Language: UR
خطبات مسرور خطبات جمعه فرموده امام جماعت احمدیه عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز $2013 جلد 11
پیش لفظ احمداللہ خطبات مسرور کی جلد پیش کی جارہی ہے جو امام جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفة أسبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بیان فرمودہ 2013 ء کے خطبات پر مشتمل ہے.یہ تمام خطبات الفضل انٹر نیشنل لندن میں شائع شدہ ہیں.جمعہ پر ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کے امام کو پہچاننے کی توفیق دی اور اس کا سراسر فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے نظام میں شامل کیا.ہمیں ایک خلیفہ عطا کیا جو ہمارے لئے در درکھتا ہے، ہمارے لئے اپنے دل میں پیار رکھتا ہے، اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.اس شکر کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ ہم خلیفہ وقت کی آواز کو سنیں ، اس کی ہدایات کو سنیں اور ان پر عمل کریں کیونکہ اس کی آواز کو سننا باعث ثواب اور اس کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا کی بھلائی اور ہمارے علم و عمل میں برکت کا موجب ہے.ہمیشہ کی طرح یہ سال بھی جماعت احمد یہ عالمگیر کے لئے ایک تاریخ ساز سال ثابت ہوا.احمدیت کی تائید میں خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے نشانات موسلا دھار بارش کی مانند برستے رہے.یہ خطبات ہمارے لئے ایک روحانی مائدہ بھی ہے ان میں انواع و اقسام کے مضامین ہماری مادی اور روحانی بھوک و پیاس کو مٹانے کے لئے شامل ہیں.خطبات مسرور کی اس جلد کی ترتیب و تدوین میں مکرم سید مبشر احمد صاحب ایاز ریسرچ سیل اور ان کے رفقاء کار شکریہ کے مستحق ہیں.اسی طرح نظارت اشاعت کے کارکنان بھی جنہوں نے اس کی طباعت کے مختلف مراحل میں حصہ لیا.اللہ تعالیٰ ان سب کو احسن جزاء سے نوازے اور ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.آمین.فجزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا والآخرة
فہرست خطبات مسرور 2013 ء جلد 11 نمبر شمار خطبه فرموده صفحہ نمبر شمار خطبه فرموده 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 خطبه جمعه فرموده ۴/جنوری خطبه جمعه فرموده 11 / جنوری خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جنوری 31 / خطبه جمعه فرموده 25 جنوری 46 خطبه جمعه فرموده یکم فروری 33 15 1 16 16 17 18 19 63 خطبه جمعه فرموده 8 فروری 88 خطبه جمعه فرموده 15 فروری | 100 خطبه جمعه فرموده 22 فروری 117 خطبه جمعه فرموده یکم مارچ خطبه جمعه فرموده 8/ مارچ خطبه جمعه فرموده 15 / مارچ خطبه جمعه فرموده 22 / مارچ 177 خطبه جمعه فرموده 29 / مارچ 26 194 27 23 135 24 149 10 25 164 2 20 20 82 21 22 22 صفحہ خطبہ جمعہ فرمودہ 12 / اپریل 223 خطبہ جمعہ فرموده 19 / اپریل 235 خطبه جمعه فرموده 26 / اپریل 250 خطبه جمعه فرموده 3 رمئی خطبه جمعه فرموده 10 رمئی خطبه جمعه فرموده 17 مئی خطبه جمعه فرموده 24 رمئی 260 270 283 296 311 328 خطبه جمعه فرموده 31 مئی خطبه جمعه فرموده 7 / جون خطبه جمعه فرموده 14 جون 338 / خطبه جمعه فرموده 21 / جون خطبہ جمعہ فرموده 28 / جون 350 363 خطبہ جمعہ فرمودہ 5 جولائی 373 80 خطبه جمعه فرمودہ 15 اپریل | 207 28 خطبه جمعه فرمودہ 12 / جولائی 389
نمبر شمار خطبه فرموده صفحہ نمبر شمار خطبه فرموده 29 خطبه جمعه فرمودہ 19 جولائی 403 30 خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 413 31 خطبه جمعه فرموده 2 /اگست | 427 32 32 33 =4 34 خطبہ جمعہ فرموده 19 اگست | 440 خطبه جمعه فرموده 16 / اگست 454 خطبه جمعه فرموده 23 اگست | 469 35 35 36 37 38 39 40 40 41 42 43 44 45 45 46 46 خطبه جمعه فرموده 30 / اگست 482 خطبه جمعه فرموده 6 ستمبر خطبه جمعه فرموده 13 / ستمبر | 507 47 48 490 49 49 خطبه جمعه فرموده 20 /ستمبر خطبه جمعه فرموده 27 ستمبر خطبه جمعه فرموده 4/اکتوبر 50 50 519 5557 51 530 52 52 537 صفح خطبه جمعه فرموده 11 / اکتوبر 551 خطبه جمعه فرموده 18 /اکتوبر | 567 خطبہ جمعه فرموده 25 /اکتوبر 584 خطبه جمعه فرموده یکم نومبر خطبه جمعه فرموده 8 / نومبر 596 607 خطبه جمعه فرموده 15 / نومبر 623 خطبه جمعه فرموده 22 / نومبر 642 خطبه جمعه فرموده 29 / نومبر خطبه جمعه فرموده 16 دسمبر 654 671 682 خطبہ جمعہ فرموده 13 / دسمبر خطبه جمعه فرموده 20 دسمبر | 695 خطبه جمعه فرموده 27 دسمبر 708
خطبات مسرور جلد 11 1 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا سرود احمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013 ء بمطابق 4 صلح 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتَّبِعُونَ مَا انْفَقُوا مَنَّا وَلَاأَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ - وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: 263) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر جو وہ خرچ کرتے ہیں اُس کا احسان جتاتے ہوئے یا تکلیف دیتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے.اُن کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اُن پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غم کریں گے.اس آیت کے مضمون کا جو ادراک آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کو ہے، وہ کسی اور میں نہیں.یہ لوگ بے لوث، بے نفس ہو کر مالی قربانی کرتے ہیں.مالی قربانی کی خواہش رکھتے ہیں.اگر خواہش کے مطابق نہ دے سکیں تو بے چین ہو جاتے ہیں.پرانے احمدیوں کا بھی یہی حال ہے اور نئے آنے والوں کا بھی.ابھی کل ہی مجھے ایک عرب فیملی ملی.دونوں میاں بیوی بہت پڑھے لکھے ہیں.پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے.بچے بھی ماشاء اللہ بڑے شریف النفس ہیں اور دین کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں.باوجود اس کے کہ ابھی بالکل نوجوانی کی عمر ہے ، نئے احمدی ہیں ، جماعت کے ساتھ بڑا تعلق ہے اور اُن میں ایک تڑپ بھی ہے.ایک بچہ تو ابھی جوانی میں قدم رکھ رہا ہے لیکن دین کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ
خطبات مسرور جلد 11 2 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء ہے.بارہ تیرہ سال کی عمر ہے.اس فیملی نے چند مہینے پہلے بیعت کی تھی.آجکل جیسا کہ دنیا کے معاشی حالات ہیں، اس وجہ سے ان کے پاس جاب بھی کوئی نہیں ہے، پڑھائی بھی ابھی ختم کی ہے.تعلیم حاصل کرنے کے بعد فارغ ہیں، بڑی مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں بلکہ عزیزوں سے قرض لے کر گزارہ کر رہے ہیں.وہ خاتونِ خانہ جو اس فیملی کی بچوں کی ماں تھی ، بڑے درد سے مجھے کہنے لگیں کہ میرا دل بڑا بے چین رہتا ہے کہ کام نہ ہونے کی وجہ سے ہم چندہ پوری طرح نہیں دے سکتے.میں نے اُس کو سمجھایا کہ آپ کے حالات کے مطابق آپ جو دے سکتی ہیں یا دیتی ہیں وہی کافی ہے.لیکن بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ میں کسی بھی قربانی میں اپنے آپ کو اب دوسرے احمدیوں سے پیچھے نہیں رکھ سکتی.حالانکہ ابھی چند مہینے پہلے بیعت کی ہے.بار بار اس کا اظہار تھا کہ بہت بے چین ہوں.تو یہ انقلاب جو بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والوں کی طبیعتوں میں پیدا ہو جاتا ہے، اس احساس کے بعد کسی قربانی پر احسان جتانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بلکہ یہ بے چینی ہے کہ ہم قربانی نہیں کر رہے، یا قربانی کا وہ معیار نہیں ہے جو چاہتے ہیں.پھر بعض دفعہ بعض افراد کے خلاف کسی وجہ سے تعزیری کارروائی ہوتی ہے.تعزیری کارروائی میں سزا میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں سے چندہ نہیں لینا.اس پر لوگ بے چین ہو کر مجھے لکھتے ہیں کہ کوئی اور سزا دے لیں لیکن یہ سزا نہ دیں.اول تو ہم معافی مانگتے ہیں.جس قصور کی وجہ سے سزا ہے اُس کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن اگر سزا دینی ہی ہے تو پھر خدا کے لئے ہمیں چندے کی ادائیگی سے محروم نہ کریں کہ یہ تو ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عجیب جماعت پیدا فرمائی ہے جسے مالی قربانی کرنے میں عجیب راحت وسکون ملتا ہے اور اس سے روکنے پر دل بے چین ہو جاتے ہیں.پس آج روئے زمین پر کوئی اور ایسی جماعت نہیں ہے جو یہ جذبہ رکھتی ہو.مخالفین احمدیت دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن یہ اظہار اُن کی تقریروں میں جو وہ اپنے لوگوں میں کرتے ہیں، اکثر سننے میں آتا ہے کہ دیکھو قادیانی یا مرزائی ( جو ہمیں وہ کہتے ہیں) اپنے مقاصد کے لئے کتنی قربانی کرتے ہیں اور تمہیں ایک مسجد کے چندے کے لئے یا فلاں کام کے لئے کوئی توجہ نہیں پیدا ہوتی.اور یہ اظہار ان غیر احمدی علماء کا ،مولویوں کا یا ان لوگوں کا تنظیموں کا ہمیں صرف پاکستان، ہندوستان میں نظر نہیں آتا بلکہ افریقہ کے مسلمان ممالک میں بھی یہ باتیں سننے میں آتی ہیں.اور پھر جب کچھ خرچ کر دیتے ہیں تو اظہار یہ ہوتا ہے
خطبات مسرور جلد 11 3 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء کہ دیکھو ہم نے فلاں مسجد کے لئے یا عوام کی فلاح و بہبود کے فلاں کام کے لئے اتنا روپیہ دیا ہے.پھر جن کمیٹیوں کو دیتے ہیں ، جن تنظیموں کو دیتے ہیں، اُن میں بعض دفعہ اس وجہ سے لڑائی ہو جاتی ہے کہ ہم نے اتنا پیسہ دیا تھا، اس کا حساب دو یا اس طرح خرچ نہیں ہوا ، اسے صحیح طرح خرچ نہیں کیا گیا.یہ بھی خدا تعالیٰ کا جماعت پر فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کے پیسے میں اللہ تعالیٰ نے جو برکت رکھی ہے وہ اُن کے ہاں نظر نہیں آتی.ابھی گزشتہ دنوں جب میں نے جامعہ احمد یہ جرمنی کا افتتاح کیا تو وہاں ایک اخباری نمائندے نے جو مسلمان تھے بلکہ پاکستانی اخبار کے نمائندے تھے، مجھ سے پوچھا کہ اس پراجیکٹ کے لئے حکومت سے بھی یا کہیں سے کوئی مدد لی گئی ہے؟ تو میں نے اُسے کہا کہ ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے افراد کے چندوں سے ہوتے ہیں اور یہ عمارت بھی احباب جماعت کے چندوں سے ہی بنی ہے.لیکن جو خرچ اس پر ہوا ہے، اگر کوئی حکومتی ادارہ یہ اتنی بڑی عمارت بناتا یا کوئی اور ادارہ بھی اس عمارت کے لئے خرچ کرتا تو اس سے بہت زیادہ خرچ ہوتا.اللہ تعالیٰ نے جماعتی پیسہ میں برکت بھی رکھی ہوئی ہے اور تھوڑے میں بہت سے کام ہو جاتے ہیں.پس جس نیک نیت سے احباب جماعت چندہ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اتنی ہی اس میں برکت بھی رکھتا ہے.یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دوں یا بتا دوں کہ گو چندہ دے کر افراد جماعت نہ تو پوچھتے ہیں، نہ ہی احسان جتاتے ہیں، لیکن خرچ کرنے والے احباب جو جماعتی انتظامیہ ہے، کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے.خرچ بڑا پھونک پھونک کر کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے طفیل ہی ہم یہ کشائش دیکھ رہے ہیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ کشائش اور ہمارے پیسے میں برکت کے نظارے ہم دیکھتے رہیں گے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس فکر کو بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ جہاں تک پیسہ آنے کا سوال ہے اُس کی تو کوئی فکر نہیں.( فکر ہے تو یہ کہ ) کہیں ان خرچ کرنے والوں کے دل دنیا داری کی لپیٹ میں نہ آجائیں اور جماعتی اموال کا درد نہ رہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.جماعتی اموال کے خرچ کرنے کا ایک طریقہ کار ہے.مختلف جگہوں پر چیک ہوتے ہیں.لیکن پھر بھی خرچ کرنے والوں کو جہاں اس طرف توجہ دینی چاہئے وہاں تو بہ واستغفار سے اللہ تعالیٰ کی مدد بھی لیتے رہنا چاہئے.جب جماعت بڑھتی ہے، جماعت کے اموال میں وسعت پیدا ہوتی ہے تو جہاں مخالفین اپنی کوششوں میں تیزی پیدا کرتے ہیں، وہاں منافقین کے ذریعے وہ جماعت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش بھی کرتے ہیں.گو ان کی کوششیں بے اثر ہوتی ہیں لیکن ہمیں ہمیشہ محتاط رہنے اور
خطبات مسرور جلد 11 4 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء استغفار اور دعا کی طرف توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے جماعت پر جوفضل ہیں، جو ہر آن تائید و نصرت کے نظارے ہیں وہ اُس وقت تک ہم دیکھتے رہیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے.مجھے تو کبھی یہ فکر پیدا نہیں ہوئی کہ فلاں کام کی تکمیل کس طرح ہوتی ہے؟ جو بھی منصوبہ تیار کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ خود ہی انتظام کر دیتا ہے.یہ بھی ایک حیرت انگیز مضمون ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ احمدیوں کے دل میں ڈالتا ہے اور کس طرح وہ بڑھ چڑھ کر قربانی میں حصہ لیتے ہیں.خدا تعالیٰ کی خاطر مالی قربانی دینے کا وقت آتا ہے تو احمدی اپنا پیٹ کاٹ کر بھی قربانیاں دیتے ہیں.بھوکے رہنا گوارا کر لیتے ہیں لیکن یہ گوارا نہیں کرتے کہ اپنے چندے دینے کا انکار کریں یا کسی طرح کمی کریں.یہی انبیاء کی جماعتوں کی نشانی ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں اور کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا.جماعت کا احسان سمجھتے ہیں ، خدا تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہیں کہ اُن سے چندہ وصول کر لیا.جیسا کہ میں نے کہا کہ جب چندہ لینے پر پابندی لگائی جائے تو اکثر بے چین ہو کر اس سزا کو واپس لینے کی درخواست کرتے ہیں.یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم سے چندہ وصول کر لیا جائے تو جماعت کا ہم پر احسان ہوگا.نئے شامل ہونے والے جو جماعتی نظام کو سمجھ لیتے ہیں، جن کی تربیت اچھے طور پر ہوتی ہے ، وہ بھی مالی قربانی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.بعض دفعہ جماعتوں نے طوعی چندوں کے جو ٹارگٹ مقرر کئے ہوتے ہیں، اُن میں اگر کہیں کمی ہو جائے تو بعض صاحب حیثیت لوگ خود ہی کہتے ہیں کہ ہم کمی پوری کر دیں گے.اُن کے اندر سے آواز اُٹھ رہی ہوتی ہے.اُن کو کوئی مجبوری نہیں ہوتی ، اُن کو زور نہیں دیا جارہا ہوتا، بلکہ اندر کی ایک آواز ہوتی ہے کہ اس کمی کو پورا کرنا ہے.یہ سب کیوں ہے؟ اس لئے کہ اُنہیں اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی آواز آ رہی ہوتی ہے کہ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : 263) اور ان پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ نظم کریں گے.انہیں اُخروی زندگی پر ایمان ، یقین اور اُس کی فکر ہوتی ہے جس کے لئے وہ قربانی کرتے ہیں.پس جب اُن کے ایسے عمل ہوتے ہیں تو پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کی بشارتیں مل رہی ہوتی ہیں.وہ اپنا شاندار مستقبل بنارہے ہوتے ہیں جس کی انتہا اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہے.لیکن اللہ تعالیٰ صرف مرنے کے بعد کی مستقبل کی بات نہیں کرتا بلکہ اس دنیا میں بھی ادھار نہیں رکھتا اور یہاں بھی بڑے بڑے اجر سے نوازتا ہے.ایک حدیث قدسی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم ! خرچ کرتارہ، میں تجھے عطا کروں گا.
خطبات مسرور جلد 11 5 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء تو اللہ تعالیٰ کی عطائیں تو ہر ایک کے لئے ہیں ہی لیکن جو اُس کے دین کے لئے خرچ کرتے ہیں ان پر تو بے شمار عطائیں ہوتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کبھی ادھار نہیں رکھتا، بشرطیکہ نیک نیتی سے اُس کی رضا کے حصول کی خاطر کوئی قربانی کی جائے.اس وقت میں چند واقعات پیش کروں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں ، ہر ملک میں ، غریبوں میں بھی اور امیروں میں بھی احمدیوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص جذ بہ قربانی کا پیدا فرما دیا ہے اور قربانیوں کے بعد پھر ہر ایک کو اُس کے ایمان اور یقین میں بڑھانے کیلئے انہیں اللہ تعالیٰ نواز تابھی ہے.نئی قائم ہونے والی ایک جماعت کی قربانی کا ذکر سنیں جو افریقہ کے دور دراز علاقے میں ہے اور پھر اس سے صرف مالی قربانی کا پتہ نہیں چلتا بلکہ خلافت سے تعلق کا بھی پتا چلتا ہے.نائیجر افریقہ کے دور دراز علاقے میں ایک ملک ہے، وہاں کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر جو مبلغین کی میٹنگ تھی ، اس میں میں نے افریقہ کے مبلغین کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ افریقہ میں چندے میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں ابھی کافی گنجائش ہے اس میں اضافہ کریں.تو اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جب انہوں نے وہاں جا کے بات کی اور اپنے علاقے ”برنی کونی“ کی جماعت کو یہ پیغام دیا کہ خلیفہ وقت نے یہ کہا ہے تو انہوں نے فوراً آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی قربانی کو بڑھایا.اُن کو جب یہ کہا گیا کہ جو پہلے شامل نہیں تھے وہ بھی شامل ہوں تو اُس کا فوراً اثر ہوا.وہاں زمیندار جماعتیں ہیں، دیہاتی جماعتیں ہیں، اُن کے پاس نقد رقم تو نہیں ہوتی لیکن جنس کی صورت میں دیتے ہیں.چنانچہ کہتے ہیں کہ برنی کونی ریجن کی جماعتوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، جہاں گزشتہ سال جنس کی صورت میں سولہ بوریاں دی تھیں، وہاں بالکل چھوٹے سے ایک گاؤں نے جہاں سو پچاس کی آبادی ہوگی ، باون بوریاں انہوں نے دیں اور اس کے علاوہ انہوں نے پچھلے سال سے دو گنا چندہ نقد بھی پیش کیا.پھرا میر صاحب نائیجر لکھتے ہیں کہ جماعت گڈاں برادو (Gidan Barawoo) گاؤں کی طرف سے پیغام آیا کہ چندہ کے اناج کی بوریاں آکر لے جائیں.کہتے ہیں ہم لوگ گاڑی میں یہ لے کر واپس آرہے تھے تو اس وقت رات کے دس بج رہے تھے.ہم ایک احمدی گاؤں دیگاوا (Dabgawa) سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ خدام راستہ میں ہمارے انتظار میں کھڑے ہیں.رات کے دس بج رہے ہیں اور ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کر رہے تھے.ہم نے گاڑی روکی تو انہوں نے بتایا کہ ہم صدر صاحبہ لجنہ کے حکم پر
خطبات مسرور جلد 11 6 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء شام سے یہاں کھڑے آپ کے اس راستے سے گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں.اس گاؤں کی جوصدر صاحبہ لجنہ تھیں ، انہوں نے لجنہ کو کہا کہ انہوں نے چندے کے لئے جو جنس وغیرہ اکٹھا کی تھی ، وہ اپنا چندہ لجنہ کوعلیحدہ دینا چاہئے.چنانچہ لجنہ نے اپنے طور پر بھی محنت کی اور اپنا علیحدہ اناج اکھٹا کیا اور وہ جو خدام جو تھے وہ دینے کے لئے وہاں کھڑے تھے.چھوٹی سی ایک غریب جماعت جس کی اپنی حیثیت بالکل معمولی تھی وہ بھی اس طرح محنت اور تعلق اور وفا کا اظہار کرتے ہیں.پھر بینن سے آلا ڈاریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ Soyo (سویو ) گاؤں کے صدر صاحب جماعت ایک سال قبل مشرکین سے احمدی ہوئے.پہلے مشرک تھے ، بتوں کو پوجنے والے تھے، احمدی ہو گئے ، ایک خدا کے آگے جھکنے والے بن گئے.اُن سے جب وقف جدید کا چندہ لینے گئے تو انہوں نے گھر میں موجود 450 فرانک سیفا کی رقم چندہ میں دے دی اور یہ بھی نہ سوچا کہ آج دوپہر کو کیا کھائیں گے کہ اب کوئی رقم گھر میں نہ تھی.یہ موٹر سائیکل رکشہ چلاتے ہیں.چندہ دینے کے بعد اپنا موٹر سائیکل لے کر باہر نکل گئے کہ خدا کچھ تو دے گا، دو پہر کو نہیں تو شام کو کھالیں گے، کیا فرق پڑتا ہے.موٹر سائیکل میں پٹرول بھی ادھار لے کر ڈلوایا اور پھر دوسرے دن مزید 1000 فرانک سیفا چندہ لے کر آئے اور بتایا کہ مربی صاحب دیکھیں خدا کا سلوک.میں نے دوپہر کے کھانے کا بھی نہیں سوچا تھا اور موٹر سائیکل رکشہ میں تیل بھی ادھار لے کر ڈلوایا تھا اور خدا نے مجھے اتنی سواریاں دیں کہ میں جو گھر سے خالی ہاتھ نکلا تھا، بظاہر مقروض تھا، 2000 فرانک سیفا کی رقم لے کر گھر آیا ہوں.اور اب اُس میں سے نصف پھر مزید چندہ دے رہا ہوں.قرضے اتار کے یہ اتنے پیسے بچ بھی گئے.امیر صاحب بورکینا فاسو بیان کرتے ہیں کہ بو بو ریجن کے ایک نو مبائع کمپورے سعید صاحب (Compore Saeed) کہتے ہیں کہ انہوں نے مالی تنگی کی وجہ سے تین ماہ کا چندہ ادا نہیں کیا تھا.اس دوران ان کی چوری بھی ہوگئی اور جوان بیٹا بھی شدید بیمار ہو گیا.ہر طرح علاج کروایا مگر صحتیاب نہ ہوئے.کہتے ہیں کہ ایک رات خواب میں میں نے خلیفہ اسیح کو دیکھا ( مجھے دیکھا انہوں نے ) کہ وہ آئے ہیں اور خاکسار سے کہنے لگے کہ آپ نے کئی ماہ سے اپنا چندہ ادا نہیں کیا.میں نے خواب میں جوابا کہا کہ انشاء اللہ 20 دنوں میں ادا کر دوں گا اور پھر کوشش کر کے 20 دنوں میں اپنا چندہ ادا کر دیا.کہتے ہیں کہ اُسی دن سے میرے بڑے بیٹے کو کامل شفا بھی ہوگئی اور نہ صرف شفا ہوئی بلکہ پہلے سے اچھی نوکری بھی مل گئی اور پھر اس کی برکت سے خدا تعالیٰ نے مجھے بھی توفیق دی کہ میں نے نئی موٹر سائیکل خرید لی.اور یہ تمام
خطبات مسرور جلد 11 7 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء برکتیں اُسی مالی قربانی کی تھیں جو خلیفہ وقت کے توجہ دلانے کے نتیجہ میں میں نے خدا کی راہ میں کی تھیں.اب ( دیکھ لیں کہ ) نئے نئے احمدیوں کو بھی اللہ تعالیٰ کس طرح ایمانوں میں مضبوط کرتا ہے.بورکینا فاسو کے ریجن کے دڈ گو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ اس ریجن کے ایک گاؤں نو کی با دالا ( Noki Badala) کے صدر جماعت Diallo Sita (دیا لوسیتا صاحب کہتے ہیں کہ وہ کا شتکار لوگ ہیں اور احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے بھی وہ کا شتکاری کرتے تھے.مگر اتنی فصل کبھی نہیں ہوئی جتنی احمدیت میں داخل ہونے کے بعد ہو رہی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ چندہ ہے.جب سے ہم احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور چندہ دینا شروع کیا ہے تو ہمارے حالات ہی بدل گئے ہیں.اور جب سے چندہ دینا شروع کیا ہے ہماری فصلوں میں اتنی برکت پڑی ہے کہ آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی.ان کا کہنا ہے کہ چندہ کی اتنی برکت پڑی کہ آغاز میں پہلے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو بوری اناج چندہ دیا کرتے تھے.اور اس سال سات بوری دیا.مولوی کہتے ہیں کہ یہ غریبوں کو پیسے دے کے افریقہ میں اور غریب ملکوں میں احمدی بناتے ہیں.جماعت نے کیا پیسے دینے ہیں، ان کا یہ حال دیکھیں کہ کس طرح خود قربانی کر کے اپنے چندے بڑھارہے ہیں.امیر صاحب مالی تحریر کرتے ہیں کہ ہمارے ایک معلم عبد القادر صاحب نے بتایا کہ جماعت Sonitigla(سونیت گلا ) میں ہر سال احمدی خواتین اور احمدی مرد چندہ کے لئے الگ الگ کھیت کاشت کرتے ہیں.(اپنا جو فارم ہے، کھیت ہے، اُس کے علاوہ چندہ دینے کے لئے مردا اپنی اور عورتیں اپنی علیحدہ ایک فصل لگاتی ہیں کہ جو بھی آمد ہوگی یہ ساری کی ساری ہم نے جماعت کو چندے میں دینی ہے.) کہتے ہیں 2011ء میں جب فصل کٹائی کے بعد چندہ لینے کے لئے وہاں گئے تو مردوں اور عورتوں نے الگ الگ چندہ جمع کروایا.جب بوریوں کی گنتی کی گئی تو مردوں کا چندہ تھوڑ اسا زیادہ تھا.کہتے ہیں کہ یہ بوریاں یا جنس جب لوڈ کر لیا گیا تو عورتوں نے کہا ٹھہر جائیں، ابھی نہ جائیں.وہ اپنے گھر واپس گئیں اور انہوں نے مزید دو بوریاں جمع کیں کیونکہ ڈیڑھ بوری یا شاید آدھی بوری مردوں کی زیادہ تھی.اور وہ کسی بھی صورت مردوں سے پیچھے نہیں رہنا چاہتیں.اس طرح انہوں نے مردوں سے ڈیڑھ بوری زائد چندہ جمع کروادی.امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع سیعد وتر اور ے صاحب جنہوں نے چھ سات ماہ قبل بیعت کی اور ساتھ دس ہزار فرانک سیفا چندہ دیا.جب ہمارے معلم دوبارہ گئے تو انہوں نے بتایا کہ بیعت کرنے اور چندہ دینے سے پہلے وہ اور اس کے بیوی بچے اکثر بیمار رہتے تھے اور ہمارا بہت سارا خرج ادویات
خطبات مسرور جلد 11 8 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء پر ہو جاتا تھا.لیکن جب سے میں نے چندہ دینا شروع کیا ہے.اُس وقت سے وہ اور اس کے بیوی بچے صحت کے ساتھ ہیں اور کم بیمار ہوتے ہیں اور ادویات کا خرچ بہت کم ہو گیا ہے.یہ سب چندہ کی برکت ہے.امیر صاحب یوگنڈا لکھتے ہیں کہ یوگنڈا میں احباب جماعت مالی قربانی کے میدان میں غیر معمولی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں.ہمارے ایک مخیر دوست سلیمان مغابی صاحب امبالہ کے رہنے والے ہیں اور مالی قربانی اور چندوں میں پیش پیش ہیں.انہوں نے نو مبائعین کے علاقوں میں دو خوبصورت مساجد کی تعمیر اور ایک علاقہ میں سکول کے ایک مکمل بلاک کی تعمیر کے لئے پچاس ملین شلنگ کی بہت بڑی رقم کی قربانی کی.ان کو آغاز میں ایک مسجد کی تعمیر کے لئے کہا گیا تھا.یہ خود بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے مالی قربانی شروع کی ہے.مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کس طرح اور کہاں سے خدا مجھے دے رہا ہے.امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ ایک دوست الحاج Abdullah Balajo (عبد اللہ بلا جو ) صاحب، جو پہلے سے چندہ وقف جدید ادا کر چکے تھے ، جب ان کو دوبارہ تحریک کی گئی تو انہوں نے پہلے سے بڑھ کر چندہ ادا کر دیا.بعد میں جب انہیں یاد آیا کہ انہوں نے دو دفعہ چندہ دے دیا ہے تو اس پر بڑی خوشی سے کہا کہ یہ خلیفہ وقت کی بابرکت تحریک ہے، اس میں جتنا بھی دوں کم ہے.لیو ( Leo) ریجن بورکینا فاسو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ 10 اگست 2012ءکو Baacoungou Adama ( با کونگو آدما) نامی ایک بزرگ صبح سویرے مشن ہاؤس میں آگئے اور بتایا کہ روزانہ با قاعدگی سے ریڈیو احمد یہ سنتا ہوں اور میرے گھر میں صرف یہی سٹیشن آن (on) رہتا ہے.جس قدر یہ ریڈیو اسلام کی خدمت کر رہا ہے اس کا الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں.میں شکر گزاری کے طور پر اور تو کچھ نہیں کرسکتا صرف اس چھوٹی سی رقم سے ریڈیو کی خدمت کرنا چاہتا ہوں.اس بزرگ نے ایک لاکھ فرانک سیفا نکال کر بطور چندہ دیا جو خصوصاً کھیتی باڑی کرنے والوں کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے.اس بزرگ کو جماعتی چندوں کا نظام سمجھایا گیا اور پھر ادا شدہ چندے کی رسید دی ( یہ ابھی تک احمدی نہیں تھے.غیر احمد یوں پر اس کا اثر ہو جاتا ہے.تو کہتے ہیں کہ کیونکہ آپ لوگ اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں،اس لئے میں دے رہا ہوں.خیر اُس کے بعد جب ان کو چندے کا نظام سمجھایا اور رسید بھی دی تو کہتے ہیں کہ احمدیت کی سچائی میرے دل میں گھر کر گئی ہے.کیونکہ میں نے اللہ کی راہ میں چندے تو بہت دیے ہیں لیکن چندہ کا ایسا شفاف نظام احمدیت کے سوا اور کہیں نہیں دیکھا.ببینن سے لوکل معلم ذکر یا رائی صاحب بیان کرتے ہیں کہ Ekpe گاؤں کے گار با ابراہیم
خطبات مسرور جلد 11 9 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء صاحب کی حاملہ بیوی کو سسرال والے اختلافات کی وجہ سے اپنے ساتھ لے گئے حتی کہ وضع حمل بھی وہیں ہوا اور خدا تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا.گار با ابراہیم صاحب نے اپنا بیٹا واپس لینے کے لئے تمام جتن کئے، سالہا سال تک کیس بھی لڑے مگر نا کامی کے علاوہ کچھ نہ ہاتھ آیا.یہ پانچ سال قبل احمدی ہوئے تھے مگر اپنے حالات کا کسی سے خاص ذکر نہ کیا.اس سال جب کیس بھی ہار بیٹھے تو پھر معلم صاحب کے پاس آکر ساری کہانی سنائی اور دعا کے لئے کہا.ان دنوں چندہ وقف جدید کا موسم تھا.معلم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہمارا تو ایمان ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں.تم احمدی تو پہلے سے ہولیکن چندے کی طرف توجہ نہیں ہے.کبھی چندہ بھی دے دیا کرو.اس سے خدا مشکلات دور کرتا ہے.چنانچہ گار با صاحب نے وقف جدید کی مد میں 2000 فرانک سیفا چندہ کٹوایا.اب تین دن قبل ان کا فون آیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چندہ کی برکت دکھا دی ہے.خدا تعالیٰ نے میرا بچہ واپس دلوادیا ہے.میرا سسر خود اس کو میرے پاس چھوڑنے آیا کہ اپنی نسل خود سنبھالو اور اس نے کوئی معاوضہ بھی نہیں مانگا.حالانکہ پہلے میں ان کو تمام خرچے بھی بھرنے کے لئے تیار تھا لیکن یہ بچہ نہیں دیتے تھے.تنزانیہ سے حسن توفیق صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ پہلے بڑا معمولی چندہ دیتے تھے.مبلغ سلسلہ نے ان کو توجہ دلائی.گھر کھانے کی دعوت کی.چندہ جات کی اہمیت اور برکات کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور کہتے ہیں اب باقاعدگی سے چندہ دینا شروع کیا اور آہستہ آہستہ چندے کو بڑھاتا بھی گیا.کہتے ہیں پہلے خاکسار کے پاس کوئی جائیداد نہیں تھی.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار نظام وصیت میں شامل ہے اور چندہ جات کی برکت سے ان چند سالوں میں سن فلاور آئل نکالنے کا چھوٹے پیمانے پر کارخانہ بھی لگایا ہے.اپنا گھر بھی تعمیر کیا ہے.ڈوڈومہ شہر میں تین عدد پلاٹ خریدے ہیں.اپنی فیملی میں مستحق بچوں کی مسلسل تعلیمی مدد کر رہا ہوں اور خود بھی اپنے خرچہ پر PhD کر رہا ہوں.اور یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور چندہ جات کی برکت ہے.کالی کٹ انڈیا سے تعلق رکھنے والے جو صاحب ہیں ان کا وقف جدید کا چندہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دولاکھ ایک ہزار روپیہ ہے اور یہ اپنے تمام چندہ جات طاقت سے بڑھ کر لکھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں چندہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لوں گا تو اللہ تعالیٰ میرے کاروبار میں برکت دے گا اور کاروبار خوب بڑھے گا.مالی سال کے آخر میں وقف جدید کے انسپکٹر جوان کے پاس وصولی کے لئے گئے تو انہوں نے کہا کہ خاص طور پر دعا کریں کیونکہ میرے اکاؤنٹ میں بالکل رقم
خطبات مسرور جلد 11 10 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء نہیں ہے جبکہ مالی سال ختم ہونے میں چند دن رہ گئے ہیں.انہوں نے چیک بنا کر دیا اور بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور سال کے آخر میں ان کو آمد ہوئی اور اللہ کے فضل سے پوری رقم ادا ہو گئی.اسی طرح ایک رحمن صاحب ہیں جو انڈیا کے کیرولائی کیرالہ صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں.اللہ کے فضل سے موصی ہیں.ان کے انسپکٹر کہتے ہیں میں نے دیکھا ہے، چندہ جات میں، ہر چندے کا ڈبہ الگ الگ ہے.ایک ڈبہ میرے سامنے کھولا، اُس کے بعد بیوی کو کہنے لگے کہ اپنا پرس نکالو، پھر بیوی کے پرس سے نکال کر وعدہ پورا کرنے کے علاوہ ایک لاکھ پچہتر ہزار روپے زیادہ چندہ ادا کر دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک انہوں نے سات لاکھ اسی ہزار چندہ وقف جدیدا دا کر دیا ہے.انڈیا میں پہلے کوئی توجہ نہیں تھی لیکن اللہ کے فضل سے اب بڑی توجہ پیدا ہورہی ہے.مکرم اقبال صاحب کنڈوری انسپکٹر وقف جدید آندھرا پردیش لکھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ جھٹ چرلہ کے ایک صاحب ہیں ، اُن کی عمر صرف پچیس سال ہے لیکن اللہ کے فضل سے مالی قربانی کے میدان میں صوبہ آندھرا میں اول نمبر پر ہیں.موصوف نے انہیں 2011 ء کے لئے چھیاسٹھ ہزار روپے وعدہ لکھوایا تھا لیکن کاروبار مندی کی وجہ سے بے انتہا کوشش کے باوجود ادا ئیگی نہیں کر پائے تھے جس سے موصوف کافی شرمندہ تھے.اب وعدہ تو لکھ دیا لیکن ادائیگی نہیں ہوسکی کہ آمد نہیں تھی تو بہر حال مجبوری تھی.چند دوستوں نے تو اُن کو یہاں تک صلاح دی کہ مرکز میں معافی کی درخواست لکھ کر معاف کروالیں.لیکن موصوف مالی قربانی کے میدان میں اس قدر جذباتی ہیں کہ ان لوگوں سے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر سلسلے کے لئے وعدہ کیا اور میرا اللہ ضرور پورا کرے گا.پھر انسپکٹر صاحب کہتے ہیں 2012ء میں جب وعدہ لینے خاکسار پہنچا تو گزشتہ سال کے مقابلہ میں اضافہ کے ساتھ سنہتر ہزار کا وعدہ لکھوایا.حالانکہ اُس وقت بھی موصوف اس مالی تنگی میں مبتلا تھے.کہتے ہیں جب مئی میں خاکسار وصولی کے لئے پہنچا تو سابقہ بقایا اور سال 2012ء کے وعدہ کے علاوہ مزید چوبیس ہزار روپے کی ادائیگی کر دی اور موصوف کا کہنا تھا کہ یہ چندے کی برکت ہے.خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں کہ مجھے اس مالی پریشانی سے نجات ملی اور میں دونوں سال کی ادائیگی ایک ساتھ کر رہا ہوں.پھر انڈیا سے ہی انسپکٹر وقف جدید آئی آر شار صاحب لکھتے ہیں کہ وقف جدید کے مالی دورے کے دوران خاکسار جماعت احمد یہ کوئمبیٹو رصوبہ تامل ناڈو میں بجٹ بنانے کے لئے گیا.ناظم صاحب مال وقف جدید بھی خاکسار کے ہمراہ تھے.دوپہر کے کھانے کا انتظام ایک صاحب، سلیمان صاحب کے گھر
خطبات مسرور جلد 11 11 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء میں تھا جو کہ ایک مخلص احمدی ہیں.اُن کا 2011 ء کا چندہ وقف جدید کا بجٹ ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھا اور یہ رقم سال کے آخر میں مکمل کرنے میں انہوں نے کافی تکلیف اُٹھائی تھی اور بہت مشکل سے اس کو ادا کر پائے تھے.انہوں نے اس سال اپنا بجٹ اپنی خوشی سے پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے لکھوایا.کہتے ہیں اس پر مجھے ایک عجیب ڈر پیدا ہوا کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار کا بجٹ بہت مشکل سے آخری دنوں میں ادا کیا تھا، اور اُس سے تین گنا اضافہ بجٹ کیسے پورا کریں گے؟ بہر حال مکرم ناظم صاحب ساتھ تھے.اس لئے لکھنے کے علاوہ مجھے کچھ چارا نہیں تھا.کہتے ہیں کھانا کھانے کے بعد دعا کر کے ہم لوگ وہاں سے نکل گئے.ہم لوگ مع صدر دوسرے گھر میں دعا کے لئے گئے.کہتے ہیں کہ آدھے گھنٹے کے بعد مکرم ناظم صاحب مال کے ساتھ صدر صاحب کی کار میں جب ہم مسجد پہنچے تو مسجد کے سامنے ہی وہ صاحب کھڑے تھے.مکرم ناظم صاحب مال اور خاکسار کار میں ہی بیٹھے ہوئے تھے کہ مکرم سلیمان صاحب نے آ کر پلاسٹک کا ایک لفافہ دیا اور کہنے لگے کھانے کے بعد مٹھائی بھی کھانی چاہئے.انسپکٹر صاحب کہتے ہیں میں نے کہا کہ مولوی صاحب یعنی ناظم صاحب مال جو ہیں ان کو تو شوگر ہے.انہوں نے مٹھائی نہیں کھانی، میں کھالیتا ہوں.ناظم صاحب لفافہ مجھے پکڑانے لگے تو یہ صاحب جن کا چندے کا وعدہ تھا، جو مٹھائی کھانے کے لئے لفافہ پکڑا رہے تھے، کہنے لگے کہ مولوی صاحب اس لفافے کو دیکھ کر اور دعا کر کے دیں.خیر مولوی صاحب نے جب لفافہ کھولا تو گنگ ہو گئے.اُن سے کچھ بولا نہ گیا.کہتے ہیں دوبارہ میں نے اُن سے پوچھا، پھر بھی نہیں بولا گیا.اُس کے بعد ناظم صاحب یعنی مولوی صاحب نے لفافہ ان کو دے دیا.کہتے ہیں کہ جب میں نے دیکھا تو اُس کے اندر پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے تھے.کہتے ہیں میری آنکھوں سے تو آنسو جاری ہو گئے اور اُن کے لئے دعائیں بھی نکلنے لگ گئیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے انتظام فرمایا اور انہوں نے یہ چندہ کی ادائیگی کی.صدر صاحب بریمپٹن کینیڈا لکھتے ہیں کہ ایک دوست جو یو ایس اے سے یہاں کینیڈا آئے تھے.کینیڈا میں رفیوجی کلیم کیا.اُن کا اسائلم کا کیس بھی کافی پیچیدہ ہو گیا.انہوں نے اپنی والدہ کو جرمنی بھجوانے کے لئے پانچ ہزار ڈالر کی رقم جمع کر رکھی تھی.جب ان سے چندے کے سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نہ صرف پانچ ہزار ڈالر کی رقم جو انہوں نے جمع کر رکھی تھی ادا کر دی بلکہ اس کے علاوہ بھی جو کچھ ان کے پاس تھا، وہ بھی دے دیا.خدا تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں ان کو فضلوں سے نوازا.اُن کا اسائلم کا کیس بغیر کسی مزید دشواری کے پاس ہو گیا بلکہ اُن کی والدہ بھی ہفتہ کے بعد جرمنی کے لئے روانہ ہوگئیں.
خطبات مسرور جلد 11 12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء ناروے کے امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ایک لوکل جماعت میں مسجد بیت النصر کی تعمیر کی طرف توجہ دلائی گئی تو کچھ ہی دیر بعد انتہائی سرد برفباری کے موسم میں عبدالرحیم احمدی صاحب (مرحوم) مشن ہاؤس پہنچے اور درخواست کی کہ ان کے پاس ستر ہزار کرونرز کی رقم موجود ہے، وہ یہ سب مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کرنا چاہتے ہیں.تو اس طرح بعض لوگ بالکل لا پرواہ ہو کے کسی بھی فکر سے آزاد ہو کے اللہ تعالیٰ کی خاطر خرچ کرتے ہیں کیونکہ اُن کو علم ہے کہ نیک نیتی سے دیا گیا اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پائے گا اور بہر حال اللہ تعالیٰ پھر اُس کا بدلہ دیتا ہے.یہ چند واقعات میں نے بیان کئے ہیں.یہ توقر بانیوں کی داستانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو مالی قربانی کا عہد کر کے پھر پورا کرنے کے لئے ہر کوشش کرتے ہیں.اس کے بعد اب میں جیسا کہ جنوری کے شروع میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے، وقف جدید کے 56 ویں سال کا اعلان کروں گا اور گزشتہ سال کی کچھ رپورٹ پیش کروں گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سال 55 میں جو 2012ء گزشتہ سال تھا جو 31 دسمبر کو ختم ہوا، جماعت نے پچاس لاکھ دس ہزار پاؤنڈ کی قربانی پیش کی.گزشتہ سال کے مقابلہ میں تین لاکھ سترہ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے.پاکستان تو اپنی پوزیشن قائم رکھتا ہی ہے، اس کے علاوہ پھر بیرونی دنیا میں نمبر دو کہ لیں یا بیرونی دنیا کا اگر مقابلہ کریں تو نمبر ایک سے شروع کریں، تو اس دفعہ آپ لوگوں کے لئے بھی خوشی کی یہ خبر ہے کہ اس دفعہ وقف جدید میں برطانیہ بیرونی دنیا میں نمبر ایک پر ہے.امریکہ نمبر دو پر، جرمنی نمبر تین پر، کینیڈا چار، انڈ یا پانچ ، آسٹریلیا چھ، انڈونیشیا سات، بیلجیئم آٹھ ، مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے نویں نمبر پر اور سوئٹزرلینڈ دسویں نمبر پر.کرنسی کے لحاظ سے گزشتہ سال کے مقابلہ پر وصولی میں جو نمایاں اضافہ ہوا ہے وہ تین جماعتوں میں ہوا ہے.آسٹریلیا میں 5.42 فیصد، انڈیا میں 5.31 فیصد اور انڈونیشیا نمبر تین ہے 19.25 فیصد.اس کے علاوہ فرانس، ناروے اور ترکی نے بھی گزشتہ سال کی نسبت نمایاں اضافے کئے ہیں.فی کس ادا ئیگی کے لحاظ سے نمایاں جماعتیں یہ ہیں.امریکہ نمبر ایک ہے، گودیسے مجموعی آمد میں نمبر دو پر ہے یعنی پاکستان کے بعد اگر دیکھا جائے تو نمبر دو پر ویسے نمبر تین.لیکن فی کس چندے کے لحاظ سے یہ نمبر ایک ہیں، تقریباً 88 پاؤنڈ فی کس چندہ ان کا بنتا ہے.سوئٹزرلینڈ کا55 پاؤنڈ سے زیادہ بنتا ہے.برطانیہ کا تقریباً 40 ، بیلجیئم 39، کینیڈا تقریباً 32 پاؤنڈ.
خطبات مسرور جلد 11 13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء اس سال شاملین کی تعداد کی طرف بھی توجہ دلائی گئی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقن ممالک نے خاص طور پر توجہ دی ہے اور جو وقف جدید میں شامل ہونے والے ہیں ان کی یہ کل تعداد ، دس لاکھ تیرہ ہزار ایک سو بارہ ہیں.گزشتہ سال چھ لاکھ نوے ہزار تھے.یعنی وقف جدید کا چندہ دینے والوں میں تین لاکھ تیس ہزار نئے شامل ہوئے ہیں.ماشاء اللہ.اور اصل چیز یہی ہے کہ شامل ہونے والوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہر ایک کے ایمان اور ایقان میں اضافہ ہو کیونکہ یہ مالی قربانی بھی ایمان کا بہت ضروری حصہ ہے.شاملین میں تعداد کے اضافہ کے لحاظ سے افریقہ کی جماعتوں میں نائیجیر یا نمبر ایک پر ہے.نمبر دو پر غانا، پھر سیرالیون، پھر بین.پھر نائیجر.پھر بورکینا فاسو.پھر آئیوری کوسٹ.اور چھوٹے ممالک میں کیمرون ، مالی، سینیگال ، ٹو گو، گنی کنا کری نے بھی اضافہ کیا ہے.پھر افریقہ کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جرمنی اور برطانیہ نے سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے.اس سال پہلی دفعہ کہا بیروالوں میں بھی تھوڑی سی کوئی ہلچل ہوئی ہے، وہ بھی نمایاں طور پر سامنے آئے ہیں.افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی پانچ جماعتیں نمبر ایک پر گھانا ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ اس اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھنے والے ہوں.پھر نمبر دو پر نائیجیریا.نمبر تین پر ماریشس.چار پر بورکینا فاسو اور پانچ پر بین.پاکستان کی پہلی تین جماعتوں میں پہلے نمبر پر لاہور.دوسرے پر ربوہ.تیسرے میں کراچی.بالغان میں اضلاع کی پوزیشن راولپنڈی نمبر ایک.پھر اسلام آباد.پھر فیصل آباد.پھر شیخو پورہ.پھر گوجرانوالہ.پھر عمرکوٹ.پھر گجرات.پھر نارووال.حیدرآباد اور سانگھڑ.اطفال میں تین بڑی جماعتیں جو ہیں اُس میں پوزیشن یہ ہے.لاہور نمبر ایک.کراچی نمبر دو اور ربوہ نمبر تین.اطفال میں ضلع کی پوزیشن کے حساب سے نمبر ایک راولپنڈی.پھر اسلام آباد.پھر فیصل آباد.پھر عمر کوٹ.عمر کوٹ بھی مقابلہ بڑا غریب ضلع ہے لیکن اللہ کے فضل سے قربانیوں میں پیش پیش ہے.پھر گجرات پھر حیدر آباد، پھر اوکاڑہ اور بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان.مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی دس جماعتیں یہ ہیں.رینیز پارک نمبر ایک.برمنگھم ویسٹ نمبر دو.پھر دوسٹر پارک.پھر نیو مالڈن.پھر ویسٹ کرائیڈن.پھر برمنگھم سینٹرل.پھر بیت الفتوح.پھر.پھر ارلز فیلڈ اور ومبلڈن.
خطبات مسرور جلد 11 14 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی پہلی پانچ ریجن یہ ہیں.نمبر ایک مڈلینڈز.پھر ساؤتھ ریجن.پھر لنڈن.پھر مڈل سیکس.پھر نارتھ ایسٹ.وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں ہیں.لاس اینجلس ان لینڈ ایمپائر.سلیکون ویلی نمبر دو.پھر ڈیٹرائٹ ،سیٹل اور شکا گوویسٹ.وصولی کے لحاظ سے جرمنی کے ریجن یہ ہیں.ہیمبرگ نمبر ایک پر.ہیمبرگ بھی ماشاء اللہ بڑی ترقی کر رہا ہے.فرینکفرٹ نمبر دو.پھر گروس گیراؤ.پھر ڈار مسٹڈ.ویز بادن.مائن فرانکن.بیسن ویسٹ.نو ڈرائن.بیسن متے اور بادن.وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی پہلی دس جماعتیں رونڈر مارک.نوکس، بینوور، فرید برگ، اور گینز ھائم.ہائیڈل برگ.فلڈا.فرائنز ھائم.وائن گارٹن اور موئر فلڈن.دفتر اطفال میں وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی پانچ جماعتیں ہیں.کیلگری.پیس ولیج ساؤتھ.ایڈمنٹن.ڈرہم.سرے ایسٹ.وصولی کے لحاظ سے بھارت کے صوبہ جات ہیں، کیرالہ نمبر ایک پر، تامل ناڈو نمبر دو، جموں کشمیر، آندھرا پردیش ، ویسٹ بنگال، کرناٹک، اڑیسہ، قادیان پنجاب کو بھی صوبہ میں شامل کیا ہے، اتر پردیش، مہاراشٹرا اور دہلی.وصولی کے لحاظ سے انڈیا کی جماعتیں ہیں.کو شمسیٹو نمبر ایک کالی کٹ نمبر دو.کیرولائی.کنانور ٹاؤن.قادیان.حیدرآباد کلکتہ.پینگاڑی.چنائی.بنگلور اور ریشی نگر.اللہ تعالیٰ سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اُن کے ساتھ وہ رافت اور محبت کرتا ہے.چنانچہ خود فرماتا ہے.وَاللهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (البقرة : 208 ) یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو دی ہے اللہ تعالیٰ ہی کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اُس کی راہ میں صرف کرنا اُس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں.مگر جولوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں.مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے.سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو ما دام الحیات
خطبات مسرور جلد 11 15 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4 جنوری 2013ء وقف کر دے تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 364.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اللہ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کرنے میں ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والے ہوں.اس کے علاوہ ایک دعا کی تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں.لیبیا میں آج کل احمدیوں کے لئے حالات بڑے شدید خراب ہیں.حکومت تو وہاں ہے کوئی نہیں.ہر علاقے میں لگتا ہے کہ کچھ تنظیموں کا یا قبائلیوں کا زور ہے اور ہمارے احمدیوں کو بھی پکڑا ہوا ہے.اور بعض جگہ سے یہ بھی اطلاع ہے کہ ٹارچر بھی دیا جا رہا ہے.بہر حال پولیس نے علماء کے کہنے پر تنظیموں کے کہنے پر اُن کو پکڑ کے بند کیا ہوا ہے اور وہاں وہ احمدی کافی پریشانی میں ہیں.خاص طور پر جو غیر لیسبین ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کی بھی رہائی کے اور آسانی کے سامان پیدا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 25 جنوری 2013 ء تا 31 جنوری 2013 ء جلد 20 شماره 4 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 16 2 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء بمطابق 11 صلح 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج بھی میں اُس پاک گروہ کے چند افراد کی خوابوں اور واقعات کا ذکر کروں گا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ پایا اور اُن آخرین میں شامل ہوئے جو پہلوں سے ملائے گئے.یہ ہر واقعہ جہاں ان صحابہ کی پاک باطنی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار ہے، وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا بھی ثبوت ہے.پہلی روایت حضرت ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحب کی ہے.وہ فرماتے ہیں کہ حضور کے وصال کے چند سال بعد میں نے خواب میں آپ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے مکان میں دیکھا جبکہ یہ مکران بلوچستان میں تھے.کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ سب نہایت خوش و خرم تھے.دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو آپ نے ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ، یہ انہی کو جانتے تھے ) فرمایا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں.دوبارہ دریافت فرمایا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.یہ بیان کرنے والے فرماتے ہیں کہ میں نے اپنا سر کچھ ندامت سے نیچے کر کے پھر جو دیکھا تو تینوں حسینان غائب تھے.شکلِ مبارک میں رسول کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملتے جلتے دیکھا.(یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ ثبوت دیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظلن کے طور پر آئے ہیں ).(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 91.روایات حضرت ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحب) پھر حضرت میاں غلام حسن صاحب بھٹی کی روایت ہے.فرماتے ہیں کہ میں فتا پور (فتح پور) تعلیم حاصل کرتا تھا، پھر دو تین سال کے بعد میرے دوست میاں لال دین آرائیں جو ایک مخلص اور نیک
خطبات مسرور جلد 11 17 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء اور راست گو آدمی تھے، انہیں رات کو خواب میں آیا کہ میں (یعنی وہ، میاں لال دین صاحب ) جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوا ہوں.حاضر ہونے پر میں نے حضور کو السلام علیکم عرض کیا.حضور نے وعلیکم السلام فرما کر فوراً فرمایا کہ میاں لال دین! آ گئے ہو؟ تو میں نے عرض کیا جی ہاں آ گیا ہوں.حضور ایک کرسی پر رونق افروز تھے اور آپ کی دائیں طرف ایک کرسی پر ایک اور شخص بیٹھا تھا.حضور نے فرمایا کہ میاں لال دین! تو نے اس آدمی کو پہچانا ہے؟ یہ مہدی ہے.اُسے پہچان لے.میں نے عرض کیا جناب میں نے پہچان لیا ہے.کہتے ہیں، میاں لال دین صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ میں نے جو مہدی کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ اُن کے چہرے سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس خواب کے دیکھنے پر اُن کی طبیعت (یعنی میاں لال دین صاحب کی طبیعت) فوراً خدا تعالیٰ کی طرف جھک گئی اور بال بچوں کو نماز کی تلقین شروع کی.خود مسجد میں زیادہ جاتے.لوگوں نے انہیں دیوانہ تصور کیا اور دیوانگی کا علاج کرنے لگے.مولوی سلطان حامد صاحب احمدی مرحوم ایک زبر دست حکیم تھے.انہوں نے جب یہ خواب سنی تو فوراً قادیان کی طرف روانہ ہو پڑے.اُس وقت مہدی کی آمد کی مشہوری تھی.مولوی صاحب کی روانگی پر میاں لال دین نے ان کو فرمایا کہ حضرت صاحب سے میرے لئے بھی دعا طلب فرماویں.جب مولوی صاحب مذکور بیعت کر کے واپس آئے ( یعنی مولوی سلطان حامد صاحب) تو میاں لال دین نے اُن سے دریافت فرمایا کہ میرے لئے دعا آپ نے حضرت صاحب سے منگوائی تھی.مولوی صاحب نے فرمایا کہ بھائی میں بھول گیا ہوں.میاں لال دین صاحب نے فرمایا کہ اچھا آپ قادیان سے ہو آئے ہیں لیکن میں نہیں گیا، آپ مجھ سے قادیان کا حال دریافت فرمالیویں.( یعنی گو میں گیا تو نہیں لیکن میں نے خواب میں جو نظارے دیکھے ہیں ، وہ سارا حال بیان کرسکتا ہوں ) چنانچہ انہوں نے قادیان کا نقشہ خواب میں جو دیکھا تھا، خوب کھینچ دیا.مولوی صاحب متحیر ہو گئے.مولوی صاحب کی زبانی گفتگو سن کر ( جو انہوں نے قادیان کے واقعات بیان کئے ، یہ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ) ہم تین آدمی یعنی منشی کرم الہی گرد اور ( گرد اور محکمہ مال کا ایک پٹواری اور گرداوری عملے کا کارکن ہوتا ہے جو کھیتوں میں فصلوں کی پیمائش وغیرہ اور جو لگان لگتا ہے اُس کے لئے مقرر کیا جاتا ہے.بہر حال محکمہ مال کے ملازم کو جو گاؤں میں متعین ہوتا ہے اُس کو گرداور بھی کہتے ہیں.تو کہتے ہیں ) منشی کرم الہی صاحب گرداور، میاں رمضان دین میانہ اور میں نے بیعت کے خط تحریر کر دیئے.( یہ وضاحت میں اس لئے بیان کر دیتا ہوں کہ بعض ترجمہ کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں بعض باتوں کا پتہ نہیں لگتا ) کہتے ہیں اس کے چند ماہ بعد
خطبات مسرور جلد 11 18 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء میاں لال دین اور میں اور میاں محمد یار اور مراد باغبان ( یعنی مراد نامی باغبان تھے ).چاروں نے مل کر قادیان جانے کا قصد کیا.ہم پیدل چل کر رات کو میاں چنوں کے سٹیشن پر پہنچے.پچھلی رات اُٹھ کر نفل پڑھے.پھر میاں لال دین نے رات کو خواب سنایا کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ گدھے کے لے آنے کا کیا فائدہ ہے.( رات کو میاں لال دین نے خواب دیکھی کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ گدھے کو لے آنے کا کیا فائدہ ہے) تو انہوں نے اصرار کیا (میاں لال دین صاحب نے اس بات پر پھر یہ اصرار کیا کہ ) بھائی ہم میں سے کون ہے جو منافقانہ ایمان رکھتا ہے.( یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ گدھے کو لے کے آئے ہو، اس کا مطلب ہے کہ یقیناً ہم میں سے کوئی منافقانہ ایمان رکھنے والا ہے.فرداً فرداً انہوں نے ان چاروں میں سے ہر ایک سے پوچھا.تو مراد باغبان بولا ( مراد نامی جو باغبان تھا، اُس نے کہا ) کہ میں تیرے لئے آ رہا ہوں کہ تم اس جگہ ٹھہر نہ جاؤ، ورنہ میں بیعت تو نہیں کروں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.علی ھذا القیاس.ہم گاڑی پر سوار ہو کر بٹالہ اتر کر میاں لال دین کی رہنمائی سے قادیان پہنچے.ہم قادیان میں بالا مسجد ٹھیک دو پہر کے وقت داخل ہوئے.کھانا کھانے کا وقت تھا، کپڑے وغیرہ ہم نے وہیں رکھے.(غالباً یہ مسجد مبارک کے اوپر کے حصہ کی بات کر رہے ہیں ) کہتے ہیں کپڑے وغیرہ ہم نے وہیں رکھے.ایک شخص نے آواز دی کہ کھانا تیار ہے.سب بھائی آ جاؤ.ہم تقریباً اس وقت دس بارہ آدمی تھے، اکٹھے ہو گئے.ایک شخص نے انہی میں سے ہم سے پوچھا کہ تمہارا گھر کس ضلع میں ہے.میاں لال دین نے جواب دیا کہ ملتان میں.اُس نے پھر پوچھا کہ تم کو کس طرح شوق ہوا کہ اس طرف آئے.میاں لال دین نے مذکورہ تمام خواب سنایا.اُس نے کہا کہ اب تم حضرت صاحب کو پہچان لو گے.تو میاں لال دین نے کہا کہ انشاء اللہ ضرور.چنانچہ نئے آدمی جو آتے جاتے رہے.وہ آدمی جو بھی ان کا میزبان تھا ان کو آزمانے کے لئے ان سے پوچھتا رہا کہ یہ ہیں مسیح موعود؟ تو میاں لال دین نے کہا کہ یہ نہیں ہیں.مختلف آدمیوں کے متعلق انہوں نے پوچھا کہ یہ ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں ، یہ نہیں ہیں.کیونکہ میں نے خواب میں جو دیکھ وہ کچھ اور شخص تھا.لیکن جب حضرت صاحب نے طاقچی سے جھانک کر مسجد میں دیکھا، (جو تھوڑی سی کھڑکی تھی وہاں سے جھانک کر جب مسجد میں دیکھا ) تو میاں لال دین نے فوراً کہا کہ وہ حضرت صاحب ہیں.وہی نور مجھے نظر آ گیا ہے جو میں نے خواب میں دیکھا تھا.اُس آدمی نے کہا ٹھیک ہے، ہم ٹھیک کہہ رہے ہو.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 92 تا 95 - از روایات حضرت میاں غلام حسن صاحب بھٹی )
خطبات مسرور جلد 11 19 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ،بابو میراں بخش صاحب ( یہ دونوں صحابی ہیں، اسماعیل صاحب بھی صحابی تھے ، وہ بابو میراں بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ) با بو میراں بخش صاحب جو تین سو تیرہ کی فہرست میں شامل تھے، بیمار ہو گئے.اُن کے علاج کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے.یہاں پورا ایک ماہ علاج کرایا اور اس عرصہ میں حضرت اقدس سے ملاقات ہوتی رہی.( یہ بیعت سے پہلے کی بات کر رہے ہیں ) کہتے ہیں تین رات خوا ہیں آئیں.آخری رات ایک ہیبت ناک انسان تلوار ہاتھ میں لے کر سخت ڈراتا ہے کہ جلدی بیعت کرو.خیر انہوں نے صبح بیعت کر لی.بیعت کرنے کے بعد پھر جب اس کے علاج کے بعد وہاں سے رخصت ہوئے تو اُس کے بعد کہتے ہیں کہ پھر خط و کتابت سے ہمارا رابطہ رہا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 178 - از روایات حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب) حضرت میاں سوہنے خان صاحب فرماتے ہیں کہ میرے گھر میں ایک بھینس تھی.اُس نے بچہ دیا.ہمارے گاؤں میں رسم ہے کہ پہلے روز کے دودھ کی کھیر پکا کر فتح علی شاہ کے خانقاہ پر وہاں کوئی سید شاہ تھا، اُس کی خانقاہ پر ) چڑھاتے تھے، (پیروں فقیروں کو پوجنے والوں کا یہی اصول ہوتا ہے ) تو کہتے ہیں میری بیوی نے بھی کھیر پکائی اور میرے والد اور چا کو دعوت کھانے کی دی.انہوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں کھائیں گے، وہ کافر ہو گیا ہے.(انہوں نے یعنی میاں سوہنے خان نے بیعت کر لی تھی، وہ کافر ہو گیا ہے اس لئے اس کے گھر کے جانور کی ہم کھیر نہیں کھائیں گے ) میری بیوی نے مجھے کہا کہ میں نے کھیر کی دعوت کی.انہوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں کھائیں گے، وہ کا فر ہو گیا ہے.اس روز کہیں باہر سے ایک حکیم آیا ہوا تھا.وہ ہمارے چچا صاحب کا دوست تھا.وہ ملنے آیا.میں نے کھیر برتن میں ڈال کر اُس حکیم کے آگے رکھ دی.اُس نے ختم دے کر کھالی.( یعنی دعا پڑھ کے اُس نے کہا ٹھیک ہے.جو بھی ہو.دعا پڑھ کے اُس نے کھالی ) بہر حال اُس نے ( یعنی حکیم صاحب نے ) مجھے پوچھا کہ تم کو کیا سکھایا ہے.( یعنی بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا سکھایا ہے.) میں نے عرض کیا کہ پانچ گانہ نماز پڑھو( یعنی پانچ وقت نماز پڑھو) درود شریف پڑھو اور مجھے سچا مہدی مانو.یہ باتیں بتائی ہیں.حکیم صاحب نے فرمایا کہ تم نے دریافت کرنا تھا کہ کس درود شریف پڑھنے سے یا کس آیت قرآنی پڑھنے سے زیارت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو جائے اور کس درود شریف پر آپ کا عمل ہے.میں نے اُسی روز حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا.جو حکیم صاحب نے سوال پوچھے تھے وہ لکھ دیئے.کہتے ہیں
خطبات مسرور جلد 11 20 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء میں چشتیا نہ فرقہ کا خادم تھا ، جو ذکر پاس انپاس ، یعنی اللہ ہو ، اور ذکر لا الہ جسے چشتیہ خاندان میں ذکر سلطان الاذکار سمجھتے ہیں وہ کیا کرتا تھا.خیر جس قدر واقفیت تھی میں یہ پڑھتا تھا.میں نے اور ان ذکروں کے علاوہ بھی جتنے وظیفے مجھے پتہ تھے، وہ بھی لکھ دیئے.( کل وظیفے لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج دیئے ).حضرت صاحب نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ میرا زمانہ ابتدائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.( یعنی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا، وہ میرا زمانہ ہے ) جو ذکر تم نے لکھے ہیں، یہ سب کرنے فضول ہیں، منع ہیں.اس زمانے میں یہ تاثیر نہیں کریں گے.میرے جو ذکر ہیں وہ وہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے.یعنی سورۃ فاتحہ پڑھو، الحمد شریف ، درود شریف پڑھو، استغفار بہت زیادہ کرو.لاحول پڑھو.یہ فیض رساں ہوں گے، ان سے فائدہ ہوگا.اور فرمایا کہ میراکل درود شریف پر عمل ہے.جتنے بھی درود شریف ہیں جو حدیث شریف میں آئے ہیں اُن پر میرا عمل ہے.اُن سب کو میں ٹھیک مانتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا کہ شرط یہ ہے کہ جس وقت درود شریف پڑھو، اگر تم سمجھتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو جائے تو محبت رسول مقبول کی دل میں قائم کرو.اور محبت بچوں کی (یعنی ہر ایک کی ) چھوڑ دو.ہر دوسری محبت کو چھوڑ دو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو سب سے زیادہ دل میں قائم کرو.کہتے ہیں میں نے درود ہزارہ پڑھنا شروع کر دیا.(اُس وقت کیونکہ غیر احمدیوں کا بھی اثر تھا ) درود ہزارہ پڑھنا شروع کر دیا.( یہ ہزارہ درود شریف بھی ان کے ہاں ایک ہے جو تہجد کے وقت ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتے ہیں.اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ کے بعد پھر ان کے کچھ اپنے الفاظ ہیں.بہر حال اس کو یہ درود ہزارہ کہتے ہیں.کیونکہ نئے نئے احمدی تھے، کہتے ہیں یہ درود شریف میں نے پڑھنا شروع کر دیا.درود ہزارے کا مطلب ہے کہ ہزار دفعہ درود شریف تہجد کی نماز کے وقت.عام طور پر یہ شہور ہے کہ اگر اُس کو پڑھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہو جاتا ہے.بہر حال کہتے ہیں میں نے پڑھنا شروع کیا.تھوڑے ہی دن گزرے، خواب اور عالم شہود میں مرزا صاحب تشریف لائے اور مجھ کو ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اور نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر کر دیا.وہاں لوگ قطاریں باندھے کھڑے تھے اور سرور کائنات تختِ مبارک پر بیٹھے تھے.مگر ہم کو پچھلی سطر میں پچھلی لائن میں جگہ ملی.جناب مرزا صاحب نے بآواز بلند عرض کیا کہ اے سرور کائنات ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.ہم نے سوہنے خان کی بابت اچھا انتظام کر دیا.اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور جو کچھ سوہنے خان کی بابت انتظام کیا ہے، ہم نے منظور کیا
خطبات مسرور جلد 11 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء ہے.کچہری میں حاضر رہے.(یعنی یہاں بیٹھے رہے.یہ اپنی خواب بیان کر رہے ہیں.کہتے ہیں اور چند بزرگوں کی میں نے وہاں زیارت کی.مرزا صاحب خواب میں اجازت لے کر مجھے وہاں اُس مجلس سے واپس لے آئے ، اور میرے مکان پر چھوڑ آئے.جو بزرگ سابقین ولی اللہ گزرچکے ہیں، حضرت میراں جی سید صبح شریف والوں نے مجھے کو خواب روحانی میں بیعت کر لیا.فرمایا، مرزا صاحب کا ہمارا ایک ہی روپ ہے.وہ مہدی اور ہم بھی مہدی.ایک بزرگ سلطان ریاست کپورتھلہ خواب میں اُن کی ملاقات ہوئی.وہ بزرگ کامل تھے.انہوں نے فرمایا وہ مہدی ہے اور عیسی ہے.ہمارا اُن کا ایک ہی روپ ہے.( یہ اپنی خوابوں کا ذکر کر رہے ہیں ) پھر کہتے ہیں کہ جب کرم دین کے ساتھ مرزا صاحب کا مقدمہ تھا تو میرے نزدیک یہاں پر یعنی اُن کے علاقے میں جہاں یہ رہتے تھے.اُس جگہ گاؤں میں ، قصبہ میں احمدی کوئی نہیں تھا.تمام لوگ کہتے تھے کہ مرزا صاحب اس مقدمے میں قید ہو جائیں گے.اُس وقت غم میں آکر میاں حبیب الرحمن حاجی پور والے کے پاس پہنچا.حبیب الرحمن صاحب نے فرمایا کہ فکر مت کرو.درود شریف پڑھ کر دعا کرو.میں نے کثرت سے درود شریف اور الحمد شریف پڑھا اور دعا کرتا رہا.چند روز میں خواب میں ایک شخص ایک لڑکے کی لاش لے کر اور وہ لاش سات رومال میں لپٹی ہوئی تھی لے کے آیا اور میرے پاس رکھ دی.میں نے اُس کو کہا، یہ کیا ہے؟ اُس نے کہا دیکھ.میں نے اُس کے رومال اتارنے شروع کئے.جب چھیواں رومال اُتارا ( یعنی کپڑا اُس لاش پر سے اُتارا) تو میں نے کہا یہ بندر کی شکل ہے جو مرزا کا مدعی ہے.( یعنی جس نے حضرت مرزا صاحب کے خلاف دعوی کیا ہوا ہے ) میں وہاں یعنی کو ٹھے پر بیٹھا تھا، خواب میں اُس کو نیچے گرادیا.اُس مردہ لاش کو نیچے گرا دیا.پھر کہتے ہیں میں نے یہ خواب لکھ کر حضرت مرزا صاحب کو بھیجا.حضور نے فرمایا کہ اسی طرح اس کا پردہ فاش ہو گا.(چنانچہ پردہ فاش بھی ہوا.) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 195 تا 199 - از روایات حضرت میاں سوہنے خان صاحب) ڈاکٹر عبد الغنی صاحب کڑک انجام آتھم پڑھ لینے کے بعد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے اب کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا اور نماز بھی پڑھنی شروع کر دی جس کی مجھے اس سے قبل عادت نہ تھی.میں نے اس اثنا میں ایک رؤیا دیکھی کہ میں ایک ایسی جگہ پر ہوں کہ میرے سامنے ایک مینار ہے اور مینار کے ساتھ ایک دروازہ ہے جو پرانے فیشن کا موقع تختوں کا (پرانے فیشن کا تختوں کا دروازہ ہے ) کارکڈ (Carked) دروازہ ہے.(میرا خیال ہے یہ کا روڈ ، Carved ہوگا ) اس دروازے کو میں کھول کر اندر جانا چاہتا ہوں، مگر وہ کھلتا نہیں.میں نے زور سے جو اُسے دھکا دیا تو ایسا معلوم ہوا کہ میں دروازہ کھلنے کے
خطبات مسرور جلد 11 22 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء ساتھ ہی اندر جا پڑا ہوں مگر گرانہیں.پھر میں دیکھتا ہوں کہ وہاں پر پارک ہی پارک ہیں.( بہت بڑے بڑے پارک ہیں ) جہاں پر روشیں ہیں ، پھولوں کے پودے لگے ہوئے ہیں.اُن میں سے گزرتے ہوئے میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ گاڑی لاہور جانے کے لئے تیار ہے، مگر میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے.(خواب بیان کر رہے ہیں ).اس اثناء میں ایک شخص جو سانولے رنگ کا ہے اور مجھے وہ ڈرائیور معلوم ہوتا ہے مجھے کہتا ہے کہ کچھ حرج نہیں اگر تمہارے پاس ٹکٹ نہیں تو ٹرین کی سلاخوں کو پکڑ لو اور لٹک جاؤ مگر دیکھنا سونہ جانا.چنانچہ میں نے ان سلاخوں کو پکڑ لیا اور مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیندسی آ رہی ہے، اُس وقت میں نے سلاخوں کو بھی پکڑا ہوا ہے اور مٹھیوں سے آنکھوں کو بھی ملتا جاتا ہوں تا کہ سو نہ جاؤں.اس اثناء میں میری آنکھ کھل گئی.( خواب میں یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے ) کہتے ہیں میں نے یہ رویا محمد امین صاحب سے بیان کی.انہوں نے کہا کہ اب آپ پر سچائی کھل گئی ہے.بیعت کر لیں.(وہ احمدی تھے.) میں نے کہا کہ قادیان جا کر بیعت کرلوں گا.انہوں نے کہا کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں.ایک کارڈ جو انہوں نے اپنی جیب سے نکال کر مجھے دیا.( جوابی کارڈ تھا) انہوں نے کہا کہ ابھی اسے لکھ دو.چنانچہ میں نے بیعت کا خط لکھ دیا اور محمد امین صاحب اُسے پوسٹ کرنے کے لئے گئے.یہ 1907ء کا واقعہ ہے.اس کے دو یا تین دن بعد مجھے جواب ملا کہ بیعت حضرت اقدس نے منظور فرمالی ہے اور لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ استقامت بخشے اور ساتھ یہ لکھا ہوا تھا کہ نماز بالالتزام پڑھا کرو اور درود شریف بھی پڑھا کرو.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 214-215 - از روایات حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑک) مکرم میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ والد صاحب سے احمدیت سے پہلے بھی الہامات کا سلسلہ جاری تھا اور قبول احمدیت کے بعد یہ سلسلہ بہت ترقی کر گیا.احمدیت کی بدولت آپ کو رویت باری تعالیٰ بھی ہوئی.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کافی دفعہ ہوئی.حضرت عمرؓ اور دوسرے بزرگوں کی زیارت وقتا فوقتا ہوتی رہتی تھی.پھر یہ اپنے والد صاحب کے بارے میں ہی لکھتے ہیں کہ ایک دن مسجد محلہ دار الرحمت میں کسی بات میں چند دوستوں کو ر و یا سنائی جن میں سے ایک دوست تو جناب ماسٹر اللہ دتہ صاحب مرحوم گجراتی تھے.بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک صحابی تھا، اُس کو روزانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری ہوتی تھی.وہ صبح کو وہ کشف حضرت کے حضور پیش کرتے ، ( یعنی روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ کشف یا رویا جو تھے وہ پیش کرتے تھے ) اور حضور اُس پر
خطبات مسرور جلد 11 23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء اپنی قلم سے درست ہے یا ٹھیک ہے، لکھ دیتے تھے.والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ یہ غلط باتیں ہیں.( یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ روز روز حضوری ہو رہی ہے اور روز ہی دیدار ہو رہا ہے.تو کہتے ہیں) قریب تھا کہ یہ وسوسہ زیادہ شدید ہو جائے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرا دامن پکڑ لیا اور مجھ کو غرق ہونے سے بچالیا.(وہ کس طرح بچایا؟) کہتے ہیں رات کو میں بھی خواب میں اپنے آپ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پاتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی وہاں پر تشریف فرما ہیں.حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے سوال کیا کہ حضور ! مکہ کی نسبت تو یہ آیا ہے کہ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا.کہ اس میں جو داخل ہو گیا امن میں ہو گیا.پھر یہ ملکہ جناب کے لئے تو جائے امن نہ بنا.( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو امن کی جگہ نہیں بنا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں جا کر پناہ لینی پڑی.( یہ خواب اپنی بیان کر رہے ہیں) کہتے ہیں اس کے جواب میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تو ہے کہ مکہ کو کوئی فتح نہیں کر سکتا.میں نے اس کو فتح بھی تو کر لیا.کیونکہ یہ میرے نکالے جانے کی وجہ سے میرے لئے حل ہو گیا کہ میں اس کو فتح کروں.اور بھی کچھ خواب کا حصہ بیان کیا.لیکن کہتے ہیں کہ میں کم علمی کی وجہ سے پورے طور پر اُس کو یاد نہیں رکھ سکا، بھول گیا ہوں.پھر کہتے ہیں اُس کے بعد والد صاحب نے کہا کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس خواب کے بعد تہجد کا وقت تھا.تہجد ادا کی اور مسجد میں چلا گیا.صبح کو وہی دوست پھر تشریف لائے اور انہوں نے رات کی سرگذشت کا پی پر لکھی ہوئی حضور کے سامنے رکھ دی.حضور نے پھر اس پر اپنی قلم سے تصدیق فرما دی.میں نے وہ پڑھا تو وہی خواب جو کہ میں عرض کر چکا ہوں یعنی وہی سوال اور وہی جواب ہے جو میں نے عرض کیا ہے.( یعنی ان کو بھی جو خواب آئی تھی ، وہی اُس دوست نے بھی سنائی.) اس طرح کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے اُس وقت میری دستگیری فرمائی اور مجھے ہلاکت سے بچالیا کہ یہ خوا ہیں جو بیان کرتے ہیں وہ سچی خوا میں ہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 272 تا 274 از روایات حضرت مولوی جلال الدین صاحب) اس طرح حضرت مولوی فضل الہی صاحب ( 1892ء کی ان کی بیعت ہے ) بیان کرتے ہیں کہ بندہ کو امرتسر جناب قاضی سید امیرحسین صاحب مرحوم کے پاس آنے سے احمدیت کا علم ہوا.بندہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے ایام میں بہت دعا استخارہ کی اور دعا میں یہ درخواست تھی کہ مولیٰ کریم ! مجھے اطلاع فرما کہ جس حالت میں اب
خطبات مسرور جلد 11 24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء ہوں یہ درست ہے یا جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے وہ درست ہے؟ اس پر مجھے دکھلایا گیا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں لیکن رُخ قبلہ کی طرف نہیں ہے اور سورج کی روشنی بوجہ کسوف کے بہت کم ہے.جس سے تفہیم ہوئی کہ تمہاری موجودہ حالت کا نقشہ ہے.دوسرے روز نماز عشاء کے بعد پھر روروکر بہت دعا کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں فرمایا کہ اصل دعا کا وقت جوف اللیل کے بعد کا ہوتا ہے.( یعنی آدھی رات کے بعد کا ہوتا ہے.جس طرح بچے کے رونے پر والدہ کے پستان میں دودھ آ جاتا ہے، اسی طرح پچھلی رات گریہ وزاری خدا کے حضور کرنے سے خدا کا رحم قریب آ جاتا ہے.اس کے بعد بندے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی اختیار کر لی.کہتے ہیں اُس کے بعد حضور کی پاک صحبت کی برکت سے یہ فائدہ ہوا کہ ایک روز نماز تہجد کے بعد خاکسار سجدہ میں دعائیں کر رہا تھا کہ غنودگی کی حالت ہوگی جو ایک کشفی رنگ تھا، ایک پاکیزہ شکل فرشتہ میرے پاس آیا جس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت سفید کوزہ پانی کا بھرا ہوا تھا اور ایک ہاتھ میں ایک خوبصورت چھری تھی.مجھے کہنے لگا کہ تمہاری اندرونی صفائی کے لئے میں آیا ہوں.اس پر میں نے کہا بہت اچھا.آپ جس طرح چاہیں صفائی کریں.چنانچہ اُس نے پہلے چھری سے میرے سینے کو چاک کیا اور اس کوزہ کے مصفی پانی سے خوب صاف کیا لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی خوف کی حالت پیدا ہوئی.جب وہ چلے گئے تو میں نے خیال کیا کہ اب میں نے صبح کی نماز ادا کرنی ہے اور یہ تمام بدن چرا ہوا ہے.نماز کس طرح ادا کر سکوں گا.اس لئے ہاتھ پاؤں کو ہلانا شروع کیا تو کوئی تکلیف نہ معلوم ہوئی اور حالتِ بیداری پیدا ہوگئی.اس کے بعد نماز فجر ادا کی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 12 صفحہ 322-323- از روایات حضرت مولوی فضل الہی صاحب) حضرت میاں جان محمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں نے خدا کے فضل سے بچپن میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت نہیں کی.باوجود باتیں سنے کے کبھی مخالفت نہیں کی ، کیونکہ جس وقت میری عمر قریباً پندرہ سولہ سال کی تھی کہ میں اپنے والد صاحب مرحوم کے ہمراہ ملتان چھاؤنی آیا تھا.کیونکہ میرے والد صاحب مرحوم ایک سیٹھ کے پاس منشی مقرر تھے اور میں اُس وقت بیرک ماستری میں چار آنے یومیہ پر مزدوری لیتا تھا.( یعنی کوئی مالستری چھاؤنی ہوگی، شاید بیر کس کا ذکر کر رہے ہیں مزدوری پر کام کرتا تھا.اتفاقاً ملتان میں عید رمضان آگئی.چنانچہ روزے رمضان شریف کے بھی رکھے اور عید الفطر پڑھ کر اور سیر وغیرہ کر کے عصر کے بعد مجھے نیند آ گئی اور میں چار پائی پر سو گیا.چونکہ گرمی کے دن تھے.میں عصر کا سویا ہوا صبح تک سویا رہا.چنانچہ سحری کے وقت مجھے خواب آیا.وہ خواب یہ ہے کہ میں عید کے دن اپنے
خطبات مسرور جلد 11 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء قصبہ ہیلاں میں گیا ہوں اور ہم سب مل کر بمع والد صاحب عید گاہ میں نماز پڑھنے کے لئے جارہے ہیں.مگر ہمارے گاؤں کی عید گاہ گاؤں سے مغرب کی طرف ہے اور خواب میں جو مجھے عید گاہ کا نظارہ دکھایا گیا وہ مشرق کی طرف تھا.کہتے ہیں چنانچہ ہم سب مشرق کی طرف روانہ ہوئے اور نماز پڑھ کر جب واپس گھر آ رہے تھے تو راستے میں ایک ریت کا میلہ تھا جس پر ایک چورس پتھر جو بہت خوبصورت تھا، میں اس پر بیٹھ گیا اور میں نے چاہا کہ اس کو ایک طرف ہٹاؤں لیکن وہ چونکہ وزنی تھا، پہلی دفعہ وہ مجھ سے ہٹ نہ سکا.پھر اللہ کا نام لے کر اور بسم اللہ پڑھ کر جب میں نے زور لگایا تو وہ پتھر ایک طرف ہو گیا.نیچے اس کے ایک دروازہ نکل آیا جو بند تھا.میں نے دروازہ کھولا ، آگے ایک ڈیوڑھی نظر آئی.چنانچہ میں ڈیوڑھی میں داخل ہوا.آگے کیا دیکھتا ہوں کہ تین چار پاپوش ( جوتیاں ہیں ) جو بہت عمدہ اور خوبصورت ہیں.میں نے بھی اپنی جوتی وہاں اُتار دی.میری جوتی جو نئی تھی اُن کے ساتھ مل گئی.پھر میں اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بارہ دری بہت خوبصورت بنی ہوئی ہے اور دولڑ کے نہایت خوبصورت قرآن مجید کی تلاوت کر رہے ہیں.جب میں اُن کے پاس گیا تو ان بزرگوں نے میرا نام بلا کر کہا کہ ہم تمہاری بہت انتظار کر رہے ہیں.میں نے عرض کیا کہ میں بھی آنے کو تیار تھا لیکن کام کی وجہ سے فرصت نہیں مل سکی.اب فرصت ملی ہے، اب حاضر خدمت ہو گیا ہوں.پھر میں دوسرے کمرے کی طرف ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ سبز لباس پہنے کرسی پر بیٹھے ہیں اور سامنے میز پر ایک ریل پر حمائل شریف رکھ کر تلاوت کر رہے ہیں.اور ان کا لباس سبز ہے.جب میں اُن کے سامنے ہوا تو انہوں نے میرا نام بلا کر کہا کہ ہم تمہارا بہت انتظار کر رہے ہیں.اس بزرگ نے مجھے پیار سے اپنی بغل میں لے لیا اور پوچھنے لگے کہ تم نے قرآن مجید پڑھا ہوا ہے؟ میں نے عرض کی کہ میں نے سبقاً سات سپارے پڑھے ہوئے ہیں.باقی ویسے ہی خود بخود میں پڑھ لیتا ہوں.چنانچہ انہوں نے قرآنِ مجید کھولا اور مجھ کو کہنے لگے کہ سناؤ.اب جب قرآنِ مجید کھولا گیا تو پہلی آیت جو میری نظر میں آئی ، وہ تِلْكَ الرُّسُلُ تھی اور ان بزرگ کی زبان پر بھی تِلْكَ الرُّسُلُ ہی تھا.یعنی یہ وہ رسول ہیں.اتنے میں وہ بزرگ کہنے لگے کہ اب میں جاتا ہوں.چنانچہ وہ میری آنکھوں سے غائب ہو گئے اور میں حیران ہو گیا کہ خدا جانے یہ کون بزرگ تھے.پھر مجھے غیب سے یہ معلوم ہوا کہ کوئی کہ رہا ہے کہ یہ بزرگ خضر علیہ السلام ہیں اور لڑ کے امام حسن رضی اللہ تعالیٰ اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ ہیں.پھر میری آنکھ کھل گئی.مگر میں پھر دو تین دن اس خواب کے باعث پریشان ہی رہا.جس کے آگے بات کی، کسی نے جواب نہ دیا.(جسے پوچھتا تھا کوئی جواب نہیں دیتا تھا.) اس کے بعد یعنی سات آٹھ سال کے
خطبات مسرور جلد 11 26 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء بعد جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تب وہ میری خواب پوری ہوئی اور وہ بزرگ جو خضر علیہ السلام کی شکل میں خواب میں مجھے نظر آئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی تھے.الحمد للہ کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے.واقعی حضور اس زمانے کے نبی ہی تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 6 صفحہ 13 تا 15 - از روایات حضرت میاں جان محمد صاحب) حضرت مستری دین محمد صاحب فرماتے ہیں کہ شام کو میرے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ جن لوگوں نے پہلے بیعت کر لی، اُن کے نام رجسٹر پر درج ہیں.میرا نام نہیں.رات کو مجھے خواب آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے ہیں.ہاتھ میں قلم ہے.دائیں ران پر رجسٹر ہے اور حضور نے دریافت کیا کہ آپ کا کیا نام اور پیشہ ہے.میں نے عرض کیا کہ مستری دین محمد ، پیشہ لوہار.کہتے ہیں ظہر کے وقت میں نے حضور کو یہ خواب سنائی.حضور نے فرمایا کہ آپ کا نام لکھا گیا ہے.اُس وقت کہتے ہیں مولوی عبدالکریم صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اول بھی تشریف رکھتے تھے.مولوی محمد علی بھی تھے.پھر مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ میرا نام بھی کہیں نہیں لکھا ہوا.جس پر حضور نے کچھ جواب نہ دیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 6 صفحہ 56- از روایات حضرت مستری دین محمد صاحب) حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ 1904ء میں مجھے خواب کے اندر ایک کھیت دکھلایا گیا جس کے گردا گرد بالشت بالشت بھر فاصلے پر موٹے موٹے مضبوط درختوں کی باڑ تھی.صرف کھیت کے اندر جانے کے لئے ایک ہی راستہ تھا اور اسی کھیت میں نہایت ہی سبز لہلہاتی ہوئی گندم کی کھیتی تھی.کھیت سے باہر ایک بیل تھا جو درختوں کے بیچوں بیچ سے اس سبزے کو دیکھ کر اس کے حصول کے لئے ( یعنی کھانے کے لئے بیل ) وہاں کھڑا تھا.اس سبزے کو کھانے کے لئے درختوں کے درمیان سے، جو درمیانی فاصلہ ہوتا ہے اس سے اپنا منہ ڈال کے اس فصل کو کھانے کی کوشش کرتا تھا مگر ہر سوراخ سے نا کامیاب رہتا تھا اور اندر جانے کا جو دروازہ تھا اُس میں وہ داخل نہیں ہوتا تھا.کہتے ہیں خواب میں یہ نظارہ دیکھ کر تفہیم ہوئی کہ دیکھو جس طرح یہ بیل بغیر دروازہ تلاش کئے اپنی مراد کو حاصل نہیں کر سکتا.اسی طرح خدا کے ملنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بمنزلہ دروازے کے ہیں.جب تک کوئی بشر اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا وہ خدا کو نہیں پاسکے گا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس زمانے کا امام اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقرر فرمایا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 6 صفحہ 129 تا 130.از روایات حضرت امیر خان صاحب)
خطبات مسرور جلد 11 27 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں شیخ حامد علی صاحب خادم مہمان خانہ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادم تھے دیکھا کہ آپ عرب کی سوکھی ہوئی کھجوریں مہمانوں میں تقسیم کرنے کے لئے ایک مجمع میں رکھ کر کھڑے ہیں جو سفید کپڑوں سے ڈھانپی ہوئی ہیں.اور جب آپ تقسیم کرنے لگے تو کھجوریں گلگلے کے برابر موٹی ،خوش رنگ ، تر و تازہ ، رس بھری ہیں جن کو آپ تقسیم کئے جاتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ عرب کی سوکھی ہوئی کھجوریں ہیں جو تر و تازہ کر کے آپ لوگوں کو دی جاتی ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے احیائے نو کیا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 6 صفحہ 130 - از روایات حضرت امیر خان صاحب) حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ 19 جنوری 1911 کو میں نے خواب میں ایک سکھ لڑکے کو دیکھا جس کو جن چمٹا ہوا تھا، جس کو لوگ منتروں کے ذریعہ نکال رہے تھے.(جن کو نکالنے کے لئے جس طرح جنتر منتر کرتے ہیں ) اور جلتی ہوئی آگ اس کے نزدیک کر کے اس جن کو ڈرا ر ہے تھے کہ وہ اس ڈر سے نکل جائے.مگر وہ نہیں نکلتا تھا.اس پر خواب کے اندر مجھے اس کا علاج سمجھایا گیا کہ ایک سفید کاغذ لے کر اس پر جن کی شکل بناؤ اور قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الناس پڑھ کر قلم کے ذریعہ جن کی شکل : لکیریں کھینچ کر جن کی شکل کو کاٹ دو.اس لئے بار بار قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر شکل قلم زن کرنے سے چن ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا.چنانچہ میں نے خواب کے اندر اس طریق سے عمل کیا جس سے جن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور لڑ کا تندرست ہو گیا.جس کا نام عطاء اللہ رکھا گیا.جب میں خواب سے بیدار ہوا تو حضرت اقدس کا یہ شعر زبان پر جاری تھا.کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر کوئوئے عثماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ.جلد نمبر 6 صفحہ 141-142 - از روایات حضرت امیر خان صاحب) تو یہ چند روایتیں تھیں جو میں نے سنا ئیں.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات بلند فرمائے اور ایمان کی پختگی ان کی نسلوں میں بھی قائم رہے.اس وقت نمازوں کے بعد میں دو جنازے غائب پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ مکرم عبدالمجید ڈوگر صاحب کا ہے.یہ ربوہ میں لمبا عرصہ رہے ہیں.میرا خیال ہے زندگی تقریباً وہیں گزاری.یا شاید کاروباری معاملات میں باہر جاتے ہوں.لیکن فی الحال کچھ سالوں سے وہ سویڈن میں تھے.ان کی
خطبات مسرور جلد 11 28 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء 23 دسمبر کو 82 سال کی عمر میں وفات ہوگئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مکرم عبدالمجید ڈوگر صاحب حضرت ماسٹر چراغ محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف کھارا کے بیٹے تھے اور حضرت امیر بخش صاحب کے پوتے تھے.دونوں ، ان کے والد بھی اور ان کے دادا بھی صحابی تھے.ان کے بھائیوں میں، بیٹوں میں فی الحال لگتا ہے کوئی اختلاف ہے، لیکن بہر حال جہاں تک میری یادداشت ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرے والد صاحب نے مجھے بتایا تھا اور اب اس پر تصدیق خود ان کے بیٹے بھی کر رہے ہیں کہ ماسٹر چراغ محمد صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو بھی پڑھایا ہوا ہے.میرے والد اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث تقریباً ہم عمر ہی تھے، ڈیڑھ سال کا فرق تھا.انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ بھی ان سے پڑھے ہوئے ہیں.تو اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الرابع کو بھی بعض لوگ کہتے ہیں پڑھایا ہے.بہر حال یہ قادیان کے قریب ہی کھارا تھا، اُس علاقے کے تھے ، اُن کے یہ بیٹے ہیں ، عبدالمجید ڈوگر صاحب.ڈوگر صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.خلافت سے بڑا وفا کا اور عشق کا تعلق تھا.ہمیشہ خلافت کا ذکر ہوتا تو بتانے والے بتاتے ہیں کہ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے.مربیانِ کرام اور واقفین زندگی کے ساتھ بھی پیار اور بڑے احترام کے ساتھ پیش آتے تھے.بلکہ میرے سے جو ان کا تعلق تھا میں نے بھی دیکھا ہے کہ ان کی آنکھوں میں سے ہر وقت ایک محبت اور پیار چھلک رہا ہوتا تھا.بہت سادہ اور منکسر المزاج، مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے.نمازوں کے پابند، تہجد گزار، دعا گو،غریب پرور، نیک با اخلاق و باوفا انسان تھے.تبلیغ کا بھی بڑا شوق تھا اور تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور یہی ایک تقویٰ پر چلنے والے کی نشانی ہے.تبلیغ کے ضمن میں امیر صاحب بیان کرتے ہیں اور ان کے مربی صاحب نے بھی لکھا کہ سویڈن کے بادشاہ اور امریکہ کے صدر اوباما اور پوپ کو بھی انہوں نے خطوط لکھے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی بھی بھجوائی تھی.بیماری کی وجہ سے جب ہسپتال داخل تھے تو اُس موقع پر سب ڈاکٹروں کو بھی اسلامی اصول کی فلاسفی، پیش کرتے تھے.اور جب کسی کولٹریچر دیتے تو اس سے وعدہ لیتے کہ ضرور پڑھیں گے.2005ء میں جب میں نے وصیت کی تحریک کی ہے اور پھر جب سویڈن گیا ہوں تو اُس وقت تک انہوں نے وصیت نہیں کی ہوئی تھی.میرے کہنے پر کہ وصیت کریں اور سب ڈوگر ماشاء اللہ ان کے بھائی بھی اور اولادیں بھی صاحب حیثیت ہیں، تو سارے خاندان کو وصیت کرنی چاہیئے.بہر حال مجھے تو یاد نہیں لیکن ان کے بھائیوں بیٹوں نے یاد کرایا کہ آپ نے یہ کہا تھا کہ ڈوگروں کو میں نہیں چھوڑوں گا، ان سب کو وصیت کروانی ہے.تو بہر حال اس پر انہوں نے سارے
خطبات مسرور جلد 11 29 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء خاندان کو اکٹھا کیا اور وصیت کی اور پھر کہا کرتے تھے کہ مجھے پر اور میری اولا د پر بڑا احسان کیا ہے جو ہم سے وصیت کروائی.آغا یحیی صاحب جو سویڈن کے مبلغ ہیں وہ کہتے ہیں.بیشمار خوبیوں کے مالک تھے، ان کے کردار اور گفتار سے معلوم ہوتا تھا کہ یقیناً یہ ایک صحابی کی اولاد ہیں.تبلیغ کی تو جیسے دھن لگی ہوتی تھی، خلافت سے بڑا تعلق تھا.اور میں نے بروشر تقسیم کرنے کی جب تحریک کی ہے تو ہر وقت بروشرز اپنے پاس رکھتے تھے تاکہ تقسیم کرتے رہیں.اور وقت ضائع نہیں کرتے تھے، مشن ہاؤس میں لائبریری میں آتے تھے اور بیٹھ کے کتابیں پڑھتے تھے.مربی صاحب کہتے ہیں کہ کئی دفعہ میں نے کہا کہ چائے پی لیں تو انہوں نے کہا کہ میں تو اب ریٹائر ڈ آدمی ہوں، وقت گزار رہا ہوں ، آپ کا وقت کیوں ضائع کروں.آپ کا وقت قیمتی ہے، مبلغین کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ہمیشہ وفا کے ساتھ اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے ، مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے.دوسرا جنازہ مکرم ملک شفیق احمد صاحب آرکیٹیکٹ کا ہے جن کی 6 جنوری کو ورجینیا نیوجرسی میں وفات ہوئی.یہ اللہ کے فضل سے ٹھیک ٹھاک تھے.وہاں کسی کی شادی پر گئے ہوئے تھے تو شادی پر اپنے بیٹے کو کہا کہ کافی وقت ہے، پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں.وضو کر کے باہر آئے ہیں.وہیں ان کو دل کا دورہ پڑا ہے.ان کا بیٹا ابھی واش روم میں ہی تھا.بہر حال ایک احمدی باہر بیٹھے تھے ، ان کو کہا کہ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے ، وہ جب اُٹھانے کے لئے بڑھے تو یہ نیچے گر گئے.وہاں ایک ڈاکٹر بھی تھے.ڈاکٹر نے آکران کو دیکھا، وہ کارڈیالوجسٹ تھے، اُن کو خیال ہوا کہ ہارٹ اٹیک ہے.بہر حال ایمبولینس بھی آگئی لیکن جب ہسپتال پہنچے تو اس سے پہلے ہی ان کی وفات ہو چکی تھی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.ان کا خاندان نوشہرہ لگے زئیاں، پسرور، سیالکوٹ سے تعلق رکھتا تھا، اور ان کے دادا ملک میر محمد صاحب نے 1924ء میں بیعت کی تھی.اللہ کے فضل سے اس کے بعد سے یہ سارا احمدیت میں اچھا مخلص خاندان ہے.انہوں نے 1968ء میں انجنیئر نگ کی.وہاں سے انجنیئر نگ کی ڈگری لینے کے بعد منسٹری آف ڈیفنس میں بھی کام کیا.پھر چار پانچ سال لیبیا میں ملازمت کی.پھر لاہور میں ایل ڈی اے میں کام کرتے رہے.اور وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد پھر یہ امریکہ چلے گئے.لیکن اس عرصے میں بھی انہوں نے جماعتی طور پر بھی کافی خدمات کی ہیں.جب خلافت رابعہ میں ادارہ تعمیرات کا قیام ہوا تو وہاں بھی آپ کو خدمت کی توفیق ملی.دارالضیافت کی توسیع ، لجنہ ہال کی تعمیر ، مسجد مبارک کی توسیع ، دارالقضاء کی بلڈنگ اور اسی طرح بیوت الحمد سوسائٹی وغیرہ میں انہوں نے کافی کردار ادا کیا ہے.مسجد بیت الفتوح کے (نقشہ میں )
خطبات مسرور جلد 11 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 جنوری 2013ء حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے 2001ء میں جو کچھ تبدیلیاں کی تھیں، اُس وقت بھی ان کو یہاں بلایا تھا اور مشورے لئے تھے اور یہ اس مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں بھی یہاں کافی دیر رہے ہیں.آج کل برازیل مشن ہاؤس اور گوئٹے مالا مسجد اور ٹرینیڈاڈ مشن و مسجد کے پراجیکٹس پر کام کر رہے تھے اور بڑی وقف کی روح کے ساتھ کام کر رہے تھے.گو یہ وقف تو نہیں تھے لیکن ریٹائر منٹ کے بعد انہوں نے مکمل طور پر اپنے آپ کو جماعتی کاموں کے لئے سپر د کیا ہوا تھا.مسجد نور ماڈل ٹاؤن کی توسیع کے کام بھی ان کی نگرانی میں ہوئے جس میں 2010ء میں فائرنگ ہوئی تھی.یہ غریب پرور اور بہادر اور جماعتی کاموں پر فوری لبیک کہنے والے تھے.ان کے بارے میں ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ جماعت اور خلفاء کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے تھے اور اس کو سخت نا پسند کرتے تھے.ان کے دن کا آغاز تہجد اور قرآن کی تلاوت سے ہوتا تھا اور اس میں بڑی لذت محسوس کرتے تھے.اکثر رات کو جماعت کی کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کر کے سوتے تھے.اور ان کی اہلیہ نے تو بہت ساری اور باتیں بھی لکھی ہیں.شیخ حارث صاحب جو ہمارے واقف زندگی ہیں اور ربوہ میں احمدیہ انجنیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ہیں.انہوں نے بھی ان کے بارے میں یہی لکھا کہ بڑی وفا کے ساتھ یہ کام کرتے رہے اور میں نے بھی ربوہ میں ان سے کچھ کام کروائے ہیں.جب بلا ؤ آ جایا کرتے تھے.حالانکہ اُس وقت ان کی سرکاری ملازمت تھی.اور انہوں نے بڑی محنت سے ، توجہ سے ہر کام کیا ہے.اسی طرح برازیل کے مبلغ جو ہیں اُن کے ساتھ آجکل یہ کام کر رہے تھے، انہوں نے بھی لکھا ہے کہ حیرت انگیز طور پر محنت اور وفا سے کام کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور ان کی نسل کو بھی خلافت سے، جماعت سے وابستہ رکھے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ یکم فروری 2013 ء تا 7 فروری 2013 ء جلد 20 شماره 5 صفحه 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد 11 3 31 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013 ء بمطابق 18 صلح 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: إِذْ قَالَتِ امْرَآتُ عِمَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلُ مِنْى إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ (آل عمران: 36) فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعَى قَالَ يُبنى الى ارى في الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرُ مَاذَا تَرى قَالَ يَابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْشَاء الله مِن الصُّبِرِينَ (الصفت: 103) وَلْتَكُن مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران:105) وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ ليَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبة: 122) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ : جب عمران کی ایک عورت نے کہا اے میرے رب ! جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے یقینا وہ میں نے تیری نذر کر دیا دنیا کے جھمیلوں سے آزاد کرتے ہوئے.پس تو مجھ سے قبول کر لے.یقینا تو ہی بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچا.اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے ! یقیناً میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں.پس غور کر تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ ! وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے.یقینا اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا.
خطبات مسرور جلد 11 32 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو.وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور نیکی کی تعلیم دیں اور بدیوں سے روکیں.اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں.مومنوں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ تمام کے تمام اکٹھے نکل کھڑے ہوں.پس ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے ہر فرقہ میں سے ایک گروہ نکل کھڑا ہوتا کہ وہ دین کا فہم حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کوخبر دار کریں جب وہ ان کی طرف واپس لوٹیں تا کہ شاید وہ ہلاکت سے بچ جائیں.یہ آیات سورۃ آل عمران، سورۃ توبہ اور سورۃ الصافات کی آیات ہیں.ان آیات میں ماں کی خواہش ، ماں باپ کی بچوں کی صحیح تربیت، بچوں کے احساس قربانی کو اجاگر کرنا اور اس کے لئے تیار کرنا، وقف زندگی کی اہمیت اور کام اور پھر یہ کہ یہ سب کچھ کرنے کا مقصد کیا ہے؟ یہ بیان کیا گیا ہے.پہلی آیت جو سورۃ آل عمران کی ہے، یہ چھتیسویں آیت ہے.اس میں ایک ماں کا بچے کو دین کی خاطر وقف کرنے کی خواہش کا اظہار ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو قبول کر لے.پھر سورۃ صافات کی آیت 103 ہے جو اس کے بعد میں نے تلاوت کی ہے.اس میں خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کے لئے تیار کرنے کی خاطر باپ کا بیٹے کی تربیت کرنا اور بیٹے کا خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہونے کا ذکر ہے.باپ کی تربیت نے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جوڑ دیا اور بیٹے نے کہا کہ اے باپ ! تو ہر قسم کی قربانی کرنے میں مجھے ہمیشہ تیار پائے گا اور نہ صرف تیار پائے گا بلکہ صبر و استقامت کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے والا پائے گا.پھر سورۃ آل عمران کی آیت 105 میں نے تلاوت کی جس میں نیکیوں کے پھیلانے اور پھیلاتے چلے جانے والے اور بدیوں سے روکنے والے گروہ کا ذکر ہے.کیونکہ یہی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بن کر ایک انسان کو کامیاب کرتی ہیں.پھر سورۃ توبہ کی 12 ویں آیت ہے جو میں نے آخر میں تلاوت کی ہے.اس میں فرمایا کہ نیکی بدی کی پہچان کے لئے دین کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے.اور دین کا فہم کیا ہے؟ یہ شریعت اسلامی ہے یا قرآن کریم ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة : 4) اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی پسند حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کو سمجھنے کی ضرورت ہے.اور یہ سب کچھ کرنے کا مقصد کیا ہے؟ وہ یہ بیان فرمایا کہ تا کہ تم دنیا کو ہلاکت سے بچانے والے بن سکو.پس یہ وہ مضمون
خطبات مسرور جلد 11 33 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء ہے جس کا حق ادا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے جماعت احمدیہ کا قیام فرمایا.یہی وہ جماعت ہے جس میں بچے کی پیدائش سے پہلے ماؤں کی دعائیں بھی ہمیں صرف اس جذبے کے ساتھ نظر آتی ہیں، اس جذبے کو لئے ہوئے نظر آتی ہیں کہ ربّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِى مُحَرّرًا فَتَقَبَّلُ معنى ( آل عمران : 36).اے میرے رب ! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے، تیری نذر کرتی ہوں.آزاد کرتے ہوئے (یعنی دنیا کے جھمیلوں سے آزاد کرتے ہوئے) پس تو اسے قبول فرما.آج آپ نظر دوڑا کر دیکھ لیں ، سوائے جماعت احمدیہ کی ماؤں کے کوئی اس جذبے سے بچے کی پیدائش سے پہلے اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے پیش کرنے کی دعا نہیں کرتے.کوئی ماں آج احمدی ماں کے علاوہ ہمیں نہیں ملے گی جو یہ جذ بہ رکھتی ہو، چاہے وہ ماں پاکستان کی رہنے والی ہے، یا ہندوستان کی ہے، یا ایشیا کے کسی ملک کی رہنے والی ہے یا افریقہ کی ہے، یورپ کی رہنے والی ہے یا امریکہ کی ہے.آسٹریلیا کی رہنے والی ہے یا جزائر کی ہے.جو اس ایک اہم مقصد کے لئے اپنے بچوں کو خلیفہ وقت کو پیش کر کے پھر خدا تعالیٰ سے یہ دعا نہ کر رہی ہو کہ اے اللہ تعالیٰ ! ہمارا یہ وقف قبول فرمالے.یہ دعا کرنے والی تمام دنیا میں صرف اور صرف احمدی عورت نظر آتی ہے.اُن کو یہ فکر ہوتی ہے کہ خلیفہ وقت کہیں ہماری درخواست کا انکار نہ کر دے اور یہ صورت کہیں اور پیدا ہو بھی نہیں سکتی.یہ جذ بہ کہیں اور پیدا ہو بھی نہیں سکتا.کیونکہ خلافت کے سائے تلے رہنے والی یہی ایک جماعت ہے جس کو خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ سے قائم فرمایا ہے اور پھر اس پر بس نہیں، جماعت احمد یہ میں ہی وہ باپ بھی ہیں جو اپنے بچوں کی اس نہج پر تربیت کرتے ہیں کہ بچہ جوانی میں قدم رکھ کر ہر قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے اور خلیفہ وقت کو لکھتا ہے کہ پہلا عہد میرے ماں باپ کا تھا، دوسرا عہد اب میرا ہے.آپ جہاں چاہیں مجھے قربانی کے لئے بھیج دیں.آپ مجھے ہمیشہ صبر کرنے والوں اور استقامت دکھانے والوں میں پائیں گے اور اپنے ماں باپ کے عہد سے پیچھے نہ ہٹنے والوں میں پائیں گے.یہ وہ بچے ہیں جو امت محمدیہ کے باوفا فرد کہلانے والے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہونے کا حق ادا کرنے والے ہیں.ماں باپ کی تربیت اور بچے کی نیک فطرت نے اُنہیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے بھی رموز سکھائے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کے بھی معیار سکھائے ہیں.جنہیں دین کا فہم حاصل کرنے کا بھی شوق پیدا ہوا ہے اور اُسے اپنی زندگی پر لاگو کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوئی ہے اور پھر اس کے ساتھ تبلیغ اسلام اور خدمت انسانیت کے لئے ایک جوش اور جذ بہ بھی پیدا ہوا.ہمیشہ یادرکھیں
34 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء خطبات مسرور جلد 11 کہ زندہ قومیں اور ترقی کرنے والی جماعتیں ان احساسات، ان خیالات، ان جذبوں اور ان عہد پورا کرنے کی پابندیوں کو کبھی مرنے نہیں دیتیں.ان جذبوں کو تر و تازہ رکھنے کے لئے ہمیشہ ان باتوں کی جگالی کرتی رہتی ہیں.اگر کہیں ستیاں پیدا ہو رہی ہوں تو اُن کو دور کرنے کے لئے لائحہ عمل بھی ترتیب دیتی ہیں.66 اور خلافت کے منصب کا تو کام ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم بشیر “ پر عمل کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً یاد دہانی کروا تار ہے تا کہ جماعت کی ترقی کی رفتار میں کبھی کمی نہ آئے.اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ایک کے بعد دوسرا گروہ تیار ہوتا چلا جائے.جس طرح مسلسل چلنے والی نہریں، زمین کی ہریالی کا باعث بنتی ہیں اسی طرح ایک کے بعد دوسرا دین کی خدمت کرنے والا گروہ روحانی ہریالی کا باعث بنتا ہے.جن علاقوں میں کھیتوں میں ٹیوب ویلوں یا نہروں کے ذریعوں سے کاشت کی جاتی ہے وہاں کے زمیندار جانتے ہیں کہ اگر ایک کھیت پر پانی مکمل لگنے سے پہلے پانی کا بہاؤ ٹوٹ جائے، پیچھے سے بند ہو جائے تو پھر نئے سرے سے پورے کھیت کو پانی لگانا پڑتا ہے اور پھر وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور پانی بھی.اسی طرح اگر اصلاح اور ارشاد کے کام کے لئے مسلسل کوشش نہ ہو، یا کوشش کرنے والے مہیا نہ ہوں تو پھر ٹوٹ ٹوٹ کر جو پانی پہنچتا ہے، جو پیغام پہنچتا ہے، جو کوشش ہوتی ہے وہ سیرابی میں دیر کر دیتی ہے.تربیتی اور تبلیغی کاموں میں روکیں پیدا ہوتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر قوم میں سے ایسے گروہ ہر وقت تیار رہنے چاہئیں جو خدا تعالی کے پیغام کو پہنچانے کے بہاؤ کو بھی ٹوٹنے نہ دیں.پس اس لئے میں آج پھر اس بات کی یاد دہانی کروارہاہوں کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقف ٹو کی جو سکیم شروع فرمائی تھی تو اس امید پر اور اس دعا کے ساتھ کہ دین کی خدمت کرنے والوں کا گروہ ہر وقت مہیا ہوتا رہے گا.یہ پانی کا بہاؤ کبھی ٹوٹے گا نہیں.جماعت کے لٹریچر کا ترجمہ کرنے والے بھی جماعت کو مہیا ہوتے رہیں گے.تبلیغ اور تربیت کا کام چلانے والے بھی بڑی تعداد میں مہیا ہوتے رہیں گے اور نظامِ جماعت کے چلانے کے دوسرے شعبوں کو بھی واقفین کے گروہ مہیا ہوتے رہیں گے.پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.ماں باپ کو اپنے بچوں کو پیش کرنے کے بعد اپنے فرض سے فارغ نہیں ہو جانا چاہئے.بیشک بچوں کو واقفین ٹو میں پیش کرنے کا جذبہ قابل تعریف ہے.ہر سال ہزاروں بچوں کو واقفین ٹو میں پیش کرنے کی درخواستیں آتی ہیں لیکن ان درخواستوں کے پیش کرنے کے بعد ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں.ان بچوں کو اس خاص مقصد کے لئے تیار کرنا جو دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا مقصد ہے، اس کی تیاری کے لئے سب سے
خطبات مسرور جلد 11 35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء پہلے ماں باپ کو کوشش کرنی ہوگی.اپنا وقت دے کر ، اپنے نمونے قائم کر کے بچوں کو سب سے پہلے خدا تعالیٰ سے جوڑ نا ہوگا.بچوں کو نظام جماعت کی اہمیت اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہونے کے لئے بچپن سے ہی ایسی تربیت کرنی ہوگی کہ اُن کی کوئی اور دوسری سوچ ہی نہ ہو.ہوش کی عمر میں آ کر جب بچے واقفین ئو اور جماعتی پروگراموں میں حصہ لیں تو اُن کے دماغوں میں یہ راسخ ہو کہ انہوں نے صرف اور صرف دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے.زیادہ سے زیادہ بچوں کے دماغ میں ڈالیں کہ تمہاری زندگی کا مقصد دین کی تعلیم حاصل کرنا ہے.یہ جو واقفین تو بچے ہیں ان کے دماغوں میں یہ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ دین کی تعلیم کے لئے جو جماعتی دینی ادارے ہیں اُس میں جانا ضروری ہے.جامعہ احمدیہ میں جانے والوں کی تعداد واقفین کو میں کافی زیادہ ہونی چاہئے.لیکن جو اعداد و شمار میرے سامنے ہیں، اُن کے مطابق سوائے پاکستان کے تمام ملکوں میں یہ تعداد بہت تھوڑی ہے.پاکستان میں تو اللہ کے فضل سے اس وقت ایک ہزار تینتیس واقفین کو جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں.اور انڈیا میں جو تعداد سامنے آئی ہے وہ 93 ہے.یہ میرا خیال ہے کہ شاید اس میں شعبہ وقف ٹو کو غلطی لگی ہو.اس سے تو زیادہ ہونے چاہئیں.بہر حال اگر اس میں غلطی ہے تو انڈیا کا جو شعبہ ہے وہ اطلاع دے کہ اس وقت جامعہ احمدیہ میں اُن کے واقفین ٹو میں سے کتنے طلباء پڑھ رہے ہیں.جرمنی میں 70 ہیں.یہ رپورٹ پچھلے جون تک ہے.اب وہاں 80 سے زیادہ ہو چکے ہیں.یہ صرف جرمنی کے نہیں ، اس میں یورپ کے مختلف ممالک کے بچے بھی شامل ہیں.کینیڈا کے جامعہ احمدیہ میں 55 ہیں.اب اس میں کچھ تھوڑی سی تعداد شاید بڑھ گئی ہو.اس میں امریکہ کے بھی شامل ہیں.یوکے کے جامعہ میں گزشتہ رپورٹ میں 120 تھے.شاید اس میں دس پندرہ کی کچھ تعداد بڑھ گئی ہو.یہاں بھی یورپ کے دوسرے ممالک سے بچے آتے ہیں.گھانا میں 12 ہے، یہ شاید وہاں جو نیا جامعہ شاہد کروانے کے لئے شروع ہوا ہے، اُس کی تعداد انہوں نے دی ہے.اسی طرح بنگلہ دیش میں 23 ہیں.اور یہ کل تعداد جواب تک دفتر کے شعبہ کے علم میں ہے، وہ 1400 ہے.جبکہ واقفین ٹولڑکوں کی تعداد تقریباً اٹھائیس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے.ہمارے سامنے تو تمام دنیا کا میدان ہے.ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا، جزائر، ہر جگہ ہم نے پہنچنا ہے.ہر جگہ ہر براعظم میں نہیں، ہر ملک میں نہیں، ہر شہر میں نہیں بلکہ ہر قصبہ میں، ہر گاؤں میں، دنیا کے ہر فرد تک اسلام کے خوبصورت پیغام کو پہنچانا ہے.اس کے لئے چند ایک مبلغین کام کو انجام نہیں دے سکتے.بچوں میں وقف کو ہونے کی جو خوشی ہوتی ہے بچپن میں تو اُس کا اظہار بہت ہو رہا ہوتا ہے.لیکن
خطبات مسرور جلد 11 36 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء اس یورپی معاشرے میں ماں باپ کی صحیح توجہ نہ ہونے کی وجہ سے، دنیاوی تعلیم سے متاثر ہوجانے کی وجہ سے یا اپنے دوستوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کی وجہ سے جامعہ کے بجائے دوسرے مضامین پڑھنے کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے.بعض بچپن میں تو کہتے ہیں جامعہ میں جانا ہے.لیکن جی سی ایس سی (GCSC) پاس کرتے ہیں، سیکنڈری سکولز پاس کرتے ہیں تو پھر ترجیحات بدل جاتی ہیں.بعض بچے بیشک ایسے ہوتے ہیں جو خاص ذہن رکھتے ہیں.اُن کے رجحانات کا بچپن سے ہی پتہ چل جاتا ہے.اُن کو بعض مضامین میں غیر معمولی دلچسپی ہوتی ہے.مثلاً سائنس کے بعض مضامین ہیں اور اس میں ان کا دماغ بھی خوب چلتا ہے.اُن کو یقیناً اُس مضمون کو لینے اور ان مضامین کو پڑھنے کی طرف Encourage کرنا چاہئے.لیکن اکثریت صرف بھیڑ چال کی وجہ سے سیکنڈری سکولز کرنے کے بعد اپنے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں.اکثر بچے جب مجھے ملتے ہیں، میں اُن سے پوچھتا ہوں تو دسویں، (یہاں یہ Ten Year کہلاتا ہے.امریکہ، کینیڈ اوغیرہ میں ، آسٹریلیا وغیرہ میں گریڈ کہلاتا ہے) اور جی سی ایس سی (GCSC) تک اُن کے ذہن میں کچھ نہیں ہوتا.ذہن بنا نہیں ہوتا کہ ہم نے کونسے مضامین لینے ہیں.پس اگر ماں باپ کی تربیت شروع میں ایسی ہو کہ بچے کے ذہن میں بیٹھ جائے کہ میں وقف کو ہوں اور جو کچھ میرا ہے وہ جماعت کا ہے تو پھر صحیح وقف کی روح کے ساتھ یہ بچے کام کر سکیں گے.اور مضامین کے چناؤ کے لئے بھی اُن میں مرکز سے، جماعت سے رہنمائی لینے کی طرف توجہ پیدا ہوگی.جیسا کہ میں نے کہا کہ اس وقت صرف جماعت احمدیہ میں ایسے ماں باپ ہیں جو ایک جذبے سے اپنے بچے وقف کرتے ہیں اور پھر ان کی تربیت بھی ایک جذبے اور درد سے کرتے ہیں کہ بچے جماعت کی خدمت کرنے والے اور وقف کی روح کو قائم کرنے والے ہوں.لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اکثریت جو اپنے بچوں کو وقف ٹو میں بھیجتی ہے، وہ پھر اُن کی تربیت کی طرف بھی اس طرح خاص توجہ دیتی ہے.پس ماں باپ کو، اُن ماں باپ کو جو اپنے بچوں کو وقف ٹو میں بھیجتے ہیں، یہ جائزے لینے ہوں گے کہ وہ اس تحفے کو جماعت کو دینے میں اپنا حق کس حد تک ادا کر رہے ہیں؟ کس حد تک اس تحفے کو سجانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کس حد تک خوبصورت بنا کر جماعت کو پیش کرنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں؟ وہ اپنے فرائض کس حد تک پورے کر رہے ہیں؟ ان ملکوں میں رہتے ہوئے، جہاں ہر طرح کی آزادی ہے خاص طور پر بہت توجہ اور نگرانی کی ضرورت ہے.اسی طرح ایشیا اور افریقہ کے غریب ملکوں میں بھی بچے کو وقف کر کے بے پرواہ نہ ہو جا ئیں بلکہ
خطبات مسرور جلد 11 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء ماں اور باپ دونوں کا فرض ہے کہ خاص کوشش کریں.واقفین ٹو بچوں کو بھی میں کہتا ہوں جو بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں سوچنا شروع کر دیں، اپنی اہمیت پر غور کریں.صرف اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ آپ وقف کو ہیں.اہمیت کا پتہ تب لگے گا جب اپنے مقصد کا پتہ لگے گا کہ کیا آپ نے حاصل کرنا ہے.اُس کی طرف توجہ پیدا ہوگی.اور پندرہ سال کی عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کو تو اپنی اہمیت اور اپنی ذمہ داریوں کا بہت زیادہ احساس ہو جانا چاہئے.ان آیات میں صرف ماں باپ یا نظام جماعت کی خواہش یا ایک گروہ یا چند لوگوں کی خواہش اور ذمہ داری کا بیان نہیں ہوا بلکہ بچوں کو بھی توجہ دلائی گئی ہے.پہلی بات جو ہر وقف کو بچے میں پیدا ہونی چاہئے ، وہ اس توجہ کی روشنی میں یہ بیان کر رہا ہوں.اور وہ ان آیات میں آئی ہے کہ اُس کی ماں نے اُس کی پیدائش سے پہلے ایک بہت بڑے مقصد کے لئے اُسے پیش کرنے کی خواہش دل میں پیدا کی.پھر اس خواہش کے پورا ہونے کی بڑی عاجزی سے دعا بھی کی.پس بچے کو اپنے ماں باپ کی، کیونکہ اس خواہش اور دعا میں بعد میں باپ بھی شامل ہو جاتا ہے، اُن کی خواہش اور دعا کا احترام کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نذر ہونے کا حق دار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اور یہ بھی ہو سکتا ہے جب اپنے دل و دماغ کو اپنے قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنانے کی طرف توجہ ہو.دوسری بات یہ کہ ماں باپ کا آپ پر یہ بڑا احسان ہے اور یہ احسان کرنے کی وجہ سے اُن کے لئے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے.آپ کی تربیت کے لئے اُن کی طرف سے اُٹھنے والے ہر قدم کی آپ کے دل میں اہمیت ہو.اور یہ احساس ہو کہ میرے ماں باپ اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے جو کوشش کر رہے ہیں میں نے بھی اُس کا حصہ بننا ہے ، اُن کی تربیت کو خوشدلی سے قبول کرنا ہے.اور اپنے ماں باپ کے عہد پر کبھی آنچ نہیں آنے دینی.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کا سب سے زیادہ حق ایک واقف نو کا ہے.اور واقف ٹو کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ یہ عہد سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر میں نے پورا کرنا ہے.تیسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر قربانی کے لئے صبر اور استقامت دکھانے کا عہد کرنا ہے.جیسے بھی کڑے حالات ہوں، سخت حالات ہوں ، میں نے اپنے وقف کے عہد کو ہر صورت میں نبھانا ہے، کوئی دنیاوی لالچ کبھی میرے عہد وقف میں لغزش پیدا کرنے والا نہیں ہوسکتا.اب تو اللہ تعالیٰ کا جماعت پر بہت فضل اور احسان ہے.خلافت ثانیہ کے دور میں تو بعض موقعوں پر ، بعض سالوں میں
خطبات مسرور جلد 11 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء قادیان میں ایسے حالات بھی آئے ، اتنی مالی تنگی تھی کہ جماعتی کارکنان کو کئی کئی مہینے اُن کا جو بنیادی گزارہ الاؤنس مقرر تھا، وہ بھی پورا نہیں دیا جا سکتا تھا.اسی طرح شروع میں ہجرت کے بعد ربوہ میں بھی ایسے حالات رہے ہیں لیکن ان سب حالات کے باوجود کبھی اُس زمانے کے واقفین زندگی نے شکوہ زبان پر لاتے ہوئے اپنے کام کا حرج نہیں ہونے دیا.بلکہ یہ تو دور کی باتیں ہیں.ستر اور اسی کی دہائی میں افریقہ کے بعض ممالک میں بھی ایسے حالات رہے جو مشکل سے وہاں گزارہ ہوتا تھا.جوالا ؤنس جماعت کی طرف سے ملتا تھا، وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس دن میں ختم ہو جاتا تھا.مقامی واقفین تو جتنا الا ونس اُن کو ملتا تھا اس میں شاید دن میں ایک وقت کھانا کھا سکتے ہوں.لیکن انہوں نے اپنے عہد وقف کو ہمیشہ نبھایا اور تبلیغ کے کام میں کبھی حرج نہیں آنے دیا.چوتھی بات یہ کہ اپنے آپ کو اُن لوگوں میں شامل کرنے کے احساس کو ابھارنا اور اس کے لئے کوشش کرنا جو نیکیوں کے پھیلانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں.اپنے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرنا، جب ایسے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم ہوں گے، نیکیاں سرزد ہو رہی ہوں گی، برائیوں سے اپنے آپ کو بچارہے ہوں گے تو ایسے نمونے کی طرف لوگوں کی توجہ خود بخود پیدا ہوتی ہے.لوگوں کی آپ پر نظر پڑے گی تو پھر مزید اس کا موقع بھی ملے گا.پس یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور کوشش بھی ساتھ ہو.پانچویں بات یہ کہ نیکیوں اور برائیوں کی پہچان کے لئے قرآن اور حدیث کا فہم و ادراک حاصل کرنا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور ارشادات کو پڑھنا.اپنے دینی علم کو بڑھانے کے لئے ہر وقت کوشش کرنا.بیشک ایک بچہ جو جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہاں اُسے دینی علم کی تعلیم دی جاتی ہے.لیکن وہاں سے پاس کرنے کے بعد یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اب میرے علم کی انتہا ہوگئی.بلکہ علم کو ہمیشہ بڑھاتے رہنے کی کوشش کرنی چاہئے ، ایک دفعہ کا جو تفقہ فی الدین ہے اُس وقت فائدہ رساں رہتا ہے جب تک اُس میں ساتھ ساتھ تازہ علم شامل ہوتا رہے.تازہ پانی اُس میں ملتا ر ہے.اسی طرح جو جامعہ میں نہیں پڑھ رہے، اُن کو بھی مسلسل پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے.یہ نہیں کہ جو واقفین کو دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہوں اُن کو دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے.جتنالٹریچر میسر ہے، ان کو پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو جو کتب اُن کی زبانوں میں ہیں اُن کو پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہیئے.
خطبات مسرور جلد 11 39 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء چھٹی بات جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جس کی طرف ایک واقف نو کوتو جہ دینی چاہئے وہ عملی طور پر تبلیغ کے میدان میں کودنا ہے.اب بعض واقفات ٹو کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ ہمارے لئے جامعہ نہیں ہے.یعنی ہم دینی علم حاصل نہیں کر سکتے.اگر اپنے طور پر، جس طرح میں نے پہلے بتایا، پڑھیں تو اپنے حلقے میں جو بھی اُن کا دائرہ ہے اُس میں تبلیغ کی طرف توجہ پیدا ہوگی ، موقع ملے گا.اُس کے لئے جب تبلیغ کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور موقعے ملیں گے تو پھر مزید تیاری کی طرف توجہ ہوگی اور اس طرح دینی علم بڑھانے کی طرف خود بخو د توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی.پس تبلیغ کا میدان ہر ایک کے لئے کھلا ہے اور اس میں ہر وقف ٹو کو کودنے کی ضرورت ہے اور بڑھ چڑھ کر ہر وقف نو کو حصہ لینا چاہئے اور یہ سوچ کر حصہ لینا چاہئے کہ میں نے اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نہیں آجاتی اور یہ احساس اور جوش ہی ہے جو دینی علم بڑھانے کی طرف بھی متوجہ رکھے گا اور تبلیغ کی طرف بھی توجہ رہے گی.ساتویں بات ہر واقف زندگی کو، واقف ٹو کو خاص طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ اُس گروہ میں شامل ہے جنہوں نے دنیا کو ہلاکت سے بچانا ہے.اگر آپ کے پاس علم ہے اور آپ کو موقع بھی مل رہا ہے لیکن اگر دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا سچا جذ بہ نہیں ہے، انسانیت کو تباہی سے بچانے کا درد دل میں نہیں ہے تو ایک تڑپ کے ساتھ جو کوشش ہو سکتی ہے، وہ نہیں ہوگی اور برکت بھی ہو سکتا ہے اُس میں اُس طرح نہ پڑے.پس اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے ہر دردمند دل کو اپنی کوششوں کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اور یہ درد سے نکلی ہوئی دعائیں ہیں جو ہمیں اپنے مقصد میں انشاء اللہ کامیاب کریں گی.اس لئے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری دعاؤں کا دائرہ صرف اپنے تک محدود نہ ہو، بلکہ اس کے دھارے ہمیں ہر طرف بہتے ہوئے دکھائی دیں تا کہ کوئی انسان بھی اُس فیض سے محروم نہ رہے جو خدا تعالیٰ نے آج ہمیں عطا فرمایا ہے.ویسے بھی یا درکھنا چاہئے کہ ہمارے مقاصد کا حصول بغیر دعاؤں کے، ایسی دعاؤں جو سچے جذبے اور ہمدردی سے پر ہوں کے بغیر نہیں ہوسکتا.پس یہ باتیں اور یہ سوچ ہے جو ایک حقیقی واقف کو اور وقف زندگی کی ہونی چاہئے.اس کے بغیر کامیابی کی امید خوش فہمی ہے.ان باتوں کے بغیر صرف واقف کو اور واقف زندگی کا ٹائٹل ہے جو ایسے واقفین کو نے اپنے ساتھ لگایا ہوا ہے.اس سے زیادہ اس کی کچھ حیثیت نہیں.اور صرف ٹائٹل لینا تو ہمارا مقصد نہیں ، نہ اُن ماں باپ کا مقصد تھا جنہوں نے اپنے بچوں کو اس قربانی کے لئے پیش کیا.پس جیسا کہ
خطبات مسرور جلد 11 40 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء میں بیان کر آیا ہوں ماں باپ کے لئے بھی اور واقفین کو کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں.میں دوبارہ اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں دین کے پھیلانے کے لئے دینی علم کی ضرورت ہے اور یہ علم سب سے زیادہ ایسے ادارہ سے ہی مل سکتا ہے جس کا مقصد ہی دینی علم سکھا نا ہو.اور یہ ادارہ جماعت احمدیہ میں جامعہ احمدیہ کے نام سے جانا جاتا ہے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے بتایا کہ جامعات صرف پاکستان یا قادیان میں نہیں ہیں، یہیں تک محدود نہیں بلکہ یو کے میں بھی ہے.جو میں نے کوائف پیش کئے ہیں اُن سے پتہ لگتا ہے کہ جرمنی میں بھی ہے، انڈونیشیا میں بھی ہے، کینیڈا میں بھی ہے، اور گھانا میں بھی ہے جیسا کہ میں نے کہا وہاں شاہد کروانے کے لئے نیا جامعہ کھلا ہے.پہلے وہاں جامعہ تو تھا لیکن تین سالہ کورس میں معلمین تیار ہوتے تھے.تو یہ جامعہ احمدیہ جو گھانا میں کھلا ہے، یہ فی الحال تمام افریقہ کے جماعت کے لئے شاہد مبلغ تیار کرے گا.اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی جامعہ احمدیہ ہے.تبلیغ کا کام بہت وسیع کام ہے.اور یہ با قاعدہ تربیت یافتہ مبلغین سے ہی زیادہ بہتر طور پر ہوسکتا ہے.اس لئے واقفین ٹو کو زیادہ سے زیادہ یا واقفین ٹو کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جامعہ احمدیہ میں آنا چاہئے.جبکہ جو اعداد و شمار میں نے بتائے ہیں، اس سے تو ہم ہر ملک کے ہر علاقے میں جیسا کہ میں نے کہا مستقبل قریب کیا بلکہ دور میں بھی ہر جگہ مبلغ نہیں بٹھا سکتے.اور جب تک کل وقتی معلمین اور مبلغین نہیں ہوں گے انقلابی تبدیلی اور انقلابی تبلیغی پروگرام بہت مشکل ہے.اس وقت دنیا بھر سے شعبہ کے پاس جو رپورٹ آئی ہے یہ شاید ان کے پاس جولائی 2012ء تک کی رپورٹ ہے.اس کے مطابق پندرہ سال کے اوپر کے واقفین ٹو اور واقفات ٹو کی تعداد پچیس ہزار ہے جس میں سے لڑکے 16988 ہیں اور ان میں پاکستان کے واقفین ئو 10687 ہیں.پاکستان کے بعد جرمنی میں سب سے زیادہ واقفین کو ہیں.1877 لڑکے اور 1155 لڑکیاں.پھر انگلستان ہے.918 لڑکے اور ان کی کل تعداد 1758 ہے.باقی 800 کچھ لڑکیاں ہیں.لیکن جامعہ احمدیہ میں آنے والوں کی تعداد جرمنی میں بھی اور یو کے میں بھی بہت کم ہے.ان دونوں جامعات میں یورپ کے دوسرے ملکوں سے بھی طالب علم آتے ہیں، اس طرح تو یہ تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے.اسی طرح امریکہ اور کینیڈا کے جامعات میں تعداد کم ہے.جماعتیں مبلغین اور مربیان کا مطالبہ کرتی ہیں تو پھر واقفین نو کو جامعہ میں پڑھنے کے لئے تیار بھی ہیں.کینیڈا اور امریکہ میں اس وقت پندرہ سال سے اوپر تقریباً آٹھ سو واقفین کو ہیں.اگر ان کو تیار کیا
خطبات مسرور جلد 11 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء جائے تو اگلے دوسال میں جامعات میں داخل ہونے والوں کی تعداد خاصی بڑھائی جاسکتی ہے.صرف مربی مبلغ کے لئے نہیں بلکہ جامعہ میں پڑھ کے، دینی علم حاصل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے مختلف زبانوں میں تراجم کے لئے بھی تیار کئے جاسکتے ہیں.ان کو جامعہ میں پڑھانے کے بعد مختلف زبانوں میں پیشلائز بھی کرایا جاسکتا ہے.پھر جو جامعہ میں نہیں آرہے، وہ بی زبا نہیں سکھنے کی طرف توجہ کریں اور زبانیں سیکھنے والے کم از کم جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے بھی فرمایا تھا اور یہ ضروری ہے کہ تین زبانیں اُن کو آنی چاہئیں.ایک تو اُن کی اپنی زبان ہو، دوسرے اردو ہو، تیسرے عربی ہو.عربی تو سیکھنی ہی ہے، قرآن کریم کی تفسیروں اور بہت سارے میسر لٹریچر کو سمجھنے کے لئے.اور پھر قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے جب تک عربی نہ آتی ہو صحیح ترجمہ بھی نہیں ہوسکتا.اور اردو پڑھنا سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہوسکتا ہے.کیونکہ آپ کی تفسیریں، آپ کی کتب، آپ کی تحریرات ہی ایک سرمایہ ہیں اور ایک خزانہ ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہیں، جو صحیح اسلامی تعلیم دنیا کو بتا سکتی ہیں، جو حقیقی قرآن کریم کی تفسیر دنیا کو بتا سکتی ہیں.پس اردو زبان سیکھے بغیر بھی صحیح طرح زبانوں میں مہارت حاصل نہیں ہوسکتی.ایک وقت تھا کہ جماعت میں ترجمے کے لئے بہت دقت تھی ، دقت تو اب بھی ہے لیکن یہ دقت اب کچھ حد تک مختلف ممالک کے جامعات کے جولڑ کے ہیں اُن سے کم ہو رہی ہے یا اس طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.جامعہ احمدیہ کے مقالوں میں اردو سے ترجمے بھی کروائے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب، حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بعض کتب کے ترجمے کئے ہیں اور جو بھی طلباء کے سپر وائزر تھے، اُن کے مطابق اچھے ہوئے ہیں.لیکن بہر حال اگر معیار بہت اعلیٰ نہیں بھی تو مزید پالش کیا جا سکتا ہے.بہر حال ایک کوشش شروع ہو چکی ہے.لیکن یہ تو چند ایک طلباء ہیں جن کو دو چار کتابیں دے دی جاتی ہیں، ہمیں زیادہ سے زیادہ زبانوں کے ماہرین چاہئیں.اس طرف واقفین ٹو کو بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے.اگر جامعہ کے طلباء کے علاوہ کوئی کسی زبان میں مہارت حاصل کرتا ہے تو اسے جیسا کہ میں نے کہا عربی اور اردو سیکھنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اس کے بغیر وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جس کے لئے زبان کی طرف توجہ ہے.جامعہ احمدیہ پر یہاں یا جرمنی میں یا بعض جگہ بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ یہاں پڑھائی اچھی نہیں ہے.یہ بالکل بودے اعتراض ہیں.اُن کے خیال میں اُن کا جو اعتراض ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جامعہ سے فارغ ہوتا ہے تو اُس کو عربی بولنی نہیں آتی یا بول چال اتنی اچھی نہیں ہے.جہاں تک زبان کی
خطبات مسرور جلد 11 42 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء مہارت کا سوال ہے، جامعہ احمدیہ میں کیونکہ مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں، صرف ایک زبان کی طرف ہی تو توجہ نہیں دی جاتی.باقی یونیورسٹیوں میں یا دوسرے مدرسوں میں اگر پڑھایا جاتا ہے تو ایک مضمون پڑھا کر اُس پر توجہ دی جاتی ہے.لیکن یہاں تو مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں.ہاں جب یہ دیکھا جائے کہ کسی کا کسی زبان کی طرف رجحان ہے یا زبانوں کے سیکھنے کی طرف رجحان ہے تو اُن کو زبانوں میں پھر سپیشلائز بھی انشاء اللہ کر وایا جائے گا اور پھر بولنے کا جوشکوہ ہے وہ بھی دُور ہو جائے گا.لیکن بہر حال جہاں تک پڑھائی کا سوال ہے، جو علم دیا جارہا ہے، وہ بہت وسیع علم ہے جو جامعہ کے طلباء اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کر رہے ہیں.پاکستان میں تو کیونکہ پرانے جامعات ہو گئے ہیں، وہاں تخصص بھی کروایا جاتا ہے، سپیشلائز بھی کروایا جاتا ہے.تو یہ تو بعض لوگوں کے، خاص طور پر جرمنی سے مجھے اطلاع ملی تھی، جامعہ میں بچوں کو نہ بھیجنے کے بہانے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یو کے اور کینیڈا کے جوطلباء جامعہ سے فارغ ہوئے ہیں ان کا تبلیغی میدان میں اب تک جو تھوڑا تجربہ ہوا ہے وہ اللہ کے فضل سے بڑے مؤثر رہے ہیں.اور یہ علم تو جیسا کہ میں نے کہا ساتھ ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ بڑھتا چلا جائے گا.پس جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں اور بعض طلباء کو جامعہ آنے یا دا خلہ لینے سے بددل کرتے ہیں، یہ لوگ صرف فتنہ ہیں یا اُن میں نفاق کا رنگ ہے.اس لئے اُن کو بھی استغفار کرنی چاہئے.جو شعبہ وقف کو ہے، انہوں نے بعض انتظامی باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو میں دہرا دیتا ہوں.شاید پہلے بھی بعض کا ذکر ہو چکا ہو.وقف کو میں ماں باپ بچوں کی بلوغت کو پہنچ کر یا پہلے ہی اس طرح تربیت نہیں کرتے ، جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ بچوں نے اپنے آپ کو باقاعدہ جماعت کی خدمت میں پیش کرنا ہے.ایسی تربیت سے بچوں کو یہ پتہ ہونا چاہئے.تعلیم کے ہر مرحلے پر اُن کو تو جہ دلائیں.اور پھر وقف نو کا جو شعبہ ہے اُس سے رہنمائی بھی حاصل کریں.اپنی تعلیم کے بارے میں بچوں کو پوچھنا چاہئے کہ اب ہم اس سٹیج پر پہنچ گئے ہیں کیا کریں؟ اور اگر اس نے اپنی مرضی کرنی ہے یا ایسے شعبوں میں جانا ہے جس کی فی الحال جماعت کو ضرورت نہیں ہے تو پھر وقف سے فراغت لے لیں.لڑکیاں جو واقفات کو ہیں، جو پاکستانی اور بیجن (Origin) کی ہیں، پاکستان سے آئی ہوئی ہیں، جن کو اردو بولنی آتی ہے، وہ اردو پڑھنی بھی سیکھیں.اور جو یہاں باہر کے ملکوں میں رہ رہی ہیں وہ مقامی زبان بھی سیکھیں.جہاں انگلش ہے، جرمن ہے یا ایسے علاقوں میں ہیں جہاں انگلش سرکاری زبان ہے اور مقامی لوکل زبانیں اور ہیں وہ بھی سیکھیں، عربی سیکھیں ، پھر اپنے آپ کو تراجم کے لئے پیش کریں.میں نے
خطبات مسرور جلد 11 43 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء دیکھا ہے عورتوں میں لڑکیوں میں زبانوں کا ملکہ زیادہ ہوتا ہے.اس لئے وہ اپنے آپ کو پیش کر سکتی ہیں.پھر ڈاکٹر ہیں، ٹیچر ہیں، یہ بھی لڑکیاں اپنے آپ کو ٹیچر اور ڈاکٹر بن کے بھی پیش کر سکتی ہیں، اسی طرح لڑکے بھی.تو اس طرف بھی توجہ ہونی چاہئے اور شعبہ کو ہر مرحلے پر پتہ ہونا چاہئے.مقامی جماعتی نظام کو لڑکوں اور لڑکیوں کی رہنمائی اور تربیت کے لئے سال میں کم از کم دو مرتبہ اُن کے فورم منعقد کرنے چاہئیں جس میں کام اور تعلیم کی رہنمائی ہو.ان کے شعبہ کو ایک شکوہ یہ ہے کہ بعض والدین وقف کرنے کے بعد ، حوالہ نمبر ملنے کے بعد مقامی جماعت اور مرکز دونوں سے تقریبالا تعلق ہو جاتے ہیں یا ویسے رابطہ نہیں رکھتے جیسا کہ رکھنا چاہئے.اور پھر ایک سٹیج پر پہنچ کے جب شعبہ یہ کہتا ہے کہ رابطہ نہیں ہے آٹھ دس سال گزر گئے ہیں ان کو نکال دیا جائے ، تو اُس وقت پھر شکوے پیدا ہوتے ہیں.اس لئے حوالہ نمبر ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب رابطہ ختم کر لیا اور وقف ٹو ہو گیا.مسلسل رابطہ دفتر سے اور اپنے نیشنل سیکرٹری شعبہ سے بھی اور مرکز سے بھی قائم رکھنا ضروری ہے.پھر واقفین کو اور واقفات ٹو کا نصاب مقرر ہے جو پہلے تو صرف بنیادی تھا، اب اکیس سال تک کے لڑکوں اور لڑکیوں کا یہ نصاب مقرر ہو چکا ہے.اس کو پڑھنا بھی چاہئے اور اگر امتحان وغیرہ ہوتے ہیں تو اس میں بھر پور شمولیت اختیار کرنی چاہئے.اور اس سے اوپر جولڑکے لڑکیاں ہیں، اُن کو قرآن کریم کی تفسیر جن کو اردو آتی ہے وہ اردو میں ، اور جن کو انگلش آتی ہے وہ انگلش میں Five Volume Commentary جو ہے وہ پڑھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب جو مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں، جو جو زبان آتی ہے اُس میں پڑھیں.خطبات اور خطابات ہیں وہ باقاعدہ سنیں.اپنا علم بڑھاتے چلے جائیں.یہ بھی اُن کے لئے ضروری ہے اور پھر اس کی رپورٹ بھی بھیجا کریں.جو سیکر ٹریانِ وقف تو ہیں یہ بھی بعض جگہ فعال نہیں ہیں.یہ بھی صرف عہدہ سنبھال کر بیٹھے ہوئے ہیں.ان لوگوں کو بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے.نہیں تو اس سال انتخابات ہورہے ہیں ، جماعتوں سے یہ رپورٹیں آنی چاہئیں کہ کون کون سے سیکرٹریان وقف کو فعال نہیں ہیں اور اگر وہ فعال نہیں ہیں تو چاہے اُن کے ووٹ زیادہ ہوں اُن کو اس دفعہ مقرر نہیں کیا جائے گا.نصاب کا پہلے ذکر آیا تھا.اگر جماعت کا بھی ایک نصاب بنا ہوا ہے، اور وہاں ایسا انتظام نہیں ہے کہ علیحدہ علیحدہ انتظام ہو سکے تو جو جماعتی نصاب ہے، اُسی میں وقف کو بھی شامل ہو سکتے ہیں، پڑھیں.تھوڑا بہت معمولی فرق ہے.آپس میں دونوں کی کو آرڈی نیشن (Co-ordination) اگر ہو جائے تو
خطبات مسرور جلد 11 44 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء اطفال کی عمر کے اطفال کا نصاب پڑھ سکتے ہیں، خدام کی عمر کا وہ پڑھ سکتے ہیں، لجنہ والی لجنہ کا پڑھ سکتی ہیں یا نصاب آپس میں سمویا جاسکتا ہے.جب جماعتی نظام کے تحت سیکرٹری تربیت اور سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری وقف کو جماعتی شعبہ کے تحت ہی کام کر رہے ہیں تو امراء اور صدر ان کا کام ہے کہ ان کو اکٹھا کر کے ایسا معین لائحہ عمل بنا ئیں کہ یہ نصاب بہر حال پڑھا جائے.خاص طور پر واقفین ٹو کو اس میں ضرور شامل کیا جائے.پھر یہ جو وقف ٹو کا نصاب ہے اُس کو مختلف ممالک اپنی زبانوں میں بھی شائع کروا سکتے ہیں.سویڈن نے اپنی زبان میں شائع کروایا ہے.فرنچ میں شائع کرنے کے لئے فرانس والے اور ماریشس والے کوشش کریں.اور یہ کوشش صرف زبانی نہ ہو.یہ تو اطلاع فوری طور پر دیں کہ کون اس کا ترجمہ کر سکتا ہے اور دو مہینے کے اندراندر یہ ترجمہ ہو بھی جانا چاہئے.واقفین ٹو کے مطالعہ میں روزانہ کوئی نہ کوئی دینی کتاب ہونی چاہئے.چاہے ایک دو صفحے پڑھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب، جیسا کہ میں نے کہا، اگر وہ پڑھیں تو سب سے زیادہ بہتر ہے.پھر اسی طرح خطبات ہیں سو فیصد واقفین کو اور واقفات نو کو یہ خطبات سننے چاہئیں.کوشش کریں.یہاں یو کے میں ایک دن میں نے کلاس میں جائزہ لیا تھا تو میرا خیال ہے دس فیصد تھے جو باقاعدہ سنتے تھے.اس کی طرف شعبہ کو بھی اور والدین کو بھی اور خود واقفین ٹو کو بھی توجہ دینی چاہئے.انتظامیہ کو بھی چاہئے کہ وہ واقفین ٹو کے جو پروگرام بناتے ہیں، وہ Inter-active پروگرام ہونے چاہئیں جس سے زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے.پھر اسی طرح ہر ملک کی جو انتظامیہ ہے وہ ایک کمیٹی بنائے جو تین مہینہ کے اندر یہ جائزہ لے کہ ان ملکوں کی اپنی ضروریات آئندہ دس سال کی کیا ہیں؟ کتنے مبلغین ان کو چاہئیں؟ کتنے زبان کے ترجمے کرنے والے چاہئیں؟ کتنے ڈاکٹر ز چاہئیں؟ کتنے ٹیچرز چاہئیں؟ جہاں جہاں ضرورت ہے.اور اس طرح مختلف ماہرین اگر چاہیں تو کیا ہیں؟ مقامی زبانوں کے ماہرین کتنے چاہئیں؟ تو یہ جائزے لے کر تین سے چار مہینے کے اندر اندر اس کی رپورٹ ہونی چاہئے اور پھر جو شعبہ وقف کو ہے وہ اس کا پر ا پر فالواپ (Proper Follow Up) کرے.بعض لوگ بزنس میں جانا چاہتے ہیں یا پولیس یا فوج میں جانا چاہتے ہیں یا اور شعبوں میں جانا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے وہ بے شک جائیں لیکن وقف سے فراغت لے لیں.یہ اطلاع کیا کریں.پھر اسی طرح ہر ملک میں واقفین کو کے لئے کیر ئیر گائیڈنس کمیٹی بھی ہونی چاہئے جو جائزہ لیتی رہے اور مختلف فیلڈز
خطبات مسرور جلد 11 45 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 جنوری 2013ء میں جانے والوں کی رپورٹ مرکز بھجوائے یا جن کو مختلف فیلڈز میں دلچسپی ہے، اُن کے بارے میں اطلاع ہو، پھر مرکز فیصلہ کرے گا کہ آیا اس کو کسی صورت میں اجازت دینی ہے.اور پھر یہ بھی جیسا کہ میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والے واقفین کو اپنے تجدید وقف ٹو کے عہد کو نہ بھولیں لکھ کر بھجوایا کریں.بانڈ (Bond) لکھیں.اسی طرح واقفین ٹو کے لئے ایک رسالہ لڑکوں کے لئے اسماعیل“ اور لڑکیوں کے لئے مریم شروع کیا گیا ہے.جرمن اور فرنچ میں بھی اس کا ترجمہ ہونا چاہئے.اگر تو ایسے مضامین ہیں جو وہاں کے مقامی واقفین نو ، واقفات کو لکھیں تو وہ شائع کریں.نہیں تو یہاں سے مواد مہیا ہو سکتا ہے اس کو یہ اپنی اپنی زبانوں میں شائع کر لیا کریں.اردو کے ساتھ مقامی زبان بھی ہو.اللہ تعالیٰ تمام ان والدین میں جنہوں نے اپنے بچے وقف کو کے لئے پیش کئے ، اس رنگ میں بچوں کی تربیت اور دعا کرنے کی طرف توجہ پیدا فرمائے جو حقیقت میں اُن کو واقفین کو بنانے کا حقدار بنانے والی ہوں.اور یہ بچے والدین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں.بچوں کو بھی اپنے ماں باپ اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی عطا فرمائے اور وہ حقیقت میں اُس گروہ میں شامل ہو جائیں جن کا کام صرف اور صرف دین کی اشاعت ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 8 فروری 2013 ء تا 14 فروری 2013 ءجلد 20 شمارہ 6 صفحه 5 تا9)
خطبات مسرور جلد 11 46 4 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013 ء بمطابق 25 صلح 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” خدا نے اپنے رسول نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اتمام حجت میں کسر نہیں رکھی.وہ ایک آفتاب کی طرح آیا اور ہر ایک پہلو سے اپنی روشنی ظاہر کی.پس جو شخص اس آفتاب حقیقی سے منہ پھیر تا ہے اُس کی خیر نہیں.ہم اُس کو نیک نیت نہیں کہہ سکتے“.فرمایا: ”یادر ہے کہ توحید کی ماں نبی ہی ہوتا ہے جس سے توحید پیدا ہوتی ہے اور خدا کے وجود کا اس سے پتہ لگتا ہے.فرمایا : ” اور خدا تعالیٰ سے زیادہ اتمام حجت کو کون جانتا ہے.اُس نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سچائی ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان کو نشانوں سے بھر دیا ہے.اور اب اس زمانہ میں بھی خدا نے اس ناچیز خادم کو بھیج کر ہزار ہا نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے لئے ظاہر فرمائے ہیں جو بارش کی طرح برس رہے ہیں.تو پھر 66 اتمام حجت میں کونسی کسر باقی ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 180-181) گوید نشان مختلف صورتوں میں آج بھی ظاہر ہورہے ہیں لیکن آخرین کی وہ جماعت جس نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فیض پایا، اللہ تعالیٰ نے اُن کی رہنمائی کی، ان کو نشانات دکھائے، خوابوں کے ذریعہ سے اُن کو صحیح ہدایت کے رستے کی طرف ڈالا اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے لئے پھر ہر طرح کی قربانی بھی دی.اُن میں سے ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے
خطبات مسرور جلد 11 47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عاشق صادق کو ایک جان ہونے کی صورت میں دکھایا.جیسا کہ میں نے سلسلہ شروع کیا ہوا ہے.آج بھی میں اُن لوگوں کی چند خواہیں پیش کروں گا جن کی مختلف رنگ میں اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اور پھر ایسے بھی ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوابوں میں دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مسیح کے بارے میں بعض کو بتایا کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کیا مقام تھا اور کس طرح یہ جری اللہ آیا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے کے لئے اس زمانے میں کام کیا؟ اس کی بھی بعض مثالیں ہیں.حضرت مرزا محمد افضل صاحب ولد مرزا محمد جلال الدین صاحب فرماتے ہیں.ان کا بیعت کا سن 1895ء ہے اور زیارت انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی 1904 ء میں کی اور وہیں دستی بیعت کی.کہتے ہیں کہ غالباً 1876 عیسوی کے ادھر اُدھر میرے والد منشی محمد جلال الدین صاحب اول الاصحاب البدر - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جبکہ وہ نوشہرہ چھاؤنی میں تھے.(مسیح کے بارے میں یہ بھی آتا ہے کہ اُس کے تین سو تیرہ (313) اصحاب ہوں گے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف جگہوں پر آئینہ کمالات اسلام میں بھی اور انجام آتھم میں بھی 313 صحابہ کا ذکر کیا ہے جن کو حدیث کے مطابق بدر کے صحابہ کے نام سے موسوم کیا ہے، اُن میں مرز امحمد افضل صاحب کے والد یہ منشی جلال الدین صاحب بھی تھے.تو کہتے ہیں) جبکہ وہ نوشہرہ چھاؤنی میں تھے ایک مبشر خواب کی بناء پر جو متواتر تین روز دیکھا.مجھے ( یعنی ان کو، مرزا افضل صاحب کو جو کہتے ہیں اُس وقت میں خوردسال ہی تھا، چھوٹا سا تھا) ایک دوست کے حوالے کر کے مہدی موعود کی تلاش میں رخصت لے کر نکلے.جہلم کے مقام پر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی کتاب کا اشتہار ملا.مطالعہ کیا اور منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہوئے.قادیان ایک گمنام گاؤں تھا.پوچھ پوچھ کر وہ بٹالہ پہنچے مگر یہاں میاں صاحب بٹالہ کے ایماء پر ( شاید وہاں کسی صاحب نے اُن کو روکا یا بددل کیا ہو گا ، وہ واپس چلے گئے بہر حال ) واپس چلے گئے.(فوج میں تھے ) اور اس کے بعد کا بل لڑائی پر چلے گئے.وہاں سے واپسی پر ایک نادم دل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت صاحب نے دیکھتے ہی فرمایا کیا آپ وہی منشی جلال الدین صاحب ہیں جن کے کابل سے خط آتے تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 224 از روایات حضرت مرزا محمد افضل صاحب) ان کو اللہ تعالیٰ نے کئی دفعہ رہنمائی فرمائی تھی لیکن پھر بھی کیونکہ مخالفین تو روڑے اٹکانے والے
خطبات مسرور جلد 11 48 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء ہوتے ہیں.ان کو اُس وقت تو قبولیت کی توفیق نہیں ملی لیکن نیت سے جو نکلے تھے اور بہر حال سعادت تھی ، تو اللہ تعالیٰ نے بعد میں موقع دیا ).حضرت محمد عبد اللہ صاحب جلد ساز ولد محمد اسماعیل صاحب جن کا بیعت کا سن مئی 1902 ء ہے اور 1903 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی.کہتے ہیں جو کچھ مجھے ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.میں نے بچپن میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شبیہ مبارک رؤیا میں دیکھی تھی کہ میں اپنے آپ کو پرندوں کی طرح اُڑتا ہوا د یکھتا ہوں اور مشرق کی طرف اُڑ رہا ہوں اور آگے جا کر دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ ہیں جن کی داڑھی اور سر کے بال مہندی سے رنگے ہوئے ہیں.جب 1903ء میں حاضر ہوا وہ شکل جو بچپن میں اُڑتے ہوئے دیکھی تھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تھی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 241 از روایات حضرت محمد عبد اللہ صاحب جلد ساز ) حضرت رحمت اللہ صاحب جن کی بیعت بذریعہ خط 1901ء میں ہوئی، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جلسہ قریب آ گیا.خاکسار نے دعائے استخارہ کیا تو غنودگی میں چند مرتبہ زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے.بکوشیداے جواناں تا بہ دیں قوت شود پیدا ( کہ اے جوانو! کوشش کرو کہ دین میں قوت پیدا ہو.یعنی خدمت دین کی طرف توجہ دو.) کہتے ہیں کہ الحمد للہ ! عاجز ہر جلسہ پر حضور کی موجودگی میں خدا کے فضل سے بمع احباب بنگہ حاضر ہوتا رہا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 2 صفحہ 36 از روایات حضرت رحمت اللہ صاحب) حضرت خانزادہ امیر اللہ خان صاحب جن کی بیعت بذریعہ خط 1904ء کی اور زیارت 1905ء یا 1906ء کی تھی، کہتے ہیں خواب کی باتیں حضرت مسیح موعود سے جبکہ میں قادیان میں گیا نہ تھا، کیا باتیں تھی) دن کے وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم تین احمدی ہیں.یہ عاجز، امیر اللہ احدی اور باب عالمگیر خان مرحوم، غیر مبائع دلاور خان ( میرا خیال ہے غیر مبائع دلاور خان ہوں گے.) جنوب کی قطار میں کھڑے ہیں.ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفہ اول نور الدین علیہ الرحمتہ رو بہ شمال کھڑے ہیں.مسیح علیہ السلام نے ہاتھ بڑھا کر میرے سینے کی طرف انگلی کر کے خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو فرما یا.یہ جنتی ہے“.پھر دوسرے احمدی کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے دی بھی.تیسرے کی نسبت کچھ نہ کہا.چونکہ مسیح موعود کی طرف میں ٹکٹکی لگائے ہوئے تھا میں تمیز نہ کر سکا کہ ہر دو احمدیوں میں سے مسیح موعود کا اشارہ کس کو تھا.
خطبات مسرور جلد 11 49 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء اس کے بعد نظارہ اچا نک بدل گیا.دیکھتا ہوں کہ ہم چار احمدی ایک یہ راقم اور مولوی عطاء اللہ مرحوم ، عالمگیر خان، غیر مبائع دلاور خان اکٹھے بیٹھے ہیں، جس طرح روٹی کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں.ہم آپس میں کہتے ہیں.کوئی کہتا ہے میں باز ہوں، کوئی کہتا ہوں میں کاؤس ہوں، ایک کہتا ہے میں کبوتر ہوں، دوسرا کہتا ہے میں چکور ہوں.اتنے میں خلیفہ اول تشریف لائے.فرمایا تم اس کے لئے نہیں پیدا ہوئے کہ میں باز ہوں، کاؤس ہوں، کبوتر ہوں ، چکور ہوں، کہو لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله.تیسرے کلمہ پڑھنے پر ( دو تین دفعہ کلمہ پڑھا) بیدار ہوا خواب سے.ظہر کا وقت تھا، ایک بالشت بھر سایہ دیوار کا تھا.جب اگلے سال میں قادیان گیا تو وہی حلیہ خواب میں مسیح کا اور خلیفہ اول کا پایا.الحمد للہ دوسرا خواب کہتے ہیں کہ قادیان میں خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے خلافت کے زمانے میں بائیس دن زیر علاج خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حکیم الامت ، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور دو اور احمدی ڈاکٹروں سے میری تشخیص کروائی.( یہ ان کا علاج کر رہے تھے ) اُنہوں نے آپریشن کا مشورہ دیا.میں خوش ہوا.رات کو مہمان خانے کے کمرے میں مسیح موعود علیہ السلام میرے سرہانے کھڑے فرما رہے تھے ( رات کو خواب دیکھی ) کہ آپریشن نہیں طاعون ہے اور تعبیر بھی مجھے سمجھایا گیا کہ طاعون بمعنی موت ہے.میں نے صبح خلیفہ اول کو خواب کا ذکر کیا.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.مسیح موعود درست فرماتے ہیں.آپریشن نہیں چاہئے.تیسری خواب بھی ایک بیان فرما رہے ہیں.کہتے ہیں اپنے گھر میں خواب میں دیکھا کہ میں نے دوسرے روز جلسہ سالا نہ پر جانے کا ارادہ کیا تھا.مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.حامد علی کا بھی خیال رکھنا.چنانچہ میں نے جلسہ سالانہ قادیان پر جا کر ایک روپیہ حامد علی صاحب خادم مسیح موعود علیہ السلام کو دیا.( یہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد کا ذکر ہے ) کہتے ہیں میں نے حامد علی صاحب خادم مسیح موعود کولکھا کہ رویا میں مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ حامد علی کا بھی خیال رکھنا.پس یہ ایک روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.حامد علی صاحب روئے.(اس بات کو سن کر وہ روئے.کہنے لگے کہ انبیاء کیسے رحیم و کریم ہوتے ہیں.اپنے خادم کا بھی انہیں فکر ہے.پھر اپنے پیارے بیٹوں کا انہیں فکر نہ ہوگا جو لاہور میں ایک بے شرم اور اس کے ہم خیال مسیح علیہ السلام کے اہلِ بیت پر نا جائز حملے کرتے ہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 2 صفحہ 77 تا 79.از روایات حضرت خان زادہ امیر اللہ خان صاحب) اُس وقت غیر مبائعین جو لاہور ہی چلے گئے تھے، اُن کا پھر خواب میں اُن کو ( خیال ) آیا کہ
خطبات مسرور جلد 11 50 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیا اپنے بیٹے کی فکر نہیں ہوگی؟ (حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی طرف اشارہ ہے.اس بات پر ان کو مزید یقین پیدا ہوا کیونکہ اُس زمانے میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خلافت پر کافی فتنہ تھا).حضرت میاں میراں بخش صاحب ٹیلر ماسٹر بیان کرتے ہیں (1900 ء کی ان کی بیعت ہے ) کہ بیعت کی تحریک اس طرح پیدا ہوئی تھی کہ ہمارے بھائی غلام رسول صاحب ہم سے پہلے احمدی ہو چکے تھے مگر ان پڑھ تھے.میں جب دوکان سے اپنے گھر کی طرف جاتا تھا تو راستے میں اُن سے ملا کرتا تھا.اُن کے ساتھ سلسلے کی باتیں بھی ہوتی تھیں.میں چونکہ مخالف تھا اس لئے اُن کو جھوٹا کہا کرتا تھا.لیکن جب گھر آ کر سوچتا تو نفس کہتا کہ گو یہ آن پڑھ ہے مگر ان کی باتیں لا جواب ہیں.ایک دفعہ میرے بھائی نے مجھے کچھ ٹریکٹ دیئے جو میں نے پڑھے، اُن کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا.اس پر میں نے خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا شروع کر دی.ایک رات خواب میں دیکھا کہ میں اپنی چار پائی سے اُٹھ کر پیشاب کرنے گیا ہوں مگر دیکھتا ہوں کہ کھڑ کی کھلی ہے.میں حیران ہوا کہ آج یہ کھڑ کی کیوں کھلی ہے.میں جب کھڑکی کی طرف گیا تو دیکھا کہ ایک بزرگ ہاتھ میں کتاب لئے پڑھ رہے ہیں.میں نے سوال کیا کہ یہ کونسی کتاب ہے جو آپ پڑھ رہے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ یہ کتاب مرزا صاحب کی ہے اور ہم تمہارے لئے ہی لائے ہیں.جب انہوں نے کتاب دی تو میں نے کہا کہ یہ تو چھوٹی تختی کی کتاب ہے.میں نے اُن کے ٹریکٹ دیکھے ہیں وہ تو بڑی تختی کے ہوتے ہیں.وہ بزرگ بولے کہ مرزا صاحب نے یہ کتاب چھوٹی تختی کی چھپوائی تھی.اس پر میری آنکھ کھل گئی.میں نے خیال کیا کہ شاید رات کو میں دعا کر کے ان خیالات میں سویا تھا، یہ اُن کا ہی اثر ہوگا.مگر جب میں ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر کی طرف آیا تو غلام رسول کی دوکان پر ایک شخص بیٹھا ہوا ایک کتاب پڑھ رہا تھا.میں نے کہا یہ کونسی کتاب ہے جو پڑھ رہے ہو؟ میاں غلام رسول صاحب نے اُس کے ہاتھ سے کتاب لے کر میرے ہاتھ میں دے دی اور کہا کہ تم جو کتاب مانگتے تھے یہ کتاب آپ کے لئے ہی میں لایا ہوں، یہ آپ لے لیں.میں نے کتاب کو دیکھ کر کہا کہ یہ کتاب رات خواب میں مجھے مل چکی ہے.اس پر میں نے ازالہ اوہام کے دونوں حصوں کو غور سے پڑھا اور اپنے دل سے سوال کیا کہ اب بھی تمہیں کوئی شک وشبہ باقی ہے.میرے دل نے جواب دیا کہ اب کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہا.اس لئے میں نے بیعت کا خط لکھ دیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحه 117-118 از روایات میاں میراں بخش صاحب ٹیلر ماسٹر )
خطبات مسرور جلد 11 51 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء یعنی چند گھنٹوں کے اندر اندر خواب پوری بھی ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تو فیق بھی دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آجائیں.) حضرت محمد فاضل صاحب ولد نور محمد صاحب، 1899 ء کی ان کی بیعت ہے، کہتے ہیں کہ ایک دن گھر میں تھا، مولوی شیخ محمد ( ان کا کوئی مولوی تھا) غیر مقلد جو میرا سالا تھا، ملنے کے لئے آیا اور اُنہوں نے مجھے ایک رسالہ دیا جس کا نام شہادۃ القرآن علی نزول امسیح الموعود فی آخر الزمان تھا.رات کا وقت تھا، مجھے شوق ہوا کہ کب دن ہو اور میں اُسے پڑھوں.جب صبح ہوئی تو میں نے نماز سے فارغ ہو کر ایک علیحدہ کوٹھڑی میں چار پائی پر لیٹ کر رسالے کو پڑھنا شروع کیا تو کوئی تین صفحے پڑھے ہوں گے کہ مجھے غنودگی ہو گئی.میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سرہانے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آ کر بیٹھ گئے ہیں اسی چار پائی پر اور اپنے دہن مبارک سے اپنے لعاب نکال کر میرے منہ میں ڈالتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے ڈالتے ہیں تو میں اُس کو گھونٹ کی طرح نگل گیا.اس وقت مجھے اس طرح معلوم ہوا کہ میرے دل سے فوارے نکل رہے ہیں اور سرور سے سینہ بھر گیا.پھر میں بیدار ہو گیا.اس سے میرے دل میں یقین زیادہ ہو گیا اور محبت کی آگ بہت تیز ہوگئی.اور میرے قلب میں اضطراب اور عشاق جہاں جاتا رہا ، اضطراب جاتا رہا اور جب بھی میں اکیلا چلتا اکثر میری زبان پر یہ شعر جاری ہوتا.پھرتا ہوں تجھ بن صنم ہو کے دیوانہ ہو بہو شهر به شهر دیهه به دیه دیہہ بہ دیه خانه به خانه کو به گو (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 231-230 از روایات حضرت محمد فاضل صاحب) یہ کتاب "شہادۃ القرآن جس کا یہ ذکر کر رہے ہیں.اُس میں کسی اعتراض کرنے والے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ اعتراض کیا تھا کہ حدیثوں سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ آپ بچے ہیں.حدیثیں تو بعض اس قابل بھی نہیں ہیں کہ اُن پر یقین کیا جائے.تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب لکھی تھی اور تمام شبہات دور فرمائے.اُس شخص کی تو تسلی نہیں ہوئی لیکن بہر حال اُس کی اس کتاب سے بہتوں کا فائدہ ہو گیا.حضرت شیخ عطا محمد صاحب سابق پٹواری و نجواں بیان کرتے ہیں کہ خواب آیا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام بٹالہ کی سڑک پر ٹہلتے ہیں جو تحصیل کے محاذ میں ہے.( یعنی سامنے ہے.) حضور نے مجھ کو ایک روپیہ دیا اور ملکہ کی تصویر پر کر اس لگا دیا ، کانٹا پھیر دیا، خط کھینچ دیا اور فرمایا کہ اس کو خزانے میں دے آؤ.
خطبات مسرور جلد 11 رض 52 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء جب یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنائی گئی تو حضور نے فرمایا کہ ملکہ مسلمان نہیں ہوگی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر 10 صفحہ 355 از روایات حضرت شیخ عطا محمد صاحب سابق پٹواری و نجواں) میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل صاحب روایت کرتے ہیں، ( اُن کی بیعت 1892ء کی ہے ) کہ چوہدری عبد الرحیم صاحب ابھی غیر احمدی ہی تھے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھڑی مرمت کے لئے میرے پاس آئی ہے.کہتے ہیں چنانچہ اتفاق سے میں نے ( یعنی میاں مغل صاحب نے ) یہ گھڑی اُن کو مرمت کے لئے دی.( یہ وہ گھڑی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گھڑی تھی اور حضرت اماں جان نے ان کو دی تھی.جس شخص نے خواب دیکھی وہ غیر احمدی تھے.اُس وقت احمدی نہیں ہوئے تھے ، انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گھڑی اُن کے پاس مرمت کے لئے آئی ہے.کچھ عرصہ کے بعد مغل صاحب نے ایک گھڑی مرمت کے لئے ، ان صاحب کو دی جنہوں نے خواب دیکھی تھی.جب انہوں نے وہ گھڑی کھولی تو مرمت کرنے والے کہنے لگے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھڑی ہے.بالکل وہی نقشہ ہے جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحه 19 از روایات حضرت میاں عبد العزیز صاحب المعروف مغل) حضرت امیر خان صاحب جن کی 1903ء کی بیعت ہے، فرماتے ہیں کہ 1902ء میں میں نے خواب کے اندر مسجد مبارک کو ایک گول قلعہ کی شکل میں دیکھا جس کے اندر بہت سی مخلوق تھی اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک سرخ جھنڈی تھی.اور اُن میں سے ایک شخص جو سب سے بزرگ تھا، وہ اوپر کی منزل میں تھا.اُس کے ہاتھ میں ایک بہت بڑا سرخ جھنڈا تھا.کسی نے مجھے کہا کہ آپ جانتے ہیں یہ کون ہے؟ میں نے کہا میں تو نہیں جانتا.تب اُس نے کہا یہ تیرا کابل کا بھائی ہے.اس قلعہ کے برجوں میں ایسے سوراخ تھے کہ جن سے بیرونی دشمن پر بخوبی نشانہ لگ سکتا تھا مگر باہر والوں کا بوجہ اوٹ کے کوئی نشانہ نہیں لگ سکتا تھا اور قلعہ کے باہر گرد و غبار کا اس قدر دھواں تھا کہ مشکل سے آدمی پہچانا جاتا تھا.اور گدھوں، خچروں اور اونٹوں کی آوازوں کا اس قدر شور تھا کہ مارے دہشت کے دل بیٹھا جاتا تھا.جب میں قلعہ سے باہر نکلا ( یہ خواب بیان فرمارہے ہیں ) تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر طرف مُردے ہی مُردے پڑے ہیں جن کو اٹھا اُٹھا کر قلعہ میں لایا جا رہا ہے.جب میں قلعہ سے ذرا دور فاصلے پر چلا گیا اور شور وغل نے مجھے پریشان سا کر دیا تو میں گھبرا کر قلعہ کی طرف فوراً لوٹا اور قلعہ میں داخل ہونے کے لئے دروازے کی تلاش کرنے لگا مگر کوئی دروازہ نہ ملا.میں اسی تلاش میں تھا کہ اتنے میں میں نے ایک شخص مسکین صورت ، نیک سیرت کو دیکھا.
خطبات مسرور جلد 11 53 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء وہ بھی قلعہ کے اندر داخل ہونے کے لئے سعی کر رہا ہے مگر دروازہ اُسے بھی نہیں ملتا.ابھی ہم اسی جستجو میں تھے کہ ہمیں معلوم ہوا کہ قلعہ کے اوپر جو چبوترہ ہے اُس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی واقی، جماعت نماز کرا رہے ہیں ( باجماعت نماز وہاں ہو رہی ہے ) یہ دیکھ کر ہم دونوں بے تاب اور بیقرار ہو گئے.اسی اضطراری حالت میں کہتے ہیں کہ میں نے دوسرے ساتھی کے گلے میں اپنے دونوں ہاتھ ڈال کر اللہ ھو “ کا ذکر جس طریق سے کہ مجھے میرے پیر سید غلام شاہ صاحب نے بتلایا ہوا تھا، کرنا شروع کر دیا.جس کی برکت سے ہم دونوں پرواز میں آئے اور اُڑ کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دائیں جانب پہلی صف میں جہاں کہ صرف دو آدمی کی جگہ خالی تھی کھڑے ہو کر سجدہ میں شامل ہو گئے اور سجدہ کے اندر میں اپنی اس خوش نصیبی کو محسوس کرتے ہوئے کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب اور پہلی صف میں جگہ میسر آئی، اس قدر رقت پیدا ہوئی اور اس زور سے اللہ ھو کا ذکر جاری ہوا کہ جب میں اسی حالت میں بیدار ہوا تو سانس بہت ہی زور سے آ رہا تھا.اور آنکھوں سے آنسوؤں کا تار جاری تھا اور سانس اس قدر بلند تھا کہ اس سانس کو سن کر گھر والے بھی بیدار ہو گئے اور مجھے پوچھنے لگے.کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ مگر چونکہ ابھی اللہ ھو کا ذکر برابر جاری تھا اور سانس زور زور سے نکل رہا تھا، اس کی وجہ سے میں انہیں کوئی جواب نہیں دے سکا.اس لئے میں جوش کو فرو کرنے کے لئے اور پردہ پوشی کے لئے اندر سے صحن میں چلا گیا اور جب حالت درست ہوئی تو میں پھر اندر آیا اور چار پائی پر لیٹ گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 126 - 125 از روایات حضرت امیر خان صاحب) پھر آگے انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ اس کا اثر ہوا اور کچھ عرصے کے بعد اُن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق بھی عطا فرمائی.حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب پیدائشی احمدی تھے، 1903ء میں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی.کہتے ہیں میں نے سب سے پہلے حضرت اقدس کو اُس وقت دیکھا جب حضور جہلم تشریف لے جارہے تھے.واپسی پر بھی دیکھا تھا.پھر لاہور 1904ء میں، پھر 1905ء میں میں قادیان گیا.قادیان جانے سے پہلے مجھے ایک خواب آئی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ والد صاحب گھر سے باہر گئے ہوئے ہیں اور گھر میں صرف میں اور میری چھوٹی ہمشیرہ ہیں.دیکھا کہ دو آدمی دروازے پر آئے، دستک دی اور آواز دی.میں نے باہر نکل کر دروازہ کھولا.وہ دونوں میری درخواست پر اندر تشریف لے آئے.میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے صحن میں ایک دری اور تین کرسیاں
خطبات مسرور جلد 11 54 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء بچھی ہوئی ہیں.سامنے ایک میز بھی پڑی ہے.میں نے اُن (یعنی دو مہمان جو آئے تھے ) کو کرسیوں پر بٹھا دیا.خواب میں چھوٹی ہمشیرہ کو کہا کہ اُن کے لئے چائے تیار کرو.وہ کو ٹھے پر ایندھن لینے کے لئے گئی (اُس زمانے میں جو طریقہ تھا، گیس وغیرہ تو ہوتی نہیں تھی.لکڑیاں یا جو بھی جلانے کی چیزیں اوپر پڑی ہوتی تھیں، وہ لینے گئی ) تو سیڑھیوں میں ہی تھی کہ ایک سیاہ رنگ کا اچھے قد و قامت کا سانڈ اندر آیا اور اُن آدمیوں کو دیکھ کر فورا واپس ہو گیا اور سیڑھیوں پر چڑھنے لگا.میں نے شور ڈال دیا کہ میری ہمشیرہ کو مار دے گا.شور سن کر پہلے سیاہ داڑھی والے مہمان اٹھنے لگے ہیں مگر سرخ داڑھی والے نے کہا کہ چونکہ یہ کام آپ نے میرے سپرد کیا ہوا ہے اس لئے یہ میرا کام ہے.چنانچہ وہ گئے.میں بھی پیچھے ہولیا.ہمشیرہ دیوار کے ساتھ لگ گئی.اُسے کچھ خراش لگی ہے مگر زخم نہیں لگا.ہم اوپر چلے گئے.سانڈ ہماری مغربی دیوار پر انجن کی شکل میں تبدیل ہو گیا ( اُس کی شکل بدل گئی اور دیوار پر آگے پیچھے چلنے لگا.جب دیوار کے آخری کونے پر پہنچا تو اس مہمان نے سوٹا مارا اور پیچھے کی طرف گر کر چور چور ہو گیا.ہم واپس آگئے اور وہ مہمان پھر کرسی پر بیٹھ گئے اور چائے پی.مجھے بھی انہوں نے پلائی.چائے پینے کے بعد کچھ دیر وہ بیٹھے رہے، باتیں کرتے رہے.پھر کہنے لگے کہ برخوردار ہمیں دیر ہوگئی ہے، اجازت دو تا کہ ہم جائیں.میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے بتا ئیں تو سہی کہ آپ کون ہیں؟ تا میں اپنے والد صاحب کو بتا سکوں.میری اس عرض پر وہ دونوں خفیف سے مسکرائے.کالی داڑھی والے نے کہا کہ میرا نام محمد ہے اور ان کا نام احمد ہے.میں نے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا کہ پھر مجھے کچھ بتا ئیں.انہوں نے عربی زبان میں ایک کلمہ کہا جو مجھے یاد نہ رہا مگر اُس کا مفہوم جو اُس وقت میرے ذہن میں تھاوہ یہ تھا کہ تیری زندگی کے تھوڑے دن بہت آرام سے گزریں گے.پھر میں نے مصافحہ کیا، انہوں نے کہا کہ اپنے باپ کو ہمارا السلام علیکم کہہ دینا.وہ باہر نکل گئے.میں نے اُن کو رخصت کیا.اُن کے جانے کے بعد خواب میں ہی کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب آ گئے.(خواب ابھی چل رہی ہے ) میں نے سارا قصہ سنایا.وہ فورا باہر گئے.اتنے میں کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی جس کا باعث یہ ہوا کہ میرے باپ نے آواز دی کہ اٹھو اور نماز پڑھو.میں نے اپنے والد صاحب کو یہ خواب سنائی.اُس دن جمعہ تھا.جمعہ کے وقت میں نے منشی احمد دین صاحب اپیل نویس کو وہ خواب سنائی.انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں خود لکھ کر یا مجھ سے لکھوا کر بھیج دی.چند روز کے بعد کہا کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ جلسہ پر اس لڑکے کو ساتھ لے کر آؤ.چنانچہ جلسہ پر میں گیا.جب ہم مسجد مبارک میں گئے تو دو تین بزرگ بیٹھے تھے.ہم نے اُن سے مصافحہ کیا.اتنے میں حضرت اقدس
خطبات مسرور جلد 11 55 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء تشریف لائے.ہم کھڑے ہو گئے.مصافحہ کیا.پھر حضور بیٹھ گئے.منشی احمد دین صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہ وہ لڑکا ہے جس کو خواب آئی تھی.حضور نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ وہ خواب سناؤ.چنانچہ میں نے وہ خواب سنائی.پھر اندر سے کھانا آیا.حضور نے کھایا اور دوستوں نے بھی کھایا.جب حضرت اقدس کھانا کھا چکے تو تبرک ہمارے درمیان تقسیم فرما دیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحه 111 تا 113 از روایات حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب) حضرت سید سیف اللہ شاہ صاحب بیان کرتے ہیں.انہوں نے 1906ء میں بیعت اور 1908ء میں زیارت کی تھی.کہتے ہیں غالباً بارہ تیرہ سال کی عمر تھی کہ خواب میں اپنے آپ کو موضع یاڑی پورہ میں پایا.اُس وقت تک میں یاڑی پورہ سے نا آشنا تھا.پتہ نہیں تھا کہ یاڑی پورہ کیا جگہ ہے ).کہتے ہیں دیکھا کہ ہزاروں لوگ جمع ہو گئے ہیں اور اس جگہ احمدیوں کی مسجد ہے.اُس جگہ ایک ٹیلہ جو قریباً چھ سات گز اونچا تھا نظر آیا.اور اُس پر ایک صاحب بیٹھے ہیں اور لوگ اُس ٹیلے کے نیچے سے اُن کی زیارت اور آداب کر کے گزرتے ہیں.میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ تو مجھے کہا گیا کہ یہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو میں نے کمال مسرت سے بے تحاشا ٹیلے پر چڑھ کر اور اُن کے سامنے کھڑا ہو کر السلام علیکم عرض کیا اور حضور نے وعلیکم السلام فرمایا اور میں نزدیک ہو کر اُن کے سامنے بیٹھ گیا تو یک لخت میرے دل میں وہی ہمیشہ کی آرزو یاد آ گئی تو میں نے دل میں کہا کہ اب ان سے بڑھ کر مجھے اور کس پیر یار ہبر کی ضرورت ہے.میں انہی سے بیعت کروں گا.میں نے عرض کی کہ یا حضرت میں بیعت کرنا چاہتا ہوں تو حضور نے فرمایا اچھا ہاتھ نکالو.تو میں نے ہاتھ نکالا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے داہنے ہاتھ کو اپنے داہنے دستِ مبارک میں پکڑا اور فرمایا کہ کہو، اللہ ربی.تو میں نے الله رقی کہا.اتنے میں میں بیدار ہو گیا.بیدار ہونے پر مجھے نہایت افسوس ہوا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر رہا تھا مگر افسوس کہ جلدی بیدار ہو گیا.وہ مقدس صورت ہمیشہ میرے سامنے آجاتی تھی اور رخ منور کا عکس میرے لوح دل سے کبھی محو نہ ہوتا تھا.گویا میرے دل پر وہ نقشہ جم گیا تھا.آگے لکھتے ہیں کہ اس رؤیا کی تعبیر آگے کھل جائے گی.پھر بڑا لمبا عرصہ گزر گیا.( اس عرصے کے مختلف حالات انہوں نے بیان کئے ہیں ) کہتے ہیں آخر ان کو قادیان جانے کا موقع ملا.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دیدار ہوا تو کہتے ہیں کہ جب میری نظر چہرہ مبارک پر پڑی تو مجھے وہی خواب والا نقشہ یاد آیا.یعنی ہو بہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہی صورت دیکھی جو میں نے خواب مذکور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات مسرور جلد 11 56 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء کی دیکھی تھی.ایک سر موتفاوت نہ تھی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 3 صفحہ 41-45,42-46- از روایات حضرت سید سیف اللہ شاہ صاحب) حضرت چوہدری غلام احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں.مئی 1908ء میں انہوں نے زیارت کی تھی لیکن بیعت نہیں کی تھی.1909ء میں انہوں نے خلیفہ اول کی بیعت کی.کہتے ہیں کہ 1905ء کے موسم سرما کا ذکر ہے جبکہ میں آٹھویں جماعت میونسپل بورڈ سکول راہواں ضلع جالندھر میں تعلیم پاتا تھا کہ ایک شب میں نے رویا دیکھا کہ میں اور ایک اور لڑ کا مسمی عبداللہ قوم جٹ جو کہ میرا ہم جماعت تھا، کھیل کود یعنی ورزش کے میدان سے اپنی جائے رہائش ) بورڈنگ ہاؤس اہلِ اسلام جو کہ شہر میں بڑے بازار کے نزدیک ہوا کرتا تھا) کو آ رہے تھے.چونکہ وہ میدان شہر کی جانب شمال واقع ہے اس لئے ہم شہر میں شمالی سمت سے داخل ہونے والے تھے کہ وہاں ایک گلی میں آنحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھائی دیئے.حضور کا رُخ شہر کی طرف تھا.اس واسطے میں شہر کی طرف پیٹھ کرتا ہوا اور اپنا رخ جانب شمال کرتا ہوا حضور کی طرف بڑھا اور السلام علیکم کہا اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا.حضور کے سر پر سفید پگڑی نہایت سادگی سے بندھی ہوئی تھی.کالا لمبا چونہ اور سفید یا جامہ زیب تن تھا.گندمی رنگ تھا، بال سیدھے تھے، آنکھیں ٹوپی دار تھیں.پیشانی فراخ اور اونچی تھی ، بڑھی ہوئی اونچی ناک تھی.ریش مبارک کے بال سید ھے اور لمبے اور سیاہ تھے.چہرے پر کوئی شکن نہیں تھا بلکہ خوبصورت نورانی اور چمکدار تھا.قد درمیانہ تھا.خواب میں حضور سرور کائنات سے ملاقات کر کے دل میں لذت اور سرور حاصل ہوتا تھا اور دل نہایت خوش و خرم تھا.یہاں تک کہ بیداری پر بھی وہی لذت اور سرور موجود تھا.خواب کا دل پر ایسا گہرا نقش ہوا کہ میں آج یہ سطور لکھتا ہوا بھی اس پاک نظارے سے محظوظ اور مسرور ہو رہا ہوں اور اس کا دل سے مٹنا ممکن نہیں.تبلیغ احمدیت تو مجھے ہو چکی تھی ( تبلیغ ان کو ہو چکی تھی لیکن احمدی نہیں تھے ) کہتے ہیں تبلیغ احمدیت تو مجھے ہو چکی تھی اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا چکا تھا اور بعض ابتلاؤں میں بھی اس ایمان پر قائم رہ چکا تھا (یہ بیعت کر چکے تھے مگر بعد ازاں بعض وجوہات سے پھر مخالف ہو گیا.( پہلے انہوں نے بیعت کی لیکن پھر بعد میں بیعت سے ارتداد اختیار کر لیا.کہتے ہیں میں مخالف ہو گیا ) حتی کہ اس خواب سے اڑھائی سال بعد جب میں نے حضرت مسیح موعود کو بتاریخ 18 مئی 1908ء لاہور میں پہلی دفعہ دیکھا تو مجھے فورا مذکورہ بالا خواب یاد آ گیا، کیونکہ خواب میں جس شخص کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھا تھا بعینہ وہی شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نظر آرہا تھا.دونوں کا حلیہ اور لباس ہو بہو ملتا تھا.سر ٹمو کے برابر
خطبات مسرور جلد 11 57 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء فرق نہ تھا.وہی تمام جسم، وہی گندمی رنگ ، وہی سیدھے بال ، وہی پگڑی اور اُس کی وہی بندش اور وہی کالا لمبا چوغہ اور وہی سفید پاجامہ، غرضیکہ ہو بہو وہی شخص تھا جس کو میں نے خواب میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھا تھا.البتہ میرے ہم جماعت عبداللہ کے بجائے میرے ہمراہ چوہدری عبد الحئی خان صاحب احمدی کا ٹھگردی جو کہ اب پینشنر پوسٹ ماسٹر ہیں ، تھے.اور دراصل عبد الحئی ، عبد اللہ ہی تھا جس نے مجھے اُس وقت اشارہ کیا کہ مصافحہ کرلو.چنانچہ میں نے اُن کے ارشاد پر حضرت مسیح موعود کو السلام علیکم عرض کیا اور جواب میں وعلیکم السلام سنا کیونکہ میرے اور حضرت مسیح موعود کے درمیان چند آدمی بیٹھے ہوئے تھے.اس واسطے جب میں نے کھڑے ہو کر حضور سے مصافحہ کے واسطے ہاتھ آگے بڑھایا اور حضور تک میرے ہاتھ پہنچ نہ سکے تو کہتے ہیں پھر آپ نے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زانوؤں کے بل کھڑے ہو کر اس عاجز کو مصافحہ بخشا.السلام علیکم اور وعلیکم السلام کا تبادلہ مصافحہ کے وقت ہی ہوا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 2 صفحہ 113 تا 115 - از روایات حضرت چوہدری غلام احمد خاں صاحب) میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل صاحب فرماتے ہیں.مرزا ایوب بیگ صاحب صبح کو میرے پاس آئے.آواز دی، عبدالعزیز! عبدالعزیز! میں نیچے آیا.کہنے لگے میری خواب سنیں.اس لئے سنانے آیا ہوں کہ میں صبح کی نماز پڑھ رہا تھا کہ میری حالت بدل گئی.میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی تیزی سے تشریف لا رہے ہیں اور میرے پاس آ کر کھڑے ہو گئے ہیں.میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کہاں تشریف لے چلے ہیں.فرمایا مرزا غلام احمد کی حفاظت کے لئے قادیان چلا ہوں.اس کے بعد ایوب بیگ نے کہا کہ خدا معلوم آج قادیان میں کیا ہے؟ شام کو خبر پہنچی کہ حضرت صاحب کے گھر کی تلاشی ہوئی ہے، لیکھر ام کے قتل کے سلسلے میں ( جو تلاشی تھی اُس کے لئے پولیس وغیرہ آئی تھی.وہ تلاشی تھی ).ان لوگوں کو نہیں پتہ تھا.خواب میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بتادیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 20-21 از روایات حضرت میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل) یہی روایت حضرت سید محمد شاہ صاحب بھی بیان کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کی تلاشی لیکھرام کے قتل کے سلسلہ میں ہوئی.ہم ایک دن یہاں لاہور میں لنگے منڈی والی مسجد میں مرزا ایوب بیگ کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے.مرزا صاحب مرحوم کی عمر اس وقت سترہ اٹھارہ سال کی تھی ، (بڑے نیک نوجوان تھے.مرزا ایوب بیگ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بڑی تعریف فرمائی ہوئی ہے ) سلام پھرنے کے بعد انہوں نے بیان کیا
خطبات مسرور جلد 11 58 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء کہ میں نے سجدے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے.آپ فوجی لباس میں ہیں.ہاتھ میں تلوار ہے اور بھاگے بھاگے جا رہے ہیں.میں نے عرض کی کہ حضور کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد کی آج تلاشی ہوتی ہے.میں قادیان اُن کی حفاظت کے لئے جارہا ہوں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 9 صفحہ 242 از روایات حضرت سید محمد شاہ صاحب) حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ 31 جنوری 1915ء کو میں نے خواب میں بادشاہوں کو احمدیوں سے مخاطب ہو کر کہتے سنا کہ اب ہم بادشاہی نہیں کر سکتے اور بادشا ہی احمدیوں کو دیتے ہیں.مگر احمد یوں کو چاہئے کہ بذریعہ تبلیغ کے پہلے عوام الناس کو اپنا ہم خیال بنالیں.پھر یہ کام بآسانی ہو سکے گا.اور پھر میں نے اسی بنا پر ( کہتے ہیں میں نے ) خواب میں ہی ایک ہندؤوں کے گاؤں جا کر تبلیغ کی اور اوتاروں کے حالات اور نزول عذاب کے اسباب بیان کئے اور تمثیلاً کہا کہ دیکھو کرشن علیہ السلام کے وقت میں کیسی خطرناک جنگ ہوئی تھی اور عذاب آیا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحه 150 از روایات حضرت امیر خان صاحب) پس یہ جو بات ہے یہ آج بھی قائم ہے کہ حکومتیں ملنی ہیں.تبلیغ کے ذریعہ سے اور دعاؤں کے ذریعہ سے فتوحات ہونی ہیں.حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت 1896ء کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ مقدس کے بعد (جو عیسائی سے جنگ تھی اور Debate ہوئی تھی ) جو بمقام امرتسر مسیح صاحبان اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درمیان تحریری مباحثات کے رنگ میں واقعہ ہوا تھا.میرے والد مکرم کے پاس ایک جھمگٹا رہنے لگا اور روزمرہ اس کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی.اس مباحثے کے اختتام پر حضور نے عبد اللہ آتھم کے متعلق ایک پیشگوئی فرمائی تھی.جب اس پیشگوئی کی مقررہ میعاد میں صرف دو تین روز باقی رہ گئے تو مخالفین نے کہنا شروع کیا کہ یہ سب ڈھکو سلے ہیں.بھلا کس طرح ہوسکتا ہے کہ ڈپٹی آتھم ایسا صاحب اختیار آدمی جو اپنی حفاظت کے لئے ہر قسم کے ضروری سامان نہایت آسانی سے مہیا کر سکتا ہے اور پولیس کا ایک دستہ اپنے پہرے کے لئے مقرر کر اسکتا ہے، کسی کی سازش کا نشانہ بن سکے.میرے والد صاحب کو یہ باتیں سخت ناگوار گزرتی تھیں اور اُن لوگوں کے طنزیہ فقروں کے جواب میں وہ کہہ اُٹھتے کہ میعاد پیشگوئی کے پورا ہو جانے سے پہلے کوئی رائے زنی کرنا سخت بے با کی ہے.ہمارا یقین ہے کہ اُس دن آفتاب غروب نہ ہو گا جبتک کہ اسلامی فتح کے نشان میں یہ پیشگوئی اپنے اصلی روپ میں پوری نہ ہو لے گی.ایک دن باقی رہ گیا پھر خبر آئی کہ ابھی آتھم زندہ ہے.کہتے ہیں میرے والد صاحب کی
خطبات مسرور جلد 11 59 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء بے چینی اس خبر کو سن کر بہت ترقی کر گئی.(بہت بڑھ گئی ) وہ برداشت نہ کر سکتے تھے کہ جو پیشگوئی اسلامی فتح کے نشان کے طور پر کی گئی ہے وہ پوری ہونے سے قاصر رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعداء خوش تھے لیکن میرے والد صاحب کے دل پر غم کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا.اور وہ دعاؤں میں لگ گئے.اُسی رات خدائے کریم وحکیم نے خواب میں اُن کو ایک نظارہ دکھلایا.وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شکل ہے جو انسانی وجود معلوم ہوتا ہے.اُس کے منہ پر بالخصوص اور باقی سارے جسم پر بالعموم کثرت کے ساتھ گھاس پھوس اور گرد و غبار پڑا ہوا ہے، اُس کا چہرہ بالکل نظر نہیں آتا.اور باقی جسم سے بھی اُس کی شناخت ناممکن ہو رہی ہے.ایک اور شخص ہے جس کی پیٹھ میرے والد صاحب کی طرف کو ہے لیکن اُس کا منہ اس گردوغبار سے ڈھکے ہوئے وجود کی طرف ہے.وہ نہایت احتیاط اور محنت اور محبت کے ساتھ ایک ایک کر کے اُس دوسرے شخص کے وجود پر سے تنکے اپنے ہاتھوں سے چن چن کر اُتار رہا ہے.کچھ وقت کے بعد وہ تمام تنکوں کو اٹھا کر پھینک دیتا ہے.اور گردوغبار سے اُس کے جسم کو صاف کر دیتا ہے.اور جو نہی کہ وہ تنکے وغیرہ سب اُتر کر گر جاتے ہیں.اُن کے نیچے سے آفتاب کی طرح ایک ایسا روشن چہرہ نکلتا ہے جس کو دیکھنے کی آنکھیں تاب نہیں لاسکتیں.اُسی وقت خواب میں ہی تفہیم ہوتی ہے کہ یہ مقدس انسان جس کے جسم مطہر سے تنکے دور کئے گئے ہیں، وہ سید نا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور تنکوں کو دور کرنے والے صاحب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں.رات کو یہ نظارہ دیکھا.صبح ہوتے ہی معاندینِ سلسلہ اکٹھے ہو کر پھر آئے اور کہنے لگے کہ دیکھئے صاحب، یہ کل آپ کیا کہہ رہے تھے.کیا آپ کو معلوم ہے کہ آتھم ابھی زندہ ہے، مرا نہیں اور آپ کے مرزا کی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی.میرے والد صاحب نے کہا کہ تم کو جوخبر ملی ہے وہ غلط ہے.آتھم یقینا زندہ نہیں ہوگا اور اگر وہ زندہ ہے تو وہ اپنے رشتہ داروں اور اپنے دینی بھائیوں کے لئے ضرور مر چکا ہے.اُس نے ان باتوں سے اگر تو بہ نہیں کی تھی تو بہر حال دوبارہ اُس کا اظہار نہیں کیا.جب تک تمام باتوں کی حقیقت نہ کھل جائے اپنے شکوک و ابہا بات کو خدا کے حوالے کریں.رات جو میں نے نظارہ دیکھا ہے اگر تم بھی وہ دیکھ لیتے تو پھر تمہیں پتہ لگتا کہ یہ شخص جس کے خلاف تم لوگ زہر اگل رہے ہو کس پایہ کا انسان ہے.میں نے تو جب سے وہ خواب کا نظارہ دیکھا ہے اس سے میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ بہر حال یہ نشان اس طرز سے پورا ہو کر رہے گا کہ دنیا کو اپنی شوکت دکھا کر رہے گا.پھر اور بھی سینکڑوں ہزاروں نشان سید نا حضرت مرزا صاحب کے وجود سے ظاہر ہوں گے جو دشمنانِ اسلام کی پیدا کردہ تمام روکوں کو تو ڑ کر رکھ دیں گے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 1 صفحہ 156-156 الف.از روایات حضرت ڈاکٹرمحمد طفیل خاں صاحب)
خطبات مسرور جلد 11 60 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء پس اسلام کی جو خو بصورت تعلیم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح چہرہ دکھانا اور آپ پر لگائے تمام الزامات کو دور کرنا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی کام تھا.اب یہ دیکھیں کہ یہ مقابلہ جوعبد اللہ آتھم کے ساتھ تھا اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا دفاع کر رہے تھے اور بعض مسلمان کہلانے والے بلکہ اُن کے علماء بھی دوسروں کا ساتھ دے رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی سچائی ظاہر کرنا چاہتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ دکھانا چاہتے ہیں اور یہ لوگ آپ کی مخالفت کر رہے تھے.اب آج یہ لوگ بڑے جلوس نکال رہے ہیں.میلاد نبی کی خوشیاں منا رہے ہیں تو حقیقی خوشی جشن منانے میں تو نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے میں ، آپ کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے میں ہے.آپ پر درود بھیجنے میں ہے.پہلے میں نے ایک حوالہ پڑھا تھا کہ دین میں قوت پیدا کرو.تو یہ دین میں قوت پیدا کرنا آج ہر مسلمان کا کام ہے اگر حقیقی مسلمان ہے.اور وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کے ساتھ جڑ کر ہی ہوسکتا ہے.آتھم کی بھی موت کچھ عرصہ تک تو ٹل گئی تھی لیکن چھ سات مہینے بعد، کیونکہ اُس نے ایک طرح کی تو بہ کی تھی ، اور اُن الفاظ کو دہرانے سے پر ہیز کیا تھا، احتراز کیا تھا تو چند مہینہ کے بعد پھر وہ موت واقع ہو گئی.تو یہی پیشگوئی تھی کہ اگر چہ کچھ دیر کے لئے موت ٹل تو سکتی ہے لیکن یہ واقعہ ضرور ہوگا.اور وہ ہوا.اور جیسا کہ میں نے کہا، ایک خواب سنائی تھی کہ حکومتیں اگر حاصل کرنی ہیں، دنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے تو تبلیغ کے ذریعہ سے ہوگا، اس طرف بھی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں جو دکھا سکے اور نہ کوئی ہے جو دکھا رہا ہے.اور یہی آپ کی جماعت کا کام ہے.پس اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے، صلی اللہ علیہ وسلم ( ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دُنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اُس کو دُنیا میں لایا.اُس نے خدا سے
خطبات مسرور جلد 11 61 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے.وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اُس کو دی گئی ہے ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو).اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے.جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فرنعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دُھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منو ررہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں“.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 119-118 ) فرمایا: ” وہ انسان جوسب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبياء امام الاصفياء ختم المرسلين فخر النبيين جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.“ اتمام الحجبۃ.روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308) اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ.پس یہ تھا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا اور یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں نے مختلف خواہیں دیکھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود میں دیکھا.یعنی دو وجود ایک ہی جان ہو گئے.پس ہمارا بھی کام ہے کہ آج اور ہمیشہ اپنی زبان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے تر رکھیں اور اس میں ترقی کرتے چلے جائیں.اسی طرح آپ کے اُسوہ پر عمل کرنے والے ہوں اور اس میں بھی ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جانے والے ہوں.جیسا کہ میں نے کہا آج جلسے بھی بڑے ہو رہے ہیں، جلوس نکل رہے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت منائی جارہی ہے لیکن وہاں آپ کی تعلیم کا اظہار نہیں ہورہا.ربوہ میں تو شاید اس وقت جو جلوس نکل رہے ہوں اُن میں سوائے
خطبات مسرور جلد 11 62 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 جنوری 2013ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں ہورہا ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان نہیں ہو رہی ہوگی بلکہ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جا رہی ہوں گی.جماعت کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جارہی ہوگی.پس ایک طرف تو یہ ان لوگوں کا سلوک ہے جو دنیا دار ہو چکے ہیں.مسلمان کہلانے کے باوجود اسلام سے دور ہٹ چکے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا سلوک جو صحابہ کے ساتھ تھا کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں ظاہر کر رہا ہے، اُن کو دکھا رہا ہے، اُن کی تسلی کرا رہا ہے اور آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ اسی طرح کے نظارے اپنے نیک فطرت اور سعید لوگوں کو دکھا رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ جماعت میں آ رہے ہیں ، قبول کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں بیعت میں آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی غلامی کو اختیار کر رہے ہیں.اللہ کرے کہ یہ لوگ جو مخالفین ہیں ان کی بھی آنکھیں کھلیں اور بجائے یہ نام نہاد مسلمان کہلانے کے حقیقی مسلمان بننے والے ہوں اور جو خدا تعالیٰ کی آواز ہے اُس کو سننے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 15 فروری 2013 ء تا 21 فروری 2013 ، جلد 20 شماره 7 صفحه 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد 11 63 10 5 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء بمطابق یکم تبلیغ 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ سے پچھلے جمعہ بارہ ربیع الاول تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے میں نے بتایا تھا کہ پاکستان میں میلادالنبی کے جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہیں.جن میں خاص طور پر پاکستان میں سابقہ تجربہ کی بنا پر میں نے کہا تھا کہ یہ قوی امکان ہے کہ سیرت اور عشق رسول کا کم ذکر ہو اور خاص طور پر ربوہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت کے خلاف مغلظات اور دریدہ دہنی کا زیادہ اظہار ہو گا.چنانچہ جور پورٹس آئیں ، وہی کچھ ہوا.جلسے کئے گئے ، ربوہ کی گلیوں میں جلوس نکالے گئے اور مغلظات بکی گئیں.اُن کو سب کچھ کہنے کی آزادی ہے.احمدیوں کو اللہ اور رسول کا نام لینے کی بھی آزادی نہیں.بہر حال یہ علماء سوء کا کام ہے.اللہ تعالیٰ قوم پر بھی رحم فرمائے کہ ان نام نہاد علماء کے چنگل سے آزاد ہوں.یہ گالیاں بکنا تو ان نام نہاد علماء کا کام ہے، یہ لگتے رہیں گے.اور یہ بات کہ یہ گالیاں بکیں یا روکیں ڈالیں، جماعت کی ترقی میں یہ روکیں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں بلکہ ہر مخالفت جماعت کی ترقی کے قدم پہلے سے آگے بڑھاتی ہے.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چند تحریرات آپ کے سامنے رکھوں گا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان، مقام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے آقا ومطاع سے عشق و محبت اور غیرت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے نمونے ملتے ہیں.ایک طرف یہ مخالفین ہیں جو دریدہ دہنی کر رہے ہیں.دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں جو کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان فرماتے ہیں.تمام انبیاء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت بیان فرماتے ہوئے
خطبات مسرور جلد 11 64 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اصل حقیقت یہ ہے کہ سب نبیوں سے افضل وہ نبی ہے کہ جو دنیا کا مربی اعظم ہے.یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ سے فساد اعظم دنیا کا اصلاح پذیر ہوا.جس نے تو حید گم گشتہ اور ناپدید شدہ کو پھر زمین پر قائم کیا.جس نے تمام مذاہب باطلہ کو حجت اور دلیل سے مغلوب کر کے ہر یک گمراہ کے شبہات مٹائے جس نے ہر یک ملحد کے وسواس دور کئے اور سچا سامان نجات کا اصول حقہ کی تعلیم سے از سر نو عطا فرمایا.پس اس دلیل سے کہ اس کا فائدہ اور افاضہ سب سے زیادہ ہے اس کا درجہ اور رتبہ بھی سب سے زیادہ ہے.اب تو رایخ بتلاتی ہے.کتاب آسمانی شاہد ہے اور جن کی آنکھیں ہیں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ نبی جو بموجب اس قاعدہ کے سب نبیوں سے افضل ٹھہرتا ہے وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.“ ( براہین احمدیہ ہر چہار تص.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 97 بقیہ حاشیہ 6) براہین احمدیہ کا یہ حوالہ ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ کی عظمت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.حضرت موسیٰ بردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے.اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہ عالیہ تک پہنچ سکے.توریت سے ثابت ہے جو حضرت موسیٰ رفق اور حلم اور اخلاق فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے.جیسا کہ گنتی باب دواز دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو روئے زمین پر تھے زیادہ بردبار تھا.سوخدا نے توریت میں موسی کی بردباری کی ایسی تعریف کی جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے.ہاں جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے.اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے.إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:5) توخلق عظیم پر ہے.اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے.مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے.
خطبات مسرور جلد 11 65 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ وشمائلہ حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کا ملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں.سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا.وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيما ( النساء : 114).یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا.یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب 45 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا." 66 (براہین احمدیہ.ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 605 - 606 بقیه حاشیه در حاشیہ نمبر 3) یہ بھی براہینِ احمدیہ کا حوالہ ہے.پھر جو اعلیٰ درجہ کا نور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا ، اُس کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ”وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا.یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.سو وہ نو راس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں...اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولی ، ہمارے ہادی، نبی اُمّی صادق مصدوق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.جیسا کہ خود خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.قُلْ اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام: 164-163) وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبيلِهِ ذَالِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (الانعام: 154) قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (ال عمران : 32) فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ ( ال عمران: 21) وَأُمِرْتُ أَنْ أَسْلِمَ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (المومن : 67 )
خطبات مسرور جلد 11 66 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء یعنی ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدو جہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے.وہی خدا جو تمام عالموں کا رب ہے جس کا کوئی شریک نہیں.اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے.اور میں اول المسلمین ہوں.یعنی دنیا کی ابتدا سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنافی اللہ ہو.جو خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اس کو واپس دینے والا ہو“.”خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اُس کو واپس دینے والا ، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سپر د جتنے بھی کام کئے ہیں، جو ذمہ داریاں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د جو فرائض وحقوق تھے ، ان کی ادائیگی کی جو انتہا ہوسکتی تھی وہ آپ نے فرمائی.فرمایا : ” اس آیت میں اُن نادان موحدوں کا رڈ ہے جو یہ اعتقاد ر کھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن مٹی سے بھی زیادہ فضیلت دی جائے.یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اگر وہ حدیث صحیح بھی ہو (اول تو حدیث کا پتہ نہیں صحیح ہے کہ نہیں.لیکن اگر مان لیا جائے کہ صحیح بھی ہو ) ” تب بھی وہ بطور انکسار اور تذلل ہے جو ہمیشہ ہمارے سید صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی.ہر ایک بات کا ایک موقع اور حل ہوتا ہے.اگر کوئی صالح اپنے خط میں احقر عباداللہ لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص در حقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباداللہ ہے کس قدر نادانی اور شرارت نفس ہے.غور سے دیکھنا چاہئے کہ جس حالت میں اللہ جل شانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اول المسلمین رکھتا ہے اور تمام مطیعوں اور فرمانبرداروں کا سردار ٹھہراتا ہے اور سب سے پہلے امانت کو واپس دینے والا آ نحضرت صلحم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قرار دیتا ہے تو پھر کیا بعد اس کے کسی قرآن کریم کے ماننے والے کو گنجائش ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ میں کسی طرح کا جرح کر سکے.خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں اسلام کے لئے کئی مراتب رکھ کر سب مدارج سے اعلیٰ درجہ وہی ٹھہرایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کو عنایت فرمایا.سُبْحَانَ اللهِ مَا أَعْظَمُ شَانُكَ يَا رَسُولَ اللہ فرماتے ہیں، فارسی شعر ہے کہ موسیٰ و عیسی ہمہ خیل تواند جمله درین راه طفیل تواند ( یعنی موسیٰ اور عیسی سب تیرے ہی گروہ میں سے ہیں اور سب اس راہ میں تیرے ہی طفیل سے ہیں.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد 11 67 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ اپنے رسول کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میری راہ جو ہے وہی راہ سیدھی ہے سو تم اس کی پیروی کرو اور اور راہوں پر مت چلو کہ وہ تمہیں خدا تعالیٰ سے دور ڈال دیں گی.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ.میرے پیچھے پیچھے چلنا اختیار کرو.یعنی میرے طریق پر جو اسلام کی اعلیٰ حقیقت ہے قدم مارو.تب خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.ان کو کہہ دے کہ میری راہ یہ ہے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کوسونپ دوں اور اپنے تئیں رب العالمین کے لئے خالص کرلوں.یعنی اس میں فنا ہو کر جیسا کہ وہ ربّ العالمین ہے میں خادم العالمین بنوں اور ہمہ تن اُسی کا اور اُسی کی راہ کا ہو جاؤں.سو میں نے اپنا تمام وجود اور جو کچھ میرا تھا خدا تعالیٰ کا کر دیا ہے.اب کچھ بھی میرا نہیں جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کا ہے.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 160 تا 165) یہ حوالہ جو میں نے پڑھا ہے یہ آئینہ کمالات اسلام کا ہے.پس یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے اور یہ اُسوہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرما یا.اب دیکھیں ہمارے مخالفین کا یہ أسوہ ہے کہ وہ تو رحمت لے کر آئے تھے اور یہ لوگ کلمہ گوؤں کو بھی اذیتیں پہنچانے والے ہیں.پھر آپ کے فیض اور نبوت کی وسعت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : موسیٰ اور عیسی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ایک ہی ہے.تین خدا نہیں ہیں.مگر مختلف تجلیات کی رُو سے اُسی ایک خدا میں تین شانیں ظاہر ہو گئیں.چونکہ موسیٰ کی ہمت صرف بنی اسرائیل اور فرعون تک ہی محدود تھی اس لئے موسیٰ پر تحجتی قدرت الہی اُسی حد تک محدود رہی.اور اگر موسیٰ کی نظر اس زمانہ اور آئندہ زمانوں کے تمام بنی آدم پر ہوتی تو توریت کی تعلیم بھی ایسی محدود اور ناقص نہ ہوتی جو اب ہے.ایسا ہی حضرت عیسی کی ہمت صرف یہود کے چند فرقوں تک محدود تھی جو اُن کی نظر کے سامنے تھے اور دوسری قوموں اور آئندہ زمانہ کے ساتھ اُن کی ہمدردی کا کچھ تعلق نہ تھا.اس لئے قدرت الہی کی تجلی بھی اُن کے مذہب میں اُسی حد تک محدود رہی جس قدر اُن کی ہمت تھی.اور آئندہ الہام اور وحی الہی پر مہر لگ گئی.اور چونکہ انجیل کی تعلیم بھی صرف یہود کی عملی اور اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کے لئے تھی، تمام دنیا کے مفاسد پر نظر نہ تھی اس لئے انجیل بھی عام اصلاح سے قاصر ہے.بلکہ وہ صرف ان یہودیوں کی موجودہ
خطبات مسرور جلد 11 68 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء بد اخلاقی کی اصلاح کرتی ہے جو نظر کے سامنے تھے.اور جو دوسرے ممالک کے رہنے والے یا آئندہ زمانہ کے لوگ ہیں اُن کے حالات سے انجیل کو کچھ سروکار نہیں.اور اگر انجیل کو تمام فرقوں اور مختلف طبائع کی اصلاح مدنظر ہوتی تو اس کی یہ تعلیم نہ ہوتی جو اب موجود ہے.لیکن افسوس یہ ہے کہ ایک طرف تو انجیل کی تعلیم ہی ناقص تھی اور دوسری طرف خودا ایجاد غلطیوں نے بڑا نقصان پہنچایا جو ایک عاجز انسان کو خواہ نخواہ خدا بنایا گیا اور کفارہ کا من گھڑت مسئلہ پیش کر کے عملی اصلاحوں کی کوششوں کا یکلخت دروازہ بند کر دیا گیا.اب عیسائی قوم دو گونہ بدقسمتی میں مبتلا ہے.ایک تو اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اور الہام مدد نہیں مل سکتی کیونکہ الہام پر جو مہر لگ گئی.اور دوسری یہ کہ وہ عملی طور پر آگے قدم نہیں بڑھا سکتی کیونکہ کفارہ نے مجاہدات اور سعی اور کوشش سے روک دیا.مگر جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اُس کی نظر محدود نہ تھی اور اس کی عام غم خواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا.بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان“ ( زمانے کے لحاظ سے بھی ، جگہ کے لحاظ سے بھی اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی.اس لئے قدرت کی تجلیات کا پورا اور کامل حصہ اُس کو ملا اور وہ خاتم الانبیاء بنے.مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا.اور اس کی اُمت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا.اور بجز اُس کے کوئی نبی صاحب خاکم نہیں.ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونالازمی ہے.اور اُس کی ہمت اور ہمدردی نے اُمت کو ناقص حالت پر چھوڑ نا نہیں چاہا.اور اُن پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا.ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیض وحی آپ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص اہتتی نہ ہو اس پر وحی الہی کا دروازہ بند ہو.سو خدا نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا.لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا امتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پاسکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہو سکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی.مگر ظلی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پا ناوہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دُنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفت الہیہ جو مدار نجات ہے مفقود نہ ہو جائے.کسی حدیث صحیح سے اس بات کا پتہ نہیں ملے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات مسرور جلد 11 69 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء 66 کے بعد کوئی ایسا نبی آنے والا ہے جو امتی نہیں یعنی آپ کی پیروی سے فیض یاب نہیں.“ یہ حوالہ حقیقۃ الوحی کا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 28 تا 30 ) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور تربیت کی وجہ سے صحابہ کرام کے مقام کی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں وہ جوشِ عشق الہی پیدا ہوا اور توجہ قدسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تاخیر اُن کے دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سر کٹائے.کیا کوئی پہلی اُمت میں ہمیں دکھا سکتا ہے یا نشان دے سکتا ہے کہ انہوں نے بھی صدق اور صفا د کھلایا.“ پھر آپ نے حضرت موسیٰ کی بھی مثال دی کہ اُن کی قوم میں بھی نظر نہیں آتا.پھر فرمایا : حضرت مسیح کے صحابہ کا حال سنو.جس قدر حواری تھے ، وہ مصیبت کا وقت دیکھ کر بھاگ گئے اور ایک نے بھی استقامت نہ دکھلائی اور ثابت قدم نہ رہے اور بزدلی اُن پر غالب آ گئی.اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے تلواروں کے سایہ کے نیچے وہ استقامتیں دکھلائیں اور اس طرح مرنے پر راضی ہوئے جن کی سوانح پڑھنے سے رونا آتا ہے.پس وہ کیا چیز تھی جس نے ایسی عاشقانہ روح اُن میں پھونک دی اور وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اُن میں اس قدر تبدیلی کر دی.یا تو جاہلیت کے زمانہ میں وہ حالت اُن کی تھی کہ وہ دنیا کے کپڑے تھے اور کوئی معصیت اور ظلم کی قسم نہیں تھی جو ان سے ظہور میں نہیں آئی تھی اور یا اس نبی کی پیروی کے بعد ایسے خدا کی طرف کھینچے گئے کہ گویا خدا ان کے اندر سکونت پذیر ہو گیا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وہی توجہ اس پاک نبی کی تھی جو اُن لوگوں کو سفلی زندگی سے ایک پاک زندگی کی طرف کھینچ کر لے آئی.اور جو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اُس کا سبب تلوار نہیں تھی بلکہ وہ اُس تیرہ سال کی آہ وزاری اور دعا اور تضرع کا اثر تھا جو مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرتے رہے.اور مکہ کی زمین بول اُٹھی کہ میں اس مبارک قدم کے نیچے ہوں جس کے دل نے اس قدر توحید کا شور ڈالا جو آسمان اُس کی آہ وزاری سے بھر گیا.خدا بے نیاز ہے.اُس کو کسی ہدایت یا ضلالت کی پرواہ نہیں“.(کوئی ہدایت پاتا ہے یا گمراہ ہوتا ہے اُس کو پرواہ نہیں).پس یہ نور ہدایت جو خارق عادت طور پر عرب کے جزیرہ میں ظہور میں آیا اور پھر دنیا میں پھیل گیا، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلی سوزش کی تاثیر
خطبات مسرور جلد 11 70 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء تھی“.( یہ آپ کی دعا ئیں تھیں جو سینے سے ابل رہی تھیں کہ دنیا ہدایت پا جائے.) فرمایا ”ہر ایک قوم توحید سے دور اور مجبور ہوگئی مگر اسلام میں چشمہ تو حید جاری رہا.یہ تمام برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: 4) یعنی کیا تو اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دے گا جو یہ لوگ ایمان نہیں لاتے.پس پہلے نبیوں کی اُمت میں جو اس درجہ کی صلاح و تقویٰ پیدا نہ ہوئی اُس کی یہی وجہ تھی کہ اس درجہ کی توجہ اور دلسوزی اُمّت کے لئے ان نبیوں میں نہیں تھی.افسوس کہ حال نے نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی مکرم کا کچھ قدر نہیں کیا اور ہر ایک بات میں ٹھو کر کھائی.وہ ختم نبوت کے ایسے معنی کرتے ہیں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو نکلتی ہے، نہ تعریف.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نفس پاک میں افاضہ اور تکمیل نفوس کے لئے کوئی قوت نہ تھی.اور وہ صرف خشک شریعت کو سکھلانے آئے تھے“.( یعنی کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں، یعنی اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتے ہیں ) حالانکہ اللہ تعالیٰ اس اُمت کو یہ دعا سکھلاتا ہے اهْدِنَا القيراط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم (الفاتحة : 6-7).پس اگر یہ امت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے ان کو کچھ حصہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی.“ 66 (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 101 تا 104.حاشیہ ) یہ حوالہ بھی حقیقۃ الوحی کا ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقتداری معجزات کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں“.(اور ایسا مقام پہنچ جاتا ہے جو ایسے معجزات بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ بظا ہر ممکن نہیں بلکہ بشری طاقتوں سے بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور انسانی طاقتوں سے باہر ہوتے ہیں ) فرمایا کہ ”جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی.اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی.مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو.(بیشک قانونِ قدرت کے تحت اُس مٹھی کے پیچھے
خطبات مسرور جلد 11 71 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء ایک آندھی آئی لیکن وہ مٹھی ہی تھی جس نے وہ آندھی کا سبب پیدا کر دیا) فرمایا’ اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھا گنا شروع کیا.اسی معجزہ کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رفی (الانفال : 18 ) یعنی جب تو نے اس مٹھی کو پھینکا وہ تونے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا.( کیونکہ اُس مٹھی کے پیچھے خدا تعالیٰ کی طاقت کارفرما تھی) یعنی در پردہ الہی طاقت کام کر گئی.انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا.“ 66 پھر فرمایا : ” اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جوشق القمر ہے ( یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا جو واقعہ آتا ہے ) اسی الہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آ گیا تھا.اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعانہ تھی.کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا“.( یہ معجزات دکھائے ) اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کر دیا.( یعنی پیٹ بھر دیا )’ اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا.اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں یعنی نمکین پانی والے کنوئیں میں ) اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیر یں کر دیا.اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا.اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے (آنکھیں باہر آ گئی تھیں، ڈیلا ) ”اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا“.(واپس رکھ دیا اور آنکھ اُسی طرح سالم ہوگئی ) ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الہی مخلوط تھی.“ 66 آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 66-65) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ کی آسمانی زندگی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.یہ کہتے ہیں ناں کہ عیسی آسمان پر زندہ ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ ہمیشہ کی آسمانی زندگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.فرمایا کہ:
خطبات مسرور جلد 11 72 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء با تفاق جميع كتب الہیہ ثابت ہے کہ انبیاء و اولیاء مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں.یعنی ایک قسم کی زندگی انہیں عطا کی جاتی ہے جو دوسروں کو نہیں عطا کی جاتی.اسی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ مجھے قبر میں میت رہنے نہیں دے گا اور (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 225 ) زندہ کر کے اپنی طرف اُٹھا لے گا.“ یہ ازالہ اوہام کا حوالہ تھا جو میں نے پڑھا تھا.اسی کی تشریح آگے فرما رہے ہیں.اس بات کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یعنی میں اس مدت کے اندر اندرزندہ ہو کر آسمان کی طرف اُٹھایا جاؤں گا“.(اب یہ آپ فرمارہے ہیں لیکن کوئی مسلمان نہیں کہتا کہ آپ جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر موجود ہیں ).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اب دیکھنا چاہئے کہ ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر میں زندہ ہو جانے اور پھر آسمان کی طرف اٹھائے جانے کی نسبت مسیح کے اُٹھائے جانے میں کونسی زیادتی ہے.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عیسی بن مریم کی حیات حضرت موسیٰ کی حیات سے بھی درجہ میں کمتر ہے.اور اعتقاد صحیح جس پر اتفاق سلف صالح کا ہے اور نیز معراج کی حدیث بھی اس کی شاہد ناطق ہے ، یہی ہے کہ انبیاء بحیات جسمی مشابہ بحیات جسمی دنیاوی زندہ ہیں“.(یعنی اس کی اس طرح ، اس لحاظ سے مشابہت ہے لیکن عملاً اس طرح نہیں ہوتا.پھر فرمایا اور شہداء کی نسبت اُن کی زندگی اکمل واقویٰ ہے“.(اب شہداء کے بارے میں فرماتے ہیں اُن کو مردہ نہ کہو ، وہ زندہ ہیں.لیکن انبیاء اُن سے بہت بڑھ کر ہیں ) اور سب سے زیادہ اکمل واقولی واشرف زندگی ہمارے سید مولی فداء له نفسي وأبي وأمي صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.حضرت مسیح تو صرف دوسرے آسمان میں اپنے خالہ زاد بھائی اور نیز اپنے مرشد حضرت یحیی کے ساتھ مقیم ہیں لیکن ہمارے سید ومولی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلیٰ مرتبہ آسمان میں جس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ نہیں تشریف فرما ہیں.عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهى بِالرِّفِيقِ الأخلی اور امت کے سلام وصلوات برابر آنحضرت کے حضور میں پہنچائے جاتے ہیں.اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ أكثر مما صَلَّيْتَ عَلَى أَحَدٍ مِّنْ أَنْبِيَائِكَ وَبَارِكَ وَسَلَّمْ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 225-226 حاشیہ ) یہ بھی ازالہ اوہام کا حوالہ تھا جو میں نے ابھی پڑھا ہے.پھر اس بات کا ذکر فرماتے ہوئے کہ ہم نے خدا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پایا
خطبات مسرور جلد 11 73 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013 ء ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اُس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قومی کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے.اور کوئی چیز نہ اُس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے، نہ اُس کی خلق سے.اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے.سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا.اُس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.وہ ہمارا سچا خدا بے شمار برکتوں والا ہے اور بے شمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا احسان والا.اُس کے سوا کوئی اور خدا نہیں.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 363) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا ہے.تم لوگ کہتے ہو کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرا تا ہوں.مجھے تو آپ کے در سے ہی ملا ہے جو کچھ ملا ہے.یہ فن الرحمن کی عربی عبارت ہے، ترجمہ پڑھتا ہوں.فرماتے ہیں کہ : ”یہ میری کامیابی میرے رب کی طرف سے ہے.پس میں اس کی تعریف کرتا ہوں اور نبی عربی 66 پر درود بھیجتا ہوں.اس سے تمام برکتیں نازل ہوئیں اور اسی سے سب تانا بانا ہے.اسی نے میرے لئے اصل اور فرع کو میسر کیا اور اس نے میرے بیج اور کھیت کو اُ گایا.اور وہ بہتر ہے سب اگانے والوں سے.“ ( منن الرحمن.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 187-186 ) مجھے جو کچھ ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا، اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے پھر فرماتے ہیں کہ : ویکیں اُسی کی (یعنی اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحاق سے اور اسماعیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی، ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا.مگر یہ شرف مجھے محض
خطبات مسر در جلد 11 74 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا.اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا.یعنی اللہ تعالیٰ سے کلام کرنا اور اللہ تعالیٰ کا آپ سے بولنا، یہ مقام کبھی نہ ملتا ” کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب خبر تیں بند ہیں.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.“ (تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412-411) پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : ر الہی تیرا ہزار ہزار شکر کہ تو نے ہم کو اپنی پہچان کا آپ راہ بتایا.اور اپنی پاک کتابوں کو نازل کر کے فکر اور عقل کی غلطیوں اور خطاؤں سے بچایا اور درود اور سلام حضرت سید الرسل محمد مصطفی ، (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی آل و اصحاب پر کہ جس سے خدا نے ایک عالم گم گشتہ کوسیدھی راہ پر چلا یا.وہ مرتی اور نفع رسان کہ جو بھولی ہوئی خلقت کو پھر راہ راست پر لایا.وہ حسن اور صاحب احسان کہ جس نے لوگوں کو شرک اور بتوں کی بلا سے چھوڑایا.وہ نور اور نور افشان کہ جس نے توحید کی روشنی کو دنیا میں پھیلا یا.وہ حکیم اور معالج زمان کہ جس نے بگڑے ہوئے دلوں کا راستی پر قدم جمایا.وہ کریم اور کرامت نشان کہ جس نے مردوں کو زندگی کا پانی پلایا.وہ رحیم اور مہربان کہ جس نے اُمت کے لئے غم کھایا اور درد اٹھایا.وہ شجاع اور پہلوان جو ہم کو موت کے منہ سے نکال کر لایا.وہ حلیم اور بے نفس انسان کہ جس نے بندگی میں سر جھکا یا اور اپنی ہستی کو خاک میں ملایا.وہ کامل موحد اور بحر عرفان کہ جس کو صرف خدا کا جلال بھا یا اور غیر کو اپنی نظر سے گرایا.وہ معجزہ قدرت رحمن کہ جو اُمتی ہو کر سب پر علوم حقانی میں غالب آیا اور ہر یک قوم کی غلطیوں اور خطاؤں کو ملزم ٹھہرایا.(براہین احمدیہ ہر چہار حص.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 17) اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ایک مومن مسلمان کے لئے لازمی امر ہے جس کے بغیر وہ محبت کے معیار پورے نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں جو ایک مومن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونی چاہئے.نہ ہی کوئی دعا قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے یا کرسکتی ہے جس میں درود شامل نہ ہو.لیکن یہ بھی ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ ہمارے درود کی بھی اصل غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت ہونی چاہئے اور اس کو ہر چیز پر حاوی ہونا چاہئے.درود شریف کی اس غرض کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
خطبات مسرور جلد 11 75 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء ”جیسا کہ میں نے (پہلے زبانی سمجھارہے تھے، مجلس میں ذکر ہورہا ہے.) زبانی بھی سمجھایا تھا ( کہ درود شریف ) اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کرے اور اُس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کا بنا وے اور اُس کی بزرگی اور اس کی شان وشوکت اس عالم اور اُس عالم میں ظاہر کرے.یہ دعا حضور تائم سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے“.(ایک دلی گہرائی کے ساتھ پوری طرح یہ درود شریف کی دعا ہونی چاہئے جیسے تم اپنے لئے دعا کرتے ہو.فرمایا بلکہ اس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے ( بلکہ اپنے لئے انسان جو دعائیں کرتا ہے اُس سے بھی زیادہ بڑھ کر تضرع اور التجا ہو ان دعاؤں میں اور اس میں اپنا کچھ حصہ نہ ہو.فرمایا کہ اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے ( یعنی درود شریف پڑھنے سے ) مجھ کو یہ ثواب ہوگا یا یہ درجہ ملے گا بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کاملہ الہیہ حضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت چاہئے.اور دن رات دوام توجہ چاہئے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنے دل (مکتوبات احمد.جلد اول.صفحہ 523) میں اس سے زیادہ نہ ہو.یہ ہے عشق رسول.پھر آپ اپنے ایک مکتوب میں جو میر عباس علی شاہ صاحب کو لکھا تھا، جو بعد میں بہر حال پھر گئے تھے.فرماتے ہیں: آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کیلئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اُس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں.اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں.“ مکتوبات احمد.جلد اول صفحہ 535-534) پھر ایک مجلس میں آپ نے فرمایا: درود شریف کے طفیل میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں
خطبات مسرور جلد 11 76 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہاء نالیاں ہو جاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.یقینا کوئی فیض بڑوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا....درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں.جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.“ ( الحکم.جلد 7 نمبر 8 مورخہ 28 فروری 1903 صفحہ 7 کالم 1-2) پھر اپنے ایک خط میں تعداد کے بارے میں کہ کتنی تعداد میں پڑھا جائے یا تعداد ہونی چاہئے کہ نہیں، فرماتے ہیں بعض دفعہ تعداد بتائی بھی ہے لیکن اس میں بتایا کہ : وو درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلا ہے.اور وہ یہ ہے.ایک تو یہ کہ درود شریف کونسا بہتر ہے اور پھر کتنا پڑھا جائے.فرمایاوہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ و وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ فَجِيلٌ...66 فرمایا ” سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے.یہی اس عاجز کا ورد ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضرور نہیں.اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اُس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے اور سینہ میں ( مکتوبات احمد.جلد اول صفحہ 526) 66 انشراح اور ذوق پایا جائے.“ پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے حکم میں کیا حکمت ہے آپ فرماتے ہیں کہ : اگر چه آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے.(بڑا گہرا راز ہے جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ باعث علاقہ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جز ہو جاتا ہے ( یعنی جب کسی سے ذاتی محبت ہو اور ذاتی محبت کی وجہ سے رحمت اور برکت چاہے تو اُس کا ایک حصہ بن جاتا ہے ) اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو
خطبات مسرور جلد 11 77 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے.مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے.“ مکتوبات احمد.جلد اول صفحہ 535) یہ تو درود شریف پڑھنے کے طریقے ہیں.اب میں تھوڑے سے عربی کے بعض وہ اشعار پڑھتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تحریر فرمائے.جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام اور قوت قدسی اور آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور اُس محبت کے باوجود قوم کا آپ سے جو سلوک ہے، اُس کا ذکر فرمایا ہے.یہ جتنے بیان میں نے پڑھے ہیں، ان سے سوائے محبت کے اور کچھ بھی نہیں ٹپکتا.لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت آپ کے خلاف ہے.ان شعروں میں آپ نے کچھ یوں ذکر فرمایا.فرماتے ہیں:.لا شَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا خَيْرُ الْوَرى رَيْقُ الْكِرَامِ وَتُخْبَةُ الْأَعْيَانِ که بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سب سے بہترین ہیں اور معززین میں سے برگزیدہ اور سرداروں میں سے منتخب وجود ہیں.فرمایا: وَاللهِ إِنَّ مُحَمَّدًا كَرِدَافَةٍ وَ بِهِ الْوُصُوْلُ بِسُنَّةِ السُّلْطَانِ که بخدا بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ( خدا کے ) نائب کے طور پر ہیں اور آپ ہی کے وسیلے سے در بارشاہی میں رسائی ہوسکتی ہے.فرمایا: إِنِّي لَقَد أَحْيِيتُ مِنْ اِحْيَائِهِ وَاهَا لِإِعْجَارٍ فَمَا أَحْيَانِي کہ بیشک میں آپ کے زندہ کرنے سے ہی زندہ ہوا ہوں، سبحان اللہ ! کیا اعجاز ہے اور مجھے کیا خوب زندہ کیا ہے.فرمایا يَا سَيْدِى قَدْ جِئْتُ بَابَكَ لَاهِفًا وَالْقَوْمُ بِالْإِكْفَارِ قَد أَذَانِي کہ اے میرے آقا! میں آپ کے دروازے پر مظلوم و فریادی بن کر آیا ہوں.جبکہ قوم نے مجھے کا فر کہہ کر دکھ دیا ہے.انْظُرْ إِلَى بِرَحْمَةٍ وَتَحَتُنٍ يَا سَيْدِى أَنَا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ تُو مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر.میرے آقا میں ایک حقیر ترین غلام ہوں جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانِ
خطبات مسرور جلد 11 78 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء میرا جسم تو شوق غالب سے تیری طرف سے اُڑتا ہے، اے کاش مجھ میں اُڑنے کی طاقت ہوتی.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 592 تا 594) تو یہ چند نمونے میں نے آپ کے عشق و محبت کے پیش کئے اور بیچ میں قوم کے دکھ کا بھی ذکر آ گیا.اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں اس مقام اور اس شان کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آخر میں پھر امت محمدیہ کے لئے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں.بیشک یہ ہمیں جو مرضی کہتے رہیں، سمجھتے رہیں ، اکثریت ان میں سے لاعلمی کی وجہ سے اور علماء کے خوف کی وجہ سے ہماری اس جماعت کی مخالفت کرتی ہے.لیکن کیونکہ یہ اپنے آپ کو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں اس لئے اس وقت ان کی حالتِ زار کے بارے میں ہمیں دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ان کو اس حالت سے نکالے.اکثر مسلمان ممالک جو ہیں مشکلات کا شکار ہیں.اندرونی فسادوں اور جھگڑوں نے انہیں تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور یہ اس سے باہر آئیں.ان کے سیاستدانوں اور لیڈروں میں بھی خوف خدا اور انصاف نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ان میں وہ پیدا کرے.اور ان کے عوام جو ہیں وہ بھی غلط لیڈروں کے پیچھے چل کر اپنے ملک سے محبت کا جو اظہار ہے اُس کا غلط رنگ میں اظہار کر کے اُس محبت کو ضائع کر رہے ہیں، بلکہ ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی انصاف سے وطن سے محبت کا اظہار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ورنہ بہت خوفناک حالات پیدا ہونے والے ہیں جو بظا ہر نظر آ رہے ہیں.اگر یہی حالات رہے تو یہ جو تھوڑی بہت آزادی ان لوگوں کی ہے، یہ کہیں مکمل طور پر بعض ملکوں میں محکومیت میں نہ بدل جائے.اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.اسلام کے نام پر جو غلط تنظیمیں قائم ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بدنام کرنے والی ہیں، اسلام کو بدنام کرنے والی ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بھی جلد اُمت کو چھٹکارا دلوائے ، دنیا کو چھٹکارا دلوائے.اب تو یہ دنیا کے لئے بھی خطرہ بن چکی ہوئی ہیں.کیونکہ یہ لوگ اسلام کے خوبصورت چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری جماعت کی جو کوششیں ہیں وہ تو اس لئے ہیں کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ظاہر کی جائے.جب یہ کوششیں ہماری طرف سے ہو رہی ہوتی ہیں تو سامنے ان کی مکروہ کوششیں کھڑی ہو جاتی ہیں جو پھر دوسرے جو اسلام کے مخالف ہیں وہ پیش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سے بھی ہماری جلد جان چھڑائے.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عشق رسول میں بڑھائے اور اپنے فرائض اور حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات مسرور جلد 11 79 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء ابھی جمعہ کے بعد نمازوں کے بعد میں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا.ایک تو حاضر جنازہ ہے ( یہاں حضور نے جنازہ کے بارہ میں استفسار فرمایا کہ آ گیا ہوا ہے نا؟ ) جو مکرم احسان اللہ صاحب کراچی کا تھا جو آجکل تو یو.کے میں ہی تھے.19 جنوری کو 57 سال کی عمر میں یہ کینسر کے عارضہ کی وجہ سے وفات پاگئے.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ حضرت احمد دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے بھی تھے.نمازوں کے پابند، خدمت گزار، بڑے شفیق، ہمدرد، صابر و شاکر، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے، بڑے خوش اخلاق تھے.نیک اور مخلص انسان تھے.والدین کی بے انتہا خدمت کرنے والے تھے.بیوی بچوں سے ہمیشہ پیار کا سلوک کیا اور سختی نہیں کی اور اگر کبھی ہوگئی تو فوراً احساس ہوا اور پھر اُس کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے تھے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ان بچوں کو بھی جو پاکستان میں ہی ہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے.ان کا خود کفیل ہو.یہ گزشتہ دس بارہ سال سے یہاں یو کے میں مقیم تھے.اور اسائلم کے لئے آئے تھے اور تین چار سال پہلے ہی ان کا کیس پاس ہوا تھا اور یہاں جماعتی شعبہ جائیداد میں مساجد کے تحت ان کو خدمت کی توفیق بھی مل رہی تھی.ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.جیسا کہ میں نے کہا، اللہ تعالیٰ سب کا کفیل ہو.دوسرا جنازہ غائب ہے جو علاء نجمی صاحب کا ہے جو مکرم عکرمہ مجھی صاحب کے بڑے بھائی تھے.ان کو دس سال پہلے جگر کا کینسر ہوا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ چند ماہ کے مہمان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے دس سال تک یہ زندہ رہے.9 دسمبر 2012 ء کو اپنی وفات والے دن گھر میں اکیلے تھے.ان کی بڑی بیٹی سکول سے واپس آئی تو اُسے کہا کہ مجھے کچھ دیر کے لئے اکیلا چھوڑ دو کیونکہ میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں.کچھ دیر کے بعد جب ان کی بیٹی کمرے میں گئی تو دیکھا کہ نماز ادا کر کے بستر پر لیٹنے کے بعد وہ خدا کے حضور حاضر ہو چکے تھے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مرحوم بھی نہایت نیک اور مخلص تھے.فلسطین کے رہنے والے تھے.خلافت کے فدائی اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے.مختلف عرب احباب کے ساتھ مل کر انہوں نے عربی پروگرام "الحوار المباشر “ کو ضبط تحریر میں لانے کا کام مکمل کیا.اسی طرح عربک ڈیسک کی طرف سے خطبات جمعہ اور مختلف کتب کے تراجم کی پروف ریڈنگ وغیرہ کا کام بھی کرتے تھے.مرحوم موصی تھے اور ان کے لواحقین میں والدین بھی ہیں اور بیوی اور دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.اکلوتا بیٹا میری خلافت کے انتخاب والے دن ، جب خلافت خامسہ کا انتخاب ہوا ہے تو اس دن پیدا ہوا تھا.اس لئے انہوں نے اس کا نام بھی مسرور رکھا تھا.
خطبات مسرور جلد 11 80 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء ہانی طاہر صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مرحوم اور مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب مرحوم محبت ، طہارت، سعادت مندی، بیماری پر صبر اور شکوہ شکایت نہ کرنے میں اور انکساری میں ایک جیسے تھے.معجزہ یہ ہے کہ دونوں کی بیماری ایسی تھی جس میں انسان زیادہ زندہ نہیں رہتا اور کوئی کام نہیں کرسکتا لیکن ان دونوں نے لمبا عرصہ بیماری کا مقابلہ کیا اور بہت کام کیا.اور یہ بات بالکل ٹھیک ہے.مرحوم علاء صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور میرے خطبات جمعہ جو تھے، اُن کے ترجمہ کی پروف ریڈنگ اور چیکنگ کا کام کرتے تھے اور شدید بیماری اور کمزوری کے باوجود بڑی مستعدی سے یہ کام کرتے تھے.ان کی طرف سے جو آخری خط موصول ہوا ، وہ جامعہ احمدیہ یو کے میں میر اطلباء جامعہ کو جو خطاب تھا ا،.اُس کے ترجمہ کی چیکنگ کے متعلق تھا.اور وہ بڑا اس پر شکر ادا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے رہا ہے.طاہر ندیم صاحب لکھتے ہیں کہ علاء نجمی صاحب کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ انہیں نیکی کرنے کی بہت جلدی تھی.انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ زندگی کے دن تھوڑے ہیں، اس لئے باقی دنوں کو وہ زیادہ سے زیادہ اعمالِ صالحہ سے بھر دینا چاہتے تھے.ہر خطبہ کا ترجمہ انہیں بھجوایا جا تا تھا لیکن اگر کسی وجہ سے ان کو خطبہ نہ پہنچتا تو ان کی طرف سے شکوہ کا ای میل آجاتا کہ اس دفعہ آپ نے مجھے خطبہ کیوں نہیں بھیجا؟ با وجود بینائی پر بیماری کا اثر ہونے کے وہ یہ کام تندہی سے انجام دیتے رہے.کئی دفعہ عربک ڈیسک کو ای میل کر کے کہتے کہ میری طبیعت بہت خراب ہے اس لئے اگر کوئی جماعتی کام ہے تو ارسال کریں.یعنی طبیعت کی خرابی کو ٹھیک کرنے کے لئے جماعتی کام بھی ایک دوائی ہے.اور بعض دفعہ یہ بھی ذکر کرتے کہ بیماری کا میں صرف دعا کے لئے لکھتا ہوں.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب مجھے کام بھیجنا بند کر دیں.مومن طاہر صاحب کہتے ہیں کہ مرحوم کے ساتھ خاکسار کا گہرے پیار کا تعلق تھا.رضا بالقضاء، بے انتہا توکل ، خلافت سے شدید محبت اور وفا.نظام جماعت کی اطاعت، عربک ڈیسک کی علمی کاموں میں انتھک مدد اور مہمان نوازی ان کے نمایاں اوصاف تھے.انہوں نے اپنے بچوں کو جماعت اور خلافت سے شدید پیار سکھایا.انہیں اردو سکھانے کی کوشش کی.ان کی بڑی بیٹی نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اردو نظمیں یاد کی ہوئی ہیں.ہر جلسہ پر آنے کی کوشش کرتے اور باوجود کینسر جیسی موذی بیماری کے دوسرے مہمانوں کے ساتھ زمین پر سوتے.وہ خلافت کے ایسے مددگاروں میں سے تھے جو نہایت خاموشی اور عاجزی سے اور زندگی کی آخری رمق تک انتھک کام کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.
خطبات مسرور جلد 11 81 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء بیماری کے دوران جب بچوں کا ذکر ہوتا تو ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ضائع نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ اپنے بچوں کے بارے میں اُن کی جو نیک تمنائیں اور دعائیں ہیں وہ قبول فرمائے اور خود اُن کا کفیل ہو.اللہ تعالیٰ عرب دنیا میں ان جیسے اور ان سے بڑھ کر خلافت کے مددگار، سلطان نصیر عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 22 فروری 2013 ء تا28 فروری2013 ءجلد 20 شماره 8 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد 11 82 6 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء بمطابق 8 تبلیغ 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج بھی میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مختلف خوا ہیں ، رؤیا پیش کروں گا.خدا تعالیٰ کا ان کے ساتھ تعلق اور ان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور خدا تعالیٰ کا ان کے ساتھ سلوک کیا تھا.بلکہ بعض تو ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اُن کو بتایا ان کے بیچ میں آج بھی ہمارے لئے بعض نصائح ہیں سبق ہیں.حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب جن کی 1905ء کی بیعت تھی ، فرماتے ہیں کہ ایک دن میں فاقہ کی حالت میں دن کے بارہ بجے لیٹا ہوا تھا کہ میری بیوی مجھے دبانے لگ گئی.اس حالت میں مجھے نیند آ گئی.خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک عورت نیلے کپڑوں والی میرے گھر پر آئی ہے.ایک ہاتھ پر دودھ کا کٹورا بھرا ہوا ر کھے ہوئے آئی ہے اور آ کر اُس نے مجھے دیا اور کہا کہ میاں جی ! میں یہ دودھ آپ کے واسطے لائی ہوں، آپ اس کو پی لیں.جب اس کو پینے لگا تو عورت نے کہا کہ اس میں شکر ڈالی ہوئی ہے، آپ اس کو ملا لیں.جب میں دودھ میں شکر ملانے لگا ( خواب میں ) تو کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی.(جاگ آگئی).میری بیوی جو میرے جسم کو دبارہی تھی، کہنے لگی ، کیا آپ ڈر گئے ہیں؟ میں نے کہا.ڈرا نہیں، ایک خواب دیکھا ہے اور وہ خواب میں نے اپنی بیوی کو سنا دیا.اور میں پھر بھول گیا.(ابھی تھوڑی دیر گزری تھی) پانچ منٹ گزرے تھے کہ اسی طرح نیلے کپڑے پہنے ہوئے ہاتھ پر دودھ کا کٹورار کھے ہوئے ایک عورت میرے گھر پر آئی.وہ عورت میرے ایک شاگرد کی ماں تھی.آکر اُس نے مجھے دودھ کا کٹورا دیا اور کہا کہ آپ اس کو پی لیں.جب میں پینے لگا تو اس نے کہا کہ اس میں شکر ڈالی ہوئی ہے، آپ اس کو ملا لیں.
خطبات مسرور جلد 11 83 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء میری بیوی اس واقعہ کو بغور دیکھ رہی تھی.مسکرا کر کہنے لگی، یہ تو آپ کا خواب ہے جو مجھے آپ پہلے سنا چکے ہیں ، لفظ بلفظ پورا ہو رہا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 11 صفحہ 362-363 روایات حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب ڈولی ) تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی خوابوں کی اصل حالت میں تعبیر فرما دیتا ہے.ایک نیک شخص کے فاقہ کی حالت کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فوری انتظام فرمایا.خدا کو نہ ماننے والے بیشک یہ کہتے رہیں کہ اُس کو قدرتی خیال آ گیا اور وہ دودھ لے کے آ گئی، یہ اتفاقی حادثہ تھا.دونوں طرف جو اطلاع اللہ تعالیٰ پہلے خواب میں دے رہا ہے، یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہو سکتا.یہی جو قدرت ہے، یہی تو خدا تعالیٰ ہے جس نے ایک عورت کے دل میں ایک نیک آدمی کی بھوک مٹانے کا خیال ڈالا اور فوری طور پر پھر اُس نے اُس کو پورا بھی کر دیا.حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیز جن کا بیعت کا سن 1901 ء ہے، بیان فرماتے ہیں کہ میں جبکہ ہائی سکول میں مدرس تھا تو ایک دن حضرت مولوی شیر علی صاحب سے جو اس وقت ہیڈ ماسٹر تھے، کھیلوں کے معاملے میں جن کا میں انچارج تھا، کچھ اختلاف ہو گیا.اُسی رات میں نے تہجد میں دعا کی، اختلاف کی وجہ سے کہتے ہیں بڑا پریشان تھا.تو مجھے حریر پر لکھا ہوا دکھلایا گیا، ایک بار یک کاغذ پر لکھا ہوا دکھلایا گیا کہ "No Tournaments, No Games".اس کے بعد کہتے ہیں میں بیمار ہو کر ٹورنامنٹ میں شامل نہیں ہو سکا.نیز جو ٹورنامنٹ کے دن تھے ان میں متواتر شدید بارش ہو جانے کی وجہ سے گورداسپور ٹورنامنٹ کمیٹی نے ٹورنامنٹ بالکل بند کر دیا.ہمارے طلباء کو بہت خوشی ہوئی کہ ایک الہام پورا ہو گیا.کیونکہ انہوں نے ، جو پلیئر تھے، کھلاڑی تھے اُن کو بھی بتادیا تھا تو اُن کو یہ خوشی تھی کہ ہمارے ٹیچر کا الہام پورا ہو گیا.وہ اللہ اکبر کے نعرے مارتے ہوئے جب قادیان آئے تو اس الہام کی تمام تفصیل حضرت اقدس کے حضور پہنچی.اور میں نے لکھ کر مفصل عرض کیا.اس پر حضور نے مجھے لکھا.”آپ کا الہام بڑی صفائی سے پورا ہوا.یہ آپ کی صفائی قلب کی علامت ہے.اس طرح حضور خدام کے کشوف اور رویا پر اظہار خوشنودی فرماتے تھے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 11 صفحہ 312 -313 روایات حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیر) حضرت شیخ عطا محمد صاحب سابق پٹواری و نجواں بیان فرماتے ہیں کہ جب دیوار کا مقدمہ تھا تو حضرت اقدس بٹالہ تاریخ پر تشریف لے گئے ہوئے تھے ( یعنی قادیان میں ان کے چچا زاد بھائیوں
خطبات مسرور جلد 11 84 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء کے ساتھ جو دیوار کا مقدمہ تھا) حضور نے فرمایا کہ جس کسی کو خواب آوے وہ مجھے بتلا دے اور کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تو یوسف ثانی ہے.“ یوسف کو بھی بھائیوں کی وجہ سے تکلیف پہنچی تھی.فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” تو یوسف ثانی ہے.کہتے ہیں میں نے بھی ایک خواب حضور کو سنائی کہ میں ایک میٹھا خربوزہ کھا رہا ہوں.جب میں نے اُس کی ایک کاش اپنے لڑ کے عبداللہ کو دی تو وہ خشک ہو گئی.اس پر حضور نے فرمایا کہ تمہارے گھر میں اسی بیوی سے ایک اور لڑکا پیدا ہوگا مگر وہ زندہ نہیں رہے گا.چنانچہ ایک لڑکا میرے ہاں پیدا ہوا اور گیارہ ماہ کا ہو کر فوت ہو گیا.اس کے بعد اس بیوی سے کوئی بچہ نہیں ہوا.( گواس خواب کا مقدمہ سے تعلق تو نہیں تھا ، لیکن بہر حال انہوں نے اس وقت یہ خواب دیکھی تو یہ بتائی.) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 10 صفحہ 355 روایات حضرت شیخ عطا محمد صاحب سابق پٹواری و نجواں) حضرت امیر محمد خان صاحب جنہوں نے 1903ء میں بیعت کی، فرماتے ہیں کہ جنوری 1917ء بروز جمعرات میں نے خواب میں ایک شخص کو سر پٹ گھوڑا دوڑاتے چلے آتے دیکھا اور میں ایک کنوئیں کے پاس میدان میں کھڑا تھا.اُس شخص نے گھوڑے سے اتر کر مجھے کہا کہ میں بادشاہ ہوں اور احمد علی میرا نام ہے.میرے لئے دعا کی جائے.تب میں نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھایا اور اُس نے بھی میرے ساتھ دعا میں شمولیت اختیار کی.جب ہم دعا سے فارغ ہوئے تو وہ فوراً گھوڑے پر سوار ہوکر سر پٹ گھوڑا دوڑا کر واپس چلا گیا.ابھی تھوڑی دور گیا تھا کہ اُس کا بیشمار لشکر گردوغبار اڑاتا ہوا اُس سے آملا.( یہ خواب بیان فرمارہے ہیں ) جسے وہ ساتھ لے کر مخالف لشکر کے مقابلہ میں ڈٹ گیا.مخالف کا لشکر ہتھیاروں اور وردیوں سے سجا ہوا تھا جسے دیکھ کر اُس کا مقابلہ مشکل نظر آتا تھا.تب کسی نے کہا، دونوں کے مقابلہ کی یہ کوئی نسبت نہیں تھی.لیکن پھر کہتے ہیں کسی نے خواب میں ان کو کہا.کیا مور کی سجاوٹ کم ہوتی ہے.یہ فوجی سجے تو ہوئے ہیں، مور بھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے،سجا ہوتا ہے مگر جو نبی بندوق کی آواز سنتا ہے فوراً بھاگ جاتا ہے اور غاروں میں جا چھپتا ہے.اس طرح مخالف کا لشکر بھاگ جائے گا.پھر کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 151 - الف از روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) پس اصل طاقت خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کی تائیدات ونصرت کی ہوتی ہے، نہ ظاہری شان و شوکت کی.جو کام دعاؤں سے ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے سے ہوتا ہے، وہ ظاہری شان و
خطبات مسرور جلد 11 85 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء شوکت سے نہیں ہوتا.ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے اور اُس وقت کے آنے پر اللہ تعالیٰ پھر اُس کا انجام دکھاتا ہے.حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی فرماتے ہیں.ان کی بیعت 23 رنومبر 1889ء کی ہے.چھوٹی سی خواب ہے.کہتے ہیں کہ کنڈے میں حضور ایک جگہ ٹہل رہے تھے ( جگہ کا نام ہے، کنڈا) وہاں اُس وقت اکیلے تھے.میں نے کچھ رقم حضور کے پیش کی.شاید وہ ہیں روپے سے دو تین روپے کم تھے.تو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کیسے ہیں؟ میں نے کہا حضور مجھے خواب آئی تھی کہ میں نے اتنی رقم آپ کو دی ہے، خواب پوری کی ہے.آپ نے منظور فرمائی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 424 روایات حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی ) رض حضرت امیر محمد خان صاحب فرماتے ہیں جن کا بیعت کا سن 1903ء ہے کہ میرے بڑے بھائی چوہدری عطا محمد خان صاحب کا ایک زمین کے متعلق مقدمہ تھا.میں نے 21 جنوری 1913ء کو خواب میں دیکھا کہ اُن کی بیوی غیر سے نکاح کر رہی ہے.چنانچہ وہ مقدمہ خارج ہو گیا اور وہ جائیداد بھی ہاتھ سے نکل گئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 144 روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) بعض دفعہ بعض لوگ خواب بھیج دیتے ہیں.کوئی خواب دیکھی تو فوراً الزام تراشیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں اور فکر مندیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں.تو خوابوں کی مختلف تعبیریں ہوتی ہیں.اب یہاں انہوں نے خواب دیکھی کہ بیوی غیر سے نکاح کر رہی ہے.(جس کی تعبیر یہ کی کہ جائیداد کا مقدمہ تھا اور وہ مقدمہ بار گئے.حضرت امیر محمد خان صاحب جن کا بیعت کا سن 1903 ء ہے، انہی کی روایت ہے.ان کی کافی ساری روایات خوابوں کے بارے میں ہیں.کہتے ہیں کہ 18 / دسمبر 1912ء کی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جسے میں سینہ سے لگا کر درود شریف پڑھ رہا ہوں اور پتاشے تقسیم کر رہا ہوں.لڑکا خوبصورت تو ہے مگر دُبلا اور کمزور ہے.لہذا 15 فروری 1913ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزند عطا کیا جس کا نام حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبداللہ خان رکھا.جس کی کمزوری اب 1938ء میں چوبیس سال کی عمر میں برابر چلی آ رہی ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحه 143 از روایات حضرت امیر محمد خانصاحب)
خطبات مسرور جلد 11 86 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء پھر انہی کا ایک اور خواب ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے امیر محمد خان صاحب فرماتے ہیں کہ 24 نومبر 1913 ء کی رات خواب کے اندر مجھے ایک ہندو سادھو دکھایا گیا جس کو کوڑھ کا مرض تھا مگر باوجود اس کے بدن اُس کا مضبوط تھا.جو اپنے بدن کی مضبوطی نوجوان لڑکوں کو دکھلا کر رہبانیت یا تجرد کی ترغیب دیتا تھا اور تانبے پر گندھک اور سنکھیا کے ذریعہ رنگ چڑھا کر اُسے سونا ظاہر کرتا تھا.( یہ خواب بیان ہو رہی ہے ) میں نے سادھو سے کہا کہ تم میرے روبرو بھی سونا بنا کر دکھاؤ.میرے اس کہنے پر وہ ذرا جھجکا مگر شیخی میں آ کر بنانے لگا.میں نے اُسے کہا کہ دیکھو، اب میں تیرے مخصوص سونے کی حقیقت ظاہر کرتا ہوں.یعنی اُسے آگ پر تاؤ دے کر اُس پر ہتھوڑا مارتا ہوں جس سے اُس کی اصلیت فوراً کھل جائے گی.تب سادھو نے شرمندہ ہو کر مجھے کہا کہ آپ ایسانہ کریں.میرا پردہ فاش ہو جائے گا.اس کے بعد میں نے اُس سادھو کے معتقدوں کو تبلیغ شروع کر دی.وہ اُن کو جس راہ پر لگانا چاہتا تھا، اُس راہ سے ہٹانے کے لئے اسلام کی اصل حقیقت اُن کو بیان کرنی شروع کر دی.کہتے ہیں جسے سادھو بھی بغور سنتا گیا.( یہ خواب بیان ہو رہی ہے ) جب سادھو کے چیلوں پر اثر ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی ضرور مرزا صاحب کی کتاب سنا کر جائیں.تو کہتے ہیں اس کے بعد پھر میں نے سادھو سے مخاطب ہو کر کہا کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے انسان میں کچھ طاقتیں رکھی ہیں.اگر انسان انہیں جائز طور پر استعمال کرے تو فائدہ اُٹھاتا ہے.اگر ان طاقتوں کو استعمال میں نہ لائے تو نقصان اُٹھاتا ہے.مثلاً خدا تعالیٰ نے جو انسان میں رحم کی طاقت رکھی ہے، اب اگر ایک مظلوم عدالت میں دعوی دائر کرے اور ظالم کو سزا دلانا چاہے مگر کوئی اُس کی گواہی نہ دے کہ کسی کو سزا دلا نارحم نہیں تو کیا پھر ایسا کرنا جائز ہوگا ؟ ہر گز نہیں.یعنی ظالم کو تو بہر حال سزا دلوانی چاہئے ، اُس کے لئے تو کوئی رحم نہیں.پھر کہتے ہیں (آگے میں خواب میں دیکھتا ہوں ) اب پھر اُن کو یہی کہتا ہوں کہ خدا نے جو آنکھیں دیکھنے کے لئے دی ہیں، اگر کوئی اُن سے کام نہ لے تو سخت نقصان اُٹھائے گا.دیکھو اگر زمیندار آنکھیں بند کر چھوڑے اور اُن سے کام لے کر کھیتی باڑی کا کام نہ کرے تو کیا آرام پائے گا.میری اس مثال سے اُس سادھو کے جو زمیندار معتقد تھے وہ خود بخود بے اختیار بول اُٹھے کہ خدا نے جو انسان میں اولاد پیدا کرنے کی طاقت رکھی ہے اگر اس کو استعمال نہ کیا جائے تو پیارے پیارے بچے کہاں سے حاصل ہوں؟ اس کے بعد پھر میں نے سادھو کے مریدوں کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو یہ سادھو جو آپ کو اپدیش دینے کا مدعی ہے، اگر ان کے پتا استری بھوگ نہ کرتے.یعنی ماں باپ کا ملاپ نہ ہوتا تو یہ کہاں سے پیدا ہوتا.تو یہ دلیل سن کر سادھو بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ پہلے لوگوں نے تو اس طریق کو اچھا ہی سمجھا تھا اور ان دلائل پر
خطبات مسرور جلد 11 87 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء کسی نے غور نہیں کیا مگر مرزا صاحب نے تو ہر باطل کا کھنڈن کر دیا.(ہر باطل کو جھٹلا دیا، کھول کے بیان کر دیا، تباہ کر دیا.) کہتے ہیں پھر میں نے کہا کہ اگر یہی طریق چارپایوں میں روا رکھا جائے تو سواری کے جانور اور دودھ اور کھیتی باڑی کے جانور کہاں سے آئیں؟ اور اس طریق سے مخلوق کی پیدائش کی غرض وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 57) مفقود ہو جائے اور نبیوں اور او تاروں کی آمد کا سلسلہ بھی بند ہو جائے جن کے ذریعہ لوگ مکتی حاصل کرتے ہیں.جب میں یہ کہ چکا تو خواب میں ہی دیکھ رہے ہیں کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو درس فرما رہے تھے، اپنی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے کہ تم جو مجھ سے معارف قرآن سیکھ رہے ہو، رہبانیت کے طریق پر عمل کرنے سے یہ موقع کہاں میسر آ سکتا تھا.(اس طرح کے رہبانیت سے جو راہب بننے کی کوشش کرتے ہیں، وہ بھی سمجھتے ہیں ناں کہ ہم بڑی نیکی کے اعلیٰ مدارج پر پہنچ گئے.تو خواب میں ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بھی بتایا.کہتے ہیں کہ ) جب بیداری ہوئی تو مجھے تفہیم ہوئی، یہ سمجھایا گیا کہ دیکھو یہ سادھو کا جو کوڑھ کا مرض ہے یہ بھی بیجا طور پر قانونِ قدرت سے ہٹنے کے نتیجہ میں ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 144 - 146 از روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) اسی طرح خدا تعالیٰ کے قانون کے خلاف جو بھی غیر فطری عمل ہوتے ہیں یا بعض ایسی تنظیمیں بن گئیں، پارلیمنٹیں ، قانون ساز ادارے اس کے لئے قانون بنانے لگ گئے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کا قانون بھی حرکت میں آتا ہے اور حرکت میں آکر قوموں کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے.ان کو بھی جو بہت زیادہ دنیا دار لوگ ہیں، پس یہ ہر غیر فطری عمل کو اپنے قانون کا حصہ بنانا چاہتے ہیں.اس لئے احمدیوں کو جو اس وقت دنیا کے اکثر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں ان کا حصہ نہ بننے کے لئے آج کل بہت زیادہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے.حضرت عبدالستار صاحب ولد عبد اللہ صاحب فرماتے ہیں.ان کی 1892 ء کی بیعت ہے کہ میری بیوی نے خواب سنائی کہ مجھے حضرت صاحب نے دو روپے دیئے ہیں.جب مقدمہ فتح ہوا تو حضرت صاحب نے مجھے دو روپے دیئے.اس طرح وہ خواب پورا ہوا اور میں نے اپنی بیوی کو وہ دونوں روپے دے کر خواب پورا کر دیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 188 روایات حضرت عبدالستار صاحب) پھر حضرت امیر محمد خان صاحب ہی کی ایک روایت ہے.کہتے ہیں یکم جون 1905ء کو میں نے
خطبات مسرور جلد 11 88 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء خواب کے اندر ایک مصفی پانی سے، (صاف پانی سے ) مچھلیاں پکڑنی شروع کیں کہ اتنے میں ایک طوفان آیا اور ذرا ہی کم ہوا تھا کہ اتنے میں زلزلہ سے زمین بلنی شروع ہو گئی اور میں زمین کو ہلتے دیکھ کر سر بسجود ہو گیا اور سجدے کے اندر یا حَى يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيثُ پڑھنا شروع کر دیا کہ اتنے میں ایک اور زلزلہ آیا جس پر لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ تو معمولی زلزلہ ہے، زور کا زلزلہ تو نہیں آیا.جب انہوں نے یہ کہنا شروع کیا تو میرے دل میں ڈالا گیا کہ تم بھی ابھی سر بسجو در ہو، زلزلہ آتا ہے.اور اس کے بعد ایک ایسا زلزلہ آیا جس سے بہت ہی سخت تباہی ہوئی“.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 138 روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) یہ جون 1905ء کے خواب کا ذکر کر رہے ہیں.کانگڑہ کا جو زلزلہ بڑا ز بر دست آیا تھا، وہ تو اپریل میں آیا تھا اور اُس کے بعد بھی پھر زلزلے آئے ہیں.تو شاید آئندہ زلزلوں کی بھی ان کو اطلاع دی گئی.پھر جنگ عظیم کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے.لیکن بہر حال ایک بات ، ایک سبق اس میں یہ بھی ہے کہ ایک زلزلہ کی آفت کی حالت کو دیکھ کے یا دوسری آفات کو دیکھ کے انسان کو لا پرواہ نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے سر جھکا رہنا چاہئے اور اُسی سے کو لگائے رکھو تبھی آفات سے بچت ہوسکتی ہے.کیونکہ یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے، ان میں زلازل کی اور آفات کی بہت زیادہ پیشگوئیاں ہیں.اس لئے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے آگے ہمیشہ جھکے رہنا چاہئے.لا پرواہ نہ ہو جا ئیں.پھر امیر محمد خان صاحب ہی فرماتے ہیں کہ 29 مئی 1905ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بارش اور آندھی کا طوفان ہے جس کو دیکھ کر لوگ ایک درخت کے نیچے سے میدان میں بھاگے.اس خیال سے کہ کہیں یہ درخت ہمیں نہ دبا لے.مگر غریب اور مسکین لوگوں نے درخت کے سائے کو غنیمت جانا اور میدان سے بھاگ کر درخت کے نیچے آگئے اور جو نہی اُن غرباء کا درخت کے سائے میں پناہ لینا تھا کہ طوفان سے میدان والے تباہ ہو گئے.یہ دیکھ کر میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے.ختم وہی ہے جس کا اختتام ایسا ہو.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 137 - 138 از روایات حضرت امیر محمد خانصاحب ) تو عموماً دیکھا گیا ہے کہ امراء کی نسبت غرباء ہی زیادہ تر انبیاء کو ماننے والے بھی ہوتے ہیں اور اُن کی چھاؤں میں آنے کی کوشش کرتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 89 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء حضرت امیر محمد خان صاحب فرماتے ہیں کہ 25 جون 1905 ء کو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب کے اندر اپنے گھر موضع اہرانہ میں عبادت فرماتے ہوئے دیکھا.آپ جب عبادت سے فارغ ہوئے تو حضور گھوڑے پر سوار ہو گئے.جب تھوڑی دور تشریف لے گئے تو فرمایا کہ کوئی ہے جو مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اول سے کہیں کہ وہ بھی جلد تیار ہوں اور یہ رقعہ اسی نواب صاحب مولوی صاحب کو دے دیں.رقعہ میں یہ لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا کہ فلاں چیز جواز قسم روپیہ یا جواہرات کے ہے، ساتھ لیتے آویں.تب میں نے عرض کی کہ حضور میں حاضر ہوں اور حضور سے رقعہ لے کر فوراً حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں پہنچا دیا.جب ہم سر زمین مکہ میں پہنچے.( یہ سفر جاری ہے اور مکہ کی طرف جارہے ہیں.جب مکہ میں پہنچے تو وہاں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں نظر آئیں جن میں پتھر اور روڑے اور چونا تھا اور ان پتھروں اور روڑوں اور چونے کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے مصفی پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں تھیں جسے دیکھ کر خیال آیا کہ یہ سب خدا کا فضل ہے جو پانی اس طریق سے بہ رہا ہے.اگر یہ نالیاں زلزلے سے درہم برہم ہو جائیں تو پانی خراب ہو جائے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 138 - 139 روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کی اصل تعبیر کیا ہے.لیکن بہر حال یہ اشارہ بھی لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے غلام مکہ مکرمہ سے ایک دن پھر اسلام کی حقیقی اور صاف اور دل و جان کو صاف کرنے والی تعلیم سے دنیا کو بھی صاف کرنے کی کوشش کریں گے اور خلافت کے نظام کے تحت یہ فیض جاری رہے گا اور مختلف قو میں اس سے پانی پیئیں گی اور فائدہ اُٹھا ئیں گی اور یہ فیضان جاری رہے گا انشاء اللہ.حضرت امیر محمد خان صاحب ہی فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات سے چند روز پہلے میں نے خواب میں سورج گرہن دیکھا جس کی تعبیر میں نے آپ کی وفات سمجھی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحا بہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 146 روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) پھر یہ لکھتے ہیں کہ بارہ تیرہ جنوری 1938ء کی درمیانی رات کو میں نے حضرت خلیفہ اسیح ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات مبارک کو خواب میں چند احباب کے ساتھ اس طریق سے دعا فرماتے دیکھا کہ گویا آپ اُن احباب کے گرد گھوم کر اُن کو حفاظت میں لے رہے ہیں مگر پاؤں سے ننگے ہیں اور چوہدری فتح محمد صاحب آپ کے ساتھ ہیں.لہذا 13 جنوری کو آپ نے مسجد مبارک میں چند احباب کے ساتھ مرزا عزیز احمد صاحب کے صاحبزادے کے متعلق دعا کی اور حضور کے اس دعا 66
خطبات مسرور جلد 11 90 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء کرنے کا اعلان قبل از دعا چوہدری فتح محمد صاحب نے مسجد مبارک میں کیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 156 - 157 روایات حضرت امیر محمد خانصاحب ) پھر یہ لکھتے ہیں کہ ستمبر 1912ء میں میں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مع چند دیگر احباب کے خواب میں دیکھا کہ حضور فرمارہے ہیں کہ ہمیں یہ منظور نہیں کہ کفار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تو گند بکنے میں حد کر دیں اور ہم امن سے رہیں.ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ کفار گند بکنے کی انتہا سے پہلے ہی پیسے جائیں.کہتے ہیں جب یہ خواب میں نے حضرت خلیفہ اول کو سنایا تو حضور نے فرمایا کہ بہت مبارک خواب ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 143 روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) پھر یہ لکھتے ہیں کہ 20 فروری 1913ء کی رات کو میں نے خواب میں حضرت خالد بن ولید اور ضرار بن از ورکودیکھا کہ تلواریں ہاتھ میں ہیں اور فتح پر فتح حاصل کر رہے ہیں بلکہ اکثر لوگ خود بخو دان کے آگے ہتھیار ڈالتے جارہے ہیں.حتی کہ یزید نے بھی ہتھیار ڈال دیئے اور ان کے ساتھ شامل ہو گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 144 روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) حضرت مرزا محمد افضل صاحب ولد مرز امحمد جلال الدین صاحب سفر جہلم کے ضمن میں فرماتے ہیں (ان کی بیعت کا سن 1895ء ہے) کہ 1903ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہلم تشریف لائے اور میں وہاں گیا.بے پناہ ہجوم تھا.بعض لوگوں کے سوال پر حضور نے فرمایا کہ یہ خدا کا نور ہے ( یعنی سلسلہ احمد یہ ) لوگوں کے بجھانے سے نہیں بجھ سکے گا.اس سفر میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کابل نے فرمایا تھا.خدا نے مجھے تین بار سر دینے کو فرمایا ہے.پس میں دوں گا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 225-226 روایات حضرت مرزا حمد الفضل صاحب) پھر امیرمحمد خان صاحب ہی لکھتے ہیں کہ 16 دسمبر 1913ء کی رات کو میں نے حضرت خلیفہ ایج الاول کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں ایک سوٹا ہے اور بھورے رنگ کی بھینس حضرت خلیفہ اسی الاول کی طرف دوڑتی ہوئی مارنے کو آتی ہے لیکن سوٹے کے خوف سے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی طرف منہ رکھتی ہوئی پیچھے کی طرف بہتی گئی.یہاں تک کہ آپ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں کہ مُہریں بنانے والا اپنی دوکان میں بیٹھا تھا اور ایک اور شخص دوکاندار سے جعلی مہریں بنوانا چاہتا تھا اور وہ ابھی دوکان پر ہی تھا کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول وہاں پہنچ گئے.دوکاندار نے مجھے پوچھا کہ مولوی نور الدین صاحب یہی ہیں.جب میں نے کہا کہ ہاں یہی ہیں تو دوکاندار نے جھٹ مہر بنانے والے کو پکڑ لیا اور حضرت خلیفہ اول اُس محل
خطبات مسرور جلد 11 91 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء میں داخل ہو گئے ، بھینس بھی ساتھ تھی.صاحب مکان خوش خو، خوش شکل ، بارعب ، نیک دل آدمی تھا.اُس نے حضرت صاحب کا بہت ادب آداب کیا اور کھانا کھلایا اور جب حضور پھر اس مکان سے باہر تشریف لائے تو آپ کے گردا گرد بے شمار خلقت کا ہجوم تھا.اتنے میں جعلی مہریں بنانے والا ہجوم سے نکل کر بھاگا.بہتیری تلاش کی وہ کہیں نہ ملا.میں نے پرواز کر کے بھی اُسے تلاش کیا مگر نظر نہ آیا خواب میں ).خود ہی اس کی تعبیر بیان فرماتے ہیں.کہتے ہیں یہ خواب حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی لمبی بیماری اور تبدیلی آب و ہوا کے لئے حضرت نواب صاحب کی کوٹھی تشریف لانے اور مولوی محمد علی صاحب کے آپ کی حیاتی میں خلافت کے خلاف ٹریکٹ شائع کرنے اور پھر حضور کے جنازے پر بیشمار مخلوق کے ہجوم کے ہونے اور پھر مولوی محمد علی صاحب کے قادیان سے چلے جانے سے ہو بہو پوری ہوگئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 148 - 149 روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) پھر یہ کہتے ہیں.13 / مارچ 1914ء کی رات میں نے خواب میں ایک شہد کا چھتہ دیکھا جس سے شہد کی دھار نکل رہی تھی جسے ہم لوگ برتنوں میں ڈال رہے ہیں.اُس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ مجھے غسل جنازہ مولوی شیر علی صاحب دیں جو میرے بھائی اور نیک ہیں.چنانچہ میں نے اپنا یہ خواب صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں بروقت پہنچا دی.(خلیفہ اول کی زندگی کی بات ہے ) اور مولوی شیر علی صاحب نے ہی آپ کو ( خلیفہ اول کو غسل جنازہ دیا.ہاں میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے خواب کی بنا پر ہی آپ سے غسل دلایا گیا یا کوئی اس کی اور بھی صورت تھی.البتہ نسل ضرور مولوی صاحب نے ہی دیا اور میری خواب بھی پوری ہوئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 149 - 150 روایات حضرت امیر محمد خانصاحب) حضرت خیر دین صاحب ولد مستقیم صاحب جن کی بیعت کا سن 1906ء ہے، فرماتے ہیں.جب ہمارے پیارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مالک حقیقی کو جاملے اور خلافتِ اولیٰ کا دور دورہ ہوا تو خدا تعالیٰ نے اس خلافت کے ذریعہ سے جو مجھ پر وار د فرمایا، وہ یہ ہے.ایک دن رؤیا میں دیکھا کہ ایک نہایت ہی خوبصورت شاہی گھوڑا باندھا ہوا ہے.جس کا رنگ شاہ گندمی کمید ہے.اُس گھوڑے کے پاس ایک پلنگ ہے جس پر بستر بچھا ہوا ہے، تکیہ وغیرہ بھی رکھا ہوا ہے.خواب میں ایسا معلوم ہوا کہ آندھی چلی ہے.وہ آندھی موسم گرما کی سی آندھی ہے جس طرح موسم گرما میں رات کے وقت عموماً آندھی چلا کرتی ہے.(انڈیا پاکستان میں رہنے والے جانتے ہیں، رات کو آندھیاں آیا کرتی ہیں) بسترے مٹی، تنکے،
خطبات مسرور جلد 11 92 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء چھوٹے چھوٹے کنکروں وغیرہ سے پر ہو جایا کرتے ہیں.( باہر جو لوگ سویا کرتے ہیں، اُن کو یہ پتہ ہے ) اس قسم کے بستر کو میں صاف کر رہا ہوں، جھاڑ رہا ہوں اور وہ بستر اخلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معلوم ہوتا ہے.اس طرح یہ سارا واقعہ میں نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں عرض کیا.اس کی تعبیر انہوں نے یہ فرمائی کہ جو کچھ ہم کو ملا، اس میں سے تم کو بھی حصہ مل گیا.حضرت اللہ دتہ صاحب ہیڈ ماسٹر ولد میاں عبدالستار صاحب فرماتے ہیں ( ان کی بیعت 1898ء کی ہے ) کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک زمانے میں مجھے نہایت شاندار نظارہ دکھایا گیا.جو درحقیقت میری زندگی کی مختلف کیفیات کی خوشخبری تھی.یعنی حج کے دن بوقت تہجد میں نے دیکھا کہ دو شخص باہم باتیں کرتے ہیں.ایک نے کہا کہ سنا ہے ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یاروں کی شکلیں نظر آتی ہیں، یعنی دوستوں کی ، ساتھیوں کی شکلیں نظر آتی ہیں ).اُس نے کہا ہاں جہلم کی طرف سے نظر آتی ہیں.پھر اُس نے کہا یہ دیکھو.میں نے دیکھا کہ ایک شیش محل ہے جس کے شیشے سیاہ ہیں.معا وہ براق ہو گئے اور اُس کے اندر چاروں یارانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرسیوں پر جلوہ پیرا تھے.(یعنی چاروں خلفاء).نہایت شاندار نظارہ تھا.پھر وہ نظارہ ہٹ کر صرف حضرت عثمان نظر آئے.پھر وہ بھی نظارہ بدل کر صرف حضرت ابوبکر صدیق نظر آئے.یہ نظارہ میں نے سیر ہو کر اور اچھی طرح دیکھا.حضرت صدیق نے مجھے اپنا چہرہ اچھی طرح دکھلایا تو وہ بالکل حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شکل تھی.میرے دل میں خیال آیا کہ یہ تو حضرت خلیفتہ امسیح ہیں.تو الہام ہوا کہ ابوبکر نورالدین کی شکل میں ہے.اصحاب فوت نہیں ہوں گے جب تک نورالدین کو نہ دیکھیں گے.میں نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لکھا.حضور نے جواباً فرمایا کہ مبشرات میں سے آپ کے رویائے صالحہ ہے.ایسے ہی مجھے مختلف اوقات میں مبشرات ہوتے رہے.ایک اس میں یہ بھی تھا.امن است در مکان محبت سرائے مایہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے.یعنی ہماری محبت کے گھر میں رہنے والے کے لئے امن ہے.پھر کہتے ہیں یہ بھی مجھے الہام ہوتے رہے.یہ حضرت مسیح موعود کے شعر ہیں کہ اب گیا وقت خزاں آئے ہیں پھل لانے کے دن خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو اک عالم کو اک عالم دکھاتی ہے یہ خوشخبریاں اللہ تعالیٰ اُس زمانے سے جماعت کی ترقی کی صحابہ کو دکھا تا آرہا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 93 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء پھر کہتے ہیں بہت ساری خواہیں میں نے دیکھیں.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے پلاؤ کھلایا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حلوہ دیا کہ تقسیم کرو.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے بھی اور ساتھ بھی نماز پڑھی.حضور کو پانی پلایا.حضور ایک ٹیلے پر کھڑے تھے اور میں گڑھے میں تھا.حضور نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر اپنے ساتھ کھڑا کر لیا.ایسا ہی حضور پھول چن رہے تھے.میں نے بھی چن کر حضور کو دیئے.کہتے ہیں ایسے ہی میں نے حج کیا، مکہ مکرمہ کو دیکھا.طواف کعبہ کیا اور طواف کے بعد بیت اللہ میں پھلوں سے لدے ہوئے درخت پیدا ہو گئے.آم کھجور وغیرہ کے.یہ نظارے دیکھے.پھر لکھتے ہیں کہ میرے ابتلاء کا زمانہ ختم ہونے کی خوشخبریاں مجھے ملیں.کہتے ہیں بعض بزرگوں قاضی عبداللہ صاحب اور اور دوسرے لوگوں کو بھی میرے بارے میں مبشرات ملیں.پھر کہتے ہیں کہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے 11 مئی 1936ء کو آخری نفلی روزے کے دن تہجد کے وقت دیکھا کہ وائسرائے قادیان میں آیا ہے اور میں نے سب ملاقاتیوں میں سے احمدیوں کو پیش پیش رکھا ہے.یعنی یہ ملاقات کروار ہے ہیں اور میں اور مولانا اکٹھے ہیں.وائسرائے کو خطرہ ہے کہ مولا نا اُسے قتل کرنا چاہتے ہیں.میرا وائسرائے سے دوستانہ بے تکلف تعلق ہے.میں اُس کو پان دے کر کہتا ہوں کہ مولوی صاحب کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں.( یہ مولوی غلام رسول صاحب کی طرف سے خواب تھی ) اُن کی طرف سے میں ذمہ دار ہوں.ایسا ہی ایک اور شخص نے بھی ان کے بارے میں اچھی خواب دیکھی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 119 - 121 روایات حضرت اللہ دتہ صاحب ہیڈ ماسٹر ) حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ولد شیخ مسیتا صاحب فرماتے ہیں (انہوں نے 1894ء میں بیعت کی ) کہ اے خدائے ذوالجلال ! جو تیری جھوٹی قسم کھا تا ہے وہ تیری درگاہ میں مردود ومخذول ہو جاتا ہے.پس میں تیری قدرتوں پر ایمان رکھتا ہوں اور تیری ذات کی قسم کھاتا ہوں کہ تو نے مجھ گناہ گارنا چیز پر یہ بھید کھولے تھے.اگر میں نے تیری جھوٹی قسم کھائی ہے اور محض جھوٹے الہام یا خواب بنا کر تیری ذات اقدس کی طرف منسوب کئے ہیں تو تو مجھے سزا دینے پر بھی قادر ہے.میں نے دیکھا (خواب بتاتے ہیں ) کہ کوئی باغ ہے اُس میں ساری جماعت کے احباب موجود ہیں.اور غرباء ایک طرف ہیں اور امراء ایک طرف ہیں.امراء نے اپنا لیڈر جناب حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کو مقرر کیا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں خواب دیکھ رہے ہیں اور اس خواب کا تعلق حضرت خلیفہ اول کی
خطبات مسرور جلد 11 94 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء خلافت سے ہے.کہتے ہیں بہر حال مولوی عبد الکریم صاحب کو مقرر کیا.مجھے میرے غرباء احباب نے اپنا لیڈر مقرر کیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ پہلی تقریر جناب حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کریں گے اور اُن کا جواب مجھ ناچیز کے ذمہ قرار پایا.حضرت مولانا نے اپنی تقریر میں اپنی خلافت کے دلائل پیش کئے اور میں نے اپنی تقریر میں جناب حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی کی خلافت کے دلائل دیئے.دلائل دے کر مولانا کی تقریر کا رڈ کیا.پھر مولانا نے اپنی خلافت کے دلائل بیان کئے.پھر میں نے اپنی تقریر میں مولانا کے دلائل کا رد کیا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خلافت کے دلائل بیان کرنے شروع ہی کئے تھے کہ مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک جست ماری ، ( چھلانگ لگائی ) پھر دوسری چھلانگ لگائی اور پھر تیسری چھلانگ لگا کر حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضرت! میری بیعت لے لیجئے.حضرت خلیفہ اول نے مولوی صاحب سے بیعت لی اور آپ بالکل خاموش تنِ تنہا ایک آم کی جڑ میں آم سے کمر لگائے بیٹھے ہوئے تھے.میری اس رؤیا کے شاہد جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور جناب ماسٹر عبدالرحمن مہر سنگھ صاحب بھی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں یہ رو یاد یکھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 74-75 از روایات حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب) خلافت سے متعلق یہ رؤیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ سے ہی جماعت میں اللہ تعالیٰ دکھاتا چلا آ رہا ہے.یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے، بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ جی آج خوا میں دیکھ لیں، خلیفہ اول کے زمانے سے خوا ہیں اور بہت ساری خواہیں ہیں ، پھر حضرت خلیفہ ثانی کی ، پھر اُسکے بعد.بہر حال یہ چند خوا میں تھیں جو میں نے بیان کیں.اب جو انگلی بات میں کرنا چاہتا ہوں وہ آج اس وقت سیرالیون اور بنگلہ دیش دو ملک ہیں جہاں ان کے جلسہ سالانہ منعقد ہو رہے ہیں.سیرالیون کا تو یہی وقت ہے، اس وقت شاید جلسہ ہورہا ہو گا.اور بنگلہ دیش میں جلسہ کا جو پہلا دن ہے ہو گیا ہے.اس سال بنگلہ دیش میں احمدیت کو پہنچے ہوئے ، شروع ہوئے ہوئے ایک سوسال ہو چکا ہے.جیسا کہ برطانیہ کی جماعت کو بھی اس سال سوسال پورے ہوئے ہیں.جماعت برطانیہ بھی اپنے جشنِ تشکر کا پروگرام بنا رہی ہے.بنگلہ دیشی جماعت نے یہ پروگرام بنائے اور اُن پر کچھ پر عمل بھی ہوا.جلسہ سالانہ بھی اس پروگرام کا ایک بہت بڑا حصہ تھا بلکہ ہے.اس لئے انہوں نے اس سال کرایہ پر بڑی وسیع جگہ لے کر ایک سٹیڈیم میں جلسے کا انتظام کیا تھا تاکہ آسانی سے تمام
خطبات مسرور جلد 11 95 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء پروگرام ہو سکیں اور رہائش وغیرہ کا بھی انتظام ہو جائے.زیادہ تعداد میں لوگ شامل ہوسکیں.جلسہ سالانہ کے جو انتظامات اور تیاریاں ہوتی ہیں وہ مکمل تھیں کہ پرسوں کچھ نام نہاد علماء نے اپنے چیلے چانٹوں کو اکٹھا کر کے ( مدرسوں کے طلباء کو ہی اکٹھا کیا ہوگا) اور کچھ جماعت اسلامی کے لوگ تھے.انہوں نے تقریباً دو تین ہزار کی تعداد میں حملہ کر دیا.پولیس وہاں کھڑی رہی، اُس نے کچھ نہیں کیا.آخر ان دہشت گردوں نے حملہ آوروں نے تقریباً سارا سامان اور جو انتظامات تھے انہیں درہم برہم کیا.پھر کرائے کا جو بہت سارا سامان تھا، کرسیاں اور ٹینٹ اور باقی چیزیں مارکیز وغیرہ اُس کو آگ لگادی.جس سے کروڑوں کا نقصان ہوا ہے.تو اسلام کے ان نام نہاد علم برداروں کا یہ رویہ ہے.بہر حال ابھی جلسہ تو کینسل نہیں ہوا ، وہ تو جیسا کہ میں نے کہا انشاء اللہ ہو رہا ہے.جماعت کی جو اپنی جگہ ہے اُس میں ہورہا ہے.تعداد کم ہوگی، جگہ کی تنگی ہو گی لیکن جلسہ بہر حال ہمیشہ کی طرح انشاء اللہ تعالیٰ منعقد ہو گا.اللہ تعالی تمام شاملینِ جلسہ جن میں اس سال بہت سارے غیر ممالک کے نمائندے اور مہمان بھی گئے ہوئے ہیں ، اُن کو بھی حفاظت میں رکھے اور جلسہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے اختتام کو پہنچے.اور ان علماء کے شر ان پر الٹائے.جو بہت بڑا مالی نقصان ہوا ہے، جیسا کہ میں نے کہا ، اللہ تعالیٰ اس کی بھی تلافی فرمائے.اس لئے بہت دعائیں کریں.دوسرا جلسہ جیسا کہ میں نے کہا سیرالیون میں ہو رہا ہے.سیرالیون کے اور بنگلہ دیش کے علماء کا یہ فرق ہے کہ وہاں کے بعض علماء نے خیر سگالی کے جذبات رکھتے ہوئے پیغامات بھیجے ہیں اور شامل ہوئے ہیں.وہ لوگ نیک خواہشات کے جذبات رکھتے ہیں.اُن میں کم از کم انسانیت ہے.باوجود مخالفت کے ہمارے پروگراموں میں آ بھی جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو اس کی جزا دے اور اُن کے دل مزید کھولے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کو بھی سمجھے لگیں ، پیغام کو سمجھنے لگیں.بہر حال سیرالیون کے لئے بھی دعا کریں.اُن کا جلسہ بھی ہر لحاظ سے بابرکت اور کامیاب ہوا اور تمام شامل ہونے والے احمدی اور دوسرے مہمان بھی جلسہ کی برکات سے فیضیاب ہونے والے ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیرالیون کی جماعت بھی بہت زیادہ اخلاص رکھنے والی جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا کو مزید بڑھاتا چلا جائے اور جلد تریہ ملک بھی اور تمام افریقہ بھی احمدیت کی آغوش میں آجائے تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم پر سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نمازوں کے بعد میں کچھ جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.پہلا جنازہ عزیزم کریفہ کونڈے Kerifa Conde) جو جامعہ احمدیہ سیرالیون کے طالبعلم تھے ، اُن کا ہے.یہ جامعہ میں درجہ ثانیہ میں
خطبات مسر در جلد 11 96 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء پڑھ رہے تھے.31 جنوری کو ان کی وفات ہوئی ہے.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.جلسہ سالانہ جیسا کہ میں نے بتایا، ہو رہا ہے، اس کی تیاریاں کر رہے تھے جس طرح خدام کرتے ہیں.تیاریوں کے سلسلہ میں وقار عمل کے دوران سیڑھی سے گرنے کی وجہ سے سر میں شدید چوٹ آئی.فوراً ہسپتال پہنچایا گیا.وہاں علاج ہو رہا تھا.ایکسرے سے پتہ لگا کہ سر کی ہڈی پر سکلپ (Sculp) میں کر یک آیا ہے.ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا.آپریشن کی تیاری ہو رہی تھی کہ اُس سے پہلے ہی ان کی وفات ہوگئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ سیرالیون کے ہمسایہ ملک گنی کنا کری سے یہ جامعہ میں پڑھنے کے لئے آئے تھے.بہت نیک، مخلص اور محنتی طالبعلم تھے.مرحوم اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے.جب انہوں نے وقف کر کے جامعہ احمدیہ میں پڑھنے کا ارادہ کیا تو گھر والوں نے بہت مخالفت کی لیکن وہ اپنے عہد پر قائم رہے.گزشتہ سال جب چھٹیوں میں سیرالیون سے گنی کنا کری گئے تو موصوف کے والدین نے اپنے بیٹے میں نمایاں تبدیلی دیکھی اور یہ تبدیلی دیکھ کر مرحوم کے والدین بھی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.موصوف کے والد صاحب کا نام فاسینے کونڈے (Facine Code) اور والدہ کا نام سیویلی ڈونو (Siwili Douno) ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ یہ نو جوان بڑے صالح متقی ، جماعت اور خلافت سے بے انتہا محبت کرنے والے تھے.نیز جو بھی ذمہ داری ان کے سپرد کی جاتی اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کرتے.ان کے اپنے ایک دوست نے بتایا کہ ہمیشہ اس دعا کے لئے کہا کرتے تھے کہ دعا کرنا کہ میری موت جب بھی آئے ہمیشہ احمدیت پر ہی آئے.دوسرا جنازہ چوہدری بشیر احمد صاحب صراف سابق صدر حلقہ غربی ڈسکہ کوٹ کا ہے.24 نومبر 2012 ء کو 82 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ - حضرت میاں اللہ دتہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے.آپ کو تقریباً 61 سال مختلف عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی.سولہ سال قائد مجلس خدام الاحمدیہ، چھتیس سال سیکرٹری مال، پیچیں سال سیکرٹری رشتہ ناطہ، بائیس تئیس سال صدر جماعت اور دس سال امیر حلقہ رہے.اس کے علاوہ آپ چالیس سے زیادہ مرتبہ یعنی چالیس سال تقریباً شوری کے نمائندے بھی مقرر ہوئے.صوم وصلوۃ کے پابند، تہجد گزار، ہمدرد، مہمان نواز، خلافت اور نظام جماعت کے وفادار، غیر معمولی قربانی کرنے والے بہت سی خوبیوں کے حامل تھے.نیک انسان تھے.متقی انسان تھے.آپ کو تین خلفاء کی خدمت کی سعادت بھی نصیب ہوئی.اس طرح کئی صحابہ اور جماعتی عہد یداروں کی ان کے دورہ جات کے دوران بھی خدمت کی
خطبات مسرور جلد 11 97 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء توفیق پائی.آپ کو ڈسکہ کوٹ میں ایک بڑی جگہ لے کر مسجد تعمیر کر وانے کی توفیق بھی ملی.بہت دلیر اور بہادر، نڈر انسان تھے.غیر احمدی لوگ بھی آپ کی شخصیت سے متاثر تھے.تین بار اسیر راہ مولیٰ ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا.موصی تھے.پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.تیسرا جنازہ مکرم عبدالغفار ڈار صاحب کا ہے جن کی 5 فروری 2013ء کو وفات ہوگئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ راولپنڈی میں تھے.آخری وقت تک بالکل ٹھیک تھے.بظاہر کوئی ایسی بات نہیں تھی جو خطرناک ہوتی.ان کی آخر تک صحت بھی بڑھاپے کے علاوہ باقی تو ٹھیک تھی.97 سال کی عمر ہونے کے باوجود دوسری منزل پر چھپیں چھیں سیڑھیاں وغیرہ چڑھ کر جایا کرتے تھے.وفات کے روز شام ساڑھے چھ بجے کے قریب چائے پی کر کہا کہ کھانا کھانے کو دل نہیں چاہ رہا.صرف رات کو سونے کی دوائی دے دینا.رات دس بجے کے قریب جب آپ کا نواسہ دوائی کھلانے کمرے میں گیا تو لائٹ بند تھی ، چہرہ زرد تھا اور جسم میں کچھ حرکت نہ تھی.غالباً اسی وقت وفات ہو چکی تھی.بہر حال ہسپتال لے گئے تو پتہ لگا.ڈاکٹروں نے دیکھا تو وفات ہو چکی ہے.آپ کا سنِ پیدائش 1916ء ہے.آپ کا تعلق آسنور (مقبوضہ کشمیر ) سے ہے.آپ کا خاندان کشمیر کے اولین مخلص احمدیوں کا ہے.آپ کے دادا حضرت حاجی عمر ڈار صاحب اور آپ کے والد حضرت عبد القادر ڈار صاحب حضرت اقدس کے صحابہ میں سے تھے.اسی طرح آپ کے چا حضرت عبدالرحمن صاحب بھی صحابی تھے.ان کے دادا جان کے ہم زلف مرحوم محمد رمضان بٹ صاحب محلہ کشمیریاں سیالکوٹ میں مقیم تھے.علامہ اقبال کے محلہ کی ایک معروف مسجد کبوتراں والی میں آپ کا آنا جانا ہوا.یہ لکھتے ہیں کہ اسی محلہ میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں دادا صاحب نے قادیان کا سفر اختیار کیا.حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے دادا صاحب مرحوم سے کہا کہ خواجہ صاحب ! آپ اپنے وطن سے ایک اعلیٰ دینی فریضہ کی انجام دہی کے لئے گھر سے نکلے ہیں.حج کے لئے نکلے تھے لیکن بیماری کی وجہ سے ، وہاں وبا کی وجہ سے حج پر جانہیں سکے تھے.کہتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور عمل میں آچکا ہے.حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ امام مہدی کو نہ صرف قبول کرنا ضروری ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سلام پہنچا نا واجبات میں سے ہے.لہذا آپ ہمارے ساتھ قادیان چلیں.جس بزرگ اور ولی اللہ نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اُن کی زیارت کریں، اُن کو پر کھیں.چنانچہ آپ قادیان تشریف لے گئے.جب
خطبات مسرور جلد 11 98 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء وہاں پہنچے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسجد میں مجلس لگی ہوئی تھی.احباب مجلس سوالات کر رہے تھے اور حضور ان کے جوابات دے رہے تھے.تو کہتے ہیں دادا جان کو خیال آیا کہ یہ مجلس تو علماء اور لکھے پڑھے لوگوں کے سوالات و جوابات کی مجلس ہے.کیوں نہ میں بھی اپنے دل میں ایک سوال رکھوں.اگر یہ مامور من اللہ ہوں گے تو ضرور میرے دل میں پیدا شدہ سوال کا جواب عطا کریں گے.چنانچہ انہوں نے اپنے دل میں سوال رکھا.کہتے ہیں کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میرے سوال کئے بغیر مجھے اس سلسلہ میں جواب اور رہنمائی ملنی چاہئے کہ حق بات کیا ہے.آپ کا یہ خیال کرنا ہی تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بعض لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں مگر اپنے رحمی رشتہ داروں سے حسنِ سلوک سے پیش نہیں آتے ، حالانکہ یہ امر صریح طور پر اسلامی تعلیم اور تقویٰ کے خلاف ہے.کہتے ہیں اس بات سے دل میں جو میرا سوال تھا اُس کا مجھے جواب مل گیا.شرح صدر ہوگئی اور میں نے بیعت کر لی.انہوں نے اپنے بھائی کی کوئی زمین ان کو نہیں دی تھی ، دبائی ہوئی تھی.تو فوراً اپنے داماد کوخط لکھا کہ نشاندہی کر کے جو اُن کا رقبہ بنتا ہے اُن کو دے دو.تو یہ ان کے دادا کے احمدی ہونے کا فوری اثر تھا.بہر حال ڈار صاحب جو تھے، انہوں نے یاڑی پورہ مڈل سکول کشمیر سے پانچویں جماعت پاس کی.1928ء میں قادیان تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے.مدرسہ احمدیہ کی سات جماعتیں پاس کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا.1938ء میں مولوی فاضل کیا.ان کی اہلیہ تو پہلے ہی 2005 ء میں وفات پا چکی تھیں.آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.غفار صاحب کی بڑی اونچی بھاری آواز تھی ، بہر حال خوش الحان بھی تھے.کہتے ہیں کہ میری آواز اچھی تھی تو حضرت خلیفہ اسیح ثانی کی موجودگی میں ایک جلسہ ہوا جہاں مجھے نظم پڑھنے کا موقع ملا.حضرت ملک عبد الرحمن صاحب خادم کی ایک نظم حضور کی موجودگی میں سنائی.جب انہوں نے یہ لکھا تو کہتے ہیں کہ پچاسی سال ہو گئے ہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ ایک شعر یہ تھا کہ ” وہ بچہ جو اکیلا رہ گیا تھا آشیانے میں“ (حضرت خلیفہ ثانی کے متعلق یہ نظم تھی) وہ بچہ جو اکیلا رہ گیا تھا آشیانے میں خدا کے فضل سے اُس کے ہوئے ہیں بال و پر پیدا تو کہتے ہیں کہ میں نظم پڑھتے ہوئے ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانی کی طرف اشارہ کرتا تھا اور
خطبات مسرور جلد 11 99 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 فروری 2013ء ایک دفعہ سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف تو اس سے خوب نعرے لگے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانی کا واقعہ سنایا کہ میرے والد صاحب قادیان میں ہی بیمار ہو گئے تو مجھے انہوں نے حضرت خلیفہ ثانی سے دوائی لینے کے لئے بھیجا.میں گیا تو حضرت خلیفہ ثانی باہر نکل رہے تھے کہ میں نے عرض کی کہ اس طرح والد صاحب بیمار ہیں، انہوں نے دوائی منگوائی ہے.آپ پھر واپس گئے اور اُن کی دوائی دی.اس خاندان سے حضرت خلیفہ ثانی کا بھی بڑا پیار کا تعلق تھا.بلکہ کشمیریوں ساروں سے ہی.پھر انہوں نے جماعت کے بھی کافی کام کئے ہیں.حضرت خلیفہ ثانی خاص کام ان سے لیتے رہے.وہاں کشمیر سے اصلاح ایک رسالہ نکلتا تھا، اُس کی رہنمائی بھی حضرت خلیفہ ثانی فرمایا کرتے تھے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اُس میں ان کو رکھوایا.بہر حال یہ کافی صائب الرائے بھی تھے.ہمیشہ شوریٰ میں بھی رائے دیا کرتے تھے.اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے.سید عبدائی شاہ صاحب کی روایت ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح ثانی نے ان کو تاحیات شوری کا ممبر مقرر فرمایا تھا.ان کے نواسے کہتے ہیں کہ ہمیں نماز کے لئے کہتے رہتے اور ہر وقت یہ پوچھتے بھی تھے کہ نماز میں کتنا وقت رہ گیا ہے؟ خلفاء کے ساتھ اپنے واقعات بڑے رشک سے سناتے تھے.خدا تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا ابھی یہ تینوں جنازے انشاء اللہ نمازوں کے بعد ادا ہوں گے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ یکم مارچ 2013 ء تا 7 مارچ 2013 ، جلد 20 شماره 9 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد 11 100 7 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013 ء بمطابق 15 تبلیغ 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات اور روایات کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، اُس کے میں نے مختلف عنوان بنائے تھے ، جو بیان ہوتے رہے.آج کا خطبہ اس سلسلہ کا آخری خطبہ ہو گا.ویسے میں نے متعلقہ لوگوں کو کہا ہے کہ رجسٹر دوبارہ چیک کر لیں.اگر کچھ روایات رہ گئی ہو ئیں تو پھر کسی وقت بیان ہو جائیں گی.ی حسنِ اتفاق ہے کہ یہ خطبات فروری کے مہینہ میں ختم ہورہے ہیں اور جن روایات پر ختم ہور ہے ہیں اُن کا تعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے.ایک دوروایات میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کر دی تھیں اور آج تقریباً ساری ہی وہ روایات ہیں یا رویا ہیں، جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق ہیں.پانچ دن کے بعد یوم مصلح موعود بھی منایا جائے گا.20 فروری کو جماعت میں منایا جاتا ہے.یہ اس لئے نہیں کہ مصلح موعود کی پیدائش تھی بلکہ اس لئے کہ 20 فروری کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مصلح موعود کی جو پیشگوئی فرمائی تھی ، یہ اُس کا دن ہے اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دلیل ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش تو 20 فروری کی نہیں تھی.بہر حال یہ جو روایات میں بیان کرنے لگا ہوں ان میں حضرت مصلح موعود کی خلافت کے بارے میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تسلیاں دلوائیں.جو لوگ پہلے غیر مبائعین میں شامل ہوئے تھے اُن کی پھر اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اور وہ دوبارہ بیعت میں آگئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنا زمانہ گزارا ہے تو وہ بڑی سختیوں اور پریشانی کا دور تھا.شروع میں انتخاب خلافت کے وقت جو فتنہ اُٹھا،
خطبات مسرور جلد 11 101 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء اس میں جو بڑے بڑے علماء کہلاتے تھے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے قریبی بھی تھے وہ جماعت سے علیحدہ ہو گئے ،خزانہ لے کے چلے گئے اور پھر مختلف وقتوں میں اندرونی اور بیرونی فتنے بھی اُٹھتے رہے.لیکن ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے شاملِ حال رہی.یہ اولوالعزم ہر فتنہ اور ہر سختی کا بڑا مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.آخر وہی جماعت ترقی کرتی رہی جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید تھی اور جو خلافت کے ساتھ وابستہ تھے.اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح ترقی کر رہی ہے.آج کی جوروایات ہیں،اب میں بیان کرتاہوں.حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب فرماتے ہیں.انہوں نے 1894ء میں بیعت کی تھی.کہتے ہیں کہ میں نے رویا میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں دیکھا تھا جو حضرت محمود کی خلافت کے متعلق تھا.جب حضرت خلیفہ اول کو چوٹ لگی اور آپ کو ماشرہ کی تکلیف ہوئی.( یہ بیماری ہے خون کے دباؤ میں یا جسم میں کسی وجہ سے سوجن وغیرہ ہو جاتی ہے اور پیٹ کی بھی خرابی ہوتی ہے ) بہر حال کہتے ہیں آپ کو ماشرہ کی تکلیف ہوئی تو میں نے حضرت محمود کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ اقرار کیا تھا کہ میں آپ کا پہلا غلام ہوں.تو مجھے آپ نے فرمایا کہ سمجھ میں نہیں آیا.تو جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بتلایا کہ ان کو بذریعہ رویا اور الہام کے یہ بتلایا گیا ہے کہ ہم نے محمود کوخلیفہ بنادیا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلدنمبر 6 صفحه 75-76 از روایات حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب) حضرت امیر محمد خان صاحب.پچھلی روایتوں میں بھی ان کی روایتیں ، امیر خان صاحب کے نام سے پڑھتارہا ہوں.ان کے کسی عزیز نے مجھے لکھا کہ ان کا نام امیر محمد خان تھا.تو بہر حال روایت میں لکھنے والے نے تو شروع میں امیر خان ہی لکھا ہے لیکن آگے روایتوں میں ان کے ایک خط کا ذکر آتا ہے اُس سے پتہ لگتا ہے کہ اصل نام ان کا امیر محمد خان ہی ہے.بہر حال انہوں نے 1903ء میں بیعت کی تھی.کہتے ہیں کہ 23 نومبر 1913ء کو میں نے خواب کے اندر ایک سرس کا درخت دیکھا جس کے ساتھ کچھ بڑی بڑی خشک پھلیاں لٹک رہی تھیں جس کی کھڑکھڑاہٹ سے اس قدر شور پڑ رہا تھا کہ کسی کو آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی.تب اللہ تعالیٰ نے بارش برسائی جس سے وہ تمام سوکھی ہوئی پھلیاں جھڑ گئیں.اس پر حضرت اولوالعزم نے فرمایا ( یعنی حضرت مصلح موعود نے خواب میں ہی فرمایا) کہ شیطان کا گھر اُجڑ گیا، برباد ہو گیا.اب زمین سے سبزہ اُگے گا اور غلبہ پیدا ہوگا اور میوے لگیں گے.اس پر بعض اشخاص نے ان خشک پھلیوں رض
خطبات مسرور جلد 11 102 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ نے ان کو شیطان کا گھر کیوں کہا ہے؟ اس کے جواب میں حضرت اولوالعزم نے فرمایا کہ انہیں میں نے شیطان کا گھر نہیں کہا، انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی شیطان کا گھر ہی کہا ہے.اس کے بعد میں نے حکیم محمد عمر صاحب کو بڑی بلند آواز کے ساتھ ( یہ خواب کا ذکر کر رہے ہیں، خواب میں ہی ) حضرت صاحب کی پیشگوئیاں لوگوں کو سناتے دیکھا جو کہ پوری ہو چکی تھیں اور جن کو آئندہ کی پیشگوئی کی صداقت میں بطور دلیل کے پیش کر رہے تھے.جن کے سننے سے سامعین کے دلوں میں ایک سکینت اور سرور پیدا ہورہا تھا.کہتے ہیں سو الحمد للہ! یہ خواب تقر ر خلافت ثانیہ کے وقت ہو بہو پورا ہوا اور مولوی محمد علی صاحب مع اپنے رفقاء کے ، جنہوں نے خلافت کے خلاف شور برپا کر رکھا تھا، جماعت سے الگ ہو گئے بلکہ قادیان سے بھی نکل گئے.جن کے نکلنے کے بعد احمدیت خلافت ثانیہ کے ذریعہ چار دانگ عالم میں پھیل گئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 147 - 148 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحب) حضرت امیر محمد خان صاحب ہی بیان فرماتے ہیں کہ 24 فروری 1912ء بدھ وار کی رات خواب کے اندر مجھے حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی.( یہ جس خواب کا ذکر کر رہے ہیں، یہ حضرت خلیفہ اول کی زندگی کی خواب ہے ) کہ جب مبارک موعود آئے گا تو تخت نشین کیا جائے گا.اس سے مراد ہم تو جارج پنجم کی تخت نشینی لیتے تھے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ مبارک موعود سے مراد صاحبزادہ میاں محمود احمد ہیں اور تخت نشینی سے مراد آپ کی خلافت ہے.پھر خیال ہوا کہ آپ کی خلافت کے وقت تو دنیا میں کوئی زبردست زمینی یا آسمانی نشان ظاہر ہونا چاہیئے تھے.تب تفہیم ہوئی کہ نشان بھی پورا ہو جائے گا.صاحبزادہ صاحب کی خلافت کے ذکر سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ بشاش ہورہا تھا اور میں بھی خوش ہو ر ہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میں تو مبارک موعود کا ظہور کسی دُور کے زمانے میں سمجھتا تھا لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہ خوش وقت بھی میری زندگی میں ہی مجھے نصیب ہوا.پھر خواب کے اندر خیال پیدا ہوا کہ خلیفہ تو حضرت مولوی صاحب ہیں، میاں صاحب کس طرح خلیفہ ہو گئے.تب تفہیم ہوئی کہ خلیفہ اول نے تو بہت بوڑھے ہونا نہیں کیونکہ خدا کے پیارے ارزل عمر کو نہیں پہنچتے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 142 - 143 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحب) بعض لوگ موعود کا سوال اُٹھا دیتے ہیں تو ان کو اُس زمانے میں بھی خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بتادیا.
