.انتہائی اخلاص اور وفا کا تعلق ہے.ایک بیٹی ان کی فاتحہ صاحبہ تعلیم الاسلام انٹرنیشل سکول اکرا ( Accra) کی ہیڈ ٹیچر ہیں.چھوٹا بیٹا جیسا کہ میں نے بتایا جامعہ انٹر نیشنل میں تیسرے سال میں پڑھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولا دکو بھی اخلاص و وفا میں بڑھاتا چلا جائے.نماز کے بعد جیسا کہ میں نے کہا ان کی نماز جنازہ غائب ادا کی جائے گی.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 28 نومبر 2014 ء تا 04 دسمبر 2014 ، جلد 21 شماره 48 صفحہ 05 تا 10 )
خطبات مسرور جلد 12 682 46 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014 ء بمطابق 14 نبوت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج بھی میں حضرت مصلح موعودؓ کے بیان کردہ کچھ واقعات بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی زندگی کے بھی بعض پہلو نمایاں ہوتے ہیں.حضرت مصلح موعود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”میں علمی طور پر بتلاتاہوں کہ میں نے حضرت صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب کا تھا تو میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وہ نعوذ باللہ جھوٹے نکلے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا مگر میں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیا.حتی کہ جب آپ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا.“ (سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 96) پھر آپ نے بتایا کہ ”جب میں نے دستی بیعت کی تو میرے احساس قلبی کے دریا کے اندر دس 66 سال کی عمر میں ایسی حرکت پیدا ہوئی کہ جو بیان نہیں کی جاسکتی.“ (ماخوذ از یاد ایام، انوار العلوم جلد 8 صفحہ 365) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) کہ کس طرح وہ دعاؤں کی ترغیب دیا کرتے تھے، بچپن میں ہی دعاؤں کی طرف توجہ دلا یا کرتے تھے، encourage کیا کرتے تھے.ایک جگہ آپ بیان کرتے ہیں کہ : ” خدا کا فرستادہ مسیح موعود علیہ السلام جسے اللہ تعالیٰ نے
خطبات مسرور جلد 12 683 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء فرمایا تھا أجِيبُ كُلّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَكَائِكَ - جس سے وعدہ تھا کہ میں تیری سب دعائیں قبول کروں گا، سوائے ان کے جو شر کاء کے متعلق ہوں.( فرماتے ہیں کہ ) وہ ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کے موقع پر مجھے جس کی عمر صرف نو سال کی تھی دعا کے لئے کہتا ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو نو سال کی عمر میں دعا کے لئے کہتے ہیں.گھر کے نوکروں اور نوکرانیوں کو بھی کہتا ہے کہ دعائیں کرو.پس جب وہ شخص جس کی سب دعائیں قبول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا تھا، دوسروں سے دعائیں کرانا ضروری سمجھتا ہے....66 (خطبات محمود جلد 14 صفحہ 131) تو پھر باقیوں کو کتنا اس طرف توجہ دینی چاہئے.یہ جو الہام ہے اُجِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا في شركائك.اس کا شاید بعضوں کو پتا نہ ہو.یہ آپ ایک مقدمے کے بارے میں دعا کر رہے تھے جو آپ کے شرکاء یعنی بعض قریبیوں نے آپ کی ، آپ کے خاندان کی جائیداد میں حصہ دار بننے کے لئے کیا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم ان کی طرف سے، اپنے خاندان کی طرف سے یہ مقدمہ لڑ رہے تھے.دوسری طرف ایک گورنمنٹ کے افسر بھی تھے جو اُن کے عزیزوں میں سے بھی تھے.بہر حال مرزا غلام قادر صاحب کو یہ یقین تھا کہ مقدمہ ہمارے حق میں ہو گا.جائیداد ہمارے قبضے میں ہے اور پشتوں سے ہمارے قبضے میں ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی تو آپ کو یہ الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ساری دعائیں قبول کروں گا مگر جو شر کا ء کے متعلق ہیں یہ نہیں.اس پر آپ نے اپنے خاندان کو کہا کہ بلا وجہ وکیلوں پہ، مقدموں پر رقم نہ ضائع کر ومقدمہ ہار جاؤ گے.لیکن آپ کے بھائی کو بڑا یقین تھا.بہر حال لوئر کورٹ میں مقدمہ کا فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھائی کے حق میں ہوا.پھر دوبارہ اپیل ہوئی چیف کورٹ میں اور چیف کورٹ میں یہ مقدمہ ہار گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ یہ مقدمہ جیتتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فر ما دیا تھا.(ماخوذ از حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 254-255) یہاں دعاؤں کے حوالے سے آگے ایک اور بات بھی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمائی.لیکن وہ بات آپ ڈاکٹروں کو سمجھا رہے تھے.یہاں تو ڈاکٹروں کی ٹیم بیٹھ جاتی ہے اگر کوئی ایسا سنجیدہ معاملہ
خطبات مسرور جلد 12 684 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء ہو.اب پاکستان میں بھی یا دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح صورتحال ہے.لیکن بعض دفعہ بعض ڈاکٹر جو ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی مریض کا علاج کر رہے ہیں تو ہمارا ہی علاج ہونا چاہئے.کسی اور مشورے کی ضرورت نہیں ہے.حضرت سارہ بیگم صاحبہ جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی اہلیہ تھیں ان کے بچہ کی پیدائش کے وقت ان کی وفات بھی ہوگئی تھی اس وقت کے بارے میں آپ نے بیان کیا کہ ڈاکٹروں کو چاہئے کہ مشورہ کرتے.اگر اس صورت میں مشورہ ہوتا تو شاید ایک جان بچائی جاسکتی تھی.اس لئے آپ نے فرمایا کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی اللہ تعالیٰ نے تمام دعائیں قبول کرنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ دوسروں کو دعا کے لئے بھی کہتے تھے تو باقی لوگ جو ہیں انہیں اپنے اپنے پیشے میں اگر کہیں مشورے کی ضرورت ہو اور دعاؤں کی ضرورت ہو تو ضرور اس پر عمل کرنا چاہئے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 14 صفحه 131-132) اپنے بارے میں ایک اور بات بیان فرماتے ہیں ”ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر اس سفر میں کہ جس میں حضرت مسیح موعود فوت ہوئے.ایک دفعہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کسی ہندو پنشنر سیشن جج کی آمد کی خبر دینے آئے جو بغرض ملاقات آئے تھے.آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے اس وقت ان سے کہا کہ میں بھی بیمار ہوں مگر محمود بھی بیمار ہے.مجھے اس کی بیماری کا زیادہ فکر ہے.آپ اس کا توجہ سے علاج کریں.اصلاح نفس، انوار العلوم جلد 5 صفحہ 456) اپنی بیماری کو بھول گئے اور آپ کو پتا تھا کہ یہ بیٹا جو ہے مصلح موعود بننے والا ہے اس لئے آپ کو فکر ہوئی.دیوار کا ایک مقدمہ بڑا مشہور مقدمہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں لڑا گیا جس میں آپ کے خاندان کے مخالفین نے مسجد کے راستے پہ دیوار کھڑی کر دی اور راستہ بند کر دیا.اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ” میں بچہ تھا لیکن مجھے خوب یاد ہے یہاں ہمارے ہی بعض عزیز راستہ میں کیلے گاڑ دیا کرتے تھے تا کہ جب مہمان نماز پڑھنے آئیں تو رات کی تاریکی میں ان کیلوں کی وجہ سے ٹھوکر کھائیں.چنانچہ ایسا ہی ہوتا اور اگر کیلے اکھاڑے جاتے تو وہ لڑنے لگ جاتے.اسی طرح مجھے خوب یاد ہے کہ مسجد مبارک کے سامنے دیوار مخالفوں نے کھینچ دی تھی.بعض احمد یوں کو جوش بھی آیا اور انہوں نے دیوار کو گرا دینا چاہا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
خطبات مسرور جلد 12 685 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء فرمایا ہمارا کام صبر کرنا اور قانون کی پابندی اختیار کرنا ہے.پھر مجھے یاد ہے میں بچہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی مجھے رویائے صادقہ ہوا کرتے تھے.میں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جارہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش بھی ہو کی ہے.اسی حالت میں میں نے دیکھا (خواب میں ) کہ مسجد کی طرف حضرت خلیفہ اول تشریف لا رہے ہیں.(آپ فرماتے ہیں کہ ) جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہ ایسا ہی ہوا.اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور درس کے بعد حضرت خلیفہ اول جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جارہی تھی.میں بھی کھڑا تھا چونکہ اس خواب کا میں آپ سے پہلے ذکر کر چکا تھا، اس لئے مجھے دیکھتے ہی آپ (حضرت خلیفہ اسیح الاول) نے فرمایا.میاں دیکھو آج تمہارا خواب پورا ہو گیا.“ ( خطبات محمود جلد 15 صفحہ 206-207) پھر آپ اسی دور کی بات کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ”ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مخالفین نے مسجد کا دروازہ بند کر دیا اور آپ کئی دفعہ گھر میں پردہ کرا کر لوگوں کو مسجد میں لاتے.( یعنی گھر کے اندر سے گزار کے لانا پڑتا تھا ) اور کئی لوگ اوپر سے ہو کر آتے (لمبا چکر کاٹ کر ).سال یا چھ ماہ تک یہ راستہ بند رہا.آخر مقدمہ ہوا اور خدا تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ 66 دیوار گرائی گئی.“ خطبات محمود جلد 20 صفحہ 574-575) اب جو قادیان جانے والے ہیں وہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کشادہ راستے وہاں بنا دیئے گئے ہیں.بچوں کی دلداری کے بارے میں ایک جگہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” مجھے اپنے بچپن کی بات یاد ہے کہ ہماری والدہ صاحبہ کبھی ناراض ہوکر فر ما یا کرتیں کہ اس کا سر بہت چھوٹا ہے ( یعنی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا.تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے یہ کوئی بات نہیں.را یکین جو بہت مشہور وکیل تھا اور جس کی قابلیت کی دھوم سارے ملک میں تھی اس کا سر بھی بہت چھوٹا سا تھا.آپ کہتے ہیں کہ ”بڑے سر اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ بہت عقلمند ہیں.جو شخص اپنی اولا دکو علم اور عرفان سے محروم کرتا ہے اس کا سرا گر چہ بڑا ہی ہو تب بھی وہ بے عقل ہی ہے.جس شخص کا اتنا دماغ ہی نہیں کہ سمجھ سکے خدا اور رسول کیا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 686 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء قرآن کیا ہے.وہ عرفان کیا حاصل کر سکتا ہے.(خطبات محمود جلد 2 صفحہ 174) پس اصل چیز جو ہمیں چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے احکامات کو سمجھیں، ان پر غور کریں اور ان کی ذات کو سمجھنے کی کوشش کریں.قرآن کریم کو سمجھیں.اور یہی حقیقت ہے جس سے دماغ روشن ہوتے ہیں.حکومت کی وفاداری کے بارے میں آپ ایک جگہ بیان کرتے ہیں کہ ”جب میں بچہ تھا اور ابھی میں نے ہوش ہی سنبھالا تھا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے گورنمنٹ کی وفاداری کا میں نے حکم سنا اور اس حکم پر اس قدر پابندی سے قائم رہا کہ میں نے اپنے گہرے دوستوں سے بھی اس بارے میں اختلاف کیا حتی کہ اپنے جماعت کے لیڈروں سے اختلاف کیا.(خطبات محمود جلد 15 صفحہ 323) بعض لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ بحث کریں کہ فلاں کام کی وجہ سے ہمیں حکومت کا حکم نہیں ماننا چاہئے.سوائے اس کے کہ جہاں شرعی روکیں ڈالنے کی حکومت کوشش کرے، باقی نہیں.پھر اس کو آپ آگے ایک جگہ مزید کھول کے فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ برطانوی حکومت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ انگریز قوم کے افراد بہت نیک اور اسلام کی تعلیم کے قریب ہیں.ان میں بھی ظالم، غاصب، فاسق ، فاجر اور ہر قسم کا خبث رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور دوسری قوموں میں بھی (ہیں).ان میں بھی اچھے لوگ ہیں اور دوسری قوموں میں بھی ( ہیں ).جو چیز رحمت ہے وہ یہ ہے کہ یہ حکومت افراد کی آزادی میں بہت کم دخل دیتی ہے.اور وہ جن جن معاملات میں دخل نہیں دیتی ان میں اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کا ہمارے لئے موقع ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایسی قوم کو ہم پر حاکم مقرر کیا.( یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی ) کہ جو افراد کے معاملات میں بہت کم دخل دیتی ہے..ابھی گزشتہ دنوں ہماری یہاں کا نفرنس ہوئی.وہاں ایک پریس کی رپورٹر نے مجھے کہا کہ یہاں بھی وہی حالات ہیں.اس کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ مذہب کے معاملے میں یہ حکومت دخل نہیں دیتی.اس لئے حالات تو ہم کہہ ہی نہیں سکتے کہ پاکستان جیسے یا کسی اور ایسے ملک جیسے یہاں حالات ہوں جہاں احمدیت پر پابندیاں لگائی گئی ہیں.بہر حال آپ فرماتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اگر نانسی یا فیشسٹ لوگ ہم
خطبات مسرور جلد 12 687 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء پر حکمران ہوتے تو وہ دوسرے معاملات میں انگریزوں سے بھی اچھے ہوتے.ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف ان سے زیادہ رکھنے والے اور زیادہ عدل کرنے والے ہوتے مگر انفرادی آزادی وہ اتنی نہ دیتے جتنی انگریزوں نے دی ہے.وہ اشخاص کے لحاظ سے تو اچھے ہوتے مگر سلسلے کے لحاظ سے ہمارے لئے مضر ہوتے.( یعنی کسی شخص کے تعلقات کے بارے میں ہو سکتا ہے کہ اچھے ہوتے لیکن بحیثیت مجموعی جماعت کے لحاظ سے وہ مضر ہوتے.) اور اس کے یہ معنی ہوتے کہ جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو جاتی اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کا دائرہ ہمارے لئے بہت ہی محدود ہوتا اور اسلامی احکام میں سے بہت ہی تھوڑے ہوتے جن کو ہم قائم کر سکتے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہی معنوں کے لحاظ سے انگریزی حکومت کو رحمت قرار دیا ہے.لوگ اعتراض کرتے ہیں ناں انگریزوں کا خود کاشتہ پودا تو فرمایا اس لئے رحمت قرار دیا ہے اور اس قوم کی تعریف کی ہے کہ انہوں نے آزادی دی ہے.آپ کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز انصاف زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کوئی دوسری حکومت اس سے اچھی ہو.قابل تعریف بات یہی ہے کہ اس قوم کے تمدن کا طریق یہ ہے کہ اس نے اپنی حکومت کو انفرادی معاملات میں دخل اندازی کے اختیارات نہیں دیئے“.الفضل 21 جنوری 1938ء صفحہ 4 جلد 26 نمبر 17 ) قلم کے جہاد کے بارے میں آپ نے ایک ارشاد فرمایا کہ انبیاء کا دل بڑا شکر گزار ہوتا ہے.ایک معمولی سے معمولی بات پر بھی بڑا احسان محسوس کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں جب دن رات چھپتیں تو باوجود اس کے کہ آپ کئی کئی راتیں بالکل نہیں سوتے تھے.لیکن جب کوئی شخص رات کو پروف لاتا تو اس کے آواز دینے پر خود اٹھ کر لینے کے لئے جاتے ( یعنی کتابت ہو کر آتی تو خود لینے کے لئے جاتے ) اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے کہ جَزَاكَ اللهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء.اس کو کتنی تکلیف ہوئی ہے.یہ لوگ کتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں.خدا ان کو جزائے خیر دے.حالانکہ آپ خودساری رات جاگتے رہتے تھے.فرماتے ہیں کہ ”میں کئی بار آپ کو کام کرتے دیکھ کر سو یا اور جب کہیں آنکھ کھلی تو کام ہی کرتے دیکھا حتی کہ صبح ہو گئی.دوسرے لوگ اگر چہ خدا کے لئے کام کرتے تھے لیکن آپ (علیہ السلام) ان کی تکلیف کو بہت محسوس کرتے تھے.کیوں؟ اس لئے کہ انبیاء کے دل میں احسان کا بہت احساس ہوتا ہے.الفضل 19 اگست 1916 ء صفحہ 7 جلد 4 نمبر 13 )
خطبات مسرور جلد 12 688 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے ادب اور آپ کے مقام کا کس قدر لحاظ رکھتے تھے، خیال رکھتے تھے اور اس کے لئے کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں اور یہ واقعہ بیان کر کے آپ نے توجہ دلائی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو اسلامی اخلاق اور آداب ہوتے ہیں، ان کی طرف ہمیشہ توجہ دیں.آپ اپنے ایک خطبہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ” میں نے دیکھا ہے کہ نو جوانوں کو اسلامی آداب سکھانے کی طرف توجہ ہی نہیں کی جاتی.نوجوان بے تکلفانہ ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالے پھر رہے ہوتے ہیں حتی کہ میرے سامنے بھی ایسا کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا کیونکہ ان کو یہ احساس ہی نہیں کہ یہ کوئی بری بات ہے.ان کے ماں باپ اور اساتذہ نے ان کی اصلاح کی طرف کبھی کوئی توجہ ہی نہیں کی حالانکہ یہ چیزیں انسانی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کی بچپن میں تربیت کا اب تک مجھ پر اثر ہے اور جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.ایک دفعہ میں ایک لڑکے کے کندھے پر کہنی ٹیک کر کھڑا تھا کہ ماسٹر قادر بخش صاحب نے جو مولوی عبد الرحیم صاحب درد کے والد تھے اس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بری بات ہے.اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.اسی طرح ایک صو بیدار صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے ان کی ایک بات بھی مجھے یاد ہے.لکھتے ہیں کہ ”ہماری والدہ چونکہ دتی کی ہیں اور دتی بلکہ لکھنو میں بھی ” تم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں.بزرگوں کو بیشک آپ کہتے ہیں لیکن ہماری والدہ کے کوئی بزرگ چونکہ یہاں تھے نہیں کہ ہم ان سے "آپ" کہہ کر کسی کو مخاطب کرنا بھی سیکھ سکتے.اس لئے میں دس گیارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ” تم ہی کہا کرتا تھا.اللہ تعالیٰ ان (صو بیدار صاحب) کی مغفرت فرمائے اور ان کے مدارج بلند کرے.کہتے ہیں ”صو بیدار محمد ایوب خان صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے.گورداسپور میں مقدمہ تھا اور میں نے بات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تم کہہ دیا.وہ صو بیدار صاحب مجھے الگ لے گئے اور کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ہیں اور ہمارے لئے حل ادب ہیں.لیکن یہ بات یادرکھیں کہ تم کا لفظ برابر والوں کے لئے بولا جاتا ہے بزرگوں کے لئے نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اس کا استعمال میں بالکل برداشت نہیں کر سکتا.یہ پہلا سبق تھا جو انہوں نے اس بارہ میں مجھے دیا.الفضل 11 مارچ 1939 ء صفحہ 7 جلد 27 نمبر 58)
خطبات مسرور جلد 12 689 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء پس اسلامی آداب میں ہمیں بھی خاص طور پر توجہ دینی چاہئے.ان لوگوں کو جو آجکل ایم ٹی اے پر آتے ہیں.انہیں خیال رکھنا چاہئے.اس کے ذریعے عموماً تو نو جوان آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ان کے پروگرام بڑے اچھے ہیں لیکن ایک پروگرام جو آجکل ربوہ سے بن کر آ رہا ہے اور اس میں مربی اور واقف زندگی بھی بیٹھے ہوتے ہیں.اس میں ایک تو بیٹھنے کا انداز بڑا غلط ہوتا ہے.کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ٹانگیں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں، ساتھ ہلتے چلے جارہے ہیں کوئی وقار نہیں ہے.سر پہ ٹوپی نہیں ہے اور اس قسم کے پروگرام جور بوہ سے بن کے آئیں ان کو تو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا.اس لئے آئندہ سے ایم ٹی اے والے جو پاکستان میں ہیں ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے.پروگرام بیشک اپنی نوعیت کے لحاظ سے اچھا ہو لیکن اگر اس کو conduct کرنے والا ، اس کو present کرنے والا اچھا نہیں ہے تو وہ پروگرام کبھی نہیں لگایا جائے گا.اس لئے میں نے آئندہ سے وہ پروگرام روک بھی دیئے ہیں.اور خاص طور پر مربیان کو تو بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.ان کا ایک اپنا وقار ہے اور ان کو یہی سمجھنا چاہئے کہ ہم نے اس وقار کو قائم کرنا ہے.ایک عام دنیا دارلر کا اگر ایسی حرکت کرتا ہے تو وہ قابل برداشت ہے لیکن اگر ایک مربی کرے تو نا قابل برداشت ہے.اور مجھے بعض لوگوں نے لکھا بھی ہے.تو جہ بھی دلائی ہے.ہر کوئی اس چیز کومحسوس کر رہا ہے کہ ربوہ سے ایک پروگرام بنتا ہے اور اس میں اس قسم کا ، وقار کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا.ایک واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ”ہم بھی بچپن میں مختلف کھیلیں کھیلا کرتے تھے.میں عموماً فٹبال کھیلا کرتا تھا.جب قادیان میں بعض ایسے لوگ آگئے جو کرکٹ کے کھلاڑی تھے تو انہوں نے ایک کرکٹ ٹیم تیار کی.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ایک دن وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جاؤ حضرت صاحب سے عرض کرو کہ وہ بھی کھیلنے کے لئے تشریف لائیں.چنانچہ میں اندر گیا.آپ اس وقت ایک کتاب لکھ رہے تھے.جب میں نے اپنا مقصد بیان کیا تو آپ نے قلم نیچے رکھ دی اور فرمایا.تمہارا گیند تو گراؤنڈ سے باہر نہیں جائے گا لیکن میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جس کا گیند دنیا کے کناروں تک جائے گا.اب دیکھ لو کیا آپ کا گیند دنیا کے کناروں تک پہنچا ہے یا نہیں.اس وقت امریکہ، ہالینڈ، انگلینڈ، سوئٹزرلینڈ، مڈل ایسٹ، افریقہ، انڈونیشیا، اور دوسرے کئی ممالک میں آپ کے ماننے والے موجود ہیں.فلپائن کی حکومت ہمیں مبلغ بھیجنے کی اجازت نہیں دیتی تھی لیکن پچھلے دنوں وہاں سے برابر بیعتیں آنی شروع ہو گئی ہیں.ابھی تین چار دن ہوئے ہیں فلپائن سے ایک شخص کا خط آیا ہے جس
خطبات مسرور جلد 12 690 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء میں اس نے لکھا ہے کہ اسے میری بیعت کا خط ہی سمجھیں اور مجھے مزید لٹریچر بھجوائیں.( یہ حضرت خلیفہ ثانی کے زمانے کی باتیں ہیں.) مجھے جس مقام کے متعلق بھی علم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اسلام کی خدمت کرنے والا ہے میں وہاں خط لکھ دیتا ہوں.چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ میں نے انجمن اشاعت اسلام لاہور کو بھی ایک خط لکھا ہے.میں نے مسجد لنڈن کے پتہ پر بھی ایک خط لکھا ہے.میں نے واشنگٹن امریکہ کے پتہ پر بھی ایک خط لکھا ہے.اب دیکھ لو فلپائن میں ہمارا کوئی مبلغ نہیں گیا لیکن لوگوں میں آپ ہی آپ احمدیت کی طرف رغبت پیدا ہورہی ہے.یہ وہی گیند ہے جسے قادیان میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہٹ ماری تھی جو دنیا کے کناروں میں پہنچ رہا ہے.“ الفضل 8 فروری 1956 ، صفحہ 4 جلد 10/45 نمبر 33) اب تو اس کی اتنی کثرت ہو گئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ دنیا سے خود بخود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف کروا رہا ہے.کئی واقعات مختلف وقتوں میں لوگوں کے بیان بھی کر چکا ہوں کہ خود رہنمائی فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کس طرح تعارف کروا رہا ہے.بعض لوگ عرصے کے بعد جب کہیں آپ کی تصویر دیکھتے ہیں تو پہچان لیتے ہیں یا خلفاء کی تصویریں دیکھتے ہیں تو پہچان لیتے ہیں کہ یہی تھے جو ہمیں اسلام کا صحیح پیغام دے رہے تھے.پھر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ”بغیر محنت دینی یا محنت دنیوی کے کوئی انسان عزت حاصل نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے زمانے میں تمام عزت خدا نے ہمارے ساتھ وابستہ کر دی ہے.( یعنی اب اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو زمانہ ہے اس میں تمام عزت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وابستہ ہوگئی.) اب عزت پانے والے یا ہمارے مرید ہوں گے یا ہمارے مخالف ہوں گے.( یعنی مخالفین کو بھی اگر عزت ملے گی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے ہی ) چنانچہ ( آپ ) فرماتے تھے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب (ہی ) کو دیکھ لو وہ کوئی بڑے مولوی نہیں.ان جیسے ہزاروں مولوی پنجاب اور ہندوستان میں پائے جاتے ہیں.ان کو اگر اعزاز حاصل ہے تو محض ہماری مخالفت کی وجہ سے.وہ لوگ خواہ اس امر کا اقرار کریں یا نہ کریں) مگر واقعہ یہی ہے کہ آج ہماری مخالفت میں عزت ہے یا ہماری تائید میں.گویا اصل مرکزی وجود ہمارا ہی ہے.اور مخالفین کو بھی اگر عزت حاصل ہوتی ہے تو ہماری وجہ سے.“ ( تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 614) اس کو مزید کھول کر آپ نے ایک جگہ اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ ”جب تک کوئی انسان کمال
خطبات مسرور جلد 12 691 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا.مذہب میں داخل ہونے سے بھی کمال ہی فائدہ دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ آجکل ہم سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو گہرا تعلق رکھتے ہیں.یا تو پوری مخالفت کرنے والے مثلاً مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ.دوسرے چھوٹے چھوٹے مولویوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں یا کامل اخلاص رکھنے والے“.اب چھوٹے مولویوں نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں اپنی روزی کمانے کا ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کو بنایا ہوا ہے اور ان کو اگر روٹی مل رہی ہے تو اسی وجہ سے مل رہی ہے.فرماتے ہیں کہ ادنی تعلق فائدہ نہیں دیتا.اصل میں کمال ہی سے فضل ملتا ہے.بغیر اس کے انسان فضل سے محروم رہتا ہے.اگر انسان هر چه باده بادکشتی ما در آب انداختیم “ کہہ کر خدا تعالیٰ کی طرف چل پڑے.( یعنی اب چاہے جو بھی ہونا ہے ہو جائے ہم نے تو اپنی کشتی دریا میں ڈال دی ہے.اگر یہ کہہ کر خدا تعالیٰ کی طرف چل پڑے ) تو اس کے ساتھ بھی پہلوں کا سا معاملہ ہوگا.آخر خدا تعالیٰ کو کسی سے دشمنی نہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کامل طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے ڈال دے اور اس کے آستانہ پر گرا دے.اس سے آپ ہی آپ اسے سب کچھ حاصل ہو جائے گا اور جو ترقی اس کے لئے ضروری ہوگی وہ آپ ہی آپ مل جائے گی“.(اس لئے ہر احمدی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مانا ہے تو مکمل اس کے آگے ڈالنا ہو گا ).آپ نے لکھا کہ 'آگ کے پاس بیٹھنے والے کے اعضاء کو دیکھو سب گرم ہوں گے.اس کا چہرہ ہاتھ پاؤں جہاں ہاتھ لگاؤ گے گرم محسوس ہوگا تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کے پاس آئے اور اس کے پاس بیٹھ جائے اور خدا تعالیٰ کا وجود اس کے اندر سے ظاہر نہ ہو.آگ کے اندر لوہا پڑ کر آگ کی خصوصیات ظاہر کرنے لگ جاتا ہے گو وہ آگ نہیں ہوتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے لوگوں سے خاص معاملات ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں كُن فَيَكُون والی چادر پہنا دیتا ہے حتی کہ نادان ان کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ تو صرف خدا تعالیٰ کی صفات کا عکس پیش کر رہے ہوتے ہیں.پس اگر کوئی مذہب سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کا طریق یہی ہے کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے گلی طور پر ڈال دے.لیکن اگر قوم کی قوم اس طرح کرے تو اس پر خاص فضل ہوں گے اور وہ ہر میدان میں فتح حاصل کرے گی.ہماری جماعت کے لئے بھی یہی قدم اٹھانا ضروری ہے مگر بہت سے لوگ صرف کہ دینا کافی سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کرنی چاہئے کہ ایک طبعی شئے بن جائے.صرف جھوٹا دعوی نہ ہو کیونکہ جھوٹ اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی.جھوٹ ایک ظلمت ہے اور
خطبات مسرور جلد 12 692 خدا تعالیٰ کی محبت ایک نور.پس نو ر اور ظلمت کیسے جمع ہو سکتے ہیں“.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء خطبات محمود جلد 17 صفحہ 470-471) پس ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے اور اکثر میں توجہ دلا تا بھی رہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہمیں دوسروں سے مختلف نظر آنا چاہئے.خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین میں بھی ہمیں دوسرے سے مختلف نظر آنا چاہئے اور بڑھے ہوئے ہونا چاہئے.عبادات میں بھی ہمیں دوسروں سے مختلف نظر آنا چاہئے.اعلیٰ معیاروں کو پانے کی کوشش کرنے والے بھی ہم دوسروں کی نسبت زیادہ ہونے چاہئیں.اعلیٰ اخلاق میں بھی ہمیں امتیازی حیثیت حاصل ہونی چاہئے.قانون کی پابندی میں بھی ہم ایک مثال ہونے چاہئیں.غرض کہ ہر چیز میں ایک احمدی کو دوسروں سے ممتاز ہونے کی ضرورت ہے تبھی ہم جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں بیعت سے صحیح فائدہ اٹھا سکتے ہیں.احسان اور حسن سلوک کا ایک واقعہ یہ بیان فرماتے ہیں.ایک دفعہ ایک افسر حضرت مسیح موعود سے ایک معاملے میں ( ملنے آئے اور ) کہا کہ یہ لوگ ( یعنی قادیان کے رہنے والے غیر از جماعت یا ہندو وغیرہ جو تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بعض دفعہ حکام کو ، حکومت کے کارندوں کو غلط شکایات کیا کرتے تھے.تو بہر حال ایک دفعہ ایک افسر حکومت کے قادیان آئے اور کہا کہ یہ لوگ) آپ کے شہری ہیں.آپ ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انہوں نے کہا.) تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس بڑھے شاہ ہی کو (وہاں ایک شخص تھا کوئی بڑھے شاہ اسی کو ) پوچھو کہ آیا کوئی ایک موقع بھی ایسا آیا ہے جس میں اس نے اپنی طرف سے نیش زنی نہ کی ہو.( جتنا نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے نہ کی ہو ) اور پھر اس سے ہی پوچھو کہ کیا کوئی ایک موقع بھی ایسا آیا ہے کہ جس میں میں اس پر احسان کر سکتا تھا اور پھر میں نے اس کے ساتھ احسان نہ کیا ہو.(بس) آگے وہ سر ڈال کر ہی بیٹھا رہا، (بولا نہیں کچھ.) یہ ایک عظیم الشان نمونہ تھا آپ کے اخلاق کا.پس ہماری جماعت کو بھی چاہئے کہ وہ اخلاق میں ایک نمونہ ہو.معاملات کی آپ میں (ایک) ایسی صفائی ہو کہ اگر ایک پیسہ بھی گھر میں نہ ہو تو امانت میں ہاتھ نہ ڈالیں اور بات اتنی میٹھی اور ایسی محبت سے کریں کہ جو دوسروں کے دل پر اثر کرے.“ ( خطبات محمود جلد 10 صفحه 277-278) اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ انسان جس چیز کا عادی ہو جائے وہ تکلیف نہیں رہتی.
خطبات مسرور جلد 12 693 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء جب عادی ہو جائے تو پھر تکلیف ختم ہو جاتی ہے، فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے میں نے خود اپنے کانوں سے یہ مضمون بار ہا سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلاء آیا کرتے ہیں.ایک تو وہ ابتلا ءہوتے ہیں جن میں بندے کو اختیار دیا جاتا ہے کہ تم اس میں اپنے آرام کے لئے خود کوئی تجویز کر سکتے ہو.چنانچہ اس کی مثال میں آپ فرماتے تھے دیکھو! وضو بھی ایک ابتلاء ہے.سردیوں کے موسم میں جب سخت سردی لگ رہی ہو.ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو اور ذراسی ہوا لگنے سے بھی انسان کو تکلیف ہوتی ہو.“ (اب تو یہاں ہمارے تصور نہیں غسل خانوں میں بھی ہیٹنگ ہوتی ہے گرم پانی آ رہا ہوتا ہے.لیکن ہیٹنگ بھی کوئی نہ ہو باہر جانا ہو، ٹھنڈا پانی ہو تب سردیوں میں وضو کا ایک تصور قائم ہوسکتا ہے.فرمایا کہ ” خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو حکم ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرو.بسا اوقات جب نماز کا وقت ہوتا ہے اس وقت گرم پانی نہیں ہوتا یا بسا اوقات اسے گرم پانی میسر تو آ سکتا ہے مگر اس وقت تیار نہیں ہوتا.پھر بسا اوقات اسے گرم پانی میسر ہی نہیں آ سکتا.یخ بستہ پانی ہوتا ہے اور اسی پانی سے اسے وضو کر کے نماز پڑھنی پڑتی ہے.آپ فرمایا کرتے کہ یہ بھی ایک ابتلاء ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لئے رکھ دیا.گرفرمایا یہ ایسا ابتلاء ہے جس میں بندے کو اختیار دیا گیا ہے یعنی اسے اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر پانی ٹھنڈا ہے تو گرم کر لے.گویا یہ ایک اختیاری ابتلاء ہے.“‘ اس قسم کی اختیاری ابتلاء کی بہت ساری مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں.فرمایا کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا اور انسان کو اس بات کی اجازت دی کہ اگر ٹھنڈے پانی سے تم وضو نہیں کر سکتے تو ہمت کرو اور آگ پر پانی گرم کر لو اور اپنے گھر میں آگ موجود نہیں تو ہمسائے کے گھر سے آگ لے کر پانی گرم کر لو اور گرم پانی سے وضو کر نے کے بعد اچھی طرح گرم کپڑے پہن لو تا تمہیں سردی محسوس نہ ہو یا بعض اوقات لوگ مسجدوں میں حمام بنا دیتے ہیں جن میں پانی گرم رہتا ہے.پس جو لوگ غریب اپنے گھروں میں پانی گرم نہیں کر سکتے وہ مساجد میں جا کر حمام سے وضو کر سکتے ہیں“.یہ جو غیر ترقی یافتہ ممالک ہیں یا کم ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں جولوگ سننے والے ہیں وہ اس کا صحیح تصور پیدا کر سکتے ہیں بلکہ آپ میں سے بھی جو سب بڑے ہیں.یہاں کے پیدا ہوئے ہوئے لوگ شاید اس کا تصور پیدا نہ کر سکیں.یہاں گرم پانی میسر آ جاتا ہے.لیکن بہر حال بہت سارے ہم میں سے جانتے ہیں کہ پاکستان ہندوستان وغیرہ میں کیا صورتحال ہوتی ہے.پھر فرمایا: 'یا اگر مسجد میں گرم حمام کا انتظام نہ ہو تو پھر کوئی ہمت والا کنوئیں سے تازہ پانی کا ڈول نکال کر اس سے وضو کر لیتا ہے اس طرح بھی وہ سردی سے بچ جاتا ہے کیونکہ سردیوں میں کنویں کا تازہ پانی قدرے گرم ہوتا ہے.پس اگر کوئی ذریعہ اس
خطبات مسرور جلد 12 694 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء کے پاس موجود نہیں تو وہ اس طرح اپنی تکلیف کو دور کر سکتا ہے.اسی طرح فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکم دیا کہ علی الصبح اٹھے اور نماز فجر پڑھے.اب سردیوں میں صبح کے وقت اٹھنا کتنا دو بھر ہوتا ہے لیکن انسان کے پاس اگر کافی سامان ہو تو یہ تکلیف بھی اسے محسوس نہیں ہوسکتی.مثلاً اگر اسے تہجد کی نماز پڑھنے کی عادت ہے تو وہ یہ کر سکتا ہے کہ تہجد کی نماز پڑھتے وقت کمرے کے دروازے اچھی طرح بند کرے تا کمرہ گرم رہے اور باہر کی ٹھنڈی ہوا اندر نہ آسکے.اسی طرح جب فجر کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد کو جائے تو کمبل یا دلائی اوڑھ سکتا ہے (جن کے پاس کوٹ نہیں ہیں).یا گرم کوٹ پہن کر جا سکتا ہے اور اگر کوئی غریب بھی ہو تو وہ بھی پھٹی پرانی (کوئی) صدری یا کوٹ پہن کر جا سکتا ہے.اور سردی کے اثر سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے.اور اگر کوئی شخص بالکل ہی غریب ہو اور اس کے پاس نہ کمبل ہو نہ دولائی نہ صدری نہ کوٹ تو اسے بھی زیادہ تکلیف نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے شخص کو سردی کے برداشت کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جس چیز کا انسان عادی ہو جائے وہ اس کو تکلیف نہیں دیتی.( خطبات محمود جلد 17 صفحه 669-670) بہت سارے لوگوں کو ہم نے پاکستان میں بھی سردیوں میں دیکھا ہے.ہم جب گرم کپڑے پہن رہے ہوتے ہیں تو ایک غریب آدمی بیچارہ معمولی سے گرم کپڑے پہن کے اور بغیر جرابوں کے آرام سے پھر رہا ہوتا ہے اور اسے کوئی سردی کا احساس نہیں ہوتا اس لئے کہ عادت پڑ جاتی ہے.پھر آپ یہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ ( مثلاً ) عورتیں بعض دفعہ جہاں لکڑی اور کوئلہ جل رہا ہوتا ہے وہاں کام کرتی ہیں تو ہاتھوں سے چوہلے سے کوئلہ یا انگارے نکال لیتی ہیں اور انہیں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی جبکہ ہم لوگ جو ہیں اس کے انگارے کے قریب بھی نہیں جاسکتے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 670) تو کسی چیز کی جب یہ عادت پڑ جائے تو پھر تکلیف محسوس نہیں ہوتی.اس لئے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اگر ابتلا ہے بھی تو تکلیف برداشت کر کے بھی اس کو اللہ تعالیٰ کی خاطر برداشت کرنا چاہئے اور اگر اس کو دور کرنے کا حل نکل سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان سے حل نکال کے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور اگر نہیں بھی تو پھر انسان اپنے آپ کو عادت ڈالے اور اس کے مطابق کرنے کی کوشش کرے اور جب عادت پڑ جائے تو پھر وہ تکلیف، تکلیف نہیں رہتی.دوسرے حصے کا تو آپ نے ذکر نہیں کیا کہ دوسرا ابتلا ( کیا ہے؟ ) لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات مسرور جلد 12 695 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء کا ایک اقتباس میں پڑھ دیتا ہوں جس میں آپ نے ابتلاؤں میں حکمت کیا ہے، اس کے بارے میں فرمایا ہے.آپ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ اپنے بندوں کو کسی قسم کا ایذا نہ پہنچنے دیتا اور ہر طرح سے عیش و آرام میں ان کی زندگی بسر کرواتا.ان کی زندگی شاہانہ زندگی ہوتی.ہر وقت ان کے لیے عیش و طرب کے سامان مہیا کئے جاتے.مگر اس نے ایسا نہیں کیا.اس میں بڑے اسرار اور راز نہاں ہوتے ہیں.دیکھو والدین کو اپنی لڑکی کیسی پیاری ہوتی ہے بلکہ اکثر لڑکوں کی نسبت زیادہ پیاری ہوتی ہے مگر ایک وقت آتا ہے کہ والدین اس کو اپنے سے الگ کر دیتے ہیں.وہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت کو دیکھنا بڑے جگر والوں کا کام ہوتا ہے.دونوں طرف کی حالت ہی بڑی قابل رحم ہوتی ہے ( یعنی ماں باپ بھی رخصت کے وقت رور ہے ہوتے ہیں اور لڑکی بھی قریباً چودہ پندرہ سال ایک جگہ رہے ہوئے ہوتے ہیں.آخران کی جدائی کا وقت نہایت ہی رقت کا وقت ہوتا ہے.اس جدائی کو بھی کوئی نادان بے رحمی کہہ دے تو بجا ہے مگر اس کی لڑکی میں بعض ایسے قومی ہوتے ہیں جس کا اظہار اس علیحدگی اور سسرال میں جا کر شوہر سے معاشرت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے جو طرفین کے لیے موجب برکت اور رحمت ہوتا ہے.یہی حال اہل اللہ کا ہے.ان لوگوں میں بعض خلق ایسے پوشیدہ ہوتے ہیں کہ جب تک ان پر تکالیف اور شدائد نہ آویں ان کا اظہار ناممکن ہوتا ہے.دیکھو اب ہم لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کرتے ہیں بڑے فخر اور جرات سے کام لیتے ہیں یہ بھی تو صرف اسی وجہ سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دونوں زمانے آچکے ہوئے ہیں ورنہ ہم یہ فضیلت کس طرح بیان کرتے“.(یعنی آسائش کا بھی زمانہ آیا اور سختیوں اور تکلیفوں کا بھی ) دکھ کے زمانہ کو بری نظر سے نہ دیکھو.یہ خدا (تعالی) سے لذت کو اور اس کے قرب کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اسی لذت کو حاصل کرنے کے واسطے جو خدا کے مقبولوں کو ملا کرتی ہے دنیوی اور سفلی گل لذات کو طلاق دینی پڑا کرتی ہے.خدا کا مقرب بننے کے واسطے ضروری ہے کہ دکھ سہے جاویں اور شکر کیا جاوے اور نئے دن ایک نئی موت اپنے اوپر لینی پڑتی ہے.جب انسان دنیوی ہوا و ہوس اور نفس کی طرف سے بکلی موت اپنے اوپر وارد کر لیتا ہے تب اسے وہ حیات ملتی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی.پھر اس کے بعد مرنا کبھی نہیں ہوتا.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 200-2011.ایڈیشن 1985 ء مطبوعہ انگلستان ) پس یہ ہے ابتلا کی حکمت کا مختصر خاکہ.حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ فرمایا کہ ”میری عمر جب نو
خطبات مسرور جلد 12 696 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء یا دس برس کی تھی.میں اور ایک اور طالبعلم گھر میں کھیل رہے تھے.وہیں الماری میں ایک کتاب پڑی ہوئی تھی جس پر نیلا جز دان تھا اور وہ ہمارے دادا صاحب کے وقت کی تھی.نئے نئے علوم ہم پڑھنے لگے تھے.اس کتاب کو جو کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ اب جبرائیل نازل نہیں ہوتا.میں نے کہا یہ غلط ہے.میرے ابا پر تو نازل ہوتا ہے.اس لڑکے نے کہا.جبرائیل نہیں آتا، کتاب میں لکھا ہے.ہم میں بحث ہو گئی.آخر ہم دونوں حضرت صاحب کے پاس (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس) گئے.اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا.آپ نے فرمایا.کتاب میں غلط لکھا ہے.جبرائیل اب بھی آتا ہے.“ پھرا پنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ بیوقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے.کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کر کے میں ہنسا بھی ہوں اور بسا اوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آگئے ہیں.مگر میں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنی زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے، ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے اور وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک رات ہم صحن میں سورہے تھے.گرمی کا موسم تھا کہ آسمان پر بادل آیا اور زور سے گر جنے لگا.اسی دوران میں قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گر گئی مگر اس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے.اس کڑک اور کچھ بادلوں کی وجہ سے تمام لوگ کمروں میں چلے گئے.جس وقت بجلی کی یہ کڑک ہوئی اس وقت ہم بھی جو صحن میں سور ہے تھے اٹھ کر اندر چلے گئے.مجھے آج تک وہ نظارہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اندر کی طرف جانے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر رکھ دیئے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے، ان پرنہ گرے.بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ (آپ) بجلی سے محفوظ رہتے“.سوانح فضل عمر جلد 1 صفحہ 149-150 ) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ” 1906ء آیا.مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیمار ہوئے.میری عمر 17 سال کی تھی اور ابھی کھیل کود کا زمانہ تھا.مولوی صاحب بیمار تھے اور ہم سارا دن کھیل کو د میں مشغول رہتے تھے.ایک دن یخنی لے کر میں مولوی صاحب کے لئے گیا تھا.اس کے سوا یاد نہیں کہ کبھی پوچھنے بھی گیا ہوں.اس زمانہ کے خیالات کے مطابق یقین کرتا تھا کہ مولوی صاحب فوت ہی نہیں ہو سکتے وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد فوت ہوں گے.
خطبات مسرور جلد 12 697 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء مولوی عبد الکریم صاحب کی طبیعت تیز تھی.ایک دوسبق ان کے پاس الف لیلہ کے پڑھے پھر چھوڑ دیئے.اس سے زیادہ ان سے تعلق نہ تھا.ہاں ان دنوں میں یہ بخشیں خوب ہوا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دایاں (فرشتہ) کون سا ہے اور بایاں فرشتہ کون سا ہے.بعض کہتے کہ مولوی عبد الکریم صاحب دائیں ہیں اور بعض حضرت استاذی المکرم خلیفہ اول کی نسبت کہتے کہ وہ دائیں فرشتے ہیں.علموں اور کاموں کا موازنہ کرنے کی اس وقت طاقت ہی نہ تھی.( یعنی بچپن لڑکپن تھا.سوچ نہیں تھی ) اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس محبت کی وجہ سے جو حضرت خلیفہ اول مجھ سے کیا کرتے تھے میں نور الدینیوں میں سے تھا.ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی دریافت کیا تھا اور آپ نے ہمارے خیال کی تصدیق کی.( یعنی کہ حضرت خلیفہ اول حضرت مسیح موعود کے زیادہ قریبی تھے ).غرض مولوی عبد الکریم صاحب سے کوئی زیادہ تعلق مجھے نہیں تھا سوائے اس کے کہ ان کے پرزور خطبوں کا مداح تھا اور ان کی محبت ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معتقد تھا.مگر جونہی آپ کی وفات کی خبر میں نے سنی میری حالت میں ایک تغیر پیدا ہوا.وہ آواز ایک بجلی تھی جو میرے جسم کے اندر سے گزرگئی.جس وقت میں نے آپ کی وفات کی خبر سنی مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہی.دوڑ کر اپنے کمرے میں گھس گیا اور دروازے بند کر لئے.پھر ایک بے جان لاش کی طرح چار پائی پر گر گیا اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.وہ آنسو نہ تھے ایک دریا تھا.دنیا کی بے ثباتی ،مولوی صاحب کی محبت مسیح (علیہ السلام) اور خدمت مسیح کے نظارے آنکھوں کے سامنے پھرتے تھے.دل میں بار بار خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاموں میں یہ بہت سا ہاتھ بٹاتے تھے.اب آپ کو بہت تکلیف ہوگی اور پھر خیالات پر ایک پردہ پڑ جا تا اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہنے لگتا تھا.اس دن میں نہ کھانا کھا سکا نہ میرے آنسو تھے حتی کہ میری لا ابالی طبیعت کو دیکھتے ہوئے میری اس حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی تعجب ہوا اور آپ نے حیرت سے فرما یا محمود کو کیا ہو گیا ہے.اس کو تو مولوی صاحب سے کوئی ایسا تعلق نہ تھا.یہ تو بیمار ہو جائے گا.“ پھر آپ فرماتے ہیں کہ 1908ء کا ذکر میرے لئے تکلیف دہ ہے.وہ میری کیا سب احمدیوں کی زندگی میں ایک نیا دور شروع کرنے کا موجب ہوا.اس سال وہ ہستی جو ہمارے بے جان جسموں کے لئے بمنزلہ روح کے تھی اور ہماری بے نور آنکھوں کے لئے بمنزلہ بینائی کے تھی.اور ہمارے تاریک دلوں میں بمنزلہ روشنی کے تھی، ہم سے جدا ہوگئی.یہ جدائی نہ تھی.ایک قیامت تھی.پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور آسمان اپنی جگہ پر سے ہل گیا.اللہ تعالی گواہ ہے.اس وقت نہ روٹی کا خیال تھا نہ کپڑے کا.صرف ایک خیال
خطبات مسرور جلد 12 698 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء تھا کہ اگر ساری دنیا بھی مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ دے تو میں نہیں چھوڑوں گا اور پھر اس سلسلہ کو دنیا میں قائم کروں گا.میں نہیں جانتا.میں نے کس حد تک اس عہد کو نباہا ہے مگر میری نیت ہمیشہ یہی رہی کہ اس عہد کے 66 مطابق میرے کام ہوں.“ یا دایام.انوار العلوم جلد 8 صفحہ 367-368) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا ہر فرد بلکہ بعد میں آنے والے بھی گواہ ہیں کہ آپ نے اس عہد کو خوب نبھایا بلکہ ہمارے لئے بھی عہدوں کو نبھانے کے لئے صحیح راستوں کی طرف آپ نے رہنمائی فرما دی.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے عہدوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.اس وقت میں دو جنازے پڑھاؤں گا.ایک جنازہ حاضر ہے.( آ گیا ہوا ہے؟ ) یہ جنازہ حاضر جو ہے مکر مہ ثریا بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالرحیم صاحب مرحوم آف ملتان کا ہے جو آجکل مانچسٹر یو کے میں تھیں.ان کی 77 سال کی عمر میں 11 نومبر کو وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.نیک، صالح ،نمازوں کی پابند خوش اخلاق ، صابرہ شاکرہ خاتون تھیں.مرحومہ موصیبہ تھیں.ان کے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں.ایک بیٹے عبدالمتین صاحب زعیم انصار اللہ مانچسٹر ہیں.بیٹی صدر لجنہ مانچسٹر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہی ہیں.ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.دوسرا جنازہ غائب ہے جو مکرم محمود عبداللہ شبوطی صاحب آف یمن کا ہے.شبوطی صاحب 9 رنومبر 2014ء کو لمبی بیماری کے بعد وفات پاگئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ کو آپ کے والد نے جامعہ احمد یہ ربوہ میں تعلیم کی غرض سے بھجوایا تھا جہاں سے آپ نے مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا.مکرم غلام احمد صاحب مبلغ سلسلہ کے بعد آپ یمن میں مبلغ تعینات ہوئے.یمن میں 24 رمئی 1934ء کو پیدا ہوئے.آپ کے والد مکرم عبد اللہ محمد عثمان الشبوطی صاحب پہلے یمنی احمدی تھے جنہوں نے مبلغ سلسلہ مکرم غلام احمد صاحب کے ذریعہ بیعت کی تھی.مرحوم کے والد صاحب نے آپ کو جون 1952ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں پڑھنے کے لئے بھجوایا تھا جہاں مرحوم نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے والے آپ پہلے غیر ملکی تھے.اسی طرح آپ نے جامعہ سے شاہد کا امتحان بھی پاس کیا اور 1960ء میں مبلغ بن کے یمن واپس آئے.لیکن آپ کی واپسی سے قبل آپ کے والد صاحب نے ہدایت کی کہ ربوہ میں شادی کر کے آئیں اور پھر تحریک جدید نے ان کا رشتہ مکرم سید بشیر احمد شاہ صاحب کی
خطبات مسرور جلد 12 699 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 نومبر 2014ء صاحبزادی محترمہ نسرین شاہ صاحبہ سے کروایا.یہ جو شبوطی صاحب کا سسرال ہے یہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع اور ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے خاندان میں سے ہے.مرحوم کے بارے میں ان کے صاحبزادے نے لکھا کہ جامعہ کے تمام طلباء یہ بتایا کرتے تھے کہ وہ نماز فجر مسجد محمود میں ادا کرتے تھے جو تحریک جدید کے کوارٹروں میں ہے لیکن شبوطی صاحب مسجد مبارک جاکے نماز ادا کیا کرتے تھے.اور پھر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مل کے سیر پہ جاتے تھے.ان کے ساتھیوں میں اس زمانے کے جامعہ کے طلباء میں عثمان چینی صاحب، وہاب آدم صاحب وغیرہ شامل ہیں.مرحوم نے ستر کی دہائی کے ابتدائی عرصے تک یمن میں بطور مبلغ کام کیا لیکن جب یمنی حکومت انگریزی حکومت سے آزاد ہوئی تو یمن میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت آئی جس نے ہر قسم کی مذہبی سرگرمیوں پر اور تبلیغ پر پابندی لگادی.اس وجہ سے جماعت نے آپ کو جماعتی سرگرمیاں منقطع کرنے کی ہدایت کی.تاہم آپ جماعت کے انتظامی اور مالی امور سرانجام دیتے رہے.جمعہ اور عیدین کی نمازیں آپ عدن یو نیورسٹی کی مسجد میں پڑھایا کرتے تھے.یو نیورسٹی کی یہ مسجد ایک احمدی کی ملکیت تھی.ان کی وفات کے بعد ان کے اہل خانہ نے مسجد وا پس ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو شبوطی صاحب مرحوم نے مسجد تو ان کے خاندان کو دے دی جو احمدی نہیں تھے.اور اپنا گھر مسجد کے لئے پیش کر دیا.پھر وہاں نمازیں ہوتی رہیں.آپ جماعت سے کوئی خرچ نہیں لیا کرتے تھے.ساری جماعتی ضروریات اپنی جیب سے پوری کیا کرتے تھے.جماعتی بجٹ سے کچھ نہ لیتے.سارا چندہ بغیر کسی کٹوتی کے مرکز بھجوا دیتے بلکہ ابتدائی مبلغین کو ربوہ میں پلاٹ الاٹ ہوئے تھے تو مرحوم شبوطی صاحب نے جو پلاٹ ان کو الاٹ ہوا وہ بھی جماعت کو دے دیا تھا.جس طرح میں نے وہاب آدم صاحب کے بارے میں بتایا تھا کہ انہوں نے بھی جماعت کو دے دیا تھا.مرحوم نے اپنی اولاد میں خلافت اور جماعت کی محبت پیدا کی.بہت محبت کرنے والے انسان تھے.یہاں بھی ایک دفعہ آئے ہیں.مجھے ملے ہیں.اپنے رشتہ داروں سے خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی صلہ رحمی کرنے والے تھے.باقاعدہ ان سے ملاقات میں تعلق رکھتے تھے.پسماندگان میں سیدہ نسرین شاہ صاحبہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور بارہ پوتے پوتیاں یادگار چھوڑے ہیں.ان کے ایک بیٹے کینیڈا میں ہیں اور ناصر احمد صاحب یہاں یو کے میں ہی ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.( الفضل انٹر نیشنل مورخہ 05 دسمبر 2014 ء تا 11 دسمبر 2014 جلد 21 شماره 49 صفحہ 05 تا09)
خطبات مسرور جلد 12 700 47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء بمطابق 21 نبوت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ارشادات اور تحریرات پیش کروں گا جن میں آپ نے قبولیت دعا کے واقعات بیان کئے ہیں.یہ چند واقعات ہیں.ان میں نشانات کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا بھی ذکر فرمایا ہے اور نصیحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں مجھے بھیجا ہے، اپنے فرستادہ کو بھیجا ہے.اس کی باتوں کو سنو کہ اسی میں برکت ہے اور اس سلسلے کی ترقی خدا تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے اور اس کے ماننے سے ہی انسانیت کی بقا ہے.ایک جگہ نواب علی محمد خان صاحب رئیس لدھیانہ کے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نواب علی محمد خان صاحب مرحوم رئیس لدھیانہ نے میری طرف خط لکھا کہ میرے بعض امور معاش بند ہو گئے ہیں آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں.( کچھ کا روباری پریشانیاں تھیں.فرماتے ہیں ) جب میں نے دعا کی تو مجھے الہام ہوا کہ کھل جائیں گے.میں نے بذریعہ خط ان کو اطلاع دے دی.پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کھل گئے (ان کے کاروبار میں یا ان کے کام میں کمی کی جو وجہ بنی تھی وہ دور ہو گئی.فرمایا کہ میں نے بذریعہ خط ان کو اطلاع دی.وہ دو چار دن میں کھل گئے ) اور ان کو بشدت اعتقاد ہو گیا.( حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ان کا جو اعتقاد تھا مزید پختہ ہو گیا ) پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض اپنے پوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا اور جس گھڑی انہوں نے خط ڈاک میں ڈالا اسی گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس مضمون کا خط ان کی طرف سے آنے والا ہے.تب میں نے بلا توقف ان کی
خطبات مسرور جلد 12 701 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط آپ روانہ کریں گے.دوسرے دن وہ خط آ گیا اور جب میرا خط ان کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی کیونکہ میرے اس راز کی خبر (انہوں نے یہ سوچا کہ ان کے اس راز کی خبر ) کسی کو نہ تھی.اور ان کا اعتقاد اس قدر بڑھا کہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہو گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یادداشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان متذکرہ بالا درج کر دیئے اور ہمیشہ ان کو پاس رکھتے تھے.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ) جب میں پٹیالہ میں گیا اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے.جب وزیر سید محمد حسن صاحب کی ملاقات ہوئی تو اتفاقاً سلسلہ گفتگو میں وزیر صاحب اور نواب صاحب کا میرے خوارق اور نشانوں کے بارہ میں کچھ تذکرہ ہوا.تب نواب صاحب مرحوم نے ایک چھوٹی سی کتاب اپنی جیب میں سے نکال کر وزیر صاحب کے سامنے پیش کر دی اور کہا کہ میرے ایمان اور ارادت کا باعث تو یہ دو پیشگوئیاں ہیں جو اس کتاب میں درج ہیں.اور جب کچھ مدت کے بعد ان کی موت سے ایک دن پہلے میں ان کی عیادت کے لئے لدھیانہ میں ان کے مکان پر گیا تو وہ بواسیر کے مرض سے بہت کمزور ہو رہے تھے.اور بہت خون آرہا تھا.اس حالت میں وہ اٹھ بیٹھے اور اپنے اندر کے کمرہ میں چلے گئے اور وہی چھوٹی کتاب لے آئے اور کہا کہ یہ میں نے بطور حرز جان رکھی ہے اور اس کے دیکھنے سے میں تسلی پاتا ہوں اور وہ مقام دکھلائے جہاں دونوں پیشگوئیاں لکھی ہوئی تھیں.پھر جب قریب نصف کے یا زیادہ رات گزری تو وہ فوت ہو گئے“.یہ نشان اب بھی ہیں حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اب تک یہ باتیں جو انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھی تھیں ) ان کے کتب خانہ میں وہ کتاب ہوگی“.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 257-258) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” چند سال ہوئے ہیں کہ سیٹھ عبد الرحمن صاحب تا جر مدراس جو اول درجہ کے مخلص جماعت میں سے ہیں قادیان میں آئے تھے اور ان کی تجارت کے امور میں کوئی تفرقہ اور پریشانی واقع ہو گئی تھی.انہوں نے دعا کے لئے درخواست کی.تب یہ الہام ہوا جو ذیل میں درج ہے.قادر ہے وہ بار گہ ٹوٹا کام بنادے.بنا بنا یا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے.اس الہامی عبارت کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ ٹوٹا ہوا کام بنا دے گا.مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد بنا بنا یا تو ڑ دے گا.( فرماتے ہیں کہ ) چنانچہ یہ الہام قادیان میں ہی سیٹھ صاحب کو سنایا گیا اور تھوڑے دن ہی گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے تجارتی امور میں
خطبات مسرور جلد 12 702 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء رونق پیدا کر دی.( کام ان کے بحال ہو گئے اور بڑی ہی کشائش پیدا ہو گئی.فرمایا کہ ) اور ایسے اسباب غیب سے پیدا ہوئے کہ فتوحات مالی شروع ہو گئیں ( بے انتہا مالی کشائش پیدا ہوئی) اور پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ بنا بنا یا کام ٹوٹ گیا.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 259 260 ) الہام کے مطابق پہلے تو کاروبار میں ترقی ہوئی اور پھر کچھ عرصے کے بعد آہستہ آہستہ اس میں خرابی پیدا ہونی شروع ہوئی اور پھر کاروبار خراب ہو گیا.پھر آپ ایک جگہ اپنے بارے میں ہی فرماتے ہیں کہ : ” مجھے دو بیماریاں مدت دراز سے تھیں.ایک شدید دردسر جس سے میں نہایت بیتاب ہو جاتا تھا اور ہولناک عوارض پیدا ہو جاتے تھے ( بڑی شدید سر درد ہوتی تھی.فرمایا) اور یہ مرض قریباً پچیس ۲۵ برس تک دامنگیر رہی اور اس کے ساتھ دوران سر بھی لاحق ہو گیا ( یعنی چکروں کی تکلیف بھی ہو گئی ) اور طبیبوں نے لکھا کہ ان عوارض کا آخری نتیجہ مرگی ہوتی ہے.( دورے پڑتے ہیں مرگی کے.فرماتے ہیں کہ ) چنانچہ میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر قریباً دو ماہ تک اسی مرض میں مبتلا ہو کر آخر مرض صرع میں مبتلا ہو گئے ( یعنی مرگی کے دورے ان کو پڑنے لگ گئے ) اور اسی سے ان کا انتقال ہو گیا.لہذا میں دعا کرتا رہا کہ خدا تعالیٰ ان امراض سے مجھے محفوظ رکھے.ایک دفعہ عالم کشف میں مجھے دکھائی دیا کہ ایک بلا سیاہ رنگ چار پائے کی شکل پر جو بھیٹر کے قد کی مانند اس کا قد تھا (سیاہ رنگ کی بلا تھی.جانور کی شکل کی طرح تھی اور بھیڑ کے مطابق قد تھا.) اور بڑے بڑے بال تھے اور بڑے بڑے پنجے تھے میرے پر حملہ کرنے لگی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی صرع ہے.(یعنی مرگی کی بیماری ہے ).تب میں نے اپنا داہنا ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر مارا اور کہا کہ دُور ہو تیرا مجھ میں حصہ نہیں.تب خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ بعد اس کے وہ خطرناک عوارض جاتے رہے اور وہ در دشدید بالکل جاتی رہی.صرف دوران سر کبھی کبھی ہوتا ہے ( یعنی کبھی کبھی چکروں کی تکلیف ہوتی ہے ) تا دوزرد چادروں کی پیشگوئی میں خلل نہ آوے.( مسیح موعود کے بارے میں یہ بھی پیشگوئی ہے کہ وہ دوز رد چادروں میں ہو گا اور دو زرد چادروں سے مراد دو بیماریاں ہیں.پہلی تو یہی فرمائی.چکروں کی تکلیف.فرمایا ) ”دوسری مرض ذیا بیطس تخمینا بیس برس سے ہے جو مجھے لاحق ہے.جیسا کہ اس نشان کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے اور ابھی تک ہیں دفعہ کے قریب ہر روز پیشاب آتا ہے اور امتحان سے ( یعنی ٹیسٹ کرنے سے ) بول میں شکر پائی گئی.ایک دن مجھے خیال آیا کہ ڈاکٹروں کے تجربہ کے رو سے انجام ذیا بیطس کا یا تو نزول الماء ہوتا ہے
خطبات مسرور جلد 12 703 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء (آنکھوں کی بیماری ہو جاتی ہے ) اور یا کار بنکل یعنی سرطان کا پھوڑا نکلتا ہے جو مہلک ہوتا ہے.سواسی وقت نزول الماء کی نسبت مجھے الہام ہوا.( یعنی آنکھوں کی بیماری کے متعلق الہام ہوا کہ ) نَزَلَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى ثَلَكٍ الْعَيْن وَعَلَى الْأُخْرَيَيْنِ.یعنی تین عضو پر رحمت نازل کی گئی آنکھ اور دو اور عضو پر.اور پھر جب کار بنکل کا خیال میرے دل میں آیا تو الہام ہوا.اَلسّلامُ عَلَيْكُمْ.سو ایک عمر گزری کہ میں ان بلاؤں سے محفوظ ہوں“.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 376-377) یہاں ذیا بیطس یعنی شوگر کی بیماری کا ذکر ہوا.گزشتہ دنوں ایک عرب احمدی نے خط لکھ کر پوچھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شو گر تھی تو پھر اتنے زیادہ روزے کیوں رکھے.یہ جو حضرت مسیح موعود اپنی بیماری کا ذکر فرما رہے ہیں یہ 1907ء میں فرمایا اور جہاں روزوں کا ذکر ہے وہاں دعوے سے بہت پہلے جوانی میں روزوں کا ذکر ہے.بلکہ آپ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ میں نے جو لگا تار روزے رکھے تھے وہ جوانی میں رکھے تھے اور چالیس سال کے بعد تو ویسے بھی انسان کمزور ہو جاتا ہے.اتنے میں رکھ نہیں سکتا تھا.اور اس وقت جو میری حالت تھی اس میں مجھ میں اتنی طاقت تھی کہ اگر میں چاہتا تو چار سال تک بھی روزے رکھ سکتا تھا.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 257) تو بہر حال یہ جو شوگر ہے، یہ شوگر بعد میں شروع ہوئی.اور یہ جوانی کی بات ہے جب آپ نے لگا تار چھ مہینے روزے رکھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی بیماری کے بارے میں ایک ( جگہ ) بیان فرماتے ہیں.ان کا ذکر گزشتہ خطبے میں حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے ہوا تھا کہ جب ان کی وفات ہوئی ہے تو حضرت مصلح موعود کو بڑا صدمہ پہنچا تھا.بہر حال ان کا ایک بڑا مقام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کی بیماری کے دوران ان کے لئے دعا بھی کرتے رہے اور اسی بارے میں ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : سال گزشتہ میں یعنی 11 اکتوبر 1905ء کو ( بروز چار شنبہ ) ہمارے ایک مخلص دوست یعنی مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اسی بیماری کا ر بنکل یعنی سرطان سے فوت ہو گئے تھے.ان کے لئے بھی میں نے بہت دعا کی تھی مگر ایک بھی الہام ان کے لئے تسلی بخش نہ تھا بلکہ بار بار یہ الہام ہوتے رہے کہ 1 کفن
خطبات مسرور جلد 12 704 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء میں لپیٹا گیا.2.47 برس کی عمر - إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ- 3 - إِنَّ الْمَنَايَا لَا تَطِيشُ سهَامُهَا.یعنی موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے.جب اس پر بھی دعا کی گئی تب الہام ہوا.4.یاتیھا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ - 5 - تُؤْثِرُونَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا.یعنی اے لوگو! تم اس خدا کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے یعنی اسی کو اپنے کاموں کا کارساز سمجھو اور اس پر تو گل رکھو.کیا تم دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو.اس میں یہ اشارہ تھا کہ کسی کے وجود کو ایسا ضروری سمجھنا کہ اس کے مرنے سے نہایت درجہ حرج ہو گا ایک شرک ہے اور اس کی زندگی پر نہایت درجہ زور لگا دینا ایک قسم کی پرستش ہے.اس کے بعد میں خاموش ہو گیا اور سمجھ لیا کہ اس کی موت قطعی ہے.چنانچہ وہ گیارہ اکتوبر 1905ء کو بروز چارشنبه بوقت عصر اس فانی دنیا سے گزر گئے.وہ درد جو اُن کے لئے دعا کرنے میں میرے دل پر وارد ہوا تھا خدا نے اس کو فراموش نہ کیا اور چاہا کہ اس ناکامی کا ایک اور کامیابی کے ساتھ تدارک کرے.اس لئے اس نشان کے لئے سیٹھ عبد الرحمن کو منتخب کر لیا.اگر چہ خدا نے عبد الکریم کو ہم سے لے لیا تو عبدالرحمن کو دوبارہ ہمیں دے دیا.وہی مرض ان کے دامنگیر ہوگئی آخر وہ اسی بندہ کی دعاؤں سے شفا یاب ہو گئے.فالحمد للہ علیٰ ذالک.( فرماتے ہیں کہ) میرا صد ہا مرتبہ کا تجربہ ہے (سینکڑوں مرتبہ تجربہ کیا ہے ) کہ خدا ایسا کریم ورحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دعا منظور کر لیتا ہے( یہاں دعا کی جو روح ہے، جو فلاسفی ہے اس کا بھی پتا لگ گیا.بعض لوگ کہتے ہیں جی ہماری دعائیں قبول نہیں ہوئیں.تو نبیوں کی بھی دعا ئیں بعض دفعہ اگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے تو قبول نہیں ہوتیں لیکن اس کے مقابلے میں دوسری دعا قبول ہو جاتی ہے.تو فرمایا کہ) ایک دعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دعا منظور کر لیتا ہے جو اس کے مثل ہوتی ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا تَأْتِ بِخَيْرٍ منْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ (البقرة: 107).(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 339-340) یعنی جس کسی نشان کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسا نشان ہم اس دنیا میں لے آتے ہیں.کیا تو جانتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر امر پر جس کا وہ ارادہ کرے پورا قادر ہے.اب یہ آیت غیر احمدی تو اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ اس سے قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ کی گئی ہیں حالانکہ اس کے بڑے وسیع معنی ہیں، مختلف معنی ہیں.آپ یہاں بھی اس کو چسپاں کر رہے ہیں.طلب یہ ہے کہ جب کوئی نشان بھلا دیتے ہیں تو کوئی اور نشان اس کے مقابلے میں آ جاتا ہے.اگر ایک نشان
خطبات مسرور جلد 12 705 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء ختم ہوتا ہے تو دوسرا نشان آ جاتا ہے.یا پھر یہ بھی اس کی تشریح ہے کہ پرانی شریعتوں کو منسوخ کیا تو اس کے بدلے میں ، مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے نئی شریعت قرآن کریم دے دی جو دائمی رہنے والی ہے.پھر اپنی صداقت کے ثبوت کے طور پر قرآن کریم کی جو پیشگوئیاں ہیں ان میں سے ایک پیشگوئی جو سواری کے متعلق ہے.اس کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ایک نئی سواری کا نکلنا ہے جو مسیح موعود کے ظہور کی خاص نشانی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِلَتْ (التكوير :05) یعنی آخری زمانہ وہ ہے جب اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی.اور ایسا ہی حدیث مسلم میں ہے وَلَيُتركن الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا.یعنی اس زمانہ میں اونٹنیاں بیکار ہو جا ئیں گی اور کوئی ان پر سفر نہیں کرے گا.ایام حج میں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف اونٹنیوں پر سفر ہوتا ہے.اب وہ دن بہت قریب ہے کہ اس سفر کے لئے ریل تیار ہو جائے گی تب اس سفر پر یہ صادق آئے گا کہ لَيُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 205-206) ابھی تک لوگ یہی کہتے ہیں کہ جی وہاں تو ریلوے نہیں ہے.لیکن وہاں ایک پرا جیکٹ ہے جو اب شروع ہوا ہوا اور ان کا خیال ہے کہ 2015ء کے آخر تک مکمل ہو جائے گا.مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ریلوے لائن بن رہی ہے اور یہ بڑی فاسٹ ٹرین ہوگی.تو نبی کے منہ سے جو باتیں نکلی ہوتی ہیں وہ پوری تو اللہ تعالی کرتا ہے چاہے بعض دفعہ وہ کچھ وقت کے بعد وہ پوری ہوں لیکن بہر حال سوار یاں تو بیکار وہاں ہوئیں کیونکہ اس کی جگہ بسیں اور کار میں استعمال ہورہی تھیں.لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.ریلوے لائن بھی اب بچھ رہی ہے.کام ہو رہا ہے اور وہ بھی شروع ہو جائے گی.پھر اسلام کے ایک دشمن جس کی بدزبانیوں کی وجہ سے آپ نے دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کو پکڑے.اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر آپ نے اس کے انجام کا اعلان کیا.اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی ہے جو بہت صفائی سے پوری ہوگئی ہے اور یہ دراصل دو پیشگوئیاں تھیں.اول یہ کہ وہ پندرہ مہینے کے اندر مر جائے گا.دوسری یہ کہ اگر وہ اپنے کلام سے باز آ جائے گا جو اس نے شائع کیا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دجال تھے تو پندرہ مہینے کے اندر نہیں مرے گا.اور جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں.موت کی پیشگوئی اس بنا پر تھی کہ آتھم نے اپنی ایک کتاب اندرونہ بائبل
خطبات مسرور جلد 12 706 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء نام میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کہا تھا ( نعوذ باللہ ) اور یہ سچ ہے کہ پیشگوئی میں آتھم کے مرنے کے لئے پندرہ مہینے کی میعاد تھی.مگر ساتھ ہی یہ شرط تھی جس کے یہ الفاظ تھے کہ ”بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.مگر آتھم نے اسی مجلس میں رجوع کر لیا اور نہایت عاجزی سے زبان نکال کر اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر دجال کہنے سے ندامت ظاہر کی.اس بات کے گواہ نہ ایک نہ دو بلکہ ساٹھ یاستر آدمی ہیں.جن میں سے نصف کے قریب عیسائی ہیں اور نصف کے قریب مسلمان.اور میں خیال کرتا ہوں کہ پچاس کے قریب اب تک ان میں سے زندہ ہوں گے جن کے رو برو آتھم نے دجال کہنے سے رجوع کیا اور پھر مرتے وقت تک ایسا لفظ منہ پر نہیں لایا.اب سوچنا چاہئے کہ کیسی بدذاتی اور بدمعاشی اور بے ایمانی ہے کہ باوجود اس کھلے کھلے رجوع کے جو آتھم نے ساٹھ ۶۰ یا ستر ۷۰ آدمیوں کے رو برو کیا پھر بھی کہا جائے کہ اس نے رجوع نہیں کیا.تمام مدار غضب الہی کا تو دجال کے لفظ پر تھا (یعنی بنیاد تو اس کی ساری یہ تھی کہ دنبال کہا اور اللہ تعالیٰ کا غضب اسی وجہ سے اس پر نازل ہونا تھا) اور اسی بناء پر پیشگوئی تھی.اور اسی لفظ سے رجوع کرنا شرط تھا.مسلمان ہونے کا پیشگوئی میں کوئی ذکر نہیں.( یہ تو کہیں پیشگوئی میں نہیں لکھا تھا کہ وہ مسلمان ہو جائے گا.مقصد یہ تھا کہ اس لفظ سے وہ انکاری ہو جائے گا اور توبہ کر لے گا.فرماتے ہیں کہ مسلمان ہونے کا پیشگوئی میں کوئی ذکر نہیں ) پس جب اس نے نہایت انکساری سے رجوع کیا تو خدا نے بھی رحمت کے ساتھ رجوع کیا.الہام الہی کا تو یہ مدعا نہیں تھا کہ جبتک آتھم اسلام نہ لاوے ہلاکت سے نہیں بچے گا“.( یہ تو الہام میں نہیں کہا گیا تھا کہ جب تک اسلام نہیں لائے گا ہلاکت سے نہیں بچے گا.فرمایا ” کیونکہ اسلام کے انکار میں تو سارے عیسائی شریک ہیں.خدا اسلام کے لئے کسی پر جبر نہیں کرتا اور ایسی پیشگوئی بالکل غیر معقول ہے کہ فلاں شخص اگر اسلام نہ لاوے تو فلاں مدت تک مر جاوے گا.“ ( کیونکہ اسلام لا ناتو پھر جبر ہو گیا.یہ تو بہت ساری دنیا ہے جو اسلام نہیں لاتی.اسلام کو قبول نہیں کرے گی یا نہیں کرتی اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مر جائے گی.نہ اسلام میں کوئی جبر ہے اور نہ یہ پیشگوئی کا مقصد تھا.فرماتے ہیں کہ دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو منکر اسلام ہیں اور جیسا کہ میں بار بارلکھ چکا ہوں محض انکار اسلام سے کوئی عذاب کسی پر دنیا میں نہیں آسکتا بلکہ اس گناہ کی باز پرس صرف قیامت کو ہوگی.پھر آتھم کی اس میں کونسی خصوصیت تھی کہ بوجہ انکار اسلام اس کی موت کی پیشگوئی کی گئی اور دوسروں کے لئے نہیں کی گئی.بلکہ پیشگوئی کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مقدس کی نسبت دجال کا لفظ استعمال کیا تھا.جس قول سے اس نے ساٹھ یاستر انسانوں کے رو بر ورجوع کیا ، ( تو بہ کی) جن میں سے
707 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء خطبات مسرور جلد 12 بہت سے شریف اور معزز تھے جو اس مجلس میں موجود تھے.پھر جبکہ اس نے اس لفظ سے رجوع کر لیا بلکہ بعد اس کے روتا رہا تو خدا تعالیٰ کی جناب میں رحم کے قابل ہو گیا مگر صرف اسی قدر کہ اس کی موت میں چند ماہ کی تاخیر ہوگئی اور میری زندگی میں ہی مر گیا اور وہ بحث جو ایک مباہلہ کے رنگ میں تھی اس کی رُو سے وہ بوجہ اپنی موت کے جھوٹا ثابت ہوا تو کیا ابتک وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.بیشک پوری ہو گئی اور نہایت صفائی سے پوری ہوئی.ایسے دلوں پر خدا کی لعنت ہے کہ ایسے صریح نشانوں پر اعتراض کرنے سے باز نہیں آتے.(جب یہ سارا کچھ پورا ہو گیا تو پھر بھی باز نہیں آتے.) اگر وہ چاہیں تو آتھم کے رجوع پر میں چالیس ۴۰ آدمی کے قریب گواہ پیش کر سکتا ہوں اور اسی وجہ سے اس نے قسم بھی نہ کھائی حالانکہ تمام عیسائی قسم کھاتے آئے ہیں اور حضرت مسیح نے خود قسم کھائی اور ہمیں اس بحث کو طول دینے کی ضرورت نہیں.آتھم اب زندہ موجود نہیں.گیارہ 11 برس سے زیادہ عرصہ گذرا کہ وہ مر چکا ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 221 تا 223) یہ آپ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں فرما رہے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بیان فرماتے ہوئے کہ قرآن کریم کی برکات انسانوں کی طاقت سے بہت برتر ہیں اور ماننے والوں کو نشان دکھا کر وہ یقینی معرفت عطا فرماتا ہے.اور پھر اس برکت سے معجزات ظہور میں آتے ہیں.بڑے عجیب عجیب نشانات ظاہر ہوتے ہیں.(ماخوذ از چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحه 402) آپ فرماتے ہیں کہ میں ان قرآنی برکات کو قصہ کے طور پر بیان نہیں کرتا.( قرآن کریم کی جو برکتیں ہیں وہ صرف قصہ کہانیاں نہیں ہیں) بلکہ میں وہ معجزات پیش کرتا ہوں جو مجھ کو خو دکھائے گئے ہیں.وہ تمام معجزات ایک لاکھ کے قریب ہیں بلکہ غالباً وہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں.خدا نے قرآن شریف میں فرمایا تھا کہ جو شخص میرے اس کلام کی پیروی کرے وہ نہ صرف اس کتاب کے معجزات پر ایمان لائے گا بلکہ اس کو بھی معجزات دیئے جائیں گے.سو میں نے بذات خود وہ معجزات خدا کے کلام کی تاثیر سے پائے جو انسانوں کی طاقت سے بلند اور محض خدا کا فعل ہیں.وہ زلزلے جو زمین پر آئے.اور وہ طاعون جود نیا کوکھا رہی ہے.(اس زمانے میں بہت شدید طاعون تھی) وہ انہیں معجزات میں سے ہیں جو مجھ کو دیئے گئے.میں نے ان آفات کے نام و نشان سے پچیس برس پہلے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں ان حوادث کی خبروں کو بطور پیشنگوئی شائع کر دیا تھا کہ یہ آفتیں آنے والی ہیں سو وہ تمام آفات آ گئیں اور ابھی بس نہیں بلکہ آنے
خطبات مسرور جلد 12 708 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء والی آفات ان آفات سے بہت زیادہ ہیں.(ابھی تو بہت ساری آفتیں آتی ہیں ) اور بعض نئی وبائیں بھی ہیں جو پہلے اس سے کبھی اس ملک میں ظاہر نہیں ہوئیں اور وہ ڈرانے والی اور دہشتناک ہیں اور ایک سخت اور خوفناک قسم کی طاعون بھی ظاہر ہونے والی ہے جو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں ظاہر ہوگی اور نہایت پریشان کرے گی.“ ( پس بڑے خوف کا مقام ہے.یہ نشانات بند نہیں ہوئے.فرمایا ) ” ایک سخت اور خوفناک قسم کی طاعون بھی ظاہر ہونے والی ہے جو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں ظاہر ہوگی اور نہایت پریشان کرے گی.شاید اب کے سال یا دوسرے سال میں اور ایک زلزلہ بھی آنے والا ہے جو نا گہانی طور پر آئے گا اور سخت آئے گا.(اور اب دنیا کے جو عمل ہیں اور جس طرح خدا سے دُور ہٹ رہے ہیں اور نہ صرف دُور ہٹ رہے ہیں بلکہ ظلم بھی کر رہے ہیں.ان آفات کو پھر بلانے کے لئے خودان کے عمل جلدی کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور احمدیوں کو دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے عملوں کو درست رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ فرماتے ہیں کہ ) معلوم نہیں کہ کسی حصہ ملک میں یا عام ہوگا.اگر دنیا کے لوگ خدا سے ڈریں تو یہ آفات ٹل بھی سکتی ہیں کیونکہ خدا زمین و آسمان کا بادشاہ ہے.وہ اپنے حکموں کو جاری بھی کر سکتا ہے اور ٹال بھی سکتا ہے مگر بظاہر کچھ امید نہیں کہ لوگ خدا سے ڈریں کیونکہ دل حد سے زیادہ سخت ہو گئے ہیں اور مجھے ان پیشگوئیوں کے پیش از وقت سنانے کی وجہ سے ان کے متنبہ ہونے کی کچھ توقع نہیں.اور بجز اس کے کوئی امید نہیں کہ ٹھٹھا کیا جائے گا اور یا گالیاں دی جائیں گی اور یا ہم اس بات سے متہم کئے جائیں گے ( ہمیں الزام دیا جائے گا) کہ لوگوں میں تشویش پھیلاتے ہیں“.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 403) یہ نہیں کہ جو غیر دنیا ہے بلکہ مسلمانوں کا اپنا حال بھی یہی ہے کہ مسلمان ملکوں میں بعض خاص طور پہ خدا سے دُور ہورہے ہیں اور جس طرح آپ نے فرمایا کہ جو کہ رہا ہے صحیح رستے پر چلو اس سے ہنسی ہوگی ، ٹھٹھا ہو گا اور اس پر یہ کہا جائے گا کہ یہ فساد پھیلانے کی یا تشویش پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے.بلکہ اب تو گزشتہ دنوں یہ خبر تھی کہ ایک بڑے مولوی صاحب نے (مولوی کا نام نہیں مجھے یادر ہا) پاکستان میں کہا کہ یہ جو ہے ناں کہ امام مہدی نے آنا ہے.کوئی کسی نے نہیں آنا اور نہ وہ پیدا ہوا ہے، نہ پیدا ہوگا.بلکہ استہزائیہ رنگ میں پھر کہا کہ اگر پیدا ہو گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کرے وہ جلدی ختم ہو جائے کیونکہ ہم مزید فساد فتنے برداشت نہیں کر سکتے.تو یہ تو بہر حال اب ان کی سوچیں ہیں.پھر مسلمانوں کو جہالت سے بچنے ،اللہ تعالیٰ کی آواز کو سننے، اپنی حالتوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے
خطبات مسرور جلد 12 709 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء مطابق بنانے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اس وقت اسلام جس چیز کا نام ہے اس میں فرق آ گیا ہے.تمام اخلاق ذمیمہ بھر گئے ہیں.( یعنی برے اخلاق بھر گئے ہیں ) اور وہ اخلاص جس کا ذکر مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین میں ہوا ہے آسمان پر اٹھ گیا ہے.( کوئی اخلاص نہیں رہا.) خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق ، وفاداری، اخلاص، محبت اور خدا پر توکل کا لعدم ہو گئے ہیں.اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ پھر نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے.وہ خدا جو ہمیشہ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتہا کرتا رہا ہے اس نے ارادہ کیا ہے اور اس کے لئے کئی را ہیں اختیار کی گئی ہیں.ایک طرف مامور کو بھیج دیا ہے جو نرم الفاظ میں دعوت کرے اور لوگوں کو ہدایت کرے.(یعنی اپنے آنے کے بارے میں فرما رہے ہیں) دوسری طرف علوم وفنون کی ترقی ہے اور عقل آتی جاتی ہے.یعنی ذہن مزید کھل رہے ہیں.علوم و فنون کی ترقی ہو رہی ہے.فرمایا )..اتمام حجت کے لئے آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے.( بہت سارے نشانات جو آپ کے زمانے میں بھی ،طوفانوں کے بھی ، چاند سورج گرہن کے بھی ، زلزلوں کے بھی ظاہر ہوئے.پھر فرمایا....اور پھر قہری نشانات کا سلسلہ بھی رکھا گیا ہے جن میں سے طاعون کا بھی ایک نشان ہے اور اب جو اس شدت سے پھیل رہی ہے.(اس زمانے میں جو تھی) کہ کبھی گزشتہ نسلوں نے نہ دیکھی ہوگی اور بہت سے لوگ ہیں جو ان نشانات اور آیات سے فائدہ اٹھارہے ہیں.کوئی دن نہیں جاتا کہ لوگ بذریعہ خطوط یا خود حاضر ہو کر داخل بیعت نہیں ہوتے.اگر چہ دنیا میں فسق و فجور اور شوخی و آزادی اور خود روی بہت بڑھ گئی ہوئی ہے تاہم یہ لوگ جو ہمارے سلسلے میں آتے ہیں یہ بھی اسی جماعت میں سے نکل نکل کر آتے ہیں.( انہی لوگوں میں سے آ رہے ہیں.) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعید بھی انہی میں ملے ہوئے ہیں.( یعنی نیک فطرت لوگ بھی ان میں موجود ہیں.یہی نہیں کہ سارے بگڑے ہوئے ہیں.) خدا تعالیٰ ان لوگوں کو نکال لے گا اور ان کو سمجھ دے گا اور کچھ طاعون کا نشانہ ہو جائیں گے.اسی طرح پر دنیا کا انجام ہوگا اور اتمام حجت ہوگی.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحه 352 تا 354) پس آپ نے فرمایا کہ پڑھے لکھے لوگ ، سعید فطرت لوگ آ رہے ہیں اور اس کا تعلیم کی وجہ سے اثر ہے، دماغوں کے ذہنوں کے کھلنے کا اثر ہے جس کی وجہ سے وہ اس تعلیم کو سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو سمجھتے ہیں اور پھر اس کو قبول کرتے ہیں.اور ہر علاقے میں اور ہر طبقے میں ہر ملک میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں ہزاروں بلکہ اب تو لاکھوں کی تعداد میں
خطبات مسرور جلد 12 جماعت میں شامل ہورہے ہیں.710 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں.یا درکھو کہ ان معجزات اور پیشگوئیوں کی نظیر جو میرے ہاتھ پر ظاہر ہوئے اور ظاہر ہو رہے ہیں کمیت اور کیفیت اور ثبوت کے لحاظ سے ہرگز پیش نہ کر سکو گے خواہ تلاش کرتے کرتے مر بھی جاؤ.“ (نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 462) بلکہ اب تو خدا تعالیٰ کی فعلی شہادتیں بھی ایک ایسے نشانات بن چکے ہیں جن میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہر روز ہم دیکھتے ہیں.) ایک نو مسلم نے آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بڑی دلیری سے نشان مانگا کہ کیا نشان ہے مجھے دکھائیں، اپنی ماموریت کا بتائیں.آپ نے فرمایا کہ ہر ایک مامور کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ دل میں ڈالا جاتا ہے وہ اس کی مخالفت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور یہی بالکل سچ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو دنیا میں مامور کر کے بھیجتا ہے تو اس کی تائید میں خارق عادت نشان بھی ظاہر کرتا ہے.چنانچہ اس جگہ بھی اس نے میری تائید کے لئے بہت سے نشان ظاہر کئے ہیں جن کو لاکھوں انسانوں نے دیکھا ہے اور وہ اس پر گواہ ہیں تاہم میں اپنے خدا پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ اس نے انہیں نشانوں پر حصر نہیں کیا.( یہی کافی نہیں ہو گئے ) اور آئندہ اس سلسلہ کو بند نہیں کیا.وقتاً فوقتاً وہ اپنے ارادہ سے جب چاہتا ہے نشان ظاہر کرتا ہے.ایک طالب حق کے لئے وہ نشان تھوڑے نہیں ہیں مگر اس پر بھی اگر دل شہادت نہ دے.( یعنی جونشانات ہو چکے ہیں فرمایا کہ وہ تھوڑے نہیں ہیں لیکن اگر اس پر بھی دل شہادت نہیں دیتا، مانتا نہیں ہے کہ ایک شخص واقعی طالب حق ہے اور صدق نیت سے اگر دل سے اس پر بھی شہادت نہ دے) کہ ایک شخص واقعی طالب حق ہے اور صدق نیت سے وہ نشان کا خواہشمند ہے تو ہم اس کے لئے توجہ کر سکتے ہیں.(اور تم صدق دل سے یہ سمجھتے ہو کہ حق کو تم نے مانا ہے تو پھر بتاؤ.فرمایا کہ ہم تو جہ کر سکتے ہیں.اس کے لئے دعا کریں گے ) اور اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں کہ کوئی امرظاہر کر دے گا.لیکن اگر یہ بات نہ ہو اور خدا تعالیٰ کے پہلے نشانوں کی بے قدری کی جاوے اور انہیں نا کافی سمجھا جاوے تو توجہ کے لئے جوش پیدا نہیں ہوتا اور ظہور نشان کے لئے ضروری ہے کہ اس میں توجہ کی جاوے اور اقبال الی اللہ کے لئے جوش ڈالا جاوے.(مطلب اگر ان نشانوں کی بے قدری کر رہے ہو.سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے تو پھر نہ تمہارے لئے نشان ظاہر ہوگا، نہ تمہارے لئے نشان ظاہر ہونے کے لئے کوئی دعا ہو
خطبات مسرور جلد 12 711 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء ار گی.تمہارا انجام پھر بدہی ہوگا.فرمایا کہ اگر نا کافی سمجھا جاوے تو توجہ کے لئے جوش پیدا نہیں ہوتا اور ظہورِ نشان کے لئے ضروری ہے کہ اس میں توجہ کی جاوے اور اقبال الی اللہ کے لئے جوش ڈالا جاوے.اور یہ تحریک اس وقت ہوتی ہے جب ایک صادق اور مخلص طلبگار ہو.(اگر طلب میں سچائی ہے.ماننے کی نیت ہے تب تو نشان ظاہر ہوتے ہیں.صرف آزمانے کے لئے نہیں.پھر فرمایا کہ ) یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ نشان عقلمندوں کے لئے ہوتے ہیں.ان لوگوں کے واسطے نشان نہیں ہوتے جو عقل سے کوئی حصہ نہیں رکھتے ہیں.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نشانات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.ہدایت محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال نہ ہو اور وہ فضل نہ کرے تو خواہ کوئی ہزاروں ہزار نشان دیکھے ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور کچھ نہیں کر سکتا.پس جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ نشانات گزشتہ سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا ہے، ہم آئندہ کے لئے کیا امید رکھیں.( فرمایا کہ ) نشانات کا ظاہر ہونا یہ ہمارے اختیار میں تو نہیں ہے اور نشانات کوئی شعبدہ باز کی چابک دستی کا نتیجہ تو نہیں ہوتے.یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور مرضی پر موقوف ہے.وہ جب چاہتا ہے نشان ظاہر کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے.اس وقت جو سوال نشان نمائی کا کیا جاتا ہے.اس کے متعلق میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہی ڈالا ہے کہ یہ اقتراح اسی قسم کا ہے جیسا ابو جہل اور اس کے امثال کیا کرتے تھے.(یعنی یہ سوال اور مطالبہ جو ہے یہ اسی قسم کا ہے جیسے ابو جہل اور اس کی طرح کے دوسرے لوگ کرتے تھے ) انہوں نے کیا فائدہ اٹھایا.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر نشان صادر نہیں ہوئے تھے.اگر کوئی ایسا اعتقاد کرے تو وہ کافر ہے.آپ کے ہاتھ پر لا انتہا نشان ظاہر ہوئے مگر ابو جہل وغیرہ نے ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھایا.اسی طرح پر یہاں نشان ظاہر ہورہے ہیں جو طالب حق کے لئے ہر طرح کافی ہیں لیکن اگر کوئی فائدہ نہ اٹھانا چاہے اور ان کور ڈی میں ڈالا جائے اور آئندہ خواہش کرے اس سے کیا امید ہو سکتی ہے؟ ( یعنی کہ وہ پہلے نشانات تو نہ دیکھے اور مزید کی خواہش کرتا رہے تو اس سے کیا امید ہوسکتی ہے ) وہ خدا تعالیٰ کے نشانات کی بے حرمتی کرتا ہے اور خود اللہ تعالیٰ سے ہنسی کرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 444-445) آپ نے تو بے شمار جگہ پر یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ قادیان میں آتے ہیں.غیر جو آتے ہیں غیر مذہب کے لوگ آتے ہیں ان کا آنا بھی نشان ہے کہ کس کس طرح آتے ہیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحہ 218-219)
خطبات مسرور جلد 12 712 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء اور پھر آپ نے فرمایا کہ بے شمار زمینی اور آسمانی نشان جن کا ذکر ہو چکا ہے ہوتے ہیں.اب آجکل دنیا کی جو توجہ پیدا ہو رہی ہے اور جماعت کا پیغام بھی سن رہے ہیں یہ بھی نشانوں میں سے ایک نشان ہے کہ میڈیا کی طرف کسی بھی بہانے سے کسی بھی وجہ سے توجہ پیدا ہو رہی ہے.بہر حال نشانات تو ہر عظمند کے لئے ہر روز ظاہر ہوتے ہیں اور ہورہے ہیں.پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا.وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا.جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے.انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر یہ انسان کا افتراء ہوتا تو کب کا ضائع ہو جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں.وہ بیوقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرأت کسی کذاب میں ہو سکتی ہے.وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہی اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور ہیبت ہو.اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے.یقینا منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن روسیاہ ہوگا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے.کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کر دیا ہے کہ گویا اس نے ہزار ہا نشان دیکھ لئے ہیں.سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی اور مجھے غمگین دیکھا اور میرے غمخوار ہوئے.اور ناشناسا ہو کر پھر آشناؤں کا سا ادب بجالائے.خدا تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو.اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا ( نشان دیکھ لیا تو پھرا جبر کیسا) اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا.اگر تو اللہ تعالیٰ پر یقین ہے اور سب کچھ پتا ہے کہ حالات ایسے ہیں اور پھر ماننا ہے تو تبھی اللہ تعالیٰ پر یقین ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حالات کے مطابق زمانے میں اپنے وعدے کے موافق اپنا فرستادہ بھیجا ہے.فرمایا مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں کو وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی.تب اسی قدر قرائن سے خدا تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہو گئے.میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے ( میرے ساتھ وہی ہے جو
خطبات مسرور جلد 12 713 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے ) اور اپنے نفس کے ترک اور اخذ کے لئے مجھے حکم بناتا ہے یعنی اپنے ذاتی خواہشات یا نفسانی خواہشات جو ہیں ان کو چھوڑنے اور لینے کے لئے مجھ سے فیصلہ لیتا ہے کہ میں کیا کہتا ہوں ) اور میری راہ پر چلتا ہے اور اطاعت میں فانی ہے اور انانیت کی جلد سے باہر آ گیا ہے.( انانیت اس میں کوئی نہیں ) مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اور عزت کے لائق مرتبے میرے خداوند کی جناب میں نہیں پاسکتے جو ان راستبازوں کو ملیں گے جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہچان لیا ( جو نشانوں کے طالب ہیں وہ اعلیٰ قسم کے خطابات جو ہیں اور جو عزت والے مرتبے ہیں وہ نہیں پاسکتے.صرف وہی مرتبے پائیں گے جو ان راستبازوں کو ملیں گے جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پالیا، پہچان لیا) اور جو اللہ جل شانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہوا بندہ تھا اس کی خوشبو ان کو آ گئی.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتدائی دور میں پہنچانا ) انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ و جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کرے.باکمال وہ آدمی ہے جو گداؤں کے پیرا یہ میں اس کو پاوے اور شناخت کر لیوے.(شہزادے کو فقیروں کے لباس میں دیکھے اور پھر پہچان لے) مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیر کی کسی کو دوں.( یہ عقل کسی کو دوں ).ایک ہی ہے جو دیتا ہے.وہ جس کو عزیز رکھتا ہے ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے.انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کبھی ہے زیادہ ترکجی کا موجب ہو جاتی ہیں.( یہی باتیں ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دینی ہے وہ ہدایت پا جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے، کبھی ہے وہ اس میں اور بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں.فرمایا کہ ) اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارے میں میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خدا تعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور آئندہ ان کا دروازہ بند نہیں.66 ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 349-350) اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے کہ وہ نشانوں کو سمجھنے والے بھی ہوں اور صرف نشانوں کا مطالبہ اپنی عقل اور خواہش کے مطابق کرنے والے نہ ہوں بلکہ وقت کی ضرورت اور زمانے کی آواز اور حالت جو خدا تعالیٰ کے فرستادہ کی ضرورت کا اظہار کر رہی ہے، اس کو سنیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو تلاش کر کے ماننے والے بھی ہوں تا کہ اس دنیا میں فسادوں کا خاتمہ ہو سکے.