خطبات مسرور جلد 11 103 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء حضرت خیر دین صاحب جن کی بیعت 1906 ء کی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ گیارہ کرم لمبا ہو گیا ہے.(کرم ایک پیمانہ ہے جو دیہاتوں میں زمینوں کی پیمائش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ساڑھے پانچ فٹ کا.یعنی پچپن ساٹھ فٹ لمبا ہو گیا ) اس میں بتایا ہے کہ خدا نے ان کو غیر معمولی طاقت عطا فرمائی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا.اسی حالت میں دیکھا کہ آپ کا چہرہ مبارک مغرب کی طرف ہے اور ایک چھوٹی سی دیوار پر رونق افروز ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور آپ روتے کیوں ہیں؟ آپ نے فرمایا اس واسطے روتا ہوں کہ لوگ مجھے معبود نہ بنالیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 161 از روایات حضرت خیر دین صاحب) حضرت خیر دین صاحب ہی روایت کرتے ہیں کہ کچھ دن ہوئے ایک خواب دیکھا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو چھٹیاں دے رہے ہیں.وہ چھٹیاں اُن آدمیوں کی ہیں جن کے مقام آسمان میں ہیں.ان کے درجہ کے مطابق ہر ایک کو چھٹی دیتے ہیں.میں نے خیال کیا کہ میں بھی حضور سے پوچھتا ہوں کہ آیا میرے لئے آسمان میں کوئی مقام ہے.چنانچہ میں نے پوچھا کہ حضور! میرے لئے بھی آسمان پر مقام ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں تمہارے لئے بھی آسمان میں جگہ ہے.ان سب باتوں سے میں نے یہی سمجھا ہے کہ جو کچھ خاکسار کو نظر آ چکا ہے یا نظر آ رہا ہے، یہ سب کچھ نور نبوت کی شعاعوں سے ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 161 از روایات حضرت خیر دین صاحب) حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں فرماتے ہیں.دسمبر 1891 ء کی ان کی بیعت ہے کہ مجھے 1931ء میں کشفی حالت میں ایک بچہ دکھایا گیا جس سے سب لوگ بہت پیار کرتے تھے.میں نے بھی اُسے گود میں اٹھالیا اور پیار کیا.اگر چہ وہ چھوٹا سا بچہ ہے مگر لوگ کہتے ہیں کہ اس کی عمر تینتالیس سال کی ہے.مجھے القاء ہوا کہ اس کشف میں جو بچہ دکھایا گیا ہے وہ حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ اسیح ہیں.1931ء میں آپ کی عمر تینتالیس سال کی تھی.اور یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی اشعار میں درج ہے کہ بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا اس میں لفظ ”ایک میں بھی اشارہ 1931ء کی طرف ہے کیونکہ بحساب ابجد ایک“ کے عدد 31
خطبات مسرور جلد 11 104 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء ہیں.یعنی الف ، ہی، ک.ایک جو ہے اُس کے عدد جو ہیں وہ ابجد کے حساب سے 31 بنتے ہیں اور روحانی ترقی کا کمال بھی چالیس سال کے بعد شروع ہوتا ہے اس لئے اس کشف میں بچہ 43 کا دکھایا گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 84-85 از روایات حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں ) حضرت رحم الدین صاحب ولد جمال دین صاحب فرماتے ہیں، ان کی بیعت 1902 ء کی ہے کہ خلافت ثانیہ کے وقت میں نے رؤیا دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے کرسی پر بیٹھے ہیں اور میاں صاحب حضرت خلیفہ ثانی پاس کھڑے ہیں.تب میرے دیکھتے دیکھتے مولوی محمد علی صاحب کا چہرہ اور جسم چھوٹا ہونا شروع ہوا اور بالکل چھوٹا ہو گیا جیسے بچہ کا جسم ہوتا ہے اور حضرت میاں صاحب کا جسم بڑھتے بڑھتے بہت لمبا ( یعنی آپ کے قد سے بھی زیادہ قد وغیرہ ہو گیا ) اور بڑے رعب و جلال والا ہو گیا.تب میں بہت متعجب ہوا اور جس وقت صبح ہوئی تو تمام شکوک و شبہات دل سے نکل گئے اور میں نے آپ کی بیعت کر لی.(پہلے ان کے دل میں کچھ شکوک تھے.) الحمد للہ علی ذالک.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 34 از روایات حضرت رحم الدین صاحب ) پھر حضرت امیر محمد خان صاحب کی ہی روایت ہے.کہتے ہیں جن دنوں قبل از خلافت حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی حج کو تشریف لے گئے تھے، اُن ایام میں میں نے خواب کے اندر مسلمانوں کو کفار کے ہاتھ گھرے ہوئے دیکھا.( یعنی کفار نے مسلمانوں کو گھیر ا ہوا ہے ) جب کوئی صورت چارہ کار نہ رہی تو ہم میں سے ایک شخص آسمان کی طرف اُڑا اور وہ آسمان سے قوی ہیکل مخلوق کو ساتھ لایا جس نے آتے ہی کفار کو بھگا دیا.چنانچہ میں نے یہ خواب حضرت اولوالعزم کی خدمت بابرکت میں آپ کے حج کے سفر میں مکہ مدینہ میں تحریر کیا اور عرض کیا کہ حضور کا یہ سفر خدا کی رضا اور اُس کے قرب کے حصول کا ذریعہ ہو.اور خواب میں میں نے جو کسی کو آسمان پر جاتے دیکھا اس سے مراد آپ کا سفر حج ہو.اور قوی ہیکل مخلوق کے نزول سے آپ کی دعاؤں کے ذریعہ فرشتوں کا نزول ہوجن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کفار کو نیست و نابود کرے.چنانچہ میرا خیال ہے کہ حضور نے حج سے واپسی پر مسجد نور میں تقریر فرماتے ہوئے میرے اس خط کا ذکر بھی فرمایا تھا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 141 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحب) پھر حضرت امیر محمد خان صاحب ہی فرماتے ہیں کہ 20 جنوری 1913 ء کو میں نے نماز عشاء میں دعا کی کہ اے اللہ ! تو مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور دیگر
خطبات مسرور جلد 11 105 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء بزرگوں کی زیارت خواب کے اندر نصیب فرما.جب میں سو گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک میدان میں بہت سے بزرگانِ دین جمع ہیں اور سب کے سب دعا میں مشغول ہیں جن میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی بھی ہیں اور آپ کے اور میرے آگے چمبیلی کے پھول ہیں جن کی ہم خوشبو لے رہے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مجھے فرما یا کہ پھولوں کو سونگھتے وقت ناک سے نہیں لگانا چاہئے بلکہ ذرا ناک سے فاصلے پر رکھنے چاہئیں تا کہ پھولوں کی خوشبو نفاست سے آئے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 6 صفحه 143-144 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحب) حضرت امیر محمد خان صاحب ہی کہتے ہیں کہ دسمبر 1913ء کی رات میں نے خواب میں حضرت میاں صاحب اولوالعزم کے ہمراہ ایسے گھروں کا نظارہ دیکھا جن کے نیچے سمندر گھس آیا ہے اور وہ بے خبری میں تباہی کے قریب پہنچ گئے ہیں.جن کی تعبیر منکرین خلافت کے انکارِ خلافت سے پوری ہوئی.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 149 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحب) پھر کہتے ہیں کہ 13، 14 فروری 1930ء کی درمیانی رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک زینہ پر چڑھ رہا ہوں اور میرے پیچھے حضرت اُم المومنین صاحبہ بھی چڑھ رہی ہیں.جب میں نے حضور کی طرف دیکھا تو میں بوجہ آپ کے ادب کے گھبرا گیا.(یعنی حضرت ام المومنین کی طرف دیکھا تو گھبرا گیا.مگر حضرت ام المومنین صاحبہ نے از راہ شفقت فرمایا کہ ڈرومت.تم بھی ہمارے بچے ہی ہو.پھر میں ایک زینہ سے ہو کر ایک اور مکان کے اندر چلا گیا اور وہ مکان بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی مکان ہے.کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں مجھے ملا زمت ملتی ہے مگر تنخواہ میری سب انسپکٹری کی تنخواہ سے بہت کم ہے جسے میں نے مشورہ کے بعد قبول کر لیا.پر مجھے ایک شخص پوچھتا ہے کہ تم نے پہلی ملازمت کس لئے چھوڑ دی.میں نے کہا کہ فلاں شخص نے میرے ساتھ دھو کہ کیا.پھر ایک اور شخص یا وہی شخص مجھے پوچھتا ہے کہ تم دیر سے کیوں آئے؟ میں نے کہا کہ میرے جو مہمان آئے ہوئے تھے وہ بیمار تھے اُن کی تیمارداری کی وجہ سے دیر ہو گئی.جس پر حضرت ام المومنین صاحبہ نے فرمایا کہ تیمار داری کی وجہ سے دیر ہو ہی جایا کرتی ہے.پھر اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ چند آدمی حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے مکان میں گھس آئے ہیں اور وہ شورش کرنا چاہتے ہیں.میرے ہاتھ میں تلوار ہے.میں نے تلوار سے سب کو بھگا دیا.پھر جب میں واپس اندر آیا تو دیکھا کہ ایک شخص پھر تلوار لئے اندر گھس آیا ہے.میں نے اپنی تلوار سے اُس کی تلوار کاٹ دی اور وہ عاجز سا ہو گیا.
خطبات مسرور جلد 11 106 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء اتنے میں اور چند آدمی حضرت خلیفہ ثانی کو گھیرے میں لئے جارہے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مجھے آواز دی.میں نے اس ہجوم کو بھی منتشر کیا اور ایک اور شخص کو جو کہ فتنہ کا بانی مبانی تھا، اُسے تلوار سے قتل کرنا چاہا مگر وہ میری طرف منہ کر کے پیچھے کی طرف ہٹتا گیا اور میں بھی اُسے آگے رکھ کر اُس کی طرف بڑھتا گیا یہاں تک کہ میں نے اس کو گھیر کرقتل کر دیا اور پھر جب میں اندر واپس آیا تو حضرت ام المومنین صاحبہ اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مجھے دودھ پلایا.ایک شخص مجھے دودھ پیتے دیکھ کر کہنے لگا کہ تم دودھ کیوں پیتے ہو؟ میں نے کہا کیا دودھ برا ہے.دودھ پینا تو بہت اچھا ہے.پھر میری آنکھ کھل گئی اور میں نے یہ خواب بذریعہ خط حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت بابرکت میں ارسال کیا.حضور نے 05/03/30 کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے ذریعہ جواب تحریر فرمایا کہ خواب اچھی ہے.اللہ تعالیٰ آپ سے کوئی سلسلہ کی خدمت لے لے گا.اس کے بعد پریل / 30ء کو پھر میں نے حضور کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ بحضور سید نا وامامنا حضرت امیر المؤمنین.السلام علیکم.( یہ شعر لکھا ہے اُس پہ کہ ) ہر بلا کیں قوم راحق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است مستریوں کی فتنہ انگیزی اور پولیس کی ناجائز کارروائی سن کر دل قابو سے نکلا جا رہا ہے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا تو میں نے خواب میں شریروں کا ایک گروہ حضور کے گرد جمع دیکھا جسے میں نے بذریعہ تلوار کے منتشر کیا اور ان کے سر غنہ تو قتل کیا.یہ خواب میں نے حضور کی خدمت میں تحریر کیا تھا.جس پر حضور نے رقم فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ تم سے کوئی خدمت دین لے لے گا.سو میں اس خدمت کی ادائیگی کے لئے نہایت بے تابی سے چشم براہ ہوں لیکن میں نہیں جانتا کہ یہ کس طرح ادا ہوگی.سوائے دعا اور خدا کی استمداد کے اور کوئی ذریعہ نہیں پاتا.حضور سے التجا ہے کہ میرے لئے دعا فرمائی جائے کہ خدا میری کمزوریوں سے درگز رفرما کر میری دعاؤں کو قبول فرمائے اور مجھے خدمت دین کے حصول کا عملی موقع عطا کرے.والسلام امیر محمد خان، سب انسپکٹر اشتمال اراضیات، ضلع جالندھر کہتے ہیں کہ الحمد للہ الحمد للہ کہ سات سال کے بعد میری یہ خواب حرف بحرف پوری ہوئی یعنی 1924ء میں میں نے ایک اعلیٰ افسر کے ایماء پر ملازمت سے استعفی دیا جو بعد میں اُس کی دھوکہ دہی ثابت ہوئی کیونکہ اُس نے بعض وجوہات کی بناء پر مجھے کہا تھا کہ میں بھی ملازمت چھوڑ رہا ہوں تم بھی چھوڑ دو.لیکن پتہ لگا کہ اُس نے خود اب تک ملازمت نہیں چھوڑی اور اشتمال اراضیات میں مجھے 90 روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی اور اب قادیان میں صرف 20 روپے لے رہا ہوں جیسا کہ خواب میں بتلایا گیا تھا، اور ملازمت بھی انجمن کی نہیں بلکہ تحریک جدید کی ہے جو خاص حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی
خطبات مسرور جلد 11 107 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء تحریک ہے اور 1934 ء سے ملازمت سے برطرف ہو کر آخر 1936ء تک بوجه خانگی کارو بارگھر پر رہا اور اب یہاں آ کر خوارج کے فتنہ کو بچشم خود دیکھا اور دعاؤں کی توفیق پائی اور فخر الدین صاحب بانی سرغنہ کے قتل کا واقعہ بھی بچشم خود دیکھا.عطا کیں تو نے میری سب مرادات کرم سے تیرے دشمن ہو گئے مات (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 152-156 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحب) حکیم عطا محمد صاحب جن کی بیعت 1901ء کی ہے، فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی بیعت کے غالباً ایک ماہ بعد حکیم احمد دین صاحب شاہدرہ سے لاہور میرے مکان پر آئے اور فرمانے لگے کہ چلو آج محمد علی صاحب سے مسئلہ نبوت پر کچھ گفتگو کرنی ہے.میں بھی اُن کے ساتھ ہو گیا.وہاں مسجد میں دوستانہ طور پر حکیم احمد دین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے گفتگو شروع کر دی.کوئی پندرہ بیس منٹ تک سلسلہ جاری رہا.اس بات پر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے کہ نہیں تھے.کہتے ہیں بعد میں ہم سب اپنے اپنے گھر آگئے.رات کو میں نے دعا کی کہ الہی ! مولوی محمدعلی نے جو بیان کیا ہے وہ کچھ سچ معلوم ہوتا ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی نبوت کے بارے میں کچھ شبہ ڈال دیا) میرے دل کو تو خود ہی سنبھال.میں نے رات کو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تیزی سے گھبرائے ہوئے آئے ہیں اور فرمایا کہ وہ دیکھو.میں نے دیکھا کہ ایک کبوتر باز نہایت غصہ سے بھرا ہوا اس کبوتر کی طرف دیکھ رہا ہے جو کہ دوسرے کبوتر باز کی چھتری پر جا بیٹھا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دیکھو! کبوتر باز کو جو کہ دوسرے کی چھتری پر جا بیٹھے ، نہایت حقارت سے دیکھتے ہیں.اس لئے تم بھی کبھی پیغام بلڈنگ میں نہ جایا کرو.میں نے عرض کیا کہ حضرت ! میں کبھی نہیں جاؤں گا.پھر میری نیند کھل گئی اور اللہ کے فضل کا شکر یہ ادا کیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 179 از روایات حضرت حکیم عطا محمد صاحب) ڈاکٹر عبد الغنی صاحب کڑک جنہوں نے 1907ء میں بیعت کی فرماتے ہیں کہ زمانہ گزرتا گیا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہو گئی.نیروبی کے تمام احمدیوں نے اُس وقت حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کر لی مگر میں اور محمد حسین صاحب بٹ مرحوم اور خواجہ قمر الدین صاحب مرحوم محروم رہے.اور ہم نے بیعت نہ کی.بعد ازاں مجھے ہندوستان جانے کا موقع ملا تو میں ملازمت سے الگ ہو گیا تھا.لڑائی شروع ہوگئی اور میں ہندوستان میں رہا اور پھر وہیں ہندوستان میں مجھے میڈیکل کالج لاہور میں ہیڈ لیبارٹری اسسٹنٹ
خطبات مسرور جلد 11 108 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء کی ملازمت مل گئی.اُن دنوں میں پیغام بلڈنگ بہت جایا کرتا تھا اور طبیعت کا رجحان اور خیالات اہلِ پیغام کے ساتھ ہی تھے.وہاں نماز پڑھا کرتا اور درس بھی وہیں سنا کرتا اور وقتاً فوقتاً اختلافی مسائل پر تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہتا تھا.جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا کہ اس اختلاف میں کون حق بجانب ہے.اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کہا کہ سمجھدار لوگ تو سب ہمارے ساتھ ہیں.( جتنے بڑے بڑے سمجھدار ہیں وہ تو ہمارے ساتھ آگئے ہیں.) اُنہی دنوں میں حاجی محمد موسیٰ صاحب کی دوکان پر بھی جایا کرتا تھا.وہاں منشی محبوب عالم صاحب جو آجکل راجپوت سائیکل ورکس کے پروپرائٹر ہیں اُن سے بھی ملا کرتا تھا اور اختلافی مسائل پر گرما گرم گفتگو ہوا کرتی تھی.منشی صاحب کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کیا کرتے تھے مگر میں سمجھتا تھا کہ منشی صاحب سخت کلامی کرتے ہیں.( یعنی عادت ہے، عادتا کرتے ہیں ) چنانچہ منشی صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ تم پیغام بلڈنگ میں کیا کرنے جاتے ہو؟ میں نے کہا کہ قرآنِ مجید کا درس دینے جاتا ہوں.( میرا خیال ہے سننے جاتا ہوں، ہونا چاہئے ) کہنے لگے روزانہ وہاں جاتے ہو آج ہمارے ساتھ بھی قرآن مجید سننے کے لئے چلو.اُن دنوں نماز میاں چراغ الدین صاحب مرحوم کے مکان پر ہوا کرتی تھی اور درس بھی وہیں ہوتا تھا جو حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی دیا کرتے تھے.جب میں پہلی دفعہ گیا تو پارہ سَيَقُولُ “ کے پہلے ہی رکوع کا درس تھا.( دوسرے پارے کا.) مولانا راجیکی صاحب ایک روانی کے ساتھ مستحکم اور مدلل طور پر قرآن مجید کی تفسیر کر رہے تھے جو میں نے اس سے پیشتر کبھی نہ سنی تھی.اُس وقت مولوی صاحب کی شکل کو جب میں نے دیکھا تو میرا خیال تھا کہ یہ شخص تو کوئی جاٹ معلوم ہوتا ہے.اس نے کیا درس دینا ہے؟ مگر میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب سے نکات و معارف کا دریا رواں ہے.چنانچہ میں نے منشی محبوب عالم صاحب کے پاس بھی مولوی صاحب کی تعریف کی.اس پر انہوں نے کہا کہ تمہارے مولوی محمد علی صاحب نے بھی ان سے قرآن کا علم حاصل کیا ہے.اُن دنوں میں کچھ تذبذب کی حالت میں تھا کہ میں نے ایک رؤیا دیکھی کہ ایک مسجد ایسی ہے جیسی کہ بٹالہ کی جامع مسجد اور اس مسجد کے عین وسط میں بیٹھے ہوئے مجھے خیال آ رہا ہے کہ پانی کہیں سے لے کر وضو کر کے نماز پڑھیں.ادھر ادھر دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ پانی وہاں نہیں ہے.( مسجد میں بیٹھے ہوئے یہ سوچا کہ اس مسجد میں پانی نہیں ہے.اس لئے میں بالمقابل پانی کی تلاش میں گیا تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسجد ہے جیسا کہ وہ پیغام بلڈنگ کی مسجد ہے جس میں پانی کی نلکیاں لگی ہوئی ہیں.میں وہاں پر وضو کرنے کے لئے نلکی کھولتا
خطبات مسرور جلد 11 109 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے صاف پانی آیا ہے مگر معا بعد گدلا سا پانی جس میں میل کی سی کثافت ہے، جس کو پنجابی میں پینہ اور انگریزی میں Algae کہتے ہیں، کائی جو کہتے ہیں، وہ پانی میں سے ) نکلا ہے اور میرے ہاتھوں پر پڑ گیا جس سے میں نے خیال کیا یہ تو بڑا میلا پانی ہے اور وہ ختم بھی ہو گیا.اس کے بعد میں نے اُسی مسجد کی طرف ( یعنی جو پہلی مسجد تھی ، جہاں بیٹھا ہوا تھا) واپسی کا ارادہ کیا اور وہ دیوار جو کہ اونچی معلوم ہوتی ہے اس پر میں چڑھ رہا ہوں تو ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب نے میرے پیچھے سے آ کر ٹانگ پکڑ لی ہے کہ تم یہاں کیوں آئے تھے؟ پھر یہاں نہ آنا.(غالباً یہ دوبارہ اسی مسجد کا ذکر کر رہے ہیں جس میں ابھی وضو کر رہے تھے ) کہ تم یہاں کیوں آئے تھے؟ پھر یہاں نہ آنا.میں کہتا ہوں کہ مجھے آنے کی ضرورت نہیں ہے.اس کے بعد جب میں اسی مسجد کی طرف واپس گیا ہوں تو وہاں پر نہایت مصفی پانی کا ایک حوض ہے.( یعنی جہاں بیٹھے ہوئے تھے ، وہاں واپس گئے تو مصفی پانی کا ایک حوض نظر آیا ) اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ایک حدیث کی کتاب کا درس دے رہے ہیں جو حنائی کا غذ پر چھپی ہوئی ہے اور اُس کے حاشیوں پر بھی گنجان چھپا ہوا ہے.میں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہاں تو پانی کثرت کے ساتھ ہے اور میں پہلے بھولا ہی رہا.خیر جس وقت میں وضو کر کے ہاتھ اُٹھاتا ہوں تو مستری محمد موسیٰ صاحب کا لڑکا محمد حسین تلوار لے کر میرے سر پر کھڑا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ اس کو حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے میرے متعلق یہ حکم ہے کہ میں منافق ہوں اور مجھے قتل کر دیا جائے.میں نے محمد حسین صاحب کی طرف مڑ کر دیکھا کہ تم ایک مومن کو قتل کے لئے تلوار اٹھاتے ہو.تمہیں معلوم نہیں کہ میں مومن ہوں ؟ اُس کے بعد نظارہ بدل گیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے ہوں اور چھوٹے چھوٹے لڑکے سرخ اور سفید رنگ کی وردیاں پہنے ہوئے جیسا کہ مولی ہوتی ہے ماتم کر رہے ہیں اور محرم کے دن معلوم ہوتے ہیں.میں تلوار لے کر ان لڑکوں کی طرف جاتا ہوں اور کہتا ہوں چلے جاؤ.چنانچہ وہ لڑکے بھاگ گئے.اُس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے لڑکے عبد الغفور خان کا مکان ہے اور میں اُس کمرے میں داخل ہونے کے لئے جب جاتا ہوں تو پولیس کے سپاہی تلاشی لینے کے لئے آتے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرے پاس جو تلوار بغیر لائسنس ہے، اس کی تلاشی کے لئے آئے ہیں.مگر میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تلوار تو میں افریقہ سے لایا ہوں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس رؤیا کو میں نے شاید چند ایک دوستوں کے پاس بھی بیان کیا اور شاید مجھے مستری محمد موسیٰ صاحب نے کہا کہ کاش کہ خواب میں قتل کر دیئے جاتے تو بہت اچھا ہوتا کہ منافقت بالکل مٹ جاتی.(اسے دیکھنے کے بعد بھی انہوں نے بیعت نہیں کی تھی ) یہ کہتے
خطبات مسرور جلد 11 110 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء ہیں اس کے بعد پھر میں نے حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کر لی اور پھر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ سے اخلاص و محبت میں ترقی کرتا گیا.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 221 تا 227 از روایات حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑک) حضرت خیر دین صاحب فرماتے ہیں کہ جب احرار کا فتنہ بھڑ کا تو خاکسار نے دیکھا کہ حضرت امیر المومنین کے ایک طرف یوسف نامی شخص لیٹا ہوا ہے اور دوسری طرف حضور کے شیر محمد لیٹا ہوا ہے.تو اس میں جناب الہی نے یہ بتایا کہ واقع میں یہ یوسف تو ہے مگر بعض لوگ حضور کی ترقی کو دیکھ کر جل رہے ہیں.مگر اس کے ساتھ کیونکہ غیر معمولی خدائی طاقت ہے اس لئے جلنے والے کچھ نہیں کر سکیں گے.گویا یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر کے مطابق ہے.یوسف تو سن چکے ہو اک چاہ میں گرا تھا یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 160 از روایات حضرت خیر دین صاحب) حضرت ڈاکٹر نعمت خان صاحب بیان کرتے ہیں.1896ء کی ان کی بیعت ہے کہ جب خلافت ثانیہ کا وقت آیا تو میں نے بیعت کا خط حضرت امیر المومنین کی خدمت میں لکھا اور اُن دنوں میں شاید رخصت پر ریاست نادون ضلع کانگڑہ میں اپنے گھر پر تھا.مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان کا خط آیا.(یعنی یہ حضرت مولوی غلام حسین صاحب پشاوری کا ذکر کر رہے ہیں کہ ان کا خط آیا.یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سسر تھے لیکن انہوں نے پہلے شروع میں بیعت نہیں کی تھی بلکہ پیغامیوں کے ساتھ چلے گئے تھے.) کہتے ہیں اُن کا مجھے خط آیا اور اس میں بیعت فسخ کرنے کے متعلق یہ لکھا ہوا تھا کہ نسخ کر دو.حضرت خلیفہ ثانی کی جو بیعت ہے وہ فسخ کر دو.چونکہ میرا تعلق اُن سے بہت عرصہ رہا تھا اس لئے اصلیت کو نہ سمجھا اور میں نے فسخ بیعت کے متعلق پیغام صلح میں لکھ دیا.اعلان ہو گیا اور اُن کے ساتھ یعنی پیغامیوں کے ساتھ میں ہو گیا.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ خاندانِ نبوت کے متعلق میرے وہی خیالات رہے جو پہلے تھے اور کبھی مجھ سے بے ادبی کے الفاظ نہ نکلے.( یعنی حضرت مسیح موعود کی جو اولادتھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی وغیرہ ، ان کے متعلق کوئی بے ادبی کے الفاظ نہیں نکلے ) یہی حالت مدت تک رہی.ان کے ایک دو جلسوں میں بھی شامل ہوا.( یہ جو میں نے شروع میں ان کا یعنی مولوی غلام حسین صاحب کا ذکر کیا ہے ناں ، تو انہوں نے بیعت نہیں کی تھی لیکن 1940 ء میں انہوں نے پھر بیعت کر لی تھی اور مبائعین میں شامل ہو گئے تھے پھر قادیان ہی آ کر رہے ہیں.)
خطبات مسرور جلد 11 111 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء بہر حال یہ کہتے ہیں کہ میں جلسوں میں بھی شامل ہوا.1930 ء یا اس سے پہلے ، ایک رات ،، میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑی حویلی سمندر کے کنارے پر ہے اور پانی کی لہریں زور شور سے اس کے ساتھ ٹکراتی ہیں اور بہت شور ہوتا ہے.اُس حویلی کے اندر سے مولوی محمد علی نکلے تو کیا دیکھتا ہوں کہ اُن کے چہرے کا نصف حصہ سفید اور نصف سیا ہ تھا.معاً میرے دل میں خیال ہوا کہ ان کی پہلی زندگی یعنی پہلی حالت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی اچھی تھی اور اُس کے بعد کی سیاہ ہوگئی.اُس کے بعد جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ہدایت کی طرف لاتا ہے تو اُس کے اسباب بھی ایسے پیدا کر دیتا ہے جو اس کی ہدایت کا موجب ہو جاتے ہیں.میں 1932 ء میں اپنے گھر پر تھا.میرے اہلِ خانہ سرگودھا میں تھے کہ ڈاکٹر محمد یوسف صاحب امریکہ والوں کا ، جو میرے رشتہ دار ہیں، خط پہنچا کہ آپ بہت جلد قادیان آ جاویں.کیونکہ میں نے امریکہ جانا ہے اور مکان کا بنوانا آپ کے ذمہ ہے.( قادیان میں جو مکان بنوا نا تھا، اُس کی نگرانی آپ کریں) کہتے ہیں اس پر میں اپریل 1932ء میں قادیان آ گیا اور مکان تیار کرایا.میرے اہلِ خانہ بھی یہاں آگئے.یہاں آ کر دیکھا تو عجیب ہی کیفیت نظر آئی.نیا آسمان اور نئی دنیا نظر آنے لگی.نمازوں میں شامل ہونا ، حضرت صاحب کے خطبات کا سننا اور تقریروں کا سننا ، اس نے ایسا اثر ڈالا کہ جو مغالطے دیئے گئے تھے وہ آہستہ آہستہ دور ہونے لگے.اتفاق سے میں قادیان سے نادون گیا تو مہاشہ محمد عمر تبلیغ کے واسطے وہاں آئے ہوئے تھے.اثنائے گفتگو مجھے کہنے لگے کہ آپ بیعت کا فارم بھر دیں.میں نے بیعت کا فارم بھر دیا اور دل کی سب کدورتیں دور ہوگئیں اور خداوند تعالیٰ نے اپنے فضل کے سائے میں لے لیا اور مجھے جیسے عاصی کو دوبارہ زندگی بخشی ورنہ میرے ساتھی ابھی تک نخوت کی ذلت میں پھنسے ہوئے ہیں.دل تو اُن کا اندر سے محسوس کرتا ہے کہ ہم نے بڑی غلطی کی لیکن ظاہراً امارت اُن کے حق کے قبول کرنے میں مانع ہے اور یہی اُن کا جہنم ہے جس میں وہ ہر وقت پڑے جلتے ہیں.دل تو اُن کا چاہتا ہے کہ مان لیں لیکن ناک کے کٹنے کا خوف ہے.خداوند تعالیٰ ہدایت دے.میرے حال پر تو اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کیا.قریباً دو سال کا عرصہ ہوا کہ ایک رات خواب میں دیکھتا ہوں کہ آسمان سے ایک سنہری صندوق منقش ہوئے بہت ہی چمکدار اور روشن اترا اور معلق ہوا میں آ کر ٹھہر گیا.اتنے میں ایک تاج منقش سنہری اترا اور وہ صندوق پر ٹھہر نا چاہتا ہی تھا کہ میں نے پرواز کر کے اُس کو اپنے دونوں بازوؤں سے تھام لیا.اس کا تھا منا تھا کہ تمام دنیا کے کناروں سے یک زبان آواز سنائی دی کہ
خطبات مسرور جلد 11 112 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء اسلام کی فتح اور ایسا شور ہوا کہ میری آنکھ کھل گئی.اور اُسی وقت میرے دل میں یہ ڈالا گیا تھا کہ تاج برطانیہ کا ہے.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 4 صفحہ 4 تا 6 از روایات حضرت ڈاکٹرنعمت خان صاحب) حضرت میاں سو ہنے خان صاحب فرماتے ہیں کہ مئی 1938ء ( میں ) جس وقت احرار کا بہت زور تھا، اُس وقت میں نے دعا کرنی شروع کی اور درود شریف کثرت سے پڑھنا شروع کر دیا.(احرار نے جماعت کے خلاف بہت زیادہ شورش اُٹھائی تھی) کہ یا رب! میرے پیر کی عزت رکھیں، دشمن کا بہت زور ہے.تو مجھ کو سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی.کیا دیکھتا ہوں کہ تین اونٹ ہیں.ایک اونٹ پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر بھی اُس کے اوپر ہیں.اور صحابی دوسرے اونٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب نے فرمایا کہ سوہنے خاں ! تم آگئے ہو؟ جاؤ اور قدم آہستہ آہستہ چلنا تا کہ دشمن پر رعب ہو جاوے.حضور کا غلام آگے آگے چلا.جب دس قدم چلا تو حکم ہوا کہ سوہنے خاں ! تم پیچھے ہو جاؤ تمہارا پاؤں شور کرتا ہے.سرور کائنات اونٹ سے اتر کر پیادہ ہوکر آگے چلنے لگے.جب مسجد مبارک کے ( قادیان کی مسجد مبارک کے ) پاس پہنچے تو سب صحابی اونٹوں سے اُتر کر اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد مبارک میں بھی چلے گئے.سب صحابیوں کو مسجد مبارک میں چھوڑ کر ( صحابی بھی ساتھ تھے، مسجد مبارک میں چلے گئے ) پھر مسجد مبارک کی جو کھڑ کی لگی ہوئی ہے، وہاں سے گزر کر خلیفہ ثانی کے گھر پہنچ گئے.( یہاں ان کی خواب ختم ہوتی ہے ).(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 200-201 از روایات حضرت میاں سو ہنے خان صاحب) حضرت خیر دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ امیر کابل کہتا ہے کہ میں نے اپنا پیسہ بھیج دیا ہے.پیچھے آپ بھی آ رہا ہوں.جب مستریوں نے ایک فتنہ برپا کیا ( یہ مستریوں کا جو فتنہ تھا، یہ وہاں قادیان میں ایک اندرونی فتنہ تھا، انہوں نے بڑا شور مچایا تھا ) تو اُس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ ثانی آسمان پر ٹہل رہے ہیں.گویا اس میں یہ بتایا کہ اُن کا اتنا اونچا مقام ہے کہ اُن کے مقام تک پہنچنا نہایت ہی مشکل ہے، گو یا محال ہے.یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کے لوگ جتنا چاہیں زور لگالیں خدا کے فضل سے ان کا کوئی نقصان نہیں کر سکیں گے.کیونکہ اُن کا قدم مبارک بہت بلندی پر ہے.یہ حضور علیہ السلام کے اس شعر کے ماتحت ہے کہ آسماں کے رہنے والوں کو ز میں سے کیا نقار (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 160 از روایات حضرت خیر دین صاحب)
خطبات مسرور جلد 11 113 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء حضرت میاں سو ہنے خان صاحب فرماتے ہیں کہ اب میں صداقت خلیفہ ثانی بیان کرتا ہوں جو میرے پر ظاہر ہوئی.جس وقت احرار کا بہت زور تھا اور مستریوں نے بھی حضور پر بہت تہمت لگائی تھی.میں نے دعا کرنی شروع کردی کہ اے اللہ ! میرے پیر کی عزت رکھ.وہ تو میرے مسیح کا بیٹا ہے.بہت دعا کی اور بہت درود شریف اور الحمد شریف پڑھا اور دعا کرتا رہا.خواب عالم شہود میں ایک شخص میرے پاس آیا.اُس نے بیان کیا کہ مشرق کی طرف بڑھا گاؤں میں مولوی آئے ہوئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو ہم نے جڑ سے اکھیڑ دینا ہے.اور بندہ (یعنی یہ میاں سو ہنے خان صاحب) کہتے ہیں کہ میں، برکت علی احمدی اور فتح علی احمدی کو اپنے ساتھ لے کر خواب میں ہی اُن کی طرف روانہ ہوا.جہاں مولوی آئے ہوئے تھے.جب وہ موضع پنڈ دری قد پہنچے، اُس وقت نماز عصر کا وقت ہو گیا.میں نے امام بن کر ہر دو احمدیوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی.اتنے میں خیر د خان اور غلام غوث احمدی پھگلا نہ بھی آگئے.میں نے آسمان کی طرف دیکھا.آسمان پر دو چاند ہیں.ایک چاند بہت روشن ہے.دوسرا جو مربع شکل اُس کے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ بے نور ہے.روشنی نہیں ہے.میرے دیکھتے دیکھتے اس میں روشنی ہونی شروع ہو گئی.غرضیکہ وہ چاند دوسرے چاند کے برابر روشن ہو گیا.میں نے دعا کی ، یہ دونوں ایک قسم کے روشن ہو گئے.اُس وقت مجھے آواز آئی کہ پہلا چاند مرزا صاحب مسیح موعود ہیں اور یہ دوسرا چاند جواب روشن ہوا ہے یہ میاں بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ثانی ہیں.(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ.غیر مطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 199-200 از روایات حضرت میاں سو ہنے خان صاحب) جیسا کہ میں نے کہا مستریوں کا بھی قادیان میں بڑا فتنہ اُٹھا تھا، جس میں حضرت خلیفہ ثانی پر بڑے غلیظ الزامات بھی ان لوگوں نے لگائے تھے اور مقدمہ بھی قائم کیا تھا.اس کا خلاصہ کچھ ذکر کر دیتا ہوں ، اکثر کو شاید نہیں پتہ ہو گا.ویسے تو یہ تفصیل پڑھنے والی ہے.حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مقدمہ پچھلے دنوں میرے خلاف کیا گیا کہ گویا میں نے آدمی مقرر کئے تھے کہ بعض لوگوں کو مروا دوں.یہ وہ لوگ تھے جو مشین سوتیاں کی دوکان سے تعلق رکھتے ہیں اور انہی کی طرف سے یہ مقدمہ کیا گیا تھا اور دوسرا مقدمہ یہ تھا کہ آئندہ کے لئے میری ضمانت لی جائے.پھر آگے فرماتے ہیں ان لوگوں کو قتل کروانا تو بڑی بات ہے.میں نے اُن کے لئے کبھی بددعا بھی نہیں کی.مگر انہوں نے اپنے او پر قیاس کیا.پچھلے دنوں بعض وجوہ سے جو خیالی طور پر گھڑی گئیں ( بعض ایسی وجوہات جو خیالی تھیں ) ان میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اُن کے خلاف کوشش کی جا رہی ہے.( اُن کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح
خطبات مسرور جلد 11 114 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء حضرت خلیفة المسیح الثانی اُن کے خلاف کوئی کوشش کر رہے ہیں) ان لوگوں نے بعض ایسی وجوہات سے جو اخبار میں بھی بیان کر دی گئی ہیں، کئی قسم کی ناجائز حرکات کیں“.پھر آگے فرماتے ہیں کہ جولوگ اخلاق میں گر جاتے ہیں وہ اپنے بغض کا بدلہ غیر اخلاقی طور پر لینے کے درپے ہو جاتے ہیں.اس وجہ سے انہوں نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں جو الزامات اور اتہامات سے تعلق رکھتی ہیں“.اور بڑے گندے گندے الزامات لگائے تھے لیکن آپ نے اُس کا کوئی جواب نہیں دیا.تاریخ احمد بیت میں جو لکھا ہوا ہے.اُس کا بھی خلاصہ بیان کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی کامیابیوں اور حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی ہر حلقے میں بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر بعض لوگوں نے جن سے سلسلہ کی عظمت اور آپ کی شہرت دیکھی نہیں جاتی تھی، آپ کی زبردست مخالفت شروع کر دی.چنانچہ اس غرض کے لئے قادیان کے بعض مستری جو مشین سوئیاں کی دوکان چلاتے تھے آلہ کار بنائے گئے جنہوں نے حضرت خلیفہ ثانی پر اقدام قتل کا مقدمہ کرنے کے علاوہ ایک اخبار ”مباہلہ“ نامی جو قادیان سے جاری ہوتا تھا، جاری کر کے آپ کی ذات مقدس پر شرمناک حملے کئے اور اپنی دشنام طرازی اور اشتعال انگیزی سے جماعت کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا.یہ فتنہ در اصل ایک گہری سازش کا نتیجہ تھا جس کے پیچھے سلسلہ احمدیت کے مخالف عناصر کام کر رہے تھے اور جنہوں نے احمدیوں کو بدنام کرنے بلکہ کچلنے کے لئے پوری کوشش سے ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کئے.اس فتنہ نے جہاں دشمنانِ احمدیت کی گندی اور شکست خوردہ ذہنیت بالکل بے نقاب کر دی، وہاں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی یوسفی شان کا اظہار ہوا اور آپ نے صبر اور تحمل کا ایک ایسا عدیم النظیر نمونہ دکھایا کہ ملک کا سنجیدہ اور متین طبقہ ورطہ حیرت میں پڑ گیا اور انہوں نے گند اُچھالنے والوں کے خلاف نفرت اور بیزاری کا کھلا اظہار کیا اور کئی اخباروں نے پھر اس بات کو لکھا بھی.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 627 مطبوعہ ربوہ ) حضرت خلیفہ امسیح الثانی جلسہ سالانہ 1927ء میں اپنی تقریر میں اس فتنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسی باتیں الہی سلسلوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی سنت کے ماتحت لگی رہتی ہیں.ان سے گھبرانا نہیں چاہئے.ہمارا فرض کام کرنا ہے.دشمنوں کی شرارتوں سے گھبرانا ہمارا کام نہیں.جو چیز خدا تعالیٰ کی ہوا سے وہ خود غلبہ عطا کرے گا.اللہ تعالیٰ اپنی چیزوں کی آپ حفاظت کرتا ہے.اگر سلسلہ احمدیہ کسی بندہ کا سلسلہ ہوتا تو اتنا کہاں چل سکتا تھا.یہ خدا کا ہی سلسلہ ہے وہی اُس کی پہلے حفاظت کرتا رہا ہے اور وہی آئندہ کرے گا“.( انشاء اللہ ) خدا تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ شوکت وسلامتی ،سعادت اور ترقی
خطبات مسرور جلد 11 115 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء کا زمانہ عنقریب آنے والا ہے.کہنے والے نے کہا ہے، دیکھوں گا کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے.مگر میں بھی دیکھوں گا کہ میرے خدا کی بات پوری ہوتی ہے یا اُس شخص کی“.تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 628-629 مطبوعہ ربوہ ) چنانچہ وہ فتنہ بھی عجیب طرح ختم ہوا کہ وہ لوگ جس کو بعض حکومتی کارندے بھی مدد کر رہے تھے ، وہ حکومت کے خلاف ہی بدل گیا اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ خدا کی بات پوری ہوئی اور یہ فتنہ آپ مر گیا اور بہت بری طرح مرا.اب بھی جو کبھی بھی جماعت کے خلاف Planning کی جاتی ہے،سکیمیں بنائی جاتی ہیں، منصوبے بنائے جاتے ہیں ، اگر اُن کو حکومتیں مدد کریں تو وہ حکومتوں کے خلاف ہی ہو جاتے ہیں، یہی ہم نے دیکھا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں ترقیات دکھاتا چلا جائے.ان صحابہ کا جن کا ذکر ہوا ہے ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیشہ ان کی نسلوں کو بھی ان کی دعاؤں کا بھی وارث بنائے اور اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.جماعت کے تمام افراد کو بھی ہر قسم کے شر اور فتنہ سے بچائے اور خلافت احمدیہ کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کی سب کو تو فیق عطا فرمائے.آج بھی نماز جمعہ کے بعد نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم سردار محمد بھروانہ صاحب جھنگ کا ہے جن کی 7 فروری 2013ء کو 73 سال کی عمر میں وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - ان کے والد احمد خان بھروانہ صاحب تھے.چنڈ بھروانہ ٹھٹھہ شیرے کا، کے رہنے والے تھے.حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں پچاس کی دہائی میں انہوں نے بیعت کی تھی.اُس وقت اُن کی عمر قریباً دس سال کی تھی اورتبلیغ کا ان کو چھوٹی عمر سے ہی بڑا شوق تھا جو آخر تک قائم رہا.آپ کی دنیاوی تعلیم تو کوئی خاص نہیں تھی،صرف پرائمری تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور خلفاء کی کتب خاص طور پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی کتب کا بڑا گہرا مطالعہ تھا.جھنگ کے دیہاتی ماحول میں لوگوں کی طبائع کے لحاظ سے آپ نے صداقتِ احمدیت کے دلائل تیار کر رکھے تھے جو مقامی جھنگوی زبان میں پیش کرتے تھے جن کا سننے والوں پر بہت اثر ہوتا تھا.آپ کو جماعت جھنگ کی طرف سے بھی مختلف جگہوں پر مناظروں کے لئے بھجوایا جاتا تھا.تبلیغ کے سلسلہ میں اس قدر نڈر تھے کہ لوگوں اور جگہ کی کبھی پرواہ نہیں کی اور دشمنوں کے درمیان بھی بلا جھجک چلے جایا کرتے تھے.احمدیت کی سچائی کا اظہار کرتے تھے.کئی دفعہ مد مقابل چیں بجبین ہوکر اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے لیکن یہ بات کبھی بھی اُن کی تبلیغ اور اظہار حق کے راستے
خطبات مسرور جلد 11 116 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 فروری 2013ء میں روک نہیں بنی.ان کی عادات سے علاقے کے اکثر لوگ واقف تھے.ان کی موجودگی میں کبھی کسی کو احمدیت پر اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی.انہیں تبلیغ کے لئے کسی بھی جگہ کسی بھی وقت بلا یا جاتا تو کبھی انکار نہ کرتے بلکہ یہ سب مصروفیات چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتے.ان کے ایک بیٹے عبدالشافی بھروانہ صاحب سیرالیون میں مبلغ سلسلہ ہیں اور ان کے ایک ہی اکلوتے بیٹے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور تمام رات اپنے ایک دوست کو جو ان دنوں جھنگ آیا ہوا تھا صداقت احمدیت کے دلائل سمجھاتے رہے.اُس کے تمام سوالوں کا نہایت تحمل سے جواب دیتے اور پھر اس سے کہتے اور کوئی بات بتاؤ جو تمہیں احمدیت قبول کرنے سے روکتی ہو اور پھر اُس کے سوال کے ہر پہلو کا کافی شافی جواب دیتے.یہ سلسلہ صبح تک چلا.ساری رات اس طرح رہا.جب وہ دوست اپنے علاقے میں واپس چلے گئے تو واپس جانے کے بعد اس دوست نے بیعت کر لی اور اپنے گھر ایک خط لکھا جو اُن کے گھر والوں نے مجھے دکھایا.اُس میں تحریر تھا کہ میں ایک دیہاتی شخص سے ملا جو تمام دن مجھے مویشیوں میں الجھا نظر آتا تھا.لیکن ایک رات میں نے اُس کی باتیں سنیں تو مجھے علم کا ایک دریا نظر آیا.بیشک یہ سب علم انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ سے اور بار بار مطالعہ سے حاصل ہوا تھا.جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کے ایک ہی بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے.اکلوتے بیٹے مبلغ سلسلہ ہیں.سیرالیون میں آجکل کام کر رہے ہیں.پچھلے ہفتہ وہاں جلسہ بھی ہورہا تھا اور اُس کی مصروفیت کی وجہ سے بھی اور مجبوریوں کی وجہ سے بھی یہ جانہیں سکے، اپنے باپ کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے اور بلکہ انہوں نے مجھ سے اس وجہ سے جانے کا پوچھا تک بھی نہیں کہ جلسہ کی مصروفیات ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے والد کی خواہش کے مطابق ان کو بے لوث خدمت سلسلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور اس واقف زندگی کو اپنے والد کی دعاؤں کا وارث بنائے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے ، درجات بلند فرمائے اور ان کے جو لواحقین ہیں سب کو صبر جمیل عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 8 مارچ 2013ء تا 14 مارچ 2013 ، جلد 20 شماره 10 صفحه 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد 11 8 117 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء بمطابق 22 تبلیغ 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج کے خطبہ کے لئے میں پیشگوئی مصلح موعودؓ کے حوالے سے کوئی موضوع سوچ رہا تھا تو خیال آیا کہ عمومی طور پر ہم پیشگوئی مصلح موعود ” بیان کرتے ہیں.اُس کی تھوڑی سی مختصر وضاحت کرتے ہیں.مجملاً بعض کاموں کا ذکر کرتے ہیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو خدا داد علم، ذہانت اور فراست عطا فرمائی تھی اُس کے بہت سے پہلو ہیں.خلافت سے پہلے بھی آپ کی تحریرات اور تقریریں علم و معرفت سے بھری ہوئی ہیں.آپ کی کتب، تقریریں اور مضامین انوار العلوم کے نام سے کتاب میں مختلف جلدوں میں چھپی ہوئی ہیں.اب تک تئیس جلد میں اس کی شائع ہو چکی ہیں اور ہر جلد 600 سے اوپر صفحات پر مشتمل ہے.مزید بھی انشاء اللہ چھپیں گی.یہ مکمل نہیں ہوئیں.اسی طرح آپ کے خطبات جمعہ ہیں یہ بھی بہت سے ہیں.جس کی 24 جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور یہ بھی اسی طرح ہر جلد جو ہے 600 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے.ابھی خطبات کی 1942-43ء تک کی جلدیں چھپی ہیں.جیسا کہ میں نے کہا مزید انشاء اللہ چھپیں گی.فضل عمر فاؤنڈیشن جو آپ کے کام کو، خطبات کو، تقاریر کو جمع کرنے کے لئے ، پھیلانے کے لئے بنائی گئی تھی وہ ان تقاریر اور مضامین وغیرہ کے ترجمے بھی مختلف زبانوں میں کروا رہی ہے اور انشاء اللہ تعالی انگریزی میں تو بعض کتابوں کے شاید جلد ہی مہیا ہو جائیں، کچھ موجود بھی ہیں.اور پھر باقی زبانوں میں بھی ہوں گے.کچھ عربی میں بھی ترجمہ ہو چکے ہیں اور شائع بھی ہو چکے ہیں.میرا خیال ہے اردو کے بعد زیادہ تر کام عربی میں ہوا ہے.ہمارے مختلف ممالک کے جامعات کے طلبہ بھی ان کے ترجمے کر رہے ہیں.شاھد پاس کرنے کے لئے جو مقالہ لکھا جاتا ہے اُن کو بھی
خطبات مسرور جلد 11 118 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء ان کتب کا ترجمہ کرنے کے لئے دیا گیا ہے.بہر حال ایک خزانہ ہے جو آپ نے اپنی زندگی اور 52 سالہ دور خلافت میں جماعت کو دیا.لیکن اس کی اشاعت چند ہزار کی تعداد میں ہوتی ہے.جو احباب خریدتے ہیں وہ بھی شاید ہی تفصیل سے پڑھتے ہوں.اور پھر اب لاکھوں نو مبائعین اور نئی نسل ایسی ہے جو اردو میں نہ پڑھ سکتی ہے ، نہ اُن کی زبان میں انہیں مہیا ہے.جو مہیا ہے وہ بھی جیسا کہ میں نے کہا بہت تھوڑی تعداد میں ہے.اس لئے نئی نسل کی اکثریت اور نو مبائعین کو آپ کے انداز تحریر وتقریر کا پتہ ہی نہیں.نہ ہی آپ کے علم و معرفت کا کچھ اندازہ ہے.بلکہ میری عمر کے لوگ جو پیدائشی احمدی ہیں اور مجھ سے چند سال بڑے بھی ، اُن کو بھی آپ کے انداز خطیبانہ اور تقریروں کا اندازہ نہیں ہوسکتا.اگر ہم یہ مجموعے اور خزانے پڑھیں تو تبھی ہم آپ کی علمی وسعت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم ظاہری و باطنی سے پر کئے جانے کی جو پیشگوئی تھی اُس کا اندازہ کر سکتے ہیں.اور اپنے علم میں بھی ، جیسا کہ میں نے کہا، اضافہ کر سکتے ہیں.ویڈیو آڈیو کی اُس زمانے میں ایسی سہولت نہیں تھی.آپ کے دور خلافت کے آخری سالوں میں لوپ (Loop) پر ریکارڈنگ ہوتی تھی.ایک دو جو تقریریں تھیں ان کی جو ریکارڈنگ کی گئی اس میں آواز امتداد زمانہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کافی حد تک اتنی اچھی نہیں رہی.اور آپ کا جو انداز تھا، یہ ریکارڈنگ اس کی اصل شان و شوکت نہیں رکھتی.بہر حال یہ شکر ہے کہ تحریرات کا ، تقاریر کا، خطبات کا ریکارڈ کافی حد تک موجود ہے.کافی حد تک اس لئے میں نے کہا ہے کہ اُس زمانے میں زود نو میں لکھا کرتے تھے اور بعض جگہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ودنو میں جب لکھتے تھے تو انہوں نے مکمل طور پر بعض خطبات اور تقاریر اور تحریرات نوٹ نہیں کئے یا مکمل فقرے نہیں لکھے گئے.بعض باتیں لکھنے سے رہ گئی ہیں.بہر حال آج بجائے اس کے کہ اس پیشگوئی کے بارے میں کچھ بیان کروں، میں نے سوچا کہ آپ کا ایک خطبہ جتنا زیادہ آپ کے الفاظ میں بیان ہو سکتا ہے ، وہ وقت کی رعایت کے ساتھ بیان کر دوں.مشتمل ہے.یہ جو خطبہ میں نے چنا ہے یہ بھی دعا کے طریق اور خدا تعالیٰ پر یقین کے مضمون پر مش یقین کہ وہی تمام قدرتوں کا مالک ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے.یہ مضمون میں نے اس لئے بھی چنا ہے کہ آجکل بھی اگر ہم خارق عادت نتائج دیکھنا چاہتے ہیں تو اس مضمون کے صحیح ادراک اور اس پر عمل کی ضرورت ہے.یہ خطبہ 10 اپریل 1942ء کا ہے.آپ نے اس طرح فرمایا کہ: میں نے احباب کو متواتر دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے اور اب جو بعض دوستوں کی طرف سے
خطبات مسرور جلد 11 119 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء رقعے اور خطوط ملتے ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت کے ایک حصہ میں موجودہ زمانہ فتن کے لئے دعا کی تحریک پائی جاتی ہے.مگر ایک حصہ کی دعا کافی نہیں.یہاں میں یہ بھی بتا دوں کہ آج کل بھی یہی صورتحال ہے.میرے بار بار کہنے کے باوجود دعا کی طرف توجہ دینے اور اپنی حالتوں کو بدلنے کے لئے جو توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہورہی.بہر حال پھر آپ آگے فرماتے ہیں کہ : ” ضرورت ہے کہ مردوں اور عورتوں اور بچوں سب کی ذہنیت کو دعا کے لئے بدلہ جائے اور یہ ذہنیت اس رنگ میں بدلی جاتی ہے کہ سب سے پہلے دعا پر یقین اور ایمان پیدا ہو.جو شخص بغیر یقین کے دعامانگتا ہے اُس کی دعا خدا تعالیٰ کے حضور مقبول نہیں ہوا کرتی.ہوسکتا ہے کبھی ایسے شخص کی دعا قبول ہو جائے صرف نمونہ کے طور پر اور اُس کے دل میں یقین پیدا کرنے کے لئے لیکن قانون کے طور پر اسی شخص کی دعا قبول ہوتی ہے جس کے دل میں یقین ہوتا ہے کہ خدا میری سنے گا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ امن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل آیت : 63) که مضطر کی دعا کون سنتا ہے؟ اور پھر فرماتا ہے اللہ ہی سنتا ہے.اور مضطر کے معنی عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ کسی کو چاروں طرف سے دھکے دے کر کسی طرف لے جائیں، جو چاروں طرف سے راستہ بند پا کر کسی ایک طرف جاتا ہے اُس کو مُضطر کہتے ہیں.یعنی وہ ہر طرف آگ دیکھتا ہے.اپنے دائیں دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے.اپنے بائیں دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے.اپنے پیچھے دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے.اپنے نیچے دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے.اپنے اوپر دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے.صرف ایک جہت اُس کے سامنے خدا تعالیٰ والی باقی رہ جاتی ہے اور اسی پر اُس کی نظر پڑتی ہے اور سب جگہ اُسے آگ ہی آگ دکھائی دیتی ہے مگر صرف ایک طرف اُسے امن نظر آتا ہے.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ مضطر کے معنوں میں یقین پایا جانا ضروری ہے.مضطر کے صرف یہی معنی نہیں ہیں کہ اُس کے دل میں گھبراہٹ ہو کیونکہ گھبراہٹ میں بعض دفعہ ایک شخص بے تحاشا کسی طرف چل پڑتا ہے بغیر اس یقین کے کہ جس طرف وہ جارہا ہے وہاں اُسے امن بھی حاصل ہوگا یا نہیں.بلکہ بعض لوگ گھبراہٹ میں ایسی طرف چلے جاتے ہیں جہاں خود خطرہ موجود ہوتا ہے اور وہ اس سے نہیں بچ سکتے.پس محض اضطراب کا دل میں پیدا ہونا اضطرار پر دلالت نہیں کرتا.اضطرار پر وہ حالت دلالت کیا کرتی ہے جب چاروں طرف کوئی پناہ کی جگہ انسان کو نظر نہ آتی ہو اور ایک طرف نظر آتی ہے.گویا اضطرار کی نہ صرف یہ علامت ہے کہ چاروں طرف آگ نظر آتی ہو بلکہ یہ علامت بھی ہے کہ
خطبات مسرور جلد 11 120 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء ایک طرف امن نظر آتا ہو اور انسان کہ سکتا ہو کہ وہاں آگ نہیں ہے.تو وہی دعا خدا تعالیٰ کے حضور قبول کی جاتی ہے جس کے کرتے وقت بندہ اس رنگ میں اُس کے سامنے حاضر ہوتا ہے.اُسے یقین ہوتا ہے کہ سوائے خدا کے میرے لئے اور کوئی پناہ کی جگہ نہیں.یہی وہ مضطر کی حالت ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ادا فرمایا ہے کہ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ - کہ اے خدا! لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْك.تیرے عذاب اور تیری طرف سے آنے والے ابتلاؤں سے کوئی پناہ کی جگہ نہیں، کوئی خوف کی جگہ نہیں ، سوائے اس کے کہ میں سب طرف سے مایوس ہو کر اور آنکھیں بند کر کے تیری طرف آجاؤں.تو لا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَاً والی جو حالت ہے ، یہی اضطرار کی کیفیت ہے.اور جب خدا نے قرآن میں کہا کہ آمن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ ( النمل آیت:63) بتاؤ مضطر کی کون سنتا ہے تو مضطر کے معنی یہی ہوئے کہ ایسے شخص کی دعا جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو ملجا و ماوی نہیں سمجھتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا ملجا ومناقر ار نہیں دیتا اور اس آیت میں کہ امن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل آیت: 63) در حقیقت اس کیفیت اضطرار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.مضطر کے لفظ پر یہعلمی روشنی ڈالنے اور اس آیت کی وضاحت کرنے کے بعد پھر آپ کا تقریر کا جو اسلوب تھا، طریق تھا ، آپ نے مضطر کی مختلف ضرورتوں اور حالتوں کا ذکر فرما کر مثالیں اور واقعات پیش کئے.آپ کی ہر تقریر واقعات اور مثالوں سے بھری ہوتی تھی.آپ فرماتے ہیں کہ: اضطر اردنیا میں کئی قسم کے ہوتے ہیں.اس لئے یہاں المُضطر “ کا لفظ رکھا گیا ہے جس کے معنی تمام قسم کے مضطر کے ہیں.بعض بندے دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو مضطر ہوتے ہیں اور گوحقیقتا اللہ تعالی ہی ہر مضطر کا علاج ہے.مگر اُس کے دیئے ہوئے انعام کے ماتحت کوئی بندہ بھی اُن کے اضطرار کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے.ایک غریب آدمی ہے، اُس کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں، اُسے نظر نہیں آتا کہ وہ نئے کپڑے کہاں سے بنوائے.ایک امیر آدمی جو بعض دفعہ ایک ہندو ہوتا ہے، سکھ ہوتا ہے، پارسی ہوتا ہے، دہر یہ ہوتا ہے، کوئی بھی ہو ، وہ اُس کو بنوا دیتا ہ...یہاں میں بعض باتیں مختصر کر رہا ہوں کیونکہ یہ خطبہ کافی لمبا تھا.تو فرمایا کہ اب گو ہمارے یقین کے مطابق خدا نے ہی اس امیر آدمی کے دل میں یہ تحریک پیدا کی ہوگی کہ وہ اُسے کپڑے بنوا دے مگر جو کامل الایمان نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میرے اضطرار کی حالت میں فلاں آدمی کام آیا ہے.مگر وہی آدمی جس نے اُسے کپڑوں کا جوڑا بنوا کر دیا تھا جب یہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے کہ اُس کے لئے کھانا پینا
خطبات مسرور جلد 11 121 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء حرام ہو جاتا ہے، پانی تک اُسے ہضم نہیں ہوتا، تمام جسم کی صحت کی حالت خراب ہو جاتی ہے، چل پھر بھی نہیں سکتا تو ایسی حالت میں وہ امیر آدمی اُس کی مدد نہیں کر سکتا بلکہ اگر کوئی اچھا طبیب (ڈاکٹر ہو ) اچھالائق اور رحمدل ہوتا ہے اور وہ اُسے اس حالت میں دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ تمہیں علاج پر روپیہ خرچ کرنے کی توفیق نہیں، میں تمہیں مفت دوائی دینے کے لئے تیار ہوں.فرمایا کہ اس اضطرار کی حالت میں امیر اس کے کام نہیں آیا بلکہ طبیب اُس کے کام آیا پھر بھی ایسا ہوتا ہے کہ اس پر کوئی مقدمہ بن جاتا ہے وہ بے گناہ ہوتا ہے، اُس کا دشمن زبر دست ہوتا ہے اور وہ کسی وجہ سے ناراض ہو کر کسی مقدمہ میں ماخوذ کرا کے عدالت تک پہنچاتا ہے.اب اُسے نہ وکیل کرنے کی توفیق ہے، نہ خود اُسے مقدمہ لڑنے کی قابلیت ہے اور وہ حیران ہوتا ہے کہ کیا کرے.آخر کوئی رحمدل وکیل اُسے مل جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں بغیر فیس کے تمہاری وکالت کرنے کے لئے تیار ہوں.اب اس موقع پر اور کوئی کام نہیں آیا، صرف وکیل اُس کے کام آیا.پھر اسی طرح ایک زمیندار کی مثال دی ہے.پھر آگے فرماتے ہیں کہ ایک ہی انسان کے مختلف اضطراروں میں مختلف لوگ اُس کے کام آ سکتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آمن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل آیت : 63) - مطلق مضطر جس کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس قسم کا مضطر ہو، خواہ وہ بھوکا ہو، ننگا ہو، پیاسا ہو، بیمار ہو، بوجھ اُٹھائے جارہا ہوں، کسی قسم کا اضطرار ہو، اُس کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.کچھ حصہ میں چھوڑ رہا ہوں.پھر فرمایا کہ ہر قسم کے مضطرین کی ضرورتیں پوری کرنے والی خدا کی ہی ذات ہوتی ہے.انسان کے اضطرار کی ہزاروں حالتیں ہوتی ہیں.بھلا ان حالتوں میں تو کوئی بادشاہ بھی کسی کے کام نہیں آ سکتا.فرض کرو ایک شخص سخت بیمار ہے.اب بادشاہ کا خزانہ اس کے کام نہیں آ سکتا.بادشاہ کی فوجیں اُس کے کام نہیں آسکتیں.بادشاہ کا قرب اُس کے کام نہیں آ سکتا.اُس کے کام تو اللہ تعالیٰ ہی آسکتا ہے جو ہر قسم کی بیماریوں کو دُور کرنے کی طاقت رکھتا ہے.یا ایک جنگل میں گزرنے والا شخص جس پر بھیڑیا یا شیر اچانک جھپٹ کر حملہ کر دیتا ہے، وہ چاہے بادشاہ کا کتنا ہی منہ چڑھا ہو یا بادشاہ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو، بادشاہ اُس کے کیا کام آ سکتا ہے؟ فرمایا جنگل میں وہ تن تنہا جارہا ہوتا ہے کہ شیر چیتا یا بھیڑیا اُس کے سامنے آجاتا ہے.ایسی حالت میں وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو کام آتی ہے.کوئی انسان کام نہیں آ سکتا.تو جب تک انسان کے اندر یہ یقین پیدا نہ ہو کہ ہر قسم کے اضطراب کی حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کام آتا ہے اُس وقت تک وہ مضطر نہیں کہلا سکتا.66
خطبات مسرور جلد 11 122 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء یہ اُس زمانے کی بات ہے جب انڈیا پاکستان اکٹھے تھے اور ہندوستان پر برطانیہ کی حکومت تھی.اُس کی ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انگریزوں کے ماتحت ہی ہندوستان میں کئی بزدل قو میں ہیں، مگر انگریز اُن کو بہادر نہیں بنا سکے.صرف اتنا کہہ دیا کہ انہیں فوج میں بھرتی نہ کیا جائے.گویا بجائے اس کے کہ وہ اُن کی ترقی کا باعث بنتے ، انہوں نے اُن کو اسی بزدلی کے گڑھے میں گرائے رکھا جس میں وہ پہلے گرے ہوئے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھو، اُس کے ساتھ تعلق رکھنے سے بڑے بڑے بزدل، بہادر بن جاتے ہیں اور بڑی بڑی غیر منظم تو میں منظم ہو جاتی ہیں فرمایا کہ خدا جن قوموں کو ترقی دیتا ہے اُن کی کا یا پلٹ کر رکھ دیتا ہے اور اُن کے دل بالکل بدل جاتے ہیں.اُن کی کمزوری اور بزدلی جاتی رہتی ہے اور اُن کے اندر ایسی طاقت اور قوت آ جاتی ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے.اب مسلمان کی مثال دی کہ مسلمانوں کو ہی دیکھ لو.عرب ایک ایسا ملک تھا جس کے باشندے کسی ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا اور با قاعدہ کسی نظام کے ماتحت آنا گوارا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ قبائل کے سردار عوام سے مشورہ لے کر کام کرتے تھے اور ہر قبیلہ اپنی اپنی جگہ آزاد سمجھا جاتا تھا مگر اُن کی اتنی حیثیت بھی نہ تھی جتنی آجکل چھوٹی سے چھوٹی ریاستوں کی ہوتی ہے.کوئی قبیلہ ہزار افراد پر مشتمل تھا، کوئی قبیلہ دو ہزار افراد پر مشتمل تھا، کوئی قبیلہ تین ہزار افراد پر مشتمل تھا.مکہ کی آبادی بھی اُس وقت صرف دس پندرہ ہزار تھی (جس میں کئی قبائل تھے ).پھر اُن میں کوئی نظام نہ تھا.اُن کے پاس کوئی خزانہ نہ تھا، کوئی سپاہی نہ تھا، کوئی ایسا محکمہ نہ تھا جس کے ماتحت با قاعدہ فوجیں رکھی جاتی ہوں اور سپاہی بھرتی کئے جاتے ہوں..غرض وہ ایک ایسی قوم تھی جو بالکل بے راہ رو تھی.کوئی طریقہ اور کوئی صحیح نظام اُن میں نہیں پایا جاتا تھا.ایسی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الہ تعالیٰ نے مبعوث فرما یا مگر بہت ہی تھوڑے لوگ آپ پر ایمان لائے.محققین کے نزدیک ساری مکی زندگی میں جولوگ مکہ میں اسلام لائے، اُن کی تعداد سو کے قریب بنتی ہے.غرض یہ تھوڑے سے آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے.مکہ کے لوگ اول تو خود ہی دنیاوی لحاظ سے نہایت حقیر تھے اور ان میں کوئی طاقت وقوت نہ تھی.(گو ویسے جنگجو تھے.اپنے قبیلہ کے رکھ رکھاؤر کھنے والے تھے لیکن دنیاوی لحاظ سے تو کوئی طاقت نہیں تھی.) پھر اُن کمزور لوگوں میں سے بھی ایسے لوگ اسلام میں داخل ہوئے جو مکہ والوں کی نگاہ میں بھی کمزور سمجھے جاتے تھے.مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں کتنی بہادری پیدا کر دی اور بے نظامی کی جگہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تنظیم کا نظارہ نظر آنے لگا.یہی مکہ کے لوگ یا عرب کے باشندے کسی کی بات ماننا گوارا نہیں کیا کرتے تھے.یعنی اطاعت جود نیا میں مہذب قوموں کا شعار سمجھا جاتا ہے وہ ان کے نزدیک سخت ذلت کی بات تھی.“
خطبات مسرور جلد 11 123 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء پھر عرب کا ایک پرانا قصہ مشہور ہے اُس کی مثال دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : دیکھو عربی ادب کی کتب میں لکھا ہے کہ عرب میں ایک بادشاہ عمرو بن ہند تھا.اُس نے ایک علاقے پر جو شام اور عراق کی طرف تھا، حکومت قائم کی اور عرب کے لحاظ سے اس قدر شوکت حاصل کر لی کہ اُسے خیال پیدا ہوا کہ سارا عرب میری بات مانتا ہے.ایک دن درباریوں سے اُس نے بات کرتے ہوئے کہا.کیا عرب میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو میری بات ماننے سے انکار کر سکے.انہوں نے کہا کہ ایک شخص عمر و بن کلثوم ہے جو اپنے قبیلے کا سردار ہے.ہمارے خیال میں وہ ایسا شخص ہے جو آپ کی اطاعت نہیں کرے گا.اُس نے کہا بہت اچھا.میں اس کی تصدیق کرنے کے لئے اُسے بلواتا ہوں.چنانچہ بادشاہ نے عمرو بن کلثوم کو دعوت دی اور اُسے خط لکھا کہ آپ یہاں تشریف لا ئیں.آپ سے ملنے کو جی چاہتا ہے.چنانچہ وہ اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں کو لے کر آ گیا جیسے عرب کا دستور تھا.بادشاہ اُس وقت کسی جگہ خیموں میں ٹھہرا ہوا تھا.وہیں اُس نے آکر اپنے خیمے لگا دیئے.اُس بادشاہ نے عمرو بن کلثوم کو یہ بھی لکھا تھا کہ اپنی والدہ اور دوسرے عزیزوں کو بھی لیتے آنا.چنانچہ وہ اس کے مطابق اپنی والدہ کو بھی لے آیا.عمر و بن ہند نے یعنی بادشاہ نے اپنی والدہ سے کہا.کام کرتے کرتے عمرو بن کلثوم کی ماں سے کوئی چھوٹا سا کام لے کر دیکھنا تا پتہ لگ سکے کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہے.چنانچہ جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو عرب کے دستور کے مطابق گوہ بادشاہ کہلاتا تھا مگر اُس کی ماں خود کھانا برتانے میں بیٹھ گئی.اپنے بیٹے کے لئے بھی اور عمر و بن کلثوم کیلئے بھی.گویا عمرو بن ہند کی والدہ ( بادشاہ کی والدہ) اُس وقت عملاً عمرو بن كلثوم اور اُس کے دوسرے عزیزوں کا کام کر رہی تھی.پس ایسے وقت میں عمرو بن کلثوم کی ماں کا کسی کام میں ہاتھ بٹانا ہرگز اُس کی ہتک کا موجب نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ جب بادشاہ کی ماں خود ایک کام کر رہی تھی تو اس کام میں عمرو بن کلثوم کی ماں کا ہاتھ بٹانا ہرگز کوئی ایسی بات نہیں تھی جو اُس کی شان اور عزت کے منافی ہوتی.مگر واقعہ کیا ہوتا ہے، کھانا برتاتے وقت ایک تھال کچھ فاصلے پر پڑا تھا.عمرو بن ہند کی والدہ کھانا برتاتے برتا تے اُسے کہنے لگی کہ بی بی ذرا وہ تھال تو سر کا کر ادھر کر دینا.اُسے یہ بھی جرات نہ ہوئی کہ اس سے زیادہ اُس سے کام لے سکے، کام کرنے کے لئے کہے.مگر تاریخوں میں لکھا ہے کہ جو نہی بادشاہ کی ماں نے اُس کی اُس عرب قبیلہ کے سردار عمرو بن کلثوم کی والدہ سے یہ بات کہی وہ کھڑی ہو گئی.(قبیلہ کے سردار کی ماں کھڑی ہوگئی ) اور اُس نے زور سے پکارنا شروع کر دیا کہ اوا بن کلثوم ! تمہاری ماں کی ہتک ہو گئی ہے.عمرو بن كلثوم اُس وقت بادشاہ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا اور کھانا کھانے کی وجہ سے اُس نے اپنی تلوار ایک طرف لٹکائی ہوئی تھی مگر
خطبات مسرور جلد 11 124 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء جونہی اُس نے اپنی ماں کی آواز کو سنا، اُس نے اپنی ماں سے جا کر یہ نہیں پوچھا کہ تمہاری کیا ہتک ہوئی ہے.وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگ گیا.خیمہ میں بادشاہ کی تلوار لٹک رہی تھی.اُس نے اُچک کر تلوار کومیان سے نکالا اور بادشاہ کو قتل کر دیا اور باہر نکل کر اُس نے اپنے قبیلے والوں سے کہا کہ بادشاہ کا سب مال و متاع لوٹ لو.“ وو تو عرب لوگ کسی کی اطاعت برداشت نہیں کر سکتے تھے.لیکن پھر انہی عربوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل بدل ڈالے.انہی عربوں میں سے ایک سمجھدار اور پڑھے لکھے اور اپنی قوم کے معزز فرد حضرت عبد اللہ بن مسعود گلی میں سے گزررہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں وعظ فرما رہے تھے.وہ اسی وعظ کو سننے کے لئے مسجد کی طرف جا رہے تھے.وہاں مسجد میں کسی وجہ سے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فرمایا کہ لوگ بیٹھ جائیں تو آپ کیونکہ رستہ میں تھے، جارہے تھے، آپ نے آواز سنی ، آپ بھی بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر انہوں نے مسجد کی طرف جانا شروع کر دیا.کوئی دوست جو پاس سے گزرا اُس نے کہا کہ عبد اللہ بن مسعود ! یہ تم نے کیا مضحکہ خیز حرکت شروع کر دی ہے کہ زمین پر بیٹھے بیٹھے چل رہے ہو.سیدھی طرح کیوں نہیں چلتے.انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ.میں نے اپنے دل میں سوچا کہ مجھے کیا پتہ کہ میں وہاں تک زندہ پہنچوں یا نہ پہنچوں.ایسا نہ ہو میرا خاتمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں ہو.اس لئے میں یہیں بیٹھ گیا اور میں نے بیٹھے بیٹھے مسجد کی طرف جانا شروع کر دیا.اب ذرا مقابلہ کرو، اس واقعہ کا، عمر و بن کلثوم کے واقعہ سے کہ ایک بادشاہ کی دعوت پر وہ جاتا ہے اور اُس کی ماں کو بادشاہ کی ماں کوئی بڑا کام نہیں بتاتی بلکہ وہ کام بتاتی ہے جو وہ خود کر رہی ہوتی ہے اور اپنے بیٹے سے کم درجہ رکھنے والے شخص کے لئے کر رہی ہے.پھر وہ کام کوئی بہت بڑا کام بھی نہیں بلکہ جو کچھ کر رہی تھی اُس میں سے بھی ایک نہایت معمولی اور چھوٹا سا کام کرنے کے لئے اُسے کہتی ہے.مگر اُس کی طبیعت اس بات کو برداشت نہیں کرسکتی.اور ادھر وہ بات کہتی ہے اُدھر وہ شور مچانے لگ جاتی ہے کہ میری ہتک ہو گئی.مگر اسی گروہ کا ایک فردگلی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتا ہے اور گلی میں سن کر ہی بیٹھ جاتا ہے اور ایسی حرکت کرتا ہے جو دنیا میں عام طور پر ذلیل سمجھی جاتی ہے.“ پھر لکھتے ہیں کہ تم یقیناً اسے پاگل سمجھو گے مگر صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے آپ کو پاگل ہی بنا
خطبات مسرور جلد 11 125 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء بیٹھے تھے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے.“ پھر آگے مصلح موعود لکھتے ہیں کہ ”پھر مدینہ کے لوگ لڑائی کے کام میں نہایت ادنی اور ذلیل سمجھے جاتے تھے.جیسے ہمارے ملک میں بعض قو میں لڑائی کے فن کی اہل نہیں سمجھی جاتیں.مدینہ کے لوگ بیشک مالدار تھے اور وہ اچھے زمیندار تھے مگر جیسے ہمارے ملک میں بعض قو میں بعض پیشوں کی وجہ سے ذلیل سمجھی جاتی ہیں اسی طرح وہ ذلیل سمجھے جاتے تھے کیونکہ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے اور کھیتی باڑی کو عرب لوگ پسند نہیں کرتے تھے.عرب لوگ اس بات پر ناز کرتے تھے کہ اُن کے پاس اتنے گھوڑے ہیں ،اتنے اونٹ ہیں، وہ اس طرح ڈاکے مارتے ہیں اور اس اس طرح لوگوں پر حملے کرتے ہیں.مگر مدینہ کے لوگ ایک گاؤں میں بستے اور کھیتی باڑی کیا کرتے تھے.وہ نہ ڈا کہ مارتے تھے، نہ اونٹ اور گھوڑے کثرت سے رکھ سکتے تھے ، کیونکہ اگر وہ اونٹ اور گھوڑے رکھتے تو انہیں کھلاتے کہاں سے.اس لئے وہ دوسرے عربوں کی نگاہ میں نسبتاً ادنی سمجھے جاتے تھے.عرب کے لوگ تو اُن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ تو سبزی ترکاری ہونے والے ہیں.اس میں کیا شبہ ہے کہ جو لوگ ترفہ میں پڑ جائیں (یعنی آسودگی وغیرہ میں پڑ جائیں ) باغات بنا لیں کھیتی باڑی میں مشغول ہو جائیں اور مال و دولت جمع کرنے میں لگ جائیں.اُنہوں نے کیا لڑنا ہے اور وہ تو کئی پشتوں سے نسلاً بعد نسل یہی کام کرتے چلے آ رہے تھے اس لئے وہ لڑائی کے قابل نہیں سمجھے جاتے تھے.پھر فرماتے ہیں کہ عرب کی نگاہ میں مدینہ کے لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے اور حقارت سے وہ اُن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ یہ تو کھیتی باڑی کرنے والے لوگ ہیں مگر انہی لوگوں کو دیکھو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے بعد ان میں کتنا عظیم الشان فرق پیدا ہو گیا کہ وہی سبزی ترکاری بونے اور کھیتی باڑی کرنے والے لوگ دنیا کے بہترین سپاہی بن گئے.بدر کے موقع پر مکہ کے بڑے بڑے سردار جمع تھے اور وہ خیال کرتے تھے کہ آج مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں گے.اُس دن ایک ہزار تجربہ کا رسپاہی جو بیسیوں لڑائیاں دیکھ چکا تھا اور جن کا دن رات کا شغل لڑائیوں میں شامل ہونا اور دشمنوں پر تلوار چلانا تھا، مسلمانوں کے مقابلے میں صف آراء تھا اور مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے.بعض تاریخوں میں لکھا ہے کہ ان تین سو تیرہ مسلمانوں میں سے بعض کے پاس تلواریں تک نہ تھیں اور وہ لاٹھیاں لے کر آئے ہوئے تھے.ایسی بے سروسامانی کی حالت میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے چلے تو دوا نصاری لڑکے بھی بضد ہو گئے کہ ہم نے بھی ساتھ چلنا ہے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
خطبات مسرور جلد 11 126 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء نے اُن کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی.حضرت عبد الرحمن بن عوف جو نہایت ہی بہادر اور تجربہ کارسپاہی تھے، کہتے ہیں کہ اُس دن ہمارے دلوں کے ولولے کو ئی شخص نہیں جان سکتا.ہم سمجھتے تھے کہ آج جبکہ خدا نے ہمیں لڑنے کی اجازت دے دی ہے، ہم مکہ والوں سے ان مظالم کا بدلہ لیں گے جو انہوں نے ہم پر کئے.مگر کہتے ہیں کہ اچھا سا ہی تبھی اچھا لڑ سکتا ہے جب اس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو.(وہاں بھی کوئی اچھے لڑنے والے موجود ہوں.) جب وہ حملہ کرے اور دشمنوں کی صفوں میں گھس جائے تو وہ دونوں اس کی پشت کو دشمنوں کے حملے سے محفوظ رکھیں.اس لئے بہادر سپاہی ہمیشہ درمیان میں کھڑے کئے جاتے ہیں تا اُن کے دائیں بائیں حفاظت کا خاص سامان رہے اور جب وہ دشمن کی صف کو چیر کر آگے بڑھیں تو اُن کی پیٹھ کی حفاظت ہوتی رہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے اسی خیال کے ماتحت اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ دیکھوں میرے دائیں بائیں کون ہے؟ کہتے ہیں میری جو نظر پڑی تو میں نے دیکھا وہی دو انصاری لڑکے پندرہ پندرہ سال کی عمر کے میرے دائیں بائیں کھڑے تھے.اول تو یہ مدینہ کے رہنے والے ہیں.کہتے ہیں مجھے خیال ہوا ، دل بیٹھ گیا....جہاں کے لوگ لڑائی کے فن سے نا آشنا ہیں.پھر یہ پندرہ پندرہ سال کے لڑکے ہیں.انہوں نے میری کیا حفاظت کرنی ہے.تو آج میرے دل کے جوش کی جو حالت ہے وہ دل میں ہی رہے گی اور میں اپنی حسرت نہیں نکال سکوں گا.بہر حال اس کا خلاصہ بیان کر دیتا ہوں.کہتے ہیں کہ یہ خیال ابھی میرے دل میں آرہا تھا کہ مجھے دائیں طرف سے میرے پہلو میں کہنی لگی میں نے مڑکر اُس لڑکے کی طرف دیکھا کہ وہ مجھے کیا کہنا چاہتا ہے.وہ اپنا منہ میرے کان کے قریب لایا اور اُس نے آہستگی سے مجھے کہا کہ چا وہ ابوجہل کونسا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا تھا.میرا دل چاہتا ہے آج اُس سے بدلہ لوں.ابھی کہتے ہیں میں نے اُس کا جواب دینا ہی تھا تو دوسری طرف سے مجھے ایک گہنی لگی اور اُس نے بھی میرے کان کے قریب اپنا منہ لا کر کہا کہ چچاوہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ دیا کرتا تھا.میرا دل چاہتا ہے کہ آج اُس سے بدلہ لوں.آپ کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ ابو جہل جو سر دار ہے اور لشکر کے درمیان میں ہے اس کے بڑے گہنہ مشق ، جنگجو قسم کے لوگ اُس کے ساتھ کھڑے ہوں گے کہ اُس تک میں پہنچوں اور قتل کروں.لیکن ان بچوں کو یہ خیال آ گیا.بہر حال کہتے ہیں میں نے اشارہ کیا اور دونوں بچوں کی خواہش تھی کہ میں ہی اس نعمت کو بجالاؤں یعنی یہ انعام مجھے ہی ملے کہ میں ابو جہل کو قتل کرنے والا بنوں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف کی تو یہ حالت تھی کہ وہ پریشان تھے مگر ان کو یہ
خطبات مسرور جلد 11 127 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء پتہ نہیں تھا کہ ان دونوں کے دلوں میں ایمان نے ایک ہی جذبہ پیدا کر رکھا تھا.” عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ ان دونوں کے سوال سے میرے دل پر حیرت طاری ہو گئی اور مجھے اُن کے ایمان کو دیکھ کر بہت ہی تعجب ہوا.چنانچہ میں نے انگلی اُٹھا کر یہ بتانے کے لئے کہ تمہارا خیال کیسا ناممکن ہے، کہا کہ وہ قلب لشکر میں ( یعنی بالکل درمیان میں ) جو شخص گھوڑے پر سوار ہے اور سر سے پیر تک مسلح ہے اور جس کے آگے دو جرنیل جنگی تلواریں لے کر پہرہ دے رہے ہیں، وہ ابو جہل ہے.اس وقت ابو جہل کے سامنے ایک تو عکرمہنگی تلوار لے کر پہرہ دے رہا تھا اور ایک اور مشہور جرنیل تھا.“ کہتے ہیں اور عکرمہ بھی کوئی معمولی انسان نہیں تھا بلکہ اُس وقت دنیا کے بہترین سپاہیوں میں سے تھا اور وہ دونوں اُس وقت سنگی تلواریں لے کر ابو جہل کے سامنے کھڑے تھے.غرض عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے انگلی اُٹھا کر انہیں بتایا کہ ابو جہل کونسا ہے.میری غرض یہ تھی کہ انہیں معلوم ہو جائے ، ان کا خیال کیسا ناممکن ہے.مگر وہ کہتے ہیں کہ ابھی میری انگلی نیچے نہیں آئی تھی ، جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے، اسی طرح انہوں نے یکدم حملہ کر دیا اور پیشتر اس کے کہ کفار کے لشکر کو ہوش آئے کہ یہ ہو کیا گیا ہے، انہوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے نیچے گرا دیا.ان میں سے ایک کا ہاتھ کٹ گیا تو وہ کٹے ہوئے ہاتھ کو الگ پھینک کر پھر آگے بڑھا اور دونوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے نیچے گرا دیا اور اس طرح...بدر کی جنگ بے جرنیل کے لڑی گئی.“ 66 فرمایا کہ دیکھو وہ قوم جو اتنی ذلیل سمجھی جاتی تھی کہ اس کے افراد کولڑائی کے قابل ہی خیال نہیں کیا جا تا تھا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے طفیل اُن میں کتنا تغیر پیدا ہوا کہ ابوجہل مرتا ہے تو اس حسرت کے ساتھ کہ مجھے مدینہ کے دولڑکوں نے مارا.وہ کہتا ہے مرنے کی پرواہ نہیں ، سپاہی لڑائی میں مرا ہی کرتے ہیں.مجھے حسرت اور افسوس ہے تو یہ کہ مدینہ کے دولڑکوں نے مجھے مارا.گویا وہ لوگ جنہیں عرب سپاہی تک نہیں سمجھتے تھے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو خدا جس کے قبضہ میں دل ہیں اور جو کمزور کو قوی بنانے کی طاقت رکھتا ہے، اُس نے اُن کو ایسا بہادر اور جری بنادیا کہ ایک تجربہ کار جرنیل جس بات کو ناممکن سمجھتا تھا، خدا نے وہ کام اُس قوم کے دو بچوں کے ہاتھ سے کروا دیا.پھر عرب لوگوں کے اندر اس قدر غیرت ہوا کرتی تھی کہ وہ غیرت میں اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، مگر دیکھو پھر کس طرح خدا نے اُن کے دل بدل ڈالے اور ان کے دلوں سے جھوٹی غیرت کا احساس تک جاتا رہا.اور پھر آپ نے اس شخص کا واقعہ بیان فرما یا جو ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اُس کے باپ کے پاس گیا.اُس نے کہا کہ مجھے لڑکی دکھا دو.اُس نے کہا نہیں.لڑکی میں
خطبات مسرور جلد 11 128 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء ނ نہیں دکھا سکتا.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں ایک لڑکی.شادی کرنا چاہتا ہوں مگر اُس کا باپ لڑکی کی شکل مجھے نہیں دکھاتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا وہ غلطی کرتا ہے، اُسے لڑکی دکھا دینی چاہئے.وہ پھر اُس کے پاس پہنچا اور کہنے لگا تم نے انکار کیا تھا اور کہا تھا میں لڑکی نہیں دکھاتا.میں نے اس بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ نکاح کے موقع پر لڑکی کو دیکھ لینا جائز ہے.باپ کہنے لگا جائز ہو گا مگر میں تمہیں نہیں دکھاتا.( اپنی غیرت دکھائی اُس نے.) تم کسی اور جگہ رشتہ کرلو لڑکی اندر بیٹھی ہوئی یہ باتیں سن رہی تھی.جونہی اس نے یہ بات سنی وہ فوراً ننگے منہ باہر نکل آئی اور کہنے لگی کہ باپ! آپ کیا کہتے ہیں.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ لڑکی کو نکاح سے قبل دیکھ لینا جائز ہے تو آپ کو اس سے کیا انکار ہوسکتا ہے.پھر وہ اس نوجوان سے کہنے لگی.لو میں تمہارے سامنے کھڑی ہوں مجھے دیکھ لو.اُس نوجوان نے کہا مجھے دیکھنے کی ضرورت نہیں، مجھے ایسی ہی لڑکی پسند ہے جو خدا اور اُس کے رسول کی ایسی فرمانبردار ہے.تو دیکھو کس طرح اہلِ عرب کے قلوب کو بظاہر دنیاوی عزتیں قربان کرنے کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کر دیا کہ اُن کے مدنظر سوائے اس کے اور کوئی بات نہ رہی کہ خدا اور اُس کے رسول کا کیا حکم ہے.تو قلوب کو دنیا کی کوئی حکومت نہیں بدل سکتی.قلوب کو اللہ تعالیٰ ہی بدلتا ہے.بزدل بہادر بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت.اور بہادر بزدل بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت.کنجوس سخی بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت اور سخی کنجوس بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت.جاہل عالم بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت اور عالم جاہل بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت.جب خدا کسی قوم کے متعلق حکم دیتا ہے کہ اس کو مٹا ڈالو تو اس کے عالم جاہل ہو جاتے ہیں، اُس کے بہادر بزدل ہو جاتے ہیں، اُس کے سخی کنجوس ہو جاتے ہیں اور اُس کے طاقتور کمزور ہو جاتے ہیں.مگر جب خدا کسی قوم کے متعلق فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے بڑھایا جائے تو اُس کے کمزور بہادر بن جاتے ہیں، اُس کے جاہل عالم بن جاتے ہیں، اُس کے بخیل سخی بن جاتے ہیں اور اُس کے بیوقوف عقلمند بن جاتے ہیں.ہم نے اپنی زندگیوں میں اس قسم کی کئی مثالیں دیکھی ہیں“.فرماتے ہیں کہ احمدیوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ ایک شخص اخلاص کے ساتھ احمدی ہوتا ہے، وہ ان پڑھ اور جاہل ہوتا ہے مگر احمدی ہوتے ہی اُس کی زبان اس طرح کھل جاتی ہے کہ بڑے بڑے مولوی اُس کے ساتھ بات کرنے سے گھبرانے اور کترانے لگ جاتے ہیں.مگر ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض علم والے آدمی ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں مگر چونکہ اُن کے دلوں میں احمدیت کے متعلق
خطبات مسرور جلد 11 66 129 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء اخلاص نہیں ہوتا، اس لئے وہ اسی طرح جاہل رہتے ہیں جس طرح غیر احمدی ہونے کی حالت میں علم دین سے جاہل ہوا کرتے تھے.جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ہمارا علم ذاتی نہیں بلکہ خدا کا دیا ہوا علم ہے.ہماری بہادری اپنی نہیں بلکہ خدا کی دی ہوئی بہادری ہے.ہماری قربانیاں اپنی نہیں بلکہ خدا کی دی ہوئی توفیق کا نتیجہ ہیں.اگر وہ خدا کی دی ہوئی بہادری نہ ہوتی ، اگر وہ خدا کا دیا ہوا علم نہ ہوتا، اگر وہ خدا کی دی ہوئی جرات نہ ہوتی تو اس کا اخلاص سے کیا تعلق ہوتا.پھر تو عادات سے اور محنت سے اور ذاتی جد و جہد اور کوشش سے ہی اُس کا تعلق ہوتا.حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو دنیاوی لحاظ سے ان باتوں سے بالکل نابلد ہوتے ہیں مگر ان کے دلوں میں اخلاص ہوتا ہے.پھر آپ نے مثال دی ہے اس کا خلاصہ بیان کر دیتا ہوں.پیرا ایک شخص ہوا کرتا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خادم تھا.بڑی موٹی عقل کا آدمی تھا.سمجھ نہیں سکتا تھا کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اُس کا ذاتی لگاؤ تھا.وہ بیمار تھا.اُس کے والدین اُس کو علاج کرانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس چھوڑ گئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کا علاج کیا.ٹھیک ہو گیا اور وہ ڈیوڑھی پر پڑا رہتا تھا.اُس کے رشتہ دار جب واپس لینے کے لئے آئے تو اُس نے کہا نہیں.اب جس نے میرا علاج کیا تھا میں تو اُس کے پاس ہی رہوں گا.تمہارے ساتھ نہیں جاتا.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈیوڑھی میں بیٹھا رہتا تھا.پیغام لانا، پیغام رسانی کرنا، مہمانوں کو کھانا پہنچانا، یہ کام تھا لیکن نمازیں نہیں پڑھتا تھا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہاں بیٹھا رہتا ہے.بعض لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بن جائے کہ نمازیں نہیں پڑھتا.اُسے کہا کہ نماز پڑھا کرو.خیر اُس کو بڑا سمجھایا سمجھوایا، اس کو لالچ بھی شاید دیا.ایک دن وہ پانچوں نمازیں پڑھنے کے لئے چلا گیا.اس عرصے میں جب وہ صاحب مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے تو اندر سے جو خاتون مہمانوں کے لئے کھانا لے کے آئیں ،اس نے آوازیں دیں.آواز نہیں پہنچی تو زور سے آواز دی کہ کھانا لے کے جاؤ نہیں تو میں تمہاری شکایت کروں گی.اُس وقت نماز ہو رہی تھی.”التحیات پر بیٹھے ہوئے تھے.تشہد میں سارے بیٹھے ہوئے تھے.اس نے جب اونچی آواز دی تو پیر صاحب کو پہنچ گئی ، تو انہوں نے وہیں مسجد سے بیٹھے بیٹھے آواز دی کہ ٹھہر جا التحیات پڑھ کو اں تے آنداں واں.تو یہ اُن کی دماغی حالت کی حالت تھی.لیکن حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اُس وقت قادیان میں پوسٹ آفس نہیں ہوتا تھا، نہ ریل تھی ، تارگھر وغیرہ کچھ نہیں تھا اور سٹیشن بھی نہیں تھا.جو لوگ بٹالہ میں سٹیشن پر اتر تے تھے تو مولوی محمد حسین بٹالوی صاح
خطبات مسرور جلد 11 130 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء وہاں جا کے لوگوں کو ورغلایا کرتے تھے کہ قادیان نہ جاؤ.تمہارا ایمان خراب ہو جائے گا.ایک دن اُن کو سارا دن سٹیشن پر پھرنے سے اور کوئی شکار نہیں ملا.پیرا کوکسی کام سے کوئی بلٹی چھڑانے کے لئے ، تار دینے کے لئے وہاں بھیجا گیا تھا تو انہوں نے اُس کو پکڑ لیا.وہ کہنے لگے کہ پیرے! تیرا تو ایمان خراب ہو گیا.مرزا صاحب کافر اور دجال ہیں نعوذ باللہ.تو اپنی عاقبت اُن کے پیچھے لگ کر کیوں خراب کرتا ہے.پیرا ان کی باتیں سنتا رہا.جب ساری باتیں کر لیں تو پھر پیرے سے پوچھا کہ بتاؤ میری باتیں کیسی ہیں؟ پیرا کہنے لگا مولوی صاحب! میں تو ان پڑھ اور جاہل ہوں.مجھے نہ علم ہے اور نہ مسئلے سمجھ سکتا ہوں.لیکن ایک بات ہے جو میں آپ کی سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ میں سالہا سال سے بلٹیاں لینے اور تاریں دینے کے لئے یہاں آتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ سٹیشن پر آ کر لوگوں کو قادیان جانے سے منع کرتے ہیں.آپ کی اب تک شاید اس کوشش میں کتنی ہی جوتیاں گھس گئی ہوں گی مگر مولوی صاحب ! پھر بھی آپ کی کوئی نہیں سنتا اور مرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں اور پھر بھی لوگ اُن کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں.آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہ فرق ہے.تو دیکھو یہ کیسا لطیف اور صحیح جواب ہے“.اُس کو کوئی دلیل نہیں آتی تھی لیکن یہ قدرتی جواب تھا جو اللہ تعالیٰ نے پیرے کو سکھا یا جس کی نماز کی حالت میں نے آپ کو بتائی.تو فرمایا ” تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو بعض دفعہ ایسی باتیں سمجھا دیتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ ہو جاتی ہے کیونکہ اُس کے پاس یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس سارے سامان ہیں اور جس چیز کی کمی ہو وہ اُس کے پاس موجود ہوتی ہے.عقل کی کمی ہو تو وہ اُس کے پاس موجود ہے.جرات کی کمی ہوتو وہ اُس کے پاس موجود ہے.سخاوت کی کمی ہو تو وہ اُس کے پاس موجود ہے.صحت کی کمی ہو تو وہ اُس کے پاس موجود ہے.عزت کی کمی ہو تو وہ اُس کے پاس موجود ہے، مال کی کمی ہو تو وہ اُس کے پاس موجود ہے.غرض ہر چیز کے خزانے اُس کے پاس موجود ہیں اور وہ اپنے بندوں کو ان خزانوں میں سے ایسے رنگ میں حصہ دیتا ہے کہ انسان حیران ہو جاتے ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ یہیں قادیان میں ایک دفعہ پادری زدیمر آیا جو دنیا کا مشہور ترین پادری ہے اور امریکہ کا رہنے والا تھا.وہاں ایک بہت بڑے تبلیغی رسالے کا ایڈیٹر بھی تھا اور یوں ساری دنیا کی عیسائی تبلیغی سوسائٹیوں میں نمایاں مقام رکھتا تھا.اُس نے قادیان کا بھی ذکر سنا ہوا تھا.جب وہ ہندوستان میں آیا تو اور مقامات کو دیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا.اُس کے ساتھ ایک اور پادری گارڈن نامی بھی تھا.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اُس وقت زندہ تھے.انہوں نے اُس وقت قادیان کے تمام مقامات 66
خطبات مسرور جلد 11 131 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء دکھائے مگر پادری صاحب اپنی نیش زنی سے باز نہیں آسکے.اُن دنوں میں ابھی قادیان میں بھی ٹاؤن کمیٹی نہیں بنی تھی اور گلیوں میں بہت گند پڑا رہتا تھا.پادری زویمر باتوں باتوں میں ہنس کر کہنے لگا کہ ہم نے قادیان بھی دیکھ لیا اور نے مسیح کے گاؤں کی صفائی بھی دیکھ لی.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اُسے ہنس کر کہنے لگے.پادری صاحب! ابھی پہلے مسیح کی حکومت ہندوستان پر ہے اور یہ اُس کی صفائی کا نمونہ ہے.نے مسیح کی حکومت قائم نہیں ہوئی.اس پر وہ شرمندہ ہوا.پھر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ ہم ملنا چاہتے ہیں.طبیعت میری ٹھیک نہیں تھی بہر حال کہتے ہیں میں نے مل لیا.پادری زو یمر کہنے لگے کہ میں ایک دوسوال کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا فرمائیے.کہنے لگے اسلام کا عقیدہ تناسخ کے متعلق کیا ہے؟ آیا وہ اس مسئلہ کو مانتا ہے یا اس کا انکار کرتا ہے.جونہی اُس نے یہ سوال کیا.معا اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال دیا کہ اس کا سوال سے منشاء یہ ہے کہ تم جو مسیح موعود کو مسیح ناصری کا بروز اور اس کا مثیل کہتے ہو تو آیا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح ناصری کی روح اُن میں آگئی ہے.اگر یہی مطلب ہے تو یہ تناسخ ہوا اور تناسخ کا عقیدہ قرآن کریم کے خلاف ہے.چنانچہ میں نے اُن سے ہنس کر کہا.پادری صاحب ! آپ کو غلطی لگی ہے.ہم یہ نہیں سمجھتے کہ مرزا صاحب میں مسیح ناصری کی روح آگئی ہے بلکہ ہم ان معنوں میں آپ کو مسیح ناصری کا مثیل کہتے ہیں کہ آپ مسیح ناصری کے اخلاق اور روحانیت کے رنگ میں رنگین ہو کر آئے ہیں.میں نے جب یہ جواب دیا تو کہنے لگا کہ آپ کو کس نے بتایا کہ میرا یہ سوال ہے؟ ( سوال تو Indirect اور طرح تھا) بہر حال کہنے لگا کہ میرا منشاء یہی معلوم کرنا تھا کہ آپ کس طرح کہتے ہیں.پھر کہا کہ میں نے اُس سے کہا کہ تمہارا دوسرا سوال کیا ہے؟ کہنے لگے کہ دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی کی بعثت کیسے مقام پر ہونی چاہئے.یعنی اُس کو اپنا کام سرانجام دینے کے لئے کس قسم کا مقام چاہئے.جونہی اُس نے یہ دوسرا سوال کیا.معاً دوبارہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس سوال سے اُس کا یہ منشاء ہے کہ قادیان ایک چھوٹا سا گاؤں ہے.یہ دنیا کا مرکز کیسے بن سکتا ہے؟ اور اس چھوٹے سے مقام سے ساری دنیا میں تبلیغ کس طرح کی جاسکتی ہے؟ اگر حضرت مرزا صاحب کی بعثت کا مقصد ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ پہنچانا ہے تو آپ کو ایسی جگہ بھیجنا چاہئے تھا جہاں سے ساری دنیا میں آواز پہنچ سکتی ، نہ یہ کہ قادیان جو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، اُس میں آپ کو بھیج دیا.غرض اللہ تعالیٰ نے اس سوال کے معا بعد یہ بات میرے دل میں ڈال دی اور میں نے پھر اس کو مسکرا کر کہا کہ پادری صاحب! ناصرہ یا ناصرۃ سے بڑا کوئی شہر ہو، وہاں نبی آ سکتا ہے، حضرت مسیح ناصری
خطبات مسرور جلد 11 132 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء جس گاؤں میں ظاہر ہوئے تھے اُس کا نام ناصرہ تھا اور ناصرہ کی آبادی بمشکل دس بارہ گھروں پر مشتمل تھی.میرے اس جواب پر پھر اُن کا رنگ فق ہو گیا اور حیران ہوئے کہ میں نے اس کو اسی بات کا جواب دے دیا ہے.اسی طرح کوئی تیسرا سوال بھی کیا تھا جو یاد نہیں.فرماتے ہیں کہ بہر حال اس نے تین سوال کئے اور تینوں سوالات کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے القاء کر کے مجھے بتا دیا کہ اُس کا ان سوالات سے اصل منشاء کیا ہے؟ اور باوجود اس کے کہ وہ چکر دے کر پہلے اور سوال کرتا تھا، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اُس کا اصل منشاء مجھ پر ظاہر کر دیا اور وہ بالکل لا جواب ہو گیا.تو اللہ تعالیٰ قلوب پر عجیب رنگ میں تصرف کرتا اور اس تصرف کے ماتحت اپنے بندوں کی مدد کیا کرتا ہے اور یہ تصرف صرف خدا کے اختیار میں ہوتا ہے بندوں کے اختیار میں نہیں ہوتا.فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک کج بحث ملاں مسجد میں مجھے ملا اور کہنے لگا.مجھے مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت دیجئے.میں نے کہا قرآن موجود ہے.سارا قرآن حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت ہے.کہنے لگا کونسی آیت ؟ میں نے کہا قرآن کریم کی ہر آیت مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت ہے.اب یہ تو صحیح ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت ہی کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر چسپاں ہوسکتی ہے مگر بعض آیتیں ایسی ہیں کہ اُن کو سمجھنا اور یہ بتانا کہ کس رنگ میں اُس سے نبی کی صداقت کا ثبوت نکلتا ہے، بہت مشکل ہے.فرض کرو کسی آیت میں لڑائی کا واقعہ بیان ہو تو اب گو اس سے بھی نبی کی صداقت ثابت کی جاسکتی ہے مگر وہ ایسا رنگ ہے جو عام طبائع کی سمجھ سے بالا ہوتا ہے.مگر کہتے ہیں کہ مجھے اُس وقت یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ تصرف فرما کر اُس کی زبان سے وہی آیت نکلوائے گا جس سے نہایت وضاحت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جائے گی.تو بہر حال کہتے ہیں اُس نے یہ آیت پڑھی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (البقرة:9).میں نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی تصرف ہے کہ اُس نے اُس کی زبان سے یہ آیت نکلوائی ہے.چنانچہ میں نے اُس سے کہا.یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے؟ مسلمانوں کے متعلق ہے یا غیر مسلموں کے متعلق ہے؟ اُس کا اصل سوال یہ تھا کہ جب مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں ، ( پہلے سوال یہ کر چکا تھا کہ جب مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں،) روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں اور خدا اور اُس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں تو اُن کے لئے کسی نبی کی کیا ضرورت ہے؟ جب اُس نے یہ آیت پڑھی تو میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے.اُس نے کہا مسلمانوں کے متعلق.میں نے کہا تو پھر یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں بھی
خطبات مسرور جلد 11 133 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء بعض لوگ خراب ہو جاتے ہیں.وہ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں مگر درحقیقت وہ مومن نہیں ہوتے اور قرآن یہ بتاتا ہے کہ خالی اپنے آپ کو مومن کہہ لینا کافی نہیں جب تک انسان اپنے عمل سے بھی ایمان کا ثبوت نہ دے.اب آپ ہی بتائیں کہ جب مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں تو کیا خدا اُن کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجے گا یا نہیں.فرمایا کہ دلوں کی تسلی تو بہر حال اللہ کا کام ہے لیکن بہر حال اس بات پر وہ چپ ہو گیا.پھر آخر میں آپ فرماتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی سب کچھ آتا ہے، انسانی طاقت کچھ نہیں کرسکتی.اس لئے یا درکھو دعا ئیں جب تک مضطر ہو کر نہ کی جائیں ، یعنی اس یقین کے ساتھ کہ دنیا کی ہر ضرورت کو پورا کرنے والی ہستی صرف اور صرف خدا کی ذات ہے، اُس وقت تک قبول نہیں ہوتیں.بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں مگر بہر حال وہ انسان کو کپڑا ہی دے سکتے ہیں.بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں مگر بہر حال وہ دوسرے کو مکان ہی دے سکتے ہیں.بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خدا کے دیئے ہوئے علم میں سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں مگر بہر حال وہ بیماروں کا علاج ہی کر سکتے ہیں.بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گوخدا کے دیئے ہوئے علم سے دوسروں کی حفاظت کے لئے مقدمہ مفت لڑ سکتے ہیں مگر بہر حال وہ مقدمہ بغیر فیس کے لینے کے ہی لڑ سکتے ہیں.مگر کوئی انسان دنیا کا ایسا نظر نہیں آسکتا جس کے ہاتھ میں یہ ساری چیزیں ہوں.کوئی انسان ایسا نہیں جس کے ہاتھ میں دلوں کی تبدیلی ہو، کوئی انسان ایسا نہیں جس کے ہاتھ میں جذبات کی تبدیلی ہو.یہ صرف خدا کی ذات ہے جس کے قبضہ اور تصرف میں تمام چیزیں ہیں اور جو دلوں اور اُس کے نہاں در نہاں جذبات کو بھی بدلنے کی طاقت رکھتا ہے.پس جب تک مضطر ہوکر دعانہ کی جائے اور جب تک چاروں طرف سے مایوس ہو کر اور خدا پر کامل ایمان رکھ کر دعا نہ کی جائے ، اُس وقت تک دعا قبول نہیں ہوتی لیکن جب اس رنگ میں دعا کی جائے تو وہ خدا کے عرش پر ضرور پہنچتی ہے اور قبول ہو کر رہتی ہے.تو آپ کا جو انداز خطاب تھا یہ اُس کی بعض جھلکیاں تھیں جو میں نے پیش کیں.پس آج اس کے حوالے سے میں بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آج بھی اگر ہم نے حالات کو بدلنا ہے تو تمام طاقتوں کے مالک خدا کے آگے جھکنا ہو گا اور اس طرح جھکنا ہو گا جس طرح ہم نے اس میں یہ سنا کہ تمام طاقتوں کا سر چشمہ وہی ہے، تمام قسم کی مدد اُسی سے مل سکتی ہے.دلوں کو پھیر نے والا وہی ہے.دلوں کو قابو کر نے والا وہی ہے.لوگوں کی طاقتوں کو قابو کرنے والا وہی ہے.اللہ کرے کہ ہم ایسی دعائیں کرنے والے ہوں.
خطبات مسرور جلد 11 134 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 فروری 2013ء یہاں ہمارے ایک بڑے مخلص کارکن مکرم عظیم صاحب جو شعبہ ضیافت یو.کے میں کام کرتے تھے اور پہلے جرمنی میں بھی بڑا لمبا عرصہ کام کرتے رہے، دو تین دن پہلے اُن کی وفات ہوگئی.إِنَّا لِلَّهِ وَاِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.آج جنازہ اُن کا ہونا تھا لیکن کیونکہ ابھی سرٹیفکیٹ وغیرہ حاصل کرنے میں دقت تھی ،اس لئے جنازہ نہیں ہو سکا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ایک دو دن تک جب ان کی نعش ہسپتال سے ساری قانونی کارروائیاں کرنے کے بعد مل جائے گی تو جنازہ بھی انشاء اللہ مسجد فضل میں ہو جائے گا.بہر حال یہ بہت فدائی کارکن تھے.مخلص تھے.وفادار تھے.ہر ایک کا در درکھنے والے تھے.خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کے سارے بچے ابھی زیر تعلیم ہیں.تین بچے ہیں، دو بیٹیاں ایک بیٹا اور بڑے اخلاص والے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنے حفظ وامان میں رکھے.ان کی اہلیہ کو بھی صبر اور حوصلہ دے اور بچوں پر بھی ایسا ہاتھ رکھے کہ اُن کو اُن کے باپ کی جو کمی ہے وہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہی پورا فرما تار ہے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 15 مارچ 2013ء تا 21 مارچ 2013 ، جلد 20 شماره 11 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد 11 135 9 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء خطبہ جعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء بمطابق یکم امان 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا آمَرَ اللهُ بِه أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الحساب (الرعد: 22) اور وہ لوگ جو اسے جوڑتے ہیں جسے جوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب سے خوف کھاتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تعلقات کے جوڑنے کا فرمایا ہے جن کے جوڑنے کا صرف یہ حکم نہیں کہ جوڑنا ہے بلکہ قائم رکھنے کا حکم فرمایا ہے.تعلقات جوڑے اور پھر قائم رکھے.یعنی ایک مومن، ایک حقیقی مومن جسے اللہ تعالیٰ نے مومنانہ فراست بخشی ہے، اس بات کا تصور ہی نہیں کر سکتا ہے کہ وہ ایسے کام کرے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہوں.پس جب وہ ایک حقیقی مومن ہے، اللہ تعالیٰ سے ایک دفعہ تعلق جوڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اُن تعلقوں کو جوڑتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں تو پھر اُن پر دوام اختیار کرتا ہے.فرمایا کہ ایک صاحب عقل اور حقیقی مومن کی نشانی یہ ہے کہ يَصِلُونَ مَا آمَرَ اللهُ به آن يُوصَل.یعنی وہ اُن تعلقات کو قائم کرتے ہیں جن کے قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حصہ آیت کی وضاحت کرتے ہوئے خلاصہ اس طرح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور محبت میں کمال حاصل کر کے اُس کے حکم اور اُس کی ہدایت کے ماتحت مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مخلوق سے رشتہ اتحاد و اخوت اور احسان جوڑتے ہیں.پھر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور محبت کا کمال اس لئے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وَيَخْشَونَ
خطبات مسرور جلد 11 136 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ کہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور بُرے حساب سے خوف رکھتے ہیں.اپنے رب کی خشیت دل میں رکھتے ہیں.اور خشیت لغت میں کسی اعلیٰ صفات والی چیز کے کمال وحسن کو پہچاننے کے بعد اُس کے ہاتھ سے جاتے رہنے کے خوف کو کہتے ہیں.کہیں میرے ہاتھ سے نکل نہ جائے.یعنی خشیت اُس وقت بولا جاتا ہے جبکہ اُس چیز کی معرفت حاصل ہو جس سے خوف کیا گیا ہے.نیز خوف نقصان یا ضرر کا نہ ہو بلکہ اس وجہ سے ہو کہ انسان یقین کرے کہ وہ چیز نہایت اعلیٰ اور عظمت والی ہے.ایسا نہ ہو کہ اپنی غفلت کی وجہ سے اُس کا قرب کھو بیٹھوں اور ایک مومن کے نزدیک زمین و آسمان میں سب سے اعلیٰ اور عظمت والی چیز خدا تعالیٰ کی ذات ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 409) پس اس کے علاوہ نہ کوئی چیز ہے اور نہ کوئی ہو سکتی ہے.جیسا کہ پہلے بیان ہوا تھا کہ مومن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے اُس کی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، یہی ایک مومن کی نشانی ہے.پس یہ خشیت اور برے حساب کا خوف ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخلوق کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے دامن گیر ہوتی ہے اور ہونی چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا یہی مومن کی نشانی ہے.وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ اُس سے ناراض ہو، اُس کو دھتکار دے.عموماً یہی کہا جاتا ہے بلکہ ایک حقیقی مومن نہ بھی ہو، تھوڑا سا بھی ایمان ہو تو وہ یہی چاہتا ہے لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ہیں جو قرآنِ کریم پڑھتے ہیں، اُس کا ترجمہ بھی پڑھتے ہیں، خدا تعالیٰ کے خوف کا اظہار بھی کرتے ہیں.وہ کبھی یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھتکارے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُن کو حقیقی رنگ میں جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے.یہ تضاد ہے جو دنیا میں اکثر مسلمانوں کی اکثریت میں نظر آتا ہے.ایک خواہش اور دعوئی کے باوجود نظر آتا ہے.اور احمدیوں کے بارے میں بھی ہم سو فیصد نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس تعریف کے اندر آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مومن کی بتائی ہے.پس ہمیں بھی اس بارے میں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے.اس وقت میں صرف مسلمانوں کے اوصاف میں سے بھی صرف ایک وصف کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح ارشاد ہے کہ مسلمان کی کیا خصوصیت ہے اور اس میں یہ ہونا چاہئے.مومن کی خصوصیت میں سے یہ ایک بہت بڑی خصوصیت ہے جو بیان فرمائی گئی ہے.اس کے بارے میں پہلے میں عمومی طور پر مسلمان ممالک کے حوالے سے کچھ کہوں گا جہاں علماء اور حکمرانوں نے اسلام اور ایمان کے نام پر اس فرض یا خصوصیت کی پامالی شروع کی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 11 137 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء فرماتا ہے کہ حقیقی مومنین کی یہ نشانی ہے کہ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ (الفتح: 30 ) آپس میں بے انتہا حم ، ملاطفت اور نرمی کرنے والے ہیں.اس حکم کی یا مومنین کی نشانی کی ، جیسا کہ میں نے کہا، مذہب اور اسلام کے نام پر جس طرح پامالی ہو رہی ہے وہ کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ تقریباً تمام مسلم دنیا میں یہی چیز ہمیں نظر آتی ہے.کہیں کم ہے کہیں زیادہ ہے.اس لئے کہ ہر ایک کے ذاتی مفادات اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش پر حاوی ہو گئے ہیں.پاکستان کی حالت دیکھ لیں.درجنوں روزانہ قتل ہورہے ہیں.ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر رہا ہے.اگر گزشتہ چند سالوں کی قتل و غارت کی تعداد جو آپس کی لڑائیوں اور حملوں کی وجہ سے ہوئی ہے ان کو جمع کیا جائے تو ہزاروں میں ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے.اس وقت میرے پاس اس کے حقیقی اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن اخباروں سے پڑھنے سے پتہ لگتا ہے کہ روزانہ درجنوں میں قتل ہورہے ہیں.اور اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہر سال خود کش بموں سے سینکڑوں بلکہ شاید سینکڑوں سے بھی تعداد آگے نکلے.ہزاروں میں پہنچ گئی ہے.لوگ مارے جارہے ہیں اور یہ سب کچھ خدا کے نام پر اور دین کے نام پر ہورہا ہے.کیونکہ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ (الفتح : 30) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک خصوصیت بھی بتائی ہے کہ آشد آ عَلَى الْكُفَّارِ (افتح 30 ) کہ کفار کے خلاف جوش رکھتے ہیں ، اُن کے لئے سختی ہے.اس لئے علماء سمجھتے ہیں کہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی کا فر بنا کر اُس کے خلاف جو چاہے کر لو.ہمیں لائسنس مل گیا.جب ایسی سوچ ہو جائے ، ایسے معیار ہو جائیں تو کفر کے فتوے لگانے والے خود اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں کے مطابق کفر کے فتوے کے نیچے آجاتے ہیں.بہر حال پاکستان میں اس لحاظ سے ابھی بظاہر امن کی حالت ہے کہ حکومت اور عوام کی لڑائی نہیں ہے لیکن جن ملکوں میں جنگ کی حالت ہے وہاں جہاں دشمن فوجوں نے بھی ظلم و بربریت کی ہے، وہاں خود مسلمان بھی مسلمان کو مار رہے ہیں.مثلاً افغانستان کا جائزہ لیں تو وہاں مسلمانوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور خود کش حملے یا عام حملے شروع کئے ہوئے ہیں.افغانستان میں کہا جاتا ہے گزشتہ دس سال میں اس وجہ سے تقریباً پچاس ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں.ان میں غیر ملکی فوجی کم ہیں جو مرے بلکہ فوجی چاہے وہ افغانی بھی ہوں کم ہیں.شہریوں کی موتوں کی تعدا دزیادہ ہے جو معصوم گھروں میں بیٹھے یا بازاروں میں پھرتے اپنے ہی لوگوں کی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں.شام میں، سیر یا (Syria) میں تو خالصہ مسلمان ہی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور کہا جاتا ہے ( یہ بڑا محتاط اندازہ
خطبات مسرور جلد 11 138 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء ہے کہ ستر ہزار لوگ اب تک مارے جاچکے ہیں.اکثریت معصوم شہریوں کی ہے.مصر میں انقلاب لانے کے بہانے ہزاروں قتل کئے گئے ، لیبیا میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور ابھی تک مارے جارہے ہیں.عراق میں 2003 ء سے اب تک کہا جاتا ہے کہ چھ لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے ہیں.جنگ بندی کے بعد بھی ابھی تک خود کش حملوں کے ذریعہ سے عراق میں مارے جارہے ہیں.یا ویسے بھی آپس میں لڑائی سے مارے جارہے ہیں.اب اخباروں میں یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ مسلمان ممالک، باہر کی دوسری حکومتیں بھی طاغوتی اور شیطانی طاقتوں یا قوتوں کا آلہ کار بن کر آپس میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں.مثلاً دودن پہلے شام کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی کہ سعودی عرب یورپ کے ایک ملک سے اسلحہ لے کر شام میں جو مخالفین کا حکومت مخالف گروپ ہے، اُس کو سپلائی کر رہا ہے اور ان لوگوں میں شدت پسند لوگ بھی شامل ہیں.اگر ان کو حکومت مل گئی تو عوام مزید ظلم کی چکی میں پسیں گے.مصر میں بھی آجکل لوگ یہ نظارے دیکھ رہے ہیں.نہ صرف ملک کے عوام بلکہ علاقے کا امن بھی برباد ہو گا.اور یہی نہیں بلکہ پھر یہ آیشدا عَلَى الكُفَّارِ (الفتح: 30) کے نام پر دنیا کا امن بھی برباد کرنے کی کوشش کریں گے.اگر مسلمان ممالک کسی ملک میں ظلم ہوتا دیکھ رہے ہیں تو صحیح اسلامی طریق تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم بات چیت کے ذریعہ سے غیروں کو بیچ میں ڈالے بغیر امن اور عوام کے حقوق کی کوشش کرتی اور یہ کر سکتی تھی.اگر شام میں پہلے علوی سنتیوں پر ظلم کر رہے تھے تو اب اُس کا الٹ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے مسلمان ملکوں کے آپس میں دو بلاک بھی بن رہے ہیں جو خطے کے لئے خطرہ بن رہے ہیں.اب اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو اس کی ابتدا مشرقی ممالک سے ہی ہوگی جو گزشتہ جنگوں کی طرح یورپ سے نہیں ہوگی.پس مسلمان ملکوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے.کاش کہ یہ لوگ اور حکومتیں بھی اور علماء بھی اور سیاستدان بھی قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرنے والے ہوتے.جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات: 11) کہ مومن تو بھائی بھائی ہوتے ہیں.پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.یہ لوگ تقویٰ اختیار کرتے تاکہ آپس کے رحم کے جذبات کی وجہ سے رُحماءُ بینہم کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے رحم سے بھی یہ حصہ لیتے.اللہ تعالیٰ نے جہاں مسلمانوں کو رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کا حکم فرمایا ہے تو اس آیت کے آخر پر یہ بھی فرمایا ہے کہ اجر عظیم کا وعدہ اُن لوگوں سے ہے، اُن مومنوں سے ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں قتل و غارت کی یہ کیفیت جو میں نے بیان کی یہ اُن ملکوں کی ہے جہاں بغاوت یا نام نہاد جنگ
خطبات مسرور جلد 11 139 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء کی کیفیت ہے.نام نہاد میں نے اس لئے کہا کہ بعض بڑی طاقتیں ، بڑے ممالک کی فوجوں نے بھی زبردستی اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے وہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور جنگ کا ماحول بنایا ہوا ہے کہ ہم علاقے کے امن کے لئے آئے ہیں.حالانکہ اگر مسلمان پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رُحماء بينهم پر عمل کرتے ، اصلاح کی کوشش کرتے اور اگر کسی وجہ سے فتنہ یا جنگ کی کیفیت ہو ہی جاتی ت فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ پر عمل کرتے کہ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو.تو غیروں کو آنے کی نہ ضرورت ہوتی ، نہ جرات ہوتی.بہر حال میں یہ کہ رہا تھا کہ ان جنگ اور فساد میں ملوث ملکوں کی حالت تو ظاہر ہی ہے لیکن جن ملکوں میں بظاہر امن نظر آتا ہے، وہاں بھی مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہا ہے.بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں.حکومت اگر کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کر رہی ہے.قانونی طور پر کسی لیڈر کو سزا دی جاتی ہے تو اُس کے ہمدرد یا اُس سے تعلق رکھنے والے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ماردھاڑ اور ظلم و تعدی شروع ہو جاتی ہے.جو معصوم ہیں ان کا بھی قتل ہونا شروع ہو جاتا ہے.تو یہ کونسا اسلام ہے؟ کونسی قرآنی تعلیم ہے جس پر یہ مسلمان عمل کر رہے ہیں.جائزے لیں تو یہی نظر آئے گا کہ اس وقت ظلم و بربریت مسلمان ملکوں میں سب سے زیادہ ہے.یا اسلام کے نام پر مسلمان اس میں ملوث ہیں.یہ مسلمانوں کی یا نام نہاد مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو حقیقی مسلمان کی نشانی یہ بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے اُس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مضبوط ہوتا ہے اور پھر خاص طور ب مسلمان کے دوسرے مسلمان سے تعلق میں تو ایک خاص بھائی چارے کا بھی تعلق قائم ہو جاتا ہے.یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ جتنی توجہ نیک اعمال کرنے کی طرف اسلام نے دلائی ہے.امن، پیار اور محبت کے راستوں کی طرف چلنے کی توجہ اسلام نے دلائی ہے اتنے ہی مسلمان زیادہ بگڑ رہے ہیں.اتنے ہی زیادہ ان لوگوں میں ظالم پیدا ہو رہے ہیں.عیسائی ملکوں میں دیکھیں تو مسلمانوں کو ہی فتنے کا موجب ٹھہرایا جاتا ہے.اُن ملکوں کی جیلوں میں بھی کہا یہ جاتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے اگر نسبت دیکھیں تو مسلمان قیدی زیادہ ہیں.تو یہ مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت ہی تھی جس کو سنوارنے کے لئے مسیح موعود نے آنا تھا اور آیا لیکن یہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت ہے اور نہ کسی مسیح کی ضرورت ہے.ہمارے لئے جو ہماری تعلیم ہے، یہی کافی ہے.اگر تعلیم کافی ہے تو علماء نے اپنے ذاتی اناؤں اور مقاصد کے لئے یہ جو مختلف قسم کے گروہ بنائے ہوئے ہیں یہ کس لئے ہیں؟ ان کو صحیح اسلامی تعلیم پر کیوں نہیں چلاتے.کیوں اتنی زیادہ
خطبات مسرور جلد 11 140 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء گروہ بندیاں ہیں اور ایک دوسرے کو پھاڑ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں.کیوں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا ادراک نہ خود حاصل کرتے ہیں نہ اپنے پیچھے چلنے والوں کو کرواتے ہیں کہ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَاب- پس ان کو نہ اپنے رب کا خوف ہے ، نہ آخری دن کے حساب کتاب کا.اور معصوم اور دین سے بے بہرہ عوام کو یہ لیڈر بھی اور یہ فتوے دینے والے بھی اپنی من گھڑت تعلیم اور تفسیر سے دھوکہ دیتے چلے جا رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم پیغام کو جو رہتی دنیا تک جاری رہنے والا ہے کیونکہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ اس پیغام کو آگے پہنچاتے رہنا.یہ پیغام امت کو دیا تھا کہ بھول نہ جانا ، اس کو یہ علماء کہلانے والے لوگ بھول جاتے ہیں بلکہ نہیں، بھولتے نہیں.یہ کہنا چاہئے کہ اپنے مفادات کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پس پشت ڈال کر ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو کوئی اہمیت نہ دے کر یقیناً یہ توہین رسالت کے مرتکب ہورہے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر بڑا واضح فرمایا تھا کہ آج کے دن تمہارے خون ، مال ، تمہاری آبروئیں تم پر حرام اور قابلِ احترام ہیں.بالکل اسی طرح جس طرح تمہارا یہ دن ، تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینہ میں واجب الاحترام ہے.اے لوگو! عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے، وہ تم سے پوچھے گا کہ تم نے کیسے عمل کئے.دیکھو میرے بعد دوبارہ کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگ جاؤ.اور آگاہ رہو تم میں سے جو یہاں موجود ہے اُن لوگوں کو پیغام پہنچا دے جو کہ موجود نہیں.کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جس کو پیغام پہنچایا جائے وہ سننے والے سے زیادہ سمجھ دار ہو.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار دہرائے.حضرت ابوبکر سے یہ روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا ہے.اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ تعالیٰ ! گواہ رہنا.(صحیح بخاری کتاب المغازى باب حجة الوداع حدیث نمبر 4406) (سنن ابن ماجه کتاب المناسك باب الخطبة يوم النحر حديث نمبر 3055) اب یہ پیغام ہے جو ان کومل رہا ہے اور یہ عمل ہیں جو ہمیں نظر آ رہے ہیں.پس اس واضح ارشاد کے بعد نام نہاد علماء کے پاس کیا رہ جاتا ہے کہ ظلم و تعدی کے بازار گرم کریں اور آپس میں دین کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں.کیا اس ارشاد پر عمل نہ کر کے بلکہ پامال کر کے خود
خطبات مسرور جلد 11 141 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء یہ لوگ توہین رسالت کے مرتکب نہیں ہورہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں.(بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده) کیا آجکل کے علماء اپنے آپ کو مسلمان ہونے کی اس تعریف کا حقدار ٹھہرا سکتے ہیں؟ احمدیوں کو تو انہوں نے قانونی اغراض کے لئے اسلام سے باہر نکال دیا جس میں تمام فرقے اکٹھے ہو گئے.ہمیں تو بہر حال اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.خدا تعالیٰ ہمیں مسلمان کہتا ہے.ہم کلمہ پڑھتے ہیں اور دل سے خدام ختم المرسلین ہیں.لیکن جو احمدیوں کے علاوہ دوسرے فرقے ہیں اُن پر بھی اب دیکھیں کس قدر ظلم ہو رہے ہیں.کیوں کوئٹہ پاکستان میں دو مختلف موقعوں پر جو درجنوں معصوموں، بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیا گیا؟ آخر کس جرم میں؟ اس لئے کہ وہ ایسے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اُنہیں پسند نہیں.اُن کی تعداد اتنی اکثریت میں نہیں.پس جو قانون انہوں نے احمدیوں کے خلاف اپنے ظلم کے ہاتھ لمبے کرنے کے لئے بنایا تھا اور اس میں سارے شامل ہو گئے تھے اب وہی اُن میں سے شیعوں کے اوپر بھی الٹ رہا ہے.اب وہ اس کے ٹارگٹ بن رہے ہیں.اور پھر یہ ظلم آپس میں ہر فرقے میں دوبارہ ایک دوسرے پر بھی ہوگا.ہر فرقہ دوسرے فرقے پر کرے گا.دوبارہ اس لئے میں نے کہا ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس میں یہ صرف احمدیوں کے مقابلے میں اکٹھے ہو گئے تھے.لیکن جب ایک منہ کو نشے کا ایک مزہ لگ جاتا ہے تو پھر اُس کی کوئی انتہا نہیں رہتی.یہ اب ان کے منہ کے مزے ہی لگے ہوئے ہیں.منہ کو خون جو لگا ہوا ہے تو اب یہ ایک دوسرے کا خون بھی کریں گے اور یہی کچھ یہاں ہو بھی رہا ہے.احمدی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح مقام کو سمجھتے ہیں، ہم تو اس حدیث کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھتے بلکہ ہمارے نزدیک تو اس کی وسعت دنیا کے ہر امن پسند انسان تک ہے.عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ مسلمان مسلمان سے محفوظ ہے لیکن حضرت مصلح موعود نے اس کی وسعت کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ صرف مسلمان تک محدود نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر سلامتی پسند اور امن پسند شخص محفوظ رہتا ہے.پس یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حقیقی ادراک جو تقویٰ سے ملتا ہے.اُن علماء کے پاس تو یہ تقویٰ ہے نہیں.وہ تو اپنی اناؤں اور مفادات کے مارے ہوئے ہیں.نتیجہ اس فہم و ادراک سے بھی محروم ہیں.پس جب تک ان کے ذاتی مفادات ختم نہیں ہوتے ، جب تک ان میں قربانی کا مادہ پیدا نہیں ہوتا اور قربانی کا مادہ پیدا ہوتا ہے رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کی روح کو
خطبات مسرور جلد 11 142 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء سامنے رکھ کر اور اس پر عمل کرتے ہوئے ، اُس وقت تک چاہے کوئی جتنا بھی بڑا جتبہ پوش ہو وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقیقی مومن نہیں ہے.اور جوحقیقی مومن نہیں ہے اُس نے دوسروں کی رہنمائی کیا کرنی ہے.گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک مولوی صاحب نے بیان دیا کہ احمدی ناسور ہیں.پتہ نہیں کہاں کے ناسور بیان کرنا چاہتا تھا ، ملک کے یا کہاں کے؟.بہر حال احمدی تو نا سور نہیں ہیں.احمدی تو اللہ تعالیٰ کی حقیقی تعلیم سے دنیا کو روشناس کروا کر شفاء للناس کا کردار ادا کر رہے ہیں.احمدی وہ ہیں جن کی باتیں سن کر غیر مسلم بھی کہتے ہیں ، اسلام کے خلاف لکھنے اور بولنے والے بھی کہتے ہیں کہ تمہارے اسلام اور دوسرے اسلام یا دوسرے علماء کے اسلام میں فرق ہے.یہ کیوں ہے؟ تب ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ ہمارا اسلام وہ ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام تھا.ہمارا اسلام وہ ہے جو قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق ہے.اس کے مقابلے میں مولویوں کا جو اسلام ہے وہ ان کا خود ساختہ اسلام ہے اور مذہب کے نام پر ذاتی مفادات کا آئینہ دار ہے.اللہ تعالیٰ مسلم امہ کی آنکھیں بھی کھولے، اُن کے سینے بھی کھولے اور انہیں حقیقی اسلام سے روشناس کروائے جو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور عاشق صادق کے ذریعہ سے دنیا میں پھیل رہا ہے.بہر حال ان باتوں کے علاوہ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ ہم اپنے بارے میں بھی سو فیصد ضمانت نہیں دے سکتے کہ ہم ہر طرح، ہر سطح پر يَصِلُونَ مَا آمَرَ اللهُ بِهِ أَن يُوصَلَ پر عمل کرنے والے ہیں یا اس کی مثال کہلانے والے ہیں.اگر ہر کوئی اپنے جائزے لے تو اس کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور یہ صورت نظر آئے گی کہ ہمیں بھی کسی خوش فہمی میں نہیں پڑنا چاہئے.بڑے پیمانے پر نہ ہی ، چھوٹے پیمانے پر ہی ، اپنے ماحول میں ہی ہمیں اپنی یہ حالت نظر نہیں آتی اور جب چھوٹے پیمانے پر اس قسم کی حرکتیں شروع ہو جا ئیں تو پھر یہی بڑے بگاڑ بن جایا کرتی ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اُس کی رحمت کے اپنے لئے تو خواہاں ہوتے ہیں لیکن دوسروں پر رحم کرنا اور معاف کرنا نہیں جانتے.اگر ہم رحم کے جذبے سے دوسروں کا خیال رکھنے والے ہوں تو جماعت کے بہت سے تربیتی مسائل اور قضائی مسائل بھی خود بخود حل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا الاتُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (النور:23 ) کہ پس چاہیئے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں.کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارے میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ :
خطبات مسرور جلد 11 143 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء ”لوگوں کے گناہ بخشو اور اُن کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کرو.کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہیں معاف کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور وہ تو غفور و رحیم ہے.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 387 ) پس اللہ تعالیٰ کی بخشش کا کون ہے جو خواہشمند نہ ہو.ہر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھتا ہے جس کو اس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ کے رحم اور فضل کی ضرورت ہے اور اگلے جہان میں بھی، وہ تو اللہ تعالیٰ سے اپنے قصوروں کے معاف کرانے کا ہر وقت حریص ہوتا ہے.اگر یہ ٹھیک بات ہے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو تو پھر تم بھی میری اس صفت کو اپناؤ اور میرے بندوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں رحم کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ ابھارو.اس ضمن میں مزید کچھ بیان کیے بغیر چند احادیث میں آپ کے سامنے رکھوں گا.کیونکہ آسان حدیثیں ہی ہیں اور اس مضمون کو مزید اجاگر کرتی ہیں.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص رزق کی فراخی چاہتا ہے یا خواہش رکھتا ہے کہ اُس کی عمر اور ذکر خیر زیادہ ہو، اُسے صلہ رحمی کا خُلق اختیار کرنا چاہئے.(صحیح مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها حديث نمبر 6523) یعنی اپنے رشتہ داروں سے اچھے تعلق رکھنے چاہئیں.اپنے قریبیوں سے اچھے تعلق رکھنے چاہئیں.اُن کے قصور معاف کرنے چاہئیں.حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو چھوٹے پر رحم نہیں کرتا، بڑوں کا شرف نہیں پہچانتا.یعنی اُس کی عزت نہیں کرتا.(سنن الترمذى كتاب البر والصلة باب ما جاء فى رحمة الصبيان حدیث نمبر (1920) اب یہ حدیثیں بچپن میں بھی لوگ پڑھتے ہیں، یہاں بھی کلاسوں میں پڑھائی جاتی ہیں.کئی جگہ یہ ذکر ہوتا ہے.ہم سنتے ہیں لیکن سننے کے بعد مسجد سے باہر نکل کے یا جلسہ گاہ سے باہر نکل کے بھول جاتے ہیں.حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں.پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص پسند ہے جو اُس کے عیال کے ساتھ
خطبات مسرور جلد 11 144 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء اچھا سلوک کرتا ہے.اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے.(الجامع لشعب الايمان للبيهقى جلد نمبر 9 صفحه نمبر 523 كتاب التاسع والأربعون من شعب الايمان وهو باب في طاعة أولى الأمر بفصولها حديث نمبر 7048 مكتبة الرشد 2004ء) ضروریات کا خیال اُسی صورت میں رکھا جا سکتا ہے جب ایک دوسرے کے لئے قربانی کی روح ہو، رحم کا جذبہ ہو، درد ہو، پیار ہو ، محبت ہو.حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا.اہلِ زمین پر رحم کرو تو آسمان پر اللہ تم پر رحم کرے گا.(سنن الترمذى كتاب البر والصلة باب ما جاء فى رحمة المسلمین حدیث نمبر (1924 پھر اسی طرح حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اُسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اُسے جنت میں داخل کرے گا.پہلی یہ کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے.دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے محبت کرے.تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے.(سنن الترمذی کتاب القيامة والرقائق باب 48/113 حدیث نمبر 2494) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے.نرمی کو پسند کرتا ہے.نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اُتنا سخت گیری کا نہیں دیتا بلکہ کسی اور نیکی کا بھی اتنا اجر نہیں دیتا.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر (6601 یعنی نرمی سے جو مسائل حل ہو جاتے ہیں اُن کو نرمی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہی روایت فرمائی ہے کہ کسی چیز میں جتنا بھی رفق اور نرمی ہو اتنا ہی یہ اُس کے لئے زینت کا موجب بن جاتا ہے.اُس میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور جس سے رفق اور نرمی چھین لی جائے وہ اتنی ہی بدنما ہو جاتی ہے.سختی جو ہے وہ عمل کو بھی ) بد نما کر دیتی ہے.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر (6602 اور لوگ پھر اُس سے دور بھاگتے ہیں.یعنی رفق اور نرمی میں حسن ہی حسن ہے.
خطبات مسرور جلد 11 145 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء پھر حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اُس شخص پر جولوگوں کے قریب رہتا ہے.(سنن الترمذى كتاب القيامة والرقائق باب نمبر 45/110 حدیث نمبر 2488) یعنی لوگوں سے نفرت نہیں کرتا.اُن سے نرم سلوک کرتا ہے.اُن کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے اور سہولت پسند ہے.یہاں اس ضمن میں عہدیداروں کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ نیک جذبات اور رحم کا جذبہ ہر عہدیدار میں، خاص طور پر جماعتی عہدیدار میں ہونا چاہئے.ویسے تو یہ ہر احمدی کا خاصہ ہونا چاہئے لیکن عہد یدار جو جماعتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اُن کو خاص طور پر کسی سائل کو یا کسی شخص کو جو دفتر میں بار بار بھی آتا ہے، رابطہ کرتا ہے، اُس سے تنگ نہیں آنا چاہئے اور کھلے دل سے ہمیشہ استقبال کرنا چاہئے.ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ جماعت کے کسی بھی کارکن کو کسی بھی صورت میں جو اعلیٰ اخلاق ہیں اُن سے دُور نہیں ٹنا چاہئے یا کہیں ایسی صورت پیدا نہیں ہونی چاہئے جہاں ہلکا سا بھی شائبہ ہو کہ اعلیٰ اخلاق کا اظہار نہیں ہوا.بلکہ کوشش ہو کہ جتنی زیادہ سہولت میسر ہو سکتی ہے، زیادہ سے زیادہ نرمی سے جتنی بات ہو سکتی ہے، وہ کرنے کی کوشش کریں.پھر حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے اور عزت دیتا ہے.(مسند الامام احمد بن حنبل جلد 3 صفحه 23 مسند ابی هریرة حدیث نمبر 7205 عالم الكتب بيروت 1998ء) اور کسی کے قصور معاف کر دینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی.اللہ کرے کہ یہ معیار ہماری جماعت کے ہر فرد میں قائم ہو جائے.پھر حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو.حسد نہ کرو.بے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو.باہمی تعلقات نہ توڑو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اُس سے قطع تعلق رکھے.(صحیح البخاری کتاب الادب باب الهجرة حديث نمبر 6076) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.
146 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء خطبات مسرور جلد 11 ایک دوسرے سے حسد نہ کرو.ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ.ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو.ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑو.یعنی بے تعلقی کا رویہ اختیار نہ کرو.ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو.مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا.اُس کی تحقیر نہیں کرتا.اُس کو شرمندہ یا رُسوا نہیں کرتا.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.تقویٰ یہاں ہے.اور یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ دہرائے.پھر فرمایا.انسان کی بد بختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے.ہر مسلمان کا خون ، مال اور عزت اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام اور اُس کے لئے واجب الاحترام ہے.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب تحريم ظلم المسلم و خذله و احتقاره و دمه و عرضه و ماله حدیث نمبر 6541) اللہ کرے کہ یہ تقویٰ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے بڑھ کر تھا، وہ ہم میں سے ہر ایک آپ کے دل، آپ کے اُسوہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حاصل کرنے کی کوشش کرے.حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا.کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے.آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں.میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب فی فضل الحب فى الله تعالی حدیث نمبر 6548) اللہ کرے کہ ہم آپس کے تعلقات میں محبت و مودت کے جذبات اور ایک دوسرے کے لئے رحم کو بڑھانے والے ہوں.وہ جماعت بن جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں جس طرح اُن کی خواہش تھی آپ ہمیں بنانا چاہتے تھے.دنیا کے امن کی بھی جماعت احمد یہ ضمانت بن جائے.مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو مان کر آپس کے پیار ومحبت اور موڈت کی اہمیت کو سمجھنے والے بن جائیں.مسلمان لیڈر جو آ جکل اپنے ہم وطنوں پر ظلم روا ر کھے ہوئے ہیں، اس کو بند کر کے انصاف اور رحم کے ساتھ اپنی رعایا سے سلوک کرنے والے ہوں.عوام بھی مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے ، اُن کا آلہ کار بننے کی بجائے عقل سے کام لیں اور خدا تعالیٰ کے صحیح حکموں کو تلاش کریں اور اُن پر چلنے کی کوشش کریں.مسلمان ممالک پر جو خوفناک اور شدت پسند گروہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، اپنے مفادات کو ہر صورت میں ترجیح دینے والوں نے جو قبضہ کیا ہوا ہے،
خطبات مسرور جلد 11 147 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء اللہ تعالیٰ جلد اس سے بھی مسلمان ملکوں کو خصوصاً اور دنیا کو عموماً نجات دلائے تا کہ ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کو زیادہ بہتر رنگ میں اور زیادہ تیزی سے دنیا میں پھیلا سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آج جمعہ کے بعد بھی میں ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا.یہ جنازہ غائب مکرمہ ناصرہ سلیمہ رضا صاحبہ کا ہے جو زائن امریکہ کی افریقن امریکن احمدی تھیں.18 فروری2013 ء کو ان کی وفات ہوئی.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.1927ء میں سینٹ لوئس، امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں.ان کے والد بیپٹسٹ (Baptist) پادری تھے مگر خود انہوں نے عیسائیت میں دلچسپی نہیں رکھی.البتہ یوگا اور بدھ ازم میں دلچسپی رکھتی تھیں لیکن بطور مذہب کے اس کو تسلیم نہیں کیا.ان کو 1949ء میں ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر مرحوم کے ذریعہ احمدیت کے قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.1951ء میں ان کی شادی محترم ناصر علی رضا صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی جو کئی سال جماعت کنو شاو ویگن کے صدر جماعت رہے.1955ء میں ان کی فیملی ملوا کی منتقل ہو گئی جہاں سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی.اس دوران اپنی فیملی کے علاوہ یہ تین دیگر فیملیز کی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کرتی رہیں.1975ء میں آپ ریجنل صدر لجنہ مقرر ہوئیں.81ء سے 85 ء تک دوبارہ ریجنل صدر مقرر ہوئیں.لجنہ اماءاللہ کی پانچ مجالس کی نگرانی کرتی رہیں اور بطور لوکل صدر بھی کام کرتی رہیں.85 ء سے 95 ء تک مختلف عہدوں پر مقامی لجنہ اماءاللہ کی خدمات سرانجام دیتی رہیں.95ء میں دوبارہ صدر لجنہ و ویگن مقرر ہوئیں.تبلیغ کا ان کو بہت شوق تھا.چنانچہ پمفلٹس اور فلائرز اور نیوز لیٹر چھاپ کر تقسیم کرتی تھیں.بسوں میں سفر کے دوران جماعتی لٹریچر رکھتی تھیں.سے تقسیم کرتی تھیں.لائبریریوں اور سکولوں میں اسلامی کتب اور قرآن کریم کے نسخے رکھوائے.ریڈیو اور ٹی وی پر متعدد انٹرویو دیئے.ان کے ذریعہ سے پچاس سے زائد افراد کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی.بہت ہنس مکھ طبیعت کی مالک تھیں.بہت ذہین اور پڑھی لکھی بھی تھیں.آپ کی ان خوبیوں کی وجہ سے بڑی کثرت سے عورتیں ان سے ملنے آیا کرتی تھیں.آپ کے دل میں اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.اچھی استاد مانی جاتی تھیں.وہاں بھی احمدی خواتین ان کو ماں کی طرح سمجھتی تھیں.بڑے پیار سے لوگوں کو سمجھاتیں اور غلطیاں درست کیا کرتی تھیں.بچیوں کو ہمیشہ پر دے کی تعلیم دیتی رہیں اور اس طرح اسلامی اخلاق سکھلاتیں.نیز بتائیں کہ مغربی معاشرے کی بدرسوم کا کیسے مقابلہ کرنا ہے.وہیں پلی بڑھی تھیں ان کو سب کچھ پتہ تھا.آجکل ذرا سا مغرب کا اثر ہو جاتا ہے
خطبات مسرور جلد 11 148 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء تو ہمارے بچے بلکہ بڑے بھی متاثر ہو جاتے ہیں.اپنی والدہ کو کئی سال مسلسل تبلیغ کرتی رہیں.یہاں تک کہ پچاسی سال کی عمر میں ان کی والدہ احمدی ہو گئیں جس پر آپ بڑی خوش ہوئیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ کو لمبی عمر دی.98 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تھی لیکن آخر تک بڑی ایکٹو (Active) رہی ہیں اور نماز جمعہ بھی ادا کر لیا کرتی تھیں.یہ خود بھی بڑی عمر کے باوجود بڑی مستعدی سے جماعتی کاموں میں حصہ لیتی تھیں.خلافت اور نظام جماعت سے ان کا بہت محبت کا تعلق تھا.گزشتہ سال ان کی میرے سے ملاقات بھی ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ان کے نو بچے اور بائیس پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں.اللہ تعالیٰ اُن سب کو نیکیوں پر قائم رکھے، ان کی دعاؤں کا وارث بنائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 22 مارچ 2013ء تا 28 مارچ 2013ء جلد 20 شماره 12 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 149 10 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء بمطابق 8 رامان 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَمِنْهُمْ مَّنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة:202) لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالًا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (البقرة: 287) پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اُس کا ترجمہ ہے اور انہی میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ: اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.اُس کے لئے ہے جو اُس نے کمایا اور اُس کا وبال بھی اسی پر ہے جو اس نے بدی کا اکتساب کیا.اے ہمارے رب! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے.اور اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ان کے گناہوں کے نتیجہ میں تو نے ڈالا.اور اے ہمارے رب! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو.اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے.اور ہم پر رحم کر.تو ہی ہمارا والی ہے.پس ہمیں کا فرقوم کے مقابل پر نصرت عطا کر.
خطبات مسرور جلد 11 150 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء یہ دو قرآنی دعائیں ہیں جن کے بارے میں میں کچھ کہوں گا لیکن اس سے پہلے دعا کی حقیقت کیا ہے؟ اُس کی فلاسفی کیا ہے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا ہے اور اس سے حلت مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچا دے خدا تعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے.اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اور قسم کی تسلی اور سکینت خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے.اور وہ ہرگز ہرگز نامراد نہیں رہتا.اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے.لیکن جو شخص دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف مونہہ نہیں کرتاوہ ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور اندھامرتا ہے.فرمایا ”ہماری اس تقریر میں اُن نادانوں کا جواب کافی طور پر ہے جو اپنی نظر خطا کار کی وجہ سے ( یعنی غلط سوچ رکھنے اور ظاہری طور پر دیکھنے کی وجہ سے ) یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ بہتیرے ایسے آدمی نظر آتے ہیں کہ با وجود اس کے کہ وہ اپنے حال اور قال سے دعا میں فنا ہوتے ہیں یعنی اُن کی اپنی حالت بھی یہ ہوتی ہے، اور کہتے بھی یہی ہیں کہ دعا کر رہے ہیں اور دعا کی کیفیت بھی ہوتی ہے، اُس میں فنا ہوتے ہیں) پھر بھی اپنے مقاصد میں نامرادر ہتے اور نامراد مرتے ہیں.“ (یعنی اُن کے مقاصد، جو وہ چاہتے ہیں، اُن کو نہیں ملتے ”اور بمقابل ان کے ایک اور شخص ہوتا ہے کہ نہ دعا کا قائل نہ خدا کا قائل وہ ان پر فتح پاتا ہے.“ ( یعنی اُس کو سب کچھ مل جاتا ہے ) اور بڑی بڑی کامیابیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں.سوجیسا کہ ابھی میں نے اشارہ کیا ہے.اصل مطلب دعا سے اطمینان اور تسلی اور حقیقی خوشحالی کا پانا ہے.( ظاہر بین تو یہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص جس مقصد کے لئے دعا کر رہا تھا اُس کو حاصل نہیں ہوئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک تو پہلی شرط یہ رکھی ہے، دعا کو کمال تک پہنچانا.اور جو حقیقت میں دعا کرتا ہے وہ صرف ظاہری چیز کو نہیں دیکھتا.جو مومن ہے، جس میں مومنانہ فراست ہے جو خدا تعالیٰ کے تعلق کو جانتا ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھتا کہ میں جو مانگ رہا ہوں مجھے مل گیا بلکہ فرمایا کہ اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے.) فرمایا: ” اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ ہماری حقیقی خوشحالی صرف اُسی امر میں میسر آ سکتی ہے جس کو ہم بذریعہ دعا چاہتے ہیں.بلکہ وہ خدا جو جانتا ہے کہ ہماری حقیقی خوشحالی کس امر میں ہے؟ وہ کامل دعا کے بعد ہمیں عنایت کر دیتا ہے.(اگر دعا کامل ہو، صحیح ہو، حقیقی رنگ میں ہو، اللہ تعالیٰ کے کہنے کے مطابق ہوتو اللہ تعالیٰ جو سمجھتا ہے کہ حقیقی خوشحالی کس چیز میں ہے، وہ عطا فرما دیتا ہے ) فرمایا کہ ”جو شخص روح کی سچائی سے دعا
خطبات مسرور جلد 11 151 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے.ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت میں دعا کے بعد وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تخت شاہی پر حاصل نہیں ہوسکتی.سواسی کا نام حقیقی مراد یابی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے.“ (ایام اصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 237) دعا کرنے والے کو جو لذت ملتی ہے وہ مشکل کے وقت میں ہی مل سکتی ہے.فرمایا کہ جو ایک با دشاہ کو نہیں مل سکتی.پس یہ دعا کی حقیقت ہے اور جیسا کہ میں نے کہا یہ اس کی مختصر فلاسفی ہے.یہ دعا کی روح ہے اور ایک حقیقی مومن کی یہ سوچ ہے اور ہونی چاہئے اور ہمیں اسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے.پس جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ دعا کی قبولیت کے لئے دعا کو کمال تک پہنچانا ضروری ہے.اور اس مقام تک پہنچ کر یا تو دعا قبول ہو جاتی ہے جو انسان اللہ تعالیٰ سے مانگ رہا ہے، اُس کی قبولیت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں یا پھر دل کی ایسی تسلی اور سکینت ہوتی ہے کہ انسان کا جوغم ہے جس وجہ سے دعا مانگ رہا ہے، وہ ختم ہو جاتا ہے، وہ دور ہو جاتا ہے.ایک خاص قسم کا سکون ملتا ہے کہ اب جو بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک میرے لئے بہتر ہوگا وہ ظاہر ہوگا.یہ سوچ ہے جو ایک حقیقی مومن کی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ توفیق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے.اس لئے اس کے حصول کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے.اس وقت میں دو قرآنی دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جیسا کہ میں نے کہا یہ دعائیں ان آیات میں ہیں.ہم پڑھتے بھی ہیں.بہت سے جانتے بھی ہیں.ان میں سے ایک دعا ہے کہ ربنا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة: 202) کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اس دنیا میں بھی حسنہ عطا فرما اور آخرت میں بھی.یہ دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاص طور پر پڑھا کرتے تھے.(صحيح البخارى كتاب الدعوات باب قول النبي ربنا اتنا فی الدنيا حسنة حديث 6389) اور صحابہ کو بھی اس طرف توجہ دلائی اور صحابہ بھی خاص توجہ سے پڑھا کرتے تھے.(مصنف ابن ابی شیبة جلد 7 صفحه 52 کتاب الدعا باب من كان يحب...حديث 3 مطبوعه دارالفکر بیروت)
خطبات مسرور جلد 11 152 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک وقت میں جماعت کے افراد کو یہ کہا تھا کہ خاص طور پر ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد جب کھڑے ہوتے ہیں تو اس میں یہ دعا پڑھا کریں.(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 6 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی خاص طور پر اس دعا کی طرف اپنے ایک خطبہ میں بلکہ مختلف خطبات میں توجہ دلائی اور جماعت کو پڑھنے کی تلقین فرمائی اور اس کی تفسیر بھی بیان فرمائی.پس اس دعا کی بہت اہمیت ہے.ویسے تو ہر دور اور ہر وقت کے لئے یہ دعا ہے لیکن آجکل خاص طور پر جب دنیا میں ہر طرف فتنہ وفساد کا دور دورہ ہے یہ دعا خاص طور پر ہمیں پڑھنی چاہئے.حَسَنَه کا مطلب ہے کہ نیکی اور اچھائی، فائدہ جس میں کوئی برائی اور نقصان نہ ہو، ایسا کام ہو جس کا ہر پہلو سے اچھا نتیجہ نکلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو.احمدیوں کے لئے تو بعض مسلمان ملکوں میں بحیثیت احمدی بھی ایسے حالات ہیں کہ اس دعا کے پڑھنے کی خاص طور پر ضرورت ہے.مخالفین احمدیت چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہر نعمت سے احمدی کو محروم کر دیا جائے.حتی کہ اُسے اُس کے جینے کے حق سے بھی محروم کر دیا جائے.ایسے میں یہ دعا کہ اے اللہ ! ہمیں دنیا داروں کے سارے منصوبوں کے مقابلے میں اس طرح سنبھال لے کہ یہ جو تیری ہر قسم کی حَسَنَه سے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہیں ، ہم ان کو تیرے فضلوں کی وجہ سے حاصل کرنے والے بن جائیں.ہمارے دنیا کے اعمال بھی تیری رضا کے حصول کی وجہ سے ہمیں آخرت کی حسنہ سے بھی نواز نے والے ہوں.اور ہر عمل جو ہم یہاں دنیا میں کرتے ہیں وہ تیری رضا کو حاصل کرنے والا ہو.دشمن ہمارے کاروباروں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق پر حسنہ سے نواز کہ دشمن کے تمام منصوبے ناکام ہو جائیں.وہ ہمیں ایمان سے پھیرنے کے لئے ہمارے رزق ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق سے حَسَنہ سے نواز کہ پہلے سے بڑھ کر طیب اور حلال رزق حاصل ہو.ہمارے ہمسائے ایسے ہوں جو ہمیں دکھ دینے والے نہ ہوں.ہمارے محلہ دار ایسے ہوں جو ہمیں دکھ دینے والے نہ ہوں.ہمارے شہروں کو ہمارے لئے حسنہ بنا دے.ہمارے ملک کو ہمارے لئے حسنه بنا دے.ہمارے خلاف کاروائیاں کرنے والوں کے شرور جو ہیں اُن کی طرف پلٹ جائیں.ہمارے حاکموں کو ایسا بنادے جو رحم دل ہوں، تقویٰ سے کام لینے والے ہوں ، انصاف کرنے والے ہوں.بعض ملکوں میں، مسلمان ملکوں میں آجکل ہم دیکھ رہے ہیں کئی جگہ حاکم ہی ہیں، حکمران ہی ہیں جو عوام کے لئے عذاب بنے ہوئے ہیں.ماتحتوں کے حق
خطبات مسرور جلد 11 153 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء ادا کرنے والے حاکم ہوں، افسر ہوں.اور پھر موجودہ حاکم تیرے نزدیک اصلاح کے قابل نہیں تو ایسے حاکم دے جو ان خوبیوں کے مالک ہوں تا کہ اُن کے ذریعہ سے ہمیں جو دنیا کے فوائد ملنے ہیں وہ حَسَنَه ہوں.ہر فائدہ ایسا ہو جو تیری رضا حاصل کرنے والا ہو.پھر دوست ہوں تو ایسے ہوں جو خیر خواہ ہوں، محبت کرنے والے ہوں، دکھوں میں کام آنے والے ہوں، نیکیوں کا جواب نیکیوں سے دینے والے ہوں.حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس بارے میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے.پاکستان میں آجکل بیشک ایک طبقہ مولویوں کے پیچھے لگ کر احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایک بہت بڑا حصہ ایسا بھی ہے جو دوستی کا حق نبھانے والے بھی ہیں.ہم ہر پاکستانی کو برا نہیں کہہ سکتے.یا مختلف ملکوں میں جہاں جماعت کی مخالفت ہے ہر شخص کو برا نہیں کہہ سکتے.ایسے لوگ ہیں جیسا کہ میں نے کہا جو دوستی کا حق نبھانے والے ہیں، ہمدرد ہیں، خیر خواہ ہیں، مشکل اور مصیبت میں کام آنے والے ہیں.گزشتہ دنوں ایک احمدی نے جو پاکستان میں اغوا ہو گئے تھے، مجھے خط میں بتایا کہ اغوا کرنے والوں نے اُن سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا اور جس کا انتظام فوری طور پر ممکن نہیں تھا.اُن کے بھائی کوشش کرتے رہے لیکن جتنی رقم اغوا کرنے والے مانگ رہے تھے وہ انتظام نہیں ہور ہا تھا اور اُن میں جرأت اتنی ہے، اُن کو پتہ ہے قانون ان تک نہیں پہنچ سکتا.انہوں نے کہا اچھا ایک خاص رقم اتنی ہمیں ادا کر دو، باقی کی ضمانت دو.اور ضمانت بھی کسی احمدی کی نہیں ہو سکتی.تو ان کے غیر احمدی دوست نے ان کی ضمانت دی جس کی وجہ سے اُن کی رہائی عمل میں آئی.اب اس غیر احمدی دوست نے بھی اپنی زندگی کو داؤ پر لگالیا.اُن اغوا کنندگان نے اب جو رقم لینی ہے ان کے ذریعہ سے لینی ہے.تو ایسے بھی لوگ ہیں جو احمدیوں کی خاطر قربانیاں کرنے والے ہیں.اس ماحول میں رہنے کے باوجود جو آ جکل وہاں بنا ہوا ہے، نیکی کرنے والے لوگ ہیں ، دوستی کا حق نبھانے والے ہیں.دہشت گردوں اور ملاؤں کے خلاف ہیں.دنیا کی حَسَنَہ میں سے یہ بھی ایک حسنہ ہے کہ اچھے دوست مل جائیں.اسی طرح مشنز کی جور پورٹس آتی ہیں میں ان میں ایک رپورٹ دیکھ رہا تھا.مالی میں ہمارے ریڈیو اسٹیشنز نئے قائم ہوئے ہیں، اُن کی وجہ سے بڑے وسیع پیمانے پر تبلیغ ہورہی ہے.اس کو سن کر بعض مخالف مولوی جو ہیں ، جو مسلمان ملکوں سے عرب ملکوں سے مدد لیتے ہیں ، تا کہ احمدیت کی تبلیغ کو روکیں اور انہیں جس حد تک ہو سکتا ہے دنیاوی نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کریں.تو ایسے مولویوں نے ہمارے
خطبات مسرور جلد 11 154 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء مبلغین کو دھمکیاں بھی دیں، دیتے بھی رہتے ہیں، فون بھی کرتے رہتے ہیں.ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے.ہمارے خلاف پراپیگنڈہ بھی کرتے ہیں کہ ان کی باتیں نہ سنو ، یہ کافر ہیں اور فلاں ہیں اور فلاں ہیں.بعض اپنی انتہا کو بھی پہنچ جاتے ہیں تو وہاں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی جو بے انتہا تھی یعنی مخالفت اور دشمنی بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی.اس پر وہاں کے بعض اچھے سلجھے ہوئے ، اثر ورسوخ رکھنے والے غیر از جماعت لوگوں کو جب پتہ لگا تو انہوں نے ہمارے مبلغ کو پیغام بھیجا کہ بالکل فکر نہ کرو اور اپنا کام کئے چلے جاؤ.یہی اسلام حقیقی اسلام ہے جو تم لوگ پھیلا رہے ہو اور کوئی تمہیں اس سے روک نہیں سکتا.تو یہ اچھے دوست اللہ تعالیٰ ہر جگہ عطا بھی فرماتارہتا ہے جو گو خود احمدی نہ بھی ہوں تو احمدیت کے پھیلانے میں، پیغام پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی حسنہ ہے.پس حسنہ کو جتنی وسعت دیتے جائیں اتنا ہی یہ کھلتا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ سے اس دنیاوی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہونے کے لئے اُس کے جتنے فضل اور بہتر انجام والی چیز میں مانگتے جائیں یہ سب حَسَنَه میں آتے چلے جاتے ہیں.ذاتی زندگی میں اچھی بیوی ہے، اچھا خاوند ہے، نیک بچے ہیں، بیماریوں سے محفوظ زندگی ہے.غرض کہ ہر چیز جس میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارے لئے بہتری اور فائدہ ہے، وہی دنیا کی حسنہ ہے.اور یہی ایک مومن کا منشاء اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہر وہ چیز دے جو اُس کی ضرورت ہے.ہر لحاظ سے اچھی ہو ، ظاہری بھی اور باطنی لحاظ سے بھی.کیونکہ غیب اور حاضر کا تمام علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اس لئے وہی بہتر فیصلہ کر سکتا ہے کہ ہمارے لئے ظاہری اور باطنی لحاظ سے کیا چیز بہتر ہے.ہم تو کسی چیز کے چناؤ میں غلطی کھا سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ توکسی قسم کی غلطی نہیں کھا سکتا.ظاہر طور پر ہم کسی کو اچھا دوست سمجھتے ہیں لیکن وہی نقصان پہنچانے والا بن جاتا ہے.کئی ایسے معاملات آتے ہیں جہاں لوگوں نے اپنے دوستوں پر بڑا اعتبار کیا ، کاروباروں میں شریک بنایا، لیکن وہی اُن کو نقصان پہنچانے والے بن گئے.ہم کسی کو حاکم بنا دیتے ہیں وہی نقصان پہنچانے والا بن جاتا ہے.علاوہ جماعتی رنگ کی پریشانیوں کے روز مرہ کے معاملات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ بعض باتیں ایسی کرتے ہیں جو پریشانی اور مشکل کا باعث بن جاتی ہیں.پس صحیح رنگ میں ربنا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ کی دعا ہے جو اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو جماعتی بھی اور ذاتی پریشانیوں سے بھی انسان بچ سکتا ہے.نہ صرف بچ سکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا بھی وارث بنتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بھی بن سکتا ہے.پھر فرمایا کہ وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً کہ آخرت میں بھی ہمیں ہر وہ چیز دے جو حَسَنَہ ہو.یعنی
خطبات مسرور جلد 11 155 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء وہاں بھی ظاہر و باطن کی اچھی چیز دے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وضاحت ایک جگہ اس طرح فرمائی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آخرت میں تو حسنه ہی ہے.جب انسان آخرت کی دعا مانگ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اگر قبول کر لی تو حسنہ ہے.تو وہاں کی ظاہر و باطن کی اچھائی سے کیا مراد ہے.اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ آخرت میں تو سب چیزیں گو اچھی ہیں لیکن آخرت میں بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جو باطن میں اچھی ہیں مگر ظاہر میں بری ہیں.مثلاً دوزخ ہے.قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے.ایک لحاظ سے وہ بری چیز بھی ہے.پس جب آخرت کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے حسنہ کا لفظ رکھا تو اس لئے کہ تم یہ دعا کرو کہ الہی ! ہماری اصلاح دوزخ سے نہ ہو بلکہ تیرے فضل سے ہو.اور آخرت میں ہمیں وہ چیز نہ دے جو صرف باطن میں ہی اچھی ہے.جیسے دوزخ باطن میں اچھا ہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.مگر ظاہر میں برا ہے کیونکہ وہ عذاب ہے.آخرت میں حَسَنَہ صرف جنت ہے جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور باطن بھی اچھا ہے.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحه 446) یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس دنیا کی حَسَنَه آخرت کی حَسَنَہ کا بھی باعث بنتی ہے.اگر اس دنیا میں ہر چیز جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور باطن بھی اچھا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا دلانے والا ہے تو آخرت میں بھی ایسی حسنہ ملے گی جس کا ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک جگہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے.ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب، شدائد، ابتلاء وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے.دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اُ سے خدا تعالیٰ سے دور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے.تو دنیا کا حَسَنَہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی دونوں طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلت سے محفوظ رہے.خُلق الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء : 29).( یعنی انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ).فرمایا کہ ایک ناخن ہی میں درد ہو تو زندگی بیزار ہو جاتی ہے.فرمایا: ”اسی طرح جب انسان کی زندگی خراب ہوتی ہے.(مثلاً) جیسے بازاری عورتوں کا گروہ (ہے) کہ اُن کی زندگی کیسے ظلمت سے بھری ہوئی (ہے) اور بہائم کی طرح ہے جانوروں کی طرح کی زندگی ہے ) " کہ خدا اور آخرت کی کوئی خبر نہیں.تو دنیا کا حسنہ یہی ہے کہ خدا ہر ایک پہلو سے خواہ وہ دنیا کا ہو، خواہ آخرت کا ، ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.اور فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ میں
خطبات مسرور جلد 11 156 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء جو آخرت کا پہلو ہے، وہ بھی دنیا کی حسنہ کا ثمرہ ہے.(اُسی کا پھل ہے.اگر دنیا کا حسنه انسان کو مل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے.یہ غلط ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا حَسَنَہ کیا مانگنا ہے.آخرت کی بھلائی ہی مانگو.فرمایا کہ صحت جسمانی وغیرہ ایسے امور ہیں جس سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے وہ آخرت کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور اس لئے ہی دنیا کو آخرت کا مزرعة کہتے ہیں ( یعنی آخرت کی کھیتی کہتے ہیں.دنیا میں جو بوؤ گے وہی وہاں جاکے کاٹو گے.) کہ درحقیقت جسے خدا 66 دنیا میں صحت ، عزت، اولا د اور عافیت دیوے اور عمدہ عمدہ اعمال صالح اُس کے ہو دیں تو امید ہوتی ہے کہ اُس کی آخرت بھی اچھی ہوگی.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 600 ایڈ یشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.یہ دعا کرو کہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.اس میں صرف آخرت کے عذاب نار کی طرف ہی توجہ نہیں دلائی گئی بلکہ اس سے بچنے کی دعا کرو جو اس دنیا کی بھی آگ ہے.اس دنیا میں بھی آگ کا عذاب ہوتا ہے.پس اس دعا میں دنیا اور آخرت دونوں کے عذاب نار سے بچنے کے لئے دعا سکھائی گئی ہے.دنیا کے عذاب نار جو ہیں وہ بھی قسما قسم کے ہیں، مصیبتیں ہیں اور دکھ ہیں جو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو عذاب کے بجاۓ حَسَنَہ بن جاتے ہیں.اس دنیا میں عذاب نار کی ایک مثال جیسا کہ میں نے ذکر کیا آجکل بعض ملکوں کے جو حالات ہیں وہ بھی ہیں.کوئی پتہ نہیں کہ گھر بیٹھے یا بازار میں پھرتے ہوئے کہاں سے بندوق کی گولی آئے اور کوئی گولہ پھٹے اور انسان کو لہولہان کر دے یا اُس کی زندگی لے لے.کئی جانیں اسی طرح ضائع ہو جاتی ہیں.جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں عمل ہو رہے ہوں، اس طرح کی زندگی ہو تو وہاں جب کوئی عذاب نار سے بچاؤ کی دعامانگے تو اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے ان چیزوں سے بچالیتا ہے.آجکل کے شرور جو دہشت گردوں نے پیدا کئے ہوئے ہیں، اُن سے بچنے کے لئے بھی یہ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی دعا ہے.گزشتہ دنوں کراچی میں ہمارے ایک احمدی جوان آدمی ، چالیس پینتالیس سال کی عمر تھی ، سودا لینے کے لئے گھر سے نکلے اور دو چار منٹ کے بعد ہی وہاں بم دھما کہ ہوا جس میں پچھلے دنوں میں پچاس آدمیوں کی جان ضائع ہوئی ہے اُس میں وہ بھی شہید ہو گئے.پس آجکل تو جگہ جگہ آگ کے پھندے ان دہشت گردوں نے لگائے ہوئے ہیں.ان کے عذاب سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کس وقت کہاں کیا ہونا ہے.اس لئے انسان اُس سے مانگے کہ میرا گھر میں رہنا اور میرا باہر نکلنا تیرے فضل سے
خطبات مسرور جلد 11 157 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء میرے لئے حَسَنَه کا باعث بن جائے اور ان عذابوں سے مجھے بچالے.اسی طرح آخرت کے عذاب سے بھی مجھے بچا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس پڑھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس کے در کے نہ ہو.اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے.گزشتہ سے پہلے خطبہ میں میں نے اس کی حضرت مصلح موعود کے حوالے سے تھوڑی وضاحت بھی کی تھی.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرمارہے ہیں کہ دعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس دَر کے نہ ہو، اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے.غرض ربنا اتنا في الدنيا..الخ ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں.اور اُن کو یقین ہے کہ اُن کے رب کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ پیچ ہیں“.فرمایا کہ آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی.بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں.تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے.طرح طرح کے عذاب، خوف، حزن، فقر و فاقے ، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن.غرض یہ سب آگ ہیں.تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا.جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں، بچائے رکھے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 145 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) دوسری دعا جس کی ہمیں بہت ضرورت ہے اس کی بھی بڑی اہمیت ہے، وہ سورۃ بقرۃ کی آخری آیت ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے جس میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ یہ دعا مانگو کہ ربنا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أو أخطأنا.کہ اے ہمارے رب! ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھول جائیں یا ہمارے سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے.بھول جانے کے معنی ہیں کہ کوئی کام کرنا ضروری ہے لیکن نہ کیا جائے.ایک تو یہ کہ جان بوجھ کر نہیں چھوڑا بلکہ بھول گئے.دوسرے یہ کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اگر اس کو نہ کیا اور وقت پر نہ کیا تو اس کی ہمارے لئے کتنی اہمیت ہے.اور اس خیال میں رہیں کہ کوئی بات نہیں.نہیں کیا تو کیا ہوا، معمولی سا کام
خطبات مسرور جلد 11 158 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ہے کہ ہمیں بھولنے اور خطا کرنے سے بچا.لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک اہم کام ہے، انسان کو تو علم نہیں کہ کونسا اہم ہے اور کونسا نہیں، اس کے نہ کرنے سے ہماری روحانی ترقی میں فرق آ سکتا ہے، ہمارے خدا تعالیٰ سے تعلق میں فرق آ سکتا ہے.پس اے اللہ تو ہمیں ایک تو ایسی غلطیاں کرنے سے بچا.دوسرے اگر غلطیاں ہو گئی ہیں تو اس پر پکڑ نہ کر.اسی طرح کسی کام کے غلط طریق سے کرنے سے یا ایسا کام کرنے سے جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے ، ہمیں پکڑ میں نہ لے.ہمارا مؤاخذہ نہ کر.بلکہ ہماری خطاؤں کو معاف فرما اور معاف فرماتے ہوئے اُن کے بداثرات سے اور اپنی ناراضگی سے ہمیں بچا لے.لیکن اگر ہم جان بوجھ کر ایک غلط کام کرتے جائیں یا غلط طریق پر کرتے چلے جائیں.اپنی اصلاح کی طرف کوشش نہ کریں اور پھر یہ دعا بھی مانگتے ہیں تو پھر یہ دعا نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ اور دعا کے ساتھ ایک مذاق بن جائے گا.پس دعا میں بہتر نتائج کے لئے ہوتی ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کو آزمانے کے لئے.اس لئے جہاں اپنے عمل ہوں گے وہیں دعا بھی حقیقی دعا بنے گی.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اُس پر اُس کو کمال تک پہنچاؤ.پھر آتا ہے: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا.یعنی ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جو پہلوں پر ڈالا گیا اور اُس کی وجہ سے اُنہیں سزا ملی.یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کا نمازیں پڑھنے یا قرآنِ کریم کے جو احکامات ہیں ان سے اس کا تعلق نہیں.اس میں یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارے غیر معمولی بوجھ ہیں.خدا تعالیٰ نے تو پہلے ہی فرما دیا.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکامات انسان کی طاقت اور وسعت کے مطابق دیتا ہے.اس بوجھ نہ ڈالنے کے یہ معنی ہیں کہ بعض جرموں کی وجہ سے پہلے لوگوں کو سزائیں دی گئیں، وہ سزائیں ہم پر نازل نہ ہوں.اور ہم سے وہ غلطیاں سرزد نہ ہوں جو پہلے لوگوں سے سرزد ہوئیں اور وہ تباہ ہو گئے.اگر ہم غلطیاں بھی کرتے رہیں اور پھر کہیں کہ ہمیں سزا بھی نہ ملے جو پہلوں کو ملی تو یہ تو نہیں ہوسکتا.یہ اللہ کے عمومی قانون کے خلاف ہے.پس یہ دعا اور ساتھ برے اعمال سے بچنے کی کوشش ہی انسان کو اُس سزا سے بچاتی ہے.پہلے لوگوں کی خطاؤں کی وجہ سے اُن پر ایسی حکومتیں مسلط کر دی گئیں جو اُن کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی تھیں.پس ہمیں ایسے حکمرانوں سے بچا جو ہمارے لئے سز ابن گئے ہیں اور تیری ناراضگی کی وجہ سے یہ سزا ہم پر مسلط ہے.اگر تو ناراضگی کی وجہ سے ہے تو بہت زیادہ درد سے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے.اگر یہ صرف امتحان ہے تو اس امتحان کو بھی ہم سے ہلکا کر دے.
خطبات مسرور جلد 11 159 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء پھر یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالًا طَاقَةَ لَنابہ بعض دفعہ دوسروں کی سزا کا بھی اثر انسان پر پڑتا ہے.یا کسی نہ کسی طریقے سے اثر پہنچ رہا ہوتا ہے.اس لئے اس سے بچنے کی بھی دعا سکھائی کہ اللہ تعالیٰ دوسروں کے قصور کی سزا کے اثرات سے بھی بچائے رکھے.لڑائی اور جنگ میں دہشت گردی کے حملوں میں جن کو مارنا مقصود نہیں ہوتا، وہ بھی مارے جاتے ہیں.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے، کسی خاص گروپ کو مارنا چاہتے تھے لیکن وہاں جو بھی گیا وہ مر گیا.معصوم بچے بھی مرجاتے ہیں.حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا ہے کہ مالا طاقة لنا به کی شرط اس لئے ہے کہ یہاں ناراضگی کا سوال نہیں، بلکہ دنیاوی مسائل اور ابتلاؤں کا ذکر ہے.ناراضگی تو خدا تعالیٰ کی چھوٹی بھی برداشت نہیں ہوتی لیکن چھوٹی تکلیف برداشت کر لی جاتی ہے.پس روحانی سزا میں یہ دعا ہے کہ ہمیں تیری کسی ناراضگی کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں.مگر جب دنیاوی تکالیف کا ذکر آیا تو وہاں یہ دعا سکھائی کہ مجھے چھوٹے موٹے ابتلاؤں پر اعتراض نہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیشہ پھولوں کی سیج پر چلتا رہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کے لئے فرمایا ہے کہ میں امتحان لوں گا.البتہ وہ ابتلاء جو دنیا میں تیری ناراضگی کا موجب نہیں ہیں اور دنیا میں آتے رہتے ہیں، اُن کے بارے میں میری یہ دعا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ ابتلا میری طاقت سے بالا ہو.مومن ابتلاؤں کی خواہش نہیں کرتا.لیکن جیسا کہ میں نے کہا خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں مومن کو آزماتا ہوں ، اس لئے آزمائش کو آسان کرنے کی دعا بھی سکھا دی.(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحه 659) اور پھر فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ وَاعْفُ عَنَّا.مجھ سے عفو کر اور بد نتائج سے مجھے بچالے وَاغْفِرْلَنَا جو غلط کام میرے سے ہو گئے ہیں اُن کے نتائج اور اثرات سے مجھے بچالے.میرے غلط کاموں پر پردہ ڈال دے اور یوں ہو جائے جیسے میں نے غلط کام کیا ہی نہیں.عفو کے معنی رحم کے بھی ہوتے ہیں اور جو چیز کسی انسان سے رہ جائے ، اُس کا ازالہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ وہ مہیا کر دی جائے.پس وَاعْفُ عَنَّا میں یہ فرمایا کہ میرے عمل میں سے جو چیز رہ گئی ہے، یا میرے کام میں جو چیز رہ گئی ہے، تو اُسے اپنے رحم اور فضل سے مہیا فرما دے.وارحمنا یعنی جو بھی میرے سے غلطیاں ہوئی ہیں اور میری ترقی کے راستے میں روک ہیں یا میری وجہ سے جماعتی ترقی پر اثر انداز ہوسکتی ہیں ان غلطیوں کے متعلق مجھ پر رحم کر اور ترقیات کے راستے میں تمام روکوں کو دور فرمادے.انت مؤلنا.کہ تو ہمارا مولیٰ ہے.ہمارا آقا ہے.لوگوں نے ہماری کمزور یاں تیری طرف منسوب کرنی ہیں.آج دنیا میں ایک ہی جماعت ہے جس کا یہ دعوی ہے کہ ہم جماعت ہیں.کوئی
خطبات مسرور جلد 11 160 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء فردِ جماعت بھی جب کوئی حرکت کرتا ہے تو اُس کا اثر مجموعی طور پر بعض دفعہ جماعت پر ہی پڑ جاتا ہے.پس اے خدا! جب لوگوں نے کمزور یاں تیری طرف منسوب کرنی ہیں، لوگوں نے یہ کہنا ہے کہ یہ الہی جماعت کہلاتی ہے، دعوی کرتی ہے، اُسے بھی دوسروں کی طرح تکلیفیں پہنچ رہی ہیں اور سزائیں بھی مل رہی ہیں.پس اے مولی ! تو ہمارا آقا ہے، ہم تیرے خادم ہیں.تو ہم پر رحم کر.ہماری کمزور یاں تیری طرف منسوب ہوں گی ، لوگ سمجھیں گے کہ یہ صرف ان کے دعوے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور جو ہدایت اور تبلیغ کا کام ہم کر رہے ہیں اُس میں روکیں پیدا ہوں گی ، اُس پر اثر پڑے گا اور لوگ ہدایت سے محروم ہو جائیں گے.پس ہم رحم کی بھیک مانگتے ہیں.اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اقرار کرتے ہیں.تیرے سے عفو اور بخشش کے طلبگار ہیں.فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِين پس اپنی خاص نظر ہم پر ڈالتے ہوئے ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما.اور جو لوگ ایسے کام کر رہے ہیں جس سے اسلام کی ترقی میں روک واقع ہو رہی ہے اُن پر تو ہمیں غالب کر.اور تیرے نام اور تیری تبلیغ کو ہم دنیا میں پھیلانے والے ہوں.آجکل صرف غیر مسلم ہی نہیں یا وہ لوگ جو خدا کو نہیں مان رہے وہی اسلام کے خلاف باتیں نہیں کر رہے بلکہ مسلمانوں میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام کی تبلیغ کے راستے میں روک بن رہا ہے.بلکہ مسلمانوں میں سے زیادہ ایسے ہیں جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں.اور غیر مسلم دنیا میں ہماری تبلیغ میں روک بن رہے ہیں.اسلام کے نام پر جو بعض شدت پسند گروہ بنے ہوئے ہیں، یہ لوگ شدت پسندی والا اسلام پیش کر رہے ہیں، اُس کا اثر ہماری تبلیغ پر بھی ہوتا ہے، ہو رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ سے خاص شدت کے ساتھ اس لحاظ سے بھی دعا کی ضرورت ہے.پھر دعاؤں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا جو الہامی دعا ہے کہ رَبّ كُلُّ شَيءٍ خَادِمُكَ رَبّ فَاحْفَظْنِى وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي ( تذکرہ صفحہ 363 ایڈیشن چہارم شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ) کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے.ہماری مدد فرمائے اور ہم پر رحم فرمائے.دنیا و آخرت کے حسنہ سے ہمیں نوازتا رہے.یہ دعا بھی آجکل بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے.مجھے بھی اس دعا کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے.اس لئے یہ دعا خاص طور پر ہر احمدی کو پڑھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے.دین اور دنیا اور آخرت کی حسنہ سے ہمیں نوازے.نیکیوں پر قائم فرمائے.لغزشوں اور گناہوں کو معاف فرمائے اور آئندہ اُن سے ہمیشہ بچائے.
خطبات مسرور جلد 11 161 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء پاکستان کے احمدیوں کو بھی خاص طور پر کہتا ہوں کہ اپنے جائزے لیتے ہوئے اس طرف خاص توجہ دیں.اپنی نمازوں میں ان دعاؤں کو خاص جگہ دیں.اور ہر احمدی دعاؤں کی وہ روح اپنے اندر پیدا کرے جو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے دعا کو کمال تک پہنچا دے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا کہ کراچی میں ایک بم دھماکے سے ایک احمدی شہید ہو گئے.اسی طرح پاکستان میں ایک اور وفات بھی ہوئی ہے جو ہمارے ایک دیرینہ خادم سلسلہ تھے.تو ان دونوں کے جنازہ غائب میں نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا.ان کے مختصر کوائف پیش کر دیتا ہوں.جو شہید ہوئے ہیں اُن کا نام مکرم و محترم مبشر احمد عباسی صاحب ابن مکرم نادر بخش عباسی صاحب ہے.3 مارچ 2013ء کو ان کی شہادت ہوئی.مبشر احمد عباسی صاحب مرحوم کے خاندان میں آپ کے پڑدادا مکرم و محترم تونگر علی عباسی صاحب کے ذریعہ احمدیت آئی.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی.ان کا خاندان کا تعلق علی پور کھیڑا یا کھیڑہ ایو پی انڈیا سے تھا.آپ کے خاندان میں آپ کے دو پھوپھا محمد صادق عارف صاحب اور مکرم محمد یوسف صاحب گجراتی درویش قادیان تھے.آپ کے دادا انڈین پولیس میں تھے.ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے زندگی وقف کر دی اور قادیان میں بطور انسپکٹر بیت المال کے خدمت کی توفیق پائی.مبشر احمد عباسی صاحب جو شہید ہیں، 1968ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے.45 سال کی ان کی عمر تھی.ملازمت کی غرض سے 1982ء میں کراچی چلے گئے.شہادت کے وقت کراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں ملازمت کر رہے تھے.3 مارچ 2013ء کی شام نماز مغرب کے وقت عباس ٹاؤن کراچی میں ایک بم دھما کہ ہوا جس کے نتیجہ میں 50 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور متعدد افراد زخمی ہوئے.ان کی رہائش بھی عباس ٹاؤن میں ہی تھی.واقعہ سے پانچ منٹ پہلے کچھ ادویات وغیرہ لینے کے لئے گھر سے نکلے اور دھماکے کی زد میں آگئے.شنید ہے کہ مبشر عباسی صاحب دھماکے کی جگہ کے بہت قریب تھے اور موقع پر ہی شہید ہو گئے.ابتدائی طور پر آپ کے لا پتہ ہونے کی اطلاع ملی تھی.بعد میں ٹیلی فون پر اطلاع کے ذریعہ سے ہسپتال جا کر آپ کی شناخت ہوئی.مبشر عباسی صاحب انتہائی اچھی اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے.بچوں اور اہلیہ کے ساتھ اور بہن بھائیوں کے ساتھ اچھا تعلق تھا.ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی خدیجہ مبشر بارہ سال کی اور ایک بیٹا نا در بخش دس سال کی عمر کے ہیں.ان کے علاوہ تین بہن بھائی ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 162 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء دوسرا جنازہ جو ہے وہ جماعت کے ایک دیرینہ خادم مکرم ڈاکٹر سید سلطان محمود شاہد صاحب کا ہے جن کی 3 مارچ 2013ء کو نوے سال کی عمر میں وفات ہوئی.انّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ 16 اکتوبر 1923 ء کو شاہ مسکین ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے.اور ان کے والد حضرت سید سردار احمد شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.انہوں نے آپ کو پیدائش سے پہلے ہی وقف کر دیا تھا.آپ نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی ایس سی کرنے کے بعد 1946ء میں مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ سے ایم ایس سی کیمسٹری کا امتحان پاس کیا.ایم ایس سی کرنے کے فوراً بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت مصلح موعود نے کیمسٹری کے لیکچرار کے طور پر تعلیم الاسلام کالج قادیان میں ان کا تقر رکر دیا.اور ان کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ کالج کے ابتدائی اساتذہ میں سے تھے.ہجرت کے بعد یہ پہلے لاہور اور پھر جب ٹی آئی کالج ربوہ منتقل ہوا ہے تو وہاں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے.1956ء میں آپ یہاں لندن آئے اور 1958ء میں یونیورسٹی آف لندن سے آرگینک کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی.ربوہ واپسی پر ٹی آئی کا لج ربوہ میں 1963 ء تک کیمسٹری پڑھاتے رہے.1963ء میں پھر آپ لندن آئے اور 1964ء میں لندن یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا.رائل انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل سوسائٹی کے فیلو بنے اور اسی طرح 64ء سے 78 ء تک تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں پروفیسر، ہیڈ آف کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ اور کچھ عرصہ تک انچارج پرنسپل کے طور پر کام کیا.1972ء میں جب کالج اور جماعت کے تعلیمی ادارے حکومت نے زبردستی لے لئے تو پھر ان کی وہاں سے گورنمنٹ کالج راولپنڈی ٹرانسفر کر دی گئی.پھر دوسرے دو کالجوں میں پرنسپل رہے.بہر حال 1986ء میں یہ ریٹائر ہوئے.اس کے بعد انہوں نے ربوہ کے تعلیمی اداروں کی حالت دیکھتے ہوئے اپنے سکول کھولے، پرائمری سکول بھی اور نرسری سکول بھی اور ہائی سکول بھی.اور کافی دیر تک جب تک کہ جماعت کے سکول دوبارہ وہاں نہیں کھلے ان کے سکول بڑا اچھا کام کرتے رہے اور بچوں کو سنبھالتے رہے ہیں.ڈاکٹر صاحب انتہائی سادہ ہمدرد طبیعت کے مالک تھے ضرورتمندوں کی خدمت کرنے والے، اُن کی مدد کرنے والے تھے.جو تعلیم نہیں حاصل کر سکتے تھے اُن کی تعلیم میں مدد کرتے تھے.ہر ایک کے ساتھ بڑا پیار و محبت کا سلوک تھا.مشورے بڑے مخلصانہ اور بڑے صائب ہوتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے وقت میں جامعہ نصرت کالج برائے خواتین ربوہ میں سائنس بلاک کی تعمیر بھی آپ نے فرمایا تھا تو شاہ صاحب نے ہی کروائی تھی.قیامِ پاکستان کے بعد آپ سیکرٹری اصلاح وارشادلاہور مقرر ہوئے.56 ء تا 58 لندن میں خدام الاحمدیہ کے قائد بھی رہے ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 163 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 مارچ 2013ء اسی دوران سیکرٹری مال جماعت لندن کے فرائض بھی سرانجام دیئے.خلافت سے ان کا بڑا گہرا تعلق تھا.ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں.ان کا پڑھانے کا طریقہ بھی بڑا سادہ تھا.میں نے بھی کچھ دن ان سے پڑھا ہوا ہے، طلباء کو دوست بنا کر پڑھاتے تھے.بڑی سادگی تھی.ان کے بارہ میں مجیب اصغر صاحب نے مجھے لکھا ہے کہ لنگر خانے میں پاکستان میں ڈیوٹیاں تھیں تو ایک دفعہ یہ لنگر خانے میں آئے.ان کے کچھ مہمان آگئے تھے.روٹی لینی تھی.تو انہوں نے کہا کہ اچھا.اور گرم گرم روٹیاں وہ دینے لگے تو انہوں نے کہا کپڑالا ئیں.کپڑے میں روٹی ڈال دوں.تو انہوں نے کہا کپڑا تو میں لایا نہیں ، شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی، قمیض کا پتو آگے کر دیا کہ اس میں ڈال دو اور لے کے چلے گئے.کوئی کسی قسم کا عار نہیں تھا کہ میں اس طرح روٹی اُٹھا کے جارہا ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کو کھلانی تھی اور اس لحاظ سے بڑی سادگی تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.مغفرت کا سلوک فرمائے.اسی طرح شہید کے بھی درجات بلند فرمائے.ان کے بچوں کو صبر ، ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 29 مارچ 2013ء تا 4 اپریل 2013 ، جلد 20 صفحہ 13 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 164 11 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 15 / مارچ 2013 ء بمطابق 15 رامان 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِينَ.رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ.قَالَ اخْسَنُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِى يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ.فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخَرِيًّا حَتَّى اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِى وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ.إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ (المؤمنون: 107 تا 112) گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس کے حوالے سے جو خطبہ کے ابتدا میں ہی میں نے پڑھا تھا، یہ بتایا تھا کہ دعا کیا ہے؟ دعا سے کس طرح تسلی اور سکینت ملتی ہے؟ دعا کی فلاسفی کیا ہے اور کس طرح مانگنی چاہئے؟ یعنی دعامانگنے کا معیار کیا ہے جو ایک مومن کو اختیار کرنا چاہئے.اصل میں تو دعا کی یہ روح اور فلاسفی قرآن کریم کی ہی بیان فرمودہ ہے، اُس میں بیان ہوئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر کھول کر ہمارے سامنے بیان فرمائی.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اور ارشادات بھی ہیں جو بڑے مختصر ارشادات ہیں لیکن دعا کرنے اور دعا کی حقیقت جاننے کے ایسے طریقے اور اسلوب ہیں جن پر عمل کر کے ایک انسان خدا تعالیٰ کا قرب پانے والا اور دعا کی حقیقت جاننے والا بن جاتا ہے.آپ علیہ السلام اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں کہ :
خطبات مسرور جلد 11 وو 165 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے.اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 21 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور موقع پر فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے.ہم بار بار اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لیے کہتے ہیں.کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہوکر اللہ تعالیٰ کے لیے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آ سکتا.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 33 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) یعنی فطری جوش ہے جو بندے اور خدا کے تعلق کو قائم کرتا ہے اور اس کو مضبوط کرتا ہے.پس اس فطری جوش اور مکمل طور پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رکھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.یہ فطری جوش بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے پیدا ہو گا.پھر آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:.دعاؤں میں جور و بخدا ہو کر تو جہ کی جاوے تو پھر ان میں خارق عادت اثر ہوتا ہے.لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دعاؤں میں قبولیت خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے اور دعاؤں کے لیے بھی ایک وقت ( ہوتا ہے ) '' جیسے صبح کا ایک خاص وقت ہے.اس وقت میں خصوصیت ہے وہ دوسرے اوقات میں نہیں.اسی طرح پر دعا کے لیے بھی بعض اوقات ہوتے ہیں جبکہ ان میں قبولیت اور اثر پیدا ہوتا ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 309 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) ہر کام میں صبح کے وقت تازہ دم ہو کر جو کام انسان کرتا ہے اُس کے نتائج بہترین ہوتے ہیں.آجکل کے ان لوگوں کی طرح نہیں جو ساری رات یا رات دیر تک یا تو انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں یا ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں یا اور دنیاوی کاموں میں ملوث رہتے ہیں.اُن کی رات کو نیند پوری نہیں ہوتی.صبح اُٹھتے ہیں تو ادھ پچڈی نیند کے ساتھ ، اُس میں نماز کیا ادا ہوگی؟ اور ان کے دوسرے کاموں میں کیا برکت پڑے گی.ہر شخص چاہے دنیا دار بھی ہو اپنے بہترین کام کے لئے تازہ دم ہو کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ پوری توجہ سے کام ہو.اُس کام کے بہترین نتائج ظاہر ہوں.پس آپ نے فرمایا کہ اس طرح تمہیں یہ بھی تلاش کرنا چاہئے کہ تمہارے دعاؤں کے بہترین اوقات کیا ہیں؟ وہ کیفیت کب پیدا ہوتی ہے جب دعا قبول ہوتی ہے.
خطبات مسرور جلد 11 166 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اللہ کا رحم ہے اُس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی (پر ) مصیبت کے وارد ہونے پر ڈرتا ہے.جو امن کے وقت خدا تعالیٰ کو نہیں بھلا تا خدا تعالیٰ اسے مصیبت کے وقت ( میں ) نہیں بھلاتا.اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں.جب عذاب الہی کا نزول ہوتا ہے تو تو بہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے.پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذاب الہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے،صدقات دیتا ہے اور امر الہی کی تعظیم (یعنی جو حکم خدا تعالیٰ نے دیئے ہیں انہیں پورے عزت واحترام کے ساتھ بجالانے کی کوشش کرتا ہے ) اور خلق اللہ پر شفقت کرتا ہے.اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے.یہی ( ہیں جو ) سعادت کے نشان ہیں.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 539 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) یعنی سعید فطرت کے نیک عمل اُس پھل کی طرح ہیں جو میٹھا ہے اور پرلذت ہے.جس کے پھل کو دیکھ کے سب کہیں، جس کو چکھ کر سب کہیں کہ یہ میٹھا پھل دینے والا درخت ہے.شقی وہ بد بخت انسان ہے جس کے عمل نہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے ہیں اور نہ ہی اُس کے بندوں کا حق ادا کرنے والے ہیں.گو یا کڑوا اور بد بودار پھل دینے والا درخت ہے.66 پس یہ چند اقتباسات میں نے اس لئے پیش کئے کہ ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق کا مزید ادراک پیدا ہو.اس لئے کہ ہمیں دعا کرنے کے اسلوب اور طریقوں کا پتہ چلے.اس لئے کہ ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو.اچھے اور برے کے فرق کو دیکھ کر ہم اعمال صالحہ کی طرف توجہ دینے والے ہوں.ہمیں دعاؤں کے صحیح طریق کو اپناتے ہوئے دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو.تا کہ ہم اُن لوگوں میں شامل ہوں جو دنیا کی حسنہ سے بھی حصہ لینے والے ہیں اور آخرت کی حسنہ سے بھی حصہ لینے والے ہیں.تا کہ ہم ذاتی اور جماعتی مقاصد کے حصول میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے والے ہوں.پس یہ وہ اہم مضمون ہے جسے ایک مسلمان کو، اس مسلمان کو جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو مانا ہے، جس نے زمانے کے امام اور مسیح و مہدی موعود کی بیعت میں آنے کی سعادت پائی ہے.اُس کو ان باتوں کو سمجھنے اور عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ حقیقی مومن اور جو صرف ایمان کا دعوی کرنے والا ہے اُس میں فرق پیدا ہو جائے.واضح ہو جائے کہ حقیقی مومن کون ہے اور وہ کون ہے جو صرف مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 167 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء قرآن کریم نے متعدد جگہ جو دعا کے مضمون پر کھل کر روشنی ڈالی ہے اس کو ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم دعا کی حکمت اور فلاسفی اور دعا کرنے کے طریق کو سمجھ کر دعا کی طرف توجہ دینے والے ہوں.اور نہ صرف دعا کی طرف توجہ کرنے والے ہوں بلکہ نتیجہ خیز دعاؤں کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں.ایسی دعائیں کرنے والے ہوں جن کا نتیجہ نکلتا ہو.کیونکہ اس کے بغیر زندگی بے مقصد ہے.نتیجہ خیز دعاؤں کی انسانوں کو اپنی زندگیاں سنوارنے کے لئے ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم اُس کی عبادت کرتے ہیں یا نہیں ، اُس سے کچھ مانگتے ہیں یا نہیں.دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعاؤں اور پھل لانے والی دعاؤں کی ہمیں ضرورت ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کو ، وہ تو بے نیاز ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرواتا ہے کہ یہ اعلان کر دو کہ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : 78 ) یعنی کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے،اگر تمہاری طرف سے دعا ہی نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : 66 کامل عابد وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے ( مزید کھول کر بیان کیا ہے ) یعنی ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم لوگ رب کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے.( فرمایا کہ ) یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پرواہ کرتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 221 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) دعائیں کرنے والوں کی پرواہ کرتا ہے.اُس کی عبادت ، اپنی عبادت کرنے والوں کی پرواہ کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ سے اگر تعلق جوڑنا ہے، اپنی نیک خواہشات کی تکمیل کروانی ہے، دشمن کی ناکامی کے نظارے دیکھنے ہیں تو ہمیں عابد بننے کی طرف توجہ دینی ہو گی ،حقیقی عابد بننے کی طرف توجہ کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو صحیح عابد بنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں یہ روح پیدا کرے تا کہ ہم دشمنوں کے بد انجام کو دیکھنے والے ہوں.آج کل دشمن ، وہ لوگ جن کے دل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دشمنی، کینہ اور بغض میں اس قدر بھر چکے ہیں کہ جس کی انتہا کوئی نہیں رہی.خاص طور پر پاکستان میں اور پھر ہندوستان کے کچھ علاقوں میں بھی ، یا اُن کے زیر اثر بعض مسلمان افریقن ممالک کے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں ان سے ہر قسم
خطبات مسرور جلد 11 168 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء کی کمینگی کے اظہار ہونے لگے ہیں.صف اول میں گو پاکستان کے ملاں اور نام نہاد علماء ہی ہیں.کوئی موقع نہیں چھوڑتے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف انتہائی ذلیل اور مذموم حرکتوں کے مرتکب نہ ہورہے ہوں.احمدیوں کے دلوں کو چھلنی کرنے کے موقعے تلاش کرتے ہیں.احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس لئے محبت اور وفا کا تعلق رکھتے ہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق صادق ہیں.یہ احمدیوں کا جرم ہے.احمدیوں کا یہ وفا کا تعلق اس لئے ہے، یہ محبت کا تعلق اس لئے ہے کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے اندر حقیقی عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کیا.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کا تعلق اس لئے رکھتے ہیں کہ حقیقی تو حید کا فہم و ادراک ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے عطا ہوا.پس جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی کی وجہ سے اپنی حدوں کو پھلانگ رہے ہیں، اُن کا مقابلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی منادی کرنے والے سے ہے.اللہ تعالیٰ کے اُس بندے سے ہے جس کی اللہ تعالیٰ پر واہ کرتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عابد کی پرواہ کرتا ہے اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا عابد کوئی نہیں.ماضی میں بھی ہم دشمنوں کا انجام دیکھتے آئے اور آجکل بھی دیکھ رہے ہیں.پاکستان میں بھی ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں کہ ان مغلظات بکنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے طریقے سے پکڑا جو یقیناً بہت سوں کے لئے عبرت کا باعث بنایا عبرت کا باعث بنے والا تھا اور ہے.پاکستان میں بھی دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں.میں بوجوہ بعض جگہوں کے نام تو نہیں لیتا جہاں ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں ان دریدہ دہنی کرنے والوں کو، بیہودگیاں کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے پکڑا.یہ دریدہ دہنی کرنے والے کئی قسم کے ہیں.جو بڑے نیک، پارسا تھے.ان کو کسی نہ کسی گھناؤنے الزام میں، نہ صرف الزام میں بلکہ جرم میں اُن کے اپنے لوگوں نے جو انہیں بہت بڑا بزرگ سمجھتے تھے ، ذلیل کر کے اپنے علاقے سے نکلوایا یا نکال دیا.یا پھر یہ بھی ایسے لوگوں کے ساتھ ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور رنگ میں ان کی ذلت کے نظارے دکھا کر جہاں اُن کے حامیوں کو شرمندہ کیا، وہاں احمدیوں کے ایمان کو بھی مضبوط کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ان الزام تراشیاں کرنے والوں نے بعض ایسی ایسی ذلیل حرکات کی ہیں کہ بعض لوگ مجھے واقعات لکھتے ہیں اور بعض دفعہ اخباروں میں بھی آجاتی ہیں کہ ان کا تو میں یہاں بیان بھی نہیں کر سکتا.کس قسم کی گھٹیا سوچیں ہیں.کس قسم کے گھٹیا ان کے عمل ہیں اور دشمنی ہے زمانے کے امام کے ساتھ.عوام کی اکثریت
خطبات مسرور جلد 11 169 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء یا تو بے حس ہے، ( پاکستان کی میں بات کر رہا ہوں ) یا خوفزدہ ہے.اسی طرح ہندوستان کے بعض علاقوں میں بھی ہو رہا ہے.یہ سب کچھ دیکھ کر پھر بھی یہ لوگ سبق حاصل نہیں کرتے کہ ان نام نہاد اسلام کا درد رکھنے والوں کی جو ذلت ہورہی ہے یا ہوتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی دشمنی کی وجہ سے ہے اور غور کریں تو یہی چیز ان کے لئے عبرت کا نشان بن جاتی ہے.دنیا کے دوسرے ممالک میں جیسا کہ میں نے کہا افریقہ میں بھی بعض دفعہ دشمنیاں ہیں لیکن مسلمان اپنے علماء کی جب یہ گھٹیا حالت دیکھتے ہیں تو پھر یہ احمدیت کی طرف رجوع کرتے ہیں.افریقہ میں بہت سے علاقوں میں تو احمدیت پھیلی بھی اس وجہ سے ہے.اپنے علماء کی حالت دیکھ کر انہوں نے صحیح دین کو پہچانا ہے.ان میں یہ جرات ہے کہ اپنے ان نام نہاد علماء کی حرکتوں سے سبق حاصل کریں اور حق کی تلاش کریں.بہر حال میں احمدیوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مخالفین احمدیت کی حرکتوں اور کمینگیوں سے پریشان نہ ہوں.گزشتہ دنوں مجھے کسی احمدی نے پاکستان سے لکھا کہ ہمارے علاقے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کا زور اس قدر ہے اور اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ دشمن ہر اوچھی حرکت کرنے پر تلا بیٹھا ہے.یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر بگاڑ کر یا تصویر کے ساتھ بڑا توہین آمیز سلوک کر کے ہمارے دلوں کو چھلنی کر رہے ہیں.یہ جہالت جو ہم دیکھتے ہیں تو اب برداشت نہیں ہوتا.لگتا ہے کہ دل پھٹ جائے گا.اتنے غلیظ پوسٹر دیواروں پر لگا رہے ہیں کہ بعض غیر از جماعت جو شرفاء ہیں اُن کی دیواروں پر جو پوسٹر لگے ہوئے تھے، انہوں نے بھی وہ اتار دیئے کہ اب یہ انتہا ہو رہی ہے.تو یہ لکھتے ہیں کہ یہ دیکھ کر بے ساختہ روتے ہوئے چیچنیں نکل جاتی ہیں.میں نے اُن کو بھی لکھا ہے کہ صبر اور دعا سے کام لیں.ہمیں دشمن کے شور وفغاں میں بڑھنے ، بیہودگیوں میں بڑھنے کے بعد یار نہاں میں نہاں ہونے کا سبق ملا ہے.پس ہمیں اس سبق کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے.یہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھا کر اُس میں فنا ہونے کا سبق ہے.ایسے لوگ اپنی موت کو خود دعوت دینے والے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی اہانت کرنے والے ہمیشہ ہی تباہ و بر باد ہوئے ہیں.یہ لوگ بھی اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو جس طرح لیکھو پر دعا کی تلوار چلی تھی ، ان پر بھی اللہ تعالیٰ کے اذن سے چلے گی.پس اپنے دکھ، اپنے درد، اپنی چیچنیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں.اللہ تعالیٰ ایسے شریروں کو عبرت کا نشان بنائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مجلس میں جو 19 اپریل 1904ء کی ہے فرمایا کہ: میں اپنی جماعت کے لئے اور پھر قادیان کے لئے دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا“ ”زندگی کے
خطبات مسر در جلد 11 170 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء فیشن سے دور جا پڑے ہیں.فَسَخِقُهُمْ تَسْحِيقًا.فرمایا میرے دل میں آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے؟ اتنے میں میری نظر اُس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے.اور وہ دعا یہ ہے.يَارَ فَاسْمَعُ دُعَائِي وَ مَرِّقُ أَعْدَانَكَ وَ أَعْدَا لِي وَأَجِزُ وَعُدَكَ وَانْصُرْ عَبْدَكَ وَارِنَا أَيَّامَكَ وَشَهرُ لَنَا حُسَامَكَ وَ لَا تَذَرُ مِنَ الْكَافِرِينَ شَرِيرًا.66 (یعنی) ”اے میرے رب ! تو میری دعا سن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مددفرما اور ہمیں اپنے دن دکھا.اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ.“ انکار کرنے والے بہت سارے ہوتے ہیں لیکن بعض انکار کرنے والے شریر ہوتے ہیں جو اپنی شرارتوں میں انتہا کو پہنچے ہوتے ہیں.پس یہ دعا اُن کے لئے ہے.فرمایا کہ: اس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے.پھر فرما یا ہمیشہ سے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اُس کے ماموروں کی راہ میں جولوگ روک ہوتے ہیں اُن کو ہٹا دیا کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کے دن ہیں.ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین بڑھتا ہے کہ وہ کس طرح اُن امور کو ظاہر کر رہا ہے.“ تذکرہ صفحہ 426 427 مع حاشیہ - نظارت اشاعت ربوہ.2004ء) اور یہ نظارے آج بھی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو دکھا رہا ہے.ایک طرف یہ گالیاں ہیں، دوسری طرف ترقیات ہیں.بیشک ملک میں شرفاء بھی ہیں، ایسے بھی ہیں جیسا کہ میں نے کہا، جو پوسٹروں کو اپنے گھروں کی دیواروں پر سے اُتارنے والے ہیں.لیکن ان میں جو اکثریت ہے اُن میں گونگی شرافت ہے.جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرما یا کرتے تھے کہ شرافت تو ہے لیکن گونگی شرافت ہے جو بولتی نہیں.(ماخوذ از خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ 376 خطبہ جمعہ 28 ستمبر 1979ء نظارت اشاعت ربوہ) لیکن ایک پڑھا لکھا طبقہ جو انگریزی اخباروں میں لکھتا ہے، انہوں نے اب اس حد سے بڑھے ہوئے ظلم کے خلاف آواز بھی اُٹھانا شروع کر دی ہے.بہر حال ملک کو بچانے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ الہامی دعا بھی پڑھنی چاہئے تا کہ شر پسندوں کا خاتمہ ہو.ملک کی شریف آبادی اُن شر پسندوں کے شر سے محفوظ رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ احمدی ان شر پسندوں کے شر سے
خطبات مسرور جلد 11 171 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء محفوظ رہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا، ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر صبر اور دعا کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت ہے.مختلف شہروں میں مختلف علاقوں میں احمدیوں کے خلاف ان شر پسندوں کی منصوبہ بندیاں ہوتی رہتی ہیں.لیکن ہمارا خدا خیر الماکرین ہے.ان کے منصوبوں کو ان پر الٹانے والا ہے اور الٹا رہا ہے.وہی ہے جس نے اب تک ہمیں اُن کے خوفناک منصوبوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا خدا کے دامن کو کبھی نہ چھوڑیں.پہلے بھی کچھ عرصہ ہوا ، میں جماعت کو اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالتے ہوئے اجتماعی رنگ میں اس کے آگے جھک جائیں تو تھوڑے عرصہ میں انشاء اللہ تعالیٰ انقلاب آ سکتا ہے.مستقل مزاجی سے دعاؤں کی طرف توجہ دیتے چلے جانے کے بارے میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: دعا اور اُس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلا پر ابتلا آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلا بھی آ جاتے ہیں کہ کمر توڑ دیتے ہیں.مگر مستقل مزاج ، سعید الفطرت، ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے.ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک ستر یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے.کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اُسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں.پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے.یہ کبھی بھی خیال کرنا نہ چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی.ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 707-708ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) یعنی اگر انسان اس قسم کی باتیں سوچے تو پھر وہ لاشعوری طور پر اللہ تعالیٰ کی جو دعائیں قبول فرمانے کی صفت ہے، اس کا انکار کر رہا ہوتا ہے.پس ہمارا کام اپنے اندر استقلال پیدا کرنا ہے.ہمیں اُن شرائط کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں سے چند ایک میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے بیان کی ہیں.ہمیں ہمیشہ اس یقین پر قائم رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا قول کبھی غلط نہیں ہوتا.جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: 187 ) کہ دعا کو اُس کی شرائط کے ساتھ مانگو،
خطبات مسرور جلد 11 172 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء میں قبول کروں گا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم مایوس ہوں.ہاں قبولیت کا وقت خدا تعالیٰ نے رکھا ہے.ہر ابتلا ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والا بنائے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ قبولیت بھی ہم دیکھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور ارشاد بھی پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : یاد رکھو کوئی آدمی کبھی دعا سے فیض نہیں اُٹھا سکتا جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دعاؤں میں نہ لگا رہے.اللہ تعالیٰ پر کبھی بدظنی اور بدگمانی نہ کرے.اُس کو تمام قدرتوں اور ارادوں کا مالک تصور کرے.یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے.وہ وقت آ جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دعاؤں کو سن لے گا اور اُسے جواب دے گا.جولوگ اس نسخہ کو استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بدنصیب اور محروم نہیں ہو سکتے بلکہ یقیناً وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی قدرتیں اور طاقتیں بے شمار ہیں.اس نے انسانی تکمیل کے لئے دیر تک صبر کا قانون رکھا ہے.پس اُس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چاہتا ہے کہ وہ اُس قانون کو اُس کے لئے بدل دے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی اور بے ادبی کی جرات کرتا ہے.پھر یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مداری کی طرح چاہتے ہیں کہ ایک دم میں سب کام ہو جائیں.میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعالیٰ کا کیا بگاڑے گا اپنا ہی نقصان کرے گا.بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہاں جائے گا.فرمایا دیکھو حضرت یعقوب علیہ السلام کا پیارا بیٹا یوسف علیہ السلام جب بھائیوں کی شرارت سے اُن سے الگ ہو گیا تو آپ چالیس برس تک اُس کے لئے دعائیں کرتے رہے.اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوتا.چالیس برس تک دعاؤں میں لگے رہے.اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا.آخر چالیس برس کے بعد وہ دعائیں کھینچ کر یوسف کو لے ہی آئیں.اسی عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تو یوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے مگر انہوں نے یہی کہا کہ میں خدا سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.بیشک اُن کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا.الى لاَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ (یوسف: 95) پہلے تو اتنا ہی معلوم تھا کہ دعاؤں کا سلسلہ لمبا ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اگر دعاؤں سے محروم رکھنا ہوتا تو وہ جلد جواب دے دیتا.مگر اس سلسلہ کا لمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے.کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھا کر کبھی محروم نہیں کرتا.بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا.وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازہ پر بٹھائے تو آخر اس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 151 -152 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) اور پھر ہماری دعائیں تو ہمارے دل کی تڑپ، ہمارے دلوں کا چھلنی ہونا اپنی ذات پر ظلم کی وجہ وو
خطبات مسرور جلد 11 173 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء سے نہیں ہے بلکہ ہم اُن ظلموں کا نشانہ ہیں.ہم ان ظلموں کا نشانہ اس لئے بن رہے ہیں کہ اس زمانے میں ہم نے خدا تعالیٰ کے فرستادے اور پیارے کو مانا ہے.پس یقیناً ہم خدا تعالیٰ کے لئے یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں.اگر اُس کی خاطر برداشت کر رہے ہیں تو وہ ضرور ہماری دعائیں سنے گا اور سن رہا ہے.جماعت احمدیہ کی ترقی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ دشمن کے منصوبے تو بڑے شدید تھے اور ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا رحم اور فضل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہیں اور ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ یہ نظارے دکھا رہا ہے کہ کئی جگہ دشمن کے منصوبوں کے توڑ کر رہا ہے اور صرف پاکستان میں نہیں ، دنیا کے مختلف ممالک میں بھی مخالفت ہے لیکن جماعت کی ترقی رک نہیں رہی.یورپین پارلیمنٹ میں جب میں گیا تو ایک اخباری نمائندے نے کہا کہ تمہاری دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے یا تعداد کتنی ہے؟ تم لوگ اپنے آپ کو کہاں رکھتے ہو؟ تو مجھے یہ خیال آیا کہ اُس نے تعداد کی حقیقت پوچھنے کے بعد یہ سوال کرنا ہے کہ پھر تم جو تعلیم دیتے ہو، امن پسندی کی باتیں کرتے ہو، جس کو تم دنیا میں پھیلانا چاہتے ہو تو تمہاری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ تمہاری حیثیت کیا رہ جاتی ہے.تو مجھے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا وہ جواب فوراً ذہن میں آیا جو انہوں نے یہاں یورپ کے ایک پریس نمائندے کو اس کے سوال پر دیا تھا کہ آپ کی تعداد کتنی ہے؟ انہوں نے فرمایا تھا کہ آج سے ترانوے سال پہلے جو ایک تھا وہ اب ایک کروڑ کے قریب ہے تو حساب کر لو کہ آئندہ اتنے عرصے میں ہم کتنے ہوں گے؟ (ماخوذ از دوره مغرب 1400ھ صفحہ 211 تا213) تو میں نے بھی اُسے کہا کہ جماعت احمدیہ کو اب 123 سال تو گزرچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم کروڑوں میں ہیں اور وہ وقت بھی انشاء اللہ تعالیٰ قریب ہے جب ہم ایک اثر رکھنے والی جماعت کے طور پر دنیا کو نظر آئیں گے.جب میں نے یہ جواب دیا اور اس سے کہا کہ لگتا ہے کہ تمہارا سوال یہی تھا تو تسلی ہوگئی؟ اُس نے کہا ہاں میرے ذہن میں یہی تھا.لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا اثر دنیا کے مقاصد کے حصول کے لئے نہیں ہوگا بلکہ خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے محبت اور پیار کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ہوگا.پس ہمیں کسی طرح بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ مخالفین کے ظلم ہمیں اپنے کام سے ہٹا سکتے ہیں یا ترقی میں روک بن سکتے ہیں.ترقی تو ہمیں خدا تعالی دکھا رہا ہے اور نہ صرف ہمیں ترقی کے نظارے دکھا رہا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آئندہ آنے والی زندگی میں اپنے پیاروں
خطبات مسرور جلد 11 174 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء کے ساتھ جڑنے والوں اور اُن کی مخالفت کرنے والوں کی حالت کا نقشہ کھینچ کر ہمارے لئے تسلی اور سکینت کے سامان بھی فرما دیئے ہیں.جو آیات میں نے شروع میں تلاوت کی ہیں، وہ اس حالت کا نقشہ کھینچتی ہیں.فرمایا قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِينَ (المؤمنون : 107 ) وہ یعنی مخالفین یہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بدنصیبی غالب آگئی اور ہم ایک گمراہ قوم تھے.ربنا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ (المؤمنون: 108) اے ہمارے رب! ہمیں اس سے نکال لے، یعنی اس دوزخ سے، جہنم سے ہمیں نکال دے.پس اگر ہم پھر ایسا کریں تو یقیناً ہم ظلم کرنے والے ہوں گے.قَالَ اخْسَنُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ (المؤمنون: 109) وہ کہے گا، اسی میں تم واپس لوٹ جاؤ.وہیں رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو.إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرحمين (المؤمنون: 110) یقیناً میرے بندوں میں سے ایک ایسا فریق بھی تھا جو کہا کرتا تھا اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے.فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيَّا حَتَّى انْسَوْكُمْ ذِكْرِى وَكُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ (المؤمنون: 111) پس تم نے انہیں تمسخر کا نشانہ بنالیا، یہاں تک کہ اُنہوں نے تمہیں میری یاد سے غافل کر دیا.اور تم اُن سے ٹھٹھا کرتے رہے.اتي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ (المؤمنون : 112 ) یقیناً آج میں نے اُن کو اُس کی جو وہ صبر کیا کرتے تھے یہ جزا دی ہے کہ یقیناً وہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.پس یہ دشمنی کرنے والوں کا ، زندگی کے فیشن سے دور جا پڑنے والوں کا انجام ہے کہ جب اگلے جہان میں جا کر ان پر حقیقت واضح ہوگی تو پھر کہیں گے کہ ہماری بدبختی ہمیں گھیر کر یہاں تک لے آئی ہے.پس اے اللہ ! ہمیں ایک دفعہ لوٹا دے.ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے.اگر ہم ایسا کریں تو ظلم کرنے والے ہوں گے.لیکن خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ میرا قانون نہیں ہے.اب اپنے کئے کی سزا بھگتو.میرے سامنے سے دور ہو جاؤ اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے.اسی میں داخل ہو جاؤ.اب میں تمہاری کوئی بات ، کوئی چیخ و پکار نہیں سنوں گا.پس اللہ تعالیٰ نے جو چیخ و پکار یا با تیں سنی تھیں وہ اس دنیا میں اُن کی سنتا ہے جو نیکوں کا عمل ہے، نہ کہ ان لوگوں کی جو یہاں ظلم کرنے کے بعد اگلے جہان میں جاکے ( چیخ و پکار ) کریں.پس اللہ تعالیٰ نے یہ ایسے لوگوں سے سلوک کا ذکر فرمایا ہے جو اُس کے فرستادوں کی مخالفت
خطبات مسرور جلد 11 175 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء کرتے ہیں.وہ خدا جو ہر وقت اپنے بندے کی معافی مانگنے کے انتظار میں ہے وہ اب انکار کر دے گا کہ اب وقت گزر گیا.جب تم یہاں آگئے تو یہاں اعمال کی جزاملنی ہے.جو اعمال تم اُس دنیا میں کر آئے ہو، جو حرکتیں تم اُس دنیا میں میرے بندوں کے دل چھلنی کر کے کر آئے ہو، میرے آگے جھکنے والے اور میرے دین کی عظمت قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں سے جو سلوک تم نے روا رکھا، جس طرح وہ میرے کام کو آگے بڑھانا چاہتے تھے تم نے اُن کے کام میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی ، نہ صرف دوسروں کو اُن کی باتیں سننے سے روکا بلکہ اُن پر ظلم کی بھی انتہا کی.میرے نام کا کلمہ پڑھنے والوں کو تم نے ہنسی اور تمسخر کا نشانہ بنایا بلکہ اُن کے خون سے بھی کھیلتے رہے.پس اب معافی کس چیز کی؟ آج تمہاری کوئی بات نہیں سنی جائے گی.جاؤ اور اپنے ٹھکانے جہنم میں جا کر رہو.اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج یقیناً میرے وہ بندے جو میرے حکم کے مطابق، میرے وعدے کے مطابق آنے والے فرستادے پر ایمان لائے ، وہی اس قابل ہیں کہ اُن پر میں رحم کروں، اُن کی باتیں سنوں، اُن کو اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دوں.دنیا میں اُن پر کئے گئے ظلموں کی جزا اُن پر پیار کی نظر ڈال کر دوں.اس دنیا میں اُن کی جزا کئی گنا بڑھا کر دوں.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے وہ لوگو! جو میرے بندوں پر ظلم کرتے رہے، ان پر ظلموں اور ان پر تمسخر نے تمہیں اس حد تک اندھا کر دیا کہ تم میری ذات سے بھی غافل ہو گئے.میرے اس حکم کو بھول گئے کہ عمد امومنوں کی دل آزاری کرنا اور اُن کا قتل کرنا تمہیں جہنم کی آگ میں لے جائے گا.تو اپنے اس عہد کو بھول گئے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرو گے.تم نے یہ عہد کیا ہے لیکن تم بھول گئے.پس جب تم خدا تعالیٰ کے احکامات کو بھلا بیٹھے ہو، اُس کی یاد سے غافل ہو گئے ہو، اللہ تعالیٰ کے حکم کو اپنی مرضی کے مطابق توڑنے مروڑ نے لگ گئے ہو تو میرا اب تمہارے سے کوئی تعلق نہیں رہا.تم نے مظلوموں کی جائیدادوں کو لوٹا ، انہیں آگئیں لگائیں، اُن کی جائیدادوں پر قبضے کئے.اُن کے کاروباروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی.اگر مشترکہ کاروبار تھے تو اُن کے پیسے کھا گئے.غرض جرموں کی ایک لمبی فہرست ہے جو تم کرتے رہے.پس اب یہ جہنم کی سزا ہی تمہارا مقدر ہے.یہ قرآن کریم کہہ رہا ہے.کسی قسم کی نرمی اور معافی کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرو اور پھر ایمان لانے والوں اور رحم اور بخشش مانگنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یقیناً آج تمہارے صبر اور استقلال اور ایمان میں مضبوطی اور میرے سے تعلق کی وجہ سے ، میرے آگے جھکنے کی وجہ سے، میرا عبد بنے کی وجہ سے تم اُن لوگوں میں شمار کئے جاتے ہو جو کامیاب لوگ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے مورد بنے والے ہیں یا اللہ تعالیٰ کا رحم اور بخشش حاصل کرنے والے ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 176 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 مارچ 2013ء پس ان آیات کی رو سے یہ مومن اور غیر مومن کا فرق ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو اُس کا رحم اور بخشش حاصل کرنے والے ہیں.ہماری ہر قسم کی کوتاہیوں اور کمیوں کی پردہ پوشی فرمائے اور استقلال کے ساتھ دعاؤں کی طرف ہماری توجہ رہے اور فائِزُون “ میں ہمارا شمار ہو.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 5 اپریل 2013 ء تا 11 اپریل 2013ء،جلد 20 شمارہ 14 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد 11 177 12 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء خطبہ جمعہ سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء بمطابق 22 امان 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک شعری کلام میں فرماتے ہیں کہ:.وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا در ثمین صفحه 160 نظارت اشاعت ربوہ ) پھر آپ ایک کتاب میں ، ایک اشتہار میں فرماتے ہیں کہ :.و بعض نادانوں کا یہ خیال کہ گویا میں نے افتراء کے طور پر الہام کا دعویٰ کیا ہے، غلط ہے.بلکہ در حقیقت یہ کام اُس قادر خدا کا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اس جہان کو بنایا ہے.جس زمانہ میں لوگوں کا ایمان خدا پر کم ہو جاتا ہے اُس وقت میرے جیسا ایک انسان پیدا کیا جاتا ہے اور خدا اُس سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ سے اپنے عجائب کام دکھلاتا ہے.یہاں تک کہ لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا ہے“.کتاب البریہ، اشتہار واجب الاظہار.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 18 ) آج گو 22 / مارچ ہے لیکن 23 / مارچ کا دن جماعت احمد یہ میں یوم مسیح موعود کے حوالہ سے منایا جاتا ہے.کل انشاء اللہ 23 مارچ ہے.آج میں نے اس حوالے سے یہ مناسب سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں آپ کی صداقت کا ثبوت، اللہ تعالیٰ کی تائیدات، امام الزمان کی ضرورت، مسلمانوں کو آپ کو قبول کرنے اور مقام پہچانے کی دعوت جو آپ نے دی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں وہ پیش کروں.آپ فرماتے ہیں کہ : وہ حوادث ارضی اور سماوی جو مسیح موعود کے ظہور کی علامات ہیں ، وہ سب میرے وقت میں ظہور پذیر
خطبات مسرور جلد 11 178 66 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء ہو گئی ہیں.مدت ہوئی کہ خسوف کسوف رمضان کے مہینے میں ہو چکا ہے.چاند اور سورج گرہن کا جو نشان تھا وہ ظاہر چکا ہے اور ستارہ ذوالسنین بھی نکل چکا دمدار ستارہ اور زلزلے بھی آئے اور مری بھی پڑی“.یعنی ایسی بیماری جو طاعون وغیرہ.فرمایا ”مری بھی پڑی اور عیسائی مذہب بڑے زور شور سے دنیا میں پھیل گیا اور جیسا کہ آثار میں پہلے سے لکھا گیا تھا، بڑے تشدد سے میری تکفیر بھی ہوئی“.یہ بھی پیشگوئی تھی.پہلے بزرگ لکھ گئے تھے کہ مسیح موعود آئے گا تو اُس کی تکفیر بھی ہوگی ، اُسے کافر کہیں گے ، جھوٹا کہیں گے.فرمایا کہ " غرض تمام علامات ظاہر ہو چکی ہیں اور وہ علوم اور معارف ظاہر ہو چکے ہیں جو دلوں کو حق کی طرف ہدایت دیتے ہیں.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 299-298 حاشیہ ) پس یہ آپ نے اپنی صداقت کے بارے میں فرمایا کہ یہ ساری چیزیں ظاہر ہو رہی ہیں، پھر بھی تم لوگ ہوش نہیں کرتے.پھر اسی طرح ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں کہ میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو نیچر اور صحیفہ قدرت کے پیرو بننا چاہتے ہوں اُن کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ نہایت عمدہ موقع دیا ہے کہ وہ میرے دعوے کو قبول کریں.کیونکہ وہ لوگ ان مشکلات میں گرفتار نہیں ہیں جن میں ہمارے دوسرے مخالف گرفتار ہیں.کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے.جولوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اُن کو مسیح موعود کے دعوئی پر غور کرنا چاہئے.فرمایا اور پھر ساتھ اس کے انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کی نسبت جو پیشگوئی احادیث میں موجود ہے وہ ان متواترات میں سے ہے جن سے انکار کرنا کسی عظمند کا کام نہیں.پس اس صورت میں یہ بات ضروری طور پر انہیں قبول کرنی پڑتی ہے کہ آنے والا مسیح اسی اُمت میں سے ہوگا.البتہ یہ سوال کرنا اُن کا حق ہے کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا قبول کریں؟ یہ تو ٹھیک ہے کہ اس امت میں مسیح موعود ہوگا، لیکن یہ کس طرح صحیح ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے جو دعویٰ کیا ہے، وہ صحیح ہے؟ تو فرمایا اور اس پر دلیل کیا ہے کہ وہ مسیح موعود تم ہی ہو؟ فرمایا اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانہ اور جس ملک اور جس قصبہ میں مسیح موعود کا ظاہر ہونا قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور جن افعال خاصہ کو مسیح کے وجود کی علت غائی ٹھہرایا گیا ہے یعنی یہ ضروری چیز ٹھہرایا گیا ہے اور جن حوادث ارضی اور سماوی کو مسیح موعود کے ظاہر ہونے کی علامات بیان فرمایا گیا ہے اور جن علوم اور معارف کو مسیح موعود کا خاصہ ٹھہرایا گیا ہے، وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانہ میں اور میرے ملک میں جمع کر دی ہیں
خطبات مسرور جلد 11 179 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء اور پھر زیادہ تر اطمینان کے لئے آسمانی تائیدات میرے شامل حال کی ہیں.آپ نے یہ فارسی شعر آگے لکھا ہے کہ چوں مراحکم از پئے قوم مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند آسماں بار دنشان الوقت می گوید ز میں ایس دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند کہ مجھے چونکہ مسیح کی قوم کے لئے حکم دیا گیا ہے، اس لئے میرا نام ابنِ مریم رکھا گیا ہے.آسمان نشان برسا رہا ہے، زمین بھی کہہ رہی ہے کہ یہی وقت ہے.یہ دو گواہ میری تصدیق کے لئے کھڑے ہیں.فرماتے ہیں: "اب تفصیل اس کی یہ ہے کہ اشارات نص قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں اور آپ کا سلسلہ خلافت حضرت موسیٰ کے سلسلۂ خلافت سے بالکل مشابہ ہے.اور جس طرح حضرت موسیٰ کو وعدہ دیا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں یعنی جبکہ سلسلہ اسرائیلی نبوت کا انتہا تک پہنچ جائے گا اور بنی اسرائیل کئی فرقے ہو جائیں گے اور ایک، دوسرے کی تکذیب کرے گا یہاں تک کہ بعض بعض کو کافر کہیں گے.تب اللہ تعالیٰ ایک خلیفہ حامی دینِ موسیٰ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کرے گا.اور وہ بنی اسرائیل کی مختلف بھیڑوں کو اپنے پاس اکٹھی کرے گا.اور بھیڑیئے اور بکری کو ایک جگہ جمع کر دے گا.اور سب قوموں کے لئے ایک حکم بن کر اندرونی اختلاف کو درمیان سے اٹھا دے گا.مطلب یہ کہ مظلوم قوموں کو اور ظالم قوموں کو اکٹھا کرے گا.اور بغض اور کینوں کو دور کر دے گا.یہی وعدہ قرآن میں بھی دیا گیا تھا جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا ( الجمعة : 4 ) اور حدیثوں میں اس کی بہت تفصیل ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ یہ امت بھی اسی قدر فرقے ہو جائیں گے جس قدر کہ یہود کے فرقے ہوئے تھے.اور ایک دوسرے کی تکذیب اور تکفیر کرے گا“.ایک دوسرے کو جھوٹا اور کافر کہیں گے اور یہ سب لوگ عناد اور بغض باہمی میں ترقی کریں گے“.یعنی ایک دوسرے سے بغض میں اور ایک دوسرے سے دشمنی میں بڑھتے چلے جائیں گے ” اُس وقت تک کہ مسیح موعود حکم ہو کر دنیا میں آوے.اور جب وہ حکم ہو کر آئے گا تو بغض اور حناء کو دور کر دے گا.“ یعنی بغض اور کینہ اور دشمنی جو ہے اُس کو دور کر دے گا اور اس کے زمانہ میں بھیٹر یا اور بکری ایک جگہ جمع ہو جائیں گے.“ یہ ظالم اور مظلوم جو ہیں ، یا کمزور اور طاقتور جو ہیں وہ اکٹھے ہو کر ایک دین پر قائم ہوں گے اور صرف خدا تعالیٰ کی جو رضا ہے اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے چنانچہ یہ بات تمام تاریخ جاننے والوں کو معلوم ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایسے ہی وقت میں آئے تھے کہ جب اسرائیلی قوموں میں بڑا بلم
خطبات مسرور جلد 11 180 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء تفرقہ پیدا ہو گیا تھا.اور ایک دوسرے کے مکفر اور مکذب ہو گئے تھے.اسی طرح یہ عاجز بھی ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب اندرونی اختلافات انتہا تک پہنچ گئے اور ایک فرقہ دوسرے کو کافر بنانے لگا.اس تفرقہ کے وقت میں اُمت محمدیہ کو ایک حکم کی ضرورت تھی.سوخدا نے مجھے حکم کر کے بھیجا ہے.آج بھی آپ دیکھ لیں کہ کفر کے فتوے ایک دوسرے پر لگاتے ہیں چاہے.جماعت احمدیہ کے لئے ، کافر بنانے کے لئے ، گالیاں دینے کے لئے ایک ہو جائیں، اکٹھے ہو جا ئیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے پر ان کے فتوے جو ہیں وہ قائم ہیں.پھر فرمایا : ” اور یہ ایک عجیب اتفاق ہو گیا ہے جس کی طرف نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا اشارہ پایا جاتا ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ سے تیرہ سو برس بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوئے اسی طرح یہ عاجز بھی چودھویں صدی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا.معلوم ہوتا ہے کہ اسی لحاظ سے بڑے بڑے اہل کشف اسی بات کی طرف گئے کہ وہ مسیح موعود چودھویں صدی میں مبعوث ہوگا“.فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے میرا نام غلام احمد قادیانی رکھ کر اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ اس نام میں تیرہ سو کا عدد پورا کیا گیا ہے.غلام احمد قادیانی میں حروف ابجد کے لحاظ سے تیرہ سو کا عدد پورا ہوتا ہے غرض قرآن اور احادیث سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ آنے والا مسیح چودھویں صدی میں ظہور کرے گا اور وہ تفرقہ مذاہب اسلام اور غلبہ با ہمی عناد کے وقت میں آئے گا.کتاب البریۃ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 254 تا 258 حاشیہ) پھر ا پنی صداقت کا ایک اور ثبوت دیتے ہیں.فرمایا کہ: فصوص الحکم میں شیخ ابن العربی اپنا ایک کشف یہ لکھتے ہیں کہ وہ خاتم الولایت ہے اور تو ام پیدا ہوگا.( یعنی مسیح موعود) اور ایک لڑکی اُس کے ساتھ متولد ہوگی.اور وہ چینی ہو گا.یعنی اُس کے باپ دادے چینی ممالک میں رہے ہوں گے.سوخدا تعالیٰ کے ارادے نے ان سب باتوں کو پورا کر دیا.میں لکھ چکا ہوں کہ میں تو ام پیدا ہوا تھا (جڑواں پیدا ہواتھا) اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی اور ہمارے بزرگ سمر قند میں جو چین سے تعلق رکھتا ہے (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 313 حاشیہ) رہتے تھے.“ پھر آپ فرماتے ہیں : میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ قرآن شریف کی رُو سے کوئی دعوی مامورمن اللہ ہونے کا اکمل اور اتم طور پر اُس صورت میں ثابت ہو سکتا ہے جبکہ تین پہلو سے اس کا ثبوت ظاہر ہو.اول یہ کہ نصوص صریحہ
خطبات مسرور جلد 11 181 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء اُس کی صحت پر گواہی دیں ، یعنی وہ دعوی کتاب اللہ کے مخالف نہ ہو.دوسرے یہ کہ عقلی دلائل اُس کے مؤید اور مصدق ہوں.تیسرے یہ کہ آسمانی نشان اُس مدعی کی تصدیق کریں.سوان تینوں وجوہ استدلال کے رُو سے میرا دعویٰ ثابت ہے.نصوص حدیثیہ جو طالب حق کو بصیرت کامل تک پہنچاتی ہیں“.یعنی ان کا ثبوت جن سے اگر کوئی حق کا طالب ہے اور حق کا طالب ہونا شرط ہے، یہ نہیں کہ ڈھٹائی اور ضد ہو، تو وہ اُس کو کامل بصیرت تک پہنچاتی ہیں، اُس کو حق دکھاتی ہیں ” اور میرے دعوی کی نسبت اطمینان کامل بخشتی ہیں، اُن میں سے مسیح موعود اور مسیح بنی اسرائیلی کا اختلاف حلیہ ہے.چنانچہ صحیح بخاری کے صفحہ 485, 1055,876‘ ( بخاری کی جس کتاب کا آپ نے حوالہ دیا اس میں یہ صفحات لکھے ہوئے ہیں لیکن بہر حال بخاری میں باب نزول عیسی اور کتاب الانبیاء میں اس کا ذکر ہے.جس میں دونوں کے مسیح بنی اسرائیل اور مسیح محمدی کے مسیح موعود کے حلیے درج ہیں جو علیحدہ علیحدہ ہیں.فرمایا: ان حدیثوں وغیرہ میں جو مسیح موعود کے بارے میں حدیث ہے جس میں یہ بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو عالم کشف میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اُس میں اُس کا حلیہ یہ لکھا ہے کہ وہ گندم گوں تھا اور اُس کے بال گھونگر والے نہیں تھے بلکہ صاف تھے.اور پھر اصل مسیح علیہ السلام جو اسرائیلی نبی تھا، اُس کا حلیہ یہ لکھا ہے کہ وہ سرخ رنگ تھا جس کے گھونگر والے بال تھے.اور صحیح بخاری میں جا بجای التزام کیا گیا ہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حلیہ میں گندم گوں اور سید ھے بال لکھ دیا ہے اور حضرت عیسی کے حلیہ میں جا بجا سرخ رنگ اور گھونگر والے بال لکھتا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کو ایک علیحدہ انسان قرار دیا ہے اور اُس کی صفت میں اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ بیان فرمایا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو علیحدہ انسان قرار دیا ہے.اور بعض مناسبات کے لحاظ سے عیسی بن مریم کا نام دونوں پر اطلاق کر دیا ہے.فرمایا اور ایک اور بات غور کرنے کے لائق ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مسیح موعود کا ذکر کیا ہے، اُس جگہ صرف اسی پر کفایت نہیں کی کہ اُس کا حلیہ گندم گوں اور صاف بال لکھا ہے بلکہ اُس کے ساتھ دجال کا بھی جا بجا کر کیا ہے.مگر جہاں حضرت عیسی علیہ السلام بنی اسرائیلی کا ذکر کیا ہے، وہاں دجال کا ساتھ ذکر نہیں کیا.پس اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں عیسی بن مریم دو تھے.ایک وہ جو گندم گوں اور صاف بالوں والا ظاہر ہونے والا تھا جس کے ساتھ دجال ہے.اور دوسرا وہ جو سرخ رنگ اور گھونگریالے بالوں والا ہے اور بنی اسرائیلی ہے جس کے ساتھ دجال نہیں.اور یہ بات بھی یادرکھنے کے لائق ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام شامی تھے اور شامیوں کو آدم یعنی
خطبات مسرور جلد 11 182 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء گندم گوں ہرگز نہیں کہا جاتا.مگر ہندیوں کو آدم یعنی گندم گوں کہا جاتا ہے.اس دلیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ گندم گوں مسیح موعود جو آنے والا بیان کیا گیا ہے وہ ہر گز شامی نہیں ہے بلکہ ہندی ہے.اس جگہ یاد رہے کہ نصاریٰ کی تواریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی گندم گوں نہیں تھے بلکہ عام شامیوں کی طرح سرخ رنگ تھے.مگر آنے والے مسیح موعود کا حلیہ ہرگز شامیوں کا حلیہ نہیں ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے.( کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 299 تا302 حاشیہ ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت کے مولوی اگر دیانت اور دین پر قائم ہو کر سوچیں تو انہیں ضرور اقرار کرنا پڑے گا کہ چودھویں صدی کے مجدد کا کام کسر صلیب ہے اور چونکہ یہ وہی کام ہے جو مسیح موعود سے مخصوص ہے اس لئے بالضرورت یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود چاہئے اور اگر چہ چودھویں صدی میں فسق و فجور بھی مثل شراب خوری و زنا کاری وغیرہ بہت پھیلے ہوئے ہیں.یعنی بہت سارے فسق و فجور پھیلے ہوئے ہیں، مثلاً شراب خوری ، زنا کاری ”مگر بغور نظر معلوم ہوگا کہ ان سب کا سبب ایسی تعلیمیں ہیں جن کا یہ مدعا ہے کہ ایک انسان کے خون نے گناہوں کی باز پرس سے کفایت کر دی ہے“.یہ جو اتنی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظریہ قائم ہو گیا ہے، یہ تعلیم ہے کہ حضرت عیسی کے کفارہ کی وجہ سے اُن سے اُن کے گناہوں کی باز پرس نہیں ہوگی ، پوچھا نہیں جائے گا.فرمایا ” اسی وجہ سے ایسے جرائم کے ارتکاب میں یورپ سب سے بڑھا ہوا ہے.اس میں سارے مغربی ممالک شامل ہیں اور دوسرے ممالک بھی جہاں چھوٹ ہے، اب تو ہر جگہ یہ پھیلتی چلی جا رہی ہے.فرمایا ” پھر ایسے لوگوں کی مجاورت کے اثر سے یعنی اُن کی ہمسائیگی سے، اُن کے ساتھ بیٹھنے اُٹھنے سے عموماً ہر ایک قوم میں بے قیدی اور آزادی بڑھ گئی ہے.اب صرف یہ یورپ کے ساتھ نہیں رہا، بلکہ جہاں بھی یہ پھیل رہے ہیں ، جار ہے ہیں ، یا آجکل ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع سے آزادی پہنچ رہی ہے، وہاں بھی ہر قسم کی قید سے آزاد ہورہے ہیں اور بے حیائی بڑھتی چلی جارہی ہے.فرمایا اگر چہ لوگ بیماریوں سے ہلاک ہو جائیں اور اگر چہ و با اُن کو کھا جائے مگر کسی کو خیال بھی نہیں آتا کہ یہ تمام عذاب شامت اعمال سے ہے.“ بہت سارے عذاب جو آ رہے ہیں ، طوفان ہے، زلزلے ہیں، یہ لوگوں کی شامت اعمال ہے، کوئی سوچتا نہیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی تو ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہوگئی ہے اور اُس ذو الجلال کی عظمت دلوں پر سے گھٹ گئی ہے.پس آجکل بھی جو آفات آتی ہیں یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے اور ہمیں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے اور جو نہ ماننے والے ہیں اُن کو بھی سوچنا چاہئے.
خطبات مسرور جلد 11 183 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء فرمایا: ” غرض جیسا کہ کفارہ کی بے قیدی نے یورپ کی قوموں کو شراب خواری اور ہر ایک فسق و فجور پر دلیر کیا.ایسا ہی اُن کا نظارہ دوسری قوموں پر اثر انداز ہوا.اس میں کیا شک ہے کہ فسق و فجور بھی ایک بیماری متعدی ہے.ایک شریف عورت کنجریوں کی دن رات صحبت میں رہ کر اگر صریح بد کاری تک نہیں پہنچے گی تو کسی قدر گندے حالات کے مشاہدہ سے دل اس کا ضرور خراب ہوگا“.کیونکہ صحبت اثر ڈالتی ہے، حالات اثر ڈالتے ہیں، ماحول اثر ڈالتا ہے.پھر فرمایا: ”خدا تعالیٰ کی غیرت اور رحمت نے چاہا کہ صلیبی عقیدے کے زہرناک اثر سے لوگوں کو بچاوے اور جس دجالیت سے انسان کو خدا بنایا گیا ہے، اُس دجالیت کے پر دے کھول دیوے اور چونکہ چودھویں صدی کے شروع تک یہ بلا کمال تک پہنچ گئی تھی، یعنی یہ مصیبت اور بلا جو ہے یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت نے چاہا کہ چودھویں صدی کا مجدد کسر صلیب کرنے والا ہو.کیونکہ مجدد بطور طبیب کے ہے اور طبیب کا کام یہی ہے کہ جس بیماری کا غلبہ ہو اُس بیماری کی قلع قمع کی طرف توجہ کرے.پس اگر یہ بات صحیح ہے کہ کسر صلیب مسیح موعود کا کام ہے تو یہ دوسری بات بھی صحیح ہے کہ چودھویں صدی کا مجد دجس کا فرض کسر صلیب ہے مسیح موعود ہے“.( کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 303 تا 305 حاشیہ ) پھر کسر صلیب کس طرح ہوگی؟ اس بارہ میں آپ فرماتے ہیں:.اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو کیونکر اور کن وسائل سے کسر صلیب کرنا چاہئے؟ کیا جنگ اور لڑائیوں سے جس طرح ہمارے مخالف مولویوں کا عقیدہ ہے؟ یا کسی اور طور سے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مولوی لوگ ، ( خدا ان کے حال پر رحم کرے) اس عقیدہ میں سراسر غلطی پر ہیں.مسیح موعود کا منصب ہرگز نہیں ہے کہ وہ جنگ اور لڑائیاں کرے بلکہ اُس کا منصب یہ ہے کہ مجج عقلیہ یعنی عقلی دلائل سے اور آیات سماویہ آسمانی نشانات سے اور دعا سے اس فتنہ کو فرو کرے.یہ تین ہتھیار خدا تعالیٰ نے اُس کو دیئے ہیں اور تینوں میں ایسی اعجازی قوت رکھی ہے جس میں اُس کا غیر ہرگز اس سے مقابلہ نہیں کر سکے گا.آخر اسی طور سے صلیب تو ڑا جائے گا.یہاں تک کہ ہر ایک محقق نظر سے اُس کی عظمت اور بزرگی جاتی رہے گی جو بھی تحقیق کرنے کی نظر سے دیکھے گا، اس پر غور کرے گا، اس پر صلیب کی عظمت اور بزرگی اور جو اثر پڑا ہوا ہے، وہ ختم ہو جائے گا اور رفتہ رفتہ توحید قبول کرنے کے وسیع دروازے کھلیں گے.یہ سب کچھ تدریجاً ہوگا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے سارے کام تدریجی ہیں.کچھ ہماری حیات میں اور کچھ بعد میں ہوگا.
خطبات مسرور جلد 11 184 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء اسلام ابتدا میں بھی تدریجا ہی ترقی پذیر ہوا ہے اور پھر انتہا میں بھی تدریجاً اپنی پہلی حالت کی طرف آئے (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 305 حاشیہ) گا.پس اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کا بھی فرض ہے کہ اس فریضہ کی سرانجام دہی میں مصروف ہوں اور تو حید کو قائم کرنے کی کوشش کریں.پھر آپ اپنے امام اور حکم ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : یادر ہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول، محدث، مجد دسب داخل ہیں.مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کیلئے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات ان کو دیئے گئے وہ گوولی ہوں یا ابدال ہوں امام الزمان نہیں کہلا سکتے.اب بال آخر یہ سوال باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے جس کی پیروی تمام عام مسلمانوں اور زاہدوں اور خواب بینوں اور ملکموں کو کرنی خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے.یعنی ہر مسلمان کو، ہر نیک آدمی کو ، جن کو خوا میں آتی ہیں اُن کو بھی ، جن کو الہام ہوئے ہیں مسیح کے آنے کے، امام کے آنے کے ، اُن کو بھی سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان میں ہوں اور مجھ میں خدا تعالیٰ نے وہ تمام علامتیں اور تمام شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے جس میں سے پندرہ برس گزر بھی گئے اور ایسے وقت میں میں ظاہر ہوا ہوں کہ جب کہ اسلامی عقیدے اختلافات سے بھر گئے تھے.اور کوئی عقیدہ اختلاف سے خالی نہ تھا.ایسا ہی مسیح کے نزول کے بارے میں نہایت غلط خیال پھیل گئے تھے اور اس عقیدے میں بھی اختلاف کا یہ حال تھا کہ کوئی حضرت عیسی کی حیات کا قائل تھا اور کوئی موت کا.اور کوئی جسمانی نزول مانتا تھا اور کوئی بروزی نزول کا معتقد تھا.اور کوئی دمشق میں ان کو اتار رہا تھا اور کوئی مکہ میں.اور کوئی بیت المقدس میں اور کوئی اسلامی لشکر میں.اور کوئی خیال کرتا تھا کہ ہندوستان میں اتریں گے.پس یہ تمام مختلف رائیں اور مختلف قول ایک فیصلہ کرنے والے حکم کو چاہتے تھے سو وہ حکم میں ہوں.میں روحانی طور پر کسر صلیب کے لئے اور نیز اختلافات کے دُور کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں.ان ہی دونوں امروں نے تقاضا کیا کہ میں بھیجا جاؤں.میرے لئے ضروری نہیں تھا کہ میں اپنی حقیت کی کوئی اور دلیل پیش کروں کیونکہ ضرورت خود دلیل ہے“.جو حالات تھے وہ مسیح موعود کے آنے کا تقاضا کر رہے تھے اور ضرورت تھی اور یہی دلیل کافی تھی.لیکن پھر بھی میری تائید میں خدا تعالیٰ نے کئی نشان ظاہر کئے ہیں.اور میں جیسا کہ اور اختلافات میں فیصلہ کرنے کے لئے حکم ہوں.ایسا ہی وفات حیات کے جھگڑے میں بھی حکم ہوں.اور میں امام مالک اور
خطبات مسرور جلد 11 185 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء ابن حزم اور معتزلہ کے قول کو مسیح کی وفات کے بارے میں صحیح قرار دیتا ہوں اور دوسرے اہل سنت کوغلطی کا مرتکب سمجھتا ہوں.سو میں بحیثیت حکم ہونے کے ان جھگڑا کرنے والوں میں یہ حکم صادر کرتا ہوں کہ نزول کے اجمالی معنوں میں یہ گروہ اہل سنت کا سچا ہے کیونکہ مسیح کا بروزی طور پر نزول ہونا ضروری تھا.ہاں نزول کی کیفیت بیان کرنے میں ان لوگوں نے غلطی کھائی ہے.ایک حد تک تو سچا ہے کہ نزول بروزی ہونا تھا لیکن کیفیت میں غلطی کھائی.نزول صفت بروزی تھا ،نہ کہ حقیقی.اور مسیح کی وفات کے مسئلہ میں معتزلہ اور امام مالک اور ابن حزم وغیرہ ہمکلام اُن کے بچے ہیں کیونکہ بموجب نص صریح آیت کریمہ یعنی آیت فَلَمَّا تَوَفَّيتنى کے مسیح کا عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے وفات پانا ضروری تھا.یہ میری طرف سے بطور حکم کے فیصلہ ہے.اب جو شخص میرے فیصلہ کو قبول نہیں کرتا وہ اس کو قبول نہیں کرتا جس نے مجھی حکم مقرر فرمایا ہے.اگر یہ سوال پیش ہو کہ تمہارے حکم ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ جس زمانہ کے لئے حکم آنا چاہئے تھا وہ زمانہ موجود ہے.اور جس قوم کی صلیبی غلطیوں کی حکم نے اصلاح کرنی تھی وہ قوم موجود ہے.اور جن نشانوں نے اس حکم پر گواہی دینی تھی وہ نشان ظہور میں آچکے ہیں“.آسمانی بھی اور زمینی بھی.اور اب بھی نشانوں کا سلسلہ شروع ہے.آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے.زمین نشان ظاہر کر رہی ہے اور مبارک وہ جن کی آنکھیں اب بند نہ رہیں.“ ( ضرورة الامام.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 496-495) اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کی آنکھیں کھولے اور حکم کو ماننے والے بنیں.پھر آپ فرماتے ہیں :.” میرے مخالف اپنے دلوں میں آپ ہی سوچیں کہ اگر میں درحقیقت وہی مسیح موعود ہوں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک باز و قرار دیا ہے اور جس کو سلام بھیجا ہے اور جس کا نام حکم اور عدل اور امام اور خلیفہ اللہ رکھا ہے تو کیا ایسے شخص پر ایک معمولی بادشاہ کے لئے یا کسی کے لئے بھی لعنتیں بھیجنا، اس کو گالیاں دینا جائز تھا؟ یہ ترکی کے بادشاہ کا ذکر ہے لیکن بہر حال اس کو میں چھوڑتا ہوں.فرمایا کہ ذرہ اپنے جوش کو تھام کے سوچیں.نہ میرے لئے ، بلکہ اللہ اور رسول کے لئے کہ کیا ایسے مدعی کے ساتھ ایسا کرنا روا تھا؟ میں زیادہ کہنا نہیں چاہتا.کیونکہ میرا مقدمہ تم سب کے ساتھ آسمان پر ہے.اگر میں وہی ہوں جس کا وعدہ نبی کے پاک لبوں نے کیا تھا تو تم نے نہ میرا بلکہ خدا کا گناہ کیا ہے.اور اگر پہلے سے آثار صحیحہ میں یہ وارد نہ ہوتا کہ اس کو دُکھ دیا جائے گا اور اس پر لعنتیں بھیجی جائیں گی.جیسا کہ پہلے بھی ذکر
خطبات مسرور جلد 11 186 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء ہو چکا ہے تو تم لوگوں کی مجال نہ تھی جو تم مجھے وہ دُکھ دیتے جو تم نے دیا.یہ تو دیا جانا مقدر تھا، مسیح کے لئے پہلے لکھا گیا تھا ” پر ضرور تھا کہ وہ سب نوشتے پورے ہوں جو خدا کی طرف سے لکھے گئے تھے اور اب تک تمہیں ملزم کرنے کے لئے تمہاری کتابوں میں موجود ہیں جن کو تم زبان سے پڑھتے اور پھر تکفیر اور لعنت کر کے مہر لگا دیتے ہو کہ وہ بد علماء اور ان کے دوست جو مہدی کی تکفیر کریں گے اور مسیح سے مقابلہ سے پیش آئیں گے وہ تم ہی ہو“.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 329-328) پھر آپ فرماتے ہیں : پھر یہ بھی سوچو کہ جس حالت میں میں وہ شخص ہوں جو اُس مسیح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتا ہوں جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ وہ تمہارا امام اور خلیفہ ہے اور اس پر خدا اور اس کے نبی کا سلام ہے اور اس کا دشمن لعنتی اور اس کا دوست خدا کا دوست ہے.اور وہ تمام دنیا کے لئے حکم ہو کر آئے گا.اور اپنے تمام قول اور فعل میں عادل ہوگا“.تو کیا یہ تقویٰ کا طریق تھا کہ میرے دعوی کو سن کر اور میرے نشانوں کو دیکھ کر اور میرے ثبوتوں کا مشاہدہ کر کے مجھے یہ صلہ دیتے کہ گندی گالیاں اور ٹھٹھے اور ہنسی سے پیش آتے ؟ کیا نشان ظاہر نہیں ہوئے؟ کیا آسمانی تائید میں ظہور میں نہیں آئیں؟ کیا ان سب وقتوں اور موسموں کا پتہ نہیں لگ گیا جو احادیث اور آثار میں بیان کی گئی تھیں؟ تو پھر اس قدر کیوں بیبا کی دکھلائی گئی؟ ہاں اگر میرے دعوے میں اب بھی شک تھا یا میرے دلائل اور نشانوں میں کچھ شبہ تھا تو غربت اور نیک نیتی ، عاجزی اور نیک نیتی سے اور خدا ترسی سے اس شبہ کو دور کرایا ہوتا“.(کتاب البریۃ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 328) آپ فرماتے ہیں : ” میں نے بار بار کہا کہ آؤ اپنے شکوک مٹالو.اپنے شکوک اور شبہات جو ہیں مثالو پر کوئی نہیں آیا.میں نے فیصلہ کے لئے ہر ایک کو بلایا.پر کسی نے اس طرف رخ نہیں کیا.میں نے کہا کہ تم استخارہ کرو اور رو رو کر خدا تعالیٰ سے چاہو کہ وہ تم پر حقیقت کھولے پر تم نے کچھ نہ کیا.اور تکذیب سے بھی باز نہ آئے.خدا نے میری نسبت سچ کہا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص در حقیقت سچا ہو اور ضائع کیا جائے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خدا کی طرف سے ہو اور برباد ہو جائے؟ پس اے لوگو تم خدا سے مت لڑو.یہ وہ کام ہے جو خدا تمہارے لئے اور تمہارے ایمان کے لئے کرنا چاہتا ہے.اس کے مزاحم مت ہو.اگر تم بجلی کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہومگر خدا کے سامنے تمہیں ہرگز
خطبات مسرور جلد 11 187 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء طاقت نہیں.اگر یہ کاروبار انسان کی طرف سے ہوتا تو تمہارے حملوں کی کچھ بھی حاجت نہ تھی.خدا اس کے نیست و نابود کرنے کے لئے خود کافی تھا.افسوس کہ آسمان گواہی دے رہا ہے اور تم نہیں سنتے.اور زمین ضرورت ضرورت بیان کر رہی ہے اور تم نہیں دیکھتے ! اے بد بخت قوم اٹھ اور دیکھ کہ اس مصیبت کے وقت میں جو اسلام پیروں کے نیچے کچلا گیا اور مجرموں کی طرح بے عزت کیا گیا.وہ جھوٹوں میں شمار کیا گیا.وہ نا پاکوں میں لکھا گیا تو کیا خدا کی غیرت ایسے وقت میں جوش نہ مارتی.اب سمجھ کہ آسمان جھکتا چلا آتا ہے اور وہ دن نزدیک ہیں کہ ہر ایک کان کو آنا الْمَوْجُود “ کی آواز آئے.کتاب البریۃ.روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 330-329) اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے کان کھولے اور یہ آواز سننے والے ہوں.اب اس کے بعد اس وقت میں ایک افسوسناک خبر بھی بتانا چاہتا ہوں جو مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کی وفات کی ہے، جو تحریک جدید میں آجکل وکیل التعلیم تھے اور پرانے دیرینہ خادم سلسلہ تھے.16 مارچ کو 79 سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.آپ 21 جون 1934ء میں مکرم صوفی غلام محمد صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے ، جو صحابی تھے.آپ کے دادا بھی صحابی تھے.آپ کے دادا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے 313 صحابہ میں سے تھے.اور 5 رجون 1895ء میں اُن کی بیعت تھی.تقسیم ہند کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان چلے گئے تھے، درویشان قادیان میں شامل ہو گئے تھے، قادیان میں ہی اُن کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں ہی دفن ہوئے.مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب کے والد صوفی غلام محمد صاحب کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا شرف حاصل تھا.اور مکرم صوفی صاحب کو بھی واقف زندگی کے طور پر مختلف حیثیتوں سے سلسلہ کی بھر پور خدمت کی توفیق ملی.تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بطور استاد بھی رہے، سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ ہاؤس تحریک جدیدر ہے.ناظر بیت المال خرچ بھی رہے.ناظرِ اعلیٰ ثانی صدر انجمن احمد یہ بھی رہے.غرض مختلف عہدوں پر ان کو خدمت کی توفیق ملی.مصلح الدین صاحب کے دادا کا تعلق گجرات سے تھا.ان کے والدین نے تو پہلے ہی ان کو وقف کے لئے پیش کیا ہوا تھا.18 جون 1949ء کو انہوں نے خودا پنی زندگی سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دی.اور ستمبر 1949 ء میں میٹرک کے بعد وقف کرنے والے آٹھ واقفین کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ربوہ میں انٹرویو کے لئے بلایا، اور خود ہی اُن کے پرچے سیٹ کئے اور خود ہی اُن کا امتحان لیا، انٹر ویولیا.اُن میں ایک
خطبات مسرور جلد 11 188 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء مبارک مصلح الدین صاحب بھی تھے.پھر بعض کو فرمایا کہ کالج میں مزید تعلیم حاصل کریں.تعلیم الاسلام ہائی سکول میں نویں تک آپ پڑھے تھے.پھر چنیوٹ میں جو تعلیم الاسلام ہائی سکول تھا، یہاں سے انہوں نے میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا.پھر 1953ء میں تعلیم الاسلام کالج لاہور سے بی ایس سی کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ریاضی میں ایم.ایس سی کی.اور پھر جیسا کہ یہ وقف تھے ، 1956 ء کو وکالت دیوان میں یہ حاضر ہوئے.آپ کا پہلا تقر رامانت تحریک جدید میں کیا گیا.چند ماہ وہاں کام کیا، پھر وکالت مال میں تقرر ہوا.پھر آپ کو جماعت کا ایک تجارتی ادارہ تھا، ایشو افریقن ، وہاں بھجوایا گیا، چند سال وہاں رہے.1964ء کے آغاز میں واپس تحریک جدید میں آئے اور وکالت مال ثانی میں 1972 ء تک بطور نائب وکیل المال ثانی رہے اور 1972ء سے 2001ءتک وکیل المال کے طور پر کام کیا.اُس کے بعد 2001 ء سے آپ وفات تک وکیل التعلیم رہے.اور اس کے علاوہ بھی جماعت کی مختلف کمیٹیوں اور بورڈ جو تھے ان کے ممبر رہے.مجلس کار پرداز بہشتی مقبرہ کے ممبر بھی تھے.بڑے صائب الرائے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی سوچ سمجھ کے مشورہ دینے والے اور گہرا علم رکھنے والے، ہر اُس کمیٹی میں جہاں یہ ممبر تھے ، ان کی حاضری ایک تو با قاعدہ ہوتی تھی ، دوسرے با قاعدہ تحقیق کر کے علم حاصل کر کے جایا کرتے تھے.خلافت سے بھی بے انتہا اخلاص اور محبت کا تعلق تھا.قرآن کریم کے بھی بہت سے حصے آپ کو حفظ تھے.تلاوت بڑی اچھی کیا کرتے تھے.اکثر شوری کے موقع پر ان کو تلاوت کا موقع ملتا تھا.خدمت کا سلسلہ ستاون سال پر محیط ہے.ذیلی تنظیموں میں بھی خدام الاحمدیہ وغیرہ میں بڑا لمبا عرصہ کام کیا.1964ء میں ان کی شادی ہوئی اور ان کی اہلیہ بھی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی تھیں.کھارے کے رہنے والے صوبیدار غلام رسول صاحب ان کے والد تھے.ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ گھر میں آئے مہمان یا کام کرنے والے اگر سلسلہ کے نظام کے خلاف کبھی کوئی بات کرتے تو انہیں سختی سے منع فرماتے اور کبھی سلسلہ کے خلاف بات برداشت نہیں کرتے تھے.ان کی اہلیہ لجنہ پاکستان کی نائب صدر ہیں.کہتی ہیں جب لجنہ کے کام کے لئے مجھے دورہ جات کے لئے جانا ہوتا تو کبھی مجھے منع نہیں کیا بلکہ جماعتی کا موں کو ہمیشہ اولیت دیتے رہے اور بعض موقعے ایسے بھی آئے کہ کہا ٹھیک ہے لجنہ کا کام کرو، کھانا بھی خود پکانا پڑا تو پکا لیا.میں نے کچھ سال پہلے ان کو بنگلہ دیش کے دورے پر بھجوایا تھا ان کے بیٹے منصور انجم صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں ان کو شدید دل کی تکلیف شروع ہوئی اور سانس بھی رکنے لگ گیا تکلیف بڑی پرانی تقریباً تیس سال سے چل رہی تھی، تو کہتے ہیں
خطبات مسرور جلد 11 189 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء میں نے ان کو فون کیا کہ میں بنگلہ دیش آ جاتا ہوں، میرا کینیڈا سے آنا آسان ہے.جواب دیا کہ نہیں ، یہاں خلیفہ وقت نے کہا ہوا ہے اور جماعت پورا خیال رکھ رہی ہے، تمہیں آنے کی ضرورت نہیں ہے.کوئی بات بھی ہوتی تو وہ خلیفہ وقت سے ضرور پوچھتے.ان کے بیٹے حافظ ناصر الدین، یہ حافظ قرآن ہیں لکھتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے پاس مختلف لوگوں کی امانتیں تھیں اور لوگوں کی امانتوں اور چندوں اور وصیتوں کا حساب بھی آپ کے پاس ہوتا تھا جو آپ با قاعدگی سے ادائیگیاں کرتے اور پھر اُن کو اطلاع کرتے تھے.مجد الدین صاحب ان کے بیٹے ہیں وہ کہتے ہیں کہ گھر میں کبھی کوئی بات ہوتی ، عام معاملات میں بھی بات کر رہے ہوتے تو تھوڑی دیر کے بعد یہ آتے اور کہتے کہ میں نے اس بارے میں مشورے کے لئے اور دعا کے لئے خلیفہ وقت کو خط لکھ دیا ہے.ہر بات جو تھی وہ پوچھا کرتے تھے، چاہے وہ گھر یلو ہو.اور کہا کرتے تھے کہ واقف زندگی کبھی بھی کسی چیز کا تقاضا نہیں کرتا.کہتے ہیں وقف زندگی کے فارم میں اب تو مختلف شرائط بنادی گئی ہیں.ہمارے سامنے تو وقف زندگی کا جو فارم تھا اُس میں صرف یہی ایک شرط تھی کہ مطالبہ نہیں کرنا.اور ان کے بچے کہتے ہیں کبھی ہمیں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ واقف زندگی ہونے کی وجہ سے ہمیں کسی چیز کی کمی ہو.اپنے او پر تنگی وارد کر کے بھی ہماری ضروریات پوری کر دیا کرتے تھے.مصلح الدین صاحب کے والد بھی واقف زندگی تھے اور یہ اُن کے اکلوتے بیٹے تھے.ان کو بھی انہوں نے وقف کیا اور کبھی بھی کسی قسم کی تنگی کا شکوہ نہیں کیا.مصلح الدین صاحب، سات بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے.حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی ایس سی اور بی ٹی تھے.اُن کی جب سکول سے ریٹائر منٹ ہوئی تو انہوں نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ میری ریٹائرمنٹ ہوگئی ہے اور میں تو وقف زندگی ہوں.حکم کا انتظار کر رہا ہوں، اب میں نے کیا کرنا ہے.تو کافی لمبا عرصہ جواب نہیں آیا.مصلح الدین صاحب ہوسٹل میں تھے ، وہاں وظیفہ ملا کرتا تھا تو اس لئے کہ والد صاحب کے حالات تنگی کے ہوں گے، یہ ہوٹل چھوڑ کر آگئے اور اپنی جو وظیفہ کی رقم تھی ، وہ گھر کے خرچ کے لئے چلاتے رہے اور وہاں اُس وقت بڑی تنگی سے گزارہ ہوتا رہا، پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.یہ ایک واقعہ لکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ کسی جماعتی کام سے اسلام آباد گیا ، تو میرا ایک دوست تھا، اُس کو میں عرصے سے نہیں ملا تھا، اُس کے پاس گیا.وہ باتوں میں پوچھنے لگا ، آجکل تم نائب وکیل المال بھی ہو، جماعت کے حالات تو اب اچھے ہیں، تمہیں کیا الاؤنس ملتا ہے؟ کتنا ملتا ہے؟ مقصد اُس کے پوچھنے کا یہ تھا کہ اب تمہارا الا ونس یا تنخواہ جو ہے زیادہ ہونی چاہئے.تو کہتے ہیں میں نے اُس کو کہا کہ مجھے جو کچھ ملتا ہے، اس میں اتنی برکت ہے کہ تم جو گورنمنٹ سروس میں کام کر رہے ہو اور سیکرٹری لیول کے
خطبات مسرور جلد 11 190 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء آدمی ہو، تمہیں بھی اتنی برکت نہیں ہے.خیر کہتے ہیں، بحث کے بعد رات کو سو گئے.صبح اُٹھ کر تیار ہوئے دفتر جانے کے لئے.انہوں نے بھی سیکریٹریٹ میں کسی جماعتی کام میں جانا تھا، جارہے تھے تو سڑک پر کھڑے ہو کر دوست نے کہا، ٹیکسی لے کر جاتے ہیں، انہوں نے کہا، ٹیکسی کا انتظار کیا کرنا ہے، اتنی دیر ہم پیدل چلتے ہیں.سڑک پر چلتے جا رہے تھے تو ایک بڑی سی گاڑی آ کے رُکی جو فلیگ کا رتھی اور جو دوست سرکاری افسر تھا، اُس کو گاڑی والے نے نہیں پوچھا ان کو کہنے لگا کہ آپ فلاں جگہ سیکریٹریٹ میں جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں.اُس نے کہا کہ ہاں مجھے بڑا دل میں خیال آیا کہ آپ وہاں جانا چاہتے ہیں.آپ بیٹھیں.انہوں نے کہا یہ گاڑی کس کی ہے؟ کہا کہ یہ فلاں جنرل صاحب کی گاڑی ہے اور میں وہاں جارہا ہوں.تو خیر وہاں اندر گئے اور فلیگ کا رتھی ، گیٹ بھی کھل گیا، کسی نے پوچھا بھی نہیں.تو انہوں نے اپنے دوست کو کہا، دیکھو اگر تم ٹیکسی میں جاتے تو پندرہ سولہ روپے تمہارے خرچ ہونے تھے.لیکن اس طرح واقف زندگی کی اللہ تعالی مدد فرماتا ہے کہ ایک فلیگ کارڑ کی.نہ میں اس کو جانتا ہوں ، نہ وہ مجھے جانتا ہے.اُس نے تمہیں نہیں پوچھا بلکہ مجھے پوچھا.اور میری وجہ سے اندر دفتر میں بھی چلے گئے.گیٹ پر جو نام لکھنا ہوتا تھا، یا بتانا پڑنا تھا، تعارف کرانا پڑنا تھا، وہ بھی نہیں ہوا اور ہم سیدھے اندر چلے گئے.تو یہ فضل ہیں جو واقف زندگی کے او پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ میں اپنی ایک مبشر رؤیا کا ذکر کیا تھا.فرمایا کہ ”میں نے دیکھا کہ جیسے سیاحوں کی بس ہوتی ہے، ویسی ہی کسی بس میں میں اور میرے کچھ ساتھی سفر کرتے ہوئے ایک دریا کو عبور کرنے والے ہیں.اب یہ جو بس کی حالت کا سفر ہے، یہ مجھے یاد نہیں لیکن یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ بس پل کے پاس آ کر نیچے اُس کے دامن میں رُک گئی ہے.اور کوئی وجہ ہے کہ وہ بس خود آگے نہیں بڑھ سکتی.تو جیسے ایسے موقع پر مسافر اتر کر چہل قدمی شروع کر دیتے ہیں، اس طرح اس بس سے میں اُترا ہوں، یعنی خلیفہ اسیح الرابع اترے ہیں اور کچھ اور بھی مسافر اترے ہیں.کہتے ہیں لیکن میرے ذہن میں اس وقت اور کوئی نہیں آرہا مگر یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مبارک مصلح الدین صاحب ( جو ہمارے واقف زندگی تحریک جدید کے کارکن ہیں) وہ ساتھ ہیں اور جیسے انتظار میں اور کوئی شغل نہ ہو تو انسان کہتا ہے کہ چلیں اب نہا ہی لیتے ہیں.میں اور وہ ہم دونوں دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں“.تو کہتے ہیں ”میرے ذہن میں اُس وقت یہ خیال ہے کہ ہم تھوڑ اسا تیر کے واپس آجائیں گے.لیکن مبارک مصلح الدین مجھ سے تھوڑے سے دو ہاتھ آگے ہیں اور وہ مجھے کہتے ہیں کہ چلیں اب اسی طرح ہی دریا پار کرتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 191 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء تو میرے ذہن میں یہ خیال ہے کہ دریا تو بھر پور بہہ رہا ہے جیسے دریائے سندھ طغیانی کے وقت بہا کرتا ہے، اگر چہ کناروں سے چھلکا نہیں لیکن لبالب ہے اور بہت ہی بھر پور اور قوت کے ساتھ بہہ رہا ہے.تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ پتہ نہیں ہم یہ کر بھی سکیں گے کہ نہیں ؟ تو مبارک مصلح الدین کہتے ہیں کہ نہیں ہم کر سکتے ہیں.اور میں کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں.لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اگر چہ میں کوئی ایسا تیراک نہیں مگر اس وقت تیرا کی کی غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے اور چند ہاتھوں میں بڑے بڑے فاصلے طے ہونے لگتے ہیں.یہاں تک کہ جب میں مڑ کے دیکھتا ہوں تو وہ پچھلا کنارہ بہت دور رہ جاتا ہے اور پھر دو چار ہاتھ لگانے سے ہی وہ باقی دریا بھی عبور ہو جاتا ہے.اور دوسری طرف ہم کنارے لگتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اگر چہ مبارک مصلح الدین مجھے رویا میں اپنے آگے دکھائی دیتے ہیں مگر جب کنارے لگتا ہوں تو پہلے میں لگتا ہوں پھر وہ لگتے ہیں.اور اس طرح ہم دوسری طرف پہنچ جاتے ہیں اور پھر یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کس طرح یہاں سے باہر نکل کر دوسری طرف کنارے سے باہر کی عام دنیا میں اُبھریں.تو پھر آپ فرماتے ہیں.یہ رویا یہاں ختم ہوگئی اور چونکہ یہ ایک ایسی رو یاتھی جو عام طور پر دستور کے مطابق انسان کے ذہن میں آتی نہیں، اس لئے رویا ختم ہونے کے بعد میرے ذہن پر یہ بڑا بھاری اثر تھا کہ یہ ایک واضح پیغام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کسی نئی منزل فتح کرنے کی خوشخبری دے رہا ہے اور اگر چہ ایک حصہ اس کا ابھی تک مجھ پر واضح نہیں ہوا کہ وہ ساتھی جو ہیں ان کو ہم کیوں پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور ہم دو کیوں آگے نکل جاتے ہیں لیکن بہر حال ذہن پر یہ تاثر ضرور ہے کہ اس میں کوئی اندار نہیں تھا بلکہ خوشخبری تھی کہ دریا کی موجوں نے اگر چہ بس کو روک دیا ہے لیکن ہمارے سفر کی راہ میں وہ حائل نہیں ہو سکیں“.(خطبہ جمعہ 12 جنوری 1990.بحوالہ خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 28-29) تو بہر حال یہ بابرکت رویا بھی تھی اس میں یہ بھی ساتھ تھے.اُنہوں نے ان کو دیکھا، ان کے نام کے لحاظ سے بھی مبارک خواب ہے.جماعت کی ترقیات بھی اس میں ہیں.خود بھی کافی دعا گو، تہجد گزار، نیک تھے.غریبوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے.بلکہ ان کے دفتر کے ایک آدمی نے لکھا کہ میرے سے غریبوں کو ہر سال رمضان میں کچھ راشن وغیرہ جنس وغیرہ دلوایا کرتے تھے اور کسی اور کو پتا نہیں ہوتا تھا.ویسے دفتری معاملات میں اصولی آدمی تھے لیکن طبیعت میں انکساری بھی تھی ، عاجزی بھی تھی، غریب پروری بھی تھی.ان کے بچے اب اللہ کے فضل سے اچھے صاحب حیثیت ہیں، کمانے والے ہیں.اُن کی جو خدمت خلق کی نیکیاں ہیں انہیں جاری رکھیں.ان کی اپنی ایک بیٹی کو
خطبات مسرور جلد 11 192 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء ڈاکٹر بنانے کی خواہش تھی لیکن وہ کہتی ہیں جب ہم حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ لڑکیاں ڈاکٹر بن جائیں تو پھر بڑا مسئلہ ہوتا ہے، گھریلو کاموں میں مشکل پڑتی ہے.بس اتنی بات کی تھی تو انہوں نے ارادہ ترک کر دیا.پھر بعد میں خیر اللہ تعالیٰ نے اُس لڑکی پر اس طرح فضل فرما یا کہ کینیڈا جا کے اُس کو پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر بننے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی.اب بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.یہاں بھی بچوں کو جو الاؤنس ملتا ہے حکومت کی طرف سے،اُس پر میاں بیوی کے جھگڑے ہو رہے ہوتے ہیں.وہ کہتا ہے میں نے لینا ہے.وہ کہتی ہے میں نے لینا ہے.لیکن ان کا ایک بچہ لکھتا ہے کہ میں نے اچھے نمبر لئے تو مجھے سکالرشپ ملا.تو مجھے میرے والد نے کہا کہ یہ سکالرشپ تمہیں ملا ہے، یہ تمہاری محنت کی وجہ سے ملا ہے.لیکن تمہاری جو پڑھائی کا خرچہ اور رہن سہن کا خرچہ ہے وہ میں پورا دوں گا.یہ تمہاری اپنی فیس ہے.اس پر میرا یا تمہارے گھر کا کسی کا کوئی حق نہیں.لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بچے مطالبے شروع کر دیں کہ ہمارا حق ہو گیا.کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رقم جس اصل مقصد کے لئے ہو اس پر استعمال ہونی چاہئے.نوری صاحب نے لکھا ہے کہ 1985ء سے ان کو دل کی تکلیف تھی اور ایسے حالات آئے کہ لگتا تھا کہ اب زندگی ختم ہوئی ، اب ہوئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے مختلف موقعوں پر ان کو موت کے منہ سے اس طرح نکالا کہ کہتے ہیں مختلف کا نفرنسز میں سیمینارز میں ان کا کیس میں بیان کرتا رہا ہوں اور یہ نشان بتاتا رہا ہوں.تو ڈاکٹر ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ تمہارے مریض کے ساتھ یہ معجزہ ہوتا ہے.جب بنگلہ دیش گئے ہیں جیسا کہ میں نے کہا.اُس وقت بھی مجھے ان کی بڑی فکر تھی کہ خیریت سے واپس آجائیں کیونکہ میں نے ان کو باوجود اس کے کہ یہ بیمار تھے بھیجا تھا.بہر حال اللہ تعالیٰ انہیں نہ صرف خیریت سے لا یا بلکہ کئی سال ان کو زندگی بھی عطا فرمائی.اور نہ صرف زندگی بلکہ بڑی فعال زندگی انہوں نے گزاری.ان کے ساتھ کام کرنے والے ہمارے مربی سلسلہ ھبتہ الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ : یوم مسیح موعود کے موقع پر 20 مارچ کو جامعہ احمدیہ میں ان کی تقریر تھی تو پرنسپل صاحب جب ملنے آئے.پرنسپل صاحب نے بھی یہ لکھا تھا کہ چوہدری صاحب نے اشاروں سے کہا کہ میں نے تقریر تو تیار کی کل میں صبح سات بجے سے بارہ بجے تک بیٹھا تقریر تیار کرتارہا لیکن اب میں ہسپتال میں ہوں تقریر کر نہیں سکوں گا.تو بہر حال ہر چیز کی ان کو بڑی فکر رہتی تھی اور پہلے کام کیا کرتے تھے.میں نے بھی ان کے ساتھ دفتر وکالت مال میں تقریباً آٹھ سال کام کیا ہے.بہت کچھ ان سے سیکھا.ان کی ڈرافٹنگ وغیرہ بھی بڑی اچھی
خطبات مسرور جلد 11 193 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 مارچ 2013ء تھی.بجٹ کے بنانے میں ان کو بڑا ملکہ تھا اور بعض دفعہ رات گیارہ بارہ بجے تک دفتر میں کام ہوتا تھا لیکن یہ نہیں تھا کہ دوسروں پر چھوڑ دیا کہ کرو اور خود گھر چلے گئے.ساری ساری رات ساتھ بیٹھ کے کام کرواتے تھے.ان میں بڑا اخلاص اور وفا تھا.پہلے میں ان کے ماتحت تھا.جب ناظرِ اعلیٰ بنا ہوں تب بھی میں نے دیکھا اطاعت کا جذبہ بے انتہا تھا اور خلافت کے بعد تو پھر اخلاص و وفا ان میں بہت زیادہ بڑھ گیا تھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی نسلوں کو بھی خلافت اور جماعت سے ہمیشہ وابستہ رکھے.نمازوں کے بعد میں ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا انشاء اللہ.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 12 اپریل 2013 ء تا 18 اپریل 2013 ، جلد 20 شماره 15 صفحہ 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد 11 194 13 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء بمطابق 29 امان 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الرحمن، ویلنسیا (سپین) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات تلاوت فرمائی: وَاذْ يَرْفَعُ إِبْرَهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاسْمعِيلَ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيم رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَارِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة 128-129) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی ، یہ دعا کرتے ہوئے کہ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے قبول کر لے.یقیناً تو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے.اور اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنادے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر دے.اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر تو بہ قبول کرتے ہوئے جھک جا.یقیناً تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.الحمد للہ ! آج ہمیں سپین میں دوسری احمد یہ مسجد بنانے کی توفیق مل رہی ہے.یعنی جماعت احمدیہ مسلمہ کو یہ دوسری مسجد بنانے کی توفیق مل رہی ہے.تقریباً سات سال پہلے میں نے مسجد بشارت پید رو آباد میں مزید مساجد بنانے کی اہمیت پر زور دیا تھا اور اُس وقت یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ویلنسیا (Valencia) میں مسجد کی تعمیر کی جائے.اور احمدی تو شاید اس علاقے میں 130 کے قریب ہیں اور دوسری بعض جگہوں پر اس سے زیادہ ہوں گے.بہر حال مسجد بشارت کے بعد یہ مسجد تعمیر کرنے کے لئے سوچا گیا.احمدیوں کی تعداد سے زیادہ یہاں اس علاقے میں مسجد بنانا میرے پیش نظر اس لئے تھا کہ اس علاقے کی اہمیت تاریخی لحاظ
خطبات مسرور جلد 11 195 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء سے تھی.گو کہ تقریباً تیس سال سے زائد عرصہ کے بعد جماعت احمدیہ کو یہ مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے اور اس عرصہ میں مسلمانوں کی اس ملک میں آمد بھی بہت زیادہ شروع ہو گئی اور انہوں نے مسجدیں بھی بنائیں لیکن بہر حال مسجد بشارت کی وجہ سے ایک راستہ کھلا.سات سو سال بعد پہلی مسجد بنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ ہی کو عطا فرمائی تھی.یہاں کی اہمیت بیان کرنے سے پہلے یہ بھی بتا دوں کہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت یہاں ایک ملین کے قریب ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 2030ء تک یعنی اگلے بیس سال میں اس میں اتنی یا پچاسی فیصد اضافہ ہو کر یہ تعداد دو ملین کے قریب ہو جائے گی.آج سے تیس سال پہلے چند ہزار تھے، جواب ایک ملین ہیں اور اب دو ملین ہو جائیں گے.اور ان میں زیادہ تر تعداد باہر سے آنے والوں کی ہے جو نارتھ افریقہ سے آئے ہیں یعنی مرا کو، الجزائر وغیرہ سے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پرانے مسلمان قبائل کے تھے اور جنہوں نے اپنے اسلام کو کافی لمبے عرصے تک بچا کے رکھا.گو آج سے تقریباً سات سو سال پہلے یہ زبردستی مسلمانوں سے عیسائی بنائے گئے تھے یا اُن کے بچے عیسائی بنائے گئے تھے.ان قبیلوں اور خاندانوں میں سے بھی ہزاروں کی تعداد میں دوبارہ مسلمان ہوئے ہیں.پس پین میں گو اسلام دوبارہ نظر آتا ہے اور اللہ کے فضل سے کافی تعداد میں مسلمان نظر آتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا، اس کی ابتدا جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہوئی ہے.لیکن حقیقی اسلام اُس وقت نظر آئے گا جب مسیح محمدی کے غلام اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی طرف توجہ کریں گے اور اسلام کے خوبصورت پیغام کو یہاں کے ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کریں گے.شاید میری بات سن کر بعض لوگ آپ میں سے جو مایوس سوچیں رکھنے والے ہیں، کہیں گے کہ یہاں احمدی بہت تھوڑی تعداد میں ہیں، ہم کس طرح ہر ایک کو اور ہر جگہ یہ پیغام پہنچاسکتے ہیں.لیکن اگر ایک عزم اور ہمت سے کوشش ہو تو جس تعداد میں ہیں وہی ایک اچھے حصہ تک پیغام احمدیت اور حقیقی اسلام پہنچا سکتی ہے.باوجود بار بار کہنے کے اس کے لئے پلانگ نہیں ہوئی اور پھر کوشش نہیں ہوئی، اور اس وجہ سے جو مقصد ہم حاصل کر سکتے تھے وہ حاصل نہیں کر سکے.جو پلاننگ مرکز نے دی، یا میں نے دی یا مجھ سے پہلے حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے دی، اُس پر عمل نہیں ہوا.مسجد بشارت ایسی جگہ واقع ہے جہاں سے یہ قرطبہ اور اگلے علاقوں میں جانے والوں کو نمایاں نظر آتی ہے، عین موٹروے پر واقع ہے اور اگر تعارف کا کوئی ذریعہ نکالا جا تا تو بہت سے لوگوں تک یہ تعارف پہنچتا.اچھا کام کرنے والی بعض جماعتوں نے کم تعداد میں ہونے کے باوجود غیر معمولی طور پر جماعت احمد یہ
خطبات مسرور جلد 11 196 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء کے تعارف کا کام کیا ہے اور لیف لیٹنگ کے ذریعہ سے اسلام اور جماعت کا تعارف بہت وسیع تعداد میں لوگوں تک پہنچایا ہے.پید رو آباد کی مسجد بیشک غیر لوگ دیکھنے آتے ہیں.بعض رپورٹوں میں ذکر ہوتا ہے کہ بعض وفود بھی آتے ہیں، لیکن اگر ایک جذبہ اور شوق سے کام ہوتا تو مسجد کی وجہ سے کہیں زیادہ اُس علاقے میں حقیقی اسلام کا تعارف ہو سکتا تھا.اگر دوسرے مسلمان فرقے جن کا باقاعدہ نظام بھی نہیں ہے سپین کے پرانے مسلمان خاندانوں کو جو عیسائیت میں زبردستی دھکیل دیئے گئے تھے، اُن کی نسلوں میں سے تقریباً ہمیں ہزار کی تعداد میں دوبارہ اسلام میں لا سکتے ہیں تو ہماری تبلیغ سے جو حقیقی اسلام ہے، کیوں بڑی تعداد میں اسلام کی آغوش میں یہ نہیں آسکتے.ہم نے اسلام کے دوبارہ پین میں اجراء کا راستہ تو کھول دیا لیکن اُس راستے کو ایک عزم اور ایک جذبے کے ساتھ استعمال نہیں کیا.اور دوسروں نے اُس سے فائدہ اُٹھا لیا.پس اب بھی وقت ہے.سپین میں رہنے والے احمدی اور عہد یداران، ہر سطح کے عہد یداران، ہ تنظیم کے عہدیداران اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خود اپنے ٹارگٹ مقرر کر کے پھر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.جو خوبصورت اور حقیقی اسلام ہم پیش کرتے ہیں وہ تو آج دنیا کی توجہ کا باعث ہے.ہم نے یہ پرانے قبیلے جن کو زبردستی اسلام سے عیسائی بنایا گیا تھا انہیں بتانا ہے کہ اپنے باپ دادا پر ظلم کا بدلہ لینے کا وقت اب ہے.لیکن یہ بدلہ زبردستی اور ظلم سے نہیں لینا.اسلام کی تعلیم تولا إكراه في الدين کی تعلیم ہے.اس میں کوئی جبر نہیں ہے، کوئی زبردستی نہیں ہے.یہ جبر جو تم لوگوں سے ہوا، یہ تو جن لوگوں نے کیا شاید اُن کی تعلیم ہو، اسلام کی تعلیم نہیں ہے.نہ ہی اسلام یہ کہتا ہے کہ کسی قوم سے ظلم کے بدلے لو اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف کرنے سے نہ روکے.بلکہ فرما بلاعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا الله (المائدة: 9).مطلب تم انصاف کرو، وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ ہی تمہیں خدا تعالیٰ کا قرب دلائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے.اور یہاں تو دشمنی کا سوال نہیں.یہاں تو ہم قوم ہیں اس لئے ہم قوموں تک یہ پیغام محبت اور پیار کا پہنچانا ہے.پس ہم نے ان کو بتانا ہے کہ پہلے خود اسلام کی خوبصورت تعلیم اختیار کرو اور پھر بدلے اس طرح لو کہ اس خوبصورت تعلیم سے یہاں کے ہر شخص کا دل جیتو.اور جن دلوں سے زبردستی یا لانچ یا خوف سے لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی محبت نکال دی گئی تھی اور زبردستی خدا تعالیٰ کا شریک بننے کی تعلیم دی گئی تھی ، اُن کے دلوں میں خدائے واحد اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرو.اُس خدا کی محبت جس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اور اُس رسول کی محبت جو رحمت للعالمین تھا.
خطبات مسرور جلد 11 197 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء پس یہ ذمہ داری ہے کہ جہاں ہم عام تبلیغ کریں اور اسلام کا پیغام پہنچا ئیں، وہاں ایسے قبائل کا بھی کھوج لگا ئیں اور پھر اُن میں اُن کے اصل دین کی محبت نئے سرے سے پیدا کر کے اُن کو کامیاب مبلغ بنا دیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ ویلنسیا کی تاریخی اہمیت کی وجہ سے میں نے یہاں مسجد بنانے کو ترجیح دی تھی.اس لئے کہ جب سپین میں ظالم بادشاہ اور ملکہ نے زبر دستی مسلمانوں کو عیسائی بنانا شروع کیا تھا، ویلنسیا اُس زمانے میں بھی وہ علاقہ تھا جہاں باوجود مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کے عربی بولی جاتی تھی ، اسلامی رسم ورواج کو قائم رکھا ہوا تھا.عملاً مسلمان اپنی عبادات ہی بجالاتے تھے اور جو بھی اسلامی تعلیم ہے اُس کو قائم رکھے ہوئے تھے.جبکہ دوسرے علاقوں میں مسلمان گروپ کی صورت میں تو رہتے تھے لیکن کسی بھی قسم کا ایسا اظہار نہیں کرتے تھے جس سے اسلام کھل کر اُن سے ظاہر ہوتا ہو.اسی وجہ سے جب سترھویں صدی کے شروع میں اُس وقت کے بادشاہ نے مسلمانوں کو یا اُن لوگوں کو جن کے خاندان پہلے مسلمان تھے ، سپین سے نکالنے کی مہم پھر سے شروع کی تو سب سے پہلے منصوبے کا آغاز ویلنسیا سے کیا.کیونکہ یہاں جیسا کہ میں نے کہا مسلمان اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے اُس پر عمل کر رہے تھے.یا جس حد تک عمل کر سکتے تھے، کرنے کی کوشش کرتے تھے.گو کہ اُس وقت یہاں مسلمانوں کی حالت معاشی لحاظ سے کافی کمزور تھی اور اُن کو آہستہ آہستہ بڑے شہروں سے نکال کر شہروں کے ارد گرد کے علاقوں میں بسا دیا گیا تھا.معمولی جائیدادیں اُن کے پاس تھیں، غربت تھی لیکن پھر بھی ان کا اسلام سے تعلق تھا.بہر حال مختلف قسم کی فوجیں یہاں آتی رہیں، اٹلی کی فوجیں بھی آئیں، انہوں نے ظلموں کا نشانہ انہیں بنایا لیکن فیصلہ کے مطابق ان ظلموں کے بعد بالغوں کو ملک بدر کر دیا گیا اور اُن کے بچوں کو عیسائیوں کے سپر د کر دیا گیا جنہوں نے ان بچوں کو اپنے گھروں میں پروان چڑھایا لیکن اپنے بچوں کی طرح نہیں بلکہ نوکروں اور غلاموں کی طرح.پس وہ بچے جو اسلام سے چھینے گئے تھے، وہ بچے جو مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے اور مسلمان تھے، انہیں اُن کی اور اُن کے ماں باپ کی مرضی کے بغیر خدائے واحد کی عبادت سے روکا گیا اور اس کے بجائے تثلیث کو مانے پر مجبور کیا گیا.آج ہمارا کام ہے کہ اُن بچوں کی نسلوں کو دوبارہ خدائے واحد کی عبادت کرنے والا بنا ئیں اور صرف انہیں نہیں بلکہ یہاں رہنے والے ہر شخص کو جس سے ہمیں انسانیت سے محبت کی وجہ سے محبت ہے.ہر شہری جو یہاں رہتا ہے، اُس سے ہمیں محبت ہے اس لئے کہ ہم انسانیت سے محبت کرنے والے ہیں اور انسانیت کی محبت کی وجہ سے ہم اُن کے لئے وہی پسند کرتے ہیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں.ان لوگوں کو اس وجہ سے خدائے واحد کی عبادت کرنے والا بنا کر اُن کی دنیا اور
خطبات مسرور جلد 11 198 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء عاقبت سنوارنے والے بنائیں اور اس علاقے میں خاص طور پر اس کی کوشش کریں.جیسا کہ میں نے کہا یہاں صوبے میں سب سے زیادہ لمبے عرصہ تک اسلام کو محفوظ اور قائم رکھنے کی کوشش کی گئی.یہاں سے مسلمانوں کے اخراج کی سات صدیاں نہیں منائی جاتیں بلکہ یہی مانا جاتا ہے کہ سب سے آخر میں چار صدیاں پہلے یہاں سے مسلمانوں کو نکالا گیا تھا.یا مسلمانوں کی نسل ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی.یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں صدیوں مسلمانوں کی حکومت قائم رہنے کے بعد اُس کا زوال مسلمانوں کی اپنی لالچوں اور سازشوں کی وجہ سے ہوا.جو بھی نام کی خلافت تھی ، اس سے بھی وفا نہیں کی گئی.نہ خلیفہ یا بادشاہ نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کیا، نہ ہی اُس کے خواص اور امراء جو تھے انہوں نے حق ادا کیا اور پھر ہر ایک نے اپنی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی تھی.اور یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر مختلف بادشاہتیں قائم کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر وہی نتیجہ نکلا جو ایسے خود غرضانہ کاموں کا نکلتا ہے.لیکن اب مسیح محمدی جو خاتم الخلفاء ہیں، جو خلافت راشدہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی علمبر دار ہیں ، جن کے بعد پھر خلافت کا نظام جاری ہے، ان کے ماننے والوں کا کام ہے کہ اس کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ اس علاقے میں، اس ملک میں قائم کریں، بلکہ دنیا کو لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی حقیقت سے روشناس کروایا جائے ، اُس کی حقیقت دنیا کو بتائی جائے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس علاقے میں اپنی مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.جگہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی باموقع ملی ہے.یہ مسجد بھی موٹر وے سے نظر آتی ہے.بالکل موٹر وے کے اوپر ہے لیکن شہر کی ئی آبادی میں بھی ہے.یہ اچھے شرفاء کا علاقہ ہے.ہمسائے بھی اچھے اور شریف ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمسائیگی بھی اچھی عطا فرمائی ہے یہ بھی اُس کا بڑا احسان ہے.پس اس موقع سے ہمیں فائدہ اُٹھانا چاہئے.مسجد بنا کر صرف اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ سپین کے ایک اور شہر میں ہماری خوبصورت مسجد بن گئی.پس اپنی حالتوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی ، اپنی عبادتوں پر بھی نظر رکھنی ہوگی.اپنی ذمہ داریوں پر بھی نظر رکھنی ہوگی.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے بعد اُس کا حق ادا کرنے کا ایک خوبصورت طریق ہمیں بتا دیا.اور ساتھ ہی حق ادا کرنے کیلئے دعاؤں کا طریق اور اُس طرف توجہ بھی دلا دی.پس اس پر غور کرنے کی ہمیں ضرورت ہے تا کہ نسلاً بعد نسل اللہ تعالیٰ کے گھر کا حق ادا کرنے والے ہم میں سے پیدا ہوتے چلے جائیں.
خطبات مسرور جلد 11 199 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ خانہ کعبہ کی دیوار میں استوار کر رہے تھے تو یہ دعا مانگ رہے تھے کہ ربنا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.پس یہ شان ایک حقیقی اللہ والے کی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہی اللہ تعالیٰ کے قریب اور اللہ والے ہوتے ہیں کہ سالوں سے قربانیاں کر رہے ہیں، باپ بھی قربانی کر رہا ہے، بیٹا بھی قربانی کر رہا ہے، بیوی بھی قربانی کر رہی ہے لیکن یہ نہیں کہ رہے کہ ہمیں اتنا عرصہ ہو گیا ہے قربانیاں کرتے ہوئے ، اب ہم تیرے اس گھر کو بنار ہے ہیں ، تیری خاطر بنار ہے ہیں، تیرے کہنے پر بنا رہے ہیں، اس لئے ہمارا حق بنتا ہے کہ ہماری ہر قربانی کو آج قبول کر اور قبول کر کے ہمارے لئے آسانیاں اور آسائشیں پیدا فرما.جماعت احمدیہ میں تو اس کا رواج نہیں ہے لیکن دوسرے مسلمانوں میں تو یہ رواج ہے کہ ذراسی قربانی کی اور قربانی کے بعد پھر یہ کوشش ہوتی ہے کہ پھر اعلان کیا جائے.ایک روپیہ، دوروپے، چار روپے دے کر پھر مسجدوں میں اعلان ہوتے ہیں اور اگر بڑی قربانی ہو تو بہت زیادہ فخر کیا جاتا ہے.لیکن جو نمونہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ نے ان دونبیوں کے ذریعہ سے پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ بیٹا خدا تعالیٰ کی خاطر ذبح ہونے کو تیار ہے، باپ بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی خاطر ذبح کرنے کو تیار ہے.اور یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے جب بیٹا چھوٹی عمر کا ہے اور بڑھاپے کی اولا د ہے.پھر قربانی کا معیار آگے بڑھتا ہے تو ایک لمبا عرصہ بیوی اور بیٹے کو غیر آباد جگہ میں قربانیاں کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بھوک اور پیاس سے دونوں ماں بیٹا شاید زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں.اور پھر وہ وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ بیٹے اور بیوی کی قربانی قبول فرماتا ہے.اگر اُن کے لئے پہلے سامان نہیں تھے تو پھر ان کے لئے کھانے پینے کے سامان مہیا فرماتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ کی تعمیر بھی شروع ہو جاتی ہے اور تعمیر کرنے والے بھی صرف دو اشخاص ہیں جو یہ عہد کر رہے ہیں کہ اس کی تعمیر کے ساتھ اب واپسی کے ہمارے تمام راستے بند ہیں.اب ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کے گھر کو آباد کرنا ہے.یہاں ایسی آبادی بنانی ہے جو مومنین کی آبادی ہو، جو نیک لوگوں کی آبادی ہو، جو خدا تعالیٰ کو یاد کرنے والوں کی آبادی ہو، جو اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے والوں کی آبادی ہو.ایسی آبادی بنانی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کی انتہا کو پہنچنے والی ہو.پس یہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اللہ تعالیٰ کا گھر بنا رہے تھے اور عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا یہ حال ہے کہ یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس قربانی کو ، اس کوشش کو قبول فرمالے.اپنے خاص رحم سے ہم پر رحم کرتے ہوئے اُسے قبول کر لے کہ یہ قبولیت ہمیں تیرے اور قریب کرنے والی بن جائے.
200 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء خطبات مسرور جلد 11 پس یہ سبق قربانی کر کے پھر عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اُس قربانی کو قبول کرنے کی درخواست اور دعا کا ہے.اور یہی اصول ہے جو ہمیں بھی ہر وقت اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.یہ ابراہیمی اور اسماعیلی سوچ اور دعا ہے جو آج ہمیں اس طرف توجہ دلا رہی ہے.ہم جو اس زمانے کے ابراہیم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں، جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور عشق و محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وہ اعزاز بخشا ہے کہ اس زمانے کا ابراہیم بنا دیا، جس نے دین کو اُس کی اصل دیواروں پر دوبارہ استوار کر کے دکھایا اور ہم گواہ ہیں اور ہم روز نظارے دیکھتے ہیں کہ ایسا استوار کیا کہ اگر اُس پر کوئی صحیح طرح عمل کرنے والا ہو تو اُس کی کایا پلٹ جاتی ہے.دینِ اسلام کی خوبصورتی کو اس طرح چمکا کر پر عظمت اور پر شوکت بنا کر دکھایا کہ غیر مسلم بھی کہنے لگ گئے کہ اگر یہی اسلام ہے جو تم پیش کرتے ہو تو ہم اسلام کے خلاف اپنے کہے ہوئے الفاظ واپس لیتے ہیں.پس آج اس ابراہیم کے ذریعہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد بھی پورے ہو رہے ہیں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی بھی دنیا پر ظاہر ہورہی ہے.اور انہی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں ہماری ہر تعمیر ہونے والی مسجد گواہ ہے اور ہونی چاہئے اور آج یہی مسجد جس کا نام بیت الرحمن رکھا گیا ہے، اس مقصد کے حصول کا ذریعہ بننے کا اظہار کر رہی ہے.پس یہ مسجد جہاں ہمیں عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلا رہی ہے، وہاں ہمیں اس طرف بھی توجہ دلا رہی ہے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کریں.اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں.اگر ہم اپنے عہدوں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں گے تو پھر ہی ہم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں.ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اے مسیح محمدی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ! ہم نے جو آپ سے عہد بیعت باندھا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور توحید کو دنیا میں پھیلائیں گے تو اس مسجد کی تعمیر کی وجہ سے جو دنیا کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوگی تبلیغ کے جو راستے کھلیں گے، اُن کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کارلاتے ہوئے توحید کا قیام اور ملک کے باشندوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہمارا اولین فرض ہوگا.انشاء اللہ.پس اے خدا! اے سمیع اور علیم خدا ! ہماری دعائیں سن لے.ہمیں اپنے فرائض نبھانے کی توفیق عطا فرما.یہ مسجد جو تیرے گھر کی تتبع میں بنائی گئی ہے، اس کو ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا جو تیرے گھر بنانے کے مقاصد ہیں.تو علیم ہے، تو ہماری کمزوریوں اور نا اہلیوں کو بھی جانتا ہے.پس ہماری دعائیں سنتے
خطبات مسرور جلد 11 201 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء ہوئے ہماری نااہلیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہمیں مسجد کی تعمیر کے مقاصد کو پورا کرنے والا بنا.مسجد کی خوبصورتی ، مسجد کی وسعت، یہ ہمارے اُس وقت کام آ سکتی ہیں جب ہم اُس کا حق ادا کرنے والے بن جائیں.اور حق ادا کرنے کے لئے جہاں مسجد کو آباد کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہم ہوں ، وہاں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں.پیار، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے والے ہم ہوں تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کے عملی نمونوں کا ہم سے اظہار ہو رہا ہو.تا کہ لوگوں کی توجہ ہماری طرف ہو، تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا سمجھنے کی کوشش کرے.اے اللہ ! تو سنے والا ہے.ہماری یہ دعا بھی سن لے کہ اس مسجد کی ظاہری خوبصورتی سے زیادہ اس مسجد کی آبادی کی روح کو خو بصورت کر کے ہمیں دکھا دے.اصل میں تو اس مسجد کی تعمیر کی روح ہے جو اگر حقیقت میں ہم میں پیدا ہو جائے تو اُس مقصد کو ہم حاصل کرنے والے بن جائیں گے جس کے لئے مسجد تعمیر کی گئی تھی.جیسا کہ میں نے بتایا جب یہاں صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہی تو بڑی بڑی خوبصورت مسجد میں مسلمانوں نے بنائیں.مثلاً قرطبہ کی مسجد ہے، دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے اور دوسری جگہوں پر مسجد میں ہیں.جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادیاں تھیں، بڑی بڑی مسجد میں تھیں، اشبیلیا میں غرناطہ وغیرہ میں.لیکن جب اسلام کی حقیقی تعلیم کی روح اُن مساجد میں آنے والوں میں مفقود ہوگئی تو وہی جگہیں جہاں خدائے واحد کا نام لیا جاتا تھا، یا تو مسمار کر دی گئیں یا شرک کی آماجگاہ بن گئیں.قرطبہ کی مسجد دیکھیں، حیرت ہوتی ہے کہ ایسی خوبصورت اور مضبوط عمارت ہے.صدیاں گزرنے کے بعد بھی اُس کی خوبصورتی اور مضبوطی میں ذرا بھی فرق نہیں آیا.لیکن بدقسمتی سے آج وہ گرجے میں تبدیل ہو چکی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل چیز عمارت نہیں، اصل چیز وہ روح ہے جو اس عمارت میں آنے والوں اور رہنے والوں کی ہوتی ہے.پس جب مسلمانوں میں وہ روح ختم ہوگئی تو مسجد میں غیروں کے قبضے میں چلی گئیں.پس اگر اس مسجد کی عظمت کو ہم نے قائم رکھنا ہے اور یقیناً قائم رکھنا ہے انشاء اللہ، تو پھر اس کی روح کو قائم رکھنے کی کوشش کریں اور یہ کوشش ہمیں ایک محنت سے کرنی ہوگی.اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرنی ہوگی کہ اے اللہ ! اس مسجد کو روح قائم کرنے والے ہمیشہ عطا فرما تاره تا کہ قیامت تک یہ توحید کا مرکز رہے.توحید کے نعرے یہاں سے بلند ہوں.خدا کی نظر میں ہماری قربانی قبول ہو تو پھر ہی یہ مقصد حقیقت میں حاصل کیا جا سکتا ہے.پھر دوسری آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان بزرگ انبیاء نے اپنی دعاؤں کو خدا کے گھر کی تعمیر کے
خطبات مسرور جلد 11 202 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء ساتھ صرف اپنے تک محدود نہ رکھا، بلکہ اپنی اولا د اور نسلوں تک وسیع کیا.پس یہ ہے دعا کا طریق اور یہ ہے ترقی کرنے والی اور نسل در نسل کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے چلے جانے کی سوچ اور فکر ، اور یہ فکر اور سوچ ہوگی تو انشاء اللہ تعالیٰ ہماری کامیابیاں ہی کا میابیاں ہیں.اور پھر یہ دعا ہو کہ ہماری ذریت کو بھی نیکیوں پر قائم رکھ تب اس گھر کی آبادی کا مقصد حاصل ہوگا.ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ذریت کو بھی نیکیوں پر قائم رکھے تا کہ اس گھر کی آبادی کا مقصد ہمیشہ حاصل ہوتا چلا جائے.جیسا کہ میں نے کہا کہ قربانی کی قبولیت تب ہوگی جب حقوق اللہ اور حقوق العبادا دا کرنے والے لوگ ہماری نسلوں میں سے پیدا ہوتے رہیں گے.عبادت کرنے والے ہماری نسلوں میں سے پیدا ہوتے رہیں ، اور اس طرح پر عبادت کرنے والے پیدا ہوں جس طرح اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور جیسا کہ اے اللہ ! تو نے عبادت کا حکم دیا ہے اور طریق سکھایا ہے.پس ہم یہ دعا کریں جود عا انبیاء نے کی تھی کہ ہمیں بھی وہ طریق سکھا.وَآرِنَا مَنَاسگتا.اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا.یہ دعا ہمیں بھی کرنے کی ضرورت ہے.حقیقت یہی ہے کہ عبادتوں اور قربانیوں کے طریق اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے سمجھ آتے ہیں.اس کی روح ، اس کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کا ادراک اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہوتا ہے.بیشک نماز بھی عبادت کا ایک طریق ہے، مسجد میں لوگ آتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں لیکن یہی نمازی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کی نماز میں اُن کے منہ پر ماری جاتی ہیں اور اُن کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضل کو مانگتے ہوئے ایسی نمازیں ہمیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اُس کی نظر میں مقبول ہوں اور پھر صرف نمازیں ہی نہیں ہیں ، ہر کام جو خدا تعالیٰ کے حصول کے لئے کیا جائے وہ عبادت بن جاتا ہے، چاہے وہ حقوق العباد ہوں.پس اس روح کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے.پس یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ عبادت کی روح کو سمجھ کر ہی ہم تو حید کے پیغام کو پھیلا سکتے ہیں اور اپنی نسلوں میں اس پیغام کو راسخ کر سکتے ہیں اور اُس کے لئے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ہے، نسلوں کے لئے بہت تڑپ کر دعا کرنے کی ضرورت ہے.ہم احمدی اپنے اجلاسوں میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہر قربانی کے لئے تیار رہیں گے تو اس عہد کی روح کو اپنی نسلوں میں پھونکنے کی ضرورت ہے تا کہ دین کی اشاعت کے لئے قربانیاں کرنے والے گروہ پیدا ہوتے رہیں.لیکن یہ یا درکھنا چاہئے کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق قربانیوں کے طریق بھی بدلتے رہیں گے اور اس دعا وَارِنَا مَنَاسِكَنَا
خطبات مسرور جلد 11 203 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء کا یہ بھی ایک مطلب ہے.سپین میں اگر چہ پہلے مسلمان جو داخل ہوئے وہ مدد کے لئے آئے ، جہاد بھی کیا اور دادرسی کے لئے آئے تھے اور پھر وہ آگے پھیلتے چلے گئے.انہوں نے بیشک تلوار کا جہاد کیا لیکن آج کی قربانیاں تبلیغ کے جہاد کے ذریعہ سے ہیں.اشاعت لٹریچر کے لئے مالی قربانیاں کر کے ہیں.مساجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانیاں کر کے ہیں.قربانیوں کی نوعیت حالات کے مطابق بدل جاتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو کہ ہمیں قربانیوں کے طریق سکھا، یعنی بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی رضا کے حصول کے لئے قربانیوں اور عبادتوں کے طریق ہمیں سکھا.اس دعا کو قرآنِ کریم میں محفوظ کر کے ہمیں یہ اصولی ہدایت اللہ تعالیٰ نے فرما دی کہ قربانیاں حالات کے مطابق دینی ہیں.نیکی اس طرح اور اس قسم کی کرنی ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو سمیٹنے والی ہو.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو سب سے بڑی نیکی یہ بیان فرمائی کہ تہجد پڑھا کرو.(ماخوذاز صحیح البخاری کتاب التهجد باب فضل قیام اللیل حدیث نمبر (1122) کسی کو پھر فرمایا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ جہاد کیا کرو.(صحیح البخاری کتاب الایمان باب من قال ان الايمان هو العمل حدیث نمبر (26) پس جس میں جس نیکی کی کمی ہو ، وہی اُس کے لئے ضروری ہے اور وہی اس کے لئے بڑی ہے.وہی اُس کے لئے مناسب حال عبادت کا طریق ہے اور وہی اُس کے لئے مناسب حال قربانی ہے.پس اس دعا میں اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے ہر قسم کی کمزوریوں کو دور کرنے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان اپنی کوشش سے نہ ہی عبادتوں کے معیار حاصل کر سکتا ہے، نہ قربانیوں کے معیار حاصل کر سکتا ہے.اس لئے دعا عرض ہے کہ تُبْ عَلَيْنَا.ہم پر تو بہ قبول کرتے ہوئے جھک جا.ہماری نیکیوں کو قبول کرلے اور پھر نیکی سے نیکی پھوٹتی رہے.ایک نیکی سے اگلی نیکی کی جاگ چلتی چلی جائے.قربانی سے قربانی پھوٹتی رہے.تیری عبادت، تیری رضا چاہتے ہوئے حمد کرنے والے ہوں، نہ کہ دکھاوے کے لئے.اور یہ عبادت پھر ہماری سوچوں کا محور بن جائے.پس ہم خوش قسمت ہوں گے اگر ہم اپنی عبادتوں اور قربانیوں کو اس نہج پر کرنے والے بن جائیں.ہمیشہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں اور زیادتیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی دعائیں کرنے والے ہوں.اپنی نسلوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ اور اُس کی عبادت کی محبت پیدا کرنے والے ہوں.اور یہ اُسی
خطبات مسرور جلد 11 204 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء صورت میں ہو سکتا ہے جب ہمارے اپنے دلوں میں یہ محبت ہوگی.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینے والے ہوں.کبر و نخوت کو چھوڑنے والے ہوں.نمازوں میں سستیوں کو دور کرنے والے ہوں.ہر وہ نماز جو ہمارے لئے ادا کرنی مشکل نظر آتی ہے، اُس کے لئے خاص کوشش کر کے ادا کرنے والے ہوں.اگر ہمارے اندر باجماعت نمازیں ادا کرنے میں سستی ہے تو نماز باجماعت ادا کرنے کی طرف توجہ دینے والے بن جائیں.یہ ہمارے لئے قربانیاں ہیں.جو ماں باپ کا حق ادا کرنے والے نہیں، وہ اُن کے حق ادا کرنے والے بن جائیں.جو بہنوں بھائیوں اور عزیزوں کے حقوق ادا کرنے والے نہیں، وہ حقوق ادا کرنے والے بن جائیں.ہمسائے کو خدا تعالیٰ نے بڑا مقام دیا ہے، ہمسایوں کے حق ادا کرنے والے بن جائیں.یہ کوشش ہر احمدی کی ہونی چاہئے کہ ہمسایوں سے ہر احمدی کا سلوک اُس کو احمدیت اور حقیقی اسلام کا گرویدہ بنانے والا بن جائے.غرضیکہ ہم ہر نیکی کو ادا کرنے والے اور اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نیکیاں کرنے والے ہوں گے تو تب ہی ہم حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کرنے والے بن سکتے ہیں کہ اے اللہ ہماری توبہ قبول کر اور ہم پر رحم کر.جب ہم اللہ تعالیٰ کے رحم کے طلب گار بنتے ہیں تو دوسروں پر بھی ہمیں پھر رحم کی نظر ڈالنی ہوگی.یہ نہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ سے رحم ما نگتے رہیں اور اپنے دائرے میں رحم کرنے والے نہ ہوں.پس مسجد کے ساتھ اگر ایک مومن حقیقی رنگ میں منسلک ہوتا ہے تو نیکیوں کے نئے سے نئے دروازے اُس پر کھلتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی بخشش کے نئے سے نئے اظہار اس سے ہوتے ہیں.پس آج ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ عطا کردہ مسجد ہمیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے اور یہ اظہار ہم سے ہوں.اس مسجد کو یہاں کے رہنے والوں نے خود بھی آباد رکھنا ہے اور اپنے بچوں کے ذریعہ سے بھی آباد ہے کروانا ہے، اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے آباد کروانا ہے.انشاء اللہ.صرف مسجد میں آنا مقصد نہیں.بلکہ اس کا حق ادا کرنا بھی مقصد ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ وہ تمام برکات اور اللہ تعالیٰ کے فضل جو مساجد کے ساتھ وابستہ ہیں، ہم انہیں حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہماری توبہ قبول کرنے والا اور ہماری غلطیوں کو معاف کرنے والا ہو.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابوھریرہ سے یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خطاؤں کو مٹادیتا ہے اور درجات کو بلند فرماتا ہے.صحابہ نے جب عرض کیا کہ جی، فرما ئیں.تو آپ نے فرمایا کہ جی نہ چاہتے ہوئے بھی کامل وضو کرنا،
خطبات مسرور جلد 11 205 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء اچھی طرح وضو کرنا اور مسجد کی طرف زیادہ چل کر جانا.نیز ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا.یہ رباط ہے، رباط ہے، رباط ہے.یعنی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، سر حدوں پر گھوڑے باندھنا ہے.یہ جہاد ہے تمہارے لئے.(سنن النسائی، کتاب الطهارة، باب الامر باسباغ الوضوء) پس ہم میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.آج ہمیں اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کی بھی ضرورت ہے اور اس مقصد کو ہم نے حاصل کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا جو مقصد ہے، یہ بھی ایک جہاد ہے.اس کی طرف بھی ہم نے توجہ دینی ہے.اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ کا فضل اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے سے حاصل ہوتا ہے.پس اپنی نمازوں کی حفاظت کریں گے تو اُس کے فضل کو حاصل کرنے والے ہم بنیں گے.اور اس جہاد میں حصہ لینے والے ہوں گے جو نفس کا بھی جہاد ہے اور خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا بھی جہاد ہے.آج کل کے معاشرے میں انسان کو سب سے زیادہ ضرورت اس جہاد کی ہے.یہی جہاد ہے جو ہمیں معاشرے کی برائیوں سے بچا کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر کرنے والا بنائے گا.خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے گا.اور یہی جہاد ہے جو ہمیں اور ہماری نسلوں کو دنیا کی غلاظتوں سے پاک اور صاف رکھنے والا بنائے گا.پس اس انعام سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر کیا ہے، اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.اس مسجد کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے اُس کی عبادت سے سجائیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنیں.اللہ اللہ کرے کہ یہ مسجد ان مقاصد کو پورا کرنے والی ہو اور ہم اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرنے والے بہنیں ، ورنہ مسجد تو.یہاں اس صوبے میں ہمارے سے پہلے مصر اور سعودی عرب کے پیسے سے مسلمانوں نے بنالی ہوئی ہے.لیکن اُن میں مسیح محمدی کو نہ ماننے کی وجہ سے جو کمی ہے وہ کمی صرف اور صرف جماعت احمدیہ کی تعمیر کردہ مساجد سے پوری ہوسکتی ہے.پس یہ بات ہر احمدی کو مزید توجہ اور فکر دلانے والی ہونی چاہئے کہ آپ کی ذمہ داری بڑھتی چلی جارہی ہے.اس مسجد کا حق ادا کرنے کے لئے آپ کو بہت زیادہ کوشش کرنی ہوگی.اللہ تعالیٰ اس کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.مسجد کے بارے میں چند کوائف بھی پیش کر دیتا ہوں.مسجد کا مسقف حصہ 1350 مربع فٹ ہے اور اس میں خرچ تقریباً ایک اعشاریہ دوملین یورو کے قریب ہوا ہے اور جس میں سپین کی جماعت نے تھوڑا سا ہی دیا ہے، شاید وہ بھی نہیں دیا، بہر حال جو وعدے کئے ہیں اُن کو پورا کرنا چاہئے اور پھر جیسا کہ
خطبات مسرور جلد 11 206 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 مارچ 2013ء میں نے کہا ہے اگر مالی لحاظ سے کمزوری ہے تو جو وعدے پورے کرنے ہیں وہ تو کریں لیکن اُس کا حق اس طرح بھی ادا کر سکتے ہیں کہ مسجد کے بعد اب تبلیغ کے میدان میں اتریں.یہاں بالوں کی گنجائش ان کے دیئے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق جو ہے، اڑھائی سو (250) ہے، لیکن بہر حال کافی بڑے بھی ہیں.دیگر سہولیات بھی یہاں ہیں.سات دفاتر ہیں، ایک لائبریری ہے، ایک بک شاپ ہے، کچن بڑا اچھا ہے ، سٹور ہے، ٹیکنیکل روم ہے.پھر اسی طرح اس ساری عمارت کو ایئر کنڈیشنڈ کیا گیا ہے.مردوں اور عورتوں کے لئے علیحدہ وضو وغیرہ کی سہولتیں بھی ہیں.پھر یہاں پہلے جب جگہ خریدی گئی تھی تو بنگلہ یا گھر اُس وقت تھا، اُس میں مزید دو کمروں کا، بلکہ تین کمروں کا اضافہ کیا گیا.ایک اخبار نے یہ گزشتہ دنوں لکھا ہے کہ صوبہ کی سب سے بڑی عبادتگاہ ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے.اب یہ سب سے بڑی عبادتگاہ جو ہے اصل میں حقیقت کا روپ تو اُس وقت دھارے گی جب ہم میں سے ہر ایک اس کا حق ادا کرنے والا ہو گا.ایک اور بڑی اچھی بات اُس نے لکھی ہے جو حقوق العباد کا اظہار ہے جو یہاں کے ہر احمدی سے ہونا چاہئے.کہتا ہے کہ اسلام سے عقیدت کی وجہ سے احمدی لوگ اللہ کے نام پر خون بہانے والے ہر آدمی کے خلاف ہیں.بہر حال اس کے علاوہ اس مسجد کے ساتھ دو ملٹی پرپز (Multi-Purpose) ہال بھی ہیں جو عورتوں اور مردوں کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں.اللہ کرے کہ یہ مسجد علاقے اور صوبے کے لوگوں کو اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے والی ثابت ہو.اور ہم میں سے ہر احمدی جو یہاں اس علاقے میں رہنے والا ہے، یہ کوشش کر کے اس کا حق ادا کرنے والا بنے.جیسا کہ میں نے بتایا اس مسجد کی تعمیر میں اکثر مدد تو مرکز کی طرف سے آئی تھی.جوٹیکنیکل مدد ہے وہ بھی مرکز کی طرف سے ہی ہوئی اور چوہدری اعجاز صاحب ہمارے پرانے بزرگ انجینئر ہیں، انہوں نے بڑی محنت سے اس میں بہت سارے کام کروائے ہیں، بڑی تفصیل سے ہر چیز کا جائزہ لیا.جہاں جہاں زائد خرچ ہوتے تھے وہاں کمیاں کیں لیکن اُس کمی کی وجہ سے معیار پر کمپرومائز (Compromise) نہیں کیا، کسی قسم کی کمی نہیں آنے دی.وہ بیمار بھی ہیں، ہفتہ میں ایک دو دفعہ شاید ڈائلسز (Dialysis) بھی ہوتا ہے، گردے کی بیماری ہے لیکن بڑی ہمت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے کام کیا ہے.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی جزا دے.اور اُن کو صحت و تندرستی عطا فرمائے تا کہ آئندہ بھی وہ جماعت کے کام کرتے رہیں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 19 اپریل 2013 ء تا 25 اپریل 2013 ءجلد 20 شمارہ 16 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد 11 207 14 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15اپریل 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 105 اپریل 2013 ء بمطابق 05 شہادت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الرحمن، ویلنسیا (سپین) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِةِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ آيَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران 104-105) أَدْعُ إلى سَبِيْلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ.(نحل: 126) یہ آیات سورۃ آل عمران اور سورۃ محل کی ہیں.پہلی دو آیات سورۃ آل عمران کی ہیں، ان کا مطلب ہے کہ : اور اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے.اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ شاید تم ہدایت پا جاؤ.اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو.وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بری باتوں سے روکیں.اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں.سورۃ نحل کی جو آیت ہے اس کا ترجمہ یہ ہے.اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور
خطبات مسرور جلد 11 208 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو.یقیناً تیرا رب ہی اسے، جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو، سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے.گزشتہ جمعہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پین کی اس دوسری مسجد کا افتتاح ہوا.جماعت ساری بڑی خوش تھی بلکہ ہے.اور میں نے اس کے حوالے سے کچھ باتیں آپ سے کہی تھیں.اسی حوالے سے بعض امور کی طرف اب میں مزید توجہ دلانا چاہتا ہوں.جیسا کہ ہم دنیا میں ہر جگہ دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے.جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑگئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے.پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیست بہ اخلاص ہو.محض اللہ اُسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہر گز دخل نہ ہو.تب خدا برکت دے گا.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 93 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) یہ اقتباس میں پہلے بھی کئی دفعہ پیش کر چکا ہوں لیکن اس میں بیان کردہ باتیں اتنی اہم ہیں کہ ہر احمدی کو بار بار انہیں سامنے رکھنا چاہئے.پہلی بات یہ کہ یہ خانہ خدا ہے.خانہ خدا کے لئے جو باتیں ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئیں ان کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.اگر یہ یقین ہے کہ خدا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر احمدی اس یقین پر قائم ہے کہ خدا ہے تو پھر اُس کے گھر کے احترام، عزت اور اُسے آباد کرنے کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی.اور جب خدا تعالیٰ کی خاطر اُس کے گھر کو آباد کرنے کی طرف توجہ ہوگی تو پھر عبادت کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہوگی.آپس میں پیارو محبت سے رہنے کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی.اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد کے حوالے سے ہی فرماتے ہیں کہ : جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں“.فرمایا ” جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے.پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت
خطبات مسرور جلد 11 209 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15اپریل 2013ء ہوتی ہیں.“ اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے اور ادنی ادنی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 93 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس پہلی بات جو خانہ خدا کے حوالے سے یا درکھنی چاہئے کہ یہ خانہ خدا ہے اور ہر احمدی نے جو اس علاقے میں رہتا ہے، اس میں باجماعت نمازوں کی طرف توجہ کر کے اس کا حق ادا کرنا ہے.اور با جماعت عبادت کا حق پھر اس طرف توجہ دلانے والا ہو کہ ہم نے محبت اور پیار اور ا تفاق سے رہنا ہے.فرمایا کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے.یہ بات آج سے تقریباً ایک سو آٹھ سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کی تربیت جس طرح ساتھ ساتھ ہو رہی تھی اور اُن کا تقویٰ جس معیار پر تھا وہ آج سے انتہائی بلند تھا.خدا کا خوف اُن میں زیادہ تھا.نمازوں کی توجہ اُن میں بہت بڑھ کر تھی.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے وہ لوگ تھے جن کا خدا تعالیٰ سے ایک خاص تعلق تھا.لیکن نبی کا کام ہے کہ تقویٰ کی تمام باریکیوں کو اپنے ماننے والوں کے سامنے رکھ کر اُن کو اعلیٰ معیار کی طرف رہنمائی کرے.اس لئے آپ نے ہر امکان کو کھول کر اپنے ماننے والوں کے سامنے رکھ کر نصیحت فرمائی کہ اس طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.آپ علیہ السلام کو فکر تھی کہ یہ ابتدائی دور ہے.اگر اس میں معیار تقویٰ بلند نہ ہوا تو آئندہ آنے والوں کے سامنے ایسے نمونے نہیں ہوں گے جس سے وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں.میں نے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس میں بہت زیادہ تشنگی رہ گئی ہے کیونکہ تمام صحابہ کے واقعات ہمارے سامنے نہیں آئے اور جو آئے وہ بھی بہت کم اور مختصر تھے.لیکن جو سامنے آئے وہی ایسے معیار کے ہیں جو صحابہ کے لئے دعاؤں کی طرف متوجہ کرتے ہیں.اور اُن صحابہ کی نسل میں سے جو بعض شاید یہاں سپین میں بھی رہنے والے ہوں، اُن کو خاص طور پر اپنے بزرگوں کے لئے دعاؤں اور اُن کے نمونوں پر چلنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور یہاں اس ملک میں تو ہم نے ابھی بے انتہا کام کرنا ہے.اُس کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنا ہے جو آج سے کئی صدیاں پہلے کھوئی گئی.یہاں رہنے والوں کو دوبارہ دینِ اسلام کی خوبیاں بتا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے اور اس کے لئے سب سے اہم چیز اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا، اُس سے مدد مانگنا اور ایک اکائی بن کر تبلیغ کا کام کرنا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 210 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء پس صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وقت ہی اتحاد اور اتفاق کو ترقی دینے کا وقت نہیں تھا بلکہ آج بھی جبکہ ہم بہت بڑا دعویٰ لے کر کھڑے ہوئے ہیں کہ اس ملک کو اسلام کے جھنڈے تلے لائیں گے، سب سے پہلے اپنے اندر اتفاق و اتحاد کو ترقی دینے اور اُس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے.اگر تمام عہدیداروں اور ہر فر د جماعت نے اکائی بنے میں اپنا کردار ادا نہ کیا تومسجد اور خانہ خدا کا حق ادا کرنے والے نہیں بن سکتے.میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مسجد کی خوبصورتی اُس وقت کام آ سکتی ہے جب اس کے اندر آنے والوں کی روح کی خوبصورتی نظر آئے.جب ہر احمدی کے قول و فعل میں عبادت کے ساتھ ایک دوسرے کے لئے محبت اور پیار کے جذبات نظر آئیں.اس بات کو قرآن کریم نے بھی کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے.میں نے جو آیت شروع میں تلاوت کی.اس کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپس میں محبت اور پیار پیدا کرو.پس اگر یہ پیدا نہیں ہوگا تو خدا تعالیٰ کے بنا گمراہی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا انعام اور احسان ہے کہ تمہیں اُس نے ایک کر دیا.پس خدا تعالیٰ کے ہر ارشاد پر ، ہر حکم پر، ہر ہدایت پر ایک سچے مومن کو غور کرنا چاہئے.ان حکموں سے نہ میں باہر ہوں ، نہ آپ باہر ہیں، نہ کوئی عہد یدار باہر ہے، نہ کوئی مربی یا مبلغ باہر ہے، نہ ہی کوئی فرد جماعت باہر ہے، چاہے وہ مرد ہے یا عورت ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کی رسی کو ہم مضبوطی سے پکڑے رکھیں گے، جب تک ہم قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے بنے رہیں گے، جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یادرکھیں گے کہ اُس نے ہمیں احمدی ہونے اور احمدیت پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائی ، ہم اللہ تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے گھر کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں گے.جب تک ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام صادق اور زمانے کے امام کی باتوں کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے، ہم اللہ تعالیٰ کی نعمت کا حق ادا کرنے والے اور اُس کے انعاموں اور احسانوں کا شکر ادا کرنے والے ہوں گے.جب تک ہم میں سے ہر ایک جو خلیفہ وقت سے عہد بیعت باندھتا ہے، خلیفہ وقت کی باتوں کو نہ صرف سنے گا بلکہ اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا، وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی قدر کرنے والا کہلائے گا.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ قرآن کریم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلافتِ احمد یہ یہ سب حبل اللہ ہیں، اللہ تعالیٰ کی رہتی ہیں.اُن میں سے ایک کڑی بھی اگر ایک احمدی نظر انداز کرے گا تو وہ اُن لوگوں میں شمار ہو گا جو دوبارہ آگ کے گڑھے کی طرف بڑھ رہے ہیں.پس ہر احمدی کو یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ حبل اللہ کو پکڑنا اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یا درکھنا اور اُس کا
خطبات مسرور جلد 11 211 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء شکر گزار ہونا تب حقیقت کا روپ دھارے گا ، تب یہ قول سے نکل کر عمل کی شکل اختیار کرے گا جب آپس کی محبت ہو گی.جب ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے والے بھائیوں جیسا سلوک ہوگا تب ہی ایک احمدی حقیقت میں ہدایت یافتہ اور آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچایا جانے والا کہلائے گا.جب ہر قسم کے تفرقہ سے اپنے آپ کو پاک رکھے گا تبھی ایک احمدی حقیقی احمدی کہلائے گا.جب ہر قسم کی ذاتی اناؤں سے ہر احمدی اپنے آپ کو بچائے گا، جب خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے محبت ہو گی تب ہی ایک احمدی حقیقی احمدی بنتا ہے.پس خوش قسمت ہیں وہ جو اس نہج پر اپنی سوچوں کو ڈالیں ، اپنے قول کو اس طرح ڈھالیں، اپنے عمل کو اس کے مطابق ڈھالیں.اور جب یہ معیار ہم حاصل کر لیں گے تو پھر ہی دوسروں کو بھی ہم دعوت دے سکتے ہیں اور پکار پکار کر اعلان کر سکتے ہیں کہ آؤ لو گو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225) آج بیشک ایک طبقہ دین سے ہٹا ہوا ہے بلکہ بہت بڑی تعداد دنیا میں دین سے ہٹ گئی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر خاص طور پر مغربی ممالک میں تو خدا تعالیٰ کے وجود سے بھی انکاری ہیں.لیکن سپین ایک ایسا ملک ہے جہاں اب بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہے، ایسا طبقہ ہے جس کا مذہب کی طرف رجحان ہے.یہاں دو دن پہلے جو سپینش لوگوں کے ساتھ ریسپشن (Reception) تھی تو میرے ساتھ یہاں ویلنسیا کی پارلیمنٹ کے صدر بیٹھے ہوئے تھے.وہ باتوں میں مجھے یہ اظہار کرنے لگے اور بڑی فکر سے یہ اظہار تھا کہ اب لوگ دین سے دور جارہے ہیں، ہمیں اُن لوگوں کو دین کی طرف لانے کی طرف کوشش کرنی چاہئے.ابھی تک جن لوگوں سے بھی مغرب میں میرا واسطہ پڑا ہے تو عموماً اس لیول کے آدمی دین سے ہٹے ہوئے ہی ہوتے ہیں اور دنیا داری کی طرف مائل ہوتے ہیں.لیکن یہاں اس سطح پر بھی میں نے دیکھا ہے کہ دین کی طرف رجحان ہے.مذہبی آدمی ہیں تو یہ فکر ایسے لوگوں کو بھی ہے.دین جو حقیقی دین ہے، وہ تو اب خدا تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ اسلام ہے.اس لئے کوئی اور دین نہ تو بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب لا سکتا ہے اور نہ ہی اُس میں اتنی سکت ہے.اب صرف دینِ اسلام ہی ہے جو بندے کو خدا کے قریب کرنے کی طاقت رکھتا ہے.لیکن اسلام کو پھیلانے کی بھی جن لوگوں کی ذمہ داری ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے حبل اللہ کا سرا پکڑا دیا ہے ، وہ احمدی ہیں.پس اگر ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوگا.اگر ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف کرنے بیٹھ جائیں گے، ایسے
خطبات مسرور جلد 11 212 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء اختلاف جو ہماری اکائی کو نقصان پہنچانے والے ہوں، جو ہمارے ذمہ کاموں کو بجالانے اور اُن کے اعلیٰ نتائج نکالنے میں روک بنے والے ہوں تو یقیناً ہم خدا تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہوں گے.جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ صدیوں پہلے ہزاروں سپینش جن کی بنیا د اسلام تھی، ان میں سے ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو اسلام میں دوبارہ داخل ہوئے ہیں اور ہور ہے ہیں لیکن حقیقی اسلام کا ابھی ان کو پتہ نہیں تو حقیقی اسلام سے ہم نے انہیں آگاہ کرنا ہے.یورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں وہاں کے مقامی کئی ایسے احمدی ہیں جو روحانیت کی تلاش میں مسلمان ہوئے لیکن مسلمان لیڈروں یا علماء نے انہیں اُس روحانی مقام کی طرف رہنمائی نہیں کی جس کی اُن کو تلاش تھی تو پھر مزید جستجو اُن میں پیدا ہوئی اور پھر وہ احمدیت کے قریب لے آئی.تو یہ بات ہر احمدی کے لئے باعث توجہ ہے کہ نئے آنے والوں کو احمدیت کی آغوش میں روحانی سکون ملتا ہے اور اس کے لئے ہمیں جو پرانے احمدی ہیں اُن کو بھی اپنے اوپر نظر رکھنی ہوگی.اگر پرانے احمدیوں نے اور خاص طور پر پاکستانی احمدی جو باہر آباد ہیں، انہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کیا تو ان سچ کے متلاشیوں کو وہ دین سے دور کرنے والے ہوں گے اور وہ کردار ادا کر رہے ہوں گے کہ ان کو دین سے دور کریں.پس ہر احمدی کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے.ریسپشن کا میں نے ذکر کیا ہے.اس میں میں نے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے مختصراً مختلف پہلو بیان کئے تھے تو ایک خاتون جو مجھے سپینش لگیں ، کھانے کے بعد ملنے آئیں، سکارف وغیرہ باندھا ہوا تھا تو انہوں نے بتایا کہ میں مسلمان ہوں.میں نے انہیں کہا آپ شکل سے تو سپینش لگتی ہیں اور یہ بھی بتایا کہ میں فلاں مسلمان تنظیم کی عہد یدار ہوں اور مجھے کہنے لگیں کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم بڑے اچھے رنگ میں تم نے بیان کی ہے اور مجھے اس کی بڑی خوشی ہوئی ہے.جب میں نے انہیں یہ کہا کہ آپ سپینش لگتی ہیں تو مولوی کرم الہی صاحب ظفر جو پرانے مبلغ تھے، ان کے ایک بیٹے جو میرے ساتھ کھڑے تھے، اُنہوں نے کہا کہ سپینش ہی ہیں اور اب انہوں نے اسلام قبول کیا ہے.انہوں نے لفظ Convert ہوئی ہیں، استعمال کیا تھا.تو وہ خاتون فوراً بولیں کہ نہیں ، میں Convert نہیں ہوئی بلکہ میں اپنے دین میں ، اپنے باپ دادا کے دین میں دوبارہ واپس آئی ہوں.تو یہاں ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کو اپنے آباؤ اجداد کے دین اور اپنی بنیادوں اور اپنی روٹس (Roots) کی تلاش ہے.پس ہمیں ایسے علاقوں میں، ایسے لوگوں میں بہت کوشش سے کام کرنے کی ضرورت ہے.لیکن بار بار میں کہ رہا ہوں کہ اگر اس کام میں برکت ڈالنی ہے تو اپنی حالتوں کو خدا تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 11 213 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 15اپریل 2013ء کے حکموں کے مطابق ہمیں ڈھالنا ہوگا.حقیقی اسلام کی تلاش کی پیاس ہم ہی بجھا سکتے ہیں.ایک احمدی ہی بجھا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ سمجھو کہ اسلام کی ترقی کی بنیاد مسجد بنانے سے پڑگئی تو ساتھ ہی یہ شرط بھی لگادی کہ قیام مسجد میں نیت به اخلاص ہو، تب فائدہ ہوگا.پس مسجد کے قیام اور مسجد کی آبادی میں اخلاص ہی کام آئے گا.نہ کہ کوئی چالا کی ، نہ ہوشیاری، نہ علم ، نہ عقل.گو یہ چیزیں بھی ساتھ ساتھ کام کرتی ہیں لیکن اخلاص پہلی اور بنیادی چیز ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول پہلی اور بنیادی چیز ہے.اور جب ذاتی مفادات اور عہدوں اور اناؤں سے اونچا ہو کر سوچیں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بشارت پید رو آباد کی برکت بھی ہمیں نظر آئے گی اور مسجد بیت الرحمن ویلنسیا کی تعمیر کے خوش کن نتائج بھی ہم دیکھیں گے.اس مسجد کے افتتاح میں جیسا کہ میں نے بتایا، پھر ریسپشن ہوئی ، اور اتنے بڑے پیمانے پر یہ پہلی ریسپشن جماعت احمدیہ پین نے آرگنائز کی تھی جس میں ہمسایوں کے علاوہ پڑھے لکھے لوگ اور سرکاری افسران اور سیاستدان بھی آئے.ہر طبقے کے لوگ تھے اور بڑا اچھا اثر لے کر گئے ہیں.اکثر نے یہ کہا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم آج ہم نے پہلی دفعہ سنی ہے.بعض نے کہا ہم بڑے جذباتی ہو رہے تھے بلکہ بعض تو خدا تعالیٰ کا انکار کرنے والے ہیں، جنہیں ایتھی اسٹ (Atheist) کہتے ہیں، انہوں نے بھی کہا کہ ہمیں بہت کچھ مذہب کے بارے میں پتہ چلا بلکہ ڈاکٹر منصور صاحب کہہ رہے تھے کہ ان کے ایک واقف کار ڈاکٹر ہیں وہ کافی جذباتی تھے.پس آج خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین اور مذہب کی خوبصورتی اگر کوئی بتا سکتا ہے تو جماعت احمد یہ ہے.وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے ہیں.وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہیں ، جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے حبل اللہ کو پکڑنے کے سامان کئے ہوئے ہیں.یہ آپ لوگ بعد میں پروگراموں میں بھی دیکھ لیں گے، رپورٹس میں بھی شائع ہو جائے گا.ایم ٹی اے نے بھی ریسپشن میں آنے والے بہت سارے لوگوں کے انٹرویور یکارڈ کئے ہیں جنہوں نے مسجد کے بارے میں بھی ، اسلام کے بارے میں بھی اپنے تاثرات بیان کئے ہیں.ان میں جیسا کہ میں نے کہا کہ ویلنسیا کی اسمبلی کے سپیکر بھی تھے.یہ کہیں گئے ہوئے تھے، شاید میڈرڈ گئے ہوئے تھے.یہاں رہنے والے جانتے ہی ہیں کہ کتنا فاصلہ ہے.ٹرین پر بھی تقریباً دو گھنٹے لگ جاتے ہیں.اُن کو
خطبات مسرور جلد 11 214 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء آنے میں دیر ہوگئی تو اُن کے سٹاف نے یہ کہ دیا کہ وہ نہیں آسکتے.لیکن وہ پروگرام سے ایک گھنٹہ پہلے یہاں سٹیشن پر پہنچے اور اپنے ڈرائیور کو کہا کہ سیدھے مسجد چلو.اپنے کسی سرکاری کام سے گئے ہوئے تھے.انہوں نے مجھے بتایا کہ آج وزیر خارجہ کے ساتھ کوئی میٹنگ تھی، میں دو پہر وہاں گزار کے آیا ہوں.لیکن پھر بھی انہوں نے مسجد کے پروگرام کو اہمیت دی اور سیدھے یہاں تشریف لائے.پہلے ان کا خیال تھا کہ یہاں آدھا گھنٹہ بیٹھوں گا اور پھر چلا جاؤں گا.لیکن پھر کافی دیر بیٹھے، بڑی دلچپسی سے باتیں سنیں، باتیں کیں اور کہنے لگے کہ اسلام کی تعلیم بڑی خوبصورت ہے جو تم نے بیان کی ہے.اسی طرح کئی اور لوگ بھی تھے جو یہاں آئے ہوئے تھے.سیاست دان تھے، وکیل تھے، ڈاکٹر تھے ممبر آف پارلیمنٹ تھے تو سب نے بڑا اچھا تاثر لیا.جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ پہلا فنکشن تھا جو سپین کی جماعت نے اس پیمانے پر آرگنائز کیا اور 108 کے قریب یہ سپینش افراد تھے جو یہاں آئے ہوئے تھے.ہمسائے جو پہلے یہاں مسجد بنانے کے مخالف تھے ، اُن میں سے بھی کئی آئے ہوئے تھے.اُن میں بعض کو اگر کوئی شبہات تھے جن کا اُس وقت انہوں نے اظہار بھی کیا تو میری تقریر کے بعد وہ دُور ہو گئے.میں نے ہمسایوں کے حقوق اور اسلام میں اس کی اہمیت سے بھی بات شروع کی تھی.تو بہر حال اس مسجد کے بننے کے بعد دنیا کی اب اس طرف نظر ہے.اب یہ بن گئی ہے اور افتتاح کے بعد اخباروں میں آنے کے بعد مزید نظر ہوگی.ہم نے اپنا کردار ادا کرنا ہے.پس اس ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے.ان تلاوت کردہ آیات میں سے آل عمران کی پہلی آیت میں تو اتفاق و اتحاد کی طرف زوردیا ہے تا کہ ہدایت پر قائم رہو اور گمراہی سے بچو اور اللہ تعالیٰ کے انعامات سے حصہ لیتے چلے جاؤ.تو دوسری آیت میں فرمایا کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو يَدْعُونَ إِلَى الخَیر کرنے والی ہو، جو بھلائی کی طرف بلانے والی ہو.پس یہ ایک جماعت ایسی ہو جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیکیوں کی تلقین کرے اور برائیوں سے روکے اور یہ جماعت سب سے پہلے مبلغین اور مربیان کی جماعت ہے.وہ پہلے مخاطب ہیں.کیونکہ آپ مربیان کو خلیفہ وقت نے تربیت کے لئے اور تبلیغ کے لئے اپنا نمائندہ بنا کر یہاں بھی اور دنیا میں بھی بھیجا ہے.آپ وہ واعظ ہیں جو نصیحت کرتے ہیں، جو یہ بات دنیا کو بتارہے ہیں کہ اگر نجات چاہتے ہو تو حبل اللہ کو پکڑ لو.اگر دنیا و آخرت سنوارنا چاہتے ہو تو محبت، پیار اور بھائی چارے کو فروغ دو.اگر خودمر بیان اور مبلغین اعلیٰ معیار قائم نہیں کریں گے تو دنیا کو کس طرح نصیحت کریں گے.مربیان کا کام جماعت کی تربیت بھی ہے اور تبلیغ بھی.
خطبات مسرور جلد 11 215 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء پس دونوں کاموں کے لئے بلند حوصلہ ہونا اور بلند حوصلہ دکھا نا بہت ضروری ہے.صبر کے اعلیٰ معیار قائم کرنے بہت ضروری ہیں.اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنا اور کروانا بہت ضروری ہے.اپنے قول و فعل میں مطابقت رکھنا بہت ضروری ہے.جیسا کہ میں نے کہا ، مربیان جماعت کی دینی اور روحانی ترقی کے لئے خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.پس اس نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں.سخت حالات بھی آئیں گے.بعض لوگوں اور عہدیداران کے رویے ایسے بھی ہوں گے جو پریشان کریں گے.بعض موقعوں پر صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگا.آخر انسان انسان ہے لیکن فوراً دعا اور استغفار اور اس سوچ کو سامنے لائیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کی ہیں.ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ جماعت کی تربیت کے اعلیٰ معیار بھی قائم کرنے ہیں اور بھٹکی ہوئی دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے بھی لے کر آنا ہے.جب یہ سوچ ہو گی تو کسی کی بات آپ کو اپنے مقصد کے حصول سے یا حصول کی کوشش سے ہٹا نہیں سکے گی.الْعِزَّةُ لِلہ ہر وقت آپ کے سامنے رہے گا.آپ نے اپنی زندگیاں وقف کرنے کا جو ایک عہد کیا ہے وہ آپ کے سامنے رہے گا.اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عزت ہی آپ کے سامنے رہے گی نہ کہ اپنی، تو عہد یداران کے غلط رویوں کی برداشت آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا رہی ہوگی.کیونکہ ہر قسم کے حالات میں آپ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ پر عمل کر رہے ہوں گے.پس مربی کا کام صرف اپنے آپ کو تفرقہ سے بچانا اور آگ کے گڑھے سے دور کرنا نہیں ہے بلکہ دنیا کو بھی تفرقہ سے بچانا ہے اور آگ کے گڑھے سے دُور کرنا ہے اور یہ کام جیسا کہ میں نے کہا، قربانی کے بغیر نہیں ہوسکتا.پھر دوسرے نمبر پر اس آیت کے تحت وہ گروہ بھی آتا ہے جو جماعتی عہدیدار ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو جماعت کی خدمت کے لئے پیش کیا.جماعتی عہد یداروں کے سپر دبھی ایک امانت ہے اور امانت کا حق ادانہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آسکتے ہیں.یہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ تم پوچھے جاؤ گے اور امانت کا حق تبھی ادا ہو گا یا ہوسکتا ہے جب اپنے قول وفعل میں مطابقت پیدا کی جائے.عہدے صرف عہدے لینے کے لئے نہ ہوں بلکہ خدمت کے جذبے اور اخلاص و وفا کے نمونے قائم کرنے اور کروانے کے لئے ہوں.سیّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ کا ارشاد ہمیشہ پیش نظر ہو.(کنز العمال جلد 6 صفحه 302 کتاب السفر قسم الاقوال الفصل الثاني آداب متفرقة حدیث نمبر 17513 دار الكتب العلمية بيروت ایڈیشن (2004ء)
خطبات مسرور جلد 11 216 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء عہد یداران کے اپنے نمونے افراد جماعت کو بھی نیکیوں پر قائم کرنے والے ہوں.اگر خود اپنے قول و فعل میں تضاد ہے تو دوسرے کو کیا اور کس منہ سے نصیحت کر سکتے ہیں.دوسرا تو پھر آپ کومنہ پر کہے گا کہ پہلے اپنی برائیاں درست کرو، اپنی زبان کوشستہ کرو، اپنے اخلاق کو بہتر کرو، اپنی دینی حالت کو سنوارو، اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کرو، اپنی نمازوں کو درست کرو، اپنے دنیاوی معاملات میں بھی انصاف قائم کرو، اپنی ایمانداری کے معیار بھی بڑھاؤ، جماعت کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لئے ایک درد پہلے اپنے اندر پیدا کرو، یہ ہر عہدیدار کی ذمہ داری بھی ہے.مربیان جوخلیفہ وقت کے دینی تربیت کے لئے نمائندے ہیں ، اُن کا احترام کرو.یہ بھی عہدیداروں کا سب سے بڑا کام ہے کہ مربیان کا احترام کریں.غرض اپنی ظاہری اور باطنی حالت کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرو.تب ہی تم یہ کہہ سکتے ہو کہ تم اُن لوگوں میں شامل ہو جو نیکیوں کو قائم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے کا حق رکھتے ہیں.پس اس لحاظ سے ہر سطح پر جماعت کے، ہر عہدیدار کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور خاص طور پرصدر جماعت اور امیر جماعت کو، جو جو جہاں جہاں ہے ورنہ یہ لوگ جماعت میں تفرقہ کا موجب بن رہے ہیں.مربیان اور مبلغین کا سب سے زیادہ احترام ، صدر جماعت اور امیر جماعت کو کرنا چاہئے اور اس احترام کی وجہ سے مربیان یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارا حق ہے بلکہ اس سے اُن میں مزید عاجزی پیدا ہونی چاہئے.اپنے نفس کی اصلاح کی طرف مزید توجہ پیدا ہونی چاہئے.اور جب ہم ہر سطح پر اس کے معیار حاصل کر لیں گے تو پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی تربیت کے مسائل بھی حل ہوں گے، بہتر ہوں گے اور تبلیغ کے میدان میں بھی ہم غیر معمولی فتوحات دیکھیں گے.یہا کائی اور احترام اور اتفاق ہمارے ہر کام میں برکت ڈالے گا.یہ بھی واضح کر دوں کہ عہد یداران کا آپس کا رویہ اور سلوک بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھا ہونا چاہئے ، معیاری ہونا چاہئے.یہ بھی بہت ضروری ہے اور یہ کاموں میں برکت ڈالنے کے لئے انتہائی ضروری ہے.اگر پھوٹ پڑی رہے، ایک دوسرے سے اختلافات بڑھتے چلے جائیں ، عزتوں اور اناؤں کا سوال پیدا ہوتا چلا جائے ، صبر اور حوصلہ کم ہوتا جائے تو پھر نتیجے بہت منفی قسم کے نکلتے ہیں.حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک رئیس تھا، اُس کے پاس کسی شخص نے شکایت کی کہ آپ کا جو فلاں عزیز ہے یا امیر زادہ ہے اس نے مجھے بڑی گالیاں دی ہیں.اُس رئیس نے اُس کو ( دوسرے شخص کو ، امیر زادے کو بلایا اور اُس کو بے انتہا
خطبات مسرور جلد 11 217 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء گالیاں دیں اور وہ خاموشی سے سنتا رہا.اُس کے بعد رئیس نے اُسے کہا کہ تم نے اس شخص کو کیوں گالیاں دیں؟ تو وہ امیر زادہ کہنے لگا کہ اس شخص نے پہلے مجھے برا بھلا کہا تھا اور مجھ سے صبر نہیں ہوسکا اس لئے میں نے اس کو گالیاں دیں.تو اُس رئیس نے اُسے کہا کہ میں نے تمہیں گالیاں دیں اور تم خاموشی سے سنتے رہے.اس کا مطلب ہے یہ بات نہیں کہ تم میں صبر نہیں تھا.تم میں صبر تھا تو تم میری باتیں سنتے رہے.صرف اس لئے تم نے اس کو گالیاں دیں اور ضرورت سے زیادہ برا بھلا کہ دیا کہ وہ تمہارے سے کم تر تھا یا تم اُس کو کمتر سمجھتے تھے اور اگر تم صبر دکھاتے ، جو دکھا سکتے تھے اور یہی تم نے میرے سامنے دکھایا جب میں نے تمہارے صبر کا (ماخوذ از حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 454 سورۃ آل عمران زیر آیت نمبر 18) ٹیسٹ لیا.پس صبر دکھانے کے یہ ہمارے معیار ہیں کہ جس طرح ہم اونچے کے سامنے صبر کرتے ہیں، اپنی حیثیت سے بڑے کے سامنے یا طاقتور کے سامنے ہم صبر کرتے ہیں، کمزور یا اپنے برابر والے سے بھی اتنا ہی صبر دکھا ئیں تو تبھی ہم ہر قسم کے فتنے اور فساد ختم کر سکتے ہیں.دنیا کو ہم نصیحت کرتے ہیں، اسلام کی خوبصورت تعلیم بتاتے ہیں، لیکن وقت آنے پر ہم میں سے وہ اکثریت ہے جو صبر کا دامن چھوڑ دیتی ہے.اگر ہم یہ معیار حاصل کر لیں تو ہماری تبلیغ کے میدان بھی مزید کھلتے چلے جائیں گے.عام افراد جماعت یہ نہ سمجھیں کہ یہ ساری واقفین زندگی اور عہد یدار ان کی ذمہ داریاں ہیں ، آپس میں محبت و پیارکو بڑھانا صلح اور صفائی کو قائم رکھنا، اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا، اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سنا اور اُن پر عمل کرنا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق اپنے تقویٰ کے معیار بڑھانا، خلیفہ وقت کی باتوں پر لبیک کہنا یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہے اور یہی چیز جماعت کی اکائی کو بھی قائم رکھ سکتی ہے.عہد یدار ان کی عزت و احترام کرنا اور جماعتی معاملات میں اُن کی اطاعت کرنا یہ ہر فر د جماعت پر فرض ہے.آپس کے تعلقات میں گھروں میں بھی اور باہر بھی اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کرنا، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے.تبھی آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچائے جائیں گے اور پھر صرف خدا تعالیٰ نے یہی نہیں کہا کہ تبلیغ صرف مبلغین کا کام ہے یا چند اُن لوگوں کا کام ہے جو اپنے آپ کو دعوت الی اللہ کے لئے پیش کر دیتے ہیں.بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک گروہ کا ذکر کیا ہے لیکن دعوت الی اللہ کے بارے میں عام حکم ہے.اگر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے پیروی کرنے اور اسوہ پر چلنے کا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تو تبلیغ کے کام میں بھی پیروی کرنی ہوگی.میں نے جو تیسری آیت سورۃ محل کی پڑھی، اُس میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے اور یہ ذمہ داری
خطبات مسرور جلد 11 218 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء ہم پر ڈالی ہے.یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے، ہر مربی کی، ہر عہد یدار کی، ہر فر د جماعت کی ، مرد کی اور عورت کی کہ خدا کے راستے کی طرف بلائیں اور پھر بلانے کا طریق بھی بتا دیا.فرمایا کہ حکمت سے خدا تعالیٰ کی طرف بلاؤ.اب جو تمہارا تعارف دنیا میں پھیل رہا ہے ، لوگ تمہاری طرف متوجہ ہو رہے ہیں، مسجد کے بننے کے ساتھ مزید راستے تبلیغ کے کھل رہے ہیں، اخباروں نے بھی لکھنا شروع کر دیا ہے تو اللہ یہ فرما تا ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تبلیغ کی حکمت کو سمجھ کر پھر اس فریضے کو ادا کرو.اللہ تعالیٰ نے جو حکمت کا لفظ تبلیغ کے لئے استعمال کیا ہے تو اس کے بہت سے معنی ہیں، مختلف حالات اور مختلف لوگوں کے لئے راستوں کی طرف نشاندہی کر دی، کس طرح کن لوگوں سے تم نے واسطہ رکھنا ہے.پہلی بات تو یہ کہ دین کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے جو قرآنِ کریم کے پڑھنے ، اُس کی تفاسیر کے پڑھنے سے حاصل ہوسکتا ہے.اس سے اپنی دلیلوں کو مضبوط کرو.پھر بعض باتیں جن کی مزید وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں فرمائی ہوئی ہے، اُن کے ذریعہ سے دلیلوں کو مضبوط کرو.اسلام کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بعض اعتراض کئے جاتے ہیں تو ان کے بارے میں بھی مضبوط دلیلیں قائم کرو اور مزید حاصل کرنے کی کوشش کرو.پھر حکمت کے معنی عدل کے بھی ہیں.بحث میں ایسی باتیں اور ایسی دلیلیں کبھی نہیں لانی چاہئیں جو اعتراض پر مبنی ہوں اور بجائے اس کے کہ اسلام کی اس تعلیم کے ہر موقع پر ایک مسلمان سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں ، بعض ایسی باتیں ہو جائیں جو اچھے اثر کے بجائے غلط اثر ڈالیں، جو انصاف کے بجائے ظلم پر مبنی ہوں.غیر احمدیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں علمی لحاظ سے مارکھانے لگتے ہیں، فوراً ظلم اور گالی گلوچ اور ایسی باتوں پر اتر آتے ہیں جو بجائے خدا کے کلام کی حکمت ظاہر کرنے کے اُن کا گند ظاہر کر رہی ہوتی ہے.ہمیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے علم کلام سے اس قدرئیس فرما دیا ہے کہ ہمارے کسی قول سے تبلیغ کے دوران نا انصافی اور ظلم کا اظہار ہو ہی نہیں سکتا.پس حکمت سے تبلیغ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کا مطالعہ بھی ضروری ہے اور یہ صرف تبلیغ میں ہی مدد نہیں دے گا بلکہ یہ ہر احمدی کی تربیت میں بھی ایک کردار ادا کر رہا ہو گا.اسی طرح حکمت نرمی اور بردباری کو بھی کہتے ہیں.اس میں صبر بھی شامل ہے.تبلیغ میں نرمی اور صبر بہت ضروری چیز ہے.بہت نئے آنے والے جو ہیں خاص طور پر پوچھتے ہیں کہ ہم اپنے رشتہ داروں کو
خطبات مسرور جلد 11 219 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء کس طرح تبلیغ کریں؟ بعض قریبیوں کے لئے اُن کے دل میں بڑا درد ہوتا ہے.ان کی ایک بے چینی کی کیفیت ہوتی ہے.خاص طور پر جب وہ اپنے عزیزوں کو احمدیت کے بارے میں بتاتے ہیں تو بجائے باتیں سننے کے آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور سختی سے کلام کرتے ہیں تو اُس وقت ہر احمدی کا کام ہے کہ نرمی اور صبر کا مظاہرہ کرے.یہ حکمت ہے اور یہ بہت ضروری چیز ہے.بہت سوں کے دل جو ہیں وہ حکمت سے نرم ہو جاتے ہیں.صبر اور نرمی سے نرم ہو جاتے ہیں.کئی لوگ اپنے واقعات لکھتے ہیں کہ ہمارے صبر اور حوصلہ ایسا تھا کہ لگتا تھا کہ دامن چھوٹ رہا ہے لیکن ہم صبر کرتے رہے اور ہمارا صبر رنگ لا یا اور ہمارا فلاں عزیز اب بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا.پھر جو حکمت کا قرآن کریم میں لفظ آیا، لغت میں اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ جو چیز جہالت سے رو کے.یعنی تبلیغ کرنے والے کو ایسی بات کہنی چاہئے جو دوسرے کو جاہلانہ باتیں کرنے سے روکے.اُس کے مزاج کے مطابق باتیں ہوں.ایسی بات نہ ہو کہ ایسی باتیں تمہارے منہ سے نکل جائیں جو اُس کو مزید جہالت پر ابھارنے والی ہوں.بیشک مولویوں کا طبقہ یا بعض ایسے لوگوں کا طبقہ جن کے دل پتھر ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے اُن کے لئے جہالت کی موت ہی مقدر کر دی ہے، اگر حکمت سے ان میں سے ہر ایک کی طبیعت اور علم کی حالت کو سمجھتے ہوئے بات کی جائے تو وہاں دل نرم ہونے شروع ہو جاتے ہیں یا کم از کم اگر انسان مانتا نہیں تو خاموش ضرور ہو جاتا ہے.بلکہ خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والے اور مذہب کے خلاف جو لوگ ہیں اُن کے بھی دل نرم ہو جاتے ہیں اور وہ غلط اور جاہلانہ اعتراضات کرنے سے باز آ جاتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا ریسپشن کی مثال دیتا ہوں ، یہاں آنے والوں میں بہت سارے لا مذہب لوگ بھی تھے.اُن میں سے ایک جوڑے نے جو ڈاکٹر تھے جب قرآن اور حدیث کے حوالے سے میری باتیں سنیں ، تو کہنے لگے کہ یہ مذہب کی باتیں دل کو ایسی لگ رہی ہیں کہ دل چاہتا ہے سنتے چلے جائیں.وہ مجھے ملے بھی تھے.پس اسلام کی تعلیم تو ایسی پر حکمت تعلیم ہے کہ اگر ماحول کے مطابق دنیا کے سامنے پیش کی جائے تو دل پر اثر کرتی ہے.میں دوبارہ کہتا ہوں کہ اب یہ میدان جو صاف ہو رہے ہیں اور یہ تعارف جو بڑھ رہے ہیں انہیں آپ نے سنبھالنا ہوگا.اور انہیں سنبھالنا آپ میں سے ہر ایک کا کام ہے.پھر حکمت یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ کبھی کوئی غلط بات نہ ہو بلکہ سچی اور صاف بات ہو اور اسلام نے تو ایسی خوبصورت اور سچی تعلیم دی ہے، اسلام ایسا خوبصورت اور سچا مذہب ہے کہ اس کے لئے کوئی
خطبات مسرور جلد 11 220 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء ضرورت ہی نہیں ہے کہ کوئی گول مول بات کی جائے.ہم اُن علماء کی طرح نہیں جو کہتے ہیں کہ حکمت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اگر جھوٹ بھی بولنا ہو تو بول دو اور یہ اُن کی تفسیروں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے.وہ حکمت کیسی ہے جس میں جھوٹ ہے؟ جہاں جھوٹ آیا وہاں انصاف ، عدل اور امن ختم ہوا.اور جہاں یہ چیزیں ختم ہو ئیں وہاں فتنہ و فساد پیدا ہوا اور یہی چیز آجکل ہم پاکستان میں اور دوسرے اسلامی ملکوں میں دیکھ رہے ہیں اور جب فتنہ پیدا ہو تو پھر وہاں اسلام نہیں رہتا.پس اسلام کی حقیقی تعلیم اگر کوئی پھیلا سکتا ہے، اگر کوئی بتا سکتا ہے تو وہ احمدی ہے جس کی ہر بات صداقت ، عدل اور علم پر منحصر ہے.پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ہر احمدی کی جو ہم نے ادا کرنی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسی طرح حکمت کے تقاضے پورے کرو.یعنی اپنے علم کو بڑھاؤ، اپنے صبر کے معیار کو بڑھاؤ ، اپنے عدل کے معیار کو بڑھاؤ، اپنی روز مرہ زندگی میں جس چیز کا اظہار ہوتا ہو، وہ کرو.اپنے اندر مزاج شناسی پیدا کرو کیونکہ مزاج شناسی کے بغیر بھی تبلیغ نہیں ہو سکتی.مزاج شناسی بھی تبلیغ کے لئے ایک اہم گر ہے.تو پھر تمہارا وعظ جو ہے وہ اعلیٰ ہو سکتا ہے، تمہاری جو تبلیغ ہے وہ پر حکمت ہو سکتی ہے.تب تم موعظہ حسنہ پر عمل کرنے والے ہو سکتے ہو.موعظہ حسنہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسی بات جو دل کو نرم کرے.پس حکمت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جو بات ہو وہ دلوں کو نرم کرتی ہے.یہاں مختلف قومیں آباد ہیں ان کے لئے مختلف طریق سوچنے ہوں گے کہ کس طرح ان کو احسن رنگ میں تبلیغ کی جائے.اس کی طرف بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرما دی ہے کہ جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یعنی تبلیغ ایسی احسن دلیل اور حکمت کے ساتھ ہو ، تمہاری نصیحت ایسی دل کو لگنے والی ہو کہ دل نرم ہونے شروع ہو جائیں تبلیغ کرنا ہر احمدی کا کام ہے.باقی اسے پھل لگانا خدا تعالیٰ کا کام ہے.ہدایت فرمانا خدا تعالیٰ کا کام ہے لیکن اس کام کے لئے جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا اپنی حالتوں کو بدلنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے.تبھی بات اثر کرتی ہے.تبھی دلیلیں کارگر ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر نصیحت کرنے کے طریق کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ: " جسے نصیحت کرنی ہوا سے زبان سے کرو.ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرا یہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرا یہ میں دوست بنا دیتی ہے.پس جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ آخسَن (النحل: 126 ) کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو.اسی طر ز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 104 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 221 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء پس یہ حکمت سے بات کرنا آپس میں بھی ضروری ہے اور تبلیغ کے لئے بھی ضروری ہے.تربیت کے لئے بھی ضروری ہے اور دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے بھی ضروری ہے.تبلیغ کے راستے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کھول دیئے.اس سے فائدہ اُٹھانا اور ایک ہو کر ایک مہم کی صورت میں تبلیغ کے میدان میں اترنا اب افراد جماعت کا کام ہے.آپ پر منحصر ہے کہ کس حد تک اس کو بجا لاتے ہیں.اخباروں نے تو مسجد کے حوالے سے خبریں لگا دیں کہ اسلام نے جھنڈے گاڑ دیئے.خلیفہ نے کہا کہ سترھویں صدی میں مسلمانوں کو یہاں سے نکالا گیا تھا اب ہم نے واپس یہاں آتا ہے.لیکن صرف ان خبروں سے تو ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوگا.اس سے ملتی جلتی خبریں تو حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بھی اخباروں میں شائع ہوئی تھیں جب مسجد بشارت پید رو آباد کا افتتاح ہوا تھا.لیکن جائزہ لیں.کیا گزشتہ تیس سال میں ہم نے کچھ حاصل کیا.پس ترقی کرنے والی قومیں اخباری خبروں سے خوش نہیں ہوتیں.مقصد حاصل کرنے والی قومیں ریسپشن میں یا دوستوں کی مجالس میں مہمانوں کے جذباتی اظہار سے خوش نہیں ہو جایا کرتیں بلکہ اپنے جائزے لیتی ہیں.نئے نئے پروگرام بناتی ہیں.آپس میں ایک اکائی بن کر نئے عزم کے ساتھ اپنے پروگراموں کو عملی جامہ پہناتی ہیں.اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتیں جب تک اپنے مقصد کو حاصل نہ کر لیں.چھوٹی چھوٹی باتیں اُن کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.اس ٹوہ میں نہیں رہتیں کہ امیر جماعت نے یا صدر جماعت نے میرے متعلق کیا بات کی تھی بلکہ ایسی باتیں پہنچانے والوں کو ترقی کرنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی میرے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے.میں نے تو زمانے کے امام کے ساتھ عہد بیعت باندھا ہوا ہے اور اُسے میں نے پورا کرنا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.ان باتوں کی طرف توجہ تو میرے خیالات کو منتشر کر دے گی اور میں اپنے مقصد کو بھول جاؤں گا.اپنے ہم وطنوں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے میں یہ باتیں آپس کی چپقلشیں روک بن جائیں گی.میرے سے تفرقہ کا اظہار ہوگا.اس طرح میں اپنی دنیا و عاقبت بر باد کرنے والا بن جاؤں گا.پس اگر تمہیں میرے سے ہمدردی ہے، اگر تمہیں جماعت سے ہمدردی ہے تو یہ باتیں مجھ تک نہ پہنچاؤ بلکہ کسی شخص کو بھی ان کے بارے میں جو باتیں تم سنو، وہ نہ بتاؤ کیونکہ یہ چغلی کے زمرہ میں آتی ہیں.اگر یہ سوچ ہر احمدی کی، ہر مبلغ کی، ہر عہدیدار کی ہو جائے گی تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ انقلاب کے راستے کھلتے چلے جائیں گے.پس ہر سطح پر یہ عزم کریں ، چاہے وہ خادم ہیں یا انصار ہیں یا لجنہ کے ممبر ہیں کہ میں نے اسلام کی سربلندی کی خاطر ہر قسم کے تفرقے کو ختم کرنا ہے اور ہر قسم کی رنجشوں اور فتنوں کو جڑ سے اکھیڑنا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات مسرور جلد 11 222 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 اپریل 2013ء گزشتہ جمعہ میں نے مسجد کی تعداد کے لحاظ سے ذکر کیا تھا.ٹیکنیکلی تو اتنا ہی ہے جو میں نے بتا یا تھا لیکن مختلف ہالز میں جو Capacity ہے، اس کے مطابق کم از کم چھ سو سے اوپر نمازی یہاں نماز پڑھ سکتے ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ اس مسجد کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا: ایک دعا کی تحریک بھی کرنی چاہتا ہوں.نوابشاہ کے ہمارے ایک مخلص احمدی دوست، جو پیشہ کے لحاظ سے وکیل بھی ہیں، دودن پہلے وہ اپنی دوکان سے آرہے تھے تو مخالفین نے گولیوں کے فائر کر کے ان کو شدید زخمی کر دیا.وہ Critical حالت میں ہیں.ابھی کراچی میں ہسپتال میں ہیں.ڈاکٹر کچھ عرصہ، آئندہ چند دن اور دیکھیں گے تب بتایا جا سکتا ہے کہ خطرے سے باہر ہیں کہ نہیں ہیں.اُن کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ اُن کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 26 اپریل 2013 ء تا 2 مئی 2013ء جلد 20 شماره 17 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد 11 223 15 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء بمطابق 12 شہادت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ آن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء:59) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپر د کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو.یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے.یقینا اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے.یہ سال جیسا کہ تمام جماعتیں جانتی ہیں، جماعت میں انتخابات کا سال ہے.ہر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں.امراء،صدران اور دوسرے مختلف عہدیداران کے انتخابات کئے جاتے ہیں.بعض جماعتوں میں یہ انتخابات شروع بھی ہو چکے ہیں.بڑی جماعتوں میں جو مجالس انتخابات منتخب ہوتی ہیں، اُن کے انتخابات ہورہے ہیں.یہ مجالس انتخاب پھر اپنے عہدیداران کا انتخاب کرتی ہیں.بہر حال جماعت کے انتظامی ڈھانچے کو صحیح رنگ میں چلانے کے لئے جہاں یہ انتخابات ضروری ہیں، وہاں اس کام کو احسن رنگ میں آگے بڑھانے کے لئے ، عہدوں کا حق ادا کرنے کے لئے صحیح افراد کا انتخاب بھی بہت ضروری ہے.اور یہ ایسا اہم امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس امر کی طرف مومنین کو توجہ دلائی ہے اور تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ تمہیں کس قسم کے عہدیداران منتخب کرنے چاہئیں اور عہدیداروں کو تو جہ دلائی کہ صرف عہدے لینا کافی نہیں بلکہ اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بنتے ہو.
خطبات مسرور جلد 11 224 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے، اس میں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے.اس آیت میں پہلی ذمہ داری رائے دہی کا حق ادا کرنے والوں کی ہے کہ عہدہ ایک امانت ہے اس لئے تمہاری نظر میں جو بہترین شخص ہے اُس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرو.ووٹ دینے سے پہلے یہ جائزہ لو کہ آیا یہ اس عہدہ کا اہل بھی ہے کہ نہیں.جس کے حق میں تم ووٹ دے رہے ہو یا ووٹ دینا چاہتے ہو وہ اس عہدہ کا حق ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے یا نہیں؟ جتنی بڑی ذمہ داری کسی کے سپر د کر نے کے لئے آپ خلیفہ وقت کو مشورہ دینے کے لئے جمع ہوئے ہیں، اتنی زیادہ سوچ بچار اور دعا کی ضرورت ہے.یہ نہیں کہ یہ شخص مجھے پسند ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے.یا فلاں میرا عزیز ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے.یا فلاں میرا برادری میں سے ہے، شیخ ہے، جٹ ہے، چوہدری ہے، سید ہے، پٹھان ہے، راجپوت ہے، اس لئے اُس کو ووٹ دیا جائے.کوئی ذات پات عہدیدار منتخب کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ جواب طلبی صرف عہدیدار کی نہیں کرتا کہ کیوں تم نے صحیح کام نہیں کیا.بلکہ ووٹ دینے والے بھی پوچھے جائیں گے کہ کیوں تم نے رائے دہی کا اپنا حق صحیح طور پر استعمال نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں یہ فرمایا کہ اِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا.کہ اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے.یہ ووٹ ڈالنے والوں کے لئے بھی ہے کہ اگر تمہیں کسی کے بارے میں صحیح معلومات نہیں تو خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا! تیری نظر میں جو بہترین ہے، اُسے ووٹ ڈالنے کی مجھے توفیق عطا فرما.اور نیک نیتی سے کی گئی اس دعا کو خدا تعالیٰ جو سمیع و بصیر ہے، وہ سنتا ہے.فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بصیر بھی ہے.اُس کی تمہارے عملوں پر گہری نظر ہے.خدا تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.وہ دلوں کی پاتال تک سے واقف ہے.پس جب مومنین کی جماعت خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہوئے عہد یدار منتخب کرتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ مومنین کا مددگار بھی ہو جاتا ہے.جماعتی نظام میں تو ہماری یہ روایت ہے کہ ہر کام سے پہلے ہم دعا کرتے ہیں، دعا سے کام شروع کرتے ہیں.انتخابات سے پہلے بھی دعا کروائی جاتی ہے.اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے رہنمائی لیتے ہوئے انتخابات کی کارروائی کی جائے تو اللہ تعالیٰ پھر اپنے فضلوں اور برکتوں سے نوازتا ہے.پس ہر ووٹ دینے والا اپنے ووٹ کی ، اپنے رائے دہی کے حق کی اہمیت کو سمجھے.ہر قسم کے ذاتی رجحانات یا ذاتی پسندوں اور ذاتی تعلقات سے بالا ہو کر جس کام کے لئے کسی کومنتخب کرنا چاہتے ہیں، اُس کے حق میں اپنی رائے دیں.پرانے احمدی تو جانتے ہیں ، نئے آنے والوں پر بھی واضح ہونا چاہئے ،
خطبات مسرور جلد 11 225 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء نو جوانوں پر بھی واضح ہونا چاہئے کہ انتخابات میں رائے دی جاتی ہے.حتمی فیصلہ خلیفہ وقت کی طرف سے ہوتا ہے.بعض دفعہ کسی کے حق میں کثرت کے باوجود بعض وجوہات کی بنا پر دوسرے کو (عہد یدار بنادیا جاتا ہے.یہ بھی واضح ہو کہ بعض مقامی عہدیداروں کے انتخابات کی حتمی منظوری اگر ملکی امیر دیتا ہے تو اُسے قواعد اس کی اجازت دیتے ہیں.کثرتِ رائے سے اختلاف کا وہ حق رکھتا ہے لیکن امراء کو کثرتِ رائے کا عموماً احترام کرنا چاہئے اور یہ بات نوٹ کر لیں، خاص طور پر انگلستان اور یورپ کے ممالک اور امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا کے ممالک کہ مقامی انتخابات میں قواعد نیشنل امیر کو اجازت دیتے ہیں کہ اگر وہ تبدیلی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے.لیکن جن ملکوں کے میں نے نام لئے ہیں، اس دفعہ کے الیکشن کیلئے اگر کوئی تبدیلی کرنی ہو گی تو اس کے لئے بھی مجھ سے پہلے پوچھنا ہو گا.یہاں سے منظوری لیں گے.امراء خود تبدیلی نہیں کریں گے.باقی پاکستان یا بھارت یا جو دیگر ممالک ہیں، وہ حسب قواعد مقامی انتخابات کے لئے منظوری کی کارروائی کر سکتے ہیں اور ہر ملک کی جو نیشنل عاملہ ہے اور بعض اور عہدیداران جو ہیں ، ان کی بہر حال یہیں مرکز سے منظوری لی جاتی ہے.خلیفہ وقت سے منظوری لی جاتی ہے.اس آیت میں تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا ( النساء:59) کہا گیا ہے.یہ عہد یداران کے لئے بھی ہے.بعض عہدے یا بعض کام ایسے ہیں جو بغیر انتخاب کے نامزد کر کے سپرد کئے جاتے ہیں.مثلاً سیکرٹری رشتہ ناطہ ہے، اس کا عہدہ ہے یا خدمت ہے یا بعض شعبوں میں بعض لوگوں کو کام تفویض کئے جاتے ہیں تو امیر جماعت یا صدر جماعت یا متعلقہ سیکرٹری اگر کسی کو ایسے کام دیتے ہیں تو صرف ذاتی پسند اور تعلق پر نہ دیا کریں بلکہ افراد جماعت کا تفصیلی جائزہ لیں اور یہ جائزہ لے کر پھر اُن میں سے جو بہترین نظر آئے اُسے کام سپرد کرنا چاہئے ورنہ یہ خویش پروری ہے اور اسلام میں ناپسند ہے.لیکن اگر کوئی اپنے کسی دوست یا عزیز کو کوئی کام سپر د کرتا ہے اور اُس کی بظاہر اس کام کے لئے لیاقت بھی ہے تو پھر بعض لوگ جن کو اعتراض کرنے کی عادت ہے وہ بلا وجہ یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اس نے اپنے قریبی کو فلاں عہدہ دے دیا.اُن کو یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے.کسی عہدیدار کا کسی امیر کا عزیز ہونا یا قریبی ہونا کوئی گناہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اُس شخص کو خدمت سے محروم کر دیا جائے.یہ بات میں نے اس لئے واضح کر دی کہ بعض لوگوں کی طرف سے اس طرح کے اعتراض آجاتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عہدیداروں کو فرمایا ہے کہ اَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ کہ انصاف کے ساتھ اپنے عہدوں اور تفویض کردہ کاموں کو سر انجام دو.اگر عدل نہیں ہوگا، انصاف نہیں ہوگا، خویش پروری
خطبات مسرور جلد 11 226 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء ہوگی یا قرابت داری کا لحاظ رکھا جائے گا یا ایک کارکن سے ضرورت سے زیادہ باز پرس اور دوسرے سے بلا ضرورت صرف نظر ہو گی تو انصاف قائم نہیں رہ سکتا.اور جب انصاف قائم نہ ہو تو پھر کام میں برکت نہیں پڑتی ، پھر اچھے نتائج کے بجائے بدنتائج نکلتے ہیں.اسی طرح صرف کام کرنے والوں کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر فر د جماعت کے ساتھ انصاف پر مبنی تعلقات ہونے چاہئیں اور فیصلے اُس کے مطابق ہونے چاہئیں.یہ نہیں کہ فلاں شخص فلاں کا دوست ہے یا فلاں کا عزیز ہے یا فلاں خاندان کا ہے تو اُس سے اور سلوک اور دوسرے سے اور سلوک.اگر یہ باتیں ہوں تو یہ چیزیں پھر جماعت میں بے چینی پیدا کرتی ہیں.اسی طرح جب خلیفہ وقت کی طرف سے رپورٹ کے لئے کہا جائے تو پھر رپورٹ بھی صحیح ہونی چاہئے کہ حکم تو تحكموا بالعدل کا ہے.لیکن خلیفہ وقت کو اگر غلط رپورٹ ہو گی تو خلیفہ وقت سے بھی غلط فیصلہ ہو جائے گا اور غلط فیصلہ کروا کر اُسے بھی اپنے ساتھ گنہگار بنا رہے ہوں گے اور خود تو خیر بن ہی رہے ہوں گے.پس ہمیشہ جماعتی کاموں میں ان چیزوں کو مدنظر رکھنا چاہئے.ہر کام، ہر خدمت جو دی جائے ، اُس کو انتہائی سوچ بچار کر اور ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پس عہدے کوئی بڑائی نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.دعاؤں کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ سمیع ہے، وہ تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے، خاص طور پر جب خدا تعالیٰ کے حکموں پر پورا اترنے کی دعائیں کی جائیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور شاملِ حال ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ جس طرح رائے دینے والے پر ، ووٹ دینے والے پر گہری نظر رکھنے والا ہے، اُسی طرح عہدیدار پر بھی اُس کی گہری نظر ہے.اگر اپنی ذمہ داری نہیں نبھا ئیں گے، اگر عدل اور انصاف سے فیصلے نہیں کریں گے، اگر اپنے کا موں کو اُن کا حق ادا کرتے ہوئے نہیں بجالائیں گے تو پھر خدا تعالیٰ جو ہر چیز کو دیکھ رہا ہے، وہ فرماتا ہے پھر تم پوچھے بھی جاؤ گے.تمہاری جواب طلبی ہوگی.پس یہ ہر اُس شخص کے لئے بہت خوف کا مقام ہے جس کے سپر دکوئی نہ کوئی خدمت کی جاتی ہے.لوگوں کو عہدوں کی بڑی خواہش ہوتی ہے.لیکن اگر اُن کو پتہ ہو کہ یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے اور اس کا حق ادا نہ کرنے پر خدا تعالیٰ کی ناراضگی بھی ہو سکتی ہے اور اُس کی گرفت بھی ہوسکتی ہے تو ہر عہد یدار سب سے بڑھ کر ، دوسروں سے بڑھ کر دن اور رات استغفار کرنے والا ہو.ہر عہد یدار کو یا درکھنا چاہئے کہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد یا عہدہ کی منظوری آجانے کے بعد وہ آزاد نہیں ہو گیا.بلکہ ایسے بندھن میں بندھ گیا ہے جس کو نہ نبھانے کی صورت میں یا اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق نہ بجالانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والا بھی ہوسکتا ہے.ہر عہد یدار
خطبات مسرور جلد 11 227 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء نے ہر فردِ جماعت کا حق بھی ادا کرنا ہے اور جماعت کا مجموعی طور پر بحیثیت جماعت بھی حق ادا کرنا ہے.کیونکہ ہر عہد یدار کو یہ سوچنا چاہئے کہ میں ایک جماعتی عہد یدار ہوں اور کسی بھی قسم کی میری کمزوری جماعت کو متاثر کر سکتی ہے یا جماعت کے نام کو بدنام کرنے والی ہو سکتی ہے.اس لئے اُسے یہ حق بھی ادا کرنے والا ہونا چاہئے اور پھر اپنے نمونے قائم کرتے ہوئے دینی حقوق کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق کی بھی مثال قائم کرنی چاہئے.یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، میں اس میں جو مرضی کروں.جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس لئے مجھے آزادی ہے جو چاہوں میں کروں.ہر عہد یدار کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اُس کی ذات بھی اب ہر معاملے میں جماعتی مفادات کے تابع ہے.پس یہ سوچ ہے جو ہر عہدیدار کو پیدا کرنی چاہئے اور ایسی سوچ رکھنے والوں کو ہی حق رائے دینے والوں کو یا ووٹ دینے والوں کو منتخب کرنا چاہئے.یا دوسرے لفظوں میں جن کا تقویٰ کا معیار بلند ہوا نہیں عہد یدار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر ہمارا دعوی اس زمانے کے امام کو مان کر تقویٰ کے معیاروں کو بلند کرنے کا ہے، اپنے ذمہ کی گئی امانتوں کا دوسروں سے بڑھ کر حق ادا کرنے کا یہ دعویٰ ہے تو ہمیں بہت فکر سے اپنی جماعتی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ زعُونَ (المؤمنون:9 ) ” اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.اپنے سپرد کی گئی امانتوں کو سرسری طور پر ادا نہیں کرنا بلکہ گہرائی میں جا کر تمام باریکیوں کو سامنے رکھ کر اپنے کام سرانجام دینے ہیں.پس منتخب کرنے والوں کو بھی ایسے لوگوں کو منتخب کرنا چاہئے جو اپنے کاموں میں سنجیدہ ہوں اور منتخب شدہ لوگوں کو بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد کیا ہے سب سے زیادہ اُس کی پابندی عہد یداران کو کرنی چاہئے ، چاہے وہ کسی بھی سطح کے عہد یدار ہوں.عہدے یا خدمت کرنے کی خواہش کا جذبہ تو جیسا کہ میں نے کہا بہت رکھتے ہیں حالانکہ عہدے کی خواہش تو ہونی بھی نہیں چاہئے.یہ تو ویسے ہی اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.اگر خدمت کا جذبہ ہے اور اس کی خواہش ہے تو پھر جو خدمت سپرد کی جائے یا کوئی عہدہ سپر دکیا جائے تو پھر خدمت کرنے والوں کو، عہد یداروں کو یا درکھنا چاہئے کہ اپنے تمام عہد پورے کئے بغیر کام نہیں ہوسکتا.اور عہد کس طرح پورے ہوں گے؟ اور کس معیار سے پورے ہوں گے؟ اور کیا معیار اس کا ہونا چاہئے؟ اس بارے میں
خطبات مسرور جلد 11 228 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے.(یعنی آیتِ کریمہ ) وَالَّذِينَ هُمُ الأمنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ....جو صرف اپنے نفس میں یہی کمال نہیں رکھتے جونفس اتارہ کی شہوات پر غالب آ گئے ہیں اور اس کے جذبات پر اُن کو فتح عظیم حاصل ہو گئی ہے بلکہ وہ حتی الوسع خدا اور اُس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں تک طاقت ہے اُس راہ پر چلتے ہیں.( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 207) فرمایا: ” لفظ راغون “ جو اس آیت میں آیا ہے جس کے معنی ہیں رعایت رکھنے والے.یہ لفظ عرب کے محاورہ کے موافق اُس جگہ بولا جاتا ہے جہاں کوئی شخص اپنی قوت اور طاقت کے مطابق کسی امر کی بار یک راہ پر چلنا اختیار کرتا ہے اور اس امر کے تمام دقائق بجالا نا چاہتا ہے“.( یعنی باریک ترین پہلو بجا لانا چاہتا ہے ).اور کوئی پہلو اُس کا چھوڑنا نہیں چاہتا.پس اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ وہ مومن جو.حتی الوسع اپنی موجودہ طاقت کے موافق تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارتے ہیں اور کوئی پہلو تقوی کا جو امانتوں یا عہد کے متعلق ہے، خالی چھوڑنا نہیں چاہتے اور سب کی رعایت رکھنا اُن کا ملحوظ نظر ہوتا ہے اور اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ موٹے طور پر اپنے تئیں امین اور صادق العہد قرار دے دیں“.(اپنے آپ کو امین سمجھیں یا وعدے پورے کرنے والا قرار دے دیں ) بلکہ ڈرتے رہتے ہیں کہ در پردہ اُن سے کوئی خیانت ظہور پذیر نہ ہو.پس طاقت کے موافق اپنے تمام معاملات میں توجہ سے غور کرتے رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اندرونی طور پر اُن میں کوئی نقص اور خرابی ہو اور اسی رعایت کا نام دوسرے لفظوں میں تقویٰ ہے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 207-208) پھر آپ فرماتے ہیں : خلاصه مطلب یہ کہ وہ مومن جو...اپنے معاملات میں خواہ خدا کے ساتھ ہیں، خواہ مخلوق کے ساتھ بے قید اور خلیع الرسن نہیں ہوتے بلکہ اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی اعتراض کے نیچے نہ آجاویں اپنی امانتوں اور عہدوں میں دُور دُور کا خیال رکھ لیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں اور تقویٰ کی دور بین سے اُس کی اندرونی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ در پردہ اُن کی امانتوں اور عہدوں میں کچھ فتور ہو.اور جو امانتیں خدا تعالیٰ کی اُن کے پاس ہیں جیسے تمام قویٰ
خطبات مسرور جلد 11 229 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء اور تمام اعضاء اور جان اور مال اور عزت وغیرہ ان کو حتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور جو عہد ایمان لانے کے وقت خدا تعالیٰ سے کیا ہے کمال صدق سے حتی المقدور اُس کے پورا کرنے کے لئے کوشش میں لگے رہتے ہیں.ایسا ہی جو امانتیں مخلوق کی اُن کے پاس ہوں یا ایسی چیزیں جو امانتوں کے حکم میں ہوں، اُن سب میں تا بمقد ورتقویٰ کی پابندی سے کار بند ہوتے ہیں.اگر کوئی تنازع واقع ہو تو تقویٰ کو مد نظر رکھ کر اُس کا فیصلہ کرتے ہیں.گو اس فیصلہ میں نقصان 66 اُٹھا لیں....فرمایا: انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوش نما خط و خال ہیں.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں، جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قو تیں اور اخلاق ہیں.ان کو جہاں تک طاقت ہو، ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ جملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا، یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقوی کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے.چنانچہ لِبَاسُ التَّقوى قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کار بند ہو جائے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 208 تا210) پس جب تک تقویٰ کے معیار اونچے نہیں ہوں گے، اُس وقت تک اپنی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا نہیں ہوسکتا.یہ امانتیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ، خدا تعالیٰ کی بھی ہیں اور بندوں کی بھی.اور ایک عہدیدار خاص طور پر دونوں طرح کی امانتوں کا امین متصور ہوتا ہے اور ہے.پس میں پھر افراد جماعت کو، جنہوں نے اپنے عہدیدار منتخب کرنے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے ، اُن کے حق میں رائے دیں جو دونوں طرح کی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے والے ہوں.اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر طرح جماعت کا تقویٰ کا معیار بھی بلند ہو.جب ہر ووٹ
خطبات مسرور جلد 11 230 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء دینے والے کا تقویٰ کا معیار بلند ہو گا تبھی یہ حالت ہوگی.پس جماعت کے ہر فرد کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.عہدیدار جیسا کہ میں نے کہا، افراد جماعت نے منتخب کرنے ہیں اور افراد جماعت میں سے منتخب ہونے ہیں، اس لئے وہ چند خوبیاں جو ہم میں سے ہر ایک میں بحیثیت مومن ہونی چاہئیں اور خاص طور پر عہدیداروں میں ہونی چاہئیں، اُن کا میں ذکر کر دیتا ہوں.عہدوں کی پابندی کی بات ہے تو سب سے پہلے اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر جماعت میں عہدوں کی پابندی کا معیار بلند ہو گا تو عہد یداروں کا عہدوں کی پابندی کا معیار بھی بلند ہوگا.بندوں کے حقوق میں سے جن کی ادائیگی میں کمزوری ہے، وہ اپنے معاہدوں کو پورا نہ کرنا ہے یعنی معاہدوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے حقوق ادا نہیں ہوتے.اس کے لئے اگر اپنے پر سختی بھی برداشت کرنی پڑے تو برداشت کر لینی چاہئے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.بہت سے کاروباری معاہدے ہوتے ہیں ، اعتراض کرنے والے دوسرے پر تو فوراً اعتراض کر دیتے ہیں لیکن اپنے معاملات صاف نہیں ہوتے جس سے معاشرے میں فساد کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.اسلام ایک امن پسند دین ہے، ایک امن پسند مذہب ہے.جتنا زیادہ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے، اتنا ہی مسلمانوں میں بدعہدی اور فتنہ و فساد کی مثالیں پائی جاتی ہیں.اور معاشرے میں رہنے کی وجہ سے اس کا اثر ہم احمد یوں پر بھی پڑ رہا ہے.عہد صرف باہر کے کاروباری عہد نہیں ہیں، بلکہ ہر جگہ کے عہد ہیں، باہر بھی اور اندر بھی.گھر یلو سطح پر بھی.میاں بیوی کی شادی کا بندھن ہے، یہ بھی ایک معاہدہ ہے.اس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دیا جاتا ہے.بعض لوگ جماعتی کا موں کو بڑے احسن رنگ میں انجام دیتے ہیں، کئی دفعہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، لیکن گھروں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے.یہ بھی اپنے عہدوں سے روگردانی ہے، یا اُن کی پابندی سے روگردانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل گرفت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا - ( بنی اسرائیل: 35) یعنی ہر عہد کی نسبت یقیناً ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہو گی.اللہ تعالیٰ نے نیک آدمی کی یہ نشانی بتائی ہے، صحیح مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وَالْمُؤْفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا (البقرة : 178 ) جب وہ عہد کریں تو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں.پس ہر احمدی نے اگر اپنے نیک عہد یدار منتخب کرنے ہیں تو ہر سطح پر اپنے بھی جائزے لینے ہوں گے کہ کس حد تک وہ خود اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں.کس حد تک وہ خود اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 231 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک خوبصورت معاشرے کے لئے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے.اسی لئے فرمایا کہ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات : 12 ) تم ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارو.اب یہ صرف طعن ہی تلمزُوا کا مطلب نہیں ہے.اس کے وسیع معنے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض عہدیدار اپنے جذبات پر بھی کنٹرول نہیں رکھتے.بعض دفعہ کام کے لئے آنے والوں کو یا اپنے ساتھیوں کو بھی ایسی باتیں سناتے ہیں جو ان کو جذباتی تھیں پہنچانے والی ہیں.اور پھر بعض دفعہ کمزور ایمان والے نہ صرف یہ کہ عہد یدار کے خلاف ہو جاتے ہیں بلکہ نظامِ جماعت سے بھی بد دل ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تلمزُوا “.جیسا کہ میں نے کہا اس کے مختلف معنی ہیں.مثلاً دھکے دینا، کسی کو مجبور کرنا، مارنا یا کسی پر الزام لگانا، غلط قسم کی تنقید کرنا کسی کی کمزوریاں اور کمیاں تلاش کرنا.غلط قسم کی باتیں کسی کو کہنا یا کسی سے اس طرح بات کرنا جو اُ سے بری لگے.پس اگر عہد یدار ان باتوں کا خیال نہ رکھیں گے تو سوائے اس کے کہ جس شخص سے یہ سلوک کیا جارہا ہو ، اُس کے دل میں اُس عہدے دار اور نظام جماعت کے خلاف جذبات پیدا ہوں اور کیا ہوگا.اسی طرح ”تنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ‘ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ بجائے اس کے کہ تم کسی کو ایسے ناموں سے پکارو جو اُ سے پسند نہیں ہیں، ہر ایک سے عزت و احترام سے پیش آؤ.پس یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جو ایک عہدیدار میں ہونی چاہئے.ویسے تو یہ عموم کا حکم ہے.ہر مومن کو اس بات کا پابند ہونا چاہئے کہ اُس کا کردار معاشرے میں محبت اور پیار کی فضا پیدا کرنے والا ہولیکن عہد یداروں کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے.پھر عہد یدار کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ جماعتی اموال کو خاص طور پر بہت احتیاط سے خرچ کریں.کسی بھی صورت میں اسراف نہیں ہونا چاہئے.اسی لئے خاص طور پر وہ شعبے جن پر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور اُن کے بجٹ بھی بڑے ہیں ، انہیں صرف اپنے بجٹ ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ کوشش ہو کہ کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کس طرح کیا جاسکتا ہے.مثلاً ضیافت کا شعبہ ہے لنگر کا شعبہ ہے یا جلسہ سالانہ کے شعبہ جات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لنگر اب دنیا میں تقریباً ہر جگہ پھیل چکا ہے.اور جلسہ سالانہ کا نظام بھی دنیا میں پھیل چکا ہے.ہر دو شعبوں کے نگرانوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے.اگر بجٹ میں گنجائش بھی ہو تو جائزہ لے کر کم سے کم خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہی
خطبات مسرور جلد 11 232 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء امانت کے حق ادا کر نے کا صحیح طریق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مال کے آنے کی یا اُس کی فراوانی کی کوئی فکر نہیں تھی، صحیح خرچ کرنے والوں کی فکر تھی.پس امراء اور متعلقہ عہد یداران اس بات کا خاص خیال رکھیں.پھر ایک عہدیدار کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہئے ، گو کہ ہر مومن کی یہ نشانی ہے لیکن جن کے سپرد جماعتی ذمہ داریاں کی جاتی ہیں اُن کا سب سے بڑھ کر یہ کام ہے کہ لغویات سے پر ہیز کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون : 4 ).یعنی مومن وہ ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں.اور مومنین میں سے جو بہترین ہیں اُن کا معیار تو بہت بلند ہونا چاہئے کہ وہ ہر طرح کی لغویات سے اپنے آپ کو بچائیں.نہ فضول گفتگو ہو، نہ ایسی مجلسیں ہوں جن میں بیٹھ کر ہنسی ٹھیٹھا کیا جا رہا ہو.بعض عہد یداران بھی ہوتے ہیں جو آپس میں بیٹھتے ہیں اور دوسروں کے متعلق باتیں کر رہے ہوتے ہیں.ہنسی ٹھٹھا کیا جا رہا ہوتا ہے.پس ان سے بچنا چاہئے.اور نہ ہی ایسی مجلسوں میں عہد یداروں کو شامل ہونا چاہئے جہاں دینی روایات کا خیال نہ رکھا جا رہا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اس کے یہی معنی ہیں کہ مومن وہی ہیں جو لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرتے ہیں.اور لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرنا خدا تعالیٰ کے تعلق کا موجب ہے.گو یا لغو باتوں سے دل کو چھڑانا خدا سے دل کو لگا لینا ہے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 199-200) پس تقویٰ کا معیار بھی تبھی بلند ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بخل بھی ایک ایسا اظہار ہے جو کسی مومن کو زیب نہیں دیتا.عہد یدار اسراف سے تو بچیں، خرچوں میں اعتدال تو رکھیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جھیل اور کنجوس ہو جائیں.جہاں ضرورت ہو اور جائز ضرورت ہو ، وہاں خرچ کرنا بھی چاہئے.لیکن یہ نہ ہو کہ کسی کے لئے تو بہت کھلا ہاتھ رکھ لیا اور کسی کے لئے ہاتھ بالکل بند ہو جاتے ہیں.عہد یدار کی خاص طور پر ایک خوبی یہ بھی ہونی چاہئے کہ تحاظِمِينَ الْغَيْظَ ( آل عمران : 135) غصہ پر قابو ہو.اللہ تعالیٰ نے یہ خاص حکم دیا ہے کہ بیشک بعض دفعہ بعض حالات میں غصہ کا اظہار ہو جاتا ہے لیکن غصہ کو دبانے والے ہوں.جہاں جماعتی مفاد ہوگا ، وہاں بعض دفعہ اصلاح کی غرض سے غصہ دکھانا بھی پڑتا ہے.لیکن ذرا ذراسی بات پر غصہ میں آنا اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی عزت کا خیال نہ رکھنا یہ ایک عہدیدار کے لئے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے، نہ ہونا چاہئے.بلکہ ایک اچھے عہد یدار کو
خطبات مسرور جلد 11 233 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنا چاہئے کہ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة: 84).کہ لوگوں سے نرمی سے ، ملاطفت سے، بشاشت سے ملو.اگر عہد یداروں کے ایسے رویے ہوں تو بعض جگہوں سے عہد یداروں کے متعلق جو شکایات ہوتی ہیں وہ خود بخود ختم ہو جائیں.پھر ایک عہدیدار کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اُس کا اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک ہو.جماعت کے عہدے کوئی دنیاوی عہدے تو نہیں ہیں کہ افسران اور ماتحت کا سلوک ہو.ہر شخص جو جماعت کی خدمت کرتا ہے چاہے وہ ماتحت ہو، ایک جذبے کے تحت جماعت کے کام کرتا ہے.پس افسران کو اور عہدیداران کو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا چاہئے.اگر غلطی ہو تو پیار سے سمجھا ئیں، نہ کہ دنیاوی افسروں کی طرح سختی سے باز پرس ہو.ہاں اگر کوئی اس قدر ڈھٹائی دکھار با ہے کہ جماعتی مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو پھر اُس کو مناسب طریق سے جو بھی تنبیہ ہے وہ کریں یا باز نہیں آتا تو پھر اُس سے کام نہ لیں.بالا افسران کو اطلاع دیں.بیشک فارغ کر دیں.لیکن ایسی فضا پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ بلا وجہ دفتروں میں یا کام کرنے والی جگہوں پر گروہ بندی کی صورتحال پیدا ہو جائے.عہد یداروں میں اعلیٰ اخلاق کے اوصاف میں سے مہمان کی عزت کا وصف بھی ہونا چاہئے.یہ بھی ایک اعلیٰ خلق ہے.ہر شخص جو عہد یدار کو ملنے آتا ہے، اُس کے دفتر میں آتا ہے، اُس سے عزت واحترام سے ملنا چاہئے اور عزت و احترام سے بٹھانا چاہئے.یہ بہت ضروری چیز ہے.اگر دفتر میں آیا ہے تو کھڑے ہو کر ملنا چاہئے.یہ اخلاق منتخب عہدیداران کے لئے بھی ہیں اور مستقل جماعت کے کارکنان کے لئے بھی ضروری ہیں.اس سے عزت بڑھتی ہے، کم نہیں ہوتی.پھر عہد یداروں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت تواضع اور عاجزی بھی ہے.اور یہ عاجزی ایک احمدی کو بھی، عموماً عام آدمی کو بھی اپنی فطرت کا خاصہ بنانی چاہئے.لیکن ایک عہد یدار کو تو خاص طور پر اپنے اندر تواضع اور عاجزی پیدا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ولا تمش في الْأَرْضِ مَرَحًا ( بنی اسرائیل :38 ).کہ اور تم زمین میں تکبر سے مت چلو.ایک عام انسان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں.تو جو لوگ خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی خدمات پیش کر رہے ہوں اُن کے لئے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہو سکتا.پس اس خصوصیت کو ہمارے تمام عہدیداروں کو زیادہ سے زیادہ اپنا نا چاہئے اور ہر ملنے والے سے انتہائی عاجزی سے ملنا چاہئے.پھر یہ بھی خاص طور پر وہ عہدیدار جن کے سپر دفیصلوں کا کام ہے، لوگوں کے درمیان صلح صفائی کروانے کا کام ہے، اصلاحی کمیٹیاں ہیں یا قضاء ہے یا درکھیں کہ یہ جواللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اِعْدِلُوا هُوَ
خطبات مسرور جلد 11 234 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 اپریل 2013ء اقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدۃ:9).انصاف کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.اس کو یا درکھنا چاہئے.پس ہر فیصلہ انصاف پر ہونا چاہئے.بعض دفعہ بعض فیصلے میرے سامنے آتے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ گہرائی میں جا کر اُس پر غور نہیں ہوا ہوتا.اس طرح جن کے متعلق فیصلہ کیا گیا ہوتا ہے اُن میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.جو فیصلہ کیا گیا ہے اگر اُس کے بارے میں شریعت کا کوئی واضح حکم ہے جس کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے تو پھر وہ واضح طور پر لکھا جانا چاہئے کہ شریعت کا کیونکہ یہ حکم ہے اس لئے اس کی رُو سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے.خاص طور پر قاضیوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جن علاقوں میں خاص طور پر ضرورتمند اور غرباء ہیں اُن کا خیال رکھا جائے اور اپنے وسائل کے مطابق اُن کی دیکھ بھال کرنا بھی متعلقہ امراء اور عہدیداران کا کام ہے.اس بارے میں یہ ضروری نہیں کہ درخواستیں ہی آئیں.خود بھی جائزے لیتے رہنا چاہئے.یہ امراء اور صدر ان کے فرائض میں داخل ہے.ایک بہت بڑی ذمہ داری ہر امیر کی، ہر صدر جماعت کی، ہر عہدیدار کی تأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ( آل عمران : 111 ) ہے کہ نیکی کی ہدایت کرنا اور بدی سے روکنا.پس تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر کو ہمیشہ ہر عہدیدار کو یاد رکھنا چاہئے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہر عہد یدار خود اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنے قول و فعل کو ایک نہیں کرتا.اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں کرتا.تقویٰ کے اُن راستوں کی تلاش نہیں کرتا جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے.اور تقویٰ کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ صرف چند نیکیاں بجالانا یا چند برائیوں سے رکنا، یہ تقویٰ نہیں ہے.بلکہ تمام قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی سے رکنا ، یہ تقویٰ ہے.پس یہ معیار ہیں جو حاصل کر کے ہم نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے بن سکتے ہیں اور امانت کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ افراد جماعت کو بھی ، تمام عہدیداران کو بھی ، جو منتخب ہو چکے ہیں یا منتخب ہونے والے ہیں، اور منتخب ہو کر آئیں گے اور مجھے بھی اپنی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 3 مئی 2013 ء تا 9 مئی 2013ء جلد 20 شماره 18 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد 11 235 16 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء بمطابق 19 شہادت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (آل عمران: 103) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقویٰ کا حق ہے اور ہر گز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو.اس آیت میں ایک حقیقی مومن کی حالت بیان کی گئی ہے.ایک حقیقی مومن کو تقویٰ کی تمام شرائط کو پورا کرنے والا ہونا چاہئے اور تقویٰ کا حق یا اُس کی تمام شرائط کیا ہیں؟ اس کی جو وضاحت ہمیں قرآن کریم سے ملتی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام حقوق اور بندوں کے تمام حقوق کا خیال رکھنا، ہر قسم کی نیکی کو بجالانے کے لئے تیار رہنا، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو زندگی کے آخری لمحات تک بجالانے کی کوشش کرنا.اللہ اور رسول نے جو حکم دیئے ہیں، جو باتیں کی ہیں، جو پیشگوئیاں کی ہیں اُن پر ایمان لانا اور اُن پر یقین کامل رکھنا اور اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرنا.صرف مسلمان کا نام اپنے ساتھ لگانا یا اپنے آپ کو مسلمان کہنا ایمان لانے والوں میں شمار نہیں کرواتا.بلکہ یہ عمل ہے اور مسلسل عمل ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل ہے اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنا ہے جو تقویٰ کی شرائط کو پورا کرنے والا بنا سکتا ہے اور حقیقی مسلمان بھی وہی کہلاتا ہے جو یہ عمل کرنے والا ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے مذاہب اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے نکل گئے کیونکہ انہوں نے ان باتوں کا خیال نہیں رکھا.اگر تم نے بھی تقویٰ کا خیال نہ رکھا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر توجہ نہ دی ، اپنے
خطبات مسرور جلد 11 236 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء فرائض کی ادائیگی پر غور نہ کیا ، تو تم بھی ایسے لوگوں میں شمار ہو گے جو خدا تعالیٰ کی سزا کے مورد بنے.اور تمہاری موت بھی ایسی موت ہوگی جو نیک اعمال بجانہ لانے والوں کی موت ہوتی ہے.مسلمان ہونا کامل فرمانبرداری چاہتا ہے.پس ایک مسلمان کو ان باتوں کو اپنے مد نظر رکھنا چاہئے.ایک حقیقی مومن کو خدا کا خوف ہمیشہ رہنا چاہئے اور اُن باتوں کی تلاش رہنی چاہئے جو خدا تعالیٰ کا فرمانبردار بنائیں، حقیقی مسلمان بنا ئیں.اس کے لئے خواہ دنیاوی نقصان اٹھانا پڑے، ایک حقیقی مسلمان کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.ماں باپ، عزیز ، رشتہ دار، معاشرہ ، لیڈر، سیاسی لیڈر، مذہبی لیڈ ر غرض کہ کوئی بھی ہو، ایک حقیقی مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے دور کرنے والا نہیں ہونا چاہئے.ہر شخص نے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر اپنا حساب خود دینا ہے.کوئی سیاسی لیڈر کوئی عزیز ، کوئی مولوی را کسی کو بچانے والا نہیں ہوگا.کوئی پیر، کوئی گدی نشین کسی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا.پس اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنا، اُس کے نشانات کو دیکھ کر اُن پر غور کرنا ، اُس کے رسول نے جو تقویٰ کے راستے بتائے ہیں اُن پر چلنا ظلموں اور زیادتیوں میں اپنے آپ کو شامل ہونے سے بچانا، اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ، یہ ہے ایک حقیقی مسلمان کی حالت.ورنہ ایمان لانے کا دعوی صرف دعوی ہے جو تقویٰ سے خالی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ایسے تقویٰ سے عاری لوگوں کی نہ عبادتیں قبول ہوتی ہیں ، نہ قربانیاں، بلکہ ظاہری نمازیں بھی خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کی بجائے ہلاکت کا موجب بن جاتی ہیں.اور جو خدا تعالیٰ کے فرمانبردار ہوتے ہیں ، اُس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوتے ہیں ،اُس کی رضا کی خاطر ہر کام بجالانے والے ہوتے ہیں اُن کے دشمنوں کا بھی خدا تعالی دشمن ہو جاتا ہے اور اُن کے دوستوں کا دوست ہوتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو بھی کام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُس میں برکت ڈالتا ہے اُن کو کامیابیاں عطا فرماتا ہے.پس خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ جب موت آئے تو ایسی حالت میں آئے کہ خدا تعالیٰ کے فرمانبردار اور حقیقی مسلمان بننے کی کوشش ہو.ہم احمدیوں کے لئے تو یہ نصیحت ہے ہی اور ہمیں اس کی کوشش میں لگا رہنا چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرماتے ہوئے زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے، اللہ تعالی کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ آخرین میں جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے نبی مبعوث ہوگا
خطبات مسرور جلد 11 237 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء اُسے مان لینا اور ہم نے مان لیا تو اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنانا اور ڈھالنا اور اس پر قائم رہنا ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے.اس کے لئے ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہئے.ہم نے یہ ذمہ داری ادا کرنی ہے.ہر احمدی کو یہ سامنے رکھنا چاہئے لیکن جیسا کہ میرے بعض الفاظ اور بعض فقروں سے ظاہر ہورہا ہوگا کہ میں عامۃ المسلمین کو بھی اس حوالے سے توجہ دلانی چاہتا ہوں.چنانچہ جب میں نے سیاسی لیڈروں یا مولویوں کا حوالہ دیا تو یہ اُن کے لئے بھی تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ ایک طبقہ ایسا ہے جو ہمارے پروگرام دیکھتا اور سنتا ہے اور اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے کہ اُن تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچ رہا ہے.پس اس حوالے سے میں اُن لوگوں تک بھی یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں جو یہ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں.گزشتہ دنوں مجھے پاکستان سے ہی ایک خط آیا اور اس طرح کے بعض دفعہ آتے رہتے ہیں.چند دوست جو غیر از جماعت ہیں اکٹھے بیٹھ کر ایم ٹی اے دیکھتے ہیں یا انہوں نے احمدیت کا کچھ مطالعہ کیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ تمام باتیں جو آپ کرتے ہیں، یہ سن کر اور زمانے کے تمام حالات دیکھ کر ہمیں یقین ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام سچے ہیں اور جماعت احمد یہ حق پر ہے.ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں لیکن ہم میں معاشرے کا اور مولوی کا خاص طور پر مقابلہ کرنے کی جرات نہیں ہے.اس لئے ہمیں بزدل سمجھ لیں کہ ہماری تمام ہمدردیوں کے باوجود، ہماری خواہش کے باوجود ہم جماعت میں اس خوف سے شامل نہیں ہو سکتے.اسی طرح ایک شخص نے اپنے غیر از جماعت دوسرے دوست کو کہا کہ اگر یہ جماعت سچی ہوئی تو پھر ہمیں خدا کے عذاب سے بھی ڈرنا چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ نے بچوں کے لئے ڈرایا ہے.پس ایسے لوگوں کو بھی یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلنے کا ارشاد فرما رہا ہے.جماعت احمد یہ سچی ہے اور یقیناً ( سچی ) ہے.اُس کی سچائی پر خدا تعالیٰ کی 124 سالہ فعلی شہادت ہی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے اور ہونی چاہئے.باوجود منظم مخالفتوں کے جو حکومتوں کی طرف سے بھی کی گئیں اور کی جارہی ہیں، باوجود علماء کے فتوؤں کے، اُن علماء کے فتوؤں کے جو سچائی سے ہٹے ہوئے ہیں، اُن کے کہنے کی وجہ سے بعض ملکوں میں خاص طور پر پاکستان میں مظالم ڈھائے جا رہے ہیں.باوجود احمدیوں پر مظالم ڈھائے جانے کے، اُن کے مالوں کو ٹوٹنے کے اغواء اور قتل کرنے کے، گھروں کو جلانے کے، ملازمتوں سے برطرف کرنے کے، بچوں کو سکولوں اور کالجوں میں ٹارچر دینے اور انہیں پڑھائی سے روکنے کے یہ لوگ نہ صرف اپنے ایمان پر قائم ہیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کے لئے تیار ہیں.پس یہ احمدیت کی سچائی کا، ایمان کا کافی ثبوت ہونا
خطبات مسرور جلد 11 238 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء چاہئے.اور ساری روکوں کے باوجود بھی جماعت پھر بھی ترقی کر رہی ہے.پس ایک دنیاوی لحاظ سے کمزور جماعت کی یہ ترقی اس وجہ سے ہے کہ وہ خدا جو نِعْمَ الْمَوْلى وَ نِعْمَ النَّصِيرِ ہے ہمارے ساتھ ہے.اور یہی خدا تعالیٰ نے مومنوں کی نشانی بتائی ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت اُن کے شاملِ حال رہتی ہیں.اب اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں تو اسلام کی خدمت کے نام پر جو بھی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور اپنی طرف سے جو جہادی کارروائیاں بھی کر رہی ہیں، اُن کا نتیجہ سوائے اسلام کی بدنامی کے اور کچھ نہیں.اور پھر اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میں اپنے راستے میں جہاد کے لئے نکلنے والوں کو کامیاب کرتا ہوں، انہیں کامیابیاں عطا فرماتا ہوں تو کون سی کامیابی ہے جو انہوں نے حاصل کی ہے؟ مسلمان ہی مسلمان کو قتل کر رہا ہے.اسلحہ ہے تو وہ بڑی طاقتوں سے لیا جا رہا ہے.مسلمانوں کے پاس تو اپنی نہ کوئی فیکٹریاں ہیں، نہ اسلحہ خانے ہیں یا اس کے کارخانے ہیں.اب شام میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے، وہاں کے حکومت مخالف جو لوگ ہیں ، یا گروپ ہے یا مختلف قسم کے گروہ ہیں جو ا کٹھے ہو گئے ہیں ، اُن کا مغربی دنیا سے یہی مطالبہ ہے، وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر تم حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہو تو ہمیں اسلحہ دو.اب یہ اسلحہ حکومت کا بھی اور حکومت مخالف گروہوں کا بھی، دونوں میں سے کسی کے بھی خلاف جو استعمال ہو رہا ہے، یہ کون لوگ ہیں جن کے خلاف استعمال ہو رہا ہے؟ ( ظاہر ہے کہ ) صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے.تقویٰ نہ حکومت میں ہے اور نہ دوسرے گروہ میں.اللہ تعالیٰ کے احکامات کی فرمانبرداری نہ ایک گروہ میں ہے، نہ دوسرے میں ہے.پس یہ دونوں طرف سے تقویٰ سے عاری لوگ ہیں اور یہی دین سے دُور ہٹنے والے لوگ ہیں.اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ر ڈ کرنے والے لوگ ہیں.امیر تیمور ایک مسلمان حکمران گزرا ہے جو معمولی حیثیت سے اُٹھا اور دنیا کے بہت بڑے وسیع علاقے میں اُس کی حکومت قائم ہوئی.وہ کہتا ہے کہ جب جنگوں کے لئے میں نکلتا ہوں یا کسی ملک پر حملہ کرنا ہو تو میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہاں جو مسلمان بادشاہ ہیں، وہ عوام کا حق ادا کر رہے ہیں یا نہیں.اور یادین پر قائم ہیں کہ نہیں.اگر عوام کا حق نہیں ادا کر رہے، نہ ہی وہ دین پر قائم ہیں اور ظلم و بربریت اُن ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے تو میں پھر اُن پر حملہ کرتا ہوں اور اُن کو زیر کر لیتا ہوں اور پھر وہاں ایسا نظام جاری کرتا ہوں جو اسلامی نظام ہو.اس وجہ سے جو مجھے کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی مددو تائید کی وجہ سے ہوتی ہیں.بہر حال جس طرح وہ بیان کرتا ہے، اس کی بہت سی پالیسیاں انصاف پر مبنی تھیں جس کی وجہ سے وہ کامیابیاں حاصل کرتا رہا.بعض ظلم بھی اُس سے ثابت ہوتے ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ اُس زمانے کے
خطبات مسرور جلد 11 239 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء بادشاہوں میں شاید سب سے بہتر وہ تھا تو اللہ تعالیٰ بھی اُس کی مدد فرما تا رہا.اُس نے اپنا ایک اصول یہ بتایا کہ حکومت کرنے کے لئے انصاف، حکمت، دانائی، غریبوں کا بھی خیال رکھنا، عوام کا خیال رکھنا، حکومت کے کارندوں کا بھی خیال رکھنا.جہاں حملہ کیا اور جن ملکوں کو زیر کیا، اُن کے عوام کا بھی حق ادا کرنا ظلم نہ کرنا ہے.اگر کسی چیز کے دس حصے بنائے جائیں تو کہتا ہے میری کامیابی کے نو حصے ان چیزوں پر مشتمل ہیں اور ایک حصہ صرف تلوار کا ہے.(ماخوذ از ترک تیموری مترجم سید ابوالہاشم ندوی صفحہ 20، 73 تا 7 7 ، 116 تا 120.سنگ میل پبلیکیشنز لا ہور 2001ء) اب اگر ہم ہر اسلامی ملک میں جھانک کر دیکھیں تو اُن میں صرف اپنے مفادات نظر آتے ہیں.رعایا اور عوام کی کسی کو کوئی فکر نہیں.صرف اپنے تخت اور اپنی حکومت کی فکر ہے.علماء ہیں تو وہ اپنا کام چھوڑ کر مسلمانوں کی دینی تربیت کرنے کی بجائے اقتدار کی دوڑ میں پڑے ہوئے ہیں.یا پھر کچھ ایسے ہیں جو اسلام کے نام پر دہشتگرد تنظیموں کو چلا رہے ہیں یا اُن کی مدد کر رہے ہیں.دینی مدرسوں میں جہاد کے نام پر بچوں کی عسکری تربیت کی جاتی ہے.اسلحہ کے استعمال اور دہشتگردی کے لئے استعمال ہونے والے بم بنانے کے لئے طریقے سکھائے جاتے ہیں.اور یہ سب کچھ کس کے خلاف استعمال ہونا ہے؟ مسلمانوں کے.مسلمان، مسلمان کے خون کا پیاسا ہوا ہوا ہے.اسلام جو امن اور محبت کا مذہب ہے، جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ امن ، حفاظت اور تکلیفوں اور مشکلات سے نکالنے والا.آج اس مذہب کو ان لوگوں نے اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتو پہلے مسلمان تنظیموں کا نام لیا جاتا ہے اور اکثر تنظیمیں اس کو قبول بھی کر لیتی ہیں اور قبول نہ بھی کریں تب بھی اُن پر ہی شک جاتا ہے.گزشتہ دنوں امریکہ میں جو میراتھن (Marathon) ہو رہی تھی.ان کے کھلاڑی دوڑ رہے تھے تو وہاں دو بم دھماکے ہوئے ہیں اور جو ظلم ہوا ہے تو فوراً وہ لوگ جو اسلام مخالف ہیں، جو اسلام کو بدنام کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ مسلمانوں نے کیا ہوگا کسی تنظیم کا نام نہیں لیتے.وہ تو مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی کہتے ہیں.وہ تو شکر ہے کہ اس دفعہ ان تنظیموں کی طرف سے بھی انکار کیا گیا ہے کہ ہمارا کوئی تعلق نہیں.اگر صرف یہی بیان دیتے تو کافی تھا لیکن کیونکہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری، اطاعت اور اُس کے احکامات پر عمل کرنے سے یہ لوگ عاری ہیں، اُس سے دور ہٹے ہوئے ہیں، اس لئے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ہم نے کیا تو نہیں لیکن جس نے بھی کیا ہے اُس نے بہت اچھا کیا ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں.تو ان نہتوں پر حملہ کر کے جو دنیا سے جمع ہوئے ہوئے تھے، کیا ملا؟ یا ان حمایت کرنے والوں
خطبات مسرور جلد 11 240 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء کو اس سے کیا حاصل ہو گا؟ ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہم سے زیادہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی اور کو محبت نہیں ہے.اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور تعلیم کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں.محبت کرنے والے تو محبوب کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ میں بھی معصوموں ، بچوں ، عورتوں، بوڑھوں، راہبوں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے.(مصنف ابن ابی شیبة جلد 7 صفحه 654 و 656 كتاب الجهاد باب من ينهى عن قتله في دار الحرب حدیث 7 و 21 مطبوعه دارالفکر) اور قرآن کریم نے تو جنگ کی اجازت دے کر بھی خاص طور پر ہر مذہب کی حفاظت کی ہے.کجا یہ کہ جنگ کے بغیر کئی جانوں کو تلف کر دیا، کئی لوگوں کو ان کے اعضاء سے محروم کر دیا.بہت سارے لوگ جو بچے ہیں ان کے بھی کسی کا بازو کاٹنا پڑا، کسی کی ٹانگ کاٹنی پڑی.اس لئے ایک امریکن نے ، لکھنے والے جرنلسٹ نے یا کالم لکھنے والا تھا شاید ، اخبار میں انہیں یہاں تک کہہ دیا کہ اس کا صرف ایک علاج ہے کہ تمام مسلمانوں کو قتل کر دو.تو یہ جرات غیر مسلموں میں کیوں پیدا ہورہی ہے؟ اس کو ہوا خود مسلمان دے رہے ہیں.یہاں مغرب میں تو اکا دُکا یہ واقعہ ہوتا ہے، اُس کے بعد یہ باتیں سنی پڑتی ہیں.اسلامی ممالک میں تو بے چینی تقریباً ستر فیصد ممالک میں ہے اور روز کا معمول ہے.پاکستان میں دیکھ لیں.افغانستان میں دیکھ لیں.مصر میں دیکھ لیں.شام میں دیکھ لیں.لیبیا میں دیکھ لیں.صومالیہ میں دیکھ لیں.سوڈان میں دیکھ لیں.الجزائر میں دیکھ لیں.ہر جگہ مسلمان، مسلمان کو قتل کر رہا ہے اور ظلم یہ ہے کہ مذہب کے نام پر کر رہا ہے.اگر ظلم کرنے ہی ہیں تو کم از کم مذہب کے نام پر تو نہ کریں.اس قتل و غارت کو جہاد کا نام تو نہ دو.جن اسلامی ملکوں میں کھل کر دہشتگردی نہیں ہے تو وہاں کے عوام کے حق ادا نہیں کئے جا رہے.وہاں انصاف نہیں ہے.غریب غریب تر ہورہا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جارہا ہے.اب سعودی عرب میں جو تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے، بڑا امیر ملک کہلایا جاتا ہے وہاں بھی غریب لوگ ہیں.غریب بیوائیں، یتیم بچے دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں.کہنے کو تو اسلام کے نام پر عورت کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہے.کام کرنے پر ان لوگوں نے پابندی لگائی ہوئی ہے.لیکن اُس کی ضرورت کا خیال بھی جو حکومت کو رکھنا چاہئے تھاوہ نہیں رکھا جاتا.جو راشن مقرر کیا ہے، اگر کیا بھی ہے تو وہ بھی اتنا تھوڑا ہے کہ کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتا.بادشاہوں کے اپنے محلوں میں تو دیواروں پر بھی سونے کے پانی پھرے ہوئے ہیں.تیل کی دولت کا
خطبات مسرور جلد 11 241 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء بے انتہا فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے.اُسے لٹایا جا رہا ہے اور جو رعایا ہے وہ بھوکی مر رہی ہے.کچھ عرصہ ہوائی وی پر ایک پروگرام آیا تھا، ڈوکومنٹری دکھائی گئی تھی جس میں یہ حقائق بیان ہوئے تھے کہ کس طرح اُن سے سلوک کیا جاتا ہے، کس طرح کیسی حالت میں وہ لوگ رہتے ہیں.اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک کا حال ہے.بے چینی اور بے انصافی ، ظلم و تعدی ، حکومت کا حق ادا نہ کرنا، یعنی جو اُس کے ذمہ رعایا کا حق ہے.اور اسی طرح عوام جو ہیں وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے اور جب عوام کو موقع ملے تو اُن کی طرف سے بھی ظلم کا اظہار ہوتا ہے.یہ سب تقویٰ سے دُوری ہے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے اپنے آپ کو باہر نکالنا ہے.کہنے کو تو کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کامل اور مکمل تعلیم ہے اور یقینا ہے لیکن ان کی یہ بات کہ اس کتے ہیں کہ اور یقین لیکن ان کی یہ بات کہ وجہ سے ہمیں اب کسی مجدد کی ضرورت نہیں ہے، کسی مسیح و مہدی کی ضرورت نہیں ہے، کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے، یہ چیزیں غلط ہیں.قطع نظر اس کے کہ خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمانے کی اصلاح کے لئے ایسا شخص مبعوث ہوگا.خود زمانے کے حالات بھی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مسلمان تعلیم کو بھلا چکے ہیں.مساجد تو ہیں لیکن علماء نے انہیں سیاسی اکھاڑے بنالیا ہے.قرآنِ کریم تو ہے لیکن وہ بھی صرف خوبصورت الماریوں کی سجاوٹ اور زینت بنا ہوا ہے.علماء اپنی مرضی کی تفسیریں کر کے ، عوام کو ، عامتہ المسلمین کو غلط راستوں پر چلا رہے ہیں.پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ضرورت نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کی ضرورت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ضرورت ہوگی.پس یہ علماء کسی طرح بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے ، یا اگر کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں ، غلط کہتے ہیں.عوام الناس کو اس پر غور کرنا چاہئے.یہ ضرورت ہے اور یقینا ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوکر آئے اور مسلمانوں کے اس بگاڑ کی بھی اصلاح کرے اور اسلام کا جو غلط تصور غیر مسلم دنیا میں قائم ہو چکا ہے اُس کو زائل کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلائے اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لائے.عوام کو ان علماء نے نبی کی بحث میں الجھا کر اپنے مقصد پورے کرنے شروع کئے ہوئے ہیں.جب خدا تعالیٰ نے اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کو نبی کے نام سے پکارا ہے تو پھر کسی اور کا کیا حق بنتا ہے کہ اپنی تشریحیں کر کے اُس کے اور اُس کے ماننے والوں کے خلاف ظلم و تعدی کا بازار گرم کریں.جیسا کہ میں نے کہا، خود دنیا کے حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ باوجود قرآن کریم
خطبات مسرور جلد 11 242 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء کے اپنی اصلی حالت میں موجود ہونے کے عموماً مسلمانوں کی دینی ، روحانی، اخلاقی حالت جو ہے وہ گر رہی ہے.تقویٰ ختم ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے حکموں کی اطاعت اور فرمانبرداری سے مسلمانوں کی اکثریت باہر نکل چکی ہے.پس سوچنے والی بات ہے کہ ان حالات میں کوئی ایسا طریق ہونا چاہئے جو اصلاح پیدا کرے.کوئی ایسا شخص ہو جو اسلام کی تعلیم کی روح کو سمجھے اور آگے مسلمانوں میں جاری کرے.ہم احمدی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش قسمت ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ شخص اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق چودھویں صدی میں بھیج دیا.وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں قرآن کریم کے علم و عرفان کے خزائن کو وضاحت سے اپنی کتب میں بیان کر کے حق و باطل کے فرق کو ظاہر کر کے، اسلام کی برتری دنیا کے تمام ادیان پر ثابت کر کے، دشمنوں کو کھلے چیلنج دے کر اور اپنے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات کی مہر ثبت کر کے، دشمنوں کے منہ بند کر کے، ایک لمبا عرصہ زندگی گزار کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گیا اور اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی تائیدات سے تا قیامت جاری رہنے والا سلسلہ چھوڑ گیا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی راہوں پر آگے سے آگے بڑھ رہا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارضی و سماوی تائیدات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں مختلف آفات کی صورت میں بھی ظاہر ہوئیں، اُن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے.کیا اہلِ پاکستان کے لئے اور عامتہ المسلمین کے لئے یہ زلزلے، یہ آفات، یہ سیلاب، یہ دنیا میں مسلمانوں کی بے وقعتی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے؟ اب گزشتہ دنوں جو زلزلہ آیا، وہ صرف ایک ملک میں نہیں تھا.پاکستان میں بھی اُس سے نقصان ہوا.ایران میں بھی ہوا.افغانستان میں ، شرک اوسط کے ممالک میں ، بلکہ انڈونیشیا تک چلا گیا.تو یہ اللہ تعالیٰ کی جو تقدیر چل رہی ہے اس پر مسلمانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے.تو بہ کی ضرورت ہے.استغفار کی ضرورت ہے.نام نہاد علماء سے ڈرنے کی بجائے انہیں آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ کیوں ہمیں اسلام کی تعلیم کے خلاف باتیں بتاتے ہو.کہیں ایک واقعہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں سے ایسا بیان کر دیں کہ آپ نے ایسا کیا جو یہ تعلیم دیتے ہیں ، یا ایسی تعلیم دی جو آجکل کے علماء دے رہے ہیں.پس یہ اسلام جو علماء ہمیں بتاتے ہیں ، وہ اسلام نہیں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کی تعریف تو محبت، پیار، امن ، سلامتی اور تکلیفوں کو دور کرنا ہے، نہ کہ اسلام کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ان تکلیفوں کو اور زیادہ کرنا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 243 خطبه جمعه فرموده مورخہ 19 اپریل 2013ء پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ تقویٰ کو تلاش کر کے اُس پر قدم مارنے کی کوشش کرے.موت کو سامنے رکھے جس کا کوئی بھی وقت ہو سکتا ہے.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میری اتنی زندگی ہے.اور وہ عمل کرے جو خدا تعالیٰ کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں اور اُس کے بندوں کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں جن سے آپ کی اہمیت اور مسلمانوں کو آپ کے ماننے کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے اور اگر یہ نہیں تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ ترقی وہی لوگ کریں گے جو سچے دل سے عمل کرتے ہوئے مسیح موعود علیہ السلام کو مانیں گے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں جو خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کے بت کو عظمت دی گئی ہے، اس کی امانی اور امیدوں کو رکھا گیا ہے.مقدمات صلح جو کچھ ہے وہ دنیا کے لیے ہے ، اس بت کو پاش پاش کیا جاوے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت ان کے دلوں میں قائم ہو اور ایمان کا شجر تازہ بہ تازہ پھل دے.اس وقت درخت کی صورت ہے مگر اصل درخت نہیں کیونکہ اصل درخت کے لیے تو فرمایا: أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيْبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أَكُلَهَا كُلَّ حِينِ بِاِذْنِ رَبَّهَا - (ابراہیم : 25 - 26 ) یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ کیونکر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دینِ کامل کی کہ وہ بات پاکیزہ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑھ ثابت ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہے.أَصْلُهَا ثَابِت سے یہ مراد ہے کہ اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور یقین کامل کے درجہ تک پہنچے ہوئے ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا رہے.کسی وقت خشک درخت کی طرح نہ ہو.مگر بتاؤ کہ کیا اب یہ حالت ہے؟ بہت سے لوگ کہہ تو دیتے ہیں کہ ضرورت ہی کیا ہے؟ اس بیمار کی کیسی نادانی ہے جو یہ کہے کہ طبیب کی حاجت ہی کیا ہے؟ وہ اگر طبیب سے مستغنی ہے اور اس کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس کا نتیجہ اس کی ہلاکت کے سوا اور کیا ہوگا؟ اس وقت مسلمان اسلمنا میں تو بے شک داخل ہیں مگر اما کی ذیل میں نہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک نو ر ساتھ ہو.غرض یہ وہ باتیں ہیں جن کے لیے میں بھیجا گیا ہوں اس لیے میرے معاملہ میں تکذیب کے لیے جلدی نہ کرو بلکہ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور توبہ کرو کیونکہ تو بہ کرنے والے کی عقل تیز ہوتی ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 565-566.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے طاعون کے نشان کی مثال دی ہے کہ: ” طاعون کا نشان بہت خطرناک نشان ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق مجھ پر جو کلام نازل کیا
خطبات مسرور جلد 11 244 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء ہے وہ یہ ہے.اِنَّ اللهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ - (الرعد : 12) یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس پر لعنت ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ارادے کی اس وقت تبدیلی ہوگی جب دلوں کی تبدیلی ہوگی.پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے قہر سے خوف کھاؤ.کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا.معمولی مقدمہ کسی پر ہو تو اکثر لوگ وفا نہیں کر سکتے.پھر آخرت میں کیا بھروسہ رکھتے ہو.جس کی نسبت فرمایا.يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرُ مِنْ أَخِيهِ - عبس : 35)‘“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 566.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اُس دن یعنی قیامت والے دن بھائی بھائی سے دور ہٹے گا ، بھاگے گا.فرمایا : ” دیکھو جس طرح جو شخص اللہ اور اُس کے رسول اور کتاب کو ماننے کا دعویٰ کر کے اُن کے احکام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج ، زکوۃ ، تقوی، طہارت کو بجانہ لا وے اور اُن احکام کو جو تزکیۂ نفس، ترک شر اور حصولِ خیر کے متعلق نافذ ہوئے ہیں چھوڑ دے، وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے اور اُس پر ایمان کے زیور سے آراستہ ہونے کا اطلاق صادق نہیں آ سکتا.اسی طرح سے جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا، یا ماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بھی حقیقت اسلام اور غایت نبوت اور غرض رسالت سے بے خبر محض ہے اور وہ اس بات کا حق دار نہیں ہے کہ اس کو سچا مسلمان، خدا اور اُس کے رسول کا سچا تا بعدار اور فرمانبردار کہہ سکیں کیونکہ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآن شریف میں احکام دیئے ہیں اُسی طرح سے آخری زمانے میں ایک آخری خلیفہ کے آنے کی پیشگوئی بھی بڑے زور سے بیان فرمائی ہے اور اُس کے نہ ماننے والے اور اُس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے.قرآن اور حدیث کے الفاظ میں فرق ( جو کہ فرق نہیں بلکہ بالفاظ دیگر قرآن شریف کے الفاظ کی تفسیر ہے ) صرف یہ ہے کہ قرآن شریف میں خلیفہ کا لفظ بولا گیا ہے اور حدیث میں اسی خلیفہ آخری کو مسیح موعود کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے.پس قرآن شریف نے جس شخص کے مبعوث کرنے کے متعلق وعدے کا لفظ بولا ہے اور اس طرح سے اُس شخص کی بعثت کو ایک رنگ کی عظمت عطا کی ہے، وہ مسلمان کیسا ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں اس کے ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 551.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں: ”اے نادان قوم! میں تمہیں کس سے مشابہت دوں.تم ان بدقسمتوں سے مشابہ ہو جن کے گھر کے قریب ایک فیاض نے ایک باغ لگایا اور اُس میں ہر ایک قسم کا پھلدار درخت نصب کیا اور اس کے اندر ایک شیریں نہر چھوڑ دی جس کا پانی نہایت میٹھا تھا.اور اس باغ میں بڑے بڑے سایہ دار درخت لگائے جو
خطبات مسرور جلد 11 245 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء ہزاروں انسانوں کو دھوپ سے بچا سکتے تھے.تب اُس قوم کی اُس فیاض نے دعوت کی جو دھوپ میں جل رہی تھی اور کوئی سایہ نہ تھا اور نہ کوئی پھل تھا اور نہ پانی تھا تا وہ سایہ میں بیٹھیں اور پھل کھاویں اور پانی پئیں.لیکن اس بد بخت قوم نے اس دعوت کو ر ڈ کیا اور اُس دھوپ میں شدت گرمی اور پیاس اور بھوک سے مر گئے.اس لئے خدا فرماتا ہے کہ ان کی جگہ میں دوسری قوم کو لاؤں گا جوان درختوں کے ٹھنڈے سایہ میں بیٹھے گی اور ان پھلوں کو کھائے گی اور اس خوشگوار پانی کو پیئے گی.خدا نے مثال کے طور پر قرآن شریف میں خوب فرما یا کہ ذوالقرنین نے ایک قوم کو دھوپ میں جلتے ہوئے پایا اور ان میں اور آفتاب میں کوئی اوٹ نہ تھی اور اس قوم نے ذوالقرنین سے کوئی مدد نہ چاہی.اس لئے وہ اُسی بلا میں مبتلا رہی.لیکن ذوالقرنین کو ایک دوسری قوم ملی جنہوں نے ذوالقرنین سے دشمن سے بچنے کے لئے مدد چاہی.سو ایک دیوار اُن کے لئے بنائی گئی اس لئے وہ دشمن کی دست برد سے بچ گئے.سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی آئندہ پیشگوئی کے مطابق وہ ذوالقرنین میں ہوں جس نے ہر ایک قوم کی صدی کو پایا.اور دھوپ میں جلنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں سے مجھے قبول نہیں کیا.اور کیچڑ کے چشمے اور تاریکی میں بیٹھنے والے عیسائی ہیں جنہوں نے آفتاب کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا.اور وہ قوم جن کے لئے دیوار بنائی گئی وہ میری جماعت ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہی ہیں جن کا دین دشمنوں کے دست برد سے بچے گا.ہر ایک بنیادجو ست ہے اس کو شرک اور دہریت کھاتی جائے گی.مگر اس جماعت کی بڑی عمر ہوگی اور شیطان ان پر غالب نہیں آئے گا.اور شیطانی گروہ ان پر غلبہ نہیں کرے گا.اُن کی حجت تلوار سے زیادہ تیز اور نیزہ سے زیادہ اندر گھسنے والی ہوگی اور وہ قیامت تک ہر ایک مذہب پر غالب آتے رہیں گے.فرمایا: ”ہائے افسوس ان نادانوں پر جنہوں نے مجھے شناخت نہ کیا.وہ کیسی تیرہ و تاریک آنکھیں تھیں جو سچائی کے نور کو دیکھ نہ سکیں.میں اُن کو نظر نہیں آ سکتا کیونکہ تعصب نے ان کی آنکھوں کو تاریک کر دیا.دلوں پر زنگ ہے اور آنکھوں پر پردے.اگر وہ سچی تلاش میں لگ جائیں اور اپنے دلوں کو کینہ سے پاک کر دیں.دن کو روزے رکھیں اور راتوں کو اُٹھ کر نماز میں دعائیں کریں اور روئیں اور نعرے ماریں تو امید ہے کہ خدائے کریم ان پر ظاہر کر دے کہ میں کون ہوں.چاہئے کہ خدا کے استغناء ذاتی سے ڈریں“.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 313 تا315) (اللہ تعالیٰ بڑا غنی ہے اُس سے ڈریں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں) فرمایا: ”اے لوگو! خدا کی اور خدا کے نشانوں کی تحقیر مت کرو اور اُس سے گناہوں کی معافی چاہو
خطبات مسرور جلد 11 246 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء 66 اور اُس کے سامنے اپنے گناہوں کے خوف سے فروتنی کرو.کیا تمہیں اُس قوم کا انجام بھول گیا جنہوں نے تم سے پہلے تکذیب کی؟ یا خدائے سزاد ہندہ کی کتابوں میں تمہیں بری رکھا گیا ہے؟ پس اپنے بدخطرات سے خدا تعالیٰ کی طرف پناہ لے جاؤ، اگر ڈرنے والے ہو.ایک ایک ہو کر کھڑے ہو جاؤ.اور عداوت کرنے والوں سے پر ہیز کرو.پھر فکر کرو کہ کیا تمہیں وہ ثبوت نہیں دیئے گئے جو تم سے پہلے کافروں کو دیئے گئے؟ اور کیا تمہارے پاس نشان نہیں آئے ؟ کیا تم خدا کی تحقیر کرنے سے حقیر اور ذلیل نہیں ہو چکے؟ کیا تمہارے یہ تمام قرض ، قرضداروں کی طرح ادا نہیں کئے گئے؟ پس اُس منعم حقیقی کی قسم ہے جس نے مجھے اس محل میں وارد کیا اور میری تصدیق کے لئے باندھا اور کھولا اور مجھے اولا ددی.اور میرے لئے دشمنوں کو ہلاک کیا.اور اپنے نشانوں میں ایجاد اور اعدام کو دکھایا.( بنانے اور بگاڑنے کے ، دونوں طرح کے نشان دکھائے ) اور مذاہب کے جلسہ میں پیدا کرنے کا نشان دکھایا.( یہ بھی پیشگوئی کے مطابق وہ جلسہ تھا جہاں آپ کی کتاب پڑھی گئی تھی اور گوسالہ مقتول میں مارنے کا نشان دکھلایا.اور قولی نشان اور فعلی نشان دیکھنے والوں کے لئے دکھلایا.اور خدا تعالیٰ نے کسوف اور خسوف تم کو رمضان میں دکھلایا.اور میری بلاغت کے ساتھ تم کو ملزم کیا اور مجھ کو قرآن سکھلایا.فرمایا: ”اے لوگو! میں رب قدیر کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہوں.پس کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جو اُس غیور کبیر سے خوف کرے، یا غفلت کے ساتھ ہم سے گزر جاؤ گے اور تم نے اپنے مکروں کو انتہا تک پہنچادیا اور شکاریوں کی طرح حیلہ بازی میں بڑی دیر لگائی.پس کیا تم نے بجز خذلان اور محرومی کے کچھ اور بھی دیکھا اور کیا تم نے وہ امر پایا جس کو ڈھونڈا بغیر اس کے کہ ایمان کو ضائع کرو.“ ( وہ باتیں جو ڈھونڈیں، کیا تم نے پالیس؟ اس کے بغیر کہ تمہارا ایمان بھی ضائع نہ ہو) پس اے مسلمانوں کی اولاد! خدا سے ڈرو.کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا نے کیسے میری بات کو پورا کیا.اور اپنی بخشش میرے لئے بہت دکھلائی.پس تمہیں کیا ہو گیا کہ خدا کے نشانوں کی طرف منہ نہیں کرتے.اور میرے لئے ملامت کے تیر پیکان پر رکھتے ہو.کیا تم نے اپنے زعم کا بطلان نہیں دیکھا اور اپنے وہم کی خطا تم پر ظاہر نہیں ہوئی پس اس کے بعد مذمت کے لئے کھڑے مت ہو اور بعد آزمائش کے جھوٹ کومت تر اشو، اور زبانوں کو بند کرو اگر تم متقی ہو.اُس آدمی کی طرح تو بہ کرو جو شرمندہ ہوتا ہے اور اپنے انجام اور بد عاقبت سے ڈرتا ہے اور خدا تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے.“ (حجۃ اللہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 192-193) اللہ تعالیٰ عامۃ المسلمین کے دل کھولے.یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو سمجھنے والے ہوں ،
خطبات مسرور جلد 11 247 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء تا جن حالات و مشکلات سے یہ گزر رہے ہیں اُن سے نجات پائیں.آفات کے جو جھٹکے ان کو خدا تعالیٰ لگا رہا ہے اُس کے اشاروں کو سمجھیں اور تکذیب اور ظلموں سے باز آئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ تقویٰ پر چلیں اور اپنے قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں اور دنیا کو ہر وقت تباہی سے ہوشیار کرتے رہیں.ہوں گے.اس وقت میں دو وفات یافتگان کا ذکر بھی کروں گا اور جمعہ کی نماز کے بعد ان کے جنازے بھی پہلا مکرم چو ہدری محفوظ الرحمن صاحب کا ہے جو 6 را پریل 2013ء کو 93 سال کی عمر میں وفات پاگئے.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون چوہدری صاحب نے ایف اے پاس کر کے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تحریک پر اپنی زندگی وقف کی تھی، زندگی وقف کرنے کے بعد بطور انسپکٹر بیت المال قادیان میں کام کرتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جب صدر خدام الاحمدیہ تھے، آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے.آپ کو چار خدام کے گروپ میں جلسہ دہلی کے دوران خواتین کے پنڈال کی حفاظت کا موقع بھی ملا.جماعت کی تاریخ میں یہ مشہور واقعہ ہے اس موقع پر پتھراؤ کبھی ہوا تھا جس میں ایک کارکن یگرم مشتاق باجوہ صاحب زخمی بھی ہو گئے تھے جوسوئٹزرلینڈ میں ہمارے مشنری اور مبلغ رہے ہیں.تقسیم ہند کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ساتھ آخر وقت تک قادیان کی حفاظت کے لئے ٹھہرے رہے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ان کو صرف چار دن پہلے واپس پاکستان بھجوایا تھا.پھر آپ ٹی آئی کالج لاہور میں بطورا کا ؤنٹنٹ اور ہوٹل ٹیوٹر کام کرتے رہے.پھرٹی آئی کالج ربوہ میں بطور DPE اور انچارج لائبریری کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ خلافت لائبریری میں بھی کام کیا.نصرت جہاں اکیڈمی میں انہوں نے بطور استاد کام کیا.بعد میں پھر سروس کے دوران ہی بی اے بھی کیا.اُس کے بعد ایم اے اسلامیات بھی کیا.کوالیفائیڈ DPE بھی تھے.1953ء کے فسادات میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے کوئٹہ میں قیام کے دوران صدر خدام الاحمدیہ کی طرف سے جن خدام کو حفاظت کے لئے بھجوایا گیا اُن میں سے ایک چوہدری صاحب بھی تھے.اور جب ربوہ کی آبادی ہوئی ہے تو جماعت کی طرف سے جو پہلے انیس افراد بھجوائے گئے تھے، اس پہلے گروپ میں آپ شامل تھے.خدام الاحمدیہ میں صحت جسمانی کے مہتم بھی رہے ہیں.والی بال اور ٹینس اور فٹ بال کے بڑے اچھے کھلاڑی تھے.چندہ جات میں با قاعدہ تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی بھی تھے اور اپنا سب حسا
خطبات مسرور جلد 11 248 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء اپنی زندگی میں صاف کر دیا تھا.تحریک جدید اور وقف جدید کا چندہ اپنے والدین، دادا اور پھوپھیوں وغیرہ بلکہ اگلی نسلوں میں دو پوتیوں کے بچوں کی طرف سے بھی ادا کیا کرتے تھے.بڑے نمازی، تہجد گزار تھے.ربوہ کے جو خاص لوگ ہیں ان کرداروں میں سے ایک تھے.جو مرضی ان کو کوئی کہہ دے، میں نے نہیں دیکھا کہ کبھی انہوں نے آگے سے جواب دیا ہو.خاموشی سے اور ہنستے ہوئے ہر بات کو سنتے.انتہائی شریف النفس، درویش صفت ، خاموش طبع انسان تھے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.یہاں کے ہمارے جو صدر انصار اللہ ہیں، چوہدری وسیم صاحب، ان کے بڑے بیٹے ہیں.دوسرا جنازہ جو ہے وہ مکرمہ قیصرہ بیگم صاحب اہلیہ مکرم صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب کا ہے.ان کی وفات 13 را پریل کو ہوئی ہے.تقریباً 70 سال ان کی عمر تھی.یہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ام ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہو تھیں.ان کا کینسر ایک دم پھیل گیا جس کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی.بڑے عمدہ اخلاق کی مالک تھیں.بڑی ہنس مکھ، ملنسار ، خلافت سے بڑا تعلق خاص طور پر میں نے نوٹ کیا.خلافت کے بعد ان کا مجھ سے بہت زیادہ تعلق بڑھ گیا.مالی قربانیوں میں بھی کچھ حصہ لیتی تھیں اور غریبوں کی بہت زیادہ ہمدرد تھیں.ان کے بعض غریب رشتہ داروں نے یا کم مالی کشائش والے رشتہ داروں نے بھی مجھے لکھا کہ ہمیشہ ہمارا خیال رکھا اور ان کو عزت دی، احترام کیا.ضرورتمندوں اور مستحقین کی خاموشی کے ساتھ مدد کیا کرتی تھیں.ملازموں کا بلکہ اُن کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھتی تھیں.جلسہ کے دنوں میں مہمانوں کی مہمان نوازی بہت کیا کرتی تھیں.آپ کے والد حضرت سعید احمد خان صاحب اور دا دا مکرم کرنل اوصاف علی خان صاحب تھے جو حضرت نواب محمد علی خانصاحب کے خالہ زاد بھائی تھے.اور مرحومہ عبدالمجید خان صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نواسی اور حضرت خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کی پڑ نواسی تھیں.پہلے آپ کے والد صاحب نے بیعت کی اور بعد میں آپ کے دادا نے.آپ کے والد صاحب پوچھنے پر کہ آپ نے پہلے کیوں احمدیت قبول کر لی ؟ تو بڑے لہک کے یہ مصرعہ پڑھا کرتے تھے کہ پسند آیا ہمیں یہ دیں، ہم ایمان لے آئے.ان کے جو پڑنا نا تھے، حضرت خان محمد خان صاحب ، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بہت پرانے صحابہ میں سے تھے.اور یکم جنوری 1904 ء کو اُن کی وفات ہوئی ہے، تو دوسرے دن نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ آج مجھے الہام ہوا ہے کہ اہلِ بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے تو غالباً حضرت خلیفہ المسیح الاول نے کہا کہ حضور کے اہلِ بیت تو خدا
خطبات مسرور جلد 11 249 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 اپریل 2013ء تعالیٰ کے فضل سے سب خیریت سے ہیں تو پھر یہ الہام کسی شخص کے بارے میں ہے؟ آپ نے فرمایا کہ خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کل فوت ہو گئے ہیں.یہ الہام مجھے اُنہی کے متعلق ہوا ہے.گویا خدا تعالیٰ نے الہام میں انہیں اہلِ بیت میں سے قرار دیا.پھر ان کے بارے میں یہ بھی الہام تھا کہ ان کی اولاد سے نرم سلوک کیا جائے گا.“ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ 418 حاشیہ.ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) اتفاق سے میں سپین میں تذکرہ کسی اور مقصد کے لئے دیکھ رہا تھا تو یہ الہامات بھی میری نظر کے سامنے سے گزرے.یہ دو الہامات ہیں جن میں ایک تو وفات کی خبر تھی ، دوسرے ان کی اولاد سے نرم سلوک کیا جائے گا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی شان سے پورا ہوا.مکر مہ قیصرہ بیگم صاحبہ کے نانا جو خان محمد خان صاحب کے بیٹے تھے، انہوں نے ریاست کپورتھلہ میں ملازمت کے لئے درخواست دی تھی اور کافی کمپٹیشن (Competition) تھا.ان کو بگی خانہ کے لئے افسر بنایا گیا اور پھر وہ وہاں سے ترقی کرتے کرتے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہلِ بیت میں سے قرار دیا اور پھر ان کی پڑ نواسی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی بہو بھی بنی.اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے.اور ان کے بچوں کو بھی نیکیوں کی توفیق دے اور جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے.ان کے خاوند مکرم میاں اظہر احمد صاحب کو بھی صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے اور صحت و عمر دے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 10 مئی 2013 ء تا 16 مئی 2013 ، جلد 20 شماره 19 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 250 17 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء بمطابق 26 شہادت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِين إِنْ يَكُن غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا - (النساء136) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ (المائدة آيت 9-10) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف.خواہ کوئی امیر ہو یا غریب، دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے.پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو، مبادا عدل سے گریز کرو.اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو، یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو.یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.
خطبات مسرور جلد 11 251 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء اللہ نے اُن لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے کہ اُن کے لئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے.مخالفین اسلام وقتاً فوقتاً اسلام اور مسلمانوں پر شدت پسندی اور غیر مسلموں کے لئے دلوں میں بغض و کینہ رکھنی یا پیدا کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں.ہر دہشت گردی کا واقعہ جو ہوتا ہے دنیا میں ، چاہے جو مسلمان کہلانے والے ہیں، اُن کی طرف سے ہوا ہو یا کسی اور کی طرف سے، یا جو کارروائی بعض نام نہاد اسلام پسند گروہ یا جہادی تنظیمیں کرتی ہیں، انہیں اسلامی تعلیم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.اور پھر قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو انتہائی لغو اور بیہودہ الفاظ میں نشانہ بنایا جاتا ہے.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمانے کے امام اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ہے جو مخالفین اسلام کے ہر الزام کو قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں رڈ کرتی ہے، اور ہر بیہودہ گوئی کا جواب دے کر مخالفین اسلام کو اُن کا آئینہ دکھاتی ہے.ہماری طرف سے علاوہ قرآن کریم کی مختلف آیات کے جو اس شدت پسندی وغیرہ کے لئے پیش کی جاتی ہیں ، یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، یہ بھی پیش کی جاتی ہیں کہ اسلام کی انصاف پسند اور انتہائی اعلیٰ معیار کی تعلیم کیا ہے؟ یہ ایسی اعلیٰ تعلیم ہے کہ ہر انصاف پسند غیر مسلم اس تعلیم کو سن کر اس تعلیم کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتا لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی کرتا ہے کہ اس تعلیم پر عمل کہاں ہے؟ جو غیر مسلم لوگ افراد جماعت کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں ، وہ جانتے بھی ہیں اور عموماً کہتے بھی ہیں کہ ٹھیک ہے تمہاری جماعت کے افراد میں اس تعلیم کی جھلک نظر آتی ہے لیکن تم تو مسلمانوں میں ایک بہت قلیل جماعت ہو، بہت تھوڑی سی جماعت ہو.اسلام کی عمومی تصویر تو ہم نے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں ہی دیکھنی ہے.ان لوگوں کو افراد جماعت جن سے بھی ان کا واسطہ ہے اپنے اپنے فہم کے مطابق جواب دیتے ہیں اور عموماً غیروں پر اس کا اچھا اثر بھی ہے.لیکن ہمیں حقیقت پسند ہونے کی بھی ضرورت ہے اور اپنے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے.ہم بیشک قرآنی تعلیم کی رو سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے حوالے سے مخالفین کی تسلی کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اب دنیا میں مختلف اخباروں میں لکھنے والے جب بھی اسلام کے بارے میں لکھتے ہیں تو بعض دفعہ نام لے کر اور بعض دفعہ بغیر نام کے اشارہ یہ بات کرتے ہیں کہ اسلام میں اقلیتی جماعت ہے جو اُس شدت پسندی کے خلاف ہے جو عام طور پر مسلمانوں میں نظر آتی ہے.اور یہ جماعت ہے جو انصاف کو دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے اور یہ
خطبات مسرور جلد 11 252 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء دعوی بھی کرتی ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے صرف ہم ہیں.مسلموں جب میں غیروں کے جماعت کے حق میں ایسے تبصرے سنتا ہوں اور جب بھی غیر مہ کے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرتا ہوں تو ساتھ ہی یہ فکر بھی پیدا ہوتی ہے،اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک اس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں.صرف یہی تو نہیں کہ ہم دنیا کے سامنے یہ خوبصورت تعلیم رکھ کر عارضی طور پر اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کر رہے ہیں اور اسی کو کافی سمجھتے ہیں.اور جب وقت آئے اور دنیا ہمیں پر کھے تو اس تعلیم کا اعلیٰ معیار ہم میں موجود نہ ہو.کسی بھی جماعت کی سچائی کا پتہ یا کسی بات کی صداقت کا ثبوت اُس وقت ملتا ہے جب اپنی ذات پر ایسے حالات آئیں جو ہمیں مشکل میں ڈالنے والے ہوں اور پھر ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات کو مشکل میں ڈال کر خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اُس کی تعلیم پر اُس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو.اور اس معیار کا عمل کرنے والا ہو کہ عمل کرتے ہوئے اُس حالت سے کامیاب ہوکر نکلے.ورنہ تعلیم کی خوبصورتی کا بغیر عمل اظہار کسی جماعت کو من حیث الجماعت خوبصورت نہیں بنا دیتی.کئی غیر احمدی مسلمان ہیں جو غیروں کے سامنے یہ تعلیم پیش کرتے ہوں گے لیکن اُن کا اس تعلیم کو اسلام کی خوبصورتی کی دلیل کے طور پر پیش کرنا صرف اُن کی ذات کو شاید غیر مسلموں کی نظر میں اچھا بنا تا ہوگا اور وہ اُس شخص کے اخلاق کی وجہ سے یا تعلق کی وجہ سے مذہب پر اعتراض کرنے سے رُک جاتے ہوں.لیکن ایک احمدی کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ جب وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو ساتھ ہی اپنا تعارف ایک احمدی مسلمان کی حیثیت سے کرواتا ہے.اور ایسے انسان کی حیثیت سے کرواتا ہے جو اس زمانے میں اسلام کی نشأة ثانیہ کا دعویٰ لے کر کھڑے ہونے والے کے پیروکار ہیں.یہ اس بات کا تعارف کرواتا ہے کہ ہم اُس مسیح موعود اور مہدی معہود کے ماننے والے ہیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا میں پیش کرنے آیا اور ایک جماعت قائم کی ہے.احمدی کی طرف سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بیان صرف ایک احمدی کی ذات کو تعریف کے قابل نہیں بنا تا بلکہ ایک امن پسند، انصاف پر قائم رہنے والی اور سچائی کا اظہار کرنے والی، اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والی جماعت کا تصور غیروں کے سامنے اُبھرتا ہے اور اُبھرنا چاہئے.اور اگر کوئی احمدیوں کے قول و فعل میں تضاد دیکھتا ہے تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ فلاں شخص کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے، یا اُس میں سچائی کا
خطبات مسرور جلد 11 253 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء فقدان ہے یا وہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا.بلکہ فوری طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو فلاں احمدی ہے، دعوے تو اپنی نیکیوں کے یہ لوگ بڑے کرتے ہیں، جماعت اس زمانے میں اپنے آپ کو بڑا انصاف کے قیام کا علمبر دار سمجھتی ہے لیکن اس میں شامل لوگ ایسے ایسے ظلموں میں ملوث ہیں.کئی غیر از جماعت لوگ جو احمدیوں کے ساتھ کاروبار بھی کر رہے ہیں، جب اُن کے سامنے کاروباری مسائل اٹھتے ہیں، مقدمے چلتے ہیں تو وہ مجھے یہی باتیں لکھتے ہیں کہ فلاں احمدی تھا، ہم نے اعتبار کیا اور اب یہ یہ مسائل ہمارے پیدا ہورہے ہیں اور انصاف سے جو گواہی دینی چاہئے وہ نہیں وہ دے رہا.انصاف کرتے ہوئے جو میر احق ادا کرنا چاہئے وہ ادا نہیں کر رہا.پس ایک احمدی اپنے عمل سے جماعت احمدیہ کا ایک Image یا تصور خراب کر رہا ہوتا ہے،ایک غلط تاثر قائم کر کے جماعت کی بدنامی کا باعث بن رہا ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ زیادہ گناہگار ٹھہرتا ہے کہ دعوئی نیکیوں کا ہے اور عمل کچھ اور ہے.یہ فکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی تھی جس وجہ سے آپ نے فرمایا تھا کہ ہماری طرف منسوب ہو کر پھر ہمیں بدنام نہ کرو.(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحه 145 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) یہ خلاصہ آپ کے الفاظ کا میں نے بیان کیا ہے.یعنی کسی احمدی سے، کسی بھی سطح پر ایسا فعل سرزد نہ ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت کی بدنامی کا موجب بنے.ان آیات میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں.اُن پر عمل ہر سطح پر کیا جانا ضروری ہے.تبھی یہ باتیں فطرت کا حصہ بن کر برائیوں سے روکنے والی بنتی ہیں.ہر سطح پر ان باتوں کا خیال رہتا ہے کہ ہمارے عمل کیا ہونے چاہئیں؟ اور اگر اس پر صیح طرح عمل ہو اور یہ فطرت کا خاصہ بن جائے تو کبھی کسی قسم کا غلط کام ، بے انصافی یا سچائی سے دوری یا دوسرے کو نقصان پہنچانے کی سوچ انسان میں پیدا ہی نہیں ہوسکتی.پس اللہ تعالیٰ کی خوبصورت تعلیم اور اسلام کی خوبصورت تصویر کا اظہار اُس وقت ہوگا جب ہراحمدی ہر سطح پر اس تعلیم کا اظہار اپنے قول اور اپنے عمل سے کرے گا.ان آیات میں بیان شدہ معیاروں کے حصول کی کوشش ہر سطح پر اپنے گھروں میں بھی، اپنے معاشرے میں بھی ، اپنوں کے ساتھ بھی ، غیروں کے ساتھ بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی تعلقات میں ہونی چاہئے.تبھی ہم حقیقی مومن بن سکتے ہیں.تبھی اس زمانے کے امام کے ساتھ جڑنے کے دعوے اور اعلان میں ہم حق بجانب کہلا سکتے ہیں ورنہ ہمارے دعوے
خطبات مسرور جلد 11 254 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء کھو کھلے ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو ہمارے متعلق فکر تھی کہ کہیں بدنام کرنے والے نہ بن جائیں، اُس فکر کو بڑھانے والے ہوں گے.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ آپ علیہ السلام کی اس فکر کو کم سے کم کرنے والے ہوں بلکہ ختم کرنے والے ہوں.پہلی بات جس کا یہاں حکم دیا گیا ہے یہ ہے کہ ہمارے ہر معاملے میں گواہی خدا تعالیٰ کی خاطر ہونی چاہئے.خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہونی چاہئے.ہمارے دل و دماغ میں یہ خیال نہ آئے کہ اس گواہی سے یا کوئی بھی گواہی جو میں نے دینی ہے اُس سے کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنا ہے.بلکہ صرف اور صرف یہ خیال ہو کہ میں نے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اور صرف اور صرف خدا تعالیٰ کو خوش کرنا ہے.پھر فرمایا کہ اس کا حصول انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرنے سے ہے.اور انصاف کے اعلیٰ معیار سچائی پر قائم ہوئے بغیر ہو ہی نہیں سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر عمل کئے بغیر یہ ہو ہی نہیں سکتے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسرے کے لئے پسند کرو.اپنے لئے تو ہماری کوشش ہو کہ ہمارا حق ہمیں ملے.کہیں ذراسی بھی ہماری حق تلفی ہو رہی ہو تو ہم چیخنے چلانے لگ جاتے ہیں لیکن دوسرے کے حق کا معاملہ آئے تو کئی قسم کے عذر تلاش کرنے لگ جاتے ہیں.اگر انصاف کا معاملہ آئے تو اپنے لئے تو ہم انصاف کے بارے میں تمام قرآنی احکامات فیصلہ کرنے والے کے سامنے رکھ دیں گے.بڑی محنت سے احادیث تلاش کر کے ان کے حوالے سے حق تلفی کرنے والے اور فیصلہ کرنے والے کو خوف خدا دلاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پیش کرتے ہیں.لیکن جب خود ہم سے انصاف پر قائم ہوتے ہوئے سچی گواہی کا مطالبہ ہو تو سچی گواہی دینے کی بجائے حق بات کہنے کی بجائے ، پیچدار اور الجھی ہوئی باتیں کر کے معاملے کو بگاڑنے کی یا اپنے حق میں کرنے کی یا اپنے قریبیوں کے حق میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں.تو یہ چیز ایک مومن حقیقی مومن میں نہیں ہونی چاہئے.پس حقیقی مومن کو حکم ہے کہ خدا کی رضا کو مقدم کرو اور باقی سب باتیں اُس کے تابع کرو.اور یہ اُس وقت ہو گا جب اتنی جرات پیدا ہو جائے کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینے سے انسان گریز نہ کرے.اس کی کچھ بھی پرواہ نہ ہو کہ حق بات بتانے کی وجہ سے سچی گواہی کی وجہ سے میں خود کتنی مشکلات میں گرفتار ہو سکتا ہوں.یا میرے عزیز رشتہ دار، میرے بچے، اگر میں اُن کے خلاف گواہی دوں تو کس مشکل میں گرفتار ہو سکتے ہیں یا میرے اپنے والدین یا بچوں یا عزیزوں، دوستوں کے خلاف گواہی سے مجھے کن
خطبات مسرور جلد 11 255 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے.ہماری سوچ یہ ہونی چاہئے کہ حق بات پر قائم رہنے کے لئے ، انصاف پر قائم رہنے کے لئے ہمیں اپنے ماحول اور اپنے عزیزوں ، بزرگوں کی ناراضگی بھی مول لینی پڑے تو ہم لے لیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری امارت یا غربت تمہارے فائدے یا نقصان اور تمہاری چالا کیوں یا جھوٹی گواہیوں یا انصاف سے دور جانے سے نہیں ہے بلکہ یہ فائدے نقصان اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر منحصر ہیں.اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو تمہیں فائدہ دے نہیں تو تمہاری کوشش بھی ہو تو تم فائدہ حاصل نہیں کر سکتے.جھوٹی گواہیاں تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتیں.ہاں ایک عارضی دنیاوی فائدہ تو ہوسکتا ہے لیکن اُس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے اُس کے نقصان اتنے زیادہ ہوں گے جو برداشت سے باہر ہوں گے.فرمایا کہ اس لئے اللہ تعالیٰ کو دوست بناؤ اور اُسی کا قرب حاصل کرو.اور ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے صاف اور سیدھی بات کرو.اپنے عائلی معاملات میں ، گھر یلو معاملات میں بھی ، معاشرتی معاملات میں بھی، دنیاوی معاملات میں بھی سچائی کو ہمیشہ پکڑے رکھو.انصاف کے قیام کی ہمیشہ کوشش کرو.اپنی خواہشات کی پیروی کر کے عدل اور انصاف سے دور جانے کی بجائے ، گھماؤ پھر اؤ والی باتیں کر کے معاملے کو الجھانے کی بجائے یا سچی گواہی کو چھپانے کی بجائے اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کی بجائے ایک مومن کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رضا کو اپنا محور بنانا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زندگی میں ایک واقعہ آتا ہے جہاں آپ کو گواہی دینی پڑی.زمینداری کا معاملہ تھا اور جو مزارعین تھے اُن کے ساتھ درختوں کا جھگڑا تھا.وہ جانتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ سچائی پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیں گے حالانکہ آپ کے والد کا اور آپ کے خاندان کی جائیداد کا معاملہ تھا، زمین کا معاملہ تھا، کوئی درختوں کی ملکیت کا معاملہ تھا.جب گواہی دی گئی ، آپ کو بلایا گیا تو آپ نے حج کے سامنے یہی کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں کا ہی حق بنتا ہے اور ان کو ان کا یہ حق ملنا چاہئے.اس کی وجہ سے آپ کے خاندان والے، آپ کے والد ناراض بھی ہوئے لیکن آپ نے کہا جو میں نے حق سمجھا ، جو سچی چیز بھی وہ میں نے گواہی دے دی.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد اول ص 72-73 ، ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ( غیر مطبوعہ ) جلد نمبر 9صفحہ 192 تا 194 روایت حضرت میاں اللہ یا ر صاحب ٹھیکیدار ) تو یہ معیار ہیں جو زمانے کے امام نے ہمارے سامنے پیش کئے.اور یہ معیار ہیں جو ہمیں اب قائم کرنے چاہئیں اور یہی معیار ہیں جن کو حاصل کرنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں
خطبات مسرور جلد 11 تلقین فرمائی ہے.256 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء فرماتا ہے یا درکھو کہ تمہاری جھوٹی گواہیوں سے تم دنیا والوں کو تو دھوکہ دے سکتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کو نہیں.فرمایا فَإِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا - کہ یقینا اللہ تعالی تمہارے ہر عمل اور ہر بات سے اچھی طرح باخبر ہے.اُس سے کچھ چھپایا نہیں جاسکتا.پس ایک طرف یہ دعویٰ کہ ہم معاشرے میں امن اور سلامتی پھیلانا چاہتے ہیں.سچائی پر قائم ہوتے ہوئے دنیا کو ہدایت کے راستے دکھانا چاہتے ہیں.اور دوسری طرف اگر ہم اپنے قول و فعل میں معمولی دنیاوی فائدوں کے لئے تضاد رکھنے والے ہوں تو ہم سچائی پر قائم ہونے والے نہیں، انصاف کو قائم کرنے والے نہیں ، امن اور سلامتی کو پھیلانے والے نہیں بلکہ معاشرے کے فتنہ وفساد کا حصہ بن رہے ہوں گے.پس ایک مومن کا ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کا دعوئی اور ظلم روکنے کا دعویٰ تبھی سچا ہو سکتا ہے جب وہ انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے.سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے.اپنی گواہیوں کو خدا تعالیٰ کے احکامات کے تابع کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے یہ معیار کن بلندیوں پر دیکھنا چاہتا ہے.اس کے لئے سورۃ مائدہ کی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا کہ صرف تمہارے معاشرے میں، تمہارا جو چھوٹا ماحول ہے، اُسی میں تمہاری گواہیاں انصاف کے قائم کرنے کے لئے نہ ہوں بلکہ تمہارے دشمن بھی اگر تمہارے سے انصاف حاصل کرنا چاہیں تو وہ بھی انصاف حاصل کرنے والے ہوں.اُن کو بھی یہ یقین ہو کہ تم جو بات کہو گے حق وانصاف کی کہو گے.یا دشمن پر یہ ظاہر کر دو کہ ایک مومن ہر کام تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے.کسی کی دشمنی ہمیں انصاف اور سچائی سے دور نہیں ہٹا سکتی.ہمارے دل تو دشمنی سے پاک ہیں.ہم تو یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمیں کسی سے نفرت یا دشمنی نہیں ہے.لیکن دشمن کے دل کے کینے، بغض اور دشمنی بھی ہمیں اس بات کی طرف مائل نہیں کرے گی کہ ہم غلط طور پر اُسے نقصان پہنچانے کے لئے انصاف سے ہٹی ہوئی بات کہیں گے.یہ خوبصورت تعلیم ہے جو ہم غیروں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اُن پر اسلامی تعلیم کی خوبیاں واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ ہماری باتیں سن کر اسلام کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں.پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری باتیں بیشک دنیا کو ہماری طرف متوجہ کرتی ہیں لیکن ہماری سچی گواہی دینے کی باتیں ، ہماری انصاف کے قائم کرنے کی باتیں ، ہماری معاشرے میں دشمنیاں دور کرنے کی باتیں ، ہماری امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کی باتیں حقیقت میں دنیا کو اُس وقت اپنی طرف
خطبات مسرور جلد 11 257 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء متوجہ کریں گی جب ہمارے عملی اظہار بھی اُس کے مطابق ہورہے ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہم پر ڈالی ہے کہ قوام بن کر کھڑے ہو جاؤ.یعنی انتہائی گہرائی میں جاکر ( کام کرو ).قوام کا مطلب ہے کہ انتہائی گہرائی میں جا کر اور مسلسل اور مستقل مزاجی سے کوشش کرتے ہوئے انصاف قائم کرو یا کوئی بھی کام کرو.یہاں کیونکہ انصاف کا ذکر ہے اس لئے گہرائی میں جا کر انصاف کے تمام تقاضے پورے کرو اور پھر مسلسل اور مستقل مزاجی سے اس کو قائم کرنے کی کوشش کرو.یہ گہرائی میں جا کر اور انتھک اور مسلسل کوشش ہے جس کے نتیجہ میں دنیا میں انصاف بھی قائم ہو گا اور سلامتی کا اور امن کا پیغام بھی دنیا کو ملے گا.کام پس آج دنیا میں انصاف قائم کرنے ، سچائی کو پھیلانے ، امن اور سلامتی کی ضمانت بننے کا کام مسلسل اور باریک در باریک پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کرنا ایک مومن کا کام ہے، ایک حقیقی احمدی کا کام ہے.اس زمانے میں احمدی مسلمان ہی ہیں جو اس دعوی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم حقیقی مسلمان ہیں، ہم حقیقی مومن ہیں کیونکہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے.کیونکہ ہم نے اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگا ہی حاصل کی ہے اور زمانے کے امام کو مان کر صرف ذوقی اور علمی آگاہی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حاصل نہیں کی بلکہ ہم ان احکامات پر کار بند ہونے کا عملی نمونہ بننے کی بھی کوشش کرتے ہیں.پس جیسا کہ میں نے کہا ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم انصاف پر قائم ہیں.کس حد تک ہم سچائی پر قائم ہیں.ہم اپنے دلوں کو ٹولیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح اپنے خلاف اور اپنے والد کے خلاف گواہی دے کر دنیاوی فائدے کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی ، آج ہم آپ سے جڑنے کا دعوی کر کے یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں ؟ اگر ہم حقیقت میں یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تو پھر یہ دیکھنے اور سوچنے والی بات ہے کہ ہمارے گھروں میں بے اعتمادی کی فضا کیوں ہے؟ جن گھروں میں یہ بے اعتمادی کی فضا ہے وہ جائزے لیں میاں بیوی کے تعلقات میں پیار و محبت کیوں نظر نہیں آتا.بچے کیوں اس وجہ سے ڈسٹرب ہیں؟ بھائی بھائی کے رشتے میں دراڑیں کیوں پڑ رہی ہیں؟ بدظنیوں کی وجہ سے یا سچائی کی کمی کی وجہ سے تعلقات کیوں ٹوٹ رہے ہیں؟ دوستی کی بنیاد پر شروع کئے گئے کاروبار ناراضگیوں اور مقدموں پر کیوں منتج ہورہے ہیں؟ قضاء میں مقدمات کی تعداد میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ یا عدالتوں میں کیوں زیادہ مقدمات احمدیوں کی طرف سے بھی جانے لگ گئے ہیں؟ ظاہر ہے دلوں کی حالت اور ظاہری حالت یا قول میں تضاد ہے.اپنے لئے کچھ
خطبات مسرور جلد 11 258 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء اور معیار ہیں اور دوسروں کے لئے کچھ اور.پس ہر احمدی کو ، چاہے وہ جماعتی خدمات پر مامور عہد یدار ہے یا عام احمدی ہے اس بارے میں فکر کی ضرورت ہے کہ ہمارے سامنے جو دنیا کو انصاف دینے اور سچائی پھیلانے کا اتنا بڑا کام ہے، اُس کو ہم اپنی اصلاح کرتے ہوئے کس طرح سرانجام دے سکتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اُس کی مغفرت کی چادر میں لپٹ سکیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر پانے والے ٹھہر سکیں.یقیناً اس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے احکامات پر نظر رکھنی ہوگی.اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ کی حفاظت جیسا اور کوئی محفوظ قلعہ اور حصار نہیں.لیکن ادھوری بات فائدہ نہیں پہنچاسکتی.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب پیاس لگی ہوئی ہو تو صرف ایک قطرہ پی لینا کفایت کرے گا یا شدت بھوک سے ایک دانہ یا لقمہ سے سیر ہو جاوے گا؟ بالکل نہیں.بلکہ جب تک پورا سیر ہو کر پانی نہ پئے یا کھا نانہ کھالے تہستی نہ ہو گی.اسی طرح جب تک اعمال میں کمال نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں.ناقص اعمال اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے اور نہ وہ بابرکت ہو سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ میری مرضی کے موافق اعمال کرو.پھر میں برکت دوں گا“.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 639 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ دنیا کو امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کی جو ذمہ داری ڈالی ہے اُس کے لئے ہر سطح پر ہمیں انصاف کو قائم کرنا ہو گا.سچائی کو قائم کرنا ہوگا.انصاف اللہ تعالیٰ کے احکامات کو گہرائی میں جا کر جاننے اور عمل کرنے سے قائم ہوتا ہے.حقوق اللہ کی ادائیگی میں بھی گہرائی میں جا کر اُن کو جاننے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کو گہرائی میں جا کر جاننے اور اُن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے تا کہ جہاں ہم اپنے گھروں اور اپنے معاشرے کو انصاف پر قائم رکھتے ہوئے جنت نظیر بنا ئیں ، وہاں اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی میں تبلیغ کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں.دنیا پر حقیقی انصاف کی تعلیم واضح کر کے اُسے تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے والے ہوں.دنیا بڑی خوفناک تباہی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے.نہ مسلمانوں میں انصاف رہا ہے، نہ غیر مسلموں میں انصاف رہا ہے اور نہ صرف انصاف نہیں رہا بلکہ سب ظلموں کی انتہاؤں کو چھور ہے ہیں.پس ایسے وقت میں دنیا کی آنکھیں کھولنے اور ظلموں سے باز رہنے کی طرف توجہ دلا کر تباہی کے
خطبات مسرور جلد 11 259 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 اپریل 2013ء گڑھے میں گرنے سے بچانے کا کردار صرف جماعت احمدیہ ہی ادا کر سکتی ہے.اس کے لئے جہاں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں عملی کوشش کرنی چاہئے ، وہاں عملی کوشش کے ساتھ ہمیں دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.مسلمان ممالک کی نا انصافیوں اور شامت اعمال نے جہاں اُن کو اندرونی فسادوں میں مبتلا کیا ہوا ہے وہاں بیرونی خطرے بھی بہت تیزی سے اُن پر منڈلا رہے ہیں بلکہ اُن کے دروازوں تک پہنچ چکے ہیں.بظاہر لگتا ہے کہ بڑی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے اور دنیا اگر اُس کے نتائج سے بے خبر نہیں تو لا پرواہ ضرور ہے.پس ایسے میں غلامانِ مسیح محمدی کو اپنا کردارادا کرتے ہوئے دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے دعاؤں کا حق ادا کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے والا بنائے اور دنیا کو تباہی سے بچالے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 17 مئی 2013 ء تا 23 مئی 2013 ء جلد 20 شماره 20 صفحہ 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد 11 260 18 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 03 مئی 2013 ء بمطابق 03 ہجرت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ الله خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ - وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللهَ فَأَنْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ (الحشر 19-20) ان آیات کا ترجمہ ہے کہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے.اور اللہ کا تقوی اختیار کرو.یقینا اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے.اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا.یہی بدکردار لوگ ہیں، فاسق لوگ ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے بنیادی شرط تقویٰ رکھی ہے.اس بارے میں قرآن کریم میں بیشمار آیات ہیں جن میں تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ پر قائم رہو کی تلقین مختلف حوالوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے، مختلف احکامات دیئے ہیں.اور ان احکامات پر عمل کرنے والوں کو تقویٰ پر چلنے والا یا متقی کہا ہے.اور عمل نہ کرنے والوں کو اُن کے انجام سے خوف دلایا.تقویٰ کیا ہے؟ اس کی جو تعریف یا مختصر الفاظ میں خلاصہ جو قرآنِ کریم سے ہمیں ملتا ہے، وہ یہ لیا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہوئے ، خدا تعالیٰ کو واحد و یگانہ اور سب طاقتوں کا منبع سمجھتے ہوئے اُس کے حقوق ادا کرنا اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اُس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 261 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ : ” خدا تعالی کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں، جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں، ان کو جہاں تک طاقت ہو ، ٹھیک ٹھیک محتِ ضرورت پر استعمال کرنا اور نا جائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا، یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے“.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 209-210) پس یہ وہ معیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بیان فرمایا اور اس کی ہم سے توقع بھی کی.چند جمعے پہلے بھی میں نے امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ان کی ادا ئیگی ایمان سے وابستہ ہے اور عہدیداروں کے حوالے سے باتیں ہوئی تھیں.آج میں اس کی کچھ مزید بات کرتا ہوں.آج کے اس دور میں ایمان لانے والوں میں سے احمدی وہ خوش قسمت ہیں جن کو اس بار یکی سے خدا تعالیٰ سے تعلق کی طرف توجہ دلائی گئی.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہم پر احسان ہے کہ کھول کھول کر ان اعلیٰ مدارج کے راستے دکھاتے ہیں جن سے ایک مومن خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکتا ہے.یقیناً ہر انسان کا معیار، نیکی کا معیار بھی ، فراست کا معیار بھی سمجھ کا معیار بھی علم کا معیار بھی مختلف ہوتا ہے، ہر ایک کا معیار ایک جیسا نہیں ہو سکتا.اس لئے ہر ایک کو یہ حکم ہے کہ اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کی انتہا تک اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد اور اُس کی امانتوں کی ادائیگی کو پہنچاؤ.اگر کوشش کر کے ہر مومن یہ انتہا حاصل کرنے کی طرف متوجہ رہے گا تو تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا شمار ہو گا.ہاتھ ، پیر، کان، آنکھ کا استعمال ہے تو ان کے صحیح استعمال کا حکم ہے.جن باتوں کے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، اُن سے رُکنا فرض ہے.یہ ظاہری اعضاء صرف مخلوق کے حق کی ادائیگی کے لئے نہیں ہیں کہ ان سے مخلوق کا حق ادا کرو، یا اگر حق ادا نہیں کرتے ، عدم ادائیگی ہے تو تم پوچھے جاؤ گے.بلکہ بہت سے ایسے کام ہیں جن کا مخلوق سے براہِ راست تعلق نہیں ہوتا اور اُن سے مخلوق کو کوئی نقصان یا فائدہ بھی نہیں پہنچ رہا ہوتا.اگر ہم گہری نظر سے دیکھیں تو جو بعض عمل انسان کرتا ہے انسان کی اپنی ذات کو ہی اُس کا فائدہ اور نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس کے کرنے
خطبات مسرور جلد 11 262 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء یا نہ کرنے کا حکم دیا ہے.جن کے نہ کرنے کا حکم ہے اُن کو کر کے انسان اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدوں کو پھلانگ رہا ہوتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے جو اپنے حق قائم کئے ہیں اُن کو تو ڑ رہا ہوتا ہے اور پھر جن کے کرنے کا حکم ہے انہیں نہ کر کے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے انسان باہر نکل رہا ہوتا ہے.پس انسان کسی بھی کام کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کر کے یا نہ کر کے خدا تعالیٰ کی حدوں کو توڑ کر تقویٰ سے دور ہتا چلا جاتا ہے اور جوں جوں تقویٰ سے دوری ہوتی ہے انسان شیطان کی جھولی میں گرتا چلا جاتا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ ایک مومن نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام نہ کرے بلکہ شیطان جو چھپ کر حملہ کرتا رہتا ہے ان حملوں سے بھی آگاہ رہے.ہر وقت اس کی نظر شیطان کے حملوں کی طرف ہو کہ کہیں وہ اُس پر حملہ آور نہ ہو جائے اور پھر اس آگاہی کی وجہ سے شیطان کے پوشیدہ حملوں سے اپنے آپ کو بچائے.شیطان کے حملے مختلف طریقوں سے ہوتے ہیں.اس زمانے کی ایجادات میں بھی بہت سی ایسی ہیں جو خود انسان کو نقصان پہنچا رہی ہوتی ہیں.اُن کے اچھے مقاصد کی بجائے وہ ایسے کاموں کے لئے استعمال ہو رہی ہوتی ہیں جہاں شیطان کے حملے کا خطرہ ہے یا شیطان کا حملہ ہورہا ہوتا ہے.عبادتوں سے دور لے جارہی ہوتی ہیں.اخلاق پر برا اثر ڈال رہی ہوتی ہیں.بظاہر انسان سمجھتا ہے کہ یہ میرے ذاتی معاملات ہیں اور کسی کو کیا کہ میں جو اکھیلتا ہوں.یا رات گئے تک انٹرنیٹ پر فلمیں دیکھتا ہوں اور ٹی وی دیکھتا ہوں یا اس قسم کے اور کام کرتا ہوں.بہت سارے ایسے غلط کام انسان کرتا ہے اور اُس کے خیال میں کسی کو اُن سے غرض نہیں ہونی چاہئے کیونکہ وہ کسی کو براہ راست نقصان نہیں پہنچار ہے.لیکن جو غلط کام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق نہیں ہے، اُس کی مرضی کے خلاف ہے، وہ اسے پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھی دُور لے جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے سے بھی دُور لے جاتا ہے اور بندوں کے حق ادا کرنے سے بھی دُور لے جاتا ہے.ان ملکوں میں شرا ہیں، جوا، انٹرنیٹ، گندی اور لغو فلمیں ہیں، غلط دوستیاں ہیں.یہ جہاں گھروں کو اُجاڑ رہی ہوتی ہیں وہاں نوجوانوں کو غلط راستے پر ڈال کر خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان سے بھی ہٹا کر معاشرے کا ناسور بنا رہی ہوتی ہیں.وہ لوگ ایک مستقل بیماری بن رہے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے ہر عضو کا اور ہر سوچ کا اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اور برمحل استعمال تمہیں تقویٰ میں بڑھائے گا اور اس کے خلاف عمل تمہیں شیطان کی گود میں پھینک دے گا اور جو شیطان کی گود میں گرتا ہے وہ یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 263 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء ان آیات میں ، جن کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد تقویٰ اختیار کرو.اے مومنو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یہ دنیا اور اس کی رنگینیاں اور آسانیاں اور آسائشیں تمہارا سب کچھ نہ ہوں ، بلکہ یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تم نے کیا عمل کئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کئے گئے عمل ہی ہیں جو اگلے جہان میں کام آنے ہیں یا اگلے جہان میں کام آتے ہیں.دنیا کی تمام رنگینیاں اور مزے اور لذتیں اور آسائشیں اسی دنیا میں رہ جاتی ہیں.پس اپنے جائزے لیتے رہو.کیونکہ گناہوں کی جڑ یہی ہے کہ انسان اپنے عملوں سے لا پرواہ ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے.پس اگر اگلے جہان کی دائمی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا وارث بننا ہے تو خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اُس کی رضا کی راہوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے.اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے کی ضرورت ہے.یہ پہلی آیت جو میں نے پڑھی تھی ، یہ نکاح پر پڑھی جانے والی آیتوں میں سے بھی ایک آیت ہے.اللہ تعالیٰ اس میں جہاں انسان کو خود آئندہ زندگی کی فکر کی طرف توجہ دلا رہا ہے، وہاں آئندہ پیدا ہونے والی نسل کی تربیت اور اُن کو دنیا کے بجائے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلانے کا بھی ارشاد فرما رہا ہے.خاص طور پر جو آیات نکاح میں پڑھی جانے والی ہیں یہ اُن میں سے ایک آیت ہے.کیونکہ ہے.خاص نیک اولاد، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی اولا د جہاں اپنی عاقبت سنوار نے والی ہو گی ، وہاں نیک اولاد کے عمل اور اُن کی دعائیں جو وہ والدین کے لئے کر رہے ہیں ، والدین کے درجات اگلے جہان میں بھی بلند کرنے کا باعث بن رہی ہوں گی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی شادی کے موقع پر بھی یہ بات یاد رکھو کہ دنیا اور اس کی تمام آسائشیں، آسانیاں، مزے اور لذتیں عارضی چیز ہیں.شادی اور دنیاوی ملاپ یہ سب عارضی لذات ہیں.اصلی لذت خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ہے جو اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور اس کے پھل ایک مومن پھر اگلے جہان میں بھی کھاتا ہے.پس ایک مومن کو بار بار مختلف رنگ میں اللہ تعالی تنبیہ اور تلقین فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو کبھی نہ بھولو، تقویٰ پر قائم رہو، ایسے اعمال بجالاؤ جو اس جہان کو بھی اور اگلے جہان کو بھی سنوار نے والے ہوں.اس جہان میں بھی تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنو اور آئندہ زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل کی خبر رکھنے والا ہے.اُس کی نظر سے انسان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی پوشیدہ نہیں ہے.ہر عمل کا حساب کتاب رکھا جا رہا
خطبات مسرور جلد 11 264 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء ہے.اس لئے انسان کو بہت پھونک پھونک کے اس دنیا میں اپنے قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے.ایمان لانا اور ایمان کا دعویٰ کرنا صرف کافی نہیں ہے بلکہ تقویٰ کی راہوں کی تلاش اور اُن پر عمل ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک مجلس میں فرماتے ہیں کہ :.اسلام میں حقیقی زندگی ایک موت چاہتی ہے جو تلخ ہے.لیکن جو اس کو قبول کرتا ہے آخر وہی زندہ ہوتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ انسان دنیا کی خواہشوں اور لذتوں کو ہی جنت سمجھتا ہے حالانکہ وہ دوزخ ہے.اور سعید آدمی خدا کی راہ میں تکالیف کو قبول کرتا ہے اور وہی جنت ہوتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا فانی ہے اور سب مرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں.آخر ایک وقت آجاتا ہے کہ سب دوست، آشنا، عزیز واقارب جدا ہو جاتے ہیں.اس وقت جس قدر نا جائز خوشیوں اور لذتوں کو راحت سمجھتا ہے وہ تلخیوں کی صورت میں نمودار ہو جاتی ہیں.سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے.“ (یعنی بظاہر بہت مشکل کام ہے ) متقی کے لیے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے.(لیکن جب انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے ) فرمایا : " مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يحتسب - (الطلاق 3-4) پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے.لیکن حصول تقوی کیلئے نہیں چاہئے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں.تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے ملے گا.خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے.تقویٰ اختیار کرو جو چاہو گے وہ دے گا“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 90.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) یعنی شرط یہ نہیں رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ دے تو ہم نیکیاں کریں.بلکہ نیکیاں کرو، تقویٰ اختیار کرو، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو، پھر اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا ہوجاتا ہے جو مانگو وہ دیتا بھی ہے.پس تقویٰ پر چلنے سے انسان اللہ تعالیٰ کے ہر قسم کے انعامات کو حاصل کرنے والا بن سکتا ہے، بن جاتا ہے.لیکن ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے تقویٰ پر چلنے کا عہد کیا ہے.اس لئے ہم نے اپنے قول وفعل کو ایک کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : تقوی کا مرحلہ بڑا مشکل ہے.اُسے وہی طے کر سکتا ہے جو بالکل خدا تعالیٰ کی مرضی پر چلے.جو وہ چاہے وہ کرے.اپنی مرضی نہ کرے.بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہر گر نہ ہو گا.“ ( تقویٰ ایسی
خطبات مسرور جلد 11 265 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء چیز نہیں کہ بناوٹ سے حاصل ہو جائے.یہ کبھی نہیں ہو سکتا) اس لیے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے.خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونو کی تاکید فرمائی ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 492.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ: کوئی پاک نہیں بن سکتا جب تک خدا تعالیٰ نہ بناوے.جب خدا تعالیٰ کے دروازہ پر تذلل اور عجز سے اس کی روح گرے گی تو خدا تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے گا اور وہ منتقی بنے گا اور اس وقت وہ اس.66 قابل ہو سکے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سمجھ سکے.(عاجزی اور تذلل اختیار کرو.اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا فضل چاہئے.فضل ہوگا تو یہ ملے گا.اور جب یہ ملے گا تو تقویٰ حاصل ہوگا.اور جب تقویٰ حاصل ہوگا تو تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دین یا اسلام کی حقیقت کو انسان سمجھ سکے گا ).فرمایا: ”اس کے بغیر جو کچھ وہ دین دین کر کے پکارتا ہے اور عبادت وغیرہ کرتا ہے وہ ایک رسمی بات اور خیالات ہیں کہ آبائی تقلید سے سن سنا کر بجالاتا ہے.(کہ باپ دادا یہ کر رہے ہیں، مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا، مسلمان ہوں.احمدی کے گھر میں پیدا ہوا، احمدی مسلمان ہوں.تو اُس کی تقلید میں یہ کام کر رہا ہے.یہ نہیں ، اصل چیز تقویٰ ہے اور تقویٰ حاصل ہوتی ہے کوشش اور عمل سے، عاجزی اور انکساری اختیار کرنے سے، دعا کرنے سے.فرمایا کہ یہ جو آبائی تقلید سے سن سنا کر بجالاتا ہے.کوئی حقیقت اور روحانیت اس کے اندر نہیں ہوتی“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 493.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) صرف نری تقلید جو ہے،اُس سے روحانیت پیدا نہیں ہوتی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” تقومی حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں.متقی دنیا کی بلاؤں سے بچا یا جا تا ہے“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 572.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ کے فضل سے من حیث الجماعت بیشک اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضل ہم جماعت پر دیکھتے ہیں ، جماعت کی ترقی بھی ہم دیکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا جماعت کے ساتھ ایک خاص سلوک بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح انتہائی نامساعد حالات میں بھی جماعت کو اللہ تعالیٰ دشمن کے منہ سے نکال لاتا ہے.جماعت کی ایک اچھی تعداد یقینا تقویٰ پر چلنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں کی بھی ہے.لیکن ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت باندھ کر ہم میں سے ہر ایک وہ معیار تقویٰ حاصل کرے، وہ خدا تعالیٰ کا قرب ہمیں حاصل ہو جو ایک حقیقی مسلمان
خطبات مسرور جلد 11 266 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء کا ہونا چاہئے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں.اور وہ کیا ہے؟ وہ یہی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کو ہمیشہ یادرکھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ کا تو کچھ حرج نہیں کرو گے.اللہ کا تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے، ہاں یہ غفلت خود تمہیں نقصان پہنچانے والی ہوگی.خدا تعالیٰ کو بھلانے والے وہ لوگ ہیں جو ایمان میں کمزور ہیں، کامل ایمان نہیں رکھتے ، یا بھول جاتے ہیں کہ ہم نے ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور اس وجہ سے پھر ایسے عمل ہونے لگتے ہیں جن سے اُن کی اخلاقی اور روحانی حالت انحطاط پذیر ہو جاتی ہے، گرنے لگ جاتی ہے، دنیا دین پر مقدم ہو جاتی ہے، نہ یہ کہ دین دنیا پر مقدم ہو.ایسے دنیا دارا گلے جہان میں خدا تعالیٰ کا کیا سلوک دیکھیں گے وہ تو خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے.لیکن اس دنیا میں بھی اُن کے دنیا میں پڑنے کی وجہ سے اُن کا ذہنی سکون برباد ہو جاتا ہے.کئی لوگ ہم دیکھتے ہیں ذرا سے مالی نقصان پر دنیاوی نقصان پر ایسے روگ لگاتے ہیں کہ پھر کسی قابل نہیں رہتے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ ہے اور تقویٰ پر قدم مارنے کی کوشش نہیں ہے.ایمان کے دعوے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں ہے.تو یہ بات صاف ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل نہیں ہے.جب ایمان میں کمزوری ہے اور اصلاح کی طرف توجہ نہیں ہے تو پھر دنیا میں بے سکونی کی زندگی ہوگی.اور یہی نہیں ، ایسا شخص پھر فاسقوں میں شمار ہوگا.فاسق کے یہاں یہ معنی ہوں گے کہ احکام شریعت کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا عہد کر کے پھر بعض یا تمام احکام کی خلاف ورزی کرنا.پھر قرآن کریم میں اور جگہوں پر اگر ہم دیکھیں ، ان آیتوں کی رُو سے یہ معنی بھی ملتے ہیں کہ نعمت الہی کی ناشکری کر کے دائرہ اطاعت سے خارج ہونا.یا جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری کرے گا وہ دائرہ اطاعت سے باہر نکلا ہوا سمجھا جائے گا اور یوں فاسقوں یا بد کرداروں میں شمار ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر کے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.جو بھی حالات ہوں کبھی بھی خدا تعالیٰ کے احکامات کو نہیں بھلا ئیں گے.دوسرے ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اُسے اُس نعمت سے حصہ دیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانے اور اسلام کی تجدید کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صورت میں بھیجی ہے.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے تو سب سے بڑی نعمت نبوت کی نعمت ہے جس کے لئے مسلمانوں میں عجیب دو عملی دیکھتے ہیں کہ دعا بھی مانگتے ہیں اور انکار بھی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ ہم وہ
خطبات مسرور جلد 11 267 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء خوش قسمت لوگ ہیں کہ ہمیں اُس نے اس نعمت کو قبول کرنے کی توفیق دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اور آپ کے طفیل ملنے والی نعمت تھی اور ہم اُن لوگوں میں شمار ہوئے جو اس انعام میں سے حصہ پانے والے ہیں اور حقیقت میں انعام سے حصہ پانے والے اور اس کی شکر گزاری ادا کرنے والے ہم تبھی ہو سکتے ہیں جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات اور توقعات پر پورا اترنے والے ہوں، اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں.ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کو بھلانے والے اور اپنی غفلتوں میں ڈوب جانے والے ہوں گے اور نتیجہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہوں گے.ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں توحید کے قیام کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے آئے تھے اور حقیقی تقویٰ بھی اُسی وقت قائم ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر کامل یقین ہو اور اُس کی رضا مقصود و مطلوب ہواور خدا تعالیٰ کی توحید میں انسان کھویا جائے اور جب یہ ہو جائے تو حقیقی تقویٰ انسان میں پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لا إلهَ إِلَّا اللہ کہیں اور دل میں ہزاروں بت جمع ہوں.بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر ایسا بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے.بہت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں اور اُن پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بت ہے“.( فرمایا: ” یادر ہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس، یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو، منزہ سمجھنا اور اُس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا.کوئی رازق نہ ماننا.کوئی معز اور مُزِل خیال نہ کرنا“.( یعنی یہ ہمیشہ یادرکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بالا ہے اور دنیا کی کوئی چیز ، ہر عزت اور ذلت جو انسان کو ملتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، کوئی انسان نہ کسی کو معزز بناسکتا ہے نہ ذلیل کر سکتا ہے.پس یہ ہے تو حید کا اصل کہ اللہ تعالیٰ ہی کو عزت دینے والا اور ذلت دینے والا سمجھنا.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انسان کو عزتوں کا مالک بھی بناتا ہے اور اگر اُس کے غلط کام ہوں تو اُس کو ذلیل ورسوا بھی کرتا ہے.)
خطبات مسرور جلد 11 268 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء ( پھر فرمایا کہ : ” کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا.( خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی مددگار نہ ہو.) اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اُسی سے خاص کرنا.اپنی عبادت اُسی سے خاص کرنا.اپنا تذلّل اُسی سے خاص کرنا“.( بعض لوگ جو انسانوں کے آگے جھکتے ہیں، فرما یا نہیں ، ہر قسم کی عاجزی اور تذلل صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے ہو.) ''اپنی امیدیں اُسی سے خاص کرنا.اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا.(فرمایا: ) پس کوئی تو حید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہوسکتی.اوّل ذات کے لحاظ سے توحید.یعنی یہ کہ اُس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا“.( یعنی اُن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ) اور تمام کو ہالکتہ الذات اور باطلتہ الحقیقت خیال کرنا.( یعنی ہر چیز اپنی ذات میں فتا ہونے والی ہے اور حقیقت میں کسی چیز کی کوئی حیثیت نہیں ہے.) دوم صفات کے لحاظ سے تو حید.یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کے کسی میں قرار نہ دینا“.( پالنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت کے لائق بھی صرف وہی ہے.اور جو بظا ہر ربّ الانواع یا فیض رسان نظر آتے ہیں.( جو لوگ بظاہر فائدہ دیتے ہیں، دنیاوی فائدے لوگوں سے پہنچتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ذریعہ بنایا ہوا ہے اُن سے فائدے بھی پہنچتے ہیں، وہ پرورش کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں) یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا.( اُن کے بارے میں یہ سمجھنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے.اللہ تعالیٰ نے کسی کو ذریعہ بنایا ہے، نہ کہ وہ خود اُس چیز کو دینے کے مالک ہیں.اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے اور یہ لوگ ذریعہ ہیں.) ( فرمایا: ) " تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے تو حید.یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گردانا.( یعنی یہ جو توحید اور محبت ہے اس میں عبودیت کے جو شعار ہیں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا) اور اسی میں کھوئے جانا“.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 349-350) صرف یہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کا شریک نہیں بنانا بلکہ اس میں کھوئے جانا، اس میں ڈوب جانا، خدا تعالیٰ کی ذات میں اپنے آپ کو فنا کر لینا.پس یہ باتیں اگر ایک مومن میں ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کو یا درکھنے کا حق ادا کرنے والا کہلا سکتا ہے، تقویٰ پر چلنے والا کہلا سکتا ہے.تقویٰ کے کمال کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ یہ فرمایا ہے کہ کمال تقویٰ کا یہی ہے کہ انسان کا اپنا وجود ہی نہ رہے.پھر فرمایا کہ اصل میں یہی
خطبات مسرور جلد 11 269 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 مئی 2013 ء تو حید ہے.جب انسان اس کمال کو حاصل کر لیتا ہے کہ اپنا وجود نہیں رہتا، اللہ کے وجود میں کھویا جاتا ہے، تو یہ تقویٰ کا کمال ہے اور اصل میں یہی تو حید ہے.جب اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ حقیقی توحید کا ماننے والا کہلاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر چیز پر مقدم کر لینا یہی تقویٰ ہے اور یہی تو حید پر قائم ہونا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں سفر پر بھی جارہا ہوں، دعا کریں اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 24 مئی 2013 ء تا 30 مئی 2013 ء جلد 20 شمارہ 21 صفحہ 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد 11 270 19 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10 رمئی 2013 ء بمطابق 10 ہجرت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الحمید.چینو.لاس اینجلس ( کیلیفورنیا.امریکہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہمارا یہ دعوی ہے کہ احمدیت نے انشاء اللہ تعالیٰ دنیا پر غالب آنا ہے.احمدیت اسلام سے کوئی علیحدہ چیز نہیں.اصل میں حقیقی اسلام ہی احمدیت ہے یا احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے.ہمارے مخالفین چاہے جتنا مرضی شور مچاتے رہیں کہ احمدی مسلمان نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہر آن ہمیں من حیث الجماعت یہ تسلی دلاتی رہتی ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور دنیا کو حقیقی اسلامی تعلیم اگر کہیں مل سکتی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق سے مل سکتی ہے.اُس امام الزمان سے مل سکتی ہے، اُس مسیح موعود اور مہدی معہود سے مل سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مقرر فرمایا ہے.یا جس کے ذریعہ سے اسلام کا احیائے کو ہونا ہے.پس چاہے اسلامی ممالک ہیں یا غیر اسلامی دنیا ہے، حقیقی اسلام کی تعلیم اور اسلام کا حقیقی پیغام دنیا کو دینا اب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ ہی مقدر فرما دیا ہے.آج نہیں تو کل دنیا جان لے گی کہ جماعت احمدیہ ہی حقیقی مسلمان ہے اور حقیقت میں اسلام کی نمائندہ جماعت ہے.دو دن پہلے لاس اینجلس ٹائم کی نمائندہ آئی تھیں، انہوں نے سوال کیا کہ تم تو معمولی تعداد میں ہو، امریکہ میں اتنے لوگ جانتے بھی نہیں ، تو کس طرح یہ امن کا پیغام جس کا تم دعوی کرتے ہو کہ حقیقی اسلام کا پیغام ہے، ملک میں پھیلا سکتے ہو.تو میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ امریکہ کا سوال نہیں ، امریکہ میں بھی اور تمام دنیا میں بھی ہم ایک دن انشاء اللہ تعالیٰ تمہارے یا تمہاری نسلوں کے دل جیت کر اسلام کی آغوش میں لائیں گے.میرا خیال تھا
خطبات مسرور جلد 11 271 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء کہ اس پر شاید وہ کسی اور رنگ میں کچھ نہ لکھ دیں لیکن آج ابھی جمعہ پر آنے سے پہلے میں نے جب یہ رپورٹ پڑھی ، انٹرویو پڑھا ہے، اُس میں انہوں نے تقریباً صحیح رنگ میں ہی ساری باتیں بیان کی ہیں.حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر جس طرح ہمیشہ انبیاء کی تائید و نصرت فرماتی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی اُس کے یہی وعدے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہر آن ہمیں اس کے نظارے دکھا رہی ہے اور ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی الفاظ كتب الله لاغلِبَنَ أَنَا وَرُسُلِي (المجادلہ : 22) - کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب آئیں گے کو جس طرح ہمیشہ سچ کر دکھایا ہے.آج جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا ہے، آپ کو بھی انہی الفاظ میں تسلی دلائی ہے اور الہام فرمایا ہے تو یہ بھی ضرور اللہ تعالیٰ سچ کر کے دکھائے گا.کیونکہ آپ ہی اس زمانے میں قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوئے ہیں.پس یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے دین کو پھیلانے کے لئے اپنے مقرر کردہ فرستادہ کی تائید و نصرت کے سامان نہ فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدا نے ابتداء سے ہی لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے.پس چونکہ میں اُس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اُس نبی کریم خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نام پاکر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں، اس لئے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا ( نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 380-381) نکلے گا.آپ فرماتے ہیں: ” کیا یہ لوگ اپنی روگردانی سے خدا کے بچے ارادہ کو روک دیں گے جو ابتداء سے تمام نبی اس پر گواہی دیتے آئے ہیں.نہیں، بلکہ خدا کی یہ پیشگوئی عنقریب سچی ہونے والی ہے کہ كتب الله لاغلِبَنَّ انَا وَرُسُلِى (المجادله : 22) کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 8) پس مجھے تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے رتی بھر بھی شک نہیں ہے اور نہ ہی کسی بچے احمدی کو ہوسکتا ہے کہ نعوذ باللہ جماعت کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات سے محروم رہ جائے گی، یا یہ غلبہ نہیں ہوگا.یہاں ہر احمدی پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ یہ غلبہ کیا ہے.کیا حکومتوں پر قبضہ کرنا یہ غلبہ ہے؟ یا ہر ملک میں
خطبات مسرور جلد 11 272 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء احمدیوں کی اکثریت ہو جانا یہ غلبہ ہے؟ یہ بھی غلبہ کی ایک قسم ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ غلبہ دوطرح سے اور دوطریقوں سے ہوتا ہے.ایک حصہ اُس کا نبی کے زمانے میں ہوتا ہے اور نبی کے ذریعہ سے ہوتا ہے.اور دوسرا نبی کے بعد جو نبی کی تعلیم پھیلانے کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے ،لیکن ہوتا نبی کے بعد میں ہے.اس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے کہ : ”خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے.“ یہ ایک غلبہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو عطا فرماتا ہے.فرمایا کہ : ” اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں، اُس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.“ (رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304) پس نبی کے ذریعہ سے غلبہ یہ ہے.خدا تعالیٰ کے وجود کا دنیا کو پتہ چل جاتا ہے کہ خدا ہے.دنیا کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ دلائل اور برہان جو نبی دے رہا ہے، خدا تعالیٰ کی خاص تائید سے اُسے ملے ہیں.نبی کے علم و عرفان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.پھر ایسے نشانات اُس کی تائید میں آتے ہیں جن سے سچائی ظاہر ہوتی ہے.بیشک انبیاء کے مخالفین ان کی مخالفتوں میں بڑھ جائیں لیکن دلائل اور نشانات کو جھٹلا نہیں سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین جو ضدی تھے ، اپنے باپ دادا کے طرز عمل پر زندگی گزارنا چاہتے تھے، ان کے پاس دلیل تو کوئی نہیں تھی.بس ضد تھی اور ہٹ دھرمی تھی.اسی طرح برہان و دلائل سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں آپ کے مخالفین کے پاس نہ آپ کے وقت میں کوئی رڈ تھا، دلیل تھی اور نہ آج ہے.اسی طرح نشانات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں چاند اور سورج کے گرہن کا نشان ہے.پہلے نام نہاد علماء اس کا مطالبہ کرتے تھے کہ مہدی اور مسیح کے آنے کی نشانی چاند اور سورج گرہن ہے.جب یہ ظاہر ہو گیا تو تاویلیں کرنی شروع کر دیں.پھر زلزلوں کے نشانات ہیں.اس کے علاوہ بیشمار نشانات ہیں.جنہوں نے نہیں ماننا، وہ نہیں مانتے.لیکن سعید فطرت لوگ جماعت میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں.جو تخمریزی اور پیج نبی نے ڈالنا ہوتا ہے وہ ڈال دیتا ہے.جو سچی تعلیم دنیا کو بتانی ہو وہ بتا دیتا ہے.جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنا اثر دکھاتی رہتی ہے.یہی حضرت مسیح موعود سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہوا.اور آپ کا یہ پھینکا ہوا پیج اپنے وقت پر لہلہاتی ہوئی فصل بن کر ظاہر ہوتا رہا اور ہو رہا ہے.پس یہ غلبہ کی ایک قسم ہے.بیشک آپ کی زندگی میں چند لا کھ لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت
خطبات مسرور جلد 11 273 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء کی لیکن یہ غلبہ ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بے حساب نشانات آپ کے حق میں ظاہر ہوئے اور علمی اور روحانی لحاظ سے بھی آپ کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا.پھر غلبہ کا دوسرا حصہ ہے، جیسا کہ میں نے کہا، وہ نبی کی وفات کے بعد شروع ہوتا ہے.اصل میں تو یہ بھی نبی کے دلائل اور خدا تعالیٰ کے نشانات کے ظاہر ہونے کا تسلسل ہی ہے لیکن یہ نبی کی زندگی کے بعد ہوتا ہے.گودشمن سمجھتا ہے کہ نبی فوت ہو گیا کہ جس شخص نے دعوی کیا تھا وہ فوت ہو گیا.جس نے جماعت بنائی تھی وہ اس دنیا سے گزر گیا.اب ہم دوبارہ اُس کی بنائی ہوئی جماعت کو زیر کرلیں گے، اپنے میں شامل کر لیں گے.اس جماعت میں شامل لوگوں کو مفسدانہ خیالات پھیلا کر جماعت سے دور کر لیں گے کیونکہ اب ان کو سنبھالنے والا کوئی نہیں.جو نبی کو عارضی غلبہ ملا تھا وہ اب اپنے خاتمے کو پہنچ جائے گا.یہ دشمنوں کی سوچ ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالفین نے بھی یہی سمجھا تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اس بارے میں پہلے ہی بتادیا تھا کہ پہلے انبیاء کی طرح میرا غلبہ بھی وہ غلبہ ہوگا اور خدا تعالیٰ کے جو وعدے ہیں، جب تک وہ پورے نہیں ہوتے ، وہ غلبہ ہوتا چلا جائے گا.پس یہ آپ نے فرمایا کہ میں فوت بھی ہو جاؤں تو پریشان نہ ہونا.میں نے جو بیج ڈالا ہے، جو تخم ریزی کی ہے اُس نے تناور پھل دار درختوں کا ایک سلسلہ بنا ہے جو دوسری قدرت یعنی خلافت کے ذریعہ سے قائم رہے گا تا کہ غلبہ کا وعدہ پورا ہوتا رہے.پس غلبہ کا ایک حصہ جس طرح انبیاء کی زندگی میں اور ایک حصہ اُن کی زندگی کے بعد پورا ہوتا ہے، اسی طرح جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود سے کئے گئے وعدے کے دوسرے حصہ کو بھی پورا ہوتا دیکھ رہی ہے.بیشک جماعت کی ترقی اور غلبہ تو ہونا ہی ہے،جیسا کہ پہلے میں نے بتایا، عددی لحاظ سے، تعداد کے لحاظ سے بھی ہوگا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ بھی ہورہا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری ذمہ داری بھی بتائی ہے کہ کس طرح ہم اس غلبہ کا حصہ نسلاً بعد نسل بن سکتے ہیں.اور یہ ذمہ داریاں وہی ہیں جو قرآنِ کریم نے ہمیں بتائی ہیں کہ تقویٰ پر قدم مارو.اپنے نفسوں کی اصلاح کروا اپنی روحانی اور اخلاقی حالت کے جائزے لو اس پیغام کو اور اس مشن کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد کیا گیا ہے، پورا کرو.آپ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں دنیا میں خدائے واحد کی حکومت قائم کرنے آئے تھے.دنیا کو شرک سے پاک کرنے آئے تھے.آپ فرماتے ہیں:
خطبات مسرور جلد 11 66 274 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.“ (رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-307) پس دنیا کو تو حید پر قائم کرنے اور دین واحد پر جمع کرنے کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے وہ ایک تو تبلیغ ہے، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے.دوسرے اپنے اخلاق کو اعلیٰ سطح پر لے جانا ہے تیسرے دعاؤں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے مدد چاہنا ہے.پس آج ہر احمدی کو، ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کرتا ہے اس ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ اُس مقصد کے حصول کا ذریعہ بن سکے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھیجے گئے تھے.بیشک نشانات و براهین خدا تعالیٰ نے عطا فرمائے اور آج تک ان نشانات کے ذریعہ ہی ہم احمدیت کی ترقی دیکھ رہے ہیں.اگر اپنی کوشش دیکھیں تو ہزارواں لاکھواں حصہ بھی نہیں اُن انعامات اور فضلوں کا جو اللہ تعالیٰ جماعت پر فرما رہا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے ہماری ذمہ داری بتائی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرف ہمیں توجہ دلائی ہے.اگر ہم میں سے ہر ایک اس طرف توجہ نہیں کرے گا تو اُن فضلوں کا وارث نہیں بن سکے گا جو آپ علیہ السلام کی جماعت کا فعال حصہ بننے سے وابستہ ہیں.پس ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.بیشک پھل ہماری کوشش سے نہیں لگ رہے، انعامات ہماری کوشش سے نہیں مل رہے.یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں.اُس خدا کے فضل ہیں جو اپنے پیاروں کی ہمیشہ لاج رکھتا ہے، جو جب کسی کو اپنے اذنِ خاص سے کھڑا کرتا ہے تو اُس کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو حیرت انگیز طور پر پورا کر کے دشمن کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی جماعت ترقی کی نئی سے نئی منازل طے کرتی چلی جاتی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا، کوشش کا ہمیں بہر حال حکم ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کوشش کرنے والوں کی خصوصیات کا جو قرآنِ کریم میں متعدد جگہ ذکر فرمایا ہے، اُن کا ایک جگہ اس طرح ذکر فرمایا کہ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مَن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِين (حم السجدة : 34).اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجالائے اور کہے کہ میں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.
خطبات مسرور جلد 11 275 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013ء پس یہ باتیں ہیں، یعنی دعوت الی اللہ یا تبلیغ ، اپنے اعمال کی طرف نگاہ رکھنا، نیک اعمال بجالا نا، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کامل فرمانبرداری کرنا، اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق ان حقوق کی ادائیگی کرنا.کیونکہ تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اپنے اعمال پر نظر رکھتے ہوئے اُن کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق نہ ڈھالا جائے.اور پھر ان کی ادائیگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کو جب تک مڈ نظر نہ رکھا جائے.جب ایک احمدی اپنے اجلاسوں اور اجتماعوں میں یہ عہد کرتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.تو پھر اس کا مکمل پاس کرنا بھی ضروری ہے.تبھی ہمارے نمونے دیکھتے ہوئے دنیا ہماری طرف متوجہ ہو گی.جب خلفاء دنیا کو یہ پینج دیتے رہے یا اب میں جب دنیا کو یہ کہتا ہوں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے پیغام کو بغیر تھکے دنیا تک پہنچاتے چلے جائیں گے اور ایک دن دنیا کا دل جیت کر اُن کو اسلام کی آغوش میں لے آئیں گے.تو اس حسنِ ظن کے ساتھ یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اعمال کی خوبصورتی اور خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرتے ہوئے افراد جماعت کی روحانی ترقی کے معیار نہ صرف قائم رہیں گے بلکہ بہتر سے بہتر ہوتے چلے جائیں گے.اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو ، آپ علیہ السلام کے مشن کو ، ایک لگن کے ساتھ آگے چلاتے چلے جائیں گے.بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہو جودین کا علم حاصل کرنے والا ہو.تفقہ فی الدین رکھتا ہواور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو اپنے ہم قوموں کو اور دنیا کو پہنچاتا چلا جائے ، لیکن مومنین کو بھی حکم ہے دعوت الی اللہ کرو.اگر ہمارے پاس مبلغین کی فی الحال کمی ہے تو ہم انتظار نہیں کر سکتے کہ وہ تیار ہوں گے تو پھر تبلیغ کے کام آگے بڑھیں گے تبلیغ کے کاموں کو آگے بڑھاتے چلے جانے کے لئے ہمیں ہر جگہ سے ایسے گروہ نکالنے ہوں گے جو خدا تعالیٰ کے پیغام کو آگے بڑھاتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں افراد جماعت کا ایک طبقہ ایسا ہے جو تبلیغ کا شوق بھی رکھتا ہے اور اس کے لئے وقت بھی دیتا ہے.امریکہ میں بھی ایسے لوگ ہیں، باوجود اس کے کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں معاشی حالات کی سختی کی وجہ سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے دنیا کمانے کی طرف رجحان زیادہ ہے.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک گروہ یہاں بھی ایسا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد پر ایسے احسن رنگ میں عمل کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور اُن کے لئے دعائیں بھی نکلتی ہیں.بعض ایسے لوگ مجھے ملے ہیں جو چھوٹی موٹی دکانداری کرتے ہیں، سٹال لگاتے ہیں لیکن اس سٹال کے ساتھ بھی انہوں نے تبلیغ جاری رکھی ہوئی ہے.انہوں نے سٹالوں کو بھی تبلیغ کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 276 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013ء پہلے اُن کو شکوہ تھا کہ لٹریچر نہیں ملتا.اب کہتے ہیں کہ اس علاقے کے لئے سپینش زبان میں لٹریچر تو ہمیں مل جاتا ہے لیکن اس میدان میں وسعت آنے سے جو لٹریچر کے ذریعہ سے آرہی ہے، اب اُن کا مطالبہ یہ ہے اور اس کے لئے اُن کے دل میں تڑپ ہے اور لگن ہے کہ ہمیں جلد از جلد سپینش بولنے اور دینی علم رکھنے والے مبلغین بھی چاہئیں.جماعت اپنے وسائل کے مطابق انشاء اللہ تعالیٰ کوشش کر رہی ہے کہ مبلغ دے لیکن اگر اتنی ڈیمانڈ ہے تو جماعتوں کو بھی اپنے بچوں اور نو جوانوں میں یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو دینی علم سیکھنے کے لئے جامعہ احمدیہ میں جانے کے لئے پیش کریں تا کہ یہاں کے مقامی ماحول اور زبان کے لحاظ سے اُن کو پیغام پہنچانے والے مہیا ہو سکیں.یہ جذ بہ اور تبلیغ کا جوش یہاں کے صرف پرانے احمدیوں اور بڑی عمر کے لوگوں میں نہیں ہے بلکہ بعض نوجوانوں میں بھی میں نے دیکھا ہے.بلکہ یہاں ایک نواحمدی ہیں جو شاید بے پوائنٹ (Bay Point) کے علاقے میں رہتے ہیں، مجھے ملنے آئے تو بڑے جوشیلے تھے کہ کس طرح ان لوگوں کو جو مقامی سپینش اور یجن (Origin) کے ہیں احمدیت اور حقیقی اسلام پہنچایا جائے اور جلد سے جلد پہنچایا جائے.کہنے لگے کہ تبلیغ کرتا ہوں مجھے بائبل تو چالیس فیصد یاد ہے اور اب میں قرآنِ کریم کے دلائل بھی یاد کر رہا ہوں.اور یہ اُن لوگوں کے لئے بھی پیغام ہے جو پرانے احمدی ہیں اور اس طرف توجہ نہیں دیتے.بقول اُن نواحمدی کے اب عیسائیت سے لوگ دور جارہے ہیں لیکن مذہب سے نہیں ، خدا تعالیٰ سے نہیں.اُن کو خدا کی تلاش ہے اس لئے اس خلاء کو پورا کرنے کے لئے ہمیں آگے آنا چاہئے.اُن کو نیچے مذہب سے روشناس کروانے کے لئے ، انہیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے ہمیں بہت زیادہ تبلیغ کی ضرورت ہے.بہر حال اُن کے جوش کو دیکھتے ہوئے اور خود مجھے بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی تھی میں نے مشنری انچارج صاحب سے بھی اس بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے کہ یہاں کے لئے سکیم بنا ئیں.امیر صاحب کو بھی کہا ہے.لیکن اگر ذیلی تنظیمیں بھی جماعتی نظام کے ساتھ مل کر ایک کوشش کریں اور وقف عارضی کی سکیمیں بنائیں اور جن علاقوں میں میدان سازگار ہیں وہاں زیادہ کام کریں تو ایک دفعہ کم از کم اس علاقے کے ہسپانوی لوگوں میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا تعارف ہو جائے گا اور ہمیں یہ کروانا بہت ضروری ہے.مطالبات تو اب اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اب یہ فکر نہیں کہ تعارف کس طرح کروایا جائے.اللہ تعالیٰ نے ایسے راستے کھول دیئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.نہ صرف امریکہ میں بلکہ ساؤتھ امریکہ کے ملکوں میں گوئٹے مالا کے ہمارے احمدی ہیں، یہاں آئے ہوئے ہیں، بڑے پر جوش داعی الی اللہ ہیں.کہنے لگے کہ ہمیں مبلغین دیں اور لٹریچر دیں جو مقامی سپینش زبان
خطبات مسرور جلد 11 277 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء کے مطابق ہو.کیونکہ ان کی سپینش اور سپین میں بولی جانے والی سپینش میں بعض جگہ بعض الفاظ میں کافی فرق ہے.اور ہمارالٹریچر عموماً پین میں تیار ہوتا ہے.تو جب میں نے انہیں کہا کہ پین پر توجہ ہے، وہاں کا لٹریچر فی الحال استعمال کریں تو کہنے لگے کہ آپ کو وہاں کی فکر ہے جہاں صرف چالیس ملین لوگ آباد ہیں اور یہاں چار سوملین سپینش بولنے والے ہیں ان کی آپ کو فکر نہیں ہے.تو یہ ہیں وہ حقیقی مددگار اور داعین الی اللہ جو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرما رہا ہے.پس اب لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر زمینیں بھی ہموار کرتی چلی جارہی ہے.امریکہ میں بھی اور ساتھ کے ہمسایہ ملکوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہوا چلا دی ہے.یہی کہا جاتا ہے کہ کیلیفورنیا میں تو اب ہسپانوی لوگوں کی اکثریت ہو چکی ہے جن میں بظاہر یہ لگتا ہے کہ مذہب کی طرف رجحان بھی ہے، لیکن اب ان کو سچے مذہب کی تلاش ہے.پس اس علاقے کے لئے ایک خاص پروگرام بننا چاہئے اور یہاں رہنے والوں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.فی الحال جولٹریچر مہیا ہے اُسی کو استعمال کریں، اُسی سے استفادہ کریں اور جلد از جلد یہاں کی زبان کے مطابق بھی لٹریچر کو ڈھالنے کی کوشش کریں.مجھے اپنی اس سوچ کو کہ یہاں احمدیت کے لئے میدان وسیع ہے اُس وقت بھی مزید تقویت ملی جب ہمارے مبلغ اظہر حنیف صاحب کا ایک خط یہاں آنے سے کچھ دن پہلے میرے سامنے آیا جس میں انہوں نے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک رؤیا کے بارے میں لکھا تھا، جس کو انہوں نے غالباً اپنے کسی خطبے میں بیان کیا تھا.اس وقت وہ خط تو میرے سامنے نہیں ہے لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے رویا یہ تھی.انہوں نے دیکھا تھا کہ لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو احمد یوں کا ہے اور وہاں حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کہتے ہیں کہ مجھے یہ لگا کہ وہ علاقہ ایسا ہے جیسالاس اینجلس کا علاقہ ہے.پس اگر ہم کوشش کریں.ہم میں سے ہر ایک اس کوشش میں لگ جائے، حقیقی انقلاب اُس وقت آتا ہے، یا جلد اُس کے آثار شروع ہوتے ہیں جب لوگ بھی اُس کے لئے کوشش کریں.تو یہ تو یقیناً الہی تقدیر ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کئے گئے غلبہ کے وعدے کو پورا فرمانا ہے لیکن اگر ہم اس وعدے کے پورا ہونے کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو پھر یہاں رہنے والے ہر احمدی کو اپنی سوچوں کا دھارا اُس کے مطابق کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.بعض لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں اور اُن کی سوچ صرف اپنی کم ہمتی کی وجہ سے ہے کہ یہ دنیا دار لوگ ہیں، ان کو دین سے کوئی غرض نہیں.یہاں تو دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے.یہاں تو دنیا کی ہاؤہو بہت ہے.ٹھیک ہے یہ سب کچھ ہے لیکن ایک بہت بڑا طبقہ
خطبات مسرور جلد 11 278 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013ء ہمارا انتظار بھی کر رہا ہے.اور جتنا میں سوچتا ہوں میرے دل میں یہ گڑھتا جا رہا ہے کہ بعید نہیں کہ امریکہ میں احمدیت کا انقلاب اس علاقے سے ہی آئے.پس ہمیں اپنی کمزوریوں کو ان کے کندھے پر رکھ کر بہانے نہیں تلاش کرنے چاہئیں.پس جہاں جماعتی نظام کو بھی ایک خاص پروگرام کے ذریعہ کوشش کرنی چاہئے اور اگر بنایا ہوا ہے تو پھر وہاں ذیلی تنظیموں کو بھی اُس پر عمل درآمد کرنا چاہئے.لیکن یہاں رہنے والے ہر احمدی اور صرف اس اسٹیٹ کے رہنے والے احمدی نہیں بلکہ پورے ملک میں رہنے والے احمدی کی یہ ذمہ داری بھی ہے اور اُس کا عہد بیعت یہ ذمہ داری اُس پر ڈالتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والوں کی ذمہ داری جو خدا تعالیٰ نے بتائی ہے، یعنی اعمالِ صالحہ بجالا نا اور کامل فرمانبرداری کا اظہار، اُس کی طرف بھی توجہ دیں.اس کے حصول کی کوشش کریں اور یہ کس طرح ہوگا ؟ اس کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف دیکھنا ہوگا کہ وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں.وہ ہمیں کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں.صرف یہ کہ کر کہ ہم تو دنیا دار ہیں ، ہم تو کمزور ہیں ، ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے بیعت کر لی اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جواب دہی سے بچ نہیں سکتے.بیشک ہر احمدی مسلمان دوسرے مسلمانوں کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر بہتر حالت میں ہے اور نبی کے انکار کا جو گناہ ہے اُس سے بچا ہوا ہے.لیکن حقیقی مومن وہ ہے جو ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے.آسلمنا سے نکل کر ایمان کی ترقی کے لئے کوشاں رہتا ہے.ظاہری فرمانبرداری سے نکل کر کامل فرمانبرداری کے حصول کی کوشش کرتا ہے.یہاں بہت سے احمدی ایسے ہیں جن کے خاندانوں میں احمدیت اُن کے باپ دادا کے زمانے سے ہے.اُن بزرگوں نے آسلمنا سے بہت آگے نکل کر امنا کے نظارے دکھائے ، حیرت انگیز قربانیاں کیں.پس اُن کی قربانیوں اور اُن کی خواہشات کا احترام کرنا بھی اُن کی اولادوں پر فرض ہے.جب اُن کی خواہشات کا احترام ہوگا تو پھر اُن کی دعاؤں کے بھی آپ وارث بنیں گے.پس یہاں پرانے رہنے والے اس لحاظ سے بھی اپنے جائزے لیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کا حق بھی ادا کرنا ہے.اس کے علاوہ یہاں افراد جماعت کا ایک ایسا طبقہ بھی آیا ہے جو گزشتہ چند سالوں سے یہاں آنا شروع ہوا ہے،صرف اس لئے کہ اُن کے اپنے ملک میں اُن کے لئے حالات تنگ کر دیئے گئے.یہاں اُن کو ان مغربی ممالک میں یا مغربی ممالک کی حکومتیں جس میں امریکہ بھی شامل ہے صرف اس لئے شہری حقوق دے رہی ہیں اور اپنے آپ میں جذب کر رہی ہیں کہ بحیثیت احمدی اُنہیں اُن کے اپنے ملک میں شہری حقوق
خطبات مسرور جلد 11 279 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء سے محروم کر دیا گیا ہے اور نہ صرف شہری حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے بلکہ فلموں کی چکی میں پیسا جارہا ہے.پس یہاں آپ کا آنا جماعت احمدیہ کا فرد ہونے کی وجہ سے ہے.اور یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک عملی احمدی ہونے کا نمونہ بھی دکھا ئیں.یہاں میں پھر اس بات کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ یہاں جو اسائلم سیکر ہیں یا ریفیوجی بن کر آئے ہوئے ہیں، کام نہ ہونے کی وجہ سے پریشان بھی رہتے ہیں، کام کی تلاش تو وہ کریں لیکن جو بھی فارغ وقت ہے اُس میں لٹریچر لے کر باہر نکل جائیں اور تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیں.گھر بیٹھنے سے تو مزید ڈ پریشن ہوتا ہے، اُس سے بھی بچ جائیں گے، اُس سے جان چھوٹے گی اور بعید نہیں کہ اس برکت سے اللہ تعالیٰ حالات بھی بہتر کر دے اور انشاء اللہ کر دے گا.بہر حال اب میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس قسم کی جماعت دیکھنا چاہتے ہیں یا ہم سے کیا تو قعات رکھتے ہیں.سب سے پہلی بات تو آپ نے یہ بیان فرمائی کہ یہ سلسلہ اس لئے قائم ہوا ہے تا اللہ تعالیٰ پر (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 652 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) ایمان بڑھے.آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان، تدبر اور غور سے بڑھتا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 652 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس ہمیں اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑھانے کے لئے سب سے پہلے تو اُس کی کتاب قرآنِ کریم کو با قاعدہ پڑھنا چاہئے اور اس پر غور کرنا چاہئے.جتنا وسیع لٹریچر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں اُس کو نہ پڑھ کر ہم اپنے آپ کو محروم کر رہے ہیں اور یہ محرومی بھی ایمان میں کمزوری کا باعث بنتی ہے.پس اس طرف بھی ہمیں توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ ایمان نشانات سے بھی بڑھتا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 652 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نشان کے طور پر یہ بھی الہام فرمایا تھا کہ تیرے پاس دور دراز سے اور کثرت سے لوگ آئیں گے.(ماخوذ از تذکرہ صفحہ نمبر 139 ایڈیشن چہارم مطبوعه ربوہ) اور یہ نظارے ہم نے آپ کی زندگی میں دیکھے اور تاریخ نے اس کو محفوظ کیا.اور یہی نہیں بلکہ ہر سال، ہر ملک کے جلسہ میں یہ نظارے ہم دیکھتے ہیں اور آج بھی یہ نظارہ نظر آ رہا ہے کہ ملک کے طول وعرض سے صرف جمعہ پڑھنے کے لئے سفری صعوبتیں برداشت کر کے اور خرچ کر کے لوگ آئے ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 280 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء صرف اس وجہ سے کہ خلیفہ وقت یہاں آیا ہوا ہے.اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کی وجہ سے ہے جو اُن کا خلافت سے تعلق ہے.پس اگر دیکھنے والی آنکھ یہ دیکھے اور ہر دل اور دماغ جو غور کرنے والا اور تدبر کرنے والا ہے اس بات کو اپنے سامنے رکھے تو اللہ تعالیٰ کی ہستی اور جماعت کی سچائی پر ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے.پھر آپ نے ایک بچے احمدی کی یہ نشانی بتائی کہ آپ کی بیعت میں آنے کے بعد اُس میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھے.آپ فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا ہے کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 402 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس ہم میں سے ہر ایک کو جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت نے ہم میں کس قدر ترقی کی ہے.کیا وہ اعمالِ صالحہ جن کے بجالانے کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں حکم دیا ہے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ہم بجالا رہے ہیں؟ یا اُنہیں تلاش کر کے بجالانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ابھی ہم اسلمنا کے دائرے میں ہی پھر رہے ہیں.جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم ایمان میں ترقی کریں، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ہم سے یہ مطالبہ ہے کہ ہم ایمانوں میں مضبوط ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت ہمارے شامل حال ہو گی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور سچی اتباع کریں.قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بناویں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں.یعنی عمل، ہماری عملی حالتیں ایسی ہو جائیں کہ یہ ثابت ہو کہ ہم ان باتوں پر عمل کر رہے ہیں.فرمایا ” نہ صرف قال سے.صرف زبانی باتیں نہ ہوں.اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقیناً یا درکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے.اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہوگا.لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے نافرمان اور اُس سے قطع تعلق کر چکے ہیں تو ہماری ہلاکت کے لئے کسی کو منصوبہ کرنے کی ضرورت نہیں کسی مخالفت کی حاجت نہیں.وہ سب سے پہلے خود ہم کو ہلاک کر دے گا.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 146 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 281 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء پھر آپ فرماتے ہیں : خوب یاد رکھو کہ اگر تقویٰ اختیار نہ کرو گے اور اُس نیکی سے جسے خدا چاہتا ہے کثیر حصہ نہ لو گے تو اللہ تعالیٰ سب سے اول تم ہی کو ہلاک کرے گا.کیونکہ تم نے ایک سچائی کو مانا ہے اور پھر عملی طور سے اُس کے منکر ہوتے ہو.اس بات پر ہر گز بھروسہ نہ کرو اور مغرور مت ہو کہ بیعت کر لی ہے.جب تک پورا تقویٰ اختیار نہ کرو گے، ہرگز نہ بچو گے.خدا تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں.نہ اُس کو کسی کی رعایت منظور ہے.جو ہمارے مخالف ہیں وہ بھی اُسی کی پیدائش ہیں اور تم بھی اُسی کی مخلوق ہو.صرف اعتقادی بات ہرگز کام نہ آوے گی جب تک تمہارا قول اور فعل ایک نہ ہو.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 112 ایڈیشن 2003ء مطبوعد ربوہ ) پھر آپ جماعت کو تقویٰ میں بڑھنے ، اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ دینے ، دعاؤں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : نرا بدیوں سے بچنا کوئی کمال نہیں.ہماری جماعت کو چاہیے کہ اسی پر بس نہ کرے نہیں بلکہ انہیں دونو کمال حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے جس کے لئے مجاہدہ اور دعا سے کام لیں.یعنی بدیوں سے بچیں اور نیکیاں کریں.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 663 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) انسان دوسرے انسان پر اپنے عمل سے اثر انداز ہوتا ہے.اس لئے آپ نے فرمایا کہ تمہارا قول وفعل ایک ہونا چاہئے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کرنے والوں کو نیک اعمال بجالانے کی طرف توجہ دلائی ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں : نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنی پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو.یہ میری نصیحت ہے، اس کو یا درکھو.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 185 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس دنیا پر سلسلہ کی سچائی اُس وقت ثابت ہوگی جب ہمارے اندرو باہر ایک ہوجائیں گے.ہمارا قول وفعل ایک ہوگا.جب ہم نئے آنے والوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم بتا کر اپنے میں شامل کریں گے.پھر رنگ ،نسل، قوم کے فرق کو مٹا کر صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ہمیں ہر ایک کو بھائیوں کی طرح گلے سے لگانا ہوگا.اپنے عزیزوں کی طرح اُن سے سلوک کرنا ہو گا.بہت سے افریقن امیریکن گزشتہ زمانوں میں احمدی ہوئے ، جن کی آئندہ نسلیں جماعت سے دور ہو گئیں اور جو وجوہات ہیں اُن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے جو شکوہ رہتا ہے، جب اکثر میں نے پوچھا ہے کہ پاکستانیوں احمدیوں کی اکثریت نے انہیں اپنے اندر صحیح جذب نہیں کیا.اسلام کی تعلیم تو بتائی لیکن اپنے عمل اُس کے مطابق نہیں رکھے.گو یہ دور ہٹنے والوں
خطبات مسرور جلد 11 282 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 10 مئی 2013 ء کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایمان کے بجائے لوگوں کی طرف توجہ دیتے رہے، اشخاص کو دیکھتے رہے.لیکن اُن کی ٹھوکر کا موجب بنے والے بھی اس بدقسمتی کا حصہ بن گئے.پس اس طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے.ایک آخری اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولتمند اور خوش خور ہوں.بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لئے ہو جاتے ہیں.پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو، نہ پہلے امر کی طرف.فرمایا: در منجملہ اُس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے جو فرمایا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ (آل عمران 56 ).اور جو تیرے پیرو ہیں، انہیں اُن لوگوں پر جو جو منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا.فرمایا: ”یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا.جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہو سکتا.پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا.ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقش قدم پر چلے ، اُس وقت تک اتباع کا لفظ بھی صادق نہیں آتا.فرمایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لئے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو.اس سے مجھے تسلی ملتی ہے اور میر اغم امید سے بدل جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 596 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کامل پیروی کرنے والی جماعت بنانے کی فکر تھی اور اس غم سے آپ بے چین ہوتے تھے لیکن آپ فرماتے ہیں کہ قیامت تک ایسے لوگ پیدا ہوتے چلے جانے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا ہے.اس لئے مجھے امید بھی ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے کامل پیروی کرنے والے مخلصین عطا فرما تا رہا اور فرما بھی رہا ہے.لیکن ہمیں اپنی فکر ضرور کرنی چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک وہ معیار حاصل کرنے والا ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ یہ معیار حاصل کرنے کی ہمیں تو فیق عطا فرمائے تا کہ ہم احمدیت کے غلبہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ہوں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 31 مئی 2013 ء تا 6 جون 2013 ، جلد 20 شماره 22 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 283 20 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013 ء بمطابق 17 ہجرت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الرحمن.وینکوور ( کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَالَّى الزكوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللهَ فَعَسَى أُولئِكَ اَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ - (التوبة: 18) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ : اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے.پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا کے اس صوبے میں جو برٹش کولمبیا کہلاتا ہے، جماعت احمدیہ کو اپنی مسجد بنانے کی توفیق مل رہی ہے.گو یہاں آپ میں سے بعض خاندانوں کو آئے چالیس سال سے اوپر شاید پچاس سال بھی ہو گئے ہوں، بہر حال چھپیں سال سے تیس سال کے عرصہ سے یہاں رہنے والے تو شاید کافی تعداد میں ہیں، لیکن مسجد بنانے کی توفیق آپ کو اب مل رہی ہے.گو ایک سینٹر قائم تھا، نمازیں پڑھنے کا ہال اور مشن ہاؤس تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ باقاعدہ مسجد کی طرف توجہ کم رہی.گو کچھ حد تک تربیت کے لحاظ سے اور جماعت کے ایک جگہ جمع ہونے کے لحاظ سے ضرورت تو پوری ہوتی رہی لیکن مسجد کی ایک اپنی اہمیت ہے.مسجد کے مناروں اور گنبد اور عمارت کا ایک الگ اثر افراد جماعت پر بھی اور اردگرد کے ماحول پر بھی اور غیروں پر بھی ہوتا ہے.اسلام کے تعارف کے نئے نئے راستے کھلتے ہیں تبلیغ کے لئے نئے رابطے پیدا ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مساجد کی تعمیر کی طرف بہت توجہ دلائی ہے کہ اس طرح جہاں جماعت کی اکائی قائم ہوگی وہاں تبلیغ میں بھی وسعت پیدا ہوگی.