خطبات مسرور جلد 12 714 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء آج ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم غلام قادر صاحب در ولیش قادیان ابن مکرم عبدالغفار صاحب مرحوم کا ہے.یہ 12 نومبر 2014ء کو نوے سال کی عمر میں بقضائے الہی وفات پاگئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون.آپ تین سو تیرہ درویشوں میں شامل تھے.تاریخ احمدیت میں ان کا درویشوں میں 189 نمبر ہے.اپریل 1925ء میں بمقام شادیوال گجرات میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی.فوج میں بھرتی ہو گئے.ملازمت کو چار سال ہوئے تھے کہ حفاظت مرکز کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں قادیان آئے.1947 ء میں یہاں حاضر ہو گئے تبلیغ کا بھی بڑا شوق تھا.سکھوں کو خاص طور پر تبلیغ کرتے تھے.اس سلسلہ میں آپ نے بہت نادر اور نایاب کتب اور حوالہ جات بھی جمع کئے ہوئے تھے.آپ نے ایک خواب دیکھی تھی کہ ان کی عمر تقریباً تو ے سال ہوگی.مرحوم موصی بھی تھے.ان کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں.ایک بیٹی جو ہے وہ مکرم ظفر اللہ پونتو صاحب جو انڈونیشیا کے مربی سلسلہ ہیں ان سے بیاہی ہوئی ہیں.ان کے بیٹے نے لکھا کہ درویشی کے دوران معمولی وظیفہ تھا پھر بھی محنت مزدوری کر کے اپنی بیوہ والدہ اور تین بہنوں کو گزارے کی رقم بھجوایا کرتے تھے کیونکہ یہ بھائی بہنوں میں بڑے تھے.ہمارے مربی کلیم طاہر صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ 1997ء کے رمضان میں قادیان گیا.اعتکاف بیٹھنے کا موقع ملا تو یہ وہاں میرے ساتھ تھے.کہتے ہیں دورانِ گفتگو کشمیری چائے کا ذکر ہو گیا کہ مجھے پسند ہے.اس کے بعد روزانہ ان کے گھر سے جو چائے آتی تھی اس کی تھر مس کہتے ہیں مجھے دے دیا کرتے تھے.پھر ان مربی صاحب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تو یہ اس عرصے میں قادیان سے ربوہ گئے.وہاں جا کے کہتے ہیں کہ بڑے جذباتی رنگ میں میرے پاس آ کے طبیعت بھی پوچھی اور روتے بھی رہے.دعا ئیں بھی کرتے رہے.باوجود بیماری کے اور کمزوری کے نظر بھی کم آتا تھا، نظر خراب ہو گئی تھی آخری وقت تک مسجد مبارک میں جا کر نماز ادا کیا کرتے تھے کہ مجھے یہیں سکون ملتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کے علاوہ دو اور درویش بھی ہیں جو چند ماہ پہلے فوت ہوئے تھے.ان کا جنازہ غائب تو پہلے پڑھا گیا تھا لیکن ذکر خیر نہیں ہوا تھا.ان کا بھی آج ذکر کرنا چاہتا ہوں.احباب ان کو اور ان کی اولادوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.ان درویشوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہوئی ہیں.ایک لمبا عرصہ بڑی غربت میں، بڑے معمولی حالات میں، بڑے معمولی گزارے پر قادیان میں گزارا ہے اور شعائر اللہ کی حفاظت کا حق ادا کیا ہے.ان میں سے ایک تو مرز امحمد اقبال صاحب ہیں جو مرزا آدم بیگ صاحب کے
خطبات مسرور جلد 12 715 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 نومبر 2014ء بیٹے تھے.یہ 11 جون 2014ء میں فوت ہوئے تھے.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کے دادا حضرت مرزا رسول بیگ صاحب صحابی تھے.نانا حضرت مرز نیاز بیگ صاحب بھی صحابی تھے.یہ ابتدائی تین سو تیرہ (313) درویشان میں سے تھے.شفا خانہ قادیان میں لمبا عرصہ ڈینٹسٹ کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی.پھر دفاتر میں کارکن کے طور پر خدمت بجالاتے رہے.نیک ،عبادت گزار، ملنسار، مخلص انسان تھے.مالی قربانی میں پیش پیش رہتے تھے.انتہائی بہادر، نڈر اور اچھے تیراک تھے.موصی تھے.اہلیہ کے علاوہ چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.پھر چوہدری منظور احمد صاحب چیمہ ہیں.یہ 26 جولائی کو 94 سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ چوہدری نور علی صاحب چیمہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بیٹے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حفاظت مرکز کے لئے احباب جماعت کو تحریک فرمائی تو چونکہ آپ برطانوی فوج میں رہ چکے تھے اس لئے آپ نے اپنی خدمات پیش کیں اور درویشی کی سعادت پائی.باوجود پیرانہ سالی کے لمبا عرصہ بیساکھی کے سہارے مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہوتے رہے.مخلص، خوش مزاج، زندہ دل، شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے.موصی تھے.پسماندگان میں ضعیف العمر اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں.ایک بیٹے ان کے چوہدری منصور احمد چیمہ صاحب واقف زندگی ہیں اور قادیان میں ناظم جائیداد کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پارہے ہیں.اب نماز کے بعد نماز جنازہ پڑھاؤں گا.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 12 / دسمبر 2014 ء تا 18 / دسمبر 2014 ، جلد 21 شماره 50 صفحه 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 716 48 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28 /نومبر 2014 ء بمطابق 28 نبوت 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : استعانت کے متعلق یہ بات یا درکھنا چاہئے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 53) یعنی تمہیں اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے اگر کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو حقیقی رنگ میں تمہاری مدد کر سکتی ہے، مدد کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور مدد کرتی ہے.اور یہ بات اتنی اہم ہے کہ ایک حقیقی مومن کو ہر وقت اسے اپنے سامنے رکھنا چاہئے.چاہے وہ مدد اور استعانت کی کوشش ذاتی ضروریات کے لئے ہو یا جماعتی ضروریات کے لئے.لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اہمیت کے باوجود اس طرف لوگوں کی عموماً نظر نہیں ہوتی.جتنی توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہوتی.ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جو بظاہر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ، میری ضرورت پوری ہوگئی.لیکن اگر گہرائی سے جا کر وہ خود اپنے نفس کا جائزہ لیں تو اپنی ضرورتوں کو پوری کرنے کے مختلف ذرائع کو وہ اپنے کام مکمل ہونے یا ضرورت پوری ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ مثالیں دے کر ایسے مختلف مواقع بیان فرمائے ہیں جہاں انسان سمجھتا ہے کہ استعانت اور مدد مختلف لوگوں نے کی ہے.یا خود اپنے زور بازو سے اس نے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور سب سے پہلی عموما یہی حالت ہوتی ہے جب انسان سمجھتا ہے کہ میں اپنی ساری
خطبات مسرور جلد 12 717 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء ضرورتیں خود پوری کرلوں گا اور اپنی طاقت ، اپنے علم، اپنی عقل سے وہ ضرورتیں پوری کر بھی لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے دیکھو میں نے اپنی قابلیت اور طاقت اور قوت سے اپنے مسائل خود حل کر لئے.اس بات پر گھمنڈ اور فخر کرتا ہے کہ میں کسی سے مدد نہیں لیتا یا میں نے کسی سے مدد نہیں لی.لیکن بعض دفعہ ایسے حالات آ جاتے ہیں جب وہ اپنی ضرورتیں خود پوری نہیں کر سکتا اور اسے باہر کی مدد چاہئے ہوتی ہے.تب اس کی نظر اپنے عزیزوں اور اپنے رشتہ داروں کی طرف جاتی ہے.ان سے مدد لیتا ہے اور وہ اس کی مدد کر بھی دیتے ہیں.اس وقت اسے خیال آتا ہے کہ رشتہ داری بھی اچھی چیز ہے.اگر آج میرے یہ رشتہ دار نہ ہوتے تو میں اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا.پھر بعض دفعہ یہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان کے اہل وعیال متعلقین ، رشتہ دار اس کے کام نہیں کر سکتے یا اس کے کام نہیں آسکتے یا نہیں کرتے تب وہ نظر دوڑاتا ہے تو اس کی نظر اپنے دوست احباب پر پڑتی ہے، ملنے والوں پر پڑتی ہے جو اس کے خیال میں اس کی مدد کر سکتے ہیں.ان سے مدد لیتا ہے.وہ مدد کر بھی دیتے ہیں.وہ سمجھتا ہے کہ دوست احباب بھی اچھے ہوتے ہیں جو آڑے وقت میں کام آ جاتے ہیں.پھر ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے جب دوستوں کے پاس جائے تو وہ بھی اپنی مجبوریاں بتادیتے ہیں.جائز مجبوریاں ہوں یا کسی سے جان چھڑانے کا بہانہ ہو.بہر حال وہ اس کے کام نہیں آ سکتے.بعض دفعہ ایسی صورتحال بھی ہوتی ہے کہ دوستوں کے بس میں وہ مدد ہوتی بھی نہیں کہ وہ کر نہیں سکتے.ان کی پہنچ سے وہ کام باہر ہوتا ہے.تو ایسے وقت میں وہ انسان بعض نظاموں کی طرف توجہ کرتا ہے.اور وہ سلسلہ یا جماعت جس سے وہ تعلق رکھتا ہے وہ اس کی مدد کرتے ہیں اور جب اس کا کام ہوجاتا ہے،اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے بلکہ ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں تو اس کو خیال آتا ہے کہ سلسلہ یا نظام یا جماعت سے جڑنا بھی اچھی چیز ہے اور اس وجہ سے سلسلہ یا جماعت سے اس کی وابستگی بڑھ جاتی ہے.بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کو اس وجہ سے ٹھو کر بھی لگ جاتی ہے کہ میں نے فلاں وقت جماعت سے مدد مانگی تھی اور مدد نہیں کی گئی.بہر حال یہ صیح ہے کہ بعض لوگوں کی مرضی کے مطابق اگر کام ہوں تو تبھی یا ان کی مدد ہو تو وہی ان کی جماعت سے وابستگی بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں.پھر بعض انسانوں کی زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ ان کے اہل وعیال، رشتہ دار، دوست احباب حتی کہ بعض مجبوریوں اور پابندیوں کی وجہ سے نظام اور جماعت بھی کوئی مددنہیں کر سکتی اور اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.اس وقت وہ حکومت جس سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کے پاس جاتا ہے.
خطبات مسرور جلد 12 718 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء حکومت اس کی مدد کرتی ہے.اس وقت ایسے انسان کے لئے حکومت ہی سب کچھ ہوتی ہے.باقی سب چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں.لیکن یوں بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک وقت میں حکومت بھی انسان کا ساتھ نہیں دیتی.وہ سمجھتا ہے کہ میرے حقوق مجھے نہیں مل رہے.انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا.تو پھر وہ ان لوگوں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت کام کرتے ہیں اور پھر یہ انسانی ہمدردی رکھنے والے اس کے کام آ بھی جاتے ہیں.انسانی ہمدردی کی ایک رو پیدا ہوتی ہے جو کئی ممالک یا دنیا تک پھیل جاتی ہے اور اس انسانی ہمدردی کی وجہ سے وہ انسان یا وہ گروہ یا وہ چند لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، اپنے مقصد کو پالیتے ہیں.تب وہ سمجھتے ہیں یا اگر ایک انسان ہے تو سمجھتا ہے کہ تمام دنیا مل کر یا دنیا کی انسانی ہمدردی کی تنظیمیں مل کر اس کے کام آئی ہیں، اور کوئی اس کے کام نہیں آسکا.اور اگر یہ کام نہ آتیں تو وہ اپنے حقوق اور انصاف کو حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا.پس اس دنیاوی رشتے کو جو انسانی ہمدردی کے نام پر اس کے حق دلانے میں مددگار ہو ا وہ سب کچھ سمجھتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 12 صفحه 119-120) آجکل تو انسانی حقوق کی تنظیمیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قائم ہیں اور کام کر رہی ہیں اور حقوق کے لئے دنیاوی حکومتوں سے جنگیں بھی لڑتی ہیں، قانونی جنگیں لڑتی ہیں ، بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں.بعض بہت اچھا کام بھی کر رہی ہیں اور مشکل میں گرفتار لوگوں کی مدد بھی کرتی ہیں.لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب نہ اپنی کوششیں اور تدبیریں کام آتی ہیں نہ رشتہ دار کام آتے ہیں، نہ دوست احباب کام آتے ہیں، نہ قوم یا نظام کام آتا ہے، نہ حکومت اور انسانی ہمدردی کی تنظیمیں کامیابی کا ذریعہ بنتی ہیں یا ان میں اسے کامیابی حاصل کرنا ممکن نظر آتا ہے.لیکن پھر بھی اگر کوئی انسان ان سب چیزوں کے باوجود اپنے مقصد کو حاصل کر لے، اسے کامیابی حاصل ہو جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ میری کامیابی یقینا کسی غیبی مدد سے ہوئی ہے اور جتنا کسی کو غیبی مدد کا یقین ہوتا ہے اتنا ہی وہ اپنی کامیابی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے.انسانی ہمدردی کی تنظیموں کا ذکر ہوا تو اس بارے میں تو آجکل احمدیوں کو تو کافی علم ہے.مختلف ممالک میں جو اسائلم کے لئے احمدی پھنسے ہوئے ہیں، انتظار میں بیٹھے ہیں.کئی ایسی تنظیمیں ہیں بلکہ ایک بڑی تنظیم جو یو نائیٹڈ نیشن کی قائم کردہ ہے وہ بھی ہمدردی کی کوشش کرتی ہے لیکن حکومتیں ان کی بھی بات نہیں
خطبات مسرور جلد 12 719 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء مانتیں.بعض دفعہ ایسے بھی حالات پیدا ہوتے ہیں.تو بہر حال جب سارے ایسے حالات پیدا ہو جائیں اور کام بھی ہو جائیں تو انسان سمجھتا ہے کہ کسی غیبی ہستی نے میری مدد کی ہے اور اگر اس کو خدا پر یقین ہے تو پھر وہ خیال کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرا کام کیا ہے.لیکن اگر انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھتا ہو اور یہ بات سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی استمداد کا حق رکھتا ہے، مدد کرتا ہے، مدد دے سکتا ہے تو وہ اس کام کی کامیابی کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرے گا جو کسی بیرونی مدد کے ذریعے اس نے تکمیل تک پہنچایا اور اس حقیقت کو بھی جانتا ہوگا کہ رشتہ داروں، دوستوں ، نظام ، قوم ، حکومت یا انسانی ہمدردی کی تنظیمیں جنہوں نے بھی اس کی مدد کی وہ سب مدد بھی اصل میں خدا تعالیٰ نے ہی کی تھی.اور ان تمام ظاہری مددوں کے پیچھے خدا تعالیٰ کا طاقتور ہاتھ تھا.لیکن جو لوگ خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق نہیں رکھتے وہ دنیاوی ذرائع کو سب کچھ سمجھتے رہتے ہیں اور انہی کی طرف ان کی توجہ رہتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف نظر نہیں اٹھتی.لیکن جب یہ تمام ذرائع نا کام ہو جاتے ہیں پھر خدا تعالیٰ یاد آتا ہے.کیونکہ اب خدا تعالیٰ کی یاد آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا.تمام دنیاوی ذرائع جو تھے وہ استعمال ہو گئے.تب وہ کہتا ہے کہ یا اللہ ! تو ہی مدد کرے تو یہ کام ہو گا.سب طاقتوں کا مالک تو ہی ہے.سب تعریفیں تیری ذات کی ہی ہیں.پس یہ اس بات کی بھی دلیل ہے اور یہ بات اس طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی تدبیر یا حکومت اور تنظیم ایک محدود طاقت رکھتی ہے.اور یہ سب دنیاوی طاقتیں اور تدبیریں ایک حد کے بعد نا کارہ اور بے فائدہ ہو جاتی ہیں.میں نے ابھی کہا تھا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق نہیں رکھتے وہ پہلے تو دنیاوی سہاروں کو بہت کچھ سمجھتے ہیں لیکن جب یہ سہارے ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں.لیکن صرف خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق رکھنے والوں کی بات نہیں ہے بلکہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ ایسی مایوسی کی حالت میں دہر یہ اور مشرک بھی بے اختیار ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَجَكُمْ إِلَى الْبَرِ اَعْرَضْتُم وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا - (بنی اسرائیل: 68) یعنی وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِیاہ.اور جب تمہیں سمندر میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے سوا ہر وہ ذات جسے تم بلاتے ہو ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا کر لے جاتا ہے تو اس سے اعراض کرتے ہوا اور انسان بہت ہی ناشکرا ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ طوفانوں اور مشکلات میں تو خدا تعالیٰ کو پکارنے لگ جاتے ہو اور جب
خطبات مسرور جلد 12 720 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء نجات ہو جائے تو بھول جاتے ہو.یہ انسانی فطرت ہے کہ مشکل وقت میں نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور دوسرے سارے مددگاروں کو بھول جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اگر ان کو اس مشکل سے، اس مشکل وقت سے نجات مل جائے تو وہ ہمیشہ خدا ہی کو مدد کا ذریعہ سمجھیں گے، اسے ہی پکاریں گے.لیکن خطرہ کے ختم ہوتے ہی دنیا داری ، تکبر اور فخر دوبارہ ان میں پیدا ہو جاتا ہے.پس انسان انتہائی ناشکرا اور خود غرض ہے.دیکھیں اللہ تعالیٰ کا رحم کس قدر وسیع ہے کہ باوجود یہ علم ہونے کے کہ خشکی پر پہنچ کر یہ خدا تعالیٰ سے بغاوت کریں گے، پھر دُور ہٹ جائیں گے.ان کی عاجزی اور انکسار اور دعا اور اضطرار جو ہے یہ عارضی ہے.ان کی پھر بھی ان کی اضطرار کی حالت کی دعاؤں کو سنتے ہوئے انہیں بچالیتا ہے.پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ظالم ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جو خدا کو نہیں مانتے لیکن مشکل وقت میں ان کے منہ سے خدا کا ہی نام نکلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلہ کی پیشگوئی فرمائی اور بڑا زلزلہ آیا.اس وقت لاہور میڈیکل کالج کا ایک طالبعلم جو ہر روز اپنے ساتھی طالبعلموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا بلکہ استہزاء کی حد تک چلا جاتا تھا.زلزلہ کے دوران وہ جس کمرے میں تھا اسے محسوس ہوا کہ کمرے کی چھت گرنے والی ہے اور یہ یقین ہو گیا کہ اب کوئی طاقت اسے گرنے سے یعنی چھت کو گرنے سے بچا نہیں سکتی تو کیونکہ وہ ہندو خاندان سے تھا، اس کے منہ سے بے اختیار رام رام نکل گیا.اگلے دن اس کے دوستوں نے پوچھا کہ تمہیں اس وقت کیا ہو گیا تھا ؟ تم تو خدا کو مانتے ہی نہیں.تو اس حالت میں رام رام کا شور تم نے مچا دیا.ہندوؤں کے نزدیک رام خدا تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے.تو کہنے لگا کہ پتا نہیں مجھے کیا ہوا تھا، میری عقل ماری گئی تھی.لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ہی اس کی عقل نے کام کیا اور جب تمام دنیاوی سہارے اس کی نظروں سے چھپ گئے، اوجھل ہو گئے تو اسے ایک ہی سہارا نظر آیا جوسب طاقتوں کا مالک ہے.اسے خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی اور مددگار دکھائی نہیں دیا.پس جب تک انسان کو دوسرے ذرائع نظر آتے ہیں ان سے کام بنتا رہتا ہے وہ ان کی طرف توجہ دیتا رہتا ہے.جب تک وہ دوسرے اسباب نظر آتے رہیں وہ ان اسباب کی ، ان ذرائع کی خوشامد میں کرنے میں لگا رہتا ہے.کام کروانے کے لئے بلا وجہ خوشامد کو انتہا تک پہنچانے کے لئے دوسروں کی برائیاں بھی کرتا رہتا ہے.ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ کرتا چلا جاتا ہے.لیکن جب کوئی نظر نہ آئے تو
خطبات مسرور جلد 12 721 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے.جب سب طرف سے مایوس ہو جائے ، کوئی ظاہری وسیلہ کام نہ کر سکے تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے، اس کے سامنے اضطرار ظاہر کرتا ہے.اسی طرح کا ایک اور واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ عظیم اول کا سنایا کرتے تھے بلکہ خود بھی فرمایا کہ میں کئی مرتبہ یہ سنا چکا ہوں کہ ایسی حالت میں جب دہر یہ بھی خدا تعالیٰ پر ایمان لے آتے ہیں.واقعہ یوں ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں 1918ء میں جرمنی نے اپنی تمام طاقت جمع کر کے اتحادی فوجوں پر حملہ کر دیا.تو اس وقت انگریز فوجوں پر یا اتحادی فوجوں پر ایک ایسا وقت آیا کہ کوئی صورت ان کے بچاؤ کی نہیں تھی.سات میل لمبی دفاعی لائن ختم ہوگئی.فوج کا کچھ حصہ ایک طرف سمٹ گیا ، کچھ حصہ دوسری طرف سمٹ گیا.اور اس میں اتنا خلاء پیدا ہو گیا کہ جرمن فوجیں بیچ میں سے آسانی سے گزر کر پچھلی طرف سے آ کے حملہ کرسکتی تھیں اور انگریز فوج کو تباہ کر سکتی تھیں.اس وقت محاذ پر جو جرنل تھا اس نے کمانڈر انچیف کو اطلاع دی کہ میرے پاس اتنی فوج نہیں ہے.یہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے.اس ٹوٹی ہوئی صف کو درست کرنا اب میرے بس میں نہیں رہا.یہ ایسا وقت تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ آج ہماری فوج تباہ ہو جائے گی اور انگلستان اور فرانس کا نام و نشان مٹ جائے گا.ایسے وقت میں جب وہاں کمانڈر کی تارپہنچی ہے، انتہائی بے بسی کی حالت کی تار کہ بس اب تباہی آئی کہ آئی.تو جب کمانڈر کی یہ تار پہنچی تو اس وقت وزیر اعظم وزراء کے ساتھ میٹنگ میں بیٹھا تھا.کوئی اہم مشورہ ہو رہا تھا.اس وقت جب اطلاع پہنچی تو وزیر اعظم کر ہی کیا سکتا تھا.ایک تو کوئی زائد فوج موجود نہیں تھی اور اگر ہوتی بھی تو اتنی جلدی اس جگہ فوج بھیجی نہیں جاسکتی تھی.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یورپ کا مذہب بیشک عیسائیت ہے لیکن اگر اسے اندر سے دیکھا جائے، چھان بین کی جائے تو بالکل کھو کھلا ہے اور عملاً لوگوں کی اکثریت مادہ پرست اور دہر یہ ہیں.اور اس زمانہ میں تو اسی فیصد عملاً دہر یہ ہونے کا اعلان بھی کرتے ہیں.لیکن بہر حال اس وقت وہ مادہ پرست یورپ جس کی نگاہ عموماً خدا تعالیٰ کی طرف نہیں اٹھتی تھی، اپنے وسائل پر ان کو بڑا گھمنڈ اور مان تھا اور ایسا طبقہ جوحکومت کر رہا ہو اسے تو ویسے بھی اپنی طاقت اور قوت پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے.ان میں خدا تعالیٰ کا خانہ صرف نام کا ہی ہوتا ہے.تو ان کے اس وقت سب سے بڑے لیڈر، سردار نے جو اپنی طاقت اور قوت اور شان و شوکت کے فخر میں مست رہتا تھا اور ان کو یقین تھا کہ ہماری اتحادی فوجیں ہیں اب ہم جیت جائیں گے ، اس نے بھی
خطبات مسرور جلد 12 722 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء محسوس کیا کہ اس وقت کوئی ظاہری مدد نہیں ہو سکتی جو ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا سکے.اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ آؤ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہماری مدد کرے.چنانچہ سب گھٹنوں کے بل جھک کر دعا کرنے لگے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ کیا تعجب ہے کہ وہ اس دعا کے نتیجہ میں ہی اس تباہی سے بچ گئے ہوں.پس جیسا کہ میں نے یہ آیت پڑھی ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشکل وقت میں ہر دوسری ذات تمہارا ساتھ چھوڑ جاتی ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ساتھ رہتی ہے، جو کام آتی ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اضطرار میں کی گئی جو دعائیں ہیں وہ قبول ہوتی ہیں چاہے دہر یہ بھی دعا مانگ رہا ہو.اللہ تعالیٰ دہریوں کو بھی اپنی ہستی کا ثبوت دینے کے لئے بعض دفعہ نشان دکھاتا ہے.اگر اس کی قسمت میں ہو تو وہ نشان ہی اس کی عاقبت سنوارنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور آجکل بھی ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں کہ دہر یہ کسی نشان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ پر یقین لے آتے ہیں.ہاں اگر کوئی کسی نبی یا اس کی جماعت کا مقابلہ کرے اور پھر چاہے وہ جتنی بھی اضطرار کی حالت میں دعائیں کر رہا ہو پھر وہ قبول نہیں ہوتیں کیونکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کے خلاف ہے جس نے ہو کر رہنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کے انبیاء نے کامیاب ہونا ہے.بہر حال جرمنی اور انگلستان کی لڑائی میں تو دونوں فریق ایک ہی جیسے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک کی عاجزی سے کی گئی دعا کو سن لیا اور ایسے سامان پیدا ہوئے کہ جرمن فوج کو خبر نہ ہوسکی کہ ان کے سامنے کی صف ٹوٹ چکی ہے.اس وجہ سے انہوں نے اس صف کے ٹوٹے ہوئے ہونے سے فائدہ نہیں اٹھایا.اس کا مزید یہ بھی واقعہ ہے کہ اس وقت صرف یہ نہیں ہوا تھا کہ جرمنوں کو پتا نہیں چلا اس لئے جنگ کا پانسا ان کے حق میں نہیں پلٹا بلکہ کمانڈر انچیف نے ایک افسر کو بلا کر کہا جس پر اس کو یقین تھا کہ یہ بڑے کام کا آدمی ہے اور کوئی نہ کوئی تدبیر نکال لے گا کہ مجھ سے زیادہ سوال نہ کرنا.میدان جنگ کی یہ صورتحال ہے.وہاں فوج کوئی نہیں ہے.صف ٹوٹ چکی ہے.راستہ خالی ہے.اب جاؤ اور کوئی انتظام کرو کہ عارضی طور پر کسی طرح کوئی صف بندی ہو جائے.وہ افسر بجائے اس کے کہ کمانڈر انچیف سے یہ سوال کرتا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہ صف جوڑی جا سکے جب کہ فوجیں ادھر اُدھر ہو چکی ہیں اور کوئی ذریعہ نہیں ، اپنی گاڑی میں بیٹھا.سیدھا اس جگہ گیا جہاں غیر فوجی کارکن فوج کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں.وہ وہاں گیا اور اس نے ان کو جمع کیا اور کہنے لگا کہ تمہیں ملک کی خدمت کا بڑا شوق ہوتا تھا اور فوج کولڑ تا دیکھ کر تمہارے جذبات بھی بھڑکتے تھے، دل میں تمنا پیدا ہوتی تھی کہ ہم بھی ملک اور قوم کے
خطبات مسرور جلد 12 723 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء کام آ سکیں تو آؤ آج موقع ہے.آگے بڑھو اور صف بندی کرو.جو تھوڑا بہت اسلحہ تھا انہیں دیا.وہ ہزاروں کی تعداد میں جو کارکن تھے ان کو لے گیا اور وہاں کھڑا کر دیا.اور بہر حال اس طرح چوبیس گھنٹے گزر گئے اور اس عرصہ میں دوسرے علاقے سے فوج سمٹ کر وہاں پہنچ گئی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 12 صفحہ 120 تا 122 ) تو بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا دار لوگ بھی مشکل وقت میں جب کوئی سہارا انظر نہ آ رہا ہو تو خدا تعالیٰ کے سہارے کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں.تدبیر تو اپنی جگہ ہے، جو ہوتی ہے.تو وہ لوگ جو مادہ پرست ہیں جب ایسے نظارے دکھاتے ہیں تو جن لوگوں کا دعویٰ اور اوڑھنا بچھونا ہی خدا تعالیٰ کی طرف نظر رکھنے کا ہے اور ہونا چاہئے ان کو کس قدر اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری نظر ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف رہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لئے یہ دعا سکھائی ہے جو ہر نماز میں پڑھنے کا حکم ہے اور ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم ہے تا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری نظر نہ ہٹے.کبھی ہم دنیاوی سہاروں کی طرف نظر نہ رکھیں.کبھی ہم پہلے یہ نہ سوچیں کہ دنیاوی سہاروں کی طرف پہلے رجوع کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف بعد میں.ہاں ظاہری تدبیر کا بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کرو اور کرنی چاہئے.لیکن تو گل جو ہے خدا تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہئے.یہ نہیں کہ جب سمندر کے طوفان میں پھنس گئے تو خدا تعالیٰ کو پکارنا شروع کر دیا.جب صفیں ٹوٹ گئیں تو پھر خدا یاد آیا.بلکہ ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا سکھا کر خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ میری طرف اور صرف میری طرف تمہاری نظر ہونی چاہئے.اور یہ دعا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:5).ایک لمبی حدیث ہے، اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ کہتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اسے دوں گا.(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة...حديث نمبر (878) پس کیا یہ مسلمانوں کی خوش قسمتی نہیں کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کی قبولیت کی ضمانت دیتا ہے.لیکن بہ مستقل ضمانت اس وقت بنتی ہے جب عبادت کی طرف اور خالص ہو کر عبادت کی طرف مستقل نظر رہے.جیسا کہ میں نے بتایا صرف مشکل وقت میں گرفتار ہو کر وہ دعا نہ ہو.یہ تو دہر یہ بھی کر لیتے ہیں.ایسی دعا نہیں ہونی چاہئے.ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے زمانے کے امام کے ہاتھ پر عہد بیعت کیا ہے.
خطبات مسر در جلد 12 724 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا ہے.ہم نے سر اور یسر جنگی اور آسائش میں خدا تعالیٰ سے ہی مدد مانگنے اور غیر اللہ سے بیزاری کا عہد کیا ہے.ہمیں اپنے عہد نبھانے کے لئے کس قدر ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے.ہم نے ڈوبتے ہوئے دہریہ کی طرح خدا تعالیٰ کو نہیں پکارنا.ہم نے اعلیٰ معراج حاصل کرنے والے مومنین کی طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت اور استعانت کا ادراک حاصل کر کے اس پر عمل کرنا ہے.جس کا دعویٰ ہے کہ ہماری ساری قوت ہماری ساری طاقت اور ہمارا مکمل سہارا خدا تعالیٰ کے سامنے خدا تعالیٰ کے آگے جھک جانے میں ہے.ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہم نے اس کے لئے کیا کرنا ہے اور کیا کر رہے ہیں.کیا ہماری عبادتیں اور ہماری خدا تعالیٰ سے مدد کی پکار کا وہ معیار ہے جو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہے؟ یا روزانہ بنتیس مرتبہ فرض نمازوں میں طوطے کی طرح اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کو دھراتے ہیں اور بس کام ختم ہو جاتا ہے.ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کمزور ہیں اور ہمارا دشمن بہت طاقتور ہے.ہمارے پاس دشمن کے مقابلے کے لئے نہ کوئی دنیاوی طاقت ہے، نہ وسائل ہیں ، نہ کسی بھی قسم کا ذریعہ ہے.پس ایسے حالات میں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں اور إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین کی روح کو سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے در کے ہو جائیں.آج دنیا میں شیطانی حملے کی انتہا ہوئی ہوئی ہے.ہر جگہ ہمارے راستے میں مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں.مسلمان کہلانے والے بھی ہماری دشمنی میں بڑھ رہے ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام کو کیوں مانا اور غیر بھی حسد میں بڑھ رہے ہیں کہ جماعت دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والی بن رہی ہے اور اس حسد کی ایک ہلکی سی جھلک گزشتہ دنوں جرمنی میں مختلف ذرائع سے میڈیا کی جماعت مخالفت میں بھی نظر آتی ہے.یقینا یہ حسد اور مخالفت کی آگئیں اپنی آگ میں خود جل جائیں گی.انشاء اللہ.لیکن ہمیں اپنے فرائض کو ادا کرنا نہیں بھولنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مدد کے طلب کرنے سے کبھی ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہم دشمن سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ طاقت اتنی بڑی ہے کہ اس کا کوئی دنیا وی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کسی کی مدد کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے تو پھر وہ کامیاب ہو جاتا ہے.کوئی دنیاوی طاقت اس کی کامیابی کو روک نہیں سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ کی مدد بہت وسیع ہے اور اس کی طاقتیں نہ ختم ہونے والی ہیں.نہ اللہ تعالیٰ کی ذات محدود ہے، نہ اس کی صفات محدود ہیں.پس اس کے آگے جھکنا ہر احمدی کا کام ہے اور اس سے مدد چاہنا ہی ہر احمدی کا کام ہے.یہ کام صرف پاکستان کے احمدیوں کا نہیں ہے کہ وہ تو بہت زیادہ
خطبات مسرور جلد 12 725 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء مشکلات میں گرفتار ہیں یا بعض مسلمان ممالک میں رہنے والے احمدیوں کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک اور ہر خطے میں بسنے والے احمدی کا کام ہے کہ کامل اطاعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائیں اور اس کی مدد کے طالب ہوں.جماعت ایک مضبوط بندھن میں جڑی ہوئی ہے اور ہونی چاہئے.یہی جماعت کی خصوصیت ہے کیونکہ اس کے بغیر جماعت، جماعت نہیں رہ سکتی.ہر ایک کو دوسرے کے لئے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہر وقت ہر جگہ ہر احمدی کے شامل حال ہو.اور جب ہماری یہ حالت ہوگی تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے حیرت انگیز نظارے ہم دیکھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے.جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پر وا نہیں کرتا“.( ملفوظات جلد 10 صفحہ 137) پس کثرت اور بار بار کی دعا ہماری کامیابیوں کا راز ہے.اس طرف ہمیں بہت توجہ کی ضرورت ہے.ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ جو مشکلات بھی ہمیں در پیش ہیں خواہ وہ کسی گروہ کی کھڑی کی ہوئی ہیں یا حکومتوں کی کھڑی کی ہوئی ہیں یا حاسدین نے معاشرے میں فساد پیدا کرنے کے لئے کھڑی کی ہیں، اس کے لئے چاہے میڈیا کو استعمال کیا گیا ہے یا کوئی اور ذریعہ استعمال کیا گیا ہے یا جو لوگ اس کام میں مصروف ہیں کہ جماعت کی عزت پر کیچڑ اچھالا جائے اُن سب کے خلاف اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے.اور ہم کسی اور سے مدد کی امید رکھتے بھی نہیں ہیں، نہ رکھ سکتے ہیں.یہ دعا کرنی چاہئے کہ اگر ہمارے قصوروں نے اس اللہ تعالیٰ کی نصرت کو پیچھے ڈال دیا ہے تو ہم پر رحم کرتے ہوئے ہمیں معاف فرما اور اپنی ناراضگی کی حالت سے ہمیں نکال کر ہمیں ان لوگوں میں شامل کر لے جن پر تیرے فضلوں اور انعاموں کی بارش ہر وقت ہوتی ہے.اور جن کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین کا حقیقی فہم و ادراک حاصل ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”دیکھو اللہ تعالیٰ نے إِيَّاكَ نَعْبُدُ کی تعلیم دی ہے.اب ممکن تھا کہ انسان اپنی قوت پر بھروسہ کر لیتا اور خدا سے دُور ہو جا تا.اس لئے ساتھ ہی اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی تعلیم دے دی کہ یہ مت سمجھو کہ یہ عبادت جو میں کرتا ہوں اپنی قوت اور طاقت سے کرتا ہوں.ہرگز نہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے کچھ بھی نہیں ہو سکتا“.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 422)
خطبات مسرور جلد 12 726 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 نومبر 2014ء پس اس اہم حقیقت کو بھی ہمیں ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس اہم مضمون کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میں دعا کے لئے دوبارہ یاد دہانی کرواتا ہوں.دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جماعت کی ترقی کا ذریعہ بنائے.یہ ترقی میں روک بننے والے نہ ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کی مدد اور نصرت سے فیضیاب ہونے والے ہوں اور ہوتے چلے جائیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 19 دسمبر 2014 ء تا25 دسمبر 2014ءجلد 21 شماره 51 صفحہ 05 تا08)
خطبات مسرور جلد 12 727 49 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ید اللہ تعالی بصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء بمطابق 05 فتح 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورہ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان آیات (النساء:60) کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی.اور اگر تم کسی معاملہ میں اولوا الامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لانے والے ہو.یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے.پس اس آیت میں ایک حقیقی مومن کے بارے میں ایک اصولی بات بیان فرما دی کہ اس نے اپنے اطاعت کے وصف کو نمایاں کرنا ہے، نکھار کر دکھانا ہے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو، اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت ہو یا حکام کی اطاعت ہو.ہاں اگر حکومت اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کے واضح حکم کے خلاف کوئی حکم دے تو پھر بہر حال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم مقدم ہے لیکن اگر مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں ہے تو پھر حکام چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم ان کی اطاعت ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد 12 728 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء قرآن میں حکم ہے.اَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ - اب اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے.اور اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ مِنكُم میں داخل نہیں.تو یہ اُس کی صریح غلطی ہے.گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے.وہ منکم میں داخل ہے.جو ہماری مخالفت نہیں کرتا.وہ ہم میں داخل ہے.فرمایا : ” اشارۃ النص کے طور پر قرآن سے ثابت ہوتا ہے.کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئے.یعنی صاف طور پر ظاہر ہے قرآن کریم سے بڑا واضح ہے کہ اشارہ اس آیت میں ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئے.“ 66 (رسالہ الانذار صفحہ 69 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 2 صفحہ 246) پس اس زمانے کے حکم اور عدل نے واضح فرما دیا کہ سوائے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کی نفی کرنے والے احکامات کے عموماً دنیاوی احکامات میں ایک مؤمن کا کام ہے کہ وہ مکمل طور پر ملکی قوانین کی پابندی کرے.اگر یہ سنہری اصول اس وقت کے مسلمان بھی اپنا لیں کہ حکومت وقت سے لڑنا نہیں ہے تو بہت سے ملکوں میں جو فساد کی صورتحال ہے اس میں بہت حد تک سکون آ سکتا ہے.بہر حال اس وقت میں اس بحث میں پڑے بغیر کہ حکمرانوں کا کتنا قصور ہے اور فساد پیدا کر نیوالے گروہوں کا کتنا قصور ہے اور اس وجہ سے مسلم امتہ کس حد تک متاثر ہو رہی ہے، میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھوں گا.کافی لمبا اقتباس ہے جو اطاعت کے معیار ، اطاعت کی اہمیت، اطاعت نہ کرنے کے نقصانات اور اسلام کے پھیلنے میں اطاعت کے کردار وغیرہ پہلوؤں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے.اس زمانے میں احمدی ہی اس بات کا صحیح اظہار کر سکتے ہیں یا اطاعت کا صحیح اظہار کر سکتے ہیں اور دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے وقار کو کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے.بہر حال اپنے عملی نمونے پہلے ہیں پہلے اپنے اطاعت کے معیاروں کو بلند کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یعنی اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے بدوں اس کے اطاعت ہو ہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی
خطبات مسرور جلد 12 729 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء ہے.صحابہ رضوان اللہ میھم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی.یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرماں برداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.اور اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں.پھر زوال ہی زوال ہے فرمایا ) ”مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں.پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو ستر ہے.اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا.اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا.ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈھتے تھے اور آپ کے لب مبارک کو متبرک سمجھتے تھے اگر ان میں یہ اطاعت یہ تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے.میرے نزدیک شیعہ سنیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ صحابہ کرام میں باہم پھوٹ ہاں با ہم کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پر دلالت کر رہی ہیں کہ وہ باہم ایک تھے اور کچھ بھی کسی سے عداوت نہ تھی.ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا یا گیا مگر میں کہتا ہوں یہ میچ نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہ نکی تھیں یہ اس اطاعت اور اتحادکا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ وہ تلوار جو ان کو اٹھانی پڑی وہ صرف اپنی حفاظت کے لئے تھی ورنہ اگر وہ تلوار نہ بھی اٹھاتے تو یقینا وہ زبان ہی سے دنیا کو فتح کر لیتے.“ فرماتے ہیں: سخن کز دل برون آید نشیند لاجرم بر دل
خطبات مسرور جلد 12 730 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء یعنی وہ بات جو دل سے نکلتی ہے.نشیند لاجرم بر دل.اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دل پر ضرور اثر کرتی ہے.جو بات دل سے نکلے وہ دل پر ضرور اثر کرتی ہے.فرماتے ہیں: انہوں نے ایک صداقت اور حق کو قبول کیا تھا اور پھر سچے دل سے قبول کیا تھا اس میں کوئی تکلف اور نمایش نہ تھی ان کا صدق ہی ان کی کامیابیوں کا ذریعہ ٹھیرا.یہ سچی بات ہے کہ صادق اپنے صدق کی تلوار ہی سے کام لیتا ہے.آپ ( پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شکل وصورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا اور جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی.اس میں ہی ایک کشش اور قوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچ لیتے تھے.اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت الرسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا.(اس نمونے کی جو انہوں نے دکھایا اور پھر مستقل مزاجی سے دکھاتے چلے گئے اس کی ہی کرامت تھی کہ جس نے اس کو دیکھا وہ بے اختیار ان کی طرف کھینچا چلا آیا ) غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے تیار ہو رہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی.اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزور کھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو.باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی.“ (احکم جلد 5 نمبر 5 مورخہ 10 فروری 1901ء صفحہ 1-2، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 2 صفحہ 246-248) اس ایک اقتباس میں آپ علیہ السلام نے بہت سی باتوں کی وضاحت فرما دی.پہلی بات تو یہ کہ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو اور پھر اولوا الامر یعنی اپنے سرداروں ، حکومت وغیرہ کی اطاعت کرو.اس میں حکومتی نظام بھی آ جاتا ہے اور نظام جماعت بھی آ جاتا ہے.اور خلافت کی اطاعت تو ان دونوں سے اوپر ہے کیونکہ خلافت اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو ہی قائم کرتی ہے اور نظام جماعت خلافت کے تابع ہے اور یہ خلافت کی خوبصورتی ہے کہ بعض دفعہ اگر نظام جماعت کو چلانے کے لئے مقرر کردہ کارکنوں اور افراد جماعت کے تعلق میں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے کوئی تنازعہ پیدا جائے تو خلیفہ وقت اسے دور کرتا ہے یہ اس کے فرائض میں شامل ہے.یہاں یہ بھی واضح ہو کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ خلافت کی اطاعت حکومت سے بھی اوپر ہے تو کسی قسم کی غلط نہی
خطبات مسرور جلد 12 731 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء نہیں ہونی چاہئے.خلیفہ وقت ملکی قوانین کی سب سے زیادہ پابندی کرتا ہے، کرنے والا ہے اور کروانے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے.“ ( ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 493) پس حکومت کے دنیاوی نظام کے اندر ایک روحانی نظام بھی چل سکتا ہے اور چلتا ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس روحانی نظام کا حصہ ہیں اور امام الزمان کے نظام کو جاری کرنے کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے خلافت کا نظام بھی جاری فرمایا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی حکومت دلوں میں قائم کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے.اور تنازعہ کی صورت میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتا ہے.یہ بھی ہم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ خلافت کا نظام ہم میں جاری ہے ورنہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے کے بارے میں مختلف فرقوں اور فقہاء کی اپنی اپنی تشریح ہے، تفسیریں ہیں اور بعض ایسی ہیں جو معاملوں کو سلجھانے کے بجائے الجھانے والی ہیں اور الجھا سکتی ہیں.اسی طرح حکومت وقت کے ساتھ معاملات میں بھی مختلف نظریات مختلف مسائل پیدا کر سکتے ہیں.پس ایک اجتہاد اور فیصلہ خلافت کے تابع رہ کر ہی ہو سکتا ہے اور اس بات پر احمدی جتنا بھی شکر کریں وہ کم ہے.اور اس شکر کا اظہار خلافت کی مکمل اطاعت سے ہی ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر یہ بھی فرمایا اور یہ بڑی اہم بات ہے کہ اطاعت اگر سچے دل سے کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت و روشنی آتی ہے اور یقیناً اس سے مراد روحانی نظام کی اطاعت ہے اور ہر ایک کے لئے اپنی اطاعت کے ماپنے کا یہ معیار ہے کہ کیا دل میں نور پیدا ہورہا ہے اطاعت سے روح میں لذت روشنی آ رہی ہے؟ اگر ہر ایک خود اس پر غور کرے تو وہ خود ہی اپنے معیار اطاعت کو پرکھ لے گا کہ کتنی ہے.کس قدر وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر رہا ہے کس قدروہ رسول کی اطاعت کر رہا ہے اور کس قدر مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کردہ نظام خلافت کی اطاعت کر رہا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد کوئی نور حاصل نہیں ہوتا تو آپ نے فرمایا اس کا کوئی فائدہ نہیں.حکومت وقت کی اطاعت سے امن اور سکون تو پیدا ہو گا لیکن روحانی روشنی اور لذت روحانی نظام کی اطاعت میں ہی ہے.پھر اپنے روحانی معیار کو بلند کرنے کے لئے ایک نکتہ آپ نے یہ بیان فرمایا کہ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں جتنی اطاعت کی ہے“.انسان جتنے چاہے مجاہدات کرتا رہے لیکن اگر اطاعت نہیں تو نہ ہی انسان کو روحانی لذت اور روشنی مل سکتی ہے ، نہ زندگی کا سکون مل سکتا
خطبات مسرور جلد 12 732 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء ہے.پس جو لوگ اپنی نمازوں اور عبادتوں پر بہت مان کر رہے ہوتے ہیں اور اطاعت سے باہر نکلتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے.پھر اطاعت کا معیار حاصل کرنے کے لئے ایک اہم بات آپ نے بیان فرمائی کہ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کرنا ضروری ہے اپنے تکبر کو مارنا ہوگا اپنی انانیت پر چھری پھیرنی ہو گی اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے موافق کرنا ہوگا تب ہی اطاعت کا معیار حاصل ہوگا.ورنہ آپ فرماتے ہیں اس کے بغیر اطاعت ممکن ہی نہیں.آپ نے فرمایا کہ بڑے بڑے موحدوں کے دلوں میں بھی بت بن سکتے ہیں.ایسے لوگ جو خدائے واحد کی عبادت کرنے والے ہیں یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں.ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد بقول ان کے ان کے دل میں ہے.فرمایا کہ ان کے دلوں میں بھی بت بن سکتے ہیں.بیشک ایک خدا کی عبادت کا دعوی ہو لیکن خود پسندی اور فخر کے بت دلوں میں بیٹھے ہوں گے جو ایک وقت میں پھر انسان کو ادنی اطاعت سے بھی باہر نکال دیتے ہیں.بڑی بڑی باتیں تو ایک طرف رہیں.آپ نے واضح فرمایا کہ صحابہ رضوان اللہ یم نے سچی اطاعت کے بعد ہی اپنی عبادتوں کے وہ اعلیٰ ترین نتائج حاصل کئے جو ہمارے لئے آج نمونہ ہیں.اطاعت کس طرح ہونی چاہئے ؟ ایک حدیث میں آتا ہے آپ نے یہ فرمایا کہ تمہارے اوپر اگر حبشی غلام بھی امیر مقرر کیا جائے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ متقی کے سر والا بھی اگر امیر مقرر کیا جائے یعنی اگر اس میں عقلی لحاظ سے کچھ کمیاں بھی ہوں تو اس کی بھی اطاعت کرو.(صحیح البخاری کتاب الاحكام باب السمع والطاعة...حديث نمبر 7142) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قومی ترقی کو بھی اطاعت سے باندھ کر واضح فرمایا کہ کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک فرمانبرداری کے اصول کا اختیار نہیں کریں گے.پس اس اصول کو اپنا نا ہی ترقی کا راز ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ ترقی جماعت کے ساتھ رہنے، امام وقت کی باتیں سننے اور اطاعت سے ہی ملنی ہے.اس کے بغیر ترقی نہیں مل سکتی.آج اس اصل کو اگر مسلمان بھی سمجھ لیں تو ایک ایسی عظیم طاقت بن جائیں جس کا دنیا کی کوئی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن ہم جو احمدی کہلاتے ہیں ہمیں کامل فرمانبرداری کے معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اطاعت کو روحانی جماعتوں کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے انجام کے لحاظ سے بہترین کہا ہوا ہے.اور یہ تو ہے ہی کہ جب اطاعت کریں گے تو انجام بہتر ہوگا جس سے انقلاب پیدا ہو گالیکن دنیاوی نظاموں میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ فرمانبرداری کی روح کیسے کیسے انوکھے کام دکھاتی ہے.
خطبات مسرور جلد 12 733 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء نپولین کے بارے میں ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ اس نے فرانس کو ایسے وقت میں سنبھالا جب وہ اپنے عروج سے زوال کی طرف جا رہا تھا.نیچے نیچے گر رہا تھا.ملک کی حالت خراب سے خراب تر ہو رہی تھی.نپولین نے لوگوں سے کہا کہ جب تک تم میں تفرقہ اور پھاڑ ہے تم کامیاب نہیں ہو سکتے.اگر تم اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ اپنے اندر پیدا کرو تو تم جیت جاؤ گے، ترقیاں حاصل کرو گے، اپنا مقام حاصل کر لو گے.چنانچہ ایسی روح اس نے پیدا کی کہ جو اس کے ارد گرد تھے ہر بات ماننے والے تھے جو ملک کے خیر خواہ لوگ تھے انہوں نے اس کی بات مان لی اور اس کے اردگرد جمع ہونے شروع ہو گئے اسی کو اپنا لیڈر بنالیا اور اطاعت اور فرمانبرداری کا بہترین نمونہ دکھایا.بلکہ کہا جاتا ہے کہ ایسا نمونہ دکھایا کہ اس نے نپولین کی اپنی زندگی کو بھی بدل دیا.باوجود اس کے کہ خود اطاعت کے لئے کہا جاتا تھا اس کو جب عملی طور پر اس کے سامنے اطاعت آئی تب اس نے اپنے آپ میں مزید انقلاب پیدا کیا.بہر حال ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک بڑی جنگ کے بعد نپولین ہار گیا اور اٹلی کے ایک جزیرے میں قید کر دیا گیا.وہاں کچھ وقت کے بعد کچھ لوگوں کی مدد سے آزاد ہوا.دوبارہ فرانس کے ساحل پر آیا.اس وقت تک فرانس میں نئی حکومت قائم ہو چکی تھی.نیا نظام تھا.بادشاہ نے پادریوں کو بلا کر ان کے ذریعہ جرنیلوں اور سپاہیوں سے بائبل پر ہاتھ رکھوا کر قسمیں لی تھیں.یہ عہد لیا تھا کہ وہ نئی حکومت کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے.بادشاہ نے بائبل پر ہاتھ رکھوا کر قسمیں اس لئے لی تھیں کہ اس کو پتا تھا کہ نپولین نے لوگوں میں اطاعت اور فرمانبرداری کی ایسی روح پیدا کر دی ہے کہ اگر وہ واپس آ گیا تو لوگ پھر اس کے ساتھ مل جائیں گے.نپولین جب کسی طریقے سے قید سے رہا ہو گیا اور کچھ ساتھیوں نے اس کی مدد کی تو قید سے رہا ہو کر وہ واپس فرانس آیا.وہاں اس نے اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو ، زمینداروں کو ، عام لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا.عوام میں سے جو اس کے وفادار تھے ان کو جمع کرنا شروع کر دیا.وہ تجربہ کارفوجی نہیں تھے اسلحہ بھی ان کے پاس اتنا نہیں تھا.بہر حال جب بادشاہ کو پتالگا تو اس نے ایک جنرل کو فوج دے کر بھیجا کہ اس کو ختم کریں.اتفاقاً ان کا آمنا سامنا ایک ایسی جگہ ہو گیا جہاں ایک تنگ درہ تھا.جہاں سے صرف آدمی کندھا ملا کر گزر سکتے تھے.نپولین نے اپنے فوجیوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا وہ آگے بڑھے لیکن حکومتی فوجیوں نے انہیں گولیوں کی بارش کر کے ختم کر دیا.پھر اس نے اور آدمی بھیجے وہ بھی مارے گئے ان کا بھی وہی انجام ہوا.آخر سپاہیوں نے کہا کہ آگے بڑھنے کی کوئی صورت نہیں ہے.دشمن سامنے ہے اور جگہ تنگ ہے ادھرادھر ہم ہو نہیں سکتے.اور پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے بائبل پر قسمیں کھائی ہیں کہ حکومت
خطبات مسرور جلد 12 734 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء کا ساتھ دینا ہے اور نپولین کے سپاہیوں کو ختم بھی کرنا ہے.بہر حال ہم حملہ پوری طرح کر نہیں سکتے درہ چھوٹا ہے اور مارے جاتے ہیں کیونکہ نپولین نے خود ہی ان حکومتی سپاہیوں میں بھی تربیت کر کے اطاعت اور فرمانبرداری کا جذ بہ پیدا کیا تھا اس نے ان سے کہا اپنے سپاہیوں سے جواب اس کے ساتھ تھے کہ ان سے جا کے درہ میں کھڑے ہو کے کہو کہ نپولین کہتا ہے کہ راستہ چھوڑ دو لیکن اس پر بھی حکومتی سپاہی گولیوں کی بوچھاڑ کرتے رہے کہ ہم نے بائبل پر قسمیں کھائی ہیں اس لئے اب نپولین کا حکم نہیں مان سکتے.نپولین کو اس پر یقین نہ آیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ میری ایسی تربیت ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ میری بات نہ مانیں کیونکہ میں نے ہی ان میں فرمانبرداری کا مادہ پیدا کیا ہے، اطاعت کا مادہ پیدا کیا ہے.کس طرح ہوسکتا ہے کہ میرے سپاہیوں پر گولیاں چلائیں.پھر اس نے بھیجا اور مزید آدمی مارے گئے یہی انجام ہوا آخر نپولین خود گیا کہ میں دیکھوں گا وہ کس طرح میری بات نہیں مانتے.چنانچہ وہ گیا اور اس نے کہا میں نپولین ہوں اور تم سے کہتا ہوں کہ راستہ چھوڑ دو.حکومتی فوج کے افسر نے کہا کہ اب وہ دن گئے ہم نے نئی حکومت سے وفاداری کی قسم کھائی ہے مگر نپولین کو یہ یقین تھا کہ فرمانبرداری کا سبق تو اس نے لوگوں کو دیا ہے اور یہ سبق اتنی جلدی یہ لوگ بھول نہیں سکتے.نپولین نے انہی حکومتی فوجیوں کو کہا کہ میری فوجوں نے تو بہر حال آگے جانا ہے.اگر تم میر اسکھایا ہوا سبق بھول گئے ہو.تو لو میں سامنے کھڑا ہوں جس سپاہی کا دل چاہتا ہے وہ اپنے بادشاہ کے سینے میں گولی ماردے.میں ہی اب تک تم پر حکومت کرتا رہا ہوں.اگر تم چاہتے ہو کہ اپنے بادشاہ کو مارنا ہے تو لو میں کھڑا ہوں تم میرے سینے میں گولی مارو.جب نپولین نے یہ کہا تو ان سپاہیوں کا جو پرانا وفاداری اور فرمانبرداری کا جذبہ تھا وہ واپس آ گیا.انہوں نے نپولین زندہ باد کا نعرہ لگایا اور دوڑ کر اس میں شامل ہو گئے بلکہ کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض بچوں کی طرح رو ر ہے تھے.جب یہ خبر جنرل کو ملی جو وہ فوج کے بڑے حصے کے ساتھ پیچھے تھا.تو وہ آگے بڑھا کہ حملہ کرے لیکن جب اس کے کان میں نپولین کی آواز پہنچی کہ تمہارا بادشاہ نپولین تمہیں بلاتا ہے تو وہ فوج اور جنرل بھی اپنا جو بعد کا اقرار تھا وہ بھول کر اس کے ساتھ شامل ہو گئے اور فرمانبرداری کا جو پہلا اقرار تھا اس پر قائم ہو گئے.بہر حال یہ نپولین کی کوششیں تھیں کہ فرانس کے شدید تفرقے کو دور کر کے اس نے فرمانبرداری کا جذبہ پیدا کر دیا.حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ یہ مثال بیان کر کے فرماتے ہیں کہ : نپولین یا اس جیسے دوسرے لیڈروں کے پاس تو خدا تعالیٰ کی وہ تائید نہیں تھی جو سچے مذہب کے پاس ہوتی ہے.لیکن پھر بھی انہوں نے انقلاب پیدا کیا لیکن بیعت کرنے والوں کی تو مختلف صورت ہوتی
خطبات مسرور جلد 12 735 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء ہے.بیعت کا تو مفہوم ہی اطاعت میں اپنے آپ کو فنا کرنا ہے.اور یہ مفہوم اتنا بلند ہے کہ دنیوی امور میں فرمانبرداری اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی.آپ نے فرمایا کہ یه گر که اَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ ایسا ہے کہ جب تک کوئی قوم اس پر عمل نہیں کرتی خواہ وہ سچے مذہب کی پابند ہو یا اس سے ناواقف، کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 509 تا512) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ قوم بننے کے لئے یگانگت اور فرمانبرداری انتہائی ضروری ہے اور اس کے بغیر گراوٹ اور تنزل ہی ہوگا.اس بارے میں قرآن کریم نے بھی ہمیں واضح فرمایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ اعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ ايَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.(آل عمران : 104 ) یعنی اللہ کی رسی کو سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے.اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا.اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ شاید تم ہدایت پا جاؤ.پس یہ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی کہ اس واضح ارشاد کے باوجود تفرقہ کی انتہا تک پہنچے ہوئے ہیں اور اپنے اوپر جو انعامات ہوئے تھے ان کو بھلا بیٹھے ہیں اور ادبار اور تنزل کی انتہاؤں کو اس وجہ سے چھورہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے اس وقت مسلمانوں کی یہ حالت تھی جیسا کہ آپ نے فرمایا.اب تو اس کی انتہا ہوئی ہوئی ہے.اس زمانے کی نسبت اب تو یہ انتہا کو پہنچی ہوئی ہے لیکن سمجھتے نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اختلاف رائے چھوڑ دو اور ایک کی اطاعت کرو یعنی زمانے کے امام کی اطاعت کیونکہ اس
خطبات مسرور جلد 12 736 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء زمانے میں وہ ایک جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے طور پر بھیجا ہے وہ مسیح موعود ہی ہیں تو فرمایا کہ پھر دیکھو کہ کس طرح ہر کام میں برکت پڑے گی.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور یہی بات ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی ملتی ہے.اور جب تک یہ وحدت قائم نہیں ہوگی نہ خدا تعالیٰ ملے گا نہ دوسری کامیابیاں مل سکیں گی.خدا تعالیٰ بھی انہی کو ملتا ہے تو حید کا صیح اور اک بھی انہیں ہی ہوتا ہے جن میں وحدت ہوتی ہے.پس ہمیں بھی صرف اس بات پر راضی نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے بیعت کر لی.بیعت کے معیار کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے.اور وہ ہے جیسا کہ بیعت کے لفظ سے پتا لگتا ہے بک جانا.اور تبھی خدا تعالیٰ کے فضلوں کے بھی ہم وارث بنیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال دے کر اور دوسرے صحابہ کا عمومی ذکر کر کے یہ بتایا کہ یہ لوگ صائب الرائے اور دنیاوی اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے تھے اور وقت آنے پر ان کی یہ خوبیاں ان پر ظاہر ہوئیں اور بڑے شاندار طریق پر انہوں نے حکومت چلائی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لگتا تھا کہ انہیں کچھ پتا نہیں.مکمل اطاعت اور فرمانبرداری اور حکموں پر چلنا ان کا کام تھا.اپنی تمام راؤں اور دانشوں اور عقلمندیوں کو وہ لوگ انتہائی حقیر سمجھتے تھے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک دن صحابہ نے کس طرح دنیا کی رہنمائی کی.یہی تربیت تھی جس نے خلافت راشدہ میں بھی اتحاد کے اعلیٰ ترین نمونے دکھائے.تاریخ میں جو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ کی دانشمندی ، بے نفسی اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھنے کا ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک جنگ کے دوران حضرت ابو عبیدہ کو حضرت عمر کا خط ملا جس میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا ذکر تھا اور حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولید کو معزول کرتے ہوئے حضرت ابو عبیدہ کو امیر لشکر مقرر فرمایا تھا.حضرت ابو عبیدہ نے حضرت خالد کو وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اس وقت تک اس کی اطلاع نہیں کی جب تک اہل دمشق کے ساتھ صلح نہیں ہو گئی.اور جو معاہدہ صلح تھا اس پر آپ نے حضرت خالد بن ولید سے دستخط کروائے.حضرت خالد بن ولید کو بعد میں پتا چلا کہ مجھے تو معزول کر دیا گیا تھا اور ان کو سپہ سالار بنایا گیا تھا تو انہوں نے شکوہ کیا مگر آپ ٹال گئے اور ان کے کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مطمئن کر دیا.اسلامی جرنیل حضرت خالد بن ولید نے اس موقع پر اطاعت خلافت کا انتہائی شاندار نمونہ دکھاتے ہوئے کہا کہ لوگو! تم پر اس امت کے امین امیر مقرر ہوئے ہیں.(حضرت ابوعبیدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امین کے لقب سے خطاب دیا تھا.) حضرت ابوعبیدہ نے جواب میں کہا
خطبات مسرور جلد 12 737 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خالد خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے اور قبیلے کا بہترین نوجوان ہے.تاريخ الطبری جزء 4 صفحه 82 ثم دخلت سنة ثلاث عشرة...صفحه 242 ثم دخلت سنة سبع عشرة...دار الفكر بيروت لبنان طبع ثانيه 2002ء) (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحه 751 مسند خالد بن ولید حدیث نمبر 16947، 16948 عالم الكتب بيروت 1998ء) پس یہ تھا خوشدلی سے خلیفہ وقت کے فیصلے کو ماننا.آج بھی بعض دفعہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں عموماً تو نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں اطاعت کا جذبہ ہے لیکن بعض ایسے بھی ہیں جب کسی عہدے سے ہٹایا جائے تو سوال ہوتا ہے کیوں ہٹایا گیا ہے؟ کس لئے ہٹایا گیا ہے؟ کیا کمی تھی ہم میں؟ اگر یہ نمونے اپنے سامنے رکھیں جو تاریخ ہمیں دکھاتی ہے تو کبھی اس قسم کے سوال نہ اٹھیں.بہر حال ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آج بھی وہی قرآن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں.اسی رسول کی ہم پیروی کرتے ہیں جس نے ہماری رہنمائی کی ہے اور احادیث کی کتب میں ہمیں وہ رہنمائی مل بھی جاتی ہے لیکن مسلمانوں کی حالت کیا ہے؟ یا آپس کا فتنہ وفساد ہے یا دنیا کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آج جو یہ پھوٹ ہے اور شیعہ سنی کے جھگڑے ہیں ، ( بلکہ اب تو اور بھی مزید سیمیں ہو گئی ہیں)، یہ اطاعت سے باہر نکلنے کی وجہ سے ہی ہے.یہ زوال ہے اگر آج آپس میں ایک ہوجائیں تو یہ اعتراض بھی مخالفین کے ختم ہو جا ئیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تھا.صحابہ کی یگانگت اور اطاعت ایسی تھی کہ اس نے دلوں کو فتح کر لیا تھا.پس اس اتحاد کی ضرورت ہے اور خاص طور پر مسیح موعود کی جماعت کو، آپ نے اپنی جماعت کو توجہ دلائی کہ تم صحابہ کا نمونہ پیدا کرو تا کہ تمہاری سچائی کی تلوار دشمنوں کو کاٹتی چلی جائے.اور یہ اس وقت ہو گا جب کامل اطاعت اور فرمانبرداری ہم میں سے ہر ایک میں پیدا ہوگی.ہر ایک اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے گا.اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت ہوگی تو اس نور سے بھی حصہ ملے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا.پس یہ ایک احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر اطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ کا ایسا نمونہ بنیں جو دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والا ہو اور یہی وہ حربہ ہے جس سے ہم دنیا کے دل جیت سکتے ہیں، جس سے ہم دنیا کو اللہ تعالیٰ اور
خطبات مسرور جلد 12 738 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 05 دسمبر 2014ء اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کے ڈال سکتے ہیں ، جس سے ہم دنیا کی رہنمائی کر سکتے ہیں، جس سے ہم دنیا کے فسادوں کو ختم کر سکتے ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے احکام قرآن کریم کی صورت میں موجود ہیں جو ہمارے لئے قابل اطاعت ہیں اور قابل عمل ہیں ہمارے پاس اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے جس کی اطاعت کرنا ہم پر فرض کیا گیا ہے.ہمارے اندر اولی الامر کا روحانی نظام بھی موجود ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے میں اور دوسروں میں ایک نمایاں امتیاز پیدا نہ کرسکیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور جو تو قعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے رکھی ہیں ہم ہمیشہ ان کو پورا کرنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 26 دسمبر 2014ء تا یکم رجنوری 2015 ء جلد 21 شماره 52 صفحہ 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 739 50 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء بمطابق 12 فتح 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج بھی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت کے بعض واقعات پیش کروں گا.چاہے ہمارے علم میں پہلے ہوں بھی لیکن حضرت مصلح موعود جس طرح بیان فرماتے ہیں اس سے بعض باتیں مختلف زاویوں سے سامنے آتی ہیں اور اس سے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام و مرتبہ اور آپ کے ساتھ تائیدات الہی کا ایک اور رنگ میں بھی پتا چلتا ہے.سورۃ یونس کی آیت سترہ میں جو اصول اللہ تعالیٰ نے نبی کی صداقت کا بیان فرمایا ہے کہ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.یعنی پس پہلے میں تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں کیا تم عقل نہیں کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ یہ کہیں یا آپ نے کفار کو یہ کہا.بہر حال یہ ایک اصول ہے نبی کی صداقت کا کہ جو اس کا ماضی ہے وہ اس کی زندگی کو ظاہر کرتا ہے.حضرت مصلح موعود ایک جگہ اپنی تقریر میں فرماتے ہیں.یہ تقریر کا موقع بھی اس طرح پیدا ہوا کہ قادیان میں مخالفین کے بعض بڑے بڑے مخالف علماء جمع ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے خلاف بڑی دشنام طرازیاں کیں بڑی تقاریر کیں اور بڑا منصوبہ کر کے وہ جلسہ انہوں نے منعقد کیا اور ارادہ ان کا یہ تھا کہ فساد پیدا کیا جائے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا کہ وہ فساد تو نہ کر سکے
خطبات مسرور جلد 12 740 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء لیکن انہوں نے جو بھی دریدہ دہنی کی جاسکتی تھی ، گند بکا جا سکتا تھا بکا.اس کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک جلسہ منعقد کیا یا کہنا چاہئے ایک اجلاس کی صورت تھی جہاں آپ نے ان اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات کے جواب بھی دیئے اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ثابت کی.بہر حال وہ ساری باتیں تو نہیں، ایک آدھ اقتباس میں اس میں سے لیتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ: حضرت مرزا صاحب کی دعوئی سے پہلے کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو آپ نے یہاں کے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کو بار بار باعلان فرمایا کہ کیا تم میری پہلی زندگی پر کوئی اعتراض کر سکتے ہو مگر کسی کو جرات نہ ہوئی بلکہ آپ کی پاکیزگی کا اقرار کرنا پڑا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ (یونس : 17) اس کے تحت ہر ایک نے یہ گواہی دی کہ آپ کی پہلی زندگی بالکل پاک تھی یا کم از کم اعتراض نہیں اٹھا سکے.پھر آپ کہتے ہیں کہ ” مولوی محمد حسین بٹالوی جو بعد میں سخت ترین مخالف ہو گیا اس نے اپنے رسالہ میں آپ کی زندگی کی پاکیزگی اور بے عیب ہونے کی گواہی دی اور مسٹر ظفر علی خان کے والد نے اپنے اخبار میں آپ کی ابتدائی زندگی کے متعلق گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے.پس جو شخص چالیس سال تک بے عیب رہا اور اس کی زندگی پاکباز رہی وہ کس طرح راتوں رات کچھ کا کچھ ہو گیا اور بگڑ گیا.علماء نفس نے مانا ہے کہ ہر عیب اور اخلاقی نقص آہستہ آہستہ پیدا ہوا کرتا ہے.“ جو نفسیات کے ماہر ہیں وہ یہ یہی کہتے ہیں کہ جو اخلاقی برائیاں ہیں وہ آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہیں ایک دم کوئی تغیر اخلاقی نہیں ہوتا ہے.پس دیکھو کہ آپ کا ماضی کیسا بے عیب اور بے نقص اور روشن ہے کہ کسی کو جرات نہیں ہوئی.( معیارصداقت ،انوار العلوم جلد 6 صفحہ 61) پھر اللہ تعالیٰ سورۃ مومن میں فرماتا ہے کہ اِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا (المؤمن : 52) کہ ہم اپنے رسول کی مددفرماتے ہیں.یہ مدد ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے کس طرح دیکھتے ہیں.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ آپ کو طرح طرح سے مارنے کی کوشش کی گئی.لوگ مارنے پر متعین ہوئے جن کا علم ہو گیا اور وہ اپنے ارادے میں ناکام ہوئے.مقد مے آپ پر جھوٹے اقدام قتل کے بنائے گئے.چنانچہ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا بنایا اور ایک شخص نے کہ بھی دیا کہ مجھے حضرت مرزا صاحب نے متعین کیا تھا.مجسٹریٹ وہ جو اس دعوی کے ساتھ آیا تھا کہ اس مدعی مہدویت و مسیحیت کو اب تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں.میں پکڑوں گا مگر جب مقدمہ ہوتا ہے وہی
خطبات مسرور جلد 12 741 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء مجسٹریٹ کہتا ہے کہ میرے نزدیک یہ جھوٹا مقدمہ ہے.بار بار اس نے یہی کہا اور آخر اس شخص کو عیسائیوں سے علیحدہ کر کے، جس نے الزام لگایا تھا ” پولیس افسر کے ماتحت رکھا گیا اور وہ شخص رو پڑا اور اس نے بتا دیا کہ مجھے عیسائیوں نے سکھایا تھا اور خدا نے اس جھوٹے الزام کا قلع قمع کر دیا.اس کی باقی تفصیل بعد میں میں آگے بیان کروں گا.فرماتے ہیں کہ اسی طرح ہماری جماعت کے پر جوش مبلغ مولوی عمرالدین صاحب شملوی اپنا واقعہ سنا یا کرتے ہیں کہ وہ بھی اسی معیار پر پر کھ کر احمدی ہوئے ہیں.وہ سناتے ہیں کہ شملہ میں مولوی محمد حسین اور مولوی عبد الرحمن سیاح اور چند اور آدمی مشورہ کر رہے تھے کہ اب مرزا صاحب کے مقابلہ میں کیا طریق اختیار کرنا چاہئے.مولوی عبد الرحمن صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ میں اب مباحثہ نہیں کروں گا.ہم اشتہار مباحثہ دیتے ہیں اگر وہ مقابلہ پر کھڑے ہو جائیں گے تو ہم کہیں گے کہ انہوں نے جھوٹ بولا کہ پہلے تو اشتہار دیا تھا کہ ہم مباحثہ کسی سے نہ کریں گے اور اب مباحثہ کے لئے تیار ہو گئے اور اگر مباحثہ پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم شور مچادیں گے کہ دیکھو مرزا صاحب ہار گئے.اس پر مولوی عمر الدین صاحب نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے.میں جاتا ہوں اور جا کر ان کو قتل کر دیتا ہوں.مولوی محمد حسین نے کہا کہ لڑکے تجھے کیا معلوم یہ سب کچھ کیا جا چکا ہے.مولوی عمر الدین صاحب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جس کی خدا اتنی حفاظت کر رہا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہو گا.انہوں نے جب بیعت کر لی تو واپس جاتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالہ کے سٹیشن پر ملے اور کہا تو کدھر؟ انہوں نے کہا کہ قادیان بیعت کر کے آیا ہوں.مولوی صاحب کہنے لگے کہ تو بہت شریر ہے، تیرے باپ کو لکھوں گا.انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب یہ تو آپ ہی کے ذریعہ ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے.“ 66 ( معیار صداقت،انوارالعلوم جلد 6صفحہ 61-62) پس مخالف مارنا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو بچاتا ہے.بلکہ دشمنی کرنے والا اگر نیک فطرت ہے تو وہ خود گھائل ہو کر جاتا ہے،خود اپنے دل کو بیچ کر جاتا ہے.میں نے پہلے مقدمہ قتل کا جو بتایا تھا یہ مقدمہ قتل عیسائیوں کی طرف سے ہوا تھا اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کی ہے.یہ مارٹن کلارک کا مقدمہ تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی بھی اس میں گواہ کے طور پر پیش ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی ذلت کا سامان کیا.حضرت مصلح موعود یہ لکھتے ہیں بلکہ خطبے میں ذکر کیا ہے کہ مارٹن کلارک نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ میرے قتل کے لئے مرزا صاحب نے ایک آدمی
خطبات مسرور جلد 12 742 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء بھیجا ہے.مسلمانوں میں علماء کہلانے والے بھی اس کے ساتھ اس شور میں شامل ہو گئے.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب تو اس مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت دینے کے لئے بھی آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہو گا مگر اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا لیکن باوجود اس کے کہ الہام میں اس کی ذلّت کے متعلق بتا دیا گیا تھا اور الہام کے پورا کرنے کے لئے ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے (لیکن ہوا کیا ؟ ) حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ” مجھے خود مولوی فضل دین صاحب نے جو لا ہور کے ایک وکیل اور اس مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پیروی کر رہے تھے سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جس سے مولوی محمد حسین کی ذلت ہوتی تھی تو آپ نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کر دیا...مقدمات میں گواہوں پر ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جن سے ظاہر ہو کہ وہ بے حیثیت آدمی ہے.کسی آدمی کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے بعض سوال کئے جاتے ہیں.”مولوی فضل دین صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ سوالات سنائے جو وہ مولوی محمد حسین صاحب پر کرنا چاہتے تھے تو ان میں سے ایک سوال سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایسے سوالات کو برداشت نہیں کر سکتے.مولوی فضل دین صاحب نے کہا کہ اس سوال سے آپ کے خلاف مقدمہ کمزور ہو جائے گا اور اگر یہ نہ پوچھا جائے تو آپ کو مشکل پیش آئے گی اس لئے کہ گواہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک لیڈر ہونے کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اور ضروری ہے کہ ثابت کیا جائے کہ وہ ایسا معزز نہیں.مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں.ہم اس سوال کی اجازت نہیں دے سکتے.مولوی فضل دین احمدی نہیں تھے بلکہ حنفی تھے اور حنفیوں کے لیڈر تھے، انجمن نعمانیہ وغیرہ کے سرگرم کارکن تھے اس لئے مذہبی لحاظ سے تعصب رکھتے تھے.مگر جب بھی کبھی غیر احمدیوں کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ پر زور تر دید کرتے اور کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور اخلاق کے لحاظ سے میں نے ایسے ایسے مواقع پر ان کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہو سکتا تھا جس مقام پر کہ آپ کھڑے تھے.اب دیکھو! ادھر گواہ کے ذلیل ہونے کا الہام ہے، ادھر اس کی گواہی آپ کو مجرم بناتی ہے.مگر جو بات اس کی ( مجرم کی یا گواہ کی) پوزیشن کو گرانے والی ہے.( گواہ کی پوزیشن کو گرانے والی تھی ) وہ آپ پوچھنے ہی نہیں دیتے.لیکن جس خدا نے قبل از وقت مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت کی خبر آپ کو دی تھی اس
خطبات مسرور جلد 12 743 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء نے ایک طرف تو آپ کے اخلاق دکھا کر آپ کی عزت قائم کی ( کہ غیر احمدی جو وکیل تھا اس کی نظر میں بھی آپ کا مقام بہت بلند ہو گیا ) اور دوسری طرف غیر معمولی سامان پیدا کر کے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کرا دیا.اور یہ اس طرح ہوا.( مولوی صاحب کی ذلت ) کہ وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت مخالف تھا اس نے جو نہی آپ کی شکل دیکھی (ایک طرف تو کہہ رہا تھا میں پکڑوں گا جب شکل دیکھی ، آپ کا چہرہ دیکھا ) اس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور باوجود اس کے کہ آپ ملزم کی حیثیت میں اس کے سامنے پیش ہوئے تھے اس نے کرسی منگوا کر اپنے ساتھ بچھوائی اور اس پر آپ کو بٹھایا.جب مولوی محمد حسین صاحب گواہی کے لئے آئے تو چونکہ وہ اس امید میں آئے تھے کہ شاید آپ کے ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی یا کم سے کم آپ کو ذلت کے ساتھ کھڑا کیا گیا ہو گا.جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ہوا ہے تو وہ غصہ سے مغلوب ہو گئے اور جھٹ مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے......مولوی صاحب نے کہا کہ میں معزز خاندان سے ہوں اور گورنر صاحب سے ملاقات کے وقت بھی مجھے کرسی ملتی ہے.ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ ملاقات کے وقت تو چوہڑے کو بھی کر سی ملتی ہے مگر یہ عدالت ہے.مرز اصاحب کا خاندان رئیس خاندان ہے.ان کا معاملہ اور ہے.“ 66 خطبات محمود جلد 17 صفحه 553 تا 555) اب چہرہ دیکھ کر ایک ڈپٹی کمشنر کے اور وہ بھی انگریز کے رویے میں جو تبدیلی پیدا ہوئی جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اب میں پکڑوں گا کیونکہ معمولی بات نہیں ہے.کیپٹن ڈگلس جو تھے ان کی مخالفت کوئی معمولی مخالفت نہیں تھی بلکہ اس نے مذہبی رنگ اختیار کر لیا تھا.اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ چند دن پہلے اس نے کہا تھا کہ قادیان میں ایک شخص نے مسیح کا دعویٰ کیا ہے اور اس طرح وہ ہمارے خدا کی ہتک کر رہا ہے اس کو آج تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں؟ جب مسل آئی تو ( ڈپٹی کمشنر کیونکہ اس پر وارنٹ جاری کرنا چاہتا تھا ) مسل خواں نے کہا.جناب والا ! یہ کیس وارنٹ کا نہیں بلکہ سمن کا کیس ہے اس لئے وارنٹ جاری نہیں کیا جاسکتا.سمن بھیجا جا سکتا ہے.ان دنوں جلال الدین ایک انسپکٹر پولیس تھے جو احمدی تو نہیں تھے لیکن بڑے ہمدرد انسان تھے.انہوں نے بھی ڈپٹی کمشنر کو توجہ دلائی کہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ وارنٹ جاری کیا جا رہا ہے.یہ وارنٹ کا کیس نہیں سمن کا کیس ہے.لہذا وارنٹ کے بجائے سمن بھیجنا چاہئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سمن جاری کیا گیا اور انہی جلال
خطبات مسر در جلد 12 744 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء الدین صاحب کو اس کی تعمیل کرنے کے لئے قادیان بھیجا گیا.چنانچہ بعد میں مقررہ تاریخ پر آپ بٹالہ حاضر ہوئے جہاں ڈپٹی کمشنر صاحب دورہ پر آئے ہوئے تھے.جب آپ عدالت میں پہنچے تو وہی ڈپٹی کمشنر جس نے چند دن پہلے کہا تھا کہ یہ شخص خداوند یسوع کی ہتک کر رہا ہے اس کو کوئی پکڑتا کیوں نہیں؟ اس نے آپ کا بہت اعزاز کیا ( جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ عدالت میں کرسی پیش کی اور (یہ بھی ) کہا کہ آپ بیٹھے بیٹھے میری بات کا جواب دیں.اس مقدمے میں (جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی بطور گواہ کے پیش ہوئے.(اس وقت عدالت کے باہر ایک بہت بڑا ہجوم بھی تھا اور لوگ بڑے شوق سے مقدمہ سننے کے لئے آئے ہوئے تھے.جب مولوی محمد حسین صاحب عدالت میں پہنچے اور ( جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کرسی پر بیٹھے دیکھا تو آگ بگولہ ہو گئے.کیونکہ وہ تو سوچ کے آئے تھے کہ جب میں جاؤں گا تو مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوگی اور بڑی ذلت کی حالت ہوگی.(لیکن یہ تو بالکل الٹ ہو رہا تھا.مقدمہ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا تھا.مدعی بھی ایک انگریز پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک تھا.( ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ انگریز تھے لیکن درحقیقت وہ کسی پٹھان کی نسل میں سے تھے جس نے ایک انگریز سے شادی کی ہوئی تھی اور وہ انگریز کالے پالک بھی تھا.مولوی محمد حسین صاحب جیسے مشہور عالم بطور گواہ پیش ہو رہے تھے مگر پھر بھی دشمن نا کام ونامرادر ہا اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعزاز کیا گیا.وہاں آپ کے مخالفین کو ذلت ورسوائی کا منہ دیکھنا پڑا.مولوی محمد حسین صاحب نے جب دیکھا کہ آپ کو کرسی پیش کی گئی ہے ( جیسے پہلے ذکر ہو چکا ہے ) اور بجائے اس کے مجھے گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے تو وہ اس پر بڑے سیخ پا ہوئے.انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو کہا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے.اس وقت انگریز مولویوں کو بہت ذلیل سمجھتے تھے.وہ ( ڈپٹی کمشنر ) کہنے لگا کہ ہماری مرضی ہے ہم جسے چاہیں کرسی پر بٹھا ئیں اور جسے چاہیں کرسی نہ دیں“.وہ کہنے لگا کہ ” میں نے دیکھا ہے کہ ان کا خاندان کرسی نشین ہے اس لئے میں نے انہیں کرسی دی ہے.تمہاری حیثیت کیا ہے؟ مولوی محمد حسین صاحب کہنے لگے کہ میں اہلحدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور میں گورنر کے پاس جاتا ہوں اور بڑی باتیں کی.تو اس نے کہا تم مجھے جاہل آدمی لگتے ہو.گورنر کے پاس تو کوئی بھی آدمی جائے گا کرسی پیش کی جائے گی.یہ عدالت ہے گورنر کا دربار نہیں ہے.بہر حال ان کی تسلی نہ ہوئی.پھر مولوی محمد حسین صاحب نے ڈپٹی کمشنر سے بحث کرنی شروع کر دی.ڈپٹی کمشنر کو بھی ) غصہ آ گیا اور اس نے کہا بک بک مت کرو.پیچھے ہٹو اور جوتیوں میں کھڑے ہو جاؤ.چپڑاسی تو دیکھتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی
خطبات مسرور جلد 12 745 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء نظر کس طرف ہے.چپڑاسی نے جب کمشنر صاحب کے الفاظ سنے تو اس نے مولوی محمد حسین صاحب کو بازو سے پکڑ کر جوتیوں میں لاکھڑا کیا.مولوی صاحب نے دیکھا کہ میری ذلت ہوئی ہے.باہر ہزاروں آدمی کھڑے ہیں اگر انہیں میری اس ذلت کا علم ہوا تو وہ کیا کہیں گے؟ تو کمرہ عدالت سے باہر نکلے.برآمدے میں ایک کرسی پڑی تھی.مولوی صاحب نے سمجھا کہ اس ذلت کو چھپانے کا بہترین موقع ہے.جھٹ کرسی کھینچی اور اس پر بیٹھ گئے اور خیال کر لیا کہ لوگ کرسی پر بیٹھے دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ مجھے اندر بھی کرسی ملی تھی.چپڑاسی نے دیکھ لیا وہ ڈپٹی کمشنر صاحب کا انداز دیکھ چکا تھا.اس نے مولوی محمد حسین صاحب کو کرسی پر بیٹھے دیکھ کر خیال کیا کہ اگر ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں یہاں بیٹھا دیکھ لیا تو وہ مجھ پر ناراض ہوں گے.اس خیال کے آنے پر اس نے مولوی صاحب کو وہاں سے بھی اٹھا دیا اور کہا کہ کرسی خالی کر دیں.چنانچہ برآمدے والی کرسی بھی چھوٹ گئی.باہر آگئے تو لوگ چادریں بچھائے انتظار میں بیٹھے تھے کہ مقدمے کا کیا فیصلہ ہوتا ہے.ایک چادر پر کچھ جگہ خالی دیکھی تو وہاں جا کر بیٹھ گئے.یہ چادر ( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ) میاں محمد بخش صاحب مرحوم بٹالوی کی تھی جو مولوی محمد حسین صاحب مربی سلسلہ کے والد تھے.(جن کی یہ چادر تھی ان کے بیٹے مربی سلسلہ تھے.بعد میں مربی بنے.) اور اس وقت (یہ محمد بخش صاحب جو تھے ) غیر احمدی تھے ( احمدی نہیں ہوئے تھے بعد میں احمدی ہوگئے.تو کہتے ہیں بہر حال یہ چادر ان کی تھی.انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی چادر پر بیٹھے دیکھا تو غصے میں آگئے اور کہنے لگے.میری چادر چھوڑ.تو نے تو میری چادر پلید کر دی ہے.تو مولوی ہو کر عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے.چنا نچہ اس چادر سے بھی انہیں اٹھنا پڑا اور اس طرح ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا.تو دیکھو یہ آیات بینات ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دشمن کے ہاتھوں سے بری فرمایا.پھر اس پر ہی بس نہیں.سر ڈگلس کو خدا تعالیٰ نے اور نشانات بھی دکھلائے جو مرتے دم تک انہیں یادر ہے اور ( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ) انہوں نے ( سر ڈگلس نے ) خود مجھ سے بھی بیان کئے.1924ء میں جب میں انگلینڈ گیا تو یہ سارا قصہ مجھ سے بیان کیا.سر ڈگلس کے ایک ہیڈ کلرک تھے جن کا نام غلام حید ر تھا.وہ راولپنڈی کے رہنے والے تھے بعد میں وہ تحصیلدار ہو گئے تھے.( سرگودھا کے شاید رہنے والے تھے.انہوں نے خود مجھے یہ قصہ سنایا اور کہا جب ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والا مقدمہ ہوا تو میں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کا ہیڈ کلرک تھا.جب عدالت ختم ہوئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا کہ ہم فوراً گورداسپور جانا چاہتے ہیں.تم ابھی جا کر ہمارے لئے ریل کے کمرے کا
خطبات مسرور جلد 12 746 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء انتظام کرو.ٹرین پر بلنگ کراؤ.چنانچہ میں مناسب انتظامات کرنے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر آ گیا.میں اسٹیشن سے باہر نکل کر برآمدے میں کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ سر ڈگلس سڑک پر ٹہل رہے ہیں.وہ کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر.ان کا چہرہ پریشان ہے.میں ان کے پاس گیا اور کہا.صاحب! آپ باہر پھر رہے ہیں.میں نے ویٹنگ روم میں کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں آپ وہاں تشریف رکھیں.وہ کہنے لگے منشی صاحب! آپ مجھے کچھ نہ کہیں میری طبیعت خراب ہے.میں نے کہا کچھ بتا ئیں تو سہی آخر آپ کی طبیعت کیوں خراب ہو گئی ہے تا کہ اس کا مناسب علاج کیا جا سکے.اس پر وہ کہنے لگے کہ جب سے میں نے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ کر کے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گناہگار نہیں.ان کا کوئی قصور نہیں.پھر میں نے عدالت کو ختم کر دیا اور یہاں آیا تو اب ٹہلتا ٹہلتا جب اس کنارے کی طرف نکل جاتا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کام نہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے.پھر میں دوسری طرف جا تا ہوں تو وہاں بھی مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے.میں نے یہ کام نہیں کیا.اگر میری یہی حالت رہی تو میں پاگل ہو جاؤں گا.میں نے کہا صاحب! آپ چل کر ویٹنگ روم میں بیٹھیں.سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی انگریز ہیں.ان کو بلا لیتے ہیں شاید ان کی بات سن کر آپ کو تسلی ہو جائے.سپر نٹنڈنٹ صاحب پولیس کا نام لیمار چنڈ تھا.سر ڈگلس نے کہا انہیں بلوالو.چنانچہ میں نے انہیں بلا لا یا.جب وہ آئے تو سر ڈگلس نے ان سے کہا کہ دیکھو یہ حالات ہیں میری جنون کی سی حالت ہو رہی ہے.میں اسٹیشن پر ٹہلتا ہوں اور گھبرا کر اس طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مرز اصاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کی شکل مجھے کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں مجھ پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا ہے.پھر دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں.یہ سب کچھ جھوٹ ہے جو کیا جا رہا ہے.یہ دیکھ کے میری حالت پاگلوں کی سی ہو گئی ہے.اگر تم اس سلسلے میں کچھ کر سکتے ہو تو کر دور نہ میں پاگل ہو جاؤں گا.تو سپر نٹنڈنٹ پولیس نے کہا اس میں کسی اور کا قصور نہیں آپ کا اپنا قصور ہے.آپ نے گواہ کو پادریوں کے حوالے کیا ہوا ہے.جو گواہ ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے قتل کے لئے بھیجا گیا تو اس کو آپ نے پادریوں کے حوالے کیا ہوا ہے.وہ لوگ جو کچھ اسے سکھاتے ہیں وہ عدالت میں آ کر بیان دیتا ہے.آپ اسے پولیس کے حوالے کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ کیا بیان دیتا ہے.چنانچہ اسی وقت سر ڈگلس نے کاغذ قلم منگوایا اور حکم دے دیا کہ عبد الحمید کو پولیس کے حوالے کیا جائے.اور حکم کے
خطبات مسرور جلد 12 747 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء مطابق عبد الحمید کو پادریوں سے لے لیا گیا.پولیس کے حوالے کر دیا گیا.دوسرے دن یا اسی دن اس نے فوراً اقرار کر لیا کہ میں جھوٹ بولتا رہا ہوں.سپرنٹنڈنٹ پولیس کا بیان ہے کہ میں نے اسے سچ سچ بیان دینے کے لئے کہا تو اس نے پہلے تو اصرار کیا کہ وہ واقعہ بالکل سچا ہے.مرزا صاحب نے مجھے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کے لئے بھیجا تھا لیکن میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص پادریوں سے ڈرتا ہے.چنانچہ میں نے کہا کہ میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے حکم لے لیا ہے کہ اب تمہیں پادریوں کے پاس نہیں جانے دیا جائے گا اب تم پولیس کے حوالات میں ہی رہو گے.تو وہ میرے پاؤں پر گر گیا اور کہنے لگا صاحب! مجھے بچالو.میں اب تک جھوٹ بولتا رہا ہوں.اس نے مجھے بتایا کہ صاحب آپ دیکھتے نہیں تھے کہ جب میں گواہی کے لئے عدالت میں پیش ہوتا تھا تو میں ہمیشہ ہاتھ کی طرف دیکھتا تھا.اس کی وجہ یہ تھی کہ جب پادریوں نے مجھے کہا کہ جاؤ اور عدالت میں بیان دو کہ مجھے مرزا صاحب نے ہنری مارٹن کلارک کے قتل کے لئے بھیجا تھا اور امرتسر میں مجھے فلاں مستری کے گھر میں جانے کے لئے ہدایت دی تھی.{ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں یہ دوست مستری قطب دین صاحب تھے جن کا ایک پوتا اس وقت (اس زمانے میں ) جامعہ میں پڑھتا ہے.وہ کہتے ہیں اس نے کہا کہ } میں تو وہاں کے احمدیوں کو جانتا نہیں.مجھے اس کا نام یاد نہیں رہے گا.اس پر مستری صاحب کا نام کوئلے کے ساتھ میری ہتھیلی پر لکھ دیتے تھے.جب میں گواہی دینے آتا تھا اور ڈپٹی کمشنر مجھ سے دریافت کرتے تھے کہ تمہیں امرتسر میں کس کے گھر بھیجا گیا تھا تو میں ہاتھ اٹھاتا تھا اور اس پر سے نام دیکھ کر کہہ دیتا تھا کہ مرزا صاحب نے مجھے فلاں احمدی کے پاس بھیجا تھا.( ہر دفعہ مختلف گواہوں کے لئے نام بھی لکھے جاتے تھے.غرض اس نے ساری باتیں بتا دیں اور سر ڈگلس نے اگلی پیشی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بری کر دیا.تو دیکھو یہ سب واقعات ہمارے لئے آیات بینات ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سر ڈگلس کے لئے اور آیات بینات بھی پیدا کئے.ایک آیت بینہ یہ تھی کہ انہیں ٹہلتے ٹہلتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نظر آتی تھی اور وہ تصویر کہتی تھی کہ میں بے گناہ ہوں میرا کوئی قصور نہیں.( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ) پھر انہوں نے خود مجھے سنایا کہ ایک دن میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا.ایک ہندوستانی آئی سی ایس آیا ہوا تھا.اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ اپنی زندگی کے عجیب حالات میں سے کوئی ایک واقعہ بتا ئیں تو میں نے اسے یہی مرزا صاحب والا واقعہ سنایا.میں یہ واقعہ سنا رہا تھا کہ ان کا جو بیرا تھا، کام کرنے والا تھا، اس نے ایک کارڈ لا کر دیا اور کہا باہر ایک آدمی کھڑا ہے جو آپ سے ملنا چاہتا ہے.میں نے کہا اس کو اندر بلا لو.
خطبات مسرور جلد 12 748 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء جب وہ شخص اندر آیا تو میں نے کہا نوجوان ! میں آپ کو جانتا نہیں آپ کون ہیں؟ اس نوجوان نے کہا کہ آپ میرے والد کو جانتے ہیں آپ ان کے واقف ہیں ان کا نام پادری وارث دین تھا.میں نے کہا ہاں میں ابھی ان کا ذکر کر رہا تھا.وہ نوجوان کہنے لگا کہ ابھی تار آئی ہے کہ پادری وارث دین فوت ہو گئے ہیں.وارث دین ایک پادری تھا جس نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو خوش کرنے کے لئے اس کی طرف سے یہ ساری کارروائی کی تھی.(مقدمہ وغیرہ کروایا تھا ) مگر خدا تعالیٰ نے ڈپٹی کمشنر صاحب پر حق کھول دیا اور خود جو گواہ تھا اس نے بھی اقرار کر لیا کہ جو کچھ کیا جارہا ہے یہ سب جھوٹ ہے.مگر عین اس وقت جب سر ڈگلس وارث دین کا ذکر کر رہے تھے.ان کے بیٹے کا وہاں آنا اور اپنے والد کی وفات کی خبر دینا عجیب اتفاق تھا.سر ڈگلس اپنی موت تک جس احمدی کو بھی ملتے رہے اسے یہ واقعہ بتاتے رہے.انہوں نے مجھے بھی یہ واقعہ سنایا، چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو بھی اور چو ہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی یہ سب واقعہ سنایا.( حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ) 1924ء میں جب میں لندن آیا تو ان کی صحت اچھی تھی.کہتے ہیں یہ 32 سال قبل کا واقعہ ہے.اور اب وہ ( سر ڈگلس ) 93 سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں.24ء میں ان کی 61 سال عمر تھی.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اب جب میں 1953ء میں دوبارہ گیا تو میں نے انہیں بلایا تو انہوں نے معذرت کر دی اور کہا.میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور بہت کمزور ہوں اب میرے لئے چلنا پھرنا مشکل ہے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اب سنا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں تو مجھے افسوس ہوا کہ موٹر ہمارے پاس تھی.ہم موٹر میں ہی انہیں منگوا لیتے.یا ان کے گھر چلے جاتے.( تو لکھتے ہیں کہ) یہ آیات بینات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتا رہتا ہے اور مومن کو چاہئے کہ وہ سچے معنوں میں مومن بننے کے لئے کوشش کرے.اگر وہ حقیقی مومن بنے تو اللہ تعالیٰ ضرور غیب سے ایسے حالات پیدا کرتا ہے جس سے اس کا ایمان تازہ ہوتا رہتا ہے اور در حقیقت ایسے ایمان کے بغیر کوئی مزہ بھی نہیں.جس ایمان نے آنکھیں نہ کھولیں اور انسان کو اندھیرے میں رکھا اس کا کیا فائدہ.جو اس جہان میں اندھار ہے گا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا رہے گا اور جسے اسی جہان میں آیات بینات نظر نہیں آتیں اس کو اگلے جہان میں بھی آیات بینات نظر نہیں آئیں گی.اس دنیا میں آیات بینات نظر آئیں تو دوسری دنیا میں بھی آیات بینات نظر آتی ہیں.(ماخوذ از الفضل 30 مارچ 1957 صفحہ 6-7 جلد 11 / 46 نمبر 77) اب یہ نشانات کی بات ہے.تو نشانات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے.گو اس بات کو سو سال سے
خطبات مسرور جلد 12 749 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے جو ایک بڑا نشان تھا.اور یہ نشان اب اس طرح ظاہر ہورہا ہے کہ کیپٹن ڈگلس کے نواسے نے مجھے پیغام بھجوایا کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں اور کہا کہ میں سوچتا ہوں کہ کون سا نیک کام میرے نانا سے ہوا تھا، اور اتنی بڑی نیکی ہوئی تھی کہ میرے دل میں شدت سے خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ میں احمدیت میں شامل ہو جاؤں.اور یہ ہے نشان کہ آج اس کے نواسے کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ سچائی جو سر ڈگلس کو دکھائی گئی تھی اس کو اس نے تو قبول نہیں کیا لیکن اس سچائی کو دیکھ کر میں آج قبول کرتا ہوں اور مارٹن کلارک کے پڑ پوتے کا قصہ تو آپ لوگ سن ہی چکے ہیں.پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ اس نے یہاں ( جلسہ پر ) آکے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ میرا پر دا د غلط تھا اور حضرت مرزا صاحب سچے تھے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ پس مومن کو ہمیشہ دعاؤں اور ذکر الہی میں لگے رہنا چاہئے کہ وہ دن اسے نصیب ہو جب اللہ تعالیٰ اسلام اور اپنی ذات کی سچائی اس کے لئے کھول دے اور اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منور چہرہ اور خدا تعالیٰ کا نورانی چہرہ نظر آ جائے.جب یہ ہو جائے تو پھر رات اور دن اور سال تکلیف کے سال ہوں یا خوشی کے سال ہوں اس کے لئے برابر ہو جاتے ہیں.بس اگر اللہ تعالیٰ کا چہرہ نظر آ جائے ، آپ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ نظر آ جائے تو پھر کوئی خوشی غمی کا احساس نہیں رہتا.بس ایک ہی احساس رہتا ہے اور اسی محبت میں انسان دوبارہتا ہے.فرماتے ہیں اور چاہے کچھ بھی ہو ایسا آدمی ہمیشہ خوش رہتا ہے اور مطمئن رہتا ہے کسی سے ڈرتا نہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب کرم دین بھیں والا مقدمہ ہوا تو مجسٹریٹ ہندو تھا.آریوں نے اسے ورغلایا اور کہا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ضرور کچھ سزا دے اور اس نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا.خواجہ کمال الدین صاحب نے یہ بات سنی تو وہ ڈر گئے.وہ کہنے لگے حضور! بڑے فکر کی بات ہے.آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے.آپ کسی طرح قادیان تشریف لے چلیں.گورداسپور میں مزید عرصہ نہ ٹھہریں.اگر آپ گورداسپور میں ٹھہرے تو مجسٹریٹ نے کل آپ کو کوئی نہ کوئی سزا ضرور دے دینی ہے.حضرت صاحب نے فرمایا.خواجہ صاحب ! اگر میں قادیان چلا جاؤں تو وہاں سے بھی مجھے پکڑا جا سکتا ہے.پھر میں کہاں جاؤں گا.مجسٹریٹ کو اختیارات حاصل ہیں اگر قادیان گیا تو وہاں بھی وارنٹ آ سکتے ہیں اور وہاں سے کسی دوسری جگہ گیا تو وہ بھی محفوظ جگہ نہیں ہوگی وہاں بھی وارنٹ جاری کئے جاسکتے ہیں.پھر میں کہاں کہاں بھاگتا پھروں گا.خواجہ صاحب کہنے لگے حضور ! آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے.آپ اٹھ کر بیٹھے اور
خطبات مسرور جلد 12 750 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء فرمایا خواجہ صاحب ! آپ کیوں پریشان ہو گئے ہیں.خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے.چنانچہ یہی ہوا.وہ دو مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا.ان دونوں کو بڑی سخت سزا ملی.ان میں سے ایک تو معطل ہوا اور ایک کا بیٹا پاگل ہو گیا اور چھت پر سے چھلانگ مار کر مر گیا.پھر اس پر یہ اثر تھا.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ (ایک دفعہ ) میں دتی جا رہا تھا کہ وہ لدھیانے کے اسٹیشن پر مجھے ملا اور کہنے لگا دعا کریں.میرا ایک اور بیٹا ہے خدا تعالیٰ اسے بچا لے.مجھ سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات پوری ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے اور آریوں کو ان کے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی.پس اگر انسان اللہ تعالیٰ کا ہو جائے تو پھر دنیا کی ہر شئے اس کی ہو جاتی ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ جے تو میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو یعنی اگر تو خدا تعالیٰ کا ہو جائے تو سب جہان تیرا ہو جائے گا.دنیا کی کوئی چیز تمہیں ضرر نہیں پہنچا سکے گی اور کوئی دشمن تمہارے خلاف کوئی شرارت نہیں کر سکے گا.پس تم اللہ تعالیٰ کے بنو اور دعا کرتے رہو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ اور اس طرح تم بھی امن میں آ جاؤ اور تمہاری اولا د اور دوسرے عزیز اور دوست بھی امن میں آجائیں.یادرکھو جب تک جماعت امن میں نہیں رہے گی تم بھی امن میں نہیں رہ سکتے اور جماعت اسی وقت امن میں رہ سکتی ہے جب تمہاری آئندہ نسلیں امن میں ہوں.“ 66 (ماخوذ از الفضل 30 مارچ 1957 صفحہ 7-6 جلد 11 / 46 نمبر 77) پھر اسی مقدمے کے سلسلے میں ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ ” مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو میں نے گھبرا کر دعا کی.رات کو رڈیا میں دیکھا کہ میں سکول سے آ رہا ہوں اور اس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں.وہاں مجھے بہت سی باوردی پولیس دکھائی دیتی ہے.پہلے تو ان میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا ، پھر مگر کسی نے کہا یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے.جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں ایک تہہ خانہ ہوا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا.ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہہ خانے میں اترتی تھیں.بعد میں یہاں صرف ایندھن اور پیپے پڑے رہتے تھے.( یعنی کاٹھ کباڑ ہوتا تھا.) جب میں گھر میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا ہوا ہے اور آپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگایا ہوا ہے.صرف آپ کی گردن مجھے نظر آ رہی ہے اور میں نے دیکھا
خطبات مسرور جلد 12 751 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء کہ وہ سپاہی ان اوپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں.جب میں نے انہیں آگ لگاتے دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر آگ بجھانے کی کوشش کی.اتنے میں دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑ لیا.کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور میں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اوپلوں کو آگ لگا دیں.اسی دوران میں اچانک میری نظر او پر اٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہوا ہے کہ : ”جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں ان کو کون جلا سکتا ہے ( تو فرماتے ہیں کہ ” تو اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مومنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے.ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گونہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامان حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے سامان کر دیئے.“ (سیر روحانی (3)، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 383) کیپٹن ڈگلس صاحب نے جو واقعہ ایک آئی سی ایس افسر کو بیان کیا تھا.اس میں ایک بات یہ بھی بیان کی تھی کہ مجھے بڑی سخت گھبراہٹ تھی کہ مقدمہ غلط ہے تو کہتے ہیں بہر حال میں نے فیصلہ کر لیا اور حق ثابت ہو گیا.اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے مرزا صاحب جیسا وسیع الحوصلہ بھی کوئی نہیں دیکھا.باوجود اس کے کہ ان پر ایک خطر ناک جرم لگا کر انہیں خطرے میں ڈالا گیا تھا پھر بھی جب میں نے انہیں کہا یعنی عدالت نے جب انہیں کہا کہ آپ ان پر اپنی ہتک کا دعویٰ کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہہ دیا کہ میں نہیں کرنا چاہتا.(ماخوذ از ضمیمه اخبار الفضل قادیان 21 اکتوبر 1927 صفحہ 22-21) ان تمام مخالفتوں کے باوجود جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سامنا کرنا پڑا یہ آپ کا حوصلہ تھا.اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نہ صرف آپ محفوظ رہے بلکہ آپ کی جماعت بھی بڑھتی رہی.قادیان بھی ترقی کرتا رہا.اسی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا کہ یہاں احمدیوں کو مسجدوں میں نہیں جانے دیا جاتا تھا.مسجد کا دروازہ بند کر دیا گیا.چوک میں کیلے گاڑ دیئے گئے تا نماز پڑھنے کے لئے جانے والے گریں اور کنویں سے پانی نہیں بھر نے دیا جا تا تھا بلکہ یہاں تک سختی کی جاتی تھی کہ گھماروں کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ احمدیوں کو برتن بھی نہ دیں.“ جو مٹی کے برتن بنانے والے ہیں ان کو بھی منع کر دیا گیا تھا.ایک زمانہ میں یہ ساری مشکلات تھیں مگر اب وہ لوگ کہاں ہیں.ان کی اولا دیں احمدی ہو گئی ہیں اور وہی لوگ جنہوں نے احمدیت کو مٹانے کی کوشش کی ان کی اولا دیں اسے
خطبات مسرور جلد 12 752 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء پھیلانے میں مصروف ہیں.یہی مدرسہ جس جگہ واقع ہے مدرسے میں خطاب فرما رہے تھے ” یہاں پرانی روایات کے مطابق جن رہا کرتے تھے.پہلی روایات تھیں کہ یہاں اس جگہ پر جن رہتے ہیں اور کوئی شخص دو پہر کے وقت بھی اس راستہ سے اکیلا نہ گزرسکتا تھا.اب دیکھو وہ جن کس طرح بھاگے ہیں.مجھے یاد ہے ہائی سکول والے میدان سے جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا ایک رؤیا سنا یا تھا کہ قادیان بیاس تک پھیلا ہوا ہے اور مشرق کی طرف بھی بہت دور تک اس کی آبادی چلی گئی ہے.اس وقت یہاں صرف آٹھ دس گھر احمدیوں کے تھے اور وہ بھی بہت تنگدست باقی سب بطور مہمان آتے تھے.لیکن اب دیکھو خدا تعالیٰ نے کس قدر ترقی اسے دی ہے.“ الفضل قادیان 9 فروری 1932 ، صفحہ 6 جلد 19 نمبر 95) آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جگہ سے بھی نکل کے باہر قادیان کی وسعت ہوتی چلی جارہی ہے.احمدی بھی خوبصورت مکانات بنا رہے ہیں.فلیٹ بنا رہے ہیں.جماعت کے بھی گیسٹ ہاؤسز بن رہے ہیں فلیٹس بن رہے ہیں کوارٹر بن رہے ہیں.پس حضرت مسیح موعود کی بستی کی ترقی تو ہم دیکھتے چلے جا رہے ہیں.اب وہ مخالف ہندو جو مسجد اقصیٰ میں اس وجہ سے غصے میں آتا تھا اور احمدیوں سے لڑتا تھا کہ بچوں کا شور ہوتا ہے اور یہاں زیادہ لوگ آگئے ہیں کیونکہ اس کا گھر مسجد اقصیٰ کے صحن کے شرقی جانب تھا اور ساتھ جڑا ہوا تھا.آج وہ گھر جو ہے جب مسجد اقصی کی جب extension ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد اقصیٰ کا حصہ بن چکا ہے.مخالفین کی بائیکاٹ اور ایذارسانی کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ بھی ہم نے دیکھا.وہ وقت بھی دیکھا جب چوڑھوں کو صفائی کرنے اور سقوں کو پانی بھرنے سے روکا جاتا.پھر وہ وقت بھی دیکھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہیں باہر تشریف لے جاتے تو آپ پر مخالفین کی طرف سے پتھر پھینکے جاتے اور وہ ہر رنگ میں ہنسی اور استہزاء سے پیش آتے.مگر ان تمام مخالفتوں کے باوجود کیا ہوا.اس وقت حضرت مصلح موعود خطبہ دے رہے تھے کہتے ہیں ” آپ جتنے لوگ اس وقت یہاں بیٹھے ہیں آپ میں سے پچانوے فیصدی وہ ہیں جو اُس وقت مخالف تھے یا مخالفوں میں شامل تھے مگر اب وہی پچانوے فیصدی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ساتھ شامل ہیں.پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جماعت میں جو شور اٹھا.اس کا کیا حشر ہوا.اس فتنہ کے سرگروہ وہ لوگ تھے جو صدرانجمن پر حاوی تھے اور تحقیر کے طور پر کہا کرتے تھے کہ کیا ہم ایک بچہ کی غلامی کر لیں.خدا تعالیٰ نے اسی بچے کا ان پر ایسا
خطبات مسرور جلد 12 753 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 دسمبر 2014ء رعب ڈالا کہ وہ قادیان چھوڑ کر بھاگ گئے اور اب تک یہاں آنے کا نام نہیں لیتے.انہی لوگوں نے اس وقت بڑے غرور سے کہا تھا کہ جماعت کا اٹھانوے فیصدی حصہ ہمارے ساتھ ہے اور دو فیصدی ان کے ساتھ.“ یعنی خلافت کے ساتھ.مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو فیصدی بھی ان کے ساتھ نہیں رہا اور اٹھانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہماری جماعت میں شامل ہو چکا ہے.“ (خطبات محمودجلد 15 صفحہ 207) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت جب خطبہ دے رہے تھے تو جتنے لوگ ان کے سامنے بیٹھے ہوں گے اس وقت لندن میں میرے خیال میں اُس سے زیادہ تعداد میں لوگ میرے سامنے بیٹھے ہیں بلکہ مسجد فضل میں بھی جمعہ ہو رہا ہے وہاں بھی شاید اس سے زیادہ لوگ ہوں.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدات کی نشانی ہے.دنیا میں کہاں کہاں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو پھیلا دیا ہے.پس یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہیں اور آپ کے بعد جاری خلافت کے ساتھ اللہ تعالی کی تائید و نصرت کی دلیل ہیں اور ہمارے ایمانوں میں اضافہ کرنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ان باتوں کو ہم ہمیشہ سامنے رکھیں اور یہ باتیں ہمارے اور ہماری نسلوں کے ایمانوں میں ہمیشہ اضافہ کرتی رہیں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 02 جنوری 2015 ء تا 08 جنوری 2015 ء جلد 22 شماره 01 صفحه 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 754 51 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء بمطابق 19 فتح 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ ظلم و بربریت کے جتنے نمونے یا واقعات ہمیں مسلمان کہلانے والے ممالک میں نظر آتے ہیں وہ دوسرے غیر مسلم ممالک میں نہیں ہیں.یا کم از کم وہاں ظاہر یہ نمونے اتنی کثرت سے نہیں ہیں اور جب واقعات ہوتے ہیں تو عموماً ان کے خلاف ان ترقی یافتہ ممالک میں یا غیر مسلم ممالک میں آواز بھی بڑے زور دار طریقے سے اٹھائی جاتی ہے.چاہے یہ ظلم حکومتی کارندوں کی طرف سے ہو یا کسی گروپ یا فرد کی طرف سے ہو رہا ہو.گزشتہ دنوں میں امریکہ میں بھی واقعات ہوئے اور وہاں بڑے پر زور احتجاج ہوئے.لیکن اسلام پیار محبت اور بھائی چارے کی جتنی تلقین کرتا ہے آجکل کی مسلمان حکومتیں اور اسی طرح اسلام کے نام پر جو دوسرے گروپ بنے ہوئے ہیں وہ گروہ یا تنظیمیں اتنا ہی ذاتی مفادات کی خاطر یا امن قائم کرنے کے لئے یا اسلام کے نام پر ظلم کا مظاہرہ کرتے ہیں.گویا کہ اسلام کی تعلیم کے بالکل الٹ چل رہے ہیں اور آجکل اسلام کے نام پر یا شریعت کے نافذ کرنے کے نام پر بے شمار شدت پسند تنظیمیں بن چکی ہیں جو ایسے ایسے ظلم کے مظاہرے کر رہی ہیں کہ انسان انہیں دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ حرکتیں انسان کر رہے ہیں یا انسانوں کے روپ میں حیوانوں سے بھی بدتر کوئی مخلوق کر رہی ہے.گزشتہ دنوں پاکستان میں ظلم کی ایک ایسی صورت ہمارے سامنے آئی جو صرف ظلم ہی نہیں تھا بلکہ درندگی اور سفا کی کی بدترین مثال تھی.ایسی چیز جس سے ایک انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایسا
خطبات مسرور جلد 12 755 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء واقعہ جس سے انسانیت چیخ اٹھی.ہر شخص جس میں انسانیت کی ہلکی سی بھی رمق ہے چیخ اٹھا اور بے چین ہو گیا.ایسے ہی خون کی ہولی آج سے قریباً ساڑھے چار سال پہلے لاہور میں ہماری مساجد میں بھی کھیلی گئی تھی.یہاں کے ایک ٹی وی چینل نے غالبا بی بی سی نے پاکستان کے ہونے والے پانچ ایسے بدترین واقعات کا ذکر کیا جو گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں رونما ہوئے.تو ان میں لاہور میں ہماری مساجد کا جو واقعہ تھا اس کا بھی ذکر کیا گیا.بہر حال ہمارے اس صدمے کو اور ہم پر کئے گئے ظلم کو شاید مولوی کے خوف سے نہ ہی حکومت نے قابل توجہ سمجھا اور نہ ہی عوام الناس کی اکثریت نے ہمدردی اور افسوس کے قابل سمجھایا کیا گیا.لیکن ہم احمدی تو انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے ہیں اور انسانیت کو تکلیف میں دیکھ کر ہم بے چین ہو جاتے ہیں اور پھر جو پاکستان میں گزشتہ دنوں واقعہ ہوا یہ تو ہمارے ہم وطن اور شاید تمام ہی مسلمان کہلانے والے تھے جن کے لئے ہمارے دل رحم کے جذبات سے بھرے ہوئے ہیں.ان کے لئے ہم بے چین ہیں.جیسا کہ میں نے کہا ہمارے اندر ہمدردی ہے.ان پر ظلم دیکھ کر تو ہم نے بے چین ہونا ہی تھا اور ہوئے کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا یہ پاکستانی نہ صرف ہم میں سے یہاں بیٹھے ہوئے اکثر کے ہموطن، بلکہ مسلمان بھی ہیں.اور پھر اس واقعہ میں بہیمیت کی انتہا کی گئی ہے کیونکہ اس ظلم کی بھینٹ چڑھنے والوں کی اکثریت جو تھی وہ معصوم بچوں کی تھی.پانچ چھ سات سال کے بچے بھی تھے.دس گیارہ بارہ تیرہ سال تک کی عمر کے بچے تھے.ایسے بچے بھی بیچ میں شہید ہوئے جو پانچ چھ سال کے تھے جن کو شاید دہشت گردی اور غیر دہشت گردی کا کچھ علم بھی نہیں تھا.مسلمان اور غیر مسلم میں کیا فرق ہے.یہ بھی نہیں پتا ہوگا.لیکن بڑے ظالمانہ طریقے سے ان کی جان لی گئی.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لے اور ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.ان بچوں کو اس لئے ظلم کا نشانہ بنایا گیا کہ پاکستان میں فوج سے ان نام نہاد شریعت کے نافذ کرنے والوں نے بدلہ لینا تھا.یہ کونسا اسلام ہے اور کونسی شریعت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ کی صورت میں غیر مسلموں کے بچوں اور عورتوں پر بھی تلوار اٹھانے کی سختی سے ممانعت فرمائی تھی.جنگ کے دوران ایک مشرک کے بچے کو قتل کرنے پر جب آپ نے اپنے صحابی سے باز پرس کی تو صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ شرک کا بچہ تھا.اگر غلطی سے قتل ہو بھی گیا تو کیا ہوا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ انسان کا معصوم بچہ نہیں تھا ؟ (ماخوذ از مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحه 365مسند الاسود بن سراح حدیث 15673 مطبوعه عالم الكتب بيروت 1998ء)
خطبات مسرور جلد 12 756 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء پس یہ معیار ہیں جو ہمیں انسانیت کے تقدس کو قائم کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ سے نظر آتے ہیں.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے اور اسلام کے نام پر ظلم کرنے والوں کے یہ عمل ہیں جو ہم عموماًدیکھتے رہتے ہیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا اس سفا کا نہ ظلم پر ہر انسان نے دکھ کا اظہار کیا.چاہے وہ مسلمان تھے یا غیر مسلم تھے.یہاں دو دن پہلے چرچ آف انگلینڈ نے عورت کو اپنی پہلی بشپ بنایا.ان کی تقریب ہو رہی تھی تو انہوں نے بھی اپنی تقریب سے پہلے اس واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا.ایک منٹ کے لئے خاموشی اختیار کی.اپنے انداز میں دعائیں کیں.تو بہر حال کہنے کا یہ مقصد ہے کہ ہر انسان کو اس واقعہ سے تکلیف پہنچی قطع نظر اس کے کہ اس کا مذہب کیا تھا.لیکن ان مسلمان کہلانے والوں نے ، ایک دو نہیں بلکہ تین چار تنظیموں نے اکٹھی ہوکر بڑے فخر سے اس بات کا اعلان کیا کہ ہاں ہم ہیں جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے اور ہمیں اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں.پس ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑی سی شرافت رکھنے والے انسان نے بھی اس پر دکھ کا اظہار کیا ، افسوس کیا اور جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدیوں کے دل میں تو انسانیت کے لئے درد انتہائی زیادہ ہے.ہم تو انسانی ہمدردی کے لئے ہر وقت تیار رہنے والے ہیں.ذرا سا واقعہ ہو جائے تو ہمارے دل پسیج جاتے ہیں.مجھے کئی خطوط موصول ہوئے کہ اس واقعہ سے سارا دن ہم بے چینی اور تکلیف میں رہے اور یہ حقیقت ہے.میرا اپنا یہ حال تھا کہ سارا دن طبیعت پر بڑا اثر رہا اور جب ایسی کیفیت ہوتی ہے تو پھر ظالموں کے نیست و نابود ہونے کے لئے بددعائیں نکلتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان ظالموں اور بدبختوں سے جلد ملک کو پاک کرے بلکہ تمام اسلامی ممالک کو پاک کرے.یہ واقعات دیکھ کر احمدیوں پر ہوئے ہوئے ظلموں کے زخم بھی تازہ ہوتے ہیں.لیکن ان معصوموں کے لئے بھی شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی حوصلہ دے، صبر دے اور ان پر رحم فرمائے ، ان کا کفیل ہو جن کے ماں باپ بھی اُن سے چھن گئے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ یہ شدت پسندی اور ظلم کے واقعات تقریباً تمام مسلمان کہلانے والے ملکوں کا المیہ ہے.یہ ایک پاکستان کی بات نہیں ہے.عراق، شام، لیبیا وغیرہ سب ملکوں میں ظلم ہورہا ہے.اور سب سے بڑھ کر ظلم کی بات یہ ہے کہ یہ سب ظلم خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو رہا ہے.شام میں ہی حکومتی اور سنی فسادوں میں ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب لوگ مارے گئے ہیں.کل جتنی اموات ہوئی ہیں ان میں سے چھ ہزار چھ سو بچے مارے گئے.ایک بٹا
خطبات مسرور جلد 12 757 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء تین (1/3) سے زیادہ شہری مارے گئے.ISIS کے ذریعے ہزاروں لوگ مارے گئے.سینکڑوں عورتوں اور لڑکیوں کو اس لئے مار دیا گیا، ایک لائن میں کھڑا کر کے گولی سے اڑا دیا گیا کہ انہوں نے ان لوگوں سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا بلکہ بعض ذرائع کے مطابق ظلموں اور موتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے.یہ ساری چیزیں دیکھ کر اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والے انسان کا دماغ چکرا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے اسلام کے نام پر ہو رہا ہے.یہ دیکھ کر انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ کس اسلامی تعلیم کے نام پر یہ عمل ہو رہا ہے.کیا یہ سب کچھ اس خدا کے نام پر ہو رہا ہے جو رحمان خدا ہے، جو رؤوف و رحیم خدا ہے، جو اتنا مہربان ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.اس رسول کے نام پر یہ ظلم ہو رہا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے رَحْمَةً لِلْعَالَمِین کہا ہے.اس شریعت کے نام پر یہ ظلم ہو رہا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دشمن سے بھی عدل وانصاف کو پکڑے رکھنے کی تلقین کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ لِلهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.(المائدة: 9) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہواللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو.یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.اب یہاں تو اللہ تعالیٰ انصاف کے معیاروں کو ایک مومن کے لئے اونچا کر رہا ہے.اگر یہ نہیں تو ایمان نہیں کہ کسی قوم کی دشمنی بھی انصاف کے معیاروں سے نیچے آنے پر تمہیں مائل نہ کرے.انصاف کی تعلیم میں ایسے نمونے دکھاؤ کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا پر ظاہر ہوجائے.تمہارے انصاف اور نیکی کے نمونے اسلام کی خوبصورت تعلیم کے گواہ بن جائیں.کسی کی انگلی اسلامی تعلیم پر نہ اٹھے.کاش کہ یہ مسلمان کہلانے والے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کے نمونے اسلامی تعلیم کی طرف غیر مسلموں کو کھینچ رہے ہیں.ان لوگوں کے عمل تو اپنوں کو بھی دُور دھکیل رہے ہیں.جن بچوں نے اپنے ساتھیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنتے دیکھا ہے کیا وہ ان لوگوں کو کبھی مسلمان سمجھیں گے؟ اور اگر سمجھیں گے تو یہ سوال ان کے ذہنوں میں پیدا ہوں گے کہ کیا یہ اسلام ہے جس کو ہم مانیں؟ پس یہ لوگ صرف ظاہری ظلم اور قتل و غارت نہیں کر رہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی برباد کر رہے ہیں.اسلام سے دور لے کر جا رہے ہیں.کاش کہ مسلمان علماء کہلانے -
خطبات مسرور جلد 12 758 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء والے جنہوں نے جہاد اور فرقہ واریت کے نام پر ان شدت پسند گروہوں کو جنم دیا ہے اپنے قبلے درست کر کے اپنی نسلوں کو حقیقی اسلام کے بتانے والے بنیں اور ان شدت پسند گروہوں کی بیخ کنی کے لئے حقیقی اسلامی تعلیم کے ہتھیار کو استعمال کریں.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زمانے کے امام کی بات مان کر حقیقی اسلام پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور دوسروں کو بھی عمل کروائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق نے ان مولویوں کو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ: اگر اسلام کے مولوی اتفاق کر کے اس بات پر زور دیں کہ وہ وحشی مسلمانوں کے دلوں سے اس غلطی کو نکال دیں، یعنی شدت پسندی اور غلط قسم کے جہاد کی غلطی کو نکال دیں تو وہ بلا شبہ قوم پر ایک بڑا احسان کریں گے اور نہ صرف یہی بلکہ ان کے ذریعہ سے اسلام کی خوبیوں کی ایک بھاری جڑ لوگوں پر ظاہر ہو جائے گی اور وہ سب کراہتیں جو اپنی غلطیوں سے مذہبی مخالف اسلام کی نسبت رکھتے ہیں وہ جاتی رہیں گی.“ 66 ( گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 634) پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کے لئے ایک درد ہے اور جس کی آپ نے ان غیر احمدی مولویوں سے بھی اپیل کی ہے کہ خدا کے لئے اس تعلیم کو جو شدت پسندی کی ہے اپنے ذہنوں سے نکالو اور محبت اور پیار کی تعلیم کو رائج کرو.لیکن یہ بات سننے کو کب یہ مولوی نام نہاد مولوی تیار ہوتے ہیں.ان کے مقاصد تو اب دین اسلام کے تقدس کو قائم کرنے کی بجائے سیاسی اور ذاتی مفاد کا حصول ہو گیا ہے.جہاں تک میں نے دیکھا ہے اس واقعہ پر غم و غصے کا اظہار بھی علماء کی طرف سے پرزور طریقے پر نہیں ہوا.شاید آج جمعہ پر بعض لوگوں نے کیا ہو.اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ان کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ وَاتَّقُوا اللہ کہ اللہ سے ڈرو.یقینا اللہ تعالیٰ اس بات سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.اور اللہ تعالیٰ ہر معاملے کی خبر صرف خبر رکھنے کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ہر عمل انسان کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے.ظلم کرنے والے جو ہیں وہ یقینا اپنے بد انجام کو پہنچتے ہیں.پس اگر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سامنے رکھیں کہ دشمن سے بھی انصاف کا سلوک کریں اور پھر کلمہ گوؤوں کے بارے میں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ رُحماء بينهم (الفتح: 30).لیکن یہاں رُحماء بينهم تو دور کی بات ہے یہ تو اپنوں سے بھی دشمنوں سے
خطبات مسرور جلد 12 759 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء بڑھ کر سلوک کرتے ہیں جس کے نظارے ہم دیکھتے رہتے ہیں.اب یہ لاکھ ، ڈیڑھ لاکھ، دولاکھ آدمی جو صرف ایک ملک میں مار دیئے یہ اپنوں کے ساتھ ظلم کے سلوک ہی ہیں ناں یا یہ بھی ظلم کی انتہا ہی ہے کہ اس سلوک میں بچوں کو مارا ، شہید کر دیا.کیا یہ سمجھتے ہیں کہ جو ظلم انہوں نے کیا ہے یا یہ کرتے رہتے ہیں اس پر سے بغیر پکڑ کے یہ گزر جائیں گے.نہیں اس طرح کبھی نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَلِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء : 94) که وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا- جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے وہ اس میں بہت لمبا عرصہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غضبناک ہوا اور اس پر لعنت کی اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے.پھر آگے اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ مومن کون ہے؟ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا (النساء:95) کہ جو تمہیں سلام کہے اسے یہ نہ کہا کرو کہ تم مومن نہیں.پس بھائی چارے کا ایک تقدس اسلام نے قائم کر دیا.اگر اس تقدس کو کوئی پامال کرتا ہے اور کلمہ گو کو قتل کرتا ہے تو پھر یقینا جہنم اس کا ٹھکانا ہے.یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اور وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہمیشہ رہے گا.جو لوگ خود کش حملہ کر کے یا مقابلہ میں مارے گئے اور غالہ تعلیم کی وجہ سے جو ان کو ان کے علماء نے دی خیال کیا کہ ہم مرکز اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں.تو خدا تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ مومن کو مار کر تم خدا تعالیٰ کی رضا نہیں بلکہ اس کی لعنت کے مورد بن رہے ہو اور ہمیشہ کے لئے جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے.اور مومن ہونے کے لئے کہا کہ اگر تمہاری طرف کوئی سلامتی کا پیغام بھیجتا ہے تو پھر تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ اسے قتل کر و.اب کوئی بتائے کہ ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا.وہ معاشرے کا ایک بہتر حصہ بننے کے لئے اور ملک کا سرمایہ بننے کے لئے اور سلامتی پھیلانے کے لئے علم حاصل کر رہے تھے.اس لئے وہ تعلیم حاصل کر نے ان سکولوں میں آئے ہوں گے.ان نام نہاد علماء کی باتیں سن کر حیرت ہوتی ہے جو شدت پسندی کی تعلیم ، اس خوبصورت اسلامی تعلیم کے باوجود دیتے ہیں.ان کی یہ باتیں سن کر ہی کم علم اور جاہل متاثر ہوتے ہیں اور پھر وہ حرکات کرتے ہیں جن میں سوائے بہیمیت کے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا.اور اس کا انجام پھر خدا تعالیٰ نے بتادیا کہ جہنم ہے.لیکن شاید یہ لوگ جہنم کو کوئی افسانوی بات سمجھتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی باتوں پر ایمان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان تنبیہوں کے باوجود ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور ایک
خطبات مسرور جلد 12 760 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء دوسرے کی گردنیں کاٹتے چلے جا رہے ہیں.اگر آخرت پر کامل یقین نہیں تو خدا تعالیٰ نے اس دنیا کے حالت کے بارے میں بھی ان کو بتادیا کہ پھر تمہارا کیا حشر ہوگا اگر تم نے بھائی بھائی کے تقدس کو پامال کیا تو پھر یہاں بھی تمہاری ساکھ ختم ہو جائے گی.اس دنیا میں بھی جو مفادات ہیں وہ تم حاصل نہیں کر سکو گے.جس دنیا کی خاطر تم یہ سب کچھ کر رہے ہو وہ بھی تمہیں نہیں ملے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَطِيْعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصيرين (الانفال: 47) اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو.یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.پس اللہ تعالیٰ کی یہ بات آج مسلمانوں کی حالت کو دیکھ کر سو فیصد ان پر پوری ہوتی نظر آتی ہے کہ انہی لڑائی اور جھگڑوں کی وجہ سے مسلمانوں کی طاقت ختم ہو چکی ہے.آپس کے بے شمار شدت پسند گروہوں کی وجہ سے اکثر ملک جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں.مغربی طاقتوں کے آگے یہ لوگ ہاتھ پھیلاتے ہیں.بیشک مسلمان ممالک کی ایک تنظیم ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے لیکن اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں.نہ آپس کا اتحاد ہے جس کی وجہ سے ملکوں میں امن وسکون قائم ہو.نہ غیر مسلم ممالک کے سامنے ان کی کوئی حیثیت ہے.ان کی باگ ڈور بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے.ان مسلمان ملکوں میں سے کسی ملک کا صدر یا وزیر اعظم حتی کہ فوجی سربراہ بھی کسی مغربی ملک میں آکر یہاں کے صدروں یا وزیر اعظموں سے بات کرتے ہیں یا یہ لوگ ان کی کچھ پذیرائی کر دیتے ہیں تو ہمارے یہ لیڈر سمجھتے ہیں کہ جیسے دنیا جہان کی نعمتیں ان کو مل گئیں.خدا تعالیٰ کا خانہ خالی ہے.اس کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور اس کو چھوڑ کر دنیا داروں کی طرف جھکاؤ ہے اور یہ لوگ اسی کو اپنی بقا کا ذریعہ سمجھتے ہیں.پس کس کس بات کا ذکر کیا جائے جو مسلمان کہلانے والے ممالک کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے.ایک ظلم ہوتا ہے.چند دن عوام پر اثر رہتا ہے، شور مچاتے ہیں اور پھر عوام الناس کی بھی جو اکثریت ہے وہ انہی ظالموں کے ہاتھوں آلہ کار بن جاتی ہے.پس جب تک خدا تعالیٰ کی بات نہیں مانیں گے جب تک دشمنوں سے بھی انصاف کے معیار قائم نہیں کریں گے.جب تک ہر سلام کرنے والے کو امن نہیں دیں گے جب تک اپنے بھائی چارے کے معیاروں کو قائم نہیں کریں گے جب تک حکومت رعایا کا خیال نہیں رکھے گی جب تک رعا یا حکومت کی اطاعت گزار نہیں ہوگی.جب تک خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں پیدا نہیں ہو گا اس وقت تک ایسے ظالمانہ واقعات ہوتے رہیں گے.کاش کہ یہ باتیں ہمارے لیڈروں اور علماء
خطبات مسرور جلد 12 761 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء کہلانے والوں کو بھی اور عوام الناس کو بھی سمجھ آجائیں.مسلمان اُمہ کی تکلیف ہمیں بھی تکلیف میں ڈالتی ہے.اس لئے کہ یہ ہمارے پیارے آقا کی طرف منسوب ہونے والے ہیں.ہمیں تو زمانے کے امام نے اپنے آقا اور مطاع کی طرف منسوب ہونے والوں سے ہمدردی اور پیار کرنے کے گر سکھائے ہیں.ہمیں تو یہ بتایا ہے کہ:.66 ”اے دل تو نیز خاطر اینان نگاه دار کا خر کنند دعوئے حُبّ پیمبرم “ (ازالہ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 182) کہ اے دل! تو ان لوگوں کا لحاظ کر.ان پر ہمدردی کی نظر رکھ کیونکہ آخر یہ لوگ میرے پیغمبر کی محبت کا دعوی کرتے ہیں.ہمارے ساتھ اگر ظلم کا رویہ ہے تب بھی ہمیں افسوس ہے اور ہم دعا کرتے ہیں بدلے نہیں لیتے کہ خدا تعالیٰ ان کے دلوں کو صاف کرے اور یہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ مسلم امہ کے لئے حقیقی ہمدردی اور خیر خواہی احمدی ہی اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور ہمدردی اور خیر خواہی کا جذ بہ جیسا کہ میں نے کہا ہمارے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہی پیدا کیا ہے.آپ نے اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی ہمدردی کے جذبے کو اپنوں اور غیروں سب پر حاوی کرنے کی ہمیں تلقین فرمائی ہے.آپ نے فرمایا کہ:.”مومنوں اور مسلمانوں کے واسطے نرمی اور شفقت کا حکم.پس اس کو ہمیشہ سامنے رکھو.پھر فرماتے ہیں: 66 ( ملفوظات جلد 10 صفحه (232) ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہاں تک ان امور کی پروا کرتا ہے اور کہاں تک وہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی اور سلوک کرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 280) پھر فرمایا: ” تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی اور حقیقی محبت قائم کی جاوے اور بنی نوع انسان اور اخوان کے حقوق اور محبت میں ایک خاص رنگ پیدا کیا جاوے.جب تک یہ باتیں نہ ہوں تمام امور صرف رسمی ہوں گے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 95) پھر فرمایا کہ : '' اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے
خطبات مسرور جلد 12 762 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو.اور کسی پر تکبر نہ کر و گوا پنا ما تحت ہو.اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه (11) پھر فرمایا : ” خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں.فرمایا آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 30) پس جب ہمدردی کے ایسے معیار ہم حاصل کرنے والے ہوں یا ہمدردی کے ایسے معیاروں کو حاصل کرنے کی تعلیم ہمیں ملی ہو اور اس پر ہم عمل کرنے والے بھی ہوں تب ہی انسان دوسرے کے درد کو محسوس کر سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے اکثریت بنی نوع انسان کے لئے ایسے جذبات رکھتے ہیں اور ایک احمدی کو ایسے جذبات رکھنے والا ہونا چاہئے.جب عام انسانوں کے لئے یہ جذبات ہوں تو پھر مسلمانوں کے لئے تو پھر ہم اس سے بڑھ کر جذبات رکھنے والے ہیں.ہر ظلم جو کسی بھی مسلمان پر ہو ہم اپنے دل پر محسوس کرتے ہیں.اور یہ ظلم جو پاکستان میں ہوا ہے یقینا ہمارے لئے انتہائی تکلیف کا موجب ہے.اور جو ظلم مسلمان دنیا میں کسی کی طرف سے بھی ہو رہا ہے ہمارے لئے تکلیف کا باعث ہے.اور اس تکلیف کا احساس اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب ہم دنیا کو پکار پکار کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان ظلموں کے خاتمے کے لئے اپنے وعدے کے مطابق مسیح موعود کو بھیج دیا ہے جس نے جنگوں اور سختیوں کا خاتمہ کر کے پیار اور محبت کو پھیلا نا تھا.پس اس کی بات سنو تا کہ دنیا میں اسلام کی حقیقی تعلیم کولا گو کرسکوں لیکن اس پکار کے باوجود علماء کہلانے والے سب سے زیادہ ہماری دشمنی میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور جب ایسی صورتحال ہو تو پھر انصاف اور ہمدردی کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور نتیجہ پھر ہر معاشرے میں فتنہ و فسا دہی نظر آتا ہے اور معصوموں کا خون ہوتا ہے اور یہی کچھ ہورہا ہے.کاش کہ مسلمان علماء کہلانے والے اس بات کو سمجھیں اور مسلم امہ کو فرقہ واریت میں ڈال کر تباہ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اسلام کی امن، محبت اور پیار کی تعلیم کو مسلمانوں کے اندر راسخ کریں.جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
خطبات مسرور جلد 12 763 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء فرمایا ہے اور غیر مسلموں میں بھی اسلام کے بارے میں اس غلط تاثر کو زائل کریں کہ اسلام نعوذ باللہ شدت پسندی اور تلوار کا مذہب ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کو یہ عقل آجائے.پاکستان کے لئے اور مسلم ممالک کے لئے بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں امن قائم فرمائے اور حکومتیں بھی اور عوام الناس بھی حقیقی اسلامی قدروں کی پہچان کرنے والے بن سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.شام، عراق، لیبیا وغیرہ میں احمدی ان حالات کی وجہ سے جن میں سے یہ ملک اس وقت گزر رہے ہیں ایک تو وہاں کے شہری ہونے کی وجہ سے اور پھر احمدی ہونے کی وجہ سے بھی تکلیف میں ہیں.ان کے لئے بھی خاص دعا کریں.اللہ تعالیٰ ان کو ان مشکلات سے نجات دے.بعض بڑی کسمپرسی کی حالت میں آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں.دونوں گروہ احمدیوں کے مخالف بنے ہوئے ہیں.کوئی مددبھی ایسے حالات میں نہیں پہنچ سکتی.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنا فضل فرمائے اور رحم فرمائے اور جلد ان لوگوں کو ان تکلیف کے دنوں سے نکالے.نمازوں کے بعد میں کچھ جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا.ایک جنازہ تو ہمارے ایک شہید بھائی کا ہے.مبارک احمد صاحب باجوہ ابن مکرم امیر احمد باجوہ صاحب چک 2 31 ج ب کتھو والی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ہیں.ان کو شہید کیا گیا تھا.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ان کو کچھ نامعلوم افراد نے 26 اکتوبر 2009 ء کو ان کے ڈیرے سے اغوا کر لیا تھا اور ان کے بارے میں اب تک معلوم نہیں ہوسکا تھا.تاہم چند روز قبل گجرات کے ایک علاقے سے گرفتار ہونے والے چند دہشتگردوں نے انکشاف کیا کہ ہم نے کتھو والی کے ایک مبارک باجوہ کو بھی گستاخ رسول قرار دے کر قتل کر کے بھمبر نالہ واقع ضلع گجرات میں گڑھا کھود کر دبا دیا.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اب یہ سارے فتوے دینے والے بھی بن گئے ہیں.مبارک احمد صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذان کے دادا مکرم پیر محمد صاحب کے ذریعے ہوا.انہیں جماعت سے بہت لگاؤ تھا.نہایت دیندار گھرانہ ہے.شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے.شہید مرحوم 1953ء میں پیدا ہوئے.پرائمری تک تعلیم حاصل کی اور زمیندارہ کرتے تھے.شہید مرحوم نہایت ایماندار، نیک دل، نیک سیرت ،شریف النفس اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے.ان کے والد امیر احمد باجوہ صاحب اور بھائی مکرم رشید احمد باجوہ صاحب دونوں یکے بعد دیگرے کتھو والی جماعت کے صدر جماعت بھی رہے.ایک بیٹا ظہور احمد اس وقت بطور قائد مجلس خدمت کی توفیق پا رہا ہے.ان کی اہلیہ شاہد بیگم صاحبہ
خطبات مسرور جلد 12 764 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء کے علاوہ چار بیٹے ظہور احمد منصور احمد اور نصیر احمد اور عتیق احمد ہیں.اسی طرح ان کے دو بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں جو سوگوار ہیں.واقعہ کی کچھ مزید تفصیل اس طرح ہے کہ مبارک احمد باجوہ صاحب اور ان کے غیر از جماعت ملازم سکندر محمود کو جس کی عمر چودہ سال تھی کچھ لوگوں نے 26، 27 اکتوبر 2009 ء کی رات کو آج سے پانچ سال پہلے ان کے ڈیرے سے اغوا کر لیا.اغوا کار دو کاروں پر سوار تھے.چند دن بعد اغوا کاروں نے مذکورہ ملا زم کو ایک موبائل دے کر چھوڑ دیا.پھر اس موبائل نمبر پر تاوان کے لئے رابطہ کیا.دو کروڑ تاوان کی رقم کا مطالبہ کیا گیا جو کم ہو کے دس لاکھ پر آ گیا.اغوا کاروں کی شرط یہ تھی کہ رقم کو ہاٹ یا پارہ چنار پہنچائی جائے.پھر اغوا کاروں سے رابطہ ختم ہو گیا.پولیس بھی کسی نتیجہ تک نہ پہنچ سکی.اب مکرم امیر صاحب ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ نے اطلاع دی کہ ڈی پی اوضلع نے مغوی کے بھائی عزیز احمد باجوہ صاحب کو بلا کر کہا ہے کہ آپ کے بھائی کے بارے میں کچھ معلومات ڈی پی او گجرات کے پاس ہیں ان سے مل لیں.وہ وہاں گئے.ڈی پی او گجرات سے ملاقات ہوئی.تو ڈی پی او گجرات نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان افضل فوجی گروپ ( یہ بھی بہت سارے گروپ وہاں بنے ہوئے ہیں ) کے چند لوگ پکڑے گئے ہیں.جن میں واجد نامی شخص نے مبارک احمد باجوہ صاحب کو اغوا کرنے کے بعد چھریوں سے ذبح کر کے نعش کو بھمبر نالے میں دبانے کا انکشاف کیا ہے.جب عزیز احمد باجوہ صاحب اور دیگر افراد مذکورہ زیر تفتیش واجد نامی شخص سے ملے تو اس نے بھی اس قتل کی تصدیق کی.اس سوال پر کہ کیا کوئی مقامی آدمی بھی اس کے ساتھ تھا تو مذکورہ ملزم نے کہا کہ ساتھ والے گاؤں کا احمد نامی ایک شخص ساتھ تھا جس نے ہمیں مبارک احمد باجوہ مرحوم کے گستاخ رسول ہونے کا بتایا تھا.یہ شخص پہلے عیسائی تھا.بعد میں مسلمان ہو کر تحریک طالبان میں شامل ہو گیا.اس کا والد باجوہ فیملی کا ملازم رہا تھا.اور پھر اس نے یہ بھی بتا یا کہ ہم نے اغوا کیا اور کوٹلی گاؤں میں مسجد کے تہہ خانے میں ان کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا اور پھر ایک دن ہم نے عشاء کی نماز کے بعد ان کو اسی طرح جیسا کہ بتایا گیا ہے گردن پر چھری پھیر کے اور پھر ٹکڑے ٹکڑے کر کے گڑھے میں دبا دیا.تو پولیس اہلکار نے مذکورہ مجرم سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے کہا کہ ہمیں ہمارے کمانڈر کا حکم ہے کہ یہ لوگ گستاخ رسول ہیں لہذا ان کوقتل کر دو اور اس کا حکم ماننا ہمیں ضروری تھا.یہ حال ہے.ابھی بچوں کو قتل کیا تو یہ اب کس پاداش میں کیا.یہ بھی طالبان کا ہی کام ہے.اللہ تعالیٰ مرحوم شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.بہر حال پتا تو لگ گیا پہلے صرف اغوا کی خبر تھی.