خطبات مسرور جلد 11 284 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013ء بیشک آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ چاہے غریباندی، چھوٹی سی مسجد ہو، لیکن یہ مسجد بنانا ضروری ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 93 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) اس لئے شاید بعض ذہنوں میں خیال آئے کہ ہم اتنی بڑی مسجد یا مساجد کیوں بناتے ہیں؟ کیونکہ اب بعض جماعتوں کی طرف سے مساجد کا مطالبہ بڑھ رہا ہے.بعضوں کے وسائل پورے نہیں اور مرکزی طور پر فنڈ مہیا کئے جاتے ہیں، تو خیال ہو سکتا ہے کہ چھوٹی مساجد ہوں تو اس رقم میں زیادہ مسجد میں بن سکتی ہیں.لیکن ایک بنیادی اصول اگر ہم اپنے مد نظر رکھیں تو شاید یہ سوال نہ اُبھرے.اور وہ ہے اتما الأَعْمَالُ بِالثِيَاتِ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.وینکوور برٹش کولمبیا کا سب سے بڑا شہر ہے.احمدیوں کی تعداد بھی میرے خیال میں اس صوبے میں اسی شہر میں سب سے زیادہ ہے.اور آپ کی تعداد کے لحاظ سے یہ کوئی بڑی مسجد نہیں ہے.اور پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے جو تبلیغ کے راستے کھول رہا ہے وہ بھی ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہماری جگہیں بھی وسیع ہونی چاہئیں.پھر ہماری جگہوں میں وسعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کے تحت بھی ضروری ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا ہے کہ وسیع مَكَانَكَ “کہ تُو اپنے مکان کو وسیع کر.( تذکرہ صفحہ 246 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) مکانیت کی وسعت صرف گھروں میں مہمان ٹھہرانے کے لئے نہیں ہے.لوگوں کے آنے کی وجہ سے ، جلسہ کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ مساجد کی وسعت کے لئے بھی یہ ضروری ہے، یہ الہام ہے.اور مساجد کی وسعت بھی اسی زمرہ میں آتی ہیں.پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کہہ کر مخاطب فرمایا.(ماخوذ از براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 666 حاشیه در حاشیہ نمبر 4) اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی.خدا تعالیٰ کے سب سے پہلے گھر کو توحید کے قیام کے لئے دوبارہ اُس کی بنیادوں پر استوار کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی یہ دنیا جانے گی اور جان بھی رہی ہے، اور یقیناً اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ آپ کے ذریعہ سے ہوئی اور روحانی لحاظ سے خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد کو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی پورا ہونا ہے اور دنیا نے اس کو جاننا ہے.مساجد جو ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں کہ خدائے واحد کی عبادت کے لئے لوگ جمع ہوں.اس لحاظ سے بھی ہمیں مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.پس جیسا کہ
خطبات مسرور جلد 11 285 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013 ء میں نے کہا کہ اصل چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق وہ نیت ہے جس کے تحت کوئی کام کیا جاتا ہے.اور ہماری نیت اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا، اُس کے پیغام کو پھیلا نا، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے جھنڈے تلے لانا ہے.اپنی حالتوں اور اپنی نسلوں کی حالتوں میں روحانی انقلاب پیدا کرنا ہے.اور یہ انقلاب پیدا کرتے ہوئے ، اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنانا ہے.نمازوں کے قیام کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لانا ہے.مساجد کو اس غرض کے لئے اس طرح بھر دینا ہے کہ وہ اپنی مکانیت کے لحاظ سے چھوٹی نظر آنے لگیں.پس جب یہ نیت ہو تو بظاہر بڑی مساجد جو ہیں وہ دکھاوا نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والی ہوتی ہیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ جو اس علاقے میں رہتے ہیں، جنہوں نے اس مسجد کو آباد کرنا ہے اگر اس نیت سے مسجد کا حق ادا کرنے والے بنیں گے تو جہاں اسلام اور احمدیت کے پیغام کو پھیلانے والے ہوں گے، اپنی روحانی ترقیات میں آگے بڑھنے والے ہوں گے، اپنی نسلوں کو خدائے واحد سے جوڑ کر اُن کی دنیا و عاقبت سنوارنے کا ذریعہ بنیں گے، وہاں اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتے ہوئے اُس کے انعامات کی بارش اپنے پر برستا دیکھنے والے بھی ہوں گے، انشاء اللہ.اور جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستی ہے، جب نیت صرف اور صرف اُس کی رضا کا حصول ہوتی ہے تو پھر ایک ایک شہر میں کئی مساجد بنانے کی بھی توفیق اللہ تعالیٰ دیتا ہے.پس اب آپ کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ اگلی مسجد کی تعمیر کے لئے ہم نے تیس چالیس سال انتظار نہیں کرنا بلکہ اس مسجد اور اس جیسی کئی مساجد کی مکانیت کو چھوٹا کرتے چلے جانا ہے.ہم نے مسجد میں آباد کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کر کے اور اُس کے حکم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر مساجد کی تنگی کو اپنے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وسعت کا ذریعہ بنانا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بڑھاتے چلے جانے کا ذریعہ بنانا ہے.پس اگر آج ہم اس نیت سے اپنی مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں تو یقیناً ہم اب تک اپنی باقاعدہ مسجد نہ بنانے کی کمزوری کا مداوا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے.اور اس ملک میں جن علاقوں میں مسجدیں نہیں ہیں وہاں بھی اس مسجد کے افتتاح کے ساتھ اس کی طرف توجہ پیدا ہوگی ، تو یہی مداوا ہو گا.ہمیشہ یادرکھیں جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ مسجد اپنی ایک اہمیت رکھتی ہے اور سینٹرز اور ہال وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے جو مسجد کا ہے.بیشک جماعت کو ایک جگہ جمع ہو جانے کے لئے جگہ میسر آ جاتی ہے لیکن
خطبات مسرور جلد 11 286 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013ء مسجد کے نام کے ساتھ جو ایک روحانی تعلق پیدا ہوتا ہے، جو جذبات کی کیفیت ہوتی ہے، وہ بغیر با قاعدہ مسجد کے نہیں ہوتی.یہ انسانی نفسیات بھی ہے.پس یہاں اب زمینیں خریدی گئی ہیں، وہاں بجائے صرف سینٹر بنانے کے، ہال بنانے کے، باقاعدہ مسجد بنائیں.کینیڈا میں ایک جماعت کے بارے میں مجھے پتہ چلا کہ اُن کے پاس زمین ہے.جو رقم ہے اُس سے وہ چاہتے ہیں کہ ہال تعمیر کر نا چاہئے لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جب دوبارہ اُن کی رائے لی گئی تو اُن میں سے اکثریت اس بات کی طرف زیادہ رجحان رکھتی ہے کہ مسجد بنائی جائے.اللہ تعالیٰ اُن سب جماعتوں کو اپنی مساجد بنانے کی توفیق دے جہاں جہاں مسجدوں کی تعمیر کے منصوبے زیر نظر ہیں.یقیناً مساجد کی تعمیر کے بعد تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے اور کھلتے ہیں.گزشتہ ماہ بلکہ مارچ کے آخر میں میں نے ویلنشیا کی مسجد کا افتتاح کیا تھا.تو اب جور پورٹس آ رہی ہیں اُس کے مطابق جہاں غیر مسلموں کی اس طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے، اسلام کے بارے میں وہ لوگ جان رہے ہیں وہاں غیر از جماعت مسلمان بھی نمازیں پڑھنے کے لئے آتے ہیں اور جماعت کا تعارف حاصل کر رہے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ انہی میں سے سعید فطرت لوگوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہونے کی اللہ تعالیٰ توفیق بھی عطا فرمائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذمہ خدا تعالیٰ نے جو کام لگائے ہوئے ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو حقیقی اسلام کی تعلیم دی جائے.اس اسلام پر جمع کیا جائے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے.اُس شریعت کو لاگو کیا جائے جو آپ پر اتری تھی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاما فرمایا کہ: سب مسلمانوں کو جوڑوئے زمین پر ہیں جمع کرو، عَلَى دِينِ وَاحِدٍ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ: یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلی دِینِ وَاحِدٍ.یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.پھر آپ علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دے کر فر ما یا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے لئے بھڑکائی ہوئی آگ کو فرمایا تھا کہ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَامًا کہ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کا باعث بن جا.اور وہ بعینہ اسی طرح پورا ہو گیا.آپ نے فرمایا کہ: یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ رُوئے زمین عَلى دِينِ واحد جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے.ہاں اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا ، مگر وہ ایسا ہوگا جو قابل ذکر اور قابل لحا ظ نہیں.“ 66 66 ( تذکرہ صفحہ 490 مع حاشیہ ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 287 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013 ء پس مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے لئے راہ ہدایت اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی ہے.اس ملک میں بھی اور اس شہر میں بھی لاکھوں ہزاروں مسلمان رہتے ہیں.یقیناً یہ مسجد اُن کی توجہ کھینچنے والی بھی ہوگی.اس مسجد کی تعمیر سے منفی اور مثبت دونوں رنگ میں غیر از جماعت اور غیر مسلموں میں ذکر ہوگا.اور اس ذکر کی وجہ سے آپ کی تبلیغ کے راستے بھی مزید کھلیں گے.اس کے لئے بھی آپ کو اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا.پس مسجد کے بننے سے ایک کے بعد دوسری ذمہ داری آپ پر پڑتی چلی جائے گی تبلیغ کے لئے ظاہر ہے کہ جب آپ اپنے آپ کو تیار کریں گے تو جہاں علمی لحاظ سے تیار کریں گے وہاں اپنے اخلاق کو بھی اعلیٰ معیاروں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے اور کرنی چاہئے ، ورنہ تو قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے آپ کے قریب بھی کوئی نہیں آئے گا.پس مساجد کی تعمیر سے ذاتی طور پر بھی برکات کے دروازے کھلتے ہیں جو ایک مومن کو اُس کے ایمان میں بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور جماعتی برکات تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرح نازل ہوتی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مسجد کے حوالے سے مختلف جگہ پر ذکر فرمایا ہے.مسجد کے احترام کے معیار قائم کرنے کے لئے بھی ذکر ہے.مسجد کے مقاصد کے بارے میں بھی بتایا ہے.مسجد میں آباد کرنے والوں کی خصوصیات کے بارے میں بھی بتایا ہے.اس وقت جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اُس میں مسجد آباد کرنے والوں کا ذکر ہے.پہلی بات یہ بیان کی کہ مسجدوں کو آباد کرنے والے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہیں.یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں، کافی نہیں.اس ایمان کے بھی کچھ معیار خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایمان کے یہ معیار قائم کرو گے تو پھر ہی کامل مومن ہو، ورنہ ایمان کامل نہیں ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنا (الحجرات : 15 ).کہ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے.یعنی وہ لوگ جو بظا ہر تعلیم و تمدن سے محروم ہیں یا کم درجے کے ہیں اور اس وجہ سے اسلام کی حقیقی تعلیم اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں اُن کی ترقی نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتا ہے کہ یہ نہ کہو کہ ہم ایمان لے آئے.فرمایا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا (الحجرات: 15) یعنی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ ان کو بتادے کہ تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یہ کہو کہ ہم نے ظاہری فرمانبرداری قبول کر لی ہے، جو کسی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے.پس کلمہ پڑھنے کے بعد پھر ایمان میں ترقی ، اللہ تعالیٰ سے تعلق، اُس کی عبادت کی طرف توجہ،
خطبات مسرور جلد 11 288 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013ء اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہنا اور دینا، اُس کے احکامات پر عمل کرنا ، یہ ہے اصل چیز جو اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مومن میں ہونی چاہئے ، جو اس زمانے کے امام کو ماننے کے بعد ایک احمدی میں ہونی چاہئے.یعنی روحانی ترقی کا ہر روز ایک نئی شان دکھانے والا ہو، انسان کو اپنے اندر محسوس ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : ” مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال اُن کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اُس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے ہیں اور اُس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے ، خواہ وہ اخلاقی حالت ہو.....یا غفلت اور کسل ہو ، سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں.مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 653-654 اشتہار نمبر 270 بعنوان تبلیغ الحق، مطبوعہ ربوہ ) پس یہ معیار ہیں جو ہم نے اختیار کرنے ہیں.اور جب یہ معیار ہوں گے، تبھی ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے کہلا سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ تعریف فرمائی ہے کہ تقویٰ کی باریک راہوں کو خدا تعالیٰ کے لئے اختیار کرتے ہیں، تقویٰ کی باریک راہوں کی تعریف آپ نے یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے بھی حق ادا کرنا اور اُس کی مخلوق کا بھی حق ادا کرنا.اپنے جسم کے ہر حصے اور ہر عضو کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا تابع کرنا.جہاں اپنے اعضاء کو غلط کاموں سے بچانا وہاں اپنی سوچ کو بھی ہر لحاظ سے پاک رکھنا.تبھی نمازوں کے وقت میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رہے گی.تبھی نمازوں کا قیام بھی ہو گا.اگر سوچوں کا محور صرف دنیا اور دنیا کے لذات ہیں تو نمازوں میں توجہ نہیں قائم رہ سکتی.بظاہر انسان نماز پڑھ رہا ہوتا ہے لیکن خیالات کہیں اور پھر رہے ہوتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ اُس کی یعنی خدا تعالیٰ کی محبت میں محو رہنے والے اصل مومن ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کی یہ نشانی بتائی کہ اُس کا دل ایک نماز سے دوسری نماز تک مسجد میں اٹکا رہتا ہے.وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اگلی نماز کا وقت ہو تو میں مسجد جاؤں.(سنن النسائی، کتاب الطهارة باب الفضل فى ذالک حدیث نمبر (143) دنیاوی کام بھی انسان کے لئے ضروری ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہی بات واضح کر کے فرمائی ہے کہ جو اپنے کاموں کا جو اُس کے ذمہ ہیں اُن کا حق ادا نہیں کرتا ، وہ بھی قابل مؤاخذہ ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 118 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 289 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013 ء چاہے وہ تجارت ہے، چاہے وہ ملازمت ہے، چاہے وہ کھیتی باڑی ہو، کچھ بھی ہو.لیکن ان دنیاوی کاموں کے دوران بھی خدا تعالیٰ یا درہنا چاہئے.اور جب خدا تعالیٰ یاد ہوگا، یہ احساس ہوگا کہ یہ دنیاوی کام بھی خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق میں بجالا رہا ہوں تو پھر ایمانداری سے اپنے کام کا حق ادا کرنے کی بھی انسان کوشش کرے گا اور پھر انسان کسی قسم کے غلط اور ناجائز فائدہ سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے.پھر ایک مومن کا جود نیاداری کا کاروبار ہے وہ بھی پھر دین بن جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی یاداور اُس کی رضا ہر وقت پیش نظر رہتی ہے.صحابہ جو ہمارے سامنے نمونے قائم کر گئے ، وہ صرف ہمارے لئے وقتی حظ اٹھانے کے لئے نہیں تھے.تعریف کرنے کے لئے نہیں تھے، اُن کو ہماری تعریف کی ضرورت نہیں ہے، اُن کی تو خدا تعالیٰ نے تعریف کر دی.اُن کو اللہ تعالیٰ سے یہ سند مل گئی کہ اللہ اُن سے راضی ہوا.پس جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو جائے اُس کو کسی بندہ کی حاجت نہیں رہتی کہ اُس کی تعریف کی جائے.ہاں یہ نمونے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اگر تم اُن کے نمونوں پر چلو گے، اللہ تعالیٰ کی محبت کو سامنے رکھتے ہوئے کارو بارزندگی سرانجام دو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں بھی اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والوں میں شمار کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر ایمان کے معیار حاصل کرنے ہیں تو اپنے اخلاق بھی بلند کرو.اخلاق کی بلندی کا حقوق العباد کی ادائیگی سے صحیح پتہ چلتا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 216 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) گویا صرف نمازیں پڑھ لینا اور اپنے زعم میں خدا تعالیٰ کا حق ادا کر دینا ہی اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور ایمان لانے والا نہیں بناتا بلکہ اپنے معاشرے کے جو حقوق ہیں اُن کی ادائیگی بھی ایک ایمان کا دعوی کرنے والے کے لئے انتہائی ضروری ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ سنتی اور کسل کی حالت سے بھی بچو کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتی ہے.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 654 اشتہار نمبر 270 بعنوان «تبلیغ الحق، مطبوعہ ربوہ) اکثر پانچ وقت نمازیں نہ پڑھنے والوں سے جب وجہ پوچھو، میں پوچھتارہتا ہوں، تو یہی جواب ہوتا ہے.سستی اور لا پرواہی کا ہی بتاتے ہیں.پھر یہ سستیاں جو ہیں خدا تعالیٰ کی محبت سے بھی غافل کرتی ہیں اور یہ غفلت آہستہ آہستہ دین سے بھی دور لے جاتی ہے.آخرت کا خوف، اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا خوف، پھر یہ بھی نہیں رہتا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی نشانی آخرت پر ایمان بھی بتائی ہے کہ اس زندگی میں کئے گئے جو اعمال ہیں اُن کا بدلہ آخرت میں ملنا ہے.خالصہ خدا تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 11 290 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013 ء کی رضا کے حصول کے لئے کی گئی عبادتیں اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ پر ایمان ، ہدایت یافتوں میں شمار کروا کر خدا تعالیٰ کی جنتوں کا وارث بنائے گا.پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مساجد آباد کرنے والے جہاں نمازوں میں با قاعدگی اختیار کرتے ہیں، پنج وقت مسجد میں آتے ہیں، اُس کا حق ادا کرتے ہیں، وہاں مالی قربانیاں کرنے والے بھی ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مالی قربانی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ مالی قربانی کے لحاظ سے غیر معمولی قربانی کرنے والی ہے.کم از کم ایک طبقہ ایسا ہے جو غیر معمولی قربانی کرنے والا ہے.اس مسجد کی تعمیر میں بھی کئی افراد ایسے ہیں جنہوں نے لاکھ بلکہ لاکھوں ڈالر تک قربانی دی ہے.مساجد کے لئے تو بعض غیر احمدی مسلمان بھی بڑھ چڑھ کر قربانیاں دے لیتے ہیں لیکن احمدی کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ مستقل چندوں کی ادائیگی بھی کرتے ہیں اور پھر تحریکات میں بھی حصہ ڈالتے ہیں.اس لحاظ سے اور خاص طور پر آجکل کے مادی دور میں اور معاشی حالات میں اُن کی قربانیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں بھی بے انتہا برکت ڈالے.لیکن یہ یادرکھنا چاہئے کہ صرف ایک عمل تقویٰ کا معیار حاصل نہیں کرواتا، یا اُس سے ایمان کامل نہیں ہوتا بلکہ ایک مومن کے لئے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی ضروری ہے.قرآن کریم نے ایمان لانے والوں کی بعض نشانیوں کا اور جگہوں پر بھی ذکر کیا ہے.جن میں ایک آدھ کو میں مختصراً بیان کر دیتا ہوں.کیونکہ ان باتوں کو اختیار کر کے ہی انسان حقیقی ہدایت یافتہ کہلا سکتا ہے اور انسان مسجدوں کا حق ادا کرنے والا بن سکتا ہے.فرمایا وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة:166 ) کہ جولوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” محبت کا انتہا عبادت ہے.اس لئے محبت کا لفظ حقیقی طور پر خدا سے خاص ہے.( سراج الدین عیسائی کے چارسوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 369) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” عبادت کے دو حصے تھے.ایک وہ جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو ڈرنے کا حق ہے.خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو پاکیزگی کے چشمہ کی طرف لے جاتا ہے اور اُس کی روح گداز ہوکر اُلوہیت کی طرف بہتی ہے اور عبودیت کا حقیقی رنگ اُس میں پیدا ہو جاتا ہے.ایک تو یہ ہے کہ
خطبات مسرور جلد 11 291 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013ء اللہ تعالیٰ کے خوف سے دل پگھلتا ہے، انسان اُس کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے، اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صحیح عابد بنے کی کوشش کرتا ہے.فرمایا: ”دوسرا حصہ عبادت کا یہ ہے کہ انسان خدا سے محبت کرے جو محبت کرنے کا حق ہے.اسی لئے فرمایا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة: 166 ).اور دنیا کی ساری محبتوں کو غیر فانی اور آنی سمجھ کر حقیقی معبود اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا جائے.یہ دوحق ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی نسبت انسان سے مانگتا ہے.ان دونوں قسم کے حقوق کے ادا کرنے کے لئے یوں تو ہر قسم کی عبادت اپنے اندر ایک رنگ رکھتی ہے مگر اسلام نے دو مخصوص صورتیں عبادت کی اس کے لئے مقرر کی ہوئی ہیں.خوف اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں کہ بظاہر ان کا جمع ہونا بھی محال نظر آ تا ہے کہ ایک شخص جس سے خوف کرے اُس سے محبت کیونکر کر سکتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ایک الگ رنگ رکھتی ہے.جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اُسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی.اور جس قدر محبت الہی میں وہ ترقی کرے گا، اُسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور برائیوں سے نفرت دلا کر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 224 225.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ وہ مقام ہے جو ایک مومن کے لئے حاصل کرنا ضروری ہے.پھر آگے آپ نے ان محبتوں کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ خوف کے لئے نمازیں ہیں اور محبت کے اظہار کے لئے حج کی عبادت ہے.وہ ایک لمبا مضمون ہے.تو بہر حال یہ مقام ہے جو ایک مومن کو حاصل کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اُس کی محبت کے حصول کا ذریعہ بن جائے اور جب یہ درجہ اور مقام حاصل ہوتا ہے تو پھر انسان صحیح عابد بنتا ہے اور مسجد کا حق ادا کر نے والا بنتا ہے.اور یہ مقام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ہر ماننے والے میں پیدا کرنا چاہتے ہیں.پس ہمیں اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہیں.کس حد تک ہم خدا تعالیٰ سے محبت کے دعوے میں پورا اتر نے والے ہیں؟ کس حد تک ہم آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہیں؟ کیونکہ عبادت کا حق تقویٰ کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا.اور تقویٰ اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لئے قرآنِ کریم میں بے شمار احکامات نازل فرمائے ہیں جن کے بجالانے کا ایک مومن کو حکم ہے اور تبھی وہ ہدایت یافتہ کہلا سکتا ہے.میں بعض ، ایک دو احکامات کا ذکر کروں گا لیکن اُس سے پہلے یہ وضاحت کر دوں کہ اس آیت میں جو میں نے پہلے تلاوت کی تھی اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 11 292 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013 ء 66 نے جو یہ فرمایا ہے کہ فعسى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِینَ.یعنی پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں.اس سے یہ مراد نہیں کہ یہ عمل کریں گے تو شاید ہدایت یافتہ قرار پائیں.اگر نیک نیتی سے عمل کئے جائیں تب بھی شاید والی بات ہو.بلکہ اہلِ لغت کے نزدیک ”علی“ جب خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو ہر لحاظ سے ایمان میں پختہ ہیں، زکوۃ اور مالی قربانیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے شامل ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دنیاوی چیز سے انہیں خوف نہیں ہے تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہدایت یافتہ ہیں، اور ان کا مسجد میں آنا ، نمازیں پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا اُن کو تقولی اور ایمان میں بڑھاتا رہے گا.اور اُن کے تقویٰ کے معیار بلند ہوتے چلے جائیں گے.پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہدایت یافتہ بن کر اُس کے قرب میں ترقی کر رہے ہیں.میں بعض ایک دو ذمہ داریوں کے متعلق بھی عرض کر دوں جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہیں، یا وہ باتیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ ( آل عمران: 111 ).کہ تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو.پس اس آیت میں ایک حقیقی مسلمان کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں کہ بدی سے روکنے والا ہے، نیکی کی تلقین کرنے والا ہے.اور یہ کام اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک انسان اپنے قول و فعل میں ایک جیسا نہ ہو.اگر ہمارے عمل ہماری باتوں سے مختلف ہیں تو ہمارے اپنے جو لوگ ہیں اُن پر بھی ہماری باتوں کا اثر نہیں ہو گا.اور غیروں کی تو بات ہی الگ ہے.جیسا کہ میں نے کہا اس مسجد کے بننے سے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے لیکن اگر ہمارے عمل ایسے نہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں تو نہ ہم خیر امت ہیں، نہ ہمارا ایمان اللہ تعالیٰ پر ہے اور نہ ہی ہماری نمازیں کسی کام کی ہیں، نہ ہماری مالی قربانیاں خدا تعالیٰ کے ہاں قبول ہیں، نہ ہمارا یہ دعوی سچا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہمارا سب سے اولین فرض ہے اور پہلی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة: 84).کہ لوگوں سے نرمی اور ملاطفت سے بات کریں.اس کا سب سے پہلا اظہار تو ہمارا آپس میں ہونا چاہئے اور خاص طور پر عہدیداروں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.تبلیغ سے پہلے تو ہم نے اپنی
خطبات مسرور جلد 11 293 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013ء مسجدوں کو ایسے لوگوں سے ، عبادصالحین سے بھرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں.لیکن بعض دفعہ شکایات آتی ہیں کہ بعض عہدیدار اپنے رویے ایسے رکھتے ہیں یا بعض لوگ جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو نیکی کے اعلیٰ معیار پر سمجھ لیتے ہیں اس طرح دوسروں سے باتیں کرتے ہیں جو دوسروں کو جذباتی تکلیف پہنچانے کا باعث بن جاتی ہے اور انہیں پھر جماعت سے دور لے جاتی ہے.اور پھر ایسے لوگ مسجدوں کو آباد کرنے کی بجائے اُن کو ویران کرنے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں.پس خیر امت کے لئے سب سے پہلے تو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے.پھر جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ مسجدوں کے ساتھ تبلیغ کے نئے راستے بھی کھلتے ہیں.یہاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ کھلیں گے.مسجد دیکھنے کے لئے آنے والے لوگوں میں، اپنے حلقہ احباب میں ، اپنے ماحول میں بھی جب یہ لوگ آئیں اس اثر کو قائم کریں اور اسے مضبوط تر کرتے چلے جائیں کہ احمدی کا ہر کام دوسروں کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے.یہ اثر ہے جو ایک احمدی سے دنیا میں قائم ہونا چاہئے.یہ اسلام اور قرآنِ کریم کی تعلیم ہے کہ ہم اپنے فائدے کی بجائے دوسروں کا فائدہ سوچتے ہیں اور نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ عملی رنگ میں اس کا اظہار کرتے ہیں اور اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ لوگ یہ اظہار مزید دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تبلیغ کے راستے کھول رہا ہے.بعض ایسے ایسے حیرت انگیز رابطے ہوتے ہیں کہ جو اپنی کوششوں سے نہیں ہو سکتے.اور یہاں بھی آپ دیکھیں گے کہ ایسے رابطے ہوں گے.پس اپنے قول و فعل سے ان رابطوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا گرویدہ بنالیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کے آپس کے تعلقات ، محبت اور پیار جو ہے، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بڑھتے چلے جانے والا ہونا چاہئے.اس طرف بھی خاص توجہ دیں کہ تبلیغ کے لئے یہ بھی ضروری ہے اور جماعت کی مضبوطی کے لئے بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے بھی یہ بات ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ اس مسجد کے بننے سے جماعت اندرونی طور پر بھی مضبوط ہو.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو.مسجدوں کو آباد کرنے والی ہو.آپ میں سے ہر ایک کا دل اُس طرح مسجد میں انکار ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن سے توقع فرمائی ہے.یہ مسجد اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کو سمیٹنے والی ہوجس کا اظہار یہاں آنے والے ہر شخص پر ہو.اور تبلیغ کے بھی نئے دروازے اس مسجد کے بننے سے کھلتے چلے جائیں.میں مسجد کے کچھ کو ائف پیش کر دیتا ہوں جو یہاں جاننے والوں کے لئے تو شاید اتنی دلچسپی
خطبات مسرور جلد 11 294 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013 ء نہ رکھتے ہوں لیکن باہر کی دنیا کے لئے دلچسپی رکھتے ہیں.اس مسجد کی تعمیر کا اعلان تو 1997 ء میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے ہی فرمایا تھا اور بیت الرحمن نام بھی رکھا تھا.اس کا کل رقبہ تقریباً پونے چارا یکڑ کا ہے اور مسقف حصہ (Covered rea) جو ہے تینتیس ہزار چارسو انیس (33419 ) مربع فٹ ہے.دومنزلیں ہیں.گنبد کی اونچائی سینتالیس فٹ ہے.مینار کی اونچائی چھہتر (76) فٹ ہے.اس وقت تو مسجد کے لئے ، دونوں ہال جو ہیں مردوں اور عورتوں کے ملے ہوئے ہیں اور دونوں ہالوں کی گنجائش کا ایر یا چھ ہزار آٹھ سو مربع فٹ ہے.Multi Purpose ہال بھی ہے.گیارہ سو بتیس (1132) افراد مسجد میں اور دس سو پچاس (1050) ملٹی پرپز (Multi Purpose) ہال میں نماز پڑھ سکتے ہیں.یعنی تقریباً دو ہزار سے زیادہ.پارکنگ بھی کافی وسیع ہے.140 کاروں کی جگہ ہے.لائبریری بھی ہے، تبلیغ کا ایک سینٹر ہے، کچن ہے، فیونرل (Funeral) ہوم سروس کے لئے بھی انتظام ہے.چار عدد کلاس روم ہیں.دفاتر ہیں.بورڈ روم ہے.مشنری کی رہائش گاہ ہے.مشن ہاؤس ہے.گیسٹ ہاؤس ہے.اور بڑی خوبصورت باہر کی کیلی گرافی بھی یہاں ہوئی ہے.جو خاص خاص باتیں ہیں وہ میں نے بتادی ہیں.اس کا خرچ بعض زائد خرچ شامل ہونے کی وجہ سے تقریباً ساڑھے آٹھ ملین ڈالر آیا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ آپ کو یہ مسجد ہر لحاظ سے مبارک فرمائے.آخر میں ایک چھوٹا سا اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پڑھنا چاہتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اُن نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی.کھجور کی چھڑیوں سے اُس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا.مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیاداروں نے ایک مسجد بنوائی تھی ، وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرادی گئی.اُس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا یعنی ضرررساں.اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی.مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 491 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ہر احمدی کو سامنے رکھنا چاہئے.پھر فرماتے ہیں: ” جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ
خطبات مسرور جلد 11 295 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 17 مئی 2013ء کرے.اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں.جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے.پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے اور ادنی ادنی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 93 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) ہیں.“ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 7 جون 2013ء تا 13 جون 2013 ءجلد 20 شمارہ 23 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد 11 296 21 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء بمطابق 24 ہجرت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت النور.کیلگری ( کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ الله وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ وَأَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لَّا تُقْسِمُوا طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا تُحَمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلغُ الْمُبِينُ.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ ليَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَطَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْ فِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ.وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكوةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (النور:52 تا 57) یہ آیات سورۃ نور کی ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : مومنوں کا قول جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی.اور یہی ہیں جو مراد پا جانے والے ہیں.اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس کا تقویٰ اختیار کرے تو یہی ہیں جو کامیاب
خطبات مسرور جلد 11 297 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء ہونے والے ہیں.اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے.تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ.دستور کے مطابق عمل کرو، طاعت در معروف کرو.یقیناً اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.کہہ دے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو.پس اگر تم پھر جاؤ تو اس پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے جو اس پر ڈالی گئی ہے اور تم پر بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم پر ڈالی گئی ہے.اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جاؤ گے.اور رسول پر کھول کھول کر پیغام پہنچانے کے سوا کچھ ذمہ داری نہیں.تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو، جو اس نے ان کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا.وہ میری عبادت کریں گے.میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ کو ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.مئی کے مہینہ میں جماعت احمدیہ کے لئے ایک خاص دن ہے، یعنی 27 رمئی کا دن جو یومِ خلافت کے طور پر جماعت میں منایا جاتا ہے.گو ابھی تین دن باقی ہیں، لیکن اسی حوالے سے میں نے اپنا مضمون رکھا ہے.26 رمئی 1908 ء کا دن جماعت احمدیہ کے لئے ایک دل ہلا دینے والا دن تھا، بہت سوں کے ایمانوں کو لرزا دینے والا دن تھا.بعض طبیعتوں کو بے چین کر دینے والا دن تھا.دشمن کے لئے افراد جماعت کے دلوں کو اور جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا دن تھا.تاریخ احمدیت میں دشمنانِ احمدیت کی ایسی ایسی حرکات درج ہیں کہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اس حد تک بھی گر سکتا ہے جیسی حرکتیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت کیں.کجا یہ کہ مسلمان کہلا کر اپنے آپ کو رحمت للعالمین کی طرف منسوب کر کے پھر ایسی حرکات کی جائیں.بہر حال ہر ایک اپنی فطرت کے مطابق اُس کا اظہار کرتا ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ کی بھی اپنی قدرت چلتی ہے.اُس کے وعدے پورے ہوتے ہیں.27 رمئی کا دن جماعت احمدیہ کے لئے تسکین اور امن کا پیغام بن کر آیا.خدا تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کے پورا ہونے کی خوشخبری لے کر آیا اور دشمن کو اُس کی آگ میں جلانے والا بن کر آیا.اُس کی خوشیوں کو پامال کرنے کا دن بن کر آیا.
خطبات مسرور جلد 11 298 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء پس جماعت احمدیہ کے لئے یہ دن کوئی عام دن نہیں ہے.اس دن کی بڑی اہمیت ہے.اور اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو دیکھتے ہیں.اُمت مسلمہ کی اکثریت بڑی حسرت سے جماعت کی طرف دیکھتی ہے، بلکہ حسرت سے زیادہ حسد سے کہنا چاہئے دیکھتی ہے کہ ان میں خلافت قائم ہے اور اپنے میں یہ قائم کرنے کے لئے کئی دفعہ اپنی سی کوشش کر چکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیشہ ناکام رہے ہیں.اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح حکم اور ہدایت کی نافرمانی کر رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ جب مسیح موعود اور مہدی موعود کا ظہور ہو گا تو اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر برف کے تو دوں پر گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے بھی جانا پڑے تو اُس کے پاس جانا ( سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المهدی حدیث نمبر 4084) اور میر اسلام کہنا.(مسنداحمد بن حنبل مسند ابي هريرة جلد سوم صفحہ 182 حدیث نمبر 7957 بیروت 1998 ء) پھر آپ نے نشانیاں بھی بتا دیں کہ وہ پوری ہو جائیں تو سمجھنا کہ دعوی کرنے والا سچا ہے.یہ نشانیاں آسمانی بھی ہیں اور زمینی بھی ہیں.کئی دفعہ جماعت کے سامنے بھی پیش ہوتی ہیں.افراد جماعت مخالفین کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں.اس وقت ان کی وضاحت میں نہیں کروں گا لیکن نہ ماننے والوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے دنیاوی مصلحتوں کی وجہ سے یا نام نہاد دینی علماء کے خوف سے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر کان نہ دھرنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ دعوی کرنے والے کو قبول نہیں کیا بلکہ بعض سخت قسم کے مُلاں شدید دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں.اُن کے خوف سے حکومتیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کے خلاف نہایت گندی اور مکروہ قسم کی زبان استعمال کی جاتی ہے.انتہائی کر یہ قسم کے ان کے فعل ہوتے ہیں.یہ سب جانتے ہوئے کہ زمانہ پکار پکار کر آنے والے کے وقت کا اعلان کر رہا ہے، خدا تعالیٰ نشان دکھا چکا ہے اور نشان دکھا رہا ہے.( پھر بھی ) یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کی مخالفت کرتے چلے جارہے ہیں.ہر مخالفت کے بعد ایک نئے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن ڈھٹائی ایسی ہے کہ مخالفت چھوڑنا نہیں چاہتے.پس اس کو ان لوگوں کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا، اس دن کی اہمیت ہے اور اس کا اعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک پیشگوئی میں فرما چکے ہیں.گو عین تاریخ کے ساتھ تو نہیں لیکن آنے والے اپنے عاشق صادق اور مسیح موعود کی بعثت کا پہلے اعلان فرما کر اور پھر خلافت کا ذکر فرما کر آپ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی.پس اس سے زیادہ کس چیز کی اہمیت ہوسکتی ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا ہو.
خطبات مسرور جلد 11 299 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے.حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.پھر وہ اس کو اُٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا ، اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا.پھر اُس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے.پھر جب یہ دور ختم ہو گا تو اُس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم وستم کے دور کو ختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی اور یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے.“ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحه 285 حدیث النعمان بن بشیر حدیث نمبر 18596 عالم الكتب بيروت لبنان 1998 پس پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کے بارے میں فرمایا، پھر خلافتِ راشدہ کے قیام کا ذکر فرمایا جو منہاج نبوت پر (یعنی نبوت کے طریق پر ) آگے بڑھتے چلے جانے والی ہوگی.اور دنیا نے دیکھا کہ پہلی چار خلافتیں جو خلافت راشدہ کہلاتی ہیں، کس طرح دنیا کی جاہ وحشمت سے دُور اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو ہر آن سامنے رکھتے ہوئے خالصہ اللہ امورِ خلافت سرانجام دیتی رہیں.پھر کس طرح حرف به حرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات پوری ہوئی جس میں بعض دوروں میں کم ایذارساں اور بعض میں زیادہ ایذا رساں بادشاہت مسلمانوں میں نظر آتی ہے.تو خلافتِ راشدہ کے بعد یہ بادشاہت قائم ہوئی.یہ بات بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہوئی ظلم و جبر جو ہے وہ بھی تاریخ پڑھیں تو ہمیں ان بادشاہتوں میں دیکھنے میں نظر آتا ہے.بادشاہت کا دین سے زیادہ دنیا کی طرف رجحان تھا.پھر آپ نے فرمایا کہ جس طرح ہمیشہ ہوتا آیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے.ایک تاریک دور کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور ظلم و ستم کا دور ختم ہو گا اور پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی اور اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے جیسا کہ حدیث میں ہے.اس حدیث پر غور کر کے ہر انسان دیکھ سکتا ہے کہ خلافت راشدہ کے بارے میں بھی آپ کی پیشگوئی پوری ہوئی.پھر کم ایذا رساں بادشاہت اور پھر اس کے بعد جابر بادشاہت کے بارے میں بھی آپ کی پیشگوئی پوری ہوئی.تو پھر اس کے آخری حصے کے بارے میں باوجو دسب نشانیاں پوری ہو جانے اور باوجود خدا تعالیٰ کے بھی اس اعلان کے کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة: 4) اور آخرین میں سے بھی ، یعنی آخرین میں ایک دوسری قوم میں بھی وہ اُسے بھیجے گا جو ابھی ان سے نہیں ملی.یعنی
خطبات مسرور جلد 11 300 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء خلافت علی منہاج نبوت کے سامان اللہ تعالیٰ پھر پیدا فرمائے گا.فرماتا ہے وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( الجمعة : 4 ).اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ نے یہ فیصلہ فرمایا، جب اُس کی رحمت نے جوش مارا ، تو اُس نے ملوکیت سے مسلمانوں کی رہائی کے سامان فرمائے اور ایسا کیا کہ خلافت علی منہاج نبوت قائم فرمائے.پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جہاں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی ،حدیث کی پیشگوئی کے پہلے حصے کی تصدیق کرتے ہیں ، اُس پر ایمان لاتے ہیں اور اُس کو پورا ہوتا ہوا سمجھتے ہیں، وہاں ہم اُس کے آخری حصے پر بھی ایمان لاتے ہیں.ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ یہ بات پوری ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے.اللہ تعالیٰ کے فرمان أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة : 4) - کہ آخرین میں سے بھی لوگ ہوں گے جو پہلوں سے ملنے والے ہیں ، جو ابھی اُن سے ملے نہیں، اس پر ایمان رکھتے ہوئے زمانے کے حالات اور تمام نشانیوں کو ہم پورا ہوتا دیکھتے ہوئے آنے والے مسیح موعود اور مہدی موعود پر بھی ایمان لاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی اللہ “ کہہ کر فرمایا.(صحیح مسلم کتاب الفتن باب ماجاء فی ذکر الدجال حدیث نمبر 7373) پھر فرمایا میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں (المعجم الصغير للطبراني جلد 1 صفحه 257 باب العين من اسمه عيسى دار الكتب العلمية بيروت لبنان (1983ء) پھر اخَرِيْنَ مِنْهُم کی آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آخری زمانے میں مبعوث ہونے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبعوث ہونا قرار دیا.گویا آنے والا سیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو کر، آپ کے ظل کے طور پر مبعوث ہو کر نبوت کا مقام پائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح میں حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی فرمایا کہ آنے والا ان لوگوں میں سے ہوگا، غیر عربوں میں سے ہوگا.ایمان کے غائب ہونے اور ثریا پر چلے جانے کی نشانی بھی بتا دی جس کو یہ تمام علماء تسلیم بھی کرتے ہیں کہ اُس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی فرمایا، مسلمانوں کی ایمانی حالت انتہائی کمزور تھی ، گویا ایمان زمین سے اُٹھ گیا تھا.(صحیح بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الجمعة باب قوله وآخرين منهم...حدیث نمبر 4897) پس یہ نشانی یا نشانوں کا پورا ہونا بھی دیکھتے ہیں اور یہ نشانوں کا پورا ہونا بتا تا ہے کہ آنے والا
خطبات مسرور جلد 11 301 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء مسیح موعود یقینا وقت پر آیا.یہاں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاتم الخلفاء ہونے کی حیثیت سے اُس خلافت کی انتہا تک پہنچے جو منہاج نبوت کا اعلیٰ ترین معیار تھا یا آپ اُس مقام پر فائز ہوئے جو منہاج نبوت کا اعلیٰ ترین معیار تھا.اور مسیح موعود ہونے کی حیثیت سے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہونے کی وجہ سے ظلی نبی بھی بنے اور یوں خلافت کا جو نظام آپ کے ذریعے سے، آپ کے طریق پر آگے چلا وہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منہاج پر قائم ہے جس کا کام قرآن کریم کی شریعت کو مسلمانوں میں جاری کرنا.قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنا اور کروانا.سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بنا کر اس پر عمل کرنا اور جماعت کو اس کے مطابق تلقین کرنا اور عمل کروانا ہے.پس خلافت احمد یہ بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں خلافتِ راشدہ کا تسلسل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دور کی خلافت کی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ایک مدت گزرنے کے بعد ختم ہونے کی اطلاع فرمائی تھی.اور دوسرے دور کی خلافت کی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ہمیشہ جاری رہنے کی خوشخبری عطا فرمائی.لیکن کن لوگوں کو؟ یقیناً اُن لوگوں کو جو خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کا حق ادا کرنے والے ہیں.تقویٰ پر چلنے والے ہیں.عملِ صالح کرنے والے ہیں.عبادتوں میں بڑھنے والے ہیں.بہت سے لوگ ہیں جو جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں لیکن چونکہ خلافتِ احمدیہ سے جڑے رہنے کا حق ادا کرنے والے نہیں ہوتے ، اس لئے اللہ تعالیٰ کی تقدیران کو جماعت سے باہر کر وا دیتی ہے.دنیا داری کی خاطر وہ جماعت احمدیہ سے یا تو ویسے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں یا خودہی علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں.لیکن کیا کبھی ایسے لوگوں کے چلے جانے سے جماعت احمد یہ کی ترقی میں فرق پڑا؟ کبھی روک پڑی؟ ایک کے جانے سے اللہ تعالیٰ ایک جماعت مہیا فرما دیتا ہے.خشک ٹہنیاں کائی جاتی ہیں تو ہری اور سرسبز ٹہنیاں پہلے سے زیادہ پھوٹتی ہیں.پس چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت کے نظام کو اب جاری رکھنا ہے، اس لئے اُس کی تراش خراش اور نگہداشت کا کام بھی خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے.یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے سب سے پیارے انسان اور نبی کی پیشگوئی کا پاس نہ کرے.یقینا یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہوتی چلی جائے گی.گو بعض حالات ایسے آتے ہیں کہ مخالفین اور کمزور ایمان والے سمجھتے ہیں کہ اب ختم ہوئے کہ اب ختم ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشان اُس دور سے جماعت کو نکال کر لے جاتے ہیں.سب سے بڑا دل ہلا دینے والا دور تو جماعت پر اُس
خطبات مسرور جلد 11 302 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء وقت آیا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا، جیسا کہ میں نے کہا.دشمن خوش تھے اور احمدی پریشان.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرما کر جماعت کو اس کے لئے پہلے سے تیار کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ میرا وقت قریب ہے لیکن اس بات سے مایوس ہونے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے.آپ نے رسالہ الوصیت میں تحریر فرمایا اور یہی کہ پریشان نہ ہوں.اس میں جہاں اپنے اس دنیا سے رخصت ہونے کی خبر دی، وہاں جماعت کے روحانی ، مالی اور انتظامی طریقے کار کو بھی واضح فرما دیا اور اُس کے قائم ہونے اور ہمیشہ رہنے کی خبر بھی دی.فرمایا کہ فکر نہ کرو.میرے سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ جماعت کو ترقی دے گا کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس کے ترقی کرنے اور جس میں خلافت قائم ہونے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی.آپ علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ : ”خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اتریں گی.کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آجائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی اور وہ اِس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا.کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد.“ فرمایا کہ: ( رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 303-304) غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے اللہ تعالیٰ " (1) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تر ڈد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں، تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.فرمایا ”تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304-305) آپ فرماتے ہیں: ”میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا
خطبات مسرور جلد 11 303 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے.اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.“ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-305) پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم گزشتہ ایک سو پانچ سال سے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں.جماعت پر مختلف دور آئے لیکن جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ترقی کی منزل پر نہایت تیزی سے آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.ایک ملک میں دشمن ظلم و بربریت سے سختیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ظلم و بربریت کرتا ہے تو دوسرے ملک میں اللہ تعالیٰ کامیابی کے حیرت انگیز راستے کھول دیتا ہے اور یہی نہیں بلکہ جس ملک میں تنگیاں پیدا کی جاتی ہیں، وہاں بھی افراد جماعت کے ایمانوں کو مضبوط فرماتا چلا جاتا ہے.اور پھر جب میں اپنی ذات میں یہ دیکھتا ہوں میری تمام تر کمزوریوں کے باوجود کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقی کی شاہراہوں پر دوڑاتا چلا جا رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان میں اور ترقی ہوتی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین مزید کامل ہوتا ہے کہ یقیناً خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو جماعت کو آگے سے آگے لے جاتا چلا جارہا ہے اور جس کو بھی خدا تعالیٰ خلیفہ بنائے گا، قطع نظر اس کے کہ اُس کی حالت کیا ہے اپنی تائیدات سے اُسے نو از تا چلا جائے گا.انشاء اللہ.خلافت خامسہ کے قائم ہونے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی اس فعلی شہادت کا بھی اظہار فرما دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور آپ کے غلام صادق کی یہ بات کہ خلافت اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں دائی ہے، یقینا اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور آئندہ بھی یہ نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری رہے گا، انشاء اللہ لیکن اللہ تعالیٰ نے خلافت سے فیض پانے والوں کی بعض نشانیاں بتائی ہیں.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام باتوں کا نقشہ بھی کھینچ دیا ہے جو خلافت سے فیض پانے والوں کے لئے ضروری ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مومنوں کو فیصلوں کے لئے اللہ اور رسول کی طرف بلا یا جاتا ہے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا “ ہم نے سنا اور اطاعت کی.فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں.یہی ہیں جو کامیابیاں دیکھنے والے ہیں.پس یہاں صرف عبادتوں اور خالص دین کی باتوں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ قرآن کریم کا دعوی ہے کہ اس میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی تفصیل ہے، وہاں حقوق العباد کی بھی تفصیل ہے، معاشرتی نظام کی بھی تفصیل ہے، حکومتی نظام کی بھی تفصیل ہے.قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے.پس یہاں اُن لوگوں کے لئے بھی تنبیہ ہے جو
خطبات مسرور جلد 11 304 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء اپنے دنیاوی معاملات اور جھگڑے، باوجود جماعت کے نظام کے جہاں جماعتی نظام میں یہ کوشش ہوتی ہے کہ شریعت اور قانون کو سامنے رکھ کر سلجھائے جائیں، نظام جماعت کے سامنے لانے سے ) انکار کرتے ہیں اور ملکی عدالت میں لے جاتے ہیں.خاص طور پر جو عائلی اور گھر یلو میاں بیوی کے مسائل ہیں.اسی طرح بعض اور دوسرے معاملات بھی ہیں اور ایسے لوگوں کی بدنیتی کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ پہلے انکار کرتے ہیں کہ جماعت میں معاملہ لایا جائے.اور جب عدالت میں اُن کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے یا وہ کچھ نہ ملے جو وہ چاہتے ہیں تو پھر جماعت کے پاس آ جاتے ہیں.یہی باتیں ہیں جو کسی کی کمزوری ایمان کا اظہار کر رہی ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن وہی ہیں جو اپنے معاملات خدا اور اُس کے رسول کے فیصلوں کے مطابق طے کرتے ہیں اور نظام جماعت کوشش بھی کرتا ہے اور اُس کو چاہئے بھی کہ اُن کے فیصلے خدا اور اُس کے رسول کے فیصلوں کے مطابق ہوں.یہاں میں نظامِ جماعت کے اُس حصہ کو بھی تنبیہ کرنا چاہتا ہوں جو بعض اوقات گہرائی میں جا کر قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ نہیں کر رہے ہوتے.وہ بھی گنہگار ہوتے ہیں اور نظامِ جماعت اور خلافت سے کسی کو دور کرنے کی وجہ بھی بن رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے خلافت کا ایک کام انصاف کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا بھی رکھا ہے.آجکل جماعت میں اتنی وسعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو چکی ہے، جماعت اتنی وسعت اختیار کر چکی ہے کہ خلیفہ وقت کا ہر جگہ پہنچنا اور ہر معاملے کو براہِ راست ہاتھ میں لینا ممکن نہیں ہے.اور جوں جوں جماعت کی انشاء اللہ ترقی ہوتی جائے گی اس میں مزید مشکل پیدا ہوتی چلی جائے گی.تو جو کارکن اور عہدیدار مقرر کئے گئے ہیں.اگر وہ خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اور تقویٰ سے کام لیتے ہوئے فیصلہ نہیں کریں گے، اپنے کام سرانجام نہیں دیں گے تو وہ خلیفہ وقت کو بھی بدنام کر رہے ہوں گے.اور خدا تعالیٰ کے آگے خود بھی گنہگار بن رہے ہوں گے اور خلیفہ وقت کو بھی گنہگار بنا رہے ہوں گے.پس خاص طور پر قاضی صاحبان اور ان عہدیداران اور امراء کو جن کے سپر دفیصلوں کی ذمہ داری بھی ہے، اُن کو انصاف پر قائم رہتے ہوئے خلافت کی مضبوطی کا باعث بنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے اور مضبوطی کا باعث بنیں ، ورنہ وہی لوگ ہیں جو بظاہر عہدیدار ہیں اور خلافت کے نظام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کو کامیاب فرمایا ہے جو خالصہ اللہ تعالیٰ کے ہو کر اُس کا
خطبات مسرور جلد 11 305 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء تقویٰ اختیار کر کے کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں ، نظام جماعت اور نظام خلافت کی مکمل اطاعت کر کے اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہونے والے ہیں، وہاں میں اُن تمام عہدیداروں اور جن کے سپر د بھی فیصلہ ( کرنے کا کام ہے، اُن میں قاضی صاحبان بھی شامل ہیں، اُن کو بھی کہتا ہوں کہ آپ بھی خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکم کے موافق کام کریں.ایسی بات نہ کریں جو آپ کو انصاف سے دور لے جانے والی ہو، جو تقویٰ سے ہٹی ہوئی ہو.خلیفہ وقت کی نمائندگی کا صحیح حق ادا کرنے کی کوشش کریں.اگر نہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ضرور پکڑے جائیں گے اور جود نیاوی کا رروائی ہوگی وہ تو ہوگی ، خدا تعالیٰ کی سزا کے بھی مورد بن سکتے ہیں.پس ہر عہدیدار کے لئے یہ بہت خوف کا مقام ہے.عہد یدار بنا صرف عہد یدار بننا نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ ہے ، اُس کے رسول پر ایمان کا دعوی ہے، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کا دعوی ہے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا دعویٰ ہے تو پھر اللہ اور اُس کے رسول کے ہر حکم پر عمل کرو.زمانے کے امام نے جو تمہیں کہا ہے اُس پر عمل کرو.خلیفہ وقت کی طرف سے جو ہدایات دی جاتی ہیں اُن پر عمل کرو، ورنہ تمہارا سمیں کھانا اور بلند بانگ دعوے کرنا کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے بے معنی ہے.اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے، اُسے پتہ ہے، اُس کے علم میں ہے کہ تم کہہ کیا رہے ہو اور کر کیا رہے ہو.ہم ہر اجتماع پر یہ عہد تو کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرما ئیں گے اُس کی پابندی کرنی ضروری سمجھیں گے لیکن بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی پابندی نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم کے جو احکامات ہیں اُن کی بھی تعمیل کرنے کی، پابندی کرنے کی کوشش نہیں کرتے.جو کم از کم معیار ہیں اُن کو بھی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے.اب میں ایک مثال دیتا ہوں کہ یہاں آپ کا ویسٹ کوسٹ (West Coast) کا یہ جلسہ ہوا ہے اور بہت ساری باتیں ہوئی ہیں، شاید اور باتیں بھی سامنے آجائیں لیکن بہر حال اس وقت عورتوں کی مثال میرے سامنے ہے کہ میں نے اُن کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہماری ہر عورت کا جو اس مغربی ملک میں رہتی ہے حیادار لباس ہونا چاہئے اور حجاب ہونا چاہئے ، اپنے آپ کو ڈھانکنا چاہئے.یہ قرآن کریم کا حکم ہے.یہ کوئی معمولی حکم نہیں ہے.قرآن کریم نے خاص طور پر فرمایا ہے کہ اس پر عمل کریں.لیکن تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں تھی.بلکہ بعض عورتیں جن کو شاید لجنہ نے زبر دستی نقاب
خطبات مسرور جلد 11 306 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء پہنا دیئے تھے، وہ اپنے برقعے جو لجنہ کی طرف سے ملے تھے وہاں مسجد میں چھوڑ کر چلی گئیں اور صفائی کرنے والے اُن کو اکٹھا کر رہے ہیں.بیشک اسلام نے حیا کا حکم عورت اور مرد دونوں کو دیا ہے اور یہ دونوں کی بہتری کے لئے دیا گیا ہے.لیکن عورت کو خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اپنا خیال رکھو کیونکہ مردوں کی نظریں بے لگام ہوتی ہیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 104 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اس پر کسی کا کوئی خرچ نہیں ہے، کوئی محنت نہیں ہے لیکن چونکہ دنیا داری غالب ہے اس لئے اس طرف توجہ نہیں دیتے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم عمل کرو گے تو فلاح پانے والے ہو گے.اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رسول کا کام پیغام پہنچا دینا ہے، خدا تعالیٰ کے احکامات کو کھول کر بیان کر دینا ہے.اگر عمل کرو گے تو ہدایت پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے.بیعت کا حق ادا کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے.اگر نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے.صرف اس بات پر خوش نہ ہو جاؤ کہ ہم احمدی ہو گئے یا احمدی گھر میں پیدا ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ ” میری بیعت کچھ فائدہ نہیں دے گی اگر اُس کے ساتھ عمل صالح نہیں.“ 66 (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 184 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پھر نماز ایک بنیادی حکم ہے جو خدا تعالیٰ نے انسان کی زندگی کا مقصد بتایا ہے.لیکن اس میں بھی ہمارے اچھے بھلے کا رکن بھی سستی دیکھا جاتے ہیں.بعض عہدیدار ہیں باہر کام کر رہے ہیں ، جماعت میں بڑے ایکٹو (Active) ہیں، یہاں آتے ہیں تو شاید بڑے خشوع و خضوع سے نماز بھی مسجد میں پڑھتے ہوں گے لیکن اُن کی بیویاں بتا دیتی ہیں کہ یہ جب گھر میں ہوں تو گھروں میں نماز نہیں پڑھتے.پس جب خدا تعالیٰ کے ایک انتہائی اہم حکم پر عمل نہیں تو پھر یہ دعوی بھی فضول ہے کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے.پہلے اپنی حالتیں تو سنوارو.اور جب ایسی حالت ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ایک خاص کوشش ہو تو تبھی ایک احمدی ، ایک مومن سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا حق ادا کرنے والا کہلا سکتا ہے.اور جب یہ ہو گا، جب ایمان کے بعد اُس میں ترقی کرتے چلے جانے کی کوشش ہو گی، جب اعمالِ صالحہ بجالانے کی طرف توجہ ہوگی تو پھر ایسے لوگ خلافت کے انعام سے فیض پاتے رہیں گے.یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ اُن لوگوں سے کیا ہے یا خلافت کے مقام سے وہ لوگ فائدہ اُٹھا ئیں گے، وہ لوگ تمکنت حاصل کریں گے، اُن کے خوف کو امن میں خدا تعالیٰ بدلے گا جو ایمان لانے والے اور
خطبات مسرور جلد 11 307 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء اعمالِ صالحہ بجالانے والے اور عبادت کرنے والے اور ہر طرح کے شرک سے پر ہیز کرنے والے ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکر گزار ہوں گے جو خلافت کی صورت میں انہیں ملا ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نظام جاری فرمایا ہے اور اس کے علاوہ اور کہیں یہ نظام جاری نہیں ہو سکتا.احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش قسمت ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے خلافت کی نعمت سے حصہ ملا ہے.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے، غیر مشروط نہیں ہے.بلکہ بعض شرطوں کے ساتھ ہے اور جب یہ شرطیں پوری ہوں گی ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر تمکنت بھی حاصل ہوگی.خوف کی حالت بھی امن میں بدلتی چلی جائے گی.جماعت کے افراد اس بات کا کئی مرتبہ مشاہدہ کر چکے ہیں اور اس دور میں تو غیروں نے بھی دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ احمدیوں کی سکینت کے سامان فرماتا ہے اور یہ بات غیروں کو بھی نظر آتی ہے.پہلے بھی میں کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں کہ خلافت خامسہ کے انتخاب سے پہلے احمدیوں کی جو حالت تھی اُس کو غیر بھی محسوس کر رہے تھے اور بعض اس امید پر بیٹھے تھے کہ اب دیکھیں جماعت کا کیا حشر ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدہ فرمایا تھا اس کو اس شان سے پورا فرما یا کہ دنیا دنگ رہ گئی اور ایم ٹی اے کی وجہ سے غیروں نے بھی دیکھا کہ خوف امن میں ایسا بدلا کہ ایک غیر احمدی پیر صاحب نے جو ہمارے ایک احمدی کے واقف تھے ، اُن کو کہا کہ میں یہ تو نہیں مانتا کہ تم لوگ سچے ہولیکن یہ سارا نظارہ دیکھ کے میں یہ مانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے.خدا تعالیٰ کی مدد تو ضرور تمہارے ساتھ لگتی ہے لیکن میں نے مانا نہیں.پس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر قائم رہتے ہیں.آجکل پاکستان میں جو ظلم کی لہر چل رہی ہے یہ اس بات کا اظہار ہے کہ یہ احمدی تو ترقی پر ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں، ان کے میدان تو وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کو ختم کرنے کی ہم جتنی کوشش کرتے ہیں یہ تو ختم نہیں ہوتے ، کس طرح ان کو ختم کریں.لیکن ان لوگوں سے میں کہتا ہوں کہ اے دشمنانِ احمدیت! یاد رکھو کہ ہمارا مولیٰ ہمارا ولی وہ خدا ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے.وہ کبھی تمہیں کامیاب نہیں ہونے دے گا اور اسلام کی ترقی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اب دنیا میں مسیح موعود کے غلاموں نے لہرانا ہے.ان لوگوں نے لہرانا ہے جو خلافت علی منہاج نبوت پر یقین رکھتے ہیں، جو خلافت کے ساتھ منسلک ہیں، جو جماعت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، جو حبل اللہ کو پکڑے ہوئے ہیں.پس تمہاری کوئی کوشش، کوئی
خطبات مسرور جلد 11 308 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء شرارت، کوئی حملہ کسی حکومت کی مدد خلافت احمدیت کو اس کے مقاصد سے روک نہیں سکتی ، نہ جماعت احمد یہ کی ترقی کو روک سکتی ہے.افراد جماعت کو بھی یادرکھنا چاہئے جیسا کہ میں نے کہا، تقویٰ پر چلنا، نمازوں کا قیام اور مالی قربانیوں میں بڑھنا انہیں خلافت کے فیض سے فیضیاب کرتا چلا جائے گا.پس اس کیلئے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ بھر پور کوشش کرے.تا کہ اللہ تعالیٰ کے رحم سے وافر حصہ لینے والا ہو.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رسالہ الوصیت“ میں سے بعض اقتباسات پڑھتا ہوں جو آپ نے اُن لوگوں کے لئے تحریر فرمائے ہیں جن میں نظام خلافت جاری رہنا ہے یا جنہوں نے خلافت سے فیض پانا ہے یا جنہوں نے جماعت سے منسلک رہنا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے.آپ فرماتے ہیں: اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے رُوح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی اور نفسانی جذبات کو بکلی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جُدا کرتی ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو.وہ درد جس سے خدا راضی ہو اس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے.اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الہی ہو.اُس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے.اگر تم صاف دل ہو کر اس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.خدا کی رضا کو تم کسی طرح پاہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذات چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر ، اپنی جان چھوڑ کر، اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اُٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے.لیکن اگر تم تلخی اُٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم اُن راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں.اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے.لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے.وہی پانی جس سے تقویٰ پرورش پاتی ہے تمام باغ کو سیراب کر دیتا ہے.تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ بیچ ہے اور اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے.انسان کو اس فضولی سے کیا فائدہ جو زبان سے خدا طلبی کا دعوی کرتا ہے لیکن قدم صدق نہیں رکھتا.دیکھو میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ آدمی ہلاک شدہ ہے جو دین کے ساتھ کچھ دنیا کی ملونی رکھتا ہے اور اس نفس سے جہنم بہت قریب ہے جس کے تمام ارادے خدا کے لئے
خطبات مسرور جلد 11 309 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء 66 نہیں ہیں بلکہ کچھ خدا کے لئے اور کچھ دنیا کے لئے.پس اگر تم دنیا کی ایک ذرہ بھی ملونی اپنے اغراض میں رکھتے ہو تو تمہاری تمام عبادتیں عبث ہیں.(رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307-308) فرمایا : اگر تم اپنے نفس سے در حقیقت مر جاؤ گے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے اور خدا تمہارے ساتھ ہوگا.اور وہ گھر با برکت ہوگا جس میں تم رہتے ہو گے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں اور وہ شہر بابرکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا.اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی محض خدا کے لئے ہو جائے گی اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں تو ڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے.تم بھی انسان ہو جیسا کہ میں انسان ہوں.اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے.پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو.اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو ئیں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے.خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ.اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے.کیندوری سے پر ہیز کرو.اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ.ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو.نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308) فرمایا: تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو تو جہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کیلئے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308-309) کاذب ہے.فرمایا: ”خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جولوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان
خطبات مسرور جلد 11 310 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 24 مئی 2013 ء اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں.اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309) اللہ تعالیٰ سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے بارے میں جو توقعات ہیں اُس میں پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے.خلافت احمدیہ سے سچا اور وفا کا تعلق قائم فرمائے.اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ خلافت کے انعام سے ہمیشہ سب فیضیاب ہوتے رہیں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 14 جون 2013ء تا 20 جون 2013 ، جلد 20 شماره 24 صفحہ 5 تا 9 )
خطبات مسرور جلد 11 311 22 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء خطبہ جعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء بمطابق 31 ہجرت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيّت (الضحى : 12) اور تو اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرتارہ.اللہ تعالی کی نعمتیں دنیا وی بھی ہیں اور دینی بھی اور روحانی بھی.دنیاوی نعمتیں تو ہر ایک کو بلاتخصیص عطا ہوتی ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں، خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کو ہر نعمت کا منبع سمجھنے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی دنیاوی نعمتوں کا بھی شکر ادا کرتے ہیں.اُس کا اظہار جہاں اپنی ذات پر کرتے ہیں وہاں دنیا کو بھی بتاتے ہیں کہ یہ نعمت محض اور محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ملی ہے.لیکن ان دنیاوی نعمتوں کے علاوہ بھی جیسا کہ میں نے کہا، دینی اور روحانی نعمتیں ہیں.اور ایک مسلمان اور حقیقی مسلمان اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے غلام جو یقیناً ہم احمدی ہیں، اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو بھی حاصل کرنے والے بنے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور انعام کو بیان کرنا اور اس کا اظہار ایک احمدی پر فرض ہے.جس کا ایک طریق تو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنا ہے.اور دوسرے دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے اور تبلیغ کرنا ہے کہ یہ نعمت، یہ نور جو ہمیں ملا ہے، آؤ اور اس سے حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کے فضل کے یا فضلوں کے وارث بنو کہ یہیں نورِ خدا ہے.یہیں تمہاری بقا ہے.یہیں دنیا کی بقا ہے.یہیں تمہیں اور دنیا کو دنیا و عاقبت سنوار نے کے سامان مہیا ہیں.اور پھر اس پیغام کو پہنچانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو دروازے کھلتے ہیں، ہماری تھوڑی سی کوششوں کو جو اللہ تعالیٰ بے انتہا نوازتا ہے، ہم اللہ تعالیٰ کے دین کا پیغام پہنچانے کا جو ذریعہ بنتے ہیں، اس پر ہماری توقعات سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کے کئی گنا بڑھ کر جو فضل ہوتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 11 312 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء کے ایک اور پیار اور اُس کی نعمت کا اظہار ہے جو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ذکر کرنے اور اُس کی شکر گزاری کے اظہار کی طرف توجہ دلاتا ہے.پس ایک حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بنتے چلے جانے کے لئے اس مضمون کے حقیقی ادراک کی ضرورت ہے.اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے بھیجا تو اپنی خاص تائیدات سے بھی نوازا.اپنے نشانات سے بھی نوازا جو روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوئے اور ہورہے ہیں ،جس کے نظارے ہم دیکھتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ یہ تائیدات اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہیں.اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی آپ کو بتا دیا تھا کہ تم میری نعمتوں کا احاطہ نہیں کر سکو گے ، اُن کو گن نہیں سکو گے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام فرمایا: وانْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا - ( تذکرہ صفحہ 75 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) کہ اگر تو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گنا چاہے تو یہ ناممکن ہے.پھر یہ بھی آپ کو الہاما فرمایا کہ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ تحيت ( تذکرہ صفحہ 182 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) اور اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کرتا چلا جا.آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : یہ عاجز بحكم وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيثُ - (الضحی :12) اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خداوند کریم و رحیم نے محض فضل و کرم سے ان تمام امور سے اس عاجز کو حصہ وافرہ دیا ہے اور اس نا کارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامور کیا.بلکہ یہ تمام نشان دیئے ہیں جو ظاہر ہور ہے ہیں اور ہوں گے اور خدائے تعالیٰ جب تک کھلے طور پر حجت قائم نہ کر لے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتا جائے گا.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 339-338) 66 پھر فرمایا: "معجز و نیاز اور انکسار ضروری شرط عبودیت کی ہے.“ ( یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا صحیح بندہ اور عبد بنا ہے تو پھر عجز اور انکسار بھی ہونا چاہئے.یہ ضروری شرط ہے ) فرمایا: دلیکن بحکم آیت کریمہ وآقا بِنِعْمَةِ رَبَّكَ فَحَيّت نعماء الہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے.“ مکتوبات احمد جلد 2 صفحہ 66 مکتوب نمبر 42 بنام حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب مطبوعه ربوہ) پس اللہ تعالیٰ کا جب بھی ہم پر فضل ہوتا ہے.اُس کا بیان اور اظہار ہم اس حکم کے مطابق کرتے ہیں اور کرنا چاہئے لیکن عاجزی اور انکسار کے ساتھ ، نہ کہ اپنی کسی بڑائی کو بیان کرتے ہوئے.گزشتہ دنوں میں امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر تھا.وہاں مختلف پروگرام غیروں کے ساتھ بھی
خطبات مسرور جلد 11 313 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء ہوتے رہے.اللہ تعالیٰ نے اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور اتنے وسیع پیمانے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پیغام پہنچا کہ وہاں مقامی جماعت کے انتظام کرنے والوں کو خود بھی اس کا تصور نہیں تھا.پس یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے فضل ہے نہ کسی کی کوشش.جس کا اظہار پھر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بناتا ہے.اس حوالے سے میں دورے کے مختلف حالات آج بیان کروں گا.میرے دورہ سے اس مرتبہ امریکہ کینیڈا کے West Coast میں جماعت کا تعارف ہوا.چونکہ یہاں پہلے میں نہیں گیا تھا.میں امریکہ میں Los Angeles گیا ہوں.یہ ہسپانوی لوگوں کا علاقہ ہے.اس علاقے اور اس شہر کا مختصر ذکر میں وہاں اپنے ایک خطبہ میں کر چکا ہوں اور وہ ذکر تو ہو چکا ہے کہ کیسا علاقہ ہے اور جماعت نے وہاں کیا کچھ کام کرنے ہیں.غیروں کے ساتھ جو رابطہ ہوا اور اسلام کی جو حقیقی تصویر وہاں کے لوگوں تک پہنچی ، اُس کا مختصر ذکر کروں گا.وہاں ایک ہوٹل میں جماعت نے ایک Reception بھی رکھی ہوئی تھی جس میں مختلف طبقات کے لوگ خاصی تعداد میں شامل تھے.انتظامیہ کا خیال تھا کہ دنیا دار لوگ ہیں شاید زیادہ نہ آئیں.کیونکہ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اتنے ہم دعوت نامے دیں گے تو اتنے لوگ آئیں گے.لیکن آخری دن تک آنے والوں کی اطلاع آتی رہی اور اتنے زیادہ لوگوں کی اطلاع تھی اور جو Response تھی وہ اتنی زیادہ تھی کہ انتظامیہ بھی پریشان ہوتی رہی.اور پھر انہوں نے اُس ہال میں بیٹھنے کے لئے جو انتظام کیا ہوا تھا اُس میں کچھ مزید اضافہ کرنا پڑا.اور آخر میرا خیال ہے کہ شاید بعض کو جو بعض دوستوں نے کہا تھا کہ اچھا اپنے کسی دوست کو لے آئیں، اُن کو پھر معذرت بھی کرنی پڑی.اور یہ لوگ ایسے نہیں تھے جو عام لوگ تھے بلکہ بڑا پڑھا لکھا طبقہ تھا اور معاشرہ میں جانا جانے والا اچھا طبقہ تھا.اس فنکشن میں میں نے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمین کی مختصر وضاحت کی اور اس حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت کے لئے محبت و شفقت اور آپ کے اُسوہ کے بعض پہلو بیان کئے.اور یہ بتایا کہ یہ اسلامی تعلیم ہے.اور یہ اُسوہ ہمارے لئے بھی نمونہ ہے تو پھر عام مسلمانوں کا شدت پسندی کا یا دہشتگردی کا جو تصور قائم ہے ، کس طرح ہو سکتا ہے کہ پھر وہ مسلمان ہوں.بہر حال اس تعلیم کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے حوالے سے ماحول پر ایک خاص اثر تھا.ہر ایک نے اظہار کیا کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے تو یقیناً اس کا پر چار ہونا چاہئے ، اس کو پھیلنا چاہئے.اس کی آجکل کی دنیا کو ضرورت ہے.اور یہ اُن لوگوں کا صرف ظاہری دکھاوا نہیں تھا.میرے پاس آکر بار بار بعضوں نے اظہار کیا.پھر بعض
خطبات مسرور جلد 11 314 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء نے ایم ٹی اے پر بھی اپنے خیالات کا اظہار ریکارڈ کروایا.اُن میں سے چند ایک باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.گیارہ مئی کو یہ فنکشن ہوا تھا اور اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ تھے جن کی تعداد دوسو اکاون (251) تھی.اور ان کو جب اسلام کی امن کی ، باہمی محبت کی ، احترام کی اور دنیا میں انصاف کرنے کی کے بارے میں بتایا گیا جیسا کہ میں نے کہا، یہ پیغام اُن کو بڑا پسند آیا اور انہوں نے سراہا.اس تقریب میں یوایس کانگریس کے پانچ ممبران تھے.میڈیا سے تعلق رکھنے والے، اچھے میڈیا سے تعلق رکھنے والے چودہ (14) تھے.کچھ اور پڑھے لکھے مختلف مہمان کافی تعداد میں تھے.سترہ ( 17 ) جو تھے وہ مختلف شعبوں کے سرکاری افسران تھے.ملٹری کے آفیسرز تھے.سینتیس (37) یونیورسٹیوں کے پروفیسرز تھے.این جی اوز کے لوگ کافی تعداد میں تھے.تیرہ (13) ڈپلومیٹس تھے.اور چھتیس سینتیس (37-36 کے قریب مختلف پروفیشن کے لوگ تھے.انتیس (29) مختلف مذاہب کے لیڈر تھے.پھر اسی طرح مختلف پڑھا لکھا طبقہ تھا.تھنک ٹینک (Think Tank) کے لوگ تھے.پولیس فورسز اور آرمڈ فورسز کے لوگ تھے.تو یہ ایک اچھا خاصہ طبقہ تھا جن تک یہ پیغام پہنچا.ایک شامل ہونے والی Barbara Goldberg ہیں اُن کا اظہار اس طرح ہوا.یہ کہتی ہیں : آپ نے مجھے اور میری فیملی کو استقبالیہ میں مدعوکیا.میں گہرے محبت کے جذبات سے آپ کی شکر گزار ہوں.اس پروگرام میں شمولیت میری زندگی میں ایک تحرک اور بیداری کا موجب ہوئی ہے.اس طرح ہماری ملاقات ایک ایسی کمیونٹی سے ہوئی ہے جو ہمارے ہی درمیان تھی مگر ہم اس سے واقف نہ تھے.پھر ایک نے میرا ذکر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں جو نقطہ نظر پیش کیا کہ ” محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں اور دوسروں کے لئے کھلے دل سے قبولیت کے جذبات اور ایک خدا اور ہم سب کا ایک خدا اور ہر لفظ جو ان کے ہونٹوں سے نکل رہا تھا، سچ تھا.اُن کا عالمی امن کا پیغام اور دنیا کو نیوکلیئر جنگ سے بھی متنبہ کرنا ایک ایسی بات ہے جو عالمی لیڈروں کے سنے اور توجہ دینے کے لئے بہت اہم ہے.یقیناً اسلام کی جو تعلیم ہے وہ سچ اور روشن ہے جو غیروں کو بھی چمکتی ہوئی نظر آتی ہے.پھر ایک شہر کے میئر تھے، انہوں نے کہا کہ آپ نے مجھے پیغام سننے کا موقعہ فراہم کیا جو ہماری دنیا کے لئے پرامن تعلقات اور برداشت کے رویے اپنانے پر مشتمل تھا.فنکشن میں حضرت ( میرا حوالہ دیا) کے سٹیٹ اور چرچ کے علیحدگی کے نقطہ نظر کا خیر مقدم کرتا ہوں.ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر میں
خطبات مسرور جلد 11 315 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء جن جگہوں پر مذہبی عقائد کی بنا پر لوگوں کی مخالفت کی جاتی ہے انہیں اُس کا تحفظ دیا جائے اور عالمی امن کی بنیاد رکھی جائے.( یہ عیسائی ہیں اور یہ کہتے ہیں ) یہ عالمی امن اور برداشت کا پیغام در حقیقت سچے اسلام کی تعلیمات کے ذریعہ ہی ممکن ہے.ہم اپنی نوجوان نسل کو ان تعلیمات کے ذریعہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کرنے کا موقع دے سکتے ہیں.کہاں وہ ملک امریکہ جہاں اسلام کے خلاف بولا جاتا ہے اور کہاں اسلام کی تعلیم کوسراہا جار ہا ہے.پھر Los Angeles کے شیرف تھے جو وہاں اس علاقے میں بڑے مشہور ہیں.وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دورہ Los Angeles کے دوران تمام مذاہب کے پانچ سو افراد کو محبت ، امن اور انصاف قائم کرنے کا پیغام دیا ہے اُن لوگوں میں ممبران کانگریس ، افسران سٹی کونسل، پبلک سیفٹی کے ادارے، اعلیٰ افسران اور پروفیسر صاحبان شامل تھے.مرزا مسرور احمد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل تعلیمات کے مطابق محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں پر زور دیا.جماعت احمدیہ کی طرف سے دی جانے والی یہ دعوت ان کے اعزاز میں تھی.اور پھر لکھتے ہیں کہ عالمی امن کو قائم کرنا ہماری مشتر کہ ذمہ داری ہے.یہی ملک ہے جیسا کہ میں نے کہا جس میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غلط رنگ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے اور یہی ملک ہے جس میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت بیان کی گئی تو سوائے تعریف اور اس تعلیم کے ہر ایک کے لئے ضروری ہونے کے اظہار کے یہ اور کوئی اظہار نہیں کر سکے.اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو بھی عقل دے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کی خوبصورتی کو اپنے عمل سے دنیا میں قائم کریں.پھر سابق گورنر کیلیفورنیا کہتے ہیں کہ یہ پیغام امن، محبت اور باہمی عزت و احترام کا پیغام، غیر معمولی تھا.ہم خدا اور اُس کی مخلوق کی محبت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.ہم ایک خدا سے دعا کرنے والے ہیں اور وہ ہم سب کو دیکھتا ہے.پھر Los Angeles کونسل کے ایک ممبر (میرا حوالہ دے کر ) کہتے ہیں کہ انہوں نے محبت اور احترام کا درس دیا اور سمجھایا کہ کس طرح لوگوں کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور آپس میں اتحاد پیدا کیا جا سکتا ہے.ان کا امن و آشتی کا پیغام ہر ایک کے لئے متاثر کن تھا اور ہر ایک نے بہت توجہ سے سنا اور اس پیغام کی بازگشت تمام عالم میں اسی طرح سنائی دے گی جس طرح اس کو آجLos Angeles میں سنا گیا.
خطبات مسرور جلد 11 316 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء پھر امریکن کانگریس کے ایک ممبر Dana Rohrabaker نے کہا کہ : جو پیغام آپ نے دیا وہ ہمارے ذہنوں نے قبول کیا.یہ میری آپ سے پہلی ملاقات ہے.میں آپ کے حالات حاضرہ اور دیگر اہم امور سے متعلق معلومات اور عقلی اپروچ (Approach) سے بہت متاثر ہوں.آپ کا تجزیہ حالات حاضرہ پر حقیقت کے بہت قریب تھا.آپ کے منطقی اور پر اثر بیان کا مجھ پر گہرا اثر ہوا.اور یہ پیغام بڑا پرکشش ہے اور سننے کے لائق ہے اور پھر تمام مذاہب کے لئے قابل قبول ہے.اسی طرح یو نیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک شعبہ کی ڈین (Rachel Moran،(Dean ہیں یہ خاتون ہیں.کہتی ہیں کہ میرے لئے اس میں شامل ہونا بڑا باعث عزت تھا اور جس کا مقصد امن اور آشتی کو فروغ دینا تھا.پھر کہتی ہیں کہ اس میں جماعت احمدیہ کے امام کی طرف سے جو پیغام ہمیں ملا وہ روحانیت اور آئیڈل ازم (Idealism) کا ایک حسین امتزاج تھا.جو ہمیں مصائب زدہ دنیا جو جھگڑوں اور فساد سے بھری ہوئی ہے کو امن اور سلامتی سے بھرنے کے لئے ایک اہم درس ہے.ہمیں یہ اہم سبق ملا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ ہم سب مل کر بھائی چارے کو فروغ دیں.آج اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ ہم ایک ایسے فنکشن میں موجود ہیں جو اتنا اہم پیغام دے رہا ہے جس سے ہمارے مسائل اور جھگڑے اور نفرتیں ختم ہوسکتی ہیں اور دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے.مصر کے قونصلیٹ محمد سمیر صاحب جو وہاں آئے ہوئے تھے، وہ کہتے ہیں کہ : میں بہت نقار یر اور ایڈریسر سنتا رہا ہوں.گلوبل پیس کے بارے میں اس طرح کا ایڈریس میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنا اور یہ خطاب سیدھا میرے دل پر اترا ہے اور میں اس سے متاثر ہوا ہوں.مجھے یقین ہے کہ تمام حاضرین کی بھی یہی رائے ہوگی.یہ پیغام لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے لوگوں تک پہنچنا چاہئے اور میں خود یہ آگے پہنچاؤں گا.پھر ایک صاحبہ پروفیسر ہیں وہ بھی یہ کہتی ہیں کہ امنِ عالم کے قیام اور انسانیت سے محبت والے حصوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے.جماعت احمدیہ نے انسانیت کے لئے ایک ایسی شمع روشن کی ہے جس کی آج ساری دنیا کو ضرورت ہے.پھر امریکہ کی مشہور مسلم تنظیم "Muslis Public Affairs Council" ہے، اس کی ڈائریکٹر صاحبہ تھیں، وہ کہتی ہیں کہ : اس تقریب میں شمولیت سے بحیثیت مسلمان مجھ میں حرارت پیدا ہوئی ہے.آپ سب کو بیحد مبارک ہو.اس پروگرام پر جو ہفتے کے روز منعقد ہوا، ایک نئے جذبے اور جوش کے
خطبات مسرور جلد 11 317 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013ء ساتھ تر و تازہ ہوکر اس مجلس سے اٹھی ہوں.پھر کہتی ہیں کہ خطاب بڑا فصیح اور مؤثر تھا اور وقت کی ضرورت تھا.مجھے اس امر کی خوشی ہے کہ انہوں نے ( یعنی میرا حوالہ دے رہی ہیں کہ ) خدا کے رسول کے خلاف کئے جانے والے سارے اعتراضات کو نہایت خوبی سے ایڈریس کیا.متعد د مقررین اس موضوع سے اپنا دامن کترا کر چلے جاتے ہیں اور کوئی معقول جواب نہیں دیتے.مگر انہوں نے نہایت مدلل طور پر ان تمام اعتراضات کا براہِ راست جواب دیا اور وہ بھی ایسی تقریب میں جہاں بڑی تعداد میں بہت اعلیٰ حیثیت کے معززین بیٹھے ہوئے تھے.پھر ایک مہمان نے کہا کہ : امن کے قیام کے بارے میں ایسا ایڈریس میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنا.یہ سیدھا ہمارے دلوں تک پہنچا ہے.پھر Bernardino County کے Sheriff نے اظہار کیا کہ : یہ خطاب وقت کی ضرورت تھی اور اس پر چل کر ہم دنیا میں امن قائم کر سکتے ہیں.پھر ایک وکیل ہیں، بڑی کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں، کہتے ہیں کہ بڑا اچھا پروگرام تھا جنگوں کے بارے میں اسلامی تعلیم نے بہت متاثر کیا غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی مشکلات میں مفاہمت کا عمل احمدی ہی بجالا سکتے ہیں.پھر وہاں کے ایک ممتاز ڈاکٹر ہیں وہ کہتے ہیں کہ : میں جماعت کو زیادہ نہیں جانتا تھا لیکن اس خطاب کے ہر حرف اور ہر لفظ پر میں نے غور کیا ہے اور اسے سچا پایا ہے.یہ الفاظ کہ دنیا تیسری جنگ عظیم کے لئے کمر بستہ ہے، بالکل درست ہیں.یہ انتباہ دنیا کے تمام لیڈرز کو کیا جانا چاہئے.پھر ایک عیسائی پادری Jan Chase نے کہا کہ : یہ ایڈریس قابل ستائش تھا.آپ نے دہشت گردی کی مذمت کی اور برملا سب کے سامنے اسلام کی صحیح تعلیم بیان کی.پھر ایک مہمان دوست Dr.Fred ہیں، انہوں نے کہا کہ مذہب کی جو تصویر آپ نے پیش کی ہے اس کے متعلق میرا علم بہت کم تھا.مذہب کے متعلق آپ کے الفاظ میری سوچ کی عکاسی کر رہے تھے.محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں“ کا پیغام بہت زبر دست تھا.ایک دوسرے کو اس طرح قبول کرنا کہ صرف ایک خدا ہے جو اُس کا خدا ہے وہی میرا خدا ہے.یہ پیغام امن کی ضمانت ہے.پھر کہتے ہیں.قیام امن کے لئے ان کوششوں اور ایٹمی جنگ کے انتباہ پر دنیا کے حکمرانوں کو کان دھر نے چاہئیں.پھر ایک اور شہر کے میئر ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے جماعت احمدیہ کے متعلق بہت کم تجربہ تھا.آر
خطبات مسرور جلد 11 318 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء کے چرچ اور حکومت کو الگ الگ رکھنے کے پیغام کو بہت سراہتا ہوں.ہمیں اس ملک میں بہت سے حقوق حاصل ہیں لیکن ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے عقائد کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ : میں نے اپنی ساری زندگی تعلیم حاصل کرنے میں گزاری ہے.اس لحاظ سے مجھ پر ایک نئے پہلو کا انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح اسلام کی حقیقی تعلیمات دنیا میں امن اور برداشت پھیلانے میں مد ہو سکتی ہیں.مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ امن اُس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک جابرانہ نقطۂ نظر اور ظلم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا.میں آپ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میں اس دنیا کو بہتر جگہ بنانے کی خاطر اپنی زندگی آپ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزاروں گا.اگر غیروں پر یہ اثر ہے تو ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے غلام ہیں ، ہماری بھی کتنی ذمہ داری ہے کہ اس اہم پیغام کو دنیا تک پہنچائیں اور اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کریں.پھر ایک کانگریس مین Dana Rohrabacher جو کہ ریپبلکن ہیں اور یہ بھی وہاں شامل تھے، کیلیفورنیا سے ان کا تعلق ہے، عام طور پر اسلام کے خلاف نظریات رکھتے ہیں اور ایک مہینہ پہلے جو بوسٹن میراتھن پر حملہ ہوا تھا، اُس کے بعد موصوف نے بیان دیا تھا کہ اسلام بچوں کو مارنے کی ترغیب دیتا ہے اور آجکل کے معاشرے کے لئے اسلام ایک خطرہ بن چکا ہے.یہ ان کا بیان تھا.پھر پاکستان کے حوالے سے بھی ان کا بیان تھا کہ وہاں کے سیاسی معاملات میں کیا کرنا چاہئے اور فلاں فلاں کو علیحدہ کر دینا چاہئے.بہر حال یہ خطاب سننے کے بعد انہوں نے جو ریمارکس دیئے وہ یہ تھے کہ آج کا جو خطاب ہے یہ سننے کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ہمارے دلوں کی آواز ہے.پھر کہتے ہیں کہ آپ کا محبت اور ایک دوسرے کے لئے برداشت کرنے اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کا پیغام نہایت اہم ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھے گا.کہتے ہیں یہ میری ان سے ( یعنی میرے سے) پہلی ملاقات تھی اور میں ان کی حالات حاضرہ کے متعلق قابل فکر اور حکیمانہ سوچ سے متاثر ہوا ہوں.ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص جماعت احمدیہ کے خلیفہ کے اس پیغام کو قبول کر سکتا ہے جو امن کا پیغام ہے اور سننے کے قابل ہے.اور نہایت متانت کے ساتھ یہ امن کا پیغام ہمیں ملا.پھر بعد میں انہوں نے ہمارے جو وہاں امریکہ کے سیکرٹری خارجہ ہیں اُن کو خط میں لکھا ہے جو انہوں نے بھجوایا.لکھتے ہیں کہ مرزا مسرور احمد کے جنوبی کیلیفورنیا کے دورے میں انہوں نے وہ مقصد حاصل کیا ہے جس نے یہاں نیکی، پیار، نرمی کے ایسے بیچ کی فصل لوگوں کے دلوں میں لگائی ہے جسے سالوں تک وہ کاٹتے رہیں گے اور فیض پاتے رہیں گے.
خطبات مسرور جلد 11 319 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء تو یہ جو اسلام کے خلاف تھا، اب وہ یہ بیان دے رہا ہے کہ یہ جو باتیں کر گئے ہیں ، ہمارے لوگ اب سالوں تک اس فصل سے فائدہ اُٹھا ئیں گے ، اس کی فصل کاٹیں گے.اس طرح اُن کے اسلام کے بارے میں جو شدت پسندی کے خیالات تھے وہ بدلے.پھر کیلیفورنیا سٹیٹ کے سابق گورنر کا بھی اظہار ہے.یہ میرے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے رہے اور ایم ٹی اے کے بارے میں بھی ان کو میں نے بتایا کہ جماعت کا کیا مقصد ہے، کس طرح تبلیغ کرتی ہے،کس طرح ایم ٹی اے چلتا ہے.تو ان کو بڑی دلچسپی تھی.پھر انہوں نے فریکوئینسی بھی لی کہ میں ضرور اب یہ 66 66 وو دیکھوں گا ،سنوں گا.Los Angeles میں دو بڑے اخباروں ” Los Angeles Times “ اور ” Wall Street Journal “ نے میرے انٹرویو بھی لئے تھے.اور وہاں بھی اسلام کے حوالے سے ہی زیادہ باتیں ہوتی رہیں.پھر پہلا سوال اُس نے مجھے یہ کیا تھا کہ آپ اسلام کے پرامن پیغام کو کیسے پھیلا سکتے ہیں جبکہ بعض مسلمانوں کے تشدد اور دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے اسلام کا بہت بڑا تاثر پیدا ہوا ہے.آپ اس تاثر کو دور کرنے کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ اس پر میں نے اُن کو جواب دیا تھا کہ حقیقی اسلام تو امن کا پیغام ہے.اسلام کے معنی امن اور سلامتی ہیں.اور یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آخری زمانے میں مسیح موعود اور امام مہدی نے آنا ہے اور وہ آ گیا جس کو ہم مانتے ہیں.اور اس نے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو اسلام کی سچی اور صحیح تعلیمات سے منور کرنا ہے.اسلام کی امن اور آشتی کی تعلیم سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے.چنانچہ اس زمانے میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام تشریف لائے اور آپ نے اُن پیشگوئیوں کے مطابق سچی تعلیم کو دنیا کو بتایا اور ہم آگے بتا رہے ہیں.پھر میں نے اُن کو یہ بھی بتایا کہ جنگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام میں جنگیں کیوں لڑی گئیں؟ یہ میں نے تقریر میں بھی ذکر کیا تھا لیکن یہ انٹر ویو اُس سے پہلے تھا کہ مسلمانوں نے کبھی پہلے حملہ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں پر مظالم کئے گئے تو تبھی حملے ہوئے اور وہ حملے جواب میں تھے.اور اب کیونکہ مسلمانوں کے خلاف ایسی کوئی خاص مذہبی جنگ نہیں لڑی جارہی اس لئے اس وقت جب تک کہ ایسا موقع نہ ہو اس قسم کا تلوار کا جہاد جو ہے وہ منع ہے.اور یہ مسلمان جہادی تنظیمیں اس حوالے سے جو بھی کام کر رہی ہیں وہ غلط کر رہی ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین سے کبھی بھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ انہوں نے ظلم کیا ہو.
خطبات مسرور جلد 11 320 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء پھر عربوں کے بارے میں سوال کیا کہ کیا تحریکات جاری ہیں.عرب ممالک کی کیا صورتحال ہے؟ تو اس بارے میں بھی میں نے اُن کو بتایا کہ پہلے جو عرب حکومتیں ہٹائی گئیں تھیں یا جن کو ہٹائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ان کو مغربی طاقتیں ہی سپورٹ (Support) کرتی تھیں.اب عرب ممالک کی ان تحریکات میں بھی جو مخالفین ہیں یا Rebells ہیں ان کو بھی مغربی طاقتیں سپورٹ کر رہی ہیں.اس کے پیچھے کیا نظریات ہیں، کیا سوچ ہے یہ تو وہ بہتر جانتے ہیں اور اس بارے میں میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ،لیکن میرے نزدیک بظاہر یہ لگتا ہے کہ مغربی طاقتیں اسلام اور عربوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں.اسی طرح میں نے مصر کی مثال دی کہ وہاں کیا تھا اور اب کیا ہو رہا ہے؟ لیبیا میں کیا ہو رہا ہے؟ شکر ہے کہ انہوں نے یہ باتیں کچھ حد تک اسی طرح بیان کیں لیکن عام طور پر پریس والے لکھا نہیں کرتے.پھر میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ اگر مغربی طاقتوں نے جمہوریت قائم کرنی ہے تو پھر انصاف سے جسے جمہوریت کہتے ہیں ، اُس کو قائم کرنے کی کوشش کریں.پھر شام کے حوالے سے بھی انہوں نے بات کی کہ وہاں لڑائیاں ہو رہی ہیں، یہ کیا ہے؟ اُن کو بھی میں نے بتایا کہ پہلے یہ شیعوں اور سینیوں کا مسئلہ تھا.اب اس میں اور بہت ساری باغی تحریکیں شامل ہوگئی ہیں.اور ان کے آپس میں بھی تضادات ہیں اور وہاں اب صرف آپس کی مقامی سیاست یا جنگ نہیں رہی بلکہ یہ مغربی ملکوں کے مفادات کا مسئلہ بن چکا ہے.اور دوسرے دونوں فریق بددیانت ہیں اور دونوں کو مغربی ممالک سپورٹ کر رہے ہیں.ان کو میں نے بتایا کہ دنیا اب ایک گلوبل ویج ہے.ہر ایک دوسرے کے حالات سے متاثر ہوتا ہے.روس شام کی حکومت کی مدد کر رہا ہے.دوسری طرف باقی جو مغربی طاقتیں ہیں باغیوں کی مدد کر رہی ہیں.بہر حال دونوں کے مفاد میں یہ ہے کہ جنگ بند ہو اور دونوں اب اس کی کوشش بھی کر رہے ہیں.تو بہر حال اس بات کو بھی انہوں نے اپنی خبر میں لگایا.پھر مجھے کہتی ہیں کہ آپ کا پیغام امن کا ہے، یہ پھیل کیوں نہیں رہا؟ اُس کو میں نے بتایا کہ ہمارا پیغام تو پھیل رہا ہے اور آہستہ آہستہ دنیا اس کو قبول کر رہی ہے.اگر موجودہ نسلیں دین کو قبول نہیں کریں گی تو آئندہ نسلیں قبول کر لیں گی.ہم تو ہمت سے اس پیغام کو پہنچاتے چلے جا رہے ہیں اور ہم نے ہمت نہیں ہارنی.اور اس کو میں نے کہا اگر ہم آپ لوگوں کے دل نہ جیت سکے تو آپ کی اولادوں کے دل انشاء اللہ تعالیٰ ضرور جیتیں گے.پھر مذہب کے بارہ میں باتیں ہوئیں.اُن کو میں نے یہ بھی بتایا کہ ہر مذہب خدا کی طرف سے تھا.
خطبات مسرور جلد 11 321 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء خدا کی طرف سے انبیاء آئے.سچی تعلیمات لے کر آئے.تمام نبیوں پر ہم ایمان رکھتے ہیں.لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی تعلیمات بدل گئیں اور یہی حال مسلمانوں کا بھی ہوا کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم تو اپنی اصل حالت میں موجود رہا لیکن قرآن کریم پر عمل چھوڑ دیا.اس کو بھول گئے.اور اسی وجہ سے پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا.پھر دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے ایک حوالے سے انہوں نے بات کی کہ اس کی وجہ سے جو امریکن عوام ہیں وہ خاص طور پر اسلام سے متنفر ہورہے ہیں اور اسلام کے خلاف کافی نفرت ہے.تو ان کو میں نے بتایا کہ ہم اپنا کام کر رہے ہیں.غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے بہر حال ایک وقت چاہئے.جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ اگر یہ نسل نہیں تو اگلی نسل تک ضرور اسلام کی حقیقی تصویر پہنچ جائے گی اور وہ اس کو قبول کریں گے.عمومی طور پر یہ بھی میں نے اُنہیں کہا کہ لوگ مذہب سے بیزار ہیں اور لاتعلق ہیں.چاہے وہ عیسائیت ہے یا کوئی اور مذہب ہے بلکہ خدا پر بھی یقین نہیں رکھتے اور دہر یہ ہوتے جارہے ہیں.اور ایک وقت آئے گا کہ جب وہ پھر ردعمل کے طور پر خدا پر یقین کریں گے اور مذہب کی طرف واپس آئیں گے.اور جب وہ مذہب کی طرف واپس آئیں گے تو اُس وقت ہم احمدی مسلمان ہیں جو اس خلا کو پُر کرنے والے ہوں گے.تو اُسی وقت ان کے سامنے سچی تعلیمات آئیں گی.بہر حال یہ ساری باتیں وہ ریکارڈ بھی کرتی رہیں اور نوٹ بھی کرتی رہیں اور پھر بعد میں انہوں نے بڑا اچھا لکھا بھی.اسی طرح Wall Street Journal ہے.وہ دنیا کا مشہور اخبار ہے اور بڑے اونچے طبقے میں زیادہ پڑھا جاتا ہے بلکہ امریکہ سے باہر بھی بڑے وسیع علاقے میں خاص طور پر چین وغیرہ میں بھی جاتا ہے.اس کی بڑی سرکولیشن ہے.تو یہاں بھی انہوں نے اسی طرح کے سوال کئے تھے.کچھ تو مشترک سوال تھے.اُن کے جواب دینے کی تو ضرورت نہیں.ایک انہوں نے مجھے یہ کہا کہ آپ کیلیفورنیا کیوں آئے ہیں؟ میں نے اس سے کہا کہ ساری دنیا ہماری ہے اور ہم نے ہر جگہ جانا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کا پیغام پہنچانا ہے.باقی یہاں ہماری جماعت بھی ہے میں اُن کو بھی ملنے آیا ہوں.پھر ان لوگوں کے دماغوں میں یہ ہوتا ہے کہ شاید ہم بھی سیاسی لیڈروں کی طرح یا جس طرح کہ لوگ عام طور پر امریکہ بھیک مانگنے جاتے ہیں ، یا کچھ لینے جاتے ہیں، مدد کے لئے جاتے ہیں، میں بھی اسی لئے آیا ہوں.کہتے ہیں یہاں امریکہ کے سیاسی لیڈروں سے آپ ملیں گے تو آپ ان سے کیا چاہتے ہیں، آپ کا ایجنڈا کیا ہے؟ اس پر میں نے اُسے کہا کہ میں ان سے اپنے لئے نہ کچھ لینے آیا ہوں نہ اپنی جماعت
خطبات مسرور جلد 11 322 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء کے لئے کچھ لینے آیا ہوں.میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ دنیا میں امن قائم ہو اور ایسے پروگرام بنیں، ایسے اقدام کئے جائیں جو عالمی امن قائم کرنے میں مدہوں اور دنیا کو تیسری جنگ عظیم سے بچاسکیں.اور اگر یہ حالات کنٹرول نہ ہوئے تو تیسری جنگ عظیم کنارے پر کھڑی ہے.پھر جو آجکل ڈرون اٹیکس (Drone Attacks) ہو رہے ہیں اس کے حوالے سے بھی انہوں نے بات کی.اس پر میں نے بتایا کہ معصوموں کو قتل کیا جارہا ہے اور اس کی وجہ سے مخالفت بھی بڑھ رہی ہے.ان ملکوں میں جہاں جہاں حملے ہوتے ہیں ، مغرب کے خلاف مخالفت بڑھتی ہے.اسلام کی تعلیم تو یہ نہیں ہے کہ معصوموں کو قتل کیا جائے لیکن تم لوگ ان حملوں سے معصوموں کو بھی قتل کر رہے ہو اور اسی وجہ سے مخالفت بڑھ رہی ہے.بہر حال امریکہ میں یہ Wall Street Journal اور Los Angeles Times اور Chicago Times اور دوسرے بہت سارے اخبار تھے ، جن کے ذریعہ سے میڈیا میں بہت کو ریج ہوئی ہے اور ایک اندازے کے مطابق پرنٹ میڈیا کے ذریعہ سے ساڑھے پانچ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا ہے.اور کم از کم پانچ ملین لوگوں تک آن لائن کے ذریعے سے اور ڈیڑھ ملین لوگوں تک ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ سے پیغام پہنچا.اور یہ کبھی ہماری کوشش سے نہیں ہو سکتا تھا.یہ وہ ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے چلائی ہے.یہ وہ اظہار ہے جو خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا اظہار ہے.یہ اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے.اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تمہاری نیت نیک ہو، کوشش کرو تو پھر میں اس کے سامان بھی پیدا کرتا ہوں.پس اب یہ اُن جماعتوں کا بھی کام ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو آگے بڑھا ئیں.پھر اس کے بعد مسجد بیت الرحمن وینکوور Vancouver کا افتتاح ہوا تھا.وہاں بھی غیروں کو مسجد کے افتتاح میں بلایا ہوا تھا.اس کو بھی میڈیا نے کافی کو ریج دی ہے اور مجموعی طور پر امریکہ میں اس سے بارہ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا جو ویسے کبھی بھی ممکن نہیں تھا.اور کینیڈا میں مسجد کے حوالے سے اور جو میرے مختلف انٹرویو ہوئے ہیں، اُس سے تقریباً ساڑھے آٹھ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا ہے.سی بی سی (CBC) اُن کا ایک چینل ہے.جس طرح یہاں بی بی سی ہے اسی طرح کا نیشنل چینل ہے.اُس نے مسجد کی خبر دی اور اندازہ ہے کہ اس کے ذریعہ تقریبا دس لاکھ لوگوں تک، پھرسی ٹی وی (CTV) اُن کا ایک نیوز چینل ہے، اُس کے ذریعے سے بائیس لاکھ لوگوں تک ، پھر گلوبل ٹی وی ہے اُس کے ذریعہ سے چھ لاکھ لوگوں
خطبات مسرور جلد 11 323 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013ء تک، اور پھر ریڈیو کینیڈا (CBC فرانسیسی زبان کا) ہے.اس کی چارلاکھ سے زیادہ کوریج ہوئی.بہرحال مجموعی طور پر جیسا کہ میں نے کہا، ساڑھے آٹھ ملین لوگوں تک مسجد کے حوالے سے اسلام کا پیغام پہنچا.اور اخبارات کے ذریعہ سے بھی پیغامات پہنچے.گیارہ مختلف اخبارات نے خبریں دیں جس میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا.ریڈیو کے ذریعہ سے گیارہ لاکھ لوگوں تک، پھر Ethnic میڈیا جو ہے، اس کے بھی ریڈیوسٹیشنز ہیں ان کے ذریعہ سے تقریباً چھ لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا.تو یہ مختلف ریڈیو چینل تھے.پھر وہاں سکھ پرانے آباد ہیں.ان میں ایک سکھ دوست من میت بھلر صاحب سیاستدان ہیں اور وہاں البرٹا صوبہ کے منسٹر ہیں.وہ مسجد کے افتتاح پر آئے ہوئے تھے.کہتے تھے کہ میں نے کچھ دنوں تک جنیوا میں ایک تقریر کرنی ہے جو امن کے متعلق تھی.جس کا متن میں نے پہلے سے تیار کیا ہوا ہے.جب انہوں نے وہاں میری تقریر سنی تو کہتے ہیں کہ اب یہ متن میں دوبارہ تیار کروں گا اور اُن باتوں کو شامل کروں گا جو آپ نے بیان کی ہیں اور میں ان سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں.پھر اسی طرح وہاں ایک ریڈیو شیر پنجاب ہے، اُس کے روندر (Ravinder) سنگھ صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس نقطہ نظر میں میں نے کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں پایا.تقریر میں بہت زیادہ جرات دیکھنے کو ملی.پھر ایک Christian Beckter صاحب ہیں، انہوں نے کہا کہ ایک بات جو مجھے بہت پسند آئی کہ وہاں جب میں نے یہ فقرہ بولا تھا کہ جب ہم کسی مسجد کا افتتاح کرتے ہیں تو ہم مذہبی آزادی کے ایک نئے باب کو رقم کر رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ کے خطاب سے ثابت ہو گیا کہ احمدی تشدد پسند نہیں بلکہ امن پسند لوگ ہیں.احمدی انسانیت کی اقدار پر عمل کرنے والے لوگ ہیں.پھر سی بی سی کی نمائندہ صحافی نے میرا کہا کہ انہوں نے میرے تمام سوالوں کا تشفی بخش جواب دیا ہے.جس چیز کی مجھے تلاش تھی وہ مجھے مل گئی اور پھر اُس نے شام کو اپنی خبروں میں بھی اُس کو بیان کیا، خبروں میں دیا.ہندوستان کے ایک جرنلسٹ ہیں.انہوں نے کہا کہ یہ سارا خطاب میں من و عن اپنی اخبار میں چھاپوں گا.اس میں حیرت انگیز پیغام ہے.ایک بزنس مین کہتے ہیں کہ آج مجھے علم ہوا ہے کہ امن صرف عیسائیت کا ہی حصہ نہیں بلکہ امن تو ہر مذہب کا حصہ ہے.میں نے جو بات آج سیکھی ہے وہ لازماً اپنے بچوں کو سکھاؤں گا.
خطبات مسرور جلد 11 324 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013ء پھر مراکش کے ایک مسلمان کہتے ہیں کہ آپ امن کے پیغام کو فروغ دے رہے ہیں.امید ہے میڈیا کے ذریعہ اسلام کے متعلق شدت پسندی کے بجائے امن کا پیغام پھیلے گا.میں خود بھی مسلمان ہوں لیکن آج اس خطاب کے ذریعہ میں نے اسلام کے متعلق بہت سی نئی باتیں سیکھی ہیں.مسجد کا جو افتتاحی خطاب تھا وہ لائیو ہی آیا تھا.ایک مہمان جو مسلمان نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ خطاب نہایت پر فکر تھا.اس خطاب میں وسیع پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا.سب سے خاص بات یہ تھی کہ ایک عام آدمی کے ڈرکو آپ نے اپنے خطاب میں مخاطب کیا اور خطاب انتہائی واضح تھا اور اس میں قابل تحسین دُوراندیشی تھی.ایک صاحب نے کہا آپ کا توحید کا پیغام تمام دنیا کے لئے اپنے اندرا ہم معنی رکھتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا اس خبر کو پہنچانے میں بھی مختلف میڈیا نے کردار ادا کیا.کیلگری میں جو ہوا، اُس کو بھی CBC نے ہی ٹی وی نے ، اومنی ٹی وی نے دیا.اور اس طرح تقریباً ساڑھے آٹھ ملین ، پچاسی لاکھ لوگوں تک یہ پیغام پہنچا.یعنی کل مجموعی طور پر یہ دیکھیں تو تقریباً دو کروڑ سے زیادہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچا ہے.اور اس حساب سے امریکہ کی آبادی کے لحاظ سے چار فیصد سے زیادہ آبادی کو، بلکہ اُس صوبے ویسٹ کوسٹ کے لحاظ سے تو میرا خیال ہے پچیس سے تیس فیصد تک لوگوں کو پیغام پہنچا اور کینیڈا کی کل آبادی کے لحاظ سے پچیس فیصد آبادی کو پیغام پہنچا جو کسی بھی ذریعہ سے پہنچنا ممکن نہیں تھا.یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.پھر کینیڈا میں ہی اس نے ایک سوال یہ کیا تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے.تو کیا آج مسلمانوں کی طرف سے امن ظاہر ہو رہا ہے؟ اُس کو میں نے یہ کہا کہ قرآن کریم کی تعلیم تو یہی ہے.اگر کوئی لیڈر، حاکم یا عوام اس کا اظہار نہیں کر رہے یا مسلمان ملکوں میں یہ نہیں ہورہا اور اُن کو حقوق نہیں دیئے جار ہے تو یہ اُن کا قصور ہے.اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے.پھر بار بار یہی حوالہ تھا کہ جو واقعات ہوئے ہیں مثلاً کینیڈا میں ٹرین کا واقعہ، بوسٹن بم بلاسٹ کا واقعہ، لندن کا واقعہ، تو اُس کو میں نے بتایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ سے دور ہٹنے کی وجہ سے ہے.اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ یہ کرو، بلکہ ان لوگوں کی اللہ تعالیٰ سے دوری کی وجہ سے یہ کچھ ہے اور اگر یہ صحیح تعلیم پر عمل کریں تو امن قائم ہو جائے.اور اسی حوالے سے میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ اسلام کے اندر اسلام کے نام پر چند ایک انتہا پسند گروپ ہیں جو کام کر رہے ہیں.برطانیہ میں جو واقعہ ہوا ہے، اس کو میں نے کہا کہ وہاں برطانیہ کی مسلم کونسل ہے، مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم
خطبات مسرور جلد 11 325 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء ہے،اس نے بڑی قوت کے ساتھ اور زور دار طریقے سے اس واقعہ کی مذمت کی ہے کہ یہ غیر اسلامی عمل ہے.اور یہ بڑا اچھا کام ہے جو انہوں نے کیا اور بڑا اچھا بیان ہے جو مسلم کونسل نے دیا.پھر اسی طرح ( یہ سوال تھا) کہ آپ دنیا میں دہشتگردی کو روکنے کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ اُس کو بتایا میں نے کہ ہم تو مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے وہاں کے مختلف ممالک میں مختلف لوگوں کی خدمت بھی کر رہے ہیں.اور طاقت تو ہمارے پاس کوئی ہے نہیں کہ ہم طاقت کے زور سے اس ظلم کو کچھ روک سکیں.ہاں اسلام کی سچی تعلیم ہے، جس کو ہم پھیلا رہے ہیں اور پھیلاتے چلے جائیں گے.تو پھر اس نے کہا کہ یہ مشہور ہے کہ مسجدوں سے تشدد پھیلتا ہے.اُس کو میں نے کہا میں باقی کا تو نہیں کہتا.یہ ہماری جماعت احمدیہ کی جو مساجد ہیں، یہاں سے ہمیشہ امن اور محبت اور پیار کا پیغام ہی بھیجا گیا ہے، اور اسی کے لئے ہم کوشش کرتے رہتے ہیں.اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر جماعت احمدیہ میں مجرموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ نہیں ہے.اور اگر ایک آدھ کوئی ایسا ہو تو جماعت اُس پر ایکشن لیتی ہے اور فوراً اُس کو جماعت سے نکال دیتی ہے.ہیں پچیس منٹ کا انٹرویو تھا.یہ سی بی سی کی وہ جرنلسٹ عورت بار بار پھیر کے ایسے سوال کر رہی تھی کہ کسی طرح میں اُس کے قابو آ جاؤں کہ اسلام کی تعلیم امن کی تعلیم نہیں ہے اور ہم کوئی اور بات کر رہے ہیں.آخر میں نے اُسے کہا کہ تم مختلف زاویوں سے ایک ہی سوال کرتی چلی جا رہی ہو.میرا جواب وہی رہے گا.تو ہنس پڑی.بعد میں کہنے لگی.ہمارے آدمیوں کو اس نے کہا کہ یہ میری سٹریٹجی (Strategy) سمجھ گئے تھے.میں یہی چاہتی تھی کہ کسی طرح اسلام کے خلاف کوئی بات نکلواؤں.بہر حال اسلام کی جو سچی تعلیم ہے وہ تو ظاہر ہے خود ہی نکلتی ہے، کوئی بناوٹ تو ہمارے اندر ہے نہیں.پھر کہتی ہے تمہارا یہ پیغام پھیلے گا کس طرح ؟ اُس کو میں نے یہی کہا کہ ہم پیغام پہنچا رہے ہیں اور پہنچاتے چلے جائیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمت نہیں ہاریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکیلے تھے جب آپ نے دعویٰ کیا.جب آپ کی وفات ہوئی تو قریباً پانچ لاکھ کے قریب احمدی تھے.اس کے بعد خلافت کا سلسلہ شروع ہوا.ایک سو پچیس سال گزرے ہیں تو اب ہم کروڑوں میں ہیں.اور مسلمان بھی ہمارے اندر شامل ہور ہے ہیں، عیسائی بھی شامل ہو رہے ہیں، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ نسلیں اس کو قبول کریں گی اور تب یہ مسیح امن دنیا میں قائم ہوگا اور صحیح اسلام دنیا میں پھیلے گا.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دورہ سے محتاط اندازے کے مطابق
خطبات مسرور جلد 11 326 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء بیس ملین سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچا.یا دو کروڑ لوگوں سے زیادہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچا.اور اتنی بڑی تعداد میں پیغام پہنچانا اور پھر لوگوں کی آواز میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام اور جماعت کے حق میں اُٹھانا.جیسا کہ میں نے بعض مثالیں بھی دی ہیں.یہ انسانی کوشش سے یقیناً یقینا نہیں ہو سکتا تھا.یہ اللہ تعالی کی چلائی ہوئی ہوا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی رؤیا کا میں نے Los Angeles کے خطبے میں ذکر کیا تھا.وہاں میں نے شاید بیان کیا تھا کہ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، اصل میں لوگ نہیں بلکہ انہوں نے میدان ہی دیکھے تھے اور خالی زمین میں سے اسلام اور احمدیت کے حق میں آوازیں آتی دیکھی تھیں.تو یہ آوازیں جو اُٹھ رہی ہیں یقیناً اس کا ایک پہلو اس طرح بھی ہے.پس یہ جولوگوں کی توجہ ہے اور یہ جو مختلف تبصرے ہیں، یہ اس بات کی تصدیق ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ آوازیں اُس علاقے سے اب اُٹھتی چلی جائیں گی اور اسلام کے حق میں بہت شدت سے گونجیں گی.میں کہتا ہوں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص توارد ہے کہ ایک مہینہ پہلے میں پین کے دورے پر گیا.وہاں سپین میں بڑے وسیع پیمانے پر جماعت کا تعارف ہوا.وہ ملک جو ایک زمانے میں اسلام کے تحت تھا، اب عیسائی ہے اور دوبارہ اسلام کا وہاں تعارف ہو رہا ہے.اور امریکہ کے علاقے میں بھی ایک مہینہ کے بعد میں اُس علاقے میں گیا جہاں بہت بڑی تعداد میں سپینش لوگ آباد ہیں.پس اس کام کو سنبھالنا اب ہمارا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو دونوں طرف کے سپینش میں، مشرق کے سپینش میں بھی اور مغرب کے سپینش میں بھی احمدیت کا اور حقیقی اسلام کا جو پیغام پہنچایا ہے اس کو ہم پوری کوشش سے جاری رکھیں اور ان لوگوں کو اسلام کے جھنڈے تلے لے کر آئیں.امریکہ میں تو خاص طور پر جیسا کہ میں نے وہاں بھی جمعہ پر کچھ کہا تھا کہ وہاں کے سپینش لوگ کہتے ہیں کہ ہماری بہت بڑی تعداد ہے، سپینش سے دس گنا زیادہ تو ہماری طرف توجہ کریں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ایک ارشاد ایک شوری کے موقع پر تھا.آپ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک مغرب سے سورج نکلنے میں امریکہ کا بھی بہت تعلق ہے.پھر ایک جگہ امریکہ میں تبلیغ اسلام کی خاص مہم کا بھی آپ نے ذکر فرمایا.(ماخوذ از خطابات شوری از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد مجلس مشاورت 1924 ء جلد سوم صفحہ 108) پس ہمیں خاص طور پر امریکہ میں تبلیغی پروگرام بنانے چاہئیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ تبلیغ کرتے ہوئے اپنی تربیت کو، نئے آنے والے کی تربیت کو بھولنا نہیں چاہئے.یہ دونوں چیزیں
خطبات مسرور جلد 11 327 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 31 مئی 2013 ء ضروری ہیں.اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اپنے اعمال کے ذریعہ سے بھی ہم اظہار کریں.اسی طرح کینیڈا میں بھی اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ میں نے کہا ایک چوتھائی آبادی تک اسلام کا تعارف، احمدیت کا تعارف کروایا اور وہاں بھی ان کو تبلیغ کے میدان کو وسعت دے کر اس کام کو سنبھالنا چاہئے.اور یہ اپنی تربیت سے، تبلیغ سے شکر گزاری کے جذبات سے اور عبادت کے معیار حاصل کرنے سے حاصل ہوگا، انشاء اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ امریکہ کی اور کینیڈا کی ہر دو جماعتوں کو اور باقی دنیا کو بھی احسن رنگ میں یہ کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ نئے تعارف اور راستے جو کھلے ہیں ان میں دونوں ملکوں میں نو جوانوں کو یا نسبتاً جوانوں کو زیادہ کام کرنے کی اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطا فرمائی ہے.پس آئندہ نسل کو پہلے سے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دونوں جگہ پر سیکرٹریانِ خارجہ جوان ہیں اور اُن کی ٹیم بھی اللہ کے فضل سے اچھا کام کرنے والی ہے.ان دونوں نے اپنے رابطوں کے ذریعوں سے بڑے وسیع کام کئے ہیں اور یہ جو رستے کھولے ہیں ، اب تبلیغ اور تربیت کے شعبوں کا کام ہے کہ ان سے آگے فائدہ اُٹھاتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور عاجزی میں پہلے سے زیادہ بڑھائے.یہ نہ ہو کہ ایک کام کر کے اپنے آپ پر کسی قسم کا فخر کر نے لگ جائیں.بلکہ اللہ تعالیٰ کی عاجزی اُن میں پیدا ہو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، انکساری اور عجز جو ہے، وہ بہت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ اس کی سب کو تو فیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 21 جون 2013ء تا 27 جون 2013ءجلد 20 شمارہ 25 صفحہ 5 تا9 )
خطبات مسرور جلد 11 328 23 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء بمطابق 07 / احسان 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلْقُوْا رَبّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَجِعُونَ (البقره: 46-47) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو اور یقیناً یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے.یعنی وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.“ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے جس بنیادی بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت میں توجہ دلائی ہے اور یہ قرآنِ کریم میں اور جگہوں پر بھی ہے وہ عاجزی اور انکساری ہے.یعنی قرآنِ کریم کے تمام احکامات ، تمام اوامر و نواہی جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں، اُن کی بنیا د عاجزی اور انکساری ہے.یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا عاجزی اور انکساری کی طرف لے جاتا ہے.ایک حقیقی مؤمن اگر احکامات پر عمل کر رہا ہے تو یقیناً اُس میں عاجزی اور انکساری پیدا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ( بنی اسرائیل : 110 ) کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہے.“ (ماخوذ از براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 578)
خطبات مسرور جلد 11 329 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء پس ایک مؤمن جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے کلام پر ایمان لانے والا ، اُس کو پڑھنے والا اور اُس پر عمل کرنے والا ہوں، تو پھر لازماً قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق اُس کی عبادتیں بھی اور اُس کے دوسرے اعمال بھی وہ اُس وقت تک نہیں بجالا سکتا ، جب تک اُس میں عاجزی اور انکساری نہ ہو.یا اُس کی عاجزی اور انکساری ہی اُسے ان عبادتوں اور اعمال کے اعلیٰ معیاروں کی طرف لے جانے والی نہ ہو.انبیاء اس مقصد کا پر چار کرنے ، اس بات کو پھیلانے ، اس بات کو لوگوں میں راسخ کرنے اور اپنی حالتوں سے اس کا اظہار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آتے رہے جس کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں نظر آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے.وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا ہے.اور اس پر رحم کرتا ہے اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مرسلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہلِ دنیا کو گناہ آلود زندگی سے نجات دیں.مگر تکبر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں پیدا ہو جاوے اس کے لیے روحانی موت ہے“.فرمایا ”میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے.متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے.اس لیے کہ تکبر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا.اس لیے مومن کی یہ شرط ہے کہ اُس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ( یعنی سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ اُن کی عاجزی انتہا کو پہنچی ہوتی ہے) فرمایا ” اُن میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے.اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وصف تھا.آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپ کا کیا معاملہ ہے.“ (یعنی آپ کیسا سلوک کرتے ہیں؟) تو اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں.“ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلَّمْ ) فرمایا : ” یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا.اور یہ بات بیچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو گردو پیش رہتے ہیں.اس لیے اگر کسی کے انکسار و فروتنی کاتحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 437-438 مطبوعہ ربوہ ) سے معلوم ہوسکتا ہے.“ پس یہ ہے اُس شارع کامل کا نمونہ جس کا اسوہ اپنانے کی امت کو بھی تلقین کی گئی ہے.قرآنِ کریم جب ہمیں احکامات پر عمل کرنے کے لئے کہتا ہے تو اس کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں
خطبات مسرور جلد 11 330 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے.آپ کی عبادتیں ہیں تو اُس کے بھی وہ اعلیٰ ترین معیار ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اعلان کر دے کہ میرا اپنا کچھ نہیں ، میری عبادتیں بھی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہیں.میں اپنی ذات کے لئے کچھ حاصل نہیں کرتا؟ نہ کرنا چاہتا ہوں، بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا میرے پیش نظر ہے.میری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی ذات کے گرد گھومتا ہے.قُلْ اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبّ الْعَلَمِيْن (الانعام : 103) کا اعلان ایک ایسا اعلان ہے جس کے اعلیٰ معیاروں تک آپ کے علاوہ کوئی اور پہنچ نہیں سکتا.اور پھر صبر کی بات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ وَمَا يُلَقَهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَهَا إِلَّا ذُو حَةٍ عَظِيمٍ ( حم السجدہ : 36) کہ اور باوجود ظلموں کے سہنے کے یہ مقام انہیں عطا کیا جاتا ہے جو بڑا صبر کرنے والے ہیں یا پھر اُن کو جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نیکی کا حصہ ملا ہو.جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھتے ہیں تو گھر یلو مشکلات اور تکالیف میں بھی اپنی ذات پر جسمانی طور پر آنے والی مشکلات اور تکلیفوں میں بھی ، اپنی جماعت پر آنے والی مشکلات اور تکلیفوں میں بھی صبر کی اعلیٰ ترین مثال اور صبر کے اعلیٰ ترین معیار ہمیں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آتے ہیں.ذاتی طور پر دیکھیں طائف میں کس اعلیٰ صبر کا مظاہرہ کیا.اور یہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے ایک شہر کو تباہ ہونے سے بچا لیا.باوجود کہ اللہ تعالیٰ کی، نے آپ کو اختیار دیا تھا لیکن آپ کے صبر کی انتہا تھی کہ باوجود زخمی ہونے کے، باوجود شہر والوں کی غنڈہ گردی کے آپ نے کہا نہیں، اس قوم کو تباہ نہیں کرنا.(شرح العلامه الزرقانی صفحه 52-53 باب خروجه الى الطائف، مطبوعہ دار الكتب العلميه بيروت 1996) پھر اگر آپ کے ماننے والوں نے قوم کے ظلموں سے تنگ آ کر آپ کو ایک خاص قوم کے لئے بددعا کے لئے درخواست کی، تو آپ نے اُن کی اس درخواست کو یہ نہیں کہا کہ اب میں بددعا کرتا ہوں ، بلکہ اُس قوم کی ہدایت کے لئے دعا کی.(ماخوذ از بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام حدیث : 3612) اور یوں اپنے ماننے والوں کو بھی اپنے نمونے سے، اپنے عمل سے ، اپنی دعا سے صبر کی تلقین فرما دی که صحیح بدلہ بددعاؤں سے نہیں ہے، صحیح بدلہ ہدایت کی دعاؤں سے ہے.صحیح بدلہ صبر کے اعلیٰ نمونے دکھانے سے ہے.پھر عاجزی اور انکساری کی مثال ہے تو ہر موقع پر، ہر جگہ آپ کی ذات میں یہ ہمیں نظر آتی ہے.اس کی ایک مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباس میں میں نے دی ہے.
خطبات مسرور جلد 11 331 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء پس ایک کامل نمونہ خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کا ہمیں ملا، جس کو اپنانے کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا.اور مختلف احکامات بھی دیئے کہ ان کو بجالاؤ تو میرا قرب حاصل کرو گے لیکن ان احکامات کے ساتھ ، اس نمونے کے ساتھ اس ایک اصول کی بھی نشاندہی فرما دی کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قرب اور اُس اسوہ پر چلنا اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب عاجزی اور انکساری اختیار کرو گے.یہ مقام اُن کو ملتا ہے جو عاجزی اور انکساری اختیار کرنے والے ہیں.اُس شخص کے اسوے پر چلنے سے ملتا ہے جس نے اپنے رعب سے متاثر ہوئے ہوئے ایک کمزور آدمی کو کہا تھا کہ گھبراؤ نہیں ، میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں، ایک عورت کا ہی دودھ پیا ہے اور وہ ایسی عورت جو عام کھانا کھایا کرتی تھی.عام لوگوں کی طرف زندگی گزارتی تھی.(ماخوذ از سنن ابن ماجه کتاب الاطعمة باب القديد حديث : 3312) پس آپ کے ماننے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھی عاجز انسان بنو تا کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں عاجزی اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے طریقے بتائے گئے ہیں.فرمایا: ” خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا اگر اپنے آپ کو لاٹھی محض سمجھتے ہوئے عاجزی کے انتہائی معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرو گے.اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چلا جا سکتا اور اُس کے احکامات پر عمل نہیں ہو سکتا اگر عاجزی سے اُس کے فضل کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو.اس لئے فرمایا کہ عاجز ہو کر اُس کی مدد، اُس کے فضل کے حصول کے لئے مانگو.اللہ تعالیٰ مختلف قوموں کے ذکر میں بھی جو مثالیں بیان فرماتا ہے، بعض دفعہ براہِ راست حکم دیتا ہے، بعض دفعہ قوموں کا ذکر کرتا ہے، لوگوں کے پرانی قوموں کے حالات بیان کرتا ہے.بعض لوگوں کے حالات بیان کرتا ہے کہ وہ ایسے ہیں، اگر ایسے نہ ہوں تو اُن کی اصلاح ہو جائے.اُس میں مؤمنین کے لئے بھی سبق ہے کہ براہ راست صرف تمہیں جو حکم دیا ہے، وہی تمہارے لئے نصیحت نہیں ہے بلکہ ہر ایک ذکر جو قرآنِ کریم میں آتا ہے وہ تمہارے لئے نصیحت ہے.پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ عاجزی اختیار کرو اور اُس کے فضل کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو.فرمایا کہ اُس کے فضل کے حصول کے لئے عاجز ہو کر اُس کی مدد مانگو.جب تک وَاسْتَعِينُوا “ کی روح کو نہیں سمجھو گے، نیکیوں کے راستے متعین نہیں ہو سکتے اور وَاسْتَعِينُوا “ کی روح اُس وقت پیدا ہوگی خشوع پیدا ہوگا، جب عاجزی پیدا ہوگی، جب صرف اور صرف یہ احساس ہوگا کہ میری کوئی خوبی
خطبات مسر در جلد 11 332 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء مجھے کسی انعام کا حق دار نہیں بنا سکتی.صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اگر مجھ پر ہوا تو میری دنیا و عاقبت سنور سکتی ہے.پس خدا تعالیٰ سے یہ مدد نہایت عاجز ہوکر مانگی ہے کہ اے خدا! تو اپنی رحمت وفضل سے ہماری مدد کو آ اور وہ طریق ہمیں سکھا جس سے تو راضی ہو جائے عبادتوں کے بھی اور صبر کے بھی وہ طریق ہمیں سکھا جو تجھے پسند ہیں.پھر فرمایا کہ ان فضلوں کے حصول کے لئے تم مجھ سے مدد مانگ رہے ہو تو پھر عاجزی دکھاتے ہوئے صبر کے معیار بھی بلند کرو.اہل لغت کے نزدیک صبر کے معنی ہیں ”وقار کے ساتھ ، بغیر شور مچائے تکالیف کو برداشت کرنا، کسی قسم کا حرف شکایت منہ پر نہ لانا بلکہ بعض کے نزدیک تو ” تکالیف اور مشکلات کی حالت اور آرام و آسائش کی حالت میں کوئی فرق ہی نہ رکھنا.ہر حالت میں راضی برضا رہنا.“ مفردات امام راغب حرف الصاد زیر مادہ صبر) راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہے یعنی مکمل قناعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا.ہر حالت میں اپنی وفا اور مضبوطی ایمان کو خدا تعالیٰ کے لئے قائم رکھنا.صرف اور صرف خدا تعالیٰ سے جڑے رہنا اور اُس پر بھروسہ کرنا.اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم پر مضبوطی سے قائم رہنا.پس یہ وہ صبر کی حالت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم قائم رہو گے تو میرے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنو گے.ایسی صبر کی حالت میں کی گئی دعائیں میرے فضلوں کا وارث بنائیں گی.اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کو ضائع ہونے کے لئے نہیں چھوڑتا.جب مکمل انحصار خدا تعالیٰ پر ہوتا ہے تو وہ ایسے صبر کا بدلہ بھی ضرور دیتا ہے.فرمایا جب ایسا صبر اور استقلال پیدا ہو جائے تو پھر تمہاری دعائیں خدا تعالیٰ سنتا ہے.صبر کر کے بیٹھ نہیں جانا بلکہ صلوۃ کا بھی حق ادا کرنا ہے اور صلوٰۃ کیا ہے؟ صلوۃ نماز بھی ہے، دعا ئیں بھی ہیں جو آدمی چلتے پھرتے کرتا ہے، خدا تعالیٰ کے آگے جھکنا بھی ہے، عاجزانہ طور پر درخواست کرنا بھی ہے، عاجزانہ طور پر خدا تعالیٰ کا فضل مانگنا بھی ہے.فرمایا اس قسم کی صلوٰۃ کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو مکمل طور پر عاجزی کی راہوں پر چلنے والا ہو.جس میں تکبر کی کچھ بھی رمق نہ ہو.جس کے اندر انانیت اور بڑائی کا کچھ بھی حصہ نہ ہو.اُس کی صلوۃ صلوٰۃ نہیں ہے، جس میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں.بیشک ایسا شخص نمازیں پڑھ رہا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کو اُس کی پرواہ نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ انہی صبر کرنے والوں اور
خطبات مسرور جلد 11 333 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء نمازیں پڑھنے والوں اور دعائیں کرنے والوں کی پرواہ کرتا ہے جو عاجزی میں بھی بڑھے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کئے ہوئے ہیں جو کبھی نہ ٹوٹنے والا ہے.اس زمانے میں تو خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں ( تذکرہ صفحہ 595 ایڈیشن چہارم مطبوعه ربوہ ) یہ عاجزانہ راہیں تھیں، جنہوں نے ترقی کی نئی راہیں کھول دیں.پس ہم جو آپ علیہ السلام کے ماننے والے ہیں، ہم نے اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے، ہم نے اگر خدا تعالیٰ کی مدد سے حصہ لینا ہے، ہم نے اگر اپنے صبر کے پھل کھانے ہیں، ہم نے اگر اپنی دعاؤں کی مقبولیت کے نظارے دیکھنے ہیں تو پھر عاجزی دکھاتے ہوئے اور مستقل مزاجی سے خدا تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا ضروری ہے.یہی چیز ہے جو ہمیں شیطانی اور طاغوتی طاقتوں سے بھی بچا کے رکھے گی اور یہی چیز ہے جو ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرے گی ، اور یہی چیز ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بنائے گی.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ عاجزی کوئی آسان کام ہے.بہت سی انائیں، بہت سی ضدیں، بہت سی سستیاں ، بہت سی دنیا کی لالچ ، بہت سی دنیا کی دلچسپیاں ایسی ہیں جو یہ مقام حاصل کرنے نہیں دیتیں.فرمايا انتها لكبيرة.یہ آسان کام نہیں ہے، یہ بہت بوجھل چیز ہے.وہ تمام باتیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں جو صبر اور صلوٰۃ کو اُس کی صحیح روح کے ساتھ اور عاجزی دکھاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کرتے ہوئے بجالانے سے روکتی ہیں.ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ اُس کا بندہ اُس صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرے اور ایسی عبادت کے معیار بنائے جس میں ایک لحظہ کے لئے بھی غیر کا خیال نہ آئے.دنیاوی کاموں کے دوران بھی دل خدا تعالیٰ کے آگے جھکا ر ہے.پس اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دیا کہ ایسی حالت پید کرنا آسان نہیں ہے، یہ بہت بوجھل چیز ہے.اور اس بوجھل چیز کو اُٹھانا بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ممکن نہیں ہے.اس لئے اس کی مدد چاہو، اُس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اُس کے آگے جھکو، کوشش کرو لیکن یہ مدد اُس وقت ملے گی جب عاجزی اور انکساری بھی ہوگی.جب اس یقین پر قائم ہوں کہ أَنَّهُمْ مُلْقُوا ربهم (البقرة:47 ) یعنی کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں.جب یہ یقین ہوگا.تو پھر ہم صبر اور دعا کا حق ادا کر نے والے بھی ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنے سامنے رکھنے والے
خطبات مسرور جلد 11 334 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء بھی ہوں گے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو صرف اپنے فائدے کے لئے نہیں، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کی وجہ سے اپنانے والے ہوں گے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی آگ کو اپنے سینے میں لگاتے آپ کے ہر عمل کی، پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے.اور یہی حقیقی حالت ہے جو ایک مؤمن کو مؤمن بناتی ہے.جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے پر چلنے کی یہی حقیقی حالت ہے اللہ تعالیٰ نے جوفر مایا کہ جو اُس پر چلے گا تو يحببكُمُ اللهُ ( آل عمران : 32) کہ اس يُحْبِبْكُمُ الله کا حقیقی مصداق بناتی ہے.یہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں بھی بڑھاتی ہے اور یہی محبت ہے جو پھر أَنَّهُمْ إِلَيْهِ رُجِعُونَ (البقرة: 47) کہ وہ اُس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، کا حقیقی ادراک بھی پیدا کرتی ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والا انسان پھر ایک انسان بن سکتا ہے.اللہ تعالیٰ سے جب ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں اور تو ہی ہے جو ہماری دعاؤں کو سن لے اور ہم میں عاجزی اور انکساری پیدا کر ہمیں اس معیار پر لے کر آ ، تو پھر صبر اور صلوٰۃ پر قائم رہنے کی بھی ہم نے کوشش کرنی ہے.پھر ہم اللہ تعالیٰ سے یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ اگر کہیں اس میں، ہماری دعاؤں میں، ہماری کوششوں میں یا ہماری ظاہری عاجزی میں ہمارے نفس کی ملونی ہے تو ہمیں معاف کر دے.کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ہماری یہ عاجزی کا احساس ہمارے نفس کا دھوکہ ہو.پس ہمیں اُس خاشعین میں شمار کر جو حقیقی خاشعین ہیں.ہمیں اُن عاجزی اور انکسار دکھانے والوں میں شمار کر جن کے بارے میں تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس عاجزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ساتویں آسمان تک اُٹھا لیتا ہے.ہمیں اس طرز پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما جس پر تیرے محبوب رسول کے عاشق صادق ہمیں چلانا چاہتے ہیں، اُن توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرما جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت سے کی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.ایک جگہ آپ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کو اس پر توجہ کرنی چاہئے کہ ذرا سا گناہ خواہ کیسا ہی صغیرہ ہوجب گردن پر سوار ہو گیا تو رفتہ رفتہ انسان کو کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے.طرح طرح کے عیوب مخفی رنگ میں انسان کے اندر ہی اندر ایسے رچ جاتے ہیں کہ ان سے نجات مشکل ہو جاتی ہے.انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامت اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے.کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے اللہ کی راہ میں جب
خطبات مسرور جلد 11 335 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے، چھٹکار انہیں پاسکتا.کبیر نے سچ کہا ہے بھلا ہوا ہم بیچ بھنے ہر کو کیا سلام جے ہوتے گھر اورنچ کے ملتا کہاں بھگوان یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے.اگر عالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدا نہ ملتا.جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیرا اپنی ذات بافندہ پر نظر کر کے شکر کرتا.“ فرمایا: ”پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا بیچ ہوں.میری کیا ہستی ہے ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا.بہر نبج وہ کسی نہ کسی پہلو میں ( یعنی ہر طریق سے ) میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو.تمام کائنات سے اپنے آپ کو ضرور بالضرور نا قابل و پیچ جان لیگا.انسان جب تک ایک غریب و بیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جو ایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتا ہے یا برتنے چاہیں اور ہر ایک طرح کے غرور و رعونت و کبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا.جس قدر نیک اخلاق ہیں تھوڑی سی کمی بیشی سے وہ بداخلاقی میں بدل جاتے ہیں.اللہ جل شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لیے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا.جب کوئی شخص بکا وزاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے، تو وہ مولائے کریم اُس کو پاکیزگی و طہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اُس پر اس قدر کر دیتا ہے کہ بیجا کا موں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے.کیا سبب ہے کہ انسان باوجود خدا کو ماننے کے بھی گناہ سے پر ہیز نہیں کرتا؟ در حقیقت اس میں دہریت کی ایک رگ ہے اور اس کو پورا پورا یقین اور ایمان اللہ تعالیٰ پر نہیں ہوتا.ورنہ اگر وہ جانتا کہ کوئی خدا ہے جو حساب کتاب لینے والا ہے اور ایک آن میں اس کو تباہ کر سکتا ہے تو وہ کیسے بدی کر سکتا ہے اس لیے حدیث شریف میں وارد ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا در آنحالیکہ وہ مومن ہے اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا در آنحالیکہ وہ مومن ہے.“ ( یعنی چور بھی اور زانی بھی بیشک ایک وقت میں ایمان کی حالت میں ہوتے ہیں لیکن ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ وہ غلط کاموں کی طرف رغبت کر لیتے ہیں ) فرمایا بدکرداریوں سے نجات اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ یہ بصیرت اور معرفت پیدا ہو کہ خدا تعالیٰ کا غضب ایک ہلاک کرنے والی بجلی کی طرح گرتا اور بھسم کرنے والی آگ کی طرح تباہ کر دیتا ہے تب عظمت الہی دل پر ایسی مستولی ہو جاتی ہے کہ سب افعال بداندر ہی اندر گداز ہو جاتے ہیں.“ (یعنی یہ معرفت اور بصیرت پیدا ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا غضب ہلاک کرنے والا ہے اور جب یہ معرفت پیدا ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں پیدا ہو
خطبات مسرور جلد 11 336 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء جائے گی ، ایسی ( عظمت) پیدا ہو جائے کہ بالکل دل کو اپنے قبضے میں لے لے تو پھر جو غلط افعال ہیں یا غلط خیالات ہیں، اُن میں پھر بہتری آنی شروع ہوتی ہے.وہ ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں.) فرمایا : ” پس نجات معرفت میں ہی ہے.( یہ معرفت حاصل کرو اللہ تعالیٰ کی ) فرمایا ” معرفت ہی سے محبت بڑھتی ہے اس لیے سب سے اول معرفت کا ہونا ضروری ہے محبت کے زیادہ کرنے والی دو چیزیں ہیں.حسن اور احسان.جس شخص کو اللہ جلشانہ کا حسن اور احسان معلوم نہیں وہ کیا محبت کریگا؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِ الخياط.(الاعراف: 41) یعنی کفار جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ گزر جائے“.فرمایا کہ ”مفسرین اس کا مطلب ظاہری طور پر لیتے ہیں مگر میں یہی کہتا ہوں کہ نجات کے طلبگار کو خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے شتر بے مہار کو مجاہدات سے ایسا دبلا کر دینا چاہئے کہ وہ سوئی کے نا کہ میں سے گذر جائے.جب تک نفس دنیوی لذائذ و شہوانی حظوظ سے موٹا ہوا ہوا ہے تب تک یہ شریعت کی پاک راہ سے گذر کر بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا.دنیوی لذائذ پر موت وارد کرو اور خوف وخشیت الہی سے دبلے ہو جاؤ تب تم گذر سکوگے اور یہی گذرنا تمہیں جنت میں پہنچا کر نجات اخروی کا موجب ہوگا.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 314 تا 316 مطبوعہ ربوہ ایڈیشن 2003) اللہ تعالیٰ کرے کہ جماعت بحیثیت جماعت بھی اور ہر فرد جماعت بھی عاجزی اور انکساری کے اُس مقام پر پہنچے جہاں اُن کا صبر بھی حقیقی صبر بن جائے ، اُن کی عبادتیں بھی حقیقی عبادتیں بن جائیں جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں.ان صبر اور دعاؤں کے پھل اگلے جہان میں نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے لگیں کہ دنیا کو نظر آ جائے کہ یہ جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدا کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے حاضر ہونے والی، اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر نہایت عاجزی سے عمل کر نیوالی ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی ہے.صبر اور دعا کے ساتھ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے والی ہے.مشکلات اور مصائب کے وقت دنیا والوں کی طرف جھکنے والی نہیں، بلکہ اُس خدا کی طرف جھکنے والی ہے جوسب طاقتوں کا مالک ہے، جو دشمن کو اُس کے تمام تر ساز و سامان اور ظاہری قوت کے باوجود زیر کرنے کی طاقت رکھتا ہے.جب یہ نظارے دنیا کو ہم میں نظر آئیں گے، تو دنیا یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ حقیقی مؤمن یہی ہیں.خدا تعالیٰ سے تعلق والے اگر دیکھنے ہیں
خطبات مسرور جلد 11 337 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 7 جون 2013ء تو یہی لوگ ہیں جن میں خدا نظر آتا ہے.یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کا پیار حاصل کرنے والے ہیں.یہی لوگ ہیں جو دنیا کو خدا سے ملنے کے راستے دکھا سکتے ہیں.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس حالت کو حاصل کرنے والا ہو اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت میں بڑھتے چلے جانے والا ہوتا کہ نجات اخروی حاصل کرنے والا ہو.جماعت پاکستان کے لئے جو وہاں پاکستان میں حالات ہیں اُن کے لئے بھی دعائیں کریں اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات کو دور فرمائے ، اُن کے ایمانوں کو مضبوط رکھے اور خدا تعالیٰ سے تعلق میں اللہ تعالیٰ اُن کو بڑھاتا چلا جائے.پاکستان میں رہنے والے احمدی بھی اپنے ایمان اور ایقان کے لئے خاص طور پر بہت دعا کریں.اللہ تعالیٰ اپنے قرب کا مقام ہر ایک کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 28 جون 2013ء تا 4 جولائی 2013 ء جلد 20 شمارہ 26 صفحہ 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد 11 338 24 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 14 جون 2013 ء بمطابق 14 احسان 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُوَدًا أَوْ نَصْرَى تِلْكَ آمَانِيُهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ - بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(البقرة:112-113) ان آیات کا ترجمہ ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوگا سوائے اُن کے جو یہودی یا عیسائی ہوں.یہ محض اُن کی خواہشات ہیں.تو کہہ کہ اپنی کوئی مضبوط دلیل تو لا ؤ، اگر تم سچے ہو.نہیں نہیں.سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کر دے اور احسان کرنے والا ہو تو اُس کا اجر اُس کے رب کے پاس ہے اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.گزشتہ دنوں مجھے کسی نے لکھا کہ پاکستان میں جو نئی حکومت بنی ہے، یہ بھی حسب سابق احمد یوں کے ساتھ وہی کچھ کرے گی جیسے پہلے بھی یہ لوگ کرتے رہے ہیں.اور ایک وزیر کا نام لیا کہ وہ تو پہلے بھی احمدیوں کے ساتھ اچھا نہیں رہا.اب پھر ایسے حالات ہو جا ئیں گے.لکھنے والے نے اس پر اپنی بڑی فکر کا اظہار کیا ہوا تھا.یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کیا ہوتا ہے،لیکن چاہے یہ حکومت ہو یا کوئی اور حکومت ہو جب پاکستان میں ایک قانون احمدیوں کے خلاف ایسا بنا ہوا ہے جس میں ظلم کے علاوہ کچھ نہیں تو پھر اس قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اس لئے اگر کوئی فکر کرنی ہے تو وہ پاکستان میں احمدیوں کے لئے ہمیشہ کی اور مستقل فکر ہی ہے.اور پاکستانی احمد یوں کو خود بھی اس لحاظ سے دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے.اگر تو ہم نے دنیا وی حکومتوں سے کچھ لینا ہے تو بیشک یہ سوچ
خطبات مسرور جلد 11 339 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء رکھیں اور فکر کریں.لیکن اگر ہمارا تمام تر انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے اور یقیناً خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے تو پھر اس قسم کی فکر ضرورت نہیں.یا اس قسم کی امید کی ضرورت نہیں کہ فلاں آئے گا تو ہمارے حالات بہتر ہو جائیں گے اور فلاں آئے گا تو حالات خراب ہو جائیں گے.اگر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، اگر ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو پھر اس قسم کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.ان دنیاوی حکومتوں نے تو دنیا کے لحاظ سے جو چاہنا ہے کرنا ہے.اور ماضی میں جب سے احمدیوں کے خلاف اسمبلی میں یہ قانون پاس ہوا ہے ، گزشتہ تقریباً اڑتیس سال سے یہ کر رہے ہیں.بلکہ اس سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے یہ مخالفت ہے.اُس وقت سے بھی اگر حکومت کے لیول پر نہیں تو حکومتی کارندے کچھ نہ کچھ مخالفین کے ساتھ شامل ہو کر جماعت احمدیہ کے خلاف یا بعض احمدیوں کے خلاف منصوبے بناتے رہے ہیں.بہر حال چاہے ایک نظریہ رکھنے والی حکومت ہو یا دوسرا، اپنے زعم میں تو انہوں نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا ہوا ہے.اور یہی ایک وجہ ہے مخالفت کی ، یہی ایک وجہ ہے مُلاں کو کھلی چھوٹ دیئے جانے کی.اور جو بھی حکومت آئے وہ ظلموں کی انتہا بھی ایک طرح سے ہر حکومت میں ہو رہی ہے بلکہ بڑھ رہی ہے.پس ہمیں نہ تو ان دنیاوی حکومتوں سے کسی بھلائی کی امید ہے اور نہ رکھنی چاہئے اور نہ ہمیں دائرہ اسلام میں شامل ہونے کے لئے یا مسلمان کہلانے کے لئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے، کسی سند کی ضرورت ہے.اصل مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مسلمان ہے.وہ مسلمان ہے جو اعلان کرے کہ میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں اور ایمان لاتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوآ خری شرعی نبی مانتا ہوں ، خاتم الانبیاء یقین کرتا ہوں.اور اس تعریف کے مطابق احمدی مسلمان ہیں اور عملاً بھی اور اعتقاداً بھی دوسروں سے بڑھ کر مسلمان ہیں.پس اس اعلان کے بعد ہمیں زبردستی غیر مسلم بنا کر کچھ بھی ظلم یہ آئینی مسلمان ہم پر کریں یا وہ مسلمان جو آئین کی رو سے مسلمان ہیں، ہم پر کریں، یا حکومتیں اور اُن کے وزراء کی اشیر باد پر ان کے کارندے ہم پر کریں، یہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار بن رہے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لا رہے ہیں.ان کی یہ حرکتیں یقیناً ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے والی ہونی چاہئیں.ہر احمدی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے.اور خدا تعالیٰ کا یہ قرب اور اس قرب میں مزید بڑھنا یہی الہی جماعتوں کا شیوہ ہوتا ہے
خطبات مسرور جلد 11 340 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء اور ہونا چاہئے.یہاں ابھی میں نے آئینی مسلمان کہا تو جن کو اس بات کا پوری طرح پتہ نہیں اُن کے علم کے لئے بتادوں کہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ احمدی آئینی اور قانونی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہیں.یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے بلکہ مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک جمہوری سیاسی اسمبلی اور جمہوری سیاسی اسمبلی کا دعویٰ کرنے والی اسمبلی اور حکومت مذہب کے بارے میں فیصلہ کر رہی ہے.بہر حال اس حوالے سے 1974ء میں جو قانون پاس کیا گیا تھا اس کے بعد پھر فوجی آمر نے اس قانون میں مزید سختیاں پیدا کیں.اس وقت میں اُن کی تفصیلات میں تو نہیں جاؤں گا.بہر حال اس آئینی فیصلے کے مطابق احمدی تو آئین اور قانون کی نظر میں غیر مسلم ہیں.باوجود اس کے کہ دنیا میں اسلام کی صحیح تصویر احمدی ہی پیش کر رہے ہیں.اور غیر احمدی پاکستانی شہری آئین اور قانون کی رو سے مسلمان ہیں باوجود اس کے کہ اسلام کی غلط تصویران میں سے بعض گروہ یا اکثر گروہ پیش کر رہے ہیں، اسلام کو بدنام کر رہے ہیں.مجھ سے اکثر دنیا والے پوچھتے ہیں اور اس دورہ میں جو میرا امریکہ اور کینیڈا کا ہوا ہے، میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس میں بھی ہر جگہ پریس نے یہ پوچھا کہ تم جو اسلام پیش کرتے ہو ٹھیک ہے بہت اچھا ہے لیکن مسلمان اکثریت تو تمہیں مسلمان نہیں سمجھتی اور اُن کے عمل جو سامنے آ رہے ہیں یہ تو اس سے بالکل الٹ ہیں جو تم کہتے ہو.ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی تم کرتے ہو کہ احمدی دنیا میں صحیح اسلامی انقلاب لائیں گے.یہ کس طرح ہوگا ؟ بہر حال اُن کو تو میں یہی بتاتا ہوں کہ یہ ہوگا والی بات نہیں بلکہ ہورہا ہے.اور لاکھوں سعید فطرت مسلمان اس حقیقی اسلام کو سمجھ کر ہر سال اسلام میں، احمدیت میں شامل ہورہے ہیں ، اس حقیقی اسلام میں شامل ہورہے ہیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم اُس وقت تک یہ کام کرتے چلے جائیں گے جب تک دنیا کو یہ نہ منوا لیں کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امن کے وہ پیغامبر ہیں جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی.اور آپ کے جھنڈے تلے ہی دنیا کی نجات ہے.باقی میں اُن کو یہ بھی کہتا ہوں کہ کسی کے مذہب کا فیصلہ کرنا یا کسی مذہب کا مانے والا یا نہ ماننے والا سمجھنا کسی دوسرے شخص کا کام نہیں ہے بلکہ ہر انسان اپنے مذہب کا فیصلہ خود کرتا ہے.بعض شدت پسند حکومتیں یا ملاں ہمیں مسلمان سمجھیں یا نہ سمجھیں اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا.میں مسلمان ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے وہ سب مسلمان ہیں اور اُن سے بہتر مسلمان ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانا.اور یہی ہر احمدی جو ہے، سمجھتا ہے.اس قسم کی حرکتیں کر کے
خطبات مسرور جلد 11 341 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء یہ لوگ احمدیت کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے.ہاں اگر کوئی حکومت یا وزیر یا اُن کے چیلے احمدیوں پر ظلم کریں گے تو دنیا میں اپنی حکومت کو اور ملک کو بد نام کریں گے.جو بھی حکومت آتی ہے اس حکومت کے بدنام ہونے سے ہمیں فرق نہیں پڑتا.گو ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے شرمندگی بہر حال ہوتی ہے.لیکن ملک کی بدنامی سے ہر احمدی کا دل خون ہوتا ہے.کیونکہ اس ملک کی خاطر ہم نے بڑی قربانیاں دی ہوئی ہیں.یہاں مذہب کے نام پر خون کر کے یہ لوگ نہ صرف ملک کو بد نام کر رہے ہیں بلکہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اسلام کے نام پر ہورہا ہے.اور اسلام جو امن، صلح، بھائی چارے اور محبت کا مذہب ہے اُسے بھی بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ دشمنوں سے بھی حسنِ سلوک کرو.جہاں انصاف کا سوال آئے ، انصاف بہر حال مقدم ہے.لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا الله (المائدة :9) یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو، یہ تقومی کے زیادہ قریب ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا تقویٰ اختیار کرو.پس یہ اسلام کی تعلیم ہے.مخالفین اسلام جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں ہم قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم بنا کر اور یہ باتیں کہہ کر ان کا منہ بند کرواتے ہیں کہ حقیقی مسلمان اللہ تعالیٰ کا خوف اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتا ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک حقیقی مسلمان بے انصافی اور ظلم کی باتیں کرے.لیکن مسئلہ یہاں یہ ہے کہ جن لوگوں کے پیچھے قوم چل رہی ہے اُن میں تقویٰ تو ویسے ہی نہیں ہے.اور جب تقویٰ ہی نہیں تو پھر اُن سے ظلم اور بے انصافی کی توقع ہی کی جاسکتی ہے.اس کے علاوہ تو اُن سے کچھ اور توقع نہیں ہو سکتی.ابھی دو دن پہلے یو.کے (UK) جماعت کے سو سال پورے ہونے پر یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک فنکشن تھا جس میں بیالیس پارلیمینٹیرین (Parliamentarian) شامل ہوئے ، جن میں سے ڈپٹی پرائم منسٹر صاحب بھی آئے ہوئے تھے اور چھ وزراء بھی آئے ہوئے تھے اور میں دوسرے ڈپلومیٹ اور دوسرا پڑھالکھا ہوا طبقہ تھا.تو اُن کے سامنے بھی میں نے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی روشنی میں یہ بتایا کہ حقیقی اسلام کیا ہے.تو سب کا یہی کہنا تھا کہ تمہارے ایڈریس تو ہمیشہ کی طرح یہی ہوتے ہیں اور جماعت احمد یہ امن اور صلح کی باتیں کرتی ہے لیکن دوسرے مسلمان گروپ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے بہر حال ہمیں پریشانی ہے.بعض یہ سیاستدان لوگ جو ہیں، کھل کر اظہار کر دیتے ہیں،
خطبات مسرور جلد 11 342 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء بعض سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ڈر ڈر کر بات کرتے ہیں.لیکن بہر حال جب میں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے حوالے سے بات کرتا ہوں تو یہ بہر حال اُن کو پتہ چل جاتا ہے کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ بعض اتنے متاثر ہوتے ہیں، کل پرسوں کی بات ہے، ایک ملک کے سفیر مجھے کہنے لگے کہ تمہارا ہر ہر لفظ جو تھا، جو تم Quote کر رہے تھے قرآن اور اُسوہ کے حوالے سے، میرے دل کے اندر جار ہا تھا.وہ عیسائی ہیں، ان سے تھوڑی سی بے تکلفی بھی ہے.کیونکہ وہ فنکشن میں اکثر آتے ہیں، انہیں میں نے کہا کہ یہ صرف آپ کے دل میں بٹھانے کے لئے نہیں بلکہ اس پیغام کو اپنے حلقے میں بھی پھیلائیں.تو کہنے لگے یہ تو میں کرتا ہوں اور اب آئندہ بھی کروں گا.تو غیروں کے دلوں میں تو اثر ہوتا ہے لیکن پتھر دل مولوی ایسے ہیں جو اس پیغام کو سن کر اور ہمارے منہ سے سن کر اُن کے دل مزید پتھر ہوتے چلے جاتے ہیں.جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو اسلام کا غلط تاثر دینے والوں کے تاثرات کو زائل کر رہے ہیں اور یہ ہمارا کام ہے کہ اسلام کی خوبصورتی کو دنیا میں دکھا ئیں ، اس لئے ہم انشاء اللہ تعالی کرتے چلے جائیں گے.لیکن پھر بھی مسلمان ممالک کے سیاستدان اور بعض پڑھے لکھے لوگ مُلاں کے پیچھے چل کر احمدیوں پر اسلام کے نام پر ظلم کرتے ہیں.اور یہ ان کا کام ہے.بہر حال جس طرح ہم اپنا کام کرتے چلے جائیں گے انہوں نے بھی اپنا کام کرتے رہنا ہے اور اس بات سے ہمیں کوئی ایسی فکر نہیں ہونی چاہئے.جیسا کہ میں نے کہا، ہمیں تو ان سے نہ کوئی امید ہے اور نہ ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں.اگر یہ انصاف سے حکومت چلائیں گے اور ظلم کو روکیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو مان کر اُس کے اجر کے مستحق ٹھہریں گے.ہمارا خدا تو ہمارے ساتھ ہے.وہ تو ہمیں تسلی دلانے والا ہے اور دلاتا ہے اور حفاظت کرتا ہے.ورنہ جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں ان کے منصوبے تو بڑے خطرناک ہیں.اللہ تعالیٰ تو ہمیں اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی اپنے وعدے کے مطابق نوازے گا، انشاء اللہ لیکن ظلم کرنے والوں کی پکڑ کے سامان بھی ہوں گے اور ضرور ہوں گے.انشاء اللہ.پس ہمیں کسی دنیاوی حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے.اُس کے منہ کی طرف دیکھتے ہوئے ، اُس کے حکموں پر چلنے کی ضرورت ہے.باقی رہا یہ کہ مذہب کے ٹھیکیداروں کا یہ اعلان کہ جو ہمارے کہنے کے مطابق نہیں کرتا اور ہمارے پیچھے نہیں چلتا، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھتکارا ہوا ہے اور جہنمی ہے.اس لئے اپنے لوگوں کو یہ کھلی چھٹی دیتے ہیں کہ جو چاہے ان
خطبات مسرور جلد 11 343 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء لوگوں سے کرو.تم جو چاہے احمدیوں سے کرو تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں.اور یہی کچھ عملاً ہ بھی رہا ہے کہ حکومت جو قانون کی بالا دستی کا دعوی کرتی ہے احمدیوں پر ظلموں پر نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کرتی بلکہ الٹا ظالم کا ساتھ دیتی ہے.ابھی دو دن پہلے ہی ایک احمدی کو کراچی میں شہید کر دیا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ایک کو جہلم میں بھی مارنے کی غرض سے حملہ کیا گیا.وہ شدید زخمی ہوئے ، ہسپتال میں ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی صحت و سلامتی سے شفا عطا فرمائے.اور بیچارے جو بعض غیر از جماعت احمدیوں کے دوست ہیں وہ بھی اُس ظلم کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں.یہ کراچی میں جو واقعہ ہوا شہادت کا، ان کے ساتھ کار میں بیٹھے ہوئے ان کے دو غیر از جماعت دوست تھے وہ بھی شدید زخمی ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحت دے.ہسپتال میں داخل ہیں، ان میں سے ایک کی تو کریٹیکل (Critical) حالت ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.پہلے مذہب کے ٹھیکیداروں کا بھی یہی حال تھا، وہ بھی یہی کچھ کہتے رہے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ یہ اعلان کرتا ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کا تابع بنادے اور احسان کرنے والا ہو، تو اُس کا اجر اُس کے رب کے پاس ہے.یہ دوسرے دوست جو زخمی ہوئے ہیں، ایک تو کراچی میں ہوئے ہیں، دوسرے سرائے عالمگیر جہلم کے ہیں.ان کی حالت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر ہے.اللہ تعالیٰ ان کو شفادے.تو بہر حال یہ جو میں کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جو بھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کا تابع بنا دے اور احسان کرنے والا ہو تو اُس کا اجر اُس کے رب کے پاس ہے.جنت اور جہنم میں جانے کا سرٹیفکیٹ کسی مذہب یا مذہب کے نام پر خون کرنے والوں نے نہیں دینا، یا کسی دوسرے شخص نے نہیں دینا کسی اسمبلی نے نہیں دینا.پس اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے وہ اعلان فرماتا ہے کہ جو نیک عمل کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرے، زمانہ کے امام کی بیعت میں آئے اور اس لئے آئے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا حکم ہے تو پھر نہ ایسے شخص کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے، نہ غمگین ہو بہ غمگین ہونے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے اُس کی تعلیم کے مطابق کیا گیا ہر عمل اُسے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گا.پس ہر احمدی جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو کر مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آیا ہے وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان ہے.مسلمان بھی یقیناً ہے اور پکا مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا بھی ہے.اُس کے مسلمان ہونے پر کسی اسمبلی یا سیاسی حکومت کی مہر کی ضرورت نہیں ہے.
خطبات مسرور جلد 11 344 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مسلمان ہے جو ان آیات کے مطابق جو میں نے تلاوت کی ہیں یہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں.فرمایا کہ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ.جو کوئی بھی اپنی تمام تر توجہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر کر اس کا اعلان کر دے کہ میں مسلمان ہوں تو یہی لوگ مسلمان ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کوئی دوسرا یہ اعلان کرے کہ تم مسلمان ہو یا نہیں ہو، بلکہ ہر فرد اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا تابع بنا کر پھر اعلان کرے کہ میں اپنی مرضی سے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہوں اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے مجھ پر ڈالی ہے اُسے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں.اور پھر دعوی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَهُوَ مُحسن.وہ احسان کرنے والا ہو.وہ تمام اعمال احسن طریق پر بجالائے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.یہ ذمہ داری ہے جو اُٹھانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہے.اور ہر اُس برائی سے بچے جس سے رکنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اگر یہ حالت ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پھر ایسے شخص پر پڑے گی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم ایسے ہو تو تم میں کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہونا چاہئے.نیک اعمال پچھلے گناہوں سے بھی مغفرت کے سامان کر رہے ہوں گے اور نیک اعمال کا تسلسل اور با قاعدگی ، برائیوں سے بچنا اور دین کو دنیا پر مقدم کرنا، آئندہ کی غلطیوں سے بھی ایک مومن کو بچارہے ہوں گے.خوف اور غم سے دُور رکھنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ : واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امریا خصومت کو چھوڑ دیں.“ اسلام یہ ہے.یہ چار چیزیں ہیں کہ کسی چیز کی قیمت پیشگی کے طور پر دی جائے کسی کو اپنا کام سپرد کیا جائے صلح کے لئے کوشش کی جائے اور ہر قسم کے جھگڑے والی باتوں کو چھوڑ دیا جائے اور فرمایا کہ اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(البقرة : 113) یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے.مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 11 345 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء کا ہو جاوے.فرمایا ” اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصا اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجالا وے.مگر ایسے ذوق وشوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.“ ( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 57-58) پس یہ وہ مقام ہے جو ہمیں اعتقادی اور عملی طور پر حاصل کرنا ہے.اگر ہماری اپنی اصلاح ہے، اگر ہم اپنے ایمان میں مضبوط ہیں ، اگر ہم اپنے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ یہ خدا کی رضا کے مطابق ہیں یا نہیں اور انہیں خدا کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں ، دعاؤں پر زور دے رہے ہیں تو پھر دنیا داروں کے دنیاوی قانون یا قانون کی آڑ میں ظلم ہمیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے یا ظاہری طور پر شاید دنیاوی لحاظ سے نقصان پہنچا دیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم مقبول ہوں گے.قرآن کریم نے ان ظلم کرنے والوں کی مثالیں دے کر پہلے ہی ہمارے دلوں کو مضبوط فرما دیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں میں ساحر تھے یا بن کے جو آئے تھے اور پھر قائل ہو گئے، انہوں نے یہی جواب دیا تھا کہ فَاقْضِ مَا انْتَ قَاضٍ (طہ: 73 ) کہ پس تیرا جوز ور لگتا ہے لگا لے.إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيُوةَ الدُّنْيَا - (طہ: 73) - تو صرف اس دنیا کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے اسے ختم کر سکتا ہے.پس اگر کوئی بھی حکومت ظلم کرنا چاہتی ہے تو اُن کے سامنے مومنوں کا انجام بھی ہے اور فرعونوں کا انجام بھی ہے.آخری فتح ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مومنوں کی ہی ہوتی ہے اور یہاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ ہوگی.پس ہم نے تو اس ایمان کا مظاہرہ کرنا ہے جو دنیا والوں سے خوف کھانے والا نہ ہو بلکہ اگر کوئی خوف اور غم ہو تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو کس طرح حاصل کرنا ہے، اُس کے قرب کو کس طرح حاصل کرنا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان اور مسلمان ہونے کی اعلان کرنے والے اور نیک اعمال بجالانے والوں کے جس معیار کا ذکر فرمایا ہے، وہ سورۃ نساء کی اس آیت میں ہے کہ وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا - (النساء: 126) اور دین میں اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کر دے.اور وہ احسان کرنے
خطبات مسرور جلد 11 346 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء والا ہو اور اُس نے ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کی ہو.اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنالیا تھا.پس ابراہیم کی ملت کی پیروی کی ضرورت ہے، اگر اللہ تعالیٰ کا دوست بننا ہے.ملت کے مختلف معنی ہیں.ایک معنی طریق اور راستے کے بھی ہیں.اس کے معنی مذہب کے بھی ہیں.(اقرب الموارد زیر مادہ ملل) اور اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی خصوصیت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَقُى (النجم :38) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اُس کے لئے صدق دکھایا جائے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اُس کی وجہ یہی تھی.چنانچہ فرمایا ہے.وَابْرَاهِيمَ الَّذِي وَٹی (انجم : 38).ابراہیم وہ ابراہیم ہے جس نے وفاداری دکھائی.خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے.جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے اور ہر ذلت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی.فرمایا ” جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اُس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے.فرمایا اللہ تعالی عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے.اور عمل دُکھ سے آتا ہے.لیکن جب انسان خدا کے لئے دُکھ اُٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اُس کو دُکھ میں بھی نہیں ڈالتا.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 703.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) فرمایا ” اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت الہی سے بھرنا، خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو، کوئی فرق نہ ہو.یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں.“ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 457.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اور یہی خصوصیات تھیں، ابراہیم کی.پھر آپ نے فرمایا کہ: "اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہوسکتی ہے کہ جب اُس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اُس کی راہ میں وقف ہو جاوے.اور جو امانتیں اُس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی معطی حقیقی کو واپس دی جائیں.اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اُس کی حقیقتِ کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے.یعنی
خطبات مسرور جلد 11 347 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء شخص مدعی اسلام جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہے.یہ بات ثابت کر دیوے کہ اُس کے ہاتھ اور پیرا ور دل اور دماغ اور اُس کی عقل اور اُس کا فہم اور اُس کا غضب اور اُس کا رحم اور اُس کا حلم اور اُس کا علم اور اُس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں ، اور اُس کی عزت اور اُس کا مال ، اور اُس کا آرام اور سرور ، اور جو کچھ اُس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے، یہاں تک کہ اُس کی نیات اور اُس کے دل کے خطرات دل کے خطرات بہت ہوتے ہیں.فرمایا ”نیات اور اُس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اُس شخص کے تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے.اور تمام اعضاء اور قومی الہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں.“ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 59-60) یعنی اب اعضاء بھی اللہ تعالیٰ کے ہو گئے ہیں.پس یہ ہے وہ مقام جو ہر احمدی کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے.جو ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے.اور جب یہ مقام ہم حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی حقیقی مسلمان ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں تبھی ہم خدا تعالیٰ کی پناہ میں آنے والے بھی ہوں گے.اللہ تعالیٰ کرے کہ بحیثیت جماعت، جماعت کی کثرت اس مقام کو حاصل کرنے والی ہو.دعاؤں کی طرف توجہ دینے والی ہو.ہم حقیقت میں اسلامی رنگ میں رنگین ہونے والے ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اُن لوگوں میں شمار ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بشرى لِلْمُسْلِمِينَ.(انحل:90) کہ فرمانبرداری کے لئے خالص ہو کر اسلام کے احکامات پر عمل کرنے والوں کے لئے بشارت ہے.اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملتی ہے تو دشمن کی بیخ کنی اور خاتمہ کے نظارے بھی نظر آتے ہیں.خدا کرے کہ ہم میں سے اکثریت کی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو جائے ، بلکہ ہر ایک احمدی کی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہواور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا ہو اور جلد ہم مخالفین کے انجام کو بھی دیکھنے والے ہوں.اس کے بعد اب میں ، جیسا کہ میں نے کہا، کراچی میں ایک شہید کئے گئے ہیں، اُن کے کچھ کو ائف پیش کرتا ہوں.انشاء اللہ نماز جمعہ کے بعد اُن کا جنازہ غائب بھی ہوگا.اُن کا نام مکرم چو ہدی حامد سمیع صاحب تھا.چوہدری عبدالسمیع خادم صاحب مرحوم کے بیٹے تھے.گلشن اقبال کراچی میں ہی رہتے تھے.11 جون کو ان کی شہادت ہوئی ہے.ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذان کے دادا محترم چو ہدری عبدالرحیم صاحب
خطبات مسرور جلد 11 348 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء کے ذریعہ سے ہوا تھا.ان کے دادا مکرم چوہدری عبدالرحیم صاحب کا تعلق گورداسپور انڈیا سے تھا.اسی طرح آپ کی دادی سردار بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی چوہدری محمد اسماعیل صاحب کی صاحبزادی تھیں.ان کے دادا چوہدری عبد الرحیم صاحب نے 1924ء میں بیعت کی تھی.بیعت کے بعد انہیں اپنے والدین کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.یہ مخالفت کوئی آج سے نہیں ہے، یہ ہمیشہ سے ہے.یہاں تک کہ اُن کے والد اس طرح ان کے دادا کو سزا دیا کرتے تھے کہ اُن کی ہتھیلیوں پر چار پائی کے پائے رکھ کے باندھ دیا کرتے تھے اور خود چار پائی پر سو جایا کرتے تھے.اور اس طرح آپ کے دادا ساری رات اسی حالت میں بندھے رہتے تھے.ان کی وجہ سے ان کی ہتھیلیوں میں نشان بھی پڑگئے تھے.آخر 1929ء میں پھر یہ لاہور آگئے اور وہیں رہائش اختیار کر لی.اور حامد سمیع صاحب کی پیدائش بھی لاہور میں ہوئی.تعلیمی لحاظ سے یہ چارٹڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور ان کے والد بھی چارٹڈا کا ؤنٹنٹ تھے اور ان کی اپنی چارٹڈ اکاؤنٹینسی کی فرم تھی ، وہ چلا یا کرتے تھے.ان کی عمر شہادت کے وقت اڑتالیس سال کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.یہ عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد تقریباً ساڑھے چھ بجے اپنی فرم سے جو جناح روڈ کراچی میں تھی کار کے ذریعہ سے جارہے تھے اور غیر از جماعت دوست بھی ان کے ساتھ گاڑی میں سوار تھے.کہتے ہیں یہ اپنے دفتر سے کچھ آگے نکلے ہیں تو نامعلوم حملہ آوروں نے جو کہ موٹر سائیکلوں پر سوار تھے ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی اور زخموں کی نوعیت سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور دوموٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور گاڑی کے دونوں طرف سے انہوں نے حملہ کیا تھا.کم و بیش چھ گولیاں آپ کے ماتھے پر لی تھیں اور پھر کمر پر، چہرے پر، جس سے آپ موقع پر شہید ہو گئے.انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اور دو دوست بھی جیسا کہ میں نے کہا زخمی ہیں اور ایک کی حالت کافی تشویشناک ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اُن پر بھی.بہر حال یہ لگتا ہے کہ وہ جو دو دوست زخمی تھے ، اُن کو براہ راست گولیاں نہیں لگیں بلکہ ان سے گولیاں گزر کر ان کو جا کے لگتی رہی ہیں.یہ شہید مرحوم اپنے حلقے کے سیکرٹری مال بھی تھے.اس کے علاوہ پہلے خدام الاحمدیہ اور اب انصار کے شعبہ مال میں بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی.بڑے خوش طبع تھے، ہمدرد تھے.بااخلاق انسان تھے اور ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے.انتہائی خیال اور محبت کرنے والے شخص تھے.اپنی اہلیہ کے ساتھ بھی، بچوں کے ساتھ بھی ، دوسروں کے ساتھ بھی انتہائی شفقت کا سلوک کرنے والے تھے.ان کے صدر صاحب حلقہ کہتے ہیں کہ شہید مرحوم انتہائی اطاعت گزار طبیعت کے مالک تھے.کہتے ہیں کہ خاکسار
خطبات مسرور جلد 11 349 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14 جون 2013ء نے مئی میں تحریک کی کہ مئی میں ہی چندے کی ادائیگی مکمل ہو جائے تو انہوں نے فوراً اپنی ادائیگی کر دی بلکہ کچھ زیادہ دے دیا اور گیارہ جون کو شہادت سے ایک دن قبل موصیان کی میٹنگ کا انعقاد کیا اور بڑے پراثر انداز میں وصایا اور چندوں کے نظام کی اہمیت بیان کی.اچھے بولنے والے بھی تھے.انٹرن شپ کے لئے احمدیوں کی کافی مدد کیا کرتے تھے.ان کی اہلیہ محترمہ صبا حامد صاحبہ اور دو بیٹیاں ہیں، عروسہ حامد چودہ سال کی ، بارعہ حامد سات سال کی.اور بیٹا راسخ احمد نو سال کا.اللہ تعالیٰ ان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ہر موقع پر خودان کا حامی و ناصر ہو.ان کے باقی بھائی اور بہنیں وغیرہ پاکستان سے باہر ہی مقیم ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 5 جولائی 2013 ء تا 13 جولائی 2013 ء جلد 20 شمارہ 27 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 350 25 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 21 جون 2013 ء بمطابق 21 احسان 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا- يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا.(الاحزاب: 71-72) ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو.وہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا.اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، یقیناً اس نے ایک بڑی کامیابی کو پالیا.ان آیات میں خدا تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ قول سدید اختیار کرو.صاف اور سیدھی بات کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ قول سدید یہ ہے کہ وہ بات منہ پر لاؤ جو بالکل راست اور نہایت معقولیت میں ہو.اور لغو اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سر محمودخل نہ ہو.(براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 209-210 حاشیہ نمبر 11) سر پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ : ”اے وے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور وہ باتیں کیا کرو جو سچی اور راست اور حق اور حکمت پر مبنی ہوں.“ ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحه 231) پھر فرماتے ہیں کہ : ” لغو باتیں مت کیا کرو محل اور موقع کی بات کیا کرو.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 337) ان تمام ارشادات میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے ہیں، یہ واضح ہوتا ہے کہ تقویٰ کا حصول اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اُس وقت ممکن ہے جب ہر حالت میں ہمشکل میں بھی اور
خطبات مسرور جلد 11 351 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء آسانی میں بھی ، فیصلہ کرتے ہوئے بھی ، یعنی کسی کے ذمہ اگر کوئی فیصلہ لگایا گیا ہے اُس وقت فیصلہ کرتے ہوئے بھی اور گواہی دیتے ہوئے بھی، گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بات چیت اور معاملات میں بھی اور رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ معاملات میں بھی، کاروبار میں کوئی چیز خریدتے ہوئے بھی اور بیچتے ہوئے بھی ، ملازمت میں اگر کوئی ملازم ہے کسی جگہ وہاں کام کرتے ہوئے، اپنی سچائی کو ہمیشہ قائم رکھو اور جس کے پاس ملازم ہو اُس کے ساتھ معاملات میں بھی سچائی کو قائم رکھو.غرض کہ روزمرہ کے ہر کام میں اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے منہ پر ایسی بات آئے جو بالکل سچ ہو.اُس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو.یعنی ایسا ابہام جس سے ہر ایک اپنی مرضی کا مطلب نکال سکے.ایسی سچائی ہو کہ اگر اس سچائی سے اپنا نقصان بھی ہوتا ہوتو برداشت کر لو لیکن اپنی راستکوئی اور سچائی پر حرف نہ آنے دو.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ روز مرہ کے معاملات میں اگر ذراسی غلط بیانی ہو بھی جائے تو فرق نہیں پڑتا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرق پڑتا ہے، تمہارے تقویٰ کا معیار کم ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ تقویٰ کا معیار کم ہوتے ہوئے ایک وقت میں غلط بیانی اور جھوٹ کے قریب تک تمہیں لے جائے.یا سچائی سے انسان بالکل دور ہو جائے اور جھوٹ میں ڈوب جائے اور پھر خدا تعالیٰ سے دور ہو جائے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وجہ سے کہ سچائی پر قائم نہیں ایک انسان رڈ کر دیا جائے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مومن ہو تو تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ قولِ سدید پر قائم رہو.فرما یا کہ قولِ سدید کا یہ بھی معیار ہے کہ جو الفاظ منہ پر آئیں وہ معقولیت بھی رکھتے ہوں.یہ نہیں کہ جو اول شلول ہم نے سچ بولنا ہے ، ہم نے بول دینا ہے.بعض دفعہ بعض باتیں سچی بھی ہوتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ کہی بھی جائیں.وہ معقولیت کا درجہ نہیں رکھتیں.فتنہ اور فساد کا موجب بن جاتی ہیں.کسی کا راز دوسروں کو بتانے سے رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں.تعلقات میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.لیکن یہ بھی ہے کہ ایک بات ایک موقع پر ایک جگہ پر معقول نہیں لیکن دوسرے موقع اور جگہ پر یہ کرنی ضروری ہو جاتی ہے.مثلاً خلیفہ وقت کے پاس بعض باتیں لائی جاتی ہیں جو اصلاح کے لئے ہوں.پس اگر ایسی بات ہو تو گو ہر جگہ کرنے والی یہ نہیں ہوتی لیکن یہاں آکر وہ معقولیت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے.پس ایک ہی بات ایک جگہ فساد کا موجب ہے اور دوسری جگہ اصلاح کا موجب ہے.پھر معقولیت کی مزید وضاحت بھی فرما دی کہ کسی قسم کی لغو اور فضول بات قول سدید کے نام پرنہ ہو.بعض لوگ بات تو صحیح کر دیتے ہیں، اپنے زعم میں اصلاح کے نام پر بات پہنچاتے ہیں لیکن اُس میں
خطبات مسرور جلد 11 352 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء اپنی طرف سے وضاحت کے نام پر حاشیہ آرائی بھی کر دیتے ہیں.یہ پھر قول سدید نہیں رہتا بلکہ بعض حالات میں قولِ سدید کا خون ہو رہا ہوتا ہے.ایک صحیح بات ایک آدھ لفظ کی حاشیہ آرائی سے اصلاح کرنے والوں کے سامنے، یا بعض دفعہ اگر میرے سامنے بھی آ رہی ہو تو حقیقت سے دور لے جاتی ہے اور نتیجہ اصلاح کا صحیح طریق اپنانے کے بجائے غلط طریق اپنا یا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں اصلاح کے بجائے نقصان ہوتا ہے.مثلاً بعض دفعہ اصلاح نرمی سے سمجھانے یا صرف نظر کرنے یا پھر معمولی سرزنش کرنے سے بھی ہوسکتی ہے لیکن ایک غلط لفظ فیصلہ کرنے والے کو سخت فیصلہ کرنے کی طرف لے جاتا ہے جس سے بجائے اصلاح کے نقصان ہو رہا ہوتا ہے.اس لئے فرمایا کہ حق کے ساتھ ، سچائی کے ساتھ حکمت بھی مدنظر رہنی چاہئے.اگر حکمت ہوگی تو تبھی قول سدید بھی ہوگا.اور حکمت یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور امن کا قیام ہر سطح پر ہو، یہ مقصود ہو نہ کہ فساد.پس اس حکمت کو مدنظر رکھتے ہوئے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، موقع اور محل کی مناسبت سے بات ہونی چاہئے.یعنی ہر سچی بات حکمت کے بغیر اور موقع اور محل کو سامنے رکھے بغیر کرنا قول سدید نہیں ہے.یہ پھر لغویات اور فضولیات میں شمار ہو جائے گا.اور یہ صورت حال بجائے ایک انسان کو خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنا سکتی ہے.پس ایک مومن کو تقویٰ پر چلتے ہوئے قول سدید کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.تقویٰ کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اگر بار یکی سے اس بات پر نظر ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پھر ایسے انسان پر پڑتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہئے.یعنی جو باریکیاں ہیں تقویٰ کی ان کو سامنے رکھنا چاہئے.” سلامتی اسی میں ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا نہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنادیں گی اور طبیعت میں کسل اور لا پروائی پیدا ہوکر پھر ایسا انسان ہلاک ہو جائے گا“.فرمایا: ”تم اپنے زیر نظر تقومی کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لئے دقائق تقوی کی رعایت ضروری ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 442 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ: ”سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی.اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے بہت مشکل کام ہے.تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے بعض دفعہ سچی بات کہنا بھی انسان کو مشکل میں ڈال دیتا ہے.فرمایا کہ: "متقی کے لئے خدا تعالی ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا
خطبات مسرور جلد 11 353 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء ہے.مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يحتسب.(الطلاق: 3,4) پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے.لیکن حصول تقویٰ کے لئے نہیں چاہئے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں.تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے ملے گا.خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے.تقویٰ اختیار کرو جو چاہو گے وہ دے گا.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 90.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) بہر حال تقویٰ مدنظر ہو تو پھر آگے ہر کام انسان کا چلتا ہے، چاہے وہ سچائی ہے یا دوسرے اعمال ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.اور یہ قولِ سدید کا حکم تو ایسا ہے کہ اس پر معاشرے کے امن کی بنیاد ہے.معاشرے کی اصلاح کی بنیاد اس پر ہے.تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح جو مرد اور عورت کے بندھن کا اسلامی اعلان ہے اور آئندہ نسل کے جاری ہونے کا ایک سلسلہ ہے، اس میں ان آیات کو شامل فرمایا ہے.(سنن ابن ماجه كتاب النكاح باب خطبة النكاح حدیث (1892).لیکن جیسا کہ میں نے کہا، اس کا دائرہ صرف گھر تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے.اس سے معاشرے میں فساد بھی پیدا کیا جاسکتا ہے اور امن اور سلامتی بھی پیدا کی جاسکتی ہے.پس اس پر جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے اس طرح عمل کرنا انتہائی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ پھر اگلی آیت میں فرماتا ہے کہ تمہاری تقویٰ کی باریک راہوں کی تلاش کی کوشش، اور قولِ سدید کی جزئیات پر قائم رہنے کی کوشش تمہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائے گی.اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا.سچائی کے اختیار کرنے سے تمہارے سے پھر نیک اعمال ہی سر زد ہوں گے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، قولِ سدید کی وجہ سے تم لغو باتوں سے بھی پرہیز کرنے والے بن جاؤ گے.لغو بات سے پر ہیز بذات خود پھر نیک اعمال کی طرف لے جاتا ہے.برائیوں سے دور کرتا ہے.ایک بڑی مشہور حدیث ہے.ہم اکثر سنتے ہیں.ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کہ آج تم یہ عہد کر لو کہ تم نے ہمیشہ سچائی پر قائم رہنا ہے، جھوٹ کبھی نہیں بولنا اگر اس پر عمل کرتے رہے تو فائدہ ہوگا.تمہاری برائیاں چھٹ جائیں گی.تو اس نے اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی تمام چھوٹی بڑی برائیوں اور گناہوں سے چھٹکارا پا لیا.التفسیر الکبیر لامام رازی جزء 16 صفحہ 176 تفسیر سورۃ التوبه زیر آیت نمبر 119 دار الكتب العلمية بيروت 2004ء) اور جب انسان برائیوں اور گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ اور فعل
خطبات مسرور جلد 11 354 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء.اُس کو اعمال کے اصلاح کی توفیق دیتا ہے.اور یوں وہ اُن لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے جو اعمالِ صالحہ بجالانے والے ہیں.اور پھر یہی نہیں کہ جو نیک اعمال اب سرزد ہو رہے ہیں انہی کا اجر ہے، بلکہ تقویٰ پر چلنے والے بچائی پر قائم ہونے والے اپنے گزشتہ گناہوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش کروا لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف تمہارے اعمال کی اصلاح نہیں ہوگی بلکہ یغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ.تمہارے گزشتہ گناہوں کو بھی اللہ تعالی بخش دے گا.اور اگر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے رہے، تقویٰ پر قائم رہے، نیکیاں کرنے کی توفیق پاتے رہے، فتنہ و فساد سے بچے رہے، ان تمام احکام پر عمل کرتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے مومن کو حقیقی مومن بننے کے لئے دیئے ہیں، جن کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تاکیداً اس طرح توجہ دلائی ہے کہ قرآن کریم کے سات سو حکموں پر عمل کرو گے تو حقیقی مومن کہلاؤ گے.(ماخوذ از کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26) اور حقیقی مومن بننے کے نتیجہ میں آئندہ یہ گناہ بھی پھر معاف ہو جائیں گے.یہ نہیں کہ آئندہ گناہ انسان کرتا جائے اور خدا تعالیٰ معاف کرتا جائے گا، بلکہ نیک اعمال کی وجہ سے، اصلاح نفس کی وجہ سے گناہوں سے دُوری ہوتی چلی جائے گی.استغفار کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے گناہوں کے خلاف انسان کو طاقت ملتی ہے.پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُم “ تو اس کا یہی مطلب ہے کہ گزشتہ گناہوں سے بخشش اور آئندہ گناہوں کے خلاف طاقت ملتی ہے جس سے پھر اعمال صالحہ کا ایک جاری اور مسلسل عمل جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ فوز عظیم ہے.یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جائے.پس فوز عظیم کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی کامل اطاعت ضروری ہے.اپنی زندگی کو اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے.اس پر عمل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے طاقت مانگنا ضروری ہے.اور یہ طاقت استغفار سے ملتی ہے.جب یہ طاقت ملے گی تو پھر نیک اعمال بھی سرزد ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نیک اعمال کی طرف رہنمائی بھی فرماتا رہے گا.اور پھر ایسے انسان کا اُن حقیقی مومنوں میں شمار ہو گا جو سچائی پر قائم رہنے والے اور سچائی کو پھیلانے والے ہوں گے.اُن لوگوں میں شمار ہو گا جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والے مومنین ہیں.پس تقویٰ فوز عظیم تک لے جاتا ہے اور فوز عظیم حاصل کرنے والے متقی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! اپنی زندگی کا یہ مقصد بناؤ اگر حقیقی مومن بننا ہے.پس یہ چیزیں ہیں جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.
خطبات مسرور جلد 11 355 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اور اقتباسات پیش کروں گا جو سچائی کے اظہار کے بارے میں ہیں کہ کس طرح ہونا چاہئے ، کیسے موقعوں پر ہونا چاہئے ، اس کی مختلف حالتیں کیا ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اصل بات یہ ہے کہ فراست اچھی چیز ہے.انسان اندر ہی اندر سمجھ جاتا ہے کہ یہ سچا ہے، کسی کی بات کوئی کر رہا ہو، اگر فر است ہو تو سمجھ جاتا ہے.فرمایا کہ: ” سچ میں ایک جرات اور دلیری ہوتی ہے.جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے.وہ جس کی زندگی نا پا کی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے، وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کر سکتا.ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرات سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاکدامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا.دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذراسی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اُس کے حاسد نہ ہوں.ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں.یہی حال دینی امور کا ہے.شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے.پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے.شیطان تو ساتھ لگا ہوا ہے، لیکن اگر انسان کے اندر سچائی ہے، اپنا معاملہ اللہ سے صاف ہے تو پھر کوئی فکر نہیں.فرمایا کہ ” خدا کو راضی کرے، پھر کسی سے خوف نہ کھائے اور نہ کسی کی پروا کرے.فرمایا کہ ایسے معاملات سے پر ہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہو جاوے.“‘ خود انسان غلطیوں میں پڑے تو تبھی عذاب آتا ہے، تبھی سزا ملتی ہے.اگر انسان سچائی پر قائم رہے، نیکیوں پر قائم رہے، اعمالِ صالحہ بجالانے والا ہو، برائیوں سے بچنے والا ہو تو پھر یہ چیزیں نہیں آتیں.لیکن یہ سب کچھ خود نہیں حاصل ہوتا.فرمایا: ”مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الہی کے سوا نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کی تائید ہوگی، اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو تبھی ہو گا.اور پھر اُس کے لئے وہی استغفار اور اللہ تعالیٰ کے لئے جھکنا ہے.فرمایا کہ صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شاملِ حال نہ ہو.انسان بہت کچھ کرتا ہے کہ میں یہ کر دوں گا ، وہ کر دوں گا اور دینی معاملات میں تو بالکل ہی انسانی کوشش نہیں بنا سکتی.اللہ کا فضل ہو تو دین کی خدمت کی بھی توفیق ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے.پھر فرمایا: ”صرف انسانی کوشش کچھ بن نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شاملِ حال نہ ہو.خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا - (النساء: 29) انسان ناتواں ہے، غلطیوں سے پر ہے، مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں.پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 543.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 356 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء پس ان باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.دین میں بھی، دنیا میں بھی مشکلات آتی ہیں.ہر جگہ اگر سچائی پر قائم ہو گے، تقویٰ پر قائم ہو گے، اپنے اعمال پر نظر ہوگی تو یہ مشکلات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہوتی چلی جائیں گی.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ سچ کا اظہار مشکلات میں ڈال دیتا ہے.بعض دفعہ عملاً یہ بھی ہوتا ہے لیکن اگر اپنا ظاہر و باطن ایک ہو تو پھر ڈرنے کی ضرورت نہیں.یہ مشکلات بھی غائب ہو جاتی ہیں اور یہ صرف دشمنوں کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ اپنوں سے بھی سچ کا اظہار مشکلات میں ڈال سکتا ہے کیونکہ اپنوں میں بھی کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں.تقویٰ کی کمی ہوتی ہے.اس لئے انسان بعض دفعہ اپنوں سے بھی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے.مثلاً دنیا میں آجکل انتخابات ہورہے ہیں.مجھے بعض شکایات آتی ہیں کہ ہم نے فلاں کو ووٹ دیا یا فلاں عہدیدار نے پوچھا کہ تم نے فلاں کو کیوں اپنی رائے دی ، اُس کو ووٹ کیوں دیا؟ اب جماعتی انتخابات تو ایسے ہیں کہ ہر ایک آزاد ہے، کسی کو پوچھنے کا حق نہیں.اگر کسی نے سچائی سے اپنے خیال میں کسی کو بہتر سمجھتے ہوئے ووٹ دیا تو کسی عہد یدار کا حق نہیں بنتا کہ جا کے اُسے پوچھا جائے کہ تم نے کیوں فلاں کو دیا، فلاں کو کیوں دیا ؟ یہی اگر انسان میں کمزوری ہو، اپنی بعض غلطیاں ہوں تو ایک دفعہ یہ سچائی کا اظہار ہو جائے تو اگلی دفعہ پھر سچائی کا اظہار نہیں کرتا، کہیں میری غلطیاں اور کمزور یاں نہ پکڑی جائیں.یا تقویٰ کی کمی ہو، جیسے بعض لوگ اظہار کر دیتے ہیں کہ ہمیں فکر ہے کہ یہ عہد یدار پھر ہمارے خلاف اپنے دلوں میں رنجشیں نہ رکھیں.یہ تقویٰ کی کمی ہے، سچائی کی کمی ہے.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اگر حق سمجھتے ہوئے کسی نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو پھر سچائی یہی ہے، تقویٰ یہی ہے کہ بے فکر رہے.ہاں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اُس کا فضل مانگتا رہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی چل رہی ہوتی ہے اور ایسی رنجشیں رکھنے والوں کو خود بھی اللہ تعالیٰ بعض دفعہ پکڑتا ہے.یہ نہیں ہے کہ جماعتی نظام کوئی ایسا ہے جس میں جس کا جو دل چاہے، کرتا چلا جائے.کہیں نہ کہیں کسی پکڑ میں انسان آجاتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ”اگر چہ عام نظر میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ لا إلهَ إِلَّا اللہ کے بھی قائل ہیں ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زبان سے تصدیق کرتے ہیں.بظاہر نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ روحانیت بالکل نہیں رہی.اور دوسری طرف اُن اعمالِ صالحہ کے مخالف کام کرنا ہی شہادت دیتا ہے کہ وہ اعمال، اعمال صالحہ کے رنگ میں نہیں کئے جاتے بلکہ رسم اور عادت کے طور پر کئے جاتے ہیں کیونکہ ان میں اخلاص اور روحانیت کاشتہ بھی نہیں ہے.ورنہ کیا وجہ ہے
خطبات مسرور جلد 11 357 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء کہ ان اعمالِ صالحہ کے برکات اور انوار ساتھ نہیں ہیں.خوب یا درکھو کہ جب تک سچے دل سے اور روحانیت کے ساتھ یہ اعمال نہ ہوں کچھ فائدہ نہ ہوگا اور یہ اعمال کام نہ آئیں گے.اعمال صالحہ اُسی وقت اعمال صالحہ کہلاتے ہیں جب ان میں کسی قسم کا فساد نہ ہو.صلاح کی ضد فساد ہے.صالح وہ ہے جو فساد ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 499.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) سے مبر امنزہ ہو.66 اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جواب طلبیاں شروع ہو جائیں، لوگوں کو خوفزدہ کیا جانے لگے تو یہ بھی فساد کے زمرہ میں آتا ہے.پس یہ انسان کو ہر وقت اپنے مد نظر رکھنا چاہئے ، اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیئے کہ اعمال صالحہ انہوں نے بجالانے ہیں.اور اعمالِ صالحہ یا اپنے اعمال کی اصلاح اُس وقت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے.اور خدا تعالیٰ نے متقیوں کی یہ نشانی رکھی ہے، تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والوں کی یہ نشانی رکھی ہے کہ ہر عمل، چاہے وہ نیک عمل ہو، عمل صالح نہیں بن جاتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ عملِ صالح نہ ہو.اور اس کو اللہ تعالیٰ کی نظر میں عملِ صالح بنانے کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی ضرورت ہے، اُس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے،استغفار کرنے کی ضرورت ہے.پھر آپ فرماتے ہیں: ”انسان سمجھتا ہے کہ نرا زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کافی ہے یا نرا اسْتَغْفِرُ الله کہ دینا ہی کافی ہے.مگر یا درکھ زبانی لاف و گزاف کافی نہیں ہے.خواہ انسان زبان سے ہزار مرتبہ اَسْتَغْفِرُ الله کہے یا سو مرتبہ تسبیح پڑھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ خدا نے انسان کو انسان بنایا ہے طوطا نہیں بنایا.یہ طوطے کا کام ہے کہ وہ زبان سے تکرار کرتا رہے اور سمجھے خاک بھی نہیں.انسان کا کام تو یہ ہے کہ جو کچھ منہ سے کہتا ہے اس کو سوچ کر کہے اور پھر اس کے موافق عملدرآمد بھی کرے.لیکن اگر طوطے کی طرح بولتا جاتا ہے تو یا درکھو نری زبان سے کوئی برکت نہیں ہے.جب تک دل سے اس کے ساتھ نہ ہو اور اس کے موافق اعمال نہ ہوں.وہ نری باتیں سمجھی جائیں گی جن میں کوئی خوبی اور برکت نہیں کیو نکہ وہ نرا قول ہے خواہ قرآن شریف اور استغفار ہی کیوں نہ پڑھتا ہو.خدا تعالیٰ اعمال چاہتا ہے.اس لیے بار بار یہی حکم دیا کہ اعمالِ صالحہ کرو.جب تک یہ نہ ہو خدا کے نزدیک نہیں جاسکتے.بعض نادان کہتے ہیں کہ آج ہم نے دن بھر میں قرآن ختم کر لیا ہے.لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ نری زبان سے تم نے کام لیا مگر باقی اعضاء کو بالکل چھوڑ دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اعضاء اس لیے بنائے ہیں کہ ان سے کام لیا جاوے.یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے کیونکہ ان کی تلاوت نرا قول ہی قول ہوتا ہے اور اس پر عمل نہیں ہوتا.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 611.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 358 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء پس اعمال کی اصلاح صرف ظاہری طور پر علم سے نہیں ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ اُس وقت اپنے وعدے کے مطابق اصلاح کرتا ہے جب سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا خوف سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش ہو.جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں شامل ہونے کے لئے یا اپنی جماعت میں شامل ہونے والوں کی جونشانی بتائی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں پر عمل کرتے ہیں.کسی علم اور کسی خاص مقام کے ہونے کا آپ نے ذکر نہیں فرمایا.پس ہمیں، ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کی طرف نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اپنے آپ کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ” جو شخص اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے موافق اپنا چال چلن نہیں بناتا ہے وہ ہنسی کرتا ہے کیونکہ پڑھ لینا ہی اللہ تعالیٰ کا منشاء نہیں.وہ تو عمل چاہتا ہے.اگر کوئی ہر روز تعزیرات ہند کی تلاوت تو کرتار ہے مگر ان قوانین کی پابندی نہ کرے بلکہ جرائم کو کرتا رہے اور رشوت وغیرہ لیتا رہے تو ایسا شخص جس وقت پکڑا جاوے گا تو کیا اس کا یہ عذر قابل سماعت ہوگا کہ میں ہر روز تعزیرات کو پڑھا کرتا ہوں؟ یا اس کو زیادہ سزا ملے گی کہ تو نے باوجود علم کے پھر جرم کیا ہے.جو قانون جانتا ہے، جوملکی قانون کو پڑھتارہتا ہے، صرف قانون پڑھنے سے سزا معاف نہیں ہو جاتی.اگر قانون پڑھ رہا ہے اور جرم کر رہا ہے تو فرمایا کہ اُس کو تو زیادہ سزا ملے گی کہ تو نے باوجود علم کے پھر جرم کیا ہے.اس لیے ایک سال کی بجائے چار سال کی سزا ہونی چاہئے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 611.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ” غرض نری باتیں کام نہ آئیں گی.پس چاہئیے کہ انسان پہلے اپنے آپ کو دکھ پہنچائے تا خدا تعالیٰ کو راضی کرے.اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھا دے گا.اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں تختلف نہیں ہوتا.اس نے جو وعدہ فرمایا ہے کہ أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ (الرعد: 18 ) یعنی جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہو وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے.یہ بالکل سچ ہے.عام طور پر بھی قاعدہ ہے کہ جو چیز نفع رساں ہو اس کو کوئی ضائع نہیں کرتا.یہانتک کہ کوئی گھوڑا بیل یا گائے بکری اگر مفید ہو اور اس سے فائدہ پہنچتا ہو، کون ہے جو اس کو ذبح کر ڈالے لیکن جب وہ ناکارہ ہو جاتا ہے اور کسی کام نہیں آسکتا تو پھر اس کا آخری علاج ہی ذبح ہے.پس یہ غور کرنے والے فقرات ہیں.فرمایا کہ ایسا ذبح ہی ہو جاتا ہے اور پھر جو ذبح کرنے والا سمجھ لیتا ہے، مالک سمجھ لیتا ہے کہ اور نہیں تو دو چار روپے کی کھال ہی پک جائے گی اور گوشت کام آ جائے گا.اسی طرح پر جب انسان خدا تعالیٰ کی نظر میں
خطبات مسرور جلد 11 359 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء کسی کام کا نہیں رہتا اور اس کے وجود سے کوئی فائدہ دوسرے لوگوں کو نہیں ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ خس کم جہاں پاک کے موافق اس کو ہلاک کر دیتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 612-611.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پس ہر ایک کو ، ہر احمدی کو ، ہر عہد یدار کو یہ سوچنا چاہئے کہ میں نے زیادہ سے زیادہ دوسرے کوکس طرح فائدہ پہنچانا ہے اور فائدہ پہنچانا ہی ہر ایک کے پیش نظر ہونا چاہئے.یہ اعزاز ، یہ عہدہ، یہ خدمت کا فائدہ بھی ہے جب دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی سوچ ہو، نیک نیتی ہو، اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ ہو اور سچائی پر قائم رہنے والا انسان ہو، تقویٰ پر چلنے والا ہو.فرمایا : ” غرض یہ اچھی طرح یا درکھو کہ نری لاف و گزاف اور زبانی قیل وقال کوئی فائدہ اور اثر نہیں رکھتی جب تک کہ اس کے ساتھ عمل نہ ہو اور ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء سے نیک عمل نہ کئے جاویں.جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف بھیج کر صحابہ سے خدمت لی.کیا انہوں نے صرف اسی قدر کافی سمجھا تھا کہ قرآن کو زبان سے پڑھ لیا یا اس پر عمل کرنا ضروری سمجھا تھا انہوں نے تو یہاں تک اطاعت و وفاداری دکھائی کہ بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے اور پھر انہوں نے جو کچھ پایا اور خدا تعالیٰ نے ان کی جسقد رقدر کی وہ پوشیدہ بات نہیں ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 612.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ اللہ تعالیٰ کی قدر ہے جس کی ہمیں تلاش کرنی چاہئے.آپ فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کر کے دکھا ؤ ورنہ حکمتی شئے کی طرح تم پھینک دیئے جاؤ گے.کوئی آدمی اپنے گھر کی اچھی چیزوں اور سونے چاندی کو باہر نہیں پھینک دیتا بلکہ ان اشیاء کو اور تمام کار آمد اور قیمتی چیزوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہو.لیکن اگر گھر میں کوئی چوہا مرا ہوا دکھائی دے تو اس کو سب سے پہلے باہر پھینک دو گے.اسی طرح پر خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ہمیشہ عزیز رکھتا ہے.ان کی عمر دراز کرتا ہے اور ان کے کاروبار میں ایک برکت رکھ دیتا ہے.وہ ان کو ضائع نہیں کرتا اور بے عزتی کی موت نہیں مارتا.لیکن جو خدا تعالیٰ کی ہدایتوں کی بے حرمتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کر دیتا ہے.اگر چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری قدر کرے تو اس کے واسطے ضروری ہے کہ تم نیک بن جاؤ تا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر ٹھہرو.جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے حکموں کی پابندی کرتے ہیں وہ اُن میں اور اُن کے غیروں کے درمیان ایک فرقان رکھ دیتا ہے.یہی راز انسان کے برکت پانے کا ہے کہ وہ بدیوں سے بچتا رہے.ایسا شخص جہاں رہے وہ قابل قدر ہوتا ہے کیونکہ اس سے نیکی پہنچتی ہے.وہ
خطبات مسرور جلد 11 360 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء غریبوں سے سلوک کرتا ہے، ہمسایوں پر رحم کرتا ہے، شرارت نہیں کرتا ، جھوٹے مقدمات نہیں بناتا، جھوٹی گواہیاں نہیں دیتا، بلکہ دل کو پاک کرتا ہے اور خدا کی طرف مشغول ہوتا ہے اور خدا کا ولی کہلاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 612.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے سچائی پر قائم رہنے والا بنائے.ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں کی کامل اطاعت کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کی پردہ پوشی فرمائے.ہمیشہ ہمارے سے وہ اعمال سرزد ہوں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم جذب کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے، ہم حقیقت میں اُس مقصد کو حاصل کرنے والے بھی ہوں اور آپ کے مددگار بھی ہوں.اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ہمیشہ ہم پر رہے.آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے.لاہور پاکستان میں ، ہمارے ایک احمدی بھائی کو شہید کر دیا گیا ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ان کے کچھ کو الف پیش کرتا ہوں پھر نماز جنازہ بھی انشاء اللہ جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا.ان شہید بھائی کا نام مکرم جواد کریم صاحب ہے جو مکرم کریم احمد دہلوی صاحب مرحوم کے بیٹے تھے.گرین ٹاؤن ضلع لاہور میں رہتے تھے.17 جون کو چار نامعلوم افراد نے مکرم جواد کریم صاحب ابن مکرم کریم احمد صاحب کے گھر کے اندر گھس کر فائرنگ کر کے ان کو شہید کر دیا.انا للہ وانا إلَيْهِ رَاجِعُونَ جو تفصیلات ہیں ان کے مطابق یہ گرین ٹاؤن لاہور میں اپنے مکان کی اوپر کی منزل میں رہائش پذیر تھے اور نچلی منزل میں ان کے بڑے بھائی امتیاز عدنان صاحب رہتے تھے اور والدہ بھی رہتی تھیں.کہتے ہیں رات تقریباً پونے آٹھ بجے کے قریب چار نامعلوم افرا دگھر میں آئے.دو باہر کھڑے رہے اور دو اندر گیراج میں چلے گئے اور وہاں شاید انہوں نے کریم صاحب کو بلا یا.بہر حال گیراج والوں کے ساتھ ان کی مڈبھیٹر ہوگئی.اسی اثناء میں ایک حملہ آور نے ان پر فائر کیا اور گولی دل پر لگی اور آر پار ہو گئی.شورسن کے ان کے بھائی بھی جو نچلی منزل میں تھے ، باہر نکلے تو حملہ آوروں نے ہوائی فائر کیا اور یہ کہتے ہوئے کہ اب تمہاری باری ہے وہاں سے چلے گئے، فرار ہو گئے.ہسپتال لے جایا گیا لیکن اس سے پہلے راستے میں ہی انہوں نے جام شہادت نوش فرمالیا.شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذان کے پڑنا نا حضرت حکیم محمد حسین صاحب آف بلوگڑ دہلی بھارت کی بیعت سے ہوا تھا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر
خطبات مسرور جلد 11 361 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء بیعت کی تھی اور اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے.ان کے پڑدادا اعجاز حسین صاحب مرحوم نے خط کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی لیکن دستی بیعت کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا.اس طرح ان کے جو پڑنانا تھے وہ صحابی تھے.ان کے دادا مکرم بابونذیر احمد صاحب دہلی میں لمبا عرصہ امیر جماعت رہے ہیں.شہید مرحوم کی عمر تینتیس سال تھی.وصیت کے بابرکت نظام میں شامل تھے.اپنا کاروبار کرتے تھے.ان کی اہلیہ ڈاکٹر ہیں، ان کا اپنا کلینک ہے.کلینک کے انتظامی معاملات بھی شہید مرحوم کے ہی سپر د تھے.انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے.چھوٹوں بڑوں کا ادب کرنے کا ان میں خاص امتیاز تھا.مخلص انسان تھے.ہر کسی سے تعاون کرتے تھے.ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے.جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.ان کا گھر لمبے عرصے تک نماز سینٹر بھی رہا.چھوٹی عمر سے ہی زعیم حلقہ تھے ، پھر مقامی طور پر بھی اور ضلع کی حیثیت میں بھی خدام الاحمدیہ کے کام کرتے رہے.والدہ مرحومہ نے شہادت کے دن ذکر کیا کہ جواد کریم نے اپنا ایک خواب مجھے سنایا تھا کہ چند لوگ مجھے مار رہے ہیں اور بڑا بھائی میرے پاس کھڑا ہے، مجھے نہیں بچاتا.تو موقع پر بھی اس طرح ہی ہوا کہ جب ان پر فائرنگ ہو رہی تھی بڑا بھائی باہر نکلا اور بچا نہیں سکا.ایک لحاظ سے اس طرح بھی خواب پوری ہوگئی.چندہ کے معاملے میں بھی بہت کھلے دل کے تھے اور دوسروں کو بھی تحریک کیا کرتے تھے.اپنے بھائی کو شہادت سے ایک دن قبل کہا کہ یا درکھو کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو میرا حساب کتاب صاف ہے اور میں بقایا دار نہیں ہوں.میں نے سارا حساب صاف کر دیا ہے.صدر صاحب حلقہ کہتے ہیں کہ ہمارے حلقے کے ایک ممبر جو چندے کی ادائیگی میں ذراست تھے، شہید مرحوم نے مسلسل ان سے رابطہ رکھا اور نہ صرف ان کو چندے کے معاملے میں چست کیا بلکہ نظامِ وصیت میں بھی شامل کروایا.شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ ہیں اور تین چھوٹے بچے ہیں، جن کی عمریں یہ ہیں، بیٹی ہے صبتہ الجواد، چھ سال کی ہے.اور طلحہ جواد تین سال، اور صفوان جواد چار ماہ.ان کے ایک بھائی ہیں.شہادت کے وقت ان کی والدہ زندہ تھیں لیکن تدفین کے لئے جب ان کا جنازہ ربوہ لے جایا گیا تو پیچھے سے والدہ کو بھی ہارٹ اٹیک ہوا.اُن کی بھی وفات ہوگئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ رضیہ کریم دہلوی صاحبہ جو حکیم محمد احمد دہلوی صاحب مرحوم کی صاحبزادی تھیں ،شہید مرحوم بیٹے کی شہادت کے کچھ دیر بعد، جب ربوہ جنازہ پر گئے ہوئے تھے ، ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی بھی وفات ہو گئی.رضیہ کریم صاحبہ کے والدین دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے.پہلے خانیوال میں رہے، پھر
خطبات مسرور جلد 11 362 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 21 جون 2013ء شادی ہوئی تو یہ لاہور آ گئیں.جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں.سکول میں ہیڈ مسٹرس تھیں.ریٹائر تھیں.1947ء میں ان کی پیدائش ہوئی تھی اور یہ اپنے حلقے کی سیکرٹری اصلاح وارشاد بھی تھیں.اور اپنے بچوں کو بھی جماعتی کاموں میں آگے لانے میں ان کا بہت ہاتھ تھا.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے.اور شہید مرحوم اور ان کی والدہ کی جو اولاد ہے اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو اور جماعت سے ان کا پختہ تعلق قائم کرے.میں نے تعزیت کا پیغام جب بھیجا تھا تو شہید مرحوم کے جو ایک بھائی ہیں، انہوں نے کہا کہ جماعت کے لئے تو ہماری جان ہر وقت حاضر ہے.انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے میں کوئی کسی قسم کی بھی بزدلی پیدا نہیں ہوگی.اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت بھی رکھے اور جہاں جرات عطا فرمائے وہاں اپنے فضل سے ہی اپنی حفاظت کے حصار میں ان سب کو رکھے.جیسا کہ میں نے کہا جمعہ کی نماز کے بعد انشاء اللہ جنازہ غائب ادا کروں گا.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 12 جولائی 2013 ء تا 18 جولائی 2013 ، جلد 20 شماره 28 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 363 26 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 28 جون 2013 ء بمطابق 28 احسان 1392 ہجری شمسی بمقام جلسہ گاہ.کالسروئے ، جرمنی تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ جرمنی کو آج سے اپنے جلسہ سالانہ کے انعقاد کی تو فیق مل رہی ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ تین دن تک جاری رہے گا.دنیا کے بعض اور ممالک خاص طور پر امریکہ اور کیا بیر وغیرہ کے بھی جلسے ان دنوں میں ہو رہے ہیں.کیونکہ ان کے امراء نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انہی دنوں میں ہمارا بھی جلسہ ہورہا ہے، اس لئے ہمارا بھی ذکر کر دیا جائے.اس وقت امریکہ میں تو بہت صبح ہو گی.کہا بیر میں بھی جمعہ کا وقت شاید گزر چکا ہو.امریکہ کا جمعہ تو اس وقت شاید پانچ یا چھ گھنٹے کے بعد شروع ہوگا.تاہم آخری دن یعنی اتوار کو اُن کا اختتام کا وقت بھی تقریباً یہی ہے جب یہاں انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ کا اختتام ہو رہا ہوگا.تو اس لحاظ سے وہ بھی جلسہ کے اختتامی خطاب اور دعا میں شامل ہو جا ئیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.ایک ہی دنوں میں مختلف ممالک کے جلسوں کا انعقاد اس لحاظ سے فائدہ مند بھی ہو جاتا ہے کہ لائیو (Live) خطبات سے مختلف ممالک کے لوگ جو اپنے ملکوں کے جلسوں کے لئے جمع ہوتے ہیں، استفادہ کر لیتے ہیں، ان میں شامل ہو جاتے ہیں.اور جماعت کی ایک بڑی تعداد تک خلیفہ وقت کی بات پہنچ جاتی ہے.بیشک دنیا میں جماعت کا ایک خاصہ حصہ جلسوں کے لائیو پروگرام کو سنتا ہے.لیکن پھر بھی میرے اندازے کے مطابق ایک بہت بڑی تعداد ہے جو نہیں سن رہی ہوتی.پس جیسا کہ میں نے کہا امریکہ والے یا بعض اور جگہوں کے احمدی جن کے ہاں ان دنوں میں جلسے ہو رہے ہیں ، آخری دن کے جلسے میں شامل ہو جائیں گے لیکن آج جمعہ پر بھی بہت سوں کی توجہ ہوگی.بیشک اُن ممالک کے وقت سے
خطبات مسرور جلد 11 364 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء مطابقت نہیں رکھتا لیکن کیونکہ جلسہ کی نیت سے اکثر لوگ آئے ہوتے ہیں، بلکہ جلسہ میں شامل ہی جلسے کی نیت سے ہوتے ہیں، اس لئے اپنے اپنے وقتوں کے مطابق جہاں بھی ہوں، خطبہ یا تقریریں سن لیتے ہیں.یعنی عام حالات کی نسبت زیادہ بڑی تعداد یہ سن لیتی ہے.آج کے خطبہ میں میں جلسہ سالانہ کے حوالے سے جلسہ کے مقاصد کے بارے میں یاددہانی کروانا چاہتا ہوں.یعنی وہ مقاصد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کے بیان فرمائے ہیں.یاد دہانی کی ضرورت رہتی ہے تا کہ جلسے کے دنوں میں خاص تو جہ رہے اور بعد میں بھی ان باتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت کے مطابق ان کا اظہار ہر احمدی کے عمل سے ہوتا رہے.اس بات کا انحصار بھی انسان کی اپنی توجہ پر ہے کہ کتنی دیر توجہ قائم رہتی ہے.آجکل کیونکہ دنیا کے دوسرے کاموں اور بکھیڑوں میں بھی انسان پڑا ہوا ہے اس لئے اکثر دنیا داری غالب آ جاتی ہے جس سے فرائض اور نوافل کی ادائیگی میں سستی پیدا ہو جاتی ہے.جلسوں میں شامل ہونے کے بعد بعض احمدی مجھے لکھتے ہیں کہ جلسے کے تین دنوں میں ہماری کا یا پلٹ گئی ہے.یہ تین دن تو یوں گزرے جیسے ہم کسی اور ہی دنیا میں تھے.ایک خاص روحانی ماحول تھا.دعا کریں کہ بعد میں بھی یہ حالت قائم رہے.تو بہر حال یہ حالت ہے جو جلسے کے دنوں میں غالب ہوتی ہے اور اس کا اثر ہر شامل ہونے والے پر ہوتا ہے.اور ہر ایک کی ایمانی حالت کے مطابق یہ اثر رہتا ہے.بعض تو جلسہ کے فوراً بعد یہ بھول جائیں گے اور بھول جاتے ہیں کہ جلسے کی تقریریں سننے کے دوران ہم نے اپنے آپ سے کیا کیا عہد کئے تھے.اپنے خدا سے عہد کئے تھے کہ ان نیکیوں کو جاری رکھیں گے.بعض چند دن اس اثر کو قائم رکھیں گے.بعض چند ہفتے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو چند مہینے تک یہ اثر قائم رکھیں گے.یہ حقائق ہیں جن سے ہم آنکھیں نہیں پھیر سکتے.اور چند ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر اس نیک ماحول کا اثر سالوں رہتا ہے.پس اکثریت کیونکہ تھوڑا عرصہ اثر رکھتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بار بار نصیحت کرنے کا بھی فرمایا ہے.بار بار ایسے ماحول کے پیدا کرنے کا کہا ہے جو مومنوں کو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا رہے.اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہے.اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا رہے.اُن کو اپنے عملوں کی خود نگرانی کرنے کی طرف توجہ دلا تار ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسوں کا اجراء فرما کر ہم پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ جس سے ہمیں اپنی اصلاح کا اور روحانی غذا کے حصول کا ایک اجتماعی موقع مل جاتا ہے.اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہونے کا موقع مل جاتا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 365 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء پس جیسا کہ میں نے کہا ، اب میں اس وقت جلسہ کے مقاصد اور اس کی غرض و غایت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں ہی کچھ کہوں گا.جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ جلسہ پر آنے والوں کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں.ایک احمدی کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں.لیکن اس سے پہلے کہ میں شروع کروں انتظامیہ مجھے رپورٹ دے کہ آخر تک آواز بھی جارہی ہے؟ یا آخر میں جو بیٹھے ہوئے ہیں کوئی ہاتھ کھڑا کر کے بتادیں کہ آواز ٹھیک ہے؟ اچھا ٹھیک ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور اُن کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی اُن میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں.“ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحه 394) ان چند فقرات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک حقیقی احمدی کے لئے زندگی کا پورا لائحہ عمل بیان فرما دیا ہے.فرمایا کہ جلسہ میں شامل ہونے والوں میں ایسی تبدیلی ہو کہ وہ زُہد میں ایک نمونہ ہوں.انسان اگر غور کرے تو اس ایک لفظ میں ہی اتنی بڑی نصیحت ہے کہ برائیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے.اس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو دنیاوی تسکین کے سامان سے روکنا، دنیاوی خواہشات سے روکنا، اپنے جذبات کو ، غلط جذبات کو ابھرنے سے روکنا.اس طرح روکنا کہ تمام دروازے ان خواہشات کے بند ہو جائیں تا کہ خواہش پیدا ہی نہ ہو.اب اگر دیکھا جائے تو دنیا میں جو خدا تعالیٰ نے چیزیں پیدا کی ہیں ان سے انسان مکمل طور پر قطع تعلق تو نہیں کر سکتا.تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس طرح روک لو کہ دنیا سے کٹ جاؤ.زہد یہ ہے کہ دنیا کی ان چیزوں کی جو نا جائز خواہشات ہیں، اُن سے اپنے آپ کو روک لو.اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی تحدیث کا بھی ذکر فرمایا ہے.ان سے فائدہ نہ اٹھانا بھی خدا تعالیٰ کی ناشکری ہے.روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ نے یہ عہد کیا کہ ہم روزے ہی رکھتے رہیں گے.روزانہ روزے رکھیں گے.شادی نہیں کریں گے.عورت کے قریب نہیں جائیں گے.ساری ساری رات نمازیں ہی پڑھتے رہیں گے.جب آپ کے علم میں یہ بات آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں روزے بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، نمازیں بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں.دوسرے دنیاوی کام اور گھر کے کام کاج بھی کر لیتا ہوں.عورتوں سے نکاح بھی کیا ہے.پس جو شخص مجھ سے منہ موڑے گا، وہ مجھ میں سے نہیں ہے.فرمایا کہ یا درکھو کہ میں تم
خطبات مسرور جلد 11 366 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء لوگوں کی نسبت خدا تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہوں اور اپنی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے تابع رکھتا ہوں.(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح حدیث نمبر 5063) پس اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی زہد یہ ہے کہ صرف دنیاوی خواہشات اور ان کی تسکین صلح نظر نہ ہو بلکہ جو اُن میں سے بہترین ہے وہ لو اور اعتدال کے اندر رہتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے ان دنیاوی چیزوں سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو یہ زُہد ہے.اگر یہاں آکر ان مغربی ممالک کی آزادی کی وجہ سے یہاں کی ہر چیز میں خواہشات کی تسکین کالا نے تمہیں اپنی طرف کھینچ رہا ہے تو پھر تمہارا جلسوں پر آنا بے فائدہ ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنا بھی بے فائدہ ہے.پس فرمایا اپنے اندر زہد پیدا کرو کیونکہ یہ پیدا کرو گے تو تقویٰ کی حقیقی روح کی بھی پہچان ہوگی.تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ یہی ہے کہ ہر وقت یہ خوف دل میں رکھنا کہ میرے سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جائے جس سے خدا تعالیٰ مجھ سے ناراض ہو جائے.خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف سزا کے ڈر سے نہ ہو بلکہ اس طرح ہو جس طرح ایک بہت قریبی دوست کی یا قریبی عزیز کی ناراضگی کا خوف ہوتا ہے.اور یہ بھی ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر حاوی ہو جائے اور ایسی محبت کی حالت بھی اُس وقت طاری ہو سکتی ہے جب خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق ہو اور اس کا عرفان ہو.جب محور خدا تعالیٰ کی ذات ہو.پس یہ وہ معیار ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس معیار تقویٰ کو ہم میں پیدا کرنے کے لئے بارہا مختلف رنگ میں ہمیں نصائح فرمائی ہیں.آپ اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں کہ ”اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لئے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے کیونکہ یہ بات عظمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ (النحل : 129) 66 ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 7.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس جب جماعت کے افراد کو بار بار اس بات کی نصیحت کی جاتی ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ زمانے کے مامور کی بیعت میں آکر جب ہم یہ دعویٰ اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جن سے اس بیعت کی وجہ سے خدا راضی ہوا ہے یا ہم نے اس لئے بیعت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کریں.اگر اس پر عمل نہیں تو یہ دعویٰ محض دعویٰ ہوگا.اگر ہمارے قدم تقویٰ کی طرف نہیں بڑھ رہے تو یہ صرف دعوی ہے.
خطبات مسرور جلد 11 367 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء یہ آیت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے یہ تقویٰ کی وضاحت بھی کرتی ہے کہ تقویٰ اُن لوگوں کا ہے جو محسنوں میں سے ہیں اور محسن کے معنی ہیں کہ جو دوسروں سے اچھائی کا سلوک کرتے ہیں.جو اُن کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے ہیں.جو علم رکھنے والے ہیں اور یہ علم انہیں تقویٰ کی راہوں پر چلانے والا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کی بھی خوبصورتی دیکھیں.پہلے زہد کی طرف توجہ دلائی کہ اپنی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع کرو.پھر تقویٰ اختیار کرنے کا فرماتے ہوئے اللہ کے کلام سے وہ مثال پیش فرمائی جس میں یہ تلقین ہے کہ اپنے جذبات کو دوسروں کے جذبات کے لئے قربان کر کے انہیں فیض پہنچاؤ.تو متقی بن کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والے بن جاؤ گے.پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ” ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے.خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے.تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے، یا کیسے ہی رو بدنیا تھے، تمام آفات سے نجات پاویں.( ملفوظات جلد 1 صفحہ 7.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیعت کے اعلان کے متعلق فرمایا کہ بیعت کا اعلان کوئی معمولی اعلان نہیں ہے، فرمایا تم جو اعلان کرتے ہو، تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.کیونکہ میرا دعویٰ مامور ہونے کا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کام کے لئے بھیجے جانے کا ہے کہ میرے ذریعہ سے دنیا کی اصلاح ہوگی.میرے ذریعہ سے اب بندے کو خدا تعالیٰ کی پہچان ہوگی اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوگا.میرے ذریعہ سے اور میرے ماننے والوں کے ذریعہ سے اُن اعلیٰ اخلاق کا اظہار اور ترویج ہوگی جن کے کرنے کی خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی آخری شرعی کتاب میں تلقین فرمائی ہے.قرآن کریم میں تلقین فرمائی ہے.66 پس حقوق العباد کے لئے ہر قسم کے بغضوں اور کینوں سے اپنے آپ کو نکالنا ہوگا.یا ہر قسم کے بغض اور کینے اپنے دلوں سے نکالنے ہوں گے.اپنے دلوں کو آئینے کی طرح صاف کرنا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ہر قسم کے شرکوں سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہوگا.دنیا کا خوف یا دنیا داروں کا خوف، یا دنیا داری کی طرف رجحان، جس سے انسان خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، جس سے اُس کی عبادت کے معیار میں کمی آتی ہے، ان سب سے بچو گے تو تبھی بیعت کے حقدار کہلاؤ گے.اور یہ بجو تقویٰ کے ممکن
خطبات مسرور جلد 11 368 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء نہیں.اگر بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو یہ پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر کے اپنی اصلاح کرو.یہ پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرو، اس کا نتیجہ کیا ہو گا کہ تم بہت سی آفات سے نجات پا جاؤ گے.اس بارے میں آپ علیہ السلام نے بڑے سخت الفاظ میں اور بڑی سختی سے تنبیہ بھی فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: ”اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے.ویسا ہی قہار اور منتظم بھی ہے.ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ اُن کا دعویٰ اور لاف و گزاف تو بہت کچھ ہے اور اُن کی عملی حالت ایسی نہیں تو اُس کا غیظ و غضب بڑھ جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 7.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) اللہ نہ کرے کہ ہم کبھی خدا تعالیٰ کے غیظ و غضب کو دیکھنے والے ہوں بلکہ ہم ہمیشہ تقوی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش کرنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اُس کا رحم اور فضل مانگنے والے ہوں اور اُس کے رحم اور کرم کو ہی حاصل کرنے والے ہوں.یہ معیار حاصل کرنے کے لئے ہماری کیا حالت ہونی چاہئے اور کیا ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”انسان جس قدر نیکیاں کرتا ہے، اس کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک فرائض ، دوسرے نوافل.فرائض یعنی جو انسان پر فرض کیا گیا ہو جیسے قرضہ کا اتارنا یا نیکی کے مقابل نیکی.اب یہ بعض لوگ قرضے تولے لیتے ہیں اُن کے اتارنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں.فرمایا یہ قرضے کا اتارنا یا نیکی کوئی تمہارے سے کرے تو اُس کے مقابل پر نیکی تو تمہارے فرائض میں داخل ہے.” ان فرائض کے علاوہ ہر ایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں.فرمایا ” ان فرائض کے علاوہ ہر ایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں.یعنی ایسی نیکی جو اس کے حق سے فاضل ہو.جیسے احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اور احسان کرنا.یہ نوافل ہیں....مثلاً زکوۃ کے علاوہ وہ اور صدقات دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسوں کا ولی ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ میں اُس کے ہاتھ ، پاؤں حتی کے اُس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 9.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ہمارا خدا ہے جو نہ صرف ہر عمل کو نوازتا ہے بلکہ ایسے بندے کا ولی ہو جاتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی دوستی اور حفاظت کے ایسے راستے کھلتے ہیں کہ انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی.لیکن یہ مقام کب ملتا ہے؟ فرمایا ایسی حالت میں کہ تم احسان کے بدلے احسان کرو.تمہارے سے کوئی نیکی کرے تو اس بات کی تلاش میں رہو کہ اب اس نیکی کا بدلہ کس طرح اُتار سکتا ہوں.اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ فرمایا کہ برابر کا احسان تو ایک بدلہ ہے، ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ احسان سے بڑھ کر
خطبات مسرور جلد 11 369 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء احسان کر کے بدلہ اُتارے.اب دیکھیں جس معاشرے میں یہ صورتحال پیدا ہو جائے کہ ایک نیکی کے بدلے میں دوسرا بڑھ کر نیکی کر رہا ہو اور ہر ایک اس بات پر توجہ دینے والا ہو اور اس عمل کو بجالا رہا ہو کہ ایک نے نیکی کی ، اس کے جواب میں پہلا پھر بڑھ کر احسان اُتارنے کی فکر میں ہو تو ایسا معاشرہ جو ہے کبھی خودغرضوں کا معاشرہ نہیں ہو سکتا.بلکہ امن، پیار اور محبت کا معاشرہ بن جائے گا.اور جب یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کیا جا رہا ہو تو پھر خدا جو دلوں کا حال جاننے والا ہے اور سب سے بڑھ کر بدلہ دینے والا ہے، اُس کی عنایتوں اور نوازشوں کا تو کوئی حساب و شمار نہیں ہے.پس وہ پھر اس طرح نواز تا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا.پس یہ وہ روح ہے جو ہم میں پیدا ہونے کی ضرورت ہے کہ نیکیاں کرنی ہیں، بے غرض ہو کر کرنی ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنی ہیں.ہماری عبادتوں میں بھی فرائض کے ساتھ نوافل ہوں، اس لئے کہ ہم خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن سکیں اور ہمارے دوسرے اعمال کے ساتھ بھی نوافل ہوں اور کسی دنیاوی مقصد کے لئے نہ ہوں.احسان کا بدلہ احسان کسی بندے سے مفاد حاصل کرنے کیلئے نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو تو یہ حقیقی تقویٰ ہے.پھر یہ وہ مغز ہے جس کی قدر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ، ورنہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری ظاہری عبادتوں اور ظاہری قربانیوں سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے.اگر ہم نماز پڑھتے ہیں جس کے پڑھنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے بلکہ فرائض میں داخل ہے اور عبادت کی معراج بھی نماز ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِ - (الذاریات: 57) کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور پھر نماز کے قائم کرنے کا ، مردوں کے لئے باجماعت پڑھنے کا، با قاعدہ پڑھنے کا، وقت پر پڑھنے کا قرآن کریم میں کئی جگہ پر حکم آتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی نمازیں ہیں، بعض لوگوں کے لئے ہلاکت بن جاتی ہیں.( الماعون :5) پس یہ یقیناً ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ کیوں ایک نیکی انسان کے لئے ہلاکت کا باعث بھی بن سکتی ہے.اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نیکی کے کرنے کا حکم تقویٰ کی بنیاد پر رکھا ہے، گویا کہ اللہ تعالیٰ اُس مغز کو چاہتا ہے جو چھلکے اور شیل (Shell) کے اندر ہے نہ کہ ظاہری خول کو.اگر ہماری نمازوں سے ہمارے اندر دوسروں کے لئے ہمدری کے جذبات پیدا نہیں ہوتے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم نے ایک ظاہری عمل تو کر لیا لیکن اس کی جو روح ہونی چاہئے وہ ہماری نماز میں نہیں تھی.بعض
خطبات مسرور جلد 11 370 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء دفعہ ہم خول والے پھلوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ اوپر سے وہ بڑا اچھا نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن کھولو تو اندر سے جو اس کا مغز ہوتا ہے، وہ یا پوری طرح بنا ہی نہیں ہوتا یا کیڑوں نے اُسے کھا لیا ہوتا ہے، یا مثلاً بادام ہے، ایسے بادام بھی ہوتے ہیں جن کو بڑے شوق سے آدمی کھولتا ہے اور اندر سے کڑوے نکلتے ہیں.پس ہم نے اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس مغز یا پھل کو بچانا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول بھی ہو اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب ہماری نمازیں ، ہماری عبادتیں ہمارے اندر خدا تعالیٰ سے تعلق کے علاوہ بنی نوع سے ہمدردی کے جذبات بھی پیدا کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت جرمنی ہر سال چار پانچ مساجد بنا رہی ہے اور مجھے ان کے افتتاح کا موقع بھی ملتا ہے اور تقریباً ہر جگہ میں یہی کہتا ہوں کہ اس مسجد کے بننے کے بعد اس مسجد کے علاقے میں رہنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں.صرف مسجد بنا کر اُس میں نمازیں پڑھنے کے لئے آ جانا کوئی کمال نہیں ہے، چاہے پانچ نمازوں پر ہی آپ مسجد میں آ رہے ہوں.اصل چیز یہ ہے کہ اس مسجد سے آپس کے تعلقات میں بھی مضبوطی پیدا ہواور ان علاقوں کے لوگوں میں بھی اسلام کی خوبصورت تصویر ہر احمدی کے عمل سے ظاہر ہو رہی ہو.اپنوں غیروں ، ہر ایک پر اُس روح کا اثر ہو جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اپنے ماحول میں پیدا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم اور خواہش کا اظہار ہر احمدی سے ہو جس میں آپ نے فرمایا کہ : ”نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.“ شهادة القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394) پس یہ محبت، پیار اور بھائی چارے کا نمونہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے بھی ہے اور غیروں کے لئے بھی ہے.آپس کے نمونے جہاں اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرتے ہوئے ، تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے والے ہوں گے، وہاں غیروں کے لئے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کی طرف توجہ دلانے والے ہوں گے.اور یوں تبلیغ کے مزید میدان کھلیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت کے لئے ایک دعا میں فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کر کے اُن کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے اُن کے دلوں سے اُٹھاوے اور باہمی سچی محبت عطا کرے.“ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس دعا کا وارث بنائے.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398)
خطبات مسرور جلد 11 371 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء پھر آپ نے اپنی اس تحریر میں جو میں نے شروع میں پڑھی ہے، انکسار اور عاجزی کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دلائی ہے.یہ بھی وہ عمل ہے جو آپس کی محبت بڑھاتا ہے.جو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے اور غیروں کی توجہ بھی کھینچتا ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا (الفرقان: 64 ) کہ وہ زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں.پس یہ عاجزی انسان میں وہ روح پیدا کرتی ہے جو بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور معاشرے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتی ہے.آپس کے تعلقات کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتی ہے.آپس کی رنجشوں کو بھی دور کرتی ہے.اور محبت بھی بڑھاتی ہے.پھر آپ نے راستبازی اور سچائی کی طرف خاص توجہ دلائی ہے.کہ تقویٰ پر چلنے والا تمام نیکیاں بجالانے والا ہی ہوتا ہے، تقویٰ کی تعریف ہی یہی ہے اور جو تقویٰ کی حقیقت جان لے گویا کہ اُس نے ہر چیز کو پالیا.لیکن بعض جزئیات پر زور دینا بھی ضروری ہوتا ہے اور بعض عمل تقویٰ کے معیار کو بڑھاتے ہیں.اس لئے راستبازی اور قولِ سدید پر اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر زور دیا ہے.فرمایا کہ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا.(الاحزاب : 71) اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ایسی بات کرو جو صاف اور سیدھی ہو.اس آیت کی وضاحت میں دو تین ہفتے قبل میں نے خطبہ میں تفصیل سے بیان کیا تھا.بہر حال یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کا خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے ذکر فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنی روحانی ترقی کے لئے جلسہ پر آتے ہیں کہ اپنے تقویٰ کے معیار بلند کریں، اپنی اصلاح کریں.اگر یہ ہو گا تو تبھی آپ جلسے پر آنے کا حق ادا کرنے والے ہوں گے اور اس کے لئے راستبازی، سچائی اور صاف گوئی کے وصف کو اپنا ئیں.یہ بہت ضروری ہے.یہ ایک بنیادی عنصر ہے.پس اپنی سچائیوں کے معیاروں کو بلند کرو تا کہ جس مقصد کے لئے تم جمع ہوئے ہو اُس کو حاصل کر سکو.اور جب ہر احمدی کے راستبازی کے معیار بلند ہوں گے تو بات میں بھی اثر ہو گا اور جب باتوں میں اثر ہوگا تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد اور مشن کو آگے بڑھانے والوں میں شامل ہوسکیں گے.اور جومشن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے.وہ دو اہم کام ہیں.ایک تو بندے کو خدا کی پہچان کروا کر خدا تعالیٰ سے ملانا، اور دوسرے بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کرنا.اور یہ دونوں کام ایسے ہیں جو ہمارے سے تقویٰ اور قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ہماری عملی حالتوں میں پاک تبدیلیاں
خطبات مسرور جلد 11 372 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 28 جون 2013ء پیدا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں.دنیا کو ہم خدا تعالیٰ سے اُس وقت تک نہیں ملا سکتے جب تک ہمارا اپنا خدا تعالیٰ سے پختہ تعلق قائم نہ ہو.دوسرے بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی ہے، تو یہ ہم اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک ہم عاجزی، انکساری، سچائی، محبت، اخوت اور قربانی کا جذبہ اپنے اندر نہ رکھتے ہوں.پس ان تین دنوں میں ہم نے اپنے اس تعلق اور جذبے کا جائزہ لینا ہے اور بڑھانا ہے انشاء اللہ تعالیٰ، تا کہ جلسہ پر آنے کے مقصد کو بھی حاصل کرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرنے والے بھی ہوں.پس ان تین دنوں میں اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے اور عملی حالتوں کو درست کرنے کی ہر احمدی کو، ہر شامل ہونے والے کو کوشش کرنی چاہئے.اور دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اللہ کرے کہ ہم حقیقت میں اس جلسے کے مقصد کو پانے والے ہوں.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 19 جولائی 2013 ء تا 25 جولائی 2013، جلد 20 شمارہ 29 صفحہ 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد 11 373 27 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سرود احمد خلیفه امس الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء بمطابق 5 وفا1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر ہے کہ کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا شکر ادا کرنا ممکن نہیں.ہر سفر جو میں کرتا ہوں اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو لئے ہوئے ہوتا ہے.گزشتہ دنوں جلسہ سالانہ جرمنی ہوا اور میں نے وہاں شمولیت کی.وہاں جلسہ کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے ایسے نظارے دیکھے کہ اس بات پر یقین مزید پختہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہر روز نئی شان سے پورے فرماتا ہے.امیر صاحب جرمنی مجھے کہنے لگے کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، میری اور میرے ساتھیوں کی سوچ سے بھی بالا ہے.جرمنی میں جرمن لوگوں اور جرمن پریس میں اس دفعہ اتنی دلچسپی ظاہر ہوئی ہے کہ جو پہلے نہیں ہوتی تھی.مسجدوں کے سنگ بنیاد کے تقاریب ہوئیں.مسجدوں کے افتتاح کی تقاریب ہوئیں.پہلے سے بڑھ کر مقامی لوگوں کی دلچسپی نظر آئی.انتظامیہ کی بھی دلچسپی نظر آئی، پڑھے لکھے لوگوں کی دلچسپی نظر آئی، بلکہ چرچوں کے پادریوں کی بھی دلچسپی نظر آئی.جلسہ سالا نہ ہوا تو اُس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے پہلے سے بڑھ کر دیکھے.بہر حال انسانی سوچ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احاطہ نہیں کر سکتی.کم از کم جو کچھ وہاں ہوا، اُس سے پہلے گو جماعت جرمنی کی بہت اچھی تو قعات تھیں کہ اس دفعہ انتظامات بہتر ہوں گے، لوگوں کی رسپانس اچھی ہوگی ، لیکن یہ خیال بھی نہیں تھا کہ اتنے وسیع طور پر انتظامات سے
خطبات مسرور جلد 11 374 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء بڑھ کر اور توقعات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.اس وقت جیسا کہ میرا طریقہ کار ہے، ایک تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا کچھ ذکر کروں گا، سفر کے حالات بیان کروں گا ، دوسرے جلسہ کے کارکنان کا شکریہ بھی ادا کیا جاتا ہے، تو اس سلسلے میں کچھ جلسہ کے انتظامی معاملات اور شکریہ بھی ادا کروں گا.دس دن کا یہ سفر بہت مختصر تھا.یہاں سے جب میں وہاں گیا ہوں تو اس عرصے میں انہوں نے دو مساجد کی سنگ بنیاد رکھوائیں، دو مساجد کا افتتاح ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد کا فنکشن نہایت کامیاب ہوتا رہا.اس لحاظ سے اسلام کی تبلیغ کا موقع ملا کہ مسجد کے حوالے سے وہاں کے لوگوں کے جو کچھ تحفظات ہیں، وہ دُور ہوئے.اُن کی مورفیلڈن میں ایک مسجد سُبحان ہے، اُس کا سنگ بنیاد رکھا.مسجد بیت العطاء فلورس ہائم میں ہے اُس کا افتتاح ہوا.یہ مسجد جو ہے یہ پہلے سے تعمیر شدہ عمارت تھی اور اس کو خرید کر مسجد میں اس کو تبدیل کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے افراد نے اس عمارت کو مسجد میں بدلنے کے لئے سات ہزار گھنٹے وقار عمل کیا ہے.پھر نوئے ویڈ کی مسجد بیت الرحیم ہے، اس کا افتتاح ہوا.اور بیت الحمید فلڈا کاسنگ بنیاد رکھا گیا.ان تمام فنکشنز میں وہاں مختلف مہمان، مقامی لوگ، میئرز، افسران، سیاستدان ، مذہبی نمائندے مختلف جگہوں کے آئے ہوئے تھے.مسجد بیت العطاء جو ہے، وہاں صوبہ بیسن کے سیکرٹری آف سٹیٹ ، ڈاکٹر اوڈالف نے اپنے ایڈریس میں ایک تو مبارکباد پیش کی ، پھر کہتے ہیں کہ میں دسمبر میں جامعہ کے افتتاح میں بھی شامل ہوا تھا اور مسجد نور کے افتتاح کا بھی انہوں نے حوالہ دیا جو 1959ء میں ہوا، اور پھر جماعتی تعلیم ، اسلام کی تعلیم اور احمدیوں کے رویے کا ذکر کیا.پھر کہتے ہیں کہ میں آپ کی جماعت کا نہایت احترام کرتا ہوں اور ہمارے ساتھ کام کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.اس بات پر بھی آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایسے مختلف پروگرام رکھے ہیں جن کی وجہ سے اسلام کی اچھی تصویر عوام الناس کے سامنے آئی ہے جس میں چیریٹی واک ہے، گلیوں کی صفائی ہے اور بچوں کی تنظیم کی مدد ہے، وقار عمل ہے.تو اس طرح کے یہ بہت سارے تاثرات ہیں.میں نے بیچ میں چند ایک واقعات لئے ہیں.اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں 270 کے قریب جرمن مہمان شامل ہوئے تھے اور چار مختلف علاقوں کے میئرز، سیکرٹری آف سٹیٹ، ایک سیاسی پارٹی کے ڈپٹی چیئر مین نیشنل پارلیمنٹ کے ممبر، چرچز
خطبات مسرور جلد 11 375 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013 ء کے پادری یا اُن کے نمائندے، پولیس کمشنر اور اسی طرح سیکرٹری کونسل کے نمائندے وغیرہ شامل ہوئے.اسی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جو مختلف احباب ہیں ، وہ شامل ہوئے.بیت الحمید مسجد جو ہے اس میں وہاں کے فرسٹ کونسلر آف سٹی نے اپنے ایڈریس میں کہا کہ جماعت احمد یہ فلڈا شہر کے ماضی کا بھی حصہ ہے، کئی دہائیوں سے یہاں اس جگہ پر مقیم ہے.میں آپ لوگوں کے معاشرے کی مثبت سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوں.پھر آپ کا مسجد بنانا اس بات کی نشانی ہے کہ آپ اس شہر کے معاملات میں شامل ہونا چاہتے ہیں.پھر انہوں نے کہا کہ ہماری زبان میں کہاوت ہے کہ باتوں کے بجائے اعمال کے ذریعہ انسان کا اندازہ لگایا کرو.اور آپ کی طرف سے اچھی باتیں ہی نہیں بلکہ ہم نے دیکھا ہے کہ آپ کے اعمال بھی بہت اچھے ہیں اور نمایاں ہیں.اور یہ فیصلہ گن بات ہے کہ جماعت اس ملک کے قوانین کو نہ صرف مانتی ہے بلکہ ان کی پابندی بھی کرتی ہے اور اس لئے ہمیں ہر لحاظ سے رواداری کا اظہار کرنا چاہئے.اسی طرح ایک لوکل مہمان نے تبصرہ کیا.اکیاسی (81) سال ان کی عمر ہے اور انہوں نے وہاں میرا ایڈریس بھی سنا.اس کے بعد کہتے ہیں کہ آپ کے خلیفہ نے جو باتیں بیان کی ہیں یعنی اسلام کی ترقی کی باتیں، اپنی زندگی میں تو شاید نہ دیکھ سکوں ، لیکن تم دیکھو گے کہ آپ کے بانی جماعت جن کے متعلق میں نے انٹرنیٹ پر پڑھا ہے ، ان کے پیغام کو دنیا قبول کرے گی اور حقیقی اسلام ان کے ذریعہ سے پھیلے گا.پھر وہ اگلے دن دوبارہ تشریف لے آئے اور کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں آپ کے مذہب کی سچائی کو پا لیا ہے.مجھے نماز سکھاؤ تا کہ میں دعا کرسکوں.پھر اس پروگرام کے آخر پر ضلع کونسل کے صدر وہاں کے مقامی صدر جماعت کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ کے امام ہماری ضلعی کونسل کے ہیڈ آفس آئیں.ہم نے خطاب سنا ہے اور بہت سے سیاستدانوں نے اس خطاب کو ایک روشن خطاب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ کے امام جماعت کے اس خطاب نے ہماری عقلوں کو جلا بخشی ہے اور ہمارے دل پر اثر کیا ہے.وہاں کے صدر صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے لوگ مسلسل مسجد دیکھنے کے لئے آ رہے ہیں.ہمیشہ جہاں مسجد میں تعمیر ہوتی ہیں وہاں تبلیغ کے نئے راستے کھلتے ہیں اور تعارف بڑھتا ہے.تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک ( دودن کے بعد انہوں نے رپورٹ دی تھی کہ ) پانچ سو سے زائد افراد آ چکے ہیں اور بہت ساروں نے اسلام کی تعلیم جاننے سے متعلق بہت دلچسپی دکھائی ہے.بلکہ یہ کہتے ہیں کہ بعض افراد کو دیکھ کر تو
خطبات مسرور جلد 11 376 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء ایسا لگتا ہے کہ یہ باہر سے آنے والے مہمان نہیں ہیں بلکہ ہماری جماعت کے ہی ممبر ہیں.ایک خاتون اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ مجھے آپ کے امام کو دیکھ کر اور اُن کا خطاب سن کر بہت خوشی محسوس ہوئی، عیسائیت کے بارے میں نہایت کشادہ دلی رکھتے ہیں اور Love for all, Hatred for none کا نعرہ ہم نے بہت بار سنا ہے.اور پھر یہ کہتی ہیں کہ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو ہمیں جوڑتی ہیں نہ کہ جدا کرتی ہیں.مذاہب کے بارے میں انسان کے لئے غور کرنا لازمی ہے کہ معلوم ہو جائے کہ ایک دوسرے میں اتنا فرق اور اختلاف موجود نہیں ہے.ایک دوست نے اظہار کیا کہ جو پیغام خلیفہ نے پہلے دیا تھا وہ یہ تھا کہ اسلام رواداری کا مذہب ہے اور یہ ایک نہایت ضروری پیغام ہے جس کی آپ کے امام جماعت بار بار وضاحت فرما رہے ہیں (یہ پہلے بھی شامل ہو چکے ہیں فنکشن میں ).پھر ایک دوست نے کہا کہ مجھے بہت اچھا محسوس ہوا ہے کہ یہاں محبت اور پیار کا لفظ بار بار استعمال کیا گیا ہے.میں خود تو فعال پروٹسٹنٹ عیسائی ہوں اور ہمارے لئے بھی جدید عہد ناموں میں لفظ محبت نہایت اہم ہے لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اس لفظ کو چرچ میں اتنی بار سنا ہو.اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا ہے.مجھے جماعت احمدیہ کے بارے میں اتنا علم تو نہیں تھا لیکن جو محبت مجھے یہاں ملی ہے یہ ہر جگہ نہیں ملتی.وہ کہتے ہیں کہ یہ تو سب کو معلوم ہے اور مجھے اس کو چھپانے کی ضرورت بھی نہیں کہ اسلام کے بارے میں جرمنی میں لوگوں کو بہت سے تعصبات ہیں اور میڈیا کی وجہ سے غلط تصویر دکھائی جاتی ہے.اکثر مسلمانوں کو ذاتی طور پر جانتے ہی نہیں.میرا خیال ہے کہ ہر اس جگہ پر جہاں ذاتی تعلق قائم ہو جائیں وہاں معلوم ہو جاتا ہے کہ اصل بات کیا ہے؟ اسی طرح ٹی وی اور اخباری نمائندوں نے بھی میرے انٹرویو لئے جس میں اسلام کی حقیقی تعلیم اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ضرورت اور مساجد میں کردار کے بارے میں سوال کئے گئے.اور اس طرح تقریباً مجموعی طور پر تئیس اخبارات، تین ریڈیو سٹیشنز اور پانچ ٹی وی چینلز نے ہمارے ان فنکشنز کو کوریج دی.جرمنی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل ٹی وی پر جماعت کے متعلق خبر نشر کی گئی.جرمنی کے دوسرے چینلز زیڈ ایف (ZF)، زیڈ ٹی ایف (ZTF) نے فلڈا کی مسجد کی سنگ بنیاد کی تقریب کے متعلق 27 جون کو تقریباً تین منٹ کی خبر نشر کی اور اُس میں مجھے مسجد کی بنیا در کھتے ہوئے بھی دکھایا گیا اور جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا گیا.
خطبات مسرور جلد 11 377 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء پرنٹ میڈیا کے ذریعہ اخبارات کے ذریعہ مجموعی طور پر بارہ لاکھ افراد تک جماعت کا پیغام پہنچا.اور نیشنل ٹی وی پر کوریج کے ذریعہ پورے جرمنی میں میری تصویر کے ساتھ جماعت کا تعارف اور پیغام پہنچا.انٹر نیشنل سیٹ تھری (3 International SAT) جو کہ جرمنی اور آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کا مشتر کہ چینل ہے، اس ٹی وی پر جلسہ کے بارے میں خبر نشر ہوئی.اس طرح ٹی وی کے ذریعہ تین ممالک میں جماعت کا پیغام پہنچا ہے جس کی کم از کمجرمنی کی جماعت کو توقع نہیں تھی.اخبار Main-Taunus-Kurier نے لکھا کہ خلیفہ اسیح نے اپنے خطاب میں کہا.یہ جگہ جس کو ہم نے اب مسجد میں کنورٹ (convert) کیا ہے یہ پہلے ایک مارکیٹ تھی کہ جہاں بہت ساری چیزیں پیسوں کے عوض دی جاتی تھیں جو کہ جسمانی ضروریات کے لئے ہوتی تھی ، مسجد میں بھی کچھ ہوتا ہے، خرید و فروخت ہوتی ہے لیکن مفت چیز ملتی ہے اور وہاں روحانی چیز ملتی ہے.یہ اخبار خبر لگا رہا ہے.اور پھر چندوں کے بارے میں بتایا.وہاں جماعت کو جرمنی میں سرکاری طور پر وہ سٹیٹس (Status ) مل گیا ہے کہ اب جماعت وہاں اپنے سکول بھی کھول سکتی ہے بلکہ اور دوسرے پروگرام کر سکتی ہے بلکہ چرچ کی طرح ایک حد تک ٹیکس کی طرز کا ٹیکس وصول کر سکتی ہے.اُس پر میں نے انہیں کہا تھا کہ جماعت چندے دیتی ہے اور خوشی سے دیتی ہے اور یہ مسجد بھی قربانی کر کے جماعت نے بنائی ہے اس لئے ہمیں کسی ٹیکس کی ضرورت نہیں ، نہ اس بنیاد پر گورنمنٹ سے کسی مدد کی ضرورت ہے ، نہ لوگوں سے زبردستی کرنے کی ضرورت ہے.ہمارے احمدی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خود قربانیاں دے کر جماعت کے لئے خرچ کرتے ہیں، مساجد کے لئے خرچ کرتے ہیں.خلافت اور جماعت کا جو تعلق ہے یہ غیروں کو بھی بہت زیادہ نظر آتا ہے.ایک مہمان لکھتے ہیں کہ احمدی اپنے خلیفہ سے جو محبت کرتے ہیں اُس کی مثال دنیا کے تعلقات میں نہیں ملتی.احمدیوں کا اپنے خلیفہ کا قریب سے دیدار ایک نا قابلِ فراموش (بات) ہے اور اسی طرح خلافت کا جماعت سے اور جماعت کا خلافت سے جو یہ تعلق ہے، یہ غیر بھی اب محسوس کر رہے ہیں.اور بہت سارے مہمانوں نے اس بات کا اظہار کیا.بعض چیزیں اکثر کی مشترک ہیں.ایک ہی طرح کی باتیں ہیں.بعض اظہار ہیں ، جذبات ہیں، اُن کو میں چھوڑتا ہوں.پھر جب میں نے اُن کو یہ کہا کہ ہمیں جماعت کی اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مذہب کو عزت کی
خطبات مسرور جلد 11 378 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء نگاہ سے دیکھیں اور یہی ہماری تعلیم ہے اور یہ مسجد اس مقصد کو پورا کرنے والی ہوگی تو اس کو اخباروں نے بہت زیادہ ہائی لائٹ (Highlight) کیا.اور درجنوں کے حساب سے انہوں نے جو انٹرنیٹ اپنے پر ویب سائٹس ہیں اُن میں بھی مساجد کی تصاویر دیں اور اس پر عام ہیں.یہ تو مساجد کے ذریعہ سے اس بہت سارے علاقے میں تبلیغ ہوئی.جلسہ سالانہ جرمنی میں اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کے ذریعہ کی جور پورٹ ہے وہ یہ ہے کہ اس سال فرانس اور بیلجیم سے آنے والے نو مبائعین اور زیر تبلیغ دوستوں کے علاوہ مالٹا، اسٹونیا، آئس لینڈ، لیتھوینیا ، ہنگری، لیٹویہ، رشیا، تاجکستان، قرغزستان ، کوسوو، البانیا، بلغاریہ اور میسی ڈونیا سے بھی وفود آئے تھے اور ان میں غیر مسلم دوست بھی شامل تھے، جو جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں وہ بھی شامل تھے، زیر تبلیغ بھی شامل تھے ، احمدی بھی شامل تھے.بلغاریہ کا ایک بہت بڑا وفد تھا جو اشی (80) افراد پر مشتمل تھا.میسی ڈونیا سے ترپن (53) افراد پر مشتمل وفد آیا تھا جس میں پندرہ عیسائی تھے، دس غیر احمدی تھے اور بائیس احمدی تھے.اور یہ لوگ ہزاروں میل سفر کر کے آئے تھے اور ہر ایک کا یہی تاثر تھا کہ جلسہ کے روحانی ماحول سے ہم بے حد متاثر ہوئے ہیں اور احمدیوں نے تو برملا کہا کہ جلسہ نے ہمارے اندر نمایاں تبدیلی پیدا کر دی ہے اور غیروں کے یہ تاثرات تھے کہ ایسے نظارے ہم نے کہیں نہیں دیکھے.جرمنی کا جلسہ بھی یورپ اور خاص طور پر مشرقی یورپ اُن علاقوں کے لئے ایک مرکز بن گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سے مختلف ممالک کے لوگوں کا آنا جانا آسانی سے ہے اس لئے تبلیغی میدان بھی وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے.جس طرح ہمیشہ ہمارے بچوں کے پانی پلانے اور خدمت کرنے کے بارے میں ، بوڑھوں کی خدمت کرنے کے بارے میں ، ایک نظام کے تحت ہر کام ہونے کے بارے میں تاثرات کا اکثر عموماً اظہار ہوتا ہے تو اس عمومی خیال کا ہر ایک نے وہاں اظہار کیا.بلکہ بعضوں نے تو کہا کہ ہمارے لئے تو یہ معجزہ ہے.میسی ڈونیا سے آنے والی ایک تراجہ ایمیلیا (Traja Emilia صاحبہ عیسائی خاتون ہیں، وہاں انگریزی کی پروفیسر ہیں.انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جلسہ میں پہلی بار شامل ہوئی ہوں، ہر چیز ایک نظام کے تحت منظم طور پر ہو رہی تھی.بچوں سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک سب ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے جس سے نظر آیا کہ آپ کی جماعت بہت بلند مقام پر ہے.کہتی ہیں کہ یہاں آپ کے امام جماعت کے خطابات سن کر مجھے سمجھ آئی ہے کہ اسلام کیا ہے.اور اسلام کا مطلب
خطبات مسرور جلد 11 379 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء محبت ، عزت افزائی اور سب کے لئے امن ہے.کہتی ہیں جلسہ نے ہمیں بدل کے رکھ دیا ہے اور ہم نے اپنے اندر بہت تبدیلی محسوس کی ہے.گویا صرف احمدیوں پر اثر نہیں ہوتا، عیسائیوں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اثر ہوتا ہے.میسی ڈونیا کے ایک ڈاکٹر اور ہام (Orham) صاحب ہیں.جلسہ پر وفد کے ساتھ آئے.کہتے ہیں کہ میں ڈاکٹر ہوں.بلقان اور مقدونیہ میں گزشتہ لڑی جانے والی تین جنگوں کے زخمیوں کی خدمت کی توفیق ملی ہے.قومیت کے فرق کے بغیر میں نے لوگوں کی خدمت کی ہے.اس جلسہ میں میں نے دیکھا کہ مختلف قوموں کے افراد میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں تھا.یہاں میں نے خلیفہ وقت کی تقریریں سنیں تو مجھے یقین ہو گیا کہ مجھے اپنی اصل جگہ مل گئی ہے اور یہ کہ اب مجھے اس تبدیلی سے گزرنا ہوگا اور انہوں نے بیعت کا فیصلہ کر لیا.چنانچہ جلسہ کے آخری دنوں میں انہوں نے بیعت کی.کہتے ہیں میں حج پر بھی گیا تھا، وہاں میں نے دیکھا کہ مسلمان کیا ہوتے ہیں.وہاں تو میں نے اسلام کے خلاف سیاست ہی دیکھی ہے.یعنی مسلمان کے قول اور فعل میں بڑا تضاد تھا اور سیاست زیادہ تھی.کہتے ہیں اُن کے ساتھ دل مطمئن نہیں ہو سکتا تھا.اور جماعت جو ریفارم پیش کرتی ہے یہ بہت اچھا ہے.جماعت کسی کو اسلام سے نہیں نکالتی بلکہ اسلام میں اُسے مضبوط کرتی ہے.اور کہتے ہیں اب میں نے احمدیت قبول کر لی ہے اور میرے لئے یہی صراط مستقیم ہے.کہتے ہیں کہ حیرت انگیز بات ہے، اتنا بڑا مجمع اور کوئی پولیس والا نہیں.یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوئی.اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو بھی تسلی ہے کہ یہاں کوئی جھگڑ نہیں ہوگا.پھر کہتے ہیں خلیفہ وقت نے جو بعض امور پیش کئے وہ کسی مولوی سے کبھی نہیں سنے.یہ سب کچھ اتنا واضح تھا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں اب آپ کے ساتھ ہوں جس میں ایک خلیفہ موجود ہے.جب مجھے علم ہوا کہ ایک خلیفہ موجود ہیں تو میں سمجھا کہ مجھے راستہ مل گیا ہے کیونکہ ہمیں خلیفہ اور رہنمائی کی ضرورت ہے.پھر میسی ڈونیا کے ایک نوجوان با ئیرم ہیں.انہوں نے بتایا کہ وہ نئے احمدی ہیں اور اس سے پہلے مسلمان تھے بلکہ ایک ایسے کثر مسلمان خاندان سے تھے جو مولوی طبع ہوتے ہیں.کہتے ہیں میرے دادا غیر احمدی مولوی ہیں اور اُن کی طرف سے قبولیت احمدیت پر بہت مخالفت کی گئی.مخالفت کی وجہ سے چھ مہینے کے لئے گھر سے ان کو نکلنا پڑا لیکن یہ ثابت قدم رہے.بعد میں ان کی بیوی نے بھی بیعت کر لی اور یہاں جلسہ پر آئے ہوئے تھے.انہوں نے ایک نظم پڑھنے کی بھی اجازت چاہی جو میسی ڈونیا کے لوگوں نے ہی لکھی تھی.تو میں نے کہا ہاں آپ پڑھیں.یہ نظم انہوں نے اور اُن کے ساتھ کچھ اور بچوں نے ایسے
خطبات مسرور جلد 11 380 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء انداز میں پڑھی کہ وہاں ایک عجیب ماحول پیدا ہو گیا تھا.میرا خیال ہے کہ ایم ٹی اے والے انشاء اللہ دکھائیں گے.ایک تو آواز بھی اُن کی اچھی تھی ، پھر وہیں کے لوکل بچے بھی بیچ میں شامل ہوئے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مدح تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی آمد کے بارے میں ذکر تھا.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا تو تھا کہ ہمیں جلسہ پر پڑھنے کا موقع دیا جائے لیکن موقع نہیں ملا تو بہر حال انہوں نے نظم پڑھ کر سنائی.جرمنی کی انتظامیہ کو میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں اگر ایسے لوگ نظمیں پڑھنا چاہیں تو اُن کو جلسہ کے بعد میں پڑھنے کے لئے اجازت دیا کریں، بجائے اس کے کہ صرف اردو کی نظمیں پڑھی جایا کریں.مختلف لوگ ہوتے ہیں، مختلف قومیتیں ہوتی ہیں اُن کو اجازت ملنی چاہئے.لجنہ میں بھی اس دفعہ جر من نظم پڑھنے والوں کا شکوہ ہے کہ اُن کو بہت تھوڑا موقع ملا اور آخر میں اردو نظمیں زیادہ پڑھی گئیں.اس لئے اُن کا بھی خیال رکھنا چاہئے.کے ایک مقامی دوست ہیں، یہ بھی جلسہ میں شامل ہوئے.یہ بیان کرتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کی باہمی اخوت، پیار و محبت اور انسانیت کی خدمات سے بہت متاثر ہوا ہوں.کہتے ہیں میں نے دوسال سے جماعت کی تعلیم پر ریسرچ کی ہے.میں مسلمان بھی تھا لیکن اس بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا.میں نے ایک روز خواب میں اذان کی آواز سنی تو میں نے سوچا کہ مجھے نماز کی طرف بلایا جا رہا ہے.یعنی اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہے.آج جب میں نے خلیفہ وقت کا مہمانوں سے خطاب سنا ( یہ جرمن مہمانوں سے انگلش میں تھا تو اس نے میرے اندر تبدیلی پیدا کر دی اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو جاؤں.چنانچہ انہوں نے بیعت کی.پھر ہمارے وہاں کے ایا د عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جلسہ کے پہلے روز شام کو ایک گھانین زیر تبلیغ دوست کو صدر صاحب جماعت ایک جگہ کے لے کر آئے تو یہ پتہ لگا کہ نوجوان کا دل جماعت کی طرف سے صاف ہے بلکہ تقریباً احمدی ہیں.لیکن پوچھنے پر بتایا کہ بیعت ابھی نہیں کرسکتا کیونکہ بعض مشکلات ہیں.بہر حال کہتے ہیں اُس وقت تو چلے گئے اور رات کو سونے کے لئے جب آئے تو بڑے جوش سے کہنے لگے کہ اب میں نے خلیفہ وقت کا پیغام یعنی تقریر جو جر من مہمانوں کے سامنے تھی ، وہ خطاب سن لیا ہے اب کوئی وجہ باقی نہیں رہی کہ میں احمدی نہ ہوں.چنانچہ ابھی بیعت کر کے آ گیا ہوں.ایک عیسائی دوست جلسہ میں شامل ہوئے ، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے
خطبات مسرور جلد 11 381 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء خلیفہ کی تقریر سن کر بہت خوشی محسوس ہوئی کیونکہ انہوں نے اختصار کے ساتھ مگر نہایت وضاحت سے بیان کر دیا کہ اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ اور اسلام کی تعلیم کیا سبق دیتی ہے؟ میں اپنے عیسائیوں سے بھی ایسے ہی واضح اور سیدھی بات سنا چاہتا ہوں لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا.اور ہم بہت ہی کم ہیں جو بالکل واضح اور سیدھی بات کر سکتے ہیں.ایک خاتون نے کہا کہ مجھے یہاں آ کر نئی باتیں سیکھنے کا موقع مل رہا ہے.بہت سی باتوں کا جن کے بارے میں میں سمجھتی تھی کہ مجھے علم ہے، اُن کا مجھے یہاں آ کر نئے انداز سے پتہ چلا ہے.اور کہتی ہیں میں نے خلیفہ کے خطاب سے بہت کچھ سنا اور بہت متاثر ہوئی.انہوں نے پیچیدہ اور مشکل موضوعات کے بارے میں بات کی.ایسے موضوعات کے بارے میں بیان کیا جن کے بارے میں تھیولوجیئن (Theologian) بہت سی کتابیں لکھ دیتے ہیں تا کہ ان کو سمجھا جا سکے.لیکن انہوں نے یہ ساری باتیں بہت ہی آسان طریق سے اور انتہائی پیارے انداز کے ساتھ بیان کر دیں اور اس کا معیار بھی ایک ہی رکھا تا کہ سب سمجھ سکیں.خلیفہ نے اسلام کی تعلیم اور خدا تعالیٰ کے بارے میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ہر شخص اُسے سمجھ سکتا تھا، کسی قسم کی کوئی غلط فہمی پیدا نہیں کی.پھر انہوں نے کہا جماعت بھی بالکل مختلف ہے.پھر ہمارے ایک احمدی بتاتے ہیں کہ ایک جرمن نوجوان میرے پاس اپنے احمدی دوستوں کے ہمراہ آیا اور کہنے لگا کہ میں عیسائی ہوں.جب اُس کے ساتھ بات چیت کا ایک سلسلہ چل نکلا تو وہ مسلمانوں کی طرح بات کرنے لگا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک بہت عقیدت اور احترام کے ساتھ مکمل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتا.اور ساتھ ہی کہنے لگا کہ ابھی نماز کا وقت ہے میں وضو کر کے آیا ہوں اور خلیفہ وقت کے پیچھے نماز ادا کرنی ہے.میں نے اُسے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ نے شروع میں خود کو عیسائی کہا تھا لیکن جس طرح آپ باتیں کر رہے ہیں آپ مسلمان لگتے ہیں.کہنے لگا کہ چھ ماہ قبل احمدیت سے تعارف ہوا تھا.Life of Muhammad صلی اللہ علیہ وسلم کتاب میں نے پڑھی ہے اور اپنے پادری سے بات کی تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکا.میرا دل بدل چکا تھا.عیسائیت تو ترک کر ہی چکا تھا، اب پوری توجہ اسلام کی طرف ہے.یہ کتاب پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا کچھ اندازہ ہوا ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ باقی روکیں بھی دور کر دے.لیتھوینیا سے ایک جرمن زبان کے استاد کارل ہائنس آئے تھے.انہوں نے کہا کہ میں بہت متاثر ہوا ہوں اور بہت خوش ہوں کہ پہلی مرتبہ جماعت کا اتنا تفصیلی اور اچھا تعارف ہوا ہے.جلسہ سے قبل
خطبات مسرور جلد 11 382 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء اسلام کے بارے میں منفی خیالات تھے جو کہ مکمل طور پر بدل گئے ہیں.میں نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ مذاہب کے مابین بہت ساری باتیں مشترک ہیں.مثلاً خدا کا تصور، خدا کی رحمتیں وغیرہ.پھر یہ کہتے ہیں کہ میرے ذہن میں ایک الجھن تھی کہ لوگ تالیوں کے بجائے نعرے کیوں لگارہے ہیں؟ تالیوں سے خوشی کا اظہار ہونا چاہئے.اس الجھن کا نہایت خوش اسلوبی سے امام جماعت نے مجھے جواب دیا، ( میرے سے ان کی باتیں بھی ہوئی تھیں ) اور یہ کہہ کر تسلی بخش جواب دیا کہ تالیاں خوشی کے اظہار کے لئے ضرور ہیں مگر نعروں میں خوشی کا اظہار بھی ہے اور خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی ہے.مارک ماؤنٹے بیلو (Mark Montebello)، یہ ایک عیسائی پادری ہیں اور یو نیورسٹی آف مالٹا میں فلاسفی پڑھاتے ہیں.اس کے علاوہ مقامی اخبارات میں مضامین بھی لکھتے ہیں.وہاں نقاد پادری کے طور پر جانے جاتے ہیں.چرچ کی بعض پالیسیوں پر بھی آزادانہ رائے پیش کرتے رہتے ہیں.چرچ کی بعض پالیسیوں سے اختلاف بھی رکھتے ہیں اور میڈ یا وغیرہ پر اظہار کرتے رہتے ہیں.انہوں نے اسلامی اصول کی فلاسفی کتاب پڑھی تھی اور خلیفہ امسیح الرابع کی کتاب Islam's response to" "contemporary issues پڑھی تھی.پھر انہوں نے مسیح ہندوستان میں پڑھی.کہتے ہیں کہ جلسہ میں شمولیت سے جماعت سے متعلق ہمارے مثبت تاثرات میں اضافہ ہوا ہے.اور اب ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ ایک نہایت امن پسند جماعت ہے.اور انہوں نے وہاں سے اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عبده “ کی انگوٹھی بھی خریدی اور پہلے اس کے معنی پوچھے کہ کیا معنی ہیں؟ کہتے ہیں یہ تو ایسی عبارت ہے جس کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا چاہئے.میرے سے ان کی ملاقات بھی ہوئی.پوپ کے بارے میں سوالات کرتے رہے کہ آپ نے ان سے کبھی کوئی رابطہ کیا.میں نے کہا ہم نے ایک دفعہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی ، رابطہ تو نہیں ہوا تھا لیکن بہر حال اُن کو میں نے دنیا کے امن کے بارے میں خط لکھا تھا تو باوجود اس کے کہ دستی خط اُن کو دیا گیا تھا انہوں نے اس کو acknowledge تک نہیں کیا.اس پر مایوسی سے بیچارے مسکرا کے رہ گئے.اس بارے میں ایک پرانا واقعہ بھی بتادوں، حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب مسجد فضل کی بنیاد رکھی تو میرا خیال ہے کہ شروع میں انہوں نے ایک وقت جب دورہ کیا تھا تو اٹلی بھی گئے تھے.وہاں پوپ سے رابطے کی کوشش کی گئی اور جب رابطہ کیا تو پوپ نے جواب دیا کہ میرا جو مل ہے وہ ابھی زیر تعمیر ہے، مرمتیں ہو رہی ہیں اس لئے ملاقات مشکل ہے.اخباری نمائندے، پریس والے وہاں
خطبات مسرور جلد 11 383 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء آئے ہوئے تھے، انہوں نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سے پوچھا کہ آپ پوپ سے ملیں گے؟ انہوں نے کہا ہاں ، میں نے ملنے کی خواہش کی تھی اور یہ اُس کا جواب ہے.اخباری نمائندوں نے اسی طرح اپنے اخبار میں خبر لگادی کہ پوپ نے امام جماعت احمدیہ کو یہ جواب دیا ہے کہ میر امحل زیر تعمیر ہے اس لئے ملاقات مشکل ہے.اور نیچے لکھ دیا کہ امید ہے احمدی خلیفہ سے ملنے سے بچنے کیلئے اُن کا محل کبھی تعمیر ہی نہیں ہوگا.تو بہر حال ہمارا جو کام ہے ہم نے کئے جانا ہے.پھر ایک احمدی ہیں اشیر علی صاحب قرغزستان سے آئے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے 2007ء میں بیعت کی تھی لیکن ہمارے پاس مسجد نہیں تو جماعت احمدیہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی خواہش تھی.وہ پہلے آ گئے تھے.مساجد کے افتتاح میں بھی شامل ہوتے رہے.یہاں آ کر یہ بھی اللہ تعالیٰ نے خواہش پوری فرمائی.پھر قاراقل اسماعیلو صاحب ہیں، یہ بھی یہاں رہے اور اپنی احمدیت کی قبولیت پر شکر گزاری کرتے رہے.جلسے میں شمولیت پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے رہے.نائیجر کے رہنے والے ایک دوست صالح بی بیلجیم میں رہتے ہیں ، جو مسلمان تھے، یہاں آئے.کہتے ہیں کہ میں نے افریقہ میں بہت سے علماء کی تقریریں سنی ہیں لیکن وہ اثر اور فائدہ جو مجھے خلیفہ وقت کی تقریر سن کر ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا.اور میں نے اس جماعت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور میں نے اس جلسہ پر احمدیت میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا ہے.چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی.اسی طرح ایک مراکشی دوست جموعی توفیق صاحب تھے.کہتے ہیں کہ میں نے دوسرے تقلیدی مسلمانوں کی تفاسیر بھی پڑھی ہیں اور جماعت احمدیہ کی لکھی ہوئی تفاسیر بھی پڑھی ہیں.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اصل تفاسیر وہی ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے احمدیت کی لکھی ہوئی ہیں.اور مختلف مسائل ان کے حل ہوتے رہے.کہتے ہیں کہ مجھے تو پورا اطمینان تھا.میں نے احمدیت قبول کر لی اور یہاں جلسہ پر آ کے میرے بیوی بچوں نے بھی بیعت کر لی ہے.نائیجر کے ایک اور دوست ہیں، یہ بھی مسلمان تھے.کہتے ہیں: میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ اگر کوئی نبی زندہ رہنے والا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہنے چاہئیں، نہ کہ عیسی علیہ السلام.یہاں تنجیم آ کے احمدیوں سے رابطہ ہوا تو میرا یہ مسئلہ حل ہو گیا.اور پھر اس کے بعد میں نے اپنے دوستوں سے ذکر کیا، انہوں نے بھی کہا کہ جماعت تو سچی لگتی ہے.پھر مجھے خلافت اور اُس کی برکات کا مسئلہ جلد ہی
خطبات مسرور جلد 11 384 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء سمجھ آ گیا.میں اس جماعت کو پا کر جس کا ایک امام اور ایک خلیفہ ہے بہت خوش ہوا.کیونکہ اسلام نے تب تک ہی ترقی کی جب تک ان میں خلافت رہی.کہتے ہیں مجھے اس جماعت میں جو سب سے اچھی بات لگی وہ یہ ہے کہ جماعت ہمیشہ جو بات پیش کرتی ہے اُس بات کی تائید میں ہمیشہ قرآن اور حدیث کا حوالہ دیتی ہے.پہلے بیعت نہیں کی تھی ، آخری دن پھر انہوں نے بھی بیعت کر لی.پھر رہا تھاتو و صاحب ہیں، یہ بھی قرغزستان کے ہیں.یہ کہتے ہیں کہ پہلے میں سوچا کرتا تھا کبھی خلیفہ وقت سے ملاقات ہوگی کہ نہیں.یہ پہلے سے احمدی تھے اور پھر جو سب کچھ میں نے دیکھا تو اب میرا ایمان مزید مضبوط ہوا ہے.قرغزستان کے احمدیوں کے لئے بھی بہت دعا کریں، اُن کے بھی حالات آجکل کافی سخت ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات کو دور فرمائے.اور یہ نام نہاد ملاں جنہوں نے وہاں فساد کھڑا کیا ہوا ہے اللہ ان کو یا عقل دے یا خود پکڑ کا سامان کرے.ایک نو مبائع لبنانی ہیں، اُس نے بتایا کہ ایک دن میرا ایک تیرہ سال کا بچہ مجھے کہنے لگا کہ آپ ہر وقت ہمیں آخری زمانے کے فتنوں سے ڈراتے رہتے ہیں، یہ تو بتائیں کہ یہ آخری زمانہ کب آئے گا؟ میں نے جواب دیا کہ اس زمانے میں تو شاید ابھی سینکڑوں سال رہتے ہیں.میرے بیٹے نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں ہے بلکہ ہم آخری زمانے میں ہی رہ رہے ہیں.( یہ بارہ تیرہ سال کا بچہ اُن کو کہہ رہا ہے).پھر بچے نے اُس کو کہا کہ آپ دجال کے بارے میں کہتے رہتے ہیں کہ وہ ایک عجیب الخلقت شخص ہوگا، یہ بھی درست نہیں ہے، کیونکہ دجال کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ اس سے مراد ایک قوم ہے اور ایسا دجال ظاہر ہو چکا ہے.لہذا ہم دجال کے زمانے میں ہی رہ رہے ہیں.کہتے ہیں یہ سن کر میں سخت حیران ہوا اور اُس سے پوچھا تمہیں یہ معلومات کہاں سے ملی ہیں.تو اُس نے کہا کہ مختلف ٹی وی چینلز دیکھنے کے دوران ایک دن میں نے ایم ٹی اے کی جرمن نشریات دیکھی ہیں اور اُس کے بعد میں مسلسل وہ دیکھتا ہوں اور یہ معلومات مجھے وہاں سے ملی ہیں.باپ کہتا ہے کہ چونکہ مجھے جرمن نہیں آتی تھی اس لئے میں اکثر اپنے بچے سے کہتا اچھا مجھے پروگرام سناؤ اور ترجمہ کر کے بتاؤ اور میری اس سے بحث ہوتی رہتی تھی.بہر حال کہتے ہیں مجھے اس پر ایک دن بڑا غصہ آیا اور میں نے کہا خبردار جو تم نے آج کے بعد اس چینل کو دیکھا.لیکن باپ کہنے لگا کہ اندر ہی اندر بیٹے کی باتوں میں معقولیت دکھائی دی.پھر میں نے اپنے طور پر جماعت کے بارے میں لوگوں سے پوچھنا شروع کیا تو شکر ہے کہ اتفاق سے دو پاکستانی احمدی ان کومل گئے.اور پھر مجھے
خطبات مسرور جلد 11 385 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء اُن سے باتیں کر کے سمجھ آئی جو میرا بیٹا کہتا تھا درست تھا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے پھر بیعت کرلی.بوسنیا کے ایک اور دوست ہیں.وہ کہتے ہیں یہاں جلسہ پر آ کے تو میرے پر ایک خاص اثر ہوا ہے.دعا کریں کہ جب میں واپس جاؤں تو یہ اثر قائم رہے.اسی طرح قرغزستان کے ایک اور دوست تھے.وہ کہتے ہیں کہ یہاں جلسہ پر مجھے عجیب نظارہ نظر آیا اور پھر انہوں نے بڑی محبت سے مجھے کہا کہ بڑے عرصے سے میں نے بیعت کی تھی اور کچھ سال پہلے میں حج کے لئے گیا تھا اور آب زمزم وہاں سے لے کے آیا تھا اور سوچا تھا کہ جب بھی خلیفہ وقت سے ملاقات ہوگی تو دوں گا.چنانچہ انہوں نے اپنی محبت کا اظہار کیا اور وہ پانی مجھے دیا.اسی طرح ایک الجزائری دوست تھے.انہوں نے بھی کہا کہ دو افراد ایسے تھے جو مہاجرین کو تبلیغ کر رہے تھے.میں نے ان کی باتوں میں امام مہدی کے آنے کی خبر سنی تو سخت برہم ہوا اور بے اختیار کہنے لگا کہ ان شیاطین کے آنے سے یہاں پر موجود فرشتے چلے گئے ہیں.کہتے ہیں شروع شروع میں تو اُن کے ساتھ میری گفتگو تمسخرانہ تھی لیکن محسوس ہونے لگا کہ میری ہر بات اُن کے سامنے غلط ثابت ہوتی ہے جبکہ اُن کے پاس ان کے ہر دعوے کی قومی دلیل تھی.مجبور ہو کر میں نے کہا کہ میں ان کے بارے میں کسی مولوی سے رہنمائی لیتا ہوں.یہ سوچ کر میں نے ایک معروف عربی چینل سے رابطہ کیا.کہتے ہیں پہلے میں اس چینل پر مختلف سوالات اور فتاویٰ کے لئے فون کیا کرتا تھا تو کئی بار فون کرنے کے بعد ہمیں کوئی مناسب جواب ملتا تھا.اب جب میں نے جماعت احمدیہ کے بارے میں فون کیا تو انہوں نے کہا کہ تم فون رکھو ہم خود تمہیں فون کرتے ہیں.اور پھر انہوں نے ہمیں فون کر کے کہا کہ احمدی تو پکے کافر ہیں ، ان سے بچ کے رہو.یہی نہیں بلکہ اب تقریباً ہر روز تین چار دفعہ اس چینل کی طرف سے ہمیں فون آنے لگا اور ہر بار ہمیں جماعت کے کفر کے بارے میں فتویٰ سنایا جاتا.کہتا ہے کہ جب افراد جماعت کی بات سنتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ یہی سچی جماعت ہے.لیکن مولویوں کے فتوے سنتا تو جماعت کے بارے میں شک میں پڑ جاتا.پھر کتب اور عربی ویب سائٹ پر مواد کا مطالعہ کرتا رہا جس کی وجہ سے حق واضح ہو گیا.اور جلسہ پر آنے کی مجھے دعوت دی.یہاں جب میں نے دیکھا کہ مختلف قومیتوں کے لوگ ہیں تو میں نے سوچا کہ کیا میں ہی سچا ہوں ، یہ سب جھوٹے ہیں.اس کے بعد دلی اطمینان ہوا اور بیعت کر لی.پھر نا بیجر سے ہی ایک دوست تھے ابو زیدی صاحب.کہتے ہیں کہ جلسہ میں آنے سے قبل میں
خطبات مسرور جلد 11 386 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013 ء احمدی نہیں تھا لیکن جلسہ نے میری کا یا پلٹ دی ہے.اب میں کہتا ہوں کہ سب کو اس جماعت میں شامل ہو جانا چاہئے.کیونکہ یہ جماعت اسی حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا.اس بات پر میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہا ہوں.بوسنیا کے ایک احمدی کہنے لگے کہ احمدیت قبول کرنے سے پہلے وہ ہر قسم کے گناہ اور بدکاری میں گرفتار تھے.لیکن یہاں جلسہ میں آکر انہیں دلی اطمینان ہوا ہے اور اب وہ ایک پاک زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں.جلسہ کا یہ ماحول دیکھ کر اور خصوصاً خلیفہ وقت کی تقریریں وغیرہ سن کر، نمازیں پڑھ کر یہاں انہیں ایک عجیب حیرت انگیز تبدیلی محسوس ہوئی ہے.تو بڑے درد سے انہوں نے دعا کے لئے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے نیک رستوں پر قائم رکھے.ایک ترک نوجوان نے جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کی.ہیمبرگ سے روانگی سے پہلے انہوں نے کہا کہ وہ ابھی بیعت نہیں کریں گے کیونکہ اُن کے ساتھ کچھ گھریلو مسائل ہیں.جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے بعد تیسرے دن صبح تک وہ بیعت کے لئے پوری طرح تیار نہ تھے لیکن بیعت پروگرام سے پہلے وہ اُس میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گئے.بیعت کے وقت اور بعد میں بھی یہ حالت تھی کہ وہ روتے ہی جارہے تھے اور اُن سے بات کرنی مشکل تھی.وہ کہتے تھے کہ بیعت کا نظارہ دیکھ کر اُن سے رہا نہیں گیا اور کسی غیبی طاقت نے انہیں بیعت میں شامل کیا.اسی طرح نائیجر کے ایک باشندے کہتے ہیں کہ میں نے جلسہ میں آنے سے پہلے بیعت کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا لیکن یہاں آکر میں نے دیکھا کہ لوگوں میں اپنے خلیفہ کو دیکھنے کے لئے کتنی تڑپ ہے اور لوگوں کے دلوں میں اپنے خلیفہ کے لئے کتنی محبت ہے؟ تو اس بات نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو جاؤں گا.تو اللہ تعالیٰ مختلف ذریعے لوگوں کی اصلاح کے لئے بناتا رہتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بیعت میں سولہ قوموں کے ستاسٹھ افراد نے بیعت کی.اڑتالیس مرد اور انہیں خواتین تھیں.اب مختصراً انتظامی باتیں.جرمنی میں جلسہ گاہ میں جو اُن کا مین ہال (Main Hall) ہے، پہلے اُسی کے اندر ایم ٹی اے کی دین کھڑی کرتے تھے اور ٹرانسلیشن کیبن وہیں ہوتے تھے.اس دفعہ انہوں نے باہر نکالے ہیں جس کی وجہ سے بعض ترجموں میں شور اور آواز آتی رہی ، ڈسٹرب ہوتے رہے.تو یہ دقت تھی.اُن کو نوٹ کرنی چاہئے.امید ہے آئندہ انشاء اللہ اُسے دور کرنے کی کوشش کریں گے.اسی
خطبات مسرور جلد 11 387 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء طرح عورتوں میں بعض ٹرانسلیشنز (Translations) کی سہولت نہیں تھی.اس لئے عورتوں کو ٹرانسلیشن کے وقت مردوں کے ہال میں آ کر بیٹھنا پڑتا تھا.حالانکہ اب تو ایسا نظام ہے، اس زمانے میں ایسی سہولتیں آچکی ہیں کہ ٹرانسلیشن کی سہولت ہر جگہ ہونی چاہئے ، چلتے پھرتے بھی ہونی چاہئے بلکہ یہاں یوکے(UK) میں تو اسی طرح ہے، ہر جگہ آپ لے جاسکتے ہیں.پھر آواز میں اس دفعہ بہر حال بہتری تھی لیکن ابھی بھی کچھ گونج تھی.اس کی وجہ سے جمعہ والے دن مجھے پوچھنا پڑا کہ آواز صحیح آ رہی ہے کہ نہیں کیونکہ مجھے اپنی آواز واپس لوٹ آتی تھی.تو آواز کے لحاظ سے، انتظامی لحاظ سے اور زبان کے ترجموں کے لحاظ سے یہ چند کمیاں تھیں.جرمنی کی جماعت کو ان کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین ہزار ایک سو کارکن اور تین ہزار سات سو کارکنات نے یہ کام کیا اور اُس سے پہلے وقار عمل بھی ہوتا رہا.سو سے ڈیڑھ سو خدام نے روزانہ چودہ گھنٹے وقار عمل کر کے جلسہ کے انتظامات کو تیار کیا.اور اکثر نے یہ لکھا کہ ہمیں پہلی دفعہ وقار عمل کر کے پتہ لگا کہ اس میں کتنا سکون اور مزہ ہے اور آئندہ انشاء اللہ ہم ضرور شامل ہوں گے.شعبہ ضیافت نے بھی اس سال گزشتہ سال کی نسبت بہتر انتظامات کئے.ایک تو کھانے کے موقع پر پانی مہیا تھا.یہی میں نے کہا تھا کہ کھانے کے وقت میں کھانے کی میزوں پر پانی موجود ہونا چاہئے بجائے اس کے کہ دُور جا کے پانی لے کر آئیں، کیونکہ یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیں حکم ہے کہ کھاتے وقت پانی اپنے پاس رکھو.روٹی کی کوالٹی بھی اس دفعہ پچھلی دفعہ سے بہتر تھی.انتظامیہ نے بھی یہی کہا ہے اور میں نے بھی لنگر خانہ میں چکھ کے دیکھی تھی.لوگوں کی رائے اب سامنے آئے گی تو پتہ لگے گا کہ اُن کو اچھی لگی کہ نہیں.بہر حال لگتا ہے کہ اس دفعہ روٹی بہتر تھی.صفائی کے انتظامات بھی بہتر تھے.جو سکیننگ (Scanning) کے راستے تھے ، اُن میں بھی انہوں نے اضافہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر انتظام تھا.بہر حال مردوں نے بھی ، نوجوانوں نے بھی ، عورتوں نے بھی ،لڑکیوں نے بھی جلسہ کے انتظامات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا اپنا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور آئندہ پہلے سے بڑھ کر خدمت کی توفیق عطا فرمائے.اور اخلاص و وفا میں ان کو بڑھاتا چلا جائے.
خطبات مسرور جلد 11 388 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 جولائی 2013ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا: آج کینیڈا، جیم، آئر لینڈ وغیرہ کے بھی جلسہ سالانہ ہور ہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی جلسہ کی صحیح روح کے ساتھ جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور خیر و خوبی سے اُن کے بھی جلسے اختتام کو پہنچیں.اسی طرح خدام الاحمدیہ یوکے(UK) کا اجتماع بھی ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ یہاں بھی نو جوانوں کو صحیح رنگ میں اجتماع کا جو مقصد ہے اُس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس بات کو ہمیشہ ہر خادم کو اور جماعت کے ہر ممبر کو یاد رکھنا چاہئے کہ اجتماعوں اور جلسوں کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا، اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنا ، اخلاقی حالت کو بہتر کرنا ہے.اس طرف خاص طور پر توجہ دیں.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شماره 30 مورخہ 26 جولائی تا 01 اگست 2013 ، صفحہ 5 تا صفحہ 9)
خطبات مسرور جلد 11 389 28 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013 ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013 ء بمطابق 12 وفا 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 184) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے اُسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل سے یہاں رمضان شروع ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ ہمیں رمضان کے ایک اور مہینے سے گزرنے کا موقع عطا فرما رہا ہے.یہ آیت جو تلاوت کی گئی ہے اس میں خدا تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے روزوں کی اہمیت اور فرضیت کی طرف توجہ دلائی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تم سے پہلے جو انبیاء کی جماعتیں گزری ہیں اُن پر بھی روزے فرض تھے ، اس لئے کہ روزہ ایمان میں ترقی کے لئے ضروری ہے، روزہ روحانیت میں ترقی کے لئے ضروری ہے.آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے اس وقت مختلف مذاہب میں روزہ اُس اصل حالت میں ہے جیسا کہ انبیاء کے وقت میں تھا یا زمانے کے ساتھ روزے کی حالت اور کیفیت بدل گئی ہے لیکن بہر حال کسی نہ کسی رنگ میں کسی نہ کسی حالت میں روزے کا تصور ہر جگہ قائم ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے روزوں کا ذکر بھی ملتا ہے.حضرت داؤد علیہ السلام کے روزوں کا ذکر بھی ملتا ہے.ہندوؤں میں بھی روزوں کا تصور ہے، چاہے وہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے پر ہیز ہو اور اُس کا روزہ ہو.عیسائیوں میں بھی روزے کا تصور ہے.بعض فرقے عیسائیوں کے ایسا بھی روزہ رکھتے ہیں کہ گوشت نہیں کھانا ، سبزی وغیرہ جتنی چاہے کھالیں.
خطبات مسرور جلد 11 390 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013ء گزشتہ دنوں مجھے ایسے ہی ایک روزہ دار کو دیکھنے کا اتفاق ہوا.ہمارے ایک عیسائی دوست ہیں اُن کا نام لینے کا تو سوال نہیں لیکن ملک کا نام بھی لینے کی ضرورت نہیں ہے.بہر حال یہ دوست ایک دعوت میں میرے قریب بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ کھانے کی پلیٹ اُن کے سامنے نہیں آئی، کیونکہ کھانا پلیٹوں میں سرو (serve) ہو رہا تھا ، ڈال کے دیا جارہا تھا.میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نہیں کھائیں گے؟ کہنے لگے میرا روزہ ہے.تو خیر میں اُن کے روزے کے احترام میں خاموش ہو گیا.حیرت بھی ہوئی کہ دنیا دار ہیں، سیاسی آدمی ہیں ، پھر بھی دین پر عمل ہے.تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا تو سبزی وغیرہ اُن کے سامنے پڑی ہوئی تھی ، چاول بھی تھے.تو میں نے کہا کہ آپ کے روزے میں سبزی چاول وغیرہ تو آپ کھا سکتے ہیں؟ کہنے لگے ہاں، کھانے لگا ہوں.خیر انہوں نے کھانا شروع کر دیا.اُس کے بعد ہمارے سامنے ڈشوں میں چکن وغیرہ بھی آنے لگا.ہم نے ڈال کر کھانا شروع کیا.تھوڑی دیر کے بعد جب اُن کی پلیٹ پر نظر پڑی تو وہاں اُن میں گوشت بھی پڑا ہوا تھا.تو اُن سے پوچھا کہ روزے میں یہ مرغی کا گوشت کھانے کی آپ کو اجازت ہے؟ بے تکلفی تھی تو میں نے پوچھ لیا.ہنس کے کہنے لگے کہ سرو (serve) کرنے والے بار بار آ رہے تھے اور مرغی کے سالن کا ڈش میرے پاس لا رہے تھے تو میرا دین یہ بھی کہتا ہے کہ اگر میز بان تمہیں کچھ کھلائے تو کھا لو.اس لئے میں کھا رہا ہوں.تو یہ اُن پرانے دینوں پر عمل کرنے والوں کی روزے کی حالت ہے.سب کھا رہے تھے ، گوشت تھا، مزیدار تھا ، جب ارد گرد لوگوں کو کھاتے دیکھا تو سرو (serve) کرنے والے جو شاید دو مختلف آدمی تھے ، ایک کو اظہار کیا ہوگا، لیکن اگلے سے لے لیا.اخلاقاً لے بھی لیا اور پھر کھانا بھی شروع کر دیا.تو اخلاق دینی حکم پر غالب آگئے.اس لئے کہ دینی احکام بتانے والی کتب میں واضح نہیں ہے، لیکن قرآنِ کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا، اب تک اپنی اصلی حالت میں ہے اور مومنین کو حکم ہے کہ صرف انبیاء کے روزوں کا ذکر نہیں کیا گیا، صرف بزرگوں کے روزوں کی باتیں نہیں ہیں، بلکہ مومنین کو فر ما یا کہ اگر تم مومن ہو تو روزہ تم پر فرض ہے.ایک مہینے کے لئے فرض ہے.ہر قسم کے کھانے پینے سے صبح سے شام تک پر ہیز ضروری ہے.اور اس سے مومنین نے حاصل کیا کرنا ہے؟ فرمایا تمہیں تقویٰ حاصل کرنا ہے.تمہیں تقویٰ میں ترقی کرنی ہے.تم نے روزے سے خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول کرنا ہے.بیشک بائبل میں بھی حواریوں کو خدا کی رضا کے لئے روزے رکھنے کا حکم ہے، نہ کہ دکھاوے کے لئے.پھر یہ بھی ہے کہ روزے سے روحانیت بڑھتی ہے تو اُس روحانیت کے
خطبات مسرور جلد 11 391 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013ء بڑھنے سے بیماریوں کے علاج ہوتے ہیں.لیکن وہاں کفارہ کے نظریہ نے روزے کی روح جو تقویٰ کا حصول ہے، اُسے ختم کر دیا ہے.پس جب تقویٰ کا حصول ہی نہیں تو روزے کے فیض کی اہمیت ہی ختم ہو گئی.اور جب فیض ہی نہیں تو پھر روزے کا صرف نام رہ گیا.یہ نام کا روزہ ہے.پھر کچی اور ابلی ہوئی سبزیوں سے پکے ہوئے گوشت کی طرف بھی ہاتھ بڑھ جاتے ہیں.پس یہ اسلام کی خوبصورتی ہے، یہ قرآن کریم کی خوبصورتی ہے کہ نہ صرف تعلیم بتائی، ایک حکم دیا بلکہ اُس کا مقصد بتایا اور اس کے بدلے میں انعامات کی خبر بھی دی اور پھر اسلام کی تعلیم کو زندہ رکھنے کے لئے عملی نمونے قائم کرنے کے لئے مجددین اور اولیاء کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور فرما کر مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے لئے اس تعلیم کی روح کو اُس کی اصلی حالت میں زندہ کرنے کے سامان مہیا فرما دیئے جنہوں نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں تقویٰ پر چلنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے، روزے کی روح کو سمجھنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے، وہ روزہ ہے.روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں.روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے، بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے.انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں.خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکار ہے بلکہ اُسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو.پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے، دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے.اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے ، انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا نہیں مل جاوے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 102 مطبوعہ ربوہ) اس ارشاد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جوفرمایا کہ جس قدر انسان کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے، تو اس سے خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید بھوکا پیاسا رہنا ہی تزکیہ نفس ہے اس لئے آگے واضح فرما دیا کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا تزکیۂ نفس نہیں ، نہ اس سے روزے کا مقصد پورا ہوسکتا ہے.یہ تو
خطبات مسرور جلد 11 392 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013 ء قرآنی ارشاد کے خلاف ہے کیونکہ مقصد تو تقویٰ کا حصول ہے.پس فرمایا کہ اگر روزہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے رکھا ہے تو پھر جتنا بھی روزے کا وقت ہے یہ بھی ذکر الہی میں گزارو.ایک دوسری جگہ آپ نے فرمایا کہ بھوکے پیاسے رہنے سے تو بعض جوگیوں میں بھی ایسی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کو بھی کشف ہو جاتے ہیں لیکن یہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد نہیں ہے.ایک مومن کی زندگی کا مقصد تبتل اور انقطاع ہے اور یہ عبادت سے، ذکر الہی سے پیدا ہوتا ہے اور نمازیں اس کا بہترین ذریعہ ہیں جو روح پر اثر ڈالتی ہیں، جو خدا تعالیٰ کے قرب کا باعث بنتی ہیں.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 696-697 مطبوعہ ربوہ ) پس اصل روزہ وہ ہے جس میں خوراک کی کمی کے ساتھ ایک وقت تک جائز چیزوں سے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے رُکے رہنا ہے.یہ تقویٰ ہے اور ان چیزوں سے رکے رہ کر صرف دنیاوی کا موں اور کاروباروں میں ہی وقت نہیں گزارنا بلکہ نمازوں اور ذکر الہی کی طرف پوری توجہ دینی ہے.نماز یں اگر پہلے جمع کرتے تھے یا بعض دفعہ قضا ہو جاتی تھیں تو ان دنوں میں اس طرف خاص توجہ کہ ذکرِ الہی اور عبادت ہر دوسری چیز پر مقدم ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ ہو.اور ہم الحمد للہ جو کہتے ہیں تو یہ صرف منہ سے ہی نہ ہو بلکہ آپ نے اس طرف ہماری توجہ دلائی کہ جب الحمد لله کہو تو ہمیشہ یہ بات مدنظر رکھو کہ حمد صرف رب جلیل سے مخصوص ہے.یہ ذہن میں ہو کہ ہر قسم کی حمد خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے ہے اور اُس کی طرف ہی حمد لوٹتی ہے.ہم اُس خدا کی حمد کرتے ہیں جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا ہے.پس اگر ہم سارا سال خدا کی طرف اُس طرح نہیں جھکے جو اُس کا حق ہے تو اس مہینہ میں ہمیں یہ ہدایت دے تا کہ اس ہدایت کے ذریعہ ہم آئندہ گمراہی سے بھی بچیں اور حمد کے فیض سے فیضیاب ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والے بھی ہوں.آپ علیہ السلام نے اس طرف بھی رہنمائی فرمائی کہ حمد کرتے وقت یہ سامنے ہو کہ ہر عزت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.پس اس رمضان میں ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اُس کا قرب دلانے والی ہوں.اور دنیا کی عزت اور تفاخر کی طرف ہم جھکنے والے نہ ہوں.اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے یہ بھی خیال رہنا چاہئے کہ ہمیشہ ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہوگا، کسی دنیاوی سہارے پر نہیں ہوگا.
خطبات مسرور جلد 11 393 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013 ء پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی طرف رمضان میں توجہ رکھو.صرف سبحان اللہ کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ جہاں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان ہو وہاں یہ دعا ہو اور درد سے دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی ہر قسم کی دنیاوی آلائشوں سے بھی پاک کر دے.اور یہ رمضان ہمارے اندر حقیقی تقوی پیدا کرنے والا بن جائے.پھر فرمایا تہلیل کرو.اپنی دعا ئیں اس یقین کے ساتھ کرو کہ عبادت کے لائق ذات صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اگر ہمیں کوئی کسی قسم کے نقصان سے بچا سکتا ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ ہے.جب ہمیں کسی سہارے کی ضرورت ہو تو خدا تعالیٰ کا سہارا ہم نے لینا ہے اور انسان کو ہر وقت خدا تعالیٰ کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے اس معبود حقیقی کی طرف ہر وقت جھکا رہنے کی کوشش ہو.رمضان میں روزوں کے ساتھ یہ دعا کرے کہ خدا تعالیٰ تو ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھنا.اے اللہ ! روزوں کے ساتھ جو تبدیلیاں تو نے روزوں سے فیض پانے والوں کے لئے مقدر کی ہوئی ہیں اُن سے ہمیں بھی حصہ دے اور ایسا یہ حصہ ہو جو تا زندگی ہمیں فیضیاب کرتا رہے.آپ نے فرمایا کہ تمہاری یہ حد تسبیح اور تہلیل ایسی ہے جو تبتل کی حالت پیدا کر دے.اور تبتل الی اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر قسم کی دنیاوی خواہشات سے علیحدہ کر لینا.خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل وفا کا تعلق پیدا کر لینا.پھر فرمایا کہ انقطاع حاصل ہو.یعنی تمام دنیاوی لہو و لعب سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لو اور خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ کرو.جب یہ ہوگا تو وہ مقصد حاصل ہوگا جو خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ روزے دار تقویٰ حاصل کرنے والا ہوگا.پس یہ رمضان جو دو دن سے شروع ہوا ہے اور انتیس تیس دن تک چلنا ہے تبھی ہمیں فائدہ دے سکتا ہے جب ہم اس مقصد کو اپنے سامنے رکھنے والے ہوں گے اور یہ مقصد اتنا بڑا ہے کہ اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے.اپنے روزے کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اپنی دوسری عبادتوں کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ان سب کی مشتر کہ ادائیگی کا نام ہی تقویٰ ہے.ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں نے دوست کا واقعہ بیان کیا ہے، پہلوں نے دین پر عمل چھوڑ دیا، خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی پابندیوں کو جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے تھیں چھوڑ کر ظاہری دنیاوی اخلاق کو اہمیت دی.جو روزے جس حالت میں اُن پر فرض کئے گئے تھے یا روزوں کی فرضیت اور روزے رکھنے کا طریق جس حالت میں اُن تک پہنچا تھا اُس کی روح کو بھی چھوڑ دیا.تو روزہ جو ایک عبادت ہے اور
خطبات مسرور جلد 11 394 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013 ء جس کا مقصد تقویٰ میں ترقی اور خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے وہ بھی ختم ہو گیا.اگر ہم بار یکی کی نظر سے دیکھیں تو یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے کہ بظاہر دنیاوی اخلاق کے نام پر میزبان کی خاطر خدا تعالیٰ کے حکم کو توڑ دیا جائے ، ٹال دیا جائے.خدا تعالیٰ کے مقابلے پر جس کو بھی اہمیت دیں اُس سے آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ کی ذات پیچھے چلی جاتی ہے اور شرک غالب آ جاتا ہے.پس فرمایا کہ روزے تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں اُن پر بھی فرض تھے، تمہارے لئے خاص نہیں ہیں.لیکن دینی لحاظ سے پہلی قوموں کی حالت بگڑتی رہی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی روح کو بھول گئے اور اُن سے صرف دکھاوا ہی رہ گیا.مسلمانوں کو اس مثال میں ایک سبق یہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ مسلمان جو روزے کی روح کو سمجھنے اور تبتل الی اللہ کی طرف بڑھنے ، روزوں میں حمد و ذکر کی طرف توجہ دینے ، اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے کی بجائے صرف اپنے روزے رکھنے پر ہی فخر کرتے ہیں ، ان کے روزے ویسے ہی روزے رہ جائیں گے جیسے پہلوں کے تھے.اگر تقویٰ مدنظر نہیں تو تمہارا بھی وہی حال ہو گا جو پہلے دینوں کے ماننے والوں کا ہوا تھا.بعض نام نہاد بزرگ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھتے ہیں تو اُس کا بھی اظہار کر دیتے ہیں حالانکہ نفل عموما چھپی ہوئی عبادت ہے.ایسے لوگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ذکر فرمایا ہے کہ مہمان آ جائے تو کھانا منگوا کر کہیں گے کہ آپ کھا ئیں مجھے کچھ عذر ہے.یا کھانے کے وقت کسی کے ہاں پہنچ جائیں گے جب میزبان خاطر مدارت کرنے لگے تو کہتے ہیں کہ نہیں نہیں ، میں کچھ کھا پی نہیں سکتا، کچھ مجبوری ہے.یعنی چھپے ہوئے الفاظ میں اپنے روزے کا بتانا مقصود ہوتا ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 418-419 مطبوعہ ربوہ ) پھر ایسے روزے دار بھی رمضان میں ہیں جو روزے کی لمبائی کا ، مثلاً آجکل گرمیوں کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ لمبے، کافی لمبے روزے ہیں تو اس کا اظہار کریں گے.ضرورت سے زیادہ روزوں کی لمبائی نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ اُن کا اظہار ہوتا ہے.پھر اپنی بزرگی جتانے کے لئے اپنی سحری افطاری کی تفصیل بھی بتانے لگ جاتے ہیں کہ تھوڑا کھاتا ہوں، بہت معمولی سحری کھا کے روزہ رکھتا ہوں ، بہت معمولی سی افطاری کرتا ہوں.بیشک بعض دفعہ ایسا اظہار بے اختیار ہو جاتا ہے اور اُس میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو خاص طور پر اظہار کرتے ہیں تا کہ اُن کے روزے کی اہمیت اور کم کھانے کا دوسروں پر رعب پڑے.بلکہ غیروں میں ہمارے نام نہاد علماء میں سے بعض لوگ تو ایسے بھی
خطبات مسرور جلد 11 395 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013 ء ہیں جو دین کے غم میں اپنی کم خوراکی کا اظہار کرتے ہیں.ایسے ہی ایک نام نہاد عالم کا ایک غیر از جماعت دوست نے واقعہ سنایا کہ عالم بڑے اچھے مقرر تھے اور جماعت کے خلاف تو اور بھی زیادہ دھواں دار تقریریں کیا کرتے تھے.تو یہ اُس غیر احمدی کے پاس جا کر ٹھہرے، وہ غیر از جماعت اُن کا بڑا معتقد اور مرید تھا، بڑی خاطر تواضع انہوں نے کی ، ناشتے کے وقت بھی مرغ روسٹ رکھے ، اور کہتے ہیں کہ یہ جو بہت بڑے مقرر و عالم تھے، یہ اُس وقت بھی تین مرغ روسٹ کھا گئے.تو یہ علماء بہر حال کھانے کے شوقین تو ہوتے ہیں.خیر اس کے بعد جلسہ تھا.جلسہ میں تقریر کرنی تھی ، وہاں گئے تو مجمع میں رعب ڈالنے کے لئے شروع ہی اس طرح کیا کہ اس دین کے خادم ( سید تھے ) اور نواسئہ رسول کے منہ میں امت کے غم میں صبح سے ایک کھیل بھی نہیں گئی ، یا ایک دانہ بھی نہیں گیا.وہ غیر از جماعت کہتے تھے کہ میں سامنے بیٹھا ہوا اور میرے سامنے کہ جس کے گھر سے تین سالم مرغے ہڑپ کر کے آئے ہیں ، یہ کہہ رہے ہیں.ویسے اُس عالم نے بھی ٹھیک کہا تھا کہ چاول کا دانہ تو انہوں نے کھا یا نہیں تھا، تین مرغے کھائے تھے.بہر حال ایسے مسلمان ہیں جن کے دین کے درد اور عبادتیں بھی اور روزے بھی جو ایک عبادت ہے، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہیں ہوتے بلکہ دکھاوے کے لئے ہوتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری ہر عبادت کا مقصد تقویٰ ہونا چاہئے.اگر تمہاری عبادتیں صرف ظاہری اظہار ہیں تو نہ پہلوں کو دکھاوے کے روزوں سے اجر ملا، نہ اب ملے گا.ہاں اگر روزوں کے اظہار سے مقصد دنیا والوں کو مرعوب کرنا تھا تو پھر وہ تمہاری نیکی سے مرعوب ہو گئے اور یہ تمہارا اجر ہے جو تمہیں مل گیا.اللہ کے ہاں تو اس کا کوئی اجر نہیں ہو گا.اب اگر اللہ کے ہاں کسی نیکی کا اجر چاہتے ہو، روزوں کا اجر چاہتے ہو تو یہ تقویٰ کے بغیر نہیں ہو سکتا اور تقویٰ کے بارے میں صرف خدا تعالیٰ فیصلہ فرما سکتا ہے کہ کون تقویٰ پر چلنے والا ہے اور کون نہیں.پس جب ایک مومن اس نہج پر سوچے گا اور اپنا رمضان گزارنے کی کوشش کرے گا تو یہ روزے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں گے، اس کا ذریعہ بنیں گے.یہ روزے تزکیہ نفس کرنے والے بنیں گے.یہ روزے آئندہ نیکیوں کے جاری رہنے کا ذریعہ ہوں گے.ایسا شخص اُن لوگوں میں شامل ہوگا جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کے روزے ایمان کی حالت اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے.(صحیح البخاری کتاب الایمان باب صوم رمضان احتسابا من الایمان حدیث نمبر (38)
خطبات مسرور جلد 11 جاتا ہوں.396 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013ء اور پھر خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے تو میں ایسے روزہ دار کی جزا بن (صحيح البخارى كتاب التوحید باب ذكر النبی و روایته حدیث نمبر (7538 یعنی روزہ دار کی جزا، ایسے روزہ دار کی جزا جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے روزہ رکھے، اُس کا اجر صرف خدا تعالیٰ کو ہی پتہ ہے کہ کیا دینا ہے.یعنی بے شمار.پھر اللہ تعالیٰ تو ایسا دیا لو ہے جب دیتا ہے تو بیشمار دیتا ہے.پس یہ وہ روزے ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کو رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ، نہ کہ وہ روزے جن کا مقصد رمضان کی ایک رو، رمضان میں جو اریکا چلی ہوتی ہے جو تمام لوگ روزے رکھ رہے ہوتے ہیں ،سحری کے لئے اُٹھ رہے ہوتے ہیں.اس رو میں بہتے ہوئے روزے رکھے جائیں.صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا روزے کا مقصد نہ ہو بلکہ تقویٰ کی تلاش ہو.اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہو.وہ روزہ ہو جو ڈھال بن جائے.وہ روزہ ہو جو ہر شر سے بچانے والا اور ہر خیر کے راستے کھولنے والا ہو.وہ روزہ ہو جوصرف دن کا فاقہ نہ ہو بلکہ ذکر الہی کے ساتھ راتوں کو نوافل سے سجا ہوا ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں کے نوافل کو بڑی اہمیت دی ہے.آپ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کی راتوں میں اُٹھ کر نماز پڑھتا ہے اُس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں.(صحیح البخاری کتاب الایمان باب تطوع قیام رمضان من الایمان حدیث نمبر 37) پھر روزہ صرف دینی شرور سے بچنے کیلئے اور خیر کے راستے کھولنے والا نہیں ہے بلکہ دنیاوی شر سے بچانے والا اور خیر کے راستے کھولنے والا بھی ہے.مثلاً ایک خیر جس کو اب ڈاکٹر بھی تسلیم کرتے ہیں، سائنسدانوں کے ایک طبقہ نے بھی ماننا شروع کر دیا ہے کہ سال میں ایک مہینے کا جو کھانے پینے کا کنٹرول ہے وہ انسانی صحت کے لئے مفید ہے.تو یہ خیر ہے، ایک بھلائی ہے جو اس روزے سے انسانی جسم کو حاصل ہوتی ہے.پس نیت اللہ تعالیٰ کی رضا ہو تو جسمانی فائدہ بھی خود بخود پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے فوائد ہیں.پھر روزہ جو تقویٰ کے حصول کے لئے رکھا جائے ، وہ رمضان جس میں سے تقویٰ کے حصول کے لئے گزرا جائے ، معاشرے کی خوبصورتی کا باعث بھی بنتا ہے.ایک دوسرے کیلئے قربانی کی روح پیدا ہو جاتی ہے.اپنے غریب بھائیوں کی ضروریات کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور یہ ہونی ضروری ہے کیونکہ
خطبات مسرور جلد 11 397 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013 ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے سامنے ہے اور اُس سے ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آپ رمضان کے مہینے میں صدقہ و خیرات تیز آندھی کی طرح فرمایا کرتے تھے.(صحيح البخاری کتاب بدء الوحی باب نمبر 5 حدیث نمبر (6) پس ایک مومن کا بھی فرض ہے کہ اس سنت پر عمل کرے.یقینا یہ معاشرے میں بے چینیوں کو دور کرنے کا باعث بنتا ہے.ایک مومن کے دل میں دوسرے مومن کے لئے ، اپنے کمزور اور ضرورتمند بھائی کے لئے نرمی کے اور پیار کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے.ایک غریب مومن کے دل میں اپنے مالی لحاظ سے بہتر بھائی کے لئے جو روزے کا حق ادا کرتے ہوئے اُس کا بھی حق ادا کر رہا ہے، شکر گزاری اور پیار کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے.پھر روزہ جو تقویٰ کے حصول کے لئے ہو، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو اُس میں مشقت کی عادت بھی پیدا ہوتی ہے.سحری اور افطاری میں کم خوری اس لئے نہیں ہوتی کہ دوسروں پر اظہار ہو، بلکہ اس لئے ہوتی ہے کہ جسمانی روٹی کم کر کے تزکیہ نفس کی طرف زیادہ توجہ ہو.پس وہ لوگ جو اس وہم میں ہیں کہ ہم کم کھا کے کمزور نہ ہو جائیں ، سحری اور افطاری میں ضرورت سے زیادہ پرخوری کرتے ہیں ، اُن کے لئے بھی سبق ہے کہ اپنی خوراک کو کنٹرول کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر ضروری مواقع پر جہاں فتنہ و فساد کا خطرہ ہو، رنجشوں کے بڑھنے کا خطرہ ہو، روزے دار کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تم ائی صائمہ “ کہ میں روزہ دار ہوں، کہا کرو.اس میں تقویٰ کے راستوں کی طرف نشاندہی فرمائی ہے کہ روزے کا حق ادا کرنے کے لئے تقویٰ کے حصول کے لئے اپنے جذبات پر کنٹرول بھی ضروری ہے.تم نے اپنے آپ کو جھگڑوں سے بھی بچانا ہے کہ روزے کا مقصد پورا ہو.تم نے اپنے آپ کو غیبت سے بھی بچانا ہے کہ روزے کا مقصد پورا ہو.تم نے اپنے آپ کو جھوٹ اور غلط بیانی سے بھی بچانا ہے کہ روزے کا مقصد پورا ہو.پس روزے دار کے لئے زبان کے غلط استعمال سے رُکنا بھی ضروری ہے.ایک مہینہ کی زبان کو قابو میں رکھنے اور غلط استعمال سے روکنے کی یہ عادت جو تقویٰ کے حصول کے لئے ضروری ہے ، پھر آئندہ زندگی میں بھی بہت سے گناہوں اور غلطیوں سے بچانے کا باعث بنتی ہے.ایک مہینہ کی عادت سے مستقل مزاجی سے ایک مہینہ تک برائیوں سے پر ہیز کرنے کی عادت پڑتی ہے.تقویٰ پر مستقل پر چلنے کی مستقل عادت پڑ جاتی ہے.تقویٰ کی تلاش کی عادت پڑ جاتی ہے اور یہ عادت ہی اصل میں روزہ اور رمضان کا
خطبات مسرور جلد 11 398 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013 ء مقصد ہے.ورنہ صرف سال میں ایک مہینہ نیکیوں کے عمل اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی کوشش اور گیارہ مہینے اپنی مرضی ، دنیا کا اثر ، برائیوں میں ملوث ہونا تو کوئی مقصد پورا نہیں کرتا.پس اس مہینے میں ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے ہوئے روزے اور رمضان کی روح کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے.تقویٰ کے راستوں کی تلاش کی ضرورت ہے.حلال اور جائز چیزوں کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے چھوڑنے کا جو تجربہ حاصل ہو گا اُسے اپنے اندر عمومی ، اخلاقی تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی ضرورت ہے.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو توجہ پیدا ہو گی ، اپنے غریب بھائیوں کی مدد کی طرف جو توجہ پیدا ہوگی ، اُسے مستقل زندگی کا حصہ بنانے کی طرف توجہ اور کوشش کی ضرورت ہے.پس روزوں میں، رمضان کے مہینے میں عبادات اور قربانی کا جو خاص ماحول پیدا ہوتا ہے اُسے مستقل اپنانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم متقیوں کے گروہ میں شامل ہونے والوں کی طرف بڑھنے والے ہوں.اس رمضان میں ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ رمضان میں خدا تعالیٰ جنت کے دروزے کھول دیتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیتا ہے.(صحيح البخارى كتاب الصوم باب هل يقال رمضان او شهر رمضان...حدیث نمبر 1899) ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اس مہینہ میں عبادتوں ، تزکیہ نفس اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعہ جنت کے ان دروازوں میں داخل ہونے کی کوشش کریں.یا جنت کے ان دروازوں سے جنت میں داخل ہونے کی کوشش کریں جو پھر ہمیشہ کھلیں رہیں.اللہ تعالیٰ کے حضور تو بہ واستغفار کرتے ہوئے جھکیں اور اُن خوش قسمتوں میں شامل ہو جائیں جن کی توبہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی ایک ماں کو اپنا گمشدہ بچہ ملنے سے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اُس پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کو اس رمضان میں وہ خوشی پہنچانے والے ہوں جو گمشدہ بچہ کے ماں کومل جانے سے زیادہ ہے.لیکن جیسا کہ اس کا پہلے بار بار ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ خوشی پہنچانے کے لئے ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے ان عبادتوں جن میں فرائض بھی ہیں اور نوافل بھی، ان کے معیاروں کو بلند کرنا ہوگا.اپنے روزوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی ہوگی.اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے یہ سب کچھ اس رمضان میں ہمیں حاصل کرنے اور ا دا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نماز جمعہ کے بعد میں کچھ جنازے بھی پڑھاؤں گا جس میں حاضر اور غائب دونوں ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 399 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013ء جنازہ حاضر جو ہے یہ عرفانہ شکور صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میاں عبدالشکور صاحب کا ہے جو 9 جولائی 2013ء کو مختصر علالت کے بعد 62 سال کی عمر میں وفات پاگئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ مکرم شیخ ذکاء اللہ صاحب کی بیٹی تھیں جنہوں نے حضرت مصلح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.مرحومہ کی شادی جماعت کی معروف اور بہت مخلص فیملی میں ہوئی.حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے میاں کے نانا اور حضرت مولوی محمد دین صاحب سابق صدر،صدر انجمن احمد یہ اور حضرت مولوی رحمت علی صاحب.( یہ مولوی محمد دین صاحب بھی صحابی تھے.حضرت مولوی رحمت علی صاحب بھی صحابی تھے اور مبلغ انڈونیشیا ر ہے ہیں.آپ کے سسرالی تھے.شوہر کے خالو تھے.مرحومہ بہت نیک صالح اور نماز روزے کی پابند اور اپنے حلقے میں بہت ہر دلعزیز خاتون تھیں.اپنی فیملی اور بچوں کو ہمیشہ جماعت کے ساتھ وفاداری اور پختہ تعلق قائم رکھنے کی نصیحت کیا کرتی تھیں.موصیہ تھیں اور پسماندگان میں شوہر کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.آپ کے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب کو 28 مئی 2010 ء کے سانحہ لاہور میں دارالذکر میں شہادت کا اعزاز بھی نصیب ہوا.دوسرا جنازہ حاضر جو ہے ایک بچی کا ہے.عزیزہ ملیحہ انجم بنت مکرم نصیر احمد انجم صاحب و انتھم سٹو (Walthamstow 9 جولائی 2013ء کو لمبی علالت کے بعد پانچ سال کی عمر میں وفات پا گئیں.إنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ عزیزہ واقعہ نوتھی.اور جنازہ غائب جو ہے وہ مکرم مولا نا عبد الکریم شر ما صاحب کا ہے.کچھ چند ہفتے پہلے ان کی وفات ہوئی تھی، تدفین ہو چکی ہے.آپ 26 رمئی 1918ء میں قادیان میں پیدا ہوئے تھے.ان کے والد حضرت شیخ عبدالرحیم شرما صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے اور ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے، ان کا پہلا نام کشن لال تھا.1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام میں داخل ہوئے.ان کی والدہ حضرت عائشہ بیگم صاحبہ تھیں جو حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پروردہ تھیں اور آپ کی والدہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچوں کو دودھ پلایا اس لئے اُن کی رضاعی والدہ بھی تھیں.والد کے بعد آپ کی دادی کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی.وہ بھی ہندو تھیں.مولوی عبد الکریم شرما صاحب کے نانا حضرت کرم داد خانصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے.اسی طرح ان کی نانی محترمہ سلطان بی بی صاحبہ بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رضاعی والدہ تھیں.ان کے دو بھتیجے جو شیخ عبدالرشید
خطبات مسرور جلد 11 400 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013ء شر ما صاحب کے بیٹے تھے، شیخ مظفر اور شیخ مبارک ، ان کو پاکستان شکار پور میں شہادت کا اعزاز بھی ملا.شر ما صاحب نے بنیادی تعلیم قادیان سے حاصل کی.مولوی فاضل اور میٹرک کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اس دوران آپ کو دفتر الفضل میں خدمت کی توفیق ملی.1939ء کی خلافت جو بلی میں حضرت مصلح موعود نے عبد الکریم شرما صاحب کو اُن نوجوانوں میں منتخب کیا جنہیں لوائے احمدیت کی پاسبانی کا شرف حاصل ہوا.26 سال کی عمر میں آپ نے زندگی وقف کی تھی.شروع میں کچھ سال تین چار سال برٹش آرمی میں انہوں نے سروس کی.پھر دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر آپ فوراً قادیان آگئے اور افریقہ کے لئے تیاری شروع کی.جنوری 1948ء کو آپ پانچ مبلغین کے قافلہ میں ایسٹ افریقہ کے لئے روانہ ہوئے اور مجموعی طور پر 29 سال وہاں خدمت دین میں مشغول رہے.1961ء میں جب ایسٹ افریقہ تین ممالک میں منقسم ہوا تو آپ یوگنڈا کے امیر اور مشنری انچارج مقرر ہوئے.اسی طرح آپ کو دو بار امیر و مشنری انچارج کینیا کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق ملی.1978ء سے آپ یو کے میں ہی تھے.اس دوران دس سال آپ کو نیشنل مجلس عاملہ میں بطور سیکرٹری تبلیغ اور سیکرٹری تربیت اور سیکرٹری رشتہ ناطہ خدمت کی توفیق ملی.صد سالہ جو بلی کے موقع پر برطانیہ کی جو بلی پلاننگ کمیٹی کے ممبر ر ہے.مجلس انتخاب خلافت کے بھی ممبر تھے.اپنی ایک خود نوشت میں یہ ایسا واقعہ لکھتے ہیں جو ان کے والد کے اخلاص اور ان کی طرف سے والد کے جذبات کا احترام بھی اس میں پایا جاتا ہے.کہتے ہیں میں مدرسہ احمدیہ کی چوتھی یا پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ بعض وجوہ کی بنا پر میرا دل مدرسہ سے اُچاٹ ہو گیا.میں چاہتا تھا کہ مدرسہ چھوڑ کر بائی سکول میں تعلیم حاصل کروں.انہی دنوں میرے دو کلاس فیلو جو حضرت مولانا محمد ابراہیم بقا پوری صاحب کے فرزند تھے، مدرسہ احمدیہ کو چھوڑ کر ہائی سکول چلے گئے.اس وجہ سے میں بھی پر شوق ہو گیا.میں نے ایک دو مرتبہ اس خواہش کا اظہار حضرت والد صاحب سے کیا لیکن انہوں نے توجہ نہ دی.ایک دن ہم صبح صحن میں چولہے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے.میں نے اُن سے بہت اصرار کیا اور کہا.”آپ نے دوسرے بھائیوں کو تو ہائی سکول میں داخل کروایا ہے اور مجھے کیوں مدرسہ احمدیہ میں پڑھاتے ہیں؟“ والد صاحب نے فرمایا دیکھو! میں ہندؤوں سے مسلمان ہوا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اُس نے اسلام کی نعمت سے مجھے نوازا.لیکن میں افسوس کرتا ہوں کہ میں اسلام کی کوئی خدمت نہ کر سکا.میرے دل میں خواہش ہے کہ میرا بیٹا خدمت کرے.اس نیت سے میں نے تمہیں مدرسہ احمدیہ میں داخل کروایا تھا کہ دینی علوم حاصل کر
خطبات مسرور جلد 11 401 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013ء کے اس قابل ہو جاؤ کہ خدمت اسلام کر سکولیکن تم کہتے ہو کہ مدرسہ احمدیہ میں نہیں پڑھنا چاہتا.یہ کہہ کر وہ دلگیر ہو کر کھڑے ہو گئے اور کمرے میں جا کر نماز پڑھنا شروع کر دی.کہتے ہیں کہ جس جذبے سے ان کے والد صاحب نے بات کی اور جو کیفیت اُس وقت اُن کی ہوئی، اُس کا میرے دل پر خاص اثر ہوا.رات کو نیند نہیں آئی.والد صاحب کے لئے دعائیں کرتا رہا.صبح میں نے عہد کیا کہ والد صاحب کی خواہش کے مطابق مدرسہ احمدیہ میں تعلیم جاری رکھوں گا اور زندگی بھی وقف کروں گا.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے جب وقف زندگی کی تحریک فرمائی تو میں نے حضور کی خدمت میں ایک خط لکھ کر درخواست کی کہ حضور از راہ کرم میرا وقف منظور فرما ئیں.تو اس طرح انہوں نے اپنے والد کی خواہش بھی پوری کی.دین کی خدمت کا جذ بہ بھی پیدا ہوا.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ مبلغین کے بارے میں فرمایا تھا کہ ہمارے مبلغین ( اُن میں سے ایک نام ان کا بھی تھا.مسجد میں مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ) جو یہاں اس وقت ربوہ کی گلیوں میں پھر رہے ہیں ان کو کوئی پوچھتا نہیں.کوئی سمجھتا نہیں،لیکن یہی لوگ ہیں جو جن ممالک میں مبلغ ہیں، وہاں جاتے ہیں تو وہاں کے صدران اور وزراء بھی ان کو ملتے ہیں اور ان کو جو بڑے بڑے فنکشن ہوتے ہیں اُن میں بلایا جاتا ہے، بڑی عزت اور احترام دیا جاتا ہے.جب واپس آگئے تو کینیا میں اپنے ایک احمدی دوست کو ایک خط لکھتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ میں مغربی افریقہ میں قریباً انتیس سال رہا ہوں.میں ہمیشہ اپنے آپ کو خدمت کے نا اہل اور کوتاہ پاتا تھا.رات دو بجے کے قریب میری آنکھ ھلتی تھی اور اپنی کمزوریوں اور نا اہلیوں کو سوچ کر بے گل ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارتا تھا اور اگلے دن کا پروگرام بنایا کرتا تھا.پس سارے مبلغین کو اس نہج پر اپنی سوچوں کو لانا چاہئے.خدمت کا یہ جذبہ ہو، درد ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا ہو.اللہ تعالیٰ سب مبلغین کو وفا کے ساتھ اپنے وقف کو پورا کرنے کی اور خدمات ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شر ما صاحب کے بھی درجات بلند فرمائے.پھر اسی طرح قادیان میں جب پارٹیشن کے وقت فسادات ہوئے ہیں تو ان کے والد اور بھائی وہاں تھے.انہوں نے اپنے بھائی کو لکھا اور والد کو لکھا کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ یہاں ہیں.میرا بھی دل چاہتا ہے.حالات ایسے ہیں کہ زندگی کا پتہ کوئی نہیں کہ کون زندہ واپس آتا ہے یا نہیں لیکن دین کی خاطر شہید ہونا بھی ایک اعزاز ہے.کاش کہ میں وہاں ہوتا تو یہ شہادت مجھے ملتی لیکن آپ لوگ وہاں ہیں تو یہ نہ ہو کہ خوفزدہ ہو جائیں کیونکہ زندگی آنی جانی چیز ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ مرکز کی حفاظت کر سکیں.
خطبات مسرور جلد 11 402 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 12 جولائی 2013 ء یہ اُن کے جذبات تھے جو انہوں نے اُس وقت لکھے.بہر حال بہت نیک اور مخلص انسان تھے.جب تک چلنے کے قابل تھے، باقاعدہ مجھے ملنے آتے رہے.جب چلنے کے قابل نہیں رہے، تو wheel chair پر آ کے ملتے تھے.یہ مسجد فضل میں جمعہ پڑھا کرتے تھے تو جب میں یہاں آنے کے لئے ، کار میں بیٹھنے کے لئے باہر نکلتا تھا تو ہمیشہ wheel chair پر بیٹھے ہوتے تھے.جب تک یہ آسکے، آتے رہے اور اُس وقت بڑی وفا اور پیار ان کے چہرے سے چھلک رہا ہوتا تھا.ملتے تھے ، سلام علیک ہوتی تھی.اُس کے بعد بھی ان کے نواسے نے ذکر کیا کہ خلافت سے ان کا بڑا تعلق تھا اور بڑا اظہار کیا کرتے تھے.یہ نواسہ ان کا واقف زندگی ہے اور آجکل سویڈن میں مربی ہے.اللہ تعالیٰ اس کو بھی اپنے نانا کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.بہر حال یہ جنازے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا جنازہ حاضر بھی ہے.اس لئے جمعہ کی نماز کے بعد میں باہر جا کے نماز جنازہ ادا کروں گا.احباب یہیں مسجد میں ہی صفیں درست کر لیں.الفضل انٹرنیشنل جلد 20 شماره 31 مورخه 02 اگست تا 08 اگست 2013 ، صفحہ 5 تا صفحه 8)
خطبات مسرور جلد 11 29 29 403 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء بمطابق 19 وفا 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أَخَرَ - يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ.وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هدكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرة : 186) اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ : رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا.اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تا کہ تم شکر کرو.رمضان کا مہینہ ایک مسلمان کی زندگی میں کئی بار آتا ہے اور ایک عمل کرنے والے مسلمان کو یہ بھی علم ہے کہ رمضان کے مہینے میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا.ایک باعمل اور کچھ علم رکھنے والے مسلمان کو یہ بھی پتہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہر سال اُس وقت تک جتنا بھی قرآن نازل ہوا ہوتا تھا، اُس کا دور حضرت جبرئیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے ، سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سال کے، جب قرآنِ کریم مکمل نازل ہو
خطبات مسرور جلد 11 404 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء چکا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری مل گئی تھی کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: 4) کہ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو دین کے طور پر تمہارے لئے پسند کر لیا.اس آخری سال میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دفعہ جبرئیل نے قرآن کریم کا دور دو مر تبہ مکمل کروایا ہے.(صحیح البخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام حدیث (3624) پس قرآن کریم کی رمضان کے مہینے کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے.ہر سال جب رمضان آتا ہے ہمیں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآنِ کریم نازل ہوا.گو یا رمضان اپنے اور فیوض کے ساتھ ہمیں اس بات کی بھی یاد دہانی کے لئے آتا ہے کہ اس مہینے میں قرآن کریم کا نزول ہوا.میں نے جو آیت تلاوت کی ہے، اس وقت اُس کے صرف پہلے حصے کے میں بارے میں کچھ کہوں گا ، آخری حصے کے بارے میں نہیں.پس یہ رمضان اس بات کی بھی یاد دہانی کرواتا ہے کہ اس عظیم کتاب میں انسانوں کے لئے ہدایت ورہنمائی کی تعلیم ہے.اس بات کی یاددہانی کرواتا ہے کہ اس میں حق اور باطل میں روشن نشانوں کے ساتھ فرق ظاہر کیا گیا ہے.اس بات کی یاددہانی کرواتا ہے کہ روزوں کی فرضیت کی کتنی اہمیت ہے اور کس طرح رکھتے ہیں؟ اس بات کی بھی یاد دہانی کرواتا ہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیم مکمل اور جامع ہے.لیکن ان سب باتوں کی یاد دہانی کا فائدہ تبھی ہے جب ہم اس یاد دہانی کی روح کو سمجھنے والے ہوں ، ورنہ رمضان تو ہر سال آتا ہے اور آتا رہے گا انشاء اللہ.اور رمضان اور قرآن کے تعلق کی یاد دہانی جب بھی آئے گا، اور جب بھی آتا ہے کرواتا ہے اور کرواتا رہے گا.اور ہم اس کی اہمیت سن کر خوش ہوتے رہیں گے.اس یاد دہانی کا فائدہ تو تب ہو گا جب ہم اپنے عمل پر اس اہمیت کو لاگو کریں گے.پس یہ مقصد تب پورا ہوگا جب شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآن کے الفاظ سنتے ہی قرآن کریم ہمارے ہاتھوں میں آجائے گا اور ہم زیادہ سے زیادہ اُس کے پڑھنے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے.رمضان کی اس یاد دہانی کا مقصد تب پورا ہو گا جب ہم ان دنوں میں قرآن کریم کے مطالب کو سمجھنے اور غور کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ھدی للناس“ کی حقیقت ہم پر واضح ہو.رمضان اور قرآن کی آپس میں جو نسبت ہے اس کی یاددہانی اس وقت ہم پر واضح ہوگی جب ہم کوشش کر کے قرآن کریم کے حکموں کو خاص طور پر اس مہینے میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے.
خطبات مسرور جلد 11 405 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء پس رمضان ہمیں یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ قرآنی احکامات کی تلاش کرو.رمضان ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے اور اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ قرآنی احکامات کی تلاش کرنے کے بعد انہیں اپنی زندگیوں پر لاگو کر کے اُس کا حصہ بناؤ.رمضان ہمیں قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی پہلے سے بڑھ کر سعی اور کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا ہوتا ہے اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے سے.اور عبادت کا یہ حق نمازوں کو سنوار کر اور باقاعدہ اور وقت پر پڑھنے سے، اللہ 66 تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پڑھنے سے ، پھر نوافل اور ذکر الہی پر زور دینے سے ادا ہوتا ہے.پس یہ حق ادا کرنے کی کوشش کرو تا کہ خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاؤ ، تا کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے قریب کرلو.تا کہ خدا اور بندے کے درمیان جو دُوری ہے اُسے ختم کر دو.رمضان یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ اُس رشتے کو مضبوطی سے پکڑنے والے بن جاؤ جس کا ایک سرا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا اُس نے اپنے قرب کی تلاش کرنے والے بندوں کے لئے زمین پر لڑکا یا ہوا ہے جو اُسے پکڑے گا وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ جائے گا.رمضان ہمیں یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” فَإِنِّي قَرِيب (البقرة:187).پس اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کر کے اس قرب سے فیض پالو.رمضان ہمیں یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کرو.قرآن کریم میں بندوں کے جتنے بھی حقوق بیان ہیں اُن سب حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ نے تو غیروں کے حقوق کی ادائیگی پر بھی بہت توجہ دلائی ہے اور مسلمانوں کے لئے تو آپس میں بہت زیادہ رحماء بيتهم (الفتح : 30) اور حقوق کی ادائیگی کا ذکر ہے..بعض لوگ اپنوں کے حقوق بھول جاتے ہیں بلکہ قریبیوں کے خونی رشتوں کے حقوق بھول جاتے ہیں.مجھے بعض دفعہ بچیوں کے خط آ جاتے ہیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں سے ماں باپ کا جو سلوک ہے اُس میں فرق کرتے ہیں.اگر جائیدادا پنی زندگی میں تقسیم کرنے لگیں تو بعض دفعہ بعض خاندانوں میں لڑکیوں کو محروم کر دیا جاتا ہے اور لڑکوں کو دے دیتے ہیں.اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے بچیوں سے پوچھتے تو ہیں کہ اگر جائیداد بیٹے کو دے دوں تو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟ بعض بچیاں لکھتی ہیں کہ ہم شرم میں کہہ دیتی ہیں کہ کوئی حرج نہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں.تو بس اتنا ہی سمجھ لیتے ہیں کہ انصاف ہو گیا.جبکہ یہ انصاف نہیں ہے بلکہ ظلم ہے اور قرآن کریم کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہے.حیرت ہے اس زمانے میں بھی ایسے والدین ہیں جو یہ ظلم کرتے ہیں.اور خوشی بھی اس بات کی ہے کہ اس زمانے میں ایسی بچیاں بھی ہیں جو ماں
خطبات مسرور جلد 11 406 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء باپ کی خوشی کی خاطر قربانی دے دیتی ہیں.لیکن انہیں بھی یادرکھنا چاہئے کہ اگر اس میں ان کی دلی خوشی شامل نہیں ہے تو پھر جو بچیاں یا بچے یہ قربانی دے رہے ہیں وہ ماں باپ کو گناہگار بنا رہے ہیں.میں پھر ایسے ظالم ماں باپ سے کہوں گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کریں اور ایسے بھائی بھی جو خود غرضی میں بڑھے ہوئے ہیں اور ماں باپ پر دباؤ ڈال کر جائیدادوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور بہنوں کو محروم کر دیتے ہیں، وہ بھی اپنے پیٹوں میں آگ کے گولے بھر رہے ہیں.پس ہمیشہ خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے.بہر حال یہ تفصیل میں نے اس لئے بیان کر دی کہ اس کا بیان کرنا ضروری تھا.میں دوبارہ پھر اُسی طرف آتا ہوں کہ رمضان ہمیں کن باتوں کی طرف یاد دہانی کرواتا ہے.جب ہم رمضان کو پاتے ہیں تو رمضان ہمیں یہ یاد دہانی کروانے کے لئے آتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں ہر مسلمان اپنے اندر قربانی کی روح پیدا کرے.خدا تعالیٰ اور خدا تعالیٰ کی جماعت کی خاطر، خلافتِ احمد یہ کے قائم رکھنے کی خاطر جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کا جو عہد کیا ہے، اُس کو نبھانے کے لئے اپنے جائزے لے کر اس کو نبھانے کی کوشش کریں.یہ جائزے لیں کہ کس حد تک اپنے عہدوں کو نبھا رہے ہیں اور کس حد تک یہ عہد نبھانے کا جذبہ دل میں موجود ہے.اس قربانی کے لئے قرآنِ کریم میں کیا احکامات ہیں انہیں تلاش کریں.پھر ایک دوسرے کی خاطر قربانی ہے، اس کے بارے میں کیا احکامات ہیں انہیں تلاش کریں.رمضان ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے بھی آتا ہے کہ ہمارے آقاومطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کو تباہی اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کے لئے کتنا در دتھا اور اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی درد بھری دعائیں اپنے خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے ہوئے کیں اور ہم نے اُس کا حق ادا کرنے کی کس طرح کوشش کرنی ہے؟ ہمیں رمضان اس بات کی یاددہانی کے لئے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غار حرا میں سپر د کر کے پھر غار سے باہر نکل کر انجام دینے کے لئے دیا تھا، یعنی اُن درد بھری دعاؤں کے ساتھ قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا کام، اس کام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے اور حکم کے مطابق ہم نے کس طرح انجام دینا ہے.ہم نے کس طرح قرآن کریم کی اس تعلیم پر عمل کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلاؤ ، خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں پھیلاؤ اور پھیلاتے چلے جاؤ - هدى للناس کا پیغام عام کرنے کی کوشش کرو.ہمیں رمضان یہ یاددہانی کرواتا ہے کہ غار حرا کی تنہائی کو سامنے رکھو گے تو پھر ہی تمہیں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی حقیقت کا صحیح فہم حاصل ہوگا.یہ مہینہ ہمیں یہ یاد دہانی کروانے کے لئے ہے کہ اگر محبت محمد صلی اللہ
خطبات مسر در جلد 11 407 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء علیہ وسلم کا دعویٰ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اُسوہ کے ہر پہلوکوسامنے رکھتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو.یہ یاد دہانی کروانے یہ مہینہ آیا ہے کہ اس بات کی تلاش کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ( المائدة : 120) کا مقام کس طرح پایا؟ کیونکہ یہ صحابہ بھی ہمارے لئے اُسوہ ہیں.پس یہ مہینہ میں اس بات کی یاد دہانی کے لئے بھی آیا ہے کہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لے جانے کی کوشش کرو.زمانے کے لحاظ سے تو ہم نہیں جاسکتے لیکن قرآن کریم کی تعلیم تو ہمارے سامنے اصل حالت میں موجود ہے جو اُس زمانے میں پہنچانے کے راستے آسان کرتی ہے.یہ مہینہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کروانے آیا ہے کہ دنیا کو بتاؤ کہ دنیا کے امن کی ضمانت اور دنیا میں امن قائم کرنے کی حقیقی تعلیم قرآن کریم ہی ہے.دنیا کو بتاؤ کہ دنیا میں امن کے قیام کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہے.یہ مہینہ ہمیں یہ یاد دہانی کروانے آتا ہے کہ قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جو اپنے ہر حکم کے بارے میں دلیل سے بات کرتی ہے.اس کے لئے ہمیں خود بھی قرآنِ کریم پر غور اور اس کی تفسیر کو پڑھنے کی ضرورت ہے.اُن لوگوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ الَّذِینَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ (البقرة : 122 ) یعنی وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی، اُس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اُس کی تلاوت کا حق ہے.یعنی پڑھنے کا بھی حق ادا کرتے ہیں ، غور کرنے کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور جو پڑھا یا سنا اور غور کیا ، اُس پر عمل کرنے کا بھی حق ادا کرتے ہیں.اگر یہ حق ادا نہیں ہور ہے تو ہمارے مسلمان ہونے کے دعوے صرف زبانی دعوے ہیں اور ہم اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں گے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر کو بڑھایا.وہ لوگ جو آخری زمانے میں پیدا ہونے تھے جنہوں نے قرآنِ کریم کی تلاوت اور اُس پر عمل کا حق ادا نہیں کرنا تھا.جن کے بارے میں قرآنِ کریم میں اس طرح اظہار ہوا ہے کہ وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : 31) اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب ! یقینا میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.پس یہ مہینہ جہاں ہمیں بہت سی خوشخبریاں دیتا ہے وہاں بہت سی ذمہ داریاں بھی ڈالتا ہے اور ہوشیار بھی کرتا ہے.ہمیں یاد دہانی کرواتا ہے کہ اپنے جائزے لیتے رہو کہ کس حد تک قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر رہے ہو.اپنے جائزے لیتے رہو کہ کس حد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکروں کو دور کرنے کا باعث بن رہے ہو.ورنہ نہ رمضان ہمیں کوئی فائدہ دے سکتا ہے نہ ہی قرآن کریم ہمیں کوئی فائدہ دے گا.
خطبات مسرور جلد 11 408 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء خدا تعالیٰ ہمیں جس قسم کا انسان اور مومن بنانا چاہتا ہے اُس کے لئے اُس نے قرآنِ کریم میں سینکڑوں کی تعداد میں احکامات دیئے ہیں اور اس زمانے میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے.قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کر نے پر آپ کے ذریعہ سے زور دلوایا ہے.میں نے ان چند باتوں کی طرف مختصراً توجہ دلائی ہے کہ رمضان اور قرآن ہمیں کن باتوں کی یاددہانی کرواتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا، قرآن کریم میں سینکڑوں احکامات ہیں جن کی تلاش کر کے ہمیں اُن کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی ضرورت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اُس کے فضل کے حصول کے لئے اُس نے ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے.اس وقت میں اُن سینکڑوں احکامات میں سے جو قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں دو باتوں کا ذکر کروں گا جو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کی خصوصیات بیان کی ہیں.کیونکہ یہ باتیں ہمارے آپس کے تعلقات اور معاشرے کے امن کے لئے ضروری ہیں.اور ان کا جو اصل فائدہ ہے، وہ تو ہے ہی کہ جس طرح باقی احکامات پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، اسی طرح ان باتوں پر بھی عمل کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا.اُن میں سے پہلی بات تو عاجزی اور انکساری ہے.یہ بہت سے مسائل کا حل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی، اُن بندوں کی جو کہ حقیقی مسلمان ہیں ، ان بندوں کی جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں، اُن بندوں کی جو خدائے رحمان کے فضلوں اور رحم کی تلاش کرنے والے ہیں ، جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں اُن میں سے ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے.فرمایا وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا (الفرقان: 64 ) اور رحمان کے سچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور پھر فرماتا ہے.وَلَا تُصَعِرُ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فخور.(لقمان: 19 ) اللہ تعالیٰ یقینا ہ شیخی کرنے والے اور فخر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا اور جب خدا تعالی کا پیار نہ ملے تو انسان کی کوئی نیکی قابل قبول نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہیں ہوتی.پس کون انسان ہے کہ جو ایک طرف تو خدا تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ کرے، اپنے مومن ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسری طرف یہ کہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی محبت کی پرواہ نہیں.یقینا کوئی عقلمند انسان ، خرد والا انسان اور مسلمان یہ بات نہیں کر سکتا.لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں اور روزمرہ معاملات میں بہت سے مسائل کی وجہ،
خطبات مسرور جلد 11 409 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء بہت سے جھگڑوں کی بنیاد یہ تکبر ہی ہے.جس میں تکبر نہیں اور تکبر کی وجہ سے جھوٹی آنا نہیں اُس کے معاملات بھی کبھی نہیں الجھتے.یہ تکبر ہے جو ضد کی طرف لے جاتا ہے.اور انا اور ضد پھر معاملات کو سلجھانے کی بجائے طول دینا شروع کر دیتے ہیں، الجھانا شروع کر دیتے ہیں.آجکل بہت سے جھگڑے جو میرے سامنے آتے ہیں، ان معاملات میں سے اکثریت صرف اس لئے نہیں سمجھ رہی ہوتی کہ تکبر، آنا اور ضد آڑے آ رہی ہوتی ہے.پس اگر انسان کو خدا تعالیٰ کی محبت کی ضرورت ہے، اگر ایک مسلمان یہ سمجھتا ہے اور جب میں مسلمان کہتا ہوں تو سب سے پہلے ہم احمدی مسلمان اس کے مخاطب ہیں، تو پھر ان باتوں سے بچنا ہوگا.رمضان کا فیض اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل ہو.روزے تبھی فائدہ دیں گے جب قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل ہو.پس وہ لوگ جن کے آپس کے جھگڑے صرف اناؤں اور تکبر کی وجہ سے طول پکڑے ہوئے ہیں، واضح ہو کہ جو جھگڑے ہوتے ہیں یہ ہوتے ہی تکبر کی وجہ سے ہیں، یا آنا کی وجہ سے ہیں.اُنہیں اس رمضان میں عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صلح کی طرف ہاتھ بڑھانے چاہئیں.اُن عباد الرحمان میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے زمین میں عاجزی سے چلتے ہیں.ہر وقت اس بات کے حریص رہتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے راضی ہو جائے چاہے دنیاوی نقصان برداشت کرنا پڑے.دوسری بات جو بیان کرنا چاہتا ہوں ، وہ بھی اس سے متعلقہ ہی ہے اور وہ ہے صبر.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة : 46 ).یعنی اللہ تعالیٰ سے صبر اور دعا کے ذریعہ سے مدد مانگو.اب کون ہے جس کو ہر لمحے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے؟ لیکن یہ مددملتی ہے صبر اور دعا سے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر اور دعا کا حق بھی وہی ادا کر سکتے ہیں جو عاجز ہوں.فرمایا وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ (البقرة: 46 ).اور عاجزی اور فروتنی اختیار کرنے والوں کے علاوہ یہ باقی لوگوں کے لئے بہت مشکل امر ہے.پس یہاں عاجزی کو صبر اور دعا کے ساتھ ملا کر پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کا ذریعہ بنایا.یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد دعاؤں کی طرف توجہ سے اور صبر سے ملتی ہے اور یہ خصوصیت صرف اُنہی لوگوں میں ہوتی ہے جو عاجزی دکھانے والے ہیں.اور یہ عاجزی خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والوں کا شیوہ ہے.یہ عاجزی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کا شیوہ ہے.پس جب ہر سطح پر عاجزی ہو، اللہ تعالیٰ نے جو اپنے حقوق بتائے ہیں، اُن کی بھی دعا اور مستقل مزاجی سے، کوشش سے ادا ئیگی ہو اور
خطبات مسرور جلد 11 410 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء انتہائی عاجز ہو کر انسان خدا تعالیٰ کے در پر گرے تو خدا تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے.اور خدا تعالیٰ نے جو بندوں کے حقوق بتائے ہیں اُن کی ادائیگی کی طاقت بھی خدا تعالیٰ سے مانگو اور وسعتِ حوصلہ دکھاؤ تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے.پس ہر سطح کے معاملات میں اور عبادات کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کے لئے عاجزی انتہائی ضروری ہے.جب یہ ہوگا تو خدا تعالیٰ دنیاوی نقصانوں سے بھی بچائے گا، دشمنوں کے خلاف بھی مدد دے گا، روحانیت میں بھی ترقی ہوگی، معاشرتی تعلقات میں بھی حسن پیدا ہوگا اور انسان خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بھی بنے گا اور یہی ایک مومن کی خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے.پس ہمیں چاہئے کہ اس رمضان میں ہم اپنے جائزے لیں اور اُن تمام باتوں اور عنوانات کے تحت اپنے جائزے لیں جو میں نے بتائے ہیں کہ کس حد تک اس رمضان میں ہم نے اپنی حالتوں کو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے.اور اس طرف قدم بڑھانے شروع کر دیئے ہیں.ورنہ جیسا کہ میں نے کہا رمضان ہر سال آتا ہے اور آتا رہے گا اور جب تک زندگی ہے، ہم ہر سال اس میں سے گزرتے ہوئے قرآنِ کریم کے اس مہینے میں نازل ہونے کی علمی بحث سنتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ھدی للناس“ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ صرف اس کی سطح تک ہی نہ رہو، اپنے آپ کو صرف سطح پر ہی نہ رکھو، صرف علمی بحثوں میں نہ اُلجھے رہو کہ قرآن کریم نازل ہوا تو اُس کا کیا مطلب ہے یا کیا نہیں ہے؟ بلکہ گہرائی میں جا کر اس ہدایت کے موتی تلاش کر کے انہیں اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کا ذریعہ بناؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یاد رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ اُن لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے.عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقادہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دُور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے، اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.اُن میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اُسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لا پروا ہیں اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفی اور شیریں اور بخنک ہے اور اُس کا پانی بہت سی امراض
خطبات مسرور جلد 11 411 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013 ء کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے، یہ علم اُس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اُس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اُس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے.اُسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اُس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اُٹھاتا مگر باوجود علم کے اُس سے ویسا ہی دُور ہے جیسا کہ ایک بے خبر ، اور اُس وقت تک اُس سے دور رہتا ہے جوموت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے.اُس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے.جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے.مگر نہیں، اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی.فرمایا ” مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی اُن کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں.اس کی قدر یہی ہے کہ اُس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح اُن کی مصیبتوں اور مشکلات کو دُور کر دیتا ہے.کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اُٹھائیں.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 140 - 141 مطبوعہ ربوہ ) کاش آج جو دنیا میں ، اسلامی دنیا میں ہو رہا ہے کہ لیڈر بھی اور رعایا بھی جو ایک دوسرے کی گردنیں مارنے پر تلے بیٹھے ہیں سینکڑوں موتیں واقع ہو رہی ہیں.مسلمان ایک دوسرے کی جانیں لے رہے ہیں.اگر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں اور اس زمانے کے مہدی کی بات سننے والے ہوں تو یہ فتنہ اور فساد خود بخود ختم ہو جائے.اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو بھی عقل دے کہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں بھی فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف پر تدبر کرو.اس میں سب کچھ ہے.نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں.انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا.اُس کی تعلیم اُس زمانہ کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں.یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قومی کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اُس کے دُور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے.اس لئے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور
خطبات مسرور جلد 11 412 اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو.“ خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19 جولائی 2013ء ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 102 مطبوعہ ربوہ ) پس یہ وہ نصیحت ہے جو ہمیں بھی ہے.صرف غیروں کو نہیں دیکھنا.کیونکہ ہم نے بھی قرآنِ کریم پر عمل کرنا ہے.قرآن کریم کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہے.اس تعلیم کے ماتحت اپنے آپ کو رکھنے کی کوشش کرنی ہے تا کہ ہماری دنیا اور عاقبت سنور سکے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس عظیم کتاب کی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن سکیں اور یہ رمضان ہمیں پہلے سے بڑھ کر قرآن کریم کا علم وعرفان عطا کرنے والا بھی ہو اور خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا بھی ہو.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شماره 32 مورخه 09 اگست تا 15 اگست 2013 ، صفحہ 5 تا صفحه 7)
خطبات مسرور جلد 11 413 30 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء خطبه جمع سیدنا امیر المومنین حضرت مرز اسر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایده ال تعالى بصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26 / جولائی 2013 ء بمطابق 26 وفا 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَضُكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ.وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ اشُدَّهُ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبى وَبِعَهْدِ اللهِ اَوْفُوا ذَلِكُمْ وَضُكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ وَانَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهِ ذَلِكُمْ وَضُكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (الانعام: 152 154) یہ سورۃ انعام کی آیات ہیں.152 سے 153، 154 تک.ترجمہ ان کا یہ ہے کہ تو کہہ دے آؤ میں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دیا ہے یعنی یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور لازم کر دیا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان سے پیش آؤ اور رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو.ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی.اور تم بے حیائیوں کے جو اُن میں ظاہر ہوں اور جواندر چھپی ہوئی ہوں ، دونوں کے قریب نہ پھٹکو.اور کسی جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہومگر حق کے ساتھ.یہی ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو.اور سوائے ایسے طریق کے جو بہت اچھا ہو یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو.ہم کسی جان پر اس کی وسعت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالتے.اور جب بھی تم کوئی
خطبات مسرور جلد 11 414 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء بات کرو تو عدل سے کا م لوخواہ کوئی قریبی ہی کیوں نہ ہو.اور اللہ کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو.یہ وہ امر ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو.اور یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے.پس اس کی پیروی کرو اور مختلف راہوں کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا دیں گی.یہ ہے وہ جس کی وہ تمہیں تا کیدی نصیحت کرتا ہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.گزشتہ خطبہ میں اس بات کا ذکر ہوا تھا کہ رمضان کے مہینے میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا.اس لحاظ سے قرآن کریم کا اور رمضان کے مہینے کا ایک خاص تعلق ہے، لیکن اس تعلق کا فائدہ تبھی ہے جب ہم رمضان کے مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ اس کے احکامات پر غور کریں اور اُن کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں.ورنہ جس مقصد کے لئے قرآنِ کریم نازل ہوا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : قرآن کا مقصد تھا وحشیانہ حالت سے انسان بنانا.انسانی آداب سے مہذب انسان بنانا تا شرعی حدود اور احکام کے ساتھ مرحلہ طے ہو اور پھر باخدا انسان بنانا.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 53 مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ: یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں عملی اور علمی تکمیل کی ہدایت ہے.چنانچہ اِهْدِنَا الخراط (الفاتحہ: 6) میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے اور تکمیل عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ: 7) میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اتم ہیں وہ حاصل ہو جا ئیں.جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پورا نشو ونما حاصل نہ کرے اس کو پھل پھول نہیں لگ سکتے.اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں.وہ ہدایت مردہ ہدایت ہے.جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے فرمایا کہ ” قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اُس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیدا ہونے لگتا ہے.یہاں تک کہ اُس کے اعمالِ صالحہ جو قر آنی ہدایتوں کے موافق کیے جاتے ہیں وہ ایک فجر طیب کی مثال جو قرآن شریف میں دی گئی ہے، بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں.ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ اُن میں پیدا ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 121-122 مطبوعہ ربوہ ) پس اگر قرآن کریم کا حق ادا کرتے ہوئے قرآنِ کریم کو پڑھا جائے اور پھر اُس کے احکامات پر
خطبات مسرور جلد 11 415 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء عمل کرنے کی طرف توجہ ہو تو عملی طور پر بھی ایک نمایاں تبدیلی انسان میں پیدا ہو جاتی ہے.اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا ہو جاتی ہیں.فرمایا کہ وحشیانہ حالت سے نکل کر ایسا شخص جس نے قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کیا ہو، مہذب اور باخدا انسان بنتا ہے اور باخدا انسان وہ ہوتا ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایک خاص اور سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے، جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شجرہ طیبہ کی دی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے که أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراہیم : 25) کہ اُس کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہیں اور اُس کی شاخیں آسمان کی بلندی تک پہنچ رہی ہوتی ہیں.اس کی وضاحت ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمائی ہے.فرمایا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے کھول دیا کہ وہ ایمان جو ہے وہ بطور تخم اور شجر کے ہے اور اعمال جو ہیں وہ آبپاشی کے بجائے ہیں.یعنی آبپاشی کی جگہ ہیں، اعمال ایسے ہیں جس طرح کہ پودے کو پانی دیا جائے.فرمایا: قرآن شریف میں کسان کی مثال ہے کہ جیساوہ زمین میں تخم ریزی کرتا ہے، ویسا ہی یہ ایمان کی تخم ریزی ہے.وہاں آبپاشی ہے، یہاں اعمال.فرمایا : پس یا درکھنا چاہئے کہ ایمان بغیر اعمال کے ایسا ہے جیسے کوئی باغ بغیر انہار کے.یعنی اُس میں پانی اور نہریں نہ ہوں، دریا نہ ہو.فرمایا: جو درخت لگایا جاتا ہے اگر مالک اُس کی آبپاشی کی طرف توجہ نہ کرے تو ایک دن خشک ہو جائے گا.اسی طرح ایمان کا حال ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا (العنكبوت: 70) یعنی تم ہلکے کام پر نہ رہو بلکہ اس راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کی ضرورت ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 649 مطبوعہ ربوہ ) اس لئے آپ نے شروع میں فرمایا کہ قرآن شریف جو تمہیں بنانا چاہتا ہے، وہ تم اُس وقت بن سکتے ہو جب شرعی حدود جو لگائی ہیں ، قرآنِ کریم نے جو احکامات دیئے ہیں، اُن کو مرحلہ وار اپنے او پر لاگو کرو.اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آرام سے نہیں ہو جاتا ہے، اس کے لئے مجاہدات کی ضرورت ہے.پس جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں، رمضان شریف کا مہینہ یا قرآن کریم کا اس مہینے میں نزول کا اس صورت میں ہمیں فائدہ ہو سکتا ہے یا ہمیں فائدہ دے گا جب ہم اس کے احکامات کو اپنے اعمال کا حصہ بنائیں گے.اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں گے.اس راستے میں مجاہدہ کریں گے.اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے تبھی ہم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر سکتے ہیں تبھی ہم قرآن کریم کے نازل ہونے کے مقصد کو سمجھنے والے ہو سکتے ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 416 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء پس یہ رمضان جہاں ہمیں مجاہدات کی طرف توجہ دلاتا ہے، ( بہت سارے مجاہدات ہیں جو ظاہری طور پر ہم کرتے ہیں جیسے کھانے پینے سے اپنے آپ کو روکنا ہے اور بعض جائز کاموں سے روکنا ہے ) وہاں اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ان دنوں میں جب ہم قرآنِ کریم کو سمجھنے کی طرف ایک خاص توجہ دے رہے ہیں تو پھر ان احکامات کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں تا کہ وہ سرسبز شاخیں بن جائیں جن کا آسمان سے تعلق ہوتا ہے، جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے، جن کی دعا ئیں خدا تعالیٰ سنتا ہے.اپنے ایمان کی جڑیں مضبوط کریں.اپنے اعمال کو وہ سرسبز شاخیں بنائیں جو آسمان تک پہنچتی ہیں تا کہ ہماری دعائیں بھی خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوتی چلی جائیں.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، ان دو تین آیات میں بھی اُن احکامات میں سے چند احکامات بیان ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ نے چند باتوں کی طرف، چند احکامات کی طرف توجہ دلائی ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہیں ، تقویٰ پر چلانے والے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں.جیسا کہ میں نے ترجمہ میں پڑھ کر سنا دیا تھا ہر ایک پر واضح ہو گیا ہو گا کہ کیا احکامات ہیں.یاد دہانی کیلئے دوبارہ بتا دیتا ہوں.فرمایا کہ سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ.پھر فرما یا والدین سے حسنِ سلوک کرنا انتہائی اہم چیز ہے اس کو کبھی نہ بھولو اور بدسلوکی تم پر حرام ہے.تیسری بات یہ کہ رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو.پھر یہ کہ مخفی اور ظاہر ہر قسم کی بے حیائیوں سے بچو، بلکہ اُن کے قریب بھی نہیں جانا.پانچویں بات یہ کہ کسی جان کو قتل نہ کرو، سوائے اس کے کہ جسے اللہ نے جائز قرار دے دیا ہو.اور اُس کی بھی آگے تفصیلات ہیں کہ کیا، کس طرح جائز ہے.پھر فرمایا کہ یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ.ساتویں بات یہ کہ جب یہ لوگ بلوغت کو پہنچ جائیں تو پھر اُن کے مال اُنہیں کو ٹا دو.پھر کوئی بہانے نہ ہوں.آٹھویں بات یہ کہ ماپ تول میں انصاف کرو.پھر یہ کہ ہر حالت میں عدل سے کام لو.کوئی عزیز داری، کوئی قرابت داری تمہیں عدل سے نہ روکے، انصاف سے نہ روکے.دسویں بات یہ کہ اپنے عہدوں کو پورا کرو.جو عہد تم نے کئے ہیں اُن کو پورا کرو.اور پھر یہ کہ ہر حالت میں صراط مستقیم پر قائم رہنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ.تو یہ وہ خاص اہم باتیں ہیں اور پھر ان کی جزئیات ہیں.ان باتوں پر چل کر انسان تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا کہلا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا کہلا سکتا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 417 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013 ء سے پہلے خدا تعالیٰ نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے، بلکہ حکم دیا کہ ایسی بات کبھی تم سے سرزد نہ ہو.تم پر یہ حرام ہے کہ خدا تعالیٰ کا شریک کسی کو ٹھہراؤ.اُس ہستی کے ساتھ تم شریک ٹھہراؤ جو تمہارا رب ہے، جو تمہارا پیدا کرنے والا ہے، جو تمہاری دماغی، جسمانی، ماڈی، روحانی صلاحیتوں کی پرورش کرنے والا ہے، جو تمام نعمتوں کو مہیا کرنے والا ہے.پس کون عقلمند ہے جو ایسی طاقتوں کے مالک خدا اور ایسی نعمتیں مہیا کرنے والے خدا کا کسی کو شریک بنائے.لیکن لوگ سمجھتے نہیں اور شریک بناتے ہیں.گہرائی میں جا کر شرک کے مفہوم کو نہیں سمجھتے اور ایسے عظیم خدا کے مقابلے پر خدا کھڑے کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.ہر زمانے میں لوگوں میں یہ حالت پیدا ہوتی رہی ہے.اسی لئے انبیاء جب آتے ہیں تو سب سے پہلے شرک کی تعلیم کے خلاف بات کرتے ہیں.خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شرک ایسا گناہ ہے کہ اس کو میں نہیں بخشوں گا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ہر ایک گناہ بخشنے کے قابل ہے مگر اللہ تعالیٰ کے سوا اور کومعبود و کارساز جاننا ایک نا قابل عفو گناہ ہے.یعنی یہ معاف نہیں ہو گا.اِنَّ الشَّرِكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان: 14) لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ (النساء: 49 ) یہاں شرک سے یہی مراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جاوے.بلکہ یہ ایک شرک ہے کہ اسباب کی پرستش کی جاوے اور محبوبات دنیا پر زور دیا جاوے.دنیا میں جو بہت ساری چیزیں، جن سے انسان فائدہ اُٹھاتا ہے، اُن کی طرف توجہ ہو جائے.اسی کا نام شرک ہے.اور معاصی کی مثال یعنی گناہ جو ہیں، عام گناہ اُن کی مثال ” تو حقہ کی سی ہے کہ اس کے چھوڑ دینے سے کوئی دقت ومشکل کی بات نظر نہیں آتی.مگر شرک کی مثال افیم کی ہے کہ وہ عادت ہو جاتی ہے جس کا چھوڑ نا محال ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 344 مطبوعہ ربوہ ) پھر ہمیں توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.آپ نے مزید گہرائی میں جا کر بتایا کہ: شرک تین قسم کا ہے.اوّل یہ کہ عام طور پر بت پرستی ، درخت پرستی وغیرہ کی جاوے.بعض لوگ درختوں کی پوجا بھی کرتے ہیں.یہ سب سے عام اور موٹی قسم کا شرک ہے.دوسری قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا جاوے کہ فلاں کام نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجا تا.یہ بھی شرک ہے.تیسری قسم شرک کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود کے سامنے اپنے وجود کو بھی کوئی شے سمجھا جاوے“.یعنی میں
خطبات مسرور جلد 11 66 418 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013 ء ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 215-216 مطبوعہ ربوہ ) بھی کچھ کر سکتا ہوں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم کچھ نہیں کر سکتے ، ایک مومن کو ہر کام کرنے سے پہلے انشاء اللہ ضرور کہنا چاہیئے فرمایا کہ ”موٹے شرک میں تو آج کل اس روشنی اور عقل کے زمانہ میں کوئی گرفتار نہیں ہوتا.“ یعنی درختوں کی پوجا کریں یا بعض ایسے ہوں جو پہلی قسم کا شرک کرتے ہوں البتہ اس مادی ترقی کے زمانہ میں شرک فی الاسباب بہت بڑھ گیا ہے.اسباب پر انحصار، چیزوں پر انحصار، لوگوں پر انحصار بہت زیادہ ہو گیا ہے.اسباب میں جیسا کہ میں نے کہا لوگوں پر بھی انحصار ہے، دولت پر اور سامان پر انحصار ہے، جہاں اپنے کام کر رہے ہیں اُن کے مالکوں پر انحصار ہے، بعض افسروں کی خوشامد کر رہے ہوتے ہیں.جب یہ حالت ہو جائے کہ اسباب پر یا کسی ذات پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہو جائے تو پھر انسان اس مقصد کو بھول جاتا ہے جو اُس کی پیدائش کا مقصد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری سمجھا جائے تو وہ معبود ہو جاتا ہے.جب ایک شخص سمجھے کہ اس کے بغیر میرا گزارہ ہی نہیں ہے تو پھر وہ خدا کے مقابلے پر آ جاتا ہے.پھر ایسی چیز بن جاتا ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے.اُس کے ساتھ تعلق بھی عبادت بن جاتا ہے.اور عبادت کے لائق صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 57) یعنی جنوں اور انسان کی پیدائش کی غرض عبادت ہے.اور عبادت کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں : یعنی اے لوگو! تم اُس خدا کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے.یعنی اُسی کو اپنے کاموں کا کارساز سمجھوں جتنے بھی تمہارے کام ہیں اُن کو کرنے والا ، اُن کی تکمیل کرنے والا ، ان کو انتہا تک پہنچانے والا ، کامیابی دینے والا صرف خدا تعالیٰ ہے.یہ خدا تعالیٰ کی پرستش اور عبادت ہے.اور اس پر توکل رکھو.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 340) پھر فرمایا یعنی اے لوگو! اس خدا کی پرستش کرو جس نے تم کو پیدا کیا.” عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا.یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے اس سے دل لگاؤ.باقی خدا جو ہیں، باقی جو دنیا کے معبود ہیں، انہوں نے ختم ہو جانا ہے.زندہ رہنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے اس لئے اُسی سے دل لگاؤ.فرماتے ہیں کہ ”پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے اور دوسری سب چیزوں کو اس کے مقابلہ میں بیچ سمجھا جائے.اور جو شخص اولاد کو یا والدین کو یا کسی اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت
خطبات مسرور جلد 11 419 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013 ء انہیں کا فکر ر ہے تو وہ بھی ایک بت پرستی ہے.بت پرستی کے یہی تو معنی نہیں کہ ہندوؤں کی طرح بت لے کر بیٹھ جائے اور اُس کے آگے سجدہ کرے.حد سے زیادہ پیار و محبت بھی عبادت ہی ہوتی ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 602 مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”اے لوگو! تم اُس خدائے واحد لاشریک کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا.چاہیئے کہ تم اُس قادر توانا سے ڈرو جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو تمہارے لئے چھت بنایا.اور آسمان سے پانی اُتار کر طرح طرح کے رزق تمہارے لئے پھلوں میں سے پیدا کئے.سو تم دیدہ دانستہ انہیں چیزوں کو خدا کا شریک مت ٹھہراؤ جو تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہیں.“ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحه 520 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3) پھر آپ عبادت کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے یعنی پیدائش کا مقصد عبادت ہے.جیسا کہ پہلے آیت آ چکی ہے فرماتے ہیں کہ عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت، کجی کو دُور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مود معبد جیسے سُرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں.اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر ، پتھر ، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا رُوح ہی روح ہو اس کا نام عبادت ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے، تو اس میں خدا نظر آئے گا.میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اُس میں پیدا ہو کر نشو ونما پائیں گے.اگر دل صاف ہو جائے ، خالصۂ خدا تعالیٰ کی خاطر سب کچھ کرنے لگ جاؤ، اُسی کو سب کچھ سمجھو، اُسی پر انحصار کرو تو پھر اُس میں خدا نظر آتا ہے اور اُس میں پھر خدا تعالیٰ کی محبت کے درخت نشو ونما پائیں گے.اور وہ انمار شیر میں وطیب ان میں لگیں گے جو اُكُلُهَا دَائِم (الرعد: 36) کے مصداق ہوں گے.“ پھر دوسری جگہ آپ نے اس کی یوں وضاحت فرمائی کہ : ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 347 مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 420 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء حضرت عزت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجر محبت ذاتیہ کے ممکن نہیں.کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک خاص حالت میں عاجزی اور انکساری سے اُسی وقت انسان کھڑا ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ سے ایک خاص ذاتی تعلق اور محبت ہو.اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے اور فرمایا اور محبت سے مراد یک طرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں.“ جب انسان ایسی محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی محبت کا جواب ملتا ہے ” تا بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے، بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کرلیں.“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 218) یعنی جب گرج چمک والی بجلی انسان پر گرتی ہے تو وہ جل جاتا ہے.انسان خاک ہو جاتا ہے.اسی طرح محبت جو ہے یہ ایسی محبت ہونی چاہئے ، ایسی آگ ہونی چاہئے ، ایسی تپش ہونی چاہئے ، رمضان کے بھی ایک معنی تپش اور گرمی ہے، کہ جو انسان کی کمزوریاں ہیں ، بد عادتیں ہیں اُن سب کو جلا دے اور تمام وجود پر روحانیت کا قبضہ ہو جائے.یہ انسان کا مقصد ہے اور یہ مقصد ہے جس کے لئے رمضان کے مہینے میں سے ہمیں گزارا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی عبادت کا یہ معیار ہے جو ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے.اور جب یہ معیار حاصل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر غالب آ جاتی ہے تو پھر تمام قسم کے شرکوں سے انسان آزاد ہو جاتا ہے.اللہ کرے کہ اس رمضان میں اللہ تعالیٰ ایسی عبادت کی توفیق عطا فرمائے کہ اُس کی محبت ہم میں قائم ہو اور وہ دائمی محبت ہو.پھر اللہ تعالیٰ نے جو اگلا حکم فرمایا، وہ یہ ہے کہ والدین سے احسان کا سلوک کرو.یہ ترتیب بھی وہ قدرتی ترتیب ہے جو انسان کی زندگی کا حصہ ہے.خدا تعالیٰ کی ذات کے بعد اس دنیا میں والدین ہی ہیں جو بچوں کی پرورش اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں.غریب سے غریب والدین بھی اپنے دائرے میں یہ بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے بچوں کی صحیح پرورش ہو، اس کے لئے وہ عموما بے شمار قربانیاں بھی کرتے ہیں.پس فرمایا کہ والدین سے احسان کا سلوک کرو.ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وَقَضَى رَبُّكَ إِلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أَفٍ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا
خطبات مسرور جلد 11 421 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013 ء قَوْلًا كَرِيما ( بنی اسرائیل : 24) یعنی تمہارے رب نے یہ تاکیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور نیز یہ کہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرو.اگر اُن میں سے کسی ایک پر یا اُن دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آ جائے تو انہیں اُن کی کسی بات پر نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑ کو اور اُن سے ہمیشہ نرمی سے بات کرو.بعض دفعہ شکایات آجاتی ہیں، جاہل بچوں کے ماں باپ کی طرف سے نہیں ، بلکہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے بچوں کے ماں باپ کی طرف سے کہ بچے نا خلف ہیں.نہ صرف یہ کہ حق ادا نہیں کرتے بلکہ ظلم کرتے ہیں.بعض بہنیں اپنے بھائیوں کے متعلق لکھتی ہیں کہ ماں باپ پر ہاتھ اٹھا لینے سے بھی نہیں بچوکتے.خاص طور پر ماں باپ سے بدتمیزی ہوتی ہے جب ایسے معاملات آئیں جہاں جائیداد کا معاملہ ہو.والدین کی زندگی میں بچوں کو جب ماں باپ کی جائیداد کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تو اُس وقت یہ بدتمیزیاں بھی شروع ہوتی ہیں اور جب والدین اپنے بچوں کو جائیداد دے دیتے ہیں تو پھر اُن سے اور سختیاں شروع ہو جاتی ہیں اور وہی والدین جو جائیداد کے مالک ہوتے ہیں پھر بعض ایسے بچے بھی ہیں کہ اُن کو دینے کے بعد وہ والدین در بدر ہو جاتے ہیں اور ایسی مثالیں ہمارے اندر بھی موجود ہیں.یہاں بھی ، اس ملک میں بھی آزادی کے نام پر وہ بچے جو نو جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں وہ بدتمیزی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.کیونکہ یہاں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ بچے ایک عمر کو پہنچ کے آزاد ہیں.تو یہ تعلیم جو ماں باپ کا احترام نہیں سکھاتی یا یہ آزادی جو یہاں بچوں کو ہے، جو حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھتی ، یا ماں باپ کی عزت قائم نہیں کرتی ، یہ تعلیم اور ترقی نہیں ہے بلکہ یہ جہالت ہے.اسلام کی تعلیم یہ ہے جو خوبصورت تعلیم ہے کہ ماں باپ سے احسان کا سلوک کرو، اُن کی عزت کرو، اُن کو اُف تک نہ کہو.یہ ماں باپ کا احترام قائم کرتی ہے.ماں باپ کے احسانوں کا بدلہ احسان سے اتارنے کی تعلیم دیتا ہے.اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ ایسا عمل کرو جو بہترین ہو، ورنہ ماں باپ کے احسان کا بدلہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اتار ہی نہیں سکتے.اس احسان کے بدلے کے لئے بچوں کو اللہ تعالیٰ نے کیا خوبصورت تعلیم دی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدین کیلئے یہ بھی دعا کرو.رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبِّينِي صَغِيرًا ( بنی اسرائیل: 25) کہ اے میرے رب ! ان پر رحم فرما.جس طرح یہ لوگ میرے بچپن میں مجھ پر رحم کرتے رہے ہیں.اور انہوں نے رحم کرتے ہوئے میری پرورش کی تھی.پس یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو اسلام ایک مسلمان کو اپنے والدین سے حسنِ سلوک کے بارے میں
خطبات مسرور جلد 11 422 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء سکھاتا ہے.یہ وہ اعلیٰ معیار ہے جو ایک مسلمان کا اپنے والدین کے لئے ہونا چاہئے.یہ دعا صرف زندگی کی دعا نہیں ہے بلکہ والدین کی وفات کے بعد بھی اُن کے درجات کی بلندی کے لئے دعا ہو سکتی ہے.یعنی ایک تو زندگی میں دعا ہے کہ جو ہماری طرف سے کمی رہ گئی ہے اُس کمی کو اس دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ پورا فرمائے اور اپنے خاص رحم میں رکھے.دوسرے اس رحم کا سلسلہ اگلے جہان تک بھی جاری رہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرما تار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” خدا نے یہ چاہا ہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو.اور والدین سے احسان کرو.اللہ تعالیٰ نے پہلے یہی فرمایا ناں کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور پھر ا گلا حکم یہ کہ والدین سے احسان کرو.فرمایا کہ حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا.اس حالت میں ماں کیا کیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمات کا کس طرح متکفل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ناتواں مخلوق کی خبر گیری کے لئے دو محل پیدا کر دیئے ہیں اور اپنی محبت کے انوار سے ایک پر تو محبت کا اُن میں ڈال دیا.مگر یا درکھنا چاہیئے کہ ماں باپ کی محبت عارضی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی ہے.یہاں بہر حال ایک فرق ہے.اور جب تک قلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا القاء نہ ہو تو کوئی فرد بشر خواہ وہ دوست ہو یا کوئی برابر کے درجہ کا ہو، یا کوئی حاکم ہو، کسی سے محبت نہیں کر سکتا.اور یہ خدا کی کمال ربوبیت کا راز ہے کہ ماں باپ بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ اُن کے تکفل میں ہر قسم کے دُکھ شرح صدر سے اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی زندگی کے لئے مرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 315 مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے فرمایا:.فَلا تَقُلْ لَّهُمَا أَفٍ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (بنی اسرائیل : 24) یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں اُن سے نہ کر جن میں اُن کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو.اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن دراصل مرجع کلام امت کی طرف ہے.“ (یعنی گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن اصل میں امت مخاطب ہے.) '' کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہو چکے تھے.اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا
خطبات مسرور جلد 11 423 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء گیا ہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں اُن کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہیئے.اور اسی کی طرف یہ دوسری آیت اشارہ کرتی ہے.وَقَطى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (بنی اسرائیل : 24) یعنی تیرے رب نے چاہا ہے کہ تو فقط اُسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر.اس آیت میں بت پرستوں کو جو بت کی پوجا کرتے ہیں، سمجھایا گیا ہے کہ بت کچھ چیز نہیں ہیں اور بتوں کا تم پر کچھ احسان نہیں ہے.انہوں نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور تمہاری خورد سالی میں وہ تمہارے متکفل نہیں تھے.اور اگر خدا جائز رکھتا کہ اُس کے ساتھ کسی اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو کیونکہ وہ بھی مجازی رب ہیں.اور ہر ایک شخص طبعاً یہاں تک کہ درند چرند بھی اپنی اولا د کو ان کی خوردسالی میں، یعنی چھوٹے ہوتے ” ضائع ہونے سے بچاتے ہیں.پس خدا کی ربوبیت کے بعد اُن کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 213-214) یعنی وہ جو پالنے کا جوش ہے ، بچوں کی طرف نگہداشت کا جوش ہے، بچوں سے محبت اور پیار ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھ دیا گیا ہے.پس یہ وہ مقام ہے جو والدین کا ہے جسے ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مٹی میں ملے اُس کی ناک، مٹی میں ملے اُس کی ناک.یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ دہرائے.یعنی ایسا شخص بدقسمت اور قابل مذمت ہے.صحابہ نے پوچھا کہ وہ کونسا شخص ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ شخص جس نے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر اُن کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا.“ (صحيح مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب رغم انف من ادرک...حدیث نمبر 2551) پھر ان آیات میں جو اگلا حکم ہے اُس میں فرمایا کہ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم خَشْيَةً إِمْلَاقٍ (بنی اسرائیل : 32) کہ رزق کی تنگی کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو.اس کے بھی کئی معنی ہیں.یہاں قرآن کریم کے احکام کی ایک اور خوبصورتی بھی واضح ہوتی ہے کہ پہلے اولادکو کہا کہ تم نے والدین کی خدمت کرنی ہے، اُن سے احسان کا سلوک کرنا ہے، اُن کی کسی بات پر بھی اُف نہیں کرنا.انسان کو اعتراض تو اُسی صورت میں ہوتا ہے جب کوئی بات بری لگے.تو فرمایا کہ کوئی بات والدین کی بری بھی لگے تب بھی تم نے
خطبات مسرور جلد 11 424 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء جواب نہیں دینا بلکہ اس کے مقابلے پر بھی تمہاری طرف سے رحم اور اطاعت کا اظہار ہونا چاہئے.اب والدین کو حکم ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرو.کوئی امر اس تربیت میں مانع نہ ہو.غربت بھی اس میں حائل نہ ہو.پس یہ والدین پر فرض کیا گیا ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا ایسا خیال رکھو کہ وہ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے مردہ نہ ہو جائیں.اُن کی صحت کی طرف توجہ نہ دے کر انہیں قتل نہ کرو.بعض ناجائز بچتیں کر کے اُن کی صحت برباد نہ کرو.پس ماں باپ کو جب ربوبیت کا مقام دیا گیا ہے تو بچوں کی ضروریات کا خیال رکھنا اُن پر فرض کیا گیا ہے.بچوں کو معاشرے کا بہترین حصہ بناناماں باپ پر فرض کیا گیا ہے.کیونکہ اگر یہ نہ کیا جائے تو یہ اولاد کے قتل کے مترادف ہے.کوئی عقل رکھنے والا انسان ظاہری طور پر تو اپنی اولا دکو قتل نہیں کرتا.سوائے چند سر پھروں کے یا وہ جو خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہیں، جن کی صرف اپنی نفسانی خواہشات ہوتی ہیں، جن کی مثالیں یہاں ملتی رہتی ہیں، جن کا ذکر وقتاً فوقتاً اخبارات میں آتا رہتا ہے کہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر اپنے بچوں کو قتل کر دیا یا پھر ایسے واقعات غریب ممالک میں بھی ہوتے ہیں کہ ماں یا باپ نے بعض حالات سے تنگ آ کر بچوں سمیت اپنے آپ کو جلالیا تو وہ ایک انتہائی مایوسی کی کیفیت ہے اور جنونی حالت ہے لیکن عام طور پر اس طرح نہیں ہے.جیسا کہ میں نے کہا اس آیت کے مختلف معنے ہیں قبل کے مختلف معنے ہیں.ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنی اولاد کی اگر صحیح تربیت نہیں کر رہے، اُن کی تعلیم پر توجہ نہیں ہے تو یہ بھی اُن کا قتل کرنا ہے.بعض لوگ اپنے کاروبار کی مصروفیت کی وجہ سے اپنے بچوں پر توجہ نہیں دیتے ، انہیں بھول جاتے ہیں جس کی وجہ سے بچے بگڑ رہے ہوتے ہیں.اور یہ شکایات اب جماعت میں بھی پائی جاتی ہیں.مائیں شکایت کرتی ہیں کہ باپ باہر رہنے کی وجہ سے، کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے، گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے بچوں پر توجہ نہیں دیتے اور بچے بگڑتے جا رہے ہیں.خاص طور پر جب بچے teenage میں آتے ہیں، جوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں تو انہیں باپ کی توجہ اور دوستی کی ضرورت ہے.میں پہلے بھی کئی دفعہ اس طرف توجہ دلا چکا ہوں ، ورنہ باہر کے ماحول میں وہ غلط قسم کی باتیں سیکھ کر آتے ہیں اور یہ بچوں کا اخلاقی قتل ہے.باپ بیشک سوتاویلیں پیش کرے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں بچوں کے لئے ہی کر رہے ہیں لیکن اُس کمائی کا کیا فائدہ ، اُس دولت کا کیا فائدہ جو بچوں کی تربیت خراب کر رہی ہے.اور پھر اگر یہ دولت چھوڑ بھی جائیں تو پھر کیا پتہ یہ بچے اُسے سنبھال بھی سکیں گے یا نہیں.دولت بھی ختم ہو جائے گی اور بچے بھی.پھر اس کی ایک صورت یہ بھی ہے اور یہ مغربی ممالک میں بھی پھیل رہی ہے ، ہماری جماعت میں بھی کہ مائیں بھی کاموں پر چلی جاتی ہیں یا گھروں پر پوری توجہ نہیں دیتیں.کسی نہ کسی بہانے سے ادھر اُدھر پھر رہی ہوتی
خطبات مسرور جلد 11 425 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء ہیں.عموماً کام ہی ہور ہے ہوتے ہیں کہ نوکریاں کر رہی ہوتی ہیں.بچے سکولوں سے گھر آتے ہیں تو انہیں سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوتا.ماؤں کا بہانہ یہ ہوتا ہے کہ گھر کے اخراجات کے لئے کمائی کرتی ہیں لیکن بہت ساری تعداد میں ایسی بھی ہیں جو اپنے اخراجات کے لئے یہ کمائی کر رہی ہوتی ہیں.اور جب تھکی ہوئی کام سے آتی ہیں تو بچوں پر توجہ نہیں دیتیں.یوں بچے بعض دفعہ عدم توجہ کی وجہ سے، احساس کمتری کی وجہ سے ختم ہو رہے ہوتے ہیں.بیشک ایسی بیویاں اور مائیں بھی ہیں جن کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی ہیں جن کے خاوند سکتے ہیں اور خاوندوں کے نکتے پن کی وجہ سے مجبور ہوتی ہیں کہ کام کریں.پس ایسے خاوندوں کو اور ایسے باپوں کو بھی خوف خدا کرنا چاہئے کہ وہ اپنے نکھے پن کی وجہ سے اپنی اولاد کے قتل کا موجب نہ بنیں.پھر خاوند اگر اپنی بیویوں کا مناسب خیال نہیں رکھ رہے تو یہ بھی ایک قتل ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ایک بڑی اچھی مثال دی ہے.فرمایا کہ حمل کے دوران اگر عورت کی خوراک کا خیال نہیں رکھا جارہا اور اولاد بھی کمزور ہو رہی ہے تو یہ بھی اولاد کا قتل ہے.پھر اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ غربت کے خوف سے فیملی پلاننگ کرنا، یا بچوں کی پیدائش کو روکنا.بچوں کی پیدائش کو صرف ماں کی صحت کی وجہ سے روکنا جائز ہے.یا بعض دفعہ ڈاکٹر بچے کی حالت کی وجہ سے یہ مشورہ دیتے ہیں اور مجبور کرتے ہیں اور بچہ ضائع کرنے کو کہتے ہیں کیونکہ ماں کی صحت داؤ پر لگ جاتی ہے.اس لئے بچے کو ضائع کرانا اُس صورت میں جائز ہے لیکن غربت کی وجہ سے نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَحْنُ نَرْزُقُهُمُ وَايَا كُم ( بنی اسرائیل : 32) ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور اُن کو بھی.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطأً كَبِيراً ( بنی اسرائیل :32) کہ مقتل بہت بڑا جرم ہے.پس سچے مسلمان جو ہیں، پکے مسلمان جو ہیں وہ کبھی ایسی حرکتیں نہیں کرتے.کبیرہ گناہ کی بات نہیں بلکہ وہ چھوٹے گناہوں سے بھی بچتے ہیں.پس ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں.اُن کو وقت دیں.اُن کی پڑھائی کی طرف توجہ دیں.اُن کو جماعت کے ساتھ جوڑنے کی طرف توجہ دیں.اپنے گھروں میں ایسے ماحول پیدا کریں کہ بچوں کی نیک تربیت ہو رہی ہو.بچے معاشرے کا ایک اچھا حصہ بن کر ملک وقوم کی ترقی میں حصہ لینے والے بن سکیں.اُن کی بہترین پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری بہر حال والدین پر ہے.پس والدین کو اپنی ترجیحات کے بجائے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.باپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچوں کی تربیت کا کام صرف عورتوں کا ہے اور نہ مائیں صرف باپوں پر یہ ذمہ داری ڈال سکتی ہیں.یہ دونوں کا کام
خطبات مسرور جلد 11 426 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 26 جولائی 2013ء ہے اور بچے اُن لوگوں کے ہی صحیح پرورش پاتے ہیں جن کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کا حصہ ہو، دونوں اہم کردار ادا کر رہے ہوں.یہاں ان ملکوں میں دیکھ لیں، طلاقوں کی وجہ سے سنگل پیرنٹس (Single Parents) بچے کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور وہ برباد ہو رہے ہوتے ہیں.جن سکولوں میں یہ پڑھ رہے ہوتے ہیں اُن سکولوں کی انتظامیہ بھی تنگ آئی ہوتی ہے.اُن سکولوں کے ارد گرد کے ماحول میں پولیس بھی تنگ آئی ہوتی ہے.جرائم پیشہ لوگوں میں اس قسم کے بچے ہی شامل ہوتے ہیں جو شروع سے ہی خراب ہورہے ہوتے ہیں، جن کو ماں باپ کی صحیح تو جہ نہیں مل رہی ہوتی.یہاں میں یہ قابل فکر بات بھی اس ضمن میں کہنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں بھی طلاقوں کا رجحان بہت زیادہ بڑھ رہا ہے.اس لئے بچے بھی برباد ہورہے ہیں.بعض دفعہ شروع میں طلاقیں ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ بچوں کی پیدائش کے کئی سال بعد ، تو ماں اور باپ دونوں کو اپنی اناؤں اور ترجیحات کے بجائے بچوں کی خاطر قربانی کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآنی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ تین (احکامات ) بیان ہوئے ہیں ، باقی انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بیان کروں گا.الفضل انٹرنیشنل جلد 20 شماره 33 مورخہ 16 اگست تا 22 اگست 2013 ، صفحہ 5 تا صفحه 8)
خطبات مسرور جلد 11 427 31 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده مورخه 02 اگست 2013 ء بمطابق 02 ظہور 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں سورۃ الانعام کی آیات 152 اور 153 کے حوالے سے میں اُن احکامات کے بارے میں بتا رہا تھا.جو اُس میں بیان کئے ہوئے ہیں.تین امور یعنی شرک سے بچنے ، والدین سے حسنِ سلوک اور والدین کے لئے اولاد کی تربیت کی اہمیت کے بارے میں بیان ہوا تھا.باقی احکامات جو ان آیات میں ہیں اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا حَرَّم رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ کہ جو تمہارے رب نے تم پر حرام کئے ہیں.ان احکامات کے بارے میں کچھ ذکر کروں گا جو ان آیات میں بیان کئے گئے ہیں.یہ بھی شاید آج ختم نہیں ہوں گے.بہر حال چوتھی بات جو بیان کی گئی وہ یہ ہے کہ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بطن (الانعام : 152 ) اور فحشاء کے قریب بھی نہ جاؤ، نہ ظاہری فحشاء اور بے حیائیوں کے، نہ چھپی ہوئی بے حیائیوں کے.اس ایک حکم میں مختلف قسم کی بے حیائیوں اور برائیوں سے روکا گیا ہے.الْفَوَاحِشَ کے مختلف معنی ہیں.اس کے معنی زنا بھی ہیں.اس کے معنی زیادتیوں میں بڑھنے کے بھی ہیں.اس کے معنی اخلاق سے گری ہوئی اور اخلاق کو پامال کرنے والی حرکات کے بھی ہیں.اس کے معنی قبیح گناہ اور شیطانی حرکتوں کے بھی ہیں.ہر بری بات کہنے اور کرنے کے بھی ہیں.اس کے معنی بہت بخیل ہونے کے بھی ہیں.پس اس حکم میں ذاتی اور معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کیا گیا ہے، یا وہ باتیں جن سے گھر ، ماحول اور معاشرے میں بے حیائیاں پھیلتی ہیں ان کا سد باب کیا گیا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 428 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء اگر زنا کے حوالے سے اس کی بات کریں تو یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کی قرآنِ کریم میں دوسری جگہ پر معین سزا بھی ہے.بہر حال یہ ایک ایسا گناہ اور بے حیائی ہے جس میں ملوث انسان اگر شادی شدہ ہے تو اپنے بیوی بچوں کے حقوق بھول جاتا ہے.اس کو اس بے حیائی میں پڑ کر خیال ہی نہیں رہتا کہ میرے کیا حقوق ہیں.اگر عورت ہے تو اپنے بچوں اور خاوند کے حق اور ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہی ہوتی ، اُن کو بھول جاتی ہے.اگر غیر شادی شدہ ہے تو معاشرے میں غلاظت اور بے حیائی پھیلانے کا مرتکب ہے.غلط وعدے کر کے بعض لوگ ناجائز طور پر تعلقات قائم کرتے ہیں اور جب گھر یلو اور خاندانی دباؤ یا معاشرے کے دباؤ یا خود جھوٹے وعدے کی وجہ سے وہ تعلقات بیچ میں ٹوٹ جاتے ہیں تو مردوں کو تو زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہمارا معاشرہ خاص طور پر جو ایشین معاشرہ ہے ، وہ مردوں کی زیادہ پردہ پوشی کرتا ہے لیکن عورت کی زندگی برباد ہو جاتی ہیں.اور اس کی مثالیں اخباروں میں عام آتی ہیں.اور پھر ایسے تعلقات کی وجہ سے اولا د ہو جائے تو پھر ایسے لوگ جو ہیں وہ اولاد کو اس کے حق سے محروم کر کے قتل اولاد کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.یا ایسی اولا د قتل اولاد کے زمرہ میں آجاتی ہے.یہاں ان ممالک میں تو اگر پتہ چل جائے تو قانون کچھ نہ کچھ حقوق دلانے کی کوشش کرتا ہے اور دلواتا ہے لیکن بہت سے ایسے ہیں جو اولاد کو عملا قتل کر دیتے ہیں.اور غریب ملکوں میں تو کوئی حق بھی نہیں ہے.اگر کوئی امیر آدمی ہے اور یہ بے حیائی اور فحاشی کے مرتکب ہوتے ہیں تو تو پھر کوئی قانون اُسے نہیں پوچھے گا.ابھی دو دن پہلے ہی پاکستان کے حوالے سے اخبار میں یہ خبر تھی کہ اس طرح کسی کے ہاں نا جائز بچہ پیدا ہوا اور پھر الٹا پولیس نے اُس غریب عورت پر مقدمہ قائم کیا اور مردکو کچھ نہیں کہا گیا کیونکہ وہ صاحب حیثیت تھا.یہ تو اکا دُکا واقعات ہیں جو باہر نکل آتے ہیں.یہ پتہ نہیں کہ کتنے ایسے واقعات ہیں جنہوں نے کئی خاندانوں کو برباد کر دیا ہے.پس یہ خدا تعالیٰ کے حکموں سے دُوری کی وجہ سے ہے.غیروں کو ہم کیا کہیں، خود مسلمان کہلانے والے اور اسلامی قوانین کا نعرہ لگانے والے ملکوں کا یہ حال ہے کہ وہاں اس قسم کی بے حیائیاں ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان فواحش کے قریب بھی نہ جاؤ.یعنی ایسی تمام باتیں جو فحشاء کی طرف مائل کرتی ہیں اُن سے رُکو.اس زمانے میں تو اس کے مختلف قسم کے ذریعے نکل آئے ہیں.اس زمانے میں انٹرنیٹ ہے، اس پر بیہودہ فلمیں آ جاتی ہیں، ویب سائٹس پر ، ٹی وی پر بیہودہ فلمیں ہیں، بیہودہ اور لغو قسم کے رسالے ہیں، ان بیہودہ رسالوں کے بارے میں جو پورنوگرافی وغیرہ کہلاتے ہیں اب یہاں بھی آواز اُٹھنے لگ گئی ہے کہ ایسے رسالوں کو سٹالوں اور دکانوں پر کھلے عام نہ رکھا جائے کیونکہ بچوں
خطبات مسرور جلد 11 429 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء کے اخلاق پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے.ان کو تو آج یہ خیال آیا ہے لیکن قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے یہ حکم دیا کہ یہ سب بے حیائیاں ہیں، ان کے قریب بھی نہ پھٹکو.یہ تمہیں بے حیا بنا دیں گی.تمہیں خدا سے دور کر دیں گی ، دین سے دور کر دیں گی بلکہ قانون توڑنے والا بھی بنا دیں گی.اسلام صرف ظاہری بے حیائیوں سے نہیں روکتا بلکہ چھپی ہوئی بے حیائیوں سے بھی روکتا ہے.اور پردے کا جو حکم ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ پردے اور حیا دار لباس کی وجہ سے ایک کھلے عام تعلق اور بے تکلفی میں جولڑکے اور لڑکی میں پیدا ہو جاتی ہے، ایک روک پیدا ہوگی.اسلام بائبل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تم عورت کو بری نظر سے نہ دیکھو بلکہ کہتا ہے کہ نظریں پڑیں گی تو قربت بھی ہو گی اور پھر بے حیائی بھی پیدا ہوگی.اچھے برے کی تمیز ختم ہوگی اور پھر ایسے کھلے عام میل جول سے جب اس طرح لڑکا اور لڑکی، مرد اور عورت بیٹھے ہوں گے تو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تیسرا تم میں شیطان ہوگا.(سنن الترمذى كتاب الرضاع باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات حدیث نمبر 1171) یہ جو انٹرنیٹ وغیرہ کی میں نے مثال دی ہے، اس میں فیس بک(Facebook) اور سکائپ (Skype) وغیرہ سے جو چیٹ (Chat) وغیرہ کرتے ہیں، یہ شامل ہے.کئی گھر اس سے میں نے ٹوٹتے دیکھے ہیں.بڑے افسوس سے میں کہوں گا کہ ہمارے احمدیوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ فحشاء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کیونکہ شیطان پھر تمہیں اپنے قبضے میں کر لے گا.پس یہ قرآن کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اُٹھا کے نہیں دیکھنا ، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو.اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہو گی.پھر یہ بھی ہے کہ فحشاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور فحش فلمیں ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہوگی.پھر یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں میں نہیں اُٹھنا بیٹھنا جو آزادی کے نام پر اس قسم کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے قصے اور کہانیاں سناتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں.نہ ہی سکائپ (Skype) اور فیس بک (Facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں ، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوگا کہ
خطبات مسرور جلد 11 430 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء تم اپنے جذبات کی رو میں زیادہ بہہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجام کار اللہ تعالیٰ کے حکم کو تو ڑ کر اُس کی ناراضگی کا موجب بن جاؤ گے.پھر آجکل کے زمانے میں ایک ایسی بے حیائی کو ہوا دی جارہی ہے جو فطرت کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو تباہ کر دیا تھا.حکومتیں اب ایک ہی جنس کی شادی کے قانون بنا رہی ہیں.یعنی فحشاء کو ہوا دینے اور پھیلانے کی حکومتی سطح پر کوشش کی جارہی ہے اور قانون بنائے جارہے ہیں.یہاں تک کہ حکومتوں کے سر براہ وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ ہم چاہیں گے کہ اب تمام دنیا میں ہم جنسوں کی شادی کا قانون بنے اور ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اس بارے میں دنیا میں کوشش کریں گے.ایک وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کا بیان آیا تھا.اگر یہ سچ ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دے رہے ہیں.پھر ایک ملک کے بڑے پادری ہیں جو غالباً ساؤتھ افریقہ کے ہیں.حالانکہ افریقن اب تک یہی کہتے رہے ہیں کہ اس قسم کی غیر فطری شادیاں جو ہیں وہ نہیں ہونی چاہئیں اور یہ قانون نہیں بنے چاہئیں.اور پھر یہ پادری صاحب جو بائبل پڑھنے والے، اُس کا پر چار کرنے والے، اُس کی تعلیم دینے والے ہیں، جس میں خود یہ لکھا ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے قوم تباہ ہوئی.وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایسے شادی کرنے والے جوڑے جنت میں نہیں جائیں گے تو پھر میں جہنم میں جانا پسند کروں گا.تو یہ ان کا حال ہو چکا ہے.یہ آجکل کی دنیا میں فحاشی کی انتہا ہو چکی ہے.پس یادرکھیں کہ یہ جو فحاشی ہے، اگر اسی طرح سرِ عام پھیلتی رہی اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی طرف دنیا نے رُخ نہ کیا، اس کی طرف توجہ نہ کی تو پھر یہ قو میں بھی اپنے انجام کو دیکھ لیں گی.یہ اس دنیا کو بھی یقینا جہنم بنائے گی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اُس نے کیا سلوک کرنا ہے.بلکہ اب جو میڈیکل ریسرچ ہے اُس میں واضح طور پر یہ کہا جانے لگا ہے کہ ایڈ ز کا مرض ایسے لوگوں میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے جو مردوں مردوں اور عورتوں عورتوں کی شادیوں کے بھیانک جرم میں مبتلا ہیں.اللہ تعالیٰ کے سزا دینے کے طریقے مختلف ہیں.ضروری نہیں کہ اگر ایک قوم کو پتھروں کی بارش برسا کر سزا دی تھی تو ہر قوم کو اسی طرح سزا دی جائے.HIV یا ایڈز کی یہ بیماری ایسی ہے جو در دناک اور خوفناک انجام تک لے جاتی ہے.پس جس تیزی سے دنیا میں فحاشی پھیلائی جارہی ہے، ایک احمدی کا کام ہے کہ اُس سے بڑھ کر اپنے خدا سے تعلق پیدا کر کے اپنے آپ کو اور دنیا کو اس تباہی کے خوفناک انجام سے بچانے کی کوشش کرے.یہ دنیا دار تو اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں.دنیا دار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے
خطبات مسرور جلد 11 431 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء لئے ایک ایسے طبقہ کو خوش کرنے کے لئے جو خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑ رہا ہے، پوری دنیا کو فحشاء میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، جس کا انجام پھر تباہی ہے.ان لوگوں کی ہمدردی کے لئے ہمیں انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا اور گناہ معاف کرنے والا بھی ہے، اُس نے مغفرت کا راستہ کھلا رکھا ہے.وہ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُ وَاللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللهُ ( آل عمران : 136 ) کہ اور وہ لوگ جو کسی بے حیائی کے مرتب ہوں یا اپنی جانوں پر ظلم کریں، پھر اللہ کو یاد کریں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہیں.اور اللہ کے سوا کوئی بخش نہیں سکتا.فحشاء پر اگر اصرار نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہو تو خدا تعالیٰ بخش دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بخشنے والا نہیں ہے.پس ہر قسم کے فحشاء جن کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا اس سے خود بھی بچنے اور بچنے کے راستے دکھانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اُس کی ذمہ داری ہے.اللہ تعالی زیادتی نہ کرنے والوں کو معاف کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کا کام کریں یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اور پھر اپنے ایسے حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کریں اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں اور اپنے گناہ پر اصرار نہ کریں اُن کا خدا آمرزگار ہوگا.یعنی وہ بخشنے والا خدا ہے.اور گناہ بخش دے گا.“ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 25-26) اللہ کرے ہر وہ شخص جو فحشاء میں مبتلا ہے، اُسے عقل آ جائے اور خدا تعالیٰ کی پکڑ سے بچ جائے.اس بات کی وضاحت کی میں بہت ضرورت محسوس کر رہا تھا اس لئے میں نے اس کی کچھ وضاحت کی ہے کیونکہ یہ سوال آجکل بہت عام ہو چکا ہے.پھر اگلا حکم خدا تعالیٰ نے ان آیات میں یہ دیا ہے کہ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهِ (الانعام : 152 ) اور کسی جان کو جسے اللہ تعالیٰ نے حرمت بخشی ہے قتل نہ کرو.یہ حکم اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ معاشرے کے حقوق ادا کرو.اپنے بھائیوں، اپنے دوستوں، اپنے سے واسطہ پڑنے والوں کے حقوق عدل و انصاف سے ادا کر و قتل صرف جان کا قتل نہیں ہے بلکہ تعلقات کو توڑ نا نا انصافی سے دوسروں کے حقوق پامال کرنا، یہ بھی قتل ہے.دوسروں کو جذباتی طور پر مجروح کرنا، یہ بھی قتل ہے.کسی کو اتنا زیادہ
خطبات مسرور جلد 11 432 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء ذلیل ورسوا کرنا کہ گویا عملاً اُسے قتل کر دیا ہے، یہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے.اُس کی عزت نفس کو برباد کر دینا، یہ بھی قتل ہے.اسی طرح روحانی طور پر بھی قتل ہوتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب قتل ایسے ہیں جن سے خدا تعالیٰ تمہیں منع کرتا ہے.ہر قتل کا آخری نتیجہ معاشرے میں فتنہ وفساد اور محرومیاں ہیں اور یہ چیزیں خدا تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الّا بالحق سوائے اس کے جو سزا کا حقدار ہے، لیکن اس کے لئے بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے.بدلے لینے کے لئے ، اپنے کینے اور بغض نکالنے کے لئے قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے.جو سزا کا حقدار ہے اُسے سزا دی جائے تو اس قدر سزا جتنا اُس کا جرم ہے.اور اس لئے سزا دی جائے کہ جرم کرنے والے کی اصلاح ہو اور معاشرے کا بہتر حصہ بن کر معاشرے کے فتنہ و فساد کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکے.لیکن یہاں بھی یہ بات واضح ہو کہ سزا دینے اور بدلے لینے کا حق ہر ایک کو نہیں ہے بلکہ قانون کو ہے.اور قانون انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سزا دے، نہ کہ ظلم کرتے ہوئے.حتی کہ کسی قاتل کی سزا جو ہے اُس کا اختیار بھی کسی شخص یا مقتول کے ورثاء کو نہیں دیا گیا بلکہ یہ حق قانون کا ہے.یہ قانون تو آ جکل بنائے جار ہے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت پہلے سے یہ حکم دیا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تم اپنے مجرم کو سزا دو.اور اگر ایک قاتل کو بھی پھانسی کی سزا دینی ہے تو ایک قانون ہی دے گا.اسی طرح معاشرے میں قانون کے تحت دوسری سزائیں ہیں، قتل کا اگر ایک مطلب تعلقات کو ختم کرنا یا مقاطعہ کرنا یا بائیکاٹ کرنا ہے تو یہ اختیار بھی ذمہ دار ادارے کو ہے.ہماری جماعت میں بھی اگر سزا کا نظام رائج ہے تو اصلاح کے لئے ، نہ کہ کسی ظلم اور زیادتی کے لئے.یا کسی بھی قسم کی ایسی سزا جو دی جاتی ہے وہ اصلاح کے لئے دی جاتی ہے، کسی ظلم کے لئے نہیں دی جاتی.کیونکہ یہ ناحق ظلم وزیادتی جو ہے یہ بھی قتل کے مترادف ہے.یہ میں نے دیکھا ہے اور کئی دفعہ نوٹ بھی کیا ہے کہ اگر فریقین میں مسئلہ پیدا ہو جائے ،لڑائی ہوجائے ،مقدمہ بازی ہو جائے تو ظاہر ہے کہ فیصلہ کرنے والا ادارہ اپنی عقل اور شواہد کے مطابق ایک فریق کو ذمہ دار قرار دے گا، قصور وار قرار دے گا.اور اُس کے لئے پھر اس کی سزا کی بھی سفارش ہوتی ہے.تو جو دوسرا فریق ہے، جس کو نقصان پہنچا ہوتا ہے وہ بعض دفعہ اس بات پر ناراض ہو جاتا ہے کہ تھوڑی سزا دی ہے، اس سے زیادہ دیں.یعنی فیصلہ اُن کے مطابق ہو.اگر اسی طرح فریقین کو فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو ایک قتل کے بعد دوسر اقتل ہوتا چلا جائے گا.اور قرآن ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم اس سے بچو.اصل مقصد سزا کا معاشرے سے ظلم کو ختم کرنا ہے اصلاح کرنا ہے، ظالم کو اپنے ظلم کا احساس دلانا ہے.اور دومومنوں کے درمیان اگر ایسا مسئلہ
خطبات مسرور جلد 11 433 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء ہے تو ظاہر ہے اُن کو جب احساس دلایا جائے تو تسلیم بھی کرتے ہیں.پس یہ اصل غرض ہے یا سزا کا اصل مقصد ہے کہ اصلاح کی جائے اور اس ناحق قتل کو روکا جائے جو آپس کے جھگڑوں اور فسادوں کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہوتا ہے.اس کے بعد میں اب اگلے حکم پر آتا ہوں جو اُس سے اگلی آیت میں بیان ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (الانعام : 153 ) اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ سوائے اس طریق کے جو اچھا ہے.اب یہاں خدا تعالیٰ معاشرے کے کمزور ترین طبقہ کے حق کی حفاظت کی طرف توجہ دلا رہا ہے.اگر صرف یہی ہو کہ تم نے یتیم کے مال کے قریب بھی نہیں جانا تو یتیم کے سرمائے یا جائیداد کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے.اس لئے فرمایا کہ یتیم کے مال تک تمہاری پہنچ احسن طریق پر ہو.اس طرز پر یتیم کے مال کو دیکھو کہ حتی الوسع کسی نقصان کا احتمال نہ ہو.یتیم کی جائیداد کو جاڑنے اور ختم کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ یتیم کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے اُس کی جائیداداور مال کا استعمال کرو.پس یہ لازمی حکم ہے کہ یتیم کے مال کی حفاظت کا انتظام تم نے کرنا ہے.ایک امین کی حیثیت سے قریبی عزیزوں نے ، یا جس کے سپر د بھی یتیم کی ذمہ داری کی جائے، اُس نے یتیم کے مال کی حفاظت کرنی ہے، اُس کا خیال رکھنا ہے.جماعت نے اُس کے مال کی حفاظت کرنی ہے اور خیال رکھنا ہے.معاشرے نے اور ملک کے قانون نے اُس کے مال کی حفاظت کرنی ہے اور خیال رکھنا ہے.کس طرح حفاظت کرنی ہے؟ اُس کے لئے بہت ساری صورتیں ہیں.یتیموں کے مالوں کو اس طرح استعمال کرو یا کاروباروں میں لگاؤ کہ وہ مال بڑھیں تا کہ یتیموں کو ، اُس گروہ کو جو ابھی اتنی عقل نہیں رکھتا، اُن بچوں کو جن کے ماں باپ کا سایہ اُن کے سر پر نہیں ہے فائدہ ہو.جن کی جائیدادیں ضائع ہونے کا خطرہ ہے، اُن کو احسن طریق پر اس طرح استعمال کرو، اس طرح انویسٹ (Invest) کرو، اس طرح کاروباروں میں لگاؤ کہ وہ مال بڑھے.پس ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو یتیم کے مال کی حفاظت کا حکم دے کر عزیز وں اور معاشرے پر ڈالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتے اور بہانے بہانے سے یتیم کے مال کو کھانے کی کوشش کرتے ہو، تو اس کی بڑی سخت سزا ہے.فرما برانَ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَعْى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ في بُطُونِهِمْ نَارًا (النساء:11 ) اور جو لوگ ظلم سے یتیموں کے مال کھاتے ہیں، وہ یقینا اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں.اور پھر فرمایا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (النساء: 11) اور وہ یقیناً شعلہ زن آگ میں داخل ہوں گے.
خطبات مسرور جلد 11 434 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء قرآن کریم کے احکامات ایسے نہیں کہ صرف ایک فریق کا حق دلائیں تو دوسرے کا حق غصب کر لیں.اگر یہ حکم ہے کہ یتیموں کا مال ناجائز طریقے سے کھا کے اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہو تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے امانت اور دیانت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر یتیم کے مال میں سے کچھ خرچ کر رہے ہو تو پھر یہ ظلم نہیں ہے.فرمایا کہ یتیم کی پرورش پر جو خرچ ہوتا ہے، اُس کی تعلیم پر، اُس کی تربیت پر جو خرچ ہوتا ہے، یہ خرچ کرنے کی تو اجازت ہے لیکن دیکھو ظلم نہ کرنا.امانت میں خیانت کرنے والے نہ بننا.فرمایا لَا تَأْكُلُوهَا اسْتَرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا (النساء: 7) اُن کے جوان ہونے کے خوف سے اُن کے مال ناجائز طور پر اور جلدی جلدی نہ کھا جاؤ.فرمایا وَمَن تَحانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِف (النساء: 7) اور جوکوئی صاحب حیثیت اور مالدار ہو، وہ اس مال سے بکلی اجتناب کرے.لیکن اگر کوئی مجبور ہے، تعلیم اور جو دوسرے اخراجات اُس پر ہورہے ہیں، وہ برداشت نہیں کر سکتا تو اُس کے بارے میں فرمایا کہ فَلْيَأْكُلُ بِالْمَعْرُوفِ ( النساء:7 ) پس وہ مناسب طور پر اس مال میں سے لے سکتا ہے.اور مناسب کیا ہے؟ اُس یتیم پر جو اصل خرچ ہورہا ہے وہ یا اگر کسی کی بالکل ہی فقیری کی حالت ہے اور گزارہ بھی نہیں ہوتا اور پرورش کی وجہ سے اُس کی ذمہ داری چوبیس گھنٹے اُس کی نگہداشت پر ہے تو معمولی حق الحزمت لیا جا سکتا ہے.پس اس مال کے خرچ کی اس حد تک اجازت ہے.لیکن جو اُس مال کی حفاظت اور اُسے بڑھانے کا حکم ہے اُسے ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے اور سچے امین اور بچے نگران کا حق ادا کرنا چاہئے.فرمایا حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ (الانعام : 153) یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت اور مضبوطی کی عمر کو پہنچ جائیں اور اپنے مال اور جائیداد کا انتظام وانصرام سنبھال سکنے والے ہوں.پس یہ حق ہے جو یتیم کا قائم ہے.ایک کمزور طبقے کا قائم ہے کہ اُس کے عاقل بالغ ہونے تک اُس کی جائیداد کی ، اُس کے مال کی حفاظت کی جائے اور پھر جب وہ اُسے سنبھالنے کے قابل ہو جائے تو اُسے اُس کا مال کو ٹا دیا جائے.یہاں یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ بعض دفعہ کوئی یتیم بالغ ہونے کے بعد عقل کے لحاظ سے اس سطح پر نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کر سکے.تو پھر اُس وقت تک، جب تک وہ اس قابل نہ ہو جائے ، یا اگر بالکل ہی نبی ہے تو پھر مستقل طور پر اُس کے مال کی حفاظت فرض بنتا ہے.ایسے لوگ بھی ہیں جو باوجود نجمی ہونے کے شادی کے قابل ہوتے ہیں.اگر اُن کی شادی ہو جاتی ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے تو پھر اولاد کے جوان ہونے تک عزیزوں کا یا معاشرے کا اور جماعت کا یہ کام ہے کہ اس ذمہ داری کو نبھائیں اور ان کے مال کی حفاظت کریں.
خطبات مسرور جلد 11 435 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء کمزوروں اور یتیموں کے حق اور پرورش کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں، اُن کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی ایسا تم میں مالدار ہو جو صحیح العقل نہ ہو مثلاً یتیم یا نا بالغ ہواورا ندیشہ ہو کہ وہ اپنی حماقت سے اپنے مال کو ضائع کر دے گا تو تم (بطور کورٹ آف وارڈس کے ) وہ تمام مال اُس کا متکفل کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لو اور وہ تمام مال جس پر سلسلہ تجارت اور معیشت کا چلتا ہے ان بیوقوفوں کے حوالہ مت کرو اور اس مال میں سے بقدر ضرورت اُن کے کھانے اور پہنے کے لئے دے دیا کرو اور اُن کو اچھی باتیں قول معروف کی کہتے رہو.یعنی ایسی باتیں جن سے اُن کی عقل اور تمیز بڑھے اور ایک طور سے اُن کے مناسب حال اُن کی تربیت ہو جائے اور جاہل اور ناتجربہ کار نہ رہیں.اگر وہ تاجر کے بیٹے ہیں تو تجارت کے طریقے اُن کو سکھلا ؤ اور اگر کوئی اور پیشہ رکھتے ہوں تو اس پیشہ کے مناسب حال اُن کو پختہ کر دو.غرض ساتھ ساتھ اُن کو تعلیم دیتے جاؤ اور اپنی تعلیم کا وقتا فوقتا امتحان بھی کرتے جاؤ کہ جو کچھ تم نے سکھلایا انہوں نے سمجھا بھی ہے یا نہیں.پھر جب نکاح کے لائق ہو جائیں یعنی عمر قریباً اٹھارہ برس تک پہنچ جائے اور تم دیکھو کہ اُن میں اپنے مال کے انتظام کی عقل پیدا ہوگئی ہے تو اُن کا مال اُن کے حوالہ کرو اور فضول خرچی کے طور پر اُن کا مال خرچ نہ کرو اور نہ اس خوف سے جلدی کر کے کہ اگر یہ بڑے ہو جائیں گے تو اپنا مال لے لیں گے، ان کے مال کا نقصان کرو.جو شخص دولتمند ہو اُس کو نہیں چاہئے کہ اُن کے مال میں سے کچھ حق الخدمت لیوے لیکن ایک محتاج بطور معروف لے سکتا ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 346) فرمایا کہ: ” عرب میں مالی محافظوں کے لئے یہ طریق معروف تھا کہ اگر یتیموں کے کار پردازان کے مال میں سے لینا چاہتے تو حتی الوسع یہ قاعدہ جاری رکھتے کہ جو کچھ یتیم کے مال کو تجارت سے فائدہ ہوتا اُس میں سے آپ بھی لیتے.رأس المال کو تباہ نہ کرتے.سواسی عادت کی طرف اشارہ ہے کہ تم بھی ایسا کرو.اور پھر فرمایا کہ جب تم یتیموں کو مال واپس کرنے لگو تو گواہوں کے رو بروان کو اُن کا مال دو اور جو شخص فوت ہونے لگے اور بچے اُس کے ضعیف اور صغير السن ہوں تو اُس کو نہیں چاہئے کہ کوئی ایسی وصیت کرے کہ جس میں بچوں کی حق تلفی ہو.جو لوگ ایسے طور سے یتیم کا مال کھاتے ہیں جس سے یتیم پر ظلم ہو جائے تو وہ مال نہیں بلکہ آگ کھاتے ہیں اور آخر جلانے والی آگ میں ڈالے جائیں گے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 346.347)
خطبات مسرور جلد 11 436 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء فرمایا : ”اب دیکھو خدا تعالیٰ نے دیانت اور امانت کے کس قدر پہلو بتلائے.سو حقیقی دیانت اور امانت وہی ہے جو ان تمام پہلوؤں کے لحاظ سے ہو اور اگر پوری عقل مندی کو دخل دے کر امانتداری میں 66 تمام پہلوؤں کا لحاظ نہ ہو تو ایسی دیانت اور امانت کئی طور سے چھپی ہوئی خیانتیں اپنے ہمراہ رکھے گی.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 347) اگر امانتداری میں تمام پہلوؤں کا لحاظ نہیں رکھا گیا تو پھر اس میں چھپی ہوئی خیانت بھی آجائے گی.پس بہت محتاط ہو کر یہ حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ جب تقویٰ کے بارے میں بار بار تلقین فرماتا ہے تو اس لئے کہ اپنے جائزے لو اور دیکھو کہ کمزوروں کے حق ادا ہور ہے ہیں یا نہیں ہور ہے.امانت اور دیانت کے معیاروں کو پر کھتے رہو.یہ نہ ہو کہ ان کے نیچے چھپی ہوئی خیانتیں ہوں جو آگ کے گولے پیٹ میں بھرنے کا باعث بن جائیں.پھر خدا تعالیٰ یہ حکم فرماتا ہے کہ وَآوُفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ (الانعام : 153 ) اور انصاف کے ساتھ ماپ اور تول پورے پورے دو.یہاں اب عمومی طور پر اپنے کاروباروں کو انصاف اور ایمانداری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرنے کا حکم ہے.پہلے یتیموں اور کمزوروں کا حق قائم کیا اور ایمانداری سے اُن کا حق ادا کرنے کا حکم دیا تو اب آپس کے کاروباروں کو صفائی اور ایمانداری سے بجا لانے کا حکم ہے.کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہونا چاہئے.اگر دوسرا فریق لاعلم ہے تب بھی دھوکہ نہ ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم کوئی جنس بیچ رہے ہو تو اگر جنس میں کسی قسم کی کمی ہے تو اُس کو سامنے رکھو تا کہ خریدار کو پتہ ہو کہ جو مال میں خرید رہا ہوں، اُس میں ینقص ہے.(سنن ابن ماجه کتاب التجارات باب من باع عيبافليبينه حدیث 2246) ایک دوسری جگہ کاروباری لین دین اور ماپ تول کے صحیح کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً ( بنی اسرائیل : 36) یہ بات سب سے بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھی ہے.یعنی اچھے تا جر صحیح ماپ تول کرنے والے تاجر کی شہرت بھی اچھی ہوتی ہے اور اُس کے پاس پھر زیادہ گا ہک بھی آتے ہیں.نتیجہ اس کا کاروبار بڑی تیزی سے ترقی کرتا ہے.اگر دھو کہ ہوتو کاروبار ختم ہو جاتا ہے.ایک دوسری جگہ یہ بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دھوکہ دہی ہے یہ فساد کا باعث بنتی ہے لیکن مشکل یہ ہے بلکہ افسوس یہ ہے کہنا چاہئے کہ جتنا زیادہ قرآنِ کریم نے احکام کھول کھول کر بیان فرمائے ہیں اتنے ہی مسلمان اُس ایمانداری کے معیار سے نیچے گرتے چلے جارہے ہیں.کہاں تو مسلمانوں کے ایمان کا
خطبات مسرور جلد 11 437 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء اور امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ ایک شخص اپنے گھوڑے کو بیچنے کے لئے بازار میں لا یا اور کہا کہ اس کی قیمت پانچ سو درہم ہے.اور ایک دوسرے صحابی نے اُسے دیکھا اور پسند کیا اور کہا کہ میں اُسے خریدوں گا، یہ مجھے پسند ہے لیکن اس کی قیمت پانچ سو درہم نہیں ہے.وہ آدمی سوچتا ہے کہ شاید کم بتائے بلکہ بالکل الٹ فرمایا کہ یہ ایسا اعلی گھوڑا ہے کہ اس کی قیمت دو ہزار درہم ہونی چاہئے.اس لئے میرے سے دو ہزار در ہم لے لو.اب بیچنے والے اور خریدنے والے کی بحث چل رہی ہے.بیچنے والا پانچ سو درہم سے اوپر نہیں جارہا اور خریدنے والا دو ہزار درہم سے نیچے نہیں آ رہا.(ماخوذ از المعجم الكبير للطبراني جلد دوم صفحه -334 335 ابراهیم بن جرير عن ابيه حديث 2395 مطبوعه دار احياء التراث العربی بیروت) تو یہ معیار تھا جو مسلمانوں کا تھا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اور آپ کے صحابہ کی صحبت میں رہنے والوں کا تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنا بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ جب وہ 19.20 سال کے تھے تو سیر کے لئے کشمیر گئے.وہاں ایک قسم کے اونی قالین بنائے جاتے ہیں جو خاص طور پر بڑے مشہور ہیں.وہ انہیں پسند آئے.کچھ عرصہ انہوں نے ٹھہر نا تھا، سیر کرنی تھی.اس لئے سیر کے لئے چلے گئے.انہوں نے جس شہر میں قالین دیکھے تھے وہاں قالین بنانے والے ایک شخص نے کہا کہ میں بہت اعلیٰ بناتا ہوں.انہوں نے کہا ٹھیک ہے مجھے تحفہ لے جانے کے لئے تین چار ایسے قالین بنا دو اور اُس کا سائز بتایا.کہتے ہیں جب میں واپس آیا تو جو سائز بتائے تھے اُن سے ہر قالین ہر طرف سے، چوڑائی میں بھی، لمبائی میں بھی چھوٹا تھا اور کافی فرق تھا.چھ چھ انچ ، فٹ فٹ چھوٹا تھا.تو انہوں نے کہا کہ تمہیں میں نے یہ سائز بتا یا تھا، یہ سامنے گواہ ہیں، ان کے سامنے بتایا تھا، اُس کے باوجود تم نے اس کے مطابق نہیں بنایا اور قیمت تم اتنی مانگ رہے ہو.تو بجائے اس کے کہ شرمندہ ہوتا، یہ کہتا کہ ٹھیک ہے قیمت کم کر دیں.کہنے لگا میں مسلمان ہوں اور بار بار یہی رٹ لگائے جائے کہ میں مسلمان ہوں اور آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ تم نے ایسا بنایا ہے اور ویسا بنایا ہے.(ماخوذ از تقریر سیالکوٹ انوار العلوم جلد 5 صفحہ 108-109) تو اب جب بھی غلط کام ہو، مسلمان کہہ کر اُس کو جائز کرنا، یہ عام ہو گیا ہے.اور پھر یہ پرانی بات نہیں ہے.مجھے بھی ایک شخص جو چاول کے کاروبار میں تھے، بتانے لگے کہ ہم پاکستانی اچھا باسمتی چاول جب باہر بھیجتے ہیں تو اس میں دوسرا کم درجے کا لمبا چاول کس طرح شامل کرتے ہیں اور وہ طریق کار یہ ہے
خطبات مسرور جلد 11 438 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء کہ ایک لوہے کا آٹھ نو انچ کا ٹین کا پائپ ہوتا ہے، اُس کو بیگ کے درمیان میں رکھتے ہیں اور اس پائپ کے اندر کم درجے کا چاول بھرتے ہیں اور اس کے ارد گرد اعلی کوالٹی کا چاول بھیجتے ہیں.اور باہر سے جب وہ دیکھتے ہیں تو اعلیٰ کوالٹی ہوتی ہے، باسمتی چاول ہوتا ہے، اور کسی کو پتہ نہیں لگتا.جب پائپ اُس کے بعد نکال لیتے ہیں وہ کس (Mix) ہو جاتا ہے، یہ بھی نہیں خیال ہوتا کہ اندر کوئی چیز پڑی ہے.چاول بہر حال چاول ہے.تو کاروباروں کی یہ حالت ہے.اسی وجہ سے ایک عرصہ پہلے سے ہندوستانی مارکیٹ نے چاول کی مارکیٹ پر قبضہ کرلیا ہے، حالانکہ ہندوستان کا چاول پاکستان سے کم کوالٹی کا ہے.اور اب شاید کچھ ایکسپورٹر، کیونکہ احمدی بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں، خود بہتر کوالٹی کا لے کر آتے ہوں تو لاتے ہوں.نہیں تو اس چور بازاری کی وجہ سے باہر کی مارکیٹ نے پاکستانی ایکسپورٹر سے چاول لینا ہی بند کر دیا ہے.ان کو اب پتہ لگ گیا ہے کہ اس طرح یہ دھوکہ دہی ہوتی ہے.اس لئے اب ہندوستانی ایکسپورٹر جو ہے وہی چاول خریدتا ہے، اُس کی گریڈنگ (grading) کرتا ہے اور پھر آگے بھیجتا ہے.اور یہ سوچتے ہی نہیں کہ کاروبار میں اس سے برکت بھی نہیں رہتی اور کا روبار بھی ختم ہو گیا.ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر خرید وفروخت کرنے والے سچ بولیں اور مال میں اگر کوئی عیب یا نقص ہے اُسے بیان کر دیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے سودے میں برکت دے گا.اور اگر وہ دونوں جھوٹ سے کام لیں ، خرید نے والا بھی اور بیچنے والا بھی اور کسی عیب کو چھپائیں گے یا ہیرا پھیری سے کام لیں گے تو اس سودے میں سے برکت نکل جائے گی.(صحیح البخاری کتاب البیوع باب اذا بين البيعان ولم يكتما و نصحا حديث 2079) پس اگر برکت حاصل کرنی ہے تو پھر امانت اور دیانت کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے.اور یہ تقاضے پورے کرتے ہوئے کاروبار کرنا یہی ایک اچھے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہئے.ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دینے کے لئے کچھ تو لوتو جھکتا ہوا تو لو.یعنی کہ اگر کچھ زیادہ بھی چلا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے.(سنن ابن ماجه کتاب التجارات باب الرجحان في الوزن حدیث (2222 پس یہ تجارتی امانت کا معیار ہے جو ایک مسلمان کا ہونا چاہئے.اگر تا جرامانت دار ہو، صحیح طرح کاروبار کرنے والا ہو تو پھر جو اُس کا مقام ہے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ کتنا بڑا مقام ہے.آپ نے فرمایا کہ سچا اور دیانتدار تا جر نبیوں،صدیقوں
خطبات مسرور جلد 11 439 خطبه جمعه فرموده مورخه 02 اگست 2013ء اور شہیدوں کی معیت کا حقدار ہے.(سنن الترمذى كتاب البيوع باب ما جاء في التجار وتسمية النبى الله اياهم حدیث نمبر (1209 اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کو اپنی امانت اور دیانت کے معیار اللہ تعالیٰ کے حکموں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق بنانے کی توفیق عطا فرمائے.احمدی بھی بہت سارے کا روباروں میں ملوث ہیں.ہم میں سے ہر ایک کو اپنے بھی جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ہم بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگیاں گزار رہے ہیں؟ کیا ہم بھی اپنوں میں کمزوروں کے حقوق ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے کاروباروں میں انصاف اور دیانتداری سے کام لے رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق ادا کرنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے آپ کو برائیوں سے بچانے والے ہیں؟ یہ رمضان جو آتا ہے تو اس میں جب نیکی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے تو ان باتوں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک ہر قسم کی ان برائیوں سے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، اُن سے رکنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شماره 34 مورخہ 23 اگست تا 29 اگست 2013 ، صفحہ 5 تا صفحه 8)
خطبات مسرور جلد 11 440 32 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 09 اگست 2013 ء بمطابق 09 ظہور 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آج کا خطبہ بھی گزشتہ خطبات کے تسلسل میں ہے.آج اُن دو اہم باتوں کا ذکر ہوگا جو معاشرے کے حقوق ادا کرنے، معاشرے سے فتنہ و فساد ختم کرنے، معاشرے میں امن وسلامتی پھیلانے ، معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے اور اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کرنے اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے بارے میں روشنی ڈالتی ہیں یا ان میں اس بارے میں اسلامی تعلیم بیان ہوئی ہے جس کو میں نے ابھی بیان کیا ہے.آج اسلام پر اعتراض ہوتے ہیں کہ نعوذ باللہ اس کی تعلیم میں سختی ہے.دہشتگردی اور فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ نہیں ہے.ابھی چند دن پہلے ایک امریکن لکھنے والے نے لکھا کہ اسلام میں جمعہ کا دن نعوذ باللہ فساد کا دن ہے، اور کافی کچھ اسلام کے خلاف لکھا.جماعت نے اُس اخبار یا جہاں بھی لکھا گیا تھا اُن سے رابطہ کیا اور اسلام کی خوبصورتی کے بارے میں ہمارے ایک نوجوان نے بڑا اچھا مضمون لکھا.اور اس کے بارے میں مزید بھی میں نے اُن کو کہا ہے کہ وہاں مزید رابطے کر کے اسلام کی جو خو بصورت تعلیم ہے، اسلام کے جو مقاصد ہیں، جمعہ کے جو مقاصد ہیں ، ان پر اس طرح کے مضامین لکھیں ، Article لکھیں کہ لوگوں کو پتہ لگے.آج یہ جماعت احمدیہ کا ہی کام ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف اسلام پر کئے گئے حملوں کا دفاع کریں بلکہ دلائل و براہین سے دشمن کا منہ بھی بند کریں.یہ ہمارا کام تو بہر حال ہے لیکن خدا تعالیٰ نے خود بھی ایسے انتظام کئے ہیں کہ بعض دفعہ ایسے انصاف پسند غیر مسلموں کو بھی کھڑا کر دیتا ہے جو اسلام کی خوبیوں کو بتانے لگ جاتے ہیں.چنانچہ ایک
خطبات مسرور جلد 11 441 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء کیتھولک عیسائی ہیں، پروفیسر ہیں، سکالر ہیں.انہوں نے ڈیلی ٹیلیگراف ( Daily Telegraph) میں گزشتہ دنوں مضمون لکھا جس میں اسلام اور مسلمانوں کی تعریف کی اور ایتھی ازم (Atheism) کے خلاف اور یہاں جو قومیت پسند تنظیمیں ہیں اُن کے خلاف باتیں کیں اور یہ لکھا کہ مسلمانوں کی جو اعلیٰ روایات ہیں، اعلیٰ تعلیمات ہیں ان کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.آجکل مذہب اور اسلام پر اعتراض کرنے والے زیادہ تر یہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہیں.بہر حال جیسا کہ میں نے کہا یہ کام تو آج ہمارا ہے کہ دین کی ضرورت اور زندہ خدا کے وجود کو دنیا پر ثابت کریں.کیونکہ ایک حقیقی مسلمان ہی اس کام کو سر انجام دے سکتا ہے اور زمانے کے امام سے جڑ کر احمدی ہی اسلام کی حقیقی تعلیم کو سمجھنے والے اور اُسے دنیا میں پھیلانے والے ہیں اور ہونے چاہئیں.اور یہ کام قرآن کریم کی تعلیم اور احکامات پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آج اُن دو احکامات کے بارے میں کچھ کہوں گا جن کا اُس فہرست میں ذکر ہے جو سورۃ انعام کی آیات 152 اور 153 میں بیان ہوئی ہیں، اور جو میں گزشتہ چند خطبوں سے ذکر کر رہا ہوں.ان میں سے آج بیان ہونے والی باتوں میں پہلی بات عدل و انصاف سے متعلق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُربى (الانعام: 153 ) اور جب تم کوئی بات کرو تو انصاف کی بات کرو.چاہے وہ شخص کتنا ہی قریبی ہوجس کے متعلق بات کی جارہی ہے.عدل کی مختلف صورتیں ہیں اور اس بارے میں قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر تفصیلی احکامات بھی ہیں.اس گواہی کو جو قریبیوں کے بارے میں دی جانی ہے، اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ مزید کھول کر بیان فرمایا ہے جس میں قریبی ہی نہیں بلکہ خود گواہی دینے والے کو بھی شامل فرمایا ہے.اور والدین کو بھی شامل فرمایا ہے.سورۃ نساء کی آیت 136 ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُن غَنِيًّا أَوْفَقِيرًا فالله أولى بِهِمَا فَلاَ تَتَّبِعُوا الْهَوَى اَنْ تَعْدِلُوا.وَإِنْ تَلُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (النساء: 136) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف.خواہ کوئی امیر ہو یا غریب ، دونوں کا اللہ ہی بہتر نگہبان ہے.پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو.یہ نہ ہو کہ عدل سے گریز کرو.اور
خطبات مسرور جلد 11 442 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو، اُس سے بہت باخبر ہے.یہاں گواہیوں کے بارے میں ایک اصولی بات بیان ہو گئی کہ تمہاری گواہیاں خالصہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ہونی چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہونی چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ”حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ.اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 361) پس دنیا میں عدل اور انصاف قائم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو.اس کے علاوہ کبھی وہ اعلیٰ معیار قائم ہو ہی نہیں سکتا جود نیا سے نا انصافی اور ذاتی غرضوں کے حصول کو ختم کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور جگہ فرمایا کہ: ” تمام قومی کا بادشاہ انصاف ہے.اگر یہ قوت ہی انسان میں مفقود ہے تو پھر سب سے محروم ہونا پڑتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 24 مطبوعہ ربوہ) پس عدل و انصاف کا وصف انسان میں ہونا اُس کی خوبیوں کو روشن تر کر دیتا ہے.اس آیت میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے، اگر اس پر عمل ہو یعنی انصاف قائم کرنے کے لئے انسان اپنے خلاف گواہی دینے سے بھی گریز نہ کرے، اپنے والدین کے خلاف گواہی دینے سے بھی گریز نہ کرے اور قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینے سے نہ رُکے تو ایک حسین معاشرہ قائم ہو جاتا ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی.جب فریقین میں مسئلہ پیدا ہوتو گواہیوں کی ضرورت پیش آتی ہے.ایسی صورت میں یا خود فریقین سے اپنے اپنے بیان دینے کے لئے کہا جاتا ہے یا بعض گواہوں کو پیش کیا جاتا ہے تاکہ مسئلہ کی حقیقت واضح ہو اور فیصلہ کرنے اور عدل و انصاف کرنے میں آسانی پیدا ہو.اگر گواہیاں ہی جھوٹی ہوں، اپنے بیانوں کو توڑ مروڑ کر نا جائز حق لینے کے لئے پیش کیا جارہا ہو تو پھر ہوسکتا ہے کہ فیصلہ کرنے والے کا فیصلہ بھی صحیح نہ ہو.صرف یہ نہیں کہ صحیح نہ ہو بلکہ بہت زیادہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں پھر گناہ گواہیاں دینے والوں کے سر ہے، فیصلہ کرنے والے کے سر نہیں ہے.بعض گواہ اپنے ذاتی فائدے کے لئے نہیں تو اپنے عزیزوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے غلط گواہی دے جاتے ہیں.فیصلہ کرنے والے ادارے کو غلط راستہ پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور پھر نتیجہ گناہگار بنتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی غلط بیان دے کر میرے سے بھی غلط
خطبات مسرور جلد 11 443 فیصلہ کرواتا ہے تو ایسا ہی ہے جیسا میں اُسے آگ کا ٹکڑا دلوا رہا ہوں.خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحه -42-643 حديث أم سلمة زوج النبی صلی الله علیه وسلم حدیث نمبر 27253 عالم الكتب بيروت 1998ء) پس جھوٹے بیان اور جھوٹی گواہیاں دے کر آگ کے ٹکڑے حاصل کرنے سے ہر ایک کو بچنا چاہئے.حقیقی مومن وہی ہے جو اس سے بچے.سورۃ نساء کی یہ آیت جو میں نے پڑھی تھی اس میں آگے پیچھے عائلی معاملات کے احکامات بھی آتے ہیں.پس وہ لوگ جو خاوند ہو یا بیوی ہو خاص طور پر اپنے ناجائز حقوق لینے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح طلاق کی صورت میں خلع کی صورت میں مرد یا عورت کے عزیز یا رشتہ دار غلط گواہی دے کر بعض ناجائز فائدے اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ عدل کا خون کر رہے ہوتے ہیں.اس طرح وہ اس سے دنیاوی عارضی فائدہ تو اُٹھا لیتے ہیں لیکن جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگ کا ٹکڑا ہے جو وہ لے رہے ہوتے ہیں جو قیامت کے دن پھر بد انجام کی طرف لے جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس طرح فریقین بھی اور گواہان بھی اپنی خواہشات کی پیروی کر کے عدل سے دُور جا رہے ہیں.پس خواہشات کی پیروی نہ کرو، بلکہ عدل قائم کرنے کی کوشش کرو، انصاف قائم کرنے کی کوشش کرو.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِنْ تَلُوا اَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (النساء: 136) اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہواُس سے باخبر ہے.پس یہ جھوٹی گواہیاں فیصلہ کرنے والے انسان کو تو دھوکہ دے سکتی ہیں.جس کے پاس معاملہ ہے اُس کو دھوکہ دے سکتی ہیں.اُس سے اپنے حق میں اور دوسرے کے خلاف یا خلاف انصاف فیصلہ کرواسکتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ جو باخبر ہے اُسے ہم دھو کہ نہیں دے سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر صاف اور سیدھی بات کہنے کی طرف ، جو قر آنی حکم ہے، اسی لئے تو جہ دلوائی ہے کہ رشتے طے کرتے وقت بھی ، آپس میں زندگی گزارتے وقت بھی اور اگر کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اُس وقت بھی قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الاحزاب : 71) سے کام لو اور اس کو کبھی نہ چھوڑو.اس کا چھوڑ نا تمہیں تقویٰ سے دور لے جائے گا.یہ تمہیں عدل اور انصاف سے دُور لے جائے گا.یہ معاشرے میں فساد کا ذریعہ اور باعث بنے گا.ہمارے قضاء میں بھی جب خلع اور طلاق کے معاملات آتے ہیں تو بعض میں خود بھی دیکھتا ہوں
خطبات مسرور جلد 11 444 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء کہ انصاف پر مبنی اور حقائق پر مبنی نہ بیان دیئے جاتے ہیں، نہ ہی گواہان اپنی گواہیاں دیتے ہیں.اسی طرح لین دین کے معاملات ہیں، ان میں بھی بعض لوگ عارضی اور ذاتی فائدے کے لئے تقویٰ سے دُور ہٹ کر آگ کا گولہ لے رہے ہوتے ہیں.یہ آگ کا گولہ لینے والی جو حدیث ہے اس میں بھی دو بھائیوں کی جائیداد کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو یہی فرمایا کہ اگر کوئی چرب زبان ہے تو میرے سے فیصلہ کر والے گا.لیکن یہ آگ کا گولہ ہے جو میں تمہیں دوں گا.اور قیامت کے دن یہی پھندا بنے گا.اس پر دونوں بھائیوں نے چیخ ماری اور رونا شروع کر دیا اور یہ کہا کہ ہم کچھ نہیں لیتے.اپنا حق چھوڑتے ہیں اور دوسرے کو دیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حق چھوڑ نا بھی غلط ہے.تم لوگوں کا حق ہے تو ضرور لو اور اگر فیصلہ نہیں کر رہے، کوئی ایسے کاغذات نہیں ہیں جو ثبوت ہوں، کوئی گواہیاں ایسی نہیں جو ثبوت کے طور پر پیش ہوسکیں تو قرعہ اندازی کرلو، جو جس کے حصہ میں آئے وہ اُس پر راضی ہو جائے.(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 642-643 حدیث ام سلمة زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر 27253 عالم الكتب بیروت 1998ء).تو یہ ہے فیصلے نپٹانے کا طریقہ.اور یہ ہے تقویٰ کا وہ معیار جو ایک مومن میں ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر رحم فرمائے اور عقل دے جو انصاف کرنے میں روک بن رہے ہوتے ہیں.اگر گھر یلو سطح پر بھی اور کاروباری معاملات میں بھی سچائی پر مبنی گواہیاں ہوں، عدل قائم کرنے کے لئے گواہیاں ہوں تو ہمارا معاشرہ جنت کا نمونہ اس دنیا میں بھی پیش کر سکتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا، قرآن کریم میں عدل کے بارے میں بھی تفصیلی احکامات ہیں.اس بارے میں ایک دو اور آیات میں پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ سورۃ نساء میں ہی فرماتا ہے کہ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الآمنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ.إنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء: 59) کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں اُن کے حق داروں کے سپرد کیا کرو.اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو.یقینا بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے.یقینا اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے.اس آیت میں پہلی بات تو امانتوں کو حق داروں کے سپرد کرنے کی بیان فرمائی.اس بارے میں کچھ عرصہ پہلے میں ایک تفصیلی خطبہ دے چکا ہوں کہ یہ سال عہدیداران کے انتخاب کا سال ہے.اس لئے ذاتی خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں، خاندانی تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں، بلکہ انصاف کے تقاضے
خطبات مسرور جلد 11 445 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء پورے کرتے ہوئے ، امانت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی نظر میں ایسے عہد یدار منتخب کریں جو اپنے کام سے انصاف کر سکیں.بہر حال انتخاب تو ہو گئے.بعض جگہ خود منتخب کرنے والوں نے اپنی نظر میں بہتر عہدے داران منتخب کئے.بعض جگہ میں نے خود بعض تبدیلیاں کیں یا مشورے دینے والوں کے مشورے نہیں مانے اور اگر کوئی اچھا کام کر رہا تھا تو اُسی کو رہنے دیا.ہر ایک کام کرنے کا ایک لیول ہے.جب اس تک کوئی انسان پہنچ جاتا ہے، اُس کی صلاحیتیں پہنچ جاتی ہیں تو پھر مزید اس شعبہ میں ترقی نہیں ہوتی اور ہوسکتا ہے کہ وہی شخص جو ایک جگہ زیادہ بہتر کام نہ کر رہا ہو، دوسری جگہ بہتر کام کر دے.اس لئے بھی بعض تبدیلیاں کی گئی ہیں.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بعض تبدیلیاں ناراضگی کی وجہ سے کی گئی ہیں.ناراضگی سے زیادہ جماعتی مفاد کو دیکھا گیا ہے.جہاں میں نے سمجھا کہ جماعتی مفاد اس میں ہے کہ تبدیلیاں کی جائیں، وہاں انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ ایسے شعبوں میں تبدیلیاں کی جائیں.دلوں کا حال تو خدا تعالیٰ جانتا ہے.ہم تو مشورے اور فیصلے ظاہری حالت کے مطابق ہی کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں.لیکن بعض مقامی جماعتوں میں بعض ممالک میں ابھی بھی ذاتی پسند اور قرابت داری کو ترجیح دیتے ہوئے عہدیدار منتخب کئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل دے اور اُن پر بھی رحم فرمائے جو ذاتی ترجیحات کو انصاف پر مقدم سمجھتے ہیں.بہر حال یہ انتخاب تو ہو گئے ، اب جو عہد یدار منتخب ہوئے ہیں اُن کا فرض بنتا ہے کہ اپنی کمزوریوں کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہوئے اُس سے مغفرت اور مدد کے طالب ہوں اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھا ئیں.عہدہ بھی ایک خدمت ہے، اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے، ایک انعام ہے.اُس کی قدر کرنی چاہئے.احباب جماعت سے سلوک میں، اُن کے معاملات کو حل کرنے میں، اُن کی تربیت پر توجہ دینے میں جماعت کے مقاصد کے حصول کے لئے پروگرام بنانے میں، ان سب باتوں میں انصاف سے کام لیں اور محنت کریں.محنت سے کام کرنے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ تحكموا بالعدل (النساء:59).کہ انصاف سے حکومت کرو، اس کے تقاضے تبھی پورے ہوں گے جب اپنی تمام تر استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ دین کی خدمت کا جو کام ملا ہے، اُسے سرانجام دیں گے.اس میں ہر عہد یدار شامل ہے.مقامی سطح پر بھی اور نیشنل لیول پر بھی ان باتوں کا اُسے خیال کرنا چاہئے.جماعت کا مفاد ہر ذاتی مفاد سے بالا ہونا چاہئے ،اُس پر حاوی ہونا چاہئے ، ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ گہری نظر رکھتا ہے.ہمارے ایک ایک پل کا جو بھی عمل ہے اُس کے علم میں ہے اور وہ شمار ہورہا ہے.پس خدمت دین کا جو موقع ملا ہے اُسے فضلِ الہی سمجھ کر بجالانے کی کوشش اب ہر منتخب یا مقرر کئے جانے والے عہد یدار کو کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ تو دنیاوی
خطبات مسرور جلد 11 446 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء حاکموں سے بھی پوچھے گا اور حساب لے گا اور جو خدا تعالیٰ کے نام پر کسی کام کے لئے مقرر کئے جائیں اگر وہ اپنی امانتوں کے حق ادا نہیں کر رہے اور انصاف کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا ئیں گے تو دنیا داروں سے بڑھ کر پوچھے جائیں گے.پس ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ استغفار کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ، عاجزی دکھاتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ تمام عہد یداروں کو ، تمام خدمت کرنے والوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ گھریلو ماحول، کاروباری معاملات ، عہد یداروں کے معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد انصاف قائم کرنے کے لئے اسلام مزید کیا حکم دیتا ہے؟ تو ہمیں ایک ایسا حکم نظر آتا ہے جو معاشرے بلکہ پوری دنیا میں انصاف اور امن قائم کرنے کی ضمانت ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ مائدہ کی آیت 9 میں فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْط.لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُون (المائدة : 9) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو.یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے.اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو.یقینا اللہ تعالیٰ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.دیکھیں! دنیا سے فتنہ و فساد ختم کرنے کی یہ کتنی خوبصورت تعلیم ہے.اسلام پر اعتراض کرنے والے نہ اپنی دنیاوی تعلیم میں ، قوانین میں، اور نہ ہی کسی دینی تعلیم میں ایسی خوبصورت تعلیم کی مثال پیش کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے.كُونُوا قَوامِینَ لِللہ کہ اللہ کی خاطر قوام بن جاؤ.اور قوام کا مطلب ہے کہ جواپنا کام انتہائی احسن طریق پر بغیر نقص کے اور مستقل مزاجی سے کرتا چلا جائے.پس حقیقی مومن جو کام کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی خاطر کرتا ہے اور پھر اُس میں نہ کبھی جھول آنے دیتا ہے، یا جھول نہ آنے دینے کی کوشش کرتا ہے.اور نہ ہی کبھی سست ہوتا ہے، نہ ہی ذاتی مفادات کے تابع ہوتا ہے.فرمایا کہ مومن کا کام ہے کہ انصاف کی تائید میں گواہی دے.انصاف کا معیار کیا ہے؟ انصاف کا معیار صرف بیوی اور رشتہ داروں سے انصاف کرنا نہیں ہے.اپنے ساتھ کاروبار کرنے والوں سے انصاف کرنا نہیں ہے.اپنے افسروں اور ماتحتوں کے لئے نیک خیالات اور اُن سے حسنِ سلوک کرنا اور انصاف کرنا نہیں ہے.بلکہ انصاف کا معیار اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے ساتھ انصاف کر نا رکھا ہے.کیونکہ حقیقی تقویٰ اُسی وقت
خطبات مسرور جلد 11 447 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء حاصل ہوتا ہے جب دشمن سے بھی عدل اور انصاف کا سلوک کیا جائے.تبھی ایک حقیقی مسلمان ہونے کا معیار حاصل ہو گا.تبھی تبلیغ کے راستے کھلیں گے.تبھی اسلام کی حقیقی تعلیم غیروں پر واضح ہوگی.یہاں بھی آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے.اگر تمہارے یہ معیار نہیں تو پھر تم تقویٰ پر چلنے والے نہیں کہلا سکتے.قوام کہہ کر مستقل انصاف پر قائم رہنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرما دیا.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہوسکتی، فرمایا ہے لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوى (المائدة: 9) یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.انصاف پر قائم رہو کہ تقومی اسی میں ہے.اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قو میں ناحق ستاویں اور دُکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں ، جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں، ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے.مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی.جس سے مخاطب ہیں اُس کو فرماتے ہیں کہ ”مگر آپ تو تعصب کے گڑھے میں گرے ہیں ان پاک باتوں کو کیونکر سمجھیں.انجیل میں اگر چہ لکھا ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو.مگر یہ نہیں لکھا کہ دشمن قوموں کی دشمنی اور ظلم تمہیں انصاف اور سچائی سے مانع نہ ہو.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا ، یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے.اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر اُن کے حقوق دبا لیتے ہیں.ایک بھائی دوسرے بھائی.محبت کرتا ہے اور محبت کے پردے میں دھوکا دے کر اُس کے حقوق دبا لیتا ہے.مثلاً اگر زمیندار ہے تو چالاکی سے اُس کا نام کا غذات بندوبست میں نہیں لکھواتا.(وہ کاغذات جوسرکاری ریکارڈ میں ہوتے ہیں، اُس میں نہیں لکھواتا اور یوں اتنی محبت کہ اُس پر قربان ہوا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ محبت کرو، بلکہ اُس معیار کا ذکر کیا جو محبت کا معیار ہونا چاہئے اور وہ کیا ہے؟ انصاف.فرمایا: ” کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگزر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے.“ ނ
خطبات مسرور جلد 11 448 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء ( نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 409-410) پس یہ وہ معیار ہے جس کے حصول کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد میں نے مختلف موقعوں پہ، معاشرے کے مختلف طبقوں کے بارے میں جو باتیں کیں، اب اللہ تعالیٰ جو حکم ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ وَبِعَهْدِ اللهِ أوفوا (الانعام : 153 ) کہ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو.اسلام کی ایک اور خوبصورت تعلیم اور خدا تعالیٰ کے ایک اہم حکم کی طرف یہاں توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تمام احکامات پر عمل انسان کی اخلاقی اور دینی خوبصورتی کے لئے ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر احکامات کو مختلف مواقع کے لحاظ سے جو کھول کر بیان فرمایا ہے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر یا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ کام ہونے چاہئیں.یہاں یہ حکم دیا کہ یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب تمہارے دل صاف ہوں، جب تمہارے دل اس جذبے سے بھرے ہوئے ہوں کہ میں نے ہر عمل جو کرنا ہے وہ اس سوچ کے ساتھ کرنا ہے، ہر حکم پر عمل کی طرف اس لئے تو جہ کرنی ہے کہ میں نے اپنے خدا سے کئے گئے عہد کو پورا کرنا ہے اور سب سے بڑا عہد جو اللہ تعالیٰ سے ایک مومن کا ہے، ایک احمدی کا ہے وہ عہد بیعت ہے.اگر اس عہد کی حقیقت کو ہم سمجھ لیں تو خود بخود تمام احکام پر عمل اور نیکیاں کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شرائط بیعت میں جو عہد لیا ہے اُس میں اس طرح جامع طور پر ہمیں پابند کیا ہے کہ اگر ہم انہیں وقتا فوقتا دہراتے رہیں تو احمدی معاشرہ تمام برائیوں سے پاک ہوسکتا ہے.مختصراً میں یہ بیان کرتا ہوں کہ شرائط بیعت میں ہم کیا عہد کرتے ہیں.پہلی بات یہ کہ زندگی کے آخری لمحے تک شرک نہیں کرنا اور شرک کی مختلف قسمیں ہیں جن کا رمضان کے مہینے میں شروع کے خطبات میں پہلے بڑی تفصیل سے بیان ہو چکا ہے.پھر یہ کہ جھوٹ، زنا، بدنظری فسق و فجور، خیانت، بغاوت، فساد سے بچنا ہے.ان میں بھی فحشاء کے ضمن میں ان کا بیان ہو چکا ہے.اور کبھی ان کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دینا.پھر یہ کہ نمازوں کی پابندی، درود اور استغفار پر زور اور باقاعدگی ہو.اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرنا اور اس بات پر اُس کی حمد کرنا.یہاں آئے ہوئے بہت سارے لوگ جو پاکستان میں حالات کی وجہ سے یہاں آئے ہیں اُن پر تو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا احسان کیا ہے.آزادی بھی دی اور مالی طور پر بہت بہتر کر دیا.پس اس بات پر بجائے کسی فخر اور تکبر اور غرور کے اللہ تعالیٰ کی حمد ہونی چاہئے ، اُس کے احسانوں کا شکر گزار ہونا چاہئے.پھر
خطبات مسرور جلد 11 449 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء فرما یا کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا.پھر خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کا تعلق اور کبھی شکوہ نہ کرنا.جب اللہ تعالیٰ انعامات دیتا ہے تو اُس کا شکر گزار ہونا اور اگر بعض امتحانات میں سے گزرنا پڑتا ہے تب بھی شکوہ نہیں کرنا.دنیا کی رسوم سے اپنے آپ کو آزاد کروا کر، ہر قسم کی ہوا و ہوس سے اپنے آپ کو بچا کر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنا.تکبر اور بڑائی چھوڑ کر عاجزی اور انکساری کو اختیار کرنا.اسلام کی عزت کو اپنی جان ، مال اور اولاد سے بڑھ کر عزیز رکھنا مخلوق کی ہمدردی اور انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنا.خدمت خلق کا یہ جذبہ بہت زیادہ ہونا چاہئے.اور پھر یہ فرمایا کہ آپ سے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت اور آپ کی اطاعت کا غیر معمولی نمونہ قائم کرنا اور کسی چیز کو اس کے مقابلے پر اہمیت نہ دینا.پس یہ عہد ہے جو ہم نے احمدیت میں داخل ہو کر کیا ہے.اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اس عہد کو پورا کر رہے ہیں.رمضان میں بہت ساری نیکیاں کرنے کی توفیق ملتی ہے.یہ بھی جائزہ لینا چاہئے تھا اور لینا چاہئے.آج بھی آخری دن ہے بلکہ سارا سال ہمیں لیتے رہنا چاہئے.اس میں نیکیوں کی طرف جو توجہ پیدا ہوئی ہے اُس کو جاری رکھنا چاہئے کہ کس حد تک ہم ان پر عمل کر رہے ہیں یا کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ سے عہد وفا کو نبھا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ عہد کرو گے تو تمہیں اجر عظیم ملے گا.ایسا اجر ملے گا جس کا تم سوچ بھی نہیں سکتے.اس عہد پر قائم رہنے کا عہد کرو اور اُس پر عمل کرو.پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی وعدہ فرماتا ہے کہ جب تم اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہدوں کو پورا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو بھی صاف کر کے ہر قسم کی میل کچیل سے پاک کر کے اُن متقیوں میں شامل کرے گا ، اُن لوگوں میں شامل کرے گا جو اُس کے مقرب ہوں گے، جن سے خدا تعالیٰ محبت کرتا ہے.اور یہ نہ سمجھو کہ اگر عہد پورے نہ کئے تو صرف انعامات کے مستحق نہیں ٹھہرو گے، بلکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے سے تمہارے عہدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا.اس میں ہر قسم کے عہد شامل ہیں.جو خدا تعالیٰ سے عہد کئے گئے ہیں اُن کو بھی پورا نہ کرنے پر جواب طلبی ہوگی اور جو بندوں سے عہد کرتے ہو، جو قرآن شریف کے حکم کے مطابق عہد ہوں، انہیں بھی تم اگر پورا نہیں کرو گے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے اُس کی بھی جواب طلبی ہوگی.مثلاً گزشتہ خطبہ میں یتامی کی پرورش کے بارے میں حکم گزر چکا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو سنبھالنے کی ذمہ داری لینے کو بھی ایک عہد قرار دیا ہے.فرمایا کہ اگر تم اس ذمہ داری کو نہیں نبھا رہے تو عہد تو ڑ رہے ہو جس کے بارے میں خدا تعالیٰ باز پرس فرمائے گا.اسی طرح حکام ہیں ، اگر وہ اپنی حکومت کے کاروبار کو صحیح طرح نہیں سنبھال رہے تو وہ بھی جواب دہ ہیں.اگر عوام کا حق ادا نہیں کر رہے تو وہ بھی پوچھے جائیں گے.بدقسمتی سے
خطبات مسرور جلد 11 450 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء مسلمان ممالک میں جتنے بھی لیڈر ہیں، اُن کا یہی حال ہے کہ نہ وہ اپنے فرائض عدل اور انصاف سے بجالا رہے ہیں اور نہ ہی عوام کے حقوق ادا کر رہے ہیں اور بے خوف بیٹھے ہیں کہ شاید پوچھے نہیں جائیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ضرور پوچھے جاؤ گے.عہدیداروں کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کہ وہ انصاف سے کام لیں.وہ بھی اگر اپنا حق ادا نہیں کر رہے، جماعت کے کام کے لئے جتنا وقت دینا چاہئے اتنا وقت نہیں دے رہے، غور کر کے فیصلے نہیں کر رہے، افراد جماعت کے ساتھ معاملات میں انصاف نہیں کر رہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے.اور ایک عام احمدی کے عہد پورا کرنے کے بارے میں جو اُس پر ذمہ داری ہے اور جس کو اُس نے نبھانا ہے اُس کا بھی ذکر میں کر آیا ہوں کہ شرائط بیعت کا عہد اگر پورا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تو خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے.پھر ایک اور اہم عہد ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں جو ہر ملک کا شہری خدا کو گواہ بنا کر یا قرآن کو گواہ بنا کر ملک سے کر رہا ہوتا ہے یا بعض دفعہ اگر صرف ملک کے بادشاہ کے نام پر عہد لے رہا ہو تب بھی یہ ایک ایسا عہد ہے جس کو پورا کرنا اور اس کو نبھانا ایک مسلمان پر فرض ہے اور نہ پورا کرنا ایمان کی کمزوری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے.اس کی باریکیوں پر بھی احمدیوں کو غور کرنا چاہئے.مجھے یہ اطلاع ہے کہ بعض جگہ بعض لوگ جو اپنے کاروبار کرتے ہیں، اُن کا روباروں میں ملازم رکھتے ہیں تو اُسے کم تنخواہ دیتے ہیں یا کم تنخواہ ظاہر کرتے ہیں کہ باقی benefit کونسل سے claim کر لو.کہتے تو یہ ہیں کہ ہم تمہارے فائدے کے لئے کام کر رہے ہیں لیکن خود بھی جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور اُس سے بھی جھوٹ بلوار ہے ہوتے ہیں.خود بھی بدعہدی کر رہے ہوتے ہیں اور اُس سے بھی بدعہدی کروا ر ہے ہوتے ہیں.عملاً یہ ہے کہ اپنا فائدہ اُٹھا رہے ہوتے ہیں.ایسے لوگ پھر ایسے بچائے ہوئے پیسے کی جو کمائی کرتے ہیں تو اس پر ٹیکس بھی بچاتے ہیں جو حکومت کا نقصان ہے.حکومت سے کئے گئے عہد کی بد عہدی ہے اور اُن ملازمین کو کم تنخواہ دے کر اور پورا کام لے کر یا کچھ حد تک اس تنخواہ سے زیادہ کام لے کر کونسل سے اُن کے الاؤنس دلوا کر پھر قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں.تو یہ سب باتیں جو ہیں، یہ سراسر ظلم ہیں اور عہد کو توڑنا ہے جو یہاں کی شہریت لیتے ہوئے ایک شخص کرتا ہے.یہ عہد بیعت کو بھی تو ڑنا ہے کیونکہ وہاں بھی یہی ہے کہ میں ہمیشہ سچائی سے کام لوں گا.پس ایسے لوگ حکومت کا عہد بھی توڑ رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کا عہد بھی تو ڑ رہے ہیں اور گناہگار بھی بن رہے ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 451 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 09 اگست 2013ء پس ایک احمدی کو ہر معاملے میں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.عہد پورا نہ کرنے کی وجہ سے ایک اور برائی کا بھی میں ذکر کرنا چاہتا ہوں جو گھر سے نکل کر دو گھروں بلکہ خاندانوں کے سکون برباد کرنے کا ذریعہ بنتی ہے.پہلے بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے اور وہ خلع اور طلاق کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہ کرنا ہے اور اپنے عہد کو توڑنا ہے.ان رشتوں میں انصاف اور قولِ سدید کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، جس پر اگر عمل ہو تو مسائل آرام سے سلجھ جائیں یا پیدا ہی نہ ہوں.لیکن مسائل کے پیدا ہونے پر ،میاں بیوی کے تعلق میں اختلاف ہونے پر اللہ تعالیٰ نے جو نصیحت ہمیں فرمائی ہے وہ خاص طور پر خاوند کو سامنے رکھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِن اَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَاتَيْتُمْ اِحْدُهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا اَتَأخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أفطى بَعْضُكُمْ إِلى بَعْضٍ وَآخَذُنَ مِنْكُمْ مِيْقَاقًا غَلِيظًا (النساء : 22-21) اور اگر تم ایک بیوی کو دوسری بیوی کی جگہ تبدیل کرنے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے ایک کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو.کیا تم اسے بہتان تراشی کرتے ہوئے اور کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے لو گے؟ اور تم کیسے وہ لے لو گے جبکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور وہ تم سے وفا کا پختہ عہد لے چکی ہے.ہمارے ہاں خلع طلاق کے مسائل میں اگر اس حکم پر عمل کی کوشش ہو تو جو جھگڑے قضاء میں لمبا عرصہ چلتے چلے جاتے ہیں، وہ نہ ہوں.بعض طلاق دے کر عملاً بہتان تراشی بھی کرتے ہیں.یہ تو کھلا کھلا گناہ ہے.اگر کوئی حقیقت بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑنا چاہئے.اور اُس کے لئے بھی گواہیوں کی بہت ساری شرائط ہیں.دوسری اہم بات کہ شادی ایک معاہدہ ہے.مرد اور عورت کے عہد و پیمان ہوتے ہیں.خاوند بیوی میں عہد ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ علیحدگی میں جو یہ عہد و پیمان ہیں، بیشک اس کا کوئی ظاہری گواہ نہیں ہے لیکن اس عہد کو پورا کرنا بھی ضروری ہے.خدا تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے.پس اگر کسی وجہ سے اس عہد کو، رشتے کو ختم بھی کر رہے ہو تب بھی اُن باتوں کا پاس کرو جو تمہاری علیحدگی میں باتیں ہو چکی ہیں.تب بھی جو تحفے تحائف دے چکے ہو اُن کا مطالبہ نہیں کرنا.اور سوائے اس کے کہ قاضی بعض کھلی غلطیوں کولڑ کی کی طرف دیکھے اور فیصلہ دے، مرد کو ہر صورت میں مقررہ حق مہر ادا کرنا چاہئے.یہ بہانے کہ جی ضلع ہے تو حق مہر نہیں دینا، اس کا حق مہر سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس قسم کے بہانے نہیں ہونے چاہئیں.اس کی اور بھی تفصیلات ہیں.اس وقت میں صرف اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مرد اور عورت کو یہ یا درکھنا چاہئے
خطبات مسرور جلد 11 452 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء کہ شادی ایک معاہدہ ہے جس کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور اگر کہیں بدقسمتی سے اس معاہدے کو ختم بھی کرنا ہے تو پھر بھی بعض باتوں کا خیال رکھنا چاہئے اور ایک دوسرے کے راز رکھنے چاہئیں.یہاں اگر عورت کو برابری کا حق ملا ہے، خدا تعالیٰ نے عورت کے لئے قائم کیا ہے تو عورت کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی قولِ سدید سے کام لیتے ہوئے ، عدل سے کام لیتے ہوئے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنے گھر کی ذمہ داریاں نبھائے اور اگر کوئی ایسی صورت ہو تو بلا وجہ مردوں پر بھی بہتان تراشی نہ کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس معیار کے متعلق ، جو ایک مومن کا ہونا چاہئے فرماتے ہیں کہ : ”وہ مومن جو اپنے معاملات میں خواہ خدا کے ساتھ ہیں، خواہ مخلوق کے ساتھ ، بے قید اور خلیع الرسن نہیں ہوتے بلکہ اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی اعتراض کے نیچے نہ آ جاویں اپنی امانتوں اور عہدوں میں دُور دُور کا خیال رکھ لیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں اور تقوی کی دُور بین سے اس کی اندرونی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ در پردہ ان کی امانتوں اور عہدوں میں کچھ فتور ہو.اور جو امانتیں خدا تعالیٰ کی ان کے پاس ہیں جیسے تمام قویٰ اور تمام اعضاء اور جان اور مال اور عزت وغیرہ، ان کو حتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں.اور جو عہد ایمان لانے کے وقت خدا تعالیٰ سے کیا ہے کمال صدق سے حتی المقدور اس کے پورا کرنے کے لئے کوشش میں لگے رہتے ہیں.ایسا ہی جو امانتیں مخلوق کی ان کے پاس ہوں یا ایسی چیز میں جو امانتوں کے حکم میں ہوں ان سب میں تابمقدور تقویٰ کی پابندی سے کاربند ہوتے ہیں.اگر کوئی تنازع واقع ہو تو تقویٰ کو مد نظر رکھ کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں گو اس فیصلہ میں نقصان اٹھالیں.“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 208) تمام اعمال میں تقویٰ کی باریک راہوں سے کام لینا پڑتا ہے.فرمایا: ” انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قو تیں اور اخلاق ہیں، ان کو جہاں تک طاقت ہو، ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور نا جائز مواضع سے روکنا اور اُن کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا، یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے.اور خدا تعالیٰ نے قرآنِ
خطبات مسرور جلد 11 453 خطبه جمعه فرموده مورخه 09 اگست 2013ء شریف میں تقوی کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے.چنانچہ لِبَاسُ التّقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے، یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 209-210) خدا کرے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ہم خدا تعالیٰ کے احکامات پر بھی عمل کرنے والے ہوں اور اپنے تمام عہدوں کو بھی نبھانے والے ہوں.اور اس رمضان میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو ہم نے کوششیں کی ہیں، اُن پر مستقل مزاجی سے قائم رہنے والے ہوں.آج کا جمعہ ہم جمعۃ الوداع سمجھ کر ، پڑھ کر اور رمضان کے روزے رکھ کر ، رمضان کے مہینے میں نیکیاں کر کے اور یہ سمجھ کر کہ بس کافی ہو گیا، چھوڑ نہ دیں، بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومن وہی ہے جو مستقل مزاجی سے ان نیکیوں پر عمل کرتا اور اپنے عہدوں کو پورا کرتا ہے.اللہ کرے کہ یہ رمضان ہمیں بے شمار برکات کا حامل بنا کر جائے اور قرآنِ کریم میں دیئے گئے خدا تعالیٰ کے جو احکامات ہیں اُن کا پہلے سے بڑھ کر ہم میں ادراک پیدا ہو.یہ چند احکامات کی مثالیں میں نے دی ہیں اس لئے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی تلاش کرنی چاہئے تبھی ہم حقیقی رنگ میں اُن لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جنہوں نے رمضان کا فائدہ اُٹھایا.اللہ کرے کہ ہم میں سے اکثریت ایسی ہو جس نے یہ فائدہ اُٹھایا ہو اور آئندہ اُٹھاتی چلی جائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شماره 35 - 36 مورخہ 30 اگست تا 12 ستمبر 2013، صفحہ 5 تا صفحه 8)
خطبات مسرور جلد 11 454 33 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اگست 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 16 اگست 2013 ء بمطابق 16 ظہور 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کچھ دن ہوئے ، دینی تربیتی امور کا ایک جائزہ اتفاق سے ایک عہدیدار کے ساتھ باتوں باتوں میں میرے سامنے آیا.اُس کے بعد پھر میں نے اُن سے تحریری رپورٹ بھی منگوائی.اس کو دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ بعض امور ایسے ہیں جن پر مجھے کچھ کہنا چاہئے.جماعت کا ایک طبقہ جو ہے، اُس کو اس کی ضرورت ہے اور اسی طرح کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی عہدیداروں کو بھی ضرورت ہے.یہ امور جس طرح یہاں کی جماعت کے لئے اہم ہیں اسی طرح دنیا کی دوسری جماعتوں کے لئے بھی اہم ہیں.یا نئی نسل اور اُن افراد کے لئے بھی ان کا جاننا ضروری ہے جو زیادہ ایکٹو (active) نہیں ہیں، زیادہ تر جماعتی کاموں میں involve نہیں ہیں.یہ ایسے امور ہیں کہ جن کو عموماً کھول کر بیان نہیں کیا جاتا.یا مربیان اور عہد یداران افراد جماعت کے سامنے اس طرح احسن رنگ میں ذکر نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے.جس کی وجہ سے بعض ذہنوں میں، خاص طور پر نو جوانوں میں سوال اٹھتے ہیں لیکن وہ سوال کرتے نہیں.اس لئے کہ جماعتی ماحول یا اُن کا عزیز رشتے دار یا والدین ان سوالوں کو برا سمجھیں گے یا وہ کسی مشکل میں پڑ جائیں گے.حالانکہ چاہئے تو یہ کہ مربیان اور مبلغین سے سوال کر کے یا عہد یداروں سے جو علم رکھتے ہیں اُن سے سوال کر کے، یا اپنی ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں سے سوال کر کے پوچھیں.خدام الاحمدیہ اور لجنہ سے تعلق رکھنے والوں اور تعلق رکھنے والیوں کا اپنی اپنی متعلقہ ذیلی تنظیموں سے اس طرح تعلق ہونا چاہئے کہ آسانی سے سوال کر سکیں تا کہ معلومات میں بھی اضافہ کریں اور کوئی شکوک وشبہات ہیں تو وہ بھی
455 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء خطبات مسرور جلد 11 دُور کریں یا مجھے بھی لکھ سکتے ہیں.بعض لوگ مجھے دوسرے ملکوں سے بھی اور بعض دفعہ یہاں سے بھی لکھتے ہیں اور انتہائی ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے لکھتے ہیں تو اُن کے سوالوں کے جواب دیئے بھی جاتے ہیں.بہر حال یہ بات بھی سامنے آئی کہ بعض عہدیدار بھی اپنے فرائض اور دائرہ کار کے بارے میں تفصیل نہیں جانتے اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کرتے.جو باتیں میں بیان کرنے لگا ہوں اس میں ایک پہلوتو عقیدے اور اُس کے بارے میں علم سے تعلق رکھتا ہے.کیونکہ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ ہم کیوں کسی عقیدے پر قائم ہیں اور اسی طرح بعض باتیں جو ہمیں کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، جن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، اُن کے بارے میں بھی علم ہو کہ کیوں ہمیں کہا جاتا ہے اور کیوں یہ ایک احمدی مسلمان کے لئے ضروری ہے؟ اس میں مالی قربانی ہے، اس بارے میں لوگ تفصیل جاننا چاہتے ہیں.دوسرے اس تعلق میں عہدیداران کی بعض انتظامی ذمہ داریاں ہیں اُن کو کس طرح نبھانا ہے اور کس حد تک اختیارات ہیں.بہر حال اس تعلق میں ان دو باتوں کی طرف میں مختصراً توجہ دلاؤں گا.پہلی بات تو یہ ہے جو عقیدے سے تعلق رکھتی ہے اور ایک احمدی کے لئے اس کا جاننا ضروری ہے.عموماً اس کا بیان تو ہوتا بھی رہتا ہے لیکن اُس تو جہ سے نہیں ہوتا یا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں ہوتا کہ ہمارے اپنے لوگوں کی بھی تربیت کی ضرورت ہے.عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ایک پیدائشی احمدی ہے، اُسے علم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ نئے آنے والوں کو تو اس کا اچھی طرح علم ہوتا ہے.پڑھ کر تحقیق کر کے آتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا جو اتنے زیادہ ایکٹو (active) نہیں ہیں، اجتماعات پر نہیں آتے ، بعض جلسوں پر بھی نہیں آتے اور ہر ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں، چاہے تھوڑی تعداد ہو، ایک تعداد ہے جس کی طرف ہمیں فکر سے توجہ دینی چاہئے اور اس کے لئے خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنا کر اس پر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے.اسی طرح جماعتی نظام بھی ایسے لوگوں کو دھتکارنے کے بجائے یا یہ کہنے کے بجائے کہ ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی انہیں قریب لانے کی کوشش کرے.سوائے اُن کے جو کھل کر کہہ دیتے ہیں کہ میرا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں ہے.لیکن ایسے لوگوں کے بارے میں بھی جو جماعت کا main جماعتی نظام main stream ہے، اُس کو چاہئے کہ ذیلی تنظیموں کو ان لوگوں کی معلومات دے دیں، کیونکہ بعض بڑی عمر کے عہدیداران کے سخت رویے کی وجہ سے بھی لوگ ایسے جواب دے دیتے ہیں.ذیلی تنظیمیں ان کے ہم عمر یا کچھ حد تک ہم مزاج لوگوں کے ذریعہ سے اُن کی اصلاح کی طرف توجہ
خطبات مسرور جلد 11 456 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اگست 2013ء دے سکتی ہیں.اور جہاں یہ طریق اپنا یا گیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی بھی ہوئی ہے.بعض جگہ بعض سیکرٹریان تربیت ایسے بھی ہیں جنہوں نے تربیت کے لئے ایسے لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے پروگرام بنائے اور اس کا اچھا اور بڑا خاطر خواہ اثر ہوا.بڑی اچھی response ان لوگوں سے ملی.بہر حال کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم نے حتی الوسع ہر احمدی کو ضائع ہونے سے بچانا ہے.یہ ہر عہد یدار کی ذمہ داری ہے، ہر مربی کی ذمہ داری ہے اور ہر سطح پر ذیلی تنظیموں اور جماعتی نظام کی ذمہ داری ہے.اس اصولی بات کے بعد جو پہلی بات میں کرنا چاہتا ہوں ، وہ جیسا کہ میں نے کہا، ہر احمدی کو پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے؟ اور یہ کہ آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ اس کے لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی میں بیان کروں.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات ونشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعدا داس قدر ہو کہ روئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے.فرمایا کہ: ”اس قدرصورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں.چونکہ اسلام کی سخت تو ہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے." ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 9 مطبوعہ ربوہ ) اور یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کی بات نہیں ہے بلکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں اور قرآن شریف کی سچائی کو دنیا میں قائم کرنے کے بارے میں اپنے لٹریچر میں ، اپنی کتب میں ، اپنے ارشادات میں جس طرح روشنی ڈال گئے ہیں، وہ آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور قرآن شریف کی سچائی کو دشمنوں پر ثابت کر رہا ہے.میں نے مختلف موقعوں پر مختلف مثالیں دی ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پہلوؤں کو غیروں کے سامنے بیان کیا جائے تو کس طرح وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر یہی سیرت ہے، یہی تعلیم ہے تو ہم غلطی پر تھے.کچھ عرصہ ہوا اپنی کسی تقریر میں کینیڈا کے ایک مخالف اسلام کی میں نے مثال دی تھی جس نے ڈینش اخباروں کے کارٹون بھی اپنے رسالے میں ، اپنے اخبار میں شائع کئے تھے.
خطبات مسرور جلد 11 457 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء اُس نے جب اس دفعہ دورے میں وہاں میری بات سنی ہے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں اُسے علم ہوا تو وہ اپنے اخبار میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ امام جماعت احمدیہ کی بات سن کر مجھے حقیقت کا علم ہوا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا.اسی طرح گزشتہ خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ امریکہ میں ایک بڑے سیاستدان نے جمعہ کے حوالے سے غلط قسم کا پروگرام اپنے ریڈیو میں دیا یا با تیں کیں.اس پروگرام کو سننے والوں کی تعداد بھی بہت بڑی ہے، لاکھوں میں ہے.اس پر جمعہ کی اہمیت اور حقیقت قرآن کریم کی رُو سے کیا ہے؟ اس بارہ میں ہمارے ایک احمدی نوجوان نے اپنا آرٹیکل لکھا، ویب سائٹ پر دیا.پھر اس شخص کو لکھا گیا.یہ وہاں کا بڑا پولیٹیکل لیڈر ہے، مشہور آدمی ہے کہ تم نے غلط کہا ہے، اب ہمیں بھی ریڈیو پر وقت دو.چنانچہ اُس نے وقت دیا.یہ بہر حال اُس کی شرافت تھی اور ہمارے ایک احمدی نوجوان نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ریڈیو پر جمعہ اور اُس کے حوالے سے قرآن کے تقدس کے بارے میں بات کی تو اُس نے یہ تسلیم کیا کہ میری غلطی تھی اور اس پروگرام کو بھی لاکھوں افراد نے سنا.اور یہ سب بھی اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہی ہمیں حقیقی اسلامی تعلیم کا پتہ چلتا ہے.پس یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ہمیں بتایا، ہمیں حقیقت سے آشکار کیا، اسی وجہ سے ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے بھیجا تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دنیا پر روشن کریں، قرآن کریم کی تعلیم کو، حقیقت کو آشکار کریں.پس اس وجہ سے جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اسلام کی عظمت اور قرآنِ کریم کی عظمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور وقار دنیا میں دوبارہ آپ کے ذریعہ سے قائم ہو رہا ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم کسی بھی وجہ سے کسی احساس کمتری کا شکار ہوں اور نو جوانوں کو اس بارے میں حوصلہ رکھنا چاہئے.جہاں جہاں بھی نوجوان ایکٹو (active) ہیں اللہ کے فضل سے مخالفین کا منہ بند کر رہے ہیں.پھر ہم میں سے ہر ایک کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننا کیوں ضروری ہے.تیرہ چودہ سال کے بچے بھی یہ سوال کرتے ہیں اور والدین اُن کو صحیح طرح جواب نہیں دیتے.اس بارے میں میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بیان کر دیتا ہوں.تفصیلی ایک ارشاد ہے.اس کو ذیلی تنظیمیں بعد میں اس کے حصے بنا کر سمجھانے کے لئے استعمال کر سکتی ہیں اور اس سے مزید رہنمائی بھی لے سکتی ہیں.ایک موقع پر بعض مولویوں نے آپ سے سوال کیا کہ ہم اب نمازیں بھی پڑھتے ہیں.روزے بھی رکھتے ہیں.قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی لاتے ہیں تو پھر
خطبات مسرور جلد 11 458 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اگست 2013ء ہمیں آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ: دیکھو جس طرح جو شخص اللہ اور اُس کے رسول اور کتاب کو ماننے کا دعویٰ کر کے اُن کے احکام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوۃ، تقویٰ طہارت کو بجانہ لاوے اور اُن احکام کو جو تزکیۂ نفس ، ترک شر اور حصول خیر کے متعلق نافذ ہوئے ہیں چھوڑ دے وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے“.مسلمان ہونے کا دعوی کرے لیکن یہ ساری نیکیاں نہ بجالائے ، برائیوں کو نہ چھوڑے، نیکیوں کو اختیار نہ کرے تو فرمایا کہ وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے.اور اُس پر ایمان کے زیور سے آراستہ ہونے کا اطلاق صادق نہیں آ سکتا.اسی طرح سے جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا یا ماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بھی حقیقت اسلام اور غایت نبوت اور غرضِ رسالت سے بے خبر محض ہے.یعنی کہ اُس کو پتہ ہی نہیں کہ نبوت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اغراض ہیں؟ ” اور وہ اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ اُس کو سچا مسلمان، خدا اور اُس کے رسول کا سچا تابعدار اور فرمانبردار کہ سکیں کیونکہ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآن شریف میں احکام دیئے ہیں اسی طرح سے آخری زمانہ میں ایک آخری خلیفہ کے آنے کی پیشگوئی بھی بڑے زور سے بیان فرمائی ہے اور اُس کے نہ ماننے والے اور اُس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے.قرآن اور حدیث کے الفاظ میں فرق ( جو کہ فرق نہیں بلکہ بالفاظ دیگر قرآن شریف کے الفاظ کی تفسیر ہے ) صرف یہ ہے کہ قرآن شریف میں خلیفہ کا لفظ بولا گیا ہے اور حدیث میں اسی خلیفہ آخری کو مسیح موعود کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے.پس قرآن شریف نے جس شخص کے مبعوث کرنے کے متعلق وعدے کا لفظ بولا ہے اور اس طرح سے اس شخص کی بعثت کو ایک رنگ کی عظمت عطا کی ہے وہ مسلمان کیسا ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں اُس کے ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟“ فرمایا کہ : ” خلفاء کے آنے کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک لمبا کیا ہے اور اسلام میں یہ ایک شرف اور خصوصیت ہے کہ اُس کی تائید اور تجدید کے واسطے ہر صدی پر مجدد آتے رہے اور آتے رہیں گے.دیکھو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے.“ یہاں مجدد کے بارے میں پھر بعض دفعہ لوگ غلطی کھا جاتے ہیں کہ اگر آتے رہیں گے تو کون ہوں گے؟ اس بارے میں ایک تفصیلی خطبہ میں پہلے دے چکا ہوں.اُس سے بھی نوٹس لئے جاسکتے ہیں کہ خلفاء ہی مجدد ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بڑی وضاحت سے بیان بھی فرما چکے ہیں.جماعت کے لٹریچر میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے.
خطبات مسرور جلد 11 459 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اگست 2013ء فرمایا: ”دیکھو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ گیا کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے.شریعت موسوی کے آخری خلیفہ حضرت عیسی تھے جیسا کہ خود وہ فرماتے ہیں کہ میں آخری اینٹ ہوں.اسی طرح شریعت محمدی میں بھی اس کی خدمت اور تجدید کے واسطے ہمیشہ خلفاء آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے.اور اس طرح سے آخری خلیفہ کا نام بلحاظ مشابہت اور بلحاظ مفوضہ خدمت کے مسیح موعود رکھا گیا.اور پھر یہی نہیں کہ معمولی طور سے اس کا ذکر ہی کر دیا ہو بلکہ اُس کے آنے کے نشانات تفصیلا گل کتب سماوی میں بیان فرما دیئے ہیں.بائبل میں، انجیل میں، احادیث میں اور خود قرآن شریف میں اس کی آمد کی نشانیاں دی گئی ہیں اور ساری قومیں ، یہودی، عیسائی اور مسلمان متفق طور سے اس کی آمد کے قائل اور منتظر ہیں.اس کا انکار کر دینا کس طرح سے اسلام ہوسکتا ہے.اور پھر جبکہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ اُس کے واسطے آسمان پر بھی اللہ تعالیٰ نے اُس کی تائید میں نشان ظاہر کئے اور زمین پر بھی معجزات دکھائے.اُس کی تائید کے واسطے طاعون آیا اور کسوف و خسوف اپنے مقررہ وقت پر بموجب پیشگوئی عین وقت پر ظاہر ہو گیا.تو کیا ایسا شخص جس کی تائید کے واسطے آسمان نشان ظاہر کرے اور زمین الوقت کہے وہ کوئی معمولی شخص ہو سکتا ہے کہ اُس کا ماننا اور نہ مانا برا بر ہو اور لوگ اُسے نہ مان کر بھی مسلمان اور خدا کے پیارے بندے بنے رہیں؟ ہر گز نہیں.“ فرمایا: "یا درکھو کہ موعود کے آنے کی کل علامات پوری ہوگئی ہیں.طرح طرح کے مفاسد نے دنیا کو گندہ کر دیا ہے.خود مسلمان علماء اور اکثر اولیاء نے مسیح موعود کے آنے کا یہی زمانہ لکھا ہے کہ وہ چودھویں صدی میں آئے گا.فرمایا: ” اس قدر متفقہ شہادت کے بعد بھی جو کہ اولیاء اور اکثر علماء نے بیان کی.اگر کوئی شبہ رکھتا ہو تو اُسے چاہئے کہ قرآنِ شریف میں تدبر کرے اور سورۃ النور کوغور سے مطالعہ کرے.دیکھو جس طرح حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد حضرت عیسی آئے تھے اسی طرح یہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی ہی میں مسیح موعود آیا ہے.اور جس طرح حضرت عیسی “ سلسلہ موسوی کے خاتم الخلفاء تھے اسی طرح ادھر بھی مسیح موعود خاتم الخلفاء ہوگا.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 552-551 مطبوعہ ربوہ ) یعنی آپ نے فرمایا کہ میں آئندہ ہزار سال کا خلیفہ ہوں اور جو بھی اب آئے گا آپ کی متابعت میں ہی آئے گا.پس جن پیشگوئیوں کے مطابق جو قرآن کریم اور حدیث میں واضح ہیں، مسیح موعود نے چودھویں صدی میں آنا تھا ، وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 460 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آپ کی کتب کو پڑھے.انگریزی دان جو ہیں یا جن کو اردو زبان نہیں آتی ان کے لئے دوسرے ملکوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف زبانوں میں اتنا لٹریچر موجود ہے کہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے اس بارے میں وضاحت سے موجود ہے.اپنے عقیدے کو مضبوط اور پختہ کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے.اعتراض کرنے والوں کے اعتراضوں کے جواب دیں.خود تیاری کریں گے تو علم بھی حاصل ہوگا اور اعتراضوں کے جواب بھی تیار ہوں گے.اس کے لئے بھی علاوہ اس کے کہ ہر شخص خود کرے، جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنانے چاہئیں کہ کس طرح ہم اس بارے میں ہر فرد تک یہ تعلیم پہنچادیں کہ آپ کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ یہ تو عقیدے کی بات ہو گئی جو میں نے کر دی ہے.دوسری بات تربیت کی ہے اور وہ افراد جماعت کا خلافت کے ساتھ تعلق ہے.خلافت کے ساتھ تعلق میں آج کل اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کا بھی ایک ذریعہ دیا ہوا ہے.اسی طرح alislam ویب سائٹ ہے.پس ان سے بھی جوڑنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.ہر احمدی کو نو جوان کو، مرد ہو عورت ہو جوڑنے کی کوشش کریں اور نظام جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے.مخلصین اور باوفا مخلصین کی بہت بڑی تعداد ہے جو بڑی کوشش سے آتے ہیں اور یہاں مسجد میں آ کر بھی خطبہ سنتے ہیں اور دنیا میں مختلف جگہوں پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بھی سنتے ہیں اور باقاعدگی سے سنتے ہیں، بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ دو تین دفعہ سنتے ہیں.لیکن ایک ایسی تعداد ہے جو نہیں سنتی.یہاں یو کے(UK) میں ہی ایسے لوگ ہیں جو خطبات نہیں سنتے اور نہ ہی دوسرے پروگرام دیکھتے ہیں بلکہ وہ بعض پروگراموں میں شامل بھی نہیں ہوتے.ایک جماعت میں کافی تعداد میں لوگوں نے خلاف تعلیم سلسلہ بعض حرکتیں کیں جس کی وجہ سے مجبوراً اُن پر کچھ پابندیاں عائد کی گئیں.جب مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اُن میں سے اکثریت ایسی ہے جو خطبات نہیں سنتے ، یا جن کا جماعت میں زیادہ تر actively آنا جانا نہیں ہے، نہ جماعتی پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں لیکن جماعت کے ساتھ تعلق کیونکہ اُن کے خون میں تھا اس لئے جب اُن پر پابندیاں لگیں، ان کو تھوڑی سی سزا دی گئی تو پریشان بھی ہو گئے اور انتہائی فکر اور درد سے مجھے معافی کے خط بھی لکھنے لگ گئے.بعض مجھے ملے بھی تو اس وقت بھی روتے تھے.اگر وہ صرف دنیا دار ہی ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی.پس ایسے بھی ہیں جو دنیا کے کاروباروں کی وجہ سے لا پرواہ ہو جاتے ہیں اور جب اُنہیں توجہ دلائی جاتی ہے تو پھر انہیں شرمندگی کا
خطبات مسرور جلد 11 461 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء احساس بھی ہوتا ہے اور توبہ و استغفار بھی کرتے ہیں اور آئندہ سے جماعت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں.پس یہ یاددہانی کروانا اور گرانی بھی رکھنا یہ جو جماعتی نظام ہے ،سیکرٹریان، مبلغین اور ذیلی تنظیمیں ہیں، ان سب کا کام ہے کہ خلافت سے ہر فرد کا ذاتی تعلق پیدا کروانے کی کوشش کریں.دلوں میں خلافت سے تعلق اور وفا کو جو پہلے ہی ہے اجاگر کرنے کی کوشش کریں.جب اُن کو سمجھایا جائے تو یہ لوگ مزید نکھر کے سامنے آتے ہیں.اگر کوئی گرد پڑ بھی گئی ہو تو وہ جھڑ جاتی ہے.کیونکہ جب کوئی تعزیر کی جاتی ہے تو اُس وقت اس وفا کا شدت سے اظہار ہوتا ہے.اگر تربیت کا شعبہ مستقل خلیفہ وقت سے رابطے کی تلقین کرتا رہے اور خطبات اور جلسوں اور سارے پروگراموں کو دیکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہیں تو جہاں خلافت سے مزید تعلق مضبوط ہوگا، وہاں تربیت کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.پھر اگلی بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ افراد جماعت پر چندوں کی اہمیت واضح کرنا ہے.یادرکھیں اور یہ بات عموماً میں سیکرٹریانِ مال سے کہا بھی کرتا ہوں کہ لوگوں کو یہ بتا یا کریں کہ چندہ کوئی ٹیکس نہیں ہے بلکہ ان فرائض میں داخل ہے جن کی ادائیگی کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں متعدد جگہ حکم فرمایا ہے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمُ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لَّا نُفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ ثُمَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ إِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْلَكُمْ، وَاللهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ (التغابن :17.18) پس اللہ کا تقوی اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے.اور جو نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں تو یہی ہیں وہ لوگ جو کامیاب ہونے والے ہیں.اگر تم اللہ کو قرضہ حسنہ دو گے تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھا دے گا.اِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وہ اُسے تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت قدر شناس اور بردبار ہے.پس ان آیات سے واضح ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے.وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور فرمایا کہ تمہارا خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا ہے اور اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جو بندے کو اُس کی
خطبات مسرور جلد 11 462 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء قربانی کے بدلے میں کئی گنا بڑھا کر لوٹاتی ہے.اور لوگ ایسے متعدد واقعات مجھے لکھتے ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی راہ میں چندہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیا.اس بارے میں کئی دفعہ میں مختلف واقعات بھی بیان کر چکا ہوں.اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اور بے نیاز ہے، اُس کو ہمارے پیسے کی ضرورت نہیں.اصل میں تو ہمیں پاک کرنے کے لئے ہمارے اطاعت کے معیار دیکھنے کے لئے ہمیں تقویٰ کی راہوں کی تلاش کرتا دیکھنے کے لئے ، ہمارے مال کی قربانی کے دعوی کے معیار کو دیکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اُس کی راہ میں خرچ کرو، اُس کے دین کے پھیلانے کے لئے ، بڑھانے کے لئے خرچ کرو.پس ہر احمدی کو اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم چندہ کیوں دیتے ہیں؟ اگر کسی سیکرٹری مال یا صدر جماعت کو خوش کرنے کے لئے، یا اُس سے جان چھڑانے کے لئے چندہ دیتے ہیں تو ایسے چندے کا کوئی فائدہ نہیں.بہتر ہے نہ دیا کریں.اگر دوسرے کے مقابل پر آ کر صرف مقابلے کی غرض سے بڑھ کر چندہ دیتے ہیں تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں.غرض کہ کوئی بھی ایسی وجہ جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ چندہ دینے کی ہو ، وہ خدا تعالیٰ کے ہاں رڈ ہو سکتی ہے.پس چندہ دینے والے یہ سوچیں کہ خدا تعالیٰ کا اُن پر احسان ہے کہ اُن کو چندہ دینے کی توفیق دے رہا ہے، نہ کہ یہ احسان کسی شخص پر، اللہ تعالیٰ پر یا اللہ تعالیٰ کی جماعت پر ہے کہ وہ اُسے چندہ دے رہے ہیں.پس ہر چندہ دینے والے کو یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ وہ چندے دے کر خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے کی کوشش کر رہا ہے.الہی جماعتوں کے لئے مالی قربانی انتہائی اہم چیز ہے.اس لئے میں نے تمام جماعتوں کو یہ کہا ہے کہ نو مبائعین اور بچوں کو وقف جدید اور تحریک جدید میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کریں، چاہے ایک پیسہ دے کر کوئی شامل ہوتا ہو، تاکہ انہیں عادت پڑے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں.چندوں کی اہمیت کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے، اسی واسطے علم تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اُس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اُس سے مراد مال ہے.یہی وجہ ہے کہ حقیقی انتقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا: لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : 93) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیزترین چیز نہ خرچ کرو گے کیونکہ مخلوق الہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوق خدا کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بڑوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا.جبتک انسان ایثارنہ
خطبات مسرور جلد 11 463 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے.دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثارضروری شے ہے اور اس آیت میں لَن تَنَالُوا الْبِرِّحَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے.ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی میں لہی وقف کا معیار اور متک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور گل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے.“ 66 ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 368-367 مطبوعہ ربوہ ) پس سیکرٹریانِ مال کو اس طریق پر افراد جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے کہ جب مالی قربانی ہو تو تقویٰ اور ایمان پختہ ہوتا ہے.اسی طرح مربیان کو بھی اس بارے میں جب بھی موقع ملے نصیحت کرنی چاہئے.اس کے لئے مسلسل توجہ کی ضرورت ہے.پس ہر سطح پر سیکرٹریانِ مال کو فعال ہونے کی ضرورت ہے.سیکرٹریانِ مال کا کام ہے کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں اور ہر فرد تک اُن کی ذاتی approach ہو.یہ نہیں کہ ذیلی تنظیموں کے سپرد کر دیا جائے کہ ذیلی تنظیمیں اس میں مدد کریں.ذیلی تنظیمیں صرف اس حد تک مدد کریں گی کہ وہ اپنے ممبران کو تلقین کریں.اس سے زیادہ سیکر ٹر یان مال کی مدد ذیلی تنظیم کا کام نہیں ہے.ذیلی تنظیمیں اپنے ممبران کو توجہ دلا سکتی ہیں کہ سیکرٹریان مال سے تعاون کریں اور چندے کی روح کو سمجھیں.بہر حال چندے کی روح کو سمجھانا تو ذیلی تنظیموں کا کام ہے.لیکن سیکرٹریانِ مال اس بات سے بری الذمہ نہیں ہو جاتے کہ ہم نے ذیلی تنظیموں کو کہا تو انہوں نے ہماری مدد نہیں کی.یہ ذمہ داری اُن کی ہے اور اُنہی کو نبھانی پڑے گی.سیکرٹریانِ مال کا کام ہے کہ ہر مقامی سطح پر ، ہر گھر تک پہنچنے کی کوشش کریں.اب تو فون ہیں ، دوسرے ذریعے ہیں ، سواریاں ہیں.یہاں یورپ میں تو اور بھی زیادہ بڑے وسائل ہیں.پاکستان میں ایسے سیکرٹریانِ مال بھی تھے جو دن کو اپنا کام کرتے تھے اور پھر شام کے وقت کام ختم کر کے رات کو گھروں میں پھرتے تھے.بڑے شہر ہیں، کراچی ہے لاہور ہے سائیکل پر سوار ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہیں اور نصیحت کر رہے ہیں، اس طرف توجہ دلا رہے ہیں.تو یہاں تو اب بہت ساری سہولتیں آپ کو میسر ہیں اور پھر بھی کام نہیں کرتے.بلکہ بعض سیکرٹریان مال کی یہاں بھی مجھے شکایات پہنچی ہیں کہ اُن کے اپنے چندے معیاری نہیں ہیں.اگر اپنے چندے معیاری نہیں ہوں گے تو دوسروں کو کیا تلقین کر سکتے ہیں.اور پیار اور نرمی سے یہ کام کرنے والا ہے.مالی قربانی کی اہمیت واضح کریں.بعض سخت ہو جاتے ہیں.ایک دفعہ کوئی انکار کرتا ہے تو دوسری دفعہ جائیں ، تیسری دفعہ جا ئیں، چوتھی دفعہ جائیں لیکن ماتھے پر
خطبات مسرور جلد 11 464 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء بل نہیں آنا چاہئے.دینے والے بھی یہ یاد رکھیں کہ کسی شخص کو یہ زعم نہیں ہونا چاہئے کہ شاید اس کے چندے سے نظام جماعت چل رہا ہے اور اس لئے سیکرٹری مال بار بار اُس کے پاس آتا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ کبھی مالی تنگی نہیں آئے گی اور کام چلتے رہیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.ہاں آپ کو فکر تھی تو اس بات کی تھی کہ مال کا خرچ جو ہے وہ صحیح رنگ میں ہوتا ہے کہ نہیں؟ (ماخوذ از رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 319) اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ خرج حتی الوسع صحیح طریقے پر ہو.بعض جگہ خرچ میں لا پرواہی ہو تو توجہ بھی دلائی جاتی ہے.جماعت میں آڈٹ کا نظام بھی اس لئے قائم ہے.اور پھر یہ امیر جماعت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اخراجات پر گہری نظر رکھے.یہ نہیں کہ جو بل آیا اُس کو ضرور پاس کر دینا ہے.آڈٹ کے نظام کو فعال کرے اور اس طرح فعال کرے کہ آڈیٹر کو آزادی ہو کہ جس طرح وہ کام کرنا چاہتا ہے اپنی مرضی سے کرے.اُس کو پورے اختیار دیئے جائیں.خرچ کے بارے میں میں بتادوں کہ ایم ٹی اے کا ایک بہت بڑا خرچ ہے اور ایم ٹی اے کے لئے مذ تربیت کے لحاظ سے علیحدہ تحریک بھی کی جاتی ہے.گو کہ اب اخراجات اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ صرف اتنی رقم سے تو ایم ٹی اے کے خرچ نہیں چل سکتے.تو جو جماعت کا باقی مجموعی بجٹ ہے اُس میں سے بھی رقم خرچ کی جاتی ہے کیونکہ ساری دنیا میں ایم ٹی اے کے لئے ہمارے چار پانچ سیٹلائٹ کام کر رہے ہیں.تو اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.لوگوں کو توجہ کرنی چاہئے.اگر جلسے کے دوسرے دن کی تقریر کو غور سے سنیں، جو یہاں یوکے(UK) میں میں کرتا ہوں تو ہر ایک کو پتہ چل جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے پیسے میں کتنی برکت ڈالی ہوئی ہے اور کس طرح کام کی وسعت ہو رہی ہے اور کس طرح کام کا پھیلاؤ ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر سال اس پیسے کو کتنے پھل لگا رہا ہے اور کس طرح لگا رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سب اخراجات احباب جماعت کی مالی قربانیوں سے ہوتے ہیں.اس کے علاوہ بعض انتظامی باتوں کی طرف بھی میں آج توجہ دلانا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ خلیفہ وقت کے خطبات کا سننا بھی بہت ضروری ہے.یا دوسری باتیں جو مختلف وقتوں میں کی جاتی ہیں اُن پر غور کرنا اور نوٹ کرنا بڑا ضروری ہے.عہد یدار جہاں احباب جماعت کو یہ توجہ دلائیں وہاں عہد یداران خود بھی اس طرف توجہ دیں.امیر جماعت کا خاص طور پر یہ کام ہے کہ خطبات میں اگر کوئی
خطبات مسرور جلد 11 465 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء ہدایت دی گئی ہے اور اگر کوئی تربیت کا پہلو ہے تو فوراً اُسے نوٹ کریں اور صدران جماعت کو سرکلر کریں.اور پھر باقاعدگی سے اس کی نگرانی ہو کہ کس حد تک اُس پر عمل ہو رہا ہے.ہوسکتا ہے کہ بعض اور جماعتیں بھی یہ کرتی ہوں لیکن رپورٹ کا جہاں تک تعلق ہے ابھی تک صرف امریکہ کی جماعت کے امیر ہیں جو با قاعدگی سے یہ نوٹ کرتے ہیں اور پھر سرکلر بھی کرتے ہیں اور کوئی بھی بات جب دیکھیں کہ خطبہ میں کی گئی ہے، کوئی ہدایت دی گئی ہے تو آگے پہنچاتے ہیں.اور باقیوں کو بھی چاہئے کہ اس پر عمل کریں.یوکے(UK) تو ایک چھوٹا سا ملک ہے.اگر اس بارے میں یہاں صحیح رنگ میں کام کیا جائے تو سب جماعتوں سے بڑھ کر یہاں بہترین نتائج نکل سکتے ہیں.اس کے علاوہ مرکز سے یا میری طرف سے مختلف ہدایات جو جاتی ہیں وہ بھی آپ کا کام ہے کہ فوری طور پر جماعتوں کو پہنچائی جائیں اور پھر اُس کا follow up بھی کیا جائے، feed back بھی لی جائے.اسی طرح نیشنل امیر جماعت ریجنل امیر بنا کر صرف اس بات پر نہ بیٹھ جائیں کہ ریجنل امیر کام کر رہے ہیں اور تمام کام کا انحصار انہی پر ہو، یہ نہیں ہونا چاہئے صحیح طریق نہیں ہے.اس سے جو بات آب تک میری نظر میں آئی ہے یہ ہے کہ ملکی مرکز اور جماعتوں میں دُوری پیدا ہورہی ہے، بلکہ یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ہم مرکز تک یعنی ملکی مرکز تک براہ راست نہیں پہنچ سکتے.یہ احساس بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے.اس لئے یہاں بھی اور دوسری جگہ بھی امیر جماعت اس بات کی پابندی کریں کہ سال میں کم از کم دو مرتبہ صدر ان کے ساتھ میٹنگ ہو اور کام اور ترقی کی رفتار کا جائزہ لیا جائے اور جوصدران باوجود توجہ دلانے کے کام نہیں کرتے اُن کی رپورٹ مجھے بھجوائیں.اسی طرح سیکرٹریان مال، سیکرٹریان تربیت، سیکرٹریان تبلیغ بھی ہیں.اگر دو نہیں تو سال میں کم از کم ایک میٹنگ ان کے ساتھ ضروری ہونی چاہئے اور ان کے کاموں کا جائزہ لیں.اگر یہ سیکرٹریان فعال ہو جا ئیں تو باقی شعبوں کے سیکرٹریان ہیں، یا باقی شعبوں کے جو بہت سارے مسائل ہیں وہ بھی خود بخو دحل ہو جائیں گے.پس آج سے نیشنل امیر اپنے پروگرام بنائیں کہ ہر جماعت تک انہوں نے کس طرح پہنچ کر جماعتی نظام کو فعال کرنا ہے.یو کے (UK) اور چھوٹے ممالک جو ہیں اُن میں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے.مرکز میں اور کسی بھی ریجن میں میٹنگ کے لئے جمع کیا جا سکتا ہے.جو بڑے ممالک ہیں ، امریکہ کینیڈا وغیرہ ہے، وہ اس سلسلہ میں اپنا کوئی ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ کس طرح وہ ذاتی رابطہ ہر سطح کی جماعت کو فعال
خطبات مسرور جلد 11 466 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء بنانے کے لئے کر سکتے ہیں.ایک اور اہم بات جو پہلے بھی میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں یہ ہے کہ افرادِ جماعت سے پیار اور نرمی کا سلوک کریں.یوکے(UK) شوری پر جو میں نے باتیں کی تھیں، یو کے شوری کا مختصر سا خطاب تھا، وہ ہر عہد یدار تک پہنچنا چاہئے.تبشیر اس بارے میں انتظام کرے اور ہر جگہ یہ پہنچا دیں.انتظامی امور میں ایک اور بات یہ کہنی چاہتا ہوں کہ عہدیدار اپنے اپنے شعبہ کے قواعد کے بارے میں ضرور پڑھیں.قواعد میں ہر ایک شعبہ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اُس کے کیا فرائض ہیں؟ کیا اختیارات ہیں؟ ایک ہدایت نیشنل امیر کے لئے ہے کہ وہ ریجنل امیر کو جو کام اور اختیارات دیں اُس کے بارے میں مرکز کو بھی لکھیں اور بتائیں.اس پر کم از کم میرا خیال ہے کہ کہیں بھی عمل نہیں ہورہا.کیونکہ کبھی ایسا خط مجھے نہیں آیا کہ ہم نے فلاں ریجن میں امیر مقرر کئے ہیں اور اُن کے یہ یہ اختیارات ہیں.اس پر قاعدہ نمبر 177 لکھا ہوا ہے اور بڑا واضح ہے.اب اس بارے میں توجہ کی ضرورت ہے.امراء خاص طور پر قواعد کی کتاب میں سے 215 سے 220 تک جو قواعد ہیں وہ ضرور پڑھیں اور خاص طور پر جب کسی معاملہ میں فیصلہ کرنا ہو تو ان کو ذہن میں رکھیں اور ان پر عمل کریں.اے اسی تعلق میں مبلغین کو بھی میں یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور ایک ذمہ داری اُن کی یہ بھی ہے کہ جماعتوں میں قرآن کریم پڑھانے کا انتظام کریں.خود اگر کبھی دورے پر ہوں تو ایسے استاد تیار کریں جو بچوں اور قرآن کریم ناظرہ نہ جاننے والوں کو قرآنِ کریم پڑھا سکیں اور یہ کلاسیں با قاعدگی سے ہونی چاہئیں.یہ نہیں کہ ہفتہ میں ایک دن ہو گئی یا ہفتہ میں دو دن ہو گئی.مغرب یا عشاء کے وقت جب بھی وقت ہو پڑھائیں.اگر مربیان اور مبلغین دورے پر نہ ہوں اور خود موجود ہوں تو جو جو اُن کے سینٹر ہیں وہاں یہ کلاسیں لیں.کئی شکایات آ رہی ہیں کہ ہمارے بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانے والا کوئی نہیں اور ہمیں مجبوراً بعض دفعہ غیر احمدیوں کے پاس جانا پڑتا ہے.اسی طرح جن کو قاعدہ پڑھانے کی ضرورت ہے، انہیں قاعدہ پڑھا ئیں.اس طرح بھی بچوں کو آپ لوگ مسجد سے attach کریں گے، مرکز سے attach کریں گے تو تربیتی لحاظ سے بھی یہ چیز بڑی مفید ہوگی اور قرآن کریم کے پڑھانے کا جو فائدہ ہے وہ تو ظاہر وباہر ہے ہی.مبلغین کے لئے یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عموماً تین چار سال بعد اُن کا تبادلہ ہوتا ہے.اگر اس سے پہلے بھی ضرورت ہو تو جس ملک میں ہوں وہیں اسی جگہ ہو جاتا ہے.اگر اس طرح کی کبھی صورتحال ا قواعد تحریک جدید کے 2008 Revised Edition کے مطابق یہ قواعد 259 تا 264 درج ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 467 خطبه جمعه فرموده مورخه 16 اگست 2013ء پیدا ہو تو بعض ملکوں سے ہمیں یہ شکایت ہے کہ اُن کو بڑا انقباض ہوتا ہے.ایسے تبادلوں کو بخوشی تسلیم کرنا چاہئے.اللہ کے فضل سے یہاں یو کے (UK) کے مبلغین میں یہ بات ابھی تک میرے علم میں نہیں آئی.یہ بھی اہم بات یاد رکھیں کہ اگر کسی عہدیدار یا اگر امیر کو بھی کسی بات کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہو مثلاً اگر کوئی ایسا معاملہ ہے جو جماعتی روایت کے خلاف ہے یا جس میں کوئی شرعی روک ہے تو ادب کے دائرے میں اور نرمی کے ساتھ توجہ دلائیں.اگر بات نہ مانی جائے اور جماعتی نقصان ہو رہا ہو یا شرعی حکم ٹوٹ رہا ہو تو پھر مجھے اطلاع کر دیں.کسی قسم کی آپس میں بحث اور ایک ضد بازی نہیں شروع ہو جانی چاہئے.کیونکہ یہ پھر نظام جماعت میں تفرقہ ڈالنے کا موجب بنتی ہے.بیشک میں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مربیان دینی مسائل میں امراء کو توجہ دلا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے اس قاعدے کی بھی پابندی کرنی ضروری ہے یا ایسے اخلاق کی بھی پابندی کرنی ضروری ہے کہ احسن طریق پر اور بغیر کسی ایسے ماحول کو پیدا کئے جس سے جماعتی نظام متاثر ہو رہا ہو، یہ نصیحت کی جائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی احمدی بننے اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.ابھی نماز جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو عزیزہ تانیہ خان کا ہے جو آصف خان صاحب سیکرٹری امور خارجہ کینیڈا کی اہلیہ تھیں.6 اگست 2013ء کو 38 سال کی عمر میں وفات پا گئیں - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ لبنانی نژاد کینیڈین خاتون تھیں.1998ء میں انہوں نے احمدیت قبول کی.بڑی فعال داعی الی اللہ تھیں تبلیغ کا بڑا شوق تھا.نیشنل سیکرٹری تبلیغ لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے علاوہ مختلف حیثیتوں سے لوکل اور نیشنل لیول پر جماعتی خدمت کی ان کو توفیق ملی.ایم ٹی اے کینیڈا کی مستقل مبر تھیں.میڈ یا پر بھی اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے ہمیشہ مستعد رہتی تھیں.اس مقصد کے لئے آپ نے کینیڈا کے طول وعرض کے علاوہ امریکہ کا سفر بھی اختیار کیا.اپنا مؤقف ہر فورم پر بڑی خوبصورتی اور نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا کرتی تھیں.پیشے کے لحاظ سے ایک ٹیچر تھیں اور ابھی حال ہی میں اُن کی تقرری وائس پرنسپل کے طور پر بھی ہوئی تھی.طلباء میں انسانی قدریں پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتی تھیں.ٹیچر کی حیثیت سے کئی ایوارڈ حاصل کئے.خلافت کے ساتھ ان کا بڑا محبت اور وفا کا تعلق تھا.ہر تحریک پر لبیک کہنے والی تھیں.پردہ کی پابند اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار.اپنے اعضاء بھی انہوں نے وفات کے بعد donate کرنے کی وصیت کی ہوئی تھی.غریبوں کی بڑی ہمدرد، بیوی بھی مثالی، ماں بھی مثالی، ہر رشتہ کو خوبصورتی
خطبات مسرور جلد 11 468 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 16 اگست 2013ء نبھانے والی تھیں.پاکستانی سے شادی ہوئی تھی لیکن انہوں نے غیر معمولی طور پر اپنے آپ کو adjust کیا.اسلامی اقدار کی محافظ، بڑی مخلص خاتون تھیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں.ان کی تین بچیاں ہیں جو وقف نو میں شامل ہیں.ان کا حلقہ کافی وسیع تھا.وہاں صوبے کی جو خاتون وزیر اعلیٰ ہے وہ بھی ان کے جنازے پر آئی ہوئی تھیں.ممبران پارلیمنٹ آئے ہوئے تھے.ممبر، کونسلر ، سکول کے اساتذہ،طلباء، غیروں کی بھی بڑی کثیر تعدادتھی.بڑی مشہور اور ہر دلعزیز تھیں.چھوٹے بڑے ہر ایک سے میں نے ان کی تعریف سنی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، درجات بلند فرمائے اور ان کی بچیوں کو بھی اور خاوند کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شماره 35-36 مورخہ 30 اگست تا 12 ستمبر 2013 صفحہ 13 تا صفحه 16)
خطبات مسرور جلد 11 469 34 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اگست 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 23 اگست 2013ء بمطابق 23 ظہور 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگلے جمعہ سے انشاء اللہ جلسہ سالانہ یو کے (UK) شروع ہو رہا ہے.جلسہ شروع ہونے سے بہت پہلے جلسے کا کام شروع ہو جاتا ہے.یوکے(UK) کا جلسہ سالانہ ایسا جلسہ ہے جہاں جلسے کے عارضی انتظامات کر کے چند دنوں کے لئے ایک عارضی شہر ہی بنا دیا جاتا ہے.پاکستان میں جلسے ہوتے تھے تو وہاں بھی لنگر خانوں کا ایک مستقل انتظام تھا، کئی لنگر تھے.اسی طرح رہائشگاہیں بھی کافی حد تک مستقل ہو گئی تھیں.اس سے پہلے جب سکول اور کالج جماعت کے تھے تو وہ رہائشگاہ ہوتی تھی.لیکن جب حکومت نے لے لئے تو پھر دوسری رہائشگاہیں بن گئیں.گو بہت زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے عارضی رہا ئشگاہیں خیمے لگا کر بھی بنائی جاتی تھیں.اس کے علاوہ ربوہ کے مکین مہمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے گھروں میں سمو لیتے تھے.وہ جس جس جگہ پر ہوتے تھے اُن کا کھانا وغیرہ ہنگر خانوں سے آتا تھا.بہر حال ربوہ کے جلسے کے بعض مستقل انتظامات بھی تھے اور ایک لمبے تجربے سے، علاوہ مستقل انتظامی ڈھانچے کے، ربوہ کے مکین بھی انتظامات کے ماہر ہو چکے تھے.اللہ کرے کہ اُن کی یہ رونقیں اور یہ تربیتی ماحول اور یہ خدمت کے جذبے اُن کی زندگی کا دوبارہ حصہ بن جائیں.اسی طرح اب قادیان میں بھی بہت سے مستقل انتظامات ہو چکے ہیں.عارضی طور پر اب زیادہ جلسہ گاہ کے انتظامات ہی ہیں ، جلسہ گاہ ہی ہے جو زیادہ انتظامات چاہتی ہے.بیشک لنگر خانوں کے لئے غیر احمدیوں میں سے زائد لیبر یا غیر مسلموں میں سے لیبر لانی پڑتی ہے.کھانے پکوائی کے لئے ، روٹی پکوانے کے لئے پکانے والے لانے پڑتے ہیں.لیکن لنگروں کا مستقل وہاں بھی انتظام ہے.
خطبات مسرور جلد 11 470 خطبه جمعه فرموده مورخہ 23 اگست 2013ء اسی طرح جرمنی میں بھی ہال وغیرہ میسر آنے کی وجہ سے بہت سے مستقل انتظامات موجود ہوتے ہیں.کھانا پکانے کا انتظام کرنا پڑتا ہے.روٹی وہ لوگ بازار سے لے لیتے ہیں جس کو تازہ روٹی سمجھ کر کھاتے ہیں.لیکن میرے خیال میں وہ بھی شاید ایک ہفتہ پرانی ہوتی ہے.بہر حال اگر نہیں ہوتی تو جرمنی والے پیغام پہنچانے میں بڑے تیز ہیں، شام تک مجھے پیغام پہنچ جائے گا کہ تازہ ہوتی ہے کہ نہیں.اسی طرح باقی دنیا کے جلسوں کے انتظامات کا حال ہے.لیکن برطانیہ کا جلسہ جو خلافت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے اب انٹر نیشنل جلسہ بن چکا ہے، اس کے گزشتہ سال تک تو الف سے لے کر یاء تک تمام انتظامات عارضی انتظامات تھے.پہلے اسلام آباد میں جو جلسے ہوتے تھے تو وہاں کھانا پکانے کے لئے ایک مستقل انتظام تھا.اسی طرح کچھ حد تک روٹی کی بھی ضرورت پوری ہو جاتی تھی کہ وہاں اپنی روٹی پکانے کی مشین تھی.لیکن حدیقۃ المہدی میں جب سے جلسے منتقل ہوئے ہیں، گزشتہ دو تین سالوں سے یہاں شروع ہوئے ہیں تو کھانا بھی یہاں عارضی لنگر میں پکتا تھا کیونکہ اسلام آباد سے کھانا لانے میں یہی تجربہ ہوا تھا کہ دقت ہوتی ہے.کچھ روٹی اسلام آباد میں پک جاتی تھی اور کچھ بازار سے خریدی جاتی تھی.لیکن اس وجہ سے بہر حال بہت دقت محسوس ہو رہی تھی.اس لئے یہاں کونسل کے ساتھ اس بات کی کوشش ہوتی رہی کہ ہمیں حدیقۃ المہدی میں مستقل کچن بنانے کی اجازت مل جائے کیونکہ مارکیاں لگا کر جو عارضی کچن لگانا پڑتا ہے یہ بڑا دقت طلب بھی ہے اور بعض لحاظ سے خطر ناک بھی.بہر حال کونسل نے اس سال مہر بانی کی اور وہاں مستقل کچن کی اجازت مل گئی اور سٹوریج (storage) کے لئے جو شیڈز (sheds) بنے ہوئے تھے وہاں اُن میں ایک بڑے شیڈ (shed) کو بڑے اچھے طریقے سے اندر اور باہر سے ٹھیک کر کے لنگر کا مستقل کچن تیار ہو گیا.جس میں امید ہے اب حسب ضرورت کھانا انشاء اللہ تعالیٰ پک جائے گا.لیکن پھر روٹی کا مسئلہ تھا.جب میں نے اس طرف توجہ دلائی تو یہاں انتظامیہ کو، امیر صاحب وغیرہ کو یہی خیال تھا کہ حسب سابق جس طرح بازار سے روٹی خریدتے ہیں، یا کچھ اسلام آباد سے پک کے آجاتی ہے، وہی ہو.اُن کو میں نے کہا کہ نئی مشین لگا ئیں تو اُس کے خرچ کی وجہ سے ان کے کچھ تحفظات تھے لیکن بہر حال جب میں نے کہا مرکز آپ کو قرض دے دیتا ہے تو پھر ان کو تھوڑی سی غیرت آگئی اور انہوں نے خرچ کر لیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لبنان سے روٹی پلانٹ منگوایا گیا اور پاکستان سے ہمارے ایک مخلص احمدی دوست ہیں جنہوں نے وہاں لبنان جا کر یہ مشین خریدی اور یہاں آکر لگائی بھی.ابھی بھی وقت دے رہے ہیں.ان کو قادیان اور ربوہ میں بھی مشین لگانے کا تجربہ تھا.اس لئے بڑے احسن طریقے سے یہاں یہ کام ہو گیا.