خطبات مسرور جلد 12 765 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء دوسرا جنازہ مکرمہ امینہ اوصاف صاحبہ ( کبابیر ) کا ہے جو 12 دسمبر 2014ء کو بقضائے الہی وفات پاگئیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.پیدائشی احمدی تھیں.آپ کے والد مکرم اوصاف صاحب حیفا کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے.آپ کو صدر اور سیکرٹری تبلیغ لجنہ اماءاللہ کہا بیر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی.نہایت عبادت گزار، دعا گو، بہت مہمان نواز بکثرت مالی قربانی کرنے والی تھیں.نیک، مخلص اور صالح خاتون تھیں.دار التبلیغ میں آنے والے مہمانوں کی ضیافت کا خصوصی اہتمام کرتی تھیں.مستورات کو بڑی عمدگی سے تبلیغ کیا کرتی تھیں.مبلغین کے اہل وعیال سے بہت محبت اور حسن سلوک سے پیش آتیں.مسجد محمود کا بیر کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ نے اس کے لئے خطیر رقم ادا کی اور دوران تعمیر کام کرنے والوں کی ضیافت کا بھی انتظام کیا.خلفائے احمدیت سے انتہائی محبت اور عقیدت کا تعلق تھا.بڑی توجہ سے میرے خطبات سنتی تھیں جو یہاں ایم ٹی اے پر نشر ہوتے ہیں.دوسروں کو بھی اس کا خلاصہ سنایا کرتی تھیں.ہر ارشاد پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کے لئے تیار رہتی تھیں.بہت سے بچوں کو قرآن کریم پڑھنا سکھایا.کہا بیر کے تمام احباب ان سے بہت محبت سے پیش آتے تھے.ان کو عمرہ کرنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی.قادیان جانے کی بھی شدید خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر جا کر دعا کروں.تو یہ خواہش بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی پوری فرمائی.بلکہ ایک دفعہ نہیں تین دفعہ جلسہ سالانہ میں آپ کو جانے کی سعادت نصیب ہوئی.مرحومہ موصیہ تھیں اور مکرم محمد شریف عودہ صاحب امیر جماعت کہا بیر اور منیر عودہ صاحب ڈائریکٹر ایم ٹی اے پروڈکشن کی خالہ محترمہ تھیں.منیر عودہ صاحب لکھتے ہیں کہ خالہ امینہ نے اپنی زندگی اسلام احمدیت کی خدمت میں گزاری.انہوں نے اپنے بچوں کی طرح ہماری پرورش کی تھی اور جب میرے والدین کام کے سلسلے میں گھر سے دور جاتے تو وہ ہماری پرورش کرتیں.بر وقت نمازیں پڑھنے پر سختی سے کار بند کیا.جماعت کے اولین وصیت کرنے والوں میں شامل تھیں.آپ کپڑے سینے کا کام کرتی تھیں اور محدود وسائل کے باوجود کسی سے مدد نہیں لیتی تھیں بلکہ خاندان میں بچوں کی تعلیم میں مدد کی.اس طرح مشکلات میں کام آتی تھیں.ان کی شادی نہیں ہوئی تھی.غیر احمدی گھرانوں سے شادی کے پیغامات آئے لیکن آپ نے انکار کر دیا کہ میں احمدی ہوں اور احمدیت پر قائم رہیں اور کبھی شادی نہیں کی.کہتے ہیں کہ وفات کے وقت میں آپ کے قریب موجود تھا اور آپ کے آخری الفاظ لا إلهَ إِلَّا اللہ تھے.وفات سے قبل آپ نے وصیت کی تھی کہ آپ کا تمام مال و اسباب جماعت کے سپر د کر دیا جائے.اسی طرح وہاں جو مشنری انچارج جو ہیں ان کی اہلیہ بشری شمس صاحبہ بھی
خطبات مسرور جلد 12 766 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 دسمبر 2014ء کہتی ہیں کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گہر ا عشق تھا.کہتی ہیں ایک دن دوائی پلا رہی تھیں تو انہوں نے ایک گھونٹ لیا تو میں نے ان کو کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین گھونٹ لینا پسند فرمایا ہے تو یہ سن کر فوراً دو گھونٹ اور پی لئے باوجود یکہ پہلے انکار کر رہی تھیں.تیسرا جنازہ غائب ہوگا مکرم ابراھیم عبد الرحمن بخاری صاحب مصر کا ہو گا جو 13 دسمبر 2014ء کو 63 سال کی عمر میں مصر میں ہی وفات پاگئے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.انہوں نے جوانی کی عمر میں، اٹھارہ سال کی عمر میں 1969ء میں بیعت کی توفیق پائی تھی.ان دنوں جماعت احمد یہ مصر کے صد ر مکرم محمد بسیونی صاحب تھے.مرحوم نے تین خلفاء کا دور دیکھا اور مکرم محمد بسیونی صاحب ، مکرم مصطفی ثابت صاحب اور مکرم حلمی شافی صاحب جیسے ابتدائی احمدیوں کی صحبت سے مستفیض ہوئے.بیعت کے بعد آپ نے باوجود اپنے گھر والوں اور سسرال کی طرف سے ظلم و زیادتی کے عہد بیعت کو پوری استقامت، ہمت اور اخلاص و وفا کے ساتھ نبھا یا حتی کہ آپ کو یہ دھمکی بھی دی گئی کہ میاں بیوی میں علیحد گی کرا دیں گے.اسی طرح آپ کے کام میں بھی کافی پریشانیاں اور روکیں پیدا کی جاتی تھیں.آپ کو اپنا کام جاری رکھنے کے لئے ایک پرمٹ کی ضرورت ہوتی تھی جو احمدیت کی وجہ سے محض تنگ کرنے کی خاطر کافی لیٹ ایشو کیا جاتا تھا جس سے نفسیاتی الجھن کے علاوہ آپ کا کام بھی کافی متاثر ہوتا تھا.اس کے علاوہ بھی مختلف بہانوں سے تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی لیکن آپ نے کبھی کمزوری نہیں دکھائی.اس وجہ سے مالی تنگی کے حالات کے باوجود بڑی با قاعدگی سے چندے اور صدقات وغیرہ دیا کرتے تھے.شادی کے بعد آپ کی اہلیہ نے بھی آپ کی تبلیغ اور نمونہ کو دیکھ کر بیعت کر لی.1988ء میں فیملی کے ساتھ نائیجیریا کا سفر اختیار کیا جہاں جماعتی سکول میں اڑھائی سال تک عربی زبان کے مدرس کی حیثیت سے خدمت کی.نمازوں کی ادائیگی اور چندوں میں با قاعدہ تھے.اور بیماری کے باوجود آخری دنوں میں بھی جمعہ کے لئے باقاعدگی سے آتے تھے.یہاں بھی آتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مخلص انسان تھے.خلافت سے بڑا تعلق تھا.مرحوم نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی عزیزہ مریم اور تین بیٹے عزیزان احمد محمود اور محمد یادگار چھوڑے ہیں جو خدا کے فضل سے سبھی پیدائشی احمدی ہیں.بیٹی شادی شدہ ہے اور امریکہ میں رہائش پذیر ہے.بیٹے احمد اور محمود یو کے میں ہیں.چھوٹا بیٹا اپنی والدہ کے ساتھ مصر میں ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے.مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 09 جنوری 2015 تا 15 جنوری 2015 ، جلد 22 شماره 2 صفحہ 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 767 52 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء خطبه جمع سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ید اللہ تعالی بصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء بمطابق 26 فتح 1393 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج قادیان میں جلسہ سالانہ شروع ہوا ہے.اسی طرح دنیا کے بعض اور ممالک ہیں ، بعض افریقن ممالک ہیں جہاں ان دنوں میں جلسہ سالانہ ہورہا ہے.اور اس وقت وہاں کا بھی یہی وقت ہے.یہ خطبہ ان کے جلسے کے پروگرام کا حصہ ہی بن گیا ہے.ایک وقت تھا کہ قادیان میں صرف جلسہ سالا نہ ہوا کرتا تھا.پھر پارٹیشن ہوئی تو پاکستان میں بھی جلسہ سالانہ شروع ہو گیا.لیکن مخالفین احمدیت اور حکومتوں کو پاکستان میں احمدیوں کا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کر نا سخت ناگوار گزرا جس کی وجہ سے ایک قانون کے تحت جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے اور نام لینے سے روک دیا گیا اور اس پر عمل درآمد کے لئے پاکستان میں جلسوں پر پابندی لگا دی گئی اور یوں جماعت احمدیہ کے پاکستان میں بسنے والے لاکھوں افراد کو اپنے زعم میں ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذکر سے محروم کر دیا.لیکن مخالفین احمدیت یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ظاہری قانونی پابندیاں جسموں کو تو پابند کر سکتی ہیں لیکن دلوں کو نہیں.باوجود جذباتی اذیت کے باوجود مالی نقصان کے باوجود جان کی قربانی لینے کے دشمن احمدیت ہمارے دلوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں چھین سکتا.ہمارے دلوں سے تمام تر تکلیفیں دینے کے باوجود اور نقصان پہنچانے کے باوجود ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں نکال سکتا.ہمارے مخالفین جو بظاہر ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں یہ کلمے سے محبت کا عجیب دعوی کرتے ہیں کہ بجائے اس
خطبات مسرور جلد 12 768 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء بات پر خوش ہونے کے کہ مسلمانوں میں سے ایک فرقہ ایسا بھی ہے جو کلمے کی محبت میں نہ صرف ہر چیز قربان کرنے کا دعویٰ کرتا ہے بلکہ عملاً ثابت بھی کر چکا ہے کہ کلمے کی محبت ان کے بچے بچے کے دل میں راسخ ہے.پھر بھی کلمہ پڑھنے سے روکنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز کوشش کرتے ہیں.مخالفین احمدیت کی احمدیوں کو تکلیف پہنچانے کی کوششوں کو ہر منصف مزاج احمدیت کی مخالفت نہیں بلکہ اسلام کی ہی مخالفت کہے گا.بہر حال جلسے کے حوالے سے پاکستان کے احمدیوں اور پاکستان کے جلسے کا بھی ذکر آ گیا.ہر سال دسمبر کا مہینہ پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کے لئے جلسے کے حوالے سے جذبات میں ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے والا بن کے آتا ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کے یہ جذبات خدا تعالیٰ کے حضور اس طرح ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے ہر مخالفت، ہر تنگی ، ہر مشکل کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں اور پاکستان کے احمدی بھی ان برکتوں سے فیضیاب ہو سکیں جن سے آج دنیائے احمدیت فیض پارہی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ پہلے یہ جلسہ صرف قادیان میں ہوتا تھا پھر قادیان سے نکل کر ربوہ میں شروع ہوا لیکن ربوہ میں پابندیاں لگ گئیں.مخالفین نے تو سمجھا تھا اور حکومت وقت نے بلکہ حکومتوں نے جو بھی وقتی حکومتیں رہی ہیں انہوں نے مخالفین پر ہاتھ رکھ کر یہ سمجھا تھا کہ جماعت احمدیہ پر پاکستان میں پابندیاں لگا کر وہ احمدیت کی ترقی کو روک دیں گے.لیکن ہوا کیا؟ جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے کہ آج ان دنوں میں دنیا کے کئی ممالک میں جلسے ہو رہے ہیں اور دوران سال اپنی اپنی سہولت اور حالات کے مطابق دنیا کے تقریباً تمام ان ممالک میں جلسے ہوتے ہیں جہاں جماعت احمد یہ قائم ہے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قائم کردہ اس جلسے کے نظام نے بین الاقوامی حیثیت اختیار کر لی ہے.گو چند ممالک میں پہلے بھی جلسے ہوتے تھے جب ربوہ میں جلسے ہوا کرتے تھے لیکن اب ان جلسوں کی بھی وسعت کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے اور مزید نئے ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں اور صرف احمدی ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے دنیاوی لیڈر اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بلکہ بعض شریف الطبع مسلمان بھی جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کو ایک ایسی تقریب قرار دیتے ہیں جو دنیا کو اسلام کی حقیقت بتا کر اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرتی ہے.پس یہ نتائج تو نکلنے تھے اور نکل رہے ہیں کہ دنیا کو جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلام کا پتا لگ رہا ہے.دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے پتا چلنا تھا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے جس کے بارے میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے
خطبات مسرور جلد 12 واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ 769 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 281 اشتہار 7 دسمبر 1892ءاشتہار نمبر 91) یعنی یہی جلسہ ہے جس کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کا نام بلند ہونا ہے کیونکہ اس جلسہ میں آنے والے وہ کچھ سیکھیں گے جو ان کی علمی اور عملی حالتوں میں ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہوگا اور پھر یہ علمی اور عملی انقلاب دنیا پر اپنی خوبصورتی ظاہر کر کے دنیا کو اسلام کی خوبصورتی اور اس کے سب سے کامل مکمل اور سب مذاہب سے بالا تر مذہب ہونا ثابت کرے گا کیونکہ صرف انسانی کوششیں ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید یہ کام دکھائے گی.آپ علیہ السلام نے مزید واضح فرمایا کہ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اوہام پرست مخالفوں کا ، نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالف قرآن روایتوں کو ملانے والے.اور خدا تعالیٰ اس امت وسط کے لئے بین بین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا.وہی راہ جس کو قرآن لا یا تھا.وہی راہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی تھی.وہی ہدایت جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے.یہی ہوگا.ضرور یہی ہوگا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے.‘ فرمایا : ”مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 281-282 اشتہار 7 دسمبر 1892 ء اشتہار نمبر 91) پس یہ جلسہ یقینا طبیعتوں میں انقلاب لانے کا ذریعہ ہے اور ہونا چاہئے.دنیا میں جو جلسے ہوتے ہیں ان میں مختلف قو میں شامل ہیں کیونکہ یہ مختلف قوموں کے جلسے ہیں، مختلف ممالک کے جلسے ہیں.افریقہ میں افریقن شامل ہیں.مشرق بعید میں وہاں کے لوگ شامل ہیں.یورپ میں، امریکہ میں بھی بہت سارے لوگ شامل ہو گئے ہیں.عربوں میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کی عملاً تائید فرما دی ہے کہ قومیں تیار ہو کر اس میں مل رہی ہیں.مختلف قو میں مسیح محمدی کی
خطبات مسرور جلد 12 770 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء بیعت میں آ کر اس پیشگوئی کے پورا کرنے کا اعلان کر رہی ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ آج اس وقت قادیان میں جلسہ ہو رہا ہے تو اکتیس (31) ممالک کی نمائندگی ہے.افریقہ کی نمائندگی بھی ہے اور ایشیا کی بھی ، عرب بھی ہیں اور عجم بھی ہیں.امریکہ کی نمائندگی بھی ہے اور یورپ کی بھی.آسٹریلیا کی بھی اور مشرق بعید اور جزائر کی بھی.پس ایک ملک میں جلسے پر پابندیاں لگا کر مخالفین نے سمجھا تھا کہ ہم نے احمدیت کو بڑی کاری ضرب لگا دی.دشمن نادان ہے سمجھتا نہیں کہ امام الزمان ہونے کا اعلان کرنے والے نے ، مسیح محمدی کا اعلان کرنے والے نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں جماعت قائم کر رہا ہوں بلکہ فرمایا تھا کہ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے.پس اگر دشمنان احمدیت میں ہمت ہے تو خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر لیں.لیکن یاد رکھیں کہ مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید ونصرت ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ آپ کو تو اس زمانے میں اپنے دین کی عظمت قائم کرنے کے لئے مامور ہی خدا تعالیٰ نے کیا ہے.پس مخالفت سے پہلے آپ کے اس اعلان پر غور کرنا چاہئے جس میں آپ نے فرمایا.ایک شعر کا ایک مصرع ہے کہ ”اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھے پہ وار براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 133 ) مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ افراد جماعت کو دی جانے والی عارضی تکلیفیں جماعتوں کو ختم نہیں کر سکتیں.چند افراد کو تو نقصان پہنچا سکتی ہیں.اور پھر وہ جماعت جس کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہو اور خود اسے اللہ تعالی نے قائم کیا ہو، کھڑا کیا ہو اس کو یہ کس طرح نقصان پہنچا سکتی ہیں.پس ایک حکومت کیا تمام دنیا کی حکومتیں مل کر بھی دنیا سے جماعت احمدیہ کو نہیں مٹاسکتیں.انشاء اللہ.کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کامل اور مکمل دین کو حقیقی دین کی حقیقی تعلیم کو تمام افراط و تفریط سے پاک کر کے اس اصلی شکل میں قائم کرنا ہے جو ہمارے آقاو مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے.اپنے اس دعوی کے بارے میں کہ جماعت کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ یوں بھی فرمایا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو ختم نہیں کر سکتی.فرماتے ہیں کہ : جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں.اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو پھر اس کی حفاظت تو خود فر شتے کرتے ہیں.کون ہے جو اس کو
خطبات مسرور جلد 12 771 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء تلف کر سکے؟ یا درکھو میر اسلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا.لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقیناً اسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے.یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے.فرمایا کہ اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا.“ ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 148) پس یہ الفاظ ہیں پر شوکت الفاظ ہیں اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر یہ الفاظ پیش کئے گئے ہیں.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دشمن اپنی کوششیں کریں اور سلسلہ کو ختم کرسکیں.لیکن ہمیں بھی یا درکھنا چاہئے کہ ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں.ہم جلسے منعقد کرتے ہیں ، ہم جماعت احمد یہ میں شامل ہوئے ہیں.ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ نہ یہ سلسلہ معمولی سلسلہ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا ہے.نہ یہ جلسے معمولی جلسے ہیں جو آپ نے جاری فرمائے.نہ ایک احمدی کا احمدی کہلا نا معمولی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ہر احمدی پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی کمزور ہیں چلے بھی جائیں گے بلکہ ساری دنیا بھی مجھے چھوڑ دے گی تب بھی خدا تعالیٰ نہیں چھوڑے گا.یہ اس کا وعدہ ہے.پس احمدیوں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.ہر احمدی کی یہ ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت میں حصہ دار بننے کے لئے وہ انقلاب اپنے اندر پیدا کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ماننے والوں میں دیکھنا چاہتے ہیں.پس ہمارا صرف جلسے میں شامل ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.ہمیں ان لوگوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنتے ہیں.لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے جو دعائیں ہیں ان کو حاصل کرنے والے ہوں، ان کے وارث بنیں.کیا ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم جلسے میں شامل ہو گئے.تین چار گھنٹے جلسے کی کارروائی سن لی.نعرے لگا لئے اور بس کام ختم ہو گیا.نہیں.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ ہم سن رہے ہیں یا جس ماحول میں ہم نے ایک جوش پیدا کیا ہوا ہے یہ عارضی ہے یا مستقل ہماری ذمہ داریوں کا حصہ بننے والا ہے.پس اگر یہ اثر جو جلسہ کے دوران ہوا
خطبات مسرور جلد 12 772 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء ہمیں اس عہد کے ساتھ جلسے کی ہر مجلس سے اٹھاتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں وہ انقلاب لانے کی اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بیان فرمائی ہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنتے چلے جانے والے ہوں گے ورنہ تو پھر اللہ تعالیٰ کو یہ کہنے والی بات ہے کہ ہم نے تو کچھ کرنا نہیں.تیری بات تو ہم نے مانی نہیں.اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِى (البقرة:187) کہ میرے حکم کو بھی قبول کرو ( وہ تو ہم نے مانی نہیں) لیکن دعاؤں کا ہم نے وارث بنا ہے.پس جلسے کے ماحول سے اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش اور پھر اس کے حصول کے لئے دعا ہمیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بنائے گی.پس کوشش اور دعا یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بن سکیں.اور پھر یہ وارث بنا کر ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے نوازے گی.اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے کہ میرے حکم کو مانو ، میری بات بھی سنو تو وہ کون سی باتیں ہیں جو ہم نے مانتی ہیں؟ اور وہ باتیں کیا ہیں؟ یہ ہم سب کو پتا ہے کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے وہ احکامات ہیں جو قرآن کریم میں ابتدا سے آخر تک موجود ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے زمانے کے امام کو بھیج کر ان احکامات کی گہرائی اور اہمیت کو ہم پر واضح فرما دیا ہے.پس اس کے بعد ہمارے پاس کوئی عذر نہیں رہ جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے حوالے سے ہی جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کر نے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے.آپ نے جلسے میں شامل ہونے والوں کو نیکی تقویٰ پر ہیز گاری کی طرف توجہ دلانے کے بعد اس طرف بھی توجہ دلائی بلکہ بڑے درد سے اپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھی کہ وہ نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں بھائی چارے میں ایک نمونہ بن جائیں.انکسار دکھانے والے ہوں.ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ رکھنے والے اور سچائی اور راستبازی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں.وہ بدخوئی کرنے اور کج خلقی دکھانے سے دور رہنے والے ہوں.پس اس لحاظ سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ اعلیٰ اخلاق جو ہیں ان میں ہم نمونہ ہیں؟ کیا دوسرے کی خاطر قربانی کرنے میں ہم مثال بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا عاجزی اور انکساری کے ہم میں وہ معیار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور جن کا اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 12 773 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے اور جن کے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ہمارے سامنے پیش فرمائے.اگر نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے ہماری کوشش تو پھر نہ ہونے کے برابر ہے اور توقع ہم بڑی رکھ رہے ہیں.پس دنیا میں جماعتہائے احمدیہ کے جو مختلف جلسے ہیں ان جلسوں میں شامل ہونے والے عموماً اور قادیان کے جلسے میں شامل ہونے والے خاص طور پر کہ مسیح پاک کی بستی میں جلسے میں شامل ہو رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد کو خاص طور پر محسوس کریں جس کا اظہار آپ نے جلسے میں شامل ہونے والوں سے فرمایا ہے.اگر حقیقت میں ہم نے ان دعاؤں کا وارث بننا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ ہمیں مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ہم عام دنیا وی رشتوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ ماں باپ کی قربت اور ان کی دعاؤں سے وہی بچے زیادہ حصہ لیتے ہیں جوان کی ہر بات ماننے والے ہیں، خدمت کرنے والے ہیں ، اطاعت اور فرمانبرداری میں بڑھے ہوئے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو ہمارا رشتہ قائم ہے اس رشتے سے تعلق کے بہترین پھل بھی ہم اسی وقت کھائیں گے جب اپنے تعلق میں بڑھنے والے ہوں گے.جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے دعاؤں کا خزانہ تو ایسا خزانہ ہے جو تا قیامت چلتا چلا جانے والا ہے.پس خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اس سے فیضیاب ہونے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے اپنی جماعت کے افراد سے جو توقعات رکھی ہیں ان کا کچھ اظہار ہوتا ہے.آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے.نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کوسب شئے پر مقدم رکھے.بہت سی ریا کاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 177) پھر آپ نے فرمایا کہ: ”چاہیے کہ تم ہر قسم کے جذبات سے بچو.ہر ایک اجنبی جو تم کو ملتا ہے وہ تمہارے منہ کو تاڑتا ہے اور تمہارے اخلاق، عادات، استقامت، پابندی احکام الہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے ہیں؟ اگر عمدہ نہیں تو وہ تمہارے ذریعہ ٹھو کر کھاتا ہے.پس ان تمام باتوں کو یاد رکھو.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 265)
خطبات مسرور جلد 12 774 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء پھر آپ نے فرمایا کہ : ” قرآن شریف فرماتا ہے.مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ...( المائدة : 33) یعنی جو شخص کسی نفس کو بلا وجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنیا کوقتل کرتا ہے.ایسا ہی میں کہتا ہوں، فرمایا: ”ایسا ہی میں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی.فرمایا: ” زندگی سے اس قدر پیار نہ کرو کہ ایمان ہی جاتارہے.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 352) پھر فرماتے ہیں: ” یہ جماعت جس کو خداتعالی نمونہ بنانا چاہتا ہے اگر اس کا بھی یہی حال ہوا کہ ان میں اخوت اور ہمدردی نہ ہو تو بڑی خرابی ہوگی.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحه (353) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہوسکتی.ہاں خدمتگار کے طور پر تو بیشک ہو سکتی ہے لیکن بطور شریک کے ہر گز نہیں ہوسکتی.یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ جس کا تعلق صافی اللہ تعالیٰ سے ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے.اللہ تعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے“.پھر فرماتے ہیں، یہ سننے والی بات ہے : " ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں.جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اللہ تعالی کی طرف حرکت کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو طاقت دے دیتا ہے." ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 411) پھر آپ نے بڑے درد سے فرمایا کہ : ” ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہئے کہ نری لفاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشا کو پورا کرنے والی ہو.اندرونی تبدیلی کرنی چاہئے.صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے.اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں“.فرمایا: ” اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو.( کوشش کرو).نماز میں دعائیں مانگو.صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا.(العنکبوت :70) میں شامل ہو جاؤ.“ ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 188 ) پس یہ چند نصائح ہیں جو میں نے لی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے روحانی اور اخلاقی معیار کو بلند کرنے کے لئے بے شمار نصائح فرمائی ہیں.ہمیں انہیں سامنے رکھتے ہوئے اپنے میں اور غیر میں ایک واضح فرق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس کے بغیر ہم بیعت کے مقصد کو پورا نہیں کر
خطبات مسرور جلد 12 775 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء سکتے.آپ علیہ السلام نے واضح فرمایا کہ صرف علمی ترقی سے یا مسائل کو جاننے سے یا مسائل کی بحث میں مخالفین کا منہ بند کر کے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے.اتنا کافی نہیں ہے کہ علم حاصل کر لیا.بیشک علمی ترقی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے، اس کے پیار کو جذب کرنے کے لئے عملی ترقی ضروری ہے.اپنی حالتوں کو بدلنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اپنی حالتوں پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے.ان لوگوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا (العنکبوت : 70) یعنی اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ کوشش وہ اپنے نفس کی قربانی سے کرتے ہیں.دعا اور نمازوں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے کرتے ہیں.صدقہ و خیرات دے کر کرتے ہیں اور ہر وہ طریقہ آزماتے ہیں جس سے خدا راضی ہو جائے.تو اللہ تعالیٰ پھر ایسے لوگوں کی اس تڑپ کو دیکھ کر فرماتا ہے کہ لنهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا.کہ ہم ان کو ضرور اپنے راستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے.پس اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے پہلے خود کوشش کرنے کی ضرورت ہے تبھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی دعاؤں کا وارث بننے کے لئے بھی اپنے آپ کو ان دعاؤں کی قبولیت کا حقدار بنانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.پس یہ جلسے ہمیں ان دعاؤں سے حصہ لینے والا ماحول میسر کرتے ہیں.ان میں ہمیں اپنے جائزے لیتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے پانے کے راستوں کو ہم جلد سے جلد طے کر سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.دوسری بات جو قادیان جلسے میں شامل ہیں ان کے لئے میں خاص طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے میں شامل ہونے والوں کو موسم کے لحاظ سے بستر بھی اپنے ساتھ لانے کا فرمایا ہوا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 281 اشتہار 7 دسمبر 1892ء اشتہار نمبر 91) اس لئے ہندوستان میں رہنے والے خاص طور پر جس حد تک اس پر عمل کر سکتے ہیں ان کو کرنا چاہئے بلکہ پاکستانیوں کو بھی.گو کہ اب کچھ حد تک جلسے کے انتظامات کے تحت بستروں کا انتظام تو ہے لیکن مکمل نہیں ہوسکتا.اس لئے ہندوستان سے آنے والوں کو زیادہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ ان کے لئے مکمل انتظام ہو گا.باہر سے آنے والے بھی گرم کپڑے جس حد تک لے جا سکتے ہیں انہیں ہمیشہ لے جانے
خطبات مسرور جلد 12 776 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء چاہئیں اور اب بھی لے کے گئے ہوں گے کیونکہ موسم ٹھنڈا ہے اور موسم کو دیکھتے ہوئے لے گئے ہوں گے.ان کو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بجائے اس کے کہ اس بات کی تلاش کریں کہ ہمیں گرم بستر میسر ہوں اور گرم کمرے اور گرم جگہیں میسر ہوں ان کو رات کو بھی گرم کپڑے پہن کر سونا چاہئے تا کہ پھر شکوہ نہ ہو کہ ہمیں بستر گرم نہیں ملا.رضائی موٹی نہیں ملی.کمرہ بہت ٹھنڈا تھا.اب تو اتنی سردی نہیں پڑتی پہلے تو اس سے زیادہ سردی پڑا کرتی تھی.دنیا میں جو موسم change ہوا ہے تو وہاں بھی موسم بدل گیا ہے.بیشک دھند بہت ہے لیکن سردیوں کا جو ٹمپریچر ہے اس میں بہت فرق پڑ گیا ہے.اس وقت بھی مہمان آتے تھے اور قربانی کر کے رہتے تھے.اصل مقصد تو روحانی ماحول سے فیضیاب ہونا ہے.اپنی عملی حالتوں کی طرف توجہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش کرنی ہے.یورپ سے جانے والے بعض بھی شاید سردی محسوس کریں.کیونکہ یہاں تو گھروں میں ہیٹنگ کا انتظام ہوتا ہے، وہاں نہیں ہوگا یا بعض امیر لوگ جو پاکستان سے گئے ہوئے ہیں ہیٹر اور گرم کپڑوں کے مطالبے کریں، کمروں کے مطالبے کریں تو ان سب کو یادرکھنا چاہئے کہ جلسے کا انتظام جو کچھ بھی مہیا کرتا ہے اس پر صبر اور شکر کریں اور جو کچھیل جائے اس پر الحمد للہ کریں.جماعتوں کو بھی اپنے اپنے ملکوں سے شامل ہونے والوں کو تمام صورتحال بتا کر تیاری کروا کر بھیجنا چاہئے تا کہ تمام صورتحال پہلے ہی علم میں ہو اور شکوے نہ ہوں.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جماعتیں بھی باہر سے بڑا لمبا عرصہ لگا دیتی ہیں اور نمائندوں کی فہرستیں بھی نہیں بھجوا تھیں.اس میں کافی ستی ہے.آئندہ ہمیشہ یاد رکھیں اگر وہاں جلسے پہ بھیجنا ہو تو مرکز کوائف کا جو کچھ مطالبہ کرتا ہے وہ امراء جماعت کا کام ہے کہ مرکز کو مہیا کروائیں.نہیں تو وہاں جا کر پھر ان لوگوں کو دقت پیدا ہوتی ہے.اسی طرح بعض لوگ مطالبات شروع کر دیتے ہیں کہ ہمیں فلاں جگہ ٹھہرایا جائے یا فلاں جگہ ٹھہرایا جائے.گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا جائے ، دار الضیافت میں ہنگر خانے میں یا فلاں جگہ، یہ مطالبے غلط ہیں.اب اس وقت تو جلسے میں شامل ہونے والوں کی حاضری زیادہ نہیں ہوتی.پندرہ سولہ ہزار یا ہیں ہزار تک ہے ان کے مطابق رہائش کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس حد تک سہولت سے انتظام کیا جا سکتا ہے ہوتا ہے اور اچھا انتظام ہوتا ہے.لیکن اگر پھر بھی بعض لوگوں کو اپنی بیماریوں اور بعض اور وجوہات کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے اور عمر کا تقاضا بھی ہے تو پھر بہتر ہے کہ جلسے پر نہ جائیں.جلسے پر آنا اور اس کے ماحول سے فیضیاب ہونا بہر حال تھوڑی سی تکلیف میں سے گزر کر ہی ہوگا.قربانی تو دینی پڑے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باوجود اس کے کہ اپنے مہمانوں کے وہ اعلیٰ معیار قائم کئے جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے پھر بھی جلسے کے
خطبات مسرور جلد 12 777 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء دنوں میں آپ نے خاص طور پر فرمایا کہ سب سے ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے.اس لئے کوئی خاص مطالبے جو ہیں وہ نہیں ہونے چاہئیں.وہاں اور کہیں بھی دنیا میں جہاں جلسے ہوتے ہیں نہیں ہونے چاہئیں.قادیان میں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے رہائش کی بہت سہولتیں ہیں جیسا کہ میں نے کہا.اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو الہام تھا کہ وَشِعُ مَكَانَكَ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 73) اس کے نظارے ہر سال جانے والوں میں نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ رہائش میں وسعت پیدا کرتا چلا جا رہا ہے اور وہاں کی انتظامیہ بھی کوشش کرتی ہے کہ اس کے مطابق جس حد تک جائز سہولتیں دے سکتی ہے دے لیکن پھر بھی جب وسیع پیمانے پر انتظام ہو تو کچھ کمیاں رہ بھی جاتی ہیں.پس ایسے مہمان جو مطالبوں کے عادی ہیں انہیں اگر تکلیف بھی ہو تو پھر بھی انتظامیہ سے تعاون کریں اور جیسا کہ میں نے کہا اس بات پر خوش ہوں اور اس بات کی تلاش کریں کہ ہم نے مسیح پاک کی بستی میں آکر زیادہ سے زیادہ فیض کس طرح اٹھانا ہے اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا دنیاوی آراموں پر نظر رکھنے کی بجائے ان باتوں کی تلاش کریں اور انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند ایک کے علاوہ تمام شاملین جلسہ جو وہاں ہیں یا جب بھی وہ جاتے ہیں اخلاص و وفا کا ایک نمونہ ہوتے ہیں.چاہے وہ روس سے آئیں یا امریکہ سے یا یورپ سے مسیح موعود کی بستی میں جا کر جب وہ اپنے تاثرات لکھتے ہیں تو ان کی ایک عجیب روحانی کیفیت ہوتی ہے.ایک عجیب رنگ ان میں پیدا کر دیتی ہے.پس چند ایک وہ اور ان میں سے وہ جو پرانے احمدی ہیں ان میں سے بھی اگر مجھے کسی سے کچھ شکایت ہے تو ان سے زیادہ ہے.پس ان لوگوں کو جن پر دنیا داری غالب آ رہی ہے انہیں بھی میں کہوں گا کہ ان نئے شامل ہونے والوں کے اخلاق و وفا کو دیکھیں.جلسے میں ہر شامل ہونے والا بجائے ان چیزوں کی تلاش کے اپنے آپ کو اس روحانی ماحول میں ڈبونے کی کوشش کرے.دعاؤں میں وقت گزار ہیں.ان دنوں میں خاص طور پر جہاں اپنے ایمان وایقان کے لئے دعائیں کریں وہاں خاص طور پر جماعت کی ترقی ، خلافت سے وابستگی اور اس تعلق میں بڑھتے چلے جانے کے لئے بھی دعا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت سے جو توقعات وابستہ کی ہیں ان کے حاصل کرنے کے لئے بھی دعا کریں.مومنین کی دعائیں ایک دوسرے کی مددگار ہوتی ہیں.پس جماعت کے لئے ، خلیفہ وقت کے لئے ، ایک دوسرے کے لئے دعائیں کریں تو وہ خود دعا کرنے والوں کو
خطبات مسرور جلد 12 778 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہوں گی.انشاء اللہ.آپ کی دعائیں ان دعاؤں میں حصہ دار بنیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں.جلسہ کے بخیر و خوبی اختتام پذیر ہونے اور دشمن کے ہر شر کے اس پر الٹنے کے لئے بھی دعائیں کریں کیونکہ دشمن کہیں بھی کچھ بھی کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن اور مقصد کو جلد پورا ہوتا دیکھنے کے لئے دعائیں کریں.اپنے رات دن، صبح شام ذکر الہی میں گزاریں.تبھی جلسے میں شامل ہونے کے مقصد کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ جلد ہمیں وہ نظارے دکھائے جب ہم دنیا کو مسیح محمدی کے ساتھ جڑ کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوتا ہوا دیکھنے والے ہوں.نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے ایک سابق مبلغ سلسلہ مکرم احمد شمشیر سوکیہ صاحب کا ہے جو 24 دسمبر 2014ء کو ماریشس میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مئی 1933ء میں آپ پیدا ہوئے.آپ ماریشس کے رہنے والے تھے.آپ کے والد عبدالستار سوکیہ صاحب لمبا عرصہ صدر جماعت رہے.آپ کے دادا عبدالمناف سوکیہ صاحب نے حضرت صوفی غلام محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مبلغ سلسلہ کے ذریعہ بیعت کی تھی.1952ء میں مکرم شمشیر سوکیہ صاحب نے سینئر سکول سرٹیفکیٹ کا امتحان کیمبریج یونیورسٹی سے پاس کیا.53ء میں آپ نے سول سروس میں نوکری شروع کی.1962ء میں جب آپ بطور انسپکٹر انکم ٹیکس کام کر رہے تھے تو رخصت پر زیارت مرکز قادیان اور ر بوہ گئے.ایک لمبا عرصہ سے آپ کی خواہش تھی کہ زندگی وقف کرنی چاہئے.ربوہ پہنچ کر اس خواہش نے اتنا جوش مارا اور وہاں کا ماحول اتنا اچھا لگا کہ آپ نے وہیں سے نوکری سے استعفیٰ کا خط لکھا اور زندگی وقف کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا.6 نومبر 1962ء کو جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخل ہوئے.جولائی 1966ء کو جامعہ سے فارغ التحصیل ہوئے.جامعہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ واپس ماریشس تشریف لائے.یہاں آپ کی شادی اولین احمدی الحاج عظیم سلطان غوث صاحب کی بیٹی سعیدہ سوکیہ صاحبہ سے ہوئی.ابتدائی تقر ر آپ کا ماریشس کے لئے ہوا.اس کے بعد جولائی 1967ء سے ستمبر 1977ء تک آئیوری کوسٹ میں بطور مبلغ خدمت سر انجام دی.بعد ازاں ربوہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد مارچ 1978ء میں دوبارہ آئیوری کوسٹ تشریف لے گئے.اگست 1981ء میں آپ کا تبادلہ آئیوری کوسٹ سے بین ہو گیا اور اپریل 1987 ء تک آپ نے بینن میں خدمات کی توفیق پائی.1987ء میں آپ با قاعدہ سروس سے ریٹائر ہوئے لیکن مختلف حیثیت سے جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے.
خطبات مسرور جلد 12 779 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 دسمبر 2014ء خطبات کے تراجم اور علمی کام کرنے کی آپ کو توفیق ملی.افریقہ میں آپ نے بڑے صبر کے ساتھ مشکل حالات میں خدمت کی توفیق پائی.بین میں آپ نے اپنے والدین کی طرف سے مسجد بھی تعمیر کروائی.آپ کو ماریشس اور روڈرگ جزیرے کے علاوہ قریبی ممالک مڈغاسکر ، جزائر کو مورز اور ری یونین آئی لینڈ میں بھی خدمت کی توفیق ملی.ماریشس میں قیام کے دوران آپ نے لٹریچر کے تراجم اور کتب کی تیاری کے حوالے سے بھر پور خدمات سرانجام دیں.متعدد جماعتی لٹریچر کے فرنچ زبان میں ترجمہ کی توفیق ملی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب کشتی نوح کا فریچ ترجمہ کرنے کی توفیق ملی.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات کے فریج ترجمے کی کیسٹ ریکارڈ کروا کر فرنچ ممالک کو بھجواتے رہے.قرآن کریم کا کریول زبان میں ترجمہ کرنے کی توفیق ملی.نئے شائع ہونے والے فرینچ قرآن کریم کی فائنل چیکنگ اور تصحیح کی توفیق ملی.سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ نے ایک مختصر کتاب لکھی.بڑے بے نفس سادہ اور ریا سے پاک انسان تھے.آپ میں بہت عاجزی تھی بلکہ شروع سے ہی ان میں عاجزی تھی.مجھے یاد ہے ربوہ میں جب پڑھتے تھے تو جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہم اکٹھے ہی ڈیوٹیاں دیتے تھے.انتہائی عاجزی دکھانے والے شخص تھے.ہر ایک کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے اور بڑے بارونق اور خوش مزاج بھی تھے.وفات سے چند ماہ قبل تقریباً ساڑھے چار ہزار یورو خاموشی سے آئیوری کوسٹ میں مسجد کی تعمیر کے لئے دیئے.ایک احمدی کو رقم کی ضرورت تھی تو اس کی فیملی میں سے جب کوئی مدد نہ کر سکا تو آپ کو علم ہوا.فوراً بلا کر خاموشی سے مطلوبہ رقم دے دی.ربوہ کے اساتذہ کا جن سے آپ نے پڑھا بڑی محبت سے ذکر کیا کرتے تھے.علم دوست انسان تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے.ابھی جیسا کہ میں نے کہا نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 16 جنوری 2015 ء تا 22 جنوری 2015 ، جلد 22 شماره 03 صفحه 05 تا 08)
خطبات مسرور جلد 12 اشاریہ خطبات مسرور جلد 12 آیات قرآنیہ احادیث نبویہ صلی لله الی هستم الہامات حضرت مسیح موعود علیه السلام.تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام مضامین اسماء....مقامات کتابیات 3.....7.9 10 21...73 94 110 انڈیکس
خطبات مسرور جلد 12 3 آیات قرآنیہ الفاتحة آیات قرآنیہ رَبِّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ (2-4) 242,239 725 يَاتِيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ (184) 407 شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ (186) 463,423,420 إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے پر اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ یہ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (187) 772.242239 آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور فاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاء كُمْ (201) 206,203 میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اسے دوں گا 723 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ (208) اهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ (6) کی تفسیر 161,160 الآ اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ (215) لا رَيْبَ فِيهِ (5) البقرة فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ (11) صُمٌّ بُكُمْ عُمْنٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (19) 207 326 رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ (251) 329 295 مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَ إِلَّا بِإِذْنِهِ (256) 239,188 عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (21) وَلَا تَشْتَرُوا بِأَيْتِي ثَمَنًا (42) 308 81,272 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمْ (265) 568 آل عمران 239 ربَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ اذْهَدَيْتَنَا (9) 328 410 فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (32) 494,300,299,296 ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ اللَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ (62) 85 لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا (93) وَقُولُو الِلنَّاسِ حُسْنًا (84) اشْرِ بُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ (94) 660,14 608 وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (104) 735،77 201 كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (111) 649,522 311 مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنُسِهَا تَأْتِ بِخَيْرٍ (107) 704 وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ(135)612 بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَةٌ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ (113) 78 ، 207 وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تموت (146-149) أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَا إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ (134) 679 فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ (147) 319 287,285 رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَاسْرَافَنَا (148) 329,319 فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (149) وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (166) 445.201 وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا (170-172) آنَ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِيعًا ( 166 ) 445 صَابِرُوا وَرَابِطُوا (201) 311 79
خطبات مسرور جلد 12 النساء خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (29) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ (60) 445 4 آیات قرآنیہ التوبة اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (4) 727,353 إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللهِ (18) وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ (94) 759 يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ (32) 759,295 رِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ أَكْبَرُ (72) لَسْتَ مُؤْمِنًا (95) وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ (158) 552 يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ عَلَيْهِمْ (98) المائدة الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (4) یونس 295 لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمْرًا مِنْ قَبْلِهِ (17) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ لِلَّهِ (9) 757 الانعام مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ (33) إِذْ كَفَفْتُ بَنِي اسْتَرَائِيلَ عَنْكَ ( 111 ) قَسَتْ قُلُوبُهُمْ (44) فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا (46) كتب رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (55) لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ (104) 411 577 91 273 177 740 وَاللهُ يَدعُوا إِلى دَارِ السَّلْمِ وَيَهْدِي (26) 569 یوسف 774,84 وَلَا تَيْنَسُوا مِنْ رَّوحِ اللهِ (88) الرعد 92 300 176 439 160 إنَّ اللهَ لا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا (12) 439 84 295 لَسْتَ مُرْسَلًا (44) ابراهیم رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي (38) الحجر 250 انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (10) 433 وَهَذَا كِتَب أَنْزَلْنَهُ مُبَارَكَ فَاتَّبِعُوهُ (156) 415 قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهِ (57) 439 الاعراف وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (129) وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (157) 412 440 النحل إنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (91) 207,205,204,203 قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ (159) 295 بنی اسرائیل أمْلِي لَهُمْ اِنَّ كَيْدِى مَتِين ( 184 ) 185 وَإِذَا مَسَّكُمُ الطُّرُ فِي الْبَحْرِ (68) 719 الانفال الكهف يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ (25) 493 فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ (7) وَاطِيْعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا (47) 760 وَالْبقِيتُ الصَّلحت (47) 281 461
خطبات مسرور جلد 12 وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ (59) عبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا أَتَيْنَهُ رَحْمَةٌ (66) 439 102 الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (105) 101 5 الروم آیات قرآنیہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (42) الاحزاب 287 مَنْ كَانَ يَرْجُو القَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ (111) 211 فَبَرَّأَهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِيْمًا (70)175 مریم يس إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ (97) 569 يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمُ (31) الانبياء 504 لَوْ كَانَ فِيْهِمَا الِهَةٌ (23) كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا (70) رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا (90) 238 53 383 الزمر أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (37) قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا (54-55) وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (108) 295 الحج أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ (41-40) 145-146 إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا ( 52 ) المؤمن ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (61) لحم السجدة إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ (74-75) 241 إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ (31) المؤمنون 172 438 740 49 678,320 مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ (25) وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ اله (92) النور اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (36) 300 238 270 وَلَيُمَكِّلَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَطَى لَهُمْ (56) 67 الجاثية إِنَّهُمْ لَن تُغْنُوا عَنْكَ (20) الفتح رُحَمَاء بَيْنَهُمْ (30) 411 758,521,412 كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَأَزَرَهُ فَاسْتَغْلَظ (30) 174 الفرقان يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا (64) النمل 606 الحجرت حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ (8) ق 203 آمَنْ تُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (63) 481,327 العنكبوت نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (17) 269 التريت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ (57) 518,459 وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا (70) 775،774 وَذَكَّرِ فَإِنَّ الذِكرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (56) 510
خطبات مسرور جلد 12 الرحمن كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (30) الحشر 6 آیات قرآنیہ الاعلى 169 بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا (17-18) الغاشية 287 وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمُ (10) 513 أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (18-21) کی تفسیر میں نبوت اور امامت کی اطاعت کا مسئلہ حل کرنا 342 قُلُوبُهُمْ شَقی (15) 566 وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (19-20) 710 الفجر 239 يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (29-28) هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ (23) 241,239 الشمس 383,273,211,81 الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَمُ (24) هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوَّرُ (25) 242,239 قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا (10-11) 275 الصف كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُونَ (4) 79 فِيهَا كُتُبْ قَيْمَةٌ (4) الجمعة هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمين (43) 496,495,352 التغابن وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِانْفُسِكُمْ (17) الطلاق 668 416 البينة الهمزة 295 تارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ (8-7) 83 الماعون فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ (5) الكوثر فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ (3) القصر 359 326 مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (3-4) الجن لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ( 27-28) الدهر 171 إذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ (4.2) اخلاص يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسكينًا ( 9-10 207 سورۃ اخلاص میں چاروں اقسام کے شرک کارڈ التكوير وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ (5) البروج 705 327,68 235 قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ (52) 239,237 الناس رَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ (2-4) وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوحِ (1-12) 473,465 کی تفسیر 293
خطبات مسرور جلد 12 7 احادیث نبویہ ستی شما یہ ماتم احادیث نبویہ صلی اله الله وتم 365 اللَّهُمَّ إِنَّا تَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ سے دلک جاتا تھا حضور صلی اا اینم کسی قوم سے خطرہ پر یہ دعا پڑھتے 329 روزہ ڈھال ہے اور آگ سے بچانے کا مضبوط قلعہ ہے 408 إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ روزہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: روز ہ میری خاطر ہے اور پھر 170 میں ہی اس کی جزا ہوں 408 وَالْأَرْضِ...تَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفتَ وَ مَنْ لَمْ تَعْرِفُ 525 روزه دار روز ہ میں زیادتی کے جواب میں اٹی صائمہ کہے 409 سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ 328 جبریل ہر سال رمضان میں آنحضرت کے ساتھ نازل شدہ قرآن کا دور کرواتے اور وصال کے سال دو دفعہ دور کروایا 422 كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ 493.290 بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تو بہ کی طرف مائل ہونے پر اللہ تعالیٰ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَنِي وَ مَنْ عَلَى أَمِيرِى فَقَدْ عَصَانِي احادیث بالمعنی 345 کا اسکے گناہوں کا بخشا 441 442 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ آج سے شراب مسلمانوں پر حرام کی جاتی ہے 35 حضور صلی للہا یہ اہم کا دوس قبیلے کے متعلق دعا کرنا کہ اے اللہ دوس قبیلے کو ہدایت دے امام تمہاری ڈھال ہے 281 344 اللہ تعالی کی مغفرت کی وسعت ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے روزے رکھنے کی فضیلت 442 حضور علیہ یہ اہم کا بتانا کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئیں گے 466 ایک امت کے تین آدمیوں کا غار میں پھنسنا اور دعا کرنے پر نجات پانا 488 علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.فتنوں کی اور فسادوں کی یہ لوگ آماجگاہ بن جائیں گے 495 عبداللہ بن مسعود صحابی کی حضور صلی سیستم کی اطاعت کی مثال جب سنا کہ بیٹھ جاؤ اسی وقت وہیں بیٹھ گئے 345-346 آپ نے فرمایا کہ مہمان کا تم پر حق ہے اسے ادا کرو 511 حضور سایتم کی مہمان نوازی اور برکت کا واقعہ 512 خلفاء راشدین کے فیصلے اور عمل اور سنت بھی تمہارے لئے قابل ایک صحابی کی مہمان نوازی پر حضور سانی لا الہ الم کا فرمانا کہ تمہاری اطاعت ہیں.ان پر چلو 349 صحابہ کا کسی کی مہمان نوازی کرنے پر آپ سلیم کا چہرہ خوشی رات کی تد بیر سے تواللہ تعالی بھی مسکراد یا 512-513
خطبات مسرور جلد 12 521 8 احادیث نبویہ صلی الا یہ ماتم حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر مسلمان اور ہر نیک مجلس میں بیٹھنے کی فضیلت تین آدمیوں کی مثال 626 سلامتی دینے والا بلا تخصیص محفوظ رہے ایک درہم والے کا لاکھ درہم والے پر سبقت لے جانا 627 منقہ کے سر جتنا بھی تمہارا امیر مقرر کیا جائے تو اس کی بھی حضور سی ٹی ایم کا مستقبل کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی 650 732،548 إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین کہنے پر اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ یہ اطاعت کرو امام مہدی کی تائید میں چاند و سورج گرہن کا نشان 598 آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اسے دوں گا 723 مسیح موعود کے زمانہ کی نشانی کہ مسلمانوں کی مسجدیں آباد تو خالد خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے اور قبیلے کا نمازیوں سے بیشک ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی 598 اگر کسی بدی کو دیکھو اور طاقت ہو تو اسے ہاتھ سے ختم کر دو.اگر ہاتھ سے ختم نہ کر سکو تو زبان سے روکو.اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا مناؤ 617 صرف دنیا دیکھنے کی بجائے عورت کی دینی حالت بھی بہترین نوجوان ہے 737 جنگ میں مشرک کے بچہ کا قتل ہونے پر حضور صلی نیا پینم کا صحابی سے باز پرس کرنا 755 دیکھ لیا کرو 622
خطبات مسرور جلد 12 9 الہامات الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام عربی الہامات أجِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَكَائِكَ السّلامُ عَلَيْكُمْ 683 703 اصْحَابُ الصُّفّةِ وَمَا أَدْرَكَ مَا أَصْحَابُ...91 أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيْبَ فِي شَائِلٍ مِقْيَاسِ 71 أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ 172 إِن لَّمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ فَيَعْصِمُكَ اللهُ...92 وَقَالُوا أَثْى لَكَ هَذَا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرُ.90 74 90 هَذَا شَاهِدٌ نَزَاغ يَا أَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْكَ يَأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ 704 يَأْتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ...562.388 91 يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ 388 اِنَّ الْمَنَايَالَا تَطِيشُ سِهَامُهَا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أنتَ مِلِي وَانَا مِنْكَ إِنَّكَ أَنْتَ الْمَجَارُ بَرقَ طِفْلِي بَشِير 704 704 304 188 189 اردو الہامات آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی آگ سے ہمیں مت ڈراؤ...آئی ایم کو رلر (I am quarreler) جے تو میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں 221 473 74 750 71 تُؤْثِرُونَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا 704 خُذُوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس 291 سُبْحَانَ اللهِ وَبِحمدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم...328 دن ول یو گوٹو امرت سر.Then will you go to Amritsar 71 دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا..زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بنا دے...فَبَراهُ اللهُ مَا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِيها 175 کفن میں لپیٹا گیا فَسَحِقُهُمْ تَسْحِيقًا 330 مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو كَزَرْعَ أَخْرَجَ شَطْأَن فَازَرَة فَاسْتَغْلَط...174 مضمون بالا رہا كَلَامُ أُفْصِحَتْ مِن لَّدُنْ رَبِّ كَرِيمٍ 221,178 178، 221 میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں...نَزَلَتِ الرَّحْمَةُ عَلى قَلبِ الْعَيْن وَعَلَى الْأُخْرَيَيْنِ 703 میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا وَشِعُ مَكَانَكَ 777,364 47 برس کی عمر 45 330 701 703 220 178 108 645 704
خطبات مسرور جلد 12 10 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات و فرمودات جو اس جلد میں مذکور ہیں 220 37 11 را پریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام قبولیت کا نشان ہے ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی 221 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتی تو منع فرما دیتے توحید اس کا نام نہیں کہ صرف زبان سے اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا ( تمباکو نوشی ) الله وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہ لیا 301 اپنے اعمال کو صاف کرو اور خدا تعالیٰ کا ہمیشہ ذکر کرو اور غفلت نہ اُس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ کرو.جس طرح بھاگنے والا شکار جب ذرا سست ہو جاوے تو 244 شکاری کے قابو میں آجاتا ہے 447 وجود کا سجدہ کرتا ہے أَيُّهَا النَّاسُ قَوْمُوا لِلهِ زُرَافَاتٍ وَفُرَادی فرادی اپنے ایمانوں کو وزن کرو عمل ایمان کا زیور ہے 19 230 اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے 613 ثُمَّ اتَّقُوا اللهَ آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے اچھی طرح یا درکھو کہ نری لاف و گزاف اور زبانی قیل و قال کوئی اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے فائدہ اور اثر نہیں رکھتی جب تک کہ اس کے ساتھ عمل نہ ہو 573 آنت مینی تو بالکل صاف ہے اس پر کسی قسم کا اعتراض اور نکتہ اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا حلام 575 چینی نہیں ہو سکتی.میرا ظہور محض اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے ہے أَفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبِّ كَرِيمٍ اور اسی سے ہے الْمَهْدِى 304 230 178 اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ الْمُحَمَّدِى وَإِنِّي أَنَا أَحْمَدُ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے ( مصلح موعود کے متعلق 108 اس زمانے میں زلزلوں اور طوفانوں کی بہت زیادہ تعداد ہوگی 147 آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مسلمان لوگ خدا کے ساتھ بھی بلا اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور غرض محبت نہیں کرتے ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ خدا اپنی خوبیوں اس کے لئے تو میں تیار کی ہیں جوعنقریب اس میں آملیں گی 769 کی وجہ سے محبت کے لائق ہے اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے 770 اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قوی اور محبت صافی تب ہو سکتی ہے اس کی حقیقت سمجھنے کے واسطے یہ یادرکھنا چاہئے کہ ایسا انسان جو نیستی کے کامل درجہ پر پہنچ کر ایک نئی زندگی اور حیات طیبہ حاصل جب اس کی ہستی کا پتہ لگے 202 214 ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے کر چکا ہے 306 ہیں اور بیچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا دعا ؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے 485 اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی ابھی میں نے سرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ ”مبارک“ یہ گویا | تدبیر سے ظلم نہ کرو 761
خطبات مسرور جلد 12 11 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات آئندہ کے لئے یا درکھو کہ حقوق اخوت کو ہرگز نہ چھوڑو، ورنہ حقوق ہے جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور 84 پابند نہیں ہوتے 423 اللہ بھی نہ رہیں گے اس وقت اسلام جس چیز کا نام ہے اس میں فرق آ گیا ہے.تمام اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی اخلاق ذمیمہ بھر گئے ہیں 709 350 اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خدا آتی ہے شناسی اور خدا رسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس اعلیٰ درجے کی خوشی خدا میں ملتی ہے.جس سے پرے کوئی خوشی 165 نہیں ہے 273 سلسلہ کو قائم کیا ہے استعانت کے متعلق یہ بات یا درکھنا چاہئے کہ اصل استمداد کا حق اکہترواں نشان جو کتاب ستر الخلافہ کے صفحہ 62 میں میں نے لکھا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے ہے کہ مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے میں نے دعا کی تھی 189 استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن اگر اختلاف رائے چھوڑ دو اور ایک کی اطاعت کرو یعنی زمانے 716 269 کے امام کی اطاعت 735 شریف میں دو معنے پر آیا ہے اسلام کی ترقی ہم سے کچھ مطالبہ کرتی ہے اور وہ مطالبہ موت کا اگر اسلام کے مولوی اتفاق کر کے اس بات پر زور دیں کہ وہ وحشی مسلمانوں کے دلوں سے اس غلطی کو نکال دیں 758 اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے اگر تم دوسرے لوگوں کی طرح بنو گے تو خدا تعالیٰ تم میں اور مطالبہ ہے 467 269 ان میں کچھ فرق نہ کرے گا 491 بکرے کی طرح رکھ دینا اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصے کئے ہیں.اول حقوق اللہ.دوم اگر کوئی بیعت میں تو اقرار کرتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا حقوق العباد 589 مگر عمل سے وہ اس کی سچائی اور وفاء عہد ظاہر نہیں کرتا تو خدا کو اس 619 اسلام وہ مصفا اور خالص توحید لے کر آیا تھا جس کا نمونہ اور نام ونشان کی کیا پرواہ ہے بھی دوسرے ملعوں اور مذہبوں میں پایا نہیں جاتا 306 اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی اسلام وہی طریق نجات بتاتا ہے جو در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف مایہ ناز ایمان و اعتقاد ہوتے تو ہم قوموں کو شر مساری سے منہ 276 بھی نہ دکھا سکتے 424 سے ازل سے مقرر ہے اسلامی تعلیم کے رُو سے دین اسلام کے حصے صرف دو ہیں.یا اگر یہ معلوم کر لو کہ تم میں ایک عاشق صادق کی سی محبت ہے جس یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تعلیم دو بڑے مقاصد پر مشتمل ہے 589 طرح وہ اس کے ہجر میں، اس کے فراق میں بھوکا مرتا ہے پیاس اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان نہ تو واقعی طور پر گناہ سے نجات سہتا ہے نہ کھانے کی ہوش نہ پانی کی پرواہ پاسکتا ہے 156 212 اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت کا ایمان کمز ور ر ہے 562 اصل یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھا یا اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب وملت کے تم لوگوں
خطبات مسرور جلد 12 سے ہمدردی کرو 283 12 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوت خرچ کرنا یہی ایمان کا ہونا چاہئے طریق ہے 29 274 اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے.اب جو الزمان ہے 409 731 اونٹ سفر کے لئے پانی جمع رکھتا ہے.اس بات سے غافل نہیں جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور نشانات کا یہ سلسلہ جاری رہے ہوتا کہ میں نے ضرورت کے وقت پانی کی کمی کو کس طرح پورا 195 695 کرنا ہے 352 گا جب تک کہ یہ سلسلہ کمال تک نہ پہنچ جائے اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ اپنے بندوں کو کسی قسم کا ایذا نہ پہنچنے دیتا اور ایک دفعہ ایک ہند و صاحب قادیان میں میرے پاس آئے جن کا ہر طرح سے عیش و آرام میں ان کی زندگی بسر کرواتا.ان کی نام یاد نہیں رہا.اور کہا کہ میں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتا ہوں آپ زندگی شاہانہ زندگی ہوتی بھی اپنے مذہب کی خوبیوں کے متعلق کچھ مضمون لکھیں 178 اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی.آپس میں ایک نئی سواری کا نکلنا ہے جو سیح موعود کے ظہور کی خاص نشانی ہے جیسا اخوت اور محبت کو پیدا کرو کہ قرآن شریف میں لکھا ہے وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ 705 ان پیشگوئیوں کو کہ میں تجھے نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ پاک اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و اور پلید میں فرق نہ کرلوں ، اس زمانہ میں ظاہر کر دیا 179 آسمان بنا یا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا 504 انسان جب خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں پڑ کر اپنی تمام ہستی اے لوگو! میں کیا چیز ہوں اور کیا حقیقت؟ جو کوئی مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ در حقیقت میرے پاک متبوع پر جو نبی کریم سالی یا یہ تم ہے، 83 215 کرنا155 107 کو جلا دیتا ہے انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے.اول حملہ کرنا چاہتا ہے بدی سے پر ہیز کرنا.دوم نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا 155 بخوبی یاد رکھو کہ گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان انسان سمجھتا ہے کہ نرا زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کافی ہے یا نرا ہلاک ہو جاتا ہے استغفر اللہ کہہ دینا ہی کافی ہے.مگر یا درکھو زبانی لاف و گزاف براہین احمدیہ میں اس جماعت کی ترقی کی نسبت یہ پیشگوئی ہے کافی نہیں 573 كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَازَرَهُ 275 174 انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے جب اس براہین احمدیہ میں ایک یہ بھی پیشگوئی ہے يَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا تعالیٰ سے وہی عِنْدِهِ وَلَوْ لَمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ 439 175 براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ تجھے عربی زبان میں فصاحت و چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے انسان کی عزت اسی میں ہے اور یہی سب سے بڑی دولت اور نعمت بلاغت عطا کی جائے گی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو 277 177 برائے خدا ناظرین اس مقام میں کچھ غور کریں تا خدا ان کو جزائے
خطبات مسرور جلد 12 13 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات خیر دے ورنہ خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم خدا تعالی کی سچی اور حقیقی محبت قائم کی جاوے 761 تمام سعادت مندیوں کا مدار خداشناسی پر ہے اور نفسانی جذبات نہیں کر چکا 181 بشیر احمد میرالڑکا ( یہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی اور شیطانی محرکات سے روکنے والی صرف ایک ہی چیز ہے جو خدا بات ہے ) آنکھوں کی بیماری سے ایسا بیمار ہو گیا تھا 189 کی معرفت کا ملہ کہلاتی ہے 162 پرستش کی جڑ تلاوت کلام الہی ہے کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا تم اس خدا کے پہچاننے کے لئے بہت کوشش کرو جس کا پانا عین جائے یا سنا جائے تو ضرور سچے محب کے لئے محبت انگیز ہوتا ہے نجات اور جس کا ملنا عین رستگاری ہے 431 216 تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ 29 اور شورش عشق پیدا کرتا ہے پس اس آیت کی رو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا کی دوسرے اُس کو قبول کر لیں پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا کے لئے ہو جانا ہے 518 تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے پس جس وقت تو ہین اور ایڈا کا امر کمال کو پہنچ گیا اور جو ابتلا خدا حقیقی رشتہ دار ہو 270 283 80 کے ارادہ میں تھا وہ ہو چکا تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عز وجل خدائے رحیم و تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے (جلشانہ وعزّ اسمہ ) مجھ کو کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے 433 اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا تو بہ در اصل حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤید چیز ہے 444 تو حید بھی پوری ہوتی ہے کہ گل مرادوں کا معطی اور تمام امراض کا نشان دیتا ہوں 108 پھر بعد اس کے اُس کے وحدہ لاشریک ہونے پر ایک عقلی دلیل چارہ اور مداوا وہی ذات واحد ہو 294 بیان فرمائی اور کہا لو كَانَ فِيمَا الهَةٌ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَ تا 238 توحید کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس پھر یہ امر بھی ہر ایک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھا دے اور اپنے وجود کو اس کی یا وہ اور نا پارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول عظمت میں محو کر دے 427 306 کرنے کے بعد کیسے ہو گئے جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی تبدیلی اور اصلاح کس طرح ہو؟ اس کا جواب وہی ہے کہ نماز اس کے ( یعنی اللہ کے ) غیر سے شراکت نہیں چاہتی 581 سے جو اصل دعا ہے 425 جب اللہ تعالیٰ سے بالکل راضی ہو جاوے اور کوئی شکوہ شکایت نہ 213 تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کے چمکانے اور ہمارے اس سلسلہ کی رہے اس وقت محبت ذاتی بیدار ہو جاتی ہے تائید میں اس قدر کثرت کے ساتھ زور دے رہا ہے پھر بھی ان جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت لوگوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں 599 تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک یہی ہوتی ہے کہ کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا 172
خطبات مسرور جلد 12 14 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات جس خدا کی طرف ہمیں قرآن شریف نے بلایا ہے اس کی اس سے برکت نہ پڑے تب تک مبارک نہیں ہوتا 302 جو لوگ حکام کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور ان سے انعام یا 238 296 نے یہ صفات لکھی ہیں جلسے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب بے شمار لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں خطاب پاتے ہیں.اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی تو بعض ضرورتیں پیدا ہوتی ہیں تو ایسے وقت ایک حقیقی احمدی کا یہ کام عظمت داخل ہو جاتی ہے ہے کہ اپنی ضرورت کو دوسروں کے لئے قربان کرے 523 جو لوگ قادیان میں آتے ہیں.غیر جو آتے ہیں غیر مذہب جلسے کا مقصد صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرنا اور فقط دین کو چاہنا کے لوگ آتے ہیں ان کا آنا بھی نشان ہے کہ کس کس طرح بتایا ہے 357 77 آتے ہیں.711 جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا جہاں بھی تم مسجدیں بناؤ گے اسلام کے تعارف اور تبلیغ کے نئے راستے ہوں کہ تم با ہم اتفاق رکھو کھولتے چلے جاؤ گے.لوگوں کی اسلام کی طرف توجہ ہوگی 579 جوانی اور صحت کی عبادتیں ہی حق ادا کرتے ہوئے ادا کی جاسکتی جہاں دعا کر ووہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑ و 158 ہیں.بڑھاپے میں تو مختلف عوارض کی وجہ سے انسان وہ حق ادا چاہیے کہ تم ہر قسم کے جذبات سے بچو.ہر ایک اجنبی جو تم کو ملتا 608 773 ہی نہیں کر سکتا جو عبادت کا حق ہے ہے وہ تمہارے منہ کو تاڑتا ہے جو بندوں کے حق ادا نہیں کرتا، ان اخلاق کے مطابق اپنا نمونہ چونکہ مدارج قرب اور تعلق حضرت احدیت کے مختلف ہیں 271 نہیں دکھاتا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں جن کا اپنا نا ایک حقیقی طور پر بجز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں 265 مومن کے لئے ضروری ہے تو پھر ایسے لوگ خدا تعالی کا بھی حق ادا خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے.نہیں کرتے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ جو خدا کی تلاش میں استقلال سے لگتا ہے وہ اُس کو پالیتا ہے 160 کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی خاتم الکتب ہو راہوں میں وقف کرے 610 274 425 خدا آسمان وزمین کا نور ہے.یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی 234 165 جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے 84 میں نظر آتا ہے جو قرآن کریم کے سات سو حکموں میں سے کسی ایک حکم کو بھی خدا ایک موتی ہے اس کی معرفت کے بعد انسان دنیاوی اشیاء کو چھوڑتا ہے جان بوجھ کر اس کی طرف توجہ نہیں دیتا 415 ایسی حقارت اور ذلت سے دیکھتا ہے جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اُس کی طرف اور ثبوت کے لئے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں ہوا پودا ہو 770 200 خدا تعالیٰ دھوکا کھانے والا نہیں.وہ انہیں کو اپنا خاص مقرب جو کام ہے خواہ معاشرہ کا خواہ کوئی اور جب تک اس میں آسمان بناتا ہے جو مچھلیوں کی طرح اس کی محبت کے دریا میں ہمیشہ
خطبات مسرور جلد 12 فطرتاً تیرنے والے ہیں 268 15 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں 10 خدا تعالیٰ نے سمجھایا کہ تمام راحت انسان کی خدا تعالیٰ کے دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر قرب اور محبت میں ہے 273 پاک تبدیلی پیدا کرے 490 خدا تعالیٰ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہوسکتا کہ میں رزق دیتا ہوں اپنی دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر و بلند تر ہیں.خدا کے جناب سے متقی کو کے ساتھ پیش آیا کرو 417 762 معاملات ان سے خارق عادت ہیں 428 خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے 14 دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے 660 خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے دنیا میں جس قدر قو میں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا 615 دیتا ہوا اور دعاؤں کو سنتا ہو 163 277 غضب جب کہ افراط تک پہنچ جاویں 49 612 426 خدا شناسی کی طرف قدم جلد اٹھانا چاہئے.خدا تعالیٰ کا مزا اسے دو قو تیں انسان کو منجر بہ جنون کر دیتی ہیں ایک بدظنی اور ایک آتا ہے جو اسے شناخت کرے خدا کی ذات غیب الغیب اور وراء الوراء اور نہایت مخفی واقع ہوئی ہے دوسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہمارے لئے حکم مشہود ومحسوس کا جس کو عقول انسانیہ محض اپنی طاقت سے دریافت نہیں کر سکتیں 244 رکھتا ہے خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے بدکار دیکھو اللہ تعالیٰ نے ایاک نعبد کی تعلیم دی ہے 725 خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسلام قبول کر کے خدا نور ہے جیسا کہ اس نے فرمایا اللهُ نُورُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ 270 دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں 623 خدانہ معمولی طور پر بلکہ نشان کے طور پر کام متقی کو بلا سے بچاتا ہے 215 دیکھو میں سچ کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی آیات کی بے ادبی مت خدا نے مجھے اصلاح کرنے کے لئے مامور کر کے بھیجا اور میرے کرو اور انہیں حقیر نہ سمجھو ہاتھ پر وہ نشان دکھلائے کہ اگر ان پر ایسے لوگوں کو اطلاع ہو 192 دین کے دو ہی کامل حصے ہیں.ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی خدا نے مجھے مامور کیا ہے.خدا نے مجھے بھیجا ہے.وہ دیکھتے کہ کیا نوع سے اس قدر محبت کرنا جس شخص نے اپنا آنا خدا کے حکم سے بتایا ہے وہ خدا کی نصرتیں ڈپٹی عبداللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی ہے جو بہت صفائی سے پوری 562 186 282 705 اور تائید میں بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے یا نہیں ہو گئی ہے اور یہ دراصل دو پیشگوئیاں تھیں خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی سال گزشتہ میں یعنی 11 /اکتوبر 1905ء کو (بروز چارشنبه ) نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا 181 ہمارے ایک مخلص دوست یعنی مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم دشمنوں کے لئے بھی دعا کرو اور ان کے لئے خیر چاہواور انہیں خیر پہنچاؤ 654 اسی بیماری کا ر بنکل یعنی سرطان سے فوت ہو گئے تھے 703 دعا کی مثال ایک چشمہ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے 274 سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہوسکتی 774