خطبات مسرور جلد 11 471 خطبه جمعه فرموده مورخه 23 اگست 2013ء لنگر کے لحاظ سے اب حدیقہ المہدی کے جلسے کے انتظام میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ انتظام ہے کہ وہاں روٹی پکوائی کے لئے بھی اور کھانا پکانے کے لئے بھی مستقل انتظام ہو گیا.بہر حال ہم کونسل کے بھی شکر گزار ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی جزادے جنہوں نے اس کی اجازت دے دی.لیکن ابھی بھی باقی دنیا کے جلسوں کی نسبت یہ انفرادیت اس جلسے کی قائم ہے کہ بہت سے عارضی انتظامات تقریباً تیس ہزار کی آبادی کو سنبھالنے کے لئے کرنے پڑتے ہیں.خاص طور پر اگر بارش ہو جائے تو رہائش اور راستوں کا مسئلہ رہتا ہے.راستوں کا مسئلہ تو ایک حد تک ٹریک (Track) بچھا کر حل کر لیا جاتا ہے لیکن جو رہائش ہے، اس کے لئے خیمے لگائے جاتے ہیں، یا چھوٹی مارکیاں ہیں، کھانا کھلانے کا انتظام ہے اور بعض دوسرے مسائل ہیں وہ ابھی بھی قائم ہیں.بہر حال ایک وقت آئے گا کہ جب انشاء اللہ تعالیٰ یہ مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور بعید نہیں کہ یہ عارضی شہر ہی جماعت احمدیہ کا ایک مستقل شہر بن جائے.جیسا کہ میں نے کہا شہر بسانے کے لئے عارضی انتظامات ہیں.اس عارضی انتظام کا بہت سا انتظام اور بہت بڑا کام وقار عمل کے ذریعہ سے والنٹیئر ذکرتے ہیں، خدام کرتے ہیں، انصار کے اچھی صحت والے لوگ کرتے ہیں.گزشتہ جمعہ کو اتفاقاً میں حدیقہ المہدی گیا تو وہاں اُس وقت بھی علاوہ اُن لوگوں کے جو روٹی پلانٹ لگنے کے بعد اُس کے تجربات میں مصروف تھے، نوجوان، بچے اور بڑے بھی اپنے کاموں کے لئے وہاں پہنچے ہوئے تھے.اور جلسے کے انتظامات کو دو ہفتے ، تین ہفتے پہلے ہی احسن رنگ میں انجام دینے کی کوشش کر رہے تھے.یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ روٹی پلانٹ لگانے کا کام بھی کسی باہر سے آنے والی کمپنی نے نہیں کیا بلکہ تمام کام ہمارے والنٹیئر ز نے ، ہمارے انجنیئر ز نے اور ٹیکنیشنز نے اور دوسرے کارکنوں نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ اُن سب کو جزا دے.یہاں کے معیار بھی ایسے ہیں جن کو پورا کرنا بہت ضروری ہے.انڈیا یا پاکستان کی طرح یہ نہیں کہ جس طرح چاہیں کام کر لیں اور چیکنگ کوئی نہیں.عارضی کام کر لیا، تاریں لٹکی ہوئی ہیں تو لٹکی رہ جائیں یا بعض اور اصولی باتیں ہیں.یہاں تو ہر قدم پر چیکنگ ہوتی ہے.حکومت کا ادارہ یہاں آ کر دیکھتا ہے، منظوری دیتا ہے، اُس کے بعد پھر آپ اگلا کام شروع کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے روٹی پلانٹ اور کچن کی جو بھی شرائط تھیں اُن کے معیار کے مطابق وہ پوری ہوگئیں اور اجازت بھی مل گئی.بہر حال کہنے کا یہ مقصد ہے کہ یہاں کے عارضی انتظامات کی وجہ سے باقی جگہوں کی نسبت محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی والنٹیئر زبڑے ذوق و شوق سے اپنے کام کرتے ہیں.یہ روح کہ جماعت کی
خطبات مسرور جلد 11 472 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اگست 2013ء خاطر وقت دینا ہے احمدی کا خاص نشان بن چکی ہے.ہر معاملے میں احمدی اپنی قربانیاں پیش کرتے ہیں.انجنیئر زایسوسی ایشن ہے تو وہ اپنے کام کر رہی ہے.ڈاکٹر ز کی ایسوسی ایشن ہے تو وہ اپنے کام کر رہی ہے.دوسرے متفرق شعبے ہیں تو اُن کے لوگ اپنے وقت دیتے ہیں.علاوہ جلسوں کے کاموں کے سارا سال یہ کام چل رہے ہوتے ہیں.جماعت احمدیہ کا ایک خاصہ ہے کہ یہاں والنٹیئر کام بہت زیادہ ہوتا ہے.سالہا سال کی تربیت کی وجہ سے جلسے کے مہمانوں کی خدمت تو احمدی دنیا میں خاص طور پر ایک احمدی کا طرہ امتیاز ہے.بچے، جوان، بوڑھے، مرد، عورتیں سب جلسے کے دنوں میں خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں.اور اپنے ذمہ جو بھی اُن کے مفوضہ فرائض ہیں اُن کی بجا آوری میں بڑے سرگرمی سے کوشاں ہوتے ہیں اور ہونا چاہئے.کیونکہ جلسے کے مہمان تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں.گویا یہ مہمان نوازی اعلیٰ خلق بھی ہے اور دین بھی ہے.یہاں یہ بھی بتا دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کا معیار کیا تھا ؟ تاکہ ہمارے معیار مزید اونچے اور بہتر ہوں.ایک دن آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ، آپ آرام فرما رہے تھے، ایک مہمان آ گئے.آپ کو پیغام بھیجا گیا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا ”میں نے سوچا کہ مہمان کا حق 66 ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے.اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 163 مطبوعہ ربوہ) پس آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے ہمیں یہی معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس مہمان نوازی کا آج ہمیں موقع دیا جا رہا ہے وہ نہ صرف مہمان ہیں بلکہ ایک دینی مقصد کے لئے سفر کر کے آنے والے مہمان ہیں.اس لئے آرہے ہیں کہ جلسے کے تین دنوں میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی باتیں سنیں گے.اس لئے آ رہے ہیں کہ اپنی روحانی اور دینی تربیت کے سامان کریں گے.اس لئے آ رہے ہیں کہ آپس میں پیار اور بھائی چارے اور محبت کی فضا کو قائم کریں گے.بہت سے مہمان ایسے بھی ہیں جو بڑی تکلیف اُٹھا کر آتے ہیں.بعض بڑے اچھے حالات میں اپنے گھروں میں رہنے والے یہاں آتے ہیں تو یہاں دنیاوی آسائش کے لحاظ سے ان دنوں میں تقریباً تنگی میں گزارہ کرتے ہیں لیکن پھر بھی آتے ہیں.بعض غریب مہمان ہیں وہ اپنے پر بوجھ ڈال کر دور دراز ملکوں سے صرف جلسے کی برکات حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آتے ہیں.خلیفہ وقت سے ملنے اور اُس کی باتیں سننے کے شوق میں آتے ہیں.اب بیشک ایم ٹی اے نے دنیائے احمدیت کو بہت قریب کر دیا ہے لیکن
خطبات مسرور جلد 11 473 خطبه جمعه فرموده مورخه 23 اگست 2013ء پھر بھی جلسے کے ماحول کا اپنا ایک علیحدہ اور الگ اثر ہے.پس ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ آج کل کونسی تکلیف ہے جو یہ مہمان اٹھا ر ہے ہیں.بعض بڑی عمر کے ہیں جو مختلف عوارض کے باوجود تکلیف اُٹھاتے ہیں اور سفر کرتے ہیں.بعض جیسا کہ میں نے کہا، اپنے گھر کی آسائشوں کو چھوڑ کر دین کی خاطر سفر کرتے ہیں ، مارکی میں سوتے ہیں اور سادہ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں.پس ایسے مہمانوں کا ہم پر بہت حق ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت ایسے مہمانوں کی ہوتی ہے جو صرف اور صرف جلسے کی غرض سے آتے ہیں اور اب تو سفر کے اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں لیکن خرچ کرتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے.پس ان مہمانوں کا یہ احترام کرنا ہم پر فرض ہے.یہ بہت ہی قابلِ احترام مہمان ہیں جن کی نیت اللہ اور رسول کی رضا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور موقع پر مہمانوں کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں.ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں.اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الا کرام جان کر تواضع کرو، فرمایا تم پر میرا احسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو.ان سب کی خوب خدمت کرو.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 492 مطبوعہ ربوہ ) پس جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں اور دینی غرض سے آئے ہیں، جن کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے تو ان کے لئے پھر ہمیں ایک توجہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے حسنِ ظن کا پاس کرنے اور خیال رکھنے کی ضرورت ہے.اور ہر مہمان کے لئے خدمت کا جذبہ ہمارے دل میں ہونا چاہئے.اور دل میں ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہئے کہ مہمان کا حق ہوتا ہے.جہاں جہاں ہماری ڈیوٹیاں ہیں ہم نے اس حق کے ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے.ہر کارکن اور ہر ڈیوٹی دینے والے کے دل میں یہ ہونا چاہئے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حسن ظن پر پورا اتریں.ہم یہ کہنے کے قابل ہوں کہ اے خدا کے مسیح! اور اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ! تیری ہر نصیحت پر ہم آج بھی عمل کرنے والے ہیں.اور ایک احمدی سے یہی توقع کی جاتی ہے.ایک صدی سے زائد کے سفر نے ہمیں آپ کے حسنِ ظن سے غافل نہیں کر دیا.آج بھی ہمارے بچے، جوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں اپنے فرائض کو نبھانے کے لئے حتی الوسع کوشش کر رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ کرتے رہیں گے.آپ کے اس خیال اور اس درد کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کوشش کرتے
خطبات مسرور جلد 11 474 خطبه جمعه فرموده مورخہ 23 اگست 2013ء رہیں گے کہ آپ نے فرمایا کہ: "میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اُس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے.فرمایا ”مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذراسی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 292 مطبوعہ ربوہ ) پس یہ بہت اہم نصیحت ہے.یہ صرف ہمارا زبانی عہد نہ ہو بلکہ عملی نمونہ ہو.اب دنیا کے مختلف ممالک میں جلسے ہوتے ہیں وہاں بھی مہمان آتے ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر دنیا کے مختلف ممالک سے مختلف قو میں جلسے پر آتی ہیں.ہر قوم اور طبقے کا معیار مختلف ہے.برداشت کا مادہ مختلف ہے.ان کے بات چیت اور جذبات کے اظہار کے طریق مختلف ہیں.ان کی ہمارے سے توقعات مختلف ہیں.ان کی ترجیحات مختلف ہیں.اس لئے ہر ایک کے ساتھ بڑی حکمت سے معاملہ کرنے کی ضرورت ہے.اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پر حکمت نصیحت ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنی چاہئے.اگر یہ سامنے ہوگی تو سب معاملے ٹھیک ہو جائیں گے کہ ”مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذراسی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے.“ اگر ہر خدمت کرنے والا اس نصیحت کو پلے باندھ لے تو کبھی جو چھوٹے موٹے مسائل پیدا بھی ہوتے ہیں، إِلَّا ماشاء اللہ وہ پیدا نہ ہوں.شکایات کبھی نہیں ہوں گی سوائے اس کے کہ کسی کا مقصد ہی شرارت کرنا ہو، تو وہاں تو بہر حال بعض دفعہ سختیاں بھی کرنی پڑتی ہیں.گزشتہ سال ایک واقعہ ہوا تھا.عورتوں کے کھانے کی دعوت کے دوران ایک خاتون مہمان جو بڑے دور دراز علاقے سے آئی تھیں کسی وجہ سے ناراض ہو گئیں.اس میں غلطی کسی کارکن کی تھی یا نہیں تھی لیکن ہمیں اس کو بہر حال تسلیم کرنا چاہئے تبھی اصلاح ہوسکتی ہے.بجائے اس کے کہ مختلف قسم کی تاویلیں پیش کی جائیں.اس مرتبہ تبشیر کے مہمانوں میں مردوں اور عورتوں دونوں طرف اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کو بھی تکلیف نہ ہو، کیونکہ یہ مختلف غیر ملکی مہمان ہوتے ہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں ، ویسے تو جیسا کہ میں نے کہا ، سب مہمان ہی مہمان ہیں.بہر حال اس شعبہ میں میں نے کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں.یہ تبدیلیاں انتظامی لحاظ سے ہیں.انتظامیہ کو بدلا ہے اور زیادہ تر واقفین کو اور واقفات ٹو کو شامل کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بھی اب اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایک انعام کیا ہے کہ بہت سارے واقفین کو اور واقفات کو اس عمر کو پہنچ چکے ہیں اور تیار ہو چکے ہیں جو اپنے کام کو سنبھال سکیں.کچھ مستقل جماعت کی خدمت کر کے سنبھال رہے ہیں اور کچھ عارضی
خطبات مسرور جلد 11 475 خطبه جمعه فرموده مورخہ 23 اگست 2013ء انتظامات میں بھی آگئے ہیں.مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ یہ معیار اس سال بہتر ہو گا.لیکن یا درکھیں کہ صرف شخصیات بدلنے سے، چہرے بدلنے سے بہتری نہیں آیا کرتی بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شاملِ حال رہے اور ہم وہ کام کریں، اُس طرح احسن رنگ میں خدمت کرنے والے ہوں جس طرح خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے اُس کی تو فیق مانگیں.اور یہ بھی دعا کریں کہ کوئی ایسا موقع پیدا نہ ہو جس میں غلط نہی پیدا ہو.مہمان نوازی کے ضمن میں اس بات کی بھی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ انگلستان کے رہنے والے احمدی اور خاص طور پر لندن میں رہنے والے احمدی یہ خیال رکھیں کہ باہر سے، یعنی بیرون از یو کے (UK) سے آنے والے مہمان اُن کے بھی مہمان ہیں.باہر سے آنے والے مہمانوں کی تعداد اب کم و بیش تین ہزار ہوتی ہے.اگر ویزے مل جائیں تو شاید اس سے بھی زیادہ ہو جائے.اس لئے یہاں کے احمدیوں میں سے کسی کی کسی کام پر ڈیوٹی ہے یا نہیں ہے اُن کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ باہر سے آنے والا ہر مہمان اُن کا مہمان ہے.کیونکہ یوکے(UK) میں رہنے والے مہمان بھی جلسے پر آئیں گے تو مہمان ہوں گے، جن کی ڈیوٹی نہیں ہے.یہاں کے رہنے والے مہمان جب کسی باہر سے آنے والے مہمان سے رابطے میں ہوں تو مجھیں کہ یو کے (UK) میں رہنے والا ہر احمدی میزبان ہے اور باہر سے آنے والا مہمان ہے.یا یہ سمجھ لیں کہ اگر بعض خاص حالات میں برطانیہ سے آئے ہوئے مہمانوں اور بیرون از برطانیہ آئے ہوئے مہمانوں کے لئے کسی ترجیح کا سوال پیدا ہوتو بیرون از برطانیہ مہمانوں کو پہلی ترجیح ملنی چاہئے اور یہاں کے رہنے والوں کو بہر حال اُن کے لئے قربانی دینی چاہئے.پس یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ بعض حالات میں مہمان ہوتے ہوئے بھی میزبان ہیں.یہ صرف ڈیوٹی والوں کا ہی کام نہیں ہے بلکہ اس سوچ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو وسیع کرتے ہوئے پھر آپ اپنے آپ کو قربانیاں دینے والا بنا ئیں اور جب یہ کچھ ہوگا تو پھر ایک خوبصورت معاشرہ ہمیں نظر آئے گا.جب ہم بعض احادیث کو دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ مہمان بننے کی بجائے میزبان ہی بنے رہیں.مہمان نوازی بھی ایک حدیث کے مطابق مومن ہونے کی نشانی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے ، وہ مہمان کی عزت واحترام کرے.(صحیح البخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمته ایاه بنفسه حدیث نمبر 6135) گو یا دوسرے لفظوں میں مہمان کی عزت و احترام نہ کرنے والا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان میں
خطبات مسرور جلد 11 476 خطبه جمعه فرموده مورخہ 23 اگست 2013ء کمزور ہے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بار بار مہمان نوازی کی طرف توجہ دلائی تو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی وجہ سے، قرآنِ کریم کے حکم کی وجہ سے، اس لئے کہ ہم اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کریں.پھر ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کو بھی بڑی نیکی فرمایا ہے.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء حدیث نمبر 6690) پس جلسے کے یہ تین دن جو ہیں ان میں متفرق نیکیاں بجالائی جاتی ہیں.ان کے علاوہ یہ بھی بہت بڑی نیکی ہے کہ دوسروں سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں.اس کے مختلف مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں.میز بانوں کو بھی پیدا ہوں گے اور مہمانوں کے لئے بھی پیدا ہوں گے.خاص طور پر ڈیوٹی دینے والے کارکنوں کو میں کہوں گا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات میں بھی ، بات چیت میں بھی ، تھکاوٹ کی وجہ سے بعض دفعہ آدمی چڑ بھی جاتا ہے تب بھی خندہ پیشانی سے پیش آئیں.اور افسران جو ہیں اپنے ماتحتوں سے بھی خندہ پیشانی سے پیش آئیں.کارکنوں کے لئے بعض دفعہ ایسے موقعے پہلے پیدا ہوتے رہے ہیں کہ بعض جگہیں مخصوص ہیں یا بعض کھانے پینے کی چیزیں مخصوص کر دی گئیں یا جہاں دفتر بنائے گئے تو فریح رکھ دیئے گئے جو صرف افسران کے لئے مخصوص کر دیئے گئے اور عام معاون اگر وہاں سے پانی بھی پی لیتا تھا تو اُس سے ناراضگی ہو جاتی تھی ، یہ چیزیں ہمارے اندر نہیں ہونی چاہئیں.بہر حال ڈیوٹی کے دوران جس طرح میں نے کہا، کئی باتیں ہو جاتی ہیں، کام کرتے ہوئے اونچ نیچ ہو جاتی ہے.لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم نے خوش اخلاقی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا ہے.مہمانوں سے تو خوش اخلاقی سے پیش آئیں گے ہی ، اگر آپس میں بھی خوش خلقی کا مظاہرہ کریں، تو مہمانوں پر بھی اس پورے ماحول پر بہت اچھا اثر ہوگا اور ماحول مزید خوشگوار ہوگا.جو غیر مہمان آئے ہوتے ہیں اُن پر بھی بڑا اچھا نیک اثر ہوگا اور پھر اسی طرح خود بھی اپنی نیکیوں میں اضافہ کر رہے ہوں گے.خوش خلقی کا مظاہرہ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن رہے ہوں گے.پھر یہ بات بھی ہر ڈیوٹی دینے والے کو ، ہر کارکن کو یاد رکھنی چاہئے کہ مہمان نوازی کوئی احسان نہیں ہے بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ مہمان کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ حقوق کی ادائیگی کے
خطبات مسرور جلد 11 477 خطبه جمعه فرموده مورخه 23 اگست 2013ء بارے میں کیا فرماتا ہے؟ ایک جگہ فرمایاوَاتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تبلد تبذيرا ( بنی اسرائیل : 27) اور قرابت دار کو بھی اُس کا حق دو اور مسکین کو بھی اور مسافر کو بھی ، اور فضول خرچی اور اسراف نہ کرو.یہاں تین قسم کے لوگوں کے حقوق کی بات ہو رہی ہے، لیکن آج کے مضمون کے حوالے سے مسافر کے حق کی طرف توجہ دلاؤں گا.مسافروں کی بھی کئی قسمیں ہیں لیکن جو خدا تعالیٰ کی خاطر اور خدا تعالیٰ کے کہنے سے سفر کرتے ہیں ، وہ سب سے زیادہ خوش قسمت مسافر ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایسی مجلس جس میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا ذکر ہورہا ہو اُس مجلس میں بیٹھنے والوں پر فرشتے بھی سلامتی اور دعاؤں کے تحفے بھیجتے ہیں.(صحیح مسلم کتاب الذكر و الدعاء...باب فضل مجالس الذكر حدیث نمبر 6839) ہمارے جلسے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی ہی مجالس ہیں.اور ان مجلسوں میں شامل ہونے کے لئے سفر کر کے آنے والوں کا مقام بھی بہت بلند ہے جو اس نیت سے آتے ہیں کیونکہ فرشتے اُن کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ایسے مسافروں کی خدمت اور مہمان نوازی کا حق ادا کرنے والے ہوں جن کا حق خدا تعالیٰ نے قائم فرما دیا.یقینا اُس کی ادائیگی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو گا.اور جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرلے اُس سے زیادہ خوش قسمت اور کون ہوسکتا ہے؟ پس اگر غور کریں تو یہ جلسے کا بھی عجیب نظام ہے کہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلتے چلے جارہے ہیں.پس جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ خدمت کے جذبے کی روح کو ہر خدمت کرنے والے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.گو اس جذبے سے خدمت کرتے بھی ہیں لیکن اس میں مزید بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ڈیوٹی دینے والے صرف اس لئے ڈیوٹی نہ دیں کہ جماعت کی طرف سے مطالبہ آیا ہے کہ چلو کام کرنے والوں کا ہاتھ بٹا دو.صدر خدام الاحمدیہ نے کہہ دیا ہے کہ وقار عمل کرنا ہے اس لئے آ جاؤ، لجنہ کی صدر نے کہہ دیا ہے کہ بطور احسان کام کرنے کے لئے گروپ میں شامل ہو جاؤ.نہیں، بلکہ مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کس طرح اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی خوشنودی کی خاطر مہمان نوازی کی اور اُس کے حق ادا کئے ، اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں.اس روایت کو ہم جتنی دفعہ بھی سنیں اور پڑھیں ایک نیا مزہ دیتی ہے یا سبق ملتے ہیں.حضرت
خطبات مسرور جلد 11 478 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اگست 2013ء ابوھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ.جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا.اس مہمان کے کھانے کا بندو بست کون کرے گا؟ ایک انصاری نے عرض کیا کہ حضور میں انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کا اہتمام کرو.بیوی نے جوابا کہا آج گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے.انصاری نے کہا اچھا تو کھانا تیار کرو.پھر چراغ جلا ؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر اور بہلا کر سلا دو.چنانچہ بیوی نے کھانا تیار کیا، چراغ جلایا، بچوں کو بھوکا سلا دیا.پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اُٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا اور پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھے یہ ظاہر کرنے لگے کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں.پس وہ دونوں رات بھوکے ہی رہے.صبح جب وہ انصاری حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی مسکرا دیا.یا فرمایا کہ تم دونوں کے اس فعل کو اُس نے پسند فرمایا.اسی موقع پر ہی یہ آیت نازل ہوئی.وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر : 10 ) یہ پاک باطن اور ایثار پیشہ مخلص مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ خودضرورتمند اور بھوکے ہوتے ہیں.اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں.(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب قول الله ويؤثرون على انفسهم...حدیث نمبر 3798) یہ دیکھیں کتنی بڑی قربانی ہے.بچوں کو بھوکا سلا کر مہمان کو کھانا کھلا دیا.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے شاید ہی کسی کی ایسی حالت ہو اور خاص طور پر جماعتی مہمانوں کے لئے تو ایسی صورتحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل نہیں ہے.وہ مہمان جو تھے جن کی خاطر اس خاندان نے قربانی دی وہ بھی جماعتی مہمان ہی تھے.دینی غرض سے آنے والے مہمان تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے مہمان تھے.آپ کے ہی مہمان تھے.ایسی مثالیں قائم کر کے ہمیں مہمان نوازی کی اہمیت کا سبق دیا گیا ہے.وہ مہمان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان تھا.اُس کا ایک بہت بڑا مقام تھا اور آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے جو مہمان ہیں اُن کو بھی خدا تعالیٰ نے بڑی اہمیت دی ہے.پس ہر کام کرنے والے کو اس اہمیت کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.دیکھیں بظاہر یہ ظلم لگتا ہے کہ بچوں کو زبردستی بھوکا رکھا گیا.لیکن قربانی اور خدمت کا ایک اعلی نمونہ قائم کیا گیا جس میں پورا خاندان شامل ہو گیا.کچھ
479 خطبه جمعه فرموده مورخه 23 اگست 2013ء خطبات مسرور جلد 11 خوشی سے اور کچھ مجبوری سے.یقینا ان بچوں کو بھی خدا تعالیٰ نے بہت نوازا ہوگا.جیسا کہ اس آیت کے مضمون سے واضح ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو مفلحون میں شامل فرمایا ہے.اور فلاح پانے والے کون لوگ ہیں؟ اگر ہم اس کے معنی دیکھیں تو اس کی وسعت کا پتہ چلتا ہے.صبح وہ ہیں جو پھولنے پھلنے والے ہیں، جو کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ، وہ جو انہی نیک اور اعلیٰ خواہشات کو حاصل کرنے والے ہیں اور اس وجہ سے خوشی حاصل کرنے والے اور ہر اچھائی کو پانے والے ہیں، مستقل طور پر ان اچھائیوں اور کامیابیوں کی حالت میں رہنے والے ہیں.زندگی کے آرام وسکون کو پانے والے ہیں، حفاظت میں آنے والے ہیں.پس ایک وقت کے کھانے کی قربانی اور مہمان نوازی نے انہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا وارث بنا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا.اور جس کو خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ یہ سب کچھ پل جائے اُسے اور کیا چاہئے.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ یہ وہ مقام ہے جو مہمان نوازی کرنے والوں کو ملتا ہے.یہ وہ مقام ہے جو ہمیں اپنے مہمانوں کی خدمت کر کے حاصل کرنے کی ضرورت ہے.یہ وہ معیار ہے جو ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کا قرب دلا کر ہماری دنیا و آخرت سنوارنے کا موجب بنے گا.پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا موقع عطا فرما کر اللہ تعالیٰ ہمارے لئے مُفْلِحین میں شامل ہونے کے راستے کھول رہا ہے.اللہ کرے کہ تمام خدمتگار، تمام کارکنان اس فیض کو حاصل کرنے والے بنیں اور جلسے کے جو انتظامات ہورہے ہیں اللہ تعالیٰ اُن میں بھی آسانیاں پیدا فرمائے.نماز جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے ایک شہید بھائی مکرم ظہور احمد صاحب کیانی کا ہے جن کو اورنگی ٹاؤن کراچی میں 21 اگست کو شہید کر دیا گیا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ان کا واقعہ یوں ہوا کہ ظہور صاحب 21 اگست کو اپنے کسی دوست کے ساتھ سوا گیارہ بجے گاڑی چیک کرنے کے لئے گئے.جس کو آپ نے صحیح کروانے کے لئے دی تھی وہ گاڑی لے کر آیا.گاڑی کچھ فاصلے پر کھڑی تھی.جب آپ باہر آئے تو اسی اثناء میں آپ کے پڑوسی نور الحق صاحب جو غیر از جماعت ہیں وہ بھی باہر آ گئے اور یہ تینوں گاڑی دیکھنے چلے گئے.جیسا کہ میں نے کہا گاڑی گھر سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی تھی.یہ تینوں جب کار چیک کر کے واپس آرہے تھے تو ایک موٹر سائیکل پر دو حملہ آور آئے جن میں سے ایک نے موٹر سائیکل سے اتر کر ظہور صاحب پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے ظہور صاحب کے پڑوسی انوار الحق صاحب نے حملہ آور کے ہاتھ پر جھپٹا مارا جس سے حملہ آور کے دوسرے ساتھی نے نور
خطبات مسرور جلد 11 480 خطبه جمعه فرموده مورخہ 23 اگست 2013ء الحق صاحب پر بھی فائرنگ شروع کر دی اور فرار ہو گئے.ظہور صاحب کی بیٹی نے جب فائرنگ کی آواز سنی تو اُس نے اوپر کھڑ کی سے دیکھا کہ دو موٹر سائیکل اس طرح فائر کر کے دوڑے جارہے ہیں.وہ چائے پی رہی تھی.کھڑکی پر کھڑی تھی.اُس نے چائے کا کپ حملہ آوروں پر پھینکا تو اُس پر بھی انہوں نے فائرنگ شروع کر دی.گھر کی کھڑکی پر بھی فائز آ کے لگے.لیکن بہر حال بچی بچ گئی.ظہور صاحب تو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی شہید ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ شہادت کے وقت مرحوم کی عمر 47 سال تھی اور ان کے جو غیر از جماعت پڑوسی نورالحق صاحب تھے، وہ بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے.اللہ تعالیٰ اُن سے بھی رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے.ظہور صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے چچا یوسف کیانی صاحب اور مکرم محمد سعید کیانی صاحب کے ذریعہ سے ہوا تھا.آپ دونوں کو 1936ء میں بیعت کرنے کی توفیق ملی تھی.دونوں ہی صاحب علم تھے اور با قاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد بیعت کی توفیق پائی.پھر اُس کے بعد مرحوم شہید کے والد اور دیگر تین چا بھی احمدیت میں شامل ہو گئے.ان کا خاندان پریم کوٹ مظفر آباد کشمیر سے تعلق رکھتا تھا.یہ 1966ء میں پیدا ہوئے تھے.1976ء میں کراچی شفٹ ہو گئے.وہیں انہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی.پھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ملازمت اختیار کر لی.شہادت کے وقت آپ محکمہ کسٹم کے اینٹی سمگلنگ یونٹ میں بطور کلرک خدمات سرانجام دے رہے تھے.ظہور صاحب اپنی مجلس سے انتہائی تعاون کرنے والے تھے.انتہائی ملنسار، مالی قربانی میں صف اول کے مجاہدین میں شامل تھے.اسی طرح مہمان نوازی آپ کا خاص وصف تھا.کبھی گھر آئے ہوئے مہمان کو مہمان نوازی کے بغیر واپس نہیں جانے دیتے تھے.ہر جماعتی عہد یدار کی عزت کرتے اور کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہ دیتے.شہید مرحوم موصی بھی تھے.اسی طرح تبلیغ کا بھی شوق تھا.ان کو 2009ء میں ایک شخص کی بیعت کروانے کی بھی توفیق ملی.آپ کی شہادت کے بعد ہسپتال میں اور بعد میں جنازے کے موقع پر آپ کے دفتر سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور ہر ایک نے شہید مرحوم کے اعلیٰ اخلاق و عادات کی تعریف کی.اُن کا ایک ساتھی جو اُن کی شہادت کے بعد اُن کے جسدِ خاکی کے ساتھ رہا اُس نے رو رو کر ذکر کیا کہ شہید مرحوم انتہائی پر شفقت اور صلح جو طبیعت کے مالک تھے.کام کے حوالے سے کئی مواقع پر جب ہمیں غصہ آجاتا تو وہ ہمیں صبر کی تلقین کرتے تھے.اُن کے افسران نے بتایا کہ ظہور احمد کیانی ہمارا ایک بہادر اور جانباز سپاہی تھا جو بہت تھوڑے عرصے میں ہی ہر ایک کو اپنا گرویدہ کر لیتا تھا.آج ہم ایک اچھے ساتھی سے محروم ہوئے ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 481 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 23 اگست 2013ء آپ کے سسر بشیر کیانی صاحب نے بتایا کہ شہید مرحوم خاندان میں ہر ایک کی مدد کیا کرتے تھے.مالی لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آپ کو وسعت دی تھی.لہذا پورے خاندان میں جب بھی کوئی ضرورت ہوتی آپ اُس کی مدد کرتے.خاندان کے علاوہ بھی ضرور تمند آپ کے دروازے سے خالی نہیں جاتا تھا.بچوں کے ساتھ بھی آپ کا تعلق انتہائی شفقت کا تھا.بچوں کی ضروریات کا مکمل خیال رکھتے.ان کی تعلیم کی فکر رہتی.اُن کی گہری نگرانی کرتے.آپ کی اہلیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو جو اتنا اچھا دل دیا تھا تو شاید اس شہادت کے لئے ہی یہ اچھا دل دیا تھا.بچوں کو کبھی نہیں ڈانٹتے تھے.کہتی ہیں کہ شہادت سے پہلے مجھے کہا کہ میری جوتی صاف کر دو.میں ابھی آتا ہوں.پھر مسکرا کر نیچے اترے.حملے کے بعد کہتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ جب گھر سے باہر آئی اور انہیں دیکھا تو انہوں نے مجھے اور بچوں کو اُس زخمی حالت میں مسکرا کر دیکھا جیسے الوداع کہہ رہے ہوں اور پھر اپنی جان اپنے خالق حقیقی کے سپر د کر دی.بچوں کو کبھی کچھ نہیں کہتے تھے لیکن یہاں سے ایم ٹی اے پر جو میرا خطبہ جاتا تھا، بچوں کو ہمیشہ کہتے تھے یہ سننا ہے.اس پر بہر حال ناراضگی کا بھی اظہار کرتے تھے کہ خطبہ کیوں نہیں سنا.ان کی بڑی پابندی تھی.بیٹیوں کے ساتھ خاص شفقت اور محبت کا سلوک تھا.آپ کے پسماندگان میں آپ کی اہلیہ طاہرہ ظہور کیانی صاحبہ ہیں.اس کے علاوہ تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں.عمران کیانی بیس سال کی عمر ہے.کامران کیانی چودہ سال.سرفراز تین سال.اسی طرح بیٹیاں ہیں نور الصباح سولہ سال، نورالعین چودہ سال، عطیۃ المجیب سات سال، فائقہ ظہور پانچ سال.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اُن کے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے.ان کی اہلیہ کو حفاظت میں رکھے.ان کو صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شماره 37 مورخہ 13 ستمبر تا19 ستمبر 2013ءصفحہ 5 تا صفحه 8)
خطبات مسرور جلد 11 482 35 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اگست 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرز اسروراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 30 اگست 2013 ء بمطابق 30 ظہور 1392 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی.(آلٹن) برطانیہ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے مہمان نوازی کے حوالے سے ایک میزبان کی ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ کہا تھا کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی ایک جوش اور جذبے سے خدمت کریں.آج مختصر آئیں مہمانوں کو شاملمین جلسہ کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں تا کہ جلسے کے ماحول کے تقدس کا انہیں بھی خیال رہے.انہیں بھی پتہ ہو کہ یہاں شامل ہو کر اُن کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور اسی طرح انتظامیہ سے تعاون کی طرف بھی اُن کی توجہ رہے.دو ذمہ داریاں ہیں.ایک یہ کہ جس مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں اُس کو پورا کرنا.روحانی علمی اور تربیتی لحاظ سے اپنے آپ کو بہتر کرنا.دوسرے جو انتظامیہ ہے اُس سے تعاون کرنا.ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ہمیں ہمیشہ اس بات کا خیال رہنا چاہئے کہ ہم نے صرف اپنے حقوق لینے کی ہی خواہش نہیں رکھنی بلکہ دوسرے کے حقوق بھی دینے ہیں اور اپنے ذمہ جو فرائض ہیں انہیں بھی ادا کرنا ہے.اور مہمانوں کی جو ذمہ داریاں ہیں انہیں بھی ادا کرنا ہے.سب سے بڑی ذمہ داری تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے جو اس بات پر کرنی ہے کہ اُس نے ہمارے لئے، جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے ، اس جگہ اور ان حالات میں جہاں عام حالات میں کوئی سہولت بھی نہیں ہوتی سہولت مہیا فرمائی ، اس کا انتظام فرمایا.اور پھر اللہ تعالیٰ کے شکر کے بعد اُن تمام کارکنان کے شکر گزار ہوں اور اُن کے لئے دعائیں کریں جو دن رات کام کر کے آپ کو سہولت مہیا کرنے کے لئے محنت کرتے رہے اور اپنی انتھک محنت اور کوشش سے آپ لوگوں کے لئے آرام پہنچانے کے
خطبات مسرور جلد 11 یہاں سامان کئے.483 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اگست 2013ء گزشتہ خطبہ میں میں نے ایک حدیث کے حوالے سے کارکنان کو کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آؤ اور اس کی بہت ہدایت فرمائی اور اسے بڑی نیکی قرار دیا ہے کہ ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بہت بڑی نیکی ہے.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء حدیث نمبر (6690) پس یہ ہدایت ہر احمدی کے لئے ہے.ہر آنے والے مہمان اور جلسے میں شامل ہونے والے کا بھی فرض ہے کہ وہ اس بات کو اپنے پلے باندھے، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے.آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ اگر کارکنوں سے کوئی غلطی ہو جائے تو صرف نظر سے کام لیں اور عارضی انتظام کی مجبوری کو سمجھیں.ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں کیونکہ آپ کا یہاں آنا نیکیوں کے حصول کے لئے ہے اور ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے.اسی طرح آپس میں مہمان جو ہیں، جو یہاں آنے والے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کا احترام کریں.بعض دفعہ ایسے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں کہ آپس کی رنجشیں، جو پرانی رنجشیں ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے کو یہاں آمنے سامنے دیکھ کر بھڑک جاتی ہیں.بعض دفعہ ایسے موقعے بھی پیدا ہوتے ہیں جو ایک احمدی ماحول میں نہیں ہونے چاہئیں کہ جلسوں پہ آپس میں دو گروہوں کی ، دولوگوں کی تو تکار بھی ہو جاتی ہے، بعض دفعہ ہاتھا پائی ہو جاتی ہے، تو ایسے لوگوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ ایسے ماحول میں آ کر پھر ایسی حرکتیں کریں.ایسے لوگ اس پاکیزہ ماحول کو گندہ کرنے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں.پس بہتر ہے کہ ایسے لوگ جن کے دل ایک دوسرے کے لئے کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوئے ہیں جلسے پر نہ آئیں اور جو آئے ہوئے ہیں ان میں سے کسی کے دل میں اگر ایسی رنجش ہے تو آج یہ عہد کرے کہ اس کو دُور کر دے گا.اس ماحول میں جو نیکیاں پھیلانے کا ماحول ہے، جو اپنی حالتوں کو بدلنے کا ماحول ہے، اس میں اگر اپنے دلوں کو بغض اور کینوں سے بھر کر رکھنا ہے تو یہاں آنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے.یہاں آنے کا مقصد تو نیکیاں کرنا ہے.یہاں آنے والے کو اُس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خواہش کی ہے.ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بننے کے مقصد کو اپنے سامنے رکھیں.صرف اور صرف ربانی باتوں کا سننا اپنا مقصد رکھیں.اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ان دنوں میں خاص طور پر سب کے پیش نظر ہو.پھر جلسہ کی کارروائی کو سنجیدگی سے اور غور سے سننا بھی ایک بہت بڑا مقصد ہے.اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ
خطبات مسرور جلد 11 484 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اگست 2013ء الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی تو جہ دلا دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ : سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے یعنی یہ جلسے کی کارروائی اور پورے غور اور فکر کے ساتھ سنو.کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے.اس میں غفلت ، سستی اور عدم توجہ بہت بڑے نتیجے پیدا کرتی ہے.جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جاوے تو غور سے اُس کو نہیں سنتے ہیں اُن کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا.ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں.دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں.پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اُسے تو جہ اور بڑی غور سے سنو.کیونکہ جو تو جہ سے نہیں سنتا ہے وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اُسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه 104 مطبوعہ ربوہ ) پس جلسے پر آنے والوں کو صرف اس طرف متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ان دنوں میں جلسے کے جو مقاصد ہیں اُن کو حاصل کرنا ہے.جلسے کی کارروائی کو غور سے سننا ہے.اپنی ذاتیات سے بالا تر ہو کر رہنا ہے اور اپنے ایمانوں کی ترقی کے لئے جلسے کے پروگرام سنتے ہیں.انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی ہے اور اپنے دلوں کو ہر قسم کی کدورتوں سے پاک کرنا ہے.آپ علیہ السلام نے بڑا واضح طور پر فرمایا ہے کہ مسلمانوں میں تنزل اور گراوٹ اور کمزوریاں اس لئے پیدا ہوئی ہیں کہ جہاں دینی مجلسیں لگتی ہیں وہاں جاتے تو ہیں مگر اخلاص لے کر نہیں جاتے ، یعنی نہ تقریریں کرنے والوں میں اخلاص ہے، نہ سننے والوں میں.لیکن ہمارے جلسے ان باتوں سے پاک ہیں اور ہونے چاہئیں.ماشاء اللہ مقررین بڑے اخلاص سے تیاری کر کے آتے ہیں.بڑی اچھی تقریریں ہوتی ہیں اور سننے والوں کی اکثریت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص سے پر ہے اور جلسے کی برکات کے حصول کے لئے آتی ہے.لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف اکٹھے ہونا اور باتیں کرنا اور مجلسیں لگانا ہوتا ہے.اگر کوئی ایسا حصہ ہے جس میں کمی ہے تو انہیں اس طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ ہمارا یہ ماحول سو فیصد خالصہ اللہ آنے والوں کا ماحول بن جائے.پھر جلسے کی کارروائی کے دوران ایک بات ضمنا میں یہ بھی کہہ دوں کہ بعض لوگوں کو تقریروں کے دوران نعرے لگانے کا بڑا شوق ہوتا ہے.تقریروں کو غور سے سنیں.بعض تقریریں ایسی سنجیدہ ہوتی ہیں، ایسا مضمون ہوتا ہے کہ اُس میں اُس وقت نعرے کی ضرورت نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کہیں دلی جوش سے کوئی نعرہ نکل رہا ہو.لیکن یہاں بعض ایسے بھی لوگ ہیں جو ہر وقت ، ہر بات پر جوش میں آنے والے
خطبات مسرور جلد 11 485 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اگست 2013ء ہیں اور نعرے لگا دیتے ہیں.اُن کو احتیاط کرنی چاہئے.مہمان یہ بھی یادرکھیں کہ یہ تمام کارکنان، یہ تمام خدمت کرنے والے خوشی سے اپنے کاموں کا حرج کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے جذبے سے آئے ہیں اس لئے ان سے ہر موقع پر بھر پور تعاون کریں.خاص طور پر سیکیورٹی چیکنگ کے وقت اس کی بہت ضرورت ہوتی ہے.ہوسکتا ہے کہ بار بار کی چیکنگ اور وقت زیادہ لگنے سے آپ کو تکلیف بھی ہو لیکن یہ انتظام بھی آپ لوگوں کی حفاظت کے لئے کیا گیا ہے.اس لئے اسے برداشت کریں اور کارکنوں سے بھر پور تعاون کریں.سکیننگ وغیرہ پر بھی بعض دفعہ وقت لگ جاتا ہے اُس پر بھی برداشت سے اپنا سامان چیک کروانا ہے یا اپنے آپ کو چیک کروانا ہے تو کروائیں.اسی طرح ٹریفک کا انتظام ہے.اس میں ہر سال گو بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور مجھے امید ہے اس سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ مزید بہتری آئی ہوگی لیکن پھر بھی کمیاں رہ جاتی ہیں.بعض دفعہ آنے والوں کو اپنی پار کنگ کا، یا پارکنگ پاس کا صحیح پتہ نہ ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ رش کی وجہ سے وقت لگتا ہے، دقت بھی پیش آتی ہے.بعض دفعہ گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں.تو جس طرح حو صلے سے کارکنان آپ کی رہنمائی کر رہے ہیں اسی طرح حوصلے سے آنے والے مہمانوں کو بھی تعاون کرنا چاہئے.اگر ایک شخص کی بے حوصلگی بھی ہو تو اس کی وجہ سے ہی لمبے کیو (Que) لگ جاتے ہیں.ایک کا روالا بھی اگر مسئلہ پیدا کر دے تو پیچھے ایک لمبی لائن لگ جاتی ہے.اس لئے ہر ایک کو احساس ہونا چاہئے کہ کسی کے لئے بھی مشکل کا باعث نہ بنے.میں نے سیکیورٹی کی بات کی تھی تو اس بارے میں بھی ہر شامل ہونے والے کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اُس نے اپنے ماحول پر نظر رکھنی ہے.اس بات پر تسلی نہ پکڑ لیں کہ اتنی چیکنگ ہے، اتنا انتظام ہے، اب پہلے سے بہت بہتر انتظام ہو چکا ہے اس لئے کوئی فکر کی بات نہیں ہے، کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اپنے ماحول پر نظر رکھی جائے.مومن کو ہمیشہ چوکس اور ہوشیار رہنا چاہئے.اس لئے ماحول پر نظر رکھنے کی ہر وقت ضرورت ہے.جماعت احمدیہ کی سیکیورٹی کا انتظام اس لئے مؤثر ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور بجھنی چاہیئے.پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ ایک تو نمازوں کی پابندی ہونی چاہیئے اور پھر نمازوں پر آنے کے لئے وقت سے پہلے آئیں یا کم از کم نماز سے ایک دو منٹ پہلے تو ضرور پہنچیں.جب نماز شروع ہو جائے تو اُس وقت آنے سے جو باقی نمازی ہیں اُن کی نماز ڈسٹرب ہوتی ہے،مستقل ایک شور ہورہا ہوتا ہے.اسی طرح گو یہاں میرا خیال ہے انتظامیہ نے اعلان کر دیا ہو گا لیکن میں بھی واضح کر دوں کہ جب لوائے احمدیت
خطبات مسرور جلد 11 486 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اگست 2013ء لہرایا جاتا ہے تو اُس وقت ایک بہت بڑی تعداد مارکی سے باہر جا کر اس تقریب کو دیکھتی ہے اور دعا میں شامل ہوتی ہے اور پھر یہ لوگ واپس مار کی میں آتے ہیں.تقریباً ایک تہائی مار کی تو خالی ہو جاتی ہے.اور اُن کے آنے میں اور بیٹھنے میں پھر وقت لگتا ہے جس سے اجلاس کی کارروائی شروع ہونے میں دس پندرہ منٹ ضائع ہو جاتے ہیں.اس لئے اس مرتبہ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ احباب مارکی کے اندر ہی بیٹھے رہیں، سوائے اُن کے جن کو انتظامیہ نے کہا ہوا ہے کہ وہ باہر آئیں، اور یہاں سکرین پر لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب کو دیکھ لیں اور دعا میں شامل ہو جائیں تا کہ وقت بچے اور اجلاس وقت پر شروع ہو سکے.جلسے کے دنوں میں ماحول کی عمومی صفائی کا غیروں پر بڑا اثر پڑتا ہے اور اس کا اکثر لوگ اظہار کرتے ہیں.اس لئے ہمیشہ ہر ایک کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے.ضروری نہیں کہ صفائی صرف صفائی کے کارکنان جو ہیں اُنہوں نے ہی کرنی ہے.آپ میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.ہر ایک اگر اس طرف توجہ رکھے اور کوئی چھوٹا موٹا گند، چیز، گلاس، پلیٹ، لفافے وغیرہ پڑے دیکھیں تو اٹھا کر ڈبے میں ڈال دیں تو اس طرح پھر جہاں آپ ماحول کو صاف رکھ رہے ہوں گے، وہاں آپ ثواب بھی کما رہے ہوں گے.ویسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے.(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء حدیث نمبر 534) اگر کوئی بڑا تھیلا یا کوئی ایسی چیز دیکھیں جو مشکوک ہو تو پھر اُس کو بجائے ہاتھ لگانے کے انتظامیہ کو بتادیں، جو کارکن قریب ہوں اُن کو بتادیں.پھر یہ اُن کا کام ہے کہ وہ اُس کو وہاں سے اُٹھوائیں.گزشتہ خطبہ میں میں نے ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کالنگر جلسے کے انتظام کے لئے اب مستقل یہاں حدیقۃ المہدی میں بھی قائم ہو گیا ہے، روٹی پلانٹ بھی لگا دیا گیا ہے.ابھی تک روٹی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی پک رہی ہے.بعض دفعہ عارضی طور پر کچھ کوالٹی میں اونچ نیچ ہو بھی جاتی ہے اس لئے اگر ایسی کوئی صورتحال ہو تو پہلی بات تو یہ ہے کہ برداشت کرنی چاہئے اور اگر نہ کھا سکیں تو بدلا کے کھا سکتے ہیں اور انتظامیہ کو پھر اُس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے.عموماً روٹی جو یہاں پک رہی ہے وہ پانچ چھ گھنٹے کے وقفے کے بعد مہمانوں تک پہنچتی ہے کیونکہ اتنے بڑے انتظام میں تازہ تازہ روٹی کھلانا تو بہت مشکل ہے.بہر حال اب تک جور پورٹ ہے اُس کے مطابق تو مہمان نے بھی اور ہر کھانے والے نے اس روٹی کو پسند کیا ہے.خدا کرے کہ یہ پلانٹ بھی صحیح طور پر چلتا رہے اور مہمانوں کو تکلیف نہ ہو، نہ انتظامیہ کو کسی قسم کی پریشانی ہو.ضمناً یہاں ذکر کر دوں کہ گزشتہ جمعہ میں نے جرمنی کی روٹی کا ذکر کیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ وہ لوگ فوری جواب بھی دے دیتے ہیں اور شام تک ہی اُن کا جواب تیار
خطبات مسرور جلد 11 487 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اگست 2013ء تھا کہ ہماری روٹی تازہ ہوتی ہے اور صرف پانچ چھ گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے.لیکن ساتھ ہی ایک خاتون کی فیکس بھی آئی ہوئی تھی کہ آپ نے بڑا صحیح کہا روٹی باسی تھی اور کھانے کے قابل نہیں تھی.لیکن بہر حال لگتا ہے دونوں طرف کچھ تھوڑا سا مبالغہ ہو گیا.روٹی اتنی باسی بھی نہیں ہوتی اور اللہ کے فضل سے کھانے کے قابل بھی ہوتی ہے.اس لئے مہمانوں کو بھی برداشت کرنا چاہئے.ویسے تو عام ہر احمدی کو پتہ ہی ہے لیکن یہ بات میں نے اس لئے کر دی ہے تا کہ انتظامیہ کومزید علم ہو جائے کہ ہر چھوٹی سی جو بات ہے، کوئی بھی چھوٹی چھوٹی اونچ نیچ جو ہے وہ احمدی فوراً مجھے پہنچادیتے ہیں.ایک اہم بات جو عموما مہمانوں کے لئے کم و بیش ہر سال کہی جاتی ہے لیکن اب حالات کی وجہ سے ایسے مسائل سامنے آنے لگ گئے ہیں.اس لئے خاص طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ برطانوی حکومت جلسے کے لئے جو ویزے دیتی ہے، عموماً یہ ویزا چھ مہینے کے لئے لگتا ہے اور اس پر double entry یا multiple entry لگا دی جاتی ہے اور جلسے کا ویزا اس سوچ کے ساتھ یا اس شرط کے ساتھ دیا جاتا ہے کہ اس ویزے کو اسائلم کے لئے استعمال نہیں کرنا یا جماعتی طور پر جب ہم اپنے نمائندے کے لئے ویزا لیتے ہیں تو ہمارے سے یہی understanding ہوتی ہے کہ یہ لوگ دوسری مرتبہ ویزے کو استعمال نہیں کریں گے اور اسائلم کے لئے استعمال نہیں کریں گے.اس دفعہ بعض جماعتی نمائندوں کو ویزے دینے سے انکار کیا گیا اور جب ہم نے رابطہ کیا تو گو وہ ویزا دینے پر مان تو گئے لیکن انہوں نے شکوہ کیا کہ ایک دو ایسے تھے اور اس کے علاوہ بھی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو جلسے کا ویزا لے کر آتے ہیں اور پھر اس کو دوبارہ استعمال کر کے اسائلم لے لیتے ہیں.کیونکہ اُس پر double entry لگی ہوتی ہے.ایک دفعہ تو چلے جاتے ہیں لیکن دوبارہ آ جاتے ہیں.بہر حال ان سرکاری محکموں کی تو ہم نے تسلی کروائی ہے.جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ویزے مل بھی گئے ہیں لیکن پریشانی کا سامنا بہر حال انہیں کرنا پڑا اور بہت سارے ایسے لوگوں کی وجہ سے کرنا پڑا جن کی نیت ہی یہ ہوتی ہے کہ جائیں گے تو اُس ویزے کو اسائلم کے لئے استعمال کر لیں گے.ایسے لوگوں کو گو جماعتی طور پر تعزیر بھی ہو جاتی ہے لیکن جماعت کی جو ساکھ ہے وہ تو بہر حال خراب ہوتی ہے.اس کا ہر احمدی کو خیال رکھنا چاہئے.اور پھر جو لوگ خالصہ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آنا چاہتے ہیں اور یہ اُن کی نیت ہوتی ہے تو اُن کے لئے بھی ایسے لوگوں کے عمل روک بن جاتے ہیں.بے شک پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ احمدی انتہائی مشکل کی زندگی وہاں گزار رہے ہیں.ملازمتوں میں تنگ کیا جاتا ہے.مالکان باوجود اس کے کہ احمدی ملازم کے کام پر انہیں تسلی بھی
خطبات مسرور جلد 11 488 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 30 اگست 2013ء ہو تو دوسرے دور کر اور مُلاں کے خوف سے اُنہیں ملازمتوں سے فارغ کر دیتے ہیں یا پھر مستقل ٹارچر اُن کو دیا جاتا ہے، ذہنی اذیتیں دی جاتی ہیں ، ساتھ کام کرنے والے ساتھی دیتے رہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں اور برداشت کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے پھر بعض لوگوں کو مجبور املازمت چھوڑنی پڑتی ہے.کئی احمدی ایسے ہیں جن کے کاروبار ہیں، دوکانداری ہے تو انہیں ماحول میں بدنام کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرانے والے ہیں اور آپ کو خاتم النبین نہیں مانتے.حالانکہ احمدی ہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختم نبوت کا سب سے زیادہ ادراک رکھنے والے ہیں اور ہر اُس شخص کو کافر سمجھتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتا.اس کے بغیر تو احمدیت کی بنیاد ہی کوئی نہیں.پھر سکولوں میں احمدی بچوں کو ٹارچر دیا جاتا ہے.مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.اُنہیں ذہنی اذیت دی جاتی ہے.بہر حال ان سب مشکلات کے باوجود ہر احمدی کو جماعتی وقار کا خیال رکھنا ہر صورت میں ضروری ہے.اگر حالات کی وجہ سے اسائلم کرنا ہے تو اس کے اور بھی بہت سارے طریقے ہیں، بیشک آئیں.لیکن یہاں میں پھر اس بات کا دوبارہ اعادہ کروں گا اور پہلے بھی بہت مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اسائلم کے وقت غلط اور لمبے چوڑے بیان دینے کے بجائے اگر مختصر اور سچائی پر مبنی بات ہو تو یہاں جو افسران کی اور ججوں کی بھی اکثریت ہے وہ ایسے ہیں جو انسانی ہمدردی کے لئے بہت نرم گوشہ رکھتے ہیں.اُن میں انسانی ہمدردی بہت زیادہ ہے اور اسائلم قبول کر لیتے ہیں.بعض ضدی بھی ہیں اگر ایک دفعہ اڑ جائیں تو اُن کو قائل کرنامشکل ہوتا ہے.وہ لوگ پھر ایسے ہیں کہ چاہے جتنی مرضی کہانیاں بنالی جائیں اُن پر کوئی اثر نہیں ہوگا.اور پھر ایک انسان ایک احمدی اس غلط بیانی کا گناہگار بھی بن رہا ہوتا ہے.بہر حال ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ سچی بات کہیں مختصر بات کریں، اس سارے ٹارچر کا ذکر کریں.ضروری نہیں ہے کہ ڈائر یکٹ Threat ہو تب ہی کوئی کیس پاس ہوتا ہے.اس کے علاوہ بھی کیس پاس ہو جاتے ہیں.اس لئے اگر سچائی پر بنیا د رکھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ کیس بھی پاس ہوتے چلے جائیں گے.بہر حال یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے، خاص طور پر باہر رہنے والوں کی کہ ہمیں ان لوگوں کے لئے جو مشکل میں گرفتار ہیں، ان احمدیوں کے لئے جو ہر لحاظ سے بڑی پریشانی اور تنگی کی زندگی گزار رہے ہیں، دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات دور فرمائے اور اُن کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے.اللہ تعالیٰ جلسے پر آنے والوں کو بھی جلسے کی برکات اور ماحول سے فیضیاب فرمائے.جو دور دراز
خطبات مسرور جلد 11 489 خطبه جمعه فرموده مورخہ 30 اگست 2013ء سے جلسے میں شمولیت کی نیت سے آئے ہیں اُن کی دعائیں بھی قبول فرمائے.جو آنے کے انتظار میں بیٹھے تھے مگر اُن کو ویزے نہیں مل سکے.اللہ تعالیٰ اُن کی بھی نیک خواہشات کو پورا فرمائے اور اُن کی دعائیں قبول فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ئیں بھی اُن کے حق میں قبول ہوں.آخر میں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ارشاد پیش کرتا ہوں.آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ : ” نیکی کومحض اس لئے کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اُس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو.قطع نظر اس کے کہ اُس پر ثواب ہو یا نہ ہو.ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جبکہ یہ وسوسہ اور وہم درمیان سے اُٹھ جاوے.یہ کامل ایمان اُس وقت ہوگا جب خالصہ اللہ تعالیٰ کی رضا پیش نظر ہوگی اور یہ نہیں کہ ثواب ملتا ہے یا نہیں.پھر فرمایا کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا.ان اللهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (التوبه: 120 ) مگر نیکی کرنے والے کو اجر مدنظر نہیں رکھنا چاہئے.دیکھو اگر کوئی مہمان یہاں محض اس لئے آتا ہے کہ وہاں آرام ملے گا، ٹھنڈے شربت ملیں گے تو وہ گویا ان اشیاء کے لئے آتا ہے.حالانکہ خود میزبان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور اُس کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کرے اور اُس کو آرام پہنچا وے اور وہ پہنچاتا ہے، لیکن مہمان کا خود ایسا خیال کرنا اُس کے لئے نقصان کا موجب ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 561-562 مطبوعہ ربوہ ) پس مہمانوں کو بھی اور میز بانوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کیا اُن کے مقاصد ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ میزبان بھی اپنا فرض ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ فرض ادا کرنے والے ہوں.اور مہمان بھی خالصہ اللہ اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آنے والے ہوں اور کوئی ذاتی اغراض اُن کے شامل حال نہ ہوں.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شماره 38 مورخہ 20 ستمبر تا26 ستمبر 2013ءصفحہ 5 تاصفحہ 7)
خطبات مسرور جلد 11 490 36 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013 ء بمطابق 06 تبوک 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الحمد للہ ، اس سال پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یو کے (UK) کا جلسہ سالانہ اپنی تمام تر برکات کے ساتھ اور شکر کے مضمون کو مزید اجاگر کرتے ہوئے گزشتہ اتوار کو ختم ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے ہر ایک نے دیکھے اور محسوس کئے.جو جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے بھی اور جو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں بیٹھے ہوئے کہیں بھی دیکھ رہے تھے ، انہوں نے بھی.پھر ایم ٹی اے کے علاوہ انٹرنیٹ سٹریمنگ (streaming) کے ذریعہ سے بھی تقریباً ایک لاکھ سے اوپر لوگوں نے جلسے کی کارروائی دیکھی ہے.یہ اللہ تعالی کا بیشمار فضل ہے کہ ان جدید ذرائع سے دنیا میں بیٹھے ہوئے لاکھوں لوگ یہاں کے جلسے کو دیکھ اور سن سکتے ہیں.جلسے کے بعد احباب جماعت کے جلسے کے بارے میں تاثرات اور مبارکباد کا سلسلہ جاری ہے.روزانہ کئی خطوط مجھے آتے ہیں.اور اکثر لکھنے والے لکھتے ہیں کہ دور دراز بیٹھے ہوئے ہم بھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ جلسہ میں براہ راست شامل ہیں اور اب جلسہ ختم ہونے کے بعد اداسی چھا گئی ہے.یہ احمدی دنیا بھی عجیب دنیا ہے جس کا اخلاص و وفا بالکل نرالی قسم کا ہے اور اس اخلاص و وفا کا غیروں پر بھی اثر ہوتا ہے.میں بعض مہمانوں کے بعض تأثرات سناؤں گا.بعض معززین تو یہاں سٹیج پر آ کر جلسہ میں اپنے کچھ تاثرات بیان کرتے رہے اور اظہارِ خیال کیا.وہ خیالات تو آپ نے سن لئے کہ دنیا پر اللہ تعالیٰ نے کس طرح جماعت احمدیہ کا رعب قائم کیا ہوا ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ رعب قائم کرتا ہے.دنیاوی لحاظ سے بظاہر کمزور سی جماعت ہے لیکن خلافت کی لڑی میں پروئے ہونے کی وجہ سے، ایک اکائی میں ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے لیڈر آتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہاں آنے پر فخر ہے اور ہم جماعت کے
خطبات مسرور جلد 11 491 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء شکر گزار ہیں.بہر حال بہت سے ایسے بھی تھے جو یہاں آئے اور اُن کو سٹیج پر کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا، غیر از جماعت مہمان تھے.بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنے پیغام تو دے دیئے لیکن دلی کیفیت کا اظہار انہوں نے بعد میں کیا اور وہ ایسے اظہار ہیں جن میں کوئی بناوٹ نہیں.مثلاً ہمارے ہاں بینن کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آئے ہوئے تھے اور انہوں نے وہاں اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا.یہ موصوف جو ہیں یہ فرانکوفون ممالک کے سپریم کورٹ ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں اور اس ایسوسی ایشن میں افریقہ کے 58 ممالک شامل ہیں.یہ وزیر بھی رہ چکے ہیں.وہ جلسے میں کام کرنے والوں کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ سب سے پہلے میں اُن نوجوانوں اور بچوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کو میں نے دن رات اخلاص، محنت اور محبت سے کام کرتے دیکھا.سب کی مسکراہٹیں بکھرتی دیکھیں.اتنے بڑے اجتماع میں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوا.ہر چیز بڑی اچھی تھی.ڈسپلن کا اعلیٰ نمونہ تھا.میں اس جلسہ سے اخلاص اور روحانیت کو لے کر جارہا ہوں اور اخلاص اور روحانیت کا یہ اعلیٰ نمونہ صرف احمدیت کا ہی خاصہ ہے.یہاں آ کر اور اس ماحول کو دیکھ کر مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے.کہتے ہیں کہ جلسہ میں کثیر لوگوں کی شرکت کے باوجود انتظام نہایت متاثر کن اور منظم تھا.اس جلسہ میں ہر قوم کے مقامی اور غیر ملکی ایسے لوگ شامل تھے جو معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھنے والے ہیں.جلسہ میں ہونے والی تمام نقار پر انتہائی اچھے طریق سے پیش کی گئیں.پھر جب یہ اپنے ملک بینن میں واپس پہنچے تو وہاں ائیر پورٹ پر انہوں نے VIP لاؤنج میں پرنٹ میڈیا کے نمائندوں سے پریس کانفرنس کے دوران اپنے تاثرات کا اظہار کیا جو وہاں کے نیشنل اخباروں میں بھی چھپا.کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے لندن سے باہر ایک سو بیس ایکٹر زرعی زمین میں، (ایک سو بیس ایکٹر ان کا اندازہ تھا، اصل زمین حدیقہ المہدی کی دوسو آٹھ ایکڑ ہے ).بہر حال کہتے ہیں زرعی زمین میں اپنا ایک شہر آباد کیا ہوا تھا.یہاں انسانی ضروریات کی ہر چیز مہیا تھی.وہاں پر کام کرنے والے نوجوان، بچے اور دوسرے، سب بڑی محنت سے انتظامات کرتے نظر آئے.مہمانوں کی خدمت کے جذبے سے بھری اتنی منظم جماعت میں نے کبھی پہلے نہیں دیکھی.اگر کسی مہمان کو کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو فوراً اُس مہمان کی ضرورت پوری کرتے.اگر کسی ایسے نوجوان سے ضرورت بیان کی جاتی جس کا اس چیز سے تعلق نہ ہوتا تو وہ متعلقہ شعبہ سے رابطہ قائم کر کے وہ چیز مہیا کر دیتا.پھر کہتے ہیں کہ جلسے کے دوران امام جماعت احمدیہ جب تقریر کرتے تو اتنے بڑے مجمع میں سے میں نے کسی کو بولتے نہ دیکھا.سب خاموشی
خطبات مسرور جلد 11 492 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء کے ساتھ ان تقاریر کو بڑے انہماک سے سنتے.اور اکتیس ہزار سے زیادہ لوگ وہاں موجود تھے لیکن پھر بھی ہر طرف خاموشی ہوتی.یہ ایک عجیب نظارہ تھا جو میں کبھی نہیں بھول سکتا.پھر اسی پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ جب جلسہ ختم ہوا تو میں نے کہیں بھی دھکم پیل نہیں دیکھی.جلسہ گاہ سے سب لوگ آرام اور سکون سے ایک ایک کر کے نکل رہے تھے.اگر کسی کو کہنی لگ جاتی یا کسی کا پاؤں دوسرے کے پاؤں پر آ جاتا تو وہ فوراً معذرت کرتا.چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے معذرت کرتے.یہ نظارہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا.پھر کہتے ہیں اکتیس ہزار لوگ مل جل کر رہتے.سب وہیں کھانا کھاتے ، ہر چیز کا وہیں انتظام تھا.جلسہ میں مختلف ممالک سے وزراء اور اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہے.پھر کہتے ہیں کہ اگر ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے تو جماعت کی خدمات کی وجہ سے ترقی کر سکتا ہے.میں بین کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کو کہتا ہوں کہ امن اور رواداری جماعت احمد یہ سے سیکھیں.مجھے جماعت کی مخالفت کے بعض واقعات کا علم ہوا ہے.میں بینن کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ ان کی مخالفت چھوڑ کر ان سے اسلام سیکھیں.( میں یہ بتا دوں ببینن میں بھی بعض علاقوں میں جماعت کی کافی مخالفت ہے جہاں جماعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے ) کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی ایک ہی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو جائے.پھر کہتے ہیں کہ شاملینِ جلسہ کو جس طرح خلیفہ سے محبت کرتے دیکھا، اُن کے خلیفہ کو بھی اُسی طرح اُن سے محبت کرتے دیکھا.میں نے ان لوگوں کو اپنے خلیفہ کی محبت میں روتے دیکھا ہے.کیا ہی عجیب اور روحانی نظارہ تھا جو میں اپنی زندگی میں کبھی بھلا ہی نہیں سکوں گا.تو یہ ایک تاثر ہے.پھر ایک دامیا بیا تریس صاحبہ (Damiba Beatrice) ہیں جو بورکینا فاسو سے جلسہ میں شامل ہو ئیں اور بورکینا فاسو پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے لئے ہائر اتھارٹی کمیشن کی صدر ہیں.دو دفعہ ملک کی فیڈرل منسٹر رہ چکی ہیں.اس کے علاوہ اٹلی اور آسٹریا میں چودہ سال تک بورکینا فاسو کی سفیر بھی رہ چکی ہیں.نیز یو این او میں بھی اپنے ملک کی نمائندگی کر چکی ہیں.یہ کہتی ہیں کہ اس جلسہ میں شمولیت میرے لئے زندگی میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے.میں یو این او میں بھی اپنے ملک کی نمائندگی کر چکی ہوں جہاں میں نے کئی ملکوں کے نمائندے دیکھے ہیں مگر اس جلسہ میں بھی اتنی سے زائد ملکوں کے نمائندے شامل تھے اور سب ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے.موتیوں کی مالا نظر آتے تھے.مجھے کوئی شخص کالا ، گورا یا انگلش یا فرنچ نظر نہ آیا بلکہ ہر احمدی مسلمان بغیر رنگ و نسل کے امتیاز کے اپنے خلیفہ کا عاشق ہی نظر
خطبات مسرور جلد 11 493 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء آیا.پھر کہتی ہیں کہ سب سے زیادہ جس بات سے میں متاثر ہوئی وہ یہ تھی کہ ہر شخص خدا کی خاطر ایک commitment کے ساتھ اس جلسہ میں شامل ہوا تھا.یوں لگتا تھا کہ سارے ہی مہمان ہیں اور سارے ہی میزبان ہیں.مرد، عورتیں، بڑا، چھوٹا غرضیکہ ہر شخص میز بانی کے لئے حاضر تھا اور ان کی محبت دکھاوے کے لئے نہ تھی بلکہ دل کی گہرائیوں سے تھی.پھر کہتی ہیں کہ عورتوں کو مردوں سے الگ تھلگ ایک جگہ دیکھنا میرے لئے باعث حیرت تھا اور مجھے یوں لگا کہ شاید یہاں بھی عورتوں سے دوسرے مسلمانوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے.لیکن جب میں ان عورتوں کے ساتھ رہی تو کچھ ہی دیر میں میرا یہ تاثر بدل گیا.میں نے دیکھا کہ فوٹوا تار نے والی بھی عورت تھی ، کیمرے پر بھی عورت تھی ، استقبال پر بھی عورتیں تھیں، کھانا تقسیم کرنے والی بھی عورتیں تھیں، غرضیکہ ہر کام عورتیں ہی کر رہی تھیں اور یہ سچ ہے کہ عورت کا پردہ ہر گز اُس کی آزادی کو ختم نہیں کرتا.اگر کسی کو اس کا یقین نہ آئے تو احمدیوں کے ہاں آکر دیکھ لے.پھر کہتی ہیں کہ جب میں امام جماعت احمدیہ کے دفتر میں گئی تو حیران تھی کہ اتنا چھوٹا سا دفتر بھی دنیا کا محور ہوسکتا ہے.پھر کہتی ہیں مجھے مردوں کی مارکی میں بیٹھ کر بھی امام جماعت احمدیہ کا خطاب سننے کا موقع ملا اور جب وہ آتے تو سب لوگوں کا سکون اور بڑے ادب سے کھڑے رہنے کا منظر ایسا تھا کہ بیان نہیں کر سکتی.میں نے ایسا تو کبھی کسی ملک کے صدر کے لئے بھی نہیں دیکھا.پھر کہتی ہیں کہ ان کے خطاب کے دوران ہزاروں افراد جن میں بچے، بوڑھے اور جوان سب شامل تھے، اتنی خاموشی سے اُن کا بیٹھنا ایک ایسا منظر تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہاں انسان نہیں بلکہ شاید انسان نما پتلے بیٹھے ہیں.یہ سب عزت و احترام اور ادب میری زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا.پھر سیرالیون سے وزیر داخلہ اور امیگریشن جے بی داؤد ا صاحب شامل ہوئے.کہتے ہیں مختلف شعبوں کا منسٹر ہونے کی وجہ سے ساری دنیا میں سفر کرتارہا ہوں اور بڑی بڑی کانفرنسوں میں شرکت کرتا ہوں لیکن آج تک ایسی شاندار کانفرنس کبھی نہیں دیکھی جہاں محبت، پیار، بھائی چارا اور روحانیت نمایاں تھی.پھر سیرالیون کی ایک مہمان خاتون آنریبل جسٹس موسیٰ دمیبو ہیں.یہ ہائی کورٹ کی چیف جسٹس ہیں.یہ بھی جلسہ میں شامل ہوئی تھیں.کہتی ہیں کہ جلسہ بہت اچھے طریقے سے آرگنا ئز کیا گیا جس میں ہر شعبه بشمول مهمان نوازی، ٹرانسپورٹ سیکیورٹی، کمیونیکیشن وغیرہ نے عمدہ طور پر اپنے فرائض ادا کئے.یہ جلسہ مختلف ثقافتوں اور سماجوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لئے انتہائی اہم فورم ہے.ایک دوسرے کے ساتھ integration کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصول وضع فرما دیا ہے کہ
خطبات مسرور جلد 11 494 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء اسلام میں ہر ایک بھائی بھائی ہے.تمام مقررین نے بہترین انداز میں تقاریر کیں جس کی وجہ سے سارے جلسے کے دوران earphone کان سے نہیں اترا کہتی ہیں کہ جلسہ کے دوران لوگ بے لوث ہوکر ایک دوسرے پر فدا ہورہے تھے.مہمان نوازی کا کوئی جواب نہیں تھا.صرف خدمت ہی نہیں کی جارہی تھی بلکہ واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ آپ کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ رکھا جارہا ہے.پھر کہتی ہیں کہ کام کرنے والے تمام افراد اپنے چہرے پر مسکراہٹ لئے ہوئے تھے جس میں احمدیت کے موٹو ” محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں، کی صحیح معنوں میں عکاسی ہوتی تھی.پھر آئیوری کوسٹ سے ایک مہمان تو رے علی Tourer Ali ) صاحب تھے.یہ سپریم کورٹ کے جج ہیں اور پہلے وزارت ثقافت میں کیبنٹ ڈائریکٹر کے طور پر لمبا عرصہ کام کرتے رہے ہیں.مذہب میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں.مذہبی کتب کے مطالعہ کا شوق ہے.روزانہ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں.جلسہ کے دنوں میں جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں روزانہ با قاعدہ فجر کی نماز اور نوافل کی ادائیگی کا اہتمام کرتے اور جلسہ گاہ میں بھی پوچھتے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے کہ نہیں؟ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ یہاں باجماعت نماز ہوتی ہے اور میں اس سے محروم رہوں.جلسہ کی افتتاحی تقریب میں جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام پڑھا گیا تو فرط جذبات سے آنکھوں میں آنسو آ گئے.بعد میں کہنے لگے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا کلام سیدھا دل میں اتر رہا تھا.میں نے تقویٰ کا یہ دل گداز مضمون پہلی دفعہ سنا تو اپنے آپ کو محض لاھی پایا جس کی وجہ سے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا.آخری دن اختتام پر کہنے لگے کہ میں تو تین دن تک اس مادی دنیا سے بالکل منقطع تھا، کسی اور ہی روحانی ماحول میں پہنچا ہوا تھا جہاں سرور ہی سرور تھا.دنیا کے کاموں سے کلیۂ آزاد تھا.اب جلسہ ختم ہوا ہے تو اس دنیا میں واپس آیا ہوں اور اپنے عزیز واقارب کو فون کرنے لگا ہوں.غیروں کا بھی یہ حال ہے، روحانی ماحول کا اثر ہوتا ہے.کہتے ہیں ہمارا بہت اچھا خیال رکھا گیا.شکریہ کے الفاظ ہمارے پاس نہیں ہیں.کونگو سے تعلق رکھنے والے ایک دوست جو سابق صدر مملکت کے مشیر اور اس وقت سی آراے سی ( CRAC) جو اُن کی پارٹی ہے اُس کے پریذیڈنٹ ہیں اور آئندہ ہونے والے ملکی انتخابات میں صدارتی امیدوار ہیں.جلسہ کے دوسرے روز ایک دن کے لئے آئے تھے اور شام کو جو تبشیر کا ڈنر ہوتا ہے اُس میں بھی شامل ہوئے تھے.اور اُس وقت تھوڑی دیر کے لئے مجھے ملے بھی تھے.یہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک مجھے جماعت احمدیہ کا علم نہیں تھا.انہوں نے جلسہ میں اپنی آنکھوں سے بعض نظاروں کو
خطبات مسرور جلد 11 495 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء دیکھا اور پھر میری جو تقریریں تھیں اُن کو بھی سنا، اس پر وہ کہنے لگے کہ یہاں آنے سے پہلے آپ کے مخالفوں کو دیکھا اور پڑھا بھی ہے اور آج میں صاف طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ باتیں جو میں نے یہاں دیکھیں اور سنی ہیں اور آپ کے خلیفہ کو دیکھا ہے تو یہ بات مجھ پر صاف کھل گئی ہے کہ آج کے مخالفوں میں کوئی بھی حقیقت نہیں اور اُس کے مقابل پر جو راہیں اور جو اصول آپ کے خلیفہ بیان کر رہے ہیں ، اب دنیا کے لیڈرز کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ آپ کے خلیفہ کے بازوؤں میں آجائیں.جب انسان حدیقۃ المہدی میں داخل ہوتا ہے تو اس وقت ایک عجیب نظارہ یہ ہوتا ہے کہ سارا شہر ہی جنگل میں آباد ہوتا ہے.تو جس وقت وہ داخل ہوئے تو کہتے ہیں کہ آپ نے سارا انگلینڈ خریدا ہوا ہے؟ پھر کہنے لگے کم از کم تین چار ہزار آدمی تو یہاں کام کر رہے ہوں گے اور جب اُن کو بتایا گیا کہ سب رضا کارانہ طور پر خدمت کر رہے ہیں تو کہنے لگے بڑی حیرانگی کی بات ہے اور میری سوچ سے بھی بالا ہے.پھر کہنے لگے کہ اتنے بڑے مجمع میں کوئی پولیس والا بھی نظر نہیں آ رہا.جلسہ کے دوران انہوں نے بعض کارکنان سے بھی بات کی اور جب انہیں پتہ چلا کہ ان میں سے بعض بڑے عہدوں پر ہیں اور چھوٹے چھوٹے کام کر رہے ہیں اور زمین پر سوتے ہیں تو کہنے لگے کہ اس طرح ڈسپلن اور اطاعت کا معیار میں نے پہلے کبھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا.آپ کی جماعت سے کوئی بھی نہیں جیت سکتا.پھر دوسرے روز کے میرے خطاب کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ جو آپ کا خطاب تھا، میں نے اس میں جو بات سب سے زیادہ محسوس کی ہے اس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں دنیا کے بڑے بڑے سیاست دانوں سے ملا ہوں، بڑے بڑے جلسوں میں شرکت کی ہے.کاش ہم سیاسی لیڈر ہر سال اپنی عوام کے سامنے جو کچھ ہم نے کیا ہے ایمانداری کے ساتھ پیش کریں تو حکومت اور عوام میں بڑی تبدیلی آجائے.لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ دو گھنٹے اس طرح کھڑے رہنا، پرسکون اور اطمینان کے ساتھ ہر بات واقعات کے ساتھ کھول کر، اعداد و شمار کے ساتھ پیش کرنا، یہ بہت بڑا کام ہے.پھر کہتے ہیں کہ آج تیس ہزار سے زائد افراد کی موجودگی میں جب آپ کے خلیفہ کو سنا ہے تو مجال ہے کہ اس دوران کسی بھی شخص نے کسی قسم کی کوئی بات کی ہو.کہنے لگے کہ عجیب بات ہے جو میں نے دیکھی کہ تقریر کے دوران جب آپ کے خلیفہ چند لمحات کے لئے ٹھہر جاتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ پوری مارکی میں کوئی انسان بھی نہیں بیٹھا ہوا.بڑی خاموشی طاری ہوتی.کہتے ہیں میں نے بعض دفعہ سر اُٹھا کر اوپر دیکھنے کی کوشش بھی کی کہ شاید کوئی تو بول رہا ہو گا لیکن مجھے کوئی شخص بولتا ہوا نظر نہ آیا.سب کی آنکھیں بس صرف ڈائس کی طرف لگی ہوئی تھیں.پھر کہا کہ یہ نظارہ میں
خطبات مسرور جلد 11 496 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء ساری عمر نہ بھولوں گا.ایسا ڈسپلن اور اطاعت کا معیار میں نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ سنا.سے افریقہ کے ایک دوست جو بڑے عرصے سے وہیں رہ رہے ہیں، بن طیب ابراہیم (Ben Tayab Ibrahim) وہ جلسہ میں شامل ہوئے.ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ان کا جماعت سے تعارف ہوا تھا اور پروگراموں میں انہوں نے شرکت کی ، یورپین مہمانوں کے لئے علیحدہ مارکی میں کھانے کا انتظام ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ جنرل مارکی میں کھانا کھانے کے لئے جاتے تھے اور عالمی بیعت اور باقی سب خطابات سے بڑے متاثر ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت میں شامل ہو کے جماعت میں داخل ہو گئے.بیجیم سے ایک اور دوست سانی نووہ (Sani Novo) بھی جلسہ میں شامل ہوئے.موصوف تنجیم میں موجود نائیجر کمیونٹی کے ممبر ہیں.اس کمیونٹی کا اپنا سینٹر ہے.انہوں نے اپنا ایک نمائندہ بھیجا کیونکہ ان کی کمیونٹی کے لوگ احمدیت کی طرف آرہے ہیں اور احمدیت قبول کر رہے ہیں.جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر ان کے بائیس افراد نے بیعت کی تھی.برسلز میں موجود ان کے سینٹر میں ممبرز کی تعداداب کم ہوتی جارہی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یہ لوگ شامل ہوتے جارہے ہیں.کمیونٹی کی جو انتظامیہ ہے اُس نے موصوف کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا کہ وہ یہاں آ کر دیکھیں کہ کس طرح کی جماعت ہے اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے لوگ ہمیں چھوڑ کر اُن کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں.چنانچہ یہ صاحب جب جلسہ میں شامل ہوئے اور جو ذہن لے کر آئے تھے کہ جماعت کی غلطیاں اور خامیاں تلاش کرنی ہیں تا کہ واپس جا کر لوگوں کو کہہ سکیں کہ تم جس جماعت میں شامل ہوتے ہو ،اُن کے فلاں فلاں غلط عقائد ہیں اوران کے اندر فلاں فلاں خامیاں موجود ہیں.موصوف نے جلسہ کی تمام کارروائی سنی، روزانہ شام کو مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی تو اس سے اُن کی کافی تسلی ہوتی اور میرے سے بھی تھوڑی دیر کے لئے ان کی بات ہوئی تھی.انہوں نے بتایا کہ مجھے پورے جلسہ میں کوئی بھی غیر اسلامی بات نظر نہیں آئی.اور پھر کہتے ہیں کہ آپ کے خطابات کا مجھ پر بڑا اثر ہوا.میں جلسہ میں شامل ہو کر بہت خوش ہوں.آپ کا جلسہ ایک غیر معمولی ایونٹ (event) ہے اور میں تمام کارکنان اور خدمت کرنے والوں کے اخلاص اور محبت سے بہت متاثر ہوں.تا جکستان جماعت کے صدر عزت امان کو اس سال جلسہ میں شمولیت کی توفیق ملی.یہ شاید پہلے بھی آچکے ہیں.بہر حال کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے بارے میں میں عرض کرتا ہوں کہ جو دیکھا ہے وہ الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا.اگر کسی طرح الفاظ میں جلسہ سالانہ کی تصویر کشی کی جاسکتی ہے تو صرف یہ ہی
خطبات مسرور جلد 11 497 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء الفاظ میرے ذہن میں آتے ہیں کہ ایک سچا معجزہ.دوسرا کوئی لفظ یا الفاظ میرے ذہن میں نہیں آتے.جلسہ میں شامل احباب کے دل خلیفہ وقت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق سے پر ہیں اور یہی محبت اُنہیں دن رات جماعت کی خدمت میں لگائے رکھتی ہے.جلسہ سالانہ کے ان چند دنوں میں مجھے جلسے کے انتظامات میں کوئی بھی سقم نظر نہیں آیا.تمام انتظامات کا معیار نہایت اعلیٰ تھا.پھر کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ ہزاروں لوگ جلسہ سالانہ دیکھ کر اور اس میں بیان کی جانے والی باتیں سن کر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے والے بن گئے ہوں گے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہوا ہو.تا تارستان کی ایک احمدی خاتون کو جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی.کہتی ہیں جلسہ سالانہ میں شمولیت پر میرا دل جذبات شکر سے معمور ہے.جلسے میں شمولیت کی توفیق پانے پر میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات کا شکر ادا کرتی ہوں.اُس کے بعد خلیفہ وقت کا شکریہ ادا کرتی ہوں.نیز ان تمام لوگوں کی شکر گزار ہوں جنہیں جلسہ سالانہ کے انتظامات میں دن رات انتھک محنت کرنے کی توفیق ملی.میری ذات پر اس بات نے گہرا اثر چھوڑا ہے کہ کس طرح ساری دنیا سے آئے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے محبت اور مہمان نوازی کے جذبات سے سرشارہ مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں.مجھے جلسہ میں پہلی بار شامل ہونے کا موقع ملا.تاہم اس سے قبل اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے پر جلسہ کی کارروائی سے مستفیض ہوتی رہی ہوں.جلسہ کے ماحول میں پہنچنے کے بعد بڑی شدت سے مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ میں ایک روحانی دنیا میں آگئی ہوں جو محبت اور امن اور بھلائی والی دنیا ہے.کہتی ہیں بہت گہرائی کے ساتھ میں یہ محسوس کر رہی تھی کہ اپنی ایک بڑی اور متحد فیملی میں ہوں جہاں خدائے واحد و یگانہ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نیز آپ کے عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام سے محبت دلوں پر راج کرتی ہے.جہاں افراد جماعت آپس میں محبت و شفقت اور عزت کے جذبات ایک دوسرے کے لئے رکھتے ہیں.میں بڑی ہی خوش قسمت ہوں کہ میں احمد یہ مسلم جماعت سے تعلق رکھتی ہوں.مجھ پر جلسہ سالانہ کا ایسا گہرا اثر ہے کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے سال جلسہ سالانہ پر میں اپنے سارے بچوں اور والدہ کو بھی لے کر آؤں گی، انشاء اللہ.ترکمانستان سے ایک دوست شامل ہوئے ، کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونا ہماری خوش نصیبی تھی اور اللہ کا فضل تھا.ہم اس جلسے سے اس حد تک مستفیض ہوئے ہیں کہ ان جذبات کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے لیکن مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جلسے نے اسلام کے بارے میں ہمارے علم کو
خطبات مسرور جلد 11 498 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء تازہ کر دیا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں بڑھایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنے بہن بھائیوں سے محبت کرنے کی تعلیم کے مطابق ہمیں اس میں زیادہ کیا ہے.نیز احمدی مسلم کے طور پر ہماری ایمانی بنیادوں کو پہلے سے مضبوط کیا ہے اور اس طرح ہمارے برداشت کے مادے کو بڑھایا ہے.تو یہ جو نئے احمدی ہونے والے ہیں وہ اس طرح ایمان و اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں.چکی سے ایک نوجوان دوست کا ئیفل تو ریس صاحب ( Jussuf Caifl Torres ) جلسه میں شامل ہوئے.یہ پہلی بار آئے تھے.کہنے لگے کہ جلسہ سالانہ یوکے(UK) میں شمولیت میرے لئے روحانی مسرت اور خوشی کا باعث تھی.اگر چہ میرے والد مصری مسلمان تھے مگر والدہ چاتی سے تھیں.میرے والد صاحب نے بچپن میں جو اسلام سکھایا تھا وہ میں بھول چکا تھا اور میں بالکل مایوس ہو چکا تھا.( یہ خاندان کئی نسلوں سے چلی میں آباد ہے.) کہتے ہیں کہ احمدی مبلغ وہاں چلی میں پمفلٹ تقسیم کر رہا تھا.اس دوران میری اس مبلغ سے ملاقات ہوئی.مبلغ نے مجھے احمدیت حقیقی اسلام سے تعارف کروایا اور میں نے بیعت کر لی.اب جلسہ سالانہ یو کے میں شمولیت میرے لئے بہت زیادہ ازدیاد ایمان کا باعث بنی ہے.میں اب اپنے آپ کو حقیقی مسلمان یقین کرتا ہوں اور اس جذبے کے ساتھ واپس جا رہا ہوں کہ اپنے ملک میں احمدیت کی تبلیغ کروں گا.پانامہ سے ایک نو مبائع دانتے ارنستو گارسیا صاحب (Dante Ernesto Garcia) آئے تھے اور پانامہ سے جلسہ میں اس دفعہ پہلی دفعہ نمائندگی ہوئی ہے.کہتے ہیں کہ جلسہ میں بہت کچھ سیکھا.اس جلسہ میں شمولیت کر کے میرے ایمان میں اضافہ ہوا.جو بھائی چارہ میں نے یہاں دیکھا ہے وہ اسلام میں کہیں نہیں دیکھا.میں یہاں آ کر بہت مطمئن ہوا ہوں اور دل کو تسلی ہوئی ہے.میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے احمدیت قبول کرنے کی سعادت عطا فرمائی.جلسہ کے دوران مجھے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کا موقع ملا جن کا تعلق مختلف اقوام سے تھا.ان سے ایمان افروز واقعات سن کر میرے ایمان میں اضافہ ہوا اور میں اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے ملک پانامہ میں دعوت الی اللہ کر کے لوگوں کو احمدی بنانے کی کوشش کروں گا.کہتے ہیں جلسہ میں بہت بڑی تعداد شامل تھی.لوگ تو بے شمار تھے لیکن لگتا تھا کہ سب کا ایک ہی دل دھڑک رہا ہے.جسم تو تیس ہزار ہیں لیکن دل ایک تھا.
خطبات مسرور جلد 11 499 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء گوئٹے مالا سے وہاں کے ممبر نیشنل پارلیمنٹ سرخی او سے لیس صاحب (Sergio Celis) شامل ہوئے.یہ عیسائی ہیں.کہتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کی بلند اخلاقی قدروں، اُن کی باہمی محبت و اخوت اور یگانگت نیز اُن کے مضبوط جذبہ ایمان سے بہت متاثر ہوا ہوں.ایسا محبت و پیار میں نے کہیں نہیں دیکھا.جماعتی تنظیم قابل ستائش ہے.بہت شاندار اور مثالی جلسہ تھا.ہر ا نتظام سے بہت متاثر ہوا ہوں.اسلام کی خوبصورت تصویر جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے وہ دوسروں سے بالکل مختلف ہے.اگر چہ مختلف ممالک اور متفرق اقوام کے افراد تھے مگر ایسے محسوس ہوا جیسے سب کا دل ایک ہے.میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے جلسہ میں شامل ہونے کا موقع ملا.جاپان سے ایک خاتون ، مینے سا کی ہیرو کو (Minesaki Hiroko) صاحبہ تشریف لائی تھیں.موصوفہ پی ایچ ڈی ہیں.جاپان میں ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور جاپانی کے علاوہ انگریزی اور عربی زبان بھی جانتی ہیں.مسلمان نہیں ہیں.موصوفہ نے بتایا کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوکر بیحد خوش ہیں اور عرب احمدیوں سے مل کر اور جلسہ کے ماحول سے بیحد متاثر ہوئی ہیں.کہتی ہیں سونامی طوفان کے نتیجہ میں جاپان میں آنے والی تباہی کے موقع پر جماعت احمدیہ نے مذہب ونسل سے بالا ہو کر انسانیت کی بے انتہا خدمت کی ہے.جماعت کے عقیدے اور عمل میں کوئی فرق نہیں ہے.جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں.گیانا سے ممبر آف پارلیمنٹ جو مسلمان ہیں، منظور نادر صاحب، یہ بھی شامل ہوئے تھے اور کافی پرانے پارلیمنٹیر بین ہیں.لیبر کے منسٹر بھی رہ چکے ہیں.انڈسٹری اکاؤنٹس کے منسٹر بھی رہ چکے ہیں.اس وقت صدر گیانا کے پولیٹیکل افیئرز کے ایڈوائزر ہیں.کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے انتظامات سے بہت متاثر ہوا ہوں.یہ تینوں دن یہاں شامل ہوتے رہے.اور دوسرے دن جماعت کی ترقیات کی جور پورٹ پڑھی جاتی ہے، اسے سن کر کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی دوران سال ترقی اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے واقعات سے بھی بہت متاثر ہوا ہوں.بیلجیم سے ایک غیر احمدی مہمان خاتون Miss Sels Annie Maria جلسے میں آئی تھیں.آئی ٹی کنسلٹنٹ ہیں اور کہتی ہیں کہ لوکل جماعت کے ایک ممبر کے ذریعہ سے ان کو جماعت کا تعارف حاصل ہوا.بقیہ معلومات جماعت کی ویب سائٹ سے حاصل کیں.ان کی دلچسپی کے مد نظر بیجیم جماعت نے اُن کو جلسہ سالانہ یوکے(UK) میں شمولیت کی دعوت دی.وہ یہاں آئیں.کہتی ہیں جلسہ کے دوران سارے پروگرام میں نے دیکھے ، بھر پور شرکت کی اور اسی طرح یورپین احمدی خواتین کے ساتھ گھل
خطبات مسرور جلد 11 500 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء مل گئیں.جامعہ احمدیہ میں ان کی رہائش تھی.ایک دن وہاں نماز تہجد ہورہی تھی.وہ اکیلی اور پریشان حال بیٹھی تھیں.اُن کو نماز پڑھنی نہیں آتی تھی.اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نماز پڑھنا چاہتی ہیں؟ کہنے لگیں کہ ہاں میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں.پھر ایک نو مبایعہ نے اُن کو وضو کرنا سکھایا اور نماز کا طریق بتایا جس پر وہ نماز میں شامل ہو گئیں.پہلے دن انہوں نے چین اور شرٹ پہنی ہوئی تھی ، جب جلسہ گاہ میں عورتوں کا لباس دیکھا تو اُن پر بڑا اثر ہوا اور انہوں نے مبلغ تنجیم کی اہلیہ سے کہا کہ میں تو ایسا ہی لباس پہننا چاہتی ہوں.چنانچہ اُس خاتون نے جلسہ گاہ کے بازار سے زنانہ لباس خریدا اور وہ پہنا.میرے خطابات سننے کے بعد کہنے لگیں کہ حقیقی اسلام اور متقی کی صفات کے بارے میں جو خطبات دیئے ہیں یا خطابات کئے ہیں اُن کا مجھ پر گہرا اثر ہوا ہے.یہ خطابات سننے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں.چنانچہ یہ عالمی بیعت میں شامل ہوئیں اور بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئیں اور مجھے ملی بھی تھیں.اللہ کے فضل سے بڑے ڈھکے ہوئے لباس میں تھیں.پس یہ جلسہ اپنوں اور غیروں سب پر روحانی ماحول کا اثر ڈالتا ہے.ایک سعید فطرت کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اسلام کی خوبیوں کا معترف ہو کر اُسے قبول کرلے لیکن ہمارے مخالفین کو ، اُن لوگوں کو جن کو دوسروں سے پہلے یہ حکم تھا، غیروں سے پہلے یہ حکم تھا کہ امام مہدی کو جا کر میر اسلام کہنا، برف کے پہاڑوں پر سے گزرنا پڑے تو گزر کر جانا اور سلام کہنا ، اُن لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی.اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے.پھر یہ دیکھیں کہ اکثریت نے ، خاص طور پر جو غیر مہمان تھے ، انہوں نے بچوں اور نوجوانوں اور بوڑھوں اور عورتوں کو جو مہمان نوازی کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اُس کا اُن پر بڑا گہرا اثر ہوا ہے اور ان سب نے تقریباً اس کا ذکر کیا ہے.پس یہ خدمت کا جذ بہ جو جماعت احمدیہ کے افراد میں ہے یہ بھی ایک خاموش تبلیغ ہے.ایک بچہ ہے اُس نے پانی پلایا اور آگے گزر گیا لیکن وہ ایک دل میں جو اثر قائم کر گیا اُس نے اُس دل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالا.اسی طرح کوئی نو جوان ہے، کسی کو کھانا کھلا رہا ہے، کوئی کار پارکنگ میں ہے تو خوش خلقی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ایسے مظاہرے کرتے ہوئے پارکنگ کروا رہا ہے.لڑکے، لڑکیاں سکیننگ اور چیکنگ کر رہی ہیں تو بڑی خوش اخلاقی سے کر رہی ہیں.لجنہ نے ہر شعبہ میں اپنے انتظامات کئے جیسا کہ واقعات میں ذکر بھی ہوا ہے اور بڑے اچھے کئے.سہولت پہنچانے میں مصروف رہیں.تو یہ باتیں جہاں سب کارکنان کے لئے اپنوں کی دعاؤں کو حاصل کرنے والا بناتی ہیں، غیروں کو اسلام اور احمدیت کی حقیقت سے آگاہ کر رہی ہوتی ہیں اور اس خوبصورت تعلیم کا گرویدہ کر رہی
خطبات مسرور جلد 11 501 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء ہوتی ہیں.پس ان تمام کارکنات اور کارکنان کا میں بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے گزشتہ سالوں کی نسبت اس سال خاص طور پر نسبتاً زیادہ بہتر رنگ میں اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹیاں اور فرائض سرانجام دیئے.مجھے لوگوں کے جو تاثرات مل رہے ہیں اس میں اس سال پارکنگ کے شعبہ کے بڑے اچھے تاثرات ہیں.خدام پارکنگ کرواتے تھے ، خوش اخلاقی سے حال پوچھتے تھے، تکلیف پر معذرت کرتے تھے.گرمی کی وجہ سے پانی وغیرہ کا پوچھتے تھے.ایک لکھنے والا یہ لکھتا ہے کہ کسی کو میں جانتا نہیں تھا لیکن یہ اخلاق دیکھ کر سفر کی آدھی تھکان اور کوفت جو تھی وہ دور ہو جاتی تھی.تو بس یہی ایک احمدی کا طرہ امتیاز ہے اور ان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہم میں سے ہر ایک کو کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ان اعلیٰ اخلاق کو ہمیشہ قائم رکھنے کی توفیق بھی عطا فرمائے.اسی طرح تبشیر کی مہمان نوازی کا بھی اس مرتبہ بہت اچھا معیار رہا ہے.جامعہ کے طلباء، واقفین ئو اور واقفات ٹو نے بہت اچھا کام کیا ہے.ہر مہمان ان کی تعریف کر رہا ہے.لیکن خود کارکن کو اپنا یہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اگر کہیں کوئی کمی ہے تو اُس کو آئندہ سال کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے.پھر اس دفعہ عرب مہمانوں کا بھی بڑا وفد آیا تھا.وہ بھی 110 سے اوپر آدمی تھے.اُن کا عمومی انتظام بھی گزشتہ سال سے بہت بہتر تھا.عرب ڈیسک یو کے اور ان کے نائب سیکرٹری تبلیغ اس سال انچارج تھے.انہوں نے بھی اور اُن کی ٹیم نے بھی ماشاء اللہ بڑا اچھا کام کیا.اللہ تعالیٰ اُن کو بھی جزا دے.یہ گزشتہ سال بھی تھے لیکن اتنا بہتر انتظام نہیں تھا جتنا اس سال ہوا ہے.پھر بہت سارے مہمان جو مجھے ملے ہیں ، اُن کو جو چیز متاثر کرتی ہے، وہ یہ کہ اپنے عمومی تاثرات دیتے ہوئے وہ تصویری نمائش کا بڑا ذکر کرتے ہیں.عمومی طور پر احمدیوں میں بھی اس کا اچھا feed back ہے کہ اس سے احمدیوں کو اپنی تاریخ کا پتہ لگا، غیروں کو بھی ہماری تاریخ کا پتہ لگا اور اس سے وہ متاثر بھی ہوئے.لنگر خانے کے نظام میں بھی گزشتہ سال کی نسبت بہتری ہوئی ہے.روٹی بھی عمومی طور پر پسند کی گئی ہے.اسی طرح سالن بھی.لیکن ایک صاحب ہیں جنہوں نے کھانے پر خوب اعتراض کیا ہے کہ بُو آ رہی تھی اور باسی تھا اور یہ تھا اور وہ تھا.بہر حال میں نے تو جن لوگوں سے بھی پوچھا ہے اور لوگ خود ہی مجھے لکھ رہے ہیں اور مختلف وقت میں خود میں نے بھی کھانا دیکھا ہے مجھے تو باسی کھانا نہیں لگا.ہوسکتا ہے کہ ان کو کسی نے باسی کھانا کھلا دیا ہو.لیکن یہ شخص جس نے مجھے لکھا ہے میں جانتا ہوں ان کو اپنے علاوہ کسی کا کام اچھا بھی نہیں لگتا.اور یہ ہر ایک کا کام غیر معیاری سمجھتے ہیں اور ان کا لکھا ہوا یہ فقرہ بھی اس بات کی گواہی
خطبات مسرور جلد 11 502 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء دے رہا تھا کہ میں جرمنی میں کچن میں ڈیوٹی دے رہا تھا تو خلیفہ رابع نے مجھے کہا کہ تم کچن میں ہو تو مجھے کوئی فکر نہیں.لیکن اگر انہوں نے کہا بھی تھا، پتہ نہیں کہا تھا کہ نہیں کہا تھا لیکن کہا تھا تو اُن کی یہ خود نمائی کی باتیں سن کر یہ ضرور انہوں نے کہہ دینا تھا کہ میں الفاظ واپس لیتا ہوں.یہ خود پسندی ، خود نمائی اور اپنی تعریف اور دوسروں پر اعتراض کی جو عادت ہے ہم میں سے ہر ایک کو اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.جماعت احمدیہ کے کام نہ ایک شخص سے مخصوص ہیں، نہ ہی کسی شخص پر اس کا انحصار ہوسکتا ہے.یہی جماعت کی خوبی ہے اور اسی کی غیروں نے بھی تعریف کی ہے کہ ایک ٹیم ورک تھا، سب بڑے چھوٹے مل کے کام کرتے ہیں اور بڑے اعلیٰ معیار کے کام ہورہے تھے.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں یو کے (UK) میں بھی سینکڑوں ہزاروں ایسے مخلص کارکن اللہ تعالیٰ نے مہیا کر دیئے ہیں کہ ایک کو اگر ہٹا ؤ تو دس نئے کام کرنے والے آجاتے ہیں جو خود نمائی کی بجائے عاجزی دکھانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے ہیں.تو بہر حال مجھے تو ایسوں کی ضرورت ہے جو اس طرح عاجزی سے کام کرنے والے ہوں اور ایسے کارکنوں کے لئے میں دعا بھی کرتا ہوں.بعض ڈیوٹی دینے والوں کی یہ شکایت ملی ہے اور یہ نہیں کہ ادھر ادھر سے ملی ہے ، خدام الاحمدیہ نے خود ہی محسوس کیا ہے کہ بعض سیکیورٹی ڈیوٹی دینے والے بعض دفعہ بعض لوگوں پر سختی کرتے رہے، مثلاً ایک retarded لڑکا تھا اُس کو بلا وجہ بختی سے زور سے پیچھے ہٹایا تو اس کو چوٹ بھی لگ گئی یا اُس کو تکلیف ہوئی، پیٹ پر ہاتھ پڑا تھا، تو جو ڈیوٹی دینے والے ہیں اُن کو ہوشیار بھی رہنے کی ضرورت ہوتی ہے.سیکیورٹی کا خاص طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اعصاب کو قابو میں رکھنے کی بھی ضرورت ہے.اس کے بغیر سیکیورٹی ڈیوٹی نہیں دی جاسکتی.پس خدام الاحمدیہ آئندہ سال کے لئے ، سارا سال یہ سروے کرے کہ سارے ملک میں سے کون سے ایسے لڑکے ہیں جو مضبوط اعصاب والے بھی ہیں اور ہوش حواس بھی قائم رکھنے والے ہیں تا کہ اگر کوئی ہنگامی صورت ہو اُس میں کام بھی آسکیں اور آئندہ سال ایسے لوگوں کو لیا جائے.اور ایک اعتراض یہ بھی مجھے مل رہا ہے اور شاید کسی حد تک صحیح ہے کہ مردانہ مارکی اور لجنہ کی مارکی کے درمیان ایم ٹی اے کی مار کی تھی جہاں دفاتر اور ٹرانسمشن وغیرہ کا انتظام تھا.اس کی وجہ سے اگر ایمر جنسی میں نکلنا پڑے تو روک پڑسکتی ہے.اس لئے جلسہ گاہ کے دونوں طرف کھلے راستے ہونے چاہئیں.علاوہ اس اعتراض کے جو انہوں نے نہیں لکھا لیکن میرے خیال میں اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ گرمی کی وجہ سے بعض دفعہ در کھولنے پڑتے ہیں تو ہوا بھی اچھی آئے گی.اس لئے ایم ٹی اے کی مار کی کو آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 503 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء ایک خاتون جرمنی سے آئی تھیں، جلسہ کی انتظامیہ کو ان کی بھی بات بتا دوں کہ انتظام بڑا صحیح تھا، صفائی صحیح تھی ، ٹائٹلٹس وغیرہ بڑے اچھے تھے لیکن ٹائٹلٹس میں لوٹوں کی جگہ جگ رکھے ہوئے تھے.تو کہتی ہیں میں انتظام کر سکتی ہوں کہ جرمنی سے لوٹے لا دوں یا کہیں سے منگوا دوں.بیشک بڑی خوشی سے انتظام کریں اور میرا خیال ہے یو کے (UK) والے اُن کی اس offer کو قبول بھی کر لیں گے.اسی طرح paper towel اور بڑے ڈسٹ بن جو ہیں ان کا انتظام بھی کھلا ہونا چاہئے.ایک شکایت یہ ہے کہ جلسہ ختم ہوتے ہی غسل خانوں میں پانی ختم ہو گیا تھا.جلسہ کی انتظامیہ اس کا آئندہ خیال رکھے.بہر حال یہ چند چھوٹی موٹی باتیں ہیں اس کے علاوہ مجموعی طور پر جلسہ کے انتظامات اور تقاریر کے معیار بھی جیسا کہ مہمانوں نے ذکر کیا اور عمومی ماحول بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اعلیٰ تھا.ہر شامل ہونے والے نے ، جو ہر سال شامل ہوتے ہیں انہوں نے بھی اس کا اظہار کیا ہے کہ پہلے کی نسبت یہ اعلیٰ معیار ہے اور تمام کارکنان اور انتظامیہ بہر حال اس کے لئے شکریہ کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے.پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں.کل 7 ستمبر ہے اور جو ہمارے مخالفین ہیں یہ دن بڑے جوش وخروش سے مناتے ہیں.ان دنوں میں اپنے آپ کو انہوں نے اکٹھا کر کے ایک تو حدیث پوری کر دی لیکن بہر حال یہ اُن کا جو بھی فعل ہے اور جماعت احمد یہ مسلمہ ان فرقوں سے علیحدہ ہوگئی ، خود انہوں نے حدیث پوری کر دی.تو یہ دن بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے.جلسے ہوتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں ، جماعت کو گالیاں دی جاتی ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف انتہائی بیہودہ دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ختم نبوت کے نام پر ہوتا ہے اور اس دفعہ ان کا یہ ارادہ ہے کہ پورا ہفتہ عشرہ اپنے ان مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کے لئے منائیں گے.جو لوگ خدا تعالیٰ کے حبیب محسنِ انسانیت اور رحمتہ للعالمین کو اپنے غلط مقاصد کے لئے بدنام کر رہے ہیں خدا تعالیٰ جلد اُن کی پکڑ کے بھی سامان بھی پیدا فرمائے گا.اس ہفتہ میں کراچی میں پھر دو شہادتیں ہوئی ہیں.انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ جلد احمدیوں کے لئے بھی پاکستان میں آزادی کے اور سہولت کے سامان پیدا فرمائے.آج یہاں ہمارے ایک گھانین بزرگ کا جنازہ حاضر بھی ہے.اُن کا جنازہ بھی میں پڑھاؤں گا اور ان دو شہداء کا جنازہ غائب بھی ساتھ پڑھا جائے گا.کیونکہ ایک جنازہ حاضر ہے میں باہر جا کر جنازہ پڑھاؤں گا اور احباب یہیں مسجد میں صفیں درست کر لیں اور جنازہ میرے پیچھے پڑھیں.
خطبات مسرور جلد 11 504 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء یہ ہمارے گھا نین دوست، بزرگ جن کی وفات ہوئی ہے ان کا نام آدم بن یوسف صاحب ہے اور ان کو کینسر کی بیماری تھی.3 ستمبر کو 84 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ 1956ء میں 27 سال کی عمر میں انہوں نے بیعت کی تھی اور بیعت کے بعد انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑ دی اور تبلیغ شروع کر دی.آپ نے گھانا کے تمام علاقوں میں تبلیغ کی اور اکثر مقامات میں جماعتیں قائم کیں.پرانی جماعتوں کو فعال کرنے میں خصوصی کردار ادا کیا.ان کی تبلیغ سے سینکڑوں احباب نے احمدیت قبول کی.ان کی تبلیغ کے شوق کی وجہ سے ان کا نام ہی وہاں گھانا میں یوسف preacher پڑ گیا تھا.مرحوم 2003ء میں یو کے (UK) آئے تھے ، یہاں بھی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں اور خصوصی طور پر ریڈیو پروگراموں میں تبلیغ کیا کرتے تھے جن میں voice of Africa اور WLS ریڈیو قابل ذکر ہیں.اپنے ریجن کے سیکرٹری تبلیغ بھی تھے.2001ء میں ان کو حج کی سعادت بھی ملی.2005ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی توفیق پائی.بہت نیک، صالح ، نماز روزے کے پابند اور مخلص انسان تھے.خلافت کے ساتھ گہرا محبت کا تعلق تھا.مرحوم موصی تھے.ان کے پسماندگان میں دو بیویاں اور دس بیٹیاں یادگار ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی احمدیت ہمیشہ قائم رہے.جو شہداء ہیں اُن میں سے ایک شہید ڈاکٹر سید طاہر احمد صاحب ابن ڈاکٹر سید منظور احمد صاحب لانڈھی کراچی ہیں.ان کی شہادت 31 اگست کو ہوئی تھی.31 اگست کو یہ اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے تھے ، مریضوں کو چیک کر رہے تھے اسی دوران دو مرد اور دو خواتین مریض کے روپ میں کلینک میں داخل ہوئے اور ان میں سے ایک مرد نے ڈاکٹر صاحب پرفائرنگ کر دی.ڈاکٹر صاحب کو چھ گولیاں لگیں.ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے گولیوں کی آواز سنی تو معمول کی فائرنگ سمجھی.وہاں کراچی میں تو ہر وقت فائرنگ ہوتی رہتی ہے مگر ان کے پڑوسی فائرنگ کی آواز سن کر باہر نکلے تو کلینک سے چارافراد کو بھاگتے ہوئے دیکھا.وہ فوراً کلینک کی طرف آئے تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب خون میں لت پت زمین پر گرے ہوئے ہیں.وہ ڈاکٹر صاحب کو فوراً ایک گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے مگر ڈاکٹر صاحب راستے میں ہی جام شہادت نوش فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا مکرم حکیم فضل الہی صاحب کے ذریعہ ہوا تھا جنہیں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دورِ خلافت میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.آپ کے دادا کا تعلق تلونڈی ضلع گوجرانوالہ سے تھا اور 1970ء میں ان کے دادا
خطبات مسرور جلد 11 505 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء کراچی شفٹ ہو گئے تھے.شہادت کے وقت شہید مرحوم کی عمر 55 سال تھی.آپ نے انٹر تک تو حاصل کی.اُس کے بعد مکینیکل انجینئر نگ میں ایسوسی ایٹنگ انجینئر کا ڈپلومہ حاصل کیا.پھر کراچی یو نیورسٹی سے ڈی ایچ ایم ایس کی ڈگری حاصل کی.نیشنل آئل ریفائنری میں کم و بیش تیس سال ملازمت کی اور اب تین سال کے بعد ریٹائر ہونے والے تھے.شہید مرحوم شہادت کے وقت بطور سیکرٹری دعوت الی اللہ حلقہ لانڈھی خدمات کی توفیق پارہے تھے.اس سے پہلے بھی مختلف عہدوں پر یہ خدمات انجام دیتے رہے.مرحوم انتہائی نفیس طبیعت کے مالک تھے.بڑے ہنس مکھ صلح جو، ملنسار.آپ کا حلقہ احباب انتہائی وسیع تھا.اپنے علاقے میں ایک معزز شخصیت تھے.آپ کی شہادت کے بعد محلے داروں کی ایک کثیر تعداد تعزیت کی غرض سے آپ کے گھر میں جمع ہو گئی.عزیز رشتہ داروں کے ساتھ بھی بہت اچھا تعلق تھا.اگر کوئی زیادتی بھی کر جاتا تو درگزر کرتے اور خود آگے بڑھ کر صلح کا ہاتھ بڑھاتے.آپ ایک کامیاب ہومیو پیتھی ڈاکٹر بھی تھے.مستقل مریضوں کی تعداد بھی بہت وسیع تھی.کئی مرتبہ یہ ہوا کہ دفتر سے تھکے ہوئے آئے ہیں اور گھر آتے ہی مریض آگئے تو فوراً اُن کا علاج شروع کر دیا.نمازوں کے پابند اور با قاعدگی کے ساتھ تہجد کا التزام بھی کیا کرتے تھے.اور بے انتہا مصروفیت کے باوجود حلقے میں دورہ جات کے لئے حتی الوسع اپنی بیوی کی ، جو صدر لجنہ ہے، معاونت کرتے.اُن کے ساتھ دورہ کیا کرتے تھے.انتہائی شفیق باپ اور بچوں کی پڑھائی اور تربیت پر توجہ دینے والے.ان کی اہلیہ محترمہ سیدہ طاہرہ طاہر صاحبہ اور تین بیٹے عزیزم رضوان طاہر عمر 32 سال ، فرحان طاہر 29 سال مجتبی طاہر 19 سال اور بیٹیاں صبوحی عثمان اور عزیزہ رباب طاہرہ انہوں نے سوگوار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.شہید مرحوم کے درجات بلند کرے.دوسرے شہید ہیں مکرم ملک اعجاز احمد صاحب ولد مکرم ملک یعقوب احمد صاحب اورنگی ٹاؤن کراچی کے.ان کی شہادت 4 ستمبر کو ہوئی ہے.4 ستمبر کو تقریباً پونے گیارہ بجے ان کی شہادت ہوئی.شہید مرحوم گارمنٹ فیکٹری میں اپنے بھائی مکرم ملک رزاق احمد صاحب کے ہمراہ سٹیچنگ (stiching) کی ٹھیکیداری کا کام کیا کرتے تھے.دونوں گھر سے فیکٹری جانے کے لئے اپنی علیحدہ علیحدہ موٹر سائیکلوں پر نکلے تو اپنے بھائی سے پیچھے کچھ فاصلے پر تھے کہ رستے میں کھڑے دو نامعلوم افراد نے اُن کے قریب آکر بائیں سائڈ سے کان کے قریب فائر کیا.گولی سر سے آر پار ہو گئی جس سے آپ موقع پر شہید ہو گئے.انا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.وقوعہ کے بعد حملہ آور موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے.پیچھے آنے والی ایک کار کے
خطبات مسرور جلد 11 506 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06 ستمبر 2013ء ڈرائیور نے بتایا کہ حملہ آور دو نو جوان تھے، موٹر سائیکل چلانے والے نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا جبکہ پیچھے بیٹھا ہوا شخص جس نے حملہ کیا ہے ، ہلکی داڑھی والا نوجوان تھا.شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پردادا میاں احمد صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے خلافت ثانیہ کے دور میں مکرم و محترم چوہدری غلام رسول بسراء صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ سے متاثر ہوکر بیعت کی.آپ کے پردادا بیعت کے وقت جوڑا کلاں خوشاب میں رہائش پذیر تھے مگر مخالفت کی وجہ سے مکرم چوہدری غلام رسول بسراء صاحب کے مشورے سے چک 99 شمالی سرگودھا شفٹ ہو گئے جہاں پر خاندان کو جماعت کی نمایاں خدمت کی توفیق ملی.وہاں کی مسجد کی تعمیر میں بھی ان کے والد نے بڑا کردار ادا کیا.مرحوم کے والد ملک یعقوب احمد صاحب، ان کی عمر 90 سال ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیات ہیں.ان کی والدہ وفات پاچکی ہیں.1990ء میں یہ لوگ سرگودھا سے کراچی شفٹ ہو گئے تھے اور اپنے بہنوئی مکرم نواز صاحب شہید ان کے بہنوئی بھی شہید کئے گئے تھے گزشتہ سال ستمبر میں ) اُن کے پاس شفٹ ہو گئے تھے.شہید مرحوم انتہائی مخلص اور محبت کرنے والے ہمدرد انسان تھے.ہر ایک سے خوش ہوکر ملتے.کسی کی دل شکنی ان کو پسند نہ تھی.بچوں کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ پیش آتے.اپنے بچوں کے علاوہ اپنے بھائی کے بچوں کے ساتھ بھی انتہائی شفقت سے پیش آتے جو آپ کے ساتھ رہائش پذیر تھے.جماعت کے لئے بہت ایمانی غیرت رکھتے تھے.جب کسی شہادت کا ذکر سنتے تو اپنے دل پر گہرا اثر لیتے.نظام جماعت کی آپ کامل اطاعت کرتے.جب کسی کام کے لئے کہا جاتا تو فوراً بشاشت کے ساتھ کرتے.گزشتہ سال اپنے بہنوئی محمد نواز صاحب شہید کی شہادت کے موقع پر بار بار اس بات کا اظہار کرتے کاش یہ سعادت مجھے نصیب ہوتی.شہید مرحوم کی عمر 36 سال تھی.پسماندگان میں والد مکرم ملک یعقوب احمد صاحب کے علاوہ اہلیہ محترمہ راشدہ اعجاز صاحبہ، ایک بیٹی عزیزہ ماہ نور اعجاز عمر 12 سال اور دو بیٹے عزیزم جواد احمد عمر 10 سال اور عزیزم منظور اعجاز عمر 8 سال سوگوار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے اور ان کا حامی و ناصر ہو.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شمارہ 39 مورخہ 27 ستمبر تا 03 اکتوبر 2013 ، صفحہ 5 تا صفحہ 9)
خطبات مسرور جلد 11 507 37 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013 ء بمطابق 13 تبوک 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس وقت دنیا کے حالات بڑی تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور خاص طور پر شام کے حالات کی وجہ سے نہ صرف شام بلکہ عرب دنیا میں جو حالات ہیں اُس کی وجہ سے بہت زیادہ تباہی پھیل سکتی ہے.اگر شام کی جنگ میں بیرونی طاقتیں شامل ہوئیں تو پھر صرف عرب دنیا ہی نہیں بلکہ بعض ایشین ممالک کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچے گا.اس بات کو نہ عرب حکومتیں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں، نہ دوسرے ممالک اور بڑی طاقتیں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ جنگ صرف شام کی جنگ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے.پس احمدیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ماننے والے ہیں ، جو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں دنیا کو خدا تعالیٰ سے جوڑنے اور امن اور بھائی چارہ قائم کرنے کے لئے آئے تھے، دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے بہت زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.ہمارے پاس دعا کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے ہم دنیا کو تباہی سے بچانے کی کوشش کر سکیں.ظاہری کوشش کے لحاظ سے جو تھوڑی بہت ظاہری کوششیں ہیں ، ہم دنیا کو اور بڑی طاقتوں کو ان خوفناک نتائج سے ہوشیار کر سکتے ہیں جو ہم کر بھی رہے ہیں.دنیا کے جو سیاستدان اور حکومتیں ہیں ان کو جہاں تک ہوسکتا ہے میں بھی ہوشیار کرتا رہتا ہوں، کر رہا ہوں اور اس پیغام کو افراد جماعت نے بھی میرے ساتھ وسیع پیمانے پر دنیا کے ملکوں میں پھیلایا ہے.یہ لیڈر اور سیاستدان بڑے زور شور سے اس بات کا
خطبات مسرور جلد 11 508 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء اظہار کرتے ہیں کہ آپ کا پیغام عین وقت کی ضرورت ہے اور ہم بالکل آپ کی تائید کرتے ہیں لیکن جب اس پیغام پر عملی اظہار کا موقع آتا ہے تو بڑی طاقتوں کی ترجیحات بدل جاتی ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا یہ تو ظاہری کوشش ہے، اصل ہتھیار تو ہمارے پاس ہر کام کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمیٹنے کے لئے دعا کا ہے جس کی طرف احمدیوں کو ان حالات میں بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے.انسانیت کے لئے عموماً اور امت مسلمہ کے تباہی سے بچنے کے لئے خصوصا ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آج سے اٹھاسی سال پہلے تقریباً 1925ء میں اُس وقت شام کے جو حالات تھے پر خطبہ دیا تھا اور بتایا تھا کہ دمشق کی تاریخ بڑی پرانی ہے.اسلام سے پہلے ،.بھی یہ شہر بہت سے دینوں کا مرکز رہا ہے یا اس کی اہمیت رہی ہے.اسلام میں بھی بڑے عرصے تک یہ دارالخلافہ رہا ہے اور اس شہر میں اکثر پرانے مذاہب کی یادگاریں تھیں.جیسا کہ میں نے کہا 1925ء میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شہر کے بارے میں یا شام کے بارے میں خطبہ دینے کی وجہ یہ بتائی کہ اُس وقت جو حالات تھے وہ یہ تھے کہ دروزیوں نے جو وہاں ایک قبیلہ ہے، انہوں نے آزادی کی آواز اُٹھائی اور اس آواز پر وہاں کے باقی مسلمان بھی شامل ہو گئے.وہ لوگ پہاڑوں میں رہنے والے تھے لیکن باقی مسلمان جو شہروں میں رہنے والے تھے وہ بھی شامل ہو گئے جبکہ اُس وقت وہاں فرانسیسیوں کی حکومت تھی.یہ بھی آپ نے تجزیہ کیا کہ انتظامی لحاظ سے فرانسیسی حکومت تھی گو بعض فیصلوں کے لحاظ سے مفتی یا مولوی بھی حاکم تھے اور اس طرح دو تین طرز کے وہاں حکمران تھے لیکن بہر حال جو سیاسی حکومت تھی وہ فرانس کے تحت تھی.اور جو مفتی حاکم تھے وہ یہ کہ اگر کسی لٹریچر کو چھاپنے کی اجازت ہوتی یا کسی مذہبی کتاب کو چھاپنے کی اجازت ہوتی اور اگر مفتی اُس کے بارے میں کچھ کہہ دیتا تو گورنر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے مثال دی کہ جماعت احمدیہ نے وہاں لٹریچر شائع کرنے کی گورنر سے اجازت لی اور یہ چھپ بھی گیا لیکن مفتی نے چھپنے کے بعد اُسے Ban کر دیا.گورنر کو شکایت کی گئی تو اُس نے کہا کہ اس معاملے میں میرا کوئی اختیار نہیں.یہ اختیار تو مفتی کے پاس ہے.تو بہر حال فرانس کی انتظامی حکومت تھی.سیاسی طور پر اگر کوئی اُس کے خلاف آواز اُٹھاتا تو اس سے سختی سے نپٹا جاتا.اُس وقت اُس کے خلاف بغاوت یا آزادی کی آواز جب مقامی لوگوں نے اُٹھائی تو فرانس کی حکومت نے دمشق پر بہت بڑا ہوائی حملہ کیا.کہتے ہیں کہ ستاون اٹھاون گھنٹے تک بم برسائے گئے اور شہر کی تاریخ کو، اُس کی تاریخی عمارات کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا گیا.ہزاروں لوگ مارے گئے.یہ شہر کیوں بربادکیا گیا ؟ کیوں وہ لوگ
خطبات مسرور جلد 11 509 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء مارے گئے؟ اس لئے کہ وہ غیر حکومت سے آزادی چاہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام بھی ہے کہ بلائے دمشق.تو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اُس وقت اس ہوائی حملے سے جو دمشق کی حالت تھی اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام بھی پورا ہوا کہ تمام تاریخی عمارات، تمام مذاہب کی تاریخ ، سب ملیا میٹ کر دی گئی کیونکہ اس سے بڑی بلا اور تباہی اس سے پہلے کبھی دمشق پر نہیں آئی تھی.یہ بلا آئی تھی غیروں کے ہاتھوں، جیسا کہ میں نے کہا کہ فرانس نے حملہ کیا.(ماخوذاز خطبات محمود جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 324 تا334 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1925ء مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) بعض الہامات کئی مرتبہ بھی پورے ہوتے ہیں.وہ بلا جو غیروں کے ہاتھوں آئی اور شہر کو تباہ کر دیا وہ ستاون اٹھاون گھنٹے رہی جس میں کوئی کہتا ہے دو ہزار لوگ مارے گئے ،کوئی کہتا ہے ہیں ہزار لوگ مارے گئے لیکن کہا جاتا ہے، محتاط اندازہ یہی ہے کہ اُس وقت سات آٹھ ہزار لوگ بہر حال مارے گئے.لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ بلا جو غیروں کے ہاتھوں سے آئی تھی ، اُس میں تو یہ نقصان ہوا.لیکن ایک بلا اب بھی آئی ہوئی ہے جو اپنے کے ہاتھ آئی ہے اور گزشتہ تقریب دو اڑھائی سال سے یہ دمشق میں اور شام میں تباہی پھیلا رہی ہے.پورے شام کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.لاکھ سے اوپر لوگ مارے گئے ہیں، محتاط اندازہ ہے ، بعض کہتے ہیں اس سے بھی زیادہ ہے اور ملینز میں لوگ ایسے ہیں جو بے گھر ہوئے ہیں.گھر بھی کھنڈر بنے ہیں، بازار بھی کھنڈر بن رہے ہیں ،صدارتی محل پر بھی گولے برسائے گئے ہیں، ائیر پورٹس پر بھی گولے برسائے گئے.مختلف عمارات پر گولے برسائے گئے ،غرض کہ کوئی بھی محفوظ نہیں.حکومت کے جو فوجی ہیں وہ شہریوں کو مار رہے ہیں اور شہری حکومتی کارندوں کو مار رہے ہیں ، ان میں فوجی بھی شامل ہیں اور دوسرے بھی شامل ہیں.علوی جو ہیں وہ سینیوں کو مار رہے ہیں اور سنی جو ہیں وہ علویوں کو ماررہے ہیں.اور یہ سب لوگ جو ہیں ایک کلمہ پڑھنے کا دعوی کرتے ہیں.یہ آزادی کے نام پر جو کوشش وہاں ہو رہی ہے، جو حکومت کے مخالف ہیں ، عوام ہیں جن میں بڑی تعدا دسینیوں کی ہے وہ جو کوشش کر رہے ہیں، اُن میں اس کوشش میں ان کی مدد کے نام پر دہشتگر دگر وہ بھی شامل ہو گئے ہیں.جو نقصان ان لوگوں سے ، ان گروہوں سے ، دہشتگردگروہوں سے ملک کو پہنچنا ہے، اُس کا تو بعد میں پتہ چلے گا.بہر حال افسوس یہ ہے کہ یہ بلا جو اس دفعہ آئی ہے، یہ خوفناک شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہے اور یہ لوگ نہیں جانتے کہ آزادی کے نام پر عوام اور امن قائم کرنے کے نام پر حکومت ایک دوسرے پر ظلم کر کے اور آپس
خطبات مسرور جلد 11 510 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء میں لڑ کر اتنے کمزور ہوتے چلے جارہے ہیں کہ اب بڑی طاقتیں آزادی دلوانے ظلم ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے نام پر اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے بھر پور کوشش کریں گی اور کر رہی ہیں.لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ کوششیں دنیا کو بھی تباہی کی لپیٹ میں لے سکتی ہیں.شام کی حکومت کے ساتھ بھی بعض بڑی حکومتیں ہیں.اسی طرح اُس ریجن کی بھی بعض حکومتیں جو شام کی حکومت کی مدد کر رہی ہیں یا پشت پناہی کر رہی ہیں یا اُن کی حمایت کر رہی ہیں.اسی طرح جو حکومت کے مخالف گروپ ہیں، اُن کے ساتھ بھی حکومتیں کھڑی ہیں بلکہ بڑی طاقتیں اُن کے ساتھ زیادہ ہیں.اس صورتحال نے جیسا کہ میں نے کہا بڑے خطرناک حالات پیدا کر دیئے ہیں.لیکن افسوس تو مسلمان ممالک پر ہے جو اُس تعلیم پر عمل کرنے کا دعوی کرنے والے ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرمایا تھا کہ یہ اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے، اُس امت سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے خیر امت کہا ہے.کون سا خیر کا کام ہے جو آج یہ مسلمان ممالک کر رہے ہیں.نہ احساس ہمدردی ہے، نہ تعلیم کے کسی حصے پر عمل ہے.غیرت ہے تو وہ ختم ہوگئی ہے اور غیروں سے مدد مانگی جاتی ہے اور یہ مدد بھی اپنے ہی لوگوں کو مارنے کے لئے مانگی جاتی ہے.ایسے حالات میں قرآنِ کریم کی تعلیم کیا کہتی ہے.اگر ایسے حالات پیدا ہوں، دوگروہ اور دو جماعتیں لڑ پڑیں تو اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے؟ A فرماتا ہے کہ وَاِنْ طَائِفَتنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ ، بَغَتْ إِحْدُهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِى حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الحجرات: 10) اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ.پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کر رہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے.پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو.یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو.اور اللہ تعالیٰ نے انصاف کا معیار بھی اتنا اونچا مقرر فرمایا ہے، دوسری جگہ فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے نہ روکے.اگر تمہیں دنیاوی خواہشات کے بجائے اللہ کی محبت چاہئے تو پھر مسلمان کا کام ہے کہ آپس میں انصاف بھی قائم کرے اور غیروں کے ساتھ بھی انصاف قائم کرے.فرمایا کہ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدة: 9) يه تقویٰ کے قریب ہے.اور ایک مسلمان کو بار بار یہی حکم ہے کہ تقویٰ کی تلاش کرو، تقویٰ کی تلاش کرو.
خطبات مسرور جلد 11 511 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013 ء قابل شرم بات یہ ہے کہ اسرائیلی صدر بڑی طاقتوں کو یہ مشورہ دے رہا ہے جو اصل میں تو مسلمانوں کی طرف سے آنا چاہئے تھا، لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان مسلمان ملکوں کو خیال نہیں آیا، سر براہوں کو خیال نہیں آیا تو جب اسرائیل کے صدر نے مغربی طاقتوں کو مشورہ دیا تھا تو اُس وقت مسلمان ممالک کی جو کونسل ہے، یہ اعلان کرتی کہ ہم اپنے ریجن میں جو بھی فساد ہورہے ہیں خود سنبھالیں گے اور خصوصاً اُس علاقے کو جو ہمارے ہم مذہب ہیں.ہم ایک خدا کو ماننے والے ہیں، ہم ایک رسول کو ماننے والے ہیں، ہم ایک کتاب کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اس کتاب کو اپنا رہنما ماننے والے ہیں.اگر ہم میں اختلاف پیدا ہو بھی گئے ہیں، اگر ایک ملک میں دو فرقوں کی لڑائی یا عوام اور حکومت کی لڑائی کسی جائز یا نا جائز وجہ سے شروع بھی ہوگئی ہے تو ہم اپنی کامل تعلیم کی رُو سے اس مسئلہ کا حل کر لیں گے.اگر ایک گروہ سرکشی پر اتر آیا ہے تو اس سرکشی کو دور کرنے کے لئے ہمیں اگر غیر کی مدد کی ضرورت ہوئی بھی تو ٹیکنیکل مدد یا ہتھیاروں کی مدد تو لے لیں گے لیکن حکمت عملی بھی ہماری ہوگی اور افراد بھی ہمارے ہوں گے جو اس فساد اور فتنے کوختم کرنے کے لئے استعمال ہوں گے.اگر یہ سوچ ہو تو کسی غیر کو جرات نہ ہو کہ مسلمان ملکوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھیں.ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے کسی کو کسی ملک سے کیا دلچسپی ہے؟ یہی کہ یا تو اُس ملک کی دولت پر قبضہ کیا جائے ، یا جو دنیا میں اپنی مخالف بڑی طاقت ہے اُس پر اپنی طاقت کا رعب ڈالنے کے لئے اُن ملکوں کو جو غریب ملک ہیں چھوٹے ملک ہیں جن میں فساد ہورہے ہیں، زیر نگیں کر کے اپنی برتری ثابت کی جائے.بہر حال مسلمان ممالک کی کمزوری ہے اور اپنی تعلیم کو بھولنا ہے جو غیروں کو اتنی جرات ہے کہ ایک ملک کی حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ یو این او شام پر حملہ کرنے کی اجازت نہ بھی دے تب بھی ہم حملہ کریں گے، یہ ہمارا حق ہے.اور حق کی دلیل نہایت بچگانہ ہے کہ یو این او ہماری فارن پالیسی کو dictate نہیں کرواسکتی.یہاں فارن پالیسی کا کہاں سے سوال آ گیا ؟ جب دشمن کی دشمنی اتنی حد تک بڑھ جائے کہ آنکھوں پر پٹی بندھ جائے تو بظاہر پڑھے لکھے لوگ بھی جاہلانہ باتیں کرتے ہیں.ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں کہ بڑے عقلمند لوگ ہیں لیکن جاہلوں والی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں.تم ہزاروں میل دور بیٹھے ہو، تمہارا اس معاملے سے کچھ تعلق بھی نہیں ہے، اگر تعلق ہے جو ہونا چاہئے تو یو این او کا کہ یہ لوگ اُس معاہدے میں ، یو این او کے چارٹر میں شامل ہیں.کسی انفرادی ملک سے نہ معاہدہ ہے، نہ لینا دینا ہے.جس ملک میں فساد ہے اُس سے براہ راست بھی کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے.یہاں فارن پالیسی کا کہاں سے سوال آ گیا.بہر
خطبات مسرور جلد 11 512 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء حال یہ منطق مجھے تو سمجھ نہیں آئی.یہ تو ضد بازی ہے اور ڈھٹائی ہے اور اپنی برتری ثابت کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے.دنیا کے امن اس طرح قائم نہیں ہوتے.امن قائم کرنے کے لئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اسلام کی تعلیم جیسی اور کوئی خوبصورت تعلیم نہیں کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے دُور نہ لے جائے.اس حوالے سے بار بار میں نے دنیا کے لیڈروں کو توجہ دلائی ہے کہ اگر اس طرح کیا جائے تو پھر امن قائم ہوتا ہے.اس آیت کی تعلیم سے جو میں نے پڑھی ہے اگر یو این او اس اصول پر انصاف قائم کرے تو انصاف قائم ہو گا.جہاں ظلم دیکھیں تمام ممالک مشترک کوشش کریں ، یہ نہیں ہے کہ کسی کو ویٹو کا حق ہے اور کسی کو اپنی مرضی کرنے کا حق ہے.یہاں کسی ایک ملک کی فارن پالیسی کا سوال نہیں ہے.پھر ایک ملک کہتا ہے کہ ہم شام میں امن قائم کرنے کے لئے زمینی فوجیں تو نہیں بھیجیں گے لیکن ہوائی حملے کریں گے.یعنی اس شہر اور ملک کو مکمل طور پر کھنڈر بنا دیں گے جیسے پہلے بنایا تھا.معصوموں کو بھی ماریں گے، بچوں کو بھی ماریں گے، عورتوں کو بھی ماریں گے جس طرح عراق اور لیبیا میں کیا تھا.وہاں کیا حاصل ہوا ہے جو یہاں حاصل ہوگا.شہر کھنڈر بن گئے اور امن ابھی تک قائم نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ان کے تو ڑ بھی کئے ہوئے ہیں.رشیا کے پرائم منسٹر صاحب نے کل ہی بیان دیا ہے بلکہ شاید آرٹیکل لکھا ہے کہ یہ کوئی انصاف نہیں ہے جو تم انفرادی طور پر فیصلے کر رہے ہو.اگر یہی فیصلے اس طرح کرنے تھے تو پھر یو این او کس لئے بنائی تھی؟ انہوں نے بڑے واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر یہی حال رہا تو یو این او کا حشر بھی لیگ آف نیشنز کی طرح ہوگا.اور یقینا اس نے صحیح کہا ہے.پھر عوام کے حق کے حوالے سے مصر میں حکومت کو الٹا دیا.کہا یہ گیا کہ عوام کے حقوق ادا نہیں ہو رہے اور حکومت اپنے آپ کو بچانے کے لئے بے دردی سے عوام کو قتل کر رہی ہے.یقینا یہ سچ ہے کہ حکومت کا یہ رویہ غلط تھا لیکن مصر میں حکومت گرانے کے بعد جو حکومت آئی ، وہ شدت پسندوں اور مذہبی جنونیوں کی حکومت تھی.پھر بڑی طاقتوں کو فکر پیدا ہوئی کہ اب کیا ہوگا؟ امریکہ میں ایک بڑے اخبار کے جرنلسٹ نے مجھے سوال کیا کہ اب مصر میں اس کے بعد امن کے قیام کے کیا امکانات ہیں؟ تو میں نے اُسے یہی کہا تھا کہ تم لوگوں نے شایدا پنا اثر قائم کرنے کے لئے حکومت کو الٹواد یا تھا لیکن تمہارے اندازے کی غلطی ہو گئی.اور جو لوگ آئے ہیں وہ نہ تمہاری مرضی کے ہیں، نہ وہاں کی عوام کی مرضی کے ہیں.یعنی اکثریت عوام کی اُن کے خلاف ہے.ایک چنگاری ابھی بھی سلگ رہی ہے اور تم دیکھنا کہ چند مہینوں تک دوبارہ اسی طرح
خطبات مسرور جلد 11 513 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء خون بہے گا جس طرح پہلے بہہ چکا ہے.لیکن میرے اندازے سے بہت پہلے یہ خون بہہ گیا.گزشتہ دنوں کے مصر کے حالات ہمارے سامنے ہیں.مسلمان ممالک میں بے چینی کی جو بھی وجوہات ہوں ، عوام کی طرف سے جائز بھی ہوں گی لیکن جب بڑی طاقتیں غلط رنگ میں دخل اندازی کریں گی تو فساد پیدا ہو گا.میں نے 2011ء کے شروع میں جب اس بارے میں خطبات دیئے تھے تو واضح کیا تھا کہ مسلمانوں کے ان حالات کی وجہ سے امن کے نام پر بڑی طاقتیں جو بھی ظاہری اور خفیہ حکمت عملی وضع کریں گی وہ آخر کار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی ہو گی.کبھی یہ طاقتیں اپنے مفادات کو متاثر نہیں ہونے دیں گی.اور اب یہ دیکھ لیں کہ حسنی مبارک کے زمانے میں جو خون خرابہ ہوا ہے اُس میں عوام کی حمایت کی گئی ، اُسے ہٹایا گیا اور کوشش کی گئی، بڑا پرا پیگنڈہ ہوا.لیکن جب دوسری حکومت نے مفادات کا خیال نہ رکھا اور فوجی حکومت آگئی اور اُس نے پہلے سے بھی زیادہ خون بہایا تو اس وقت کسی نے عوام سے ہمدردی کا اظہار نہیں کیا، نہ کوئی کوشش کی.آخر یہ دو عملی ہے، یہ فرق ہے.بہر حال مسلمان ممالک کی حکومتوں کو اب بھی غیرت دکھانی چاہئے اور اپنے ذاتی مفادات سے بڑھ کر امت مسلمہ کے مفادات کو دیکھنا چاہئے.لیکن یہ اُس وقت ہوگا جب دلوں میں تقویٰ پیدا ہوگا، حکومت کرنے والوں کے دلوں میں بھی اور عوام کے دلوں میں بھی.یہ اُس وقت ہوگا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے کے ساتھ آپ کے اُسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو گی.یہ اُس وقت ہو گا جب حاکم بھی اور رعایا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در دکو محسوس کرتے ہوئے آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے چند ارشادات پیش ہیں جو حاکموں کو بھی اُن کے رویوں اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور عوام کو بھی.پہلے حاکموں کے بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں.حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس دن اللہ تعالیٰ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا اُس دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا.اُن میں سے اول امام عادل ہے.(صحیح البخاری کتاب الحدود باب فضل من ترک الفواحش حدیث نمبر 6806) یعنی عدل کی یہ اہمیت ہے.پھر حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور اُس کے زیادہ قریب انصاف پسند حا کم ہوگا.اور سخت ناپسندیدہ اور
خطبات مسرور جلد 11 514 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء سب سے زیادہ دُور ظالم حاکم ہوگا.(سنن الترمذی کتاب الاحکام باب ماجاء فی الامام العادل حدیث 1329) پھر ایک روایت میں ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے، وہ اگر لوگوں کی نگرانی اپنے فرض کی ادائیگی اور اُن کی خیر خواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اُس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت حرام کر دے گا.(صحیح البخاری کتاب الاحكام باب من استرعى رعية فلم ينصح.حدیث 7151) پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی نے سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ بات بتاتی ہوں جو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس گھر میں کہتے ہوئے سنا تھا.یہ دعا کی قسم ہی بنتی ہے ایک.آپ نے فرمایا کہ اے اللہ ! میری امت میں سے جسے بھی کسی معاملے کا ولی الامر بنایا گیا اور اُس نے اُمت پر سختی برتی تو تو بھی اُس کے ساتھ سختی کا سلوک فرمانا اور جسے میری اُمت کے کسی معاملے کا ولی الامر بنایا گیا اور اُس نے اُمت پر نرمی کی تو تو بھی اُس پر نرمی کرنا.(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضيلة الامام العادل وعقوبة الجائر...حديث نمبر 4722) تو یہ ہیں حکام کے سوچنے کی باتیں، سر براہوں کے سوچنے کی باتیں کہ اللہ کا سایہ رحمت اگر چاہئے ، مسلمان ہونے کا دعوی ہے تو یقینا یہ خواہش بھی ہوگی ، تو پھر انصاف کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اگر بنا ہے تو ظلم بند کرنا ہوگا، ذاتی مفادات سے بالا ہو کر اپنے فیصلے کرنے ہوں گے.اگر جنت میں جانے کی خواہش ہے تو بلا تفریق ہر ایک کی خیر خواہی کرنی ہوگی ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخ تمہاری جگہ ہے.اور پھر یہ جو آخری حدیث ہے، یہ دعا ہے کہ اے اللہ ! جو سختی کرنے والا امیر ہے اُس پر سختی کر اور جو نرمی کرتا ہے تو اُس پر نرمی کر.یہ دعا تو ایک ایمان رکھنے والے کو لرزا کے رکھ دیتی ہے.اللہ کرے کہ ہمارے جو مسلمان حکمران ہیں ان کو عقل آئے اور یہ سوچیں اور سمجھیں.پھر عوام کو آپ نے کیا حکم دیا کہ حکمرانوں کے ساتھ تم نے کیسا سلوک کرنا ہے، کیا رویہ رکھنا ہے؟ حضرت زید بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن مسعود سے سنا وہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میرے بعد دیکھو گے کہ تمہاری حق تلفی کر کے دوسروں کو ترجیح دی جا رہی ہے.نیز ایسی باتیں دیکھو گے جن کو تم برا سمجھو گے.یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! پھر ایسے وقت میں آپ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اُس وقت کے حاکموں کو اُن کا حق ادا کرو.( یہ سب کچھ دیکھنے کے
خطبات مسرور جلد 11 515 با وجود حاکموں کو ان کا حق ادا کرو ) اور تم اپنا حق اللہ سے مانگو.خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء (صحیح البخاری کتاب الفتن باب قول النبی ا سترون بعدی اموراتنكرونها حديث 7052) پس یہ ہڑتالیں اور خون خرابہ جو ہے، یہ حقوق لینے جو ہیں اس کی تو اجازت نہیں ہے.اگر اللہ تعالیٰ سے حق مانگا جائے تو اللہ تعالیٰ پھر ایسے فیصلے فرماتا ہے کہ دنیا کی نظر بھی وہاں نہیں پہنچ سکتی.پھر ایک روایت میں ہے، ایک صحابی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق مانگیں مگر ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ ( مجھ سے بھی جو عرب دنیا کے احمدی ہیں وہ پوچھتے رہتے ہیں ) تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا.اُس نے اپنا سوال پھر دہرایا.آپ نے پھر اعراض کیا.اُس نے دوسری یا تیسری دفعہ پھر اپنا سوال دہرایا جس پر اشعث بن قیس نے انہیں پیچھے کھینچا.یعنی خاموش کروانے کی کوشش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سوال پسند نہیں آیا تم پیچھے آجاؤ، نہ کرو یہ سوال.تب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے حالات میں اپنے حکمرانوں کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو.جو ذ مہ داری اُن پر ڈالی گئی ہے اُن کا مؤاخذہ اُن سے ہوگا اور جوذ مہ داری تم پر ڈالی گئی ہے اُس کا مؤاخذہ تم سے ہوگا.(صحیح مسلم کتاب الامارة باب في طاعة الامراء وان منعوا الحقوق حدیث نمبر (4782) پھر ایک حدیث ہے.جنادہ بن ابی امیہ نے کہا کہ ہم عبادہ بن صامت کے پاس گئے.وہ بیمار تھے.ہم نے کہا اللہ تمہارا بھلا کرے.ہم سے ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سنی ہو، اللہ تم کو اُس کی وجہ سے فائدہ دے.انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلا بھیجا.ہم نے آپ سے بیعت کی.آپ نے بیعت میں ہمیں ہر حال میں خواہ خوشی ہو یا نا خوشی ہنگی ہو یا آسانی ہو اور حق تلفی میں بھی یہ بیعت لی کہ بات سنیں گے اور مانیں گے.آپ نے یہ بھی اقرار لیا کہ جو شخص حاکم بن جائے ہم اُس سے جھگڑا نہ کریں سوائے اس کے کہ تم اعلانیہ اُن کو کفر کرتے دیکھو جس کے خلاف تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو.(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعة الامراء فى غير معصية...حديث 4771) کفر ایسا جس کی دلیل واضح طور پر موجود ہونی چاہئے.یہ نہیں کہ کفر کے فتوے لگا دیئے جس طرح آجکل کے علماء لگا دیتے ہیں.حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا
خطبات مسرور جلد 11 516 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، (حدیث قدسی ہے ) کہ اے میرے بندو! میں نے اپنی ذات پر ظلم حرام کر رکھا ہے اور تمہارے درمیان بھی اُسے حرام کر رکھا ہے.پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.(صحیح مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب تحریم الظلم حدیث 6572) پس اگر خدا تعالیٰ کے مؤاخذہ سے بچنا ہے تو اپنے فرائض ادا کرتے رہو، باقی حکام کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے اور دعاؤں میں لگے رہو.اور پھر اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا حکام کا جو کفر ہے، یہ بھی واضح شرعی احکام کی واضح طور پر خلاف ورزی ہو تب نہیں ماننا.اپنی تو جیہات نہیں دینی.جس طرح پاکستان میں مثلاً احمدیوں کے ساتھ ہو رہا ہے.کہا جاتا ہے کلمہ نہیں پڑھنا، نماز نہیں پڑھنی ، سلام نہیں کہنا.ہم مسلمان ہیں ہم یہ کہتے ہیں اور یہ ہمیں روکنے والے یہ شریعت کے احکام کی ، قرآن کریم کے احکام کی خلاف ورزی ہم سے کروانا چاہتے ہیں، وہ نہیں کرنی.اس کے علاوہ جو لکی قانون ہیں اُس کی پابندی کرنی ہے.پس تمام تعلیم کا خلاصہ یہ آخری حدیث میں ہے کہ ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.نہ حکام رعایا پر ظلم کریں، نہ رعا یا حکام سے اپنا حق لینے کے لئے اُن پر کوئی ایسی کارروائی کرے جس سے ظلم ثابت ہوتا ہو.اب یہ کام حکام اور رعایا دونوں کا ہے کہ دیکھیں کیا وہ اس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں.کیا احکام جو ہیں انصاف کے اعلیٰ معیاروں کو چھورہے ہیں؟ کیا اپنے ہر فیصلے پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر اس کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں؟ اسی طرح کیا رعا یا جو ہے سوائے کسی حاکم کے خدا تعالیٰ کے واضح شرعی احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے حکم کے ، جو باقی احکام ہیں اُس پر سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہہ کر عمل کرنے والی ہے؟ کیا ظالم حکمرانوں کے خلاف صرف اپنے رب کے سامنے رونے والے ہیں؟ اگر آج کوئی یہ کرنے والے ہیں تو شاید احمدیوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو گا.اگر نہیں تو ہم پھر اس حالت میں اور اس زمانے میں واپس چلے جائیں گے جو ظھر الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْر کا زمانہ تھا.اور مسلمانوں پر یہ زمانہ آنا بھی تھا.قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانے میں بھی ایسے حالات ہی پیدا ہونے تھے.پس مسلمان حکمرانوں کو بھی اور رعایا کو بھی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فسادوں کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کو تلاش کریں اور اُس کے دامن کو پکڑیں.شام کے لوگ خاص طور پر اور مسلمان عموماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صرف اسی الہام پر غور کر لیں کہ بلائے دمشق تذکر صفحہ نمبر 1603ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) تو اُن کو پتہ چل
خطبات مسرور جلد 11 517 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء جائے گا کہ یہ پیشگوئی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے، اُس کی بات سنیں ورنہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کے علاوہ کوئی اور نہیں جو رہنمائی کرنے والا ہے.ملکوں کے ان رویوں کی وجہ سے جو مذہبی شدت پسند تنظیمیں ہیں یا مذہب کے نام پر اپنی حکومتیں قائم کرنے والی جو تنظیمیں ہیں، یہی فائدہ اُٹھا ئیں گی اور پھر جو آپس میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگا وہ تصور سے بھی باہر ہے.خدا تعالیٰ مسلمان رہنماؤں کو بھی عقل دے اور عوام کو بھی عقل دے.اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے اس مضمون کو سمجھیں کہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة : 3) کہ نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرنے والے ہوں.نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں محبت کے پھیلانے والے ہوں ، دلوں کو جیتنے والے ہوں.حکومت جو ہے کبھی دلوں کو جیتے بغیر نہیں ہوسکتی.عوام کے حق ادا کئے بغیر نہیں ہوسکتی.ہر مسلمان لیڈر کو اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے.اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں کہ ایک زمانہ تو وہ تھا کہ جب عیسائی عوام مسلمان حکومت کے عدل وانصاف کو دیکھ کر یہ دعا کرتے تھے کہ ہمیں عیسائی حکمرانوں سے جلد چھٹکارا ملے اور ہم پھر مسلمانوں کی حکومت کے زیر سایہ آجائیں اور کہاں آج یہ زمانہ ہے کہ مسلمان مسلمان سے بے انصافی کا مرتکب ہو رہا ہے.رُحَمَاء بَيْنَهُمْ (الفتح: 30) کے بجائے گردنیں کاٹی جارہی ہیں.مسلمان عیسائی ملکوں میں امن سے رہنے کے لئے، پناہ لینے کے لئے دوڑ رہے ہیں، انصاف کے حصول کے لئے دوڑ رہے ہیں، آزادی سے رہنے کے لئے دوڑ رہے ہیں.کاش کہ مسلمان ممالک کے حکمران اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.خدا کرے کہ کسی طرح ان تک ہمارا یہ پیغام پہنچ جائے.اسی طرح مغربی ممالک اور بڑی طاقتوں تک بھی یہ پیغام پہنچ جائے جو میں نے بتایا.جو کہ جیسا میں نے کہا کہ پہلے بھی مختلف ذرائع سے پہنچا چکا ہوں کہ بعید نہیں کہ شام کے خلاف جو کارروائی ہے، یہ ملک سے نکل کر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے.پس ہر ملک میں رہنے والے احمدی کا اپنے ملک سے وفا کا یہ تقاضا ہے اور خاص طور پر ہر وہ احمدی جو ان مغربی ممالک میں رہ رہا ہے کہ ان سیاستدانوں کو آنے والی تباہی سے ہوشیار کریں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ماننے کی توفیق عطا فرمائے.حاکموں اور رعایا کو اپنے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ خانہ جنگی کو ختم کر کے اس تباہی سے بچیں.یورپ اور مغرب کے حکمرانوں کی بھی آنکھیں کھولے کہ وہ عدل اور انصاف سے کام لیں اور ظلم سے بچیں.ہر چھوٹے سے چھوٹے ملک کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کریں اور کسی ملک کی مددذاتی مفادات کے لئے نہ ہو، بلکہ حق کی ادائیگی کے لئے ہو.اللہ تعالیٰ افراد جماعت کو ان حالات کے ہر شر سے
خطبات مسرور جلد 11 518 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 ستمبر 2013ء محفوظ رکھے.خاص طور پر شام میں تو بہت سارے احمدی متاثر ہو رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے شام کے بارے میں ایک انذاری الہام فرمایا تھا کہ ”بلائے دمشق تو جلد اس خوشخبری والے الہام کو بھی پورا فرما دے اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان پیدا فرمائے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللهِ مِنَ الْعَرَبِ یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں.“ ( تذکرہ صفحہ نمبر 100 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ کرے کہ سارا عرب جلد سے جلد مسیح محمدی کے جھنڈے تلے آنے والا ہوتا کہ عرب دنیا کی بے چینی جسے دنیا نے عرب سپرنگ (Arab Spring) کا نام دیا ہوا ہے یہ دنیا وی نہیں بلکہ روحانی فیض کا چشمہ بن جائے.یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے دعائیں کرنے والے بن جائیں اور آپ کے ساتھ جڑ کر اسلام کی حقیقی تعلیم کو جو پیار اور محبت اور امن کی تعلیم ہے، دنیا میں پھیلانے والے بن جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہماری ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت جذب کرنے والے ہوں اور دنیا کی حق کی طرف ہمیشہ رہنمائی کرتے رہنے والے ہوں.امن اور انصاف کو قائم کرنے والے ہوں اور اس تعلیم کو پھیلانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی جنگ کی ہولنا کیوں اور تباہیوں سے بچائے.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شماره 40 مورخہ 104 اکتوبر تا 10 اکتوبر 2013، صفحہ 5 تا صفحه 8)
خطبات مسرور جلد 11 519 38 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013 ء بمطابق 20 تبوک 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ہر شخص کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کرے اور اللہ تعالیٰ کا خوف اُس کو بہت سی نیکیوں کا وارث بنائے گا.پھر فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ اچھا اور نیک تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پرکھ سے اچھا نکلے.بہت لوگ ہیں جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہم متقی ہیں مگر اصل میں متقی وہ ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ کے دفتر میں متقی ہو.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 629-630 مطبوعہ ربوہ ) پس یہ وہ اہم نصیحت ہے جو اگر ہمارے سامنے ہو تو ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں اور اُس کے بندوں کے حقوق بھی اُس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کرنے والے ہوں لیکن اگر ہم اپنے زعم میں اپنے آپ کو عبادتیں کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے سمجھتے ہیں لیکن ان تمام باتوں میں کسی بھی قسم کی بناوٹ یا دکھاوا ہے یا ہم عبادتیں کر تو رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا نہیں کر رہے تو ایسی عبادتیں بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول عبادتیں نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا نہیں بناتی جو ایک انسان کا عبادت کرنے کا مقصد ہے.اس وقت میں آپ کے سامنے ایک لمبی روایت پیش کروں گا جو ایک نصیحت ہے یا وصیت کی صورت میں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو کی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حضرت معاذ سے فرمایا.يَا مَعَاذُ إِنِّي مُحَدِّثُكَ
خطبات مسرور جلد 11 520 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء بِحَدِيثٍ إِنْ أَنْتَ حَفَظْتَهُ نَفَعَكَ اے معاذ! میں تجھے ایک بات بتا تا ہوں ،اگر تو نے اُسے یادرکھا تو یہ تمہیں نفع پہنچائے گی اور اگر تم اُسے بھول گئے تواللہ تعالیٰ کا فضل تم حاصل نہیں کر سکو گے اور تمہارے پاس نجات حاصل کرنے کے بارے میں اطمینان کے لئے کوئی دلیل باقی نہیں رہے گی.فرمایا کہ اے معاذ! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پہلے سات دربان فرشتوں کو پیدا کیا.یعنی روحانی بلندیوں تک پہنچنے کے سات درجے ہیں اور اس کے مطابق انسان وہاں تک پہنچتا ہے.اور ان فرشتوں میں سے ایک ایک کو ہر آسمان پر بطور بؤ اب یعنی دربان کے طور پر مقرر کر دیا ہے.اُن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ تم اپنی اپنی جگہ پر رہو اور صرف اُن لوگوں کو یہاں سے گزرنے دو جن کے گزرنے کی ہم اجازت دیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے جو انسان کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں اور اُن کا روز نامچہ لکھتے ہیں، خدا کے ایک بندے کے اعمال لے کر جو اُس نے صبح سے شام تک کئے تھے، آسمان کی طرف بلند ہوئے اور ان اعمال کو اُن فرشتوں نے بھی پاکیزہ سمجھا تھا کہ یہ بہت اچھے اعمال ہیں اور ان اعمال کو بہت زیادہ خیال کیا تھا لیکن جب وہ اعمال لے کر پہلے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دربان فرشتے سے کہا کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور ایک بندے کے اعمال پیش کرنے آئے ہیں یہ اعمال بہت پاکیزہ ہیں.تو اس فرشتے نے کہا ٹھہر جاؤ تمہیں آگے جانے کی اجازت نہیں.تم واپس لوٹو اور جس شخص کے یہ اعمال ہیں انہیں اُس کے منہ پر مارو.دربان کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں یہ ہدایت دے کر کھڑا کیا ہے کہ میں کسی غیبت کرنے والے بندے کے اعمال کو اس دروازے میں سے نہ گزرنے دوں اور یہ شخص جس کے تم اعمال خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے آئے ہو، یہ تو ہر وقت غیبت کرتا رہتا ہے.لوگوں کے پیچھے اُن کی باتیں کرتا رہتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اور فرشتے ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف چڑھے.وہ فرشتے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ یہ اعمال بڑے پاکیزہ ہیں اور یہ بندہ اُنہیں بڑی کثرت سے بجالا رہا ہے اور چونکہ ان اعمال میں غیبت کا کوئی شائبہ نہیں تھا اس لئے پہلے آسمان کے دربان اور حاجب فرشتے نے انہیں آگے گزرنے دیا.لیکن جب وہ دوسرے آسمان پر پہنچے تو اُس کے دربان فرشتے نے اُنہیں پکارا کہ ٹھہر جاؤ.واپس لوٹو اور ان اعمال کو ان کے بجالانے والے کے منہ پر مارو.اُس فرشتے نے کہا کہ میں فخر و مباہات کا فرشتہ ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے یہاں مقرر کیا ہے کہ میں کسی بندے کے ایسے اعمال کو یہاں سے نہ گزرنے دوں جن میں فخر و مباہات کا بھی کوئی حصہ ہو اور وہ اپنی مجالس میں بیٹھ کر بڑے فخر سے اپنی نیکی کو بیان کرنے والا ہو.یہ شخص جس کے اعمال لے کر تم یہاں
خطبات مسرور جلد 11 521 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء آئے ہو، لوگوں کی مجالس میں بیٹھ کر اپنے ان اعمال پر فخر و مباہات کا اظہار کیا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتوں کا ایک اور گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف بلند ہوا اور وہ ان فرشتوں کی نگاہ میں بھی کامل نور تھے، ایسے اعمال تھے جو بڑے چمکدار تھے.ان اعمال میں صدقہ و خیرات بھی تھا، روزے بھی تھے، نمازیں بھی تھیں اور وہ محافظ فرشتے تعجب کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا یہ بندہ کس طرح اپنے رب کی رضا کی خاطر محنت کر رہا ہے.اور چونکہ ان اعمال میں غیبت کا کوئی حصہ نہیں تھا، ان میں فخر و مباہات کا بھی کوئی حصہ نہیں تھا ، اس لئے پہلے اور دوسرے آسمان کے دربان فرشتوں نے انہیں گزرنے دیا.لیکن جب وہ تیسرے آسمان کے دروازے پر پہنچے تو اُس کے دربان فرشتے نے کہا ٹھہر جاؤ.اضْرِبُوا بِهَذَا الْعَمَلِ وَجْهَ صَاحِبِهِ کہ جس شخص کے یہ اعمال ہیں، تم خدا تعالیٰ کے حضور جن کو پیش کرنے جا رہے ہو، اُس کے پاس واپس لے جاؤ اور ان اعمال کو اُس کے منہ پر مارو.فرشتے نے کہا کہ میں تکبر کا فرشتہ ہوں، مجھے تیسرے آسمان کے دروازے پر اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دے کر کھڑا کیا ہے کہ اس دروازے سے کوئی ایسا عمل آگے نہ گزرے جس کے اندر تکبر کا کوئی حصہ ہو.اور یہ شخص جس کے اعمال تم اپنے ساتھ لائے ہو یہ بڑا متکبر ہے.وہ اپنے آپ کو ہی سب کچھ سجھتا ہے اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان سے تکبر اور اباء کا سلوک کیا کرتا ہے.اور وہ اپنی مجالس میں گردن اونچی کر کے بیٹھنے والا ہے.اس کے اعمال گو تمہاری نظر میں اچھے نظر آ رہے ہیں لیکن وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول نہیں.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چوتھا گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف بلند ہوا.وہ اعمال ان فرشتوں کو گوگٹ ڈڑھی، یعنی روشن ستارے کی طرح خوبصورت معلوم ہوتے تھے.اُن میں نماز میں بھی تھیں تسبیح بھی تھی ، حج بھی تھا، عمرہ بھی تھا.وہ فرشتے یہ اعمال لے کر آسمان کے بعد آسمان اور دروازے کے بعد دروازے سے گزرتے چوتھے آسمان کے دروازے پر پہنچے.تو اُس کے دربان فرشتے نے انہیں کہا ٹھہر جاؤ.تم یہ اعمال اُن کے بجالانے والے کے پاس واپس لے جاؤ اور اُس کے منہ پر دے مارو.اُس فرشتے نے کہا کہ میں خود پسندی کا فرشتہ ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں اُس شخص کے اعمال کو جس کے اندر عجب پایا جاتا ہے، گویا وہ اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کا شریک سمجھتا ہو اور خود پسندی کا احساس اُس کے اندر پایا جائے اور اُس میں خدا تعالیٰ کی بندگی کا احساس نہ پایا جا تا ہو، اس چو تھے آسمان کے دروازے سے اُسے نہیں گزرنے دیا جاسکتا کیونکہ میرے رب کا مجھے یہی حکم ہے کہ یہ شخص جب کوئی کام کرتا تھا تو خود پسندی
خطبات مسرور جلد 11 522 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء کو اُس کا ایک حصہ بنا دیتا تھا، اُس کے اعمال اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہیں.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتوں کا ایک پانچواں گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوا.ان اعمال کے متعلق ان فرشتوں کا خیال تھا کہ كَأَنَّهُ الْعَرُوسُ الْمَزْفُوفَةُ إلى بغلِهَا “ وہ ایک سجی سجائی سولہ سنگھار سے آراستہ دلہن کی طرح ہے جو خوشبو پھیلاتی ہے اور اپنے دولہا کے سامنے پیش کی جاتی ہے.لیکن جب وہ چاروں آسمانوں پر سے گزرتے ہوئے پانچویں آسمان پر پہنچے تو اس کے دربان فرشتے نے کہا کہ ٹھہر جاؤ، ان اعمال کو واپس لے جاؤ اور اس شخص کے منہ پر مارو اور اُسے کہہ دو کہ تمہارا خدا ان اعمال کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ میں حسد کا فرشتہ ہوں اور میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو حسد کرنے کی عادت ہو اُس کے اعمال پانچویں آسمان کے دروازے میں سے نہ گزرنے دوں گا.یہ شخص ہر علم حاصل کرنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے پر حسد کیا کرتا تھا.میں اس کے اعمال کو اس دروازے میں سے نہیں گزرنے دوں گا.کسی بھی عالم کو دیکھتا تھا، کسی بھی اچھے کام کرنے والے کو دیکھتا تھا تو حسد کرتا تھا.اس لئے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ یہ یہاں سے گزر سکے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتوں کا ایک چھٹا گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوا اور پہلے پانچ دروازوں میں سے گزرتا ہوا چھٹے آسمان تک پہنچ گیا.یہ اعمال ایسے تھے جن میں روزہ بھی تھا، نماز بھی تھی ، زکوۃ بھی تھی ، حج اور عمرہ بھی تھا اور فرشتوں نے سمجھا کہ یہ سارے اعمال خدا تعالیٰ کے حضور میں بڑے مقبول ہونے والے ہیں لیکن جب وہ چھٹے آسمان پر پہنچے تو وہاں کے دربان فرشتے نے کہا ٹھہر جاؤ آگے مت جاؤ.اِنَّهُ كَانَ لَا يَرْحَمُ إِنْسَانًا مِنْ عِبَادِ اللهِ کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی بندے پر رحم نہیں کیا کرتا تھا اور خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں اس لئے کھڑا کیا ہے کہ جن اعمال میں بے رحمی کی آمیزش ہو میں انہیں اس دروازے سے نہ گزرنے دوں.تم واپس لوٹو اور ان اعمال کو اس شخص کے منہ پر یہ کہہ کر مارو کہ تمہارا اپنی زندگی میں یہ طریق ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے بندوں پر رحم کرنے کی بجائے ظلم کرتے ہو.خدا تعالیٰ تم پر رحم کرتے ہوئے تمہارے یہ اعمال کیسے قبول کرے.جب تم رحم نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی تم پر رحم نہیں کرے گا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اور فرشتے ایک بندے کے اعمال لے کر آسمان کے بعد آسمان اور دروازے کے بعد دروازے سے گزرتے ہوئے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے.ان اعمال میں نماز بھی تھی ، روزے بھی تھے، فقہ اور اجتہاد بھی تھا اور ورع بھی تھا، (یعنی پر ہیز گاری بھی تھی ) اور فرمایا کہ
خطبات مسرور جلد 11 523 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء لَهَا دَوِي كَدَوِي النَحْلِ وَ ضَوْ كَضَوْءِ الشَّمْسِ کہ ان اعمال سے شہد کی مکھیوں کی آواز جیسی آواز آتی تھی یعنی وہ فرشتے گنگنا رہے تھے کہ ہم بڑی اچھی چیز خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنے کے لئے جارہے ہیں اور وہ اعمال سورج کی روشنی کی طرح چمک رہے تھے.اُن کے ساتھ تین ہزار فرشتے تھے.گویا وہ اعمال اتنے زیادہ اور بھاری تھے کہ تین ہزار اُن کے خوان کو اُٹھائے ہوئے تھے.جب وہ ساتویں آسمان کے دروازے پر پہنچے تو دربان فرشتے نے جو وہاں مقرر تھا کہا ٹھہر وہ تم آگے نہیں جاسکتے تم واپس جاؤ اور ان اعمال کو اُس شخص کے منہ پر مارو اور اس کے دل پر تالا لگا دو کیونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اُس کے حضور ایسے اعمال پیش نہ کروں جن سے خالصتہ خدا تعالیٰ کی رضا مطلوب نہ ہو اور اُن میں کوئی آمیزش ہو.اُس شخص نے یہ اعمال غیر اللہ کی خاطر کئے.یہ شخص فقیہوں کی مجالس میں بیٹھ کر اور فخر سے گردن اونچی کر کے تفقہ اور اجتہاد کی باتیں کرتا ہے تا اُن کے اندر سے ایک بلند مرتبہ اور شان حاصل ہو.اس نے یہ اعمال میری رضا کی خاطر نہیں کئے، بلکہ محض لاف زنی کے لئے کئے ہیں.وَ ذِكْرًا عِنْدَ الْعُلَمَاءِ وَصِيْنَا فِي الْمَدَائِنِ اُس کی غرض یہ تھی کہ وہ دنیا میں ایک بڑے بزرگ کی حیثیت سے مشہور ہو جائے ، علماء کی مجالس میں اُس کا ذکر ہو.وہ کام جو خالصاً خدا تعالیٰ کے لئے نہ ہو اور اُس میں ریاء کی ملونی ہو ، وہ خدا تعالیٰ کے حضور مقبول نہیں.فرشتے نے کہا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں ایسے اعمال کو آگے نہ گزرنے دوں تم واپس جاؤ اور ان اعمال کو اُس شخص کے منہ پر دے مارو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ اور فرشتے ایک بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوئے اور ساتوں آسمانوں کے دربان فرشتوں نے انہیں گزرنے دیا.انہیں ان اعمال پر کوئی اعتراض نہیں تھا.ہر آسمان کا جو دربان تھا اُس نے کہا کہ اس کے اعمال ٹھیک ہیں ، ظاہری لحاظ سے بالکل ٹھیک ہیں، گزرنے دیا.ان اعمال میں زکوۃ بھی تھی ، روزے بھی تھے، نماز بھی تھی ، حج بھی تھا، عمرہ بھی تھا، اچھے اخلاق بھی تھے، ذکر الہی بھی تھا اور جب وہ فرشتے ان اعمال کو خدا تعالیٰ کے حضور میں لے جانے کے لئے روانہ ہوئے تو آسمانوں کے فرشتے اُن کے ساتھ ہو لئے اور وہ تمام دروازوں میں سے گزرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ گئے.وہ فرشتے خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا: اے ہمارے رب ! تیرا یہ بندہ ہر وقت تیری عبادت میں مصروف رہتا ہے اور ہم اس کے ہر عمل کی ، نیک عمل کی ، اخلاص کی گواہی دیتے ہیں.وہ بڑی نیکیاں کرتا ہے اور اپنے تمام اوقات عزیزہ کو تیری اطاعت میں خرچ کر دیتا ہے.یہ بڑا ہی مخلص بندہ ہے.اس میں کوئی عیب نہیں ہے.غرض انہوں نے اس شخص کی بڑی تعریف کی.خدا تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 11 524 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء نے فرمایا.اَنْتُمُ الْحَفَظَةُ عَلَى عَمَلِ عَبْدِی کہ تمہیں تو میں نے اعمال کی حفاظت اور انہیں تحریر کرنے کے لئے مقرر کیا ہے، تم صرف انسان کے ، اس بندے کے ظاہری اعمال کو دیکھتے ہو اور انہیں لکھ لیتے ہو.پھر فرما یا وانا الرَّقِيبُ عَلَى قَلْبٍ کہ میں اپنے بندے کے دل کو دیکھتا ہوں.اس بندے نے یہ اعمال بجالا کر میری رضا نہیں چاہی تھی بلکہ اس کی نیت اور ارادہ کچھ اور ہی تھا.وہ میرے علاوہ کسی اور کو خوش کرنا چاہتا تھا.فَعَلَيْهِ لَعْنَتِی.اس پر میری لعنت ہو.اس پر تمام فرشتے پکارا تھے.عَلَيْهِ لَعْنَتُكَ وَ لَعْنَتُنَاك اے ہمارے رب! اس پر تیری بھی لعنت ہے اور ہماری بھی لعنت ہے.اور اس پر ساتوں آسمانوں اور اُن میں رہنے والی ساری مخلوق نے اس پر لعنت کرنی شروع کر دی، یا اس پر لعنت کرنی شروع کر دے گی.حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت یا نصیحت کو سنا تو آپ کا دل کانپ اُٹھا.آپ نے عرض کی کہ یا رسول الله كَيْفَ لِي بِالنَّجَاةِ وَالْخَلاص.یا رسول اللہ ! اگر اعمال کا یہ حال ہے تو ہمیں کیسے نجات حاصل ہوگی؟ اور میں اپنے رب کے قہر اور غضب سے کیسے نجات پاؤں گا؟ آپ نے فرمایا.اقتد پی “ کہ تم میری سنت پر عمل کرو اور اُس پر یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ کا ایک بندہ خواہ کتنے ہی اچھے عمل کیوں نہ کر رہا ہو، اُس میں ضرور بعض خامیاں رہ جاتی ہیں.اس لئے تم اپنے اعمال پر ناز نہ کرو بلکہ یہ یقین رکھو کہ ہمارا خدا اور ہمارا مولیٰ ایسا ہے کہ وہ ان خامیوں کے باوجود بھی اپنے بندوں کو معاف کر دیا کرتا ہے.وَحَافِظ على لسانك اور دیکھوا اپنی زبان کی حفاظت کرو اور اس سے کسی کو دکھ نہ پہنچاؤ.کوئی بری بات اُس سے نہ نکالو.وَلَا تُزَكِ نَفْسَكَ عَلَيْهِمْ اور اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ متقی اور پرہیز گار نہ سمجھو اور نہ اپنی پر ہیز گاری کا اعلان کرو.وَلَا تُدْخِلُ عَمل الدُّنْيَا بِعَمَلِ الْآخِرَةِ اور جو عمل تم خدا تعالیٰ کی رضا اور اخروی زندگی میں فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اس میں دنیا کی آمیزش نہ کرو.وَلَا تُمَزِّقِ النَّاسَ فَيمَزِّقُكَ كِلَابُ النَّارِ اور لوگوں میں فتنہ و فساد پیدا کرنے اور اُنہیں پھاڑنے کی کوشش نہ کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو قیامت کے دن جہنم کے کئے تمہیں پھاڑ دیں گے.وَلَا تُرَاء بِعَمَلِك النَّاس اور اپنے عمل ریاء کے طور پر دنیا کے سامنے پیش نہ کیا کرو.اگر یہ کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی تم پر ہیں.( روح البیان جلد 1 صفحہ 78 تا 80 سورة البقرة زیر آیت نمبر 22 دارالکتب العلمیة بیروت 2003ء) (الترغيب والترهيب للمنذرى جلد اول صفحه 54 تا 56 باب الترهيب من الرياء وما يقوله من خاف شيئاً منه حدیث نمبر 57 دار الحدیث قاهره (1994ء)
خطبات مسرور جلد 11 525 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء پس حقیقی نیکیوں کی توفیق اور مقبول نیکیوں کی توفیق بھی اُسی وقت ملتی ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے ہو.آپ باوجود کامیابیوں کی بشارتوں کے بڑے درد کے ساتھ اپنی اور اپنی جماعت کی کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعائیں کیا کرتے تھے.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائیں قبول بھی کیں، آئندہ کی بھی بشارتیں دے دیں.پھر بھی سجدوں میں تڑپ کر اور بے چینی سے دعا کیا کرتے تھے اور جب اس تڑپ کی وجہ پوچھی جاتی تھی تو فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے، ایک تو اس کا خوف ہے.دوسرے کیوں نہ اللہ تعالیٰ کے جو فضل مجھ پر ہوئے ہیں میں اُس کا شکر گزار بنوں.اللہ تعالیٰ نے کتنے ہی انعامات سے نوازا ہے اور اُمت کے لئے کتنے وعدے دیئے ہیں.اس پر میں کیوں نہ شکر گزاری کروں.پس یہ وہ اُسوہ ہے جو آپ نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.حقوق العباد کا سوال ہے تو دنیاوی غرضوں سے پاک ہو کر بلا تخصیص ہر ایک کے آپ کام آرہے ہیں، ہر ایک کی مالی مدد فرما رہے ہیں.جو سوالی بھی آیا ہے اُس سوال کرنے والے کا سوال پورا فرما ر ہے ہیں.ہر ایک آپ کے رحم میں سے حصہ لے رہا ہے.ہر ایک آپ کے پیار اور شفقت سے فیض پا رہا ہے.پس آپ نے فرمایا اس طرح اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اُس کی عبادت کرو جس طرح میں کرتا ہوں، اُس کے عبد شکور بنو جس طرح میں شکر گزاری کرتا ہوں.اس طرح عبد رحمن بنو جس طرح میں حق ادا کرتا ہوں.جس طرح میں نے یہ نمونے قائم کئے ہیں تو تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہو گے.اسی طرح جس طرح میں نے حقوق العباد کی ادائیگی کی ہے، اگر تم میرے اُسوہ پر چلتے ہوئے بے غرض اور بے نفس ہو کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جاؤ گے.اگر صرف اپنی نیکیوں پر یہ سمجھتے ہوئے کہ میں بہت نیکیاں کر رہا ہوں، اپنی عبادتوں پر ہی اکتفا کرو گے یا اُنہی پر انحصار کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے.پس سنت پر چلنے، آپ کے اسوہ پر عمل کرنے کے لئے ہمیں اپنے نفسوں کے جائزے لینے ہوں گے.خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس کا فضل مانگنا ہوگا کہ پتہ نہیں کونسا ہمارا عمل وہ معیار حاصل بھی کر رہا ہے یا نہیں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے.پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے عملوں کو اپنی رضا کے مطابق بھی بنائے اور پھر محض اور محض اپنے فضل سے انہیں قبول بھی کر لے.ہمارے عمل ایسے نہ ہوں جو دنیا کی ملونیوں کی وجہ سے ہمارے منہ پر مارے جانے والے ہوں.ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہم اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کرنے والے ہوں اور اپنے ہر عمل کو اُس کی رضا کے مطابق ڈھال کر
خطبات مسرور جلد 11 526 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا فیض پانے والے ہوں اور آنے والی زندگی میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کی جنت کے وارث ہوں.اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے ہماری یہ دعائیں قبول فرمائے.اس وقت میں جمعہ کی نماز کے بعد چند غائب جنازے بھی پڑھاؤں گا.ایک تو ایک شہید کا جنازہ ہے اور دو دوسرے وفات یافتگان ہیں.جو ہمارے شہید ہیں ، مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب ابن مکرم بشیر احمد کیانی صاحب اورنگی ٹاؤن کراچی کے، ان کی 18 ستمبر کو شہادت ہوئی ہے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ.ان کو اورنگی ٹاؤن میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا.تفصیلات کے مطابق مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب 18 ستمبر 2013ء کی صبح ساڑھے سات بجے موٹر سائیکل پر ملازمت کے لئے روانہ ہوئے ، گھر سے نکلے.ابھی کچھ دُور ہی گئے تھے کہ دیکھنے والوں کے مطابق ، عینی شاہد کے مطابق ایک سپیڈ بریکر پر جب موٹر سائیکل کی رفتار کم ہوئی تو دو موٹر سائیکل سوار آپ کے قریب آئے اور دو گولیاں آپ کی بائیں پسلیوں کے قریب فائر کیں جس سے آپ موٹر سائیکل سے نیچے گر گئے اور گرنے کے بعد اٹھنے کی کوشش کی جس پر حملہ آوروں نے سامنے کی طرف سے آپ پر فائر کئے.خود کو بچانے کے لئے بایاں ہاتھ انہوں نے آگے کیا جس پر حملہ آوروں نے آپ کے ہاتھ پر فائر کیا اور پھر آپ کے سینے پر تین گولیاں فائر کیں.جب آپ گر گئے تو آپ کے سر پر پیچھے سے بھی ایک گولی فائر کی جس کی وجہ سے آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر شہید ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ گزشتہ ماہ 21 راگست کو آپ کے بہنوئی محترم ظہور احمد کیانی صاحب کو بھی اس علاقہ میں شہید کیا گیا تھا.مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد کے دو چا مکرم محمد یوسف کیانی صاحب اور مکرم محمد سعید کیانی صاحب کے ذریعہ ہوا.آپ دونوں کو 1936ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.ان کے والد کے دونوں ہی چا بڑے صاحب علم تھے، علم دوست تھے.انہوں نے باقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد بیعت کی توفیق حاصل کی تھی.شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق پریم کوٹ مظفر آباد آزاد کشمیر سے تھا.شہید مرحوم یکم دسمبر 1984ء کوکراچی میں پیدا ہوئے اور کراچی میں ہی انٹر تک تعلیم حاصل کی.پھر پانچ سال قبل پاکستان ملٹری آرڈینس میں بطور سویلین ڈرائیور ملازمت اختیار کی.شہادت کے وقت آپ کی عمر 29 سال تھی.شادی 2009 ء میں ثوبیہ صاحبہ سے ہوئی جو راجہ عبد الرحمن صاحب آف کوٹلی کشمیر کی بیٹی تھیں.شہید مرحوم انتہائی مخلص صلح جو، نرم خو اور خاموش طبیعت کے مالک تھے.جماعتی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ تعاون کرتے تھے.جب
خطبات مسرور جلد 11 527 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء کسی ڈیوٹی کے لئے بلایا جا تا تو ہمیشہ اطاعت کا مظاہرہ کرتے.ان کے بھائی مکرم اعزاز احمد کیانی صاحب نے بتایا کہ شہادت سے ایک روز قبل اپنے بہنوئی مکرم ظہور احمد کیانی صاحب شہید کے ذکر پر آبدیدہ ہو گئے.ظہور کیانی صاحب شہید کی بہت عزت کیا کرتے تھے اور بڑے بھائی اور باپ کا مقام دیا کرتے تھے.ان کی شہادت کے بعد کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا کہ آپ نے اُن کے گھر جا کر اُن کے بچوں کی خیریت نہ معلوم کی ہو.اُن کی شہادت کا ان پر بڑا گہرا اثر تھا.شہید مرحوم کی والدہ نے بتایا کہ چار بہنوں کے بعد بہت دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بیٹا عطا فرمایا تھا.سوچ سمجھ کے بات کیا کرتا تھا، میرے ساتھ انتہائی پیار اور عقیدت کا تعلق تھا، ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ہاتھ ملا کر خدا حافظ کہہ کر جاتا تھا.میری دوائی کا خاص خیال رکھتا تھا.بہنوں کا اس طرح خیال رکھتا جیسے بڑا بھائی ہو.بہت نرم طبیعت تھی.جب بھی گھر میں کوئی چیز لاتا تو خواہش ہوتی کہ سب کو دوں.ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ شہید مرحوم بہت اچھی طبیعت کے مالک تھے.ہر ایک کا فرض ادا کیا.اچھے بیٹے ، اچھے بھائی ، اچھے باپ اور اچھے شوہر تھے.کہتی ہیں جب بھی میں کبھی پریشان ہوتی تو پھر تسلی دلاتے.اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلاتے.بچوں کے ساتھ انتہائی شفقت کا سلوک کرتے ، ان کے بہنوئی کی جو شہادت ہوئی ہے گزشتہ ماہ، تو بار بار کہتے رہے کہ کاش میں ان کی جگہ ہوتا.شہید مرحوم نے والدین، پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ محترمہ، ایک بیٹی عزیزہ در عدن اعجاز عمر چار سال اور ایک بیٹا برہان احمد عمر ڈیڑھ سال سوگوار چھوڑے ہیں.کراچی میں حالات اس لحاظ سے خاص طور پر بہت خراب ہیں.لگتا ہے کہ ایک ٹولہ ہے جو احمدیوں کی ٹارگٹ کلنگ (Target Killing) کر رہا ہے.اس مقصد کے لئے خاص طور پر مقرر کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے بھی جلد سامان پیدا فرمائے.اصل میں تو مولوی اور اُن کی ہمنوائی میں حکومت کی شہ پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس ظالم گروہ کی بھی جلد پکڑ کے سامان پیدا فرمائے.دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت ہے، کراچی میں خاص طور پر زیادہ حالات خراب ہیں لیکن عموماً پاکستان میں بھی حالات بہت خراب ہیں ، لاہور میں بھی اسی طرح کئی جگہ کئی احمدیوں کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی ، مارنے کی کوشش کی گئی.اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو وہاں اپنی حفظ وامان میں رکھے.دوسرا جنازہ جو آج اس کے ساتھ ادا کیا جائے گا، وہ مکرم عبد الحمید مومن صاحب درویش ابن مکرم اللہ دتہ صاحب کا ہے جو قادیان کے درویش تھے.11 ستمبر 2013ء کو مختصر علالت کے بعد 97 سال کی عمر میں وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
خطبات مسرور جلد 11 528 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء 1916ء میں سندھ میں پیدا ہوئے تھے.پھر اُس کے بعد جڑانوالہ فیصل آباد آ گئے ، آپ کی پرورش وہاں ہوئی ، وہیں تعلیم و تربیت پائی.غالباً 1945ء میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے قادیان آگئے تھے.یہیں پہلی شادی ہوئی لیکن پارٹیشن کی وجہ سے قائم نہ رہ سکی تو اس سے کوئی اولا د بھی نہیں تھی.دوسری شادی دور درویشی میں اڑیسہ میں مکرم سید شفیق الدین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی اور مکرم سید محی الدین صاحب مرحوم کی بڑی بیٹی امتہ اللہ فہمیدہ صاحبہ سے ہوئی.ان کے بطن سے آٹھ بچے پیدا ہوئے.پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں.آپ کے پانچوں بیٹے سلسلہ کی خدمت بجالا رہے ہیں.آپ نے اپنی درویشانہ زندگی نہایت سادگی اور بڑے صبر و تحمل کے ساتھ گزاری.دوکانداری اور مختلف کام کر کے گزارہ کرتے تھے.دفتر زائرین میں خدمت بجالاتے رہے.غیر مسلموں کو بڑے شوق سے تبلیغ کرتے تھے.آپ نے دیہاتی مبلغ کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق پائی.اسی دور میں ادیب فاضل کی ڈگری بھی حاصل کی.صوم وصلوٰۃ کے بڑے پابند مخلص اور باوفا انسان تھے اور کمزوری کے باوجود بھی آخری عمر تک باجماعت نماز کھڑے ہو کر ادا کیا کرتے تھے.قرآن کریم سے بہت شغف تھا.با قاعدگی سے تلاوت کرنے والے تھے ، مرحوم موصی بھی تھے.تیسرا جنازہ ہے مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب کا جو مختصر علالت کے بعد 12 ستمبر کو 94 سال کی عمر میں وفات پاگئے.انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ نے 1943ء میں 24 سال کی عمر میں احمدیت قبول کی تھی.آغاز میں دہلی کے امریکی سفارتخانے میں بطور کلرک ملازمت کی ، پھر 1946ء میں پہلے لاہور پھر ایک سال کے بعد کراچی منتقل ہو گئے جہاں چوہدری شاہ نواز صاحب کے پاس ادویات کی درآمد کا کام شروع کیا.اور پھر رہنے کی جگہ نہیں تھی ان کی تو دفتر میں سو جایا کرتے تھے.1950ء میں چوہدری شاہ نواز صاحب کی مدد سے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت عطا فرمائی.دنیاوی تعلیم صرف میٹرک تھی لیکن بظاہر بڑے پڑھے لکھے لگتے تھے اور ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ یہ کافی تعلیم یافتہ ہیں.1950ء میں نائب امیر کراچی مقرر ہوئے.1953ء کے فسادات میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو وقتی طور پر چوہدری عبد اللہ خان صاحب کی جگہ امیر جماعت کراچی مقرر کیا.چوہدری صاحب سرکاری ملازم تھے اور امکان تھا کہ انہیں ملازمت سے ہٹا دیا جائے گا.تاہم اس کے بعد چوہدری صاحب کی علالت کے باعث آپ بطور امیر کراچی کام کرتے رہے.1964ء تک اس عہدے پر فائز رہے.جو کراچی کی تاریخ احمدیت لکھی گئی ہے اُس میں لکھا ہے کہ 1953ء کے فسادات میں حضرت مصلح موعود نے
خطبات مسرور جلد 11 529 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 ستمبر 2013ء کراچی میں بھی ایک علیحدہ صدر انجمن احمد یہ قائم فرمائی تھی ، اس کا ناظر اعلیٰ بھی آپ کو مقررفرمایا تھا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طویل علالت کے زمانے میں جو نگران بورڈ قائم ہوا تھا اس کے بھی آپ ممبر رہے.خلافت کے وفادار، صاف گو، دیانتدار، بہت دعا کرنے والے اور مالی قربانی کرنے والے انسان تھے.سخی دل اور مخلص انسان تھے.خلافت کے بعد میرے سے انہوں نے بہت تعلق رکھا اور ان کو ہمیشہ بڑا احساس تھا اور ذرا ذراسی تکلیف کا احساس کیا کرتے تھے.دوستوں، عزیزوں اور ضرورتمندوں کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے.آپ کا حلقہ احباب کافی وسیع تھا.دوست احباب تمام دنیا میں پھیلے ہوئے تھے.اور تعلقات کی وسعت کی وجہ سے تبلیغ بھی کیا کرتے تھے.اللہ کے فضل سے آپ موصی تھے.آپ کے ایک صاحبزادے ڈاکٹر نیم رحمت اللہ صاحب لمبے عرصے سے صدر جماعت کلیولینڈ اور نائب امیر امریکہ ہیں.اور جماعتی ویب سائٹ جو ہے alislam.org اُس کے چیئر مین کی حیثیت سے خدمت کر رہے ہیں.ان کے دوسرے بیٹے شیخ فرحت اللہ صاحب نائب امیر فیصل آباد ہیں، اسی طرح پاکستان میں مرکز کے صنعت و تجارت مشاورتی بورڈ کے صدر بھی ہیں.ان کی ایک صاحبزادی جمیلہ رحمانی صاحبہ یہاں لجنہ میں خدمات بجالاتی رہیں.ان کے میاں غلام رحمانی صاحب بھی یہاں یو کے میں بڑا عرصہ سیکرٹری وصایا ر ہے ہیں.اسی طرح ان کی چھوٹی بیٹی ندرت ملک صاحبہ ہیں جوصدر لجنہ کولمبس اور صدر لجنہ ایسٹ مڈویسٹ ریجن امریکہ ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر کی توفیق عطا فرمائے ، خاص طور پر اُس شہید کے والدین کو جن کا جوان بیٹا شہید ہو گیا.اللہ تعالیٰ اُن کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور اُس کے وہ جو چھوٹے بچے ہیں خدا تعالیٰ اُن کا بھی کفیل ہو ، اُن کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اپنی امان میں رکھے.دوسری بات یہ کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں چند ہفتوں کے لئے دورے پر جارہا ہوں.دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ دورہ با برکت فرمائے اور جو مقاصد ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو اپنے فضل سے پورا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل جلد 20 شماره 41 مورخہ 11 اکتوبر تا 17 اکتوبر 2013، صفحہ 5 تا صفحہ 7)
خطبات مسرور جلد 11 530 39 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 ستمبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا سر وراحمد خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27 ستمبر 2013 ء بمطابق 27 تبوک 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد طہ.سنگا پور تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایک مرتبہ پھر مجھے اس علاقے کے احمدیوں سے ملنے کی توفیق عطا فرمائی.ملائیشیا اور انڈونیشیا کے حالات جماعتی لحاظ سے ایسے ہیں کہ وہاں میرا جانا مشکل ہے.اس لئے سنگا پور ہی ایسی جگہ ہے جہاں ان جماعتوں کے افراد سے ملاقات کے سامان اللہ تعالیٰ مہیا فرما دیتا ہے.اللہ تعالیٰ جلد ایسے حالات پیدا فرمائے کہ ان ملکوں میں بھی آسانیاں پیدا ہو جائیں اور جماعت کے لئے آسانیاں پیدا ہوں اور وہاں جانا خلیفہ وقت کے لئے بھی سہولت سے ہو.اس دفعہ انڈونیشیا اور ملائیشیا سے تین ہزار سے اوپر احمدی آئے ہیں.زیادہ تعداد انڈونیشیا کے احمدیوں کی ہے.اس کے علاوہ تھائی لینڈ، برما، میانمار، فلپائن وغیرہ سے احمدی بھی اور بعض غیر از جماعت بھی تشریف لائے ہیں.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ملاقات کے سامان پیدا فرما دیئے.اس خطے میں انڈو نیشیا ایسا ملک ہے جہاں احمدیت کی وجہ سے افراد جماعت پر بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے اور بعض شہادتیں بھی ہوئی ہیں اور حکومتی اہلکاروں کی موجودگی میں سب کچھ ہوا ہے اور ہورہا ہے.یہ نہیں کہ بند ہو گیا ہے یا ایک دفعہ ہوا.تقریباً سات سال پہلے میں یہاں پہلی دفعہ آیا تھا تو اس وقت بھی کچھ عرصہ پہلے احمدیوں پر انڈو نیشیا میں ظلموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا.مساجد پر حملے ہوئے ، توڑ پھوڑ ہوئی ، جماعتی املاک کو نقصان پہنچایا گیا.احمدیوں پر حملے ہوئے ، جانی اور مالی نقصان ہوا.بہر حال اس کے بعد تو دشمنی کا یہ سلسلہ جو ہے وہ تیز سے تیز تر ہوتا گیا.جانی و مالی نقصان ہوتا رہا اور آپ سب جانتے ہیں کہ کس طرح ظالمانہ اور وحشیانہ طور پر پولیس کی نگرانی میں احمدیوں کو شہید کیا گیا.ایسا ظلم تھا کہ انصاف پسند لوکل پریس.
خطبات مسرور جلد 11 531 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 ستمبر 2013ء نے بھی اس ظلم کی مذمت کی.آج کل میڈیا کی وجہ سے دنیا اتنی قریب ہو چکی ہے کہ جو ظلم ہوئے وہ فوری طور پر دنیا کے ہر کونے میں پھیل گئے.یعنی اس کی تفصیل دنیا کے ہر شخص تک پہنچ گئی اور دنیا کی نظر بھی اس طرف مبذول ہوئی اور اس کے لئے آوازیں بھی اٹھائی گئیں.بہر حال وہ سب ادارے یا لوگ جنہوں نے جماعت کے خلاف ان مظالم پر آواز اٹھائی ہم ان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں.لیکن ہر ظلم جو جماعت پر کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دوسرے لحاظ سے بعض اچھے نتا ئج بھی پیدا فرما دیتا ہے.انڈونیشیا کے احمدیوں پر اس ظلم کی وجہ سے جماعت کا بہت وسیع تعارف دنیا میں ہوا.افریقہ کے ایک دور دراز علاقے میں جب یہ ویڈیو دکھائی گئی ، جب ان تین احمدیوں کو شہید کیا گیا تو وہاں کے ایک بڑے عالم نے جب یہ ویڈیو دیکھی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسا ظلم صرف مومنوں پر ہو سکتا ہے اس لئے آج سے میں احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کرتا ہوں.اس ظلم کی وجہ سے صرف انڈونیشیا میں ہی بعض بیعتیں نہیں ہوئیں بلکہ دنیا کے بہت سارے علاقوں میں بھی بیعتیں ہوئیں.پاکستان کے بعد انڈونیشیا ایسا ملک ہے جہاں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہوتی چلی جارہی ہیں.جہاں احمدیوں پر وحشیانہ طور پر مظالم ہورہے ہیں.انڈونیشیا میں تو اب کچھ حد تک کمی واقعہ ہورہی ہے لیکن پاکستان میں مسلسل یہ ظلم جاری ہے اور یہ ظلم خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو رہے ہیں.اُس خدا کے نام پر یہ ظلم ہورہے ہیں جس کی تعلیم حقوق العباد کی ادائیگی سے بھری پڑی ہے.اُس خدا کے نام پر ظلم ہو رہے ہیں جو مسلمانوں کو رحم اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے.اُس رسول کے نام پر ظلم ہورہے ہیں جو رحمتہ للعالمین ہے.اُس رسول کے نام پر ظلم ہورہے ہیں جس نے جنگ کی حالت میں بھی ظلم سے روکا ہے.جس نے کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنے پر اپنے صحابی سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور جب صحابی نے جواب دیا کہ یہ کلمہ تو اس کا فرنے تلوار کے خوف سے پڑھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس شخص کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ خوف سے کلمہ پڑھا گیا تھا یا دل سے کلمہ پڑھا گیا تھا؟ بہر حال پاکستان میں تو ظلموں کی انتہا ہے اور کلمہ پڑھنے والوں پر ظلم کیا جا رہا ہے اور کلمہ کے نام پر ظلم کیا جا رہا ہے.اور انہی کا اثر اور اُن پاکستانی ملاؤں کا اثر ہی انڈونیشیا کے ملاؤں پر بھی ہے جو یہ ظلم کرتے رہے ہیں یا کرنے کی طرف لوگوں کو ابھار رہے ہیں.جب بھی موقع ملتا ہے مخالفین نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جتنا مخالفت میں دشمن بڑھ رہا ہے، احمد یوں میں استقامت بھی اُس سے بڑھ کر بڑھ رہی ہے.ہمارے مخالفین نہیں جانتے کہ احمدیت وہ حقیقی اسلام ہے جس نے اپنی جڑیں ہمارے دلوں میں لگائی ہوئی ہیں اور کوئی مخالفت اور کوئی تیز آندھی ہمارے ایمان کی
532 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27 ستمبر 2013ء خطبات مسرور جلد 11 مضبوط جڑوں کو ہم سے جدا نہیں کر سکتی.احمدی خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نظاروں کو دیکھ کر کس طرح اپنے خدا سے کئے ہوئے عہد سے منہ موڑ سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق سے جڑ کر پھر کس طرح اپنے بندھن کو توڑ سکتا ہے.وہ بندھن جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بندھن کو مزید مضبوط کر دیا ہے، جس نے ایمان میں ترقی کے وہ راستے دکھائے ہیں جن سے غیر احمدی مسلمان نا آشنا ہیں.پس ہر احمدی کو چاہئے کہ ان مخالفتوں کی آندھیوں کے باوجود اپنے ایمان کو بڑھا تا چلا جائے.استقامت کے ان نمونوں پر ہمیشہ قائم رہے.ایمان و اخلاص میں بڑھتا چلا جائے اور ثبات قدم کے لئے دُعا بھی کرے کیونکہ ثبات قدم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی عطا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے اُس کے آگے جھکنا اور اُس کی عبادت کا حق ادا کرنا بھی بہت زیادہ ضروری ہے.اسی طرح اپنی عملی حالتوں کو پہلے سے بہتر کرنے کی طرف بھی بہت توجہ دیں.اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا اور اپنی عملی حالتوں کو بہتر کرنا صرف اُن احمدیوں کا کام نہیں جن پر سختیاں ہو رہی ہیں بلکہ ہر احمدی کو اپنی حالتوں کے جائزے لینے چاہئیں.سنگا پور کے احمدی بھی اور برما کے احمدی بھی اور تھائی لینڈ کے احمدی بھی اور دنیا کے ہر ملک کے احمدی اگر اپنی ایمانی حالتوں کا جائزہ نہیں لیں گے تو اس میں ترقی نہیں کریں گے اور اگر احمدیت میں ترقی نہیں ہوگی تو احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے.پس ہر احمدی کو اپنے ایمان وایقان میں ترقی کی طرف توجہ دینی چاہیئے.میں نے ملائیشیا کا بھی ذکر کیا تھا، وہاں بھی مخالفت ہے.وقتا فوقتا وہاں بھی ابال اٹھتا رہتا ہے.لیکن انڈونیشیا والے حالات وہاں نہیں ہیں.سنا ہے مسلمان تنظیموں نے جگہ جگہ سائن بورڈ لگائے ہوئے ہیں جن پر لکھا ہوا ہے ” قادیانی مسلمان نہیں ہیں یا اس قسم کے الفاظ ہیں.جو یقیناً جب ایک احمدی گزرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اُس کے جذبات مجروح ہوتے ہیں.جگہ جگہ یہ کھی ہوئی تحریر میں احمدیوں کی دل آزاری کرتی ہیں.لیکن احمدی قانون کو ہاتھ میں نہ لینے کی وجہ سے ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم احمدی مسلمان ہیں.ہم جانتے ہیں کہ ہم اِن دوسروں سے زیادہ اچھے مسلمان ہیں.ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دل اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھرے ہوئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله “ کہنے والے کو کافر نہ کہو کیونکہ یہ کافر کہنا تم پر الٹ کر پڑے گا بلکہ فرمایا کہ جو صرف لا إلهَ إِلَّا اللہ کہتا ہے وہ بھی مسلمان ہے.بلکہ قرآن شریف تو کہتا ہے کہ جو تمہیں جو سلام کہے اُسے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو.پس قرآن کریم کی تعلیم تو یہ ہے اور ان لوگوں نے اپنا ایک علیحدہ اسلام بنا لیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بھی انہوں نے اپنے
خطبات مسرور جلد 11 533 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 ستمبر 2013ء مفادات اور اپنی ذاتی خواہشوں کی وجہ سے غیروں کی نظر میں ایک مذاق بنالیا ہوا ہے.ملائیشیا کے صدر جماعت ملے تھے کہہ رہے تھے کہ بورڈ تو لگے ہوئے ہیں لیکن لوگوں کو اب ان کی پرواہ نہیں رہی.غیر از جماعت شرفاء کو بھی اب پتہ لگ گیا ہے کہ یہ مولوی کے اپنے مفادات ہیں جن کا اظہار ہورہا ہے.اسلام کو اس طرح یہ غیروں کی نظر میں ہنسی اور ٹھٹھے کا ذریعہ بنارہے ہیں.یہ اسلام کو اس کی پرانی تعلیم کے خلاف اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں لیکن حقیقی اسلام وہی ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول کے احکامات ہیں.اب کچھ عرصہ پہلے ملائیشیا میں ایک عیسائی پادری نے کہ دیا تھا کہ عیسائی بھی اللہ تعالیٰ کا لفظ استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں ہے.ہمارا بھی اللہ ہے.اس پر ان نام نہاد علماء نے شور ڈال دیا کہ ہیں ! یہ ایسی جرات کس طرح کر لی انہوں نے؟ عدالت میں مقدمہ لے جایا گیا اور پھر عدالت کا یہ حال ہے کہ فیصلہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کا نام صرف مسلمان استعمال کر سکتے ہیں اور کوئی کسی کو حق نہیں کہ یہ کہہ سکے کہ اللہ میرا بھی ہے.گویا ان دنیا داروں نے اللہ تعالیٰ کے نام پر اللہ تعالیٰ کو بھی محدود کر دیا ہے.یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر صرف ان نام نہاد مسلمانوں کی اجارہ داری ہے.جاہل مولوی تو ایسی باتیں کریں تو کریں، حیرت ہوتی ہے اُن پڑھے لکھے فیصلہ کرنے والوں پر بھی جو ان باتوں سے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحہ :2) کہ اللہ ہر ایک کا رب ہے، چاہے مسلم ہے یا غیر مسلم ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ (الرعد: 27 ) کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے رزق کشادہ کرتا ہے.کیا عیسائیوں کو یا یہودیوں کو یا کسی اور کوکوئی اور رزق دے رہا ہے؟ ان کے اس فیصلے کی رُو سے اگر ایک عیسائی کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے تو یہ نا قابل معافی جرم ہے.اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں پہلے نبیوں کے ذریعہ سے بھی کہلواتا ہے کہ اللهَ رَبِّكُمْ وَ رَبِّ أَبَاء كُمُ الْأَوَّلِينَ (الصفت : 127) اللہ جو تمہارا رب ہے اور تمہارے آباؤ اجداد کا بھی رب ہے.پس اللہ تعالیٰ پر مسلمانوں کی کہاں سے اجارہ داری ہوگئی.پھر اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی ان عیسائیوں کے بارے میں جن کے متعلق ملائیشیا کی عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ اللہ کا لفظ صرف مسلمان استعمال کر سکتے ہیں کہ قُلْ يَا هُلَ الْكِتب تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا الله ( آل عمران : 65) تو کہہ دے کہ اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے.یعنی قدر مشترک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.مسلمانوں اور
خطبات مسرور جلد 11 534 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 ستمبر 2013ء عیسائیوں میں قدر مشترک اللہ تعالیٰ ہے.جس طرح مسلمانوں کو اللہ کہنے کا حق ہے اسی طرح عیسائیوں کو بھی اللہ کہنے کا حق ہے.اسی طرح کسی کو بھی اللہ کہنے کا حق ہے.پس یہ مثالیں میں نے اس لئے دی ہیں کہ بعض احمدی اس بارے میں پوچھتے ہیں.قرآن کریم تو ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے.جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو سب کا اللہ کہا ہے.کسی شخص کی کسی فرقے کی کسی مذہب کی کسی حکومت کی کسی عدالت کی اللہ تعالیٰ کے لفظ پر اجارہ داری نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کوئی ٹریڈ مارک نہیں ہے.وہ رب العالمین ہے.آج دنیا کو احمدی ہی بتا سکتے ہیں کہ حقیقی اسلامی تعلیم کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کا مقام کیا ہے.قرآن کریم کی تعلیم کی حقیقت کیا ہے.غیر احمدی مسلمانوں نے تو جیسا کہ میں نے کہا اسلام کو غیروں کے لئے استہزاء کا سامان بنا دیا ہے.بہر حال ملائیشیا کے احمدیوں کا کام ہے کہ حکمت سے اسلام کی تعلیم اپنے ہم وطنوں کو بتاتے رہیں.اُن کو بتائیں کہ تم کیوں ان نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بدنام کر رہے ہو؟ اللہ تعالیٰ ان کی جہالت کے پردوں کو دُور فرمائے.میں نے انڈونیشیا اور ملائیشیا کا ذکر کیا ہے.شاید سنگاپور کے احمدی سو چتے ہوں کہ آئے تو ہمارے ملک میں ہیں اور ذکر دوسرے ملکوں کا ہورہا ہے.تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ مومن ایک جسم کی طرح ہے.ایک کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے کو بھی تکلیف پہنچتی ہے.اس لئے اُن ملکوں میں رہنے والے احمد یوں کو جہاں اُن کو تکلیفیں دی جارہی ہیں ہر احمدی کو دنیا کے ہر احمدی کو محسوس کرنا چاہئے.دوسرے سنگاپور کے احمدیوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ یہاں کے حالات اچھے ہیں.حکومت کسی مذہب کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتی.لیکن اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے سے بھی نہیں روکتی.پس حکمت کے ساتھ اپنے تبلیغ کے میدان کو وسیع تر کرتے چلے جائیں.ہر طبقے میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچائیں.یہاں میرے سامنے جو احمدی بیٹھے ہوئے ہیں چاہے سنگا پور کے ہوں یا کسی دوسرے ملک کے.ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ چاہے حالات اچھے ہوں یا خراب ، ہم احمدی مسلمانوں نے اسلام کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا ہے.اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں کو دنیا پر ظاہر کرنا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے کسی پہلو کو بھی لے لیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر پہلو ایک حقیقی مسلمان کے لئے اسوۂ حسنہ ہے.چاہے وہ گھر یلو معاملات ہیں یا معاشی اور معاشرتی اور غیروں کے ساتھ معاملات ہیں یا غیر قوموں کے ساتھ یا دوسروں کے ساتھ معاملات ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے کامل نمونہ ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 535 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 ستمبر 2013ء پس جب ہم نے غیروں کے سامنے سیرت بیان کرنی ہے تو خود بھی اس پر عمل کرنا ہوگا.اپنے عملی نمونوں سے اسلام کی طرف غیروں کو کھینچنا ہو گا.جب رحمتہ للعالمین کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھانا ہے تو خود بھی ہر سطح پر پیار، محبت، بھائی چارے کے نمونے دکھانے ہوں گے.قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو دنیا پر ظاہر کرنا ہے.دنیا کو بتانا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھنے کے لئے اس زمانے میں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے تو اس کے ساتھ مجڑے بغیر اس تعلیم کی حقیقت سمجھ نہیں آ سکتی.اگر زمانے کے امام کے ساتھ نہیں جڑو گے تو ایک دوسرے پر کفر کے فتوے ہی لگاتے رہو گے.اس کے بغیر غیر مذاہب کو اسلام کے قریب لانے کی بجائے اسلام سے دُور ہی کرتے رہو گے.پس ہر احمدی کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکر گزار ہو کہ اُس نے ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے زمانے کے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.لیکن یہ شکر گزاری کس طرح ہوگی؟ اس شکر گزاری کے لئے ہمیں اپنی خواہشات کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی ہوگی ، اپنے جذبات کی قربانی دینی ہوگی، حقیقی تعلیم کو سمجھنے کے لئے محنت کرنی ہوگی ، پس اس طرف ہمیں بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.باتیں تو بہت سی کرنے والی ہیں لیکن ابھی وقت نہیں کہ میں ساری باتیں اسی وقت کھول کر بیان کروں.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں فاصلوں کی دُوری کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعت اور خلافت کے تعلق کو جوڑ دیا ہے.اس لئے میرے خطبات اور مختلف پروگراموں کو ضرور سنا کریں.میں نے جائزہ لیا ہے بعض عہدیداران بھی خطبات کو با قاعدگی سے نہیں سنتے.یہ خطبات وقت کی ضرورت کے مطابق دینے کی کوشش کرتا ہوں.اس لئے اپنے آپ کو ان سے ضرور جوڑیں تا کہ دنیا میں ہر جگہ احمدیت کی تعلیم کی جو ا کائی ہے اس کا دنیا کو پتہ لگ سکے.آخر میں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند ارشادات آپ کے سامنے رکھوں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنی جماعت کو کس معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : "ضروری ہے کہ جو اقرار کیا جاتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، اس اقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کا عمدہ نمونہ پیش کرو.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 605 مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے فرمایا کہ : ” خدا تعالیٰ کی نصرت اُنہی کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے
خطبات مسرور جلد 11 536 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 ستمبر 2013ء ہی آگے قدم رکھتے ہیں.ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 456 مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ أَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي (الاحقاف : 16 ) میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما.اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا د اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 456 مطبوعه ربوہ ) پھر فرماتے ہیں کہ : ”چاہئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 272 مطبوعہ ربوہ ) فرمایا کہ : ”ہماری جماعت کو یہ بات بہت ہی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں نہ بھلایا جاوے.ہر وقت اُسی سے مدد مانگتے رہنا چاہئے.اُس کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں.“ ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 279 مطبوعہ ربوہ ) پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم میں پاک تبدیلیاں ہیں؟ کس حد تک ہم اپنے بچوں کو بھی جماعت سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کس حد تک ہم قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں؟ ایسا عمل کہ غیر بھی ہمیں دیکھ کر بر ملا کہیں کہ یہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں.کیا ہمارے نمونے ایسے ہیں کہ اسلام کے مخالف ہمیں دیکھ کر اسلام کی طرف مائل ہوں؟ اگر ہم یہ معیار حاصل کر رہے ہیں تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ باتیں جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث بنائیں گی وہاں ہمیں تعداد میں بھی بڑھا ئیں گی اور جماعت کے خلاف جو مخالفتیں ہیں ایک دن ہوا میں اُڑ جائیں گی.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اور مجھے بھی ایمان وایقان میں ترقی دے اور ہر لمحہ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور دشمن کے ہر منصوبے کو خاک میں ملا دے.الفضل انٹر نیشنل جلد 20 شماره 42 مورخہ 18 اکتوبر تا 24 اکتوبر 2013، صفحہ 5 تا صفحہ 7)
خطبات مسرور جلد 11 537 40 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 104اکتوبر 2013 ء بمطابق 104 خاء 1392 ہجری شمسی بمقام بیت الہدی ، سڈنی، آسٹریلیا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ آسٹریلیا کا جلسہ سالانہ آج شروع ہو رہا ہے اور مجھے یہاں کے جلسہ میں شامل ہونے کی تقریباً سات سال بعد توفیق مل رہی ہے.یہ جلسہ سالانہ جس کی بنیاد آج سے تقریباً 123 سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے رکھی تھی، جب پہلا جلسہ آج سے 123 سال پہلے منعقد ہوا تھا جو ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ قادیان میں منعقد ہوا اور جس میں صرف 75 افراد شامل ہوئے تھے.آج یہ جلسے دنیا کے ایک بڑے خطے میں منعقد ہوتے ہیں جس میں بڑے ممالک بھی شامل ہیں اور چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں، امیر ملک بھی شامل ہیں اور غریب ملک بھی شامل ہیں.دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جس میں یہ جلسہ منعقد نہ ہوتا ہو.یقیناً یہ جلسے دنیا کے کونے کونے میں اور ملک ملک میں منعقد ہونے تھے، کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ: اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسہ کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے.“ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 281-282 اشتہار نمبر 91 مطبوعہ ربوہ ) پس دنیا میں جلسوں کے انعقاد صرف لوگوں کا اکٹھ نہیں ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے.جماعت احمدیہ کے سچا ہونے کی دلیل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے بڑی شان سے پورا ہونے کی دلیل ہے.اللہ تعالیٰ کے فرمان وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا
خطبات مسرور جلد 11 لم 538 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء (الجمعة: 4) کے روشن تر نشانوں کے ساتھ پورا ہونے کی دلیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کہ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے صرف الفاظ نہیں بلکہ آج یہ الفاظ ہر نیا دن طلوع ہونے کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت کے نظارے دکھا رہے ہیں.لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل مانگتے ہیں.اگر آنکھیں بند نہ ہوں، اگر دل و دماغ پر پردے نہ پڑے ہوں تو آپ علیہ السلام کی صداقت کے لئے یہ جلسوں کے انعقاد ہی جو دنیا کے کونے کونے میں ہورہے ہیں بہت بڑی دلیل ہیں.کہ وہ جلسہ جو صرف 123 سال پہلے قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی میں منعقد ہوا تھا، آج دنیا کے تمام براعظموں میں منعقد ہو رہا ہے.دنیا کے اس بڑا اعظم میں بھی منعقد ہورہا ہے اور اس براعظم کے اور اس ملک کے بڑے شہر میں منعقد ہورہا ہے جو وہاں سے ہزاروں میل دور ہے اور ہزاروں مرد و خواتین اور بچے اس میں شامل ہیں.اور یہی جلسہ تقریباً ایک مہینہ پہلے بڑی شان کے ساتھ دنیا کے اُس ملک کے دارالحکومت میں منعقد ہوا جس نے ایک لمبا عرصہ ہندوستان پر حکومت کی اور جس کے بعض افسران اور پادریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مقدمے بھی کروائے.آپ علیہ السلام کو عدالتوں میں بھی کھینچا.لیکن آج اُس ملک کی حکومت کے افسران اور لیڈ رحتی کہ اُس ملک کے پادری بھی اس اعتراف کے بغیر نہیں رہ سکے کہ جماعت احمدیہ کا پیغام دنیا کی قوموں اور لوگوں کو اکٹھا کرنے کا پیغام ہے.محبت، پیار اور بھائی چارے کا پیغام ہے اور اس پیغام کو دنیا میں پھیلنا چاہئے.اسی طرح امریکہ جو دنیا کی بڑی طاقت سمجھی جاتی ہے، اُس کے ارباب حکومت بھی ہمارے جلسہ میں آکر ، یا اپنے پیغام کے ذریعہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام کے حقیقی پیغام کا ہمیں جماعت احمدیہ سے پتہ چلا ہے.پس یہ جلسے جہاں احمدیوں کے لئے علمی اور روحانی ترقی کا باعث بنتے ہیں اور بننے چاہئیں، وہاں غیروں کو بھی اسلام کی خوبیوں کا معترف بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کو بڑی شان سے پورا کرتے ہیں کہ ان کی خالص تائید حق پر بنیاد ہے، اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے، اسلام کے نام کو بلند کرنے پر بنیاد ہے، اسلام کے اعلیٰ وارفع مذہب ہونے کودنیا پر ثابت کرنے کا ذریعہ ہے.پس اس زمانے میں جب غیر بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ اسلام کی خوبصورتی کا اقرار کرتے ہیں، جو حقیقی اسلام ہے جو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہے تو کیا ایک احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہونا چاہئے.ایک احمدی کی ذمہ داری تو ان باتوں سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے
خطبات مسرور جلد 11 539 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء کہ اس جلسہ میں شامل ہو کر اپنی علمی عملی، اعتقادی اور روحانی صلاحیتوں کو کئی گنا بڑھانے کا ذریعہ بنائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں بتایا تھا کہ اس میں شامل ہو کر تقویٰ اور خدا ترسی میں نمونہ بنو.یہ جلسہ تمہارے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے والا بن جائے.نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے نمونہ بن جاؤ.بھائی چارے میں ایک مثال قائم کرو.انکسار اور عاجزی پیدا کرو.دین کی خدمت کے لئے اپنے اندر ایک جوش اور جذ بہ پید کرو.اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرو.اس جلسہ کے دنوں میں اپنے عہد بیعت کے جائزے لو،جس میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا کہ: ” مجھے ان لوگوں سے کیا کام ہے جو سچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر نہیں اُٹھا لیتے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 363 اشتہار نمبر 117 التوائے جلسہ 17 دسمبر 1893ء، مطبوعہ ربوہ) پس یہ ایک احمدی کے کرنے کے بہت بڑے کام ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک بہت بڑا مشن لے کر آئے تھے.اگر ہم نے آپ کی بیعت کا حق ادا کرنا ہے اور اس مشن کو پورا کرنا ہے جو آپ لے کر آئے تو پھر ہمیں اُن تعلیمات پر غور کرنا ہو گا جو آپ نے ہمیں دیں.ہمیں اُن تمام تو قعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنی ہوگی جو آپ نے ہم سے رکھیں.پس ہمیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ہم احمدی ہو گئے ہیں اور مقصد پورا ہو گیا ہے.اب احمدی ہونے کے بعد ان باتوں اور ان چیزوں اور اُن توقعات کی تلاش کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہیں.یہ جلسہ کے تین دن کیونکہ اجتماعی طور پر روحانی ماحول کے دن ہیں اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر تلاش کر کے اور یہاں کے پروگراموں سے فائدہ اُٹھا کر ہمیں ایک حقیقی احمدی بننے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے، اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.اس وقت میں اُس فہرست میں سے چند باتوں کا ذکر کروں گا اور آپ کے سامنے پیش کروں گا جوان معیاروں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے کی ہے.جلسہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد آپ نے یہ بیان فرمایا تھا کہ تا آنے والوں کے دل میں تقویٰ پیدا ہو.تقویٰ کیا ہے؟ اس بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : تقویٰ کوئی چھوٹی چیز نہیں، اس کے ذریعہ سے اُن تمام شیطانوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جو انسان کی ہر ایک اندرونی طاقت وقوت پر غلبہ پائے ہوئے ہیں.یہ تمام قوتیں نفس اتارہ کی حالت میں انسان
خطبات مسرور جلد 11 540 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء ، کے اندر شیطان ہیں.نفس اتارہ نفس کی ایسی حالت کو کہتے ہیں جو بار بار بدی کی طرف لے جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے کی بجائے شیطان نے جو دنیا میں بے حیائی پھیلائی ہوئی ہے، اُس کی طرف توجہ دلاتا ہے.برائیوں کو خوبصورت کر کے دکھاتا ہے.فرمایا کہ یہی انسان کا شیطان ہے جو تمہیں ہر وقت بہکا تا رہتا ہے.فرمایا کہ یہ انسانی قوتیں جو انسان کو در غلاتی رہتی ہیں، اگر اصلاح نہ پائیں گی تو انسان کو غلام کر لیں گی.فرمایا کہ علم و عقل ہی برے طور پر استعمال ہو کر شیطان ہو جاتے ہیں.بعض انسانوں کو اپنے علم پر اور اپنی عقل پر بڑا ناز ہوتا ہے اور یہ ناز ہی اُن کو شیطان بنادیتا ہے اور یہی علم اور عقل ہی شیطان بن جاتا ہے.متقی کا کام اُن کی اور ایسا ہی اور دیگر گل قولی کی تعدیل کرنا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 21.مطبوعہ ربوہ ) یعنی اپنی ان طاقتوں کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں ٹھیک کرنا ہوگا، صحیح موقعوں پر اور انصاف کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا اور جب یہ ہوگا تو یہ تقویٰ ہے.پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے.خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے.تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رُوبہ دنیا تھے، ان تمام آفات سے نجات پاویں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 7 - مطبوعہ ربوہ) پس بیعت میں آ کر بھی اگر پاک تبدیلیاں نہ ہوں تو وہ مقصد پورا نہیں ہوتا جس کے لئے بیعت کی گئی ہے.پھر ایک جگہ تقویٰ کی وضاحت فرماتے ہوئے ، ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ: چاہئے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں، کیونکہ تقومی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے.تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت سے ہیں لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتما يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدة: 28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.یہ گویا اُس کا وعدہ ہے اور اُس کے وعدوں میں تخلف نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا.جیسا کہ فرمایا
خطبات مسرور جلد 11 541 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء ہے اِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (الرعد: 32) پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لئے ایک غیر منفک شرط ہے تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے الہذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک اُن میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تا کہ قبولیت دعا کا سُرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 68.مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ انسان کو ہر وقت اپنے قومی سے کام لینا چاہئے.فرمایا کہ : ” غرض یہ قومی جو انسان کو دئے گئے ہیں اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہوسکتا ہے.فرمایا : ”میں یقیناً کہتا ہوں کہ اس امت میں بڑی قوت کے لوگ آتے ہیں جو نور اور صدق اور وفا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں.اس لئے کوئی شخص اپنے آپ کو ان قومی سے محروم نہ سمجھے.کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کر دی ہے جس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں ان برکات سے حصہ نہیں ملے گا.یعنی فلاں لوگوں کو ملتا ہے اور ہمیں نہیں مل سکتا، ایسی کوئی فہرست نہیں ہے.فرمایا: ” خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے.اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے جو بھی ختم نہیں ہو سکتا اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا.اس لئے تم کو چاہیے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو.ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں.رکوع، قیام، قعدہ، سجدہ وغیرہ.پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے.فجر ،ظہر ، عصر ، شام اور عشاء.ان پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں.یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 233-234 _ مطبوعہ ربوہ ) پھر اس بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے کہ نماز کی اصل غرض اور مغز دعا ہی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ : ”نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے اور دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے عین مطابق ہے.مثلاً ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بے قرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے.اُلوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے.اللہ تعالیٰ اور بندے میں اسی قسم کا تعلق ہے." جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا.جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازہ پرگر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو الوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے.رونے اور آہ وزاری کو چاہتا ہے.اس لئے اس کے
خطبات مسرور جلد 11 542 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 234.مطبوعہ ربوہ ) پھر فرمایا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید رونے دھونے سے اور دعاؤں سے کچھ نہیں ملتا.اور آجکل دہریت نے نوجوانوں میں بھی اور بعض لوگوں میں بھی اس قسم کے خیالات بڑے زور شور سے پیدا کرنے شروع کئے ہیں.آپ فرماتے ہیں: ” بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا بالکل غلط اور باطل ہے.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں رکھتے.اگر ان میں حقیقی ایمان ہوتا تو وہ ایسا کہنے کی جرات نہ کرتے.جب کبھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور آیا ہے اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے.یہ سچی تو بہ شرط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے ہیں، اُن کی پابندی کرنی ہوگی.اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس پر اپنا فضل کیا ہے.یہ کسی نے بالکل سچ کہا ہے عاشق که شد که یار بحالش نظر نہ کر اے خواجہ درد نیست و گرنه طبیب ہست کہ یہ عاشق کیسا ہے کہ یار نے اُس کے حال کو دیکھا تک نہیں.اے دوست! در د ہی نہیں ہے ور نہ طبیب تو حاضر ہے.تمہارے اندر ہی وہ درد پیدا نہیں ہورہاور نہ علاج کے لئے اللہ تعالیٰ تو حاضر ہے.فرمایا کہ:”خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے حضور پاک دل لے کر آ جاؤ.صرف شرط اتنی ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ.اور وہ سچی تبدیلی جو خدا تعالیٰ کے حضور جانے کے قابل بنادیتی ہے اپنے اندر کر کے دکھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میں عجیب در عجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لا انتہا فضل و برکات ہیں مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو.اگر سچی محبت ہو تو خدا تعالیٰ بہت دعائیں سنتا ہے اور تائیدیں کرتا ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد اول صفحہ 234.مطبوعہ ربوہ ) پھر عاجزی اور انکساری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ”اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں.یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے.بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے.عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے غرور و تکبر غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عُجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے.یعنی غصہ بھی تکبر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور تکبر اور نخوت کی
خطبات مسرور جلد 11 543 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء وجہ سے غصہ پیدا ہوتا ہے.فرمایا: ” کیونکہ غضب اُس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.‘ انسان اپنے آپ کو کچھ مجھنے لگ جاتا ہے.”میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں، یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں.یعنی کسی کو اپنے آپ سے کم سمجھیں ”خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے.یہ ایک قسم کی تحقیر ہے.جس کے اندر حقارت ہے ڈر ہے کہ یہ حقارت بیچ کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جائے.اگر یہ حقارت دل میں رکھی تو جس طرح ایک بیج بویا جاتا ہے اور بڑھتا ہوا پودا بن جاتا ہے اور پھر درخت بن جاتا ہے، اسی طرح یہ حقارت بڑھے گی اور جب یہ حقارت بڑھے گی تو انسان کو ہلاک کر دے گی.فرمایا کہ: و بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں.“ بڑوں کو ملے ، بڑے ادب سے پیش آئے ، بڑی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا.لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے.اس کی دلجوئی کرے.اس کی بات کی عزت کرے.کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُو ابِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظلِمُونَ (الحجرات:12) تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو.یہ تعل فستاق وفجار کا ہے.“ اُن لوگوں کا ہے جو دین بھولنے والے ہیں اور دور ہٹنے والے ہیں.”جو شخص کسی کو چڑا تا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہوگا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو.جب ایک ہی چشمہ سے کل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.“ ہیں تو ہم سب اللہ تعالیٰ کے بندے ، جب وہی اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سب کو ملتے ہیں تو کیا پتہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس پر زیادہ ہوتے ہیں.”مکریم معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ آنقَكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات : 14) ( ملفوظات جلد اول صفحہ 22-23.مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک موقع پر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی.آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو.ہر ایک قسم کے ہرل اور تمسخر سے کنارہ کش ہو جاؤ، کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دُور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے.آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ.ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے.یہ بہت بڑی بات ہے.اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کر لو.“ اللہ تعالیٰ سے کوئی
خطبات مسرور جلد 11 544 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء لڑائی تو نہیں ، اللہ تعالیٰ سے سچی صلح یہی ہے کہ اُس کے احکامات پر عمل کیا جائے اور اُس کی عبادت کا حق ادا کیا جائے ، اُس کے بندوں کے حقوق ادا کئے جائیں.اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ.اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گنا ہوں سے تو بہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں.تم یا درکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے.کوشش کرو گئے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو جڑی بوٹیوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے.اور کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے.مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں، ان کی مالک پروانہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑ ہارا ان کو کاٹ کر تنور میں پھینک دیوے.سوایسا ہی تم بھی یا درکھو اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی.پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہد نہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پروا نہیں.ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں ہر روز ذبح ہوتیں ہیں.پر اُن پر کوئی رحم نہیں کرتا.اور اگر ایک آدمی مارا جاوے تو کتنی باز پرس ہوتی ہے.ایک انسان مارا جاتا ہے تو باز پرس ہوتی ہے، قانون پوچھتا ہے، لیکن جانور ذبح ہوتے ہیں، کوئی رحم نہیں کرتا.سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بیکار اور لا پروا بناؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہوگا.چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ ہو سکے ، کیونکہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی.ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنی باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ.یہ میری وصیت ہے اور اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہرگز تندی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 174 -175 - مطبوعہ ربوہ ) پھر جماعت کو اخلاقی ترقی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ : ” پس - ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں کیونکہ الاستقَامَةُ فَوْقَ الْكَرَامَةِ مشہور ہے.وہ
خطبات مسرور جلد 11 545 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء یا درکھیں کہ اگر کوئی اُن پر سختی کرے تو حتی الواسع اس کا جواب نرمی اور ملاطفت سے دیں.تشدد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں.اور یہی ایک سبق ہے جو ہم دنیا کو دیتے ہیں کہ یہ معیار ہے دنیا میں امن قائم کرنے کا، اور دنیا پھر اس کو پسند کرتی ہے.لیکن ہمارے عملی نمونے بھی ایسے ہونے چاہئیں.فرمایا: ”انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں.اتارہ ، لو امہ، مطمہینہ.انارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوش کو سنبھال نہیں سکتا جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا اور اندازہ سے نکل جا تا اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے.مگر حالت تو امہ میں سنبھال لیتا ہے.“ دل بار بار اس کو ملامت کرتا ہے کہ میں نے برائی کی.فرماتے ہیں کہ : ” مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستان میں لکھی ہے کہ ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا.گھر آیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ کھایا ہے.ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی.وہ بولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا ؟ اس کتے کو اس نے جواب دیا.بیٹی ! انسان سے گستپن نہیں ہوتا.اسی طرح سے انسان کو چاہئے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے.نہیں تو وہی گنتین کی مثال صادق آئے گی.خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں.بہت بری طرح ستایا گیا، مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (الاعراف: 200 ) کا ہی خطاب ہوا.خوداُس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں ، بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خُلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا.اُن کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اُس پر حملہ نہ کر سکیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے.غرض یہ صفت لو امہ کی ہے جو انسان کشمکش میں بھی اصلاح کر لیتا ہے.روز مرہ کی بات ہے اگر کوئی جاہل یا او باش گالی دے یا کوئی شرارت کرے.جس قدر اس سے اعراض کرو گے، اسی قدر اُس سے عزت بچا لو گے.اور جس قدر اس سے مٹھ بھیڑ اور مقابلہ کرو گے تباہ ہو جاؤ گے اور ذلت خرید لو گے.نفس مطمئنہ کی حالت میں انسان کا ملکہ حسنات اور خیرات ہو جاتا ہے.وہ دنیا اور ماسوی اللہ سے بکلی انقطاع کر لیتا ہے.وہ دنیا میں چلتا پھرتا اور دنیا والوں سے ملتا جلتا ہے لیکن حقیقت میں وہ یہاں نہیں ہوتا.جہاں وہ ہوتا ہے وہ دنیا اور ہی ہوتی ہے وہاں کا آسمان اور زمین اور ہوتی ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 64.مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 546 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء یہی نئی زمین اور آسمان پیدا کرنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے.پس اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے نفس پر قابور رکھنے والا ہو تو جہاں ہم اپنے تعلقات میں محبت اور پیار میں بڑھنے والے ہوں گے وہاں تبلیغ کے بھی کئی راستے کھولنے والے ہوں گے.افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ آپس میں ذرا ذراسی بات پر لڑائی اور جھگڑا شروع کر دیتے ہیں اور جلسوں پر بھی ایسے واقعات ہو جاتے ہیں اور یہ سب باتیں جلسہ کے تقدس کو خراب کر رہی ہوتی ہیں.یہاں سے بھی مجھے شکایتیں آتی رہی ہیں کہ باہر نکلے، پارکنگ میں گئے ،لڑائیاں ہو گئیں، پرانے جھگڑے تھے، خاندانی جھگڑے تھے یا کاروباری جھگڑے تھے اُس پر لڑائیاں ہو گئیں اور ایک جلسہ کا جو تقدس تھا، جو ماحول تھا اُس کو خراب کر دیا.یا نکلتے ہی بھول گئے کہ ہم کیا کرنے آئے تھے اور کیا کر کے جار ہے ہیں.پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صرف غیروں کے سامنے صبر اور برداشت کی تلقین نہیں فرمائی ہے کہ غیروں کے سامنے صبر اور برداشت کرو بلکہ آپس میں بھی قرآن کریم فرماتا ہے رُحماء بينهم (الفتح:30 ) کہ رحم اور محبت کو اپنے آپ میں بھی رائج کرو اور پہلے سے بڑھ کر کرو، دوسروں سے بڑھ کر کرو.اس کی بہت زیادہ تلقین فرمائی گئی ہے.اس لحاظ سے بھی ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے.پھر وہ لوگ جو آپ کی جماعت میں شامل ہو کر آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اُن کو بشارت دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: ”اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة ( آل عمران : 56 ) تسلی بخش وعده ناصرہ میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا.یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا.مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے.اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو اتارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے فسق و فجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں.جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے ، تو یا د رکھو اور دل سے سن لو میں ایک بار پھر ان لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں، بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر نہ صرف میری ذات تک ) بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس برگزیدہ انسان کامل کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور
خطبات مسرور جلد 11 547 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء راستی کی روح لے کر آیا.میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پروا تھی.مگر اس پر بس نہیں ہوتی.اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے.پس ایسی صورت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی ) کہ قیامت تک مکفرین پر غالب رہو گے ) کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی میں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اُس وقت تک حاصل نہ ہوگی جب تک لوامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ.اس سے زیادہ اور میں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوندر کھتے ہو جو مامورمن اللہ ہے.پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 64-65 - مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں کہ : ”اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوت خرچ کرنا یہی ایمان کا طریق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو یقین سے اپنا ہاتھ دعا کے لئے اٹھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا رد نہیں کرتا ہے.پس خدا سے مانگو اور یقین اور صدق نیت سے مانگو.میری نصیحت پھر یہی ہے کہ اچھے اخلاق ظاہر کرنا اپنی کرامت ظاہر کرنا ہے.اگر کوئی کہے کہ میں کراماتی بننا نہیں چاہتا تو یہ یادر کھے کہ شیطان اسے دھو کہ میں ڈالتا ہے.کرامت سے تُحجب اور پندار مراد نہیں ہے.کرامت سے لوگوں کو اسلام کی سچائی اور حقیقت معلوم ہوتی ہے اور ہدایت ہوتی ہے.میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ تُعجب اور پندار تو کرامت اخلاقی میں داخل ہی نہیں.پس یہ شیطانی وسوسہ ہے.دیکھو یہ کروڑ ہا مسلمان جور وئے زمین کے مختلف حصص میں نظر آتے ہیں کیا یہ تلوار کے زور سے، جبر وا کراہ سے ئے ہیں؟ نہیں! یہ بالکل غلط ہے.یہ اسلام کی کراماتی تاثیر ہے جو ان کو کھینچ لائی ہے.کرامتیں انواع واقسام کی ہوتی ہیں.منجملہ ان کے ایک اخلاقی کرامت بھی ہے جو ہر میدان میں کامیاب ہے.اچھے اخلاق دکھاؤ تو یہی کرامت بن جاتی ہے.انہوں نے جو مسلمان ہوئے صرف راستبازوں کی کرامت ہی دیکھی اور اس کا اثر پڑا.انہوں نے اسلام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا.نہ تلوار کو دیکھا.بڑے بڑے محقق انگریزوں کو یہ بات ماننی پڑی ہے کہ اسلام کی سچائی کی روح ہی ہو
خطبات مسرور جلد 11 548 ایسی قوی ہے جو غیر قوموں کو اسلام میں آنے پر مجبور کر دیتی ہے.“ خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء ( ملفوظات جلد اول صفحہ 92 - مطبوعہ ربوہ ) پس اگر آپ کے عمل تعلیم کے مطابق ہوں گے، اگر ہمارا ہر قول و فعل قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہوگا ، اس طرح ہو گا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں تو ایک تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن جائے گا.صرف پاکستانیوں کی یا چند فین (Fijian) لوگوں کی یہاں تعداد بڑھنے سے احمدیت نہیں پھیلے گی.مقامی لوگوں میں تبلیغ کرنے کے لئے بھی اپنے عملوں کو ایسا بنانا ہوگا کہ لوگوں کی توجہ ہماری طرف پیدا ہو اور یہ بھی ایک جلسہ کا بہت بڑا مقصد ہے.پس یہ تقویٰ میں ترقی ، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ، اللہ تعالیٰ سے تعلق ، دعاؤں اور نمازوں کی طرف توجہ، یہی باتیں ہیں جو افراد جماعت کو انفرادی طور پر بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں گی اور من حیث الجماعت، جماعت کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں گی.جماعت کی ترقی میں ہر اُس شخص کو شامل کریں گی جو یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرے گا.جلسہ کے اس ماحول میں ان دنوں میں اپنے جائزے لیں.ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک ان نصائح اور توقعات پر پورا اُترنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہیں اور کوشش بھی ہر احمدی کو کرنی چاہئے کہ ہم ان باتوں پر عمل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے لئے کی گئی دعاؤں کے بھی وارث بنیں.ان دنوں میں بہت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکر ادا کریں کہ اُس نے ہمیں جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق دے کر ہماری اصلاح کا ایک اور موقع عطا فرمایا ہے.دعا کریں ہم اُن لوگوں میں شامل نہ ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ نہیں لیتے.بلکہ اُن میں شامل ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ان دنوں سے بھر پور فیض اٹھانے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بنیں.نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ کا جنازہ ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ امتہ الحئی بیگم صاحبہ کی بیٹی تھیں اور محترم میاں عبد الرحیم احمد صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں.30 ستمبر کو 95 سال کی عمر میں میری لینڈ میں ان کی وفات ہوئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پوتی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی،
خطبات مسرور جلد 11 549 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 4اکتوبر 2013ء اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور خلیفہ امسیح الرابع کی بہن اور میری خالہ تھیں.گو یا حضرت خلیفہ اول سے لے کر اب تک خلفاء سے ان کا رشتہ تھا.پہلے بھی ان کا میرے سے بڑا پیار کا تعلق رہا.پھر جب حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے مجھے امیر مقامی اور ناظر اعلیٰ بنایا تو اُس وقت پیار کے ساتھ احترام بھی شامل ہو گیا اور خلافت کے بعد تو اس تعلق میں ایک عجیب طرح کا رنگ آ گیا کہ حیرت ہوتی تھی.انتہائی ملنسار اور خوش اخلاق خاتون تھیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.ناصرات جواحمدی بچیاں ہیں، اُن پر بھی ان کا ایک اس لحاظ سے احسان ہے جو تاریخ احمدیت میں درج بھی ہے کہ 1939ء میں احمدی بچیوں کے لئے مجلس ناصرات الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا تھا، جس کی پہلی صدر یا نگران محترمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ تھیں اور سیکرٹری صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ تھیں اور اس کی تحریک بھی انہی نے کی تھی.آپ کہتی ہیں جب میں دینیات کلاس میں پڑھتی تھی تو میرے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ جس طرح خواتین کی تعلیم کے لئے لجنہ اماءاللہ قائم ہے، اسی طرح لڑکیوں کے لئے بھی کوئی مجلس ہونی چاہئے.چنانچہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب کی بیگم صاحبہ اور محترم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب کی بیگم صاحبہ اور اسی طرح اپنی کلاس کی بعض اور بہنوں سے خواہش کا اظہار کیا اور ہم نے مل کر لڑکیوں کی ایک انجمن بنائی جس کا نام حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی منظوری سے ناصرات الاحمد یہ رکھا گیا.بلکہ یہ مجلس ہی تھی یا کوئی اجلاس ہور ہا تھا کہ خلیفتہ امسیح الثانی وہاں سے گزرے.انہوں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا یہ نوجوان لجنہ یا اس طرح کا کوئی لفظ استعمال کیا تھا، کی کوئی تنظیم ہے.انہوں نے کہا نہیں.تو بہر حال پھر ان کے جو استاد تھے، اُن کی تحریک پر اجازت لی اور پھر با قاعدہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ناصرات الاحمدیہ نام تجویز کیا اور یہ مجلس بنی.ہر ایک کا ان کے بارے میں یہی خیال اور تبصرہ ہے کہ انتہائی سادہ مزاج اور غریب نواز تھیں.مہمان نوازی کی صفت بہت نمایاں تھی.خصوصاً جلسہ کے دنوں میں اپنا سارا گھر مہمانوں کے لئے دے دیا کرتی تھیں اور ایک سٹور میں سارا خاندان اکٹھا ہو جاتا تھا.بلکہ بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ سٹور بھی نہیں، مہمانوں کے سپر دسارا گھر ہوتا تھا اور آپ گھر والے باہر ٹینٹ لگا کر رہتے تھے.مہمانوں کی بہت ہی زیادہ خاطر مدارت کرتی تھیں.اور یہ ان میں غیر معمولی صفت تھی.امیر وغریب سب کے لئے برابر مہمان نوازی تھی.بہت غریب پرور تھیں.غریبوں کا بہت خیال رکھنے والی تھیں.نہایت خندہ پیشانی سے ان سے پیش آتیں.ان کے جو بچے جو انہوں نے پالے، اُن میں سے کئی کے یہی بیان ہیں کہ ہمیں بیٹے یا بیٹی کی طرح رکھا.اچھے سکولوں میں تعلیم دلوائی، گھر میں اچھی طرح رکھا،
خطبات مسرور جلد 11 550 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14اکتوبر 2013ء کپڑے اچھے پہنائے اور اُن کی خوراک وغیرہ کا خیال رکھا.کئی یتیم بچیوں کی شادیوں کا انتظام آپ نے کیا.اور بہر حال میں نے تو ان جیسا غریب پرور کوئی کم ہی دیکھا ہے.گھر میں اگر کسی یتیم یا غریب کی پرورش کی ذمہ داری لی ہے تو پھر اپنے بچوں کی طرح اُنہیں رکھا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے.ان کے بچے تین بیٹیاں اور ایک بیٹے ہیں ڈاکٹر ظہیر الدین منصور.سارے امریکہ میں ہیں.اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی اپنی والدہ اور والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 25 اکتوبر تا 31 اکتوبر 2013 ، جلد 20 شماره 43 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 551 41 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء خطبہ جمہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013 ء بمطابق 11 اخاء 1392 ہجری شمسی بمقام میلبرن ، آسٹریلیا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : اکیا میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجودلوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں، کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہوگئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے.اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہر گز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں.زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے.حضرت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا اور جیسا کہ ضعف ایمان کا خاصہ ہے، یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہوگئی تھی.اب میرے زمانے میں بھی یہی حالت ہے.سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو.سو یہی افعال میرے وجود کی علت غائی ہیں.مجھے بتلا یا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین کے نزدیک ہوگا ، بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا.“ ) کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 291 تا 294 حاشیہ) پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعوی کرتے ہیں، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کر رہے ہیں.آپ نے اعلان فرمایا کہ میں ایمانوں کو قومی کرنے آیا ہوں.اُن میں مضبوطی
خطبات مسرور جلد 11 552 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء پیدا کرنے آیا ہوں.ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے ایمان مضبوطی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ فرمایا کہ ایمان مضبوط ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثابت ہونے سے ، اللہ تعالیٰ پر کامل یقین سے.آپ نے فرمایا کہ آج کل دنیا میں دنیا کے جاہ و مراتب پر بھروسہ خدا تعالیٰ پر بھروسے کی نسبت بہت زیادہ ہے.خدا تعالیٰ کی طرف پڑنے کی بجائے دنیا کی طرف زیادہ نگاہ پڑتی ہے.وہ یقین جو خدا تعالیٰ پر ہونا چاہئے وہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے.اور دنیا والے اور دنیا کی چیزیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں.اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو یہی صورتحال ہمیں نظر آتی ہے، لیکن اپنے اردگرد نظر دوڑانا صرف یہ دیکھنے کے لئے نہیں ہونا چاہئے کہ آج دنیا خدا تعالیٰ کی نسبت دنیاوی چیزوں پر زیادہ یقین اور بھروسہ کرتی ہے.بلکہ یہ نظر دوڑانا اس لئے ہو کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم دنیا وی وسائل پر زیادہ یقین رکھتے ہیں یا خدا تعالیٰ پر.اگر ہم بیعت کر کے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کو اُس طرح نہیں پہچان سکے جو اس کے پہچاننے کا حق ہے تو ہماری بیعت بے فائدہ ہے.ہمارا اپنے آپ کو احمدی کہلانا کوئی قیمت نہیں رکھتا.اگر آج ہم اپنے دنیاوی مالکوں کو خوش کرنے کی فکر میں ہیں اور یہ فکر جو ہے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے سے زیادہ ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا نہیں کر رہے.ہم پ سے کئے گئے عہد بیعت کو نہیں نبھا رہے.اگر ہم دنیا کے رسم و رواج کو دین کی تعلیم پر ترجیح دے رہے ہیں تو ہمارا احمدی کہلا نا صرف نام کا احمدی کہلانا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ زبانوں سے تو دعوے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین ہے اور ہم خدا تعالیٰ کو ہی سب سے بالا ہستی سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہماری ہر محبت پر غالب ہے، لیکن عملاً دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے.ہمیں اب ہمارے چاروں طرف نظر آتا ہے کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم ہر ایک دنیا کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے.دنیا کی لغویات اور بے حیائیوں نے خدا تعالی کی یاد کو بہت پیچھے کر دیا.مسلمانوں کو پانچ وقت نمازوں کا حکم ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کی وجہ سے اس عبادت کا حکم ہے لیکن عملاً صورتحال اس کے بالکل الٹ ہے.ایک احمدی جب اس لحاظ سے دوسروں پر نظر ڈالتا ہے تو اُسے سب سے پہلے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی نمازوں کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی عبادتوں کو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس دعوے کی نفی کر رہے ہیں کہ آپ کے آنے کا مقصد اللہ تعالیٰ پر ایمان قوی کرنا ہے.آپ کے آنے کا مقصد سچائی کے زمانے کو پھر لانا ہے.آپ کے آنے کا مقصد آسمان کو زمین کے آ
خطبات مسرور جلد 11 553 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء قریب کرنا ہے یعنی خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا ہے.یقیناً ہمارے ایمان اور اعمال کی کمی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کی نفی نہیں ہوتی.ہاں ہم اس فیض سے حصہ لینے والے نہیں ہیں جو آپ کی بعثت سے جاری ہوا ہے.ہمارے ایمان لانے کے دعوے بھی صرف زبانی دعوے ہیں.پس بجائے اس کے کہ ہر ایک دوسرے پر نظر رکھے کہ وہ کیا کر رہا ہے، اُس کا ایمان کیسا ہے، اُس کا عمل کیسا ہے اور اُس میں کیا کمزوری ہے، ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کس حد تک اپنے عہد بیعت کو پورا کر رہا ہے.کس حد تک آپ علیہ السلام کے مقصد کو پورا کر رہا ہے.کس حد تک اعمالِ صالحہ بجالانے کی کوشش کر رہا ہے.کس حد تک اپنی اخلاقی حالت کو درست کر رہا ہے.کس حد تک اپنے اس عہد کو پورا کر رہا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے دس شرائط بیعت رکھی ہیں کہ اگر تم حقیقی طور پر میری جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہو یا شامل ہونے والے کہلانا چاہتے ہو تو مجھ سے پختہ تعلق رکھنا ہوگا.اور یہ اُس وقت ہوگا جب ان شرائط بیعت پر پورا اتر و گے.ان کی جگالی کرتے رہوتا کہ تمہارے ایمان بھی قوی ہوں اور تمہاری اخلاقی حالتیں بھی ترقی کرنے والی ہوں، ترقی کی طرف قدم بڑھانے والی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں مختلف مواقع پر بڑی شدت اور درد سے نصیحت فرمائی ہے کہ تم جو میری طرف منسوب ہوتے ہو، میری بیعت میں آنے کا اعلان کرتے ہو اگر احمدی کہلانے کے بعد تمہارے اندر نمایاں تبدیلیاں پیدا نہیں ہوتیں تو تم میں اور غیر میں کوئی فرق نہیں ہے.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری نیکیوں کے معیار اُس سطح تک بلند ہوں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں.بعض نصائح جو بیعت کرنے والوں کو آپ علیہ السلام نے مختلف اوقات میں فرمائیں ، اُن کا میں اس خطبہ میں ذکر کروں گا.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی.ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے.“ یعنی اگر صرف رسمی بیعت ہے تو انسان اس بیعت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ دار نہیں بن سکتا، نہ انعامات کا وارث بنتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے والے کے حق میں مقرر فرمائے ہیں.فرمایا کہ اسی وقت حصہ دار ہوگا جب اپنے وجود کو ترک کر کے بالکل محبت اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہو جاوے.“ یعنی جس کی بیعت کی ہے اُس کے ساتھ ہو جائے ، خدا تعالیٰ کے ساتھ پختہ تعلق پیدا کر لے.پھر فرمایا: ” تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے.اگر ان تعلقات کو وہ (طالب ) نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا، یعنی جس نے
خطبات مسرور جلد 11 554 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء بیعت کی ہے اگر وہ یہ تعلقات نہیں بڑھاتا اور اس کے لئے کوشش نہیں کرتا، اللہ سے بھی تعلق اور جس کی بیعت کی ہے اُس سے بھی تعلق ” تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے.پھر یہ شکوہ نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے اُن انعامات سے نہیں نواز رہا جن کا وعدہ ہے.فرمایا کہ محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہئے.جہاں تک ممکن ہو اُس انسان (مرشد ) کے ہمرنگ ہو.طریقوں میں اور اعتقاد میں.“ یعنی جس کی بیعت کی ہے اُس کے طریق پر چلو اور اعتقادی لحاظ سے بھی اُس معیار کو حاصل کرو.پھر فرماتے ہیں کہ ”جلدی راستبازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہیے.اور صبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 3-4 مطبوعہ ربوہ ) سچائی اور عبادت کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرو اور صبح سے شام تک اپنے جائزے لو کہ کیا تم نے حاصل کیا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں : ” یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے.یہ تو صرف پوست ہے.مغز تو اس کے اندر ہے.اکثر قانون قدرت یہی ہے کہ ایک چھلکا ہوتا ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے.چھلکا کوئی کام کی چیز نہیں ہے.مغز ہی لیا جاتا ہے.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مغز رہتا ہی نہیں اور مرغی کے ہوائی انڈوں کی طرح جن میں نہ زردی ہوتی ہے نہ سفیدی ، جو کسی کام نہیں آسکتے اور رڈی کی طرح پھینک دیئے جاتے ہیں.اسی طرح پر وہ انسان جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ ان دونوں باتوں کا مغز اپنے اندر نہیں رکھتا، یعنی بیعت اور ایمان کی حقیقت نہیں پتہ اور عمل اس کے مطابق نہیں ” تو اُسے ڈرنا چاہئے کہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اُس ہوائی انڈے کی طرح ذراسی چوٹ سے چکنا چور ہو کر پھینک دیا جائے گا.اسی طرح جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اُس کو ٹٹولنا چاہئے کہ کیا میں چھلکا ہی ہوں یا مغز؟ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد،مریدی اور اسلام کا مدعی سچا مدعی نہیں ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد اول صفحہ 416 - مطبوعہ ربوہ ) پھر یہ سب باتیں غلط ہیں کہ میں ایمان لایا، میری محبت ہے، میں کامل اطاعت کرنے والا ہوں، میں نے بیعت کی ہوئی ہے، میں اعتقادی طور پر یقین رکھتا ہوں، میں سچا مسلمان ہوں.فرمایا یہ سب دعوے ہیں.پس بیعت کے بعد ایمان میں بھی ترقی ہونی چاہئے ، محبت میں بھی ترقی ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہو، یہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے اُس
خطبات مسرور جلد 11 555 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء کے سب سے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت ہو، خلافت سے محبت ہو اور آپس میں ایک دوسرے سے محبت ہو.پھر فرمایا کہ اطاعت کے معیار حاصل کرو.اطاعت یہ نہیں کہ خلیفہ وقت کے یا نظامِ جماعت کے فیصلے جو اپنی مرضی کے ہوئے دلی خوشی سے قبول کر لئے اور جو اپنی مرضی کے نہ ہوئے اُس میں کئی قسم کی تاویلیں پیش کرنی شروع کر دیں، اُس میں اعتراض کرنے شروع کر دیئے.فرمایا کہ یہ بیعت کا دعویٰ اگر ہے تو پھر اطاعت بھی کامل ہونی چاہئے.پس یہ بیعت کا دعوئی، اعتقاد کا دعوئی ، مریدی کا دعویٰ اور اس حقیقی اسلام پر عمل کرنے کا دعوی یا مسلمان ہونے کا دعوی تبھی حقیقی دعوئی ہے جب یہ اعلان ہو کہ آج بیعت کرنے کے بعد میرا کچھ نہیں رہا بلکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے اور اُس کے دین کے لئے ہے.اور یہی بیعت کا مقصد ہے کہ اپنے آپ کو بیچ دینا.پھر ایک دوست کو نصیحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: یہ یاد رکھو کہ بیعت کے بعد تبدیلی کرنی ضروری ہوتی ہے.اگر بیعت کے بعد اپنی حالت میں تبدیلی نہ کی جاوے تو یہ استخفاف ہے.“ یعنی تو بہ اور بیعت کا مذاق اڑانا ہے، اس کو کم نظر سے دیکھنا ہے، اُس کا احترام نہ کرنا ہے.” بیعت بازیچۂ اطفال نہیں ہے.“ بیعت کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، بیعت ایک مطالبہ کرتی ہے.در حقیقت وہی بیعت کرتا ہے جس کی پہلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی شروع ہو جاتی ہے.ہر ایک امر میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه 257 - مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج بھی ایسے مخلص اللہ تعالیٰ عطا فرما رہا ہے جو بیعت کرنے کے بعد پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اور غیر بھی اُن کی اس پاک تبدیلی کے معترف ہیں.ہمارے ایک مبلغ ہیں برکینا فاسو کے، وہ لکھتے ہیں کہ وہاں دینیہ ایک جگہ ہے ایک مرتبہ وہاں وہ دورے پر گئے اور یہ جماعت جو ہے یہ مالی کے بارڈر پر ہے اور یہاں جماعت کی کافی مخالفت ہے.کیونکہ وہاں بھی وہابیوں کا زور ہے.وہاں کے ایک مسجد کے امام ودرا گو یعقو بوصاحب ہیں یہ مسجد کے امام صاحب ہیں لیکن کم از کم ان میں اتنی سچائی ہے، پاکستانی مولویوں کی طرح نہیں کہ حقیقت کو ہی نہ مانیں.کہتے ہیں انہوں مجھے بتایا کہ باوجود مخالفت کے ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اس گاؤں میں تین بہترین مسلمان ہیں اور وہ تینوں ہمارے لئے نمونہ ہیں اور اُن تینوں کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے.
خطبات مسرور جلد 11 556 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء اس طرح مخالفین کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں آنے کے بعد لوگوں میں ایک حقیقی اور پاک تبدیلی پیدا ہوئی ہے.پس جو بیعت کی حقیقت کو سمجھ کر بیعت کرتے ہیں وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں اور یہ نمونہ ہی ہے جو پھر آگے تبلیغ کے میدان کھولتا ہے.اگر تبلیغی میدان بڑھانا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو، جو کہیں بھی رہتا ہے، اس ملک کے ہر کونے میں اپنے نمونے ایسے قائم کرنے ہوں گے کہ لوگوں کی آپ کی طرف توجہ پیدا ہو اور تاکہ اُس کے نتیجہ میں پھر تبلیغ کے میدان کھلیں.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اُن اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جن کی آپ نے ہم سے توقع فرمائی ہے.آپ ایک حقیقی احمدی کا معیار بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : لازم ہے کہ انسان ایسی حالت بنائے رکھے کہ فرشتے بھی اس سے مصافحہ کریں.ہماری بیعت سے تو یہ رنگ آنا چاہئے.اگر بیعت کی ہے تو یہ رنگ پیدا ہونا چاہئے ہر احمدی میں ” کہ خدا تعالیٰ کی ہیبت اور جلال دل پر طاری رہے جس سے گناہ دور ہوں.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 397.مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ فرماتے ہیں: ”اگر دنیا داروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی.میرے ہاتھ پر تو بہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تا کہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو.“ فرمایا ” بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں.میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے.پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے، غفور و رحیم خدا اُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے.تب فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں.“ 66 ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 194.مطبوعہ ربوہ) پس یہ تو بہ کے معیار اور پاک تبدیلی ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر آپ فرماتے ہیں : ” اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہارا وجو دا لگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ.جو کچھ تم پہلے تھے، وہ نہ رہو.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 195.مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 557 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ”بیعت کی حقیقت سے پوری واقفیت حاصل کرنی چاہئے اور اس پر کار بند ہونا چاہئے.اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے.اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے.اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ بیعت پھر اس کے واسطے اور بھی باعث عذاب ہوگی کیونکہ معاہدہ کر کے جان بوجھ اور سوچ سمجھ کر نافرمانی کرناسخت خطرناک ہے.‘“ 66 ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 604-605.مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: ” بیعت کرنے سے مطلب بیعت کی حقیقت سے آگاہ ہونا ہے.ایک شخص نے رو برو ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی.اصل غرض اور غایت کو نہ سمجھایا پروا نہ کی تو اُس کی بیعت بے فائدہ ہے.“ ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کر لی لیکن غرض نہیں سمجھی تو بے فائدہ بیعت ہے اور اس کی اس بیعت کی ”خدا کے سامنے کچھ حقیقت نہیں.مگر دوسرا شخص ہزار کوس سے بیٹھا بیٹھا صدق دل سے بیعت کی حقیقت اور غرض و غایت کو مان کر بیعت کرتا ہے.ایک دوسرا شخص ہے جس نے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت تو نہیں کی ، ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا ہے لیکن بیعت کی غرض و غایت کو سمجھا ہے، اور پھر اس اقرار کے اوپر کار بند ہو کر اپنی عملی اصلاح کرتا ہے، وہ اُس رُو برو بیعت کر کے بیعت کی حقیقت پرنہ چلنے والے سے ہزار درجہ بہتر ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 457 - مطبوعہ ربوہ ) پس یہ حقیقت ہے بیعت کی اور آپ کے آنے کے مقصد کو پورا کرنے کی ، کہ بیعت کی حقیقت کو جاننے اور بیعت کو جاننے کی ضرورت ہے.اور جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے بیعت کی حقیقت اُس وقت معلوم ہوگی جب آپ کی بیان فرمودہ دس شرائط بیعت پر غور ہوگا اور اُن پر عمل ہوگا.میں نے ابھی ایک مثال دی کہ کس طرح افریقہ کے دور دراز علاقے میں بیٹھے ہوئے لوگ بیعت کر کے اپنے ماحول میں نمونہ بن رہے ہیں اور مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ حقیقی مسلمان دیکھنا ہے تو ان احمدیوں میں دیکھو.پس یہ نمونے ہیں جو ہم نے قائم کرنے ہیں.نئے بیعت کرنے والوں کی بعض اور مثالیں بھی میں دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شرائط بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ آپ سے تعلق محبت اور اخوت تمام دنیوی تعلقوں سے بڑھ کر ہو گا.(ماخوذ از مجموعه اشتہارات جلد اول صفحہ 160 مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 558 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء جب موقع ملے تو آج بھی دور دراز بیٹھے ہوئے لوگ اس کا اظہار کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو ایمان سے بھرا ہوا ہے.رشین ممالک میں بیعت کرنے والے احباب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان اور اخلاص میں غیر معمولی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں.ان میں سے چند ایک گزشتہ سال قادیان کے جلسہ میں بھی شامل ہوئے اور واپس آنے کے بعد، اپنے ملک پہنچنے کے بعد جو اپنے تاثرات انہوں نے بھجوائے اُن میں سے ایک صاحب نے لکھا کہ: اس مبارک جگہ کے بارے میں کتب میں پڑھا اور ٹی وی پر دیکھا تھا لیکن جب ہمارے قدم اس زمین پر پڑے تو وہی ماحول جو مسیح موعود علیہ السلام کے وقت تھا ہم پر بھی طاری ہو گیا.یہاں پر سانس لینا بہت آسان تھا اور آدمی دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے.حتی کہ اس کے خیالات تک اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مستغرق ہو جاتے ہیں.جو کچھ ہم نے وہاں دیکھا اور محسوس کیا اس کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے.پھر ایک دوست نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے قادیان جانے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق مہدی آخر الزمان کو سلام پہنچانے کی توفیق ملی.میں نے پہلی مرتبہ احمد یہ مسجد سے اذان کی آواز سنی، کیونکہ وہاں روس میں بھی پابندیاں ہیں، مسجد میں اذان نہیں دے سکتے.میں نے اپنا سامان جلدی سے رکھا اور وضو کرتے ہوئے یہ سوچتے سوچتے مسجد پہنچا کہ یہ مسیح موعود کی مسجد ہے اور دو رکعت نماز ادا کر کے ایک احمدی بھائی سے پوچھا کہ کیا یہ امام مہدی علیہ السلام کی ہی مسجد ہے؟ تو اُس نے کہا نہیں، یہ مسجد دارالانوار ہے.اس پر میں کچھ ٹمگین سا ہو کر اپنے بھائیوں کی طرف گیا اور ان کو بتا یا.بہر حال ہم نے فجر کی نماز اسی مسجد میں ادا کی اور پھر ہم امام مہدی علیہ السلام کے مزار پر گئے اور دعا کی.اُس وقت میں اللہ کے حضور شکر کے ایسے جذبات سے بھرا ہوا تھا کہ جن کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.اس کے بعد ہم قادیان میں ہر طرف گھومے.امام مہدی کی مسجد ، بیت الفکر، بیت الدعا، وہ گھر جہاں امام مہدی علیہ السلام پیدا ہوئے اور رہے، جہاں انہوں نے روزے رکھے ، اور مسجد نور بھی گئے.ان جگہوں پر دعا کی توفیق ملی اور ایسی حالت طاری ہوئی جو نا قابل بیان ہے.ایسے لگا جیسے دماغ چکرا گیا ہو.ہم تمام اہم جگہوں پر گئے اور میں اس وجہ سے اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں.پس یہ لوگ ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں.بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ موقع نہیں ملا کہ قادیان جاسکیں.لیکن یہ لوگ بھی اخلاص و وفا سے پر ہیں جن لوگوں کے خطوط آتے ہیں
خطبات مسرور جلد 11 559 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء اور حیرت ہوتی ہے ان کی وفا اور اخلاص کو دیکھ کر.اپنی دنیاوی ضروریات سے زیادہ اپنی روحانیت کی فکران میں ہے.میں گزشتہ دنوں میں جب سنگاپور گیا ہوں، وہاں انڈونیشیا سے بھی بہت سارے لوگ آئے ہوئے تھے اور بڑا لمبا سفر کر کے آئے تھے.بعض غریب لوگ ایسے بھی آئے تھے کہ جن کے پاس کرائے کے پیسے نہیں تھے تو اگر اُن کی تھوڑی سی کوئی جائیداد زمین یا جگہ تھی، تو وہ بیچ کر انہوں نے کرایہ پورا کیا اور سنگا پور پہنچے ہوئے تھے.اور جب بھی انہوں نے کوئی دعا کے لئے کہا، تو یہ نہیں تھا کہ دنیاوی ضروریات پوری ہوں، بلکہ یہ تھا کہ ہمارے بچے دین پر قائم رہیں اور جس انعام کو ہم نے پالیا ہے یہ ہم سے ضائع نہ ہو.یہ عورتوں کے بھی جذبات تھے اور مردوں کے بھی.پھر خلافت سے محبت بے انتہا تھی.وہی محبت و اخوت کا اظہار تھا جو محض اللہ تھا.پھر ایک اور مثال پیش کرتا ہوں جو دین کو دنیا پر مقدم کرنا بھی ہے اور عقد اخوت کا اظہار بھی ہے.فرانس سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع عبدالعزیز صاحب پچھلے تین چار ماہ سے ملازمت کی تلاش میں تھے.اسی دوران جب ان کو بتایا گیا کہ ماہ جون کے آخر میں جلسہ سالا نہ جرمنی منعقد ہوگا جس میں بتایا کہ خلیفتہ مسیح نے بھی شامل ہونا ہے تو کہنے لگے کہ وہ ہر قیمت پر اس جلسہ میں شامل ہوں گے اور اُن کی بڑی خواہش ہے کہ خلیفہ اسیح سے ملاقات ہو.بہر حال کہتے ہیں 2 جون کو جب ان سے جرمنی جانے کے لئے دوبارہ رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ آج ہی ایک ملازمت ملی ہے.اگر وہ شروع ہی میں چار غیر حاضریاں کریں گے تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ ان کو نوکری سے فوری جواب مل جائے گا.اب یہ نو مبائع ہیں اور حالات جو دنیا کے آجکل ہیں، خاص طور پر یورپ میں ، وہ ایسے ہیں کہ نوکری مشکل سے ملتی ہے.لاکھوں لوگ بے روز گار ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ وہ ہر حال میں جلسہ سالانہ پر جائیں گے.اگر نوکری جاتی ہے تو جائے ، میں تو خلیفہ اسیح سے ملاقات کے لئے ضرور جاؤں گا.الحمد للہ انہوں نے جلسہ میں شرکت کی اور پھر جو دستی بیعت تھی اُس میں بھی شامل ہوئے.پھر مالی سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہماری ریجن کے ایک نو مبائع آدم کلو بالی صاحب ایک کمپنی میں ملازم ہیں.ایک دن انہیں خدام الاحمدیہ کی میٹنگ کے لئے بلایا گیا.عین اُسی وقت اُن کی کمپنی کی بھی بہت اہم میٹنگ تھی اور اس میٹنگ کی نوعیت اس قسم کی تھی کہ اگر وہ اس میں شامل نہ ہوتے تو نوکری سے بھی نکالا جا سکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ کئے بغیر جماعتی میٹنگ میں شامل ہوئے اور جماعتی میٹنگ کے اختتام پر
خطبات مسرور جلد 11 560 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء جب وہ کمپنی کی میٹنگ کیلئے گئے تو اُس وقت بہت دیر ہو چکی تھی اور یہی گمان تھا کہ کمپنی کا مالک بہت سخت ناراض ہوگا.مگر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے اس خادم احمدیت پر بجائے ناراض ہونے کے اُن کا مالک اُن کے کام سے بہت خوش ہوا اور انعام کے طور پر اُن کو ایک موٹر سائیکل بھی دی.اس نو مبائع کا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ یہ انعام انہیں احمدیت کی برکت کی وجہ سے ملا ہے.پس ان کا اخلاص ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا انہوں نے عہد نبھایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی پھر ان کو نوازا.یہاں بھی مجھے جلسہ پر بعض لوگ ملے ہیں ایک دو کو تو میں جانتا ہوں جو نجی کے تھے.نئی نئی نوکریاں تھی لیکن چھوڑ کے آگئے اور جلسہ میں شامل ہوئے لیکن بہت سے ایسے بھی یہاں ہیں جنہوں نے اپنے کاموں کی وجہ سے یا کسی وجہ سے، حالانکہ نوکری کا مسئلہ نہیں تھا، جلسہ میں شمولیت اختیار نہیں کی.جبکہ اُن کو چاہئے تھا کہ جلسہ میں ضرور شامل ہوتے.پھر ایک دور دراز ملک کے رہنے والے کے اخلاص کی ایک اور مثال دیکھیں کہ دین کا علم حاصل کرنے کی اُن میں کیا تڑپ تھی؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن پر کیسا فضل فرمایا.آئیوری کوسٹ سے عمر سنگارے صاحب ہیں، کہتے ہیں کہ احمدی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے قبولیت دعا اور امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کے بہت سے نشانات دکھائے اور ہر روز دکھا رہا ہے جس سے میرے ایمان میں ترقی ہو رہی ہے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ناں کہ میری بعثت کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو.کہتے ہیں جلسہ سالانہ آئیوری کوسٹ کے ایام قریب تھے اور میری مالی حالت ایسی تھی کہ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے زاد راہ پاس نہیں تھا.کرایہ وغیرہ نہیں تھا.میں نے دعا کی کہ اے اللہ ! تیرے مہدی سچے ہیں اور مجھے اُن کے قائم کردہ جلسہ میں جانا ہے.اُن کی صداقت کے نشان کے طور پر ا پنی جناب سے میرے لئے زادِراہ مہیا فرما.یہ دعا کی انہوں نے.اب ان لوگوں کو دیکھیں جنہیں جلسہ کی اہمیت کا اندازہ ہے.اور ہر ایک اپنا بھی جائزہ لے.کہتے ہیں اگلے روز ایک غیر از جماعت دوست نے مجھ سے جلسہ پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا.میں نے جلسہ پر جانے والے قافلہ کی انتظامیہ کو اپنا اور اُس دوست کا نام لکھوا دیا.جلسہ پر جانے میں دو روز رہ گئے تھے لیکن ابھی جلسہ پر جانے کا کوئی انتظام نہ ہوا تھا.کرایہ پاس نہ تھا.کہتے ہیں میں نے دعا جاری رکھی.اسی دوران مجھے قریبی ایک گاؤں میں جانا پڑ گیا.وہاں ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا کہ میں تو کل سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں اور اُس نے میرے ہاتھ میں ہیں ہزار فرانک تھما دیئے اور یہ کہا کہ یہ آپ کے لئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُس دوسرے
خطبات مسرور جلد 11 561 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء شخص کے دل میں ڈالا کہ تم اُس کو پیسے دو.کہتے ہیں میں نے رقم لے کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس رقم سے میں نے سولہ ہزار فرانک دو افراد کا کرایہ ادا کر دیا اور چار ہزار سفر کے لئے رکھ لیا.تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل یقیناً اُن کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے جیسا کہ انہوں نے خود بھی لکھا ہے.بیعت کے بعد وہ تبدیلی پیدا ہوئی جس نے دنیا کی بجائے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے پر اُن کو مائل کیا.کسی انسان کے پاس نہیں گئے بلکہ دعا میں لگے رہے کہ اللہ تعالیٰ انتظام کر دے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول بھی کی اور اُن کی خواہش کو پورا فرمایا.پس ایسے ایسے ایمان سے پرلوگوں کے دل میں کس طرح شبہات پیدا کئے جا سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ احمد بیت جھوٹی ہے یا خدا تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں ہے.یقیناً یہ لوگ ایمان میں مزید پختہ ہوتے چلے جا رہے ہیں.اور یہی باتیں جب اپنی نسلوں کو بتا ئیں گے تو اُن کے ایمان میں ترقی ہوگی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمدیوں کو فرمایا کہ پاک تبدیلیاں پیدا کرو اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں پر عمل کرو تو تبھی تمہارے ایمان کا صحیح پتہ لگے گا.اب یورپ میں رہنے والی ایک لڑکی کا واقعہ بیان کرتا ہوں.کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس کو اپنے ایمان کو سلامت رکھنے کی کوشش میں کامیابی عطافرمائی اور انعامات سے نوازا.سوئٹزرلینڈ کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ جماعت کی ایک نوجوان بچی تھی جو پروفیشنل تعلیم حاصل کر رہی تھی.اُس کے لئے اُسے دو دن کالج جانا پڑتا تھا جبکہ ہفتے میں تین دن ایک فرم میں کام سیکھنا ہوتا تھا.وہ بچی اس فرم میں اکیلی مسلمان تھی.فرم نے اُسے نماز پڑھنے کی سہولت مہیا کی ہوئی تھی.جب اُس نے اس فرم میں کورس شروع کیا تو اچانک فرم کو غیر معمولی منافع ہونے لگا اور فرم کو نئے گا ہک ملنے لگے.نہایت مختصر عرصے میں فرم کی دونئی بلڈنگز اور کئی نئے ورکرز ہائر (Hire) کرنا پڑے.جس کالج میں بچی جاتی تھی، وہاں سپورٹس کا ایک پیریڈ ہوتا تھا اور سوئمنگ سپورٹس کا ایک حصہ تھی.بچی کوسپورٹس کے پیریڈ میں سوئمنگ میں حصہ لینے کے لئے زور دیا گیا.بچی نے انکار کر دیا کہ لڑکوں کے ساتھ سوئمنگ میں نہیں کر سکتی.ہاں علیحدہ ہو تو اور بات ہے.کالج کی انتظامیہ کی طرف سے پھر دباؤ پڑا.لیکن اس نے مطالبہ نہیں مانا، رڈ کر دیا.سکول نے اُس فرم میں شکایت کی.فرم کی طرف سے بھی بچی کو دباؤ پڑا کہ یہ کالج کی تعلیم کا حصہ ہے اور اگر تم نہیں کرو گی تو نوکری سے نکال دیں گے.لیکن بچی جو تھی اپنے ایمان پر قائم رہی اور اُس نے کہا ٹھیک ہے جو مرضی کرو ، لڑکوں کے ساتھ میں سوئمنگ نہیں کر سکتی.بہر حال ان کا رویہ سخت ہوتا گیا اور
خطبات مسرور جلد 11 562 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء بچی نے خود ہی تنگ آ کر فرم کو نوٹس بھیج دیا اور اپنا کورس جاری نہیں رکھ سکی.فرم کو چھوڑ کر اس نے پرائیویٹ کالج میں داخلہ لے لیا اور جب اس نے فرم چھوڑی تو اللہ تعالیٰ نے بھی عجیب قدرت کا نمونہ دکھایا کہ فرم کو جو فائدہ ہونا شروع ہوا تھا وہ نقصان ہونے لگا اور کام آہستہ آہستہ بالکل ختم ہوتا چلا گیا.لوگوں کو فارغ کرنا پڑا.آخر جب اس نقصان کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے میٹنگ بلائی گئی تو فرم کے ایم ڈی نے برملا اس بات کا اقرار کیا کہ ان کو کسی معصوم کی بددعا لگی ہے.اس فرم میں سے کسی نے اس بچی کو اس بارے میں ای میل کے ذریعہ بتایا اور لکھا کہ جب تم نے ہماری فرم کو چھوڑا تو چند دن تک تو تم ہماری فرم میں لوگوں کی گفتگو کا موضوع رہی اور پھر اس کے بعد کبھی تمہارا ذ کر نہیں ہوا.اب جب سے ایم ڈی نے یہ کہا ہے کہ ہماری فرم کو کسی معصوم کی بددعا لگی ہے تو تم پھر گفتگو کا موضوع بن گئی ہو اور سب کا یہی خیال ہے کہ وہ معصوم تم ہی ہو جس کے ساتھ فرم نے زیادتی کی تھی.وہ عورت جو اس کی مینیجر تھی، جس نے بچی کو بہت زیادہ تنگ کیا تھا، اُس کو فرم نے اُس عہدے سے برطرف کر دیا.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور یہ بچی پرائیویٹ کالج میں پڑھی اور اچھے نمبروں سے پاس ہوئی اور اپنا کورس مکمل کر لیا، اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی.اس نے خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھا.سب کچھ جو دنیاوی خواہش تھی اُس کی ، وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دی.پس ہماری بچیوں کے لئے بھی اس میں ایک سبق ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھیں تو اللہ تعالیٰ فضل فرما تارہتا ہے.یہ ضروری نہیں ہے کہ یہاں کی ہر چیز کو اپنا یا جائے کہ جو کسی نے کہ دیا اُس پر عمل کرنا ہے.نو جوانوں کو یاد رکھنا چاہئے جو ان کی اچھائیاں ہیں، وہ لیں.جو ان کی برائیاں ہیں،اُن سے بچنے کی کوشش کریں.سوئمنگ کرنا بچوں کے لئے لڑکیوں کے لئے منع نہیں ہے، ضرور کریں لیکن لڑکیاں لڑکیوں میں سوئمنگ کریں اور یہ اچھی بات ہے تیرا کی تو ہر ایک کو آنی چاہئے.یہ جو آ جکل سوئمنگ کی تربیت دینے کا زور پڑ گیا ہے.ہماری دادی مجھے بتایا کرتی تھیں کہ اُس زمانے میں جب سوئمنگ پول تو نہیں ہوتے تھے، نہروں پر جا کر سوئمنگ کی جاتی تھی اور وہ بڑی اچھی تیراک تھیں.سوسال سے زیادہ پرانی بات ہے، اُس وقت بھی تیرا کی کیا کرتی تھیں اور بڑی اچھی آپ سٹریم (up stream) تیرا کرتی تھیں.تو ہماری عورتیں بھی تیرتی ہیں اور تیر نا آنا چاہئے ، سوئمنگ کرنی چاہئے لیکن ایسا انتظام یہاں انتظامیہ سے رابطہ کر کے کروائیں کہ لڑکیوں کے وقت میں صرف لڑکیاں ہوں اور یہ ہو جاتا ہے.یورپ میں میں نے کئی جگہ اس طرح دیکھا ہے جب کوشش کی تو ہو گیا.ایک مخلص دوست سعید کا کو صاحب کو غانا میں خراج تحسین پیش کیا گیا جو اس وقت ہائی کورٹ کے
خطبات مسرور جلد 11 563 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء ہمارے ایک حج ہیں ، ان کو اپیل کورٹ کا جج بنایا گیا ہے.غانا بار ایسوسی ایشن نے ان کے اعزاز میں ایک سائلیشن (citation) پیش کی.اس میں لکھا کہ اگر چہ آپ انسان ہیں جس سے غلطی ہونا لازمی ہے مگر آپ نے کسی قسم کی کرپشن نہیں کی.فیصلہ کرنے کے بعد آپ شکریہ کا تحفہ لینا بھی پسند نہیں کرتے.آپ کی شخصیت میں کرپشن کا مادہ ہر گز نہیں پایا جاتا.غانا بار ایسوسی ایشن نے آپ کو ایماندار محنتی اور انکر پٹ ایبل (incorruptible) حج یعنی ایسا حج جو کرپٹ نہیں کیا جاسکتا، قرار دیا ہے.یہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آکر اور اس کی حقیقت کو سمجھنے والوں میں آتا ہے.اب پاکستان میں حج دیکھیں ، ایک فیصلہ کرتے ہیں، اُس کے بعد مولویوں سے ڈر کے اُسے بدل دیتے ہیں.کئی فیصلے جماعت کے حق میں ایسے ہوئے ، ہائی کورٹ نے ، سپریم کورٹ نے مظلوموں کے حق میں فیصلہ کیا اور پھر بدل دیا.پس یہ اعزاز بھی آج جماعت احمدیہ کو حاصل ہے اور ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ یہ اعزاز حاصل رہے کہ کوئی اُن پر انگلی نہ اٹھا سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شرائط بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اپنی خداداد صلاحتیوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچاؤ.غیروں کی طرف سے اس کا اظہار کس طرح ہوتا ہے ،اس کا میں ایک نمونہ پیش کرتا ہوں.صدر مملکت سیرالیون نے جماعت احمد یہ سیرالیون کے باونویں (52) جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ میں جماعت احمد یہ ہی نہیں بلکہ اپنی قوم کے ایک اہم پروگرام میں حاضر ہوں.میں یہاں جماعت احمدیہ کی ملک وقوم کی ترقی کے لئے خدمات کی قدردانی کرنے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لئے آیا ہوں اور بحیثیت صدر مملکت یہ بھی بتانے آیا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی گورنمنٹ اور سیرالیون کی عوام کے دل میں کتنی عزت اور احترام ہے.جماعت احمدیہ کا ماٹو Love for all اور Hatred for none ہے جس کا جماعت احمدیہ کئی سالوں سے صرف زبان سے ہی دعویٰ نہیں کر رہی بلکہ اس کی عملی تصویر بھی دکھا رہی ہے.یہ جماعت احمدیہ کا میرے لوگوں سے پیار ہی تو ہے کہ عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے ملک کے ہر کونے میں سکول کھول رکھے ہیں اور بلا امتیاز ملت و مذہب ہمارے لوگ جماعت کے سکولوں سے مستفیض ہورہے ہیں.اور Hatred for none کا یہ عملی نمونہ ہے کہ جماعت نے لوگوں کی صحت کی حفاظت کے لئے ہسپتال کھول رہے ہیں اور ہر قسم کے لوگ بلا امتیاز ہسپتالوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.یہ جماعت کے وسیع حوصلے کا ثبوت ہے اور میں
خطبات مسرور جلد 11 564 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو آپ کے شانہ بشانہ چلنا چاہئے اور ان مقاصد میں آپ کی معاونت کرنی چاہئے.میں بحیثیت صدر مملکت یہاں آیا ہوں کہ آپ کی ان خدمات پر مبارکباد پیش کرسکوں اور بتا سکوں کہ آپ کی دیرینہ خدمات پر میں اور میرے ملک کے لوگ خوش ہیں اور ہم جماعت احمدیہ کے ممنون ہیں.اب عربوں میں سے تیل کے پیسے والے تو یہاں آئے نہیں لیکن جماعت کا جب یہ اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اس کو دیکھ کر اب بعض حکومتوں کے نمائندے وہاں جانے شروع ہوئے ہیں کہ ہم تمہارے لئے سکول بھی کھولیں گے اور ہسپتال بھی کھولیں گے اور کالج بھی کھولیں گے اور پھر مدد بھی دیں گے.بہر حال اللہ کرے کہ ان لوگوں کی انصاف کی آنکھ جو ہے وہ کھلی رہے اور کبھی بے انصافی نہ کریں.پھر قال اللہ اور قال الرسول پر عمل کرنے کے اظہار پر غیروں کی طرف سے تبصرہ اس طرح ہے.سیرالیون پیپلز پارٹی کے سابق نیشنل چیئر مین الحاج نے اپنی تقریر میں جماعت احمدیہ کے باونویں جلسہ سالانہ کے انعقاد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں جلسہ سالانہ یو کے میں بھی کافی دفعہ شرکت کر چکا ہوں.اور وہاں لوگوں کی اعلیٰ کوالٹیز (qualities) اور اسلامی تعلیمات پر کار بند ہونے سے بھی آگاہ ہوں.ان باتوں سے جو میں نے اندازہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا مستقبل جماعت احمد یہ ہی کے ذریعہ روشن ہوگا اور اس بات کا ثبوت ہم دیکھ رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ اگر ہم جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہو سکتے تو اپنی کم علمی کی وجہ سے جماعت کی ترقی اور تعلیمات کے بارے میں اپنے غلط خیالات کا اظہار تو نہ کریں.اس جلسہ کا تھیم (Theme) اور جلسہ گاہ میں لگائے ہوئے پوسٹر ز کو دیکھیں تو ان عبارات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ جماعت احمد یہ کے ہی افراد ہیں.میں اس بات کا برملا اظہار کروں گا کہ جو بھی جلسہ سالانہ میں شامل ہو گا وہ اس بات کا اظہار کرنے سے نہیں رہ سکتا کہ اسلام کا روشن مستقبل صرف جماعت احمدیہ کے ہی ہاتھ میں ہے.پس یہ ہے حسن جماعت احمدیہ کا اور یہ ہونا چاہئے کہ غیر بھی اقرار کریں کہ حقیقی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کے اُسوہ پر عمل کرنے کی کوشش احمدی کرتے ہیں.سپین سے عائشہ بوتر ساس صاحبہ کہتی ہیں، مجھے انہوں نے خط لکھا ہے کہ میں اپنے احمدی خاوند کے ساتھ اپنے سسرال کے ساتھ رہتی ہوں جو سب غیر احمدی ہیں.وہ آپس میں بیٹھے ہوئے مجلس میں جب چغلی کرتے ہیں تو مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے اور میں اُن میں بیٹھنا پسند نہیں کرتی.اسی طرح جب سے میں نے بیعت کی ہے، مردوں سے ہاتھ ملانا چھوڑ دیا ہے اور غیر مردوں کی مجلس میں بیٹھنا بھی ترک کر دیا ہے.یہ
خطبات مسرور جلد 11 565 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء بات انہیں بری لگتی ہے اور مجھ سے ناروا سلوک کرتے ہیں اور حدیث کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں مردوں سے مصافحہ کی مناہی ہو.ہم دونوں میاں بیوی ان حالات میں صبر سے گزارہ کر رہے ہیں.دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنا الگ مکان عطا فرمائے جہاں آزادی سے امام الزمان علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کر سکیں.پس یہ تبدیلی ہے جو اُن لوگوں میں پیدا ہو رہی ہے.اب کسی احمدی کو کسی لڑکی کو کسی بات میں کمپلیکس (complex) میں نہیں آنا چاہئے کہ مردوں میں بعض دفعہ ہمیں سلام کرنا پڑ جاتا ہے.کوئی ضرورت نہیں سلام کرنے کی.جب مردوں سے ہاتھ ملانا منع ہے تو اُس کی پابندی ہونی چاہئے.اسی طرح مردوں کو بھی کوشش یہی کرنی چاہئے کہ عورتوں سے ہاتھ نہ ملائیں.اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنا ہے تو پھر ہر چھوٹے سے چھوٹے حکم پر بھی، جو بظاہر چھوٹا لگے عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر گوداوری جگہ کے ایک مبلغ صاحب لکھتے ہیں، یہ غالباً انڈیا کے ہیں.جماعت احمد یہ چٹیالہ میں غیر احمدی علماء اور چند شر پسندوں نے مشن ہاؤس پر حملہ کیا اور مسجد پر قبضہ کر لیا جس کو جماعت احمد یہ نے آباد کیا تھا.انہوں نے کہا کہ اس مسجد میں امامت ہم کریں گے، لیکن آپ لوگ مسجد میں آ کر نماز پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے احباب کے دل میں سلسلہ کے لئے ایسی غیرت رکھی ہے کہ کسی بھی فرد نے اُن کا مقتدی ہونا پسند نہیں کیا.اور ہر ایک نے اُن کے پیچھے نماز ادا کرنے سے انکار کر دیا اور احمدیت پر ثابت قدم رہے.پس یہ ایک مثال ہے دینی غیرت کی کہ ایسے لوگ جو زمانے کے امام کو نہیں مانتے ، اُس امام کو نہیں مانتے جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا ہے تو پھر ایسے شخص کے پیچھے ہم کس طرح نماز پڑھ لیں.ایسے شخص کو کس طرح امام بنالیں جو زمانے کے امام کا انکاری ہو.ہم نے بندوں کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے.اور اس بارے میں بھی احتیاط کرنی چاہئے.خوش قسمت ہیں وہ جو بیعت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور جنہوں نے پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کی ہیں اور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک بیعت کا حق ادا کرنے والا بن جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درد کو جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے آپ علیہ السلام کے دل میں تھا، اُسے سمجھنے والا ہمیں بنا دے.آپ فرماتے ہیں کہ : میں خوب جانتا ہوں کہ ان باتوں کا کسی دل میں پہنچادینا میرا کام نہیں اور نہ ہی میرے پاس کوئی ایسا آلہ ہے جس کے ذریعہ سے میں اپنی بات کسی کے دل میں بٹھا دوں...پھر فرماتے ہیں : ”ہزار ہا انسان ہیں جنہوں نے محبت اور اخلاص میں تو بڑی ترقی کی ہے، مگر بعض اوقات پرانی عادات یا
خطبات مسرور جلد 11 566 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 11 اکتوبر 2013ء بشریت کی کمزوری کی وجہ سے دنیا کے امور میں ایسا وافر حصہ لیتے ہیں کہ پھر دین کی طرف سے غفلت ہو جاتی ہے.فرمایا کہ ایسے لوگ ہیں جو محبت اور اخلاص میں بہت بڑھے ہوئے ہیں، لیکن بعض کمزوریاں دکھا جاتے ہیں.اُن کمزوریوں کو بھی دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.فرمایا: ”ہمارا مطلب یہ ہے کہ بالکل ایسے پاک اور بے لوث ہو جاویں کہ دین کے سامنے امور دنیوی کی حقیقت نہ سمجھیں اور قسم قسم کی غفلتیں جو خدا سے دُوری اور مہجوری کا باعث ہوتی ہیں، وہ دور ہو جاویں.جب تک یہ بات پیدا نہ ہو، اُس وقت تک حالت خطر ناک ہے اور قابل اطمینان نہیں.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 605 - مطبوعہ ربوہ ) پس ہمیں خاص طور پر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے، اپنی حالتوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ یکم نومبر 2013 ء تا 7 نومبر 2013 ، جلد 20 شماره 44 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد 11 567 42 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء خطبہ جمعہ سید نا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013 ء بمطابق 18 اخاء 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الہدی ، سڈنی، آسٹریلیا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَقُلْ لِعِبَادِى يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَنِ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مُّبِينًا (بنی اسرائیل :54) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ: اور تُو میرے بندوں سے کہہ دے کہ ایسی بات کیا کریں جو سب سے اچھی ہو.یقیناً شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے.شیطان بے شک انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے.جیسا کہ آپ نے ترجمہ سے سن لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بات کہو جو سب سے اچھی ہے.پہلی بات یہ ہے.اور اچھی بات وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے ” عِبَادِی “ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ ”میرے بندے.ہمیں اس بات کا پابند کر دیا کہ جو میرے بندے ہیں یا میرے بندے بننے کی تلاش میں ہیں ان کی اب اپنی مرضی نہیں رہی.ان کو اپنی مرضی چھوڑ کر میری مرضی کی تلاش کرنی چاہئے.اور اچھائیوں اور ان اچھی باتوں کی تلاش کرنی چاہئے جو مجھے یعنی خدا تعالیٰ کو پسند ہیں.اس کی مزید وضاحت اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں یوں فرمائی ہے کہ واذا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 187 ) اور اے رسول! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو کہہ میں ان کے پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں.سو چاہئے کہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا ہدایت پا
خطبات مسرور جلد 11 568 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عبادی ، یعنی میرے بندے کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لائے ہیں.وہی عِبادِی میں شامل ہیں اور عِبَادِی میں شامل ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے قریب ہیں.اور وہ جو ایمان نہیں لاتے خدا تعالیٰ سے دور ہیں.“ (ماخوذ از جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 146) پس سچا عِبادی بننے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ہر حکم کو مانیں.اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں.اور جب یہ کیفیت ہوگی تو ہر قسم کی بھلائیوں کو حاصل کرنے والے بن جائیں گے.دعائیں قبول ہوں گی.پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے وہی بات کریں، کہا بھی کریں اور کیا بھی کریں جو خدا تعالیٰ کو اچھی لگتی ہے تو پھر لازماً اپنے ایمان کو بڑھانا ہوگا.اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تلاش کرنی ہوگی.اپنے عمل اس طرح ڈھالنے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اچھے اور احسن ہیں اور خوبصورت ہیں.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم عمل تو کچھ کر رہے ہوں اور باتیں کچھ اور ہوں.ہمارے عمل تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہوں لیکن دوسروں کو اُس کے مطابق جو اللہ اور رسول کے حکم ہیں ہم نصیحت کر رہے ہوں.اللہ تعالیٰ نے ایسے قول و فعل کے تضاد کو گناہ قرار دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:3) کہ اے مومنو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں.كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:4) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں.پس قول وفعل کا تضاد اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے بلکہ گناہ ہے.ایک طرف ایمان کا دعوئی اور دوسری طرف دورنگی یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر انداز نہیں ہوتی.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 42-43 - مطبوعہ ربوہ ) یعنی سچی گفتگو بھی ہو اور جو گفتگو کر رہا ہے اس کا عمل بھی اس کے مطابق ہو، اگر نہیں تو پھر وہ فائدہ نہیں دیتی.پس يَقُولُ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یہ ہے کہ وہ بات کہو جو آنحسن ہے اور کسی بندے کی تعریف کے مطابق احسن نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کے مطابق انحسنُ ہے.نیکیوں کو پھیلانے والی ہے اور برائیوں سے روکنے والی ہے.
خطبات مسرور جلد 11 569 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء ہرانسان اپنی پسند کی تعریف کر کے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے اس لئے وہ مومن ہو گیا.ایک شرابی یہ کہے کہ میں شراب پیتا ہوں اور تم بھی پی لو، جو میں کہتا ہوں وہ کرتا ہوں تو یہ نیکی نہیں ہے اور نہ ہی یہ احسن ہے بلکہ گناہ ہے.یہاں اس معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں آزادی کے نام پر کتنی بے حیائیاں کی جاتی ہیں اور کھلے عام کی جاتی ہیں اور ٹی وی اور انٹرنیٹ پر اور اخباروں میں ان بے حیائیوں کے اشتہار دیئے جاتے ہیں.فیشن شو اور ڈریس شو کے نام پر ننگے لباس دکھائے جاتے ہیں.تو بے شک ایسے لوگوں کے قول اور فعل ایک ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ مکروہ اور گناہ ہیں.اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہیں یہ.پس بعض لوگ اور نوجوان ایسے لوگوں سے متاثر ہو جاتے ہیں کہ بڑا کھرا ہے یہ آدمی.جو کچھ ظاہر میں ہے وہی اندر بھی ہے دورنگی نہیں ہے.تو انہیں یہ یادرکھنا چاہے کہ یہ دورنگی نہ ہونا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ بے حیائیوں کا اشتہار دینا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دوری ہے.پس اس معاشرے میں رہنے والے نو جوانوں، مردوں، عورتوں کو ایسے ماحول سے بچنے کی انتہائی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے ہمیشہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة : 6) پر چلنے کی دعا کرنی چاہئے.شیطان سے بچنے کی دعا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ایک مومن سے جو تو قعات رکھتا ہے جن کا اُس نے ایک مومن کو حکم دیا ہے اُن کی تلاش کرنی چاہئے.اُن احسن چیزوں کو تلاش کرنے کی کوشش اور اُس کے لئے جدو جہد کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے اپنے قرب کی نشاندہی فرماتا ہے.اپنی رضا کے طریق انہیں سکھاتا ہے.بندے کی نیکیوں پر خوش ہو کر اس کے عمل اور قول کی یک رنگی کی وجہ سے بندے کو ثواب کا مستحق بناتا ہے.ان باتوں کی تلاش کے لئے ایک مومن کو خدا تعالیٰ کے حکموں کی تلاش کرنی چاہئے تا کہ احسن اور غیر احسن کا فرق معلوم ہو، ان کی حقیقت معلوم ہو اور ان لوگوں میں شمار ہوجن کو خدا تعالیٰ نے عباد یکہہ کر پکارا ہے.ان کی دعاؤں کی قبولیت کی انہیں نوید اور بشارت دی ہے.ہم احمدیوں پر تو اس زمانے میں یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے.یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے قول اور فعل میں مطابقت رکھیں گے اور ہر وہ کام کریں گے اور اس کے لئے ہر کوشش کریں گے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک احسن ہے.ہمارے قول فعل میں یک رنگی ہوگی.اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی احسن باتوں کے لئے ہم قرآن کریم کی طرف رجوع کریں گے جہاں سینکڑوں حکم دیئے گئے ہیں.احسن اور غیر احسن کا فرق واضح کیا گیا ہے.یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی قرب کی راہوں کے پانے والے بن جاؤ گے.یہ کرو گے تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مور د بنو گے.
خطبات مسرور جلد 11 570 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء بعض باتوں کی اس وقت میں یہاں نشاندہی کرتا ہوں.مثلاً اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِالله ( آل عمران : 111 ) یعنی تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے.تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو.اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں یا عباد الرحمن کا مقام حاصل کرنے والوں کی جماعت کو یہاں سب انسانوں سے بہتر جماعت فرمایا ہے.کیوں بہتر ہے؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق احسن کو اپنے قول و فعل میں قائم کیا ہوا ہے.اس لئے بہتر ہیں کہ نیکی کی ہدایت کرتے ہیں.نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے کی بجائے اس ہدایت کی تلقین کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنا قرب دلانے کے لئے دی ہے.فرمایا کہ تم لوگ اس لئے بہتر ہو خیر امت ہو کہ بدی سے روکتے ہو.ہر گناہ اور برائی سے آپ بھی رکتے ہو اور دوسروں کو بھی رکنے کی تلقین کرتے ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ سکو اور پھر یہ کہ تمہارا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط ہے اس لئے تم خیر امت ہو.تم اس یقین پر قائم ہو کہ خدا تعالیٰ میرے ہر قول و فعل کو دیکھ رہا ہے.تم اس ایمان پر قائم ہو کہ دنیا کے عارضی رب میری ضروریات پوری نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ جورب العالمین ہے میری ضروریات پوری کرنے والا ہے اور میری دعاؤں کو سنے والا ہے.اور پھر یہ قول ایسا ہے، یہ بات ایسی ہے جس کو دنیا کو بھی بتاؤ کہ تمہاری بقا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس کے حکموں پر عمل کرنے اور چلنے سے ہے.دنیاوی آسائشوں اور عیاشیوں میں نہیں ہے.پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان احسن باتوں اور نیکیوں اور برائیوں کی مزید تفصیل دی ہے.مثلاً یہ کہ فرما یا کہ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا.(الفرقان : 73) اور وہ لوگ بھی اللہ کے بندے ہیں جو جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے اور جب لغو باتوں کے پاس سے گزرتے ہیں وہ بزرگانہ طور پر بغیر ان میں شامل ہوئے گزر جاتے ہیں.یہاں دو باتوں سے روکا ہے.ایک جھوٹ سے، ایک لغو بات سے.یعنی جھوٹی گواہی نہیں دینی.کیسا بھی موقع آئے ، جھوٹی گواہی نہیں دینی.بلکہ دوسری جگہ فرمایا کہ تمہاری گواہی کا معیار ایسا ہو کہ خواہ اپنے خلاف یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے کسی پیارے اور رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو.پس یہ معیار ہے سچائی کے قائم کرنے کا.یہ معیار قائم ہوگا تو اس احسن میں شمار ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے احسن فرمایا ہے.اور اس کے نتیجہ میں انسان
خطبات مسرور جلد 11 571 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بنتا ہے.نیکیوں میں مزید ترقی ہوتی ہے اور ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ سچائی کے بارہ میں مزید فرماتا ہے کہ یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الفرقان : 70 ) کہ اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور وہ بات کہو جو بیچ دار نہ ہو بلکہ سچی، کھری اور سیدھی ہو.یہ وہ سچائی کا معیار قائم رکھنے کے لئے احسن ہے جس کو کرنے اور پھیلانے کا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے.لیکن اگر ہم اپنے جائزے لیں تو سچائی کے یہ معیار نظر نہیں آتے.ہر قدم پر نفسانی خواہشات کھڑی ہیں.اگر ہم جائزہ لیں ، کتنے ہیں ہم میں سے جو بوقت ضرورت اپنے خلاف گواہی دینے کو تیار ہو جائیں، اپنے والدین کے خلاف گواہی دیں، اپنے پیاروں کے خلاف گواہی دیں اور پھر یہ معیار قائم کریں کہ اُن کی روز مرہ کی گفتگو، کاروباری معاملات وغیرہ جو ہیں ہر قسم کی پیچ دار باتوں سے آزاد ہوں.کہیں نہ کہیں یا تو ذاتی مفادات آڑے آ جاتے ہیں یا قریبیوں کے مفادات آڑے آ جاتے ہیں.یا آنا ئیں آڑے آ جاتی ہیں اور غلطی ماننے کو وہ تیار نہیں ہوتے.ان باتوں کو پیچ دار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ اپنی جان بچائی جائے تا کہ اپنے مفادات حاصل کئے جائیں.قولِ سدید کا معیار اللہ تعالیٰ کے احسن حکموں میں سے ایک ہے.یا یہ کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو یہی احسن ہے کہ سچائی بغیر کسی ایچ بیچ کے ہو.اگر اس حکم پر عمل ہو تو ہمارے گھروں کے جھگڑوں سے لے کر دوسرے معاشرتی جھگڑوں تک ہر ایک کا خاتمہ ہو جائے.نہ ہمیں عدالتوں میں جانے کی ضرورت ہو، نہ ہمیں قضا میں جانے کی ضرورت ہو.صلح اور صفائی کی فضا ہر طرف قائم ہو جائے.اگلی نسلوں میں بھی سچائی کے معیار بلند ہو جا ئیں.پھر سچائی کے معیار کے حصول کی نصیحت کے ساتھ مزید تاکید یہ فرمائی کہ جن مجالس میں سچائی کی باتیں نہ ہوں، گھٹیا اور لغو باتیں ہوں ان سے فوراً اٹھ جاؤ.جہاں خدا تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف باتیں ہوں ان مجالس میں نہ جاؤ.اب یہ گھٹیا اور لغو باتیں اس زمانے میں بعض دفعہ لاشعوری طور پر گھروں کی مجلسوں میں یا اپنی مجلسوں میں بھی ہو رہی ہوتی ہیں.نظام کے خلاف بات ہوتی ہے.کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں کہ عہد یداروں کے خلاف اگر باتیں ہیں، اگر نیچے اُس پر اصلاح نہیں ہو رہی تو مجھ تک پہنچائیں.لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر جب وہ باتیں کرتے ہیں تو وہ لغو باتیں بن جاتی ہیں.کیونکہ اس سے اصلاح نہیں ہوتی.
خطبات مسرور جلد 11 572 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء اُس میں فتنہ اور فساد اور جھگڑے مزید پیدا ہوتے ہیں.پھر اس زمانے میں ٹی وی پر گندی فلمیں ہیں.انٹرنیٹ پر انتہائی گندی اور غلیظ فلمیں ہیں.ڈانس اور گانے وغیرہ ہیں.بعض انڈین فلموں میں ایسے گانے ہیں جن میں دیوی دیوتاؤں کے نام پر مانگا جارہا ہوتا ہے، یا اُن کی بڑائی بیان کی جارہی ہوتی ہے جس سے ایک اور سب سے بڑے اور طاقتور خدا کی نفی ہو رہی ہوتی ہے.یا یہ اظہار ہو رہا ہو کہ یہ دیوی دیوتا جو ہیں، بت جو ہیں ، یہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں.یہ بھی لغویات ہیں، شرک ہیں.شرک اور جھوٹ ایک چیز ہے.ایسے گانوں کو بھی نہیں سننا چاہئے.پھر فیس بک (Facebook) ہے یا ٹوئٹر (Twitter) ہے یا چیٹنگ (Chatting) وغیرہ ہیں.کمپیوٹر وغیرہ پر مجالس لگی ہوتی ہیں.اور ایسی بیہودہ اور نگی باتیں بعض دفعہ ہورہی ہوتی ہیں، جب ایک دوسرے فریق کی لڑائی ہوتی ہے تو پھر بعض نو جوان وہ باتیں مجھے بھی بھیج دیتے ہیں کہ کیا کیا باتیں ہو رہی تھیں.پہلے خود ہی اُس میں شامل بھی ہوتے ہیں.ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ کوئی شریف آدمی اُن کو دیکھ اور سُن نہیں سکتا.بڑے بڑے اچھے خاندانوں کے لڑکے اور لڑکیاں اس میں شامل ہوتے ہیں اور اپنا ننگ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں.پس ایک احمدی کے لئے ان سے بچنا بہت ضروری ہے.ایک احمدی مسلمان کو تو حکم ہے کہ تم احسن قول کی تلاش کرو.اُس احسن کی تلاش کرو جو نیکیوں میں بڑھانے والا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے بنو اور جولعنت ایسے لوگوں پر پڑنی ہے اُس سے بچ سکو.بہر حال بہت سے احسن قول ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں.نیکی کے راستے اختیار کرنا اور بتانا احسن ہے اور برائی سے روکنا اور رکنا احسن ہے.اللہ تعالیٰ ایک مومن سے ایک حقیقی عبد سے یہی فرماتا ہے کہ احسن قول تمہارا ہونا چاہئے.ایک جگہ فرمایا وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيرات (البقرة:149) کہ یعنی ہر ایک شخص کا ایک طمح نظر ہوتا ہے جسے وہ اپنے آپ پر مسلط کر لیتا ہے.تمہارا اطمح نظر یہ ہو کہ تم نیکیوں میں ا آگے بڑھنے کی کوشش کرو.پس جب نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش ہو گی تو قول اور عمل دونوں احسن ہوں گے.اُس کے مطابق ہوں گے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے.اگر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش ہو گی تو یقیناً پھر شیطان سے اور اُس کے حملوں سے بچنے کی بھی کوشش ہوگی.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو میں نے شروع میں تلاوت کی تھی اس میں فرمایا کہ اِنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَغُ بَيْتهم.کہ یقینا شیطان ان کے درمیان، یعنی
خطبات مسرور جلد 11 573 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء انسانوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے.شیطان کے بھی بہت سے معنی ہیں.اکثر ہم جانتے ہیں.شیطان وہ ہے جو رحمان خدا کے حکم کے خلاف ہر بات کہنے والا ہے.تکبر ، بغاوت اور نقصان پہنچانے والا ہے اور اس طرف مائل کرنے والا ہے.حسد کی آگ میں جلنے والا ہے.نقصان پہنچانے والا ہے.دلوں میں وسو سے پیدا کرنے والا ہے.غرض کہ جیسا کہ میں نے کہا ہر وہ بات جو احسن ہے اور جس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے تاکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا ہوں، شیطان اُس کے الٹ حکم دیتا ہے.نزغ یا النّوع کا مطلب ہے ”شیطانی باتیں یا مشورے جن کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کا نا اور فساد پیدا کرنا ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان انسان کے لئے عدُوا مُّبِینا“ ہے، کھلا کھلا دشمن ہے.اگر تم میرے بندے بن کر اُن تمام احسن باتوں کو نہیں کہو گے اور کرو گے، اُن پر عمل نہیں کرو گے تو پھر رحمان خدا کی بندگی سے نکل کر شیطان کی گود میں گرو گے.اور شیطان تمہارے اندر جھوٹ بھی پیدا کرے گا، تکبر بھی پیدا کرے گا، بغاوت بھی پیدا کرے گا اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی طرف بھی مائل کرے گا، دلوں میں وسوسے بھی پیدا کرے گا، حسد کی آگ میں بھی جلائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم لوگ رات کو سوتے وقت جو آخری دو سورتیں سورۃ الفلق “ اور الناس “ ہیں یہ تین دفعہ پڑھ کر اپنے اوپر پھونکا کرو تا کہ شیطانی خیالات اور وسوسوں اور برائیوں سے محفوظ رہو اور اس طرف تمہاری توجہ رہے.پڑھ کر یہ بھی خیال رہے کہ ہمیں ان سے محفوظ رہنا ہے.اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہو کہ میں ان سے محفوظ رکھ.پس احسن بات اُس وقت ہوگی، نیکیوں میں بڑھنے اور شیطان سے بچنے کی حالت بھی اُس وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شاملِ حال ہو گی.اُس سے دعاؤں کے ساتھ ہدایت طلب کرتے ہوئے اُس کے احکام کی تلاش اور شیطان سے بچنے کی کوشش ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لئے اور اُس کے اعمال کو فاسد بنانے کے واسطے ہمیشہ تاک میں لگا رہتا ہے.یہاں تک کہ وہ نیکی کے کاموں میں بھی اس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اور کسی نہ کسی قسم کا فساد ڈالنے کی تدبیریں کرتا ہے.نماز پڑھتا ہے تو اس میں بھی ریا وغیرہ کوئی شعبہ فساد کا ملانا چاہتا ہے.یعنی نماز پڑھنے والے کے دل میں خیالات پیدا کر کے ایک امامت کرانے والے کو بھی اس بلا میں مبتلا کرنا چاہتا ہے.پس اس کے حملہ سے کبھی بے خوف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کے حملے فاسقوں، فاجروں پر تو کھلے
خطبات مسرور جلد 11 574 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء کھلے ہوتے ہیں.وہ تو اس کا گو یا شکار ہیں لیکن زاہدوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ نہیں چوکتا اور کسی نہ کسی رنگ میں موقع پاکر ان پر بھی حملہ کر بیٹھتا ہے.جو لوگ خدا کے فضل کے نیچے ہوتے ہیں اور شیطان کی بار یک در بار یک شرارتوں سے آگاہ ہوتے ہیں وہ تو بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں لیکن جو ابھی خام اور کمزور ہوتے ہیں وہ کبھی کبھی مبتلا ہو جاتے ہیں.ریا اور معجب وغیرہ سے بچنے کے واسطے ایک ملامتی فرقہ ہے جواپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور سیات کو ظاہر کرتا رہتا ہے.ایک فرقہ ایسا بھی ہے جو کہتے ہیں نیکیاں ظاہر نہ کرو اور اپنی برائیاں ظاہر کرو تا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ بڑے نیک ہیں.فرمایا کہ : ”وہ اس طرح پر سمجھتے ہیں کہ ہم شیطان کے حملوں سے بچ جاتے ہیں مگر میرے نزدیک وہ بھی کامل نہیں ہیں.ان کے دل میں بھی غیر ہے.اگر غیر نہ ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے.انسان معرفت اور سلوک میں اس وقت کامل ہوتا ہے جب کسی نوع اور رنگ کا غیر ان کے دل میں نہ رہے اور یہ فرقہ انبیاء علیہم السلام کا ہوتا ہے.یہ ایسا کامل گروہ ہوتا ہے کہ اس کے دل میں غیر کا وجود بالکل معدوم ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 630-631.مطبوعہ ربوہ ) بہر حال اس سے یہ بھی کوئی نہ سمجھ لے کہ انبیاء کو یہ مقام ملتا ہے اس کی کوشش کی ضرورت نہیں ، اس کے علاوہ کسی کو نہیں مل سکتا.کئی مواقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بھی فرمایا ہے کہ تم اپنے معیار اونچے کرنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ.بلکہ فرما یا کہ ولی بنو، ولی پرست نہ بنو.(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 139 مطبوعہ ربوہ ) پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کو پیش فرما کر فرما یا کہ یہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے، اس پر چلنے کی کوشش کرو.پس شیطان کے حملے سے بچنے کے لئے اپنی بھر پور کوشش کی ضرورت ہے.اس کے لئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے احسن قول ضروری ہے.ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر نظر رکھنا ضروری ہے.پھر دعا بھی اللہ تعالیٰ نے سکھائی کہ قرآن کریم کی آخری دو سورتیں جو ہیں جس میں شیطان کے ہر قسم کے حملوں سے بچنے کی دعا ہے.پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (حم السجدة : 37 ) اگر تجھے شیطان کی طرف سے کوئی بہکا دینے والی بات پہنچی ہے، ایسی باتیں شیطان پہنچائے جو احسن قول کے خلاف ہو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ.اللہ تعالیٰ کی
خطبات مسرور جلد 11 575 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء پناہ میں آنے کی بہت زیادہ دعا کرو.اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ پڑھو.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ پڑھو.اللہ تعالیٰ یہ امید دلاتا ہے جو سننے والا اور جاننے والا ہے کہ اگر نیک نیتی سے دعائیں کی گئی ہیں تو یقینا وہ سنتا ہے.یہاں یہ بات بھی کھول کر بتادوں کہ شیطان کے حسد کی آگ جس میں وہ خود بھی جلا اور آدم کی اطاعت سے انکاری ہوا اور باہر نکلا اور پھر انسانوں کو اس آگ میں جلانے کا عہد بھی اُس نے کیا ، یہ بہت خطرناک چیز ہے.یہ حسد کی آگ ہی ہے جو معاشرے کی بے سکونی کا باعث ہے.پس ہر احمدی کو اس سے بہت زیادہ بیچنے کی ضرورت ہے.اور خاص طور پر اس سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور بہت گڑ گڑا کر دعا کرنی چاہئے.شیطان کا حملہ دو طرح کا ہے.ایک تو وہ خدا تعالیٰ سے تعلق کو توڑنے اور تڑوانے کے لئے حملے کرتا ہے اور دوسری طرف انسان کا جو انسان سے تعلق ہے اُسے تڑوانے کی کوشش کرتا ہے.جبکہ احسن قول اللہ تعالیٰ سے محبت کی طرف بھی لے جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر انسان کی محبت دوسرے انسان سے بھی پیدا کرتا ہے.یعنی جیسا کہ میں نے پہلے کہا ، حقوق اللہ اور حقوق العباد احسن قول سے ہی ادا ہو سکتے ہیں.اس لئے ہمارا یہ نعرہ جو ہم لگاتے ہیں، کہ محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں ہمارے غیر بھی اس نعرہ سے متاثر ہوتے ہیں اور اگر ہماری مجالس میں آئیں تو اس کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے.لیکن ہم آپس میں اس کا اظہار نہ کر رہے ہوں تو یہ نعرہ بے فائدہ ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے اور بار بار میں جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ رُحَمَاء بَيْنَهُم “ (الفتح : 30) ایک دوسرے سے بہت رحم کا اور رافت کا سلوک کرو، پیار و محبت کا سلوک کرو.جو ایسے لوگ ہیں وہی صحیح مومن ہیں.یہ مومن کی نشانی ہے.بڑھ بڑھ کر تقریریں کر کے ہم چاہے جتنا مرضی ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ یہ ہمارا نعرہ ہے ” محبت سب کے لئے ، نفرت کسی سے نہیں پھر یہ بھی ہم پیش کریں کہ جماعت کی اکائی کی ایک مثال ہے.یہ جتنی بھی ہماری کوششیں ہوں اس کا حقیقی اثر تبھی ہو گا جب ہم اپنے گھروں میں ، اپنے ماحول میں یہ فضا پیدا کریں گے کہ ایک دوسرے سے رحم کا سلوک کرنا ہے، ایک دوسرے سے درگز رکا سلوک کرنا ہے.یہ بھی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر تلقین فرمائی ہے.فرمایاوَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ( النور : 23 ) کہ معاف کرو اور درگزر سے کام لو.غرض کہ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا حکم ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہیں لیکن یہ دنیا ایسی ہے جہاں ہر قدم پر شیطان سے سامنا ہے.جو بہت سے موقعوں پر ہمارے قول و فعل میں تضاد پیدا کر کے ہمیں اُن باتوں سے دور لے جانا چاہتا ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے
خطبات مسرور جلد 11 576 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء حقیقی مومن اور عبد رحمان کو حکم دیا ہے.پس ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ شیطان تو اپنا کام کرتا رہے گا، اُس نے آدم کی پیدائش سے ہی اللہ تعالیٰ سے یہ مہلت مانگی تھی کہ مجھے مہلت دے کہ جس کے متعلق تو مجھے کہتا ہے کہ میں اس کو سجدہ کروں اُسے سیدھے راستے سے بھٹکاؤں.اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اکثر کو میں ایسے انداز سے بھٹکاؤں گا کہ یہ میرے پیچھے چلیں گے.عبد رحمان کم ہوں گے اور شیطان کے بندے زیادہ ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے یہی فرما یا کہ جو بھی تیری پیروی کرے گا اُسے میں جہنم میں ڈالوں گا.اس زمانے میں جیسا کہ میں نے مثالیں بھی دی ہیں، بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی طرف لے جاتی ہیں.اُن کا صحیح استعمال برا نہیں ہے، لیکن ان کا غلط استعمال برائیوں کے پھیلانے ، غلاظتوں کے پھیلانے ، گناہوں کے پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے.لیکن یہی چیزیں نیکیوں کو پھیلانے کا بھی ذریعہ ہیں.ٹی وی ہے، معلوماتی اور علمی باتیں بھی بتاتا ہے لیکن بے حیائیاں بھی اس کی وجہ سے عام ہیں.اس زمانے میں ٹی وی کا سب سے بہتر استعمال تو ہم احمدی کر رہے ہیں یا جماعت احمد یہ کر رہی ہے.میں نے جلسوں کے دنوں میں بھی توجہ دلائی تھی اور اُس کا بعض لوگوں پر اثر بھی ہوا اور انہوں نے مجھے کہا کہ پہلے ہم ایم ٹی اے نہیں دیکھا کرتے تھے ، اب آپ کے کہنے پر توجہ دلانے پر ہم نے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا ہے تو افسوس کرتے ہیں کہ پہلے کیوں نہ اس کو دیکھا، کیوں نہ ہم اس کے ساتھ جڑے.بعضوں نے یہ اظہار کیا کہ ہفتہ دس دن میں ہی ہمارے اندر روحانی اور علمی معیار میں اضافہ ہوا ہے.جماعت کے بارے میں ہمیں صحیح پتہ چلا ہے.پس پھر میں یاد دہانی کروا رہا ہوں ، اس طرف بہت توجہ کریں، اپنے گھروں کو اس انعام سے فائدہ اُٹھانے والا بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لئے ہمارے علمی اور روحانی اضافے کے لئے ہمیں دیا ہے تا کہ ہماری نسلیں احمدیت پر قائم رہنے والی ہوں.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں.اب خطبات کے علاوہ اور بھی بہت سے لائیو پروگرام آ رہے ہیں جو جہاں دینی اور روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں علمی ترقی کا بھی باعث ہیں.جماعت اس پر لاکھوں ڈالر ہر سال خرچ کرتی ہے اس لئے کہ جماعت کے افراد کی تربیت ہو.اگر افراد جماعت اس سے بھر پور فائدہ نہیں اُٹھا ئیں گے تو اپنے آپ کو محروم کریں گے.غیر تو اس سے اب بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور جماعت کی سچائی اُن پر واضح ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسلام کی حقانیت کا اُنہیں پتہ چل رہا ہے اور صحیح
خطبات مسرور جلد 11 577 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء ادراک ہو رہا ہے.پس یہاں کے رہنے والے احمدیوں کو بھی اور دنیا کے رہنے والے احمدیوں کو بھی ایم ٹی اے سے بھر پور استفادہ کرنا چاہئے.ایم ٹی اے کی ایک اور برکت بھی ہے کہ یہ جماعت کو خلافت کی برکات سے جوڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے.پس اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی تو اس نے اس عقل کو استعمال کر کے اپنی آسانیوں کے سامان پیدا کئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عملًا (الكهف : 8) یعنی زمین پر جو کچھ ہے اُسے یقینا ہم نے زینت بنایا ہے تا کہ ہم انہیں آزمائیں کہ کون بہترین عمل کرتا ہے.پس یہاں زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دے کر اُس کی اہمیت بھی بیان فرما دی.ہر نئی ایجاد جو ہم کرتے ہیں اُس کو بھی زینت بتادیا، اس کی اہمیت بیان فرمائی لیکن فرمایا کہ ہر چیز کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن اس کا فائدہ تبھی ہے جب احسن عمل کے ساتھ یہ وابستہ ہو.پس ہمیں نصیحت ہے کہ ان ایجادات سے فائدہ اُٹھا ؤ لیکن احسن عمل مد نظر رہے.یہ ایجادات ہیں، ان کی خوبصورتی تبھی ہے جب اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کام کیا جائے یا کام لیا جائے ، نہ کہ فتنہ وفساد پیدا ہو.اگر احسن عمل نہیں تو یہ چیز میں ابتلا بن جاتی ہیں.جیسا کہ پہلے میں نے مثالیں دیں.یہ ٹیلی ویژن ہی ہے جو فائدہ بھی دے رہا ہے اور ابتلا بھی بن رہا ہے.بہت سے گھر انٹرنیٹ اور چیٹنگ کی وجہ سے برباد ہورہے ہیں.بچے خراب ہو رہے ہیں اس لئے کہ آزادی کے نام پر اللہ تعالیٰ کی مہیا کی گئی چیزوں کا ناجائز فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے.حقیقی عبد کے لئے حکم ہے کہ ہمیشہ احسن قول اور احسن عمل کو سامنے رکھو اور کام کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو.بہر حال قرآنِ شریف کے بے شمار حکم ہیں ہر حکم کی تفصیل یہاں بیان نہیں ہوسکتی.ایک بات ہے جس کی طرف میں توجہ دلا نا چاہتا ہوں اور اس بارے میں شروع میں بھی میں کچھ کہہ آیا ہوں.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے جو احسن قول کے بارے میں ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کو یہ بہت پسند ہے، فرمایا کہ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مَن دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ( حم السجدة: 34) اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور اپنے ایمان کے مطابق عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو فرمانبرداروں میں سے ہوں.پس یہ خوبصورت تعلیم اور بات ہے جو ایک حقیقی بندے سے جس کی توقع کی جاتی ہے، کی جانی چاہئے.جو آیت میں نے شروع میں تلاوت کی تھی اُس میں فرمایا تھا که يَقُولُ الَّتِي هِيَ أَحْسَن کہ ایسی بات کیا کرو جو سب سے اچھی ہو.اور سب سے اچھی وہ باتیں ہیں
خطبات مسرور جلد 11 578 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.لیکن اس آیت میں فرمایا کہ یہ سب اچھی باتیں سمٹ کر اس ایک بات میں آجاتی ہیں، اس آیت میں ان کا خلاصہ ہے اور یہی سب سے احسن قول ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف بلاؤ.اب خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو خود بھی اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ خود کس حد تک ان باتوں پر عمل کر رہا ہے جن کی طرف بلایا جا رہا ہے.میں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم وہ بات نہ کہو جو تم کرتے نہیں کیونکہ یہ گناہ ہے.پس جیسا کہ میں تفصیل سے ذکر کر آیا ہوں، اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو اپنے قول و فعل کو ایک کرنا ہو گا اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کرنا ہوگا.یہ ہے اعلیٰ ترین مثال اسلامی تعلیم کی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤ کہ اس سے بڑا قول اور احسن قول کوئی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسندیدہ ہے.لیکن بلانے کے لئے اپنے عمل بھی وہ بناؤ جو عمل صالح ہیں.عمل صالح وہ عمل ہے جو خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ہے ، نیکیوں کو پھیلانے والا ہے، وقت کی ضرورت کے مطابق ہے اور اصلاح کا موجب ہے.یہاں عملِ صالح کی ایک مثال دیتا ہوں جس کا براہ راست اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن آپ کے لئے واضح کرنے کے لئے ضروری بھی ہے.اب مثلاً پہلے میں ذکر کر آیا ہوں کہ معاف کرنا اور درگزر سے کام لینا یہ ایک نیک کام ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ معاف کرنے کی عادت ڈالولیکن ایک عادی چورکومعاف کرنا یا کسی عادی قاتل کو معاف کرنا احسن کام نہیں ہے، نہ عمل صالح ہے.یہاں عملِ صالح یہ ہوگا کہ معاشرے کو نقصان سے بچانے کے لئے اور برائیوں سے روکنے کے لئے ایسے شخص کو سزا دی جائے جو بار بار یہ غلطیاں کرتا ہے اور جان بوجھ کر کرتا ہے.اسی طرح کی بہت سی مثالیں ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دعوت الی اللہ کرنے والے سے بہتر اور کوئی نہیں ہے.یہ ایسا کام ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے.لیکن دعوت الی اللہ کرنے والے کو یا درکھنا چاہئے کہ صرف دعوت الی اللہ کافی نہیں بلکہ اُس کا ہر عمل عمل صالح ہونا چاہئے.یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک طرف تو ایک انسان کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ ہوں اس لئے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانا میرا فرض ہے لیکن دوسری طرف اپنے بیوی بچوں کا حق ادا نہ کر رہا ہو.یا عورت اپنے گھر کی نگرانی اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ نہ دے رہی ہو یا دوسرے اسلامی احکامات ہیں اس پر کوئی عمل نہ کر رہا ہو.عورت کا لباس جس کے حیا اور تقدس کا اسلام حکم دیتا ہو اس کا تو خیال نہ ہو اور تبلیغ کے لئے سرگرمی ہو.جب ایسے شخص کی تبلیغ سے کوئی اسلام قبول کر کے پھر قرآن کریم کو پڑھے گا تو کہے گا کہ مجھے تو تم نے تبلیغ کی لیکن قرآن تو حیا
خطبات مسرور جلد 11 579 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء اور پردے کا بھی حکم دیتا ہے.تم تو اس پر عمل نہیں کر رہے.اسی طرح اور بہت سی برائیاں ہیں.جھوٹ ہے، چغل خوری ہے اور بہت سے غلط کام ہیں.ان کی اس وجہ سے معافی نہیں ہو جائے گی کہ کوئی تبلیغ بہت اچھی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احسن قول کہنے والا عمل صالح کرنے والا بھی ہو اور اس بات کا اظہار کرنے والا ہو کہ میں فرمانبردار ہوں، کامل اطاعت کرنے والا ہوں اور تمام حکموں پر سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا نعرہ لگانے والا ہوں.اور یہی ایک حقیقی مسلمان کی نشانی ہے.پس اس حوالے سے میں آسٹریلیا کی جماعت کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس بات کو یاد رکھیں کہ دعوت الی اللہ، اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے لیکن اس کے لئے ، اس کے ساتھ اور اس کام کو کرنے کے لئے اپنے عمل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے اور کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا نمونہ دکھانے کی ضرورت ہے.یہ ملک جس کی آبادی 23 ملین کے قریب ہے لیکن رقبے کے لحاظ سے بہت وسیع ہے، بلکہ بر اعظم ہے لیکن بہر حال آبادی اتنی زیادہ نہیں ہے اور چند شہروں تک محدود ہے.بے شک بعض شہروں کا فاصلہ بھی بہت زیادہ ہے لیکن جیسا کہ میں نے جلسہ پر بھی کہا تھا کہ لجنہ ، خدام اور انصار اور جماعتی نظام کو تبلیغ کے کام کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہئے.ہمارا کام پیغام پہنچانا ہے، نتائج پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.اگر ہم اپنے کام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں گے تو انشاء اللہ تعالی نتائج بھی پیدا ہوں گے.کوئی ہمیں یہ نہ کہے کہ ہم تو جماعت احمدیہ کو جانتے نہیں.اتفاق سے میں نے عید والے دن یہاں سے جو ایم ٹی اے سٹوڈیو کا پروگرام آ رہا تھا دیکھا تو ہمارے نائب امیر صاحب جو ہیں ، خالد سیف اللہ صاحب، یہ بتا رہے تھے کہ 1989ء میں ، حضرت خلیفۃ ایح الرابع نے عید اور جمعہ یہاں پڑھایا اور مسجد بہت بڑی لگ رہی تھی اور زیادہ سے زیادہ اڑھائی سو کے قریب یہاں آدمی تھے، اور اب اُن کے خیال کے مطابق اڑھائی ہزار کے قریب ہیں.اُس وقت تو میرا بھی فوری رد عمل یہی تھا کہ الحمدللہ.اور اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ تعداد بڑھائی.لیکن جب میں نے سوچا تو ساتھ ہی فکر بھی پیدا ہوئی کہ تقریباً چوبیس سال کے بعد یہ تعداد بھی زیادہ تر پاکستان اور نجی سے آنے والوں کی ہے.تبلیغ سے شاید دو چار احمدی ہوئے ہوں اور وہ بھی سنبھالے نہیں گئے.چوبیس سال میں یہاں کے لوکل ، مقامی چو میں احمدی بھی نہیں بنائے گئے.یعنی سال میں ایک احمدی بھی نہیں بنا.یہ تعداد جو بڑھی ہے، وہ یہاں کی تعداد میں اضافہ پاکستان اور نجی کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے.آسٹریلیا کی جماعت کی کوشش سے نہیں ہوا.پس ہمیں حقائق سے آنکھیں بند نہیں کرنی
خطبات مسرور جلد 11 580 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء چاہئیں اور ان کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.یہ فکر کی بات ہے.کم از کم میرے لئے تو یہ بہت فکر کی بات ہے.اسی طرح لوکل لوگوں کے علاوہ یعنی جو لوگ شروع میں یہاں آ کر آباد ہوئے ، جو اب اپنے آپ کو آسٹریلین کہتے ہیں، اُن کے علاوہ مقامی آبادی جو پہلے کی ہے، نیٹو (Native) ہیں ، اُن کے علاوہ بھی یہاں عرب اور دوسری قومیں بھی آباد ہوئی ہیں.اُن میں بھی تبلیغ کی ضرورت ہے.با قاعدہ plan کر کے پھر تبلیغ کی مہم کرنی چاہئے.میں نے دیکھا ہے کہ آسٹریلین لوگوں میں سننے کا حوصلہ بھی ہے اور بات کرنا چاہتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں.اگر تعلقات بنا کر ، رابطے کر کے ان تک پہنچا جائے تو کچھ نہ کچھ سعید فطرت لوگ ضرور ایسے نکلیں گے جو حقیقی دین کو قبول کرنے والے ہوں گے.ہر طبقے کے لوگوں تک اسلام کا امن اور محبت اور بھائی چارے کا پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے.میلبرن میں جو بعض لوگ مجھے ملے ، وہ احمدیوں کو تو جانتے ہیں جن کی دوستیاں ہیں لیکن اکثر اُن میں سے ایسے تھے جن کو اسلام کے حقیقی پیغام کا پتہ نہیں تھا.وہ احمدیوں کو ایک تنظیم سمجھتے ہیں ، اچھے اخلاق والے سمجھتے ہیں لیکن اسلام کا بنیادی پیغام اُن تک نہیں پہنچا ہوا.پس اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.ایک مخلص دوست کو جلسہ پر انعام دیا گیا کہ باوجود معذوری کے انہوں نے اسلام کا امن کے پیغام کا جو فلائر تھا وہ بیس ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا.اب آپ کہتے ہیں کہ پورے ملک میں آپ چار ہزار کے قریب ہیں، ویسے میرا خیال ہے اس سے زیادہ ہیں.اگر اس سے نصف لوگ یعنی دو ہزار لوگ پانچ ہزار کی تعداد میں بھی فلائر تقسیم کرتے تو دس ملین تقسیم ہو سکتا تھا.گویا آسٹریلیا کی آدھی آبادی جو ہے اُس تک اسلام کا امن کا پیغام پہنچ سکتا تھا اور اسلام کی جو صحیح تصویر ہے ایک سال میں پھیلائی جاسکتی تھی.پھر تبلیغ کے لئے اگلا پمفلٹ تیار ہوتا ، بلکہ اس کا چوتھا حصہ بھی اگر ہم تقسیم کرتے ، بلکہ دسواں حصہ بھی تقسیم کرتے تو میڈیا کو توجہ پیدا ہو جاتی ہے، پھر اخبارات ہی اس پیغام کو اٹھا لیتے ہیں.اور کئی ملکوں میں اس طرح ہوا ہے.امریکہ جیسے ملک میں بھی اس طرح ہوا ہے.اور باقی کام ان کے ذریعہ سے ہو جاتا ہے.میں نے دیکھا ہے میڈیا سے تعلقات بیشک اچھے ہیں ، اور توجہ تو ہے لیکن اس کو اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کے لئے استعمال ہونا چاہئے.یہاں بہت سے بڑی عمر کے لوگ بھی جو آئے ہوئے ہیں اور مختلف ملکوں میں بھی آئے ہوئے ہیں اُن کو بھی میں یہی کہتا ہوں اور یہاں بھی یہی کہوں گا کہ ان کے پاس کام بھی کوئی نہیں ہے ، گھر میں فارغ بیٹھے ہیں، اپنا وقت وقف کریں اور پمفلٹ وغیرہ تقسیم کریں.جماعت کا لٹریچر ہے، لے جائیں تقسیم کریں تبلیغ کریں.یہ اعداد و شمار جو میں نے دیئے ہیں یہ صرف
خطبات مسرور جلد 11 581 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء احساس دلانے کے لئے ہیں.مجھے علم ہے کہ آسٹریلیا کے چھپائی وغیرہ کے جو اخراجات ہیں شاید جماعت آسٹر یلیا اس وقت اُن کی متحمل نہ ہو سکے.پانچ دس سینٹ (Cent) میں بھی اگر ایک لٹریچر چھپتا ہے، اگر Bulk میں چھپوا ئیں تو اتنی تعداد پر اتنی ہی Cost آتی ہے، تو دس ملین کے لئے کم از کم پانچ لاکھ ڈالر چاہئے ہوں گے.لیکن بہر حال اگر لاکھوں میں بھی شائع کئے جائیں تو بہت کام ہوسکتا ہے اور یہ کئے جاسکتے ہیں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے.باقی جیسا کہ میں نے کہا کہ پریس جو ہے، اُس سے رابطے ہوں تو وہی کام کرتا ہے.بلڈ ڈونیشن وغیرہ کا منصوبہ ہے، میں نے سنا ہے یہ بھی آپ کرتے ہیں لیکن اس کو اسلام کے نام سے منسوب کریں، تو اسلام کی امن کی تعلیم بھی دنیا پر واضح ہو.انشاء اللہ پھر توجہ پیدا ہوگی اور پھر مزید راستے کھلیں گے.اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے اس کام کے لئے سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے عمل صالح ہوں.نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ پر ایمان بھی کامل ہو.دعاؤں کی طرف توجہ ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اُن بندوں میں شامل فرمائے جو عمل صالح کرنے والے بھی ہیں اور نیکیوں اور فرمانبرداریوں میں بڑھنے والے بھی ہیں اور اُس کی رضا کے مطابق ہم کام کرنے والے بھی ہوں اور ان کے نیک نتائج بھی اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے ، اللہ کرے ہماری تعداد میں اضافہ یہاں کے مقامی لوگوں سے بھی ہو.نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو محترمہ صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ کا ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کی اہلیہ تھیں.14 اکتوبر کی رات کو تقریباً بارہ بجے ربوہ میں ان کا انتقال ہوا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پرسوں عید والے دن ان کی تدفین ہوئی تھی.آپ قادیان میں 21 دسمبر 1936ء کو پیدا ہوئی تھیں اور قادیان میں دار امسیح میں ان کی پیدائش ہوئی.حضرت اماں جان اور خلیفہ ثانی نے اُس وقت ان کے لئے بڑی دعائیں کیں.آپ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی بیٹی تھیں ، حضرت مصلح موعود کی اس اہلیہ سے یہی ایک اولاد تھی اور حضرت ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نواسی تھیں.حضرت ڈاکٹر میر اسماعیل صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ماموں بھی تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی اس بیٹی کے لئے کچھ نظمیں بھی لکھی تھیں جو کلام محمود میں اطفال الاحمدیہ کے ترانے کے نام سے شائع ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 اس کا ایک شعر یہ ہے کہ 582 میری رات دن بس یہی اک صدا ہے کہ اس عالم کون کا اک خدا ہے خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء بہر حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ، خاص طور پر لڑکیوں میں ، ساروں میں میں نے یہ دیکھا ہے کہ اُن کا اللہ تعالیٰ سے بڑا قریبی تعلق تھا اور نمازوں میں با قاعدگی اور نہ صرف با قاعدگی بلکہ بڑے الحاح سے اور توجہ سے نماز پڑھنے والے، ساری لمبی نمازیں پڑھنے والی ہیں.مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر کیونکہ مبلغ بھی رہے ہیں، واقف زندگی ہیں، پین میں بھی مبلغ رہے اور امریکہ میں بھی آپ کو ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا اور مبلغ کی بیوی ہونے کا جو حق ہوتا ہے وہ انہوں نے ادا کیا.سپین میں مسجد بشارت جب بنی ہے اُس وقت یہ لوگ وہیں تھے.اور تیاری کے کام اور کھانے پکانے کے کاموں میں اُس وقت انہوں نے بڑا کام کیا ، با قاعدہ انتظام نہیں تھا، حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے بھی ذکر کیا کہ انہوں نے بتایا کہ جس رات ، رات کو تین بجے کام سے فارغ ہو کر سوتے تھے اُس وقت بڑا خوش ہوتے تھے کہ آج اللہ تعالیٰ نے کچھ سونے کا موقع دیا.(ماخوذ از خطبات طاہر جلد اول صفحہ 139 - خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ستمبر 1982ء.مطبوعہ ربوہ ) بڑی لمبی دیر راتوں تک انہوں نے کام کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ تقریب جومسجد بشارت میں تھی بڑی کامیاب بھی ہوئی.مہمانوں کا اور خلیفتہ اسیح الرابع کا کھانا بھی یہ خود اپنے ساتھ اپنی نگرانی میں پکواتی تھیں، کیونکہ با قاعدہ لنگر کا انتظام نہیں تھا.امریکہ میں کیلیفورنیا میں لمبا عرصہ رہیں، وہاں بھی اُس وقت جماعت کے حالات ایسے تھے کہ واشنگ مشین وغیرہ ایسی چیزیں کوئی نہیں تھیں تو کپڑے وغیرہ دھونے، باقی گھر کے کام کرنے ، اگر کوئی مددگار مدد کے لئے offer کرتا تھا تو نہیں مانتی تھیں.گھر کے کام خود کر نے کی عادت تھی.لجنہ مرکز یہ پاکستان میں بھی یہ مختلف عہدوں پر سیکرٹری کے طور پر خدمات بجالاتی رہی ہیں.خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا.اور میری خالہ تھیں لیکن خلافت کے بعد جو ہمیشہ تعلق تھا، احترام اور محبت اور پیار اور عزت کا بہت بڑھ گیا تھا.بلکہ شروع میں جب پہلی دفعہ لندن آئی ہیں تو کسی کو کہا کہ میں تو اب کھل کے بات نہیں کر سکتی.اب بھی ، پچھلے سال بھی جلسے پر آئی ہوئی تھیں، کافی بیمار تھیں لیکن پھر بھی جلسے پرلندن آئیں اور اُن سے ملاقات ہوئی.ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا خاوند مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر اور بیٹوں میں دو بیٹے واقف زندگی ہیں.ڈاکٹر غلام احمد فرخ صاحب
خطبات مسرور جلد 11 583 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 18 اکتوبر 2013ء جنہوں نے امریکہ سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی تھی اور آجکل ربوہ میں صدر انجمن کے دفاتر میں کام کر رہے ہیں.اور دوسرے واقف زندگی بیٹے محمد احمد صاحب امریکہ میں تھے اپنی ملازمت چھوڑ کے پھر لندن آگئے اور وہاں میرے ساتھ ہیں.یہاں آئے ہوئے تھے اپنی والدہ کی وفات کی وجہ سے چند دن پہلے ربوہ گئے ہیں اور دونوں بھائی بڑی وفا سے خدمت کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو آئندہ بھی تو فیق دے.اور مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.ان کی ایک بیٹی ہیں جو ہالینڈ میں رہتی ہیں اور ایک بیٹے ڈاکٹر ہیں وہ دبئی میں اور ایک امریکہ میں ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو جماعت سے اور خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.مکرم میر محمود احمد صاحب بھی اب اپنے آپ کو کافی اکیلا محسوس کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کو بھی اپنے فضل سے سکون کی کیفیت عطا فرمائے اور جو کمی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے پوری فرما سکتا ہے.ایک لمبا ساتھ ہو تو بہر حال احساس تو ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے.جیسا کہ میں نے کہا نمازوں کے بعد ان کا غائب جنازہ ادا ہو گا.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 8 نومبر 2013 ء تا 14 نومبر 2013 ، جلد 20 شماره 45 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد 11 584 43 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013 ء بمطابق 25 اخاء 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت المسر ور، برزبن (Brisbane)،آسٹریلیا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: قُلْ آمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَآقِيْمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوْهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينِ كَمَا بَدَاكُمْ تَعُودُونَ (الاعراف : 30) يُبَنِي آدَمَ خُذُوا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (الاعراف:32) ان آیات کا ترجمہ ہے.تو کہہ دے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے.نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی تو جہات اللہ کی طرف سیدھی رکھو.اور دین کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے اسی کو پکارا کرو.جس طرح اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم مرنے کے بعد لوٹو گے.پھر فرمایا کہ: اے ابنائے آدم ! ہر مسجد میں اپنی زینت یعنی لباس تقوی ساتھ لے جایا کرو.اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو.یقیناوہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بر زبن (Brisbane) کے احمدیوں کو توفیق دی یا آسٹریلیا کے احمدیوں کو تو فیق دی کہ یہاں اس شہر میں باقاعدہ مسجد کی تعمیر کریں.پس اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے.تقریباً پندرہ سال پہلے آپ نے یہ جگہ خریدی تھی.اس پر مشن ہاؤس اور ایک ہال بھی بنایا جس میں آپ نمازیں بھی پڑھتے تھے.پھر جب 2006ء میں پہلی دفعہ میں آیا ہوں تو ان عمارتوں کے ہونے کے باوجود وہ رونق مجھے نہیں لگتی تھی جو اب باقاعدہ مسجد بننے سے نظر آتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا
خطبات مسرور جلد 11 585 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء جماعت پر احسان ہے کہ جماعت اور خلافت کا ایک ایسا رشتہ قائم کیا ہے جو دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتا.یہ دراصل اُس تعلیم اور اُس عہد بیعت کا نتیجہ ہے جس پر کار بند ہونے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو تلقین فرمائی تھی.اس محبت و اخوت و اطاعت کے رشتہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی شرائط بیعت میں ذکر فرمایا ہے اور یہی محبت اور اخوت اور اطاعت کا رشتہ پھر آگے آپ علیہ السلام کے جاری نظام خلافت کے ساتھ بھی جاری ہے.اس مسجد کی تعمیر بھی علاوہ اس بات کے کہ مساجد ہماری ضرورت ہیں اور جیسے جیسے جماعت پھیلتی جائے گی ، مساجد بھی انشاء اللہ تعالیٰ بنتی چلی جائیں گی اور بن رہی ہیں لیکن یہاں جو میں نے خلافت کی بات کی، یہ اس لئے کہ مساجد کی تعمیر خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنے کی وجہ سے بھی دنیا میں ہو رہی ہے.عموماً دنیا میں ہر جگہ میں جماعتوں کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ مساجد کی تعمیر کریں، کیونکہ یہ تبلیغ کا ذریعہ ہیں.اور حقیقت میں یہ بات بیچ بھی ثابت ہو رہی ہے.جیسا کہ میں نے کہا یہاں بھی جب میں 2006ء میں آیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ نماز سینٹرا اپنی جگہ پر ٹھیک ہے لیکن مسجد بھی یہاں با قاعدہ مسجد کی شکل میں تعمیر ہونی چاہئے.تو جماعت نے لبیک کہا اور اللہ تعالی کے فضل سے مسجد کی تعمیر کر دی.آپ لوگوں کو مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں جو مختلف روکوں سے گزرنا پڑا، مختلف فیرز (Phases) آئے ، اس سے خود آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مسجد کا تصور مقامی لوگوں کے ذہنوں میں کتنا مختلف یہاں سینٹر قائم تھا، لوگ نمازیں پڑھنے کے لئے آتے تھے.باقی جماعتی activities بھی ہوتی ہوں گی لیکن جب مسجد کے لئے منصوبہ منظوری کے لئے دیا گیا تو ہمسایوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.آخر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور مجھے جو رپورٹ ملی ہے اُس کے مطابق آٹھ نومہینوں کی کوششوں کے بعد کونسل کی طرف سے اجازت مل گئی اور یوں اس سٹیٹ کوئنز لینڈ (Queensland) میں جماعت احمدیہ کی پہلی باقاعدہ مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا جو دسمبر 2012 ء کے بعد شروع ہوا اور آج آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ خوبصورت مسجد ہے.ہے.جو اعداد و شمار میرے پاس آئے ہیں اُس کے مطابق اس مسجد کی تعمیر پر اور پہلی عمارتوں کی درستی وغیرہ پر ساڑھے چار ملین ڈالر خرچ کئے گئے اور افراد جماعت نے دل کھول کر قربانیاں دیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک دوست نے ایک لاکھ پچیس ہزار ڈالر دیئے.ایک نے ایک لاکھ ڈالر دیئے اور ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق قربانیاں دیں بلکہ شاید اس سے بڑھ کر قربانیاں دیں.خواتین نے جیسا کہ
خطبات مسرور جلد 11 586 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء جماعت احمدیہ کی خواتین کی روایت ہے، یہاں بھی اپنے زیور مسجد کے لئے پیش کئے.اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کو بے انتہا دے، ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے.لیکن ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قربانی ، یہ محبت و اخلاص کی روح، یہ اطاعت کے نمونے ایک احمدی کے اندر کسی وقتی جذ بہ کے تحت نہیں ہوتے ، نہ ہونے چاہئیں، بلکہ ہمیشہ جاری رہنے والے نمونے اور جذبے ہیں اور ہونے چاہئیں.اور پھر اپنے اندر ہی جاری رکھنے والے جذبے نہیں ہیں بلکہ اپنی اولادوں اور نسلوں کو منتقل کرتے چلے جانے والے جذبے ہیں.اور یہی ایک احمدی کی حقیقی احمدی کی روح ہے اور ہونی چاہئے.اور یہ جذ بے اُسی وقت جاری رہ سکتے ہیں جب ہم خدا تعالیٰ کے حکموں پر توجہ دینے والے ہوں.جب ہم اپنے خدا سے سچا تعلق پیدا کرنے والے ہوں.جب ہم مسجد کا حق ادا کرنے والے ہوں.جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے والے ہوں.پس ہم اُس وقت اس مسجد کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں اور بنیں گے جب ہم ان باتوں کا خیال رکھیں گے، ان کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گے.پس آج اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان میں سے بعض حکموں کو میں آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ ہم اور ہماری نسلیں یہ حق ادا کرتی چلی جانے والی بن جائیں.یہ جو آیات شروع میں میں نے تلاوت کی ہیں ،سورۃ اعراف کی آیات 30 اور 32 ہیں اور مسجد سے متعلق ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ نے ایک مومن سے بعض تو قعات رکھی ہیں بلکہ مومنین کو نصیحت کی ہے کہ مسجد سے منسلک ہونے والے اور حقیقی عبادت گزار ان باتوں کا خیال رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ان پر پڑے گی.پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انصاف کا حکم دیا ہے اور انصاف ایک ایسی چیز ہے جو معاشرے کی بنیادی اکائی، جو گھر ہے، اس سے شروع ہو کر بین الاقوامی معاملات تک قائم ہونا انتہائی ضروری ہے.یہی وہ چیز ہے جس کے قائم ہونے سے دنیا کا امن وسکون ہر سطح پر قائم ہوسکتا ہے.اور یہی چیز ہے جس کا حق ادا نہ کرنے کی صورت میں دنیا میں فتنہ وفساد پیدا ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے.پھر انصاف صرف معاشرتی معاملات میں نہیں اور بندوں کے ساتھ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا حق ادا کرنا، یہ بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے.عبادت کا حق ادا کرنا جس طرح کہ اُس کا حکم ہے، یہ عبادت کے ساتھ انصاف ہے.اور اس انصاف کا فائدہ خود انسان کو عبادت کرنے والے کو اپنی ذات کے لئے ہو رہا ہوتا ہے.پس ہر حقیقی مومن کو اپنے عبادت کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئے اور یہ حق ادا ہو گا جب آپ سب
خطبات مسرور جلد 11 587 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء اپنی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت کریں گے.جب قیام نماز کی طرف توجہ ہوگی.جب ان نمازوں کے ساتھ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا ہو گی.جب نمازوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مخلوق بھی حق ادا کرنے کی کوشش ہو رہی ہوگی.مخلوق کے جو حق ہیں، مثلاً خاوند کو حکم ہے کہ بیوی کے حق ادا کرو.اُن کی ضروریات کا خیال رکھو.ان سے نرمی اور ملاطفت سے پیش آؤ.اُن کے رحمی رشتوں کا خیال رکھو.بیوی کے ماں باپ اور بہن بھائی اور دوسرے رشتوں کا احترام کرو.بیویوں کے مال پر اور اُن کی کمائی پر نظر نہ رکھو.بچوں کے حق ادا کرو، اُن کی تعلیم تربیت کی طرف توجہ کرو.اپنے نمونے دکھاؤ کہ وہ دین کی اہمیت کو سمجھیں اور دین سے جڑے رہیں.ہمیشہ یادرکھیں لڑکے اُس وقت خاص طور پر جب تیرہ چودہ سال کے ہو جا ئیں عموماً دین کا احترام کرتے ہیں جب وہ دیکھیں کہ اُن کا باپ بھی دین کا احترام کرنے والا ہے.اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنے والا ہے.نمازوں کا پابند ہے.قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کا پابند ہے.میں نے دیکھا ہے کہ عموما ماؤں کو اپنے بچوں کی دین کی زیادہ فکر ہوتی ہے یا کم از کم اظہار ضرور میرے سامنے ہوتا ہے.دعا کے لئے کہتی ہیں.اسی طرح ہر عورت جو ہے، ہر بیوی جو ہے، اُن کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے انصاف کرنا ہوگا.اپنے گھر کے فرائض ادا کریں.سب سے پہلی ذمہ داری عورت کی گھر کی ذمہ داری ہے، اس کو سنبھالنا ہے.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.خاوند کے احترام کے ساتھ اُس کے رحمی رشتہ داروں کا بھی احترام کریں.بچوں کی تربیت اور نگرانی کریں.اس ماحول میں خاص طور پر بچوں کی تربیت کی ماں باپ کو بہت فکر ہونی چاہئے اور توجہ کی ضرورت ہے.اور یہ دینی تربیت ماں اور باپ دونوں کا کام ہے.بچوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ تم احمدی مسلمان ہو، اور اس کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو احمدی مسلمان ثابت کرنا ہوگا.یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ تمہاری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ سب سے پہلے ماں باپ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا.بچوں کو یہ بتانا ہوگا کہ تم میں اور دوسروں میں ایک فرق ہونا چاہئے.بچوں کی جب اس نہج پر تربیت ہوگی تو تبھی بچے دین سے جڑے رہیں گے.اور یہی چیز ہے جو بچوں کا حق انصاف سے ادا کرنے والی بناتی ہے.اگر ماں باپ اپنے عملی نمونے نہیں دکھا رہے، اگر بچوں کی تربیت کی طرف توجہ نہیں ہے تو پھر انصاف نہیں کر رہے.پھر معاشرے کے عمومی تعلقات ہیں.یہاں بھی ہر مرد اور عورت جو اپنے آپ کو مومنین میں شمار کرتا ہے یا کروانا چاہتا ہے، اُس کا یہ فرض ہے کہ ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں.کاروباری معاملات ہیں یا کسی بھی قسم کے معاملات ہیں، عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے ضروری ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 588 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جماعت کو ایک وجود بنایا ہے.پس ایک وجود کا معیار اس وقت قائم ہو سکتا ہے جب دوسرے کی تکلیف کا احساس ہو، اُس کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ ہو.جب انصاف کے تقاضے پورے ہوں.جس طرح جسم کے کسی حصہ کو تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے، اسی طرح دوسرے کی تکلیف کا احساس ہمیں ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ دوسرے کی تکلیف کا احساس کرو اور یہ ہم جب دنیا کو بتاتے ہیں کہ انصاف اس طرح قائم ہوتا ہے، جب باتیں سناتے ہیں کہ یہ انصاف کس طرح قائم ہونا چاہئے ، اسلام کیا کہتا ہے اور دنیا والے یہ باتیں سن کر بڑے متاثر ہوتے ہیں تو اس کے نیک نمونے بھی ہمیں دکھانے ہوں گے.یہ بتانا ہوگا کہ یہ پرانی تعلیم نہیں ہے بلکہ یہ حقیقی مومنین کا موجودہ عمل بھی ہے.پرسوں یہاں غیروں کے ساتھ ، مقامی آسٹریلین باشندوں کے ساتھ مسجد کی افتتاحی تقریب ہوئی تھی تو جو باتیں میں نے کیں وہ اس بات کے اردگرد ہی گھوم رہی تھیں کہ اگر انسانوں کے حقوق کی ادائیگی میں انصاف نہیں اور اس کا باریکی سے احساس نہیں تو عبادتیں بھی بیچ ہیں ، بے فائدہ ہیں.اور اگر یہ ادا ئیگی ہو رہی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہر عمل عبادت بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والی عبادت کے حسن کو مزید نکھار دیتا ہے.پس وہ مسلمان جس کے نزدیک نمازوں کی بڑی اہمیت ہے، عبادت کی بڑی اہمیت ہے، وہ اس تلاش میں بھی ہمیشہ رہے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ بھی انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے والے تعلقات رکھوں.اور ایک احمدی اس حکمت کی بات کو سب سے زیادہ سمجھ سکتا ہے اور جانتا ہے.کیونکہ اُس نے زمانے کے امام کو قبول کیا ہے، زمانے کے امام کی بیعت میں آیا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹ سکے.تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کر سکے، تا کہ اپنے مقصد پیدائش کو پہچان سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” نوع انسان پر شفقت اور اُس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 438 - مطبوعہ ربوہ ) پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جو جہاں انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے، وہاں خدا تعالیٰ کا قرب بھی دلاتی ہے.اور جب انسان مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حق خالص ہو کر ادا کرنے کے لئے مسجد میں جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی آغوش میں آ جاتا ہے.پھر عبادت کا حقیقی
خطبات مسرور جلد 11 589 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء لطف بھی حاصل ہوتا ہے.پھر ایک مومن کی اس عمل پر حکم کرنے کی کوشش کہ وَآقِيْمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ یعنی اور تم ہر مسجد میں اپنی توجہات اللہ تعالیٰ کی طرف سیدھی رکھو، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بھی بنائے گی.اُن لوگوں میں شامل کرے گی جو یہ مقام حاصل کرتے ہیں.اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہماری ہر کوشش پر اللہ تعالیٰ کا ایک فعل بھی ہوتا ہے.اور ہم کسی نیکی کو اپنے زور سے حاصل نہیں کر سکتے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فعل ہمارے کسی عمل کے ساتھ شامل نہ ہو اور اس کے شامل ہو کر ہمیں نیکی کے اعلیٰ نتائج حاصل کرنے والا نہ بنائے تو وہ ہم نیکی حاصل ہی نہیں کر سکتے..پس ہماری نیک خواہشات اور ہمارے ہر معاملے میں نیک عمل کی کوشش وہی ہے جو ہماری تو جہات اللہ تعالیٰ کی طرف سیدھی رکھنے والا بنائے گی اور اس کے ساتھ جب عبادتیں ہوں گی اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبول بھی کرے تو پھر وہ حقیقی عبادت بن جاتی ہے اور ہم اس قابل ہوں گے کہ پھر اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جو وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین کا گروہ ہے.اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جو دین کو اُس کے لئے ، یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسے پکارتے ہیں اور جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارنے والے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ کا یہ روشن پیغام راستے دکھا رہا ہے کہ أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة : 187 ) کہ جب دعا کرنے والے مجھے پکارتے ہیں تو میں (البقرة:187 اُن کی دعا قبول کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے.اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑ تا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 21.مطبوعہ ربوہ ) پس انسان کا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارنا اُس وقت کہلاتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی تمام قسم کی حدود کا بھی خیال رکھے.اور ان حدود کا پتہ چلتا ہے جب ہم قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہیں اور اُس میں سے خدا تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کے اُن کو نکالتے ہیں.یہ احکامات ہی وہ حدود ہیں جن کے اندر رہ کر انسان پھر خدا تعالیٰ کا قرب پاتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بنی آدم ! ہر مسجد میں اپنی زینت ساتھ لے جایا کرو.ایک مومن کی زینت اُس کا تقویٰ کا لباس ہے.پس یہاں اُن حدود کی مزید وضاحت ہو گئی جو ایک مومن
خطبات مسرور جلد 11 590 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء کے لئے قائم کی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ”انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں، جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں، اُن کو جہاں تک طاقت ہو، ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور اُن کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا.“ اور اس سے ہوشیار رہنا.ان اعضاء کے پوشیدہ حملے کیا ہوں گے؟ ان کے پوشیدہ حملے یہ ہیں کہ شیطان ان کے غلط استعمال کی طرف ورغلاتا ہے.فرمایا: ”اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے.چنانچہ لِبَاسُ التَّقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی اُن کے دقیق دردقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 213) یعنی کہ باریک سے باریک پہلو جو ہیں اُن کے متعلق بھی حتی الوسع کوشش کرے کہ اُن پر کار بند رہنا ہے، اُن پر عمل کرنا ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا کہ اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مزید وضاحت فرما دی ہے کہ پہلے اپنی امانتوں کا خیال رکھنا ہے اور اپنے عہدوں کا خیال رکھنا ہے.ایک احمدی کے سپر دوہ امانت ہے جو ادا کرنے کا خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اُس نے عہد کیا ہے اور وہ ہے دین کو دنیا پر مقدم کرنا.اگر اس امانت کی حفاظت اور اس کی ادائیگی ہم کرتے رہیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہماری عبادتیں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنتی رہیں گی.دعاؤں کی قبولیت کے نشان ہم دیکھنے والے ہوں گے، انشاء اللہ.ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی تلاش میں اُٹھنے والا ہو گا.ہمارا مسجد میں آنا خالصةً لِلہ ہو گا.مسجد کی تعمیر کے بعد اب جو لوگوں کی اس طرف توجہ ہوگی ، اس کا حق ادا کرنے کے لئے بھی ہم ہوں گے.
خطبات مسرور جلد 11 591 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء پس مسجد کے بننے پر اس بات پر 3 راضی نہ ہو جائیں کہ ہم نے مسجد بنالی.اب مسجد بننے کے بعد آپ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسجد میں اُس کی زینت کے ساتھ جاؤ.جس کا حسن تقویٰ سے نکھرتا ہے.اور جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے بتایا کہ تقویٰ اُس وقت ظاہر ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا کئے جا رہے ہوں.جب اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرنے کی کوشش ہو ، جب اپنی نمازوں کی بھی حفاظت ہو، جب مسجد کے تقدس کا بھی خیال ہو.بہت سے لوگ جو دعا کے لئے کہتے ہیں.یہاں بھی بعض ملاقاتوں کے دوران ملتے ہیں، تو کہتے ہیں تو اُن میں سے بعض کے چہروں سے پتہ لگ رہا ہوتا ہے کہ ایک رسمی بات ہے یا کم از کم خود جو بات کہہ رہے ہیں اُس پر عمل نہیں کر رہے.خود اُن کی دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہے.نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہے.جب بھی میں نے اُن سے پوچھا یا پوچھتا ہوں کہ تم خود بھی پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہو؟ تو ٹال مٹول والا جواب ہوتا ہے.یہ جو تصور ہے کہ دعا کے لئے کہہ دو اور خود کچھ نہ کرو، یہ بالکل غلط تصور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اسلام کی ساۃ ثانیہ ہے.نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کرنا ہے اور یہ مقصد اُس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک ہم میں سے ہر ایک مرد عورت ، جوان اور بوڑھا تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی امانتوں کا حق ادا کرنے والا نہ بنے.اپنے عہد کو پورا کرنے والا نہ بنے.اگر مجھے دعا کے لئے کہا ہے تو خود بھی تو دعاؤں کی طرف توجہ کریں.خود بھی تو نمازوں کی طرف توجہ کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ایک صحابی کو یہی فرمایا تھا کہ اگر تم وہ مقصد چاہتے ہو اور اُس کے لئے مجھے دعا کے لئے کہہ رہے ہو تو پھر خود بھی تم دعاؤں سے میری مدد کرو اور اپنے عمل سے میری مدد کرو.الہی جماعتوں کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہر ایک کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے، پہلے بھی میں یہاں کسی خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ ولی بنو، ولی پرست نہ بنو اور پیر بنو اور پیر پرست نہ بنو.ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 139 - مطبوعہ ربوہ ) یعنی ہر ایک اپنا خدا تعالیٰ سے تعلق رکھے اور پھر مومنین کی جماعت دعاؤں سے ایک دوسرے کی مدد کریں اور اُن کے دوسرے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں.اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کریں اور مخلوق کے بھی حق ادا کریں.اپنے اخلاق کے وہ معیار قائم کریں جس سے غیروں کی بھی آپ کی طرف
خطبات مسرور جلد 11 592 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء توجہ پیدا ہو.لیکن یہاں یا درکھنا چاہئے کہ پیر اور ولی بنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہر ایک اپنی اپنی گدی بنا لے گا، بلکہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو اور یہ بھی اُسی صورت میں پیدا ہو گا جب خلافت کے ساتھ ایک وفا کا تعلق ہوگا اور جماعت کے ساتھ جب جڑے رہیں گے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی جماعت کی ترقی کی پیشگوئی فرمائی ہے انہی لوگوں کی ترقی کی پیشگوئی فرمائی ہے جو جماعت کے ساتھ منسلک رہیں گے.(سنن ابن ماجه کتاب الفتن باب افتراق الامم حدیث (3992 پس اس بات کو ہمیشہ یادرکھیں.اور جیسا کہ میں نے کہا اس مسجد کے بننے سے یہاں رہنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں.اور وہ یہ ہیں کہ انہوں نے اس مسجد کو آباد بھی کرنا ہے اور اس مسجد میں اس زینت کو لے کر آنا ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں زینت ہے.یہ بھی ذمہ داری ہے آپ کی.اور ایک دوسرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں.یہ بھی ذمہ داری ہے آپ کی.اور علاقے میں حقیقی اسلام کا پیغام بھی پہنچانا ہے.یہ بھی ذمہ داری ہے آپ کی.اگر یہ حق ادا کرتے رہیں گے تو امید ہے آپ کی مسجد کی تعمیر کے لئے کی گئی مالی قربانیاں اور وقت کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں یقیناً مقبول ہوں گی.اور اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر کے نظارے آپ دیکھنے والے ہوں گے.پس اس سوچ کے ساتھ اس مسجد میں آئیں اور اُسے آباد رکھیں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ عبادت کے جذبے سے صبح شام مسجد میں آنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں مہمان نوازی ہوتی ہے.(صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل من غدا الى المسجد و من راح حديث (662) اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کا جو درمیانی فاصلہ ہے ایک مومن کے لئے اگر وہ خالص تو جہ اللہ تعالیٰ کے لئے رکھتا ہے تو اسی طرح ہے جس طرح سرحد کی حفاظت کے انتظامات کر رہا ہے.(صحيح مسلم كتاب الطهارة باب فضل اسباغ الوضوء على المكاره حدیث (587) شیطان سے حفاظت میں رہتا ہے.اور جب اگلی نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوتا ہے تو پھر لباس تقویٰ کے ساتھ جاتا ہے جو بہترین زینت ہے.پس اس مادی دنیا میں یہ معیار قائم کرنا ایک احمدی کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور جب یہ حقیقت ہم سمجھ لیں گے، اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے، اس زینت کے ساتھ مسجدوں میں
خطبات مسرور جلد 11 593 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء جائیں گے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر انشاء اللہ تعالیٰ حاصل کرتے چلے جائیں گے.اس دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ کہ کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، کیونکہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ کھانے پینے میں اعتدال ہونا چاہئے اور ہر قسم کی حلال اور طیب غذا کھانی چاہئے اور اُس میں بھی اعتدال ہو.کیونکہ غذا کا اثر بھی انسان کے خیالات اور جذبات پر ہوتا ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا انسان کو سست اور کاہل بنادیتا ہے.رات کا کھانا زیادہ کھایا ہو تو ایسی گہری نیند آتی ہے کہ انسان صبح فجر کی نماز پہ نہیں اُٹھ سکتا.پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے اور یہ تو دوسری جگہ قرآن شریف میں بھی ہے کہ غیر مومنوں کی نشانی ہے کہ وہ کھانے پینے کی طرف ہی دھیان رکھتے ہیں، جس طرح صرف جانوروں کا یہ کام ہے کہ کھانا اور پینا اُن کا مقصد ہو، جبکہ مومن کا مقصد بہت بالا ہے.اور یہ مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے تمام حلال اور طیب چیزیں انسان کے فائدے کے لئے بنائی ہیں لیکن دنیا کا حصول مقصد نہیں ہونا چاہئے.ان سے فائدہ ضرور اُٹھائے لیکن یہی مقصد نہ ہو.بلکہ خدا کی رضا کا حصول مقصد ہو اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ دنیاوی فائدوں کے حصول کے لئے اسراف نہ کیا جائے ،ضرورت سے زیادہ اُن کو سر پر سوار نہ کیا جائے ، اُن کو عبادتوں میں روک نہ بننے دیا جائے.اگر یہ دنیاوی اکل وشرب، کھانا پینا عبادتوں میں روک بن جائے ، دنیاوی لذات عبادت پر غالب آجائیں تو ایسے اسراف کو خدا تعالیٰ پسند نہیں کرتا.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اعتدال کے ساتھ ہر کام ہو تو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے.دنیا کمانے سے خدا تعالیٰ نے نہیں روکا ، بلکہ اس بات پر توجہ دلائی ہے کہ مومنین کو اپنے کام کرنے چاہئیں اور پوری توجہ سے کرنے چاہئیں اور وہاں بھی انصاف کرنا چاہئے.لیکن اگر دنیا کمانا دین کو بھلانے کا باعث بن جائے، نمازوں کی طرف سے توجہ ہٹانے کا باعث بن جائے تو یہ بات پھر انسان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کر دیتی ہے.خدا تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ایسے اسراف سے بچائے جو خدا تعالیٰ سے دُور کرے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت کی اکثریت ان ذمہ داریوں کو سمجھنے والی ہے اور جیسا کہ میں نے مالی قربانی کے ذکر میں بتایا تھا، کہ بڑھ چڑھ کر قربانی کرنے والی ہے.اور مالی قربانی کی روح کو سمجھنے والی ہے.صرف اپنی ذات پر ہی خرچ نہیں کرتے.لیکن جیسا کہ میں کئی مرتبہ اس فکر کا اظہار کر چکا ہوں کہ
خطبات مسرور جلد 11 594 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء مسجدوں کی آبادی کی طرف بھی اسی جذبے سے مستقل تو جہ دینے کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے کہا یہ مسجد جو آپ نے بنائی ہے بڑی خوبصورت ہے.منارہ ہے، گنبد بھی ہے، باہر سے بہت خوبصورت لگتے ہیں.مسجد کا جو مسقف حصہ ہے ، covered area ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی بڑا ہے.اور ہال کا بھی میں پہلے ذکر کر چکا ہوں، یہاں ہال بھی ہے.پہلا، پرانا ہال ہے، اس کو بھی رمینوویٹ (renovate) کر کے بڑا خوبصورت بنا دیا ہے.اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں ہال ملا کے اب یہاں تقریباً ایک ہزار نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.لیکن میرا خیال ہے اس وقت آپ شاید پانچ چھ سو کی تعداد میں یہاں ہوں گے، اور اس لحاظ سے بہت گنجائش موجود ہے.اور آپ کو یہ مسجد شاید بڑی لگ رہی ہو.آج تو سڈنی سے بھی اور باقی جگہوں سے بھی شاید کچھ لوگ آئے ہوں ، اس لئے مسجد بھری ہوئی ہے.لیکن اگر یہاں کی لوکل آبادی ہو تو شاید مسجد تھوڑی سی خالی بھی نظر آئے.بہر حال میری دعا ہے کہ یہ تعداد بڑھے اور مقامی لوگوں سے یہ مسجد بھر جائے اور تھوڑی پڑ جائے.لیکن ہماری حقیقی خوشی اُس وقت ہوگی جب پاکستان سے آنے والے احمدیوں سے نہیں بلکہ مقامی باشندوں سے یہ مسجد بھرے اور نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو.لیکن یہ خواہش اور یہ کام تبلیغ کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا.پس تبلیغ کی کوشش اور اس کے لئے دعا کو بڑھائیں.کوشش بھی بڑھنی چاہئے اور دعا کی طرف توجہ بھی ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ مسجد جلد چھوٹی پڑ جائے اور مزید مسجدیں بنتی چلی جائیں.یہ مسجد اس علاقے میں آپ کی انتہا نہیں ہے بلکہ یہ پہلا قدم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ مسجد سے اسلام کا تعارف ہوتا ہے اور لوگوں کی توجہ پیدا ہوتی ہے اسلام کی طرف.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 93.مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ کرے کہ مقامی لوگوں میں جلد سے جلد اس طرف توجہ پیدا ہو اور انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے کہ ہوگی.دنیا میں جہاں بھی ہماری مساجد بنی ہیں اسلام کا تعارف کئی گنا بڑھا ہے.پس پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ اس لحاظ سے بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں کہ اس تعارف کی وجہ سے آپ کی طرف اردگرد کے لوگوں کی نظر پہلے سے زیادہ گہری پڑے گی.آپ جو پاکستان سے آئے ہیں، اس لئے کہ وہاں آزادی سے مسجدوں میں عبادت نہیں کر سکتے تھے، اس لئے آئے ہیں کہ آزادی سے اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے ، احمدی مسلمان ہونے کا اظہار نہیں کر سکتے تھے.پس یہاں اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر حاصل کرنے والے بنیں کہ لوگوں کو اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچائیں.آپ کا
خطبات مسرور جلد 11 595 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 25 اکتوبر 2013ء یعنی اکثریت کا یہاں کسی خوبی کی وجہ سے آنا نہیں ہوا بلکہ جیسا کہ میں نے کہا، احمدیت کی پاکستان میں مخالفت کی وجہ سے ہے.پس اپنی نسلوں کو بھی یہ احساس دلائیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر اُس وقت ادا ہو گا، جب ہم مسجد کی آبادی کی طرف توجہ دیں گے، اس کا حق ادا کرنے والے بنیں گے اور پھر تبلیغ کی طرف بھی توجہ دیں گے.آج بھی کوئی نہ کوئی مقدمہ پاکستان میں اسی طرح ہر روز بنتا رہتا ہے.اور بڑے مضحکہ خیز مقد مے بنتے ہیں.ابھی کل پرسوں کی ڈاک میں میں دیکھ رہا تھا.ایک گاؤں میں دو آدمیوں کی طرف سے ایک ایف آئی آر درج کروائی گئی کہ میں نے دیکھا تھا ایک منارہ تھا اور ایک گنبد نظر آیا، میں وہاں قریب گیا تو پتہ لگا یہ مسجد تو قادیانیوں کی ہے.میرے جذبات مجروح ہو گئے.شروع اس طرح کیا جس طرح کوئی مسافر ہے.پھر میں چار دن اس تلاش میں رہا کہ یہ مسجد بنانے والا کون شخص ہے.پھر پتہ لگا آٹھ آدمی یہاں رہتے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں.اُن کو میں نے سمجھایا کہ منارہ گرا دو، گنبد گراد و لیکن وہ نہیں مانے اور میرے جذبات مجروح ہو گئے ہیں اس لئے مقدمہ درج کیا جائے.تو یہ حالات ہیں پاکستان میں.اب تو چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بھی یہ حالات پیدا ہورہے ہیں.تو ایسے حالات میں وہاں لوگ رہ رہے ہیں اور آپ میں سے بعض بھی ایسے حالات میں رہتے ہوئے یہاں آئے ہیں.پس ان حالات کو بھول نہ جائیں، یا درکھیں اور اپنی مسجدوں کے حق ادا کریں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 15 نومبر 2013 ء تا 21 نومبر 2013 ء جلد 20 شماره 46 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد 11 596 44 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013ء بمطابق یکم نبوت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت المقیت ، آکلینڈ، نیوزی لینڈ تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: في بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُةِ وَالْأَصَالِ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَابَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله وَ إِقَامِ الصَّلوةِ وَايْتَاء الزكوة يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ.وَاللهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ( النور : 37-39) ان آیات کا ترجمہ ہے.کہ ایسے گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے اذن دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے.ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں.ایسے عظیم مرد جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے یا نماز کے قیام سے یا ز کوۃ کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے.وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل (خوف سے )الٹ پلٹ ہو رہے ہوں گے اور آنکھیں بھی.تا کہ اللہ انہیں اُن کے بہترین اعمال کے مطابق جزا دے جو وہ کرتے رہے ہیں اور اپنے فضل سے اُنہیں مزید بھی دے اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے.آج اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ نیوزی لینڈ کو باقاعدہ اپنی مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے یہ مسجد ہر لحاظ سے مبارک فرمائے.نیوزی لینڈ کی جماعت چھوٹی سی جماعت ہے.گل چار سو افراد چھوٹے بڑے ملا کر ہیں.لیکن مسجد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی اچھی
خطبات مسرور جلد 11 597 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013 ء اور خوبصورت بنائی ہے.اور جماعت کی موجودہ تعداد سے زیادہ کی گنجائش اس میں ہے.اللہ کرے کہ یہ جلدا اپنی گنجائش سے بھی باہر نکلنا شروع ہو جائے.بہت سے کام کرنے والوں نے دن رات بڑی محنت سے کام کیا.مجھے بتایا گیا ہے کہ بہت سا کام بعض افراد جماعت نے بغیر اس بات کی پرواہ کئے کہ دن ہے یا رات، بڑی لگن اور بڑے جذبے سے یہاں خدمت کی ہے.اور یوں جیسا کہ ہماری روایت ہے، خود کام کر کے اخراجات کی بچت بھی کی ہے.اس مسجد پر مسجد ، ہال اور دوسری چیز میں ملا کے گل ساڑھے تین ملین کے قریب خرچ ہوا ہے.جس میں 1.3 ملین مسجد پر ، اور باقی کچن اور باقی Renovation پر خرچ ہوا.جماعت کی تعداد تھوڑی ہونے کی وجہ سے فوری طور پر اتنی بڑی رقم جماعت جمع نہیں کرسکی.یا وعدے جو تھے وہ پورے نہیں ہو سکے اس لئے قرض بھی لینا پڑا.لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ قرض افراد جماعت جلد اتار دیں گے.کیونکہ جماعت کو یہاں قائم ہوئے اس سال 25 سال ہو گئے ہیں.اس لئے جماعت کی شدید خواہش تھی اور میں سمجھتا ہوں یہ خواہش یقینا ہوگی کہ باوجود جماعت کی تعداد کم ہونے کے ایک مسجد کا تحفہ کم از کم ضرور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے.اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کی صورت میں یہ تحفہ پیش کیا جائے.پس یہ یادرکھیں کہ جس جذبے کے تحت آپ نے یہ تحفہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے یہ قرض کا تحفہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ جلد سے جلد قرض اتارنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے اور اس کی ادائیگی کی کوشش ہونی چاہیے تا کہ آپ اپنی خالص قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے والے بنیں.جماعت نے یہ قرض اس توقع اور آپ افراد جماعت پر حسن ظن کرتے ہوئے لیا ہے کہ احباب اپنی قربانیوں سے اس مسجد کی تعمیر کریں گے چاہے وہ دیر سے قربانیاں ادا ہوں، تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے اس دنیا میں خدا تعالیٰ کا گھر بنایا اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے گھر بنائے گا.پس کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی جنت کا حصول نہ چاہتا ہو، اپنے لیے جنت میں گھر نہ چاہتا ہو.یقینا کوئی احمدی بھی کبھی بھی یہ سوچ نہیں سکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا نہ بنے ، وہ جنت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام کے طور پر دیئے گئے گھر کی خواہش نہ رکھتا ہو.جماعت احمدیہ کی یہ خوبصورتی دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہے کہ وہ مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں.جو جاگ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مالی قربانیوں کی اپنے صحابہ میں لگائی تھی تا کہ اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جا سکے اور جس کو دیکھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا
خطبات مسرور جلد 11 598 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013 ء کہ لا انتہا اخلاص ہے بے انتہا اخلاص اور محبت کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے.یہ حالت دنیا میں اس وقت اس زمانے میں آج بھی ، سو سال بعد بھی جماعت کے افراد کی ہے.قطع نظر اس کے کہ کون کس ملک سے تعلق رکھتا ہے وفا اور اخلاص میں سب احمدی بڑھے ہوئے ہیں.نیوزی لینڈ میں جو اس وقت جماعت کی تعداد ہے اس میں ساٹھ فیصد سے اوپر یہاں نجی سے آئے ہوئے لوگ ہیں اور تقریباً 23 فیصد پاکستانی مہاجر ہیں اور باقی دوسری قومیں ہیں.گو یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن متفرق قوموں کے لوگ ہیں مگر اخلاص و وفا میں ہر ایک، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.لیکن یہ یادرکھنا چاہئے کہ صرف ظاہری اخلاص اور وقتی طور پر چاہے وہ وقت کی قربانی ہو یا مال کی قربانی ہو، ایک حقیقی مومن کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ مستقل مزاجی سے نیکیوں پر قدم مارنا اور تقویٰ پر چلنا اور اپنی پیدائش کے مقصد کو ہمیشہ یادرکھنا یہ ایک حقیقی مومن کی شان ہے، اور شان ہونی چاہئے.اور مقصد پیدائش کے بارے میں خدا تعالیٰ نے جو ہمیں توجہ دلائی ہے اُسے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ہمیں یاد دہانی کرواتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اگرچہ مختلف الطبائع انسان اپنی کوتاہ فہمی یا پست ہمتی سے یعنی اگر اتنی سمجھ بوجھ نہ ہو یا ہمت چھوٹی ہو اس کی وجہ سے مختلف طور کے مدعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں اور فقط دنیا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کر آگے ٹھہر جاتے ہیں.مگر وہ مدعا جو خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے وہ یہ ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ الْالِيَعْبُدُونِ (الد ریت : 57) یعنی میں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں.پس فرمایا کہ اس آیت کی رُو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا کے لئے ہو جانا ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحه 414) پس یہ ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں آکر وقتی جوش اور جذبے کے تحت بعض قربانیاں کر لینا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد مستقل مزاجی سے خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور عبادت کے معیار اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو.یہ علم ہو کہ خدا تعالیٰ تمام طاقتوں کا مالک ہے اور میرے ہر قول اور ہر فعل کو دیکھ رہا ہے اور نہ صرف ظاہری طور پر دیکھ رہا ہے بلکہ میرے دل کی گہرائی تک اس کی نظر ہے.میری نیتوں کا بھی اُس کو علم ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوئیں.اور جب یہ حالت ہو تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک انسان کوشش کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ
خطبات مسرور جلد 11 599 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013 ء کے لئے ہو جائے.یعنی کوئی عمل صرف دنیاوی خواہشات پوری کرنے کے لئے نہ ہو بلکہ ہر کوشش اور ہر نیکی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو.ہماری عبادتیں صرف اُس وقت نہ ہوں جب ہمیں خدا تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے، جب ہم کسی مشکل میں گرفتار ہیں، جب ہماری دنیا وی ضرورتیں پوری نہیں ہور ہیں، بلکہ ہماری عبادتیں آسائش اور کشائش میں بھی ہوں.یہ نہ ہو کہ دنیاوی معاملات اور دنیاوی بکھیڑے اور دنیاوی کاروبار ہمیں خدا تعالیٰ کی عبادت سے دُور کر دیں.یہ مسجد صرف ایک عمارت نہ رہے اس مسجد کی وسعت اور خوبصورتی صرف یہی نہ یاد دلائے کہ ہم نے اتنا وقت مسجد کی تعمیر کے لئے صرف کر دیا.اتنے وقار عمل ہم نے کئے ، اتنے پیسے ہم نے بچائے.ہم نے اتنے گھنٹے وقار عمل کیا.ہم نے اتنا چندہ اس کی تعمیر کے لئے دیا، بلکہ یہ عمارت یہ یاد کروانے والی ہو کہ اس دنیا میں مسجد کی تعمیر کرنا اگلی زندگی میں خدا تعالیٰ کے اُس انعام کا وارث بنائے گا جس میں خدا تعالیٰ جنت میں گھر بنا کر دے گا.اور یہ گھر بھی اُس وقت بنے گا جب اس گھر کی تعمیر کے بعد اس کا حق ادا ہورہا ہوگا.اور مسجد کا حق ادا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے سے جس کا ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر فرمایا ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلابیع کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی مومن وہ ہیں جن کو اُن کی تجارتیں اور خرید وفروخت غافل نہیں کرتیں.کس چیز سے غافل نہیں کرتیں؟ فرمایا : عن ذكر الله اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نمازوں کے قائم کرنے سے اور زکوۃ ادا کرنے سے.پس ہم احمدیوں نے وہ حقیقی مومن بننا ہے جو ان خصوصیات کے حامل ہوں.یہاں نماز سینڑ تو پہلے بھی تھا لیکن سینٹ اور با قاعدہ مسجد میں ایک ظاہری فرق بھی ہے.سینٹر ایک ہال ہے.مسجد میں گنبد بھی ہوتا ہے، مینارہ بھی ہوتا ہے اور مسجد کے نام سے ہی اس کا ایک علیحدہ تقدس بڑھتا ہے.پہلے دورے میں جب میں نے آپ کو کہا تھا کہ یہاں با قاعدہ مسجد بنا ئیں.تو ایک تو یہ مقصد تھا کہ مسجد کا مینارہ اور گنبد آپ کو یاد دلا تار ہے کہ ہم نے مال اور وقت کو قربان کرنے کے بعد جو مسجد بنائی ہے اس کا حق بھی ہم نے ادا کرنا ہے.اور دوسرا یہ کہ مسجد کا مینارہ اور گنبد اردگرد کے ماحول کے لئے بھی قابل توجہ ہوتا ہے.اور اس سے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے.لوگوں کی اس طرف توجہ پیدا ہوگی اور اسلام کی حقیقی تصویر دیکھنے کی تلاش میں لوگ یہاں آئیں گے یا ویسے تنجس میں آئیں گے.یہ لوگ کیسے ہیں، کیسے مسلمان ہیں؟ ابھی تک میں نے یہی دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہی جماعت احمد یہ مسلمہ کا تعارف کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اس تعارف کی وجہ سے پھر اس مسجد کا حق ادا کرنے کی طرف
خطبات مسرور جلد 11 600 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013 ء توجہ بھی پیدا ہوتی ہے.جو یہاں رہنے والے لوگ ہیں وہ اس مسجد کا حق ادا کرنے والے ہوتے ہیں.افراد جماعت کو اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ ہم نے یہ حق ادا کرنا ہے.مسجد کا حق کیا ہے؟ سب سے پہلا حق تو یہی ہے کہ تمہاری تجارتیں ، تمہارے کاروبار، تمہاری مصروفیات تمہیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دُور کرنے والی نہ ہوں بلکہ نمازوں اور ذکر کی طرف یہ تجارتیں بھی تمہیں توجہ دلانی والی ہوں.جب حتى عَلَى الصَّلوة کی آواز آئے کہ اے لوگو! نماز کی طرف آؤ تو کاروبار بھول جاؤ، سب تجارتیں بھول جاؤ اور مسجد کی طرف دوڑو.اب یہ بھی اس زمانے میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہمارے تو فاصلے بہت ہیں.اذان بھی اندر ہوتی ہے آواز تو نہیں آتی.اور جس آواز میں آج اذان دی گئی ہے یہ تو اتنی ہلکی آواز تھی کہ ہال میں بھی مشکل سے آتی تھی.تو اس کے لئے پھر کیا کیا جائے؟ تو اس کے لئے تو آپ کو ویسے ہی احساس دلاتے رہنا چاہئے کہ ہم نے مسجد اس لئے بنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کریں.اپنے مقصد پیدائش کو پہچا نہیں.دوسرے میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ آجکل ہر ایک موبائل فون جیب میں ڈالے پھرتا ہے تو پھر اس کا بہترین استعمال کریں کہ نمازوں کے اوقات میں اذان کی آواز میں ہی الارم بج جائے.اور جو قریب ترین ہیں وہ مسجد میں آئیں اور جو دُور ہیں وہ اپنی نمازیں ادا کرنے کی طرف توجہ کریں.اپنے کاموں کی جگہ پر جب آپ نمازوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز ادا کر رہے ہوں گے تو ارد گرد لوگوں کو توجہ پیدا ہوگی کہ تم کون ہو؟ پھر مسجد کی عمارت کا تعارف ذریعہ بن جائے گا.آپ اپنے دوستوں کو مسجد میں آنے کی دعوت دیں گے اور یوں اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی ہو رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام غیروں کو پہنچانے کا سلسلہ بھی ساتھ شروع ہو جائے گا.اور اس طرح پھر نیکیوں کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بھی بنائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انقلاب بھی اپنے صحابہ میں پیدا کیا تھا.اور یہ مثال اللہ تعالیٰ ان آیات میں اُن لوگوں کی ہی دے رہا ہے جو آپ کے صحابہ تھے کہ یہ کروڑوں کا کاروبار بھی کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دل بھرے رہتے تھے.نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ رہتی تھی ، مالی قربانیوں کی طرف توجہ رہتی تھی اور یہی انقلاب پیدا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو بھیجا ہے کہ اپنے تعلق کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط کرو.اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، اپنے اموال کے تزکیہ کے لئے ، اس کو پاک کرنے کے لئے مالی قربانیاں دو.میں اکثر کہتا رہتا ہوں اور جماعت کی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے افرادِ جماعت کا رویہ بھی ہمیں
خطبات مسرور جلد 11 601 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013 ء یہی بتاتا ہے کہ مالی قربانیوں میں تو جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھی ہوئی ہے، بڑھ رہی ہے اور اس طرف توجہ بھی رہتی ہے لیکن نمازوں کے قیام کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے.عبادتوں کے میعار حاصل کرنے کی ابھی بہت ضرورت ہے.پس اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے.مسجد کو آباد کریں.قیام نماز اسی وقت حقیقی رنگ میں ہوتا ہے جب باجماعت نمازیں ادا کی جائیں اور مسجد کی تعمیر کی ہی غرض ہے کہ یہاں باجماعت نماز ادا ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن کو اس دنیا سے زیادہ آخرت کی زیادہ فکر ہوتی ہے.جب انسان بڑھاپے کی عمر کی پہنچتا ہے تو بڑی فکر ہوتی ہے، روتا ہے، دعا کرتا ہے اور دعا کے لئے کہتے بھی ہیں کہ دعا کریں انجام بخیر ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومنوں کی یہ حالت عمر کے آخری حصے میں جا کر نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی توجہ، عبادت کی طرف توجہ، اپنے دلوں کو پاک کرنے کے لئے کوشش وہ جوانی میں اور آسائش کی حالت میں بھی کرتے ہیں.خدا تعالیٰ انہیں جوانی اور آسائش میں بھی یادرہتا ہے.صبح شام اللہ تعالیٰ کو یا در رکھتے ہیں اس لئے کہ آخرت کا خوف ہر وقت ان کے پیش نظر ہوتا ہے.ان کے دل کانپتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ نقشہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا اور یہ حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں پیدا کرنے آئے ہیں.آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ہمیشہ دل غم میں ڈوبتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو بھی صحابہ کے انعامات سے بہرہ ور کرے.ان میں وہ صدق و وفا، وہ اخلاص اور اطاعت پیدا ہو جو صحابہ میں تھی.یہ خدا کے سواکسی سے ڈرنے والے نہ ہوں.متقی ہوں.کیونکہ خدا کی محبت منتفی کے ساتھ ہوتی ہے.انَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (البقره: 195) ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 405 - مطبوعہ ربوہ ) پس اگر اللہ تعالیٰ کے انعامات لینے ہیں، اپنے گھروں کو ان گھروں میں شمار کروانا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے اذن سے بلند کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے گھروں کو بھی بھرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہر وقت اپنے دلوں میں رکھنے کی ضرورت ہے.دنیا کے تمام خوف ، دنیاوی تجارتوں کے خوف، یہ تمام چیزیں اللہ کے خوف کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھنے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اپنی جماعت کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تقوی پیدا کرو اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھو.آپ فرماتے ہیں کہ دنیا کے پیچھے چلنے سے ( یہ الفاظ تو میرے ہیں انہیں الفاظ میں فرمایا ) کہ دنیا کے
خطبات مسرور جلد 11 602 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013 ء پیچھے چلنے سے کچھ عرصے کے لئے عارضی دنیاوی فائدہ تمہیں شاید ہو جائے اور اس میں بھی ہر وقت بے چینی رہتی ہے اور دھڑ کالگارہتا ہے کہ اب یہ نہ ہو جائے اب وہ نہ ہو جائے.لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی تلاش میں رہو گے، اگر اس کے بنو گے تو دین بھی ملے گا اور دنیا بھی غلام بن جائے گی.خدا تعالیٰ بھی ملے گا اور دنیا بھی مل جائے گی.جیسا کہ میں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کروڑوں کا کاروبار کرتے تھے لیکن کبھی اپنی عبادتوں کو نہیں بھولے.کبھی ذکر الہی کو نہیں بھولے کبھی اللہ تعالیٰ کا خوف ان کو نہیں بھولا.پس ہم جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا اظہار کرتے ہیں ، یہ تبدیلیاں اُس وقت فائدہ مند اور ہمیشہ رہنے والی ہوں گی جب حقیقی رنگ میں ہوں.صرف ہمارے مونہوں کی باتیں نہ ہوں، صرف زبانی اقرار نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ پاک تبدیلیاں حقیقت میں تم پیدا کر لو، تقویٰ پر قدم مارنے والے بن جاؤ، تمہاری نمازیں بھی وقت پر ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوں اور تمہارے دوسرے اعمال بھی اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لئے ہوں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا پانے والے ہو گے.تمہیں دنیاوی رزق بھی ملے گا اور روحانی رزق بھی ملے گا.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ دنیا کے کام نہ کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد نہیں بھولنی چاہئے.یہ نہ ہو کہ تم دنیاوی کاروباروں کی وجہ سے اپنی نمازیں بھی ضائع کر دو اور اپنے مقصد پیدائش کو بھول جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ اگر ایسا ہے کہ تم نمازیں بھول رہے ہو، دنیا میں ڈوبے ہوئے ہو، تو پھر تمہارے میں اور غیر میں کیا فرق ہے.کیا فائدہ ہے اس بیعت کا؟ پس اس فرق کو واضح کر کے بتانا ہماری ذمہ داری ہے.اگر ہم اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل سمجھتے ہیں تو یہ واضح کرنا ہوگا اور یہ واضح اُس وقت ہوگا جب ہم اپنے ہر عمل اور قول کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالیں گے ، جب ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا، جب ہماری نظر دنیا سے زیادہ آخرت کی طرف ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کو کھول کر اس طرح پیش فرمایا ہے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : یا درکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ ولابيعٌ عَنْ ذِكْرِ الله (النور : 38) جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں.اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ
خطبات مسرور جلد 11 603 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013 ء کہیں جاوے، کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا.اسی طرح پر جولوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے.“ پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 15 - مطبوعہ ربوہ ) ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 162 - مطبوعہ ربوہ ) یہ بالکل درست ہے.لیکن فرمایا یہ بھی یاد رکھو کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو اور ملازمت والا ملازمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبارکوترک کر دے اور ہاتھ پاؤں تو ڑ کر بیٹھ جائے.یعنی کوئی کام ہی نہ کرے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ ولابيعٌ عَنْ ذِكْرِ الله ( النور : 38) والا معاملہ ہو.دست با کار، دل با یار والی بات ہو.“ یعنی ہاتھ کام کر رہے ہوں اور دل اپنا خدا تعالیٰ کی طرف توجہ میں رہے.فرمایا کہ ” تاجر اپنے کاروبار تجارت میں اور زمیندار اپنے امور زراعت میں اور بادشاہ اپنے تخت حکومت پر بیٹھ کر ، غرض جو جس کام میں ہے، اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اُس کی عظمت اور جبروت کو پیش نظر رکھ کر اُس کے احکام اور اوامر و نواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے.اللہ تعالیٰ کے جتنے حکم ہیں ، جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے کہا ہے یہ کرو، اُن باتوں کے کرنے کو اپنے سامنے رکھو.جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے رُک جاؤ، اُن باتوں سے رکنے کو اپنے سامنے رکھو، اُن سے بچنے کی کوشش کرو.اور پھر جب اللہ تعالیٰ کے حکم اپنے سامنے رکھو گے تو ایک لائحہ عمل سامنے ہوگا اور پھر اُس کے اندر ہی انسان کام کرتا ہے.جو چاہے کرو سے مراد یہ ہے.پھر تمہارے لئے اور کوئی راستہ ہی نہیں ہوگا کہ اُنہی رستوں پر چلو جو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں.فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر فرمایا کہ اسلام کہاں ایسی تعلیم دیتا ہے کہ تم کاروبار چھوڑ کر لنگڑے لولوں کی طرح نکھے بیٹھے رہو اور بجائے اس کے کہ اوروں کی خدمت کرو، خود دوسروں پر بوجھ بنو.یہ نہیں اسلام کہتا کہ کام نہ کرو، سارا دن بیٹھے رہو، ذکر الہی بھی ہولیکن اپنے کام بہر حال کرنے ہیں.فرمایا ”نہیں بلکہ سست ہونا گناہ ہے.بھلا ایسا آدمی پھر خدا اور اُس کے دین کی کیا خدمت کر سکے گا.عیال و اطفال یعنی بیوی بچے ” جو خدا نے اُس کے ذمے لگائے ہیں اُن کو کہاں سے کھلائے گا.پس یادرکھو کہ خدا کا یہ ہرگز منشاء ہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کر دو.بلکہ اُس کا جو منشاء ہے وہ یہ ہے
خطبات مسرور جلد 11 604 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013 ء که قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَهَا ( اسمس : 10 ).تجارت کرو، زراعت کرو، ملازمت کرو اور حرفت کرو “ کسی پیشے میں بھی جاؤ جو چاہو کرو مگر نفس کو خدا کی نافرمانی سے روکتے رہو.وہی لوگ فلاح پاتے ہیں جو اپنے نفس کو پاک رکھتے ہیں.اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں.پھر جو تمہاری دنیا ہے یہی دین کے حکم میں آ جاوے گی.یہ دنیا کمانا، یہ تجارتیں، یہ کاروبار، یہ ملازمتیں، یہ بھی پھر دین بن جاتا ہے اگر نیت نیک ہو.اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کا عہد ہو.فرمایا کہ: ”انسان دنیا کے واسطے پیدا نہیں کیا گیا.دل پاک ہو اور ہر وقت یہ کو اور تڑپ لگی ہوئی ہو کہ کسی طرح خدا خوش ہو جائے تو پھر دنیا بھی اُس کے واسطے حلال ہے.انما الاعمال بالنیات یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 550 - مطبوعہ ربوہ ) پس یہ ہے وہ حالت جو ہر احمدی کی ہونی چاہئے اور جب آپ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری دنیا بھی دین کے تابع ہوگی.ہمارے سے کوئی ایسا کام سرزد نہیں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور منشاء کے خلاف ہو.پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ، جو یہ سوچ بھی رکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں بھی گزارتے ہیں.اگر یہ نہیں تو نہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان ہمیں کچھ فائدہ دے گا، نہ ہمارا مسجدیں بنانا ہمیں فائدہ دے گا.اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ان دنوں میں آپ کا جلسہ بھی ہو رہا ہے.تو یہ جلسہ بھی آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی فرمایا ہے کہ یہ جلسہ بھی کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے.پس اس جلسہ میں آنے کا بھی مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ، دین کا علم حاصل کرنا، روحانی فیض اُٹھانا ہے.پس یا درکھیں کہ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس مسجد کے بننے کے ساتھ آپ میں پہلے سے بڑھ کر پاک تبدیلیاں ہونی چاہئیں اور اس کے ساتھ ہی تبلیغ کے بھی نئے راستے کھلیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ ، تو آپ کی عملی حالت دیکھ کر لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ بھی پیدا ہوگی.اس لئے اپنے عملوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں.تبلیغ کے بارے میں بھی میں ذیلی تنظیموں اور جماعتی نظام کو خاص توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہاں بھی صرف اپنے روایتی طریق تبلیغ جو ہے، اُسی پر انحصار نہ کریں اور بیٹھ نہ جائیں کہ بس ہم جو کر رہے ہیں وہ کافی ہے ہمارے لئے، بلکہ تبلیغ کے لئے نئے نئے راستے تلاش کریں، نئے نئے طریق تلاش کریں.اسلام
خطبات مسرور جلد 11 605 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013ء کا زیادہ سے زیادہ تعارف کروائیں.اب ماؤری زبان میں جو قرآنِ کریم کا ترجمہ ہوا ہے، اس نے بھی جماعت کا ایک تعارف کروایا ہے.اُن کے اپنی زبان کے ٹی وی نے بھی اور ریڈیو نے بھی اُس کو اچھی کوریج دی ہے.دو دن پہلے جو فنکشن ہوا تو مسجد کے افتتاح سے مزید تعارف ہوگا.پس یہ تمام انتظامات جو خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اگر ہم ان کو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے استعمال کریں گے تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بنیں گے.پس آج جہاں اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کا عہد کریں وہاں اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ آپس میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے محبت اور پیار اور تعاون کو بھی بڑھا ئیں اور پھر علاقے کے لوگوں کو بھی حقیقی اسلام کا تعارف کروائیں.اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہوئی ہیں اُن کو دُور کرنے کی کوشش کریں.تھوڑی تعداد بھی اگر ہے تو اگر اپنے ارادے پختہ ہوں، ارادے اچھے، ہمت جوان ہو تو تھوڑی تعداد بھی بہت کچھ کر سکتی ہے.اللہ تعالیٰ اس کی سب کو تو فیق عطا فرمائے.ید اتنی خوبصورت مسجد جو آپ نے بنائی ہے، دنیا میں جو احمدی بیٹھے ہیں ایم ٹی اے کے ذریعہ سے آج سارے دیکھ بھی رہے ہیں.احمدیوں کو بھی کچھ خواہش ہوتی ہے، دلچسپی ہوتی ہے کہ اس کی تفصیل بیان کی جائے، تو مختصراً مسجد کے کوائف بھی بتا دوں.یہ تو میں بتا ہی چکا ہوں کہ اس پر خرچ کتنا ہوا.تین اعشاریہ ایک ملین ڈالر، اور مسجد بیت المقیت اس کا نام ہے جو پہلے ہال کا نام تھا.اور یہ جگہ بھی اس لحاظ سے اچھی ہے.ریلوے اسٹیشن اور شہر کی دو بڑی موٹروے (Motorway)اس سے چند منٹ کی دوری پر واقع ہے اور اس کا کل رقبہ یہاں کا پونے دوا یکڑ ہے جو 1999ء میں خریدی گئی تھی اور 256 مربع میٹر کا ایک ہال موجود تھا.2002ء میں لجنہ کے لئے 112 مربع میٹر کا الگ ایک ہال بنایا گیا.اور یہ دونوں ہال اب تک بطور نماز سینٹر استعمال ہورہے تھے.ہال کے اوپر مشنری کا گھر بھی ہے.بہر حال 2006ء میں جب میں نے دورہ کیا تو مسجد کے لئے کہا.2012ء جولائی میں اس کی با قاعدہ تعمیر شروع ہوئی اور اگست 2013ء میں تعمیر مکمل ہوئی.دومنزلہ مسجد ہے اور نچلی منزل لجنہ کے لئے ہے، مسجد کا ہال، 239 مربع میٹر ، نیچے آڈیو وڈیو روم ہے نیچے، کانفرنس روم ہے، اور اس طرح وضو وغیرہ کے لئے سہولیات ہیں.باہر سے اس کا منارہ بھی نظر آتا ہے.ایم ٹی اے پر دنیا نے دیکھ لیا ہو گا.ساڑھے اٹھارہ میٹر اونچا ہے،گنبد کا سائز بھی آٹھ میٹر ہے.نمازیوں کی گنجائش دونوں ہالوں میں محتاط اندازہ جوان کا کونسل کے مطابق ہے وہ چھ سو ہے.
خطبات مسرور جلد 11 606 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ یکم نومبر 2013ء لیکن بہر حال دونوں بالوں میں ساڑھے سات سو کے قریب نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.اور پرانی عمارت جو ہے اُس میں بھی تین سونمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.گویا تقریباً ایک ہزار میرے اندازے کے مطابق گنجائش نکل سکتی ہے.پارکنگ کے لئے ایک سوسات کاروں کی پارکنگ کی گنجائش ہے.لنگر خانہ بھی اس کے ساتھ بنایا گیا ہے جس میں ساڑھے تین لاکھ نیوزی لینڈ ڈالر خرچ ہوئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے ذکر کیا جماعت کی روایت ہے، افراد جماعت نے بڑی بڑھ چڑھ کر قربانیاں دی ہیں.خواتین نے اپنے زیور پیش کئے، بچوں نے اپنی جمع کی ہوئی جیب خرچ کی رقم پیش کی ،مسجد فنڈ میں دی.اور پھر یہ کہتے ہیں کہ دو موقع ایسے آئے ، مہینے کے آخر میں جماعت کے اکاؤنٹ میں رقم نہیں ہوتی تھی اور کنٹریکٹر کو payment کرنی تھی تو نیشنل عاملہ اور ذیلی تنظیموں اور دوسرے افراد نے ، بعض نے فوری طور پر لاکھ ڈالر یا ان سے بھی اوپر ڈالر جمع کر کے ادا کر دیئے.بعض افراد نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایک لاکھ ڈالر سے اوپر قربانیاں پیش کیں.اس کے علاوہ حسب توفیق ہر ایک نے اپنی اپنی بساط کے مطابق قربانیاں دیں.غیر معمولی قربانیوں کی توفیق ملی ہے.جیسا کہ میں نے کہا جماعت بہت چھوٹی سی ہے اور خرچ بہت زیادہ ہوا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ اُن سب کو جنہوں نے یہ قربانیاں دی ہیں اور جنہوں نے وقار عمل کئے ہیں، قربانیاں مالی طور پر نہیں دے سکے، وقت کی قربانی دی.اُن سب کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت ڈالے.ان کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے.ان کی نسلوں کو بھی احمدیت سے ہمیشہ جوڑے رکھے اور ایمان اور ایقان میں بڑھاتا چلا جائے.نمازوں کا حق ادا کرنے والے ہوں.مسجد میں آ کر مسجد کا حق ادا کرنے والے ہوں.اپنے گھروں کو بھی ذکر الہی سے بھرنے والے ہوں.حقوق العباد کے جذبے سے پر ہوں.حقیقی اسلام کے پیغام کو پھیلانے کی طرف توجہ دینے والے ہوں.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ ان دنوں میں آپ کا جلسہ بھی ہو رہا ہے، اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں کی طرف بھی توجہ رکھیں.یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب میں پاک تبدیلیاں پیدا فرمائے.پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہو اور پھر ہمیں ان پاک تبدیلیوں کو ہمیشہ اپنی زندگیوں میں جاری رکھنے والا بنائے.اور ہم سب جلسہ پر آنے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو دعائیں کی ہیں اُن سے حصہ لینے والے بھی ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 22 نومبر 2013 ء تا28 نومبر 2013ءجلد 20 شمارہ 47 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد 11 607 45 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013 ء بمطابق 8 نبوت 1392 ہجری شمسی بمقام ناگویا، جاپان تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً سات سال کے بعد مجھے جماعت احمد یہ جاپان سے یہاں آکر مخاطب ہونے کی توفیق مل رہی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی دوسری جماعتوں کی طرح جماعت احمد یہ جاپان بھی ترقی کی طرف بڑھنے والی اور اس طرف قدم مارنے والی جماعتوں میں سے ہے.اخلاص و وفا اور مالی قربانیوں میں بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے.لیکن افراد جماعت کو یہ ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ کبھی ان کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ ہم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، ہماری تعداد میں بھی کچھ اضافہ ہوا ہے، ہماری مالی قربانیاں بھی بڑھی ہیں، ہم نے ایک نئی جگہ خرید لی ہے جو یہاں ضروریات کے لئے کئی سال کے لئے کافی ہے.ہم نے ایک نئی جگہ اس لئے خرید لی کہ ہمارے عبادتوں کے علاوہ دوسرے فنگشنز بھی وہاں ہو سکیں.یہ نیا مرکز جو آپ نے خریدا ہے اس کی تفصیلات بھی میں آگے بیان کروں گا لیکن یہاں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ نئی وسیع جگہ جو آپ کی نمازوں کے لئے کافی ہے اور جو جماعت کی موجودہ تعداد ہے، اس کے لحاظ سے جلسوں کے لئے بھی کچھ عرصے کے لئے کافی ہوگی.دفاتر کے لئے بھی آپ کو جگہ مل جائے گی.گیسٹ ہاؤس ہے، مشن ہاؤس ہے اور دوسری سہولتیں ہیں اور جماعت احمد یہ جاپان نے اس کی خرید کے لئے بڑی مالی قربانیاں بھی دی ہیں.اور مالی قربانیوں کا حق بھی ادا کیا ہے لیکن ہمیشہ یا درکھیں کہ حقیقی حق ادا ہوتا ہے جب ہم ان باتوں کو سمجھیں اور اُن پر عمل کریں جو حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں کرنے کے لئے کہی ہیں.آپ کی بیعت میں آ کر ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل
خطبات مسرور جلد 11 608 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ایک حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہیں.وقتی جذبات کے تحت بعض قربانیاں اور بعض عمل بے شک بعض اوقات نیکیوں کی طرف رغبت دلانے کا باعث بنتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی خاطر کئے گئے ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے اور اُن کو سمیٹنے والے بھی بن جاتے ہیں لیکن ہم جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے والا کہتے ہیں، ہمارے مقصد حقیقت میں تب حاصل ہو سکتے ہیں جب ہم مستقل مزاجی سے اپنے ہر عملکو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے کی کوشش کریں.جب ہم جماعت احمدیہ کے قیام کے مقصد کو اپنے پیش نظر رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : مُنْعَم عَلَيْهِم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے.“ (الحام 31 مارچ 1905 ءجلد 9 شمارہ نمبر 11 صفحہ 6 کالم2) پس یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لگائی ہے کہ ہم نے اُن مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نے حاصل کئے یا اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کی.انہوں نے مسلسل جان، مال اور وقت کی قربانی دی.اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ڈرتے ہوئے ادا کرتے رہے.اللہ تعالیٰ کے حضور ڈرتے رہے اور اپنی دعائیں پیش کرتے رہے.کسی قربانی پر فخر نہیں کیا بلکہ یہ دعا کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے.اپنی عبادتوں کے معیار بلند کئے تو ایسے کہ اپنی راتوں کو بھی عبادتوں سے زندہ رکھا اور اپنے دنوں کو بھی باوجود دنیاوی کاروباروں کے اور دھندوں کے یاد خدا سے غافل نہیں ہونے دیا.پس یہ وہ مقصد ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے.یہی وہ مقصد ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم نے یہ مقصد پالیا تو اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر لیا.کیونکہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے.ہم جب مساجد بناتے ہیں یا اجتماعی عبادت کے لئے کوئی جگہ خریدتے ہیں تو یہی مقصد پیش نظر ہونا چاہئے کہ ہم نے مستقل مزاجی کے
خطبات مسرور جلد 11 609 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء ساتھ اپنی پیدائش کے مقصد کی بلندیوں پر جانا ہے.دنیا میں تو جو مقاصد ہیں اُن کی بعض حدود ہیں.ایک خاص بلندی ہے جس کے بعد انسان خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے اُسے پالیا ہے.یا اس دنیا میں ہی اس کے نتائج حاصل کر لئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کا مقصد تو ایسا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے قربت کے نئے سے نئے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے اور پھر مرنے کے بعد بھی اس دنیا کے عملوں کی اگلے جہان میں جزا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے لا محدود رحم اور فضل کے تحت ترقی ممکن ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے اور ایسے انعامات کا انسان وارث بنتا ہے جو انسان کی سوچ سے بھی باہر ہیں.صحابہ رِضْوَانُ الله عَلَيْهِم نے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کیں اور رضی اللہ عنہ“ کا اعزاز پایا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کے افراد کو اسی طرح ترقی کی منازل طے کرتا دیکھنا چاہتا ہوں جس سے وہ اپنے مقصد پیدائش کو حاصل کر کے پھر اس کے مدارج میں ترقی کرتے چلے جائیں ان کے درجے بلند ہوتے چلے جائیں ، اور وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں.آپ نے فرمایا کہ میری جماعت میں ایسے لوگ ہوں جو قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر بطور گواہ ٹھہریں.کیا قرآن کریم جو اللہ تعالیٰ کی آخری اور مکمل کتاب ہے اس کی عظمت ہماری گواہی سے ہی ثابت ہوگی؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی،سب سے پیارے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اُن کی عظمت ہمارے کسی عمل کی مرہونِ منت ہے؟ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے عملوں میں ایک انقلاب قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چل کر ظاہر ہو.اور اس طرح ظاہر ہو کہ دنیا کہہ سکے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگیوں میں یہ انقلاب قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم پر عمل کر کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چل کر آیا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی جو عبادت کرنے کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے سے ہوتی ہے، اس کا حق ادا کرنے والے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی جو ہر قسم کے خلق کی اعلیٰ مثال قائم کرنے سے ہوتی ہے اُس کا حق ادا کرنے والے ہیں.پس جس طرح کہ مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے اس میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہمارے ایک جاپانی غیر مسلم وکیل دوست نے ، آپ کی جونئی جگہ خریدی گئی ہے جس کا نام ”مسجد بیت الاحد رکھا گیا ہے، ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے اس کے مختلف مواقع پر جو بھی روکیں پیدا ہوتی رہیں ان میں انہوں نے بے لوث مدد کی.وہ اس وجہ سے کہ جماعت کے حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے کی گئی مختلف
خطبات مسرور جلد 11 610 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء کوششوں جو زلزلوں اور سونامی کے دوران میں کی گئیں اُن کاموں کی اُن کی نظر میں بہت اہمیت تھی اور انہوں نے کہا کہ جماعت کے جاپان پر بہت احسانات ہیں جس کی وجہ سے میں یہ کام بلا معاوضہ کروں گا.بہر حال جماعت نے اگر کوئی کام کیا تو کسی احسان کی غرض کے لئے نہیں بلکہ اپنا فرض ادا کیا اور کرنا چاہئے جہاں بھی وہ کسی کو کسی مشکل میں دیکھیں.لیکن انہوں نے بہر حال اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا اور جماعت کی اس تھوڑی سی خدمت کو سراہتے ہوئے وہ جماعت کے قریب آئے.تو یہ حقوق العباد کی ادائیگی کا کام تو ہم نے کرتے رہنا ہے، چاہے کوئی ہمارے کام آئے یا نہ آئے.اور یہی حقوق العباد کا کام ہے جو جب ہم یہ بتائیں گے اور بتانا چاہئے کہ قرآن کریم کی تعلیم ہے اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہے اور ہمیں حکم ہے کہ مخلوق کی خدمت کرو.تو مزید اس تعارف میں وسعت پیدا ہوگی ، مزید لوگ ان جاپانی وکیل جیسے سامنے آئیں گے جو جماعت کی خدمات کو سراہیں گے، جن پر اسلام کی حقیقی تعلیم روشن ہوگی.اسلام کا تعارف بڑھے گا اسلامی تعلیم کی عظمت ان پر قائم ہوگی اور یوں تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے.یہ مسجد بیت الاحد جس کو انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ میں نے کہا جو معمولی قانونی تقاضے رہ گئے ہیں اُن کے پورا ہونے کے بعد مسجد کی شکل بھی دے دی جائے گی.تو اس سے جماعت کا مزید تعارف بڑھے گا.مزید قرآن کریم کی تعلیم کا تعارف کروانے کا موقع ملے گا اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش بھی تھی اور آپ نے فرمایا بھی ہے کہ ان لوگوں کا اسلام کی طرف رحجان پیدا ہورہا ہے اس لئے کہ یہ لوگ نیک فطرت لگتے ہیں اس لئے اسلام کی طرف رحجان پیدا ہو رہا ہے، اس لئے ان کے لئے اسلام کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے آپ نے فرمایا کہ اسلام کے تعارف پر مشتمل جاپانی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی جائے.(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 371-372.مطبوعہ ربوہ) تو بہر حال اس کتاب پر بھی کام ہو رہا ہے.آپ لوگ جو یہاں رہنے والے ہیں، جن کی اکثریت پاکستانیوں اور پرانے احمدیوں پر مشتمل ہے، آپ کو اپنی عملی حالتوں کی طرف نظر کرنی ہو گی کہ اب پہلے سے بڑھ کر لوگ آپ کی طرف دیکھیں گے.آپ جب تبلیغ کریں گے، اسلام کا پیغام پہنچائیں گے تو لوگ آپ کی عملی حالتوں کی طرف دیکھیں گے کہ وہ کیا ہیں؟ یہ لوگ یہ نہیں دیکھیں گے کہ آپ نے اس مسجد کے بنانے کے لئے کیا قربانیاں دیں؟ لوگ دیکھیں گے کہ آپ کی عملی حالت کیا ہے؟ آپ کا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق کیسا ہے؟ آپ میں
خطبات مسرور جلد 11 611 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء شامل ہو کر اُن لوگوں میں کیا انقلاب آ سکتا ہے؟ دنیاوی لحاظ سے تو یہ لوگ آپ سے بہت آگے ہیں.ظاہری اخلاق بھی ان کے بہت اعلیٰ ہیں.کوئی نئی چیز اگر ہم ان کو دے سکتے ہیں تو خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا طریق سکھا سکتے ہیں.ہم یہی ان کو بتا سکتے ہیں کہ اب زندہ مذہب صرف اسلام ہے.ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق کس طرح ادا ہوتا ہے؟ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح دعاؤں کو سنتا ہے؟ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کس طرح کلام کرتا ہے؟ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لئے ہمیں اپنے جائزے لینے ہوں گے.خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا.اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہوگی.اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے ہوں گے.آپس میں محبت اور پیار سے رہنا ہوگا.اپنے اخلاق کے وہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہوں گے جو جاپانی قوم کے اخلاق سے بہتر ہوں.جیسا کہ میں نے کہا ظاہری اخلاق تو ان میں بہت ہیں.انسانی ہمدردی بھی ان میں ہے.احسان کا بدلہ احسان کر کے ادا کرنے کی اسلامی تعلیم پر بھی یہ عمل کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے فرمایا ہے کہ ان لوگوں میں جو توجہ پیدا ہوئی ہے، یہ کسی سعادت مندی کی وجہ سے ہے اس لئے ان کو اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے.پس اس سعادت سے جو ان لوگوں میں ہے، بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے.جو اخلاق ان میں ہیں ان اخلاق سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں اسلام کا حسن انہیں دکھانا ہوگا خدا تعالیٰ کا بندہ سے تعلق کا عملی نمونہ انہیں دکھانا ہو گا.اس کے لئے یہاں رہنے والے ہر احمدی کو قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو ہر وقت سامنے رکھنا ہو گا.پس اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں.اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو راہنمائی فرمائی ہے اس کی جگالی کرتے رہیں.ان میں سے بعض باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پہلی بات تو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ عہدوں کے بارے میں پوچھے گا.جو تم نے عہد کئے ہیں اُس کے بارے میں پوچھے گا.اور اس زمانے میں ہم نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت کیا ہے، اتنا کافی نہیں کہ ہم نے بیعت کر لی اور احمدی ہو گئے.جو پرانے احمدی ہیں وہ خلافت کے ہاتھ پر بیعت کی تجدید کرلیں اور اتنا ہی کافی سمجھیں.عہد بیعت ایک مطالبہ کرتا ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دس شرائط بیعت کی صورت میں ہمارے سامنے پیش فرمایا.اگر اس کا خلاصہ بیان کریں تو یہ ہے کہ ہر حالت میں دین، دنیا پر مقدم رہے گا.ہم ہمیشہ یہ کوشش کریں گے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں.
خطبات مسرور جلد 11 612 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : تم دیکھتے ہو کہ میں بیعت میں یہ اقرار لیتا ہوں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.یہ اس لیے تاکہ میں دیکھوں کہ بیعت کنندہ اس پر کیا عمل کرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 350 - مطبوعہ ربوہ ) آپ نے فرمایا کہ: "اگر کوئی دنیاوی کام ہو تو اس کے لئے تم بڑی محنت کرتے ہو تب جا کر اس میں کامیابی حاصل ہوتی ہے لیکن دین کے لئے محنت کرنے کا در دنہیں ہے، وہ کوشش نہیں ہے جس سے ہر وقت خدا تعالیٰ سامنے رہے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش رہے.ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ 329 - مطبوعہ ربوہ ) آپ فرماتے ہیں مجھے سوز و گداز رہتا ہے کہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو.جو نقشہ اپنی جماعت کی پاک تبدیلی کا میرے دل میں ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا اور اس حالت کو دیکھ کر میری وہی حالت ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ.(الشعراء:4)‘ یعنی تو شاید اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مؤمن ہوتے.فرمایا کہ ”میں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رٹ لئے جاویں، اس سے کچھ فائدہ نہیں.تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 351-352 - مطبوعہ ربوہ ) اپنے نفس کو کس طرح پاک کرنا ہے یہ جاننے کی کوشش کرو.آپ نے بیعت میں آنے کے بعد کی اصل غرض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ : تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ.اس لئے ہر ایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ میں اور ہوں.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 352 - مطبوعہ ربوہ ) یعنی جو پہلے تھا، وہ نہیں رہا.پس یہ درد ہے جو ہمیں محسوس کرنے کی ضرورت ہے.یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن لوگوں کے لئے کہے جو آپ کی صحبت سے فیض یاب ہورہے تھے.اگر ان کا معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق نہیں تھا اور کمیاں تھیں تو ہمارے زمانے میں تو یہ کمیاں کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور ان کو دور کرنے کے لئے ہمیں کوشش بھی کئی گنا بڑھ کر کرنی ہوگی.تبھی ہم آپ کے درد کو ہلکا کرنے والے بن سکیں گے.اب یہ جو آپ علیہ
خطبات مسرور جلد 11 613 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء السلام نے فرمایا کہ تم لوگوں کی یہ حالت دیکھ کے میری یہ حالت ہے کہ اپنے آپ کو ہلاک نہ کرلوں کہ کیوں نہیں مومن ہوتے؟ اس کا مطلب غیروں کے لئے تو بے شک یہ ہے کہ وہ ایمان کیوں نہیں لاتے لیکن یہاں آپ کو اپنوں کے لئے فکر ہے اور یہ فکر ہے کہ وہ مقام حاصل کیوں نہیں کرتے جو ایک مومن کے لئے ضروری ہے.قرآن کریم نے ایسے ماننے والوں کے لئے یہ فرمایا ہے کہ یہ تو کہو کہ ہم اسلام لائے، فرمانبرداری اختیار کی ، نظامِ جماعت میں شامل ہو گئے ، یہ مان لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں.یہ مانتے ہیں کہ آنے والا مسیح موعود اور مہدی موعود جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی وہ آگیا ہے.اور ہم نے اس کی بیعت کر لی ہے اور اُس میں شامل ہو گئے لیکن ایمان ابھی کامل طور پر تم میں پیدا نہیں ہوا.ایمان کے لئے بہت سی شرائط ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے.مثلاً مومن سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے.اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا مطلب ہے کہ ہر دنیاوی چیز اور رشتے کو خدا تعالیٰ کے مقابل پر اہمیت نہ دینا ، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کی شرط رکھی ہے.یعنی نیک عمل بھی ہوں اور موقع اور مناسبت کے لحاظ سے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی ہوں.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جو حکم دیئے ہیں اُن میں عبادت کا حق ادا کر نے کے ساتھ جو انتہائی ضروری ہے فرمایا مومن وہ ہے جو اصلاح بین الناس کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے آپس میں اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، فساد اور فتنے نہیں ڈالتے.ان کے مشورے دنیا کی بھلائی کے لئے ہیں، نقصان پہنچانے کے لئے نہیں.مومن وہ اعلیٰ قوم ہیں جو نیکی کی ہدایت کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں.مومن وہ ہیں جو امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہیں.جو اپنے عہد کی پابندی کرنے والے ہیں.جو سچائی پر قائم رہنے والے ہیں.جو قولِ سدید کے اس قدر پابند ہیں کہ کوئی پیچ دار بات ان کے منہ سے نہیں نکلتی.اپنوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دیتے ہیں.وہ ایک دوسرے کی خاطر قربانی کے جذبے سے سرشار ہیں.صحابہ نے ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا ایسا نمونہ دکھایا کہ اپنی دولت، گھر کا سامان، جائیداد غرض کہ ہر چیز ایک دوسرے کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.پھر مومن کی یہ نشانی ہے کہ حسنِ ظن رکھتے ہیں، ہر وقت بدظنیاں نہیں کر لیتے.سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے ایک دوسرے کے خلاف دل میں کینے اور بغض نہیں بھر لیتے.اگر آپ لوگ، ہر ایک ہر فرد جماعت اس ایک بات پر ہی سو فیصد عمل کرنے لگ جائے تو یہاں ترقی کی رفتار بھی کئی گنا بڑھ سکتی ہے.
خطبات مسرور جلد 11 614 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.اگر یہاں جاپانی عورتوں سے جنہوں نے شادیاں کی ہیں ہر ایک بیویوں سے اسلامی تعلیم کے مطابق حسنِ سلوک کرنے لگ جائے تو یہ بات اُن کے سسرالی عزیزوں میں تبلیغ کا ذریعہ بن جائے گی.پھر مومن ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں اور صرف نظر کرنے والے ہیں.پھر مومن عاجزی دکھانے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا ہے کہ: بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 18) عاجزی دکھاؤ گے ہر ایک سے کم تر اپنے آپ کو سمجھو گے تبھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے بن سکو گے.پس اگر اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہیں تو عاجزی شرط ہے.تکبر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے.عہدیدار بھی اپنے دائرے میں عاجزی اختیار کریں اور افراد جماعت بھی عاجزی اختیار کریں.غصہ کو دبانے والے ہوں.یہ ایک مومن کی نشانی ہے.اپنے عہدوں کو پورا کریں جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عہدوں کے بارے میں پوچھے گا.اور ہم نے اس زمانے میں جو عہدِ بیعت کیا ہے اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور اسے پورا کرنے اور نبھانے کی ضرورت ہے اور یہ اس صورت میں ہوگا جب ہم ہر نیک عمل بجالانے والے ہوں گے.اپنی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو جماعت کا مقصد بیان فرمایا ہے اُس کے مطابق چلنے والے ہوں گے.پس میں اس وقت زیادہ تفصیل میں تو یہ احکامات بیان نہیں کرسکتا، بے شمارا حکامات ہیں.ہر ایک اپنے جائزے لے کہ کیا وہ قرآنی احکامات کے مطابق زندگی گزارنے والا ہے؟ کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر آپ کی خواہش کو پورا کر نے والا ہے؟ کیا اس کا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو شعر میں نے پڑھا ہے.کہ بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں یہ حالت اگر ہم میں سے ہر ایک پر طاری ہو گی تو تبھی ہم دوسروں کو معاف کرنا بھی سیکھیں گے، بدظنیاں کرنے سے بھی بچیں گے اور جماعت کی
خطبات مسرور جلد 11 615 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء ترقی کے لئے مفید وجود بنیں گے.پس ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے در داور فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے.یہی باتیں ہیں جو تزکیہ نفس کا باعث بنتی ہیں.آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے پیدا کر یں.ایک دوسرے کے نقص اور خامیاں تلاش کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی خوبیاں تلاش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ”ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنی باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 175 - مطبوعہ ربوہ ) فرمایا: ” تم یا درکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے تو خدا تمام روکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 175 مطبوعہ ربوہ ) اعلیٰ کام جس کی طرف توجہ دلائی ، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو پھیلانے کے لئے سعی کرو، کوشش کرو.اس وقت جس کامیابی کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے وہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنا اور آپ کی بعثت کا مقصد بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا اور اس سے زندہ تعلق پیدا کروانا ہے.اسی طرح مخلوق کے جو ایک جو دوسرے پر حق ہیں اُن کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا اور اُن کی ادائیگی کرنا ہے.اور یہ سب کچھ اُس وقت ہوسکتا ہے جب ہم کامل مومن بننے کی کوشش کریں تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہر جگہ تک پہنچا سکیں.پس پھر میں کہتا ہوں کہ ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.جاپان کی جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے، اس میں اگر چند ایک بھی ایسے ہوں جو اپنے قول و فعل میں تضاد ر کھتے ہوں تو جماعت میں یہ بات ہر ایک پر اثر انداز ہوتی ہے، خاص طور پر نو جوانوں اور بچوں پر اس کا ایسا اثر پڑتا ہے کہ وہ دین سے دُور ہٹ سکتے ہیں.جو جاپانی احمدیت کے قریب ہیں وہ بھی ایسی باتیں دیکھ کے دور ہٹ جائیں گے.جو جاپانی عورتیں یا مرد احمدی مرد یا عورت سے شادی کے بعد احمدیت کے قریب آئے ہیں، وہ بھی دور چلے جائیں گے.پس یہ بہت فکر کا مقام ہے.سب سے پہلے اس
خطبات مسرور جلد 11 616 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء کی ذمہ داری صدر جماعت اور مشنری انچارج کی ہے کہ وہ ایک باپ کا کردار ادا کرے اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہے.اپنے عہدہ کے لحاظ سے بھی ، اپنے علم کے لحاظ سے بھی سب سے بڑی ذمہ داری اُسی کی ہے اور وہ اس کے لئے پوچھا جائے گا.لاعلمی ہو، بے علمی ہو، کم علمی ہو تو اور بات ہے لیکن جب سب کچھ ہو اور پھر اُس پر عمل نہ ہو تو زیادہ سوال جواب ہوتے ہیں.اور افراد جماعت میں سے بھی ہر ایک جو ہے وہ اپنے جائزے لے.پھر ہر جماعتی عہد یدار کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اپنے عہدوں کا حق ادا کر رہا ہے؟ کیا کہیں اس حق کے ادا نہ کرنے سے وہ جماعت میں بے چینی تو نہیں پیدا کر رہا؟ پھر ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہیں، اُن کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.ہر ایک اپنی امانتوں اور عہدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کس حد تک تم نے ادا کئے.اجلاسوں میں، جلسوں میں جو پروگرام ہیں ، وہ جاپانی زبان میں ہونے چاہئیں.یہ بھی مجھے بعض شکوے پہنچتے ہیں کہ جو جا پانی چند ایک ہیں اُن کو سمجھ نہیں آتی کہ اجلاسوں میں کیا ہورہا ہے.جن عورتوں کو یا مردوں کو جاپانی زبان اچھی طرح سمجھ نہیں آتی اُن کے لئے اردو میں ترجمہ کا انتظام ہو.نہ کہ اردو پروگرام ہوں اور جاپانی میں ترجمے ہوں.یہاں بات الٹ ہونی چاہئے.سارے اجلاسات جاپانی میں ہوں اور ترجمہ اردو میں ہو.جاپانی احمدیوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے پروگراموں کا حصہ بنائیں، ان سے تقریریں بھی کروائیں ، ان کو نظام بھی سمجھا ئیں اور ان سے دوسری خدمات بھی لیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا، اب ایک نئی مسجد انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی بن جائے گی ، اس سے تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے.ان راستوں پر ہر احمدی کونگران بن کر کھڑا ہونا پڑے گا تا کہ جو ان راستوں پر چلنے کے لئے آئے ، جو ان کی تلاش کرنے کی کوشش کرے، وہاں ہر پرانا احمدی جو احمدیت کے بارے میں علم رکھتا ہے راہنمائی کے لئے موجود ہو.اور جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، یہ کام نہیں ہوسکتا اگر ہر ایک کا خدا تعالیٰ سے تعلق قائم نہ ہو، اُس احد خدا کی عبادت کا حق نہ ہوجس کے نام پر یہ مسجد بنائی جا رہی ہے، اُس احد خدا کی غنی کا ادراک نہ ہو جس کا کسی سے رشتہ نہیں.اُس کے لئے معزز وہی ہے جو تقویٰ پر چلنے والا ہے، عبادتوں کا حق ادا کرنے والا ہے اور اعمالِ صالحہ بجالانے والا ہے، مخلوقِ خدا کی رہنمائی اور اُسے خدا تعالیٰ کے حضور جھکانے کی کوشش کرنے والا ہے.آپس میں ایسے مومن بن کر رہنے والا ہے جور حماء بینھم کی مثال ہوتے ہیں.پس ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ صرف عہدیدار ان کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھے کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف عہدیداروں کی غلطیاں نکالنے پر مصروف نہ ہو
خطبات مسرور جلد 11 617 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء جائے بلکہ اپنے جائزے لے کر اپنے آپ کو خدائے واحد و یگانہ کے ساتھ تعلق جوڑنے والا بنائے، خدائے رحمان سے تعلق جوڑ کر عبد رحمان بنے.اور اس مسجد کا حق ادا کرنے کی تیاری کریں جو انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب آپ کو ملنے والی ہے.اپنی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ دلانے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے، اپنی کوشش سے نہیں ہوتا.اُس کے لئے دعاؤں کی بھی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگنے کی بھی ضرورت ہے، عاجزی کی بھی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ مسجد کے بارے میں کچھ تفصیل بتاؤں گا.جو تفصیل میرے سامنے آئی ہے، وہ اس وقت سامنے رکھتا ہوں.پرانا جو مشن ہاؤس 1981ء میں خریدا گیا تھا، اُس کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے.وہ ایک چھوٹا سا مکان تھا.لیکن بہر حال مسجد بیت الاحد کا رقبہ تقریباً تین ہزار مربع میٹر ہے اور ساٹھ فیصد حصہ مسقف ہے، چھتا ہوا ہے.نماز کا ہال ہے جس میں بیک وقت پانچ سو نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں.کمرے اور رہائشی کوارٹرز ہیں، تقریباً آٹھ لاکھ ڈالر میں اخراجات سمیت اس کی خرید کی گئی ہے.بہر حال جب آپ کو توجہ دلائی گئی کہ نیا مرکز خریدیں تو جیسا کہ پہلے میں ذکر کر چکا ہوں، جماعت جاپان نے مالی قربانیاں کیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جگہ خرید لی.چھوٹی سی جماعت ہے لیکن اللہ کے فضل سے بڑی قربانی کی ہے، اس لحاظ سے بہت سے لوگوں نے بڑی بڑی رقمیں ادا کی ہیں.بچوں نے اپنے جیب خرچ ادا کئے ،عورتوں نے اپنے زیور ادا کئے اور بعض نے اپنے پاکستان میں گھر بیچ کر رقمیں ادا کیں یا کوئی جائیداد بیچ کر رقم ادا کی.بعض نے اپنے قیمتی اور عزیز زیور، پرانے بزرگوں سے ملے ہوئے زیور، بیچ کر مسجد کے لئے قیمت ادا کی.غرض کہ مالی قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانی کرنے کی آپ نے کوشش کی اور پیش کیں.اللہ تعالیٰ یہ سب مالی قربانیاں قبول فرمائے اور آپ لوگوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے.اب جیسا کہ میں نے کہا تھا مسجد کی جو رجسٹریشن ہے وہ آخری مراحل میں ہے، اگر پہلے ہو جاتی تو شاید یہ جمعہ وہیں ہوتا لیکن انشاء اللہ تعالیٰ امید ہے جلد مل جائے گی.اور کہتے ہیں کہ جن جاپانی وکیل کا میں نے ذکر کیا ہے، اگر وہ بھی فیس لیتے تو کم از کم ہیں ہزار ڈالرفیس ہوتی.تو یہ بھی اُن کا بڑا احسان ہے.اللہ تعالیٰ اُن کو جزا دے.
خطبات مسرور جلد 11 618 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء پس یہ مسجد کی جو کوشش ہے، یہ آپ نے چند مہینوں میں کی.ان کوائف سے ظاہر ہو گیا کہ جو مسجد کی جگہ ملی ہے یہ غیر معمولی طور پر ایک تو قربانیاں جو آپ نے کہیں وہ تو کہیں، اس کے ملنے کی جو تاریخ ہے وہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بغیر کسی سوچ کے اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور ایک دم انتظام ہو گیا.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.یہ جگہ ملنا آپ کی کوششوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ثمرہ ہے.اتنی وسیع جگہ آپ کو مل گئی ہے.ایسی جگہ ہے کہ میرے خیال میں چند ماہ پہلے تک تو آپ میں سے بعض تصور بھی نہیں کر سکتے ہوں گے کہ یہ جگہ مل سکتی ہے.پس یہ چیز ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانے والی ہو.لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ فضل جو آج جماعت احمدیہ پر دنیا میں ہر جگہ ہو رہے ہیں، یہ دشمنانِ احمدیت کے اُن بلند بانگ دعووں کا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ہے، اور جماعت احمدیہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اُس کی تائید کا فعلی اظہار ہے، جود شمن نے خلافت ثانیہ میں کئے تھے کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور احمدیت کو نعوذ باللہ ختم کر دیں گے.(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 177) اُس وقت حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید کی بنیاد رکھی تھی اور فرمایا تھا کہ اس کا جواب تبلیغ اور دنیا میں پھیل جانا ہے.(ماخوذ از خطبه جمعه فرموده 23 نومبر 1934ء الفضل قادیان جلد 22 نمبر 66 مؤرخہ 29 نومبر 1934 صفحہ 113-114) چنانچہ احباب جماعت نے اُس وقت بھی مالی قربانیاں دیں اور دنیا میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام بھی پھیلنا شروع ہوا.مبلغین باہر گئے ، مسجدیں بنیں اور انسانیت کی خدمت کے دوسرے کام بھی ہونے شروع ہوئے.ہسپتال بنے ، سکول بنے.قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے جو تھے اُن کا تو پتہ نہیں نام ونشان بھی ہے کہ نہیں لیکن جماعت احمد یہ آج دنیا کے دوسو سے او پر ممالک میں موجود ہے.ہر سال مسجد میں بھی بن رہی ہیں اور لاکھوں لوگ اسلام میں احمدیت کے ذریعہ شامل بھی ہو رہے ہیں.اس سال اللہ تعالیٰ نے مسجد کی صورت میں آپ کو ، جماعت احمد یہ جاپان کو بھی ایک انعام سے نوازا ہے جس کا بظاہر ملنے کا فوری طور پر کوئی امکان بھی نہیں تھا ، جیسا کہ میں بتا چکا ہوں.پس ہمارے سر اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر جھکتے چلے جانے چاہئیں اور اس کا حقیقی حق جیسا کہ میں نے کہا یہی ہے کہ اپنے اندر ایک ایسی پاک تبدیلی پیدا کریں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.تحریک جدید کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا اظہار جو ہو رہا ہے،اس کا ایک اور اظہار
خطبات مسرور جلد 11 619 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء کرنے کا مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تحدیث بھی ضروری ہے.اتفاق سے تحریک جدید کا نیا سال میرے اس دورہ کے دوران شروع ہو رہا ہے.یا یوں کہہ لیں کہ میرا یہ دورہ جو آسٹریلیا اور مشرق بعید کا دورہ ہے اس میں تحریک جدید کا گزشتہ سال ختم ہوا ہے جس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بے شمار نظارے کئے ہیں.اس دورے کے دوران بھی وہ نظارے دیکھے ہیں جو یقیناً ہماری کوششوں کا نتیجہ نہیں تھے.اس کی تفصیل تو انشاء اللہ تعالیٰ کسی اور وقت بتاؤں گا.جیسا کہ میں نے کہا، اس وقت تحریک جدید کا سال ختم ہوا تو میں نے سوچا کہ اس کا اعلان ، یعنی نئے سال کے آغاز کا اعلان بھی اس دورے کے دوران جاپان سے کردوں.پس اس وقت میں اس کے مختصر کوائف جو حسب روایت پیش کیا کرتا ہوں وہ کر کے تحریک جدید کے نئے سال کا جواشی واں سال شروع ہوا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ ، اُس کا اعلان کرتا ہوں.ان کوائف کے مطابق جور پورٹس آئی ہیں، بہت ساری رپورٹس نہیں بھی آتیں ، اُن کے مطابق اس سال تحریک جدید میں جماعت کو اٹھہتر لاکھ انہتر ہزار ایک سو پاؤنڈ (78,69,100 ) کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی اور جو گزشتہ سال سے تقریباً ساڑھے چھ لاکھ پاؤنڈ زیادہ ہے.اضافہ تو شاید زیادہ ہو، کیونکہ مقامی کرنسیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، لیکن پاؤنڈ کی قیمت کے مقابلے میں بہت سارے ممالک کی کرنسی کی قیمت کم ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ بظاہر کم نظر آتا ہے لیکن ملکوں کے لحاظ سے بہت بڑے بڑے اضافے ہوئے ہیں.پاکستان کی جو پوزیشن ہوتی ہے وہ تو قائم ہے ہی، اُس کے بعد پوزیشن کے لحاظ سے نمبر ایک جرمنی ہے، ویسے نمبر دو.لیکن پاکستان کے باہر ملکوں میں نمبر ایک جرمنی پھر امریکہ پھر برطانیہ پھر کینیڈا پھر انڈیا، انڈونیشیا، آسٹریلیا پھر عرب کی دو جماعتیں ہیں پھر گھانا اور سوئٹزرلینڈ.اور جرمنی اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اپنے لحاظ سے بھی بڑی چھلانگ لگائی ہے.انہوں نے تحریک جدید میں ہی ساڑھے تین لاکھ یورو سے زائد کا اضافہ کیا ہے.اور امریکہ سے تقریباً ایک لاکھ بیاسی ہزار پاؤنڈ زیادہ وصولی کی ہے.امریکہ نے برطانیہ سے پچہتر ہزار پاؤنڈ زیادہ وصولی کی ہے.اور برطانیہ نے کینیڈا سے چار لاکھ پاؤنڈ زیادہ وصولی کی ہے اور اُس کے بعد جیسا کہ میں نے تفصیل بتائی ، وہ ہے.جرمنی کے چندہ جات میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے مجھے ہمیشہ امیر صاحب جرمنی اور عاملہ کے یہ فکر والے الفاظ سامنے آجاتے ہیں کہ جب میں نے یہ پابندی لگائی تھی کہ وہ احمدی جو کسی ایسی جگہ کام کر رہے
خطبات مسرور جلد 11 620 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء ہوں جہاں حرام کام ہوتے ہیں، شراب بیچی جاتی ہے یا سور کا کاروبار ہوتا ہے، اُن سے چندہ نہیں لینا، تو اُن کی فکر یہ ہوتی تھی کہ ہمارے چندوں میں کمی آجائے گی.اور پہلے سال ہی جب انہوں نے فکر کا اظہار کیا تو اُن کے چندوں میں کئی لاکھ کا اضافہ ہوا اور کوئی کمی نہیں آئی.اور اس سال پھر انہوں نے صرف تحریک جدید میں ہی ساڑھے تین لاکھ یورو کا زائد چندہ ادا کیا ہے.اللہ تعالیٰ اُن کے اموال ونفوس میں برکت ڈالے.فی کس ادائیگی کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر ہے.پھر سوئٹزرلینڈ ہے، پھر آسٹریلیا ہے، پھر جاپان ہے.جاپان کی بھی چوتھی پوزیشن فی کس ادائیگی میں ہے.یعنی کہیں نہ کہیں نمبر آیا ہے.برطانیہ پھر جرمنی پھر ناروے،فرانس، جیم ،کینیڈا.اور مقامی کرنسی کے لحاظ سے جو اضافہ ہوا ہے سب سے زیادہ ،گھانا میں ہوا ہے، پھر جرمنی میں پھر آسٹریلیا میں پھر پاکستان پھر برطانیہ پھر کینیڈا پھر انڈ یا پھر امریکہ.اور میں نے کہا تھا اس سال چندہ ادا کرنے والوں کی طرف زیادہ توجہ دیں، شاملین کو زیادہ سے زیادہ کریں تو سوا دولاکھ نئے چندہ دہندگان شامل ہوئے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعداد گیارہ لاکھ چونتیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے.افریقہ کے ممالک میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے گھانا سب سے آگے ہے، پھر نائیجیریا، ماریشس ، بورکینافاسو، تنزانیہ، گیمبیا، ہین ، کینیا، سیرالیون اور یوگنڈا.شاملین میں سب سے زیادہ کوشش سیرالیون نے کی ہے، اُس کے بعد پھر مالی ہے، بورکینا فاسو ہے، گیمبیا ہے، بینن ہے، سینیگال ،لائبیریا، یوگنڈا، تنزانیہ.دفتر اول کے مجاہدین کی تعداد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک سوچھیں زندہ ہیں.باقی سب کے کھاتے چل رہے ہیں.تحریک جدید کی مالی قربانی میں پاکستان کی جو تین بڑی جماعتیں ہیں، اُن میں اول لاہور ہے، دوم ربوہ ہے ، سوم کراچی.اور اس کے علاوہ دس بڑی جماعتیں جو ہیں، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، کوئٹہ، شیخوپورہ، پشاور، حیدر آباد، بہاولنگر، اوکاڑہ ، نوابشاہ.قربانی پیش کرنے والے اضلاع جو ہیں اُن میں سیالکوٹ، سرگودھا، عمر کوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، بدین، نارووال، سانگھڑ، ننکانہ صاحب شامل ہیں اور رحیم یار خان اور ٹو بہ ٹیک سنگھ برابر ہیں.مجموعی وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی جماعتیں نوائس نمبر ایک پہ، روڈ ر مارک، کولن، ہائیڈل برگ،
خطبات مسرور جلد 11 621 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء کوبلنز ، ڈرائش، مهدی آباد، وائن گارٹن ، وزن برگ ، نڈا.اور وصولی کے لحاظ سے لوکل امارتیں اُن کی ہیں: ڈارم شد ، ہمبرگ ، فرینکفرٹ، گروس گراؤ، ویز بادن ، مورفیلڈن والڈارف ، آفن باخ، مئن ہائم ، ریڈشنڈ اور ڈیٹسن باخ.امریکہ کی جو وصولی کے لحاظ سے جماعتیں ہیں، لاس اینجلس، ان لینڈ امپائر ، سلیکون ویلی، ڈیٹرائٹ ، ہیرس برگ ، لاس اینجلس ایسٹ، کولمبس ہیٹل، لاس اینجلس ویسٹ ،سلور سکرین اور فیون ایکس.برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں.مسجد فضل، ویسٹ بل، نیومولڈن، ووسٹر پارک، ریز پارک، برمنگھم سینٹرل ، مسجد ویسٹ ، بیت الفتوح ، تھارٹن ہیتھ اور چیم.اور مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کے پانچ ریجن ہیں، لنڈن ، نارتھ ایسٹ ، مڈلینڈ ساؤتھ اور مڈل سیکس.کینیڈا کی جماعتیں ہیں، پیس ولیج ، کیلگری، وان، وینکوور، ایڈ منٹن، ڈرہم، آٹوا، سکاٹون ، لائٹ منسٹر.انڈیا کی دس جماعتیں ہیں، کیرولائی ( کیرالہ ) ، کالی کٹ ( کیرالہ)، حیدر آباد، آندھرا پردیش، کنا نور ٹاؤن ( کیرالہ ) ، ونگاڈی ( کیرالہ) ، قادیان (پنجاب)، کولکتہ (بنگال)، یادگیر(کرناٹک)، چنائی ، تامل ناڈو ، مو تھوٹم ( کیرالہ).کیرالہ کی جماعتیں ماشاء اللہ کافی ایکٹو (active) ہیں.اور بھارت کے پہلے دس صوبہ جات میں کیرالہ آندھرا پردیش ، جموں کشمیر، کرناٹک، بنگال، اڑیسہ، پنجاب، یو.پی ،مہاراشٹرا، دہلی.اس سال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ سے بھی اور انڈیا سے بھی دوسری جگہوں سے بھی مالی قربانی کے غیر معمولی نمونوں کے واقعات آئے ہیں، وقت نہیں ہے کہ اُن کی تفصیل بیان کی جائے.بہر حال کسی وقت بیان کر دی جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.اس سال جماعت کہا بیر نے بھی لکھا ہے، جب پتہ لگا کہ جاپان سے تحریک جدید کا اعلان ہونا ہے تو ہماری جماعت نے گزشتہ سال کے مقابلے میں اپنی قربانی بڑھا کر پیش کی.یہ عرب ممالک میں سب سے بڑی جماعت ہے.اپنے لحاظ سے انہوں نے دوگنی تقریباً ہیں ہزار پاؤنڈ کی قربانی دی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے جو کسی بھی صورت میں قربانی کر رہے ہیں اور تحریک جدید میں بھی جنہوں نے حصہ لیا، اُن کو بھی ، اُن کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت ڈالے
خطبات مسرور جلد 11 622 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء اور اُن کو ایمان اور ایقان میں بھی بڑھاتا چلا جائے.اور یہ قربانیاں خالصہ لِللہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کو قبول بھی فرماتا رہے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 29 نومبر 2013 ء تا 5 دسمبر 2013 ء جلد 20 شماره 48 صفحہ 5 تا 9)
خطبات مسرور جلد 11 623 46 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013 ء بمطابق 15 نبوت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ چند ہفتے ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور سنگا پور، جاپان وغیرہ کے دورے پر رہا ہوں.جیسا کہ عموماً میرا طریق ہے دوروں کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوتی ہے واپس آ کر اُس کا ذکر کیا کرتا ہوں.سو آج مختصر یہ ذکر آپ کے سامنے کروں گا.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو گنا اور اس کی انتہا جانا توممکن نہیں کیونکہ جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم فضلوں کی حدوں کو چھونے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ فوراہی ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے اور ہماری اس غلط نبی کو دور کر دیتا ہے کہ جن باتوں کوتم بیشمار فضل سمجھتے ہو ، یہ تو ابھی ابتدا ہے.اب میں تمہیں ایک قدم اور آگے بڑھاتا ہوں.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا شمار اور اُس کی انتہا جاننا انسانی بس سے باہر ہے.خاص طور پر جب اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کا سلسلہ ہر موڑ پر کھڑا ہمیں ایک اور خوشخبری سنا رہا ہو جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے ہیں اور جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی.فضلوں کی انتہا کا ذکر تو دور کی بات ہے، مجھے تو یہ مجھ نہیں آتی کہ کس فضل کو لے کر بات شروع کروں.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک خلاصہ میں پیش کروں گا جو ان سات ہفتوں کے دوران سفر میں ہمیں نظر آئے.ان جگہوں کی کچھ تفصیل تو وکیل النبشیر صاحب کی رپورٹس جو الفضل کو وہ بھیج رہے ہیں، اُس میں شائع ہو رہی ہیں، اُس میں سے بعض لوگوں نے پڑھ لی ہوں گی لیکن بعض باتوں کی تصویر کھینچنا، تصویر کشی کرنا اور بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا.غیروں کے تاثرات جو غیر جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کرتے
خطبات مسرور جلد 11 624 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء ہیں، ان کا سو فیصد بیان نہ میں کر سکتا ہوں، نہ کوئی اور کر سکتا ہے.ہاں ایم ٹی اے پر کچھ حد تک یہ دیکھے جا سکتے ہیں ، شاید کچھ آ بھی گئے ہوں.انگریزی دان طبقے کے لئے پریس ڈیسک نے اس دفعہ اچھا انتظام کیا ہوا تھا اور دورے کے جو مختلف خاص اہم مواقع تھے اُن کی خبر دنیا کے احمدیوں تک پہنچتی رہی ہے.بہر حال ہر دورہ اور ہر دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اُس کے شکر کے مضمون کی نئی آگاہی دیتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت مہیا کرتا ہے.بہر حال اب اس تمہید کے بعد میں حالات سفر اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتا ہوں.ہمارے دورے کی پہلی منزل سنگا پور تھی.سنگا پور ائیر پورٹ پر سنگاپور کے احمدیوں کے علاوہ انڈونیشیا اور ملائشیا کے بعض عہدیداران مرد و خواتین بھی آئے ہوئے تھے اور اُن سب کی ایک عجیب جذباتی کیفیت تھی جس کا کچھ اندازہ آپ کو ایم ٹی اے پر خطبے کے دوران بعض جھلکیاں دیکھ کے ہو گیا ہوگا.بہر حال سنگا پور کا یہ دورہ تقریباً دس دن کا تھا اور اس میں انڈونیشیا، ملائشیا، برونائی ، فلپائن، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، ویتنام، پاپوانیوگنی سری لنکا، انڈیا اور میانمار سے آنے والے احمدیوں اور وفود سے ملاقات ہوئی.انڈونیشیا سے تقریباً اڑھائی ہزار کی تعداد میں احمدی آئے ہوئے تھے اور ان میں سے اکثر احمدی کوئی ایسے اچھے کھاتے پیتے نہیں تھے لیکن وفا اور اخلاص سے پر تھے.بعض قرض لے کر یا اپنی کوئی چیز بیچ کر یا جائداد بیچ کر سفر کا خرچ کر کے آئے تھے.جیسا کہ میں پہلے بھی ایک دفعہ شاید سفر کے دوران کسی خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ ان لوگوں کو فکر تھی تو یہ کہ ہمارے دین کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دین پر قائم رکھے.ان میں سے وہ لوگ بھی تھے جو بڑے عرصے سے تقریباً ایک سال سے گھر سے بے گھر ہیں.وہاں کے رہنے والوں نے اُن کو اُن کے گھروں سے نکال دیا ہے اور عارضی shelter میں رہ رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ایمان کو قربان نہیں کیا ہے بلکہ ان کے ایمان مزید مضبوط ہوئے ہیں.اس کے علاوہ جو جماعتی مصروفیات ہوتی ہیں، meetings ہیں، ملاقاتیں ہیں، کلاسیں ہیں.غیروں کے ساتھ جو دوسرے پروگرام تھے، وہ یہاں سنگا پور میں بھی ہوئے.ایک پروگرام reception کا تھا،جس میں انڈونیشیا سے آنے والے غیر از جماعت بھی شامل تھے، جن میں پروفیسر بھی تھے، سکالرز بھی تھے، سیاستدان بھی تھے.پڑھا لکھا طبقہ تھا اُن میں سے بعض جرنلسٹ بھی تھے.دو اخباروں کے جرنلسٹ بھی آئے ہوئے تھے.انہوں نے انٹرویو لیا اور جماعت کے بارے میں تعارف اور جو کچھ جماعت کے ساتھ وہاں ہو رہا ہے اُس کے بارے میں اُن سے کچھ باتیں ہوئیں.مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے
خطبات مسرور جلد 11 625 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء والے جو احباب شامل ہوئے اُن میں جیسا کہ میں نے کہا غیر از جماعت بھی تھے، ان کی تعداد اڑتالیس افراد پر مشتمل تھی.ان میں یونیورسٹی کے پروفیسر، سابق ممبر پارلیمنٹ، ایک مذہبی جماعت ہی کے العلماء کے آٹھ نمائندگان بھی اس میں شامل ہوئے اور اُن میں سے ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.لیکچر جو تھوڑا سا مختصر خطاب تھا وہ سننے کے بعد کہنے لگے کہ انڈونیشیا آ کے ہماری یو نیورسٹی میں بھی لیکچر دیں ہم وہاں arrange کرتے ہیں.میں نے کہا اگر آپ کر سکتے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے لیکن جو لوگ وہاں شور مچائیں گے اس کا شاید آپ کو اندازہ نہیں.بہر حال اُن میں شرافت بہت تھی.بعض سعید فطرت تھے حالانکہ علماء کی کونسلوں کے ممبر تھے.سنگاپور کی اس reception میں وہاں کے ایک مہمان Mr.Lee Koon Choy بھی تھے.یہ 29 سال تک آٹھ ممالک میں سنگا پور کے سفیر اور ہائی کمشنر رہ چکے ہیں.ممبر آف پارلیمنٹ تھے.سینیٹر منسٹر آف سٹیٹ رہ چکے ہیں اور سنگا پور کے بانیوں میں سے ہیں.انہوں نے کہا کہ جب میں ساٹھ کی دہائی میں مصر میں سفیر تھا اُس وقت مصر کے اور سارے عرب کے حالات بہت اچھے تھے، امن قائم تھا لیکن اب گزشتہ سالوں سے عرب ممالک میں امن بر باد ہو گیا ہے اور اسلام کا ایک غلط تاثر پیش کیا جا رہا ہے.کہنے لگے : لیکن مجھے اس بات سے خوشی ہے اور میں اس بات کو سراہتا ہوں کہ احمد یہ مسلم جماعت کے سر براہ دنیا کے سامنے حقیقی اور پرامن اسلام کا نام روشن کر رہے ہیں اور پیغام دے رہے ہیں.یہ ابھی بھی باوجودیکہ ریٹائر ہو چکے ہیں، سنگا پور کے ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کی وہاں کا ہر شخص بڑی عزت اور احترام کرتا ہے.اسی طرح Indonesian Mosuqe Council's Muslimah Talent Department کے ہیڈ اور سٹیٹ اسلامی یونیورسٹی جکارتہ میں ویمن سٹڈی سینٹر کے ہیڈ اور لیکچرر M۲۰ Ida Rosyidah نے میرا خطاب سننے کے بعد کہا کہ جماعت کو چاہئے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے علوم و فنون، ترقی پذیر ممالک میں لے کر جائے اور اس طرح یہ عالمی نا انصافی اور غربت سے لڑنے کے لئے سب کی رہنما جماعت بنے.یہاں جو میرا الیکچر تھا وہ دنیا کی اقتصادی حالت اور اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے کے موضوع پر تھا.تو اس بات پر انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا.کہتے ہیں آج دنیا کی کسی بھی تنظیم کے پاس اس قسم کا نظام اور قیادت نہیں ہے جو جماعت احمدیہ کے پاس ہے.آج جماعت احمدیہ ہی اسلام کا صحیح نمونہ ہے.اور یہ وہاں کی اسلامی یو نیورسٹی کے پروفیسر ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 626 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء پھر تاسک ملایا میں یوتھ موومنٹ کے ایک ممبر ہیں، وہ خطاب کے بعد کہنے لگے کہ یہ تمام انڈو نیشین لوگوں تک پہنچنا چاہئے تا کہ وہ امن اور ہم آہنگی پر مشتمل اسلامی تعلیمات کو سمجھ سکیں.پھر ایک Mr Kunto Sofianto صاحب ہیں.یہ پی ایچ ڈی ہیں.انڈونیشیا میں یونیورسٹی پروفیسر ہیں.انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ انڈو نیشیا کے وہ لوگ جو احمدیوں کے مخالف ہیں وہ خلیفہ اسیح سے ملیں اور ان کی باتیں سنیں تا کہ اُن کے دل کھلیں.آج صرف جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہی ہیں جو اسلام کو امن پسند مذہب کے طور پر پیش کر رہے ہیں.پھر انڈونیشین اخبار ٹریبیون جابار (Tribune Jabar) کے جرنلسٹ جو احمدیت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ خلیفہ اسیح نے انسانیت، انصاف اور امن پر مبنی اقتصادی نظام کے بارے میں جو تعلیمات بیان کی ہیں اس نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے.ایک انگریز نو جوان سنگاپور میں گزشتہ ستائیس سال سے مقیم ہیں اور وہاں انہوں نے اسلام قبول کیا.وہیں ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ جب میں نے پروگرام میں شامل ہونے کا ارادہ کیا تو میری کمپنی والوں نے مجھے روکا کہ اس پروگرام میں شامل نہیں ہونا.دو تین بار روکا.ہوسکتا ہے یہ کسی مسلمان کی ہو.کہتے ہیں مجھے یہ بھی کہا کہ تمہیں فارغ کر دیں گے.لیکن اس کے باوجود میں شامل ہوا.پھر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ میں پہلے سے مسلمان ہوں لیکن اسلام کی جو سچی اور حقیقی تعلیم آج سنی ہے وہ زندگی میں پہلی بار سنی ہے اور اسلام کی یہ تصویر پہلی مرتبہ دیکھی ہے.بلکہ اس بات پر بھی مائل تھے کہ اسلام احمدیت کے بارے میں مزید معلومات لوں گا تا کہ مجھے صحیح اسلام کا پتہ لگ سکے اور میں جماعت میں شامل بھی ہونا چاہوں گا اور جب یہاں یو کے آؤں گا تو ملوں گا.بہر حال اللہ تعالیٰ کرے.اللہ ان کا سینہ کھولے.فلپائن سے بھی کچھ لوگ آئے ہوئے تھے.اُس کی یو نیورسٹی میں ایشین اور اسلامک سٹڈی کے پروفیسر نے یہ اظہار کیا.پہلے تو انہوں نے شکریہ ادا کیا کہ ان کو یہاں بلایا گیا ، آنے کا موقع دیا گیا، ملاقات ہوئی.اور پھر کہتے ہیں کہ جو باتیں ہوئیں (میرے ساتھ بیٹھ کے ان کی کافی باتیں ہوئیں ) اُن سے یہی اندازہ لگایا ہے کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو مسلمانوں کو اکٹھا کر سکتی ہے اور میرا کہا کہ انہوں نے اکٹھا کرنے کا جو طریق بتایا ہے یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم کی جو حقیقی تعلیم ہے اُس کی طرف واپس چلے جائیں.
خطبات مسرور جلد 11 627 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء اسی طرح فلپائن کے ایک سیکرٹری ایجوکیشن رہ چکے ہیں، یہ مسلمان ہیں.وہ کہتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کے بارے میں شہادت دیتا ہوں کہ یہ جماعت غالب آنے والی ہے.پھر کہتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا تھا آج اسی طرح جماعت احمدیہ پر ظلم ہو رہا ہے.جس طرح اسلام کو پہلے زمانے میں فتح حاصل ہوئی اُسی طرح آج جماعت احمدیہ کو بھی فتح حاصل ہوگی جو کہ یقینی ہے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں.احمدیت کو جب عظیم الشان فتح حاصل ہو گی تو ہم بھی اُس میں شامل ہوں گے.ان میں سے بعض دل سے تقریباً احمدی ہوئے ہوئے ہیں صرف بعض تنظیمیں وہاں ایسی ہیں جن کا اُن کو خوف ہے.یہاں جو مختلف پروگرام تھے ان میں سے اصل پروگرام یہی سنگا پور کی reception کا تھا، باقی تو جمعہ تھا اور ملاقاتیں تھیں.بہر حال اس کے بعد آسٹریلیا کا دورہ شروع ہوا.وہاں سڈنی (Sydney ) میں چند دن رہ کر میلبورن (Melbourne) میں گیا.میلبورن وہاں سڈنی سے کوئی آٹھ نو سو میل دور ہے.وہاں بھی Princess Reception Centre میں ایک reception تھی.اس میں تقریباً 220 کے قریب مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مہمان شامل ہوئے.جن میں ممبر آف پارلیمنٹ بھی تھے، فوج کے اعلیٰ افسران، بلکہ اُن کے فوج کے جو آرمی چیف ہیں اُن کے نمائندے بھی شامل ہوئے تھے، میجر جنرل کے rank کے آدمی تھے اور مختلف ممالک کے کونسلرز تھے.فیڈرل پولیس کے افسران تھے، پھر دوسرے مقامی کونسلر تھے، پروفیسر تھے ، اسی طرح مختلف لوگ تھے.ایک سٹیسٹ ممبر پارلیمنٹ وکٹوریہ Ms Inga Peulich نے کہا کہ آپ کا یہ پیغام ایسا پیغام ہے جس کی تمام آسٹریلین تائید کرتے ہیں جو کہ مختلف قوموں اور تمدنوں کے باہم اختلاط سے ایک قوم بنے ہیں اور بطور آسٹریلین ہم اس طرح کے اعلی پیغام کو اپنانا چاہتے ہیں اور اسی طرح آپ جیسے لوگوں سے مکمل تعاون کرتے ہیں جو ایسے پیغام کو پہنچارہے ہیں.یہاں بھی اسلام کا پیغام امن اور سلامتی کے بارے میں تھا.پھر ایک اور ممبر آف پارلیمنٹ کہتی ہیں آج جو پیغام آپ نے دیا ہے وہ مذہب سے بالا ہے.وہ انسانیت کا پیغام ہے.ہمیں سب کو یہی پیغام اپنانا ہے.امن، انصاف، رواداری اور خدمتِ انسانیت ایسی خوبیاں ہیں جو امام جماعت احمدیہ نے آج بیان کی ہیں.ہم نے انہی خوبیوں کو لے کر چلنا ہے.پھر کہتی ہیں کہ میں اس بات کو جانتی ہوں کہ احمدی عورتیں اس پیغام کو نہ صرف آگے پہنچا رہی ہیں بلکہ عملی طور پر اس پر عمل بھی کر رہی ہیں.کہتی ہیں کہ میں تو یہی جانتی ہوں کہ احمدی بچے با اخلاق تعلیم یافتہ اور انتہائی مؤدب
خطبات مسرور جلد 11 628 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء ہوتے ہیں.بس ہم سب کو یہی خوبیاں اپنانی چاہئیں.تو یہ ایک تاثر ہے جو احمدیوں کا دنیا میں اکثر جگہوں پر ہے.جرمنی میں بھی یا کہیں بھی جاؤں تو مجھے سے جب باتیں ہوں تو اس حوالے سے وہ ذکر کرتے ہیں.پس اس تاثر کو ہر عورت کو ، ہر بچے کو آگے بڑھانا چاہئے اور اپنی سوچ ہمیشہ اونچی رکھنی چاہئے.کسی قسم کے complex میں آنے کی ضرورت نہیں.یہ لوگ ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ہیں اور نہ صرف تیار ہیں بلکہ اُس کو پسند کرتے ہیں اور اپنا نا چاہتے ہیں.اسی طرح یہاں Church of Jesus Christ کے Murray Lobley صاحب تھے.کہتے ہیں کہ جس انداز سے امام جماعت احمدیہ نے امن کی بات کو انتہائی عام فہم الفاظ میں بیان کیا ہے ہر آسٹریلین اس کو با آسانی سمجھ سکتا ہے.آج اس ہال میں موجود ہر شخص کے دل کی یہی آواز تھی کہ امن کے قیام کے لئے محبت ہی واحد راستہ ہے اور بہت ہی اچھا ہوا کہ آج ہم یہ پیغام اپنے ساتھ اپنی اپنی communities میں لے کر جائیں گے.پھر ایک مہمان نے کہا کہ میں اور میری بیوی گزشتہ اٹھارہ سال سے سچ کی تلاش میں ہیں اور آج رات جو ہم نے سناوہ سچ کے سوا کچھ نہ تھا.امام جماعت کا خطاب ایک مکمل پیغام تھا.اب صرف ایک ہی بات ہے کہ ہم سب کو اس پر عمل کرنا چاہئے اور اس پیغام کو اپنے دلوں میں سجا لینا چاہئے.خلیفتہ اسیح نے صرف یہ نہیں بتایا کہ امن کیسے قائم ہو سکتا ہے بلکہ یہ بھی بتایا کہ اگر امن قائم نہ ہوا تو کیا ہوسکتا ہے.اسی طرح وہاں کا آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا ایک مشہور چینل اے بی سی ہے.سرکاری چینل ہے.اُس کے ایک جرنلسٹ نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا کہ امام جماعت کا خطاب انتہائی کمپا تلا اور متوازن اور منصفانہ تھا اور حقیقت پر مبنی تھا.اور اس خطاب نے ہمارے ذہنوں کو کھول دیا ہے.پھر ایک مہمان خاتون Adrienne Green نے کہا کہ میں بہت فخر محسوس کر رہی ہوں کہ آج میں نے ایک شاندار تقریب میں شمولیت کی اور میں بہت متاثر ہوں جو انہوں نے دنیا میں امن کے قیام کے بارے میں بات کی ہے.میں آج برملا یہ بات کہتی ہوں کہ مجھے آپ کے اقدار سے بہت محبت ہے اور میں خواہش کرتی ہوں کہ میرے ملک آسٹریلیا کے لوگ ان اقدار کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپنا ئیں اور میں چاہتی ہوں کہ آپ ضرور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا ئیں.ہمیں اس کی ضرورت ہے.اور یہ باتیں کہتے ہوئے موصوفہ کے آنسو نکل رہے تھے.ایک کونسلر Knox City کے تھے وہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں کہ امام جماعت کے
خطبات مسرور جلد 11 629 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء خطاب سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ آپ اس بات کا پر چار کرتے ہیں جو حقیقت میں آپ کا مذہب ہے، یعنی امن و سلامتی کا مذہب.امام جماعت نے بالکل درست فرمایا کہ امن کے ذریعہ مسائل کا حل ہی در حقیقت امن کا قیام ہے.اس ملک آسٹریلیا کی تاریخ دو سو سال پرانی ہے.یعنی Aboriginals جو اس زمین کے اصل مالک ہیں اُن کے علاوہ باہر سے آنے والے افراد تو دو سو سال قبل ہی یہاں آئے.آج ایک مذہبی لیڈر کو اتنا خوبصورت اور عظیم الشان پیغام دیتے دیکھ کر ایسا لگا کہ آسٹریلیا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا ہے.کہتے ہیں کہ میں نے یہی بات اپنی بیوی سے کہی تھی کہ جماعت احمدیہ کے افراد کے دلوں کی پر خلوص محبت اُن کے چہروں اور جذبات سے جھلکتی ہے.کیا ہی اچھا ہو کہ یہ احمد یہ کمیونی اور زیادہ باہر نکلے اور بہت سے لوگوں کو اپنا امن اور محبت کا پیغام پہنچا دے.پس اب آسٹریلیا کے احمدیوں کا کام ہے کہ اس کو لے کر آگے بڑھیں.ایک پاکستانی مسلمان بھی وہاں تھے.وہ کہتے ہیں کہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس پروگرام کا جو وقار تھا میں نے کسی اور تقریب میں کبھی نہیں دیکھا.صومالیہ کے کونسل جنرل بھی موجود تھے.کہتے ہیں میں نے ایک ایک لفظ آپ کا انہماک سے سنا اور بڑا اثر ہوا.وہاں کو یت کے ایک غالب جابر صاحب تھے.وہ کہتے ہیں کہ عرب سپرنگ کے بارے میں تجزیے سے بہت متاثر ہوا ہوں.اور یہ خطاب جو آپ نے کیا اس میں کافی نڈر لگے لیکن جو کچھ بھی آپ نے کہا وہ بالکل سچائی پر مبنی تھا.میرا یہ خیال نہیں تھا کہ تجزیہ اس قدر مکمل اور واضح ہوگا.یہاں تو بے شمار لوگ تھے، جیسا کہ میں نے بتایا 220 کے قریب لوگ تھے ، ہر ایک نے اپنے تأثرات دیئے ، چند ایک کا میں نے ذکر کیا ہے.اور اس کے بعد پھر جو ملاقات بھی ہوئی تو میں نے یہاں کے لوگوں میں دیکھا ہے کہ انتہائی اخلاص سے ملنے والے تھے.صرف ظاہری اخلاق دکھانے والے نہیں بلکہ لگ رہا تھا کہ اُن پر باتوں کا اثر بھی ہے.اور جن باتوں کا انہوں نے اثر لیا ہے اُس کا پھر انہوں نے علاوہ ان تاثرات کے مجھ سے ملتے ہوئے بڑا اظہار کیا.یہاں میلبورن میں احمد یہ سینٹر بھی لیا گیا ہے.پہلے کسی خطبہ میں اس کا ذکر نہیں کیا تھا اس لئے اس بارے میں بتا دوں کہ میلبورن میں ہم نے جو نیا سینٹ خریدا ہے یہ ساڑھے سات ایکڑ رقبہ پر ہے اور تعمیر شدہ ایک یہاں عمارت تھی جس کا رقبہ پچیس سو مربع میٹر ہے.اور اس رقبہ میں اوپر والا جو مین ہال ہے جس
خطبات مسرور جلد 11 630 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ہزار افراد نماز پڑھ سکتے ہیں اور اتفاق سے یہ تقریباً قبلہ رُخ بھی ہے اور اس بلڈنگ میں دوسرے ہال کو شامل کر کے مجموعی طور پر چار ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے.مشن ہاؤس، گیسٹ ہاؤس ، دور ہائشی یونٹ، لائبریری، ریڈنگ روم، کچن،سٹور اور اس کے علاوہ ایک اور چھوٹا ہال یہ سب اس میں موجود ہیں.اس کی تین پارکنگ ہیں جن میں دوسو سے زائد گاڑیاں کھڑی کی جاسکتی ہیں.اگست 2007 ء میں یہ درخواست یہاں جمع کروائی گئی تھی کہ ہم لینا چاہتے ہیں تو ہمسایوں نے کئی اعتراضات کئے کہ یہاں مسلمانوں کی عبادتگاہ بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ آخر ڈیڑھ سال کے انتظار کے بعد 2009ء میں سٹی کونسل نے اس سینٹر کو جماعت احمدیہ کو دینے کا فیصلہ کیا اور ایسا فیصلہ ہے کہ تمام کونسلرز نے بلا استثناء اس کے حق میں فیصلہ دیا.پہلے یہ ایک کلب تھا، پارک تھا، پھر اس کا status change کر کے اس کو کمیونٹی سینٹر اور مشن ہاؤس کے طور پر رجسٹر کر لیا.اور اس کے بعد جیسا کہ میں نے کہا ، لوگوں کی رائے بھی آپ نے سنی.اکثر لوگوں کی جماعت احمدیہ کے بارے میں رائے بالکل تبدیل ہو گئی ہے.اس سینٹر کی خرید پر آٹھ لاکھ ڈالرخرچ ہوئے تھے.پھر اس کو ٹھیک کیا گیا، مرمت کیا گیا، تقریباً ایک اعشاریہ تین ملین ڈالر خرچ ہوا.یعنی تیرہ لاکھ ڈالر.اس کے علاوہ وقار عمل جس طرح ہماری روایت ہے، اس کو کر کے پانچ لاکھ ڈالر کی بچت ویسے بھی کی گئی ہے.بہر حال اگر ویسے اس کی value دیکھیں تو یہ اس وقت مارکیٹ میں کم از کم پانچ ملین ڈالر کی ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بڑی سستی چیز یں اللہ تعالیٰ جماعت کو مہیا فرما دیتا ہے.پھر سڈنی میں واپس آئے.یہاں خلافت جو بلی ہال جو تعمیر ہوا ہے.اس کا افتتاح کیا.اس میں چودہ سو افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے.دو منزلہ دفاتر بنائے گئے ہیں.میٹنگ روم ہے، لجنہ کے اور دوسری تنظیموں کے دفاتر ہیں.بڑا مین (main) کچن ہے جس میں لنگر خانہ چلتا رہا.ان ڈور گیمز بھی ہال میں کھیلی جاسکتی ہیں.افتتاح کے موقع پر یہاں وزیر اعظم آسٹریلیا کی نمائندگی میں وہاں کی ایک ممبر آف پارلیمنٹ Concetta Fierravanti Wells آئی ہوئی تھیں.پھر فیڈرل ممبر آف پارلیمنٹ تھے.Minister for Citizenship تھے.اپوزیشن کے لیڈر تھے.اسی طرح بہت سارے ممبر آف پارلیمنٹ، پارلیمانی سیکرٹری فار لاء اینڈ جسٹس، پولیس کے افسران، ایر یا کما نڈر آف پولیس اور کونسلر اور مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے کافی لوگ یہاں شامل ہوئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں خلافت جوبلی کے بال کا افتتاح تھا اس لئے اسلام کی تعلیم ، جماعت احمد یہ کیا ہے؟ اور اب جماعت احمدیہ میں خلافت
خطبات مسرور جلد 11 631 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء کا کیا کردار ہے؟ اس بارے میں میں نے کچھ کہا تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا بھی بڑا اچھا اثر ہوا.ایک پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ امام جماعت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام کو انتہا پسندوں کے عمل نے بدنام کیا ہے.میں اس بات سے بہت متاثر ہوا ہوں.اس تنقید کا انہوں نے جس طرح امن کے پیغام کے ساتھ جواب دیا ہے، وہ بہت شاندار ہے.پھر ایک مہمان اندرا دیوی نے کہا کہ یہ جو خطاب تھا اس میں نہایت عمدہ اور اعلیٰ معلومات تھیں.میں اسلام کے متعلق کوئی کتا بچہ حاصل کرنا چاہوں گی جس کی مدد سے میں اسلام کو بہتر طور پر سمجھ سکوں.میں اسلام کے متعلق متذبذب ہوں لیکن عمومی طور پر یہ دعوت میرے لئے باعث عزت ہے.لیکن پھر متذبذب اس لئے ہیں کہ مسلمانوں کا بہت سا طبقہ ان باتوں کے خلاف کرتا ہے.پس اسلام کی حقیقی تعلیم اب جب اُن کو پتہ لگی تو بہر حال وہاں کے لوگوں کو چاہئے کہ ان سے رابطہ بھی رکھیں اور ان کولٹریچر مہیا کریں.یہاں بھی بڑے اچھے تاثرات اوروں نے بھی دیئے.پھر اس کے بعد آسٹریلیا میں برزبن (Brisbane) میں مسجد کا افتتاح ہوا ہے.وہ آپ نے خطبہ میں سن بھی لیا ہو گا.یہاں بھی اُس کے بعد ایک reception تھی.اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ آئے.ممبر آف پارلیمنٹ تھے، پولیس افسر، ڈاکٹر، پروفیسر، ٹیچر، انجینئر اور مختلف آرگنائزیشن کے لوگ اور چرچ کے لوگ ، پادری، ہمسائے سب شامل ہوئے.ایک ہمسائے Mr.Claus Grimm ہیں جو مذہبا یہودی ہیں.انہوں نے مسجد کی شدید مخالفت کی تھی لیکن مسجد بننے کے بعد اور جماعت احمدیہ کا رویہ دیکھنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کا رویہ بالکل بدلا ہوا تھا.پھر ایک دوسرے ہمسائے ہیں Mr.Ralph Grimm یہ بھی بڑے سخت مخالف تھے.لیکن جب ان کی غلط فہمیاں دور ہو گئیں تو دوست بن گئے اور جماعت کے حق میں پھر یہ آواز اُٹھانے لگ گئے.اسی طرح اور بہت سارے دوست ہیں.پھر وہیں کے ایک سٹی کونسل Logan کے ڈپٹی میئر ہیں.وہ کہتے ہیں کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی خدمت انسانیت میں بہت آگے ہے اور احمد یہ کمیونٹی کی اعلیٰ خدمات اُسے دیگر کمیونٹیز سے ممتاز کرتی ہیں جن میں ہر سال آسٹریلیا کا کلین آپ کے دوران صفائی کرنا ، ریڈ کر اس کے لئے فنڈ ا کٹھے کرنا، بلڈ ڈونیشن اور دیگر فلاحی کام شامل ہیں.اسی طرح Queensland میں اس سال کے آغاز میں آنے والے سیلاب کے
خطبات مسرور جلد 11 632 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء دوران جماعت احمدیہ کے پچاس افراد نے دو ہفتوں تک مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں مدد کی.انہوں نے کہا کہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ بیرونِ ملک سے ہجرت کر کے یہاں بسنے والے معاشرے میں نہیں گھلتے ملتے.لیکن ہم اس بات کا بر ملا اظہار کرتے ہیں کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا.بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو آسٹریلیا سے پیار کرتے ہیں اور اس ملک کے لئے قابل قدر خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور یہی محبت اور رواداری ہے جس کی دنیا کو آج ضرورت ہے.پھر پولیس کمشنر بھی وہاں آئے ہوئے تھے.انہوں نے بھی جماعت کی خدمات کو بڑا سراہا اور کہنے لگے کہ جماعت ہمیشہ ہمارے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور تمام لوگوں سے عزت سے پیش آتی ہے اور آپ لوگ اعلیٰ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں.یہ بول رہے تھے تو میرے ساتھ ایک ممبر آف پارلیمنٹ بیٹھے ہوئے تھے.اُس کے بعد جب یہ گئے تو وہ مجھے کہنے لگے کہ یہ جو کمشنر ہیں ہمارے یہاں ان کاسٹیٹس (status) بڑا اونچا ہوتا ہے.اور عموماً یہ فنکشنز میں شامل نہیں ہوا کرتے.مجھے بڑی حیرت ہو رہی ہے کہ یہاں تم لوگوں کے فنکشن میں یہ آ گئے.پھر ایک ممبر آف پارلیمنٹ نے جب میرا وہ ایڈریس سنا تو کہنے لگے کہ میں جذبات سے بھر گیا ہوں اور بے حد متاثر ہوا ہوں.یہ خطاب دل سے کیا گیا تھا.اس خطاب نے اس مسجد کے متعلق ہر ایک کو مطمئن کر دیا ہے.امام جماعت کے خطاب کے دوران میں نے خاص طور پر غیر مسلم سامعین کے چہروں کو دیکھا اور مجھے محسوس ہوا کہ وہ امام جماعت کے اس پیغام کو گر مجوشی سے سراہ رہے ہیں..وہاں ایک ممبر آف پارلیمنٹ تھے.میرا خیال ہے غالباً یہ وہی ہیں جن کے ساتھ سائنس کے حوالے سے کچھ تبلیغی گفتگو بھی ہوئی کہ قرآن کیا کہتا ہے؟ بائبل کیا کہتی ہے؟ تو کہنے لگے کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ قرآن کی تعلیم بائبل سے بالا ہے اور بہت لگتی ہے.بہر حال اُن کو میں نے کہا کہ پھر آپ قرآن شریف پڑھیں بھی اور وہاں کے جو مقامی احمدی تھے اُن سے کہا ان کو بعض آیتوں کے حوالے بھی نکال دیں اور five volume commentary بھی اُن کو دی گئی تو اس طرح تبلیغ کے راستے بھی اللہ کے فضل سے کھلتے ہیں.Dr.John صاحب ایک مہمان تھے.کہتے ہیں کہ آج رات یہاں آنے سے پہلے میں بہت گھبرایا ہوا تھا کیونکہ میں مسلمان نہیں ہوں اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ مجھ سے کس قسم کا سلوک کیا جائے گا لیکن آج مرزا مسرور احمد نے میری ساری گھبراہٹ دور کر دی ہے.
خطبات مسرور جلد 11 633 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء یہ آسٹریلیا کا مختصر ذکر ہے.پھر وہاں سے ہم نیوزی لینڈ گئے.وہاں جو پہلی مسجد بنی ہے ”بیت المقیت اُس کا افتتاح بھی ہوا.لیکن اُس افتتاح سے پہلے وہاں کا Maori قبیلہ جو ہے، بہت پرانا قبیلہ ہے، اُس کے بادشاہ کی طرف سے استقبالیہ تھا.اور وہاں بادشاہ نے استقبالیہ دیا.جس طرح وہ باقی جو ہیڈ آف سٹیٹ آتے ہیں اُن کو استقبالیہ دیتے ہیں، اس طرح سارا انتظام انہوں نے کیا.وہاں جماعت احمد یہ کا لوائے احمدیت“ بھی اُن کے اپنے جھنڈے کے ساتھ پہلے ہی لہرایا جار ہا تھا.بادشاہ عموماً ایسے فنکشن میں چاہے کوئی بھی ہو خود نہیں بیٹھا کرتا لیکن وہاں خود بادشاہ بیٹھے تھے.تقریب جو اُن کی ایک روایتی تقریب ہے وہ تو جو ہوئی، اُس کے بعد پھر اُن کا ایک بڑا سارا ہال ہے، وہاں ہمیں لے گئے.وہاں اُن سے کچھ باتیں ہوتی رہیں اور پھر اُس کے بعد قرآن کریم کا جو ماؤری زبان میں ترجمہ ہوا ہے وہ اُن کو پیش کیا گیا.بہر حال بعد میں یہ ایک بڑی پُر وقار تقریب تھی.اس کے بعد پھر مسجد کے افتتاح کی جو تقریب تھی ان کے بادشاہ نے وہاں بھی آنے کے لئے کہا بلکہ ان کی ملکہ نے پہلے نہیں آنا تھا لیکن انہوں نے بھی کہا کہ میں بھی آؤں گی اور بعض شخصیات کے ساتھ یہ لوگ وہاں آئے.ماؤری زبان میں قرآن کریم کا جو ترجمہ ہے اُس کے بارے میں پہلے میں ذکر کر دوں کہ یہ مکرم شکیل احمد منیر صاحب نے کیا تھا.پہلے پندرہ سپارے کئے جو شائع ہو گئے تھے تو اب مکمل کر دیا ہے.اور یہ کوئی زبان دان نہیں ہیں بلکہ فزکس کے پروفیسر ہیں.لیکن انہوں نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے کہنے پر زبان سیکھی ، پھر ترجمہ کرنا شروع کیا.اکاسی (81) سال ان کی عمر ہے.پچیس سال انہوں نے لگائے.زبان بھی سیکھی اور ترجمہ بھی کیا اور کافی وقت ان کو لگا.کیونکہ کہتے ہیں ماؤری زبان میں جمع کے صیغے ہیں جن کو سمجھنے میں کافی دیر لگی.اور کہتے ہیں کہ میری عمر بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی ، اخبار نے بھی اس بات کو لکھا.بہر حال بڑی محنت سے انہوں نے مسلسل یہ کام کیا.بعض روکیں بھی آئیں، مسائل بھی آئے.دوسروں سے جو ترجمے کروائے گئے تھے اُن کو جب چیک کیا تو وہ معیار کے نہیں تھے ، اسی لئے پھر خود ان کو توجہ پیدا ہوئی تھی.تو اس عمر میں یہ بہت بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے.بہر حال اخباروں نے پھر وہاں اس ترجمے کے اوپر کافی لکھا اور اس کو سراہا گیا.مجھ سے بھی انہوں نے پوچھا کہ ماؤری قبیلے کے تھوڑے سے لوگ ہیں، (چھوٹا قبیلہ ہے، اتنا بڑا بھی نہیں ).تم نے ترجمہ کیوں کیا ؟ میں نے کہا ہمارا تو کام ہے ہر زبان میں ترجمہ کرنا کیونکہ ہر ایک کو عربی پڑھنی نہیں آتی.اور قرآنِ کریم
خطبات مسرور جلد 11 634 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء کا پیغام ہم نے ہر قوم تک پہنچانا ہے.اللہ کے فضل سے وہاں ایک ماؤری نے بیعت بھی کی ہے، جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور ایک دو اور تیار بھی ہیں.اور یہی میں نے اُن کو کہا کہ اب ترجمہ آیا ہے تو امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اور لوگ بھی جماعت احمدیہ میں شامل ہوں گے اور اسلام کو قبول کریں گے.اس کے بعد جیسا کہ میں نے کہا وہاں مسجد بیت المقیت نئی بنی ہے اور اس کے حوالے سے وہاں ایک reception بھی تھی اور ماؤری بادشاہ بھی اور ملکہ بھی وہاں آئے ،جیسا کہ میں نے بتایا ہے.اس کے علاوہ بہت ساری نمایاں شخصیات وہاں تھیں.ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں تھے.107 کے قریب مہمان آئے اور مہمانوں نے جو تاثرات دیئے.ان میں Anglican Church کے ایک پادری نے کہا کہ تمام مذاہب کو بغیر کسی مزاحمت کے ایک دوسرے کے ساتھ چلنا چاہئے.پھر کہتے ہیں کہ امام جماعت نے جو یہ کہا ہے کہ پریس میں اسلام کا نام بدنام کیا جارہا ہے یہ بھی بالکل درست ہے.یہاں میں نے مسجد کے حوالے سے بات کی.اور کس طرح اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے اور کس طرح غیر مسلموں پر اس کا غلط تاثر ہے، اُس کے بارے میں کہا تھا.تو کہتے ہیں کہ پریس میں اسلام کا نام جو امام جماعت نے کہا کہ بدنام کیا جارہا ہے یہ بالکل درست ہے.جب کبھی بھی دہشتگر دی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو میڈ یا ہمیشہ مسجد یا مسلمانوں کو نماز ادا کرتے ہوئے ٹی وی پر دکھاتا ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ اسلام اور دہشت گردی کا ایک تعلق ہے.سچ تو یہ ہے کہ اسلام کا تشدد اور دہشتگر دی سے کوئی بھی تعلق نہیں اور امام جماعت نے اس کو اپنے خطاب میں ثابت بھی کر دیا ہے.بہر حال وہاں پریس اور میڈیا نے ماؤری کا جوفنکشن تھا اُس کو بھی اور مسجد کے استقبال کو بھی بڑا نمایاں کیا.نیوزی لینڈ میں ہی ایک اور فنکشن تھا.اُن کا دار الحکومت جو شہر آکلینڈ (Auckland) سے آٹھ سومیل کے فاصلے پر ہے.وہاں ایک ممبر آف پارلیمنٹ کنول جیت سنگھ ہیں، جو ویسے تو سکھ ہیں اور ہندوستان سے اُن کا تعلق ہے، انہوں نے اسے آرگنا ئز کیا تھا.پارلیمنٹ کی عمارت میں جوان کا گرینڈ ہال ہے، اُن کے نزدیک بڑا اہم ہال ہے، وہاں یہ فنکشن ہوا جس میں بعض اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوئے، سفارتکار شامل ہوئے اور سفارتکاروں میں اسرائیل کے بھی تھے، ایران کے بھی تھے اور برطانیہ کے بھی ڈپٹی ہائی کمشنر تھے.پولیس افسر تھے، یونیورسٹی پروفیسر تھے.وہاں بھی امن کے حوالے سے باتیں ہوئیں اور یہ کہ دنیا کو آج کل کیا کرنا چاہئے.اور اُس کے بعد پھر خیر ہم نے دیکھا بھی کہ اس پر بھی لوگوں کے کافی اچھے تاثرات تھے.
خطبات مسرور جلد 11 635 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء نیوزی لینڈ کا جو ایک جو غیر کمرشل ریڈیو نیٹ ورک ہے، اُس نے اپنا جو ایک پروگرام ”چیک پوائنٹ ہے اور بڑا اہم پروگرام ہے، اُس میں بھی جو اُس کا اپنا پرائم ٹائم ہے اُس میں ہمارے پروگرام کے بارے میں خبر دی.بہر حال مختلف ملکوں کی اخباروں کا کہ کتنی کوریج ہوئی، یہ میں آخر میں جا کر بیان کروں گا.بہر حال نیوزی لینڈ کے یہ دو پروگرام تھے.ایک غیروں کے ساتھ مسجد کا اور دوسرا پارلیمنٹ کے ساتھ.اس کے بعد پھر ہم جاپان گئے.جاپان میں بھی ایک reception نا گویا میں تھی.اس میں بھی 117 مہمان شامل ہوئے ، جس میں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر، کانگرس مین تھے، نا گویا کے میئر تھے،صوبائی پارٹی کے ممبر تھے، شنٹو ازم اور بدھ ازم کے نمائندے تھے.مختلف یونیورسٹیوں کے چودہ پروفیسر تھے، وکلاء تھے اور مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مہمان تھے.Mr Yoshiaki جو کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر ہیں اور ممبرسٹی پارلیمنٹ ہیں.متاثرین کے کیمپ کے انچارج بھی ہیں.ایک ہزار کلومیٹر کا سفر کر کے وہاں reception میں آئے تھے ، اور کہنے لگے کہ 2011ء میں زلزلہ اور سونامی کے بعد انسانیت کے لئے جماعت احمدیہ کی خدمات ہمارے لئے نا قابلِ فراموش ہیں.میں اس بات پر اظہار تشکر کے لئے حاضر ہوا ہوں تا کہ اس جماعت اور تنظیم کے سر براہ کو ذاتی طور پر مل سکوں اور یہ بتا سکوں کہ آپ کی جماعت اور ماننے والے آپ کی تعلیمات پر چلتے ہوئے ، آپ کی نصائح پر عمل کرتے ہوئے ، انسانیت سے ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہوئے خدمتِ انسانیت کے کاموں میں مصروف ہیں.پھر کہتے ہیں میں نے یہ خطاب سنا اور اس یقین پر پہنچا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے امام اور ان کی تعلیمات میں ہی دنیا کے امن کا راز چھپا ہوا ہے.پس اگر حقیقی اسلامی تعلیم دنیا کو بتائی جائے تو ہر شریف الطبع کو یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ امن اسلام سے ہی وابستہ ہے.اللہ کرے کہ یہ دہشتگر داور وہ لیڈر جوا اپنی طاقت پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں اور غلط کام کر رہے ہیں اُن کو بھی اس بات کی سمجھ آ جائے.ایک مشہور وکیل ہیں وہ بھی آئے ہوئے تھے.اپنے تاثرات دیتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ میں دل کی گہرائیوں سے اپنی محبت اور تشکر کے جذبات کا اظہار کرتا ہوں.1951 ء کی سان فرانسسکو میں ہونے والی کا نفرنس میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی عظیم الشان تقریر نے اس تعلق کی یعنی جاپان سے جو تعلق ہے، اس کی بنیا درکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ جاپان سے عدل اور جاپان کا امن دنیا کے لئے بہت اہم
خطبات مسرور جلد 11 636 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء ہے کیونکہ مستقبل میں جاپان عالمی امن اور عالمی سیاست میں اہم کردارادا کر نے والا ہے.اُس وقت جاپان کے ساتھ کچھ ایسا سلوک ہو رہا تھا جس پر کانفرنس میں جو سان فرانسسکو میں ہوئی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جاپان میں حق میں بہت تقریر کی تھی ، اس کا انہوں نے اظہار کیا کہ اس وجہ سے پھر لوگوں پر اثر ہوا اور ہمارے سے رویہ تبدیل ہوا اور اس کی ہم قدر کرتے ہیں.اور اس قدر کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمارے تعلق ہیں اور جماعت احمدیہ کے اس تعلق کو مضبوط رکھنا چاہتے ہیں.لیکن بد قسمتی سے اُس شخصیت کی آج اپنے ملک میں وہ قدر نہیں جہاں وہ وزیر خارجہ رہے اور سکولوں کے کورس میں پرائمری سکول میں تاریخ میں پہلے وزیر خارجہ کا نام لکھا ہوتا تھا.اب وہاں سے نکال دیا گیا ہے اور پہلا وزیر خارجہ کسی اور کو بنا کے ایک غلط قسم کی تاریخ اب بچوں کو پڑھائی جارہی ہے.پھر کہتے ہیں جاپان میں آنے والے زلزلوں اور سونامی کے بعد جماعت احمدیہ کی خدمات ہمارے لئے ناقابل فراموش ہیں.افراد جماعت احمدیہ کا کردار اور مزاج اور جس ملک میں رہتے ہیں اُس کی خدمت کا جذبہ اس جماعت کو ساری دنیا میں ممتاز بناتا ہے.پس یہ وہ اہم چیز ہے جسے ہر احمدی کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.پھر کہتے ہیں کہ آج ہم نے اسلام کا ایک خوبصورت چہرہ دیکھا ہے اور اس یقین پر پہنچے ہیں کہ اگر دنیا کسی ایک ہاتھ پر جمع ہو سکتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کا ہاتھ ہی ہے جس کا ایک امام ہے.اسی طرح مختلف لوگوں کے تاثرات ہیں.بہر حال اس کی تفصیل تو بیان نہیں کی جاسکتی.میں نے صرف چند کا مختصراً ذکر کیا ہے اور تاثرات بھی پورے بیان نہیں کئے.انگریزی دانوں کے لئے تفصیل چھپ بھی جائے گی اور کچھ الفضل میں اور باقی اخباروں میں بھی آجائے گی.اخباروں کی جو سرکولیشن ہے جنہوں نے اس دورے کی اور reception کی خبریں دیں اور reception کے حوالے سے اسلام کا اور جماعت کا پیغام پہنچایا، یا میرے سے جو انٹرویو لئے اور جو براہِ راست ٹیلیویژن پر نشر ہوئے یاریڈیو پر نشر ہوئے ، اُن کے بارے میں کچھ بتادوں.پہلے تو انڈونیشیا ہے.یہاں کے اخبار کے نمائندے دو جرنلسٹ آئے ہوئے تھے اُن کا ایک ہفت روزہ tempo magazine ہے، اُس نے انٹرویو شائع کیا.یہ بڑا مشہور میگزین ہے اور اس کی ہفتہ وار اشاعت ایک لاکھ ہے.اس کے علاوہ ایک دوسرا اخبار بھی تھا، انہوں نے بھی اس کو شائع کیا.پھر West Java کے دو اخبارات Tribune Jabar اور Kadulatan
خطبات مسرور جلد 11 637 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء Rakyat ہیں.کوئی ساٹھ ستر ہزار کے قریب ان کی سرکولیشن ہے.پھر ایک اور اخبار ہے اُس کی کافی سرکولیشن ہے اُس میں بھی شائع کیا.آسٹریلیا میں اصل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے کوریج دی ہے.اُن کا جو نیشنل ٹی وی اے بی سی ہے اور پھر National Radio ABC انہوں نے بھی انٹرویو لیا، اُس کی خبر بھی دی، انہوں نے سوالوں کے میرے کافی لمبے جواب بھی لکھ دیئے ، اور یہ سارے ملک میں سنا جاتا ہے ریڈیو بھی اور ٹی وی بھی دیکھا جاتا ہے.بلکہ ریڈیو پیسیفک جزائر میں بھی سنا جاتا ہے.اور ڈیڑھ سے دوملین تک لوگ اس کو سنتے ہیں.ABC News آسٹریلیا کا ایک نیشنل نیوز چینل ہے.46 ممالک میں اس کی نشریات سنی جاتی ہیں.اور دس ملین سے اوپر لوگ اس کے سننے والے ہیں.اس چینل میں جنہوں نے انٹر ویولیا ، وہ کہنے لگے کہ یہ کیونکہ آسٹریلیا سے باہر بھی سنا جاتا ہے تو تمہارے اس انٹرویو کا بہت اچھا فیڈ بیک ( feed back) مجھے ملا ہے اور میں حیران ہوں کہ دنیا میں لوگوں نے اتنی زیادہ توجہ دی ہے.پھر انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہوگی اگر آئندہ بھی تم آؤ تو میں کچھ زیادہ وقت لے کے مزید انٹرویو لینا چاہتا ہوں.آسٹریلیا کے ٹی وی چنیل اے بی سی کے مشہور اور غیر معمولی اہمیت کے حامل پروگرام نیوز لائن میں یہ انٹرویو آیا تھا.جیسا کہ میں نے کہا ، 46 ممالک میں سنا جاتا ہے.جو انٹرویو لینے والے ہیں یہ وہاں کے میڈیا میں مشہور شخص ہیں جو مختلف ممالک کے صدران اور وزرائے اعظم جب آسٹریلیا کا وزٹ کرتے ہیں تو ان کے انٹرویو لیتے ہیں.اور ان کے پروگراموں کو بڑی اہمیت سے دیکھا اور سنا جاتا ہے.اس کو بھی دس سے پندرہ ملین لوگوں نے سنا.پھر نیوزی لینڈ کا جو میڈیا ہے اُس کا جائزہ یہ ہے کہ ماؤری ٹی وی ،Te Karere ٹی وی ون پر دکھایا جاتا ہے، اس کے پروگرام میں ماؤری بادشاہ کی طرف سے جو استقبال ہوا تھا اُس کو کوریج دی گئی.سارے ملک میں یہ پروگرام دکھایا جاتا ہے.ٹی وی ون ملک کا پہلے نمبر پر آنے والی خبروں اور حالات حاضرہ کا چینل ہے.روزانہ چھ لاکھ بیالیس ہزار کے قریب اس کو دیکھنے والے لوگ ہیں.مسجد بیت المقیت کی رپورٹ انہوں نے دکھائی.ماؤری بادشاہ کی طرف سے جو استقبالیہ تھا وہ دکھایا گیا.ریڈیو پر بھی اس کی خبر نشر ہوئی.اخباروں نے مسجد کے حوالے سے اور کچھ اُس میں میرے دورے کے حوالے سے بھی خبریں شائع کیں.ان میں Sunday Star ملک کا بڑا اخبار ہے، اس کی سرکولیشن ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہے لیکن پانچ لاکھ سے اوپر اس کو پڑھنے والے ہیں، باقی جو میرا خیال ہے کہ انٹرنیٹ
خطبات مسرور جلد 11 کے ذریعہ سے پڑھا جاتا ہے.manukau courier 638 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء ہے.یہ.Auckland کا اخبار ہے، اخبار تو انہتر ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا ہے لیکن ایک لاکھ چورانوے ہزار اس کے پڑھنے والے ہیں.waikato times جو ہے اس کے بھی پڑھنے والے تقریباً چھیانوے ہزار ہیں.آن لائن میڈیا جو ہے، ویب سائٹ.(website scoop یہ ملک کی مشہور ترین ویب سائٹ ہے.اس کو ساڑھے چار لاکھ کے قریب لوگ وزٹ کرتے ہیں.اس پر یہ خبر آئی اور مسجد کے افتتاح کے حوالے سے بھی خبر تھی.پھر جاپان کا پرنٹ میڈیا ہے.Asahi newspaper.آسا ہی ایک بڑا اخبار ہے، اس کی سرکولیشن دو کروڑ سے زائد ہے.اس نے بھی میرے دورے کے حوالے سے میری تصویر دے کے خبر لگائی اور پھر اس میں یہ لکھا کہ اسلام کے ایک فرقہ احمدیت کے لیڈر لندن سے آئے ہیں.اور پہلی مسجد کے قیام کا اعلان کیا ہے جو پہلے ایک سپورٹس کمپلیکس تھا.اور پھر لکھا کہ امام جماعت نے کہا کہ مذہب یا قومیت سے الگ ہو کر ہر شخص اس مسجد میں آ سکتا ہے.بہر حال خلاصہ یہ کہ جن جرنلسٹس سے جو مختلف انٹرویو ہوئے اور جو باتیں ہوتی رہیں اُن میں اسلام کی خوبصورت تعلیم تو بیان ہوتی ہی ہے، اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد بھی بیان ہوا.اسلام میں جنگوں کا تصور کے بارے میں باتیں ہوئیں اور کس طرح جماعت احمدیہ تبلیغ کرتی ہے.مسلمان ممالک میں بدامنی اور اُس کے حل کے بارے میں باتیں ہوئیں.دنیا میں حقیقی امن کس طرح قائم کیا جاسکتا ہے، اس بارے میں باتیں ہوئیں.حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا کیا مقام ہے اس بارے میں باتیں ہوئیں.خلافت اور جماعت کا رشتہ کیا ہے اس بارے میں باتیں ہوئیں.پس مختلف مضامین کے لحاظ سے اس میں ایک بڑا وسیع تعارف جماعت کا ہوا.اور ان سارے ٹی وی چینل اور ریڈیو اور اخباروں کو اگر جمع کیا جائے تو ان کے اپنے اندازے کے مطابق ان کے سننے والے، دیکھنے والے، پڑھنے والے اس ریجن میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگ ہیں جن تک یہ پیغام پہنچا ہے.پس اللہ تعالیٰ ہر علاقے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کا جو تعارف کروارہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں جو دنیا کو پتہ لگ رہا ہے، اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم جو پیش ہورہی ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو یہ ارشاد ہے اس کے مطابق ہے کہ یہ زمانہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد دوم - صفحہ 361-362 مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 639 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء اور یہ جو میڈ یا ہماری کوششوں سے بڑھ کر اتنا زیادہ کوریج دیتا ہے تو یہ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے.ہمارے لئے تو ایسا ممکن نہیں تھا کہ اتنے وسیع طور پر نہ صرف ان چار ممالک میں بلکہ ان کے ذریعہ باقی چھیالیس ممالک میں بھی جس میں پاکستان بھی شامل ہے، احمدیت کا اور اسلام کا تعارف پہنچا سکتے اور پیغام پہنچا سکتے ، کیونکہ وہاں سے بھی مجھے ایک خبر اس انٹرویو کے حوالے سے آئی تھی جو اس میں شائع ہوا تھا.پس اگر عقل ہو تو یہی ایک بات جو ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت کے لئے کافی ہے.وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : لفا یہ عاجز بحكم وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيتُ (احی : 12) اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خداوند کریم ورحیم نے محض فضل و کرم سے ان تمام امور سے اس عاجز کو حصہ وافرہ دیا ہے اور اس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامور کیا بلکہ یہ تمام نشان دیئے ہیں جو ظاہر ہورہے ہیں اور ہوں گے اور خدائے تعالیٰ جب تک کھلے طور پر حجت قائم نہ کر لے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتا جائے گا.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 338-339) اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور اُن کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.کچھ افسوسناک خبریں بھی ہیں.تین جنازے میں ابھی نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا جس میں پہلا جنازہ جو ہے ہمارے شہید بھائی مکرم بشیر احمد صاحب کیانی کا ہے جو مکرم عبدالغفور صاحب کیانی کے بیٹے تھے.اورنگی ٹاؤن کراچی میں یکم نومبر کو ان کی شہادت ہوئی ہے.اپنے ہمسائے محمد اکرم قریشی صاحب کے گیارہ سالہ بیٹے کے ساتھ یہ جمعہ کے لئے جارہے تھے.ایک بجے کے قریب گھر سے نکلے.اورنگی ٹاؤن کی مسجد بیت الحفیظ کی طرف پیدل ہی جا رہے تھے، کیونکہ تقریب دوکلومیٹر کے فاصلے پر ان کا گھر ہے.جب مسجد کے قریب پہنچ چکے تھے تو پیچھے سے ایک موٹر سائیکل پر دو نامعلوم حملہ آوروں نے آ کر آپ پر فائرنگ کردی.شدید زخمی ہو گئے.ایک گولی ان کو کنپٹی پر لگی ، دو گولیاں سینے میں لگیں.ساتھ جانے والے بچے کی ٹانگ کی پنڈلی میں ایک گولی لگی جو آر پار گزر گئی.بہر حال فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہاں پہنچ کر بشیر کیانی صاحب کی شہادت ہو گئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ حملہ آوروں کی فائرنگ سے عزیزم محمد احمد واجد کے علاوہ جس کی ٹانگ میں گولی لگی تھی، وہاں بازار میں کھڑے دو غیر از جماعت بھی زخمی ہو گئے.محمد احمد واجد جو بچہ ہے اُس کی مرہم پٹی وغیرہ کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے، اور اب بہتر
خطبات مسرور جلد 11 640 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء الت ہے.اللہ تعالیٰ اُس کو بھی شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.بشیر کیانی صاحب شہید کے بڑے داماد ظہور احمد کیانی صاحب کو 21 اگست کو شہید کیا گیا تھا اور ان کے بیٹے اعجاز احمد کیانی کو 18 ستمبر کو اسی علاقے اورنگی ٹاؤن میں دشمنانِ احمدیت نے شہید کیا تھا.ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دو چا مکرم یوسف کیانی اور سعید کیانی صاحب کے ذریعہ ہوا.1936ء میں انہوں نے بیعت کی اور مطالعہ کرنے کے بعد جماعت مبائعین میں شامل ہوئے.بشیر کیانی صاحب میٹرک کی تعلیم کے بعد آرمی میں بطور سپاہی بھرتی ہو گئے اور 1979ء میں آپ کا ٹرانسفر کراچی ہو گیا اور یہیں سے آپ ریٹائر ہوئے.مرحوم کی عمر اڑسٹھ ( 68 ) سال تھی.بڑے خوش اخلاق تھے اور جذباتی طبیعت کے مالک تھے.دعوت الی اللہ کے انتہائی شوقین تھے.جب کہیں موقع ملتا تو دوست احباب کو تبلیغ کرتے.انتہائی دلیر اور بہادر شخصیت کے مالک تھے.یکے بعد دیگرے داماد اور بیٹے کی شہادت کے بعد خوفزدہ نہیں تھے بلکہ اپنی اولا د کو حو صلے کی تلقین کیا کرتے تھے.شہادت کے روز اپنے بیٹے اعزاز احمد کیانی کو کہا کہ ہم نے خود اپنی حفاظت کرنی ہے اور یہاں سے جانا نہیں.ایک قائد علاقہ لکھتے ہیں کہ ان کے بیٹے اعجاز کیانی صاحب کی شہادت کے بعد جب وہ شہید کے خاندان کے جملہ افراد کو چھوڑنے کے لئے ائیر پورٹ گئے تو اعجاز کیانی صاحب شہید کی والدہ کے غم کی حالت کو دیکھتے ہوئے ویل چیئر منگوائی ، جسے دیکھ کر بشیر کیانی صاحب شہید نے کہا کہ ابھی تو میرا ایک ہی بیٹا شہید ہوا ہے ، آپ چاہتے ہیں کہ ہم ابھی سے بیٹھ جائیں؟ غیرت رکھنے والے تھے.سعودی عرب میں ان کی آرمی سروس کے دوران پوسٹنگ ہوئی.لیکن وہاں شرط یہ تھی کہ اپنے پاسپورٹوں پر احمدیت کا نام نہ لکھیں.انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا.بے شک میں نہ جاؤں، یہ شرط مجھے قبول نہیں.شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ فاطمہ بشیر کیانی صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اعزاز کیانی اور شہباز کیانی چھوڑے ہیں.پانچ بیٹیاں ہیں.ایک طاہرہ ظہور کیانی ہے جو شہید کی بیوہ ہیں.پھر ناہیدہ طیب، شاہدہ بشیر ، ساجدہ بشیر اور وجیہ کنول.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے.بشیر کیانی صاحب کے بارے میں اُن کی ایک عزیزہ نے لکھا کہ کراچی میں آپ کے دوعزیز شہید کر دیئے گئے تو میں نے اُن کو کہا کہ کراچی چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟ بڑے غم کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے ، آنکھوں میں آنسو تھے تو ایک دم جھکی ہوئی کمر کوسیدھی کر کے کھڑے ہو گئے.کہنے لگے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے.ہم نے تو احمدیت کو زمین کے کناروں تک پھیلانا ہے اور تم کہہ رہی ہو کراچی چھوڑ دیں.یہ قربانیاں ہمارے حوصلے کو بلند
خطبات مسرور جلد 11 641 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 15 نومبر 2013ء کرنے والی ہیں.دشمن ہمارے ایمان کمزور نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ دشمن کی پکڑ کے بھی جلدی سامان کرے.دوسرا جنازہ تو یہاں بعض لوگ پڑھ چکے ہوں گے.یہیں کے رہنے والے ہمارے بھائی میاں عبدالسمیع عمر صاحب تھے.ان کو دل کا عارضہ تھا.ان کا آپریشن ہوالیکن کامیاب نہیں ہو سکا اور اس دوران میں ہی کچھ عرصے بعد وفات ہوگئی.69 سال ان کی عمر تھی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ آپ حضرت خلیفتہ اسی الاول کے پوتے تھے اور مفتی محمد صادق صاحب کے نواسے تھے.مجلس انصار اللہ یوکے والے تو جانتے ہیں، یہاں خدمت کرتے رہے ہیں، قائد تعلیم تھے، قائد تربیت تھے.بڑے اخلاص اور وفا سے، محنت سے کام کرتے رہے.دعا گواور حلیم اور شفیق، منکسر المزاج، صلہ رحمی کرنے والے، متوکل انسان تھے.خلافت سے بڑی محبت اور وفا کا تعلق تھا.کوئی بھی ان کا کام ہوتا تو یہ مجھے ضرور اطلاع دیا کرتے تھے.بڑی اچھی ان کی تلاوت تھی.ان کے ایک بھائی منیر عمر صاحب 28 رمئی 2010ء میں شہید ہو گئے تھے.آپ نے اپنے پسماندگان میں ایک اہلیہ اور بیٹی اور دو بیٹے چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے.تیسرا جنازه عزیزم مزمل الیاس کا ہے.یہ طالب علم جامعہ احمدیہ تھے.چک چٹھہ ضلع حافظ آباد کے رہنے والے تھے.اچانک جامعہ میں ہی 9 ستمبر کو فجر کے وقت ان کی وفات ہوگئی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ ستره سال ان کی عمر تھی.درجہ مہدہ جامعہ کے طالب علم تھے اور بڑے شوق سے جامعہ میں داخل ہوئے تھے.بہر حال اللہ تعالیٰ کی جو مرضی تھی وہ ہوا.لیکن سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل کہتے ہیں کہ نمازوں کے بڑے پابند، با قاعدہ تلاوت کرنے والے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بڑے شوق سے مطالعہ کرنے والے تھے.میرے خطبات بڑے غور سے سنتے تھے اور بڑی محبت سے سنتے تھے.ان کے نانا نے کہا کہ نماز تہجد اس نے کبھی نہیں چھوڑی.حفاظت مرکز کی ڈیوٹیوں کے دوران اکثر شہادت کی تمنا کیا کرتے تھے.ان کے والدین نے بھی بڑا صبر دکھایا ہے اور انہوں نے کہا ہے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں اور اُس کے شکر گزار ہیں کہ ہمارے بچے کی قربانی کو اتنی جلدی قبول فرمالیا.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور والدین کو بھی صبر عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 6 دسمبر 2013 ء تا 12 دسمبر 2013 ء جلد 20 شماره 49 صفحہ 5 تا10 )
خطبات مسرور جلد 11 642 47 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013 ء بمطابق 22 نبوت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں تحریرات میں ، ارشادات میں ہمیں اپنی بعثت کے مقصد کے بارے میں بتایا.پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ اس مقصد بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اُن مقاصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں تا کہ آپ کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کرنے والوں میں شمار ہو سکیں.ان مقاصد میں سے بعض اس وقت میں آپ کے سامنے پیش کروں گا.آپ علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں پھر ایمان کو زندہ کرنے کے لئے مامور کیا ہے اور اس لئے بھیجا ہے کہ تا کہ لوگ قوت یقین میں ترقی پیدا کریں.اس بات پر یقین ہو کہ خدا ہے اور دعاؤں کو سنتا ہے اور نیکیوں کا اجر دیتا ہے اور برائیوں کی سزا بھی دیتا ہے.آپ اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک ایمان کامل نہ ہو، انسان مکمل طور پر نیک اعمال بجالا نہیں سکتا.فرمایا کہ جو جو کمزور پہلو ہوگا ، اُسی قدر نیک اعمال میں کمی ہوگی.(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 320 - مطبوعہ ربوہ ) پس انبیاء اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور یقین پیدا کرنے آتے ہیں اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا ایک بہت بڑا مقصد ہے تا کہ کمزوریاں دور ہوں اور ایمان کامل ہو.یہ آپ کے بعض الفاظ کا ارشادات کا خلاصہ ہے.میں نے سارے الفاظ نہیں لئے ، اُس کا خلاصہ بیان کیا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 643 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء بہر حال یہ کمزوریاں کس طرح دُور ہوں گی اور ایمان کس طرح کامل ہوگا ؟ اس بارے میں آپ نے بڑا کھل کر واضح فرمایا ہے کہ صرف میری بیعت میں آنے سے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لئے مجاہدہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی اصول خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنکبوت : 70) یعنی اور وہ لوگ جو ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں...یہ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے کہ : وہ لوگ جو ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں، ہم اُن کے لئے اپنے راستے کھول دیتے ہیں.ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 338.مطبوعہ ربوہ ) پس ایمان میں کامل ہونے کا یہ اصول ہے کہ صرف بیعت کرنے سے اصلاح نہیں ہوگی.اگر اس کے ساتھ اپنی حالت بدلنے کے لئے مزید کوشش نہیں ہوگی، اگر خالص اللہ تعالیٰ کے ہو کر کوشش نہیں ہوگی ، اپنے دلوں کو بدلنے اور پھر عمل کرنے اور جہاد کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو اُس کا کوئی فائدہ نہیں.پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ دنیا میں ہر چیز کی ترقی تدریجی ہے.روحانی ترقی بھی اسی طرح ہوتی ہے اور بڑوں مجاہدہ کے کچھ بھی نہیں ہوتا اور مجاہدہ بھی وہ ہو جو خدا تعالیٰ میں ہو.“ یعنی خالص ہو کر اُس کی تلاش ہو، اُس کی تعلیم پر عمل ہو.یہ نہیں کہ قرآن کریم کے خلاف خود ہی بے فائدہ ریاضتیں اور مجاہدہ جو گیوں کی طرح تجویز کر بیٹھے.یہی کام ہے، جس کے لئے خدا نے مجھے مامور کیا ہے تا کہ میں دنیا کو دکھلا دوں کہ کس طرح پر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 339.مطبوعہ ربوہ ) اور پھر آپ نے ہمیں کیا دکھایا اور ہم سے کیا امید کی؟ آپ نے وہ نمونے قائم کئے اور ان نمونوں پر چلنے کی تلقین کی جو آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادتوں کے بھی قائم کئے اور حسن خلق کے بھی قائم کئے اور جن کو قائم کرنے کے لئے پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی مجاہدہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے کہلائے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ایسے وارث ہوئے کہ ایک دنیا کو اپنے پیچھے چلالیا.پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ آپ کے ماننے والوں کو کیسا انسان بننے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : میں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رٹ لئے جاویں.اس سے کچھ
خطبات مسرور جلد 11 644 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء فائدہ نہیں.تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے.ہمارا کام اور ہماری غرض یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ ، اس لیے ہر ایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ میں اور ہوں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 352 - مطبوعہ ربوہ) پس اگر ہم اپنے وجود میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور وجود نہیں بناتے ، اپنے آپ کو ایسا نہیں بناتے جو دنیا سے مختلف ہو تو آپ کے ارشاد کے مطابق ہمیں بیعت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا.پھر ایک جگہ بعثت کی غرض بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دار النجاة میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے.“ پھر آپ نے فرمایا کہ: ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 392 -393 - مطبوعہ ربوہ ) ’ہمارا اصل منشاء اور مدعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا.ہمارا ذکر تو ضمنی ہے 66 ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 200 _ مطبوعہ ربوہ ) ہماری تعریف اگر ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ہے.پس ہم نے یہ غرض بھی پوری کرنے کے لئے بیعت کی ہے اور اس کو پورا کرنے کے لئے ہمیں قرآن کریم کی تعلیم کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عمل کریں اور اس تعلیم کو پھیلائیں کیونکہ دنیا کی نجات بھی لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ میں ہے.پس دنیا کو بتائیں کہ اس لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّد رسُولُ الله کے جھنڈے تلے آ کر تم بھی نجات حاصل کرو.پھر آپ ایک جگہ اپنی آمد کا مقصد بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ وہ اسلام کوگل ملتوں پر غالب کرے.اُس نے مجھے اسی مطلب کے لئے بھیجا ہے اور اسی طرح بھیجا ہے جس طرح پہلے مامور آتے رہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 413 - مطبوعہ ربوہ )
خطبات مسرور جلد 11 645 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء پھر اپنے مشن کے غرض کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حج ساطعہ کے ساتھ“ یعنی روشن دلائل کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھاؤں.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 432 - مطبوعہ ربوہ) پھر ایک جگہ آپ نے اپنی آمد کا مقصد یہ بھی فرمایا کہ: میں خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کرانا چاہتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے وہ گناہ کی زہر سے بچ جاوے اور اُس کی فطرت اور سرشت میں ایک تبدیلی ہو جاوے.اُس پر موت وارد ہو کر ایک نئی زندگی اُس کو ملے.گناہ سے لذت پانے کی بجائے اُس کے دل میں نفرت پیدا ہو.جس کی یہ صورت ہو جاوے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے خدا کو پہچان لیا ہے.خدا خوب جانتا ہے کہ اس زمانے میں یہی حالت ہو رہی ہے کہ خدا کی معرفت نہیں رہی.کوئی مذہب ایسا نہیں رہا جو اس منزل پر انسان کو پہنچا دے اور یہ فطرت اُس میں پیدا کرے.ہم کسی خاص مذہب پر کوئی افسوس نہیں کر سکتے.یہ بلا عام ہو رہی ہے اور یہ وبا خطر ناک طور پر پھیلی ہے.میں سچ کہتا ہوں خدا پر ایمان لانے سے انسان فرشتہ بن جاتا ہے، بلکہ ملائکہ کا مسجود ہوتا ہے.“ یعنی فرشتے بھی اُس کو سجدہ کرتے ہیں.” نورانی ہو جاتا ہے.غرض جب اس قسم کا زمانہ دنیا پر آتا ہے کہ خدا کی معرفت باقی نہیں رہتی اور تباہ کاری اور ہر قسم کی بدکاریاں کثرت سے پھیل جاتی ہیں، خدا کا خوف اُٹھ جاتا ہے اور خدا کے حقوق بندوں کو دیئے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ ایسی حالت میں ایک انسان کو اپنی معرفت کا نور دے کر مامور فرماتا ہے.اُس پر لعن طعن ہوتا ہے اور ہر طرح سے اُس کو ستایا جاتا اور دُکھ دیا جاتا ہے لیکن آخر وہ خدا کا مامور کامیاب ہوجاتا اور دنیا میں سچائی کا نور پھیلا دیتا ہے.اسی طرح اس زمانہ میں خدا نے مجھے مامور کیا اور اپنی معرفت کا نور مجھے بخشا.“ پھر آپ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا: ( ملفوظات جلد اول صفحہ 493-494 - مطبوعہ ربوہ ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاقی قوتوں کی تربیت کروں.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 499 - مطبوعہ ربوہ ) ایک موقع پر آپ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کے دعوے اور رسالت کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ یعنی اس سے آپ کو کیا مقاصد حاصل ہوں گے؟ آپ کیوں آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
خطبات مسرور جلد 11 646 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء ” خدا تعالیٰ کے ساتھ جو رابطہ کم ہو گیا ہے اور دنیا کی محبت غالب آ گئی ہے اور پاکیزگی کم ہوگئی ہے.خدا تعالیٰ اس رشتہ کو جو عبودیت اور الوہیت کے درمیان ہے پھر مستحکم کرے گا اور گمشدہ پاکیزگی کو پھر لائے گا.دنیا کی محبت سرد ہو جائے گی.“ 66 ( ملفوظات جلد اول صفحہ 500 - مطبوعہ ربوہ ) اور فرمایا: یہ میرے ذریعہ سے ہوگا.یہ بہت بڑا مقصد اور بہت بڑا دعویٰ ہے جو آپ نے بیان فرمایا.آج کی مادی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا جو ہے مادیت میں ڈوب کر اپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھول چکی ہے اور جو بظاہر مذہب یا خدا کے وجود کو کچھ سمجھتے ہیں، کچھ تسلیم کرتے ہیں تو وہ بھی ظاہری رنگ میں.نہ انہیں خدا تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کچھ یقین ہے، نہ اس کا ادراک ہے، نہ فہم ہے ، نہ مذہب کا کچھ ادراک ہے.اُن کے لئے اصل چیز دنیا اور اس کی جاہ وحشمت ہے.صرف نام کے طور پر کسی مذہب کو ماننے والے ہیں.ایسے حالات میں یقیناً یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے.لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس قدر یقین ہے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے پر کس قدر اعتماد ہے، اس کا اظہار جو الفاظ میں نے پڑھے ہیں ان کی شوکت سے ہو جاتا ہے.لیکن یہ سب الفاظ، یہ آپ کا دعویٰ، یہ بعثت کی غرض اور مقاصد ہمیں بھی کچھ تو جہ دلا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ہے جس کو پڑھ اور سن کر ہم جماعت میں داخل ہوئے ہیں، یا ہمارے باپ دادا جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے تھے اور ہم نے ان کی اس نیکی کا فیض پایا، یہ ہم سے کچھ مطالبہ کر رہا ہے یا یہ مقاصد ہم سے کچھ مطالبہ کر رہے ہیں.اور وہ یہ کہ ہم ان مقاصد کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں.ہمیں ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے.ہم نے بھی ان کے نتائج کے حصول کی کوشش کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو جو باتیں دنیا میں پیدا کرنے آئے ہم نے بھی اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے.ہم نے بھی مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کے لئے مددگار بننا ہے.جب ہم نے منادی کی آواز کوسنا اور ایمان لائے تو اب ہم بھی یہ اعلان کرتے ہیں اور ہمیں یہ اعلان کرنا چاہئے کہ نَحنُ أَنْصَارُ الله کہ ہم اپنی حالتوں میں یہ تبدیلیاں پیدا کریں گے اور اس پیغام کو پھیلائیں گے اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے.پس ہمیں اپنا جائزہ لینا ہوگا ، سوچنا ہو گا، منصوبہ بندی کرنی ہوگی، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی ہوگی تاکہ ہم کامیابیوں سے ہمکنار ہوں اور آگے بڑھتے چلے جائیں.اگر ہم آپ کو مان کر پھر آرام سے بیٹھ جائیں
خطبات مسرور جلد 11 647 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013 ء اور کوئی فکر نہ کریں تو یہ عہد بیعت کا حق ادا کرنے والی بات نہیں ہوگی.یہ دعویٰ قبول کر کے بیٹھ جانا اور سو جانا ہمیں مجرم بناتا ہے.لیکن ساتھ ہی جب ہم اپنے وسائل کو دیکھتے ہیں، اپنی حالتوں کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ ہو سکتا ہے.ہم کریں بھی تو کیا کریں گے کہ ایک طرف ہمارے وسائل محدود اور دوسری طرف دنیا کی اسی فیصد سے زائد آبادی کو مذہب سے دلچپسی نہیں ہے، دنیا کے پیچھے بھاگنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے.ان ترقی یافتہ ممالک میں دولت ہے، ہر قسم کی ترقی ہے، دوسرے ماڈی اسباب ہیں جنہوں نے یہاں رہنے والوں کو خدا سے دور کر دیا ہے.یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں کہ خدا تعالیٰ کی تلاش میں وقت ضائع کریں.ابھی کل کی ڈاک میں ہی ایک احمدی کا جاپان سے ایک خط تھا ، بڑے درد کا اظہار تھا کہ میں نے اپنے ایک جاپانی دوست سے کہا، اُن کے بڑے اچھے اور اعلیٰ اخلاق ہیں، تعلقات بھی اُن سے اچھے ہیں ، بات چیت بھی ہوتی رہتی ہے، جب اُسے یہ کہا کہ خدا سے دعا کریں کہ ہدایت کی طرف رہنمائی ہو تو کہنے لگے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے کہ تمہارے خدا کی تلاش کرتا پھروں یا خدا سے رہنمائی مانگوں ، مجھے اور بہت کام ہیں.تو یہ تو دنیا کی حالت ہے.ان قوموں کی جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ بجھتی ہیں یہ حالت ہے.اور غریب قوموں کو بھی اس ترقی اور دولت کے بل بوتے پر اپنے پیچھے چلانے کی بڑی طاقتیں اور امیر قو میں کوشش کر رہی ہیں.پس جب یہ صورت حال ہو، سننے کی طرف توجہ نہ ہو یا کم از کم ایک بڑے طبقہ کی توجہ نہ ہوا اور دولت اور مادیت ہر ایک کو اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کر رہی ہو اور ہمارے وسائل جیسا کہ میں نے کہا ، محدود ہوں تو ایسے میں کس طرح ہم دجل اور مادیت کا مقابلہ کر سکتے ہیں.بظاہر ناممکن نظر آتا ہے کہ ہم دنیا کی اکثریت کو خدا تعالیٰ کے وجود کی پہچان کروا سکیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کر سکیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اور بڑی تحدی سے فرماتے ہیں کہ میں یہ سب کچھ کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں اور یہ ہوگا.انشاء اللہ پس ہم بھی آپ کے اس دعوی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ اعلان کر رہے ہیں، چاہے ظاہر کریں یا نہ کریں لیکن ہمارا بیعت میں آنا ہی ہم سے یہ اعلان کروا رہا ہے اور کروانا چاہئے کہ نحنُ أَنْصَارُ الله کہ ہم اللہ کے دین میں مددگار ہیں اور رہیں گے انشاء اللہ.دنیا کے انکار سے مایوس نہیں ہوں گے.کیونکہ ہم دنیا کی آنکھ سے دیکھ کر اس کام کو آگے نہیں بڑھا رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمیں ہر قدم پر تسلی دلاتی ہیں کہ اگر تم اللہ میں ہو کر کوشش کرو گے تو نئے راستے کھلتے چلے جائیں گے.
خطبات مسرور جلد 11 648 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء پس ہم دنیا وی نظر سے دیکھیں اور وسائل پر بھروسہ کریں تو ہماری جو کامیابی ہے ایک دیوانے کی بری نظر آتی ہے.اگر ہم دنیاوی طاقت اور وسائل کے لحاظ سے دیکھیں تو ایک ملک کو ہی دیکھ کر ہم پریشان ہو جائیں.مثلاً روس کو لے لیں ، چین کو لے لیں، یورپ کے کسی ملک کو لے لیں، امریکہ کے کسی ملک کو لے لیں ، جزائر کو لے لیں، افریقہ کے کسی ملک کو لے لیں، ہر جگہ بہت سی ایسی روکیں نظر آئیں گی جو ہمیں آگے بڑھنے سے ڈرائیں گی.ملکوں کے حالات اور دنیاوی جاہ و حشمت نہ آج سے چند دہائیاں پہلے ہمارے حق میں تھے، نہ آج ہمارے حق میں ہیں.لیکن یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہونے ہیں اور ہو رہے ہیں.مثلاً ایک وقت میں روس اور اُس کے ساتھ جو تمام states تھیں، کمیونسٹ حکومت کی وجہ سے وہاں تبلیغ نہیں ہو سکتی تھی.اب ایک حصہ آزاد ہو کر مذہب سے دور چلا گیا اور دنیاوی چکا چوند نے اُسے اندھا کر دیا.اور دوسری طرف جو مسلمان ریاستیں رشیا میں شامل تھیں وہاں مفتیوں اور مفاد پرست مذہبی لیڈروں نے حکومت کو اس طرح ڈرا دیا ہے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے راستے میں قدم قدم پر روکیں کھڑی کی جارہی ہیں.جماعت پر پابندیاں ہیں اور وہاں کے احمدیوں کو بھی ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے.مغربی ممالک کو دیکھیں تو دنیا داری نے یہاں بھی انتہا کر دی ہے.غلاظتوں اور بے حیائیوں کو قانون تحفظ دے دیتا ہے.جس بے حیائی پر اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کو تباہ کیا تھا، اُس بے حیائی کو ہمدردی کے نام پر تحفظ دیا جا رہا ہے.چین میں مذہب سے دلچسپی کوئی نہیں ، ماڈی دوڑ میں آگے بڑھنے کی دوڑ وہاں لگی ہوئی ہے اور معاشی لحاظ سے وہ دنیا کی بہت بڑی طاقت بن رہا ہے.جاپان ہے تو بہت ترقی یافتہ ملک ہے، وہاں بھی ٹیکنالوجی میں ترقی ہے اور حیرت انگیز ترقی نظر آتی ہے.اکثریت دنیا کی رسوم کے پیچھے لگی ہوئی ہے لیکن مذہب سے ڈوری ہے اور وہ یہ کہنے والے ہیں جو میں نے مثال دی کہ خدا کے لئے نعوذ باللہ میرے پاس وقت نہیں ہے.اکثریت کا یہی نظریہ ہے.کیسا خدا، کونسا خدا؟ بیشک اخلاقی لحاظ سے یہ لوگ بڑے آگے ہیں لیکن دنیا داری نے مذہب سے دور کر دیا ہے.بظاہر کہنے کو اگر جاپانیوں سے پوچھو تو روایتی مذہب ان کا شنٹو ازم ہے لیکن حقیقت میں یہ لوگ شنٹو ازم، عیسائیت اور بدھ ازم کا ایک عجیب ملغوبہ یا عجیب مجموعہ بن چکے ہیں.عملاً صرف رسومات کی حد تک پیدا ہونے ، زندگی گزار نے اور مرنے کے بعد کے جو مراحل ہیں وہ مختلف stages میں مختلف مذاہب ادا کر رہے ہیں لیکن بہر حال دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں.مغرب کی اکثریت جیسا کہ میں نے کہا، خدا تعالیٰ کو بھلا بیٹھی ہے اور نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کو بھلا بیٹھی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا مذاق اڑایا جاتا ہے.مذہب
خطبات مسرور جلد 11 649 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے.چرچوں میں جانے والے کوئی نہیں.عیسائیت کہتی تو ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں لیکن چرچ فروخت ہو رہے ہیں.پس یہ دنیا اس وقت بے حال ہے.جیسا کہ میں نے کہا دنیاوی لحاظ سے ہمارے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں.ان دنیا داروں کے سامنے ہمارے وسائل جو ہیں ایک ذرہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے.پس یہ جو سب باتیں ہیں یہ فکر پیدا کرتی ہیں اور فکر پیدا کرنے والی ہونی چاہئیں کہ ایسے حالات میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو کیسے آگے بڑھائیں گے؟ لیکن خدا تعالیٰ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کے لئے بھیجا ہے، خدا تعالیٰ جس نے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو بھیجا، اُس نے ہمیں فرمایا کہ مجھ میں ہو کر میرے راستوں کو تلاش کرو.اور خدا تعالیٰ میں ہو کر اُس کے راستے کی تلاش کس طرح کرنی ہے؟ فرمایايَا بُهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ اِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (البقرة : 154) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر اور دعا کے ساتھ اللہ کی مدد مانگو، اللہ یقیناً صابروں کے ساتھ ہوگا.پس یہ اللہ ہے جس سے مدد مانگی جائے تو بڑی سے بڑی روک بھی ہوا میں اُڑ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ جو تمام قدرتوں والا ہے، اللہ تعالیٰ جو اپنے جلال کے ساتھ سب طاقتوں کا مالک ہے ، وہ ہر انہونی چیز کو ہونی کرنے کی طاقت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم اور ہر انسان کے لئے نجات دہندہ کے طور پر بنا کر بھیجا ہے جس نے قرآنِ کریم آپ پر نازل فرما کر تمام انسانوں کے لئے شریعت کو کامل کر دیا جس میں ہر زمانے کے دینی اور دنیاوی مسائل کا حل بھی ہے، جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانے میں اسلام کے احیائے ٹو کے لئے بھیجا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں.جب ایسے حالات آئیں کہ روکیں سامنے نظر آئیں، جب ایسے حالات آئیں کہ تمہاری عقلمیں فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں اُس وقت تم صبر اور صلوۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو.پس اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو گے تو بظا ہر مشکل کام بھی آسان ہوتے چلے جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اُس کے دین نے غالب آنا ہے لیکن تمہیں اس غلبہ کا حصہ بننے کے لئے صبر اور صلوٰۃ کی ضرورت ہے.لیکن کیسے صبر اور کیسی صلوٰۃ کی ضرورت ہے؟ اُس کے لئے پہلے اصول بیان ہو چکا ہے کہ اللہ میں ہو کر مجاہدہ کرو.صبر کے مختلف معنی لغات میں درج ہیں.مثلاً صبر یہ ہے کہ مستقل مزاجی اور کوشش سے برائیوں
خطبات مسرور جلد 11 650 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء سے بچنا.ایک مومن اور ایک احمدی کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس دنیاوی دور میں جب ہر طرف سے شیطانی حملے ہورہے ہیں اور برائیاں ہر کونے پر منہ کھولے کھڑی ہیں ان برائیوں سے بچنے کے لئے جہاد کرے.اپنے نفس کو قابو میں رکھے.پھر صبر کا مطلب ہے کہ نیکی پر ثابت قدم رہے.یہ نہیں کہ وقتی نیکی ہو اور جب کہیں دنیا کا لالچ اور بدی کی ترغیب نظر آئے تو نیکی کو بھول جاؤ.اعمالِ صالحہ بجالانے کی طرف ہمیشہ توجہ رہے.ان اعمالِ صالحہ کی قرآن کریم میں تلاش کی ضرورت ہے.پھر صبر یہ ہے کہ ہر صورت میں اپنے معاملات خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا.ہر مشکل میں، ہر پریشانی میں ، ہر تکلیف میں خدا تعالیٰ کے سامنے معاملہ پیش کرنا کسی بھی بات میں کوئی جزع فزع نہیں.پس صبر کی یہ حالتیں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوگی.روحانی مدارج میں ترقی ہوگی.دنیا کی کروڑوں کی جو دولت ہے اُس کے مقابلے میں ایک مومن کا ایک پاؤنڈ ، ایک ڈالر ، ایک روپیہ جو ہے وہ وہ کام دکھائے گا جو دنیا کو حیران کر دے گا.پھر صبر کے ساتھ برائیوں سے بچنے اور نیکیوں پر ثابت قدم ہونے اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنے معاملات پیش کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صلوۃ کی بھی ضرورت ہے.اور صلوۃ کے بھی مختلف معنی ہیں.صلوۃ کے ایک معنی نماز کے ہیں.یعنی یہاں جو نصیحت ہے کہ مومنوں کو نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنی چاہئے اور نماز کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.صبر کے اعلیٰ نتائج اُس وقت ظاہر ہوں گے جب نمازوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.پھر اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرو، استغفار کرو.صلوٰۃ میں یہ سب معنی آجاتے ہیں.پھر صرف یہ ظاہری نماز نہیں بلکہ دعاؤں کی طرف اُن کا حق ادا کرتے ہوئے توجہ کرو.خدا تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرو.اُن کے بھی حق ادا کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو.پس یہ وسعت صبر اور صلوۃ میں پیدا ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت بھی حاصل ہو گی اور تمام کام آسان ہوں گے اور ہوتے چلے جائیں گے، انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے اور فضل اور رحم کے دروازے کھلیں گے.پس ایک مومن کا یہ کام ہے کہ اپنی کوششوں ، اپنی عبادتوں ، اپنی دعاؤں، اپنے اخلاق کو انتہا تک پہنچاؤ.جو کچھ تمہارے بس میں ہے وہ کر گزرو، پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.لیکن اگر صبر کا حق ادا نہیں کرو گے، اگر صلوۃ کا حق ادا نہیں کر رہے تو پھر یقینا اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصہ دار نہیں بن سکتے.جیسا کہ
خطبات مسرور جلد 11 651 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء میں نے بتایا کہ صبر کا ایک مطلب برائیوں سے بچنا بھی ہے، اس کے لئے تو بہ اور استغفار کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ: سچی تو بہ اُس وقت ہوتی ہے جب ان تین باتوں کا خیال رکھا جائے.پہلی بات یہ کہ اُن تمام خیالات اور تصورات کو دل سے نکال دو جو دل کے فساد کا ذریعہ بن رہے ہیں، جو غلط کاموں کی طرف ابھارتے اورا کساتے ہیں.یعنی جو بھی برائی دل میں ہے یا جس برائی کا خیال آتا ہے اُس سے کراہت کا تصور پیدا کرو.تمہیں کراہت آنی چاہئے.دوسری بات یہ کہ برائی پر ندامت اور شرم کا اظہار کرو.اپنے دل میں اتنی مرتبہ اُسے برا کہو کہ شرمندگی پیدا ہو جائے.دوسری بات ندامت اور شرم کا اظہار ہے اور تیسری بات یہ کہ ایک پکا اور مصم ارادہ کرو کہ یہ برائی میں نے دوبارہ نہیں کرنی.(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 87-88 - مطبوعہ ربوہ ) صبر میں یہی حالت پیدا کی جاتی ہے تبھی صبر صحیح صبر کہلاتا ہے.پس اگر ہم نے اپنی یہ عادت کر لی اور اپنے صبر اور صلوۃ کے معیار حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی تو اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی تائیدی نشان ظاہر ہوں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.وہ نشانات جن کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے ہم بھی دیکھیں گے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ نہ ہم برائیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوں، نہ ہم نیکیوں پر قدم مار رہے ہوں ، نہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی روح کو سمجھ رہے ہوں ، نہ ہم اپنے ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر رہے ہوں، نہ ہم مخلوق کے حق ادا کر رہے ہوں ، نہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی طرف توجہ دے رہے ہوں جس کی برکت سے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں، نہ ہم نمازوں کا حق ادا کر رہے ہوں اور پھر بھی ہم یہ توقع رکھیں کہ دنیا کو ہم نے اسلام کے جھنڈے تلے لانا ہے.ان مقاصد کو اور اغراض کو پورا کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی ہیں.دنیا اسلام کے جھنڈے تلے آئے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور آئے گی لیکن اگر ہم نے اپنے حق ادا نہ کئے اور اپنے صبر اور صلوۃ کو انتہا تک نہ پہنچایا تو پھر ہم اُس فتح کے حصہ دار نہیں ہو سکیں گے.پس یہ حق ادا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.دنیا کو ہم یہی بتاتے ہیں کہ ایک دن ہم نے دنیا پر غالب آنا ہے.اس دورے کے دوران بھی نیوزی لینڈ میں ایک جرنلسٹ نے مجھے سوال کیا کہ تم تھوڑے سے ہو، تمہیں یہاں مسجد کی کیا ضرورت ہے؟ پہلے ایک ہال موجود ہے.تو میں نے اُسے یہی کہا تھا کہ آج تھوڑے ہیں
خطبات مسرور جلد 11 652 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء لیکن اس تعلیم کے ذریعہ جو قرآن کریم میں ہمیں ملی ، ایک دن انشاء اللہ تعالیٰ کثرت میں بدل جائیں گے اور ایک کیا کئی مسجدوں کی ضرورت ہمیں یہاں پڑے گی.پس اس کے لئے دنیا میں ہر جگہ کوشش اور اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.لیکن یہاں میں افسوس سے یہ کہوں گا کہ نمازوں عبادتوں کی طرف، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی طرف ہماری ، جو توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہے ہماری.مثلاً کل پرسوں کی بات ہے.ایک خاتون ملاقات کے دوران آئیں اور بڑے روتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ مسجدیں بناؤ اور مسجد میں آباد کرو.مسجدوں کی رونق بڑھاؤ، صلوۃ کا حق ادا کرو لیکن جب آپ چلے جاتے ہیں تو مسجد ، میں حاضری بہت کم ہو جاتی ہے.اگر تو یہ حاضری دور سے آنے والوں کی وجہ سے کم ہوتی ہے، جو میرے یہاں ہونے کی وجہ سے مسجد فضل میں آتے ہیں ( وہ مسجد فضل کی بات کر رہی تھیں) تو یہ اور بات ہے.لیکن پھر دُور سے آنے والے اگر یہاں نہیں آتے تو اپنے سینٹروں میں یا اپنی مساجد میں نماز با جماعت ادا کرنے والے ہونے چاہئیں.اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ جو آنے والے ہیں یہ (ادا) کرتے بھی ہوں گے.لیکن اگر حاضری کی یہ کی قریب رہنے والوں کے نہ آنے کی وجہ سے ہے تو پھر بڑی قابل فکر ہے اور اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے.اسی طرح آسٹریلیا کے دورے کے بعد مجھے وہاں سے کسی نے خط لکھا کہ مسجد کی حاضری بہت کم ہو گئی ہے.پس چاہے وہ آسٹریلیا ہے یا یو کے ہے یا کوئی اور ملک ہے یاد رکھیں کہ اگر انقلاب لانا ہے، اگر اُس ذمہ داری کو نبھانا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو پورا کرنے کے لئے ہم پر ہے، اگر بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو مسجدوں کی یہ رونقیں عارضی نہیں بلکہ مستقل قائم کرنی ہوں گی.اپنی تمام حالتوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہو گی.اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے ہوں گے.نشان تبھی ظاہر ہوں گے جب صبر اور صلوۃ کے حق ادا ہوں گے.جب اپنے نفس کو کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہم فنا کریں گے.جب توحید پر قائم ہونے کا حق ادا کریں گے.اور جب یہ ہوگا تو ان اللهَ مَعَ الصّبِرِینَ کا نظارہ بھی ہم دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ خود مدد کے لئے اُترے گا.اللہ تعالیٰ اپنی تمام تر طاقتوں اور حسن کے جلووں سے ہماری مدد کو آئے گا اور دنیادار ممالک اور دنیاوی طاقتوں کے عوام کے دل اللہ تعالیٰ اس طرف پھیر دے گا.ہمارے کاموں میں برکت پڑے گی اور دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچان کر آپ کے جھنڈے تلے آئے گی.توحید کا قیام ہوگا اور خدا تعالیٰ کی ذات کے انکاری خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ کریں گے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنا حق ادا
خطبات مسرور جلد 11 653 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 22 نومبر 2013ء کر کے یہ نظارے دیکھنے والے ہوں.جمعہ اور عصر کی نمازوں کے بعد میں جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا.یہ مکرم ڈاکٹر بشیر الدین اُسامہ صاحب امریکہ کا ہے جن کی 2 نومبر کو 82 سال کی عمر میں وفات ہوئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ انہوں نے 1955ء میں احمدیت قبول کی تھی اور ابتدائی افریقن امریکن احمد یوں میں سے تھے.نمازوں کے بڑے پابند، بڑے باوفا اور سلسلہ کا در درکھنے والے غیرت مند، خلافت کے فدائی ، دعا گو وجود تھے.نہایت جوشیلے لیکن بہت منکسر المزاج اور عاجز انسان تھے.ان کو ربوہ کی زیارت اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے شرف ملاقات کی بھی سعادت ملی.اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ بھی ان کی ایک مرتبہ ملاقات ہوئی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ساتھ بھی کئی بار ملاقات ہوئی.ان سے ان کو پیار بھی بڑا تھا اور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کا بھی آپ سے بڑا خاص تعلق تھا.آپ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ حج بیت اللہ کی بھی توفیق پائی.گزشتہ ہمیں سال سے Cleveland میں نائب صدر جماعت کی حیثیت سے خدمات بجالا رہے تھے.خدمت خلق کا بہت جذبہ رکھتے تھے.بالخصوص اپنے افریقن امریکن بھائیوں کا بہت خیال رکھتے تھے.پچاس کی دہائی میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک چھوٹا سا کتابچہ لکھنے کی توفیق پائی.پیشے کے لحاظ سے Dentist تھے اور آپ کی اہلیہ محترمہ فاطمہ اسامہ صاحبہ جو تھیں، یہ بھی کافی عرصہ Cleveland کی لجنہ کی صدر رہی ہیں.پسماندگان میں دو بیٹے مقیت اُسامہ جن کی چھپن سال عمر ہے اور ظفر اللہ اسامہ صاحب یادگار چھوڑے ہیں.ان دونوں کا بھی جماعت سے بڑا خاص اور گہرا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں اور ان کی نسلوں کو ہمیشہ جماعت سے وابستہ رکھے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 13 دسمبر 2013 ء تا 19 دسمبر 2013 ، جلد 20 شماره 50 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 654 48 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013 ء بمطابق 29 نبوت 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 57 ) جو اس اصل غرض کو مد نظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خریدلوں، فلاں مکان بنالوں، فلاں جائداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے.انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اُس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شئے ہو جاوے گا.اگر یہ درد اُس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اُس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا.“ پھر فرمایا: ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 222.مطبوعہ ربوہ ) افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں، بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مد نظر رکھیں ، وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اُس کی عربتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں.وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں.انہیں خبر بھی نہیں
خطبات مسرور جلد 11 655 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 137 - مطبوعہ ربوہ ) پس یہ وسعت ہے، یہ معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے جو فرمایا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) کہ ہر معاملے میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھنا ہی اصل عبادت ہے اور اصل عبادت وہ ہے جس میں خدا تعالیٰ کے احکامات سامنے ہوں.دنیا بھی کمانی ہے تو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے ساتھ ، نہ یہ کہ ہر وقت دنیا کا حصول ہی پیش نظر ر ہے اور پھر اس کے لئے غلط ہتھکنڈے سچ ، جھوٹ ، دھوکہ، فریب سے جس طرح بھی ہو کام لیا جائے اور خدا تعالیٰ کو بالکل بھلا دیا جائے.عبادت کا حق صرف نمازیں پڑھنے سے ادا نہیں ہوتا.گزشتہ خطبہ میں میں نے اس پر روشنی ڈالی تھی کہ اگر خدا تعالیٰ کے باقی احکامات کی ادائیگی سامنے رکھتے ہوئے اُن پر عمل نہ ہو تو نمازیں بھی کوئی فائدہ نہیں دیتیں.مثلاً اگر انسان کے ہر معاملے میں سچائی نہیں تو عبادت کرنا اور مسجد میں آ کر نمازیں پڑھنا، عبادت کرنے والوں میں شمار نہیں کروائے گا.اسی طرح کینہ ہے، حسد ہے، بغض ہے اور بہت سی برائیاں ہیں.یہ عبادت کی روح کو ختم کر دیتی ہیں.پس ایک حقیقی عابد اُسی وقت عابد کہلا سکتا ہے جب ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی رضا مد نظر ہو اور اپنے دنیاوی فوائد کوئی حیثیت نہ رکھتے ہوں.اس مضمون کو میں اکثر بیان کر کے توجہ دلاتا رہتا ہوں.آج اس مضمون کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبہ سے استفادہ کرتے ہوئے آپ کے سامنے پیش کروں گا.جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریق تھا کہ واقعات کے ساتھ مضمون کو بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان سے بعض پہلوؤں کی عملی شکل ہمارے سامنے آ جاتی ہے.بہر حال خاص طور پر واقعات میں بھی وہی بیان کروں گا.شاید مختصر ہوجائیں.اس سے پہلے کہ میں اس مضمون کو آگے چلاؤں، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کے بارے میں اُن کا ایک ارشاد بھی آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ نئی نسل اور آنے والوں کے علم میں اس لحاظ سے بھی اضافہ ہو.1936 ء کی شوری کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ: ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اُسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں، (یعنی اُن کی ” یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا ، بلکہ اس لئے بھی
خطبات مسرور جلد 11 656 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا.پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی.گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ اُسے رئیگاں جانے دے اور پھر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائے.جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے ، اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز روز نہیں آتے.“ رپورٹ مجلس مشاورت 1936 ء صفحہ 16-17) پس آپ کا وجود اپنی ذات میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی ایک دلیل بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو علم و عرفان عطا فرمایا تھا، اُس کی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہلے خبر دی تھی.اس لحاظ سے افراد جماعت کو آپ کے اُس علم وعرفان سے ذاتی مطالعہ کر کے بھی فائدہ اُٹھانا چاہئے اور کیونکہ لٹریچر ہر زبان میں میسر نہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مختلف وقتوں میں بیان بھی ہوتا رہنا چاہئے.اس لئے میں مختلف حوالوں سے بعض دفعہ حضرت مصلح موعود کا بیان کرتا رہتا ہوں اور چند مہینے پہلے میں نے تقریباً ایک مکمل خطبہ بھی اس پر دیا تھا یا کچھ تھوڑا سا خلاصہ بیان کر کے دیا تھا.آج پھر اُسی طرز پر میں خلاصہ یا بعض باتیں اُسی طرح بیان کروں گا.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے یا اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا ہے، کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ : یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے لئے انسان کی پیدائش ہوئی لیکن بڑے بڑے فلاسفر اور تعلیم یافتہ طبقہ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا انسان کی پیدائش کے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے اور کیا خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان سے وہ کام لے لیا ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے اُس نے انسان کو پیدا کیا تھا؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعہ میں انسان اس مقصد کو پورا کر رہا ہے؟ اور کیا واقعہ میں اس نے اس قسم کی ترقی کی ہے کہ خدا تعالیٰ کا عبد کہلانے کا مستحق ہو.تو فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں.اس لئے وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان کو کوئی پیدا کرنے والا ہے تو کیوں اُسے اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء اس سوال کا جواب دینے کے لئے آتے ہیں.اور نیکی کی ایسی رو چلاتے ہیں جسے دیکھ کر دشمن کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ مقصد پورا ہو گیا ہے.اس دن کی آمد کے لئے اگر ہزار دن
خطبات مسرور جلد 11 657 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء بھی انتظار کرنا پڑے تو گراں نہیں گزرتا.اللہ تعالیٰ نے بھی انبیاء کے زمانے کو لیلتہ القدر قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (القدر: 4 ) یعنی وہ ایک رات ہزار مہینوں سے اچھی ہے.گویا ایک صدی کے انسان بھی اس ایک رات کے لئے قربان کر دیئے جائیں تو یہ قربانی کم ہوگی بمقابلہ اُس نعمت کے جو انبیاء کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوتی ہے.فرمایا: اس سال میں نے کچھ خطبات عملی اصلاح کے لئے دیئے تھے.یہ 1936 ء کی بات ہے.آپ نے اس عرصے میں کچھ خطبات دیئے تھے.اُس میں توجہ دلائی تھی کہ وہ عظیم الشان مقصد جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی اُسے پورا کرنے کے لئے ہمیں بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.اور یہ صرف اُس زمانے کی بات نہیں تھی، یہ ایک جاری سلسلہ ہے اور آج بھی اور آئندہ بھی اس کی ضرورت ہے اور ہوتی رہے گی.فرمایا کہ اعتقادی رنگ میں ہم نے دنیا پر اپنا سکہ جمالیا ہے مگر عملی رنگ میں اسلام کا سکہ جمانے کی ابھی ضرورت ہے.کیونکہ اس کے بغیر مخالفوں پر حقیقی اثر نہیں ہوسکتا.پھر آپ نے مثال دی ہے کہ موٹی مثال عملی رنگ میں سچائی کی ہے.یعنی ایک مثال میں سچائی کی دیتا ہوں.اس کو اگر ہم عملی رنگ میں دیکھیں تو کس طرح ہے؟ فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جسے دشمن بھی محسوس کرتا ہے.دل کا اخلاص اور ایمان دشمن کو نظر نہیں آتا مگر سچائی کو وہ دیکھ سکتا ہے.حقیقت یہی ہے کہ سچائی بہت زیادہ اثر ڈالتی ہے.اُس زمانے میں بھی حضرت مصلح موعود کو فکر ہوتا تھا اور اب اس زمانے میں بھی مجھے بعض غیروں کے خط آتے ہیں جن میں احمدیوں کا سچائی کا جو پراسیس ہوتا ہے اُس کا ذکر کیا ہوتا ہے.اور اس وجہ سے وہ جماعت کی تعریف کرتے ہیں.اور جن احمدیوں سے انہیں دھو کہ اور جھوٹ کا واسطہ پڑا ہو تو پھر وہ یہی لکھتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی نیک نامی کی وجہ سے اعتبار کر لیا لیکن آپ کے فلاں فلاں فرد جماعت نے ہمیں اس طرح دھو کہ دیا ہے.پس ایسا دھوکہ دینے والے جو بظاہر تو اپنے ذاتی معاملات میں یہ کہتے ہیں کہ ہماری اپنی dealing ہے، بزنس ہے، کاروبار ہے جو ہم کر رہے ہیں، جماعت کا اس سے کیا واسطہ؟ لیکن آخر کار وہ جماعت پر بھی حرف لانے کا مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.جماعت کو بدنام کرنے کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں.حضرت مصلح موعود نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوے سے پہلے کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ خاندانی جائداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا.اور جگہ بتائی کہ اس مکان کے چبوترے کے سامنے ایک تھڑا بنا ہوا تھا، جہاں خلافت ثانیہ میں صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہوا کرتے تھے، اب تو قادیان میں کچھ تبدیلیاں ہوگئی ہیں، دفاتر وہاں سے چلے گئے ہیں.فرماتے ہیں کہ اس چبوترے کی زمین دراصل ہمارے خاندان
خطبات مسرور جلد 11 658 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء کی تھی ، مگر اس پر دیرینہ قبضہ اس گھر کے مالکوں کا تھا جن کا ساتھ ہی گھر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی نے اسے حاصل کرنے کے لئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیا داروں کا طریق ہے، ایسے مقدموں میں جھوٹی سچی گواہیاں مہیا کرتے ہیں تا کہ جس کو وہ حق سمجھتے ہیں وہ انہیں مل جائے.آپ کے بڑے بھائی نے بھی ایسا ہی کیا اور گواہیاں بہت ساری لے کر آئے.گھر کے مالکوں نے کہا ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، ان کے چھوٹے بھائی کو بلا کر گواہی لی جائے اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہوگا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں کہا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عدالت میں بلایا گیا اور آپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان لوگوں کو اس راستے سے آتے جاتے اور یہاں بیٹھے آپ عرصے سے دیکھ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں دیکھ رہا ہوں.عدالت نے مخالف فریق کے حق میں فیصلہ دے دیا.آپ کے بھائی آپ پر سخت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب واقعہ یہ ہے تو میں کیسے انکار کروں.اسی طرح آپ کے خلاف ایک مقدمہ چلا کہ آپ نے ڈاکخانے کو دھوکہ دیا ہے.یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص کسی پیٹ میں، پارسل میں کوئی خط ڈال دے، پچٹھی ڈال دے تو خیال کیا جا تا تھا کہ اُس نے ڈاکخانہ کو دھوکہ دیا ہے اور پیسے بچائے ہیں.اور یہ ایک فوجداری جرم تھا جس کی سزا قید کی صورت میں دی جا سکتی تھی.آپ نے ایک پیکٹ میں یہ مضمون پریس کی اشاعت کے لئے بھیجا تھا اور اس میں ایک خط بھی ڈال دیا تھا جو اس اشتہار یا مضمون کے متعلق ہی تھا، کچھ ہدایات تھیں اور اسے آپ اُس کا حصہ ہی سمجھتے تھے، نقصان پہنچانا مقصد نہیں تھا.پریس کے مالک نے جو غالباً عیسائی تھے، یہ رپورٹ کر دی.آپ پر مقدمہ چلایا گیا.وکیل نے کہا کہ مقدمہ کرنے والوں کی مخالفت تو واضح ہے اور گواہیوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے.آپ انکار کر دیں کہ میں نے نہیں ڈالا تو کچھ نہیں ہو گا.آپ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا.جو میں نے بات کی ہے، اُس کا انکار کیسے کر سکتا ہوں.چنانچہ جب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے پوچھا آپ نے کوئی ایسا مضمون ڈالا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں ڈالا تھا لیکن کسی دھو کے کے لئے نہیں بلکہ خط کو مضمون کا حصہ ہی سمجھا تھا.اس سچائی کا عدالت پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے کہا کہ ایک اصطلاحی جرم کے لئے ایک بچے اور راستباز شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی اور بری کر دیا.پھر آپ لکھتے ہیں کہ اسی طرح کئی واقعات، مقدمات میں آپ کو پیش آتے رہے جن کی وجہ سے اُن وکلاء کے دلوں میں جن کا ان مقدمات سے تعلق رہا کرتا تھا ، آپ کی بہت عزت تھی.چنانچہ شیخ علی احمد
خطبات مسرور جلد 11 659 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء صاحب ایک وکیل تھے.آپ نے ایک مقدمے میں شیخ علی احمد صاحب کو وکیل نہیں کیا تو انہوں نے لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ اس مقدمے میں آپ نے مجھے وکیل نہیں کیا.اس لئے افسوس نہیں کہ میں کچھ لینا چاہتا تھا، فیس لوں گا، بلکہ اس لئے کہ خدمت کا موقع نہیں مل سکا.سچائی اور راستبازی ایسی چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا.شیخ علی احمد صاحب آخر تک غیر احمدی رہے.احمدی نہیں تھے اور انہوں نے بیعت نہیں کی لیکن ظاہری رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اُن کا اخلاص کسی طرح بھی احمدیوں سے کم نہیں تھا.پھر آپ لکھتے ہیں کہ انہی پر موقوف نہیں بلکہ جن جن کو آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا، اُن کی یہی حالت تھی.جب جہلم میں مولوی کرم دین صاحب نے آپ پر مقدمہ کیا تو ایک ہندو وکیل لالہ بھیم سین صاحب تھے، اُن کی چھٹی آئی.اُن کا خط آیا کہ میرالٹر کا بیرسٹری پاس کر کے آیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اُسے آپ کی خدمت کی سعادت حاصل ہو اور اس میں آپ اُن کو وکیل کر لیں.یہ لڑ کے جن کا ذکر ہے بڑے لائق وکیل تھے ، وہاں لاء (Law) کالج کے پرنسپل بھی رہے اور پھر وہاں انڈیا میں ہائی کورٹ کے چیف حج مقرر ہوئے.تو حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ لالہ بھیم سین صاحب نے الحاح سے یہ درخواست اس لئے کی کہ سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا تھا اور وہ آپ کی سچائی دیکھ چکے تھے.سچائی ایک ایسی چیز ہے جو اپنوں پر ہی نہیں، غیروں پر بھی اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی.آپ فرماتے ہیں کہ انبیاء دنیا میں آکر راستی اور سچائی کو قائم کرتے ہیں اور ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آکر کوئی تو پیں اور مشین گئیں ایجاد نہیں کی تھیں، بینک جاری نہیں کئے تھے یا صنعت و حرفت کی مشینیں ایجاد نہیں کی تھیں.پھر وہ کیا چیز تھی جو آپ نے دنیا کو دی اور جس کی حفاظت آپ کے ماننے والوں کے ذمہ تھی.وہ سچائی کی روح اور اخلاق فاضلہ تھے.یہ پہلے مفقود تھی.آپ نے پہلے اُسے کمایا اور پھر یہ خزانہ دنیا کو دیا.اور صحابہ اور اُن کی اولا دوں اور پھر اُن کی اولادوں کے ذمہ یہی کام تھا کہ ان چیزوں کی حفاظت کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ یہ حکم سن کر کہ ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کا کلام پہنچائیں، کچھ گھبرا گئے.اس لئے کہ آپ اس عظیم الشان ذمہ داری کو کس طرح پورا کریں گے؟ اس گھبراہٹ میں آپ گھر آئے.حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور شدت جذبات سے آپ اُس وقت سردی محسوس کر رہے تھے.جب گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے کہا مجھے کپڑا پہنا دو، کپڑا اوڑھا دو.حضرت
خطبات مسرور جلد 11 660 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء خدیجہ نے دریافت کیا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ آپ نے سارا واقعہ سنا یا.حضرت خدیجہ نے جواب دیا که كَلَّا وَاللهِ لَا يُخزيك الله أبداً.کہ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں.خدا کی قسم ! کبھی خدا آپ کو رُسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں اور ان خوبیوں میں سے ایک یہ بتائی کہ جو اخلاق دنیا سے اُٹھ گئے ہیں آپ نے اپنے وجود میں ان کو دوبارہ پیدا کیا ہے اور بنی نوع انسان کی اس کھوئی ہوئی متاع کو دوبارہ تلاش کیا ہے.پھر بھلا خدا آپ جیسے وجود کو کس طرح ضائع کر سکتا ہے؟ تو انبیاء کی بعثت کی غرض یہی ہوتی ہے اور مومنوں کے سپر دیہی امانت ہوتی ہے جس کی حفاظت کرنا اُن کا فرض ہوتا ہے.محبت کی وجہ سے انبیاء کا وجود دمومنوں کو بیشک بہت پیارا ہوتا ہے.مگر حقیقت کے لحاظ سے انبیاء کی عظمت کی وجہ وہی نور ہے جسے دنیا تک پہنچانے کے لئے خدا تعالیٰ انہیں مبعوث کرتا ہے، انہیں خدا تعالیٰ کا وہ پیغام ہی بڑا بنا تا ہے جو وہ لاتے ہیں.پس جب نبی کے اتباع یعنی پیروکار اس وجود کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تو اس پیغام کی حفاظت کے لئے کیا کچھ نہ کرنے کے لئے تیار ہوں گے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کے لئے صحابہ کرام نے قربانیاں کیں، وہ واقعات پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُن کی محبت کو دیکھ کر آج بھی دل میں محبت کی لہر پیدا ہو جاتی ہے.اُحد کی جنگ میں ایک ایسا موقع آیا کہ صرف ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئے اور دشمن بے تحاشا تیر اور پتھر پھینک رہے تھے.اُس صحابی نے اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف کر دیا اور اُس پر اتنے تیر اور پتھر لگے کہ وہ ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا.کسی نے صحابی سے پوچھا، یہ کیا ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اتنے تیر اور پتھر اس پر لگے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے شل ہو گیا.اُس نے پوچھا کہ آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی.تو انہوں نے کہا اور بڑا لطیف جواب دیا.کہنے لگے کہ اُف نکلنا چاہتی تھی لیکن میں نکلنے نہیں دیتا تھا کیونکہ اگر اُف کرتا تو ہاتھ ہل جاتا اور کوئی تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لگ جاتا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ تم اس قربانی کا اندازہ کرو اور سوچو کہ اگر آج کسی کی انگلی کو زخم آجائے تو وہ کتنا شور مچاتا ہے،مگر اُس صحابی نے ہاتھ پر اتنے تیر کھائے کہ وہ ہمیشہ کے لئے شکل ہو گیا.پھر ایک اور صحابی کا واقعہ بیان کرتے ہیں، یہ بھی اُحد کا موقع ہے.اُحد کی جنگ میں بعض صحابہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے کے بعد پھر ا کٹھے ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.صحابہ کو دیکھوکون ن شہید ہوا ہے اور کون کون زخمی ہوا ہے.اس پر بعض صحابہ میدان کا جائزہ لینے کے لئے گئے.ایک
خطبات مسرور جلد 11 661 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء صحابی نے دیکھا کہ ایک انصاری صحابی میدان میں زخمی پڑے ہوئے ہیں.وہ اُن کے پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ اُن کے بازو اور ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں اور اُن کی زندگی کی آخری گھڑی ہے.اس پر وہ صحابی اُن کے قریب ہوا اور پوچھا کہ اپنے عزیزوں کو کوئی پیغام دینا ہے تو بتا دیں، میں اُن کو پہنچا دوں.اُن زخمی صحابی نے کہا کہ میں انتظار ہی کر رہا تھا کہ میرے پاس سے کوئی گزرے تو میں اُسے پیغام دوں.سو تم میرے عزیزوں کو، میرے گھر والوں کو، بیوی بچوں کو یہ پیغام دے دینا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قیمتی امانت ہیں.جب تک ہم زندہ رہے، ہم نے اپنی جانوں سے اس کی حفاظت کی.اور اب کہ ہم رخصت ہو رہے ہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ یعنی عزیز رشتہ دار ہم سے بڑھ کر قربانیاں کر کے اس قیمتی امانت کی حفاظت کریں گے.فرماتے ہیں کہ غور کرو، موت کے وقت جبکہ وہ جانتے تھے کہ بیوی بچوں کو کوئی پیغام دینے کے لئے اب اُن کے لئے کوئی اور وقت نہیں ہے.ایسے وقت میں جب انسان کو جائداد اور لین دین کے بارے میں بتانے کا خیال آتا ہے، جب لوگ اپنے پسماندگان کی بہتری کی تشویش اور فکر میں ہوتے ہیں، اُس وقت بھی اس صحابی کو یہی خیال آیا کہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں جان دے رہا ہوں اور عزیزوں کو پیغام دیتے ہیں کہ تم سے بھی یہی امید رکھتا ہوں کہ تم اس پر گامزن رہو گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرو گے.پس جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے یہ قربانیاں کیں، وہ اُس پیغام کے لئے جو آپ لائے ، کیا کچھ قربانیاں نہ کر سکتے ہوں گے.اور انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہو گا؟ صحابہ نے اس بارے میں جو کچھ کیا ، حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس کی مثال کے طور پر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا واقعہ پیش کرتا ہوں.آپ کی وفات کی خبر صحابہ میں مشہور ہوئی تو اُن پر شدت محبت کی وجہ سے گو یا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا.حتی کہ بعض صحابہ نے یہ خیال کیا کہ یہ خبر ہی غلط ہے کیونکہ ابھی آپ کی وفات کا وقت نہیں آیا، کیونکہ ابھی بعض منافق مسلمانوں میں موجود ہیں.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس خیال میں مبتلا ہو گئے اور تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ جو کہے گا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں میں اُس کی گردن اڑا دوں گا.آپ آسمان پر گئے ہیں، پھر دوبارہ تشریف لا کر منافقوں کو ماریں گے اور پھر وفات پائیں گے.بہت سے صحابہ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو گئے اور کہنے لگے ہم کسی کو یہ نہیں کہنے دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں.بظاہر یہ محبت کا اظہار تھا مگر دراصل اُس تعلیم کے خلاف تھا جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے.کیونکہ قرآن کریم میں صاف موجود ہے کہ آفَائِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ
خطبات مسرور جلد 11 662 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء ( آل عمران : 145) یعنی کیا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا اے مسلمانو! تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں نہیں تھے ، باہر گئے ہوئے تھے.آپ کو جب یہ خبر ملی تو آپ جلدی واپس مدینہ تشریف لائے اور سید ھے اُس حجرہ میں چلے گئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر رکھا ہوا تھا.اور آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے چادر اُٹھائی اور دیکھا کہ واقعہ میں آپ کی وفات ہو چکی ہے.پھر جھکے اور پیشانی پر بوسہ دیا.آپ کی آنکھوں سے آنسونکل پڑے اور جسم اطہر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں نہیں لائے گا.یعنی ایک تو ظاہری موت اور دوسرے یہ کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم مٹ جائے.پھر آپ باہر تشریف لائے جہاں صحابہ جمع تھے اور جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار ہاتھ میں لے کر بڑے جوش میں یہ اعلان کر رہے تھے کہ جو کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں وہ منافق ہے اور میں اُس کی گردن اڑا دوں گا.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں تشریف لائے اور لوگوں کو خاموش ہونے کو کہا.اور بڑے زور سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی فرمایا کہ چپ رہو اور مجھے بات کرنے دو.اور پھر یہ آیت پڑھی.مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ آفَا ئِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أعْقَابِكُم ( آل عمران 145 ) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف خدا کے رسول ہیں ، آپ سے قبل جتنے رسول آئے وہ سب فوت ہو چکے ہیں.اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم اپنے دین کو چھوڑ دو گے؟ اور سمجھو گے کہ تمہارا دین ناقص ہے؟ پھر نہایت جوش سے فرمایا کہ اے لوگو! مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَى لَا يَمُوتُ جو تم میں سے اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو جائے کہ ہمارا خدا زندہ ہے اور کبھی نہیں مرسکتا.وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّداً فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ لیکن جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا ، وہ سن لے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.حضرت عمر کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ بالا آیت پڑھی، مجھے ایسا معلوم ہوا گویا آسمان پھٹ گیا ہے اور میری ٹانگیں لڑکھڑا گئیں اور پاؤں کی طاقت سلب ہوگئی اور میں بے اختیار ہوکر زمین پر گر پڑا.اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں.دیکھو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت تھی کہ جب انہیں معلوم ہو گیا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں تو بے اختیار ہو کر آپ کے جسم مبارک کو بوسہ دیا ، آنکھوں سے آنسو
خطبات مسرور جلد 11 663 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء رواں ہو گئے مگر دوسری طرف اُس سچائی سے کتنی محبت تھی جو آپ لائے تھے کہ حضرت عمر جیسا بہادر تلوار لے کر کھڑا ہے کہ جو کہے گا آپ فوت ہو گئے ہیں میں اُسے جان سے مار دوں گا اور بہت سے صحابہ اُن کے ہم خیال ہیں.مگر باوجود اس کے آپ نڈر ہو کر کہتے ہیں کہ جو کہتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں وہ گویا آپ کو خدا سمجھتا ہے.میں اُسے بتاتا ہوں کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.مگر وہ خدا جس کی آپ پرستش کرانے آئے تھے وہ زندہ ہے.یہ سچائی کا اثر تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے دلوں میں پیدا کر دی تھی کہ وہ صحابہ جونگی تلوار میں لے کر کھڑے تھے انہوں نے یہ بات سنتے ہی سر جھکائے اور تسلیم کر لیا کہ ٹھیک ہے ، آپ واقعہ میں فوت ہو گئے ہیں.پھر حضرت مصلح موعود بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کو جو بے مثل محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے تھی ، وہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ظاہر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل ایک لشکر تیار کیا تھا کہ شام کے بعض مخالفین کو جا کر اُن کی شرارتوں کی سزا دے.ابھی یہ شکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی.آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ منتخب ہوئے اور اکثر صحابہ نے اتفاق کر کے آپ سے عرض کیا کہ اس لشکر کی روانگی ملتوی کر دی جائے کیونکہ چاروں طرف سے عرب میں بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں اور مکہ اور مدینہ اور صرف ایک اور گاؤں تھا جس میں باجماعت نماز ہوتی تھی.لوگوں نے نمازیں پڑھنی بھی چھوڑ دی تھیں اور لوگوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا تھا کہ ہم زکوۃ نہیں دیں گے.صحابہ نے حضرت عمر کو حضرت ابوبکر کے پاس بھیجا کہ اس لشکر کو روک لیں.کیونکہ اگر بوڑھے بوڑھے لوگ یا بچے ہی مدینہ میں رہ گئے تو وہ باغی لشکروں کا مقابلہ کس طرح کر سکیں گے.یعنی جو دوسرے باغی لوگ تھے اُن کا مقابلہ مدینہ کے یہ بوڑھے کس طرح کر سکیں گے.مگر حضرت ابوبکر نے اُن کو یہ جواب دیا کہ کیا ابو قحافہ کے بیٹے کو یہ طاقت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے.خدا کی قسم ! اگر باغی مدینہ میں داخل بھی ہو جائیں اور ہماری عورتوں کی لاشوں کو کتے گھسیٹتے پھریں، جب بھی وہ لشکر ضرور جائے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کو آپ سے کتنا عشق تھا مگر چونکہ آپ صدیقیت کے مقام پر تھے اس لئے جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کی عظمت اس سے بھی زیادہ ہے.پس ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کولیا اور اسے قائم رکھا.حتی کہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ اُسے ذرہ بھر بھی نہیں بدلا گیا.عیسائی، ہندو، یہودی غرضیکہ سب مخالف تو میں تسلیم کرتی ہیں کہ قرآن کریم کا ایک شعتہ بھی نہیں بدلا.آج یہاں کے نام نہادر یسر چرز (Researchers) کو جو یہ اُبال چڑھا ہے کہ
خطبات مسرور جلد 11 664 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء قرآن شریف بدلا گیا، حالانکہ ثابت نہیں کر سکتے کہ ایک شعشہ بھی بدلا گیا ہے.جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھا، وہی قرآن کریم آج ہے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اب اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا کہ تا آپ اخلاق فاضلہ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق دلوں میں قائم کریں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا اجراء کریں.اور ہمیں اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نے ان چیزوں کی اسی طرح حفاظت کرنی ہے جس طرح صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کی تھی.ہم میں اور دوسری قوموں میں ایسا امتیاز ہونا چاہئے کہ پتہ لگ سکے کہ ہم نے اس امانت کو قائم رکھا ہے.آپ پھر آگے بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک جماعت ایسی موجود تھی.مگر سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ نسلوں میں بھی یہی جذبہ موجود ہے؟ کیا کوئی عقلمند یہ پسند کر سکتا ہے کہ ایک اچھی چیز اُسے تو ملے مگر اُس کی اولا د اُس سے محروم رہے.پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کی قدر و قیمت جانتا ہے، وہ پسند کرے گا کہ وہ اُس کے ورثاء کو نہ ملے لیکن اُس کی زمین اور اُس کے مکانات اُنہیں مل جائیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كه وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَ لَهُو (الانعام : 33) کہ دنیوی زندگی لہو ولعب کی طرح ہے.یہ سب کھیل تماشے کی چیزیں ہیں.یہ ایسی ہی ہیں جس طرح فٹ بال ، کرکٹ یا پا کی ہوتی ہے.پھر کیا کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ حکومت اُس کی زمین، مکان اور جائیداد تو ضبط کر لے مگر گلی ڈنڈا اُسکے بیٹے کو دے دے یا کوئی پھٹا پرانافٹبال یا ٹوٹا ہوائینس ریکٹ یا با کی کی سٹک (stick) اُس کے بیٹوں کو دے دے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیوی چیز میں لہو و لعب ہیں اور دین ودنیا میں وہی نسبت ہے جو حقیقی چیز کوکھیل تماشے سے ہوتی ہے اور کوئی شخص یہ کب پسند کر سکتا ہے کہ قیمتی ورثہ تو اُس کی اولا د کو نہ ملے اور لہو ولعب کی چیزیں مل جائیں.لیکن کیا ہم میں سے ایسے لوگ نہیں ہیں جو عملاً ایسا کرتے ہیں.جب اُن کا بیٹا جھوٹ بولے، چوری کرے یا کوئی اور جرم کرے تو اُس کی تائید کرتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ماں باپ چوری چھپے جرم کرنے والوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں.اول تو وہ اس وجہ سے مجرم ہیں کہ انہوں نے اولا دکو دینی تعلیم سے محروم رکھا.اگر اُن کے نزدیک نیکی کی کوئی قیمت ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ اس سے اپنی اولا دکو محروم رکھتے اور اگر تربیت میں کوتاہی ہوگئی تو پھر مجرم کی اعانت سے ہی باز رہتے.قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدة : 3) کہ نیکی اور تقویٰ میں ضرور تعاون کرو مگر بدی اور عدوان میں تعاون نہ کرو.تو آپ نے فرمایا کہ پہلا جرم تو انہوں
خطبات مسرور جلد 11 665 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013 ء نے یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم: 7 ) کہ اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ.مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا.اور دوسرا یہ جرم کرتے ہیں ( بعض لوگوں کی شکایات آئی تھیں ، اُس پر یہ بیان فرما رہے ہیں.اور اس طرح کی شکایتیں آجکل بھی آتی ہیں) که وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدة:3 ) کے حکم الہی کو توڑتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو دین کو نعمت قرار دیتا ہے، مگر وہ جماعت جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی دعویدار ہے اس میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اول تو اپنی اولادکو دین سے محروم رکھتے ہیں اور پھر جب وہ شرارت کریں تو اُن کی مدد کرتے ہیں.حالانکہ وہ بعض ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جن پر شرافت اور انسانیت بھی چلا اٹھتی ہے.چہ جائیکہ احمدیت اور ایمان کے متحمل ہو سکیں.مگر ایسے مجرموں کے والدین، بھائی، رشتہ دار بلکہ دوست اُن کی مدد کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ایسا کرنے سے ایمان کہاں باقی رہ جاتا ہے؟ ایسے آدمی کا دین تو آسمان پر اڑ جاتا ہے.آپ نے فرمایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو.ایک دفعہ بعض صحابہ نے آپ کے پاس کسی مجرم کی سفارش کی تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو وہ بھی سزا سے نہیں بچ سکے گی.تو تقویٰ اور طہارت ایسی نعمت ہے کہ اس کے حصول کے لئے انسان کو کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو ہمیں دولت ملی ہے وہ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں اور اپنی اولادوں کو اُن کا وارث بنانا ہمارا فرض ہے.اور اگر غفلت کی وجہ سے اس میں کوئی کوتا ہی ہو جائے تو مومن کا فرض ہے کہ وہ تَعَاوَنُوا عَلَى الاقمہ نہ دکھائے، بلکہ اُسی وقت اس سے علیحدہ ہو جائے جس نے جرم کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اس کی ایسی مثالیں ہمیں دکھائی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کرنا ناممکن ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی تھے، اُن کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سید حامد شاہ صاحب مرحوم بہت مخلص احمدی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کو اپنے بارہ حواریوں میں سے قرار دیا تھا.چنانچہ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ میرے سامنے بھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے حواریوں کے نام گنے تو ان کا بھی نام لیا تھا.اور پھر ان کے نیک انجام نے اُن کے درجہ کی بلندی پر مہر بھی لگادی.ایک دفعہ ان کے لڑکے کے ہاتھ سے ایک شخص قتل ہو گیا.مگر ی قتل ایسے حالات میں ہوا کہ عوام کی ہمدردی اُن کے لڑکے کے ساتھ تھی.یہ جو بزرگ صحابی سید حامد شاہ صاحب تھے، ان کے بیٹے سے قتل ہوا لیکن حالات ایسے تھے کہ اس قتل کے باوجود عوام الناس ان سے، ان کے بیٹے سے ہی
خطبات مسرور جلد 11 666 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء ہمدردی کر رہے تھے.کیونکہ مقتول کی زیادتی تھی جس پر لڑائی ہوگئی اور اُن کے لڑکے نے اُسے مکہ مارا اور وہ مر گیا.وہ ایسے ہی واقعہ ہوا جیسے حضرت موسیٰ کے زمانے کا واقعہ ہے.سیالکوٹ کا ڈپٹی کمشنر جو انگریز تھا، وہ ایسے افسروں میں سے تھا جو جرم ثابت ہو یا نہ ہو ، سز ا ضرور دینا چاہتے ہیں تارعب قائم ہو جائے.اُسے خیال آیا کہ میر حامد شاہ صاحب میرے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ ہیں.اگر میں ان کے لڑکے کو سزا دوں گا تو میرے انصاف کی دھوم مچ جائے گی.اس لئے شاہ صاحب کو بلایا اور پوچھا کہ کیا واقعی آپ کے لڑکے نے قتل کیا ہے.آپ نے فرمایا.میں تو وہاں موجود نہ تھا لیکن سنا ہے کہ کیا ہے.اُس نے کہا کہ آپ اُسے بلا کر کہہ دیں کہ وہ اقرار کر لے تا لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ہم کسی کا لحاظ نہیں کرتے.آپ نے اپنے لڑکے کو بلا کر پوچھا کہ تم نے اس شخص کو مارا ہے.اُس نے کہا ہاں مارا ہے.آپ نے فرما یا پھر سچی بات کا اقرار کر لو.لوگوں نے کہا کیوں اپنے جوان لڑکے کو پھانسی لٹکوانا چاہتے ہو.مگر آپ نے فرمایا کہ اس دنیا کی سزا سے اگلی دنیا کی سزا زیادہ سخت ہے اور اپنے بیٹے کو یہی نصیحت کی کہ اقرار کر لے.لیکن خدا کی قدرت کہ اُس نے اقرار تو کر لیا مگر وہ لڑکا کرکٹ کا کھلاڑی تھا اور وہ مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ تھا ، وہ بھی کرکٹ کھیلنے والا تھا، اُسے کرکٹ کلب میں معاملہ کی حقیقت معلوم ہوگئی اور چونکہ قانون ایسا ہے کہ اگر مجسٹریٹ کو کسی بات کا یقین ہو جائے تو ملزم سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی.اُس نے خود ہی پولیس کے گواہوں پر ایسی جرح کی کہ اُس لڑکے کی بریت ثابت ہو گئی اور اس نے اس وجہ سے کچھ پوچھے بغیر ہی اُسے رہا کر دیا.تو سچائی کی وجہ سے وہ اس سزا سے بھی چھوٹ گئے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اسی قسم کا ایک مقدمہ پچھلے دنوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بھائی پر ہوا.چوہدری صاحب اُس وقت ولایت میں تھے.( یہاں لندن میں تھے ).انہوں نے اپنے بھائی کولکھا کہ یہ ایمان کی آزمائش کا وقت ہے.اگر تم سے قصور ہوا ہے تو میں تمہارا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس دنیا کی سزا سے اگلے جہان کی سزا زیادہ سخت ہے.اس لئے اُسے برداشت کر لو اور سچی بات کہہ دو.پھر آپ فرماتے ہیں کہ سیالکوٹ کے رہنے والے ہمارے ایک دوست ہیں جو ابھی زندہ ہیں.احمدی ہونے کے بعد جب انہیں معلوم ہوا کہ رشوت لینا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے تو انہوں نے تمام اُن لوگوں کے گھروں میں جا جا کر جن سے وہ رشوتیں لے چکے تھے، واپس کیں.اس سے وہ بہت زیر بار بھی ہو گئے.مقروض ہو گئے.مگر اس کی انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی.تو حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ہماری
خطبات مسرور جلد 11 667 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء جماعت میں ہر قسم کے اعمال کے لحاظ سے ایسے نمونے ملتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کے نمونے ہیں لیکن ہمیں اس پر خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ساری جماعت ایسی ہو جائے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امانت کی قدر کریں جو اُن کے سپرد کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر ہمیں جائیدادیں نہیں دیں، حکومتیں نہیں دیں، کوئی ایجادیں نہیں کیں، سامان تعیش ہمیں مہیا نہیں کئے ، عیش کرنے کے سامان مہیا نہیں کئے ،صرف ایک سچائی ہے جو ہمیں دی ہے.اگر وہ بھی جاتی رہے تو کس قدر بدقسمتی ہوگی اور ہم اس فضل کو اپنے ہاتھ سے پھینک دینے والے ہوں گے جو تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے نازل کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم کو اسلام دیا، اخلاق فاضلہ دیئے اور نمونے سے بتا دیا کہ ان پر عمل ہوسکتا ہے.پھر آپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مارٹن کلارک نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ میرے قتل کے لئے مرزا صاحب نے ایک آدمی بھیجا ہے.مسلمانوں میں علماء کہلانے والے اُس کے ساتھ اس شور میں شامل ہو گئے.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو اس مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت دینے کے لئے بھی آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت الہاما بتا دیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہو گا مگر اللہ تعالیٰ اُسے ذلیل کرے گا.لیکن باوجود اس کے کہ الہام میں اس کی ذلت کے متعلق بتادیا گیا تھا اور الہام کے پورا کرنے کے لئے ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا بھی ضروری ہوتا ہے مگر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے خود مولوی فضل دین صاحب نے جو لاہور کے ایک وکیل اور اس مقدمے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے پیروی کر رہے تھے، سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جو ذاتی سوال تھا ، جس سے مولوی محمد حسین کی ذلت ہوتی تھی.مطلب اس وجہ سے ذات پر اُن کے حرف آتا تھا.تو آپ نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایسے سوالات کو برداشت نہیں کر سکتے.مولوی فضل دین صاحب نے کہا کہ اس سوال سے آپ کے خلاف مقدمہ کمزور ہو جائے گا اور اگر یہ نہ پوچھا جائے تو آپ کو مشکل پیش آئے گی.مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں ، ہم اس سوال کی اجازت نہیں دے سکتے.یہ جو وکیل تھے مولوی فضل دین، یہ احمدی نہیں تھے بلکہ حنفی تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے وکیل تھے اور آپ کی طرف سے مقدمہ لڑ رہے تھے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ حنفیوں کے لیڈر بھی تھے یہ، انجمن نعمانیہ وغیرہ کے سرگرم کارکن تھے، اس لئے مذہبی لحاظ سے تعصب رکھتے تھے مگر جب بھی کبھی غیر احمدیوں کی مجلس میں حضرت مسیح موعود
خطبات مسرور جلد 11 668 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء علیہ السلام کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ پرزور تردید کرتے اور کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور اخلاق کے لحاظ سے میں نے ایسے ایسے مواقع پر اُن کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہوسکتا تھا جس مقام پر آپ کھڑے تھے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ جس خدا نے قبل از وقت مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت کی خبر آپ کو دی تھی، اُس نے ایک طرف تو آپ کے اخلاق دکھا کر آپ کی عزت قائم کی اور دوسری طرف غیر معمولی سامان پیدا کر کے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کر دیا.اور یہ اس طرح ہوا کہ وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت مخالف تھا اُس نے جو نہی آپ کی شکل دیکھی، اُس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور باوجود اس کے کہ آپ ملزم کی حیثیت سے اُس کے سامنے پیش ہوئے تھے اُس نے کرسی منگوا کر اپنے سامنے بچھوائی اور اس پر آپ کو بھوا یا.جب مولوی محمد حسین صاحب گواہی دینے کے لئے آئے ، چونکہ وہ اس امید پر آئے تھے کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی یا کم سے کم آپ کو ذلت سے کھڑا کیا گیا ہو گا.جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ہوا ہے تو وہ غصہ سے مغلوب ہو گئے اور جھٹ مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے.اس پر عدالت نے کہا کہ نہیں.آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا.جب انہوں نے اصرار کیا تو جج نے اُن کو بڑا سخت ڈانٹا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ کی عزت قائم ہوئی.اس کے بالمقابل ہماری جماعت کے کتنے دوست ہیں جو غصے کے موقع پر اپنے نفس پر قابور کھتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو کہ ایسے شدید دشمن کے صحیح واقعات سے بھی اُس کی تذلیل گوارا نہیں کرتے مگر ہمارے دوست جوش میں آ کر گالیاں دینے بلکہ مارنے پیٹنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ: ے رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹا یا ہم نے پس ہماری جماعت کو ایک طرف تو یہ اعلیٰ اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں اور دوسری طرف بدی سے پوری پوری نفرت کرنی چاہئے.ایسی ہی نفرت جیسی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دکھائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں بھی یہ دونوں نظارے پائے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن ایک سمویا ہوا انسان ہے.اور پھر واقعہ بیان کیا کہ پنڈت
خطبات مسرور جلد 11 669 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء لیکھرام کو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اُس نے زبان درازی کی تھی.لیکن دوسری طرف یہ بھی رحم ہے کہ اپنے متعلق جو بات ہو رہی ہے اُس میں فرمایا کہ نہیں.ایسا کام نہیں کرنا جس سے مولوی محمد حسین صاحب کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے.آپ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو کہ جو شخص اپنی اولا د کو نیک اخلاق نہیں سکھا تا وہ نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے دشمنی کرتا ہے بلکہ سلسلہ سے بھی دشمنی کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کرتا ہے اور خدا سے دشمنی کرتا ہے.آپ نے فرمایا کہ میں بہت ساری نصیحتیں کرتا رہتا ہوں، خطبات دیتا رہتا ہوں، اور یہ سلسلہ تو ہر دور میں چلتا ہے ، تمام خلفاء نے دیئے، دیتے رہے ہیں، میں بھی دیتا ہوں.آپ مثال اس کی دیتے ہیں کہ جب تک خطبات چلتے رہتے ہیں، کچھ نہ کچھ اثر رہتا ہے اور جب خطبات کا سلسلہ بند ہوتا ہے یا پھر کچھ عرصے بعد وہ اثر ختم ہو جاتا ہے.آپ نے اس کی مثال دی کہ ایک کھلونا ہوتا ہے جس کا نام ہے jack in the box_ وہ باکس کے اندر ایک لچکدار گڑا ہوتا ہے.جب ڈھکنا بند کر دیں تو وہ اندر بند ہو جاتا ہے.ڈھکنا کھولو تو پھر اچھل کے باہر آ جاتا ہے.تو یہی حال ان لوگوں کا ہے جن کو نصیحت کرتے رہو، کرتے رہو، کچھ عرصہ اثر رہتا ہے اور جب نصیحت بند ہوتی ہے تو پھر وہ اُسی طرح اچھل کے باہر آ جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ خدا نے کسی کو اتنا وقت نہیں دیا کہ ایسے وعظ کر سکے کہ مستقل چلتے چلے جائیں.اصل چیز یہی ہے کہ انسان مومن بنے ، پھر یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے.کیونکہ یہ کشمکش اُسی وقت تک کے لئے ہے جب تک ایمان نہ ہو.پس جب تو جہ دلائی جائے تو اُس کو غور سے سننے کے بعد پھر اُس کو عملی زندگی کا حصہ بنانا چاہئے اور یہی جماعت کی ترقی کا راز ہے اور یہی چیز جو ہے انسان کو صحیح عبد بناتی ہے.آپ فرماتے ہیں پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے اُن پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے.انسان کے اندر کمزوریاں خواہ پہاڑ کے برابر ہوں، اگر وہ چھوڑنے کا ارادہ کر لے تو کچھ مشکل نہیں.حضرت مسیح علیہ السلام کا مشہور مقولہ ہے کہ اگر تمہارے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو تم پہاڑ کو اُن کی جگہوں سے ہٹا سکتے ہو.اس کا مطلب یہی ہے کہ گناہ خواہ پہاڑ کے برابر ہوں، انسان کے اندر ایمان اگر رتی برابر بھی ہے تو وہ ان پہاڑوں کو اڑا سکتا ہے.جس دن مومن ارادہ کر لے تو اس کے راستہ میں کوئی روک نہیں رہتی.وہ سب روکیں دور ہو جاتی ہیں.فرمایا کہ اس وقت میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست اپنی اپنی اولادوں کی اور جماعت کے دوسرے نو جوانوں کی اصلاح کریں.اپنی اصلاح کریں.جھوٹ ، چوری، دغا،فریب ، دھوکہ، بد معاملگی ،
خطبات مسرور جلد 11 670 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 29 نومبر 2013ء غیبت وغیرہ بد عادات ترک کر دیں.حتی کہ اُن کے ساتھ معاملہ کرنے والا محسوس کرے کہ یہ بڑے اچھے لوگ ہیں.اور اچھی طرح یا درکھو کہ اس نعمت کے دوبارہ آنے میں تیرہ سو سال کا عرصہ لگا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیں ملی.اگر ہم نے اس کی قدر نہ کی اور پھر تیرہ سو سال پر یہ جاپڑی تو اُس وقت تک آنے والی تمام نسلوں کی لعنتیں ہم پر پڑتی رہیں گی.اس لئے کوشش کرو کہ اپنی تمام نیکیاں اپنی اولادوں کو دو اور پھر وہ آگے دیں اور وہ آگے اپنی اولادوں کو دیں.اور یہ امانت اتنے لمبے عرصے تک محفوظ چلی جائے کہ ہزاروں سالوں تک ہمیں اس کا ثواب ملتا جائے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نیکی کسی شخص کے ذریعہ سے قائم ہو، وہ جب تک دنیا میں قائم رہے اور جتنے لوگ اسے اختیار کرتے جائیں اُن سب کا ثواب اُس شخص کے نام لکھا جاتا ہے.پس جو بدلہ ملتا ہے وہ بھی بڑا ہے اور امانت بھی اپنی ذات میں بہت بڑی ہے.اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 541 خطبہ جمعہ فرمودہ 21 اگست 1936ء) اللہ تعالیٰ ہمیں اس امانت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ہمارے بزرگوں کی طرف سے جو امانت عطا ہوئی ہے ہم اس کا حق ادا کرنے والے بنیں اور جن لوگوں نے خود اس امانت کو یہ عہد کرتے ہوئے قبول کیا ہے کہ ہم اس کا حق ادا کریں گے اُن کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور نسلاً بعد نسل یہ حق ادا ہوتا چلا جائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 20 دسمبر 2013 ء تا 26 دسمبر 2013 ، جلد 20 شماره 51 صفحہ 5 تا9)
خطبات مسرور جلد 11 671 49 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6دسمبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 06 دسمبر 2013 ء بمطابق 06 فتح 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک خطبہ کے حوالے سے عملی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور آپ کے غلام صادق کے طریق اور طرز عمل کے واقعات بیان کئے تھے جن میں ایک خلق سچائی کا تفصیل کے ساتھ بیان ہوا تھا کہ ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام صادق کس اعلیٰ معیار پر قائم تھے.اور پھر معیاروں کی یہ بلندی آگے صحابہ کو بھی ان نمونوں کی پیروی کرتے ہوئے کس اعلیٰ مقام پر لے گئی.سچائی کے حوالے سے بات تو ایک مثال کے طور پر تھی.حقیقت میں تو ہر نیکی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کرنے کا حکم فرمایا ہے، اُس کا حصول اور ہر برائی جس سے رکنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے، اُس سے نہ صرف رکنا بلکہ نفرت کرنا عملی اصلاح کی اصل اور جڑ ہے.پس ہم تب حقیقی مسلمان کہلائیں گے ، ہم تب زمانے کے امام کی حقیقی جماعت کے فرد کہلائیں گے جب نیکیاں اور اعلیٰ اخلاق ہم میں پیدا ہوں گے، جن کے پیدا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی مسلمان کو حکم دیا ہے.اور دوسری طرف بدی سے انتہائی کراہت کے ساتھ نفرت ہو.گویا حقیقی مومن ایک ایسا سمویا ہوا انسان ہوتا ہے جو نیکیوں کی تلاش کر کے انہیں سینے سے لگانے والا اور بدیوں سے دور بھاگنے والا ہو.تبھی وہ اعتدال کے ساتھ اپنے معاملات طے کر سکتا ہے.یہ نہیں کہ برائیوں اور نیکیوں کے بیچ لڑکا ہوا ہواور پھر دعوے بھی بلند بانگ ہوں.گزشتہ خطبہ میں یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ اعتقادی لحاظ سے ہمارے پاس بڑے ٹھوس دلائل ہیں جو
خطبات مسرور جلد 11 672 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6دسمبر 2013ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں صداقتِ اسلام اور صداقتِ احمدیت کے لئے دیئے ہیں.اور یہ بات ہمیشہ ہمارا پتہ دشمن پر بھاری رکھتی ہے.ڈھٹائی اور ضد اور شقاوت قلبی کی وجہ سے اگر کوئی نہ مانے تو اور بات ہے لیکن بہر حال ان کا رد مخالفین اسلام کے پاس نہیں ہے اور اس وجہ سے بحث سے بھی کتراتے ہیں جب ایک دفعہ پتہ لگ جائے کہ احمدی کس نہج پر بحث کر رہا ہے.”الحوار المباشر کے ہمارے عربی پروگرام میں کئی عیسائیوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے پاس دلائل ٹھوس ہیں.اسی طرح جماعت احمدیہ کی صداقت کی بھی ہمارے پاس بہت دلیلیں ہیں.ایک طرف غیروں پر اسلام کی صداقت ظاہر کر رہے ہیں، دوسری طرف مسلمانوں میں سے جو جماعت پر اعتراض کرتے ہیں، اُن کے اعتراض کا رڈ بھی ہے.مخالفین اگر ضد نہ کریں اور توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو اور فرمودہ دلائل کو پیش نہ کریں یا نہ دیکھیں تو احمدیت کی سچائی کو مانے بغیر اُن کو چارہ نہیں ہے.لیکن ان علماء کے ذاتی مفادات انہیں اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ کے پلندوں سے عوام الناس کو ورغلاتے رہیں اور جب دلیل کوئی نہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف دریدہ دہنی کرتے رہیں.پس جہاں تک دلائل کا سوال ہے، ہمارا پلہ ہر مخالف اسلام اور مخالفت احمدیت پر بھاری ہے.ہم میں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں ، اُن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اُن کے سامنے تو کوئی نہیں ٹھہر سکتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اگر تم میری کتب پڑھ لو تو تمہارے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا.(ماخوز از رجسٹر روایات ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 7 صفحہ 49 روایت حضرت میاں محمد الدین صاحب) لیکن جب ہم اس پہلو کی طرف دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں جو عملی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں، اُس کی حالت کیا ہے؟ تو پھر فکر پیدا ہوتی ہے.سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ہم میں سے ہر ایک معاشرے کی ہر برائی کا مقابلہ کر کے اُسے شکست دے رہا ہے؟ کیا ہم میں سے ہر ایک کے ہر عمل کو دیکھ کر اُس سے تعلق رکھنے والا اور اُس کے دائرے اور ماحول میں رہنے والا اُس سے متاثر ہو رہا ہے، یا پھر ہم ہی معاشرے کے اثر سے متاثر ہو کر اپنی تعلیم اور اپنی روایات کو بھولتے چلے جارہے ہیں.کیا ہم میں سے ہر ایک بھر پور کوشش کرتے ہوئے اپنی اس طرح عملی اصلاح کر رہا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے جو ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے، یہ پوچھتی ہے کہ کیا ہم نے سچائی
خطبات مسرور جلد 11 673 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 دسمبر 2013ء کے وہ معیار قائم کر لئے ہیں کہ جھوٹ اور فریب ہمارے قریب بھی نہ پھٹکے؟ کیا ہم نے اپنے دنیاوی معاملات سے واسطہ رکھتے ہوئے آخرت پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے؟ کیا ہم حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہر ایک بدی سے اور بدعملی سے انتہائی محتاط ہوکر بچنے کی کوشش کرنے والے ہیں؟ کیا ہم کسی کا حق مارنے سے بچنے والے اور ناجائز تصرف سے بچنے والے ہیں؟ کیا ہم پنجگانہ نماز کا التزام کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہمیشہ دعا میں لگے رہنے والے اور خدا تعالیٰ کو انکسار سے یاد کرنے والے ہیں؟ کیا ہم ہر ایسے بدرفیق اور ساتھی کو جو ہم پر بداثر ڈالتا ہے، چھوڑنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے ماں باپ کی خدمت اور اُن کی عزت کرنے والے اور امور معروفہ میں اُن کی بات ماننے والے ہیں؟ کیا ہم اپنی بیوی اور اُس کے رشتہ داروں سے نرمی اور احسان کا سلوک کرنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے ہمسائے کو ادنیٰ ادنی خیر سے محروم تو نہیں کر رہے؟ کیا ہم اپنے قصور وار کا گناہ بخشنے والے ہیں؟ کیا ہمارے دل دوسروں کے لئے ہر قسم کے کینے اور بغض سے پاک ہیں؟ کیا ہر خاوند اور ہر بیوی ایک دوسرے کی امانت کا حق ادا کرنے والے ہیں؟ کیا ہم عہد بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حالتوں کی طرف نظر رکھنے والے ہیں؟ کیا ہماری مجلسیں دوسروں پر تہمتیں لگانے اور چغلیاں کرنے سے پاک ہیں؟ کیا ہماری زیادہ تر مجالس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کرنے والی ہیں؟ اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے دُور ہیں اور ہمیں اپنی عملی حالتوں کی فکر کرنی چاہئے.اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو ہم میں سے وہ خوش قسمت ہیں جن کو یہ جواب ہاں میں ملتا ہے کہ ہم اپنی عملی حالتوں کی طرف تو جہ دے کر بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں.لیکن اگر حقیقت کی آنکھ سے ہم دیکھیں تو ہمیں یہی جواب نظر آتا ہے کہ بسا اوقات معاشرے کی رو سے متاثر ہوتے ہوئے ہم ان باتوں یا ان میں سے اکثر باتوں کا خیال نہیں رکھتے اور معاشرے کی غلطیاں بار بار ہمارے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور ہم اکثر اوقات بے بس ہو جاتے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے 99.9 فیصد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عقیدے کے لحاظ سے پختہ ہیں اور کوئی ہمیں ہمارے عقیدے سے متزلزل نہیں کر سکتا ، ہٹا نہیں سکتا.لیکن ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ عملی کمزوریاں جب معاشرے کے زور آور حملوں کے بہاؤ میں آتی ہیں تو اعتقاد کی جڑوں کو بھی ہلا نا شروع کر دیتی ہیں.شیطان آہستہ آہستہ حملے کرتا ہے.نظام جماعت سے دُوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.اور پھر ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو خلافت سے بھی دُوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.