خطبات مسرور جلد 12 سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو 613 16 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات فرمایا کہ ایک شخص نے ایک دفعہ روزہ رکھا ہوا تھا تو جب روزہ 302 سردار نواب محمد علی خانصاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبد الرحیم افطار کیا تو پانی پی لیا اور پانی پیتے ہی لیٹ گیا.اس کے لئے پانی خاں ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا تھا 188 نے ہی زہر کا کام کیا سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو صرف مانا فائدہ نہیں کرتا 575 قرآن شریف فرماتا ہے.مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ لو کہ 428 774 سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف فساد ( المائدة : 33).یعنی جو شخص کسی نفس کو بلا وجہ قتل کر دیتا ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ ہے وہ گویا ساری دنیا کو قتل کرتا ہے سورۃ فاتحہ میں جو پنج ۵ وقت فریضہ نماز میں پڑھی جاتی ہے یہی (قرآن میں ) جس قدر خداوند قادر مطلق نے تمام دنیا کے مقابلہ دعا سکھلائی گئی ہے اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 161 پر تمام مخالفوں کے مقابلہ پر تمام دشمنوں کے مقابلہ پر تمام شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ یہی ایک فقرہ منکروں کے مقابلہ پر تمام دولتمندوں کے مقابلہ پر 429 ہے جس سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے 421 قرآن شریف اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس شرکت از روئے حصر عقلی چار قسم پر ہے.کبھی شرکت عدد میں پر عمل کرنے سے اس دنیا میں دیدار الہی میسر آسکتا ہے 211 قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی ہوتی ہے 235 564 صَابِرُوا ورابطوا.جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر رکھا ہے گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے 79 قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہے أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ صحابہ کرام کے حالات کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے نہ گر كَيْفَ خُلِقَتْ (الغاشیہ: 18) یہ آیت نبوت اور امامت کے می دیکھی نہ سردی اپنی زندگی کو تباہ کر دیا مسئلہ کو حل کرنے کے واسطے بڑی معاون ہے صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ قرآن میں ہمارا خدا اپنی خوبیوں کے بارے میں فرماتا ہے.307 170 قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ 343 237 إِنَّ لِمَهْدِينَا أَيَتَيْنِ علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا قرآن کریم کی برکات انسانوں کی طاقت سے بہت برتر ہیں 707 قرآن شریف ایسے زمانہ میں آیا تھا کہ جس میں ہر ایک طرح کی 155 ذریعہ ٹھہرایا ہے علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ضرورتیں کہ جن کا پیش آنا ممکن ہے پیش آگئی تھیں 430 قرآن میں حکم ہے اَطِيْعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ..ذریعہ ٹھہرایا ہے ہو جاتا ہے 167 276 728 عمل صالح بڑی ہی نعمت ہے.خداوند کریم عمل صالح سے راضی اب اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے قرآن شریف تدبر وتفکر و غور سے پڑھنا چاہئے 430 عید اضحی کی صبح کو مجھے الہام ہوا کہ کچھ عربی میں بولو.چنانچہ بہت قرآن مجید ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اس وقت دنیا میں آئی احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی تھی جبکہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے اور بہت سی اعتقادی 220
خطبات مسرور جلد 12 اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں 423 17 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات کی نعمتیں اولا دا حفادر کھتے تھے 82 کچھ عرصہ گزرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی.جس میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا 79 سعادتمندوں کے لئے پیدا کر دی ہے مبارک وہی ہیں جو کچھ عرصہ ہوا...ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں خاص امرتسر میں رہتے ہیں 72 303 587 165 78 ہیں بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظ قرآن ہیں اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ ، ایمان ، عبادت ، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے کشف قبور کا معاملہ تو بالکل بیہودہ امر ہے.جو شخص زندہ خدا سے میں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالی مقدم نہ ہو کلام کرتا ہے اور اس کی تازہ بتازہ وی اس پر آتی ہے 185 جاوے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے ،اس کوئی روزہ دار مولوی کسی کے ہاں جاوے اور اسے مقصود ہو کہ وقت تک کوئی سچا مومن نہیں کہلا سکتا اپنے روزہ کا اظہار کرے تو مالک خانہ کے استفسار پر بجائے اس میں دو ۲ ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی توحید اختیار کرو 77 کے کہ سچ بولے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے میں ان قرآنی برکات کو قصہ کے طور پر بیان نہیں کرتا.بلکہ میں وہ کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا معجزات پیش کرتا ہوں جو مجھ کو خود دکھائے گئے ہیں 707 ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے 215 میں نے تمام مذاہب کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے 155 گناہ پر دلیری کی وجہ بھی خدا کے خوف کا دلوں میں موجود نہ ہونا ہے 157 میں بتلانا چاہتا ہوں کہ پہلے اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے گناہ درحقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ رَبِّ النَّاسِ فرمایا.پھر مَلِكِ النَّاسِ جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پر جوش محبت اور محبانہ یاد مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت الہی سے محروم اور بے نصیب ہو کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں 192 لاف و گزاف کا نام تو حید نہیں.مولویوں کی طرف دیکھو کہ محبت عجیب چیز ہے.اس کی آگ گناہوں کی آگ کو جلاتی اور دوسروں کو وعظ کرتے اور آپ کچھ عمل نہیں کرتے 302 معصیت کے شعلے کو بھسم کر دیتی ہے 431 201 ایک قوت ہے 293 208 201 لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح سے یو نہی بغیر محبت کوئی تصنع اور تکلف کا کام نہیں بلکہ انسانی قوئی میں سے یہ بھی سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں لوگ کہہ دیتے ہیں بعض دفعہ کہ وہاں کفار کے پاس دنیا داروں کے محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے پاس بڑی دولت ہے جو دین سے دور ہٹے ہوئے ہیں 417 اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے 202 لیلتہ القدر انسان کے لئے اس کا وقت آصفی ہے 457 مذہب اسلام کے تمام احکام کی اصل غرض یہی ہے کہ وہ حقیقت میں نے بعض آدمیوں کو دیکھا اور اکثروں کے حالات پڑھے جو لفظ اسلام میں مخفی ہے ہیں جود نیا میں مال و دولت اور دنیا کی جھوٹی لذتیں اور ہر ایک قسم مذہب کی جڑ خداشناسی اور معرفت نعمائے الہی ہے 164 242
خطبات مسر در جلد 12 18 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات مرد کو چاہئے کہ اپنے قومی کو برحل اور حلال موقع پر استعمال کرے 612 میں تو یہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں مصنوعات سے تو انسان کو ایک صانع کے وجود کی ضرورت ثابت فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے ہوتی ہے کہ ایک فاعل ہونا چاہئے 160 277 میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشا پردازی کے وقت معرفت بھی ایک ٹھے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے 159 بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں 93 قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر کرے 430 جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ مؤمن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے اور وہ اپنے عشق میں صادق ٹھہراوے ہوتا ہے 218 520 میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی 283 مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنے رسالہ فتح رحمانی میں جو 1315ھ ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں کو میری مخالفت میں مطبع احمدی لدھیانہ میں چھاپ کر شائع کیا میں نے جو لگا تار روزے رکھے تھے وہ جوانی میں رکھے تھے اور گیا مباہلہ کے رنگ میں میرے پر ایک بددعا کی تھی 176 چالیس سال کے بعد تو ویسے بھی انسان کمزور ہو جاتا ہے.اتنے مومن ایک لا پروا انسان ہوتا ہے.اسے صرف خدا تعالی کی میں رکھ نہیں سکتا تھا 302 516 اعتراض نہیں ہو سکتا 703 283 425 رضامندی کی حاجت ہوتی ہے میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صد ہانشان ظاہر ہوئے 98 مومنوں اور مسلمانوں کے واسطے نرمی اور شفقت کا حکم ہے 761 نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی میر اتو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو 282 عبادت ہے میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی مہمانوں کو آرام دیا جاوے میری تائید میں اس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ آج کی تاریخ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (آل سے جو 16 جولائی 1906 ء ہے اگر میں ان کو فردا فردا شمار عمران : 135) یعنی مومن وہ ہیں جو غصہ کھا جاتے ہیں اور کروں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں 184 لوگوں کے ساتھ عفو اور درگزر کے ساتھ پیش آتے ہیں 612 میرے ماننے والوں کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں 519 وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة : 4 ) اس آیت کے معنی میرے نام پر افراد جماعت سے بیعت لینے والے افراد آتے یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے 496 وَإِنِّي عَلَى مَقَامِ الْخَتمِ مِنَ الْوِلَايَةِ كَمَا كَانَ رہیں گے 344 231 میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھوں کو پاک کرو اور ان کو روحانیت کے طور سَیّدِى الْمُصْطَفى سے ایسا ہی روشن کرو جیسا کہ وہ ظاہری طور پر روشن ہیں 357 وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور
خطبات مسرور جلد 12 19 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات 774 مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور بیعت کے بچے منشا کو پورا کرنے والی ہو نیک نیتی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں 575 ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہئے 103 وہ غیب کی باتیں جو خدا نے مجھے بتلائی ہیں اور پھر اپنے وقت پر ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں اپنے مخالفوں سے باوجود اُن پوری ہوئیں وہ دس ہزار سے کم نہیں کے بغض کے ایک بات میں اتفاق رکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ 89 وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں نے چاہا ہے کہ یہ جماعت گناہوں سے پاک ہو سے الگ ہو گئے پھر استقامت اختیار کی 320 85 ہماری جماعت کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے وہ وقت کہ ایک دو آدمی ہمارے ساتھ تھے اور کوئی نہ تھا اور اب اندر پاک تبدیلی کریں 308 ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور دیکھتے ہیں کہ جوق در جوق آرہے ہیں 562 وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل 233 کرتا ہے 571 586 تمام رحمتوں کا سر چشمہ ہے ہر ایک جو اُس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہماری طرف منسوب ہو کر ہمیں بدنام نہ کرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کر دیتا ہے ہمارے احباب ایسے نہیں کرنے والے ہونے چاہئیں جو دوسروں کو جو کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دیں بلکہ قربانی کرنی چاہئے 514 ہر ایک مامور کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ دل میں ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق 271 711 اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں 246 ڈالا جاتا ہے وہ اس کی مخالفت نہیں کر سکتا ہر شخص کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کرے اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقوی وطہارت میں کہاں تک ترقی 571 کی ہے 416 اس کو بہت سی نیکیوں کا وارث بنائے گا ہر شخص کو ہر روز اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کہاں تک ان امور کی ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب 761 نہیں ہے کہ بھوکا ر ہے 407 پرواہ کرتا ہے ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی یاد رکھو کہ صرف لفاظی اور لسانی کام نہیں آسکتی جب تک کہ عمل نہ ہو 19 بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل یا درکھو نغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت نہیں ہوسکتا ہمارا غالب آنے کا ہتھیار دعا ہی ہے 268 481 773 پوری نہ ہوگی 77 یا درکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان 488 ہماری جماعت اگر جماعت بنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں 611 یا در کھو غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہئے کہ نری لفاظی پر نہ رہے بلکہ یا درکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.موت اختیار کرے
خطبات مسرور جلد 12 20 حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات 171 یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے 432 یہ حدیث ایک غیبی امر پر مشتمل ہے جو تیرہ سو برس کے بعد ظہور یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے.جب تک کثرت سے اور میں آ گیا.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مہدی موعود ظاہر ہوگا بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروانہیں کرتا 725 اس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن تیرھویں رات یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے.جب تک کثرت سے اور کو ہوگا بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا 327 یہ خدا کا فضل ہے جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو ملا اور اس فضل کو یا درکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے.جب تک کثرت سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے 294 بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا 487 یہ سات سو حکم ہیں.اور جو اُن کو نہیں مانتا، ان پر عمل کرنے کی کوشش یا درکھو کہ سارے فضل ایمان کے ساتھ ہیں.ایمان کو مضبوط کر و 10 نہیں کرتاوہ مجھ سے دُور ہورہا ہے یا درکھو کہ صرف لفاظی اور کستانی کام نہیں آسکتی ، جب تک کہ عمل یہ سب اہتمام اس لئے کیا گیا کہ تا جولوگ فی الحقیقة راہ راست کے خواہاں اور جو یاں ہیں ان پر بکمال انکشاف ظاہر ہو جائے کہ نہ ہو 78 582 یا درکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے.جب جوش اور تمام برکات اور انوار اسلام میں محدود اور محصور ہیں 87 یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے لیکن 611 غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی یا درکھو کہ ان معجزات اور پیشگوئیوں کی نظیر جو میرے ہاتھ پر ظاہر ہوئے 710 پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ یعنے قرآن میں تین صفتیں ہیں.اول یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو زندہ اور تازہ بتازہ ہیں 433 467 معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے 424 یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں 282 یقیناً سمجھو.اس دنیا کے بعد ایک اور جہان ہے جو بھی ختم نہ ہوگا 307 یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا یقیناً یاد رکھو کہ گناہوں سے بچنے کی توفیق اس وقت مل سکتی ہے ہوں کہ ٹھیک 1290ھ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز جب انسان پورے طور پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے 159 شرف مکالمہ مخاطبہ پاچکا تھا یہ بات بھی خوب یا د رکھنی چاہئے کہ ہر بات میں منافعہ ہوتا ہے 272 یہ گر کہ اطیعوا اللهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ یہ بات بھی خوب یادرکھنی چاہیے کہ ہر بات میں منافعہ ہوتا ہے 81 منكم ایسا ہے کہ جب تک کوئی قوم اس پر عمل نہیں کرتی 735 یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا یادرکھنی ثبوت نہیں چھوڑے گا 712 ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا 470 یہ جماعت جس کو خدا تعالیٰ نمونہ بنانا چاہتا ہے اگر اس کا بھی یہی یہودیوں میں توحید تو نہیں ہے.ہاں قشر التوحید بے شک ہے 299 حال ہوا 774
خطبات مسرور جلد 12 21 مضامین اللہ تعالیٰ انڈیکس مضامین وامان میں رکھے.اور وہ اس امن اور سکون کو پاسکیں جس کے 506 1 اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے 564 582.581 اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے پہلے سے بڑھ کر اس سال کو لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ اپنی رحمتوں ، فضلوں اور برکتوں کا سال بنا دے.اور یہ دعا ہر والسلام کو بھیجا ہے احمدی کی یقینا ہے اور ہونی چاہئے اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے تمام عہدیدار یا خدمت سرانجام دینے اللہ پر ایمان کا دعوئی اور اس کے تقاضے والے بھی اپنے آپ میں یہ عاجزی، انکساری، اخلاص ، محنت اور مخالفین احمدیت پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کا مشاہدہ 599 دعا کی حالت پیدا کرنے والے ہوں اور پہلے سے بڑھ کر پیدا ہم احمدی ہیں اور ہم نے زمانے کے امام کے ہاتھ پر عہد بیعت کیا ہے کہ ہم اپنے ہر قول وفعل کو خدا کی رضا کے مطابق ڈھالیں ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے کسی دنیاوی لیڈر سے کچھ نہیں کے ہمسر یسر میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگیں گے 724،723 لینا، ہما را انحصار خدا کی ذات پر ہے اللہ تعالیٰ بچوں کے دلوں میں بھی چندوں کی اہمیت ڈالتا ہے 12 بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور نے پیش کیا ہے کرنے والے ہوں تقوی شعاری کا معیار اور محک ہے 2 14 اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور جو فتنہ پرداز اور امن برباد کرنے والے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ جلدی اپنی پکڑ میں لے 86 ظاہری اسباب کا استعمال لیکن ہمارا انحصار صرف خدا کی ذات پر ہے 314 توحید 49 78 خدا تعالی اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے 241 توحید کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں آیت استخلاف میں اللہ تعالی نے مومنوں کے خوف کو امن میں 309-293 325 پر معارف بیان بدلنے کی خوشخبری دی ہے ”مٹی نصر اللہ “ بے چین دل کی آواز نہ که مایوی...326 صفات باری تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خلافت کے فیض سے فیض پانے خدا رحیم و مشفق ہے.اُس نے مسیح موعود کو بھیج کر اس زمانے میں والے وہی بتائے ہیں جو عمل صالح کرنے والے ہیں 352 بھی دنیا کی اصلاح کے سامان کئے ہیں اگر ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اخلاص و وفا کے ساتھ اپنے قرآن کریم میں مذکور بعض صفات باری تعالیٰ کام کرتے رہے تو ان میں سے یا ان کی اگلی نسلوں میں سے لوگ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام اسلام کو سمجھیں گے اور داخل ہوں گے 355 قومی کی تربیت فرمائی ہے 126 247 238 426 اللہ تعالیٰ سب کو ، نہ صرف احمدیوں کو بلکہ دنیا کے ہر فرد کو اپنی حفظ گناہوں سے خوفزدہ لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کا
خطبات مسرور جلد 12 خوبصورت پیغام اور اس کی تفسیر 22 مضامین 438 | کرنے والوں کے اخلاص کو برکت بخشتا ہے اور انہیں قرب میں ہمارا خدا ہمارے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہمیں پیار کرنے والا جگہ دیتا ہے 442 رضائے الہی اور بخشنے والا ہے 628 للہ تعالی تو بہ قبول کر لیتا ہے اور معاف کر دیتا ہے 472 اپنی عملی زندگی میں ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے کی کوشش کرنا 1 کلام الہی اب خدا تعالی کے کلام کو سمجھنا آپ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے 497 ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری عزتیں ہماری بڑائی کسی کو نیچا دکھا نایا اسی طرح ترکی بہ ترکی جواب دینے میں نہیں اور زیادتیوں کا بدلہ 409 معرفت الہی خدائے تعالیٰ کی حقیقت اور معرفت کی بابت حضرت مسیح موعود لینے میں نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے حصول میں ہے کے اقتباسات اور سلیس پر معارف تشریح 234 247 تعلق باللہ خدا تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ آنحضرت کی ذات 243 ، 296 خدا تعالیٰ کے حضور ہمارا خالص ہو کر جھکنا ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے محبت الہی 2 اصلاح اور محبت الہی کی بابت حضرت مسیح موعود کے ارشادات 201 217 ہر احمدی کا کام ، بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اکٹھا کرنا اور خدائے 208 واحد کے آگے جھکانا 3 محبت الہی، سچی محبت کی علامت حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق گنا ہوں کو دور کرنا اور اعمال صالحہ، خدا تعالیٰ کی محبت کے بغیر ممکن نہیں 209 جوڑنا اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے اگر اللہ سے تعلق ہو تو کوئی مشکل نقصان نہیں پہنچا سکتی اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے 212 محبت الہی کے معیار مؤمن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے اور وہ اپنے عشق میں صادق ہوتا ہے اور اپنے معشوق یعنی خدا کے لیے کامل اخلاص اور محبت اور جان فدا کرنے والا جوش اپنے اندر رکھتا ہے 19 80 213 والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے تو بہ کر 83 جب تک خدا سے محبت ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرہ کی کے اس کے حضور میں آتے ہیں حالت میں ہے لیکن جب ذاتی محبت ہو جاتی ہے تو انسان شیطان خدا سے سچا تعلق جوڑ د اور جماعت کے ہمیشہ وفادار ر ہو 104 213 اللہ تعالیٰ کے قرب کی حقیقت، اہمیت اور طریق ، حضرت مسیح موعود کی کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے خدا تعالیٰ کی محبت کے لیے جو اخلاص اور درد ہوتا ہے اور ثابت تحریرات اور حضور انور کی تشریحات کی روشنی میں 265 تا 279 قدمی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے وہ انسان کو بشریت سے احکام الہی الگ کر کے الوہیت کے سایہ میں لا ڈالتا ہے 214 ہم نے برائی اس لئے چھوڑنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول دین کے دو ہی کامل حصے ہیں.ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا نوع سے...ہمارا خدا بڑا پیار کرنے والا خدا ہے...37 282 ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا 410 پابند ہونا ہوگا 39 اللہ تعالیٰ کی نظر دلوں پر ہے اور اللہ تعالیٰ تڑپ کے ساتھ کام اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ انسانوں کی اصلاح ہو اور انسان خدا
خطبات مسرور جلد 12 تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں 23 مضامین 144 | خلافت وہ انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کی طرف سے آنے والی ہر بات اور اس چھین کر نہیں لیا جاتا 499 کی ہدایات ہماری بھلائی اور ہمیں سکھ پہنچانے کے لئے ہیں 458 اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالی رہنمائی فرماتا ہے، خواب یا کسی اور تائید و نصرت ذریعہ سے 555 562 ہر مشکل اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آسان ہوتی چلی جاتی ہے 32 اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے ایمان کو بڑھانے کے لئے حضور انور کا قبول احمدیت کے واقعات بیان کرنے پر امریکہ نشانات ظاہر کر رہا ہے سے کسی کا خط ، خدا تعالیٰ کا نشان دکھانا تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ آباء واجداد 550، 551 پیدائش احمدیوں کو اپنے آباء واجدادکی تاریخ پڑھتے رہنا چاہئے 187 ان واقعات میں مبالغہ نہیں ہوتا آمد تقدیر الہی اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ احمدیت کے قافلے نے انشاء اللہ تعالیٰ لئے غلط سر ٹیفکیٹ جاری کرنے شروع کر دیئے امریکہ میں ہزاروں ڈاکٹروں نے اپنی آمدنیاں بڑھانے کے آگے بڑھتے چلے جانا ہے 561 38 آمد کے حصول کے حلال ذرائع اختیار کریں اور امانت، دیانت کے معیار اونچے کریں ، کونسل کو دھوکہ دے کر Benifit حاصل کرنا 68 فضل الہی اللہ تعالیٰ کے اس لحاظ سے بھی بے شمار فضل ہیں کہ احمدیت کا آئی ایس آئی ایس (isis) پیغام پہنچانے کے نئے سے نئے راستے کھل رہے ہیں 4 طالبان اور isis کے بارہ میں حضور سے سوال اللہ تعالیٰ غیر معمولی طور پر حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے راستے شام میں isis کی وجہ سے ہزاروں لوگ مارے گئے 757 کھول رہا ہے ابتلاء 597 اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر ایک مرتد ہوگا تو وہ اپنے فضل سے ایک ابتلاء اور امتحان کا عرصہ لمبا ہوتے چلے جانے کا اظہار کرنے 8 والے اور اس کا جواب 313 320 جماعت عطا فرمائے گا گزشتہ سال جو چھپن واں سال وقف جدید کا تھا اس میں اللہ ابتلاء جماعتی ترقی کے نئے سے نئے راستے کھول رہا ہے 314 تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں چون لاکھ چوراسی ہزار یہ قربانیاں، یہ امتحان، یہ عارضی ابتلاء ہماری ترقی کی رفتار تیز کرنے پاؤنڈ کی مالی قربانی جماعت نے پیش کی 14 ، 15 والے ہیں نہ کہ مایوسی میں دھکیلنے والے خدائی رہنمائی کے نتیجہ میں سعید روحوں کا قبول احمدیت 196 1974 میں پاکستان میں جماعت احمدیہ پر حالات بڑے احمدیوں کے حق میں خدا کھڑا ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے خطرناک ہو گئے تھے، مظالم ہورہے تھے جو ابتلاء کا دور تھا 394 339 صبر سے کام لو تم زمین کے وارث بنائے جانے والے ہو 411 عہدیدار کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی محنت کی وجہ سے یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلاء آیا کرتے ہیں 693 کچھ ہوا ہے، یہ اللہ کی چلائی ہوئی ہوا ہے 379 | احتجاج ہم خوش ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں بہتر انجام کی الہی جماعتوں دنیاوی طرز کے احتجاجوں پر یقین نہیں رکھتیں اور نہ ہی 412 الہی جماعتوں کی ترقی میں دنیاوی مددکا کوئی کردار یا ہاتھ ہے 313 گا، انشاء اللہ خوشخبری دے رہا ہے
خطبات مسرور جلد 12 24 مضامین دنیاوی احتجاج کر کے ہم اپنے مقاصد حل نہیں کر سکتے 315 | سب سے پہلے تو میں آج آپ کو اور دنیا میں پھیلے ہوئے تمام دنیاوی طریقہ احتجاج جو ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے 325 احمدیوں کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں 1 دنیاوی طور پر قانون کے دائرے میں رہ کر جو احتجاج کرنا احمدیوں کے حق میں خدا کھڑا ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے ہے یا جو کوشش کرنی ہے اس کے بارے میں جرمنی جماعت گا، انشاءاللہ کو ہدایت 413 جماعت سے توقعات اور نصائح 339 امریکہ میں ظلم کے واقعات اور پرزور احتجاج 754 ہر احمدی کا کام بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اکٹھا کرنا اور خدائے احساس کمتری واحد کے آگے جھکانا یورپ میں رہنے والے احمدیوں کو کسی کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ہمارا کام اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہے ضرورت نہیں 379 3 3 جماعتوں کو بار بار درسوں میں ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے اور احمدی بچیوں کو کسی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں 537 عملی حالت بہتر کرنے کے لئے علمی کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے احمدیت ، احمدی 60 توجہ دلانے کی ضرورت 54 اگر ہم بعض معمولی دنیاوی فائدوں کے لئے اپنی دیانت اور امانت نظام جماعت کی طرف سے سزا کا مقصد....احمدیت کے ذریعہ ایک 50 امی کے زیدی ایک عظیم ملی تبدیلی کا القاب اوراس کی کچھ مثالیں 5 55 کے معیاروں کو ضائع کرنے والے بنیں تو ہر ایک شخص جو یہ حرکت جماعت کی ویب سائیٹ کے ذریعہ نیک تبدیلی افریقہ میں احمدیت کی سچائی کے واقعات 101 102 152137 کرتا ہے، جماعت کو بدنام کرنے والا بھی بنے گا 68 حضرت مسیح موعود کی اپنی جماعت کی عملی حالت کے بارہ میں جماعت احمدیہ برطانیہ کے قیام پر سو سال پورے ہونے پر Guild فکر، اقتباسات اور حضور انور کی پر معارف دلنشیں تشریح 75 تا86 Hall میں ایک تقریب اور حضور انور کا خطاب اور اس کی تفصیل، یو کے خدا سے کیا تعلق جوڑو اور جماعت کے ہمیشہ وفادار ہو 104 جماعت نے اس طرح تشہیر نہیں کی...پریس پیغام پہنچانے کا بہت بڑا ذریعہ اور اس ضمن میں جماعت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے ایمان کو بڑھانے کے لئے کو ہدایت......562 اگر سب ایم ٹی اے سے منسلک ہو جائیں اور جماعت کا ہر فرد نشانات ظاہر کر رہا ہے 138 عقائد وتعلیم حضور انور کا BBC سے انٹرویو جس میں آپ نے فرمایا کہ کا تربیتی معیار بہت بلند ہوسکتا ہے اس پر توجہ دینی شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت 498 183 جماعت جو تعلیم دیتی ہے وہ اسلام کی حقیقی تعلیم ہے پیدائشی احمدیوں کو اپنے آباء واجداد کی تاریخ پڑھتے رہنا چاہئے 187 ہمارے غالب آنے کے ہتھیار ، استغفار، تو بہ، دینی علوم کی حضرت مسیح موعود کی اپنی جماعت سے توقعات واقفیت....پانچ نمازوں کو ادا کرنا جماعت احمدیہ کے لئے دعائیں 360 448 پیدائشی احمدیوں کو اپنی حالتیں درست کرنے کی نصیحت 363 سائیلم سیکر ز کونصیحت کہ جماعت کے سفیر بن کر اپنا کر دار ادا کریں 364 اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے پہلے سے بڑھ کر اس سال کو ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ اس کے عملی نمونوں کی طرف لوگوں کی اپنی رحمتوں ،فضلوں اور برکتوں کا سال بنا دے.اور یہ دعا ہر نظر ہے احمدی کی یقینا ہے اور ہونی چاہئے 377 1 | یورپ میں رہنے والے احمدیوں کو کسی کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی
خطبات مسرور جلد 12 ضرورت نہیں 25 مضامین 379 | آپ کی کتب پڑھنے سے افریقہ اور عرب ممالک کے احمدیوں جماعتی انتظامات میں کمزوریوں پر صرف معذرت کرنا کافی نہیں میں روحانی انقلاب کا پیدا ہونا اصل چیز اصلاح اور عملی کوشش....ایک احمدی کی ذمہ داری....تقوی 62 384 جماعت کی ترقی کی بابت حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی اور اس کے ثمرات 174 414 دنیاوی طرز کے احتجاجوں پر یقین نہیں رکھتیں اور نہ ہی الہی جماعتوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر اسلام کی کی ترقی میں دنیاوی مد کا کوئی کردار یا ہاتھ ہے 313 حقیقی تصویر بننے کی کوشش کرنے والے ہوں 418 جرمنی میں مختلف مساجد کا افتتاح اور اسلام کی خوبصورت تعلیم آج اسلام کے خلاف شیطانی قوتوں کا مقابلہ جماعت احمدیہ نے ہی کرنا ہے لوگوں تک پہنچانا 370 419 ہمارے غالب آنے کے ہتھیار ،استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت....پانچ نمازوں کو ادا کرنا آج اسلام کے خلاف شیطانی قوتوں کا مقابلہ جماعت احمدیہ نے ہی کرنا ہے 419 448 بعض ممالک میں احمدیوں کے خلاف شدید حالات اور اس کی برکات 456 صحیح اسلامی اعمال کی تصویر پیش کرنا ہر احمدی کا کام ہے 566 اگر انصاف پسند مسلمان سورۃ البروج پر غور کریں تو احمدیوں پر ہونے والے ظلم اور خاص طور پر ایسے ظلموں کے بارے میں حضور انور کا عبادتوں کی طرف توجہ دلانے پر مخلص احمدیوں کا 607 اپنے علماء ، اپنے لیڈروں، اپنے سیاستدانوں، اپنی حکومتوں کے خوبصورت رد عمل کہ مساجد میں حاضری بڑھنا احمدی معاشرے کی بداخلاقی کو برا سمجھنے اور روکنے کی کوشش 617 رویوں اور احمدیت کی مخالفت میں جو عمل یہ لوگ دکھاتے ہیں اور کرتے ہیں ان کی حقیقت کھل جائے دنیا کو بھلائی کی طرف بلانا اور ہر ایک کی بھلائی چاہنا احمدی کا کام ہے 650 466 مسٹر بر تھا جو کہ ایک جرنلسٹ ہیں ان کا مسجد مریم کی افتاحی تقریب میں شامل ہونا 594 احمدیت کی ترقیات اللہ تعالی کے اس لحاظ سے بھی بے شمار فضل ہیں کہ احمدیت کا پیغام گوجرنوالہ میں احمدیوں کو آگ میں جلانے والا بھیا نک ظلم اور پہنچانے کے نئے سے نئے راستے کھل رہے ہیں خلیفہ اسیح کے دورہ جات کی وجہ سے اسلام کی تعلیم اور جماعت کا تعارف اور برکات، امریکہ، کینیڈا وغیرہ کے دورہ کا ایک جائز 40 ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے دنیا میں میرے دوروں کی وجہ سے اٹھارہ کروڑ چھبیس لاکھ تک احمدیت کا پیغام پہنچا 5 7 اس کی تفصیل 4800466 اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ احمدیت کے قافلے نے انشاء اللہ تعالیٰ آگے بڑھتے چلے جانا ہے اخلاص اور قربانیاں 561 غریب ممالک میں رہنے والے احمدی اپنی اپنی بساط کے مطابق 11 افریقہ میں جماعت کی ترقی سے علماء کا پریشان ہونا غیر معمولی طور پر مالی قربانیاں کر رہے ہیں گزشتہ ایک سال میں افریقہ اور بھارت میں مساجد اور مشن گزشتہ سال میں جو چھپن واں سال تھا اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل ہاؤسز کی تعمیر ہوئی اور کچھ خریدے بھی گئے ہیں، اس کے علاوہ تبلیغی سے وقف جدید میں چون لاکھ چوراسی ہزار پاؤنڈ کی مالی قربانی سرگرمیاں ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں سعید جماعت نے پیش کی 15.14 روحوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کرنے کی اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں نیکیوں اور قربانیوں اور زندگی وقف کرنے توفیق عطا فرمائی 11 والوں کے نمونہ رکھنے والے لوگ 312
خطبات مسرور جلد 12 26 مضامین یہ قربانیاں، یہ امتحان، یہ عارضی ابتلاء ہماری ترقی کی رفتار تیز کرنے ہمیں کوئی فکر نہیں اور نہ ہونی چاہئے آخر کار ان کی تقدیر میں 320 ناکامی اور نامرادی لکھی ہوئی ہے والے ہیں نہ کہ مایوسی میں دھکیلنے والے 10 اخلاص سے بھری ہوئی خواتین بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا اسرائیل کے ایک رہائی کا لندن میں منعقدہ جماعت احمد یہ یوکے کے سوسالہ فرمائی ہیں 604 قیام پر کانفرنس میں شمولیت اور اظہار خیال 141 احمدیوں پر آنحضرت کی تو ہین کا الزام لگانے والوں نے خود احمدیت اور عالمی امن امریکہ کی کمیشن آن انٹر نیشنل ریلیجس فریڈم کی وائس چیئر مین ، آنحضرت کے مقام کو نہیں بچانا اور نتیجہ توحید سے بھی دور ہیں 289 ڈاکٹر کیٹرینا کا بیان کہ جماعت احمد یہ اس بات کا جیتا جاگتا دنیاوی طرز کے احتجاجوں پر یقین نہیں رکھتیں اور نہ ہی الہبی جماعتوں ثبوت ہیں کہ مذہب کا امن، باہمی افہام وتفہیم اور آزادی سے کی ترقی میں دنیاوی مد کا کوئی کردار یا ہاتھ ہے چولی دامن کا ساتھ ہے 313 326 142 حضرت مسیح موعود کے دور سے ہی جماعت پر مظالم ہورہے ہیں 317 وزیر اعظم برطانیہ کا پیغام کہ میں احمدیہ مسلم جماعت کو دنیا میں ایک شیعہ دوست کا کہنا کہ تم احمدی لوگ دنیاوی کوششیں صحیح طور امن کے قیام کے لئے مختلف مذاہب کے نمائندگان کو ایک پلیٹ پر نہیں کرتے گذشتہ خطبہ میں یہ تاثر تھا کہ کسی احمدی نے یہ بات فارم پر اکٹھا کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں 143 کہی ہے ، ان کا دوبارہ خط کہ یہ میری سوچ نہیں تھی بلکہ میرے جماعت احمد یہ الہی جماعت ہے اور الہی جماعتیں دنیاوی حکومتوں یا شیعہ دوست کی تھی اور اس کی وضاحت جماعت احمدیہ ایک امن پسند جماعت ہے جو جہاد کے نام پر جماعت میں منافقین اور حاسدین کا کام اور ان کا سد باب 349 مظلوموں کو قتل کرنے کی مذمت کرتی ہے 338 | 1974 میں پاکستان میں جماعت احمدیہ پر حالات بڑے جرمنی میں مسجد کے افتتاح کے موقع پر غیروں کے تاثرات کہ خطرناک ہو گئے تھے، مظالم ہور ہے تھے جو ابتلاء کا دور تھا 394 جماعت نے ہمیشہ امن کا پیغام دیا 371 تا 377 پاکستان کے ہر شہر اور ہر گلی میں جھوٹ کے پلندوں پر مشتمل احمدیت کی فتح سے ہی دنیا کی بقا وابستہ ہے 484 | احمدیت مخالف اشتہار لگائے جانا مسلم امہ کا چین اور امن احمدیوں کی دعاؤں سے ہوگا 484 حکومت پاکستان کا احمدیوں کی مخالفت میں ہاں میں ہاں ملانا 471 جن ممالک میں احمدیوں پر ظلم ہورہا ہے وہاں کے اکثر شرفاء کی شرافت جماعت احمدیہ کا مالو جماعت کا ماٹو مطمح نظر کیا ہونا چاہئے حضرت مصلح موعود کے زمانہ حضرت خلیفہ ثالث کے بقول گونگی شرافت ہے میں ہونے والی بحث مخالفت/ اعتراضات 285 469 485 تتنزانیہ میں غیر احمدی مسلمانوں کی تنظیم بکواٹا (Bakwata) کی جماعت کی مخالفت 500 تنظیم اخوان المسلمین کا احمدیت کے اسلام سے خارج ہونے کا ساؤتھ افریقہ اور دیگر ممالک میں غیر احمدی مولویوں کی بھاگ فتویٰ اور الہی نشان کہ الازھر نے ان کے خلاف فتویٰ دے دوڑ اور احمدیت کا غیر معمولی نفوذ 9 دیا.....561 مختلف ممالک کے علماء کا سعودی عرب کے خرچ پر سیرالیون جا کر یورپ میں جماعت کا چیریٹیز کو رقم دینے پر ایک اعتراض کا جماعت اور شیعہ احباب کے خلاف لوگوں کو اکسانا 9، 10 جواب جماعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ مخالفت بھی بڑھ رہی ہے جس کی مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ افراد جماعت کو دی جانے والی عارضی 655
27 مضامین 54 خطبات مسرور جلد 12 تکلیفیں جماعتوں کو ختم نہیں کر سکتیں ، ایک حکومت تو کیا تمام اسائیلم سیکر کو نصیحت کہ جھوٹ نہیں بولنا حکومتیں مل کر بھی دنیا سے جماعت احمدیہ کو مٹا نہیں سکتی 770 اسا ئیم سیکرز کو صیحت کہ جماعت کے سفیر بن کر اپنا کر دار ادا کریں 364 اخلاص استغفار 10 اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے تمام عہدیدار یا خدمت سر انجام دینے اس سال کو دعاؤں ، درود اور استغفار سے بھر دیں والے بھی اپنے آپ میں یہ عاجزی، انکساری، اخلاص، محنت اور استغفار اور تسبیح کرو اور اپنی جماعت سے گناہ دور کر دو تو پھر فوج دعا کی حالت پیدا کرنے والے ہوں اور پہلے سے بڑھ کر پیدا در فوج لوگ آئیں گے کرنے والے ہوں 2 استغفار کی فلاسفی 68 208 مؤمن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے اور وہ اپنے عشق میں صادق عہدیداران کو نصیحت کہ استغفار اور درود شریف کثرت سے ہوتا ہے اور اپنے معشوق یعنی خدا کے لیے کامل اخلاص اور محبت پڑھنا چاہئے تا کہ عاجزی قائم رہے اور خدمت کی توفیق صحیح رنگ 213 اور جان فدا کرنے والا جوش اپنے اندر رکھتا ہے میں ملتی رہے خدا تعالیٰ کی محبت کے لیے جو اخلاص اور درد ہوتا ہے اور ثابت استغفار کی دو قسمیں قدمی اس کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے وہ انسان کو بشریت سے الگ کر کے الوہیت کے سایہ میں لا ڈالتا ہے 252 269 214 ہمیں دعاؤں اور استغفار کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے 327 307 اللہ تعالی فرماتا ہے کہ بہت استغفار کرو اگر ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اخلاص و وفا کے ساتھ اپنے مہمان نوازی کے حوالہ سے استغفار کی نصیحت صحابہ کرام کا اخلاص مدد 329 367 کام کرتے رہے تو ان میں سے یا ان کی اگلی نسلوں میں سے لوگ ہمارے غالب آنے کے ہتھیار ،استغفار، تو بہ، دینی علوم کی اسلام کو سمجھیں گے اور داخل ہوں گے اصل چیز اخلاص ہے کثرت نہیں.....355 واقفیت....پانچ نمازوں کو ادا کرنا 448 558 دعا، تضرع، صدقہ، خیرات کرو، زبانوں کو نرم رکھو، استغفار کو اخلاص سے بھری ہوئی خواتین بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا اپنا معمول بناؤ فرمائی ہیں 575 604 تو بہ اور استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے توبہ کا دروازہ اللہ تعالیٰ کی نظر دلوں پر ہے اور اللہ تعالیٰ تڑپ کے ساتھ کام کھلا رکھا ہوا ہے اور ان کی توبہ قبول بھی ہو جاتی ہے کرنے والوں کے اخلاص کو برکت بخشتا ہے اور انہیں قرب میں استعانت اور استمداد جگہ دیتا ہے 609 628 حضرت مصلح موعود کے ارشادات کی روشنی میں حضور انور کی پر یہ جماعت کے افراد کا اخلاص اور قربانی کی روح ہے جس کی وجہ معارف تفسیر سے اللہ تعالی برکت ڈالتا ہے 665 | اسلام اس وقت اسلام میں اخلاص باقی نہیں رہا 709 ہمارا کام اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہے اسائیلم سیکرز 726716 اسلام کو بد نام کرنے کی مذموم کوشش کے خلاف دعا کی تحریک 70 78 یورپ میں اسائیلم لینے والوں کی ایک غلطی اور حضور انور کی خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ 26 اگر تم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت رہنمائی کہ مختصر اور صحیح بات کریں
خطبات مسرور جلد 12 اختیار کرو 28 مضامین 79 | حضور انور کا BBC سے انٹرویو جس میں آپ نے فرمایا کہ 498 ایک غلط فہمی کہ اسلام کے اقتصادی نظام کا نظریہ شاید مودودی جماعت جو تعلیم دیتی ہے وہ اسلام کی حقیقی تعلیم ہے 118 اسلامی تعلیم کے دو بنیادی حصے اور اس کی تشریح وتفصیل 589 صاحب نے پیش کیا تھا....حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر اسلام کی نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے حقیقی تصویر بننے کی کوشش کرنے والے ہوں 418 اندرونی و بیرونی فتنے 624 آج اسلام کے خلاف شیطانی قوتوں کا مقابلہ جماعت احمدیہ نے جس طرح یہودی اور عیسائی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اسی 419 طرح اسلام میں بھی ہیں ہی کرنا ہے 592 دنیا کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی اسلام میں ہی اب دنیا کا امن ہے 507 مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کا فتنہ و فسادجس نے اسلام کے نام سے صحیح اسلامی اعمال کی تصویر پیش کرنا ہر احمدی کا کام ہے 566 خوفزدہ کیا ہوا ہے، آنحضرت رحمۃ للعالمین کی بدنامی کا باعث 649 اس وقت اسلام میں اخلاص باقی نہیں رہا صداقت و فضیلت اسلام کے باہر کوئی مذہب دنیا میں نہیں جس کے پاس خدا کا تازہ نشاۃ ثانیہ کلام اور زندہ معجزات ہوں 709 44 مبلغین سلسلہ کی دنیا بھر میں اسلام کی تعلیم اور اشاعت کے بارہ بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن میں مساعی نے پیش کیا ہے اسلام امن اور سلامتی کا نام ہے اسلام ایک زندہ مذہب ہے 4 49 خليفة خلیفہ مسیح کے دورہ جات کی وجہ سے اسلام کی تعلیم اور جماعت کا کی 97 | تعارف اور برکات، امریکہ، کینیڈا وغیرہ کے دورہ کا ایک جائز 40 129 میڈیا کے ذریعہ سے کروڑوں لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا 5 ایک یہودی کا حضرت عمرؓ سے کہنا کہ ہمیں مسلمانوں سے حسد اللہ تعالی غیر معمولی طور پر حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے راستے ہے کہ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی ایسی بات نہیں جو اسلام کھول رہا ہے کے احکامات میں موجود نہ ہو 6 286 اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں سعید روحوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام تو امن و سلامتی کا مذہب ہے 371، 542,524 ،594 اسلام کو قبول کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اسلام نے بھائی چارے کا ایک تقدس قائم کیا ہے اور جو اس کو اسلام کے احیائے نو کا انقلاب عملی اصلاح تھا پامال کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے تعلیم وعقائد 11 46.45 759 آپ کی پیشگوئیاں جو آپ نے کیں یہ اپنے لئے نہیں بلکہ اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے اور آنحضرت سلام کا مقام ومرتبہ 89 ہمیں بتانے کے لئے یاد نیا کو بتانے کے لئے ہیں اسلام ملکی قانون کی پابندی اور وطن سے محبت کا حکم دیتا ہے 315 جرمنی میں مختلف مساجد کا افتتاح اور اسلام کی خوبصورت تعلیم جلسہ سالانہ، اسلام کے بارہ میں نیک اثرات پیدا کرنے والا تبلیغ لوگوں تک پہنچانا 370 کا ایک بہت بڑا ذریعہ.370 اسلام میں دوران حمل روزہ نہ رکھنے کی حکمت اور طلاق کو نا پسند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر اسلام کی کرنے کی حکمت 455 حقیقی تصویر بننے کی کوشش کرنے والے ہوں 418
خطبات مسرور جلد 12 29 مضامین 658 افریقہ میں ایک مسجد کا افتتاح اور چیف عیسائی کا شامل ہونا کہ میں بھلائی ہی چاہتی ہے دیکھوں یہ کون مسلمان ہیں جو ایک عیسائی کو دعوت دے رہے ہمارے پاس اسوہ رسول صلی یا اینم موجود ہے جس کی اطاعت کرنا ہیں ، اور کہتے ہیں کہ ایسا اسلام اور مسجد وقت کی ضرورت ہے 567 ہم پر فرض کیا گیا ہے ، حضرت مسیح موعود کا اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کے لئے آپ اور آپ کے صحابہ کے عاجزی و انکساری کے اعلیٰ نمونے 758 اللہ تعالیٰ ہم میں دیکھنا چاہتا ہے ایک درد اعتراضات اسیران 738 773 مسلمان مسلمان پر اس قدر ظلم کر رہا ہے اور غیر مسلموں کو اسیران کی بہبود کے لئے صدر صاحب خدام الاحمدیہ پاکستان کی موقع دے رہا ہے کہ اسلام پر اعتراض کریں 69 مساعی و دیگر خدمات قرآن کریم تو ہر اس شخص کے اعتراض کو رڈ کرتا ہے جو آجکل اصلاح کے مسلمانوں کے غلط عمل دیکھ کر اسلام پر کرتا ہے مخالفت 254.253 494 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن اور بعثت کا مقصد صرف عقائد کی اصلاح کرنا نہیں تھا.آپ نے واضح فرمایا ہے کہ بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا اور اعمال کی اصلاح کرنا دشمنان اسلام پارہ پارہ ہو کر ہوا میں اڑ جائیں گے 414 مخالفین اسلام کا ایک نئی مخالفانہ فلم بنانا اور واشنگٹن اور جرمنی کبھی ضروری ہے 19 عملی اصلاح کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کے ارشادات اور ( برلن ) میں چلائے جانے کا پروگرام اور جماعت کا رد عمل 413 حضور انور کی تشریح 300-19 تنظیم اخوان المسلمین کا احمدیت کے اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ اور الہی نشان کہ الازھر نے ان کے خلاف فتوی دے ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا دیا.....اسوه، نمونه 561 پابند ہونا ہوگا بنی نوع انسان سے ہمدردی کے حوالہ سے آنحضرت کا اسوہ ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے 281 آپ کا مبارک وجود کہ جن کے نمونے سے دنیا میں توحید حقیقی قائم ہوئی 288 39 ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی روکوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کرے 20 قوت ارادی اور قوت عملی ہی دو بنیادی چیزیں ہیں جو عملی اصلاح پر اثر انداز ہوتی ہیں 22 دو قسم کی روکیں ہیں جو عملی اصلاح کے راستے میں حائل ہوتی ہیں 24 بعض دفعہ صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان اعمال کی اصلاح آنحضرت صلی نیلم کے اسوہ کی روشنی میں تربیت کی طرف توجہ نہیں کر سکتا دلائی جاتی ہے 361 25 صلاح اعمال کے لئے تین چیزوں کی مضبوطی کی ضرورت ہے 27 رمضان میں قرآن کریم کا ایک دور ختم کرنے کی بابت آنحضرت چودہ سو سال پہلے اصلاح کا جو عمل قوتِ ایمان کی وجہ سے 422 انقلاب لایا، اس کی مثال اس وسیع پیمانے پر دنیا میں اور کہیں نظر کا اُسوہ آنحضرت اور صحابہ کا اسوہ مہمان نوازی 511 نہیں آتی 37 آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے ہم نے دنیا کی خیر اور ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا
خطبات مسرور جلد 12 پابند ہونا ہوگا 30 مضامین 39 جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پر جوش محبت اور محبانہ یاد ہراحمدی کو اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی ضرورت ہے 41 الہی سے محروم اور بے نصیب ہو 209 اصلاح کا پہلا ذریعہ قوت ارادی کی مضبوطی ہے یعنی ایمان جس روح کی راحت اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں انسان فنا ہو کیلئے انبیاء دنیا میں آتے ہیں اسلام کے احیائے نو کا انقلاب عملی اصلاح تھا 44 46.45 ہمارے مربیان اور امراء اور عہدیداران کو اپنے اپنے دائرے میں جائے اس کے احکامات کی پابندی کرے، اطاعت کرے 210 مومن کو صرف خدا تعالیٰ کی رضامندی کی حاجت ہوتی ہے اور 49 اسی کی اطاعت کو وہ ہر دم مد نظر رکھتا ہے 302 اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے عملی اصلاح کے متعلق حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح حضرت مسیح موعود نے اونٹوں کی مثال سے نبوت اور امامت کی موعود کے ارشادات اور واقعات کا بیان اور حضور انور کی اطاعت کے مسئلے کو حل فرمایا پر معارف تشریح 324 58 تا 70 کامل اطاعت کے متعلق حضرت مسیح موعود کے ارشادات اور 60 جبراصلاح کا ایک پہلو ہے جودنیا میں بھی رائج ہے اقتباسات اور حضور انور کی پر معارف تشریح 342 تا358 ہمیشہ نرمی سے سمجھاؤ اور جوش کو ہر گز کام میں نہ لاؤ 84 عہدیداران کو نصائح ، اطاعت کے معیار اعلیٰ سے اعلیٰ کریں جیسے خدا رحیم مشفق ہے.اُس نے مسیح موعود کو بھیج کر اس زمانے میں آنحضرت کے ایک صحابی عبداللہ بن مسعود..126 اطاعت کی اہمیت اور برکات 344 344 بھی دنیا کی اصلاح کے سامان کئے ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ انسانوں کی اصلاح ہو اور انسان خدا آنحضرت کے ایک صحابی عبد اللہ بن مسعودؓ کی اطاعت کی مثال 345 تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں جلسوں کا مقصد بھی عملی اصلاح ہے 144 358 جماعتی انتظامات میں کمزوریوں پر صرف معذرت کرنا کافی نہیں اصل چیز اصلاح اور عملی کوشش....اصلاح کے ذرائع ، نماز ، قرآن شریف پر تدبر کوئی بھی شخص نا قابل اصلاح نہیں اطاعت 384 425 440 اطاعت خلافت اور احترام نظام کے حوالے سے بھی افراد جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے 58 خلیفہ اول کا فرمانا کہ غستال کی طرح اپنے آپ کو امام کے ہاتھ میں دو....346 اطاعت وہی ہے جو فوری طور پر کی جائے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا نمونہ 346 347 یہ غلط سوچ ہے کہ کامل اطاعت نقصان دہ ہے خلافت کی اطاعت کے عہد کو اس لئے نبھانا ہے کہ ایک امام کی سرکردگی میں خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا کے دلوں میں بٹھانے کی مشترکہ کوشش کرنی ہے 347 اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے 66 جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی خلیفہ وقت کی ہرصورت میں اطاعت اور نظام کی فرمانبرداری کی آتی ہے ایک اہمیت ہے اور ہر ایک پر یہ اہمیت واضح ہونی چاہئے 67 مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے در حقیقت تین قسم پر منقسم ہیں 204 | ضرورت ہے 350 350 گناہ درحقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ یا درکھیں عہد بیعت پورا کرنے کے لئے اطاعت انتہائی اہم ہے 350
خطبات مسرور جلد 12 31 مضامین 69 حضرت مولوی شیر علی صاحب کا اطاعت کا مضمون بیان کرنا 350 موقع دے رہا ہے کہ اسلام پر اعتراض کریں اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم ایم ٹی اے پر راوھدگی پروگرام میں حضرت مسیح موعود کے ایک الہام پر نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے 351 اعتراض اور اس کا جواب صحابہ کرام کا اطاعت کا نمونہ اور برکات 71 351 آجکل ہونے والا ایک اعتراض کہ قرآن کی تعلیم اگر یہ ہے تو کامل اطاعت کے نتیجہ میں تمہاری ترقی مشرق میں بھی ہوگی اور مسلمانوں کے عمل اس کے مطابق کیوں نہیں؟ 80 مغرب میں بھی ہو گی، یورپ بھی تمہارا ہوگا اور ایشیا بھی ، امریکہ بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں Love for بھی تمہارا ہوگا اور افریقہ بھی ، آسٹریلیا میں بھی حقیقی اسلام کا جھنڈا 211.یہ کس طرح ہو سکتی ہے 354 جرمنی جلسہ پر بینر لگادیکھ کرکسی کا اعتراض کرنا 203 354 لہرائے گا اور جزائر میں بھی حضور انور کا خلافت کی اطاعت اور وفا پر خطبہ دینا اور دنیا بھر شر پسندوں نے فیس بک پر کسی قابل اعتراض تصویر کو احمدی 369 سے احمدی احباب کا اظہارا خلاص و وفا ڈاکٹر تاثیر صاحب کا عبدالوہاب آدم صاحب کی اطاعت کے بارے میں ایک واقعہ 398 548 خادم مکرم عاقب سلیم صاحب والد مکرم محمد سلیم صاحب کی طرف منسوب کیا 478 قرآن کریم تو ہر اس شخص کے اعتراض کو رڈ کرتا ہے جو آجکل غلط پر 494 اطاعت کے متعلق ایک اہم ہدایت سر والٹ ریلے کا وفاداری اور اطاعت و محبت کے جذبے کی مثال رقم کے مسلمانوں کے غلط عمل دیکھ کر اسلام پر کرتا ہے 622,621 جلسہ جرمنی پر غیر مسلم جوڑے کا اعتراض کی نیت سے شامل ہونا کرتے ہوئے ملکہ کے آگے کوٹ بچھانا اطاعت کی اہمیت و برکات اور اس کے تقاضے 727 738 اور بیعت کر کے لوٹنا تا 524 47 بچے دل سے اطاعت دل میں ایک نور پیدا کرتی ہے 732،731 اقتصادیات آپ کا نپولین کا واقعہ بابت اطاعت اولی الامر بیان فرما نا 733 : 735 دنیا کی معاشی بدحالی کی ایک بنیادی وجہ بنکوں کے سود بیعت کا تو مفہوم ہی اطاعت میں اپنے آپ کو فنا کرنا ہے 735 جولوگ معاشیات میں دلچسپی رکھتے ہیں اُن کو اسلام کے اقتصادی آپ کی بیعت میں آکر اطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُول.....نظام کا مطالعہ کرنا چاہیے کا ایسا نمونہ بنیں جو دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والا ہو 737 امیروں اور غریبوں کے درمیان معاشی فرق خوفناک حد تک ہمارے پاس اسوہ رسول صلی ای ام موجود ہے جس کی اطاعت کرنا ہم پر فرض کیا گیا ہے اعتراض بڑھتا چلا جا رہا ہے 738 الحوار الباشر 118 141 فراس صاحب آف ابوظہبی کا ایم ٹی اے الحوار الباشر اور حضور بعض چینلز پر یا انٹرنیٹ پر مولوی جو اعتراض کرتے ہیں اُن کے کی تحریرات کے متعلق تاثرات جواب اور بعض دفعہ بڑے عمدہ اور احسن رنگ میں جواب ایک السلام علیکم کہنا عام احمدی بھی دے دیتا ہے 45 السلام علیکم کو رواج دینے کی ہدایت 95 525 مسلمان مسلمان پر اس قدر ظلم کر رہا ہے اور غیر مسلموں کو رانا کرامت اللہ صاحب ، مانسہرہ،السلام علیکم کہنے پر پہلا مقدمہ
خطبات مسرور جلد 12 ان پر ہوا تھا امامت، امام 32 مضامین 563 | حضرت مصلح موعود نے بچوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ ان کی اولادیں اور اُن کی اولادیں ابد تک تیری امانت ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو اُس کی تو قعات پر پورا اترنے ہوں جس میں شیطان خیانت نہ کر سکے اور دین کو دنیا پر مقدم کے لئے ہمیں پوری طرح سعی و کوشش کرنی چاہئے 86 | کرنے والی ہوں 97 120 دنیا میں جتنی تنظیمیں ہیں اور انجمنیں ہیں جب قائم ہوتی ہیں تو اپنا یہ بھی الہی معجزہ تھا کہ امام مہدی کو فارسی الاصل پیدا کیا امام مہدی کے ظہور کے متعلق مختلف لوگوں کی خواہیں 194 تا200 اپنا کوئی نہ کوئی مطمح نظر رکھتی ہیں اور اگر سنجیدہ اور امانت کا حق ادا اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس زندہ خدا کا پیغام اس زمانے کرنے والی ہیں تو اس کے حصول کے لئے سنجیدگی سے کوشش بھی 246 کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی اتباع کرتی ہیں تا کہ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کرسکیں 285 میں دنیا کو پہنچانے والے ہوں حدیث میں مذکور تین اشخاص کی مثال جو اپنی نیکیوں کی وجہ ہم نے زمانے کے امام کی بیعت کی ہے جس سے خدا تعالیٰ کے سے بچائے گئے ، ایک کی امانت کا واقعہ 315 امت مسلمہ اطاعت کے مسئلے کو حل فرمایا 490 200 فتوحات کے وعدے ہیں حضرت مسیح موعود نے اونٹوں کی مثال سے نبوت اور امامت کی امت مسلمہ اور مسلم ممالک کے لئے دعا کی تحریک 324 اللہ تعالیٰ دنیا کو اور خاص طور پر عرب مسلمانوں کو عقل اور جرأت اللہ تعالیٰ عوام الناس کو بھی علماء کے چنگل سے نکالے اور یہ دے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرستادے کے پیغام کو سمجھیں اور امت حقیقت کو سمجھیں اور زمانے کے امام کو پہچاننے والے ہوں 341 - مسلمہ کو آج پھر امت واحدہ بنانے میں آنحضرت سلی یا یہ تم کے اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام مسیح اس غلام صادق کے مددگار بنیں موعود اور مہدی موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی 342 نہ لیڈروں میں تقویٰ ہے نہ علماء میں تقویٰ ہے، نوجوان نسل کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام تمہاری ڈھال ہے 344 جذبات کو ابھار کر ظلم کی راہ پر لڑکا یا ہوا ہے ، مسلم امہ کو کوئی خلیفہ اول کا فرمانا کہ غسال کی طرح اپنے آپ کو امام کے ہاتھ سمجھانے والا نہیں میں دو....232 412 346 اگر مسلم امہ حضرت مسیح موعود کی مخالفت کی بجائے مدد گار خلافت زمانے کے امام کو ماننے کے بعد قائم ہوئی ہے 347 ہو جائے تو یہ بے چینیاں ختم ہو جا ئیں اور جہاد کے نام پر فتنہ و اس زمانے کے امام کو مان کر روحانی پانی ہمیں میسر آگیا 352 فساد باہمی محبت اور پیار میں بدل جائے امانت 412 مسلم اللہ کیلئے دعا کی تحریک ان کی وجہ سے غیر مسلموں کو اسلام 413 آمد کے حصول کے حلال ذرائع اختیار کریں اور امانت ، دیانت اور آنحضرت کو بدنام کرنے کا موقع مل رہا ہے 68 مسلم اللہ کو سمجھ لینا چاہئے کہ دجالی طاقتیں بڑے طریقہ سے اور 414 کے معیاراونچے کریں اگر ہم بعض معمولی دنیاوی فائدوں کے لئے اپنی دیانت اور امانت انہیں ایک دوسرے سے لڑا رہی ہیں کے معیاروں کو ضائع کرنے والے بہنیں تو ہر ایک شخص جو یہ حرکت مسلم اللہ کا چین اور امن احمدیوں کی دعاؤں سے ہوگا 484 کرتا ہے، جماعت کو بدنام کرنے والا بھی بنے گا 68 پس ایک مؤمن کی نشانی یا امت مسلمہ کا فرد ہونے کی نشانی یہ ہے کہ
خطبات مسرور جلد 12 33 مضامین منعقده نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور بدی سے روکنے والے ہوں 522 جماعت احمد یہ یو کے کے سو سال پورے ہونے پرم تقریب میں حضور کا خطاب اور غیروں کے تبصرے کہ آپکا پیغام امن 152147 یہ جبر حکومتی قوانین میں بھی لاگو ہے.سزائیں بھی ملتی ہیں، جیلوں میں امن کا پیغام ہے بھی ڈالا جاتا ہے، جرمانے بھی ہوتے ہیں، بعض دفعہ مارا بھی جاتا ہے.حقیقی امن تبھی قائم ہوگا جب خدا کے بھیجے ہوئے مہدی کو قبول 60 کریں گے 200 اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میں امن رہے اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور جو فتنہ پرداز اور امن جب تک خدا سے محبت ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرہ کی بر باد کرنے والے ہیں ان کواللہ تعالی جلدی اپنی پکڑ میں لے 86 حالت میں ہے لیکن جب ذاتی محبت ہو جاتی ہے تو انسان شیطان 97 کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے 213 اسلام امن اور سلامتی کا نام ہے سیاسی لیڈر اور دیگر نظام دنیا میں امن قائم کرنے میں کامیاب خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم نہیں ہو سکے 139 کرنے والا ہے 241 بدھ مت کے رہنما دلائی لامہ کا امن کے بارے حج اس شخص پر فرض ہے جس کو استطاعت ہو اور جس کا راستہ پر میں پیغام 140.139 141 امن ہو 298 316 کارڈینل پیٹرٹرکسن جو پوپ کی کیبنٹ کے پریذیڈنٹ ہیں کا اسلام تو امن وسلامتی کا مذہب ہے 594،542،524،371 بیان کہ دنیا بھر سے مختلف مذاہب کے نمائندگان اکٹھے ہو کر دنیا دنیا کے لیڈروں اور پریس کو پیغام کہ امن قائم کرنا ہے تو انصاف کو قائم کرو اور ڈبل سٹینڈرڈ ز نہ بناؤ میں امن کے قیام کے لئے بات کر رہے ہیں امریکہ کی کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم کی وائس چیئر مین ، آیت استخلاف میں اللہ تعالی نے مومنوں کے خوف کو امن میں بدلنے کی خوشخبری دی ہے ڈاکٹر کیٹرینا کا بیان کہ جماعت احمدیہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ مذہب کا امن، باہمی افہام و تفہیم اور آزادی سے جرمنی میں مسجد کے افتتاح کے موقع پر غیروں کے تاثرات کے 142 جماعت نے ہمیشہ امن کا پیغام دیا چولی دامن کا ساتھ ہے 325 377 371 506 وزیر اعظم برطانیہ کا پیغام کہ میں احمدیہ مسلم جماعت کو دنیا میں مسلم اللہ کا چین اور امن احمدیوں کی دعاؤں سے ہوگا 484 امن کے قیام کے لئے مختلف مذاہب کے نمائندگان کو ایک پلیٹ اللہ تعالیٰ سب کو ، نہ صرف احمدیوں کو بلکہ دنیا کے ہر فرد کو اپنی حفظ فارم پر اکٹھا کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں 143 وامان میں رکھے.اور وہ اس امن اور سکون کو پاسکیں جس کے فتح مکہ کے موقع پر آنحضور سان لیا کہ ہم نے ہر ایک کا فر کو بھی امن سے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ قانون کے دائرے کے اندر رہنے کی شرط پر معاف فرما دیا 145 والسلام کو بھیجا ہے آنحضور مسی شما پیام کی جنگیں امن کے قیام کے لئے تھیں 146 دنیا کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی اسلام میں ہی اب دنیا کا امن ہے 507 یورپین کونسل فار ریلیجس لیڈرز کے جنرل سیکرٹری نے جماعت حقیقی مسلمان سے نہ صرف اپنے بلکہ دوسرے مذہب کے ماننے والے بھی امن اور سلامتی میں رہتے ہیں یو کے کی منعقدہ تقریب میں کہنا کہ سب کا یہ تسلیم کرنا کہ ہم سب امن کے خواہاں ہیں ایک بہت بڑی کامیابی ہے 522 148 جلسہ یو کے کے موقع پر مہمانوں کے جلسہ کے پر امن ہونے کے
خطبات مسرور جلد 12 بارے میں تاثرات انٹرویو 34 546-530 | سے بچائے گئے مضامین 490 قرآن کریم کہتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں نا انصافی پر جاپان کا ایک اخبار کا جس کی سرکولیشن بیس ملین یا دو کروڑ اس کا مجبور نہ کرے حضور انور کے انٹرویو لینا اور خبر شائع کرنا میڈیا والے انصاف سے کام نہیں لیتے 494 498 آسٹریلیا میں حضور انور کے انٹرویو کے سلسلہ میں خدائی تائید کا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سچائی کا ایسا معیار ہواور انصاف کا ایسا معیار 5،4 ہو کہ اگر اپنے خلاف یا اپنے پیاروں کے خلاف بھی بات جاتی ہو نشان حضور انور کا ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کہ جس خلافت کو تم سمجھ رہے تو کرو ہو یہ کوئی خلافت نہیں وہ جاری ہو چکی.523 413 قیمن کی دشمنی بھی تمہیں عدل اور انصاف کرنے سے نہ رو کے 523 حضور انور کا BBC سے انٹرویو جس میں آپ نے فرمایا کہ اگر اپنی عاقبت اور دنیا سنوارنی ہے تو دشمن سے بھی انصاف کا جماعت جو تعلیم دیتی ہے وہ اسلام کی حقیقی تعلیم ہے 498 سلوک کرنے کا حکم 758 اوان بار تو لوصاحب ، مالٹا کے ایک صحافی کا حضورانور کا انٹرویولین 55 انفاق فی سبیل اللہ ( مزید دیکھیں چند ) آئرلینڈ کے نیشنل اخبار آئرش ٹائمز کا حضور انور کا انٹرویو لینا 598 غریب ممالک میں رہنے والے احمدی اپنی اپنی بساط کے مطابق انصاردین، فرقه غیر معمولی طور پر مالی قربانیاں کر رہے ہیں 11 14 بورکینافاسو، بنفورا ریجن کی ایک جماعت نیا کارا مالی قربانی کے متعلق حضرت مسیح موعود کا ارشاد (Niankara) کے گاؤں میں لوگوں کا احمدیت قبول کرنا اور پاکستان کے حالات کے باوجود جماعت احمدیہ پاکستان کا اس پر فرقہ انصار دین والوں کا زور لگانا کہ ہمارے فرقہ میں قربانیوں میں نمایاں کردار شامل ہوں انصاف 15 8 گزشتہ سال جو چھپن واں سال وقف جدید کا تھا اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں چون لاکھ چوراسی ہزار 15.14 خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ بچے انصاف پر چل رہا ہے 241 پاؤنڈ کی مالی قربانی جماعت نے پیش کی میں اکثر جب مختلف لیڈروں اور پریس کو یہ کہتا ہوں کہ امن قائم کرنا انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور احمدی احباب کی مالی قربانی کے 676660 673 ہے تو انصاف قائم کرو اور ڈبل سٹینڈرڈ نہ بناؤ تو اکثر اس بات کا ایمان افروز نظاروں کا بیان اعتراف کرتے ہیں کہ اس بات کی ہمارے اندر کی ہے 315 ایم ٹی اے اگر انصاف پسند مسلمان سورۃ البروج پر غور کریں تو احمدیوں پر گھانا کے سرکاری ٹی وی نے ایم ٹی اے کے پروگرام دینے ہونے والے ظلم اور خاص طور پر ایسے ظلموں کے بارے میں شروع کئے ہیں 6 71 98.97 اپنے علماء، اپنے لیڈروں، اپنے سیاستدانوں، اپنی حکومتوں کے ایم ٹی اے پر راہ ھدیٰ پروگرام میں حضرت مسیح موعود کے ایک رویوں اور احمدیت کی مخالفت میں جو عمل یہ لوگ دکھاتے ہیں اور الہام پر اعتراض اور اس کا جواب کرتے ہیں ان کی حقیقت کھل جائے حدیث میں مذکور تین اشخاص کی مثال جو اپنی نیکیوں کی وجہ ایم ٹی اے پر بعض پروگرام بعض لوگ دیکھتے بھی نہیں 138 466 عبیات صاحب کا ایم ٹی اے دیکھ کر بیعت کرنا
خطبات مسرور جلد 12 35 مضامین جماعت احمد یہ یو کے نے برطانیہ میں جماعت کے سو سال مکمل حالت میں ہے لیکن جب ذاتی محبت ہو جاتی ہے تو انسان شیطان ہونے پر ایک تقریب منعقد کی جو ایم ٹی اے پر نشر ہوئی ، حضور کا کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے 213 اس کو دیکھنے کا ارشاد ایم ٹی اے کے ذریعہ مسیح موعود کا پیغام دنیا بھر میں جانا 181,174 عیسائیوں کا پہاڑوں کی غاروں میں چھپ کر اپنے ایمان کو محفوظ 138 خلافت رابعہ میں مرکزی شعبہ سمعی بصری کا قیام عمل میں آیا 262 ایم ٹی اے کی اہمیت 183 رکھنا....503 اگر سب ایم ٹی اے سے منسلک ہو جا ئیں اور جماعت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے ایمان کو بڑھانے کے لئے اس پر توجہ دینی شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نشانات ظاہر کر رہا ہے کا تربیتی معیار بہت بلند ہوسکتا ہے 183 562 اللہ تعالیٰ نے ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ جوڑ کر مشروط کیا اور یہ حالت پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء بھی بھیجتا ہے 566 الطبيب الفرح صاحب ایک مراکشی احمدی کا سپین کے علاقہ مرسیا سے نیک نمونہ اور ایم ٹی اے دیکھ کر احمدیت قبول کرنا 383 اعمال صالحہ اور ایمان کیضرورت واہمیت بدھ مت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے بھی جلسے کے پروگرام اپنوں لندن میں بدھ مت کے دلائی لامہ کا پیغام پڑھا جانا اور غیروں تک پہنچانے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے 545 بھائی چارہ بھلائی ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں خطبہ جمعہ جو ہے یہ سب سے تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں زیادہ جماعت احمدیہ میں سنا جاتا ہے ایم ٹی اے پاکستان کو ایک نصیحت ایمان 576564 139 428 632 اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کی طرف سے آنے والی ہر بات اور اس 689 کی ہدایات ہماری بھلائی اور ہمیں سکھ پہنچانے کے لئے ہیں 458 دنیا کو بھلائی کی طرف بلانا اور ہر ایک کی بھلائی چاہنا احمدی کا کام ہے 650 مخلوق خدا کی ہمدردی ایمان کا دوسرا جزو ہے 14 آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے ہم نے دنیا کی خیر اور اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوت خرچ کرنا یہی ایمان کا بھلائی ہی چاہتی ہے طریق ہے 29 32 38 دین کے معاملے میں قوتِ ارادی ایمان کا نام ہے ایمان کی گرمی ہی قوت ارادی پیدا کر سکتی ہے اگر ایمان مضبوط ہو تو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین ہوتا ہے 53 علاج کے طور پر تربیت کر کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا ضروری ہے سارے فضل ایمان کے ساتھ ہیں 61 85 انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے 165 658 اسلام نے بھائی چارے کا ایک تقدس قائم کیا ہے اور جو اس کو پامال کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے بیعت 759 خلافت آپ کی نیابت میں آپ کے نام پر بیعت لے گی 344 برنی کوئی شہر میں ایک چھوٹا سا گاؤں بٹورو ( Botoro) ہے جس کے تمام لوگوں کا احمدی ہو جانا 7 بنفورا ریجن کی ایک جماعت نیا کارا (Niankara) کے گاؤں میں دوسو دس افراد کا احمدی ہونا 8 جب تک خدا سے محبت ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرہ کی بورکینا فاسو کے دوگو (Dedougou) ریجن کے لوگوں کا
خطبات مسرور جلد 12 بارش کا نشان دیکھ کر احمدیت قبول کرنا 36 مضامین 103 حضرت مسیح موعود کی بیعت میں آئے ہو تو اس کی قدر کرو 104 ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے آپ بیعت کی کہ خواب میں شرائط بیعت کے ایک فقرہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے کی وضاحت 290 انکو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور بعض نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضور کو خواب میں دیکھا 185 جب اپنے آپ کو امام کے ہاتھ میں دے دیں گے تو تبھی عہد آنحضرت کا مشاہیر فقراء کو ڈیا اور خواب میں بتانا کہ حضرت مسیح بیعت نبھانے والے ہوں گے 346 موعود بچے ہیں جیسے سجادہ نشین ، صاحب العلم سندھ ، خواجہ غلام یا درکھیں عہد بیعت پورا کرنے کے لئے اطاعت انتہائی اہم ہے 350 فرید چاچڑاں شریف اور ان کی پیشگوئیاں 185 جو شخص قرآن کریم کے سات سو حکموں میں سے کسی ایک حکم کو بھی جان بوجھ کر چھوڑتا ہے تو اس کا بیعت کا دعویٰ عبث ہے 415 آپ کے زمانہ میں لوگوں کا الہی رہنمائی کے ذریعہ احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر اسلام کی 193 قبول کرنا اس کے بعض واقعات سید عبدالحی عرب صاحب کا خطبہ الہامیہ سن کر بیعت کرنا 226 جلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر انیس (19) قوموں کے تراسی (83) لوگوں نے بیعت کی توفیق پائی جو وہاں موجود تھے اور ان کے بیعت کے واقعات 3840-380 418 حقیقی تصویر بننے کی کوشش کرنے والے ہوں بنی نوع انسان سے محبت کے بغیر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں بن سکتے 570 بیعت کے بعد صرف ماننے سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا جب تک اچھے عمل نہ ہوں 575 بیعت کے موقع پر پاکستان والوں کا شکوہ کہ بیعت کے الفاظ شرائط بیعت کا بھی خلاصہ یہی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا 491 اکثر انگریزی میں دہرائے جاتے ہیں اور اردو میں بہت کم 386 | حضرت مسیح موعود کی بیعت میں آکر ہماری مشترکہ دعائیں ہی ہماری انفرادی تکالیف کو بھی دور کر سکتی ہیں بورکینا فاسو کے علاقہ گان زور گو میں گاؤں کے چیف اور امام سمیت پانچ سو افراد کا بیعت کرنا 501 خلیفہ اسیح الثانی کا حضور کی دستی بیعت کے بعد کی کیفیت کا اظہار کرنا 682 جائے گا 619 ہم احمدی ہیں اور ہم نے زمانے کے امام کے ہاتھ پر عہد بیعت کیا ہے کہ ہم اپنے ہر قول و فعل کو خدا کی رضا کے مطابق ڈھالیں گے، عسر یسر میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگیں گے 723,724 ہمیں بھی صرف اس بات پر راضی نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے بیعت کر لی بیعت کے معیار کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے جیسا کہ بیعت کے لفظ سے پتا لگتا ہے بک جانا 736 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہمیں دوسروں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ایسا نمونہ سے مختلف نظر آنا چاہئے مفہوم 692 بنیں جو دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والا ہو سر ڈگلس کے نواسے کا حضور ایدہ تعالیٰ کو بیعت لینے کا پیغام 737 749 بیعت کا تو مفہوم ہی اطاعت میں اپنے آپ کو فتا کرنا ہے 735 جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اپنے اہمیت و شرائط اندر انقلاب پیدا کرے 771 ہمیں ایک دوسرے کا مددگار بنے کی ضرورت ہے تبھی ہم اپنی ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے 86 | دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں 774
37 مضامین خطبات مسرور جلد 12 ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہئے کہ نری لفاظی پر نہ رہے بلکہ خواب کے ذریعہ بیعت کرنے کے واقعات 555 تا561 بیعت کے سچے منشا کو پورا کرنے والی ہو 774 بذریعہ کتب حضرت مسیح موعود و خلفاء بیعت کے ایمان افروز واقعات بذریعہ خواب و رویا یوسف لطیف صاحب کا حضور کی کتب پڑھ کر بیعت کرنا 17 خواب میں آنحضرت کا ہدایت دینا ، صحابہ حضرت اقدس اور بدر صاحب کا دمشق کے ایک احمدی نومبائع رضوان صاحب کو اسلامی دوسروں کی بیعت کے واقعات 99 تا 104 اصول کی فلاسفی پیش کرنا اور ان کا احمدی ہونا ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب سید جعفر حسین صاحب کا تفسیر کبیر پڑھ کر بیعت کرنا میں انکو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور بعض حضور انور کا نومبائعین سے سوال کہ آپ کو کس چیز نے بیعت کے نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب لئے متاثر کیا تو ان کا جواب کہ اسلامی اصول کی فلاسفی نے 179 185 فرانس کے ایک عیسائی کا اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھ کر ، جلسہ میں دیکھا لوگوں کے خواب کے ذریعہ بیعت کے چند پرانے واقعات 194، 195 | سالانہ میں حضور کا خطاب سن کر احمدی ہونا مالی ،Bala کے علاقہ کے تیجانیہ فرقہ کے امام صاحب کا بذریعہ بذریعہ ایم ٹی اے رڈ یا احمدیت قبول کرنا ان کی وجہ سے چالیس سے زائد گاؤں عبیات صاحب کا ایم ٹی اے دیکھ کر بیعت کرنا احمدی ہوئے 102 113 382 98.97 196 ایک مراکشی خاتون کا ایم ٹی اے دیکھ کر استخارہ کرنا اور خواب 197 مصر کی ایک خاتون کا بذریعہ رو یا قبول احمدیت 196 میں آنحضور اور مسیح موعود کو دیکھ کر بیعت کرنا ایک مراکشی خاتون کا ایم ٹی اے دیکھ کر استخارہ کرنا اور خواب الطيب الفرح صاحب کا ایم ٹی اے دیکھ کر بیعت کرنا 383 میں آنحضور اور مسیح موعود کو دیکھ کر بیعت کرنا 197 در ثمین پڑھ کر بیعت کی طرف توجہ ہونا احمدیت کرنا 642 524 مالی کے نو مبائعین کا خواب میں حضور کودیکھ کر بیعت کرنا 198، 199 بذریعہ جلسہ سالانہ مالی کے ایک مخالف کا خواب میں آنحضرت کو دیکھ کر قبول جلسہ سالانہ جرمنی پر ایک غیر مسلم جوڑے کا تنقید اور اعتراض 198 کرنے کی خاطر شامل ہونا اور بیعت کر کے واپس جانا 524 البانین مہمان ایڈوین صاحب کہتے ہیں کہ جس بات نے مجھے بیعت کا نظارہ ایسی صورت پیدا کر دیتا ہے کہ غیر ارادی طور پر نہ متاثر کیا وہ ایک کثیر تعداد میں سعید الفطرت روحوں کا خوابوں چاہتے ہوئے بھی ہم بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں کے ذریعہ سے خبر پاکر جماعت میں شامل ہونا ہے 380 جلسہ سالانہ یو کے پر بیعت کرنے والوں کے تاثرات 529 تا530 حیدر صاحب کا خواب کی بناء پر قبول احمدیت 381 پاکستان کی ایک اشد مخالف خاتون کا جلسہ سالانہ میں شامل ہونا مراکشی خاتون کا خواب کی بناء پر احمد بیت قبول کرنا، حضرت خلیفہ اور جلسہ کا ماحول دیکھ کر بیعت کرنا المسیح الخامس کو خواب میں دیکھنا عباس صاحب، بیلجیئم کے ایک غانین دوست کا خواب حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد بندوں کا خدا سے تعلق جوڑنا 381 بعثت 382 اور اعمال کی اصلاح 530 19 کی بناء پر قبول احمدیت مراکشی خاتون کا خواب کی بناء پر احمدیت قبول کرنا، حضرت خلیفۃ اصلاح کی ضرورت تا کہ حضرت مسیح موعود کی بعثت کے مقصد کو اصیح الخامس ایدہ اللہ کو خواب میں دیکھنا 382 پورا کرنے والے ہوں 28
خطبات مسرور جلد 12 38 مضامین حضرت مسیح موعود کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کی ہر ایک میں گھانا کے سرکاری ٹی وی نے ایم ٹی اے کے پروگرام دینے تڑپ ہو 46 | شروع کئے ہیں حضرت مسیح موعود کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ انسانیت کو گناہوں الیکٹرانک میڈیا کے فوائد اور نقصانات سے بچایا جائے 6 20 50 مانچسٹر گارڈین اخبار کا ویمبلے کا نفرنس اور جماعت احمدیہ کا ذکر 132 گل انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض اور منشاء بھی توحید ہی کی افریقہ میں (گھانا، سیرالیون ) پر لیس اور میڈیا سے رابطوں کے 300 سلسلہ میں اچھا کام ہونا اشاعت تھی 138 حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد دنیا کو زندگی دینا 497 پریس پیغام پہنچانے کا بہت بڑا ذریعہ اور اس ضمن میں جماعت تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک 761 کو ہدایت.بنک 138 امریکہ کی جماعت کا پریس اور میڈیا کے ساتھ روابط میں کچھ دنیا کی معاشی بدحالی کی ایک بنیادی وجہ بنکوں کے سود 47 عرصہ سے بہتری آنا اور اچھا کام کرنا | پرده 138 گناہ کی طرف لے جانے والی مجالس ، ٹی وی، انٹر نیٹ ،فیس بک 158 ایک مراکشی خاتون کا بیعت کے بعد پردہ کرنا 197 کے نقصانات وغیرہ بی بی سی کی ایک خاتون نمائندے کے ننگے سر کو ڈھانپنے کی ہر ایک فرقہ کی شہادت اور نیز انگریزی اخباروں کی شہادت سے 544 میری پیشگوئی پوری ہوگئی کہ مضمون بالا رہا 179 حرکت اور حضور کی اصولی رہنمائی اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان حکموں سول اینڈ ملٹری گزٹ انگریزی اخبار کا بطور شہادت شائع کرنا کہ میں سے حیا اور پردہ بھی ایک حکم ہے پریس، الیکٹرانک میڈیا 587 یہ ضمون بالا رہا 179 قادیان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام تر جدید سہولیات کے مبلغین کا مستقل ملکی اخبارات میں حضور انور کے خطبات کی ساتھ پریس جاری ہے 181 روشنی میں اسلام کی تعلیم کے متعلق کالم لکھنا 4 برطانیہ کے ایک اخبار کا لکھنا کہ یہاں کے مسلمان حکومت کے حضور انور کے دورہ جات سے میڈیا کے ذریعہ کروڑوں لوگوں وفادار نہیں ، اس کا جواب تک اسلام کا پیغام پہنچنا 315 54 ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی شہادت پر میڈیا کی کوریج 337 حضور انور کا دورہ آسٹریلیا کم وقت کے نوٹس پر نیشنل اخبار کے نمائندے کا آنا 5 دنیا کے لیڈروں اور پریس کو پیغام کہ امن قائم کرنا ہے تو انصاف جرمنی کی تاریخ میں بھی پہلی مرتبہ نیشنل ٹی وی پر جماعت کے کو قائم کرو اور ڈبل سٹینڈرڈ ز نہ بناؤ متعلق خبر کا نشر کیا جانا 5 315 DAWN اخبار کی ویب سائیٹ پر ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی جاپان کا ایک اخبار کا جس کی سرکولیشن بیس ملین یا دو کروڑ اس کا شہادت کے بارے میں خبر حضورانور کے انٹرویو لینا اور خبر شائع کرنا 5 337 امریکی نیوز چینلز و اخبارات میں ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے دنیا بھر میں حضور انور کے شہادت کی مذمت 339.338 دوروں کی وجہ سے اٹھارہ کروڑ چھبیس لاکھ لوگوں تک احمدیت کا بی بی سی اردو کا طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے خلاف چھپنے والے 5 پمفلٹ کا عکس شائع کرنا جس میں لکھا ہوا ہے کہ طاہر ہارٹ میں پیغام پہنچنا
خطبات مسرور جلد 12 39 مضامین 340 | پیدائشی احمدی علاج کروانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے جرمنی دورہ کے دوران اخبارات کے ذریعہ سے ملیز تک پیغام پہنچا 370 پیدائشی احمدیوں کو اپنے آباء واجداد کی تاریخ پڑھتے رہنا چاہئے 187 پریس اورمیڈیا کا جرمی اس اور مسجد ک افتاح کی کوریج دیا 38 پیدائش احمدیوں کو اپنی حالتیں درست کرنے کی نصیحت 363 حضور انور کا ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کہ جس خلافت کو تم سمجھ رہے پیشگوئی ہو یہ کوئی خلافت نہیں وہ جاری ہو چکی......413 حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی کے ظہور کا ذکر 73 تا 75 ڈنمارک کے اخبار میں ایک خاتون کا مضمون کہ قرآن بار بار سزا اور حضرت مسیح موعود کی بہت ساری پیشگوئیاں جو کی گئی ہیں آئندہ عذاب کا ذکر کرتا ہے محبت کا لفظ کہیں استعمال ہی نہیں ہوا 440 زمانوں میں ظاہر ہوں گی پولیس نے سانحہ گوجرانوالہ کے متعلق اخبارات میں غلط حضرت مسیح موعود کی ہزارہا پیشگوئیوں کا پورا ہونا اور ہزارہا رپورٹس دیں 476 گواہوں کا موجود ہونا 89 90.89 185 191.91 میڈیا والے انصاف سے کام نہیں لیتے 498 گلاب شاہ لدھیانہ کی حضرت مسیح موعود کے بارہ میں پیشگوئی 129،98 بی بی سی ایشیا پر حضور انور کا انٹرویو دکھایا جاتا 498 نعمت اللہ ولی صاحب کی حضرت مسیح موعود کی آمد کے بارے میں اوان بار تو لو صاحب، مالٹا کے ایک صحافی کا حضور انور کا انٹرویو لینا 535 پیشگوئی ایمبوینگو را صاحب کی حضور انور سے ملاقات اور حضور انور کو بتانا طاعون کی پیشگوئی کہ جلسہ سالانہ یو کے کی کاروائی سیرالیون کے ٹی وی نے لائیو نشر مسلمانوں کی کمزور اور مذہب سے دور جانے کی حالت کی 539 پیشگوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی 146 جلسہ یوکے، مرکزی پریس اور یو کے پریس ٹیم کی حسن کارکردگی 544 حضرت مسیح موعود کی سچائی کے بارہ میں آپ کی تین اس سال ایم ٹی اے کی لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ سے بھی آخری پیشگوئیاں....کی ہے 147 دن جو انٹرنیٹ پر دیکھا جاتا ہے تین لاکھ تیس ہزار لوگوں نے آلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کی پیشگوئی کس صفائی اور قوت 547 اور شان سے پوری ہوئی 173 جلسے کی کارروائی دیکھی اس سال ایم ٹی اے کی لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ سے بھی آخری براہین احمدیہ میں اس جماعت کی ترقی کی نسبت یہ پیشگوئی ہے دن جو انٹرنیٹ پر دیکھا جاتا ہے تین لاکھ تیس ہزار لوگوں نے گُزَرْعٍ اخْرَجَ شَطْأَهُ فَأَزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ....174 547 براہین احمدیہ میں ایک یہ بھی پیشگوئی ہے يَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ 175 جلسے کی کارروائی دیکھی حضور انور کا دورہ آئر لینڈ اور میڈیا کی کوریج 597 عِنْدِهِ وَلَوْ لَمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ آئرش ٹائمز اخبار کا حضور انور کے دورہ و مسجد مریم کے افتتاح کی براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ تجھے عربی زبان میں فصاحت و 598 بلاغت عطا کی جائے گی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا 177 خبر شائع کرنا جرمنی میں مختلف ذرائع سے میڈیا کی جماعت مخالفت میں بھی نظر ہر ایک فرقہ کی شہادت اور نیز انگریزی اخباروں کی شہادت سے 724 میری پیشگوئی پوری ہوگئی کہ مضمون بالا رہا آتی ہے 179 مسٹر ظفر علی خان کے والد نے اپنے اخبار میں حضرت مسیح موعود کی اپنی مُهِينٌ مَّنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ کی پیشگوئی کا پورا ہونا 184 ابتدائی زندگی کی گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے 740 | يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَأْتِيَكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
خطبات مسرور جلد 12 کی پیشگوئی کا پورا ہونا 40 186 | علاج کروانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے لیکھرام کا پیشگوئی کے مطابق مرکز عظیم الشان نشان بننا 186، 273 تاریخ اعجاز احمدی میں مذکور ایک پیشگوئی مضامین 340 189 پیدائشی احمدیوں کو اپنے آباء واجداد کی تاریخ پڑھتے رہنا چاہئے 187 چراغ دین ساکن جموں کا پیشگوئی کے مطابق اپنے بیٹوں سمیت احمدیت کی تاریخ میں پہلا موقع کہ تمام قربانی کرنے والیاں 190 عورتیں اور بچیاں ہیں، گوجرانوالہ کا سانحہ طاعون سے ہلاک ہونا جو معجزات مجھے دیئے گئے بعض ان میں سے وہ پیشگوئیاں ہیں جو تبلیغ بڑے بڑے غیب کے امور پر مشتمل ہیں کہ بجز خدا کے کسی کے مبلغین کی تبلیغ کے ذریعہ بیعت کے واقعات اختیار اور قدرت میں نہیں کہ ان کو بیان کر سکے 193 خلافت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق علی 475.249.226.104.103.102.98.97.1007 556.403.309 349 وہ جہاد جو تبلیغ کے ذریعہ ہونا ہے خلیفہ وقت کے پیچھے چل کے 351 مِنْهَاج النبوة قائم ہونا ہے قُتِلَ أصْحَبُ الْأخْدُودِ یہ ایک پیشگوئی ہے جو جماعت احمدیہ کے حق ہونا ہے اس کی پابندی کرنی ہوگی میں پوری ہو بھی رہی ہے اور پوری ہوتی بھی رہے گی 470 جلسہ سالانہ اسلام کے بارہ میں نیک اثرات پیدا کرنے والا تبلیغ 703،702 کا ایک بہت بڑا ذریعہ دوز رد چادروں والی پیشگوئی کی تشریح قرآن کریم کی جو پیشگوئیاں ہیں ان میں سے ایک پیشگوئی جو تحریک جدید سواری کے متعلق ہے اس کی تفصیل عبد اللہ آتھم والی پیشگوئی کی تفصیل 370 705 تحریک جدید کے سال نو کا اعلان اور جائزہ 660 تا 676 | 705 | تربیت حضرت مسیح موعود کی زلزلہ کے بارہ میں پیشگوئی کا ظہور 720 بچوں کی تربیت کیلئے والدین اور ذیلی تنظیموں اور عہدیداران کی پیشگوئی مصلح موعود 106 ذمہ داری 55 تعلق باللہ اور اطاعت خلافت اور احترام نظام کے حوالے سے 58 آپ کی عظمت کا ایک نشان، پیشگوئی مصلح موعود پیشگوئی مصلح موعود کی تفصیلات کا ایمان افروز تذکرہ 106 تا 108 بھی افراد جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے عنمو ائیل اصل میں عمانوایل جیسا کہ انجام آتھم میں ہے 108 علاج کے طور پر تربیت کر کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا 61 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا ضروری ہے جائے گا کے متعلق فرمانا کہ اس میں ہی اتنی وسعت ہے کہ اس کو اگر سب ایم ٹی اے سے منسلک ہو جا ئیں اور جماعت کا ہر فرد 110 اس پر توجہ دینی شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت بیان کرتے چلے جائیں تو ختم نہیں ہوسکتا پیشگوئی مصلح موعود کا ایک پہلو، باوجود بیماری کے معمولی پڑھائی کا تربیتی معیار بہت بلند ہو سکتا ہے کے لاکھوں کتب کا مطالعہ پمفلٹ 183 635 اگر ترقی کرنی ہے تو اس زمانے کا جو جہاد ہے جو اپنی تربیت کا جہاد ہے 351 360 بی بی سی اردو کا طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے خلاف چھپنے والے رمضان کا مہینہ ملی تربیت کا مہینہ ہے پمفلٹ کا عکس شائع کرنا جس میں لکھا ہوا ہے کہ طاہر ہارٹ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام
خطبات مسرور جلد 12 قومی کی تربیت فرمائی ہے 41 مضامین 426 اصل چیز یہی تقویٰ ہے جو بے شمار برکات کا حامل بناتی ہے 407 408 آپ ملی یاتم نے اپنے صحابہ کی بھی اس رنگ میں تربیت کی تھی کہ ہمارا تقویٰ عارضی نہ ہو صحابہ بھی بے لوث مہمان نوازی کا جذبہ رکھتے تھے 512 ظاہری تقوی کا اعلان اور دل میں ناپاکیاں یہ دونوں جمع نہیں ہوسکتیں 410 اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف شعبہ جات میں اب کارکنان کی کافی لیڈروں اور علماء میں تقویٰ کی کمی تربیت ہو چکی ہے 517 ایک احمدی کی ذمہ داری....تقوی 412 414 بچوں کی ایسی تربیت کرو کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ادراک ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقوی وطہارت میں کہاں تک ترقی 628 | کی ہے 416 انہیں بچپن سے حاصل ہو جائے خلیفہ اسیح الثانی کا گھانا سے لڑکوں کو تربیت کے لئے پاکستان بلوانا تقویٰ پر چلتے ہوئے میں حقوق العباد بھی ادا کرنے والا بنو 520 اور عبدالوہاب آدم صاحب اور بشیر بن صالح صاحب کا آنا 391 تقومی کی کمی کے باعث غصہ بھڑکتا ہے تعزیر 521 حضرت مسیح موعود کا جلسہ میں شامل ہونے والوں کو تقویٰ 772 تعزیر ہونے پر بعض لوگوں کی انا آڑے آجاتی ہے 362 و پر ہیز گاری کی طرف توجہ دلانا تعزیری کارروائی میں عفو گناہ بن جاتا ہے 614 تلاوت قرآن کریم سزا اور تعزیر جب کسی معافی کی سفارش ہوتی ہے تو میرے لئے رمضان میں تلاوت قرآن کریم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت 421 سب سے زیادہ خوشی کا دن ہوتا ہے تقدیر 615 | تلاوت قرآن کریم کے آداب تمباکونوشی 430 پاکستان میں ظلم کرنے والے، جب اللہ تعالی کی تقدیر چلے گی تو تمباکونوشی کی ممانع اور آپ کے صحا بہ کا حقہ نوشی ترک کردینا 37 میں کونوشی کی اورآپ صحابہ ان کے نام و نشان مٹ جائیں گے.نہ ظلم کرنے والے رہیں تنظیم گے اور نہ ظلم کی پشت پناہی کرنے والے تقویٰ 341 مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور اسیران کی بہبود کے لئے صدر صاحب خدام الاحمدیہ پاکستان کی مساعی و دیگر خدمات 254.253 تنزانیہ میں غیر احمدی مسلمانوں کی تنظیم بکواٹا 14 (Bakwata) کی جماعت کی مخالفت 500 تقومی شعاری کا معیار اور محک ہے اگر تم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت حلف الفضول، غریبوں کی مدد کے لئے اور ضروریات پوری اختیار کرو 79 کرنے کے لئے تنظیم بنائی گئی 656 شکر کے لئے تقویٰ اور طہارت ضروری شرط ہے 80 تنظیم اخوان المسلمین کا احمدیت کے بارہ اسلام سے خارج انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے ہونے کا فتویٰ اور الہی نشان کہ الازھر نے ان کے خلاف فتویٰ آتا ہے بہترین زادراہ تقویٰ ہے 165 دے دیا.....33343 نام نہاد تنظیموں کا اللہ کے نام پر ظلم کرنا 561 569 گوشت خدا تک نہیں پہنچتا، تقویٰ پہنچتا ہے 357 مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کا فتنہ و فساد جس نے اسلام کے نام سے
خطبات مسرور جلد 12 42 مضامین خوفزدہ کیا ہوا ہے، آنحضرت رحمتہ للعالمین کی بدنامی کا باعث 649 سب آنحضرت میں محو ہونے کی وجہ سے ہوا 286 تا 291 رحمتہ | انسانی ہمدردی کی تنظیم توبه 718 توحید کو سمجھنے کیلئے آنحضرت کا نمونہ اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے تو بہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں حقیقی تو بہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کا اقتباس 83 161 209 توحید تو یہودیوں میں بھی موجود ہے، اس کا جواب 290 299 301 توحید اور شرک فی الاسباب الهام أنْتَ مِنّي وَأَنَا مِنْكَ کیا یہ توحید کے خلاف ہے؟ 304 ہماری ذمہ داری کہ توحید کی حقیقت کو سمجھیں 309 توحید کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں گناہ کا علاج تو یہ ہے تو بہ صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ تو بہ کا کمال اعمال صالحہ کے پر معارف بیان 210 | جبر ساتھ ہے قرب الہی کے حصول کیلئے تو بہ کی اہمیت 275 اصلاح کے لئے جبر ضروری ہے 309-293 نگرانی نظام اور جبر میں توازن اور اعتراض کا جواب 60 60 تو یہ حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤید چیز ہے 444 ایسی کچی تو بہ کس طرح ہو سکتی ہے جو ہمیشہ گناہوں سے دور رکھے دین کے معاملے میں جبر نہیں ہے 60، 127، 347، 354 اور اس کی شرائط 444 445 اصلاح عمل میں کامیابی کیلئے ضروری امور ، ایمان علم صحیح ہنگرانی ، علم ہمارے غالب آنے کے ہتھیار ، استغفار، تو بہ، دینی علوم کی اور جبر....واقفیت...پانچ نمازوں کو ادا کرنا ہماری تو بہ بیچی تو بہ ہو 448 جبرائیل 447 حضرت مصلح موعود کے بچپن کا واقعہ کہ ایک طالب علم کے ساتھ اپنے 61 اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کر لیتا ہے اور معاف کر دیتا ہے 472 دادا کی پرانی کتابوں میں سے ایک میں لکھا ہوا پانا کہ جبرائیل نازل تو بہ اور استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے تو بہ کا دروازہ نہیں ہوتا.آپ کا فرمانا کہ میرے ابا پر تو نازل ہوتا ہے حضور کا کھلا رکھا ہوا ہے اور ان کی توبہ قبول بھی ہو جاتی ہے 609 | فرمانا کہ جبرائیل اب بھی نازل ہوتا ہے توحید جلسہ سالانہ توحید کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کا اقتباس 77 مقصد و اہمیت توحید کے دلائل 237 تا 247 | جلسہ کا مقصد صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرنا آنحضرت کا مبارک وجود کہ جن کے نمونے سے دنیا میں جلسوں کا مقصد بھی عملی اصلاح ہے توحید حقیقی قائم ہوئی 696 357 358 288 اسلام کے بارہ میں نیک اثرات پیدا کرنے والا تبلیغ کا ایک بہت احمدیوں پر آنحضرت کی توہین کا الزام لگانے والوں نے خود بڑا ذریعہ 370 آنحضرت کے مقام کو نہیں پہچانا اورنتیجہ توحید سے بھی دور ہیں 289 آپ نے جلسے میں شامل ہونے کی طرف خاص توجہ دلائی ہے 507 اس زمانے میں حقیقی توحید کا ادراک حضرت مسیح موعود کو ہوا اور یہ آپ کے مطابق جلسے کا مقصد 523
خطبات مسرور جلد 12 ہدایات 43 برکات مضامین 357 جلسہ سالانہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی نصائح 356 جلسہ میں شامل ہونا بھی ایک خوش قسمتی ہے حضور انور کی جلسہ میں شامل ہونے والوں کو نصیحت کہ اپنے جلسہ کے دنوں میں یہ ماحول اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے کہ حقوق اللہ جائزے لیں 360 اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کے عملی اظہار ہو سکتے ہیں 360 جلسہ پر آنا بعض اوقات نقصان اور ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے اور جلسہ کی برکات ، سعید روحوں کی احمدیت قبول کرنے کی مثال، سیرالیون حضرت مسیح موعود کی مجلس کے ایک واقعہ کی مثال 361 کے ڈپٹی چیف امام، شیخ آدم صاحب کا احمدیت قبول کرنا اور اپنے نام جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمان نوازی کے حوالہ سے کارکنان کے ساتھ شیخ آدم جلسہ سالانہ لگا لینا 363.362 جلسہ کو نصائح جلسہ پر ڈیوٹی دینے والوں کوسیکیورٹی کے حوالہ سے ہدایت 368 فرانس کے ایک عیسائی کا اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھ کر ، جلسہ جرمنی جلسہ کے حوالہ سے عہدیداران اور مرکزی کارکنان کو نصائح سالانہ میں حضور کا خطاب سن کر احمدی ہونا 364 جلسہ سالانہ کی برکات اور ملکوں میں یہ خوبصورت روحانی مقابلے 364 اور ہدایات 383 384 جلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر انہیں (19) قوموں کے تراسی جرمنی جلسہ کے حوالہ سے عہدیداران اور مرکزی کارکنان کو نصائح (83) لوگوں نے بیعت کی توفیق پائی جو وہاں موجود تھے اور اور ہدایات 384 ان کے بیعت کے واقعات 3840380 جلسہ سالانہ یو کے، رضا کاروں اور کارکنان کو اصولی ہدایات 506 جلسہ سالانہ جرمنی پر ایک غیر مسلم جوڑے کا تنقید اور اعتراض جلسہ سالانہ پر شامل ہونے والے مہمانوں اور میزبانوں کے کرنے کی خاطر شامل ہونا اور بیعت کر کے واپس جانا 524 507 تا 517 جلسے میں شامل ہونے والا ہر شخص خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے 525 جلسہ سالانہ یو کے ،شاملین جلسہ کو ہدایات دعا اور دیگر امور کی پاکستان کی ایک اشد مخالف خاتون کا جلسہ سالانہ میں شامل ہونا 518 اور جلسہ کا ماحول دیکھ کر بیعت کرنا لئے اصولی ہدایات طرف توجہ 530 جلسہ کے موقعہ پر سیکیورٹی کے متعلق ہدایات 526 حضرت مسیح موعود کے قائم کردہ جلسہ کے نظام کا بین الاقوامی جلسہ سالانہ یوکے، عمومی انتظامی جائزہ اور ہدایات 548 حیثیت اختیار کر جانا 768 پر لیس اور میڈیا کا جرمنی جلسہ اور مساجد کے افتتاح کی کوریج دینا 384 قادیان میں ہونے والے جلسہ میں شاملین کو حضور انور کی ہدایات 767 میسیڈونیا کی ایک جرنلسٹ کا حضور سے پوچھنا کہ آپ (جرمنی) جرمنی جلسہ پر ساؤنڈ سسٹم کی خرابی کے بارے میں حضور کی جلسہ جلسہ کے انتظامات سے مطمئن ہیں؟ حضور کا جواب 385 طبیعتوں میں انقلاب لانے کا ذریعہ ہے اور ہونا چاہئے 769 حضور انور کا جرمنی کے جلسہ اور دورہ کی بابت تفصیلی تاثرات 3877369 حضرت مسیح موعود کا جلسہ میں شامل ہونے والوں کو تقویٰ ربوہ میں جلسہ سالانہ پر اہلیان ربوہ کا جذبہ مہمان نوازی 513 و پر ہیز گاری کی طرف توجہ دلانا 772 حضرت ا تاں جان کا زیور جلسے کے مہمانوں کے انتظام کیلئے پیش کرنا 514 جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے والوں کے لئے رہائش اور اسحاق صاحب ( ٹیلی ویژن ڈائریکٹر نائیجیریا) کا جلسہ سالانہ بستر وغیرہ کی بابت ہدایات 775 کے انتظامات اور روح پرور مناظر سے متاثر ہونا 533
خطبات مسرور جلد 12 44 مضامین جلسہ یو کے، مرکزی پریس اور یو کے پریس ٹیم کی حسن کارکردگی 544 جنگ ابوبکر کو نتے صاحب کا جلسہ سالانہ یو کے کو عظیم الشان جلسہ قرار اسلام اور آنحضرت پر جنگوں کے اعتراض کا جواب 127,145 546 تیسری عالمگیر جنگ کی طرف بڑھتے ہوئے قدم اور حضور کی رہنمائی 147 دینا اور جماعت کی ترقی کی دعا کرنا اس سال ایم ٹی اے کی لائیوسٹر یمنگ کے ذریعہ سے بھی آخری دنیا کا تیزی سے جنگ کی طرف بڑھنا اور دعا کی تحریک 153 جرمنی میں ہٹلر نے اپنا ہر حکم منوا یا اور ڈکٹیٹر بن کر رہا اس لئے دوسری جنگ عظیم میں یہ تصور ہے، یہ تاثر ہے کہ اس وجہ سے دن جو انٹرنیٹ پر دیکھا جاتا ہے تین لاکھ تیس ہزار لوگوں نے جلسے کی کارروائی دیکھی 547 جلسہ سالانہ یو کے سے جرمنی جانے والی فیملی کا ایکسیڈنٹ اور حضور کا ذکر خیر پاکستان میں جلسہ سالانہ پر پابندی ربوہ میں جلسہ سالانہ پر پابندی اور اس کے نتائج 563 767 768 آپ نے جلسہ کی مناسبت سے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے مہمانوں کے تاثرات جلسہ جرمنی کے بارہ میں مختلف مہمانوں کے تاثرات 772 371 ہماری یعنی جرمنی کی شکست ہوئی جنگ بدر 347 456 آپ کا جنگ عظیم اول کا واقعہ بیان فرمانا 1918ء میں جرمنی کا مقابلہ اتحادی فوجوں کے ساتھ ، دہریہ بھی خدا سے دعا کرنے لگے 7230721 آپ کا جنگ کی صورت میں بھی غیر مسلموں کے بچوں اور عورتوں پر بھی تلوار اٹھانے کی سختی سے ممانعت فرمانا جہاد 756.755 جماعت احمد یہ ایک امن پسند جماعت ہے جو جہاد کے نام پر 338 جلسہ سالانہ یو کے پر بیعت کرنے والوں کے تاثرات 529 تا530 مظلوموں کو قتل کرنے کی مذمت کرتی ہے جلسہ سالانہ یوکے،مہمانوں کے تاثرات 531 تا 547 | اگر ترقی کرنی ہے تو اس زمانے کا جو جہاد ہے جو اپنی تربیت کا جلسہ سالانہ یو کے، جذبات تشکر اور دیگر شاملین کے تاثرات 528 - 549 جہاد ہے اور پھر وہ جہاد ہے جو تبلیغ کے ذریعہ ہونا ہے خلیفہ وقت جمعہ جمعہ کی اہمیت اور برکات 351 کے پیچھے چل کے ہونا ہے اس کی پابندی کرنی ہوگی 462 اگر ترقی کرنی ہے تو اس زمانے کا جو جہاد ہے جو اپنی تربیت کا جمعہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے جہاد ہے عیدوں میں سے ایک عید قرار دیا ہے 462 یہ جہاد نہیں جس کو تم جہاد سمجھ رہے ہو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں خطبہ جمعہ جو ہے یہ سب سے 351 412 اگر مسلم اللہ حضرت مسیح موعود کی مخالفت کی بجائے مددگار زیادہ جماعت احمدیہ میں سنا جاتا ہے ، بعض مسائل حل کرنے ہو جائے تو یہ بے چینیاں ختم ہو جائیں اور جہاد کے نام پرفتنہ و 632 میں یہ باتیں کردار ادا کرتی ہیں اس لئے ہر احمدی تک یہ پہنچنا ضروری ہیں اور خطبہ ہی اس کا بہترین ذریعہ ہے جمعۃ الوداع فساد باہمی محبت اور پیار میں بدل جائے جھوٹ جھوٹ اور غیبت کی برائی اسائیلم سیکر زکو نصیحت کہ جھوٹ نہیں بولنا 412 26 54 جمعتہ الوداع، ایک خود ساختہ تشریح اور اس کی حقیقت 452 تا 458 | مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہے اور جھوٹ
خطبات مسرور جلد 12 کے قریب بھی نہ پھٹکے 45 مضامین 608 | حسد کی آگ ترقی کو روکنے کے لئے اپنی پوری کوشش کرتی ہے 457 چنده ( مزید دیکھیں انفاق فی سبیل اللہ ) مخالفین کا جماعت کی سچائی دیکھ کر حسد میں جلنا 472 ،724 چندوں وغیرہ کی مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ 11 تا 14 حسن ظن اللہ تعالیٰ بچوں کے دلوں میں بھی چندوں کی اہمیت ڈالتا ہے 12 حسن ظن ہسچائی اور عاجزی کی اہمیت گزشتہ سال میں جو چھپن واں سال تھا اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل حق سے وقف جدید میں چون لاکھ چوراسی ہزار پاؤنڈ کی مالی قربانی حقوق العباد فرض ہیں جماعت نے پیش کی 523 84 14 ،15 حقوق اخوت ادا کرنے سے حقوق اللہ بھی ادا ہو جائیں گے 84 اس اعتراض کا جواب کہ جب چندہ عام لیا جاتا ہے تو دوسرے حق اللہ کا سورۃ النحل کی آیت 91 میں ذکر 572 حقوق العباد اور ہمدردی 204 203,204 چندے وغیرہ کیوں لئے جاتے ہیں؟ ابوبکر جارہ صاحب کا حضور کو خواب میں دیکھنا اور جماعتی کاموں حضرت مصلح موعود کا وہ مالو جس سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا اور چندہ دینے میں غفلت سے تو بہ کرنا 666 | ہو جاتے ہیں 285 اس اعتراض کا جواب کہ جب چندہ عام لیا جاتا ہے تو دوسرے خلافت کا مقصد ، کامیابی و کامرانی ،حقوق العباد کی ادائیگی 347 چندے وغیرہ کیوں لئے جاتے ہیں 672 جلسہ کے دنوں میں یہ ماحول اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے کہ حقوق اللہ چندہ جات کا بہترین استعمال اور ان کے ثمرات 673 اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کے عملی اظہار ہو سکتے ہیں 360 پنی عبادتوں کے حق کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی چیریٹی یورپ میں جماعت کا چیر بیٹیز کو رقم دینے پر ایک اعتراض اور اس توجہ دینی ہے کا جواب چیریٹی واک 408 655 ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الہی کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو، بچو 448 چیریٹی وا اور دیگر خدمت کے کاموں میں شریک ہونا ضروری ہے 655 حقوق اعباد کی ادائیگی کی طرف پہلے سے بڑھ کر وجہ پیدا کریں 51 حج تقویٰ پر چلتے ہوئے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی ادا کرنے حج اس شخص پر فرض ہے جس کو استطاعت ہو اور جس کا راستہ پر والا بنو امن ہو 298 وہاب آدم صاحب کو مخالفت کی وجہ سے حج پر نہ جانے دینا اور حضرت خلیفہ ثالث کا کشفاً آپ کو خانہ کعبہ کا طواف کہ کرتے ہوئے دکھایا جانا حسد 399 520 ہماری مساجد میں ہر آنے والے کا دل حقوق غصب کرنے کے خیالات سے پاک ہے آنحضرت کا اسوہ حقوق اللہ وحقوق العباد میں 578 579 اگر آخرت پر ایمان کامل ہو تو انسان بہت سے گناہوں اور حقوق کے غصب کرنے سے بچتا ہے ایک یہودی کا حضرت عمرؓ سے کہنا کہ ہمیں مسلمانوں سے حسد ہے کہ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی ایسی بات نہیں جو اسلام اسلام تعلیم کے دو حصے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے احکامات میں موجود نہ ہو 582 589 286 سزا یا تعزیر تو دوسروں کے حقوق غصب کرنے یا شریعت کے حکم
خطبات مسرور جلد 12 کی نافرمانی کرنے پر ملتی ہے 46 مضامین 615،614 خلیفہ وقت کے قضاء کے فیصلوں پر اعتراض کرنے والے اور حضرت مسیح موعود نے دونوں حقوق کی طرف تو فہ دلائی 661 عہدیداران اور مر بیان کی ذمہ داریاں 66 آپ نے جلسہ کی مناسبت سے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی خلافت اور اس کے کاموں پر اعتراض کرنے والوں کے لئے جواب 66، 67 طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے 772 حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے 775 علماء کا خلیفہ وقت کو لکھنا کہ وہ غیروں کے چھکے چھڑا دیا کرتے تھے ، چھکے چھڑانے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو اپنی عملی اصلاح سے ہوگا ،خلافت کے نائبین اور مددگار بننے کی کوشش کریں 68 خلیفہ کے بیشمار کاموں کا ایک خاکہ 348 تمباکو نوشی کی ممانعت اور آپ کے صحابہ کا حقہ نوشی ترک کر دینا 37 خلافت اور دنیاوی لیڈروں میں موازنہ نہیں ہوسکتا 349،34 امریکہ میں شیشہ یا حقہ کا ایک نیا رواج جس سے احتراز کی نصیحت 38 فرانس سے آنے والے ایک عرب دوست کا خلیفہ رابع کی وفات حلف الفضول غریبوں کی مدد کے لئے اور ضروریات پوری کرنے کے لئے تنظیم کے بعد خواب میں خلیفہ خامس کو دیکھنا...بنائی گئی ختم نبوت 384 656 يَنْصُرُكَ رِجَال.......حضرت مسیح موعود اور آپ کے بعد خلیفہ وقت کے پاس ایسے آنے والے لوگ 388 ختم نبوت اور وفات مسیح کے دلائل کے ساتھ عمل اور عرفان کو رائج خلافت کا نعرہ لگانے والے ایسے لوگوں کو خدا زمین میں خلافت کرنے کی بھی ضرورت ہے اور علماء اور مر بیان کی ذمہ داریاں 67 دے گا؟ ربوہ میں ختم نبوت کانفرنس کا ہونا خطبہ الہامیہ 412 665 | حضور انور کا ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کہ جس خلافت کو تم سمجھ رہے ہو یہ کوئی خلافت نہیں وہ جاری ہو چکی..خطبہ الہامیہ کے بارہ میں آپ کی خدام کو تحر یکہ اس کو حفظ کیا جائے 222 خلافت علی منہاج النبوة بچوں کا قادیان کے گلی کوچوں میں خطبہ الہامیہ کے فقروں کا دہرانا 222 حضرت مرزا افضل بیگ صاحب کی خطبہ الہامیہ کے متعلق ایک روایت 413 خلافت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق علی 223 مِنْهَاج النبوة قائم ہوتا ہے 349 حضرت خضر کی خطبہ الہامیہ میں موجودگی کی بابت سید امیر علی شاہ نظام خلافت کا قیام، حضرت مسیح موعود کے ارشادات کے مطابق 344 صاحب کو خواب 224 خلافت کی اہمیت خلیفہ المسیح الثانی کا خطبہ الہامیہ کی بابت بیان 224 خلافت کا صحیح فہم و ادراک پیدا کرنا بھی مربیان کے کاموں میں حضرت میاں امیر الدین صاحب کی خطبہ الہامیہ کے متعلق ایک سے ایک اہم کام ہے روایت خلافت، خلیفه 66 225 خلافت کا مقصد ، کامیابی و کامرانی ، حقوق العباد کی ادائیگی 347 خلافت وہ انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے.امامت ،خلافت ، اور ڈکٹیٹر شپ میں بڑا فرق ہے 347 چھین کر نہیں لیا جاتا 499
خطبات مسرور جلد 12 47 مضامین خلافت کی برکات والے وہی بتائے ہیں جو عمل صالح کرنے والے ہیں 352 وقف جدید کی تحریک پہلے صرف پاکستان میں ہوتی تھی اور حضور انور کے خطبات ،خطابات کا حیرت انگیز اور روح پرور خلافت رابعہ کے وقت میں پاکستان سے باہر کی جماعتوں میں یہ انقلابی اثر اور اس کا جذباتی اظہار، ایک جرمن کا کہنا کہ یوں لگتا 11 تھا کہ یہ خلیفہ کا خطاب میں نے لکھا ہے کیونکہ اس کا ہر لفظ میرے تحریک کی گئی حضرت مسیح موعود کے کاموں کی ایک اہم شاخ جو ساری دنیا میں دل کی آواز تھی جاری ہے اور خلافت کی وجہ سے اب مستقل بنیادوں پر لندن میں اطاعت خلافت 377 قائم ہے انگر خانہ میں کام کرنے والوں کے لئے ہدایات 174 اطاعت خلافت اور احترام نظام کے حوالے سے بھی افرادِ خلیفہ ثالث کا کم ووٹوں والے کو صدر بنا کر سبق دینا کہ خلافت کا جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے 58 انتخاب ہی بہتر ہوتا ہے خلیفہ ثالث کا فرمانا "برکت اسی کو ملے جو مخلصانہ نیت سے خلیفہ وقت کی ہر صورت اطاعت اور نظام کی فرمانبرداری کی اہمیت 67 خلافت کی اتباع کرے کیونکہ ساری برکتیں اسی نظام سے وابستہ تمام برکتیں خلافت کی اطاعت میں ہیں 252 خلافت سے کامل اطاعت کی سب سے زیادہ ضرورت 66 ہیں..252 252 خلافت کی اطاعت کے عہد کو اس لئے نبھانا ہے کہ ایک امام کی سر کردگی کامیابی ووٹ لینے والوں کو نہیں خلیفہ وقت کی دعائیں حاصل میں خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا کے دلوں میں بٹھانے کی مشترکہ کوشش 253 کرنی ہے 347 کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے خلافت رابعہ میں مرکزی شعبہ سمعی بصری کا قیام عمل میں آیا 262 خلیفہ کے معروف فیصلہ کی پابندی، معروف کی تشریح اور وضاحت 349 324 | عہدیداران اپنے آپ کو اولی الامر سمجھ کر اپنی اطاعت کروانے خلافت کا قیام اور اس کی برکات حضور انور کا فرمانا کہ دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے کے اس وقت تک حقدار نہیں کہلا سکتے جب تک خلافت کی کامل 348 اطاعت اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے اور تاویلیں کرنے سے چشم تصور میں میں پہنچتا نہ ہوں....353 جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفہ وقت کو پر ہیز نہیں کرتے رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں ان کی صحت کی فکر خلیفہ وقت کو رہتی ہر احمدی کو خلافت سے کامل اطاعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے 355 ہے.رشتے کے مسائل ہیں غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے حضور انور کا خلافت کی اطاعت اور وفا پر خطبہ دینا اور دنیا بھر احمد یوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفہ وقت کی ہے احمدی احباب کا اظہارا خلاص و وفا 369 نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ خلق کے حضور جھکتا نہ ہو.اس سے دعا ئیں نہ مانگتا ہو ئیں بھی اور میرے جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں، کسی مقام تک 348 نہیں پہنچ سکو گے 29 سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے خلافت کے ساتھ جڑ کر ہی صبر کے ساتھ مشکلات میں سے گزرا اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاسکتا ہے 351 | جاوے 79 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خلافت کے فیض سے فیض پانے ہم سب پر واجب ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ اپنی روز مرہ
خطبات مسرور جلد 12 48 مضامین زندگی میں اُن اعلیٰ اخلاق پر کار بند ہو جائیں جن کی تعلیم ہمارا مالی Bala کے علاقہ کے تیجانیہ فرقہ کے امام صاحب کا بذریعہ 139 رؤیا احمدیت قبول کرنا ان کی وجہ سے چالیس سے زائد گاؤں مذہب ہمیں دیتا ہے مذہب کی جڑ خدا شناسی اور معرفت نعمائے الہی ہے اور اس کی احمدی ہوئے شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں 164 مصر کی ایک خاتون کا بذریعہ رد یا قبول احمدیت تو بہ حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤید چیز ہے 444 خطبہ الہامیہ کے بارہ میں دو خوا ہیں بداخلاق کا غصہ چھوڑ نا مشکل ہوتا ہے اچھے اخلاق کی ضرورت اور اس کی تشریح 196 196 223 574 عبد الکریم عباس صاحب سیریا کا خواب کہ مسجد قبا میں نماز پڑھ 608 | رہے ہیں 309 میاں بیوی کے معاملات اور لین دین میں اخلاق سے ہٹ کر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی خواب جس میں حضرت مسیح 609 موعود نے ربنا لا تزغ...دعا پڑھنے کی طرف توجہ دلائی 328 رویے....میاں بیوی کے معاملات میں ایک اصولی رہنمائی کہ حسن اخلاق حضور انور کا ایک خواب کی بناء پر دعارب کل شیء....کی اپنا ئیں اور ضد نہ ہو 610 | تحریک 329 نوجوانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو اسلامی اخلاق اور آداب البانین مہمان ایڈوین صاحب کہتے ہیں کہ جس بات نے مجھے 688 متاثر کیا وہ ایک کثیر تعداد میں سعید الفطرت روحوں کا خوابوں ہوتے ہیں ،ان کی طرف ہمیشہ توجہ دیں کے ذریعہ سے خبر پا کر جماعت میں شامل ہونا ہے خواب، رویا حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں لوگوں کو بذریعہ خواب آنحضرت حیدر صاحب کا خواب کی بناء پر قبول احمدیت کی رہنمائی کے واقعات 380 381 10498 عباس صاحب، بیلجیئم کے ایک غانین دوست کا خواب اس زمانہ میں آنحضرت کا بذریعہ رویا لوگوں کی رہنمائی فرمانا کہ کی بناء پر قبول احمدیت احمدیت کچی ہے 382 100 مراکشی خاتون کا خواب کی بناء پراحمد یت قبول کرنا، حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ کو خواب میں دیکھنا ایک پادری کی خواب کہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں 130 382 فرانس سے آنے والے ایک عرب دوست کا خلیفہ رابع کی وفات کے بعد خواب میں خلیفہ خامس کو دیکھنا....383 مشاہیر، فقراء کو رویا میں آنحضرت نے خواب میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود سچے ہیں جیسے سجادہ نشین، صاحب العلم سندھ ، خواجہ حضور کا ایک عزیز کے خواب کا ذکر کرنا کہ رمضان بڑی جلدی ختم 185 ہو گیا ابھی تو میں نے جماعت سے اور زیادہ دعائیں کروانی 482 غلام فرید چاچڑاں شریف.....ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب میں انکو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور بعض حضور کا ایک پرانا رؤیا ، اگر جلد حالات بدلنے ہیں تو من حیث نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب الجماعت اپنی دعاؤں کو خالص کرتے ہوئے ہمیں اس کے آگے میں دیکھا 185 جھکنے کی ضرورت ہے 484 لوگوں کے خواب کے ذریعہ بیعت کے چند پرانے واقعات 194، 195 | آپ کی قادیان کی بابت رؤیا کہ وہ بیاس تک پھیلا ہوا ہے 752
خطبات مسرور جلد 12 خیر 49 مضامین حضور انور کا فرمانا کہ میری کسی سے دشمنی نہیں ہے بعض مجھے نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط لکھ دیتے ہیں ان کے لئے بھی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو.برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر کبھی میرے دل میں غصہ نہیں آیا....نام نہیں لکھتے ، نام لکھ بھی دیں تب بھی میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس بارہ میں آپ پر دوسرے میں سرایت کرے گی 77 اگر تم کسی کا حق مار کر عارضی طور پر دولت حاصل کر لو تو وہ تمہارے لئے خیر نہیں ہشتر بن جائے گی 416 656 کوئی کارروائی نہیں ہوگی دعا 615 اپنی خیر کے دائرے کو وسیع تر کرتے چلے جائیں جماعتی عہدیداران کیلئے عاجزی، انکساری اور دعا اور محنت کی آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے ہم نے دنیا کی خیر اور بھلائی ہی چاہتی ہے دجال 658 ضرورت ہے ہمارا ہتھیار دعا ہی ہے اس سال کو دعاؤں ، درود اور استغفار سے بھر دیں 2 10 10 دجال سے مراد عصر حاضر کا مغربی ممالک کا صنعتی انقلاب اور مادی کشش، نیز عیسائیت کا پر چار کرنے والی قوتیں ہیں 101 آپ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے کی دعا 46 چودھویں صدی میں جب چاند اور سورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہو گا تب وہ مہدی معہود اور دجال کے ظہور کا ایک نشان ہوگا 172 جال کا مقصد ہے دنیا کو دین پر مقدم کرنا فرقہ بازیاں، یہ تو ایک سازش ہے دجالی طاقتوں کی 290 414 مسلم اللہ کو سمجھ لینا چاہئے کہ دجالی طاقتیں بڑے طریقہ سے انہیں ایک دوسرے سے لڑا رہی ہیں قیمنی 414 ہمارے مذہب کی سچائی کا نشان یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں 51 کینیا، ایلڈوریٹ (Eldoret) کے مبلغ کے خلاف ایک گھناؤنی سازش اور حضرت خلیفہ المسح الخامس کا دعائیہ جواب اور غیر معمولی نصرت سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے 54.53 68 پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر اور دعاؤں کی 69 69 ضرورت آنحضور صلی شما اینم نے ان دشمنوں کو جنہوں نے مکہ میں دشمنی کی انتہا کی ہوئی تھی، فتح مکہ کے موقع پر اس طرح معاف فرمایا کہ امت مسلمہ مسلمان ممالک کی قابل رحم حالت اور اس کے لئے جس طرح انہوں نے کبھی کوئی غلطی یا شرارت کی ہی نہ ہو 145 دعاؤں کی تحریک جو مذہب کی وجہ سے دشمن ہیں، جو خود دشمنی میں بڑھے ہوئے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کے خلاف دعا کی تحریک 70 283 سیریا، پاکستان، مصر اور لیبیا وغیرہ مسلم ممالک کے لئے دعا کی تحریک 70 کی 86 ہیں تم ان کو ذاتی دشمن نہ سمجھو دشمنیاں ختم کرنے کی نیکی ایک بہت بڑی نیکی ہے 284 سیریا، مصر، اور پاکستان کے احمدیوں پر مظالم اور دعا دنیا کے سب انسانوں کو چاہئے کہ مذہب وملت سے بالا تر ہوکر تحریک...ایک دوسرے سے محبت کریں.نہ یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ آپ اور حضور کا واسطہ دے کر بارش کے لئے دعا کرنا اور بارش کا ہونا 103 379 پاکستان کے حالات کے بارے میں دعا کریں کہ احمدی محفوظ دشمنی بڑھتی جائے کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں نا انصافی پر مجبور نہ کرے 494,523 رہیں 153.152
50 مضامین خطبات مسرور جلد 12 دنیا کا تیزی سے جنگ کی طرف بڑھنا اور دعا کی تحریک 153 بعض دعاؤں کی تحریک جو خلیفہ ثالث نے جماعت کی جو بلی گناہوں سے نجات ، نیکیوں کی توفیق اور دعا کے معیار کی بابت کے لئے بھی فرمائی تھیں ان کو بھولنا نہیں ہمستقل اپنی زندگیوں کا 156 | حصہ بنانا چاہئے 328.327 329 413 219 جہاں جہاں احمدیوں پر مظالم ہورہے ہیں ان کی نجات کے لئے 419 حضرت مسیح موعود کی تحریر نمازخود دعا ہے نماز کو جس قدر سنوار کر ادا کرو گے اسی قدر گناہوں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی خواب جس میں حضرت مسیح سے رہائی پاتے جاؤ گے 160 موعود نے ربنا لا تزغ...دعا پڑھنے کی طرف توجہ دلائی 328 مولوی غلام دستگیر قصوری کا رسالہ فتح رحمانی میں مباہلہ کی دعا 176 177 حضور انور کا ایک خواب کی بناء پر دعا کی تحریک رب کل شام، مصر اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص دعا کی تحریک 182 | شیء....امت مسلمہ اور مسلم ممالک کے لئے دعا کی تحریک حقیقی امن تبھی دنیا کے احمدی بھی پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کریں 341 قائم ہوگا جب خدا کے بھیجے ہوئے مہدی کو قبول کریں گے 200 مسلم امہ کیلئے دعا کی تحریک، ان کی وجہ سے غیر مسلموں کو اسلام آپ کو حضور کا خطبہ الہامیہ سے قبل دعا کیلئے دوستوں کے اسماء اور آنحضرت کو بدنام کرنے کا موقعہ مل رہا ہے کی فہرست تیار کرنے کے لئے کہنا کامیابی ووٹ لینے والوں کو نہیں خلیفہ وقت کی دعائیں حاصل دعا کی تحریک کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے آنحضور نے ظلم و تعدی کے باوجود بددعا نہیں کی بلکہ یہ دعا کی کہ کوشش کی....اس کا جواب اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے قادیان اور جماعت کے لئے حضور کا دعا کرنا اور الہام ہو 330 دعاؤں کی اہمیت اور برکات متی نصر اللہ کی آواز خدا کے آگے جھکتے ہوئے دعا کی مسلم اللہ کا چین اور امن احمدیوں کی دعاؤں سے ہوگا 484 314 اضطراب اور دعا کا تعلق اور ایسی دعا کی ضرورت 487،486 قربانیوں کی جو مثالیں قائم کر رہے ہیں وہ کبھی رائیگاں نہیں دشمنوں اور مخالفین پر وبال اور عذاب کی دعا نہیں ، مشکلات کا یہ دور جائیں گی اور آخری فتح ہماری ہے، اس فتح کے حصول کا سب سے ختم کرنے اور ان لوگوں کی بہتری کے لئے دعا کریں ہاں اگر 492 زیادہ تیر بہ حدف نسخہ دعا ئیں ہیں اللہ تعالٰی دعائیں قبول کرتے ہوئے فتح کے دروازے کھولے گا اپنا معمول بناؤ آواز ہے اور دشمن کو کوئی جائے فرار نہ ہوگی ہمارے اصل ہتھیار دعا اور عبادت 253 یہ کہنا کہ ہم نے دعا کی لیکن سنی نہیں گئی یا فلاں عادت چھوڑنے کی 446 281 حقیقی مومن کو قبولیت دعا کا خاص نظارہ دکھایا جاتا ہے 453 481 315 دعا، تضرع، صدقہ، خیرات کرو، زبانوں کو نرم رکھو، استغفار کو 575 321 ایک مقدمہ کے وقت حضور کا حضرت مصلح موعود” کو دعا کے لئے 325 کہنا 683 ہمیں اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر توجہ کرنے حضرت مسیح موعود کے قبولیت دعا کے واقعات 700 تا715 327 | کثرت اور بار بار کی دعائیں ہماری کامیابیوں کا راز ہیں 725 کی ضرورت ہے ہمیں دعاؤں کی حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے 327 | دنیا ہمیں دعاؤں اور استغفار کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے 327 سب سے پہلے تو میں آج آپ کو اور دنیا میں پھیلے ہوئے تمام
خطبات مسرور جلد 12 احمد یوں کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں 51 مضامین 1 کے معیاروں کو ضائع کرنے والے بنیں تو ہر ایک شخص جو یہ حرکت اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلانے کا آپ کے سپر د ہوا ہے 3 کرتا ہے، جماعت کو بدنام کرنے والا بھی بنے گا دنیا کو خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنانا ہے 68 انواع و اقسام کی لذات دنیا انسان کو سچا اطمینان اور سچی تسلی نہیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے دنیا میں میرے دوروں کی دے سکتیں 82 84 وجہ سے اٹھارہ کروڑ چھبیس لاکھ تک احمدیت کا پیغام پہنچا 5 یعنی جو شخص کسی نفس کو بلا وجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنیا کو قتل پس ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ نہ ہم نے کسی دنیاوی آدمی اور کرتا ہے لیڈر سے کچھ لینا ہے، نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے دنیا میں بدامنی مذہب کی وجہ سے نہیں پھیل رہی بلکہ لالچ اور دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے 14 سیاست اس کی وجوہات ہیں ہمارے غالب آنے کا مقصد کسی کو ماتحت کرنا اور دنیاوی مقاصد جماعت احمدیہ الہبی جماعت ہے اور الہی جماعتیں دنیاوی حکومتوں یا حاصل کرنا نہیں ہے آجکل دنیا سمٹ کر قریب تر ہو گئی ہے دنیا دار معاشرہ اب تقریباًلا مذہب معاشرہ ہے 147 20 دنیاوی طرز کے احتجاجوں پر یقین نہیں رکھتیں اور نہ ہی الہی جماعتوں 20 کی ترقی میں دنیاوی مدد کا کوئی کردار یا ہاتھ ہے 21 313 دنیا کے لیڈروں اور پریس کو پیغام کہ امن قائم کرنا ہے تو انصاف 315 قوت ارادی سے وافر حصہ رکھنے والے روحانی دنیا کے سکندر ہوتے ہیں 36 کو قائم کرو اور ڈبل سٹینڈرڈ ز نہ بناؤ چودہ سو سال پہلے اصلاح کا جو عمل قوت ایمان کی وجہ سے جرمنی کیا اور یورپ کیا ہمیں تو انشاء اللہ تعالی تمام دنیا کو فتح کرنا انقلاب لایا، اُس کی مثال اس وسیع پیمانے پر دنیا میں اور کہیں نظر ہے مگر تلوار سے نہیں بلکہ دل جیت کر نہیں آتی 37 آجکل کی جو ترقی یافتہ دنیا ہے وہ جس قوم کو اجڈ اور جاہل کہتی ہے، جسے ان پڑھ مجھتی ہے وہ لوگ جو تھے انہوں نے اپنے ایمان کی حرارت کو اپنے نشے پر غالب کر لیا 39 اصلاح کا پہلا ذریعہ قوت ارادی کی مضبوطی ہے یعنی ایمان جس کیلئے انبیاء دنیا میں آتے ہیں 44 47 دنیا کی معاشی بدحالی کی ایک بنیادی وجہ بنکوں کے سود دنیا میں جس قدر قو میں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہوا اور دعاؤں کو سنتا ہو 49 60 63 355 دنیا کمائیں لیکن دنیا میں پڑنے کی بجائے روحانیت کی طرف توجہ دیں 364 دنیا میں ڈوب جانے کے بجائے اپنی روحانیت کی طرف بھی توجہ دیں حضور انور کا خلافت کی اطاعت اور وفا پر خطبہ دینا اور دنیا بھر سے احمدی احباب کا اظہارا خلاص ووفا انبیاء کا وجود دنیا میں نمونہ ہوتا ہے 364 369 494 دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد اور اس کی پر معارف تفسیر 619 تا 629 دنیا کو بھلائی کی طرف بلانا اور ہر ایک کی بھلائی چاہنا احمدی کا کام ہے 650 جبراصلاح کا ایک پہلو ہے جودنیا میں بھی رائج ہے آنحضرت ﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے ہم نے دنیا کی خیر اور خدا تعالیٰ بعض دفعہ اس دنیا میں بھی سزا دیتا ہے ہندوستان میں معلمین کو فارغ کیا جانا اور اس کی بنیادی وجہ دنیا داری 65 بھلائی ہی چاہتی ہے اگر ہم بعض معمولی دنیاوی فائدوں کے لئے اپنی دیانت اور امانت دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی 658 774
خطبات مسرور جلد 12 دورہ جات 52 مضامین دین کو دنیا پر مقدم رکھنا 623،619،518،286، 627 357 565 حضور انورکا امریکہ، کینیڈا اور جرمن کے دورہ کی برکات اورکامیابیاں 4 جلسہ کا مقصد صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرنا خلیفہ اسیح کے دورہ جات کی وجہ سے اسلام کی تعلیم اور جماعت کا دین کے نام پر شدت پسندی کرنے والے تعارف اور برکات، امریکہ، کینیڈا وغیرہ کے دورہ کا ایک جائز 40 دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد اور اس کی پر معارف تفسیر 619 تا629 حضور انور کا دورہ آسٹریلیا کم وقت کے نوٹس پر نیشنل اخبار کا نمائندے کا آنا5 عہدیداران کو نصائح ، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو نبھانے محموداحمد شاہد صاحب بنگالی کا بطور صد رخدام الاحمدیہ کئی ممالک کا دورہ کرنا 254 کی ذمہ داری دوسروں سے بڑھ کر ادا کرے حضور انور کا دورہ آسٹریلیا اورمحمود احمد شاہد صاحب بنگالی کا باجود بیماری کے دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہوسکتی کام کرنا حضور انور کا آئرلینڈ کا دورہ اور تفصیلات 262 ، 263 ڈانس، ناچ گانا 628 774 590 ڈانس اور ناچ کی برائی ، ایک احمدی گھر کو اس سے بالکل پاک حضور انور کا جرمنی کے جلسہ اور دورہ کی بابت تفصیلی تاثرات 369 تا 387 ہونا چاہئے دورہ یورپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا دورہ یورپ دہشت گردی راه هدی 21 122 ایم ٹی اے پر راہ ھدگی پروگرام میں حضرت مسیح موعود کے ایک الہام پر اعتراض اور اس کا جواب 71 امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت 754 نصیر احمد انجم صاحب کا راہ ھدیٰ میں شامل ہونا اور مدلل جواب پشاور سکول میں بچوں پر وحشیانہ حملہ اور حضور انور کا اظہار دینا ہمدردی دیانت 7630754 رٹا لگانا 450 پاکستان کے طالبعلموں کو رٹا لگانے میں مہارت حاصل ہونا 23 امانت ،دیانت کے معیار اونچے کریں کونسل کو دھوکہ دے کر رپورٹ Benifit حاصل کرنا دین خدمت دین کو اک فضل الہی سمجھیں 68 حضرت مسیح موعود کی مجالس کی رپورٹس نہایت مختصر ہیں 77 ویمبلے کا نفرنس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مضمون کی بابت 2 الفضل کی رپورٹ 129 دین کے معاملے میں قوتِ ارادی ایمان کا نام ہے 32 محمود احمد شاہد صاحب بنگالی کی رپورٹس بابت بہبودی اسیران پر دین کے معاملے میں قوتِ ارادی ایمان کی مضبوطی ہے 39 حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا اظہار خوشنودی دین کے معاملے میں نقل...دین کے معاملے میں جبر نہیں ہے 47 620.354.347.127.60 253 تحقیق کرنے کیلئے جب رپورٹ منگوائی جاتی ہے تو اس کا صحیح طریق کیا ہونا چاہئے سانحہ گوجرانوالہ کی بابت رپورٹس 353 4750473 84 پولیس نے سانحہ گوجرانوالہ کے متعلق اخبارات میں غلط جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے دین کے دو ہی کامل حصے ہیں.ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی رپورٹس دیں نوع سے...476 282 | تحریک جدید کے 80 اسی ویں سال کی رپورٹ 674 تا676
خطبات مسرور جلد 12 53 مضامین شام میں ہی حکومتی اور سنی فسادوں میں ایک رپورٹ کے مطابق روزہ دار مولوی کا تصنع ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب لوگ مارے گئے ہیں 756 روزہ دار کا مقصد محض بھوکا رہنا نہیں روزہ کی اہمیت و برکات اور فرائض رمضان 303 407 4090407 رمضان میں چاند سورج گرہن 170 تا 172، 181، 187، 193 روزہ دار روزہ میں زیادتی کے جواب میں اني صائم کہے 409 رمضان کا مہینہ عملی تربیت کا مہینہ ہے رمضان کی برکات اور اہمیت 360 دوران حمل روزہ نہ رکھنے کی حکمت 455 407 تا 434 حضرت مسیح موعود کا خلیفہ ثانی کی صحت کیلئے اللہ کے حضور رمضان میں تلاوت قرآن کریم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت 421 روزے رکھنا قرآن کریم کا رمضان سے تعلق اور اس کی تفصیل 421 زلزلہ 635 602 708 رمضان میں اللہ کی بخشش اور رحمت کی بابت ارشادات 442 کشمیر کا زلزلہ رمضان میں نوافل کی ادائیگی کی ترغیب 443 ایک زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیش خبری ایک عزیز نے حضورا نور کو اپنی ایک خواب سنائی کہ آپ اس عزیز حضرت مسیح موعود کی زلزلہ کے بارہ میں پیشگوئی کا ظہور 720 کو کہہ رہا ہوں کہ رمضان بڑی جلدی ختم ہو گیا.ابھی تو میں نے سال نو جماعت سے اور زیادہ دعائیں کروانی تھیں روایات 482 حضور انور کی طرف سے نئے سال کی مبارکباد اور اس کے پیچھے صحیح روح کیا ہو.....حضرت مسیح موعود کے متعلق حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ اس سال کو دعاؤں ، درود اور استغفار سے بھر دیں روایات کا پر معارف بیان اور تشریح...روحانیت 753739,689-683 1 10 وقف جدید کے سال نو کا اعلان اور اس کے چندے کے ذریعہ افریقہ میں خاص طور پر اسلام کی خدمت 11 کامل اطاعت ہی ہے جو جماعت میں مضبوطی اور روحانیت میں ترقی تحریک جدید سال کے نو کا اعلان اور ایک جائزہ 675،674 66 ساؤنڈ سسٹم کا باعث بنے گی دنیا کمائیں لیکن دنیا میں پڑنے کی بجائے روحانیت کی طرف جرمنی جلسہ پر ساؤنڈ سسٹم کی خرابی کے بارے میں حضور کی توجہ دیں 364 ہدایات دنیاوی مقاصد حاصل کرنے والوں کا روحانیت سے کوئی واسطہ سچائی نہیں ہوتا 385 352 احمدیت کا راستہ سچائی کا راستہ ہے اور یہ وہی راستہ ہے جو دنیا میں ڈوب جانے کے بجائے اپنی روحانیت کی طرف بھی آنحضرت سل یا پہنم کا راستہ ہے توجہ دیں روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش کریں 364 518 روحانیت کے راستے کیسے کھلتے اور کیسے بند ہوتے ہیں؟ 641 روزه 18 جب انسان سچائی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے تو اُس کی منزل اُسے ضرور مل جاتی ہے 50 ہمارے مذہب کی سچائی کا نشان یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں روزے کے بعد بے انتہاء پانی پینے کا نقصان، احتیاط کرنی چاہئے 302 | کی دعائیں قبول ہوتی ہیں 51
خطبات مسرور جلد 12 54 مضامین جو سچائی اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں وہ آپ کو سیکیورٹی کا شعبہ اور اس کے بارہ میں ہدایات 166 جلسہ کے موقعہ پر سیکیورٹی سے متعلق ہدایات ماننے کے بعد خدا تعالیٰ کو بھی دیکھ لیں 517 526 خدا نے حضرت مسیح موعود کی سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے خلیفہ اسیح الثانی کا حفاظت مرکز کے لئے احباب جماعت کو زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے 181 تحریک فرمانا خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے جو دل کی سچائی اور محبت سے اس کو شدت پسند ڈھونڈتا ہے سچائی اور عاجزی کی اہمیت 715 216 شدت پسند مردوں کے لئے، پہلے اپنے گھروں کو سنبھالیں ، دنیا 523 کی اصلاح خود بخود ہو جائے گی مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہے اور جھوٹ دین کے نام پر شدت پسندی کرنے والے کے قریب بھی نہ پھٹکے 545 565 608 شدت پسندی اور ظلم کے واقعات تقریباً تمام مسلمان کہلانے للہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتارہتا ہے 748 والے ملکوں کا المیہ ہے سزا 756 غیر مسلموں میں بھی اسلام کے بارے میں اس غلط تاثر کو زائل جب نظامِ جماعت سزا دیتا ہے تو اصل مقصد اصلاح ہوتا ہے 60 کریں کہ اسلام نعوذ باللہ شدت پسندی اور تلوار کا مذہب ہے 763 کلمہ پڑھنے والے کو مارنے قتل کرنے والے کی سزا جہنم ہے 322 شراب ڈنمارک کے اخبار میں ایک خاتون کا مضمون کہ قرآن بار بار سزا اور زمانہ جاہلیت میں عرب شراب پینے پر فخر کرتے تھے 33،32 عذاب کا ذکر کرتا ہے محبت کا لفظ کہیں استعمال ہی نہیں ہوا 440 مسجد فضل کی سڑکوں پر ایک شرابی کی مثال کہ شرابی کو نشے میں کچھ سزا اور تعزیر جب کسی معافی کی سفارش ہوتی ہے تو میرے لئے معلوم نہیں رہتا سب سے زیادہ خوشی کا دن ہوتا ہے سکول 615 33 گھانا میں ایک چوکیدار حضور انور نے رکھا جو شرابی تھا 33، 34 شراب عقل پر پردے ڈال دیتی ہے 3735 36 ربوہ کے جماعتی سکول کا بعض مجبوریوں کی وجہ سے حکومت کے آپ کا فرمان کہ " خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ شراب بورڈ سے الگ ہو کر آغا خان بورڈ سے منسلک ہونا 23 مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ہے.سکولوں میں احمدی بچوں کے ساتھ نارواسلوک 26 شراب کے متبادل نشہ کے طور پر سپرٹ پینا اور اس کے مضرات 38 سکولوں میں احمدی اساتذہ کے ساتھ بچے اس لئے بدتمیزی خدا کی محبت میں سرگرداں آدمی کی مثال بھی شرابی کی مانند ہے کرتے ہیں کہ یہ احمدی ہے سود 482 دنیا کی معاشی بدحالی کی ایک بنیادی وجہ بنکوں کے سود 47 سیکیورٹی 212.208 شرافت جن ممالک میں احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے وہاں کے اکثر شرفاء کی ڈاکٹر مہدی صاحب کی شہادت کے بعد ربوہ کی انتظامیہ کو چوکس شرافت حضرت خلیفہ ثالث کے بقول گونگی شرافت ہے 485 رہنے کی ہدایت 340 بعض مولویوں میں بھی شرافت موجود ہے 601
خطبات مسرور جلد 12 شرک 55 پروگراموں سے بھر پور فائدہ اٹھائیں مضامین 357 چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہو 281،212 حضور انور کا جلسہ جرمنی کے موقع پر بیعت کے الفاظ دوبارہ دہرانا 299 اور دنیا بھر سے شکریہ کی فیسیں 386 شرک کی دوا قسام شرک سے بیزاری کی وجہ سے یورپ وغیرہ تمام بلاد میں عیسائی عہدیداران کو جو بھی کامیابیاں مل رہی ہیں انہیں اللہ تعالی کے لوگ ہر روز اپنے مذہب سے متنفر ہو رہے ہیں 301 فضلوں سے منسوب کریں اور عاجزی و انکساری اور شکر گذاری یورپ کے شرک کرنے والے لوگ جوک در جوک اسلام میں میں بڑھنے کی کوشش کریں داخل ہور ہے ہیں شعر (اس جلد میں مذکور اشعار ) عِلْمِي مِنَ الرَّحْمَنِ ذِي الْأَلَاءِ 647 387 احمدی خوش قسمت ہیں ان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کو احمدی گھروں میں اللہ نے پیدا کیا 537 حضور انور اور جلسہ میں آئے مہمانوں کا کارکنان کا شکریہ ادا کرنا 549 باللهِ خُزْتُ الْفَضْلَ لَا بِدَهَاءِ وَخُذْرَبٍ مَنْ عَادَى الصلاح و مفسدا 96 انبیاء کا دل بڑا شکر گزار ہوتا ہے اور اس کی مثال شہادت 687 ونَزِّلُ عليه الرّجز حقًّا و نا و دَمرِ...190-189 | ارسلان سرور صاحب کی شہادت کا واقعہ اللہ تیری راہ میں یہی آرزو ہے اپنی اے کاش کام آئے خون جگر ہمارا اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پر دار تیرھویں چند ستیہویں سورج گرہن ہوسی اس سالے عد وجب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں موت کے رو بروکریں گے ہم زندگی کے حصول کی باتیں...در سن 1311 ناشی ہجری دو قران خواهد بود از پنے مہدی و دقبال نشان خواهد بود واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند رضی الدین صاحب کی شہادت کا واقعہ 42.41 104 333 حضرت خالد بن ولید کا بستر مرگ پر شہادت کی خواہش سے بے 770 چین ہونا صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کا واقعہ خلیل احمد صاحب کی شہادت کا واقعہ 483 ڈاکٹر مہدی صاحب کی شہادت کا واقعہ محمد امتیاز احمد صاحب کی شہادت کا واقعہ 332 گوجرانوالہ میں شہادتوں کا واقعہ مبشر احمد صاحب کھوسہ کی شہادت کا واقعہ 172 | لطیف عالم بٹ صاحب کی شہادت کا واقعہ صبر و استقامت 318 319 322.321 340330 449,450 4800477 6050601 629 چوں بخلوت مے روند آں کارِ دیگر می کنند 302 اللہ تعالیٰ کی خاطر استقامت دکھانے والوں کو وہ دونوں جہان کی جنتوں کا وارث بناتا ہے 320.318.317 شکر کے لئے تقویٰ اور طہارت ضروری شرط ہے 80 آپ پر ہونے والے مظالم اور آپ کا صبر و برداشت اور رحم کی 224،220 | داستانیں 317 خطبہ الہامیہ کے بعد سجدہ شکر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں اور شکر گزاری یہ ہے کہ جلسے کے حضرت صاحبزادہ عبدالطیف شہید کی صبر واستقامت 319
خطبات مسرور جلد 12 56 مضامین صبر سے کام لوتم زمین کے وارث بنائے جانے والے ہو 411 پورا پاکستان ظلموں کی داستان بن کر رہ گیا ہے ، ہائیکورٹ میں صدقہ و خیرات ایک عورت کو پتھر مار کر شہید کر دیا گیا 341 صدقہ و خیرات کی بابت ایک مولوی کا وعظ 302 پاکستان میں ظلم کرنے والے، جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر چلے گی تو ایک سروے کی رپورٹ کہ مسلمان سب سے زیادہ صدقہ و ان کے نام و نشان مٹ جائیں گے.نہ ظلم کرنے والے رہیں خیرات کرتے ہیں طاعون طاعون کی پیشگوئی نور احمد مخالف احمدیت کا طاعون سے مرنا طاعون کو حضور کے لئے بطور نشان بھیجا جانا طالبان 522 190.91 191 709 گے اور نہ ظلم کی پشت پناہی کرنے والے 341 نہ لیڈروں میں تقویٰ ہے نہ علماء میں تقویٰ ہے، نوجوان نسل کے جذبات کو ابھار کر ظلم کی راہ پر لٹکایا ہوا ہے ،مسلم اللہ کو کوئی سمجھانے والا نہیں اللہ کو بھی ظلم پسند نہیں آسکتا 412 412 419 482.454 طالبان اور isis کے بارہ میں حضور سے سوال 597 جہاں جہاں احمدیوں پر مظالم ہورہے ہیں ان کی نجات کے لئے تحریک طالبان پاکستان افضل فوجی گروپ کے واجد نامی شخص کا دعا کی تحریک مبارک احمد باجوہ صاحب کو شہید کرنے کا اعتراف کرنا 764 اسرائیل کا فلسطینیوں پر مظالم ڈھانا طلاق ( نیز دیکھیں عائلی معاملات) جن ممالک میں احمدیوں پر ظلم ہورہا ہے وہاں کے اکثر شرفاء کی اسلام میں طلاق کو نا پسند کرنے کی حکمت 455 شرافت حضرت خلیفہ ثالث کے بقول گونگی شرافت ہے 485 احمدیت کے حوالہ سب سے زیادہ ظلم پاکستان میں ہو رہا ظلم.سیر یا میں حکومت مخالف گروہوں کے مظالم کی انتہاء 69 ہے، پاکستانی احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک 69 ترکی میں فلسطینیوں پر مظالم پر سوگ پاکستان میں احمدیوں پر مظالم کی انتہاء سیر یا مصر، اور پاکستان کے احمدیوں پر مظالم اور دعا کی نام نہاد تنظیموں کا اللہ کے نام پر ظلم کرنا 484 545 569 تحریک...86 عائلی معاملات میں ظلم میں رشتہ داروں کا ساتھ شامل ہو جانا 617 آنحضور نے ظلم و تعدی کے باوجود بد دعا نہیں کہ بلکہ یہ دعا کی کہ مسلم ممالک میں ظلم و بربریت کے واقعات کی کثرت 754 281 ہر ظلم جو کسی بھی مسلمان پر ہو ہمارے لئے باعث تکلیف ہے 762 اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے حضرت مسیح موعود کے دور سے ہی جماعت پر مظالم ہورہے ہیں 317 عاجزی وانکساری آنحضرت پر ہونے والے مظالم اور صبر و برداشت اور رحم کی داستانیں 17 جماعتی عہد یداران کیلئے عاجزی، انکساری اور دعا اور محنت کی الجزیرۃ کے ایک تجزیہ نگار کا لکھنا کہ اکثر احمدیوں کے خلاف ظلم اور ضرورت ہے تشدد کی خبریں ملتی رہتی ہیں اور مجرم یہ ظلم اس تسلی کے ساتھ کرتے ہیں 2 عہدیداران کو نصیحت کہ استغفار اور درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہئے تا کہ عاجزی قائم رہے اور خدمت کی توفیق صحیح رنگ 339 میں ملتی رہے کہ حکومت انہیں سزاد ینے کے لئے کچھ نہیں کرے گی 339 252 پاکستان میں اللہ اور رسول کے نام پر ظلم کیا جانا 341 | کیا ہمارے سجدے فروتنی اور عاجزی کے سجدے ہیں؟ 359
خطبات مسرور جلد 12 57 مضامین جو بھی کامیابیاں مل رہی ہیں انہیں اللہ تعالی کے فضلوں سے | چھوڑ سکتے منسوب کریں اور عاجزی و انکساری اور شکر گزاری میں بڑھنے کی ہمارے اصل ہتھیار دعا اور عبادت کوشش کریں عاجزی کی اہمیت 291 325 387 ہمیں اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر توجہ کرنے 523 کی ضرورت ہے 327 352 پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک 603 اعمال کو اور اپنی عبادتوں کو وہ رنگ ہمیں دینے کی ضرورت ہے جو عبادالرحمن عاجزی سے چلنے والے ہوتے ہیں 606 ہمارے لئے بہترین زادِ راہ ثابت ہوں پشاور سکول میں بچوں پر وحشیانہ حملہ اور حضور انور کا اظہار عبادتوں کی طرف توجہ دیں اور انہیں اس معیار پر لانے کی کوشش 754 تا 763 کریں جو معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم سے چاہتے ہیں 518 ہمدردی آپ اور آپ کے صحابہ کے عاجزی و انکساری کے اعلیٰ نمونے رسول کریم صلی ا یہی تم نے مسجد نبوی میں عیسائیوں کو عبادت کی اللہ تعالیٰ ہم میں دیکھنا چاہتا ہے 773 | اجازت دی 579 عائلی معاملات خدام الاحمدیہ اور لجنہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ نو جوانوں کو نمازوں گھروں میں بے چینی اور مسائل کا اک حل اور ایسے لوگوں کوایک نصیحت 52,51 کا پابند بنائیں اس عمر میں صحت ہوتی ہے اور عبادتوں کا حق ادا ہو قطع حقوق معصیت ہے 85 سکتا ہے SCC 607 گھروں میں بے سکونی کی وجوہات ، بیویوں کے حقوق کی حضور انور کا عبادتوں کی طرف توجہ دلانے پر مخلص احمدیوں کا 358 خوبصورت رد عمل اور مساجد میں حاضری بڑھنا 607 ادائیگی نہ کرنا میاں بیوی کے معاملات اور لین دین میں اخلاق سے ہٹ کر رویے 609 عبادتوں کی طرف توجہ دیں اور انہیں اس معیار پر لانے کی کوشش میاں بیوی کے معاملات میں ایک اصولی رہنمائی کہ حسن اخلاق کریں جو معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم سے چاہتے ہیں 724 اپنائیں اور ضد نہ ہو 610 عفو و درگذر عائلی معاملات میں ظلم میں رشتہ داروں کا ساتھ شامل ہو جانا 617 اسلام تعلیم دیتا ہے کہ اپنے غصے کو دباؤ اور عفو کا سلوک کرو 585 عبادت تعزیری کاروائی میں عفو گناہ بن جاتا ہے 614 ہماری زندگی کا مقصد عبادت کرنا ہے عبادتوں کو گلے کا بوجھ نہ سمجھیں 3 مومن کی نشانی ، غصہ پر ضبط ہونا اور لوگوں سے عفو در گذر کرنا 612 50 ہمیں عفو نرمی اور درگزر اور محبت سے کام لینا چاہئے 617 19 اللہ کی عبادت اس کی محبت ذاتی کے ساتھ ہونی چاہئے 203 | عمل خدا کی عبادت ایسے کرنی چاہئے گویا کہ وہ سامنے موجود ہے 204، 206 اعمال کے متعلق حضرت مسیح موعود کے ارشادات اصلی عبادت وہی ہے جو محبت ذاتی سے ہو نہ کسی فائدہ کے لئے 208 اعمال کی اصلاح کے لئے تین چیزوں کی مضبوطی ،قوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہودیوں کی حالت تھی کہ ارادی علم کے زیادتی ، قوت عملیہ میں طاقت 27 رسم اور عادت کے طور پر عبادت کرتے تھے 275 ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا انسانیت کی خدمت کے زعم میں اپنی نمازوں اور عبادتوں کو نہیں پابند ہونا ہوگا 39
خطبات مسرور جلد 12 58 مضامین 59 آجکل ہونے والا ایک اعتراض کہ قرآن کی تعلیم اگر یہ ہے تو عملی کمزوری دور کرنے اور عملی قوت بڑھانے کی اہمیت اور طریق 59 مسلمانوں کے عمل اس کے مطابق کیوں نہیں؟ 80 عملی اصلاح کے مختلف پہلو ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو میں انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے 86 عملی اصلاح کے طریق کے تسلسل میں معرفت الہی کے حصول کی بابت انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے، بدی رہنمائی اور ارشادات حضرت مسیح موعود کی پر معارف تشریح 154 تا 166 سے پر ہیز کرنا، نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا 155 جماعتی انتظامات میں کمزوریوں پر صرف معذرت کرنا کافی نہیں 156 اصل چیز اصلاح اور عملی کوشش...سب اعمال صالحہ کا محرک معرفت ہے مذہب کی جڑ خدا شناسی اور معرفت نعمائے الہی ہے اور اس کی عہدہ ، عہدیداران شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں 164 جماعتی عہدیداران کیلئے عاجزی، انکساری اور دعا اور محنت کی اعمال کو اور اپنی عبادتوں کو وہ رنگ ہمیں دینے کی ضرورت ہے جو ضرورت ہے 384 2 2 ہمارے لئے بہترین زاد راہ ثابت ہوں 352 عہدیداران کو نصیحت، دل میں عہدے کا نہیں خدمت دین کا عمل صالح وہ عمل ہے جو موقع اور محل کے حساب سے ہے 362 تصور پیدا ہو حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مومن سے کوئی خطا ہو جائے تو نظام جماعت ، عہدیدار اور ذیلی تنظیمیں عملی کمزوری دور کرنے کا اس کے اعمال صالحہ اس کے لئے ڈھال بن کر اسے تباہی سے بچا ذریعہ بنیں لیتے ہیں 41 461 مربیان ، امراء ،عبد یداران بخلیفہ المسیح کے خطبات کی روشنی ، 44 49 اللہ تعالیٰ نے ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ جوڑ کر مشروط کیا اور میں اپنے پروگرام بنایا کریں یہ حالت پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء بھی بھیجتا ہے 566 مربیان ، عہدیداران کا فریضہ کہ اصلاح کی کوشش کریں اور اس صحیح اسلامی اعمال کی تصویر پیش کرنا ہر احمدی کا کام ہے 566 کے لئے....564 تا 576 مربیان اور عہدیداران کو بار بار جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرنا ہوگی 54 اعمال صالحہ اور ایمان کی ضرورت و اہمیت بچوں کی تربیت کیلئے والدین اور ذیلی تنظیموں اور عہدیداران کی ذمہ داری 55 عملی اصلاح عملی اصلاح کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات کی روشنی مربیان، واقفین زندگی، امراء اور عہدیداران کا مقام اور ذمہ داریاں 58 میں اعلیٰ معیار کے حصول کی ترغیب و تعلیم 19 خلیفہ وقت کے قضاء کے فیصلوں پر اعتراض کرنے والے، اور حضرت مسیح موعود کا مشن اور بعثت کا مقصد صرف عقائد کی اصلاح عہدیداران اور مربیان کی ذمہ داریاں 66 نہ تھی بلکہ اعمال کی اصلاح کرتے ہوئے خدا کے بندے سے عہدیداران کو نصیحت کہ استغفار اور درود شریف کثرت سے تعلق جوڑنا بھی تھا 19 پڑھنا چاہئے تا کہ عاجزی قائم رہے اور خدمت کی تو فیق صحیح رنگ عملی اصلاح کیلئے تین باتیں ، قوت ارادی، پورا علم قوت عملی اور میں ملتی رہے اس کی پر معارف تشریح 252 22 عہدیداران کو نصائح ، اطاعت کے معیار اعلیٰ سے اعلیٰ کریں جیسے عملی اصلاح کے بارہ خطبہ کا تسلسل قوت ارادی کی بابت تفصیل و توضیح 31 آنحضرت کے ایک صحابی عبد اللہ بن مسعود...344 عملی اصلاح کیلئے عملی قوت یا علم کا ہونا، اس کی تفصیل 53 عہدیداران اپنے آپ کو اولی الامر سمجھ کر اپنی اطاعت کروانے کے
خطبات مسرور جلد 12 59 مضامین اس وقت تک حقدار نہیں کہلا سکتے جب تک خلافت کی کامل طرح اسلام میں بھی ہیں اطاعت اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے عہدیداران کا غلط طرفداری کرنا 592 353 عیسائی اور یہودی آپس میں سخت مخالفت کرنے والے تھے لیکن 359 آنحضرت علیہ السلام کے خلاف دونوں اکٹھے ہو جاتے تھے کسی عہد یدار کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی محنت کی وجہ سے یہ عید 658 سب کچھ ہوا ہے، یہ اللہ کی چلائی ہوئی ہوا ہے 379 جمعہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے عیدوں جرمنی جلسہ کے حوالہ سے عہدیداران اور مرکزی کارکنان کو نصائح میں سے ایک عید قرار دیا ہے اور ہدایات.384 غیبت جو بھی کامیابیاں مل رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے جھوٹ اور غیبت کی برائی منسوب کریں اور عاجزی و انکساری اور شکر گذاری میں بڑھنے کی غصہ وغضب 387 | تقویٰ کی کمی کے باعث غصہ بھڑکتا ہے 462 26 521 574 کوشش کریں نیشنل عہد یداروں کو اپنے خولوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے اپنے بداخلاق کا غصہ چھوڑ نا مشکل ہوتا ہے آپ کو افسر نہ سمجھیں بلکہ خادم سمجھ کر جماعت کی خدمت کریں 387 اسلام تعلیم دیتا ہے کہ اپنے غصے کود باؤ اور عفو کا سلوک کرو 585 عہدیداران کو جذبات قابو میں رکھنے کی تعلیم 613 غصہ اور غضب کی بری عادت عہدیداران کو نصائح ، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو نبھانے مومن کی نشانی ، غصہ پر ضبط ہونا اور لوگوں سے عفودرگذر کرنا 612 کی ذمہ داری دوسروں سے بڑھ کر ادا کرئے 628 | غلبه عیسائیت، عیسائی 611 ہمارے غالب آنے کے ہتھیار ، استغفار، تو بہ ، دینی علوم کی شرک سے بیزاری کی وجہ سے یورپ وغیرہ تمام بلاد میں عیسائی واقفیت....پانچ نمازوں کو ادا کرنا 448 لوگ ہر روز اپنے مذہب سے متنفر ہورہے ہیں 301 غلبہ انشاء اللہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کا مقدر ہے 503 فرانس کے ایک عیسائی کا اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھ کر ، جلسہ سالانہ میں حضور کا خطاب سن کر احمد ہی ہونا 382 فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے عیسائیوں کا پہاڑوں کی غاروں میں چھپ کر اپنے ایمان کو محفوظ اللہ تعالیٰ کا کمزور مسلمانوں کو کفار پر فتح دلانا رکھنا....108 146 503 آخری فتح ہماری ہے ،اس فتح کے حصول کا سب سے زیادہ فریقہ میں ایک مسجد کا افتتاح اور چیف عیسائی کا شامل ہونا کہ میں تیر بہدف نسخہ دعائیں ہیں دیکھوں یہ کون مسلمان ہیں جو ایک عیسائی کو دعوت دے رہے آخری فتح ہماری ہی ہوگی 315 321 ہیں ، اور کہتے ہیں کہ ایسا اسلام اور مسجد وقت کی ضرورت ہے 567 اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتے ہوئے فتح کے دروازے کھولے گا رسول کریم صلی اسلام نے مسجد نبوی میں عیسائیوں کو عبادت کی اور دشمن کو کوئی جائے فرار نہ ہوگی اجازت دی 321 579 جرمنی کیا اور یورپ کیا ہمیں تو انشاء اللہ تعالی تمام دنیا کو فتح کرنا جس طرح یہودی اور عیسائی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اسی ہے مگر تلوار سے نہیں بلکہ دل جیت کر 355
خطبات مسرور جلد 12 60 مضامین احمدیت کی فتح سے ہی دنیا کی بقا وابستہ ہے 484 حضرت خلیفہ ثانی نے قرآن کی تفسیر میں 8 ، 10 ہزار صفحات لکھے، قرآن کی تفسیر جو آپ نے تحریر کی بے مثال 114،112،110 فتنه و فساد پاکستان اور عرب ممالک سے مولویوں کا فتنہ وفساد پیدا کرنے کی یورپ کے مستشرقین میں سے ایک کی ترجمہ قرآن و تفسیر کے 10 متعلق رائے 115 غرض سے افریقہ میں کوشش مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کا فتنہ و فساد جس نے اسلام کے نام سے میاں حنیف احمد صاحب نے ہیں سال کی محنت و تحقیق کے بعد خوفزدہ کیا ہوا ہے، آنحضرت رحمتہ للعالمین کی بدنامی کا باعث 649 قرآن کریم کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فتوى تنظیم اخوان المسلمین کا احمدیت کے بارہ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ اور الہی نشان کہ الازھر نے ان کے خلاف فتویٰ دے دیا....فرقہ بازیاں 561 تحریر و تفسیر کے بحر بے کراں کا احاطہ کرتے ہوئے قیمتی ارشادات اور اردو، فارسی اور عربی اشعار کا چناؤ اور الہام اکٹھے کر کے ” حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم مہم قرآن“ کے نام سے ایک بڑی اچھی در ضخیم کتاب مرتب کی 119 168 بورکینافاسو، نفور اریجین کی ایک جماعت نیا کارا (Niankara) کے قرآن کریم میں ایک اندازے کے مطابق موجود احکام الہی کی گاؤں میں لوگوں کا احمدیت قبول کرنا اور اس پر فرقہ انصار دین تعداد چھ سو سے زیادہ ہے والوں کا زور لگانا کہ ہمارے فرقہ میں شامل ہوں لیکن ان قرآن خدا کے ساتھ محبت ذاتی پیدا کرنے کے مضمون سے بھرا نومبا لعین کا اطمینان فرقہ بازیاں بیرونی سازشوں کا نتیجہ 8 پڑا ہے 203 414 قرآن شریف اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس فرقہ واریت کے بارے میں حضور انور کا بعض سوالوں کے پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الہی میسر آ سکتا ہے 211 جواب دینا 592 اللہ تعالیٰ کا قرب قرآن کریم کی پیروی سے ملتا ہے 271 آپس میں تفرقہ نہ کرو فیس بک 735 قرآن کریم کی وہ کون سی تعلیم ہے جو ماٹو نہ بن سکے 287 قرآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ فیس بک، گناہ کی طرف لے جانے والی مجلس 158 | جیسا وحدہ لا شریک ہے ایسا ہی محبت کی رُو سے بھی اس کو وحدہ لا فیس بک پر خانہ کعبہ کی توہین کا مذموم الزام 475 شریک یقین کیا جاوے قرآن کریم 296 حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ترجمہ قرآن کرنے کے لئے احمدیت میں شامل ہونے کے بعد لوگ قرآن سے جڑ جاتے ہیں لندن آنا 350 اس کے متعلق بیانات 7 8 جو شخص قرآن کریم کے سات سو حکموں میں سے کسی ایک حکم کو بھی بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن جان بوجھ کر چھوڑتا ہے تو اس کا بیعت کا دعویٰ عبث ہے 415 نے پیش کیا ہے قرآن کریم سے نیک فال نکالنے کا ایک واقعہ 49 قرآن کریم کی اہمیت اور اس کے مقام اور اس پر عمل کرنے کی 53 ضرورت.....420 قرآن شریف میں توریت کے بہت سارے واقعات کا ہونا 94 قرآن کی اہمیت ، اسکی تلاوت کرنے اس کے مضامین کو سمجھنے اور
خطبات مسرور جلد 12 61 مضامین ان پر عمل کرنے کے متعلق مضمون 420 تا 435 | قرب الہی کے حصول کیلئے تو بہ کی اہمیت 428 خدا کا قرب کون حاصل نہیں کر سکتا تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں نہ چھوڑ دینا 275 277 حضرت مسیح موعود کی ایک نصیحت کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے لوگوں سے خاص معاملات ہوتے 433 ہیں اوراللہ تعالیٰ انہیں كُن فَيَكُون والی چادر پہنا دیتا ہے 691 ڈنمارک کے اخبار میں ایک خاتون کا مضمون کہ قرآن بار بار سزا اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے پہلے خود کوشش کرنے کی عذاب کا ذکر کرتا ہے محبت کا لفظ کہیں استعمال ہی نہیں ہوا 440 ضرورت ہے تبھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی قربانی رکھا ہے قرآن کے ساتھ سواحکام 564 مالی قربانیوں کے واقعات 582 جماعت میں قربانی کرنے کی روح 775 11 تا 14 312 315 آپ کے بارے میں حضور کا فرمانا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قربانیوں کی جو مثالیں قائم کر رہے ہیں وہ کبھی رائیگاں نہیں جیسے لوگ ہوتے تو اتنے بڑے قرآن شریف کی ضرورت نہیں جائیں گی اور آخری فتح ہماری ہے، اس فتح کے حصول کا سب سے تھی.صرف بسم اللہ کی ”ب“ کافی تھی گھانا کی علاقائی زبان بچوئی (Twi) میں الحاج یوسف صاحب آنحضور اور صحابہ کرام کی قربانیوں کے بے مثال نمونے 318،317 680 احمدیت کی تاریخ میں پہلا موقع کہ تمام قربانی کرنے والیاں 640 زیادہ تیر بہ حدف نسخہ دعائیں ہیں کا قرآن کریم کا ترجمہ کرنا قرآن کریم کی جو پیشگوئیاں ہیں ان میں سے ایک پیشگوئی جو عورتیں اور بچیاں ہیں، گوجرانوالہ کا سانحہ سواری کے متعلق ہے اس کی تفصیل 705 مسیح موعود کو ماننے سے بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی قرب الہی 475 472.470.467 مادی اشیاء کے لئے جذبات محبت یا مادی نقصان کے خوف سے خدا کے مامور کے ساتھ شامل ہونے والوں کو قربانیاں دینی جذبات خوف غالب آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل پر تی ہیں اور وہ ضائع نہیں جاتیں کرنے سے انسان محروم رہ جاتا ہے 40 قطع حقوق قطع حقوق معصیت ہے 499 85 کہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق سے جڑ کر اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق پیدا کیا جا سکتا ہے 48 قوت قدسیه اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے 265 266 انقلاب قوت ارادی کی بہترین مثال ر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا جو وسیلہ اور نمونہ اور تعلیم خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ بھی ہوا اور نہ 211 آنحضرت کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں صحابہ میں پیدا ہونے والا 268 | آئندہ ہوگا 33.32 427.424 کی کامل اتباع ہے اللہ تعالیٰ کا قرب ، قرآن کریم کی پیروی سے ملتا ہے 271 کارکنان قرب الہی کیلئے نمازوں کا حق ادا کرنا ضروری ہے 274 | ربوہ ، قادیان اور لندن کے کارکنان ضیافت کو ہدایات ، کنجوسی کا
خطبات مسرور جلد 12 62 مضامین اظہار نہ ہو، یہ نگر خانہ آپ کا نہیں حضرت مسیح موعود کا ہے 174 | کونسل ہیومینٹی فرسٹ کے کارکنان کی اہمیت دین کے ساتھ جڑ کر مسلم جوڈیشل کونسل کے زیر اہتمام کانفرنس میں جماعت کی خدمت انسانیت کرنے میں ہے 284 مخالفت میں پروگرام 9 جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمان نوازی کے حوالہ سے کارکنان آمد کے حصول کے حلال ذرائع اختیار کریں اور امانت، دیانت کے 364 معیار اونچے کریں، کونسل کو دھوکہ دے کر Benifit حاصل کرنا 68 جلسہ کو نصائح جرمنی جلسہ کے حوالہ سے عہدیداران اور مرکزی کارکنان کو نصائح اور ہدایات 384 گھانا میں نیشنل پیس کونسل کا قیام کشف 141 حضرت مسیح موعود کا کشف ایک خط میں لکھا ہونا ئی ایم کو رلر (1 اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف شعبہ جات میں اب کارکنان کی کافی am quarreler).اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے.ھذا تربیت ہو چکی ہے جلسے کے کارکنان کے لئے ہدایات کتب حضرت مسیح موعود 517 527 شَاهِدٌ نَزَّاغ 74 عالم کشف میں حضرت مسیح موعود کو دکھا یا گیا کہ ایک بلا سیاہ رنگ يوسف اللطیف صاحب کا حضور کی کتب پڑھ کر بیعت کرنا 17 چار پائے کی شکل پر جو بھیٹر کے قد کی مانند اس کا قد تھا (سیاہ رنگ آپ کی کتب پڑھنے سے افریقہ اور عرب ممالک کے احمدیوں کی بلا تھی.جانور کی شکل کی طرح تھی اور بھیٹر کے مطابق قد تھا.) میں روحانی انقلاب کا پیدا ہونا 62 اور بڑے بڑے بال تھے اور بڑے بڑے پنجے تھے آپ پر آپ کی کتب ہدایت کا باعث بن رہی ہیں 89 حملہ کرنے لگی اور آپ دل میں ڈالا گیا کہ یہی صرع ہے 702 حضرت اقدس کی کتب اور تحریرات ایک نشان ہیں 93 وہاب آدم صاحب کو مخالفت کی وجہ سے حج پر نہ جانے دینا اور حضور کی عربی کتب کا نشان اور برکات کی کچھ مثالیں حضور انور حضرت خلیفہ ثالث " کا کشفاً آپ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے نے جو پیش فرمائیں 94 ہوئے دکھایا جانا 399 حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کا کشفی حالت میں بدر صاحب کا دمشق کے ایک احمدی نو مبائع رضوان صاحب کو اسلامی اصول کی فلاسفی پیش کرنا اور ان کا احمدی ہونا 102 حضرت اقدس مسیح موعود کو عبد الوہاب آدم صاحب اور امری عبیدی صاحب کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھنا 392 سید جعفر حسین صاحب کا تفسیر کبیر پڑھ کر بیعت کرنا 113 کشف قبور حضور انور کا نو مبائعین سے سوال کہ آپ کو کس چیز نے بیعت کے ایک سجادہ نشین کا کشف قبور کا دعویٰ اور حضرت مسیح موعود کو لئے متاثر کیا تو ان کا جواب کہ اسلامی اصول کی فلاسفی نے 179 چیلنج ، حضور کا جواب 187 | گناه آپ کی کتب کو پڑھتے رہنا چاہئے آپ کی کتب اور ارشادات کی اہمیت 342 گناہ کو حقیر سمجھنا اس پر دلیر کر دیتا ہے فرانس کے ایک عیسائی کا اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھ کر ، جلسہ گناہوں کو مٹانے کا ایک طریق 186.185 27.26 49.48 سالانہ میں حضور کا خطاب سن کر احمدی ہونا 382 یہ تصور کہ کچھ گناہ بڑے اور کچھ چھوٹے ہوتے ہیں اس کا نقصان 53