خطبات مسرور جلد 11 674 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 دسمبر 2013ء پس ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ ایک کمزوری دوسری کمزوری کی جاگ لگاتی ہے اور آخر کا رسب کچھ برباد ہو جاتا ہے.ہم جانتے ہیں کہ احمدیت کی خوبصورتی تو نظام جماعت اور نظام خلافت کی لڑی میں پرویا جانا ہے.اور یہی ہماری اعتقادی طاقت بھی ہے اور عملی طاقت بھی ہے.اس لئے ہمیشہ خلفائے وقت کی طرف سے کمزوریوں کی نشاندہی کر کے جماعت کو توجہ دلائی جاتی رہتی ہے تا کہ اس سے پہلے کہ کوئی احمدی اتنا دور نکل جائے کہ واپسی کا راستہ ملنا مشکل ہو، استغفار کرتے ہوئے اپنی عملی کمزور یوں پر نظر ر کھے اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے.اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو یاد کرے جو اللہ تعالیٰ نے اُس پر کیا ہے.مشرق بعید کے میرے حالیہ دورے کے دوران مجھے انڈونیشیا کے کچھ غیر از جماعت سکالرز اور علماء سے بھی ملنے کا موقع ملا.سنگا پور میں جو reception ہوئی تھی اُس میں آئے ہوئے تھے اور جیسا کہ میں اپنے دورے کے حالات میں بیان کر چکا ہوں کہ اکثر نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے علماء کو جماعت احمدیہ کے امام کی باتیں سننی چاہئیں.تو بہر حال اُن کے ایک سوال کے جواب میں میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ آج رُوئے زمین پر جماعت احمدیہ ایک واحد جماعت ہے جو ملکی یا علاقائی نہیں بلکہ تمام دنیا میں ایک جماعت کے نام سے جانی جاتی ہے.جس کی ایک اکائی ہے، جس میں ایک نظام چلتا ہے اور ایک امام سے منسلک ہے اور دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل کا فرد اس میں شامل ہے.پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان اور پیشگوئی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ مسلم امتہ میں ایک جماعت ہوگی.آپ نے فرمایا تھا ایک جماعت ہوگی جو صحیح رستے پر ہوگی.(سنن الترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فى افتراق هذه الامة حديث نمبر 2641) اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی صداقت کی دلیل ہے.جو عقل مند اور سعید فطرت مخالفین بھی ہیں اس بات کو سن کر خاموش ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں.لیکن اس دلیل کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی عملی حالتوں کی طرف ہر وقت نظر رکھنی ہوگی کیونکہ اس زمانے میں شیطان پہلے سے زیادہ منہ زور ہوا ہوا ہے.آجکل جو عملی خطرہ ہے وہ معاشرے کی برائیوں کی بے لگامی اور پھیلاؤ ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ آزادی اظہار اور تقریر کے نام پر بعض برائیوں کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے.اس زمانے سے پہلے برائیاں محدود تھیں.یعنی محلے کی برائی محلے میں یا شہر کی برائی شہر میں یا ملک کی برائی ملک میں ہی تھی.یا زیادہ سے زیادہ قریبی ہمسائے اُس سے متاثر ہو جاتے تھے.لیکن آج سفروں کی سہولتیں ، ٹی وی، انٹرنیٹ اور متفرق
خطبات مسرور جلد 11 675 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 دسمبر 2013ء میڈیا نے ہر فردی اور مقامی برائی کو بین الاقوامی برائی بنا دیا ہے.انٹرنیٹ کے ذریعہ ہزاروں میلوں کے فاصلے پر رابطے کر کے بے حیائیاں اور برائیاں پھیلائی جاتی ہیں.نوجوان لڑکیوں کو ورغلا کر اُن کی عملی حالتوں کی کمزوری تو ایک طرف رہی ، دین سے بھی دور ہٹا دیا جاتا ہے.گزشتہ دنوں میرے علم میں ایک بات آئی کہ پاکستان میں اور بعض ملکوں میں، وہاں کی یہ خبریں ہیں کہ لڑکیوں کو شادیوں کا جھانسہ دے کر پھر بالکل بازاری بنادیا جاتا ہے.وقتی طور پر شادیاں کی جاتی ہیں پھر طوائف بن جاتی ہیں اور یہ گروہ بین الاقوامی ہیں جو یہ حرکتیں کر رہے ہیں.یقیناً یہ خوفناک حالت رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے.اسی طرح نوجوان لڑکوں کو مختلف طریقوں سے نہ صرف عملی بلکہ اعتقادی طور پر بھی بالکل مفلوج کر دیا جاتا ہے.پس جہاں یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان غلاظتوں سے محفوظ رکھے، وہاں ہر احمدی کو بھی اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہوئے ان غلاظتوں سے بچنے کے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے.زمانے کی ایجادات اور سہولتوں سے فائدہ اُٹھا نا منع نہیں ہے لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اُس نے زمانے کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھا کر تکمیل اشاعت ہدایت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مددگار بننا ہے نہ کہ بے حیائی، بے دینی اور بے اعتقادی کے زیر اثر آ کر اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا ہے.پس ہر احمدی کے لئے یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے.ہمارے بڑوں کو بھی اپنے نمونے قائم کرنے ہوں گے تاکہ اگلی نسلیں دنیا کے اس فساد اور حملوں سے محفوظ رہیں اور نو جوانوں کو بھی بھر پور کوشش اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے آپ کو دشمن کے حملوں سے بچانا ہو گا.وہ دشمن جو غیر محسوس طریق پر حملے کر رہا ہے، وہ دشمن جو تفریح اور وقت گزاری کے نام پر ہمارے گھروں میں گھس گھس کر ہماری جماعت کے نوجوانوں اور کمز ور طبع لوگوں کو متاثر بھی کر رہا ہے.اُن میں نقص پیدا کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے.بیشک جیسا کہ میں نے کہا، خلفائے احمدیت عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں.گزشتہ خلفاء بھی اور میں بھی خطبات وغیرہ کے ذریعہ اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلا تارہتا ہوں اور ان ہدایات کی روشنی میں ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی پروگرام بناتے ہیں تا کہ ہم ہر طبقے اور ہر عمر کے احمدی کو دشمن کے ان حملوں سے بچانے کی کوشش کریں.لیکن اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی طرف خود توجہ کرے، مخالفین دین کے حملوں کو ناکام بنانے کے لئے کھڑا ہو جائے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دشمنانِ دین کی اصلاح کا عزم لے کر کھڑا ہو اور صرف دفاع نہیں کرنا بلکہ حملہ کر کے اُن کی اصلاح بھی
خطبات مسرور جلد 11 676 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 دسمبر 2013ء کرنی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے اپنا ایک خاص تعلق پیدا کرے تو نہ صرف ہم دین کے دشمنوں کے حملوں کو ناکام بنارہے ہوں گے بلکہ اُن کی اصلاح کر کے اُن کی دنیا و عاقبت سنوار نے والے بھی ہوں گے.بلکہ اس فتنہ کا خاتمہ کر رہے ہوں گے جو ہماری نئی نسلوں کو اپنے بداثرات کے زیر اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے.اس ذریعہ سے ہم اپنی نئی نسل کو بچانے والے ہوں گے.ہم اپنے کمزوروں کے ایمانوں کے بھی محافظ ہوں گے اور پھر اس عملی اصلاح کی جاگ ایک سے دوسرے کو لگتی چلی جائے گی اور یہ سلسلہ تا قیامت چلے گا.ہماری عملی اصلاح سے تبلیغ کے راستے مزید کھلتے چلے جائیں گے.نئی ایجادات برائیاں پھیلانے کے بجائے ہر ملک اور ہر خطے میں خدا تعالیٰ کے نام کو پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں گی.ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم حقائق سے کبھی نظریں نہیں پھیر سکتے کیونکہ ترقی کرنے والی قومیں، دنیا کی اصلاح کرنے والی قومیں، دنیا میں انقلاب لانے والی قو میں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتی ہیں.اگر آنکھیں بند کر کے ہم کہہ دیں کہ سب اچھا ہے تو یہ بات ہمارے کاموں میں روک پیدا کرنے والی ہوگی.ہمیں بہر حال حقائق پر نظر رکھنی چاہئے اور نظر رکھنی ہوگی.ہم اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے کہ پچاس فیصد کی اصلاح ہوگئی ہے یا اتنے فیصد کی اصلاح ہو گئی ہے بلکہ اگر ہم نے دنیا میں انقلاب لانا ہے تو سو فیصد کے ٹارگٹ رکھنے ہوں گے.میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر عملی اصلاح میں ہم سو فیصد کامیاب ہو جائیں تو ہماری لڑائیاں اور جھگڑے اور مقدمے بازیاں اور ایک دوسرے کو مالی نقصان پہنچانے کی کوششیں ، مال کی ہوس، ٹی وی اور دوسرے ذرائع پر بیہودہ پروگراموں کو دیکھنا، ایک دوسرے کے احترام میں کمی ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش، یہ سب برائیاں ختم ہو جائیں.محبت، پیار اور بھائی چارے کی ایسی فضا قائم ہو جو اس دنیا میں بھی جنت دکھا دے.یہ ایسی برائیاں ہیں جو عملاً ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں.جماعت کے اندر بھی بعض معاملات ایسے آتے رہتے ہیں ، اس لئے میں نے ان کا ذکر کیا ہے.اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہم میں پیدا ہو جائے تو خدمت دین کے اعلیٰ مقصد کو ہم فضل الہی سمجھ کر کرنے والے ہوں گے.میری اس بات سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم خدمت دین کو تو فضل الہی سمجھ کر ہی کرتے ہیں لیکن سو فیصد عہدیداران اس پر پورا نہیں اترتے.میرے سامنے ایسے معاملات آتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عہدیداروں میں وسعت حوصلہ اور برداشت کی طاقت نہیں ہے.کسی نے اونچی آواز میں کچھ کہہ دیا تو اپنی انا اور عزت آڑے آ جاتی ہے.کبھی جھوٹی
خطبات مسرور جلد 11 677 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 دسمبر 2013ء غیرت کے لبادے اوڑھ لئے جاتے ہیں.پس کسی کام کو فضل الہی سمجھ کر کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی 66 رضا کی خاطر ہر بات برداشت کرتا ہے.اپنی عزت کے بجائے الْعِزَّةُ لِلہ“ کے الفاظ اُسے عاجزی اور انکساری پر مجبور کرتے ہیں.پس اگر باریکی سے جائزہ لیں تو پتہ چلے کہ بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 18) پر عمل نہیں ہورہا.کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی انانیت کی رگ پھڑک اٹھتی ہے.کسی نہ کسی رنگ میں تکبر آڑے آ جاتا ہے.تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں“ سے ہم ذوقی حظ تو اُٹھاتے ہیں.ہم یہ مثال تو دیتے ہیں کہ ہم اس شخص کی بیعت میں شامل ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ ” تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں.“ ( تذکره صفحه 595 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ ) لیکن ہم آگے یہ نہیں دیکھتے کہ اُس نے اپنے ماننے والوں کو بھی یہ تعلیم دی تھی کہ اگر تمہیں مجھ سے کوئی تعلق ہے تو تم بھی یہی رویہ اپنا ؤ.(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 28.مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا کہ میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے احیائے ٹو کے لئے آیا ہوں.ماخوز از ملفوظات جلد اول صفحہ 490 - مطبوعہ ربوہ ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تو ہمارے سامنے یہ نمونہ رکھتا ہے کہ آپ کا غلام بھی کہتا ہے کہ مجھ سے کبھی آپ نے سخت الفاظ نہیں کہے کبھی سخت بات نہیں کہی.اور پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب سے ایک شخص پر کپکپی طاری ہوگئی تو فرمایا.گھبراؤ نہیں ، میں کوئی جابر بادشاہ نہیں.میں تو ایک عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی.“ (سنن ابن ماجه کتاب الاطعمة باب القديد حدیث نمبر 3312) پس یہ وہ عمل ہے جس کا عملی اظہار ہر عہدیدار کو اپنی عملی زندگیوں میں کرنے کی ضرورت ہے، ہر جماعتی کارکن کو اپنی عملی زندگی میں کرنے کی ضرورت ہے.ہر احمدی کو اپنی عملی زندگیوں میں کرنے کی ضرورت ہے.پس اگر کوئی عہدہ ملتا ہے، کوئی خدمت ملتی ہے تو ہمیشہ مسیح محمدی کے اس
خطبات مسرور جلد 11 فرمان کو سامنے رکھنا چاہئے کہ 678 دمیں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 دسمبر 2013ء (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 20) پس جب ہم اپنی عملی حالتوں میں بیکسی ، غربت اور بے ہنری کے اظہار پیدا کریں گے تو پھر ہی خدمت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں گے.اور شاید کہ اس سے دخل ہو دار الوصال میں‘ کی امید رکھنے والے بھی ہوں گے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 18) اگر یہ نہیں تو ہم دعوے کی حد تک تو بے شک درست ہوں گے کہ زمانے کے امام کو مان لیا لیکن حقیقت میں زبانِ حال سے ہم دعوے کا مذاق اُڑا رہے ہوں گے.کسی غیر کی دشمنی ہمیں نقصان نہیں پہنچا رہی ہوگی بلکہ خود ہمارے نفس کا دوغلا پن ہمیں رسوا کر رہا ہو گا.اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر مستزاد ہے.پس خاص طور پر ہر اُس شخص کو جس کو جماعت کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور عام طور پر ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ حق بیعت زبانی دعووں سے اور صرف ماننے سے ادا نہیں ہوتا بلکہ عمل کی قوت جب تک روشن نہ ہو، کچھ فائدہ نہیں.پس ہم اگر یہ اعلان کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے کہ کوئی بشر موت سے باہر نہیں رہا.اگر ہمارا یہ اعلان ہے کہ خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبی بھیج سکتا ہے اور آج بھی جس سے چاہے کلام کر سکتا ہے اور وحی کر سکتا ہے کیونکہ اُس کی کوئی صفت محدود اور خاص وقت کے لئے نہیں.اور ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور آپ کی پیروی اور محبت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر شرعی نبی کا اعزاز دے کر بھیجے گئے ہیں اور ہم نے اُن کو مانا ہے.اگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کریم وہ آخری شرعی کتاب ہے جو چودہ سو سال سے اپنی اصلی حیثیت میں محفوظ چلی آرہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اپنے ذمہ لی ہے اور کوئی دوسری شرعی کتاب آج اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں.جب ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ تم جتنا شور مچالو کہ قرآن کریم اپنی اصلی حالت میں نہیں یا چند صدیاں پہلے لکھی گئی ہے.جیسا کہ آج کل اسلام مخالف ٹی وی پروگراموں میں اور تحریروں میں بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن کریم نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں اترا تھا بلکہ یہ چھ سات سو سال پہلے لکھا گیا تھا تو ہم ثابت کرتے ہیں کہ تم
خطبات مسر در جلد 11 679 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6 دسمبر 2013ء غلط ہو.آج جماعت احمدیہ ان کو چیلنج کر کے دلائل سے ان کا منہ بند کرتی ہے اور ہمارے دلائل کا ہی اثر ہے کہ جس نے یہ دعوی کیا تھا اور ٹی وی چینل پر یہاں پروگرام بھی کیا تھا کہ قرآن کریم خدائی صحیفہ نہیں، اُس کو جب ہم نے مقابل پر بلایا تو اُس نے آنے سے انکار کر دیا.بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے.ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عیسی کی بعثت ثانی کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانے میں بھیجا ہے.ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی آخری شرعی کتاب آج تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے تو کیا یہ سب اور متفرق اعتقادی باتیں ہمیں ہمارا مقصد پورا کرنے میں کامیاب کر دیں گی!؟ تو جواب یہ ہے اور یقیناً یہی جواب ہے کہ نہیں.کیونکہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کو ثابت کرنے کے بعد عیسی کی آمد ثانی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہوئی تھی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے وجود سے ہوئی تھی، اس بات کو اگر ہم وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا ( الجمعة : 4 ) کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ہو ئیں تو صرف عقیدے پر قائم ہونا فائدہ نہیں پہنچائے گا.بالم جب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی مسیح موعود ہیں جس کے آنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی اور آپ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا تھا تو پھر آپ کی تعلیم کا اثر بھی ہمیں اپنے پر ظاہر کرنا ہوگا.ورنہ صرف عقیدہ بے معنی ہے.اگر ہم قرآن کریم کو آج تک محفوظ سمجھتے ہیں لیکن اس میں بیان احکامات جو ہماری عملی زندگی کے لئے ضروری ہیں اُن پر عمل نہیں کرتے تو قرآنِ کریم کے دفاع میں صرف ہمارا اعلان ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گا.یہ اعلان تبھی پر اثر ہو گا جب ہم اس تعلیم کو اپنی عملی حالتوں پر جاری کریں گے.پس یہ عقائد جو ہم پر عملی ذمہ داری ڈالتے ہیں انہیں پورا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے.اپنی عملی حالتوں کی درستگی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم نے ادا کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” پس یا درکھو کہ صرف لفاظی اور لستانی کام نہیں آ سکتی ، جب تک کہ عمل نہ ہو.محض باتیں عند اللہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 48.مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے فرمایا کہ : اپنے ایمانوں کو وزن کرو.”اپنے ایمانوں کو وزن کرو.عمل ایمان کا زیور
خطبات مسرور جلد 11 680 خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 6 دسمبر 2013ء ہے.اگر انسان کی عملی حالت درست نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے.مومن حسین ہوتا ہے.ایک خوبصورت انسان ہوتا ہے.” جس طرح ایک خوبصورت انسان کو معمولی اور ہلکا سا زیور بھی پہنا دیا جائے تو وہ اُسے زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے.اسی طرح پر ایک ایمان دار کو اُس کا عمل نہایت خوبصورت بنادیتا ہے.اگر وہ بد عمل ہے تو پھر کچھ بھی نہیں.انسان کے اندر جب حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو اُس کو اعمال میں ایک خاص لذت آتی ہے اور اُس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے.وہ اس طرح نماز پڑھتا ہے جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہوتا ہے.گناہوں سے اُسے بیزاری پیدا ہو جاتی ہے.نا پاک مجلس سے نفرت کرتا ہے.اور اللہ تعالیٰ اور رسول کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے اپنے دل میں ایک خاص جوش اور تڑپ پاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 249.مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ نے فرمایا کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے سُورۃ بہود نے بوڑھا کر دیا.کیونکہ اس کے حکم کے رُو سے بڑی بھاری ذمہ داری میرے سپرد ہوئی ہے.اپنے آپ کو سیدھا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری فرمانبرداری کرنا جہاں تک انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے، ممکن ہے کہ وہ اُس کو پورا کرے لیکن دوسروں کو ویسا ہی بنانا آسان نہیں ہے.اس سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندشان اور قوت قدس کا پتہ لگتا ہے.چنانچہ آپ نے اس حکم کی کیسی تعمیل کی.صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تیار کی کہ اُن کو كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران : 111‘ کہا گیا اور رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (البینہ: 9)‘ کی آواز اُن کو آ گئی.آپ کی زندگی میں کوئی بھی منافق مدینہ طیبہ میں نہ رہا.غرض ایسی کامیابی آپ کو ہوئی کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعات زندگی میں نہیں ملتی.اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ قیل و قال ہی تک بات نہ رکھنی چاہئے.کیونکہ اگر نرے قیل و قال اور ریا کاری تک ہی بات ہو تو دوسرے لوگوں اور ہم میں پھر امتیاز کیا ہو گا اور دوسروں پر کیا شرف !‘ فرماتے ہیں: ” تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اُس کو قبول کر لیں.“ اس تمہید کے بعد آپ نے پھر جماعت کو نصیحت فرمائی کہ تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اُس کو قبول کر لیں کیونکہ جب تک اس میں چمک نہ ہو، کوئی اس کو قبول نہیں کرتا.کیا کوئی انسان میلی چیز پسند کر سکتا ہے؟ جب تک کپڑے میں ایک داغ بھی ہو، وہ اچھا نہیں لگتا.اسی طرح جب تک تمہاری اندرونی حالت میں صفائی اور چمک نہ ہوگی ، کوئی خریدار نہیں
خطبات مسرور جلد 11 681 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 6دسمبر 2013ء ہوسکتا.ہر شخص عمدہ چیز کو پسند کرتا ہے، اسی طرح جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں ،کسی مقام تک نہیں پہنچ سکو گے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحه 115 - 116 - مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہمیں اعلیٰ اخلاق اپنانے والا بنائے.ہمارے اندر وہ پاک تبدیلی پیدا کرے جس کی چمک دنیا کو ہماری طرف متوجہ کرنے والی ہو.پہلے سے بڑھ کر تبلیغ کے راستے کھلیں اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 27 دسمبر 2013 ء تا 2 جنوری 2013 ، جلد 20 صفحہ 52 صفحہ 5 تا 7)
خطبات مسرور جلد 11 682 50 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013 ء بمطابق 13 فتح 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عملی اصلاح کے مضمون کے بارے میں میں گزشتہ دو جمعوں سے بیان کر رہا ہوں.گزشتہ جمعہ کو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے، اس کے چند پہلوؤں کا ذکر میں نے سوالوں کی صورت میں کیا تھا.یا یہ بتا رہا تھا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم میں ہمیں وہ باتیں بتائی ہیں اور سوال یہ تھے کہ کیا ہم یہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ؟ ہماری عملی اصلاح انہی چند باتوں پر ختم نہیں ہو جاتی.اسلام کی تعلیم کے تو بے شمار پہلو ہیں.بے شمار احکامات ہیں جو قرآن کریم نے ہمیں دیئے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تعلیم میں ہماری اصلاح کے لئے بڑا واضح فرمایا ہے کہ: میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سوحکموں میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو سے ایک چھوٹے.بھی ٹالتا ہے، وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 26) پس ہمارے لئے یہ بڑا خوف کا مقام ہے اور ہمیں اپنا ہر عمل اور ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر کرنے اور اُٹھانے کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں گزشتہ خطبوں میں بھی کہہ چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد قرآنِ کریم کی حکومت کو ہم پر لاگو کروانا تھا، اُسے قائم کرنا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ اور آپ کی سنت پر ہمیں چلانا تھا.اور اس مقصد کے حصول کے لئے آپ علیہ السلام
خطبات مسرور جلد 11 683 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء نے ہمیں بار بار توجہ دلائی ہے.اگر ہم ایمانداری سے اپنے جائزے لیں تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ باتیں سن کر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں، کچھ دن کے لئے تو ہماری عملی اصلاح ہوتی ہے اور پھر واپس اپنی اُسی ڈگر پر ہم میں سے اکثر چلنا شروع کر دیتے ہیں جس پر پہلے تھے.پس ہم اُس گڈے کی طرح ہیں جس کی مثال میں گزشتہ خطبوں میں بھی دے چکا ہوں.جس پر جب تک ڈھکنے کا دباؤ پڑا رہے، بند رہتا ہے اور ڈھکنا کھلتے ہی سپرنگ اُسے اچھال کر باہر پھینک دیتا ہے.اسی طرح جب تک ایک موضوع پر مسلسل نصیحت کی جاتی رہے اکثر لوگوں پر اثر رہتا ہے اور جب ان نصیحتوں اور توجہ کا دباؤ ختم ہوتا ہے تو پھر نفس کا سپرنگ یا برائیوں کا سپرنگ کسی نہ کسی برائی کو اچھال کر پھر ظاہر کر دیتا ہے.کئی مخلصین نے گزشتہ خطبوں کے بعد مجھے لکھا کہ ہم کوشش بھی کر رہے ہیں اور دعا بھی ، اور آپ بھی دعا کریں کہ ان خطبات کے زیر اثر بہت سی برائیوں کا گڑا جو ڈبے میں بند ہوا ہے یہ بند ہی رہے اور کچھ عرصے بعد باہر نہ نکل آئے.بہر حال ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ جیک (Jack) یا گڈا بار بار باکس سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے.کسی بھی چیز کی اصلاح تبھی ہو سکتی ہے اور اصلاح کی کوشش کے مختلف ذرائع تبھی اپنائے جا سکتے ہیں جب اس کمی کی وجوہات معلوم ہوں ، اسباب معلوم ہوں تا کہ ان وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے.اگر وجہ قائم رہے تو عارضی اصلاح کے بعد پھر برائی عو د کرے گی ، واپس آئے گی.اس پہلو سے جب میں نے غور کیا اور مزید پڑھا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک تجزیہ مجھے ملا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق تحریر اور تقریر کی یہ خوبی ہے کہ ممکنہ سوال اُٹھا کر اُن کا حل بھی مثالوں سے بتاتے ہیں.قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کی روشنی میں جس طرح آپ مسئلے کا حل بتاتے ہیں، اس طرح اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتا.بہر حال اس وجہ سے میں نے سوچا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات سے ہی استفادہ کرتے ہوئے اُس کی روشنی میں ان وجوہات کو بھی آپ کے سامنے بیان کروں.اعمال کی اصلاح کے بارے میں جو چیزیں روک بنتی ہیں یا اثر انداز ہوتی ہیں، اُن میں سے سب سے پہلی چیز لوگوں کا یہ احساس ہے کہ کوئی گناہ بڑا ہے اور کوئی گناہ چھوٹا.یعنی لوگوں نے خود ہی یا بعض علماء کی باتوں میں آکر اُن کے زیر اثر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بعض گناہ چھوٹے ہیں اور بعض گناہ بڑے ہیں اور یہی بات ہے جو عملی اصلاح میں روک بنتی ہے.اس سے انسان میں گناہ کرنے کی دلیری پیدا ہوتی ہے،
خطبات مسرور جلد 11 684 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء جرات پیدا ہوتی ہے.برائیوں اور گناہوں کی اہمیت نہیں رہتی.یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے یا اس کی سزا اتنی نہیں ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 339 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مئی 1936ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اُس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی، اگر اُس بیماری کے لئے دوانہ کی جاوے اور علاج کے لئے دُکھ نہ اُٹھایا جاوے، بیمار اچھا نہیں ہوسکتا.ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا گل منہ کو کالا نہ کر دے.اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے.صغائر یعنی چھوٹے گناہ سہل انگاری سے کبائر“ یعنی بڑے گناہ ”ہو جاتے ہیں.صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کار گل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 7 - مطبوعہ ربوہ ) پس یہ بات ہمیشہ یادرکھنی چاہئے کہ کسی گناہ کو بھی انسان چھوٹا نہ سمجھے.کیونکہ جب یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ یہ معمولی گناہ ہے تو پھر بیماری کا بیج ضائع نہیں ہوتا اور حالات کے مطابق یہ چھوٹے گناہ بھی بڑے گناہ بن جاتے ہیں.پس اس لحاظ سے ہم سب کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے تو ہر چھوٹے گناہ کی بھی اور بڑے گناہ کی بھی باز پرس اور سزا رکھی ہے.پھر جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتے ہیں کہ آپ نے چھوٹے بڑے گناہ اور نیکی کی کس طرح تعریف اور وضاحت فرمائی ہے تو مختلف موقعوں اور مختلف لوگوں کے لئے آپ کے مختلف ارشادات ملتے ہیں.کہیں آپ نے یہ پوچھنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ فرمایا کہ ماں باپ کی خدمت کرنا بہت بڑی نیکی ہے.کسی شخص کو آپ بڑی نیکی کے بارے میں پوچھنے پر فرماتے ہیں کہ تہجد کی ادائیگی بہت بڑی نیکی ہے.کسی کے یہ پوچھنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ تمہارے لئے بڑی نیکی یہ ہے کہ جہاد میں شامل ہو جاؤ.پس اس سے ثابت ہوا کہ بڑی نیکی مختلف حالات اور مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 339-340 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مئی 1936ء) جہاد کی نیکی کے بارے میں یہ بھی بتادوں ، ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ جہاد نہیں کرتے.اُس زمانے میں جب اسلام پر ہر طرف سے تلوار سے حملے کئے جارہے تھے تو تلوار کا جہاد ہی بہت بڑی نیکی تھا.اور اُس میں بغیر کسی جائز عذر کے شامل نہ ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے سزا کا مستوجب قرار دیا ہے.
خطبات مسرور جلد 11 685 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء 66 لیکن مسیح موعود کے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود يَضَعُ الْحَرْبَ“ کرے گا.جنگوں کا خاتمہ کرے گا.(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم صفحہ 490 شائع کردہ قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی) کیونکہ دین اسلام پر حملے کے طریق بدل جائیں گے.اسلام پر بحیثیت دین تلوار سے حملہ نہیں کیا جائے گا اور لٹریچر ، پریس، میڈیا یا جو اور اس قسم کے مختلف ذرائع ہیں، ان کے ذریعہ سے اسلام پر حملہ ہوگا.اس لئے مسیح موعود اور اُس کی جماعت بھی یہی ہتھیار استعمال کرے گی جس سے اُن پر حملہ کیا جا رہا ہے.اور اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ: دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 77) گویا یہ تلوار کے جہاد کی نیکی جو کسی زمانے میں اس لئے جائز بلکہ ضروری تھی کہ اسلام کو تلوار کے زور سے ختم کیا جارہا تھا اور کوشش ہورہی تھی لیکن اب وہ نیکی نہیں رہی بلکہ منع ہوگئی اور حرام ہوگئی ، اُس وقت تک جب تک کہ تلوار نہ اُٹھائی جائے ، اُس وقت تک جب تک اسلام کے خلاف اسلام مخالف طاقتیں ہتھیار نہ اُٹھا ئیں.اب جو نیکی اور جائز جہاد ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانے کا جہاد ہے.علم کا جہاد ہے.پریس، میڈ یا اورلٹریچر کے ذریعہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کا جہاد ہے.اگر براہِ راست خود کوئی علمی جہاد میں حصہ نہیں لے رہا، اپنی کم علمی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے، تو اشاعت لٹریچر اور تبلیغی سرگرمیوں کے لئے مالی قربانی کا جہاد ہے.لیکن یہ جہاد کرنے والا اگر اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کر رہا اور اس طرح اُن کا خیال نہیں رکھ رہا تو اُس کے لئے بڑی نیکی یہ جہاد نہیں بلکہ بڑی نیکی اُن حقوق کی ادا ئیگی ہے جو اُس پر فرض ہیں.اور اُن کو اُن کے حق سے محروم کرنا، اُن کی تعلیم پر توجہ نہ دینا ، اس سے محروم رکھنا ایسے شخص کو پھر گناہ گار بنادیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باوجود جہاد کی فضیلت کے جیسا کہ میں نے بتایا آپ نے کسی کو بڑی نیکی ماں باپ کی خدمت بتائی ہے.پس ہر شخص اور ہر موقع اور حالات کے لحاظ سے بڑا کام اور نیکی الگ ہے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غلط کاموں پر روپیہ لٹانا ایک برائی ہے جس سے منع فرمایا گیا ہے.آجکل تو جوئے کی مشینیں ہیں، مختلف قسم کے جوئے کی قسمیں ہیں.کئی لوگ ہیں جو لاٹریوں کے بھی بڑے
خطبات مسرور جلد 11 686 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء رسیا ہیں.جوئے کی مشینوں پر جاتے ہیں اور ویسے بھی جوا کھیلتے ہیں.لیکن عام زندگی میں جھوٹ نہیں بولتے.عام آدمی کے ساتھ ظلم نہیں کرتے قتل نہیں کرتے.اس لئے کہ یہ لوگ ان برائیوں کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں لیکن جوئے اور غلط کاموں میں پیسے لٹانے اور ضائع کرنے کو یہ برا نہیں سمجھتے.تو ایسے شخص کے لئے غلط رنگ میں رقم لٹانا بڑا گناہ ہے.کیونکہ باقی گناہ تو وہ پہلے ہی گناہ سمجھتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اپنے لباس کو حیا دار نہیں رکھتی.باہر نکلتے ہوئے پردے کا خیال نہیں رکھتی.باوجود احمدی مسلمان ہونے کے اور کہلانے کے ننگے سر، بغیر حجاب کے، بغیر سکارف کے یا.چادر کے پھرتی ہے.لباس چست اور جسم کی نمائش کرنے والا ہے.لیکن مالی قربانی کے لئے کہو، کسی چیریٹی میں چندے کے لئے کہو تو کھلا دل ہے، یا جھوٹ سے اُسے نفرت ہے اور برداشت نہیں کرتی کہ اُس کے سامنے کوئی جھوٹ بولے تو اس کے لئے بڑی نیکی چندوں میں بڑھنا یا بڑی نیکی جھوٹ سے نفرت نہیں بلکہ بڑی نیکی قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرنا ہے کہ اپنے لباس کو حیادار بناؤ اور پردے کا خیال رکھو.جس کو وہ چھوٹی نیکی سمجھ کر تو جہ نہیں کر رہی یہی ایک وقت میں پھر اُس کو بڑی برائی کی طرف بھی دھکیل دے گی.غرض کہ ہر نیکی اور گناہ کا معیار ہر شخص کی حالت کے مطابق ہے اور مختلف حالتوں میں مختلف لوگوں کے عمل نیکی اور بدی کی تعریف اُس کے لئے بتلا دیتے ہیں.پس جب تک یہ خیال رہے کہ فلاں بدی بڑی ہے اور فلاں چھوٹی ہے اور فلاں نیکی بڑی ہے اور فلاں نیکی چھوٹی ہے، اُس وقت تک انسان نہ بدیوں سے بچ سکتا ہے نہ نیکیوں کی توفیق پاسکتا ہے.ہمیشہ ہمارے سامنے یہ بات رہنی چاہئے کہ بڑی بدیاں وہی ہیں جن کے چھوڑنے پر انسان قادر نہ ہو.بہت مشکل پیش آتی ہے اور وہ انسان کی عادت میں داخل ہو گئی ہوں اور بڑی نیکیاں وہی ہیں جن کو کرنا انسان کو مشکل لگتا ہو.یعنی بہت سی بدیاں ایک کے لئے بڑی ہیں اور دوسرے کے لئے چھوٹی اور بہت سی نیکیاں ایک کے لئے بڑی نیکی ہیں اور دوسرے کے لئے چھوٹی.پس اگر ہم نے اپنی عملی اصلاح کرنی ہے تو سب سے پہلے اس خیال کو دل سے نکالنا ہو گا کہ مثلاً زنا ایک بڑا گناہ ہے قبل ایک بڑا گناہ ہے، چوری ایک بڑا گناہ ہے، غیبت ایک بڑا گناہ ہے اور ان کے علاوہ جتنے گناہ ہیں وہ چھوٹے گناہ ہیں.پس اس خیال کو دل سے نکالنا ضروری ہے اور اس خیال کو بھی دل سے نکالنا ہوگا کہ روزہ بڑی نیکی ہے، زکوۃ بڑی نیکی ہے، حج بڑی نیکی ہے اور اس کے علاوہ جتنی نیکیاں ہیں، چھوٹی نیکیاں ہیں جس طرح عام مسلمانوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے.اگر یہ خیال دل سے نہیں نکالتے تو ہمارا
خطبات مسرور جلد 11 687 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء عملی حصہ کمزور رہے گا.عملی حصے کی مضبوطی اُس وقت آئے گی جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بات کو سامنے رکھیں گے کہ قرآن کریم کے سات سو حکموں پر عمل نہ کرنے والا نجات کا دروازہ اپنے او پر بند کرتا ہے.پس ہمیں غیروں کی طرح یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بعض نیکیاں بڑی ہیں اور بعض نیکیاں چھوٹی ہیں.اور اس معاملے میں اُن لوگوں کی جو دوسرے مسلمان ہیں، غلو کی یہ حالت ہے کہ مثلاً وہ سمجھتے ہیں کہ روزہ سب سے بڑی نیکی ہے، لیکن نماز با جماعت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لیکن روزہ بہت ضروری ہے، اس پر بڑی پابندی ہوتی ہے.جس پر زکوۃ فرض ہے، وہ زکوۃ بچانے کی کوشش تو کرے گا لیکن روزہ ضرور رکھے گا.کیونکہ اگر روزہ نہ رکھے تو اُس کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم ہے.زکوۃ بچانے کا ایک وقت میں تو یہ حال تھا لیکن اب پتہ نہیں پاکستان میں کیا حال ہے.1974ء کے بعد جب احمدیوں کو آئین اور قانون کی اغراض کے لئے غیر مسلم قرار دیا گیا تو بعض غیر از جماعت جن کے بنکوں میں اکاؤنٹ تھے، تو اُن اکاؤنٹس سے کیونکہ حکومت سال کے آخر پر زبردستی زکوۃ لیتی ہے لیکن حکومت کے مطابق احمدیوں پر یہ واجب نہیں ہے کیونکہ غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا.سوز کوۃ سے بچنے کے لئے بعض غیر از جماعت بھی بنک فارموں پر قادیانی یا احمدی لکھ دیا کرتے تھے.تو ان کی ایمان کی تو یہ حالت ہے کہ ویسے احمدی کا فر ہیں لیکن اپنے پیسے بچانے کے لئے وقت آیا تو خود بھی اُن کا فروں میں شامل ہو گئے.آجکل پتہ نہیں کیا صورتحال ہے.بہر حال ایک وقت میں ایسی صورتحال تھی.یہ صورتِ حال اس لئے ہے کہ نیکی اور بدی کے معیاروں کو مقرر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف نہیں دیکھتے ، اُس کے رسول کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ نام نہاد فقیہوں اور مفتیوں اور علماء کے پیچھے چل پڑے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ رمضان کے مہینے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرتسر کے ایک سفر پر تھے اور اس حالت میں ایک موقع پیدا ہوا کہ آپ ایک جگہ تقریر فرمارہے تھے.تقریر کے دوران آپ کے گلے میں خشکی محسوس ہوئی تو ایک دوست نے یہ دیکھ کر چائے کی پیالی آپ کو پیش کی.آپ نے اُسے ہٹا دیا.تھوڑی دیر بعد پھر تکلیف محسوس ہوئی، اُس نے فکرمند ہو کے پھر چائے کی پیالی پیش کی.آپ نے ہٹا دیا اور ہاتھ سے اشارہ بھی کیا کہ رہنے دو.لیکن کیونکہ تکلیف پھر ہوئی اور گلے میں خشکی کا احساس ہوا تو پھر اُس نے تیسری دفعہ چائے کی پیالی پیش کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے غالباً یہ سمجھ کر کہ اگر میں نے نہ لی تو یہ سمجھا جائے گا کہ میں ریاء کر رہا ہوں اور سفر میں جو روزہ نہ رکھنے کا حکم اور سہولت ہے، اُس سے لوگوں کو دکھانے کے لئے فائدہ نہیں اُٹھا
خطبات مسرور جلد 11 688 006 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء رہا.آپ نے ایک گھونٹ اس پیالی میں سے لے لیا.تو اس پر وہاں بیٹھے غیر از جماعت لوگوں نے شور مچادیا کہ دیکھو مہدی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور رمضان کے مہینے میں روزہ نہیں رکھا ہوا.اُن لوگوں کے نزد یک روزے کی اہمیت یہ ہے کہ روزہ رکھ لو چاہے خدا تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہو.حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ان میں سے شاید نوے فیصد نماز بھی نہیں پڑھتے ہوں گے، اُس کے بھی تارک ہوں گے اور نانوے فیصد جھوٹ بولنے والے، دھوکہ فریب کرنے والے، مال لوٹنے والے تھے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اُن میں سے نانوے فیصد یقیناً اُس وقت روزے دار بھی ہوں گے کیونکہ روزے کو سب سے بڑی نیکی سمجھا جاتا ہے.مگر وہ روزہ اُس طرح نہیں رکھتے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو جھوٹ بولتا ہے، غیبت کرتا ہے، گالی دیتا ہے، خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا روزہ روزہ نہیں ہے، وہ صرف بھوکا پیاسا رہتا ہے.اگر ہم جائزہ لیں تو مسلمانوں کی جو اکثریت ہے اس معیار کے مطابق بھوکی پیاسی رہتی ہے.مگر یہ بھوکا پیاسا رہنا اُن کے نزدیک بہت بڑی نیکی ہے اور اُن کا بیڑا پار کرنے کے لئے کافی ہے.یا چند مزید نیکیوں کو جو اُن کے نزدیک بڑی ہیں اُس میں شامل کر لیں گے کہ اسی سے ہماری بخشش کے سامان ہو گئے.ایسے لوگ جو ہیں وہ نہ دنیا میں نیکیاں قائم کرنے والے ہو سکتے ہیں، نہ ہی وہ صحیح معیار گناہ قائم کر سکتے ہیں.انہوں نے خود ساختہ بڑی نیکیوں اور چھوٹی نیکیوں اور بڑے گناہوں اور چھوٹے گناہوں کے معیار قائم کر لئے ہیں اور نتیجہ وہ جو بھی اُن کی نیکی کی تعریف ہے، اُس کے مقابلے پر بڑی نیکی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور جس بدی کو چھوٹا سمجھتے ہیں اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، اُس کو نہ چھوڑنا یہی ہے کہ اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.اور یوں ایک برائی سے دوسری برائی میں دھنتے چلے جاتے ہیں.حالانکہ اسلام نے اُس نیکی کو بڑا قرار دیا ہے جسے کرنا مشکل ہو اور وہ ہر ایک کے لئے مختلف ہے، اور اُس بدی کو بڑا قرار دیا ہے جس سے بچنا مشکل ہو.پس اگر ہم نے اپنی اصلاح کرنی ہے تو ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر نیکی کو اختیار کرنے اور ہر بدی سے بچنے کی کوشش کرنی ہوگی.ہماری خود ساختہ تعریفیں ہمیں نیکیوں پر قدم مارنے والا اور بدیوں سے روکنے والا نہیں بنا ئیں گی.اگر خود ہی تعریفیں کرنے لگ جائیں اور کچھ بدیاں چھوڑیں اور کچھ نہ چھوڑیں اور کچھ نیکیاں اختیار کریں اور کچھ نہ اختیار کریں تو بسا اوقات انسان اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے.چھوٹی نظر آنے والی نیکیاں عدم توجہ کی وجہ سے نیکیوں سے بھی محروم کر دیتی ہیں اور اکثر معمولی نظر آنے والی بدیاں روحانیت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا دیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے طہارت اور
خطبات مسرور جلد 11 689 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء پاکیزگی کے انعام سے انسان محروم رہ جاتا ہے.پھر بعض بدیوں کو چھوٹا سمجھنے کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بدی کا بیچ قائم رہتا ہے جو مناسب موقع اور وقت کی تلاش میں رہتا ہے اور موقع پاتے ہی باہر آ جاتا ہے.پس بہت احتیاط کی ضرورت ہے.کسی ایک بدی یا بدیوں کا خاتمہ تبھی ہو سکتا ہے جب سب مل کر بھر پور کوشش کریں.ایک معاشرہ ہے، جماعت ہے پھر جماعت کا ہر فرد جو ہے وہ اس کے لئے کوشش کرے.اگر ہر کوئی اپنی تعریف کے مطابق نیکی اور بدی کرے گا تو پھر ایک شخص ایک بات کو بدی سمجھ رہا ہو گا یا بڑی بدی سمجھ رہا ہو گا تو دوسرا اُس کو چھوٹی بدی سمجھ رہا ہو گا اور ہوسکتا ہے کہ تیسرا ان دونوں سے مختلف سوچ رکھتا ہو، تو پھر معاشرے سے بدیاں ختم نہیں ہوسکتیں.بدیاں تبھی ختم ہوں گی جب سب کی سوچ کا دھارا ایک طرف ہو.مثلاً مسلمانوں کی اکثریت جو ہے وہ تمام گناہوں سے بدتر بلکہ شرک سے بھی بڑا (گناہ) سور کا گوشت کھانے کو بجھتی ہے.ہر بدمعاش، چور، زانی، لٹیرا یہ سب کام کرنے کے بعد اپنے آپ کو مسلمان کہے گا لیکن اگر کہو کہ سور کھا لو تو کہے گا میں مسلمان ہوں.یہ کس طرح ہوسکتا ہے، میں کس طرح سؤر کھا سکتا ہوں.اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں مجموعی طور پر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ سور کھانا گناہ ہے اور حرام ہے.اس معاشرے میں رہنے اور پیدا ہونے اور پلنے اور بڑھنے کے باوجود یہاں کے جو مسلمان ہیں، اُن میں ننانوے اعشاریہ نو فیصد مسلمان جو ہیں سور کے گوشت سے کراہت کرتے ہیں.پس یہ اُس احساس کی وجہ سے ہے جو اجتماعی طور پر مسلمانوں میں پیدا کیا گیا ہے.پس برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو قائم کرنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد کے احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ معمولی نیکی بھی بڑی نیکی ہے اور معمولی بدی بھی بڑا گناہ ہے.جب تک ہم میں سے ہر ایک میں یہ احساس پیدا نہیں ہوگا اور اس کے لئے کوشش نہیں ہوگی معاشرے میں بد یاں قائم رہیں گی اور عملی اصلاح میں روک بنتی رہیں گی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 342 تا 346 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مئی 1936ء) پھر اعمال کی اصلاح میں جو دوسری وجہ ہے، وہ ماحول ہے یا نقل کا مادہ ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں نقل کا مادہ رکھا ہوا ہے جو بچپن سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ فطرت میں ہے.اس لئے بچہ کی فطرت میں بھی یہ نقل کا مادہ ہے.اور یہ مادہ جو ہے یقیناً ہمارے فائدے کے لئے ہے لیکن اس کا غلط استعمال انسان کو تباہ بھی کر دیتا ہے یا تباہی کی طرف بھی لے جاتا ہے.یہ نقل اور ماحول کا ہی اثر ہے کہ انسان اپنے ماں باپ سے زبان سیکھتا ہے، یا باقی کام سیکھتا ہے اور اچھی باتیں سیکھتا ہے، اور اچھی باتیں
خطبات مسرور جلد 11 690 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء سیکھ کر بچہ اعلیٰ اخلاق والا بنتا ہے.ماں باپ نیک ہیں، نمازی ہیں، قرآن پڑھنے والے ہیں، اُس کی تلاوت کرنے والے ہیں، آپس میں پیار اور محبت سے رہنے والے ہیں، جھوٹ سے نفرت کرنے والے ہیں تو بچے بھی اُن کے زیر اثر نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوں گے.لیکن اگر جھوٹ ،لڑائی جھگڑا ، گھر میں دوسروں کا استہزاء کرنے کی باتیں ، جماعتی و قار کا بھی خیال نہ رکھنا یا اس قسم کی برائیاں جب بچہ دیکھتا ہے تو اس نقل کی فطرت کی وجہ سے یا ماحول کے اثر کی وجہ سے پھر وہ یہی برائیاں سیکھتا ہے.باہر جاتا ہے تو ماحول میں ، دوستوں میں جو کچھ دیکھتا ہے ، وہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے.اس لئے بار بار میں والدین کو تو جہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھا کریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، جوٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اُن پر بھی نظر رکھیں.پھر یہ بات بھی بہت توجہ طلب ہے کہ بچوں کی تربیت کی عمر انتہائی بچپن سے ہی ہے.یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے.یہ خیال نہ آئے کہ بچہ بڑا ہوگا تو پھر تربیت شروع ہو گی.دو سال، تین سال کی عمر بھی بچے کی تربیت کی عمر ہے.جیسا کہ میں نے کہا، بچہ گھر میں ماں باپ سے اور بڑوں سے سیکھتا ہے اور اُن کو دیکھتا ہے اور اُن کی نقل کرتا ہے.ماں باپ کو کبھی یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ ابھی بچہ چھوٹا ہے، اسے کیا پتہ ؟ اُسے ہر بات پتہ ہوتی ہے اور بچہ ماں باپ کی ہر حرکت دیکھ رہا ہوتا ہے اور لاشعوری طور پر وہ اُس کے ذہن میں بیٹھ رہی ہوتی ہے.اور ایک وقت میں آکے پھر وہ اُن کی نقل کرنا شروع کر دیتا ہے.بچیاں ماؤں کی نقل میں اپنی کھیلوں میں اپنی ماؤں جیسے لباس پہننے کی کوشش کرتی ہیں، اُن کی نقالی کرتی ہیں.لڑکے باپوں کی نقل کرتے ہیں.جو برائیاں یا اچھائیاں ماں باپ میں ہیں، اُن کی نقل کریں گے.مثلاً جب یہ بڑے ہوں گے اور ان کو پڑھایا جائے گا کہ یہ برائیاں ہیں اور یہ اچھائیاں ہیں ، جیسے مثلاً جھوٹ ہے، یہ بولنا برائی ہے، وعدہ پورا کرنا اچھائی ہے.لیکن ایک بچہ جس نے اپنے ماں باپ کی سچائی کے اعلیٰ معیار نہیں دیکھے، جس نے ماں باپ اور گھر کے بڑوں سے کبھی وعدے پورے ہوتے نہیں دیکھے، وہ تعلیم کے لحاظ سے تو بیشک سمجھیں گے کہ یہ جھوٹ بولنا برائی ہے اور وعدے پورے کرنا نیکی ہے اور اچھائی ہے لیکن عملاً وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اپنے گھر میں اس کے خلاف عمل دیکھتے رہے ہیں.بچوں کی عادتیں بچپن سے ہی پختہ ہو جاتی ہیں، اس لئے وہ بڑے ہو کر اس کو نہیں تسلیم کریں گے.اگر ماں کو بچہ دیکھتا ہے کہ نماز میں ست ہے اور باپ گھر آ کر پوچھے اگر کہ نماز پڑھ لی تو کہہ دے کہ ابھی نہیں پڑھی، پڑھ لوں گی تو بچہ کہتا ہے کہ یہ تو بڑا اچھا جواب ہے.مجھ سے بھی اگر کسی نے پوچھا کہ نماز پڑھ لی تو میں بھی یہی جواب دے دیا کروں گا.ابھی نہیں پڑھی،
خطبات مسرور جلد 11 691 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء پڑھ لوں گا.یا یہ جواب سنتا ہے کہ بھول گئی ، یا یہ جواب سنتا ہے کہ پڑھ لی، حالانکہ بچہ سارا دن ماں کے ساتھ رہا اور اسے پتہ ہے کہ ماں نے نماز نہیں پڑھی.تو بچہ یہ جواب ذہن میں بٹھا لیتا ہے.اسی طرح باپ کی غلط باتیں جو ہیں وہ بچے کے ذہن میں آ جاتی ہیں اور اُن کے جو بھی جواب غلط رنگ میں باپ دیتا ہے، وہ پھر بچہ ذہن میں بٹھا لیتا ہے.تو ماں باپ دونوں بچے کی تربیت کے لحاظ سے اگر غلط تربیت کر رہے ہیں یا غلط عمل کر رہے ہیں تو اُس کو غلط رنگ کی طرف لے جارہے ہیں.اپنے عمل سے غلط تعلیم اُس کو دے رہے ہیں.اور بچہ پھر بڑے ہو کے یہی کچھ کرتا ہے، عملاً یہی جواب دیتا ہے.اسی طرح ہمسایوں، ماں باپ کی سہیلیوں اور دوستوں کے غلط عمل کا بھی بچے پر اثر پڑ رہا ہوتا ہے.پس اگر اپنی نسل کی ، اپنی اولاد کی حقیقی عملی اصلاح کرنی ہے تا کہ آئندہ عملی اصلاح کا معیار بلند ہو تو ماں باپ کو اپنی حالت کی طرف بھی نظر رکھنی ہوگی.اور اپنی دوستیاں ایسے لوگوں سے بنانے کی ضرورت ہو گی جو ملی لحاظ سے ٹھیک ہوں.تو بہر حال بچپن میں نقل کی بھی عادت ہوتی ہے اور ماحول کا اثر بھی ذہن میں بیٹھ جانے والا ہوتا ہے.اگر بچے کو نیک ماحول میں رکھ دیں گے تو نیک کام کرتا چلا جائے گا.اگر بڑے ماحول میں رکھ دیں گے تو برے کام کرتا چلا جائے گا.اور بُرے کام کرنے والے کو جب بڑے ہو کر سمجھایا جائے گا کہ یہ بری چیز ہے اُسے مت کرو تو اُس وقت وہ اُن کے اختیار سے نکل چکا ہو گا.پھر ماں باپ کو شکوہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے.پس ماں باپ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل سے بچوں کو بھی نمازی بنا ئیں.اپنے عمل سے بچوں کو بھی سچ پر قائم کریں.اپنے عمل سے دوسرے اعلیٰ اخلاق بھی اُن کے سامنے رکھیں تا کہ وہ بھی اُن اخلاق کو اپنانے والے ہوں.جھوٹی قسمیں کھانے سے اپنے آپ کو بھی بچائیں تا کہ بچے بھی بیچ سکیں.عملی طور پر بچپن میں پیدا کئے گئے خیالات کا کس قدر اثر رہتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی کی مثال دی ہے جو سکھوں کے ایک رئیس خاندان سے تھے اور احمدی ہو گئے تھے ، گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اور اُن کے ساتھیوں نے اُن کی چڑ بنالی تھی کہ ہم نے آپ کو گائے کا گوشت ضرور کھلانا ہے.حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ مہمان خانے میں آگے آگے وہ تیز تیز چلے جارہے ہیں اور پیچھے پیچھے اُن کے دوست کہہ رہے ہیں ، ہم نے آپ کو آج یہ بوٹی ضرور کھلانی ہے.اور وہ ہاتھ جوڑ رہے ہیں کہ خدا کے لئے یہ نہ کرو.اور بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کو یا کسی اور نو مسلم کو کسی نے کھلا دی تو عملاً اتنی کراہت آئی کہ اُس نے اُس کی قے کر دی.
خطبات مسرور جلد 11 692 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء اُس کو الٹی آ گئی.تو یہ بچپن سے گائے کے گوشت سے نفرت پیدا کرنے کا نتیجہ ہے کہ بڑے ہوکر مسلمان ہو کر پھر بھی اُس سے کراہت ہے.اب عقیدہ کے لحاظ سے بیشک انہوں نے اپنا عقیدہ بدل لیا.نیا عقیدہ اختیار کر لیا لیکن ماں باپ نے عملی نمونے سے اُن کو گائے کے گوشت سے جو نفرت دلوادی تھی وہ پھر بھی ڈور نہ ہوئی.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ عمل چونکہ نظر آنے والی چیز ہے اس لئے لوگ اُس کی نقل کر لیتے ہیں اور یہ بیج پھر بڑھتا چلا جاتا ہے.لیکن عقیدہ کیونکہ نظر آنے والی چیز نہیں ہے اس لئے وہ اپنے دائرے میں محدود رہتا ہے.اور اس کی مثال اس طرح ہی ہے کہ عقیدہ ایک پیوندی درخت ہے.درخت کو جس طرح پیوند لگائی جائے تو پھر اُس سے نئی شاخ پھوٹتی ہے، نئی قسم کا پھل نکل آتا ہے.اسے خاص طور پر لگایا جائے تو لگتا ہے.عمل کی مثال تخمی درخت کی طرح ہے یعنی جو بیچ سے پھیلتا ہے.آپ ہی آپ اس کا بیج زمین میں جڑ پکڑ کر اُگنے لگ جاتا ہے جب بھی موسم ساز گار ملتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 346 تا 350 خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مئی 1936ء) پس برے عمل کا پھیلنا بہت آسان ہے اور یہ معاشرے میں اپنوں کے بدعمل کی وجہ سے بھی پھیلتا ہے اور غیروں کے بدعمل کی وجہ سے بھی پھیلتا ہے.یعنی نیکیوں اور بدیوں کے پھیلنے میں معاشرے کا بہت زیادہ اثر ہے.اس لئے ہمیشہ اس بات کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.بعض اور اسباب بھی ہیں جو انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کی طرف اور اپنے بچوں کی عملی اصلاح کی طرف ہمیشہ توجد رکھنے کی توفیق عطا فرماتا رہے.آج ایک افسوسناک خبر بھی ہے.جمعہ کی نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ بھی پڑھوں گا جو مکرم خالد احمد البراقی مرحوم سیریا کا ہے.خالد براقی صاحب انجینئر تھے.37 سال ان کی عمر تھی.ان کے والدین کو 1986ء میں دمشق کے نواحی علاقے کی ایک بستی ' حوش عرب میں سب سے پہلے بیعت کرنے کی توفیق ملی.بیعت کرنے کے بعد ان کے والد صاحب کو مخالفت اور دھمکیوں کے ساتھ 1989ء میں چھ ماہ کی جیل بھی کاٹنی پڑی.اسی طرح حالیہ فسادات میں جو شام میں ہورہے ہیں، 2012 ء اور 2013ء میں بھی دو دفعہ ان کے والد کو گرفتار کیا گیا.خالد براقی صاحب کے سب بہن بھائی بچپن سے ہی احمدی ہیں.انہیں 18 ستمبر 2013 ء کی شام کو وہاں کی جو انٹیلی جنس کی ایجنسی ہے، اس کی کسی برانچ نے گرفتار کیا جس کے بعد ان کے بارے میں کوئی کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکیں.یہاں تک کہ 19 دسمبر 2013 ء کو ان کے والد کو ملٹری انٹیلی جنس کی ایک برانچ میں بلایا گیا اور وہاں اُن کے بیٹے کے بعض کا غذات وغیرہ تھا
خطبات مسرور جلد 11 693 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء دیئے اور بتایا کہ اس کی 28 اکتوبر 2013ء کو وفات ہوگئی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ان کی لاش بھی ان کے والد صاحب کو نہیں دی گئی.غالباً یہی امکان ہے کہ وہاں اُن کو ٹارچر دیا گیا جس کی وجہ سے اُن کی وفات ہوئی.خالد البراقی صاحب کی نیکی ، تقوی ، حسن خلق اور دینی تعلیمات کی پابندی کی گواہی وہاں سے بہت سارے احمدیوں اور غیر احمدیوں نے دی ہے.تلاوتِ قرآنِ کریم کے وقت ان کی آواز غیر معمولی اچھی ہوتی تھی.بہت نرم دل اور لوگوں سے ہمدردی رکھنے والے اور ہر مفوضہ کام کو نہایت خوشدلی کے ساتھ انجام دینے والے.تعاون، اخلاص اور نظامِ جماعت اور خلافت سے محبت ان کے خصائل میں شامل تھیں.اپنے وطن اور تمام لوگوں سے محبت رکھنے والے وجود تھے.ایک مقامی جماعت کے صدر بھی رہے.اس وقت سیکرٹری تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی خدمات بجالا رہے تھے.موصی تھے.باقاعدہ چندوں کی ادائیگی کرنے والے تھے.ان کی بیوی بھی احمدی ہیں اور تین بچے ہیں.بیٹی شروب اور بیٹا احمد ، دونوں کی عمر چھ سال سے کم ہے اور چھوٹا بچہ حسام الدین جو ان کی گرفتاری سے چند ہفتے قبل پیدا ہوا تھا ، وقف نو کی تحریک میں شامل ہے.اپنی فیس بک پر گرفتاری سے پہلے خالد البراقی صاحب نے یہ لکھا تھا کہ: وطن کی محبت جزوایمان ہے.یارب ہمارے ملک کی حفاظت فرما اور اُسے تمام مصائب سے رہائی عطا فرما اور اُسے پہلے سے زیادہ مضبوط اور زیادہ خوبصورت بنا اور اس کے اہل کو اپنا زیادہ مقرب بنالے.خدایا! اس ملک کے باسیوں کے دل ایک دوسرے کے قریب کر دے.اُنہیں آپس میں محبت کرنے والا بنا دے.اے خدایا! تو ہمیشہ کے لئے امن اور سلامتی اور خیر کے پھیلانے کے لئے اس ملک کے نیک لوگوں کی مدد فرما.“ اللہ کرے یہ دعا اس کے ملک کے لئے پوری ہو اور تمام امتِ مسلمہ کے لئے بھی پوری ہوتا کہ وہاں کے فساد ختم ہوں.طاہر ندیم صاحب کہتے ہیں خالد البراقی صاحب کا اکثر ای میل سے رابطہ رہتا تھا.شام میں قیام کے دوران ہمارا ان سے تعارف ہوا.یہ نوجوان تواضع اور خاکساری کی بڑی مثال تھے.نہایت سادہ، نیک، ہنس مکھ.دمشق میں جماعت کے ہی ایک مکان میں رہتے تھے جسے بطور مرکز استعمال کیا جاتا تھا.انہیں علم کی اس قدر پیاس تھی کہ کہتے ہیں اکثر اپنے ایک کزن کے ساتھ ہمارے پاس آجایا کرتے تھے.علمی موضوعات پر باتیں ہوتی تھیں.جو بھی کوئی جماعتی کتاب ملتی ، بڑی محبت اور تڑپ کے ساتھ اُس کا مطالعہ کرتے.جماعت کی پرانی لائبریری میں سے بعض عربی کتب اور رسالہ البشری کے قدیم شماروں میں
خطبات مسرور جلد 11 694 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 13 دسمبر 2013ء سے مضامین نکالے، پھر کمپیوٹر پر دوبارہ لکھے اور کہتے ہیں پھر ہمیں بھی ارسال کئے.مختلف کتابوں کے جو ترجمے ہور ہے ہیں ان تراجم پر نظر ثانی میں معاونت کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے گہری محبت اور خلافت سے بھی عشق تھا.یوم مسیح موعود علیہ السلام کے موقع پر نشر ہونے والے عربی پروگرام کوسن کر بہت جذباتی انداز میں انہوں نے اپنا پیغام بھیجا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک قصیدہ بھی نہایت پرسوز آواز میں ریکارڈ کروایا.یکم اپریل 2012ء کو انہوں نے مجھے ایک خط لکھا تھا جس کے آخر پر اپنا 2006ء کا ایک رؤیا لکھا تھا.اس رؤیا سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ بھاری ذمہ داری اور اہم امانت اُن کے سپرد کی جائے گی اور رویا میں انہیں حق پر قائم رہنے اور کوئی کمزوری نہ دکھانے کی تاکید کی گئی تھی.اس رؤیا کے بعد اُن کو جماعت کا صدر بنایا گیا تو سمجھے کہ شاید یہ رویا پوری ہوگئی ہے.لیکن رویا میں حق پر قائم رہنے اور کمزوری نہ دکھاتے ہوئے جان دینے کی تلقین کی گئی تھی.تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ اسی حالت میں اُنہوں نے اپنی جان دی کہ دین پر قائم رہے اور اپنے ایمان میں لغزش نہیں آنے دی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.وہاں ہمارے ایک اور مبلغ انجم پرویز صاحب رہے ہیں وہ کہتے ہیں بڑی محنت، اخلاص اور دیانت داری کے ساتھ کام کرتے تھے اور کہتے تھے میں اس لئے ایسا کرتا ہوں کہ میں احمدی ہوں تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ احمدی سچے، دیانتدار، محنتی اور با اخلاق ہوتے ہیں.تبلیغ کا انہیں بڑا شوق تھا اور کام پر چونکہ تبلیغ کرنا منع ہے اس لئے کہتے تھے کہ میں احمدی اخلاق سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ لوگوں کو خود توجہ پیدا ہو.وطن سے بڑی محبت کرنے والے تھے جیسا کہ اُن کے اس بیان سے بھی ظاہر ہو گیا اور اپنے دوستوں اور ہم جلیسوں کو بھی یہ سمجھایا کرتے تھے کہ وطن سے محبت کرو کیونکہ یہی صحیح اسلامی تعلیم.ہم ہے اور میں نے ان حالات پر جو خطبات دیئے ہیں، وہ خطبات بھی انہوں نے اپنے دوستوں کو سنائے اور اُن کو آمادہ کیا کہ تشدد کی زندگی ختم کرو اور پر امن شہری بن کے رہو.لیکن بعض بدفطرت جو تھے ان کے خلاف تھے.لگتا ہے حکومت کے انہی کارندوں نے اُن پر ظلم کیا ہے جس کی وجہ سے اُن کو یہ شہادت کا رُتبہ نصیب ہوا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرما تار ہے.اور اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے.ان کے والدین کو بھی صبر عطا فرمائے.الفضل انٹرنیشنل مورخہ 3 جنوری 2014 ء تا 9 جنوری 2014 ، جلد 20 شماره 53 صفحہ 5 تا8 )
خطبات مسرور جلد 11 695 51 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء خطبہ جمہ سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013 ء بمطابق 20 فتح 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے خطبات سے استفادہ کرتے ہوئے عملی اصلاح کی روک کے دو اسباب بتائے تھے.اس بارے میں جو باقی اہم اسباب ہیں ، وہ آج بیان کروں گا.عملی اصلاح میں روک کا تیسر اسبب فوری یا قریب کے معاملات کو مدنظر رکھنا ہے.جبکہ عقیدے کے معاملات دُور کے معاملات ہیں، ایسے معاملات ہیں جن کا تعلق زیادہ تر بعد کی زندگی سے ہے جسے آجل کہتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا کہ عملی حالت کے معاملات فوری نوعیت کے ہوتے ہیں یا بظاہر انسان سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے.اگر میں کوئی غلط کام کر لوں تو اس سے خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا جو عقیدہ ہے وہ تو متاثر نہیں ہوتا.مثلاً سنار ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں سونے میں کھوٹ ملالوں تو اس سے میرے ایک خدا کو ماننے کے عقیدے پہ کوئی حرف نہیں آتا لیکن میری کمائی زیادہ ہو جائے گی.جلد یا زیادہ رقم حاصل کرنے والا میں بن جاؤں گا.پس اُس نے اپنے قریب کے فائدے کو دیکھ کر ایک ایسا راہ عمل اختیار کر لیا جو صرف اخلاقی گراوٹ ہی نہیں بلکہ چوری بھی ہے اور دھو کہ بھی ہے.اس لئے یہ عمل کیا.اُس نے سمجھا کہ اُس کے عقیدے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اس کا کوئی تعلق نہیں.بڑے بڑے حاجی ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ کاروباری دھو کے کرتے ہیں لیکن اپنے حاجی ہونے پر فخر ہے.ان دھوکوں کے وقت یہ بھول جاتے ہیں یا اس بات کی اہمیت نہیں سمجھتے کہ مرنے کے بعد کی زندگی بھی ہے اور ان دنیاوی اعمال کا مرنے کے بعد کی
خطبات مسرور جلد 11 696 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے.اسی طرح نبی کی دی ہوئی تعلیم پر عمل فائدہ مند ہے یا نجات کس کو ملے گی ، ایسے سوال عام طور پر انسانوں کو دُور کے سوال نظر آتے ہیں.اصل چیز جو دل و دماغ پر حاوی ہوتی ہے ، وہ فوری فائده یا فوری تسکین ہے.اسی وجہ سے جو سنار ہے وہ سونے میں کھوٹ ملاتا ہے، چاندی کو وزن میں کم کر دیتا ہے.دوکاندار ہے جو جنس میں ملاوٹ کر دیتا ہے.کارخانے دار ہے جو کسی چیز کا نمونہ دکھا کر آرڈر وصول کرتا ہے اور ترسیل جو ہے وہ کم معیار کی چیز کی کرتا ہے.خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں یہ چیز عام ہے.پس عمل کی اصلاح کے راستے میں دنیوی ضروریات حائل ہو جاتی ہیں اور دھوکہ، جھوٹ اور فریب کے فوری فوائد دُور کے نقصان کو دل اور دماغ سے نکال دیتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے بعض مثالیں بھی دی ہیں.مثلاً غیبت ایک بہت بڑا گناہ ہے.کسی کا افسر اپنے ماتحت کو تکلیفیں دیتا ہے ظلم وستم کرتا ہے، لیکن ماتحت اپنے افسر کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا.اتفاقاً اس ماتحت کی اُس افسر سے بھی بڑے افسر سے ملاقات ہو جاتی ہے اور وہ بڑا افسر اس افسر کے خلاف کچھ کہتا ہے تو یہ شخص جس کو اپنے افسر سے تکلیفیں پہنچ رہی ہوتی ہیں خوش ہو جاتا ہے کہ جس موقع کی مجھے تلاش تھی وہ آج مجھے مل گیا.اور اس چھوٹے افسر کے خلاف جس نے اُسے تنگ کیا ہوتا ہے، ایسی باتیں کرتا ہے اور اُس کے ایسے عیوب بیان کرتا ہے کہ بڑا افسر اس چھوٹے افسر پر اور زیادہ ناراض ہو.اور جھوٹ ، سچ جو کچھ ہو سکتا ہے بیان کر دیتا ہے تا کہ اپنا بدلہ لے سکے اور اُس وقت اُسے یہ خیال آتا ہے کہ آج اگر میں غیبت نہ کروں تو میری جان اور مال کا خطرہ دُور نہیں ہوگا اور وہ اس وجہ سے بے دھڑک غیبت کا ارتکاب کر دیتا ہے اور اس دنیا کا فائدہ اُٹھا لیتا ہے.پس دنیوی فوائد کے لئے انسان بدیوں کا ارتکاب کر لیتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 351-352 خطبہ جمعہ 29 مئی 1936ء) چوتھا سبب عملی اصلاح کی کمزوری کا یہ ہے کہ عمل کا تعلق عادت سے ہے اور عادت کی وجہ سے کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور خصوصاً ایسے وقت میں جب مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہو.یعنی حکومت کے قوانین کی وجہ سے بعض عملی اصلاحیں ہو جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اسلام میں جن باتوں کو اخلاقی گراوٹیں کہا جاتا ہے اور اُس کی اصلاح کی طرف اسلام توجہ دلاتا ہے ان میں اسلامی ممالک میں انصاف کا فقدان ہونے کی وجہ سے، دو عملی کی وجہ سے، باوجود اسلامی حکومت ہونے کے اسلامی ممالک میں بھی عملی حالت قابل فکر ہے.اور غیر اسلامی ممالک میں بعض باتیں جن کے لئے اصلاح ضروری ہے، وہ اُنہیں بدعملی اور اخلاقی گراوٹ نہیں سمجھتے ، اس لئے بعض باتوں کی عملی اصلاح نہیں ہو سکتی.
خطبات مسرور جلد 11 697 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء پس عملی اصلاح کے لئے حکومت کا ایک کردار ہے.جہاں مذہب اور حکومت کی عملی اصلاح کی تعریف ایک ہے اور عملی اصلاح اُس کے مطابق ہے، وہاں عادتیں قانون کی وجہ سے ختم کی جاسکتی ہیں.لیکن جہاں حکومت کا قانون عملی اصلاح کے لئے مددگار نہ ہو، وہاں عادتیں نہیں بدلی جاسکتیں اور عملی کمزوریاں معاشرے کا ناسور بن جاتی ہیں.جیسا کہ آزادی کے نام پر ترقی یافتہ ممالک میں ہم بہت سی عملی کمزوریاں دیکھتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ سے عملی کمزوریاں اب دنیا میں ہر جگہ پھیلائی جا رہی ہیں اور ایسے ماحول میں پڑنے والے، ماحول کا حصہ ہونے کی وجہ سے ، مستقل ان چیزوں کو دیکھ کر عادتا بعض عملی کمزوریاں اپنا چکے ہیں.اور لاشعوری اور غیر ارادی طور پر بچے اور یا جو نو جوان ہیں اُن میں بھی لڑکے اور لڑکیوں میں بھی یہ کمزوریاں راہ پکڑ رہی ہیں اور جب عادت کی ہو جائے تو پھر اُسے چھوڑ نا مشکل ہو جاتا ہے.مثلاً نشہ ہے، اس کی عادت پڑ جائے تو چھوڑ نا مشکل ہے.ایک شخص یہ قربانی تو کر لیتا ہے کہ تین خداؤں کی جگہ ایک خدا کو مان لے اور یہ تو کبھی نہیں ہوگا کہ جب ایک خدا کو مان لیا تو دوسرے دن اُسے ایک خدا کی جگہ تین خداؤں کا خیال آ جائے.مگر نشہ کرنے والے کے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہوگی کہ نشہ مل جائے.ساری عمر کے عقیدے کو تو ایک شخص چھوڑ سکتا ہے، مگر نشہ کی عادت جو چند مہینوں یا چند سالوں کی عادت ہے اس میں ذراسی نشے کی کمی ہو جائے تو وہ اُسے بے چین کر دیتی ہے.سگریٹ پینے والے بھی بعض ایسے ہی ہیں جو اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر ، اپنے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر، اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر، اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جماعت میں بھی داخل ہوئے ، انہوں نے قربانی دی اور احمدی ہو گئے لیکن اگر سگریٹ چھوڑنے کو کہو تو سو بہانے تلاش کریں گے.کسی کا پیٹ پھول جاتا ہے، کسی کو نشہ نہ کرنے سے نیند نہیں آتی کسی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اُس کے خیال میں ختم ہو جاتی ہیں اور اس کے لئے وہ پھر بے چین رہتے ہیں.اسی طرح یہ صرف اُن کے لئے نہیں جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں، ہر ایک شخص کے لئے ہے.بعض بہت نیک کام کر رہے ہوتے ہیں اور بڑی قربانی کر کے کر رہے ہوتے ہیں لیکن چھوٹی سی عادت نہیں چھوڑ سکتے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ہمارے ایک تا یا تھے ، جود ہر یہ تھے اور بے دین تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جب ایسے دوست آتے تھے جن کو حقے کی عادت تھی تو وہاں تو حقہ ملتا نہیں تھا، لیکن یہ جوتا یا تھے اُن کے ہاں حقہ ہر وقت چلتا رہتا تھا.اور بھی ان کو نشے کی عادت تھی، تو یہ حقہ پینے والے وہاں چلے جایا کرتے تھے اور حقے کے نشے کی وجہ سے اُن کی
خطبات مسرور جلد 11 698 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء فضول اور بیہودہ باتیں سننے پر مجبور ہوتے تھے.اُن تا یا سے ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے پوچھا کہ کبھی آپ نے نماز بھی پڑھی ہے؟ اُن کی دینی حالت کا یہ حال تھا، کہنے لگے کہ بچپن سے ہی میری طبیعت ایسی ہے کہ جب میں کسی کو سر نیچے کئے دیکھتا ہوں تو مجھے ہنسی آنی شروع ہو جاتی ہے.مراد یہ تھی کہ جب میں کسی کو سجدے میں دیکھتا ہوں، نماز پڑھتے دیکھتا ہوں تو اُس وقت سے میں مذاق اُڑا یا کرتا تھا.حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ ان صاحب کے پاس دوست چلے جاتے تھے اور حقے کی مجبوری کی وجہ سے اسلام کے خلاف اور سلسلے کے خلاف باتیں بھی سننی پڑتی تھیں اور سنتے تھے.ایک دفعہ ایک دوست وہاں گئے اور اپنے آپ کو گالیاں دیتے ہوئے، برا بھلا کہتے ہوئے باہر نکلے.کسی نے پوچھا یہ کیا ہوا ہے؟ تو کہتے ہیں، اس حقے کی وجہ سے، اس لعنت کی وجہ سے میرے نفس نے مجھے ایسی باتیں سننے پر مجبور کیا ہے جو عام حالات میں میں برداشت نہیں کر سکتا.تو عادتیں بعض دفعہ انسان کو بہت ذلیل کروا دیتی ہیں.بعض لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے.لاکھ سمجھاؤ، نگرانی کرو مگر جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے.اُن کی اصلاح مشکل ہوتی ہے.یہ نہیں کہ ہو نہیں سکتی.اگر اصلاح نہ ہو سکے تو اُن کو سمجھانے کی ضرورت کیا ہے.خطبات میں بھی مستقل سمجھایا جاتا ہے نصیحتیں کی جاتی ہیں.خدا تعالیٰ کا سمجھائے جانے کا حکم ہے.اگر ایمان کی کچھ بھی رمق ہے تو نصیحت بہر حال فائدہ دیتی ہے.اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ مومنوں کو نصیحت کرو ان کے لئے فائدہ مند ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 367 تا 369 خطبہ جمعہ 5 جون 1936ء) ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب کو گالی دینے کی، ہر وقت گالی دینے کی، ہر بات پر گالی دینے کی عادت تھی.اور اُن کو بعض دفعہ پتہ بھی نہیں لگتا تھا کہ میں گالی دے رہا ہوں.اُن کی شکایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کسی نے کی.آپ نے جب اُن کو بلا کر پوچھا کہ سنا ہے آپ گالیاں بڑی دیتے ہیں تو گالی دے کر کہنے لگے کون کہتا ہے میں گالی دیتا ہے.تو عادت میں احساس ہی نہیں ہوتا کہ انسان کیا کہہ رہا ہے.بعض بالکل ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ عادت کی وجہ سے اُن کو احساس ختم ہو جاتے ہیں، احساس مٹ جاتے ہیں.لیکن اگر انسان کوشش کرے تو اُن مٹے ہوئے احساسات کو ختم ہوئے ہوئے احساسات کو دوبارہ پیدا بھی کیا جا سکتا ہے، اصلاح بھی کی جاسکتی ہے.بہر حال عملی حالت کی روک میں عادت کا بہت بڑا دخل ہے.آجکل ہم دیکھتے ہیں، بیہودہ فلمیں دیکھنے کا بڑا شوق ہے.انٹرنیٹ پر لوگوں کے شوق ہیں اور بعض لوگوں کی ایسی حالت ہے کہ اُن کی نشے والی
خطبات مسرور جلد 11 699 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء حالت ہے.وہ کھانا نہیں کھائیں گے اور بیٹے فلمیں دیکھ رہے ہیں تو دیکھتے چلے جائیں گے.انٹرنیٹ پر بیٹھے ہیں تو بیٹھے چلے جائیں گے.نیند آ رہی ہے تب بھی وہ بیٹھے دیکھتے رہیں گے.نہ بچوں کی پرواہ، نہ بیوی کی پر واہ تو ایسے لوگ بھی ہیں.پس یہ جو عادتیں ہیں، یہ عملی اصلاح میں روک کا بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں.عملی اصلاح میں روک کا پانچواں سبب بیوی بچے بھی ہیں.یہ عملی اصلاح کی راہ میں حائل ہوتے ہیں.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 375 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء) بسا اوقات انسان کو بیوی بچوں کی تکالیف عملی طور پر ابتلا میں ڈال دیتی ہیں.مثلاً اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ کسی کا مال نہیں کھانا.اب اگر کسی نے کسی کے پاس کوئی رقم بطور امانت رکھوائی ہو لیکن اُس کا کوئی گواہ نہ ہو، کوئی ثبوت نہ ہو تو جس کے پاس امانت رکھوائی گئی ہے اُس کی نیت میں بعض دفعہ اپنے بیوی بچوں کی ضروریات کی وجہ سے کھوٹ آ جاتا ہے، نیت بد ہو جاتی ہے،اُسے خیال آتا ہے کہ میری بیوی نے کچھ رقم کا مطالبہ مجھ سے کیا تھا اور اس وقت میرے پاس رقم نہیں تھی میں نے مطالبہ پورا نہیں کیا.یا میرے بچے نے فلاں چیز کے لئے مجھ سے رقم مانگی تھی اور میں اُسے دے نہ سکا تھا.اب موقع ہے.یہ رقم مار کر میں اپنے بیوی اور بچے کے مطالبہ کو پورا کر سکتا ہوں یا بچے کی بیماری کی وجہ سے علاج کے لئے رقم کی ضرورت ہے، رقم نہیں ہے.اس امانت سے فائدہ اُٹھا کر اور یہ رقم خرچ کر کے میں اس کا علاج کروالوں، بعد میں دیکھا جائے گا کہ رقم دینی ہے یا نہیں دینی.یا کسی اور مقصد کے لئے جو بیوی بچوں سے متعلقہ مقصد ہے، انسان کسی دوسرے کی رقم غصب کر لیتا ہے.تو یہ امانت کے متعلق اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کہ جب امانت رکھوائی جائے تو تم نے بہر حال واپس کرنی ہے، چاہے اُس کے گواہ ہیں یا نہیں ہیں ، کوئی ثبوت ہے یا نہیں ہے.بعض دفعہ بعض لوگ اپنے بچوں کے فوائد کے لئے ، اُن کے لئے جائیداد بنانے کے لئے نابالغ یتیموں کا حق مار لیتے ہیں یا کچھ حد تک انہیں نقصان پہنچا دیتے ہیں.پھر صرف مالی معاملات کی بات نہیں ہے.صرف یہی مثالیں نہیں ہیں.اس آزاد اور ترقی پسند معاشرے میں بعض ماں باپ خاص طور پر اور عموماً یہ بات کرتے ہیں لیکن غریب ممالک میں بھی یہ چیزیں سامنے آ جاتی ہیں کہ لاڈ پیار کی وجہ سے بچوں کو اسلامی تعلیم کی پابندی کروانے کی کوشش نہیں کی جاتی.یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں، افسوس سے میں کہوں گا کہ یہ ہمارے احمدی معاشرے میں نظر آ جاتی ہیں ، وقتاً فوقتا سامنے آتی رہتی ہیں.کسی نے کسی کی امانت کھالی.کسی نے کسی کو کسی اور قسم کا مالی دھوکہ دے دیا.کسی نے یتیم کا مال پورا ادا کرنے کا حق ادا نہیں کیا.قضاء میں بعض ایسے معاملات آتے ہیں یا شکایات آتی
خطبات مسرور جلد 11 700 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء ہیں کہ کوئی امیر ممالک میں رہنے والا اپنی بیٹی کی شادی پاکستان میں کرتا ہے اور داماد کو پہلے دن ہی کہہ دیتا ہے کہ میں نے اپنی بچی بڑے لاڈ پیار سے پالی ہے اور اس کو ہر قسم کی آزادی ہے.اس پر کسی قسم کی پابندی نہ لگانا اور بیٹی کا دماغ باپ کی شہ پر عرش پر پہنچا ہوتا ہے.خاوند کو وہ کوئی چیز نہیں سمجھتی.حالانکہ اسلامی تعلیم ہے کہ بیوی خاوند کے حقوق ادا کرے اور اپنے گھر کی ذمہ داریاں نبھائے، یہ اُس کے فرائض میں داخل ہے.کبھی لڑ کے پاکستان سے لڑکیاں بیاہ کر لاتے ہیں اور لڑکی کو ظلم کی چکی میں پیتے چلے جاتے ہیں اور لڑکے کے ماں باپ کہتے ہیں کہ لڑکی سب کچھ برداشت کرے، مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں.یہ بچوں کا لاڈ جہاں ماں باپ کی عملی حالت کو برباد کر رہا ہوتا ہے، وہاں گھروں کو بھی برباد کر رہا ہوتا ہے.پس بیوی بچوں کی وجہ سے عملی اصلاح میں روک کی بے شمار مثالیں ہیں.کئی اعمال ایسے ہیں جو انسان کی کمزوری ظاہر کر رہے ہوتے ہیں.کیونکہ بیوی بچوں کے لاڈ یا ضروریات اُن کے آڑے آ جاتی ہیں.ان کی محبت اُس کو نیک عمل سے روک لیتی ہے.بچوں کے حق میں جھوٹی گواہیاں، بچوں کے لاڈ کی وجہ سے دی جاتی ہیں.غریب ممالک میں یا تیسری دنیا کے ممالک میں تو یہ بیماری عام ہے کہ افسران رشوت لیتے ہیں.صرف اپنے لئے نہیں لیتے بلکہ بچوں کے لئے، جائیدادیں بنانے کے لئے، بچوں کے لئے جائیدادیں بنا کر چھوڑ جانے کے لئے وہ رشوت لیتے ہیں یا انہیں تعلیم دلوانے کے لئے ، مہنگے سکولوں میں پڑھوانے کے لئے رشوت لی جاتی ہے.پس انسانی اعمال کی درستی میں جذبات اور جذبات کو اُبھارنے والے رشتے روک بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی درستی اس صورت میں ممکن ہے جب خدا تعالیٰ کی محبت ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اس محبت کی شدت کے مقابلے میں بیوی بچوں کی محبت اور اُن کے لئے پیدا ہونے والے جذبات معمولی حیثیت اختیار کر لیں.اور انسان اس کے اثرات سے بالکل آزاد ہو جائے.اگر یہ نہیں تو عملی اصلاح بہت مشکل ہے.چھٹا سبب عملی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ انسان اپنی مستقل نگرانی نہیں رکھتا.یعنی عمل کا خیال ہر وقت رکھنا پڑتا ہے تبھی عملی اصلاح ہوسکتی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 380 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء) ہر کام کرتے وقت یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کام کے نتائج نیک ہیں یا نہیں.اس کام کو کرنے کی مجھے اجازت ہے یا نہیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بات پر عمل کر رہا ہوں
خطبات مسرور جلد 11 701 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء یا نہیں کہ قرآنِ کریم کے جو سات سو حکم ہیں اُن پر عمل کرو.کہیں میں ان سے دُور تو نہیں جا رہا.مثلاً دیانت سے کام کرنا ایک اہم حکم ہے.ایک دکاندار کو بھی یہ حکم ہے، ایک کام کرنے والے مزدور کو بھی یہ حکم ہے اور اپنے دائرے میں ہر ایک کو یہ حکم ہے کہ دیانتدار بنو.ایک دکاندار ہے،اُس کے سامنے دیانت سے چلنے کا حکم کئی بار آتا ہے.ایک انجان گاہک آتا ہے تو اُسے وہ یا کم معیار کی چیز دیتا ہے، یا قیمت زیادہ وصول کرتا ہے، یا اُس مقررہ قیمت پر کم وزن کی چیز دیتا ہے.یہ بیماری جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ، ان ملکوں میں تو کم ہے لیکن غریب ممالک میں بہت زیادہ ہے.پس گاہک کو چیز دیتے ہوئے کوئی تو یہ سوچتا ہے کہ اس گا ہک کی کم علمی کی وجہ سے میں فائدہ اُٹھاؤں.کوئی کہتا ہے کہ اگر میں وزن میں اتنی کمی ہر گاہک کے سودے میں کروں تو شام تک میں اتنا بچالوں گا.بعض دفعہ گاہک کی سخت ضرورت اور مجبوری دیکھ کر اصل منافع سے کئی گنا زیادہ منافع کما لیا جاتا ہے.یہ تو ویسے بھی تجارت کے جو اخلاق ہیں اُن کے خلاف ہے لیکن اسلام تو اس کو سختی سے منع کرتا ہے.منافع کے ضمن میں یہ بھی کہوں گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربوہ جو آباد ہوا ہے تو وہاں کے دکانداروں کو یہ نصیحت کی تھی کہ تم منافع کم لو تو تمہارے پاس گا ہک زیادہ آئیں گے.لیکن میرے پاس بعض شکایات ایسی آرہی ہیں یا آتی رہتی ہیں کہ ربوہ میں دوکاندار اتنا منافع کمانے لگ گئے ہیں کہ لوگ چنیوٹ جا کر سودا خرید نے لگ گئے ہیں.یعنی اپنوں کے بجائے غیروں کے پاس احمدیوں کا روپیہ جانے لگ گیا ہے اور اس کے ذمہ دار ربوہ کے احمدی دکاندار ہیں.پس اس لحاظ سے بھی ہمارے احمدی دکاندارسوچیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں.یہ جہاں بھی ہوں ،صرف ربوہ کی بات نہیں ہے.جہاں بھی دکاندار ہو، ایک احمدی دکاندار کا معیار ہمیشہ اچھا ہونا چاہئے ، اُن کا وزن پورا ہونا چاہئے ، کسی چیز میں نقص کی صورت میں گاہک کے علم میں وہ نقص لانا ضروری ہونا چاہئے.منافع مناسب اور کم ہونا چاہئے.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ تجارت میں برکت پڑتی ہے، کمی نہیں آتی.اسی طرح ہر میدان کے احمدی کو اپنی دیانت کا حسن ظاہر کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر وقت اس حکم کی جگالی کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی پڑھا ہے، تبھی عملی اصلاح ممکن ہوگی.ہر وقت دہراتے رہنا پڑے گا کہ میری عملی اصلاح کے لئے میں نے یہ یہ کام کرنے ہیں.اسی طرح دوسری برائیاں ہیں، مثلاً جھوٹ ہے.ہر بات کہتے وقت یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ میری بات میں کوئی غلط بیانی نہ ہو.پھر اس کی دکانداروں کی لا پرواہی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک دکاندار نماز کا وقت آتا ہے تو نماز کے لئے چلا جاتا ہے.دوسرا کہتا ہے کہ میں دکان کھلی رکھوں تا کہ اس عرصے میں جتنے گاہک آئیں وہ
خطبات مسرور جلد 11 702 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء میرے پاس آئیں.پس ایک طرف تو نیک اعمال کا خیال رکھنے والے نماز کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف پیسہ کمانے کا سوچنے والے اس سے بے پرواہ اپنے دنیاوی فائدے دیکھنے کے لئے منافع بنانے کی سوچ رہے ہوتے ہیں.بجائے اس کے کہ ہر کام کرنے سے پہلے نیک اعمال کی اصلاح کو سوچیں، اُن کی نظر دنیاوی فائدے کی طرف ہوتی ہے اور وہ اُس کے متعلق سوچتے ہیں.ربوہ کے دکانداروں کے بارے میں پھر میں کہوں گا کہ ایک دفعہ ایک شکایت آئی تھی کہ نماز کے وقت میں دکانیں بند نہیں کرتے.تو اب بہر حال اُن کی رپورٹ آئی ہے کہ سب نے یہی کہا ہے کہ اب ہم انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کرتے رہیں گے.خدا کرے کہ یہ لوگ اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں.اسی طرح قادیان کے دکاندار ہیں اور آجکل تو قادیان میں جلسے کی وجہ سے گہما گہمی ہے، انہیں بھی اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ گا ہک باہر سے آئے ہوئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے فرائض جو ہیں اُن کو بھول جائیں.وہاں اُن کو نمازوں کے اوقات میں اپنی دکانیں یا اپنے سٹال جو ہیں وہ بہر حال بند کرنے چاہئیں اور دنیا میں ہر جگہ ہر احمدی کو یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو فرائض ہیں، اُن کی ادائیگی کے لئے اُن کو بہت توجہ کی ضرورت ہے.اعمال پر بار بار توجہ دینے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی تیز رفتار گھوڑے پر سوار چلا جا رہا ہو لیکن بے احتیاطی سے اگر بیٹھے گا تو گھوڑا اُسے نیچے گرا دے گا.پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے اعمال پر نگاہ رکھنی پڑے گی اور رکھنی چاہئے.لمحہ بھر کے لئے اگر بے احتیاطی ہو جائے تو مومن کا جو معیار ہے اُس سے وہ گر جائے گا اور اس کے اعمال کی اصلاح بھی نہیں ہوگی.پس ہر معاملے میں ہر وقت نظر رکھ کر ہی عملی اصلاح کی طرف ہر ایک جو ہے صحیح قدم اُٹھا سکتا ہے.برائیوں کی طرف ایک مرتبہ انسان جھک گیا تو پھر وہ اُس میں ڈوب جاتا ہے.گویا برائیوں سے بچنے کے لئے ہر کام پر نظر رکھ کر انسان ایک حجاب میں آ جاتا ہے اور جب یہ حجاب ختم ہو جائے تو ایک کے بعد دوسری کمزوری اُس پر غلبہ پالیتی ہے.عورتوں کے لئے بھی میں ایک مثال دوں گا.پردہ اور حیا کی حالت ہے.اگر ایک دفعہ یہ ختم ہو جائے تو پھر بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے.آسٹریلیا میں مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض بڑی عمر کی عورتوں نے جو پاکستان سے وہاں آسٹریلیا میں اپنے بچوں کے پاس نئی نئی گئی تھیں، اپنی بچیوں کو یہ دیکھ کر کہ پردہ نہیں کرتیں انہیں پردے کا کہا کہ کم از کم حیادار لباس پہنو، سکارف لو تو اُن کی لڑکیوں میں سے بعض جو ایسی ہیں کہ پردہ نہ کرنے والی ہیں، انہوں نے یہ کہا کہ یہاں پردہ کرنا بہت بڑا جرم ہے اور آپ بھی چھوڑ دیں تو
خطبات مسرور جلد 11 703 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء مجبوراً ان عورتوں نے بھی جو پردہ کا کہنے والی تھیں، جن کو ساری عمر پر دے کی عادت تھی اس خوف کی وجہ سے کہ جرم ہے، خود بھی پردہ چھوڑ دیا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کوئی ایسا قانون نہیں ہے، نہ جرم ہے.کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس طرف توجہ دیتا ہے.صرف فیشن کی خاطر چند نوجوان عورتوں اور بچیوں نے پردے چھوڑ دیئے ہیں.پاکستان سے شادی ہو کر وہاں آنے والی ایک بچی نے مجھے لکھا کہ مجھے بھی زبر دستی پردہ چھڑوا دیا گیا تھا.یا ماحول کی وجہ سے میں بھی کچھ اس دام میں آ گئی اور پردہ چھوڑ دیا.اب میں جب وہاں دورے پر گیا ہوں تو اُس نے لکھا کہ آپ نے جلسہ میں جو تقریر عورتوں میں کی اور پردے کے بارے میں کہا تو اس وقت میں نے برقع پہنا ہوا تھا تو اس وقت سے میں نے برقع پہنے رکھا ہے اور اب میں اُس پر قائم ہوں اور کوشش بھی کر رہی ہوں اور دعا بھی کر رہی ہوں کہ اس پر قائم رہوں.اُس نے دعا کے لئے بھی لکھا.تو پر دے اس لئے چھٹ رہے ہیں کہ اس حکم کی جو قرآنی حکم ہے، بار بار ذہن میں جگالی نہیں کی جاتی.نہ ہی گھروں میں اس کے ذکر ہوتے ہیں.پس عملی اصلاح کے لئے بار بار برائی کا ذکر ہونا اور نیکی کا ذکر ہونا ضروری ہے.ساتواں سبب اعمال کی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ انسانی تعلقات اور رویے جو ہیں وہ حاوی ہو جاتے ہیں اور خشیت اللہ میں کمی آجاتی ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 383 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء) بسا اوقات لالچ، دوستانہ تعلقات، رشتے داری ، لڑائی ، بغض اور کینے ان اعمال کے اچھے حصوں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے.مثلاً امانت کی جو میں نے مثال دی ہے، دوبارہ دیتا ہوں کہ انسان امانت کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھتا کہ خدا تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہوا ہے، بلکہ اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس خاص موقع پر امانت کی وجہ سے اُس کے دوستوں یادشمنوں پر کیا اثر پڑتا ہے.اسی طرح وہ سچ کو اس نقطہ سے نہیں دیکھتا کہ سچ بولنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے بلکہ اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ آیا اُسے یا اُس کے دوستوں، عزیزوں کو اس سچ بولنے سے کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا؟ ایک انسان دوسرے انسان کے خلاف گواہی اس لئے دے دیتا ہے کہ فلاں وقت میں اُس نے مجھے نقصان پہنچایا تھا.پس آج مجھے موقع ملا ہے کہ میں بھی بدلہ لے لوں اور اُس کے خلاف گواہی دے دوں.تو اعمال میں کمزوری اس وجہ سے ہوتی ہے کہ خشیت اللہ کا خانہ خالی ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنا چاہئے کہ اپنے خلاف یا اپنے پیاروں اور والدین کے خلاف بھی تمہیں گواہی دینی پڑے تو دو اور سچائی کو ہمیشہ مقدم رکھو.
خطبات مسرور جلد 11 704 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء آٹھواں سبب عملی اصلاح میں روک کا یہ ہے کہ عمل کی اصلاح اُس وقت تک بہت مشکل جب تک خاندان کی اصلاح نہ ہو.ہے ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 384 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء) مثلاً دیانتداری اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی یا اُس کا معیار قائم نہیں رہ سکتا، جب تک بیوی بچے بھی پورا تعاون نہیں کرتے.گھر کا سر براہ کتنا ہی حلال مال کمانے والا ہو لیکن اگر اُس کی بیوی کسی ذریعہ سے بھی ہمسایوں کو ٹوٹتی ہے یا کسی اور ذریعہ سے کسی کو نقصان پہنچاتی ہے، مال غصب کرنے کی کوشش کرتی ہے یا اُس کا بیٹا رشوت کا مال گھر میں لاتا ہے تو اس گھر کی روزی حلال نہیں بن سکتی.خاص طور پر اُن گھروں میں جہاں سب گھر والے اکٹھے رہتے ہیں ، جوائنٹ فیملی سسٹم ہے اور اُن کے اکٹھے گھر چل رہے ہوتے ہیں.اسی طرح دوسرے اعمال ہیں.جب تک سب گھر والوں کے اعمال میں ایک ہو کر بہتری کی کوشش نہیں ہوگی، کسی نہ کسی وقت ایک دوسرے کو متاثر کر دیں گے.بیوی نیک ہے اور خاوند رزق حلال نہیں کماتا تو تب بھی گھر متاثر ہو گا.نمازوں کی طرف اگر باپ کی توجہ ہے لیکن اپنے بچوں کو تو جہ نہیں دلاتا یا باپ کہتا ہے لیکن ماں تو جہ نہیں کر رہی.یا ماں توجہ دلا رہی ہے اور باپ بے نمازی ہے تو بچے اُس کی نقل کریں گے.گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے یہ مثالیں دی تھیں.اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے: قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم : 66 ) کہ نہ صرف اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی جہنم کی آگ سے بچاؤ.تمہارا صرف اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچانا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں کو بھی بچانا فرض ہے.اگر دوسروں کو نہیں بچاؤ گے تو وہ تمہیں ایک دن لے ڈوبیں گے.پس اعمال کی اصلاح کے لئے پورے گھر کی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کے لئے سب کو کوشش کرنی چاہئے.اس میں گھر کے سربراہ کا سب سے اہم کردار ہے.اکثر اوقات بیوی بچوں کی طرف سے غفلت یا اُن کی تکلیف کا احساس یا بے جالا ڈا اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح میں روک بن جاتا ہے.ان آٹھ باتوں کے علاوہ بھی بعض وجوہات عملی اصلاح میں روک کی ہوسکتی ہیں.یہ چندا ہم باتیں جیسا کہ میں نے کہی ہیں لیکن اگر ان پر غور کیا جائے تو تقریبا تمام باتیں انہی آٹھ باتوں میں سمٹ بھی جاتی ہیں.
خطبات مسرور جلد 11 705 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء بہر حال خلاصہ یہ کہ اعمال کے بارے میں ایسی روکیں موجود ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے ہٹا دیتی ہیں.اُس کے قرب سے دور پھینک دیتی ہیں.اگر ہم اپنے اعمال کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.صرف کہہ دینے سے اصلاح نہیں ہوگی بلکہ اُن ذرائع کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعہ سے اصلاح ممکن ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مثال دی ہے کہ یورپ کا ایک مشہور لیکچر رتھا اور بڑے اعلی قسم کے لیکچر دیا کرتا تھا لیکن لیکچر دیتے وقت وہ اپنے کندھے بہت زور زور سے ہلا یا کرتا تھا، اوپر نیچے کیا کرتا تھا.لوگوں نے اُسے کہا کہ تم لیکچر تو بہت اچھا دیتے ہولیکن تمہارے کندھوں کی اوپر نیچے کی حرکت کی وجہ سے اکثر لوگوں کو ہنسی آ جاتی ہے.اُس نے بڑی کوشش کی کہ یہ جو نقص ہے وہ دُور ہو جائے لیکن دور نہ ہوا.آخر اس نے اس کا علاج اس طرح شروع کیا کہ دو تلوار میں اُس نے چھت سے ٹانگ لیں جو اُس کی height تک پہنچتی تھیں، کندھوں تک پہنچتی تھیں اور اُن کے نیچے کھڑا ہو کر اُس نے تقریر کی مشق کرنا شروع کر دی.جب کبھی کندھا لا تا تھا تو تلوار اس کے کندھے پر لگتی تھی کبھی دائیں کبھی بائیں.چنانچہ چند دن کی کوشش کے بعد اُس کی یہ عادت ختم ہو گئی.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 390 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء) پس نیک عمل کی عادت ڈالنے کے لئے ایسے طریق اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے مجبور ہو کر نیک اعمال بجالانے کی طرف توجہ پیدا ہو اور اس کے لئے سب کو مل کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے.ہر گھر کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور ہر گھر کے ہر فرد کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے.اور یہ کوشش بغیر قربانی کے نہیں ہوسکتی.بغیر وہ طریقہ اختیار کئے نہیں ہوسکتی جس سے برائیوں کو چھوڑنے کے لئے اگر تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑیں تو کی جائیں.ہر فرد جماعت کو جائزے کی ضرورت ہے، قربانی کی ضرورت ہے، پختہ عہد کی ضرورت ہے ، ورنہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.وہ بہت بڑا مقصد جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے، یہ ہے کہ ہمارے عقیدے اور اعمال دونوں کی اصلاح ایسے اعلیٰ معیار پر ہو کہ جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے.(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحه 454-455 مطبوعہ ربوہ) جیسا کہ میں پہلے خطبوں میں کہہ چکا ہوں، بیشک ہم نے عقیدے کے میدان میں بہت عظیم الشان فتح حاصل کر لی ہے، یہاں تک کہ وہی عقائد جن کو جب جماعت کی طرف سے پیش کیا جاتا تھا تو دشمن کی طرف سے سختی سے انکار کیا جاتا تھا لیکن آج بعض دشمن بھی اُن باتوں کے قائل ہو رہے ہیں.ایسے بھی
خطبات مسرور جلد 11 706 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء مسلمان ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی آسمان پر نہیں گئے یا انہوں نے نازل نہیں ہونا.یہ کہنے یا اس بات کے قائل ہونے کی کوئی بھی وجہ ہو لیکن لاشعوری طور پر جماعت احمدیہ کا عقیدہ اُن کے منہ بند کر کے اُن کو اس بات پر قائل کر رہا ہے.جہاد کے بارے میں اب بعض بڑے بڑے علماء نے یہ بیان دیئے ہیں کہ اس وقت جہاد کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے، یہ دہشت گردی ہے اور آجکل جہاد جائز نہیں اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.اس بارے میں وہ جو چاہے دلیل دیں لیکن احمدیت کی تعلیم ہی انہیں متاثر کر رہی ہے.لیکن جب ہم عمل کو دیکھتے ہیں تو عمل کے بارے میں ہماری کوتاہی ہے یا کمزوری ہے کہ ابھی وہ روح ہم میں پیدا نہیں ہوئی جس روح کے تحت ہم کام کر کے دنیا کو وہ نمونہ دکھلا سکیں جس کے بعد کوئی شخص ہماری جماعت کی برتری اور فوقیت تسلیم کرنے سے انکار نہ کرے.ابھی تک ہم اُس تعلیم پر پورے طور پر عمل نہیں کر رہے جو عملی اصلاح کے متعلق اسلام نے پیش کی ہے.بلکہ اکثر اوقات دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی نقل کر کے اس طرف مائل ہو جاتے ہیں، جیسا کہ میں نے بعض مثالیں بھی دی ہیں اور غیروں سے اپنا لوہا منوانے کی بجائے ہم نقال بن جاتے ہیں، اُن کی نقلیں کرنی شروع کر دیتے ہیں اور پھر عمل کے میدان میں بعض جگہ ہمیں شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے.پس ضرورت ہے کہ عمل کے میدان میں کامیابی حاصل کریں.ضرورت ہے کہ وہ پانی جس سے ہم نے اس زمانے میں فیض پایا ہے، اُسے بکھرا نہ دیں، ضائع نہ کریں بلکہ ان نہروں میں سمیٹ لیں جو زمینوں کو سیراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں نہ کہ اُس پانی کی طرح جو ادھر ادھر بہہ جاتا ہے.ہمیں اپنی حد بندیاں مقرر کرنی ہوں گی.اپنی عملی اصلاح کے لئے اپنے آپ پر کچھ پابندیاں لگانی ہوں گی تبھی ہم اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں.ہم نے عقائد کی دیواروں کو مضبوط کرنے کے لئے بیشک قربانیاں دی ہیں.جان، مال، وقت کی قربانی دی ہے اور دے رہے ہیں لیکن اعمال کی دیواروں کی طرف ہماری اتنی تو جہ نہیں ہوئی جو ہونی چاہئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کو مختصر الفاظ میں بڑے عمدہ طریق سے بیان فرمایا ہے کہ اب تک صرف دو دیوار میں عقائد والی ہیں.دو دیوار میں جو عمل والی ہیں، وہ ابھی ہم نے نہیں بنا ئیں.اس وجہ سے چور آتا ہے اور ہمارا مال اُٹھا کر لے جاتا ہے.لیکن جب ہم قربانی کے نتیجہ میں اپنی چاردیواری کو مکمل کر لیں گے تو پھر چور کے داخل ہونے کے سارے راستے مسدود ہو جائیں گے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 391-392 خطبہ جمعہ 12 جون 1936ء)
خطبات مسرور جلد 11 707 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 20 دسمبر 2013ء پس آج ہمیں عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی بھی کریں گے، اپنے بیوی بچوں کی خواہشات کی قربانی بھی کریں گے اور ہر وہ قربانی کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے جس سے ہماری عملی اصلاح کی دیوار میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں.تب ہم نہ غیروں سے اس تعلق میں پیٹنے والے ہوں گے یا شرمندہ ہونے والے ہوں گے اور نہ ہی ہمارے گھروں میں چور داخل ہو کر ہمیں نقصان پہنچاسکیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 10 جنوری 2014ء تا 16 جنوری 2014 ، جلد 20 شماره 54 صفحه 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 708 52 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013 ء بمطابق 27 فتح 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح - لندن تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج سے قادیان میں وہاں کا جلسہ سالانہ شروع ہے.یہ جلسہ سالانہ شاید partition کے بعد سے بعض لوگوں کے خیال میں بھارت کا جلسہ سالانہ سمجھا جاتا ہو.لیکن قادیان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بستی ہونے کی وجہ سے اور تمام دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا پیغام اس بستی سے نکل کر پہنچنے کی وجہ سے جو حیثیت اور جو مقام حاصل ہے، وہ اس بستی کو جہاں اسلام کی سراُۃ ثانیہ کا مرکز بناتی ہے وہاں اس بستی میں منعقد ہونے والے جلسوں کو بھی بین الاقوامی جلسہ بناتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج وہاں بتیس تینتیس ملکوں کی نمائندگی ہو رہی ہے.پس قادیان کی بھی ایک اہمیت ہے اور وہاں منعقد ہونے والے جلسوں کی بھی ایک اہمیت ہے.اس بستی کے رہنے والے احمدیوں کی بھی ایک اہمیت ہے اور اس جلسہ میں شامل ہونے والے دنیا کے کونے کونے سے آنے والے احمدیوں کی بھی ایک اہمیت ہے.لیکن یہ اہمیت حقیقت میں اجاگر ہوگی ، تب با مقصد ہوگی جب اس بستی میں رہنے والے اس اہمیت کا حق ادا کرنے والے بنیں گے.جب اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آنے والے اس جلسہ کے مقاصد کے حصول کے لئے یہ دن اور راتیں جو انہوں نے وہاں گزارنی ہیں، وہ ان کو اس مقصد کے حاصل کرنے میں صرف کریں گے جو مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور زمانے کے امام نے ان جلسوں کا بتایا ہے، اُن لوگوں کا بتایا ہے جنہوں نے آپ سے عہد بیعت باندھا ہے.عموماً دنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والے جلسے کا ماحول شامل ہونے والوں پر ایک روحانی اثر
خطبات مسرور جلد 11 709 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء ڈالتا ہے.اور اس کا اظہار شامل ہونے والے کرتے رہتے ہیں لیکن قادیان کے جلسے کے ماحول میں روحانیت کا ایک اور رنگ محسوس ہوتا ہے.جنہوں نے وہاں جلسوں میں شمولیت اختیار کی ہے اُن کو اس بات کا علم ہے اور ہر مخلص کو یہ رنگ محسوس ہونا چاہئے.کیونکہ اس بستی کی فضاؤں میں اور گلی کوچوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور مسیح موعود اور مہدی معہود کی یادوں کی خوشبو روحانیت کے ایک اور ہی ماحول میں لے جاتی ہے.پس اس ماحول میں ملی ہوئی نصیحت بھی ایک خاص رنگ رکھتی ہے، ایک خاص اثر رکھتی ہے اور ہر مخلص کے دل پر ایک خاص اثر کرنے والی ہونی چاہئے.اس لئے میں اس جلسے میں شامل ہونے والے تمام شاملین کو آج اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ جہاں جلسہ میں شامل ہو کر علمی اور تربیتی تقریروں سے فیضیاب ہوں ، وہاں اُن مقاصد کو بھی اپنے سامنے رکھیں اور ہر وقت اس کی جگالی کرتے رہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کے انعقاد کے بیان فرمائے ہیں جو میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی جلسہ کے افتتاح کرنے والے میرے نمائندے نے وہاں جلسہ کے افتتاح کے وقت پیش کئے ہوں گے.میرے خیال میں، میں نے اس لئے کہا ہے کہ مجھے اس افتتاحی تقریب کا علم نہیں ہے کہ کیا تقریر ہوئی ہے؟ لیکن عموماً جلسے کے مقاصد کو سامنے رکھ کر ہی افتتاحی تقریر کا مضمون بیان ہوتا ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے جلسے میں شامل ہونے والے ہر شخص کو یہ دن گزارنے چاہئیں.اس جلسہ میں جیسا کہ میں نے کہا کئی ممالک کی نمائندگی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مقصد یہ بھی بتایا تھا کہ افرادِ جماعت کا ایک دوسرے سے جلسہ کے دنوں میں تعارف بڑھے اور اخوت اور پیار اور محبت کے تعلقات قائم ہوں.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 281 اشتہار نمبر 91 مطبوعہ ربوہ) پس آج تعارف اور اخوت کے معیاروں میں ایسی وسعت پیدا ہو گئی ہے جو بے مثال ہے.جب ہم دیکھتے ہیں کہ قادیان کا رہنے والا ایک عام کارکن امریکہ کے رہنے والوں اور روس کے رہنے والوں سے ملتا ہے.یا عرب کا رہنے والا یورپ کے رہنے والوں سے ملتا ہے یا سب جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو وہ روح نظر آتی ہے جو مومنین کے اخوت کے وصف کو نمایاں کرتی ہے اور یہ روح اس وصف کو نمایاں کرنے والی ہونی چاہئے.اگر کسی کے دل میں نخوت ہے تو وہ اپنے بھائیوں سے اس اخوت کے جذبے کے تحت نہیں ملتا.یا ایک شہر کا رہنے والا امیر اپنے غریب بھائی کو چاہے وہ اُسے جانتا ہے یا نہیں یا
خطبات مسرور جلد 11 710 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء اُس کے تعلقات اچھے ہیں یا کمزور یار جمشیں ہیں یا شکایتیں ، جب تک سب کدورتیں مٹا کر سب بڑائی اور امیری اور غریبی کے فرق مٹا کر اخوت اور بھائی چارے کے نمونے نہیں دکھاتے تو پھر جلسے کی تقریریں ایسے شامل ہونے والوں کو کوئی فائدہ نہیں دیں گی، نہ ہی وہاں کا ماحول اُن کو کوئی فائدہ دے سکے گا.جلسے پر آنا بھی بے فائدہ ہو گا.قادیان کا روحانی ماحول بھی ایسے شخص کے دل کی سختی کی وجہ سے اُس کے لئے روحانیت سے خالی ہوگا.پس اگر جلسہ کے مقصد سے بھر پور فائدہ اُٹھانا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے سب شامل ہونے والے جلسہ میں شامل ہوں جو جلسہ کے مقاصد میں سے ایسا اہم مقصد ہے جس کا آپ نے خاص طور پر ذکر فرمایا ہے.امیری، غریبی اور بڑے ہونے اور چھوٹے ہونے کے فرق کو مٹادیں.ذاتی رنجشیں بھی ہیں تو یہاں اس ماحول میں وہ ایک دوسرے کے لئے اس طرح دُور کر دیں جیسے کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں.قادیان کے احمدیوں کی مستقل آبادی کو بھی اپنے سینوں کو ٹولنا ہوگا.اپنے دلوں کے جائزے لینے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ایسا موقع عطا فر مایا کہ مسیح موعود کی بستی میں رہتے ہیں جس کا ماحول ویسا ہونا چاہئے جیسا کہ زمانے کے امام نے خواہش کی تھی اور اس کے لئے جماعت کی تربیت کی کوشش کی اور پھر اس بات کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یعنی وہاں رہنے والوں کو اپنی زندگی میں ایک اور موقع دیا کہ جلسہ میں شامل ہوں اور اپنی تربیت کے اس اعلیٰ موقع سے فائدہ اُٹھا ئیں.پس جہاں ہر آنے والا اس محبت و اخوت کے تعلق اور رشتے کو قائم کرے، وہاں اس بستی میں رہنے والا ہر احمدی بھی اس طریق پر اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ یہی جائزے پھر دنیاوی خواہشات سے بھی دلوں کو پاک کریں گے اور آخرت کی طرف بکلی جھکنے کا خیال اور احساس پیدا ہوگا.خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو گا.اس دنیا کی خواہشات کی فکر نہیں ہوگی بلکہ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ ما قَدَّمَتْ لِغَد (الحشر :19) کا مضمون جو ہے، یہ سامنے ہوگا.یہ کوشش ہوگی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے اور اُخروی زندگی کی بھلائیاں چاہنے کے لئے اس دنیا سے کیا آگے بھیجنا ہے.زہد اور تقویٰ پر نظر رکھنی ہے یا دنیا داری کا نمونہ دکھانا ہے اور خدا تعالیٰ کے خوف کو دل سے نکال کر یہ زندگی گزارنی ہے.عہد بیعت کی پابندی کرنی ہے یا عہد بیعت کا خوبصورت پیج صرف سینے پر لگا کر اپنے آپ کو عہد بیعت کو پورا کرنے والا سمجھنا ہے.خدا ترسی، پرہیز گاری اور نرم دلی کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے ہیں یا ظلم و
خطبات مسرور جلد 11 711 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء جور اور بداخلاقی اور بدکلامی جیسی برائیوں کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہوئے اپنے عمل سے اُس کے اظہار کرنے ہیں.عاجزی اور انکساری کے نمونے قائم کرنے ہیں یا تکبر وغرور سے اپنے سروں اور گردنوں کو اکڑا کر چلنا ہے.سچائی کے خوبصورت موتی بکھیر نے ہیں یا جھوٹ کے اندھیروں کی نذر ہو کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینی ہے.دینی مہمات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہوئے مسیح محمدی کے مشن کی تکمیل کرنی ہے یا دنیا داری کی چمک دمک میں ڈوب کر اپنے مقصد کو بھولنا ہے.پس یہ جائزے اور اپنے عمل کا تنقیدی جائزہ ہمیں بتائے گا کہ ما قَدَّمَتْ لِغَد“ کو کس حد تک ہم نے اپنے سامنے رکھا ہوا ہے.پس جلسہ کے یہ تین دن ان باتوں کا جائزہ لینے کے لئے اور اپنے عمل خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے لئے بہترین دن ہیں جبکہ ایک دوسرے کا روحانی اثر قبول کرنے کا بھی رجحان ہوتا ہے.تہجد کی اجتماعی اور انفرادی ادائیگی ایک خاص ماحول پیدا کر رہی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سجدہ گا ہوں اور دعاؤں کی جگہیں بھی بہت سے دلوں کو بے قرار دعاؤں کی توفیق دے رہی ہوتی ہیں.لامحسوس طریقے پر انتشار روحانیت کا ماحول ہوتا ہے.پس اس تین دن کے کیمپ سے بھر پور فائدہ اُٹھا ئیں اور کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اس مقصد کو حاصل کئے بغیر وہاں سے واپس لوٹے.اور قادیان میں رہنے والا کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو ان تین دنوں کو اپنی اصلاح کا بہترین ذریعہ نہ بنالے.لیکن یہ بھی مد نظر رہے، اس بات کی پابندی کی بھی بھر پور کوشش رہے کہ جو تبدیلی پیدا کرنی ہے یا پیدا کی ہے، اس میں مداومت اختیار کرنی ہے.اسے اپنی زندگی کا مستقل حصہ بھی بنانا ہے.اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب وہاں بیٹھا ہوا ہر شخص اس بات کا پختہ ارادہ کرے کہ ہم نے جو پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اُس پر تا زندگی پھر قائم رہنا ہے.یہ ارادہ کرنا ہے کہ جلسہ سالانہ پر کی جانے والی تقریریں اور علمی باتیں جب ہم سنیں تو وہ صرف دینی علم کے بڑھنے کا ذریعہ نہ ہوں یا عارضی طور پر دینی علم بڑھانے کا ذریعہ نہ ہوں بلکہ اب مستقل طور پر دینی علم بڑھانے کی تا زندگی مسلسل کوشش بھی کرنی ہے اور پھر اس بات کا بھی مصمم ارادہ کرنا ہے کہ ہم نے اُن لوگوں میں سے نہیں بننا جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں.جو کچھ علم حاصل کیا ہے اس کو ہم نے اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو ہمیشہ سامنے رکھنا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:3) اے مومنو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں.پس جب ان باتوں کی طرف توجہ رہے گی تبھی جلسہ میں شامل ہونے کے مقاصد بھی پورے ہوں گے تبھی وہ دیر پا مقاصد حاصل ہوں گے جن کے حصول کے لئے
خطبات مسرور جلد 11 712 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے عہد بیعت لیا ہے.تبھی ہم جلسہ کی برکات سے مستقل فیض پانے والے بن سکیں گے.تبھی اپنی اصلاح کی طرف ہماری توجہ رہے گی اور ہم اپنے جائزے لیتے رہیں گے.تبھی اپنے بچوں کے سامنے ہم نیک نمونے قائم کرنے والے بن سکیں گے.تبھی ہم اپنے بچوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بن سکیں گے.تبھی اپنے ماتحتوں اور زیر اثر افراد کی رہنمائی کا حق ادا کرنے کی طرف ہماری توجہ بھی رہے گی.تبھی ہم تبلیغ کا حق بھی ادا کرنے والا بن سکیں گے.پس یہ بہت بڑا کام ہے جو ہم میں سے ہر ایک نے انجام دینا ہے.لیکن اس کے معیار تھی قائم ہو سکتے ہیں جب ہم حقیقت پسند بن کر اپنی خوبیاں دیکھنے کی بجائے اپنی خامیوں پر نظر رکھنے والے ہوں گے اور اُن کی تلاش میں ہوں گے، جب ہم خدا تعالیٰ کی مغفرت کے حصول کے لئے بے چین ہوں گے، جب ہم خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے آگے اپنی گردنیں ڈال دیں گے، جب ہم اطاعت کے وہ نمونے دکھا ئیں گے جس میں بہانے اور عذر نہ ہوں بلکہ جن میں فرار کے راستوں کے آگے دیواریں کھڑی ہوں ، عذروں کے راستے کے آگے دیوار میں کھڑی ہوں اور یہ معیار اُس وقت حاصل ہوگا جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم اور اپنی جماعت سے آپ کی تو قعات اور خواہشات کو اپنی تمام تر خواہشات پر ترجیح دیں گے.جب ہم آپ کی خواہشات کے مطابق صدق و وفا کے نمونے دکھا ئیں گے.آپ علیہ السلام ہم سے کیا توقعات اور امید رکھتے ہیں.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ہمیشہ اپنے قول اور فعل کو درست اور مطابق رکھو.جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگیوں میں کر کے دکھا دیا، ایسا ہی تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے صدق اور وفا کے نمونے دکھاؤ.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نمونہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھو.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 248.مطبوعہ ربوہ ) پس جب ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں عجیب نمونے نظر آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت ابوبکر صدیق کے نمونے کی بات کی.آپ کی زندگی میں ہم صدق و وفا کے جو نمونے دیکھتے ہیں اُن میں ایک عجیب شان نظر آتی ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ میں نبی ہوں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی سوال کے کہا کہ میں آپ کو خدا تعالیٰ کا نبی مانتا ہوں.(دلائل النبوة جلد 1 صفحه 24 باب دلائل النبوة فى اسلام ابوبکر مطبوعہ دار الكتب بيروت 2002ء)
خطبات مسرور جلد 11 713 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دینی ضروریات کے لئے چندے کی ضرورت ہے، مومنوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مال میں سے دینی ضروریات کے لئے مال دیں تو حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے گھر کا سارا مال لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا.(شرح العلامة الزرقاني جلد 4 صفحه 69 باب ثم غزوة تبوك مطبوعه دار الكتب العلميه بيروت 1996ء) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفار کے ظلموں کی وجہ سے اب مجھے لڑائی کا حکم ہوا ہے، اُن کا سختی سے جواب دینے کا حکم ہوا ہے، اُن کے خلاف تلوار اُٹھانے کا حکم ہوا ہے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر آگئے کہ میں حاضر ہوں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوری طور پر صلح حدیبیہ کے موقع پر فیصلہ بدل کر اپنی اس منشاء کا اظہار کیا کہ لڑائی نہ کی جائے بلکہ صلح کی جائے تو سب بڑے بڑے صحابہ اُس وقت بے چین ہوئے، بعض کے ماتھے پر شکنیں آنے لگیں کہ یہ کیا ہونے لگا ہے مگر حضرت ابوبکر صدیق نے کہا بالکل ٹھیک ہے صلح ہی ہونی چاہئے.(ماخوذ از صحیح البخارى كتاب الجزية والمواعدة باب منه حديث 3182) پس یہ وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت سے توقع کی ہے.یہ معیار سامنے رہیں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات کو پورا کرنے کی روح قائم رہے گی.جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک جلسہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہشات اور توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو کس قدر تکلیف ہوئی اور کس قدر ناراضگی کا اظہار کیا تھا.(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 360 اشتہار نمبر 117 مطبوعہ ربوہ ) تو طبیعت بے چین ہو جاتی ہے.پس آج اس زمانے میں ہم نے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کا حصہ بننا ہے تو ہمیں آپ کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے.اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور اُس طاقت اور جوش کی ضرورت ہے جس کا نمونہ صحابہ نے جنگ حنین میں دکھایا تھا.کیونکہ اس جذبے کے بغیر نہ ہم لغویات سے بچ سکتے ہیں، نہ ہم دنیا کی لالچوں سے بچ سکتے ہیں نہ ہم اپنے نفس کی اصلاح کر سکتے ہیں، نہ ہم جلسوں میں شامل ہونے کی روح کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھ سکتے ہیں، نہ ہمارے اندر اسلام کی خدمت کے جذبے کی حقیقی روح پیدا ہو سکتی ہے.
خطبات مسرور جلد 11 714 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء جنگ حنین میں کیا ہوا تھا ؟ جنگ حنین میں اُس وقت تک کی جو اسلام کی تاریخ تھی اُس وقت مسلمانوں کا پہلا لشکر تھا جو دشمن کے مقابلے میں تیار ہوا تھا اور جس کی تعدا د شمن کے لشکر کی تعداد سے زیادہ تھی لیکن وہ لوگ جو لشکر میں شامل ہوئے تھے، اُن کی اکثریت مومن کی قربانی کی روح کو سمجھنے والی نہیں تھی.اُس روح سے نا آشنا تھی.جب دشمن کے چار ہزار تیراندازوں نے حکمت سے اچانک تیروں کی بوچھاڑ کی تو کچھ کمزور ایمان کی وجہ سے اور کچھ لوگ سواریوں کے بدکنے کی وجہ سے ادھر ادھر ہونے لگے اور اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صرف بارہ صحابہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں رہ گئے لیکن آپ نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے.باوجود اس مشورے کے کہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ واپس مڑ کر لشکر کو جمع کیا جائے ، آپ نے فرمایا.خدا کا نبی میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں موڑتا.بہر حال آپ نے اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جن کی آواز اونچی تھی، انہیں فرمایا کہ انصار کو آواز دے کر کہو کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس بات کی بھی بڑی اعلیٰ وضاحت فرمائی ہے کہ صرف انصار کو کیوں مخاطب کیا گیا ہے.اس کی بہت سی وجوہات تھیں لیکن ایک وجہ یہ تھی کہ شکست کے ذمہ دار مکہ کے بعض لوگ تھے جو مہاجرین کے قریبی تھے، اس لئے مہاجرین کو اس حوالے سے ایک ہلکی سی سرزنش بھی کی گئی کہ تم جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ ہم تعداد میں زیادہ ہو گئے ہیں، آج ہمیں کوئی نہیں ہراسکتا تو تم اپنے جن رشتے داروں اور عزیزوں پر، یا اپنے ہم قوموں پہانحصار کر رہے تھے، اُن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے.بہر حال صرف انصار کو بلایا گیا.انصار کہتے ہیں کہ جب ہمارے کانوں میں حضرت عباس کی آواز پڑی کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو اس سے پہلے بھی ہم اپنی سواریوں کو میدانِ جنگ کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس آواز نے ایسا جادو کیا کہ ایک نیا جذبہ اور بجلی کی طاقت ہمارے جسموں میں پیدا ہو گئی اور جو سواریاں مڑسکیں اُن کے سوار سواریوں سمیت میدانِ جنگ میں پہنچ گئے اور جو سواریاں باوجود کوشش کے مڑنے کے لئے تیار نہیں تھیں تو ان سواروں نے اُن سواریوں کی گردنیں اپنی تلواروں سے کاٹ دیں اور دوڑتے ہوئے میدانِ جنگ میں پہنچ گئے اور لبیک یا رسول اللہ البیک کہتے ہوئے آپ کے گرد جمع ہو گئے.(تاریخ الخمیس جلد 2 صفحه 102-103 باب ذکر غزوه حوازن بحنین مطبوعہ بیروت) پس یہ لبیک کہنے کی وہ روح ہے جسے آج ہمیں بھی کام میں لانا چاہئے ، اسے سمجھنا چاہئے.آج بھی خدا تعالیٰ کا فرستادہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق صادق ہے، ہمیں بلا رہا ہے کہ اپنی اصلاح کی
خطبات مسرور جلد 11 715 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء طرف توجہ کرو، جلسے میں آکر جلسے کے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.اپنے دن تقوی اور عشق الہی میں گزارو اور ذکر الہی میں گزارو.اپنے تین دنوں کو قرب الہی حاصل کرنے کا مستقل ذریعہ بنالو.اپنے نفس کے سرکش گھوڑوں کی گردنیں کاٹو.آج زمانے کا امام، مصلح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آنے والا نبی جو ہمیں ہماری عملی حالتوں کی درستگی کی طرف بلا رہا ہے تو ہمیں بھی لبیک کہتے ہوئے اس کے گرد جمع ہونے کی ضرورت ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کے گرد جمع ہو جائیں.آج تلواروں کے جہاد کے لئے نہیں بلایا جار ہا بلکہ نفس کے جہاد کے لئے بلایا جارہا ہے جس میں کامیابی تمام دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانے کا باعث بنے گی.پس جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں ، محبت و اخوت کے نئے معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے.زہد و تقویٰ کی سیڑھیوں پر چڑھنے کی ضرورت ہے.تواضع اور انکساری کے راستوں کی تلاش کی ضرورت ہے.اپنے ہر عمل سے سچائی کا بول بالا کرنے کی ضرورت ہے.تبلیغ اسلام کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے عملی اظہار کی ضرورت ہے.ذکر الہی سے اپنی زبانوں کو تر رکھنے کی ضرورت ہے.عبادتوں کے اعلیٰ معیار کے ذریعہ قرب الہی کے حصول کی کوشش کی ضرورت ہے.پس ان تین دنوں میں قادیان کے جلسے کے شاملین بھی بھر پور فائدہ اُٹھا ئیں اور جہاں جہاں بھی اور ان دنوں میں جلسے ہورہے ہیں، ان میں سے ایک تو امریکہ کا ویسٹ کوسٹ کا جلسہ ہو رہا ہے، پھر مالی میں جلسہ ہورہا ہے، نائیجر میں جلسہ ہو رہا ہے، نائجیریا میں جلسہ ہو رہا ہے، سینیگال میں جلسہ ہو رہا ہے، آئیوری کوسٹ میں جلسہ ہورہا ہے اور ہر جگہ کے شامسلمین جلسہ ان دنوں سے فیض اٹھانے کی خاص کوشش کریں.اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جو ان بعض باتوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں جو خدا کا رسول ہم سے چاہتا ہے.آپ فرماتے ہیں.جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم و جو دو احد رکھو ، ور نہ ہو انکل جائے گی.نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو.برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی.اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کرو.اگر ایک شخص غائبانہ دعا
خطبات مسرور جلد 11 716 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہو.کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے.اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو 66 فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو.میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوتی تھی.كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ( آل عمران : 104 ) یا درکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.یادرکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلا میں ہے.اُس کا انجام اچھا نہیں...فرمایا:...یاد رکھو بغض کا جُدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہوگی ؟ وہ ضرور ہو گی.تم کیوں صبر نہیں کرتے.جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے، مرض دفع نہیں ہوتا.میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیدا ہوگی.باہمی عداوت کا سبب کیا ہے؟ بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں.ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے.جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں.جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھا ئیں.میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا.ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو، وہ خشک ٹہنی ہے.اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے.خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو پوستی ہے، مگر وہ اُس کو سرسبز نہیں کر سکتا، بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے.پس ڈرو.میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو ا پنا علاج نہ کرے گا.“ پھر آپ فرماتے ہیں : ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 336.مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے : وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ( آل عمران : 56 ) یہ تسلی بخش وعدہ ناصرہ میں پیدا ہونے والے ابنِ مریم سے ہوا تھا، مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے.اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو اٹارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے فسق
خطبات مسرور جلد 11 717 خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء و فجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں.جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے تو یاد رکھو اور دل سے سُن لو.میں ایک بار پھر اُن لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں، بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر نہ صرف میری ذات تک ) بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس برگزیدہ انسانِ کامل کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا.میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پرواہ تھی ،مگر اس پر بس نہیں ہوتی.اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے.پس ایسی صورت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزور کھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی ( کہ قیامت تک مکفرین پر غالب رہو گے ) کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے، تو پھر اتنا ہی میں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہوگی جب تک لوامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ.اس سے زیادہ اور میں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامورمن اللہ ہے.پس اُس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ.تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 65-64 - مطبوعہ ربوہ ) ”ہماری جماعت کو یہ نصیحت ہمیشہ یادرکھنی چاہئے کہ وہ اس امر کو مدنظر رکھیں جو میں بیان کرتا ہوں.مجھے ہمیشہ اگر کوئی خیال آتا ہے تو یہی آتا ہے کہ دنیا میں تو رشتے ناطے ہوتے ہیں.بعض ان میں سے خوبصورتی کے لحاظ سے ہوتے ہیں.بعض خاندان یا دولت کے لحاظ سے اور بعض طاقت کے لحاظ سے.لیکن جناب الہی کو ان امور کی پرواہ نہیں.اُس نے تو صاف طور پر فرما دیا کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْد الله اتقكم (الحجرات : 14 ) یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے.اب جو جماعتِ اتقیاء ہے متقیوں کی جماعت ہے ”خدا اُس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا.یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہو سکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور نا پاک بھی وہیں.ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے.پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے.خوش قسمت ہے وہ
خطبات مسرور جلد 11 718 انسان جو متقی ہے اور بد بخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا.“ خطبه جمعه فرمودہ مورخہ 27 دسمبر 2013ء ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 177 - مطبوعہ ربوہ ) اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، ہم میں سے ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد کو سمجھنے کی توفیق دے.اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنے کی توفیق دے اور یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ میں نے جو باتیں کی ہیں یہ باتیں صرف جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے نہیں یا وہی صرف مخاطب نہیں ہیں بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر احمدی اس کا مخاطب ہے.یہاں میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں رہنے والا ہر احمدی ان دنوں میں جبکہ مسیح محمدی کی بستی میں جلسے کی برکات کا فیض جاری ہے، خاص طور پر اپنے آپ کو بھی ذکر الہی اور خاص دعاؤں کی طرف متوجہ رکھے.خاص طور پر یہاں قادیان والے، جلسہ میں شامل ہونے والے اور دوسرے ممالک میں جو جلسے ہورہے ہیں وہ یہ دعائیں کریں.دنیا میں ہر احمدی یہ دعا کرے کہ جہاں احمدی مشکلات میں گرفتار ہیں اور اس لئے گرفتار ہیں کہ انہوں نے مسیح محمدی کی بیعت کی ہے، اس زمانے کے امام کو مانا ہے.اللہ تعالیٰ ان تمام جگہوں پر ان کی پریشانیاں دور فرمائے.خاص طور پر پاکستان ہے، انڈونیشیا ہے، شام ہے اور بعض دوسرے ممالک ہیں، ان جگہوں پر اللہ تعالیٰ احمدیوں کے لئے آسانی کے سامان مہیا فرمائے ، اُن کی آزادی کے سامان پیدا فرمائے.اور یہ بہت اہم دعا ہے جو اخوت اور بھائی چارے کے اظہار کے لئے ضروری ہے.اور اخوت اور بھائی چارے کے اظہار کا یہ تقاضا ہے کہ ہم ضرور یہ دعا کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل مورخہ 17 جنوری 2014 ء تا 23 جنوری 2014 ، جلد 20 شماره 55 صفحہ 5 تا 8 )
خطبات مسرور جلد 11 انڈیکس اشاریہ (مرتبه سید مبشر احمد ایاز ) آیات قرآنیہ احادیث نبو یه سالی لا الہ سلم.مضامین اسماء مقامات کتابیات 3 7 11 30....39......48
خطبات مسرور جلد 11 الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (2) 3 آیات قرآنیہ 533 آیات قرآنیہ 171,589,567,405 أَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (195) اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (7.6) 70,414,569,608 وَمِنْهُمْ مَّنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا (202) البقرة 157.154.151,149 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا (9) وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (46-47) قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (84) منْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (98) 132 وَاللهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ (208) تلك الرُّسُلُ (254) 409،334،333،328 الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ (263) 292233 لا يُكلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (287) 23 601 14 25 4.1 160.159.158.157.141.149 آل عمران 65 قَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا (113-112 )338 بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ (113) 344 فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ (21) وَإِذْ يَرْفَعُ الرَهِيمُ الْقَوَاعِد (128-199،194129 قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوني (32) 3345 الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَتْلُونَهُ حَقَّ (122) 407 إذْ قَالَتِ امْرَ أَتُ عِمُونَ (36) وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (149) 572 وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (154) الْقِيَامَةِ (56) صبر کی پر معارف تفسیر إنا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (157) 652-649 33,31 282,716,546 533 قل يا هل الْكِتَب تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ (65) لَن تَنَالُوا الْبِرَّحَى تُنفِقُوا مَا تُحِبُّونَ (46293 463 361 360 348 343,247,187,162,147,134,115,9796,7928 وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لله (166) 290 291 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ (331,103,104,105 وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا (178) 230 235,716, 207 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (389184 كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (111) 2234,292 شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي الْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ (186) کی 570, 680, پر معارف تفسیر 404.403 كَاظِمِينَ الْغَيْظَ (135) 232 وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ (187) وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا (136) 431
خطبات مسرور جلد 11 4 آیات قرآنیہ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ (145) 662,661 قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ (164-163) 65 النساء 434 الاعراف أقِيمُوا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (30) لا تَأْكُلُوهَا اسْتَرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا (7) اس آیت کی پر معارف تفسیر إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتى ظُلْمًا (11) 433 584 589 وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجِ (21-22) 451 خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (32) 593,584 خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (29) لا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ (49) 355.155 417 وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمَّ الْحَيَاطِ (41)336 أعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (200) الانفال 545 إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤْذُوا الْآمَنتِ إِلَى اهلها ( 59 ) 223 224، 444 225، 445 وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَلى (18) 71 65 التوبة وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (114) إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِد الله (18) 292،283 وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ (126) 345 كُونُوا قَوَّامِينَ (136)443،441،256،250 إنَّ اللهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (120) المائدة تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (3) الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (4) 665,664 517 404,32 اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوى وَاتَّقُوا الله (109)196 341,250,234,233 تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ كُونُوا إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (28) فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (118) رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (120) الانعام قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي (103) وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهُو (133) 540 185 407 330 664 ، وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّة (122) یوسف إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ (95) الرعد 489 31 172 244 إن الله لا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا (12) أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (18) 358 وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا آمَرَ اللهُ بِة (22) 136,135.140.142 اللهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ (27) إن اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ (32) أكُلُهَا دَائِم (36) ابراهیم أَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهِ (25-26) النحل 533 541 419 243,415 تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمُ 152 154 5,413 بُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ (90) 427, 431, 433, 434, 436, 441, 448 347 أدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ (207.220126
خطبات مسرور جلد 11 5 آیات قرآنیہ إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ (129) بنی اسرائیل 366 وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ (24) 423,422,420 رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبِّينِي صَغِيرًا (25) وَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ (27) 421 477 يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا (64) 371,408 وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ( 73 ) 571 570 قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (78) 167 الشعراء وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم خَشْيَةً إِمْلَاقٍ (425,42332 لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ إِلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (4) 612,70 إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (35) ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً (36) وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا (38) 230 436 233 وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (54)567572 وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (110) ظة فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ (73) 328 345 العنكبوت وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا (70) الروم ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (42) لقمان إنَّ الشَّرُكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (14) وَلَا تُصَغِرُ خَدَّكَ لِلنَّاسِ (19) النمل 643,415 516 417 408 الانبياء كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا (70) المومنون وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (4) وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ (9) 286 232 228,227 قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا (107-112) 174،164 إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بمَا صَبَرُوا (112) 174 الكهف آمَنْ تُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (63)121,120,119 الاحزاب يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالُكُمْ (71-72) 350، 443،371 الصفت الله ربِّكُمْ وَ رَبِّ أَبَاء كُمُ الْأَوَّلِينَ (27) فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ الشَّعْى (103) المومن إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ (8) 577 وَأُمِرْتُ أَنْ أَسْلِمَ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (67) النور حم السجدة 533 31 65 وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا الا تُحِبُّونَ (23) 142,575 مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي 599, 602, 603 577,274 وَمَا يُلَقَهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَهَا إِلَّا ذُو حَظ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَر (3937) 596 مِنَ الْمُسْلِمِينَ (34) إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ (57-52) الفرقان 296 إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (31) 407 عَظِيمٍ (36) وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَنِ نَزْغٌ (37) 330 574
خطبات مسرور جلد 11 الاحقاف أَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي (16) الفتح رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (30) الحجرات وَان طَائِفَتنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا (10) 536 6 616,575,546,517,405,138,137 إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (11) 510 139.138 وَلَا تَلْهِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا (12)543,231 آیات قرآنیہ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (4)568 الجمعة آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم (4) 679.300.299.179.538 الطلاق مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (3-4) إنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ القلم (5) عبس يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (35) إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِند الله القكُمْ (14) 717,543 قالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا (15) الذاريات 287 وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ (57) 369،87 التغابن 353.264 64 244 فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم وَاسْمَعُوا (17-18) 461 التحريم 656,655,654,598,418 قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا (7) 704,665 النجم وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَقُى (38) المجادلة كتب اللهُ لأَغْلِبَنَّ انَا وَرُسُلِى (22) 346 271 قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (10) الشمس الضحى وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيثُ (12) البينة رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (9) القدر الحشر وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ (10) 478 وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ( 20-10019 الصف يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (3) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (4) 604 639,312,311 680 657 711,568
خطبات مسرور جلد 11 7 احادیث نبویہ ستی شما یہ ماتم احادیث نبویہ صلى لله اله وتم اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ 76 اور ذکر خیر زیادہ ہو، اُسے صلہ رحی کا خلق اختیار کر نا چاہئے 143 اُس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو چھوٹے پر رحم نہیں کرتا، اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ 181 215 بڑوں کا شرف نہیں پہچانتا.یعنی اُس کی عزت نہیں کرتا 143 يا معاذ إِنِّي مُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ إِنْ أنْتَ حَفَظْتَهُ نَفَعَك تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں 519 - 524 سے وہ شخص پسند ہے جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے 604 الما الْأَعْمَالُ بِالنِيَاتِ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَى لَا يَمُوتُ 662 احادیث بالمعنی اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے 144،143 رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا.اہل زمین پر رحم کرو تو آسمان پر اللہ تم پر رحم کرے گا 144 حدیث قدسی ،اے ابن آدم! خرچ کرتارہ، میں تجھے عطا کروں گا 4 جس میں تین باتیں ہوں اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت اور رحمت ہوں 144 آپ نے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن متی پر فضیلت نہ دو 66 میں رکھے گا اور اُسے جنت میں داخل کرے گا آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے درود کے الفاظ 76 اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے نرمی کو پسند کرتا ہے 144 امام مہدی کو قبول کرنا اور میر اسلام پہنچانا کسی چیز میں جتنا بھی رفیق اور نرمی ہو اتنا ہی یہ اُس کے لئے حضرت عبداللہ بن مسعود نے حضور کی آواز سنی کہ لوگ بیٹھ جائیں زینت کا موجب بن جاتا ہے اور جس سے رفق اور نرمی چھین لی 97 تو آپ باہر گلی میں ہی بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ جائے وہ اتنی ہی بدنما ہو جاتی ہے 124 144 کر مسجد کی طرف جانا شروع کر دیا آگ ہر اُس شخص پر حرام ہے جولوگوں کے قریب ہے 145 لڑکی سے شادی سے قبل اس کو ایک نظر دیکھ لینے کی اجازت دینا 128 صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو شخص دوسرے کے قصور آپ نے حجتہ الوداع کے موقع پر تین دفعہ صحابہ سے پوچھا کیا میں معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے 145 نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا، صحابہ نے فرمایا ہاں یا ایک دوسرے سے بغض، حسد، بے رُخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو رسول اللہ.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ! گواہ رہنا باہمی تعلقات نہ توڑو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن 140 مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دو سرے مسلمان کر رہو محفوظ ہیں 141 145 ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ ، ایک جو شخص رزق کی فراخی چاہتا ہے یا خواہش رکھتا ہے کہ اُس کی عمر دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور
خطبات مسرور جلد 11 146 8 احادیث نبو یه سای شما ایہ ماتم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو...بھی جانا پڑے تو اُس کے پاس جانا اور میر اسلام کہنا 298 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہاں ہیں وہ لوگ جو تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا.29 میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے آپ نے آنے والے موعود کو نبی اللہ “ کہا ہے 300 محبت کرتے تھے..آپ نے فرمایا ” میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں 300 آپ یہ دعا خاص طور پر پڑھا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی توجہ آپ نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ولاتے تھے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ 151 کہ آنے والا ان لوگوں میں سے ہوگا 146 300 بخاری کی حدیث میں مسیح محمدی اور مسیح موسوی کے دوالگ الگ آپ نے طائف میں اعلیٰ ترین صبر کا مظاہرہ کیا اور ایک شہر کو 181 تباہی سے بچالیا 330 330 حلیے بیان کئے گئے ہیں مسیح کو عالم کشف میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا کہ وہ گندم طائف والوں کے لئے ہدایت کی دعا گوں تھا اور اُس کے بال گھونگریالے نہیں تھے 181 آپ نے اپنے رعب سے متاثر ہوتے ہوئے ایک کمزور آدمی کو اسرائیلی مسیح کا حلیہ یہ لکھا ہے کہ وہ سرخ رنگ تھا جس کے کہا کہ گھبراؤ نہیں ، میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں 331 گھونگریالے بال تھے آپ نے فرمایا کوئی چور چوری نہیں کرتا در آنحالیکہ وہ مومن ہے آپ نے آنے والے مسیح کو اپنا باز و قرار دیا ہے، سلام بھیجا اور اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا در آنحالیکہ وہ مومن ہے 535 اس کا نام حکم اور عدل اور امام اور خلیفہ اللہ رکھا 185 آپ نے نکاح میں قول سدید کی آیات کو شامل فرما یا 353 آپ نے آنے والے مسیح کو جگہ قرار دیا ہے 184 تا 186 جھوٹ چھوڑنے سے تمام چھوٹی بڑی برائیوں اور گناہوں سے تہجد پڑھنا سب سے بڑی نیکی ہے تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی جہاد ہے 181 203 203 چھٹکارا پا لیا 353 بعض صحابہ نے یہ عہد کیا کہ ہم روزے ہی رکھتے رہیں گے.آپ نے وہ اعمال بیان فرمائے جن سے اللہ تعالیٰ خطاؤں کو مٹا روزانہ روزے رکھیں گے.شادی نہیں کریں گے...365 دیتا ہے اور درجات کو بلند فرماتا ہے..205.204 میں تم لوگوں کی نسبت خدا تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہوں اور اپنی آپ نے جنگ میں معصوموں، بچوں، عورتوں، بوڑھوں، خواہشات کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے تابع رکھتا ہوں 365 ، 366 240 راہبوں کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا آپ نے مومن کی نشانی بتائی کہ اُس کا دل ایک نماز سے دوسری نماز تک مسجد میں اٹکا رہتا ہے 288 رمضان کے روزے ایمان اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھنے والے کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے 395 آپ نے دنیاوی اغراض کے لئے بنائی جانے والی مسجد ضرار کو اللہتعالی فرماتا ہے روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں روزہ گرانے کا حکم دیا 294 دار کی جزا بن جاتا ہوں 396 مہدی کا ظہور ہوگا تو برف کے تو دوں پر گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نوافل ادا کرنے والے کے گناہ بخش
خطبات مسرور جلد 11 دیئے جاتے ہیں 396 9 احادیث نبویہ صلی انکا یہ ماتم جائیداد کا فیصلہ کروانے والے دونوں بھائیوں کا چیخنا کہ ہم اپنا حق چھوڑتے ہیں آپ رمضان کے مہنیہ میں صدقہ خیرات تیز آندھی کی طرح فرمایا کرتے تھے 397 وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے 444 450 فتنہ فساد سے بچنے کے لیے روزہ دار انی صائمہ کو کہنے کی نصیحت 397 جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے، وہ مہمان کی عزت و رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے اور احترام کرے 398 475 اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بڑی نیکی ہے 476، 483 دوزخ کے دروازے بند کر دیتا ہے جبرائیل کا آپ کو ہر سال قرآن کریم کا دور کروانا 403 خدا تعالی کی خاطر سفر کرنے والے سب سے خوش قسمت جبرائیل کا آپ کو آپ کے آخری رمضان میں دو بار قرآن کریم مسافر ہیں کا دور کرانا 404 477 آپ کا صحابی کو فرمانا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالی بھی مسکرا دیا مٹی میں ملے اس شخص کی ناک جس نے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ داخل ہو سکا صفائی نصف ایمان ہے 423 478 486 قیامت کے دن اللہ تعالی سات آدمیوں کو اپنے سایہ رحمت لڑکا اور لڑ کی اکٹھے بیٹھے ہوں تو تیسرا ان کے درمیان میں جگہ دے گا ان میں سے اول امام عادل ہے 513 شیطان ہوتا ہے جنس بیچتے وقت اس کے نقص بھی بتاؤ 429 436 اللہ تعالی کولوگوں میں زیادہ محبوب انصاف پسند حا کم ہے اور سخت نا پسند ظالم حاکم ہے 514.513 دو صحابہ کی گھوڑے کی خرید و فروخت پر تکرار بیچنے والے کا قیمت اگر کوئی نگران اپنے فرض میں کوتاہی کرتا ہے تو اللہ تعالی مرنے پر کم بتانا اور خریدنے والے کا مول زیادہ دینا 436-437اس کے لیے جنت حرام کر دے گا 514 خرید و فروخت والے سچ بولیں گے تو اللہ ان کے ناقص مال میں اے اللہ جسے تو میری امت میں سے ولی الا مر بنائے اس کے سختی بھی برکت ڈال دے گا جب تم کسی کو دینے کے لیے تو لو تو جھکتا ہوا تو لو 438 438 کرنے پر اس کے ساتھ سختی اور نرمی کرنے پر نرمی کر 514 حاکموں کو ان کا حق ادا کرو اور اپنا حق اللہ سے مانگو 514 سچا اور دیانتدار تا جر نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کی اگر حاکم تمہارا حق نہ دیں تو ان کی بات سنو اور اطاعت کرو 515 معیت کا حقدار ہے 439 حاکموں کی ذمہ داریوں کا ان سے مؤاخذہ ہوگا اور تمہاری ذمہ غلط بیان دے کر اپنے حق میں فیصلہ کروانے والا گو یا آگ کا ٹکڑا داریوں کا تم سے مؤاخذہ ہوگا لے رہا ہوتا ہے 442 515 حاکم سے اعلانیہ کفر کے علاوہ کسی بات پر جھگڑا مت کرو 515
خطبات مسرور جلد 11 10 احادیث نبویہ صلی انکا یہ ماتم اللہ تعالی فرماتا ہے میں نے اپنے آپ پر اور تمہارے درمیان ظلم حضرت ابوبکر کا حضرت اسامہ ولی لشکر بھیجوانا 663 حرام کر رکھا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو 516 اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو وہ بھی سزا سے نہیں بچ سکے فرشتوں کا خدا تعالی کے سامنے مختلف نیک لوگوں کے اعمال پیشگی کرنا اور خدا تعالی کا انہیں ٹھکرا دینا 519 تا 524 ایک جماعت ہوگی جو صحیح رستے پر ہوگی کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں 525 665 674 میں تو ایک عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی 677 کیا تم نے اس شخص کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے خوف سے مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا ہے تہجد کی ادائیگی بہت بڑی نیکی ہے کلمہ پڑھا تھا یا دل سے 531 لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہنے والے کو کا فرنہ کہو جہاد میں شامل ہونا بڑی نیکی ہے اپنی دعاوں اور اپنے عمل سے میری مددکر و 532 591 وہی لوگ ترقی کریں گے جو جماعت کے ساتھ منسلک رہیں گے 592 مسیح موعود يَضَعُ الحزب کرے گا 680 684 684 685 جو جھوٹ بولتا، غیبت کرتا اور گالی دیتا ہے اس کا روزہ روزہ نہیں 688 حضرت ابوبکر نے بغیر کسی سوال کے کہا کہ میں آپ کو خدا کا نبی عبادت کے لیے صبح شام مسجد آنے والوں کی اللہ کے ہاں مہمان مانتا ہوں 592 712 نوازی ہوتی ہے ایک نماز سے دوسری نماز تک اللہ کی طرف توجہ رکھنے والا سرحد کی لا کر آپ کی خدمت میں رکھ دیا حضرت ابوبکر نے دینی ضرورت کی وقت اپنے گھر کا سارا مال حفاظت کرنے والے کی طرح ہے 592 713 صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابوبکر نے کہا بالکل ٹھیک ہے پہلی قرآنی وحی کے وقت آپ کی کیفیت 659-660 صلح ہی ہونی چاہیئے آپ کی خاطر صحابی کا تیرا اپنے ہاتھ پر لینا آپ کی وفات پر صحابہ کا رد عمل 660 662-661 713 آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعائیں کرو 715
خطبات مسرور جلد 11 11 مضامین اللہ تعالیٰ جل شانہ مضامین اللہ تعالیٰ غنی ہے اس سے ڈریں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں 245 اے دشمنان احمدیت ! یاد رکھو ہمارا ایک مولیٰ اور خدا ہے جو سب احسن قول اللہ تعالیٰ سے محبت کی طرف لے جاتا ہے 575 اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کام ہو تو فتنہ و فساد پیدا نہ ہو 577 اللہ تعالیٰ کو دعوت الی اللہ بہت پسند ہے 578 طاقتوں کا مالک ہے وہ بھی تمہیں کامیاب ہونے نہیں دے گا 307 اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر نے مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی آغوش میں آجاتا ہے.588 اللہ تعالیٰ سے تعلق اُسی صورت میں ہو گا جب خلافت کے ساتھ خلافت خامسہ آغاز سے ہی خدا کی تائید کا شاندار نظارہ اور غیروں کا بھی اظہار تعجب اور خدا کی فعلی شہادت کا اقرار 307 خلافت خامسہ کے قیام میں خدا تعالی کی فعلی شہادت 303 ایک وفا کا تعلق ہوگا 592 593 آج خدا تعالی کی ہستی پر یقین اور مذہب کی خوبصورتی اگر کوئی بتا مومن کا مقصد بالا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی جنت کا حصول نہیں چاہتا 597 سکتا ہے تو جماعت احمد یہ ہے اللہ تعالیٰ سب ادیان میں قدر مشترک ہے 213 534.533 4530448 601 اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھو اگر اللہ تعالیٰ کی تلاش میں رہو اور اس کے بنو تو دین بھی ملے گا اور دنیا بھی 602 اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو اللہ تعالیٰ کے لفظ استعمال کرنے پر مقدمہ کہ یہ مسلمانوں کے انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے 608 علاوہ کوئی استعمال نہیں کر سکتا اور اس کی حقیقت 533، 534 اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمیں ہر قدم پر تسلی دلاتی ہیں کہ اگر اللہ میں ساتوں آسمانوں سے گزرکر اللہ کے حضور پیش ہونے والے کے اعمال ہو کر کوشش کرو گے تو نئے راستے کھلتے چلے جائیں گے 647 اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی نیت کے کھوٹ کی وجہ سے رڈ کر دیئے 524 اللہ تعالیٰ خود مدد کے لئے اُترے گا اور اپنی تمام تر طاقتوں اور اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرو 539 حسن کے جلووں سے ہماری مدد کو آئے گا اللہ تعالیٰ اور بندے میں تعلق اس بات کا رد کہ اللہ سے کچھ نہیں ملتا 541 542 آؤٹ آؤٹ کے نظام کے متعلق ہدایات اللہ تعالیٰ سے سچی صلح اُس کے احکامات پر عمل ہے 544 اللہ تعالیٰ سے سچا عہد نہ باندھو تو وہ کسی کی پروا نہیں کرتا 544 آنحضرت مسی لا یہ تم 547 652 464 اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا ہی ایمان ہے احمدیوں کے دلوں میں آنحضرت سال لا الہ سلم کا عشق اور یہ عشق اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثابت ہونے سے ایمان مضبوط ہوتا ہے 552 حضرت مسیح موعود نے پیدا کیا جو کامل عاشق صادق تھے 168 آپ کے آنے کا مقصد اللہ تعالیٰ پر ایمان قومی کرنا ہے 552 آنحضرت سلی یا اسلام کی شان اور مقام ، دنیا میں قائم کرنے کے اللہ تعالی سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہو اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھیں تو اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے 562 قرآن، آنحضرت مسیح موعود اور خلافت سب حبل اللہ ہیں 210 اللہ تعالیٰ کو مومن سے توقعات ہیں وہ تلاش کرنی چاہیں 569 | آنحضرت سلام ملا یہ تم کی شان اور مقام ، آنحضور صلی یا ایہام سے عشق و 554 لئے مسیح موعود کی بعثت 46
12 مضامین خطبات مسرور جلد 11 محبت ، حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی رو سے 63 تا 78 | اپنے اجلاسوں میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہر قربانی کے لئے تیار ہیں ربوہ میں عید میلاد کا نکالا جانے والا جلوس ، جس میں حضرت مسیح اس عہد کی روح کو اپنی نسلوں میں پھونکنے کی ضرورت ہے 202 63.62 موعود کو گالیاں دینے کے سوا کچھ نہیں ہوگا حضرت محمد صلی اشیا کی ستم کی حضرت معاذ کو نصیحت، سات آسمانوں اور گروہوں کا ذکر، آپ کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں 524-519 545 احباب جماعت کے لئے نصائح احباب جماعت ایم ٹی اے سے استفادہ کریں 535 احباب جماعت کی تربیت کے لئے مختلف نصائح احباب جماعت کے محبت اور پیار کے پر تبصرہ 465460 376 آپ سے سچی محبت کرنے والے احمدی افراد ہی ہیں 564 آپ نے فرما یا ترقی جماعت کے ساتھ منسلک رہنے احباب جماعت کے معیار ایسے ہونے چاہئیں کہ غیر دیکھ کر کہیں میں ہے 592 کہ یہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں 536 آنحضرت ﷺ کے اسوہ کو ہر وقت سامنے رکھنا ہوگا 611 احباب جماعت پر چندوں کی اہمیت واضح کرنا 1 46 تا 464 جس طرح آپ کے زمانہ میں ظلم ہوتا تھا اسی طرح آج جماعت احمدی، احمدیت، جماعت احمدیہ احمدی پر احسان کہ اللہ نے اسلام کی تجدید، آنحضرت مسلہ یہ تم ہمارا اصل منشاء اور مدعا آپ کا جلال ظاہر کرنا ہے 644 کے پیغام کو آگے پہنچانے کے لئے مسیح موعود کی نعمت، نبوت کی آنحضرت صلی شنا کہ تم قیامت تک ہر زمانے ، ہر قوم کے لئے نجات پر ہو رہا ہے دہندہ ہیں آنحضرت مایا یہ تم پر درود بھیجو آنحضرت صلی اما اینم کی وفات کا واقعہ 627 649 651 661 266 344 نعمت، قبول کرنے کی توفیق ملی ہر احمدی مسلمان ہے ، مسلمان کون؟ احمدیت ، اسلام سے علیحدہ نہیں، حقیقی اسلام ہے 270 جوا اپنی اولا دکونیک اخلاق نہیں سکھاتا وہ آنحضرت سیلی شما پیام سے جماعت پر اللہ کے خاص فضل، انتہائی نامساعد حالات میں بھی دشمنی کرتا ہے اور خدا سے دشمنی کرتا ہے 669 678 خدا تعالیٰ آپ کی غلامی میں نبی بھیج سکتا ہے آپ کے اسوہ پر چلانا مسیح موعود کی بعثت کا مقصد 682 اللہ دشمن کے منہ سے نکال لاتا ہے......265 جماعت احمد یہ سچی ہے اور اس کی سچائی پر خدا تعالیٰ کی 124 سالہ فعلی شہادت 237 آپ کے دعوئی پر حضرت ابوبکر نے بغیر سوال کے آپ کو نبی جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد قرآن کریم کو سمجھنے کا حق ادا قبول کر لیا آپ کا صلح حدیبیہ کا فیصلہ 712 713 کرنے کے لئے 33 بچے کی پیدائش سے پہلے بچوں کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے ایک جنگ میں آپ کے ساتھ 12 صحابہ رہ گئے 714 لئے ماؤں کی دعائیں ، یہی وہ جماعت ہے آزادی 33 دنیا بڑی خوفناک تباہی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے وطن عزیز کی حالت زار ، اس کے لیڈر ملک کو تباہی ، آزادی کہیں ایسے وقت میں دنیا کو ظلموں سے باز رکھنے کی طرف توجہ دلا کر دنیا محکومیت میں نہ بدل جائے آفات دنیا بھر میں آنیوالی آفات، ایک لمحہ فکریہ اجلاس 8.7 182 بچانے کا کردار جماعت احمد یہ ادا کرسکتی ہے 258 عام افراد جماعت کے لئے نصائح ، آپس میں پیار صلح و صفائی اور خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنا ہر احمدی کی ذمہ داری 217 احمدیت پر ہونے والے افضال اور انعامات کی بارش اور ان کا ہمیں اپنی نسلوں کے لئے بہت تڑپ کر دعا کی ضرورت ہے ، ہم اظہار احمدی کا فرض ہے، لیکن عاجزی اور انکساری کے ساتھ.
خطبات مسرور جلد 11 13 مضامین حضور انور کا دورہ امریکہ کینیڈا، غیر معمولی برکات، اسلام کی تعلیم | اگر احمدی میں نمایاں فرق نہیں تو اس میں اور غیر احمدی میں کوئی 311، 327 | فرق نہیں 553 556 557 وتعارف....پریس....احمدیوں کو اسلام سے باہر نکالنا، خدا ہمیں مسلمان کہتا ہے 141 ایک حقیقی احمدی کا معیار حقیقی مسلمان دیکھنا ہے تو احمد یوں میں دیکھو احمدیوں کو اسلام کی حسین تعلیم پر خود عمل پیرا ہونا ہوگا ، اپنے قول و جماعت احمد یہ صرف زبان سے ہی دعویٰ نہیں کر رہی بلکہ اس کی فعل کے ساتھ 252 عملی تصویر بھی دکھا رہی ہے اسلام کا 563 احمدیوں کے دلوں میں آنحضرت صلی الیتیم کا عشق اور یہ عشق کا مستقبل جماعت احمدیہ ہی کے ذریعہ روشن ہو گا 564 حضرت مسیح موعود نے پیدا کیا جو کامل عاشق صادق تھے 168 ٹی وی کا سب سے بہتر استعمال تو جماعت احمدیہ کر رہی ہے 576 پاکستان کے ایک مولوی کا کہنا کہ احمدی ناسور ہیں ، خدا کے فضل سے احمدی شفاء للناس کا کردار ادا کر رہے ہیں....مولویوں کا ہونے چاہئیں خود ساختہ اسلام ذاتی مفادات کا آئینہ دار ہے 142 احمدیت کی پاکستان میں مخالفت 153 احمدی کے اندر اطاعت کے نمونے کسی وقتی جذبہ کے تحت نہیں 586 595 611 پاکستان میں ایک طبقہ مولویوں کے پیچھے لگ کر احمدیوں کو نقصان ہر احمدی کو قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت کے اُسوہ کو ہر وقت پہنچانے کی کوشش کرنے والا اور ایک طبقہ دوستی کا حق ادا کرنے سامنے رکھنا ہوگا والا ہے، ہر پاکستانی کو بُرا نہیں کہہ سکتے جماعت احمد یہ دنیا کے دوسو سے اوپر ممالک میں موجودہ 618 پاکستان میں جماعت کے خلاف بننے والا زہریلا قانون، ہمیں جماعت احمدیہ ہی ہے جو مسلمانوں کو اکٹھا کرسکتی ہے 626 کسی دنیا دار حکومت سے بھلائی کی امید ہے اور نہ ہی کسی مسلمان جماعت احمدیہ ہی کو فتح حاصل ہوگی کہلانے کے لئے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے 338، 339 اسلام کا مستقبل جماعت احمدیہ کے ذریعہ روشن ہوگا 664 پاکستان میں نئی حکومت اور ایک احمدی کا اظہار فکر، امام جماعت احمدیت کی خوبصورتی تو نظام جماعت اور نظام خلافت کی لڑی میں کی قائدانہ رہنمائی اور نصیحت پاکستانی احمدیوں کے لئے فکر اور دعا کی تحریک 338 338 پرویا جاتا ہے 627 674 احمدیوں کا روپیہ غیروں کے پاس جانے لگ گیا ہے اس کے ذمہ دار کے احمد کی دکاندار ہیں 701 تمام افریقہ بھی احمدیت کی آغوش میں آجائے گا 95 عدل و انصاف اور سچی گواہی ، ایک احمدی کا کردار 254 اخلاق احمدیوں کی بنیادی عقائد کے متعلق تربیت کی ضرورت 455 تا 460 توحید کے قیام کے لئے تبلیغ اور اعلیٰ اخلاق اور دعا کے ذریعے 503 مدد چاہتا 274 پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک پاکستانی احمدیوں کے مشکل حالات اور ان کے لئے دعا کی عہدیداران، ملنے والوں کا کھلے دل سے استقبال کرنا چاہئے اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی نصیحت تحریک 488.487 145 ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں 545 سنگاپور کے احمدی مذہبی آزادی سے فائدہ اٹھائیں 534 ، 535 اچھے اخلاق ظاہر کرنا اپنی کرامت ظاہر کرنا ہے 547 جماعت احمدیہ کا پیغام احمدی کی ذمہ داریاں 538 538 ایک احمدی کے کرنے کے بہت بڑے کام ہیں 539 548 اخلاق کے وہ معیار قائم کریں کہ غیر بھی آپ کی طرف متوجہ ہوں 591 آپ حکم دیا گیا ہے کہ اخلاقی قوتوں کی تربیت کریں 645 خص اپنی اولا د کو نیک اخلاق نہیں سکھاتا وہ خدا اور رسول سے احمدی اپنے جائزے لیں احمدی بچیوں کے لئے مجلس ناصرات الاحمدیہ کا قیام 549 دشمنی کرتا ہے 669
خطبات مسرور جلد 11 اردو اردو سیکھنے کی طرف توجہ اطاعت 41 14 مضامین بیان ہونی ہے یعنی رحماء بینھم، پاکستان ہمصر، عراق وغیرہ میں قتل و غارت اور اسلام اور خدا کے نام پر ظلم و بر بریت 136-138 اسلام پر غیروں کے اعتراضات اور جماعت احمدیہ کا فرض 440-441 اسلام کیا ہے کے متعلق ایک عیسائی عورت کا تاثر 378، 379 ایک پیر کا خلافت خامسہ کے آغاز میں اطاعت کا نظارہ دیکھ کر کہنا اسلام کی محبت اور بھائی چارے کی تعلیم کا ذکر 499،498 کہ خدا کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے“ خلیفہ وقت کے حکم کی تاویل کرنا اطاعت نہیں 307 555 اسلام کا تشدد اور دہشتگردی سے کوئی بھی تعلق نہیں 634 تبلیغ اسلام کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے جماعت کو اطاعت کا نمونہ دکھانے کی ضرورت 579 اسائیلم اسائیلم میں سچائی بہت ضروری ہے 488 اسلام اسلام حقیقی دین ہے 211 لئے عملی اظہار کی ضرورت ہے اصلاحی کمیٹی 715 اصلاحی کمیٹیوں اور قضاء کے حوالے سے عہد یدار ان کو نصائح اور ذمہ داریاں اعمال 233 اسلام کا حقیقی پیغام اب آنحضرت سال شما پیام کے اس عاشق صادق ساتوں آسمانوں سے گزر کر اللہ کے حضور پیش ہونے والے کے اعمال 270 اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی نیت کے کھوٹ کی وجہ سے رڈ کر دیئے 524 مسیح موعود کے ذریعہ پہنچنا مقدر ہے احمدیت ، اسلام سے علیحدہ نہیں یہ حقیقی اسلام ہے 270 مخالفین کا احمدیوں کو اسلام سے باہر نکالنا، خدا ہمیں مسلمان کہتا 141 الہام اسلام کی انصاف پسند اور انتہائی اعلیٰ معیار کی تعلیم 251 زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے“ اس کی تفسیر 169 تا 174 اسلام کی ترقی اب مسیح موعود کے ساتھ وابستہ ہے 307 يَدْعُونَ لَكَ ابْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللهِ مِنَ الْعَرَبِ 518 اسلام کے نام پر بننے والی تنظیمیں جو آنحضرت سلی لا یہ اہم اور اسلام بلائے دمشق کو بدنام کر رہی ہیں ، اللہ ان سے جلد امت کو چھٹکارا دلائے 78 امانت 518.516.509 261 اسلام کے نام پر بننے والی تنظیمیں اور جہادی کارروائیاں اسلام امانت اور عہدے کا حق ادا کرنے کے تقاضے،ضروری نصائح اور کی بدنامی کا باعث ہیں، یہ تقویٰ سے عاری لوگ ہیں 238 رہنمائی اسلام محبت اور امن کا مذہب، جو بدنام ہو کر دہشتگردی کا نام ہو کر امانتوں اور عہدوں کا خیال اور تقویٰ کی باریک راہیں 453،452 امانتوں کی خیال رکھو 239 590 رہ گیا ہے اسلامی ممالک کے سر براہوں کو صرف ذاتی مفادات کی فکر ہے ہر ایک اپنی امانتوں اور عہدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا616 امانت کی حفاظت کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے عوام کی نہیں 239 326 703 اسلامی ممالک میں مذہب کے نام پر بے چینی اور ظلم 240 امت سپین کے لوگوں کو اسلام کی طرف لانا ایک اہم کام ، جو ہمارے اسلام کے نام پر بننے والی تنظیمیں جو آنحضرت سال شما پیہم اور اسلام کو بدنام کر رہی ہیں ، اللہ ان سے جلد امت کو چھٹکارا دلائے 78 مسلمان ممالک کی حالت زار، علماء اور حکمرانوں نے اسلام اور ایمان امت محمدیہ کے لئے دعا کی درخواست ، جن کے سیاستدان اور کے نام پر اس بنیادی خوبی اور خصوصیت کی پامالی کی ہے جو مومن کی عہدیداروں میں خوف خدا ہے نہ انصاف سپرد ہے 78
خطبات مسرور جلد 11 15 مضامین انتخاب نیز دیکھیں عہدیدار ایجادات جماعتی انتخاب کے لئے عہدیداران اور افراد جماعت کے لئے شیطان کے حملوں کے طریق ،اس زمانہ کی ایجادات کا غلط ضروری نصائح انٹرنیٹ 234 223 استعمال..........262 نئی بیجادات سے فائدہ اُٹھاؤ لیکن احسن عمل مدنظر رہے 577 صبح کے وقت تازہ دم ہو کر کام کرنے کے بہترین نتائج، ان زمانے کی ایجادات سہولتوں سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں 675 لوگوں کی طرح نہیں جو ساری رات یا دیر تک انٹرنیٹ یاٹی وی پر ایتھی ازم (Atheism) بیٹھے رہتے ہیں، نماز بھی ادھ پچڈی نیند کے ساتھ ادا کرتے ہیں، دوسرے کاموں میں کیا برکت ہوگی ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بے حیائیوں کے اشتہار 165 569 441 ایم ٹی اے 464 ,384,386,460 380 502, 535, 576, 577, 623 انٹرنیٹ پر انتہائی گندی اور غلیظ فلمیں ، ڈانس اور گانے 572 ایم ٹی اے گھر انٹرنیٹ اور چیٹنگ کی وجہ سے برباد ہورہے ہیں 577 ایم ٹی اے کی افادیت اور غیروں پر اس کا اثر انٹرنیٹ کے ذریعہ ہزاروں میلوں دور سے بے حیائیاں اور ایم ٹی اے برائیاں پھیلائی جاتی ہیں 675 237 535.460 کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں 576 بچوں کے ٹی وی پروگرام اور انٹرنیٹ وغیرہ پر نظر رکھیں 690 جماعت کو خلافت سے جوڑنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے 577 انٹرنیٹ پر بیٹھے ہیں تو بیٹھے چلے جاتے ہیں انسان انسانی پیدائش کا مقصد عبادت ہے 418 تا420 انصاف 699 امت محمدیہ کے لئے دعا کی درخواست ، جن کے سیاستدان اور عہدیداروں میں خوف خدا ہے نہ انصاف انصاف معاشرے کی بنیادی اکائی ہے انصاف کے تقاضے 78 586 588 بیعت شرائط بیعت میں کئے جانے والے عہد کی تشریح 448 تا 451 پادری پادریوں نے مسیح موعود پر مقدمے بھی کروائے 538 پرده پردہ کی اہمیت 306 بعض احمدی خواتین کی طرف سے حجاب ، پردہ کے بارے میں انصاف کا فقدان ہونے کی وجہ سے اسلامی ممالک میں بھی عملی عدم توجہ کی حالت قابل فکر ہے انفاق انفاق فی سبیل اللہ اولاد تربیت اولاد 464 461 4260423 696 305 پردہ اور حیاختم ہو جائے تو پھر بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے 702 پریس حضور انور کا دورہ امریکہ کینیڈا، غیر معمولی برکات ، اسلام کی تعلیم وتعارف....پریس 327.311 حضور انور کی طرف سے یورپ، امریکہ اور برطانیہ میں ( پریس رزق کی تنگی کی وجہ سے قتل اولاد کی منا ہی 423 تا426 اور سفارتی سطح پر ) اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرنا ، ان لوگوں اے بی سی ( چینل) 628 کا جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کرتے
خطبات مسرور جلد 11 ہوئے سوالات کرنا پریس میں اسلام کا نام بدنام کیا جا رہا ہے 16 341 634 مضامین حضرت مصلح موعود کا فرمانا کہ میرے نزدیک مغرب سے سورج نکلنے میں امریکہ کی نسبت تعلق ہے ہمیں خاص طور پر امریکہ میں پریس اور میڈیا کے ذریعہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلا نا جہاد تبلیغی پروگرام بنانے چاہئیں ہے تاجر ایک مسلمان تاجر کی صفات 439.438 685 326 دعوت الی اللہ کرنے والے سے بہتر اور کوئی نہیں ہے 578 اگر ہمارا قول و فعل قرآن کریم کے مطابق ہوگا تو ایک تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن جائے گا 548 جماعتی نظام کو تبلیغ کے کام کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہئے 579 تجارت میں کامیابی کا راز ماپ اور تول پورے پورے باقاعدہ تبلیغ کی مہم کرنی چاہئے 580 کیا کرو تجارت صحابہ کی تجارت کا معیار تجارت کے متعلق احادیث 439436 437 4390436 تبلیغ کے لئے نئے نئے راستے تلاش کریں تصویر حضرت مسیح موعود کی تصویر کی بے حرمتی تفسیر 604 169-167 موجودہ تجارت میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب 438 439 حضور انور کی ”الحمد للہ رب العالمین“ کی پر معارف تفسیر 313 ربنا اتنا في الدنيا حسنة، لا يكلف الله نفسا کی پر معارف تائید تغیر 160 151.149 خلافت خامسہ آغاز سے ہی خدا کی تائید کا شاندار نظارہ اور غیروں کا بھی اظہار تعجب اور خدا کی فعلی شہادت کا اقرار 307 سورۃ الانعام کی آیت 152 تا 154 میں مذکور احکامات کی 242 پر معارف تفسیر مسیح موعود کی تائید میں ارضی و سماوی تائیدات حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید ایک نبی کی تائید تقوی تھی...271 23 مارچ یوم مسیح موعود کے حوالے سے حضور کی صداقت ، تائید 1870117 4530413 قول سدید اور لغویات سے اجتناب تقویٰ ہے تقویٰ کا حق اور شرائط اور ایک مومن کی حالت الہی اور امام کی ضرورت کے ثبوت خدا تعالی کی تائید و نصرت کے نظارے مسیح موعود کے حق میں 538 تقوی کی مختصر لیکن جامع تعریف 351 235 260 اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمیں ہر قدم پر تسلی دلاتی ہیں 647 جلسہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ دل میں تقویٰ پیدا ہو 539 تباہی اپنی طاقتوں کو صحیح موقعوں پر انصاف کے ساتھ استعمال وطن عزیز کی حالت زار ، اس کے لیڈر ملک کو تباہی کی طرف لے کرنا تقویٰ ہے جارہے ہیں تبلیغ.دعوت الی اللہ 8.7 امریکہ اور دیگر ممالک میں تبلیغ اور دعوت الی اللہ کے لئے رہنمائی اور ہدایات 276.275 تبلیغ کی ضرورت اور ذمہ داریاں اور طریق 217-221 تقومی ہی شریعت کا خلاصہ ہے 540 540 مسیح موعود اس لئے بھیجے گئے تادلوں میں تقویٰ پیدا ہو 551 لباس التقویٰ 590
خطبات مسرور جلد 11 17 مضامین تکبر کرنے والا تیسرے آسمان سے نہیں گزر سکے گا 521 جامعہ احمدیہ تنظیم جامعہ احمدیہ میں جانے والوں کی تعداد واقفین نو میں کافی زیادہ ہونی چاہئے 35 اسلام کے نام پر بنے والی تنظیمیں جو آنحضرت سائیں کہ ہم اور اسلام جامعات کے طلباء کا حضرت مصلح موعود کی کتب کے تراجم کا کام 117 کو بدنام کر رہی ہیں ، اللہ ان سے جلد امت کو چھٹکارا دلائے 78 جامعہ احمدیہ جرمنی کے متعلق بعض لوگوں کے اعتراضات کی تردید 41 اسلام کے نام پر بنے والی تنظیمیں اور جہادی کارروائیاں اسلام جامعہ احمدیہ میں جانے والوں میں واقفین نو کی تعداد کافی زیادہ کی بدنامی کا باعث ہیں، یہ تقویٰ سے عاری لوگ ہیں 238 ہونی چاہئے اسلام محبت اور امن کا مذہب ہے جو بد نام ہو کر دہشتگردی کا نام جامعہ کے ایک طالب علم کی وفات ہو کر رہ گیا ہے 239 جرم شدت پسندی اور دہشتگردی کا الزام مسلمانوں پر یا اسلام پسند جہادی تنظیموں پر انہیں اسلامی تعلیم کی طرف منسوب کرنا 251 جرم کی سزادینا حکومت کا کام ہے 431 تا433 میراتھن (امریکہ) میں ہونے والا دھما کہ اور اسلامی تنظیموں کے حج خلاف الزام.....گو کہ ان کی طرف سے انکار ہوا 239 مولویوں سے ڈر کر جج فیصلہ بدل دیتے ہیں آج دنیا کی کسی بھی تنظیم کے پاس اس قسم کا نظام اور قیادت نہیں ہے جو جماعت احمدیہ کے پاس ہے توحید توحید کیا ہے؟ 625 267 جلسه جلسہ کے مقاصد اور برکات 35 641 563 364 بنگلہ دیش اور برطانیہ کی جماعت کے قیام پر سوسال پورے ہونا اور ان کے پروگرام، بنگلہ دیش کے جلسہ پر مخالفین کا حملہ 95،94 توحید کے قیام کے لئے تبلیغ اور اعلیٰ اخلاق اور دعا کے ذریعے جلسہ سالانہ اور لنگر مدد چاہتا 274 231 امریکہ، کہا بیر اور جرمنی کے جلسہ سالانہ کا افتاح 363 عبادت کی روح کو سمجھ کر ہم تو حید کے پیغام کو پھیلا سکتے ہیں 202 سیرالیون اور بنگلہ دیش کے جلسہ سالانہ کا افتتاح 94 ویسٹ کوسٹ کا جلسہ، بعض احمدی خواتین کی طرف سے حجاب ، پردہ کے بارے میں عدم توجہگی ٹی وی 305 537 539 صبح کے وقت تازہ دم ہو کر کام کرنے کے بہترین نتائج ، ان جلسہ سالا نہ آسٹریلیہ کا آغاز لوگوں کی طرح نہیں جو ساری رات یادیر تک انٹر نیٹ یا ٹی وی پر جلسہ کو معمولی انسانی جلسہ کی طرح خیال نہ کریں 537 بیٹھے رہتے ہیں، نماز بھی ادھ پچڈی نیند کے ساتھ ادا کرتے ہیں، جلسہ کا مقصد کہ دل میں تقویٰ پیدا ہو دوسرے کاموں میں کیا برکت ہوگی جاپان کے جلسوں میں پروگرام جاپانی زبان میں ہونے چاہیں 616 ٹی وی پر بے حیائیوں کے اشتہار، فیشن شو اور ڈریس شو کے نام پر جلسہ سالانہ قادیان کا آغاز جلسہ کے تین دنوں میں اپنے جائزے لیں ننگے لباس دکھائے جاتے ہیں ٹی وی پر گندی فلمیں ، ڈانس اور گانے 165 569 572 جلسہ سالانہ اور مہمان نوازی 708 711 479 472 ٹی وی معلوماتی اور علمی باتیں بتاتا ہے لیکن بے حیائیاں بھی اس جلسہ سالانہ جرمنی ، ٹی وی اور اخبارات میں کوریج 376 تا378 کی وجہ سے عام ہیں.ٹی وی کا سب سے بہتر استعمال تو جماعت اسلام کی خوبصورت تعلیم کے متعلق جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے والے مہمانان کے تاثرات 375 تا 386 احمد یہ کر رہی ہے 576
خطبات مسرور جلد 11 جلسہ سالانہ جرمنی کا امتیاز 18 378 مضامین جماعت احمدیہ کا آپس میں پیار ومحبت کے تعلق کا اظہار 497 جلسہ سالانہ جرمنی کے متعلق کچھ انتظامی باتیں اور کارکنان کا جماعت کو دنیا کے حالات کے لئے دعا کی تحریک 508،507 جماعت کی مخالفت کی وجہ سے احباب جماعت کے ایمان اور شکریہ 388+386 جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت اور اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے جماعت کے تعارف میں مزید اضافہ 532،531 نظارے، دو مساجد کے سنگ بنیاد اور دو مساجد کے افتتاح ، سفر جماعت کے حالات اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنگاپور کے حالات ،جلسہ کے کارکنان کا شکریہ جلسہ سالانہ کے مقاصد 375+373 484.483 جلسہ سالانہ یو کے کا اختتام اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا تذکرہ 503490 میں احباب جماعت سے ملاقات کا موقع پیدا ہونا 530، 531 جماعتی خرچ میں وسعت اور آڈٹ کے نظام کے متعلق ہدایات 464 جہاد اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کی ضرورت 205 جلسہ سالانہ یو کے کا دیگر جلسوں سے امتیاز 470 تا 472 اسلام کے نام پر بننے والی تنظیمیں اور جہادی کاروائیاں اسلام کی جلسہ سالانہ یو کے کی تیاریوں کے لئے عمومی ہدایات 469 تا 479 بدنامی کا باعث ہیں، یہ تقویٰ سے عاری لوگ ہیں 238 جلسہ سالانہ یو کے میں شامل ہونے والے مہمانوں کے تاثرات دینی مدرسوں میں جہاد کے نام پر بچوں کی عسکری تربیت اور اسلحہ 490 تا 501 کا استعمال جو سب مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے 239 جلسہ کے آخر میں اردو نظموں کے ساتھ دیگر زبانوں والوں کو مسلمانوں یا اسلام پسند جہادی تنظیموں پرشا رشدت پسندی اور موقع ملنا چاہئے جلسہ کے دران صفائی کا غیروں پر اثر 380 486 دہشتگردی کا الزام 251 شیطانی حملے اور برائیوں سے بچنے کے لئے جہاد کرے650 جلسہ کے دوران سکیورٹی کے متعلق ہدایات 486،485 آجکل جہاد کے نام پر دہشت گردی ہو رہی ہے جلسہ کے دوران نعروں کے متعلق 485.484 جلسہ کے دوران نمازوں کی پابندی 485 چنده جماعت احمدیہ کے پیسے میں الہی برکت جلسہ کے متعلق بعض شکایات کا ذکر 501 تا 503 جماعتی اموال کو احتیاط سے خرچ کریں جلسہ کے مہمانوں پر احباب جماعت کے اخلاق اور مہمان اموال کے خرچ میں انتظامیہ کو محتاط رہنے کی نصیحت نوازی کا غیروں پراثر جلسہ کے ویزہ اور اس کے مسائل کا ذکر شاملین جلسہ کی ذمہ داریاں جنگ 501.500 487 4890482 706 231 چندہ جات کے لئے احمدی مرد و خواتین کی تڑپ دنیا کے بھر کے احمدیوں کا اظہار اور اخلاص و وفا کے واقعات 1201 افراد جماعت پر چندوں کی اہمیت واضح کرنا 461 تا464 ہر احمدی کو سمجھنا چاہیے کہ ہم چندہ کیوں دیتے ہیں؟ 463،462 قرآن نے جنگ کی اجازت دے کر بھی ہر مذہب کی حفاظت کی تحریک جدید کا چندہ ہے.جنگ احد کا ایک واقعہ جنگ حنین جماعت احمدیہ 240 660 714 جلوس 620 ربوہ میں عید میلاد کا نکالا جانے والا جلوس ، جس میں حضرت مسیح موعود کو گالیاں دینے کے سوا کچھ نہیں ہوگا 63.62
خطبات مسرور جلد 11 حبل الله 19 پاکستانی احمدیوں کے لئے فکر اور دعا کی تحریک مضامین 338 قرآن، آنحضرت مسیح موعود اور خلافت سب حبل اللہ ہیں 210 آج خدا تعالی کی ہستی پر یقین اور مذہب کی خوبصورتی اگر کوئی بتا حاکم سکتا ہے تو جماعت احمد یہ ہے مذہبی لیڈروں نے حکومت کو ڈرا ہوا ہے 213 648 حاکموں کی ذمہ داریوں کے متعلق احادیث 514،513 حکومت کے مطابق احمدیوں پر زکوۃ واجب نہیں 687 حکومت کا قانون عملی اصلاح کے لئے مددگار نہ ہو وہاں عادتیں حسد حسد کرنے والا پانچویں آسمان سے نہیں گزر سکے گا 522 نہیں بدلی جاسکتیں حضرت مصلح موعود خدمت 697 حضرت مصلح موعود کا 1925ء میں شام کے حالات کے متعلق جماعتی عہدیداران خدمت اور اخلاص و وفا کے نمونے قائم کریں 215 دین کی خدمت کے لئے اپنے اندر جوش و جذ بہ پیدا کر و 539 خطبہ کا ذکر 509،508 خلیفتہ اسیح الثانی کی دورہ یورپ کے دوران پوپ سے ملاقات کی خواہش اور پوپ کا جواب اور اخبار میں خبر 383،382 حقوق العباد حقوق العباد کی ادائیگی کی ضرورت 367 مخلوق کی خدمت کرو 610 احمد یہ مسلم کمیونٹی خدمت انسانیت میں بہت آگے ہے 631 احمدیہ خدمت کا جذ بہ اس جماعت کو ساری دنیا میں ممتاز بناتا ہے 636 خلافت، خلیفہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ضرورت ہے 290 قرآن، آنحضرت مسیح موعود اور خلافت سب حبل اللہ ہیں 210 حضرت مسیح موعود جو مشن لیکر آئے ، بندہ کو خدا سے ملانا اور بنی نوع یوم خلافت کی اہمیت اور تقاضے انسان کے حقوق کی ادائیگی ہے حقوق العباد کے متعلق اسوہ حسنہ 371 526.525 300-297 خلافت کے متعلق ہمیشہ سے جماعت میں اللہ تعالی خواہیں دکھلاتا چلا آ رہا ہے 94 حقوق العباد کی ادائیگی کرتے رہیں چاہے کوئی ہمارے کام خلافت خامسہ آغاز سے ہی خدا کی تائید کا شاندار نظارہ اور آئے یا نہ آئے حکام حکام اور عوام کے متعلق نصائح حکومت 5170513 610 غیروں کا بھی اظہار تعجب اور خدا کی فعلی شہادت کا اقرار 307 خلافت خامسہ کے قیام میں خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت 303 خلیفہ اسیح کا دورہ امریکہ و کینیڈا ، غیر معمولی برکات ، اسلام کی تعلیم و تعارف....پریس 327.311 بھلائی اور نیکیوں کی تلقین کرنے والی جماعت جس میں سب سے 214 ہمیں کسی دنیادار حکومت سے بھلائی کی امید ہے اور نہ ہی مسلمان پہلے مربیان اور مبلغین ، خلیفہ وقت نے تربیت اور تبلیغ کے لئے کہلانے کے لئے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے 338 339 اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ہمیں کسی دنیاوی حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے خدا کی طرف حضور انور کی ”الحمد للہ رب العالمین“ کی پر معارف تفسیر 313 دیکھنے کی ضرورت ہے اللہ کے منہ کی طرف دیکھنے اس کے حکموں حضور انور کی طرف سے یورپ، امریکہ اور برطانیہ میں ( پریس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور سفارتی سطح پر ) اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرنا ، ان لوگوں پاکستان میں نئی حکومت اور ایک احمدی کا اظہار فکر 338 کا جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کرتے 342
خطبات مسرور جلد 11 ہوئے سوالات کرنا 20 341 مضامین آنحضرت پر درود بھیجو تا اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو 650 خلافت کے ساتھ تعلق اور اس کے مختلف ذرائع 460 تا 461 | ویمن خلافت اور جماعت 377 حضرت مصلح موعود کا فرمان فتنوں اور دشمنوں کی شرارتوں سے خلیفہ وقت کے بولنے کے وقت خاموشی اور اور کا اظہار 495 گھبرانا ہمارا کام نہیں 114 جماعت پر اللہ کے خاص فضل، انتہائی نامساعد حالات میں بھی خلیفہ وقت کے خطبات سننے کی اہمیت 464 465 655 خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے جماعت اور خلافت کا ایک ایسا رشتہ ہے جو دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتا 585 آنحضرت نے اُسی جماعت کی ترقی کی پیشگوئی فرمائی جو جماعت کے ساتھ منسلک رہے 592 نظام جماعت سے دُوری خلافت سے بھی دُوری پیدا کر دیتی ہے خلع 673 265 اللہ دشمن کے منہ سے نکال لاتا ہے......اے دشمنان احمدیت ! یاد رکھو ہمارا ایک موٹی اور خدا ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے وہ کبھی تمہیں کامیاب ہونے نہیں دے گا 307 دعا 78 امت محمدیہ کے لئے دعا کی درخواست ، جن کے سیاستدانوں اور عہدیداروں میں خوف خدا ہے نہ انصاف پاکستان کے احمدیوں کو نصیحت ،نمازوں میں ان دعاؤں کو خاص جگہ دیں ، ربنا اتنا.....ربنا لا تؤاخذنا دعا کی حقیقت اور اس کی فلاسفی 161 150 خلع اور طلاق کے معاملات میں عدل 444 445، 451 دعا کی فلاسفی اور دعا کے طریق ( حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی خواب، رویا روشنی میں) 167164 ہمیں ان شرائط کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی خلافت کے متعلق ہمیشہ سے جماعت میں اللہ تعالیٰ خوا ہیں دکھلاتا ضرورت ہے جن میں سے چند ایک میں نے حضرت مسیح موعود چلا آ رہا ہے ، حضرت خلیفہ المسح الرابع" کی ایک مبشر رویا خندہ پیشانی خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی خود پسندی 483.476 94 190 171 کے حوالے سے بیان کی ہیں ہمیں اپنی نسلوں کے لئے بہت تڑپ کر دعا کی ضرورت ہے ، ہم اپنے اجلاسوں میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اس عہد کی روح کو اپنی نسلوں میں پھونکنے کی ضرورت ہے 202 سیرالیون کے علماء اور غیر از جماعت کے خیر سگالی کے جذبات خود پسندی کرنے والا چوتھے آسمان سے نہیں گزر سکے گا 521 اور دعا کی درخواست خوش اخلاقی خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی دجال 483.476 دجال کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ اس سے مراد ایک قوم ہے 384 درود شریف درود شریف پڑھنے کی نصیحت 61 95 15 لیبیا میں بگڑتے حالات اور دعا کی تحریک يا رب فاسمع دعائي......ملک کو بچانے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود کی یہ الہامی دعا بھی پڑھنی چاہئے تا کہ شر پسندوں کا خاتمہ ہو ملک کی شریف آبادی ان شر پسندوں کے شر سے محفوظ رہے......170 پاکستانی احمدیوں کے لئے فکر اور دعا کی تحریک 338 اسلام کے نام پر بنے والی تنظیمیں آنحضرت سی اہم اور اسلام کو
خطبات مسرور جلد 11 21 مضامین 239 بدنام کر رہی ہیں، اللہ ان سے جلد امت کو چھٹکارا دلائے 78 ہو کر رہ گیا ہے پاکستان میں جگہ جگہ دہشت گردی کی آگ کے پھندے، دعا کی پاکستان میں جگہ جگہ دہشت گردی کی آگ کے پھندے 156 شدت پسندی اور دہشتگردی کا الزام مسلمانوں پر یا اسلام پسند ضرورت 156 پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی تحریک 503 جہادی تنظیموں پر، انہیں اسلامی تعلیم کی طرف منسوب کرنا 251 پاکستانی احمدیوں کے مشکل حالات اور ان کے لئے دعا کی مسلمان ممالک کی حالت زار، علماء اور حکمرانوں نے اسلام اور ایمان کے نام پر اس بنیادی خوبی اور خصوصیت کی پامالی کی ہے جو مومن کی تحریک 488.487 پاکستان کے لئے بالعموم اور کراچی کے حالات کے بیان ہوئی ہے یعنی رحماء بینھم، پاکستان بمصر، عراق وغیرہ میں لئے بالخصوص دعا کی تحریک راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں نماز کی اصل غرض اور مغز دعا ہی ہے ان دنوں میں بہت دعائیں کریں 527 541 541 541 548 تل وغارت اور اسلام اور خدا کے نام پر ظلم و بربریت 136-138 اسلام کا تشدد اور دہشتگردی سے کوئی بھی تعلق نہیں 634 آج کل جہاد کے نام پر دہشت گردی ہورہی ہے 706 رجسٹر روایات رجسٹر روایات سے صحابہ حضرت اقدس کے بیان کردہ واقعات و دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر روایات کا آخری خطبہ پاک تبدیلی پیدا کرے 589 رحم 100 مومنین کی جماعت دعاؤں سے ایک دوسرے کی مددکریں 591 رحم نہ کرنے والا چھٹے آسمان سے نہیں گزر سکے گا 522 عرب کے متعلق دعا کہ یہ روحانی فیض کا چشمہ بن جائے 518 رمضان ہر احمدی دعا کرے کہ جو احمدی مشکلات میں گرفتار ہیں اللہ تعالیٰ رمضان اور قرآن کے متعلق ارشادات حضرت مسیح موعود 410 تا 412 اُن تمام کی پریشانیاں دور فرمائے دنیا 718 رمضان اور قرآن کریم کی تلاوت اور قرآنی احکامات پر عمل 412 403 دنیا کے حالات تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں 507 رمضان کے آداب 395-394 رمضان کے متعلق احادیث کی تشریح 395 تا 398 دوره حضور انور کا دورہ امریکہ و کینیڈا حضور انور کا دورہ آسٹریلیا دین 327.311 619 روزه روزوں کی اہمیت اور فرضیت 389 اسلام میں روزوں کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے 390 تا 392 ایک نام نہاد عالم کا واقعہ اور دین کے لئے ان کا درد 395 ایک عیسائی روزہ دار کا واقعہ دہشت گردی 390 روزہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کے ارشادات 391 تا 394 مختلف مذاہب میں روزہ اور اس کی کیفیت 389، 390 اسلام کے نام پر بننے والی تنظیمیں اور جہادی کاروائیاں اسلام کی روزے اور رمضان کی اصل روح کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے 398 بدنامی کا باعث ہیں، یہ تقویٰ سے عاری لوگ ہیں 238 اسلام محبت اور امن کا مذہب، جو بدنام ہو کر دہشتگردی کا نام روز سے تبھی فائدہ دیں گے جب قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل ہو 409
خطبات مسرور جلد 11 22 مضامین روزے دار کو نصیحت کہ فتنہ کے موقع سے بچنے کی نصیحت 397 | آپ کے آنے کا مقصد سچائی کے زمانے کو پھر لانا ہے 552 روزے رکھنے میں دکھاوے کی ممانعت 394-395 سچائی کے معیار کا حصول رویا.دیکھیں ”خواب“ رياء خدا کا مامور دنیا میں سچائی کا نور پھیلا دیتا ہے سچائی کی ایک مثال 571 645 657 سچائی ایسی چیز ہے جواپنوں پر ہی نہیں غیروں پر بھی اثر کئے بغیر راہ کی ملونی رکنے والے اعمال ساتویں آسمان سے نہیں گزر سکیں گے 523 نہیں رہ سکتی.زبان اردو سیکھنے کی طرف توجہ مختلف زبانیں سیکھنے کی ضرورت ہے 41 41 جاپان کے جلسوں میں پروگرام جاپانی زبان میں ہونے چاہیں 616 زندگی زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے اس الہام کی تفسیر 169 تا 174 زودنویس سلسلہ محمدیہ سلسلہ محمدیہ اور سلسلہ موسویہ کی مشابہت 459 سورج 659 حضرت مصلح موعود کا فرمانا کہ میرے نزدیک مغرب سے سورج نکلنے میں امریکہ کی نسبت تعلق ہے ہمیں خاص طور پر امریکہ میں تبلیغی پروگرام بنانے چاہئیں سیاستدان 326 زودنویس، خلفاء کے بعض خطبات اور تقاریر کے نوٹس مکمل طور پر امت محمدیہ کے لئے دعا کی درخواست ، جن کے سیاستدانوں اور نہلے پائے زمانہ 118 عہدیداروں میں خوف خدا ہے نہ انصاف سیرت النبی صلی شما ایستم 78 یہ کہنا کہ کسی مجدد مصلح مسیح ، نبی کی ضرورت نہیں ، یہ غلط ہے سیرتالنبی سنی یا پیہم کا بیان اور اسپر خود بھی عمل کرنا 535 241 ( زمانہ کی ضرورت ہے ) آپ نے فرمایا اس زمانہ میں خدا نے مجھے مامور کیا اور اپنی شادی معرفت کا نور مجھے بخشا زنا زنا کے نقصانات زیڈ ایف(ZF) چینل سات آسمان 645 428 376 شادی ایک معاہدہ 452.451 شدت پسندی نیز دیکھیں دہشت گردی شدت پسندی اور دہشتگردی کا الزام مسلمانوں پر یا اسلام پسند جہادی تنظیموں پر، انہیں اسلامی تعلیم کی طرف منسوب کرنا 251 شرافت ساتوں آسمانوں سے گزرکر اللہ کے حضور پیش ہونے والے کے اعمال پاکستان کی گونگی شرافت اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی نیت کے کھوٹ کی وجہ سے رڈ کر دیئے 524 سچائی سچائی اور قول سدید کی اہمیت اور ضرورت اسائیلم میں سچائی بہت ضروری ہے 488 355 شرک 170 شرک سے اجتناب اور اس کی اقسام کا تفصیلی ذکر 417 420 شرک کی تین اقسام 418.417
خطبات مسرور جلد 11 23 شرک کے متعلق ارشادات حضرت مسیح موعود 417 تا 420 عاجزی و انکساری شیطان شیطان کے حملے کے طریق 262 مضامین عاجزی وانکساری کی ضرورت 371 عاجزی و انکساری کی اہمیت اور افادیت و ضرورت 337-328 شیطان نے دنیا میں بے حیائی پھیلائی ہوئی ہے 540 شیطان کے حملوں سے بچنے کی کوشش کریں شیطان کے بہت سے معنی ہیں 572 573 شیطان کے حملے سے بچنے کے لئے بھر پور کوشش کریں 574 شیطان کا حملہ دو طرح کا 575 عہدیداران میں تواضع اور عاجزی عاجزی اور انکساری 233 409.408 اس زمانے میں شیطان پہلے سے زیادہ منہ زور ہے 674 اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہو تو عاجزی شرط ہے العزة لله“ کے الفاظ عاجزی وانکساری پر مجبور کرتے ہیں 677 عالمی طاقتیں 542 614 صبر و استقامت صبر و استقامت کی اہمیت عالمی جنگ کے خوفناک نتائج سے عالمی طاقتوں کو ہوشیار کرنا 507 337-328 عالمی طاقتوں کی شام میں آزادی دلوانے کے نام پر اپنے اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کا ذریعہ عاجزی کو صبر اور دعا 409، 410 مفادات حاصل کرنے کی کوششیں 511،510 صحاب صحابہ حضرت اقدس کی رؤیا وکشوف صحابہ حضرت اقدس کی خواب ورؤ یا صحابہ حضرت اقدس کی خوا ہیں عدل و انصاف 27-16 | عدل و انصاف اور سچی گواہی، ایک احمدی کا کردار 254 47 تا 61 عہدیداران کا فرض کہ عدل و انصاف کو سامنے رکھیں 225 82 تا 94 عدل و انصاف کی پر معارف تشریح 441 تا 448 | رجسٹر روایات سے صحابہ حضرت اقدس کے بیان کردہ واقعات و عدل و انصاف کے متعلق احادیث 444،443 روایات کا آخری خطبہ ایک صحابی کا مہمان نوازی کا شاندار نمونہ 100 478 عدل و انصاف کے متعلق حضرت مسیح موعود کے ارشادات 442 خلع اور طلاق کے معاملات میں عدل 444،443 مسیح موعود نے مالی قربانیوں کی جاگ صحابہ میں لگائی تا کہ اسلام دشمن قوم سے عدل کی خوبصورت اسلامی تعلیم 446 تا 447 عہدیداران کے انتخاب میں عدل 444 تا 446 کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جا سکے 597 صحابہ کروڑوں کا کاروبار کرتے لیکن کبھی اپنی عبادتوں کو نہیں گواہی میں عدل کی تعلیم بھولے 602 علماء 4440442 ایک صحابی نے ہاتھ آنحضرت کے چہرہ مبارک کی طرف کر دیا اور اُس پر اتنے تیر اور پتھر لگے کہ وہ ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا 660 کیا آجکل کے علماء اپنے آپ کو مسلمانوں کی تعریف کا حقدار ٹھہرا 141 سکتے ہیں؟ علماء کے ذاتی مفادات اُنہیں آمادہ کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ کے پلندوں سے عوام الناس کو ورغلاتے رہیں صحابہ کا اجماع صحابہ کا قربانی کا نمونہ 662 613 طلاق خلع اور طلاق کے معاملات میں عدل 444 451،445 عوام 672
خطبات مسرور جلد 11 سعودی عرب میں عوام کی بدحالی 240 24 مہمان کی عزت کا وصف مضامین 233 عوام کے حاکموں سے تعلقات کے متعلق احادیث 514 تا516 غصہ پر قابو پانا ہر عہدیدار کا فرض عوام کو تعلیم دلانے کے لئے ملک کے ہر کونے میں سکول 563 جماعتی اموال کو احتیاط سے خرچ کریں امانت اور عہدے کا حق ادا کرنے کے تقاضے عہد 232 231 261 ہم اپنے اجلاسوں میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہر قربانی کے لئے تیار ہیں، جماعتی انتخاب کے لئے عہدیداران اور افراد جماعت کے لئے اس عہد کی روح کو اپنی نسلوں میں پھونکنے کی ضرورت ہے 202 ضروری نصائح 234 223 شرائط بیعت میں کئے جانے والے عہد کی تشریح 448 تا 451 عہدیداران افراد جماعت سے پیار اور نرمی کا سلوک کریں 466 امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھو عہدے ، عہدیداران 590 عہدیداران کے انتخاب میں عدل 444 تا 446 عہدیداران کے لئے ضروری ہدایات 465 تا 466 عہد یدا راپنے شعبہ کے قواعد ضرور پڑھیں 466 اصلاحی کمیٹیوں اور قضاء کے حوالے سے عہدیداران کو نصائح اور عہدیداروں کے خلاف اگر باتیں ہیں اگر نیچے اُس پر اصلاح ذمہ داریاں 233 امت محمدیہ کے لئے دعا کی درخواست ، جن کے سیاستدانوں اور عہد یداروں میں خوف خدا ہے نہ انصاف عہدے بڑائی نہیں ذمہ داری ہیں عہدے کی خواہش اسلامی تعلیم کے منافی ہے عہدوں کی پابندی اور ضروت اور اہمیت 78 226 227 230 571 نہیں ہو رہی تو مجھ تک پہنچائیں عہدیدار بھی اپنے دائرے میں عاجزی اختیار کریں 614 جماعتی عہدیدار کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے 616 عید میلادالنبی صل الا الیونم ربوہ میں عید میلاد کا نکالا جانے والا جلوس جس میں حضرت مسیح عہدیداران اپنی ذاتی پسند پر عہدہ نہ دیں اور نہ ہی خواہ مخواہ کوئی موعود کو گالیاں دینے کے سوا کچھ نہیں ہوگا اعتراض کرے 225 63.62 میلادالنبی کی خوشی جشن منانے سے نہیں بلکہ آنحضرت مسی یا یہ تم کا عہدیدار، اپنے کام کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کریں 233 پیغام دنیا میں پھیلانا ہے عہدیداران میں تواضع اور عاجزی 233 جماعتی عہدیداران کے لئے نصائح ، خدمت اور اخلاص و وفا کے غصہ پر قابو پانا ہر عہد یدار کا فرض نمونے قائم کریں 215 عہدیداران کا فرض کہ عدل و انصاف کو سامنے رکھیں 225 غض بصر کا حکم قاضی صاحبان اور متعلقہ عہدیداران کے لئے اہم نصائح 304 لغویات سے پر ہیز ہر عہدیدار اور فرد جماعت کا فرض 232 غیبت 60 232 429 ہر صدر ، امیر اور عہدیدار کی ذمہ داری، نیکی کی ہدایت اور بدی غیبت کرنے والا پہلے آسمان سے نہیں گزر سکے گا 520 سے روکنا 234 ملنے والوں کا کھلے دل سے استقبال کرنا چاہئے اور اعلیٰ اخلاق کا حضرت مصلح موعود کا فرمان فتنوں اور دشمنوں کی شرارتوں سے مظاہرہ کرنے کی نصیحت 145 گھبرا نا ہمارا کام نہیں 114
خطبات مسرور جلد 11 مستریوں کا غلیظ فتنہ فحشاء 25 113 مضامین قرآن کے ایک چھوٹے سے حکم کو ٹالنا نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرنا ہے 682,687 فحشاء سے رکنے کے متعلق ارشادات حضرت مسیح موعود 431 مسیح موعود کی بعثت کا مقصد قرآنِ کریم کی حکومت کو ہم پر لاگو فحشاء کی اقسام اور ان کے نقصانات 427 تا 431 فحشاء کی طرف مائل کرنے والی تمام باتوں سے رکو 428-429 فخر ومباہات 682 کروانا قربانی ہم اجلاسوں میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اس عہد کی روح کو اپنی نسلوں میں پھونکنے کی ضرورت ہے 202 فخر و مباہات کرنے والا دوسرے آسمان سے نہیں گزر سکے گا 520، 521 مسیح موعود نے مالی قربانیوں کی جاگ صحابہ میں لگائی تا کہ اسلام فلاح حقیقی فلاح پانے والے 479 قانون کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جا سکے 597 قربانیوں میں تو جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھی ہوئی ہے 601 صحابہ کا قربانی کا نمونہ قضاء،قاضی 613 جس قانون کے تحت احمدیوں پر ظلم کیا اب وہی قانون دوسر.قاضی صاحبان اور متعلقہ عہد یداران کے لئے اہم نصائح 304 141 اصلاحی کمیٹیوں اور قضاء کے حوالے سے عہد یدار ان کو نصائح اور مسلم فرقوں پر الٹ رہا ہے پاکستان میں جماعت کے خلاف بننے والا زہر یلا قانون 339،338 ذمہ داریاں مغربی ممالک میں غلاظتوں اور بے حیائیوں کو قانون تحفظ دے قضا میں شادی بیاہ کے معاملات دیتا ہے 648 بعض عادتیں قانون کی وجہ سے ختم کی جاسکتی ہیں 697 قواعد 233 700 قتل کسی جان کو قتل نہ کرو قرآن کریم 433 431 عہدیدا راپنے شعبہ کے قواعد ضرور پڑھیں کسر صلیب کسر صلیب کس طرح ہوگی 466 183 اللہ کی پسند حاصل کرنے کے لئے قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہے 32 گواہی قرآن نے جنگ کی اجازت دے کر بھی ہر مذہب کی حفاظت کی عدل و انصاف اور سچی گواہی ، ایک احمدی کا کردار 254 ہے 240 گواہی میں عدل کی تعلیم 444 442 قرآن، آنحضرت مسیح موعود اور خلافت سب حبل اللہ میں 210 تمہیں خواہ اپنے خلاف یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے کسی 466 پیارے اور رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تو قرآن کریم کی کلاسوں کا انعقاد کریں قرآن کو متروک کر چھوڑ نا مسلمانوں کے زوال کا سبب 407 دو 570,613,703 ہمارا ہر قول و فعل قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہو 548 لغوا الغويات جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھا وہی قرآن کریم آج ہے.678,664, لغویات سے پر ہیز ہر عہدیداراورفرد جماعت کا فرض 232
خطبات مسرور جلد 11 قول سدید اور لغویات سے اجتناب تقویٰ ہے لنگر 351 26 کی مذموم حرکتیں ( تصویر کی بے حرمتی) مضامین 169-167 اے دشمنان احمدیت ! یاد رکھو کہ ہمارا ایک مولیٰ اور خدا ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے وہ بھی تمہیں کامیاب ہونے نہیں دے حضرت مسیح موعود کا انگر اب دنیا میں ہر جگہ پھیل چکا ہے 231 گا.مالی قربانی نیز دیکھیں چندہ“ مالی قربانی کے لئے احمدی کی بے چینی اور خواہش 1 307 حضرت مسیح موعود کی وفات پر دشمنان احمدیت کی انسانیت سوز حرکات 297 مخالفین کا اظہار کہ احمدی کتنی قربانی کر رہے ہیں 2 مخالفتوں کی آندھیوں میں احمدی کا فرض 532 مخالفین کا اظہار کہ احمدی کتنی قربانی کر رہے ہیں 2 مالی قربانی اور عہدیداران کے فرائض 464،463 مخالفین بھی کہنے پر مجبور کہ حقیقی مسلمان دیکھنا ہے تو ان احمد یوں مبلغین مبلغین کا مقام مبلغین کی ذمہ داریاں 401 466 میں دیکھو 557 ہما ر اللہ ہر مخالف اسلام اور مخالفت احمدیت پر بھاری ہے 672 مدرسه مبلغین کے تبادلے اور ان کا رد عمل 467،466 دینی مدرسوں میں جہاد کے نام پر بچوں کی عسکری تربیت اور اسلحہ متقی کا استعمال جو سب مسلمانوں کے خلاف استعمال ہورہا ہے 239 اصل میں متقی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں متقی ہے 519 مذہب مجدد یہ کہنا کہ کسی مجدد، مصلح، مسیح ، نبی کی ضرورت نہیں ، یہ غلط ہے ( زمانہ کی ضرورت ہے) ہر صدی کے سر پر مجدد محبت محبت اور امن اور بھلائی والی دنیا کا ذکر 241 458 497 376 Love for all, Hatred for none سنگا پور کے احمدی مذہبی آزادی سے فائدہ اٹھائیں 534، 535 مربیان مبلغین 214 بھلائی اور نیکیوں کی تلقین کرنے والی جماعت جس میں سب سے پہلے مربیان اور مبلغین ، خلیفہ وقت نے تربیت اور تبلیغ کے لئے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے مساجد برٹش کولمبیا ( کینیڈا) میں تعمیر مسجد، تفصیلات 283 سپین میں جماعت احمدیہ کی دوسری مسجد کی تعمیر اور اس کی تفصیلات اور تاریخ 194 مخالفت، مخالفین بنگلہ دیش اور برطانیہ کی جماعت کے قیام پر سو سال پورے ہونا، مساجد کی تعمیر کے آداب، حقوق اور ہماری ذمہ دار یاں 198- 205 ان کے پروگرام، بنگلہ دیش کے جلسہ پر مخالفین کا حملہ 94-95 مساجد کے بارہ میں حضور کا اقتباس ”اس وقت ہماری جماعت کو کی پر سوسال پاکستان اور ہندوستان کے کچھ علاقوں میں یا بعض افریقن مساجد کی بڑی ضرورت ہے حضرت مسیح موعود کی ان تحریرات کو ممالک کے چھوٹے قصبوں میں حضرت مسیح موعود کے خلاف دشمنی بار بار سامنے رکھنا کی کمینگی کا اظہار صف اول میں پاکستان کے نام نہاد علماء اور ان 208 مسجد کی تعمیر سے اسلام اور تبلیغ کے راستے کھلتے ہیں 283 ا سفر جرمنی میں دو مساجد کے سنگ بنیاد اور دو مساجد کے افتتاح 373
خطبات مسرور جلد 11 27 مضامین مساجد ہماری ضرورت ہیں اور جیسے جیسے جماعت پھیلتی جائے گی | مسلمان فرقے ہیں مساجد بھی بنتی چلی جائیں گی 585 جس قانون کے تحت احمدیوں پر ظلم کیا اب وہی قانون دوسرے جب ہم مسجد کا حق ادا کرنے والے ہوں جب ہم آنحضرت کے غلام مسلم فرقوں پر الٹ رہا ہے اور آپس میں ظلم مصلح صادق کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے والے ہوں گے 586 141 مسجد بننے کے بعد آپ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں 591 یہ کہنا کہ کسی مجدد ، مصلح، میسیج ، نبی کی ضرورت نہیں ، یہ غلط ہے مسافر مسافروں کی اقسام سب سے زیادہ خوش قسمت مسافر مستریوں کا فتنہ مستریوں کا غلیظ فتنہ مسلمان ہر احمدی مسلمان ہے، مسلمان کون ہے؟ 477 477 113 344 (زمانہ کی ضرورت ہے) معاشرہ معاشرے کے حقوق ادا کرو مولوی 433 431 241 پاکستان کے ایک مولوی کا کہنا کہ احمدی ناسور ہیں...مولویوں کا خود ساختہ اسلام ذاتی مفادات کا آئینہ دار ہے 142 پاکستان میں ایک طبقہ مولویوں کے پیچھے لگ کر احمدیوں کو نقصان احمدیت ، اسلام سے علیحدہ نہیں حقیقی اسلام ہے 270 پہنچانے کی کوشش کرنے والا اور ایک طبقہ دوستی کا حق ادا کرنے مخالفین کا احمدیوں کو اسلام سے باہر نکالنا، لیکن خدا ہمیں مسلمان کہتا ہے 141 والا ہے ، ہر پاکستانی کو بُرا نہیں کہہ سکتے مولویوں سے ڈر کر جج فیصلہ بدل دیتے ہیں مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت ، جس کی اصلاح کے لئے مسیح موعود نے آنا تھا اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہ کسی مومن مسیح کی 139 138-136 153 563 مومن کی ایک بنیادی خصوصیت ، رحماء بینھم اور اس پر عمل نہ 138 534 545 589 مسلمان ممالک کی حالت زار جہاں علماء اور حکمرانوں نے اسلام کرنے کی وجہ سے مسلم دنیا کی ابتر حالت اور ایمان کے نام پر اس بنیادی خوبی اور خصوصیت کی پامالی کی مومن ایک جسم کی طرح ہیں ہے جو مومن کی بیان ہونی ہے ، رحماء بینھم آپس میں رحم کوئی شریر گالی دے تو مومن اعراض کرے پاکستان میں قتل و غارت اور اسلام اور خدا کے نام پر ظلم و بر مومن کی زینت اُس کا لباس تقوی ہے مومنین کی جماعت دعاؤں سے ایک دوسرے کی مدد کریں 591 ہمیں کسی دنیا دار حکومت سے بھلائی کی امید ہے اور نہ ہی مسلمان حقیقی مومن کو اس دنیا سے زیادہ آخرت کی زیادہ فکر ہوتی ہے 601 کہلانے کے لئے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے 338 339 مومن سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے 613 دینی مدرسوں میں جہاد کے نام پر بچوں کی عسکری تربیت اور اسلحہ مومن کی نشانی ہے کہ اپنے عہدوں کو پورا کرے 614 کا استعمال جو سب مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے 239 مومن کا جو معیار ہے اُس سے گر جائے تو اعمال کی اصلاح بھی بریت ، مصر ، عراق و غیره 532 نہیں ہوگی مسلمان کون ہے؟ مسلمان ممالک کو امت مسلمہ کے مفادات کی فکر کرنی چاہئے 513 مہمان، مہمان نوازی حقیقی مسلمان کے اوصاف 458 عہدیداران میں مہمان کی عزت کا وصف ہونا 702 233
خطبات مسرور جلد 11 مہمان اور میزبان مهمان نوازی کا ذکر احادیث میں 28 475 475 کی قائدانہ رہنمائی اور نصیحت مضامین 338 جماعتی انتخاب کے لئے عہدیداران اور افراد جماعت کے لئے مہمان نوازی کے حوالے سے میزبان کی ذمہ داریاں 469 تا 480 ضروری نصائح 4790472 234 223 231 571 جلسہ سالانہ اور مہمان نوازی جماعتی اموال کو احتیاط سے خرچ کریں مسیح موعود کی مہمان نوازی کا معیار 472 تا 474 سچائی کے معیار کے حصول کی نصیحت جلسہ کے دنوں میں مہمان نوازی کی صفت بہت نمایاں ہونی مسیح موعود نے بار بار اپنی جماعت کو یہ نصیحت فرمائی کہ تقوی چاہے میراتھن 549 میراتھن (امریکہ ) میں ہونے والا دھما کہ اور اسلامی تنظیموں کے خلاف الزام.....گو کہ ان کی طرف سے انکار ہوا 239 نبی / نبوت 601 پیدا کرو اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھو جب تک ایک موضوع پر مسلسل نصیحت کی جاتی رہے اکثر لوگوں پر اثر رہتا ہے نکاح 683 نکاح میں پڑھی جانے والی آیات ، ان کے انتخاب میں حکمت اور نصیحت احمدی پر احسان کہ اللہ نے اسلام کی تجدید، آنحضرت صلی اما اینم نماز کے پیغام کو آگے پہنچانے کے لئے مسیح موعود کی نعمت، نبوت کی نماز کی اہمیت نعمت ، قبول کرنے کی توفیق ملی 266 نمازوں کی ادائیگی ،افادیت اور اہمیت 263 306 289 یہ کہنا کہ کسی مجدد ، مصلح، مسیح ، نبی کی ضرورت نہیں ، یہ غلط ہے پاکستان کے احمدیوں کو نصیحت ،نمازوں میں ان دعاؤں کو خاص 241 161 ( زمانہ کی ضرورت ہے) جگہ دیں، ربنا اتنا.....ربنا لا تؤاخذنا ار کوئی نبی زندہ رہنے والا ہے تو حضرت محمالی ایم ہیں نہ کہ عیسی 383 384 صبح کے وقت تازہ دم ہو کر کام کرنے کے بہترین نتائج ، ان لوگوں کی طرح نہیں جو ساری رات یا دیر تک انٹرنیٹ یا ٹی وی پر 656 نبی اور موعود خلیفے روز روز نہیں آتے خدا تعالیٰ آنحضرت کی غلامی میں نبی بھیج سکتا ہے 678 بیٹھے رہتے ہیں، نماز بھی ادھ پچڈی نیند کے ساتھ ادا کرتے ہیں، دوسرے کاموں میں کیا برکت ہوگی نجات نجات پانے کے حضور سی ایم ایم کی حضرت معاذ کو نصیحت 524 جلسہ کے دوران نمازوں کی پابندی نصیحت 165 485 زمانے کے امام کے انکاری کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی 565 شیطان نماز پڑھنے والے کے دل میں خیال پیدا کرتا ہے 573 احمدیوں کو اسلام کی حسین تعلیم پر خود عمل پیرا ہونا ہوگا ، اپنے قول و پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت کریں 252 587 فعل کے ساتھ رات کا کھانا زیادہ کھایا ہو تو صبح فجر کی نماز پہ نہیں اُٹھ سکتا 593 امانت اور عہدے کا حق ادا کرنے کے تقاضے، ضروری نصائح اور نمازوں کے اوقات میں اذان کی آواز میں موبائل میں ہی رہنمائی.......261 الارم بج جائے 600 پاکستان کے احمدیوں کو نصیحت ، نمازوں میں ان دعاؤں کو خاص باجماعت نمازیں ہی مسجد کی تعمیر کی اصل غرض ہے 601 اگر خدا تعالیٰ کے باقی احکامات کی ادائیگی پر عمل نہ ہو تو نمازیں جگہ دیں، ربنا اتنا.....ربنا لا تؤاخذنا 161 پاکستان میں نئی حکومت اور ایک احمدی کا اظہار فکر، امام جماعت بھی کوئی فائدہ نہیں دیتیں 655
خطبات مسرور جلد 11 29 اگر ماں کو بچہ دیکھتا ہے نماز میں ست ہے اور باپ گھر آ کر وقف نو مضامین پوچھے کہ نماز پڑھ لی ؟ تو کہہ دے کہ ابھی نہیں پڑھی پڑھ لوں گی مختلف ممالک کے جامعات میں واقفین نو کی تعداد کا گوشوارہ 35 تو بچہ کہتا ہے کہ یہ تو بڑا اچھا جواب ہے دوکان داروں کو نماز پڑھنے کی تلقین نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں نماز کی اصل غرض اور مغز دعا ہی ہے 690 701 541 541 واقفین نو کے لئے ضروری امور (1) اپنے قول و فعل کو اللہ کی رضا کے مطابق بنانے کی کوشش (2) والدین کے احسان پر دعا (3) صبر و استقامت کا عہد (4) نیکیوں کے پھیلانے والے گروہ میں شامل (5) قرآن، حدیث، کتب حضرت مسیح موعود کا مطالعہ (6) عملی طور پر تبلیغ کے میدان میں (7) انسانیت کو تباہی ز ودنویس، خلفاء کے بعض خطبات اور تقاریر کے نوٹس مکمل طور پر سے بچانے کا جذ بہ اور دعا نہ لے پائے نیت 118 3937 واقفین نو کے لئے بعض بنیادی ہدایات اور اصولی رہنمائی 34 تا 45 ساتوں آسمانوں سے گزر کر اللہ کے حضور پیش ہونے والے کے اعمال جامعہ احمدیہ میں جانے والوں کی تعداد واقفین نو میں کافی زیادہ ہونی چاہئے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی نیت کے کھوٹ کی وجہ سے رڈ کر دئیے 524 نیکی حقیقی نیکیوں کے حصول کے لئے اسوہ حسنہ نیکی سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے 525 489 والدین والدین سے احسان کا سلوک 4230420 وقف نو کا خوبصورت ایمان افروز سلسلہ ووٹ ووٹ دینے کے آداب اور ذمہ داری یتیم 35 33 224 والدین سے احسان کے سلوک کے متعلق ارشادات حضرت مسیح موعود وطن 423.422 کمزوروں اور یتیموں کے حق اور پرورش کے بارے میں 436.435 حضرت مسیح موعود کے ارشادات یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ 433 تا436 یواین او وطن عزیز کی حالت زار ، اس کے لیڈر ملک کو تباہی ، آزادی کہیں یو این او 512.511 محکومیت میں نہ بدل جائے وطن سے محبت کرو کیونکہ یہی اسلامی تعلیم ہے وقف جدید وقف جدید کے سال نو کا اعلان اور گوشوارہ 8.7 694 12 یوم مسیح موعود 23 مارچ یوم مسیح موعود کے حوالے سے حضور کی صداقت ، تائید الہی اور امام کی ضرورت کے ثبوت 187 117
خطبات مسرور جلد 11 30 اسماء اسماء 61 لے کر آنا ہے 211 203 حضرت محمد مصطف من عام 381 1380 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ آپ کا حجتہ الوداع کے موقع پر فرمان 40 ,387396,397,403 386 آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آپ کے جھنڈے تلے بھٹکی ہوئی دنیا کو بھی ,407,421,422 ,404,406 علاوہ اور کوئی نہیں جو دکھا سکے ,423429,436,438,439 آنحضرت سال یا اسلام کی ولادت منائی جا رہی آپ نے کسی کو سب سے بڑی نیکی یہ بیان ,449 444 443 442 440 ہے لیکن آپ کی تعلیم کا اظہار نہیں ہورہا 60 فرمائی کہ تہجد پڑھا کرو 459 458 457 456 450 آنحضرت صلی ا یہ ان کا صحیح چہرہ دکھانا اور آپ پر اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک ,483 478 477 476 463 لگائے تمام الزامات کو دور کرنا یہ حضرت مسیح دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے ,486,488,493,497,498 موعود کا ہی کام تھا ,516 ,507,513,514,515 آنحضرت مصلا لا یہ ان کا معجزہ شق القمر 71 آپ نے فرمایا کہ یہ بھی تو ہے کہ ملکہ کو کوئی فتح ,5192021,522,523 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نہیں کر سکتا میں نے اس کو فتح بھی تو کر لیا 23 5242531532534 خدائے تعالیٰ مجھے قبر میں میت رہنے آپ نے مسیح موعوکو اپنا ایک بازو قرار دیا ہے ,535537545,457,555 نہیں دے گا اور زندہ کر کے اپنی طرف اُٹھا 565, 573, 574, 586, 592, 69 تلے نہیں آجاتی 39 185 72 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے 76 طرح برس رہے ہیں 46 181 ,610 ,608 ,602 ,601 ,600 | آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی لئے ہزار ہا نشان ظاہر فرمائے ہیں جو بارش کی ,611,623,627,643,644 | دعا کی حاجت نہیں 52 51 50 647,649 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ایک آنحضرت نے مسیح کو اُس کو عالم کشف میں ,653,659,660,661,662 مومن مسلمان کے لئے لازمی امر ہے 74 خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا ,668,669 65 64 663 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تاثیر ان کے آپ نے جنگ میں بھی معصوموں ، بچوں ، ,674,677 ,73 71 670 دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ عورتوں ، بوڑھوں، راہبوں کو نقصان پہنچانے ,684 ,682 ,680 ,197879 میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سر کٹائے 69 سے منع کیا ہے ,685,688,708,709,712 آپ نے فرمایا کہ کسی چیز میں جتنا بھی رفق اور آپ امن کے وہ پیغامبر ہیں جس کی مثال دنیا نرمی ہو اتنا ہی یہ اُس کے لئے زینت کا میں کہیں نہیں ملتی 713, 714, 715, 717 240 340 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی موجب بن جاتا ہے 144 آپ نے فرمایا کہ میں روزے بھی رکھتا آپ کے ارشادات کا حقیقی ادراک تقویٰ ہوں، افطار بھی کرتا ہوں 144 365 141 آپ کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے نرمی کرنے والا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے داہنے ہاتھ سے ملتا ہے کو اپنے داہنے دست مبارک میں پکڑا اور فرمایا تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اسے کہ مکالمات اور مخاطبات الہیہ کے دروازے فرمایا کہ کہو، الله ربي 55 اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا 144 کھلے رہیں 68 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے آپ کا جھنڈا اب دنیا میں مسیح موعود کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ 64 غلاموں نے لہرانا ہے 307 | نبی آنے والا ہے جو ہٹتی نہیں 69
خطبات مسرور جلد 11 31 اسماء آپ کے پیغام کو کوئی اہمیت نہ دے کر یقینا یہ | احمد دین صاحب حضرت توہین رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں 140 احمد دین صاحب حکیم 79 101.90.89.88.87.86 105.104.102 107 سب نبیوں سے افضل وہ نبی ہے کہ جو دنیا کا احمد دین صاحب منشی 54 | انجم پرویز 64 احمد صاحب میاں مربی اعظم ہے جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اشیر علی 506 | انجمن نعمانيه 383 انس حضرت 505 ڈاکٹر اوڈالف کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے اظہر احمد صاحب مرزا.صاحبزادہ 240، 248 | اوباما 64 اعجاز احمد صاحب 694 667 145.143 28 374 ہزار با درجہ بڑھ کر ہے آنحضرت کی سیرت پڑھتے ہیں تو صبر کے اعلی اعجاز احمد کیانی صاحب 526,640 ڈاکٹر اور ہام (Orham) صاحب 379 ترین معیار ہمیں نظر آتے ہیں 336 اعجاز حسین صاحب 361 ذکاء اللہ صاحب شیخ 399 وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی اعجاز صاحب چوہدری 206 اوصاف علی خان صاحب کرنل 248 انسان کامل کو 65 اعزاز احمد کیانی آئی آر شار صاحب آغا یحیی صاحب 10 اعزاز کیانی 29 اللہ دتہ صاحب مکرم آدم بن یوسف صاحب اللہ دتہ صاحب حضرت اللہ دتہ صاحب حضرت میاں اللہ دتہ صاحب ماسٹر آدم کلو بالی صاحب اندرادیوی آدم 504 559 631 575, 576 527 ایا د عودہ صاحب 640 ایوب بیگ صاحب مرزا با بونذیر احمد صاحب بارعه حامد 527 92 96 399 22 6 380 57 361 349 بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ 110، امام الدین صاحب سیکھوانی حضرت 85 بشیر احمد صاحب چوہدری ابراہیم حضرت 108، 126 ، 1 13، امام مالک 135، 152، 159، 189، 198 ، اماں جان حضرت 346.284.202.200 ابن العربی شیخ ابن حزم ابن مسعود حضرت 180 ام ناصر حضرت امتیاز عدنان صاحب 184 لته الی بیگم صاحبه سیده 96 184 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد لمصلح الموعود رضی اللہ عنہ 581 248 103.101.100.98.89.50.43 360.114.113.112.110.107.106 548 ,401,400,399.248.247.140 ,529,528,509,508,437,425 528 ,657,655,618,582,581,548 581 48 ,665,664,663,661,660,659 48 ,687,683,671,668,667,666 28 ,698,697,696,692,691,688 238 714,706,705,701 23 145 امتۃ الرشید بیگم صاحبزادی 49 5548 ابوبکر حضرت 92 ، 140 ،112، 463 ، امتہ اللہ فہمیدہ صاحبہ 713.712.663.662 امتہ المتین صاحبه صاحبزادی ابوذر حضرت 515 | امیر اللہ احمدی ابوسعید حضرت 513 | امیر اللہ خان صاحب حضرت ابو جہل 126 ، 127 | امیر بخش صاحب حضرت ابوزیدی صاحب 385 امیر تیمور ابوہریرہ حضرت 145 ، 146 ، 204، امیر حسین صاحب سید.قاضی 513.478 احسان اللہ صاحب احمد امیر خان صاحب حضرت 26 ، 52،27، حضرت مصلح موعودؓ کا فرمانا کہ میرے 58 79 نزد یک مغرب سے سورج نکلنے میں امریکہ کی 693،53 امیر محمد خان صاحب حضرت ،84، 85، نسبت تعلق ہے، ہمیں خاص طور پر امریکہ میں
خطبات مسرور جلد 11 32 اسماء تبلیغی پروگرام بنانے چاہئیں 326 پیرا 129 | خضر حضرت مصلح موعودؓ کا ایک خطبہ اور اس کی پر تو نگر علی عباسی صاحب 161 | خلیل احمد صاحب ڈاکٹر 118 | تانیہ خان عزیزه 467 خدیجہ حضرت 26.25 147 659,660 معارف تشریح حضرت مصلح موعود کا اپنا زمانہ بڑا سخت اور تراجہ ایمیلیا (Traja Emilia) صاحبہ 378 خلیفہ اول حضرت نیز دیکھئیے حضرت حکیم نور تورے علی (Toure Ali) صاحب 494 | الدین 656 ,549,641,655 پریشانی کا دور تھا 100 698 526 حضرت مصلح موعود کا فرمان ہفتوں اور دشمنوں تھیولوجین (Theologian) 381 کی شرارتوں سے گھبرانا ہمارا کام نہیں 114 ثوبیہ صاحبہ 144 خلیفتہ اسیح الثالث حضرت نیز دیکھئے حضرت احمد 401,549,653 مرزا ناصر احمد میں صحابہ کی روایات ورڈ یا 100 جان محمد صاحب ، حضرت میاں 24 خلیفہ اسیح الثانی حضرت نیز دیکھئیے مرزا بشیر 403 404 | الدین محمود احمد 504,382,383 حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے بارے جابر حضرت حضرت مصلح موعودؓ کی کتب پر فضل عمر جبرائیل فاؤنڈیشن کا کام اور اس کی تفصیل 117 حضرت مصلح موعود کے علمی و تصنیفی کارناموں جمال دین صاحب جلال الدین صاحب ، حضرت مولوی 22 104 549,653, 695 جواد کریم صاحب کی تفصیل، انوار العلوم وغیرہ 117 جموعی توفیق صاحب حضرت مصلح موعود کے متعلق صحابہ کی بیان جمیلہ رحمانی صاحبہ فرمودہ روایات اور ایک حسین اتفاق یا جنادہ بن امیہ مصلحت الہی 100 جواد احمد مصلح موعود نے تحریک جدید کی بنیاد رکھی 618 بے بی داؤ د ا صاحب دعوی مصلح موعود سے پہلے کا ایک واقعہ 657 چراغ محمد صاحب ماسٹر 361.360 383 529 515 خلیفہ اسیح الرابع نیز دیکھیئے حضرت مرزا طاہر 549, 633, 653 خیر دین صاحب 103،91، 112،110 دامیبا بیا ترلیس صاحبہ (Damiba Beatrice 492 506 دانتے ارنستو گارسیا صاحب ( Dante (Ernesto Garcia 493 28 داؤد علیہ السلام حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ عملی اصلاح کی طرف توجہ 671 ظفر اللہ خان صاحب 635636666 در عدن اعجاز عزیزه مصلح موعود نے ربوہ کے دکانداروں کو یہ حامد شاہ صاحب سید نصیحت کی کہ تم منافع کم لو تو تمہارے پاس حارث صاحب، شیخ 665 دروزیوں ( قبیلے کا نام ) 30 دین محمد صاحب حضرت مستری 26 گا ہک زیادہ آئیں گے 701 | حامد سمیع صاحب چوہدری 347 ذکر یا رائگی صاحب 8 498 389 527 508 باخماخوذ صاحب با ئیرم برہان احمد عمر 384 | حامد علی صاحب 49 | راجہ عبدالرحمن 526 379 حبیب الرحمن صاحب 21 را شده اعجاز صاحبه محترمه 506 527 | حذيفة رم 29 25 9 راسخ احمد 349 بشیر احمد کیانی صاحب مکرم 526 حسن امام بشیر الدین اُسامہ صاحب ڈاکٹر 653 حسن توفیق صاحب بشیر الدین عبید اللہ حافظ محترم 549 حسین امام رباب طاہرہ عزیزه 505 رحم الدین صاحب حضرت 104 25 | رحمت اللہ صاحب حضرت 48 بشیر کیانی صاحب 481,639,640 خالد احمد البراقی مرحوم 692693 رحمت اللہ صاحب مکرم 528 بن طیب ابراہیم ( Ben Tayab | خالد سیف اللہ صاحب 579 | رحمن صاحب 10 496(Ibrahim خان محمد خان صاحب حضرت 248، 249 رزاق احمد صاحب مکرم ملک 505 پنڈت لیکھرام 668 خدیجه مبشر 126 رشید الدین صاحب ڈاکٹر خلیفہ
خطبات مسرور جلد 11 131.130.49 رضوان طاہر عزیزم 505 رضیہ کریم دہلوی صاحبہ 361 روند رسنگھ صاحب زویمر پادری 130 131 323 33 رض شریف احمد صاحب" مرز احضرت 399 عبادہ بن صامت 515 شفیق الدین صاحب مکرم سید 528 عباس حضرت 714 شکیل احمد منیر صاحب 633 شہباز کیانی 640 عبد الحئی خان صاحب چوہدری 57 عبدالحئی شاہ صاحب سید 99 شیطان15540569572573 عبدالرحمن صاحب حضرت 98،97 زید بن وہب حضرت 514 575, 576, 590 ساجده بشیر 640 شیعہ 509 عبد الرحمن بن عوف حضرت 126 ، 127 عبدالرحیم صاحب نیر ، مولوی 83 سانی نو وہ (Sani Novho)496 شفیق احمد صاحب ملک 29 عبدالرحیم احمدی صاحب 12 سردار احمد شاہ صاحب حضرت 162 شیر علی صاحب حضرت مولوی 83 عبدالرحیم صاحب چوہدری 348، 51 348 سردار بیگم صاحبہ سردار محمد بھروانہ صاحب 115 سرفراز 481 صالح سیمی 383 صبا حامد صاحبه صبوحی عثمان 505 سرخی او سے لیس صاحب ( Sergio | صفوان جواد 499(Celis 349 361 عبدالرشید شر ما صاحب شیخ 400 399 عبدالرحیم شر ما صاحب حضرت 399 عبدالستار صاحب حضرت 92،87 عبدالسمیع خادم صاحب چوہدری 347 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح عبد السميع عمر صاحب میاں 641 سعید احمد خان صاحب حضرت 248 الرابع 41.34.30 326.294.195.192.190 عبدالشافی بھروانہ صاحب 116 عبدالعزیز صاحب میاں 51 اسماء سعدی 545 سعید کا کو صاحب 562 سلطان 78 سلطان حامد صاحب مولوی 17 سلطان بی بی صاحبہ محترمہ 399 طاہر ندیم صاحب 80 عبد العزیز صاحب 559 طاہر احمد صاحب ڈاکٹرسید 504 عبدالغفار ڈار صاحب 98،97 طاہر ندیم صاحب 693 طاہرہ طاہر صاحب سیدہ 505 سلطان محمود شاہد ڈاکٹر سید 163 طاہرہ ظہور کیانی 640 سلیمان صاحب سلیمان مغالی صاحب 8 11.10 طاہرہ ظہور کیانی صاحبہ 481 طلحہ جواد سوہنے خان صاحب حضرت میاں ظفر اللہ اسامہ صاحب 653 113.112.19 ستنی 509 عبد الغفور خان 109 عبدالغفور صاحب کیانی 639 عبد القادر ڈار صاحب حضرت 97 عبد الکریم شر ما صاحب مکرم مولانا 399 400 361 عبد الکریم صاحب حضرت مولانا مولوی ظہور احمد کیانی صاحب شہید مکرم 526 عبد اللہ بن عمر و حضرت 144 527 عبد الله سی آراے سی (CRAC)494 ظہور احمد کیانی مکرم 480,640 479 عبد الله التقم سیف الرحمان ملک محترم 549 ظہیر الدین منصور ڈاکٹر 550 سیف اللہ شاہ صاحب حضرت سید 54 شاہ نواز صاحب چوہدری 528 شاہدہ بشیر 640 شرافت احمد صاحب میاں 22 شروب 693 97.94.93.26 عالمگیر خان با بو 49.48 57.56 58 عبد اللہ بن مسعود حضرت 143،124 عبداللہ خان 87.85 عبداللہ خان صاحب چوہدری 528 عائشہ حضرت 404514،144 عبدالمجید خان صاحب ڈاکٹر 16 عائشہ بوتر ساس صاحبہ 564 عائشہ بیگم صاحبہ حضرت 399 عبدالمجید خان صاحب 248 عبدالمجید ڈوگر صاحب 28،27
خطبات مسرور جلد 11 34 عبدالحمید صاحب در ولیش مکرم 527 و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام اسماء بیعت میں آنے کے بعد اُس میں اللہ تعالیٰ کی عبدالرحیم احمد صاحب میاں 548 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا محبت بڑھے 220 عبدالشکور صاحب ڈاکٹر 399 کہ کوئی پاک نہیں بن سکتا جب تک خدا تعالی آپ بچے ہیں اور جماعت احمد یہ حق پر ہے 237 عبد الغنی صاحب کڑک ڈاکٹر 21 ، 107 نہ بناوے 265 حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو آنحضرت اور عبدالقادر صاحب عبداللہ بن مسعود 514 عثمان حضرت عرفانہ شکور صاحبہ 399 عروسه حامد 7 92 349 61 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اسلام کا دفاع کر رہے تھے اسلام میں حقیقی زندگی ایک موت چاہتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو تلخ ہے 264 مجھے جو کچھ بھی ملا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا وسلم کے طفیل ملا ہے 73 اے لوگو! خدا کی اور خدا کے نشانوں کی تحقیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے عطا محمد خان صاحب چوہدری 85 مت کرو اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو علم کلام سے اس قدر نہیں فرما دیا ہے کہ ہمارے عطا محمد صاحب حکیم 107 عطاء الله عطاء اللہ مولوی 245 27 49 کسی قول سے تبلیغ کے دوران نا انصافی اور ظلم کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اظہار ہو ہی نہیں سکتا 218 عطاء محمد صاحب حضرت شیخ 51 کہ پس نجات معرفت میں ہی ہے 336 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ دل آخرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کی طرف بکلی جھک جائیں اور اُن کے اندر عطية المجيب 481 عظیم صاحب عکرمہ نجمی صاحب 134 127 79 80.79 علاء نجمی صاحب علی احمد صاحب 658,658 عمران کیانی 481 عمر حضرت 663 ,662 عمر حضرت عمر احمد صاحب ڈاکٹر 399 عمر ڈار صاحب عمر سنگارےصاحب 560 22.16 97 اللہ تعالیٰ نے میرا نام غلام احمد قادیانی رکھ کر ہی خدا تعالی کا خوف پیدا ہو 365 بات کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ اس نام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تیرہ سو کا عدد پورا کیا گیا ہے 180 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا سے رکنا، یہ تقویٰ نہیں ہے 234 اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ہے کہ صرف چند نیکیاں بجالا نا یا چند برائیوں ضرورت ہے 208 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کا مطالعہ بھی ضروری ہے 218 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں جسے نصیحت کرنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اے وے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور وہ باتیں کیا کرو جو سچی اور راست اور ہوا سے زبان سے کرو 229 حق اور حکمت پر مبنی ہوں 350 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لنگر اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا دنیا میں تقریباً ہر جگہ پھیل چکا ہے 231 عمرو بن شعیب حضرت 143 کہ ہماری طرف منسوب ہو کر پھر ہمیں بد نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عمر و بن كلثوم 123 عمر و بن ہند 123 نہ کرو 253 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا افرمایا ہےلوگوں کے گناہ بخشو اور اُن کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کر و 143 حضرت عیسی 179، 180 ، 181 ، 182 ، | اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 383, 459, 546, 638, 669, 678, 679, 706, 716 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود چاہئے 209 اپنے خلاف اور اپنے والد کے خلاف گواہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا دے کر دنیاوی فائدے کو کوئی اہمیت نہیں دی کہ ایک سچے احمدی کی یہ نشانی بتائی کہ آپ کی تھی 257
خطبات مسرور جلد 11 35 اسماء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے | کتب اُن کی زبانوں میں ہیں اُن کو پڑھنے کی | سوا کچھ نہیں ہوگا ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت طرف توجہ ہونی چاہئے 38 63.62 یا رب فاسمع دعائی.....ملک کو بچانے کی ضرورت ہے 165 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود کی یہ الہامی دعا حضرت مسیح موعود کی طرف ہمیں دیکھنا ہو گا کہ فرماتے ہیں کہ خدا نے اپنے رسول نبی بھی پڑھنی چاہئے وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں 280 کریم کی اتمام حجت میں کسر نہیں رکھی 46 قرآن، آنحضرت مسیح موعود اور خلافت سب 170 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے حبل اللہ ہیں 210 کر کے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ دین کو دنیا پر ہیں اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دنیا پر احمدیوں کے دلوں میں آنحضرت کا عشق اور 266 مقدم کر لیتے ہیں اُن کے ساتھ وہ رافت اور مقدم رکھیں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا محبت کرتا ہے 14 کہ سمجھو کہ اسلام کی ترقی کی بنیاد مسجد بنانے حضرت مسیح موعود نے فرمایا مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال اُن کے ایمان پر سے پڑگئی 215 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مزارعین کے حق میں گواہی دینا 256 گواہی دیتے ہیں 288 آنحضرت صلی یا کریم کی شان اور مقام، دنیا میں یہ حضرت مسیح موعود نے پیدا کیا جو کامل عاشق صادق تھے 168 اسلام کا حقیقی پیغام اب آنحضرت سل اا اینم کے اس عاشق صادق مسیح موعود کے ذریعہ پہنچنا مقدر ہے 270 حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ یاد رکھو کوئی قائم کرنے کے لئے مسیح موعود کی بعثت 46 پاکستان اور ہندوستان کے کچھ علاقوں میں یا بعض افریقن ممالک کے چھوٹے قصبوں میں آدمی کبھی دعا سے فیض نہیں اُٹھا سکتا جب تک آنحضرت ساله ای بیانی کی شان اور مقام، حضرت مسیح موعود کے خلاف دشمنی کمینگی وہ صبر میں حد نہ کر دے 172 آنحضور سلام ایام سے عشق و محبت ، حضرت مسیح کا اظہارصف اول میں پاکستان کے نام نہاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے موعود کی تحریرات کی رو سے 63 تا78 علماء اور ان کی مذموم حرکتیں ( تصویر کی ہے ہیں کہ دعاؤں میں جوڑو بخدا ہو کر توجہ کی احمدیوں کے دلوں میں آنحضرت صلی شما اینم کا حرمتی) جاوے تو پھر ان میں خارق عادت اثر ہوتا عشق اور یہ عشق حضرت مسیح موعو نے پیدا کیا یہ کہنا کہ کسی حد مصلح ہی نبی کی ضرورت ، کی نہیں ، یہ غلط ہے (زمانہ کی ضرورت ہے 165 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کامل عابد وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے 167 جو کامل عاشق صادق تھے 168 169-167 حضرت مسیح موعود جو مشن لیکر آئے ، بندہ کو خدا ب) 241 سے ملانا اور بنی نوع انسان کے حقوق کی مسیح موعودا پنی جماعت کو کس معیار پر دیکھنا چاہتے ادائیگی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک ادا.371 تھے 536،535 عجیب جماعت پیدا فرمائی ہے جسے مالی قربانی مسیح موعود کی تائید میں ارضی و سماوی مسیح موعود کی مہمان نوازی کا معیار 474 472 کرنے میں عجیب راحت وسکون ملتا ہے 2 تائیدات 242 حضرت مسیح موعود علیہ اصلوۃ و السلام کی کتب حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تربیت کے لئے حضرت مسیح موعود کی کتب کا سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہو سکتا تائید ایک نبی کی تائی تھی.....271 ضروری ہے 460 ہے 41 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب جو مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں ، جو جو زبان آتی ہے اُس میں پڑھیں 43 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو جو حضرت مسیح موعود کی وفات پر دشمنان حضرت مسیح موعود کو ماننا کیوں ضروری احمدیت کی انسانیت سوز حرکات 297 ربوہ میں عید میلاد کا نکالا جانے والا جلوس، جس میں حضرت مسیح موعود کو گالیاں دینے کے ہے 457تا460 حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض 457-455
خطبات مسرور جلد 11 آنے والے موعود کی کل علامات پوری ہوگئی | قیصرہ بیگم صاحبہ ہیں 459 36 کارل ہائنس استاد 381 آج مسیح موعود کے حق میں خدا تعالیٰ کی تائید و کامران کیانی 481 نصرت کے نظارے 538 248 اسماء محمد احمد دہلوی صاحب حکیم 361 محمد احمد صاحب 583 محمد احمد واجد عزیزم 639 کا ئیفل تو ریس صاحب ) JussufCaifl محمد اسماعیل صاحب حضرت 19، 498(Torres آپ کے آنے کا مقصد اللہ تعالی پر ایمان کرم الہی گرد اور منشی قوی کرنا ہے 552 ے تعلق پیدا ہو 561 غالب جابر صاحب 628 اور 17 581.93 محمد اسماعیل صاحب حضرت شیخ 101 48 محمد اسماعیل صاحب کرم الہی صاحب ظفر ، مولوی 212 مسیح موعود کی بعثت کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کرم داد خانصاحب حضرت 399 محمد افضل صاحب حضرت مرزا 47، 90 کرم دین محمد اکرم قریشی صاحب 639 کریم احمد دہلوی صاحب 360 محمد جلال الدین صاحب مرزا 90،47 محمد جلال الدین صاحب منشی 47 غلام احمد خان صاحب چوہدری 56 کشن لال 399 غلام احمد فرخ صاحب ڈاکٹر 582 غلام حسن صاحب بھٹی 16 کنول جیت سنگھ 634 کیتھولک 441 غلام حسین صاحب پشاوری 110 غلام رحمانی صاحب 529 گار با ابراہیم صاحب گارڈن پادری 21 9.8 130 محمد حسین 109 129 محمد حسین بٹالوی مولوی محمد حسین بٹالوی مولوی 667,668 669 غلام رسول بسراء صاحب، چوہدری 506 50 لال دین میاں 16، 17، 18 محمد حسین شاہ صاحب ڈاکٹر سید 109 غلام رسول صاحب غلام رسول صاحب را جیکی 93، 109 ، لالہ بھیم سین 659 188 غلام محمد صاحب، صوفی 187 فاطمہ 665 مارٹن کلارک 667 مارک محمد حسین صاحب بٹ 108 محمد حسین صاحب حضرت حکیم 360 ماؤنٹے بیلو ( Mark محمد دین صاحب حضرت مولوی 399 Montebello) عیسائی پادری 382 محمد رمضان بٹ صاحب 97 ماؤری ٹی وی ، Te Karere ٹی وی ون محمد سعید کیانی صاحب مکرم 26,640 فاطمہ اُسامہ صاحبہ محترمہ 653 637 محمد سعید کیانی صاحب مکرم 480,640 فاطمہ بشیر کیانی صاحبہ محترمہ 640 فائقه ظهور 481 ماه نور اعجاز عزیز 506 مبارک شیخ 400 19 فتح علی شاہ محمد سمیر صاحب 316 محمد شاہ صاحب حضرت سید 57 مبارک مصلح الدین احمد صاحب ،187، محمد صادق عارف صاحب 161 فتح محمد صاحب چوہدری 90،89 فخر الدین صاحب فرحان طاہر 505 107 191.190.189 محمد طفیل خان صاحب حضرت ڈاکٹر 58 مبشر احمد عباسی صاحب 161 محمد ظہور الدین صاحب حضرت میاں 82 فرحت اللہ صاحب شیخ 529 فضل الہی صاحب حکیم 504 مجتبی طاہر 505 محبوب عالم صاحب منشی 108 محمد عبد اللہ صاحب حضرت 48 فضل الہی صاحب مولوی 23 محفوظ الرحمن صاحب چوہدری 247 فضل دین صاحب مولوی 667 محمد ابراہیم بقا پوری صاحب حضرت مولانا قاراقل اسماعیلو صاحب 383 قمر الدین صاحب خواجہ 108 400 محمد علی مولوی 104،102،91،26 102 محمد عمر صاحب حکیم محمد فاضل صاحب حضرت 51 محمد موسی صاحب مستری 109 محمد ابراہیم صاحب حضرت میاں 53 محمد موسیٰ صاحب حاجی 108
اسماء 37 خطبات مسرور جلد 11 محمد یار میاں محمد صاحب ملک میر محمد یوسف صاحب موسی حضرت 179 ،180 ، 458،389، | نور محمد صاحب 18 459 29 161 موسیٰ دمیوجسٹس 493 نور الصباح 481 نور الحق 480 479 محمد یوسف صاحب ڈاکٹر 111 مولوی رحمت علی صاحب حضرت 399 نورامین 481 محمد یوسف کیانی صاحب مکرم 2640 مؤمن طاہر صاحب محی الدین صاحب مکرم سید مرحوم 528 مہاشہ محمد عمر 18 80 111 51 و درا گویعقو بو صاحب امام مسجد 555 وجیه کنول 640 مراد باغبان مریم صدیقہ صاحبہ حضرت 581 میراں بخش صاحب میاں 19 ، 21، 50 ہانی طاہر صاحب میر محمود احمد ناصر صاحب 581,582 هبة الجواد مہدی علیہ السلام امام 558559 وسیم صاحب، چوہدری 248 80 361 مزمل الیاس عزیزم 641 حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفہ اسیح الخامس | میمونہ صوفیه صاحبه استانی 549 یعقوب بیگ صاحب ڈاکٹر 108،49 ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 315 ،318 ، مہینے ساکی ہیرو کو ( Minesaki | یعقوب علی صاحب عرفانی شیخ 101 ,403,413,427 ,373,389 Hiroko) صاحبہ 499 یعقوب احمد صاحب مکرم ملک 506 505 ,440,454,469,482,490 | نادر بخش 162 لوسف ثانی 84 ,507,519,530,537,567 نادر بخش عباسی صاحب 161 یوسف کیانی صاحب 640 480 ,155849607,623,632 حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ ایسی | Dr.John صاحب 632 خلیفة المسیح 642,654, 671, 695, 708 91 79 الثالث 170.162.247.28 ناصر الدین صاحب حافظ 189 رور ناصر علی رضا صاحب مسعود الحسن نوری صاحب 192 ! ناصرہ سلیمہ رضا صاحبہ مسیتا صاحب شیخ مصطفیٰ ثابت صاحب 93 80 ناہیده طیب 640 نبی اکرم 383 8 Abdullah Balajo 8 Baacoungou Adama 314Barbara Goldberg 232Christian Beckter 6 Compore Saeed 147 146 Dana Rohrabaker 318.316 96 Facine Conde 317Dr.Fred 317 Jan Chase 95 Kerifa Conde 316 Rachel Moran 96 Siwili Douno 460alislam 628Murray Lobley Concetta Fierravanti Wells 630 628 Adrienne Green مظفر شیخ 400 عاد حضرت ندرت ملک صاحبہ 529 24 20 19 نسیم رحمت اللہ صاحب ڈاکٹر 529 نصیر احمد انجم صاحب مکرم 399 مفتی محمد صادق صاحب 641 مقيت أسامه 653 ملیحہ انجم عزیزه 399 من میت بھلر صاحب 323 نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت ام المومنین صاحبه 106.105 نعمت خان صاحب حضرت 110 منشی عبد العزیز او جلوی رضی اللہ عنہ حضرت نواب محمد علی خانصاحب حضرت 248 399 منظور احمد صاحب ڈاکٹر سید 504 حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اصیح الاول 90،89،87،85،49،48، 103 102 101.94.93.92 248 نو از صاحب شہید مکرم 506 منظور اعجاز عزیزم 506 منظور نادر صاحب 499 منیر عمر صاحب 641
اسماء 638 38 625 Mr Kunto Sofianto (website scoop) 637 ABC News 625 Mr.Lee Koon Choy 625 Mr.Ida Rosyidah 633 Maori خطبات مسرور جلد 11 634 Anglican Church 631 Mr.Claus Grimm 631 Mr.Ralph Grimm 627Ms Inga Peulich 635 Mr Yoshiaki 637 National Radio ABC Miss Sels Annie 499 Maria
خطبات مسرور 11 آزاد کشمیر 526 39 مقامات مقامات اسلام آباد 13 ، 189 ، 470 ، 620 مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے ان لینڈ امپائر 621 اسلامیہ کالج لاہور آئیوری کوسٹ 13 ، 494 ،560 اشبیلیا 715 آندھرا پردیش 10 ، 14 ، 621 آئر لینڈ 388 6 افریقہ 162 201 سوالات کرنا 341 امریکہ اور دیگر ممالک میں تبلیغ اور دعوت 2 ،5 ،13،7 ،33، 35 الی اللہ کے لئے رہنمائی اور ہدایات.169.109.95.40.38.36 383, 400, 496, 531, 620,648 276.275 حضرت مصلح موعودؓ کا فرمانا کہ میرے آئس لینڈ 378 آسمان 419 آٹو 6211 آسٹریا 377,492 آسٹریلیا 12، 33، 225،36،35، 537, 567, 579, 580, جلسہ سالانہ آسٹریلیا کا آغاز 537 حضور انور کا دورہ آسٹریلیا 619 آسنور ( مقبوضہ کشمیر) 97 نزد یک مغرب سے سورج نکلنے میں افغانستان 242،240،137 امریکہ کی نسبت تعلق ہے ، ہمیں خاص طور البانيا 378 امباله امرتسر 8 687.58.23 امریکہ 12، 14 ،36،35،33،29،.239.225.147.111.40.312.278.277.275.270.326.324.321.316.313 457, 465, 363.340.327 467, 512, 529, 550, 580, 582, 583, 619, 620, 621,648, 653, 709, 14 آندھرا پردیش (Auckland) آکلینڈ,596 634, 638 پر امریکہ میں تبلیغی پروگرام بنانے چاہئیں 326 میراتھن (امریکہ ) میں ہونے والا دھما کہ اور اسلامی تنظیموں کے خلاف الزام...گو کہ ان کی طرف سے انکار ہوا 239 امریکہ ، کہا بیر اور جرمنی کے جلسہ سالانہ کا افتتاح امریکی سفارتخانے 528 363 انڈونیشیا 40،12، 530,242 531, 532, 534, 559, 619, 624, 625, 674, 718 آفن باخ 621 آلاڈا اتر پردیش اٹلی 382,492 ارلز فیلڈ 6 14 13 حضور انور کا دورہ امریکہ و کینیڈا، غیر معمولی انڈیا 10، 91،35،14،12، 122، برکات، اسلام کی تعلیم و تعارف پریس 471,565,619,620,621 327.311 624,659 حضور انور کی طرف سے یورپ، امریکہ انگلستان 475،225 اڑیسہ 14528,621 اور برطانیہ میں ( پریس اور سفارتی سطح انگلینڈ 495 اسٹونیا 378 اسرائیل 11634 پر) اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرنا ، ان اورنگی ٹاؤن کراچی 479,505 لوگوں کا جماعت احمدیہ اور دوسرے | 526639
خطبات مسرور 11 اوکاڑہ 620 اہرانہ ایڈمنٹن ایران ایران 634 ایسٹ افریقہ 400 مقامات 89 40 648.620.555.492 530, 532 621،14 برمنگم برمنگھم سینٹرل 621،13 بیت الفتوح 621.13 بیت الفتوح مسجد 373,389,403 242 برمنگم ویسٹ برنی کونی برونائی 624 ایسٹ مڈویسٹ ریجن امریکہ 529 بریمپٹن ، کینیڈا ایشیا بادن بٹالہ بدر بدین 620 برازیل برٹش کولمبیا 33 ، 35 ، 36 | بلغاریہ 378 14 بلقان 379 413, 427, 440, 454, 469, 490, 507, 519, 623, 642, 654, 671, 682, 695, 708 13 5 11 بيت المسر ورمسجد 584 بیت المقیت مسجد 596,605 633, 634, 637 بیت النور کیلگری (کینیڈا) 296 18 ، 47، 129،83،51 بلو گڑھ دہلی (بھارت) 360 بیت الہدای537567 47 بنگال 621 بنگلور 14 بنگلہ دیش 35، 40، 95،94، 139 ، 30 192.189.188 284.283 بیرک مالستری 24 بيروت 145 ، 151، 215، 298، 353.330.300.299 بيلجيئم 383 ,12,378,380 برٹش کولمبیا ( کینیڈا) میں تعمیر مسجد، تفصیلات 283 بنگلہ دیش اور برطانیہ کی جماعت کے قیام 3388,496,499,500 برزبن ( Brisbane)631 ,584 پرسوسال پورے ہونا ، ان کے پروگرام، بین 13،8،6، 620،492،491 بنگلہ دیش کے جلسہ پر مخالفین کا حملہ بے پوائنٹ برسلز 496 برطانیہ 12، 13، 14، 122،94، 95-94 400, 470, 475, 619,.324 620, 621, 634 پاپوا نیو گنی 624 276 پاکستان 2 ، 12 ، 13 ،40،35،33، 48.142.137.122.91.79.42 324.318 385, بوسٹن حضورانور کی طرف سے یورپ، امریکہ بوسنیا 386 اور برطانیہ میں ( پریس اور سفارتی سطح بہاولنگر 620 پر) اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرنا، ان بہشتی مقبرہ قادیان بھارت لوگوں کا جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے بھیج شریف سوالات کرنا 341.163.162.161.160.153.220.188.169.168.167.337.318.247.240.237 428,.361.349.340.338 187 14 438, 448, 469, 471, 487, 21 بیت الاحد مسجد 609,617 بنگلہ دیش اور برطانیہ کی جماعت کے قیام بیت الحمید پرسوسال پورے ہونا، ان کے پروگرام بیت الدعا 95-94 503, 516, 526, 529, 531, 563, 582, 594, 595, 617, 374, 375 170 619, 639, 675, 687, 700, بیت الرحمن وینکوور ( کینیڈا) 283، 702,703,718 بورکینا فاسو برکینا فاسو 322 13.8.7 رب فاسمع دعائی.....ملک کو
خطبات مسرور 11 41 بچانے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود کی اظہار فکر، امام جماعت کی قائدانہ رہنمائی | تاجکستان 496،378 یہ الہامی دعا بھی پڑھنی چاہئے تا کہ شر اور نصیحت 338 تا سک ملا یا 625 پسندوں کا خاتمہ ہو ملک کی شریف آبادی پاکستانی احمدیوں کے لئے فکر اور دعا کی تامل ناڈو 621،14،10 ان شر پسندوں کے شر سے محفوظ تحریک 170 338 ترک 386 مسلمان ممالک کی حالت زار، علماء اور ترکمانستان 497 مقامات 185.12 پاکستان میں جگہ جگہ دہشت گردی کی آگ حکمرانوں نے اسلام اور ایمان کے نام پر اس تیر کی کے پھندے، دعا کی ضرورت 156 بنیادی خوبی اور خصوصیت کی پامالی کی ہے جو تعلیم الاسلام کالج قادیان 162 مومن کی بیان ہوئی ہے یعنی رحماء تعلیم الاسلام کالج لاہور 188، 247 پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی بينهم، پاکستان بمصر، عراق وغیرہ میں قتل و تلونڈی504 غارت اور اسلام اور خدا کے نام پر ظلم و تنزانیہ تحریک 503 پاکستانی احمدیوں کے مشکل حالات اور ان بربریت 138-136 تھارٹن ہیتھ 621 620.9 کے لئے دعا کی تحریک 487 488 پاکستان اور ہندوستان کے کچھ علاقوں میں تھائی لینڈ 303224 ٹرینیڈاڈ 30 13 پاکستان کے لئے بالعموم اور کراچی کے حالات یا بعض افریقن ممالک کے کے لئے بالخصوص دعا کی تحریک 527 چھوٹے قصبوں میں حضرت مسیح موعود کے ٹوگو پاکستان کے ایک مولوی کا کہنا کہ احمدی خلاف دشمنی کی کمینگی کا اظہار صف اول ٹو بہ ٹیک سنگھ 620 ناسور ہیں ، خدا کے فضل سے احمدی شفاء ٹی آئی کالج ربوہ میں پاکستان کے نام نہا د علما ءاور ان کی للناس کا کردار ادا کر رہے ہیں....مذموم حرکتیں ( تصویر کی بے حرمتی ) جاپان615 ,607,610 ,499 مولویوں کا خودساختہ اسلام ذاتی مفادات 167 -169 کا آئینہ دار ہے 142 پانامہ 498 پاکستان میں ایک طبقہ مولویوں کے پیچھے پریم کوٹ 480، 526 لگ کر احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی پسرور کوشش کرنے والا اور ایک طبقہ دوستی کا حق ادا کرنے والا ہے ، ہر پاکستانی کو برا نہیں پشاور 620 کہہ سکتے 153 پنجاب 29 621.323.14 247.162 618, 620, 623, 635, 636, 647 جاپان کے جلسوں میں پروگرام جاپانی زبان میں ہونے چاہیں 616 جالندھر جامع مسجد بٹالہ جامعہ احمدیہ (U.K) پنجاب یونیورسٹی لاہور 188 پنڈ دری پاکستان میں جماعت کے خلاف بننے والا زہریلا قانون، ہمیں کسی دنیا دار حکومت پیس و پیج 621 سے بھلائی کی امید ہے اور نہ ہی کسی ، مسلمان کہلانے کے لئے سرٹیفکیٹ کی میں ویج ساؤتھ ضرورت ہے پاکستان کی گونگی شرافت 339.338 170 پیسیفک جزائر 637 پینگاڑی تاتارستان 497 پاکستان میں نئی حکومت اور ایک احمدی کا 113 14 14 106.56 108 500 3 جامعہ احمدیہ جرمنی جامعہ احمد یه سیرالیون 95 جامعه (جرمنی) 374 جامعہ نصرت کالج برائے خواتین ربوہ 162 جرمنی 11، 12، 13، 14، 35، 40، 373, 374, 370.134.42.41 377,378, 380, 386, 470,
42 خطبات مسرور 11 555659.343.92.90.53.47486, 496, 503, 559, 619, ڈارم شھد ڈار مسٹنڈ 10 جھٹ چپرلہ 620, 627 جامعہ احمدیہ جرمنی کے متعلق بعض لوگوں کے جھنگ اعتراضات کی تردید 41 یم 621 امریکہ، کہا بیر اور جرمنی کے جلسہ سالانہ کا چٹیالہ 565 افتتاح 115 ، 116 ڈرائش 621 ڈرہم ڈسکہ کوٹ 363 چک 99 شمالی سرگودھا 506 ڈسکہ کوٹ حلقہ غربی سفر جرمنی میں دو مساجد کے سنگ بنیاد اور دو چک چٹھہ 641 مساجد کے افتاح 373 ڈوڈومہ ڈیٹرائٹ چلی 498 جلسہ سالانہ جرمنی ، ٹی وی اور اخبارات چنائی میں کوریج 376 تا 378 اسلام کی خوبصورت تعلیم کے متعلق جلسہ چنیوٹ چین سالانہ جرمنی میں شامل ہونے والے حاجی پور مہمانان کے تاثرات 375 تا 386 جلسہ سالانہ جرمنی کا امتیاز 378 621.14 ڈیٹسن باخ 621 مقامات 14,621 621.14 97 96 9 621.14 راولپنڈی 620،97،13 چنڈ بھروانہ ٹھٹھہ شیرے کا 115 188 648.321.180 21 راہواں 56 ربوہ 13 ، 27، 63،61،38،30، حافظ آباد 641 جلسہ سالانہ جرمنی کے متعلق کچھ انتظامی حديقة المهدى 471,495 470 حرا غار 406 باتیں اور کارکنان کا شکریہ 38 388 حیدرآباد(پاکستان) حیدر آباد (پاکستان) 13,620 ,621 حیدرآباد (انڈیا) جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت اور اللہ تعالی کے فضل و احسان کے نظارے، دو مساجد خانہ کعبہ کے سنگ بنیاد اور دو مساجد کے افتتاح ، خانیوال سفر کے حالات، جلسہ کے کارکنان کا دار الذکر لاہور 399 14 200 361 375+373 شکریہ جڑانوالہ 528 جزائر جکارتہ 625 195.35.33 13.177.172.171.170.162 $286.284.244.243.187.306.295.294.291.288 347.336.333.329.312.359.358.357.353.352.368.367.366.361.360.620.583.470.469.401 702.701.653 رحیم یارخان 620 رشیا 378512 دار الرحمت 22 رشی نگر دائر الضیافت (ربوہ) 29 روڈر مارک 621 دارا صیح 581 روس دیگا وا 5 رونڈر مارک دبئی 583 ریڈ شیڈ 621 14 648.320 14 جموں کشمیر 103،99،97،14، دفاتر صدرانجمن احمد یہ 583 رینیز پارک 621 جنوبی کیلیفورنیا جوڑا کلاں خوشاب 506 318 دفتر الفضل 400 دمشق 509.508.184 دہلی 14 ، 247، 621،528،361 زائن (امریکہ) 621.13 147 سان فرانسسکو 636 635 سانگھڑ 620.13
خطبات مسرور 11 ساؤتھ ریجن 14 43 561, 619, 620 حضرت مصلح موعود کا1925 ء میں شام مقامات سین 194، 195، 196 ، 197، سویڈن 27، 28، 29، 44 ، 402 کے حالات کے متعلق خطبہ 509،508.211.209.208.203.198 564.277.249.214.213 سویو 6 شاه مسکین شیخو پوره سیالکوٹ 29، 666،659،620 | شاہدرہ لاہور شکار پور ( پاکستان ) 400 سپین میں جماعت احمدیہ کی دوسری مسجد کی سیٹل 621 تعمیر اور اس کی تفصیلات اور تاریخ 194 سیرالیون 13، 96،95،94، شکا گوویسٹ چین کے لوگوں کو اسلام کی طرف لانا ایک 116، 620،564،563،493 اہم کام جو ہمارے سپرد ہے 326 سیرالیون اور بنگلہ دیش کے جلسہ سالانہ کا سڈنی 537,567,594,627 | افتاح 630 ' سرگودھا 506، 620 سری لنکا624 سرے ایسٹ کاٹون 621 سعودی عرب 14 94 شیخوپوره صومالیہ طائف 162 107 14 620.13 628.240 330 161 512.138.123 سیرالیون کے علماء اور غیر از جماعت کے خیر عباس ٹاؤن کراچی سگالی کے جذبات اور دعا کی درخواست 95 | عراق مسلمان ممالک کی حالت زار، علماء اور سینٹ لوئس (امریکہ) 147 سینیگال 715،620،13 حکمرانوں نے اسلام اور ایمان کے نام پر اس سیٹل 14 138 ، 640 | شام 123 ، 137 ،138، 240، سعودی عرب میں عوام کی بدحالی 240 سلور سکرین 621 سلیکون ویلی سمرقند سندھ 528 507, 508,512 509,.320 بنیادی خوبی اور خصوصیت کی پامالی کی ہے جو مومن کی بیان ہو نی ہے یعنی رحماء بينهم، پاکستان، مصر، عراق وغیرہ میں قتل و 510,518,692,693,718 غارت اور اسلام اور خدا کے نام پر ظلم و شام بربریت 138-136 شام کے حالات اور عالمی جنگ کا خطرہ عرب 27، 69 ، 79، 123 124 ، 621.14 180 507 435, 153.128.127.125 سنگاپور 53032359 شام کے حالات میں مسلمان ممالک کا 501,507,518,580 623, 624, 625, 626, 674 فرض 513،512،511 619,621,625 سنگا پور کے احمدی مذہبی آزادی سے فائدہ شام کے متعلق حضرت مسیح موعود کے عرب کے متعلق دعا کہ یہ روحانی فیض کا اٹھا ئیں 534، 535 الہامات 518،516 چشمہ بن جائے 518 161 620.13 علی پور کھیڑا یوپی جماعت کے حالات اور اللہ تعالیٰ کے فضل شام کے متعلق دعا کی تحریک 5180516 عمرکوٹ سے سنگا پور میں احباب جماعت سے ملاقات کا موقع پیدا ہونا 530 ، 531 شام کے حالات پر رشیا کے پرائم منسٹر غانا سوڈان سوتیگا صاحب کا بیان 240 7 509 سوئٹزرلینڈ 1247,377 512 شام میں علویوں اور سنیوں کے فسادات غرناطه 563.562.13 201 14 16 579, 598 فلڈا فتاپور (فتح پور)
خطبات مسرور 11 فرانس فرائنز ھائم فرید برگ فرینکفرٹ 508.378.44.12 14 14 621.14 44 400, 401, 6200527, 528, 620, 639, 640 کراچی یونیورسٹی 505 کرناٹک کشمیر 480526 621.14 مقامات کینیڈا 12 ، 14 ،35 ،40،36، 189،.313.312.286.283.225.192 388, 340.327.324.323.322 فلسطین فلورس ہائم ونگاڈی ( کیرالہ ) 621 فلپائن 27 ,530,624,626 | کلکتہ فلڈا 376 375 374 کمبوڈیا 624 79 374 456, 465, 467, 619, 620, 14 621 کنانورٹاؤن( کیرالہ )621 حضور انور کا دورہ امریکہ و کینیڈا، غیر معمولی برکات، اسلام کی تعلیم و تعارف پریس فیڈرل بورڈ آف ریونیو 480 327.311 کنانور ٹاؤن فیصل آباد 529،528،13 کنڈا فیون ایکس 621 کنوشا و وکیگن 14 85 147 کے وڈگو 7 لحجرات 620،187،13 قادیان 14، 17، 18، 22، 28، کوبلنز 621 گڈاں براوو.58.57.53.49.48.47.40.106.99.98.97.93.83.131.130.114.112.111 کوٹلی 526 گروس گیرا ؤ کوسو و 378 گرین ٹاؤن لاہور 5 621.14 360 کولکتہ (بنگال )621 161، 169، 187، 247، 399 | کولمبس 621 گرینڈ ہال 634 گلشن اقبال (کراچی) 347 گنی کنا کری 96.13 621400, 401, 470, 504, 527, 494, کوئٹہ 620 کو مینٹور 528, 558, 581, 618, 621, 657, 709, 710 قاہرہ 524 14.10 گوجرانوالہ ،565،504،161،13، 620 گوداوری 565 گورداسپور 348.83 قرغزستان 378,384 کوئنز لینڈ (Queensland) گورنمنٹ کالج راولپنڈی 162 قرطبہ 201.195 585, 631 کویت 628 کھارا کیرالہ کیرولائی، کیرالہ کیلگری 112.90.52.47 363 14.9 110.88 363.13 21 کابل کالسروئے جرمنی کالی کٹ انڈیا کانگڑہ کیا بیر کپورتھلہ کراچی 13 ،153،79، 161، 479, 348.347.343.222 گورنمنٹ کالج لاہور 188 499.30 619.504.40.35 28 14 14.10 621.14 گوئٹے مالا گھانا گیانا 499 گیمبیا گینز ھائم 620.8 14 کیلیفورنیا 318،315،277، 321، لاس اینجلس 270 ، 277، 621 582 کیمرون 13 لاس اینجلس ان لینڈ ایمپائر 14 لاس اینجلس ایسٹ 621 480, 503, 505, 506, 526,
خطبات مسرور 11 لانڈھی 504505 مڈل سیکس 45 لاہور 13 ، 22، 29، 49، 57 ، 162 ، مڈلینڈ ساؤتھ 621 348،239، 361، 528،399، مڈلینڈز 667.620 470.300.299 لائبیریا 620 لائٹ منسٹر 621 لبنان لبنانی 384 لجنه بال (ربوہ) لنڈن مراکو 621.14 13 195 مقامات حکمرانوں نے اسلام اور ایمان کے نام پر اس بنیادی خوبی اور خصوصیت کی پامالی کی ہے جو مومن کی بیان ہونی ہے یعنی رحماء بينهم، پاکستان، مصر، عراق وغیرہ میں قتل و مسجد بشارت پید رو آباد (سپین) 194، غارت اور اسلام اور خدا کے نام پر ظلم و ا 582.221.213.195 مسجد بیت الحفيظ 639 مسجد بیت الحمید 270 بربریت مظفر آباد 480، 526 مغربی افریقہ 401 138-136 29 مسجد بیت الرحمن ویلنسیا 194 ، 207,200 مقدونیہ 379 14، 324،163، 373 مسجد بیت الرحیم 374 374 29 ,427,440 ,413 ,389,403 مسجد بیت العطاء ,507,519 ,454469,490 مسجد بیت الفتوح ,583,623,621,642,654 مسجد بیت النصر ، ناروے 12 666,671,682,695,708 | مسجد دارالانوار 558 لیبیا 15 ، 29، 138 ، 240، 320، مسجد سبحان مسجد ضرار 512 لیبیا میں بگڑتے حالات اور دعا کی تحریک 15 مسجد طه 530 لیتھوینیا 378,381 لیٹویہ 378 لیو من ہائم 621 ماریشس مالٹا 378 620.44.13.620.555.153.13.7 715 مائن فرانکن 14 374 294 مکران بلوچستان 16 184.126.104.89.69.23 ملائیشیا 399,530,532,533 534, 624, 626 620.24.18 147 ملتان ملوا کی مو تھوٹم ( کیرالہ ) 621 مورفیلڈن مسجد فضل 3382,402,652 موئر فلڈن 621 مہاراشٹرا مسجد کبوتراں والی (سیالکوٹ)97 مہاراشٹر 1 621 مسجد لنگے منڈی والی (لا ہور ( 57 مهدی آباد 621 میانمار 530,624 مسجد مبارک (ربوہ) 29 مسجد مبارک ( قادیان) 54،52، 112 میاں چنوں مسجد نور مسجد نور ماڈل ٹاؤن مسجد ویسٹ 621 558.374 30 میڈرڈ میڈیکل کالج لاہور میری لینڈ 548 621.374 14 14 18 213 107 محلہ کشمیریاں سیالکوٹ 97 مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 162 میسی ڈونیا 379 378 مدرسہ احمدیہ 401 ,400 مصر 320،316،240،138، میلبورن Melbourne) میلبرن مادر بینہ مڈل ایسٹ 625.512 662.125.104.23 12 580, 627, 628 مسلمان ممالک کی حالت زار، علماء اور بڑا 621
خطبات مسرور 11 نادون نارتھ افریقہ 110 ، 111 | وزن برگ 621 195 46 نارتھ ایسٹ (لندن) 621،14 ناروال ناروے ناصره نا گویا 607,635 620.13 12 132 ولایت 666 ومبلڈن ونجواں دوسٹر پارک ویتنام 624 ویز بادن 13 میسن صوبہ بیسن منی بیسن ویسٹ 374 14 14 25 مقامات 84،83،51 | ہیلاں 621.13 ہیمبرگ | ہمبرگ 621،386،14 14 نائیجر 13،5، 15، 383,385 ویسٹ بنگال 386, 496 ویسٹ کرائیڈن 621.14 14 13 یاد گیر (کرناٹک) 621 یا ڈی پورہ (کشمیر) یو.پی 621 98.55 نائیجیریا 715،620،13 ویسٹ کوسٹ (امریکہ ) 715 یوکے (UK) ,499,501,502 نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ 247 ویسٹ کوسٹ (کینیڈا) 305 503, 504, 564, 641.138.40.35.33 یورپ ننکانہ صاحب 620 نوابشاہ 620.222 نوائس 621 نو ڈرائن نوشہرہ چھاؤنی نوشہرہ ککے زئیاں نوکس نوئے ویڈ 14 47 29 14 374 نیشنل آئل ریفائنری 505 نیو مالڈن نیو مولڈن 621 517, 561,.225.183.182 648, 705 621.284 ویسٹ ہل 621 ویلنسیا 194، 286،213،197 وینکوور ہالینڈ 583 ہائیڈل برگ 621.14 حضور انور کی طرف سے یورپ، امریکہ اور برطانیہ میں ( پریس اور سفارتی سطح ہندوستان نیز دیکھیئے بھارت، انڈیا 2 ، پر ) اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرنا، ان 33، 107 ، 122 ، 130 ، 1 13 ، لوگوں کا جماعت احمدیہ اور دوسرے 167، 169 ، 184 ، 323 ، 438، مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے 634 13 سوالات کرنا 341 پاکستان اور ہندوستان کے کچھ علاقوں میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی دورہ یورپ یا بعض افریقن ممالک کے کے دوران پوپ سے ملاقات کی خواہش نیوزی لینڈ 596,598,606 چھوٹے قصبوں میں حضرت مسیح موعود کے اور پوپ کا جواب اور اخبار میں خبر ,635,637 966233334 خلاف دشمنی کی کمینگی کا اظہار صف اوّل 383،382 651 واهم " میں پاکستان کے نام نہاد علماء اور ان کی یو کے 79،40،35، 134،80، سٹو (Walthamstow) مذموم حرکتیں ( تصویر کی بے حرمتی) 340 ,388,400 387 399 والڈارف 621 وان 621 وائن گارٹن 14621 ورجینیا نیوجرسی 29 169-167 460, 464, 465, 466, 467, 469, 475, 490, 498, 529, 652 ہندوستانی مارکیٹ 438 ہنگری 378 ہیرس برگ 621 لو گنڈا 620.8
مقامات 47 5 Gidan Barawoo 194 Valencia 305 West Coast 8 504 Africa 315.313 628 Knox City 326.319 636 West Java 7 Cleveland کلیولینڈ 529 6 خطبات مسرور 11 یونیورسٹی آف کیلیفورنیا 316 یونیورسٹی آف لندن Leo 162 یو نیورسٹی اف مالٹا 382 Los Angeles 276 Bay Point Sonitigla 317 Bernardino County Soyo 5 8 Dabgawa Ekepe
خطبات مسرور جلد 11 48 کتابیات کتابیات ار حصص 64، 65، قرآن کریم 25 ، 30 ، 32 ، 41 ، 43، اسلامی اصول کی فلاسفی ،28، 350 ، براہین احمدیہ ہر چہار 382, 435, 436, 442 147.142.136.108.87 350.328.74 155، 167، 203، 210، 218، اقرب 347 بوستان 545 تاریخ احمدیت 219، 251، 290، 303، 305 ، الترغيب والترهيب للمنذری 524 341، 342، 345، 354، 357، الحلم 367،359،358، 369، 384 الحلم مارچ 1905 ,405 ,404 ,391,403 390 الفضل 623 76.115.114 255, 528, 549, 618 تاریخ الخمیس 714 تبليغ الحق ,410 409 408 407 406 الفضل انٹر نیشنل 388,0212 تجلیات الهیه 289 74 249.170.160 426, 439, 453, 468, 481, 411, 412, 414, 415, 416, 312.303.286.284.279 489, 506, 518, 529, 536, 423, 428, 429, 434, 441, 516, 518, 677.333 550, 566, 583, 595, 606, 444, 448, 449, 452, 453, 239 ,461,466 457 681,456 ,670 ,622,641,653 | ترک تیموری 694, 707, 718 494, 510, 516, 532,534, تفسیر کبیر 159،155،136 ,356,538,546,570 الفضل قادیان 618 تفسیر کبیر امام رازی 353 تقریر سیالکوٹ انوار العلوم جلد 5 -437 ,578,589,593,605 ,577 | الحجم الكبير للطبرانی جلد دوم 1437 ,609,613,626,632,633 انجام آتھم 47.21 459.68.67 117 ,664,678,679 انوار العلوم 151 429, 459, 63278.67.47 توریت 67،64 ٹریبیون جابار (Tribune Jabar) ,644,652,661,663,643 | انجیل 683, 693,701 ,685,687,690 ايام الصلح آئینہ کمالات اسلام اتمام الحجة 626 144 اخبار جامع لشعب الایمان جنگ مقدس 568،58 345،211، 347 براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21.چشمہ معرفت 431،143 61 ,420,452,590,614,677 حجۃ اللہ اخبار Main-Taunus-Kurier | 678 377 حقائق الفرقان 24 217 براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن حقیقة الوحی 418،70،69،61،46 639،312،72،50 | جلد 1 - 419 ازالہ اوہام خطبات طاہر 582،191
کتابیات خطبات مسرور جلد 11 49 خطبات محمود 68489692 سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے کنز العمال 215 ,703 ,700 ,696,698,699 | جواب 704, 705, 706 290.268 گنتی سنن ابن ماجہ 140 ،298، 353،331، لاس اینجلس ٹائم 64 270 114 436, 438, 592, 677 326 سنن النسائی 288،205 سنن ترمذی 143 144 429,145 | 539,557 مباہلہ (اخبار) مجموعہ اشتہارات 537,289،288 مسند احمد بن حنبل 145 ، 298 ،443، 240.151 332 444 439, 514, 674 330 شرح علامہ زرقانی 712 خطابات شوری خطبات ناصر 170 در ثمین 177 دوره مغرب 173 دلائل النبوة جلد 1 - سیح ہندوستان میں 382 ڈیلی ٹیلیگراف ( Daily Telegraph | شهادة القرآن على نزول السيح الموعود في 441 ڈینیش اخبار 456 آخر الزمان 51 مصنف ابن ابی شیبه 370،365 | معجم الصغير 300 شهادة القرآن 21،19،18، صحیح بخاری 140، 141، 145، مفردات امام راغب رجسٹر روایات صحابہ 312.77.76.75330.300.203.181.151 49.48.47<27:26:24:23:22.157.156.152.15 395, 396, 397, 438,.366.58.57.56.55.53.52.51.50.172.171.167.166.165 475, 478, 513, 514, 515, 90.89.88.87.85.84.83.59.243.220.209.208.173 592, 685, 713.103.102.101.94.93.91 $279.265.264.258.253.288.284.282.281.280.329.306.295.291.289.355.353.352.346.336.366.360.359.358.357 391, 392, 394,.368.367 411, 412, 414, 415, 417, 418, 419, 422, 442, 456, 459, 463, 472, 473, 474, 484, 489, 519, 535, 536, 540, 541, 542, 543, 544, 545, 547, 554, 555, 556, 105،104، 107، 110، 113،111 ، صحیح مسلم 143، 144، 146، |423, 476, 477, 483,.300 486, 514, 515, 516, 592 284.261.245.232 فصوص الحکم 180 672.255 رپورٹ مجلس مشاورت 656 رساله البشرا می 693 ضرورة الامام 185 رسالہ اسماعیل.واقفین نو بچوں کے لئے ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم 228 229 45 272 274 ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ رخ جلد 17 - 685 رسالہ الوصیت 310.309.308.302 قواعد کی کتاب 466 رسالہ مریم.واقفین نو بچیوں کے لئے 45 روح البیان 524 زبور 65 ست بین 350 كتاب البريه 182،180،178،177، کشتی نوح 682،354،271 کلام محمود 581 551.187.186.184.183
کتابیات Sunday star اخبار 637 50 خطبات مسرور جلد 11 نسیم دعوت 73 557, 568, 574, 588, 589, 637 manukau courier 63 tempo magaziner 591, 594, 601, 603, 604, 381 Life of Muhammad 322 Chicago Times 610, 611, 615, 638,642, Islam's response to contemporary issues Five Volume Commentary | 43 643, 644, 645, 646, 651, Los Angeles Times 654, 655, 677, 679, 680, 319, 322 638 waikato times 681, 684, 705, 712, 716, 636 Tribune Jabar five volume commentary Wall Street Journal 319, 321, 322 717, 718 638 Asahi newspaper 632 636 Kadulatan Rakyat من الرحمن 73 نورالقرآن نمبر 2 رخ جلد 9-448 نزول المسیح 271