خطبات مسرور جلد 12 63 گناہوں سے نجات ، نیکیوں کی توفیق اور دعا کے معیار کی بابت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، قرآن کریم کا خلاصہ حضرت مسیح موعود کی تحریر مضامین 288 156 الا الہ الا اللہ پر کار بند ہوکر اسلام کی محبت اور عظمت قائم ہوسکتی ہے 294 انسان گناہ کی طرف کیوں گرتا ہے اور نفس امارہ دلوں پر کیوں لالچ قبضہ کرتا ہے؟ 157 امداد کی درخواست دینے والوں کو نصیحت کہ اپنی عزت نفس کا گناہ کی طرف لے جانے والی مجالس ، ٹی وی، انٹرنیٹ، فیس بک بھرم رکھا کریں اور دیکھا دیکھی کی کی لالچ کارجحان نہ ہو 47 کے نقصانات وغیرہ گناہوں سے بچنا بغیر معرفت الہی کے ممکن نہیں گناہوں سے رکنے کے لئے معرفت الہی کی اہمیت گناه کبیره 158 159 159 دنیا میں بدامنی مذہب کی وجہ سے نہیں پھیل رہی بلکہ لالچ اور سیاست اس کی وجوہات ہیں 147 نوجوان نسل کے جذبات ابھار کر انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا لالچ دے کر ان علماء نے ظلم کی راہ پر لگایا ہوا ہے 412 208 لنگر خانہ، دارالضیافت 173 گناہ کی حقیقت اور اس کا علاج 209، 211، 214 لنگر خانے کا خرچ حضور کے زمانہ میں گناہ ایسی زہر ہے جس کے کھانے سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے 275 حضرت مسیح موعود کے کاموں کی ایک اہم شاخ جو ساری دنیا میں گناہوں سے خوفزدہ لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کا جاری ہے اور خلافت کی وجہ سے اب مستقل بنیادوں پر لندن میں خوبصورت پیغام اور اس کی تفسیر 438 قائم ہے انگر خانہ میں کام کرنے والوں کے لئے ہدایات 174 تعزیری کارروائی میں عفو گناہ بن جاتا ہے 614 ربوہ ، قادیان اور لندن کے کارکنان ضیافت کو ہدایات، کنجوسی کا اظہار نہ ہو، یہ انگر خانہ آپ کا نہیں حضرت مسیح موعود کا ہے 174 گرہن امریکہ میں ہونے والا گرہن چاند سورج گرہن کا نشان اور اس کی تفصیل 170، 172، 187 لئے اپنے دلوں کو بھی مہمانوں کے لئے وسیع کرنا ہو گا.لنگر خانہ تو حضور کے اہم کاموں میں سے ایک کام تھا 170 وَشِعْ مَكَانَك كے اللہ تعالیٰ کے حکم کو آج بھی پورا کرنے کے گستاخانہ خاکے امریکہ اور جرمنی کی جماعت کو گستاخانہ خاکوں کے خلاف قانون ایک خاتون کا لنگر خانوں کا نظام دیکھ کر بیعت کرنا کے دائرہ میں رہ کر احتجاج کرنے کی تلقین 413 لیلة القدر گستاخانہ فلم 365 530 لیلۃ القدر دعاؤں کی قبولیت اور بندے کو خدا کے قریب تر کرنے جرمنی میں گستاخانہ فلم چلائے جانے کا پروگرام بنا اور جماعت کا کے جلوے دکھانے اور دیکھنے کا بہت بڑا ذ ریعہ ہے 413 لیلتہ القدر کی اہمیت اور برکات رو عمل لا الہ الا الله 443 452 حضرت مصلح موعود کا لیلتہ القدر کی بابت ایک اہم نکتہ 453 علامہ المغر بی کا خلیفہ ثانی کو لوگوں کو لا الہ الا اللہ پر اکٹھا کرنے کی لیلتہ القدر انسان کیلئے اس کا وقت اصفی ہے 228 مالی قربانی (دیکھیں انفاق فی سبیل اللہ چندہ) درخواست کرنا ہمارا ما ٹو قرآن کریم ہے اور اگر کسی دوسرے ماٹو کی ضرورت ہے ماٹو تو وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ 457 282 ہمارا ما ٹو قرآن کریم ہے اور اگر کسی دوسرے ماٹو کی ضرورت ہے
خطبات مسرور جلد 12 تو وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول الله 64 مضامین 282 | لکڑیوں کی طرح ٹوٹ کر خاک میں ملنے والے ہیں 411 472 658.657 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو جو ماٹو دیا یا مخالفین کا جماعت کی سچائی دیکھ کر حسد میں جلنا جس طرف توجہ دلائی وہ ایسا ہے جس سے دین بھی مضبوط ہوتا دشمنوں اور مخالفین پر وبال اور عذاب کی دعا نہیں ، مشکلات کا یہ دور ہے، ایمان بھی مضبوط ہوتا ہے 285 ختم کرنے اور ان لوگوں کی بہتری کے لئے دعا کریں ہاں اگر 492 ہمارا مائو تو تمام قرآن کریم ہی ہے لیکن اگر کسی دوسرے ماٹو کی مخالفین احمدیت پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کا مشاہدہ 599 ضرورت ہے تو حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ مخالفین احمدیت کی مخالفت کا سبب اور یہ مخالفین ہمارے ساتھ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے مقرر کر دیا اور وہ ہمیشہ نہیں رہیں گے ہے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ 287 تا 291 باوجود نقصان اور مخالفت کے ہمارے دلوں سے ہمارے آقاو صحبت سب کے لئے....ایک پر تاثیر ماٹو 597،595،541،537 مطاع حضرت محمد کی محبت نکال نہیں سکتے آرتی میف صاحب ( قزاقستان ) کا جلسہ سالانہ یو کے میں مخالفین کو یادرکھنا چاہئے کہ افراد جماعت کو دی جانے والی عارضی دعوت دینے پر خلیفہ اسیح اور جماعت کا شکریہ ادا کرنا اور تکلیفیں جماعتوں کو ختم نہیں کر سکتیں ، ایک حکومت تو کیا تمام جماعت کے ماٹو محبت سب کیلئے اور نفرت کسی سے نہیں“ کو حکومتیں مل کر بھی دنیا سے جماعت احمدیہ کو مٹا نہیں سکتی 770 سب سے زیادہ پرکشش پیغام قرار دینا 538 767 محبت سب کے لئے Love For All پر اعتراض کہ یہ کس طرح ہو سکتی ہے 203 ناراض ہونا اور مرتد ہو کر چلے جانا محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں جماعت احمدیہ کا یہ نعرہ اور مسجد ایک شخص کو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے کسی کی کہنی لگنے پر اس کا 361 3 اس کی حقیقت اور پر معارف تشریح 280 تا 291 | نماز با جماعت کیلئے مساجد کے انتظام کی اہمیت محبت سب کے لئے..ایک پر تاثیر ماٹو 597،595،541،537 سال 2013ء میں جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر کی آرتی میف صاحب ( قزاقستان ) کا جلسہ سالانہ یوکے میں تو فیق مانا اوراس کا ایک جائزہ دعوت دینے پر خلیفہ اسیح اور جماعت کا شکریہ ادا کرنا اور جرمنی میں مختلف مساجد کا افتتاح اور اسلام کی خوبصورت تعلیم جماعت کے ماٹو محبت سب کیلئے اور نفرت کسی سے نہیں“ کو لوگوں تک پہنچانا سب سے زیادہ پرکشش پیغام قرار دینا مخالفین احمدیت 538 370 جرمنی میں مسجد کے افتتاح کے موقع پر غیروں کے تاثرات کہ جماعت نے ہمیشہ امن کا پیغام دیا 377 371 مخالفین احمدیت چاہے جتنی طاقت رکھنے والے ہوں خس و ویز بادن کی مسجد کے سنگ بنیاد پر غیر مسلموں کے تاثرات 377 خاشاک کی طرح اڑ جاتے ہیں ایک سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح جسم ہو جاتے ہیں 182 مسجد مہدی میونخ کے افتتاح کے موقع پر غیروں کے تاثرات 379 مخالفین جس کو بظاہر آجکل یہ اپنی کامیابیاں سمجھ رہے ہیں ان کی پریس اورمیڈ یا کا جرمنی جلسہ اور مساجد کے افتتاح کی کوریج دینا 384 ناکامیاں بننے والی ہیں.جن دنیاوی سہاروں پر بھروسہ کر کے افریقہ میں ایک مسجد کا افتتاح اور چیف عیسائی کی شمولیت 567 یہ لوگ ظلم کا بازار گرم کر رہے ہیں یہی سہارے دیمک زدہ اقبال محمد خان صاحب مسجد حسن اقبال، جامعہ احمد یہ ربوہ بنانے والے 576
خطبات مسرور جلد 12 65 مضامین مساجد کی تعمیر کی اہمیت ، آداب اور افادیت 578 | معرفت رسول کریم مسی یا یہ تم نے مسجد نبوی میں عیسائیوں کو عبادت کی خدا تعالیٰ کی معرفت میں کمی سے ایمان ڈانواڈول رہتا ہے 45 579 معرفت الہی ہی سے اس آگ کو جلایا جاسکتا ہے جو گناہوں کو بجسم اجازت دی آنحضور کی پیشگوئی کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں کی مساجد لوگوں کر دیتی ہے سے آباد تو ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی 598 گناہوں سے بچنا بغیر معرفت الہی کے ممکن نہیں 155 159 159 آئرش ٹائمز اخبار کا حضور انور کے دورہ و مسجد مریم کے افتتاح کی گناہوں سے رکنے کے لئے معرفت الہی کی اہمیت 598 معرفت بھی ایک شے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے 159 خبر شائع کرنا حضور انور کا عبادتوں کی طرف تو جہ دلانے پر مخلص احمدیوں کا عملی اصلاح کے طریق کے تسلسل میں معرفت الہی کے حصول کی بابت خوبصورت رد عمل کہ مساجد میں حاضری بڑھنا 607 رہنمائی اور ارشادات حضرت مسیح موعود کی پر معارف تشریح 154 166 مسلمان معرفت سے ہی خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے 161 سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئے 165 167 168 نماز ہر مسلمان پر فرض ہے آجکل ہونے والا ایک اعتراض کہ قرآن کی تعلیم اگر یہ ہے تو محض سمجھے مسلمانوں کے عمل اس کے مطابق کیوں نہیں؟ 80 احکام الہی پر عمل بغیر معرفت الہی کے نہیں ہو سکتا ایک یہودی کا حضرت عمرؓ سے کہنا کہ ہمیں مسلمانوں سے حسد اعمال صالح کا محرک تو معرفت ہی ہے ہے کہ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی ایسی بات نہیں جو اسلام جتنی زیادہ خدا تعالیٰ کی معرفت ہوگی اتنا زیادہ عبادات اور اعمال 86 صالحہ کی روح کو سمجھتے ہوئے ان کو بجالانے کی طرف توجہ ہوگی 169 کے احکامات میں موجود نہ ہو مسلمانوں کی کمزوری اور مذہب سے دور جانے کی حالت کی اگر معرفت کا دعویٰ کر کے کوئی اس پر نہ چلے تو یہ نری لاف گزاف پیشگوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی 146 اللہ تعالیٰ کا کمزور مسلمانوں کو کفار پر فتح دلانا مسلمان ممالک کی بدقسمتی ، اتفاق واتحاد کا فقدان 146 453 ہی ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِن کا منشاء خدا کی معرفت ہے مدد 308 518 عملی اصلاح کیلئے جب تمام اندرونی قوتیں کمزور پڑ جائیں تو مسلمانوں کا باہم برسر پیکارا و قتل وغارت 482 بیرونی امدا کی ضرورت ہوتی ہے ایک سروے کی رپورٹ کہ مسلمان سب سے زیادہ صدقہ و أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيب خیرات کرتے ہیں 522 ہمیں ایک دوسرے کا مددگار بننے کی ضرورت ہے خدا میں پیوست ہوکر اس سے مدد چاہنا 28.27.26 73 86 270 قرون اولیٰ میں مسلمانوں کی قدر و عظمت اور اب ابتر حالت 566،565 افریقہ میں ایک مسجد کا افتتاح اور چیف عیسائی کا شامل ہونا کہ میں دیکھوں یہ کون مسلمان ہیں جو ایک عیسائی کو دعوت دے رہے الہی جماعتوں کی ترقی میں دنیاوی مددکا کوئی کردار یا ہاتھ نہیں ہوتا 3113 ہیں ، اور کہتے ہیں کہ ایسا اسلام اور مسجد وقت کی ضرورت ہے 567 دنیا اگرمدد بھی کرتی ہے تو اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے 315 مساجد کی تعمیر کی اہمیت ، آداب اور افادیت 578 متى نضر الله....الا اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبُ 326
خطبات مسر در جلد 12 66 مضامین يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ 388 سے فراغت متقی اللہ سے ہی مدد مانگتے ہیں 405 411 بعض مربیان جو ہیں وہ محنت کرتے ہیں اور بہت محنت کرتے ہیں ہمارے سب کام کسی کی قابلیت اور کوشش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو بالکل کام نہیں کرتے کی مدد سے ہوتے ہیں 405 517 ایم ٹی اے کے پروگرامز میں مرتبیان کو وقار کے ساتھ بیٹھنے کی تاکید 689 حلف الفضول، غریبوں کی مدد کے لئے اور ضروریات پوری مذہب کرنے کے لئے تنظیم بنائی گئی 656 روحانی اور مادی مدد بلا امتیاز ہم نے ہر ایک کی کرنی ہے 655 اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے کچھ بھی نہیں ہوسکتا 725 اسلام کے سوا کوئی ایسا مذ ہب نہیں جس کے پاس خدا تعالیٰ کا تازہ کلام ہو 44 ہمارے مذہب کی سچائی کا نشان یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں 51 لندن میں 1924ء میں مذاہب کانفرنس....ویمبلے کا نفرنس کا إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا خدا تعالیٰ اپنے مقربین کی حفاظت فرماتا ہے 740 مختصر جائزہ مربیان واقفین زندگی 133121 اگر کوئی مذہب خدا کے وجود کی کامل شناخت نہیں کروا سکتا تو وہ مبلغین سلسلہ کی دنیا بھر میں اسلام کی تعلیم اور اشاعت کے بارہ مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہے میں مساعی اسلام ایک زندہ مذہب ہے مربیان ، امراء، عہد یداران ،خلیفتہ المسیح کے خطبات کی روشنی 44 میں اپنے پروگرام بنایا کریں ہماری جماعت کے اعمال میں کمزور ی کی ایک وجہ مربیان ، سلسلہ کے علماء اور واعظین کی عدم توجہگی مربیان ، عہدیداران کا فریضہ کہ اصلاح کی کوشش کریں اور اس کے لئے...44 49 مربیان اور عہدیداران کو بار بار جھوٹ سے بیچنے کی تلقین کرنا ہوگی 54 126 129 ہر بچے مذہب نے اپنے اپنے وقت میں انسانیت کو اعلیٰ اقدار 139 140 سے نوازا ہے برطانیہ میں 11 فروری 2014ء کو منعقد ہونے والی مذہبی عالمی کانفرنس مسلمانوں کی کمزور اور مذہب سے دور جانے کی حالت کی پیشگوئی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی 146 دنیا میں بدامنی مذہب کی وجہ سے نہیں پھیل رہی بلکہ لالچ اور مربیان، واقفین زندگی ، امراء اور عہدیداران کا مقام اور ذمہ داریاں 58 سیاست اس کی وجوہات ہیں 147 واقفین زندگی اور واقفین نو، جامعہ حمدیہ کے طلباء کیلئے ضروری نصیحت 64 مذہب کی جڑ خداشناسی اور معرفت نعمائے الہی ہے اور اس کی دنیا کو دلائل سے زیادہ نمونہ کی ضرورت ہے اس کیلئے مربیان شاخیں اعمال صالحہ اور اس کے پھول اخلاق فاضلہ ہیں 164 65 66 اسلام تو امن و سلامتی کا مذہب ہے 371، 594،542،524 مذہب کے معاملے میں یہ حکومت (برطانیہ)...دخل نہیں دیتی، پاکستان جیسے حالات اس ملک میں نہیں؟ او معلمین کی ذمہ داری....خلافت کا صحیح فہم و ادراک پیدا کرنا بھی مربیان کے کاموں میں سے ایک اہم کام ہے 66 خلیفہ وقت کے قضاء کے فیصلوں پر اعتراض کرنے والے اور عہدیداران اور مر بیان کی ذمہ داریاں 66 معجزه ایک مربی صاحب کی جماعتی وقار کے خلاف حرکات اور وقف مردہ زندہ کرنے کا معجزہ کی حقیقت 686 107
خطبات مسرور جلد 12 67 مضامین جو معجزات آپ کو دیئے گئے بعض ان میں سے وہ پیشگوئیاں ہیں مومن ایک لا پروا انسان ہوتا ہے اسے صرف خدا تعالیٰ کی جو بڑے بڑے غیب کے امور پر مشتمل ہیں کہ بجز خدا کے کسی رضامندی کی حاجت ہوتی ہے کے اختیار اور قدرت میں نہیں کہ ان کو بیان کر سکے 193 مومن کو ہر وقت تیار اور محتاط رہنا چاہئے معروف 302 343 مومنین کی ایک نشانی ، آپس میں رحم کے جذبات سے پر ہوتے ہیں 412 خلیفہ کے معروف فیصلہ کی پابندی ، معروف کی تشریح اور وضاحت 349 حقیقی مومن کو قبولیت دعا کا خاص نظارہ دیکھایا جاتا ہے 453 ایک خالص مومن کے خدا تعالیٰ سے تعلقات ایسے ہی ہوتے منافق منافقین کا باتیں کرنے کا انداز....جماعت کو منافقوں سے ہوشیار رہنا چاہئے منافق کافر سے بدتر ہے موازنہ مذاہب 6 ہیں جیسے ایک دوست کے 459 6 حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر مومن سے کوئی خطا ہو جائے تو 491 اس کے اعمال صالحہ اس کے لئے ڈھال بن کر اسے تباہی سے بچا لیتے ہیں 461 487 نصیر احمد انجم صاحب کا ذکر خیر ، موازنہ مذاہب میں ایک اتھارٹی ایک مومن کبھی خود غرض نہیں ہوتا تھے، خلافت کے ساتھ ان کو غیر معمولی تعلق اور پیار تھا اور حقیقی مومن کو ہمیشہ نبی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اصلاح کے سلطان نصیر میں شامل تھے مولوی 449 سامان کرتے رہنا چاہئے 493 حضرت مریم کی صفات ایک حقیقی مومن کو اپنانی چاہئیں 587 ساؤتھ افریقہ اور دیگر ممالک میں غیر احمدی مولویوں کی بھاگ ایک مومن کی نشانیاں اور اس کی ذمہ داری 606 دوڑ اور احمدیت کا غیر معمولی نفوذ پاکستان اور عرب ممالک سے مولویوں کا فتنہ و فساد پیدا کرنے کی مثلاً نماز مجبوری یا بیماری کے سبب سے بیٹھ کر ، لیٹ کر بھی پڑھی جا 9 اللہ تعالیٰ نے مومنین کو حالات کے مطابق سہولتیں بھی دیں ہیں 10 سکتی ہے....607 غرض سے افریقہ میں کوشش بعض چینلز پر یا انٹرنیٹ پر مولوی جو اعتراض کرتے ہیں اُن کے مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہے اور جھوٹ جواب اور بعض دفعہ بڑے عمدہ اور احسن رنگ میں جواب ایک کے قریب بھی نہ پھٹکے عام احمدی بھی دے دیتا ہے 608 45 مومن کی نشانی ، غصہ پر ضبط ہونا اور لوگوں سے عفو در گذر کرنا 612 پنجاب کے مولویوں کا حضور کے خون کا پیاسا ہونا 175 | مهدی صدقہ و خیرات کی بابت ایک مولوی کا وعظ 302 بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے روزہ دار مولوی کا تصنع بعض مولویوں میں بھی شرافت موجود ہے مومن 77 303 یہ بھی الہی معجزہ تھا کہ امام مہدی کو فارسی الاصل پیدا کیا 97 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ مہدی ہونے کا تھا 126 601 مہدی کیلئے کسوف خسوف 170 مسلم ممالک کی موجودہ حالت پر حقیقی مومن کی بے چینی 69 مولوی لکھو کے والے کا احوال الآخرت میں مہدی موعود کے 78 وقت کے بارہ میں شعر آدمی کس وقت سچا مومن کہلا سکتا ہے؟ مؤمن کا رنگ عاشق کا رنگ ہوتا ہے 213 محمد طاہر جس کی بددعا سے جھوٹا مہدی ہلاک ہوا 173 177
خطبات مسرور جلد 12 68 مضامین جَاءَ الْمَهْدِي ، جَاءَ الْمَهْدِي 557 | نبوت / نبي جب آپ نے مسیحیت اور مہدویت کا دعوی کیا تو لوگوں نے شور بنی اسرائیل میں کثرت سے نبی آئے 645 | اسلام ہی ایسا مذ ہب ہے جس کا نبی بھی زندہ ہے مچادیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق وہ مسیح موعود اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو غیب کی باتیں بتا تا ہے اور مہدی معہود آ گیا 85 155 171 650 حضرت مسیح موعود نے اونٹوں کی مثال سے نبوت اور امامت کی پاکستان میں ایک بڑے مولوی کا کہنا کہ امام مہدی نے نہیں آنا 708 اطاعت کے مسئلے کو حل فرمایا مہمان نوازی 324 مومن کو ہمیشہ نبی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اصلاح کے جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمان نوازی کے حوالہ سے کارکنان سامان کرتے رہنا چاہئے 364 انبیاء کا وجود دنیا میں نمونہ ہوتا ہے 493 494 504 جلسہ کو نصائح جب خلیفہ وقت کی موجودگی کی وجہ سے مہمان آئیں تو اور بھی زیادہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا مہمان کا خیال رکھنا چاہئے کسی قسم کے خرچ سے ڈرنا نہیں چاہئے 365 اللہ تعالیٰ نے ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ جوڑ کر مشروط کیا اور ابراہیم کی مہمان نوازی کی اعلیٰ مثال 365 ، 508 یہ حالت پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء بھی بھیجتا ہے 566 آنحضرت کا مہمان نوازی سے چہرہ دمک اٹھنا کہ آج مدینہ کے ہر نبی میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز صحابہ نے مہمانوں کے آرام کا خیال رکھا ہے 365 کرتی ہے جرمنی میں مختلف مواقع پر مہمان نوازی کے بارہ میں ہدایات 366 جتنے بھی نبی آئے انہیں اور ان کے ماننے والوں کو مخالفتوں کا میونخ میں مہمانوں کے لئے کھانے کے بارہ میں ایک کمی کی سامنا کرنا پڑا طرف حضور کا توجہ دلانا 367 انبیاء کا دل بڑا شکر گزار ہوتا ہے 615 651 687 739 مہمان نوازی مہمان کا حق ہے اس کی مہمان نوازی کر کے نبی کی صداقت کا ایک اصول باتیں بنانا ایک گھٹیا فعل ہے ، حضور کے ساتھ آنے والے لوگوں اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتارہتا ہے 748 نشان نشانات کے ساتھ جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی باتیں اور حضور کی تنیہ حضرت مسیح موعود کی تائید میں ہونے والے الہی نشانات اور تائیدات 72 367 حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ظاہر ہونے والے نشانات کا تذکرہ اور استغفار کی نصیحت ابراہیم اخلف صاحب کا عبد الوہاب آدم صاحب کے متعلق اور حضورانور کی پر معارف تشریح خلافت کے احترام اور مہمان نوازی کا وصف بیان کرنا 404 آنحضرت اور صحابہ کا اسوہ مہمان نوازی 511 حضور کا حضرت عائشہ سے مہمان نوازی کے لئے گھر میں کھانے کے متعلق پوچھنا 87 93 حضرت اقدس کی کتب اور تحریرات ایک نشان ہیں حضور کی عربی کتب کا نشان اور برکات کی کچھ مثالیں حضور انور 511 نے جو پیش فرمائیں 94 ربوہ میں جلسہ سالانہ پر اہلیان ربوہ کا جذبہ مہمان نوازی 513 بورکینا فاسو کے دوگو (Dedougou) ریجن کے لوگوں کا حضرت مسیح موعود کی سیرت ، مہمان نوازی 514 | بارش کا نشان دیکھ کر احمدیت قبول کرنا 103
خطبات مسرور جلد 12 69 حضرت مصلح موعودؓ کا اسیروں کی رستگاری کا باعث ہونے کا لینے میں نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے حصول میں ہے ایک زندہ نشان مضامین 409 115 حضرت مسیح موعود کی ایک نصیحت کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح 433 186 حضرت مسیح موعود کی ایک نصیحت کہ قرآن کی ہدایت کے 189 حضور انور کی صفائی کے متعلق خاص نصیحت 428 435 آیات اللہ اور نشانات کی بابت اصولی بحث ، فراست اور خوف نہ چھوڑ دینا خدا نہ ہو تو وہ محروم ہی رہتا ہے لیکھرام کا پیشگوئی کے مطابق مرکز عظیم الشان نشان بننا 186 برخلاف قدم نہ اٹھاؤ مخالفین کے ہلاک ہونے کا نشان حضور انور کا قبول احمدیت کے واقعات بیان کرنے پر امریکہ صحیح رنگ میں رہنمائی اور نصیحت سے طبیعتوں میں تبدیلی پیدا سے کسی کا خط، خدا تعالیٰ کا نشان دکھانا تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ ہوتی ہے 551،550 حضرت مسیح موعود کی بیعت کرنے والوں کو نصیحت 575 ان واقعات میں مبالغہ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی رہنمائی کے نشانات کے ذریعہ احمدیت حضرت مسیح موعود نے نرمی کی بہت تعلیم دی ہے اور سختی کو دور قبول کرنے کی مثالیں طاعون کو حضور کے لئے بطور نشان بھیجا جانا نشر 6250551 654 کرنے کی نصیحت فرمائی ہے نظام 509 616 پاکستان میں اور مغربی ممالک کی پڑھائی کے نظام میں فرق 23 شراب کا جونشہ ہے انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور نشے اطاعت خلافت اور احترامِ نظام کے حوالے سے بھی افرادِ 35 جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے میں اُسے بالکل پاگل بنادیتا ہے مسجد فضل کی سڑکوں پر ایک شرابی کی مثال کہ شرابی کو نشے میں کچھ تمام برکتیں نظام میں ہیں 58 66 33 ایک غلط فہمی کہ اسلام کے اقتصادی نظام کا نظریہ شاید مودودی معلوم نہیں رہتا گھانا میں ایک چوکیدار حضور انور نے رکھا جو نشہ کرتا تھا 33 34 صاحب نے پیش کیا تھا....118 شیشہ یا حقہ.یورپ امریکہ میں ایک نیا رواج جس سے احتراز سیاسی لیڈر اور دیگر نظام دنیا میں امن قائم کرنے میں کامیاب کی نصیحت 38 نہیں ہو سکے دنیاداری کی وجہ سے ساری بے سکونی اور بے چینی ہے نشوں میں ایک خاتون کالنگر خانوں کا نظام دیکھ کر بیعت کرنا گرفتاری بھی اسی وجہ سے.....نصیحت، نصائح 417 میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو 77 حضرت مسیح موعود کا نفرتوں کو دور کرنے کے بارے میں نصیحت فرمانا 283 139 530 536 جہاں نظام اور ترتیب ہو وہاں خدا ہوتا ہے اولوا الامر میں جماعتی نظام اور حکومتی نظام بھی شامل ہے 730 نفس اماره انسان گناہ کی طرف کیوں گرتا ہے اور نفس امارہ دلوں پر کیوں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری عزتیں ہماری بڑائی کسی کو نیچا دکھانا یا قبضہ کرتا ہے؟ 157 اسی طرح ترکی بہ ترکی جواب دینے میں نہیں اور زیادتیوں کا بدلہ جب تک خدا تعالیٰ کی محبت ذاتی پیدا نہ ہو انسان نفس اتارہ کے
خطبات مسرور جلد 12 نیچے رہتا ہے نقل 70 213 | واقفیت....پانچ نمازوں کو ادا کرنا نماز استخاره مضامین 448 557 دنیاوی کاموں میں نقل کا شوق اور نقصانات اس کے برعکس صحابہ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نمازوں کا حق 47 ادا کر کے نمازیں پڑھتے ہیں 581 اور نیکیوں کی نقل کی طرف توجہ کی ضرورت نقل اگر کرنی ہے تو صحابہ کے واقعات کی کریں 49 آنحضور کی پیشگوئی کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں کی مساجد لوگوں حضرت مسیح موعود کی تحریر کو خلیفہ ثانی نے نقل کیا 637 ، 638 سے آباد تو ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی نگرانی 598 خدام الاحمدیہ اور لجنہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ نو جوانوں کو نمازوں والدین کی بچوں پر نگرانی، ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کے معاملہ کا پابند بنائیں اس عمر میں صحت ہوتی ہے اور عبادتوں کا حق ادا ہو 59 سکتا ہے SCC 607 میں نگرانی ناجائز حد تک...مختلف امور میں نگرانی کی ضرورت اور اہمیت 59 اللہ تعالیٰ نے مومنین کو حالات کے مطابق سہولتیں بھی دیں ہیں نگرانی ، نظام اور جبر میں توازن اور اعتراض کا جواب 60 مثلاً نماز مجبوری یا بیماری کے سبب سے بیٹھ کر ، لیٹ کر بھی پڑھی جا اصلاح عمل میں کامیابی کیلئے ضروری امور ، ایمان علم صحیح نگرانی سکتی ہے..اور جبر...نگینه 61 نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے حضرت معاویہ کی نماز قضاء ہونے کا واقعہ حضور کا ملا وامل کو الہام نگینہ میں کھدوا کر مہر بنوانے کے لئے نیکی امرتسر بھجوانا نماز نماز با جماعت کیلئے مساجد کے انتظام کی اہمیت نماز ہر مسلمان پر فرض ہے نماز استسقاء 173 حقیقی نیکی کے حصول کا طریق 607 624 640 14 ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو ہمیں انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے 86 انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے، بدی سے پر ہیز کرنا، نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا 155 103 | گناہوں سے نجات ، نیکیوں کی توفیق اور دعا کے معیار کی بابت نماز خود دعا ہے نماز کو جس قدر سنوار کر ادا کرو گے اسی قدر گناہوں حضرت مسیح موعود کی تحریر سے رہائی پاتے جاؤ گے 156 160 اصل نیکی خدا تعالی کی ذات میں ہے اور اس کی طرف سے ہی 274 نیکی آتی ہے قرب الہی کیلئے نمازوں کا حق ادا کرنا ضروری ہے انسانیت کی خدمت کے زعم میں اپنی نمازوں اور عبادتوں کو نہیں چھوڑ سکتے 291 265 جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ بھی خود نمائی نہیں کرسکتا283 نماز با جماعت کی طرف توجہ اور خاص اہتمام ہونا چاہئے 425 دشمنیاں ختم کرنے کی نیکی ایک بہت بڑی نیکی ہے 284 اصلاح کے ذرائع ، نماز ، قرآن شریف پر تدبر 425 نبی کریم صلی علیہ السلام نے مختلف اشخاص کو ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہمارے غالب آنے کے ہتھیار ، استغفار، تو بہ، دینی علوم کی ہوئے معین نیکیاں بجالانے کی تلقین کی 289
خطبات مسرور جلد 12 71 مضامین اپنی کسی بھی نیکی کا اظہار کرنا مخفی گناہ ہیں 303 پاؤنڈ کی مالی قربانی جماعت نے پیش کی 15.14 16 ہر نیکی کے متعلق یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ جائے نہیں...قرآن فریقی ممالک کو وقف جدید کے چندوں کی فہرست بھجوانے کی 461 ہدایت کریم میں بھی وَالْبقِيتُ الصّلحت...واقفین زندگی (اس کے لئے دیکھئے ” مربیان) افریقہ کے نومبائین اور بچوں کا چندوں میں شامل ہونے کا ذکر 16 گزشتہ چند سالوں سے حضور انور کا توجہ دلا نا کہ تحریک جدید وطن اسلام ملکی قانون کی پابندی اور وطن سے محبت کا حکم دیتا ہے 315 میں اور وقف جدید میں تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے 675،674 وفا ویب سائیٹ خدا سے سچا تعلق جوڑو اور جماعت کے ہمیشہ وفادار رہو 104 جماعت کی عربی ویب سائٹ پر موجود کتب کا مطالعہ کر کے خلافت سے کچی وفا یہ ہے کہ حاسدین خلافت کے منصوبوں کو ہر لوگوں کا جماعت کی طرف رجمان سطح پر نا کام بنائیں 349 جماعت کی ویب سائیٹ کے ذریعہ نیک تبدیلی حضور انور کا خلافت کی اطاعت اور وفا پر خطبہ دینا اور دنیا بھر 96 101 مکرم عبدالکریم عباس صاحب سیر یا کا بانی طاہر صاحب کو جماعت کیلئے ایک خوبصورت ویب سائٹ ڈیزائن کرکے دینا 310 اس وقت.....وہ اخلاص جس کا ذکر مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین میں DAWN اخبار کی ویب سائیٹ پر ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی سے احمدی احباب کا اظہار ا خلاص و وفا 369 شہادت کے بارے میں خبر ہوا ہے آسمان پر اٹھ گیا ہے.( کوئی اخلاص نہیں رہا.) خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق ، وفاداری، اخلاص، محبت اور خدا پر توکل ویمبلے کا نفرنس کالعدم ہو گئے ہیں وقف 709 337 لندن میں 1924ء میں مذاہب کانفرنس....ویمبلے کا نفرنس کا مختصر جائزہ ہائی کورٹ حضرت ابوبکرصدیق کی زندگی میں الہی وقف کا اعلیٰ معیار 661،14 133121 جماعت احمد یہ میں نیکیوں اور قربانیوں اور زندگی وقف کرنے پاکستان میں ہائی کورٹ میں ایک عورت کو پتھر مار کرشہید کیا جا 341 والوں کے نمونہ رکھنے والے لوگ وقف جدید 312 | ہدایت جوں جوں متقی خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے ایک نور ہدایت 81 وقف جدید ،خلافت رابعہ میں پاکستان سے باہر کی جماعتوں کو اسے ملتا ہے تحریک تاکہ افریقہ اور بھارت میں جماعتی کاموں کو وسعت دی قرآن شریف سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے 88 11 حضرت مسیح موعود کی کتابیں ہدایت کا باعث بن رہی ہیں 89 97 جائے اور اس کے ثمرات وقف جدید کے سال نو کا اعلان اور اس کے چندے کے ذریعہ ہدایت اور نبوت صرف عربوں پر ہی منحصر نہیں افریقہ میں خاص طور پر اسلام کی خدمت 11 خدا کا نام اور اس کی دی ہوئی ہدایت کو پامال کیا جا رہا ہے 141 گزشتہ سال جو چھپن واں سال وقف جدید کا تھا اس میں اللہ جلسے، ایمان میں ترقی اور ہدایت کا موجب 362 تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید میں چون لاکھ چوراسی ہزار قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا 420
خطبات مسرور جلد 12 72 مضامین قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے 428 ہیومینٹی فرسٹ حضرت مسیح موعود کی مہمان نوازی کے متعلق ایک اصولی ہدایت 516 ہیومینٹی فرسٹ کی اہمیت اسی میں ہے کہ وہ دین سے جڑے 527 ہوئے ہیں بغیر اس کے خدمت انسانیت کا کوئی فائدہ نہیں 281 جلسے کے کارکنان کے لئے ہدایات جو ہدایت دی جائے چاہے وہ کسی کی طرف سے ہو، اطاعت کرو 548 ہیومینٹی فرسٹ کے کارکنان کی اہمیت دین کے ساتھ جڑ کر اطاعت کے متعلق ایک اہم ہدایت ہدایت محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے ہمدردی 548 خدمت انسانیت کرنے میں ہے 711 680.14 یہود 284 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یہودیوں کی حالت تھی کہ 275 رسم اور عادت کے طور پر عبادت کرتے تھے ایک یہودی کی حضرت عمرؓ سے اسلام کے بارے میں دلچسپ مخلوق الہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے حضرت مسیح موعود ۲ ہی مسئلے لے کر آئے تھے.اول خدا کی توحید گفتگو اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو 77 جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے ہم نے اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو راتوں کو دنیا کی ہمدردی اور محبت میں تڑپتے دیکھا ہے بنی نوع انسان سے ہمدردی ، آنحضرت کا اسوہ ہمیں اپنانے کی طرح اسلام میں بھی ہیں ضرورت ہے انسانی ہمدردی کی تنظیم 84 280 286 کیا یہودیوں میں بھی تو حید موجود ہے؟ اس کا جواب 299 یہودیوں کا اسلامی حکومت کو روکنا 570 جس طرح یہودی اور عیسائی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اسی 592 281 عیسائی اور یہودی آپس میں سخت مخالفت کرنے والے تھے لیکن 718 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دونوں اکٹھے ہو جاتے تھے 658 پشاور سکول میں بچوں پر وحشیانہ حملہ اور حضور انور کا اظہار ہمدردی 754 تا 763
خطبات مسرور جلد 12 73 اسماء حضرت محمد صلى الله السلام انڈیکس اسماء آپ کا خواب میں بعض لوگوں کی رہنمائی مِنْهَاج النبوۃ کا قائم ہونا 349 365 آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں صحابہ میں فرمانا 104199 ، 185 ، 555 آپ کا صحابہ کی کسی کی مہمان نوازی کرنے پیدا ہونے والا انقلاب، قوت ارادی کی آنحضرت پر جنگوں کے اعتراض کا جواب 145 پر چہرہ دمک اٹھنا بہترین مثال 32 33 آپ کی مسلمانوں کی کمزوری اور مذہب آپ پر بے انتہا درود پڑھنے کا ارشاد 413 آپ کا فرمان کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم سے دور جانے کی پیشگوئی دیا ہے کہ شراب مسلمانوں پر حرام کر دی خدا تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ آپ کی مسلم اللہ کیلئے دعا کی تحریک ان کی وجہ 243، 296 سے غیر مسلموں کو اسلام اور آنحضرت کو 36 ذات 146 آپ کا استہزاء کرنے والوں کی دنیا میں بربادی 413 گئی ہے“ آپ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے اللہ آنحضرت کے وقت یہودیوں کی حالت 275 بد نام کرنے کا موقعہ مل رہا ہے 413 تعالیٰ کے قرب کو پانے کی دعا 46 آنحضور نے ظلم و تعدی کے باوجود بد دعا آپ اور صحابہ کا اسوہ مہمان نوازی 511 | جو سے اور کہ دعا کہاے آپ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم نہیں کی کہ بلکہ یہ دعا کی کہ اے اللہ میری آپ کا مہمان نوازی کے متعلق صحابہ کی و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء قوم کو ہدایت دے اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے آپ کے اسوہ کو اپنانے کی ضرورت 281، 286 آنحضور کی پیشگوئی کہ آخری زمانہ میں 88 آپ کا مبارک وجود کہ جن کے نمونے سے مسلمانوں کی مساجد بادلوگوں سے آباد تو ہوں خدائے تعالیٰ ملتا ہے 281 تربیت فرمانا 512 598 آپ کا مقام و مرتبہ اور اسلام کی صداقت دنیا میں توحید حقیقی قائم ہوئی 288 گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی کو ظاہر کرنے کے لئے مسیح موعود کی آنحضرت کی محبت میں محو ہونے سے مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کا فتنہ و فساد جس پیشگوئیاں پوری ہوں گی 89 آپ کا خواب میں آکر حضور کی طرف اشارہ کر کے فرمانا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے 100 حضرت مسیح موعود کو نظر آگیا کہ آپ وفات پاگئے ہیں 289 احمدیوں پر آپ کی توہین کا الزام لگانے والوں نے ،خود آپ کے مقام کو نہیں پہچانا اور آپ اور حضور کا واسطہ دے کر بارش کے نتیجہ توحید سے بھی دور ہیں 289 نے اسلام کے نام سے خوفزدہ کیا ہوا ہے، آپ رحمتہ للعالمین کی بدنامی کا باعث 649 آپ کی سچائی کی ایک دلیل ، آجکل کے مسلمانوں کے اعمال 650 عیسائی اور یہودی آپس میں سخت مخالفت کرنے لئے دعا کرنا اور بارش کا ہونا 103 توحید کو سمجھنے کیلئے آنحضرت کا نمونہ 290 آپ کی عظمت کا ایک نشان، پیشگوئی مصلح موعود 106 آپ پر ہونے والے مظالم اور آپ کا صبر والے تھے لیکن آپ کے خلاف دونوں اکٹھے ہو آپ کا لوگوں کی خوابوں میں آکر رہنمائی و برداشت اور رحم کی داستانیں 317 جاتے تھے فرمانا..658 100،99 آپ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت کا عملی آپ کی شان میں عبد اللہ آتھم کی گستاخی 706
خطبات مسرور جلد 12 74 آپ کا فرمان کہ خالد خدا کی تلواروں ابراہیم اخلف صاحب کا عبد الوہاب آدم | کافی تھی میں سے ایک تلوار ہے“ ہم دنیا کو آنحضرت کے قدموں میں لا کر ڈال سکتے ہیں اسماء 640 737 صاحب کے متعلق خلافت کے احترام اور آپ اور حضرت عمر کی سیاسی و دنیاوی سمجھ مہمان نوازی کا وصف بیان کرنا 404 بوجھ کی مثالیں حضور کا پیش فرمانا 736، 729 شیخ ابراہیم تورے صاحب ( کوٹ لوکو ریجن ابوبکر جارہ صاحب کا حضور کو خواب میں کے معلم ) کا عبد الوہاب آدم صاحب کے دیکھنا اور جماعتی کاموں اور چندہ دینے 738 آپ کا جمعہ کو مسلمانوں کے لئے عیدوں میں سے ایک عید قرار دیا ہے 462 متعلق ایک واقعہ بیان کرنا 363 امام ابراہیم چیچو صاحب کا اپنے ستر ساتھوں کے آپ اور آپ کے صحابہ کے عاجزی و ساتھ جماعت میں داخل ہونا 542 میں غفلت سے تو بہ کرنا 666 ابو بکر کونتے صاحب کا جلسہ سالانہ یو کے کو انکساری کے اعلیٰ نمونے اللہ تعالیٰ ہم میں مکرم ابراہیم عبد الرحمن بخاری صاحب کا عظیم الشان جلسہ قرار دینا اور جماعت کی 773 | ذکر خیر دیکھنا چاہتا ہے 766 ترقی کی دعا کرنا آپ کا جنگ کی صورت میں بھی غیر مسلموں ابراہیم قارون صاحب کا خواب میں حضرت حضرت ابو عبیدہ کے بچوں اور عورتوں پر بھی تلوار اٹھانے کی مسیح موعود کو دیکھنا اور بیعت کرنا 557 حضرت ابوھریرہ 756.755 546 736 512.328 سختی سے ممانعت فرمانا آپ کی محبت دشمن ہمارے دلوں سے نہیں میں مختلف غیر ملکیوں کے ساتھ رہائش مقدمہ درج کرنا ابراہیم وان صاحب کا احمد نگر کے ہوٹل احسان احمد صاحب کے خلاف پولیس کا نکال سکتے 768.767 پذیر ہونا 391 | مرزا احسن احمد صاحب 322 119 آپ کی سیرت پر احمد شمشیر سوکیہ صاحب کا مولانا ابوالخیر محب اللہ صاحب کے نام مولوی احسان الہی صاحب (معلم وقف ایک مختصر کتاب لکھنا 779 کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کا "محب (جدید) کا ذکر خیر آنا ( سیرالیون ) کا جلسہ دیکھ کر احمدیت قبول 323 اللہ کا اضافہ فرمانا 249 احسان اللہ مانگٹ صاحب ( گیانا جنوبی کرنا333 55 ڈپٹی چیف امام شیخ آدم صاحب مولانا ابوالعطاء صاحب کے پاس ڈاکٹر مہدی امریکہ کے مبلغ انچارج) کی والدہ کی علی صاحب کا استفادہ کے لئے جایا کرنا 333 وفات اور ان کا ذکر خیر 363 مولانا ابو الکلام آزاد کی تفسیر قرآن سید صوفی احمد دین صاحب (ڈوری باف) جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ کو احمدیت کا حضرت حکیم عطاء محمد صاحب کا احباب کرنا مرزا آدم بیگ صاحب 714 195 618 آرتی میں صاحب ( قزاقستان ) کا سے روکنے کے لئے دی جانا کہ ان کو پڑھو جماعت سے تعارف کروانا جلسم سالانہ یوکے میں دعوت دینے پر مگر ان کا تفسیر کبیر سے متاثر ہونا 114 مکرم احمد شمشیر سوکیہ صاحب کا ذکر خیر 778 خلیفہ اُسی اور جماعت کا شکر یہ ادا کرنا اور حضرت ابوبکر صدیق کی زندگی میں لہی حضرت احمد یا ر صاحب جماعت کے ماٹو محبت سب کیلئے اور وقف کا اعلیٰ معیار 14 ، 661 اختر اور مینوی صاحب (ایم.اے صدر نفرت کسی سے نہیں“ کو سب سے زیادہ آپ کے بارے میں حضور کا شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی ) کا تفسیر کبیر کے پرکشش پیغام قرار دینا 538 فرمانا کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے لوگ بارے میں ایک واقعہ آسیہ بیگم صاحبہ کا ذکر خیر 618 ہوتے تو اتنے بڑے قرآن شریف کی ادریس وان صاحب کا احمد نگر کے ہوٹل حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی 365 ، 508 | ضرورت نہیں تھی.صرف بسم اللہ کی ”ب“ میں مختلف غیر ملکیوں کے ساتھ رہائش 113
خطبات مسرور جلد 12 پذیر ہونا 75 391 | ایم ٹی اے دیکھ کر احمدیت قبول کرنا 383 سے متاثر ہونا اسماء 116 اور یسو صاحب کو تو نو و، افریقہ ) کا قبولیت اسینی سوما صاحب ( گنی کنا کری) کا خواب صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب کا ذکر خیر احمدیت کا واقعہ ادیبہ یوسف صاحبه 50 کے ذریعہ قبول احمدیت 105 حضرت ام ناصر صاحبہ 557 450 451.450 آپ کی شادی میں حضرت اماں جان کی 451 ارسلان سرور صاحب شہید کا ذکر خیر 41 امتہ الحمید صاحبه ( صدر لجنہ اماءاللہ آفن شرکت فرمانا اسامہ احمد صاحب (میلبرن کا مولانامحمود باخ (جرمنی) کی گاڑی کو حادثہ اور ان کی مس انگر تھ کے کمال احمد کر و صاحب (ڈنمارک) احمد شاہد بنگالی صاحب کی شفقتوں اور محبت وفات پر ان کا ذکر خیر 563 کے بارے میں تعریفی کلمات کے متعلق حضور انور کولکھنا 259 امۃ الشافی صاحبہ 135 105 وان بار تو لو صاحب ، مالٹا کے ایک صحافی 535 اسحاق صاحب ( ٹیلی ویژن ڈائریکٹر امتہ المومن حنا صاحبہ 119 کا حضورانور کا انٹرویو لینا نائیجیریا ) کا جلسہ سالانہ کے انتظامات اور امری عبیدی صاحب ( تنزانیہ ) اور مولانا اے.جے.آر بری برطانوی مستشرق کا روح پرور مناظر سے متاثر ہونا 533 عبد الوہاب آدم صاحب کا مولانا غلام رسول تغییر (Five Volume) کے بارے | اشتیاق احمد صاحب مربی سلسلہ کی والدہ صاحب راجیکی کو دعا کے لئے کہنا اور کشفی میں تبصرہ کا ذکر خیر 115 618 حالت میں حضور کا عبد الوہاب آدم صاحب ایڈوین صاحب ، البانین مہمان کا جلسہ اشعر علی صاحب 332 کے سر پر ہاتھ رکھنا اور بعد میں امتحان میں سالانہ جرمنی کے موقع پر بیعت کرنا 380 اعجاز الرحمن صاحب 618 عبد الوہاب صاحب کا اول آنا 392 ایم.ایم شار پلز سے ویمبلے کانفرنس کے 763 | متعلق حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب اعیان احمد 105 امیر احمد باجوہ صاحب 123 105 حضرت مرزا افضل بیگ صاحب کی خطبہ حضرت میاں امیر الدین صاحب کی خطبہ نیٹر کی ملاقات الہامیہ کے متعلق ایک روایت 223 الہامیہ کے متعلق ایک روایت 225 | ایمان خالد اقبال محمد خان صاحب کا اپنی اہلیہ کے نام سید امیر علی شاہ صاحب کے ایک خواب کا ذکر 223 ایمبوینگو را صاحب کی حضور انور سے پر مسجد حسن اقبال ( جامعہ احمد یہ ربوہ ) تعمیر امینہ اوصاف صاحبہ ( کبابیر) کا ذکر خیر 765 ملاقات اور حضورانور کو بتانا کہ جلسہ سالانہ 576 انٹی گونی جلسہ سالانہ یوکے میں یو کے کی کاروائی سیرالیون کے ٹی وی نے کروانا لکھنا 539 کے ساتھ ملاقات میں حضور انور کا تعارف 591 ملک اکرم صاحب مربی سلسلہ کا مولانا آنے والے ایک یونانی مہمان 532 لائیو نشر کی ہے محمود احمد صاحب بنگالی کے دورہ راولپنڈی انعام غوری صاحب ناظر اعلی قادیان کا ماسٹر ایمن کین کا آئرلینڈ کے پارلیمنٹیرین کے بارے میں چند باتیں حضور انور کو مشرق علی صاحب ایم اے کلکتہ انڈیا کے کروانا 260 بارے میں چند باتیں حضور کو لکھنا 30 ایون ورنون ایک نو مبائع جن کا اسلامی چوہدری اللہ دتہ صاحب کا حضرت مصلح انعام الحق کوثر صاحب ( مبلغ سلسلہ امریکہ) نام حمزہ رشید ہے کا جلسہ کے انتظامات موعود کے ہاتھ پر بیعت کرنا 331 کا محمود احمد بنگالی صاحب کے بارے سے متاثر ہونا الطيب الفرح صاحب ایک مراکشی احمدی میں ایک واقعہ حضور انور کولکھنا 251 ب، پ، ت، ٹوٹ کا سپین کے علاقہ مرسیا سے نیک نمونہ اور ڈاکٹر انس احمد صاحب (شام) کا تفسیر کبیر | بدر صاحب کا دمشق کے ایک احمدی نو مبائع 541
خطبات مسرور جلد 12 رضوان صاحب کو اسلامی اصول کی فلاسفی | کاربوہ بلانا 76 اسماء 391 آپ کے علمی کارناموں کا ذکر لندن میں پیش کرنا اور ان کا احمدی ہونا حضرت مرز بشیر الدین محمود احمد صاحب 1924ء میں مذاہب کانفرنس......و میلے مسز بر تھا جو کہ ایک جرنلسٹ ہیں ان کا خلیفہ اسیح الثانی مسجد مریم کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونا 594 کا نفرنس کا جائزہ 133121 آپ کا لیکچر ”عربی زبان کا مقام السنہ آپ کا پہلا دورہ یورپ اور اس کی تفصیلات 122 16 آپ اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھ کر ایک ڈاکٹر برکت علی صاحب قریشی پرنسپل عالم میں اسلامیہ کالج کا اس اجلاس کی صدارت آپ اور حضور کی کتب پڑھ کر یوسف اللطیف اٹالین ڈاکٹر کا کہنا کہ یسوع مسیح اور اس کے بارہ حواری کرنا جس میں حضرت مصلح موعودؓ کا لیکچر صاحب بوسٹن امریکہ کا بیعت کرنا 17 ہوا تھا 122 116 آپ کے عملی اصلاح کے خطبات 19 آپ کا کمبلے کا نفرنس کے موقع پر خطاب 124 آپ کے ارشادات کی روشنی میں عملی اصلاح کے آپ کا ٹرین میں سفر اور پونچھ کے ایک عنوان سے خطبات کا سلسلہ 154 166t بشارت احمد بشیر صاحب مبلغ گھانا کا بتانا کہ عبد الوہاب آدم صاحب کے والد کی بہت خواہش تھی کہ ان کا بیٹا مبلغ ہے 390 کے وزیر کے بیٹے کا آپ کے سامنے نشے بنے آپ کا مولانا جلال الدین صاحب مشمس آپ کی اہلیہ کا عبد الوہاب صاحب کی کی حالت میں بیٹھنا 35 کو شام بھیجنا 228 انکساری کا واقعہ حضور انور کولکھنا 397 آپ کے عہد میں واعظین مربیان اور آپ کی دمشق میں حضرت مسیح موعود کی صوفی بشارت الرحمن صاحب کے پاس عہدیداران کا مقام 58 عربی تحریرات پراعتراض کرنے ڈاکٹر مہدی علی صاحب کا استفادہ کے پیشگوئی مصلح موعود کی تفصیلات کا ایمان والے شیخ عبدالقادر المغر بی کے ساتھ 333 افروز تذکره 108106 لئے جایا کرنا بشری بیگم صاحبہ کی شہادت اور ان کا ذکر خیر 475 آپ کی زندگی کا جائزہ اور پیشگوئی مصلح موعود..بشری شمس صاحبہ کا امینہ اوصاف صاحبہ ( کبا بیر ) کے عشق رسول کا ایک آپ کی کتب کا ایک جائزہ واقعہ حضور انور کو لکھنا 109 110 229227 آپ کا مولانا ابوالخیر محب اللہ صاحب کے نام کے ساتھ ” محب اللہ کا اضافہ فرمانا249 آپ کے زمانہ میں ہونے والی بحث کہ 765 حضرت مصلح موعودؓ کا اسیروں کی رستگاری جماعت کا ماٹو مطمح نظر کیا ہونا چاہئے 285 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا باعث ہونے کا ایک زندہ نشان 115 آپ کی ایک نظم کے چند اشعار 336 331،75 آپ کے لیکچر کا غیروں پر اثر اور آپ کے آپ کے ایک ارشاد " اگر جرمنی فتح ہو گیا تو یورپ ویمبلے کانفرنس کے لئے جو خطاب گہرے علم کا اعتراف 116 فتح ہو گیا“ پر اعتراض اور حضور انور کا جواب 354 حضرت مصلح موعودؓ نے لکھنا شروع کیا تھا.عرب ممالک کے لوگوں کا حضرت مصلح آپ کا گھانا سے تربیت کے لئے آپ کو اس کے ترجمہ کی اصلاح کرنے کی موعود کی تفسیر کوخراج تحسین 116 عبدالوہاب آدم صاحب اور بشیر بن صالح آپ کے لیکچر پر غیروں کی تعریف 117 صاحب کو پاکستان بلوانا سعادت ملنا 124 آپ کے بارے میں حضور کا ایک 391 آپ کے ایک لیکچر ( اسلام کا اقتصادی آپ کے صاحبزادے مرزا انور احمد الهام بَرَّقَ طِفْلِي بَشير 189 346 آپ کی اطاعت کا نمونہ بشیر بن صالح صاحب کو حضرت مصلح موعود آپ کا اپنے تمام بیٹوں کو وقف کرنا 119 آپ کالیلتہ القدر کی بابت ایک اہم نکتہ 453 | نظام ) پر سید عبد القادر کا خراج تحسین 117 صاحب کی وفات اور ان کا ذکر خیر 450
خطبات مسرور جلد 12 77 اسماء آپ کو حضور کی ٹیپو سلطان ) کے | جماعت کو تحریک فرمانا 715 | قبول کرنا 560 بارے میں نصیحت 633،632 آپ کے ارشادات کی روشنی میں حضور انور کی بو نیا این تو ابو شنیوا صاحب کا جلسہ سالانہ پیشگوئی مصلح موعود کا ایک پہلو، باوجود بر معارف تفسیر بیماری کے، معمولی پڑھائی کے لاکھوں پر کتب کا مطالعہ 635 آپ کی بیماری کی وجہ سے لکھائی اچھی نہ ہونے والا واقعہ 639.638 7260716 کے انتظامات سے متاثر ہونا آپ کا ایک واقعہ ان لوگوں کی بابت لالہ بھیم سین صاحب جو خدا کو نہیں مانتے 720 531 117 بیرونس سعیدہ وارثی صاحبہ کا جلسہ اور کا نفرنس میں شرکت کو اعزاز سمجھنا 141 آپ کا جنگ عظیم اول کا واقعہ بیان فرمانا بینم ریڈ ز پی صاحب کا مالی قربانی کا واقعہ 670 1918ء میں جرمنی کا مقابلہ اتحادی بیکم صاحب مقدونین سوئس احمدی کا مالی آپ کا حضور پر محض بیٹا ہونے کی حیثیت فوجوں کے ساتھ ، دہر یہ بھی خدا سے دعا سے ایمان نہ تھا بلکہ خود پر کھا 682 کرنے لگے 7230721 آپ کی بیان فرمودہ روایات بابت حضرت آپ کا نپولین کا واقعہ بابت اطاعت اولی مسیح موعود کا پر معارف بیان اور تشریح 753739,689 683 الامر بیان فرمانا 735733 قربانی کا واقعہ اور خدا کا فضل فرمانا 671 پانا گی یوتیس صاحب کو جماعتی لٹریچر کا گر یک ترجمہ کرنے کی توفیق ملنا اور ان کا جلسہ کے انتظامات سے متاثر ہونا 532 آپ کا 1924 میں سر ڈگلس سے ملنا 748 آپ کو حضور کا دعا کے لئے کہنا جبکہ آپ" آپ کی مارٹن کلارک والے مقدمہ کے کی عمر نو سال تھی 683 آپ کے زمانے میں فلپائن سے بیعت کے خط آنا 690 آپ کا سر بچپن میں چھوٹا تھا 685 آپ کا حضور کی زبان سے یہ مضمون با رہا سننا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلاء آیا کرتے ہیں 693 آپ کے بچپن کا واقعہ کہ ایک طالب علم کے متعلق دعا اور رویا 751.750 مسٹر پرکاش رمادار ( ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو کے منسٹر آف لیگل افیئرز) کا جماعت کا خلیفہ سے پیار اور جلسہ کے بشیر الدین صاحب ( نائب وکیل المال قادیان) 669 انتظامات سے متاثر ہونا 539 698 پونے عبداللہ صاحب کے ہاں احمدیت کی سید بشیر احمد شاہ صاحب بشیر احمد صاحب بھٹی 232 بشیر رفیق صاحب کی کتاب سے ایک واقعہ 418 برکت سے بیٹی کی پیدائش پیر محمد صاحب 555 763 پیرا ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بشیر کو یا سو صاحب، میکسیکو کے ایک نو مبائع کا ایک نوکر) کا مولوی محمد حسین بٹالوی کو کا جلسہ سالانہ کے انتظامات اور جماعت کی ساتھ اپنے دادا کی پرانی کتابوں میں سے ایک خلیفہ مسیح سے محبت سے متاثر ہونا 542 میں لکھا ہوا پا نا کہ جبرائیل نازل نہیں ہوتا.بکری تراورے صاحب کا حضور کو خواب 199 آپ کا فرمانا کہ میرے ابا پر تو نازل ہوتا میں دیکھ کر بیعت کرنا ہے...حضور کا فرمانا کہ جبرائیل اب بلال صاحب ( مربی سلسلہ مالی ) کا ایک 696 واقعہ کہ ایک احمدی دوست کے مخالف نہایت لطیف جواب 646 ڈاکٹر تاثیر صاحب کا عبد الوہاب آدم صاحب کی اطاعت کے بارے میں ایک واقعہ 398 ڈاکٹر تھامس ڈبلیو آرنلڈ کا کمیٹی کو ویمبلے کانفرنس کے مقررین کے بارہ میں بھی نازل ہوتا ہے آپ کا نوجوانوں کو زندگی وقف کرنے ہمسایہ کے خواب میں حضور کا آنا اور عبدالرحیم نیر صاحب سے مشورہ کرنے کی 198 تجویز دینا کی تحریک فرمانا 714 احمدیوں کی مخالفت پر ڈانٹنا 123 آپ کا حفاظت مرکز کے لئے احباب | بنکے جارہ صاحب کا بذریعہ خواب احمدیت مسٹر تھیری ایٹی کوٹ کا جلسہ کی کاروائی اور
خطبات مسرور جلد 12 78 اسماء 191 475 تلاوت قرآن کریم سے متاثر ہونا 536 | جری اللہ صاحب آف قلعہ کا لروالہ 479 | حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی سر تھیوڈر ماریسن کو کہ ویمبلے کا نفس کے سید جعفر حسین ایڈووکیٹ صاحب کا تفسیر کا حضرت مسیح موعود کا لکھنا کہ حافظ سلطان اجلاس کے صدر تھے ان کا حضرت مصلح موعود کبیر کے متعلق ایک مکتوب 113 سیالکوئی شدید مخالف ہے کا تعارف کروانا اور خطاب کی دعوت دینا 124 مولانا جلال الدین صاحب شمس کو حضرت حبیب الرحمن صاحب کا حضرت مسیح موعود کی نام ہیلے کا مسجد مریم کے افتتاح کے بعد کہنا مصلح موعودؓ کا شام بھیجنا 228 سیرت کی بابت روایات اکٹھی کرنا 632 کہ اللہ کرے کہ آپ کا پیغام ساری دنیا الحاج جلال الدین لطیف صاحب صدر حجاز صاحب آف الجزائر کا حضرت مسیح میں گونجے اور آپ لوگ رسول کریم صلی جماعت زائن 604 | موعود کی کتب کو وحی الہی قرار دینا 95 اللہ علیہ وسلم کے حقیقی سفیر بنیں 594 جلال الدین صاحب انسپکٹر کا حضور کے حراء تبسم.شہید گوجرانوالہ ٹیپو سلطان) کے بارے میں حضور کا مقدمہ کے متعلق ڈگلس کو وارنٹ کے متعلق حسام الدین صاحب عرب کا بیعت کے حضرت مصلح موعود کو نصیحت فرمانا کہ پیغام انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے جمال صاحب (مراکش) کا کہنا کہ "تفسیر ڈاکٹر سید حسن احمد کا محمود بنگالی صاحب کا کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام کے مطالعہ نے میرے دل میں اسلام کی ذکر خیر کرنا پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم ان کی نقل کر کے ایسی حسین تصویر پیش کی کہ جو روح تک حسن وہاب صاحب کا اپنے خاندان کا کتے کو ٹیپو کہتے ہو.خبردار آئندہ ایسی اترتی چلی گئی 116 قبولیت احمدیت کی بابت بیان 389 حرکت نہ کرنا“ 633،632 | جمال الیاس صاحب 182 | ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کا یسوع مسیح اور 479 جمیل احمد گل صاحب کا ذکر خیر 563 بارہ حواری والی روایت بیان کرنا 122 شر منیب 744،743 | بعد حالات کا ذکر کرنا 561 499 259 مولوی ثناء اللہ صاحب کو حضرت مسیح موعود جہاد صاحبہ (مصر) کا دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ حطامی صاحب آف یمن کے حضور کی کتب کے بارہ میں تاثرات 97،96 کی مخالفت کی وجہ سے عزت ملنا 690 کا نشان دکھانا مکرم حلمی شافی صاحب مصر کے ابتدائی احمدی 766 ثریا بیگم صاحبہ کا ذکر خیر 698 جہانگیر سورو صاحب کا حضور انور کی تقریر سے متاثر ہونا 150 حمادہ صاحب میں جماعت کی عربی ویب سائٹ پر حضور کی کتاب ”التبلیغ سے انقلاب 96 حمزہ رشید صاحب کا جلسہ سالانہ کے ج، چ، ح، خ جاوید صاحب (صدر جماعت وکٹوریہ جیا را بخاری صاحب کا بذریعہ خواب آسٹریلیا ) کا محمود احمد بنگالی صاحب کی احمدیت قبول کرنا ماحول اور انتظام کو سراہنا معاملہ نہی اور تدبر کے بارے میں حضور جینی مکلمین کا حضور انور کے خطاب سے حمیر فضل سانحہ گوجرانوالہ کی زخمی 479 انور کولکھنا جاذب صاحب 258 متاثر ہونا 196 593 449 چراغ دین ساکن جموں کا پیشگوئی کے 190 541 مرزا حنیف احمد صاحب کا ذکر خیر 118، 119 حنیفاں بی بی صاحبہ کا ذکر خیر 232 احمدیت 381 جان ریبٹ کا کہنا کہ آپ کی باتیں سن کے مطابق اپنے بیٹوں سمیت طاعون سے حیدر صاحب کا خواب کی بناء پر قبول مجھے پتا لگا کہ اسلام واقعی پر امن، محبت و ہلاک ہونا پیار اور ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور چراغ دین کا کہنا کہ عیسی نے خواب میں حیدر سہیلیا صاحب کا جماعت کے نظام کو حیدرسپیلیا 190 سراہنا جلسے میں شمولیت سے اسلام کی طرف رواداری رکھنے والا مذہب ہے 592 | مجھے عصا دیا ہے
خطبات مسرور جلد 12 توجہ کا پیدا ہونا ایمان میں ترقی 529 | جامعہ بلوایا 79 اسماء 250 | لالہ رام چند مچندہ صاحب کا اسلام کا خالد صاحب آف مراکش کا کہنا کہ جماعتی قریشی داؤد صاحب کا عبد الوہاب آدم اقتصادی نظام لیکچر کو سراہنا کتب پڑھ کر اکثر میری زبان پر رہتا ہے صاحب کا ذکر خیر کرنا 400 را ویل صاحب 118 436 کہ مجھے خزانہ مل گیا ہے 96 دو شکوه و کسانو و کی جلسہ میں شمولیت حضور را لیکلین چھوٹے سر والا ایک مشہور وکیل 685 خالد احمد صاحب.انچارج رشین ڈیسک کا انور کی تقریر کا گہرا اثر 371 چیف ربانی صاحب کا پیغام محمود بنگالی صاحب کے متعلق ذکر خیر 261 عبد الوہاب آدم صاحب کا ان کو رشیا سے آنے پر خوش قسمت کہنا 401 کلیم احمد وسیم صاحب کے متعلق ان کا ذکر خیر کرنا 149 دیپ اندر صاحب کی بیعت اور ایک شیخ رحمت اللہ صاحب کو حضور“ کا گلام خواب کا بیان 556 أفصحت کی خبر دینا 221 ڈرڈ ری میک کیتا Deirdre Mc Kenna حضرت مولوی رحمت علی صاحب 323 593 پادری رجب علی مہتم مطبع سفیر ہندا مرتسر 74 436 کیپٹن ڈگلس ( مقدمه مارٹن کلارک) مولوی رسل بابا کا حضور کی مخالفت میں حضرت خالد بن ولید کا بستر مرگ پر شہادت 751.746.743 کتاب لکھنا 190 کی خواہش سے بے چین ہونا 318 سر ڈگلس کو خدا تعالیٰ نے اور بھی نشانات دکھائے حضرت مرزا رسول بیگ صاحب 715 حضرت خالد بن ولید کو حضرت عمررؓ کا جو مرتے دم تک انھیں یادر ہے 745 | مرزار شید احمد صاحب صاحب معزول کر کے حضرت ابو عبیدہ کو امیر لشکر سر ڈگلس کا ہندوستانی آئی سی ایس کو حضرت رشید احمد باجوہ صاحب مقرر فرمانا ڈاکٹر خالد تسنیم احمد صاحب 451 763 736 مسیح موعود کے مقدمہ کا واقعہ سنانا 747 رشید احمد خان صاحب کا ذکر خیر 576 119 خالد سیف اللہ صاحب 251، 256 حضرت مصلح موعودؓ کا 1924 میں سر ڈگلس رشیده یا راشدہ بچی کامالی قربانی کا واقعہ 667 748 رضوان صاحب.دمشق کا جماعت کے سے ملنا ڈاکٹر خالد یوسف صاحب کا ذکر خیر 105 سر ڈگلس کی 93 سال کی عمر میں وفات 748 متعلق رو یا بیان کرنا 101 خدیجہ ما هم صاحبہ کا نصیر انجم صاحب کے سر ڈگلس کے نواسے کا حضور ایدہ اللہ رضی الدین صاحب کا ذکر خیر 104 450 متعلق ذکر خیر کرنا حضرت خضر کی خطبہ الہامیہ میں موجودگی کی بابت پیدا میرعلی شاہ صاحب کو خواب 224 خلیل احمد - گوجرانوالہ سیدامیر 476 749 479 رقیه بیگم صاحب تعالیٰ کو بیعت لینے کا پیغام رمدان صاحب کی بیعت کا واقعہ 552 کیپٹن ڈگلس کا کہنا کہ میں نے مرزا صاحب کروشیا سے ماسٹرز کی طالبہ روبرٹا کا حضور جیسا وسیع الحوصلہ شخص کوئی نہیں دیکھا 751 انور سے اکابرین مذاہب اور امن کے متعلق سوال اٹارنی جنرل یو کے رائٹ آنریبل ڈومینک خلیل احمد صاحب شہید بھوئیوال ضلع شیخو پورہ کا گریو نے وزیر اعظم برطانیہ کا پیغام ذکر خیر 321 322 کانفرنس میں پڑھا 143 ڈاکٹر روبینہ کریم کا ذکر خیر 540 600 حضرت صوفی روشن علی صاحب کا ویمبلے کا نفرنس میں تصوف کے مضمون کیلئے منتخب مکرم خورشید عالم بٹ صاحب آف کامرہ 629 ڈیانا نعیمہ صاحبہ کا جلسے کی تعریف کرنا اور جماعت کی ترقی کی بابت نیک خواہشات کئے جانا و، د، ر، ز 529 123 ز بیر خلیل صاحب کا وہاب آدم صاحب کا دا مبلے صاحب کا قبول احمدیت کا واقعہ 197 کا اظہار میر داؤد احمد صاحب نے بار بار خط لکھ کر رابن ہستی کا جماعت کی منعقدہ مذاہب کانفرنس ذکر خیر کرنا 396 محمود بنگالی صاحب کو بنگلہ دیش سے واپس میں حضور انور کی تقریر کوسراہنا 150 | زرتشت منیر صاحب.امیر ناروے 260
خطبات مسرور جلد 12 80 اسماء زیب النساء صاحبه 249 | آپ کا ڈاکٹر مہدی علی صاحب اور ڈاکٹر آپ کو الہام گلام أُفصحت کی اطلاع مولوی زین العابدین کا مولوی محمد علی محمود صاحب کے ساتھ ربوہ کا پہلا بلڈ دیا جانا 221 سیالکوٹی سے مباہلہ 191 بنک کا آغاز کرنا 334 آپ کا خطبہ الہامیہ کی بابت بیان 224 سید زین العابدین شاہ صاحب 119 آپ کا ڈاکٹر مہدی علی صاحب کا غریبوں حضرت مولوی شیر علی صاحب کا بھیجی میں کا بمبئی س ش ص ض کی مدد کرنے کا واقعہ بیان کرنا 336 جماعت کو اطاعت کے مضمون پر خطبہ دینا 350 حضرت سارہ بیگم صاحبہ کے بیٹے میاں سلیم نامی ایک نوجوان جس نے خلیل احمد صاحب سجادہ نشین صاحب العلم سندھ 185 حنیف احمد صاحب ساره و سیم صاحبہ 118 434 سراج الحق نعمانی صاحب سے ان کے کو حوالات کے اندر فائرنگ کر کے شہید کیا 322 سلیمان.کے.آدم سید صادق علی صاحب ، سہارنپور 434 389 صبیحہ بیگم صاحبہ مرزا سلیمان احمد صاحب.امریکہ 119 سلینہ جمیلہ احمد 563 149 451 صداقت صاحب کا جرمن فیملی کے متعلق جلسہ میں شمولیت کے تاثرات 382 بھائی کا کشف قبور دکھانے کا سوال اسپر سنتوخ سنگھ صاحب 185 سهیل مبارک شر ما صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ صدیق اکبر رحمان صاحب کا ذکر خیر 291 حضرت مسیح موعود کا بیان آپ کو حضوڑ کا چار پائی دینا 514 پاکستان کے دادا شیخ عبدالرشید شر ما صاحب ماسٹر ضیاء الدین صاحب کو 1974ء میں سراج الدین عیسانی 211 ، 270، 274 کا ذکر خیر مرز اسردار بیگ سیالکوٹی سخت مخالف طاعون شافیو صاحب کی وجہ سے ہلاک ہوا 192 شاہد بیگم صاحبہ 57 سرگودھا سٹیشن پر شہید کیا جانا 666 763 bob حضرت مرزا طاہر احمد صاحب 331 سردار کرم داد صاحب خان صاحب کی لالہ شرمیت حضور کی گمنامی کا گواہ 180 خلیفہ اسیح الرابع 18 ، 699,576 بیعت اور اس کی بابت ایک خواب 100 حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے کارخانے آپ نے شیخ عبدالرشید شرما صاحب کو چار میں مکرم شیخ عبدالرشید شرما صاحب کو اخلاص اضلاع سکھر، شکار پور، جیکب آباد اور گونگی کا 322 199 سردار محمد صاحب سعید کولیبالی صاحب 778 کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا سعیدہ سوکیہ صاحبہ 56 امیر مقرر فرمایا تھا 764 شمشاد صاحب مبلغ امریکہ 402 آپ کا محمود احمد بنگالی صاحب کے دور سکندر محمود 451 | شمیم احمد مرزا سلطان احمد صاحب 576 339 حافظ سلطان سیالکوٹی کا حضور پر راکھ ڈالنے ڈاکٹر شمیتا نوسنہا کا ارادہ کرنا اور طاعون سے ہلاک ہونا 191 میاں شہاب الدین صاحب آف لودھی نگل 477 صدارت کی تعریف کرنا 56 253 آپ کی وفات کے بعد فرانس سے آنے والے ایک عرب دوست کا خواب میں سلطان نحوث صاحب 778 شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب نے سانحہ خلیفہ خامس کو دیکھنا گوجرانوالہ کا نوٹس لیا سلطانہ بیگم صاحبہ 560 477 668 384 آپ نے سسٹر نعیمہ لطیف صاحبہ کو پیدائشی احمدی کہا ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب کا محمود بنگالی شہاب الدین صاحب 254 مولوی شیر علی صاحب کو خلیفہ ثانی کے ویمبلے صاحب کے متعلق ذکر خیر 604 آپ کا یوسف ایڈوسٹی صاحب کو علاج کی 678 آپ کا محمود بنگالی صاحب کی جانفشانی کا کانفرنس کے مضمون کے ترجمہ کی اصلاح غرض سے امریکہ بھجوا دنا 124 | آپ کے خطبات کا فریج ترجمہ 779 ایک واقعہ بیان کرنا 255 | سعادت ملنا
خطبات مسرور جلد 12 81 اسماء 188 طاہرہ اطہر صاحبہ کا محمود بنگالی صاحب کا حضرت عائشہ کی روایت کہ جبرائیل ہرا ہر یاب ہونا 259 سال قرآن کا دور حضور " کو کرواتے 422 عبدالرحیم صاحب مرحوم آف ملتان 698 ذکر خیر کرنا طاہرہ بیگم صاحبہ 119 حضور کا حضرت عائشہؓ سے مہمان نوازی کے شیخ عبد الرشید شر ما صاحب کو خلیفہ رابع طلحہ انصر صاحب 479 لئے گھر میں کھانے کے متعلق پوچھنا 511 نے چار اضلاع سکھر، شکار پور، جیکب آباد طلحہ احمد ، نائب وکیل المال کا کراچی کے عائشہ کو اوور و ایک صاحب کا تحریک جدید میں مالی عائشہ لطیف 56 390 اور گونگی کا امیر مقرر فرمایا تھا 18 حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر سے قربانی کا واقعہ بیان فرمانا 669 الحاج عاصم کی بشیر الدین صاحب امریکہ کا ویمبلے کانفرنس کے جوائنٹ سیکرٹری کی | 402 | ذکر خیر 261 عاصم شہزاد ملک ظفر صاحب ظفر احمد.بنگلہ دیش چوہدری ظفر اللہ خان صاحب 436 عاقب سليم 436 435 478 123 ملاقات حضرت میاں عبدالرشید صاحب کا خواب کے ذریعہ بیعت کرنے کا واقعہ 99 آپ کو خلیفہ ثانی کے پہلے کانفرنس کے عباس صاحب آف اٹلی.ایم ٹی اے شیخ عبدالرشید شر ما صاحب آف شکار پور 257 احمدیت 56 225 401 مضمون کے ترجمہ کی اصلاح سعادت ملنا 124 العربیہ سے حضرت مسیح موعود کا عربی قصیدہ سندھ کا ذکر خیر آپ کا حضور کا مضمون پڑھ کر سنانا 125 سن کر نیک تاثرات کا اظہار 96 عبد الحئی عرب صاحب کا قادیان میں تحقیق حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کی ہدایت کے عباس صاحب، بیلجیئم کے ایک کی غرض سے آنا بیعت کرنا مطابق احمدیوں کو آسٹریلیا کے سبھی بڑے غانین دوست کا خواب کی بناء پر قبول ڈاکٹر عبدالخالق صاحب کا وہاب آدم صاحب کے متعلق ذکر خیر شہروں میں بسایا گیا 382 حضرت عبدالستار صاحب کا اپنے والد عبداللہ بشیر رفیق صاحب نے آپ کے متعلق عبد الاول صاحب کے محمود بنگالی صاحب صاحب سے وفات مسیح کے متعلق سوال 99 کتاب لکھی 418 کے بارہ میں تاثرات 256 ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے خاندان کے مسٹر ظفر علی خان کے والد نے اپنے اخبار عبدالباسط صاحب 449 | ایک صاحب مکرم محمود عبد اللہ شبوطی صاحب مرحوم کے میں حضرت مسیح موعود کی ابتدائی زندگی کی حضور کا عبدالرحمن صاحب ودیگر احباب کو عربی متعلق حضور نصرہ العزیز کا ذکر خیر گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے 740 تقریر کے متعلق الہام کا بتانا 221 عبد الستار سوکیہ صاحب صدر جماعت 741 ماریشس مولوی عبد الرحمن سیاح حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی عبدالسبحان منان دین صاحب 166 ظہور احمد صاحب ابن مبارک احمد شہید 764 ع کی حضور کے لندن میں لیکچر کے متعلق عبدالسلام میڈلین عابد وحید صاحب کا محمود بنگالی صاحب مرحوم روایات کے متعلق ذکر خیر 133.130 699 778 134 عبد السلام ملک صدر جماعت کو لمبس 334 عبدالشکور کنزے صاحب کا احمدنگر میں غیر 259 سیٹھ عبد الرحمن صاحب تاجر مدراس ممالک کے طلباء کے ساتھ رہنا 391 حضرت عائشہ کا حضور " کا اسوہ بیان کرنا کی مالی زبوں حالی 701 290 ، 493 494 سیٹھ عبدالرحمن کی سرطان کا حضرت مسیح موعود حضور کا عربی میں تقریر کرنے کے متعلق الہام کا حافظ عبدالعلی صاحب ودیگر احباب کو بتا نا 221 مخالفین اسلام کا حضور اور حضرت عائشہ کے الہام کے مطابق دور ہونا 704 آپ کا خطبہ الہامیہ کے متعلق بیان 223 کے متعلق گستاخانہ فلم بنانا 413 عبد الرحیم خاں کا حضور کی دعا سے شفا آپ کا مولوی محمد علی صاحب سے خطبہ الہامیہ
خطبات مسرور جلد 12 کے متعلق پوچھنا مکرم عبد الغفار صاحب مرحوم 82 اسماء 224 | مولوی صاحب کی حضرت مسیح موعود کے عبد المتعالی صاحب نومبائع کا قبول احمدیت کا 714 عبد القادر آف مالی کا چندہ دینے کا جذبہ 13 عبد القادر آف مراکش کی بیعت 381 عبد القادر صاحب وائس پرنیل اسلامیہ کالج کی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے لاہور میں الہامات کے مطابق وفات 704،703 واقعہ عبد الکریم صاحب آف سیریا کے متعلق پانی عبدالمناف سوکیہ صاحب 556 778 طاہر صاحب کا حضور انور کولکھنا کہ مرحوم بہت عبد المنان بیدل صاحب کا تفسیر کبیر کی اخلاص اور محنت سے کام کرتے تھے 310 بابت تبصرہ حاجی عبد الکریم صاحب 226 عبدالمنان دین صاحب 56 خواجہ عبدالمنان 177 | مولوی عبد الکریم شر ما صاحب شیخ عبد القادر المغر بی کا حضرت مسیح موعود کی عبد الکریم عباس صاحب 309 ڈاکٹر عبد المنعم لیکچر کے متعلق رائے عربی تحریرات پر اعتراض 229،227 عبداللہ صاحب 113 166 249 600 99 | عبد و فال آف سین گال کا احمدیت کے متعلق حافظ عبد القدوس صاحب کا ڈاکٹر مہدی علی ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی رائے صاحب کے متعلق ذکر خیر کا بیان 336 ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کی پھوپھی صاحبہ کا حضور کا جنازہ حاضر پڑھانا 618 | 542 705 تا 707 | عبد الوہاب آدم صاحب کے انتقال پر حضرت مولوی عبد الله بو تالوی صاحب الحاج یوسف صاحب نے کہا کہ اب میری حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی سید عبدالحی صاحب عرب کے متعلق باری آنے والی ہے روایت 679 225 خلیفہ اسیح الثانی کا گھانا سے لڑکوں کو آپ کا صبح کو عید کے دن حضرت صاحب کو تقریر آنحضرت کے ایک صحابی عبد اللہ بن تربیت کے لئے پاکستان بلوانا اور عبد کرنے کے خصوصیت سے عرض کرنا 219 آپ کو خطبہ الہامہ کے وقت حضور “ کا فرمانا مسعود کی اطاعت کی مثال 345 الوہاب آدم صاحب اور بشیر بن صالح کہ لکھنے کے لئے قریب تر ہو کر بیٹھیں 220 عبداللہ صاحب.معلم مالی کا ایک مخالف صاحب کا آنا متعلق آپ کو حضور" کا اطلاع دینا 221 احمدیت کے متعلق بیان 197 ، 199 عبد الوہاب آدم صاحب کا مولانا غلام رسول آپ کا خطبہ الہامیہ سے عشق کا بیان 222 میاں عبداللہ صاحب سنوری 223 صاحب را جیکی کو دعا کے لئے کہنا اور کشفی کی خطبہ الہامیہ کی کتابت 223، 224 آپ سے حضور کا جمعہ کے دن مسجد میں نمازیوں کے متعلق پوچھنا 634 عبد اللہ علی ابن ڈاکٹر مہدی علی صاحب عبداللہ شاہ 391 حالت میں حضور کا عبد الوہاب آدم صاحب 340،332 کے سر پر ہاتھ رکھنا اور بعد میں امتحان میں 233 عبدالله حمد عثمان السبوطی صاحب پہلے یمنی آپ کا حضور کے متعلق دعا میں گریہ احمدی 698 رم عبد الوہاب صاحب کا اول آنا 392 شیخ ابراہیم تو رے صاحب ( کوٹ لوکوریجین کے زاری کے متعلق بیان 647 | حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب معلم ) کا عبدالوہاب آدم صاحب کے متعلق ایک مولوی عبدالکریم صاحب نے حضرت مسیح شہید اس زمانہ میں قربانی کی روح کو سمجھنے واقعہ بیان کرنا موعود کو لوگوں کے طاعون سے بچنے کی دعا والی مثال ہیں کرتے ہوئے سنا 648 آپ کا قادیان آنا 319 363 عبدالوہاب آدم صاحب کا ذکر خیر 389 406 647 آپ کو مخالفت کی وجہ سے حج پر نہ جانے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کا مولانا عبداللطیف بہاولپوری 333 دینا اور حضرت خلیفہ ثالث کا کشفاً آپ کو خانہ واقعہ از حضرت مصلح موعود آپ کو بعض لوگوں کا حضور کا دایاں فرشتہ کہنا 697 | واقعہ بیان کرنا 696 عبد المالک صاحب.مبلغ افریقہ کا تبلیغ کا کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دکھایا جانا 399 102 | امریکہ میں آپ کے داماد کا قتل اور اس پر
خطبات مسر در جلد 12 83 اسماء آپ کے قابل رشک صبر کا مظاہرہ 399 | اطاعت کے متعلق بیان 435 مولوی عمر الدین صاحب شملوی کا واقعہ گھانا کی ترقیات آپ کی دور امارت میں 393 عطاء الواسع 478 کہ وہ بھی پر کھ کر احمدی ہوئے ہیں 741 1973 ء آپ کو مسلم ہیرلڈ کا نائب ایڈیٹر عطاء الوحید باجوہ صاحب استاد جامعہ عمران احسن(نیشنل سیکرٹری تربیت مقرر کیا گیا 257 394 | احمد یہ ربوہ ) 602 | آسٹریلیا ) 1974ء میں امام مسجد فضل لندن کے حضرت حکیم عطا محمد صاحب 195 عنموائیل ( پیشگوئی مصلح موعود ) عنمو ائیل ساتھ مل کر آپ کے نمایاں کام 394 عطیہ البصیر صاحبہ کا سانحہ گوجرانوالہ میں اصل میں عمانوایل جیسا کہ انجام آتھم میں سرکاری عہدیداران کا وہاب صاحب کو زخمی ہونا 479 ہے 108 خراج تحسین 394، 395 عطیۃ النور (صاحبزادی رضی الدین صاحب عبیات صاحب آف ایران کا ایم.ٹی.اے ز بیر خلیل صاحب کا وہاب آدم صاحب کا شہید ) ذکر خیر کرنا 396 عکرمہ صاحب 105 کے ذریعہ بیعت کرنا 499 حضرت عیسی علیہ السلام 98.97 قانات بیگ صاحب رشین کا گھانا جلسہ علاء صاحب (مصر) کا خواب کے ذریعہ آپ کا آسمان پر زندہ بیٹھا رہنا اتنا 558 نقصان دہ نہیں جتنا خدا کا ہمارے دلوں 62 میں شامل ہونا اور عبد الوہاب صاحب کے بیعت کرنا بارہ میں تاثرات 399 علی حسن صاحب کا الا زھر کے عالم سے میں مردہ ہو جانا قریشی داؤد صاحب کا عبد الوہاب آدم جماعت کے متعلق سوال پوچھنا 226 ہمارے علماء حضرت عیسی کو مارنے کی صاحب کا ذکر خیر کرنا 400 علی شیر صاحب حضرت مسیح موعود کی پہلی کوشش کرتے ہیں جبکہ اللہ کو زندہ کرنے عتیق احمد 764 بیوی کے بھائی 643 کی کوشش نہیں کرتے 63 عثمان چینی صاحب.ہوٹل جامعہ احمدیہ ان کا گجرات کے دو بھائیوں کو حضرت مسیح آپ سے اللہ تعالیٰ کا اذ كففت کا کہنا اور احمد نگر میں قیام 391 ڈاکٹر عثمان فوفا صاحب.سیرالیون 539 موعود سے ورغلانے کا واقعہ 644 آنحضرت سے یعصمک کا لفظ 92 نواب علی محمد خان صاحب رئیس لدھیانہ مردہ زندہ کرنے کا معجزہ کی حقیقت حضرت عزیز کو بعض نے خدا کا بیٹا بنالیا ہے 288 کے ایک خط کا ذکر احمد ابن ابراہیم عبد الرحمن بخاری صاحب 766 حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عسکر عمر و وصاحب عشرت پروین عصمت اللہ صاحب 543 700 42 آپ سے ایک یہودی کا کہنا کہ ہمیں 30 107 چراغ دین کا کہنا کہ عیسی نے مجھے خواب میں عصا دیا ہے 190 سید امیر علی شاہ صاحب کا خطبہ الہامیہ کے 223 صاحبزادی عصمت صاحبہ کی بیماری اور وفات 643 مسلمانوں سے حسد ہے کہ اسلام کی خوبی وقت خواب که حضرت عیسی و دیگر انبیا ء اس یہ ہے کہ دنیا کی کوئی ایسی بات نہیں جو خطبہ کوسن رہے ہیں عطاء المجیب راشد صاحب کا محمود بنگالی صاحب اسلام کے احکامات میں موجود نہ ہو 286 حضرت عیسی کے بارے میں غلط عقیدہ آپ کا خط حضرت ابو عبیدہ حضرت (عقیدہ الوہیت ) پر حضرت مسیح موعود کی کے متعلق ذکر خیر 261 آپ کا وہاب آدم صاحب کے متعلق ذکر خالد بن ولید کی معزولی کے متعلق اور تحریر 300 403 حضرت ابو عبیدہ کی دانشمندی 736 الازھر یونیورسٹی کے ایک بڑے عالم کے ساتھ آپ کا کلیم احمد وسیم صاحب مرحوم کی مکرم عمر صاحب 50 ایک نومبا ئع کی گفتگو، عالم کا آپ کی وفات اور
84 اسماء خطبات مسرور جلد 12 حضرت مسیح موعود کی نبوت کو ماننا 226 | آپ کے بارہ میں عربی زبان میں قادیان | يَنصُرُكَ رِجَال.......حضرت مسیح لوگوں کا آپ کو خدا قرار دینا 288 سے لائیو نشر ہونے والا پروگرام 170 موعود اور آپ کے بعد خلیفہ وقت کے آنحضرت کی محبت میں محو ہونے سے آپ کے کاموں کی ایک اہم ، شاخ لنگر پاس ایسے آنے والے لوگ حضرت اقدس کو نظر آ گیا کہ آپ وفات خانہ جو ساری دنیا میں جاری ہے 174 حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کا کشفی 289 ربوہ، قادیان اور لندن کے کارکنان ضیافت حالت میں حضرت اقدس کو عبد الوہاب آدم پاگئے ہیں 388 آپ کے حواریوں پر کیا کیا ظلم نہیں کئے کو ہدایات، کنجوسی کا اظہار نہ ہو، یہ لنگر خانہ صاحب اور امری عبیدی صاحب کے سر پر ہاتھ گئے رکھے ہوئے دیکھنا 503 آپ کا نہیں حضرت اقدس کا ہے 174 آپ کے متعلق غیر احمدیوں کا نظریہ کہ لالہ شرمپت حضور کی گمنامی کا گواہ 180 آسمان سے اتریں گے 504 ایم ٹی اے کے ذریعہ آپ کا پیغام دنیا بھر بننے کی کوشش کرنے والے ہوں 181 حضور انور کا احمدیوں کو یورپ کے لوگوں کو ان میں جانا کے مذہب اور آپ کے بارہ میں بتانے کے آپ کا ایک سجادہ نشین کو جواب جو کشف 584 قبور کا دعویٰ کرتا تھا اور اس نے حضور کو چیلنج متعلق ارشاد آپ کی والدہ پر خدا نے ان کی نیکی اور کیا تقویٰ کے معیار کو بھی دیکھ کر خدا نے پیار کی نظر ڈالی 586 آپ کا فرمانا کہ مجھے بنی اسرائیل کے 186.185 آنحضرت کا مشاہیر فقراء کو رویا اور خواب 392 آپ کی بیعت میں آ کر اسلام کی حقیقی تصویر 418 گوجرانوالہ کے سانحہ پر جرمنی سے کسی خاتون کا لکھنا کہ آپ کا الہام ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ......تو پھر یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ 473 غلبہ انشاء اللہ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں بتانا کہ حضرت مسیح موعود بچے ہیں جیسے کا مقدر ہے 503 علاوہ لوگوں سے کچھ غرض نہیں 612 سجادہ نشین ، صاحب العلم سندھ ، خواجہ آپ کا اپنی فتوحات اور غلبے کا ذکر 504 عیسی صاحب، دار السلام تنزانیہ کا عیسائیت غلام فرید چاچڑاں شریف اور ان کی افریقہ میں بیٹھے ہوئے شخص کو آپ نے مالی سے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونا 667 غ پیشگوئیاں 185 قربانی کی توجہ دلائی 674 آپ کی کتب کو پڑھتے رہنا چاہئے 187 صحابہ آپ کے ادب اور آپ کے مقام کا آپ کے زمانہ میں لوگوں کا الہی رہنمائی کس قدر لحاظ رکھتے تھے، حضرت مصلح مرزا غلام احمدمسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعہ احمدیت قبول کرنا اس کے موعود کا ایک واقعہ جوں جوں حضرت مسیح موعود کے دور سے بعض واقعات دور جا رہے ہیں ہمیں مکمل Planning کی ضرورت ہے 44 688 193 آپ کا کرکٹ کھیلنے کے متعلق استفسار پر 689 الا زہر یونیورسٹی کے ایک عالم کا حضور کی جواب تائید کرنا لیکن ملازمت کے خوف سے رات کو بارش آنے پر حضرت مصلح موعود آپ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کی احمدی نہ ہونا ہر ایک میں تڑپ ہو 46 227.226 کا بچپن میں اپنا ہاتھ آپ کے سر پر رکھنا حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی خواب جس آپ کی کتابیں ہدایت کا باعث بن رہی ہیں 89 میں حضرت مسیح موعود نے ربنا لا تزغ...دعا کہ بجلی مجھ پر گرے آپ پر نہیں 696 آپ کی بیعت میں آئے ہو تو اس کی قدر پڑھنے کی طرف توجہ دلائی 328 آپ کا اپنی مرض کی بابت ایک کشف 702 104 | آپ کی کتب اور ارشادات کی اہمیت 342 آپ کے بڑے بھائی کو صرع کا مرض تھا 702
خطبات مسرور جلد 12 85 اسماء سعید فطرت لوگ آپ کے دعوے کو سمجھتے | حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد آپ اور آپ کے صحابہ اور بزرگان سلسلہ 713،709 انسانیت کو گناہوں سے بچا کر اللہ تعالیٰ کا اللہ تعالی کی نصرت اور نشانات کے ہیں آپ کی بیعت میں آ کر اطِيعُوا اللہ سے تعلق پیدا کرنا 50 واقعات کا تذکرہ ہونا چاہئے 48 وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ....کا ایسا نمونہ بنیں جو لنگر خانہ، آپ کے کاموں میں سے ایک آپ کی کتب پڑھنے سے افریقہ اور عرب 365 ممالک کے احمدیوں میں روحانی انقلاب دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والا ہو 737 اہم کام آپ کی قادیان کی بابت رؤیا کہ وہ بیاس آپ کی بعثت کا مقصد دنیا کو زندگی دینا 497 کا پیدا ہونا 62 تک پھیلا ہوا ہے 752 ایک نو مسلم کا آپ کی خدمت میں آکر آپ کی تائید میں ہونے والے الہی | آپ کی صداقت کی ایک دلیل 753 نشان مانگنا آپ کی بابت خلیفہ ثانی کی بیان فرمودہ روایات مقام و مرتبہ 711.710 نشانات اور تائیدات 176.72 آپ کے ذریعہ ظاہر ہونے والے آپ کی عربی زبان کی مہارت 98 نشانات کا تذکرہ اور حضور انور کی 87 کا پر معارف بیان اور تشریح 739,689,683 تا 753 آپ کی عربی کتب کا عربوں پر اثر 94 پر معارف تشریح آپ کا اسلام کی خوبصورت تعلیم کو ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے آپ آپ کی کتب بھی ایک نشان ہیں 93 پھیلانے کے لئے درد 758 کی بیعت کی کہ خواب میں انکو بتلایا گیا کہ آپ کا لندن میں تقریر کرنے کا رویا حضرت آپ کے قائم کردہ جلسہ کے نظام کا بین یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور مصلح موعودؓ کے ذریعہ سے پورا ہوا 124 الاقوامی حیثیت اختیار کر جانا 768 بعض نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آپ کو عربی زبان کی فصاحت اور بلاغت اس سلسلہ کو آپ نے خود قائم فرمایا ہے 771 آنحضور کو خواب میں دیکھا 185 کا نشان دیا جانا آپ کی سیرت ، مہمان نوازی 514 تمام انبیاء کے نام آپ کو دیے جانا 193 جو معجزات آپ کو دیئے گئے بعض ان میں آنحضرت" کے صحابہ کے نمونے آپ ہم آپ کی مسیح ناصری سے تشبیہ تعلیم میں نرمی سے وہ پیشگوئیاں ہیں جو بڑے بڑے میں دیکھنا چاہتے ہیں 773 پر زور دیا جانا 616 غیب کے امور پر مشتمل ہیں کہ بجز خدا کے آپ کی کتاب کشتی نوح کا فریچ ترجمہ احمد حضرت مصلح موعود کے بچپن کا واقعہ کہ کسی کے اختیار اور قدرت میں نہیں کہ ان شمشیر سوکیہ صاحب نے کیا 779 ایک طالب علم کے ساتھ اپنے دادا کی کو بیان کر سکے بعثت کا مقصد پرانی کتابوں میں سے ایک میں لکھا ہوا 178.177 193 نشان خطبہ الہامیہ اور اس کی تفصیل آپ کے مشن اور بعثت کا مقصد صرف عقائد کی پانا کہ جبرائیل نازل نہیں ہوتا.آپ کا اصلاح نہ تھی بلکہ اعمال کی اصلاح کرتے ہوئے خدا کے بندے سے تعلق جوڑنا بھی تھا 19 فرمانا کہ میرے ابا پر تو نازل ہوتا ہے....حضور کا فرمانا کہ جبرائیل اب بھی نازل ہوتا ہے 696 232 218 آپ کے قبولیت دعا کے واقعات 700 تا 715 طاعون کو حضور کے لئے بطور نشان بھیجا جانا 709 آپ کو مولوی محمد حسین بٹالوی کی ذلت کی اصلاح کی ضرورت تا کہ حضرت مسیح موعود کی معجزات و نشانات و برکات خبر مارٹن کلا رک والے مقدمہ میں قبل از بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں 28 آپ کی صداقت اور نشانات، دعا کی 10 | وقت دی گئی بابت حضرت اقدس کا اقتباس 745.744.743
خطبات مسرور جلد 12 86 اسماء آپ کے الفاظ کی عملاً تائید کہ قومیں تیار | اعمال کے متعلق آپ کے ارشادات 19 آپ کی اپنی جماعت سے توقعات 360 ہو کر اس میں مل رہی ہیں 769 ، 770 تمباکو نوشی کی ممانعت اور آپ کے صحابہ حضور کا فرمانا: ”اب جو جماعت اتقیاء 37 ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو پیشگوئیاں کا حقہ نوشی ترک کر دینا حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی کے ظہور آپ کی اپنی جماعت کی عملی حالت کے ہلاک کرے گا“ 409 کا ذکر ( دس دن کے بعد موج دکھاتا بارے میں فکر ، اقتباسات اور حضور انور کی آپ کی ایک نصیحت کہ قرآن کی ہدایت ہوں) اس کے ثمرات 73 تا 75 پر معارف دلنشیں تشریح کے برخلاف قدم نہ اٹھاؤ 428 613 آنحضور کا مقام و مرتبہ اور اسلام کی 75 تا86 ، 154 تا 166 | حضرت مسیح موعود کی ایک نصیحت کہ قرآن صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے آپ کی گناہوں سے نجات ، نیکیوں کی توفیق اور شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دینا 433 پیشگوئیاں پوری ہوں گی 89 | دعا کے معیار کی بابت آپ کی تحریر 156 آپ کی بیعت کرنے والوں کو نصیحت 575 حضرت مسیح موعود کی سچائی کے بارہ میں معجزات کی بابت آپ کے ارشادات کی اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی بابت آپ آپ کی تین پیشگوئیاں 147 پر معارف تشریح 167 تا 182 کے ارشادات آپ کو آپ کے والد کی وفات کی خبر قبل از آپ کے تائیدی نشانات کے بارہ میں آپ نے فرمایا ہے کہ برطانوی حکومت بھی اللہ وقت تفصیل کے ساتھ دی جانی 172 اقتباسات کی پر معارف تشریح 184 تا 200 | تعالی کی طرف سے ایک رحمت ہے 686، 687 آپ کی جماعت کی ترقی کی بابت پیشگوئی اور آپ کے اقتباسات اور تحریرات محبت آپ کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے 174 الہی کی بابت 201 تا 217 دو قسم کے ابتلاء آیا کرتے ہیں 693 ہر ایک فرقہ کی شہادت اور نیز انگریزی خطبہ الہامیہ کے بارہ میں آپ کی خدام کو ابتلاؤں کی حکمت کی بابت آپ کا ارشاد 695 اخباروں کی شہادت سے آپ کی پیشگوئی تحریک کہ اس کو حفظ کیا جائے 222 آپ نے فرمایا کہ سچے دل سے اطاعت دل پوری ہوگئی کہ مضمون بالا رہا 179 خدائے تعالی کی حقیقت اور معرفت کی میں ایک نور پیدا کرتی ہے 732،731 آپ نے اونٹوں کی مثال سے نبوت اور امامت کی بابت آپ کے اقتباسات اور پر معارف آپ کے اس ارشاد کو ہر وقت سامنے رکھنے کی اطاعت کے مسئلے کو حل فرمایا 324 | تشریح 234 تا 247 | ضرورت ہے کہ قوم بننے کے لئے یگانگت اور خلافت آپ کی نیابت میں آپ کے نام اللہ تعالیٰ کے قرب کی حقیقت ، اہمیت اور فرمانبرداری انتہائی ضروری ہے پر بیعت لے گی.جب آپ کے نام پر طریق، آپ کی تحریرات اور حضور انور کی آپ نے جلسے میں شامل ہونے کی طرف بیعت لی جارہی ہے تو پھر خلافت کی بیعت تشریحات کی روشنی میں 265 تا 279 خاص توجہ دلائی ہے آپ کی مہمان نوازی کے متعلق ایک اصولی اور اطاعت کی کڑی بھی آپ سے جا کے ملتی ہے 344 توحید کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کے ارشادات ہدایت 735 507 516 زلزلے کی بابت آپ کی ایک پیشگوئی کا کی روشنی میں پر معارف بیان 293 - 309 آپ کے مطابق جلسے کا مقصد 523 720 | حضرت عیسی کے عقیدہ الوہیت کے رد میں ٹیپو سلطان ) کے بارے میں حضور کا پورا ہونا ارشادات و نصائح آپ کی تحریر 300 حضرت مصلح موعودؓ کو نصیحت فرمانا کہ مالی قربانی کی بابت آپ کا ارشاد 14 | جلسہ سالانہ کے متعلق آپ کی نصائح 356 | انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے
خطبات مسرور جلد 12 87 اسماء 104 321 کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام غلام احمد صاحب مبلغ سلسلہ (یمن) 698 | کرنا پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم ان کی نقل کر کے غلام باری سیف صاحب 401 فتح محمد صاحب شیخو پوره ( خلیل احمد صاحب کتے کو ٹیپو کہتے ہو.خبر دار آئندہ ایسی غلام حیدر کیپٹن ڈگلس کے ہیڈ کلرک 745 شہید کے والد ) حرکت نہ کرنا 633،632 مولوی غلام دستگیر قصوری کا رسالہ فتح رحمانی میں چوہدری فتح محمد سیال صاحب کو سر ڈگلس نے | آپ نے جلسہ کی مناسبت سے بندوں مباہلہ کی دعا 176 ، 177 | مقدمہ کا واقعہ سنایا کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی بہت مولوی غلام رسول قلعہ والے مولوی غلام رسول قلعہ والے 191 فتح مسیح (پادری) 772 حضرت مولانا غلام رسول صاحب را نیکی کا کشفی چوہدری فرزند علی والد ڈاکٹر مہدی علی توجہ دلائی ہے حضرت مسیح موعود کا جلسہ میں شامل ہونے حالت میں حضرت اقدس کو عبد الوہاب آدم صاحب شہید ) 748 202 331 فرید صاحب پرنسپل جامعہ احمد یہ گھانا کا والوں کو تقویٰ و پرہیز گاری کی طرف توجہ صاحب اور امری عبیدی صاحب کے سر پر ہاتھ وہاب صاحب کی وفات پر سٹیٹ ہاؤس ولانا 772 رکھے ہوئے دیکھنا 392 میں بیان جلسے کے مہمانوں کی بابت فرمایا کہ سب خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے کا فضل احمد سے ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے 777 حضور کی تائید میں خواب اعتراضات و مخالفت ایم ٹی اے پر راہ ھدی پروگرام 185 406 476 742 مولوی فضل دین صاحب مارٹن کلارک منشی غلام قادر (سنور والے) 223 کے مقدمہ میں حضور کے وکیل غلام قادر صاحب درویش قادیان کا ذکر خیر 714 ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے حضرت مرزا غلام قادر صاحب کا مرض صرع میں مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح میں آپ کے ایک الہام پر اعتراض مبتلا ہو کر انتقال کرنا 702 موعود کو شکایت کی اور اس کا جواب ، دس دن کے بعد موج صوفی غلام محمد صاحب 778 مسٹر فنشن دکھاتا ہوں 636 596 71 آپ نے خطبہ الہامیہ زبانی یاد کیا 222 فہیم بھٹی صاحب کے وہاب آدم صاحب مولوی رسل بابا کا حضور کی مخالفت میں کتاب لکھنا ف 190 فاتح صاحب مبلغ مالی حضرت مسیح موعود کے دور سے ہی جماعت پر مظالم ہورہے ہیں فاتح رعنا.جرمنی 199 563 317 فاہمی صاحبہ کی خواب کے ذریعہ بیعت 197 حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی فراس صاحب آف ابوظہبی کا ایم ٹی اے کا آپ کولکھنا کہ حافظ سلطان سیالکوٹی پر الحوار المباشر اور حضور کی تحریرات کے شدید مخالف ہے 191 متعلق تاثرات 95 فرانس فوری.سیرالیون کے عیسائی دوست کا اگر مسلم امہ آپ کی مخالفت کی بجائے مدد جلسہ کی بابت اظہار خیال 404 کے بارے میں تاثرات فیروز دین صاحب کا گھر سانحہ گوجرانوالہ میں جلا دیا جانا 479 فیروز عالم صاحب کا محمود بنگالی صاحب کے بارے میں تاثرات فیض الرحمن صاحب ق 256 291 546 شیخ قدیر صاحب کی اہلیہ کا خواب کے گار ہو جائے تو یہ بے چینیاں ختم ہو جائیں فرانس ہوسو، ہین کے وزیر داخلہ، جلسے ذریعہ بیعت کرنا اور جہاد کے نام پر فتنہ و فساد باہمی محبت اور کے انتظامات کی تعریف کرنا پیار میں بدل جائے آپ پر مقدمہ دیوار کا واقعہ 412 684 532 فتح محمد صاحب کا حضرت اقدس کی بیعت اقد 560 قانات بیگ صاحب رشین کا گھانا جلسہ میں شامل ہونا اور عبد الوہاب صاحب کے
خطبات مسرور جلد 12 بارہ میں تاثرات 399 | کوثر صاحب مبلغ 88 اسماء 678 | وہاب صاحب کے متعلق ذکر خیر 400 ک مگ بشپ کیمن مکڈونلڈ ، کیتھولک چرچ کے ڈاکٹر مارٹن کلارک کا آپ پر خون کا مقدمہ کرنا کارڈینل پیٹر رکسن (پوپ کی کیبنٹ کے بشپ کا مذاہب عالم کی کانفرنس میں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ واللہ یعصمک من پریذیڈنٹ) 140 | شامل ہونا 140 | الناس 175 کائنات تبسم صاحبہ سانحہ گوجرانوالہ میں مسٹر کینیتھ کمال کرو صاحب کے بارے اس کے پڑپوتے کا حضور انور سے اظہار شہید ہو گئیں 475 میں بیان 135 افسوس کہ اس کا پڑ دا دا غلط تھا اور حضور سچے ڈاکٹرکا ئیتا حتما اللہ صاحب کے جلسہ کے مس گارنر کی ویمبلے کانفرنس میں شمولیت تھے اور حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر کی تعریف بارہ میں تاثرات 543 حضرت شیخ کرم الہی صاحب (صحابی کرنا حضرت مسیح موعود ) 194 132 749.176 اس کے مقدمہ کے وقت حضور کا حضرت مصلح موعود کو دعا کے لئے کہنا گلاب شاہ لدھیانہ کی حضرت مسیح موعود اس نے جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا بنایا 129.98 ڈاکٹرکیٹرینا کا جماعت احمد یہ یوکے کے سوسال کے بارہ میں پیشگوئی مکمل ہونے کی تقریب میں بیان 142 گریگور یوگونز الیز کا جلسے کے بارے میں ڈاکٹر کرسپس چیونگا یوگنڈا کے ڈیفنس منسٹر) کے تاثرات 542 683 750744.741.740 پروفیسر مارگولیتھ کا حضرت مصلح موعودؓ کو ویمبلے کا نفرنس میں شمولیت کے لئے دعوت جلسہ کے بارے میں تاثرات 532 گیری گیتو (بیٹی، منسٹری آف کلچر کے نامہ بھیجنا کمال احمد کر و صاحب ڈنمارک کا ڈائریکٹر کا جلسے میں شامل ہونا ذکر خیر 134 لوم 540 124 مارونڈ اصاحب تنزانیہ کی مالی قربانی کی مثال 668 مسٹر مائیکل کا کمال احمد کر و صاحب کے را نا کرامت اللہ صاحب ( مانسہرہ) پر السلام لال دین صاحب کی خواب کے ذریعہ بارے میں بیان علیکم کہنے پر پہلا مقدمہ قائم ہونا 563 بیعت 559 136 کریم بخش ٹھیکہ دار.لاہور ( حضور کا لاجی صاحب ( برکینا فاسو ) کی مالی قربانی مائیکل پی رکٹ کا مسجد مریم ، گالوے، کے مخالف) 191 663 افتتاح کے موقع پر تاثرات مائیکل گر یک صاحب ( مالٹا) 593 36 پروفیسر کریم صاحب سیرالیون جزل سیکرٹری مسلم لطیف عالم بٹ صاحب ( شہید، کامر ضلع انک 629 182 مایا صاحبہ کا حضور انور سے گفتگو کرنا 540 کانگرس کی جلسہ برطانیہ میں شمولیت 539 لطیفہ الیاس صاحبہ کا ذکر خیر مبارک احمد صاحب باجوہ کی شہادت اور ان کا ذکر خیر 763 صدر کلنٹن سے ملاقات میں یوسف اللطیف مولوی لکھو کے والے کا احوال الآخرت میں صاحب کا باوجود پاکستانی نہ ہونے کے مہدی موعود کے وقت کے بارہ میں شعر 172 شیخ مبارک احمد شر ما صاحب کا مخالفانہ شلوار قمیص پہن کر جانا 17 لئیق احمد.جرمنی 322 فسادات کے دوران شکار پور میں شہید 56 کلیم احمد وسیم صاحب کارکن ایم ٹی اے کا لیقہ فوزیہ صاحبہ.نائیجیریا 57 مبارک ساقی صاحب ذکر خیر 434 434 لیکھرام کا پیشگوئی کے مطابق مرکز عظیم مبارک صدیقی صاحب کا ڈاکٹر مہدی علی لالہ کنورسین صاحب (سابق چیف جسٹس الشان نشان بننا 186 ، 273 صاحب شہید کے بارے میں بیان 335 ،402 کشمیر) حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر کی مسٹرلین کا ویمبلے کا نفرنس کے بارے میں بیان 130 مبارک ظفر صاحب کا وہاب آدم صاحب 117 ماجد احمد ( عبد الماجد طاہر صاحب کا کی مہمان نوازی کے متعلق بیان 397 تعریف کرنا
89 اسماء خطبات مسرور جلد 12 مولوی مبارک علی صاحب 131 | اقدس کو سنانا 222 ، 224 | محمود عبد اللہ شبوطی صاحب کا ذکر خیر 698 مکرم مبارک احمد باجوہ صاحب شہید کا ان کا بیان کہ خطبہ الہامیہ آپ کی طاقت محمود مجیب اصغر صاحب انجینئر کامحمود بنگالی ذکر خیر 764،763 | سے بالا ہے حضرت نواب مہار کہ بیگم صاحبہ کی خواب جس چوہدری محمد عمر دین صاحب مکرم محمد کریم قریشی صاحب میں حضرت مسیح موعود نے ربنا لا تزغ...دعا پڑھنے کی طرف توجہ دلائی 328 225.224 322 600 صاحب کے بارے میں کا ذکر خیر کرنا 252 محمود ناصر ثاقب صاحب.امیر جماعت مالی کا وہاب آدم صاحب کا ذکر خیر کرنا 398 سیٹھ محمد یوسف صاحب شہید سابق امیر ضلع نواب شاہ 105 ، 449 | مختار احمد صاحب مبشر احمد صاحب پر مخالفین احمدیت کا مقدمہ 321 محمد یوسف صاحب فیصل آباد 41 ڈاکٹر ملک مدثر احمد صاحب مبشر احمد کھوسہ صاحب کا ذکر خیر 601 104 57 مبشر ایاز صاحب کا نصیر انجم صاحب کے ڈاکٹر محمود صاحب نے ڈاکٹر مہدی علی حضرت مریم کی صفات ایک حقیقی مومن کو 450 صاحب اور ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب کے اپنانی چاہئیں بارہ میں ذکر خیر 587 مبشره جری صاحبہ کا سانحہ گجرانوالہ میں ساتھ ربوہ کا پہلا بلڈ بنک شروع کیا 334 حضرت مسیح موعود کے مریم ہونے سے مراد 96 زخمی ہونا 479 مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ کا محمود بنگالی محمودا بن ابراہیم عبدالرحمن صاحب 766 مخالفین ، انکی اولا د در اولا دمریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتا نہ دیکھیں گے 504 صاحب کے بارے میں بیان 250 سید محمود شاہ صاحب آف کراچی کا ذکر خیر 233 آپ کی طرح ایک حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ محمود احمد بنگالی صاحب کے اوصاف حمیدہ مجید بشیر کا وہاب آدم صاحب کے بارہ میں ذکر خیر 401 مجید عامر صاحب کے محمد العباس صاحب کی وفات پر تاثرات 311 کا تذکرہ 264248 آپ کو میر داؤ د احمد صاحب کا بار بار خط لکھ کر بنگلہ دیش سے جامعہ واپس بلوانا 250 آپ کے بارے میں انعام الحق کوثر صاحب مبلغ سلسلہ امریکہ کا ایک واقعہ حضور محمد امتیاز احمد صاحب کی شہادت کا واقعہ 448 محمد بن احمد جرمنی میں انجینئر نگ کے طالبعلم کا انور کو لکھنا 251 کا فرمانبردار بننا چاہئے عزیزه مریم 587 766 مریم عبدل صاحبہ جرنلسٹ کا جلسہ سالانہ یو کے میں شمولیت کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا مریم و باب جماعت کے بارہ میں بیان 101،100 آپ کے بارے میں محمود مجیب صاحب حضرت مرزا مسرور احمد صاحب محمد سا کو صاحب آگ گنی کراکری کا مالی قربانی انجینیر کے تاثرات کا واقعہ 537 406 252 خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 11 آپ کی سلسلہ کیلئے جانفشانی کا ایک واقعہ 255 آپ کی طرف سے نئے سال کی مبارکباد 1 محمد طاہر جس کی بددعا سے جھوٹا مہدی ہلاک ہوا 177 آپ کی شفقتوں اور محبت کے متعلق مولوی محمد علی سیالکوٹی کا مولوی زین العابدین اسامہ احمد صاحب (میلبرن ) کا حضور حضور انور کا ایک خواب کی بناء پر رب کل سے مباہلہ 191 انور کو لکھنا 259 شیء کی دعا کی تحریک منشی محبوب عالم صاحب 191 آپ کے دورہ راولپنڈی کے بارے میں مولوی محمد علی صاحب سے میر ناصر صاحب کا ملک اکرم صاحب مربی سلسلہ کا حضور اختلاف 76 انور کولکھتا 329 حضور انور کا فرمانا کہ دنیا کا کوئی ملک نہیں 260 جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں ان کا خطبہ الہامیہ زبانی یاد کر کے حضرت آپ کی خدمات کا ایک جائزہ 262 میں پہنچتا نہ ہوں...348
خطبات مسرور جلد 12 90 آپ کا خلافت کی اطاعت اور وفا پر خطبہ ارشادات و نصائح اسماء بابت تفصیلی تاثرات 369 تا 387 دینا اور دنیا بھر سے احمدی احباب کا اظہار یورپ میں اسائیلم لینے والوں کی ایک قبولیت دعا اخلاص و وفا 369 غلطی اور حضور انور کی رہنمائی کہ مختصر اور صحیح کینیا، ایلڈ وریٹ (Eldoret) کے مبلغ مراکشی خاتون کا خواب کی بناء پر احمدیت بات کریں 20 کے خلاف ایک گھناؤنی سازش اور حضرت قبول کرنا ، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کو حضرت مسیح موعود کی اپنی جماعت کی عملی خلیفہ امسیح الخامس کا دعائیہ جواب اور غیر حالت کے بارے میں فکر، اقتباسات معمولی نصرت اور حضور انور کی پر معارف دلنشیں تشریح غیروں کی آراء 381 54.53 خواب میں دیکھنا فرانس کے ایک عیسائی کا اسلامی اصول کی 75 تا 86 آپ کے بارہ میں میرگل گارسیاہ کا بیان 152 فلاسفی پڑھ کر اور جلسہ سالانہ میں حضور کا تیسری عالمگیر جنگ کی طرف بڑھتے ہوئے حضور انور کے خطبات،خطابات کا حیرت خطاب سن کر احمدی ہونا 383 قدم اور حضور کی رہنمائی 147 انگیز اور روح پرور انقلابی اثر اور اس کا جذباتی آپ کو فرانس سے آنے والے ایک عرب آپ کی جلسہ میں شامل ہونے والوں کو اظہار، ایک جرمن کا کہنا کہ یوں لگتا تھا کہ یہ دوست کا خلیفہ رابع” کی وفات کے بعد نصیحت کہ اپنے جائزے لیں 360 خلیفہ کا خطاب میں نے لکھا ہے کیونکہ اس کا خواب میں دیکھنا....384 آپ کی صفائی کے متعلق خاص نصیحت 435 ہر لفظ میرے دل کی آواز تھی حضور کا ایک عزیز کے خواب کا ذکر کرنا بی بی سی کی ایک خاتون نمائندے کے سوال و جوابات وانٹرویو رمضان بڑی جلدی ختم ہو گیا ابھی تو میں ننگے سر کو ڈھانپنے کی حرکت اور حضور کی میسیڈونیا کی ایک جرنلسٹ کا حضور سے نے جماعت سے اور زیادہ دعائیں کروانی اصولی رہنمائی 544 پوچھنا کہ آپ (جرمنی) جلسہ کے تھیں 377 482 آپ کا فرمانا میری کسی سے دشمنی نہیں ہے انتظامات سے مطمئن ہیں ؟ اور حضور کا 385 آپ کا ایک پرانا خواب جس میں جماعت کو بعض مجھے گالیوں سے بھرے ہوئے جواب 484 خطوط لکھ دیتے ہیں ان کے لئے بھی کبھی آپ کا ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو کہ جس ابتلاؤں سے بچانے کاطریقہ خلافت کو تم سمجھ رہے ہو یہ کوئی خلافت نہیں آپ کا قبول احمدیت کے واقعات بیان میرے دل میں غصہ نہیں آیا 615 وہ جاری ہو چکی میں سوال ذا 413 498 597 کرنے پر امریکہ سے کسی کا خط ، خدا تعالیٰ حضرت مصلح موعود کے ارشادات کی روشنی آپ کا BBC سے انٹرویو جس میں آپ پر کا نشان دکھانا تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ ان میں آپ کی پر معارف تفسیر 716 تا 726 نے فرمایا کہ جماعت جو تعلیم دیتی ہے وہ واقعات میں مبالغہ نہیں ہو تا 550 ، 551 قادیان میں ہونے والے جلسہ میں اسلام کی حقیقی تعلیم ہے آپ کا عبادتوں کی طرف توجہ دلانے پر شاملین کو آپ کی ہدایات 767 آپ سے طالبان اور isis کے بارہ مخلص احمدیوں کا خوبصورت رد عمل کہ دورہ جات مساجد میں حاضری بڑھنا 607 | آپ کے دورہ جات کی وجہ سے اسلام کی آپ سے ایک عرب کا سوال کہ اگر حضرت آپ کو سر ڈگلس کے نواسے کا پیغام 749 تعلیم اور جماعت کا تعارف اور برکات، اقدس کو شوگر تھی تو روزے کیوں رکھے ؟ 703 | رکھے؟703 پشاور سکول میں بچوں پر وحشیانہ حملہ اور آپ کا امریکہ، کینیڈا اوغیرہ کے دورہ کا ایک جائزہ 4 میر مسعود احمد صاحب (مبلغ ، ڈنمارک) 134 اظہار ہمدردی 763754 حضور انور کے جرمنی کے جلسہ اور دورہ کی مشتاق احمد صاحب 449
خطبات مسرور جلد 12 ماسٹر مشرق علی صاحب ایم اے آف مولانا مودودی کلکتہ کا ذکر خیر 91 اسماء 114 اپنے ایڈریس میں ڈاکٹر مہدی علی صاحب 29 ایک غلط نہی کہ اسلام کے اقتصادی نظام کا کی شہادت کا ذکر کیا تو میں برداشت نہ کر حافظ مشہور صاحب کا وہاب آدم صاحب نظریه شاید مودودی صاحب نے پیش کیا سکی اور رونے لگی 399 تھا....379 کے بارے میں بیان 118 میری لین تھا جوانی (صدر لجنہ ، مارشل آئی مشہوری صاحب (پورتونو دو) کی مالی قربانی کی 664 حضرت موسیٰ علیہ السلام 186 لینڈ نو مبائع احمدی کا جلسہ سالانہ میں مکرم مصطفی ثابت صاحب ( مصر کے ابتدائی آپ خطبہ الہامیہ کے وقت موجود تھے، شمولیت اور جذبات کا اظہار 766 منشی غلام قادر صاحب آسنور کا خواب 223 میںگل گارسیاہ کا حضور انور کے بارے احمدی) مظفر احمد شر ما صاحب کو 1997ء میں شیخ موفق صاحب.دروزی کمیونٹی کے میں بیان 56 رہنما کا مذاہب کانفرنس میں شرکت کرنا مینا مبارکہ صاحبہ شہید کیا گیا 541 151 119 حضرت معاویہ کی نماز قضاء ہونے کا واقعہ 640 اور اپنی کمیونٹی کا تعارف کروانا 140 مینائی (رام پور کے مشہور شاعر ) 642 میاں معراج الدین صاحب آف لاہور حضرت مہتاب بی بی صاحبہ 191 | ذكر 618 ن، و کا حضرت مسیح موعود کو ایک مباحثہ کی ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب کی شہادت کا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب بابت لکھنا 330، 341 خلیفہ اسیح الثالث 18 ، 426، 436 ملا وائل کو حضور نے آلیس الله بکاف آپ کا مجموعہ کلام ” برگ خیال 332 | آپ نے وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر عبدہ والے الہام کی انگوٹھی بنوانے کیلئے آپ کے بارے میں آپ کے بھائی بادی کیا جائے گا“ کے متعلق فرمایا تھا کہ اس 173 علی صاحب مبلغ سلسلہ کا ذکر خیر کرنا 333 میں ہی اتنی وسعت ہے کہ اس کو بیان ملہم العدس صاحب کی مکرم عبد الکریم عباس آپ کا مولانا ابوالعطاء صاحب کے کرتے چلے جائیں تو ختم نہیں ہوسکتا 110 صاحب مرحوم آف سیر یا کوتبلیغ 309 پاس استفادہ کے لئے جایا کرنا 333 آپ کا محمود احمد شاہد بنگالی کو صدر خدام صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے آپ کا ڈاکٹر سلطان مبشر کے ساتھ بلڈ بنک الاحمدیہ بنانا امرتسر بھجوایا مشورہ سے عبدالرشید شر ما صاحب کا شکار کا آغاز کرنا پور جانا منصور احمد صاحب 334 57 آپ کی غرباء پروری کا واقعہ بزبانی ڈاکٹر 764 سلطان مبشر 336 250 خلیفہ ثالث کا کم ووٹوں والے کو صدر بنا کر سبق دینا کہ خلافت کا انتخاب ہی بہتر ہوتا ہے 252 آپ کا فرمانا کہ تمام برکتیں خلافت کی 252 چوہدری منظور احمد صاحب چیمہ کا ذکر خیر 715 آپ کی شہادت کی خبر اور تعارف Dawn اطاعت میں ہیں | منیب احمد لودھی کا سانحہ گوجرانوالہ میں زخمی اخبار کی ویب سائٹ پر 337 بعض دعاؤں کی تحریک جو خلیفہ ثالث نے 479 آپ کی شہادت کی خبر بی بی سی پر نشر ہونا 340 جماعت کی جو بلی کے لئے بھی فرمائی تھیں ہونا منیر احمد صاحب 475 | ڈاکٹر مہدی صاحب کی شہادت کے بعد ربوہ ان کو بھولنا نہیں مستقل اپنی زندگیوں کا منیر عودہ صاحب ڈائریکٹر ایم ٹی اے کی انتظامیہ کو چوکس رہنے کی ہدایت 340 حصہ بنانا چاہئے پروڈکشن 328.327 765 آپ کی شہادت کے ذکر پر ایک خاتون کا وہاب آدم صاحب کو مخالفت کی وجہ سے منیہ صاحبہ کا بیعت کرنا 552 حضور انور کولکھنا کہ " خلیفہ اُسیح نے جب حج پر نہ جانے دینا اور حضرت خلیفہ ثالث
خطبات مسرور جلد 12 92 کا کشفاً آپ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے نصیر دین صاحب ریجنل امیر لندن 166 | آپ کے متعلق بعض لوگوں کا کہنا کہ آ.ہوئے دکھایا جانا 399 آپ کا ایک احمدی کی تحریک جدید میں مالی حضور کا دایاں فرشتہ ہیں جن ممالک میں احمدیوں پر ظلم ہورہاہے وہاں قربانی کی بابت کا واقعہ بیان کرنا 671 آپ کی وفات کا وقت کے اکثر شرفاء کی شرافت حضرت خلیفہ ثالث کے بقول گونگی شرافت ہے ناصر احمد صاحب.امریکہ 485 42 سید نصیر شاہ صاحب.یو کے 233 نعمت اللہ خان.وزیر آباد کے ذریعہ سے اسماء 697 752 نور احمد مخالف احمدیت کا طاعون سے مرنا 191 حافظ نور احمد کا حضرت مسیح موعود سے ملنا اور الہام کی بابت اپنے غلط عقیدے کے میر ناصر نواب صاحب کا حضرت مصلح نوابشاہ کے شہید محد امتیاز صاحب کے دادا متعلق استفسار کرنا موعود کے بچپن میں بدخطی کے واقعہ کا نے بیعت کی بیان 74.73 449 | ڈاکٹر نوری صاحب طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ 638,637 نعمت اللہ ولی کی حضرت مسیح موعود کی آمد آپ سے مولوی محمد علی صاحب کے اختلاف کے بارے میں پیشگوئی 185 نعیم اللہ خان آف قرغستان کا ذکر خیر 463 پر حضرت مسیح موعود کا ارشاد 76 ربوہ کا ڈاکٹر مہدی علی صاحب کا ذکر خیر کرنا 335 آپ کو میاں انور احمد صاحب کی خدمت کا الحاجہ مسٹر نعیمہ لطیف صاحبہ کا ذکر خیر 604 حضرت ناصر دین صاحب ثمانگٹ 55 حضرت سید ناظر حسین شاہ صاحب 233 حضرت نظام الدین صاحب کی اپنی 449 حضرت مسیح موعود سے ملاقات کی بابت نبیلہ امتیاز صاحبہ نپولین کا واقعہ از حضرت مصلح موعود بابت اطاعت روایت 194 733 تا 735 نواب بی بی صاحب مانگٹ اونچا ضلع حافظ نسرین بٹ صاحبہ کا ذکر خیر 323 | آبادکا ذکر خیر محترمه نسرین شاه صاحبه 55 موقع تین دہائیوں تک ملنا 451 حضرت چوہدری نور علی صاحب صاحب 715 علامہ نیاز فتح پوری صاحب تفسیر کبیر کے بارے میں تاثرات 112 حضرت مرز ا نیاز بیگ صاحب 715 نیکلچو گوشیوسکیکی جلسہ سالانہ یو کے میں 699 حضرت حکیم مولانا مولوی نورالدین شمولیت کی بابت جذبات کا اظہار 371 ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب کا ڈاکٹر مہدی صاحب خلیفہ امسیح الاول 328 واجد کا مبارک احمد باجوہ صاحب کو اغوا علی صاحب کے بارے میں تاثرات 334 105 بھوپال کے اپنے استاد کا واقعہ 62 کر کے چھریوں سے شہید کرنا 764 نصرت جبین صاحبہ رض حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ کو الہام كَلَامٌ أُفْصِحَتْ کی سر والٹر ریلے کا وفاداری اور اطاعت و محبت 221 کے جذبے کی مثال رقم کرتے ہوئے ملکہ کے 622.621 حضرت اماں جان کا زیور جلسے کے اطلاع دی جانا مہمانوں کے انتظام کیلئے پیش کرنا 514 آپ کو حضور کا خطبہ الہامیہ سے قبل دعا آگے کوٹ بچھانا آپ کا مرزا انور احمد صاحب کی شادی کیلئے دوستوں کے اسماء کی فہرست تیار ڈاکٹر والٹ واش کا حضرت خلیفہ ثانی کا ویمبلے میں شرکت فرمانا نصیر احمد صاحب 451 764 مرز انصیر احمد صاحب کے وہاب آدم صاحب کے بارہ میں تاثرات 401 کرنے کے لئے کہنا 219 کانفرنس کا لیکچر سننا اور سراہنا آپ کا خطبہ الہامیہ کی کتابت کرنا وجیهه مهدی 223،220 ، 224 | میاں وسیم احمد صاحب نصیر احمد انجم صاحب کا ذکر خیر 449 آپ کا فرمان کہ غسال کے ہاتھ میں وقاص احمد صاحب 129 332 114 475 آپ کے بارہ میں مبشر ایاز صاحب کے میت کی طرح اپنے آپ کو امام کے ہاتھ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 230 متاثرات 450 | میں دو 346 آپ کے علامہ المغربی سے گہرے
خطبات مسرور جلد 12 93 اسماء دوستانه مراسم 227 | کا قبول احمدیت کا واقعہ لکھنا 198 150 Father Ethelwine 541 596 ولیم لافٹس ہیٹر کا ویمبلے کا نفرنس کے انعقاد الحاج یوسف ایڈوئی مبلغ گھانا کا ذکر خیر Evan Vernon کی تجویز پیش کرنا هی 122 آپ کو خلیفہ رابع ” کا جلسہ سالانہ یو کے Mr.Fintan Francis Houessou 532 542 Gregoria Gonzales 540 Gary Guiteau HE Joselyn Whiteman 148 6810676 میں اپنی تقریر کے دوران بلانا 679 باجرہ صاحبہ اہلیہ محمود بنگالی صاحب 249 یوسف اللطیف صاحب بوسٹن امریکہ کا ذکر خیر 17 ابن بادی علی صاحب مبلغ سلسلہ کے اپنے یوسف لطیف صاحب ابن یوسف اللطيف Mr.Henrik Jensen بھائی مہدی علی قمر صاحب کے بارے میں صاحب تاثرات باشم علی صاحب Ivan Bartolo Ms.Ingerrethe 18 333 یول اولا یا نو مبالع کا بیعت کے بعد اپنے 332 ہالہ صاحبہ آف لیبیا کا بیعت کرنے کا واقعہ حالات اور جلسے میں شمولیت کی بابت John Rabbit اظہار خیال کرنا Abdou Fall Antigoni | 555 Kay Carter Reverend Canon Dr.Anthony Cane 96 Arjan ہانی طاہر صاحب کا حمادہ صاحب کے کام کی بابت بیان 135 535 135 592 543 593 Jenny Mc Clean 542 196 Jiara Boukhari 532 149 150 Dr.Lydia 150 554 148 Mak Chishty 390 136 Mr.Mikael 199 541 Mery Lintha Johnny 593 Michael P.Kitt 594 Mrs.Bertha | 554 536 Michael Grech 560 Bange Diarra 151 Miguel Garcia 670 Betim Redzepi 371 Nikolcho Goshevski 671 Bekim آپ کا عبد الکریم صاحب آف سیریا کے Ayesha Akua Woro بارے میں تاثرات Bakary Tarore | 310 ہر جان صاحب کا اپنا قبولیت احمدیت کا Baroness Berridge 148 واقعہ بیان کرنا ہمیش چندر شرما کا جماعت کی منعقدہ مذاہب کانفرنس میں شرکت اور اظہار خیال 139 ہندہ صاحبہ کا جلسہ سالانہ یو کے سے واپسی پر حادثہ کا شکار ہونا 563 Billy Tranger Mr.Prakash Ramadhar | 149 Boniface Ntwa Boshie Panagiotis | 531 ہنریک جینسن صاحب کا کمال کرو Wa صاحب کا ذکر خیر کرنا یاسر احمد صاحب.جرمنی یا نالو پیز ریخون کی جلسہ سالانہ یو کے میں شمولیت کی بابت اظہار خیال 540 یزید 539 532 148 149 536 553 594 Stein Villumstad Dr.Charles Tannock ME Prof.Dr.T.Sunier | 148 Mr.Thierry Atticot | 532 Dr.Crispus Kiyonga TomOvergoor David Samuel Margoliouth Tom Healy | 124 621,622 Sir Walter Raleigh 143Rt.Hon.Dominic Grieve 129 122 | William Loftus Hare 135 540 Yanna Lopez Rejon | 529 543 Yul Adelf Olaya | 542 Mr.Diavia Abdou 135 42 332 516 حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب Dr.Walter Walsh 593 Deirdre Mc Kenna Mr.Kenneth | 515،10 آپ کا حضور کا بے تکلفی کا ایک واقعہ | Diana Naima تحریر کرنا 371 Dusko Vuksanov 591 یوسف صاحب ( معلم مالی) کا ایک بزرگ Eamon O'Cuin
خطبات مسرور جلد 12 94 مقامات ابو ظہبی اتر پردیش اٹلانٹک ایریا اٹلی مقامات افریقہ میں مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں الا ڈا ریجن ( تنزانیہ) بہت کام ہوا ہے اس کام کا مختصر خلاصہ 3 الازہر ( یونیورسٹی مصر ) 434،95 افریقہ میں جماعت کی ترقی سے علماء کا 17 پریشان ہونا 7 12 ساؤتھ افریقہ اور دیگر ممالک میں غیر احمدی مولویوں کی بھاگ دوڑ اور احمدیت 384.96 نپولین کا اٹلی کے ایک جزیرہ میں قید کیا جانا 733 اجنیا والا ( ضلع شیخوپورہ) احمد نگر اڑیسہ اسٹونیا 55 کا غیر معمولی نفوذ 9 البانية 667 9 370 البانین ایڈوین صاحب کی بیعت 380 الجزائر امرتسر 95 449.73 حضور کا الہام کہ تم امرتسر جاؤ گے 73 حضور انور کی افریقہ میں جماعت کے کاموں کو وسعت دینے کی ہدایت 11 حافظ نور احمد صاحب کا امرتسر جانے سے ایک سماوی سبب سے روکے جانا 74 391 افریقہ میں وقف جدید کے چندے کا 676.17 بہت سا استعمال ہونا 11 حضور کا امرتسر جانے کے متعلق ایک پیشگوئی کا پورا ہونا 75 370 افریقی ممالک کو وقف جدید کے چندوں جگن ناتھ جو کہ ایک متعصب ہند و تھا اس کا 16 امرتسر میں سر رشتہ دار ہونا 16 کا ایک اشتہار کا شائع ہونا 80 108 اسرائیل میں دروزی کمیونٹی کا پایا جانا 140 کی فہرست بھجوانے کی ہدایت اسرائیل کے ایک رہائی (Rabbai) کا افریقہ کے نومبائین اور بچوں کا چندوں امرتسر کے ایک اخبار ریاض ہند میں حضور کا کہنا کہ یہاں ہر طرف مذہبی اور سیاسی میں شامل ہونے کا ذکر کشمکش جاری ہے اور فساد برپا ہے 141 افریقہ میں احمدیت کی سچائی کے واقعات 102 حضور کا ملاوامل کو الہام نگینہ میں کھدوا کر مہر اسرائیلی رہائی کو حضور کی نصیحت کہ اسرائیل افریقہ میں ( گھانا، سیرالیون ) پریس اور میڈیا بنوانے کے لئے امرتسر بھیجنا امرتسر میں ایک پادری کے مطبع میں براہین کی حکومت کو امن کے متعلق بتائیں 149 سے رابطوں کے سلسلہ میں اچھا کام ہونا 138 اسرائیل کا فلسطینیوں پر مظالم ڈھانا 482،454 افریقہ میں ایک مسجد کا افتتاح اور عیسائی اسلام آباد 16 ، 56 چیف شمولیت افریقہ 50، 62، 187 ، 647،567، افغانستان 567 647 احمدیہ کا چھپنا 173 180 ایک زمانہ میں حضور ا کیلے کتاب چھپوانے کے لئے امرتسر جایا کرتے تھے 181 امرتسر کے ایک مخالف رسل بابا کا حضور کی 769،689،675،665 | اکرا (Accra) 681 مخالفت میں ایک کتاب لکھنا 190
خطبات مسرور جلد 12 95 مقامات حضور کے دعوی کے وقت لوگوں کا شور مچانا حضور انور کے دورہ امریکہ کے دوران میں تشدد 596 که مامور آنا ہوتا تو لاہور یا امرتسر یا کسی مہدی صاحب کی خدمت دین 334 انڈیا 13، 17، 29، 114 ،130 ، 645 ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب کو امریکن میڈیکل 449،131، 668،576،560،559، بڑے شہر میں آتا عبدالحمید کو پادریوں کا امرتسر میں ایک ایسوسی ایشن کی جانب سے فزیشن 747 676.674.669 مستری کے گھر بھجوانا امریکہ ،115،55،42،16،15، امریکی نیوز چینلز و اخبارات میں ڈاکٹر مہدی علی بہت کام ہوا ہے اس کام کا مختصر خلاصہ 3 142،119 ، 187 ، 233 ، 251، 254 ، صاحب کی شہادت کی مذمت 338 339 ساؤتھ افریقہ میں پاکستانی،انڈین اور 331 336،332، 391، 399، حضور انور کا فرمانا کہ امریکہ بھی تمہارا ہوگا سعودی عرب کے مولویوں کے گروپس کا 550،510،437،436،402 ، اور افریقہ بھی..354 آنا اور مسلم جوڈیشل کونسل کے زیر اہتمام 678،676،674،647،604 ، وہاب آدم صاحب کو انٹرنیشنل فیڈریشن کانفرنس میں جماعت کی مخالفت میں 769،689 ، 770 ، 777 | فارورلڈ پیس امریکہ کی طرف سے امن کے پروگرام بنانا یکنیشن کا بھی ایوارڈ دیا جانا 337 انڈیا میں مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں 9 576.538.391 حضور انور کے دورہ امریکہ کا ذکر 4 لئے خدمات پر سے اعزاز دیا جانا 393 انگلستان امریکہ کے صدر کلنٹن کا یوسف اللطیف امریکہ اور جرمنی کی جماعت کو گستاخانہ 1924ء انگلستان میں ویمبلے کانفرنس کا انعقاد 122 صاحب کو وائٹ ہاؤس دعوت پر بلانا 17 خاکوں کے خلاف قانون کے دائرے حضرت مصلح موعودؓ کو ویمبلے کا نفرنس میں امریکہ میں شیشہ یا حقہ کا ایک نیا رواج میں رہ کر احتجاج کرنے کی تلقین 413 شرکت کے لئے انگلستان کے بڑے 38 بینن کے وزیر داخلہ کا جلسہ کے انتظامات جس سے احتراز کی نصیحت امریکہ کی جماعت کا پریس اور میڈیا کے ساتھ روابط میں کچھ عرصہ سے بہتری آنا اور اچھا کام کرنا 138 امریکہ میں فیس بک کی وجہ سے بے چینی 158 امریکہ میں ہونے والا گر ہن 170 علامہ مغربی صاحب کا خلیفتہ المسیح الثانی بڑے مستشرقین کا دعوت دینا 124 انگلستان کے گلڈ ہال میں جماعت احمدیہ برطانیہ کے سوسال مکمل ہونے پر ایک تقریب کی تعریف میں کہنا کہ امریکہ جیسے سپر پاور کے انتظامات بھی دیکھے ہیں مگر بڑی بڑی طاقتوں کو بھی اس طرح کے منظم اور پر اور مہمانوں کے تاثرات 137 تا 150 امن انتظام کرتے نہیں دیکھا 532 وزیر اعظم برطانیہ کا جماعت احمدیہ انگلستان حضور انور کا قبول احمدیت کے واقعات بیان کرنے پر امریکہ سے کسی کا خط ،خدا تعالیٰ کا کی خدمات کو سراہنا 144.143 نشان دکھانا تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ ان عبدالسبحان منان دین صاحب،انگلینڈ آنے کو کہنا کہ آپ یورپ ، امریکہ اور افریقہ واقعات میں مبالغہ نہیں ہوتا 550، 551 والے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے 166 کے کفار اور نصاریٰ کو تبلیغ کریں نہ کہ امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت 754 عرب، مصروشام ڈاکٹر مہدی علی صاحب کا امریکہ 228 انڈونیشیا 674،669،254،15، یہ سے 714.689 تاریخ انگلستان کے ایک واقعہ کی مثال ہسر والٹر ریلے کا ملکہ الزبتھ اول کی خاطر کیچڑ وقف عارضی پر پاکستان آنا 330 | انڈونیشیا میں احمدیوں پر پولیس کی نگرانی میں اپنی قیمتی پوشاک بچھا نا..621
خطبات مسرور جلد 12 پہلی جنگ عظیم میں انگلستان کی فوج کا ایک واقعہ انگلینڈ 722،721 | آٹوا 775.689.647 آسام چرچ آف انگلینڈ کو جماعت کے زیر آسٹریلیا 96 مقامات آفن باخ (Offenbach) 675،563 آئرلینڈ 607،600،599،590،150 676.17 29، 30 آئرلینڈ میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کا افتتاح اور کوائف 588،583،577 اہتمام ہونے والے کانفرنس میں دعوت 15 ، 16 ، 676،674،556،233، 760 حضورانور کی آئر لینڈ میں ارکان پارلیمنٹ 652 آسٹریلیا میں مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں اور سپیکر سے ملاقات دیا جانا 591 چرچ آف انگلینڈ کا پہلی دفعہ ایک عورت کو بہت کام ہوا ہے اس کام کا مختصر خلاصہ 3 آئرلینڈ کے نیشنل اخبار آئرش ٹائمز کا 756 آسٹریلیا کے دورہ کے موقعہ پر میڈیا کی حضور انور کا انٹرویو لینا اور مسجد اور حضور بشپ بنانا 102 وسیع کو ریج اود ولو(Odulu) اوکینے (Okene) ایڈمنٹن ایڈیلیڈ ایران 667 676 4 انور کی تصویر شامل اشاعت کرنا 598 آسٹریلیا میں حضور انور کے انٹرویو کے آئرلینڈ کی قومی اسمبلی کی ممبر کا لجنہ اماءاللہ سلسلہ میں خدائی تائید کا نشان 5-4 کی چیریٹی کی تعریف کرنا آسٹریلیا کے نیشنل اور انٹرنیشنل ٹی وی آئیوری کوسٹ 257 ، 676 چینلز کا حضور کے دورہ کی خبر شائع کرنا 5 595 778.662.616.392.254 97 | امیر جماعت آسٹریلیا مکرم محموداحمد شاہد صاحب آیا کو پے(Ayakope) ایران کے بادشاہ کے متعلق ایک کہاوت 502 بنگالی کی وفات کا ذکر 248 تا 263 ایسٹ افریقہ ایشیا 500 7 امیر صاحب کا آسٹریلیا میں ذیلی تنظیموں بٹورو ( Botoro) گاؤں میں تمام 257770.463.354 کی تشکیل مرکزی خطوط پر کرنا 257 لوگوں کا احمدی ہو جانا بی بی سی ایشیا پر حضور انور کا انٹرویو دکھایا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی ہدایت پر برکینا فاسو بورکینا فاسو جانا..498 احمد یوں کو آسٹریلیا کے سبھی بڑے شہروں 7 675.663.662.501.392.196.16.8 257 بورکینا فاسو کے دوگو (Dedougou) ایلڈوریٹ کے مبلغ کے خلاف ایک گھناؤنی میں بسایا گیا ساز اور حضرت خلیفتہ امی اس کا دعائیہ جماعت احمد یہ آسٹریلیا کی تعمیر تنظیم میں محمود ریجن کے لوگوں کا بارش کا نشان دیکھ کر جواب اور غیر معمولی نصرت 52 53 احمد بنگالی صاحب کا بنیاد کا کام کرنا 259 احمدیت قبول کرنا ایمسٹرڈم 103 553 آسٹریلیا کے اطفال کی مالی قربانی کا ذکر 672 عبد الوہاب آدم صاحب کا بطور مرکزی ایوان توحید ( راولپنڈی) 42 جلسہ سالانہ قادیان میں آسٹریلیا کی نمائندگی 770 نمائندہ برکینا فاسو کا دورہ | جلسہ میں ایوان محمودر بوه 255 | آسنور 392 13 برکینا فاسو کی جماعت کا عبد الوہاب آدم ایوان محمود میں ایک دفعہ آگ لگنا 254 آندرا پردیش 17 ،676،560 صاحب کے ذریعہ قیام | 398
خطبات مسرور جلد 12 97 بالٹی مور.یوایس اے 182 بٹورو ( Botoro) میں تمام لوگوں کا بھارت بالهم بٹالہ 16 744.741.190 احمدی ہو جانا بروخسال حضور کا پیرا کو بٹالہ کام کے لئے بجھوانا 646 بروفنئی ایڈور 7 675 بھاؤ گھسیٹ پور مقامات 11 642 بھٹی بھوڑ و چک ضلع شیخو پورہ 232 390 بھڑی چٹھہ تحصیل حافظ آباد 191 بٹورو میں تمام لوگوں کا احمدی ہو جانا 7 بروک لین یونیورسٹی 331 بہشتی مقبره ( قادیان) 323،30 664 بھوئیوال ضلع شیخو پوره 375.371.370 بیاس (دریا) 62 321 بلوچستان اور سندھ کو جماعتی اور تنظیمی سطح حضرت مسیح موعود کی ایک رؤیا کہ بدین 675 بریڈ فورڈ ساؤتھ 16 بھوپال برا ملے اینڈ ایملوشم 16 | بلاور ( Blavor) برسین 257، 676 | بلغاریہ برطانیہ 1924ء میں برطانیہ کی کالونیوں کا پوری بلیک ٹاؤن بمبئی 350 دنیا میں پھیل جانا 123.122.254.144.16.15 675.975.674 پر جماعت کراچی کے سپرد 260 قادیان بیاس تک پھیلا ہوا ہے 752 676 بيت الفتوح جماعت احمدیہ برطانیہ کے سو سال مکمل بنفور اریجن ( بورکینا فاسو ) 8 بینن ہونے پر تقریب 137 تا 143 بنگال برطانیہ کے اخبارات اور نیوز چینلز کا پشاور بنگلور سکول میں بچوں پر کئے گئے حملے کی مذمت کرنا 338 جلسہ سالانہ برطانیہ سے قبل حضور انور کا مہمان نوازی کے بارے میں ہدایات دینا 508506 676.250.30.29 676.17 بنگلہ دیش 249 250 251 ، 261 | محمود بنگالی صاحب کو حضور انور کا بنگلہ دیش کے جلسہ پر بطورنمائندہ بجھوانا 256 جلسہ سالانہ برطانیہ کا آغاز اور حضور انور کا بو( سیرالیون ) فرمانا کہ یہ جمعہ بھی جلسہ کا حصہ ہے 518 بوآ برلن جرمنی میں گستاخانہ فلم چلائی جانے کا پروگرام بننا برمنگھم سینٹرل برمنگھم ویسٹ 413 675 675 381.370.150.254.15.665.392.16.11.8 779.675.666 بیٹن کی ایک خاتون کی مالی قربانی کا ذکر 12 بین کے وزیر داخلہ فرانس ہوسو کا جلسہ سالانہ کی تعریف کرنا 532 بینن کے امیر صاحب کا ایک احمدی کی مالی قربانی کا ذکر 664 119 بیٹن میں مبلغ احمد شمشیر سوکیہ صاحب کا اپنے 555 والدین کی طرف سے مسجد تعمیر کروانا 778 764 پاکستان 16، 313،70،56،23، بورن متھ 675 | پارہ چنار بوسٹن 16 بوسنیا * | 17.411.401.364.356.338.316 376.370.675.656.630.618.484.449 768.767.763.756.754 برنی کوئی شہر میں ایک چھوٹا سا گاؤں بولگا ٹا نگا (Bolgatanga) 676
خطبات مسرور جلد 12 98 مقامات 596 ساؤتھ افریقہ میں پاکستانی انڈین اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہر احمدی کو پاکستان میں احمدیوں پر پولیس کی نگرانی سعودی عرب کے مولویوں کے گروپس کا خدا تعالی سے قرب اور تعلق بڑھانے کی میں تشدد آنا اور مسلم جوڈیشل کونسل کے زیر اہتمام ضرورت ہے 279 | پاکستان میں اسلام کے نام پر مساجد کو دشمن کے منصوبے بہت خطرناک نقصان پہنچایا جانا کانفرنس میں جماعت کی مخالفت میں پروگرام بنانا ہیں ، خاص طور پر پاکستان میں 326 596 پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک 603 پورا ملک ظلم کی داستان بن کر رہ گیا ہے پاکستان میں غیر احمدیوں کی مساجد کی ہائیکورٹ میں ایک عورت کو پتھر مار کر کیمرون میں پاکستان سے آنے والے تبلیغی گروپ کا احباب جماعت احمدیہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کرنا شہید کر دینا 9 341 آبادی کا بڑھنا مگر سوائے نفرتوں کے درس کے اور کیا دیا جاتا ہے؟ 624 پاکستان میں احمدیوں پر ظلم کرنے والوں ایم ٹی اے پاکستان کو ایک نصیحت 689 پاکستان سے ہیں مولویوں کا گروپ کے لئے حضور انور کی صحیح افریقہ گیا ہوا ہے 9 341 پاکستان میں بچوں پر ہونے والے خلافت رابعہ تک وقف جدید کی تحریک دنیا کے احمدی بھی پاکستان کے احمدیوں کے بدترین حملہ کی مذمت صرف پاکستان میں تھی 11 لئے دعا کریں 341 755 پاکستان میں جلسوں پر پابندی 767 پٹنہ یونیورسٹی پاکستان کے احمدیوں کو اگر جلد ان پاکستان کے حالات کے باوجود جماعت احمدیہ پاکستان کا قربانیوں میں نمایاں مشکلات سے نکلنا ہے تو پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالی کے حضور جھکنا چائیے 356 پاکستان میں بھی ٹی وی پر تفریح کے نام پر بیعت کے موقع پر پاکستان والوں کو شکوہ کے پر تھما پریم کردار 15 یر تھ 113 676 17 بیہودگیاں نظر آنا پاکستان کے طالبعلموں کو رٹا لگانے میں جاتے ہیں اور اردو میں بہت کم 386 حضور انور کا اظہار ہمدردی 754 تا 763 23 پاکستان کے ہر شہر اور ہر گلی میں جھوٹ کے پنجاب 21 بیعت کے الفاظ اکثر انگریزی میں دوہرائے پشاور سکول میں بچوں پر وحشیانہ حملہ اور 690.676.17 مہارت حاصل ہونا پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے پلندوں پر مشتمل احمدیت مخالف اشتہار پنجاب کے مولویوں کا حضور کے خون کا 469 پیاسا ہونا 175 مظالم کا ذکر اور دعاؤں کی ضرورت 69 لگائے جانا پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کے حکومت پاکستان کا احمدیوں کی مخالفت پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں کا لئے دعا کی تحریک 471 86 | میں ہاں میں ہاں ملانا پاکستان میں ملاؤں کے زیر اثر احمدیوں پاکستان کے حالات کے بارے میں دعا کریں کہ احمدی محفوظ رہیں 152 ، 153 پر مظالم کئے جانا 482 اعزاز حضور کی مخالفت کی وجہ سے 690 پنجاب یونیورسٹی احمدیت کے حوالہ سب سے زیادہ ظلم پورتونو وو شام ہمصر اور پاکستان کے احمدیوں کے پاکستان میں ہورہا ہے، پاکستانی احمد یوں پونچھ لئے خاص دعا کی تحریک 182 کے لئے دعا کی تحریک 484 پید رو آباد 116 664 35 35 151
خطبات مسرور جلد 12 پیس ویج پیل (Peulh) پینگاڈی 99 مقامات 17 ، 676 | جاپان کے ایک اخبار کا حضور انور کا انٹرویو لینا 5 | حضرت مصلح موعود کا ارشاد کہ جرمنی فتح 676 ہو گیا تو یورپ فتح ہو گیا اس پر ایک 665 | جارج ٹاؤن 17 ، 676 حالا کرو جی (Jala Koroji) 198 اعتراض اور اس کا جواب 354 17، 676 | جامعہ احمد بیدر بوه 249،64 ،390، حضرت مصلح موعودؓ کا ارشاد’ یورپ کے تامل ناڈو ترکی 655 449،391، 602، 698 ، 778 | لیڈر جرمن ہیں اور اس کا پورا ہونا 355 جامعہ کے استاد نصیر احمد انجم صاحب کا جرمنی کیا اور یورپ کیا ہمیں تو انشاء اللہ 449 | تعالی تمام دنیا کو فتح کرنا ہے مگر تلوار سے ترکی میں فلسطینیوں پر مظالم پر سوگ 545 ذکر خیر تسمانيا 676 355 و باب آدم صاحب کا جامعہ احمدیہ تعلیم کے نہیں بلکہ دل جیت کر 224 دوران دعا کے لئے غلام رسول راجیکی جرمنی میں جماعت کی وسعت 364 تعلیم الاسلام سکول ( قادیان) 224 تنزانیہ 232،16،13، 668،392، 675 صاحب کے پاس جانا 392 میونخ میں مسجد مہدی کا افتتاح 367 تنزانیہ میں غیر احمدی مسلمانوں کی تنظیم بکواٹا جامعہ احمدیہ ربوہ میں اقبال محمد خان جلسہ سالانہ جرمنی کے حالات و واقعات (Bakwata ) کی جماعت کی مخالفت 500 صاحب کا اپنی اہلیہ کے نام پر مسجد تعمیر اور مہمانوں کے تاثرات کا ذکر 369 تا 375 دار السلام تنزانیہ کے ایک احمدی دوست کے قبولیت احمدیت کا واقعہ تیونس ٹرینیڈاؤ شمالے ٹو بہ ٹیک سنگھ ٹوگو 667 552 391 676.405 764.675 7 ٹونگو فیلڈ (Tongo Field) 55 کروانا جامعہ احمد یہ غانا جامعة المبشرين جاوا 576 406.399 جرمنی جلسہ میں شامل ہونے والے ہمسایہ ممالک کے افراد 370 390 جرمنی کے کسی عہد یدار کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے 647 کہ اس کی محنت کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا جڑ چرلہ (انڈیا) 668 ہے، یہ اللہ کی چلائی ہوئی ہوا ہے 379 جرسی 605 | جلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر نو مبائعین کی جرمنی ،15،4 ، 16 ، 17 ، 42، 254 ، بیعت اور ان کے واقعات 380 تا 384 386،385،322، 391، 554،392، پریس اور میڈیا کا جرمنی جلسہ اور مساجد 675،670،557، 721 کے افتتاح کی کوریج دینا 384 ٹیچی مان (Techiman 2 جرمنی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل ٹی وی جرمنی جلسہ کے حوالہ سے عہدیداران اور ٹینیسی اسٹیٹ (امریکہ) 17 پر جماعت کے متعلق خبر نشر کی گئی جاپان 5 مرکزی کارکنان کو نصائح اور ہدایات...384 جرمنی کے محمد بن احمد صاحب کا بیعت کا واقعہ 100 میسیڈونیا کی ایک جرنلسٹ کا حضور سے پوچھنا کہ ج - چ - ح جرمنی میں تاثر کہ ہٹلر ڈکٹیٹر بن کر رہا اس لئے آپ (جرمنی) جلسہ کے انتظامات سے مطمئن 16، 29، 647 دوسری جنگ عظیم میں شکست ہوئی 347 ہیں؟ حضور کا جواب | 385
خطبات مسرور جلد 12 100 مقامات جرمنی جلسہ پر ساؤنڈ سسٹم کی خرابی کے بارہ چاچڑاں شریف 185 | ڈارون میں حضور انور کی ہدایات 385 چار دکھیہ ضلع چاند پور (بنگلہ دیش ) 249 | ڈبلن جرمنی کے نیشنل عہد یداروں کو اپنے خولوں سے باہر آنے کی ضرورت 387 چاؤ و ڈر ہم مخالفین اسلام کا ایک نئی مخالفانہ فلم بنانا اور واشنگٹن اور جرمنی ( برلن میں چلائے جانے چک سکندر چرچ آف انگلینڈ 756 ڈنمارک 642 ) کا پروگرام اور جماعت کا رد عمل 413 چک نمبر 55 گ ب فیصل آباد 41 جر من جماعت کو قانون کے دائرے میں چک نمبر 312 ج ب کتھو والی 763 رہتے ہوئے احتجاج کرنے کی ہدیت 413 چنائی جرمنی سے گوجرانوالہ کے سانحہ پر کسی چندر پور مہاراشٹر خاتون کا لکھنا کہ حضرت مسیح موعود کا الہام چیم آگ سے ہمیں مت ڈراؤ تو پھر یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ 473 چین جرمنی میں لیف لیٹ تقسیم کرنے کا واقعہ 505 حافظ آباد جلسہ سالانہ جرمنی پر ایک غیر مسلم جوڑے حماس 676 579 676.17 134 ڈنمارک کے ایک اخبار میں ایک خاتون کے مضمون میں قرآن پر اعتراض 440 ڈونگے کے 67،17 ڈیٹرائٹ 560 ڈیٹسن باخ 675 | ڈیرہ غازی خان 647.552.391 ڈیلیس 55 ، 191 ڈیون اینڈ کارنوال 454 | رام پور 555 676.17 675 601 17 16 642.641 کا تنقید اور اعتراض کرنے کی خاطر شامل حیدر آباد 676،602،17،16 راولپنڈی 600،260،73،41،16 ہونا اور بیعت کر کے واپس جانا 524 د.ڈر.ز راؤن ہیم (جرمنی) 17 جرمنی میں مختلف ذرائع سے میڈیا کی جماعت مخالفت میں بھی نظر آتی ہے 724 دار البرکات (ربوہ) 331 | ربوه جڑانوالہ دار السلام ( تنزانیہ) جزائر 41 770.354 675.16 ویی ددگو ( برکینا فاسو ) 256.251.249.232.119.18.16.2 667.390.337.335.331.262.260 530.479.449.403.401.397.391.369 669 662.103 779.778.714.699.698.675.669 675 جانگھ جمالپورضلع لدھیانہ 185 درائے الیش جموں کشمیر 676.17.13 مشق یوسف اللطیف صاحب کاربوہ اور قادیان 101 زیارت کے لئے آنا 18 392 | دہلی 17،9، 249، 688،676 صاحبزادہ حنیف احمد صاحب کا طاہر ہارٹ جمیکا جیکب آباد 56 ڈار مشر 675 | انسیٹیوٹ ربوہ میں انتقال ہونا 118
خطبات مسرور جلد 12 101 مقامات ربوہ میں سکولوں کو آغا خان بورڈ کے ساتھ ربوہ کی بنجر زمین کے آباد ہونے کے متعلق سعودی عرب کے مولویوں کے گروپس کا 23 گھانا کے سفیر کا تفصیل سن کر بیان 391 آنا اور مسلم جوڈیشل کونسل کے زیر اہتمام منسلک کیا جانا ربوہ اور قادیان کی لنگر خانہ کی ضیافت کی ٹیموں وہاب آدم صاحب کو حضرت خلیفہ ثالث کا کانفرنس میں جماعت کی مخالفت میں ربوہ میں امیر مقامی مقرر فرمانا 392 پروگرام بنانا کو مہمان نوازی کے متعلق ایک ہدایت 174 ربوہ میں جماعت کا کارکنوں کو سستی قیمت ساؤتھ لندن محمود بنگالی صاحب کا جامعہ تعلیم کے دوران ربوہ کے سخت موسم کا اپنے والد سے ذکر کرنا اور پر پلاٹ دینا والد صاحب کی نصیحت 250 405 ربوہ میں جلسہ سالانہ پر اہلیان ربوہ کا ربوہ پر شریر فطرت افسر کا مسلط کیا جانا 260 جذبۂ مہمان نوازی ربوہ میں محمود بنگالی صاحب کا بالعموم پیدل یا ربوہ میں ختم نبوت کا نفرنس 514.513 665 ربوہ کے ایک ایم ٹی اے کے پروگرام میں آداب کا سائیکل پر تقریبات میں شرکت کرنا 260 ربوہ میں ڈاکٹر مہدی صاحب کا شہید کیا جاتا 330 ساؤتھ ملٹن سبغ تینگا سپن ویلی پین 9 16 676 398 675.576.16 151 خیال نہ رکھنے پر حضور کی نا راضگی و نصائح 689 سپین کے علاقہ مرسیا سے ایک مراکشی کا ربوہ کے محلہ دار الرحمت غربی کی مسجد کے ربوہ میں جلسہ سالانہ پر پابندی اور اس لئے ڈاکٹر مہدی علی صاحب کا ایک بڑی رقم دینا کے نتائج 332 رشی نگر 768 احمدیت قبول کرنا سڈنی 383 257.249 17 سرگودھا16 ،745،675،331،330 ربوہ سے ڈاکٹر مہدی علی صاحب کو ایک روڈرگ جزیرہ 779 سکاٹون خاص محبت ہونا یہاں تک کہ جان بھی اس رومانیہ سرزمین میں دی 370 | سعودی عرب 676.17 478.100 333 روئڈ ر مارک 17 ، 675 | مختلف ممالک کے علماء کا سعودی عرب ربوہ کا پہلا بلڈ بنک ڈاکٹر مہدی علی شہید، ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب اور ڈاکٹر محمود 334 ریڈ شیڈ 675 کے خرچ پر سیرالیون جا کر جماعت اور شیعہ رینز پارک 16 ،675 احباب کے خلاف لوگوں کو اکسانا 10،9 ری یونین آئی لینڈ 779 سکندر آباد صاحب نے شروع کیا پولیس اہلکار کار بوہ کے ہسپتال اور علاج کروانے زائن والوں کے خلاف پمفلٹ کے متعلق بیان 339 ربوہ میں انتظامیہ کو چوکس اور ہشیار رہنے کی ہدایت سیش 340 سالٹ پونڈ ( گھانا ) مہدی علی صاحب شہید کار بوہ کی سرزمین ساوے ریجن (بینن ) پر خون بہا کر ہمیں دعاؤں اور تدبیروں کی ساؤتھ افریقہ طرف توجہ دلانا 604 390 سلور سپرنگ سلو بنيا 665 سلیکون ویلی 675 | سماٹرا 341 ساؤتھ افریقہ میں پاکستانی انڈین اور سندھ 114 56 17 370 675.17 647 323.56
خطبات مسرور جلد 12 102 مقامات سندھ اور بلوچستان کو جماعتی اور تنظیمی سطح پر بھی خلیفہ کا دورہ نہیں ہوا 122 انسیٹیوٹ ربوہ میں انتقال ہونا جماعت کراچی کے سپر د کیا جانا 260 سینٹرل جرسی 254,16 سینٹرل ورجینیا سنگاپور سولور 118 17 ڈاکٹر مہدی صاحب کا طاہر ہارٹ انسٹی 17 ٹیوٹ میں وقف عارضی پر آنا 330 254، 675 | بی بی سی اردو کا ظاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے 676 سینیگال سوئٹزرلینڈ 16 ،689،674،670 | شادیوال سویڈن 381,233 | شام 714 763.140 خلاف چھپنے والے پمفلٹ کا عکس شائع کرنا جس میں لکھا ہوا ہے کہ طاہر ہارٹ میں علاج کروانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے 340 عراق 763.756 سویو (Soyo) 667 سیر یا ، مصر، خاص طور پر شام اور پاکستان سہارنپور (یوپی) 249,434 کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک 86 17، 676 شام، مصر، فلسطین وغیرہ عرب ممالک میں سیائل عرب 655.225,187.10 تو سوائے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے کسی شام، مصر، فلسطین وغیرہ عرب ممالک میں سیالکوٹ 16 ،675،477،223 بھی خلیفہ کا دورہ نہیں ہوا سیرالیون 16 ، 119 ، 254 ،363، دعا کی تحریک مختلف ممالک کے علماء کا سعودی عرب 675.558.402.392 122 شام اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے 182 122 تو سوائے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے کسی بھی خلیفہ کا دورہ نہیں ہوا قادیان سے عرب دنیا کے لئے حضرت مسیح موعود کے بارے میں تین دن لائیو عربی کے خرچ پر سیرالیون جا کر جماعت اور شیعہ شام میں ہی حکومتی اور سنی فسادوں میں ایک پروگرام کا ٹیلی کاسٹ کیا جانا احباب کے خلاف لوگوں کو اکسانا 10،9 رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ تیس ہزار کے عمرکوٹ پریس اور میڈیا سے رابطوں کے سلسلہ قریب لوگ مارے گئے ہیں میں افریقہ میں گھانا اور سیرالیون میں اس شبینہ کالج پٹنہ بارے میں اچھا کام ہو رہا ہے 138 سیرالیون اور نائیجیریا کے نیشنل ٹی کا جلسہ شکار پور سندھ شو (Show)(مالی) سالانہ یو.کے کے پروگرام دکھانا 545 309.101.86.70.69 سیر یا سیریا ، مصر، خاص طور پر شام اور پاکستان 756 113 56 ف فادا 187 675.601 662 فارایسٹ، انڈیا اور افریقہ میں مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں بہت کام ہوا ہے اس 560 کام کا مختصر خلاصہ 3 شیانگار یجن ( تنزانیہ) 500 | فرانس 16، 734،733،370،199 طع فرانس کے ایک عیسائی کا اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھ کر ، جلسہ سالانہ میں حضور کا کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک 86 طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ 335 خطاب سن کر احمدی ہونا شام، مصر فلسطین وغیر ہ عرب ممالک میں صاحبزادہ حنیف احمد صاحب کا ظاہر ہارٹ | تو سوائے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے کسی 382 فرانس سے آنے والے ایک عرب دوست کا خلیفہ رابع کی وفات کے بعد
خطبات مسر در جلد 12 خواب میں خلیفہ خامس کو دیکھنا 383 فرینکفرٹ فضل عمر ہسپتال فلپائن فلسطین 675 103 701.692.685.676.559.449.434 مقامات لکھنے کے لئے کہنا 178 741،714، 749، 753 ، 778،768 قادیان کے آریہ بھی حضور کی گمنامی کی 331 يوسف اللطیف صاحب کو قادیان اور ربوہ 689 ،690 کی زیارت کا موقعہ ملا 18 482،463،94 قادیان میں حضرت مرزا شریف صاحب حالت کے گواہ 180 قادیان میں جدید سہولیات کے ساتھ پریس کا ہونا 181 خدائی پیشگوئی کا پورا ہونا کہ حضور کو قادیان سیر یا مصر، خاص طور پر شام اور پاکستان کے کارخانہ میں شیخ عبدالرشید صاحب کا سے باہر کوئی نہ جانتا تھا.....کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک 86 محنت و اخلاص سے کام کرنا 56 187 قادیان کے چھوٹے بچوں کا گلی کوچوں میں 222 شام، مصر، فلا ر فلسطین وغیرہ عرب ممالک میں قادیان سے ایک عالم کا حضور کو جلسوں خطبہ الہامیہ کے فقروں کا دہرانا تو سوائے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے کسی میں مخالفین کو جواب کے ذریعہ زچ کرنا کا قادیان میں عرب کے ایک دوست کا تحقیق کی بھی خلیفہ کا دورہ نہیں ہوا 122 دورزی کیمونٹی کا فلسطین ،شام اور اسرائیل 140 ذکر اور اس پر حضور انور کی نصیحت 64 حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کہ ایسا وقت غرض سے ٹھہرنا اور بیعت کرنا 225 226 قادیان کے بہشتی مقبرہ میں مولوی رحمت بھی آئے گا کہ قادیان میں ایسے مخلص جمع علی صاحب کا بطور مالی مقرر ہونا 323 میں پایا جانا اسرائیل کا معصوم فلسطینیوں پر ظلم و تشدد ہوں گے اور اُن کے لئے مئے تیار کئے قادیان اور جماعت کے لئے حضور کا دعا کرنا 454 جاویں گے فلسطین کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک 463 فلورز ہائم فولڈا (جرمنی) فیڈ برگ فیصل آباد 91 کرنا اور الہام ہونا گلاب شاہ بزرگ کا خبر دینا کہ عیسی 675 قادیان میں پیدا ہو گیا ہے 98 17 قادیان کے محقق علماء کا تفسیر قرآن پر خلیفہ المسیح الثانی کی قیادت میں کام کرنا115 17 675.41.16 پنجاب میڈیکل کالج (فیصل آباد ) 331 قادیان قیکرگ.115.114.104.100.76.30.29.17.316.227.195.180.173.120.119 330 قادیان کے بزرگ صحابی سے جمعہ پڑھانے کی بمبئی کی جماعت کی درخواست 350 قادیان کے کشادہ راستے 685 قادیان کے لڑکوں کا کرکٹ کی ٹیم بنانا اور قادیان سے عرب دنیا کے لئے حضرت مسیح حضرت مصلح موعودؓ کو کہنا کہ حضور کو بھی بلا 689 موعود کے بارے میں تین دن لائیو عربی میں ، اس پر حضور کا جواب پروگرام کا ٹیلی کاسٹ کیا جانا 170 ، 187 قادیان میں لوگوں کا آنا بھی ایک نشان ہے 711 ربوہ اور قادیان کی ضیافت کی ٹیموں کو مہمان حضرت مسیح موعود کی ایک رؤیا کہ 174 قادیان بیاس تک پھیلا ہوا ہے 752 نوازی کے متعلق ایک ہدایت جلسہ سالانہ قادیان میں اکتیس (31) قادیان میں ایک ہندو کا آنا اور حضور کو مذہبی ممالک کی نمائندگی 770 جلسہ میں اپنے مذہب کی خوبیوں پر مضمون جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے
خطبات مسرور جلد 12 والوں کے لئے رہائش اور بستر وغیرہ کی کنانور ٹاؤن 775 بابت ہدایات کنری جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر کوسووو دارالضیافت یا فلاں فلاں گیسٹ ہاؤس 104 مقامات 676 نشانہ بنانے کی کوشش کرنا 9 257 370 کینا نور ٹاؤن 17 601 | کینبرا 676 کولمبس کولون کولی کورو میں ٹھہرنے کے مطالبات غلط ہیں 776 کوگی (Kogi) 668 کینبرا ( آسٹریلیا ) 553،463،50 | کوبلنز 17 کینیا 675 کوتونو ریجن (بینن )12، 666،50 قرغزستان قصور قلعہ کالر والا ضلع سیالکوٹ 479 کوٹ لوکوریجین کافح (Kaffeh) 363 کوٹلی کالی کٹ کامرہ ضلع اٹک کا مونکی ضلع گوجرانوالہ کبابیر 676.17 629 629 765 363 764.104 کینیا، ایلڈوریٹ (Eldoret) کے مبلغ کے خلاف ایک گھناؤنی سازش اور حضرت خلیفتہ اسیح الخامس کا دعائیہ جواب اور غیر معمولی نصرت 53.52 کو جر و میدے (Kodiromede | کینیڈا 15، 16، 233،17، 331، 334.332 699.676.674.392.338 17 حضور انور کے کینیڈا کے دورے کے 675.53.52.9 دواران ساڑھے آٹھ ملین لوگوں تک کچھی پمپ والی عرفات کالونی 475 کومورز 560.199.198 779 پیغام کا پہنچنا 4 کینیڈا کی جماعت کا ہدایات ملنے پر عملی کراچی 233،104،16، 434، 601 | کوئنٹری 675 اقدامات اور حضور انور کی تعریف 386 675.669.602 کو ہاٹ 764 | کینیمار يجن ( سیرالیون) 558 سندھ اور بلوچستان کو جماعتی اور تنظیمی سطح پر کیرالا 669،17 ، 676 | گالوے 598،595،594،590 جماعت کراچی کے سپرد کیا جانا 260 کیرنگ 17 مسجد مریم گالوے کے کوائف 558 کرناٹک 676.17 کیرولائی کروشیا 370 کیلگری کشمیری بازار (لاہور) 602.104 191 کیمبریج یونیورسٹی کیمرون کلکتہ، کولکت کماسی 676.29.17 17 ، 676 | مسجد مریم کے افتتاح کے موقع پر مہمانوں گان زورگو (Ganzourgou) 501 گجرات ( پاکستان )764،675،16 کیمرون میں پاکستان سے آنے والے گجرات کے دو مخلص بھائیوں کومرزا علی 677 | تبلیغی گروپ کا احباب جماعت احمدیہ کو شیر کا قادیان میں پھسلانے کی ناکام کے تاثرات 593.592 676.17 778 675
خطبات مسرور جلد 12 کوشش کرنا 105 مقامات 642 | گھانا کے علاقے ٹمالے میں حضور انور | گھانا میں الحاج یوسف صاحب کا چالیس، 679 33-34 | پنتالیس مساجد تعمیر کروانا گجرات کے ایک علاقہ سے مکرم مبارک احمد کے ایک واچ مین کا واقعہ صاحب باجوہ کے قاتلوں کا پکڑا جانا 763 پریس اور میڈیا سے رابطوں کے سلسلہ گھانا کی علاقائی زبان بچوئی (Twi) میں حضور انور کا گجرات کے غلام قادر صاحب میں افریقہ میں گھانا اور سیرالیون میں اس الحاج یوسف صاحب کا قرآن کریم کا درویش کی نماز جنازہ غائب پڑھانا 714 بارے میں اچھا کام ہورہا ہے 138 ترجمہ کرنا گر اس گراؤ 675 گھانا کے صدر مملکت کا لندن میں یو کے گھوٹکی 141 گیمبیا 680 56 55 675.254.16 گلڈ بال لندن کی قدیم ترین عمارتوں میں سے جماعت کے سو سال ہونے مذہبی کانفرنس گیانا (Guyana) ایک عمارت ، اس میں حضور انور کا خطاب 137 کے موقع پر پیغام انگلستان میں گلڈ ہال میں جماعت احمدیہ کی ربوہ کی بنجر زمین کے آباد ہونے کے متعلق تقریب اور مہمانوں کے تاثرات 137 تا 150 گھانا کے سفیر کا تفصیل سن کر متاثر ہونا 391 | گیمبیا کی دوخواتین کی مالی قربانی کا ذکر 12 گنی کنا کری 11، 675,557 گھانا جماعت کا وہاب صاحب کے دور گیمبیا کے ایک شخص کے قبول احمدیت کا واقعہ 559,555 675.629.16 گوجرانوالہ گوجرانوالہ میں شہید ہونے والے میں غیر معمولی ترقی کرنا 393 گھانا کے نائب صدر مملکت کا کہنا کہ لم احمدیوں کا ذکر خیر 466 477 وہاب صاحب ہماری قوم کا ایک عظیم لاس اینجلس ان لینڈ امپائر 17 گوجرانوالہ کے سانحہ پر جرمنی سے کسی الشان رہنما تھا خاتون کا لکھنا کہ حضرت مسیح موعود کا الہام آگ سے ہمیں مت ڈراؤ...تو پھر یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ گورداسپور گوکھووال گوئی ضلع کوٹلی 473 749.745.688 331 104 گھانا 390،389،254،52،16، 394 گھانا کے وزیر خارجہ کے نمائندہ کا کہنا کہ لاس اینجلس ایسٹ 17 ، 676 لاہور 16 ، 195،755،191 ،675 وہاب صاحب کے متعلق کہنا کہ ہم نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کالا ہور میں لیکچر عربی مسلم کمیونٹی کا بڑا ستون کھو دیا ہے 395 زبان کا مقام 117.116 گھانا میں مہمان نوازی کے لئے کوکونٹ پیش لاہور کی ایک احمدی خاتون کی مالی قربانی کا ذکر 670 کرنا اور وہاب صاحب کی مہمان نوازی 397 قانات بیگ صاحب رشین کا گھانا جلسہ صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب کا میں شامل ہونا اور عبدالوہاب صاحب کے بارہ میں تاثرات 399 398،396 399 405،403،400، گھانا کے جنرل الیکشن میں وہاب صاحب 676،675،674،546،406 کے کشیدگی کوختم کرنے میں کردار 402 لاہور کالج سے ایل ایل بی کرنا 119 لاہور کے انگریزی اخبارسول اینڈ ملٹری گزٹ کا بیان کہ مضمون بالا رہا“ لائبیریا 179 392.254 گھانا کے سرکاری ٹی وی کا ایم ٹی اے کے گھانا کے نیشنل ٹی وی کا جلسہ کے پروگرام انبر ی کی جماعت گویا کی مالی قربانی کا کر 6065 پرگرام دکھانا 5-6 دکھانا 445 لائبریا کی جماعت بلاور کی مالی قربانی کا ذکر 664
لبنان لتھوینیا خطبات مسرور جلد 12 لائیڈ منسٹر ( کینیڈا) 676 | مسجد مقرر ہونا 106 390 655 لندن میں وہاب صاحب کا تبلیغ کا واقعہ 402 370 لندن میں ایک سیاسی لیڈر کا رہائش کے مقامات 698 مانسہرہ میں السلام علیکم کہنے پر پہلا مقدمہ 563 ماؤنٹ ڈرواٹ (آسٹریلیا) 676 متعلق چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو مشورہ لدھیانہ 176،98 ، 185 ،700، 750 | ماکنز لکشد یب 676 688 675 دینا اور آپ کی ان کو نصیحت 418 متھیو تم لندن میں ایک صاحب کے گھر ڈکیتی کا واقعہ اور چندہ کی رقم کا محفوظ رہنا 672 مدرسہ احمدیہ لکھنو لمنگٹن سپا لندن میں سر ڈگلس کے ساتھ حضرت مصلح مدینہ 748 | مڈغاسکر لندن 16 ، 123، 255، 323،261، موعود کی ملاقت.350.148.133.336.323.335.675.672.671.576.510.434 753.748.690 17 17 224.119 705 779 لو کو جا (Lokoja) 668 مڈل ایسٹ 15 ، 16 ،689،674 لویری والا لندن کے جلسہ سالانہ میں یوسف اللطیف 618 مڈل سیکس 763،756،554،70 | مڈلینڈ صاحب کی شمولیت 18 لیمبرگ (Limburg) 563 مراد آباد لندن میں ویمبلے کانفرنس کا انعقاد اور مارزڈن پارک 676 مراکش حضرت مصلح موعود کا شریک ہونا 121 مارک برگ 675 حضرت مسیح موعود کا ایک رؤیا جس میں آپ ماریشس 779،777،675،16 لندن میں تقریر فرما رہے ہیں 124، 127 ماسک ویسٹ گلڈ بال لندن کی قدیم ترین عمارتوں میں سے ایک عمارت ، اس میں حضور انور کا خطاب 137 675.16 675.16 688 197.116.96 مراکشی خاتون کا خواب کی بناء پر احمدیت قبول کرنا مرسيا 675 مسجد اقصی مالٹا کے ایک حافی کا حضور انورکا انٹرویو مسجد بیت السلام (میلبرن ) لينا...535 لندن کی تقریب میں دلائی لامہ کا پیغام مالی 13 ، 189 ، 197 198 199 ، پڑھا جانا 139 665.557.398.392 لندن کی یورپین پارلیمنٹ کے نمائندے کا مالی ، Bala کے علاقہ کے تیجانیہ فرقہ کے 148 مسجد بشارت (سپین) مسجد فضل مسجد قبا 381 383 752.223 257 151 675.33.16 309 امام صاحب کا بذریعہ رویا احمدیت قبول مسجد مبارک ( قادیان) 194، گلڈ ہال کی تقریب میں بیان حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ترجمہ کرنا ان کی وجہ سے چالیس سے زائد 699.647.638.451.224 قرآن کرنے کے لئے لندن آنا 350 گاؤں احمدی ہوئے 196 مسجد مبارک کی چھت پر صحابہ سے حضور کا لندن میں وہاب صاحب کا نائب امام مانگٹ اونچا ضلع حافظ آباد 55 خطبہ الہامیہ سننا 222
خطبات مسرور جلد 12 107 مسجد مبارک کے سامنے مخالفین کا دیوار حضرت عائشہ کا شمار مکہ کی امیر ترین غیروں کے تاثرات 684 عورتوں میں ہوتا تھا کھینچنا مسجد مریم 316 586 متواتر تیرہ سال مکہ میں آپ پر مظالم کا نارتھ ایسٹ مسجد مریم گالوے کے کوائف 558 ہونا مسجد مریم کے افتتاح کے موقع پر مہمانوں ملائیشیا کے تاثرات مسجد مهدی ( میونخ) مشرق بعید مشرقی پاکستان ملتان 593.592 379 ملٹن 750 من بائیم 317 254 698 17 675 559 370 102 675 17 675 602.600 370 نارتھ ایمپٹن نارووال ناروے نائیجر ن.و مقامات 379 675 16 675.16 260.16 675.16 250 موضع موجها والی نائیجیریا 667،392،102،57،9، 766.561.558.226.187.86 مونٹی نیگرو مختلف ممالک کے علماء کا سعودی عرب | مونسے (Monsie) کے خرچ پر سیرالیون جا کر جماعت اور شیعہ موئر فیلڈن احباب کے خلاف لوگوں کو اکسانا 10،9 مہارشٹر مصر اور لیبیا کے خراب حالات کا ذکر 70 مهدی آباد شام، مصر فلسطین وغیرہ عرب ممالک میں تو سوائے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے کسی بھی خلیفہ کا دورہ نہیں ہوا 122 میر پور خاص میسیڈونیا مصر کے احمدیوں کے لئے خاص دعا کی تحریک 182 میسیڈونیا کی ایک جرنلسٹ کا حضور سے مصر کی ایک خاتون کا بذریعہ رؤیا قبول پوچھنا کہ آپ (جرمنی) جلسہ کے انتظامات 196 سے مطمئن ہیں؟ اور حضور کا جواب 385 احمدیت مطبع سفیر ہند 74 میلبرن مغربی افریقہ 254 مینڈ ضلع پونچھ (کشمیر) 676.259.257 104 مکه 675.674 نائیجیریا کے نیشنل ٹی کا جلسہ سالانہ یو کے کے پروگرام دکھانا تکبینا (Nagbina) ننکانہ صاحب 545 663 553 675.16 نوابشاہ (پاکستان) 449،448،80 نور نگر ضلع عمر کوٹ نوئیس نوئے ویڈ 601 675.17 675 نیا کارا (Niankara) گاؤں میں دو سو دس افراد کا احمدی ہونا نیپال 705،656 میونخ میں مہمانوں کے لئے کھانے دشمنوں سے حسن سلوک کی اعلیٰ ترین مثال کے بارہ میں ایک کمی کی طرف حضور کا نیدا (جرمنی) آپ کا فتح مکہ کے موقعہ پر دشمنوں کو توجہ دلانا معاف فرما دینا 367 | نیومولڈن 145 مسجد مهدی میونخ کے افتتاح کے موقع پر وا(Wa) 8 29 675.17 675.16 401
خطبات مسرور جلد 12 واشنگٹن 690 108 ہی مقامات یورپ کے مستشرقین میں سے ایک کی 252 689،554،553 | ترجمه قرآن و تفسیر کے متعلق رائے 115 مخالفین اسلام کا ایک نئی مخالفانہ فلم بنانا اور ہالینڈ واشنگٹن اور جرمنی ( برلن ) میں چلائے جانے ہریانہ 13 حضرت مصلح موعود کا سفر یورپ اور ہندوستان 187،113،47،17،5، 690، کا پروگرام اور جماعت کا رد عمل 413 وا گا میں احمدیت کا نفوذ والتھم فاریسٹ والڈورف 8 291 سے ہندوستان میں بہت سے کیا جانا ہندہ 675 ہنگری وان ( کینیڈا) 676،17 | ہنوفر وائی ایم سی اے ہال 116 ہنومان گڑھ و رس برگ وزیر آباد وکٹوریہ ولور (Vilor) ومبلڈن دوسٹر پارک دولور ہیمپٹن دومبا (Foumban) ویز بادن 675 ہونسلونا رتھ ویمبلے کا نفرنس کا انعقاد 124،122 معلمین کو فارغ حضور کا فرمانا کہ آج اس عاجز کو یورپ 65 وغیرہ تک کے لوگ جانتے ہیں 187 563 382.370 یورپ میں تبلیغ کر میں بجائے عرب وغیرہ میں علامہ مغربی صاحب کا خلیفہ المسیح 17 الثانی کو منت کرنا 228 559 یورپ میں عیسائی لوگوں کا ہر روز اپنے 16 مذہب سے متنفر ہونا 301 676 یورپ بھی تمہارا ہوگا اور ایشیا بھی...354 675 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد کہ جرمنی فتح ہو گیا تو یورپ فتح ہو گیا‘ اس 449 ہیرس برگ 258 663 16 675.16 675 9 ہیمبرگ بارک شائر یمن 576 پر ایک اعتراض اور اس کا جواب 354 97، 698,552 یورپ کے لیڈر جرمن کی وضاحت 355 249 جرمنی کیا اور یورپ کیا ہمیں تو انشاء اللہ یورپ 23، 26، 38 ، 254 ، 584 ، 662 ، تعالی تمام دنیا کو فتح کرنا ہے مگر تلوار سے 770،769،721،671،672 777 نہیں بلکہ دل جیت کر 355 675 یورپ میں مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں یورپ میں رہنے والے احمدیوں کوکسی کمپلیکس ویز بادن (جرمنی) مسجد کا سنگ بنیاد اور بہت کام ہوا ہے اس کام کا مختصر خلاصہ 3 میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں حضور کے تاثرات ویسٹ بنگال 675 379 یورپ میں اسائیلم لینے والوں کی ایک یورپ میں پہلے افریقن مرکزی مشنری وہاب 17 غلطی اور حضور انور کی رہنمائی کہ مختصر اور صحیح آدم صاحب ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی 604 بات کریں ویسٹ ہل وینکوور 392 26 یورپ میں شور کہ مرد سختی کرتے ہیں اس 675 یورپ میں شیشہ یا حقہ کا ایک نیا رواج کے متعلق نصیحت 545 17 676 جس سے احتراز کی نصیحت 38 یورپ کے ممالک بھی دنیا میں فسادات
مقامات 109 خطبات مسرور جلد 12 257 Melbourne 197,199 102 Monsie 53 Belize 597 663,664 Nagbina 66 8 Niankara 11 102 Odulu 7 Botoro 563 Offenbach 67 Bolgatanga 655 667 Okene 25 Brisbane 665 Peulh 390 کے حوالے سے شامل ہیں نہ کہ صرف | Bamako اسلامی ممالک یورپ کے شرک کرنے والے لوگ جوک Blavor در جوک اسلام میں داخل ہو رہے ہیں 647 Bo یورپ میں جماعت کا چیریٹیز کو رقم دینے پر ایک اعتراض کا جواب یورپ کا مذہب اندر سے کھوکھلا ہے 721 Brofoyedru Santiago Catala 390 151 Rubio 338 Canada School of Oriental 257 Canberra 123 Studies 426 China 151 یورپ سے قادیان جلسہ میں شامل ہونے کے Brong Ahafo لئے جانے والوں کو حضور کی نصیحت 776 یورپین پارلیمنٹ برسلز 437,676 Seattle 103 Dedougou 698.674.390.33 (UK) 560 Show 52 Eldoret 198 Sikaso 3 Far East 5300529 667 Soyo 9 Foumban 576 Spen Valley 501 Ganzourgo 33 Tamale 148 Grenada 544 جلسہ سالانہ یو.کے پر بیعت کرنے جلسہ یوکے ، مرکزی پریس اور یو کے پریس ٹیم کی حسن کارکردگی والوں کے تاثرات 52 Techiman 137 Guildhall 675 558 Tongo Field 55 Guyana 149 یوگنڈا یونیورسٹی آف ایمسٹر ڈم 390,317 UK 337 Hessen University of Cape coast 150 Antwerpen 576,618 Inner Park 393 402,581 Accra 198 Jala Koroji 663 Vilor 71,73 Amritsar 534 Kasterlee 401 Wa 390 Adansi 8 Kodjromede 8 Waga 668 Kogi 257 Adelaide 291 Waltham Forest 8 198,199,56 Koulikoro Aknopey 338 Washington 7 Ayakope 563 Limburg 116 Y.M.C.A Hall 196 Bala 668 Lokoja
خطبات مسرور جلد 12 110 کتابیات 1 کتابیات ویب سائٹ پر مطالعہ اور تعریف 96 اس کتاب کی نظیر مخالف آج تک پیش مشق کے شخص کا اس کتاب کو پڑھ کر آئرش ٹائمز اخبار کا حضور انور کے دورہ بیعت کرنا نہیں کر سکے 102 التبليغ 178 اور مسجد مریم کے افتتاح کی خبر شائع کرنا 598 کمال احمد کر و صاحب کی اس کتاب کے مراکش کے شخص کا اس کتاب کا ویب آئینہ کمالات اسلام 156، 168، 713 ڈینیش ترجمہ کی نظر ثانی 134 سائٹ پر مطالعہ اور تعریف 96 حمادہ صاحب کا اس کے متعلق کہنا کہ اس 96 اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 اس کتاب کی تشہیر ہونی چاہئے اور بطور نے میرا سینہ کھول دیا ہے 179 اس کتاب کی نظیر مخالف آج تک پیش 466.430.349.346.345.329 ابوداؤد اتمام الحجة المسیح ازالہ اوہام لٹریچر اس کو دینا چاہئے فرانس کے ایک دوست کا اس کتاب کو نہیں کر سکے پڑھ کر اور جلسہ میں شامل ہونے کے بعد الجامع لشعب الایمان بیعت کرنا 382 اس کر سکے 17 اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 ایک رشین خاتون کو اس کتاب سے اسلام کی ادب اسیح ایک بڑا اچھا شاہکار 119 بابت سوالات کے جوابات مانا 554 761.268 اصحاب احمد اسلام کا اقتصادی نظام اعجاز احمدی 365.226 189 متعدد افراد کا حضرت خلیفہ ثانی کے اس اس کتاب کی نظیر مخالف آج تک پیش لیکچر کو سراہنا نیز حضور انور کا فرمان کہ نہیں کر سکے بیرونی دنیا میں بھی اس کی کتابی شکل میں اشاعت ہونی چاہئے 118.117 اعجاز اسیح الجزيرة 178 598.495.433 339 اس کے تجزیہ نگار کا احمدیت پر مظالم کی بابت مثبت بیان 339 730.483.457.351 178 طاعون کے متعلق الہام کا الحکم میں شائع ہونا 190 کے خطبہ الہامیہ کا پس منظر الحکم اخبار میں 220،219 اس کتاب کی نظیر مخالف آج تک پیش رسالہ الحقائق عن الاحمدیہ 229 نہیں کر سکے 178 - سنن الدار قطنی 598.170 656.579 اسلامی اصول کی فلاسفی 519.321.242 يوسف اللطیف صاحب کا اپنے خرچ پر نا بینا افراد کیلئے اس کتاب کو شائع کرنا 18 مراکش کے شخص کا اس کتاب کا عربی رسالہ الانذار البشرى ، رساله 728 السيرة النبوية الفضل انٹر نیشنل ماسٹر مشرق علی صاحب کا اس رسالہ کو بنگالی زبان میں شائع کرنا اور خود ہی پوسٹ کرنا 29 | خطبہ جمعہ فرمودہ 14 مارچ کا الفضل
خطبات مسرور جلد 12 111 کتابیات میں چھپنے کے لئے تحریری شکل میں حضور انور انجیل متی کے سامنے آنا اور اس میں حضرت مسیح موعود اندرونہ بائبل کے ایک اقتباس کی وضاحت 167 الفضل ربوه 616 | البدر براہین احمدیہ 421.219.190 عبداللہ آتھم کا اپنی اس تصنیف میں آنحضرت 90،89،88،87،75،73،72،71، کے بارہ میں سخت الفاظ استعمال کرنا 705 162،160،147،98،94،92،91، 750،748،690،645،633 | انوار العلوم.125.124.120 حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے دور میں لافضل 127، 128355، 640،638،632،.423.291.268.238.236.235 770.712.707.432.430 براہین احمدیہ میں کسوف و خسوف کی پیشگوئی 171 میں علماء کی ایک بحث کہ جماعت کا ماٹو کے کیا | 648،641، 698،684،682،654، ہونا چاہئے 285 751.741.740 الفضل قادیان 129، 131 132 633 ، حضرت مصلح موعود کی کتب لیکچر اور 752.751.688.687.639 الموعود سنن النسائی الوصية تقاریر کا مجموعہ ” انوار العلوم“ کے نام سے فضل عمر فاؤنڈیشن کا شائع کرنا 110 638 اس وقت اس کی 24 جلدوں میں حضرت اس میں جماعت احمدیہ کی ترقی کی پیشگوئی 174 اس میں حضور کے آفات سے بچنے کی پیشگوئی 175 اس میں حضور کی عربی زبان میں فصاحت کی پیشگوئی 177 اس کتاب کا امرتسر میں پادری رجب علی 442، 627 | مصلح موعودؓ کے 633 لیکچر ، تقاریر و کتب کے مطبع میں چھپنا 470.344 آچکی ہیں 180 110 اس کتاب میں اس زمانہ کے متعلق ساری 134 خبروں کا موجود ہونا 187 اس رسالہ میں حضرت مسیح موعود کے بیان ایکٹو اسلام، رسالہ کردہ خلافت کے نظام کو افراد جماعت کا ایک عیسائی کے تین سوال اور ان بر این احمدیہ کی پیشگوئیں کا پورا ہوا 188 کامل اطاعت سے قبول کرنا 324 کے جوابات الهدى 426 خلیفہ اول کا خلیفہ ثانی کو براہین احمدیہ کی مثال دیکر اونٹ چالی اور ٹو ڈا بتالی کی اس کتاب کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 صحیح بخاری حقیقت بتلانا برگ خیال 639 206,59، 281 ،344،328 ،365، 408 | ڈاکٹر مہدی علی صاحب کا مجموعہ کلام 332 تاریخ احمدیت.521.513.489.442.422.409.118.117.116.115.113.112 732.626.622.548.525 178.96 انجام آتھم حضرت مسیح موعود کا اس کتاب میں اپنی کتب کے اسماء درج فرمانا جن کی نظیر مخالف علماء پیش نہ کر سکے 178 حضرت مسیح موعود کی خلیفہ ثانی کو تاکید کہ 122 123 ، 124، 125، 129 ، 130 انجام آتھم میں عنمو ائیل کی بجائے عمانوایل خلیفہ اول سے قرآن اور بخاری پڑھ لو لکھا جانا 108 714.222.133 638،636 | تاریخ الطبری 737
خطبات مسرور جلد 12 112 کتابیات تحریرات مبارکہ 328 سید جعفر حسین صاحب کا اس کو پڑھ کر 289،288،287،286،68،67، تحفہ بغداد اس کتاب کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 بیعت کرنا چ - ح - خ تحفہ قیصریہ 148 ، 589 چشمه مسیحی.624.623.622.361.291.290 113 209.685.684.683.641.639.635.735.723.718.694.692.686 753.743 تذکرہ 72، 223، 326 ، 328 ، چشمہ معرفت 271،200،93، خطبہ الہامیہ 523.473.388.364.330.329 612،272، 708،707 | اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 تذکرہ میں خطبہ الہامیہ کو شامل کرنے کی چند خوشگوار یادیں 418 پس منظر، تاریخ اور صحابہ کے بیانات بابت حضور انور کی ہدایت 219 حمہ اللہ 278 232218 تذكرة الشهادتين 99، 505 اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 تذکرہ میں خطبہ الہامیہ کو شامل کرنے کی اس کتاب کی نظیر مخالف آج تک پیش حضرت مسیح موعود کی تعلیم ہم قرآن نہیں کر سکے ترغیب المؤمنين 178 بابت حضور انور کی ہدایت 219 حضرت مسیح موعود کا صحابہ سے خطبہ الہامیہ میاں حنیف احمد صاحب نے بڑی اچھی اور زبانی سننا 222 ضخیم کتاب مرتب کی 120.119 اس کتاب کی نظیر مخالف آج تک پیش حقیقة الوحی 172،171،147 ، دے ڈر وافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء 190 181.179.178.177.175.174.683.467.271.246.221.189 638 در مین نہیں کر سکے 178 رسالة تشحید الاذہان تفسیر حضرت مسیح موعود 703،702،701، 704 ، 705، 707 | ایک شاعر کا در تمین پڑھ کر بیعت کرنا 351، 488،457،421، 728 ، 730 | حمامة البشرى تفسیر کبیر 690 اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 دلائل النبوۃ 654.642 145 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا اس کے متعلق خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کیلئے ہمیشہ دورہ یورپ تعریف کرنا کہ اگر کوئی انسان اس تفسیر کو نبی مبعوث فرماتا ہے ( خطاب حضرت ڈان اخبار (Dawn) شائع کرتا تو یہ تفسیر اُس کو دنیا کی نگاہ میں مصلح موعود ) بزرگ ترین انسانوں میں سے ایک انسان بنانے کے لئے کافی تھی 110 خطبات محمود 127 648 اس میں ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہونا 337 338 تفسیر کبیر کی تعریف میں غیر احمدیوں کے 21، 22، 23، 25، 28، 33، 35، رجسٹر روایات صحابہ 100،99، تبصرے 514.225.224.223.195.194.65.63.54.49.45.41.36 116112
خطبات مسرور جلد 12 113 کتابیات ریاض الصالحین 552 سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق ریاض ہند (امرتسر ) ، اخبار از مولوی عبدالکریم صاحب) 633 تاکید ( تقریر حضرت مصلح موعود) 640 حضرت مسیح موعود کا ایک اشتہار ' رسالہ سراج سیرت المہدی منیر مشتمل بر نشانہائے رب قدیر کے نام سے ریاض ہند میں شائع ہونا 108 سیر روحانی 77.37 751 شہادۃ القرآن 514،358،357، س ش ص ض ست بچن سر الخلافہ 523.521.520.519 268، 276 | صدق جدید، اخبار سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ کا قبول اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 احمدیت کے متعلق ایک مضمون صدق سر الخلافہ میں حضور کی مخالفین پر طاعون جدید کے ایڈیٹر کو بھجوانا ک مگ کرامات الصادقين اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 کشتی نوح 215،90 216 ،.429.415.283.278.246 762.616.613.582.433 113 احمد شمیر سوکیہ صاحب کو کشتی نوح کا فرنچ 731 ترجمہ کرنے کی سعادت ملنا 779 216 پڑنے کی دعا 189 ضرورة الامام سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 274.270.211 ع_فق كشف الغطاء کولمبس ڈسپیچ ، اخبار اس میں ڈاکٹر مہدی علی صاحب شہید کے رسالہ سراج منیر مشتمل بر نشانہائے عربی زبان کا مقام السنہ عالم میں 116 بیٹے کے انٹرویو کی اشاعت 340 رب قدیر 108 777 علامات المقر بین الحق تذکرۃ اشہادتین گناہ سے نجات کیونکرمل سکتی ہے 758 سرمه چشم آریہ 165، 427، 428، 1431 اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 سوانح فضل عمر 682،634،633، 696 | فتح اسلام سیرت الا بدال اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 رساله فتح رحمانی 467 الجة النور ل من مولوی غلام دستگیر قصوری کا اپنی کتاب اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 سیرت حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 230 رساله فتح رحمانی میں مباہلہ کے رنگ میں لیکچر سیالکوٹ سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک بددعا حضور کے خلاف لکھنا 176 لیکچر لاہور از شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب) فتوح البلدان 570.566 157.238.237.212 273.269.243 516،515،10 قادیان کے آریہ اور ہم 215 لیکچر لدھیانہ 589,282،159
خطبات مسرور جلد 12 مانچسٹر گارڈین اخبار اس اخبار کا ویمبلے کا نفرنس کے حوالے سے لکھا کہ یہ ہلچل ڈالنے والا واقعہ ہے 132 114 213.192.188.186.166160.276.275.274.273.220.215 $298.296.294.283.282.277.408.352.344.327.309-300 کتابیات نزول مسیح 89، 93،92،91،90، نسیم دعوت 710.221.220.94 282.244 مجمع البحرین 127 417,409، 421 424 425 426 ، نور الحق حصہ اول مجمع بحار الانوار.445.433.431.430.429.428 176 اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 مجموعہ اشتہارات 107، 109 ،.490.488.487.485.481.448 صحیح مسلم 612.611.610.608.599.588 723.713.617 775،769،576 | 571،564،563،562517،491 ، نور الحق حصہ دوم 574،573572، 575، 579 ، 586 ، اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 اس میں عبادت کے معنی احسان کا ذکر 206 اونٹنیوں کے بیکار ہونے کے بارے میں مسلم کی حدیث رسالہ مسلم ہیرلڈ.695.661.654.623.619.613.761.725.716.711.709.703 705 774.773.771 نور القرآن 203،202، 283،207 وی واشنگٹن پوسٹ، اخبار وہاب آدم صاحب کو مسلم ہیرلڈ کا ایڈیٹر اس کی کسی بھی جلد کو لے لیں اس میں آپ اس میں ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی نے جماعت سے توقعات اور جماعت کو مقرر کیا جانا 394 مسند احمد بن حنبل 290 ، 365 ، 408 نصائح، عملی حالتوں کی تبدیلی کا یہ مضمون مختلف حوالوں اور مختلف زاویوں سے ہر جگہ، شہادت کی خبر شائع ہونا وال سٹریٹ جنرل، اخبار 339 755.737.650.494.442 253 مشعل راه 741.740 معیار صداقت 581.277 مکتوبات احمد ہر مجلس میں بیان فرما یا ہوا ہے مواهب الرحمن 77 اس میں ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی شہادت کا واقعہ اور جماعت کا تعارف دیا جانا 338 اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 یا دایام نجم الہدیٰ ملفوظات 14 ، 19، 20، 29، 37 ، 49 ، اس کی نظیر مخالف آج تک پیش نہیں کر سکے 178 698.682 159.103.8682.80.79.78